FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

فہرست مضامین

غايۃ المريد

فی شرح

کتاب التوحید

 

حصہ اول

 

               اصل: محمد بن عبد الوہاب

               شرح: صالح بن عبد العزيز بن محمد بن إبراہيم

 

 

 

 

 

مقدمہ اور چند اہم اصطلاحات

 

 

علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کے اسلام میں توحید کے موضوع پر کتاب التوحید جیسی کوئی کتاب نہیں لکھی گئی۔ یہ کتاب توحید کی طرف دعوت دینے والی ہے۔ شیخ عبد الوہاب رحمہ اللہ نے اس کتاب میں توحید کے معنی، دلائل توحید کے اصول اور فضیلت بیان کی ہے۔ مزید بر آں توحید کے خلاف امور اور ان سے بچاؤ کے اسباب بھی بیان کئے ہیں نیز اختصار کے ساتھ توحید عبادت ( الوہیت) اور توحید اسماء و صفات کے ارکان بھی بیان کیے گئے ہیں۔ اسی طرح شرک اکبر اور اس کی چند شکلیں ، شرک اصغر اور اس کی چند شکلیں ، اور ہرکسی کے وسائل و ذرائع بھی بیان کئے ہیں۔ توحید کی حفاظت اور اس کے ذرائع، نیز توحید ربوبیت کی چند جزئیات کی بھی وضاحت فرمائی ہے۔ چونکہ یہ ایک عظیم الشان کتاب ہے اس لئے حفظ و تدریس اور وسیع تامل تدبر کے ساتھ اس کا مطالعہ کرنا چاہئے۔ آپ جہاں کہیں بھی ہوں گے، اس کتاب کی ضرورت محسوس کریں گے۔

 

               توحید

 

توحید سے مراد کسی چیز کو یکجا کرنا ہے۔ اللہ تعالی کو ایک ماننا یعنی اکیلے اللہ تعالی کو ہی معبود ماننا۔اللہ تعالی کی کتاب قران مجید میں توحید کی درج ذیل تین اقسام بیان کی گئی ہیں :

1۔ توحید ربوبیت 2۔ توحید الوہیت 3۔ توحید اسماء صفات۔

 

توحید ربوبیت:

اس کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالی کو اس کے افعال میں منفرد اور یکتا جاننا۔ اللہ تعالی کے بہت سے افعال ہیں ، جن میں سے چند ایک حسب ذیل ہیں۔

پیدا کرنا، رزق دینا، زندہ کرنا اور موت دینا وغیرہ۔ پس ان چیزوں میں علی وجہ الکمال منفرد و یکتا صرف اللہ تعالی کی ذات ہے۔

 

توحید الوہیت یا توحید الاہیت:

یہ دونوں الہ یا لہ کے مصدر ہیں۔ جس کا معنی یہ ہے کہ وہ معبود جس کی تعظیم و محبت کے ساتھ عبادت کی جائے اور توحید الاہیت کا معنی یہ ہے کہ عبادت کے جملہ افعال کو اللہ تعالی کے لئے خاص کیا جائے۔

 

توحید اسماءصفات:

اس کا مطلب یہ ہے کہ بندہ یہ عقیدہ رکھے کہ اللہ تعالی اپنے اسماءصفات میں یکتا ہے اور ان میں اس کا کوئی مماثل نہیں۔

مصنف امام محمد رحمہ اللہ نے اس کتاب میں توحید کی مذکورہ بالا تینوں اقسام کا تفصیل کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ ان اقسام کو سمجھنے کی اشد ضرورت ہے لیکن اس موضوع پر کتابیں بکثرت دستیاب نہیں۔ مصنف نے توحید الوہیت اور عبودیت اور اس کے ارکان مثلاً : توکل، خوف، اور محبت کی وضاحت فرمائی ہے۔ نیز اسں کے مقابل شرک کی بھی وضاحت کی ہے۔

ربوبیت یا عبادت یا اسماء و صفات میں اللہ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک کیا جائے تو یہ شرک ہے۔ اس کتاب کی تالیف کا مقصد عبادت میں اللہ تعالی کے ساتھ کسی کو شرک کرنے سے روکنا اور اس کی توحید کا حکم دینا ہے۔کتاب و سنت کی نصوص اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ ایک اعتبار سے شر کی دو قسمیں ہیں :شرک اکبر اور شرک اصغر۔ اور ایک دوسرے اعتبار سے اس کی تین اقسام ہیں۔ شرک اکبر، شرک اصغر اور شرک خفی۔

 

شرک اکبر:

وہ ہے جس کا ارتکاب بندے کو دین سے خارج کر دیتا ہے اور شرک اکبر کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی کے ساتھ کسی اور کی بھی عبادت کرنا یا عبادت میں سے کسی ایک چیز کو غیر اللہ کی طرف پھیرنا یا عبادت میں اللہ تعالی کے ساتھ کسی کو اس کا شریک بنانا۔

 

شرک اصغر:

وہ ہے جس پر شارع علیہ الصلاۃ والسلام نے شرک کا حکم لگایا ہے تاہم اس میں کسی کو شرک کامل نہیں سمجھا جاتا جو اس کو شرک اکبر کے ساتھ ملتحق کر دے۔ یاد رہے کہ شرک اکبر ظاہری بھی ہے مثلاً بتوں ، قبروں اور مردوں کے پجاریوں کا شرک اور باطنی بھی، مثلاً منافقوں کا شرک یا پیروں فقیروں ، مردوں اور معبودان باطلہ پر توکل کرنے والوں کا شرک۔ ان کا شرک مخفی ہے البتہ یہ باطن میں اکبر ہے گو کہ ظاہر میں نہیں۔علاوہ ازیں کڑے، دھاگے اور تعویذ پہننا اور غیر اللہ کی قسم کھانا بھی شرک اصغر میں شامل ہے۔

 

شرک خفی:

اس سے مراد معمولی قسم کی ریا اور اس طرح کی دیگر کمزوریاں ہیں۔

 

               توحید تمام عبادات کی بنیاد ہے

 

اللہ تعالی کا ارشاد ہے :

(وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالإنْسَ إِلا لِيَعْبُدُونِ) (سورۃ الذاريات51 :56)

"اور میں نے جنوں اور انسانوں کو محض اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ صرف بندگی کریں "۔ (1)

اللہ تعالی نے فرمایا:

(وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّۃ رَسُولا أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ) (سورۃ النحل16: 36)

"اور ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا کہ (لوگو)صرف اللہ کی بندگی کرو اور طاغوت (غیر اللہ) کی بندگی سے بچو”۔ (2)

نیز اللہ تعالی کا ارشاد ہے :

(وَقَضَى رَبُّكَ أَلا تَعْبُدُوا إِلا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا) (سورۃ الإسراء17: 23)

"اور تیرے رب نے فیصلہ کر دیا ہے کہ تم صرف اسی (اللہ)کی بندگی کرو اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو”۔ (3)

نیز اللہ تعالی کا ارشاد ہے :

(وَاعْبُدُوا اللَّهَ وَلا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا) (سورۃ النساء4: 36)

"اور تم سب اللہ کی بندگی کرو اور اس کے ساتھ کسی بھی چیز کو شریک نہ ٹھہراؤ”۔ (4)

ایک اور مقام پر اللہ تعالی نے فرمایا:

(قُلْ تَعَالَوْا أَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَيْكُمْ أَلا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا) (سورۃ الأنعام6: 151)

(اے محمد ﷺ !)کہہ دیجیے کہ آؤ میں تمہیں وہ چیزیں پڑھ کر سناؤں جو تمہارے رب نے تم پر حرام کی ہیں۔ (وہ)یہ کہ تم اس کے ساتھ کسی بھی چیز کو شریک نہ ٹھہراؤ۔ (5)

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جو شخص محمد ﷺ کی سربمہر (بند کر کے مہر لگائی ہوئی)وصیت ملاحظہ کرنا چاہتا ہو وہ اللہ تعالی کا یہ فرمان پڑھ لے :

(قُلْ تَعَالَوْا أَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَيْكُمْ أَلا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَلا تَقْتُلُوا أَوْلادَكُمْ مِنْ إِمْلاقٍ نَحْنُ نَرْزُقُكُمْ وَإِيَّاهُمْ وَلا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَلا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلا بِالْحَقِّ ذَلِكُمْ وَصَّاكُمْ بِهِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ (١٥١)وَلا تَقْرَبُوا مَالَ الْيَتِيمِ إِلا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ حَتَّى يَبْلُغَ أَشُدَّهُ وَأَوْفُوا الْكَيْلَ وَالْمِيزَانَ بِالْقِسْطِ لا نُكَلِّفُ نَفْسًا إِلا وُسْعَهَا وَإِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوا وَلَوْ كَانَ ذَا قُرْبَى وَبِعَهْدِ اللَّهِ أَوْفُوا ذَلِكُمْ وَصَّاكُمْ بِهِ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ (١٥٢)وَأَنَّ هَذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ وَلا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيلِهِ ذَلِكُمْ وَصَّاكُمْ بِهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ) (سورۃ الأنعام6: 151153، جامع الترمذی، التفسیر، تفسیر سورۃ الانعام، ح:3070)

” (اے محمد ﷺ)کہ دیجیے کہ آؤ میں تمہیں وہ چیزیں پڑھ کر سناؤں جو تمہارے رب نے تم پر حرام کی ہیں  وہ یہ کہ:

1)تم اس کے ساتھ کسی بھی چیز کو شریک نہ ٹھہراؤ۔

2)اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو۔

3)اپنی اولاد کو مفلسی کے ڈرسے قتل نہ کرو، کیونکہ تمہیں بھی اور ان کو بھی رزق ہم ہی دیتے ہیں۔

4)بے حیائی کے کام ظاہر ہوں یا پوشیدہ، تم ان کے قریب بھی نہ بھٹکو۔

5)اور جسے قتل کرنا اللہ تعالی نے حرام ٹھہرایا ہے اسے قتل نہ کرو مگر حق اور جائز طریقے سے۔ اس (اللہ) نے تمہیں ان باتوں کی وصیت (ہدایت)کی ہے تاکہ تم عقل سے کام لو۔

6)اور تم یتیموں کے مال کے قریب بھی نہ جاؤ مگر ایسے طریقے سے جو انتہائی بہترین اور پسندیدہ ہو، یہاں تک کہ وہ (یتیم) اپنی جوانی کی عمر کو پہنچ جائے۔

7)اور انصاف کے ساتھ ناپ تول پورا کرو، ہم کسی جان کو اس کی طاقت سے بڑھ کر مکلف نہیں کرتے۔

8)اور جب بات کرو تو انصاف کی کہو خواہ وہ معاملہ اپنے رشتہ دار ہی کا ہو (یعنی کسی ایک کی طرف جھکاؤ سے کام نہ لو)

9)اور اللہ تعالی کے عہد کو پورا کرو۔ اس (اللہ)نے تمہیں ان باتوں کی وصیت (ہدایت)کی ہے تاکہ تم یاد رکھو۔

10) اور بے شک یہ میرا سیدھا راستہ ہے تم اسی پر چلو۔ اسے چھوڑ کر دوسری راہوں پر مت چلو، وہ تمہیں اللہ کی راہ سے دور کر دیں گی۔ اس (اللہ) نے تمہیں ان باتوں کی وصیت (ہدایت)کی راہ سے دور کر دیں گی۔ اس (اللہ)نے تمہیں ان باتوں کی وصیت (ہدایت) کی ہے تاکہ تم پرہیزگاربن جاؤ۔ (6)

حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :

(كُنْتُ رِدْفَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى حِمَارٍ يُقَالُ لَهُ عُفَيْرٌ فَقَالَ يَامُعَاذُ هَلْ تَدْرِي حَقَّ اللَّهِ عَلَى عِبَادِهِ وَمَاحَقُّ الْعِبَادِعَلَى اللَّهِ قُلْتُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ قَالَ فَإِنَّ حَقَّ اللَّهِ عَلَى الْعِبَادِ أَنْ يَعْبُدُوهُ وَلَا يُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا وَحَقَّ الْعِبَادِ عَلَى اللَّهِ أَنْ لَا يُعَذِّبَ مَنْ لَا يُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَفَلَا أُبَشِّرُ بِهِ النَّاسَ قَالَ لَا تُبَشِّرْهُمْ فَيَتَّكِلُوا) (صحیح البخاری، الجھادوالسیر، باب اسم الفرس والحمار، ح: 6267، 5967، 2856 و صحیح مسلم، الایمان، باب الدلیل علی ان مین مات علی التوحید دخل الجنہ قطعا، ح:30)

’’ایک دفعہ میں نبی کریم ﷺ کے پیچھے گدھے پر سوار تھا کہ آپ نے مجھ سے فرمایا: ’’اے معاذ (رضی اللہ عنہ!)کیا تم جانتے ہو اللہ کا بندوں پر اور بندوں کا اللہ پرکیا حق ہے ؟‘‘ میں نے عرض کیا، اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: اللہ کا بندوں پر یہ حق ہے کہ وہ صرف اسی کی عبادت (بندگی) کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں ، اور بندوں کا اللہ کے ذمہ یہ حق ہے کہ جو بندہ شرک کا مرتکب نہ ہو وہ اسے عذاب نہ دے۔‘‘ (معاذ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں) میں نے کہا، یا رسول اللہ ﷺ ! (اجازت ہو تو) لوگوں کو یہ خوشخبری سنا دوں ؟ آپ نے فرمایا: نہیں۔ ایسا نہ ہو کہ وہ اسی پر بھروسہ کر کے بیٹھ جائیں (اور عمل کرنا چھوڑ دیں)‘‘ (7)

 

مسائل:

 

1) جن وانس کی تخلیق میں اللہ تعالی کی حکمت کار فرما ہے۔

2) دراصل عبادت سے مراد توحید ہے کیونکہ جملہ انبیاء اور ان کی امتوں کے درمیان یہی بات متنازعہ تھی۔

3) جو شخص توحید پر کار بند نہیں اس نے اللہ تعالی کی عبادت (بندگی)کی ہی نہیں۔

’’سورۃ الکافرون‘‘ کی آیت:

(وَلَا أَنْتُمْ عَابِدُونَ مَا أَعْبُدُ (سورۃ الكافرون190: 3))

’’اور جن کی تم پرستش کرتے ہو میں ان کی پرستش کرنے والا نہیں ہوں ‘‘ کا بھی یہی مفہوم ہے۔

4) بعثت انبیاء ورسل کی حکمت کا بھی پتہ چلتا ہے۔

5) اللہ تعالی کی طرف سے ہر امت کی ہدایت کے لیے رسول بھیجے گئے۔

6) تمام انبیاء کا دین یعنی ان کی دعوت کا محور اور مرکزی نقطہ صرف توحید تھا۔

7) اس سے یہ ایک اہم مسئلہ بھی معلوم ہوا کہ طاغوت کا کفر اور اس کا انکار کیے بغیر اللہ تعالی کی عبادت (بندگی)ممکن ہی نہیں۔

(فَمَنْ يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَيُؤْمِنْ بِاللَّهِ (سورۃ البقرۃ2: 256))

کا یہی مفہوم ہے۔

8) ’’طاغوت‘‘ ہر اس چیز کو کہتے ہیں جس کی اللہ تعالی کے سوا عبادت کی جائے۔

9) یہ بھی معلوم ہوا کہ سلف صالحین کے نزدیک سورۃ الانعام کی مذکورہ تین محکم آیات کی کس قدر اہمیت اور عظمت تھی۔ ان میں اللہ تعالی کی طرف سے بندوں کو دس احکام اور ہدایت دی گئی ہیں۔ ان میں سب سے اولین ہدایت ’’شرک سے ممانعت‘‘ کی ہے۔

10) سورۂ بنی اسرائیل (الاسراء) کی محکم آیات میں اٹھارہ مسائل بیان ہوئے ہیں جن کا آغاز ان الفاظ سے ہوا ہے :

(لَا تَجْعَلْ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ فَتَقْعُدَ مَذْمُومًا مَخْذُولًا (سورۃ الإسراء17: 22))

’’کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ ورنہ ذلیل اور بے یار و مدد گار ہو کر بیٹھ رہو گے ‘‘۔

یعنی ان مسائل میں سب سے پہلے توحید کا بیان ہے اور سب سے آخر میں بھی توحید ہی کا ذکر ہے۔

(وَلَا تَجْعَلْ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ فَتُلْقَى فِي جَهَنَّمَ مَلُومًا مَدْحُورًا (سورۃ الإسراء17: 39))

’’اور اللہ کے ساتھ کسی دوسرے کو معبود نہ بنا لینا ورنہ تو ملامت زدہ اور راندۂ درگاہ ہو کر جہنم میں ڈال دیا جائے گا‘‘۔

اللہ تعالی نے ان مسائل کی اہمیت پر تنبیہ کرتے ہوئے آخر میں فرمایا:

(ذَلِكَ مِمَّا أَوْحَى إِلَيْكَ رَبُّكَ مِنَ الْحِكْمَۃ (سورۃ الإسراء17: 39))

یہ دانائی کی ان باتوں میں سے ہیں جو آپ کے رب نے آپ کی طرف وحی کی ہیں۔

11) سورۃ النساء کی وہ آیت جو حقوق عشرہ والی آیت کہلاتی ہے، اس میں اللہ نے فرمایا:

(وَاعْبُدُوا اللَّهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا (سورۃ النساء4: 36))

’’اور اللہ تعالی کی بندگی کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ‘‘۔

12) اس میں رسول اللہ ﷺ کی اس وصیت کی طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے جو آپ نے وفات کے وقت فرمائی تھی۔

13) بندوں کے ذمہ اللہ تعالی کا کیا حق ہے ؟

14) جب بندے اللہ تعالی کا حق ادا کریں تو اللہ تعالی پر ان کا کیا حق ہے ؟

15) حدیث سے یہ بھی پتہ چلا کہ اس (حدیث معاذ رضی اللہ عنہ) میں مذکور مسئلہ کا بہت سے صحابہ کو علم نہ تھا۔

16) کسی مصلحت کے پیش نظر کتمان علم (علم کو مخفی رکھنا)جائز ہے۔

17) کسی مسلمان کو خوش خبری دینا جائز ہے۔

18) اللہ تعالی کی رحمت پر بھروسہ کر کے ترک عمل جائز نہیں۔

19) یہ بھی معلوم ہوا کہ جس سے کوئی بات پوچھی جائے اور وہ نہ جانتا ہو تو یوں کہہ دینا چاہئے ’’اَللهُ وَ رَسُوْلُهُ اَعْلَمَ‘‘کہ ’’اللہ تعالی اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔‘‘

20) کسی کو علم سکھانا اور کسی کو محروم رکھنا جائز ہے۔

21) آپ ﷺ از حد متواضع تھے کہ آپ جلیل القدر ہونے کے باوجود گدھے پر نہ صرف سوار ہوئے بلکہ دوسرے آدمی کو بھی اپنے ہمراہ سوار کر لیا۔

22) سواری پر اپنے پیچھے دوسرے کو سوار کر لینا جائز ہے۔

23) حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کی فضیلت بھی عیاں ہوتی ہے۔

24) مسئلہ توحید کی اہمیت اور عظمت پر بھی خوب روشنی پڑتی ہے۔

 

نوٹ:

(1) میں نے جنوں اور انسانوں کو محض اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔اسلاف نے إِلا لِيَعْبُدُونِ کی تفسیر اِلا ليُوَحِّدون کی ہے …. کہ میں نے جنوں اور انسانوں کو محض اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری توحید کا اقرار و اعلان کریں۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ تمام رسول تو حید اور عبادت سمجھانے کے لیے مبعوث کیے گئے تھے۔

عبادت کا لغوی اور شرعی مفہوم: عبادت کے مفہوم میں عاجزی اور حد درجہ انکسار پایا جاتا ہے اور جب اس کے ساتھ محبت اور اطاعت بھی شامل ہو تو وہ شرعی عبادت بن جاتی ہے۔

شرعی طور پر کسی کی محبت، رحمت و شفقت کی امید اور اس کے عذاب کے ڈرسے اس کے اوامر و نواہی پر عمل کرنا عبادت کہلاتا ہے۔

شیخ السلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : انسان کے ایسے تمام ظاہری اور باطنی اقوال و افعال جو اللہ تعالی کو محبوب اور پسند ہوں ، ان تمام کو عبادت کہتے ہیں۔ اس سے ثابت ہوا کہ ہر قسم کی عبادت صرف اللہ کے لیے جائز ہے۔

(2) یہ آیت عبادت اور توحید کے مفہوم کی تفسیر ہے۔ نیز اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالی کے تمام رسول ان دو باتوں کی تعلیم کے لیے مبعوث کیے گئے کہ لوگو! تم صرف اللہ تعالی کی بندگی کرو اور طاغوت کی بندگی سے اجتناب کرو۔ اسی کو توحید کہتے ہیں۔ اس آیت کے پہلے جملہ "اعْبُدُوا اللَّهَ” میں توحید کا اثبات اور اقرار، جبکہ”وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ” میں شرک کی نفی اور انکار ہے۔

طاغوت: یہ فعلوت کے وزن پر مصدر "الطغیان”سے مشتق ہے۔

ہر وہ معبود، متبوع یا مطاع چیز جسے انسان اس کی حد سے بڑھا دے اسے "طاغوت”کہتے ہیں۔

(3) اس آیت میں فیصلے کے معنی امر اور وصیت ہیں یعنی اس نے تمہیں اس بات کا حکم دیا اور وصیت کی ہے کہ تم اس کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرو۔ کلمہ توحید”لا الہ الا اللہ” (کہ اللہ تعالی کے سوا کوئی معبود نہیں) کا بھی بالکل یہی مفہوم ہے۔ یہ آیت توحید کے مفہوم کو پوری طرح واضح کر رہی ہے کہ صرف اللہ تعالی کی عبادت بجا لانا اور کلمہ "لا الہ الا اللہ” کو اچھی طرح سمجھ کر اختیار کرنا ہی اصل توحید ہے۔

(4) یہ آیت شرک کی تمام انواع سے باز رہنے پر دلالت کرتی ہے خواہ وہ شرک اکبر ہو، اصغر ہو یا خفی۔

نیز اس آیت سے معلوم ہوا کہ کسی فرشتہ، نبی، صالح شخصیت، پتھر، درخت یا جن وغیرہ کو اللہ تعالی کے ساتھ شریک ٹھہرانے کی قطعاً اجازت نہیں کیونکہ یہ سب چیزیں ہیں۔

(5) آیت مبارکہ میں "أَلا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا"سے پہلے "وَصَّاكُم” محذوف ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالی نے تمہیں وصیت کی یعنی حکم دیا ہے کہ تم اس کے ساتھ کسی بھی چیز کو شریک نہ ٹھہراؤ۔ یہاں وصیت سے شرعی وصیت مراد ہے۔ اللہ تعالی کی شرعی وصیت کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ امر واجب اور ضروری ہے۔ یہ آیت بھی سابقہ آیات کی طرح توحید کے مفہوم پر دلالت کرتی ہے۔

(6) ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے فرمان کا مفہوم یہ ہے کہ اگر فرض کر لیا جائے کہ رسول اللہ ﷺ نے کوئی وصیت لکھ کر اس پر اپنی مہر ثبت فرمائی جسے آپ کی وفات اور ملاء اعلی کی طرف سے انتقال فرمانے کے بعد کھولا گیا تو آپ کی وصیت یہی آیات ہوں گی جن میں دس وصیتیں ہیں۔

ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث ان آیات کی عظمت اور رفعت شان پر دلالت کرتی ہے جن کا آغاز شرک کی ممانعت سے ہوا ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ توحید کا اثبات اور شرک کی ممانعت تمام امور پر مقدم اور اہم ترین ہے۔

(7) صرف اللہ تعالی کی عبادت (بندگی) کرنا اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا، اللہ تعالی کا حق ہے جو بندوں پر واجب ہے، کیونکہ کتاب و سنت ہی نہیں بلکہ تمام رسولوں نے اللہ تعالی کے اس حق کو بیان اور خوب واضح کیا ہے کہ اللہ تعالی کے تمام حقوق میں سے یہ حق بندوں پر سب سے زیادہ واجب ہے۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا: ’’اللہ تعالی کے ذمہ بندوں کا یہ حق ہے کہ جو بندہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائے تو وہ اسے عذاب نہ دے۔‘‘

اہل علم اس بات پر متفق ہیں کہ بندوں کے لیے اللہ تعالی نے یہ حق اپنے اوپر از خود واجب کیا ہے ورنہ کوئی ہستی یا شخصیت ایسی نہیں جو اللہ تعالی پر کسی چیز کو واجب کرسکے۔

اللہ تعالی از روئے حکمت جس چیز کو چاہے اپنے اوپر واجب یا حرام کر لیتا ہے۔ جیسا کہ ایک حدیث قدسی میں ہے۔

(إِنِّي حَرَّمْتُ الظُّلْمَ عَلَى نَفْسِي)

کہ میں (اللہ تعالی)نے ظلم کو اپنے اوپر حرام کر رکھا ہے۔ ’’یعنی میں کسی پر ظلم نہیں کرتا۔

 

 

 

باب:1 توحید کی فضیلت اور اس سے گناہوں کے مٹنے کا بیان (1)

 

(الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُمْ بِظُلْمٍ أُولَئِكَ لَهُمُ الْأَمْنُ وَهُمْ مُهْتَدُونَ (سورۃ الأنعام6: 82))

’’جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اپنے ایمان کو ظلم (شرک)سے آلودہ نہیں کیا، ان ہی کے لیے امن ہے اور وہی راہ راست پر ہیں ‘‘۔ (2)

عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایا:

(مَنْ شَهِدَ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لاَ شَرِيكَ لَهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، وَأَنَّ عِيسَى عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ، وَكَلِمَتُه أَلْقَاهَا إِلَى مَرْيَمَ وَرُوحٌ مِنْهُ، وَالجَنَّۃ حَقٌّ، وَالنَّارُ حَقٌّ، أَدْخَلَهُ اللَّهُ الجَنَّۃ عَلَى مَا كَانَ مِنَ العَمَلِ) (صحیح البخاری، احادیث الانبیاء، باب قولہ تعالی (يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لَا تَغْلُوا فِي دِينِكُمْ) ح:3435 و صحیح مسلم، الایمان، باب الدلیل علی ان مین مات علی التوحید دخل الجنۃ قطعا، ح:28)

’’جو شخص اس بات کی گواہی دے کہ:

٭ اللہ تعالی کے سوا کوئی معبود نہیں ، وہ یکتا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں۔

٭ اور محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں۔

٭ اور عیسی علیہ السلام بھی اللہ کے بندے، اس کے رسول اور اس کا کلمہ ہیں جو اس نے سیدہ مریم علیھا السلام کی طرف ڈالا تھا، اور وہ اسی کی طرف سے بھیجی ہوئی روح ہیں۔

٭ اور یہ کہ جنت بر حق ہے اور جہنم (بھی)بر حق ہے۔

تو ایسے شخص کو اللہ تعالی (بہرحال)جنت میں داخل کرے گا خواہ اس کے اعمال کیسے ہی ہوں۔‘‘ (3)

اور صحیحین ہی میں عتبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

(فَإِنَّ اللَّهَ قَدْ حَرَّمَ عَلَى النَّارِ مَنْ قَالَ: لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، يَبْتَغِي بِذَلِكَ وَجْهَ اللَّهِ) (صحیح البخاری، الصلاۃ، باب المساجد فی ابیوت، ح:425، الرقاق، باب اعمل الذی یبتغی بہ وجه اللہ، ح:6423 و صحیح مسلم، المساجد، الرخصۃ فی التخلف عن الجماعۃ لعذر، ح:273 / 33)

’’جو شخص محض رضائے الہی کی نیت سے ’’لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّه‘‘ کا اقرار کرے، اللہ تعالی اس پر دوزخ حرام کر دیتا ہے۔‘‘ (4)

ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایا:

(قال موسى عليه السلام: يا رب! علمني شيئا أذكرك وأدعوك به, قال: قل يا موسى: لا إله إلا الله. قال:كل عبادك يقولون هذا, قال: يا موسى! لو أن السماوات السبع وعامرهن غيري والأرضين السبع في كفۃ، ولا إله إلا الله في كفۃ، مالت بهن لا إله إلا الله) (موارد الظمآن الی زوائد ابن حبان، ح:2324 و المسترک للحاکم:1 / 528 و مسند ابی یعلی الموصلی، ح:1393)

موسی علیہ السلام نے اللہ تعالی سے عرض کیا، اسے میرے پروردگار! مجھے کوئی ایسی چیز بتائیں جس کے ذریعے میں تیرا ذکر کیا کروں اور تجھے پکارا کروں۔ اللہ تعالی نے فرمایا: اے موسی! ’’لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّه‘‘ پڑھا کرو۔ موسی علیہ السلام نے عرض کیا: اے میرے رب ! یہ کلمہ تو تیرے سب بندے پڑھتے اور کہتے ہیں۔ (مجھے کوئی خصوصی وظیفہ بتایا جائے) تو اللہ تعالی نے فرمایا: اے موسی! اگر ساتوں آسمان اور ان کی مخلوق بجز میرے اور ساتوں زمینیں ترازو کے ایک پلڑے میں ہوں اور ’’لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّه‘‘دوسرے پلڑے میں ہو تو یہ کلمہ ان سب سے وزنی ہو گا‘‘۔ (امام حاکم نے اسے صحیح کہا ہے) (5)

جامع ترمذی میں حسن سند کے ساتھ، انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کہتے ہیں میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا:

( قَالَ اللَّهُ تَعَالَى:يَا ابْنَ آدَمَ! لَوْ أَتَيْتَنِي بِقُرَابِ الأَرْضِ خَطَايَا ثُمَّ لَقِيتَنِي لَا تُشْرِكُ بِي شَيْئًا لَأَتَيْتُكَ بِقُرَابِهَا مَغْفِرَۃ) (جامع الترمذی، الدعوات، باب یا ابن آدم انک ما دعوتنی، ح: 3540)

’’اللہ تعالی فرماتے ہیں :اے ابن آدم! اگر تم میرے پاس زمین بھر گناہ کر کے آئے، پھر تو اس حال میں مجھ سے ملے کہ تو میرے ساتھ کسی بھی چیز کو شریک نہ ٹھہراتا ہو تو میں اسی قدر مغفرت و بخشش لے کر تیرے پاس آؤں گا۔‘‘

 

مسائل:

1) ان احادیث سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالی کا فضل بہت وسیع ہے۔

2) اللہ تعالی کے ہاں توحید کا ثواب بہت زیادہ ہے۔

3) توحید کا عقیدہ ثواب کے ساتھ ساتھ گناہوں کا کفارہ بھی ہے۔

4) سورۃ الانعام کی آیت 82 کی تفسیر بھی واضح ہوئی کہ اس میں ’’ظلم‘‘سے مراد ’’شرک‘‘ہے۔

5) حدیث عبادہ میں جو پانچ امور مذکور ہیں ان پر غور کیا جائے کہ ان میں سرفہرست شرک نہ کرنا ہے۔

6) حدیث عبادہ، حدیث عتبان اور اس کے بعد والی مذکورہ احادیث کو جمع کیا جائے تو کلمۂ توحید (لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّه)کا مفہوم مزید نکھر کر سامنے آتا ہے۔ اور جو لوگ اس دھوکے میں مبتلا ہیں کہ محض زبان سے کلمۂ توحید کا اقرار نجات کے لیے کافی ہے، ان کی غلطی بھی واضح ہوتی ہے۔

7) حدیث عتبان میں مذکورہ شرط بھی قابل توجہ ہے کہ کلمہ گو نے اللہ تعالی کی رضا کے لیے کلمہ پڑھا ہو۔

8) انبیاء کرام بھی اس کلمہ کی اہمیت و فضیلت کو جاننے کے محتاج تھے۔

9) یہ امر بھی قابل غور ہے کہ اگرچہ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّه تمام آسمانوں اور زمینوں سے وزنی ہے اس کے باوجود بہت سے کلمہ گو لوگوں کے پلڑے ہلکے ہوں گے۔

10) یہ بھی صراحت ہے کہ آسمانوں کی طرح زمینیں بھی سات ہیں۔

11) آسمانوں اور زمینوں میں اللہ تعالی کی مخلوق آباد ہے۔

12) اللہ تعالی کی بہت سی صفات ہیں جبکہ فرقہ اشاعرہ اللہ تعالی کی بعض صفات کا انکار کرتے ہیں۔

13) حدیث انس پر غور کریں تو سمجھ میں آتا ہے کہ حدیث عتبان ’’جو شخص محض رضائے الہی کی خاطر کلمہ ’’لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّه‘‘کا اقرار کرے تو اللہ تعالی اس پر جہنم حرام کر دیتا ہے ‘‘ سے مراد شرک کو کلیۃً چھوڑ دینا ہے۔ محض زبان سے کلمہ پڑھ لینا نجات کے لیے کافی نہیں۔

14) جناب محمدﷺ اور جناب عیسی علیہ السلام دونوں اللہ تعالی کے بندے اور رسول ہیں۔

15) ہر چیز اللہ تعالی کے حکم سے پیدا ہونے کی بنا پر اس کا کلمہ ہے تاہم یہاں خصوصی طور پر عیسی علیہ السلام کو اللہ تعالی کا کلمہ کہا گیا ہے۔

16) عیسی علیہ السلام کو خصوصی طور پر اللہ کی روح کہا گیا ہے۔

17) ان احادیث سے جنت اور جہنم پر ایمان لانے کی اہمیت اور فضیلت بھی معلوم ہوئی۔

18) ان تفصیل سے حدیث عبادہ میں ’’عَلَى مَا كَانَ مِنَ العَمَلِ‘‘ (خواہ اس کے اعمال کیسے ہی ہوں)کا مفہوم بھی متعین ہو جاتا ہے کہ جنت میں جانے کے لیے صاحب توحید یعنی موحد ہونا شرط ہے۔

19) روز قیامت اعمال کا وزن کرنے کے لیے جو ترازو رکھی جائے گی اس کے بھی دو پلڑے ہوں گے۔

20) حدیث میں اللہ تعالی کے لیے ’’وَجْهٌ‘‘کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کا معنی ’’چہرہ‘‘ ہے۔ یعنی اللہ تعالی کی اس صفت (چہرہ)پر ایمان لانا بھی ضروری ہے۔ البتہ ’’لَيْسَ كَمِثْلِه شَيْئٌ‘‘ (اس جیسی کوئی چیز نہیں۔) کی رو سے ہم اس کی کیفیت سمجھنے سے بیان کرنے سے قاصر ہیں۔

نوٹ:

(1) یعنی جو بندہ توحید کے اقرار و اعتراف میں جس قدر پختہ ہو وہ اسی قدر جنت میں داخل ہونے کا حق دار ہوتا ہے۔ اس کے اعمال خواہ کیسے ہی ہوں۔ اسی لیے امام محمد بن عبد الوہاب رحمۃ اللہ علیہ نے سورۃ الانعام کی مندرجہ بالا آیت بیان کی ہے۔

(2) ظلم کا معنی : اس آیت میں ’’ظلم‘‘سے مراد شرک ہے۔ جیسا کہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اس آیت کو اپنے لیے عظیم (بوجھ اور مشکل)سمجھا تو انہوں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ! ہم میں سے کون ہے جس نے اپنے اوپر ظلم نہ کیا ہو؟ آپ نے فرمایا: ’’اس کا وہ مفہوم نہیں جو تم سمجھتے ہو بلکہ یہاں ’’ظلم‘‘سے مراد ’’شرک‘‘ ہے۔ کیا تم نے اللہ کے نیک بندے (حضرت لقمان) کا یہ قول نہیں سنا:

(إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ (سورۃ لقمان31: 13))

’’بے شک شرک بہت بڑا ظلم یعنی گناہ ہے ‘‘۔

(صحیح بخاری، التفسیر، باب لاتشرک باللہ ان الشرک…..حدیث:4776)

لہذا اس باب کی مناسبت سے آیت کا ترجمہ یوں ہوا کہ:

’’جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اپنے ایمان کو شرک سے آلودہ نہیں کیا ان ہی کے لیے مکمل امن ہے اور وہی راہ راست پر ہیں۔‘‘پس جو شخص ایمان لایا یعنی اس نے توحید اختیار کی اور اس نے اپنے ایمان کو ظلم سے یعنی عقیدۂ توحید کو شرک سے آلودہ نہیں کیا اس کے لیے مکمل امن اور مکمل ہدایت ہے۔ لہذا بندہ جس قدر ظلم یعنی شرک کا مرتکب ہو کر توحید میں نقص پیدا کر لے گا، اس سے اسی قدر امن اور ہدایت مفقود ہو جائے گی۔

(3) یعنی وہ شخص عملی طور پر کتنا ہی کم تر کیوں نہ ہو اور اس کے نامۂ اعمال میں کتنے ہی گناہ کیوں نہ ہوں ، اللہ تعالی اسے بالآخر جنت میں ضرور داخل کرے گا۔ یہ اہل توحید کے لیے توحید کے ثمرات میں سے ایک ثمرہ ہے۔

(4) یہی جملہ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّه کلمہ توحید ہے۔ اس کلمہ کو اللہ تعالی کی رضا کے لیے زبان سے ادا کرنے اور اس کا دلی طور پر اقرار کرنے والا شخص جب اس کی شرائط اور لوازمات کو صحیح طور پر بجا لائے تو اللہ تعالی جسب وعدہ اس بندے پر جہنم کو حرام کر دیتا ہے۔ یہ اس کا بہت بڑا فضل ہے۔ البتہ جو شخص توحید کا اقرار کرے اور شرک سے بچ کر رہے مگر بتقاضائے بشریت اس سے بعض گناہ بھی سرزد ہو گئے ہوں اور وہ توبہ کیے بغیر فوت ہو جائے تو اس کا معاملہ اللہ تعالی کے سپرد ہے۔ وہ چاہے تو گناہوں کی پاداش میں عذاب دینے کے بعد اسے جہنم سے رہائی دے یا معاف کر دے اور اس پر ابتدائی سے جہنم کو حرام کر دے۔

(5) وجہ استدلال: اس حدیث سے وجہ استدلال یہ ہے کہ بالفرض کسی بندے کے گناہ سات آسمانوں ، سات زمینوں اور ان کے درمیان موجود تمام انسانوں اور فرشتوں کے وزن سے بھی بڑھ کر ہوں تو کلمۂ توحید لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّه کا پلڑا ان تمام گناہوں سے زیادہ وزنی اور بوجھل ہو گا۔ وہ حدیث جس میں لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّه والے پرزہ کا گناہوں کے طویل و عریض دفاتر سے زیادہ ہونے کا تذکرہ ہے اور پیش نظر باب میں مذکور حدیث انس رضی اللہ عنہ بھی اسی مفہوم پر دلالت کرتی ہیں۔ کلمۂ توحید کی یہ عظیم فضیلت اسی کے لیے ہے جس کے دل میں یہ کلمہ خوب راسخ ہو چکا ہو اور وہ خلوص دل سے اس کا اقرار اور اعتراف بھی کرتا ہو، اس کلمے کے تقاضوں کو اچھی طرح جاننے، سمجھنے، اور ان کی تصدیق کے ساتھ ساتھ ان کا دلی طور پر اعتقاد بھی رکھتا ہو، اور اسے اس کے تقاضوں سے ایسے دلی محبت بھی ہو کہ اس کا حقیقی اثر اور ان کا نور اس کے قلب پر خوب اثر انداز بھی ہو۔ پس جس شخص کا کلمۂ توحید اس معیار کا ہو گا تو اس کی برکت سے اس کے تمام گناہ ’’جل‘‘ (مٹ)جائیں گے۔

 

 

 

 

باب:2  توحید کے تمام تقاضوں کو پورا کرنے والا شخص بلا حساب جنت میں جائے گا (1)

 

اللہ تعالی کا ارشاد ہے :

(إِنَّ إِبْرَاهِيمَ كَانَ أُمَّۃ قَانِتًا لِلَّهِ حَنِيفًا وَلَمْ يَكُ مِنَ الْمُشْرِكِينَ (سورۃ النحل16: 120))

’’بے شک ابراہیم (علیہ السلام) لوگوں کے پیشوا، اللہ کے تابع فرمان اور یک سو تھے اور وہ مشرکین میں سے نہ تھے ‘‘۔ (2)

نیز اللہ تعالی کا فرمان ہے :

(وَالَّذِينَ هُمْ بِرَبِّهِمْ لَا يُشْرِكُونَ (سورۃ المؤمنون23: 59))

’’ (اور اہل ایمان وہ ہیں) جو اپنے رب کے ساتھ (کسی کو)شریک نہیں ٹھہراتے۔‘‘ (3)

حصین بن عبد الرحمن رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ میں ایک دفعہ سعید بن جبیر رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر تھا کہ انہوں نے کہا: تم میں سے کسی نے رات کو ٹوٹتا ہو تارا دیکھا تھا؟ میں نے کہا جی ہاں ، میں نے دیکھا تھا۔ پھر ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا کہ میں اس وقت نماز میں مشغول نہ تھا۔ بلکہ مجھے کسی زہریلی چیز نے ڈس لیا تھا۔

سعید بن جبیر رحمۃ اللہ علیہ نے پوچھا تو پھر تم نے کیا کیا؟ میں نے بتایا کہ میں نے دم کر لیا تھا۔ انہوں نے پھر دریافت کیا: تم نے ایسا کیوں کیا ؟ میں نے کہا کہ ہمیں شعبی نے ایک حدیث بیان کی ہے، اس کی بنا پر میں نے دم کر لیا۔ انہوں نے پھر پوچھا:شعبی نے تمہیں کون سی حدیث سنائی ہے ؟ میں نے جواب دیا کہ انہوں نے بریدہ حصیب رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث بیان کی ہے :

(لَا رُقْيَۃ إِلا مِنْ عَيْنٍ أَوْ حُمَۃ) (مسند احمد:1 / 271)

’’نظر بد اور کسی زہریلی چیز کے ڈسنے کے سوا کسی اور صورت میں دم (جائز)نہیں۔‘‘

یہ سن کر سعید بن جبیر رحمہ اللہ علیہ نے فرمایا: جس نے جو سنا اور پھر اس پر عمل کیا، اس نے بہت ہی اچھا کیا البتہ ہمیں ابن عباس رضی اللہ عنہ نے نبی کریم ﷺ کی یہ حدیث سنائی ہے، آپ نے فرمایا:

(عُرِضَتْ عَلَيَّ الْأُمَمُ، فَرَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَعَهُ الرُّهَيْطُ، وَالنَّبِيَّ وَمَعَهُ الرَّجُلُ وَالرَّجُلَانِ، وَالنَّبِيَّ لَيْسَ مَعَهُ أَحَدٌ، إِذْ رُفِعَ لِي سَوَادٌ عَظِيمٌ، فَظَنَنْتُ أَنَّهُمْ أُمَّتِي، فَقِيلَ لِي: هَذَا مُوسَى وَقَوْمُهُ، فَإِذَا سَوَادٌ عَظِيمٌ، فَقِيلَ لِي: هَذِهِ أُمَّتُكَ وَمَعَهُمْ سَبْعُونَ أَلْفًا يَدْخُلُونَ الْجَنَّۃ بِغَيْرِ حِسَابٍ وَلَا عَذَابٍ ثُمَّ نَهَضَ فَدَخَلَ مَنْزِلَهُ فَخَاضَ النَّاسُ فِي أُولَئِكَ فَقَالَ بَعْضُهُمْ: فَلَعَلَّهُمُ الَّذِينَ صَحِبُوا رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ بَعْضُهُمْ: فَلَعَلَّهُمُ الَّذِينَ وُلِدُوا فِي الْإِسْلَامِ فَلَمْ يُشْرِكُوا بِاللهِ شَيْئًا، وَذَكَرُوا أَشْيَاءَ فَخَرَجَ عَلَيْهِمْ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخْبَرُوهُ، فَقَالَ: هُمُ الَّذِينَ لَا يَسْتَرْقُونَ، وَلَا يَكْتَوُونَ وَلَا يَتَطَيَّرُونَ، وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ، فَقَامَ عُكَّاشَۃ بْنُ مِحْصَنٍ، فَقَالَ: ” ادْعُ اللهَ أَنْ يَجْعَلَنِي مِنْهُمْ، قَالَ: أَنْتَ مِنْهُمْ؟ ثُمَّ قَامَ رَجُلٌ آخَرُ، فَقَالَ: ادْعُ اللهَ أَنْ يَجْعَلَنِي مِنْهُمْ، فَقَالَ:سَبَقَكَ بِهَا عُكَّاشَۃ) (صحیح البخاری، الطب، باب من اکتوی او کوی غیره وفضل من لم یکتو، ح :5705 و صحیح مسلم، الایمان، باب الدلیل علی دخول طوائف من المسلمین الجنۃ، ح : 220، و اللفظ له)

’’میرے سامنے بہت سی امتیں پیش کی گئیں۔ میں نے دیکھا کہ کسی نبی کے ساتھ تو بہت بڑی جماعت ہے اور کسی کے ساتھ ایک دو آدمی ہیں۔ اور میں نے ایک نبی ایسا بھی دیکھا جس کے ساتھ ایک بھی امتی نہ تھا، اسی اثنا ء میں میرے سامنے ایک بہت بڑی جماعت نمودار ہوئی۔ میں نے سمجھا کہ یہ میری امت ہے۔ لیکن مجھے بتایا گیا کہ یہ موسی علیہ السلام اور ان کی امت ہے۔ پھر میں نے ایک اور بہت بڑی جماعت دیکھی۔ مجھے بتایا گیا کہ یہ آپ کی امت ہے۔ ان میں سے ستر ہزار آدمی بغیر حساب اور عذاب کے جنت میں جائیں گے۔ اتنا فرمانے کے بعد نبی کریم ﷺ اٹھ کر گھر تشریف لے گئے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ان خوش نصیب ستر ہزار افراد کے بارے میں قیاس آرائیاں کرنے لگے۔ بعض نے کہا شاید یہ وہ لوگ ہوں جو عہد اسلام میں پیدا ہوئے اور انہوں نے اللہ تعالی کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا۔ اس کے علاوہ بھی انہوں نے کچھ باتیں کیں۔ اتنے میں رسول اکرم ﷺ تشریف لے آئے تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آپ کو اپنی گفتگو اور آراء سے آگاہ کیا تو آپ نے فرمایا: ’’یہ وہ لوگ ہیں جو دم کراتے ہیں نہ علاج کی غرض سے اپنے جسم کو داغتے ہیں اور نہ فال نکالتے ہیں بلکہ وہ صرف اپنے پروردگار ہی پر توکل کرتے ہیں۔‘‘ یہ سن کر عکاشہ بن محصن رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور عرض کی اے اللہ کے رسول (ﷺ)!دعا فرمائیں کہ اللہ تعالی مجھے ان لوگوں میں سے بنائے۔ آپ نے فرمایا ’’تو ان میں سے ہے۔‘‘ اس کے بعد ایک اور شخص کھڑا ہوا۔ اس نے بھی درخواست کی : اے اللہ کے رسول (ﷺ)! میرے لیے بھی دعا فرمائیں کہ اللہ تعالی مجھے بھی ان میں سے بنائے۔ آپ نے فرمایا ’’اس دعا میں عکاشہ تم پر سبقت لے گیا۔‘‘ (4)

 

مسائل:

1) توحید کے بارے میں لوگوں کے درجات و مراتب مختلف ہیں۔

2) توحید کے تقاضے پورے کرنے کا مفہوم بھی واضح ہوا۔

3) اللہ تعالی نے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی مدح میں فرمایا: ’’وہ مشرکین میں سے نہ تھے۔‘‘

4) اللہ تعالی نے اس بات پر اولیاء کرام کی بھی مدح فرمائی ہے کہ وہ شرک سے بے زار ہوتے ہیں۔

5) دم اور جسم داغنے کے طریق علاج کو ترک کرنا، توحید کے تقاضوں کو پورا کرنا ہے۔

6) ان اوصاف کا احاطہ کرنا ہی در حقیقت توکل ہے۔

7) صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے علم کی گہرائی اور ان کی حقیقت پسندی کا بھی پتہ چلتا ہے۔ وہ یہ سمجھتے تھے کہ بلا حساب جنت میں جانے والوں کو یہ بلند مقام اور مرتبہ محض عمل کی بدولت حاصل ہو گا۔

8) یہ بھی واضح ہوا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم خیر اور نیکی کے کاموں پر کس قدر حریص تھے۔

9) امت محمدیہ درجات کی بلندی اور کثرت تعداد کے لحاظ سے تمام امتوں سے افضل اور برتر ہے۔

10) موسی علیہ السلام اور ان کی امت کی فضیلت بھی عیاں ہو رہی ہے۔

11) نبی کریم ﷺ کے سامنے تمام امتیں پیش کی گئیں۔

12) ہر امت کو اپنے نبی کے ساتھ الگ اٹھایا جائے گا۔

13) انبیاء کی دعوت کو بالعموم بہت تھوڑے لوگوں نے قبول کیا۔

14) جس نبی پر ایک بھی شخص ایمان نہ لایا وہ قیامت کے دن اکیلا ہی آئے گا۔

15) کثرت تعداد پر مغرور اور قلت تعداد پر پریشان نہیں ہونا چاہیے کیونکہ قلت یا کثرت معیار حق نہیں۔

16) نظر بد اور زہریلی چیز کے ڈسنے سے دم کرنا جائز ہے۔

17) سعید بن جبیر رحمۃ اللہ علیہ کے قول (قَدْ أَحْسَنَ مَنِ انْتَهَى إِلَى مَا سَمِعَ) (جس نے اپنی شنید کے مطابق عمل کیا اس نے اچھا کیا) سے سلف صالحین کے علم کی گہرائی کا پتہ چلتا ہے۔ نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ پہلی حدیث دوسری حدیث کے خلاف نہیں۔

18) سلف صالحین، بے جا تعریف و ستائش سے پرہیز کیا کرتے تھے۔

19) رسول اللہ ﷺ نے عکاشہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا ’’أَنْتَ مِنْهُمْ‘‘ کہ تو ان میں سے ہے۔‘‘ آپ کا یہ قول آپ کے صدق اور نبوت کے دلائل میں سے ایک دلیل ہے۔

20) عکاشہ رضی اللہ عنہ کی فضیلت بھی ثابت ہوتی ہے۔

21) بوقت ضرورت تصریح کی بجائے اشارہ و کنایہ میں گفتگو کرنا جائز ہے۔ آپ نے عکاشہ کے بعد دوسرے آدمی سے صاف نہیں فرمایا کہ تو ان میں سے نہیں بلکہ یہ فرمایا کہ ’’تم پر عکاشہ سبقت لے گیا۔‘‘

22) عکاشہ رضی کے بعد دعا کی درخواست کرنے والے دوسرے آدمی کو بڑے احسن انداز کے ساتھ بٹھا دینے اور خاموش کرا دینے سے یہ بھی معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ انتہائی اعلی اور احسن اخلاق کے مالک تھے۔

 

نوٹ:

(1) گزشتہ باب میں توحید کی فضیلت بیان ہوئی تھی۔ یہ باب اس سے بھی رفیع اور بلند تر ہے کیونکہ توحید کی فضیلت میں تو تمام اہل توحید مشترک ہیں۔ لیکن اس امت میں برگزیدہ لوگ وہی ہیں جنہوں نے توحید کے تقاضوں کو پورا کرنا ہی اس باب کا مقصود ہے۔

(2) اس آیت سے ثابت ہو رہا ہے کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام توحید کے تقاضوں کو پورا کرنے والے تھے۔

وجہ استدلال : اس آیت سے یہ ہے کہ اللہ تعالی نے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی متعدد صفات بیان کی ہیں۔

(الف) یہ کہ اللہ تعالی نے انہیں ’’امت‘‘ قرار دیا ہے۔ جب کسی اکیلے فرد کو ’’امت‘‘ کہا جائے تو اس سے ایسا امام اور قائد مراد ہوتا ہے جو تمام انسانی اوصاف و کمالات اور جملہ اوصاف حسنہ کا حامل ہو۔ اس کا مطلب ہے کہ کوئی ایسا اچھا و صف نہیں جو ابراہیم علیہ السلام میں نہ تھا۔ توحید کے تقاضوں کو پورا کرنے کا بھی یہی مفہوم ہے۔

(ب) اس آیت میں اللہ تعالی نے ابراہیم علیہ السلام کو ’’قَانِتًا لله‘‘ یعنی اپنا تابع فرماں قرار دیا ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ اللہ تعالی کے دائمی عبادت گزار اور عقیدۂ توحید کے ایک تقاضے پر پوری طرح کار بند تھے۔

(ج) نیز اللہ تعال نے ابراہیم علیہ السلام کا ایک وصف ’’حنيف‘‘ بھی بیان کیا ہے۔ یعنی وہ مشرکین کے غلط عقائد و نظریات اور ان کے طور اطوار سے مکمل طور پر گریزاں اور اللہ تعالی کی طرف یک سو تھے کیونکہ مشرکین کے نظریات، شرک و بدعت اور معصیت سے لبریز تھے اور ان میں اللہ تعالی کی طرف انابت، توجہ اور استغفار نام کو بھی نہ تھے۔

(د) نیز اللہ تعالی نے فرمایا کہ ابراہیم علیہ السلام مشرکین میں سے نہ تھے یعنی وہ کسی بھی قسم کا شرک نہیں کرتے تھے بلکہ وہ اس سے دور رہتے تھے اور ان کا مشرکین سے کوئی تعلق نہ تھا۔ مصنف (الشیخ محمد بن عبد الوہاب)کے ذہن میں مذکورہ تمام معانی موجود تھے، اس لیے انہوں نے پیش نظر باب میں آیت کا ذکر کیا ہے۔

(3) اس آیت میں بھی شرک کی نفی اور انکار ہے کیونکہ قاعدہ ہے کہ جب فعل مضارع پر حرف نفی آئے تو اس سے اس فعل کے مصدر کی عمومی نفی مراد ہوتی ہے۔ گویا اللہ تعالی نے فرمایا یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے رب کے ساتھ شرک اکبر کرتے ہیں نہ شرک اصغر اور نہ شرک خفی۔ یعنی یہ اللہ تعالی کے ساتھ کسی قسم کا شرک نہیں کرتے۔ جو شخص شرک نہ کرے وہ موحد ہوتا ہے۔ اہل علم فرماتے ہیں اس آیت میں ’’بِرَبِهِّمْ‘‘ کی تقدیم اس لیے ہے کہ ربوبیت عبودیت کو مستلزم اور انہی لوگوں کی صفت ہے جنہوں نے توحید کے تمام تقاضوں کو پورا کیا۔ شرک نہ کرنے کا ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ انسان اپنی خواہشات کو بھی اللہ کا شریک نہ بنائے کیونکہ جو شخص خواہشات نفس کو اللہ تعالی کا شریک بنا لیتا ہے وہ بدعات پر عمل کرنے لگتا ہے، یا کم از کم معصیت کا مرتکب ضرور ہوتا ہے۔ لہذا شرک کی نفی سے شرک کی تمام اقسام نیز بدعت اور معصیت کی بھی نفی ہو جاتی ہے۔ اللہ تعالی کی توحید کے تقاضے پورے کرنے کا یہی مفہوم ہے۔

(4) پیش نظر حدیث کا یہ مفہوم قطعاً نہیں کہ موحدین اسباب سے انکاری ہیں یا وہ اسباب کو بالکل اختیار نہیں کرتے۔ جیسا کہ بعض لوگوں کو غلط فہمی ہوئی اور انہوں نے اس حدیث سے یہ مفہوم اخذ کیا کہ توحید کا اعلی درجہ یہ ہے کہ انسان کوئی ذریعہ یا سبب اختیار ہی نہ کرے اور بیمار ہونے کی صورت میں کوئی دوا بھی استعمال نہ کرے۔ یہ مفہوم سراسر غلط ہے کیونکہ رسول اکرم ﷺ کو بھی دم کیا گیا، اور آپ خود بھی دم کیا کرتے تھے، آپ نے خود بھی علاج معالجہ کیا اور امت کو علاج معالجہ اور دوا استعمال کرنے کی اجازت دی۔ نیز آپ نے ایک صحابی کو زخم داغنے کا بھی حکم دیا تھا۔لہذا اس حدیث کا یہ مفہوم قطعاً نہیں کہ بغیر حساب جنت میں جانے والے لوگ اسباب اختیار نہیں کرتے یا وہ علاج معالجہ نہیں کرتے۔ بلکہ اس حدیث میں ان تین امور (دم کرانے، داغنے اور فال نکالنے) کا خصوصیت سے اس لیے ذکر کیا گیا ہے کہ عام طور پر انسان کا دل دم کرنے والے یا داغنے والے کی طرف یا فال نکالنے کی طرف متوجہ رہتا ہے جس سے اللہ تعالی پر توکل میں کمی آ جاتی ہے۔ واضح رہے کہ علاج معالجہ کرنا مشروع ہے۔اس کی مختلف صورتیں ہوسکتی ہیں ، یہ کبھی تو واجب ہوتا ہے اور کبھی محض مستحب اور بسا اوقات علاج معالجہ کرنا مباح ہی ہوتا ہے۔ نبی ﷺ کا ارشاد گرامی ہے :

(تَدَاوَوْا عِبَادَ اللهِ وَلاَ تَتَدَاوَوْا بِحَرَامٍ)

’’اللہ کے بندو!علاج معالجہ کیا کرو البتہ حرام اشیاء کو بطور دوا ستعمال نہ کرو۔‘‘

 

 

 

باب:3 شرک سے ڈرنے کا بیان (1)

 

 

اللہ تعالی کا ارشاد ہے :

(إِنَّ اللَّهَ لَا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَنْ يَشَاءُ (سورۃ النساء4: 48))

’’بے شک اللہ اس (گناہ)کو نہیں بخشے گاکہ (کسی کو)اس کا شریک ٹھہرایا جائے اور اس کے علاوہ دوسرے گناہ جسے چاہے معاف کر دے گا۔‘‘ (2)

ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا:

(وَاجْنُبْنِي وَبَنِيَّ أَنْ نَعْبُدَ الْأَصْنَامَ (سورۃ إبراهيم14: 35))

’’اے میرے رب! مجھے اور میری اولاد کو بتوں کی عبادت سے بچانا‘‘۔ (3)

 

حدیث شریف میں ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایا:

(أَخْوَفُ مَا أَخَافُ عَلَيَكُمُ الشِّرْكُ الأَصْغَرُ. فَسُئِلَ عَنْهُ؟ فَقَالَ: الرِّيَاءُ) (مسند احمد:5 / 428، 429 و مجمع الزوائد:1 / 102 و معجم الکبیر للطبرانی، ح: 4301 بزيادۃ إِنَّ في أوله)

’’مجھے تمہارے بارے میں سب سے زیادہ ڈر ’’شرک اصغر‘‘ کا ہے۔ پوچھا گیا کہ شرک اصغر کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا: دکھلاوا (ریاکاری)۔‘‘ (4)

عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(مَنْ مَاتَ وَهْوَ يَدْعُو مِنْ دُونِ اللَّهِ نِدًّا دَخَلَ النَّارَ) (صحیح البخاری، التفسیر، باب قوله تعالی (وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَتَّخِذُ مِنْ دُونِ اللَّهِ أَنْدَادًا) ح:4497)

’’جس آدمی کو اس حال میں موت آئے کہ وہ اللہ تعالی کے ساتھ کسی دوسرے کو اللہ کا شریک ٹھہرا کر پکارتا ہو تو وہ جہنم میں جائے گا۔‘‘ (5)

صحیح مسلم میں جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(مَنْ لَقِيَ اللهَ لَا يُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا دَخَلَ الْجَنَّۃ، وَمَنْ لَقِيَهُ يُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا دَخَلَ النَّارَ) (صحیح مسلم، الایمان، باب الدلیل علی من مات لا یشرک بالله شیئا دخل الجنۃ و ان من مات مشرکا دخل النار، ح:93)

’’جو کوئی اس حال میں اللہ تعالی سے جا ملے (یعنی فوت ہو)کہ وہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرتا ہو تو وہ جنت میں جائے گا اور جو اس حال میں اس سے جا ملے (یعنی فوت ہو)کہ وہ اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراتا ہو تو وہ جہنم میں جائے گا۔‘‘ (6)

 

مسائل:

1) انسان کو ہر وقت شرک سے ڈرتے اور بچ کر رہنا چاہئے۔

2) ریا کاری بھی شرک کی ایک قسم ہے۔

3) ریا کاری ’’شرک اصغر‘‘ ہے۔

4) نیک لوگوں پر باقی گناہوں کی نسبت ’’ریا کاری‘‘ کا اندیشہ زیادہ ہے۔

5) جنت اور جہنم (انسان کے)قریب ہیں۔

6) اس ایک ہی حدیث میں جنت اور جہنم کے قریب ہونے کا اکٹھے ذکر کیا گیا ہے۔

7) شرک نہ کرنے والا آدمی جنت میں ضرور جائے گا اور جسے شرک کی حالت میں موت آئی وہ جنت میں نہیں جا سکتا بلکہ وہ جہنم میں جائے گا اگرچہ وہ بہت بڑا عابد اور زاہد ہی کیوں نہ ہو۔

8) ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام نے اپنے لیے اور اپنی اولاد کے لیے بتوں کی عبادت سے محفوظ رہنے کی دعا کی۔ ہمیں بھی شک سے بچنے کی دعا کرنی چاہئے۔

9) سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے (رَبِّ إِنَّهُنَّ أَضْلَلْنَ كَثِيرًا مِنَ النَّاسِ (سورۃ إبراهيم14: 36))

’’اے میرے پروردگار! ان بتوں نے بہت سے لوگوں کو گمراہ کر دیا ہے۔‘‘ کہہ کر اکثریت کی حالت سے عبرت حاصل کی اور دعا کی کہ اے میرے پروردگار! مجھے اور میری اولاد کو بت پرستی سے بچانا۔

10) امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے بیان کے مطابق ان احادیث سے کلمہ ’’لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّه‘‘ کی تفسیر بھی ہو رہی ہے۔

11) شرک سے محفوظ رہنے والوں کی فضیلت اور شرک کرنے والوں کی ہلاکت ثابت ہوتی ہے۔

 

نوٹ:

(1) موحدین، توحید کے تقاضے پورے کرنے کے ساتھ ساتھ شرک سے ڈرتے رہتے ہیں اور جو آدمی شرک سے ڈرتا ہو وہ اس کے مفہوم اور اس کی اقسام کو پہچان کر اس سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے تاکہ وہ چھوٹے یا بڑے کسی قسم کے شرک میں مبتلا نہ ہو جائے۔

(2) بعض اہل علم نے فرمایا ہے کہ اس آیت میں شرک اکبر، شرک اصغر اور شرک خفی یعنی تمام اقسام شرک کی نفی کی گئی ہے۔ شرک کوئی سا بھی ہو، اللہ تعالی اسے توبہ کے بغیر معاف نہیں کرے گا۔

اس لیے کہ یہ سب سے بڑا گناہ ہے۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالی ہی اس مخلوق کا خالق، رازق، سب کچھ عطا فرمانے والا اور ہر قسم کے انعام سے نوازنے والا ہے تو انسان کا دل اس کی طرف سے اعراض کر کے غیروں کی طرف کیوں توجہ کرے ؟ شیخ الاسلام ابن تیمیہ، ابن قیم، امام محمد بن عبد الوہاب رحمۃ اللہ علیہم اور اکثر علماء دعوت توحید کا یہی موقف ہے۔چونکہ شرک اپنی تمام اقسام سمیت ناقابل معافی ہے اس لیے اس سے بہت زیادہ ڈرنا چاہئے۔

ریاکاری، غیر اللہ کی قسم اٹھانا، گلے میں کوئی چیز بطور تعویذ ڈالنا، چھلے پہننا، دھاگے باندھنا یا اللہ تعالی کی نعمتوں کو غیر اللہ کی طرف منسوب کرنا یہ تمام امور شرک ہونے کی بنا پر ناقابل معافی ہیں۔ لہذا ان تمام کاموں سے اور بالخصوص شرک اکبر سے ڈرتے اور بچ کر رہنا چاہئے۔ اور چونکہ شرک انسان کے دل میں پیدا ہوتا ہے اس لیے انسان کو چاہئے کہ وہ شرک کی تمام انواع و اقسام سے خوب واقفیت رکھے تاکہ شرک میں ملوث ہونے سے محفوظ رہ سکے۔ اس کے بعد شیخ محمد بن عبد الوہاب رحمۃ اللہ علیہ نے وہ آیت بیان کی ہے جس میں سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی دعا مذکور ہے۔

(3) جو لوگ عقیدہ توحید اور اس کی نزاکت کو خوب سمجھتے ہیں وہ شرک اور اس کے اسباب و ذرائع سے ڈرتے رہتے ہیں۔

اصنام:صنم کی جمع ہے۔ اللہ کے سوا جس کی عبادت اور پوجا کی جا رہی ہواس کی تصویر اور مجسمے کو صنم کہتے ہیں ، خواہ اس کی شکل کسی انسان کے چہرے جیسی ہو یا کسی حیوان کے جسم یا سر، یا سورج اور چاند جیسی۔

وثن:اللہ تعالی کو چھوڑ کر جس چیز کی عبادت کی جائے وہ وثن ہے، خواہ کسی تصویر یا مجسمے کی شکل میں ہو جیسے صنم یا تصویر کی شکل میں نہیں بلکہ کوئی اور چیز ہو جیسے قبر وغیرہ۔

(4) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم)کو سب سے زیادہ خوف اور ڈر، ریا سے کیوں تھا؟ اس کے برے اثر اور نتیجے کی بناء پر کہ یہ ناقابل معافی گناہ ہے اور اس لیے بھی کہ اس سے اکثر لوگ غافل رہتے ہیں۔ اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی امت کے متعلق اس گناہ کا زیادہ اندیشہ تھا۔

ریاء کی دو قسمیں ہیں۔

(الف) ایک تو منافق کی ریا اور دکھلاوا ہے جس کا تعلق اصل دین کے ساتھ ہے یعنی وہ لوگوں کو دکھانے کے لیے اسلام کا اظہار کرتا ہے جبکہ باطن میں کفر چھپائے ہوتا ہے۔

جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے :

(يُرَاءُونَ النَّاسَ وَلَا يَذْكُرُونَ اللَّهَ إِلَّا قَلِيلًا (سورۃ النساء4: 142))

’’یہ (منافقین)لوگوں کے لیے دکھلاوا کرتے ہیں اور اللہ تعالی کو تو بہت تھوڑا یاد کرتے ہیں ‘‘

(ب) دوسری، مسلمان موحد کی ریا ء ہے۔ جیسا کہ کوئی لوگوں کو دکھانے یا ان میں شہرت حاصل کرنے کے لیے خوب بنا سنوار کر نماز ادا کرے اور یہ شرک اصغر ہے۔

(5) کسی کو اللہ تعالی کا شریک ٹھہرانا اور پھر اسے پکارنا ’’شرک اکبر‘‘ ہے۔ کیونکہ دعا یعنی پکارنا محض ایک عام سی عبادت نہیں بلکہ عظیم ترین عبادت ہے۔ جیسا کہ ایک صحیح حدیث میں آیا ہے ’’الدُّعَاءُ هُوَ الْعِبَادَۃ‘‘ ’’دعا یعنی پکارنا ہی اصل عبادت ہے۔‘‘

اگر کوئی اس حال میں مرا کہ وہ اللہ تعالی کے سوا کسی دوسرے کو پکارتا اور کسی کو اللہ تعالی کا شریک ٹھہراتا تھا تو وہ جہنم کا حق دار ہو گا اور وہ کافروں کی طرح ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں رہے گا۔ کیونکہ شرک اکبر کا ارتکاب جب مسلمان سے ہو تو اس کے تمام اعمال برباد اور نیکیاں ضائع ہو جاتی ہیں۔ جیسا کہ اللہ اللہ تعالی نے فرمایا:

(وَلَقَدْ أُوحِيَ إِلَيْكَ وَإِلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكَ لَئِنْ أَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ (سورۃ الزمر39: 65))

’’ (اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم!) آپ کی طرف اور آپ سے پہلے انبیاء کی طرف یہ وحی کی گئی ہے کہ اگر آپ نے شرک کیا تو آپ کے (نیک)اعمال ضائع ہو جائیں گے اور آپ خسارہ پانے والوں میں سے ہوں گے۔‘‘

علماء تفسیر اور محققین اہل علم کے نزدیک لفظ ’’‘‘میں دونوں طرح کے شخص شامل ہیں۔ ایک وہ جو اللہ تعالی کو پکارنے کے ساتھ ساتھ غیر اللہ کو بھی پکارتا ہے اور دوسرا وہ جو محض غیر اللہ کو پکارتا اور مستقل طور پر اسی کی طرف توجہ اور میلان رکھتا ہے۔

(6) یعنی جو شخص اللہ تعالی کے ساتھ کسی قسم کا شرک نہ کرے اور اللہ تعالی کو چھوڑ کر کسی فرشتے، نبی، کسی صالح شخصیت یا جن وغیرہ کی طرف رجوع نہ کرے، اس کے لیے اللہ تعالی کا وعدہ اور ضمانت ہے کہ وہ اسے اپنی رحمت اور فضل سے جنت میں داخل فرمائے گا اور جو شخص کسی بھی قسم کے شرک کا مرتکب ہو، شرک اکبر ہو یا اصغر یا شرک خفی، وہ جہنم میں جائے گا۔

یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ مشرک کو جہنم میں ہمیشہ کے لیے بھیجا جائے گا یا عارضی طور پر کچھ عرصہ کے لیے؟

اس کا جواب یہ ہے کہ اس کا تعلق شرک کی نوعیت سے ہے۔ جو شخص شرک اکبر کا مرتکب ہو اور وہ توبہ کیے بغیر مرجائے تو ہمیشہ کے لیے جہنم میں جائے گا اور اسے کبھی بھی جہنم سے نکالا نہیں جائے گا۔ اور اگر شرک اکبر نہ ہو بلکہ شرک اصغر یا شرک خفی ہو تو ایسے شخص کے لیے جہنم کی وعید ہے۔ جب تک اللہ تعالی کو منظور ہو گا وہ جہنم میں رہے گا۔ بعد ازاں جب اللہ تعالی چاہے گا تو اسے جہنم سے رہائی مل جائے گی کیونکہ ایسا شخص بنیادی طور پر موحد ہے۔

 

 

باب:4 ’’لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّه‘‘ کی طرف دعوت دینا (1)

 

اللہ تعالی کا ارشاد ہے :

(قُلْ هَذِهِ سَبِيلِي أَدْعُو إِلَى اللَّهِ عَلَى بَصِيرَۃ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي وَسُبْحَانَ اللَّهِ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ (سورۃ يوسف12: 108))

’’ (اے محمد ﷺ)آپ کہہ دیں کہ میرا اور میرے پیروکاروں کا داستہ تو یہ ہے کہ ہم سب پورے اعتماد اور یقین کے ساتھ اللہ کی طرف بلاتے ہیں اور اللہ ہر عیب سے پاک ہے اور میرا مشرکین سے کچھ واسطہ نہیں ‘‘۔ (2)

 

عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، رسول اللہﷺ نے معاذ رضی اللہ عنہ کو یمن کی طرف روانہ کرتے ہوئے فرمایا:

(إِنَّكَ تَأْتِي قَوْمًا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ، فَلْيَكُنْ أَوَّلَ مَا تَدْعُوهُمْ إِلَيْهِ شَهَادَۃ أَنَّ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَفِي رِوَايَۃ: إِلى أَنْ يُّوَحِّدُوا اللهَ  فَإِنْ هُمْ أَطَاعُوا لِذَلِكَ، فَأَعْلِمْهُمْ أَنَّ اللهَ افْتَرَضَ عَلَيْهِمْ خَمْسَ صَلَوَاتٍ فِي كُلِّ يَوْمٍ وَلَيْلَۃ، فَإِنْ هُمْ أَطَاعُوا لِذَلِكَ، فَأَعْلِمْهُمْ أَنَّ اللهَ افْتَرَضَ عَلَيْهِمْ صَدَقَۃ تُؤْخَذُ مِنْ أَغْنِيَائِهِمْ فَتُرَدُّ عَلى فُقَرَائِهِمْ، فَإِنْ هُمْ أَطَاعُوا لِذَلِكَ، فَإِيَّاكَ وَكَرَائِمَ أَمْوَالِهِمْ، وَاتَّقِ دَعْوَۃ الْمَظْلُومِ، فَإِنَّهُ لَيْسَ بَيْنَهَا وَبَيْنَ اللهِ حِجَابٌ) (صحیح البخاری، الزکاۃ، باب لا توخذ کرائم اموال الناس فی الصدقۃ، ح: 1458، 1496، 2448، 4347، 7372 وصحیح مسلم، الایمان، باب الدعاء الی الشھادتین وشرائع الاسلام، ح:19)

’’تم اہل کتاب کی ایک قوم کے پاس جا رہے ہو۔ تم انہیں سب سے پہلے اس بات کی گواہی کی طرف دعوت دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود (بر حق)نہیں۔ دوسری روایت میں ہے کہ تم انہیں سب سے پہلے اس بات کی دعوت دینا کہ وہ اللہ تعالی کی توحید کا اقرار کر لیں۔ اگر وہ تمہاری یہ بات مان لیں تو انہیں بتلانا کہ اللہ تعالی نے ان پر دن اور رات میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں۔ پس اگر وہ تمہاری یہ بات بھی مان جائیں تو پھر انہیں بتلانا کہ اللہ تعالی نے ان پر زکوٰۃ فرض کی ہے جو اصحاب ثروت سے وصول کر کے فقراء اور غرباء میں تقسیم کی جائے گی۔ پس اگر وہ تمہاری یہ بات بھی مان جائیں تو ان کے عہدہ اور قیمتی اموال لینے سے احتیاط کرنا اور مظلوم کی بد دعا سے بچنا کیونکہ اس کے اور اللہ تعالی کے درمیان کوئی حجاب نہیں۔‘‘ (3)

سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ خیبر کے دن رسول اللہﷺ نے فرمایا:

(لأعطين الرايۃ غداً رجلاً يحب الله ورسوله، ويحبه الله ورسوله، يفتح الله على يديه. فبات الناس يدوكون ليلتهم أيهم يعطاها. فلما أصبحوا غدوا على رسول الله صلى الله عليه وسلم كلهم يرجو أن يعطاها. فقال: (أين علي بن أبي طالب؟) فقيل: هو يشتكي عينيه، فأرسلوا إليه، فأتى به فبصق في عينيه، ودعا له، فبرأ كأن لم يكن به وجع، فأعطاه الرايۃ فقال: «انفذ على رسلك حتى تنزل بساحتهم، ثم ادعهم إلى الإسلام وأخبرهم بما يجب عليهم من حق الله تعالى فيه، فوالله لأن يهدي الله بك رجلاً واحداً، خير لك من حمر النعم) (صحیح بخاری، فضائل اصحاب النبی ﷺ ، باب مناقب علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ، ج:3701 و صحیح مسلم، فضائل الصحابۃ، باب علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ح:2406)

’’کل میں یہ پرچم ایک ایسے شخص کو دوں گا جسے اللہ تعالی اور اس کے رسولﷺ سے محبت ہے اور اللہ تعالی اور اس کا رسول ﷺ بھی اس سے محبت رکھتے ہیں ، اس کے ہاتھوں اللہ تعالی فتح و نصرت عطا فرمائے گا۔ چنانچہ صحابہ کرام رات بھر قیاس آرائیاں کرتے رہے کہ پرچم کس کو دیا جا سکتا ہے۔ صبح ہوئی تو تمام صحابہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پہنچ گئے۔ ہر ایک کی یہی خواہش اور امید تھی کہ پرچم اسے ہی ملے گا۔ تب رسول اللہﷺ نے دریافت فرمایا: علی بن ابی طالب کہاں ہیں ؟ بتایاگیا کہ ان کی تو آنکھیں دکھتی ہیں۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بلوا بھیجا تو رسول اللہﷺ نے ان کی آنکھوں مین اپنا لعاب مبارک ڈالا اور دعا فرمائی۔

چنانچہ علی رضی اللہ عنہ مکمل طور پر یوں شفا یاب ہو گئے گویا انہیں کچھ بھی تکلیف نہ تھی۔ آپ نے پرچم حضرت علی رضی اللہ عنہ کو تھما دیا اور فرمایا تیاری کر کے ابھی روانہ ہو جاؤ اور سیدھے ان کے میدان میں جا اترو۔ پھر سب سے پہلے انہیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دینا اور اللہ تعالی کے جو حقوق، اسلام میں ، ان پر عائد ہوتے ہیں ، وہ انہیں بتلانا۔ اللہ کی قسم! اگر اللہ تعالی تمہاری بدولت ایک آدمی کو بھی ہدایت دے دے تو (یہ سعادت) تمہارے لیے سرخ اونٹوں سے کہیں بہتر (انتہائی قیقی)ہے۔‘‘ (4)

 

مسائل:

1) رسول اکرم ﷺ کے متبعین کا انداز تبلیغ یہ ہے کہ وہ دوسروں کو بھی اللہ کے دین کی دعوت دیتے ہیں۔

2) اخلاص نیت کی بھی ترغیب ہے کیونکہ اکثر لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ ’’دعوت الی الحق‘‘ لے کر اٹھیں بھی تو اس میں مخلص نہیں ہوتے بلکہ وہ لوگوں کو بالعموم اپنی ذات کی طرف بلاتے ہیں۔

3) دعوت کے کاموں میں بصیرت سے کام لینا ضروری ہے۔

4) توحید کا ایک تقاضا یہ بھی ہے کہ اللہ تعالی کو ہر عیب اور نقص سے پاک تسلیم کیا جائے۔

5) شرک کی ایک قباحت یہ بھی ہے کہ یہ اللہ تعالی کے بارے میں گالی ہے۔

6) اس باب کا ایک اہم ترین مسئلہ یہ بھی ہے کہ مسلمان کو مشرکین سے الگ تھلگ اور دور رہنا چاہئے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ شرک نہ کرنے کے باوجود ان کے ساتھ میل جول کی بنا پر ان کا ساتھی بن جائے۔

7) واجبات دین میں توحید اولین واجب مسئلہ ہے۔

8) نماز اور دیگر احکام دین سے پہلے توحید کی تبلیغ کی جائے۔

9) رسول اللہ ﷺ کے فرمان ’’اَنْ يُّوَحِّدُوا اللهَ‘‘ اور کلمہ ’’لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّه‘‘ کی شہادت دونوں کا ایک ہی معنی و مفہوم ہے۔

10) کچھ لوگ اہل کتاب ہونے کے باوجود عقیدۂ توحید سے کما حقہ باخبر نہیں ہوتے یا جاننے کے باوجود اس پر عمل نہیں کرتے۔

11) یہ آگاہی بھی ہوئی کہ دین کی تعلیم تدریجاً دینی چاہئے۔

12) مراحل تبلیغ میں اہمیت کے مطابق مسائل بیان کئے جائیں۔

13) زکوٰۃ کے مصرف کا بھی بیان ہے۔

14) معلم کا فرض ہے کہ وہ متعلم کے شبہات کو بھی دور کرے۔

15) زکوٰۃ وصول کرتے وقت عمدہ اور قیمتی مال لینا منع ہے۔

17) مظلوم کی آہ و بد دعا اور اللہ تعالی کے درمیان کوئی حجاب نہیں۔

18) سید المرسلین محمد رسول اللہ ﷺ ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور اولیاء کرام پر مشقتوں ، بھوک اور تکالیف کا گزرنا بھی توحید کی ایک بہت بڑی دلیل ہے۔

19) رسول اکرمﷺ کا یہ ارشاد کہ ’’میں کل یہ پرچم ایسے شخص کو دوں گا جسے اللہ تعالی اور اس کے رسول سے محبت ہے اور اللہ تعالی اور اس کا رسول بھی اس سے محبت کرتے ہیں۔‘‘ آپ کی علامات نبوت میں سے ہے۔

20) نبی ﷺ کا علی رضی اللہ عنہ کی آنکھ میں لعاب ڈالنا اور ان کا فورا صحت یاب ہو جانا بھی آپ کی علامات نبوت میں سے ہے۔

21) علی رضی اللہ عنہ کی فضیلت بھی ظاہر ہے۔

22) صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی عظمت اور فضیلت بھی واضح ہے کہ وہ ساری رات یہ سوچتے رہے کہ صبح یہ پرچم کس خوش نصیب کو ملنے والا ہے۔ اور اس سوچ میں وہ فتح کی بشارت بھول گئے۔ (گویا ان کے نزدیک اللہ تعالی اور اس کے رسولﷺ کی خصوصی محبت کا اعزاز فتح کی بشارت سے زیادہ عزیز تھا۔)

23) ’’ایمان بالقدر‘‘ بھی ثابت ہوتا ہے کہ پرچم ایسے آدمی کو ملا جس نے اس کے حصول کی خواہش یا کوشش نہیں کی بلکہ کوشش کرنے والے اور خواہش رکھنے والے اسے حاصل نہ کر سکے۔

24) رسول اللہ ﷺ کا علی رضی اللہ عنہ سے فرمانا ’’عَلى رِسْلِكَ‘‘ (کہ سیدھے جاؤ)اس میں آداب جنگ کی تعلیم ہے۔

25) جنگ سے پیشتر کفار کو اسلام کی دعوت دینی چاہئے۔

26) لوگوں سے اولین خطاب ہو یا قبل ازیں جنگ ہو چکی ہو یا دعوت دی جاچکی ہو، ہر صورت میں جنگ سے قبل اسلام کی دعوت دینا مشروع ہے۔

27) رسول اللہﷺ کا فرمان کہ ان پر اللہ تعالی کے جو حقوق عائد ہیں وہ انہیں بتلانا، اس سے معلوم ہوا کہ اسلام کی دعوت حکمت اور دانائی کے ساتھ پیش کرنی چاہئے۔

28) ایک مسلمان کو اسلام میں مقرر کردہ اللہ تعالی کے حقوق سے روشناس ہونا چاہئے تاکہ وہ دوسروں کو بھی تعلیم دے سکے۔

29) معلوم ہوا کہ جس کسی کے ہاتھوں ایک بھی آدمی ہدایت پا جائے اس کے لیے بڑا ثواب اور بڑی عظمت ہے۔

30) فتوی پر قسم اٹھانا جائز ہے۔

 

نوٹ:

(1) شیخ (محمد بن عبد الوہاب رحمۃ اللہ علیہ)نے یہ باب اس بات کو ثابت کرنے کے لیے قائم کیا ہے کہ توحید کی تکمیل اور شرک سے بچنے کا ایک تقاضا یہ بھی ہے کہ دوسروں کو توحید کی دعوت دی جائے۔ اللہ کی توحید کی گواہی کا بھی یہی مطلب ہے۔ کیونکہ کسی بات کا دل میں اعتقاد رکھنا، زبان سے اس کا اقرار کرنا اور اس سے دوسروں کو مطلع کرنا یہ سب امور گواہی میں شامل ہوتے ہیں۔ توحید کی طرف دعوت دینے سے مقصود، اس کی تمام تفصیلات اور اقسام کی طرف بلانا، سمجھنا اور شرک کی توضیح کر کے اس کی تمام انواع سے باز رہنے کی دعوت دینا ہے اور یہ ایک انتہائی اہم کام ہے۔ امام محمد بن عبد الوہاب رحمۃ اللہ علیہ نے یہ سب باتیں اپنی اس کتاب میں بڑی وضاحت اور تفصیل سے بیان کی ہیں۔

(2) اس آیت سے دو باتیں ہمارے علم میں آتی ہیں :

(الف) توحید کی طرف لوگوں کو بلانا اور انہیں اس کی دعوت دینا۔

(ب) اخلاص سے آگاہ کرنا اور اس کی تنبیہ کرنا،

کیونکہ مشاہدہ ہے کہ بہت سے لوگ اگرچہ بظاہر حق کی دعوت دیتے ہیں مگر در حقیقت وہ لوگوں کو اپنی طرف بلارہے ہوتے ہیں۔ توحید کی طرف علی وجہ البصیرت دعوت دینے کا مفہوم یہ ہے کہ انسان دوسروں کو اللہ تعالی کی طرف بے علمی، بے یقینی اور جہالت کی بنیاد پر نہیں بلکہ علم، یقین اور مکمل معرفت کی بنیاد پر دعوت دے۔

’’أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي‘‘ کا مفہوم یہ ہے کہ میں لوگوں کو اللہ تعالی کی طرف علی وجہ البصیرت یعنی علم، یقین اور مکمل معرفت کی بنیاد پر دعوت دیتا ہوں۔ اسی طرح میری پیروی کرنے والے اور میری دعوت پر لبیک کہنے والے افراد بھی علم، یقین اور مکمل معرفت کی بنیاد پر لوگوں کو اللہ تعالی کی طرف بلاتے ہیں۔

انبیاء کرام کے متبعین کا یہی طریقہ رہا ہے کہ وہ نہ صرف خود شرک سے ڈرتے، توحید کی حقیقت کو جانتے اور توحید کے تقاضوں کو پورا کرتے ہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ وہ دوسروں کو بھی اس چیز کی طرف بلاتے اور اس کی دعوت دیتے ہیں اور یہ توحید کا ایک اہم تقاضا ہے۔

(3) وجہ استدلال:اس حدیث میں وجہ استدلال یہ ہے کہ جب نبی ﷺ نے معاذ رضی اللہ عنہ کو روانہ فرمایا تو آپ نے انہیں ہدایت فرمائی کہ وہ لوگوں کو سب سے پہلے اس بات کی گواہی کی طرف دعوت دیں کہ اللہ تعالی کے سوا کوئی (حقیقی)معبود نہیں۔ اس کی مزید وضاحت صحیح بخاری ’’کتاب التوحید‘‘ کی ایک روایت میں یوں ہے، نبیﷺ نے فرمایا ’’تو سب سے پہلے لوگوں کو دعوت دینا کہ وہ اللہ تعالی کی توحید کو تسلیم کریں۔‘‘ (صحیح بخاری، التوحید، باب ماجاء النبی…..، حدیث:7372)

(4) وجہ استدلال:اس حدیث میں وجہ استدلال یہ جملہ ہے ’’ثم ادعهم إلى الإسلام‘‘کہ اس کے بعد تم انہیں اسلام کی دعوت دینا۔

اسلام کی دعوت سے توحید کی دعوت مراد ہے۔ کیونکہ اللہ تعالی کی توحید اور جناب محمد ﷺ کی رسالت کا اقرار و اعتراف اسلام کا اہم اور عظیم ترین رکن ہے۔

رسول اللہ ﷺ نے وضاحت فرمائی کہ انہیں توحید کی دعوت دینے کے ساتھ ساتھ ان پر اللہ تعالی کے جو حقوق عائد ہوتے ہیں وہ بھی بتلانا، خواہ ان حقوق کا تعلق توحید کے ساتھ ہو یا فرائض و واجبات اور محرمات سے اجتناب کے ساتھ۔ لہذا جب کوئی شخص کسی دوسرے کو اسلام کی دعوت دے تو سب سے پہلے اسے توحید کی دعوت دے اور ’’لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّه‘‘ اور ’’مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ الله‘‘کا معنی و مفہوم بیان کرے پھر اس کے بعد اسے محرمات اور فرائض و واجبات سے بھی آگاہ کرے کیونکہ اساسی چیز سب سے مقدم اور سب سے پہلے واجب ہوتی ہے۔

 

 

باب:5 توحید کی تفسیر اور کلمہ ’’لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّه‘‘کی شہادت کا مفہوم (1)

 

 

اللہ تعالی کا ارشاد ہے :

(أُولَئِكَ الَّذِينَ يَدْعُونَ يَبْتَغُونَ إِلَى رَبِّهِمُ الْوَسِيلَۃ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخَافُونَ عَذَابَهُ إِنَّ عَذَابَ رَبِّكَ كَانَ مَحْذُورًا (سورۃ الإسراء17: 57))

’’یہ لوگ، جنہیں وہ (مشرکین)پکارتے ہیں وہ تو خود اپنے رب کا تقرب حاصل کرنے کے لیے وسیلہ (ذریعہ) ڈھونڈتے ہیں کہ کون اس کے قریب تر ہے۔ اور وہ اس کی رحمت کے امیدوار اور اس کے عذاب سے خائف رہتے ہیں۔ بے شک تیرے رب کا عذاب ڈرنے کی چیز ہے۔‘‘ (2)

نیز اللہ تعالی نے فرمایا:

(وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ لِأَبِيهِ وَقَوْمِهِ إِنَّنِي بَرَاءٌ مِمَّا تَعْبُدُونَ (26) إِلَّا الَّذِي فَطَرَنِي فَإِنَّهُ سَيَهْدِينِ (27) وَجَعَلَهَا كَلِمَۃ بَاقِيَۃ فِي عَقِبِهِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ (سورۃ الزخرف43: 28))

’’اور جب ابراہیم (علیہ السلام)نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے (صاف صاف)کہہ دیا تھا کہ تم اللہ تعالی کے سوا جن کی بندگی کرتے ہو میرا ان سے کوئی تعلق نہیں ، میں ان سے بے زار ہوں۔ ہاں (میں صرف اسے مانتا ہوں)جس نے مجھے پیدا کیا ہے، وہی میری رہنمائی کرے گا۔ اور وہ یہی بات (دعوت)اپنی اولاد میں پیچھے چھوڑ گئے تاکہ وہ بھی اللہ ہی کی طرف رجوع کریں۔‘‘ (3)

اللہ تعالی نے مزید فرمایا:

(اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ وَالْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا إِلَهًا وَاحِدًا لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ سُبْحَانَهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ (سورۃ التوبۃ9: 31))

’’ان (عیسائی)لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر اپنے علماء اور بزرگوں کو رب بنا لیا۔‘‘ (4)

(وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَتَّخِذُ مِنْ دُونِ اللَّهِ أَنْدَادًا يُحِبُّونَهُمْ كَحُبِّ اللَّهِ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِلَّهِ (سورۃ البقرۃ2: 165))

’’کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو غیروں کو اللہ کے شریک ٹھہراتے ہیں اور ان سے اللہ کی سی محبت کرتے ہیں اور ایمان والے سب سے بڑھ کر اللہ سے محبت کرتے ہیں۔‘‘ (5)

نبی ﷺ نے فرمایا:

(مَنْ قَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، وَكَفَرَ بِمَا يُعْبَدُ مَنْ دُونِ اللهِ، حَرُمَ مَالُهُ، وَدَمُهُ، وَحِسَابُهُ عَلَى اللهِ عَزَّوَجَلَّ) (صحیح مسلم، الایمان الامر بقتال الناس حتیٰ یقولوا ’’لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّه‘‘…..، ح:23)

جس شخص نے کلمہ ’’لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّه‘‘ کا اقرار کر لیا اور معبودان باطلہ کا انکار اور کفر کیا تو اس کا مال اور خون محفوظ ہو گیا۔ اب اس کا باقی معاملہ اللہ تعالی کے سپرد ہے۔‘‘ (6)

آئندہ آنے والے ابواب اسی عنوان ’’لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّه‘‘ کی شہادت کا مطلب شرح اور وضاحت پیش کرتے ہیں۔ (7)

 

مسائل:

1) اس میں سب سے اہم مسئل توحید اور کلمہ ’’لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّه‘‘ کی گواہی دینے کی تفسیر ہے جسے متعدد آیات و احادیث سے واضح کیا گیا ہے۔

2) ان میں سے ایک، سورۂ الاسراء (بنی اسرائیل) کی آیت 57 ہے جس میں ان مشرکین کی تردید ہے جو صالحین اور بزرگان کو پکارتے ہیں ، اس آیت میں صاف صاف بیان ہے کہ ہی شرک اکبر ہے۔

3) اس باب میں دلائل توحید بیان کرتے ہوئے ایک دلیل سورۂ البرأۃ (التوبہ)کی آیت 31 بھی ہے جس میں اللہ تعالی نے واضح طور پر فرمایا ہے کہ اہل کتاب نے اللہ تعالی کے ساتھ ساتھ اپنے علماء اور بزرگوں کو بھی رب بنا رکھا تھا حالانکہ انہیں صرف اور صرف ایک ’’إِلَهَ‘‘ کی عبادت کا حکم دیا گیا تھا۔ اس کے باوجود اس آیت کی وہ تفسیر جس میں کوئی اشکال یا ابہام نہیں ، یہ ہے کہ اہل کتاب اپنے علماء اور بزرگوں کو مصیبت یا مشکل کے وقت پکارتے نہیں تھے بلکہ معصیت کے کاموں میں ان کی اطاعت کرتے تھے۔ (اور اسی کو معبود اور رب بنانا کہا گیا ہے)

(4) اور سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی اس بات کا بھی تذکرہ ہے جو انہوں نے کفار سے کہی تھی:

(إِنَّنِي بَرَاءٌ مِمَّا تَعْبُدُونَ (26) إِلَّا الَّذِي فَطَرَنِ (سورۃ الزخرف43: 28))

’’میں تمہارے معبودوں سے بے زار اور لاتعلق ہوں۔ میرا تعلق صرف اس ذات سے ہے جس نے مجھے پیدا کیا۔‘‘

یوں ابراہیم علیہ السلام نے کفار کے معبودان باطلہ سے اپنے حقیقی رب کو مستثنی کیا۔ اللہ تعالی نے بیان فرمایا کہ کفار سے اس طرح کی براءت و بے زاری اور اللہ تعالی کی موالات و محبت کا اظہار ہی کلمہ ’’لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّه‘‘ کی گواہی دینا ہے۔چنانچہ فرمایا:

وَجَعَلَهَا كَلِمَۃ بَاقِيَۃ فِي عَقِبِهِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ (سورۃ الزخرف43: 28))

’’اور ابراہیم علیہ السلام یہی پیغام اپنے پیچھے اپنی اولاد اور قوم کو دے گئے تاکہ وہ اس کی طرف رجوع کریں۔‘‘

5) نیز ایک دلیل، سورۂ بقرہ کی وہ آیت بھی ہے جس میں اللہ تعالی نے کافروں کے متعلق فرمایا:

(وَمَا هُمْ بِخَارِجِينَ مِنَ النَّارِ (سورۃ البقرۃ2: 167))

’’وہ جہنم کی آگ سے نکلنے والے نہیں۔‘‘

اور ان کے متعلق فرمایا کہ وہ اپنے بنائے معبودوں ، اللہ کے شریکوں سے یوں محبت کرتے ہیں جیسی محبت اللہ تعالی کے ساتھ ہونی چاہئے۔ نیز واضح فرمایا کہ وہ اللہ تعالی سے بھی شدید محبت رکھتے ہیں لیکن ان کی یہ محبت انہیں اسلام میں داخل نہیں کرسکی۔ ذرا غور کریں کہ جب اللہ تعالی اور اس کے ساتھ ساتھ غیر اللہ سے محبت کرنے والے مسلمان نہیں تو اللہ تعالی سے بڑھ کر شریکوں سے محبت کرنے والوں یا اللہ تعالی کو چھوڑ کر صرف غیر اللہ سے محبت کرنے والوں کا کیا حال ہو گا؟

6) اور ایک دلیل رسول اللہ ﷺ کا یہ فرمان ذی شان بھی ہے کہ ’’جس آدمی نے کلمہ ’’لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّه‘‘ کا اقرار اور معبودان باطلہ کا انکار کیا اس کا مال اور خون (جان)محفوظ ہو گیا اور اس کا حساب یعنی باقی معاملہ اللہ تعالی کے سپرد ہے۔‘‘ یہ فرمان مبارک ان عظیم دلائل میں سے ایک ہے جو کلمہ ’’لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّه‘‘ کے معنی و مفہوم کو صحیح طور پر واضح کرتے ہیں کہ محض اس کلمہ کو زبان سے ادا کر لینے اور اس کے معنی کی معرفت حاصل کر لینے، اقرار کر لینے اور اکیلے اللہ کو بغیر شریک ٹھہرائے پکار لینے سے مال و جان کو تحفظ نہیں مل جاتا بلکہ مال و جان کو تحفظ اسی وقت ہی مل سکتا ہے جب اس کے ساتھ ساتھ معبودان باطلہ کا انکار بھی کیا جائے۔ یاد رہے کہ اگر کسی نے ان باتوں میں سے کسی ایک میں بھی ذرا سا شک یا توقف کیا تو اس کی جان اور مال کو تحفظ و امان حاصل نہ ہوسکے گا۔ غور کریں یہ مسئلہ کس قدر اہم، عظیم اور کس قدر واضح ہے اور مخالفین کے خلاف کتنی بڑی قاطع دلیل ہے۔

 

نوٹ:

(1) کسی بات کی گواہی کا مفہوم یہ ہے کہ :

(الف) انسان اپنی زبان سے جو کچھ کہے دلی طور پر اس کا اعتقاد بھی رکھتا ہو۔ اعتقاد اسی صورت میں اعتقاد ہوتا ہے جب کہ اس کا علم اور اس کی سچائی کا یقین ہو۔

(ب) گواہی کو زبان سے ادا کرنا بھی ضروری ہے۔

(ج) اس بات سے دوسروں کو مطلع کرنا بھی گواہی کا حصہ ہے اور زبان سے اس کا نطق (بولنا)بھی واجب ہے۔ گواہ بھی اس وقت تک گواہ نہیں ہوتا جب تک کہ وہ متعلقہ بات سے دوسروں کو مطلع نہ کرے۔ تو معلوم ہوا کہ ’’اَشْهَدُ‘‘ (میں گواہی دیتا ہوں)کا معنی، ’’َاَعْتَقِدُ‘‘ (میں اعتقاد رکھتا ہوں)، ’’اَتَكَلَّمُ‘‘ (میں زبان سے اس کا اقرار کرتا ہوں) اور ’’أُخْبِر‘‘ (میں اس سے دوسروں کو مطلع اور خبردار کرتا ہوں)ہو گا۔ اور ان تین معانی کا بیک وقت جمع ہونا لازمی اور حتمی ہے۔ ’’لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّه‘‘میں لانفی جنس کے لیے ہے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی کے سوا کوئی بھی شخص یا چیز الوہیت کا استحقاق نہیں رکھتی۔ نفی کے بعد ’’اِلا‘‘ (حرف استثناء)حصر کا فائدہ دیتا ہے۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ حقیقی الہ اور معبود بر حق صرف اللہ تعالی ہے۔ اس کے سوا کوئی معبود بر حق نہیں۔

’’‘‘معبود:بعض لوگ لا نفی جنس کی خبر ’’مَوْجُودٌ‘‘ بتاتے ہیں۔ایسی صورت میں معنی یوں ہو گا کہ ’’اللہ تعالی کے سوا کوئی معبود موجود نہیں۔‘‘ مگر یہ معنی اور مفہوم صحیح نہیں اس لیے کہ اللہ تعالی کے علاوہ دوسرے معبودوں کی عبادت ہوتی ہے جو کہ موجود ہیں۔ لہذا لانفی جنس کی خبر ’’مَوْجُوْدٌ‘‘ کی بجائے ‘‘ ’’بِحَقٍّ‘‘یا ’’حقٌ‘‘ ہونی چاہئے۔اس صورت میں معنی یوں ہو گا کہ: اللہ تعالی کے سوا کوئی معبود ’’بر  حق‘‘ نہیں ہے۔ کیونکہ اس کے سوا جس کی بھی عبادت کی جائے وہ معبود ہی ہے اگرچہ اسے معبود سمجھنا یا بنانا باطل ’’ظلم‘‘سرکشی اور ناجائز ہے۔ عربی زبان سے واقف آدمی کلمہ ’’لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّه‘‘ کا ’’لَّه‘‘سنتے ہی یہی مفہوم اخذ کرے گا۔

(2) اس آیت میں ’’يَدْعُوْنَ‘‘ کا معنی ’’يَعْبُدُوْنَ‘‘ ہے۔

وسیلہ: قصد اور حاجت کو کہتے ہیں۔ مطلب یہ کہ: یہ لوگ اپنی حاجات اور ضروریات کو اللہ تعالی سے چاہتے ہیں۔ یہ مقصود اللہ تعالی ہی سے حاصل ہو سکتا ہے۔ لہذا وہ لوگ اللہ کے سوا کسی دوسرے کی طرف متوجہ نہیں ہوتے ان کی توجہ محض اللہ تعالی پر مرکوز ہوتی ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالی نے موقع کی مناسبت سے ’’اِلى رَبِّهِمْ‘‘ کہہ کر ربوبیت کا ذکر کیا ہے کیونکہ دعا کو قبول کرنا اور اس کا صلہ دینا ربوبیت کا خاصہ ہے۔

یوں اس آیت سے توحید کی تفسیر واضح ہوئی کہ تمام حاجات و ضروریات صرف اور صرف اللہ عزوجل سے پوری ہوتی ہیں۔ (وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخَافُونَ عَذَابَهُ) ’’وہ اس کی رحمت کے امید وار اور اس کے عذاب سے خائف رہتے ہیں۔‘‘ یہ اللہ تعالی کے محبوب بندوں کا وصف ہے جو محبت، خوف اور امید کے ملے جلے جذبات کے ساتھ اللہ تعالی کی عبادت بجا لاتے ہیں۔ یہ بھی توحید ہی کی تفسیر ہے۔

(3) اس آیت مبارکہ میں نفی اور اثبات دونوں موجود ہیں۔ ان دونوں سے توحید ثابت ہوتی ہے۔ پس ’’لاَ إِلَهَ‘‘ کی جگہ ’’إِنَّنِي بَرَاءٌ مِمَّا تَعْبُدُونَ‘‘ اور ’’ إِلَّا اللَّه‘‘کی جگہ ’’إِلَّا الَّذِي فَطَرَنِي‘‘ ہے۔

براءت:کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالی کے سوا جن کی عبادت کی جاتی ہے ان سے بغض و عداوت رکھتے ہوئے ان کا (انکار)کرنا۔ جب تک دل میں یہ چیز نہ ہواسلام راسخ اور پختہ نہیں ہو سکتا۔

(4) ارباب :رب کی جمع ہے :یہاں ربوبیت، عبادت کے معنی میں ہے۔ آیت کا مفہوم یہ ہوا کہ ان (عیسائی) لوگوں نے اللہ تعالی کے ساتھ ساتھ اپنے علماء اور بزرگوں کو بھی اس حد تک اپنا معبود بنا لیا کہ وہ حرام کو حلال یا حلال کو حرام کہہ دیتے تو وہ لوگ اسی طرح مان لیتے۔ کسی کی بات کو تسلیم کرنا بھی توحید سے تعلق رکھتا ہے اور غیر اللہ کی غیر مشروط اطاعت، توحید کے منافی ہے۔

(5) یعنی ان لوگوں نے معبودان باطلہ کی محبت کو اللہ تعالی کی محبت کے برابر کر دیا۔ وہ لوگ اللہ تعالی سے بہت زیادہ محبت رکھتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ اپنے ان معبودوں کے ساتھ بھی اسی طرح کی شدید محبت رکھتے ہیں جن پر انہیں ناز ہے اور محبت میں یہ مساوات اوربرابری کرنا شرک ہے۔ ان لوگوں کی اسی محبت نے انہیں جنہم میں پہنچا دیا۔

جیسا کہ اللہ تعالی نے سورۃ الشعراء میں جہنمیوں کا یہ قول بیان فرمایا ہے :

(تَاللَّهِ إِنْ كُنَّا لَفِي ضَلَالٍ مُبِينٍ (97) إِذْ نُسَوِّيكُمْ بِرَبِّ الْعَالَمِينَ (سورۃ الشعراء26: 98))

’’اللہ کی قسم! ہم تمہیں رب العالمین کے برابر قرار دے کر صریح گمراہی میں تھے۔‘‘

محبت بھی عبادت کی اقسام میں سے ایک قسم ہے۔ جنہوں نے غیر اللہ کے ساتھ، اللہ تعالی کی سی محبت روا (مباح)رکھی تو گویا انہوں نے اپنے محبوبین کو اللہ تعالی کا شریک بنا ڈالا۔ توحید اور کلمہ ’’لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّه‘‘ کی گواہی دینے کا یہی مفہوم ہے کہ جیسا تعلق اور محبت اللہ تعالی کے ساتھ ہو، ویسا مضبوط تعلق اور شدید محبت کسی دوسرے کے ساتھ قطعاً نہ ہو۔

(6) اس حدیث میں کلمۂ توحید ’’لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّه‘‘ کے اقرار کے علاوہ معبودان باطلہ کا کفر کرنے کی بات بھی بیان ہوئی ہے گویا کلمۂ توحید ’’لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّه‘‘ کے اقرار و اعتراف میں معبودان باطلہ کا کفر، انکار اور ان سے اظہار براءت بھی شامل ہے۔

’’حَرُمَ مَالُهُ، وَدَمُهُ، وَحِسَابُهُ عَلَى اللهِ عَزَّوَجَلَّ‘‘کا معنی یہ ہے کہ جس نے کلمۂ توحید ’’لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّه‘‘ کا اقرار و اعتراف اور معبودان باطلہ کا انکار و کفر کیا وہ مسلمان ہو جاتا ہے جس کا مال اور خون صرف تین صورتوں (زنا، قتل اور ارتداد)ہی میں روا (جائز)ہے۔

اس تفصیل سے یہ خوب عیاں ہو چکا کہ توحید کی تفسیر اور کلمہ توحید ’’لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّه‘‘ کی گواہی، آپ سے بہت زیادہ توجہ، غور و فکر اور سوچ بچار کا تقاضا کرتی ہے تاکہ آپ اسے اچھی طرح سمجھ لیں۔

(7) گویا ساری کتاب، توحید اور کلمہ توحید’’لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّه‘‘ کی تشریح و توضیح ہے اور ان امور کا تفصیلی بیان ہے جو اس کے متضاد اور توحید کی اصل اور کمال کے منافی ہیں۔

نیز اس میں شرک اکبر، شرک اصغر، شرک خفی اور شرکیہ الفاظ کی وضاحت کے ساتھ ساتھ توحید کے لوازمات یعنی توحید فی العبادت، اللہ تعالی کے اسماء و صفات کا اقرار اور توحید الوہیت میں توحید ربوبیت کا اقرار شامل ہونے کا مفصل بیان ہے۔

 

 

 

 

باب:6 رفع بلاء اور دفع مصائب کے لیے چھلے پہننا اور دھاگے وغیرہ باندھنا شرک ہے۔ (1)

 

اللہ تعالی کا ارشاد ہے :

(قُلْ أَفَرَأَيْتُمْ مَا تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ إِنْ أَرَادَنِيَ اللَّهُ بِضُرٍّ هَلْ هُنَّ كَاشِفَاتُ ضُرِّهِ أَوْ أَرَادَنِي بِرَحْمَۃ هَلْ هُنَّ مُمْسِكَاتُ رَحْمَتِهِ قُلْ حَسْبِيَ اللَّهُ عَلَيْهِ يَتَوَكَّلُ الْمُتَوَكِّلُونَ (سورۃ الزمر39: 38))

’’ (اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم)آپ ان سے کہہ دیجئے :تمہارا کیا خیال ہے کہ اگر اللہ تعالی مجھے کوئی ضرر پہنچانا چاہے تو اللہ کے علاوہ تم جن کو پکارتے ہو کیا وہ اس ضرر کو ہٹا سکتے ہیں ؟ یا اللہ مجھ پر مہربانی کرنا چاہے تو کیا یہ اس کی رحمت کو روک سکتے ہیں ؟آپ کہہ دیجیے : مجھے تو اللہ ہی کافی ہے۔ بھروسہ کرنے والے اسی پر بھروسہ کرتے ہیں۔‘‘ (2)

عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :

(أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” رَأَى رَجُلًا فِي يَدِهِ حَلْقَۃ مِنْ صُفْرٍ فَقَالَ: مَا هَذِهِ؟ قَالَ: مِنَ الْوَاهِنَۃ. فَقَالَ: انْزِعْهَا فَإِنَّهَا لَا تَزِيدُكَ إِلَّا وَهْنًا, فَإِنَّكَ لَوْ مُتَّ وَهِيَ عَلَيْكَ، مَا أَفْلَحْتَ أَبَداً) (مسند احمد :4 / 445 و سنن ابن ماجہ، الطب، باب تعلق التمائم، ح:3531)

’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کے ہاتھ میں پیتل کا چھلا دیکھا تو پوچھا: ’’یہ کیا ہے ؟‘‘ اس نے کہا یہ واھنہ (ایک مرض) کی وجہ سے پہنا ہوا ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’اسے اتار دو۔ (اس لیے کہ یہ تمیں کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا) تمہاری بیماری میں مزید اضافہ ہی کرے گا۔ اگر تمہیں یہ چھلا پہنے ہوئے موت آ گئی تو کبھی نجات نہ پا سکو گے۔‘‘ (3)

عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(مَنْ تَعَلَّقَ تَمِيْمَۃ فَلَا أَتَمَّ الله ُلَهُ، وَمَنْ تَعَلَّقَ وَدَعَۃ فَلَا وَدَعَ الله ُلَهُ) (مسند احمد :4 / 153)

’’جس نے (بیماری سے تحفظ کے لیے)کوئی تمیمہ (تعویذ، منکا وغیرہ)لٹکایا، اللہ تعالی اس کی مراد پوری نہ کرے۔ اور جس نے سیپ باندھی اللہ تعالی اسے بھی آرام اور سکون نہ دے۔‘‘ (4)

ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں :

(مَنْ تَعَلَّقَ تَمِيْمَۃ فَقَدْ أَشْرَكَ) (مسند احمد :4 / 156)

’’جس نے (بیماری سے تحفظ کی نیت سے)تمیمہ (تعویذ، منکا وغیرہ)لٹکایا اس نے شرک کیا۔‘‘

ابن ابی حاتم نے حذیفہ رضی اللہ عنہ کے متعلق بیان کیا ہے :

(أَنَّهُ رَأى رَجُلاً فِي يَدِهِ خَيْطٌ مِّنَ الْحُمَّى فَقَطَعَهُ)’’انہوں نے ایک شخص کے ہاتھ میں بخار سے تحفظ کے لیے دھاگا بندھا ہوا دیکھا تو انہوں نے اسے کاٹ ڈالا اور یہ آیت تلاوت فرمائی:

(وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ (سورۃ يوسف12: 106))

’’اور ان میں سے اکثر لوگ اللہ تعالی پر ایمان لانے کے باوجود مشرک ہیں۔‘‘ (5)

(تفسیر ابن ابی حاتم:7 / 12040)

 

مسائل:

1) (بیماری سے تحفظ کی نیت سے)چھلا پہننا اور دھاگہ وغیرہ باندھنا سخت منع ہے۔

2) اگر صحابی بھی اس نیت سے کوئی چیز پہنے، باندھے یا لٹکائے اور اسی حال میں مر جائے تو وہ بھی کبھی فلاح نہیں پا سکتا۔ حدیث میں صحابہ کی اس ٹھوس بات کے لیے شاہد بھی موجود ہے کہ شرک اصغر، کبیرہ گناہوں میں سے ہے۔

3) جہالت کے سبب بھی ان اعمال کے مرتکب کو معذور نہیں سمجھا جائے گا۔

4) یہ چیزیں دنیا میں بھی مفید نہیں بلکہ مضر ہیں کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’یہ تیری بیماری کو مزید بڑھائے گا‘‘

5) ایسی چیزیں استعمال کرنے والے کو سختی سے روکنا چاہئے۔

6) جو شخص، کوئی چیز باندھے یا لٹکائے تو اسے اسی کے سپرد کر دیا جاتا ہے۔

7) تمیمہ (تعویذ، منکا وغیرہ)لٹکانا بھی شرک ہے۔

8) بخار کی وجہ سے دھاگہ وغیرہ باندھنا بھی شرک ہے۔

9) حذیفہ رضی اللہ عنہ کا اس موقع پر سورۂ یوسف کی آیت تلاوت کرنا یہ دلیل ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم شرک اکبر کی آیات کو شرک اصغر کی تردید میں پیش کیا کرتے تھے جیسا کہ سورۂ بقرہ کی آیت کی تفسیر میں ابن عباس رضی اللہ عنہ نے ذکر کیا ہے۔

10) نظر بد سے بچاؤ کے لیے سیپ باندھنا بھی شرک ہے۔

11) (بیماریوں سے تحفظ کے لیے)تمیمہ (تعویذ، منکا وغیرہ)لٹکانے والے اور سیپ وغیرہ باندھنے والے کے لیے بد دعا کی جا سکتی ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اللہ تعالی اس کی مراد پوری نہ کرے اور اسے آرام نہ دے۔‘‘

 

نوٹ:

(1) شرک کی توضیح کرتے ہوئے یہاں سے توحید کا بیان شروع ہو رہا ہے۔ اور یہ بات طے شدہ ہے کہ کسی چیز کی معرفت اور پہچان دو طرح سے حاصل ہوتی ہے۔اپنی حقیقت کی معرفت اور اس کی ضد کی معرفت۔

یہاں سے امام (محمد بن عبد الوہاب)اپنی گفتگو کا آغاز، توحید کے متضاد یعنی شرک اکبر کے بیان سے کر رہے ہیں۔ کیونکہ شرک اکبر کے ارتکاب سے توحید مکمل طور پر ختم ہو کر رہ جاتی ہے اور اس کا مرتکب ملت اسلامیہ سے یکسر خارج ہو جاتا ہے۔ شرک کی بعض اقسام ایسی ہیں جو توحید کے اعلی درجہ کے منافی ہیں اور وہ اقسام شرک اصغر سے ہیں۔ ان کے ارتکاب سے توحید کے اعلی درجہ میں کمی آ جاتی ہے۔ اس لیے توحید کا اعلی ترین درجہ تو یہ ہے کہ انسان شرک کی جملہ انواع و اقسام سے بچ کر رہے۔

شیخ (محمد بن عبد الوہاب رحمۃ اللہ علیہ)نے شرک کی تفصیل بیان کرتے ہوئے ابتدا میں شرک اصغر کی بعض ایسی منتقل ہونے کے اصول پر عمل کرتے ہوئے اولا شرک اصغر کا اور بعد ازاں شرک اکبر کا ذکر کیا ہے۔

اس باب کے عنوان سے واضح ہوا کہ چھلے پہننے اور دھاگے باندھنے کے علاوہ منکے، تعویذات، لوہا، چاندی وغیرہ اور دیگر مختلف اشیاء جو گلے میں باندھی یا لٹکائی جاتی ہیں یا گھروں میں ، گاڑیوں پر چھوٹے بچوں کے گلے میں کسی مخصوص مقصد، نظریہ یا عقیدہ کے تحت پہنی، باندھی یا لٹکائی جاتی ہیں ، یہ سب شرک ہے۔

چھلے اور دھاگے اور اسی طرح تعویذات وغیرہ کی بابت عربوں کا عقیدہ تھا کہ یہ اشیاء آئی ہوئی مصیبت کو رفع کر دیتی یا آنے والی مصیبت کو روک دیتی ہیں۔ ایسی حقیر اشیاء کے متعلق یہ عقیدہ رکھنا کہ یہ چیزیں اللہ تعالی کی تقدیر کو روک سکتی ہیں ، یہ شرک اصغر کیسے ہو سکتا ہے ؟ (بلکہ یہ تو شرک اکبر ہے۔)کیونکہ ایسا کرنے والے کے دل میں ان اشیاء کی محبت موجود ہوتی ہے اور وہ ان اشیاء کی مصائب روکنے اور ان سے بچانے کا ذریعہ سمجھتا ہے۔ یہی شرک ہے۔ اصل اصول یہ ہے کہ صرف انہی اشیاء اور اسباب کی تاثیر کا عقیدہ رکھنا جائز ہے جن کی شریعت نے اجازت دی ہے یا تجربہ سے ثابت ہو کہ یہ اسباب واقعی ظاہری طور پر مؤثر ہیں۔ مثلاً طبیب کا دوا دینا، یا جیسے وہ اسباب، جن سے نفع حاصل ہوتا ہے جیسے آگ سے حرارت اور پانی سے ٹھنڈک کا حاصل ہونا وغیرہ۔ یہ ایسے اسباب ہیں جن کی تاثیر ظاہر اور واضح ہے۔

شرک اصغر کی جملہ اقسام بعض اوقات نیتوں کی بنیاد پر شرک اکبر بن جاتی ہیں۔ مثلاً کوئی شخص چھلے اور دھاگے وغیرہ کو سبب سمجھنے کی بجائے یہ عقیدہ رکھے کہ یہ بذات خود مؤثر ہے تو اس کا یہ عمل شرک اکبر ہو گا کیونکہ اس نے یہ عقیدہ رکھا کہ اس کائنات میں اللہ تعالی کے علاوہ بھی کوئی چیز تصرف کرنے کی قدرت رکھتی ہے۔ گویا اس مسئلے کا اصل تعلق دل کے ساتھ ہے۔

(2) اس آیت میں اللہ تعالی نے اپنے نبی سے فرمایا کہ آپ ان لوگوں سے کہہ دیجئے کہ کیا اس بات کا اقرار کر لینے کے باوجود کہ صرف اللہ تعالی ہی آسمانوں اور زمینوں کا خالق ہے، تم اس کے ساتھ ساتھ غیر اللہ کی بھی عبادت کرتے ہو؟ قرآن مجید کا یہی انداز ہے کہ مشرکین جس توحید ربوبیت کا اقرار کرتے ہیں ، وہ ان کے اسی اقرار کو ان کے خلاف پیش کر کے اس توحید الوہیت کا اثبات کرتا ہے جس سے وہ انکار کرتے ہیں۔

’’تَدْعُوْنَ‘‘ تم پکارتے ہو۔ یہ پکارنا بطور سوال اور طلب ہو یا محض بطور عبادت۔ مشرکین میں غیر اللہ کو پکارنے کی یہ دونوں صورتیں پائی جاتی ہیں۔ اور اللہ کے علاوہ جنہیں پکارا جاتا ہے ان کی کئی قسمیں ہیں مثلاً بعض مشرک تو مصیبت، دکھ یا پریشانی کے موقع پر انبیاء، رسل اور صالحین کو پکارتے ہیں ، بعض اللہ تعالی کے فرشتوں کو پکار کے لائق سمجھتے ہیں اور بعض ستاروں کی طرف، بعض اشجار و احجار کی طرف اور بعض بتوں اور مٹی کی ڈھیریوں کی طرف لپکتے اور جھکتے ہیں۔ یہ سب شرک کی صورتیں ہیں۔ پیش نظر آیت میں اللہ تعالی نے ثابت کیا ہے کہ یہ تمام معبودان باطلہ کسی کو نفع یا نقصان پہنچانے پر قادر نہیں۔ اب ان اشیاء اور شخصیات کے متعلق مشرکین کا یہ عقیدہ، کہ اللہ تعالی کے ہاں ان کے بلند مراتب ہیں جن کی وجہ سے یہ اس کے ہاں سفارش کرسکیں گے، باطل اور بے بنیاد ہوا۔ قرآن مجید میں جو آیات شرک اکبر کی تردید میں آئی ہیں ، اہل علم انہی آیات کو شرک اصغر کے ابطال اور تردید میں بھی پیش کرتے ہیں کیونکہ دونوں قسم کے شرک (اکبر اور اصغر)میں انسان اللہ تعالی کو چھوڑ کر غیراللہ کے ساتھ اپنا تعلق جو لیتا ہے۔ لہذا جب بڑی صورت (شرک اکبر)میں غیر اللہ کے ساتھ تعلق جوڑنا باطل اور بے حقیقت ہے تو چھوٹی صورت (شرک اصغر)میں تو بالاولی باطل ہوا۔

نیز اس آیت میں یہ بیان ہے کہ اللہ تعالی کے علاوہ کسی کو یہ قدرت حاصل نہیں کہ وہ کسی کو کچھ ضرر یا نقصان پہنچا سکے۔ اسی طرح یہ بھی کہ جب اللہ تعالی کسی کو کوئی ضرر پہنچائے تو اس کے حکم کے بغیر کوئی بھی شخص یا چیز اس ضرر کو ہٹانے پر قادر نہیں۔ اللہ تعالی کے علاوہ، کسی کو نفع دینے یا ضرر پہنچانے کے لائق سمجھنے کا یہی وہ مفہوم ہے جس کے پیش نظر مشرک لوگ چھلے پہنتے یا دھاگے باندھتے ہیں ، اسی لیے ان کاموں کو شرک کہا گیا ہے۔

(3) آپ کا ’’مَاهذِه‘‘ کہہ کر اس چھلے کے متعلق دریافت کرنے کا یہ انداز اس کے اس عمل پر شدید ناراضی، ناپسندیدگی، اور انکار کے لیے تھا۔

واھنہ: ایک بیماری ہے جو جسم کو کمزور کر ڈالتی ہے۔

(امام ابن الاثیر الجزری فرماتے ہیں کہ ’’واھنہ‘‘ ایک ایسی بیماری ہے جس سے کندھے یا پورے بازو کی رگ پھول جاتی ہے۔ اس تکلیف سے نجات کے لیے دم بھی کرتے ہیں۔ بعض اہل علم کا قول ہے کہ کہنی اور کندھے کے درمیانی حصہ میں بعض اوقات تکلیف ہو جایا کرتی ہے۔ یہ تکلیف مردوں کو ہوتی ہے۔ عورتوں کو نہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کو وہ چھلا پہننے سے اس لیے منع فرمایا تھا کہ اس نے اس خیال سے پہنا تھا کہ وہ اسے مرض سے محفوظ رکھے گا۔ حالانکہ چھلے کا بیماری سے نجات سے کوئی واسطہ یا تعلق نہیں۔ مترجم)

’’انْزِعْهَا‘‘اسے اتار دو۔ یہ حکم تھا اور جس شخص کو کوئی حکم دیا جائے، اگر انسان جانتا ہو کہ وہ حکم اطاعت سے انکار نہیں کرے گا تو اسے ہاتھ سے منع کرنے کی بجائے زبان سے کہہ دینا ہی کافی ہوتا ہے۔

’’فَإِنَّهَا لَا تَزِيدُكَ إِلَّا وَهْنًا‘‘یہ تمہاری بیماری میں مزید اضافہ ہی کرے گا‘‘۔

یعنی اگر تمہارے عقیدہ کے مطابق اس کی کوئی تاثیر ہے تو یہ نہ صرف تمہارے جسم کو نقصان پہنچائے گا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ یہ تمہاری روح اور نفس کو بھی نقصان پہنچائے گا اور وہ یہ کہ تمہاری روح اور نفس کمزور ہو جائیں گے۔

مشرک کی عقل کام نہیں کرتی۔ وہ چھوٹے نقصان سے بچنے کی خاطر کوئی ایسا کام کر بیٹھتا ہے جو پہلے سے بھی بڑے نقصان پر منتج ہوتا ہے۔ مگر وہ عقل کی کمی کی وجہ سے نقصان کو نفع پر محمول کرتا رہتا ہے۔

’’ فَإِنَّكَ لَوْ مُتَّ وَهِيَ عَلَيْكَ، مَا أَفْلَحْتَ أَبَداً‘‘ ’’اگر تمہیں یہ چھلا پہنے ہوئے موت آ گئی تو کبھی نجات نہ پا سکو گے ‘‘۔

اس نفی میں دو معنوں کا احتمال ہے۔ ایک تو یہ کہ ایسا کرنے والے کو شرک اکبر کا ارتکاب کرنے والے کی مانند کبھی جنت میں داخلہ اور جہنم سے نجات نہ مل سکے گی کیونکہ اس نے یہ عقیدہ رکھا کہ یہ چھلا بذات خود نفع بخش اور مفید ہے اور دوسرا معنی ہے کہ ایسا کرنے والے کو مکمل نجات نہ مل سکے گی کیونکہ اللہ تعالی نے شرعی یا قدرتی طور پر جس چیز کو شفا کا سبب قرار نہیں دیا اس نے اسی کو شفا دہندہ سمجھ لیا۔ اس لیے اس مفہوم کے لحاظ سے اس کا شرک، شرک اصغر ہو گا۔

(مَنْ تَعَلَّقَ تَمِيْمَۃ فَلَا أَتَمَّ الله ُلَهُ)جس نے تمیمہ لٹکایا اللہ تعالی اس کی مراد پوری نہ کرے ‘‘ ’’تَعَلَّقَ‘‘ کا معنی جہاں لٹکانے کا ہے وہاں اس کا معنی دلی لگاؤ اور قلبی میلان کا بھی ہے۔ گویا کوئی چیز (بیماری سے تحفظ کے لیے)لٹکانے والے کا دلی لگاؤ اور قلبی میلان اس کی طرف ہوتا ہے۔

’’تَمِيْمَۃ‘‘…..نظربد سے تحفظ، نقصان سے بچاؤ اور کسی کے حسد سے حفاظت کی خاطر، منکے یا کوئی دوسری چیز جو گلے میں پہنی اور سینے پر لٹکائی جائے اسے ’’تَمِيْمَۃ‘‘ کہا جاتا ہے۔ ایسا کرنے والے پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بد دعا فرمائی ہے کہ اللہ تعالی اس کی مراد پوری نہ کرے۔ ’’تَمِيْمَۃ‘‘ کو  تمیمہ کہنے کی وجہ بھی یہی ہے کہ اس کے بارے میں انسان کا یہ اعتقاد ہوتا ہے کہ میرا کام یہی (منکے وغیرہ)مکمل اور تمام کریں گے۔ تو آپ نے اسی بد اعتقادی کی بنا پر بد دعا فرمائی کہ اللہ تعالی اس کا کام مکمل اور پورا ہی نہ کرے۔

’’ وَمَنْ تَعَلَّقَ وَدَعَۃ فَلَا وَدَعَ الله ُلَهُ‘‘ (اور جس نے سیپ (گلے میں) لٹکائی اللہ تعالی اسے آرام اور سکون نہ دے)

’’وَدَعَۃ‘‘سیپیوں یا منکوں کی ایک قسم ہے جسے لوگ (گلے میں پہن کر)سینے پر  رکھتے ہیں یا پھر نظر بد سے بچنے کے لیے بازو پر باندھتے ہیں۔ ایسا کرنے والے کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بد دعا فرمائی کہ اللہ تعالی ایسے شخص کو آرام و سکون اور راحت میں نہ رہنے دے۔ کیونکہ اس نے اللہ عزوجل کے ساتھ شرک کیا۔

(4) ’’مِّنَ الْحُمَّى‘‘ میں لفظ ’’مِّنَ‘‘ تعلیل کا ہے۔ یعنی اس نے وہ دھاگہ بخار کو دور کرنے اور اس سے بچنے کے لیے باندھا تھا۔ ’’فَقَطَعَهُ‘‘ ’’تو انہوں نے اسے کاٹ ڈالا‘‘اس سے ثابت ہوا کہ کسی بیماری سے تحفظ اور شفا کے لیے دھاگہ وغیرہ باندھنا ایسا کبیرہ گناہ ہے جس پر ناپسندیدگی کا اظہار کرنا واجب اور اسے کاٹ ڈالنا ضروری ہے۔

نیز ثابت ہوا کہ جہنم سے نجات کے لیے صرف توحید ربوبیت پر ایمان رکھنا کہ ہمارا پروردگار، رازق، اور ہماری زندگی اور موت کا مالک اللہ ہے۔ یہی بات کافی نہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ توحید فی العبادت بھی نجات کے لیے شرط ہے۔ اس آیت میں شرک سے مراد شرک اکبر ہے۔ مصنف (امام محمد بن عبد الوہاب رحمۃ اللہ علیہ)یہی بتانا چاہتے ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم شرک اکبر کے بارے میں نازل شدہ آیات سے شرک اصغر بھی مراد لیا کرتے تھے۔

 

 

 

باب:7 دم اور تعویذات کا بیان (1)

 

ابو بشیر انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :

(أَنَّهُ كَانَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فِي بَعْضِ أَسْفَارِهِ فَأَرْسَلَ رَسُولًا أَنْ لَا يَبْقَيَنَّ فِي رَقَبَۃ بَعِيرٍ قِلَادَۃ مِنْ وَتَرٍ أَوْ قِلَادَۃ إِلَّا قُطِعَتْ) (صحیح البخاری، الجهاد، باب ما قیل فی الجرس ونحوه فی اعناق الابل، ح :3005 و صحیح مسلم، اللباس، باب کراهۃ قلادۃ الوتر فی رقبۃ البعیر، ح:2115)

’’وہ ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ کسی سفر میں تھے کہ آپ نے ایک قاصد کو یہ اعلان کرنے کے لیے بھیجا کہ کسی اونٹ کی گردن میں تانت کا ہار یا کوئی اور ہار نہ رہنے دیا جائے بلکہ اسے کاٹ دیا جائے۔‘‘ (2)

ابن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ‘میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:

(إِنَّ الرُّقَى وَالتَّمَائِمَ وَالتِّوَلَۃ شِرْكٌ) (مسند احمد:1 / 381 و سنن ابی داود، الطب، باب تعلیق التمائم، ح:3883)

’’بلا شبہ جھاڑ پھونک (دم)،تعویذ گنڈے اور باہمی عشق و محبت پیدا کرنے کے لیے تیار کی جانے والی چیزیں ،یہ سب شرک ہیں۔‘‘ (3)

اس حدیث میں تین الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ ’’التَّمَائِمَ‘‘ اور ’’الرُّقَى، التِّوَلَۃ‘‘ ’’التَّمَائِمَ‘‘سے مراد ہر وہ چیز ہے جو بچوں کو نظر بد سے بچانے کے لیے ان کے گلے میں یا جسم کے کسی اور حصے پر لٹکائی یا باندھی جاتی ہے۔ (یہ شرک ہے)لیکن جب وہ چیز قرآنی آیات پر مشتمل ہو (یعنی قرآنی تعویذ ہو) تو بعض صحابہ کرام نے اسے جائز قرار دیا ہے اور بعض نے ناجائز۔ انھی (ناجائز قرار دینے والوں) میں سے ایک عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بھی ہیں۔ (4)

’’الرُّقَى‘‘سے مراد وہ اعمال ہیں جنہیں منتر، جھاڑ پھونک اور دم کہا جاتا ہے (یہ بھی شرک ہے)لیکن شرعی دلیل نے وضاحت کر دی کہ جس دم میں شرکیہ الفاظ نہ ہوں وہ جائز ہے چنانچہ رسول اللہﷺ نے نظر بد اور زہریلے جانور کے ڈسنے پر دم کی رخصت اور اجازت فرمائی ہے۔

’’التِّوَلَۃ‘‘سے مراد وہ چیز ہے جسے مشرکین ان نظریے اور اعتقاد سے بناتے اور تیار کرتے تھے کہ یہ میاں بیوی کو ایک دوسرے کا محبوب بنانے کا ذریعہ اور سبب ہے۔

عبد اللہ بن عکیم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایا:

(مَنْ تَعَلَّقَ شَيْئًا وُكِلَ إِلَيْهِ) (مسند احمد:4 / 310، و جامع الترمذی، الطب، باب ما جاء فی کراهیۃ التعلیق، ح:2072)

’’جوشخص کوئی چیز (گلے وغیرہ میں)لٹکائے تو اسے اسی کے سپرد کر دیا جاتا ہے۔‘‘ (5)

رویفع رضی اللہ عنه فرماتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا:

(يَا رُوَيْفِعُ لَعَلَّ الْحَيَاۃ سَتَطُولُ بِكَ بَعْدِي فَأَخْبِرْ النَّاسَ أَنَّهُ مَنْ عَقَدَ لِحْيَتَهُ أَوْ تَقَلَّدَ وَتَرًا أَوْ اسْتَنْجَى بِرَجِيعِ دَابَّۃ أَوْ عَظْمٍ فَإِنَّ مُحَمَّدًاﷺ مِنْهُ بَرِيءٌ) (مسند احمد:4 / 108، 109 و سنن ابی داود، الطهارۃ، باب ما ینهی عنه ان یستنجی به ح:36)

’’اے رویفع! شاید تم دیر تک زندہ رہو۔ تم لوگوں کو بتا دینا کہ جس شخص نے ڈاڑھی کو گرہ لگائی یا (جانور کے)گلے میں تانت ڈالی یا جانور کے گوبر یا ہڈی کے ساتھ استنجا کیا تو بلا شبہ محمد ﷺ اس سے بری اور بے زار ہے۔‘‘ (6)

سعید بن جبیر رحمته اللہ علیه سے منقول ہے، وہ فرماتے ہیں :

(من قطع تميمۃ عن إنسان كان كعدل رقبۃ) (المصنف لابن أبي شيبۃ:ح:3524)

’’جس شخص نے کسی کی گردن سے تمیمہ (تعویذ) کاٹ پھینکا، اسے ایک گردن (غلام) آزاد کرنے کے برابر ثواب ہو گا۔‘‘ (7)

اور وکیع رحمۃ اللہ علیہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے شاگرد ابراھیم نخعی رحمہ اللہ علیہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا:

(كانوا يكرهون التمائم كلها، من القرآن وغير القرآن) (المصنف لابن أبي شيبۃ، ح:3518)

’’ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے شاگرد، قرآنی اور غیر قرآنی ہر قسم کے تمائم (تعویذات)کو نا پسند سمجھتے تھے۔‘‘

 

مسائل:

1:اس تفصیل سے دم اور تعویذات کی وضاحت ہوئی۔

2: ’’التِّوَلَۃ‘‘ کا مفہوم بھی واضح ہوا۔

3: غیر شرعی دم، تمیمہ اور تولہ تینوں شرک ہیں۔

4: نظر بد اور زہریلے کیڑوں کے کاٹے کا غیر شرکیہ دم ممنوع نہیں۔

5: قرآنی تعویذات کے بارے میں اہل علم کی مختلف آراء ہیں۔ بعض نے انہیں جائز اور بعض نے نا جائز قرار دیا ہے۔

6: نظر بد سے تحفظ کی خاطر جانوروں کے گلے میں تانت باندھنا بھی شرک ہے۔

7: تانت باندھنے والے پر شدید و عید وارد ہوئی ہے۔

8: کسی کے گلے میں باندھے ہوئے تعویذ کو کاٹ پھینکنے کا ثواب اور اس کی فضیلت بھی عیاں ہو رہی ہے۔

9: ابراھیم نخعی رحمہ اللہ علیہ کا قول اہل علم کے مذکورہ بالا اختلاف کے منافی نہیں کیونکہ ان کے کلام سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے اصحاب یعنی شاگرد مراد ہیں۔

 

نوٹ:

(1) اس باب میں دم کرنے اور کروانے کا حکم بیان ہوا ہے۔ ایسے اذکار، دعائیں اور بابرکت الفاظ جنہیں پڑھ کر پھونک ماری جائے، انہیں دم کہتے ہیں۔

ان میں سے بعض کا اعضائے بدن پر اور بعض کا روحانی طور پر اثر ہوتا ہے۔ بعض ان میں سے شرعاً جائز ہیں اور بعض ناجائز، حرام بلکہ شرک ہیں۔ جن دموں میں شرکیہ الفاظ نہ ہوں ، شارع علیہ السلام نے ان کی اجازت دی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’ لَا بَأْسَ بِالرُّقَى مَا لَمْ يَكُنْ شِرْكٌا‘‘

’’دم میں اگر شرکیہ کلمات نہ ہوں تو وہ جائز ہیں ، ان میں کوئی حرج نہیں ‘‘

شرکیہ دم: وہ ہیں جن میں غیر اللہ سے مدد مانگی جائے یا ان میں شیاطین کے نام آتے ہوں یا دم کرانے والا یہ عقیدہ رکھے کہ یہ کلمات از خود مؤثر یا نفع بخش ہیں۔ ایسی صورت ہو تو یہ دم ناجائز اور شرکیہ ہو گا۔

اور تمیمہ یعنی تعویذات سے مراد، چمڑے کے ٹکڑے، منکے، لکھے ہوئے بعض الفاظ و کلمات یا مختلف شکلوں کی چیزیں مثلاً ریچھ یا ہرن کا سر، خچر کی گردن، سیاہ کپڑا، آنکھ کی شکل کی کوئی چیز یا منکوں کی مالا وغیرہ کوئی بھی چیز گلے میں ڈالنا، باندھنا اور لٹکانا ہے۔ یہ تمام اشیاء تمیمہ یعنی تعویذ کہلاتی ہیں۔

الغرض ہر وہ چیز جس کے متعلق یہ اعتقاد ہو کہ یہ خیر اور بھلائی کا سبب اور نقصان سے تحفظ اور اس کے دفعیہ کا باعث ہے، اسے تمیمہ (تعویذ) کہا جاتا ہے۔ اس چیز کی شرعاً اور تقدیراً بالکل اجازت نہیں دی گئی۔ بعض لوگ کہا کرتے ہیں کہ ہم ان چیزوں کو کسی امید یا لالچ کے نظر یہ سے یا نقصان سے بچنے کی خاطر نہیں بلکہ محض گاڑی یا گھر کی زینت کے لیے لٹکاتے ہیں۔

یاد رکھنا چائے کہ ان اشیاء کو اگر کسی فائدہ کے لالچ یا نقصان سے بچنے کے لیے استعمال کیا جائے تو یہ شرک اصغر ہو گا۔ تاہم چونکہ انہیں استعمال کرنے میں مشرکین کے ساتھ مشابہت ہے اس لیے ان چیزوں کو محض زینت کے لیے لٹکانا بھی حرام ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے ’’ ’’مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ‘‘

’’جو شخص جن لوگوں کی مشابہت اختیار کرے وہ انہی میں شمار ہو گا۔‘‘

(2) اونٹوں کے گلوں سے قلادہ (ہار)کاٹنے کا حکم اس لیے دیا تھا کہ عرب سمجھتے تھے کہ یہ چیز اونٹوں اور بکریوں سے نظر بد کو دور کرتی ہے۔ ایسا عقیدہ رکھنا خلاف اسلام اور شرک ہے۔

(دور جاہلیت میں رسم تھی کہ کمان کی تانت پرانی ہو جاتی تو اسے تبدیل کر لیتے اور پرانی تانت کو چوپایوں کے گلے میں ڈال دیتے۔ ان کا خیال تھا کہ اس سے جانور نظر بد سے محفوظ رہتا ہے (مترجم)۔

(3) اس حدیث میں یہ بات تاکید کے ساتھ بیان ہوئی ہے کہ بلاشبہ تمام کے تمام منتر اور دم، ہر قسم کے تعویذ گنڈے اور باہمی عشق و محبت پیدا کرنے کے لیے تیار کی جانے والی سب چیزیں ، شرک ہیں۔ ان تمام (شرکیہ) چیزوں میں سے صرف اس دم کی رخصت اور اجازت ہے جس کی وضاحت اس فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوتی ہے۔

(لَا بَأْسَ بِالرُّقَى مَا لَمْ يَكُنْ فِيهِ شِرْكٌ) (صحیح مسلم، السلام، باب لا باس بالرقی مالم یکن فیه شرک، ح:2200 وسنن ابی داود، الطب، باب فی الرقی، ح:3886)

’’جس دم میں شرکیہ کلمات شامل نہ ہوں اس میں کوئی حرج نہیں یعنی ایسادم جائز ہے۔‘‘

اور خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی دم کیا اور کروایا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ تمام کے تمام دم شرک نہیں بلکہ بعض قسم کے دم شرک ہیں اور وہ وہی ہیں جن میں شرکیہ کلمات شامل ہوں۔

باقی رہے ’’تمائم‘‘ یعنی تعویذ گنڈے۔ تو ان کے بارے میں کچھ تخصیص نہیں کہ ان کے جائز ہونے کی کوئی صورت ہو۔ لہذا تعویذ گنڈوں کی تمام قسمیں شرک ہیں۔

’’تِوَلَۃ‘‘ کی وضاحت، شیخ (محمد بن عبد الوہاب رحمۃ اللہ علیہ)نے اس طرح بیان فرمائی ہے کہ یہ وہ چیز ہے جسے مشرکین ایک خاص عمل سے تیار کرتے اور یہ اعتقاد رکھتے تھے کہ یہ میاں بیوی کو ایک دوسرے کا محبوب بنانے کا ذریعہ اور سبب ہے۔

یہ جادو کی ایک قسم ہے۔ عام لوگ اسے صرف اور عطف، یعنی دل کو پھیر دینے اور نرم کر دینے کا ذریعہ قرار دیا کرتے تھے۔

در حقیقت یہ تعویذ گنڈوں ہی کی ایک قسم ہے کیونکہ اسے ایک خاص عمل سے تیار کیا جاتا اور جادو گر ہی شرکیہ کلمات کے ذریعہ اسے دم کرتا اور اپنے زعم باطل میں اسے میاں بیوی کو ایک دوسرے کا محبوب بنانے کا ذریعہ اور سبب بتاتا۔ اس (جادو کے عمل کی)بناء پر یہ جادو کی قسم بھی ہوئی۔ اور جادو اللہ تعالی کے ساتھ شرک اور کفر ہے۔

(4) جو بھی چیز، نظر بد دور کرنے، نقصان سے بچاؤ یا جان کی بہتری و بھلائی کے لیے لٹکائی یا باندھی جائے، خواہ اس کی شکل و صورت کسی بھی قسم کی ہو، وہ ’’تمائم‘‘ میں شامل ہے۔ کسی چیز پر قرآن آیات لکھ کر اسے لٹکانے یا باندھنے کو بعض صحابہ نے جائز قرار دیا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ مذکورہ بالا حدیث میں اگرچہ ’’تمائم‘‘ کو شرک کہا گیا ہے لیکن جب کوئی آدمی قرآنی آیات لٹکا لے یا باندھ لے تو وہ شرک کا مرتکب نہیں ہو گا، کیونکہ اس نے اللہ تعالی کی ایک صفت، کلام اللہ کا کچھ حصہ لٹکایا ہے اور اپنے نقصان کو دور کرنے کے لیے کسی مخلوق کو اللہ کا شریک نہیں ٹھہرایا۔

(5) اس حدیث میں لفظ ’’شَيْئًا‘‘ جملہ شرطیہ میں نکرہ استعمال ہوا ہے جس میں تمام اشیاء شامل ہیں۔ یعنی جو بھی شخص کوئی بھی چیز لٹکائے گا وہ اسی کے حوالے کر دیا جائے گا۔ اس دلیل میں چونکہ عموم ہے اور کسی چیز کو مستثنی نہیں کیا گیا تو جو شخص اس عموم سے، لٹکانے کی کسی چیز کا جواز پیدا کرنے کی کوشش کرے، اس کی دلیل اسی پر پڑے گی اور اس کی بات رد کر دی جائے گی۔

جب کسی بندے کو غیر اللہ کے سپرد کر دیا جائے تو خسارہ اور نقصان اسے ہر جانب سے گھیر لیتا ہے۔ انسان کی عزت و فلاح کامیابی اور اس کے ارادہ و عمل کی بہتری اسی میں ہے کہ وہ اپنے اعمال و اقوال میں اور نقصان کو دور کرنے کے سلسلہ میں اپنا تعلق اور توجہ محض ایک اللہ کی جانب رکھے۔ اس کا انس، سرور اور اس کا تعلق صرف اللہ تعالی کے ساتھ ہو، اپنے معاملات اللہ تعالی ہی کے سپرد کرے، توکل اور بھروسہ ہو تو اللہ ہی پر۔اب جو شخص اپنے معاملات اللہ کے سپرد کر دے اور مخلوق کو اپنے دل سے نکال باہر کرے تو پھر خواہ آسمانوں اور زمین کی تمام مخلوقات اس کے ساتھ مکر و  فریب اور اس کی مخالفت کرے اللہ تعالی اس کا ساتھ نہیں چھوڑتا اور اس کے لیے نجات کی راہ نکال دیتا ہے کیونکہ اس نے بھروسہ اس پر کیا اور اپنا معاملہ اس کے سپرد کیا ہے جو بہت ہی عظمت و شان کا مالک ہے۔

(6) ’’تَقَلَّدَ وَتَرًا‘‘۔ ’’تَقَلَّدَ‘‘کے ساتھ ’’وَتَرًا‘‘ کا لفظ بولنے سے ایک خاص مفہوم مراد ہے۔ وہ یہ کہ گلے میں پہنی اور ڈالی جانے والی کوئی چیز بذات خود ممنوع نہیں ہے، بلکہ ممنوع اس صورت میں ہے جب اس کے بارے میں یہ اعتقاد رکھا جائے کہ یہ نظر بد سے تحفظ کا ذریعہ ہے۔ جیسا کہ تانت وغیرہ کے بارے میں یہی اعتقاد ہوتا تھا۔

’’فَاِنَّ مُحَمَّدًا بَرِىْءٌمِنْهُ‘‘ ’’بلاشبہ محمد اس سے بے زار ہے۔‘‘ یہ ایسا جملہ ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ افعال کبیرہ گناہوں میں سے ہیں۔اور یہ اللہ اور اس کے رسول کی بہت بڑی نا فرمانی ہے۔ نیز جس طرح شرک اکبر کبیرہ گناہوں میں سے ہے ایسے ہی شرک اصغر بھی کبیرہ گناہوں میں شامل ہے۔

(7) اس میں تمائم (تعویذات)کو کاٹ پھینکنے کی فضیلت بیان ہوئی ہے کیونکہ انہیں لٹکانا یا باندھنا اللہ کے ساتھ شرک (اصغر) ہے اور شرک اصغر کے بارے میں وعید یہ ہے کہ یہ موجب جہنم ہے۔

جب کسی نے کسی کی گردن سے تمیمہ (تعویذ) کاٹ پھینکا تو گویا اس کی گردن کو جہنم کی آگ سے آزاد کر دیا کیونکہ وہ اس فعل شنیع کی وجہ سے جہنم آگ کا مستحق ہو رہا تھا۔ جب اس نے تمیمہ کا ٹ کر اس کی گردن کو جہنم سے آزاد کر دیا تو اسے بھی اسی طرح کی جزا ملے گی۔ اس کی گردن بھی جہنم کی آگ سے آزاد کر دی جائے گی۔

 

 

 

باب:8 جو شخص کسی درخت یا پتھر وغیرہ کو متبرک سمجھے (1)

 

اللہ تعالی کا ارشاد ہے :

(أَفَرَأَيْتُمُ اللَّاتَ وَالْعُزَّى (19) وَمَنَاۃ الثَّالِثَۃ الْأُخْرَى (سورۃ النجم53: 20))

’’بھلا تم نے کبھی لات، عزی اور تیسری گھٹیا و حقیر دیوی منات کے بارے میں بھی غور کیا ہے۔‘‘ (2)

ابو واقد لیثی رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ حنین کی طرف جا رہے تھے ابھی ہم نئے نئے مسلمان ہوئے تھے۔ (راستے میں)مشرکین کی ایک بیری تھی۔ وہ (عظمت اور برکت کے خیال سے)اس کے پاس آ کر ٹھہرتے اور (برکت کے لیے)اپنے ہتھیار بھی اس پر لٹکایا کرتے تھے۔ اس کا نام ’’ذات انواط‘‘ تھا۔ چلتے چلتے ایک بیری کے پاس سے ہمارا گزر ہوا تو ہم نے کہا: اے اللہ کے رسول (ﷺ)!جیسے ان مشرکین کا ’’ذات انواط‘‘ ہے۔آپ ہمارے لیے بھی ایک ’’ذات انواط‘‘ مقرر فرما دیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

(اَللهُ أَكْبَرُ! إِنَّهَا السُّنَنُ، قُلْتُمْ وَالًّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ كَمَا قَالَتْ بَنُو إِسْرَائِيلَ لِمُوْسى (اجْعَل لَّنَا إِلهَاً كَمَا لَهُمْ آلِهَۃ) (لَتَرْكَبُنَّ سُنَنَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ) (جامع الترمذی، الفتن، باب ماجاء لترکبن سنن من کان قبلکم، ح:2180 ومسند احمد:5 / 218)

’’اللہ اکبر!یہی تو (گمراہی اور سابقہ قوموں کے) راستے ہیں۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! تم نے تو وہی بات کی جو بنو اسرائیل نے موسی علیہ السلام سے کہی تھی کہ : (اے موسی!)جیسے ان (بت پرستوں)کے معبود ہیں ، آپ ہمارے لیے بھی ایک معبود مقرر کر دیں۔ پھر نبی ﷺ نے فرمایا: تم بھی پہلی امتوں کے طریقوں پر چلو گے۔‘‘ (3)

 

مسائل:

1) ’’سورۃ النجم‘‘ کی آیت 1920 کی تفسیر ہے۔

2) صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ’’ذات انواط‘‘ مقرر کرنے کے مطالبہ کی صحیح توجیہہ بھی معلوم ہوئی کہ وہ صرف تبرک کی خاطر ’’ذات انواط‘‘ مقرر کرانا چاہتے تھے ان کا مقصود اسے معبود بنانا نہ تھا۔

3) واضح رہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اپنی اس خواہش کا محض اظہار ہی کیا تھا۔ اسے عملی جامہ نہیں پہنایا تھا۔

4) اور اس سے ان کا مقصود قرب الہی کا حصول ہی تھا کیونکہ ان کا خیال تھا کہ اللہ تعالی اسے پسند فرماتا ہے۔ مگر حقیقت میں ان کی یہ بات درست نہ تھی۔

5) صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جیسی عظیم ہستیوں پر شرک کی یہ قسم مخفی رہی تو عام لوگوں کا اس سے نا واقف یا نابلد (ناآشنا)رہنا زیادہ قرین قیاس ہے۔

6) (اعمال صالحہ کے بدلے میں)صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے جو نیکیوں اور بخشش کے وعدے کیے گئے ہیں وہ دوسروں کو حاصل نہیں ہو سکتے۔

7) رسول اللہ ﷺ نے اس بارے میں صحابہ رضی اللہ عنہم کو معذور نہ جانا بلکہ آپ نے ان کی تردید کرتے ہوئے معاملے کی سنگینی ان تین جملوں میں بیان کی۔ (اَللهُ أَكْبَرُ! إِنَّهَا السُّنَنُ، لَتَرْكَبُنَّ سُنَنَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ) ’’ اللہ سب سے بڑا ہے۔ یہی تو گمراہی کے راستے ہیں۔ تم پہلی امتوں کے طریقوں پر چلو گے۔‘‘

8) سب سے اہم بات جو اصل مقصود ہے وہ نبیﷺ کا صحابہ رضی اللہ عنہم سے یہ فرمانا کہ ’’تمہارا مطالبہ اور تمہاری فرمائش بھی بنی اسرائیل جیسی ہے۔‘‘ انہوں نے کہا تھا کہ ’’اے موسی!ہمارے لیے بھی ایک معبود مقرر کر جس طرح ان کے معبود ہیں۔‘‘ تو تم نے بھی ویسا مطالبہ کر دیا۔

9) اس قسم کے مقامات کو متبرک اور مقدس نہ سمجھنا بھی توحید اور کلمہ توحید کا تقاضا ہے۔ یہ ایک انتہائی دقیق اور پوشیدہ بات ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی اس کا ادراک نہ کرسکے۔

10) فتوی دیتے ہوئے فتوی پر قسم اٹھانا جائز ہے جبکہ بلا مقصد اور بلا مصلحت قسم اٹھانا رسول اللہﷺ کی عادت نہ تھی۔

11) صحابہ رضی اللہ عنہم کے ذات انواط کے مطالبہ کے باوجود انہیں مرتد نہیں سمجھا گیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ اس مسئلہ (تبرک)میں شرک بڑا بھی ہوتا ہے اور چھوٹا بھی۔

12) ابو واقد رضی اللہ عنہ کا یہ کہنا کہ ’’اس وقت ہم نئے نئے مسلمان ہوئے تھے۔‘‘ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ان کے علاوہ دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اس مسئلہ کا علم تھا کہ ایسا کرنادرست نہیں۔

13) اظہار تعجب کے موقع پر ’’الله اکبر‘‘ کہنا جائز ہے۔ اس میں ان لوگوں کی تردید ہے جو اسے مکروہ سمجھتے ہیں۔

14) شرک و بدعت کے تمام اسباب و ذرائع کا سدباب کرنا ضروری ہے۔

15) اہل جاہلیت سے مشابہت کرنا جائز نہیں۔

16) دوران تعلیم و تدریس کسی شاگرد کی غلطی پر ناراضی کا اظہار کیا جا سکتا ہے۔

17) نبی ﷺ نے ’’إِنَّهَا السُّنَنُ‘‘فرما کر عمومی اصول بیان فرما دیا۔

18) نبی ﷺ کا یہ فرمانا کہ ’’تم لوگ پہلی امتوں (یہود و نصاریٰ)کے طریقوں پر چلو گے۔‘‘یہ حدیث آپ کی علامت نبوت میں سے ہے کیونکہ آج کل بعینہ ایسا ہو رہا ہے۔

19) اللہ تعالی نے قرآن مجید میں جن کاموں اور باتوں پر یہود و نصاریٰ کی مذمت فرمائی ہے وہ دراصل ہمیں تنبیہ ہے تاکہ ہم ان کاموں سے بچ کر رہیں۔

20) اہل علم کے ہاں یہ اصول طے ہے کہ عبادات کی بنیاد اللہ تعالی کے حکم اور امر پر ہے۔ اپنی مرضی یا خواہش سے کوئی عبادت مقرر نہیں کی جا سکتی۔ اس سے قبر کے سوالات پر تنبیہ ہے کہ قبر میں پہلا سوال یہ ہو گا کہ ’’تیرا رب کون ہے ؟‘‘ یہ تو واضح ہے کہ البتہ دوسرا وسوال ’’تیرا نبی کون ہے ؟‘‘ اس کا تعلق امور غیبیہ سے ہے اور تیسرا سوال کہ ’’تیرا دین کیا ہے ؟‘‘اس پر آیت ’’اجْعَل لَّنَا إِلهَاً‘‘ دلالت کرتی ہے۔

21) اہل کتاب کے طور طریقے بھی اسی طرح مذموم ہیں جیسے مشرکین کا مذہب اور ان کے طور اطوار مذموم ہیں۔

22) جو شخص نیا نیا مسلمان ہوا ہو اس کے دل میں دور کفر و شرک کی عادات و اطوار کا پایا جانا بعید ازقیاس نہیں۔ جیسا کہ پیش نظر واقعہ میں صحابہ رضی اللہ عنہم کے اس قول سے واضح ہے کہ ہمارا زمانہ کفر ابھی نیا نیا گزرا تھا یعنی ہم ابھی نئے نئے مسلمان ہوئے تھے۔

 

نوٹ:

(1) ایسے شخص کے بارے میں کیا حکم ہے جو کسی درخت یا پتھر وغیرہ کو متبرک سمجھے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ وہ مشرک ہے۔

تبرک کا معنی، برکت حاصل کرنا ہے۔ یعنی خیر اور بھلائی کی کثرت اور اس کے ہمیشہ ہمیشہ رہنے کی تمنا اور خواہش رکھنا۔ قرآن و سنت کے دلائل سے یہ بات ثابت ہے کہ برکت دینے والا صرف اللہ تعالی ہے۔ مخلوق میں سے کوئی، کسی کو برکت نہیں دے سکتا۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے۔

(تَبَارَكَ الَّذِي نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلَى عَبْدِهِ لِيَكُونَ لِلْعَالَمِينَ نَذِيرًا (سورۃ الفرقان25: 1))

’’بابرکت ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے پر فرقان (قرآن)نازل کیا۔‘‘

یعنی اس ذات کی خیر و بھلائی بہت عظیم، بہت زیادہ اور ہمیشہ رہنے والی ہے جس نے اپنے بندے پر قرآن نازل کیا اور فرمایا:

(وَبَارَكْنَا عَلَيْهِ وَعَلَى إِسْحَاقَ (سورۃ الصافات37: 113))

’’ہم نے ابراہیم (علیہ السلام)ا ور اسحق (علیہ السلام)پر برکتیں نازل کیں۔‘‘

نیز فرمایا:

(وَجَعَلَنِي مُبَارَكًا (سورۃ مريم19: 31))

’’ (عیسی علیہ السلام نے ماں کی گود میں کہا تھا)اور اللہ نے مجھے بابرکت بنایا ہے۔‘‘

تو برکت دینے والا صرف اللہ تعالی ہے۔ مخلوق میں سے کسی کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ یہ کہے کہ میں نے فلاں چیز میں برکت ڈالی یا میں تمہارے کام کو بابرکت بناؤں گا یا تمہارا آنا مبارک ہے۔ چونکہ خیر، اس کی کثرت اور اس کا لزوم اور دوام صرف اسی ذات کی طرف سے ہوتا ہے جس کے ہاتھ میں تمام تر معاملات کا اختیار ہے، اس لیے لفظ ’’برکت‘‘ کا محور و منبع صرف اللہ تعالی کی ذات ہے۔

کتاب و سنت کے دلائل سے واضح ہوتا ہے کہ جن چیزوں کو اللہ تعالی نے برکت سے نوازا ہے وہ یا تو کچھ مقامات یا اوقات ہیں یا افراد و شخصیات۔

پہلی قسم:مقامات یا اوقات۔

ظاہر ہے کہ جب اللہ تعالی نے بعض جگہوں کو بابرکت بنایا ہے جیسے بیت اللہ شریف اور بیت المقدس کا آس پاس وغیرہ۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ان جگہوں میں بہت زیادہ خیر اور بھلائی ہے جو ہمیشہ ان کے ساتھ منسلک اور مربوط ہے اور یہ خیر و برکت ان میں اس لیے رکھی گئی ہے تاکہ جن لوگوں کو ان کی زیارت کی دعوت دی گئی ہے ان میں یہ رغبت اور شوق پیدا ہو کہ وہ ہمیشہ اپنا تعلق اور دلی لگاؤ ان کے ساتھ رکھیں۔

ان جگہوں کے بابرکت ہونے کا یہ مفہوم قطعاً نہیں کہ وہاں کی سرزمین یا دیواروں کو چھوا جائے کیونکہ یہ برکت ان کے ساتھ اس طرح سے لازم ہے کہ کسی دوسری چیز میں منتقل نہیں ہو سکتی۔ یعنی زمین کو چھونے، وہاں دفن ہونے اور اسے متبرک سمجھنے سے اس کی برکت منتقل نہیں ہو جاتی۔

کسی جگہ کے بابرکت ہونے کا مفہوم یہ ہے کہ لوگوں کا دلی تعلق اس جگہ کے ساتھ وہ جیسے بیت اللہ الحرام ہے کہ اس کا قصد و ارادہ کرنے والا، وہاں جا کر اس کا طواف کرنے والا اور عبادت بجا لانے والا بہت ہی خیر کا مستحق ٹھہرتا ہے، حتیٰ کہ حجراسود بھی ایک بابرکت پتھر ہے لیکن اس کی برکت بھی عبادت ہی کی بنا پر ہے۔یعنی جو شخص نبی ﷺ کی اتباع و اطاعت کرتے ہوئے بطور عبادت اسے چھوئے اور بوسہ دے گا وہ اس اتباع کی برکت بھی پالے گا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے حجراسود کو بوسہ دیتے ہوئے فرمایا تھا:

(إِنِّي أَعْلَمُ أَنَّكَ حَجَرٌ لاَ تَنْفَعُ وَلاَ تَضُرُّ) (صحیح البخاری، الحج، باب ما ذکر فی الحبر الاسود، ح1597 وسنن ابی داود، المناسک، باب فی تقبیل الحجر، ح:1873 واللفظ له)

’’میں جانتا ہوں کہ تو محض ایک پتھر ہے، تو کوئی نفع دے سکتا ہے نہ کوئی نقصان۔‘‘ یعنی کسی میں کوئی نفع منتقل کرسکتا ہے نہ کوئی ضرر دفع کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

رہے اوقات! تو کسی وقت، ماہ رمضان یا اس کے علاوہ فضیلت کے حامل دیگر ایام کے بابرکت ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ان میں عبادت بجا لانا اور بھلائی کا قصد کرنا جس قدر زیادتی اجر و ثواب کا باعث ہے، ان کے علاوہ دوسرے ایام میں اس قدر اجر و ثواب نہیں۔

دوسری قسم: جس برکت کا تعلق شخصیات کے ساتھ ہے۔

اللہ تعالی نے انبیاء و رسل کی ذات میں برکت رکھی تھی یعنی ان کے اجسام بابرکت تھے کہ ان کا کوئی امتی اگر ان کے اجسام کو ہاتھ لگا کر یا ان کا پسینہ حاصل کر کے یا ان کے بالوں سے برکت حاصل کرنا چاہتا تو یہ اس کے لیے جائز ہوتا تھا کیونکہ اللہ تعالی نے ان کے جسموں میں برکت رکھی تھی۔ اسی طرح سیدنا محمد ﷺ کا جسم اطہر بھی بے حد مبارک تھا۔

احادیث میں آتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ کے پسینے، بالوں اور دیگر اشیاء سے برکت حاصل کیا کرتے تھے۔ انبیاء ورسل کی برکت ذاتی ہوتی تھی۔ اس برکت اور فضل و خیر کا ان کے جسموں سے دوسروں تک منتقل ہونا ممکن تھا۔ اور یہ صرف انبیاء کا خاصہ تھا۔

رہے انبیاء کے علاوہ دوسرے لوگ تو انبیاء کے امتیوں میں سے کسی کے بارے میں کوئی دلیل نہیں کہ اس کی ذات بھی بابرکت ہو، حتیٰ کہ اس امت (محمدیہ علی صاحبھا الصلاۃ و التسلیم) کی افضل ترین شخصیات، ابوبکر رضی اللہ عنہ سے بھی تبرک لینے کی کوئی دلیل نہیں۔

یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین، تابعین اور مخضرمین (وہ لوگ جو عہد نبوی میں اسلام قبول کر چکے تھے لیکن نبیﷺ سے ملاقات نہیں ہوئی تھی)، ابو بکر و عمر و عثمان و علی رضی اللہ عنہم سے اس طرح تبرک نہیں لیا کرتے تھے جس طرح نبی ﷺ کے بالوں یا وضوء کے پانی سے تبرک لیتے تھے۔ ان بزرگ شخصیات کی برکت تو محض ان کے اعمال کی برکت ہوتی تھی نہ کہ ذات کی، کہ نبی ﷺ کی ذاتی برکت کی طرح ان کی برکت بھی دوسروں تک منتقل ہوسکے۔

لہذا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہر مسلمان میں برکت ہے اور یہ برکت اس کی ذات میں نہیں بلکہ اس کے عمل یعنی اسلام، ایمان، اللہ پر یقین اور دل میں اس کی عظمت و جلالت اور رسول اللہﷺ کی اتباع کی برکت ہے اور یہ علم، عمل اور نیکی کی برکت دوسروں تک منتقل نہیں ہوسکتی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ نیک لوگوں سے تبرک لینے کا مفہوم یہ ہے کہ نیکی میں ان کی اقتداء اور پیروی کی جائے اور اہل علم سے تبرک لینے کا مطلب یہ ہے کہ ان سے علم حاصل کیا جائے اور ان کے علوم سے استفادہ کیا جائے۔ ان کے جسموں کو چھو کر یا ان کے لعاب سے تبرک لینے کا نظریہ و اعتقاد رکھنا ہرگز جائز نہیں۔ کیونکہ اس امت کے افضل ترین لوگوں (صحابہ کرام رضی اللہ عنہم)نے اپنے سے بہتر صحابہ، ابوبکر و عمر و عثمان و علی رضی اللہ عنہم کے ساتھ کبھی اس قسم کا معاملہ نہیں کیا تھا۔

مشرکین، معبودان باطلہ سے تعلق قائم کر کے خیر اور بھلائی اور اس کے ہمیشہ ہمیشہ رہنے کی امید سے تبرک لیتے تھے اور یہ تبرکات مختلف اقسام کے ہوتے ہیں کہ سراسر شرکیہ ہیں۔

کوئی شخص، کسی درخت، پتھر، زمین کے قطعے، غار، قبر، پانی کے چشمے یا دیگر اشیاء کو، جن کے بارے میں جاہل لوگ غلط اعتقاد رکھتے ہیں ، متبرک سمجھے وہ شرک ہے۔

یاد رہے ! کسی درخت، پتھر، قبر یا کسی قطعہ زمین کو متبرک سمجھنا اس وقت شرک اکبر بن جاتا ہے جب کوئی آدمی ان کی برکت کے حصول کی امید میں یہ اعتقاد رکھے کہ اس درخت، پتھر یا قبر وغیرہ کو جب وہ چھوئے گا، اس کی خاک میں لت پت ہو گا یا اس کے ساتھ چمٹے گا تو یہ اس کے لیے اللہ کے تقرب کا واسطہ اور ذریعہ ہو گا اور جب اس کے بارے میں یہ اعتقاد قائم کر لیا کہ یہ اللہ کے قرب کے حصول کا وسیلہ اور واسطہ ہے تو یہ غیر اللہ کو معبود بنا لینے کے مترادف ہو گا جو کہ شرک اکبر ہے۔

اہل جاہلیت جن درختوں اور پتھروں کو پوجتے یا جن قبروں سے تبرک لیتے تھے ان کے بارے میں ان کا یہی زعم اور اعتقاد ہوتا تھا کہ جب وہ ان کے پاس مجاور بن کر ٹھہریں گے، ان کو چھوئیں گے یا اپنے اوپر قبر کی مٹی ڈالیں گے تو وہ چیز، قطعہ زمین یا اس قطعہ زمین والا یا اس کی خدمت گزار روح ان کے لیے اللہ کے تقرب کے حصول کا واسطہ اور ذریعہ ہو گی جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے :

(وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ مَا نَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِيُقَرِّبُونَا إِلَى اللَّهِ زُلْفَى (سورۃ الزمر39: 3))

’’جن لوگوں نے اللہ کے سوا غیروں کو اپنے مدد گار بنا رکھا ہے وہ کہتے ہیں کہ ہم تو ان کی عبادت صرف اس لیے کرتے ہیں کہ یہ ہمیں اللہ کے قریب ترین کر دیں۔‘‘

اور تبرک، شرک اصغر اس وقت ہوتا ہے جب کوئی آدمی قبر کی مٹی لے کر اپنے اوپر محض اس نظریے سے ڈالے کہ یہ مٹی بابرکت ہے یا اپنا جسم کسی چیز کے ساتھ اس لیے ملے کہ اس کے سبب سے میرا جسم بھی بابرکت ہو جائے گا تو یہ شرک اصغر ہے کیونکہ اس نے عبادت کا حقدار غیر اللہ کو نہیں ٹھہرایا بلکہ اس نے ایک ایسی چیز کو (برکت کے حصول کا)سبب تصور کیا ہے جس کی شرعاً اجازت نہیں۔

(2) لات:یہ سفید رنگ کا ایک پتھر تھا جو اہل طائف کا معبود تھا۔ اس پر ایک عمارت کھڑی کی گئی تھی۔اور اس کے متعدد خدام (مجاور)بھی تھے۔ قبیلہ ثقیف مسلمان ہوا تو نبی کریم ﷺ نے اس بت کو توڑنے اور منہدم کرنے کے لیے سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کو روانہ فرمایا۔ انہوں نے جا کر اسے گرایا اور توڑڈالا۔

عزی:    یہ مکہ اور طائف کے درمیان ایک درخت تھا۔ بعد میں ببول کے تین درختوں کے اوپر ایک عمارت کھڑی کر دی گئی۔ اس کے بھی مجاور تھے۔ وہاں ایک کاہنہ عورت تھی جو اس شرک کا اہتمام کیا کرتی تھی۔ جب مکہ فتح ہوا تو نبی کریم ﷺ نے خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو ادھر روانہ فرمایا انہوں نے جا کر تینوں درخت کاٹ ڈالے۔ اور اس کاہنہ عورت کو جو لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے جنات کو حاضر کیاکرتی تھی، قتل کرڈالا۔ دراصل لوگوں کو اس درخت اور شرک کا اہتمام کرنے والی اس کاہن عورت کے ساتھ خصوصی عقیدت و محبت تھی۔

مناۃ:     یہ مشرکین کی ایک تیسری دیوی تھی جسے اللہ تعالی نے گھٹیا اور حقیر کہا ہے۔ اس کی تعظیم کے نظریہ سے لوگ اس کے قریب جانور ذبح کرتے اور اس پر خون بہایا کرتے تھے۔ وہاں جانور ذبح کیے جانے اور خون بہائے جانے کی وجہ سے اسے (عربی لغت کے لحاظ سے) ’’مناۃ‘‘کہا جاتا تھا۔

آیت کی اس باب سے مناسبت: اس آیت کی اس باب سے وجہ مناسبت یہ ہے کہ لات اور منات دونوں پتھر تھے جبکہ ’’عزی‘‘ایک درخت تھا۔ ان پتھروں اور درختوں کے ساتھ اس زمانہ کے مشرکین وہی معاملہ کیا کرتے تھے جو بعد کے زمانوں کے مشرکین پتھروں ، درختوں اور غاروں کے ساتھ روا رکھتے آرہے ہیں جبکہ قبروں کو معبود بنا کر ان کے قریب عبادت کرنا اور انہیں اپنی توجہ و فریاد کا مرکز بنالینا تو اس سے بھی سنگین جرم ہے۔

(3) یہ حدیث سندا صحیح اور عظیم الشان ہے۔ غور کیجئے !مشرکین کا اس بیری کے درخت کے بارے میں ایک خاص اعتقاد تھا اور اس اعتقاد میں تین چیزیں شامل تھیں۔

(الف) وہ اس کی تعظیم و تکریم کرتے تھے۔

(ب) وہ تعظیم اور تقرب کی نیت سے اس کے پاس ٹھہرتے اور اعتکاف کرتے تھے۔

(ج) وہ اپنے ہتھیار اس پر اس نیت سے لٹکاتے تھے کہ اس درخت کی برکت ان ہتھیاروں میں منتقل ہو گی جس سے یہ تیز تر اور استعمال کرنے والے کے لیے بہتر ثابت ہوں گے۔ ان کے اعتقاد میں بیک وقت ان تینوں چیزوں کے شامل ہونے کی وجہ ہی سے ان کا یہ فعل، شرک اکبر تھا۔

صحابہ میں سے جو لوگ نئے نئے مسلمان ہوئے تھے انہوں نے کہا: ’’اے اللہ کے رسول! جیسے ان مشرکین کا ذات انواط ہے آپ ہمارے لیے بھی ایک ذات انواط مقرر فرمادیں۔‘‘ ان کاگمان تھا کہ یہ عمل شرک میں داخل نہیں ہے اور کلمہ توحید ’’لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّه‘‘سے اس فعل کی نفی نہیں ہوتی۔ اسی لیے علماء کا کہنا ہے کہ بسا اوقات بڑے بڑے فضلاء سے بھی شرک کی بعض صورتیں مخفی رہ جاتی ہیں۔ جیسا کہ صحابہ جو کہ لغت عرب سے خوب واقف تھے اور فتح مکہ کے بعد مسلمان ہوئے تھے ان سے بھی توحید فی العبادت کی یہ قسم مخفی رہی۔ ان نو مسلم صحابہ کے اس مطالبے پر رسول اللہ ﷺ نے جواب میں فرمایا: ’’اللہ اکبر!یہی تو گمراہی کے راستے ہیں۔ اس ذات کی قسم جن کے ہاتھ میں میری جان ہے ! تم نے وہی بات کہی جو بنی اسرائیل نے موسی علیہ السلام سے کہی تھی کہ : (اے موسی!)جیسے ان کے معبود ہیں آپ ہمارے لیے بھی ایک معبود مقرر کر دیں۔‘‘

آپ نے بطور تنبیہ ان کے اس مطالبے کو قوم موسی (بنی اسرائیل)کے اس مطالبے کے ساتھ تشبیہ دی جو انہوں نے بت پرستوں کو دیکھ کر موسی علیہ السلام سے کہا تھا ان کے معبودوں کے طرح ہمارا بھی ایک معبود مقرر کر دیں۔

(نو مسلم) صحابہ کا جو مطالبہ تھا ان کا عمل اس کے مطابق نہ تھا اور جب نبی ﷺ نے ان کو روکا تو وہ رک گئے اور اگر وہ یہ عمل کر بیٹھتے تو یہ شرک اکبر ہوتا۔ لیکن جب انہوں نے محض زبانی طور پر مطالبہ پیش کیا تھا اور عمل نہیں کیا تھا تو ان کا یہ قول شرک اصغر کے زمرہ سے ہوا کیونکہ یہ مطالیہ میں غیر اللہ کے ساتھ تعلق و ربط کا اظہار تھا۔ یہی وجہ ہے کہ نبی ﷺ نے انہیں ازسرنو اسلام قبول کرنے کا حکم نہیں دیا۔

اس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ جس شرک اکبر میں مشرکین مبتلا تھے وہ ذات انواط سے محض تبرک لینے تک محدود نہیں تھابلکہ اس کی تعظیم کرنا، وہاں قیام و اعتکاف کرنا اور ہتھیار لٹکاکر برکت کے حصول کا نظریہ رکھنا بھی اس میں شامل تھا۔ اور یہ بات پہلے گزر چکی ہے کہ جب کسی درخت یا پتھر وغیرہ سے تبرک لینے میں یہ اعتقاد شامل ہو کہ یہ چیز اللہ کے قرب کے حصول کا ذریعہ اور اس کے سامنے حاجات پیش کرنے کا وسیلہ ہے اور اس سے تبرک لینے کی بنا پر حاجت پوری ہونے کی امید زیادہ قوی اور کام کا انجام بہتر ہو گا، تو یہ شرک اکبر ہے اور زمانہ جاہلیت (اسلام سے پہلے)کے لوگ بھی یہی کچھ کیا کرتے تھے۔

موجودہ زمانہ میں قبروں کے پجاری اور اہل بدعت و خرافات کے اعمال و کردار پر غور کریں تو پتہ چلتا ہے کہ کفارومشرکین لات، عزی اور ذات انواط کے ساتھ جو معاملہ کرتے اور ویسا ہی عقیدہ رکھتے ہیں۔ آج کل دنیا میں جن جن مقامت پر شرک ہو رہا ہے، آپ دیکھیں گے کہ لوگ قبر کے اردگرد چار دیواری اور لوہے کے جنگلوں کو بھی اسی طرح بابرکت سمجھتے ہیں بلکہ وہ چار دیواری اور جنگلے کور چھوتے ہوئے یہی تصور کرتے ہیں کہ گویا انہوں نے خود صاحب قبر ہی کو چھولیا اور ہاتھ لگالیا ہے۔ ان اشیاء کی تعظیم کر کے وہ سمجھتے ہیں کہ گویا اس طرح انہوں نے صاحب قبر ہی کی تعظیم کی ہے۔ ایسا کرنا بہت بڑا شرک ہے کیونکہ حصول نفع اور ضرر کے دفعیہ کے لیے ان کا دل غیر اللہ کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور وہ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ ان غیروں کی تعظیم کرنے سے ہمیں اللہ تعالی کا قرب حاصل ہو گا۔ حالانکہ مشرکین بھی تو ایسی ہی باتیں کیا کرتے تھے۔ جیسا کہ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں ان کی بات بیان کی ہے وہ کہا کرتے تھے۔

(مَا نَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِيُقَرِّبُونَا إِلَى اللَّهِ زُلْفَى (سورۃ الزمر39: 3))

’’ہم ان (غیراللہ)پوجا صرف اس لیے کرتے ہیں کہ یہ ہمیں اللہ تعالی کے قریب تر پہنچا دیں۔‘‘

آج کل کے بعض مشرک، بعض جگہوں کو ہاتھ لگانے یا مس کرنے کو بھی قرب الہی کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ مثلاً بعض لوگ حرم میں آکر حرم کے بیرونی دروازوں ، دیواروں یا بعض ستونوں کو ہاتھ لگاتے اور چومتے ہیں۔ اگر ان کا عقیدہ یہ ہو کہ اس ستون میں کوئی روح ہے یا اس کے قریب کوئی ہستی مدفون ہے یا کوئی اچھی روح ان دروازوں ، دیواروں یا ستونوں کی خدمت کرتی ہے اس لیے وہ انہیں چھوتے ہیں تو ان کا یہ عمل ’’شرک اکبر‘‘یعنی بہت بڑا شرک ہے۔ اور اگر ان کا عقیدہ ہو کہ یہ جگہ بڑی بابرکت اور مقدس ہے اور اسے چھونا یا ہاتھ لگانا مفید ہو سکتا ہے تب یہ عمل شرک اصغر ہے۔

 

 

 

باب:9 غیر اللہ کے لیے جانور ذبح کرنا (1)

 

اللہ تعالی کا ارشاد ہے۔

(قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ (162) لَا شَرِيكَ لَهُ وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ (سورۃ الأنعام6: 163))

’’کہہ دیجئے ! بے شک میری نماز، میری قربانی، میری زندگی اور میری موت، اللہ رب العالمین کے لیے ہے۔ اس کاکوئی شریک نہیں اور مجھے اسی بات کا حکم دیا گیا ہے اور میں اس کا سب سے پہلا فرمانبردار ہوں۔ (2)

نیز اللہ تعالی نے فرمایا:

(فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ (سورۃ الكوثر108: 2))’’پس تم اپنے رب ہی کے لیے نماز پڑھو اور قربانی دو۔‘‘ (3)

 

حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے مجھے چار باتیں ارشاد فرمائیں :

(لَعَنَ اللهُ مَنْ ذَبَحَ لِغَيْرِ اللهِ، وَلَعَنَ اللهُ مَنْ لَعَنَ وَالِدَيْهِ، وَلَعَنَ اللهُ مَنْ آوَى مُحْدِثًا، وَلَعَنَ اللهُ مَنْ غَيَّرَ مَنَارَ الْأَرْضِ)صحیح مسلم، الاضاحی، باب تحریم الذبح لغیر اللہ تعالی و لعن فاعلہ، ح:1978)

(1) ’’جو شخص غیر اللہ کے لیے جانور ذبح کرے اس پر اللہ تعالی کی لعنت ہے۔

(2) جو شخص اپنے والدین پر لعنت کرے اس پر بھی اللہ تعالی کی لعنت ہے۔

(3) جو شخص کسی بدعتی کو پناہ دے اس پر بھی اللہ تعالی کی لعنت ہے۔

(4) اور جو شخص حدود زمین کے نشانات کو بدلے اس پر بھی اللہ کی لعنت ہے۔‘‘ (4)

طارق بن شہاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

(دَخَلَ الْجَنَّۃ رَجُلٌ فِي ذُبَابٍ، وَدَخَلَ النَّارَ رَجُلٌ فِي ذُبَابٍ قَالُوا: وَكَيْفَ ذلِكَ يَا رَسُولَ اللهِ ؟ قَالَ: «مَرَّ رَجُلاَنِ عَلى قَوْمٍ لَّهُمْ صَنَمٌ لاَيَجُوزُهُ أَحَدٌ حَتَّى يُقَرِّبَ لَهُ شَيْئاً، فَقَالُوا لأَحَدِهِمَا قَرِّبْ قَالَ: لَيْسَ عِنْدِي شَيْءٌ أُقَرِّبُ قَالُوا لَهُ: قَرِّبْ وَلَوْ ذُبَاباً، فَقَرَّبَ ذُبَاباً، فَخَلَّوْا سَبِيلَهُ، فَدَخَلَ النَّارَ، وَقَالُوا لِلآخَر: قَرِّبْ، فَقَالَ: مَا كُنْتُ لأُقَرِّبَ لأَحَدٍ شَيْئاً دُونَ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ، فَضَرَبُوا عُنُقَهُ فَدَخَلَ الْجَنَّۃ) (اخرجہ احمد فی کتاب الزھد و ابونعیم فی الحلیۃ :1 / 203 کلاھما موقوفا علی سلمان الفارسی)

’’ایک شخص ایک مکھی کی وجہ سے جنت میں گیا اور ایک شخص ایک مکھی ہی کی وجہ سے جہنم میں جا پہنچا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ (ﷺ)! وہ کیسے ؟ آپ نے فرمایا: ’’دوآدمیوں کا ایک قوم پر گزر ہوا۔ جس کا ایک بت تھا وہ کسی کو وہاں سے چڑھاوا چڑھائے بغیر گزرنے کی اجازت نہ دیتے تھے۔ ان لوگوں نے ان میں سے ایک سے کہا : چڑھاوا چڑھاؤ۔ اس نے کہا : میرے پاس چڑھاوے کے لیے کچھ نہیں۔ انہوں نے کہا: تمہیں یہ کام ضرور کرنا ہو گا۔ خواہ ایک مکھی ہی چڑھاؤ۔ اس نے ایک مکھی کا چڑھاوا چڑھادیا۔ ان لوگوں نے اس کا راستہ چھوڑ دیا اور اسے آگے جانے کی اجازت دے دی۔ وہ اس مکھی کے سبب جہنم میں جا پہنچا۔ انہوں نے دوسرے سے کہا: تم بھی کوئی چڑھاوا چڑھاؤ تو اس نے کہا: میں تو اللہ تعالی کے سوا کسی کے واسطے کوئی چڑھاوا نہیں چڑھا سکتا۔ انہوں نے اسے قتل کر دیا۔ اور وہ سیدھا جنت میں جا پہنچا۔‘‘ (5)

 

مسائل:

1) آیت ’’قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي‘‘کی تفسیر معلوم ہوتی ہے۔

2) آیت ’’فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ‘‘کی تفسیر بھی معلوم ہوتی ہے۔

3) حدیث میں رسول اللہﷺ نے سب سے پہلے غیر اللہ کے لیے ذبح کرنے والے پر لعنت فرمائی ہے۔

4) حدیث میں ہے کہ ’’اپنے والدین پر لعنت کرنے والا لعنتی ہے ‘‘ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اگر تم کسی کے والدین پر لعنت کرو گے تو وہ تمہارے والدین پر لعنت کرے گا۔ اس طرح تم خود اپنے والدین پر لعنت کا سبب بنوگے۔

5) حدیث میں ہے کہ ’’جو شخص کسی بدعتی کو پناہ دے، وہ ملعون ہے۔‘‘ اس حدیث میں بدعتی سے مراد ایسا شخص ہے جس پربدعت کا ارتکاب کی وجہ سے اللہ تعالی کی طرف سے سزا واجب ہو اور وہ اس سے بچنے کے لیے کسی کی پناہ ڈھونڈ رہا ہو۔

6) ’’جو شخص حدود زمین کے نشانات و علامات کو آگے پیچھے کر کے بدل ڈالے، وہ بھی لعنتی ہے۔‘‘ اس سے ایسے نشانات مراد ہیں جو مین کے دو مالکوں کی حدود ملکیت کو متعین کرتے ہوں اور ان نشانات کو بدلنے سے پڑوسیوں کا حق مارنا مقصود ہو۔

7) کسی متعین شخص پر اور عمومی طور پر گناہ گار لوگوں پر کسی کا نام لیے بغیر لعنت کرنے میں فرق ہے۔

8) ایک مکھی کا چڑھاوا چڑھانے کے سبب ایک آدمی کے جہنم میں جانے کا واقعہ بڑاعبرت ناک ہے۔

9) مکھی کا چڑھاوا چڑھانے والا جہنم رسید ہوا حالانکہ اس کا مقصد شرک کرنا قطعاً نہ تھا بلکہ اس نے محض اپنی جان بچانے کی خاطر ایسا کیا تھا۔

10) اہل ایمان کی نظر میں شرک اس قدر سنگین جرم ہے کہ اس مومن نے قتل ہونا گوارا کر لیا، لیکن اہل صنم کا مطالبہ پورا نہ کیا، حالانکہ انہوں نے اس سے صرف ظاہری طور پر عمل کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔

11) شرک کا ارتکاب کر کے جہنم میں جانے والا شخص مسلمان تھا۔ اگر وہ کافر ہوتا تو آپ یوں نہ فرماتے کہ ’’وہ ایک مکھی کی وجہ سے جہنم میں گیا۔‘‘

12) اس حدیث سے ایک دوسری صحیح حدیث کی تائید بھی ہوتی ہے، جس میں نبی ﷺ نے فرمایا:

(الجَنَّۃ أَقْرَبُ إِلَى أَحَدِكُمْ مِنْ شِرَاكِ نَعْلِهِ، وَالنَّارُ مِثْلُ ذَلِكَ)صحیح البخاری، الرقاق، باب الجنۃ اقرب الی احدکم من شراک نعلہ والنار مثل ذلک، ح:6488)

’’جنت اور جہنم تم میں سے ہر ایک کے جوتے کے تسمے سے بھی زیادہ قریب ہے۔‘‘

13) بت پرستوں سمیت ہر ایک کے نزدیک قلبی عمل سب سے زیادہ اہم اور مقصود اعظم ہوتا ہے۔

 

نوٹ:

(1) غیر اللہ کے لیے ذبح کرنے کی شدید وعید ہے اور وہ یہ کہ یہ اللہ عزوجل کے ساتھ شرک ہے۔

ذبح سے مراد خون بہانا ہے۔

ذبح میں دو چیزیں اہم ہوتی ہیں :

1> کسی کا نام لے کر ذبح کرنا۔

2> کسی کا قرب حاصل کرنے کے لیے ذبح کرنا۔

پہلی صورت میں اصل چیز نام ہے اور دوسری صورت میں قصد و ارادہ۔

دراصل جانور ذبح کرتے وقت جس کا نام لیا جائے اس سے استعانت اور مدد مقصود ہوتی ہے۔ مثلاً اگر آپ ’’باسم اللہ‘‘ کہیں گے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ میں اللہ کے نام سے مدد حاصل کرتے ہوئے اور اسے متبرک سمجھتے ہوئے ذبح کرتا ہوں۔ رہی بات قصد و ارادہ کی تو یہ عبودیت اور بندگی کے اظہار کی ایک صورت ہے۔ نام اور قصد و ارادہ کے لحاظ سے ہمارے سامنے چار صورتیں آتی ہیں :

{1} اللہ کا نام لے کر اسی کے تقرب کے قصد سے ذبح کرنا۔ یہ سراسر توحید اور عبادت ہے۔ اس صورت میں ذبح کرنے کے لیے دو شرطیں ہیں۔ پہلی تو یہ کہ اللہ کے تقرب کے ارادے سے ذبح کرے، دوسری یہ کہ اللہ کا نام لے کر ذبح کرے۔ جیسے قربانی، بدی، اور عقیقہ وغیرہ۔ اگر جان بوجھ کر اللہ کا نام نہ لیا تو ذبیحہ حلال نہ ہو گا۔ یہ دونوں شرطیں بیک وقت تب ہیں جب ذبح سے اللہ کا تقرب مقصود ہو۔ اور اگر اللہ کے تقرب کے لیے نہیں بلکہ مہمانوں کی مہمان نوازی کے لیے یا اپنے کھانے کے لیے ذبح کرے تو یہ جائز ہے، شرعاً اس کی اجازت ہے کیونکہ اس نے اللہ کا نام لے کر ذبح کیا ہے، غیر اللہ کا نام نہیں لیا۔ یہ وعید میں داخل ہو گا نہ ممانعت میں۔

{2} ذبح تو اللہ کا نام لے کر کیا جائے لیکن مقصود اس سے غیر اللہ کا تقرب ہو۔ مثلاً ذبح کے وقت یہ کہے ’’باسم اللہ‘‘ میں اللہ کا نام لے کر ذبح کرتا ہوں اور اس ذبح سے اس کی نیت، کسی مدفون (دفن شدہ)نبی یا کسی بزرگ کا تقرب ہو۔

بعض دیہاتی یا شہری لوگوں کا یہ طریقہ ہے کہ وہ کسی کی آمد پر اس کی تعظیم کے لیے، زیبائش و خوش نمائی یا جانوروں کو ذبح کر کے اس کا استقبال کرتے ہیں۔ اس ذبح میں اگرچہ اللہ کا نام لیا جاتا ہے۔لیکن چونکہ اس سے مقصود غیر اللہ کو راضی کرنا ہوتا ہے اس لیے علماء نے اس فعل کے حرام ہونے کا فتوی دیا ہے۔ چونکہ اس میں غیر اللہ کے لیے خون بہایا جاتا ہے اس لیے اسے کھانا بھی جائز نہیں ہے۔ جب اس صورت میں کسی کی تعظیم کے لیے ذبح کرنا اور خون بہانا جائز نہیں تو پھر کسی فوت شدہ (نبی یا بزرگ)کی تعظیم (یا تقرب)کے لیے ذبح کرنا اور خون بہانا تو بالاولی ناجائز اور حرام ہوا کیونکہ خون بہاکر صرف اللہ تعالی ہی کی تعظیم کرنا جائز ہے۔ جب رگوں میں خون اسی نے جاری کیا ہے تو پھر تعظیم و عبادت کا حقدار بھی وہی ہے۔

{3} ذبح غیر اللہ کا نام لے کر کیا جائے اور اس سے مقصود بھی غیر اللہ کا تقرب ہی ہو۔ مثلاً ’’باسم المسیح‘‘کہہ کر ذبح کرے اور تقرب بھی مسیح ہی کا مقصود ہو۔ یہ بہت بڑا شرک ہے۔ شرک فی الاستعانت بھی اور شرک فی العبادت بھی۔

اس طرح بدوی، جسین، زینب، عیدروس، مرغینانی یا ان کے علاوہ وہ شخصیات جن سے لوگ عبادت اور پوجا والا معاملہ رکھتے ہیں ان کے نام لے کر ذبح کرنے کا بھی یہی حکم ہے کیونکہ ان کے نام لے کر ذبح کرتے وقت لوگوں کی نیت اور ارادہ ان کا تقرب ہوتا ہے۔ اس لیے یہ دو طرح سے شرک بن جاتا ہے۔ ایک تو استعانت اور مدد کے حصول کی وجہ سے اور دوسرا عبودیت، تعظیم اور غیر اللہ کے لیے خون بہانے کی وجہ سے۔

{4} ذبح غیر اللہ کا نام لے کر کیا جائے اور اس سے مقصود، اللہ کا تقرب ہو، اور یہ بہت قلیل اور نادر ہے۔ اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ذبح تو کسی بزرگ کے لیے کیا جاتا ہے مگر نیت یہ ہوتی ہے کہ اس سے اللہ کا قرب حاصل کیا جائے تو یہ بھی در حقیقت شرک فی الاستعانت اور شرک فی العبادت ہی میں شامل ہے۔

الغرض غیر اللہ کے تقرب کے لیے ذبح کرنا عبودیت میں شرک ہے اور غیر اللہ کا نام لے کر ذبح کرنا استعانت اور مدد کے لیے طلب میں شرک ہے۔ اسی لیے اللہ عزوجل نے فرمایا ہے :

(وَلَا تَأْكُلُوا مِمَّا لَمْ يُذْكَرِ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِ وَإِنَّهُ لَفِسْقٌ وَإِنَّ الشَّيَاطِينَ لَيُوحُونَ إِلَى أَوْلِيَائِهِمْ لِيُجَادِلُوكُمْ وَإِنْ أَطَعْتُمُوهُمْ إِنَّكُمْ لَمُشْرِكُونَ (سورۃ الأنعام6: 121))

’’اور جن جانوروں (کے ذبح)پر اللہ کا نام نہ لیا جائے، ان میں سے کچھ نہ کھاؤ، اور بلاشبہ یہ فسق اور ناجائز ہے اور بے شک شیاطین اپنے دوستوں کی طرف القاء کرتے ہیں تاکہ وہ تمہارے ساتھ جھگڑیں اور اگر تم نے ان کی بات مان لی تو بلاشبہ تم بھی مشرک ہو جاؤ گے۔‘‘

(2) اس آیت سے ثابت ہوا کہ نماز اور قربانی دونوں عبادتیں ہیں کیونکہ قربانی کو اللہ کے ساتھ خاص کیا گیا ہے اور مخلوق کے اعمال میں سے صرف عبادات ہی اللہ کے ساتھ خاص ہوتی ہے۔ اسی لیے ’’صَلَاتِي‘‘ کے بعد ’’وَنُسُكِي‘‘فرمایا کہ قربانی (خون بہانا اور ذبح کرنا)بھی دیگر عبادتوں کی طرح ایک عبادت ہے اور اس کا مستحق بھی صرف اللہ تعالی ہی ہے۔ ’’ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ‘‘ میں لفظ ’’اللہ‘‘ پر موجود لام استحقاق کا معنی دے رہا ہے یعنی نماز، قربانی اور دیگر عبادت کا حق اللہ رب العالمین ہی رکھتا ہے۔

’’لَا شَرِيكَ لَهُ‘‘نماز میں اس کا کوئی شریک ہے نہ قربانی میں۔ لہذا ان کی ادائیگی میں نہ تو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کیا جائے اور نہ ہی اللہ کے علاوہ کسی کو ان کا سزاوار ٹھہرایا جائے۔ عبادت کا مستحق وہی رب ہے جو عظیم بادشاہت کا مالک ہے۔

(3) اللہ تعالی نے جن کاموں کا حکم دیا ہے وہ عبادت ہی ہیں۔ کیونکہ تمام ظاہری اور باطنی اعمال و اقوال جو اللہ تعالی کو پسند اور محبوب ہیں ان سب کو عبادت ہی کہا جاتا ہے۔ اسی طرح نماز اور قربانی کا بھی اللہ تعالی نے حکم دیا ہے اور یہ اعمال اسے محبوب اور پسند ہیں۔ اس لیے یہ بھی عبادت ہیں۔

(4) اس حدیث سے ثابت ہوا کہ جو شخص غیر اللہ کے تقرب اور تعظیم کے لیے جانور ذبح کرے اس پر اللہ تعالی کی لعنت ہے۔ اللہ تعالی کی لعنت سے مراد اس کی رحمت سے دوری اور محرومی ہے۔ پس جس شخص پر خود اللہ تعالی لعنت کرے وہ اسے اپنی خاص رحمت سے دور اور محروم کر دیتا ہے۔

جبکہ اس کی عام رحمت مسلمانوں کافروں اور تمام مخلوقات کے شامل حال ہے۔ یاد رہے کہ جس گناہ پر اللہ تعالی کی لعنت کی وعید ہو وہ کبیرہ گناہ ہوتا ہے چونکہ غیر اللہ کے تقرب اور تعظیم کی خاطر ذبح کرنا شرک ہے اس لیے اس کا ارتکاب کرنے والا اللہ تعالی کی لعنت، پھٹکار، اور اس کی رحمت سے دوری اور محرومی کا مستحق ٹھہرتا ہے۔

(5) اس حدیث سے ثابت ہوا کہ بت کے تقرب کے لیے جانور ذبح کرنا اس شخص کے لیے دخول جہنم کا سبب بنا۔ ظاہر ہے کہ یہ کام کرنے والا آدمی مسلمان تھا جو اپنے اس شرکیہ فعل کی پاداش میں جہنم رسید ہوا۔ اس سے معلوم ہوا کہ غیر اللہ کے تقرب اور تعظیم کے لیے جانور ذبح کرنا اور چڑھاوے چڑھانا ’’شرک اکبر‘‘ ہے۔ نیز اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ غیر اللہ کے تقرب کے لیے مکھی جیسی بے قدر و قیمت چیز کا چڑھاوا چڑھانا جب اس آدمی کے لیے جہنم میں داخل ہونے کا سبب بنا تو جو چیز منفعت میں اس سے بڑی اور قیمتی ہو اس کا چڑھاوا چڑھانا اسی قدر دخول جہنم کا بڑا سبب ہو گا۔

’’قَرِّبْ‘‘چڑھاوا چڑھاؤ۔ اس سے معلوم ہوا کہ اس قوم کے لوگوں نے ان راہ گیروں کو اس عمل کے لیے (محض کہا تھا)مجبور نہیں کیا تھا۔ کیونکہ اس سے پہلے یہ بیان ہے کہ وہ کسی کو وہاں سے چڑھاوا چڑھائے بغیر گزرنے کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ اس میں کوئی جبر یا اکراہ نہیں۔ کیونکہ اگر وہ آدمی چاہتا تو واپس آ کر کسی دوسرے راستہ سے چلاجاتا۔ اور اگر کہا جائے کہ ان لوگوں نے چڑھاوا نہ چڑھانے کی صورت میں قتل کی دھمکی دی تھی اس لیے وہ اس عمل پر مجبور تھا جبکہ جبر و اکراہ کی صورت میں کسی عمل پر کوئی مواخذہ نہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ واقعہ ہم سے پہلی امتوں کا ہے۔ اکراہ واجبار کی صورت میں اطمینان قلب کے ساتھ بظاہر کلمۂ کفر ادا کرنے یا کفریہ کام کرنے کی اجازت اور اس کی عدم مؤاخذہ کا مسئلہ صرف اسی امت کی خصوصیت ہے۔ سابقہ امتوں میں اس کی اجازت نہ تھی۔

 

 

 

باب:10جہاں غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا جاتا ہو وہاں اللہ تعالی کے نام پر ذبح کرنا جائز نہیں (1)

 

اللہ تعالی کا ارشاد ہے :

(لَا تَقُمْ فِيهِ أَبَدًا لَمَسْجِدٌ أُسِّسَ عَلَى التَّقْوَى مِنْ أَوَّلِ يَوْمٍ أَحَقُّ أَنْ تَقُومَ فِيهِ فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ (سورۃ التوبۃ9: 108))

’’ (اے نبی!) آپ کبھی اس (مسجد ضرار)میں (عبادت کے لیے)کھڑے نہ ہوں ، البتہ وہ مسجد جس کی بنیاد روز اول ہی سے تقویٰ پر رکھی گئی ہے، وہ زیادہ موزوں ہے کہ آپ اس میں (عبادت کے لیے)کھڑے ہوں۔ اس میں ایسے لوگ ہیں جو پاک صاف رہنے کو پسند کرتے ہیں اور اللہ کو بھی صفائی اور پاکیزگی اختیار کرنے والے لوگ ہی پسند ہیں۔‘‘ (2)

ثابت بن الضحاك رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :

(نَذَرَ رَجُلٌ أَنْ يَّذْبَحَ إِبِلًا بِبُوَانَۃ فَسَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ هَلْ كَانَ فِيهَا وَثَنٌ مِنْ أَوْثَانِ الْجَاهِلِيَّۃ يُعْبَدُ؟ قَالُوا: لَا، قَالَ: فَهَلْ كَانَ فِيهَا عِيدٌ مِنْ أَعْيَادِهِمْ؟ قَالُوا: لَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَوْفِ بِنَذْرِكَ، فَإِنَّهُ لَا وَفَاءَ لِنَذْرٍ فِي مَعْصِيَۃ اللَّهِ، وَلَا فِيمَا لَا يَمْلِكُ ابْنُ آدَمَ)

(سنن ابی داود، الایمان، باب ما یؤمر بہ من وفاء النذر، ح:3313 و السنن الکبری للبیھقی، ح:10 / 83)

’’ایک آدمی نے بوانہ کے مقام پر اونٹ ذبح کرنے کی نذر مانی، اس نے اس کے متعلق نبی اکرم ﷺ سے دریافت کیا، تو آپ نے فرمایا: کیا وہاں دور جاہلیت کے کسی بت کی پوجا ہوتی تھی؟ صحابہ نے کہا:نہیں۔ آپ نے مزید پوچھا :کیا وہاں مشرکین کا کوئی تہوار ہوتا تھا؟ صحابہ نے کہا: نہیں۔ آپ نے فرمایا: تم اپنی نذر پوری کر لو۔ یاد رکھو! جو نذر اللہ تعالی کی نا فرمانی کے متعلق ہو یا انسان کے تصرف و اختیار میں نہ ہو، اسے پورا کرنا ہر گز جائز نہیں۔‘‘ (3)

 

مسائل:

1) آیہ مبارکہ (لَا تَقُمْ فِيهِ أَبَدًا)کی تفسیر معلوم ہوئی۔

2) بسا اوقات اللہ تعالی کی اطاعت یا نا فرمانی زمین پر بھی اثر انداز ہوتی ہے۔

3) کوئی مشکل مسئلہ سمجھانے کے لیے صورت مسئلہ کو اچھی طرح واضح کرنا چاہئے تاکہ کسی قسم کا کوئی اشکال نہ رہ جائے۔

4) مفتی، سائل سے حسب ضرورت متعلقہ تفاصیل اور وضاحتیں طلب کر سکتا ہے۔

5) منت اور نذر کے لیے کسی خاص مقام کو مقرر کرنے میں کوئی حرج نہیں بشرطیکہ اس میں کوئی شرعی رکاوٹ نہ ہو۔

6) جس مقام پر کوئی ’’وثن‘‘ (بت)ہو وہاں نذر پوری کرنا یا کوئی دوسری عبادت بجا لانا منع ہے، خواہ اب اسے وہاں سے ختم کر دیا گیا ہو۔

7) جہاں مشرکین کا کوئی میلہ یا تہوار منایا جاتا ہو وہاں پر بھی نذر پوری نہیں کی جا سکتی خواہ اب وہ سلسلہ بند ہی ہو چکا ہو۔

8) اگر کسی نے مشرکین کے بت یا تہوار والی جگہ کی نذر مانی ہو تو اسے پورا کرنا جائز نہیں ، کیونکہ یہ نا فرمانی کی نذر ہے جو کہ ناجائز ہے۔

9) مشرکوں کے تہواروں میں شریک ہو کر ان کی مشابہت سے بچنا چاہئے اگر چہ ان کی مشابہت کا قصد و ارادہ نہ ہو۔

10) جو نذر اللہ تعالی کی نا فرمانی پر مشتمل ہو، وہ باطل ہے۔

11) جو کا م انسان کی ملکیت اور اختیار میں نہ ہو، اس کی نذر ماننا بھی ناجائز اور غلط ہے۔

 

نوٹ:

(1) اس باب سے یہ بیان کرنا مقصود ہے کہ جس جگہ غیر اللہ کے نام پر جانور ذبح کیے جاتے ہوں وہاں یا اس کے قرب و جوار میں اللہ تعالی کے نام پر جانور ذبح کرنا بھی جائز نہیں کیونکہ اس طرح غیر اللہ کے لیے ذبح کرنے والوں کے ساتھ مشابہت اور اشتراک وہ جاتا ہے۔

مثلاً مشرکین یا مبتدعین کی نظر میں کوئی جگہ قابل تعظیم ہو یا کوئی قبر وغیرہ جہاں صاحب قبر کے تقرب کی نیت سے جانور ذبح کیے جاتے ہوں ، کسی موحد مسلمان کے لیے ایسی جگہ پر جانور ذبح کرنا جائز نہیں۔ اگرچہ وہ ذبیحہ اللہ تعالی کے لیے ہی کیوں نہ ہو کیونکہ اس طرح اس جگہ کی تعظیم میں ان مشرکین سے مشابہت ہو جاتی ہے جو ان مقامات پر غیر اللہ کے لیے مختلف عبادات بجا لاتے ہیں۔ پس جہاں غیر اللہ کے لیے جانور ذبح کیے جاتے ہوں وہاں اللہ تعالی کے لیے بھی جانور ذبح کرنا نہ صرف ناجائز بلکہ ذریعہ شرک ہے۔ اس سے اس جگہ کی تعظیم ظاہر ہوتی ہے۔ جبکہ یہ عمل حرام اور ذریعۂ شرک ہے۔

(2) منافقین نے اللہ تعالی اور رسول اللہﷺ کی مخالفت میں ایک مسجد بنائی جسے قرآن میں ’’مسجد ضرار‘‘ کہا گیا ہے، چونکہ مسجد بنانے والوں کی اصل غرض، اللہ تعالی اور رسول اللہ ﷺ کی مخالفت تھی۔ وہاں نماز پڑھنے سے ان کی تائید، ان کی تعداد میں اضافہ، اور عام لوگوں کے لیے وہاں نماز ادا کرنے کا جواز ثابت ہوتا تھا۔ اس لیے اللہ تعالی نے اس آیت میں اپنے نبی کو اور مومنین کو اس مسجد (ضرار)میں نماز ادا کرنے بلکہ کھڑے ہونے تک سے منع فرما دیا۔ حالانکہ رسول اکرم ﷺ اور باقی مومنین اگر وہاں نماز ادا کرتے تو وہ صرف اللہ تعالی کے لیے نماز ادا کرتے۔ وہاں نماز ادا کرنے سے ان کا مقصود، دین کو نقصان پہنچانا یا مسلمانوں میں تفرقہ پیدا کرنا یا اللہ اور رسول کی مخالفت قطعاً نہ ہوتا۔ مگر اس کے باوجود انہیں وہاں نماز ادا کرنے سے اس لیے منع کر دیا گیا کہ منافقین کے ساتھ مشارکت یا مشابہت نہ ہو۔ اسی طرح جس مقام پر غیر اللہ کے لیے جانور ذبح کیے جاتے ہوں وہاں اللہ تعالی کے لیے جانور ذبح کرنا بھی جائز نہیں اگرچہ اس سے محض اللہ تعالی کی رضا ہی مقصود کیوں نہ ہو کیونکہ اس طرح اس جگہ کی تعظیم اور مشرکین سے مشابہت ہوتی ہے۔

(3) یہ مقام تفصیل طلب تھا۔ اسی لیے نبیﷺ نے اسے تفصیل سے بیان فرمایا اور نبی ﷺ کے اس سوال سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر یہ بات ہوتی کہ وہاں جاہلیت کے کسی بت کی پوجا ہو رہی ہے تو وہاں قربانی کرنے کی ہرگز اجازت نہ ہوتی۔ یہاں حدیث بیان کرنے کا بھی یہی مقصد ہے۔

’’اَلْعِيْد‘‘ وہ جگہ جہاں لوگ بار بار آئیں یا وہ گھڑی اور زمانہ جو بار بار لوٹ کر آئے۔ کسی جگہ کو عید اس لیے کہا جاتا ہے کہ وہاں لوگوں کا بار بار آنا ہوتا ہے اور ایک خاص و مقرر وقت میں لوگ اس جگہ کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ اسی طرح زمانے بھی ایک معین وقت میں بار بار لوٹ کر آتے ہیں اس لیے انہیں بھی عید کہا جاتا ہے۔

اور یقینی بات ہے کہ مشرکین کی عیدیں ….خواہ جگہیں ہوں یا زمانے اور اوقات ….ان کے اپنے شرکیہ دین ہی پر مبنی ہوتی ہیں۔ یعنی وہ اپنی عیدوں میں شرکیہ عبادات ہی بجا لاتے ہیں اور ان موقعوں پر جہاں وہ اور بہت سے افعال کرتے ہیں وہاں ان کا سب سے بڑا فعل غیر اللہ کے تقرب کے لیے ذبح کرنا اور خون بہانا ہوتا ہے۔

چنانچہ معلوم ہوا کہ جہاں مشرکین غیر اللہ کے تقرب کے لیے ذبح کرتے ہوں وہاں ان کے ساتھ شریک ہو کر ان کی ظاہری مشابہت اختیار کرنا ہرگز جائز نہ ہو گا اگرچہ وہاں محض اللہ کے تقرب کے لیے ذبح کیوں نہ کیا جائے اور فقط رضائے الہی کی خاطر نماز کیوں نہ پڑھی جائے۔

رسول اللہ ﷺ نے اس آدمی سے فرمایا:

(أَوْفِ بِنَذْرِكَ، فَإِنَّهُ لَا وَفَاءَ لِنَذْرٍ فِي مَعْصِيَۃ اللَّهِ)

’’تو اپنی نذر پوری کر کیونکہ جس نذر میں اللہ کی نا فرمانی ہوتی ہو اسے پورا کرنا ہرگز جائز نہیں۔‘‘

علماء کا کہنا ہے کہ ’’فَإِنَّهُ‘‘ میں ’’فا‘‘اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ نذر پوری کرنے کی اجازت کا سبب یہ ہے کہ اس نذر میں اللہ کی معصیت نہیں ہے۔ اور نبیﷺ کا اس آدمی سے تفصیل معلوم کرنا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ جہاں کسی بت کی پوجا ہوتی ہو یا مشرکین کی کوئی عید اور تہوار ہو وہاں اللہ کے لیے ذبح کرنا اللہ کی معصیت کا ارتکاب ہو گا۔

 

 

 

باب:11 غیر اللہ کی نذر و نیاز شرک ہے

 

 

اللہ تعالی کا ارشاد ہے :

يُوفُونَ بِالنَّذْرِ (سورۃ الإنسان76: 7))

’’یہ لوگ نذر پوری کرتے ہیں۔‘‘ (1)

نیز ارشاد ہے :

(وَمَا أَنْفَقْتُمْ مِنْ نَفَقَۃ أَوْ نَذَرْتُمْ مِنْ نَذْرٍ فَإِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُهُ (سورۃ البقرۃ2: 270))

’’اور تم اللہ کی راہ میں جو کچھ بھی خرچ کر دیا جو بھی نذر مانو، اللہ اسے جانتا ہے۔‘‘

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہما فرماتی ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(مَنْ نَذَرَ أَنْ يُطِيعَ اللَّهَ فَلْيُطِعْهُ، وَمَنْ نَذَرَ أَنْ يَعْصِيَ اللَّهَ فَلاَ يَعْصِهِ) (صحیح البخاری، الایمان و النذور، باب النذر فی الطاعۃ۔ الخ، ح:6696، 6700 وسنن ابی داود، الایمان و النذور، باب النذر فی المعصیۃ، ح:3289)

’’جو کوئی اللہ کی اطاعت کی نذر مانے تو اسے چاہئے کہ وہ اللہ کی اطاعت کرے اور جو شخص اللہ کی نا فرمانی کی نذر مانے تو وہ اللہ کی نا فرمانی نہ کرے۔‘‘ (2)

 

مسائل:

1) اطاعت والی نذر کو پورا کرنا ضروری ہے۔

2) جب یہ ثابت ہو چکا کہ نذر اللہ تعالی کی عبادت ہے تو پھر اسے غیر اللہ کے لیے ماننا اور پورا کرنا شرک ہے۔

3)جو نذر معصیت پر مبنی ہو اسے پورا کرنا جائز نہیں۔

 

نوٹ:

(1) اس آیت میں اللہ تعالی نے نذر پوری کرنے والوں کی مدح فرمائی ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ یہ عبادت مشروع اور اللہ تعالی کو محبوب ہے۔ اور چونکہ یہ عبادت ہے اس لیے اسے غیر اللہ کے لیے بجا لانا ’’شرک اکبر‘‘ ہے

(2) ’’مَنْ نَذَرَ أَنْ يُطِيعَ اللَّهَ فَلْيُطِعْهُ‘‘جو شخص اللہ تعالی کی اطاعت کی نذر مانے اسے چاہئے کہ وہ اللہ تعالی کی اطاعت کرے۔‘‘ اس میں جائز پوری کرنے کا حکم ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ ایسی عبادت ہے جو اللہ تعالی کو انتہائی محبوب اور پسند ہے کیونکہ جو عمل شرعاً واجب ہو وہ عبادت ہوتا ہے اور جو عمل عبادت کے بجا لانے کا وسیلہ اور ذریعہ ہو وہ بھی عبادت ہوتا ہے۔ چونکہ نذر پوری کرنے کا وسیلہ اور ذریعہ، نذر ماننا ہے، اگر نذر ہی نہ مانی ہو تو پوری کیسے ہو گی؟ لہذا نذر کو پورا کرنا اس لیے واجب ہوا کہ انسان نے اس عبادت (نذر)کو خود اپنے آپ پر لازم کر لیا ہے۔

(3) ’’وَمَنْ نَذَرَ أَنْ يَعْصِيَ اللَّهَ فَلاَ يَعْصِهِ‘‘ اور جو شخص اللہ تعالی کی نا فرمانی کی نذر مانے تو وہ اللہ تعالی کی نا فرمانی نہ کرے۔‘‘ کیونکہ انسان کا اپنے آپ پر اللہ کی نا فرمانی کو لازم کر لینا، اللہ کی طرف سے وارد شدہ نا فرمانی کی ممانعت کے خلاف ہے بلکہ ایسے انسان پر قسم کا کفارہ لازم آتا ہے جس کی تفصیل کتب فقہ میں موجود ہے۔

اللہ تعالی کے لیے نذر ماننا ایک عظیم عبادت ہے اور غیر اللہ کے لیے نذر ماننا بھی عبادت ہے جو حرام ہے۔ غیر اللہ کے لیے نذر ماننے والا جب اپنی نذر پوری کرتا ہے تو وہ غیر اللہ کی عبادت بجا لاتا ہے۔ جبکہ اللہ تعالی کے لیے نذر ماننے والا جب اپنی نذر پوری کرتا ہے تو وہ اللہ تعالی کی عبادت بجا لاتا ہے۔

 

 

 

باب:12 غیر اللہ سے پناہ مانگنا شرک ہے (1)

 

اللہ تعالی کا ارشاد ہے :

(وَأَنَّهُ كَانَ رِجَالٌ مِنَ الْإِنْسِ يَعُوذُونَ بِرِجَالٍ مِنَ الْجِنِّ فَزَادُوهُمْ رَهَقًا (سورۃ الجن72: 6))

’’اور بعض لوگ جنات کی پناہ پکڑا کرتے تھے تو اس طرح وہ (جنات)سرکشی میں اور بڑھ گئے۔‘‘ (2)

خولہ بنت حکیم رضی اللہ عنہما کہتی ہیں ، میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ جو شخص کسی جگہ قیام کرے اور یہ دعا پڑھ لے :

( أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللهِ التَّامَّاتِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ) (صحیح مسلم، الذکر و الدعاء، باب فی التعوذ من سوء القضاء، ح:2708 وجامع الترمذی، الدعوات باب ماجاء مایقول اذا نزل منزلا، ح:3437)

’’میں اللہ تعالی کے کامل کلمات کی پناہ چاہتا ہوں ہر اس چیز کے شر سے جو اس نے پیدا کی ہے۔‘‘

تو اس کے وہاں سے روانہ ہونے تک کوئی چیز اسے ضرر نہ پہنچا سکے گی۔ (3)

 

مسائل:

1) اس باب سے سورۃ الجن کی آیت نمبر6 کی تفسیر ہوئی۔

2) غیر اللہ کی پناہ لینا شرک ہے۔

3) اس دعا سے علماء نے یہ استدلال کیا ہے کہ اللہ تعالی کے کلمات (کلام)مخلوق نہیں۔ اگر یہ کلمات مخلوق ہوتے تو ان کی پناہ طلب نہ کی جاتی کیونکہ مخلوق سے پناہ طلب کرنا شرک ہے۔

4) اس حدیث سے مذکورہ دعا کی فضیلت بھی ثابت ہوتی ہے، اگرچہ یہ مختصرسی ہے۔

5) کسی سے دنیوی فائدہ کا حاصل ہو جانا مثلاً کسی شر سے تحفظ یا کسی منفعت کا حاصل ہو جانا، یہ اس بات کی دلیل نہیں کہ وہ عمل جائز ہی ہے (بلکہ عین ممکن ہے کہ وہ عمل شرک بھی ہو)

 

نوٹ:

(1) غیر اللہ سے استعاذہ، شرک اکبر ہے۔استعاذہ کا معنی ’’پناہ مانگنا‘‘ ہے، یعنی جو چیز انسان کو شرسے محفوظ رکھ سکے اس کی طلب اور جستجو کرنا۔ اور طلب و جستجو، توجہ اور دعا کی ایک قسم ہے کیونکہ جستجو میں بنیادی چیز یہی ہوتی ہے۔ چونکہ جس سے کچھ مانگا جائے وہ مانگنے والے سے مقام و مرتبہ میں ارفع اور بلند ہوتا ہے اس لیے اس کے متعلقہ فعل کو دعا کہا جاتا ہے۔ لہذا در حقیقت استعاذہ سے مراد پناہ لینے کی دعا کرنا ہے۔ اور جب یہ دعا ہے تو عبادت بھی ہے اور ہر قسم کی عبادت کا سزاوار صرف اللہ عزوجل ہے۔ اس پر امت مسلمہ کا اتفاق بھی ہے اور قرآن کی آیات بھی اسی بات پر دلالت کرتی ہیں۔ ارشاد باری تعالی ہے :

(وَأَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلَّهِ فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللَّهِ أَحَدًا (سورۃ الجن72: 18))

’’اور بلاشبہ سب مسجدیں اللہ کی ہیں تو تم اللہ کے ساتھ کسی کو مت پکارو۔‘‘

نیز فرمایا:

(وَقَضَى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ (سورۃ الإسراء17: 23))

’’اور تیرے رب نے حکم دیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔‘‘

بلکہ ہر وہ دلیل جس میں محض اللہ سے دعا کرنے اور اسی کی عبادت کرنے کا ذکر ہے وہ بالخصوص اس مسئلہ (استعاذہ)کی دلیل بھی ہے۔

اور جو استعاذہ اللہ عزوجل ہی سے درست ہے در حقیقت اس میں ظاہری عمل اور باطنی عمل دونوں شامل ہیں۔ ظاہری عمل تو پناہ لینا، شرسے محفوظ ہونا اور نجات پانا ہے اور باطنی عمل یہ ہے کہ جس سے پناہ مانگی جا رہی ہے اس سے دلی لگاؤ اور قلبی طمانیت رکھنا، اپنی بے چارگی اور حاجت اسے پیش کرنا اور اپنی نجات کا معاملہ بھی اسی کے سپرد کر دینا۔

لہذا بالاتفاق یہ استعاذہ، اللہ رب العزت کے سوا کسی دوسرے سے درست نہیں ہے۔

اور جب یہ کہا جاتا ہے کہ جو چیز مخلوق کے بس میں اس کی پناہ مخلوق سے مانگنا جائز ہے تو یہ اس وجہ سے کہ ایسے دلائل موجود ہیں جو اس بات پر دلالت کرتے ہیں اور اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ مخلوق سے پناہ، محض زبانی طور پر مانگی جاتی ہے، دلی طمانیت اور لگاؤ اللہ عزوجل ہی کے ساتھ ہوتا ہے اور یہ حسن ظن ہوتا ہے کہ یہ بندہ تو محض ایک سبب ہے، در حقیقت پناہ دینے والا صرف اللہ تعالی ہی ہے۔

لہذا جب ظاہری طور پر مخلوق سے پناہ مانگی جائے اور دلی رجحان اور توجہ مخلوق کی طرف نہ ہو تو پھر مخلوق سے پناہ مانگنا جائز ہو گا۔ اسی لیے اہل خرافات کا یہ قول باطل ہے کہ مردوں ، جنات، اولیاء کرام اور دیگر مخلوق سے ان چیزوں کی پناہ مانگنا جائز ہے جو ان کی قدرت اور طاقت میں ہیں اور اللہ تعالی نے انہیں پناہ دینے کی قدرت بھی دے رکھی ہے۔

(2) یہاں ’’رَهَقًا‘‘ کا معنی یہ ہے کہ ان کے دلوں میں اس قدر خوف و اضطراب پیدا ہو گیا کہ وہ (جناب)ان پر ظلم و زیادتی کرنے لگے۔ ظلم جسم پر بھی ہوتا ہے اور روح پر بھی۔ گویا ان پر جنات کا یہ ظلم بطور سزا تھا اور سزا کسی گناہ ہی پر ہوتی ہے (تو معلوم ہوا کہ غیر اللہ سے پناہ مانگنا گناہ ہے)

(آیت مبارکہ میں ان لوگوں کی مذمت بیان ہوئی ہے اور یہ مذمت صرف اس لیے ہے کہ انہوں نے اس عبادت کا حقدار غیر اللہ کو ٹھہرایا جبکہ اللہ عزوجل کا حکم ہے کہ اس کے سوا کسی سے پناہ نہ مانگی جائے۔ امام قتادہ رحمہ اللہ اور بعض دیگر اسلاف کا قول یہ ہے کہ ’’رَهَقًا‘‘ کا معنی ’’گناہ‘‘ ہے اس سے واضح طور پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ غیر اللہ سے پناہ مانگنا باعث گناہ ہے۔

(3) نبی کریم ﷺ نے اللہ کے کلمات کی پناہ مانگنے کی فضیلت بیان فرمائی اور شریر مخلوقات سے اللہ کے کلمات کی پناہ میں آنے کا سبق دیا ہے۔

’’مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ‘‘ ہر اس چیز کے شر سے جو اس نے پیدا کی ہے۔‘‘ اس سے مقصود ان مخلوقات کے شر سے پناہ مانگنا ہے جن میں شر ہو۔ ورنہ اللہ تعالی کی بہت سی ایسی پاکیزہ مخلوقات بھی ہیں جن میں کسی قسم کا کوئی شر نہیں بلکہ وہ سراپا خیر ہیں ، مثلاً جنت، ملائکہ، انبیاء، رسل اور اولیاء وغیرہ۔

 

 

 

باب:13 غیر اللہ سے فریاد کرنا یا اسے پکارنا شرک ہے (1)

 

اللہ تعالی کا ارشاد ہے :

(وَلَا تَدْعُ مِنْ دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَنْفَعُكَ وَلَا يَضُرُّكَ فَإِنْ فَعَلْتَ فَإِنَّكَ إِذًا مِنَ الظَّالِمِينَ (106) وَإِنْ يَمْسَسْكَ اللَّهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ وَإِنْ يُرِدْكَ بِخَيْرٍ فَلَا رَادَّ لِفَضْلِهِ يُصِيبُ بِهِ مَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ وَهُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ (سورۃ يونس10: 107))

’’اور تم اللہ کو چھوڑ کر کسی کو مت پکارو جو تمھارا بھلا کرسکے نہ نقصان، اگر تم نے ایسا کیا تو تم ظالموں (یعنی مشرکوں)میں سے ہو جاؤ گے اور اگر اللہ تمھیں کوئی نقصان پہنچائے تو اس کے سوا کوئی اسے دور نہیں کرسکتا اور اگر وہ تمھارے ساتھ بھلائی کرنا چاہے تو کوئی اس کے فضل کو روک نہیں سکتا۔ وہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے اپنے فضل سے نوازتا ہے اور وہی بخشنے والا رحم فرمانے والا ہے۔‘‘ (2)

نیز ارشاد الہی ہے :

(إِنَّ الَّذِينَ تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ لَا يَمْلِكُونَ لَكُمْ رِزْقًا فَابْتَغُوا عِنْدَ اللَّهِ الرِّزْقَ وَاعْبُدُوهُ وَاشْكُرُوا لَهُ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ (سورۃ العنكبوت29: 17))

’’تم اللہ کے سوا جن کو پوجتے ہو وہ تمہیں رزق دینے کا اختیار نہیں رکھتے۔ پس اللہ ہی سے رزق طلب کرو۔ اور اس کی بندگی کرو اور اس کا شرک بجا لاؤ۔ تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔‘‘ (3)

مزید ارشاد الہی ہے :

(وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنْ يَدْعُو مِنْ دُونِ اللَّهِ مَنْ لَا يَسْتَجِيبُ لَهُ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَۃ وَهُمْ عَنْ دُعَائِهِمْ غَافِلُونَ (5) وَإِذَا حُشِرَ النَّاسُ كَانُوا لَهُمْ أَعْدَاءً وَكَانُوا بِعِبَادَتِهِمْ كَافِرِينَ (سورۃ الأحقاف46: 6))

’’اور اس سے زیادہ گمراہ کون ہو گا جو اللہ کو چھوڑ کر ان کو پکارے جو قیامت تک (اس کی پکار سن کر)اسے جواب نہیں دے سکتے اور وہ ان کی پکار سے غافل اور بے خبر ہیں اور قیامت کو جب تمام انسان جمع کیے جائیں گے تو اس وقت وہ ان پکارنے والوں کے دشمن ہوں گے۔ اور ان کی پرستش کا انکار کریں گے۔‘‘ (4)

نیز اللہ تعالی نے فرمایا:

(أَمَّنْ يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوءَ وَيَجْعَلُكُمْ خُلَفَاءَ الْأَرْضِ أَإِلَهٌ مَعَ اللَّهِ قَلِيلًا مَا تَذَكَّرُونَ (سورۃ النمل27: 62))

’’جب کوئی لاچار فریاد کرے تو کون ہے جو اس کی پکار اور فریاد کو سنے ؟ کون اس کی تکلیف کو دور کرتا ہے ؟ اور کون ہے جو تمہیں زمین میں خلیفہ بناتا ہے۔ تو بھلا اللہ کے ساتھ اور بھی کوئی معبود ہے ؟ تم لوگ کم ہی سوچتے ہو۔‘‘ (5)

 

اور امام طبرانی رحمہ اللہ علیہ نے با سند بیان کیا ہے کہ نبیﷺ کے زمانے میں ایک منافق مومنوں یعنی صحابہ کرام کو بہت ایذائیں دیا کرتا تھا۔ صحابہ نے مشورہ کیا کہ چلو رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر اس سے گلو خلاصی کے لیے استغاثہ کریں۔ نبی ﷺ نے فرمایا دیکھو! مجھ سے فریاد نہیں کی جا سکتی۔ بلکہ فریاد و پکار صرف اللہ تعالی سے کرنی چاہئے۔‘‘

 

مسائل:

1) دعا (پکارنا) عام ہے اور استغاثہ (فریاد کرنا)خاص۔ پس استغاثہ کے بعد دعا کا ذکر کرنا ’’عَطْفُ الْعَامِّ عَلَى الْخَاصِّ‘‘کے قبیل سے ہے۔

2) آیت مبارکہ ’’وَلَا تَدْعُ مِنْ دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَنْفَعُكَ وَلَا يَضُرُّكَ‘‘ کی تفسیر بھی ہوئی۔

3) غیر اللہ کو پکارنا اور اس سے فریاد کرنا شرک اکبر ہے۔

4) نیز ثابت ہوا کہ اگر کوئی انتہائی برگزیدہ بندہ بھی غیر اللہ کو راضی کرنے کے لیے اسے پکارے تو وہ بھی ظالموں میں سے ہو گا۔

5) اس باب سے ’’وَلَا تَدْعُ مِنْ دُونِ اللَّهِ‘‘سے بعد والی آیت ’’وَإِنْ يَمْسَسْكَ اللَّهُ بِضُرٍّ‘‘کی تفسیر بھی معلوم ہوئی۔

6) غیر اللہ کو پکارنا دنیا میں کچھ نفع بخش نہیں اور پھر یہ کفر بھی ہے۔

7) تیسری آیہ مبارکہ ’’فَابْتَغُوا عِنْدَ اللَّهِ الرِّزْقَ‘‘کی تفسیر بھی ہوئی۔

8) اللہ تعالی کے سوا کسی دوسرے سے روزی مانگنا ایسے ہی درست نہیں جیسے اس کے سوا کسی دوسرے سے جنت نہیں مانگی جا سکتی۔

9) اس بحث سے چوتھی آیہ مبارکہ ’’وَمَنْ أَضَلُّ‘‘کی تفسیر بھی ہوتی ہے۔

10) جو شخص کسی غیر اللہ کو پکارے یا اس سے فریاد کرے اس سے بڑھ کر کوئی گمراہ نہیں۔

11) جن (غیر اللہ)کو پکارا جاتا ہے وہ تو پکارنے والے کی پکار سے بے خبر ہیں۔

12) اللہ تعالی کے سوا جن کو پکارا جاتا ہے وہ اس پکار کے سبب قیامت کے دن ان پکارنے والوں کے دشمن ہوں گے۔

13) غیر اللہ کو پکارنا در حقیقت اس کی عبادت ہے۔

14) جن کو پکارا جاتا ہے وہ قیامت کے دن ان کی عبادت اور پکار کا انکار کریں گے۔

15) ان امور کی وجہ ہی سے انسان سب سے زیادہ گمراہ کہلاتا ہے۔

16) اس باب سے آیہ ’’أَمَّنْ يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ‘‘کی تفسیر بھی ہوتی ہے۔

17) حیران کن بات یہ ہے کہ بتوں کے پجاری بھی اعتراف کرتے ہیں کہ پریشان و لاچار کی پکار کو صرف اللہ تعالی سنتا ہے اور وہی نجات دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مشکلات میں وہ بھی صرف اللہ تعالی کو پکارتے ہیں۔

18) نبی ﷺ نے مکمل طور پر گلشن توحید کی حفاظت فرمائی اور امت کو اللہ تعالی کے ساتھ جو ادب و احترام ملحوظ رکھنا چاہئے اس کی تعلیم بھی آپ نے دی۔

 

نوٹ:

(1) اگرچہ استغاثہ (فریاد کرنا) دعا ہی کی ایک قسم ہے لیکن اس کو بالخصوص علیحدہ بیان کیا گیا ہے کیونکہ جس طرح دعا ایک طلب اور عرض ہوتی ہے اسی طرح فریاد کرنا بھی دراصل عرض کرنا ہی ہوتا ہے۔

استغاثہ کا معنی فریاد کرنا ہے۔ جو شخص شدید دکھ اور پریشانی میں اس قدر مبتلا ہو کہ اسے سخت نقصان پہنچنے یا اس کے ہلاک ہو جانے کا خدشہ ہو تو اس کی فریاد رسی کو غوث کہا جاتا ہے۔ لہذا جب یہ کہا جائے کہ فلاں نے فلاں کی فریاد رسی کی تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ اس نے مدد کرتے ہوئے اسے اس مصیبت سے چھٹکارا دلایا جس میں وہ جکڑا ہوا تھا۔ چنانچہ جب مخلوق سے کسی ایسے کام کی فریاد کی جائے جو مخلوق کے بس میں نہ ہو بلکہ صرف اللہ کے بس اور اس کی قدرت میں ہو تو یہ فریاد کرنا شرک اکبر ہو گا۔ ہاں اگر مخلوق کے بس میں ہو تو جائز ہے کیونکہ اللہ تعالی نے موسی علیہ السلام کے قصہ میں کہا ہے۔

(فَاسْتَغَاثَهُ الَّذِي مِنْ شِيعَتِهِ عَلَى الَّذِي مِنْ عَدُوِّهِ (سورۃ القصص28: 15))

’’جو شخص موسی (علیہ السلام)کی قوم سے تھا اس نے ان سے اپنے دشمن کے خلاف فریاد کی۔‘‘

غیر اللہ کو بطور عبادت پکارنا شرک اکبر ہے۔

پکار کی دو قسمیں ہیں :

{1} بطور سوال پکارنا یعنی اللہ سے مانگنے اور طلب کرنے کے لیے ہاتھ اٹھا کر اسے پکارنا۔ ہمارے ہاں عموماً اسے دعا کہا جاتا ہے۔

{2} بطور عبادت پکارنا جیسا کہ اللہ عزوجل کا فرمان ہے۔

(وَأَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلَّهِ فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللَّهِ أَحَدًا (سورۃ الجن72: 18))

’’اور بلاشبہ سب مسجدین اللہ کی ہیں تو تم اس کے ساتھ کسی کو مت پکارو۔‘‘

اور نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے ’’الدُّعَاءُ هُوَ الْعِبَادَۃ‘‘ کہ ’’دعا (پکار)ہی عبادت ہے۔‘‘

چنانچہ بطور عبادت پکارنا ایسے ہی ہو گا جیسے کوئی آدمی نماز پڑھتا یا زکوٰۃ ادا کرتا ہے کیونکہ عبادت کی کوئی بھی قسم ہو اسے ’’دعا‘‘ (پکارنا)کہا جاتا ہے۔ لیکن یہ پکارنا بطور عبادت ہوتا ہے۔ جب یہ بات ثابت ہو چکی تو پھر قرآنی دلائل اور اہل علم کی طرف سے پیش کیے جانے والے دلائل کو سمجھنے کے لیے مذکورہ بالا تفصیل اور تقسیم انتہائی اہمیت کی حامل ہے کیونکہ اصل خرافات اور شرک کی دعوت دینے والے لوگ مسئلہ دعا کے بارے میں وارد شدہ آیت ’’وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِيلَّهِ (سورۃ غافر40: 60)‘‘کی غلط تاویل کرتے ہیں جبکہ در حقیقت بطور سوال پکارنے اور بطور عبادت پکارنے میں کوئی فرق نہیں۔ دونوں کا ایک دوسرے سے تعلق ہے۔ بطور سوال پکارنا عبادت کی ایک قسم ہے اور بطور عبادت پکارنے سے یہ بات لازم آتی ہے کہ اللہ سے قبولیت کا سوال بھی کیا جائے۔

(2) (وَلَا تَدْعُ مِنْ دُونِ اللَّهِ (سورۃ يونس10: 106))اور اللہ کو چھوڑ کر کسی کو مت پکارو۔

یہ ممانعت ہے اور اس میں بطور سوال اور بطور عبادت دونوں طرح پکار نے کی نفی ہے۔ شیخ محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ نے بھی اس آیت سے یہی استدلال کیا ہے۔ چنانچہ آیت کا مفہوم یہ ہوا کہ کسی انسان کو اس بات کی اجازت نہیں کہ وہ اللہ کے سوا کسی اور کو بطور سوال یا بطور عبادت پکارے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اس حکم کے اولین مخاطب امام المتقین و امام الموحدین محمد مصطفی ﷺ ہیں۔

’’مِنْ دُونِ اللَّهِ‘‘ میں دو مفہوم آتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ کسی کو اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرا کر نہ پکارو اور دوسرایہ کہ اللہ کو چھوڑ کر کسی اور کو مت پکارو۔

’’مَا لَا يَنْفَعُكَ وَلَا يَضُرُّكَ‘‘ جو تمیں کوئی نفع پہنچا سکتا ہے نہ نقصان، اس میں ذوی العقول، مثلاً فرشتے، انبیاء ورسل اور اولیاء اور غیر ذوی العقول، مثلاً بت، درخت اور پتھر سجھی شامل ہیں۔

’’فَإِنْ فَعَلْتَ فَإِنَّكَ إِذًا مِنَ الظَّالِمِينَ‘‘ اگر آپ نے ایسا کیا یعنی اللہ کے ساتھ یا اللہ کو چھوڑ کر کسی کو پکارا جبکہ وہ تمہیں کوئی نفع پہنچا سکتا ہے نہ نقصان تو آپ اس پکارنے کی وجہ سے ظالموں میں سے ہو جائیں گے۔

یہاں ظلم سے مراد شرک ہے۔

جب نبی کریم ﷺ سے یہ بات کہی جا رہی ہے حالانکہ ان کے ذریعے اللہ نے توحید کی تکمیل کی کہ غیر اللہ کو پکارنے کی وجہ سے آپ ظالم اور مشرک ٹھہریں گے تو پھر جو شخص معصوم عن الخطاء نہیں اس کے لیے یہ بہت بڑی تنبیہ ہے کہ غیر اللہ کو پکارنے کی وجہ سے وہ بالاولی ظالم اور مشرک ٹھہرے گا۔اس کے بعد اللہ عزوجل نے دل سے شرک کی تمام جڑوں کو کاٹنے کے لیے فرمایا:

(وَإِنْ يَمْسَسْكَ اللَّهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ)

’’اور اگر اللہ تعالی تمہیں کوئی نقصان پہنچائے تو اس کے سوا کوئی اسے دور نہیں کرسکتا۔‘‘

اگر اللہ کی طرف سے آپ کو کوئی نقصان پہنچے تو اسے کون دور کرے گا؟ یقیناً وہی جس نے مقدر میں لکھا اور فیصلہ کیا ہے۔ اس سے غیر اللہ کی طرف رخ کرنے کی قطعاً نفی ہوتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود اس بات کی اجازت ہے کہ جو کام بشر کے بس میں ہو اس کے لیے اس کی طرف رخ کیا جا سکتا ہے۔ مثلاً مدد طلب کرنا، پانی مانگنا وغیرہ۔ کیونکہ اسے اللہ نے مشکل حل کرنے کا سبب اور ذریعہ بنایا ہے جبکہ در حقیقت مشکل کشا تو صرف اللہ ہی ہے ’’بِضُرٍّ‘‘ کوئی نقصان۔ اس میں نقصان کی تمام تر قسمیں شامل ہیں یعنی دینی نقصان ہو یا دنیوی، بدنی ہو یا مالی یا عیالی۔ ہر قسم کے نقصان کو دور کرنے والا صرف اللہ ہی ہے۔

(3) (فَابْتَغُوا عِنْدَ اللَّهِ الرِّزْقَ)’’پس تم اللہ تعالی ہی سے رزق طلب کرو۔‘‘

علمائے معانی نے لکھا ہے کہ بیان میں مؤخر کو مقدم کرنے سے تخصیص حاصل ہوتی ہے۔ لہذا اس آیت کے معنی یہ ہوں گے کہ ’’تم صرف اللہ ہی سے رزق طلب کرو۔‘‘ اس طلب کو اللہ ہی کے ساتھ خاص رکھو، طلب رزق کے لیے غیر اللہ سے فریاد نہ کرو۔ رزق کا لفظ عام ہے۔ ہر وہ چیز جو انسان کو ملے اور عطا ہو اسے رزق کہا جاتا ہے۔اس میں صحت، عافیت اور مال و دولت سب کچھ شامل ہے۔

اس کے بعد اللہ تعالی نے ’’وَاعْبُدُوهُ‘‘ (اور اس کی بندگی کرو)فرمایا تاکہ بطور سوال اور بطور عبادت دونوں طرح کا پکارنا اس میں شامل ہو جائے۔

(4) اس آیت میں ان لوگوں کی گمراہی کی انتہا بیان کی گئی ہے جو اللہ تعالی کو چھوڑ کو مردوں کو پکارتے ہیں اس سے بتوں ، پتھروں یا درختوں کو پکارنا مراد نہیں۔ کیونکہ اللہ تعالی نے فرمایا ’’ مَنْ لَا يَسْتَجِيبُ لَهُ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَۃ‘‘ جو قیامت تک (اس کی پکار سن کر)اسے جواب نہیں دے سکتے اور یہ اشیاء تو قیامت کے بعد بھی سننے پر قادر نہیں جبکہ مردے قیامت کے بعد اٹھ کر سننے لگیں گے۔

نیز اس کی دوسری دلیل یہ ہے کہ آیت میں ’’مَنْ‘‘حرف موصول ہے۔ اس کا اطلاق ذوی العقول پر ہوتا ہے جو دوسروں سے بات کرسکتے ہوں اور ان سے بات کی جا سکتی ہو۔ وہ خود علم رکھتے ہوں اور ان سے علم حاصل کیا جا سکتاہو۔

(5) اس آیت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ بے کس اور لاچار آدمی کی دعا جو کہ بطور سوال ہوتی ہے۔صرف اللہ عزوجل سنتا ہے اور پھر کبھی تو انسان کی فریاد پر تکلیف دور کرتا ہے اور کبھی بغیر فریاد کیے ’’ أَإِلَهٌ مَعَ اللَّهِ‘‘ تو بھلا اللہ کے ساتھ اور بھی کوئی معبود ہے ؟ یہ استفہام انکاری ہے۔ یعنی اللہ کے ساتھ اور کوئی معبود نہیں جسے پکارا جائے یا جو چیز صرف اللہ کے اختیار میں ہو اس کی فریاد اس (غیر اللہ)سے کی جائے۔

(6) مجمع الزوائد: (10/ 159) بعض روایات میں صراحت ہے کہ یہ مشورہ دینے والے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تھے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اس معاملہ میں نبیﷺ سے مدد طلب کرنا جائز تھا۔ کیونکہ انہوں نے نبی ﷺ کی زندگی میں آپ سے ایسی مدد طلب کی جس پر آپ کو زندگی میں قدرت حاصل تھی۔ چونکہ وہ منافق اہل ایمان کو ایذائیں دیا کرتا تھا آپ اس کو قتل کرنے، قید کرنے یا اس کے بارے میں کسی تعزیر کا حکم سنا کر یا کوئی دوسرا حکم دے کر صحابہ کی مدد کرسکتے تھے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ایک ایسے معاملہ میں آپ کی طرف رجوع کیا جس پر آپ کو قدرت تھی۔ اس موقع پر بھی آپ نے تعلیم و ارشاد فرماتے ہوئے ادب سکھایا اور تنبیہ فرمائی کہ دیکھو میرے سامنے فریاد نہ کی جائے، فریاد اور پکار سب سے پہلے صرف اللہ تعالی سے کرنی چاہئے۔

 

 

باب:14 ” بے اختیار کو پکارنا شرک ہے ” (1)

 

اللہ تعالی کا ارشاد ہے :

( أَيُشْرِكُونَ مَا لَا يَخْلُقُ شَيْئًا وَهُمْ يُخْلَقُونَ(191) وَلَا يَسْتَطِيعُونَ لَهُمْ نَصْرًا وَلَا أَنْفُسَهُمْ يَنْصُرُونَ (سورۃ الأعراف7: 192))

’’کیا وہ ان کو اللہ کے شریک بناتے ہیں جو کچھ بھی پیدا نہیں کر سکتے حالانکہ وہ تو خود پیدا کیے گئے ہیں اور وہ نہ ان کی مدد کر سکتے ہیں اور نہ اپنی ہی۔‘‘

نیز اللہ تعالی کا فرمان ہے :

(وَالَّذِينَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مَا يَمْلِكُونَ مِنْ قِطْمِيرٍ (13) إِنْ تَدْعُوهُمْ لَا يَسْمَعُوا دُعَاءَكُمْ وَلَوْ سَمِعُوا مَا اسْتَجَابُوا لَكُمْ وَيَوْمَ الْقِيَامَۃ يَكْفُرُونَ بِشِرْكِكُمْ وَلَا يُنَبِّئُكَ مِثْلُ خَبِيرٍ (سورۃ فاطر35: 14))

’’اور تم اللہ کے سوا جن کو پکارتے ہو وہ تو کھجور کی ایک گٹھلی کے چھلکے کے بھی مالک نہیں۔ تم اگر ان کو پکارو تو وہ تمہاری پکار نہیں سنتے اور اگر بفرض محال سن بھی لیں تو تمہیں کوئی جواب نہیں دے سکتے۔ اور قیامت کے دن وہ تمہارے شرک کا انکار کریں گے۔ اور اللہ خبیر کی طرح تمہیں کوئی خبر نہیں دے سکتا۔‘‘ (2)

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :

(شُجَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ أُحُدٍ وَكُسِرَتْ رَبَاعِيَتُهُ فَقَالَ: كَيْفَ تُفْلِحُ قَوْمٌ شَجُّوا نَبِيِّهِمْ ؟ فَنَزَلَتْ: {لَيْسَ لَكَ مِنَ الْأَمْرِ شَيْءٌ }[ آل عمران: 128]) (صحیح مسلم، الجھاد، باب غزوۃ احد، ح:1791 و مسند احمد:3 /99، 178)

’’نبیﷺ غزوۂ احد میں زخمی ہو گئے اور آپ کے اگلے چار دانت شہید کر دیے گئے جس پر آپ نے فرمایا: ’’وہ قوم کیسے فلاح پا سکتی ہے جس نے اپنے نبی کو زخمی کر دیا ہے۔‘‘ تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی ’’لَيْسَ لَكَ مِنَ الْأَمْرِ شَيْءٌ‘‘ (اے نبی ﷺ !) ’’اس معاملے میں آپ کو کچھ بھی اختیار نہیں۔‘‘

اور ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا کہ آپ نے نماز فجر کی آخری رکعت میں رکوع سے سراٹھایا تو ’’سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَهُ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ‘‘ کے بعد فرمایا: (اللَّهُمَّ العَنْ فُلاَنًا وَفُلاَنًا) (صحیح البخاری، التفسیر، باب قولہ تعالی (لَيْسَ لَكَ مِنَ الْأَمْرِ شَيْءٌ)4069، 4559 و مسند احمد :2 / 145)

’’یا اللہ! فلاں اور فلاں پر لعنت فرما‘‘۔

تو اللہ تعالی نے یہ آیت نازل فرمائی:

(لَيْسَ لَكَ مِنَ الْأَمْرِ شَيْءٌ)آل عمران3: 128)

(اے نبی ﷺ !) اس معاملے میں آپ کو کچھ بھی اختیار نہیں۔‘‘

اور ایک روایت میں ہے :

( يَدْعُو عَلَى صَفْوَانَ بْنِ أُمَيَّۃ، وَسُهَيْلِ بْنِ عَمْرٍو، وَالحَارِثِ بْنِ هِشَامٍ فَنَزَلَتْ {لَيْسَ لَكَ مِنَ الأَمْرِ شَيْءٌ} [آل عمران3: 128]) (صحیح البخاری، المغازی، باب لَيْسَ لَكَ مِنَ الْأَمْرِ …..، ح:4070)

’’آپ صفوان بن امیہ، سہیل بن عمرو اور حارث بن ہشام کے لیے بد دعا کر رہے تھے، تب یہ آیت نازل ہوئی کہ اے پیغمبر! اس معاملے میں آپ کو کچھ بھی اختیار نہیں۔‘‘ (3)

صحیح بخاری ہی میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہﷺ پر یہ آیت نازل ہوئی۔

(وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ (سورۃ الشعراء26: 214))

’’اور اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیے۔‘‘

تو آپ نے کھڑے ہو کر فرمایا:

(يَا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ! أَوْ كَلِمَۃ نَحْوَهَا اشْتَرُوا أَنْفُسَكُمْ، لاَ أُغْنِي عَنْكُمْ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا، يَا عَبَّاسُ بْنَ عَبْدِ المُطَّلِبِ لاَ أُغْنِي عَنْكَ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا، يَا صَفِيَّۃ عَمَّۃ رَسُولِ اللَّهِ لاَ أُغْنِي عَنْكِ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا، وَيَا فَاطِمَۃ بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَلِينِي مِنْ مَالِي مَا شِئْتِ لاَ أُغْنِي عَنْكِ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا) (صحیح البخاری، الوصایا، باب ھل یدخل النساء والولد فی الارقاب، ح:2753 و مسند احمد:2 / 360)

’’اس جماعت قریش! یا اس طرح کا کوئی لفظ فرمایا، جنت کے عوض اپنی جانوں کا سودا کر لو۔ اللہ تعالی کے ہاں میں تمہارے کسی کام نہ آسکوں گا۔ اے عباس بن عبد المطلب! اللہ تعالی کے ہاں میں تمہارے کسی کام نہ آسکوں گا۔ اے میری پھوپھی صفیہ! اللہ تعالی کے ہاں میں تمہارے کسی کام نہ آسکوں گا۔ اس میری بیٹی فاطمہ! میرے مال میں سے جو چاہو مانگ لو مگر اللہ تعالی کے ہاں میں تمہارے کسی کام نہ آسکوں گا۔‘‘ (4)

 

مسائل:

1) اس باب میں سورۃ الاعراف اور سورۂ فاطر کی مذکورہ آیات کی تفسیر ہے جن میں بے اختیار کو پکارنے سے منع کیا گیا ہے۔

2) غزوۂ احد کا (مختصرسا)تذکرہ ہے۔

3) اس تفصیل سے ثابت ہوا کہ سید المرسلین ﷺ نماز میں قنوت نازلہ پڑھتے اور آپ کے پیچھے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آمین کہا کرتے تھے۔

4) جن پر بد دعا کی جا رہی تھی وہ بلاشبہ کافر تھے۔

5) ان کفار نے نبیﷺ کے ساتھ ایسی بدسلوکی کی تھی اور آپ کو ایسی ایذائیں دی تھیں کہ دیگر کفار نے ایسا نہ کیا تھا۔ مثلاً نبی ﷺ کو زخمی کرنا، آپ کے قتل کے درپے ہونا اور مسلمان شہداء کا مثلہ کرنا، حالانکہ وہ (شہداء) ان کفار کے عم زاد اور رشتہ دار بھی تھے۔ انہوں نے اس رشتے کا بھی لحاظ نہ کیا۔

6) اس کے باوجود ان کفار کی اس بدسلوکی اور نبی ﷺ کی ان کے خلاف بد دعاء کے بعد اللہ تعالی نے فرمایا: ’’لَيْسَ لَكَ مِنَ الْأَمْرِ شَيْءٌ‘‘کہ اے پیغمبر ﷺ ! ’’اس معاملے میں آپ کو کچھ بھی اختیار نہیں۔‘‘

7) بلکہ اللہ تعالی نے یہ بھی فرمایا: ’’أَوْ يَتُوبَ عَلَيْهِمْ أَوْ يُعَذِّبَهُمْ‘‘ ’’کہ اللہ تعالی کی مرضی ہے وہ انھیں معاف کر دے یا عذاب دے۔‘‘ چنانچہ اللہ تعالی نے انھیں معاف کر دیا اور وہ ایمان لے آئے۔

8) نزول حوادث کے موقع پر قنوت نازلہ پڑھنے کا ثبوت بھی ملتا ہے۔

9) نماز میں جن لوگوں پر بد دعا کی جائے ان کا اور ان کے آباء و اجداد کا نام بھی لیا جا سکتا ہے۔

10) قنوت نازلہ میں کسی مخصوص آدمی کا نام لے کر اس پر لعنت کرنا جائز ہے۔

11) ’’وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ‘‘ کے نزول کے موقع پر آپ کا اپنے قریبی رشتہ داروں کو بلا کر ایک ایک کو اللہ تعالی کے عذاب سے ڈرانے اور اپنی اپنی نجات کی فکر کرنے کا بھی اس باب میں بیان ہے۔

12) جب نبیﷺ نے توحید کی دعوت دی تو نبیﷺ کو ’’مجنون‘‘ کہا گیا۔ اسی طرح آج بھی اگر کوئی توحید کی دعوت دے تو اسے بھی اسی قسم کی باتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

13) نبیﷺ نے اپنے قریبی اور دور کے رشتہ داروں سے یہ فرمایا کہ اللہ تعالی کے ہاں میں تمہارے کسی کام نہ آسکوں گا۔ حتیٰ کہ نبیﷺ نے یہی بات اپنی لخت جگر سیدہ فاطمۃ الزھراء رضی اللہ عنہھا سے بھی بالصراحت فرما دی۔ نبیﷺ سید المرسلین ہونے کے باوجود اپنی لخت جگر اور سیدہ نساء العالمین سے فرما رہے ہیں کہ میں اللہ تعالی کے ہاں تمہارے کسی کام نہ آسکوں گا۔

اور ہمارا یہ بھی ایمان ہے کہ نبیﷺ کی زبان مبارک سے سوائے حق کے کچھ نہیں نکلتا۔ ان صراحتوں کی روشنی میں آج کل کے حالات پر غور کیا جائے کہ اس غلط فہمی (کہ اللہ کے ہاں انبیاء اور صالحین کچھ کام آسکتے ہیں)میں عوام ہی نہیں بلکہ خواص بھی مبتلا ہیں ، تو توحید کی حقیقت منکشف ہو جاتی ہے اور یہ بھی عیاں ہو جاتا ہے کہ آج کل لوگ دین سے کس قدر دور ہیں۔

 

نوٹ:

(1) سابقہ ابواب کے بعد اس باب کا لانا حسن سیاق، فقہی عظمت اور رسوخ فی العلم کی دلیل ہے۔

اللہ تعالی کی توحید اور عبادت میں اسی کے مستحق ہونے کی اصل دلیل وہ ہے جو ہر انسان کی فطرت میں اس کی ربوبیت کے اقرار کی صورت میں موجود ہے۔ فطری، مشاہداتی اور عقلی دلائل اس بات پر دلالت کر تے ہیں کہ عبادت کا مستحق صرف ایک اللہ ہی ہے اس کے علاوہ کوئی نہیں۔ اس باب میں یہ وضاحت ہے کہ خالق، رازق، مالک صرف اور صرف اللہ تعالی ہے۔ اس کے علاوہ کوئی بھی ان امور میں سے کسی کا مالک نہیں۔ حتیٰ کہ مخلوق میں سب سے اعلی مقام رکھنے والے نبی ﷺ کو بھی ان میں سے کسی چیز کا کچھ بھی اختیار نہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا:

( لَيْسَ لَكَ مِنَ الْأَمْرِ شَيْءٌ (سورۃ آل عمران3: 128))’’آپ کو کسی بھی چیز کا اختیار نہیں۔‘‘

جب نبی ﷺ کو کسی بھی چیز کا اختیار نہیں تو پھر کون ہے جسے ہر چیز کا اختیار ہے ؟ وہ صرف ایک اللہ ہی ہے۔ جب نبیﷺ سے اس بات کی نفی ہو گئی تو پھر آپ سے کم تر درجہ والوں کی توبالاولی نفی ہوئی۔ جو لوگ اللہ تعالی سے منہ موڑ کر اصحاب قبور، صالحین یا انبیاء و اولیاء کی طرف رجوع کرتے ہیں ، ان کے ذہن میں یہ تصور ہوتا ہے کہ وہ بھی صاحب قوت و اختیار ہیں۔ اور کچھ امور کے وہ بھی مالک ہیں۔ رزق بھی دیتے ہیں اور اللہ تعالی کی اجازت کے بغیر واسطہ اور سفارش کا حق رکھتے ہیں۔ ایسی سب باتیں غلط ہیں کیونکہ وہ تو خود اللہ تعالی کے پروردہ اور اس کی مخلوق ہیں۔ وہ کچھ بھی پیدا نہیں کرسکتے۔ وہ تو خود پیدا کیے گئے ہیں اور نہ ان کی مدد کر سکتے ہیں جو ان سے درخواست کرتے ہیں۔ قرآن کریم میں بے شمار دلائل سے ثابت ہے کہ عبادت کا مستحق صرف اللہ تعالی ہی ہے۔ اس کے علاوہ کوئی بھی عبادت کا حق دار نہیں۔ انھی دلائل کے ضمن میں اللہ تعالی نے ذکر کیا ہے کہ مشرکین بھی اللہ تعالی کے لیے توحید ربوبیت کا اقرار کرتے تھے۔ ان تمام دلائل سے واضح ہوتا ہے کہ تم جس ذات کی ربوبیت کا اقرار کرتے ہو عبادت کا بھی وہی مستحق ہے۔ قرآن کریم کے دلائل میں یہ بھی بیان ہوا کہ اللہ تعالی ہی نے اپنے رسولوں اور اولیاء کی دشمنوں کے مقابلہ میں مدد کی تھی۔ بعض دلائل میں مخلوق کی کمزوری بھی بیان ہوئی ہے۔ اور یہ ثابت کیا گیا ہے کہ زندہ ہونے میں بھی مخلوق کا کوئی اختیار نہیں۔ بلکہ اللہ عزوجل ہی عدم سے وجود بخشتا ہے اور اسی کے حکم سے انسان بغیر کسی اختیار کے وجود کے بعد عدم میں جا پہنچتا ہے۔

لہذا مخلوق مجبور و مقہور ہے۔ اسے ایک حالت سے دوسری حالت میں لانے اور لے جانے والا اللہ ہی ہے نہ کہ معبودان باطلہ وہی زندگی اور موت سے دوچار کرتا ہے۔ ہر شخص فطری طور پر ان امور کا معترف ہے۔ اللہ تعالی کے قادر ہونے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ وہ اسماء حسنی اور صفات عالیہ کا مالک ہے۔ اس کی ذات کا مل، اور عظیم صفات سے متصف ہے۔ ہر قسم کا کمال اسی کو حاصل ہے۔ اس کے کسی نام یا صفت میں کوئی نقص یا کمی نہیں۔

(2) اللہ تعالی نے فرمایا کہ یہ لوگ اللہ تعالی کو چھوڑ کر جن ملائکہ، انبیاء، رسل اور فوت شدہ صالحین یا جنات کو پکارتے ہیں ، ان میں سے کوئی بھی کھجور کی گٹھلی کے چھلکے تک کا بھی مالک نہیں تو یہ لوگ انھیں کیوں پکارتے اور ان سے حاجات کیوں طلب کرتے ہیں ؟ انھیں چاہئے کہ اپنے تمام امور میں صرف اسی کو پکاریں جو ان تمام امور کا مالک اور تصرف کرنے والا ہے۔

(3) ان احادیث سے واضح طور پر یہ ثابت ہوتا ہے کہ نبی کریمﷺ اللہ کی بادشاہت میں سے کچھ بھی اختیار نہیں رکھتے تھے اور آپ نے اس بات کی تبلیغ کی اور صاف صاف بیان بھی کر دیا تو پھر آپ کے علاوہ اور کون ہو سکتا ہے جسے یہ اختیار حاصل ہو؟ چنانچہ ملائکہ، انبیاء اور اولیاء و صالحین سے تو بالاولی اس بات کی نفی ہو گئی۔ لہذا غیر اللہ کی طرف رجوع کرنے کی تمام تر صورتیں باطل ہیں اور یہ ضروری ہے کہ عبادت اور عبادت کی تمام انواع یعنی دعا، استغاثہ (فریاد)، استعاذہ (پناہ مانگنا)، ذبح اور نذر کا سزاوار صرف اور صرف ایک اللہ کو ٹھہرایا جائے، اس کے علاوہ کسی کو نہیں۔

(4) یہ حدیث اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ نبی کریمﷺ اپنے قریبی رشتہ داروں کو بھی کچھ نفع نہیں دے سکتے تھے۔ ہاں اللہ کا پیغام انہیں ضرور پہنچایا اور اللہ کی طرف سے سونپی گئی عظیم امانت (رسالت و نبوت)کا حق ادا کیا۔

رہی بات اللہ کے عذاب، سزا اور عقوبت سے بچانے کی! تو یاد رہے ! اللہ عزوجل نے اپنی مخلوق میں سے کسی کو اپنی بادشاہت میں کچھ اختیار نہیں دیا۔ وہ سلطنت و قدرت میں تنہا اور کمال، جمال اور جلال میں یکتا ہے۔

 

 

باب:15 فرشتوں پر اللہ تعالی کی وحی کا خوف

 

اللہ تعالی کا ارشاد ہے :

(وَلَا تَنْفَعُ الشَّفَاعَۃ عِنْدَهُ إِلَّا لِمَنْ أَذِنَ لَهُ حَتَّى إِذَا فُزِّعَ عَنْ قُلُوبِهِمْ قَالُوا مَاذَا قَالَ رَبُّكُمْ قَالُوا الْحَقَّ وَهُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ (سورۃ سبأ34: 23))

’’جب ان فرشتوں کے دلوں سے گھبراہٹ دور ہوتی ہے تو وہ ایک دوسرے سے کہتے ہیں :تمہارے رب نے کیا فرمایا؟ (اللہ کے مقرب فرشتے)کہتے ہیں کہ اس نے حق فرمایا ہے اور وہ عالی مقام اور بزرگ و برتر ہے۔‘‘

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبیﷺ نے فرمایا:

( إِذَا قَضَى اللَّهُ الأَمْرَ فِي السَّمَاءِ، ضَرَبَتِ المَلاَئِكَۃ بِأَجْنِحَتِهَا خُضْعَانًا لِقَوْلِهِ، كَأَنَّهُ سِلْسِلَۃ عَلَى صَفْوَانٍ، يَنْفُذُهُمْ ذالِكَ حَتَّى إِذَا فُزِّعَ عَنْ قُلُوبِهِمْ قَالُوا مَاذَا قَالَ رَبُّكُمْ قَالُوا الحَقَّ، وَهُوَ العَلِيُّ الكَبِيرُ، فَيَسْمَعُهَا مُسْتَرِقُ السَّمْعِ، وَمُسْتَرِقُو السَّمْعِ هَكَذَا بَعْضُهُ فَوْقَ بَعْضٍ  وَصَفَهُ سُفْيَانُ بِكَفِّهِ فَحَرَفَهَا، وَبَدَّدَ بَيْنَ أَصَابِعِهِ  فَيَسْمَعُ الكَلِمَۃ فَيُلْقِيهَا إِلَى مَنْ تَحْتَهُ، ثُمَّ يُلْقِيهَا الآخَرُ إِلَى مَنْ تَحْتَهُ، حَتَّى يُلْقِيَهَا عَلَى لِسَانِ السَّاحِرِ أَوِ الكَاهِنِ، فَرُبَّمَا أَدْرَكَهْ الشِّهَابُ قَبْلَ أَنْ يُلْقِيَهَا، وَرُبَّمَا أَلْقَاهَا قَبْلَ أَنْ يُدْرِكَهُ، فَيَكْذِبَ مَعَهَا مِائَۃ كَذْبَۃ، فَيُقَالُ: أَلَيْسَ قَدْ قَالَ لَنَا يَوْمَ كَذَا وَكَذَا: كَذَا وَكَذَا؟ فَيُصَدَّقُ بِتِلْكَ الكَلِمَۃ الَّتِي سَمِعَتْ مِنَ السَّمَاءِ) (صحیح البخاری، التفسیر، باب قولہ تعالی حتیٰ اذا فزع عن قلوبہم، ح:4800)

’’جب اللہ تعالی آسمان پر کوئی فیصلہ صادر فرماتا ہے تو اللہ تعالی کے فرشتے اس کی حکم برداری میں یوں اپنے پر مارتے ہیں گویا صاف پتھر پر نرم زنجیر ٹکرانے کی جھنکار ہو۔ اور وہ فرمان ان فرشتوں تک پہنچ جاتا ہے حتیٰ کہ جب ان کے دلوں سے گھبراہٹ دور ہوتی ہے تو وہ ایک دوسرے سے کہتے ہیں :تمہارے رب نے کیا فرمایا؟ تو (اللہ تعالی کے مقرب فرشتے)کہتے ہیں کہ اس نے جو کہا وہ بر حق ہے۔ اور وہ عالی مقام اور بزرگ و برتر ہے۔ اللہ تعالی کی اس بات کو شیاطین چوری چھپے سننے کی کوشش کرتے ہیں۔ حدیث کے راوی سفیان نے اپنے ہاتھ کو ذرا ٹیڑھا اور انگلیوں کو ایک دوسری سے جدا جدا کر کے اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ وہ شیاطین ایک دوسرے کے اوپر یوں سوار ہو جاتے ہیں۔ سب سے اوپر والا شیطان جب کوئی بات سن لیتا ہے تو وہ اپنے سے نیچے والے کو بتا دیتا ہے اور وہ آگے اپنے سے نیچے والے کو۔ یہاں تک کہ آخری (سب سے نیچے والا)شیطان وہ بات ساحر یا کاہن کو بتا دیتا ہے۔ کبھی تو کاہن تک وہ بات پہنچنے سے قبل ہی شعلہ (شہاب ثاقب)اس شیطان کو جلا دیتا ہے اور کبھی شعلے کے آنے تک شیطان اسے بات بتا چکا ہوتا ہے اور کاہن شیطان کی طرف سے سنی ہوئی بات کے ساتھ سو جھوٹ ملا دیتا ہے۔اگر کوئی بات اس کی بتائی ہوئی بات کے مطابق ہو جائے تو لوگ کہتے ہیں کہ کیا فلاں روز فلاں ساحر یا کاہن نے ایسے ہی نہیں کہا تھا؟ چنانچہ اس کی صرف اس ایک بات کے سچے ہونے سے اس کاہن یا ساحر کو سچا سمجھ لیا جاتا ہے جو اس نے آسمان سے سنی ہوتی ہے۔‘‘ (1)

نواس بن سمعان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

(إِذَا أَرَادَ الله ُ تَعَالى أَنْ يُوحِيَ بِالأَمْـرِ تَكَلَّـمَ بِالْوَحْيٍ أَخَذَتِ السَّمـاوَاتِ مِنْهُ رَجْفَۃ أَوْ قَالَ رَعْدَۃ شَدِيْدَۃ خَوْفاً مِّنَ الله عَزَّ وَجَلَّ. فَإِذَا سَمِعَ ذلِكَ أَهْلُ السَّماواتِ صَعِقُوا وَخَرُّوا الله سُجَّداً. فَيَكُونُ أَوَّلَ مَنْ يَرْفَعُ رَأْسَهُ جِبْرِيلُ، فَيُكَلِّمُهُ الله مِنْ وَّحْيِهِ بِمَا أَرَادَ، ثُمَّ يَمُرُّ جِبْرِيلُ عَلَى الْمَلَائِكَۃ، كُلَّمَا مَرَّ بِسَمَاءٍ سَأَلَهُ مَلَائِكَتُهَا مَاذَا قَالَ رَبُّنَا يَا جِبْرِيلُ؟ فَيَقُولُ جِبْرِيلُ: قَالَ الْحَقَّ وَهُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ فَيَقُولُونَ كُلُّهُمْ مِثْلَ مَا قَالَ جِبْرِيلُ. فَيَنْتَهِي جِبْرِيلُ بِالْوَحْيِ إِلى حَيْثُ أَمَرَهُ الله عَزَّوَجَلَّ) (اخرجہ ابن کثیر فی التفسیر :6 / 503 و ابن خزیمۃ فی کتاب التوحید، ح:206)

’’اللہ تعالی جب کسی بات کی وحی کا ارادہ فرماتا ہے اور اس وحی کا تکلم فرماتا ہے تو اس کے خوف سے تمام آسمانوں پر دہشت اور کپکپی طاری ہو جاتی ہے۔ جب آسمان والے اس آواز کو سنتے ہیں تو بے ہوش ہو کر سجدے میں گر پڑتے ہیں۔ سب سے پہلے جبریل (علیہ السلام)سراٹھاتے ہیں۔ اللہ تعالی اپنی وحی میں سے جو چاہتا ہے ان سے کلام فرماتا ہے۔ پھر جبریل (علیہ السلام)ملائکہ کے پاس سے گزرتے ہیں۔ جب بھی کسی آسمان سے ان کا گزر ہوتا ہے تو اس آسمان کے فرشتے ان سے پوچھتے ہیں :اے جبریل (علیہ السلا)!ہمارے رب نے کیا فرمایا ہے ؟توجبریل (علیہ السلام)کہتے ہیں : اس نے حق فرمایا۔ وہ عالی مقام اور بزرگ و برتر ہے۔ پھر تمام فرشتے یہی بات دہراتے ہیں۔ پھر جبریل (علیہ السلام)اس وحی کو جہاں اللہ عزوجل کا حکم ہوتا ہے، وہاں پہنچا دیتے ہیں۔‘‘

 

مسائل:

1) اس تفصیل سے سورۂ سباء کی آیت نمبر 23 کی تفسیر ہوئی جس میں اللہ تعالی کی وحی کے وقت فرشتوں کی کیفیت بیان ہوئی ہے۔

2) ابطال شرک کی دلیل ہے، بالخصوص ایسے شرک کی جس کا تعلق صالحین امت سے ہے۔ اور اس آیت کے متعلق کہا گیا ہے کہ یہ آیت، دلوں میں سے شجرۂ شرک کی جڑوں کو کاٹ پھینکتی ہے۔

3) اللہ تعالی کے فرمان ’’ قَالُوا الْحَقَّ وَهُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ‘‘ کی تفسیر بھی ہوئی۔

4) فرشتوں کے سوال کی وجہ اور سبب بھی مذکور ہے۔

5) فرشتوں کے سوال پر جبریل علیہ السلام انہیں جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’اللہ تعالی نے یہ فرمایا ہے۔‘‘

6) جب سب فرشتے بے ہوش ہو جاتے ہیں تو سب سے پہلے جبریل علیہ السلام سر اٹھاتے ہیں۔

7) چونکہ ہر آسمان کے فرشتے جبریل علیہ السلام سے سوال کرتے ہیں ، اس لیے وہ سب کو جواب دیتے ہیں۔

8) بے ہوشی اور غشی تمام آسمانوں کے فرشتوں پر طاری ہوتی ہے۔

9) اللہ تعالی کے کلام سے آسمان لرز جاتے ہیں۔

10) اللہ تعالی کے حکم سے جبریل علیہ السلام ہی اللہ تعالی کی وحی کو منزل مقصود پر پہنچاتے ہیں۔

11) شیاطین چوری چھپے اللہ تعالی کے کلام کو سننے کی کوشش کرتے ہیں۔

12) اور اس مقصد کے لیے وہ ایک دوسرے پر سوار ہو جاتے ہیں۔

13) ان شیاطین پر ایک شہاب (شعلہ)چھوڑا جاتا ہے۔

14) بعض اوقات کاہن تک بات پہنچنے سے قبل ہی شہاب (شعلہ)اس شیطان کو جلا کر خاکستر کر دیتا ہے اور کبھی شہاب کے آنے سے پہلے ہی یہ شیطان اپنے انسانی دوست (کاہن، نجومی)کو بات بتا چکا ہوتا ہے۔

15) بعض اوقات کاہن کی بتائی ہوئی ایک آدھ بات صحیح ثابت ہو جاتی ہے۔

16) اور کاہن اس ایک صحیح بات کے ساتھ سو جھوٹ ملا دیتا ہے۔

17) لوگ کاہن کی جھوٹی باتوں کو محض اس لیے درست مان لیتے ہیں کہ اس کی ایک بات تو صحیح تھی حالانکہ وہ بات آسمان سے سنی گئی ہوتی ہے۔

18) نفوس انسانی باطل کو بہت جلد قبول کر لیتے ہیں۔ دیکھئے ! وہ کاہن کی صرف اس ایک بات کو مد نظر رکھتے ہیں اور اس کی ایک سو غلط باتوں کی طرف نہیں دیکھتے۔

19) شیاطین اس ایک بات کو ایک دوسرے سے حاصل کر کے یاد کر لیتے ہیں اور اس سے باقی جھوٹوں کے صحیح ہونے پر استدلال کرتے ہیں۔

20) اللہ تعالی کی صفات کا بھی اثبات ہوتا ہے۔ جبکہ اشاعرہ معطلہ ان صفات کے منکر ہیں۔

21) آسمانوں پر طاری ہونے والی دہشت اور کپکپی اللہ تعالی کے خوف سے ہوتی ہے۔

22) فرشتے اللہ تعالی (کی عظمت کے تصور سے ان)کے حضور سجدہ ریز ہوتے ہیں۔

 

نوٹ:

(1) فرشتوں کو اللہ تعالی کی خوب معرفت ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ اللہ تعالی جبار، جلیل اور کائنات کا مالک ہے۔ اسی لیے وہ اللہ تعالی سے بہت زیادہ ڈرتے ہیں کیونکہ وہ اللہ تعالی سے ایک لحظہ کے لیے بھی مستغنی نہیں ہوسکتے۔ اللہ تعالی کی صفات کی متعدد تقسیمات ہیں۔ ایک تقسیم یہ ہے کہ اللہ تعالی کی بعض صفات جلالی ہیں اور بعض جمالی۔ جلالی صفات وہ ہیں جن کی بنا پر دلوں میں اللہ تعالی کا ڈر، خوف اور رعب پیدا ہوتا ہے۔ ایسی صفات بنیادی طور پر صرف اللہ تعالی کی ہیں کیونکہ وہ اپنی صفات کے لحاظ سے کامل اور مکمل ہے۔ چونکہ وہ اپنی صفات میں ہر لحاظ سے کامل ہے، اس لیے وہی عبادت کا مستحق ہے۔ اس کے برعکس انسان جو کہ اس کی مخلوق ہیں ، اپنی صفات کے لحاظ سے ناقص اور کم تر ہیں۔ یہ اگرچہ زندہ ہیں تا ہم ان کی حیات کامل نہیں کیونکہ اس حیات کو موت کا عارضہ لاحق ہو تو انسان میت (مردہ) ہو جاتا ہے اور اگر مرض کا عارضہ لاحق ہو تو مریض ہو جاتا ہے۔ یہ ہر لحاظ سے کمزور، فقیر اور محتاج ہیں۔ ان کی صفات میں کمال نہیں اور یہ ان کے ناقص، عاجز، اللہ کے سامنے مجبور و بے کس ہونے اور اس کے پروردہ ہونے کی دلیل ہے۔ اس لیے لوگوں پر واجب ہے کہ وہ عبادت کا حق دار بھی اسی ذات کو ٹھہرائیں جو کمال کی صفات اور جمال و جلال کے اوصاف سے متصف ہے اور وہ اللہ حد ہی کی ذات ہے۔

 

 

 

باب:16 شفاعت کا بیان (1)

 

اللہ تعالی کا ارشاد ہے :

(وَأَنْذِرْ بِهِ الَّذِينَ يَخَافُونَ أَنْ يُحْشَرُوا إِلَى رَبِّهِمْ لَيْسَ لَهُمْ مِنْ دُونِهِ وَلِيٌّ وَلَا شَفِيعٌ لَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ (سورۃ الأنعام6: 51))

’’اور (اے محمد ﷺ !)آپ اس قرآن کے ذریعہ ان لوگوں کو نصیحت کریں جو اس بات سے ڈرتے ہیں کہ اپنے رب کے سامنے اس حال میں پیش کئے جائیں کہ ان کا اللہ کے سوا کوئی مدد گار یا سفارشی نہ ہوتا کہ یہ لوگ اللہ سے ڈر جائیں۔‘‘ (2)

نیز فرمایا:

(قُلْ لِلَّهِ الشَّفَاعَۃ جَمِيعًا (سورۃ الزمر39: 44))

’’ (اے محمد ﷺ !)کہہ دیجیے کہ ہر قسم کی شفاعت اللہ ہی کے اختیار میں ہے۔‘‘ (3)

(مَنْ ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِنْدَهُ إِلَّا بِإِذْنِهِ (سورۃ البقرۃ2: 255)

’’کون ہے جو اللہ کے حضور اس کی اجازت کے بغیر سفارش کر سکے۔‘‘

نیز ارشاد ہے :

(وَكَمْ مِنْ مَلَكٍ فِي السَّمَاوَاتِ لَا تُغْنِي شَفَاعَتُهُمْ شَيْئًا إِلَّا مِنْ بَعْدِ أَنْ يَأْذَنَ اللَّهُ لِمَنْ يَشَاءُ وَيَرْضَى (سورۃ النجم53: 26))

’’اور آسمانوں میں کتنے ہی فرشتے ہیں جن کی سفارش کچھ بھی فائدہ نہیں دے سکتی مگر بعد اس کے کہ اللہ جس کے حق میں شفاعت کی اجازت دے اور پسند کرے۔‘‘ (4)

و نیز ارشاد ہے :

(قُلِ ادْعُوا الَّذِينَ زَعَمْتُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ لَا يَمْلِكُونَ مِثْقَالَ ذَرَّۃ فِي السَّمَاوَاتِ وَلَا فِي الْأَرْضِ وَمَا لَهُمْ فِيهِمَا مِنْ شِرْكٍ وَمَا لَهُ مِنْهُمْ مِنْ ظَهِيرٍ (22) وَلَا تَنْفَعُ الشَّفَاعَۃ عِنْدَهُ إِلَّا لِمَنْ أَذِنَ لَهُ (سورۃ سبأ34: 23))

’’ (اے محمدﷺ !)ان مشرکین سے کہہ دیجئے کہ اللہ کے سوا تم جن کو معبود سمجھتے ہو، انہیں پکار کر دیکھو، وہ تو آسمان و زمین میں ایک ذرہ کے بھی مالک نہیں۔ زمین و آسمان کی ملکیت یا تخلیق میں ان کا کوئی حصہ نہیں۔ اور نہ ان میں سے کوئی اللہ کا مدد گار ہے۔ اور اللہ کے حضور کسی کے لیے کوئی سفارش مفید نہیں ہو گی مگر اس کے لیے جس کے حق میں سفارش کی وہ اجازت بخش دے۔‘‘ (5)

شیخ الاسلام ابو العباس ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :

اللہ تعالی نے اپنے علاوہ تمام مخلوق سے ان باتوں کی نفی کر دی جن سے مشرکین استدلال کیا کرتے تھے۔ مثلاً اس نے اس بات کی نفی کی ہے کہ کسی کو زمین و آسمان میں کسی قسم کی قدرت، کلی یا جزوی اختیارات ہوں ، یا کوئی اللہ تعالی کا معاون اور مدد گار ہو، البتہ سفارش ہو سکتی ہے۔ مگر وہ بھی صرف اسی کے لیے مفید ہو گی جس کے حق میں سفارش کی اجازت خود اللہ تعالی دے گا جیسا کہ اس نے فرمایا:

(وَلَا يَشْفَعُونَ إِلَّا لِمَنِ ارْتَضَى (سورۃ الأنبياء21: 28))

’’اور وہ کسی کے حق میں سفارش نہیں کر سکیں گے بجز اس کے جس سے اللہ راضی ہو۔‘‘

پس وہ سفارش جس کے مشرکین قائل ہیں قیامت کے دن معدوم ہو گی جیسا کہ قرآن مجید نے اس کی نفی اور انکار کیا ہے اور رسول اکرمﷺ نے اپنے بارے میں فرمایا ہے کہ :آپ قیامت کے دن اللہ تعالی کے سامنے پیش ہو کر فورا سفارش کی بجائے اللہ تعالی کے حضور سجدہ ریز ہوں گے اور اس کی حمد و ثنا کریں گے۔ اس کے بعد آپ سے کہا جائے گا کہ اپنا سر اٹھائیں اور بات کریں ، آپ کی بات سنی جائے گی، آپ سوال کریں ، آپ جو مانگیں گے آپ کو دیا جائے گا: آپ سفارش کریں ، آپ کی سفارش قبول کی جائے گی۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ (ﷺ)!سب سے زیادہ خوش نصیب کون ہے جو آپ کی سفارش کا حق دار ہو گا؟ آپ نے فرمایا: ’’جس نے خلوص دل سے کلمۂ توحید ’’لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّه‘‘ کا اقرار کیا‘‘۔ یعنی یہ سفارش اللہ تعالی کی اجازت سے صرف خلوص دل سے کلمہ پڑھنے والوں کو حاصل ہو گی اور مشرکین کے حق میں سفارش کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

اس کا مفہوم یہ ہوا کہ اللہ تعالی صرف مخلصین اہل توحید پر اپنا خصوصی فضل فرمائے گا اور جن کو سفارش کی اجازت دے گا ان کی دعا (سفارش)کے نتیجہ میں اہل توحید کی مغفرت فرمائے گا اور اس طرح سفارش کرنے والے (رسول اللہ ﷺ)کا اکرام فرمائے گا اور آپ ’’مقام محمود‘‘ سے سرفراز ہوں گے۔ پس جس شفاعت کا قرآن نے انکار کیا ہے اس سے وہ شفاعت مراد ہے جس میں اللہ کے ساتھ شرک ہو۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے متعدد مقامات پر اپنی اجازت سے شفاعت کا اثبات کیا ہے اور نبی کریم ﷺ نے صاف صاف فرمایا ہے کہ شفاعت صرف اہل توحید اور اہل اخلاص کے لیے ہو گی۔ (6)

 

مسائل:

1) ان باب میں چند آیات قرآنیہ کی تفسیر بیان کی گئی ہے۔

2) غیر مقبول شفاعت کی بھی وضاحت ہوئی۔

3) اور مقبول شفاعت کا بیان بھی ہوا۔

4) شفاعت کبری کا ذکر بھی ہے جس کی اجازت نبیﷺ کو ملے گی۔ اسی کو مقام محمود بھی کہتے ہیں۔

5) نبیﷺ کسی طرح شفاعت کریں گے ؟ نبی ﷺ جاتے ہی شفاعت نہیں کریں گے بلکہ سب سے پہلے اللہ تعالی کے حضور سجدہ ریز ہوں گے۔ پھر اجازت ملنے پر شفاعت کریں گے۔

6) کون سا آدمی شفاعت کا سب سے زیادہ حقدار ہو گا؟ وہ جو خلوص دل سے کلمۂ توحید ’’لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّه‘‘کا اقرار کے۔

7) مشرکین، کو یہ شفاعت حاصل نہ ہو سکے گی۔

8) شفاعت کی حقیقت بھی واضح ہوئی کہ دراصل یہ بھی اللہ تعالی کی رحمت کا ایک انداز ہے۔ جن کو شفاعت کرنے کی اجازت دی جائے گی یہ ان کے لیے اعزاز اور عزت افزائی کا باعث ہو گی۔ اور جن کے حق میں کی جائے گی یہ ان کے لیے اللہ تعالی کی خصوصی رحمت اور مہربانی ثابت ہو گی۔

 

نوٹ:

(1) سابقہ دو ابواب کے بعد اس مسئلہ کی از حد ضرورت تھی۔ کیونکہ جو لوگ نبی ﷺ سے فریادیں کرتے یا دیگر اولیاء و انبیاء کے آگے ہاتھ پھیلاتے اور ان سے مدد طلب کرتے ہیں جب ان کے سامنے توحید ربوبیت کے دلائل ذکر کئے جائیں تو وہ کہتے ہیں کہ ہم بھی ان تمام باتوں کو مانتے اور ان پر اعتقاد رکھتے ہیں ، البتہ یہ تمام بزرگ اللہ تعالی کے مقرب ہیں اور اللہ تعالی کے ہاں ان کا مرتبہ عظیم اور بلند ہے اور جو شخص ان بزرگوں کی طرف رجوع کرے تو یہ بزرگ اس کے حق میں سفارش کریں گے اور اللہ تعالی ان کی سفارش کو قبول فرمائے گا۔ شیخ محمد بن عبد الوہاب رحمۃ اللہ علیہ نے مشرکین کی حالت اور ان کے دلائل باطلہ کو ذہن میں رکھتے ہوئے فرمایا کہ جب انہیں دلائل پیش کیے جائیں تو سوائے مسئلہ شفاعت کے ان کے پاس کوئی دلیل نہیں رہتی۔ اسی لیے اس مسئلہ کی وضاحت کے پیش نظر مستقل باب قائم کیا ہے۔

شفاعت، سفارش اور دعا کو کہتے ہیں ، کوئی شخص جب یوں کہے کہ میں نبیﷺ کی شفاعت کا طلب گار ہوں تو اس کی بات کا مفہوم یہ ہوتا ہے کہ وہ اللہ تعالی کے ہاں اپنے حق میں رسول اکرمﷺ کی سفارش اور دعا چاہتا ہے۔ گویا سفارش اور دعا کی درخواست کو شفاعت کہتے ہیں۔

سابقہ دلائل اور ان کے علاوہ قرآن و سنت کے دیگر دلائل جن سے اللہ تعالی کے علاوہ کسی بھی غیر کو پکارنے کا ابطال ہوتا ہے، ان تمام دلائل سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ جو لوگ فوت ہو چکے اور اس دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں ان سے شفاعت کی درخواست کرنا بھی باطل ہے۔ پس فوت شدہ سے شفاعت چاہنا بہت بڑا شرک ہے، البتہ زندہ آدمیوں سے شفاعت یعنی دعا کرانا جائز ہے کیونکہ وہ اس دنیا میں زندہ موجود ہیں اور ہماری درخواست کو پورا کرنے کی قدرت رکھتے ہیں۔ اللہ تعالی نے زندہ لوگوں سے دعا کرانے کی اجازت دی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نبی ﷺ کی زندگی میں بعض صحابہ رضی اللہ عنہم آپ کی خدمت میں تشریف لا کر دعا کی درخواست کیا کرتے تھے۔ یاد رہے کہ ہر شفاعت کا قبول ہونا ضروری نہیں۔ کوئی شفاعت مقبول اور کوئی مردود (نا مقبول)بھی ہوتی ہے۔ مقبول ہونے کی چند شرائط ہیں اور مردود ہونے کی بھی وجوہات ہیں۔الغرض قرآن و سنت سے شفاعت کی دوقسمیں ثابت ہیں۔

(الف) شفاعت منفیہ (غیر مقبولہ)

(ب) شفاعت مثبتہ (مقبولہ)

 

منفی شفاعت (غیر مقبول)وہ ہے جس کی اللہ عزوجل نے مشرکین کے حق میں نفی کی ہے، جیسا کہ شیخ محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ نے اس کی سب سے پہلی دلیل، سورۂ انعام کی آیت (51)پیش کی ہے۔

(2) شفاعت مثبتہ (مقبولہ)یہ وہ شفاعت ہے جس کی اہل توحید کے سوا تمام کے حق میں نفی کی گئی ہے۔

اہل توحید کے حق میں شفاعت قبول ہونے کی چند شرائط ہیں :

(الف) شفاعت کرنے والے کے لیے اللہ تعالی کی طرف سے شفاعت کی اجازت۔

(ب) شفاعت کرنے والے اور جس کے حق میں سفارش کی جائے، دونوں کے لیے اللہ کی رضا اور خوشنودی۔ گویا اصل سفارشی اللہ تعالی کی ذات ہے۔ اس کے سوا کوئی اور نہیں۔ اس لیے مصنف رحمہ اللہ نے اس کے بعد دوسری آیت ’’قُلْ لِلَّهِ الشَّفَاعَۃ جَمِيعًا‘‘بیان کی ہے۔

(3) یعنی ہر قسم کی شفاعت (سفارش)اللہ تعالی کی ملکیت ہے۔ در حقیقت اہل ایمان اور غیر اہل ایمان، سب کا اللہ تعالی کے سوا کوئی مدد گار یا سفارشی نہیں ، بلکہ شفاعت اللہ عزوجل کی اجازت اور رضا مندی ہی سے ہو گی۔ اور چونکہ کوئی شفاعت مذکورہ بالا شرائط کے ساتھ ہی مفید ہو سکتی ہے اس لیے مصنف رحمۃ اللہ علیہ نے اس کے بعد دو مزید آیات بیان کی ہیں :

(4) پہلی آیت ’’مَنْ ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِنْدَهُ إِلَّا بِإِذْنِهِ‘‘ میں اجازت کی قید اور شرط ہے یعنی ملائکہ، انبیاء اور اللہ کے قرب پانے والوں میں سے کوئی بھی اس کی اجازت کے بغیر شفاعت نہ کرسکے گا۔ اللہ تعالی ہی شفاعت کا مالک ہے اور وہی اس کی توفیق بخشنے والا ہے۔ اسی طرح دوسری آیت ’’إِلَّا مِنْ بَعْدِ أَنْ يَأْذَنَ اللَّهُ لِمَنْ يَشَاءُ وَيَرْضَى‘‘ میں بھی یہی ارشاد ہے کہ وہ شفاعت کرنے والوں میں سے جسے چاہے گا اجازت بخشے گا اور شفاعت کرنے والے کے قول سے اور جس کی شفاعت کی جائے گی اس سے راضی ہونے کے بعد شفاعت کی اجازت ہو گی۔

شفاعت کی مذکورہ بالا شروط سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ مخلوق کے ساتھ حصول شفاعت کی غرض سے تعلق قائم کرنا اور یہ اعتقاد رکھنا کہ اللہ کے ہاں اسے اس قدر مقام و متبہ حاصل ہے کہ یہ ازخود شفاعت کا اختیار رکھتا ہے، قطعاً درست نہیں۔ یہی اعتقاد مشرکین کا اپنے معبودان باطلہ کے بارے میں ہوتا ہے کہ وہ لازما ان کی شفاعت کریں گے اور اللہ تعالی ان کی شفاعت کو رد بھی نہیں کرے گا۔

زیر نظر آیات میں مشرکین کے اسی دعوی کا ابطال اور نفی ہے کہ اللہ تعالی کی اجازت اور جس کی شفاعت مقصود ہے اس کے متعلق اللہ کی رضا مندی کے بغیر بھی کوئی شفاعت کرسکتا ہے۔ جب یہ بات ثابت ہو چکی کہ اللہ تعالی کے سوا کوئی دوسرا شفاعت کا مالک نہیں اور جو کوئی بھی کسی کی شفاعت کرے گا تو اللہ کے اذن اور اجازت ہی سے کر سکے گا تو پھر مخلوق کے ساتھ اس کی شفاعت کے حصول کے لیے لگاؤ رکھنا کیسے درست ہوا؟ تعلق و لگاؤ تو محض اسی کے ساتھ ہونا چاہئے جو شفاعت کا حقیقی مالک ہے۔

قیامت کے دن نبی کریم ﷺ یقیناً شفاعت کریں گے لیکن ہم اس شفاعت کے حصول کی درخواست کس سے کریں ؟ صرف اللہ وحدہ سے اور یوں دعا کریں کہ یا اللہ! ہمیں اپنے نبیﷺ کی شفاعت نصیب فرما کیونکہ اللہ رب العزت ہی نبی کریم ﷺ کو توفیق بخشے گا اور آپ کے دل میں الہام کرے گا کہ فلاں فلاں کے حق میں شفاعت کریں اور یہ شفاعت انھی لوگوں کے حق میں ہو گی جنھوں نے اللہ تعالی سے، نبی کریمﷺ کی شفاعت کے حصول کی دعا کی ہو گی۔

اسی لیے مصنف رحمہ اللہ نے اس کے بعد سورۂ سبا کی یہ آیت بیان کی ہے :

(قُلِ ادْعُوا الَّذِينَ زَعَمْتُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ لَا يَمْلِكُونَ مِثْقَالَ ذَرَّۃ فِي السَّمَاوَاتِ وَلَا فِي الْأَرْضِ وَمَا لَهُمْ فِيهِمَا مِنْ شِرْكٍ وَمَا لَهُ مِنْهُمْ مِنْ ظَهِيرٍ (22) وَلَا تَنْفَعُ الشَّفَاعَۃ عِنْدَهُ إِلَّا لِمَنْ أَذِنَ (سورۃ سبأ34: 23))

(5) اس آیت میں تین احوال ذکر ہوئے ہیں :

(الف) اللہ تعالی نے حکم دیا ہے کہ یہ لوگ اللہ تعالی کے علاوہ جن بزرگوں کو صاحب اختیار سمجھتے ہیں ان کو پکار کر تو و یکھیں ، کیا وہ زمین و آسمان میں کسی بھی چیز کے بذات خود مالک ہیں ؟ یعنی وہ تو بے بس، بے اختیار اور بے کس ہیں اور کسی بھی چیز کے مالک و مختار نہیں۔

(ب) اللہ نے واضح فرمایا کہ یہ بزرگ اس کائنات میں ، تدبیر امور میں ، زمین و آسمان کی ملکیت میں یا کسی بھی امر میں اللہ کے شریک یا ساجھی نہیں ہیں اور ان میں سے کوئی بھی اللہ کا وزیر، مشیر یا مدد گار نہیں۔

(ج) ان لوگوں کا عقیدہ تھا اور وہ اس زعم کا شکار تھے کہ ان کے معبودان باطلہ اللہ تعالی کے ہاں سفارش کے مالک ہیں۔ اللہ تعالی نے ان کے اس عقیدہ کا بھی ابطال کیا اور فرمایا:

(وَلَا تَنْفَعُ الشَّفَاعَۃ عِنْدَهُ إِلَّا لِمَنْ أَذِنَ لَهُ (سورۃ سبأ34: 23))

’’اللہ تعالی کے ہاں سفارش اسی کے حق میں مفید ہو گی جس کے حق میں سفارش کے نے کی وہ خود اجازت دے گا۔‘‘

جب یہ بات حتمی ہے تو پھر اللہ تعالی، کسے سفارش کرنے کی اجازت دے گا؟ اور کس کے لیے پسند کرے گا کہ وہ سفارش کرے ؟ اور کس کے حق میں راضی ہو گا کہ اس کی سفارش کی جائے ؟ ان تینوں سوالوں کا جواب شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے کلام میں موجود ہے۔

(6) مشرکین کا اتقاد تھا کہ اللہ تعالی کی اجازت اور رضامندی کے بغیر شفاعت کا حصول ممکن ہے کیونکہ ان کا خیال تھا کہ شفاعت کرنے ولا بذات خود شفاعت کا مالک ہوتا ہے۔قرآن نے اس بات کی نفی کی کہ جس شفاعت کے امیدوار اور طلب گار مشرکین ہیں وہ قیامت کے روز ہر گز حاصل نہیں ہوسکے گی جبکہ مذکورہ بالا شروط کے ساتھ شفاعت کا حصول ممکن ہو گا جیسا کہ کتا ب و سنت میں اس کا اثبات ہے۔

نبی کریم ﷺ شفاعت کے لیے اللہ کے حضور حاضر ہوں گے تو فورا شفاعت کرنے کے بجائے سجدہ ریز ہوں گے اور اللہ کی تحمید و تقدیس کریں گے، پھر اللہ عزوجل فرمائے گا: سراٹھائیں اور بات کریں ، آپ کی بات سنی جائے گی، سوال کریں ، جواب عنایت کیا جائے گا، شفاعت کریں قبول ہو گی۔

یہ اللہ کی طرف سے اجازت کے کلمات ہوں گے۔ اجازت نبی کریم ﷺ کو بھی ملے گی اور دوسروں کو بھی۔ لیکن کوئی بھی ابتداء میں شفاعت نہیں کرے گا بلکہ پہلے اللہ سے شفاعت کی اجازت مانگیں گے تو اجازت ملے گی کیونکہ انہیں اللہ کی طرف سے شفاعت کا اختیار تو حاصل ہے لیکن شفاعت کا حقیقی مالک صرف اللہ رب العزت ہی ہے، چنانچہ اللہ کی رضا مندی اور شفاعت کی اجازت ملنے کے بعد نبی کریم ﷺ جن کے حق میں شفاعت کریں گے وہ اہل توحید اور اہل اخلاص ہی ہوں گے۔ مشرکین کو یہ شفاعت نصیب نہ ہو گی۔

اس سے معلوم ہوا کہ فوت شدگان، انبیاء ورسل اور صالحین کی طرف رجوع کرنے والا اور ان سے شفاعت کا خواستگار مشرک ہے کیونکہ وہ غیر اللہ سے دعا کرتا اور اسے پکارتا ہے جبکہ وہ بذات خود شفاعت کے مالک ہی نہیں۔ اللہ کی طرف سے اجازت اور رضا مندی کے بعد انہیں شفاعت کا حق حاصل ہو گا۔

لہذا جس شخص نے کسی فوت شدہ سے شفاعت کی درخواست کی اس نے اللہ کے ساتھ شرک کا ارتکاب کر کے اپنے آپ کو شفاعت مصطفیﷺ سے محروم کر لیا۔

بالآخر اللہ عزوجل شفاعت کے واسطے سے اہل توحید کی مغفرت فرمائے گا اور یہ شافع (شفاعت کرنے والے)کی تعظیم و اکرام اور اس پر اللہ کی خصوصی رحمت کے اظہار کے لیے ہو گا۔ در حقیقت یہ اللہ کا فضل ہی ہو گا کہ خود شفاعت کی اجازت دے کر اسے قبول فرمائے گا۔ شافع (شفاعت کرنے والے)پر یہ فضل اس صورت میں ہو گا کہ اسے شفاعت کا حق دے کر اکرام و اعزاز سے نوازے گا اور مشفوع لہ (جس کے حق میں شفاعت کی جائے گی)پر یہ فضل اس طرح سے ہو گا کہ اس پر رحم فرماکر اس کے حق میں شفاعت قبول فرمائے گا۔ اہل عقل و دانش کے لیے یہ دلائل، اللہ کی عظمت کا واضح ثبوت ہیں کہ وہ اپنی شہنشاہی میں یکتا ہے۔ شفاعت کا مکمل اختیار اسی کے پاس ہے اور سارے کے سارے نظام کا شاہ حقیقی بھی وہی ہے۔ لہذا ضروری ہے کہ شفاعت کی امید میں بھی دل اسی کی طرف مائل ہوں۔

قرآن مجید نے اس شفاعت کی نفی کی ہے جس میں شرک ہو، جیسا کہ اللہ عزوجل کا فرمان ہے :

(لَيْسَ لَهُمْ مِنْ دُونِهِ وَلِيٌّ وَلَا شَفِيعٌ (سورۃ الأنعام6: 51))

’’قیامت کے روز اللہ تعالی کے سوا کوئی مدد گار ہو گا نہ سفارشی۔‘‘

اس آیت میں اس شفاعت کی نفی ہے جس میں شرک کی آمیزش ہو یعنی جس قسم کی شفاعت کا اعتقاد مشرکین رکھتے ہیں وہ قیامت کے روز بالکل معدوم ہو گی۔ اس طرح مشرکین کے حق میں شفاعت کی نفی ہے کیونکہ اللہ تعالی ان سے راضی ہی نہ ہو گا۔ جب یہ بات ثابت ہو چکی کہ شفاعت کا حق دار وہی ٹھہرے گا جس پر اللہ عزوجل نے انعام کیا اور اسے توفیق بخشی کہ اس نے اللہ کی عظمت کو جانا پہچانا اور اپنا دلی لگاؤ اسی کے ساتھ رکھا، اس کے علاوہ کسی کی طرف اس کا قلبی میلان نہ ہوا تو پھر شرک اکبر کے مرتکب ہر شخص کے حق میں شفاعت کی نفی ہو گئی کیونکہ شفاعت، اہل اخلاص پر اللہ کا خصوصی فضل ہو گا۔ اللہ تعالی نے متعدد مقامات پر اذن اور اجازت کی شرط کے ساتھ شفاعت کا اثبات کیا ہے۔

اذن کی دو قسمیں ہیں :

(الف) اذن کونی

(ب) اذن شرعی

اذن کونی کا مطلب یہ ہے کہ یہ ممکن ہی نہیں کہ جسے شفاعت کی اجازت ہو وہ شفاعت کرسکے جب تک کہ اللہ کی طرف سے اسے اجازت نہ مل جائے۔ جب تک اللہ اسے شفاعت کرنے سے روک رکھے گا اس وقت تک وہ شفاعت کرسکے گا نہ اس کی زبان شفاعت کے لیے حرکت میں آسکے گی۔

اور اذن شرعی کا مطلب یہ ہے کہ شفاعت میں شرک نہ ہو اور جس کے حق میں شفاعت ہو گی وہ مشرک بھی نہ ہو۔

البتہ اس حکم عام سے نبی کریمﷺ کے چچا ابو طالب مستثنی ہیں کیونکہ ان کے بارے میں نبی علیہ السلام شفاعت کریں گے اور یہ شفاعت جہنم سے رہائی کی نہیں بلکہ تخفیف عذاب کے لیے ہو گی اور یہ صرف نبی علیہ السلام کا خاصہ ہے۔ اللہ رب العزت ہی نے آپ کی طرف یہ وحی کی اور وہی آپ کو اجازت بخشے گا کہ آپ ان کے حق میں شفاعت کرسکیں۔

اس ساری تفصیل سے واضح ہوا کہ مبتدعین اور غیر اللہ سے تعلق رکھنے والوں کے دلوں میں جس شفاعت کا گمان اور خیال ہے وہ باطل ہے اور ان کا یہ قول ’’وَهَؤُلَاءِ شُفَعَآءَ نَاعِنْدَ اللهِ ‘‘ (یہ ہستیاں ، اللہ کے ہاں ہمارے حق میں شفاعت کریں گی) بھی باطل ہے کیونکہ شفاعت تو صرف اہل اخلاص کے حق میں نفع بخش ہو گی اور یہ لوگ تو ہمیشہ غیر اللہ سے شفاعت مانگتے اور غیر اللہ ہی سے سوال کرتے رہے، یہی ان کی شفاعت سے محروم ہو جانے کی علامت اور نشانی ہے۔

اس سارے باب کا خلاصہ یہ ہوا کہ اہل خرافات اور مشرکین کا غیر اللہ سے شفاعت کی امید رکھنا ان کے حق میں بہتر نہیں بلکہ نقصان دہ ہو گا کیونکہ وہ غیر اللہ سے شفاعت کی امید رکھ کر حقیقی شفاعت سے محروم ہو گئے اور ان کی یہ امید بھی ایسی تھی کہ اللہ نے شرعاً اس کی اجازت ہی نہیں دی کہ وہ شرکیہ شفاعت کے خواہشمند ہوں اور غیر اللہ کی طرف رجوع کریں اور ان کے دل غیر اللہ کی طرف مائل ہوں۔

 

 

باب:17 ہدایت دینا صرف اللہ تعالی کے اختیار میں ہے

 

 

اللہ تعالی نے فرمایا:

(إِنَّكَلَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَكِنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ (سورۃ القصص28: 56))

’’ (اے محمد ﷺ !)یقیناً آپ، جسے چاہیں ہدایت نہیں دے سکتے، لیکن اللہ جسے چاہے ہدایت دیتا ہے۔ اور وہ ہدایت پانے والوں کو خوب جانتا ہے۔‘‘ (1)

صحیح بخاری میں سعید بن مسیب رحمۃ اللہ علیہ اپنے والد مسیب رحمۃ اللہ علیہ سے روایت کرتے ہیں۔ جب ابو طالب کی وفات کا وقت قریب آیا تو رسول اللہﷺ تشریف لائے۔ وہاں عبد اللہ بن ابی امیہ اور ابو جہل بھی بیٹھے تھے۔ نبیﷺ نے فرمایا:

( يَا عَمِّ، قُلْ: لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، كَلِمَۃ أَشْهَدُ لَكَ بِهَا عِنْدَ اللَّهِ)

’’چچا جان! کلمہ ’’لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ‘‘ کا اقرار کر لو، تاکہ میں اسی کلمہ کو اللہ تعالی کے ہاں تمہارے حق میں بطور دلیل پیش کر سکوں۔‘‘

وہ دونوں (عبد اللہ بن ابی امیہ اور ابو جہل)بولے : کیا تم عبد المطلب کے دین کو چھوڑ دو گے ؟ نبیﷺ بھی اور وہ دونوں سردار اپنی اپنی بات کو دہراتے رہے۔ بالآخر ابوطالب نے کہا میں عبد المطلب کے مذہب پر قائم ہوں۔ اور اس نے ’’لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ‘‘ کا اقرار کرنے سے انکار کر دیا۔ نبی ﷺ نے فرمایا:

(لَأَسْتَغْفِرَنَّ لَكَ مَا لَمْ أُنْهَ عَنْكَ)

’’جب تک مجھے منع نہ کیا گیا میں ضرور تمہارے لیے مغفرت کی دعا کرتا رہوں گا۔‘‘

اس پر اللہ تعالی نے یہ آیت نازل فرمائی:

(مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَنْ يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ وَلَوْ كَانُوا أُولِي قُرْبَى مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُمْ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ (سورۃ التوبۃ9: 113))

’’نبی اور اہل ایمان کو زیبا نہیں کہ وہ مشرکین کے لیے مغفرت کی دعا کریں خواہ وہ ان کے رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں۔‘‘

اور اللہ تعالی نے ابو طالب کے بارے میں یہ آیت نازل فرمائی:

(إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَكِنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ (سورۃ القصص28: 56))

’’ (اے محمدﷺ !)بلاشبہ آپ، جسے چاہیں ہدایت نہیں دے سکتے، لیکن اللہ جسے چاہے ہدایت دیتا ہے۔ اور وہ ہدایت قبول کرنے والوں کو خوب جانتا ہے۔‘‘ (صحیح بخاری، التفسیر، باب تفسیر قولہ تعالی (إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ)، حدیث 4772 و صحیح مسلم، الایمان، باب الدلیل علی صحۃ اسلام من حضرہ الموت…..الخ، حدیث 24)‘‘ (2)

 

مسائل:

1) اس باب میں آیت کریمہ ’’إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ‘‘ کی تفسیر ہے۔

2) آیت کریمہ ’’مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَنْ يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ وَلَوْ كَانُوا أُولِي قُرْبَى‘‘ کی تفسیر اور شان نزول بھی بیان ہوا ہے۔

3) کلمۂ توحید ’’لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ‘‘ کا زبان سے اقرار ضروری ہے۔ اس میں علم کے ان دعوے داروں کی تردید ہے جو محض دلی معرفت کو کافی سمجھتے ہیں۔

4) جب نبیﷺ نے اپنے چچا سے ’’لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ‘‘ پڑھنے کو کہا تو ابو جہل اور اس کے ساتھی جانتے تھے کہ نبی ﷺ کی اس سے کیا مراد ہے ؟ اسی لیے وہ ابو طالب کو عبد المطلب کے مذہب پر قائم رہنے کی تلقین کرتے رہے۔ اللہ تعالی ان لوگوں کا برا کرے جن کی نسبت ابو جہل اصل دین ’’لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ‘‘کے مفہوم کو بہتر جانتا تھا۔

5) نبی ﷺ نے اپنے چچا کو مسلمان کرنے کی پوری پوری کوشش کی تھی۔

6) جو لوگ ابو طالب اور اس کے اسلاف کو مسلمان سمجھتے ہیں ، اس میں ان کی بھی تردید ہے۔

7) نبی ﷺ نے ابو طالب کے حق میں مغفرت کی دعا کی مگر اللہ تعالی نے نہ صرف اس کی مغفرت نہیں کی بلکہ نبیﷺ کو مشرکین کے لیے دعا کرنے سے بھی روک دیا۔

8) برے لوگوں کی صحبت ہمیشہ نقصان دہ ہوتی ہے۔

9) اکابر واسلاف کی تعظیم میں غلو کرنا نقصان دہ ہے۔

10) باطل پر ست لوگ اپنے اکابر والادین اور طور اطوار اختیار کرنے میں اس شبہ کا شکار ہیں کہ ابو جہل نے بھی ابو طالب کو یہی تلقین کی تھی۔

11) نجات کا دار و مدار زندگی کے آخری اعمال پر ہے کیونکہ اگر ابو طالب بوقت وفات کلمہ کا اقرار کر لیتا تو اسے ضرور فائدہ ہوتا۔

12) گمراہ لوگوں کے دلوں میں راسخ اس بڑے مغالطے کے بارے میں غور و فکر کرنا چاہئے، اس لیے کہ ابو طالب کے قصہ میں مذکور ہے کہ سرداران مکہ اسی مغالطہ کی بنا پر ابو طالب سے جھگڑتے رہے جبکہ نبیﷺ نے مبالغہ اور تکرار کے ساتھ ابو طالب کے سامنے کلمہ حق، کلمہ توحید پیش کیا۔ چونکہ ان لوگوں کے ہاں یہ بہت بڑی بات تھی کہ آباؤ اجداد کے دین کو چھوڑا نہیں جا سکتا اسی لیے وہ اپنی بات پر ڈٹے رہے۔

 

نوٹ:

(1) ہدایت کی دو قسمیں ہیں :

(الف) ہدایت توفیقی

(ب) ہدایت دلالت

ہدایت توفیقی:اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ اپنے کسی بندے کے دل میں ہدایت قبول کرنے کا جذبہ پیدا کر دے۔ انسانوں کے قلوب اللہ کے تصرف میں ہیں۔ وہ انہیں جدھر چاہے پھیر تا رہتا ہے۔ دلوں میں ہدایت قبول کرنے کا جذبہ بھی اللہ ہی پیدا کرتا ہے۔ یہ معاملہ اس کے علاوہ کسی کے اختیار میں نہیں حتیٰ کہ کوئی نبی بھی اپنی مرضی سے جسے چاہے مسلمان یا ہدایت یافتہ نہیں بنا سکتا۔ نبیﷺ کے رشتہ داروں میں سب سے زیادہ آپ کا ساتھ دینے والے ابو طالب تھے لیکن اس کے باوجود آپ انھیں ہدایت کی توفیق نہ دے سکے۔

ہدایت دلالت:   اس سے صراط مستقیم کی طرف لوگوں کی رہنمائی کرنا مراد ہے۔ جیسا کہ نبی ﷺ اور دیگر تمام انبیاء و رسل اور ہر داعیء حق لوگوں کی رہنمائی کرتا رہا۔

جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا:

(وَيَقُولُ الَّذِينَ كَفَرُوا لَوْلَا أُنْزِلَ عَلَيْهِ آيَۃ مِنْ رَبِّهِ إِنَّمَا أَنْتَ مُنْذِرٌ وَلِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ (سورۃ الرعد13: 7))

’’آپ تو محض (ان لوگوں کو اللہ کی نا فرمانی سے) ڈرانے والے ہیں۔ اور ہر قوم کا کوئی نہ کوئی ہادی ضرور ہوتا ہے۔‘‘

نیز اللہ تعالی نے نبیﷺ سے فرمایا:

(وَإِنَّكَ لَتَهْدِي إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ (سورۃ الشورى42: 52))

’’اور یقیناً آپ، لوگوں کی سیدھے راستے کی طرف رہنمائی کرتے ہیں۔‘‘

یعنی آپ مختلف دلائل، اور مختلف انداز سے لوگوں کی صراط مستقیم کی طرف رہنمائی کرتے ہیں جو معجزات اور ایسے پختہ دلائل سے مؤید ہے جو آپ کے صدق پر شاہد عادل ہیں۔

جب محمد رسول اللہﷺ جیسی جلیل القدر اور عظیم الشان ہستی سے ہدایت توفیق کی نفی ہو گئی تو پھر تمام اہم معاملات، ہدایت، مغفرت، رضا، برائیوں سے دوری اور بھلائیوں کے حصول کے لیے بھی اللہ عزوجل کے علاوہ کسی دوسرے کے ساتھ دلی تعلق رکھنا باطل ہے۔

(2) ( لَأَسْتَغْفِرَنَّ)میں لام قسم کا ہے یعنی اللہ کی قسم! میں ضرور مغفرت کی دعا کروں گا اور نبی ﷺ نے حقیقتاً اپنے چچا کے حق میں مغفرت کی دعا کی بھی، لیکن کیا نبی ﷺ کی دعا نے آپ کے چچا کو کوئی فائدہ پہنچایا؟ نہیں ! کیونکہ وہ مشرک تھا۔ مشرک کے حق میں استغفار اور شفاعت قطعاً مفید نہیں۔

نبیﷺ کو بھی یہ اختیار نہیں کہ وہ کسی مشرک کے گناہوں کی معافی میں اسے کچھ نفع دے سکیں۔ یا کوئی شخص اگر شرک کا ارتکاب کرتے ہوئے آپ کی طرف رجوع کرے تو آپ اس کی پریشانی کو دور کر کے یا بھلائی پہنچا کر اس کے کچھ کام آسکیں۔ اسی لیے آپ نے فرمایا:

( لَأَسْتَغْفِرَنَّ لَكَ مَا لَمْ أُنْهَ عَنْكَ) ’’اللہ کی قسم! جب تک مجھے روکا نہ گیا۔…….‘‘

چنانچہ اللہ تعالی نے یہ آیت نازل فرمائی:

( مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَنْ يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ وَلَوْ كَانُوا أُولِي قُرْبَى (سورۃ التوبۃ9: 113))

’’نبی اور اہل ایمان کو زیبا نہیں کہ وہ مشرکین کے لیے مغفرت کی دعا کریں خواہ وہ ان کے رشتہ دارہی کیوں نہ ہوں جبکہ یہ واضح ہو چکا ہو کہ وہ جہنمی ہیں۔‘‘

اس آیت سے یہ بات بالکل عیاں ہے کہ اللہ تعالی نے اپنے نبیﷺ کو مشرکین کے لیے مغفرت کی دعا کرنے سے منع فرمایا ہے۔اب اس صورت میں اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ نبی ﷺ عالم برزخ میں دعائے مغفرت کرنے کی قدرت رکھتے ہیں تب بھی آپ کسی ایسے مشرک کے حق میں دعائے مغفرت نہیں کر سکتے جو اللہ کے علاوہ آپ سے شفاعت کا طلب گار ہو، آپ سے فریاد و استغاثہ کرے، آپ کے لیے جانور ذبح کرے، نذر و نیاز مانے، آپ کو عبادت کا اہل جانے، آپ پر توکل کرے یا آپ کے سامنے اپنی حاجات و ضروریات پیش کرنے کے شرک میں مبتلا ہو۔

 

 

 

باب:18 بنی آدم کے کفر اور ترک دین کا بنیادی سبب  صالحین کی عزت و تکریم میں غلو کرنا ہے (1)

 

اللہ تعالی نے فرمایا:

(يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لَا تَغْلُوا فِي دِينِكُمْ وَلَا تَقُولُوا عَلَى اللَّهِ إِلَّا الْحَقَّ (سورۃ النساء4: 171))

’’اس اہل کتاب! اپنے دین میں حد سے نہ بڑھو اور اللہ کے متعلق حق کے سوا کچھ نہ کہو۔‘‘ (2)

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے آیت کریمہ

(وَقَالُوا لَا تَذَرُنَّ آلِهَتَكُمْ وَلَا تَذَرُنَّ وَدًّا وَلَا سُوَاعًا وَلَا يَغُوثَ وَيَعُوقَ وَنَسْرًا (سورۃ نوح71: 23))

’’اور انہوں نے کہا کہ اپنے معبودوں کو نہ چھوڑنا اور نہ ود، سواع، یغوث، یعوق اور نسر کو چھوڑنا۔‘‘

کی تفسیر میں روایت ہے کہ یہ سب (ود، سواع، یغوث، یعوق اور نسر)قوم نوح کے صالح لوگ تھے۔ ان کی وفات کے بعد شیطان نے ان کی قوم کو اس بات پر آمادہ کیا کہ یہ نیک لوگ جہاں بیٹھا کرتے تھے وہاں بطور یاد گار پتھر نصب کر دو۔ اور ان پتھروں کو ان کے ناموں سے موسوم کرو۔ انہوں نے ایسے ہی کیا۔ لیکن اس دور میں ان پتھروں کی پوجا نہ کی گئی۔ جب یہ لوگ مر گئے اور بعد والوں پر جہالت چھا گئی، علم جاتا رہا اور اصل بات ذہنوں سے محو ہو گئی تو بعد والوں نے ان یادگاروں کی پرستش شروع کر دی۔ (صحیح بخاری، التفسیر، تفسیر سورہ نوح، حدیث :4920)

امام ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں

:متعدد اسلاف اہل علم کا قول ہے کہ جب وہ مر گئے تو اولا یہ لوگ ان کی قبروں کے مجاور بنے، پھر ان کے مجسمے بنائے، پھر عرصہ دراز گزرنے کے بعد ان کی پوجا شروع کر دی۔ (3)

حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

(لاَ تُطْرُونِي، كَمَا أَطْرَتْ النَّصَارَى ابْنَ مَرْيَمَ، فَإِنَّمَا أَنَا عَبْدُهُ، فَقُولُوا عَبْدُ اللَّهِ، وَرَسُولُهُ) (صحیح البخاری، احادیث الانبیاء، باب قولہ تعالی (واذكر في الكتاب مريم)ح:3445، واصلہ عند مسلم فی الصحیح، ح:1691)

’’تم میری تعریف کرنے میں حد سے نہ بڑھ جانا، جیسے نصاریٰ عیسی بن مریم (علیہ السلام)کی تعریف میں حد سے بڑھ گئے تھے۔ میں تو ایک بندہ ہوں۔ تم مجھے اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہی کہو۔‘‘ (4)

حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہی سے روایت ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایا:

(إِيَّاكُمْ وَالْغُلُوَّ، فَإِنَّمَا أَهْلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمُ الْغُلُوُّ) (سنن النسائی، المناسک، باب التقاط الحصی، ح:3059 و سنن ابن ماجہ، المناسک، باب قدر حصی الرمی، ح:3029)

’’غلو سے بچ کر رہو، تم سے پہلے لوگوں کو غلو (تعریف میں مبالغہ اور حد سے تجاوز)ہی نے ہلاک کیا تھا۔‘‘ (5)

عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایا:

( هَلَكَ الْمُتَنَطِّعُونَ  قَالَهَا ثَلَاثًا) (صحیح مسلم، العلم، باب هَلَكَ الْمُتَنَطِّعُونَ، ح:2670)

’’غلو کرنے والے اور حد سے بڑھنے والے ہلاک ہوئے آپ نے یہ کلمات تین مرتبہ ارشاد فرمائے۔‘‘ (6)

 

مسائل:

1) جو شخص اس باب کو اور اس سے بعد والے دو ابواب کو اچھی طرح سمجھ لے اس پر اسلام کی اجنبیت واضح ہو جائے گی (یہ اجنبیت ہی ہے کہ بہت سے لوگ اسلام کی روح سے ناآشنا ہیں)اور دلوں کے پھیر نے میں اللہ تعالی کی قدرت کے عجیب کرشمے اس کے سامنے آئیں گے۔

2) روئے زمین پر رونما ہونے والا اولین شرک بزرگوں کے ساتھ حد درجہ محبت اور ان کی بہت زیادہ تعظیم و تکریم کے سبب ہوا۔

3) یہ بھی معلوم ہوا کہ سب سے پہلی چیز جس کے ذریعہ انبیاء کے دین میں تغیر ہوا وہ کیا تھی؟ اور اس کا سبب کیا تھا؟ جبکہ اس بت کا بھی خوف علم تھا کہ اللہ تعالی ہی نے انہیں رسول بنا کر بھیجا ہے۔

4) بدعات و محدثات کو بہت جلد قبول کرنے کا سبب کیا ہے ؟ جبکہ شریعت اسلامیہ اور فطرت سلیمہ ان باتوں کی تردید کرتی ہے۔

5) ان تمام باتوں کا سبب، حق و باطل کو دو وجوہ کی بنا پر خلط ملط کر دینا تھا۔ پہلی وجہ صالحین کی حد درجہ محبت تھی اور دوسری وجہ یہ کہ بعض اہل علم اور اصحاب دین نے کچھ ایسے امور سرانجام دیے جن میں ان کا ارادہ تو خیر ہی کا تھا مگر بعد والوں نے ان کا مقصد کچھ اور ہی سمجھ لیا۔

6) سورۂ نوح کی آیت 23 کی تفسیر بھی ہوئی جس میں مختلف بتوں کے نام وارد ہوئے ہیں۔

7) فطری طور پر انسان کے دل میں حق بتدریج کم ہوتا رہتا ہے جبکہ باطل بڑھتا رہتا ہے۔

8) اسلاف اہل علم کی تائید ہوتی ہے کہ بدعات، کفر کا سبب بنتی ہیں۔

9) شیطان (ابلیس)بدعت کے انجام سے خوب آگاہ ہے کہ یہ کس طرح انسان کو تباہ کر دیتی ہے اگرچہ بدعت جاری کرنے والے کی نیت اچھی ہی کیوں نہ ہو۔

10) ایک عمومی قاعدہ ثابت ہوتا ہے کہ غلو سے مکمل طور پر اجتناب کرنا چاہئے اور اس کے انجام کو سمجھنا چاہئے۔

11) کسی صالح عمل کی انجام دہی کے لیے بھی قبر پر بیٹھنا نقصان دہ ہے۔

12) مجسموں کی ممانعت اور ان کو مٹا ڈالنے اور توڑ ڈالنے کی حکمت بھی واضح ہوتی ہے۔

13) قوم نوح کے قصہ کی اہمیت کا پتہ چلا اور یہ بھی معلوم ہوا کہ قوم نوح میں کس طرح شرک شروع ہوا؟ اسے جاننا اور پہچاننا نہایت ضروری ہے جبکہ اکثر لوگ اس سے غفلت کا شکار ہیں۔

14) افسوسناک بات تو یہ ہے کہ اہل بدعات، یہ واقعہ کتب تفسیر و حدیث میں پڑھتے ہیں اور سمجھتے بھی ہیں کہ کس طرح اللہ تعالی ان لوگوں اور ان کے دلوں کے درمیان آڑ بن گیا مگر اس کے باوجود ان لوگوں کا یہ اعتقاد ہوتا ہے کہ قوم نوح والا عمل (بزرگوں کی تصاویر بنا کر رکھنا، ان کی تعظیم و تکریم میں غلو کرنا اور قبروں پر مجاور بن کر بیٹھنا)افضل ترین عبادت ہے۔

اور جو شخص انھیں ان منہیات سے باز رہنے کی نصیحت کرے اس کے بارے میں یہ نظریہ رکھتے ہیں کہ یہ کافر ہے اور اس کے مال و جان مباح ہیں۔

15) ان بتوں کو پوجنے والوں کا ارادہ صرف یہ تھا کہ یہ بزرگ اللہ تعالی کے ہاں ہماری شفاعت کریں گے۔

16) ان مشرکین کا یہ گمان تھا کہ جن سابق اہل علم نے ان بزرگوں کی تصاویر بنائی تھیں ان کا مقصد بھی یہی تھا جو ہمارا ہے۔

17) ’’لاَ تُطْرُونِي، كَمَا أَطْرَتْ النَّصَارَى ابْنَ مَرْيَمَ‘‘اس حدیث میں مسلمانوں کے لیے کھلی اور عظیم نصیحت ہے۔ نبی ﷺ پر اللہ تعالی کی بے شمار رحمتیں نازل ہوں کہ آپ نے واضح طور پر تبلیغ کا حق ادا فرما دیا۔

18) نبی ﷺ نے ہمیں تاکیداً یہ نصیحت فرمائی ہے کہ تکلف کرنے والے اور حد سے تجاوز کرنے والے ہمیشہ ہلاک ہوتے ہیں۔

19) علم کی اہمیت اور عدم علم کے نقصان کا بھی پتہ چلتا ہے کہ قوم نوح میں علم ختم ہونے کے بعد ہی بتوں کی پوجا پاٹ شروع ہوئی تھی۔

20) دنیا سے علماء کا رخصت ہونا فقدان علم کا ایک بڑا سبب ہے۔

 

نوٹ:

(1) شیخ محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ علیہ نے اس باب میں اور اس سے بعد کے ابواب میں ثابت کیا ہے کہ اس امت اور سابقہ امتوں میں شرک کا سب سے بڑا سبب صالحین کی عزت و تکریم میں غلو اور حد سے تجاوز کر جانا ہے جس سے اللہ اور اس کے رسول نے منع کیا ہے۔ اصول اور عقائد ذکر کرنے کے بعد اب گمراہی کے اسباب کو بیان کرنا مقصود ہے۔ ’’غلو‘‘ در اصل عربی مقولہ ’’غلافی الشیء‘‘سے ماخوذ ہے جس کا معنی کسی چیز کو اس کی حد سے بڑھا دینے کا ہے یعنی بنی آدم کے کفر اور اللہ کے مقرر کردہ دین کو ترک کرنے کا سبب صالحین کی عزت و تکریم میں اس حد سے تجاوز کر جانا ہے جس کی اللہ عزوجل نے اجازت دی ہے۔ صالحین میں انبیاءو رسل اور اولیاء کے علاوہ وہ تمام لوگ شامل ہیں جو نیکی اور اخلاص کی صفات سے متصف ہوں۔ وہ نیکی کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے ہوں یا متوسط درجہ کے، اللہ کے ہاں ان کے درجات ہیں۔

اللہ تعالی کی خاطر صالحین سے محبت رکھنے، ان کی تکریم کرنے اور نیکی اور دین و علم کی باتوں میں ان کی اقتداء کرنے کی اجازت ہے۔ جبکہ ہر دور میں انبیاء ورسل کی شریعتوں اور ان کے احکام پر عمل کرنے اور ان کے نقش قدم پر چلنے کا حکم بھی ہے۔ صالحین کے احترام، ان سے محبت و دوستی، ان کی طرف سے دفاع اور ان کی مدد کرنے کی یہ وہ حد ہے جس کی اللہ تعالی نے اجازت دی ہے۔ان کی تعظیم میں غلو کی ایک صورت یہ ہے کہ ان میں بعض الہی خصوصیات کا عقیدہ رکھا جائے یا یہ اعتقاد ہو کہ وہ لوح و قلم کے اسرار سے واقف ہیں۔ جیسا کہ بوصیری نے اپنے ایک مشہور قصیدہ میں کہا ہے،

لَوْ نَاسَبَتْ قَدْرَهُ آيَاتُهُ عِظَمًا

أَحْيَا اسْمُهُ حِيْنَ يُدْعى دَارِسَ الرِّمَمِ

”بعض شارحین نے اس شعر کی شرح میں لکھا ہے کہ رسول اکرم ﷺ کو جو معجزات دیے گئے ہیں ، وہ اور حتیٰ کہ قرآن کریم بھی آپ کے شایان شان نہیں۔ ”

نبیﷺ کی شان تو اس سے کہیں زیادہ بلند ہے۔ آپ کا تو یہ مقام ہے کہ آپ کا نام لینے سے مردوں کی بوسیدہ، مٹی اور خاک میں ملی ہوئی ہڈیا ں یکجا جمع ہو کر زندہ ہو جاتی ہیں۔ (نَعُوذُ بِالله) ایسا غلو وہ لوگ کیا کرتے ہیں جو غیر اللہ کے پجاری ہیں۔ اور وہ اللہ کے سوا انبیاء و رسل وغیرہ کی طرف رجوع کرتے ہیں اور ان میں الہی صفات کا عقیدہ رکھتے ہیں جس کی انہیں قطعاً اجازت نہیں بلکہ یہ اللہ تعالی کے ساتھ بہت بڑا شرک ہے اور مخلوق کو خالق کے ساتھ تشبیہ دینے کے مترادف ہے۔ اللہ کی پناہ، ایسا کرنا اللہ کے ساتھ کفر ہے۔ صالحین کی تعظیم کی ایک حد ہے۔جس کی شرعاً اجازت ہے، دوسری طرف غلو ہے۔

اور ایک تیسری صورت، جفا کہلاتی ہے یعنی صالحین سے محبت نہ رکھنا، ان کا احترام نہ کرنا اور اللہ تعالی نے ان کے جو حقوق متعین کیے ہیں ان کی پاسداری نہ کرنا چنانچہ صالحین کی شان میں کمی کرنا ’’جفا‘‘ اور ان کی محبت میں حد سے تجاوز کرنا ’’غلو‘‘ ہے۔

(2) اللہ تعالی نے بالخصوص اہل کتاب کو غلو سے منع کیا ہے۔ اور کلام کا سیاق اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ دین کے معاملے میں کسی بھی قسم کا غلو منع ہے۔ اہل کتاب کے حالات کا مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ عیسائیوں نے سیدنا عیسی علیہ السلام، ان کی والدہ اور ان کے حواریوں کے حق میں اور یہودیوں نے عزیر علیہ السلام، اصحاب موسی، اپنے علماء کرام اور درویشوں کے حق میں غلو کیا، ان کے بارے میں بعض الہی خصوصیات کا عقیدہ رکھا، ان سے شفاعت کی امیدیں وابستہ رکھیں اور سمجھنے لگے کہ ان بزرگوں کا بھی اس کائنات میں کچھ حصہ اور اشتراک ہے۔ یہ بھی نظام کا ئنات کو چلاتے اور اس میں تصرفات کرتے ہیں۔

(3) قوم نوح کا شرک : قوم نوح جس شرک میں مبتلا تھی وہ صالحین اور ان کی ارواح کے متعلق غلو کی صورت میں تھا۔ شیطان بزرگ انسان کی صورت میں ان کے پاس آیا اور اپنی بزرگی اور تقرب الی اللہ کا تاثر دیتے ہوئے ان سے کہا کہ جو لوگ میرے ساتھ شامل ہوں گے میں ان کے حق میں شفاعت کروں گا۔ بعد ازاں انہیں آہستہ آہستہ تصویروں ، مورتیوں ، ذدیریوں کے احترام اور بت پرستی تک پہنچا دیا، جیسا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اس کی تفصیل بیان کی ہے۔

ان لوگوں نے جب ان بزرگوں کی تصاویر بنانے کا قصد کیا تو انہیں یقین تھا کہ وہ ان تصاویر کی پرستش نہیں کریں گے لیکن مستقبل میں علم مٹ جانے سے انہی تصاویر کی پرستش کو صالحین اور بزرگوں کے تقرب کا وسیلہ، سبب اور ذریعہ سمجھ لیا گیا۔

کبھی کبھی شیطان تصویر کے پاس آ کر ناظرین یا مخاطبین کو یہ تاثر دیتا کہ یہ تصویر بولتی ہے اور اس کے منہ سے باتیں کرنے کی آواز سنائی دیتی ہے اور اسی طرح کے دیگر کرتب دکھا تا جن سے ان کے دل صالحین کی روحوں کی طرف مائل ہو جاتے۔ الغرض اس طرح سے شیطان نے انہیں بزرگوں کی عبادت پراکسایا۔بعینہ یہی صورت حال آج کل ان لوگوں کی ہے جو قبروں پر مجاور بن کر بیٹھتے ہیں اور اللہ عزوجل کی عبادت کے ساتھ ساتھ اہل قبور کی عبادت بھی کرتے ہیں۔ یہی عمل اللہ تعالی کے ساتھ شرک کرنے کا سبب بنتا ہے۔

(4) ’’اطراء‘‘ کا معنی کسی کی مدح میں حد سے بڑھ جانا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنی مدح میں حد سے بڑھ جانے سے اس لیے منع فرمایا ہے کہ جب نصاری، عیسی علیہ السلام کی مدح میں حد سے بڑھ گئے تو اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ کفر اور اللہ کے ساتھ شرک کے مرتکب ہونے کے ساتھ ساتھ یہ دعوی بھی کرنے لگے کہ عیسی علیہ السلام اللہ کے بیٹے ہیں۔ اسی لیے آپ نے فرمایا:

(إِنَّمَا أَنَا عَبْد فَقُولُوا عَبْدُ اللَّهِ، وَرَسُولُهُ)

’’میں تو ایک بندہ ہوں۔ تم مجھے اللہ کا بندہ اور اس کارسول ہی کہو۔‘‘

(5) اس حدیث میں ہر قسم کے غلو سے منع کیا گیا ہے کیونکہ غلو (تعریف میں حد سے تجاوز)ہر برائی کا باعث ار اقتصاد (میانہ روی اور اعتدال)ہر قسم کی خیر و فلاح کا سبب ہے۔

(6)    ’’الْمُتَنَطِّعُونَ‘‘سے وہ لوگ مراد ہیں جنہوں نے اپنے افعال و اقوال اور کسی چیز کا علم حاصل کرنے میں اس قدر غلو اور تکلف کیا کہ جس کی اللہ نے اجازت نہیں دی۔ ’’تنطع‘‘، ’’اطراء‘‘ اور ’’غلو‘‘ کے معانی قریب قریب ہیں۔صرف لفظ ’’غلو‘‘ میں یہ تمام معانی آ جاتے ہیں۔

شیخ رحمۃ اللہ علیہ نے اس باب میں ثابت کیا ہے کہ جب لوگ بزرگان دین کے حق میں غلو یعنی ان کی عزت و تکریم میں حد سے تجاوز کرنے لگ جائیں تو وہ دین سے دور اور کفر میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ جیسا کہ قوم نوح نے صالحین کے حق میں غلو کیا اور ان کی قبروں پر مجاور بن کر بیٹھ گئے تو آخر کار انھی کی پوجا شروع کر دی۔ اسی طرح عیسائیوں نے اپنے رسول سیدنا عیسی علیہ السلام، ان کے حواریوں اور علماء کے حق میں غلو کیا، بالآخر انھیں معبود سمجھنے لگے۔اسی طرح اس امت میں بھی بعض لوگ نبی ﷺ کے متعلق الہی خصوصیات اور اختیارات کا عقیدہ رکھنے لگے ہیں ، حالانکہ نبیﷺ نے بعینہ ان باتوں سے منع فرمایا ہے۔

 

 

 

باب:19 کسی صالح آدمی کی قبر کے پاس، اللہ تعالی کی عبادت کرنا نا جائز اور سنگین جرم ہے، تو خوداس مرد صالح کی عبادت کرنا کتنا بڑا جرم ہو گا؟ (1)

 

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہما نے رسول اللہﷺ کے سامنے ایک کلیسا اور اس میں موجود تصویروں اور مجسموں کا ذکر کیا جو انہوں نے حبشہ کی سر زمین میں دیکھا تھا، تو آپ نے فرمایا:

(أُولَئِكَ إِذَا مَاتَ فِيهِمُ الرَّجُلُ الصَّالِحُ، أَوِالعَبْدُ الصَّالِحُ، بَنَوْا عَلَى قَبْرِهِ مَسْجِدًا، وَصَوَّرُوا فِيهِ تِلْكَ الصُّوَرَ، أُولَئِكَ شِرَارُ الخَلْقِ عِنْدَ اللَّهِ) (صحیح البخاری، الصلاۃ، باب تنبش قبور مشرکی الجاھلیۃ و یتخذ مکانھا مساجد، ح:427، 434، 1341 وصحیح مسلم، المساجد، باب النھی عن بناء المسجد علی القبور، ح:528)

’’ان لوگوں کے ہاں جب کوئی بزرگ فوت ہو جاتا تو وہ اس کی قبر پر مسجد بنا لیتے اور اس میں تصاویر (مجسمے)بنا دیتے۔ یہ لوگ اللہ تعالی کی نظر میں بدترین مخلوق ہیں۔‘‘

کیونکہ انہوں نے بیک وقت دو عظیم گناہوں کا ارتکاب کیا۔ ایک تو قبروں کو عبادت گاہ بنانے کا اور دوسرا ان میں مجسمے اور تصویریں بنانے کا۔

(اغاثۃ اللھفان : 1/ 201)

اور صحیحین ہی میں ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے جب نبی ﷺ پر موت کی علامات ظاہر ہو ئیں تو آپ شدت تکلیف سے اپنے چہرہ مبارک کو چادر سے ڈھانپ لیتے اور جب دم گھٹنے لگتا تو چادر کو ہٹا دیتے۔ اسی عالم میں آپ نے فرمایا:

(لَعْنَۃ اللَّهِ عَلَى اليَهُودِ وَالنَّصَارَى، اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ مَسَاجِدَ) (صحیح البخاری، احادیث الانبیاء، باب ما ذکر عن بنی اسرائیل، ح:3453، 1390 و صحیح مسلم، المساجد، باب النھی عن اتخاذ القبور مساجد، ح:529)

’’یہود و  نصاریٰ پر اللہ تعالی کی لعنت ہو، انھوں نے انبیاء کرام کی قبروں کو سجدہ گاہیں بنا لیا تھا۔‘‘

اس بات سے آپ کا مقصود اپنی امت کو ایسے طرز عمل سے ڈرانا اور روکنا تھا۔ اگر نبی ﷺ کی قبر کو سجد گاہ بنانے کا خدشہ نہ ہوتا تو آپ کی قبر بھی عام مسلمانوں کی طرح ظاہر….کھلی جگہ…..پر ہوتی۔ (2)

جندب بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ کی وفات سے پانچ دن قبل میں نے آپ کو یہ فرماتے ہوئے سنا:

(إِنِّي أَبْرَأُ إِلَى اللهِ أَنْ يَكُونَ لِي مِنْكُمْ خَلِيلٌ، فَإِنَّ اللهِ تَعَالَى قَدِ اتَّخَذَنِي خَلِيلًا، كَمَا اتَّخَذَ إِبْرَاهِيمَ خَلِيلًا، وَلَوْ كُنْتُ مُتَّخِذًا مِنْ أُمَّتِي خَلِيلًا لَاتَّخَذْتُ أَبَا بَكْرٍ خَلِيلًا، أَلَا وَإِنَّ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ كَانُوا يَتَّخِذُونَ قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ مَسَاجِدَ، أَلَا فَلَا تَتَّخِذُوا الْقُبُورَ مَسَاجِدَ، فَإِنِّي أَنْهَاكُمْ عَنْ ذَلِكَ) (صحیح مسلم، المساجد، باب النھی عن بناء المساجد علی القبور، ح:532)

’’میں اللہ کے سامنے اس بات سے براءت ولا تعلقی کا اظہار کرتا ہوں کہ تم میں سے کوئی میرا خلیل ہو کیونکہ مجھے تو اللہ نے اپنا خلیل بنا لیا ہے جس طرح اس نے ابراہیم کو اپنا خلیل بنایا تھا۔ اور اگر مجھے اپنی امت میں سے کسی کو اپنا خلیل بنانا ہوتا تو ابوبکر کو بناتا۔ خبردار! تم سے پہلے لوگ انبیاء کی قبروں کو سجدہ گا ہیں بنا لیتے تھے، خبردار! تم قبروں کو سجدہ گاہیں نہ بنا لینا۔ میں تمہیں اس طرز عمل سے روک رہا ہوں۔‘‘

رسول اکرم ﷺ نے اس عمل شنیع سے اپنی زندگی کے آخری لمحات میں منع فرمایا اور ایسا کرنے والوں پر لعنت فرمائی۔اس سے معلوم ہوا کہ اگر قبر کی پوجا نہ بھی کی جائے تب بھی قبر کے قریب نماز پڑھنا منع ہے۔

اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا کے قول ’’خَشِىَ اَنْ يُّتَّخَذ مَسْجِدًا‘‘کا بھی یہی مفہوم ہے۔ اس لیے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے تویہ توقع نہ تھی کہ وہ نبی ﷺ کی قبر کو مسجد بنائیں گے جبکہ ہر وہ جگہ جہاں نماز ادا کی جائے، مسجد ہی ہوتی ہے۔

جیسا کہ نبیﷺ کا فرمان ہے۔ ’’جُعِلَتْ لِىَ الْاَرْضُ مَسْجِدًا وَّ طَهُورًا‘‘ ’’تمام روئے زمین کو میرے لیے مسجد اور ذریعہ طہارت (وضو اور غسل کے لیے پانی کا قائم مقام)بنا دیا گیا ہے ‘‘۔ (3)

ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

( إِنَّ مِنْ شِرَارِ النَّاسِ مَنْ تُدْرِكُهُمُ السَّاعَۃ وَهُمْ أَحْيَاءٌ، وَّالَّذِينَ يَتَّخِذُونَ الْقُبُورَ مَسَاجِدَ) (مسند احمد:5316 و صحیح ابن خزیمۃ، ح:789)

’’سب سے بدترین لوگ وہ ہوں گے جن ک زندگی میں ان پر قیامت قائم ہو گی۔ اور لوگ بھی بدترین ہیں جو قبروں کو مساجد (سجدہ گاہوں)کا درجہ دیں گے۔‘‘ (4)

 

مسائل:

1) اس باب سے ثابت ہوا کہ کسی بزرگ کی قبر کے پاس اللہ تعالی کی عبادت کے لیے مسجد تعمیر کرنے سے نبی ﷺ نے تنبیہ اور اس کی مذمت فرمائی ہے اگرچہ مسجد بنانے والے کی نیت صحیح ہی ہو۔

2) تصاویر و مجسمے بنانے کی حرمت اور اس پر شدید و عید بھی ہے۔

3) مذکورہ اعمال کے معاملہ میں نبیﷺ کے مبالغہ آمیز بیان سے عبرت حاصل ہوتی ہے کہ پہلے تو آپ نے اس کا م سے امت کو ویسے تنبیہ فرمائی، پھر آخر عمر میں وفات سے پانچ روز قبل مزید تنبیہ فرمائی۔ پھر نبی ﷺ کا جب سفر آخرت شروع ہونے والا تھا، اس عالم میں ایک مرتبہ پھر سخت ممانعت فرمائی۔

4) نبیﷺ نے اپنی قبر پر ایسا عمل کرنے سے سختی کے ساتھ منع فرمایا، حالانکہ آپ کی قبر ابھی وجود میں بھی نہیں آئی تھی۔

5) انبیاء و صلحاء کی قبروں پر مساجد بنا کر ان میں عبادت کرنا یہودو نصاریٰ کا طرز عمل ہے،

6) اسی عمل کی وجہ سے نبی ﷺ نے یہود و نصاریٰ پر لعنت فرمائی۔

7) لعنت کرنے سے اصل مقصود یہ تھا کہ مسلمان آپ کی قبر پر ایسا کوئی کام نہ کریں۔

8) نبی ﷺ کی قبر کو کھلی اور عام جگہ پر نہ بنانے کی اصل وجہ اور مصلحت بھی معلوم ہوتی ہے۔

9) یہ بھی واضح ہوا کہ قبروں کو مساجد بنانے کا مفہوم کیا ہے ؟

10) نبی ﷺ نے قبروں پر مساجد تعمیر کرنے والوں اور جن لوگوں پر ان کی زندگی میں قیامت قائم ہو گی، دونوں کا اکٹھے ذکر کر کے کفر و شرک کے وقوع پذیر ہونے سے قبل ہی اس کے اسباب اور انجام سے آگاہ فرما دیا۔

11) نبی ﷺ نے اپنی وفات سے پانچ روز قبل اپنے خطبہ میں ان دو گروہوں کا رد فرمایا جو اہل بدعت میں سب سے زیادہ بڑے ہیں۔ بلکہ بعض اہل علم نے تو انہیں بہتر (72)گروہوں سے بھی خارج قرار دیا ہے۔ ان میں سے ایک روافض اور دوسرا جہمیہ ہے۔ خصوصاً روافض ہی کی وجہ سے مسلمانوں میں شرک اور قبر پرستی کی ابتدا ہوئی اور انہی لوگوں نے سب سے پہلے قبروں پر مساجد بنانے کا سلسلہ شروع کیا۔

12) نزع کے وقت نبی ﷺ کو بہت تکلیف کا سامنا کرنا پڑا۔

13) نبی ﷺ کو اللہ تعالی کے خلیل ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔

14) صاف معلوم ہوا کہ خلیل ہونے کا مرتبہ، مقام محبت سے بلند تر ہے۔

15) سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ تمام صحابہ رضی اللہ عنہم سے افضل ہیں۔

16) سیدناابو بکر رضی اللہ عنہ کی خلافت کی طرف بھی اشارہ ہے۔

 

نوٹ:

پیش نظر باب سے اور اس کے بعد کے ابواب سے ثابت ہوتا ہے کہ نبی ﷺ اپنی امت کے از حد خیر خواہ اور اس کی ہدایت کے انتہائی حریص تھے۔ اسی لیے نبی ﷺ نے امت کو ہر اس چیز کی تنبیہ فرمائی اور اس کا سدباب کیا جو شرک تک پہنچانے کا سبب بن سکتی ہے۔ مثلاً آپ نے فرمایا کہ کسی نیک آدمی کی قبر کے پاس اس جگہ کی برکت کے نظریہ سے اللہ تعالی کی عبادت کرنا بھی شرک ہے۔ عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ نیک لوگوں کی قبریں اور ان کے قرب و جوار بڑے بابرکت ہیں اور وہاں اللہ تعالی کی عبادت کرنا عام جگہ سے زیادہ بہتر ہے۔ لیکن جب ان قبروں کے پاس اللہ تعالی کی عبادت کرنے کی اجازت نہیں تو اس قبر یا صاحب قبر کی عبادت کیونکر جائز ہو گی؟ قبر پر ستوں کی عبادت کا مرکز کبھی تو قبر ہوتی ہے اور کبھی صاحب قبر اور کبھی قبر کا قرب و جوار بلکہ اب تو لوگ قبر کے ارد گرد چار دیواری اور لوہے کے جنگوں کی بھی عبادت کرتے اور حصول برکت کے لیے انھیں ہاتھ لگاتے ہیں۔ ان کے احترام کو اللہ تعالی کے قرب کا ذریعہ سمجھتے ہیں اور ان کے مجاور بننے کو اور ان کا احترام کرنے کو اپنے لیے نہ صرف مفید اور بہتر تصور کرتے ہیں بلکہ ان کی بے حرمتی یا ان سے بے توجہی کو اپنے لیے نقصان دہ خیال کرتے ہیں۔

(2) مسجد ہر اس جگہ کو کہا جاتا ہے جسے اللہ تعالی کی عبادت کے لیے مقرر کر لیا جائے۔ صالحین کی قبروں پر بنائے گئے کلیے اور قبر یا قبر کے قریب دیوار پر آویزاں تصاویر بھی اسی لیے تھیں تاکہ لوگوں کو اللہ کی عبادت کی طرف دعوت دینے کے ساتھ ساتھ اس مرد صالح اور اس کی قبر کی تعظیم بھی کی جائے۔ اس سے معلوم ہوا کہ جن لوگوں نے صالحین و بزرگان کی تعظیم کرتے ہوئے ان کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا وہ اللہ تعالی کی نظر میں بد ترین مخلوق ہیں۔ واضح رہے کہ ان لوگوں نے بزرگوں کی عبادت نہیں کی تھی بلکہ انھوں نے تو ان کی قبروں کی صرف تعظیم کی اور ان کی تصاویر اور مجسمے بنا لیے۔ اسی بنا پر اللہ تعالی کے رسولﷺ نے انھیں سب سے برے لوگ قرار دیا ہے۔

اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ قبروں پر مسجدیں بنانا اور وہاں مجسمے یا تصاویر رکھنا ممنوع ہے کیونکہ یہ دونوں عمل شرک اکبر کے جنم لینے کا سبب ہیں۔ جن احادیث میں ذرائع شرک اختیار کرنے، قبروں پر مساجد بنانے اور انبیاء و صالحین کی قبروں کو سجدہ گاہ بنانے سے منع کیا گیا ہے، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہما سے مروی مؤخر الذکر حدیث ان میں سب سے زیادہ اہم ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نبی ﷺ انتہائی تکلیف و پریشانی اور سکرات الموت کے عالم میں بھی اس جانب سے غافل نہ ہوئے بلکہ آپ نے امت کو شرک کے اسباب سے بچنے کی اس حالت میں بھی تلقین فرمائی۔ اور آپ نے انبیاء کی قبروں پر مساجد (سجدہ گاہیں)بنانے والوں (یہود و نصاریٰ)پر اللہ تعالی کی لعنت فرمائی۔

آپ کو یہ اندیشہ تھا کہ ان انبیاء کی طرح کہیں آپ کی قبر کو بھی سجد ہ گاہ نہ بنا لیا جائے۔ آپ کی اس لعنت سے مقصود، در حقیقت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اس عمل قبیح سے ڈرانا اور یہ بتانا تھا کہ ان لوگوں کا یہ عمل بہت بڑا گناہ تھا، لہذا اس سے بچ کر رہنا۔ کسی قبر کو سجدہ گاہ بنانے کی تین صورتیں ہوتی ہیں :

(الف) قبر کے اوپر سجدہ کرنا۔ یہ سب سے خطر ناک صورت ہے۔

(ب) قبر کی طرف منہ کر کے نماز ادا کرنا۔ اس صورت میں چونکہ قبر اور اس کے گرد و پیش کو عاجزی و خضوع کی جگہ بنا لیا جاتا ہے جبکہ مسجد بھی عجز و نیاز کی مخصوص جگہ ہوتی ہے اس لیے نبی ﷺ نے اس بات سے منع فرمایا ہے کہ قبر کی طرف رخ کر کے نماز پڑھی جائے کیونکہ اس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنا اس کی تعظیم کا ایک وسیلہ اور ذریعہ ہے اور یہی صورت شیخ محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ کے قائم کردہ اس باب سے تعلق رکھتی ہے۔

(ج) مسجد کے اندر قبر بنا دینا۔ یہود و نصاریٰ کا طریق کا ریہ ہوتا تھا کہ جب کوئی نبی فوت ہو جاتا تو اس کی قبر کے گرد عمارت قائم کر کے قبر کے ماحول کو مسجد (عبادت گاہ)کی حیثیت دے کر اس جگہ کو عبادت اور نماز کے لیے مقرر کر لیتے تھے۔

نبی ﷺ کو عام قبرستان میں دفن نہ کرنے کی وجہ:ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہما کی حدیث سے ثابت ہوا کہ نبی ﷺ کو باہر عام قبرستان میں اس خدشہ کے پیش نظر دفن نہ کیا گیا کہ کہیں آپ کی قبر پر مسجد بنا کر اس کی پوجانہ شروع کر دی جائے۔

اور اس کی دوسری وجہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بیان کی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایاتھا، ’’أَنَّ الْاَنْبِيَاءَ يَقْبُرُونَ حَيْثُ يُقْبَضُوْنَ‘‘انبیاء کو جہاں موت آئے انہیں وہیں دفن کیا جاتا ہے۔‘‘

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے نبی ﷺ کی وصیت پر خوب اچھی طرح عمل کیا اور انہوں نے روضہ مبارکہ میں سے تین میٹر یا اس سے بھی کچھ زیادہ جگہ لے کر وہاں پہلے ایک دیوار، پھر دوسری دیوار بنائی اور پھر لوہے کا ایک جنگلہ لگا دیا۔ اور اس مقصد کے لیے مسجد کا بھی کچھ حصہ لے لیا تاکہ نبیﷺ کی قبر کے قریب سجدہ نہ ہو سکے اور کوئی شخص یہ نہ سمجھے کہ نبی ﷺ کی قبر مسجد کے اندر ہے۔ یاد رہے کہ نبیﷺ کی قبر مسجد کے اندر نہیں بلکہ حجرہ عائشہ رضی اللہ عنہما کے اندر ہے۔ مسجد اور قبر کے درمیان متعدد دیواریں حائل ہیں۔ نیز شرقی جانب تو مسجد ہے ہی نہیں۔ خلاصہ یہ کہ نبیﷺ کی قبر سجدہ گاہ نہیں بنائی گئی۔

(3) جیسے یہود و نصاریٰ نے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہیں بنا لیا تھا ویسے ہی اس امت میں یہ فتنہ واقع ہو چکا ہے اور یہ شرک کا ایک بہت بڑا سبب اور وسیلہ ہے اور وسائل و اسباب ہمیشہ ما بعد مقصود تک پہنچایا کرتے ہیں۔ قواعد شرعیہ میں ایک مسلمہ قاعدہ اور علماء محققین کا متفقہ فیصلہ ہے کہ شرک اور دیگر محرمات تک پہنچانے والے ذرائع و وسائل کا سدباب کرنا واجب ہے، اسی لیے کسی قبر پر بنائی گئی مسجد میں نماز پڑھنا درست نہیں کیونکہ یہ نبی اکرم ﷺ کی ممانعت کے منافی ہے۔ لہذا جو مسجد کسی قبر کے اوپر بنائی گئی ہو اس مسجد میں اور قبر کے ارد گرد نماز ادا کرنا جائز نہیں ، خواہ اس جگہ کی برکت کے عقیدہ سے نماز پڑھی جائے یا نماز جنازہ کے علاوہ ویسے نفلی نماز پڑھی جائے۔ یہ سب ناجائز ہیں ، جیسا کہ صحیح بخاری میں تعلیقا روایت ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سید نا انس رضی اللہ عنہ کو ایک قبر کے قریب نماز پڑھتے دیکھا تو فرمایا: ’’یہ قبر ہے قبر۔ یہاں نماز نہ پڑھو۔‘‘

اس سے معلوم ہوا کہ کسی قبر کے قریب نماز ادا کرنا جائز نہیں کیونکہ یہ شرک کے بڑے اسباب و ذرائع میں سے ہے۔

(4) بدترین ہیں وہ لوگ جو قبروں کو سجدہ گاہیں بنا لیتے ہیں۔ قبر کے اوپر، اس کی طرف رخ کر کے یا اس کے گرد نماز پڑھنا اسے سجدہ گاہ کا درجہ دینے ہی کی مختلف صورتیں ہیں۔ اسی لیے قبر کے پاس نماز پڑھنے کا قصد کرنے والا انسان ان بد ترین لوگوں میں شامل ہو جاتا ہے جن کی نبی کریمﷺ نے مذمت بیان فرمائی ہے۔ مذکورہ بالا احادیث کے ساتھ ساتھ مسلمان ممالک اور علاقوں میں مسلمانوں کے طرز عمل کو دیکھیں کہ لوگوں نے قبروں کے اوپر بلند و بالا عمارتیں اور قبے کھڑے کیے ہوئے ہیں۔ ان قبوں اور عمارتوں کی بنا پر ان قبروں کی تعظیم کی جاتی ہے اور لوگ ان کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ اور ان اصحاب قبور کو اولیاء ظاہر کر کے ان کے فضائل و مناقب میں بے سروپاطویل و عریض حکایات بیان کر کے ثابت کیا جاتا ہے کہ یہ اولیاء کرام لوگوں کی پکار کو سنتے، اور ان کی فریاد کو پہنچتے ہیں۔ اس سے موجودہ اور گزشتہ زمانوں میں خالص اسلام کی اجنبیت عیاں ہوتی ہے کہ لوگ اپنے دین کے ساتھ کس قدر ظلم اور زیادتی روا رکھے ہوئے ہیں۔ بلکہ اس سے بھی افسوسناک امر یہ ہے کہ وہ ان تمام باتوں کو نہ صرف جائز سجھتے ہیں بلکہ اسے عین توحید قرار دیتے ہیں۔ اور جو لوگ انہیں سمجھائیں اور عقل سے کام لینے کی دعوت دیں یہ ان پر عدم معرفت اور کم عقل ہونے کے الزام دھرتے ہیں حالانکہ وہ شخص انہیں توحید کی دعوت دیتا ہے جبکہ یہ لوگ جہنم کی طرف جا رہے ہیں۔ اللہ تعالی ہمیں سلامتی اور عافیت سے نوازے۔ آمین!

 

 

باب:20 صالحین اور بزرگوں کی قبروں کے بارے میں غلو کا انجام ’’شرک اکبر‘‘ ہے (1)

 

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

(اللَّهُمَّ لاَ تَجْعَلْ قَبْرِي وَثَناً يُعْبَدُ. اشْتَدَّ غَضَبُ اللهِ عَلَى قَوْمٍ اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ مَسَاجِدَ) (الموطا لامام مالک، الصلاۃ، باب جامع الصلاۃ، ح:261 و المصنف لابن ابی شیبۃ:3/ 345)

’’یا اللہ!میری قبر کو بت نہ بنانا جسے لوگ پوجنا شروع کر دیں۔ ان لوگوں پر اللہ کا سخت غضب اور قہر نازل ہوا جنہوں نے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہیں بنا لیا۔‘‘ (2)

( أَفَرَأَيْتُمُ اللَّاتَ وَالْعُزَّى (سورۃ النجم53: 19))

کی تفسیر میں مجاہد رحمۃ اللہ علیہ کا قول نقل کیا ہے :

(يَلُتُّ لَهُمُ السَّوِيقَ فَمَاتَ فَعَكَفُوا عَلى قَبْرِهِ) (رواہ ابن جریر فی التفسیر :27/ 58)

’’لات‘‘ حجاج کرام کو ستو گھول کر پلایا کرتا تھا۔ اس کی وفات کے بعد لوگ اس کی قبر کے مجاور بن کر بیٹھ گئے۔‘‘

ابوالجوزاء رحمۃ اللہ علیہ نے بھی ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بیان کیا ہے کہ : ’’لات‘‘ حجاج کرام کو ستو گھول کر پلایا کرتا تھا۔‘‘ (3)

عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے :

(لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَائِرَاتِ الْقُبُورِ، وَالْمُتَّخِذِينَ عَلَيْهَا الْمَسَاجِدَ وَالسُّرُجَ) (سنن ابی داود، الجنائز، باب فی زیادۃ النساء القبور، ح:3236 وجامع الترمذی، الصلاۃ، باب ما جاء فی کراھیۃ ان یتخذ علی القبر مسجد، ح:320 وسنن النسائی، الجنائز، باب التغلیظ فی اتخاذ السرج علی القبور، ح:2045)

’’رسول اللہ ﷺ نے قبروں کی زیارت کو جانے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے اور ان لوگوں کو بھی ملعون قرار دیا جو قبروں پر مساجد بناتے اور چراغاں کرتے ہیں۔‘‘ (4)

 

مسائل:

1) اس بحث سے اوثان یعنی بتوں کی تشریع ہوتی ہے۔

2) اور عبادت کا مفہوم واضح ہوتا ہے۔

3) نبی ﷺ نے اس چیز سے پناہ مانگی جس کے وقوع پذیر ہونے کا آپ کو اندیشہ تھا۔

4) جہاں نبی ﷺ نے یہ دعا مانگی کہ ’’یا اللہ!میری قبر کو بت نہ بنانا جس کی پوجا کی جائے۔‘‘ وہاں آپ نے یہ بھی بیان فرمایا کہ ’’پہلے لوگوں نے انبیاء کی قبروں کو عبادت گاہیں بنا لیا تھا۔‘‘

5) نبی ﷺ نے یہ بھی بیان فرمایا کہ ایسا کرنے والوں پر اللہ تعالی کا شدید قہر اور غضب نازل ہوا۔

6) یہ بھی معلوم ہوا کہ ’’لات‘‘ جو عرب کا سب سے بڑا بت تھا، اس کی کس طرح عبادت شروع ہوئی؟

7) اس تفصیل سے واضح ہوا کہ وہ یک صالح بزرگ (لات)کی قبر تھی۔

8) ’’لات‘‘ صاحب قبر کا نام ہے۔ اور اس میں اس کی وجہ تسمیہ بھی مذکور ہوئی ہے۔

9) نبی ﷺ نے ان عورتوں پر لعنت فرمائی جو قبروں کی زیارت کو جاتی ہیں۔

10) نبی ﷺ نے قبروں پر چراغاں کرنے والوں پر بھی لعنت فرمائی ہے۔

 

نوٹ:

(1) قبر بہرحال قبر ہی ہوتی ہے، وہ نیک آدمی کی ہو یا کسی دوسرے کی۔

کوہان کی صورت میں ہو یا مربع شکل میں۔ شریعت نے اس کی کوئی تمیز رکھی ہے نہ شریعت میں اس کی کوئی دلیل وارد ہوئی ہے۔

صالحین کی قبروں کے بارے میں غلو کا مفہوم یہ ہے کہ ان کے بارے میں جو حکم دیا گیا اور جن باتوں سے روکا گیا ہے، ان سے تجاوز کرنا۔ قبروں پر کتبے لگانا، انہیں خواہ بلند بنانا، ان پر عمارت کھڑی کرنا، انہیں سجدہ گاہ بنانا، قبر کو اللہ تعالی کے قرب کا ذریعہ سمجھنا، قبر یا صاحب قبر کو اللہ تعالی کے ہاں سفارشی سمجھنا، قبر یا صاحب قبر کے لیے نذر ماننا، اس کے تقرب کے لیے جانور ذبح کرنا، یا قبر کی خاک کو سفارشی یا متبرک سمبھنا اور ان اعمال کو اللہ تعالی کے قرب کا وسیلہ اور ذریعہ سمجھنا۔ یہ تمام باتیں غلو ہیں اور ’’شرک اکبر‘‘ کی اقسام ہیں۔

(2) نبی کریم ﷺ نے اپنی قبر کی پوجا و پرستش شروع ہو جانے کے اندیشہ کے باعث اللہ تعالی سے یہ دعا فرمائی کہ یا اللہ! میری قبر کو پوجا اور عبادت کا مرکز نہ بنانا۔ اس کا معنی یہ ہوا کہ جس قبر کی پوجا ہو وہ بت ہی ہے اور اس پوجا کا سبب وہ چیز ہوتی ہے جس کا ذکر حدیث کے دوسرے حملہ میں ہوا ہے۔

(اشْتَدَّ غَضَبُ اللهِ عَلَى قَوْمٍ اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ مَسَاجِدَ)

شرک تک پہنچانے والے ذرائع و وسائل کو اختیار کرنا ہی قبروں کے بارے میں غلو ہے۔ نبیﷺ نے اس حدیث میں جہاں قبروں کی پوجا کے ذریعہ اور وسیلہ کا ذکر کی ہے وہاں اس سے بچنے کے ساتھ ساتھ اس عمل شنیع کا ارتکاب کرنے والوں پر اللہ کے شدید غضب کی تنبیہ بھی فرمائی ہے اور یہ بھی ذکر کیا ہے کہ آخر کار ان وسائل کا نتیجہ یہی ہوتا ہے کہ بتوں کی طرح قبروں کی عبادت اور پوجا شروع ہو جاتی ہے۔

الغرض اس حدیث نے واضح کر دیا کہ جس قبر کی پوجا کی جائے وہ بت ہی ہے۔

(3) ’’لات‘‘ چونکہ حاجیوں کو ستو گھول کر پلاتا تھا، اس کی اسی نیکی کی وجہ سے لوگ اس کی قبر کے بارے میں غلو کا شکار ہو گئے۔ مجاور بن کر بیٹھنے کا مطلب ہے قبر کا تعظیم کرتے ہوئے برکت، ثواب، نفع کے حصول اور ضرر کے دفع ہونے کی امید سے قبر پر بیٹھ رہنا۔

یاد رہے ! کسی قبر کا مجاور بن کر بیٹھنے سے وہ پرستش گاہ اور بت بن جاتی ہے۔

(4) قبروں پر مساجد تعمیر کرنا اور وہاں چراغاں کرنا منع ہے کیونکہ یہ ان کی تعظیم میں غلو اور حد سے تجاوز ہے۔ ماضی میں قبروں پر چراغ اور قندیلیں روشن کی جاتی تھیں۔ آج کل بڑے بڑے برقی قمقمے اور بلب جا لائے جاتے ہیں۔ اس سے قبر کی تعظیم ظاہر ہوتی ہے۔ قبروں پر ایسا کرنا ناجائز ہے اور نبی ﷺ کے ارشاد کے مطابق ایسا کرنے والے ملعون ہیں۔

 

 

 

باب:21 نبی ﷺ کا توحید کی مکمل حفاظت کے سلسلے میں شرک بننے والی ہر راہ کو بند کرنا

 

ارشاد الہی ہے :

(لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ (سورۃ التوبۃ9: 128))

’’ (لوگو!)تمہارے پاس تم ہی میں سے ایک رسول آیا ہے۔ تم پر اگر کوئی تکلیف یا مشقت آئے تو وہ اسے شاق گزرتی ہے۔ وہ تمہاری فلاح و ہدایت کا حریص ہے۔ اہل ایمان کے لیے نہایت مہربان اور شفیق ہے۔‘‘ (1)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

(لَا تَجْعَلُوا بُيُوتَكُمْ قُبُورًا، وَلَا تَجْعَلُوا قَبْرِي عِيدًا، وَصَلُّوا عَلَيَّ فَإِنَّ صَلَاتَكُمْ تَبْلُغُنِي حَيْثُ كُنْتُمْ) (سنن ابی داود، المناسک، باب زیارۃ القبور، ح:2032)

’’تم اپنے گھروں کو (نماز، دعا اور تلاوت قرآن ترک کر کے)قبرستان نہ بناؤ نہ میری قبر کو میلہ گہ بنانا اور تم جہاں بھی ہو مجھ پر درود و سلام بھیجو، تمہارے درود و سلام مجھے پہنچ جائیں گے۔‘‘ (2)

زین العابدین علی بن حسین رحمۃ اللہ علیہ نے ایک شخص کو نبی ﷺ کی قبر کے گرد بنی دیوار کے ایک شگاف سے اندر داخل ہو کر قبر کے پاس دعا کرتے دیکھا تو اسے روک دیا اور فرمایا کیا میں تجھے وہ حدیث نہ سناؤں جو میرے باپ (حسین رضی اللہ عنہ)نے میرے دادا (علی رضی اللہ عنہ)سے اور انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے سنی ہے، آپ نے فرمایا:

(لَا تَتَّخِذُوا قَبْرِي عِيدًا، وَلَا بُيُوتَكُمْ قُبُورًا، وَصَلُّوا عَلِيَّ فَإِنَّ تَسْلِيمَكُمْ يَبْلُغُنِي أَيْنَ مَا كُنْتُمْ) (رواہ الضیاء المقدسی فی المختارۃ، ح:428 ومجمع الزوائد:4/ 3)

’’میری قبر کو میلہ گاہ نہ بنانا۔ اور تم (نماز، دعا اور تلاوت قرآن ترک کر کے)اپنے گھروں کو قبرستان (کی مانند)نہ بنا لینا اور مجھ پر درود پڑھتے رہنا۔ اس لیے کہ تم جہاں بھی ہو گے، تمہارا سلام مجھے پہنچ جائے گا۔‘‘ (3)

 

مسائل:

1) اس تفصیل سے سورۂ توبہ کی مذکورہ آیت کی تفسیر و توضیح ہوتی ہے۔

2) نبی ﷺ نے اپنی امت کو حدود شرک سے بہت دور رہنے کی ہدایت اور تلقین فرمائی ہے۔

3) نبی ﷺ اپنی امت پر نہایت شفیق و مہربان اور اس کی رشد و ہدایت کے انتہائی حریص اور خواہش مند تھے۔

4) نبی ﷺ نے مخصوص طریقہ پر اپنی قبر کی زیارت سے منع فرمایا ہے لیکن آپ کی قبر کی زیارت، شرعی حدود و قیود میں رہ کر کی جائے تو یہ انتہائی فضیلت والا عمل ہے۔

5) نبی ﷺ نے بار بار زیارت قبر کے لیے جانے سے منع فرمایا ہے۔

6) ان احادیث میں نفلی نماز گھروں میں ادا کرنے کی ترغیب بھی ہے۔

7) یاد رہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ہاں یہ بات طے شدہ اور معروف تھی کہ قبرستان میں نماز نہیں پڑھی جا سکتی۔

8) اس باب میں مذکورہ احادیث سے ثابت ہوا کہ آدمی جہاں بھی ہو وہیں درود و سلام پڑھ سکتا ہے خواہ دور ہی کیوں نہ ہو، لہذا اس غرض سے انسان کو قبر کے پاس جانے کی ضرورت نہیں۔

9) حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ رسول اکرم ﷺ برزخ میں ہیں اور امت کے اعمال میں سے درود وسلام، آپ کی خدمت میں پیش کیے جاتے ہیں۔

 

نوٹ:

(1) ان کی اسی حرص اور تمنا کی دلیل یہ ہے کہ انہوں نے گلشن توحید کی مکمل حفاظت کی اور ہر وہ راہ جس سے ہم شرک کے مرتکب ہو سکتے تھے اسے بند کر ڈالا۔

(2) ’’لَا تَجْعَلُوا قَبْرِي عِيدًا‘‘ ’’میری قبر کو میلہ گاہ نہ بنانا‘‘ یعنی سال میں کسی خاص دن یا مقررہ اوقات میں میلے کی مانند وہاں حاضری نہ دینا کیونکہ ایسا کرنے سے نبی کی تعظیم، اللہ کی سی تعظیم ہو جاتی ہے۔

چونکہ قبروں کو میلہ گاہ بنانا شرک کا سبب اور ذریعہ ہے اس لیے نبی علیہ السلام نے فرمایا ’’تم جہاں بھی ہو وہیں مجھ پر درود وسلام بھیج دیا کرو اس لیے کہ تمہارے درود و سلام مجھ تک پہنچ جاتے ہیں۔‘‘

(3) نبی ﷺ نے توحید اور گلشن توحید کی مکمل حفاظت فرمائی اور ذریعہ شرک بننے والی ہر راہ حتیٰ کہ اپنی قبر کی بھی حد درجہ تعظیم سے امت کو منع فرمایا۔ جب نبی ﷺ کی قبر کی تعظیم میں غلو کرنا منع ہے تو باقی لوگوں کی قبروں کی بھی ایسی تعظیم کی اجازت نہیں۔ مگر افسوس کہ امت نے نبی ﷺ کی ہدایت و فرامین کی پروانہ کی۔ان سب احکام، ہدایات اور فرامین کو پس پشت ڈالتے ہوئے قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا۔ ان پر میلے اور عرس کرنے لگے۔ ان پر قبے کھڑے کر دیے۔حتیٰ کہ ان پر چراغاں کیے جاتے ہیں ، قبروں پر جانور ذبح کیے جاتے اور چڑھاوے چڑھائے جاتے ہیں۔کعبہ کی مانند ان کا بھی طواف ہوتا ہے۔ اور قبر کے ارد گرد کی جگہ کو اسی طرح مقدس سمجھا جاتا ہے جیسے اللہ تعالی کی مقررہ حدوں کو مقدس سمجھتے ہیں۔ یہ قبر پرست لوگ نبی یا کسی صالح و بزرگ شخصیت یا کسی ولی کی قبر کے پاس آ کر اس قدر عاجزی، انکسار اور خاموشی اختیار کرتے ہیں کہ اللہ تعالی کے حضور ایسی عاجزی نہیں کرتے۔ یہ اللہ تعالی اور اس کے رسول ﷺ کی صریح مخالفت اور ان سے عداوت کا اظہار ہے۔ والعیاذ باللہ!

 

 

باب:22امت محمدیہ علی صاحبھا الصلواۃ التسلیم کے بعض افراد کے بت پرستی میں مبتلا ہونے کی پیش گوئی (1)

 

اللہ تعالی کا ارشاد ہے :

(أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيبًا مِنَ الْكِتَابِ يُؤْمِنُونَ بِالْجِبْتِ وَالطَّاغُوتِ وَيَقُولُونَ لِلَّذِينَ كَفَرُوا هَؤُلَاءِ أَهْدَى مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا سَبِيلًا (سورۃ النساء4: 51))

’’کیا آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنہیں کتاب کا کچھ حصہ دیا گیا، وہ بتوں اور شیطان کو مانتے ہیں اور کافروں کے متعلق کہتے ہیں کہ یہ لوگ ایمان لانے والوں سے زیادہ صحیح راستہ پر ہیں۔‘‘ (2)

اللہ تعالی کا ارشاد ہے :

(قُلْ هَلْ أُنَبِّئُكُمْ بِشَرٍّ مِنْ ذَلِكَ مَثُوبَۃ عِنْدَ اللَّهِ مَنْ لَعَنَهُ اللَّهُ وَغَضِبَ عَلَيْهِ وَجَعَلَ مِنْهُمُ الْقِرَدَۃ وَالْخَنَازِيرَ وَعَبَدَ الطَّاغُوتَ أُولَئِكَ شَرٌّ مَكَانًا وَأَضَلُّ عَنْ سَوَاءِ السَّبِيلِ (سورۃ المائدۃ5: 60))

’’ (اے محمدﷺ !)آپ ان لوگوں سے کہہ دیں ، کیا تمھیں ان لوگوں کی نشان دہی کر دوں جن کا انجام اللہ کے ہاں ، فاسقوں کے انجام سے بھی بدتر ہے ؟ وہ لوگ جن پر اللہ نے لعنت کی اور ان پر اللہ کا غضب ہوا اور ان میں سے بعض کو بندر اور خنزیر بنا دیا اور جنہوں نے طاغوت کی بندگی کی۔‘‘ (3)

نیز اللہ تعالی کا ارشاد ہے :

(قَالَ الَّذِينَ غَلَبُوا عَلَى أَمْرِهِمْ لَنَتَّخِذَنَّ عَلَيْهِمْ مَسْجِدًا (سورۃ الكهف18: 21))

’’اور ان کے سرکردہ لوگوں نے کہا ہم تو ان کی غار پر ضرور مسجد (عبادت گاہ)بنائیں گے۔‘‘ (4)

ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

( لَتَتْبَعُنَّ سَنَنَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ، حَذْوَ الْقُذَّۃ بِالْقُذَّۃ، حَتَّى لَوْ دَخَلُوا جُحْرَ ضَبٍّ لَّدَخَلْتُمُوهُ، قُالْوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ! اَلْيَهُوْدَ وَالنَّصَارَى؟ قَالَ: فَمَنْ) (صحیح البخاری، احادیث الانبیاء، باب ماذکر عن بنی اسرائین، ح:3456 و صحیح مسلم، العلم، باب اتباع سنن الیھود و النصاری، ح:2669)

’’تم پہلی امتوں کے راستوں کی پیروی کرتے ہوئے یوں ان کی برابری کرو گے جیسے تیر کا ایک پر دوسرے پر کے برابر ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ اگر وہ ضب (سانڈے)کے بل میں گھسے تو تم بھی جا گھسوگے۔ صحابہ کرام نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! آپ کی مراد یہود و نصاریٰ ہیں ؟ آپ نے فرمایا: اور کون؟‘‘ (5)

حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

(إِنَّ اللهَ زَوَى لِي الْأَرْضَ، فَرَأَيْتُ مَشَارِقَهَا وَمَغَارِبَهَا، وَإِنَّ أُمَّتِي سَيَبْلُغُ مُلْكُهَا مَا زُوِيَ لِي مِنْهَا، وَأُعْطِيتُ الْكَنْزَيْنِ: الْأَحْمَرَ وَالْأَبْيَضَ، وَإِنِّي سَأَلْتُ رَبِّي لِأُمَّتِي أَنْ لَا يُهْلِكَهَا بِسَنَۃ عَامَّۃ، وَأَنْ لَا يُسَلِّطَ عَلَيْهِمْ عَدُوًّا مِنْ سِوَى أَنْفُسِهِمْ، فَيَسْتَبِيحَ بَيْضَتَهُمْ، وَإِنَّ رَبِّي قَالَ: يَا مُحَمَّدُ! إِنِّي إِذَا قَضَيْتُ قَضَاءً فَإِنَّهُ لَا يُرَدُّ، وَإِنِّي أَعْطَيْتُكَ لِأُمَّتِكَ أَنْ لَا أُهْلِكَهُمْ بِسَنَۃ عَامَّۃ، وَأَنْ لَا أُسَلِّطَ عَلَيْهِمْ عَدُوًّا مِنْ سِوَى أَنْفُسِهِمْ، فَيَسْتَبِيحُ بَيْضَتَهُمْ، وَلَوِ اجْتَمَعَ عَلَيْهِمْ مَنْ بِأَقْطَارِهَا حَتَّى يَكُونَ بَعْضُهُمْ يُهْلِكُ بَعْضًا، وَيَسْبِي بَعْضُهُمْ بَعْضًا) (صحیح مسلم، الفتن، باب ھلاک ھذہ الامۃ بعضھم ببعض، ح:2889)

’’اللہ تعالی نے میرے لیے زمین کو اس حد تک سمیٹ اور سکیٹر دیا کہ میں نے اس کے مشرق و مغرب دیکھ لیے۔ میری امت کی حکومت وہاں تک پہنچے گی جہاں تک زمین مجھے سمیٹ کر دکھائی گئی۔ اور مجھے سفید (چاندی)اور سرخ (سونا)دو خزانے عطا کیے گئے۔ اور میں نے اپنی امت کے لیے اپنے رب سے دعا کی کہ وہ عام قحط سالی سے اسے ہلاک نہ کرے۔ اور ان پر کوئی ایسا بیرونی دشمن بھی مسلط نہ کرے جو انھیں تباہ کر کے رکھ دے۔ میرے رب نے فرمایا: اے محمد (ﷺ !) جب میں کوئی فیصلہ کر دیتا ہوں تو اسے ٹالا نہیں جا سکتا۔میں آپ کی مت کے بارے میں آپ کی یہ دعا قبول کرتا ہوں کہ میں انہیں عام قحط سالی سے ہلاک نہیں کروں گا اور ان پر کوئی ایسا بیرونی دشمن بھی مسلط نہیں کروں گا جو انھیں تباہ کر کے رکھ دے اگرچہ سارے دشمن ان کے خلاف متحد اور مجتمع کیوں نہ ہو جائیں۔ البتہ یہ خود آپس میں ایک دوسرے کو ہلاک کریں گے اور ایک دوسرے کو قیدی بھی بنائیں گے۔‘‘

اور اس حدیث کو امام حافظ البرقانی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اپنی کتاب ’’الصحیح‘‘ میں روایت کیا ہے۔ اس میں یہ بھی ہے :

(وَإِنَّمَا أَخَافُ عَلَى أُمَّتِي الْأَئِمَّۃ الْمُضِلِّينَ، وَإِذَا وَقَعَ عَلَيْهِمْ السَّيْفُ لَمْ يُرْفَعْ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَۃ، وَلَا تَقُومُ السَّاعَۃ حَتَّى تَلْحَقَ حَيٌّ مِنْ أُمَّتِي بِالْمُشْرِكِينَ، وَحَتَّى تَعْبُدَ فِئَامٌ مِنْ أُمَّتِي الْأَوْثَانَ، وَإِنَّهُ سَيَكُونُ فِي أُمَّتِي كَذَّابُونَ ثَلَاثُونَ، كُلُّهُمْ يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ، وَأَنَا خَاتَمُ النَّبِيِّينَ لَا نَبِيَّ بَعْدِي، وَلَا تَزَالُ طَائِفَۃ مِنْ أُمَّتِي عَلَى الْحَقِّ مَنْصُورَۃ لَا يَضُرُّهُمْ مَنْ خَذَلَهُمْ، حَتَّى يَأْتِيَ أَمْرُ اللَّهِ تَبَارَكَ وَ تَعَالى) (سنن ابی داود، الفتن والملاحم، باب ذکر الفتن و دلائلھا، ح:4252 و مسند احمد: 5/ 278، 284)

’’مجھے اپنی امت کے بارے میں صرف گمراہ پیشواؤں کا خدشہ ہے۔ اور جب ان میں ایک دفعہ تلوار چل پڑی تو قیامت تک بند نہ ہو گی اور قیامت اس وقت تک برپا نہیں ہو گی جب تک میری امت کی ایک بڑی جماعت مشرکین سے نہ جا ملے اور میری امت کے بہت سے گروہ بت پرستی نہ کرنے لگیں۔ اور میری امت میں تیس (30) دجال پیدا ہوں گے۔ وہ سب نبوت کا دعوی کریں گے، حالانکہ میں آخری نبی ہوں۔ میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ اور میری امت میں ایک گروہ ہمیشہ (قیامت تک) حق پر رہے گا اور ان کی (اللہ تعالی کی طرف سے)مدد کی جائے گی۔ اور ان کا ساتھ چھوڑ جانے والے ان کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکیں گے یہاں تک کہ اللہ تعالی کا حکم (قیامت)آ جائے۔‘‘ (6)

 

مسائل:

1) اس بحث سے سورۂ نساء کی آیت (51)

2) اور سورۂ مائدہ کی آیت (60)

3) اور سورۂ کہف کی آیت (21)کی تفسیر معلوم ہوئی۔ (اول الذکر آیت میں ذکر ہے کہ اہل کتاب نے بتوں اور شیطان کی پوجا کی۔ دوسری آیت میں بیان ہے کہ طاغوت بندگی کرنے والوں یعنی مشرکین کا انجام فاسقوں سے بھی بدتر ہوا۔ اور تیسری آیت میں بیان ہے کہ لوگوں نے اصحاب کہف کے غار اور قبروں پر مسجد بنانے جیسے مذموم عمل کا ارتکاب کیا۔)

4) ’’جبت‘‘ (بت)اور طاغوت (شیطان)پر ایمان لانے کا مفہوم اچھی طرح واضح ہوا کہ اس سے صرف قلبی اعتقاد مراد ہے یا ان سے نفرت اور ان کے بطلان کا عقیدہ رکھتے ہوئے بظاہر ان کی موافقت؟

5) یہود کی یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ اپنے کفر سے واقف کفار، اہل ایمان سے زیادہ صحیح راہ پر ہیں۔

6) معلوم ہوا کہ اس امت میں بھی وہی برائیاں پائی جاتی ہیں جو گزشتہ امتوں میں تھیں ، جیسا کہ ابو سعید رضی اللہ عنہ کی حدیث میں بیان ہے۔

7) اس امت کے بہت سے لوگ بت پرستی میں مبتلا ہوں گے۔

8) تعجب خیز بات تو یہ ہے کہ مختار ثقفی جیسا شخص نبوت کا دعوی کرنے لگا حالانکہ وہ توحید و رسالت کا معترف اور محمد ﷺ کا امتی ہونے کا دعوی کرتا اور مانتا تھا کہ رسول اللہ ﷺ بر حق اور قرآن کریم سچی کتاب ہے۔ اور اس قرآن میں یہ بھی مذکور ہے کہ حضرت محمد ﷺ اللہ تعالی کے آخری نبی ہیں۔ اس کی باتوں میں اس قدر واضح تضاد کے باوجود لوگ اس کی تصدیق کرتے رہے۔ یہ صحابہ رضی اللہ عنہم کے آخری دور میں ظاہر ہوا اور بہت سے لوگوں نے اس کی پیروی کی۔

9) اس حدیث میں یہ بشارت بھی ہے کہ امت محمدیہ سے کلی طور پر حق مٹ نہیں جائے گا جیسا کہ سابقہ زمانوں میں متعدد مرتبہ ایسا ہوا بلکہ اس کے برعکس اس امت میں ایک جماعت حق پر قیامت تک قائم رہے گی۔

10) اس میں ایک پیش گوئی اور اہل حق کی ایک علامت یہ بیان ہوئی ہے کہ اہل حق کی قلت کے باوجود ان کا ساتھ چھوڑ جانے والے اور ان کی مخالفت کرنے والے ان کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکیں گے۔

11) یہ پیش گوئی وجود قیامت تک برقرار رہے گی۔

12) اس حدیث میں مندرجہ ذیل اہم باتیں بطور خاص بیان ہوئی ہیں :

٭ نبی ﷺ کا فرمان: اللہ تعالی نے میرے لیے زمین کے مشارق و مغارب سمیٹ اور سکیڑ دیے۔ نبی ﷺ نے جو کچھ بیان فرمایا وہ حرف بحرف صحیح ثابت ہوا بخلاف شمال و جنوب کے (کہ نبی ﷺ نے ان کا ذکر ہی نہیں فرمایا)

٭ آپ کا یہ فرمان کہ مجھے دو خزانے عطا کیے گئے ہیں۔ ایک سفید (چاندی)اور ایک سرخ (سونا) (گویا ساری دنیا کے خزانے دیے گئے)

٭ نبی ﷺ نے یہ خبر دی کہ امت کے بارے میں آپ کی پہلی دو دعائیں قبول ہو گئی ہیں۔

٭ اور تیسری دعا قبول نہیں ہوئی۔

٭ نبی ﷺ نے یہ پیش گوئی بھی فرمائی کہ جب اس امت میں تلوار چلی تو قیامت تک نہ رکے گی۔

٭ نبی ﷺ نے یہ بتایا کہ میری امت کے لوگ ایک دوسرے کو ہلاک کریں گے اور ایک دوسرے کو قیدی بھی بنائیں گے۔

٭ نبی ﷺ نے اپنی امت کے بارے میں گمراہ پیشواؤں کا خدشہ بھی ظاہر کیا۔

٭ نبی ﷺ نے یہ خبر دی کہ اس امت میں نبوت کے جھوٹے دعوے دار (جھوٹے نبی)پیدا ہوں گے۔

٭ آپ کا خبر دینا کہ ایک منصورہ (اللہ کی طرف سے مدد کی ہوئی)جماعت قیامت تک موجود رہے گی۔

نبی ﷺ کی پیش گوئی کے مطابق یہ تمام باتیں حرف بحرف پوری ہوئی ہیں ، حالانکہ عقلی طور پر ان تمام باتوں کا وقوع پذیر ہونا بڑا مشکل اور بہت بعید ہے۔

13) نبی ﷺ نے امت کے صرف گمراہ پیشوا طبقہ سے ضلالت و گمراہی کا خطرہ محسوس کیا۔ (ہدایت یافتہ پیشواؤں سے نہیں)

14) عبادت اوثان یعنی بت پرستی کا صحیح معنی اور حقیقی مفہوم بھی اچھی طرح واضح ہوا۔

 

نوٹ:

(1) توحید کی معرفت اور اس کے علم کا وجوب، شرک سے بچنے کی تنبیہ، اقسام توحید، شرک اکبر اور شرک اصغر کی اقسام اور ان کے اسباب و ذرائع کا ذکر کرنے کے بعد شیخ محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ کے ذہن میں یہ بات آئی کہ کوئی کہنے والا کہہ سکتا ہے کہ یہ سب کچھ اپنی جگہ پر درست ہے۔ مگر امت محمدیہ (علی صاحبھا الصلواۃ التسلیم)تو شرک اکبر میں مبتلا ہوہی نہیں سکتی۔ کیونکہ نبی ﷺ نے فرمایا ہے :

(إِنَّ الشَّيْطَانَ قَدْ أَيِسَ أَنْ يَعْبُدَهُ الْمُصَلُّونَ فِي جَزِيرَۃ الْعَرَبِ، وَلَكِنْ فِي التَّحْرِيشِ بَيْنَهُمْ) (صحیح مسلم، صفات المنافقین، باب تحریش الشیطان، ……، ح:2812)

’’شیطان اس بات سے مایوس و نا مراد ہو چکا ہے کہ جزیرہ نمائے عرب میں نمازی (مسلمان)اس کی عبادت کریں ، البتہ وہ ان کے درمیان پھوٹ ڈالنے کی کوشش کرتا رہے گا۔‘‘

اس سے معلوم ہوا کہ نبی ﷺ کی امت ’’شرک اکبر‘‘ میں مبتلا نہ ہو گی۔

اس کا جواب یہ ہے کہ اگرچہ شیطان اس بات سے مایوس، ناکام اور نا مراد ہو چکا ہے مگر اللہ نے اسے اس سے مایوس نہیں کیا۔ دوسری بات یہ کہ نبی ﷺ کا فرمان ہے کہ شیطان اس بات سے ناامید ہے کہ جزیرہ نمائے عرب میں نماز پڑھنے والے اس کی عبادت کریں اور یہ بات یقینی ہے کہ نمازی ہمیشہ نیکی کا حکم کرتے اور برائی سے روکتے رہیں گے۔ اور سب سے بڑی برائی شرک ہے۔ جو لوگ صحیح معنوں میں نماز کی اقامت کریں ، شیطان ان لوگوں سے واقعتاً مایوس ہے وہ کبھی اس کی عبادت نہیں کریں گے۔ اس لیے حدیث کا یہ مفہوم قطعاً نہیں کہ اس امت میں سے کوئی بھی شیطان کی عبادت (اطاعت)نہیں کرے گا۔ یہی وجہ ہے کہ نبی ﷺ کی وفات کے کچھ ہی عرصہ بعد کچھ عرب قبائل مرتد ہو گئے تھے۔ یہ بھی تو شیطان کی عبادت ہی تھی کیونکہ شیطان کی عبادت سے مراد اس کی اطاعت ہے، جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا ہے :

(أَلَمْ أَعْهَدْ إِلَيْكُمْ يَا بَنِي آدَمَ أَنْ لَا تَعْبُدُوا الشَّيْطَانَ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ (سورۃ يس36: 60))

’’اس اولاد آدم! کیا میں نے تم سے یہ عہد نہیں لیا تھا کہ تم شیطان کی عبادت (اطاعت)نہ کرنا کیونکہ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔‘‘

اس آیت کی تفسیر ملاحظہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ جس طرح شرک کے ارتکاب اور ایمان اور اس کے تقاضوں کو ترک کرنے میں شیطان کی اطاعت اس کی عبادت کے مترادف ہے، اسی طرح اوا مر و نواہی میں بھی اس کی اطاعت اس کی عبادت ہی ہے۔

(عربی عنوان میں مذکور لفظ) ’’اوثان‘‘…. ’’وثن‘‘ کی جمع ہے۔ اللہ تعالی کے ساتھ ساتھ جس چیز کو بھی لوگ عبادت اور فریاد کا مستحق سمجھیں یا اللہ کے اذن اور حکم کے بغیر بھی اس کے نفع مند اور ضرر رساں ہونے کا عقیدہ رکھیں یا اس سے اس طرح ڈریں جس طرح اللہ سے ڈرنا چاہئے، وہ کسی انسان یا غیر انسان کا مجسمہ اور تصویر ہو یا دیوار، قبر یا کوئی مردہ ہو، ایسی تمام اشیاء ’’وثن‘‘کی تعریف میں شامل ہیں۔

(2) جبت: ہر وہ چیز جس میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے حکم کی اعتقاداً مخالفت ہو وہ ’’جبت‘‘ ہے۔ جادو بھی جبت ہے، کاہن کو بھی جبت کہا جاتا ہے اور حقیر و گھٹیا ضرر رساں چیز کو بھی جبت کہتے ہیں۔

طاغوت: ہر وہ معبود یا متبوع جسے انسان اس کی حد سے بڑھا دے، طاغوت ہے۔ شرعی طور پر متبوع کی حد یہ ہے کہ وہ انھی کاموں کا حکم دے جن کا شریعت نے حکم دیا ہے، اور ان کاموں سے روکے جن سے شریعت نے منع کیا ہے۔ لہذا شرعی حدود سے نکل کر جن کی عبادت، اتباع اور اطاعت کی جائے وہ سب طاغوت میں شامل ہیں۔

وجہ مناسبت:پیش نظر باب سے اس آیت کی وجہ مناسبت یوں ہے کہ یہود و نصاریٰ اہل کتاب ہونے کے باوجود بتوں اور شیاطین پر ایمان لے آئے اور نبی علیہ السلام نے بتلایا ہے کہ گزشتہ امتوں میں جو برائیاں واقع ہوئیں وہ اس امت میں بھی واقع ہوں گی۔ اس امت میں جادو پر ایمان رکھنے والے بھی ہوں گے اور غیر اللہ کی عبادت پر ایمان لانے والے بھی۔ الغرض وہ پچھلوں کے طریقوں پر چلیں گے۔

(3) بتوں کی پوجا، قبروں کی عبادت، اصحاب قبور کو معبود سمجھنا یہ سب طاغوت کی عبادت ہے۔ یہ ناقابل انکار حقیقت ہے کہ امت محمدیہ کے بہت سے افراد قبروں ، آستانوں ، درختوں ، پتھروں وغیرہ کی عبادت میں مبتلا ہو چکے ہیں۔

(4) جیسے ان لوگوں نے صالحین کی تعظیم میں غلو کیا اور ان کی غار پر اور قبروں پر مسجد بنا لی، یہ امت بھی ضرور ایسے کام کرے گی کیونکہ سابقہ امتوں نے جو بھی شرکیہ خصلت اختیار کی، نبی ﷺ کی پیش گوئی کے مطابق یہ امت اس کو ضرور اختیار کرے گی۔

(5) نبی کریم ﷺ نے ’’لَتَتْبَعُنَّ‘‘ کا لفظ بول کر قسمیہ انداز میں انتہائی تاکید کے ساتھ یہ پیش گوئی فرمائی کہ یہ امت پہلی امتوں کے راستوں کی پیروی ضرور کرے گی اور اس طرح ان سے برابری کرے گی جیسے تیر کا ایک پر دوسرے پر کے بالکل برابر ہوتا ہے۔ دونوں کے مابین کچھ فرق نہیں ہوتا۔

اس پورے باب کا انحصار اور دار و مدار اس حدیث پر ہے، اس سے معلوم ہوا کہ سابقہ امتوں نے جس جس قسم کے کفر و شرک کا ارتکاب کیا یہ امت بھی ویسا ہی کفر و شرک ضرور کرے گی۔

(6) گمراہ پیشواؤں سے مراد وہ لوگ ہیں جنہیں انسانوں نے دین یا سلطنت میں اپنے پیشوا بنا رکھا ہے جن کے ہاتھ میں انسانوں کی باگ ڈور ہے اور وہ بدعات و شرکیات کے ذریعے گمراہی پھیلاتے اور لوگوں کی نظروں میں اس قدر مستحسن کر کے دکھاتے ہیں کہ وہ انہیں حق ہی سمجھنے لگتے ہیں۔ اس حدیث میں اس جماعت کو ’’منصورہ‘‘ کہا گیا ہے یعنی اللہ تعالی کی طرف سے حجت و برہان کے ذریعے ان کی مدد کی جائے گی۔ اس مدد سے مراد، شمشیروسنان کی مدد نہیں اس لیے کہ اگرچہ بعض معرکوں میں انہیں ہزیمت سے دو چار ہونا پڑے یا ان کی حکومت و سلطنت ختم ہو جائے مگر اس کے باوجود وہ اپنے دلائل، نصوص، موقف کی پختگی اور درستی کی بنا پر سچے ہوں گے اور ان کے معاندین و مخالفین باطل پر ہوں گے۔

 

 

 

باب:23 جادو کا بیان (1)

 

اللہ تعالی کا ارشاد ہے :

(وَلَقَدْ عَلِمُوا لَمَنِ اشْتَرَاهُ مَا لَهُ فِي الْآخِرَۃ مِنْ خَلَاقٍ (سورۃ البقرۃ2: 102))’’اور وہ خوب جانتے تھے کہ اس (جادو)کو خرید نے یعنی سیکھنے والے کے لیے آخرت میں کچھ حصہ نہیں۔‘‘ (2)

نیز اللہ تعالی نے یہودیوں کی بابت فرمایا:

(يُؤْمِنُونَ بِالْجِبْتِ وَالطَّاغُوتِ (سورۃ النساء4: 51))

’’وہ جادو اور شیطان پر ایمان رکھتے تھے۔‘‘

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :

(بِالْجِبْتِ:السَّحْرُ، وَالطَّاغُوتِ الشَّيْطَان) (اخرجہ الطبری فی التفسیر، برقم:5834)

’’یعنی ’’الْجِبْتِ‘‘ کا معنی جادو اور ’’الطَّاغُوتِ‘‘سے مراد شیطان ہے۔‘‘ (3)

سیدنا جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :

(اَلطَّوَاغِيتُ كُهَّانٌ كَانَ يَنْزِلُ عَلَيْهِمُ الشَّيْطَانُ فِي كُلِّ حَيِّ وَّاحِدٌ) (اخرجہ ابن ابی حاتم فی التفسیر کما فی الدر المنثور : 2/ 22 ورواہ البخاری فی الصحیح معلقا، فتح الباری: 8/ 317)

’’طاغوت وہ کاہن ہیں جن پر شیطان اتر تا تھا۔ اور ہر قبیلے کا الگ الگ کاہن ہوتا تھا۔‘‘

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

(اجْتَنِبُوا السَّبْعَ المُوبِقَاتِ، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ! وَمَا هُنَّ؟ قَالَ: الشِّرْكُ بِاللَّهِ، وَالسِّحْرُ، وَقَتْلُ النَّفْسِ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالحَقِّ، وَأَكْلُ الرِّبَا، وَأَكْلُ مَالِ اليَتِيمِ، وَالتَّوَلِّي يَوْمَ الزَّحْفِ، وَقَذْفُ المُحْصَنَاتِ المُؤْمِنَاتِ الغَافِلاَتِ) (صحیح البخاری، اوصایا، باب قولہ تعالی (إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوَالَ الْيَتَامَى ظُلْمًا)ح:2766، 5764 و صحیح مسلم، الایمان، باب الکبائر و اکبرھا، ح:89)

’’سات مہلک کاموں سے بچ کر رہو۔‘‘ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! وہ سات کام کون کون سے ہیں ؟ آپ نے فرمایا:

{1} اللہ تعالی کے ساتھ شرک کرنا

{2} جادو کرنا

{3} اللہ تعالی کی حرام کی ہوئی کسی جان کو ناحق قتل کرنا

{4} سود خوری

{5} یتیموں کا مال کھانا

{6} کفار سے مقابلے کے دن پیٹھ پھیر کر بھاگ جانا۔

{7} پاک دامن اور عفت مآب اہل ایمان عورتوں پر تہمت طرازی۔‘‘ (4)

جندب رضی اللہ عنہ سے مرفوع روایت ہے (یعنی وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں)کہ آپ نے فرمایا:

(حَدُّ السَّاحِرِ ضَرْبَۃ بِالسَّيْفِ) (جامع الترمذی، الحدود، باب حد الساحر، ح:1460)

’’جادو گر کی حد (سزا) یہ ہے کہ اسے تلوار سے قتل کر دیا جائے ‘‘۔

امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ صحیح بات یہ ہے کہ روایت موقوف (صحابی کا قول)ہے۔ (5)

بجالہ بن عبدۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے ہمیں لکھا:

(اُقْتُلُوا كُلَّ سَاحِرٍ، وَّسَاحِرَۃ، فَقَتَلْنَا ثَلَاثَ سَوَاحِرَ) (صحیح البخاری، الجزیۃ والموادعۃ، باب الجزیۃ والموادعۃ مع اھل الذمۃ و الحرب، ح:3156 وسنن ابی داود، الخراج، باب فی اخذ الجزیۃ من المجوس، ح:3043 ومسند احمد:1/ 190، 191 واللفظ لہ)

’’ہر جادوگر مرد اور عورت کو قتل کر دو۔ آگ بجالہ کہتے ہیں سو ہم نے تین جادوگرنیوں کو قتل کیا۔‘‘

سیدہ حفصہ رضی اللہ عنھا سے صحیح سند کے ساتھ ثابت ہے :

(أَنَّهّا أّمَرَتْ بِقَتْلِ جَارِيَۃ لَّهَا سَحَرَتْهَا، فَقُتِلَتْ، وَكَذلِكَ صَحَّ عَنْ جُنْدُبٍ. قَالَ أَحْمَدُ: عَنْ ثَلَاثَۃ مِّنِ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم) (الموطا للامام مالک، العقول، باب ماجاء فی الغیلۃ و السحر، ح:46)

’’ان کی ایک لونڈی نے انہیں جادو کر دیا تو انہوں نے اس کو قتل کرنے کا حکم دیا، چنانچہ اسے قتل کر دیا گیا تھا۔

اسی قسم کا قول جندب رضی اللہ عنہ سے بھی منقول ہے۔ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جادو گر کو قتل کرنا نبی کریم ﷺ کے تین صحابہ (جندب، عمر اور حفصہ)رضی اللہ عنہم سے ثابت ہے ‘‘۔ (6)

 

مسائل:

1) اس باب میں سورۂ بقرہ کی آیت 102 کی تفسیر ہے جس میں جادوگروں ک انجام بیان کیا گیا ہے۔

2) نیز اس باب سے سورۂ نساء کی آیت 51 کی تفسیر بھی ہوئی جس میں بیان ہے کہ یہود، جادو اور شیطان پر ایمان رکھتے ہیں۔

3) جبت اور طاغوت کے معانی اور ان کے مابین فرق بھی واضح ہوا۔

4) طاغوت، جن بھی ہوتے ہیں اور انسان بھی۔

5) مذکورہ حدیث سے ان سات کاموں کا بھی علم ہوا جو انتہائی مہلک اور خاص طور پر ممنوع ہیں۔

6) جادوگر کا فر ہے۔

7) جادوگر کو فورا قتل کر دیا جائے اور اسے توبہ اور رجوع کی مہلت بھی نہ دی جائے۔

8) سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں بھی جادوگر موجود تھے تو اس سے بعد کے ادوار میں کیا حال ہو گا؟

 

نوٹ:

(1) جادو بھی شرک اکبر کی اقسام میں سے ہے اور توحید کے منافی ہے۔

جادو کی حقیقت: اس کی اصل حقیقت یہ ہے کہ کسی چیز کی تاثیر میں شیطان سے خدمت لی جاتی ہے۔ کوئی جادو گر جب تک شیطان کا دوست، مقرب اور محبوب نہ ہو، اس کا جادو کارگر نہیں ہوسکتا۔ جب وہ شیطان کا مقرب بن جاتا ہے تو شیاطین اس طرح اس کی خدمت کرتے ہیں کہ وہ مسحور (جس پر جادو کیا جائے اس)کے بدن پر اثر انداز ہو جاتے ہیں۔ لہذا کوئی جادو گر شیاطین کے تقرب کے بغیر جادو گر نہیں بن سکتا۔ اسی لیے جادو اللہ تعالی کے ساتھ شرک ہے۔

اللہ تعالی نے بھی فرمایا ہے :

(وَمِنْ شَرِّ النَّفَّاثَاتِ فِي الْعُقَدِ (سورۃ الفلق113: 4))

’’ (آپ کہہ دیں کہ میں دھاگے پروئی گئی)گانٹھوں پر پھونک مارنے والی (عورتوں یعنی)جادوگرنیوں کے شر سے (پناہ مانگتا ہوں)‘‘۔

’’النَّفَّاثَاتِ‘‘ :یہ ’’نَّفَّاثَۃ‘‘ کی جمع اور ’’نَفَثَ‘‘ سے مبالغہ کا صیغہ ہے یعنی پھونک مارنا۔ ’’نَّفَّاثَۃ‘‘ جادوگرنی کو کہتے ہیں کیونکہ وہ اپنا عمل کرتے ہوئے گانٹھوں پر پھونکیں مارتی ہے اور مختلف کلمات و الفاظ پڑھ کر جنات سے مدد اور خدمت کی طالب ہوتی ہے تاکہ وہ مسحور کے بدن پر اثر انداز ہوسکے۔

(2) جادو گر توحید کے عوض جادو خریدتا ہے۔ گویا وہ توحید کو اپنے اس سودے (جادو)کی قیمت کے طور پر ادا کر ڈالتا ہے۔ اسی لیے توحید سے محروم مشرک کی طرح جادو گر کے لیے بھی آخرت میں کچھ نہیں ہو گا۔

(3) اہل کتاب کے جادو پر ایمان لانے کی بنا پر اس آیت میں ان کی مذمت کی گئی ہے اور اللہ تعالی نے ان پر لعنت کر کے ان پر ناراضی کا اظہار کیا ہے۔

اس سے ثابت ہوا کہ جادو حرام اور کبیرہ گناہ ہے۔ چونکہ اس میں اللہ تعالی کے ساتھ غیروں کو شریک کیا جاتا ہے، اس لیے ظاہر ہے کہ یہ شرک ہے۔ یہی حکم جادو کی تمام اقسام کا ہے جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے کہ جبت کے مفہوم میں بہت سی اشیاء شامل ہیں۔ اور یاد رہے ! یہودیوں کی نسبت سے ان میں سب سے واضح جادو ہے کیونکہ وہ جادو پر ایمان رکھتے ہیں اور طاغوت (شیطان)پر بھی ایمان رکھتے ہیں۔ طاغوت میں ہر وہ چیز شامل ہے جس کی اطاعت میں لوگ حق اور صواب سے دور نکل گئے۔

(4) اس حدیث سے ثابت ہوا کہ یہ سب کام مہلک اور دنیا و آخرت میں تباہی و خسارے کا سبب ہیں۔ اور یہ کبیرہ گناہ ہیں۔ اس حدیث میں شرک کے معا بعد جادو کے ذکر سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کہ جادو بھی اللہ تعالی کے ساتھ شرک کے برابر ہے۔

(5) جادو گر کسی بھی نوعیت کا ہو اس کی سزا قتل ہی ہے۔ در حقیقت یہ مرتد کی سزا ہے اور چونکہ جادو میں شرک لازمی طور پر پایا جاتا ہے اور شرک کا ارتکاب کرنے ولا مرتد ہوتا ہے اور اس کا خون اور مال حلال ہو جاتے ہیں (اس کی عزت و عصمت اور حرمت و حفاظت باقی نہیں رہتی)اس لیے جادوگر کی یہ سزا اس کے مشرک اور مرتد ہونے کی بنا پر ہے۔

(6) جادو خواہ کسی بھی قسم کا ہو:

ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بلا تفریق ہر جادوگر کو قتل کرنے کا حکم اور فتوی صادر فرمایا خواہ جادو کسی بھی قسم کا ہو۔ لہذا مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ ہر قسم کے جادو سے اجتناب کریں۔ اور انہیں جس کے بارے میں علم ہو کہ وہ شعبدہ بازی (جادو)کرتا ہے اس تک اور دوسرے لوگوں تک بھی یہ اسلامی تعلیمات پہنچا کر اپنی ذمہ داری سے عہدہ بر آ ہو کر برائی کا قلع قمع کریں۔

ائمہ کرام رحمۃ اللہ علیہم فرماتے ہیں کہ جس علاقہ میں جادو گروں کا عمل دخل شروع ہو جائے وہاں فساد، ظلم، زیادتی اور سرکشی کا دور دورہ ہو جاتا ہے۔

٭٭٭

ٹائپنگ: فاروق

پروف ریڈنگ:  عُکاشہ

ماخذ:

http://www.urduvb.com/forum/showthread.php?t=18844

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید