فہرست مضامین
- صفات سرورِ عالم
- حمد
- دیدِ درِ رسول کا ارماں لئے ہوئے
- درسِ نازشِ کونین اور اِس قرینے کا
- جھیلے ہیں محمدؐ نے شدائد بھی محن بھی
- ریا ہے دل میں لب پر یا نبیؐ ہے
- مُیسر جذبۂ صادق اگر ہو
- کہیں ستائشِ تاجِ شہی سے ملتا ہے
- دشمنِ جاں بھی کیا کرتے تھے مدحت آپ کی
- اندیشۂ فردا ہے نہ امروز کا غم ہے
- آستانِ حبیبِ خدا مل گیا
- ہے ستاروں میں نہ وہ شمعِ ضیاء بار میں ہے
- سب جس کو کہیں ابرِ کرم یہ وہ بشر ہے
- قرارِ جاں ہے بیاں اُس نبی کی عظمت کا
- اِس سَمت بھی نگاہِ کرم شاہِ نام دار
- یاد سرکار کی جب آئی ہے
- درود پڑھتے ہیں لیتے ہیں جب بھی نامِ رسول
- دیدۂ بیدار کا طالب ہے نورِ آفتاب
- ہے یہ اثرِ چہرۂ زیبائے محمّدؐ
- ہے جب تک یہ تجاہل اپنے آقا کی ہدایت سے
- فرض ہو جائے ہر انسان پہ مدحت کرنا
- پئے ظلمت مہِ تاباں محمّدؐ
- تعظیم طلب بارگہِ مصطفویؐ ہے
- خدا شاہد یہ اُس انساں کی تربت ہے مدینے میں
- جھکائے شرم سے اپنی نظر میدانِ محشرمیں
- ہر ایک سمت سے آئے نہ کیوں صدائے درود
- بس ایک دعا شام و سحر مانگ رہا ہوں
- بھُلا کے شکر کی عادت سزا یہ پائی ہے
- دیدۂ بیدار کو بھی ایک مدّت چاہیے
- ملتی ہے جو زمیں کی روش آسمان سے
- کس قدر مشکل انھیں کارِ جہاں بخشا گیا
- جب تصور میں وہ ممدوحِ جہاں ہوتا ہے
- صد شکر ہم کو ایسا پیمبر عطا ہوا
- فخر ہے کائنات کو ایسی عظیم ذات پر
- میں سمجھ گیا کہ یہ مجھ پہ کیوں کرمِ خدائے رسول ہے
- آؤ بیان سیرتِ خیرالبشر کریں
- خواب میں آئے نظر اے کاش روئے مصطفیٰؐ
- اﷲ کے محبوب ہو صادق ہو امیں ہو
- اﷲ کا محبوب ہمارا بھی بہت ہے
- دیکھا کہاں وہ فرق جو شاہ و گدا میں ہے
- اب اعانت کی ضرورت ہے خبر لیجئے شہا
- ہم پہ لطف و کرم کی ہو اب اک نظر، اے حبیبِ خدا اے شہہِ بحر و بر
- اِس شرف کے صرف شایاں،تم نہیں تو اور کون!
- صفات کا ہے خدا ثنأ گر درود تم پر سلام تم پر
- ذرا بھی آج شرربار آفتاب نہیں
- حق شعاری، پاک بازی، عاجزی کام آ گئی
- رہرو تو وہ ہوتا ہے لیکن گم کردۂ منزل ہوتا ہے
- ہمارے پیشِ نظر جادۂ حقیقت ہے
- ذہنِ تیرہ نے بسا رکھا تھا دل میں سومنات
- وہ عشقِ محمّدؐ کی علامت یہ نشاں ہے
- مدینے کے تَصُّور سے وہ جب معمور ہوتا ہے
- دنیا میں کوئی اُن کی وفا تک نہیں پہنچا
- اتنی عظیم ذات یہاں کب کسی کی ہے
- تمام شہر کا نقشہ عجب نظر آیا
- ہے یہ ضامن بہارِ زندگی کی
- بن گئے دشت بھی حسیں گلزار
- مقصدِ تخلیق انساں کو بتانے کے لئے
- غم کے نرغے سے جو تم کو نہ پکارا ہوتا
- دنیا نکھر گئی ہے انوارِ مصطفیٰؐ سے
- نور پھیلے گا مٹ جائیں گی ظلمتیں راستہ اپنا انسان پا جائے گا
- پیغامِ صدق لے کے سفینے سے آئے ہیں
- آساں نہ تھا علاج غم و اضطراب کا
- اہلِ عالم ثنا خواں ہیں سرکار کے
- Related
صفات سرورِ عالم
نصیر اللہ خان نصیرؔ کوٹی
حمد
قاصر میرا قلم ہے تو عاجز مری زباں
ممکن کہاں کہ وصف ترے کر سکوں بیاں
ایطاف کا شمار کٹھن مر حلہ سہی
تجھ سے عطا کا شکر تو ممکن ہے اے زباں
یہ انبساط و غم کا توازن ہے دیدنی
ہم سے بقدرِ ظرف لیا تو نے امتحان
اے نورِ لا زوال اگر ہو ترا کرم
ذرّوں پہ آفتاب کا ہونے لگے گماں
کس بد نصیب قوم سے بر ہم کیا تجھے
کس کی تلاش میں ہیں یہ طوفان یہ بجلیاں
تو دستگیرِجادٔہ ہستی ہے اور بس
ہے کارواں کوئی نہ کوئی میرِ کارواں
کس کو پکارتا وہ اسیرِ ملال و غم
تیرے سوا نصیرؔ کا ہے کون پاسباں
٭٭٭
دیدِ درِ رسول کا ارماں لئے ہوئے
بیٹھا ہوں ہر نظر میں گلستاں لئے ہوئے
ظلمت بڑھی تو مہرِ رسالت ہوا طلوع
انسان کی نجات کا ساماں لئے ہوئے
اﷲ ری دیدِ روضۂ اقدس کی آرزو
ہر جنبشِ نظر ہے چراغاں لئے ہوئے
ہوں خندہ زن تمازتِ خورشیدِ حشر پر
سر پر نبی کا سایۂ داماں لئے ہوئے
رونق فزا ہیں حلقۂ اصحاب میں حضورؐ
تارے جِلَو میں ہیں مہِ تاباں لئے ہوئے
ہم پر بھی اک نگاہِ کرم رحمتِ تمام
ہم بھی کھڑے ہیں دفترِ عصیاں لئے ہوئے
فضلِ خدا سے حشر میں جائیں گے ہم نصیرؔ
پیشِ حضورؐ دولتِ ایماں لئے ہوئے
٭٭٭
درسِ نازشِ کونین اور اِس قرینے کا
وحشیوں کو بھی آئے جس سے طرز جینے کا
اُس کو بیمِ دریا کیا، اُس کو خوفِ طوفاں کیا
جس کو تم سا مل جائے ناخدا سفینے کا
اعتبارِ کامل ہو، اعتمادِ محکم ہو
کچھ نہیں رہِ غم سے فاصلہ مدینے کا
کچھ نشاطِ آمد بھی،کچھ ملالِ فرقت بھی
کیا عجیب دن آیا آج اِس مہینے کا
اے صبا مدینے کے چند خار کافی ہیں
اہتمام کرنا ہے دل کے چاک سنیے کا
سنگ ہیں حوادث کے دامنِ زمانہ میں
پاس سرورِ عالم دل کے آبگینے کا
دیکھ لیں نصیرؔ اک دن اپنے خواب کی تعبیر
دیکھتے ہی رہتے ہیں خواب ہم مدینے کا
٭٭٭
جھیلے ہیں محمدؐ نے شدائد بھی محن بھی
پیشانیِ انور پہ نہ تھی ایک شکن بھی
اﷲ و غنی مدحتِ سلطانِ مدینہ
توصیف میں مصروف ہیں مرغانِ چمن بھی
کہتا ہوں کسے مہرِ جہاں تاب و دل افروز
کچھ لوگ سمجھتے ہیں مرا روئے سخن بھی
اﷲ ری یہ دل کشیِ وادیِ طیبہ
یاد آئے پہنچ کر نہ جہاں اپنا وطن بھی
خورشیدِ رسالت کے ہے انکار سے ظاہر
دیکھی نہ گئی تجھ سے کوئی ایک کرن بھی
نظارۂ دلکش سے یہ ہوتا ہے نمایاں
اک گوشۂ جنّت ہے مدینے کا چمن بھی
کیا ہو گی نصیرؔ ایسے خطا کار سے مدحت
ناواقفِ آداب ہے بیگانۂ فن بھی
٭٭٭
ریا ہے دل میں لب پر یا نبیؐ ہے
یہ کیسا عشق کیسی پیروی ہے
تصدّق جس پہ شانِ خسروی ہے
رسولِ پاک کی وہ زندگی ہے
یہ ہے ظرفِ طلب کی بات یارو
مدینہ پاس بھی ہے دور بھی ہے
تجلّی پاش ہے ہر ایک کوچہ
مدینہ روشنی ہی روشنی ہے
جسے حاصل نہیں عرفانِ آقا
وہ بد قسمت شکارِ گمرہی ہے
عطا ہو جائے مقدورِ زیارت
نظر ہے مُلتمس، دل مُلتجی ہے
نصیرِؔ غم زدہ پہنچا نہ اب تک
نہ جانے اُس میں ایسی کیا کمی ہے
٭٭٭
ِ
مُیسر جذبۂ صادق اگر ہو
سفر میں شام طیبہ میں سحر ہو
اگر انساں کو ہے درکار عظمت
نثارِ مسلکِ خیرالبشر ہو
مٹایا کربِ جاں کو اک نظر سے
عجب انداز کے تم چارہ گر ہو
سنوارا کس نے تجھ کو بزمِ عالم
شبِ تاریک ممنونِ سحر ہو
بھرم رہ جائے محشر میں ہمارا
ندامت سے عنایت پیشتر ہو
پکارو کہہ کے مدّاحِ محمّدؐ
گزر گاہوں سے جب میرا گزر ہو
پہنچ جائے نصیرِ نارسا بھی
کوئی نالہ تو یارب کارگر ہو
٭٭٭
کہیں ستائشِ تاجِ شہی سے ملتا ہے
جو اجر دل کو ثنائے نبی سے ملتا ہے
وہ راہ دسترسِ جبرئیل میں بھی نہیں
سراغ جس کا تری رہبری سے ملتا ہے
کھُلا یہ راز طلب گارِ جادۂ حق پر
کہ روشنی کا پتہ روشنی سے ملتا ہے
وہ خواب ہو کہ رسائی ہو سبز گنبد کی
نبیؐ کا چاہنے والا نبیؐ سے ملتا ہے
ہے اُس کے ذہن میں تلقینِ مصطفیٰؐ اب بھی
جو آشنا کی طرح اجنبی سے ملتا ہے
کیا نہیں ہے فراموش درسِ خود داری
ثبوت اس کا مری زندگی سے ملتا ہے
ملا ہے درس ہمیں جس طرح سے ملنے کا
نصیرؔ کون یہاں اب کسی سے ملتا ہے
٭٭٭
دشمنِ جاں بھی کیا کرتے تھے مدحت آپ کی
کذب پر غالب رہی پیہم صداقت آپ کی
ماورائے نقص اندازِ عقیدت ہو اگر
شیشۂ دل میں نظر آتی ہے صورت آپ کی
جس نے اپنایا اُسے اوجِ ثریّا مل گیا
سرخرو کرتی ہے انساں کو ہدایت آپ کی
آسماں بجلی گرائے آگ پھیلائے زمیں
ٹوٹ جائے گر خطا کاروں سے نسبت آپ کی
کس روش پر آپ نے چلنے کو فرمایا مگر
کس ڈگر پر جا رہی ہے آج امّت آپ کی
کیا ہوا کج فہم ہیں اب تک اگر نا آشنا
ہر نظر کی دسترس میں کب ہے عظمت آپ کی
ہم سمجھتے تھے غزل گو آپ کو لیکن نصیرؔ
نعت گوئی میں بھی ہے خاصی مہارت آپ کی
٭٭٭
اندیشۂ فردا ہے نہ امروز کا غم ہے
مجھ جیسے خطاکار پہ بھی کتنا کرم ہے
ہے شہپرِ جبریل کی پرواز سے باہر
وہ عرشِ معلی ہے جو اب زیرِ قدم ہے
ہو نعت مکمّل تو جبیں اپنی اٹھائے
مصروف عبادت میں ابھی میرا قلم ہے
سرکار یہ ہے نامۂ اعمال ہمارا
ہر ایک خطا منتظرِ چشمِ کرم ہے
اے کاش کہ آ جائے وہی دَور پلٹ کر
مٹ جائے کسی طرح جو تفریق بہم ہے
مدّت ہوئی آقا کے سفر کو مگر اب تک
ضو ریز سرِعرش ہر اک نقشِ قدم ہے
فرمانِ محمّدؐ پہ عمل کر کے تو دیکھو
بیتاب برسنے کے لئے ابرِ کرم ہے
کچھ اس کے سوا اور سبب ہو نہیں سکتا
سرکار کی نسبت سے نصیرؔ اپنا بھرم ہے
٭٭٭
آستانِ حبیبِ خدا مل گیا
مجھ کو میری طلب کا صلہ مل گیا
امتیازِ رخِ خیر و شر کے لئے
زندگانی تجھے آئینہ مل گیا
ہو گیا کامراں مقصدِ جستجو
حسرتِ رہنما، رہنما مل گیا
سیلِ تنویر تھی رات معراج کی
نور سے نور کا سلسلہ مل گیا
اب چھپانا گناہوں کا مشکل نہیں
اب مجھے دامنِ مصطفیٰؐ مل گیا
شکر ہے رنگ لائی مرادِ دلی
تیرا مقصود اے آمنہ مل گیا
اے نصیرؔ اُس سخی پر نچھاور ہے جاں
میں نے مانگا تھا کیا اور کیا مل گیا
٭٭٭
ہے ستاروں میں نہ وہ شمعِ ضیاء بار میں ہے
ضو فشانی جو رخِ احمدِ مختار میں ہے
منکرِ شانِ محمّدؐ کو یہ معلوم نہیں
رنگ اقرار کا پیرایۂ انکار میں ہے
دوستو ذکرِ محمّدؐ کا اثر تو دیکھو
نام ہے لب پہ تجلّی در و دیوار میں ہے
کیا نظر آئے مجھے عکسِ صفاتِ احمدؐ
گرد کتنی مرے آئینہ کردار میں ہے
پاس داری نہ کہیں فرقِ مراتب کوئی
منصفی کب یہ کسی اور کے دربار میں ہے
دور ہیں دور بہت ارضِ مدینہ سے قدم
عزم نا قص ہے کہ خامی مری رفتار میں ہے
غیرتِ حسنِ چمن، رشکِ بہاراں کہیئے
دل نشیں رنگ مدینے کے ہر اک خار میں ہے
٭٭٭
سب جس کو کہیں ابرِ کرم یہ وہ بشر ہے
جو گھر ہے مرے نازشِ کونین کا گھر ہے
اُس سنگ زنی پر بھی اٹھے ہاتھ دعا کو
یہ سب سے الگ زاویۂ فکر و نظر ہے
پھر بھی ہے مجھے چشمِ عنایت کی توقّع
ہر چند کہ معمورِ خطا ہوں یہ خبر ہے
کب میں نے کیا اُن سے طلب کوئی خزانہ
درکار مرے حال کو توفیقِ سفر ہے
لائی ہے صبا آج بھی اُس زلف کی خوشبو
یہ شام کی بخشش ہے کہ انعامِ سحر ہے
دشمن سے ذرا پیار کا برتاؤ تو دیکھو
جو دھوپ کو آغوش میں لے یہ وہ شجر ہے
زد پر ہے سنا قہرِ الہی کے زمانہ
تجھ کو تو نصیرؔ اپنی تباہی کا ہی ڈر ہے
٭٭٭
قرارِ جاں ہے بیاں اُس نبی کی عظمت کا
الگ ہے سب سے الگ رنگ جس کی سیرت کا
جو سجدہ ریز ہوا غم گسار امّت کا
تمام رات رہا سلسلہ عبادت کا
گناہ گار جھکائے ہیں سر ندامت سے
ہے انتظار نگاہِ کرم کی زحمت کا
قرار کیوں نہ مُیسّر ہو بے قراروں کو
نبی کا شہر ہے محور خدا کی رحمت کا
اُسے تلاش کرو حشر کی عدالت میں
جو منتظم ہے خطاکار کی ضمانت کا
ملے گی صرف اُسی نیّرِ مدینہ سے
وہ روشنی جو کرے سدِّ باب ظلمت کا
قریب ہے وہ مدینے سے یہ بتا دینا
پتہ جو پوچھنے آئے نصیرؔ جنّت کا
مدحت کسی کی مدحتِ خیرالبشرؐ کے بعد
تاروں میں نور اور نُمودِ سحر کے بعد
آسودہ کر سکے نہ جبینِ نیاز کو
جتنے بھی آستاں تھے اُس اک سنِگ در کے بعد
جز رحمتِ تمام کے حاصل کسے یہ فیض
تقدیر جو بدل دے فقط اک نظر کے بعد
انسان کر رہا ہے تلاشِ سکوں کہاں
منزل نہیں ہے کوئی بھی اِس رہگزر کے بعد
یہ اُن کے التفاتِ فراواں کا فیض ہے
ہم سرخرو تھے جائزۂ خیرو شر کے بعد
اُن کی طرف بڑھے ہیں جنہیں کچھ شعور تھا
بیچارگیِ رہبرِ نامعتبر کے بعد
نظارۂ جہاں کا بجا شوق ہے مگر
کیا حسرتِ سفر ہو کوئی اِس سفر کے بعد
ہوتی ہیں یوں نصیرؔ خطائیں معاف سب
ہم پر ہوا یہ راز عیاں چشمِ ترکے بعد
٭٭٭
اِس سَمت بھی نگاہِ کرم شاہِ نام دار
ٹوٹے دلوں کی آس غریبوں کے غمگسار
آلامِ بے پناہ کسے یاد رہ گئے
دل کو ملا خیالِ مدینہ سے وہ قرار
سرکار اک نگاہِ توجّہ کی ہے طلب
شعلہ فشاں زمیں ہے فلک ہے شرارہ بار
سب کا خیال آپ کو ہے سب کے آپ ہیں
زاہد ہو یا ولی ہو کوئی یا گناہ گار
صدقہ بتا کے چہرۂ انور کا دوستو
پھولوں پہ رنگ و نور لٹاتی رہی بہار
صیقل طلب ہے شمع عقیدت کی روشنی
چھایا ہوا ہے شیشۂ دل پر بہت غبار
کیا شان تھی نصیرؔ رسالت مآب کی
حاضر ہوئے سلام کو جبریل بار بار
٭٭٭
یاد سرکار کی جب آئی ہے
ایک خوشبو بھی ساتھ لائی ہے
مرحبا حسنِ گنبدِ خضریٰ
روشنی آنکھ میں اب آئی ہے
ضامنِ عافیت دو عالم میں
سرورِ دیں کی رہنمائی ہے
کبح روی بن گئی شعار اپنا
یہ محمدؐ سے بے وفائی ہے
جس کی ہیبت سے کفر تھا لرزاں
منتشر آج وہ اکائی ہے
کیا ملے حاضری کا پروانہ
خام یہ حسرتِ رسائی ہے
مظہرِ عظمتِ رسول نصیرؔ
سنگ ریزوں کی لب کشائی ہے
٭٭٭
درود پڑھتے ہیں لیتے ہیں جب بھی نامِ رسول
زہے عروجِ محمّدؐ خوشا مقامِ رسول
یہ کائنات کبھی کی تباہ ہو جاتی
جہاں میں عام نہ ہوتا اگر پیامِ رسول
ہزار غنچۂ دل ہر قدم پہ کھلتے ہیں
صبائے خلد ہے دلدادۂ خرِامِ رسول
ہر اک بشر کی بھلائی کا چاہنے والا
سلامتی کا طلب گار ہے سلامِ رسول
کوئی بھی بزم سے اُن کی اُٹھا نہ افسردہ
وہ سادگی وہ نفاست وہ اہتمامِ رسول
نزولِ رحمتِ باری ہوا نہ ہو جس میں
کوئی سحر ہی تھی ایسی نہ کوئی شامِ رسول
امیدوارِ کرم ہے گناہ گار سہی
نصیرؔ بھی ہے بہر حال اک غلامِ رسول
٭٭٭
دیدۂ بیدار کا طالب ہے نورِ آفتاب
آنکھ جب تک بند رہتی ہے نظر آتے ہیں خواب
معصیت کی سمت جب بڑھتا ہے طوفانِ عذاب
مانگتا ہے وقت اک ساعت میں صدیوں کا حساب
ریگِ صحرا بھی نظر آنے لگی مثلِ گہر
آج تک دنیا میں لایا کون ایسا انقلاب
مائلِ یورش ہوئے خفّت مٹانے کے لئے
مفسدِ کج فہم کیا دیتے سوالوں کا جواب
مختصر یہ ہے کہ دستورِ نبی ہے آج بھی
اہلِ عالم کے لئے ظلمت میں نورِ آفتاب
جگمگاتا ہی رہے گا وہ مثالِ کہکشاں
ہو گیا ہے نقش جس دل پر وہ اندازِ خطاب
جادۂ حق پر قدم رکھنے سے پہلے اے نصیرؔ
غیر ممکن ہے بسر کرنا حیاتِ کامیاب
٭٭٭
ہے یہ اثرِ چہرۂ زیبائے محمّدؐ
بیگانۂ عالم ہے شناسائے محمّدؐ
تنویر کوئی جادۂ فردوس کی دیکھے
روشن ہیں جہاں نقشِ کفِ پائے محمّدؐ
انسان فرشتوں سے بھی افضل ہے شرف میں
اے صلِّ علیٰ فیضِ تولاّئے محمّدؐ
ہو جائے نہ جب تک کہ مدینے کی زیارت
بے چین رہے دل میں تمنّائے محمّدؐ
آیا ہے جو ٹھکرا کے ہے آسائشِ عالم
جائے تو وہ اس در سے کہاں جائے محمّدؐ
آسان نہ تھا کاکلِ ہستی کا سنورنا
جب سب ہوئے ناکام تو پھر آئے محمّدؐ
ہے ذات نصیرؔ اُس کی سزاوارِ ستائش
پورے جو کرے دل سے تقاضائے محمّدؐ
٭٭٭
ہے جب تک یہ تجاہل اپنے آقا کی ہدایت سے
رہائی غیر ممکن ہے ہماری دامِ ظلمت سے
عطا کر ہم کو یہ توفیق یارب اپنی رحمت سے
نگاہیں سرخرو ہوں سبز گنبد کی زیارت سے
چلن غارت گری کا عام دیکھا جب زمانے میں
کیا انسان کو آگاہ آئینِ شرافت سے
صلہ توصیف کا بخشا ہے کس انداز سے مجھ کو
شگفتہ ہو گیا قلبِ فسردہ اُن کی مدحت سے
ہمارے ہاتھ میں ہے فردِ عصیاں سامنے وہ ہیں
نظر کیسے اٹھائیں سر نہیں اٹھتا ندامت سے
در و دیوار ہیں نغمہ سرا کیا دَور آ پہنچا
اثر اِس کا ہمیں محروم کر دے گا سماعت سے
دعائے بخششِ امّت تھی لب پر آنکھ میں آنسو
مرے آقا کو کتنا پیار ہے اِس اپنی امّت سے
٭٭٭
فرض ہو جائے ہر انسان پہ مدحت کرنا
اِس قرینے سے بیاں آپ کی سیرت کرنا
یہ دیا درس شہہِ کون و مکاں نے ہم کو
جن کو ٹھکرائے جہاں اُن سے محبت کرنا
تم پہ لازم ہے کہ محتاط رہو ہر لمحہ
بزمِ عالم میں بڑا جرم ہے غیبت کرنا
جائزہ اپنے بھی کردار کا واعظ اک دن
جب ترا کام ہے اوروں کو نصیحت کرنا
کس قدر بھول گئے لوگ اعانت کا سبق
سخت دشوار ہے اب گھر کی حفاظت کرنا
کاش آ جائے نظر اپنے عمل کی خامی
یاد ہے صرف مقدّر کی شکایت کرنا
تھے نصیرؔ آپ کے اُس دور کے ساتھی کیسے
ہم نشینوں سے بیاں اُن کی حکایت کرنا
٭٭٭
پئے ظلمت مہِ تاباں محمّدؐ
ہیں سب سے مفتخر انساں محمّدؐ
تصدق کرّوفر اِس سادگی پر
شہنشاہوں کے اے سلطاں محمّدؐ
ہزاروں ظلم سہہ کر مسکرائے
پئے امّت ہوئے گریاں محمّدؐ
خدا سے ذکرِ امّت پر خدا نے
کہا بخشوں گا میں ہاں ہاں محمّدؐ
شرر افشاں ہے خورشیدِ قیامت
چھُپا لیجے تہہِ داماں محمّدؐ
جلالِ رب سے محشر میں بچائیں
محمّدؐ ہم پہ یہ احساں محمّدؐ
نصیرؔ اُن سے یہ میری التجا ہے
کریں مشکل مری آساں محمّدؐ
٭٭٭
تعظیم طلب بارگہِ مصطفویؐ ہے
پلکوں کا اٹھانا بھی یہاں بے ادبی ہے
منعم کی وہاں قدر یہاں شرط ہے تقویٰ
وہ دہر کا منشور یہ دستورِ نبی ہے
جنّت کے طلب گار ادھر دیکھ اِدھر آ
فردوس کا زینہ یہ مدینے کی گلی ہے
ہے اُن کے تصور میں عجب حال ہمارا
کچھ ہوش کا عالم ہے تو کچھ بے خبری ہے
ہے وہ بھی تو اک عظمت و رفعت کی گواہی
جو کاہکشاں نقشِ کفِ پا سے بنی ہے
آقا کی سخاوت کا کریں کس سے تقابل
کیا محفلِ عالم میں کوئی ایسا سخی ہے
وہ کیسے نصیرؔ اپنی نظر اُن سے ملائے
فہرستِ عمل جن کی گناہوں سے بھری ہے
٭٭٭
خدا شاہد یہ اُس انساں کی تربت ہے مدینے میں
کہ جس کے فیض سے بارانِ رحمت ہے مدینے میں
محبت ہی فقط اُس شہر کا دستور ہے یارو
خطائے ناروا اظہارِ نفرت ہے مدینے میں
نہ دیکھو اِن شہنشاہوں کے قصر و تاج کی جانب
یہ افسانے ہیں افسانے، حقیقت ہے مدینے میں
مُخِل آرام میں ہونا پڑا اُس کو بمجبوری
پشیماں کس قدر آکر قیامت ہے مدینے میں
فرشتوں کو دیا کرتی ہے اکثر لطفِ نظّارہ
یہ کس انساں کی بخشی زیب و زینت ہے مدینے میں
اُسی سے پوچھنا ہے سدِّ بابِ حسرت و ارماں
وہی جو عاملِ صبر و قناعت ہے مدینے میں
نصیرؔ اُس کو مُیسّر کب ہوئی پہنائے عالم میں
گدائے بے نوا کی جتنی وقعت ہے مدینے میں
٭٭٭
جھکائے شرم سے اپنی نظر میدانِ محشرمیں
نہ دیکھا جب کوئی اچھا عمل عصیاں کے دفتر میں
مدینے کی طلب ایسی تو ہو اِس قلبِ مضطر میں
کوئی موجِ رواں بیتاب ہو جیسے سمندر میں
نزولِ رحمتِ باری سے وہ پُر نور ہوتا ہے
رسولِ پاک کا جب ذکر ہوتا ہے کسی گھر میں
اُسی کے نام سے جاری ہے اِس محفل میں گل پاشی
بسا ہے جس کا سارا جسمِ اقدس مُشک و عنبر میں
ہوا معلوم مظلوموں کو حالِ غم سنانے پر
شکستہ دل بھی جڑ جاتے ہیں بزمِ آئینہ گر میں
جسے ابہام سے تعبیر کر کے خوش مخالف ہوں
نہیں ہے ایک بھی شِق ایسی آئینِ پیمبر میں
خدا توفیق بخشے نعت گوئی کی نصیرؔ ایسی
ہمارا نام بھی ہو درج فہرستِ ثناء گر میں
٭٭٭
ہر ایک سمت سے آئے نہ کیوں صدائے درود
زہے یہ جشن ولادت یہ ساعتِ مسعود
بتائے دہر کو آدابِ زندگی کیا ہیں
مٹاکے گلشنِ ہستی سے خاروخس کا وجود
یہ اُن کا ظرف کہ تھے مائلِ کرم سب پر
نہ آرزوئے ستائش نہ شوقِ نام و نمود
ملا شرف جو اُسے وہ کسے نصیب ہوا
وہ جس نگاہ سے گزرا ہے جلوۂ معبود
وہ ایک ذاتِ گرامی فقط حضورؐ کی ہے
ہر اک بشر کی بھلائی جسے رہی مقصود
بنے ہوئے تھے جو انساں کی جان کے دشمن
نبی نے توڑ دیئے آ کے وہ رسوم و قیود
نبی نے ہم کو بتایا کہ ہر عمل میں نصیرؔ
خلوصِ دل نہ ہو شامل تو ہر عمل بے سود
٭٭٭
بس ایک دعا شام و سحر مانگ رہا ہوں
طیبہ کے لئے اذنِ سفر مانگ رہا ہوں
جھک کر نہ اٹھے نقشِ کفِ پائے نبی سے
اے سجدۂ تعظیم وہ سر مانگ رہا ہوں
جمتی ہی نہیں گنبدِ خضریٰ پہ نگاہیں
جلووں کے لیے تابِ نظر مانگ رہا ہوں
طیبہ کے سفر کے لیے اُس عرش رسا سے
مخصوص اک اندازِ سفر مانگ رہا ہوں
تم مانگ رہے ہو طرب و عیش جہاں میں
میں نعت نویسی کا ہنر مانگ رہا ہوں
خود بیچ کے تلوار کی عظمت کو جہاں میں
اغیار سے اب تیر و تبر مانگ رہا ہوں
محرومِ بہاراں ہے نصیرؔ اپنا گلستاں
سوکھی ہوئی شاخوں میں ثمر مانگ رہا ہوں
٭٭٭
بھُلا کے شکر کی عادت سزا یہ پائی ہے
ہمارے ہاتھوں میں اب کا سۂ گدائی ہے
امیرِ دہر ہے اور گھر میں اک چٹائی ہے
یہ التزام بھی اُس ذات کی بڑائی ہے
بساطِ ارض پہ سرکار آپ کی آمد
گرفتِ جبر سے انسان کی رہائی ہے
نہ چھین گردشِ دوراں طلب مدینے کی
یہ آرزو تو مری عمر کی کمائی ہے
مری نگاہِ ندامت ہے اعترافِ خطا
مرا سکوت بھی اقرارِ بے وفائی ہے
تمام عمر گنے عیب دوسروں کے مگر
یہ جائزہ نہ لیا خود میں کیا بُرائی ہے
جو بزمِ نعت کی زینت بنی ہوئی ہے نصیرؔ
یہ روشنی تو اُسی روشنی سے آئی ہے
٭٭٭
دیدۂ بیدار کو بھی ایک مدّت چاہیے
اُن کے عرفاں کے لئے کتنی بصیرت چاہیے
اِس طرف بھی اک نظر اِس سمت بھی چشمِ کرم
میری کشتِ جاں کو بھی بارانِ رحمت چاہیے
اہلِ ایماں کی تمنّا کفر سے ہے مختلف
روشنی کو روشنی ظلمت کو ظلمت چاہیے
میں تمہارے ساتھ اے دنیا پرستو کیا رہوں
تم کو دولت کی ہوس مجھ کو قناعت چاہیے
کثرتِ عصیاں سے ہے شب رنگ اب ردِ عمل
اِس کو دھونے کے لئے اشکِ ندامت چاہیے
ذہنِ انساں آپ کی عظمت کو پا سکتا نہیں
کون کر سکتا ہے آقا جیسی مدحت چاہیے
زندگی سے اُن کی یہ ہوتا ہے ظاہر اے نصیرؔ
زندگی کو کس قدر سامانِ راحت چاہیے
٭٭٭
ملتی ہے جو زمیں کی روش آسمان سے
اُس پر چلے حضورؐ بڑی آن بان سے
کفار اِس کی ضرب سے بے تاب ہو گئے
نکلا جو تیر اہلِ وفا کی کمان سے
اترا جو بامِ عرش سے وہ مہر ضو فشاں
آنے لگی زمین نظر آسمان سے
یہ کس کے اعتبارِ کرم پر بروزِ حشر
بیٹھے ہوئے ہیں اہلِ خطا کتنی شان سے
اُس کو کسی کے پند و نصیحت سے کیا غرض
جس نے پڑھے ہیں آپ کے اقوال دھیان سے
فرقوں میں آ کے بانٹ دیا ایک قوم کو
نازل ہوئی یہ کیسی بلا آسمان سے
عشقِ نبی کا درس کوئی اُن سے لے نصیر ؔ
باندھے گئے جو لوگ دہکتی چٹان سے
٭٭٭
کس قدر مشکل انھیں کارِ جہاں بخشا گیا
رزم گاہوں کو پئے امن و اماں بخشا گیا
یہ نبی کی دعوتِ حق اور وہ باطل پرست
ہر قدم پر نت نیا آزارِ جاں بخشا گیا
اے عذابِ حشر تیری دسترس میں اب نہیں
عاصیوں کو وہ شفیعِ عاصیاں بخشا گیا
زندگی پر مرنے والے موت پر مرنے لگے
جب انھیں علمِ حیاتِ جاوداں بخشا گیا
یہ عدالت اپنا ثانی دہر میں رکھتی نہیں
ہر جفا طینت ہر اک ایذا رساں بخشا گیا
اُن کی عظمت کی گواہی کا جب آیا مرحلہ
سنگ ریزوں کو لبِ معجز بیاں بخشا گیا
اِس جہانِ زشت خو میں ہر بشر کو اے نصیرؔ
ایک اک لمحہ برائے امتحاں بخشا گیا
٭٭٭
جب تصور میں وہ ممدوحِ جہاں ہوتا ہے
بند آنکھوں میں چراغاں کا سماں ہوتا ہے
جبرِ باطل سے وہ مرعوب کہاں ہوتا ہے
ہر پرستارِ نبی سیف زباں ہوتا ہے
جس کے غمخوار وہ بن جائیں نظر میں اُس کی
کھیل ہر حادثۂ کون و مکاں ہوتا ہے
میں کروں عشقِ محمد کی وضاحت کیسے
آتشِ ہجر میں شعلہ نہ دھواں ہوتا ہے
کون یہ عارض و گیسو کے ثناء خواں سے کہے
یہ کہیں نعت کا اندازِ بیاں ہوتا ہے
یادِ سرکار کا آیا ہے قرینہ جب سے
چند لمحوں کا تغافل بھی گراں ہوتا ہے
اُن کے احکام سے غفلت کا نتیجہ ہے نصیرؔ
ہر قدم پر جو تباہی کا گماں ہوتا ہے
٭٭٭
صد شکر ہم کو ایسا پیمبر عطا ہوا
جو رسمِ کج روی سے نبرد آزما ہوا
ایسا جہاں میں اور کوئی رہنما ہوا؟
گزرا ہو خضر جس کے قدم چومتا ہو
یہ ضو طراز شام، سحر یہ جمالِ شب
ہے منظرِ بہشت مدینہ بنا ہوا
معراجِ مصطفےؐ نے بچایا عذاب سے
ہم عاصیوں پہ بند عذابِ خدا ہوا
ایسا تو صرف بابِ رسالت مآب ہے
جس در سے فیض یاب ہر اک بے نوا ہوا
انسان بھُلا کے اُن کے اصولِ حیات کو
خود آشنا ہوا نہ خدا آشنا ہوا
لوگوں پہ عیب و نقص ہوئے منکشف نصیرؔ
ظلمت کا آفتاب سے جب سامنا ہوا
٭٭٭
فخر ہے کائنات کو ایسی عظیم ذات پر
رنگِ جہاں بدل گئی جس کی نوائے کا رگر
شانِ حبیبِ کبریا مظہرِ عظمتِ بشر
دیکھ کے دنگ رہ گئے ماہ و نجوم عرش پر
آپ کی ذات ہی تو ہے وجہِ بنائے کائنات
آپ جمالِ شام ہیں آپ ہی جلوۂ سحر
کیوں نہ ہر ایک گھر میں ہو ذکر صفاتِ ذات کا
آپ ہیں صادق و امیں سب سے جہاں میں معتبر
رحم و کرم کی آس میں اور ذرا برس ابھی
فردِ گناہ کے لیے کم ہیں یہ اشک چشمِ تر
گردشِ ماہ و سال میں محوِ فروغ دیں رہے
آپ کا خُلقِ بے بہا آپ کی وسعت نظر
درسِ رسولِ پاک کو ہم نے بھُلا دیا نصیرؔ
کیوں نہ فغاں ہو رائیگاں کیوں نہ دعا ہو بے اثر
٭٭٭
خانۂ خیرالبشر پہچانیئے
لوٹ کر پھر اپنا گھر پہچانیئے
یہ پرستش جادۂ اغیار کی
آپ اپنی رہگزر پہچانیئے
کیا نظر آئے جمالِ مصطفیٰؐ
اپنا معیارِ نظر پہچانیئے
دی محمدؐ نے بصیرت اس لئے
کون ہے کیسا بشر پہچانیئے
اِس قدر آساں نہیں قربِ نبی
پہلے خود کو عمر بھر پہچانیئے
ذکرِ اقدس نے جنھیں بخشی جلأ
اپنی بستی کے وہ گھر پہچانیئے
بے قرارِ دید ہے جو اے نصیرؔ
وہ نگاہِ مفتخر پہچانیئے
٭٭٭
میں سمجھ گیا کہ یہ مجھ پہ کیوں کرمِ خدائے رسول ہے
یہ میری خطاؤں سے در گزر اثرِ دعائے رسول ہے
یہ دلیل رفعتِ ذات کی، یہ ثبوت اوجِ صفات کا
جسے لوگ کہتے ہیں کہکشاں وہ تو نقشِ پائے رسول ہے
ہے جہانِ رامشِ رنگ وبو سے گریز میری سرشت میں
اُسے کیا غرض کسی اور سے کہ جو آشنائے رسول ہے
وہ تجلّیوں کا نزول ہو کہ نشاطِ دل کا حصول ہو
شجر و حجر کا یہ وجد بھی کششِ ثنائے رسول ہے
کسی رات کاش ہو یہ کرم،کوئی خواب ایسا بھی چشمِ نم
مرے دل میں کب سے خلش فزا طلبِ لقائے رسول ہے
غمِ کائنات ہے بے اثر غمِ زندگی سے ہوں بے خبر
مرے اِس سکون وقرارِ جاں کا سبب ولائے رسول ہے
مجھے اے نصیرؔ اِسی لئے نہیں خوف تیّرِ حشر کا
مرے سر پہ سایہ فگن ابھی وسعتِ ردائے رسول ہے
٭٭٭
آؤ بیان سیرتِ خیرالبشر کریں
کچھ تو علاج وحشتِ قلب و نظر کریں
جس کی ضیاء سے کفر کی ظلمت لرز گئی
روشن اُسی کے ذکر سے دیوار و در کریں
اپنا بھی تجزیہ ہے بہرحال لازمی
جب ہم کسی کے عیب و ہنر پر نظر کریں
ناکامیِ دعا پہ تحیّر ہے کس لئے
دل میں خلوص ہو تو دعائیں اثر کریں
ہر سمت کبح روی کا چلن عام ہے حضورؐ
اب کیا کہیں قیام کریں کیا سفر کریں
دلدادۂ نظامِ نبی ہیں جو دہر میں
وہ کیوں تلاش اور کوئی راہبر کریں
ہے یہ روش حصولِ نوازش کی اے نصیرؔ
فردِ سیہ کو اشکِ ندامت سے تر کریں
٭٭٭
خواب میں آئے نظر اے کاش روئے مصطفیٰؐ
اے مرے ذوقِ طلب اے آرزوئے مصطفیٰؐ
کر گئی صیقل دلوں میں گفتگوئے مصطفیٰؐ
دہر میں یکتا ہے بزمِ رنگ و بوئے مصطفیٰؐ
اِس تفاوت کو غنیمِ جاں بھی کرتے تھے بیاں
کفر کا شیوہ جفا ہے ضبط خوئے مصطفیٰؐ
قابلِ صد آفریں ہے رنگِ ظرفِ درگزر
دیکھ شانِ مصطفیٰؐ کو اے محدوئے مصطفیٰؐ
دل کی ظلمت دور ہو جاتی ہے جس کو دیکھ کر
ہے اُسی روشن ڈگر کا نام کوئے مصطفیٰؐ
اپنے مشرب سے نہ ہوں گے مطمئن اغیار جب
دیکھنا از خود کریں گے جستجوئے مصطفیٰؐ
رشک کرتا ہوں میں اُس کی خوش نصیبی پر نصیرؔ
گھر سے اپنے جب کوئی جاتا ہے سوئے مصطفیٰؐ
٭٭٭
اﷲ کے محبوب ہو صادق ہو امیں ہو
جو بات کہیں آپ نہ کیوں اس پہ یقیں ہو
ادراک اُسے حکمِ محمّدؐ کا ہو کیسے
دنیا کا پرستار جو بیگانۂ دیں ہو
دوزخ کی تمازت سے بچا لیجئے آقا
یہ عرصۂ محشر ہے جو ہونا ہے یہیں ہو
مجھ پر ہے یہ احسان و کرم آپ کا پیہم
نظروں سے مری دور سہی دل سے قریں ہو
مجھ کو بھی تو ہے ارضِ مقدّس سے عقیدت
میری بھی تمنا ہے کہ تدفین یہیں ہو
آقا کو مرے مکر و تصنّع سے ہے نفرت
مرغوب انھیں کیوں نہ ہر اک خاک نشیں ہو
کس منھ سے نصیرؔ اُن کی عنایت کا ہے طالب
تجھ جیسا گنہ گار تو شاید ہی کہیں ہو
٭٭٭
اﷲ کا محبوب ہمارا بھی بہت ہے
امّت کی نگاہوں میں وہ پیارا بھی بہت ہے
بے وجہ کہاں اُن کو پکارا بھی بہت ہے
کھوٹا میری قسمت کا ستارا بھی بہت ہے
کیوں حُسنِ مجسّم نہ کہے اُن کو زمانہ
اِس ذات کو خالق نے سنوارا بھی بہت ہے
ثابت یہ کیا رنگِ تمدّن کو بدل کر
ظلمت کے لئے ایک ستارا بھی بہت ہے
کیوں نام نہ لیں اہلِ سفر آپ کا پیہم
کشتی سے ابھی دور کنارہ بھی بہت ہے
دنیا میں اٹھانے کے لیے بارِ الم کو
اک اُن کے تبسّم کا اشارا بھی بہت ہے
سرکارِ دو عالم کا کرم کیوں نہ ہو اِن پر
یہ ذاتِ جمیلؔ انجمن آرا بھی بہت ہے
نوٹ: جمیل عظیم آبادی جو اپنی زندگی میں ہر ماہ پابندی کے ساتھ طرحی نعتیہ مشاعرے کیا کرتے تھے۔
٭٭٭
دیکھا کہاں وہ فرق جو شاہ و گدا میں ہے
خوبی یہ صرف بارگہِ مصطفیٰؐ میں ہے
لب پر ہے اُس کا نام تجلّی فضا میں ہے
جو مہرِ ضو طراز صفِ انبیاء میں ہے
ہر رہروِ حیات کہے کیوں نہ مرحبا
جو وصف آپ میں ہے وہ کس رہنما میں ہے
اُن کے کرم کا شکر ادا کس طرح کروں
مجھ سا گناہ گار صفِ پارسا میں ہے
آگے بڑھے تو جادۂ حق ہے سکوں فزا
یہ راستہ محال فقط ابتدا میں ہے
تلقین ہے وہ اصل میں رزقِ حلال کی
جو امتزاجِ زہر ہماری غذا میں ہے
ہے یاد درسِ علم و عمل اب کسے نصیرؔ
حائل جُمودِ شوق رہِ ارتقاء میں ہے
٭٭٭
اب اعانت کی ضرورت ہے خبر لیجئے شہا
روشنی محصورِ ظلمت ہے خبر لیجئے شہا
جس کی خوشبو تھی کشش ساماں زمانے کے لئے
وہ چمن محرومِ نکہت ہے خبر لیجئے شہا
امتیازِ خیر و شر سے ہو گی قاصر نظر
کتنا فقدانِ بصیرت ہے خبر لیجئے شہا
بے کسوں کی اب کوئی فریاد سنتا ہی نہیں
کیا زوالِ آدمیت ہے خبر لیجئے شہا
کس بلندی سے ہوا پستی کی جانب اس کا رخ
یہ عجب اندازِ امّت ہے خبر لیجئے شہا
کشتِ ارماں ایک مدّت سے ہے مرجھائی ہوئی
حسرتِ بارانِ رحمت ہے خبر لیجئے شہا
یورش آفاتِ پیہم سے ہے سرگرداں نصیرؔ
وہ گرفتارِ صعوبت ہے خبر لیجئے شہا
٭٭٭
ہم پہ لطف و کرم کی ہو اب اک نظر، اے حبیبِ خدا اے شہہِ بحر و بر
ڈھا رہا ہے ستم کفر شام و سحر اے حبیبِ خدا اے شہہِ بحرو بر
ہو گئے ہیں گرفتارِ رنج و الم جب سے بچھڑے ہیں راہِ صداقت سے ہم
آپ جیسا ملے گا کہاں راہ بر، اے حبیبِ خدا اے شہہِ بحر و بر
نت نئے حادثے نت نئی مشکلیں دسترس میں کہاں اب رہیں منزلیں
سخت دشوار ہے زندگی کا سفر، اے حبیبِ خدا اے شہہِ بحر و بر
آپ کا دہر میں کوئی ثانی نہیں،مشکلوں سے کبھی ہار مانی نہیں
حادثوں نے جھکایا ہے قدموں پہ سر، اے حبیبِ خدا اے شہہِ بحر و بر
کر دیا ہے فراموش تلقین کو ، کس مصیبت میں ہیں بھول کر دین کو
ہوش میں اب کہاں امّتِ بے خبر اے حبیبِ خدا اے شہہِ بحر و بر
آپ کے وصف کیا ہم سے ہونگے بیاں جب کہ مدحت سراخود ہے ربِ جہاں
تابعِ حکم ہیں جب کہ شمس و قمر، اے حبیبِ خدا اے شہہِ بحر و بر
دید سے سبز گنبد کی محروم ہے اور اس کا سبب اُس کو معلوم ہے
ہے نصیرِؔ حزیں کی دعا بے اثر، اے حبیبِ خدا اے شہہِ بحر و بر
٭٭٭
اِس شرف کے صرف شایاں،تم نہیں تو اور کون!
عرش پر خالق کے مہماں تم نہیں تو اور کون؟
کس نے صحرائے عرب کو دی شمیمِ جاں فزا!
ریگ زاروں میں گل افشاں تم نہیں تو اور کون؟
ایسی تاثیرِ تکّلم، ایسا اندازِ بیاں
ناشرِ فرمانِ یزداں تم نہیں تو اور کون؟
یہ حقیقت بے کس و مظلوم سے پوچھے کوئی
وجہِ تسکینِ دل و جاں تم نہیں تو اور کون؟
کس نے ظلمت آشنا ماحول کو بخشی ضیاء
بانیِ توقیرِ انساں تم نہیں تو اور کون؟
اہلِ عالم کی ستائش تو رہی اپنی جگہ
جس کا رب ہے خود ثنا خواں تم نہیں تو اور کون؟
اک نگاہِ لطف کا ہے منتظر کب سے نصیرؔ
اُس کے زخمِ دل کا درماں تم نہیں تو اور کون!؟
٭٭٭
صفات کا ہے خدا ثنأ گر درود تم پر سلام تم پر
ہمارے آقا ہمارے رہبر،درود تم پر سلام تم پر
ہے ذکرِ اقدس سے گھر معطّر درود تم پر سلام تم پر
نہ غنچہ و گل نہ عود و عنبر، درود تم پر سلام تم پر
کرے نہ تعظیم کیسے منکر کرے نہ تکریم کیسے دنیا
خجل تھا بو جہل جیسا کافر درود تم پر سلام تم پر
وہ سنگِ طائف وہ جورِ پیہم کہ جس پہ تھے جبرئیل برہم
نثار ہم ایسے درگزر پر،درود تم پر سلام تم پر
یہ تابشِ چہرۂ مقدّس،کہ جیسے روشن ہو کوئی تارا
اِسے کہیں عکسِ ماہ و اختر،درود تم پر سلام تم پر
تمہاری عظمت کی یہ گواہی ،تمھاری رفعت کی یہ شہادت
ہوئے ہیں گویا یہ کہہ کے کنکر درود تم پر سلام تم پر
ہے اُس کا شیوہ تمھاری مدحت تمھارا چرچا ہے اس کی فطرت
نصیرؔ کا یہ عمل ہے اکثر،درود تم پر سلام تم پر
٭٭٭
ذرا بھی آج شرربار آفتاب نہیں
یہ وصفِ دامنِ آقا ترا جواب نہیں
ہیں ماورائے خرد معجزے محمّدؐ کے
کوئی طلسم نہیں ہے کوئی سراب نہیں
سکوں ملے گا کہیں بھی نہ اُن کے در کے سوا
کسی کے پاس مداوائے اضطراب نہیں
ہزار جبر و تشدّد کے وہ شکار رہے
مگر کسی سے انھیں شکوۂ عتاب نہیں
بتا دیے ہیں قرینے حیات کے سارے
جہاں کے پیشِ نظر اب کوئی کتاب نہیں
نہیں ہے پیشِ نظر جس کے اسوۂ حسنہ
رہِ حیات میں انساں وہ کامیاب نہیں
رہیں گی کیوں نہ رضائے رسول پر نظریں
نصیرؔ ہم تو ہیں بیدار، محوِ خواب نہیں
٭٭٭
حق شعاری، پاک بازی، عاجزی کام آ گئی
سرورِ کونین سے وابستگی کام آ گئی
فضلِ حق سے بخششِ امّت کا ساماں ہو گیا
اشکباری، بے قراری، بے کلی کام آ گئی
کس کا ہے ایسا مقدّر، کس کا ہے ایسا نصیب
اے حلیمہؓ دیکھ تیری سادگی کام آ گئی
میرا ایسا ننگِ امّت بھی کسی سے کم نہیں
روشنی تو روشنی تھی تیرگی کام آ گئی
چل پڑے تھے چند دیوانے مدینے کی طرف
بے خودی، رہبر بنی، وارفتگی کام آ گئی
منزِل حق سے زمانے میں کوئی واقف نہ تھا
وہ تو کہئے آپؐ کی پیغمبری کام آ گئی
آپؐ کا درسِ اخوت، آپؐ کا درسِ عمل
دشمنوں کے ساتھ اپنی دوستی کام آ گئی
٭٭٭
رہرو تو وہ ہوتا ہے لیکن گم کردۂ منزل ہوتا ہے
جوحکمِ رسو لِ اکرم کی تعمیل سے غافل ہوتا ہے
ہوتی ہے حضوری کی حسرت کہنے کے لیے ہر دل میں مگر
یہ اذن بقدرِ ظرفِ طلب انسان کو حاصل ہوتا ہے
اچھا ہو کہ اے واعظ تیرے کردار کا حصّہ بن جائے
جو سوز و گدازِ عشقِ نبی تقریر میں شامل ہوتا ہے
توصیفِ محمّدؐ آساں ہے، تقلیدِ محمّدؐ کھیل نہیں
دو چار قدم چلنے سے کہیں اندازۂ منزل ہوتا ہے
جب اُن کی معیّن راہوں سے ہوتا گریزاں ذوقِ سفر
انسان کا چلنا راہوں میں دو گام بھی مشکل ہوتا ہے
جو شرع کا عامل ہوتا ہے ایثار و تحمل کا حامل
اﷲ کا اُس پر لطف و کرم ہر حال میں شامل ہوتا ہے
ہو عشقِ نبی تو دنیا میں جینا ہے بہت آساں لوگو
ہر عیب نظر آ جاتا ہے بیدار اگر دل ہوتا ہے
٭٭٭
ہمارے پیشِ نظر جادۂ حقیقت ہے
حضورؐ آپ کی بخشی ہوئی یہ نعمت ہے
شعارِ بغض و عداوت سے جس کو نفرت ہے
مرا رسول محبت کی وہ علامت ہے
بچے ہوئے ہیں خطاکار ضربِ دوراں سے
یہ التفات بھی ہم پر بہت غنیمت ہے
وہ اک دیار فرشتے جہاں ہوں سر بسجود
اُسی اک دیار کو بس دیکھنے کی حسرت ہے
ہر ایک سمت ہے چرچا رسولِ اکرم کا
زبانِ خلق پہ جاری ثناء و مدحت ہے
بھلا دیا ہے سبق ہم نے خُلق و الفت کا
نفس نفس میں نہاں بغض ہے عداوت ہے
بصد ادب جسے تلقینِ مصطفیٰؐ کہئے
نصیرؔ میری نظر میں وہی عبادت ہے
٭٭٭
ذہنِ تیرہ نے بسا رکھا تھا دل میں سومنات
جگمگا اٹھّا نبی کی ضَو سے یہ قصرِ حیات
کرم پیہم کو مٹا دیتی ہے جس کی اک نظر
ایسے چارہ گر کے ہاتھوں میں تھی نبضِ کائنات
لب کشائی اُس کے اس قدر آساں نہیں
سینکڑوں الفاظ پر بھاری ہو جس کی ایک بات
خوش نصیبوں کو ملا کرتا ہے ایسا پیشوا
خضر بھی جس کو بتائے رہبرِ راہِ نجات
ہے یہ اقرارِ موذّنِ ہے یہ مفہومِ اذاں
اُن کی مدحت کے لئے کافی نہیں ہے ایک رات
قابلِ تقلید بن جائے زمانے کے لیے
مرتسم ہے سنیۂ تاریخ میں جو التفات
میری کشتی کا وہی تو ناخدا ہے اے نصیرؔ
نام سے جس کے لرز جاتا ہے سیلِ حادِثات
٭٭٭
وہ عشقِ محمّدؐ کی علامت یہ نشاں ہے
دل محوِ تکلّم ہے مرا گنگ زباں ہے
امکان رسائی کا سرِ دست کہاں ہے
اِس پاؤں میں افلاس کی زنجیرِ گراں ہے
تلقینِ تحّمل ہے مرے غم کا مُداوا
جو رخ سے نمایاں ہے نہ آنکھوں سے عیاں ہے
یہ لطف و عنایت یہ نوازش مرے آقا
طوفاں ہی سفینے کا مرے اب نگراں ہے
اس کو شہہِ بطحا سے محبت نہیں کہتے
یہ آگ ابھی آگ نہیں صرف دھواں ہے
احساسِ خطا جب سے ہوا ہے مرے دل کو
یہ آنکھ مری آنکھ نہیں جوئے رواں ہے
کیا حال نصیرؔ اپنا سنائے تمھیں آقا
فریاد ہی آغاز ہے انجام فغاں ہے
٭٭٭
مدینے کے تَصُّور سے وہ جب معمور ہوتا ہے
مجھے دل پر گمانِ جلوہ گاہِ طور ہوتا ہے
سراپا آپ کے لطف و کرم سے دور ہوتا ہے
کسی کے غم سے جس انساں کا دل مسرور ہوتا ہے
بھڑک کر جب چراغِ خود سری بے نور ہوتا ہے
انھیں آواز دینے پر بشر مجبور ہوتا ہے
ہمارے اذن میں شامل ہے یہ اقرار بھی ورنہ
وہاں جا کر پھر آ جانا کسے منظور ہوتا ہے
یہی اسمِ گرامی اے مسیحا کام آئے گا
اِسی سے مندمل ہر زخم ہر ناسور ہوتا ہے
بصد حیرت کہا کرتے تھے اعدا رزم گاہوں میں
تلطّف بھی نگاہ قہر میں مستور ہوتا ہے
نصیرِؔ بے نوا پر یہ عنایت یہ کرم اُن کا
حوادث لاکھ چاہیں وہ کہاں محصور ہوتا ہے
٭٭٭
دنیا میں کوئی اُن کی وفا تک نہیں پہنچا
انسان کوئی اور خدا تک نہیں پہنچا
بے چین ہوں دیدارِ مدینہ کی طلب سے
اب تک تو اثر میری دعا تک نہیں پہنچا
ہے یاد جنھیں خُلقِ محمّد کا وطیرہ
وہ ہاتھ کبھی سنگِ جفا تک نہیں پہنچا
پہنچاؤ اُسے خاکِ کفِ پائے محمّد
مرہم کوئی جس آبلہ پا تک نہیں پہنچا
کیسے دُرِ مقصود نظر آئے پھر اِس میں
دامن مرا اُس دستِ عطا تک نہیں پہنچا
آثار بتاتے ہیں مری دربدری کے
پیغام مرا بادِ صبا تک نہیں پہنچا
واقف ہوں جو خامی ہے نصیرؔ اپنی روش میں
اب تک جو رہِ صبر و رضا تک نہیں پہنچا
٭٭٭
اتنی عظیم ذات یہاں کب کسی کی ہے
جو بزمِ کائنات میں عظمت نبی کی ہے
ظلمت کدے کو جس نے ضیاء پاش کر دیا
تنویر میرے دل میں اُسی روشنی کی ہے
انساں سے پیار، لطف و کرم، شفقت و عطا
وہ ذاتِ بے مثال جہاں میں اُسی کی ہے
رہرو کو ٹھوکروں سے بچاتی ہے راہ میں
یہ کتنی تابناک روش سادگی کی ہے
اے کاش لے کے جائے یہی دید کے لیے
اِس دل میں موجزن جو طلب اُس گلی کی ہے
یہ چاند آسماں پہ ولادت کا چاند ہے
کیوں خوش نہ ہو نصیرؔ یہ ساعت خوشی کی ہے
٭٭٭
تمام شہر کا نقشہ عجب نظر آیا
پلٹ کے جب کوئی روضے سے اپنے گھر آیا
بھٹک رہے تھے اندھیرے میں لوگ مدّت سے
جہاں کو راہ بتانے وہ راہ بر آیا
بدل گیا تھا اصولِ حیات کا نقشہ
سمجھ میں دہر کے جب فرقِ خیر و شر آیا
تھا میرے حال پر کس کا کرم خدا جانے
ہزار سخت مراحل سے میں گزر آیا
اُسی سے منزلِ مقصود کا پتہ پوچھا
ہمارے کام کوئی جب نہ راہ بر آیا
بھڑک رہی تھی جو اک عمر سے زمانے میں
دلوں کی آگ بجھانے کو اک بشر آیا
خدا نے جس پہ درود و سلام بھیجا ہو
نصیرؔ ایسا کوئی اور کب نظر آیا
٭٭٭
ہے یہ ضامن بہارِ زندگی کی
اطاعت کیجئے اپنے نبی کی
ہر اک بد خواہ کو حیرت تھی اِس پر
نہیں کرتے برائی وہ کسی کی
پہن کر قیمتی پوشاک واعظ
سناتا ہے حکایت سادگی کی
اندھیرے کے پجاری بن گئے جو
کریں کیا بات ان سے روشنی کی
جو ہے بیگانۂ حُبِّ محمّدؐ
کوئی وقعت نہیں اُس آدمی کی
رہے گی تا ابد بزمِ جہاں میں
یہ ضَو پاشی سراجِ آخری کی
پہنچ جاتا نصیرِ نارسا بھی
طلب صادق نہ تھی منزل رسی کی
٭٭٭
بن گئے دشت بھی حسیں گلزار
جس طرف بھی گئے مرے سرکار
جو چلے آپ کی ہدایت پر
کیوں نہ ہو جائے اُس کا بیڑا پار
کھو گیا جذبۂ جہاد کہاں
اک قیامت ہے کفر کی للکار
مٹ گئی رسم ربطِ باہم کی
کوئی غمخوار ہے نہ کوئی یار
ہم شکارِ غم و حوادِث ہیں
عافیت کے نہیں کہیں آثار
ہم کو مل جائے عظمتِ رفتہ
اک عنایت ہے آپ کی درکار
چل کے اغیار کی روش پہ نصیرؔ
زندگی کتنی ہو گئی دشوار
٭٭٭
مقصدِ تخلیق انساں کو بتانے کے لئے
بن کے رحمت آپ آئے ہر زمانے کے لئے
یہ بتایا حشر میں ہر اک کا ہو گا احتساب
اور پھر ظالم کو رو کا ظلم ڈھانے کے لئے
امّتِ عاصی کو رحمت کی نظر درکار ہے
کفر کے ہر وار سے اُس کو بچانے کے لئے
رات دن مصروف رہتے ہیں فقط اِس شغل میں
ہم ہوس پیشہ فقط گھر کو سجانے کے لئے
صبر کی خوبی بتائی اور اُس کا اجر بھی
زندگی میں بارِ غم ہنس کر اٹھانے کے لئے
کیا ستم ہے اب کوئی تیاّر ہوتا ہی نہیں
خواہشوں کے جال سے خود کو چھڑانے کے لئے
لے کے گلہائے عقیدت ہم بھی آئے ہیں نصیرؔ
نعت کے اشعار محفل میں سنانے کے لئے
٭٭٭
غم کے نرغے سے جو تم کو نہ پکارا ہوتا
پھر تو سرکار بُرا حشر ہمارا ہوتا
کیوں نہ وہ امّتِ عاصی کی مدد کو آتے
کیسے یہ رحمتِ عالم کو گورا ہوتا
کس بشر نے یہ فضائل یہ شمائل پائے
تذکرہ کیوں نہ دو عالم میں تمھارا ہوتا
زندگانی کے مسائل میں الجھنے والو
کم سے کم طاق سے قرآن اتارا ہوتا
صرف وہ ذاتِ گرامی ہے سزاوار اس کی
اور کس کے لئے دل انجمن آراء ہوتا
اتنے زرّیں جو نہ ہوتے یہ اصولِ ہستی
بے سہاروں کا نہ دنیا میں سہارا ہوتا
قابلِ رشک بناتا ہے جو انساں کو نصیرؔ
ذکرِ سرکار میں اک دن وہ گزارا ہوتا
٭٭٭
دنیا نکھر گئی ہے انوارِ مصطفیٰؐ سے
پائی جِلاء دلوں نے گفتارِ مصطفیٰؐ سے
کیسے نصیب ہو گا اُس کو سکوں جہاں میں
جس کی روش الگ ہے اطوارِ مصطفیٰؐ سے
معمور کر دیا ہے دل کو ضیاء سے اُن کی
بادِ صبا نے آ کر گلزارِ مصطفیٰؐ سے
اس خواب کے تصدّق ہو کیوں نہ چشمِ حسرت
دل کتنا جگمگایا دیدارِ مصطفیٰؐ سے
اس شان کی عدالت دیکھی کہاں جہاں میں
انصاف جو ملا ہے دربارِ مصطفیٰؐ سے
ہے تیز دھوپ کتنی یہ زندگی سے پوچھو
سائے کی ہے تمنا دیوارِ مصطفیٰؐ سے
باطل نصیرؔ نکلا یہ دعویِ محبت
ہم مختلف ہیں کتنے کردارِ مصطفیٰؐ سے
٭٭٭
نور پھیلے گا مٹ جائیں گی ظلمتیں راستہ اپنا انسان پا جائے گا
مشکلیں سب کی آسان ہو جائیں گی نام اُن کا زباں پر جب آ جائے گا
سرورِدیں کو آواز دینے تو دو اُن سے رو رو کے فریاد کرنے تو دو
غرق کرتا ہے طوفاںسفینے کو جو میری کشتی کنارے لگا جائے گا
ساکنانِ حرم تو بڑی چیز ہیں ہم سے الجھے کوئی بحث کر لے کوئی
اُن کے دیوانے خود اتنے ہشیار ہیں جو مخالف ہے وہ منہ کی کھا جائے گا
آج یومِ ولادت ہے سرکار کا،کر رہا ہے چراغاں ہر اک امتّی
یہ زمیں تو زمیں ہے مرے دوستو دیکھنا عرش بھی جگمگا جائے گا
اب وہ انساں نہیں اب وہ عالم نہیں ہم تو نادارو مجبور ہیں یا نبی
کون دے گا توجہ ہماری طرف حال کس سے ہمارا سناجائے گا
رہنماؤں کا چرچا ہو لب پر جہاں ہو رہی ہو ہر اک کی فضیلت بیاں
جس نے چھیڑا نبی پاک کے ذکر کو ہے یقیں ساری محفل پہ چھا جائے گا
مجمعِ عام میں حشر کی بھیڑ میں نفسی نفسی پکاریں گے جب امتی
یہ نصیرِؔ خطا کار بھی آپؐ کو ڈھونڈتا جائے گا پوچھتا جائے گا
٭٭٭
پیغامِ صدق لے کے سفینے سے آئے ہیں
جو خوش نصیب آج مدینے سے آئے ہیں
نکھری ہے شکل گنبدِ خضریٰ کی دید سے
لے کر یہ آب و تاب نگینے سے آئے ہیں
بڑھتے ہیں اور صَرف کیا ہم نے جس قدر
لعل و گہر یہ کس کے خزینے سے آئے ہیں
پوری ہر اک مراد ہوئی اپنی مرحبا
پیشِ حضورؐ کتنے قرینے سے آئے ہیں
اب شکوۂ نصیب نہ افلاس کا گلہ
آدابِ صبر اشک کے پینے سے آئے ہیں
دنیا میں آ کے بھول گئے فرضِ بندگی
ہم کتنے سال کتنے مہینے سے آئے ہیں
الہام بن کے ذہن پہ نازل ہوئے نصیرؔ
اشعارِ نعت عرش کے زینے سے آئے ہیں
٭٭٭
آساں نہ تھا علاج غم و اضطراب کا
ہم پر بڑا کرم ہے رسالت مآبؐ کا
حل کر گیا تمام مسائل حیات کے
جس پر ہوا نزول خدا کی کتاب کا
دل سے تمام غم کے اندھیرے نکل گئے
فیضان ہے یہ صرف اُسی آفتاب کا
آگاہ کر گیا حق و باطل کے فرق سے
دنیا میں کیا جواب ہے اس انقلاب کا
تردید کر سکا نہ کسی بات کی کوئی
انداز منفرد تھا نبیؐ کے خطاب کا
فردِ عمل کے رنگ سے ظاہر ہوا یہی
وہ عرصۂ حیات بھی عالم تھا خواب کا
دل میں ہے خوفِ مرگ نہ کچھ فکرِ آخرت
یہ دور تو نصیرؔ ہے چنگ و رباب کا
٭٭٭
اہلِ عالم ثنا خواں ہیں سرکار کے
حسنِ کردار کے اور اطوار کے
مرحبا مرحبا، آفریں آفریں
بھر دیے رنگ صحرا میں گلزار کے
ربطِ باہم کا آغاز ان سے کرو
جو قرینے بتائے ہیں گفتار کے
عاصیوں پر عنایت کا یہ سلسلہ
مستحق ہم نہ تھے اس قدر پیار کے
جو ہر اک غم زدہ کا مدد گار ہو
کیوں نہ گن گائیں ہم ایسے غم خوار کے
خاک پائے نبیؐ کا اثر دیکھئے
ہو گئے مندمل زخم آزار کے
کام آئیں گے وہ حشر میں دیکھنا
اے نصیرِؔ حزیں مجھ گنہگار کے
٭٭٭
تشکر: سید انور جاوید ہاشمی جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی
ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید