FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

فہرست مضامین

مرا آئینہ مدینہ

 

 

 

 

                فراغ روہوی

 

 

 

کسی جامِ جم کی حاجت نہیں اے فراغؔ مجھ کو

مرے واسطے بہت ہے مرا آئینہ مدینہ

 

 

 

حمد باریِ تعالیٰ

 

 

تو خدا ہے خدا، تو کہاں، میں کہاں

میں ہوں بندہ ترا، تو کہاں، میں کہاں

 

تو ہی معبود ہے، تو ہی مسجود ہے

میں ہوں وقفِ ثنا، تو کہاں، میں کہاں

 

نور ہی نور ہے ذاتِ باری تری

خاک سے میں بنا، تو کہاں، میں کہاں

 

کیا حقیقت مری، میں فنا ہی فنا

تو بقا ہی بقا، تو کہاں، میں کہاں

 

خالق و خلق کے بیچ موجود ہے

اک بڑا فاصلہ، تو کہاں، میں کہاں

 

تیرے اوصاف کا کب احاطہ ہوا

تو گماں سے سوا، تو کہاں، میں کہاں

 

تیرے اسرارِ پنہاں سمجھنے سے ہے

ذہن عاجز مرا، تو کہاں، میں کہاں

 

تو مخاطب ہے شام و سحر اور میں

بے زباں، بے نوا، تو کہاں، میں کہاں

 

میری اوقات کیا، ہے نبیؐ بھی مرا

نام لیوا ترا، تو کہاں، میں کہاں

 

کیا ملائک ترے، کیا فراغِؔ حزیں

سب کی ہے یہ صدا، تو کہاں، میں کہاں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

ترا بندہ ہے تیرا ڈر رکھنے والا

کہ ہے سب پہ تو ہی اثر رکھنے والا

 

تو خالق، تو رازق، تو مالک، تو حاکم

تو خلقت پہ اپنی نظر رکھنے والا

 

زمیں سے فلک تک تری حکمرانی

تو ارض و سما کی خبر رکھنے والا

 

تو ہی گردشِ وقت پر بھی ہے غالب

تو دنیا کی شام و سحر رکھنے والا

 

نکھارا ہر اک گل کو رنگ اور بو سے

شجر میں بھی تو ہی ثمر رکھنے والا

 

دیا نور ننھے سے جگنو کو تو نے

تو برق و حجر میں شر ر رکھنے والا

 

زمیں کی تہوں میں خزینے ہیں تیرے

تو ہی سیپ میں بھی گہر رکھنے والا

 

دی قوت ہواؤں کو تو نے کہ تو ہے

ہر اک بادباں پر نظر رکھنے والا

 

یقیناً تو صحرا کو گلزار کر دے

تو ہی یہ صفت، یہ ہنر رکھنے والا

 

بکھر جائے پل بھر میں ہر شے جہاں کی

تو ہی سب کو شیر و شکر رکھنے والا

 

ثنا میں ہے مصروف تیری الٰہی!

فراغؔ آج ہے چشمِ تر رکھنے والا

٭٭٭

 

 

 

 

یقین ہے یہ گماں نہیں ہے

وجود تیرا کہاں نہیں ہے

 

یہاں نہیں یا وہاں نہیں ہے

کہاں کہاں تو عیاں نہیں ہے

 

ہیں کور باطن ہمیں خدایا!

تو ہم سے ورنہ نہاں نہیں ہے

 

ہے ذرّے ذرّے پہ فیض تیرا

کرم سے خالی جہاں نہیں ہے

 

بشر ہی ٹھہرا حریص ورنہ

تو اُس پہ کب مہرباں نہیں ہے

 

زمیں، سمندر، پہاڑ، صحرا

کہاں خدا حکمراں نہیں ہے

 

ادا نہ ہو جس سے شکر تیرا

زباں وہ ہرگز زباں نہیں ہے

 

فراغؔ توصیف کیا کرے گا

زباں میں تابِ بیاں نہیں ہے

٭٭٭

 

 

 

 

حرفِ دعا

 

 

اعزاز مجھ کو ایک یہی ذوالجلال دے

میری نگاہِ شوق کو ذوقِ جمال دے

 

مجھ کو خلوص و مہر کے سانچے میں ڈھال دے

ایسا دے پھر مزاج کہ دنیا مثال دے

 

تو نے عطا کیے ہیں یہ لوح و قلم تو پھر

جو دل گداز ہو وہی حسن خیال دے

 

شہرت سے تو نے مجھ کو نوازا تو ہے، مگر

تھوڑا سا انکسار بھی اے ذوالجلال دے

 

میری نظر میں وہ کسی دریا سے کم نہیں

قطرہ جو میرے کوزے میں یارب، تو ڈال دے

 

گمنامیوں کی قید میں گوہر جو ہے ابھی

یارب، اُسے صدف سے تو باہر نکال دے

 

ہو فیض یاب حرفِ دعا سے ترا فراغؔ

تاثیر بھی زباں میں اگر اُس کی ڈال دے

٭٭٭

 

 

 

نعتیں

 

ہے مرے لیے جہاں میں رہِ حق نما مدینہ

میں خدا کو پا ہی لوں گا کہ ہے واسطہ مدینہ

 

ہے قدم قدم پہ خطرہ یہاں گمرہی کا، لیکن

میں نہیں بھٹکنے والا، مرا رہ نما مدینہ

 

مرے عشق کی حدوں میں ہے عجب طرح کی وسعت

مری ابتدا مدینہ، مری انتہا مدینہ

 

مرے دل کی بات دنیا نہ سنے مری بلا سے

مرا ہم زباں مدینہ، مرا ہم نوا مدینہ

 

مجھے بھی کبھی دکھا دے وہ دیار میرے مالک!

مری آرزو مدینہ، مرا مدعا مدینہ

 

کسی چارہ گر کے بس میں نہیں ہے علاج میرا

مرے دردِ مستقل کی ہے فقط دوا مدینہ

 

مجھے لے چلو مدینہ، وہیں تشنگی مٹے گی

مرے مصطفیٰؐ ہیں ساقی، مرا میکدہ مدینہ

 

کسی جامِ جم کی حاجت نہیں اے فراغؔ مجھ کو

مرے واسطے بہت ہے مرا آئینہ مدینہ

٭٭٭

 

 

 

 

دنیا نے جب کیا نظر انداز یا رسولؐ

دی آپ کو غلام نے آواز یا رسولؐ

 

کس کام کی وہ آنکھ جو دیکھے نہ آپ کو

حاصل ہو دید کا مجھے اعزاز یا رسولؐ

 

مہماں بنا کے اپنے مقدس دیار کا

کر دیجیے مجھے بھی سرافراز یا رسولؐ

 

اک آپ ہی کے سر پہ شفاعت کا تاج ہے

کس کو ہوا نصیب یہ اعزاز یا رسولؐ

 

میرا شمار ہوتا ہے اُمت میں آپ کی

دنیا میں اس لیے ہوں میں ممتاز یا رسولؐ

 

ثانی نہیں ہے کوئی بھی دنیا میں آپ کا

کیسے کروں نہ آپ پہ میں ناز یا رسولؐ

 

پڑھتے تھے نعت آپ کی حسانؓ جس طرح

مجھ کو بھی ہو نصیب وہ انداز یا رسولؐ

 

جب تک درود پڑھتی نہیں ہے مری زباں

ہوتا کہاں ہے نعت کا آغاز یا رسولؐ

 

اُس پر بھی آپ کی ہو نگاہِ کرم ذرا

کوئی نہیں فراغؔ کا دمساز یا رسولؐ

٭٭٭

 

 

 

 

احوال مرے دل کے نہ اغیار سنیں گے

ہاں ! جب بھی سنیں گے مرے سرکارؐ سنیں گے

 

دنیا نہیں سنتی، نہ سنے کس کو ہے پروا

رودادِ غمِ دل مرے سرکارؐ سنیں گے

 

جو کچھ بھی مجھے کہنا ہے، کہتا ہی رہوں گا

اک بار نہیں، وہ مری سو بار سنیں گے

 

عاصی ہوں، طلب گارِ شفاعت ہی رہوں گا

محشر میں مری بھی مرے سرکارؐ سنیں گے

 

جس وقت اُنہیں چاہو کہیں سے بھی پکارو

یہ کس نے کہا وہ سرِ دربار سنیں گے

 

حسانؓ کا جب دوں گا اُنہیں واسطہ میں بھی

وہ شوق سے پھر نعت کے اشعار سنیں گے

 

گونجے گی فضاؤں میں صدا صل علیٰ کی

جب نعت مری سید ابرارؐ سنیں گے

 

بے حس ہے فراغؔ اب تو زمانے کی عدالت

فریاد مری احمد مختارؐ سنیں گے

٭٭٭

 

 

 

 

جچتا ہی نہیں نظارہ کوئی، اب شہر مدینہ جانا ہے

جو دل ہے یہاں بیتاب بہت، اُس دل کو وہیں بہلانا ہے

 

بجھنے کی نہیں ہے پیاس کبھی دنیا کے کسی میخانے میں

لے چلئے ہمیں بھی طیبہ نگر، ہم سب کا وہی میخانہ ہے

 

اللہ کی رحمت کی بارش ہوتی ہے جہاں ہر شام و سحر

اُس در کی زیارت کر کے ہمیں شاہوں کی طرح اِترانا ہے

 

طیبہ کے سوا اس دنیا میں بگڑی نہ بنے گی اپنی کہیں

تقدیر کی ہر گتھی ہم کو اب جا کے وہیں سلجھانا ہے

 

ہر روز ہوا کرتا ہو گا اس بات کا ذکر فرشتوں میں

’’طیبہ کا ہے وہ دربار جہاں جبرئیل کا آنا جانا ہے،،

 

اک آپؐ کی آمد سے پہلے بینا بھی یہاں نا بینا تھے

کیا فرق ہے خالق و خلقت میں یہ آپؐ سے ہم نے جانا ہے

 

چھوڑیں گے نہ ہرگز جیتے جی ہم آپؐ کا دامن شاہِ اُممؐ

’’جو تیرا نہیں وہ میرا نہیں،، اللہ کا جب فرمانا ہے

 

طیبہ سے فراغؔ آ جائے گا اپنا بھی بلاوہ پل بھر میں

جس دن یہ ارادہ کر لیں گے، ہم کو بھی مدینے جانا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

یارب، دیارِ ساقی کوثر دکھا مجھے

میرے تصورات کا محور دکھا مجھے

 

تصویر طیبہ جیسی اُبھرتی ہے ذہن میں

آنکھیں ترس رہی ہیں، وہ منظر دکھا مجھے

 

اہل جہاں کو ملتی ہے جس در پہ روشنی

یارب، رسولِؐ پاک کا وہ در دکھا مجھے

 

یکساں دکھائی دیتی ہیں شام و سحر جہاں

میرے خدا، وہ شہر منور دکھا مجھے

 

حور و ملک بھی ہوتے ہیں سرشار جس جگہ

اک بار وہ فضائے معطر دکھا مجھے

 

ہوتا ہے جس کو دیکھ کے فردوس کا گماں

وہ آستاں، وہ روضۂ اطہر دکھا مجھے

 

دادِ سخن فراغؔ کو اہل فلک بھی دیں

کچھ یوں بلند میرا مقدر دکھا مجھے

٭٭٭

 

 

 

 

پردہ سیاہیوں کا ہٹا کر ہی رکھ دیا

سورج کو لا کے سب کے برابر کر ہی رکھ دیا

 

کندن مجھے نبیؐ بنا کر ہی رکھ دیا

اللہ رے پلٹ کے مقدر کر ہی رکھ دیا

 

ایسا لگا کہ میرے سلگتے وجود پر

شاہِ رسلؐ لگا کہ دامن اطہر کر ہی رکھ دیا

 

آنکھیں تھیں میری نور سے خالی تو آپ نے

آنکھوں میں ایک شہر منور کر ہی رکھ دیا

 

ایک بوند میں نے مانگی تو خیر الانامؐ نے

میری ہتھیلیوں پہ سمندر کر ہی رکھ دیا

 

کافی تھی خاکِ طیبہ ہمارے لیے، مگر

دامن میں اُس غنیؐ نے تو گوہر کر ہی رکھ دیا

 

نعت رسول پاکؐ جو کہنے لگا فراغؔ

لہجہ مرے نبیؐ نے بدل کر ہی رکھ دیا

٭٭٭

 

 

 

 

دلِ غمگین انساں کو جہاں راحت میسر ہے

مرے آقا کا وہ در ہے، مرے آقا کا وہ در ہے

 

خدا رکھے،کسی میں ہے کہاں یہ شانِ محبوبی

زمانہ ہے فدا جس پر، وہی رب کا بھی دلبر ہے

 

نشانی ہے ابد تک کے لیے اُمّ الکتاب اُس کی

کہ جس کے نور سے دنیائے ایمانی منور ہے

 

نرالی شان ہے اُس کی، نرالا مرتبہ اُس کا

گدا ہو یا کوئی سلطاں، اُسی کے در کا چاکر ہے

 

غلامی اُس کے در کی مل گئی جس کو بھی دنیا میں

حقیقت میں وہی انساں مقدر کا سکندر ہے

 

فراغؔ اُس کے حوالے کر دیا اپنے سفینے کو

نہ پروا ہے تلاطم کی نہ طوفاں کا مجھے ڈر ہے

 

گہر لٹائیں گی میری آنکھیں، مری زباں پر سلام ہو گا

’’جب اُن کا دیکھوں گا سبز گنبد تو دل میں یہ احترام ہو گا،،

٭٭٭

 

 

 

زمین ہی کیا کہ عرش پر بھی نبیؐ کا یوں احترام ہو گا

فرشتے صل علیٰ کہیں گے جو ذکر خیر الانامؐ ہو گا

 

ہوئی امامت جو مصطفیٰؐ کی تو مقتدی سارے انبیاء تھے

مرے نبیؐ کا جو مرتبہ ہے، عطا کسے وہ مقام ہو گا

 

طوافِ کعبہ ادا میں کر کے چلوں گا سوئے مدینہ جس دم

عجیب آنکھوں کا حال ہو گا، عجیب دل کا نظام ہو گا

 

میں خاکِ شہر نبیؐ کو اک دن بناؤں چہرے کا اپنے غازہ

مجھے بھی توفیق ہو خدایا، تو سرخرو یہ غلام ہو گا

 

فراغؔ ارضِ عرب پہ جس دن سفر کا موقع ملے گا مجھ کو

قدم قدم پر کروں گا سجدہ، خدا سے دل ہم کلام ہو گا

٭٭٭

 

 

ہے پیش نظر سیرتِ سلطانِؐ مدینہ

مشکل ہے مگر مدحت سلطانِؐ مدینہ

 

کر صبر ذرا اُمت سلطانِؐ مدینہ

ہے تیرے لیے جنت سلطانِؐ مدینہ

 

ایسا کوئی پیمانہ بنا ہی نہیں اب تک

جو ناپ سکے قامت سلطانِؐ مدینہ

 

وہ جس نے عظیم اُن کو بنایا ہے ازل سے

جانے ہے وہی عظمت سلطانِؐ مدینہ

 

چودہ سو برس قبل کئے چاند کے ٹکڑے

اب تک ہے مگر شہرتِ سلطانِؐ مدینہ

 

اک سنگ مقدس کا وہ چادر میں اُٹھانا

سب مان گئے حکمت سلطانِؐ مدینہ

 

اِترائے نہ قارون کہ قرآں کی بدولت

ہے پاس مرے دولت سلطانِؐ مدینہ

 

میں کیوں نہ کہوں خود کو مقدر کا سکندر

’’حاصل ہے مجھے نسبت سلطانِؐ مدینہ،،

 

بے پنکھ پرندہ ہوں، مگر جانب طیبہ

دے مجھ کو اُڑا اُلفت سلطانِؐ مدینہ

 

ہے کب سے فراغؔ آپؐ کے دیدار کا طالب

ہو جائے کرم حضرتِ سلطانِؐ مدینہ

٭٭٭

 

 

سر پہ ہے سایہ فگن گنبد خضرا تیرا

کیوں کڑی دھوپ سے مرعوب ہو شیدا تیرا

 

حسن یوسفؑ بھی بہت خوب ہے تسلیم، مگر

قابل رشک ہے نبیوں میں سراپا تیرا

 

چاندنی، پھول، شفق، ابر، دھنک، موجِ صبا

یہ جہاں کیا ہے، حقیقت میں ہے صدقہ تیرا

 

تیرے رتبے کی سند اس سے سوا کیا ہو گی

جا بہ جا درج ہے قرآں میں قصیدہ تیرا

 

ارض تو ارض ہے، افلاک بھی تھے قدموں میں

یاد آتا ہے سرِ عرش پہنچنا تیرا

 

یاد رکھی ہے صحابہؓ کی گواہی ہم نے

گفتگو سب سے جدا تھی، جدا لہجہ تیرا

 

تیرے اخلاق نے گرویدہ کیا ہے سب کو

’’اک جہاں آج بھی بے دیکھے ہے شیدا تیرا،،

 

نعت لکھ لکھ کے فراغؔ اہل نظر میں بے شک

معتبر یوں ہے کہ ہے چاہنے والا تیرا

٭٭٭

 

 

 

 

 ’’جب کہیں ذکر شہِ کون و مکاں ہوتا ہے‘‘

کیف و مستی کا ہر اک سمت سماں ہوتا ہے

 

نام اُن کا جو کبھی وردِ زباں ہوتا ہے

اپنے دل پر بھی مدینے کا گماں ہوتا ہے

 

اُن کی عظمت کا احاطہ کوئی کس طرح کرے

اُن کا رُتبہ تو صحیفوں میں بیاں ہوتا ہے

 

کس قدر عشق محمدؐ کا اثر ہے کہ مرا

دل مدینے میں مگر جسم یہاں ہوتا ہے

 

یاد آتے ہی نبیؐ کی میں بدل جاتا ہوں

اور آزاد مرے دل کا جہاں ہوتا ہے

 

جس طرح عہد رسالت میں ہوا کرتا تھا

اب وہ انصاف زمانے میں کہاں ہوتا ہے

 

موت آئے تو رہِ شاہِ اُمم پر آئے

دل میں مومن کے یہ ارمان جواں ہوتا ہے

 

کر لیا میں نے مدینے کا نظارہ تو فراغؔ

کب مری آنکھ سے وہ شہر نہاں ہوتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

پوچھتے ہو ہم سے کیا عظمت رسولؐ اللہ کی

درج ہے قرآن میں مدحت رسولؐ اللہ کی

 

ہم پہ وا ہو جائے گا خود بابِ رحمت ایک دن

جاگزیں دل میں ہے جب اُلفت رسولؐ اللہ کی

 

دیکھ لینا کس طرف ہو گی شفاعت کی نظر

’’ہم رسولؐ اللہ کے، جنت رسولؐ اللہ کی،،

 

آئے گا اُس وقت اپنے عشق کامل پر یقیں

خواب میں دیکھیں گے جب صورت رسولؐ اللہ کی

 

ایک پل میں چاک سینہ ہو گیا مہتاب کا

اک اشارے میں تھی کیا قدرت رسولؐ اللہ کی

 

اُن کا ہر قول و عمل قرآن کی تفسیر ہے

ہم ادا کرتے رہیں سنت رسولؐ اللہ کی

 

وہ کہاں اور تم کہاں سوچو فراغِؔ روہوی

تم سے کیا ہو گی بیاں سیرت رسولؐ اللہ کی

٭٭٭

 

 

 

 

جو عشق مصطفیٰؐ دل کو میسر ہو تو کیا کہنا

ستارہ میری قسمت کا منور ہو تو کیا کہنا

 

کفن جو آبِ زم زم سے مرا تر ہو تو کیا کہنا

مری میت کا بھی ایسا مقدر ہو تو کیا کہنا

 

بدن ہو خاکِ طیبہ پر، رِدائے نور ہو تن پر

یہ چادر ہو تو کیا کہنا، وہ بستر ہو تو کیا کہنا

 

نظارہ خلد کا تو زاہدوں کو دے دے اے مالک

نظر میں میری طیبہ کا جو منظر ہو تو کیا کہنا

 

جنہیں ہے چومنا وہ سنگ اسود چوم لیں بے شک

مرا لب گنبد خضرا کے در پر ہو تو کیا کہنا

 

تمنا ہے یہی میری کہ دم نکلے مدینے میں

’’دم آخر اگر ایسا مقدر ہو تو کیا کہنا،،

 

فراغؔ اپنے گناہوں سے پشیماں ہوں گے سب،لیکن

نظر اُن کی جو ہم پر روزِ محشر ہو تو کیا کہنا

٭٭٭

 

 

 

 

اب کسی اور شے کی ضرورت نہیں

ہو گیا دل میں عشق نبیؐ جاگزیں

 

کیوں طلب گارِ جنت رہوں ہم نشیں

جب تری خلد میں سبز گنبد نہیں

 

باغِ جنت کی رنگینیاں مت دکھا

ہے نظر میں مدینے کا منظر حسیں

 

دیکھ لے شہر طیبہ جو رضواں کبھی

چھوڑ آئے وہ جنت، ہے مجھ کو یقیں

 

یوں تو آئے جہاں میں پیمبر بہت

آپؐ سے کوئی اعلیٰ و برتر نہیں

 

آپؐ کی ذاتِ اقدس پہ نازاں ہیں سب

کیا بشر، کیا ملک، کیا فلک، کیا زمیں

 

ہے فراغؔ آخری آرزو بس یہی

مجھ کو طیبہ میں مل جائے دو گز زمیں

٭٭٭

 

 

 

 

یادِ طیبہ جو آتی رہی رات بھر

نیند آنکھیں چراتی رہی رات بھر

 

کب بلائیں گے مجھ کو مدینے میں وہ

آرزو یہ ستاتی رہی رات بھر

 

ہو گی کب دید اُن کی مجھے خواب میں

بس یہ حسرت رلاتی رہی رات بھر

 

بزمِ احمدؐ سجی دیکھ کر کہکشاں

حسن اپنا لٹاتی رہی رات بھر

 

چوم کر روضۂ مصطفیٰؐ فخر سے

چاندنی مسکراتی رہی رات بھر

 

سبز گنبد کو چھو کر جو آئی ہوا

دل مرا گدگداتی رہی رات بھر

 

رات بھر نعت کہتا رہا میں فراغؔ

ایک خوشبو سی آتی رہی رات بھر

٭٭٭

 

 

 

 

پیکر جود و کرم جلوہ نما ہونے کو ہے

جو نہیں ہے آئینہ، وہ آئینہ ہونے کو ہے

 

ایسا لگتا ہے کہ تکمیل دعا ہونے کو ہے

ہم کو بھی دیدارِ شہر مصطفیٰؐ ہونے کو ہے

 

وہ نبیؐ ہیں جانِ رحمت اُن کی آمد کے طفیل

زندگی رحم و کرم سے آشنا ہونے کو ہے

 

اب کلام اللہ لے کر آ رہے ہیں جبرئیل

دو جہاں میں محترم غارِ حرا ہونے کو ہے

 

کون انساں جا رہا ہے سوئے سدرہ دیکھئے

جو نہ پہلے ہو سکا وہ واقعہ ہونے کو ہے

 

چاند کی جانب اُٹھی ہے اُن کی اُنگلی کس لیے

ہر نظر بے تاب ہے کیا معجزہ ہونے کو ہے

 

گوش بر آواز ہیں جب رحمت للعالمیںؐ

طے ہمارے دل کا سارا مرحلہ ہونے کو ہے

 

دل ہمارا مائل نعت نبیؐ ہے اے فراغؔ

اب براہِ راست اُن سے رابطہ ہونے کو ہے

٭٭٭

 

 

 

 

قالب نور میں جب وہ ڈھلنے لگے

سن کے جن و ملائک مچلنے لگے

 

آمد مصطفیٰؐ جب زمیں پر ہوئی

سارے منظر جہاں کے بدلنے لگے

 

یوں نبی نئے دیا نیک و بد کا سبق

راہ پہچان کر لوگ چلنے لگے

 

گونجتے ہی صدائے اذاں دہر میں

دل سبھی منکروں کے دہلنے لگے

 

آپؐ کے حسن اخلاق کے سامنے

’’موم کے مثل پتھر پگھلنے لگے‘‘

 

جامِ توحید میں وہ نشہ تھا کہ ہم

لڑکھڑانے سے پہلے سنبھلنے لگے

 

میں نے نعت نبیؐ چھیڑ دی جو فراغؔ

میری چھت پر فرشتے ٹہلنے لگے

٭٭٭

 

 

 

 

کبھی تا صبح سے پہلے، کبھی تو شام کے بعد

نبیؐ کا نام لیا ہے خدا کے نام کے بعد

 

یہ زادِ عقبیٰ بہت ہے ہم عاصیوں کے لیے

’’ کہ تیرے نام کی رٹ ہے خدا کے نام کے بعد،،

 

مقامِ سدرہ سے آگے مرے نبیؐ گزرے

گزر ہوا نہ کسی کا بھی اُس مقام کے بعد

 

ہر اک نبی نے سنایا پیامِ حق، لیکن

سنور گئی ہے خدائی ترے پیام کے بعد

 

اندھیرے کفر کے پھرتے ہیں منہ چھپائے ہوئے

یہ دور آیا ہے اسلام کے نظام کے بعد

 

تمام نبیوں کا میں احترام کرتا ہوں

مگر جنابِ شہِ دیں کے احترام کے بعد

 

صدائے صل علیٰ گونجتی ہے کانوں میں

فراغؔ نعت جو کہتا ہوں اہتمام کے بعد

٭٭٭

 

 

 

 

فاراں کے سامنے کبھی کوہِ صفا کے پاس

دیکھا ہے خود کو خواب میں غارِ حرا کے پاس

 

بے شک ثبوتِ عشق ہے معراجِ مصطفیٰؐ

ورنہ گیا ہے کون پیمبر خدا کے پاس

 

دنیا پہ مال و زر وہ لٹاتے رہے، مگر

اک بوریا تھا اپنا شہِ انبیا، کے پاس

 

روزِ حساب جتنے گنہ گار لوگ ہیں

جائے پناہ ڈھونڈیں گے خیر الوریٰؐ کے پاس

 

مجھ کو مرے نبیؐ کا سہارا ہے، اس لیے

سُبکی نہ ہو گی میری یقیناً خدا کے پاس

 

لوگو، یہی ہے میری تمنا کہ بعد مرگ

دفنایا جائے مجھ کو درِ مصطفیٰؐ کے پاس

 

نعت نبیؐ لبوں پہ جو آتی ہے اے فراغؔ

خوشبو سی پھیل جاتی ہے مجھ بے نوا کے پاس

٭٭٭

 

 

 

 

وہ سینہ جو نبیؐ کے عشق سے معمور ہوتا ہے

حقیقت میں وہی سینہ سراپا نور ہوتا ہے

 

دلِ مومن نبیؐ کے ذکر سے پُر نور ہوتا ہے

اندھیرا دیکھتے ہی دیکھتے کافور ہوتا ہے

 

نگاہِ مصطفیٰؐ ہو تو ہر اک غم دور ہوتا ہے

شفا پاتا ہے بے شک جو بہت معذور ہوتا ہے

 

مدینے کا مسافر کب تھکن سے چور ہوتا ہے

وہ راہوں کی صعوبت سے بڑا مسرور ہوتا ہے

 

درِ محبوب سے محروم واپس آ نہیں سکتا

مرادیں اُس کی بر آتی ہیں جو مجبور ہوتا ہے

 

نہ ہو منظور آقاؐ کو تو پھر کیا ہو کہ دنیا میں

جو وہ چاہیں، وہی اللہ کو منظور ہوتا ہے

 

فراغؔ اشکوں سے تر الفاظ میں جب نعت کہتا ہوں

اثر شعروں میں میرے اُس گھڑی بھر پور ہوتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

روزِ محشر ہمیں اور کیا چاہئے

شاہِ لولاک کا آسرا چاہئے

 

قلب میں عشق احمدؐ کے انوار ہوں

اور آنکھوں کو گنبد ہرا چاہئے

 

لعل و گوہر کی کوئی حقیقت نہیں

شاہِ کونین کی خاکِ پا چاہئے

 

ہو نہ جائے کہیں ہم سے لغزش کوئی

عاشقی میں ذرا ضابطہ چاہئے

 

جل نہ جائے کہیں آرزو کا شجر

اس کو طیبہ کی ٹھنڈی ہوا چاہئے

 

اک شفاعت کا وعدہ بہت ہے فراغؔ

ہم ہیں عاصی، ہمیں اور کیا چاہئے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

اس بات پہ ہر صاحب ایماں کو یقیں ہے

جو اُن کے قریں ہے وہی رب کے بھی قریں ہے

 

اللہ رے اِس ارض سے اُس عرشِ بریں تک

ہے کون محمدؐ کا جو شیدائی نہیں ہے

 

ہو آیا ہے اک آن میں جو عرشِ بریں سے

بے شک وہ نبیؐ رشک فلک، رشک زمیں ہے

 

کیا آنکھ دکھائے گی مجھے نارِ جہنم

جب عشق محمدؐ ہی مرے دل میں مکیں ہے

 

کہتا ہے یہی دیکھ کے ہر زائر طیبہ

اُس ارضِ مقدس کا ہر اک ذرّہ حسیں ہے

 

دیکھا نہ سنا ہم نے فراغؔ ایسا پیمبر

’’جو خلق ہے اُن کا وہی قرآنِ مبیں ہے،،

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

بھروسہ نہیں دوسرے رہ نما پر

یہ آنکھیں رہیں گی رہِ مصطفیٰؐ پر

 

شفق کیا، دھنک کیا، صبا کیا، گھٹا کیا

ہر اک شے فدا ہے حبیب خدا پر

 

مثال اُس کی نبیوں میں کوئی مجھے دے

نظر جس کی یکساں تھی خلق خدا پر

 

زمانے سے کہہ دو کہ بعد محمدؐ

ہے ایمان میرا سبھی انبیاء پر

 

اگر پنکھ ہوتے مجھے بھی عنایت

تو طیبہ کو جاتا میں دوشِ ہوا پر

 

فراغؔ آج نعت محمدؐ کے صدقے

خدا کی عنایت ہے مجھ بے نوا پر

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

ہو اگر چشم کشادہ تو بشر دیکھ سکے

آپ کو کیا کوئی کوتاہ نظر دیکھ سکے

 

سانس وہ سانس ہے جو پڑھتی رہے صل علیٰ

آنکھ وہ آنکھ ہے جو آپ کا در دیکھ سکے

 

کس کی خواہش نہیں ہوتی کہ مدینے جا کر

نور میں ڈوبی ہوئی شام و سحر دیکھ سکے

 

منکشف ہوتا ہے معراجِ محمدؐ سے یہی

مرتبہ کیا ہے نبیؐ کا یہ بشر دیکھ سکے

 

اس لئے فرض ہوا حج کہ ہر اک شیدائی

اپنے محبوب پیمبرؐ کا نگر دیکھ سکے

 

کام کی ہو گی اُسی وقت مری آنکھ فراغؔ

جلوۂ شہر مدینہ بھی اگر دیکھ سکے

٭٭٭

 

 

 

 

حمدیہ رباعیات

 

 

صحراؤں میں پیاسوں کا سہارا تو ہے

جو سوکھ نہیں سکتا وہ دھارا تو ہے

ہم تیرے سوا کس سے بھلائی چاہیں

سب غیر ہیں، اللہ! ہمارا تو ہے

٭٭

 

تو میرا یقیں بھی ہے، گماں بھی ہے تو

در اصل عیاں بھی ہے، نہاں بھی ہے تو

ہر سمت نظر آتے ہیں جلوے تیرے

موجود یہاں بھی ہے، وہاں بھی ہے تو

٭٭

 

آسان نہیں میرے خدا، مشکل ہے

ہر کام سے یہ کام بڑا، مشکل ہے

کیسے ہو ترا وصف بیاں اے مالک!

انساں سے تری حمد و ثنا مشکل ہے

٭٭

 

ہر سو نظر آتی ہے حکومت تیری

مامور غلامی پہ ہے خلقت تیری

ہر شے کو کیا خلق خدایا! تو نے

بندے سے بیاں کیسے ہو عظمت تیری

٭٭

 

 

 

اک مرکز توصیف و ثنا ہے صاحب

موجود کوئی راہ نما ہے صاحب

اللہ رے خورشید و قمر کی گردش

یہ ہم پہ عیاں ہے کہ خدا ہے صاحب

٭٭

 

اندازِ سخن ہم کو سکھایا تو نے

قاری سے قلم کار بنایا تو نے

اس بات سے ان کار کریں کیوں یارب!

ہم نے وہی لکھا جو لکھایا تو نے

٭٭٭

 

 

 

 

منا جاتی رباعیات

 

چاہے نہ مری آن سلامت رکھنا

شہرت نہ مری شان سلامت رکھنا

لیکن یہ تمنا ہے کہ مرتے دم تک

یارب! مرا ایمان سلامت رکھنا

٭٭

 

اسلام پہ جو جان لٹا دے اللہ

وہ نیک مسلمان بنا دے اللہ

جو شوق دلِ آلِ محمدؐ میں تھا

وہ شوق ہر اک دل میں جگا دے اللہ

٭٭

 

دُنیا میں مرا رُتبہ بڑا ہو مولا

مجھ کو بھی یہ توفیق عطا ہو مولا

تجھ سے یہ دعا ہے کہ ترے بندوں میں

اخلاق مرا سب سے جدا ہو مولا

٭٭

 

 

 

 

نعتیہ رباعیات

 

اے عالم ایماں کے شہیر اعظمؐ

مولا کے سفیروں میں سفیر اعظمؐ

دنیا میں کہاں آپ کا ثانی کوئی

ہیں آپ امیروں میں امیر اعظمؐ

٭٭

 

اللہ کے محبوب رسولِ اکرمؐ

بندوں کے بھی مطلوب رسولِ اکرمؐ

اللہ نے جو آپ کو رُتبہ بخشا

وہ رُتبہ ہے کیا خوب رسولِ اکرمؐ

٭٭

 

 

کیا گود میں وہ نور کا پیکر چمکا

پل بھر میں حلیمہؓ کا مقدر چمکا

اُس رحمت عالمؐ کی بدولت اک دن

گمنام تھا جو نام وہ گھر گھر چمکا

٭٭

 

دنیا میں اندھیرا ہی اندھیرا ہوتا

یہ سانجھ نہ ہوتی نہ سویرا ہوتا

آتا نہ اگر دین محمدؐ ہم تک

ہر گھر میں جہالت کا بسیرا ہوتا

٭٭

 

 

 

 

آنکھوں میں مدینہ جو بسا لیتے ہیں

دل شہر نبیؐ سے جو لگا لیتے ہیں

سنتے ہیں کہ سرکارؐ اُنھی لوگوں کو

خود شہر مدینہ میں بلا لیتے ہیں

٭٭

 

جب اَوج پہ قسمت کا ستارا ہو گا

ہر حال میں طیبہ کا نظارا ہو گا

آئے گا وہ لمحہ تو خوشی کے مارے

کیا جانیے کیا حال ہمارا ہو گا

٭٭

 

 

 

 

طیبہ کو تصور میں بسا رکھا ہے

پُر شوق نگاہوں کو بنا رکھا ہے

کیسے نہ مدینے کی زیارت ہو گی

دل نورِ عقیدت سے سجا رکھا ہے

٭٭

 

بدبخت کو خوش بخت بنا دے یارب

کچھ پھول مرادوں کے کھلا دے یارب

قسمت میں مری لکھ کے طوافِ کعبہ

اک روز مدینہ بھی دِکھا دے یارب

٭٭

 

 

 

ہر لمحہ سے پُر کیف وہ لمحا ہو گا

جب سامنے سرکارؐ کا روضا ہو گا

خود سر پہ مرے بارشِ رحمت ہو گی

سیراب گلستانِ تمنا ہو گا

٭٭٭

 

 

 

 

حمدیہ دوہے

 

کیسی اُس کی ذات ہے، کیسی اُس کی شان

بن دیکھے اللہ کو ہم لائے ایمان

٭٭

 

ہم بندوں کی آنکھ سے اوجھل ہے معبود

اُس کا جلوہ ہر جگہ پھر بھی ہے موجود

٭٭

 

جانے کیسا دیس ہے داتا تیرا دیس

بھیج نہ پائے آدمی جہاں سے اک سندیس

٭٭

 

آنسو یا مسکان دے جو تجھ کو منظور

داتا، تیرے سامنے ہم بندے مجبور

٭٭

 

مولا، اس سنسار میں تیرا نہیں جواب

ایک اشارے پر ترے سچ ہوں سارے خواب

٭٭

 

بنتے ہیں سنسار میں جس سے سب کے کام

میرے ہونٹوں پر رہے اُس مالک کا نام

٭٭٭

 

 

 

نعتیہ دوہے

 

یارب، کس سے ہو سکے آقاؐ کی تعریف

تو ہی دے توفیق تو کوئی کرے توصیف

٭٭

 

اللہ رے ! سرکارؐ نے پائی رفعت خوب

نبیوں میں ٹھہرے وہی نبیوں کے محبوب

٭٭

 

انساں ہو کر دیکھئے کیا پائی معراج

نبیوں میں بھی ہیں وہی نبیوں کے سرتاج

٭٭

 

مولا نے معراج کا جب بھیجا سندیس

پلک جھپکتے ہی نبیؐ پہنچے رب کے دیس

٭٭

 

دھرتی سے آکاش تک پھیلا تھا اک نور

مولا سے جب عرش پر ملنے گئے حضورؐ

٭٭٭

 

 

 

 

حمدیہ ہائیکو

 

مالک یوم الدین

تیری رحمت سے بے شک

دل کو ہے تسکین

٭٭

 

ہر سو تیری دھوم

سارے عالم میں مولا

سب تیرے محکوم

٭٭

 

 

افضل تیری ذات

ایک اشارے پر تیرے

دن ہو جائے رات

٭٭

 

سب پر تیرا راج

چاہے راجا ہو یا رنک

سب تیرے محتاج

٭٭

 

چڑیوں کو چہکار

تو نے ہی بخشی یارب

پھولوں کو مہکار

٭٭٭

 

 

 

 

حمدیہ ہائیکو

 

 

اے طیبہ کے چاند

پھول، شفق، خورشید، قمر

تیرے آگے ماند

٭٭

 

بے شک صبح و شام

آقاؐ حوروں و غلماں کے

آپ پہ لاکھوں سلام

٭٭

 

اللہ رے آقاؐ

آپ کو قدرت نے بخشا

حقانی لہجہ

٭٭

 

شافعِ محشر ہیں

آقاؐ سب کی نظروں کے

مرکز و محور ہیں

٭٭

 

جلوے بکھرے تھے

جس دم سدرہ سے آگے

آقاؐ گزرے تھے

٭٭

 

 

 

دل میں ہے ارمان

عشقِ محمدؐ میں ہم بھی

ہو جائیں قربان

٭٭

 

میرے پالن ہار

سیر مدینہ کا موقع

کر دے عطا اک بار

٭٭

 

رب کے گن گاؤں

کاش! دیارِ احمدؐ کا

چاکر ہو جاؤں

٭٭٭

 

 

 

 

حمدیہ ماہیے

 

 

مختار ہے، عالی ہے

نام خدا جس کا

وہ ذات نرالی ہے

٭٭

 

ہر شے کا تو صانع ہے

سانس تلک میری

یارب، تری تابع ہے

٭٭

 

خلاق تو ہی مولا

سارے جہاں کا ہے

رزّاق تو ہی مولا

٭٭

 

ہر بات نرالی ہے

ذات تری یکتا

ہر شے کا تو والی ہے

٭٭

 

تو صاحب قدرت ہے

تیری بدولت ہی

ہر پھول میں نکہت ہے

٭٭٭

 

 

 

 

نعتیہ ماہیے

 

 

کب بس میں قلم ہو گا

وصف شہِ بطحا

کیا ہم سے رقم ہو گا

٭٭

 

نبیوں میں جدا ٹھہرے

میرے محمدؐ ہی

محبوبِ خدا ٹھہرے

٭٭

 

مہمان خدا تم سا

عرشِ معلی پر

کوئی نہ ہوا تم سا

٭٭

 

محشر کا کسے ڈر ہے

ساتھ ہمارے جب

خود شافع محشر ہے

٭٭

 

اک جنت ثانی ہے

شہر مدینہ کی

ہر شام سہانی ہے

٭٭

 

 

 

پُر نور گھٹا دیکھوں

کاش وہ دن آئے

طیبہ کی فضا دیکھوں

٭٭

 

کب پاؤں زمیں پر ہے

یادِ مدینہ سے

دل آج منور ہے

٭٭

 

پھٹ جائے نہ سینہ چل

دل کی دوا لینے

چل سوئے مدینہ چل

٭٭

 

بد بخت اگر جائے

آپؐ کی چوکھٹ پر

تقدیر سنور جائے

٭٭

 

تعریف محمدؐ میں

وقت مرا گزرے

توصیف محمدؐ میں

٭٭٭

تشکر: افتخار راغب جن کے توسط سے اس کی فائل موصول ہوئی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید