FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

فہرست مضامین

غايۃ المريد

فی شرح

کتاب التوحید

 

حصہ دوم

 

               اصل: محمد بن عبد الوہاب

               شرح: صالح بن عبد العزيز بن محمد بن إبراہيم

 

 

 

باب:24 : جادو کی بعض اقسام کا بیان (1)

 

قبیصہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایا:

(إِنَّ الْعِيَافَۃ، وَالطَّرْقَ، وَالطِّيَرَۃ مِنَ الجِبْتِ) (سنن ابی داود، الکھانۃ والتطیر، باب فی الخط وزجر الطیر، ح:3907)

’’پرندوں کو اڑا کر فال لینا، زمین پر لکیریں کھینچنا (علم رمل)اور کسی چیز کو دیکھ کر بد فالی (بد شگونی)لینا، یہ سب جادو کی اقسام ہیں۔‘‘

عوف کہتے ہیں ’’الْعِيَافَۃ‘‘سے مراد ہے پرندوں کا اڑا کر فال لینا، اور’’وَالطَّرْقَ‘‘سے زمین پر لکیریں کھینچنا مراد ہے۔ یہ علم آج کل ’’علم رمل‘‘ کہلاتا ہے۔ (2)

حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں : شیطانی آہ و بکاء اور چیخ پکار ’’جبت‘‘ ہے۔ (3)

عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایا:

(مَنِ اقْتَبَسَ شُعْبَۃ مِّنَ النُّجُومِ، فَقَدِ اقْتَبَسَ شُعْبَۃ مِّنَ السِّحْرِ زَادَ مَا زَادَ) (سنن ابی داود، الکھانۃ و الطیر، باب فی النجوم، ح:3905)

’’جس نے علم نجوم کا کچھ حصہ سیکھا، اس نے اسی قدر جادو سیکھا۔ جتنا زیادہ سیکھتا جائے، اس کی وجہ سے گناہ میں اتنا ہی اضافہ ہوتا جائے گا۔‘‘ (4)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :

(مَنْ عَقَدَ عُقْدَۃ، ثُمَّ نَفَثَ فِيهَا فَقَدْ سَحَرَ، وَمَنْ سَحَرَ فَقَدْ أَشْرَكَ، وَمَنْ تَعَلَّقَ شَيْئًا وُكِلَ إِلَيْهِ)سنن النسائی، تحریم الدم، باب الحکم فی السحرۃ، ح:3084)

’’جس نے گرہ باندھ کر اس پر پھونک ماری، تحقیق اس نے جادو کیا۔ اور جس نے جادو کیا وہ شرک کا مرتکب ہوا۔ اور جو کوئی (اپنے گلے، ہاتھ، بازو وغیرہ پر)کوئی چیز (باندھے یا) لٹکائے تو اسے اسی کے سپرد کر دیا جاتا ہے۔‘‘ (5)

ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایا:

(أَلَا هَلْ أُنَبِّئُكُمْ مَا الْعَضْهُ؟ هِيَ النَّمِيمَۃ الْقَالَۃ بَيْنَ النَّاسِ) (صحیح مسلم، البر والصلۃ ولادب، باب تحریم النمیمۃ ح:2606 و مسند احمد، 1/ 437)

’’کیا میں تمہیں نہ بتلاؤں کہ جادو کیا ہے ؟ (پھر خود ہی فرمایا)وہ چغلی ہے یعنی لوگوں کے درمیان (فتنہ اور لڑائی)کی باتیں کرنا۔‘‘ (6)

عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہم سے روایت ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایا:

((إِنَّ مِنَ الْبَيَانِ لَسِحْرًا))صحیح البخاری، النکاح، باب الخطبۃ، ح:5146، 5767 و مسند احمد:2/ 16، 59، 63، 94)

’’کسی کسی کے بیان کرنے میں بھی جادو کی سی تاثیر ہوتی ہے۔‘‘ (7)

 

مسائل:

1) اس باب سے معلوم ہوا کہ ’’الْعِيَافَۃ‘‘، ’’الطَّرْقَ‘‘ اور ’’الطِّيَرَۃ‘‘سب جادو کی اقسام ہیں۔

2) ان تینوں کا معنی و مفہوم بھی خوب واضح ہوا۔

3) علم نجوم جادو ہی کی ایک صورت ہے۔

4) گرہ لگانا اور پھونک مارنا بھی جادو کی ایک شکلیں ہیں۔

5) چغلی بھی جادو کی ایک صورت ہے۔

6) بعض لوگوں کا فصیح و بلیغ کلام، بسا اوقات جادو کی سی تاثیر رکھتا ہے۔

 

نوٹ:

(1) لغوی طور پر جادو لفظ عام ہے۔ جس طرح اس میں یہ خاص مفہوم شامل ہے کہ جادو گر اپنی خدمت کے لیے شیاطین سے مدد کا خواستگار اور ان کی عبادت کر کے ان کے تقرب کا خواہش مند ہوتا ہے، اسی طرح نبی ﷺ نے اس کے علاوہ بعض ایسی چیزوں کو بھی جادو ہی کہا ہے جو در حقیقت جادو نہیں اور نہ ہی ان پر جادو والے حکم کا اطلاق ہوتا ہے۔ گویا اس کے درجات مختلف ہیں۔ جادو کی ان اقسام میں فرق جاننا انتہائی ضروری ہے۔ جادو کی انہی اقسام میں تفریق کے لیے امام (مصنف)رحمۃ اللہ علیہ نے یہ باب قائم کیا ہے۔

(2) ابو داود، الکھانۃ و التطیر، باب فی الخط و زجر الطیر، حدیث:3908

(3) (مسند احمد، 3/ 477، 5/ 70) عوف رحمہ اللہ کی تفسیر کے مطابق ’’عیافہ‘‘ کا معنی پرندوں کو اڑا کر فال لینا ہے جیسا کہ مشرکین مکہ کیا کرتے تھے کہ جب کوئی آدمی کی طرف جانا چاہتا تو پرندے کو اڑا کر دیکھتا کہ وہ اڑ کر کس طرف جاتا ہے اور جس طرف وہ جانا چاہتا پرندے کو اسی طرف اڑانے کی کوشش کرتا۔ اگر تو وہ پرندہ اسی طرف اڑ کر جاتا تو وہ آدمی یہ سمجھتا کہ اس کا کوئی کام بخوبی انجام پائے گا اور اگر پرندہ مخالف سمت میں اڑ کر جاتا تو وہ سمجھتا کہ وہ اپنے مقصد میں ناکام ہو گا۔ اسی عمل اور طریقے سے وہ لوگ مستقبل کے بارے میں بھی شگون لیتے کہ آئندہ حالات خوشگوار ہوں گے یا پریشان کن۔

اسے جبت یعنی جادو کی ایک قسم کہا گیا ہے کیونکہ پیچھے گزر چکا ہے کہ جبت ہر اس گھٹیا اور رذیل چیز کو کہا جاتا ہے جو کسی کو حق سے روک اور ہٹا دے۔ چونکہ عیافہ بھی کسی کام سے رک جانے یا کر لینے کا سبب ہے اور جس طرح جادو اپنے اندر ایک خاص اثر رکھتا ہے اسی طرح عیافہ کا عمل بھی کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے میں اثر انداز ہوتا ہے اس لیے اسے جبت اور جادو کی قسم کہا گیا ہے۔

’’الطیرۃ‘‘کا مفہوم عیافہ سے وسیع ہے کیونکہ عیافہ کے بہت سے معانی میں سے عوف رحمہ اللہ کے مقرر کردہ ایک معنی کے مطابق یہ عمل صرف پرندوں کے ساتھ خاص ہے جبکہ ’’طیرہ‘‘سے ہر وہ چیز مراد ہے جس سے بد فالی اور بد شگونی لی جاتی ہے۔ آئندہ مستقل بحث میں اس کا ذکر ہو گا ان شاء اللہ۔

’’الطرق‘‘کا معنی زمین پر خط کھینچنا ہے۔ کاہن یا شعبدہ باز زمین پر لکیریں کھینچتا ہے پھر ایک ایک یا دو دو لکیروں کو تیزی کے ساتھ ہاتھ سے مٹاتا ہے جو لکیریں باقی رہ جاتی ہیں ان کو دیکھ کر کہتا ہے کہ اس لکیر سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسا ہو گا اور یہ لکیر بتاتی ہے کہ ایسا ہو گا۔ یہ کہانت ہے اور کہانت جادو ہی کی قسم ہے۔

(4) اس سے ثابت ہوا کہ ’’علم نجوم‘‘ جادو کی قسم ہے۔ آئندہ ایک مستقل باب میں بیان ہو گا کہ اللہ تعالی نے ستارے کس لیے پیدا فرمائے ہیں۔

(5) گرہ باندھ کر اس پر پھونک مارنے سے مراد یہ ہے کہ شیاطین سے مدد لینے اور جنات کو حاضر کرنے کے لیے کوئی کلام پڑھ کر اس پر پھونک مارنا، لہذا گرہ پر ہر قسم کی پھونک مارنے کو جادو نہیں کہا جائے گا۔ واضح رہے کہ جب کوئی جادو گر گانٹھ دے کر اس پر پھونک مارتا ہے تو جن اس جادوگر کی خدمت کرتا اور اس پر اثر انداز ہوتا ہے۔ جادوگروں کا خیال ہے کہ جب تک وہ گانٹھ نہ کھلے، جادو کا اثر زائل نہیں ہوسکتا۔ جادوگر جس مقصد کے لیے جادو کرتا ہے وہ اس گانٹھ اور پھونک دونوں کے اجتماع سے حاصل ہوتا ہے۔گانٹھ بسا اوقات بڑی اور واضح ہوتی ہے۔ اور بعض اوقات معمولی اور اس قدر چھوٹی ہوتی ہے کہ بڑی مشکل سے نظر آتی ہے۔ پس جس نے اللہ تعالی کے ساتھ اپنا تعلق جوڑلیا اس کے لیے وہی کافی ہے اور جس نے غیر اللہ کے ساتھ تعلق جوڑا اسے اسی کے حوالے کر دیا جاتا ہے، حالانکہ ہر مخلوق اللہ تعالی ہی کی محتاج ہے اور اللہ تعالی ہی فضل و انعام کرنے والا ہے،

جیسا کہ اس نے فرمایا:

(يَا أَيُّهَا النَّاسُ أَنْتُمُ الْفُقَرَاءُ إِلَى اللَّهِ وَاللَّهُ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ (سورۃ فاطر35: 15))

’’لوگو!تم سب اللہ کے محتاج ہو اور صرف وہی اللہ سب سے مستغنی اور تعریفوں کے لائق ہے۔‘‘

(6) پیش نظر حدیث میں لفظ ’’الْعَضْهُ‘‘ وارد ہوا ہے۔ اس کا اطلاق جادو وغیرہ متعدد اشیاء پر ہوتا ہے۔ اس حدیث میں نبی ﷺ نے اس کا معنی ’’چغلی‘‘ بیان فرمایا ہے جس سے لوگوں کے درمیان فتنہ اور لڑائی ہو جائے۔

چغلی اور جادو میں وجہ مشابہت یہ ہے کہ دو دوستوں میں تفریق یا دو دشمنوں کے درمیان محبت کرنے میں جادو کی خاص تاثیر ہوتی ہے جو انتہائی مخفی اور پوشیدہ ہوتی ہے۔ اسی طرح چغل خور بھی اپنی بات کے ذریعہ دوستوں کے درمیان تفریق اور دوریاں پیدا کرتا ہے۔

(7) بعض فصیح الفاظ کانوں اور دلوں پر جادو کی طرح اثر کرتے ہیں جس سے انسان حق کو باطل یا باطل کو حق سمجھنے لگتا ہے۔ اس حدیث کی شرح میں اہل علم کے متعدد اقوال ہیں۔ ان میں سے صحیح قول یہ ہے کہ اس حدیث میں جادو کی طرح اثر انداز ہونے والے بیان کی مدح نہیں بلکہ مذمت ہے۔

چونکہ اس باب میں حرام کی مختلف اقسام بیان کی گئی ہیں اس لیے شیخ رحمۃ اللہ علیہ نے اس باب میں یہ حدیث بھی بیان کر دی ہے۔

 

 

باب 25 ۔نجومیوں اور غیب کا دعوی کرنے والوں کا بیان (1)

 

بعض ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن سے روایت ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(مَنْ أَتَى عَرَّافًا فَسَأَلَهُ عَنْ شَيْءٍ، لَمْ تُقْبَلْ لَهُ صَلَاۃ أَرْبَعِينَ يَوْمًا) (صحیح مسلم، السلام، باب تحریم الکھانۃ و اتیان الکھان، ح:2230 دون قولہ فصدقہ فھو عند احمد فی المسند :3/ 68، 5/ 380)

جس نے کسی نجومی کے پاس جا کر کچھ دریافت کیا اور پھر اس کی بتائی ہوئی بات کو سچ سمجھا تو چالیس دن تک اس کی نماز قبول نہ ہو گی۔ (2)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(مَنْ أَتَى كَاهِنًا فَصَدَّقَهُ بِمَا يَقُولُ فَقَدْ كَفَرَ بِمَا أُنْزِلَ عَلى مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ) (سنن ابی داود، الکھانۃ والتطھیر، باب فی الکھان، ح:3904)

’’جس شخص نے کسی کاہن کے پاس جا کر اس کی باتوں کی تصدیق کی تو اس نے اس دین کے ساتھ کفر کیا جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اتارا گیا۔‘‘

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ہی سے روایت ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(مَنْ أَتَى، عَرَّافًا أَوْ كَاهِنًا، فَصَدَّقَهُ بِمَا يَقُولُ، فَقَدْ كَفَرَ بِمَا أُنْزِلَ عَلَى مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ) (مسند احمد: 2/ 429، و المستدرک للحاکم:1/ 8 و سنن الکبری للبیھقی:8/ 135)

’’جس نے کسی نجومی یا کاہن کے پاس جا کر اس کی باتوں کی تصدیق کی تو اس نے اس دین کے ساتھ کفر کیا جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اتارا گیا۔‘‘ (3)

عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(لَيْسَ مِنَّا مَنْ تَطَيَّرَ أَوْ تُطُيِّرَ لَهُ، أَوْ تَكَهَّنَ أَوْ تُكُهِّنَ لَهُ، أَوْ سَحَرَ أَوْ سُحِرَ لَهُ، وَمَنْ أَتَى كَاهِنًا فَصَدَّقَهُ بِمَا يَقُولُ فَقَدْ كَفَرَ بِمَا أُنْزِلَ عَلَى مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ) (مسند البزار، ح:3044 و مجمع الزوائد، الطب، باب فی السحر و الکھانۃ …، ح:8480)

’’وہ شخص ہم میں سے نہیں جو فال نکالے، یا نکلوائے، کہانت کرے یا کرائے، جادو کرے، یا کرائے، اور جس کسی نے کاہن کے پاس جا کر اس کی باتوں کی تصدیق کی تو اس نے اس دین کا انکار کیا جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کیا گیا۔‘‘

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ججججج۔۔۔

اس حدیث کو بزار نے بسند جید روایت کیا ہے۔ جبکہ یہی حدیث، امام الطبرانی نے ’’المعجم الاوسط‘‘ میں ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے۔ اس میں ’’من اتی کاھنا‘‘ سے آخر تک کے الفاظ نہیں ہیں۔ (4)

امام بغوی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ ’’عراف‘‘ وہ ہے جو علامات کی روشنی میں چوری شدہ یا گم شدہ چیز کی نشان دہی یا اسی طرح کے دوسرے امور کی معرفت کا دعوی کرے۔

بعض اہل علم کہتے ہیں کہ ’’عراف‘‘ اور ’’کاہن‘‘ ایک ہی ہوتا ہے یعنی وہ شخص جو مستقبل میں رونما ہونے والے امور کی خبر دیتا ہے۔ بعض نے کہا کہ جو دل کی بات بتائے وہ ’’کاہن‘‘ کہلاتا ہے۔

(1)’’لیس منا‘‘…… ’’وہ شخص ہم میں سے نہیں جو …..‘‘ کے الفاظ اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ مذکورہ تمام اعمال حرام ہیں اور بعض اہل علم کا کہنا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ یہ اعمال کبیرہ گناہوں میں ہیں۔ کاہن کی باتوں کی تصدیق کرنے والے کے متعلق نبی علیہ السلام کا فرمان ہے کہ اس نے دین محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے کفر کیا۔ کیونکہ کاہن کی تصدیق کرنے سے شرک اکبر میں اس کاتعاون پایاجاتا ہے۔ یہ تو اس شخص کے بارے میں وعید ہے جو کاہن کے پاس جا کر اس سے کچھ دریافت کرے۔ رہا خود کاہن ! تو اس کے متعلق ذکر کیا جاچکاہے کہ وہ شرک اکبر کامرتکب ہوتا ہے۔

ابو العباس امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ’’عراف‘‘ ایک جامع لفظ ہے جس کا اطلاق ’’ کاہن، نجومی، رمال‘‘ اور اس قسم کے تمام لوگوں پر ہوتا ہے۔ جو اپنے اپنے طریقوں سے بعض امور و واقعات کی خبر دیتے ہیں۔ (5)

عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں۔

جو لوگ حروف ابجد لکھ کر حساب کرتے اور نجوم (ستاروں)سے رہنمائی لیتے ہیں میرے خیال میں ان کے لیے اللہ تعالی کے ہاں آخرت میں کچھ نہیں۔ (6)

 

مسائل:

1) اس بحث سے معلوم ہوا کہ قرآن پر ایمان اور کاہنوں کی تصدیق یہ دونوں چیزیں ایک دوسرے کی متضاد ہیں ، اس لیے یہ ایک دل میں جمع نہیں ہو سکتیں۔

2) اس باب میں یہ صراحت بھی ہے کہ کاہن کی تصدیق کرنا کفر ہے۔

3) کہانت کروانے والے۔

4) فال نکلوانے والے۔

5) اور جادو کروانے والے کا حکم بھی معلوم ہو گیا کہ وہ مسلمانوں میں سے نہیں ہیں۔

6) حروف ابجد لکھ کر حساب کرنے والوں کی مذمت بھی بیان ہوئی ہے۔

7) نیز اس باب میں ’’کاہن‘‘ اور ’’عراف‘‘ کے مانین فرق کی وضاحت کی گئی ہے۔

 

نوٹ:

(1) کہانت یعنی غیب کی خبریں جاننے کا دعوی کرنا اور لوگوں کو غیب کی خبریں دینا توحید کے منافی ہے۔کاہن در حقیقت مشرک ہوتا ہے۔ کیونکہ وہ جنات کی عبادت کرکے، ان کا تقرب اور خوشنودی حاصل کر کے ان کی خدمات حاصل کرتا ہے جس کے نتیجے میں وہ اسے بعض پوشیدہ اور مخفی باتیں بتاجاتے ہیں۔ قبل از اسلام بنیادی طور پر کاہن وہ ہوتے تھے جن کے متعلق لوگوں کا اعتقاد ہوتا کہ وہ نیک اور اللہ تعالی کے ولی ہیں اور مستقبل میں ، زمین پر یا کسی کے ساتھ جو امور پیش آنے والے ہیں وہ ان سے واقف ہیں۔ اس لیے لوگ ان کاہنوں سے ڈر کر ان کی خوب تعظیم کیا کرتے تھے۔

اس کی اصل حقیقت یوں ہے کہ جنات، چوری چھپے، فرشتوں کی آپس میں ہونے والی گفتگو سن کر ان کاہنوں اور نجومیوں کو آکر بتاجاتے۔ اس کی تین صورتیں ہوتی تھیں :

(الف)            نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعث سے قبل ایسا بکثرت ہوتا کہ جنات، فرشتوں کی آپس میں ہونے والی گفتگو سن لیتے۔

(ب)  نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد کوئی جن، فرشتوں کی باتین نہ سن سکا۔ اگر کبھی شاذوناذر ایسا ہوا بھی تو وہ اللہ کی وحی کے ماسواان کی آپس کی ہونے والی عام گفتگو ہی سن سکا۔

(ج) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد جنات کے لیے فرشتوں کی گفتگو سننے کے مواقع دوبارہ پیدا ہو گئے مگر پہلے کی مانند کثرت سے نہیں ، کیونکہ مختلف شہاب ثاقبوں کے ذریعے آسمان کی خوب حفاظت کر دی گئی۔‘‘کاہن‘‘ کو ’’عراف‘‘، رمال‘‘ اور ’’منجم‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔

(2) شارحین نے اس حدیث کی شرح میں لکھا ہے کہ لفظ ’’فصدقہ‘‘ (اس کی بات کو سچ سمجھا) صحیح مسلم میں نہیں بلکہ مسند احمد میں ہے۔ چونکہ دونوں کی روایت ایک ہی ہے۔ اس لیے مصنف رحمۃ اللہ علیہ نے اہل علم کے طریقہ کے مطابق ایک کے الفاظ کو دوسرے کی طرف منسوب کر دیا۔

نماز کی عدم مقبولیت کا مفہوم : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نجومیوں کے پاس جا کر ان سے احوال دریافت کرنا، ان کی باتوں کو سچ جاننا اتنا بڑا جرم ہے کہ چالیس دن تک ایسے شخص کی نماز قبول نہیں ہوتی۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ نماز ادا کرے تو اس کی طرف سے ادا تو ہو جائے گی مگر اسے اس کا ثواب نہیں ملے گا۔ اور اس پر ان نمازوں کی قضا بھی واجب نہیں کیونکہ نجومی کے پاس جا کر اس سے احوال دریافت کرنے کا گناہ چالیس دنوں کی نمازوں کے ثواب کے برابر ہے اور یہ گناہ اس ثواب کو مٹا ڈالتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ نجومی سے احوال دریافت کرنے والا اس کی باتوں کی تصدیق کرے یا نہ کرے، وہ بہر صورت گناہ گار ہے۔

(3) اس کی وجہ یہ ہے کہ کاہن، جادوگر، اور نجومی جھوٹ بولتے ہیں ، سچ نہیں کہتے۔ یہ کبھی فلاح نہیں پائیں گے۔اس حدیث کا صحیح مفہوم یہ ہے کہ اس میں ’’کفر سے مراد، ملت محمدیہ علی صلاۃ التسلیم سے خارج نہیں بلکہ مخص گناہ مراد ہے۔‘‘ (و اللہ اعلم)

(4)    ’’لیس منا‘‘…… ’’وہ شخص ہم میں سے نہیں جو …..‘‘ کے الفاظ اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ مذکورہ تمام اعمال حرام ہیں اور بعض اہل علم کا کہنا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ یہ اعمال کبیرہ گناہوں میں ہیں۔ کاہن کی باتوں کی تصدیق کرنے والے کے متعلق نبی علیہ السلام کا فرمان ہے کہ اس نے دین محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے کفر کیا۔ کیونکہ کاہن کی تصدیق کرنے سے شرک اکبر میں اس کاتعاون پایاجاتا ہے۔ یہ تو اس شخص کے بارے میں وعید ہے جو کاہن کے پاس جا کر اس سے کچھ دریافت کرے۔ رہا خود کاہن ! تو اس کے متعلق ذکر کیا جاچکاہے کہ وہ شرک اکبر کامرتکب ہوتا ہے۔

(5) فتاوی ابن تیمیہ:173/35 کاہن بات کرتے اور بتاتے وقت یوں اظہار کرتا ہے گویا وہ یہ باتیں اپنے علم کی بنیادپر کہہ رہا ہے۔ اس سے سامع دھوکا کھاجاتا ہے، حالانکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا بلکہ اسے یہ علم جنات سے حاصل ہوتا ہے۔ مگر کمزور عقیدہ کے لوگ سمجھتے ہیں کہ ان کا ہنوں کے پاس خصوصی علم اور فن ہے اور وہ اللہ تعالی کے ولی ہیں۔ اس لیے وہ مستقبل کے احوال سے واقف ہیں۔

(6) مصنف عبد الرزاق :26 و السنن الکبری للبیھقی:139/8

 

 

باب 26۔جادو ٹونے کے ذریعے جادو کا علاج کرنے کی ممانعت (1)

 

جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ’’نشرۃ‘‘ یعنی جادو کے ذریعہ جادو کے علاج کے بابت دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا:

(هِيَ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ) (مسند احمد بسند جید:3/ 293 وسنن ابی داود، الطب، باب فی النشرۃ، ح:3868)

’’یہ شیطانی عمل ہے۔‘‘

امام ابوداود رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں ، امام احمد رحتہ اللہ علیہ سے یہی مسئلہ پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا:

’’عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ان سب کاموں کو ناجائز کہتے تھے۔‘‘ (2)

صحیح بخاری میں ہے کہ قتادہ رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں میں نے ابن مسیب رحمہ اللہ علیہ سے دریافت کیا کہ اگر کسی پر جادو کا اثر ہو یا کوئی ایسا ٹونا جس کے سبب وہ اپنی بیوی کے قریب نہ آسکتا ہو تو کیا اس کا دفعیہ کرنا یا اس کو باطل کرنے کے لیے کلام استعمال کرنا درست ہے ؟ انہوں نے جواب دیا: ’’اس میں کوئی حرج نہیں کیونکہ اس سے پڑھنے والے کا مقصود اصلاح ہے، نفع مند اور مفید شے کے استعمال کی ممانعت نہیں۔ (3)

حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ’’جادو گر ہی جادو کو (غیر شرعی طریقے سے)زائل کرسکتا ہے۔‘‘ (4)

امام ابن قیم رحتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ سحرزدہ سے جادو کو زائل کرنا ’’نشرۃ‘‘ کہلاتا ہے۔ اس کی دو قسمیں ہیں :

ایک قسم تو یہ ہے کہ جادو کو جادو کے ذریعہ زائل کیا جائے۔ یہ ناجائز اور شیطانی عمل ہے۔ اس صورت میں جادو کرنے کے لیے اس کے پسندیدہ کام کرتے ہیں اور وہ ایسے امور بجا لاتے ہیں کہ شیطان خوش ہو کر سحر زدہ سے اپنا اثر ہٹا لیتا ہے۔ حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ کا یہ قول اسی معنی پر محمول کیا جائے گا۔ سحر زدہ سے جادو کا اثر زائل کرنے کی دوسری صورت یہ ہے کہ دم، تعوذات، ادویات اور جائز و مباح ادعیہ کے ساتھ اس کا علاج کیا جائے۔ یہ بلاشبہ جائز ہے۔ (5)

 

مسائل:

1) اس باب سے ثابت ہوا کہ جادو کے ذریعے جادو کا علاج کرنا منع ہے۔

2) اس باب میں وضاحت کے ساتھ جائز اور ناجائز علاج کا بیان کیا گیا ہے جس سے تمام اشکالات اور شبہات دور ہوجاتے ہیں۔

 

نوٹ:

(1) جس شخص پر جادو کا اثر ہو، اس کا علاج کرنے کو ’’النشرۃ‘‘ یعنی جادو اتارنا کہتے ہیں۔

اس کی دو قسمیں ہیں : جائز اور ناجائز

اگر مریض کے کسی عضو پر جادو کا اثر ہو، اس کا علاج قرآن کریم، ادعیہ مسنونہ، اور اطباء کی دواؤں سے کیا جائے تو یہ جائز ہے۔

’’نشرہ ممنوعہ‘‘ یعنی جادو کا ناجائز علاج یہ ہے کہ جادو کے ذریعہ جادو کا علاج کیا جائے اور اس کا اثر زائل کیا جائے۔

ظاہر ہے کہ علاج کرنے والا بھی جادو گر ہی ہو گاجو اس سلسلہ میں جنات کی طرف رجوع کرے گا، ان سے مدد مانگے گا اور فریاد کرے گا کہ وہ جادو کرنے والے جنات کے جادو کا اثر ختم کریں لہذا یہ شرک ہے۔

حدیث ہے : (لَا يَحُلُّ السِّحْرَ إِلَّا سَاحِرٌ)کہ جادو کو (غیر شرعی طریقہ سے) جادو گر ہی زائل کرسکتا ہے۔

(2) یعنی قرآنی تعویذات کے ذریعہ جادو کا علاج کرنے کو بھی انہوں نے ناجائز کہا ہے۔لیکن اگر گلے میں تعویذات لٹکائے بغیر محض آیات و ادعیہ پڑھ کر اور پھونکنے سے علاج کیا جائے تو ابن مسعود رضی اللہ عنہ اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ اسے جائز کہتے ہیں کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دم کیا اور اس کی اجازت بھی دی ہے۔

(3) (صحیح بخاری، الطب، باب ھل یستخرج السحر، 49 (تعلیقا)) ابن مسیب رحمۃ اللہ علیہ کا مقصود یہ ہے کہ جادو کا جو علاج جائز کلمات، ادعیہ مسنونہ، قرآنی آیات اور مباح دوا کے ذریعے کیا جائے، وہ درست ہے۔ اس کی کوئی ممانعت نہیں۔ مگر جادو کا علاج جادو کے ذریعے کرنے کی اجازت ابن مسیب رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ قطعاً نہیں دیتے۔

خلاصہ یہ کہ جادو، شرک کے ذریعے مؤثر اور اسی سے زائل بھی ہو جاتا ہے۔ لہذا جادو کا علاج جادو کے ذریعے کرنے کی قطعاً اجازت نہیں۔ البتہ جائز شرعی دم کے ذریعے جادو کا اثر ختم کیا جا سکتا ہے۔

(4) (فتح الباری، 287/10)

(5) زاد المعاد 124/4، 181

 

 

باب 27۔ بد  فالی اور بد شگونی (1)

 

اللہ تعالی کا ارشاد ہے :

(أَلَا إِنَّمَا طَائِرُهُمْ عِنْدَ اللَّهِ وَلَكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُونَ (سورۃ الأعراف7: 131))

’’خبردار ! ان کی بد شگونی (نحوست)اللہ کے ہاں مقدر ہے لیکن ان میں سے اکثر نہیں جانتے۔ (2)

نیز اللہ تعالی کا ارشاد ہے :

(قَالُوا طَائِرُكُمْ مَعَكُمْ أَئِنْ ذُكِّرْتُمْ بَلْ أَنْتُمْ قَوْمٌ مُسْرِفُونَ (سورۃ يس36: 19))

رسولوں نے کہا: تمہاری نحوست تمہارے ہی ساتھ ہے۔ کیا (تم یہ باتیں) اس لیے کرتے ہو کہ تمہیں نصیحت کی گئی ہے ؟ بلکہ (حقیقت تو یہ ہے کہ)تم لوگ حد سے تجاوز کرچکے ہو۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(لاَ عَدْوَى وَلاَ طِيَرَۃ، وَلاَ هَامَۃ وَلاَ صَفَرَ،) (صحیح البخاری، الطب، باب لاھامۃ، ح:5757 و صحیح مسلم، السلام، باب لا عدوی ولا طیرۃ ولا ھامۃ ولا صفر، ولا نوء ولا غول، ح:2220، زاد مسلم: ’’ولا نوء ولا غول‘‘)

’’کوئی بیماری متعدی نہیں ، بد فالی اور بد شگونی کی بھی کچھ حقیقت نہیں۔ نہ الو کا بولنا (کوئی برا اثر رکھتا)ہے اور نہ ہی ماہ صفر (منحوس)ہے۔‘‘ (3)

صحیح مسلم کی روایت میں یہ بھی ہے : ’’ستاروں کی تاثیر کا عقیدہ بھی بے اصل ہے اور بھوتوں کا بھی کوئی وجود نہیں۔‘‘

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(لاَ عَدْوَى وَلاَ طِيَرَۃ، وَيُعْجِبُنِي الفَأْلُ قَالُوا: وَمَا الفَأْلُ؟ قَالَ: كَلِمَۃ طَيِّبَۃ) (صحیح البخاری، الطب، باب لا عدوی، ح: 5776 و صحیح مسلم، السلام، باب الطیرۃ والفال ح:2224)

کوئی بیماری متعدی نہیں۔ نہ بد فالی و بد شگونی کی کچھ حقیقت ہے البتہ مجھے فال پسند ہے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کی : فال سے کیا مراد ہے ؟ آپ نے فرمایا: عمدہ اور بہترین بات (سن کر حسن انجام کی امید رکھنا)۔ (4)

عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،

” رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بد فالی اور بد شگونی کا تذکرہ ہوا تو آپ نے فرمایا ان سب سے بہتر فال ہے اور یہ کسی مسلمان کو اس کے مقصودسے روک نہ دے۔ چنانچہ جب کوئی شخص ناپسندیدہ چیز دیکھے تو یہ دعا کرے :

( اللَّهُمَّ لَا يَأْتِي بِالْحَسَنَاتِ إِلَّا أَنْتَ، وَلَا يَدْفَعُ السَّيِّئَاتِ إِلَّا أَنْتَ، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃ إِلَّا بِكَ) (سنن ابی داود، الکھانۃ و التطیر، باب فی الطیرۃ، ح:3919)

’’یا اللہ! تیرے سوا کوئی بھلائیاں لا سکتا ہے نہ کوئی برائیوں کو دور کرسکتاہے۔ اور تیری توفیق کے بغیر ہم میں بھلائی کی طاقت ہے نہ برائی سے بچنے کی ہمت۔‘‘ (5)

عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(الطِّيَرَۃ شِرْكٌ الطِّيَرَۃ شِرْكٌ وَمَا مِنَّا إِلَّا وَلَكِنَّ اللَّهَ يُذْهِبُهُ بِالتَّوَكُّلِ) (سنن ابی داود، الکھانۃ والطیرۃ، باب فی التطیر، ح:3910 و جامع الترمذی، السیر، باب ما جاء فی الطیرۃ، ح:1614)

’’بد فالی شرک ہے، بد شگونی شرک ہے، اور ہم میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جسے (بتقاضائے بشریت)ایسا وہم نہ ہوتا ہو مگر اللہ رب العزت توکل کی وجہ سے اس کو ہم سے رفع فرمادیتا ہے۔‘‘ (6)

عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے مروی ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’جو شخض اپنے کسی کام سے بد فالی کی بنا پر رکا اس نے شرک کیا۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے دریافت کیا اس کا کفارہ کیا ہے ؟

آپ نے فرمایا:اس کا کفارہ یہ دعا ہے :

(اَللَّهُمَّ لاَخَيْرَ إِلاَّ خَيْرُكَ، وَلاَطَيْرَ إِلاَّ طَيْرُكَ، وَلاَ إِلهَ غَيْرُكَ) (مسند احمد :2/ 220)

’’یا اللہ ! تیری بھلائی کے علاوہ کوئی بھلائی نہیں۔ اور تیرے شگون کے علاوہ کوئی شگون نہیں۔ اور تیرے سوا کوئی معبود نہیں ‘‘۔ (7)

فضل بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

( إِنَّمَا الطِّيَرَۃ مَا أَمْضَاكَ، أَوْ رَدَّكَ) (مسند احمد : 1/ 213)

’’بد شگونی وہ ہے جو تجھے کسی کام کے کرنے پر آمادہ کرے یا اس سے روک دے۔‘‘

 

مسائل:

1) اس باب میں سورۃ الاعراف کی آیت 131 اور سورۃ یس کی آیت 19 کی تفسیر اور ان کا مفہوم بیان ہوا ہے۔

2) اس باب کی احادیث میں امراض کے متعدی ہونے کی نفی ہے۔

3) اس میں بد فالی کی نفی بھی ہے۔

4) اور الو کی آواز سے بد فالی لینے کی ممانعت ہے۔

5) اور ماہ صفر کی نحوست کے عقیدہ کی بھی نفی ہے۔

6) اس تفصیل سے ثابت ہوا کہ نیک فالی منع نہیں بلکہ مستحب ہے۔

7) فال کے مفہوم کی بھی وضاحت ہوئی۔

8) یہ بھی ثابت ہوا کہ اگر بادل نخواستہ بد فالی کے وساوس اور خیالات دل میں پیدا ہو جائیں تو وہ مضر نہیں بلکہ اللہ تعالی پر توکل اور اعتماد کی وجہ سے ختم ہو جاتے ہیں۔

9) جس شخص کے دل میں بد فالی کے وساوس پیدا ہو جائیں وہ ان کو دور کرنے کے لیے ان احادیث میں بیان شدہ دعائیں پڑھ لیا کرے۔

10) اس بات کی بھی صراحت ہو گئی کہ بد فالی لینا شرک ہے۔

11) نیز اس بحث سے مذموم بد فالی کی بھی وضاحت ہوتی ہے۔

 

نوٹ:

(1) یعنی کسی جانو یا پرندے یا اس کی کسی حرکت کو دیکھ کر اپنی کامیابی یا ناکامی پر بد فالی اور بد شگونی لینا یہ بھی توحید کے منافی اور شرک ہے۔

(2) یعنی انہیں کوئی فائدہ یا نقصان پہنچنا اللہ تعالی کے ہاں مقدر ہے۔ کوئی چیز ان کے لیے برا یا نیک شگون نہیں رکھتی۔ جانوروں سے بد فالی اور بد شگونی لینا انبیاء و رسل کے دشمن مشرکین کی مذموم عادت ہے۔ اہل ایمان اپنے تمام امور کو اللہ تعالی کے سپرد کرتے ہیں۔

(3) یعنی کوئی بیماری ازخود متعدی نہیں ہوتی بلکہ اگر کسی بیماری کا اثر دوسرے تک پہنچتا ہے تو محض اللہ عزوجل کے اذن اور حکم ہی سے۔ دورجاہلیت میں لوگوں کا یہی اعتقاد تھا کہ بیماری طبعی طور پر خود اثر انداز ہوتی ہے۔ اللہ تعالی نے اس اعتقاد کو باطل قرار دیا۔ اسی طرح بد فالی اور بد شگونی کی بھی کوئی حقیقت نہیں بلکہ یہ ایک دلی وہم ہوتا ہے ورنہ اللہ کی قضاء اور تقدیر میں اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔

(4) فال یعنی نیک شگونی میں اللہ تعالی پر حسن ظن ہوتا ہے جبکہ بد فالی میں اللہ تعالی پر بدگمانی کی جاتی ہے۔ اس لیے فال یعنی نیک شگونی ممدوح ہے اور بد فالی مذموم۔

(5) ’’الطیرۃ‘‘ (بد شگونی و بدفالی) لفظ عام ہے۔ اس لفظ میں جہاں بد شگونی پر مشتمل اقوال شامل ہیں وہاں ایسے اعمال بھی اسی کے زمرے سے ہیں جن سے بد شگونی لی جاتی ہے۔ جبکہ انسان کو اپنے معاملات میں نیک فالی سے کام لینا چاہئے کیونکہ نیک فالی سے انسان کا دل فراخ رہتا اور شیطان کے وسوسے سے پیدا ہونے والی دلی تنگی دور ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب انسان اپنے دل میں نیک فالی پیدا کر لیتا ہے تو پھر شیطان کے وسوسے اس کے دل پر کوئی اثر نہیں کرسکتے۔

(6) بد شگونی و بد فالی لینا شرک اصغر ہے۔ بسا اورقات ایک مسلمان و موحد آدمی کے دل میں بھی بد شگونی کا وسوسہ پیدا ہو جاتا ہے۔ یہ بعید ازامکان نہیں۔ لیکن چونکہ بندۂ مومن کا اللہ پر توکل اور بھروسہ ہوتا ہے اس لیے اسی توکل کی بنا پر اللہ عزوجل اس وسواس کو دفع کرڈالتے ہیں۔

(7) بد شگونی کے شرک ہونے کا ضابظہ اور اصول یہ ہے کہ جب آدمی کے دل میں بد شگونی کا وسوسہ پیدا ہو اور وہ اس بد شگونی کی بنا پر اپنے کام سے رک جائے تب اس کا یہ عمل شرک ٹھرے گا ورنہ محض وسوسہ پیدا ہونے سے انسان شرک کا مرتکب نہ ہو گا۔

(اَللَّهُمَّ لاَخَيْرَ إِلاَّ خَيْرُكَ…… کا مطلب یہ ہے کہ اے اللہ ! مجھے وہی خیر اور بھلائی مل سکتی ہے جس کا تونے فیصلہ کر رکھا ہے اور وہی کچھ حاصل ہو سکتا ہے جو تونے میرے مقدر میں لکھ دیا ہے۔ کیونکہ غیب کے سارے علم تیرے ہی پاس ہیں۔

 

 

 

باب 28علم نجوم کی شرعی حیثیت (1)

 

صحیح بخاری میں قتادہ رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے کہ اللہ تعالی نے ان ستاروں کو تین مقاصد کے لیے پیدا کیا ہے :

1) آسمان کی زینت کے لیے،

2) شیاطین کو مارنے اور بھگانے کے لیے،

3) بحروبر میں راہ معلوم کرنے کے لیے۔

جو شخض ان کے علاوہ کچھ اور سمجھتا ہے اس نے غلطی کی اور ہر قسم کی بھلائی سے خود کو محروم کر لیا۔ اور اس نے ایسے امر کا تکلف کیا جس کا اسے کچھ علم نہیں۔ (2)

حرب رحمۃ اللہ علیہ کا بیان ہے :قتادہ رحمۃ اللہ علیہ نے منازل قمر کا علم سیکھنے کو مکروہ اور ناپسند گردانا ہے۔

اور ابن عیینہ رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس علم کے حصول کی اجازت نہیں دی۔

امام احمد رحمۃ اللہ علیہ اور اسحاق رحمۃ اللہ نے اس علم کے حصول کی اجازت دی ہے۔ (3)

ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(ثَلَاثَۃ لَا يَدْخُلُونَ الْجَنَّۃ: مُدْمِنُ خَمْرٍ، وَقَاطِعُ الرَّحِمِ، وَمُصَدِّقٌ بِالسِّحْرِ.) (مسند احمد:3/ 399 وموارد الظمان الی زوائد ابن حبان، ح:1381)

’’تین آدمی جنت میں داخل نہیں ہوں گے :

1) عادی شراب خور

2) قطع رحمی کرنے والا

3) اور جادو کو بر حق ماننے والا‘‘ (4)

 

مسائل:

1) اس بحث سے معلوم ہوا کہ اللہ نے کن مصالح کے پیش نظر ستاروں کو تخلیق فرمایا ہے۔

2) علم منازل قمر کے بارے میں اہل علم کی آراء مختلف ہیں۔

3) مذکور حدیث میں جادو کی تصدیق کرنے پر وعید بھی بیان ہوئی ہے۔

 

نوٹ:

(1) علم نجوم کی تین قسمیں ہیں :

(الف) یہ عقیدہ رکھنا کہ یہ ستارے ازخود مؤثر ہوتے ہیں اور ان کے اثر سے زمینی حوادث رونما ہوتے ہیں۔ ایسا سمجھنا ان کی عبادت کے مترادف ہے۔ اہل علم کا اجماع ہے کہ ایسا عقیدہ کفر اور قوم ابراہیم کے شرک جیسا بڑا شرک ہے۔

(ب) علم نجوم کی دوسری قسم کا تعلق علم تاثیر سے ہے یعنی ان کی حرکات، ایک دوسرے سے ان کے قرب و بعد یا ان کے طلوع و غروب سے زمینی حوادث پر استدلال کرنا۔ یہ کہانت یعنی غیب کی خبریں دینے کی مانند ہے۔ ایسا کرنے والے کو نجومی کہا جاتا ہے۔ نجومیوں کو یہ باتیں شیاطین بتاجاتے ہیں۔ یہ قسم بھی حرام، کبیرہ گناہ اور اللہ تعالی کے ساتھ کفر ہے۔

(ج) علم نجوم کی تیسری قسم جسے ’’علم تسییر‘‘ کہا جاتا ہے، اس میں ستاروں کی رفتار وحرکات سے قبلہ اور اوقات یا موسموں و غیرہ کا تعین کیا جاتا ہے، بعض اہل علم نے اس کی اجازت دی ہے۔

اس لیے کہ یہ لوگ ستاروں کی رفتار و حرکات، ان کے ایک دوسرے سے قریب ہونے یا دور ہونے، یا ان کے طلوع و غروب سے، محض وقت اور زمانہ کا تعین کرتے ہیں۔وہ ستاروں کی ان حرکات کو کسی کام کے لیے سبب اور اثر قرار نہیں دیتے۔ محض اتنی سی بات کرنے اور اسی مقصد کے لیے ستاروں کا علم حاصل کرنے میں شرعاً کوئی قباحت نہیں بلکہ اس کی اجازت ہے۔

(2) (صحیح بخاری، بدء الخلق، باب فی النجوم)یہ باتیں قرآن کریم میں بھی بیان ہوئی ہیں۔اللہ تعالی کا ارشاد ہے :

(وَزَيَّنَّا السَّمَاءَ الدُّنْيَا بِمَصَابِيحَ وَحِفْظًا (سورۃ فصلت41: 12))

’’ہم نے آسمان دنیا کو ستاروں سے مزین کیا اور ان کو حفاظت کا ذریعہ بنایا۔‘‘

شیاطین کے مارنے اور بھگانے کے معنی پر بہت سی آیات دلالت کرتی ہیں۔قتادہ رحمۃ اللہ علیہ کا یہ قول کہ جس نے ستاروں کی تخلیق کا ان تین کے علاوہ کچھ اور مقصد سمجھا اس نے غلطی کی اور اس نے ایسے امر کا تکلف کیا جس کا اس کچھ علم نہیں ، اس لیے ہے کہ یہ ستارے اللہ تعالی کی مخلوق ہیں ، ہمیں ان کے صرف انھی اسرار کا علم ہو سکتا ہے جن سے اللہ تعالی ہمیں مطلع کرے۔

(3)کیونکہ اللہ تعالی نے فرمایا:

(وَالْقَمَرَ نُورًا وَقَدَّرَهُ مَنَازِلَ لِتَعْلَمُوا عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسَابَ (سورۃ يونس10: 5))

’’اور اس نے چاند کو روشن بنایا اور اس کی منازل مقرر کی ہیں تاکہ تم سالوں کی گنتی اور حساب معلوم کر سکو‘‘۔

یہ آیت ستاروں کا علم حاصل کرنے کے جواز کی دلیل ہے کیونکہ ان کا علم حاصل کرنے ہی سے اللہ تعالی کی نعمت اور اس کے احسان کا اندازہ ہو سکے گا۔

(4) پہلے بیان ہو چکا ہے کہ علم نجوم جادو کی ایک قسم ہے۔

جیسا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے :

(مَنْ اقْتَبَسَ شُعْبَۃ عِلْمًا مِّنَ النُّجُومِ، فَقَدِ اقْتَبَسَ شُعْبَۃ مِّنَ السِّحْرِ) (سنن ابی داود، الطب، باب فی النحوم، ح:3905 ومسند احمد:1/ 277، 311)

’’جس نے علم نجوم کا جتنا حصہ سیکھا اس نے اسی قدر جارو سیکھا۔‘‘

آج کل اخبارات و رسائل اور جرائد میں ’’ستارے کیا کہتے ہیں ؟‘‘ کے عنوان سے عموما مضامین شائع ہوتے رہتے ہیں۔ لوگ ان امور کی حقیقت پر غور نہیں کرتے۔ ستاروں اور برجوں کی تاثیر کا عقیدہ رکھنا یہی تو ’’کہانت‘‘ ہے۔ ہر علاقہ میں اس کی تردید اور مذمت کرنے کی ضرورت ہے۔

ایسے رسائل گھروں میں نہ لائے جائیں ، خود پڑھے جائیں نہ کسی کو دیئے جائیں کیونکہ ان ستاروں اور برجوں کا علم حاصل کرنا، اپنی ولادت کے برج کو جاننا اور اپنے موافق ستارے کی معلومات رکھنا، اس کے متعلق تحریرات پڑھنا ایسے ہی ہے جیسے کسی نجومی کے پاس جا کر اس سے احوال دریافت کیے جائیں۔ ایسی باتوں کو پڑھ کر ان کو درست سمجھنا اور ان کی تصدیق کرنا کفر ہے۔ والعیاذ باللہ:

 

 

 

باب 29 ستاروں کے اثر سے بارش برسنے کا عقیدہ رکھناکفر ہے (1)

 

اللہ تعالی کا ارشاد ہے :

(وَتَجْعَلُونَ رِزْقَكُمْ أَنَّكُمْ تُكَذِّبُونَ (سورۃ الواقعۃ56: 82))

’’اور تم نے اللہ کی (نعمتوں کی) تکذیب کو اپنا و ظیفہ بنارکھا ہے۔‘‘ (2)

ابو مالک اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

(أَرْبَعٌ فِي أُمَّتِي مِنْ أَمْرِ الْجَاهِلِيَّۃ، لَا يَتْرُكُونَهُنَّ: الْفَخْرُ بِالْأَحْسَابِ، وَالطَّعْنُ فِي الْأَنْسَابِ، وَالْاسْتِسْقَاءُ بِالنُّجُومِ، وَالنِّيَاحَۃ ” وَقَالَ: النَّائِحَۃ إِذَا لَمْ تَتُبْ قَبْلَ مَوْتِهَا، تُقَامُ يَوْمَ الْقِيَامَۃ وَعَلَيْهَا سِرْبَالٌ مِنْ قَطِرَانٍ، وَدِرْعٌ مِنْ جَرَبٍ)صحيح مسلم, الجنائز, بَابُ التَّشْدِيدِ فِي النِّيَاحَۃ ح:934 ومسند احمد 5ظ 342, 344)

’’جاہلیت کے چار کام ایسے ہیں جنہیں میری امت کے لوگ ترک نہیں کریں گے :

1) جست و نسب اورخاندانی شرف و فضیلت پر فخر کرنا (3)

2) دوسروں کے نسب اور خاندان میں نقص اور عیب نکالنا اور طعنہ زنی کرنا (4)

3) ستاروں کے اثر سے بارش برسنے کا عقیدہ رکھنا۔ (5)

4) نوحہ کرنا (6)

نیز آپ نے فرمایا کہ : ’’نوحہ کرنے والی عورت اگر مرنے سے پہلے پہلے توبہ نہ کرے توقیامت کے دن اسے گندھک کی شلوار اور خارش کی قمیص پہناکر اٹھایا جائے گا۔‘‘ (7)

زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنیہ سے روایت ہے :

(صَلَّى لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلاَۃ الصُّبْحِ بِالحُدَيْبِيَۃ عَلَى إِثْرِ سَمَاءٍ كَانَتْ مِنَ اللَّيْلَ، فَلَمَّا انْصَرَفَ أَقْبَلَ عَلَى النَّاسِ، فَقَالَ: هَلْ تَدْرُونَ مَاذَا قَالَ رَبُّكُمْ؟ قَالُوا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: ” أَصْبَحَ مِنْ عِبَادِي مُؤْمِنٌ بِي وَكَافِرٌ، فَأَمَّا مَنْ قَالَ: مُطِرْنَا بِفَضْلِ اللَّهِ وَرَحْمَتِهِ، فَذَلِكَ مُؤْمِنٌ بِي وَكَافِرٌ بِالكَوْكَبِ، وَأَمَّا مَنْ قَالَ: مُطِرْنَا بِنَوْءِ كَذَا وَكَذَا، فَذَلِكَ كَافِرٌ بِي وَمُؤْمِنٌ بِالكَوْكَبِ) (صحيح البخاري, كِتَابُ الأَذَانِ, بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وَتَجْعَلُونَ رِزْقَكُمْ أَنَّكُمْ تُكَذِّبُونَ} [الواقعۃ: 82] ح:1038 وصحيح مسلم,كِتَابُ الْإِيمَانَ, بَابُ بَيَانِ كُفْرِ مَنْ قَالَ: مُطِرْنَا بِالنَّوْءِ, ح:71)

’’رسول اللہ ﷺ نے حدیبیہ کے مقام پر رات بارش ہونے کے بعد ہمیں صبح کی نماز پڑھائی۔ آپ نے سلام پھیرا تو لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا: جانتے ہو اللہ تعالی نے کیا فرمایاہے ؟ صحابہ کرام نے عرض کیا: اللہ تعالی اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ میرے بندوں میں سے بعض نے مجھ پر ایمان کی حالت میں صبح کی اور بعض نے کفر کی حالت میں ، ان میں سے جنھوں نے کہا کہ ہم پر اللہ تعالی کے فضل اور اس کی رحمت سے بارش ہوئی وہ میرے مومن ہیں اور ستاروں کے کافر۔ اور جنہوں نے کہا کہ ہم پر یہ بارش ستاروں کی وجہ سے ہوئی وہ میرے کافر ہوئے اور ستاروں پر ایمان لائے۔‘‘ (8)

اسی مفہوم کی ایک حدیث عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی مروی ہے، اس میں یوں ہے، آپ نے فرمایا:

’’بعض لوگ کہتے ہیں کہ فلاں فلاں ستارہ مفید ثابت ہوا ہے تو اللہ تعالی نے ان کی تردید میں یہ آیات نازل فرمادیں ‘‘۔

 (فَلَا أُقْسِمُ بِمَوَاقِعِ النُّجُومِ (75) وَإِنَّهُ لَقَسَمٌ لَوْ تَعْلَمُونَ عَظِيمٌ (76) إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ (77) فِي كِتَابٍ مَكْنُونٍ (78) لَا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ (79) تَنْزِيلٌ مِنْ رَبِّ الْعَالَمِينَ (80) أَفَبِهَذَا الْحَدِيثِ أَنْتُمْ مُدْهِنُونَ (81) وَتَجْعَلُونَ رِزْقَكُمْ أَنَّكُمْ تُكَذِّبُونَ (سورۃ الواقعۃ56: 82))

’’مجھے قسم ہے ستاروں کی منازل کی۔ اگر سمجھو تو یہ بہت بڑی قسم ہے۔ بے شک یہ قرآن مجید بلند مرتبہ والا ہے۔جو لوح محفوظ میں لکھا ہوا ہے۔ اسے وہی ہاتھ لگاتے ہیں جو پاک ہیں۔یہ رب العالمین کی طرف سے نازل کیا گیا ہے۔ تو پھر کیا تم اس کلام سے بے اعتنائی اور بے مروتی کرتے ہو اور اس کی تکذیب کرنے کو اپنا وظیفہ بناتے ہو۔‘‘ (9)

 

مسائل:

1) سورۃ الواقعہ کی آیات کی تفسیر ہے۔

2) ان چار امور کا ذکر بھی ہے جو جاہلیت کی رسوم ہیں۔

3) ان چار میں سے بعض کام کفر ہیں۔

4) کفر کی بعض اقسام ایسی بھی ہیں جن کے ارتکاب سے انسان دائرۂ اسلام سے خارج نہیں ہوتا۔

5) حدیث کے الفاظ (اللہ تعالی فرماتے ہیں ، میرے بندوں میں سے بعض نے ایمان کی حالت میں صبح کی اور بعض نے کفر کی حالت میں) سے معلوم ہوا کہ مومن و کافر کی پہچان حصول نعمت کی وجہ ہی سے ہو جاتی ہے۔

6) یہ بحث پڑھنے کے بعد ایمان کی حقیقت پر بھی خوب غور کرنا چاہیے کہ یہ کس قدرنازک معاملہ ہے۔

7) کفر کی حقیقت بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ بعض اوقات بظاہر معمولی سی بات کہنے سے انسان کافر ہو جاتا ہے۔

8) ستاروں کی تاثیر کا عقیدہ رکھنا اور ان کو اپنے لیے مفید (یا نقصان دہ) سمجھنا انتہائی غلط بلکہ کفر ہے۔

9) ’’ (أتَدْرُونَ مَاذَا قَالَ رَبُّكُمْ؟)‘‘ (جانتے ہو تمہارے رب نے کیا فرمایاہے ؟) سے ثابت ہوا کہ طالب علموں کو بات ذہن نشین کرانے کے لیے استفہامی انداز اختیار کرنا جائز ہے۔

10) اس باب میں نوحہ کی مذمت اور نوحہ کرنے والیوں کے لیے عذاب اور وعید کا ذکر بھی ہے۔

 

نوٹ :

(1) تمام نعمتیں اللہ تعالی کی طرف سے آتی ہیں۔ توحید کا تقاضا تو یہ ہے کہ ان کی نسیت بھی اسی کی طرف ہونی چاہئے۔ بارش بھی اسی کی نعمت ہے جو اسی کے حکم سے برستی ہے۔ بارش کی اللہ تعالی کے علاوہ ستاروں یا کسی دوسرے کی طرف نسبت کرنا زیادتی اور توحید کے منافی ہے، اس لیے کہ یہ تارے نزول بارش کے اسباب نہیں۔ اللہ تعالی نے انہیں بارش کے نزول کا سبب نہیں بنایا لہذا انہیں بارش کا سبب اور ذریعہ سمجھنا انتہائی غلط ہے۔ اسی طرح بارش اور دیگڑ نعمتوں کو ان کے حقیقی خالق و موجد کی بجائے غیر اللہ کی طرف منسوب کرنا درست نہیں۔

(2) مفسرین نے ان آیت کی تفسیر میں لکھا ہے کہ تم نے اپنا وظیفہ یہ بنا رکھا ہے کہ تم اللہ تعالی کی نعمتوں کو جھٹلا کر ان کو غیر اللہ کی طرف منسوب کرتے ہو۔

(3) یعنی اپنے حسب و نسب پر ازراہ تکبر فخر کرنا۔

(4) یعنی لوگوں کے نسب پر خواہ مخواہ طعن کرنا یا کسی ضرورت یا شرعی دلیل کے بغیر کسی کے نسب کی تکذیب کرنا اور اسے غلط قرار دینا۔

(5) یہ عقیدہ رکھنا کہ بارش ستاروں کی وجہ سے ہوتی ہے۔

(6) کسی مصیبت و پریشانی کے موقع پر چیخ پکار کرنا اور کپڑے پھاڑنا اور زور زور سے رونا پیٹنا، یہ بھی صبر کے منافی اور جاہلیت کا کام ہے۔

(7) یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ یہ تمام امور مذموم ہیں اور جاہلیت کے کام ہیں۔

صحیح بخاری میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تین آدمی اللہ تعالی کو سب سے زیادہ ناپسند ہیں۔ ان میں سے ایک وہ ہے جو قبول اسلام کے باوجود جاہلیت کے کام کرے۔

(8) ’’اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ‘‘….. ’’اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔‘‘ یہ جملہ نبی ﷺ کی حیات مبارکہ کے ساتھ خاص تھا یعنی آپ کی حیات شریفہ میں یہ جملہ کہا جا سکتا تھا کیونکہ اللہ تعالی کی طرف سے وحی کر کے آپ کو بتلادیا جاتا۔ لیکن آپ کی وفات کے بعد چونکہ سلسلہ وحی منقطع ہو چکا ہے اس لیے ایسا کہنا ہرگز درست نہیں بلکہ اگر کسی انسان سے کوئی بات پوچھی جائے جس کا اسے علم نہ ہو تو اسے چاہئے کہ یہ کہے ’’اللَّهُ أَعْلَمُ‘‘ ’’اللہ ہی بہتر جانتا ہے ‘‘ اس حدیث مبارک میں بارش کی نسبت اللہ کی طرف کرنے والے کو مومن کہا گیا ہے کیونکہ اس نے اللہ کی نعمت (بارش) کو اللہ ہی کی طرف منسوب کیاہے جو کہ اس کے ایمان کی دلیل روشن ہے۔

اور بارش کی نسبت ستاروں کی طرف کرنے والے کو کافر کہا گیا ہے کیونکہ اس نے اللہ کی نعمت کی نسبت غیر اللہ کی طرف کر دی۔

یادرہے ! اگر یہ عقیدہ رکھا جائے کہ بارش برسنے کا سبب یہ ستارے ہیں تو یہ عقیدہ کفر اصغر ہے اور اگر عقیدہ یہ ہو کہ ستارو پر ستوں کی دعا قبول کر کے لوگوں پر رحم کرتے ہوئے ان ستاروں ہی نے بارش برسائی ہے تو یہ اللہ تبارک و تعالی کے ساتھ کفر اکبر ہو گا۔

(9) (صحیح مسلم، الایمان، باب بیان کفر میں مین قال مطرنا بالنوء، حدیث:73)

 

 

 

باب:30اللہ تعالی کی محبت دین کی بنیاد ہے (1)

 

اللہ تعالی کا ارشاد ہے :

(وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَتَّخِذُ مِنْ دُونِ اللَّهِ أَنْدَادًا يُحِبُّونَهُمْ كَحُبِّ اللَّهِ (سورۃ البقرۃ2: 165))

’’اور کچھ لوگ ایسے ہیں جو دوسروں کو اللہ کا ہمسر اور شریک ٹھراتے ہیں اور ان سے یوں محبت کرتے ہیں جیسی اللہ سے محبت ہونی چاہیے۔‘‘

نیز ارشاد ربانی ہے :

( قُلْ إِنْ كَانَ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ وَإِخْوَانُكُمْ وَأَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيرَتُكُمْ وَأَمْوَالٌ اقْتَرَفْتُمُوهَا وَتِجَارَۃ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَمَسَاكِنُ تَرْضَوْنَهَا أَحَبَّ إِلَيْكُمْ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَجِهَادٍ فِي سَبِيلِهِ فَتَرَبَّصُوا حَتَّى يَأْتِيَ اللَّهُ بِأَمْرِهِ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ لَّهِ (سورۃ التوبۃ9: 24))

’’ (اے محمد!)آپ کہہ دیں کہ اگر تمھارے آباء، بیٹے، بھائی، بیویاں ، عزیز و اقارب اور جمع کردہ مال اور تجارت جس کے ماند پڑنے کا تمہیں خدشہ رہتا ہے اور تمہارے گھر جو تمہیں پسند ہیں ، یہ چیزیں اگر تمہیں اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ عزیز ہیں تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ آپنا فیصلہ (عذاب) لے آئے اور اللہ فاسقوں کو ہدایت نصیب نہیں کرتا۔‘‘ (2)

انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

(لاَ يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ، حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَالِدِهِ وَوَلَدِهِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ) (صحيح البخاري, كِتَابُ الإِيمَانِ, بَابٌ: حُبُّ الرَّسُولِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الإِيمَانِ, ح:15 وصحيح مسلم, كِتَابُ الْإِيمَانَ, بَابُ وُجُوبِ مَحَبَّۃ رَسُولِ اللهِ صلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَكْثَرَ مِنَ الْأَهْلِ وَالْوَلَدِ، وَالْوَالِدِ والنَّاسِ أجْمَعِينَ, ح:44)

’’تم میں سے کوئی بھی اس وقت تک (کامل) مومن نہیں ہوسکتا جب تک وہ مجھے اپنی اولاد، (ماں) باپ اور باقی تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ رکھے۔‘‘ (3)

انس رضی اللہ عنہ ہی سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

(ثَلاَثٌ مَنْ كُنَّ فِيهِ وَجَدَ بِهِنَّ حَلاَوَۃ الإِيمَانِ: أَنْ يَكُونَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِمَّا سِوَاهُمَا، وَأَنْ يُحِبَّ المَرْءَ لاَ يُحِبُّهُ إِلَّا لِلَّهِ، وَأَنْ يَكْرَهَ أَنْ يَعُودَ فِي الكُفْرِ بَعْدَ إِذْ أَنْقَذَهُ اللهُ مِنْهُ كَمَا يَكْرَهُ أَنْ يُقْذَفَ فِي النَّارِ) (صحيح البخاري, كِتَابُ الإِيمَانِ, بَابُ حَلاَوَۃ الإِيمَانِ, ح:16, 21, 6941 وصحيح مسلم, كِتَابُ الْإِيمَانَ, بَابُ بَيَانِ خِصَالٍ مَنِ اتَّصفَ بِهِنَّ وَجَدَ حَلَاوَۃ الْإِيمَانِ, ح:43)

’’تین اوصاف جس آدمی میں ہوں وہ ان کی بدولت ایمان کی مٹھاس پالیتا ہے : (4)

1) وہ اللہ تعالی اور اس کے رسول کو سب سے زیادہ محبوب سمبھے۔

2) کسی سے محبت کرے تو محض اللہ تعالی کے لیے۔

3) اللہ تعالی نے اسے کفر سے بچالیا ہے تو اب وہ کفر کو اس طرح ناپسند کرے جس طرح آگ میں ڈالا جانا اسے ناپسند ہے۔‘‘

ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں :

(لاَ يَجِدُ أَحَدٌ حَلاَوَۃ الإِيمَانِ حَتَّى …..) (صحيح البخاري, كِتَابُ الأَدَبِ, بَابُ الحُبِّ فِي اللَّهِ, ح:6041)

’’کوئی شخص اس وقت تک ایمان کی حلاوت (مٹھاس) نہیں پا سکتا جب تک (اس میں مذکورہ تین اوصاف نہ ہوں۔)‘‘

ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں :

(مَنْ أَحَبَّ فِي اللهِ، وَأَبْغَضَ فِي اللهِ، وَوَالى فِي اللهِ، وَعَادى فِي اللهِ، فَإَنَّمَا تُنَالُ وَلاَيَۃ الله بِذلِكَ، وَلَنْ يَّجِدَ عَبْدٌ طَعْمَ الإِيمَانِ وَإِنْ كَثُرَتْ صَلَاتُهُ وَصَوْمُهُ حَتَّى يَكُونُ كَذلِكَ. وَقَدْ صَارَتْ عَامَّۃ مُؤَاخَاۃ النَّاسِ عَلى أَمْرِ الدُّنْيَا، وَذلِكَ لا يُجْدِي عَلى أَهْلِهِ شَيْئًا) (رواہ ابن المبارک فی کتاب الزھد، ح:34759 و اخرجہ الطبرانی ایضا موقوفا علی ابن عمر فی المعجم الکبیر: 12/ 13537)

’’جو شخص کسی سے محض اللہ تعالی کے لیے محبت رکھے، اور اللہ ہی کے لیے کسی سے بغض رکھے، اور کسی سے دوستی ہو یا دشمنی وہ بھی محض اللہ ہی کے لیے ہو تو جاننا چاہئے کہ اللہ تعالی کی ولایت (دوستی) انہی کاموں سے حاصل ہوسکتی ہے۔ (یعنی انہی کاموں سے انسان اللہ کا ولی اور محبوب بن سکتا ہے) اور کوئی بھی شخص ان امور کے بغیر ایمان کا ذائقہ اور چاشنی حاصل نہیں کرسکتا خواہ وہ بکثرت نمازیں پڑھتا ہو یا بکثرت روزے رکھتا ہو۔ عام لوگوں کی آپس میں محبت اور تعلقات دنیوی امور پر استوار ہیں ، حالانکہ یہ عمل ان کے لیے اللہ تعالی کے ہاں قطعاً سود مند نہ ہو گا۔‘‘

ابن عباس رضی اللہ عنہما نے

(وَتَقَطَّعَتْ بِهِمُ الْأَسْبَابُ (سورۃ البقرۃ2: 166))

(’’قیامت کے روز ان کے سارے اسباب و وسائل ختم ہو جائیں گے۔‘‘) کی تفسیر میں فرمایا کہ یہاں اسباب و وسائل سے ’’دوستی، محبت اور تعلقات‘‘ مراد ہیں۔ (5)

 

مسائل:

1) سورۂ البقرۃ کی آیت 165 کی تفسیر معلوم ہوئی۔

2) سورۂ توبہ کی آیت 24کی تفسیر بھی معلوم ہوئی۔

3) اپنی جان، اہل و عیال اور مال و منال کے مقابلہ میں سب سے زیادہ محبت نبی ﷺ سے ہونی چاہیے۔

4) بعض اوقات ایمان کی نفی کا مطلب دائرہ اسلام سے خروج نہیں ہوتا بلکہ اس سے ایمان کی کمی مراد ہوتی ہے۔

5) ایمان کی ایک چاشنی ہے تاہم کبھی اس کا احساس ہوتا ہے اور کبھی نہیں ہوتا۔

6) چار قلبی اعمال ایسے ہیں جن کے بغیر انسان اللہ تعالی کی ولایت (دوستی اور محبت) حاصل نہیں کرسکتا اور نہ ان کے بغیر ایمان کا ذائقہ چکھ سکتا ہے۔

7) صحابہ کرام رضی اللہ عنہم واقعات و حقائق کی روشنی میں جانتے تھے کہ عام لوگوں کے باہمی تعلقات اور میل جول محض دنیا کی خاطر ہیں۔

8) اس باب سے ’’وَتَقَطَّعَتْ بِهِمُ الْأَسْبَابُ‘‘ کی تفسیر بھی واضح ہوتی ہے۔

9) بعض لوگ مشرک ہونے کے باوجود اللہ تعالی سے بے انتہا محبت کرتے ہیں۔

10) سورۂ توبہ کی آیت میں مذکورہ آٹھ اشیاء جس شخص کو اپنے دین سے زیادہ پیاری ہوں ، اس کے لیے سخت عذاب کی وعید ہے۔

11) اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ کسی کا اپنے باطل معبود سے اللہ تعالی کی سی محبت رکھنا بھی ’’شرک اکبر‘‘ ہے۔

 

(1) یہاں سے ان قلبی عبادات کا بیان شروع ہوتا ہے جو صرف اللہ تعالی کے لیے خاص ہیں۔ عقیدۂ توحید کی تکمیل کے لیے ان قلبی عبادات کو بھی صحیح طور پر صرف اللہ تعالی کے لیے بجا لانا ضروری ہے۔

مصنف رحمۃ اللہ علیہ نے قلبی عبادات میں سے سب سے پہلے محبت کا ذکر کیا ہے اور یہ بیان کیا ہے کہ انسان کو ہر چیز حتیٰ کہ اپنی جان سے بھی بڑھ کر سب سے زیادہ محبت اللہ تعالی کے ساتھ ہونی چاہیے۔ اللہ تعالی کے ساتھ انسان کی یہ محبت ’’محبت عبادت‘‘ ہے کہ انسان کا اپنے محبوب یعنی اللہ تعالی کے ساتھ تعلق اس قدر گہرا ہو اور اس کے ساتھ اس قدر محبت ہو کہ وہ بخوشی اس کے ہر حکم کو بجا لائے اور اس کی ہر ممنوعہ بات سے اجتناب کرے۔ یہی جذبہ دین کا ستون اور اصلاح قلب کی بنیاد ہے۔ ایسا مضبوط اور گہرا تعلق صرف اللہ تعالی کے ساتھ ہونا چاہئے۔ غیر اللہ کے ساتھ ایسا تعلق رکھنا بہت بڑا شرک ہے۔

(2)اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالی کے مقابلہ میں غیر اللہ سے زیادہ محبت رکھنا اور محبت میں غیر اللہ کو اللہ تعالی سے مقدم سمجھنا حرام اور کبیرہ گناہ ہے کیونکہ ایسا کرنے پر اللہ تعالی نے وعید فرمائی ہے۔ لہذا توحید کی تکمیل کے لیے ضروری ہے کہ انسان اللہ تعالی اور اس کے رسول کو ہر محبوب شے پر فوقیت دے۔

یاد رہے ! ایک مسلمان، رسول اللہ ﷺ سے جو محبت کرتا ہے وہ دراصل اللہ ہی سے محبت ہے نہ کہ اللہ کے مقابلہ میں ، کیونکہ رسول اللہ ﷺ سے محبت کا حکم اللہ ہی نے دیا ہے۔

(3) یعنی میری محبوب چیزوں کو غیر کی محبوب چیزوں پر اس قدر مقدم جانے کہ اس کے جی میں میری محبت، اس کی اولاد، ماں باپ اور تمام لوگوں کی محبت سے بڑھ کر ہو اور یقیناً اس محبت کا اظہار عمل سے ہو گا چانچہ جو شخص اللہ کی عبادت، رغبت اور اس کے خوف اور ڈر کے ساتھ اس سے محبت رکھتا ہے وہ اس کی رضا جوئی کے لیے کوشاں ہوتا ہے اور اس کی ناراضی سے بچنے کی بھی ہر ممکن کوشش کرتا ہے۔ ایسے ہی جو شخص بھی نبی ﷺ سے محبت رکھے گا وہ آپ کی رضا مندی کا خواہاں اور آپ کی ناراضی سے دور ہٹنے والاہو گا۔

(4) اس سے وہ مٹھاس اور حلاوت مراد ہے جو ایمان کی تکمیل کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے اور مومن اپنی روح میں اسے محسوس کرتا ہے۔

(5) (تفسیر ابن جریر، 2004 و تفسیر ابن ابی حاتم، 1492)

 

 

 

باب :31 اللہ تعالی کا ڈر اور خوف (1)

 

اللہ تعالی کا ارشاد ہے :

(إِنَّمَا ذَلِكُمُ الشَّيْطَانُ يُخَوِّفُ أَوْلِيَاءَهُ فَلَا تَخَافُوهُمْ وَخَافُونِ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ (سورۃ آل عمران3: 175))

’’یہ شیطان ہے جو اپنے دوستوں سے ڈراتا ہے۔ تم ان سے نہ ڈرو۔ اگر تم ایمان رکھتے ہو تو صرف مجھ سے ڈرو۔‘‘ (2)

نیز ارشاد ربانی ہے :

(إِنَّمَا يَعْمُرُ مَسَاجِدَ اللَّهِ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَأَقَامَ الصَّلَاۃ وَآتَى الزَّكَاۃ وَلَمْ يَخْشَ إِلَّا اللَّهَ فَعَسَى أُولَئِكَ أَنْ يَكُونُوا مِنَ الْمُهْتَدِينَ (سورۃ التوبۃ9: 18))

’’اللہ کی مساجد کو تو وہی لوگ آباد کرتے ہیں جو اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہیں اور نماز قائم کرتے اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں۔ اور اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے۔ یقیناً ایسے لوگ ہی ہدایت پانے والوں میں سے ہیں۔‘‘ (3)

نیز ارشاد الہی ہے :

(وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَقُولُ آمَنَّا بِاللَّهِ فَإِذَا أُوذِيَ فِي اللَّهِ جَعَلَ فِتْنَۃ النَّاسِ كَعَذَابِ اللَّهِ وَلَئِنْ جَاءَ نَصْرٌ مِنْ رَبِّكَ لَيَقُولُنَّ إِنَّا كُنَّا مَعَكُمْ أَوَلَيْسَ اللَّهُ بِأَعْلَمَ بِمَا فِي صُدُورِ الْعَالَمِينَ (سورۃ العنكبوت29: 10))

’’اور بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم اللہ پر ایمان لائے مگر جب ان کو اللہ کی راہ میں کوئی ایذا پہچے تو وہ لوگوں کی ایذا کو یوں سمجھتے ہیں جیسے وہ اللہ کا عذاب ہو۔‘‘ (4)

ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

(إِنَّ مِنْ ضَعْفِ الْيَقِينِ أَنْ تُرْضِيَ النَّاسَ بِسَخَطِ اللهِ، وَأَنْ تَحْمَدَهُمْ عَلَى رِزْقِ اللهِ، وَأَنْ تَذِمَّهُمْ عَلَى مَا لَمْ يُؤْتِكَ اللهُ إِنَّ رِزْقَ اللهِ لَا يَجُرُّهُ حِرْصُ حَرِيصٍ، وَلَا يَرُدُّهُ كُرْهُ كَارِهٍ) (شعب الایمان، الخامس من شعب الایمان، وھو باب فی ان القدر ….، ح:207))

’’بلاشبہ یہ (ایمان اور اللہ پر) یقین کی کمزوری کی علامات ہیں کہ تو اللہ کی ناراضی مول لے کر لوگوں کو خوش کرے۔ اور اللہ نے جو رزق لوگوں کو دے رکھا ہے اس پر تو ان کی مدح و ستائش کرے اور جو رزق اللہ نے (لوگوں کو دیا ہے لیکن) تجھے نہیں دیا اس پر تو ان کی مذمت کرے۔ یقیناً اللہ تعالی کے رزق کو نہ کسی حریص کا حرص کھینچ کر لا سکتا ہے اور نہ کسی ناپسند کرنے والے کی ناپسندیدگی اسے روک سکتی ہے۔‘‘ (5)

ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

(مَنِ الْتَمَسَ رِضَىا اللَّهِ بِسَخَطِ النَّاسِ رَضِيَ الله تعالى عَنْهُ وَأَرْضَى عَنْهُ النَّاسَ وَمَنِ الْتَمَسَ رِضَا النَّاسِ بِسَخَطِ اللَّهِ سَخَطَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَأَسْخَطَ عليه الناس) (موارد الظمآن الی زوائد ابن حبان، ح:1541 – 1542 و جامع الترمذی، ح:2414 ولہ الفاظ اخری)

’’جو شخص لوگوں کو ناراض کر کے اللہ تعالی کو راضی رکھے، اللہ تعالی اس سے راضی ہو جاتا ہے اور جو شخص اللہ تعالی کو ناراض کر کے لوگوں کی رضا کا طالب ہو، اللہ تعالی بھی اس سے ناراض ہو جاتا ہے اور لوگوں کو بھی اس سے ناراض کر دیتا ہے۔‘‘ (6)

 

مسائل:

1) اس باب سے سورۂ آل عمران کی آیت 175 کی تفسیر ہوتی ہے جس میں اللہ تعالی سے ڈرنے کی ترغیب ہے۔

2) سورۂ توبہ کی آیت 18 کی تفسیر بھی واضح ہوتی ہے جس میں اللہ تعالی کی مساجد کو آباد کرنے والوں کی صفات مذکور ہیں۔

3) سورۃ العنکبوت کی آیت 10 کی تفسیر بھی واضح ہوئی جس میں کمزور ایمان والوں کا ذکر ہے۔

4) یہ بھی معلوم ہوا کہ ایمان کبھی قوی اور کبھی کمزور ہوتا رہتا ہے۔

5) ایمان کی کمزوری کی تین علامات بھی بیان ہوئی ہیں۔

6) یہ بھی ثابت ہوا کہ صرف اللہ تعالی سے ڈرنا اور اسی کا خوف کھانا ایک دینی و شرعی فریضہ ہے۔

7) اس تفصیل سے، صرف اللہ تعالی کا خوف، ڈر اور خشیت رکھنے والوں کی فضیلت اور ان کو اس کے نتیجے میں ملنے والے ثواب کا علم بھی ہو گیا۔

8) اور یہ بھی معلوم ہوا کہ جو شخص غیر اللہ سے ڈرے اور اس کا خوف کھائے اس کا کیا انجام ہوتا ہے۔

 

نوٹ:

(1) اللہ تعالی کا ڈر اور خوف بھی عبادت ہے۔ اس کا تعلق دل کے ساتھ ہے۔ اس عبادت کی تکمیل سے توحید کی تکمیل اور اس میں کمی سے توحید میں نقص اور کمی واقع ہو جاتی ہے۔ غیر اللہ کا خوف بعض صورتوں میں شرک، بعض میں حرام اور بعض صورتوں میں مباح ہوتا ہے۔

خوف کی پہلی قسم:کسی نبی، ولی یا جن سے اس انداز سے ڈرنا کہ وہ انسان کو نقصان پہنچا دے گا یا اس کا کچھ بگاڑ دے گا یا یہ سمجھنا کہ فلاں نبی، ولی یا جن کی تعظیم کی جائے تو وہ آخرت میں میرے کام آئے گا، میرے حق میں سفارش کرے گا، اور مجھ سے اللہ تعالی کے عذاب کو رفع کرے گا۔ اور اگر وہ ناراض ہو گیا تو آخرت میں میرے کام نہ آئے گا، سفارش کرے گا نہ اللہ تعالی کے عذاب کو مجھ سے دور کرے گا…..کسی سے اس قسم کاخوف کھانا ’’شرک‘‘ ہے۔

خوف کی دوسری قسم: مخلوق کے ڈرسے اللہ تعالی کے اوامر اور نواہی کی خلاف ورزی کرنا، اس قسم کا خوف رکھنا حرام ہے۔

خوف کی تیسری قسم:’’طبعی خوف‘‘ ہے۔ مثلاً انسان کا اپنے کسی دشمن سے، درندوں سے، یا آگ وغیرہ سے خوف کھانا طبعی اور فطری ہے۔ اس پر کوئی گناہ یا مواخذہ نہیں۔

(2) اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ بسا اوقات شیطان، اہل توحید کے دلوں میں ان کے دشمنوں کا خوف پیدا کر ڈالتا ہے۔ اسی لیے اللہ نے فرمایا ’’فَلَا تَخَافُوهُمْ…..‘‘ ’’ان سے ہرگز نہ ڈرنا ‘‘یعنی ان سے ڈرنا حرام ہے کیونکہ اس قسم کا خوف عبادت کے زمرے میں آتا ہے اور غیر اللہ کی عبادت شرک ہے گویا اللہ تعالی نے شرک ہی کی ایک قسم سے منع فرمایا ہے اور اس کے بعد فرمایا ’’وَخَافُونِ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ….‘‘ ’’اگر مومن ہو تو صرف مجھ سے ڈرو‘‘ اللہ کے اس حکم سے بھی پتہ چلتا ہے کہ خوف بھی دیگر عبادات کی طرح ایک عبادت ہے۔

(3) اس آیت مبارکہ سے معلوم ہوا کہ مومن کے دل میں محض اللہ کی خشیت ہونی چائے کیونکہ اللہ نے ان لوگوں کی مدح و تعریف اسی لیے کی ہے کہ ان کے دل میں اللہ کے سوا کسی دوسرے کی خشیت پیدا نہیں ہوتی۔ یاد رہے ! لفظ خشیت کا مفہوم اور استعمال لفظ خوف کی بہ نسبت خاص ہے۔

(4) یعنی لوگوں کی ایذا سے ڈر کر اللہ کے واجبات کو ترک کر دیتے ہیں یا لوگوں کی باتوں سے ڈرتے ہوئے اللہ کے حرام کردہ امور کا ارتکاب کر بیٹھتے ہیں۔

(5) مذکورہ اعمال، ایمان کی کمزوری کے اسباب اور علامات ہیں اور ایمان کو کمزور کرنے والے اعمال، حرام امور ہی ہوا کرتے ہیں کیونکہ اللہ تعالی اور رسول کی اطاعت سے ایمان بڑھتا اور نا فرمانی اور معصیت سے کم ہوتا ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اللہ کو ناراض کر کے لوگوں کو خوش کرنا، معصیت، گناہ اور حرام ہے۔

(6) اس حدیث میں بیان ہے کہ جو شخص صرف اللہ تعالی کا خوف رکھے اللہ تعالی اس سے خود بھی راضی ہوتا ہے اور لوگوں کو بھی اس سے راضی اور خوش رکھتا ہے۔ اور جو شخص لوگوں کا خوف دل میں رکھے اور ان سے ڈر کر حرام کا ارتکاب کرے یا کسی شرعی فریضہ کو ترک کر دے تو اللہ تعالی بھی اس سے ناراض ہو جاتا ہے اور لوگوں کو بھی اس سے ناراض کر دیتا ہے۔

 

 

 

باب:32 صرف اللہ تعالی پر توکل کرنا چاہیے (1)

 

اللہ ذوالجلال کا فرمان ہے :

(وَعَلَى اللَّهِ فَتَوَكَّلُوا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ (سورۃ المائدۃ5: 23))

’’اور اگر تم صاحب ایمان ہو تو صرف اللہ پر توکل کرو۔‘‘ (2)

اور ارشاد الہی ہے :

(إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ اللَّهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ وَإِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ آيَاتُهُ زَادَتْهُمْ إِيمَانًا وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ (سورۃ الأنفال8: 2))

’’صحیح معنوں میں اہل ایمان وہ ہیں جن کے دل، اللہ کے ذکر سے لرز جاتے ہیں اور جب ان کے سامنے اللہ کی آیات کی تلاوت کی جائے تو ان کے ایمان میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ اور وہ اپنے رب ہی پر توکل کرتے ہیں۔‘‘ (3)

نیز اللہ رب العزت نے فرمایا:

(يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ حَسْبُكَ اللَّهُ وَمَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ (سورۃ الأنفال8: 64))

’’اے نبی! آپ کو اور آپ کے پیروکار اہل ایمان کو بس اللہ تعالی ہی کافی ہے۔‘‘ (4)

نیز اللہ تعالی کا فرمان ہے :

(وَمَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ (سورۃ الطلاق65: 3))

’’اور جو کوئی اللہ تعالی پر توکل کرے تو اس کے لیے وہی کافی ہے۔‘‘ (5)

ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں جب ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈالا گیا تو انہوں نے کہا:

(حَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ (سورۃ آل عمران3: 173))

’’ہمیں اللہ ہی کافی ہے اور وہ بہترین کارسازہے۔‘‘

اسی طرح جب لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے کہا:

(إِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوا لَكُمْ فَاخْشَوْهُمْ فَزَادَهُمْ إِيمَانًا (سورۃ آل عمران3: 173))

’’کہ کافروں نے آپ کے مقابلہ کے لیے لشکر جمع کر لیا ہے ان سے ڈرو تو ان کا ایمان مزید بڑھ گیا

اور کہنے لگے :

(حَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ (سورۃ آل عمران3: 173))

’’ہمیں اللہ ہی کافی ہے اور وہ بہترین کارسازہے۔‘‘ (6)

 

مسائل:

1) اس بحث سے واضح ہوا کہ اللہ تعالی پر توکل کرنا اور بھروسہ رکھنا دینی فریضہ ہے۔

2) اور یہ ایمان کی شرطوں میں سے بھی ہے۔

3) اس تفصیل سے سورۃ الانفال کی آیت 2 کی تفسیر بھی ہوئی۔

4) واضح رہے کہ سورۃ الانفال کی اس آیت کی تفسیر آخری جملہ ’’وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ‘‘ ہے۔

5) سورۃ الطلاق کی آیت 3 کی تفسیر بھی واضح ہوئی کہ جو لوگ اللہ تعالی پر توکل کرتے ہیں ان کے لیے وہی کافی ہے۔

6) کلمہ ’’حَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ‘‘کی اہمیت، فضیلت اور عظمت بھی عیاں ہوتی ہے کہ اللہ تعالی کے دو خلیلوں سیدنا ابراہیم علیہ السلام اور سیدنا محمد ﷺ نے انتہائی مشکل اور شدید پریشانی کے عالم میں یہی کلمہ پڑھا۔

 

نوٹ:

(1) اس باب میں مسئلہ توکل کا بیان ہے۔ اللہ پر توکل کرنا، دین و ایمان کی تصحیح و تکمیل کے لیے شرط ہے۔ شرعی طور پر توکل کا مفہوم یہ ہے کہ تمام قلبی عبادات کو اللہ ہی کے لیے بجا لانا یعنی اپنے تمام تو امور و معاملات کو اللہ تعالی کے سپرد کرنا اور اس کے ساتھ ساتھ اسباب و ذرائع بھی اختیار کرنا۔ چنانچہ متوکل (اللہ پر توکل کرنے والا) وہ شخص ہو گا جو اسباب و ذرائع اختیار کرنے کے بعد اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کر دے اور یہ عقیدہ رکھے کہ اس سبب سے نفع، اللہ کے حکم ہی سے حاصل ہو سکتا ہے اور جس کام کے لیے یہ سبب اختیار کیا گیا ہے وہ بھی محض اللہ کی توفیق و اعانت ہی سے پورا ہو سکتا ہے کیونکہ تمام تر اختیارات اس مالک کے پاس ہی ہیں۔ گویا توکل خالص قلبی عبادت ہے۔

غیر اللہ پر توکل کی دو صورتیں ہیں :

(الف)            جو امور صرف اللہ کے اختیار میں ہیں اور مخلوق میں سے کسی کی قدرت میں نہیں ، ان میں غیر اللہ پر توکل کرنا، مثلاً گناہوں کی مغفرت، اولاد و معاش کا حصول وغیرہ، شرک اکبر اور توحید کے منافی ہے اور اکثر اس کا ارتکاب قبر پرست اور اولیاء پرست لوگ کرتے ہیں۔

(ب)  جن امور کی اللہ تعالی نے اپنی مخلوق کو قدرت دے رکھی ہے ان میں مخلوق پر توکل کرنا شرک خفی یا شرک اصغر ہے۔ مثلاً یوں کہنا کہ میرا اللہ پر اور تم پر توکل ہے یا میرا اللہ پر اور پھر تم پر توکل ہے، ناجائز ہے اس لیے کہ توکل کا تعلق مخلوق کے ساتھ ہے ہی نہیں کیونکہ، جیسا کہ پہلے ذکر کی جا چکا ہے، توکل کا مفہوم یہ ہے کہ اپنے امور و معاملات کو اس اللہ کے سپرد کرنا جس کے قبضہ و اختیار میں سارے امور ہیں جبکہ مخلوق میں سے کسی کے پاس کوئی قدرت و اختیار نہیں ، البتہ مخلوق کو سبب اور ذریعہ ضرور بنایا جا سکتا ہے۔ لہذا مخلوق کو سبب اور ذریعہ بنانے کا مطلب قطعاً یہ نہیں کہ اس پر توکل بھی کیا جائے۔

(2) اس آیت مبارکہ میں یہ حکم ہے کہ اللہ ہی پر توکل کرو۔ اس سے معلوم ہوا کہ توکل ایک مستقل عبادت ہے۔

آیت کے الفاظ ’’وَعَلَى اللَّهِ فَتَوَكَّلُوا‘‘اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ توکل محض اللہ پر ہونا چاہئے اور آیت کا آخری جملہ ’’إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ‘‘اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ ایمان کی تصحیح اور تکمیل کے لیے ضروری ہے کہ اللہ ہی پر توکل کیا جائے اس کے سوا مخلوق میں سے کسی پر توکل نہیں ہونا چاہئے۔

(3) آیت کے الفاظ ’’وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ‘‘اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ مومن صرف اللہ پر توکل کرتے ہیں۔ اللہ تعالی نے مومنین کی اس صفت کو بطور خاص بیان کیا ہے اور اصل ایمان کا بلند ترین مقام و مرتبہ بھی یہی ہے۔

(4) ’’حَسْبُنَا اللَّهُ ……‘‘اے نبی ! تجھے اور تیرے پیروکار مومنین کو توکل کرنے کے لیے اللہ عزوجل کی ذات ہی کافی ہے۔ اس کی بعد کسی اور پر توکل کرنے کی ضرورت نہیں اسی لیے فرمایا: ’’وَمَنْ يَتَوَكَّلْ .….‘‘اور جو کوئی اللہ پر توکل کرے وہ اسے کافی ہے۔

(5) توکل علی اللہ کا دار و مدار، توحید ربوبیت کو سمجھنے اور اس پر کامل ایمان رکھنے پر ہے اسی لیے بعض لوگ مشرک ہونے کے باوجود اللہ پر بہت توکل کرتے ہیں۔ کیونکہ توحید الوہیت پر تو ان کا ایمان نہیں ہوتا لیکن توحید ربوبیت کو تسلیم کرتے ہیں۔ یاد رہے ! اللہ کی ربوبیت کے آثار میں غور و خوض کرنے سے دل میں توکل کا داعیہ پیدا ہوتا ہے۔ جب انسان اللہ کی عظیم بادشاہت اور آسمان و زمین کے مستحکم و مضبوط نظام کو دیکھتا اور اس کے بارے میں سوچ بچار کرتا ہے تو اس نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ اس قدر پائیدار اور مربوط نظام کو چلانے والے مالک اور مولی کے لیے میری چھوٹی سی ضرورت پوری کرنے اور میری مدد کرنے میں کون سی مشکل ہے۔ اسی تدبر سے مومن کا ایمان اور اللہ پر توکل مزید بڑھ جاتا اور مضبوط ہو جاتا ہے۔

(6) (صحیح بخاری، التفسیر، تفسیر سورۃ آل عمران، حدیث:4563)اس تفسیر سے اس کلمہ (حَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ)کی اہمیت و عظمت واضح ہوتی ہے کہ اللہ تعالی کے دو جلیل القدر انبیاء نے انتہائی مشکل میں بھی یہی کلمہ دہرا کر اللہ تعالی پر اپنے توکل کا اظہار و اعلان فرمایا۔

بندہ جب اپنے رب پر توکل کر لے تو زمین و آسمان کی ساری مخلوقات مل کر بھی اس کا بال بیکا نہیں کر سکتیں بلکہ اللہ تعالی اس بندے کی مدد کر کے اس کو مشکل سے نجات دلاتا اور اس کے لیے راہیں آسان کر دیتا ہے۔

 

 

 

باب:33 اللہ تعالی کی تدبیر سے بے خوف نہیں ہونا چاہیے

 

ارشاد الہی ہے :

(أَفَأَمِنُوا مَكْرَ اللَّهِ فَلَا يَأْمَنُ مَكْرَ اللَّهِ إِلَّا الْقَوْمُ الْخَاسِرُونَ (سورۃ الأعراف7: 99))

’’کیا یہ لوگ اللہ کی تدبیر سے بے خوف ہیں۔ اللہ کی تدبیر سے وہی لوگ بے خوف ہوتے ہیں جو خسارہ اٹھانے والے ہوں۔

نیز اللہ تعالی کا فرمان ہے :

(وَمَنْ يَقْنَطُ مِنْ رَحْمَۃ رَبِّهِ إِلَّا الضَّالُّونَ (سورۃ الحجر15: 56))

’’اور گمراہ لوگ ہی اللہ کی رحمت سے مایوس ہوتے ہیں۔‘‘ (1)

ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا گیا کہ کبیرہ گناہ کون کون سے ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا:

(الْإِشْرَاكُ بِاللَّهِ، ، وَالْيَأْسُ مِنْ رَوْحِ اللَّهِ، وَالْأَمْنُ مِنْ مَكْرِ اللَّهِ) (مسند البزار، ح:106 ومجمع الزوائد: 1/ 104)

’’اللہ تعالی کے ساتھ شرک کرنا، اللہ کی رحمت سے مایوس ہونا، اور اللہ کی تدبیر اور گرفت سے بے خوف ہونا۔‘‘ (2)

ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :

(أَكْبَرُ الْكَبَائِرِ الْإِشْرَاكُ بِاللَّهِ، وَالْأَمْنُ مِنْ مَكْرِ اللَّهِ، وَالْقُنُوطُ مِنْ رَحْمَۃ اللَّهِ، وَالْيَأْسُ مِنْ رَوْحِ اللَّهِ) (مصنف عبدالرزاق:10/ 459 ومعجم الکبیر للطبرانی، ح:8783)

’’سب سے بڑے گناہ یہ ہیں : اللہ تعالی کے ساتھ شرک کرنا، اللہ کی تدبیر سے بے خوف ہونا، اللہ کی رحمت سے ناامید ہونا اور اللہ کے فضل سے مایوس ہونا۔‘‘ (3)

 

مسائل:

1) اس باب سے سورۃ الاعراف کی آیت 99 کی تفسیر معلوم ہوئی جس میں اللہ تعالی کی تدبیر سے بے خوف رہنے والوں کو خسارہ پانے والے قرار دیا گیا ہے۔

2) سورۃ الحجر کی آیت 56 کی تفسیر بھی واضح ہوئی کہ اللہ تعالی کی رحمت سے مایوس ہونے والے لوگ گم راہ ہیں۔

3) اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالی کی تدبیر سے بے خوف رہنا اور

4) اللہ تعالی کی رحمت سے مایوس ہونا بھی کبیرہ گناہ ہے۔

 

نوٹ:

(1) پہلی آیت میں بیان ہے کہ مشرکین اللہ تعالی سے نہیں ڈرتے بلکہ وہ اس کی گرفت اور عذاب سے بے خوف رہتے ہیں۔ اللہ تعالی کا ڈر اور خوف ایک قلبی عبادت ہے۔ اللہ تعالی کی تدبیر کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالی بندے کے لیے تمام امور اس حد تک آسان کر دے کہ وہ اس زعم میں مبتلا ہو جائے کہ اب وہ مکمل طور پر محفوظ ہے، اب اسے کچھ نہیں کہا جائے گا۔ حالانکہ یہ مہلت اس کے حق میں استدراج یعنی ڈھیل ہوتی ہے، جیسا کہ نبی ﷺ کا فرمان ہے :

(إِذَا رَأَيْتَ اللهَ يُعْطِي الْعَبْدَ مِنَ الدُّنْيَا وَهُوَ مُقِيْمٌ عَلَى مَعَاصِيهِ فَاعْلَمُوا أَنَّ ذلِكَ اسْتِدْرَاجٌ) (مسند احمد: 4/ 145)

’’جب تم دیکھو کہ کوئی بندہ مسلسل گناہ کیے جا رہا ہو اور اللہ تعالی اسے مزید انعامات سے نواز رہا ہو تو سمجھو کہ یہ اللہ تعالی کی طرف سے استدراج یعنی مہلت اور ڈھیل ہے۔‘‘

اور اللہ تعالی یہ تدبیر انہی لوگوں کے ساتھ کرتا ہے جو اس کے انبیاء و اولیاء اور اس کے دین کے ساتھ خفیہ تدبیریں اور مکر و فریب کرتے ہیں اور یہ اللہ تعالی کی صفت کمال ہے کیونکہ وہ اپنی عزت و قدرت اور غلبہ و سلطنت کے اظہار کے لیے ایسا کرتا ہے۔

دوسری آیت میں بیان ہے کہ اللہ تعالی کی رحمت سے گمراہ لوگ ہی مایوس رہتے ہیں جبکہ اللہ تعالی سے ڈرنے والے اور ہدایت یافتہ لوگ اس کی رحمت سے مایاس نہیں ہوتے۔

عبادت الہی کے کمال کے سلسلہ میں یہ بھی لازم ہے کہ اللہ تعالی کی گرفت کا خوف اور اس کی رحمت کی امید رکھی جائے جو کہ شرعاً واجب ہے۔

جو شخص تندرست مگر گناہ گار ہو اس کے دل میں رحمت کی امید کی نسبت گرفت کے خوف والا پہلو غالب ہونا چاہیے۔ اسی طرح جو بیمار موت کے کنارے پہنچ چکا ہو اس کے دل میں خوف کی نسبت امید کا پہلو غالب رہنا چاہیے اور معمول کی زندگی گزارنے والے اور نیکی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے کے دل میں امید اور خوف تقریباً برابر برابر ہونے چاہئیں۔

جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے :

(إِنَّهُمْ كَانُوا يُسَارِعُونَ فِي الْخَيْرَاتِ وَيَدْعُونَنَا رَغَبًا وَرَهَبًا وَكَانُوا لَنَا خَاشِعِينَ (سورۃ الأنبياء21: 90))

’’یہ لوگ (دنیا کی زندگی میں)بڑھ چڑھ کر نیکیاں کیا کرتے اور رغبت اور ڈر کے ملے جلے جذبات کے ساتھ ہماری عبادت کرتے اور ہم سے ڈرتے رہتے تھے۔‘‘

(2) اللہ کی رحمت کی امید ترک کر دینے کا نام مایوسی ہے اور اس کے عذاب اور گرفت سے نہ ڈرنے کا مطلب اس کی تدبیر سے بے خوف ہونا ہے۔ جبکہ دل میں ان دونوں (رحمت کی امید اور عذاب کا ڈر)کا ہونا ضروری ہے اور دونوں کے دل سے نکل جانے یا ان میں کمی واقع ہونے سے توحید میں نقص اور کمی واقع ہو جاتی ہے۔

(3) اللہ کی رحمت سے نا امیدی، اکثر لوگوں میں پائی جاتی ہے۔ لفظ رحمت، عموماً اللہ کے انعامات کے حصول اور آفات سے محفوظ رہنے پر بولا جاتا ہے جبکہ روح سے اللہ کی وہ خصوصی مہربانی مراد ہے جس کے ذریعے مصائب سے چھٹکارا ملتا ہے۔

 

 

 

باب:34 اللہ تعالی کی تقدیر پر صبر کرنا ایمان باللہ کا حصہ ہے (1)

 

اللہ تعالی کا ارشاد ہے :

(وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ (سورۃ التغابن64: 11))

’’اور جو شخص اللہ پر ایمان لائے، اللہ اس کے دل کو ہدایت بخشتا ہے اور وہ ہر چیز سے باخبر ہے۔‘‘ (2)

اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں علقمہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : اس سے مراد وہ شخص ہے جسے کوئی تکلیف پہنچے تو وہ اسے اللہ تعالی کا فیصلہ سمجھ کر اس پر راضی ہو اور دل سے اسے تسلیم کرے۔‘‘ (3)

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

( اثْنَتَانِ فِي النَّاسِ هُمَا بِهِمْ كُفْرٌ: الطَّعْنُ فِي النَّسَبِ وَالنِّيَاحَۃ عَلَى الْمَيِّتِ) (صحيح مسلم, كِتَابُ الْإِيمَانَ, بَابُ إِطْلَاقِ اسْمِ الْكُفْرِ عَلَى الطَّعْنِ فِي النَّسَبِ وَالنِّيَاحَۃ عَلَى الْمَيِّتِ, ح: 67 ومسند احمد :2ظ 377, 441, 496)

’’لوگوں میں دوکام ایسے ہیں جو کفر ہیں ، ایک تو کسی کے نسب پر طعن کرنا اور دوسرے میت پر نوحہ کرنا۔‘‘ (4)

ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

(يْسَ مِنَّا مَنْ ضَرَبَ الخُدُودَ، وَشَقَّ الجُيُوبَ، وَدَعَا بِدَعْوَى الجَاهِلِيَّۃ) (صحيح البخاري, كِتَابُ الجَنَائِزِ, بَابٌ: لَيْسَ مِنَّا مَنْ ضَرَبَ الخُدُودَ, ح:1297 وصحيح مسلم , كِتَابُ الْإِيمَانَ, بَابُ تَحْرِيمِ ضَرْبِ الْخُدُودِ وَشَقِّ الْجُيُوبِ وَالدُّعَاءِ بِدَعْوَى الْجَاهِلِيَّۃ, ح:103 ومسند احمد : 1ظ 386, 432, 442)

’’جو شخص صدمے کے وقت چہرے پر دو ہتڑ مارے گریبان پھاڑے، اور جہالت کے بول بولے، وہ ہم میں سے نہیں۔‘‘ (5)

انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

(إِذَا أَرَادَ اللَّهُ بِعَبْدِهِ الخَيْرَ عَجَّلَ لَهُ العُقُوبَۃ فِي الدُّنْيَا، وَإِذَا أَرَادَ بِعَبْدِهِ الشَّرَّ أَمْسَكَ عَنْهُ بِذَنْبِهِ حَتَّى يُوَافِيَ بِهِ يَوْمَ القِيَامَۃ) (سنن الترمذى , أَبْوَابُ الزُّهْدِ, بَابُ مَا جَاءَ فِي الصَّبْرِ عَلَى البَلَاءِ, ح:2396)

’’جب اللہ تعالی اپنے کسی بندے کے ساتھ خیر خواہی کرنا چاہے تو اسے اس کے گناہوں کی سزا دنیا ہی میں جلد دے دیتا ہے اور جب اللہ تعالی اپنے کسی بندے کے ساتھ سختی کرنے کا ارادہ کرے تو اس سے اس کے گناہ کی سزا کو روک لیتا ہے یہاں تک کہ قیامت کے دن اسے پوری پوری سزا دے گا۔‘‘ (6)

نبی ﷺ نے مزید فرمایا ہے :

(إِنَّ عِظَمَ الجَزَاءِ مَعَ عِظَمِ البَلَاءِ، وَإِنَّ اللَّهَ إِذَا أَحَبَّ قَوْمًا ابْتَلَاهُمْ، فَمَنْ رَضِيَ فَلَهُ الرِّضَا، وَمَنْ سَخِطَ فَلَهُ السَّخَطُ) (جامع الترمذى , أَبْوَابُ الزُّهْدِ, بَابُ مَا جَاءَ فِي الصَّبْرِ عَلَى البَلَاءِ, ح:2396)

’’بڑی آزمائش کی جزا بھی بڑی ہوتی ہے اور اللہ تعالی کو جن لوگوں سے محبت ہو وہ انہیں آزماتا ہے۔ جو شخص اس آزمائش پر راضی ہو، اللہ تعالی اس سے راضی ہو جاتا ہے اور جس شخص اس آزمائش پر نا خوش ہو، اللہ تعالی بھی اس سے نا خوش اور اس پر ناراض ہو جاتا ہے۔‘‘

 

مسائل:

1) اس باب سے سورۃ التغابن کی آیت 11 کی تفسیر واضح ہوتی ہے جس میں بیان ہے کہ اللہ تعالی مومن کے دل کو ہدایت بخشتا ہے۔

2) نیز یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالی کے فیصلوں یعنی تقدیر پر صبر کرنا بھی ایمان باللہ کا حصہ ہے۔

3) کسی کے نسب پر طعن کرنا مذموم اور کفریہ کام ہے۔

4) صدمہ کے وقت چہرے پر دو ہتڑ مارنے، گریبان پھاڑنے اور جہالت کے بول بولنے کی مذمت اور ایسا کرنے والوں کے بارے میں سخت وعید بیان ہوئی ہے۔

5) اللہ تعالی اپنے بندے کے ساتھ کس انداز پر کس طرح بھلائی کرتا ہے۔

6) اور اللہ تعالی اپنے کسی بندے پر سختی کا ارادہ کرے تو اس کے ساتھ کیا سلوک ہوتا ہے۔

7) اللہ تعالی کو کسی بندے سے محبت ہو تو اس کی علامت کیا ہے۔

8) اللہ تعالی کے فیصلوں پر نا خوش ہونا حرام ہے۔

9) اور اللہ تعالی کی طرف سے آنے والی آزمائشوں پر راضی ہونے کا بہت زیادہ اجر ہے۔

 

نوٹ:

(1) یعنی اللہ تعالی کی تقدیر پر صبر کرنا انتہائی عظیم الشان اور جلیل القدر عبادت ہے کیونکہ اللہ تعالی کے احکام پر عمل کرنا اور اس کی منہیات سے رکنا صبر ہی سے ممکن ہے۔ صبر کی تین اقسام ہیں :

زبان سے اللہ تعالی کا شکوہ نہ کرنا، قلبی طور پر ناراضی محسوس نہ کرنا اور اعضاء کے ذریعہ بے صبری کا اظہار نہ کرنا…… یہ سب صبر ہی ہے۔

(2) یعنی جو شخص اللہ پر ایمان لا کر اس کی کماحقہ تعظیم کرے، اس کے اوامر کو بجا لائے اور اس کے نواہی سے بچ کر رہے تو اللہ اس کے دل کو عبادت، صبر اور اس کی تقدیر پر راضی رہے پر تیار کر دیتا ہے۔

(3) (تفسیر ابن جریر الطبری، رقم26496)علقمہ رحمہ اللہ کا قول نہایت درست اور صواب پر مبنی ہے۔ یاد رہے ! مصائب اللہ تعالی کی تقدیر سے آتے ہیں اور تقدیر کا دار و مدار اللہ تعالی کی حکمت پر ہوتا ہے اور اللہ عزوجل کی حکمت اس بات کی متقاضی ہوتی ہے کہ ہر امر کو اس کے انجام کے مناسب و موافق مقام پر رکھا جائے جس سے یہ بات واضح طور پر معلوم ہوتی ہے کہ جب بھی بندے کو مصیبت پہنچے تو اللہ کی طرف سے بندے کے لیے اسی میں خیر ہوتی ہے۔ اب اگر اس پر صبر کرے گا تو عند اللہ ماجور ہو گا اور اگر ناراضی کا اظہار اور شکوہ کرے گا تو گناہ گار ٹھہرے گا۔

(4) دو کام ایسے ہیں جو اکثر لوگوں میں موجود ہیں اور موجود رہیں گے : نسب پر طعن کرنا اور نوحہ کرنا۔ زور سے رونا پیٹنا، چیخنا اور چلانا نوحہ ہے جو کہ صبر کے خلاف ہے۔ کسی پریشانی کے موقع پر صبر کرنے کا معنی یہ ہے کہ انسان اپنے اعضا پر کنٹرول رکھے، زور زور سے نہ روئے، چہرے پر یا جسم کے کسی حصے پر دو ہتڑ نہ مارے، دامن نہ پھاڑے، اور زبان سے اللہ تعالی کا شکوہ نہ کرے۔

ان کاموں کے کفر ہونے کا یہ مفہوم نہیں کہ جو شخص یہ کام کرے وہ کافر ہو جاتا ہے یا وہ دین اسلام سے مکمل طور پر خارج ہو جاتا ہے۔ بلکہ اس کا صحیح مفہوم یہ ہے کہ جو شخص یہ کام کرے یا جس میں یہ خصلت پائی جائے اس میں یہ خصلت کفار کی ہے۔ گویا یہ کفار کا کام ہے، مسلمانوں کا نہیں۔

(5) گویا صدمہ کے وقت بے صبری اور اللہ تعالی کے فیصلوں پر رضا مند نہ ہونا کبیرہ گناہ ہے۔ نیکی سے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے جبکہ گناہوں سے ایمان میں کمی واقع ہو جاتی ہے۔ اور ایمان میں کمزوری، توحید میں کمزوری ہوتی ہے اس لیے بے صبری ایمان اور توحید دونوں کے منافی ہے۔

(6) اس حدیث میں اللہ تعالی کی ایک بہت بڑی حکمت بیان کی گئی ہے اور یہی حکمت جب بندے کے دل و دماغ میں راسخ ہو جاتی ہے تو وہ صبر کو ایک عظیم قلبی عبادت جانتے ہوئے اپنے آپ کو اس سے آراستہ پیراستہ کر لیتا ہے اور اللہ کی قضا و قدر پر ناراضی کا اظہار اور شکوہ نہیں کرتا۔ اسی لیے بعض اسلاف کا معمول تھا کہ وہ بیمار نہ ہوتے یا ان پر کوئی آزمائش نہ آتی تو وہ سمجھتے کہ شاید اللہ تعالی ان سے ناراض ہے، اس لیے اس نے مجھے بھلا دیا ہے۔

 

 

 

باب:35 ریاکاری ایک مذموم عمل ہے۔ (1)

 

اللہ تعالی کا فرمان ہے :

(قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ يُوحَى إِلَيَّ أَنَّمَا إِلَهُكُمْ إِلَهٌ وَاحِدٌ فَمَنْ كَانَ يَرْجُو لِقَاءَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَلَا يُشْرِكْ بِعِبَادَۃ رَبِّهِ أَحَدًا (سورۃ الكهف18: 110))

’’ (اے پیغمبر ﷺ !)لوگوں سے کہہ دیجئے کہ میں تو تم جیسا ایک انسان ہوں ، البتہ میری طرف وحی کی جاتی ہے کہ تمہارا ایک ہی معبود ہے۔ پس جو کوئی اپنے رب کی ملاقات کا امید وار ہو، اسے چاہیے کہ وہ اچھے اعمال کرے اور اپنے رب کی بندگی میں کسی کو شریک نہ ٹھہرائے۔‘‘ (2)

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالی فرماتا ہے : ( أَنَا أَغْنَى الشُّرَكَاءِ عَنِ الشِّرْكِ، مَنْ عَمِلَ عَمَلًا أَشْرَكَ فِيهِ مَعِي غَيْرِي، تَرَكْتُهُ وَشِرْكَهُ) (صحيح مسلم, كِتَابُ الزُّهْدِ وَالرَّقَائِقِ, بَابُ مَنْ أَشْرَكَ فِي عَمَلِهِ غَيْرَ اللهِ, ح:2985)

میں تمام شرکاء سے بڑھ کر شرک سے مستغنی ہوں۔ جو شخص اپنے عمل میں میرے ساتھ غیر کو شریک کرے تو میں اسے اس کے شرک کے ساتھ چھوڑ دیتا ہوں۔‘‘ (3)

ابو سعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

(أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِمَا هُوَ أَخْوَفُ عَلَيْكُمْ عِنْدِي مِنَ الْمَسِيحِ الدَّجَّالِ؟ قَالَوا: بَلَى، يَا رَسُولَ اللهِ قَالَ الشِّرْكُ الْخَفِيُّ، يَقُومَ الرَّجُلُ فيُصَلِّي، فَيُزَيِّنُ صَلَاتَهُ، لِمَا يَرَى مِنْ نَظَرِ رَجُلٍ) (مسند احمد:3/30 و سنن ابن ماجۃ، الزھد، باب الریاء و السمعۃ، ح:4204)

’’کیا میں تمہیں وہ بات نہ بتاؤں جس کا خوف مجھے تم پر مسیح دجال سے بھی زیادہ ہے ؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ! کیوں نہیں ؟ (ضرور بتلائیے) آپ نے فرمایا: وہ ہے ’’شرک خفی‘‘ کہ کوئی شخص نماز کے لیے کھڑا ہو اور وہ اپنی نماز کو محض اس لیے سنوار کر پڑھے کہ کوئی شخص اسے دیکھ رہا ہے۔‘‘ (4)

 

مسائل:

1) اس باب سے سورۃ الکہف کی آیت 110 کی تفسیر معلوم ہوئی کہ جسے اللہ تعالی سے ملاقات کی امید ہے وہ نیک اعمال کے ساتھ ساتھ شرک (خفی یعنی ریاء)سے اجتناب ضرور کرے۔

2) عمل صالح میں اگر غیر اللہ کا معمولی سا بھی دخل ہو جائے تو وہ سارا عمل مردود اور ضائع ہو جاتا ہے۔

3) اور اس کا اساسی سبب یہ ہے کہ اللہ تعالی اس سے مکمل طور پر مستغنی ہے۔

4) ریا والے عمل کے ضیاع کا ایک سبب یہ ہے کہ اللہ تعالی اپنے ساتھ شریک کیے جانے والے تمام شرکاء سے اعلی اور ا‌فضل ہے۔

5) نبی ﷺ کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں بھی ریا کا اندیشہ لاحق رہتا تھا۔

6) نبی ﷺ نے ریا کی تفسیر کرتے ہوئے یوں فرمایا: کوئی آدمی نماز جیسا عمل کرتے ہوئے محض اس لیے اسے عمدہ طور پر ادا کرے کہ کوئی اسے دیکھ رہا ہے۔

 

نوٹ:

(1) ریاکاری یعنی دکھلاوا ایک انتہائی مذموم عمل ہے۔ یہ گناہ اور اللہ تعالی کے ساتھ شرک ہے۔ لفظ ریا ’’رؤيۃ‘‘ سے ماخوذ ہے۔ جس کا معنی آنکھوں سے دیکھنے کا ہے۔ اس کی صورت یوں ہوتی ہے کہ انسان نیکی کا کوئی عمل کرتے وقت یہ ارادہ کرے کہ لوگ مجھے یہ عمل کرتے ہوئے دیکھ لیں اور میری تعریف کریں۔

ریا دو قسم کی ہے :

ایک ریا منافقین کی ہے کہ وہ لوگوں کو دکھانے کے لیے ظاہری طور پر اسلام کا دعوی کرتے اور نام لیتے ہیں۔ مگر ان کے دلوں میں کفر پوشیدہ ہوتا ہے۔ یہ ریا اور طرز عمل، توحید کے منافی اور اللہ تعالی کے ساتھ کفر ہے۔

ریا کی دوسری صورت یہ ہے کہ کوئی مسلمان نیکی کا کوئی کام کرتے ہوئے دکھلاوے کی نیت کرے کہ لوگ اسے یہ عمل کرتے دیکھیں اور اس کی تعریف کریں۔ یہ پوشیدہ شرک ہے اور توحید کے اعلی درجہ کے منافی ہے۔

(2) اس آیت میں ہر قسم کے شرک کی ممانعت ہے۔ ریاکاری بھی شرک کی اقسام میں سے ایک قسم ہے۔ اسی لیے علماء نے اس آیت سے ریا کے مسائل پر استدلال کیا ہے۔

(3) یہ حدیث دلیل ہے کہ ریا والا عمل اللہ تعالی کے ہاں مقبول نہیں بلکہ وہ عمل کرنے والے کی طرف لوٹا دیا جاتا ہے۔ جب کسی عبادت میں ابتداء ریا شامل ہو (یعنی وہ عبادت محض ریا اور دکھلاوے کے لیے کی جائے)تو وہ ساری عبادت باطل ہو جاتی ہے اور وہ عمل کرنے والا دکھلاوے کی وجہ سے گناہ گار اور شرک خفی کا مرتکب ہوتا ہے۔ البتہ اگر اصل عمل (عبادت)محض اللہ تعالی کے لیے ہی ہو مگر عمل کرنے والا اس میں کسی قدر ریا کو شامل کر دے مثلاً اللہ کے لیے نماز پڑھتے ہوئے لوگوں کے دکھلاوے کے لیے نماز کا رکوع طویل کر دے اور تسبیحات کی تعداد زیادہ کر دے تو ایسا کرنے سے وہ آدمی گناہ گار ہو گا اور اس کی اتنی عبادت ضائع ہو جائے گی جتنی اس نے ریا کے لیے کی جبکہ مالی عبادت میں ریا شامل ہونے سے ساری عبادت اکارت جاتی ہے۔

( أَشْرَكَ فِيهِ مَعِي غَيْرِي…..) ’’جو شخص اپنے عمل میں میرے ساتھ غیر کو بھی شامل کرے …..‘‘ اس عبارت کا مفہوم یہ ہے کہ اگر کوئی بندہ اپنے کسی عمل صالح میں اللہ کی رضا کے ساتھ ساتھ غیر اللہ کی خوشنودی کا خواہش مند بھی ہو تو اللہ تعالی ایسے شرک سے مستغنی ہے۔ وہ صرف وہی عمل قبول کرتا ہے جو محض اسی کی رضا جوئی کے لیے کیا جائے۔

(4) مسیح دجال کا معاملہ تو واضح ہے جسے نبی ﷺ نے کھول کر بیان فرما دیا ہے (اور اس سے بچنا آسان ہے) لیکن ریا عام طور پر دل میں اس طرح پیدا ہوتی ہے کہ یہ انسان کو آہستہ آہستہ اللہ تعالی کی بجائے لوگوں کی طرف متوجہ کر دیتی ہے (اور اس سے بچنا انتہائی مشکل ہے)۔اس لیے نبی ﷺ نے اسے فتنۂ دجال سے زیادہ خوفناک اور شرک خفی قرار دیا ہے۔

 

 

باب:36کسی نیک عمل سے دنیا کا طالب ہونا بھی شرک ہے

 

اللہ تعالی کا ارشاد ہے :

(مَنْ كَانَ يُرِيدُ الْحَيَاۃ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا نُوَفِّ إِلَيْهِمْ أَعْمَالَهُمْ فِيهَا وَهُمْ فِيهَا لَا يُبْخَسُونَ (15) أُولَئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَۃ إِلَّا النَّارُ وَحَبِطَ مَا صَنَعُوا فِيهَا وَبَاطِلٌ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ (سورۃ هود11: 16))

’’جو لوگ دنیا کی زندگی اور اس کی زینت کے طالب ہیں ، ان کے اعمال کا سارا بدلہ ہم انہیں دنیا ہی میں دے دیتے ہیں اور اس میں ان کے ساتھ کوئی کمی نہیں کی جاتی۔ ان کے لیے آخرت میں آگ کے سوا کچھ نہیں۔ انہیں نے اس دنیا میں جو کچھ کیا وہ سب ضائع ہے اور جو کچھ کرتے رہے وہ سب برباد ہے۔‘‘ (1)

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

(تَعِسَ عَبْدُ الدِّينَارِ، تَعِسَ وَعَبْدُ الدِّرْهَمِ، تَعِسَ وَعَبْدُ الخَمِيصَۃ، تَعِسَ وَعَبْدُ الخَمِيلَۃ, إِنْ أُعْطِيَ رَضِيَ، وَإِنْ لَمْ يُعْطَ سَخِطَ، تَعِسَ وَانْتَكَسَ، وَإِذَا شِيكَ فَلاَ انْتَقَشَ، طُوبَى لِعَبْدٍ آخِذٍ بِعِنَانِ فَرَسِهِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، أَشْعَثَ رَأْسُهُ، مُغْبَرَّۃ قَدَمَاهُ، إِنْ كَانَ فِي الحِرَاسَۃ، كَانَ فِي الحِرَاسَۃ، وَإِنْ كَانَ فِي السَّاقَۃ كَانَ فِي السَّاقَۃ، إِنِ اسْتَأْذَنَ لَمْ يُؤْذَنْ لَهُ، وَإِنْ شَفَعَ لَمْ يُشَفَّعْ) (صحيح البخاري,كِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّيَرِ, بَابُ الحِرَاسَۃ فِي الغَزْوِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ, ح:2887)

’’درہم و دینار (روپے پیسے)کا پجاری ہلاک ہوا۔ چادر اور کمبل کا پجاری ہلاک ہوا۔ اگر یہ چیزیں اسے مل جائیں تو خوش اور اگر نہ ملیں تو نا خوش۔ یہ برباد اور سرنگوں ہوا۔ اگر اسے کانٹا چبھے تو کوئی نہ نکالے، اور اس شخص کے لیے بہت بڑی سعادت ہے جو اللہ تعالی کی راہ میں گھوڑے کی باگ تھامے ہوئے ہو، اس کا سر (یعنی بال) پراگندہ اور پاؤں گرد آلود ہوں ، اگر اسے (اسلامی فوج کے)پہرے پر بٹھایا جائے تو پہرہ دے، اگر اسے (اسلامی لشکر کے)پچھلے حصے پر مقرر کیا جائے تو وہاں ڈیوٹی دے، اگر وہ اجازت مانگے تو اسے اجازت نہ ملے، اور اگر وہ کسی کے حق میں سفارش کرے تو اس کی سفارش قبول نہ ہو۔‘‘ (2)

 

مسائل:

1) اس تفصیل سے واضح ہوا کہ انسان کا، آخرت میں کام آنے والے نیک اعمال کے بدلے، دنیا کا خواہش مند ہونا مذموم ہے۔

2) سورۂ ہود کی آیات 16، 15 کی تفسیر بھی معلوم ہوئی جن میں طالب دنیا کی مذمت بیان ہوئی ہے۔

3) مسلمان آدمی کو درہم و دینار کا پجاری کہا جا سکتا ہے۔

4) اگر اس کی آرزو پوری ہو تو خوش ورنہ نا خوش ہوتا ہے۔

5) اس حدیث میں الفاظ ’’تَعِسَ ‘‘ اور ’’وَانْتَكَسَ‘‘قابل غور ہیں۔

6) اور حدیث کے الفاظ ’’وَإِذَا شِيكَ فَلاَ انْتَقَشَ‘‘ بھی توجہ طلب ہیں۔

7) اس حدیث میں مذکورہ صفات کے حامل، مجاہد کی فضیلت بھی ثابت ہوتی ہے۔

 

نوٹ:

(1) دنیا کے اجر و ثواب کے حصول کے لیے کوئی نیک عمل کرنا شرک اصغر ہے اور اپنے اعمال، قصد اور حرکات سے محض دنیا کے طالب کفار ہی ہوتے ہیں۔ یہ آیت اگرچہ انہی کے بارے میں نازل ہوئی ہے لیکن اس کے الفاظ کے تحت ہر وہ شخص آ جاتا ہے جو اپنے عمل صالح کے ذریعہ دنیا کا طالب اور خواہاں ہو۔

نیک اعمال بجا لاتے وقت انسان کے ذہن میں اگر دنیوی اجر و ثواب ہو تو اس کی دوقسمیں ہیں :

(الف) انسان کسی عمل صالح کو محض دنیوی اجر کے حصول کے لیے بجا لائے اور آخرت کے اجر کا طالب نہ ہو جبکہ وہ عمل ہے ہی ایسا کہ شریعت نے اس کا اخروی اجر تو بتایا ہے لیکن دنیوی اجر کی کوئی ترغیب نہیں دلائی۔ مثلاً نماز، روزہ اور اطاعت و فرمانبرداری کے دیگر اعمال، ان اعمال کو بجا لاتے وقت دنیوی اجر کا طلبگار ہونا جائز نہیں بلکہ اگر کوئی ہو گا تو وہ مشرک ٹھہرے گا۔

(ب)  کچھ اعمال صالحہ ایسے ہیں جن کا دنیوی اجر و ثواب شریعت نے بتایا ہے بلکہ اخروی اجر و ثواب کے ساتھ ساتھ اس دنیوی اجر کا شوق بھی دلایا ہے۔ مثلاً صلہ رحمی، والدین کے ساتھ حسن سلوک اور حسن معاشرت کے اعمال وغیرہ۔ ان اعمال کو بجا لاتے وقت اگر تو انسان، محض دنیوی اجر و ثواب کو اپنے ذہن میں رکھے تو لائق وعید ہو گا اور اس کا عمل شرک کے زمرے میں آئے گا لیکن اگر دنیوی اور اخروی دونوں ثواب اس کے ذہن میں ہوں تو کوئی مضائقہ نہیں کیونکہ شریعت نے ان اعمال پر دنیوی ثواب کا ذکر، محض ترغیب دلانے کے لیے کیا ہے۔ اس آیت مبارکہ کے تحت جہاں اور بہت سے لوگ آتے ہیں وہاں وہ لوگ بھی اس میں شامل ہیں جو سراسر دنیوی مال و دولت کی خاطر نیک اعمال کرتے ہیں۔

مثلاً دینی علم پڑھانے والا مدرس اگر محض تنخواہ لینے کے لیے پڑھاتا ہے اور اس کا ارادہ، جہالت کو دور کرنے، جنت کو حاصل کرنے اور جہنم سے بچنے کا نہیں تو وہ اسی وعید میں آئے گا۔ اسی طرح وہ لوگ جو ریا اور دکھلاوے کے لیے نیک اعمال کرتے ہیں وہ بھی اس میں شامل ہیں اور وہ لوگ بھی جو نیک اعمال تو کرتے ہیں لیکن ان کے ساتھ ساتھ اسلام اور توحید کے منافی امور کے مرتکب بھی ہیں ایسے لوگ اگرچہ اپنے آپ کو مومن کہلائیں لیکن در حقیقت جھوٹے ہیں اگر یہ سچے ہوتے تو اپنے اعمال، محض اللہ کے لیے بجا لا کر اس کی توحید کو ماننے کا ثبوت دیتے اور دنیا کے اجر و ثواب کے طلبگار ہو کر شرک کے مرتکب نہ ہوتے۔

(2)اس حدیث سے درہم و دینار کی مذمت ثابت ہوتی ہے۔ جس نے درہم و دینار کے لیے عمل کیا وہ گویا درہم و دینار کی عبادت کر کے شرک کا مرتکب ہو رہا ہے۔

کیونکہ عبودیت کے درجات مختلف ہیں۔ ان میں سے ایک درجہ شرک اصغر کی عبودیت کا بھی ہے۔ جب یہ کہا جاتا ہے کہ فلاں شخص اس چیز کا پجاری ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ چیز ہی اس کے اس عمل کی محرک او باعث ہے۔ اور یہ بات بھی یقینی ہے کہ پجاری اپنے آقا کا مطیع و فرمانبردار ہوتا ہے، اس کا آقا اس کا رخ جدھر بھی کر دے وہ ادھر ہی ہو لیتا ہے۔

 

 

باب:37 اللہ تعالی کی حلال کردہ چیز کو حرام یا حرام کردہ چیز کو حلال سمجھنے میں علماء و امراء کی اطاعت ان کو رب کا درجہ دینا ہے۔ (1)

 

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا:

(يُوْشِكُ أَنْ تَنْزِلَ عَلَيْكُمْ حِجَارَۃ مِّنَ السَّمَاءِ، أَقُولُ قَالَ رَسُولُ الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَتَقُولُونَ: قَالَ أَبُوبَكْرٍ وَّعُمَرُ) (مسند احمد:1/ 337)

’’ (تمہارا یہی حال رہا تو) قریب ہے کہ تم پر آسمان سے پتھر برسیں ، میں تمہیں رسول اللہ ﷺ کا فرمان سناتا ہوں اور تم (اس کے مد مقابل) ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ کی بات کرتے ہو۔‘‘ (2)

امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: ’’مجھے ان لوگوں پر تعجب ہے جو حدیث کی سند اور اس کے صحیح ہونے کا علم ہو جانے کے بعد بھی سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ کی رائے پر عمل کرتے ہیں جبکہ اللہ تعالی نے فرمایا ہے :

(فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَنْ تُصِيبَهُمْ فِتْنَۃ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ (سورۃ النور24: 63))

’’رسول اللہ ﷺ کے حکم کی مخالفت کرنے والوں کو ڈرنا چاہیے کہ ان پر کوئی فتنہ یا سخت عذاب نہ آ پڑے۔‘‘

جانتے ہو فتنہ کیا ہے ؟ اس سے مراد ’’شرک‘‘ ہے۔ ہو سکتا ہے کہ جو انسان رسول اللہ ﷺ کی کسی بات کو چھوڑ دے تو اس کے دل میں کجی آ جائے اور وہ ہلاک ہو جائے۔

حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ نے نبی ﷺ کو یہ آیت تلاوت کرتے ہوئے سنا: (اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ وَالْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا إِلَهًا وَاحِدًا لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ سُبْحَانَهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ (سورۃ التوبۃ9: 31))

’’انہوں (یعنی عیسائیوں) نے اپنے علماء، بزرگوں اور مسیح ابن مریم کو اللہ کے سوا رب بنا لیا، حالانکہ انہیں یہ حکم دیا گیا تھا کہ ایک اللہ تعالی کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں ، وہ ان شریکوں سے پاک ہے جن کو وہ اس کے شریک ٹھہراتے ہیں ‘‘۔

(حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ، جو کہ پہلے عیسائی تھے، کہتے ہیں) میں نے نبی کریم ﷺ سے کہا: ہم ان علماء اور بزرگوں کی عبادت تو نہیں کرتے تھے۔‘‘ آپ نے فرمایا ’’کیا ایسا نہیں تھا کہ تم اللہ کی حلال کردہ چیزوں کو ان کے کہنے پر حرام اور اللہ کی حرام کردہ چیزوں کو ان کے کہنے پر حلال سمجھتے تھے ؟ میں نے کہا: ’’واقعی ایسا ہی ہے۔‘‘ آپ نے فرمایا: ’’یہی ان کی عبادت ہے۔‘‘ (3)

 

مسائل:

1) اس باب سے سورۂ نور کی آیت 63 کی تفسیر واضح ہوئی جس میں رسول اللہ ﷺ کی نا فرمانی اور حکم عدولی کے انجام سے ڈرایا گیا ہے۔

2) نیز سورۃ التوبہ کی آیت 31 کی تفسیر بھی معلوم ہوئی جس میں بیان ہے کہ یہودیوں کے طرح اپنے علماء اور بزرگوں کو اپنے رب بنا لیا تھا۔

3) اس بحث سے عبادت کا معنی اور مفہوم بھی واضح ہوا کہ عبادت کا صرف وہ مفہوم نہیں جو عدی رضی اللہ عنہ نے سمجھا تھا اور انہوں نے کہا تھا کہ ہم تو اپنے علماء اور بزرگوں کی عبادت نہیں کرتے تھے۔ آپ نے واضح فرمایا کہ اللہ تعالی کی حلال کردہ چیز کو علماء کے کہنے پر حرام سمجھنا اور اللہ تعالی کی حرام کردہ چیز کو علماء کے کہنے پر حلال سمجھنا بھی ان علماء کی عبادت اور ان کو اپنے معبود گرداننے کے مترادف ہے۔

4) اس باب سے یہ بھی معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کے بالمقابل کسی بھی ہستی کو پیش نہیں کیا جا سکتا خواہ اس کا مقام کتنا ہی بلند اور ارفع کیوں نہ ہو۔ جیسا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے نام، آپ کے بالمقابل پیش کرنے پر اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ کا نام پیش کرنے پر ناپسندید گی کا اظہار کیا۔

5) اس بحث میں یہ تنبیہ بھی ہے کہ اب حالات اس حد تک تبدیل ہو گئے ہیں کہ اکثر لوگوں کے نزدیک بزرگوں کی عبادت، ایک افضل ترین عمل کی حیثیت اختیار کر چکی ہے۔ اب اسے ولایت کہا جاتا ہے۔ اسی طرح علم و فقہ کے نام پر اہل علم کی عبادت ہوتی ہے۔ اور پھر بعد ازاں حالات اس قدر تبدیل ہو چکے ہیں کہ اللہ کے بالمقابل ایسے لوگوں کی بھی پرستش ہو رہی ہے جو مطلقاً صالح نہ تھے۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ ان کی بھی پرستش ہو رہی ہے جو اصحاب علم نہیں بلکہ جاہل مطلق ہیں۔

 

نوٹ:

(1) مصنف رحمہ اللہ اس باب میں اور اس کے بعد کے ابواب میں توحید کے تقاضے اور کلمہء شہادت کے لوازمات بیان کر رہے ہیں۔

یاد رہے ! علماء دین کتاب و سنت کی نصوص کو سمجھنے کا ذریعہ اور واسطہ ہیں ان کی اطاعت، اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کے تابع سمجھ کر کی جائے گی۔ مستقل طور پر اطاعت صرف اللہ عزوجل کی ہے اس لیے کہ اطاعت بھی عبادت ہی کی ایک قسم ہے۔

البتہ وہ اجتہادی معاملات جن کے بارے میں کتاب وسنت کی کوئی نص صریح وارد نہیں ہوئی ان میں وہ قابل اطاعت ہیں کیونکہ اس کی اجازت خود اللہ تعالی نے دی ہے اور مصلحت کا تقاضا بھی یہی ہے۔ شریعت نے ان مصلحتوں کا لحاظ رکھا ہے۔

(2) امام احمد رحمہ اللہ نے صحیح سند کے ساتھ ابن عباس رضی اللہ عنہم کا یہ قول اور ان کا یہ نظریہ بیان کیا ہے کہ وہ نبی ﷺ کے صریح اور واضح فرمان کے سامنے کسی دوسرے کا قول اور رائے پیش کرنے کے قائل نہ تھے، خواہ وہ قول اور رائے ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما جیسی جلیل القدر شخصیات ہی کی کیوں نہ ہو تو پھر ان سے کم مرتبہ کسی شخصیت کی بات رسول اللہ ﷺ کی بات کے سامنے کیسے پیش کی جا سکتی ہے ؟

(3) (جامع ترمذی، تفسیر القرآن، باب و من سورۃ التوبہ، ح 3095) علماء و امراء کی تعظیم میں غلو کرتے ہوئے ان کے کہنے پر اور ان کی اطاعت کرتے ہوئے دین کو تبدیل کر ڈالنا، جس چیز کو وہ حلال کہیں اسے حلال سمجھنا اور جس چیز کو وہ حرام کہیں اسے حرام جاننا جبکہ اس بات کا علم بھی ہو کہ یہ چیز حلال ہے یا حرام، یہ سراسرا نہیں رب اور معبود بنا لینے کے مترادف ہے اور یہ بہت بڑا کفر اور شرک اکبر ہے کیونکہ اس صورت میں اطاعت (جو کہ عبادت کی ایک قسم ہے) کا حق دار، اللہ کو چھوڑ کر غیر اللہ کو ٹھہرایا گیا ہے۔

مصنف رحمہ اللہ نے اس مقام پر، صوفیاء، تصوف کے باطل طریقوں اور صوفیاء کی تعظیم میں غلو کرنے والوں کے بارے میں تنبیہ کرنا چاہتے ہیں کہ انہوں نے اپنے مشائخ اور اولیاء، جن کو وہ اپنے زعم باطل میں اولیاء سمجھتے تھے حالانکہ وہ حقیقت میں اولیاء نہیں تھے، کی دین کو تبدیل کرنے میں اطاعت کی اور اللہ تعالی نے ان کی اسی اطاعت کے بارے میں فرمایا کہ انہوں نے ان کو رب اور معبود بنا لیا تھا۔

 

 

 

باب:38 بعض ایمان کا دعویٰ کرنے والوں کی حقیقت (1)

 

ارشاد الہی ہے :

(أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ يَزْعُمُونَ أَنَّهُمْ آمَنُوا بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ يُرِيدُونَ أَنْ يَتَحَاكَمُوا إِلَى الطَّاغُوتِ وَقَدْ أُمِرُوا أَنْ يَكْفُرُوا بِهِ وَيُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَنْ يُضِلَّهُمْ ضَلَالًا بَعِيدًا (60) وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْا إِلَى مَا أَنْزَلَ اللَّهُ وَإِلَى الرَّسُولِ رَأَيْتَ الْمُنَافِقِينَ يَصُدُّونَ عَنْكَ صُدُودًا (61) فَكَيْفَ إِذَا أَصَابَتْهُمْ مُصِيبَۃ بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيهِمْ ثُمَّ جَاءُوكَ يَحْلِفُونَ بِاللَّهِ إِنْ أَرَدْنَا إِلَّا إِحْسَانًا وَتَوْفِيقًا (سورۃ النساء4: 62))

’’کیا آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو دعوی تو یہ کرتے ہیں کہ جو (کتاب)آپ پر نازل ہوئی اور جو (کتابیں) آپ سے پہلے نازل ہوئیں ، ان سب پر ایمان رکھتے ہیں (مگر)چاہتے ہیں کہ اپنا مقدمہ طاغوت کے پاس لے جا کر فیصلہ کرائیں ، حالانکہ انہیں طاغوت اور اس کے فیصلے کے ساتھ کفر کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور شیطان انہیں بھٹکا کر راہ راست سے بہت دور لے جانا چاہتا ہے۔ اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ آؤ اس چیز کی طرف جو اللہ نے نازل کی ہے اور آؤ رسول اللہ ﷺ کی طرف، تو آپ دیکھیں گے کہ منافق آپ سے اعراض کر کے رکے جاتے ہیں۔ اور پھر (ان کا)کیا حال ہوتا ہے جب ان کے اپنے اعمال کے سبب ان پر کوئی مصیبت آ پڑے تو آپ کی خدمت میں آ کر قسمیں اٹھاتے ہیں کہ ہم نے تو صرف اچھائی اور صلح کرانے کا ارادہ کیا تھا۔‘‘ (2)

نیز ارشاد باری تعالی ہے :

(وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ لَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ قَالُوا إِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُونَ (سورۃ البقرۃ2: 11))

’’اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد برپا نہ کرو تو کہتے ہیں ہم تو صرف اصلاح کرنے والے ہیں۔‘‘ (3)

اور مزید فرمایا:

(وَلَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ بَعْدَ إِصْلَاحِهَا (سورۃ الأعراف7: 56))

’’اور زمین میں ، اس کی اصلاح کر دیے جانے کے بعد فساد نہ کرو۔‘‘

نیز اللہ تعالی نے فرمایا:

(أَفَحُكْمَ الْجَاهِلِيَّۃ يَبْغُونَ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللَّهِ حُكْمًا لِقَوْمٍ يُوقِنُونَ (سورۃ المائدۃ5: 50))

’’ (یہ لوگ اگر اللہ کے قانون کو نہیں مانتے) تو کیا پھر یہ جاہلیت کا فیصلہ چاہتے ہیں ؟ اور جو لوگ اللہ پر یقین رکھتے ہیں ان کے نزدیک اللہ سے بہتر فیصلہ کرنے والا اور کون ہو سکتا ہے ؟‘‘ (4)

عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

(لا يُؤْمِنْ أَحَدُكُمْ حَتَّى يَكُونَ هَوَاهُ تَبَعاً لِّمَا جِئْتُ بِهِ) (قال النووی فی الاربعین، ح:41 حدیث صحیح رویناہ فی کتاب الحجۃ باسناد صحیح)

’’تم میں سے کوئی اس وقت تک (کامل)ایمان دار نہیں ہو سکتا جب تک کہ اس کی تمام تر خواہشات اس شریعت کے تابع نہ ہو جائیں جسے میں لایا ہوں۔‘‘

شعبی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ ایک منافق اور یہودی کے مابین جھگڑا ہو گیا۔ یہودی جانتا تھا کہ محمد ﷺ رشوت نہیں لیتے۔ اس نے کہا ہم یہ معاملہ محمد ﷺ کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔ اور منافق نے کہا: ہم یہ معاملہ یہود کے پاس لے چلتے ہیں۔ وہ جانتا تھا کہ یہودی رشوت لیتے ہیں۔ آخر کار دونوں اس بات پر راضی ہو گئے کہ بنوجہینہ کے ایک کاہن سے فیصلہ کرا لیا جائے۔ تو اس موقع پر سورۂ نساء کی آیت 60 نازل ہوئی۔ (آیت اور ترجمہ، باب کے آغاز میں گزر چکا ہے۔)

بعض اہل علم نے بیان کیا ہے کہ یہ آیت ان دو آدمیوں کے بارے میں نازل ہوئی جن کا کسی معاملہ میں آپس میں اختلاف ہو گیا تھا تو ان میں سے ایک نے کہا کہ ہم یہ معاملہ محمد ﷺ کے پاس پیش کرتے ہیں۔ دوسرے نے کہا نہیں ، یہ معاملہ کعب بن اشرف یہودی کے پاس لے چلتے ہیں۔ چنانچہ وہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس چلے آئے تو ان میں سے ایک نے سارا واقعہ ان کے گوش گزار کر دیا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس شخص سے استفسار کیا جو رسول اللہ ﷺ سے فیصلہ نہیں کرانا چاہتا تھا، کیا یہ ٹھیک کہہ رہا ہے ؟ اس نے کہا: جی ہاں ! چنانچہ انہوں نے تلوار سے اس کا کام تمام کر دیا۔ (تفسیر الدر المنثور للسیوطی)

 

مسائل:

1) اس بحث سے سورۂ نساء کی آیت 60 کی تفسیر اور طاغوت کے معنی کی وضاحت ہوئی۔

2) سورۂ بقرہ کی آیت 11 کی تفسیر بھی معلوم ہوئی کہ فساد کرنے والے خود کو اصلاح کار کہتے ہیں۔

3) سورۂ اعراف کی آیت 56 کی تفسیر بھی معلوم ہوئی جس میں ، زمین میں فساد کرنے سے روکا گیا ہے۔

4) سورہ مائدہ کی آیت 50 کی تفسیر بھی ہے کہ اللہ تعالی سے بڑھ کر بہتر فیصلہ کرنے والا کوئی نہیں۔

5) اس باب میں مذکور اول الذکر آیت کی تفسیر میں شعبی کا قول بھی سامنے آیا ہے۔

6) یہ بھی معلوم ہوا کہ سچا ایمان دار کون ہے اور جھوٹا کون۔

7) سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے منافق کے ساتھ جو سلوک کیا اس کا ذکر بھی ہے۔

8) یہ بھی معلوم ہوا کہ کسی شخص کا ایمان اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتا جب تک اس کی تمام تر خواہشات رسول اللہ ﷺ ک شریعت کے تابع نہ ہوں۔

 

نوٹ:

(1) اللہ تعالی کی توحید ربوبیت اور توحید الوہیت کا تقاضا ہے کہ حکم اور فیصلے میں بھی اسے اکیلا اور وحدہ لاشریک لہ سمجھا جائے۔اطاعت کا حقدار صرف اللہ عزوجل کو جاننے اور اللہ تعالی کی توحید اور رسول اللہ ﷺ کی رسالت کی گواہی کو سچ ثابت کرنے کے لیے ضروری ہے کہ بندے اللہ کے نازل کردہ احکام کے مطابق باہمی فیصلے کریں اور جاہلیت کے قوانین اور ضوابط کے مطابق فیصلے کرنا ترک کر دیں کیونکہ یہ بہت بڑا کفر اور توحید کے منافی امر ہے۔

شیخ محمد بن ابراہیم رحمہ اللہ اپنے رسالہ ’’تحکیم القوانین‘‘ میں رقم طراز ہیں :

’’یہ بہت بڑا اور صریح کفر ہے کہ ایک قابل لعنت قانون کو اس قانون کی جگہ لا کھڑا کیا جائے جسے روح الامین (جبریل علیہ السلام) سید المرسلین (محمد ﷺ) کی طرف اس لیے لے کر آئے تاکہ آپ تمام اہل جہان کے مابین رب العالمین کے حکم کے مطابق فیصلہ کرنے والے ہوں۔

(2) ان لوگوں کا اپنے مقدمے کو طاغوت (غیر اللہ) کے پاس لے جا کر اس سے فیصلہ کروانے کی خواہش رکھنے کے ساتھ ساتھ یہ دعوی کرنا کہ وہ قرآن اور اس سے سابقہ تمام آسمانی کتب پر ایمان رکھتے ہیں ، جھوٹ اور حقیقت کے برعکس ہے کیونکہ ایمان، اور طاغوت سے فیصلہ کروانے کی خواہش رکھنا دونوں ایسے باہمی متضاد امور ہیں کہ ان دونوں کا یکجا جمع ہونا ناممکن ہے۔

’’يُرِيدُونَ أَنْ يَتَحَاكَمُوا ….‘‘ ’’وہ چاہتے ہیں کہ اپنا مقدمہ طاغوت کے پاس لے جا کر اس سے فیصلہ کروائیں۔‘‘ اس جملے میں لفظ ’’يُرِيدُونَ….‘‘ ’’وہ چاہتے ہیں ‘‘ ایک اہم ضابطے کی طرف اشارہ ہے وہ یہ کہ طاغوت سے فیصلہ کروانے والے شخص سے ایمان کی نفی اس وقت ہو گی جب وہ اپنے ارادے، خوشی اور اختیار کے ساتھ اس سے فیصلہ کروائے اور اسے ناپسند نہ سمجھے۔ گویا اس فیصلہ میں ارادہ، اختیار اور خوشی ایک شرط کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اگر یہ چیزیں ہوں گی تو وہ شخص ایمان دار کہلانے کا حق دار قطعاً نہیں ہو گا اور اگر اسے طاغوت سے فیصلہ کروانے اور تسلیم کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے، وہ اسے ناپسند جانتا ہے تو ایسا مجبور و لاچار شخص ایمان سے خارج نہ ہو گا۔

’’وَقَدْ أُمِرُوا….‘‘ ’’انہیں طاغوت اور اس کے فیصلے کے ساتھ کفر کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔‘‘ طاغوت (غیر اللہ) سے فیصلہ کروانے کا انکار کرنا اور اس کے ساتھ کفر کرنا صرف واجب نہیں بلکہ یہ توحید کا لازمی جزو اور اللہ تعالی کو رب مان کر اس کی تعظیم کرنے کا تقاضا بھی ہے۔

’’وَيُرِيدُ الشَّيْطَانُ….‘‘ ’’شیطان چاہتا ہے کہ انہیں بھٹکا کر راہ راست سے بہت دور لے جائے۔‘‘

آیت کے اس آخری جملے سے معلوم ہوا کہ غیر اللہ سے فیصلہ کروانے کی خواہش رکھنا اور اسے تسلیم کرنا سراسر شیطانی الہام اور ابلیسی بہکاوا ہے۔

(3) یعنی ان سے کہا جاتا ہے کہ غیر اللہ کے قانون کے مطابق فیصلہ کر کے اور اللہ کے ساتھ غیروں کو شریک ٹھہرا کر زمین میں فساد برپا نہ کرو کیونکہ اللہ کی شریعت اور توحید کے ساتھ زمین میں امن و امان ہوتا ہے اور شرک کی تمام تر انواع و اقسام کے ساتھ زمین میں فساد بپا ہوتا ہے۔ اس آیت مبارکہ سے معلوم ہوا کہ زمین میں شرک پھیلانے اور اس کے اسباب و وسائل کو اختیار کرنے کی سعی و کوشش کرنا منافقوں کی خصلت اور عادت ہے اور اس سے بدتر یہ کہ وہ فساد کرنے کے باوجود اپنے آپ کو امن پسند اور اصلاح پسند کہتے ہیں۔

(4) دور جاہلیت کا طریقہ کار یہ ہوتا تھا کہ جو جس کو چاہتا اسے اپنا حکم اور منصف مان لیتا اور وہ منصف اپنے ہی وضع کردہ قوانین کے مطابق فیصلہ کرتا۔ گویا جاہلیت کے قوانین کے مطابق فیصلے کرنا اور کرانا ایک بشر اور انسان کو حکم اور منصف بنانا ہے اور اسے حکم و منصف بنانے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کو چھوڑ کر اسے مطاع، لائق اطاعت اور اللہ عزو  جل کے ساتھ شریک ٹھہرایا گیا ہے جو شرک اور باطل ہے۔

 

 

 

باب:39 اللہ تعالی کے اسماء و صفات کا انکار (1)

 

ارشاد الہی ہے :

(وَهُمْ يَكْفُرُونَ بِالرَّحْمَنِ قُلْ هُوَ رَبِّي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْهِ مَتَابِ (سورۃ الرعد13: 30))

’’اور یہ لوگ رحمن کو نہیں مانتے، آپ (ان سے) کہہ دیں کہ وہی (رحمن) مرا رب ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ میرا اسی پر بھروسہ اور وہی میری پناہ گاہ ہے۔‘‘ (2)

سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا قول ہے ’’لوگوں کو وہی باتیں بتاؤ جنہیں وہ جان سکیں۔ (جو باتیں ان کے فہم و شعور سے بالا ہوں وہ سنا کر) کیا تم چاہتے ہو کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کو جھٹلایا جائے۔ (3)

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ایک شخص کو دیکھا جسے صفات باری تعالی کے بارے میں ایک حدیث سن کر یوں کپکپی آ گئی گویا اسے یہ حدیث اچھی نہیں لگی اور وہ اسے اجنبی سا محسول کر رہا ہے تو یہ منظر دیکھ کر ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: ’’ان لوگوں کا ڈر عجیب ہے کہ اللہ کی محکم آیات سن کر ان پر رقت طاری ہو جاتی ہے اور متشابہ آیات سن کر (اور نہ مان کر)ہلاکت میں پڑتے جا رہے ہیں۔ (4)

اور جب قریش نے نبی ﷺ سے رحمن کا ذکر سنا تو انہوں نے اس کا انکار کیا۔ تب اللہ تعالی نے ان کے بارے میں آیت نازل فرمائی:

(وَهُمْ يَكْفُرُونَ بِالرَّحْمَنِ (سورۃ الرعد13: 30))

’’اور وہ رحمن (کو نہیں مانتے بلکہ اس) کے ساتھ کفر کرتے ہیں۔‘‘ (تفسیر ابن جریر الطبری)

 

مسائل:

1) اس بحث سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالی کے کسی نام یا کسی صفت کے انکار سے ایمان بالکلیہ ختم ہو جاتا ہے۔

2) اس باب سے سورۂ رعد کی آیت 30 کی تفسیر بھی واضح ہوئی جس میں اللہ تعالی کی صفت رحمن کا تذکرہ ہے۔

3) یہ بھی معلوم ہوا کہ جو بات سامع کے فہم سے بالا تر ہو اسے بیان نہیں کرنا چاہیے۔

4) اس کی وجہ بھی بیا ن ہوئی کہ اس سے سامع، اللہ اور اس کے رسول کی تکذیب کا خواہ مخواہ مرتکب ہو جاتا ہے اگرچہ اس کا قصد و ارادہ تکذیب کا نہ بھی ہو۔

5) ابن عباس رضی اللہ عنہما کے قول سے واضح ہوا کہ اللہ تعالی کے کسی نام یا صفت کا انکار ہلاکت و تباہی کا سبب ہے۔

 

نوٹ:

(1) اس باب کا توحید کے مسائل کے ساتھ دو طرح سے ربط اور تعلق ہے۔

(الف) توحید الوہیت کے دیگر بہت سے دلائل کے ساتھ ساتھ ایک بہت بڑی دلیل یہ بھی ہے کہ وہ اللہ اپنے اسماء اور اپنی صفات میں یکتا اور اکیلا ہے۔ اس کی کسی صفت میں کوئی دوسرا اس کا شریک نہیں۔ اسی طرح وہ حق عبادت میں بھی اکیلا اور منفرد ہے، اس کا کوئی ثانی نہیں۔

(ب) اللہ تعالی کے کسی اسم اور کسی صفت کا انکار کرنے سے انسان شرک و کفر کا مرتکب اور دائرۂ اسلام سے خارج قرار دیا جاتا ہے۔ جب کسی انسان کو معلوم ہو کہ اللہ تعالی کا فلاں اسم اور فلاں صفت ثابت ہے اور اسے خود اللہ تعالی نے یا اس کے رسول ﷺ نے بیان فرمایا ہے، پھر وہ اس کا انکار اور اس کی نفی کر دے تو وہ کفر کا مرتکب ہو گا کیونکہ اس نے کتاب و سنت کی تکذیب کر دی اور اسے جھٹلا دیا ہے۔

(2) ’’الرحمن) اللہ عزوجل کے ناموں میں سے ایک نام ہے۔ مشرکین و کفار مکہ کہا کرتے تھے کہ ہم تو صرف ’’یمامہ‘‘ (علاقہ)کے رحمن کو جانتے ہیں ، اس کے سوا کسی رحمن کو نہیں جانتے۔ انہوں نے اللہ تعالی کے نام، رحمن کا انکار کیا اور اس طرح وہ ذات باری تعالی کے منکر و کافر ہوئے اسی لیے اللہ عزوجل نے فرمایا ’’وَهُمْ يَكْفُرُونَ بِالرَّحْمَنِ‘‘ ’’وہ رحمن کے ساتھ کفر کرتے ہیں ‘‘ یعنی اللہ کے نام، رحمن کے ساتھ۔ لفظ ’’الرحمن‘‘ اللہ تعالی کی صفت رحمت پر دلالت کرتا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالی کا ہر نام اس کی کسی نہ کسی صفت پر ضرور دلالت کرتا ہے بلکہ اللہ تعالی کا ہر نام بیک وقت دو چیزوں پر دلالت کرتا ہے ایک تو ذات باری تعالی اور دوسری، وہ صفت جس کا مفہوم، یہ نام ادا کرتا ہے۔

اسی لیے جب ہم یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالی کا ہر نام اس کی کسی نہ کسی صفت کو متضمن ہوتا ہے تو پھر لفظ جلالہ (اللہ)، جو کہ ذات حق تعالی کا ذاتی نام اور اسم علم ہے، بھی مشتق ہے اور الوہیت یعنی عبادت کا معنی و مفہوم اپنے اندر لیے ہوئے ہے۔ اہل علم کے اقوال میں سے صحیح ترین قول یہی ہے۔

(3) (صحیح بخاری، کتاب العلم، باب من خص بالعلم قوما….، رقم127) حضرت علی رضی اللہ عنہ کا یہ قول اس بات کی دلیل ہے کہ بعض علمی باتیں ہر کسی کو بتانے کے قابل نہیں ہوتیں۔ مثلاً توحید اسماء و صفات کے وہ دقیق مسائل جنہیں سمجھنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ، ان کے بارے میں عوام سے یہی کہا جائے گا کہ وہ ان پر اجمالی طور پر ایمان رکھیں کیونکہ اللہ تعالی کے اسماء و صفات کا انکار کرنے کا یک سبب یہ بھی ہے کہ بسا اوقات کوئی آدمی لوگوں کے سامنے اسماء و صفات سے متعلقہ کوئی ایسی بات کر دیتا ہے جسے سمجھنے سے وہ یکسر قاصر ہوتے ہیں لہذا سرے سے اس کا انکار ہی کر ڈالتے ہیں ، اس لیے ہر مسلمان پر خصوصاً اہل علم پر واجب اور ضروری ہے کہ وہ لوگوں کو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے فرامین کے منکر نہ بنائیں یعنی لوگوں سے ایسی باتیں ہرگز بیان نہ کریں جنہیں سمجھنے سے وہ بالکل قاصر ہوں اور ان کی عقلیں وہاں تک رسائی نہ کر سکتی ہوں جس کے نتیجہ میں وہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے فرامین کو جھٹلانے والے اور ان کی تکذیب کرنے والے بن جائیں۔

(4) (مصنف عبد الرزاق، رقم 20895) اس شخص نے اس حدیث کو اجنبی سامحسوس کیا اور سن کر کانپ گیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس نے یہ سمجھا کہ اللہ تعالی کی اس صفت میں مخلوق کے ساتھ مماثلت اور تشبیہ پائی جاتی ہے۔ اسی مماثلت اور تشبیہ کا تصور اس کے ذہن میں آنے سے اس کے دل میں اس صفت الہی کا خوف اور ڈر پیدا ہو گیا، حالانکہ ہر مسلمان مرد و عورت پر واجب ہے کہ وہ جب بھی اللہ تعالی کی کوئی صفت، قرآن و حدیث میں پڑھے یا سنے تو اس کا وہی مفہوم لے جو دیگر صفات کا لیا جاتا ہے اور وہ یہ کہ اللہ تعالی کے لیے صفات کو اس طرح سے ثابت کیا جائے کہ اس میں مخلوق کے ساتھ کسی طرح سے کوئی تشبیہ اور تمثیل نہ دی جائے اور نہ ہی اس کی کوئی کیفیت بیان کی جائے۔

ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اس شخص کے دل کی کیفیت کو محسوس کر کے تعجب کا اظہار کیا کہ یہ لوگ کیسے عجیب ہیں کہ جب ایسی بات سنتے ہیں جس کا انہیں علم ہوتا ہے تو ان کے دلوں میں رقت آ جاتی ہے اور جب کتاب و سنت کی کوئی ایسی بات سنتے ہیں جو ان کی عقلوں سے بالا تر ہوتی ہے تو اس پر ایمان بالغیب رکھنے کے بجائے اس کی غلط تاویل، نفی اور انکار کر کے خود کو ہلاکت کے گڑھے میں ڈالتے پھرتے ہیں۔

 

 

باب:40 اللہ تعالی کی نعمتوں کا انکار کفر ہے۔ (1)

ارشاد الہی ہے :

(يَعْرِفُونَ نِعْمَتَ اللَّهِ ثُمَّ يُنْكِرُونَهَا وَأَكْثَرُهُمُ الْكَافِرُونَ (سورۃ النحل16: 83))

’’یہ لوگ اللہ کی نعمتوں کو پہچانتے ہوئے بھی انکار کرتے ہیں اور ان میں سے اکثر ایسے ہیں جو (اللہ کی نعمتوں کے) ناشکرے ہیں۔‘‘

اس آیت کی تفسیر میں مجاہد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں

’’ انسان کا یوں کہنا کہ یہ مال تو مجھے آباؤ اجداد کی طرف سے ورثہ میں ملا ہے، اللہ کی نعمت کا انکار ہے۔‘‘ (2) (تفسیر ابن جریر الطبری)

عون بن عبد اللہ کہتے ہیں ’’لوگوں کا یہ کہنا کہ اگر فلاں نہ ہوتا تو یوں ہو جاتا، اللہ کی نعمت کا انکار ہے۔‘‘ (3) (تفسیر ابن جریر الطبری)

ابن قتیبہ کہتے ہیں ’’لوگوں کا یہ کہنا کہ یہ چیز ہمارے معبودوں کی سفارش سے ملی ہے، بھی اللہ تعالی کی نعمت کا انکار ہے۔ (تفسیر ابن جریر الطبری)

شیخ الاسلام ابو العباس ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ

(أَصْبَحَ مِنْ عِبَادِي مُؤْمِنٌ بِي وَكَافِرٌ) (صحيح البخاري, كِتَابُ الأَذَانِ, بَابُ يَسْتَقْبِلُ الإِمَامُ النَّاسَ إِذَا سَلَّمَ, ح:846 و صحيح مسلم,كِتَابُ الْإِيمَانَ, بَابُ بَيَانِ كُفْرِ مَنْ قَالَ: مُطِرْنَا بِالنَّوْءِ, ح:71)

’’اللہ تعالی نے فرمایا: آج صبح میرے بندوں میں سے کچھ تو مجھ پر ایمان لے آئے اور کچھ کافر ہو گئے۔‘‘ (4) (یہ حدیث باب نمبر 29 میں گزر چکی ہے) کو بیان کرنے کے بعد یوں فرمایا: ’’کتاب و سنت میں یہ بات بکثرت وارد ہے، اللہ تعالی نے ان لوگوں کی مذمت کی ہے جو اللہ تعالی کے انعام اور رحمت کو کسی غیر کی طرف منسوب کرتے ہیں اور اللہ تعالی کے ساتھ شریک ٹھہراتے ہیں۔ اور اس بات کی وضاحت کے لیے بعض اسلاف نے یہ مثال بیان کی ہے :

’’جیسے لوگ کہتے ہیں کہ ہوا بہت ہی خوب تھی، ملاح ماہر اور تجربہ کار تھا، وغیرہ جو الفاظ زبان زد عام ہوتے ہیں۔ (سب ناجائز ہیں کیونکہ اس طرح کہنے سے اللہ کی نعمت کی نسبت غیر اللہ کی طرف ہو جاتی ہے)‘‘ (5)

(فتاوی ابن تیمیہ جلد 8 ص 33)

 

مسائل:

1) اس باب سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالی کی نعمتوں کا اقرار یا انکار کس طرح ہوتا ہے۔

2) اللہ تعالی کی نعمتوں کے انکار کی یہ صورتیں بالعموم لوگوں کی زبانوں پر رائج ہیں۔

3) اس قسم کی باتیں اللہ تعالی کی نعمتوں کے انکار کے مترادف ہیں۔

4) ایک دل میں اللہ تعالی کی نعمتوں کا اقرار اور انکار، دونوں کا اجتماع ممکن ہے۔

 

نوٹ:

(1) انسان کو چاہئے کہ وہ یہ یقین رکھے کہ تمام کی تمام نعمتیں ، اللہ ہی کی طرف سے ہیں اور توحید بھی تب ہی مکمل ہو سکتی ہے جب ہر نعمت کی نسبت اللہ عزوجل کی طرف ہی کی جائے کیونکہ اللہ تعالی کی نعمتوں کی نسبت، غیر اللہ کی طرف کرنا توحید میں نقص اور شرک اصغر ہے۔ اسی لیے اللہ عزوجل نے فرمایا:

(وَمَا بِكُمْ مِنْ نِعْمَۃ فَمِنَ اللَّهِ (سورۃ النحل16: 53))

’’اور تمہارے پاس جتنی بھی نعمتیں ہیں سب اللہ ہی کی صرف سے ہیں۔‘‘

(2) یہ بات توحید کے منافی اور شرک ہی کی ایک قسم ہے کیونکہ ایسا کہنے والے شخص نے مال و دولت کی اس عظیم نعمت کی نسبت اپنی طرف اور اپنے آباؤ اجداد کی طرف کر دی جبکہ فی الواقع یہ مال، اللہ عزوجل ہی نے اس کے آباء و اجداد کو دے رکھا تھا پھر اسی رب کی تقسیم سے، جو اس نے وراثت کی صورت میں کی، اس بندۂ مومن تک یہ مال پہنچا تو گویا یہ سب، اللہ تعالی کے فضل و کرم ہی سے ہوا۔ اللہ تعالی نے والد کو اولاد تک مال پہنچانے کا ایک سبب اور ذریعہ بنایا ہے اور اسی لیے وراثت کی تقسیم میں والد یا کسی بھی صاحب مال کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اپنی مرضی سے جسے چاہے اس کا وارث اور حق دار بنا دے کیونکہ در حقیقت اس مال کا مالک وہ نہیں بلکہ اللہ عزوجل ہے۔ جسے وہ چاہے گا وہی اس کا وارث اور مالک بنے گا۔

(3) مثلاً یہ کہنا کہ اگر فلاں پائلٹ اپنی مہارت نہ دکھاتا تو ہم سیدھے تباہی ک طرف جا رہے تھے (گویا ان کے کہنے کا مطلب یہ ہوا کہ ہمیں تباہی سے بچانے والا یہی پائلٹ ہی ہے) اسی طرح کے دیگر وہ الفاظ جن میں کسی کام کی نسبت اس کام کے سبب اور واسطے کی طرف کر دی جائے، ناجائز ہیں ، خواہ وہ واسطہ انسان ہو یا کوئی جماد، کوئی قطعہ زمین ہو یا اللہ کی مخلوقات میں سے کوئی اور مخلوق۔ جیسے بارش، پانی اور ہوا وغیرہ ہیں۔

(4) یعنی جب انہیں کوئی نعمت حاصل ہوتی ہے تو ان کے ذہن میں یہ بات گردش کرنے لگتی ہے کہ ہم اپنے اولیاء، انبیاء، بتوں یا معبودان (باطلہ)کے پاس گئے تھے ان کی پوجا کر کے انہیں خوش کیا تھا تب انہوں نے ہمارے حق میں سفارش کی تو ہمیں یہ بھلائی اور خیر حاصل ہوئی۔ یعنی وہ اپنے جھوٹے خداؤں کو تو یاد کرتے ہیں لیکن اس اللہ عزوجل کو بھول جاتے ہیں جس نے یہ فضل اور انعام کیا ہے۔ انہیں یہ سمجھ تک نہیں ہوتی کہ اللہ تعالی ایسی شرکیہ سفارشیں قبول نہیں کرتا جنہیں وہ یاد کرتے پھرتے ہیں۔

اس کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ:

وید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے حدیبیہ کے مقام پر رات بارش ہونے کے بعد ہمیں صبح کی نماز پڑھائی۔ آپ نے سلام پھیرا تو رخ مبارک لوگوں کی طرف کر کے فرمایا: تمہیں معلوم ہے کہ اللہ تعالی کیا فرما رہا ہے ؟ صحابہ نے عرض کیا، اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔آپ نے فرمایا: اللہ عزوجل فرماتا ہے کہ میرے بندوں میں سے بعض نے ایمان کی حالت میں صبح کی اور بعض نے کفر کی حالت میں ، جنہوں نے کہا کہ ہم پر اللہ تعالی کے فضل اور اس کی رحمت سے بارش ہوئی وہ تو میرے مومن اور ستاروں کے کافر ٹھہرے اور جنہوں نے یہ کہا کہ ہم پر یہ بارش ستاروں کی وجہ سے برسی وہ میرے ساتھ کفر کرنے والے اور ستاروں پر ایمان رکھنے والے ہوئے۔

(5) یہ بہت اہم مسئلہ ہے لوگوں کو اس کی طرف توجہ دلانی چاہئے اور تنبیہ کرنی چاہئے تاکہ وہ شرک کے مرتکب نہ ہو جائیں۔ ہمارے اوپر اللہ تعالی کے احسانات اس قدر ہیں کہ شمار سے باہر، اس لیے ہمارا یہ فرض اور حق ہے کہ اس کے انعامات کی نسبت اسی کی طرف کریں اور انہیں یاد کر کے اس کا شکریہ ادا کریں اور اس کی نعمتوں کا شکریہ ادا کرنے کا سب سے پہلا درجہ یہ ہے کہ ان کی نسبت اسی مالک کی طرف کی جائے جس کی یہ نوازش ہے۔ اللہ تعالی نے اپنے پیارے پیغمبر ﷺ سے فرمایا:

(وَأَمَّا بِنِعْمَۃ رَبِّكَ فَحَدِّثْ (سورۃ الضحى93: 11))

’’اور اپنے رب کی نعمتوں کو بیان کرتے رہیے۔‘‘

یعنی یہ کہتے رہئے کہ یہ اللہ تعالی کا فضل ہے یہ اس کی نعمت ہے اور یہ اس کا احسان ہے کیونکہ جب دل مخلوق میں سے کسی کی طرف مائل ہونے لگتا ہے تو انسان شرک کا مرتکب ہو جاتا ہے اور شرک سراسر توحید کے منافی ہے۔

 

 

 

باب:41 شرک کی بعض مخفی صورتیں

 

اللہ تعالی کا ارشاد ہے :

(فَلَا تَجْعَلُوا لِلَّهِ أَنْدَادًا وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ (سورۃ البقرۃ2: 22))

’’پس تم دانستہ طور پر اوروں کو اللہ کے شریک نہ ٹھہراؤ۔‘‘

 

ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا ہے کہ ’’أَنْدَادًا‘‘سے مراد شرک ہے جو رات کے اندھیرے میں سیاہ پتھر پر چیونٹی کے چلنے سے بھی زیادہ مخفی ہے۔ مثلاً یوں کہنا ’’وَاللهِ وَ حَيَاتِكَ‘‘ (اللہ تعالی کی اور تیری زندگی کی قسم) ’’يَا فُلَانُ وَ حَياتِى‘‘ (اے فلاں !میری جان کی قسم) ’’لَوْ لَا كُلَيْبَۃ هذَا لا تَانَا اللُّصُوْصُ‘‘ (اگر اس شخص کی کتیا نہ ہوتی تو ہمیں چور آ لیتے۔) ’’لَوْ لَا الْبَطُّ فِى الدَّارِ لَاَ تَانَا اللُّصُوْصُ‘‘ (اگر گھر میں بطخ نہ ہوتی تو ہمیں چور آ  لیتے) یا کسی سے یہ کہنا کہ ’’مَا شَاءَ اللهُ وَشِئْتَ‘‘ (وہی ہو گا جو اللہ چاہے گا اور تم چاہو گے) ’’لَوْ لَا اللهُ وَ فُلَانٌ‘‘ (اگر اللہ نہ ہوتا اور فلاں نہ ہوتا تو ….) اس قسم کی تمام باتیں شرک ہیں۔

تم اس قسم کی باتوں میں اللہ تعالی کے ساتھ کسی کا نام نہ لو۔ یہ سب شرکیہ باتیں ہیں۔ (1)

(سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(مَنْ حَلَفَ بِغَيْرِ اللَّهِ فَقَدْ أَشْرَكَ) (جامع الترمذي, كِتَاب الْأَيْمَانِ وَالنُّذُورِ, بَابٌ فِي كَرَاهِيَۃ الْحَلْفِ بِالْآبَاءِ, ح:1535 والمستدرك للحاكم: 1/ 18)

’’جس نے اللہ تعالی کے سوا کسی دوسرے کی قسم اٹھائی، اس نے کفر کیا یا شرک کا ارتکاب کیا‘‘ (2)

عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :

(لأَنْ أَحْلِفَ بِاللهِ كَاذِباً أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أَحْلِفَ بِغَيْرِهِ صَادِقاً) (معجم الكبير للطبرانی :9/ 183، رقم:8902 ومصنف عبدالرزاق:8/ 469، رقم:15926)

’’میرے نزدیک غیر اللہ کی سچی قسم اٹھانے کی نسبت اللہ تعالی کی جھوٹی قسم اٹھانا زیادہ بہتر ہے۔‘‘ (3)

حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(لَا تَقُولُوا مَا شَاءَ اللَّهُ، وَشَاءَ فُلَانٌ، وَلَكِنْ قُولُوا مَا شَاءَ اللَّهُ ثُمَّ شَاءَ فُلَانٌ) (سنن ابی داود، الادب، باب لا یقال خبثت نفسی، ح:4980)

’’یوں نہ کہو ’’جو اللہ تعالی چاہے اور فلاں چاہے ‘‘ (وہی ہو گا) بلکہ یوں کہو (وہی ہو گا) جو اللہ تعالی چاہے اور پھر جو فلاں چاہے۔‘‘ (4)

 

ابراہیم نخعی رحمۃ اللہ علیہ یوں کہنا ناپسند اور مکروہ جانتے تھے کہ ’’اَعُذُ بِاللهِ ثُمَّ بِكَ‘‘ (میں اللہ تعالی کی اور تمہاری پناہ چاہتا ہوں) البتہ ’’لَوْ لَا اللهُ ثُمَّ فُلَانٌ‘‘ (میں اللہ تعالی کی اور پھر تمہاری پناہ چاہتا ہوں) کہنا جائز سمجھتے تھے اور فرماتے کہ ’’لَوْ لَا اللهُ وَ فُلَانٌ‘‘ (اگر اللہ تعالی اور پھر فلاں نہ ہوتا تو ….) کہہ سکتے ہیں۔ البتہ ’’لَوْلَا اللهُ وَ فُلَانٌ‘‘ (اگر اللہ تعالی اور فلاں نہ ہوتا تو….)کہنا ناجائز ہے۔ (5)

 

مسائل:

1) اس باب میں سورۂ بقرہ کی آیت 22 کے لفظ ’’اَنْدَاد‘‘ کی تفسیر موجود ہے۔

2) صحابہ کرام رضی اللہ عنہم شرک اکبر کے متعلق وارد شدہ آیات کی تفسیر ان انداز سے کرتے تھے کہ وہ شرک اصغر کو بھی واضح کرتیں۔

3) غیر اللہ کی قسم اٹھانا شرک ہے۔

4) اور غیر اللہ کے نام کی سچی قسم کھانا، اللہ تعالی کے نام کی جھوٹی قسم کھانے سے زیادہ بڑا گناہ ہے۔

5) واؤ (اور) اور ’’ثُمَّ‘‘ (پھر) کے الفاظ میں معنوی فرق ہے۔

 

نوٹ:

(1) (تفسیر ابن ابی حاتم، رقم229، تفسیر ابن کثیر:94/1) توحید کی حقیقت: توحید کی اصل حقیقت یہ ہے کہ انسان کے دل میں اللہ تعالی کے سوا اس کا کوئی شریک ہو نہ کوئی ساجھی۔ مثلاً اللہ تعالی کے علاوہ کسی کے نام کی قسم اٹھانا یا یوں کہنا کہ ’’وہی ہو گا جو اللہ تعالی چاہے اور فلاں چاہے گا۔‘‘ یہ بھی شرک ہے۔

ایسے ماقع پر صرف اور صرف اللہ تعالی کا نام لینا چاہیے۔ توحید کا اولین اور کامل ترین درجہ یہ ہے کہ یوں کہا جائے ’’اگر اللہ تعالی نہ چاہتا تو فلاں کام نہ ہوتا۔‘‘ البتہ یوں کہنا جائز ہے کہ ’’اگر اللہ تعالی نہ چاہتا اور پھر فلاں آدمی کا تعاون نہ ہوتا تو میرا فلاں کام نہ ہوسکتا۔‘‘ اس صورت میں فلاں (غیر اللہ) کا مرتبہ اللہ تعالی سے کم تر بیان ہوا ہے، اس لیے ایسا کلمہ جائز ہے۔ یہ اصل توحید کے منافی تو نہیں البتہ توحید کے اعلی درجے کے منافی ہے۔ لیکن اگر یوں کہا جائے کہ ’’اللہ تعالی اور فلاں نہ چاہتا تو یہ کام نہ ہوتا۔‘‘ یہ قول ناجائز اور حرام بلکہ شرک ہے۔

اسی لیے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: ’’تم اپنے کسی کام میں بھی اللہ تعالی کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک نہ کرو۔‘‘

(2) اس حدیث کے راوی عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بن خطاب ہیں نہ کہ عمر رضی اللہ عنہ بن خطاب۔ مصنف رحمہ اللہ سے یہاں سہو ہو گیا۔اللہ تعالی ہماری اور ان کی لغزشوں سے درگزر فرمائے۔ درج بالا حدیث شریف میں غیر اللہ کے نام کی قسم کھانے کی مذمت بیان ہوئی ہے۔ قسم کا معنی ہوتا ہے کہ کلام میں تاکید پیدا کرنے کے لیے کسی ایسی شخصیت کا نام لینا جو مخاطب اور متکلم دونوں کے ہاں لائق تعظیم ہو۔ در حقیقت وہ اللہ تعالی ہی کی ذات ہے جو ہر کسی کے ہاں لائق تعظیم ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ کلام میں تاکید اور پختگی پیدا کرنے کے لیے اس کے سوا کسی اور کا نام نہ لیا جائے۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہنا چاہئے کہ اس کے سوا کسی اور کے نام کی قسم کھانی چاہئے۔

غیر اللہ کی قسم شرک کیوں ہے ؟: غیر اللہ کی قسم اٹھانا اس لیے شرک ہے کہ ایسی صورت میں مخلوق کو اللہ جیسا قرار دیا جارہا ہوتا ہے۔ اور مخلوق کی تعظیم اسی طرح ہو رہی ہوتی ہے جیسے اللہ تعالی کی ہوتی ہے۔ ایسا کرنا کفر اصغر اور شرک اصغر ہے۔البتہ عبادات میں ، غیر اللہ کی تعظیم اسی طرح کرنا جس طرح اللہ تعالی کی ہوتی ہے، شرک اکبر ہے۔

اسی طرح اگر کوئی شخص دلی طور پر غیر اللہ کی قسم نہیں اٹھانا چاہتا، البتہ اس کی زبان سے غیر ارادی طور پر نبی کی قسم، کعبہ کی قسم، امانت کی قسم، یا ولی کی قسم وغیرہ کے الفاظ بے ساختہ نکل جاتے ہیں تو یہ بھی شرک ہے کیونکہ اس سے اس کے نزدیک غیر اللہ کی اہمیت اور تعظیم ظاہر ہوتی ہے۔

(3) اس سے معلوم ہوا کہ غیر اللہ کی قسم اٹھانا بہت بڑا گناہ اور شرک ہے۔ جھوٹ اگرچہ کبیرہ گناہ ہے، تاہم شرک کئی کبیرہ گناہوں سے بھی بڑا جرم ہے۔ سچائی میں شرک کی آمیزش کی بہ نسبت، توحید میں جھوٹ کی آمیزش کم تر گناہ ہے۔ کیونکہ توحید والی نیکی جھوٹ سے عظیم تر اور شرک کا گناہ جھوٹ کے گناہ سے عظیم تر ین ہے۔

(4) یہ نہی (ممانعت)، تحریم کے لیے ہے یعنی ایسی بات کہنا حرام ہے۔ کیونکہ ایسے الفاظ کے ذریعہ مشیئت میں ، اللہ تعالی کے ساتھ غیر اللہ کو شریک کیا جاتا ہے، البتہ یوں کہنا جائز ہے ’’وہی ہو گا جو اللہ تعالی چاہے اور پھر فلاں چاہے۔‘‘

کیونکہ انسان کی مشیئت اللہ تعالی کی مشیئت کے تابع ہے، جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے :

(وَمَا تَشَاءُونَ إِلَّا أَنْ يَشَاءَ اللَّهُ (سورۃ الدهر76: 30))

’’تم نہیں چاہتے مگر وہی جو اللہ رب العالمین چاہے ‘‘۔

(5) کیونکہ اول الذکر جملہ میں پناہ طلب کرنے کے لیے غیر اللہ کو اللہ تعالی کا شریک بنایا جاتا ہے کیونکہ جس سے پناہ مانگی جائے اس کے سامنے التجا اور اس کے ساتھ مضبوط تعلق ہونے کے علاوہ اس کی طرف رغبت، اس کا ڈر اور خوف اور دل کی اس کے ساتھ مکمل وابستگی ہوتی ہے۔ اس قسم کا تعلق صرف اور صرف اللہ تعالی کے ساتھ ہی ہونا چاہیے۔

اسلاف نے عام طور پر کراہت (ناپسندیدگی) کا لفظ حرام کے معنی ہی میں استعمال کیا ہے۔ بسا اوقات یہ لفظ (کراہت) ایسی چیز پر بھی بول دیا جاتا ہے جو حرام نہ ہو۔ لیکن یہ لفظ ایسے موقع پر ہی بولا جاتا ہے جہاں نص موجود نہ ہو۔

 

 

 

باب :42 اللہ تعالی کی قسم پر اکتفا نہ کرنے والے کا حکم

 

 

ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

(لَا تَحْلِفُوا بِآبَائِكُمْ، مَنْ حَلَفَ بِاللَّهِ فَلْيَصْدُقْ، وَمَنْ حُلِفَ لَهُ بِاللَّهِ فَلْيَرْضَ، وَمَنْ لَمْ يَرْضَ فَلَيْسَ مِنَ اللَّهِ) (سنن ابن ماجہ، الکفارات، باب من حلف لہ باللہ فلیرض، ح:2101)

’’تم اپنے آباؤ اجداد کی قسمیں نہ اٹھایا کرو۔ جو شخص اللہ تعالی کی قسم اٹھائے اسے چاہیے کہ وہ سچی قسم اٹھائے۔ اور جس کے لیے اللہ تعالی کی قسم اٹھائی جائے اسے چاہئے کہ وہ اسے تسلیم کرے، اور جو اسے تسلیم نہ کرے، اس کا اللہ تعالی سے کوئی تعلق نہیں۔‘‘ (1)

 

مسائل:

1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آباء و اجداد کی قسم اٹھانا منع ہے۔

2) اور اللہ تعالی کی قسم اٹھوانے والے کو چاہیے کہ وہ اس قسم کو تسلیم کر کے معاملہ کو اللہ تعالی کے سپرد کر دے۔

3) جو شخص اللہ تعالی کی قسم اٹھوانے کے بعد بھی راضی نہ وہ اس کا اللہ تعالی سے کوئی تعلق نہیں۔

 

نوٹ:

(1) قسم قاضی کے سامنے اٹھائی جائے یا کسی دوسری جگہ، یہ حکم عام ہے کہ کسی بھی صورت میں غیر اللہ اور آباء و اجداد کی قسم اٹھانا جائز نہیں۔ بلکہ اللہ تعالی کی قسم بھی صرف اسی صورت میں جائز ہے جب آدمی سچا ہو۔ اور جس کے لیے اللہ تعالی کی قسم اٹھائی جائے اسے چاہئے کہ وہ اس پر راضی ہو جائے یعنی قسم اٹھانے والے کی قسم پر اعتبار کر لے اور معاملہ اللہ کے سپرد کر دے۔ اللہ تعالی کی قسم اٹھانا اس کی تعظیم کا اظہار ہے، لہذا اس کی تعظیم کا تقاضا ہے کہ اس کانام سن کر آدمی اعتبار کرے اور معاملہ اس کے سپرد کر دے۔ اور اسے خواہ مخواہ جھوٹا قرار نہ دے کیونکہ اگر وہ فی الواقع جھوٹا ہوا تو اس کا وبال اسی پر ہو گا۔

اور جو شخص قسم پر راضی نہ ہو اس کا اللہ تعالی سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ دلیل ہے کہ کسی سے قسم اٹھوا کر اس پر اکتفانہ کرنا اور اسے تسلیم نہ کرنا کبیرہ گناہ ہے۔

 

 

 

باب :43 ’’وہی ہو گا جو اللہ تعالی چاہے اور جو آپ چاہیں ‘‘کہنے کا حکم (1)

 

قتیلہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے :

(أَنَّ يَهُودِيًّا أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: إِنَّكُمْ تُشْرِكُونَ تَقُولُونَ: مَا شَاءَ اللَّهُ وَشِئْتَ، وَتَقُولُونَ: وَالْكَعْبَۃ، ” فَأَمَرَهُمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَرَادُوا أَنْ يَحْلِفُوا أَنْ يَقُولُوا: وَرَبِّ الْكَعْبَۃ، وَأَنْ يَقُولُوا: مَا شَاءَ اللَّهُ، ثُمَّ شِئْتَ) (سنن النسائی، الایمان و النذور، باب الحلف بالکعبۃ، ح:3804)

’’ایک یہودی نے نبی ﷺ کی خدمت میں آ کر کہا: تم (مسلمان)لوگ شرک کرتے ہو۔ یوں کہتے ہو ’’مَا شَاءَ اللَّهُ وَشِئْتَ‘‘ (وہی ہو گا جو اللہ تعالی چاہے اور جو آپ چاہیں) نیز تم کعبہ کی قسم بھی اٹھاتے ہو۔ تو نبی ﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو حکم دیا کہ کعبہ کی بجائے رب کعبہ کی قسم اٹھایا کریں اور ’’مَا شَاءَ اللَّهُ وَشِئْتَ‘‘ (وہی ہو گا جو اللہ تعالی چاہے اور جو آپ چاہیں) کی بجائے ’’مَا شَاءَ اللَّهُ ثُمَّ شِئْتَ‘‘ (وہی ہو گا جو اللہ تعالی چاہے اور پھر آپ چاہیں) کہا کریں۔‘‘ (2)

ابن عباس رضی اللہ عنہا سے روایت ہے :

( أَنَّ رَجُلًا قَالَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا شَاءَ اللهُ، وَشِئْتَ، أَجَعَلْتَنِي وَاللهَ عَدْلًا بَلْ مَا شَاءَ اللهُ وَحْدَهُ) (عمل الیوم و اللیلۃ للنسائی، ح:988 و مسند احمد:1/ 214)

’’ایک آدمی نے نبی ﷺ سے کہا: ’’مَا شَاءَ اللَّهُ وَشِئْتَ‘‘ (وہی ہو گا جو اللہ تعالی اور آپ چاہیں)تو آپ نے فرمایا: تو نے مجھے اللہ تعالی کا شریک ٹھہرا دیا ؟ صرف اتنا کہو ’’مَا شَاءَ اللَّهُ‘‘ ’’وہی ہو گا جو اللہ تعالی چاہے گا۔‘‘

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا کے مادری بھائی طفیل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :

(رأيت كأني أتيت على نفر من اليهود، فقلت: إنكم لأنتم القوم، لولا أنكم تقولون: عزير ابن الله. قالوا: وإنكم لأنتم القوم لولا أنكم تقولون: ما شاء الله وشاء محمد. ثم مررت بنفر من النصارى فقلت: إنكم لأنتم القوم، لولا أنكم تقولون: المسيح ابن الله، قالوا: وإنكم لأنتم القوم، لولا أنكم تقولون: ما شاء الله وشاء محمد. فلما أصبحت أخبرت بها من أخبرت، ثم أتيت النبي صلى الله عليه وسلم فأخبرته. قال: (هل أخبرت بها أحداً؟) قلت: نعم. قال: فحمد الله وأثنى عليه، ثم قال: (أما بعد؛ فإن طفيلاً رأى رؤيا، أخبر بها من أخبر منكم، وإنكم قلتم كلمۃ كان يمنعني كذا وكذا أن أنهاكم عنها. فلا تقولوا: ما شاء الله وشاء محمد، ولكن قولوا: ما شاء الله وحده) (سنن ابن ماجہ، الکفارات، باب النھی ان یقال ماشاء اللہ وشئت، ح:2118 و مسند احمد:5/ 72))

’’میں نے خواب میں دیکھا کہ گویا میرا گزر یہود کی ایک جماعت کے پاس سے ہوا۔ میں نے ان سے کہا : تم اچھے لوگ ہو اگر تم عزیر (علیہ السلام) کو اللہ تعالی کا بیٹا نہ کہو، تو انہوں نے جوابا کہا: تم بھی اچھے ہو اگر تم ’’مَا شَاءَ اللَّهُ وَشِاءَ مُحَمَّدٌ‘‘ (وہی ہو گا جو اللہ تعالی اور محمد ﷺ چاہیں) نہ کہو، اس کے بعد میرا گزر عیسائیوں کے ایک گروہ کے پاس سے ہوا۔ میں نے ان سے کہا: تم اچھے لوگ ہو اگر تم مسیح (عیسی علیہ السلام)کو اللہ تعالی کا بیٹا نہ کہو۔ انہوں نے جواباً کہا: تم بھی اگر ’’مَا شَاءَ اللَّهُ وَشِاءَ مُحَمَّدٌ‘‘ نہ کہو تو بہت اچھے ہو۔ صبح ہوئی تو میں نے کچھ لوگوں سے اس خواب کا تذکرہ کیا۔ پھر نبی (ﷺ) کی خدمت میں آکر آپ سے ساری بات بیان کی۔ آپ نے مجھ سے دریافت فرمایا تم نے اس خواب کا کسی سے ذکر کیا ہے ؟ میں نے عرض کیا: جی ہاں۔ آپ خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے۔ اللہ تعالی کی حمد و ثناء کے بعد فرمایا: اما بعد! طفیل نے خواب دیکھا ہے اور اس نے تم میں سے بعض لوگوں کے سامنے اس کا تذکرہ بھی کیا ہے۔ تم ایک جملہ بولا کرتے ہو، تمہیں اس سے روکنے میں مجھے ہچکچاہٹ رہی۔ تم ’’مَا شَاءَ اللَّهُ وَشِاءَ مُحَمَّدٌ‘‘ (وہی ہو گا جو اللہ تعالی اور محمد (ﷺ) چاہیں) نہ کہا کرو بلکہ صرف ’’مَا شَاءَ اللَّهُ‘‘ (وہی ہو گا جو اللہ تعالی چاہے)کہا کرو۔‘‘ (3)

 

مسائل:

1) اس واقعہ سے معلوم ہوا کہ یہود شرک اصغر سے واقف تھے۔

2) نیز اگر انسان کی خواہش ہو تو حق اور باطل میں تمیز، اس کی سمجھ میں آسکتی ہے۔

3) کہنے والے نے ’’مَا شَاءَ اللَّهُ وَشِئْتَ‘‘ کہا تو نبی کریم ﷺ نے اس پر ناگواری کا اظہار فرمایا۔ تو جو شخص یوں کہے ’’مَالِى مَنْ اَلُوْذُ بِه سِوَاكَ‘‘ (یا رسول اللَّه!) ’’آپ کے سوا کوئی ہستی ایسی نہیں جس کی میں پناہ لے سکوں۔‘‘ اس بات کے شرک اور کہنے والے کے مشرک ہونے میں کیا شک ہے ؟ یا کوئی شخص رسول اللہ ﷺ کو پکارتے ہوئے یوں کہے، اے امام المرسلین! میرا تو صرف آپ ہی پر بھروسہ ہے۔ آپ ہی میرا آسرا اور میرے لیے اللہ کا دروازہ ہیں۔ اس دنیا میں آپ میرا ہاتھ تھامے رہیں اور آخرت میں بھی میرا ہاتھ پکڑیں کیونکہ آپ کے علاوہ کوئی بھی میری تنگی کو آسانی میں نہیں بدل سکتا۔ اس قسم کی باتیں بلاشبہ شرک ہیں۔

4) ’’مَا شَاءَ اللَّهُ وَشِئْتَ‘‘ وغیرہ کلمات اگرچہ نامناسب اور شرک اصغر ہیں تاہم شرک اکبر نہیں۔ ورنہ آپ بہت پہلے ان سے روک دیتے اور یوں نہ فرماتے کہ تمہیں ان الفاظ سے روکنے میں مجھے ہچکچاہٹ رہی۔

5)اچھا خواب وحی کی ایک قسم ہے۔

6) بلکہ اچھا خواب بسا اوقات بعض احکام کی مشروعیت کا سبب بن جاتا ہے۔

 

نوٹ:

(1) کسی سے یوں کہنا کہ ’’وہی ہو گاجو اللہ تعالی چاہے اور جو آپ چاہیں ‘‘ یہ شرک ہے کیونکہ اس طرح اللہ تعالی کے ساتھ غیر اللہ کو مشیت میں شریک کر دیا جاتا ہے۔

(2) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بسا اوقات حق، خواہشاتِ نفس کے پجاری کی سمجھ میں بھی آ جاتا ہے لہذا جب حق اس کی سمجھ میں آ جائے اور حق بتلائے تو اس سے لے لینا چاہیے کیونکہ مسلمان کا یہ فرض ہے کہ اسے حق جہاں سے بھی ملے، خواہ یہودی سے یا عیسائی سے، اسے قبول کر لے۔

(3) اس سے معلوم ہوا کہ بسا اوقات گناہ گار، کافر اور غلط عقیدہ کا حامل آدمی کسی صحیح العقیدہ آدمی کی بات پر اعتراض کرسکتا ہے کہ جس طرح میں غلط ہوں ، تم بھی تو فلاں کام کرتے ہو۔ ایسی صورت میں صحیح اعقیدہ آدمی کو چاہیے کہ وہ حق بات کو تسلیم کر لے اور اسے محض اس لیے رد نہ کر دے کہ وہ غلط عقیدہ والے نے کہی ہے۔

یاد رہے ! رسول اللہ ﷺ نے شرک اکبر سے تو آغاز تبلیغ ہی میں منع فرما دیا تھا، البتہ مسائل کی اہمیت کے لحاظ سے انہیں بالتدریج الاھم فالاھم بیان کیا گیا۔ شرک فی الالفاظ کو آپ نے اسی مصلحت کے تحت مؤخر کر دیا تھا کہ کسی مناسب موقع پر امت کو منع کر دیا جائے گا۔ جہاں تک شرک اکبر کا مسئلہ تھا، اس کے باقی رکھنے میں کوئی مصلحت نہیں تھی۔

 

 

 

باب:44 زمانے کو گالی دینا یا برا بھلا کہنا اللہ تعالی کو ایذا پہنچانے کے مترادف ہے (1)

 

اللہ تعالی کا ارشاد ہے :

(وَقَالُوا مَا هِيَ إِلَّا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا نَمُوتُ وَنَحْيَا وَمَا يُهْلِكُنَا إِلَّا الدَّهْرُ وَمَا لَهُمْ بِذَلِكَ مِنْ عِلْمٍ إِنْ هُمْ إِلَّا يَظُنُّونَ (سورۃ الجاثيۃ45: 24))

’’اور وہ کہتے ہیں ہماری زندگی تو صرف دنیا ہی کی ہے۔ ہم یہاں مرتے اور جیتے ہیں اور زمانہ ہی ہمیں مار دیتا ہے۔ انہیں حقیقت کا کچھ علم نہیں۔ اور وہ محض گمان سے کام لیتے ہیں۔‘‘ (2)

 

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی ﷺ نے فرمایا:

( يُؤْذِينِي ابْنُ آدَمَ يَسُبُّ الدَّهْرَ وَأَنَا الدَّهْرُ، أُقَلِّبُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ)

(صحیح البخاری، التفسیر، سورۃ حم الجاثیۃ، باب وما یھلکنا الا الدھر، ح:4826 وصحیح مسلم، الالفاظ من الادب و غیرھا، باب النھی عن سب الدھر، ح:2246)

’’اللہ تعالی فرماتے ہیں ابن آدم زمانے کو گالیاں دے کر (برا بھلا کہہ کر) مجھے ایذا پہنچاتا ہے کیونکہ (در حقیقت) میں ہی زمانہ (کا خالق اور مالک)ہوں۔ دن اور رات کو میں ہی تبدیل کرتا ہوں۔‘‘

اور ایک روایت میں ہے :

(لَا تَسُبُّوا الدَّهْرَ، فَإِنَّ اللهَ هُوَ الدَّهْرُ) (صحیح مسلم، الالفاظ من الادب، باب النھی عن سب الدھر، ح:2246)

’’زمانہ کو گالی مت دو (برا بھلا مت کہو)کیونکہ در حقیقت اللہ تعالی ہی زمانہ ہے۔‘‘ (3)

 

مسائل:

1) ان احادیث میں زمانے کو گالی دینے اور برا بھلا کہنے کی ممانعت ہے۔

2) رسول اللہ ﷺ نے زمانے کو برا بھلا کہنا، اللہ تعالی کو ایذا پہنچانے کے مترادف قرار دیا ہے۔

3) ’’فَإِنَّ اللهَ هُوَ الدَّهْرُ‘‘ (در حقیقت اللہ ہی زمانہ ہے)یہ جملہ از حد قابل توجہ ہے۔

4) انسان کو سب و شتم سے ہمیشہ اجتناب کرنا چاہیے کیونکہ بسا اوقات لا شعوری طور پر انسان سب وشتم کا مرتکب ہو جاتا ہے ا گر چہ وہ اس کا ارادہ نہ بھی کرے۔

 

نوٹ:

(1) زمانے کو گالی دینا یا برا بھلا کہنا ہرگز جائز نہیں۔ یہ بات توحید کے منافی ہے۔اس لیے اس سے احتراز ضروری ہے۔ جہلاء کی عادت ہے کہ جب کوئی کا م ان کی مرضی کے خلاف ہو تو زمانے کو برا بھلا کہنے یا گالیاں دینے لگتے ہیں اور اس دن، ماہ یا سال کو لعنتی قرار دے کر شر یا برائی کی نسبت زمانہ کی طرف کرتے ہیں کہ زمانہ بڑا خراب ہے، بڑا خراب زمانہ آ گیا ہے وغیرہ وغیرہ۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ زمانہ تو کوئی کام ہی نہیں کرتا۔ زمانے میں حقیقی متصرف اللہ تعالی ہے۔ اور اس کا خالق بھی وہی ہے لہذا زمانے کو برا بھلا کہنا اللہ تعالی کو ایذا پہنچانے کے مترادف ہے۔ البتہ اگر یوں کہا جائے کہ یہ سال بڑے سخت ہیں ، یہ دن بڑے سیاہ ہیں ، یہ مہینے بڑے منحوس ہیں تو اس قسم کے الفاظ پو کوئی مواخذہ نہیں کیونکہ ان سے متکلم کی مراد یہ ہوتی ہے کہ میرے لیے یہ سال بڑے سخت، یہ مہینے بڑے منحوس (نا مبارک)یا یہ دن بڑے سیاہ ہیں۔ اس سے وہ زمانے کو برا نہیں کہتا بلکہ اپنے حالات بیان کر رہا ہوتا ہے۔ اس لیے یہ الفاظ مذموم نہیں۔

(2) حالات و واقعات کی نسبت زمانہ کی طرف کرنا مشرکین کا طریقہ ہے۔ جبکہ اہل توحید تمام امور کی نسبت اللہ تعالی ہی کی طرف کرتے ہیں۔

(3) اس کا مطلب یہ نہیں کہ ’’الدهر‘‘ (زمانہ)اللہ تعالی کا نام ہے بلکہ اس سے بتلانا یہ مقصود ہے کہ زمانہ از خود نہ تو کسی چیز کا مالک ہے اور نہ کچھ کرتا یا کرسکتا ہے بلکہ زمانے میں حقیقی مصرف اللہ تعالی ہے لہذا زمانے کو برا بھلا کہنا، اس میں تصرف کرنے والے اللہ تعالی کو برا بھلا کہنے کے مترادف ہے۔

 

 

 

باب:45 شہنشاہ، قاضی القضاۃ اور اس قسم کے القاب کی شرعی حیثیت (1)

 

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی ﷺ نے فرمایا:

(إِنَّ أَخْنَعَ اسْمٍ عِنْدَ اللهِ رَجُلٌ تَسَمَّى بِمَلِكَ الْأَمْلَاكِ لَا مَالِكَ إِلَّا اللهُ) (صحیح البخاری، الادب، باب ابغض الاسماء الی اللہ، ح:6206 و صحیح مسلم، الاداب، باب تحریم التسمی بملک الاملاک …، ح:2143)

’’اللہ کے نزدیک سب سے گھٹیا، ناپسند اور حقیر نام اس شخص کا ہے جو اپنے آپ کو بادشاہوں کا بادشاہ (شہنشاہ) کہلوائے کیونکہ اللہ کے سوا کوئی (حقیقی)بادشاہ نہیں۔‘‘

سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ نے ’’ملک الاملاک‘‘ (بادشاہوں کا بادشاہ) کا ترجمہ شاہان شاہ یعنی ’’شہنشاہ‘‘ کیا ہے۔ (2)

 

دوسری روایت کے الفاظ یوں ہیں :

(أَغْيَظُ رَجُلٍ عَلَى اللهِ يَوْمَ الْقِيَامَۃ، وَأَخْبَثُهُ) (صحیح مسلم، الاداب، باب تحریم التسمی بملک الاملاک …، ح:2143 و مسند احمد:2/ 315)

’’یعنی قیامت کے دن سب سے زیادہ اللہ تعالی کے غصے اور ناراضی کا مستحق اور سب سے بڑا خبیث شخص (وہ ہو گا جو اپنے آپ کو ’’شہنشاہ‘‘ کہلوائے)‘‘ (3)

 

مسائل:

1) اس بحث سے معلوم ہوا کہ ’’ملک الاملاک‘‘ یعنی ’’بادشاہوں کا بادشاہ‘‘ کہلوانا منع ہے۔

2) اس کے علاوہ دیگر اسماء و القاب جو اسی قسم ’’ملک الا ملاک‘‘ کا معنی و مفہوم رکھتے ہوں سب منع ہیں جیسا کہ سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ نے مثال کے طور پر لفظ شہنشاہ بتایا ہے۔

3) اس قسم کے اسماء و القاب کی ناپسندیدگی بھی شدید ضروری ہے۔ اگرچہ کسی کے دل میں ان الفاظ کا حقیقی معنی نہ بھی ہو تب بھی یہ ناپسند اور ممنوع ہیں ، لہذا ہر حال میں ان سے اجتناب کرنا چاہیے۔

4) اور یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ محض اللہ تعالی کی عظمت و جلال کے پیش نظر اس قسم کے اسماء و القاب سے منع کیا گیا ہے۔

 

نوٹ:

(1) یعنی جن اسماء و القاب کے معانی صرف اللہ تعالی کے لیے خاص ہیں ، توحید کا تقاضا ہے کہ ایسے اسماء اور القاب صرف اسی کے لیے استعمال کئے جائیں ، مخلوق میں سے کسی کے لیے ان کا استعمال ناجائز ہے۔

(2) انسان کے متعلق یہ تو کہا جا سکتا ہے کہ وہ فلاں چیز کا مالک ہے یا فلاں ملک کا بادشاہ ہے۔ مگریوں نہیں کہا جا سکتا کہ وہ تمام ملکوں کا بادشاہ ہے۔ لہذا توحید کا تقاضا یہ ہے کہ مخلوق میں سے کسی کو شہنشاہ نہ کہا جائے اور اگر کسی کے نام کے ساتھ کہیں لکھا ہوا ہو تو اسے مٹا دینا چاہئے۔

(3) کیونکہ اس نے اس نام میں اپنے آپ کو اللہ کا ہمسر اور ساجھی بنانے کی کوشش کی۔

 

 

باب:46 اللہ تعالی کے اسماء حسنی کی تعظیم و تکریم اور اس وجہ سے کسی کے نام کی تبدیلی (1)

 

ابو شریح رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میری کنیت ’’ابو الحکم‘‘ تھی، رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا:

(إِنَّ اللَّهَ هُوَ الْحَكَمُ، وَإِلَيْهِ الْحُكْمُ، فَقَالَ: إِنَّ قَوْمِي إِذَا اخْتَلَفُوا فِي شَيْءٍ أَتَوْنِي، فَحَكَمْتُ بَيْنَهُمْ فَرَضِيَ كِلَا الْفَرِيقَيْنِ، فَقَالَ مَا أَحْسَنَ هَذَا، فَمَا لَكَ مِنَ الْوَلَدِ؟ قَالَ: شُرَيْحٌ، وَمُسْلِمٌ، وَعَبْدُ اللَّهِ، قَالَ: فَمَنْ أَكْبَرُهُمْ؟ قُلْتُ: شُرَيْحٌ، قَالَ: فَأَنْتَ أَبُو شُرَيْحٍ) (سنن ابی داود، الادب، باب تغییر الاسم اقبیح، ح:4955 وسنن النسائی، آداب القضاۃ، باب اذا حکموا رجلا فقضی بینهم، ح:5389)

’’حکم‘‘ (فیصلہ کرنے والا) اللہ تعال ہی ہے۔ اور حکم بھی اسی کا نافذ ہوتا ہے۔ میں نے عرض کیا: میری قوم میں جب کسی بات پر اختلاف ہو جائے تو وہ جھگڑا میرے پاس لاتے ہیں تو میں ان کے درمیان فیصلہ کر دیتا ہوں ، اس پر دونوں فریق راضی ہو جاتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’یہ کیسی اچھی بات ہے۔‘‘ پھر فرمایا: تمہارے بیٹوں کے کیا نام ہیں ؟ میں کہا: شریح، مسلم اور عبد اللہ۔ آپ نے دریافت فرمایا: ان میں سب سے بڑا کون ہے ؟ میں نے بتایا کہ شریح، تو آپ نے فرمایا: تم ابو شریح ہو۔ یعنی آج سے تمہاری کنیت ’’ابو شریح‘‘ ہے۔ (2)

 

مسائل:

1) اس بحث سے ثابت ہوا کہ اللہ تعالی کے اسماء و صفات کا مکمل احترام کرنا لازم اور ایمانی تقاضا ہے اگرچہ یہ نام دوسروں کے لیے استعمال کرتے وقت ان کا معنی، مقصود نہ بھی ہو۔

2) اللہ تعالی کے اسماء اور صفات کے احترام کے پیش نظر غلط اور شرکیہ ناموں اور کنیتوں کو تبدیل کر دینا چاہیے۔

3) کنیت کے لیے سب سے بڑے بیٹے کا انتخاب کرنا مستحب ہے۔

 

نوٹ:

(1) ایک موحد مسلمان کو اپنے دل میں اور زبان سے اللہ تعالی کے اسماء گرامی کا جو احترام ملحوظ رکھنا چاہیے اس باب میں اس کا بیان ہے۔ یہ احترام بسا اوقات مستحب اور بعض صورتوں میں واجب ہوتا ہے۔ اللہ تعالی کے اسماء کے احترام کا تقاضا ہے کہ ان کی بے حرمتی نہ کی جائے اور وہ نام مخلوق میں سے کسی کے نہ رکھے جائیں۔

(2) ’’حکم‘‘ اللہ تعالی کے ناموں میں سے ایک نام ہے۔ ’’ابو الحکم‘‘ کا معنی ہوا حکم کا یعنی اللہ تعالی کا باپ۔ حالانکہ اللہ تعالی کو تو کسی نے نہیں جنا اور نہ ہی وہ کسی سے جنا گیا۔ لہذا ایسی کنیت رکھنا جائز نہیں۔

’’ابوالحکم‘‘ کا ایک معنی یہ بھی ہو سکتا ہے ’’فیصلے کرنے والا‘‘ مگر چونکہ حقیقی اور درست فیصلے کرنے والا بھی حقیقت میں اللہ تعالی ہی ہے۔ انسانوں کے فیصلے عارضی اور وقتی ہیں۔ لہذا اس وصف کا اصل حقدار اللہ تعالی ہی ہے۔ اس کے اسماء و صفات کے احترام کے پیش نظر، رسول اللہ ﷺ نے ’’ابوالحکم‘‘ کو ناپسندکر کے کنیت تبدیل کر دی۔

 

 

 

 

باب:47اللہ تعالی، قرآن مجید اور رسول اللہ ﷺ کا مذاق اڑانے والے کے بارے میں حکم (1)

 

اللہ تعالی کا ارشاد ہے :

(وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ لَيَقُولُنَّ إِنَّمَا كُنَّا نَخُوضُ وَنَلْعَبُ قُلْ أَبِاللَّهِ وَآيَاتِهِ وَرَسُولِهِ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِئُونَ (سورۃ التوبۃ9: 65))

’’اور اگر آپ ان سے پوچھیں (کہ تم کیا باتیں کر رہے تھے ؟) تو کہیں گے ’’ہم تو یوں ہی بات چیت اور دل لگی کر رہے تھے۔ آپ ان سے کہہ دیں کہ تمہاری دل لگی کے لیے اللہ تعالی، اس کی آیات اور اس کے رسول ہی (رہ گئے)ہیں ؟‘‘ (2)

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما، محمد بن کعب، زید بن اسلم اور قتادہ رحمہ اللہ علیہم سے مختلف الفاظ سے روایت ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ غزوۂ تبوک کے موقع پر ایک منافق نے کہا: ہم نے پیٹ کے پجاری، زبان کے جھوٹے اور میدان جنگ میں سب سے زیادہ بزدل، ان علم والوں سے بڑھ کر اور کوئی نہیں دیکھے۔ اس کی مراد رسول اللہ ﷺ اور آپ کے قراءصحابہ رضی اللہ عنہم تھے۔ عوف بن مالک رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا: تو جھوٹا ہے اور (پکا)منافق ہے، میں تیری بات نبی ﷺ کو ضرور بتاؤں گا چنانچہ عوف رضی اللہ عنہ بتانے کی غرض سے آپ کے پاس گئے مگر ان کے آنے سے پہلے وحی نازل ہو چکی تھی۔ وہ منافق بھی آپ کی خدمت میں (معذرت کے لیے) آ پہنچا، آپ اونٹنی پر سوار ہو کر روانہ ہو چکے تھے۔ وہ بولا: یا رسول اللہ ! ہم لوگ تو محض دل بہلانے کے لیے ایسی بات چیت اور سواروں کی سی باتیں کر رہے تھے، تاکہ سفر کی مشقت ہلکی کر سکیں (اور بوریت نہ ہو) حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ’’وہ منظر اب بھی میرے سامنے ہے کہ وہ شخص آپ ﷺ کی اونٹنی کے کجاوے کی رسی کے ساتھ چمٹا ہوا ہے اور پتھر اس کے پاؤں سے ٹکرا رہے ہیں اور وہ کہہ رہا ہے ’’ہم تو محض بات چیت اور دل لگی کر رہے تھے۔ اور رسول اللہ ﷺ فرما رہے ہیں : (قُلْ أَبِاللَّهِ وَآيَاتِهِ وَرَسُولِهِ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِئُونَ (65) لَا تَعْتَذِرُوا قَدْ كَفَرْتُمْ بَعْدَ إِيمَانِكُمْ إِنْ نَعْفُ عَنْ طَائِفَۃ مِنْكُمْ نُعَذِّبْ طَائِفَۃ بِأَنَّهُمْ كَانُوا مُجْرِمِينَ (سورۃ التوبۃ9: 66))

’’کیا اللہ تعالی، اس کی آیات اور اس کے رسول ہی تمہارے ہنسی مذاق کے لیے رہ گئے ہیں۔ تم بہانے نہ بناؤ۔ یقیناً تم نے ایمان لانے کے بعد (یہ بات کر کے)کفر کا ارتکاب کیا ہے۔‘‘

چنانچہ آپ ﷺ اس کی طرف التفات فرما رہے تھے نہ اس پر کچھ مزید فرما رہے تھے۔‘‘ (3)

 

مسائل:

1) اس باب سے ایک عظیم مسئلہ ثابت ہوا کہ جو شخص رسول اللہ ﷺ یا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا مذاق اڑائے، وہ کافر ہے۔

2) اس آیت کی تفسیر سے ثابت ہوا کہ ایسا کرنے والا خواہ کوئی بھی ہو، وہ کافر ہے۔

3) اللہ تعالی اور اس کے رسول کے لیے اخلاص اور چغلی کے درمیان فرق بھی واضح ہوا۔

4) اللہ تعالی کی پسندیدہ چیز عفو و درگزر اور اللہ تعالی کے دشمنوں کے ساتھ سختی سے پیش آنے میں فرق بھی واضح ہوا۔

5) اس تفصیل سے یہ بھی معلوم ہوا کہ بعض عذر ناقابل قبول ہوتے ہیں۔

 

نوٹ:

(1) اللہ تعالی کے احکام کو دل و جان سے تسلیم کرنا، ان کی اتباع، ان کو قبول کرنا اور ان کی تعظیم کرنا بھی توحید کا تقاضا ہے اور اللہ تعالی، قرآن مجید یا رسول اللہ ﷺ کا مذاق اڑانا ان کی مخالفت اور ان کی تعظیم کے منافی ہے۔ اس لیے یہ عمل بہت بڑا کفر ہے۔ اسی طرح دین اسلام کا مذاق اڑانا بھی کفر ہے۔

(2) یہ آیت نص ہے کہ اللہ تعالی، رسول اللہ ﷺ اور قرآن مجید سے استہزاء کرنا کفر ہے اور ایسا کرنے والا آدمی کافر ہے اگرچہ وہ یہ عذر ہی پیش کیوں نہ کرے کہ وہ تو دل لگی اور ہنسی مذاق کے لیے یہ باتیں کرتا ہوں۔ یہ آیت منافقین کے بارے میں نازل ہوئی۔ اس کے برعکس اہل توحید کبھی اللہ تعالی، اس کے رسول یا قرآن مجید سے استہزاء نہیں کرتے۔

(3) (تفسیر ابن جریر الطبری، رقم، 16912، 16916، 16911، 16914، 1915، وابن ابی حاتم و ابو الشیخ و ابن مردویہ، کما فی الدر المنثور (230/4) و اسنادہ حسن

 

 

 

باب :48اللہ تعالی کی نعمتوں کی ناشکری، تکبر کی علامت اور بہت بڑا جرم ہے

 

اللہ تعالی کا ارشاد ہے

(وَلَئِنْ أَذَقْنَاهُ رَحْمَۃ مِنَّا مِنْ بَعْدِ ضَرَّاءَ مَسَّتْهُ لَيَقُولَنَّ هَذَا لِي وَمَا أَظُنُّ السَّاعَۃ قَائِمَۃ وَلَئِنْ رُجِعْتُ إِلَى رَبِّي إِنَّ لِي عِنْدَهُ لَلْحُسْنَى فَلَنُنَبِّئَنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا بِمَا عَمِلُوا وَلَنُذِيقَنَّهُمْ مِنْ عَذَابٍ غَلِيظٍ (سورۃ فصلت41: 50))

’’اور اگر تکلیف پہنچنے کے بعد ہم اسے اپنی رحمت سے نواز تے ہیں تو کہتا ہے ’’یہ تو میرا حق تھا، اور میں نہیں سمجھتا کہ قیامت آئے گی، اور اگر میں واقعی اپنے رب کی طرف لوٹا یا گیا تو وہاں بھی خوش حالی ہو گی۔ پس کفر کرنے والوں کو ہم ضرور بتائیں گے کہ وہ کیا کچھ کرتے رہے اور انہیں ہم سخت عذاب سے دوچار کریں گے۔‘‘

امام مجاہد رحتہ اللہ علیہ نے ’’هذَا اِلْى‘‘ کی تفسیر میں فرمایا:

’’هذَا بِعَمَلِى وَ اَنَا مَحْقُوقٌ بِه‘‘۔ ’’یہ مال و دولت تو میری محنت و کاوش کا نتیجہ ہے اور میں اس کا حق دار بھی ہوں۔‘‘ (تفسیر الطبری)

ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ ’’یہ میری اپنی کاوش ہے۔‘‘ (1)

 

نیز اللہ تعالی کا ارشاد ہے۔

(قَالَ إِنَّمَا أُوتِيتُهُ عَلَى عِلْمٍ عِنْدِي (سورۃ القصص28: 78))

’’ (قارون نے)کہا کہ مجھے یہ سب کچھ میری اپنی سمجھ کی بنا  پر دیا گیا ہے۔‘‘

اس آیت کی تفسیر میں قتادہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ’’عَلى عِلْمٍ مِّنِّى بِوُ جُوهِ الْمَكَاسِبِ‘‘ یعنی اس نے کہا کہ یہ مال مجھے کمائی کے تجربے اور علم کی بدولت ملا ہے۔ (تفسیر الدرالمنثور)

دیگر اہل علم نے اس آیت کی تفسیر میں کہا ہے : ’’وہ کہتا تھا کہ یہ مال و دولت تو مجھے اس لیے ملا کہ میں اللہ تعالی کے علم کے مطابق اس کا اہل اور حق دار ہوں۔‘‘ مجاہد کے قول کا معنی بھی یہی ہے کہ وہ کہتا ہے : ’’یہ مال و ثروت مجھے بزرگی اور شرف کی بنا پر ملا ہے۔‘‘ (2) (تفسیر الطبری)

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

(إِنَّ ثَلَاثَۃ فِي بَنِي إِسْرَائِيلَ: أَبْرَصَ، وَأَقْرَعَ، وَأَعْمَى، فَأَرَادَ اللهُ أَنْ يَبْتَلِيَهُمْ، فَبَعَثَ إِلَيْهِمْ مَلَكًا، فَأَتَى الْأَبْرَصَ، فَقَالَ: أَيُّ شَيْءٍ أَحَبُّ إِلَيْكَ؟ قَالَ: لَوْنٌ حَسَنٌ، وَجِلْدٌ حَسَنٌ، وَيَذْهَبُ عَنِّي الَّذِي قَدْ قَذِرَنِي النَّاسُ بِهِ، قَالَ: فَمَسَحَهُ فَذَهَبَ عَنْهُ قَذَرُهُ، وَأُعْطِيَ لَوْنًا حَسَنًا وَجِلْدًا حَسَنًا، قَالَ: فَأَيُّ الْمَالِ أَحَبُّ إِلَيْكَ؟ قَالَ: الْإِبِلُ أَوْ الْبَقَرُ، شَكَّ إِسْحَاقُ  فَأُعْطِيَ نَاقَۃ عُشَرَاءَ، وَقَالَ: بَارَكَ اللهُ لَكَ فِيهَا، قَالَ: فَأَتَى الْأَقْرَعَ، فَقَالَ: أَيُّ شَيْءٍ أَحَبُّ إِلَيْكَ؟ قَالَ: شَعَرٌ حَسَنٌ وَيَذْهَبُ عَنِّي هَذَا الَّذِي قَدْ قَذِرَنِي النَّاسُ بِهِ، قَالَ: فَمَسَحَهُ فَذَهَبَ عَنْهُ، وَأُعْطِيَ شَعَرًا حَسَنًا، قَالَ: أَيُّ الْمَالِ أَحَبُّ إِلَيْكَ؟ قَالَ: الْبَقَرُ أَوْ الْإِبِلُ، فَأُعْطِيَ بَقَرَۃ حَامِلًا، وَقَالَ: بَارَكَ اللهُ لَكَ فِيهَا، فَأَتَى الْأَعْمَى، فَقَالَ: أَيُّ شَيْءٍ أَحَبُّ إِلَيْكَ؟ قَالَ: أَنْ يَرُدَّ اللهُ إِلَيَّ بَصَرِي، فَأُبْصِرَ النَّاسَ، فَمَسَحَهُ فَرَدَّ اللهُ إِلَيْهِ بَصَرَهُ، قَالَ: فَأَيُّ الْمَالِ أَحَبُّ إِلَيْكَ؟ قَالَ: الْغَنَمُ، فَأُعْطِيَ شَاۃ وَالِدًا، فَأُنْتِجَ هَذَانِ وَوَلَّدَ هَذَا، فَكَانَ لِهَذَا وَادٍ مِنَ الْإِبِلِ، وَلِهَذَا وَادٍ مِنَ الْبَقَرِ، وَلِهَذَا وَادٍ مِنَ الْغَنَمِ، قَالَ: ثُمَّ إِنَّهُ أَتَى الْأَبْرَصَ فِي صُورَتِهِ وَهَيْئَتِهِ، فَقَالَ: رَجُلٌ مِسْكِينٌ، قَدِ انْقَطَعَتْ بِيَ الْحِبَالُ فِي سَفَرِي، فَلَا بَلَاغَ لِي الْيَوْمَ إِلَّا بِاللهِ ثُمَّ بِكَ، أَسْأَلُكَ بِالَّذِي أَعْطَاكَ اللَّوْنَ الْحَسَنَ، وَالْجِلْدَ الْحَسَنَ، وَالْمَالَ بَعِيرًا، أَتَبَلَّغُ بِهِ فِي سَفَرِي، فَقَالَ: الْحُقُوقُ كَثِيرَۃ، فَقَالَ لَهُ: كَأَنِّي أَعْرِفُكَ، أَلَمْ تَكُنْ أَبْرَصَ يَقْذَرُكَ النَّاسُ؟ فَقِيرًا فَأَعْطَاكَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ الْمَالَ؟ فَقَالَ: إِنَّمَا وَرِثْتُ هَذَا الْمَالَ كَابِرًا عَنْ كَابِرٍ، فَقَالَ: إِنْ كُنْتَ كَاذِبًا، فَصَيَّرَكَ اللهُ إِلَى مَا كُنْتَ، قَالَ: ثُمَّ إِنَّهُ أَتَى الْأَقْرَعَ فِي صُورَتِهِ، فَقَالَ لَهُ مِثْلَ مَا قَالَ لِهَذَا، وَرَدَّ عَلَيْهِ مِثْلَ مَا رَدَّ عَلَيْهِ هَذَا، فَقَالَ: إِنْ كُنْتَ كَاذِبًا فَصَيَّرَكَ اللهُ إِلَى مَا كُنْتَ، قَالَ: وَأَتَى الْأَعْمَى فِي صُورَتِهِ، فَقَالَ: رَجُلٌ مِسْكِينٌ وَابْنُ سَبِيلٍ، قَدِ انْقَطَعَتْ بِيَ الْحِبَالُ فِي سَفَرِي، فَلَا بَلَاغَ لِي الْيَوْمَ إِلَّا بِاللهِ، ثُمَّ بِكَ، أَسْأَلُكَ بِالَّذِي رَدَّ عَلَيْكَ بَصَرَكَ، شَاۃ أَتَبَلَّغُ بِهَا فِي سَفَرِي، فَقَالَ: قَدْ كُنْتُ أَعْمَى فَرَدَّ اللهُ إِلَيَّ بَصَرِي، فَخُذْ مَا شِئْتَ، وَدَعْ مَا شِئْتَ، فَوَاللهِ لَا أَجْهَدُكَ الْيَوْمَ شَيْئٍ أَخَذْتَهُ لِلَّهِ، فَقَالَ: أَمْسِكْ مَالَكَ، فَإِنَّمَا ابْتُلِيتُمْ، فَقَدْ رُضِيَ عَنْكَ وَسُخِطَ عَلَى صَاحِبَيْكَ) (صحیح البخاری، احادیث الانبیاء، باب حدیث ابرص و اعمی و اقرع فی بنی اسرائیل، ح:3464 وصحیح مسلم، الزھد والرقائق، باب الدنیا سجن للمؤمن و جنۃ للکافر، ح:2964)

’’بنی اسرائیل میں تین آدمی تھے، جن میں سے ایک پھلبہری والا، دوسرا گنجا اور تیسرا نابینا تھا۔ اللہ تعالی نے آزمائش کی غرض سے ان کی طرف ایک فرشتہ بھیجا۔ وہ فرشتہ پھلبہری والے کے پاس آیا اور اس سے پوچھا: تجھے کون سی چیز سب سے زیادہ پسند ہے ؟ اس نے کہا: اچھا رنگ، خوبصورت جلد اور یہ کہ مجھ سے یہ بیماری رفع ہو جائے جس کے سبب لوگ مجھ سے نفرت کرتے ہیں۔ فرشتے نے اس پر ہاتھ پھیرا تو اس کی بیماری رفع ہو گئی۔ اچھا رنگ اور خوبصورت جلد مل گئی۔ فرشتے نے پھر پوچھا: تجھے کون سامال زیادہ پسند ہے ؟ اس نے کہا: اونٹ…یا…گائے۔ (راوی اسحاق کو ان دونوں لفظوں کے بارے میں تردد ہے کہ کون سالفظ اس نے کہا) چنانچہ اسے حاملہ اونٹنی دی گئی اور فرشتے نے دعا کی ’’بَارَكَ الله ُلَكَ فِيْهَا‘‘ (اللہ تعالی تیرے لیے اس اونٹنی میں برکت فرمائے۔)اس کے بعد وہ فرشتہ گنجے کے پاس آیا اور اس سے کہا: تجھے کون سی چیز زیادہ پسند ہے ؟ اس نے کہا: خوبصورت بال اور یہ کہ مجھ سے یہ بیماری رفع ہو جائے جس کی وجہ سے لوگ مجھ سے نفرت کرتے ہیں۔ فرشتے نے اس پر ہاتھ پھیرا، اس کی بیماری ختم ہو گئی اور اسے خوبصورت بال مل گئے۔ فرشتے نے اس سے پوچھا: تجھے کون سا مال زیادہ پسند ہے ؟ اس نے کہا اونٹ…یا…گائے۔ (یہ بھی راوی اسحاق کا شک ہے یعنی پھلبہری والے اور گنجے دونوں میں سے کسی ایک نے گائے اور دوسرے نے اونٹ مانگے) چنانچہ اسے ایک حاملہ گائے دے دی گئی۔ فرشتے نے دعا کی’’بَارَكَ الله ُلَكَ فِيْهَا‘‘ (اللہ تعالی تیرے لیے اس گائے میں برکت فرمائے۔) اس کے بعد وہ فرشتہ نابینے کے پاس آیا اور اس سے کہا: تجھے کون سی چیز زیادہ پسند ہے ؟ اس نے کہا: یہ کہ اللہ تعالی مجھے میری بینائی لوٹا دے، تاکہ میں لوگوں کو دیکھ سکوں۔‘‘ فرشتے نے اس پر ہاتھ پھیرا تو اللہ تعالی نے اس کی بینائی لوٹا دی۔ فرشتے نے کہا: تجھے کون سا مال زیادہ پسند ہے ؟ اس نے کہا :بکریاں ، چنانچہ اسے حاملہ بکری دے دی گئی۔ کچھ عرصہ بعد اونٹنی اور گائے نے خوب بچے دیے۔ بکری نے بھی خوب بچے جنے، چنانچہ پھلبہری والے کے پاس اونٹوں ، گنجے کے پاس گائیوں اور نابینے کے پاس بکریوں کا میدان بھر گیا۔ پھر وہ فرشتہ پھلبہری والے کے پاس اپنی سی پہلی شکل و صورت میں آیا اور کہا:میں مسکین اور مسافر آدمی ہوں ، میرا زاد راہ ختم ہو گیا ہے۔ آج اللہ کی مدد، یا پھر آپ کے تعاون کے بغیر منزل تک نہیں پہنچ سکتا۔ جس اللہ نے آپ کو خوبصورت رنگ، خوبصورت جلد اور اس قدر کثیر مال عطا کیا ہے، اس کے نام پر ایک اونٹ مانگتا ہوں تاکہ میں دوران سفر اس کے ذریعے اپنی ضرورت پوری کر کے منزل تک پہنچ سکوں۔اس آدمی نے کہا: میری ضرورتیں بہت زیادہ ہیں (میں تمہیں اونٹ نہیں دے سکتا) تو فرشتے نے کہا: غالباً میں تجھے اچھی طرح جانتا ہوں ، کیا تو پھلبہری والا نہ تھا؟ لوگ تجھ سے نفرت کرتے تھے اور تو انتہائی غریب تھا۔ اللہ تعالی نے تجھے یہ مال عطا کیا؟ وہ بولا: یہ مال تو مجھے آباؤ اجداد سے وراثت میں ملا ہے۔

فرشتے نے کہا: اگر تو اس بات میں جھوٹا ہو تو اللہ تعالی تجھے پہلے جیسا بنا دے۔‘‘پھر وہ فرشتہ اسی پہلی شکل و صورت میں گنجے کے پاس آیا اور اس سے بھی وہی باتیں کہیں جو پھلبہری والے سے کہی تھیں تو اس نے بھی وہی جواب دیے۔ فرشتے نے کہا: اگر تو جھوٹا ہو تو اللہ تعالی تجھے ویسا ہی کر دے جیسا تو پہلے تھا۔ پھر وہ فرشتہ اسی پہلی شکل و صورت میں اس نابینے کے پاس آیا اور کہا: میں ایک مسکین اور مسافر ہوں ، میرا زاد راہ ختم ہو گیا ہے، اللہ کی مدد، یا پھر آپ کے تعاون کے بغیر میں آج گھر نہیں پہنچ سکتا۔ جس اللہ نے آپ کو بینائی عطا کی، اس کے نام پر آپ سے ایک بکری کا سوال ہے تاکہ میں دور ان سفر میں اس سے اپنی ضرورت پوری کر کے منزل تک پہنچ سکوں۔

اس نے کہا: میں نابینا تھا۔ اللہ تعالی نے مجھے میری بینائی لوٹا دی۔ جتنا چاہو لے جاؤ اور جو چاہو چھوڑ جاؤ۔ آج اللہ کے نام پر جو کچھ بھی لے جاؤ میری طرف سے تمہیں کوئی سرزنش نہیں۔ تو فرشتے نے کہا: اپنا مال اپنے پاس ہی رکھو، تمہارا امتحان لیا گیا۔ اللہ تعالی تجھ سے راضی اور تیرے دوسرے دونوں ساتھیوں سے ناراض ہو گیا ہے۔ (3)

 

مسائل:

1) اس باب سے سورۂ فصلت کی آیت 50 کی تفسیر واضح ہوئی جس میں ناشکرے انسان کو وعید سنائی گئی ہے۔

2) ’’لَيَقُولَنَّ هَذَا لِي‘‘ (کہ یہ تو میرا استحقاق تھا) کی تفسیر بھی واضح ہوئی۔

3) نیز ’’اِنَّمَا أُوتِيتُهُ عَلَى عِلْمٍ عِندِي‘‘ (کہ یہ مال تو مجھے میرے علم اور کاروباری تجربے کی بدولت ملا ہے) کی تفسیر بھی معلوم ہوئی۔

4) حدیث میں مذکور تین افراد کے اس نصیحت آموز واقعہ میں جو عظیم عبرتیں پوشیدہ ہیں ، اس باب میں ان کا بیان بھی ہے۔

 

نوٹ:

(1) یعنی وہ کہتا ہے کہ اللہ تعالی نے یہ نعمت دے کر مجھ پر کوئی احسان نہیں کیا بلکہ میں تو اپنی محنت، شرف اور بزرگی کی بنا پر ویسے ہی اس چیز کا حق دار تھا۔ گویا اس چیز کے حصول کو وہ اپنی محنت کا نتیجہ اور اپنا استحقاق قرار دیتا ہے اور اللہ تعالی کے احسان و انعام اور فضل کو یکسر فراموش کر دیتا ہے جبکہ انسان کی محنت و کاوش ایک سبب ضرور ہے۔ بسا اوقات یہ سبب اللہ کے حکم سے مؤثر ثابت ہوتا ہے اور بعض اوقات بغیر کسی سبب کے بھی انسان کو اس کا مقصود حاصل ہو جاتا ہے۔ گویا اصل معاملہ اللہ کے فضل اور اس کی عنایت کا ہے۔ انسان کا اپنا یا اس کے سبب کا کوئی کمال نہیں۔

(2) گویا بعض اصحاب ثروت جب خوش حال ہوتے ہیں تو وہ اللہ تعالی کی صرف سے مکمل طور پر غافل ہو جاتے ہیں۔ وہ اپنے کاروبار، دولت اور تجارت وغیرہ کو اپنی ذہانت، محنت اور کوشش کا نتیجہ قرار دیتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ سب تو ان کے خالق و مالک اللہ تعالی کا انعام اور اس کا فضل ہے۔

(3) ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی اس طویل حدیث سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالی نے ان تینوں کو ان کی بیماریوں سے عافیت دی تو ان میں سے دو نے ان نعمت (صحت)کو اپنی طرف منسوب کیا۔ صرف ایک نے ان نعمت کی اللہ تعالی کی طرف نسبت کی۔ تو اللہ تعالی نے ناشکری کرنے والے دونوں کو ایسی سزادی کہ انہیں ان کی سابقہ حالت میں لوٹا دیا۔ اور جس نے اللہ تعالی کا شکر ادا کیا اور ملی ہوئی نعمت (صحت)کو اللہ تعالی کی طرف منسوب کیا تو اللہ تعالی نے اسے بہترین بدلہ دیا اور اسے دائمی نعمت سے نوازا۔ یہ اللہ تعالی کا فضل ہے، وہ جس کے لیے چاہے اپنی نعمت کو مستقل کر دیتا ہے اور جسے چاہے محروم کر دیتا ہے۔ جو شخص اپنے رب کی تعظیم کرے، اس کی نعمتوں پر اس کا شکریہ بجا لائے اور یہ عقیدہ رکھے کہ یہ تمام نعمتیں اللہ تعالی کا عطیہ ہیں تو اس کے نتیجہ میں اللہ تعالی کی نعمتوں سے وہ ہمیشہ سرفراز اور مالامال رہتا ہے۔

ایک موحد مسلمان کا فرض ہے کہ وہ یہ عقیدہ رکھے کہ میں ہر چیز کے بارے میں اللہ تعالی کا محتاج ہوں۔ اور کسی بھی چیز کے بارے میں میرا اللہ تعالی پر کوئی استحقاق نہیں۔ وہی میرا رب ہے اور وہی میری بندگی کا مستحق ہے۔ اور وہ اس لائق ہے کہ بندے اس کی نعمتوں پر اس کا شکریہ ادا کریں ، اسے یاد رکھیں اور ہر نعمت کو اسی کا فضل سمجھتے ہوئے اسی کی طرف منسوب کریں۔

 

 

 

باب:49 اولاد ملنے پر اللہ تعالی کے ساتھ شرک کرنا

 

اللہ تعالی کا ارشاد ہے :

(فَلَمَّا آتَاهُمَا صَالِحًا جَعَلَا لَهُ شُرَكَاءَ فِيمَا آتَاهُمَا فَتَعَالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ (سورۃ الأعراف7: 190))

’’جب اللہ نے انہیں صحیح و تندرست بچہ دیا تو انہوں نے اس عنایت میں دوسروں کو اللہ کا شریک ٹھہرا دیا۔ پس اللہ ان شرکیہ باتوں سے جو یہ کرتے ہیں ، بلند تر ہے۔‘‘

ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں : اہل علم کا اس بات پر اتفاق ہے کہ جس نام میں غیر اللہ کی عبدیت کا اظہار ہو، وہ حرام ہے، مثلاً عبد عمرو، اور عبد الکعبہ وغیرہ۔ البتہ ’’عبد المطلب‘‘ نام میں اختلاف ہے۔ (1)

مذکورہ بالا آیت کی تفسیر میں ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ جب آدم و حوا علیہما السلام آپس میں ملے اور حوا حاملہ ہوئی تو ابلیس ان کے پاس آیا اور کہنے لگا: میں وہی ہوں جس نے تمہیں جنت سے نکلوایا تھا۔ تم میری ایک بات مان لو، تم اپنے بچے کا نام عبد الحارث رکھنا۔ ورنہ میں اس کے سر پر بارہ سنگے کے دو سینگ بنا دوں گا جن کی وجہ سے یہ بچہ تمہارا پیٹ چیر کر نکلے گا۔میں یہ کر دوں گا اور وہ کر دوں گا۔ ایسی باتیں کر کے اس نے ان کو خوب ڈرایا دھمکایا مگر آدم و حوا علیہما السلام نے اس کی بات نہ مانی اور بچہ مردہ پیدا ہوا۔ حوا دوبارہ حاملہ ہوئیں تو شیطان نے آکر پھر وہی بات کہی مگر آدم و حواء علیہما السلام نے اس کی بات نہ مانی اور بچہ مردہ پیدا ہوا۔ پھر جب حوا تیسری مرتبہ حاملہ ہوئیں تو شیطان پر آیا اور وہی باتیں کرنے لگا۔ ان کے دل میں بچے کی محبت پیدا ہوئی اور انہوں نے بچہ پیدا ہونے پر اس کا نام عبد الحارث رکھا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں ’’‘‘ (انہوں نے اس عنایت میں دوسروں کو اللہ کا شریک ٹھہرادیا) کی یہی تفسیر ہے۔ (2)

ابن ابی حاتم ہی نے قتادہ رحمۃ اللہ علیہ سے صحیح سند کے ساتھ بیان کیا ہے، وہ اس آیت کے متعلق فرماتے ہیں ، آدم و حوا علیہما السلام نے شیطان کا صرف کہا مانا تھا، اس کی عبادت نہیں کی تھی، یعنی ان کا یہ شرک ’’شرک فی الطاعۃ‘‘ تھا نہ کہ ’’شرک فی العبادۃ‘‘

نیز ابن ابی حاتم ہی نے صحیح سند کے ساتھ مجاہد رحمۃ اللہ علیہ سے ’لَئِنْ آتَيْتَنَا صَالِحًا‘‘ کی تفسیر میں بیان کیا ہے ’’آدم و حوا کو خدشہ تھا کہ مبادا ہمارا بچہ انسان نہ ہو۔‘‘ حسن بصری اور سعید رحتہ اللہ علیہما وغیرہ اہل علم سے اسی قسم کے اقوال مروی ہیں۔

 

مسائل:

1) اس بحث سے ثابت ہوا کہ ہر وہ نام جس میں غیر اللہ کی طرف عبدیت کی نسبت ہو، حرام ہے۔

2) سورۂ اعراف کی آیت 190 کی تفسیر بھی واضح ہوئی کہ شرکیہ نام رکھنا منع ہے۔

3) مذکورہ واقعہ میں آدم و حوا علیہما السلام کے جس شرک کا ذکر ہے وہ صرف بچے کا نام رکھنے کی حد تک تھا۔ حقیقی شرک نہ تھا۔

4) کسی کے ہاں صحیح و تندرست بیٹی کی ولادت بھی اللہ تعالی کی بہت بڑی نعمت ہے۔

5) اسلاف امت شرک فی الطاعۃ اور شرک فی العبادۃ کے مابین فرق رکھتے تھے۔

 

نوٹ:

(1) غیر اللہ کی طرف عبدیت کی نسبت تمام انبیاء کی شریعتوں میں حرام رہی ہے کیونکہ اس سے نعمتوں کی نسبت غیر اللہ کی طرف ہو جاتی ہے جبکہ نعمتوں کا انتساب صرف اللہ تعالی ہی کی طرف جائز ہے۔ ربوبیت و الوہیت کا حق غیر اللہ کو دینے میں حد درجہ سوء ادبی بھی ہے۔ نیز غیر اللہ کا بندہ کہلانا یا کسی کو غیر اللہ کا بندہ کہنا معنی کے لحاظ سے بھی غلط ہے۔

عبد المطلب: بعض اہل علم کہتے ہیں کہ عبد المطلب نام رکھنا حرام نہیں صرف مکروہ (ناپسند) ہے جبکہ یہ قول درست نہیں۔ ان کا استدلال نبی ﷺ کے اس فرمان سے ہے جو آپ نے غزوۂ حنین کے موقع پر فرمایا تھا۔ ’’اَنَا النَّبِىُّ لَا كَذِبْ اَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ‘‘ ’’اس میں کوئی شک نہیں کہ میں اللہ تعالی کا نبی ہوں اور میں عبد المطلب کا بیٹا (پوتا)ہوں۔‘‘ ان کا کہنا ہے کہ نبی ﷺ نے اپنے دادا کا نام ’’عبد المطلب‘‘ بول کر اپنی نسبت ان کی طرف کی ہے، اس سے معلوم ہوا کہ عبد المطلب نام رکھنا درست ہے۔ مگر ان کا یہ استدلال غلط ہے کیونکہ آپ نے اپنے دادا کی نسبت غیر اللہ کی طرف کی ہے نہ ان کو غیر اللہ کا بندہ کہا ہے بلکہ آپ نے تو اپنے دادا کا نام ’’عبد المطلب‘‘ صرف اس لیے لیا ہے کہ لوگوں میں یہی نام مشہور و معروف تھا۔ باقی رہا بعض صحابہ کا یہ (عبد المطلب) نام رکھنا تو اس بارے میں صحیح یہ ہے کہ ان کا نام عبد المطلب نہیں بلکہ صرف ’’مطلب‘‘ تھا۔ بعض راویوں کی غلطی سے وہ اصل نام (مطلب) کی بجائے ’’عبد المطلب‘‘ کے نام سے مشہور ہو گئے۔

(2) (اس واقعہ کو حافظ ابن کثیر اور علامہ ناصر الدین البانی رحمۃ اللہ علیہما نے ضعیف کہا ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیں تفسیر ابن کثیر:364/2 اور السلسلہ الضعیفہ:رقم:342

آدم و حوا علیہما السلام کے بچے کی عطا میں اللہ تعالی کے ساتھ شریک ٹھہرانے کا مفہوم یہی ہے کہ انہوں نے اس کا نام ’’عبد الحارث‘‘ رکھا اور حارث ابلیس کا نام ہے۔ آدم و حوا علیہما السلام کی یہ پہلی غلطی نہ تھی بلکہ اس سے پہلے بھی ایک مرتبہ غلطی کر چکے تھے۔ ایک حدیث میں ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: شیطان نے دو مرتبہ آدم و حواء علیہما السلام کو دھوکہ دیا اور یہ سلف کے ہاں معروف ہے۔

اس لیے اس آیت میں ’’شرکاء‘‘ سے ’’شرک فی العبادت‘‘ نہیں بلکہ ’’شرک فی الطاعۃ‘‘ مراد ہے۔ اور یہ بھی معلوم ہوا کہ ہر گناہ گار شیطان کی اطاعت کرتا ہے اور بندے سے جو بھی گناہ صادر ہوتا ہے وہ شرک فی الطاعۃ کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اس واقعہ سے ان کی شان اور مرتبہ میں کوئی کمی نہیں آتی اور نہ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ انہوں نے اللہ تعالی کے ساتھ شرک کیا تھا۔ اہل علم کے ہاں یہ بات معروف ہے کہ انبیاء کرام سے صغیرہ گناہ ہوں کا صدور ممکن ہوتا ہے البتہ وہ اس پر مداومت نہیں کرتے۔ بلکہ وہ اس سے جلد ہی رجوع کر لیتے ہیں اور اللہ تعالی کی طرف توبہ کرتے ہیں۔ بلکہ ایسے واقعہ کے بعد ان کا اللہ تعالی کے ساتھ تعلق پہلے کی بسبت زیادہ ہی ہو جاتا ہے۔ لہذا یہاں شرک سے ’’شرک فی الطاعۃ‘‘ مراد ہے نہ کہ ’’شرک فی العبادۃ‘‘۔

 

 

 

باب:50اسماء حسنی کا بیان

 

اللہ تعالی کا ارشاد ہے :

(وَلِلَّهِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى فَادْعُوهُ بِهَا وَذَرُوا الَّذِينَ يُلْحِدُونَ فِي أَسْمَائِهِ سَيُجْزَوْنَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ (سورۃ الأعراف7: 180))

اور اللہ کے اچھے اچھے نام ہیں ، پس تم اسے انہی ناموں سے پکارو اور ان لوگوں سے دور رہو جو اس کے اسماء گرامی میں الحاد (کجی)کرتے ہیں ، ان لوگوں کو ان کے اعمال کی سزا ضرور ملے گی۔ (1)

اس آیت کی تفسیر میں ابن عباس رضی اللہ عنہما نے الحاد کا معنی شرک کیا ہے۔ نیز انہوں نے فرمایا کہ مشرکین نے ’’اللہ‘‘ اسم الجلالہ سے ’’اللات‘‘اور ’’العزیز‘‘سے ’’العزی‘‘  مشتق کیا تھا۔ (تفسیر ابن ابی حاتم)

اعمش کا قول ہے کہ اسماء الہیہ میں الحاد کا مفہوم یہ ہے کہ ملحدین اللہ تعالی کے اسماءحسنی میں اپنی طرف سے گھڑ کر بعض ایسے ناموں کا اضافہ کرتے ہیں جو حقیقت میں اس کے نام نہیں ہیں۔ (2)

 

مسائل:

1) اس باب میں اللہ تعالی کے لیے اسماء کے اثبات کا ذکر ہے۔

2) نیز معلوم ہوا کہ اللہ تعالی کے سب نام اچھے ہیں۔

3) آیت کریمہ میں اسماء حسنی کے ذریعے سے اللہ تعالی کو پکارنے اور دعا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔

4) آیت مبارکہ میں یہ حکم بھی ہے کہ جو جہلاء اور ملحدین، اللہ تعالی کے اسماء یا صفات کا انکار کریں ان سے الگ تھلگ اور دور رہنا چاہیے اور ان سے معارضہ نہیں کرنا چاہیے۔

5) ابن عباس رضی اللہ عنہما اور اعمش رحتہ اللہ علیہ کے اقوال سے الحاد فی الاسماء کی تفسیر بھی واضح ہوئی۔

6) نیز اس تفصیل سے پتہ چلا کہ اللہ تعالی کے اسماء میں الحاد کرنے والوں کے بارے میں سخت و عید ہے۔

 

نوٹ:

(1) تمام اچھے اچھے نام اللہ عزوجل کے شایان شان ہیں۔ لہذا اللہ تعالی کا حکم ہے کہ اسے انہی ناموں سے پکارا اور یاد کیا جائے۔ ’’فَادْعُوهُ بِهَا‘‘ کا معنی مفسرین نے ثنا اور عبادت کا کیا ہے، یعنی اللہ تعالی کے ان اسماء حسنی کے ساتھ اس کی تعریف و ثنا کی جائے اور اس کے دوسرے معنی دعا اور پکار کے بھی ہیں ، یعنی جب تم اللہ تعالی کو پکارو اور اس سے کوئی چیز طلب کرو تو اس کے اسماء حسنی اور بلند صفات کا وسیلہ اور واسطہ بنا کر اسے پکارو۔ اسی آیت میں دوسرا حکم یہ ہے کہ مسلمانوں پر واجب ہے کہ اللہ تعالی کے ناموں میں الحاد کرنے والوں سے الگ تھلگ رہیں۔ اللہ تعالی کے اسماء حسنی کا ایسا مفہوم لینا جو حقیقت کے برعکس اور اللہ تعالی کے حق میں نامناسب ہو الحاد فی الاسماء کہلاتا ہے اور اس کی مختلف صورتیں ہیں۔

(2)الحاد فی الاسماء کی مختلف صورتیں :

(الف) معبودان باطلہ کے نام اللہ تعالی کے ناموں جیسے رکھنا مثلاً ’’الالہ‘‘ سے ’’اللات‘‘ اور ’’العزیز‘‘ سے ’’العزی‘‘ وغیرہ۔

(ب) یوں کہنا کہ اللہ تعالی بھی صاحب اولاد ہے جیسا کہ عیسائیوں نے عیسی علیہ السلام کو اللہ تعالی کا بیٹا قرار دے دیا۔

(ج) اللہ تعالی کے تمام اسماء و صفات کا یا ان میں سے بعض کا انکار کرنا جیسا کہ غالی (فرقہ)جہمیہ، اللہ کے کسی بھی نام یا صفت کو تو نہیں مانتے، البتہ یہ کہتے ہیں کہ اللہ موجود ہے اور اس کا وجود بر حق ہے لیکن بغیر کسی اسم اور صفت کے۔

(د) اللہ تعالی کے اسماء و صفات کے بارے میں مسلک حق سے عدول و اعراض کر کے ان کا ایسا مفہوم مراد لینا جس کی شرعی طور پر قطعاً اجازت نہیں جبکہ سلف کا صحیح عقیدہ یہ ہے کہ اللہ تعالی کے تمام اسماء و صفات کو تسلیم کیا جائے اور ان پر ایمان رکھا جائے۔ان کی تاویل کرنا یا ان کے مجازی معانی مراد لینا جائز نہیں جیسا کہ معتزلہ، اشاعرہ، ماتریدیہ وغیرہ نے کیا۔

اس تفصیل سے واضح ہوا کہ الحاد فی الاسماء کے مختلف مراتب اور درجے ہیں ، الحاد فی الاسماء کی بعض صورتیں کفر ہیں اور بعض، مذکورہ بالا صورتوں میں سے سب سے آخری صورت بالخصوص، بدعت کے زمرے میں آتی ہے نہ کہ کفر کے زمرے میں لہذا اس صورت کے الحاد کے مرتکبین کا فر نہیں بلکہ بدعتی ٹھہریں گے۔

اللہ تعالی کے اسماء و صفات کے مسئلہ کے بارے میں بہت سے مباحث ہیں جنہیں عقائد کی مفصل کتابوں میں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔

تعلیق از مترجم:صحیح البخاری، کتاب الدعوات، باب للہ مائۃ اسم غیر واحدۃ، حدیث : 6410۔ میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ تعالی کے ننانوے نام ہیں۔ جو انہیں یاد کر لے گا وہ جنت میں جائے گا، نیز اللہ وتر (ایک)ہے اور وہ وتر (طاق عدد)کو پسند کرتا ہے۔

جامع ترمذی کی ایک روایت میں اللہ تعالی کے ’’99‘‘اسماء حسنی بیان ہوئے ہیں۔ کتاب الدعوات، باب حدیث فی اسماء اللہ الحسنی مع ذکرھا تمام، حدیث : 3507۔

 

 

 

باب:51 السلام علی اللہ کہنے کی ممانعت (1)

 

عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : جب ہم نماز میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہوتے تو ہم

(السَّلاَمُ عَلَى اللَّهِ مِنْ عِبَادِهِ، السَّلاَمُ عَلَى فُلاَنٍ وَفُلاَنٍ)

’’اللہ تعالی پر اس کے بندوں کی طرف سے سلام ہو۔ فلاں فلاں شخص پر بھی سلام ہو۔‘‘ کہتے، اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(لاَ تَقُولُوا السَّلاَمُ عَلَى اللَّهِ، فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ السَّلاَمُ) (صحیح البخاری، الاذان، باب التشهد فی الاخرۃ، 831، 835، 1202، 6230 و صحیح مسلم، الصلاۃ، باب التشھد فی الصلوۃ، ح:402)

’’السلام علی الله‘‘ نہ کہا کرو کیونکہ اللہ تو خود ’’السلام‘‘ (سلامتی عطا کرنے والا) ہے۔‘‘ (2)

 

مسائل:

 

1) اس تفصیل سے سلام کی تفسیر ہوئی۔

2) یہ کلمہ مسلمانوں کا آپس میں ایک دوسرے کے لیے تحفہ ہے۔

3)’’السلام علی الله‘‘ کہنا اللہ تعالی کے شایان شان نہیں۔

4) اور ’’السلام علی الله‘‘ کہنے کی ممانعت کی علت بھی واضح ہوئی کہ اللہ تعالی تو خود ’’السلام‘‘ یعنی سلامتی بخشنے والا ہے۔ اسے سلامتی کی دعا کی کوئی ضرورت نہیں۔

5) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو ’’السلام علی الله‘‘ کی بجائے ’’اَلتَّحِيَّاتُ لِلهِ وَ الصَّلَوَاتُ وَ الطَّيِّبَاتُ‘‘ کے الفاظ کے ساتھ اللہ تعالی کی جناب میں تحیۂ تعظیم و تہنیت کی تعلیم دی ہے جو اللہ تعالی کی ذات اقدس کے شایان شان ہے۔

 

نوٹ:

(1) ’’السلام علی الله‘‘ (اللہ تعالی پر سلام ہو) کہنا توحید کے منافی ہے۔

اللہ تعالی کا ارشاد ہے :

(يَا أَيُّهَا النَّاسُ أَنْتُمُ الْفُقَرَاءُ إِلَى اللَّهِ وَاللَّهُ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ (سورۃ فاطر35: 15))

’’لوگو! تم سب اللہ تعالی کے محتاج ہو۔ جبکہ اللہ تعالی سب سے مستغی (اور) قابل تعریف ہے۔‘‘

اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالی اپنے بندوں کا اور ان کے دعائیہ کلمات اک محتاج نہیں۔ لہذا توحید کا تقاضا یہ ہے کہ ’’السلام علی الله‘‘ وغیرہ الفاظ نہ کہے جائیں کیونکہ اس سے بظاہر یہ ذہن میں آتا ہے کہ شاید اللہ تعالی بندوں کی طرف سے اس قسم کی دعاؤں اور کلمات کا محتاج اور طلب گار ہے۔ حالانکہ بندے تو خود اللہ تعالی کی سلامتی کے محتاج ہیں۔ اس قسم کے الفاظ توحید کے منافی ہیں اور ان سے توحید میں نقص واقع ہوتا ہے۔ اس لیے ایسے الفاظ سے احتراز کرنا ضروری ہے۔

(2) صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، اللہ تعالی کے لیے بطور کلمۂ تحسین یہ جملہ کہا کرتے تھے۔ ان کا قصد و ارادہ اگرچہ درست تھا لیکن اس کلمۂ تحسین کے الفاظ، چونکہ ذات باری تعالی کے شایان شان نہیں تھے بلکہ ان میں سوء ادبی تھی جو کہ اللہ عزوجل کی ربوبیت اور اس کے اسماء و صفات کے منافی ہے اس لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرما دیا اور ایسا کلمہ کہنے کو حرام قرار دیا۔

 

 

باب:52 ’’یا اللہ ! اگر تو چاہتا ہے تو مجھے بخش دے ‘‘کہنا درست نہیں (1)

 

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

( لاَ يَقُولَنَّ أَحَدُكُمْ: اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي إِنْ شِئْتَ، اللَّهُمَّ ارْحَمْنِي إِنْ شِئْتَ، لِيَعْزِمِ المَسْأَلَۃ، فَإِنَّهُ لاَ مُكْرِهَ لَهُ) (صحیح البخاری، الدعوات، باب لیعزم المسالۃ فانہ لا مکرہ لہ، ح:6339، 7363 و صحیح مسلم، الذکر و الدعاء و التوبۃ و الاستغفار، ح:2679)

’’تم میں سے کوئی یوں دعا نہ کرے کہ یا اللہ ! اگر تو چاہتا ہے تو مجھے بخش دے، یا اللہ ! تو چاہتا ہے تو مجھ پر رحم فرما، بلکہ اللہ تعالی سے پورے وثوق سے سوال و دعا کرے، کیونکہ کوئی اللہ تعالی کو مجبور کرنے والا اور اس پر دباؤ ڈالنے والا نہیں۔‘‘ (2)

اور صحیح مسلم میں ہے :

(وَلْيُعَظِّمِ الرَّغْبَۃ، فَإِنَّ اللهَ لَا يَتَعَاظَمُهُ شَيْءٌ أَعْطَاهُ) (صحیح مسلم، الذکر والدعاء و التوبۃ و الاستغفار، ح:2679)

’’اور چاہیے کہ وہ خوب رغبت اور توجہ کے ساتھ دعائیں کرے کیونکہ کوئی چیز عطا کرنا اللہ تعالی کے لیے کچھ مشکل نہیں۔‘‘ (3)

 

مسائل:

1) اس وضاحت سے معلوم ہوا کہ دعا میں استثنا کی ممانعت ہے یعنی یوں نہیں کہنا چاہیے کہ ’’یا اللہ ! تو چاہتا ہے تو مجھے بخش دے۔‘‘

2) اس کی علت یہ ہے کہ ایسا کہنے سے انسان کی بے پروائی اور تکبر کا اظہار ہوتا ہے۔

3) پورے وثوق کے ساتھ دعا کرنی چاہیے۔

4) اور دعا میں رغبت اور دلی میلان بھی بہت زیادہ ہونا چاہیے۔

5) اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان بے بس اور محتاج ہے جبکہ اللہ تعالی غنی اور صاحب قدرت ہے، اسے کوئی مجبور نہیں کرسکتا اور نہ ہی اس کے لیے کوئی چیز عطا کرنا کچھ مشکل ہے۔

 

نوٹ:

(1) اس قسم کے الفاظ میں اللہ تعالی کی مغفرت سے بے پروائی اور استغفاء کا اظہار ہوتا ہے کہ قائل کو اللہ تعالی کی مغفرت اور بخشش کی ضرورت نہیں۔ اور وہ اللہ کے حضور عاجزی و انکسار نہیں کرنا چاہتا۔ گویا وہ اللہ کا محتاج نہیں بلکہ اس سے مستغنی اور لاپروا ہے۔ چونکہ یہ بات توحید کے منافی ہے، اس لیے اس سے منع کیا گیا ہے۔

توحید کا تقاضا تو یہ ہے کہ انسان اپنے رب کے حضور اپنی احتیاج کا اظہار کرتا رہے کیونکہ بندہ ایک لمحہ کے لیے بھی اس سے مستغنی نہیں رہ سکتا۔ بلکہ وہ ہر دم اس کی مغفرت، عفو و کرم اور اس کے فضل کا محتاج ہے۔

(2) یعنی وہ جب دعا کرے اور اللہ تعالی سے مغفرت طلب کرے تو استغفاء، بے پروائی اور اظہار تکبر کی بجائے احتیاج اور عاجزی ظاہر کرے۔

(3) انسان کو چاہیے کہ جب بھی اللہ تعالی سے سوال کرے تو بے پروائی اور تکبر کا اظہار کرنے کے بجائے محتاج و فقیربن کر، پورے عزم و جزم اور انتہائی عجز و انکسار کے ساتھ سوال کرے کیونکہ یہ تو انسان کے خود اپنے یقین کی پختگی کی علامت ہے ورنہ اللہ تعالی کو تو کوئی بھی مجبور نہیں کرسکتا۔ وہ اہل جہاں سے غنی، قہار اور بے حد غلبہ و قدرت رکھنے والا ہے اور یہی اس کے اسماء و صفات کا تقاضا ہے۔ اس کے لیے کوئی چیز عطا کرنا کچھ مشکل نہیں۔

یاد رہے ! بیمار پرسی کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جو یہ ثابت ہے کہ آپ: (لاَ بَأْسَ طَهُورٌ إِنْ شَاءَ اللهُ)

کہا کرتے تھے تو اس کا مطلب ہرگز بے یقینی نہیں تھا کیونکہ یہ کلمات تو سرے سے دعا ہی نہیں بلکہ خبر اور اطلاع ہے کہ اگر اللہ تعال نے چاہا تو یہ بیماری گناہوں سے پاک کر دینے کا ذریعہ ہو گی۔ گویا دعا میں پختگی اور یقین کے ساتھ اس بات کا کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔

 

 

 

باب:53 کسی کو ’’میرا بندہ‘‘ اور ’’میری بندی‘‘ کہنا منع ہے (1)

 

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(لاَ يَقُلْ أَحَدُكُمْ: أَطْعِمْ رَبَّكَ وَضِّئْ رَبَّكَ وَلْيَقُلْ: سَيِّدِي مَوْلاَيَ، وَلاَ يَقُلْ أَحَدُكُمْ: عَبْدِي أَمَتِي، وَلْيَقُلْ: فَتَايَ وَفَتَاتِي وَغُلاَمِي) (صحیح البخاری، العتق، باب کراھیۃ التطاول علی الرقیق، ح:2552 وصحیح مسلم، الالفاظ من الادب و غیرھا، باب حکم اطلاق لفظۃ العبد و الامۃ و المولی و السید، ح:2249)

’’کوئی شخص یوں نہ کہے، اپنے رب کو کھانا کھلا، اپنے رب کو وضو کرا، بلکہ یوں کہنا چاہیے میرا آقا اور میرا مولا۔ اور کوئی یوں نہ کہے، میرا بندہ اور میری بندی، بلکہ یوں کہنا چاہیے میرا غلام، میرا خادم، میری خادمہ‘‘ (2)

 

مسائل:

1) اس بحث سے ثابت ہوا کہ غلام اور لونڈی کو ’’عَبْدِى‘‘ اور ’’اَمَتِى‘‘ (میرا بندہ اور میری بندی کہنا منع ہے۔

2) اور کوئی غلام اپنے آقا کو ’’رَبِّىْ‘‘ (میرا رب) نہ کہے اور نہ کسی غلام سے یوں کہا جائے ’’اَطْعِمْ رَبَّكَ‘‘ (کہ اپنے رب کو کھانا کھلاؤ۔)

3)نیز اس حدیث میں آقا اور مالک کو تعلیم دی گئی ہے کہ وہ اپنے غلام اور لونڈی کے لیے ’’عَبْدِى‘‘ اور ’’اَمَتِى‘‘ (میرا بندہ۔ میری بندی) کی بجائے ’’فَتَاىَ , فَتَاتِى‘‘ اور ’’غُلاَمِى‘‘ کے الفاظ کے استعمال کرے۔

4) اور غلام کو تعلیم دی گئی ہے کہ وہ اپنے آقا کو ’’سَيِّدِى‘‘ اور ’’مَولَاىَ‘‘ کے الفاظ سے پکارے۔

5) ان ہدایات سے اصل مقصود یہ ہے کہ انسان کا عقیدۂ توحید مکمل طور پر پختہ ہو یہاں تک کہ الفاظ کے استعمال میں بھی توحید کے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے انتہائی حزم و احتیاط ملحوظ رکھی جائے۔

 

نوٹ:

(1) چونکہ اللہ تعالی ہی بندوں کا رب اور ان پر تصرف کرنے والا ہے۔ لوگ اسے تسلیم کریں یا نہ کریں ، در حقیقت سب اسی کے بندے ہیں۔ اس لیے غلام اور لونڈی کو اپنا بندہ یا اپنی بندی کہنے سے منع کیا گیا ہے کیونکہ اس طرح بندگی کی نسبت اپنی طرف ہو جاتی ہے جو کہ اللہ تعالی کے ادب اور تعظیم ربوبیت کے منافی ہے، اس لیے اکثر اہل علم کا قول ہے کہ میرا بندہ اور میری بندی وغیرہ الفاظ جائز نہیں۔ البتہ بعض اہل علم نے ایسے الفاظ کو محض مکروہ لکھا ہے۔

(2) اس حدیث میں جو ممانعت بیان ہوئی ہے اس کے بارے میں اہل علم کا اختلاف ہے کہ آیا یہ مذکورہ کلمات کہنا حرام ہیں یا مکروہ؟ کیونکہ دراصل ان کا تعلق، ادب سے ہے۔ صحیح بات یہ ہے کہ کسی کو ’’عَبْدِى‘‘ (میرا بندہ) ’’اَمَتِى‘‘ (میری بندی) یا ’’اَطْعِمْ رَبَّكَ‘‘ اپنے رب کو کھانا کھلا)کہنا جائز نہیں۔ البتہ لفظ ’’رَب‘‘ کی بسبت و اضافت، بے جان چیز کی طرف کی جا سکتی ہے جیسے ’’رَبَّ الَّدارِ‘‘ (گھر کا مالک) ہے کیونکہ اس استعمال میں عبودیت کا تصور ہی نہیں ہے۔

اس حدیث میں یہ بھی بیان ہوا ہے کہ آقا کو ’’سید‘‘ اور ’’مولی‘‘ کہنا چاہیے کیونکہ اضافت اور نسبت کے ساتھ لفظ ’’سید‘‘ کسی انسان کے لیے بولا جا سکتا ہے۔ لفظ ’’السید‘‘ اللہ تعالی کا نام بھی ہے اور مخلوق کے لیے بھی بولا جاتا ہے لیکن دونوں کے مفہوم میں بہت زیادہ فرق ہے۔ اللہ تعالی کے لیے اس کا مفہوم وہی ہو گا جو اس کے شایان شان ہے اور مخلوق کے لیے وہ جو اس کی قدرت و طاقت کے مطابق ہے۔ اسی طرح لفظ ’’مولی‘‘ کے بھی کئی معانی ہیں۔ اور لفظ ’’السید‘‘ کی طرح لفظ ’’مولیٰ‘‘ بھی اللہ تعالی کا نام ہے اور یہ لفظ کسی انسان کے لیے بھی بولا جا سکتا ہے۔ لیکن اللہ تعالی کے لیے بولے جانے میں اور مخلوق کے لیے بولے جانے میں بہت فرق ہے۔ مخلوق کے لیے اس کا استعمال، محدود اور اس کی قدرت اور مقام کے لحاظ سے ہو گا اور اللہ تعالی کے لیے اس کا مفہوم اس کی عظیم بادشاہت اور سلطنت کے مطابق ہو گا۔

 

 

 

باب:54 اللہ تعالی کے نام پر وسوال کرنے والے کو خالی ہاتھ نہ لوٹایا جائے (1)

 

عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(مَنْ سَأَلَ بِاللَّهِ فَأَعْطُوهُ وَمَنِ اسْتَعَاذَ بِاللَّهِ فَأَعِيذُوهُ، وَمَنْ دَعَاكُمْ فَأَجِيبُوهُ، وَمَنْ صَنَعَ إِلَيْكُمْ مَعْرُوفًا فَكَافِئُوهُ، فَإِنْ لَمْ تَجِدُوا مَا تُكَافِئُونَهُ، فَادْعُوا لَهُ حَتَّى تَرَوْا أَنَّكُمْ قَدْ كَافَأْتُمُوهُ) (سنن ابی داود، الزکاۃ، باب عطیۃ من سال باللہ، ح:1672 وسنن النسائی، الزکاۃ، باب من سال باللہ عزوجل، ح:2568)

’’جو شخص اللہ کے نام پر سوال کرے، اسے (کچھ نہ کچھ)دو۔ اور جو شخص اللہ کا واسطہ دے کر پناہ طلب کرے اسے پناہ دو۔ اور جو شخص تمہیں دعوت دے، اس کی دعوت قبول کر۔ اور جو شخص تمہارے ساتھ نیکی اور حسن سلوک کرے، تم بھی اسے اس کا بدلہ دو۔ اگر تم بدلہ نہ دے سکو تو اس کے حق میں اس قدر دعا کرو کہ تمہیں یقین ہو جائے کہ تم نے اس کا بدلہ چکا دیا ہے۔‘‘ (2)

 

مسائل:

1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جب کوئی شخص اللہ تعالی کا واسطہ دے کر پناہ طلب کرے تو اسے پناہ دی جائے۔

2) اور جو شخص اللہ تعالی کے نام پر سوال کرے اسے بھی کچھ نہ کچھ دینا چاہیے۔

3) اور دعوت دینے والے کی دعوت ضرور قبول کرنی چاہیے۔

4) نیز جو شخص جسن سلوک کرے، اسے اس کا بدلہ بھی دینا چاہیے۔

5) اور جو شخص احسان کا بدلہ نہ دے سکتا ہو اسے چاہیے کہ وہ اپنے محسن کے حق میں دعا ہی کر دے۔

6) اور دعا بھی اس قدر کرے کہ اسے یقین وہ جائے کہ اب بدلہ چکایا جا چکا ہے۔

 

نوٹ:

(1) جب کوئی سائل اللہ تعالی کا نام لے کر اور اس کا واسطہ دے کر سوال کرے یا کوئی چیز مانگے تو اللہ تعالی کی تعظیم کے پیش نظر ایسے سائل کو خالی ہاتھ لوٹا نا نہیں چاہیے۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ اور بہت سے محققین اہل علم کا قول ہے کہ جب کوئی شخص اللہ تعالی کا نام لے کر اور اس کا واسطہ دے کر کسی ایک معین انسان کے سامنے ہاتھ پھیلائے اور وہ انسان اس کی ضرورت پوری کرنے پر قادر ہو تو اسے خالی ہاتھ واپس کرنا حرام ہے۔ البتہ اگر وہ کسی شخص کو متعین کیے بغیر یوں ہی عمومی صدا لگائے تو اس کی ضرورت پوری کرنا محض مستحب ہے ضروری نہیں۔ اور اگر یہ معلوم ہو کہ یہ سائل جھوٹ بولتا ہے تو ایسی صورت میں جبکہ وہ اللہ تعالی کے نام پر سوال کرے تو اس کی حاجت پوری کرنا محض مباح ہے اور واجب ہے نہ مستحب۔

(2) پناہ مانگنے والا چونکہ اللہ تعالی کی عظیم ذات کا نام لے کر پناہ مانگتا ہے، اس لیے اسے پناہ دینی چاہیے۔ دعوت کے بارے میں اکثر اہل علم کا موقف ہے کہ پیش نظر حدیث میں جس دعوت کے قبول کرنے کا حکم ہے اس سے شادی کی دعوت (ولیمہ) مراد ہے۔ عام دعوتوں کو قبول کرنا ضروری نہیں بلکہ محض مستحب ہے۔ نیز حدیث مذکور میں یہ حکم بھی ہے کہ احسان مند شخص کو احساس کمتری کا شکار ہونے اور احسان کرنے والے کے سامنے اپنی بے بسی اور بے کسی کا اظہار کرنے کے بجائے اس کے احسان کا پورا پورا بدلہ دینے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اگر ایسا ممکن نہ ہو تو اس کے لیے اس قدر دعا ضرور کرنی چاہیے کہ انسان کو یقین ہو جائے کہ میں نے اس کا بدلہ چکا دیا ہے۔ یقیناً تقویٰ و للہیت کا ایسا بلند ترین مقام ہے جس پر اہل اخلاص اور کامل موحدین ہی فائز ہوتے ہیں۔ اللہ تعالی ہمیں بھی ان میں سے کرے۔آمین!

 

 

 

باب:55اللہ تعالی کا واسطہ دے کر صرف جنت ہی مانگی جائے (1)

 

 

جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(لَا يُسْأَلُ بِوَجْهِ اللَّهِ، إِلَّا الْجَنَّۃ) (سنن ابی داود، الزکاۃ، باب کراھیۃ المسالۃ بوجہ اللہ عزوجل، ح:1671)

’’اللہ تعالی کے چہرے کا واسطہ دے کر جنت کے سوا کچھ نہ مانگا جائے۔‘‘

 

مسائل:

1) اس حدیث سے ثابت ہوا کہ اللہ تعالی کا واسطہ دے کر سب سے بڑے اور اہم مقصود و مطلوب (جنت)کے علاوہ اور کوئی چیز نہ مانگی جائے۔

2) نیز اس حدیث میں اللہ تعالی کے لیے وجہ (چہرہ)کا اثبات ہے۔

 

نوٹ:

(1) چونکہ اللہ تعالی کی ذات انتہائی مقدس، مبارک اور عظیم ہے۔ اس کے اسماء و صفات بھی ازحد قابل تعظیم ہیں اور ان کی تعظیم اسی طرح کرنا ضروری ہے۔ جس طرح اس کی شان کے لائق ہے، یعنی ہم ان اسماء و صفات کے اصل معانی جان لینے کے بعد ان کی کیفیت و ماہیت اللہ عزوجل ہی کے سپرد کر دیں اور بغیر تشبیہ و تمثیل اور تعظیل کے ان پر ایمان رکھیں اور اس کی عظمت کا یہ تقاضا بھی ہے کہ اس کے اسماء و صفات، اس کی ذات اور اس کے مبارک چہرے کا واسطہ کر اس سے جنت جیسی عظیم نعمت ہی مانگی جائے، اور دنیا کی کوئی بھی حقیر چیز اس کا واسطہ دے کر نہ مانگی جائے۔ گویا اس باب میں اللہ تعالی کے اسماء و صفات کے تعظیم کرنے کی تنبیہ کی گئی ہے۔

 

 

ب:56 کسی پریشانی یا حادثہ کے بعد ’’اگر‘‘ اور ’’کاش‘‘ وغیرہ الفاظ کے ساتھ اظہار حسرت کرنا منع ہے (1)

اللہ تعالی کا ارشاد ہے :

(يَقُولُونَ لَوْ كَانَ لَنَا مِنَ الْأَمْرِ شَيْءٌ مَا قُتِلْنَا هَاهُنَا  (سورۃ آل عمران3: 154))

’’یہ لوگ (منافق) کہتے ہیں اگر ہمارے بس میں کچھ ہوتا تو ہم یہاں قتل نہ ہوتے۔‘‘

نیز ارشاد ہے :

(الَّذِينَ قَالُوا لِإِخْوَانِهِمْ وَقَعَدُوا لَوْ أَطَاعُونَا مَا قُتِلُوا (سورۃ آل عمران3: 168))

’’یہ (منافق)وہ لوگ ہیں جو خود تو (گھروں میں)بیٹھے رہے اور اپنے (ان)بھائیوں کی نسبت (جنہوں نے اپنی جانیں اللہ تعالی کی راہ میں فدا کر دیں)کہنے لگے کہ اگر وہ ہماری بات مان لیتے تو مارے نہ جاتے۔‘‘

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(احْرِصْ عَلَى مَا يَنْفَعُكَ، وَاسْتَعِنْ بِاللهِ وَلَا تَعْجَزْ، وَإِنْ أَصَابَكَ شَيْءٌ، فَلَا تَقُلْ لَوْ أَنِّي فَعَلْتُ لَكَانَ كَذَا وَكَذَا، وَلَكِنْ قُلْ قَدَرُ اللهِ وَمَا شَاءَ فَعَلَ، فَإِنَّ لَوْ تَفْتَحُ عَمَلَ الشَّيْطَانِ) (صحیح مسلم، القدر، باب الایمان بالقدر و الاذعان لہ ح:2664 ومسند احمد:2/ 366، 370)

’’اس چیز کی حرص کر جو تیرے لیے مفید ہو۔ اور صرف اللہ تعالی سے مدد مانگ۔ اور عاجز و کاہل ہو کر نہ بیٹھا رہ۔ اور اگر تجھے کوئی پریشانی لاحق ہو تو یوں نہ کہہ، اگر میں یہ کر لیتا تو یوں ہو جاتا۔ بلکہ یوں کہہ یہ اللہ تعالی کا فیصلہ ہے، اس نے جو چاہا سو کیا۔ اس لیے کہ ’’اگر‘‘ کہنا شیطانی عمل دخل کا سبب بنتا ہے۔‘‘ (2)

 

مسائل:

1) اس باب میں سورۂ آل عمران کی مندرجہ بالا دو آیات (154 اور 168)کی تفسیر ہے جن میں ’’اگر‘‘ کہنے والے منافقین کا تذکرہ ہے۔

2) نیز معلوم ہوا کہ نقصان ہونے پر اگر مگر کہنا منع ہے۔

3) اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ’’اگر‘‘ کہنے سے شیطانی عمل دخل کا دروازہ کھلتا ہے۔

4) نیز اس مذکورہ حدیث میں اچھی گفتگو کی رہنمائی کی گئی ہے۔

5) اور مفید چیز کے حصول کی ترغیب اور اس سلسلے میں اللہ تعالی سے مدد مانگنے کی تلقین بھی کی گئی ہے۔

6) نیز اس حدیث میں عاجز، کاہل، اور ست ہو کر بیٹھ رہنے کی ممانعت بھی ہے۔

 

نوٹ:

(1) بعض لوگ لاعلمی یا کم علمی کی بنا پر لا شعوری طور پر تقدیر کے شاکی ہوتے ہیں۔ جب کوئی ناگوار واقعہ یا حادثہ پیش آ جائے تو کہنے لگتے ہیں اگر ہم یوں کر لیتے تو یوں ہو جاتا۔ اگر ہم فلاں تدبیر اختیار کر لیتے تو اس نقصان اور پریشانی سے بچ جاتے، حالانکہ جو کچھ پیش آچکا ہے اللہ کو وہی منظور تھا، اس لیے کسی پیش آمدہ واقعہ یا پریشانی کے بعد اگر مگر کی باتیں نہیں کرنی چاہئیں اور اللہ تعالی کے فیصلوں پر دل و جان سے راضی رہنا چاہیے۔ اگر مگر کی باتیں کرنا حرام اور نفاق کی علامت ہے۔

(2) کسی گزشتہ کام کے بارے میں اظہار حسرت و افسوس کے لیے ’’اگر‘‘ اور کاش‘‘ جیسے الفاظ استعمال کرنا حرام ہے۔ البتہ زمانہ مستقبل میں ہونے والے خیر و بھلائی کے کسی کا م کے لیے، رحمت الہی کی امید رکھتے ہوئے، ’’اگر‘‘ کا لفظ بولنا جائز ہے اور اگر مستقبل میں ہونے والے کسی کام پر اپنے تکبر و غرور کا اظہار کرتے ہوئے ’’اگر‘‘ کا لفظ کہا جائے تو ہرگز جائز نہیں۔ یہ تو گویا تقدیر الہی کو چیلنج ہے۔

 

 

 

باب:57 ہوا اور آندھی کو گالی دینے اور برا بھلا کہنے کی ممانعت (1)

 

ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ہوا کو گالی نہ دو جب تم ناپسندیدہ (ہوا) دیکھو تو یہ دعا پڑھو:

(اللَّهُمَّ إِنَّا نَسْأَلُكَ مِنْ خَيْرِ هَذِهِ الرِّيحِ وَخَيْرِ مَا فِيهَا وَخَيْرِ مَا أُمِرَتْ بِهِ، وَنَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ هَذِهِ الرِّيحِ وَشَرِّ مَا فِيهَا وَشَرِّ مَا أُمِرَتْ بِهِ) (جامع الترمذی، الفتن، باب ماجاء فی النھی عن سب الریاح، ح:2252)

’’اے اللہ !ہم تجھ سے اس ہوا اور جو اس میں ہے اور جس کا اسے حکم دیا گیا ہے، اس کی بہتری اور بھلائی کا سوال کرتے ہیں اور (اے اللہ!) ہم ہوا کے شر اور جو اس کے اندر شر ہے اور جس شر کا اسے حکم دیا گیا ہے، اس سے تیری پناہ مانگتے ہیں۔‘‘ (2)

 

مسائل:

1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ہوا کو گالی دینا یا برا بھلا کہنا منع ہے۔

2) اس میں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ جب انسان کو کوئی ناپسنددیدہ اور نا خوش گوار چیز نظر آئے تو مفید چیز کی دعا کرنی چاہیے۔

3) اور یہ بھی معلوم ہوا کہ ہوا از خود نہیں چلتی بلکہ یہ اللہ تعالی کے حکم سے چلتی ہے اوراسی کی پابند ہے۔

4) نیز ہوا کو کبھی بھلائی کا اور کبھی نقصان کا حکم بھی ہوتا ہے۔

 

نوٹ:

(1) ہوا اور آندھی کو گالی دینا یا برا بھلا کہنا، زمانے کو برا بھلا کہنے کی مانند ہے جو کہ اللہ تعالی کو ایذا پہنچانے کے مترادف ہے کیونکہ ہوائیں اور آندھیاں اسی کے حکم سے چلتی ہیں۔ البتہ یوں کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ ہوا تیز ہے، ہوا ٹھنڈی ہے، ہوا گرم ہے وغیرہ۔

(2) یہ حدیث دلیل ہے کہ ہواؤں پر تصرف اللہ تعالی کا ہے اور یہ اسی کے حکم کی تابع ہیں۔ وہ انہیں جیسے اور جدھر چاہے چلاتا ہے اور جدھر چاہے موڑ دیتا ہے۔ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تعلیم دی کہ جب ناپسند ہوا (آندھی) دیکھو تو یہ دعا (مذکورہ بالا) پڑھا کرو۔

 

 

 

باب:58 اللہ تعالی کے فیصلوں کے متعلق بد گمانی کرنے کی ممانعت (1)

 

ارشاد الہی ہے :

(يَظُنُّونَ بِاللَّهِ غَيْرَ الْحَقِّ ظَنَّ الْجَاهِلِيَّۃ يَقُولُونَ هَلْ لَنَا مِنَ الْأَمْرِ مِنْ شَيْءٍ قُلْ إِنَّ الْأَمْرَ كُلَّهُ لِلَّهِ يُخْفُونَ فِي أَنْفُسِهِمْ مَا لَا يُبْدُونَ لَكَ يَقُولُونَ لَوْ كَانَ لَنَا مِنَ الْأَمْرِ شَيْءٌ مَا قُتِلْنَا هَاهُنَا قُلْ لَوْ كُنْتُمْ فِي بُيُوتِكُمْ لَبَرَزَ الَّذِينَ كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقَتْلُ إِلَى مَضَاجِعِهِمْ وَلِيَبْتَلِيَ اللَّهُ مَا فِي صُدُورِكُمْ وَلِيُمَحِّصَ مَا فِي قُلُوبِكُمْ وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ (سورۃ آل عمران3: 154))

’’یہ (منافقین) اللہ کے بارے میں (ایام)جاہلیت کے سے ناحق گمان کرتے ہیں ، کہتے ہیں کہ (اس امر میں) ہمیں بھی کچھ اختیار ہے ؟ آپ فرما دیں کہ (ان امور میں کسی کا کچھ حصہ نہیں) سارے اختیارات اللہ کے قبضہ میں ہیں۔ یہ لوگ اپنے دلوں میں (بہت سی باتیں) مخفی رکھتے ہیں جو آپ پر ظاہر نہیں کرتے، کہتے ہیں کہ اگر ہمارے بس میں ہوتا تو ہم یہاں مارے نہ جاتے۔ آپ ان سے کہہ دیں کہ اگر تم اپنے گھروں میں بھی ہوتے تو جن کی موت لکھی تھی، وہ ضرور اپنی قتل گاہوں کی طرف نکل آتے اور (یہ سارا ماجرا) اس لیے (پیش آیا) کہ اللہ تمہارے سینوں کی بات کو آزمائے اور تمہارے دلوں میں جو کچھ ہے، اسے خالص کر دے اور نکھار دے۔ یقیناً اللہ دلوں کا حال خوب جانتا ہے۔‘‘

نیز فرمایا:

(الظَّانِّينَ بِاللَّهِ ظَنَّ السَّوْءِ عَلَيْهِمْ دَائِرَۃ السَّوْءِ (سورۃ الفتح48: 6))

’’جو لوگ اللہ کے بارے میں برے گمان رکھتے ہیں ، برائی کا وبال انہی پر پڑے گا۔‘‘

امام ابن القیم رحمہ اللہ علیہ اول الذکر آیت کے بارے میں فرماتے ہیں کہ اس آیت میں لوگوں کے جس جاہلانہ ناحق گمان کا ذکر ہے، وہ یہ ہے کہ وہ لوگ گمان کرنے لگے تھے کہ اللہ سبحانہ و تعالی اپنے رسول کی مدد نہیں کرے گا اور اس کی دعوت اور مشن جلد ہی ختم ہو جائے گا۔ اور اس کی ایک تفسیر یہ بھی ہے کہ گمان کرنے لگے تھے کہ مسلمانوں پر جو مصیبت آئی ہے وہ اللہ تعالی کی تقدیر اور حکمت سے نہیں تھی۔ گویا وہ لوگ اللہ تعالی کی حکمت، تقدیر اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کامیابی کا انکار کرنے اور سمجھنے لگے تھے کہ یہ دین باقی ادیان پر غالب نہیں آئے گا۔

منافقین اور مشرکین کا یہی وہ غلط گمان ہے جس کا ذکر سورۃ الفتح کی آیت میں ہوا ہے۔

(الظَّانِّينَ بِاللَّهِ ظَنَّ السَّوْءِ عَلَيْهِمْ دَائِرَۃ السَّوْءِ (سورۃ الفتح48: 6))

’’جو لوگ اللہ کے بارے میں برے گمان رکھتے ہیں ، برائی کا وبال انہی پر پڑے گا۔‘‘

کیونکہ ایسا گمان اللہ تعالی کی شان، مرتبہ، اس کی حکمت، تعریف و بزرگی اور سچے وعدہ کے خلاف ہے۔پس جو شخص سمجھے کہ اللہ تعالی باطل کو حق پر ہمیشہ غالب رکھے گا اور اس کے نتیجہ میں حق مٹ جائے گا، یا جو شخص یہ سمجھے کہ فلاں فیصلہ اللہ تعالی کی قضا و قدر سے نہیں ہوا، یا جو انسان یہ سمجھے کہ اللہ تعالی کی تقدیر، حکمت تامہ پر مبنی اور قابل تعریف نہیں بلکہ یہ محض مشیت ہے تو ایسا عقیدہ رکھنے اور ایسی باتیں کرنے والے کافر ہیں ، ان کے لیے جہنم کا عذاب ہے۔ بہت سے لوگ اپنے اور دوسروں سے متعلقہ کاموں میں اللہ تعالی کے بارے میں سوء ظن رکھتے ہیں۔ اس بد گمانی سے وہی لوگ محفوظ رہتے ہیں جو اللہ تعالی کی ذات، اس کے اسماء و صفات اور اس کی حکمت و تعریف کے اسباب کو پہچانتے ہیں۔ پس جو عقل مند شخص اپنی بھلائی چاہتا ہے اسے چاہیے کہ مذکورہ بالا امور کا خیال رکھے اور اللہ تعالی کے حضور اپنی بد گمانی اور بد ظنی کی معذرت پیش کر کے توبہ و استغفار کرے۔

اگر آپ غور کریں تو پتہ چلے گا کہ اکثر لوگ تقدیر کے شاکی اور راہ اعتدال سے ہٹے ہوئے ہیں۔ وہ تقدیر کا شکوہ کرتے نظر آتے ہیں کہ فلاں کام یوں ہونا چاہئے تھا اور فلاں یوں۔ کسی شخص میں یہ نقص تھوڑا ہے اور کسی میں زیادہ۔ آپ بھی اپنا جائزہ لیں کہ آپ کی کیا صورت حال ہے ؟ کیا آپ ایسی بد گمانی سے بچے ہوئے ہیں ؟

فَإِنْ تَنْجُ مِنْهَا تَنْجُ مِنْ ذِي عَظِيْمَۃ

وَإِلاَّ فَإِنِّي لاَ إِخَالُكَ نَاجِيًا

’’اگر آپ اس سے بچے ہوئے ہیں تو آپ ایک بہت بڑی مصیبت سے نجات پا چکے ہیں۔ و گرنہ میں نہیں سمجھتا کہ آپ کے لیے کوئی راہ نجات ہو۔‘‘ (2)

 

مسائل:

1) اس باب سے سورۂ آل عمران کی آیت 154 کی تفسیر ہوئی جس میں اللہ تعالی کے بارے میں بدگ مانی رکھنے والوں کا تذکرہ ہے۔

2) سورۃ الفتح کی آیت 6 کی تفسیر بھی معلوم ہوئی کہ جو لوگ اللہ تعالی کے بارے میں بد گمانی رکھتے ہیں ، اس کا وبال انہی پر پڑے گا۔

3) بد گمانی کی صورتیں بے شمار ہیں۔

4) اللہ تعالی کے بارے میں بد گمانی سے وہی محفوظ رہ سکتا ہے جو اس کے اسماء و صفات کی حقیقت پہچاننے اور جاننے کے ساتھ ساتھ معرفت نفس سے بھی بہرہ مند ہو۔

 

نوٹ:

(1) ربوبیت اور اسماء و صفات میں اللہ تعالی کی یہ بھی عظمت ہے کہ وہ کوئی کام، حکمت بالغہ کے بغیر نہیں کرتا۔ اس لیے واجب ہے کہ اللہ تعالی کے بارے میں اچھا گمان رکھا جائے۔ اس کی کمال حکمت، رحمت اور عدل کا یہ بھی تقاضا ہے کہ کفار کی مانند اس کے بارے میں کوئی بد گمانی نہ کی جائے۔ یہ توحید کے منافی ہے۔ شرک کرنے کے ساتھ ساتھ کفار یہ بھی سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالی کے افعال درست نہیں۔ ان کے اس عقیدہ میں اللہ تعالی کی حکمت اور تقدیر کا انکار ہے۔ کفار کے ان عقائد کو بیان کر کے اللہ تعالی نے ان کی تردید کی ہے۔

(2) اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ لوگ عام طور پر اللہ تعالی کے مقام و مرتبہ سے واقف وہی نہیں۔ اور بہت سے لوگ ایسی بد گمانی سے بظاہر محفوظ ہوتے ہیں مگر مخفی طور پر ان کے دلوں میں بھی بدگ مانیاں اور بد عقیدگی پائی جاتی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ مومن اپنے دل کو اللہ کے بارے میں ہر قسم کی بد گمانی سے صاف رکھے اور اللہ تعالی کے اسماء و صفات اور کائنات میں ان کے اثرات پر غور و فکر کرتا رہے تاکہ اس کے دل میں اللہ تعالی کے بارے میں یہ عقیدہ راسخ رہے کہ اللہ تعالی کی ذات، حق ہے اور اس کا ہر فعل اور فیصلہ بر حق ہے اگرچہ بڑی سے بڑی مصیبت ہی کیوں نہ آ پہنچے۔

 

 

 

باب:59 منکرین تقدیر کا بیان (1)

 

عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے ساتھ میں عبد اللہ بن عمر کی جان ہے ! اگر کسی کے پاس احد پہاڑ کے برابر بھی سونا ہو اور وہ اسے اللہ کی راہ میں خرچ کر دے، تو اس کا یہ عمل اللہ کے ہاں اس وقت تک قبول نہ ہو گا جب تک کہ وہ تقدیر پر ایمان نہ لائے، پھر انہوں نے اپنی اس بات پر بطور دلیل، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد پیش کیا:

(الْإِيمَانِ، أَنْ تُؤْمِنَ بِاللهِ، وَمَلَائِكَتِهِ، وَكُتُبِهِ، وَرُسُلِهِ، وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، وَتُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ خَيْرِهِ وَشَرِّهِ) (صحیح مسلم، الایمان، باب بیان الایمان و الاسلام و الاحسان، ح:8)

’’ایمان یہ ہے کہ تو اللہ تعالی، اس کے فرشتوں ، اس کی کتابوں ، اس کے رسولوں ، قیامت کے دن اور تقدیر کی بھلائی اور برائی پر ایمان لائے۔ (2)

عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے سے فرمایا: بیٹا! تو اس وقت تک لذت ایمان سے لطف اندوز نہیں ہو سکتا جب تک یہ یقین نہ کر لے کہ جو (تکلیف) تجھے پہنچنے والی ہے وہ تجھ سے کبھی ٹل نہیں سکتی او ر جو نہیں پہنچی، وہ کبھی تم تک پہنچ نہیں سکتی۔ (3) میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا:

(إِنَّ أَوَّلَ مَا خَلَقَ اللَّهُ الْقَلَمَ، فَقَالَ لَهُ: اكْتُبْ فَقَالَ: رَبِّ وَمَاذَا أَكْتُبُ؟ قَالَ: اكْتُبْ مَقَادِيرَ كُلِّ شَيْءٍ حَتَّى تَقُومَ السَّاعَۃ)

’’اللہ تعالی نے سب سے پہلے قلم کو پیدا فرمایا اور اسے لکھنے کا حکم دیا۔ اس نے کہا : اے میرے رب ! کیا لکھوں ؟ اللہ نے فرمایا: قیامت تک آنے والی ہر چیز کی تقدیر لکھ دے۔‘‘

بیٹا! میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا:

(مَنْ مَاتَ عَلَى غَيْرِ هَذَا فَلَيْسَ مِنِّي) (سنن ابی داود، السنۃ، باب فی القدر، ح:4700)جو شخص اس عقیدے کے علاوہ کسی دوسرے عقیدے پر مرا، وہ میری امت سے نہیں ‘‘۔

اور مسند احمد کی ایک روایت میں ہے :

( إِنَّ أَوَّلَ مَا خَلَقَ اللَّهُ تَعَالَى الْقَلَمُ، فَقَالَ لَهُ: اكْتُبْ فَجَرَى فِي تِلْكَ السَّاعَۃ مَا هُوَكَائِنٌ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَۃ) (مسند احمد: 5/ 317)

’’اللہ تعالی نے سب سے پہلے قلم کو پیدا فرمایا اور اسے لکھنے کا حکم دیا، چنانچہ اس نے اسی وقت قیامت تک ہونے والی ہر بات لکھ دی۔‘‘

اور ابن وہیب کی ایک روایت میں ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(فَمَنْ لَّمْ يُؤْمِنْ بِالْقَدْرِ خَيْرِهِ وَشَرِّهِ أَحْرَقَهُ الله بِالنَّارِ) (اخرجہ ابن وھب فی ’’القدر‘‘ رقم (26) و ابن ابی عاصم فی ’’کتاب السنۃ‘‘، ح:111 و الاجری فی ’’الشریعۃ‘‘:186)

’’جو شخص تقدیر کی بھلائی اور برائی پر ایمان نہ رکھے، اللہ اسے دوزخ میں جلائے گا۔‘‘

ابن الدیلمی سے روایت ہے، کہتے ہیں کہ میں ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور میں نے کہا: میرے دل میں تقدیر کے بارے میں کچھ شبہات ہیں ، آپ کوئی حدیث بیان فرمائیں ، تاکہ اللہ تعالی میرے دل سے ان شبہات کو ختم کر دے۔ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

(لَوْ أَنْفَقْتَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا مَا قَبِلَهُ اللَّهُ مِنْكَ حَتَّى تُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ، وَتَعْلَمَ مَا أَصَابَكَ لَمْ يَكُنْ لِيُخْطِئَكَ، وَمَا أَخْطَأَكَ لَمْ يَكُنْ لِيُصِيبَكَ، وَلَوْ مُتَّ عَلَى غَيْرِ هَذَا لَكُنْتَ مِنْ أَهْلِ النَّارَ) (سنن ابی داود، السنۃ، باب فی القدر، ح:4699 ومسند احمد: 5/ 182، 185، 189)

’’اگر تم احد پہاڑ کے برابر بھی سونا خرچ کر دو تو تمہارا یہ عمل اس وقت تک قبول نہ ہو گا جب تک کہ تم تقدیر پر ایمان نہ لاؤ اور ساتھ یہ یقین نہ رکھو کہ جو تکلیف تمہیں پہنچنے والی ہے، وہ تم سے ٹل نہیں سکتی اور جو مصیبت آنے والی نہیں وہ کبھی تم تک پہنچ نہیں سکتی۔ اگر تمہارا عقیدہ اس کے خلاف ہوا اور تم اسی طرح مر گئے تو تم جہنمیوں میں سے ہو گے۔‘‘

ابن دیلمی کہتے ہیں : ’’میں اس کے بعد عبداللہ بن مسعود، حذیفہ بن یمان اور زید بن ثابت رضی اللہ عنہم کے پاس گیا (اور ان کو اپنے شبہات سے آگاہ کیا) تو انہوں نے بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہی حدیث سنائی۔‘‘

 

مسائل:

1) اس تفصیل سے ثابت ہوا کہ تقدیر پر ایمان لانا فرض ہے۔

2) تقدیر پر ایمان لانے کی صورت اور کیفیت بھی واضح ہوئی۔

3) تقدیر پر ایمان نہ لانے والے کے تمام اعمال برباد ہو جاتے ہیں۔

4) تقدیر پر ایمان لانے کے بغیر لذت ایمان سے لطف اندوز نہیں ہوا جا سکتا۔

5) اللہ تعالی نے سب سے پہلے قلم کو پیدا کیا۔

6) تو قلم نے اللہ تعالی کے حکم سے اسی وقت قیامت تک ہونے والے تمام امور لکھ ڈالے۔

7) تقدیر پر ایمان نہ لانے والوں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بے زاری اور لا تعلقی کا اظہار فرمایا ہے۔

8) نیز سلف صالحین شبہات پیدا ہونے کی صورت میں اہل علم کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنی تشفی کیا کرتے تھے۔

9) صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اس (ابن الدیلمی) کے شبہات کے ازالہ کے لیے جواب دیا اور اپنے دلائل کو براہ راست رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کیا۔

 

نوٹ:

(1) تقدیر : تقدیر کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی کو ہر چیز کے متعلق پہلے سے مکمل علم ہے، اس نے وہ سب کچھ اپنے ہاں ’’لوح محفوظ‘‘ میں لکھ رکھا ہے اور ہر امر میں اس کی مشیت ہی کار گر ہوتی ہے۔ وہی ہر چیز کا اور ہر چیز کے تمام اوصاف کا خالق ہے حتیٰ کہ وہی اپنے بندوں کے افعال کا خالق بھی ہے۔

جیسا کہ اس نے فرمایا:

(اللَّهُ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ (سورۃ الرعد:16)) ’’اللہ تعالی ہر شے کا خالق ہے۔‘‘ یعنی بندوں کا بھی اور ان کے افعال کا بھی۔

جب تک تقدیر پر ایمان کا زبان سے اقرار اور اسے دلی طور پر تسلیم نہ کیا جائے، اس وقت تک تقدیر پر ایمان مکمل نہیں ہو سکتا۔

اللہ تعالی کے علم اور لوح محفوظ میں اس کی تحریر کا انکار کرنا کفر ہے۔ تقدیر کی بعض صورتیں ایسی ہیں جن کا انکار کفر سے کم درجے کا ہے اور اشیاء کے متعلق اللہ تعالی کی مشیت اور اس کی تخلیق کا انکار بدعت اور توحید کے منافی ہے۔

(2) ابن عمر رضی اللہ عنہم نے یہ بات اس لیے کہی، کہ اللہ تعالی صرف مسلمان شخص کے اعمال صالحہ کو قبول کرتا ہے اور جس شخص کا تقدیر پر ایمان نہ ہو بلکہ وہ تقدیر کا منکر ہو تو وہ مسلمان ہی نہیں ، اس لیے اس کا کوئی بھی عمل درجہ قبولیت نہیں پا سکتا خواہ وہ احد پہاڑ کے برابر سونا ہی اللہ تعالی کی راہ میں خرچ کیوں نہ کر دے۔

یاد رہے ! تقدیر کی بھلائی اور برائی کا تعلق انسان کے ساتھ ہے۔ ورنہ تقدیر تو اللہ تعالی کا فعل ہے اور اللہ تعالی کے تمام افعال خیر ہی پر مبنی ہوتے ہیں کیونکہ ان میں اس کی عظیم حکمت کا ر فرما ہوتی ہے۔

(3) اس لیے کہ تقدیر میں یہ سب کچھ لکھا جا چکا ہے۔ تقدیر پر ایمان کا مفہوم یہ ہے کہ انسان یہ عقیدہ رکھے کہ وہ اعمال کو سرانجام دینے میں مجبور محض نہیں بلکہ اللہ تعالی کی طرف سے اسے آزادی دی گئی ہے۔ وہ اپنی مرضی اور اختیار سے اچھا یا برا جو کرنا چاہے کرسکتاہے۔ اسی لیے تو اسے نیکی کرنے اور برائی سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اگر مجبور محض ہوتا تو حکم دینے کی ضرورت ہی نہ تھی۔

 

 

 

باب:60 تصویر کشی کرنے والوں کا حکم (1)

 

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

( قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ ذَهَبَ يَخْلُقُ كَخَلْقِي، فَلْيَخْلُقُوا ذَرَّۃ أَوْ لِيَخْلُقُوا حَبَّۃ أَوْ لِيَخْلُقُوا شَعِيرَۃ) (صحیح البخاری، اللباس، باب نقض الصور، ح:5953، 7559 وصحیح مسلم، اللباس، باب تحریم تصویر صورۃ الحیوان …، ح:2111)

’’اللہ تعالی فرماتا ہے : اس سے بڑا ظالم کون ہو گا جو میری تخلیق جیسی تخلیق کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ایسے لوگ ایک ذرہ، ایک دانہ یا ایک جو ہی بنا کر دکھلائیں۔‘‘ (2)

سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہھا سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(أَشَدُّ النَّاسِ عَذَابًا يَوْمَ القِيَامَۃ الَّذِينَ يُضَاهُونَ بِخَلْقِ اللَّهِ) (صحیح البخاری، اللباس، باب ما وطئی من التصاویر، ح:5954 و صحیح مسلم، اللباس، تحریم تصویر صورۃ الحیوان …، ح:2107)

’’قیامت کے دن سب سے سخت عذاب ان لوگوں کو ہو گا جو (چیزوں کو بنانے اور پیدا کرنے میں) اللہ تعالی کی تخلیق کی مشابہت کرتے ہیں۔‘‘ (3)

عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہا کہتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:

(كُلُّ مُصَوِّرٍ فِي النَّارِ، يَجْعَلُ لَهُ، بِكُلِّ صُورَۃ صَوَّرَهَا، نَفْسٌ يُّعَذِّبُ بِهَا فِي جَهَنَّمَ) (صحیح البخاری، البیوع، باب بیع التصاویر التی لیس فیھا روح…، ح:2225، 5963، 7042 و صحیح مسلم، اللباس، باب تحریم تصویر صورۃ الحیوان …، ح:2110)

’’ہر مصور جہنم میں جائے گا۔ اس کی بنائی ہوئی ہر تصویر کے بدلے میں ایک جان بنائی جائے گی جس کے ذریعہ سے اس (مصور)کو جہنم میں عذاب دیا جائے گا۔‘‘ (4)

ابن عباس رضی اللہ عنہا سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(مَنْ صَوَّرَ صُورَۃ فِي الدُّنْيَا كُلِّفَ أَنْ يَنْفُخَ فِيهَا الرُّوحَ، وَلَيْسَ بِنَافِخٍ) (صحیح البخاری، اللباس، باب من صور صورۃ کلف یوم القیامۃ…، ح:5963 وصحیح مسلم، اللباس، باب تحریم تصویر صورۃ الحیوان …، ح:2110)

’’جس نے دنیا میں کوئی تصویر بنائی، اسے قیامت کے دن اس تصویر میں روح پھونکنے کا حکم دیا جائے گا مگر وہ اس میں روح ہر گز نہ پھونک سکے گا۔‘‘ (5)

ابو الھیاج اسدی کہتے ہیں علی رضی اللہ عنہ نے مجھ سے فرمایا:

( (أَلَا أَبْعَثُكَ عَلَى مَا بَعَثَنِي عَلَيْهِ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ لَا تَدَعَ صُورَۃ إِلَّا طَمَسْتَهَا وَلَا قَبْرًا مُشْرِفًا إِلَّا سَوَّيْتَهُ) (صحیح مسلم، الجنائز، باب الامر بتسویۃ القبر، ح:969)

’’کیا میں تمہیں اس کام پر نہ بھیجوں جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بھیجا تھا۔ وہ یہ کہ تم کسی تصویر کو مٹائے بغیر اور کسی بلند قبر کو زمین کے برابر کیے بغیر نہ چھوڑنا‘‘۔ (6)

 

مسائل:

1) مذکورہ احادیث میں تصویر بنانے والوں کے لیے شدید وعید بیان ہوئی ہے۔

2) اس وعید کا سبب اور قباحت و حرمت کی وجہ یہ ہے کہ یہ عمل، اللہ تعالی کی جناب میں بہت بڑی بے ادبی اور گستاخی ہے۔ جیسا کہ حدیث قدسی ہے کہ اللہ تعالی نے فرمایا: ’’اس سے بڑا ظالم کون ہو گا جو میری طرح پیدا کرنے اور بنانے کی کوشش کرتا ہے۔‘‘

3) اللہ تعالی کی عظیم قدرت اور مخلوق کی کمزوری اور از حد عاجزی کا بھی بیان ہے کہ یہ لوگ ایک ذرہ، ایک دانہ یا ایک جو بھی بنانے پر قادر نہیں۔

4) احادیث میں صراحت ہے کہ تصویر بنانے والوں کو سب سے سخت عذاب ہو گا۔

5) وہ اس طرح کہ اللہ تعالی ہر تصویر کے بدلے ایک جان پیدا کرے گا جس کے ذریعے سے تصویر بنانے والے کو جہنم میں عذاب دیا جائے گا۔

6) اور مصور کو اس کی بنائی ہوئی تصاویر میں روح پھونکنے کا حکم دیا جائے گا مگر وہ اس میں روح نہ پھونک سکے گا۔

7) یہ بھی معلوم ہوا کہ تصویر جہاں بھی ہو اسے مٹا دینے کا حکم ہے۔

 

نوٹ:

(1) ہاتھ سے کسی چیز کی اصل صورت جیسی شکل بنانے والے کو مصور (پینٹر) یا عکاس (فوٹوگرافر) اور اس پیشہ کو مصوری (پینٹنگ)یا عکاسی (فوٹوگرافی) کہتے ہیں۔کسی جاندار کی تصویر بنانا دو وجہ سے حرام ہے۔

ایک تو اس لیے کہ اس میں اللہ تعالی کی تخلیق سے مشابہت ہے کہ جیسے اللہ تعالی نے وہ چیز بنائی، مصور یا عکاس بھی اس جیسی چیز بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ دوسرے، یہ کہ تصویر اور مجسمہ سازی اللہ تعالی کے ساتھ شرک کا سبب اور ذریعہ بھی بنتی ہے۔ بہت سے مشرکین تصاویر اور مجسموں کی وجہ سے شرک میں مبتلا ہوئے۔ اسی لیے توحید کا تقاضا یہ ہے کہ تصاویر کو باقی نہ رہنے دیا جائے۔

(2) تصویر سازی اور تصویر کشی کا عمل گویا اس بات کا اظہار ہوتا ہے کہ مصور، اللہ تعالی کی تخلیق جیسی تخلیق کرنا چاہتا ہے جبکہ در حقیقت، اللہ تعالی کی تخلیق جیسی تخلیق کوئی کر ہی نہیں سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ مصور کا یہ عمل اپنے آپ کو اللہ تعالی کے مشابہ بنانے کے مترادف ہے۔ اسی لیے وہ مخلوق میں سب سے بڑا ظالم ہے۔

تصویر کشی (فوٹوگرافی) اور تصویر سازی کرنے والوں کو ان کی بے بسی اور بے کسی کا احساس اور شعور دلانے کے لیے اللہ تعالی انہیں چیلنج کر رہا ہے کہ یہ لوگ اگر میری تخلیق جیسی تخلیق کرنے کی کوشش میں ہیں تو پھر ذرا ایک ذرہ، ایک دانہ یا ایک جو تو بنا کر دکھلائیں تاکہ انہیں اپنی قدرت و اختیار کا اندازہ ہو سکے۔

(3) تصویر اور مجسمہ سازی میں اللہ تعالی کی تخلیق کے ساتھ مشابہت کی ایک صورت تو یہ ہے کہ مصور یا مجسمہ ساز اس ارادہ سے کوئی بت، مجسمہ یا تصویر بنائے کہ لوگ اس کی پوجا کریں۔ ایسا کرنا کفر ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ مصور کو‏ئی تصویر بنائے اور یہ سمجھے کہ میری بنائی ہوئی فلاں چیز کی تصویر اللہ تعالی کی بنائی ہوئی چیز سے زیادہ بہتر اور خوبصورت ہے۔ یہ بھی کفر ہے۔ ان دونوں صورتوں میں سواباقی صورتوں میں ہا تھ سے تصویر یا مجسمہ بنانا ایسا کفر تو نہیں جس سے انسان دائرہ اسلام سے خارج ہو جائے البتہ کبیرہ گناہ ضرور ہے۔ ایسا کرنے والے پر لعنت اور اسے جہنم کی وعید ہے۔

(4) اس حدیث سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ جن احادیث میں تصاویر بنانے پر وعید آئی ہے، ان سے جان دار اور ذی روح کی تصویر بنانا مراد ہے۔

(5) روح پھونکنا اللہ تعالی کا کام ہے۔ کوئی انسان نہ تو روح بنا سکتا ہے اور نہ کسی میں روح ڈال سکتا ہے۔

(6) چونکہ تصویر شرک کے اسباب میں سے ایک سبب ہے۔ اس لیے ان احادیث میں اس پر زیادہ زور دیا گیا ہے۔ پیش نظر حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلند قبر اور تصویر کو برابر حیثیت سے ذکر فرمایا ہے کیونکہ جس طرح بلند قبر شرک کا سبب بنتی ہے۔ اسی طرح تصویر بھی شرک کا سبب بنتی ہے۔ اسی لیے یہ حکم دیا کہ کوئی تصویر باقی رہنے دی جائے نہ کوئی بلند قبر۔

 

 

 

باب:61 کثرت سے قسم اٹھانا مذموم ہے۔ (1)

اللہ تعالی کا ارشاد ہے :

(وَاحْفَظُوا أَيْمَانَكُمْ (سورۃ المائدۃ5: 89))

’’اور تم اپنی قسموں کی حفاظت کرو۔‘‘ یعنی جب قسم اٹھاؤ تو اسے پورا کرو۔

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:

(الحَلِفُ مُنَفِّقَۃ لِلسِّلْعَۃ، مُمْحِقَۃ لِلْبَرَكَۃ) (صحیح البخاری، البیوع، باب ’’یمحق اللہ الربوا ویربی الصدقات‘‘، ح:2087 و صحیح مسلم، المساقاۃ، باب النھی عن الحلف فی البیع، ح:1606)

’’قسم، اشیاء کی فروخت کا ذریعہ تو ہے مگر اس سے برکت اٹھ جاتی ہے۔‘‘ (2)

سلمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(ثَلاَثَۃ لا يُكَلِّمُهُمُ الله وَلاَ يُزَكِّيهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ: أُشَيْمِطٌ زَانٍ، وَّعَائِلٌ مُّسْتَكْبرٌ، وَّرَجُلٌ جَعَلَ الله بِضَاعَتَهُ، لا يَشْتَرِي إِلاَّ بِيَمِينِهِ، وَلاَ يَبِيعُ إِلاًّ بِيَمِينِهِ) معجم الطبراني، رقم:6111)

’’تین قسم کے لوگ ایسے ہیں جن سے (قیامت کے دن)اللہ تعالی نہ تو بات کرے گا اور نہ انہیں (گناہوں سے)پاک کرے گا اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہو گا:

(1) بوڑھا زانی۔ (2) متکبر فقیر۔ (3) اور وہ شخص جس نے اللہ تعالی کو اپنی تجارت کا سامان سمجھا ہوا ہے کہ اس کی قسم ہی خرید تا ہے اور اس کی قسم ہی سے بیچتا ہے۔‘‘ (3)

عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(خَيْرُ أُمَّتِي قَرْنِي، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ قَالَ عِمْرَانُ فَلاَ أَدْرِي: أَذَكَرَ بَعْدَ قَرْنِهِ قَرْنَيْنِ أَوْ ثَلاَثًا  ثُمَّ إِنَّ بَعْدَكُمْ قَوْمًا يَشْهَدُونَ وَلاَ يُسْتَشْهَدُونَ، وَيَخُونُونَ وَلاَ يُؤْتَمَنُونَ، وَيَنْذُرُونَ وَلاَ يَفُونَ، وَيَظْهَرُ فِيهِمُ السِّمَنُ) (صحیح البخاری، فضائل اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم، باب فضائل اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم ومن صحب النبی صلی اللہ علیہ وسلم …، ح:3650 وصحیح مسلم، فضائل الصحابۃ، باب فضل الصحابۃ ثم الذین یلونھم، ح:2535)

’’میری امت کا سب سے بہتر زمانہ، میرا زمانہ ہے۔ پھر وہ جو اس کے بعد ہو گا، پھر وہ جو اس کے بعد ہو گا۔‘‘ (حضرت عمران رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ، مجھے یاد نہیں پڑتا کہ آپ نے اپنے زمانے کے بعد دو زمانوں کا ذکر کیا تھا، یا تین کا ؟) پھر آپ نے فرمایا ’’پھر تمہارے بعد ایسے لوگ ہوں گے جو بلا طلب گواہی دیں گے، خائن ہوں گے، امانت دار نہیں ہوں گے، نذر مانیں گے تو پوری نہیں کریں گے اور ان میں موٹاپا ظاہر ہو گا۔‘‘

عبد اللہ بن مسعود رضی للہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(خَيْرُ النَّاسِ قَرْنِي، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ يَجِيءُ قْوَمٌ تَسْبِقُ شَهَادَۃ أَحَدِهِمْ يَمِينَهُ، وَيَمِينُهُ شَهَادَتَهُ) (صحیح البخاری، فضائل اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم باب فضائل اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم و من صحب النبی…، ح:3651 و صحیح مسلم، فضائل الصحابۃ، باب فضل الصحابۃ ثم الذین یلونھم ثم الذین یلونھم، ح:2533)

’’سب سے بہتر لوگ میرے زمانے کے ہیں ، پھر وہ جو ان کے بعد ہوں گے، پھر وہ جو ان کے بعد آئیں گے، پھر ایسے لوگ آئیں گے جن کی گواہی، قسم پر اور ان کی قسم، گواہی پر سبقت لے جائے گی۔‘‘

(یعنی وہ لوگ گواہی اور قسم کے بارے میں از حد غیر محتاط ہوں گے اور وہ آنا فانا بغیرسوچے سمجھے قسم اور گواہی کے لیے تیار ہو جائیں گے)

ابراھیم نخعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ہمارے بچپن میں ہمارے بزرگ گواہی اور عہد پر قائم رہنے کی تربیت کی خاطر ہمیں سزا دیا کرتے تھے۔ (4)

 

مسائل:

1) باب کے آغاز میں سورۂ مائدہ کی مذکورہ آیت کریمہ 89 میں قسموں کی حفاظت اور انہیں پورا کرنے کا تاکیدی حکم ہے۔

2) حدیث سے ثابت ہوا کہ قسم اشیاء کی فروخت کا ایک ذریعہ تو ہے مگر اس سے برکت ختم ہو جاتی ہے۔

3) دوسری حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جو شخص مال خریدتے اور بیچتے وقت خواہ مخواہ قسمیں اٹھائے اس کے لیے سخت وعید ہے۔

4) یہ تنبیہ بھی ہے کہ اگرچہ اسباب گناہ صغیرہ ہی کے ہوں مگر میلان کے سبب صغیرہ گناہ بھی کبیرہ بن جاتے ہیں۔

5) حدیث میں ان لوگوں کی مذمت کی گئی ہے جو قسم اٹھوائے بغیر، از خود خواہ مخواہ قسمیں اٹھاتے ہیں۔

6) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قرون ثلاثہ یا قرون اربعہ کی مدح فرمائی ہے اور ان کے بعد جو حالات پیدا ہونے والے تھے، آپ نے ان کی پیش گوئی بھی فرم ادی۔

7) اور ان لوگوں کی مذمت بھی فرمائی جو گواہی طلب کیے بغیر گواہی دینے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔

8) ابراھیم نخعی رحمۃ اللہ علیہ کے اثر سے ثابت ہوا کہ امت کے اسلاف، اولاد کی اسلامی تربیت کی خاطر انہیں گواہی اور عہد پر قائم رکھنے کے لیے سزا دیا کرتے تھے۔

 

نوٹ:

(1) بہت زیادہ قسمیں اٹھانا توحید کے خلاف ہے۔ جس شخص کا عقیدۂ توحید پختہ اور راسخ ہو وہ قسم اٹھاتے وقت اللہ تعالی کو درمیان میں نہیں لاتا۔ لغو قسم اگرچہ معاف ہے اور اس پر کوئی مؤاخذہ نہیں تاہم مستحب یہ ہے کہ موحد آدمی اپنی زبان اور دل کو قسم کی کثرت سے محفوظ رکھے۔

(2) یہ گویا ایک قسم کی سزا ہے کیونکہ اشیاء کی فروخت میں قسمیں اٹھانا اور اللہ تعالی کے نام کو درمیان میں لانا اس کی عظمت کے خلاف ہے۔

(3) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ خریدو فروخت کے وقت بے جا اللہ کی قسمیں اٹھاتے رہنا کبیرہ گناہ ہے۔

(4) یعنی اسلاف، اللہ تعالی کی تعظیم دلوں میں راسخ کرنے کے لیے اپنی اولاد کی اس انداز سے تربیت کیا کرتے تھے۔

 

 

 

 

باب:62اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ذمہ اور امان دینے کی ممانعت

 

ارشاد الہی ہے :

(وَأَوْفُوا بِعَهْدِ اللَّهِ إِذَا عَاهَدْتُمْ وَلَا تَنْقُضُوا الْأَيْمَانَ بَعْدَ تَوْكِيدِهَا وَقَدْ جَعَلْتُمُ اللَّهَ عَلَيْكُمْ كَفِيلًا إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا تَفْعَلُونَ (سورۃ النحل16: 91))

’’اور جب تم اللہ سے عہد (واثق)کرو تو اس کو پورا کرو اور قسمیں پختہ کرنے کے بعد ان کو مت توڑو، حالانکہ تم اللہ کو اپنے اوپر ضامن بنا چکے ہو، اللہ تمہارے تمام افعال سے باخبر ہے۔‘‘ (1)

بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی فوج یا دستے پر کسی کو امیر مقرر فرماتے تو اسے اللہ تعالی سے ڈرنے اور اپنے رفقائے سفر کے ساتھ جسن سلوک کی خصوصی طور پر وصیت کرتے اور فرماتے :

(اغْزُوا بِسْمِ اللَّهِ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ، قَاتِلُوا مَنْ كَفَرَ بِاللَّهِ، اغْزُوا وَلَا تَغُلُّوا، وَلَا تَغْدِرُوا، وَلَا تُمَثِّلُوا، وَلَا تَقْتُلُوا وَلِيدًا، وَّإِذَا لَقِيتَ عَدُوَّكَ مِنَ المُشْرِكِينَ فَادْعُهُمْ إِلَى ثَلَاثِ خِصَالٍ، أَوْ خِلَالٍ، فَأَيَّتُهَنَّ مَا أَجَابُوكَ، فَاقْبَلْ مِنْهُمْ، وَكُفَّ عَنْهُمْ، ثُمَّ ادْعُهُمْ إِلَى الإِسْلَامِ، فَإِنْ أَجَابُوكَ، فَاقْبَلْ مِنْهُمْ، ثُمَّ ادْعُهُمْ إِلَى التَّحَوُّلِ مِنْ دَارِهِمْ إِلَى دَارِ المُهَاجِرِينَ، وَأَخْبِرْهُمْ أَنَّهُمْ إِنْ فَعَلُوا ذَلِكَ فَلَهُمْ مَا لِلْمُهَاجِرِينَ، وَعَلَيْهِمْ مَا عَلَى المُهَاجِرِينَ، إِنْ أَبَوْا أَنْ يَتَحَوَّلُوا، مِنْهَا فَأَخْبِرْهُمْ أَنَّهُمْ يَكُونُونَ كَأَعْرَابِ المُسْلِمِينَ، يَجْرِي عَلَيْهِمْ حُكْمُ اللهِ، وَلَا يَكُونُ لَهُمْ فِي الْغَنِيمَۃ وَالْفَيْءِ شَيْءٌ إِلَّا أَنْ يُجَاهِدُوا مَعَ الْمُسْلِمِينَ، فَإِنْ هُمْ أَبَوْا فَاسْألْهُمُ الْجِزْيَۃ، فَإِنْ هُمْ أَجَابُوكَ فَاقْبَلْ مِنْهُمْ، وَكُفَّ عَنْهُمْ، فَإِنْ هُمْ أَبَوْا فَاسْتَعِنْ بِاللهِ وَقَاتِلْهُمْ، وَإِذَا حَاصَرْتَ أَهْلَ حِصْنٍ فَأَرَادُوكَ أَنْ تَجْعَلَ لَهُمْ ذِمَّۃ اللهِ، وَذِمَّۃ نَبِيِّهِ، فَلَا تَجْعَلْ لَهُمْ ذِمَّۃ اللهِ، ذِمَّۃ نَبِيِّهِ، وَلَكِنِ اجْعَلْ لَهُمْ ذِمَّتَكَ وَذِمَّۃ أَصْحَابِكَ، فَإِنَّكُمْ أَنْ تُخْفِرُوا ذِمَمَكُمْ وَذِمَمَ أَصْحَابِكُمْ أَهْوَنُ مِنْ أَنْ تُخْفِرُوا ذِمَّۃ اللهِ وَذِمَّۃ نَبِيِّهِ، وَإِذَا حَاصَرْتَ أَهْلَ حِصْنٍ فَأَرَادُوكَ أَنْ تُنْزِلَهُمْ عَلَى حُكْمِ اللهِ، فَلَا تُنْزِلْهُمْ عَلَى حُكْمِ اللهِ، وَلَكِنْ أَنْزِلْهُمْ عَلَى حُكْمِكَ، فَإِنَّكَ لَا تَدْرِي أَتُصِيبُ فِيهِمْ حُكْمَ اللهِ أَمْ لَا) (صحیح مسلم، الجھاد، باب تامیر الامام الامراء علی البعوث و دصیتہ ایاھم باداب الغزو و غیرھا، ح:1731)

’’اللہ تعالی کی راہ میں اس کا نام لے کر لڑائی کرنا اور ہر اس شخص سے لڑنا جو اللہ تعالی کے ساتھ کفر کا ارتکاب کرتا ہے لڑائی کرنا اور خیانت نہ کرنا۔ بد عہدی نہ کرنا۔ مثلہ نہ کرنا (یعنی کسی مقتول کے اعضاء نہ کاٹنا) اور نہ بچوں کو قتل کرنا۔ جب مشرک دشمن سے تمہارا سامنا ہو تو انہیں تین باتوں کی پیش کش کرنا، اگر وہ ان میں سے کوئی ایک بات بھی مان لیں تو منظور کر لینا اور جنگ سے رک جانا:

1: سب سے پہلے اسلام کی دعوت دینا، اگر وہ اسے قبول کر لیں تو اسے منظور کر لینا اور انہیں علاقہ مہاجرین کی طرف ہجرت کی دعوت دینا۔ اور انہیں بتانا کہ اگر وہ ہجرت کریں گے تو انہیں وہ سب حقوق حاصل ہوں گے جو مہاجرین کو حاصل ہیں اور جو بار مہاجرین کو برداشت کرنا پڑتا ہے انہیں بھی برداشت کرنا ہو گا۔ اور اگر وہ ہجرت کرنے سے انکار کر دیں تو پھر انہیں بتا دینا کہ وہ ان بدوی مسلمانوں کی طرح ہوں گے جن پر اللہ کا حکم جاری ہے، انہیں مال غنیمت یا مال فے سے کوئی حصہ نہیں ملے گا، الا یہ کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ جہاد میں شریک ہوں۔

2: اور اگر وہ اسلام قبول کرنے سے انکار کر دیں تو پھر ان سے جزیہ طلب کرنا، اگر وہ جزیہ دینے پر راضی ہو جائیں تو قبول کر لینا اور جنگ سے رک جانا۔

3: اگر وہ جزیہ دینے سے بھی انکار کر دیں تو اللہ تعالی سے مدد مانگ کر ان سے لڑائی کرنا۔ اور جب تم قلعہ بند دشمن کا محاصرہ کرو اور دشمن چاہیں کہ تم انہیں اللہ تعالی اور اس کے رسول کی امان اور تحفظ دے د و تو ایسا ہر گز نہ کرنا بلکہ اپنی اور اپنے ساتھیوں کی طرف سے امان اور تحفظ دینا، اس لیے کہ اگر تم (کسی صورت میں) اپنا یا اپنے ساتھیوں کا ذمہ (ضمانت)توڑ دو تو یہ اللہ تعالی اور اس کے رسول کے ذمہ کو توڑنے سے کم تر ہو گا اور جب تم قلعہ میں بند کسی دشمن کا محاصرہ کرو اور وہ چاہے کہ اللہ تعالی کی ذمہ داری پر اس سے صلح کر لو تو ایسا ہرگز نہ کرنا بلکہ تم اپنی ذمہ داری پر اس سے صلح کرنا کیونکہ معلوم نہیں تم ان کے بارے میں اللہ تعالی کی مرضی اور فیصلہ کو پا سکو یا نہیں ؟‘‘ (2)

 

مسائل:

1) اس حدیث سے ثابت ہوا کہ اللہ تعالی، اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کے ذمہ و امان میں واضح فرق ہے۔

2) حدیث میں یہ ہدایت بھی ہے کہ جب کہیں دو مختلف صورتیں در پیش ہوں تو ان میں سے جو صورت آسان تر، بہتر اور جس میں نقصان کم از کم ہو اسے اختیار کر لینا چاہیے۔

3) یہ بھی ثابت ہوا کہ اللہ تعالی کی راہ میں اللہ تعالی کا نام لے کر جہاد کیا جائے۔

4) اور یہ شخص اللہ تعالی کے ساتھ کفر کا مرتکب ہو اس سے قتال کیا جائے۔

5) نیز کفار سے جہاد اور قتال میں بھی اللہ تعالی سے مدد طلب کرنی چاہیے۔

6) اہل علم اور اللہ تعالی کے فیصلوں میں نمایاں فرق ہے۔ اہل علم کا فیصلہ غلط ہو سکتا ہے مگر اللہ تعالی کا کوئی فیصلہ غلط نہیں ہو سکتا۔

7)نیز یہ بھی ثابت ہوا کہ بوقت ضرورت، صحابی کوئی فیصلہ کرے تو کوئی بھی حتمی طور پر نہیں جانتا کہ اس کا یہ فیصلہ اللہ تعالی کے حکم کے مطابق ہے یا نہیں۔

 

نوٹ:

(1) اس آیت مبارکہ میں عہد سے مراد قسم ہے اور پختہ کی ہوئی قسموں سے مراد لوگوں کے باہمی وہ عہدو پیمان ہیں جنہیں مضبوط کرنے کے لیے قسمیں کھائی گئی ہوں۔ لہذا حق باری تعالی کی تعظیم کرتے ہوئے قسم اور باہمی عہد و پیمان کو پورا کرنا واجب ہے کیونکہ کسی کا م پر قسم کھانے کا مطلب یہی ہے کہ انسان اس کام کو اللہ تعالی کی خاطر پورا کرنے کی تاکید کر رہا ہے اور اسے اپنے ذمے لے رہا ہے۔ جب وہ اپنی قسم کے خلاف کرے گا یا اللہ تعالی کے ساتھ کیے ہوئے اس عہد کو توڑے گا تو گویا اس نے اللہ تعالی کی تعظیم اس طرح نہیں کی جس طرح اسے کرنی چاہئے تھی کہ اس تعظیم کا پاس کرتے ہوئے قسم کھاتے وقت ہی اس بات سے ڈر جاتا کہ قسم کو پورا کرنے میں اللہ کا یہ واجبی ادا نہیں کرسکے گا۔

(2) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مسلمانوں کو ہر معاملہ میں اللہ تعالی کی عظمت پیش نظر رکھنی چاہیے۔ کوئی شخص لوگوں کو اللہ تعالی یا اس کے رسول کی طرف سے امان اور تحفظ نہ دے بلکہ اپنی طرف سے امان اور تحفظ دینا چاہیے۔اہل توحید اور علوم دینیہ کے طلبہ جو دین کے حوالہ سے شہرت رکھتے ہیں انہیں خاص طور پر ان باتوں کا خیال رکھنا چاہیے، ان سے کوئی ایسا لفظ یا بات یا فعل سرزد نہیں ہونا چاہیے جو ان کے مقام و مرتبہ کے منافی ہو۔ کیونکہ فتنوں سے بھرپور موجودہ زمانہ میں لوگ اہل علم، اصحاب دین اور حاملین توحید و کتاب و سنت پر خاص نظر رکھتے ہیں۔ اس لیے لوگوں کے ساتھ معاملات، تعلقات اور میل جول میں ایسا انداز اپنانا چاہیے جس سے ظاہر ہو کہ یہ لوگ اللہ تعالی کی خوب تعظیم بجا لاتے ہیں۔

انہیں دیکھ کر دوسرے لوگ بھی احتیاط کریں گے اور اللہ تعالی کی تعظیم کماحقہ بجا لائیں گے۔

قسم اٹھانے، گواہی دینے اور لوگوں کے ساتھ عمومی معاملات میں بڑی احتیاط کی ضرورت ہے کیونکہ معمولی سی بے احتیاطی اور بد معاملگی، اہل علم و دین کے لیے مضر ثابت ہو سکتی ہے۔

 

 

 

باب:63 از راہ غرور و تکبر اللہ تعالی کی قسم کھانے کا انجام (1)

 

جندب بن البجلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(قَالَ رَجُلٌ: وَاللهِ لَا يَغْفِرُ اللهُ لِفُلَانٍ، فَقَالَ اللهَ تَعَالَى مَنْ ذَا الَّذِي يَتَأَلَّى عَلَيَّ أَنْ لَا أَغْفِرَ لِفُلَانٍ، فَإِنِّي قَدْ غَفَرْتُ لَهُ، وَأَحْبَطْتُ عَمَلَكَ) (صحیح مسلم، البر و الصلۃ، باب النھی عن تقنیط الانسان من رحمۃ اللہ، ح:2621)

’’ایک آدمی نے کہا: اللہ تعالی کی قسم!اللہ تعالی فلاں شخص کی مغفرت نہیں کرے گا۔ تو اللہ تعالی نے فرمایا: یہ کون ہوتا ہے جو میری قسم کھا رہا ہے کہ میں فلاں کی مغفرت نہیں کروں گا۔ میں نے اس کی مغفرت کر دی اور تیرے (یعنی قسم اٹھانے والے کے)اعمال ضائع کر دیے ہیں۔‘‘ (2)

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں ہے کہ یہ بات کہنے والا عابد و زاہد آدمی تھا۔

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اس نے یہ ایک ایسی بات کہہ دی جس نے اس کی دنیا اور آخرت کو تباہ کر کے رکھ دیا۔‘‘ (3)

 

مسائل:

1) اس بحث سے ثابت ہوا کہ غرور پارسائی کے طور پر اللہ تعالی کی قسم کھانے کا انجام انتہائی خوفناک اور بھیانک ہے۔

2) دوزخ انسان کے جوتے کے تسمے سے بھی زیادہ قریب ہے کہ بسا اوقات بظاہر کسی معمولی سی بات کی بنا پر انسان دوزخ میں جاپہنچتا ہے۔

3) اسی طرح جنت بھی انسان کے بالکل قریب ہے اور انسان بظاہر کسی معمولی اور چھوٹے سے عمل کی بنا پر جنت کا حق دار بن جاتا ہے۔

4) اس حدیث سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کی تائید ہوتی ہے :

(نَّ الرَّجُلَ لَيَتَكَلَّمُ بِالكَلِمَۃ لَا يُلْقِي لَهَا بَالاً…. الخ)

’’بسا اوقات انسان کوئی ایسا کلمہ کہہ جاتا ہے کہ انسان کو تو اس کی سنگینی کا احساس نہیں ہوتا مگر اس سے اس کے سب اعمال ضائع ہو جاتے ہیں۔‘‘

5) گزشتہ تفصیل سے یہ بھی معلوم ہوا کہ بسا اوقات کسی کا انتہائی ناپسندیدہ قول یا فعل، کسی دوسرے کی مغفرت کا سبب بن جاتا ہے۔

 

نوٹ:

(1) تعلی، تکبر اور غرور کے طور پر اللہ کی قسم کھانا، اللہ تعالی پر کسی قسم کا حق ثابت کرنا اور یہ سمجھنا کہ اللہ تعالی وہی فیصلہ کرے گا جو میرا ہے، یہ سب توحید کے منافی ہے۔ لیکن اگر از راہ عاجزی اور انکسار اللہ تعالی پر قسم ڈالی جائے تو یہ جائز ہے، کیونکہ ایسی صورت میں اللہ تعالی پر حسن ظن کیا جاتا ہے۔ جیسا کہ ایک حدیث میں آیا ہے، آپ نے فرمایا:

’’اللہ تعالی کے بعض محبوب و مقبول بندے ایسے بھی ہیں جو اللہ تعالی پر قسم ڈالیں تو اللہ تعالی ان کی قسم کو پورا فرماتا ہے ‘‘ (صحیح بخاری، الجهاد والسیر، باب قول الله عزوجل من المومنین رجال…..، ح:2806۔)

(2) یہ فلاں شخص، فاسق تھا اور قسم کھانے والا، عابد و زاہد۔ اس عابد و زاہد نے خود کو بڑا جانا اور یہ سمجھ بیٹھا کہ عرصۂ دراز اللہ تعالی کی عبادت میں گذار کر وہ اس مقام پر پہنچ چکا ہے کہ اللہ تعالی کے افعال میں بھی اپنا حکم چلا سکتا ہے اور وہ جس چیز کی بھی تمنا و آرزو کرے اسے مل کر ہی رہے گی جبکہ یہ بات سراسر مقام عبودیت کے منافی ہے، اسی لیے اللہ تعالی نے اس عابد شخص کا مواخذہ کیا اور فرمایا: کون ہے جو از راہ تکبر و غرور میری قسم کھا رہا ہے کہ میں فلاں کو معاف نہیں کروں گا۔ میں نے اسے تو معاف کر دیا اور (اے تکبر و غرور اور پارسائی ظاہر کرنے والے عابد!)تیرے اعمال اکارت کر دیے۔

اس سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالی کی کماحقہ تعظیم نہ کرنے اور توحید کے خلاف اور منافی عمل کرنے کا نتیجہ کیا ہو تا ہے۔

یاد رہے ! لفظ ’’يَتَاَلّى‘‘ اِيلاء اور اَلِيَّۃ سے ماخوذ ہے جس کا مطلب از راہ تکبر و غرور قسم کھانا ہے۔

(3) (سنن ابی داود، الادب، باب فی النھی عن البغی، حدیث: 4901، مسند احمد، 323/2)

 

 

 

باب:64اللہ تعالی کو مخلوق کے سامنے سفارشی کے طور پر پیش کرنا گستاخی اور انتہائی حماقت ہے۔

 

جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ایک بدوی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آ کر شکایت کی کہ یا رسول اللہ ! جانیں تلف ہو گئیں ، بچے بھوک سے بلکنے لگے اور مویشی مرنے لگے، آپ ہمارے لیے اپنے رب سے بارش کی دعا فرمائیں۔ ہم اللہ تعالی کو آپ کے پاس اور آپ کو اللہ تعالی کے حضور سفارشی کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ آپ نے (اس کی بات سن کر)بار بار سبحان اللہ، سبحان اللہ پڑھا۔ آپ بدستور سبحان اللہ پڑھتے رہے، یہاں تک کہ اس کا اثر صحابہ کرام کے چہروں پر ظاہر ہونے لگا۔ پھر آپ نے فرمایا:

(وَيْحَكَ تَدْرِي مَا اللهُ؟ إِنَّ شَأْنَ اللهِ أَعْظَمُ مِنْ ذلِكَ، إِنَّهُ لَا يُسْتَشْفَعُ بِاللهِ عَلَى أَحَدٍ) (سنن ابی داود، السنۃ، باب فی الجھمیۃ، ح:4726)

’’تجھ پر افسوس! کیا تو جانتا ہے کہ اللہ کیا ہے ؟ (یعنی اس کا کیا مقام اور کیا شان ہے ؟)اللہ تعالی کی شان اس سے کہیں بلند تر ہے۔ اسے کسی کے سامنے سفارشی کے طور پر پیش نہیں کیا جا سکتا۔‘‘ (1)

 

مسائل:

1) اس حدیث سے ثابت ہوا کہ اللہ تعالی کو مخلوق کے سامنے بطور سفارشی پیش کرنا توحید کے منافی اور اللہ تعالی کے حق میں بے ادبی اور گستاخی ہے۔ اسی لئے جب بدوی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ ’’ہم اللہ تعالی کو آپ کی خدمت میں بطور سفارشی پیش کرتے ہیں۔‘‘ تو آپ نے اس بات پر ناگواری اور ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا۔

2) بدوی کی بات سے آپ کے چہرہ مبارک کا رنگ اس قدر متغیر ہوا کہ اس کے اثرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے چہروں پر بھی ظاہر ہوئے۔

3) آپ نے اعرابی کی بات کے دوسرے حصے ’’کہ ہم آپ کو اللہ تعالی کے ہاں بطور سفارشی پیش کرتے ہیں ‘‘ پر نکیر نہیں فرمائی۔ گویا مخلوق کو تو اللہ تعالی کے ہاں بطور سفارشی پیش کیا جا سکتا ہے مگر اللہ تعالی کو مخلوق کے سامنے نہیں۔

4) اس حدیث سے ’’سبحان اللہ‘‘ کے متعلق یہ و ضاحت ہو گئی کہ بطور انکار و اظہار کے تعجب یہ کلمہ کہا جا سکتا ہے۔

5)اور یہ بھی ثابت ہوا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ سے بارش کی دعا کرایا کرتے تھے۔

 

نوٹ:

(1)یعنی اللہ تعالی کو مخلوق کے سامنے بطور واسطہ اور وسیلہ پیش کرنا درست نہیں کیونکہ اللہ تعالی کی شان اس سے کہیں بلند تر ہے جبکہ مخلوق، رب تعالی کے سامنے وضیع و حقیر ہے۔ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بدوی کی بات کو سن کر بار بار، سبحان اللہ، کہا کہ اللہ تعالی ایسے امور و اوصاف سے بلکہ ہر شائبۂ نقص اور سوء ظن سے منزہ اور بالا تر ہے۔

 

 

باب:65گلشن توحید کی حفاظت کے سلسلہ میں نبی اکرمﷺ نے شرک کے تمام ذرائع اور راستوں کو مکمل طور پر بند کر دیا

 

عبد اللہ بن شخیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :

(انْطَلَقْتُ فِي وَفْدِ بَنِي عَامِرٍ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَقُلْنَا: أَنْتَ سَيِّدُنَا، فَقَالَ: السَّيِّدُ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى قُلْنَا: وَأَفْضَلُنَا فَضْلًا وَأَعْظَمُنَا طَوْلًا، فَقَالَ: قُولُوا بِقَوْلِكُمْ، أَوْ بَعْضِ قَوْلِكُمْ، وَلَا يَسْتَجْرِيَنَّكُمُ الشَّيْطَانُ) (سنن ابی داود، الادب، باب فی کراھیۃ التمادح، ح:4806 ومسند احمد:4/ 24، 25)

’’میں بنو عامر کے ایک وفد کے ہمراہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو ہم نے کہا: آپ ہمارے ’’سید‘‘ہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’السید‘‘ تو صرف اللہ تعالی ہے۔ پھر ہم نے کہا: مقام و مرتبہ کے لحاظ سے آپ ہم سب سے برتر، افضل اور بہت زیادہ احسان کرنے والے ہیں۔ آپ نے فرمایا: یہ اور اس قسم کی جائز و مناسب بات کہہ سکتے ہو۔ خیال رکھنا کہ کہیں شیطان تمہیں اپنے جال میں نہ پھنسالے۔‘‘ (1)

حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ بعض لوگوں نے کہا: اے اللہ کے رسول!ہم سب سے بہتر و افضل! اور سب سے بہتر کے فرزند! اے ہمارے سردار! اور ہمارے سردار کے بیٹے ! تو آپ نے فرمایا:

(يَا أَيُّهَا النَّاسُ، قُولُوا بِقَوْلِكُمْ، وَلاَ يَسْتَهْوِيَنَّكُمُ الشَّيْطَانُ، أَنَا مُحَمَّدٌ، عَبْدُ الله وَرَسُولُهُ، مَا أَحِبُّ أَنْ تَرْفَعُونِي فَوْقَ مَنْزِلَتِي الَّتِي أَنْزَلَنِي الله عَزَّ وَجَلَّ) (عمل الیوم و اللیلۃ للنسائی، ح:248، 249 ومسند احمد:3/ 153، 241، 249)

’’اے لوگو! اس قسم کے الفاظ کہہ لیا کرو۔ خیال رکھنا کہ کہیں شیطان تمہیں بہکا نہ دے۔ میں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)اللہ تعالی کا بندہ اور اس کا رسول ہوں۔ میں نہیں چاہتا کہ تم مجھے میرے اس مقام و مرتبہ سے بڑھا دو جو اللہ تعالی نے مجھے دیا ہے۔‘‘ (2)

 

مسائل:

1) آپ نے امت کو غلو، اور مبالغہ آمیزی سے موقع بموقع ڈرایا اور منع فرمایا ہے۔

2) جب لوگ کسی کو ’’اپنا سردار‘‘ قرار دیں تو جواباً اسے کیا کہنا چاہیے ؟ اسے مغرور و متکبر ہونے کی بجائے تنبیہ کرنی چاہیے کہ حقیقی سردار تو اللہ تعالی ہے۔

3) موقع و محل کی مناسبت سے لوگوں کو مبالغہ آمیزی سے روکتے رہنا چاہیے۔ جیسا کہ لوگوں نے اگرچہ درست باتیں کی تھیں مگر اس کے باوجود آپ نے فرمایا: ’’کہیں شیطان تمہیں اپنے دام میں نہ پھانس لے۔‘‘

4) آپ کے ارشاد:

 (مَا أَحِبُّ أَنْ تَرْفَعُونِي فَوْقَ مَنْزِلَتِي)

’’میں نہیں چاہتا کہ تم مجھے اللہ کے عطا کردہ میرے مرتبہ و مقام سے بڑھا دو‘‘

سے معلوم ہوا کہ آپ کو اپنے حق میں غلو اور مبالغہ آمیزی سے حد درجہ نفرت تھی۔

 

نوٹ:

(1) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان کہ ’’السید‘‘ اللہ تعالی ہی ہے جبکہ آپ تمام اولاد آدم کے سید و سردار ہیں ، اس بات کی دلیل ہے کہ آپ نے گلشن توحید کی خوب حفاظت فرمائی اور شرک کے تمام تر ذرائع اور وسائل کو اچھی طرح مسدود کیا کیونکہ شرک کا ایک ذریعہ یہ بھی ہے کہ انسان کسی قابل قدر اور لائق تکریم ہستی کی مدح و ستائش کے لیے الفاظ میں غلو کرے اور حد سے تجاوز کر جائے۔

یاد رہے !کسی قابل قدر شخصیت کو، مخاطب کر کے اسے سید کہنا یا کسی کی سیادت کی نسبت ساری کائنات کی طرف کرنا منع ہے۔ اسی طرح کسی کو ’’السید‘‘کہنا بھی درست نہیں کیونکہ اس کے معنی بھی ساری کائنات کے سردار کے ہیں ، لہذا عموماً مشرکین اپنے بڑوں کی تعظیم کے لیے جو کلمہ ’’السید‘‘ بولتے ہیں ، یہ شرعاً  نا جائز ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری مدح و تعریف میں جائز و مناسب کلمات کہہ سکتے ہو۔ اس لیے آپ کی بلکہ کسی بھی انسان کی تعظیم کے لیے ایسے الفاظ استعمال کرنا جن میں غلو ہو، درست نہیں کیونکہ اس سے مخاطب کے دل میں غرور پارسائی آسکتا ہے اور وہ اللہ کے حضور عجز و انکسار ترک کر کے اس کی توفیق خاص سے محروم ہو سکتا ہے، لہذا اس سے از حد احتراز ضروری ہے۔

(2) ان لوگوں نے آپ کے جو اوصاف بیان کیے وہ واقعی آپ میں موجود تھے لیکن آپ نے شرک کے سدباب کے لیے فرمایا کہ میں محمد، اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں۔ میں قطعاً یہ پسند نہیں کرتا کہ تم مجھے میرے اس مقام و مرتبہ سے بڑھاؤ جو اللہ عزوجل نے مجھے دے رکھا ہے اور یہ معاملہ صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہی خاص نہیں بلکہ ہر قابل تعظیم ہستی کے بارے میں یہی حکم ہے کہ اس کی شان میں اس قدر غلو نہ کیا جائے کہ تعظیم کرنے والے اور اس ہستی کے درمیان شیطانی عمل دخل ہو جائے یعنی اس طرح سے تعظیم نہ کی جائے کہ انسان شرک کا مرتکب ہو بیٹھے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مذکورہ بالا فرامین شرک کے تمام تر وسائل و ذرائع کو مسدود کرنے کے لیے گویا ایک جامع باب کی حیثیت رکھتے ہیں۔

 

 

 

باب:66 اللہ تعالی کی عظمت اور رفعت شان کا بیان

 

ارشاد الہی ہے :

(وَمَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ وَالْأَرْضُ جَمِيعًا قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيَامَۃ وَالسَّمَاوَاتُ مَطْوِيَّاتٌ بِيَمِينِهِ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى عَمَّا يُشْرِكُونَ (سورۃ الزمر39: 67))

’’اور انہوں نے کماحقہ اللہ کی قدر نہیں کی، قیامت کے دن ساری زمین اس کی مٹھی میں ہو گی اور سارے آسمان اس کے دائیں ہاتھ میں لپٹے ہوں گے۔ اللہ ان لوگوں کے شرک سے پاک اور بلند ہے۔‘‘

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ، ایک یہودی عالم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا اور کہنے لگا: ’’اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)! ہماری کتاب میں لکھا ہوا ہے کہ اللہ تعالی قیامت کے دن آسمانوں کو ایک انگلی پر، زمینوں کو ایک انگلی پر، درختوں کو ایک انگلی پر، پانی کو ایک انگلی پر، نمناک مٹی کو ایک انگلی پر اور باقی تمام مخلوقات کو ایک انگلی پر رکھ کر فرمائے گا: میں ہی بادشاہ ہوں۔ آپ اس کی بات سن کر بطور تصدیق ہنس پڑے حتیٰ کہ آپ کی ڈاڑھیں نمایاں ہو گئیں۔ پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی:

(وَمَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ وَالْأَرْضُ جَمِيعًا قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيَامَۃ وَالسَّمَاوَاتُ مَطْوِيَّاتٌ بِيَمِينِهِ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى عَمَّا يُشْرِكُونَ (سورۃ الزمر39: 67))

’’اور انہوں نے کماحقہ اللہ کی قدر نہیں کی، قیامت کے دن ساری زمین اس کی مٹھی میں ہو گی اور سارے آسمان اس کے دائیں ہاتھ میں لپٹے ہوں گے۔ اللہ ان لوگوں کے شرک سے پاک اور بلند ہے۔‘‘ (1)

اور صحیح مسلم کی روایت میں ہے (قیامت کے روز اللہ تعالی)تمام پہاڑوں اور درختوں کو ایک انگلی پر (رکھے گا)، پھر (انگلیوں پر رکھی ہوئی) ان (تمام مخلوقات) کو ہلا ہلا کر کہے گا، ’’میں ہی بادشاہ ہوں اور میں ہی اللہ ہوں۔‘‘ (2)

اور صحیح بخاری کی ایک دوسری روایت میں ہے اللہ تعالی قیامت کے دن آسمانوں کو ایک انگلی پر، پانی اور نمناک مٹی کو ایک انگلی پر اور باقی ساری مخلوقات کو ایک انگلی پر رکھے گا۔‘‘ (3)

اور صحیح مسلم میں ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(يَطْوِي اللهُ عَزَّ وَجَلَّ السَّمَاوَاتِ يَوْمَ الْقِيَامَۃ، ثُمَّ يَأْخُذُهُنَّ بِيَدِهِ الْيُمْنَى، ثُمَّ يَقُولُ: أَنَا الْمَلِكُ، أَيْنَ الْجَبَّارُونَ؟ أَيْنَ الْمُتَكَبِّرُونَ. ثُمَّ يَطْوِي الْأَرَضِينَ السَّبْعَ، ثُمَّ يَقُولُ: أَنَا الْمَلِكُ أَيْنَ الْجَبَّارُونَ؟ أَيْنَ الْمُتَكَبِّرُونَ؟) (صحیح مسلم، صفات المنافقین و احکامھم، باب صفۃ القیامۃ و الجنۃ و النار، ح:2788)

’’اللہ قیامت کے دن آسمانوں کو لپیٹ کر اپنے داہنے ہاتھ میں پکڑے گا اور فرمائے گا:میں بادشاہ ہوں۔ کہاں ہیں جنہوں نے دنیا میں خود کو سرکش ارو متکبر سمجھا؟ پھر ساتوں زمینوں کو لپیٹ کر اپنے بائیں ہاتھ میں لے لے گا اور فرمائے گا: میں بادشاہ ہوں۔کہاں ہیں جنہوں نے دنیا میں خود کو سرکش اور متکبر سمجھا؟‘‘

ابن عباس رضی اللہ عنہا فرماتے ہیں :

(مَا السَّمَاوَاتُ السَّبْعُ وَالْأَرَضُونَ السَّبْعُ وَمَا فِيهِمَا فِي كَفِّ الَّرحْمنِ إِلَّا كَخَرْدَلَۃ فِي يَدِ أَحَدِكُمْ) (تفسیر ابن جریر للطبری: 24/ 32)

’’قیامت کے دن ساتوں آسمان اور ساتوں زمینیں اللہ تعالی کی مٹھی میں ایسے ہوں گی جیسے تم میں سے کسی کے ہاتھ میں رائی کا دانہ۔‘‘

امام ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ باسند روایت کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(مَا السَّمَاوَاتُ السَّبْعُ فِي الْكُرْسِيِّ إِلَّا كَدَرَاهِمَ سَبْعَۃ أُلْقِيَتْ فِي تُرْسٍ قَالَ: وَقَالَ أَبُوذَرٍّ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:مَا الْكُرْسِيُّ فِي الْعَرْشِ إِلَّا كَحَلَقَۃ مِنْ حَدِيدٍ أُلْقِيَتْ بَيْنَ ظَهْرَيْ فَلَاۃ مِنَ الْأَرْضِ) (تفسیر ابن جریر للطبری، ح:4522 و الاسماء و الصفات للبیھقی، ح:510)

’’اللہ تعالی کی کرسی کے ساتھ سات آسمانوں کو یوں نسبت ہے جیسے سات درہم کسی ڈھال میں رکھے ہوں۔ اور ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: اللہ تعالی کی کرسی اس کے عرش کے مقابلہ میں یوں ہے جیسے لوہے کا چھلا کسی وسیع و عریض میدان میں رکھا ہو۔‘‘

ابن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :

(بَيْنَ السَّمَاءِ الدُّنْيَا وَالَّتِي تَلِيهَا خَمْسِمِائَۃ عَام، وَبَيْنَ كُلِّ سَمَاءٍ وَّسَمَآءٍ خَمْسِمِائَۃ عَامٍ، وَبَيْنَ السَّمَاءِ السَّابِعَۃ وَالْكُرْسِيِّ خَمْسِمِائَۃ عَامٍ، وَبَيْنَ الْكُرْسِيِّ وَالْمَاءِ خَمْسِمِائَۃ عَامٍ، وَّالْعَرْشُ فَوْقَ الْمَاءِ، وَاللَّهُ فَوْقَ الْعَرْشِ، لاَ يَخْفى عَلَيْهِ شَيْءٌ مِّنْ أَعْمَالِكُمْ) (اخرجھ الدارمی فی الرد علی الجھمیۃ، ح:26 و ابن خزیمۃ فی کتاب التوحید، ح:594، و الطبرانی فی المعجم الکبیر، ح:8987)

’’آسمان دنیا سے دوسرے آسمان تک پانچ سو سال کی مسافت ہے اور ہر دو آسمانوں کے درمیان پانچ سو سال کی مسافت ہے۔ اسی طرح ساتویں آسمان اور کرسی کے درمیان، کرسی اور پانی کے درمیان بھی پانچ پانچ سو سال کی مسافت ہے۔ پانی کے اوپر اللہ تعالی کا عرش ہے۔ اور اللہ تعالی عرش کے اوپر ہے۔ یاد رکھو! تمہارا کوئی بھی عمل اللہ تعالی سے پوشیدہ نہیں۔

اس روایت کو ابن مہدی، حماد بن سلمہ سے، وہ عاصم سے، وہ زر سے اور وہ عبد اللہ بن مسعود سے بیان کرتے ہیں۔ اور اسی طرح اسے مسعودی، عاصم سے، وہ ابو وائل سے اور وہ عبد اللہ بن مسعود سے بیان کرتے ہیں۔

عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(هَلْ تَدْرُونَ كَمْ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ؟ قُلْنَا اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: بَيْنَهُمَا مَسِيرَۃ خَمْسِمِائَۃ سَنَۃ، وَمِنْ كُلِّ سَمَاءٍ إِلَى سَمَاءٍ مَسِيرَۃ خَمْسِمِائَۃ سَنَۃ، وَكِثَفُ كُلِّ سَمَاءٍ مَسِيرَۃ خَمْسِمِائَۃ سَنَۃ، وَكَثِفُ كُلِّ سَمَآءٍ مَسِيرَۃ خَمْسِمِائَۃ سَنَۃ، وَّبَيْنَ السَّمَآءِ السَّابِعَۃ وَالْعَرْشُ بَحْرٌ بَيْنَ أَسْفَلِهِ وَأَعْلاهُ كَمَا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ، وَاللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى فَوْقَ ذَلِكَ وَلَيْسَ يَخْفَى عَلَيْهِ شَيْءٌ مِنْ أَعْمَالِ بَنِي آدَمَ) (سنن ابی داود، السنۃ، باب فی الجھمیۃ، ح:4723 و مسند احمد:1/ 206، 207)

’’کیا تم جانتے ہو کہ زمین اور آسمان کے درمیان کتنا فاصلہ ہے ؟ ہم نے کہا: اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’ان کے درمیان پانچ سو سال کی مسافت ہے اور ہر آسمان سے دوسرے آسمان تک پانچ سو سال کی مسافت ہے اور ہر آسمان کی موٹائی پانچ سو سال کی مسافت کے برابر ہے۔ ساتویں آسمان اور عرش الہی کے درمیان ایک سمندر ہے۔ اس کے نیچے اور اوپر والے حصوں کے درمیان بھی اپنا ہی فاصلہ ہے جتنا زمین اور آسمان کے درمیان ہے (یعنی پانچ سو سال کی مسافت) اور اللہ تعالی اس کے اوپر ہے۔ بنی آدم کے اعمال میں سے کوئی عمل اس سے پوشیدہ اور مخفی نہیں۔‘‘ (4)

 

مسائل:

1)اس باب سے آیت کریمہ:

(وَالْأَرْضُ جَمِيعًا قَبْضَتُهُ) (سورۃ الزمر39: 67))

کی تفسیر خوب واضح ہوئی۔

2) گزشتہ بحث سے ثابت ہوا کہ تو رات میں بہت سی صحیح باتیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ تک موجود و محفوظ تھیں۔ یہود نے نہ تو ان کا انکار کیا اور نہ ان کی کوئی تاویل کی۔

3) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جب یہودی عالم نے ان باتوں کا ذکر کیا تو آپ نے اس کی تصدیق فرمائی اور قرآن مجید نے بھی اس کی تائید فرمائی۔

4) آپ ک مسکرانا اس یہودی عالم کی ان عظیم عالمانہ باتوں کی بنا پر تھا۔

5) اس باب میں مذکور حدیث میں اللہ تعالی کے لیے دو ہاتھوں کی تصریح ہے کہ قیامت کے دن تمام آسمان اس کے دائیں ہاتھ میں اور زمینیں اس کے دوسرے ہاتھ میں ہوں گی۔

6) بلکہ حدیث میں اللہ تعالی کے دوسرے ہاتھ کو بایاں کہنے کی صراحت بھی ہے۔

7) اللہ اس وقت انتہائی جلال کے ساتھ بڑے بڑے سرکش اور متکبرین کو پکارے گا۔

8) اور سارے آسمان اور زمینیں اللہ تعالی کے ہاتھ میں یوں ہوں گی جیسے کسی کے ہاتھ میں رائی کا دانہ۔

9) اللہ تعالی کی کرسی آسمانوں کی نسبت بہت بڑی ہے۔

10) اور کرسی کی نسبت اللہ تعالی کا عرش بہت ہی بڑا ہے۔

11) نیز اللہ تعالی کا عرش، کرسی اور پانی سب علیحدہ علیحدہ چیزیں ہیں۔

12) ہر دو آسمانوں کا درمیانی فاصلہ پانچ سو سال کی مسافت کا ہے۔

13) ساتویں آسمان اور کرسی کے مابین بھی یہی مسافت ہے۔

14) کرسی اور پانی کے درمیان بھی اسی قدر فاصلہ ہے۔

15) اللہ تعالی کا عرش پانی پر ہے۔

16) اللہ تعالی عرش کے اوپر ہے۔

17) نیز زمین اور آسمان کے درمیان پانچ سو سال کی مسافت ہے۔

18) اور ہر آسمان کی موٹائی بھی پانچ سو سال کی مسافت کے بابر ہے۔

19)اور آسمانوں کے اوپر والے سمندر کی تہ اور سطح کے درمیان بھی پانچ سو سال کی مسافت ہے۔

 

نوٹ:

(1) صحیح بخاری، التفسیر، باب قولہ تعالی وما قدرو اللہ حق قدرہ، حدیث:4811 و صحیح مسلم، صفات المنافقین و احکامھم، باب صفۃ القیامۃ و الجنۃ و النار۔ حدیث:2786

(2) صحیح مسلم، حوالہ مذکور۔

(3) صحیح بخاری، حوالہ مذکور۔

(4) دعوت توحید و سنت کے امام، شیخ الاسلام محمد بن عبد الوہاب رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی اس عظیم کتاب کو اس اہم اور عظیم باب پر ختم اور مکمل کیا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ جو شخص اللہ تعالی کے اوصاف حمیدہ کو صحیح معنوں میں سمجھ اور جان لیتا ہے وہ رب العزت کے ہاں انتہائی عجز و انکسار اور خضوع و تذلل کا اظہار کرتا ہے۔ اس باب کے آغاز میں مذکورہ آیت مبارکہ میں اسی بات کو یوں بیان کیا گیا ہے :

(وَمَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ (سورۃ الزمر39: 67))

کہ لوگوں نے اللہ تعالی کی کماحقہ، تعظیم نہیں کی۔ اگر کرتے تو کبھی اسے چھوڑ کر غیروں کی پرستش نہ کرتے۔ آپ ذرا اللہ رب العزت کی صفات میں غور و تدبر تو کریں کہ وہ کس قدر غلبہ و قدرت رکھنے والا، حکیم و دانا، صفات جلال سے متصف اور عرش پر مستوی ہے۔ اس وسیع و عریض کائنات میں اس کی فرماں روائی ہے۔ وہ جسے چاہتا ہے اپنی بے بہا نعمتوں اور خصوصی رحمت سے نوازتا ہے اور جس سے چاہتا ہے مصائب و آلام ٹال دیتا ہے۔ انعام و فضل کا مولی و والی وہی ہے …..آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ آسمانوں میں بھی اسی کی قدرت کا ملہ کار فرما ہے وار فرشتے بھی اس کی بندگی میں مصروف اسی کی طرف جھکتے اور متوجہ ہوتے ہیں۔

اے انسان! ذرا سوچ تو سہی کہ اس قدر جلیل اور عظیم الشان بادشاہ حقیقی تجھ حقیرو وضیع سے مخاطب ہو کر تجھے اپنی عبادت ک حکم دے رہا ہے، اگر تجھے کچھ شعور ہو تو تیرا شرف اسی میں ہے۔ وہ تجھے اپنی اطاعت و فرمان برداری کا حکم دے رہا ہے۔ اگر تجھے کچھ سمجھ ہو تو اس میں تیری ہی عزت ہے۔ اگر تو اللہ تعالی کے حق کو پہچان لے اور تجھے اس کی صفات عالیہ کا علم ہو جائے اور اس کی ذات و صفات کے علو کی معرفت حاصل ہو جائے تو تو اس کے روبرو عاجزی اور انکسار کا اظہار کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ تو اس کی اطاعت و فرمانبرداری کے لیے بے قرار اور اس کی محبوب چیزوں کے ذریعے سے اس کے تقرب کے لیے بے چین ہو گا۔ تو اس کے کلام کی تلاوت کرے گا تو تجھے یوں محسوس ہوں گا جیسے تو اس سے مخاطب ہے۔ وہ تجھے حکم بھی کر رہا ہے اور کچھ چیزوں سے منع بھی کر رہا ہے، تب تیرے دل میں اس عالی قدر ذات کی توقیر اور تعظیم کچھ اور ہی ہو گی۔ لہذا دل میں ایمان اور رب العزت کی تعظیم راسخ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ انسان، ارض و سماء میں موجود اس کی قدرت کے عجائب میں غور و فکر کرے کیونکہ یہ اس کا حکم ہے۔

الله سبحانه و تعالى اعلم و الحمد لله رب العالمين, و صلى الله على سيدنا

محمد و علي آله و صحبه اجمعين

٭٭٭

ٹائپنگ: فاروق

پروف ریڈنگ:  عُکاشہ

 

ماخذ:

http://www.urduvb.com/forum/showthread.php?t=18844

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید