FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

فقہِ اسلامی پر یہودی اثرات: افسانہ یا حقیقت

محمد شعیب

ڈاؤن لوڈ کریں

پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل

مکمل کتاب پڑھیں …..

فقہ اسلامی پر یہودی اثرات: افسانہ یا حقیقت

محمد شعیب

اولاً جناب اسرار عالم کی کتابوں کے درج ذیل چند اقتباسات ملاحظہ فرمائیں:

’’امت مسلمہ میں ابلیس اور اس کے سب سے بڑے حلیف یہود نے فقہ اسلامی کو اسی لئے بنایا تھا اور جسے علماء وقت نے نہ صرف زندہ رکھا بلکہ خوب سے خوب تر مستحکم کیا تاکہ اس امت کو دین اللہ کے تعلق سے مفلوج و معطل بنا کر رکھ دیا جائے۔‘‘

(دجال جلد دوم صفحہ 87)

’’چنانچہ نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ و سلم کا قائم کیا ہوا اسلامی نظام ختم کر دیا گیا اور اس کی جگہ ستر سالوں کے اندر اندر اسلام ہی کے نام سے ربیائی یہودیت (Rabbinic Judaism) کی تشکیل جدید ہو چکی تھی۔‘‘

    (سر سید کی بصیرت صفحہ نمبر 151)

’’۔۔۔۔۔نبی آخر الزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا برپا کردہ نظام اسلام 661 عیسوی میں ختم کر دیا گیا اور اس کی جگہ ربیائی یہودیت (Rabbinic Judaism) اسلام مذہب (؟) کا لبادہ زیب تن کر کے برپا ہو گئی۔ چونکہ یہ مذہب اسلام ربیائی یہودیت (Rabbinic Judaism) کی عربی ماحول میں تشکیل جدید تھا اس لئے اس میں کلدانی، آرامی اور عبرانی کی جگہ بدوی عربی توجیہ (Orientation) اور تعمیم (Vulgarization) کا عنصر غالب رکھا گیا لیکن صرف اس حد تک کہ دیواروں کی باہری پرت بدوی عربی تھی جب کہ اندر کی ساری عمارت ربیائی یہودیت (Rabbinic Judaism) کی تھی جو ارامی، کلدانی اور عبرانی اینٹوں، پتھروں اور مسالوں سے بنی ہوئی تھی۔ ربیائی یہودیت (Rabbinic Judaism) کی یہ عربی شکل اصل ربیائی یہودیت کی طرح ہی خدا مخالف: توحید مخالف (Anti-Allah)، رسول مخالف: رسالت مخالف (Anti-Rasulullah) اور قرآن مخالف : ہدیٰ مخالف (Anti-Divine Guidance) تھی۔‘‘

(ایضاً صفحہ نمبر 161)

الغرض اسرار عالم صاحب نے سلسلۂ دجالیات اور اس کے بعد شائع شدہ تمام کتابوں میں مختلف مقامات پر بلکہ جا بجا اپنے قارئین کو یہ باور کرانے کی سعیِ نا محمود فرمائی ہے کہ فقہِ اسلامی کا سارا ذخیرہ اصلاً یہودی حکما (חכמים) کے زیر اثر تیار ہوا اور یہ کاوشیں فی الواقع یہودی نہاد تھیں۔

اسرار عالم صاحب کے مذکورہ بالا اعتراضات درحقیقت گذشتہ صدی میں فقہ اسلامی پر لگائے گئے الزامات کی بازگشت ہے۔ یہ قصہ انیسویں صدی کے تقریباً وسط کا ہے جب بون یونیورسٹی کے چند طلبہ نے اس افسانہ کی طرح ڈالی۔ بون اُس وقت یہودی طلبہ کی  اعلیٰ درس گاہ(Hochshule) بنا ہوا تھا۔ 1840ء میں اسی گروہ کے ایک رکن لوڈوِگ المن کا ترجمہ قرآن المانی زبان میں شائع ہوا۔ سالومن مَنک قرون وسطیٰ کے اسلامی اور یہودی فلسفہ کے نمایاں محقق بن کر ابھرے۔یوسف درانبور نے عہد اسلامی کے یہود اور ان کی تاریخ کو اپنی توجہ کا مرکز بنایا۔ آگے چل کر کر اسی گروہ کے ایک محقق فاضل اور مستشرق ابراہم گیگر نے المانی زبان میں ’’محمد نےکن امور میں یہودیت سے استفادہ کیا؟‘‘([1]) لکھ کر اس افسانہ کو ایک نئی جہت عطا کی۔ پھر اس کے ساتھیوں اور ہم مشربوں نے  اس افسانہ کو بڑی جانفشانی سے نئے رنگ روپ دیے، فقہ اسلامی کے دفاتر میں مختلف نظائر تلاش کیے اور اس افسانہ طرازی کی روایت بتدریج گولٹ سیر، نولدیکے، ٹوری کی ’’اسلام کی یہودی بنیاد‘‘([2]) اور ویگنر کے مقالہ ’’فقہ اسلامی اورتلمودکےمصادراربعہ‘‘([3]) سے ہوتے ہوئے اچانک ایک نئی راہ پر مڑ گئی۔ کہانی نے یہ نیا موڑ ابھی چند دہائیوں پیشتر ہی لیا ہے اور چونکہ اس کے بیشتر خد و خال عبرانی زبان میں لکھے گئے ہیں، اس لیے ان سے استفادہ کا دائرہ انتہائی محدود ہے۔ اس نئے موڑ کا اندازہ حسب ذیل اقتباسات سے لگایا جا سکتا ہے:

"The work is written in Arabic and its contents, as we have already indicated, is related and based upon Arab literary sources. The terms used by the Gaon, therefore, are those found in the relevant literature… Arabic language comparisons are to be found in all the works of the Gaon, whether in legal writing or in Bible commentary.”

"This alone is sufficient to raise the hypothesis that Bible commentary had its ties to Islamic exegetical literature… A perusal of the many fragments of both Rav Shmuel ben Hofni and Saadya Gaon makes this hypothesis certain fact.”

اب اسرائیلی محققین کی تحقیق بالکل برعکس رخ پر ہے،مثلاً متقدمین احناف نے شمویل بن حفنیٰ پر اور شوافع نے موسیٰ بن میمون پر کیا اثرات مرتب کیے۔([4]) عمران احسن نیازی نے کیسی سچی بات لکھی ہے:([5])

Hanafi method is based on reasoning from general principles derived from the texts. Under takkanot, the Rabbanites have much more discretion and freedom. Western writers in their attempt to show similarities between Islamic law and Jewish law have stretched the meaning of principles like istiḥsān and istiṣlāḥ to equate them with legislation undertaken by the Rabbanites through takkanot and minhag. This is incorrect and would amount to a distortion of truth. In any case, the Shafi’i influence on the methodology of the Karaites([6]) is obvious, and can be noticed in al-Qirkisāni’s book.”

مطالعاتِ تلمود (מחקרי תלמוד) کا یہ پہلو بڑا دلچسپ، عبرت انگیز اور سبق آموز بھی ہے ان اصحاب علم کے لیے جو مستشرقین کی ناپختہ تحقیقات کو حرفِ آخر جانتے ہیں اور اپنے ماضی کے ورثہ کو انھی کی دی گئی کسوٹی پر پرکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہماری خواہش تھی کہ عبرت آموزی کے لیے یہاں اس سلسلہ کی مختصر کتابیات ہی درج کر دیں لیکن خوف طوالت دامن گیر ہے اور اس خیال سے بھی ان تفصیلات کو قلم انداز کر رہے ہیں کہ ان میں سے ننانوے فیصد مضامین عبرانی زبان میں لکھے گئے ہیں، اس لیے شایداردو داں قارئین ان سے کماحقہٗ استفادہ نہ کر سکیں۔ سردست اسرار عالم صاحب کے غیر علمی، غیر تحقیقی اور غیر حقیقی تبصروں کا جائزہ پیش نظر ہے۔

اس حقیقت سے انکار کی گنجائش نہیں کہ جو شخص تلمود کے مطالعہ کے بعد فقہ اسلامی کا مطالعہ کرتا ہے یا فقہ اسلامی کی شناوری کے بعد تلمود سے رجوع کرتاہے تو اسےبادی النظر میں بہت سے امورحیرت انگیز حد تک مشابہ دکھائی دیتے ہیں، اوربسااوقات الفاظ اورتعبیرات بھی تقریباً یکساں نظر آتی ہیں۔ چنانچہ انھی مماثلتوں کو دیکھ کر ایک سطحی مطالعہ کا اتھلا مزاج شخص فوراً یہ فیصلہ صادر کر دیتا ہے کہ فقہ اسلامی اصلاً تلمود سے ماخوذ ہے یا فقہا نے ان دفاتر کی تالیف میں یہودی مصادرسے سرقہ کیا ہے۔ ذیل میں ہم چند مماثلتوں کو تفصیل سے اور باحوالہ بیان کرنے کی کوشش کریں گے تاکہ یہ نقطہ مزید واضح ہو سکے۔

پہلی مماثلت

مئی 1960ء میں موساد کے ہرکارے اپنے سر سے کھیل کر بڑی رازداری اور خاموشی کے ساتھ ارجنٹینا میں اپنا خفیہ آپریشن مکمل کرتے ہیں اور ہولوکاسٹ کے ایک مرکزی مجرم و منصرم اور خطرناک نازی افسر ادولف آئش مان (19 مارچ 1906ء – 1 جون 1962ء) کو وہاں سے اغوا کر کے راتوں رات اسرائیل پہنچا دیتے ہیں۔ یہ شخص وہاں ریکارڈو کلیمنٹ کے فرضی نام سے چھپا ہوا تھا۔ اس کارروائی کے معاً بعد 23 مئی 1960ء کو یکایک اسرائیل کا وزیر اعظم داؤد بن گوریان کنیست کے سامنے نمودار ہو کر یہ اعلان کرتا ہے جسے سن کر دنیا مبہوت رہ جاتی ہے:

’’میں کنیست کے اراکین کو بتانا چاہتا ہوں کہ ابھی حال ہی میں ہم نے ایک خطرناک نازی مجرم ادولف آئش مان کو ڈھونڈ نکالا ہے۔ دیگر نازی افسروں کے ساتھ یہ شخص بھی یورپ میں ساٹھ لاکھ یہودیوں کے قتل عام کا ذمہ دار ہے۔ آئش مان اس وقت اسرائیل کی حراست میں ہے اور جلد ہی اس کے خلاف عدالتی کارروائی شروع ہو گی۔‘‘

اعلان کے بعد اگلے سال 11؍ اپریل کو مقدمہ کی کارروائی کا آغاز ہوا۔ اسرائیل کا اٹارنی جنرل جدعون ہاوزنر استغاثہ کا وکیل تھا۔ کارروائی کے آغاز میں جدعون نے کھڑے ہو کر بڑی جذباتی تقریر کی۔ ایسی تقریر جس میں صدیوں کا کرب سمٹ آیا تھا:

’’اسرائیل کے قاضیو! میں تمھارے سامنے ادولف آئش مان کے وکیل استغاثہ کی حیثیت سے کھڑا ہوں لیکن یاد رکھو کہ میں تنہا نہیں ہوں، میرے ہمراہ ساٹھ لاکھ مظلوموں کی روحیں بھی ہیں جن کے جسم یہاں حاضری سے اور عدالت کے سامنے داد خواہی سے اس لیے قاصر ہیں کہ ان کے سوختہ جسموں کی خاک آشوِٹز کے پہاڑوں پر اور ٹرب لنکا کے میدانوں میں اڑ رہی ہے، اور جن کے خاکستر سے پولستان کے جنگلوں کی فضائیں آلودہ ہیں۔ یورپ کے طول و عرض میں ان کی قبریں بکھری ہوئی ہیں اور ان کا لہو پکار رہا ہے لیکن صدائے برنخاست۔ چنانچہ اب میں ان کی زبان حال بن کر اور ان کے نام سے اس عدالت کے روبرو اس فرد جرم کے اوراق الٹ رہا ہوں۔‘‘([7])

مقدمہ چلتا رہا ہے اور بالآخر عدالت نے سزائے موت کے پروانے پر دستخط کر دیے۔ اس پر آئش مان نے ایک عرضی گذاری جس میں یہ لکھا تھا کہ عدالت عالیہ کو چاہیے وہ حاکم اور محکوم کے درمیان فرق کو ملحوظ رکھے اور اُس خطِ امتیاز کو سمجھنے کی کوشش کرے جس کے ایک طرف رہنما کھڑا احکام صادر کرتا ہے اور دوسری جانب مجھ جیسے بے بس اور لاچار عوام غلام بے دام اپنے اندر ان احکام سے سرتابی کی مجال نہیں پاتے۔ چونکہ میں اس سانحہ کا ذمہ دار نہیں تھا، اس لیے اپنی ذات کو مجرم تصور نہیں کروں گا۔ فقط۔

اس فیصلہ کے بعد صدر اسرائیل کے حضور دنیا بھر سے رحم کی درخواستوں کا تانتا بندھ گیا۔ خود آئش‌مان کی بیوی نے بھی جاں بخشی کا تار دیا جس کے جواب میں صدر اسرائیل نے وہ فقرہ لکھ بھیجا جو سموئیل علیہ السلام نے شاہ عمالقہ کو قتل کرتے ہوئے کہا تھا: כאשר שכלה נשים חרבך כן תשכל מנשים אמך (جس طرح تیری تلوار نے بے شمار عورتوں کو رلایا ہے، اب تیری ماں بھی تجھے روئے گی۔ (سموئیل اول 15: 33))

گو کہ آئش‌مان کی یہ درخواست مسترد کر دی گئی اور بالآخر اسے جلاد کے حوالہ کر دیا گیا لیکن اس عرضی نے حکمائے یہود کے حلقوں میں ہلخاہ کی بعض نازک اور دقیق بحثیں چھیڑ دی تھیں اور مقدمہ کے ہلخائی/فقہی پہلوؤں پر متعدد مضامین شائع ہوئے۔ ایک بحث یہ اٹھی کہ آئش مان تو محض اپنے آقا کے حکم کی پیروی کر رہا تھا، جیسا کہ اس نے بذات خود اپنی عرضی میں صراحت کی ہے۔ ایسی صورت میں کیا وہ شخص موسوی شریعت کی رو سے قصور وار اور سزائے موت کا مستحق ہے؟بالآخر ایک طویل بحث کے بعد یہ نتیجہ نکلا کہ آئش مان کا قتل ہلخاہ (یہودی فقہ) کے قاعدہ "אין שליח לדבר עבירה” (جرائم میں کوئی وکالت یا وساطت قبول نہیں) کے تحت شریعت کے عین مطابق ہے اور ریاست اسرائیل نے اسے سزائے موت دے کر کسی شرعی جرم کا ارتکاب نہیں کیا۔ ہلخاہ کا یہ اصول (כלל הלכתי) تلمود کے مسیخت قدوشین 42ب سے ماخوذ ہے، جس کی تفصیل یہ ہے کہ اگر کوئی حاکم کسی شخص کو قتل کرنے کا حکم دے تو قاتل اسی شخص کو سمجھا جائے گا جس نے قتل کیا اور حد بھی اسی پر جاری ہو گی۔ حاکم کو قاتل نہیں سمجھا جائے گا، ہاں اس کو تعزیراً سزا دی جا سکتی ہے۔ بعینہ یہ قاعدہ فقہ اسلامی میں بھی ہمیں ملتا ہے جسے فقہائے اصولیین نے ’’إذا اجتمع المباشر والمتسبب، يضاف الحكم إلى المباشر‘‘ اور ’’يقدم المباشر في الضمان على المتسبب‘‘ جیسے لفظوں میں بیان کیا ہے۔ اور یہ ظاہر ہے کہ تلمود کی تدوین اسلام کی آمد سے ایک دو صدی پیشتر ہو چکی تھی۔ اب کوئی شخص ان دونوں مصادر کو سامنے رکھ کر ان قواعد کو سطحی نظر سے دیکھے تو فوراً چیخ پڑے گا کہ فقہا نے اس باب میں تلمود سے استفادہ کیا ہے یا اسرار عالم صاحب کے الفاظ میں خود یہود نے مسلمانوں کے درمیان بیٹھ کر یہ فقہی قاعدہ تراشا تھا۔ لیکن کیا یہ مشابہت محض اتفاقی ہے یا واقعی فقہا نے اس قاعدہ کو یہود سے لیا ہے۔ اسے جاننے کے لیے ہمیں یہ دیکھنا پڑے گا کہ خود یہود کے یہاں یہ فقہی قاعدہ کہاں سے آیا۔

جب ہم نے یہودی ربیوں کی کتابوں سے مراجعت کی تو معلوم ہوا کہ ان کے نزدیک اس اصول کا ماخذ دراصل انسان کی عقل سلیم ہے جسے ان کی اصطلاح میں سَوْرا (סברא یعنی common sense) سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ انسانی معاشروں میں ایک خاص سطح پر بے شمار سماجی امور میں یکسانی پائی جاتی ہے خواہ وہ فوجداری معاملات ہوں یا دیوانی، اور یہ یکسانی زمان و مکان سے ماورا ہر عہد اور ہر معاشرے میں دکھائی دیتی ہے۔ جرائم کے محرکات مختلف ہو سکتے ہیں لیکن جرائم کی نوعیت ہر جگہ اور ہر عہد میں تقریباً یکساں نظر آتی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا فقہائے اسلام اس عقل سلیم (Common sense) سے عاری تھے؟ کیا یہ ممکن ہے کہ ان عباقرہ کے پاس اتنی موٹی سمجھ بھی نہ تھی کہ ایسے پیش پا افتادہ امور میں غلط اصولوں کو اختیار کر لیتے؟ ظاہر ہے کہ ایسا نہیں ہے تو ہمیں یہ سمجھنے اور کہنے میں کوئی تردد نہیں کہ جس طرح حکمائے یہود نے اس فوجداری معاملہ میں عقل سلیم کا سہارا لیا، ٹھیک اسی طرح فقہائے اسلام نے بھی اس معاملہ میں اپنی عقل سلیم اور فہم رسا کو استعمال کیا۔ بھلا کون احمق یہ کہے گا کہ تپنچہ چلانے والا مجرم نہیں، بلکہ اصل مجرم وہ کارخانہ دار ہے جس نے تپنچہ تیار کرکے اسے بازار میں پہنچایا۔

دوسری مماثلت

ایک مدت تک کُھل کھیلنے اور عمر تیٖر کرنے کے بعد جنونی صہیونیوں کی ٹولی نے بالآخر 14 مئی 1948ء کو جمعہ کے دن ارض فلسطین پر بڑی بے شرمی سے ناجائز ریاست کے قیام کا اعلان کر دیا۔ جسے اپنوں کی مکمل حمایت حاصل نہ تھی، اسے ’’ارض میثاق کے غیروں‘‘ نے اپنا تعاون بخشا۔ خود بن گوریان کے قریبی مشیر اس اعلان کے مخالف تھے اور یوں بھی یہود کے مذہبی حلقوں میں ان نامذہب صہیونیوں کو اچھا نہیں سمجھا جاتا تھا کہ دفعتاً نوبل انعام یافتہ عبرانی ادیب اور شاعر یوسف اگنون (17 جولائی 1888ء – 17 فروری 1970ء) کی پرسوز آواز ابھری۔ وہ اپنی قوم کو جھنجوڑ رہا تھا:

’’قیام ریاست ہم سب کی آرزو تھی۔ لیکن جب نخل آرزو بارآور ہوا تو اس کے اعلان سے ہم سہم گئے۔ آزمائش کی گھڑی آئی تو ہم اس پس و پیش میں پڑ گئے کہ بجائے کوئی خطرہ مول لینے کے اس اعلان کو اگلی نسل تک موخر کر دیا جائے۔ لیکن یہ ہمارے وقتوں کا بن گوریان ہی تھا جس نے یہود کی دربدری کے خاتمہ کا اعلان کرنے کی جرات کی۔‘‘([8])

اس ناشدنی اعلان کا ہونا تھا کہ ساری دنیا سے یہودی مہاجرین کی ڈاک بیٹھ گئی اور وہ ہر جانب سے کھنچ کھنچ کر اسرائیل پہنچنے لگے۔ ہلال اخضر([9]) کے تقریباً قلب میں قائم ہونے والی اس نوزائیدہ ریاست کو پڑوسی ممالک کی حکومتوں اور عوام سے بھی سخت خطرات لاحق تھے۔ گو کہ اسرائیل اپنی بقا کی جنگ جیت رہا تھا لیکن تب تک تقریباً ایک فیصد آبادی کی بلی چڑھائی جا چکی تھی۔ مہاجرین کے قافلے روز افزوں تھے، معیشت بکھر رہی تھی اور ریاست کا سارا کاروبار غیر اسرائیلی یہودیوں کے عطیات پر چل رہا تھا کہ اچانک اس بحران سے ابھرنے کا نسخہ بن گوریان کے ہاتھ آگیا۔ معاملہ کچھ یوں تھا کہ جرمنی ہولوکاسٹ سے بچ جانے والے بے گھر اور مظلوم یہودیوں کو تاوان جنگ ادا کرنے پر آمادہ تھا، چنانچہ اسرائیل نے ڈیڑھ ارب ڈالر کا مطالبہ پیش کر دیا۔ البتہ معاہدہ کی تکمیل کے لیے اسے کنیست سے گذارنا لازمی تھا۔ لہذا بن گوریان نے اس تجویز کو ارکان کنیست کے سامنے رکھا اور تناخ کی اس مشہور آیت سے اپنی تقریر شروع کی:

הרצחת וגם ירשת? (تم نے قتل کیا اور زمین بھی ہڑپ رہے ہو؟)

بھلا نازیوں سے انتقام کی اس سے بہتر شکل اور کیا ہو گی کہ جس قوم کو وہ صفحۂ ہستی سے مٹا دینا چاہتے تھے، وہ انھی کے پیسوں سے اپنا وطن آباد کرے۔

بن گوریان کی اس تجویز پر سارا اسرائیل سڑکوں پر اتر آیا۔ تشدد کی آگ بھڑک اٹھی۔ عوام نے کنیست کو گھیر لیا اور ارکان کنیست پر پتھراؤ کرنے لگے۔ جدید اسرائیل کے مورخین لکھتے ہیں کہ تا دم تحریر کسی معاملہ میں ایسی شدید مخالفت اور اس قدر تیز و تند کلامی جنگ اسرائیل میں کبھی نہیں دیکھی گئی۔ بن گوریان نے بہتیرے دلائل دیے، اعداد و شمار پیش کیے، ریاست کی گرتی معیشت کا قصہ جھوتا رہا لیکن مخالفین کے سامنے ایک نہ چلی اور وہ حسب سابق اپنی ہٹ پر قائم رہے۔ مناحم بےگین ان سارے مخالفوں کا سرغنہ تھا۔ اس نے بڑے ڈرامائی انداز میں ارکان کنیست کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:

הלכתם אל העם בבחירות לא בשם הענין הזה. הלכתם אל העם בבחירות בשם דת ישראל, בשם תורת ישראל. מה לתורת ישראל ולמשא-ומתן עם עמלק? הרי תמחקו על ידי הצבעה כזאת פסוק שלם, קדוש ומקודש בתורה – "מלחמה לה’ בעמלק מדור דור”. איך יילחם השם בעמלק, אם אתם, מגיני הדת, תצביעו בעד שלום עם עמלק, בעד קבלת כסף מעמלק؟

انتخابات کے دوران میں تم عوام کے پاس اس موضوع پرنہیں گئے تھے۔ بلکہ تم نے عوام کو مذہبِ اسرائیل کا واسطہ دیا، تم ارض اسرائیل کے نام سے ووٹ مانگتے رہے۔ اب قوم عمالقہ([10]) سے گفت و شنید کے وقت اُس ارض اسرائیل کا کیا ہو گا؟ یاد رکھو، اِس رائے شماری کے ذریعہ تم تورات کی ایک مقدس آیت کو مٹا رہے ہو جس میں یہوہ نے کہا تھا کہ ’’عمالقہ سے اس کی جنگ نسل در نسل جاری رہے گی‘‘۔ عمالقہ سے خدا کی اِس جنگ کا کیا بنے گا اگر تم جیسے مذہب کے محافظ ہی عمالقہ سے امن کے حق میں ووٹ دوگے اور ان سے پیسے قبول کرنے کی تجویز کی تائید کروگے۔)[11](

ساری یہودی قوم حتیٰ کہ اسرائیل کا ربی اعظم بھی اس تجویز کی مخالفت پر کمر بستہ تھے۔ اور سب نے بیک زبان کہا کہ جرمنی سے امداد قبول کرنا خدا کے نام کی توہین (חילול השם) ہے۔ اگر ہم نے امداد قبول کر لی تو دنیا یہ سمجھے گی کہ اسرائیل کے عوام نے یہود کے بہتے خون کا سودا کر لیا۔ تاہم بن گوریان نے ایسی شدید مخالفت کے علی الرغم جرمنی سے اس معاہدہ پر دستخط کیے اور موصولہ امداد کو ریاست کی فلاح و بہبود پر خرچ کر دیا۔ کچھ عرصہ بعد جب مخالفت کا طوفان تھم گیا اور مخالفین کا زور ٹوٹا، جذباتیت سرد پڑنے لگی اور باشندگان اسرائیل نے اپنی ریاست کو عملاً آگے بڑھتا دیکھنے لگے تو یہودی ربیوں نے از سر نو اس پورے معاملہ پر غور کیا۔ انھوں نے پایا کہ دراصل اس قضیہ میں حفظِ نفس (פקוח נפש) کے مشہور ترین ہلخائی قاعدہ کا اطلاق ہوتا ہے جس کی رو سے کسی انسانی جان کو بچانے کے لیے تمام احکام خداوندی حتیٰ کہ تورات کے احکامِ عشرہ بھی معطل ہو جاتے ہیں۔ اور چونکہ اُس وقت ریاستِ اسرائیل کی نبض ڈوب رہی تھی، اگر اسے امداد کی یہ چند گولیاں نہ دی جاتیں تو ریاست غالباً جانبر نہ ہوپاتی۔ اس صورت میں عمالقہ سے معاہدۂ امن اور ان سے امداد قبول کرنے میں چنداں قباحت نہیں۔ ذرا غور کیجیے، کیا یہ وہی اصول نہیں جسے ہم الضرورات تبيح المحظورات اور المشقة تجلب التيسير کے عنوان سے یاد کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ یہ فقہی قاعدہ اصول فقہ کے پانچ بنیادی قواعد میں سے ایک ہے۔

لیکن اس مماثلت کا سبب فقہ اسلامی کا یہودی نہاد ہونا ہرگز نہیں ۔ صاف ظاہر ہے کہ دونوں شریعتیں ایک ہی مبدأ فیاض سے نکلی ہیں اور دونوں شریعتوں کے حکما اور فقہا نے اپنے نصوص میں غور کرکے یہ اصول اختیار کیے۔ تلمود کے مسیخت سن ہیدرن 74 الف : 12 میں مرقوم ہے:

אם אומרין לאדם עבור ואל תהרג יעבור ואל יהרג חוץ מעבודת כוכבים וגילוי עריות ושפיכות דמים.

اگر کسی شخص سے یہ کہا جائے کہ تم احکام تورات کی خلاف ورزی کرو، مارے نہیں جاؤگے تو اسے یہ کر گذرنا چاہیے بجز تین کاموں کے:   1۔ بتوں کی پرستش   2۔ زنا       3۔ اور خوں ریزی

یعنی مذکورہ امور کے ارتکاب سے گریزاں رہنے کے لیے اگر جان سے جانا پڑے تو دریغ نہیں کرنا چاہیے۔ اب ذرا خدا لگتی کہیے کہ کیا یہ وہ امور نہیں ہیں جن سے قرآن میں مسلمانوں کو بھی سختی سے روکا گیا یعنی شرک، زنا اور فساد فی الارض؟ کیا اب اسرار صاحب کہیں گے کہ ان امور قبیحہ کے معاملہ میں قرآن کا بے لچک رویہ بھی یہودیت سے مستعار ہے؟ حیرت ہے اسرار عالم صاحب کی نظر سے مستشرقین کی ہر دم تغیر پذیر تحقیق کا یہ فیصلہ کیونکر نہیں گذرا:([12])

"Similarities and even exact parallels, however, dot not necessarily serve as proof for the influence of one legal system upon another. As Saul Lieberman has written: "Standards of right and equity are usually the same among peoples even of different cultures who live in proximity to one another.” It may very well be that similarities and parallels found between the two systems of law current in a given area may reflect a third system of law which preceded the two contemporary served as a common source for both.”

اقتباس بالا میں جس common source کا حوالہ دیا گیا ہے، بھلا اس کی وضاحت کی کوئی ضرورت ہے؟

اور دلچسپ بات ہے کہ یہ مشابہتیں فقط عبادات اور کسی حد تک مناکحات و جنایات ہی میں نظر آتی ہیں اور اسی لیے مستشرقین نے انھی ابواب پر اپنا زورتحقیق صرف کیا ہے۔ بقیہ ابواب معاملات اور سیاست شرعیہ وغیرہ میں یقیناً انھیں کوئی سراغ نہ مل سکا۔ بلکہ اس کے برعکس معاملات، امور تجارت، قانون سازی اور دیگر ابواب میں ہلخاہ پر فقہ اسلامی نے غیر معمولی اور دائمی اثرات مرتب کیے۔ ہم چند مزید مماثلتوں کو مختصراً بیان کرکے آئندہ ان اثرات پر تفصیل سے گفتگو کریں گے۔

چند مزید مماثلتیں

بنی اسرائیل کو مصر کی سرزمین پر ابتدا میں جوچند احکام دیے گئے تھے ان میں ایک حکم یہ بھی تھا کہ موجودہ مہینہ تمھاری تقویم کا پہلا مہینہ سمجھا جائے گا اور اسی لحاظ سے اب آئندہ تم اپنا سال مکمل کروگے:

ויאמר יהוה אל־משה ואל־אהרן בארץ מצרים לאמר, החדש הזה לכם ראש חדשים ראשון הוא לכם לחדשי השנה.([13])

چنانچہ یہود کی روایت تھی کہ وہ کم از کم دو افراد سے رویتِ ہلال کی گواہیاں لیتے اور اس کے بعد سن ہیدرن نئے مہینے کے چاند کا اعلان کرتا۔ اس عمل کو ’’قیدوش ہ حودش‘‘ کہا جاتا تھا۔ اعلان کے بعد چاند کی خبر اسرائیل اور اسرائیل سے باہر رہنے والے سارے یہودیوں تک پہنچا دی جاتی تاکہ وہ ہر مہینے کے مخصوص احکام پر ٹھیک ٹھیک عمل کر سکیں۔ صدیوں تک وہ اس روایت پر قائم رہے۔ پھر جب یہود ہر ماہ کی تیسویں یا انتیسویں کو رویت کی گواہیاں لینے اور نئے چاند کے اعلان کے بعد اس خبر کو دنیا کے تمام ہم مذہبوں تک پہنچانے میں دشواری محسوس کرنے لگے تو چوتھی صدی عیسوی میں ربی ہلّیٖل نسیء کی تجویز پر سن ہیدرن نے اُس کلینڈر کو منظوری دے دی جس میں انتیس اور تیس کے مہینے متعین ہیں۔ اس طرح یہودی قیادت کو ہر ماہ کی زحمت سے نجات مل گئی۔ کہتے ہیں کہ سن ہیدرن کا یہ آخری اہم فیصلہ تھا، اس کے بعد تاریخ میں کبھی سن ہیدرن کو وہ عروج نصیب نہیں ہوا۔ غور کیجیے کیا یہ وہ نظام نہیں جو اب تک ہمارے یہاں رائج ہے؟ کیا اس رواج پر بھی فقہائے کرام مستوجب عتاب ہوں گے؟ دلچسپ بات یہ ہے کہ فقہ اسلامی اور ہلخاہ کی جن مماثلتوں پر اسرار عالم صاحب برہم ہو رہے ہیں، ان سے زیادہ مشابہتیں قرآن اور احادیث (اسرار عالم صاحب کے الفاظ میں اقوال رسول) میں ہمیں ملتی ہیں۔ سب سے اہم اور بنیادی مشابہت مسلمانوں کا شرک بیزار رویہ ہے جو سر تا سر تعلیماتِ قرآنی پر مبنی ہے۔ مسلمانوں کے اس رویہ پر موسیٰ بن میمون کی شہادت سنیے:

אלו הישמעאלים אינם עובדי עבודה זרה כלל וכבר נכרתה מפיהם ומלבם והם מיחדים לאל יתברך יחוד כראוי יחוד שאין בו דופי ולא מפני שהם משקרים ומכזבים ואומרים שאנו אומרים שיש לאל יתברך בן נכזב גם אנחנו עליהם נאמר שהם עובדי ע”ז.)[14](

ترجمہ: یہ اسماعیلی (یعنی مسلمان) ہرگز مشرک اور بت پرست نہیں ہیں۔ اس شرک کو پہلے ہی ان کی زبانوں اور دلوں سے مٹا دیا گیا ہے۔ ذات باری کے ان موحدین کی توحید وہی ہے جس کا مطالبہ کیا گیا تھا، ان کی توحید میں کوئی نقص نہیں۔ گرچہ وہ ہمارے خلاف طوفان جوڑتے اور یہ جھوٹ گڑھتے ہیں کہ ہم ابن اللہ کے قائل ہیں([15])، لیکن بایں ہمہ ہم ہرگز یہ نہیں کہتے کہ وہ مشرک ہیں۔

یہ وہی موسیٰ بن میمون ہے جس کے متعلق یہود کہا کرتے ہیں کہ

ממשה ועד משה לא כמשה (موسیٰ بن عمران سے موسیٰ بن میمون تک کوئی موسیٰ پیدا نہیں ہوا)

قرآن کی ایک آیت میں ختم سحری کا وقت کچھ اس طرح بیان کیا گیا ہے:

وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْـخَيْـطُ الأَبْيـَضُ مِنَ الْـخَيْطِ الأَسْوَدِ مِنَ الْـفَجْـرِ([16])

ترجمہ: اور کھاؤ اور پیو جب تک تمھارے سامنے سفید دھاری سیاہ دھاری سے فجر کے وقت ممتاز نہ ہو جائے۔

اب ذرا مشنا کا درج ذیل فقرہ پڑھیے:

מֵאֵימָתַי קוֹרִין אֶת שְׁמַע בְּשַׁחֲרִית. מִשֶּׁיַּכִּיר בֵּין תְּכֵלֶת לְלָבָן. רַבִּי אֱלִיעֶזֶר אוֹמֵר, בֵּין תְּכֵלֶת לְכַרְתִּי.

ترجمہ: صبح کس وقت شےمع پڑھی جائے (یعنی صبح کی نماز کب ادا کی جائے)؟ جب سفید دھاگہ نیلے دھاگے سے ممتاز ہونے لگے۔ ربی الیعزر کا کہنا ہے کہ جب سفید دھاگا ہرے دھاگے سے جدا نظر آئے۔([17])

اسی طرح حدیثوں میں خواب کو نبوت کا چھیالیسواں حصہ قرار دیا گیا ہے:

رؤيا المؤمن جزء من ستة وأربعين جزءا من النبوة.([18])

ذرا دیکھیے تقریباً یہی چیز محض عدد کے فرق سے یہود کے یہاں بھی ملتی ہے:

חֲלוֹם — אֶחָד מִשִּׁשִּׁים לַנְּבוּאָה

یعنی خواب نبوت کا اکسٹھواں حصہ ہے۔([19])

مزید برآں آں حضرت ﷺ نے بدو صلاح سے قبل پھلوں کی خرید و فروخت کی ممانعت فرمائی تھی:

أنَّ رسولَ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليْهِ و سلم نَـهى عن بيـعِ الثِّـمارِ حتَّى يبدوَ صلاحُها نَـهى البائعَ والمشتري([20])

اب مِشنا کا حسب ذیل اقتباس دیکھیے:

אין פוסקין על הפֵּרות עד שיצא השער.

پھلوں کا کوئی فیصلہ نہیں کیا جائے گا جب تک ان کی قیمت طے نہ ہو جائے (یعنی وہ پھل درختوں پر اتنے بڑے نہ ہو جائیں یا پک نہ جائیں کہ بازار میں ان کی قیمت کا اندازہ لگایا جا سکے)۔([21])

الغرض مماثلتوں اور مشابہتوں کی ایک طویل فہرست تیار کی جا سکتی ہے جو فقہ اسلامی میں کم اور قرآن و حدیث میں زیادہ نظر آئیں گی۔ کیا خاکم بدہن آں حضرت ﷺ نے یہود سے سن سن کر قرآن کو تصنیف فرمایا اور احادیث ارشاد فرمائی تھیں؟ کیا محض چند معمولی یا اتفاقی مشابہتوں کو دیکھ کر پورے ورثہ پر یہ حکم لگا دینا مناسب ہے کہ اسے یہود نے تخلیق کیا؟([22]) اسرار عالم صاحب نامذہبیت (secularism) کے قائل نہیں ہیں، یعنی وہ دین اور ریاست میں تفریق نہیں کرتے۔ ان کی کتاب ’’عالم اسلام کی اخلاقی صورت حال‘‘ کے متعدد مباحث اس کے شاہد ہیں۔ اب ذرا یہ اقتباس ملاحظہ فرمائیں:)[23](

"The separation of religion and law (or church and state) is a western notion. Neither Judaism nor Islam recognizes such a dichotomy, since both faiths postulate that both secular and religious law come equally from God. It is no accident that the same word din means "law” in Hebrew and "religion” in Arabic.”

کیا اسرار عالم صاحب یہ اعتراف کریں گے کہ اس قضیہ میں ان کی فکر یہود سے بے طرح متاثر ہوئی ہے؟ درحقیقت معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے اور اصل بات یہ ہے کہ یہود کی فقہ یعنی ہلخاہ فقہ اسلامی سے بے پناہ متاثر ہے، یہود کی زبانی جس کے متعدد اعترافات ہم ابتدا ہی میں نقل کر چکے ہیں۔ ایک مزید اعتراف حاضر ہے:([24])

"Indeed, throughout the ninth to the twelfth centuries, Jewish jurists were largely inspired by Islamic jurists, their literature, doctrines and institutions. The extent to which this inspiration was acknowledged or covered by their rhetoric is an interesting question that has much to do with the aim of presenting the Jewish legal legacy as ancient and purely transmitted. But even when the analogies to Islamic law are not emphasized, the Jewish references to a similar legal vocabulary indicate the acknowledgment in a comparative perspective. Therefore, the comparability of Jewish and Islamic law systems also rests on the comparative consciousness of the Jewish jurists when they reflected on their own system.”

ہلخاہ پر فقہ اسلامی کے اثرات

حضرت عمر بن خطابؓ کے عہد میں ایک طرف مسلمان فوجیں فارس کے آتش کدوں کو بجھا رہی تھیں اور دوسری جانب آتش پرست اپنی انجمنوں میں اہرمن کے حضور یہ پیمان باندھ رہے تھے کہ ہم مسلمانوں کے اقتدار کے فانوس بجھائیں گے اور ان کی زندگیوں کے چراغ گل کر دیں گے۔ رومیوں کی سرحدیں سکڑ رہی تھیں اور دیکھتے ہی دیکھتے فلسطین بھی ان کے ہاتھوں سے نکل گیا۔ یہ وہی رومی تھے جنھوں نے یہود پر مظالم کے پہاڑ توڑے تھے۔ رومیوں کی نفرت کی دو وجہیں تھیں:

1۔ وہ یہ سمجھتے تھے کہ ان کے پیغمبر حضرت عیسیٰ کو یہود نے مصلوب کروایا، اور خود یہود بھی یہی کہتے تھے کہ یسوع انھی کی کوششوں سے مصلوب ہوئے۔ قرون وسطیٰ میں موسیٰ بن میمون نے اور عہد جدید میں ربی ظبی یہودا نے اس کا برملا اعتراف کیا ہے۔ تقریباً دو ہزار برس بعد یہودنے کمال عیاری سے Holy Sea کو اپنے چنگل ميں پھانسا اور مسیحی دنیا کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہو گئے کہ ہم اس جرم سے بری ہیں۔ چنانچہ1965ء میں پاپائے روم نے ’’نوسترا ایتاتے‘‘ (Nostra Aetate) جاری کیا جس میں مسیحیوں کو یہ ہدایت دی گئی تھی کہ اب یہود اس جرم سے پاک ہو چکے ہیں۔ حال ہی میں جوئش پبلیکیشن سوسائٹی نے ایک نہایت محقق کتاب شائع کی ہے جس میں بزور تحقیق یہ ثابت کرنے کی پوری کوشش کی گئی کہ تصلیب مسیح سے عام یہود کا کوئی تعلق نہیں تھا۔

2۔ یہود نے فارس کے آتش پرستوں کے ساتھ مل کر روم کی مسیحی حکومت کے خلاف صف آرائی کی تھی۔ یہود کی فریب کار طبیعت نے انھیں اُس وقت بھی مبغوض عالم بنا رکھا تھا۔ یہ دراصل خدا کی پھٹکار تھی۔ بیزنطینیوں کے خلاف وہ ایرانیوں سے ساز باز کرتے اور انھیں کمک پہنچاتے رہے۔

چنانچہ رومی سلطنت یہود کو مذہباً مجرمِ اعظم اور سیاستاً غدارِ عظیم سمجھتی تھی۔ ظاہر ہے کہ حکومت کا موقف رعایا پر بھی اثر انداز ہوتا ہے، لہذا یہود رومی معاشرے کی ہر سطح پر بھیانک ظلم کا شکار تھے۔ اسی اثنا میں مسلمانوں کی فتوحات کا غلغلہ بلند ہوا، رومیوں کی پے در پےشکست سے مظلوم یہودیوں کے چہروں پر مسرت کی لہر دوڑ گئی اور عربوں کی فتوحات کی آندھی کو دیکھ کر وہ سمجھنے لگے کہ یہ ان کے حق میں رحمت کی ہوائیں ہیں جن سے ان کے دلدّر ہو جائیں گے۔ ان حالات میں جب حضرت عمر بن خطابؓ نے فتح بیت المقدس کی غرض سے سریانیوں کی زمین پر قدم رکھا تو یہود ان کی ذات میں اپنے ایک نجات دہندہ کو دیکھ رہے تھے جو انھیں رومیوں کی چیرہ دستیوں سے نجات دینے کے لیے اس زمین پر وارد ہوا تھا۔ چنانچہ جیسے ہی انھوں نے حضرت عمر کو دیکھا تو سریانی زبان میں چیخ پڑے: وہ فاروق (یعنی نجات دہندہ) آگیا۔ اور غالباً یہ پہلا موقع تھا جب حضرت عمرؓ کو اس لقب سے پکارا گیا۔ یہود مسیحیوں کے مظالم سے اتنے ضیق میں تھے کہ انھوں نے حضرت عمر سے سفر شام کے موقع پر درخواست کی کہ بیت المقدس فتح کیے بغیر آپ واپس نہ جائیں۔ آپ ’’فاروق‘‘ یعنی نجات دہندہ ہیں۔ لیکن بیزنطینی تو ان کی فطرت سے خوب واقف تھے، انھوں نےمعاہدہ ہی اس امر پر کیا کہ ایلیا میں یہودی نہیں رہیں گے۔

اسلامی فتوحات یہود کے حق میں بڑی نفع بخش اور تاریخ ساز ثابت ہوئی۔ صدیوں کے بعد انھیں ایسا سازگار، روا دار اور آزاد معاشرہ نصیب ہوا تھا۔ یہود کے موجودہ علمی ورثہ کا بڑا حصہ عہدِ اسلامی ہی کی عطا ہے جسے وہ اپنی تاریخ کے عہد زریں (תור הזהב) سے تعبیر کرتے ہیں۔ اگر اسلامی سلطنتیں نہ ہوتیں تو یہود علم و ادب کے اس مقام پر ہرگز فائز نہ ہوتے۔ اور دلچسپ بات یہ ہے کہ انھوں نے یہاں تک پہنچنے کے لیے علمائے اسلام کی تحقیقات سے خوب استفادہ کیا۔ چنانچہ خطوط میں وہ اپنے شاگردوں کو لکھا کرتے تھے کہ تم غزالی کو پڑھو، ابن رشد کو دیکھو، فارابی سے سیکھو۔ علاوہ بریں ان کا مذہبی سرمایہ بھی اسی عہد کا ورثہ ہے۔ اسلامی فتوحات سے پہلے تو رومیوں نے انھیں مار مار کر اس لائق نہیں چھوڑا تھا کہ وہ تلمود تک مکمل کر سکیں، اسی وجہ سے یروشلمی تلمود پایۂ تکمیل کو نہ پہنچ سکی جبکہ وہ مشنا کی تشریح و توضیح اور مفتیٰ بہ قول کی تعیین کے باب میں یکتا ہے۔ اسلام آیا تو دو عملی ختم ہوئی، بے فکری اور امن و امان کا دور لوٹ آیا۔ علم کی مسندیں سج گئیں۔ تعلیم گاہیں آباد ہونے لگیں۔ یہ وہ دور تھا جب ہمارے اہل علم معلوم تاریخ انسانی کی سب سے تعلیم یافتہ سمجھی جانے والی قوم یہود کے سب سے بڑے علامہ (أعلم اليهود وأجدلهم) کی جہالت کا حلفیہ بیان دیتے تھے (ولعمري إن اعتراضه الذي اعترض به ليدل على ضيق باعه في العلم وقلة اتساعه في الفهم)۔([25])یہ کسی خوش فہم مسلمان کی افسانہ طرازی نہیں،  خود یہود مسلمانوں کے اس سلوک کا اعتراف کرتے ہیں۔ مشہور یہودی ربی یہودا حریزی (جس پر یہود کا یہ عہد زریں ختم ہو جاتا ہے) جب اپنے سفر پر نکلا تو اسے یہود اور ان کے علما بڑے خوش حال نظر آئے۔ چنانچہ اپنے ایک مقامہ میں لکھتا ہے:

"واما جماعة الكركاني ففيهم قلت:

أسفا لفقد أفاضل الأزمان
وذهاب أهل البر والاحسان
تبكى المعالي ملو عينيها عللى
شر اليهود تحل بالكركان
فاليوم ليس بها سوى قوم غدوا
لجهنم حطبا لدى الفوران
واما جماعة دقوقه فانها جماعة صالحة رايت فيها النسيى عزرا بن الناسخة وهو جامع الفضائل، مشرف بحسن الفعائل، يشهد حسن خلقه وادبه، على شرف حسبه. وفيه قلت:

سبل المعالي لم يزل مطروقه
في أغلى شخص حل في دقوقه
يحوى عزريا هو الشريف مباركا
منه المفاخر اصبحت مسروقة
لثنائه عرف كأنفاس الريا
ض أظنها من عرفه مخلوقة

فاما جماعة بغداد فان لبعضهم المجد القديم، والحسب الحر الصميم، ولو يصحبهم طبع كريم، وإنما كان يوجد ذلك في أعيانهم السالفين وأجلائهم الأولين المحترمين. وأما المحدثون فما اشبهوا آبائهم في جلالة الأفعال، وجميل الخصائل وكثرة الديانة وفرط الاحتشام والصيانة….”([26])

ہمارے زمانے کا مشہور صہیونی محقق اسرائيل ابو ذئب یہود کو مخاطب کرتے ہوئے لکھتا ہے:

"وينبغي ألا يغيب عن البال أن الخسارة القليلة التي لحقت يهود بلاد الحجاز ضئيلة بالقياس إلى الفائدة التي اكتسبها العنصر اليهودي من ظهور الإسلام ، فقد أنقذ الفاتحون المسلمون آلافا من اليهود كانوا منتشرين في أقاليم الدولة الرومية ، وكانوا يقاسون ألوانا شتى من العذاب. زد على هذا أن اتصال اليهود بالمسلمين في الأقاليم الإسلامية كان سبباً في نهضة فكرية عظيمة عند اليهود بقيت آثارها في تاريخ الآداب العربية والعبرية زمنا طويلا.”([27])

چھٹی صدی ہجری میں بن یامین طلیطلی (1130ء – 1173ء) ایک مشہور یہودی سیاح گذرا ہے جس نے یورپ، ایشیا اور افریقا کی سیاحت کی تھی اور سفرنامہ میں اپنے عہد کے یہودی معاشروں کا مفصل احوال قلم بند کیا۔ یہودی تاریخ میں بن یامین کا بڑا مقام ہے اور اس کے سفرنامہ کو قرون وسطیٰ کی یہودی تاریخ کا مستند ترین ماخذ سمجھا جاتا ہے۔ اثنائے سیاحت جب وہ بغداد پہنچا تو وہاں کے یہودیوں کی پر سکون اور خوش حال زندگی دیکھ کر گویا سوکھے دھانوں پانی پڑ گیا۔ بن یامین نے اپنے سفرنامے میں دوسرے تمام شہروں کی بنسبت بغداد کے احوال زیادہ تفصیل سے بیان کیے ہیں۔ دار الخلافہ میں یہود کی مجموعی آبادی، ان کے تعلیمی مراکز، مشہور ربیوں کے نام اور عبادت گاہوں وغیرہ کا تذکرہ کرنے کے بعد لکھتا ہے:

"והם יושבים בשלוה ובהשקט ובכבוד גדול תחת יד המלך הגדול וביניהם חכמים גדולים וראשי ישיבות מתעסקים בתורת משה.”

یہود خلیفۃ المسلمین کے زیر سایہ نہایت عزت و احترام کے ساتھ اور بڑی بے فکری کی زندگی بسر کرتے ہيں۔ ان میں بڑے بڑے علما اور ارباب مدارس بھی ہیں جو تورات کے پڑھنے پڑھانے میں مصروف ہیں۔([28])

بغداد پہنچنے سے پہلے اس کا گذر قسطنطنیہ سے بھی ہوا جو اُس وقت کی بینزطینی سلطنت کا صدر مقام اور دار الحکومت تھا۔ بغداد کے برعکس اس نے یہاں رہنے والے یہود کی حالت کا جو نقشہ کھینچا ہے، ذیل کی سطروں میں ملاحظہ کیجیے:

"ואין היהודים בתוך המדינה בינם….. אין מניחין שם יהודי לרכוב על סוס חוץ מרבי שלמה מצרי שהוא רופא למלך ועל ידו מוצאים היהודים ריוח גדול בגלותם….. בגלות כבד הם יושבים והשנאה רבה עליהם על ידי הבורסקים עובדי העורות שמשליכים המים המטונפים שלהם בחוצות לפני פתחי ביתם….. ועל זה שונאים היונים כל היהודים בין טוב ובין רע כי מכבידים לעולם עליהם ומכים בחוצות ומעבידים אותם בפרך.”

سارے یہودی شہر سے باہر آباد ہیں۔ کسی یہودی کو گھڑ سواری کی اجازت نہیں، بجز ربی شلمہ مصری کے جو بادشاہ کے طبیب خاص ہیں اور ان کی ذات سے وہاں رہنے والے یہودیوں کو بڑی راحت میسر ہے۔ ان کی حالت بہت خستہ ہے اور وہ چمڑوں کے کاریگر یعنی دبّاغوں کی نفرت کا مستقل ہدف ہیں۔ یہ لوگ ان یہودیوں کے گھروں کے دروازوں اور راستوں پر گندا پانی پھینک دیتے ہیں۔ یونانیوں کو بھی بلا تفریق ہر یہودی سے سخت نفرت ہے، وہ انھیں ہمیشہ مارتے پیٹتے رہتے ہیں اور ان سے سخت بیگار لیتے ہیں۔([29])

گذشتہ صدی میں جنیزا سے حاصل شدہ رسالے اور خطوط وغیرہ شائع ہوئے تو خوش قسمتی سے ان میں عہد اسلامی کے ایک غاؤن کا خط بھی موجود تھا۔ اس خط میں غاؤن (غاؤن کی تفصیل نیچے آرہی ہے)ایک مستفتی کے جواب میں لکھتا ہے:([30])

"The new [Government has acquired possession] over the whole land and none can come and say, this land has mine…. for the victorious Government has acquired absolute possession … These Muslims are most solicitous for our good and protect us to high degree.”

عباسی خلیفہ المکتفی باللہ نے تو یہودی رئیس الجالوت کو اپنی برادری سے محصولات جمع کرنے کی اجازت دے رکھی تھی۔ ان محصولات کی فقط ایک مختص رقم ہی سرکاری خزانہ میں داخل ہوتی۔ خلیفہ مقتدر باللہ نے اپنے عہد خلافت میں ایک فرمان جاری کیا جس کی رو سے متوفی ذمی کا ترکہ اسی کے ہم مذہبوں میں تقسیم کر دیا جاتا تھا۔ مسلمانوں کے عہد خلافت میں یہود کی آبادی بحیرۂ روم کے ارد گرد اور اناطولیہ، گرجستان، آرمینیا سے اردن، شام اور عراق تک پھیلی ہوئی تھی۔ اور اس وسیع خطے پر بسنے والی آبادی کے فقط دو مراکز تھے اور دونوں ہی عراق میں یعنی مسلمانوں کے دار الخلافہ کے پڑوس میں واقع تھے۔

یہودیت کے دو مراکز

1۔ پہلا مرکز مدرسۂ سوٗرا (ישיבת סורא) کہلاتا تھا۔ ربی اریکا (175ء – 247ء) نے 220ء کے آس پاس اس کی بنیاد رکھی اور اسرائيل ہَ‌کوہن اس کے آخری مہتمم رہے۔ ان کی وفات پر صدیوں پرانا یہ مدرسہ بند ہو گیا۔

2۔ دوسرے مرکز کا نام مدرسۂ پومبے دیٖتا (ישיבת פומבדיתא) تھا۔ عالم یہودیت میں اس کے فتاویٰ اور تحقیقات سکۂ رائج الوقت کی مانند متداول تھے۔ صدیوں تک اس مدرسہ کے منتسبین نے یہود کی مذہبی رہنمائی کا فریضہ انجام دیا۔ 220ء کے قریب ربی یہودا بن حزقیال (220ء – 299ء) کے ہاتھوں اس مدرسہ کی بنیاد پڑی اور تقریباً 8 صدیاں گذرنے کے بعد حزقیاہ غاؤن (1038ء میں) اس کے آخری مہتمم ہوئے۔ کہا جاتا ہے کہ حزقیاہ غاؤن کو بنی بویہ کے کسی حاکم نے سخت اذیتیں دے کر موت کے گھاٹ اتار دیا تھا، واللہ اعلم۔

بابل کے ان مراکز علم کے سقوط کے بعد شمالی افریقا، ہسپانیہ، فرانس، جرمنی، اطالیہ اور مشرقی یورپ میں چھوٹے موٹے مدرسے ضرور قائم ہوئے لیکن ان کی حیثیت بین الاقوامی نہیں تھی۔ اس قدر بڑے خطے پر پھیلی ہوئی یہودی آبادی جوں ہی ایک متفقہ مرکزی ادارے سے محروم ہوئی، ان کی اجتماعیت بھی جاتی رہی اور آپس میں مذہبی تنازعات شدت اختیار کرنے لگے۔ مرکزی قیادت رخصت ہوئی تو ہر شخص صاحب الرائے بن بیٹھا۔ دوسری طرف مسلمانوں میں یونانی فلسفہ کے شیوع اور علم کلام کی مضبوط روایت نے علم دوست یہودیوں کو اپنی جانب متوجہ کر لیا تھا جس کے نتیجے میں یہود کے سخت جان مذہبی عقائد میں شگاف رو نما ہونے لگے اور ان میں بھی معتزلہ کا ایک فرقہ پیدا ہو گیا۔ معتزلۂ یہود کا خیال تھا کہ کوہ طور پر حضرت موسیٰ کو فقط الواحِ تورات (לוחות הברית) عطا کی گئی تھی اورزبانی تورات (תורה שבעל פה) ایک بے اصل کہانی ہے۔([31]) چنانچہ وہ زبانی تورات کا سختی سے انکار کرتے ہیں،ان کے نزدیک تلمود کی کوئی تشریعی حیثیت نہیں۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ زبانی تورات یعنی تلمود فقط ہم ایسے انسانوں کے اقوال و ملفوظات اور افکار و تشریحات کا مجموعہ ہے؛ ہمارے لیے تناخ([32]) کافی ہے۔ علاوہ بریں اسلام کی بے غبار اور فطری تعلیمات نے اور اس کی پیہم فتوحات نے بھی یہود کے عوام پر گہرا اثر ڈالا۔ ان حالات نے علمائے یہود کو سخت متفکر اور بے چین کر رکھا تھا۔ چنانچہ وہ اپنے مذہب اور سارے مذہبی ورثہ کی تالیف، ترتیب وتدوین اورتشریح وتفسیر کی جانب متوجہ ہوئے۔ اسلام کی آمد سے قبل کتابیں لکھنے کے لیے کاتب نہیں ملا کرتے تھے، اب اسلامی شہروں میں کاتبوں اور خطاطوں کی فراوانی تھی۔

احبار یہود کے طبقات

مسلمانوں کی فتوحات کا یہ پوراعرصہ احبار یہود کے طبقہ غاؤنیم کا عہدکہلاتا ہے۔ احبارِ یہود کے اب تک کل سات طبقات ہوئے ہیں:

1۔ زوگوٗت  (200 ق م سے عیسوی تقویم کے آغاز تک)

2۔ تنائیم  (آغاز عیسوی تقویم سے تقریباً 200 عیسوی تک)

3۔ امورائیم  (200 عیسوی سے 500 عیسوی تک)

4۔ سَوُورائیم  (500 عیسوی سے 600 عیسوی تک)

5۔ غاؤنیم  (عبرانی تلفظ: گےاونیم، 600 عیسوی سے تقریباً 1100 عیسوی تک)

6۔ رِشونیم یعنی متقدمین  (1100 عیسوی سے 1500 عیسوی تک)

7۔ احرونیم یعنی متاخرین  (1500 عیسوی سے تا دم تحریر)

اسلام کی آمد اور ہجرتِ نبوی سے لے کر قرآن و مصاحفِ قرآن کی جمع آوری، احادیث اور ان کے دفاتر کی تالیف، فقہ اور اصول فقہ کی تدوین اور ان علوم سے متعلق تمام مراجع کی ترتیب و تصنیف کا یہی دور ہے جس میں غاؤنیم کا طبقہ مصروف عمل تھا۔ اسرائیلیات (אגדה) کا بڑا ذخیرہ اسی دوران میں ہمارے ورثہ کا حصہ بنا۔ لیکن عین یہی وہ دور ہے جب یہود بھی اپنے مذہبی متون کی تفسیریں لکھ رہے تھے اور مسلمانوں کے علم کلام کو سامنے رکھ کر اپنے مذہب کی بنیادوں کو مضبوط کر رہے تھے۔ ابھی ان کے درمیان اصول فقہ جیسا کوئی علم وجود میں نہیں آیا تھا۔ مسلمان ہر میدان میں فائق تھے اور قدرتی طور پر غاؤنیم اور عام یہود ان کے حاکمانہ تغلب اور عالمانہ تفوق سے ہر شعبۂ زندگی میں متاثر ہو رہے تھے۔ چنانچہ اس عہد تدوین میں انھوں نے اپنے نظریۂ قانون، اسالیب استدلال، اصول استخراج، فقہی اور قانونی زبان و اصطلاحات غرض ہر سطح پر انھوں نے مسلمانوں کے سرمایۂ علم سے استفادہ کیا۔ اگر اس عہد میں یہود نے ہم سے کوئی فقہی اصطلاح مستعار لے کر اپنی کتابوں ميں استعمال کی اور اسے رواج دیا تویہ کہنے کا کوئی جواز نہیں کہ فلاں لفظ اصلاً مسلمانوں نے یہود سے لیا ہے۔ یہ بڑی بد دیانتی اور بے غیرتی کی بات ہے۔

غاؤنیم کا سب سے اہم کام ان کے وہ فتاویٰ ہیں جنھیں وہ سورا اور پومبے دیتا کے مدرسوں میں بیٹھ کر لکھا کرتے تھے اور جو بڑی تیزی سے مختلف دیار و امصار میں پھیل جاتے۔ ان فتاویٰ کو کوئی منصف مزاج شخص نظر انصاف سے دیکھے تو اسرار عالم صاحب وغیرہ دانش وران کے بودے اعتراضات پر دیدۂ حیراں بن کر رہ جاتا ہے۔ یہاں دوسرے علوم و فنون اور افکار و فلسفہ پر اور بالخصوص یہودی تصوف یعنی قبلہ پر مسلمانوں کے اثرات اور ان کی مثالیں پیش کی جائیں تو مضمون بہت طویل ہو جائے گا۔ چونکہ ہمارے دانشور عموماً فقہ اسلامی کے ورثہ کو نشانہ بناتے ہیں، اس لیے ہم اس ضمن میں فقط گولٹ سیر (Ignác Goldziher) کے ایک مضمون کے حوالہ پر اکتفا کریں گے جس کا عنوان تھا:Über eine Formel in der jüdischen Responsenlitteratur und in den muhammedanischen Fetwâs۔ مضمون اس وقت ہمارے پیش نظر ہے۔ اس میں گولٹ سیر مسلمان فقہا کے فتاویٰ کی زبان سے غاؤنیم کے متعدد فتاویٰ کے متن کا مقابلہ کرنے کے بعد اپنے تاثر کو ان لفظوں میں بیان کرتا ہے:([33])

"Man kann jedoch nicht bezweifeln, dass diese Formeln nicht an biblische Anschauungen anknüpfen, sondern dass sie aus der Technik des muhammedanischen Fetwâwesens übernommen sind, wo sie seit alter Zeit genau an derselben Stelle in derselben Weise gebraucht werden, wie wir dies an den soeben angeführten jüdischen Beispielen erfahren haben.”

اس میں کوئی شک نہیں کہ فتویٰ نویسی (کے اختتامی الفاظ) کا یہ اسلوب ہرگز بائبلی نہیں، بلکہ اسے یقیناً مسلمان فقہا کے فتاویٰ سے اخذ کیا گیا ہے جسے وہ زمانۂ قدیم سے ٹھیک انھی مواقع پر استعمال کرتے آئے ہیں جہاں ہم نے درج بالا مثالوں میں علمائے یہود کو لکھتے دیکھا۔

حیرت ہے کہ ایک مایہ ناز مستشرق کی زبانی اس صریح اعتراف کو ہمارے دانش ور نظر انداز کر جاتے ہیں۔ ہرچند کہ یہ صرف فتویٰ نویسی کے اسلوب کا نمونہ ہے جو ایک معمولی سی بات ہے، لیکن ذرا غور کیجیے کہ جن احبار نے اسلوب تحریر میں فقہا کی پیروی کی تھے، انھوں نے پورے فقہی ذخیرے کی ترتیب و تدوین میں کس درجہ تاثر قبول کیا ہو گا۔ اس وقت یہودی ورثہ پر اسلامی اثرات کی متعدد مثالیں ہمارے سامنے ہیں اور جنھیں پڑھ کر یہ واضح ہو جاتا ہے کہ مسلمانوں کے فقہی سرمایہ پر یہود کا کوئی اثر نہیں، اس کے برعکس ان کا فقہی سرمایہ ہمارے احسانات سے گراں بار ہے۔ یہود کا سب سے پہلا قابل ذکر فقہی کارنامہ اس وقت سامنے آیا تھا جب امام احمد بن حنبل کو اس دنیا سے گذرے دو صدیاں بیت چکی تھیں۔ آخر میں ایک امریکی محقق اور مشہور ماہر یہودیات سوزینا ہیشیل کے مضمون کا چشم کشا اقتباس نذر قارئین ہے جس میں سوزینا نے اِس راز سے پردہ اٹھایا ہے کہ گذشتہ صدی میں فقہ اسلامی کو یہود سے متاثر باور کرانے کی ہمالیائی کوششیں کیوں ہو رہی تھیں۔ ملاحظہ فرمائیے:

"For so many German Jewish thinkers and historians of the nineteenth century, Islam was not only an object of admiration but also a template for presenting Judaism to the European world. Through their studies of the rationality of Islamic law and ethics, their admiration for Islamic monotheism and rejection of anthropomorphism, and their explanations for the rise of Islam and the emergence of the Qur’an within the milieu of rabbinic Judaism, Jews were defending the rational and ethical basis of Judaism’s legal system and the importance of its commitment to monotheism and religious law. By arguing for the overwhelming influence of rabbinic Judaism on Islam’s ideas and religious practices, these Jewish scholars were also providing a substitute for traditional belief in divine revelation: perhaps God had not revealed the Jewish scriptures, but they were powerful enough to have created the three monotheistic religions of the West.”

٭٭٭

تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

[1] ۔ اس مقالہ کا المانی عنوان ہے: Was Hat Muhammad aus dem Judenthume aufgenommen? 1833ء میں پہلی دفعہ شائع ہوا۔ ابراہم گیگر کے بعض مضامین ابن ورّاق نے بھی اپنے مجموعے The Origins of The Koran میں شامل کیے ہیں۔

[2] ۔ چارلس ٹوری کی کتاب The Jewish Foundation of Islam 1933ء میں شائع ہوئی تھی۔

[3] ۔ ویگنر کا یہ مقالہ The American Journal of Legal History کی جلد نمبر 26شمارہ1بابت جنوری1982ء میں Islamic and Talmudic Jurisprudence: The Four Roots of Islamic Law and Their Talmudic Counterparts کے عنوان سے شائع ہوا تھا۔

[4] ۔ مثلاً جدعونلبسن کا مضمون Islamic Influence on Medieval Jewish Law? Sefer Ha’arevuth of Rav Shmuel Ben Hofni Gaon and Its Relationship to Islamic law دیکھیے جو Studia Islamicaکے شمارہ نمبر 73 میں چھپا تھا۔

[5]۔  The Karaites: Influence of Islamic Law on Jewish Law کے عنوان سے یہ مقالہ Islamic Studiesکے شمارہ نمبر 32 بابت 1993ء میں شائع ہوا تھا۔ اقتباس بالا میں عمران           احسن نے جس کتاب کا ذکر کیا ہے، اس سے مراد یعقوب قرقسانی کی الأنوار والمراقب ہے۔

[6]۔ معتزلۂیہود مراد ہیں، جن کا ذکر آگے آرہا ہے۔

[7] ۔ وزیر اعظم کی تقریر کا مکمل متن یہاں دیکھا جا سکتا ہے: פרסום מיוחד: מאחורי הקלעים של משפט אייכמן (خصوصی اشاعت: آئش مان مقدمہ کے پس پردہ)

https://catalog.archives.gov.il/chapter/the-eichmann-trial-behind-the-scenes/

          اور استغاثہ کی تقریر کے لیے دیکھیے רשומות משפט אייכמן (1982ءیروشلم، 1 : 55)

[8]۔ מעצמי אל עצמי، تل ابیب ص 330 (2000ء)

[9]۔ ’’ہلال اخضر ‘‘مشرق وسطیٰ کے اُس ہلال نما خطے کو کہتے ہیں جس میں عراق، شام، لبنان اور فلسطین کے ممالک نیز کویت، ترکی اور ایران کے کچھ حصے شامل ہیں۔

[10]۔ یہود کے نزدیک وہ تمام قومیں عمالقہ میں شامل ہیں جنہیں وہ اپنا سخت دشمن تصور کرتے ہیں،,بالخصوص وہ اقوام جو ان کی جانوں کے در پئے ہیں مثلاً نازی، فلسطینی وغیرہ۔ دیکھیے ایلیٹ ہورووِٹز کی کتاب Reckless Rites: Purim and the Legacy of Jewish Violence۔ اور یہود کا عقیدہ ہے کہ تورات نے انہیں عمالقہ کے مظالم کو ہمیشہ یاد رکھنے، یاد کرتے رہنے اور انھیں سختی سے کچلنے کا حکم دیا ہے۔  (دیکھیے تثنیہ 25 آیت 17 اور 18، خروج 17 آیت 14 اور سموئیل اول 15 آیت 3)

[11]۔ مکمل تقریر اس ربط پر دیکھی جا سکتی ہے:

https://www.daat.ac.il/daat/ezrachut/begin/neum4-2.htm

[12]۔ ملاحظہ فرمائیں جدعون لبسن کا مضمون Islamic Influence on Medieval Jewish Law۔

[13]۔ والے شموت 12: 2

[14]۔ תשובות הרמב”ם سوال نمبر 160

[15]۔  یہ نعوذ باللہ اُس آیت کی طرف اشارہ ہے جس میں یہود کی زبانی عزیر کو ابن اللہ کہا گیا۔ قرآن کی اس آیت کا ایک خاص مفہوم و مدلول ہے جس کی وضاحت کا یہ موقع نہیں۔

[16]۔ بقرہ 187

[17]۔ مِشنا برخوت الف ب

[18]۔ بخاری حدیث نمبر 6987

[19]۔ تلمود برخوت 57 ب: 13

[20]۔ ابو داؤد حدیث نمبر 3367

[21]۔ مشنا باوا مصیعہ 5، 7

[22]۔ جناب اسرار عالم نے سر سید کی بصیرت (اشاعت: 2013ء) کے دو ابواب میں یکے بعد دیگرے جس طرز پر فقہ اسلامی اور ہلخاہ کا تقابل کیا ہے، یہ بعینہ وہی اسلوب ہے جو ہمیں یعقوب نیوسنر کی کتاب Comparing Religions Through Law: Judaism and Islam (اشاعت: 1999ء) میں ملتا ہے۔ اور یعقوب نیوسنر کی کتابوں سے استفادہ کا اعتراف خود اسرار عالم صاحب کی زبانی ملاحظہ فرمائیں:

’’قوم یہود میں اس قبیل کے سینکڑوں زندہ اہل علم میں سے صرف ایک اہل علم کا ذکر کافی ہو گا۔ اور وہ ہیں جے نیوسز (J. Neusner) جو بیسویں صدی کی تیسری دہائی سے اس دم تحریر تک یہودیوں کی تاریخ بابل ثانی (Second Babylon) پر تحقیق کر رہے ہیں اور اس کے فکری اور علمی سرمایوں کو جمع کرنے کی کوشش کر رہے اور ان کے تقریباً پچاس سے زائد جلدوں پر مشتمل کام — جو متعدد پہلوؤں سے متعلق ہے — اب تک شائع ہو چکے ہیں۔ جس کی ہر جلد اپنے موضوع پر علم اور تحقیق کی دنیا کا ایک شاہکار ہے۔ اس عاجز نے نیوسز کی متعدد کتابیں پڑھیں ہیں اور وہ اس کی گواہی دیتا ہے۔‘‘    (معرکۂ دجال اکبر صفحہ 154 – 155)

[23]۔ American Journal of Legal History شمارہ نمبر 26

[24]۔مقالہ بعنوانLegal Comparability and Cultural Identityاز جوزف ڈیوڈ (EJCLمئی 2010ء)

[25]۔ الرد على ابن النغريلة اليهودياز ابن حزم اندلسی صفحہ 47 (قاہرہ، 1960ء)

[26]۔اليهود في الأندلس از محمد بحر عبد المجید صفحہ 94-95  (مصر، 1970ء)

[27]۔تاريخ اليهود في بلاد العرب از اسرائیل و لفنسون صفحہ ی (مصر، 1914ء)

[28]۔ סיפר מסעות از ربی بن یامین صفحہ 55 (یروشلم، 1925ء)

[29]۔  ایضاً صفحہ 21

[30]۔  ناشر نے اصل عبرانی یا یہودی عربی زبان کی عبارت نقل نہیں کی، اس لیے انگریزی فقرہ نقل کرنا پڑا۔

[31]۔  یہاں ہمیں مفسرین کی وہ بحث بھی یاد آتی ہے کہ آیا کوہ طور پر دی جانے والی اُن تختیوں میں صرف چند احکام لکھے ہوئے تھے یا مکمل تورات عطا کی گئی تھی۔ اس سلسلہ کی مفصل بحث تو تفسیر کی کسی بھی کتاب میں دیکھی جا سکتی ہے، البتہ ایک اہم علمی نکتہ کی جانب یہاں اشارہ کرنا مناسب ہو گا۔ ذرا یہود کی متداول تورات اور مسیحیوں کے مروّج عہد نامۂ قدیم کی وہ آیت دیکھیے جس میں الواح عطا کیے جانے کا ذکر ہے:

ויאמר יהוה אל משה עלה אלי ההרה והיה שם ואתנה לך את לחת האבן והתורה והמצוה אשר כתבתי להורתם.

ترجمہ: یہوہ نے موسی سے کہا کہ پہاڑی پر چڑھ کر میرے پاس آؤ اور وہیں ٹھہرو۔ میں تمھیں پتھر کی تختیاں اور شریعت اور احکام عطا کروں گا جنھیں میں نے ان کی ہدایت کے لیے لکھ دیا ہے۔   (خروج 24: 12)

درج بالا آیت سے معلوم ہوتاہے کہ الواح اور شریعت (یعنی تورات) دو مختلف چیزیں ہیں۔ مذکورہ آیت کی تفسیر میں ابن لاخش کا قول نقل کیا گیا  ہے کہ شریعت سے مراد تورات اور احکام سے مراد مشنا ہے۔  (تلمود، براخوت)

دلچسپ بات یہ ہے کہ جب ہم نے سامریوں کی تورات سے مراجعت کی تو وہاں آیت کے مذکورہ متداول متن سے کچھ اختلافات نظر آئے۔ سامریوں کی تورات بالاتفاق یہود کی تحریف سے بڑی حد تک محفوظ رہی ہے۔ حتیٰ کہ سامریوں نے اصل عبرانی رسم الخط (یعنی حضرت موسیٰ کے عہد کے عبرانی رسم الخط)کو بھی اب تک باقی رکھا ہے اور اسی رسم الخط میں ان کی تورات آج تک طبع ہوتی ہے؛ جبکہ یہود نے اسیریِ بابل کے بعد اپنا رسم الخط تبدیل کر دیا تھا اور اس کے بعد تورات کے متن میں بھی بہت سی تحریفیں کی گئیں۔ اب اس فرقہ کے چند سو افراد ہی باقی رہ گئے ہیں۔ سامری تورات کی عبارت ملاحظہ فرمائیں:

ויאמר יהוה אל משה עלה אלי ההרה והוי שם "ואתן” לך את "לוחת האבנים התורה” והמצוה אשר כתבתי להורתם.

اختلاف متن کو واوین کے درمیان لکھ دیا ہے۔ اس عبارت میں لوحوت کی صفت بھی جمع مونث آئی ہے جبکہ متداول متن ميں صفت نہیں، اضافت ہے۔ بعد ازاں سامری تورات میں لوحوت یعنی الواح کے بعد اور تورہ سے پہلے واو عطف بھی موجود نہیں ہے۔ یعنی میں تمھیں الواح: تورات اور احکام دوں گا۔

[32]۔  تورات، متفرق کتابوں اور مختلف ’’انبیائے صغار‘‘ پر نازل ہونے والی کتابوں کا مجموعہ تناخ کہلاتا ہے۔

[33]۔ محولہ بالا مضمون 1898ء میں ZDMGکی جلد نمبر 52 شمارہ نمبر 4 میں شائع ہوا تھا۔

ڈاؤن لوڈ کریں

پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل