FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

حضرت زیدؓ

 

خواجہ محمد عبداللہ اختر۔ بی اے امرتسری

1329 ھ۔ 1911 ء
 

حضرت زید بن حارثہؓ

 

فی زمانہ اسلام کا مقابلہ بدھ مذہب سے وسط ایشیا میں ہندو مذہب سے ہندوستان میں اور عیسائیت سے کُل دنیا میں ہو رہا ہے۔ تیرہ سو برس سے مسلمانوں کی تعداد روز افزوں ترقی کر رہی ہے۔ اور دیگر مذاہب کے مقلدین نسبتاً کم ہوتے جا تے ہیں۔ نتیجہ بہت صاف ہے کہ "اسلام” ہر ایک جگہ غالب آ رہا ہے۔ ہم ان اسباب پر غور کرتے ہیں جو دیگر مذاہب پر "اسلام” کے غلبہ کا باعث ہیں۔
1۔ بانیان مذاہب کا باہمی مقابلہ
2۔ مقدس کتب کا باہمی مقابلہ
3۔ مقدس کتب اور ان کی تعلیم اور اثر
بانیان مذاہب میں سے ہم منوؔ اور بدھؔ اور عیسیٰؑ کا مقابلہ محمدؐ سے کرتے ہیں۔ ڈاکٹر "آر-بھت-نوٹ” اپنی کتاب "اربک اوتھرز” میں بدھ اور مسیحؑ اور محمدؐ کا باہمی مقابلہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اول الذکر دو مشاہیر عالم کے حالات زندگی تاریکی میں ہیں۔ لیکن آنحضرت صلعم کے حالات پیدائش سے وفات تک مفصل معلوم ہیں اور ایسے مفصل اور مکمل معلوم ہیں کہ اٹھتے بیٹھتے سوتے جاگتے غرض کوئی حرکت جو آپ سے صادر ہوئی اور کوئی بات جو آپ کے مُونھ سے نکلی، ہم سے پوشیدہ نہیں۔ یہ بالکل سچ ہے کہ دنیا میں کسی اور شخص کی ایسی سوانح عمری ایسی مفصل اور مکمل نہ کبھی قلمبند ہوئی اور نہ موجود ہے۔
"ساکی منی گوتم بدھ” اور منو کی ہستی کا تو بعض محققین نے سرے سے انکار ہی کر دیا ہے۔ اور لکھا ہے کہ بدھ اور منو دنیا میں خاص اشخاص کے نام نہ تھے۔ کوہ ہمالیہ کے دامن میں نہ کبھی کوئی سلطنت "کپل وستو” نامی تھی اور نہ اس کے آثار کہیں ملتے ہیں۔ بات اصل میں یہ ہے کہ بدھ مذہب کی بنیاد” کپل کے سانکھ شاستر” پر قائم ہے۔ اور بدھ کی پیدائش کا راز اسی شاستر میں کھلتا ہے۔ یعنی اس کے مطالعہ سے بدھ یعنی نور علم و عقل پیدا ہوتا ہے۔ یہ وہ کتاب ہے جو دنیا سے کنارہ کش رنشیوں نے کوہ ہمالیہ کے دامن میں لکھی۔ جو گوشہ نشین تپسیوں کا گھر ہے۔ اگر اسے پر امن روحانی سلطنت سے تعبیر کیا جائے تو بہت موزوں ہو گا۔ ایک روایت مشہور ہے کہ دنیا میں ایک نہیں سیکڑوں بدھ گزرے ہیں۔ اگرچہ کسی ایک کے بھی حالات زندگی معلوم نہیں مگر نتیجہ یہی ہے کہ موجودہ بدھ مذہب کا بانی ایک خاص واحد شخص نہ تھا۔ مختلف زمانوں میں مختلف اشخاص کی متفقہ اصلاحی تعلیم کا نام بدھ مذہب ہے۔ مختلف مقامات میں بدھ کی ہستی کے آثار ملتے ہیں۔ یہ بُدھ مذہب کے مندر ہیں۔ جہاں "گوتم بدھ” کے بُت مختلف خط و خال میں موجود ہیں۔
بُدھ کے دانتوں کی پرستش ہوتی ہے۔ کہیں کہیں اب بھی انسانی پنجر دستیاب ہوئے ہیں۔ جن کی نسبت یہ رائے خوش اعتقادوں نے قائم کی ہے کہ بُدھ کے استخوان ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ اگر ان تمام آثاروں کو ایک جگہ جمع کیا جائے تو کیا صورت پیدا ہو گی ؟بہرحال اس شہادت کا نتیجہ اگر اسے صحیح تسلیم کیا جائے، زیادہ سے زیادہ یہی ہو سکتا ہے کہ دنیا میں بدھ ایک شخص گزرا ہے اور اس لئے ہم فرض کر لیتے ہیں کہ بدھ ایک شخص تھا اور یہ بھی بغیر کسی شہادت کے فرض کر لیتے ہیں کہ یہ شخص موجودہ بدھ مذہب کا بانی تھا۔ مگر اس سے کچھ مفید مطلب نتیجہ اخذ نہیں ہو سکتا۔ سوال بدھ کے حالات زندگی کے متعلق ہے جو بالکل تاریکی میں ہیں۔
بُدھ کے متعلق صرف یہی روایتیں مشہور ہیں کہ وہ ایک راجہ کا بیٹا تھا۔ جس کی سلطنت ہمالیہ کے دامن میں واقع تھی۔ اس نے دیکھا کہ جوانی کے ساتھ بڑھاپا تندرستی کے ساتھ بیماری اور زندگی کے ساتھ موت لگی ہوئی ہے۔ دنیا میں غم اور شادی قوام ہیں۔ اس لئے ترک دنیا کر کے راج پاٹ بیوی بچے چھوڑ کر اول برہمنوں کا چیلہ بنا اور آخرکار ان کی تعلیم کا یہ اثر ہوا کہ ان کی بیخ کنی کے در پے ہوا۔
کس نیا موخت علم تیراز من کہ مرا عاقبت نشانہ نہ کرو
یہی کچھ مفصل حالات بدھ کی نسبت معلوم ہیں۔
منوؔ کے متعلق تو اتنا بھی معلوم نہیں۔ ایک محقق نے لکھا ہے کہ منوؔ فی الحقیقت وہی لفظ ہے جو انگریزی میں "مین” (آدمی) اور فارسی میں "من ” (جس سے شخصیت ظاہر ہوتی ہے) اور ہندی میں "مان” یا "مانوں” اور "منکھ” یا "منش” ہے۔ ان سب زبانوں کی اصل سنسکرت ہے۔ اس لئے یہ سب الفاظ ایک ہی لفظ سے مشتق ہیں۔ جس کے معنے "آدمی” ہیں۔ "منو کے دھرم شاستر” کے یہ معنی ہیں کہ ایسا ضابطہ آئین و قوانین جو آدمی کا دستور العمل ہے۔ یہ قیاس کہ یہ ضابطہ کبھی ایک شخص "منو” نامی کی تصنیف یا تالیف ہے، غلط ہے۔ اور اس سے انکار نہیں ہو سکتا کہ یہ قیاس واقعات پر مبنی نہیں۔
حضرت عیسیٰ ؑ کی ہستی سے انکار نہیں ہو سکتا اور نہ کسی نہ آج تک اس پر شبہ کیا ہے لیکن اس سے انکار نہیں ہو سکتا کہ آپ 33 برس کی عمر میں اس دار فانی سے رحلت فرما گئے۔ اب آسمان پر زندہ ہوں یا زیر زمین دفن ہوں۔ بہرحال ان کی زندگی 1900 برس سے اس دنیا کی زندگی نہیں اور نہ ہمیں کچھ اس سے بحث ہے۔
سوال یہ ہے کہ 33 برس کس طرح بسر کئے اعجازی پیدائش سے 30 سال تک تو آپ بالکل مفقود الخبر رہے۔ اور کسی نیک دل عیسائی کو علم نہیں کہ اس قدر عرصہ دراز آپ کہاں رہے اور کیا کرتے رہے۔ عین عالم شباب یعنی تیس سال کی عمر میں آپ میریروں کے کنارہ پر کھڑے نظر آتے ہیں اور حضرت یحیٰ سے اصطباغ کی استدعا کرتے ہیں۔ اس کے بعد تین سال کے حالات بالاختصار "متی”۔ "لوقا”۔ اور "مرقس یوحنا” نے قلمبند کئے ہیں۔ یعنی ایک ہی واقعہ کو مختلف الفاظ میں بار بار بیان کیا گیا ہے اور اس پر طرہ یہ ہے کہ واقعات اگرچہ بہت سادہ ہیں مگر چاروں سوانح نگار "وقت”، "مقام” اور کیفیت میں ایسا اختلاف کرتے ہیں جو واقعات کو شک و شبہہ میں ڈالتے ہیں اور کم از کم یہ یقین ہوتا ہے کہ مقدس سوانح نگار چشم دید شہادت قلمبند نہیں کرتے بلکہ سنی سنائی روایتیں اور حکایتیں نقل کرتے ہیں۔ مقدس سوانح نگار مسیحؑ کے معجزات کو بار بار بیان کرتے ہوئے نہیں تھکتے۔ مگر افسوس ہے کہ یہ معجزات ایک خاص وقت اور مقام کے لئے تھے اور اب ان کا عدم اور وجود یکساں ہے۔ وہ حالات جن کا علم آئندہ نسلوں کے لئے معجزات سے بہت زیادہ مفید تھا ، کہیں کہیں اشارتاً بیان کئے گئے ہیں۔ لیکن اس سوال کا جواب کہ "اس کو یہ حکمت اور معجزے کہاں سے مل گئے؟ کیا یہ بڑھئی کا بیٹا نہیں ؟ (متی باب 13۔ آیت 55) کسی مقدس سوانح نگار نے بھی نہیں دیا۔ اگر کوئی حواری آپ کے تیس سالہ حالات لکھتا تو اس سوال کا جواب ہوتا۔
ایسے اشخاص کو جو عنقا کی طرح حرف معلوم الاسم ہیں اور جن کے حالات کا کسی شخص کو علم نہیں "محمد ؐ مصطفیٰ” سے مقابلہ کس طرح ہو سکتا ہے۔ نہایت تعجب کی بات ہے کہ "بدھ”۔ "ہندو” اور "عیسائی” اپنے اپنے آبائی مذہب کو خدائی رتبہ دیتے ہیں اور "دیوتا”۔ "اوتار” اور "خدا کا بیٹا”اور خدا سمجھتے ہیں۔ ان کی مذہب کی بنیاد انھی دیوتاؤں اور اوتاروں کی ہستی پر قائم ہے۔ اگر اس لئے ہندوؤں کا یہ عقیدہ ہے کہ یہ اوتار مختلف "جون” بدل بدل کر آتے ہیں تو عیسائیوں کا ایمان ہے کہ "مسیحؑ” اب تک زندہ ہیں۔ مگر افسوس ہے کہ کسی ایک کے حالات مفصل تو کیا مختصر بھی معلوم نہیں۔ اس کے برخلاف "اسلام” آنحضرت صلعم کی ہستی پر قائم نہیں جیسا کہ قرآن شریف کی متعدد آیات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگر محمدؐ وفات پا جائے تو اسلام کو کچھ ضرر نہیں پہنچ سکتا اور خود آنحضرت صلعم کا دعویٰ اس سے زیادہ کچھ نہیں کہ وہ پیغمبر ہیں۔ اور تبلیغ کا معاوضہ کسی سے کچھ طلب نہیں کرتے۔ یعنی اپنی پرستش کروانا نہیں چاہتے۔ اس صورت میں اگر آنحضرت صلعم کے حالات ہمیں مفصل معلوم نہ ہوتے تو کچھ قباحت نہ تھی۔ لیکن بدھ اور ہندو مذہب اور عیسائیت ان کے مقلدین کے عقائد کے مطابق مردہ مذاہب ہیں۔ اگر ان کے دیوتا اور اوتار مردہ ہوں اس سے کسی طرح انکار نہیں ہو سکتا کہ اسلام کے سوائے کُل مذاہب بانیان مذاہب کے وجود سے وابستہ ہیں۔ اسلام مذہب کا نام ہے۔ لیکن بدھ مذہب کیا ہے ؟
اس کے نام سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ مذہب جس کا تعلق "بُدھ” سے ہے۔ ہندو مذہب میں ملکی خصوصیت ہے۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ یہ مذہب تمام ملک ہندوستان کی رسم و رواج کا مجموعہ ہے۔ اور اس لئے ایسا مذہب ہے جس کا تعلق صرف ہندوؤں سے ہے۔ عربی مذہب، شامی مذہب، مصری مذہب، یونانی مذہب، ایرانی مذہب، اور اسی قسم کے ناموں سے کیا مفہوم ہوتا ہے۔ یعنی بمعنی "ہندو مذہب” کے ہیں۔ بدھ مذہب کی طرح عیسائیت بھی ایک شخص کی ذات پر قائم ہے۔ عیسائیت ہمارے مدعا کو واضح طور پر بیان کرتی ہے۔ عیسائیوں کے عقائد کے مطابق یسوع مسیحؑ پر ایمان لانا نجات کے لئے کافی ہے۔ اس لئے یسوع مسیح کو حی القیوم سمجھتے ہیں۔ کیونکہ اس کے بغیر یہ مذہب زندہ نہیں رہ سکتا۔ حیرت ہے کہ مدار نجات ایک انسانی وجود پر ہو اور اس کے متعلق کچھ معلوم نہ ہو۔ اگر ہمیں ان کے حالات کا علم ہوتا تو سوچ سمجھ کر ان کی نسبت صحیح رائے قائم کرتے ہوئے ہندوؤں اور عیسائیوں اور دیگر مذاہب کے مقلدین کے اوتاروں اور دیوتاؤں کے متعلق یہ فیصلہ کر سکتے کہ ان کی حیثیت معمولی انسانوں سے کس طرح بڑھی ہوئی ہے اور موجودہ زمانہ میں انھیں جس عزت کا مستحق سمجھا جاتا ہے کس حد تک درست ہے اور کم از کم اتنا تو معلوم ہوتا کہ ان کے ہمعصر اور ہم وطن انھیں کیا سمجھتے تھے۔
مسٹر "کار لائل” نے اپنی کتاب "ہیروز” میں بالکل صحیح لکھا ہے کہ ” ابتدائے آفرینش سے محمدؐ کی پیدائش تک دنیا کا فہم حد بلوغ کو نہ پہنچا تھا اور اس لئے ہیروز کو دیوتا۔ اوتار اور خدا سمجھتے تھے۔ لیکن جب آنحضرت صلعم مبعوث ہوئے تو دنیا کے حالات اور خیالات کی کایا پلٹ گئی۔ وہ زمانہ گزر گیا کہ انسانوں کو خدا سمجھتے تھے۔ اور اب وہ زمانہ کبھی واپس نہیں آ سکتا۔ ہم نہایت معقولیت سے سوال کر سکتے ہیں کہ کیا کبھی لوگوں نے ایک انسان کو جسے وہ اپنی آنکھوں کے سامنے کھڑا دیکھتے ہیں "خدا” یعنی اس کائنات کا خالق سمجھا تھا۔ بہرحال آنحضرت صلعم کی بعثت کے بعد کوئی انسان کبھی خدائی کا دعویٰ نہیں کر سکتا اور نہ کوئی اس دعوے کو تسلیم کرے گا”
ان دیوتاؤں اوتاروں اور خداؤں کی نسبت جو کچھ واقعات بیان کئے جاتے رہے ہیں اس لئے غلط ہیں کہ ناممکن ہیں۔ اور ان میں ذرا بھی معقولیت نہیں۔ خوش اعتقادی نے یہ روایتیں اختراع کی اور یہی ہندوؤں اور عیسائیوں کا مذہب بن گئیں۔ صرف یسوع مسیحؑ ہی خدا کے بیٹے نہیں۔ مصری، یونانی، چینی اور ہندوؤں کی "مائی تھولوجی” کا مطالعہ کر لو تو واضح ہو جائے گا کہ تمام دیوتاؤں اور اوتاروں کا نسب خدا تعالیٰ پر منتہا ہو ہے۔ بات اصل میں یہ ہے کہ ان کی پیدائش "ڈارک ایجز” یعنی ان زمانوں میں ہوئی جب مطلع دنیا پر تاریکی چھائی ہوئی تھی۔ بقول مسٹر کارلائل آنحضرت صلعم کی بعثت کے ساتھ دنیا کی کایا پلٹ گئی اور روشنی کا زمانہ شروع ہوا۔ سچ تو یہ ہے کہ بعثت سے پیشتر دنیا کے دماغ میں اللہ تعالیٰ کی ہستی کا صحیح صحیح خیال پیدا ہی نہ ہوا تھا۔ تو حید جیسا کہ اب اسلام کے ذریعے ہر ایک شخص سمجھ رہا ہے ہندوستان میں ساکی منی گوتم بدھ کو بھی اس کا علم نہ تھا۔
مسٹر کارلائل نے یہ بھی لکھا ہے کہ آنحضرت صلعم کی نسبت جس قدر بے سروپا الزام لگائے گئے ہیں وہ صرف عیسائی تعصب کی اختراع ہیں۔ ایک عربی شاعر نے کیا اچھا جواب اپنے حریف کی ہجو کا دیا ہے کہ "تو ہمارے حسب و نسب سے واقف ہے اس لئے تو اس کے عیوب بیان کرتا ہے اگر ہم بھی تیرے آباء و اجداد کو جانتے تو بتا دیتے کہ ان میں کیا برائیاں ہیں”یعنی ہم مشہور و معروف ہیں اور تو مجہول النسب آدمی ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ کفار مشرکین عرب اگرچہ بوجہ تعصب اپنے آبائی مذہب کو چھوڑنا نہیں چاہتے تھے لیکن آنحضرت صلعم کی ذات میں کوئی عیب نہیں دکھا سکتے تھے۔ آپ کی بے عیب زندگی اور بے غرض ہمدردی اور سچی تعلیم کا یہ اثر ہوا کہ آپ کی زندگی میں کُل عرب نے اسلام قبول کر لیا۔
الغرض اب انصاف پسند طبیعتوں نے خو ب معلوم کر لیا ہے کہ آنحضرت صلعم کے حالات زندگی مفصل و مکمل معلوم ہیں اور اس کے برخلاف دیگر بانیان مذہب کا صرف نام ہی نام ہے اور یہ کہ وہ دائرہ انسانیت سے خارج ہیں۔
کچھ ہوتی آدمیت اگر ہوتے آدمی
یہ خوبرو تو حور ہوئے یا پری ہوئے
اس لئے طبیعتوں میں نفرت پیدا ہو گئی ہے اور تعلیم یافتہ اشخاص نے اس بندہ پرستی سے کنارہ کر لیا ہے جس میں ان کے آباء و اجداد ہزار ہا سال سے مبتلا تھے۔
کتب مقدس کا مقابلہ کرتے ہوئے انصاف تقاضا کرتا ہے کہ قرآن شریف کو بہمہ وجوہ ترجیح ہے۔ "وید” اور ہندوؤں کے دیگر شاستر، توریت، انجیل، ژند، اور دیگر مذہبی الہامی کتابیں ایسی زبانوں میں تحریر ہوئی ہیں جو فی زمانہ مردہ ہیں۔ اور دنیا ان سے واقف نہیں۔ کیونکہ کسی ملک کے کسی حصے میں کوئی مقدس زبان بولی نہیں جاتی۔ صرف عربی ہی ایک زندہ زبان ہے اور یہ زندہ مذہب کی بین شہادت ہے اور جس مذہب کی مقدس کتاب مردہ زبان میں ہے وہ مذہب بھی مردہ ہے اس پر زیادہ بحث کی ضرورت نہیں۔ زندہ اور مردہ میں بہت فرق ہے۔
سنسکرت اور ژند کی زبان میں تو کچھ کلام ہی نہیں کہ یہ زبانیں ہزار ہا سال سے مردہ ہیں۔ توریت کی زبان عبرانی ہے جو اب دنیا کے کسی حصہ میں نہیں بولی جاتی۔ انجیل کی نسبت عیسائیوں نے صرف اعتراض رفع کرنے کے لئے مشہور کر رکھا ہے کہ یوحنا نے یونانی میں تحریر کی تھی۔ مگر اتنا تو تسلیم کرتے ہیں کہ متی نے عبرانی لکھی تھی۔
ہم فرض کر لیتے ہیں کہ متی، لوقا،مرقس اور یوحنا نے جو کچھ لکھا یونانی میں لکھا لیکن سوال یہ ہے کہ خود حضرت یسوع مسیحؑ کس زبان میں کلام فرمایا کرتے تھے۔ چاروں انجیلوں میں صرف ایک دو جملے عبرانی زبان میں ہیں جو حضرت عیسیٰ کا کلام ہیں۔ مثلاً "تلبتا قومی” (میرے حکم سے اٹھ) اور "ایلی ایلی لما سبقتانی” (اے خدا اے خد ! تو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا) یہ حضرت عیسیٰ کی زبان تھی اور یہ ان کے منہ کی باتیں ہیں۔ اگر مقدس سوانح نگاروں نے یونانی میں لکھا تو آپ کے اصل عبرانی کلام کا ترجمہ ہی کیا ہے جس کے یہ معنے ہیں کہ وہ اصل عبرانی کلام جو یسوع مسیحؑ کے منہ سے نکلا اب دنیا میں موجود نہیں اور عیسائیوں کے عقائد کے مطابق کبھی قلمبند نہیں ہوا۔
توریت و انجیل و وید و شاستر اور ژند محفوظ کتابیں نہیں ہیں۔ ان کے برخلاف قرآن شریف کی حفاظت کا شروع سے انتظام کیا گیا۔ قرآن شریف کی بعض آیات اس دعویٰ کی شہادت دیتی ہیں اور اس حفاظت کا بقیہ فی زمانہ لاکھوں حافظ موجود ہیں۔ لیکن کسی دیگر مقدس کتاب کا حافظ نہ پہلے کسی زمانہ میں تھا اور نہ اب ہے۔ یہ الہامی کلام جس طرح آنحضرت صلعم کے منہ سے نکلا اس طرح اب موجود ہے۔ ایک زیر، زبر یا نقطہ کا بھی فرق نہیں۔ کیا کوئی اور مقدس کتاب ایسا دعویٰ کر سکتی ہے ؟ دنیا میں قرآن شریف کے مقابلے میں کوئی ایسی کتاب نہیں جس کی صحت کی ہم قسم کھا سکتے ہیں۔ کتابت میں عموماً غلطیاں واقع ہوتی ہیں اور ہمارے پاس دیگر کتب مقدسہ کی جو نقلیں موجود ہیں ان کی صحت کی تصدیق کسی طرح نہیں ہو سکتی۔ ایسی غیر محفوظ کتابوں میں تحریف کو بہت کچھ گنجائش ہے۔
قرآن شریف شروع سے لے کر آخر تک اللہ تعالیٰ کا کلام ہے۔ لیکن دیگر کتب مقدسہ کے مطالع سے واضح ہوتا ہے کہ مختلف اشخاص کا اپنا کلام ہے۔ مثلاً انجیل، متی، مرقس، لوقا اور یوحنا ان واقعات کا تذکرہ اپنے اپنے الفاظ میں کرتے ہیں جو یسوع مسیحؑ کو پیش آئے اور ان واقعات کی تعبیر اپنے اپنے خیال کے مطابق کرتے ہیں۔ ہم فرض کر لیتے ہیں کہ چونکہ یسوع مسیح جامۂ انسانی میں خود خدا تھے۔ اس لئے آپ کو اس کی ضرورت نہ تھی کہ اللہ تعالیٰ کا کلام آپ پر نازل ہوتا۔ جو کچھ آپ نے فرمایا وہی کلام الٰہی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ آپ تینتیس سال کیا وعظ و نصیحت اور کیا تعلیم عوام الناس یا شاگردوں کو فرماتے رہے ؟ اس کے جواب میں مقدس سوانح نگاروں نے چند تمثیلیں نقل کر دی ہیں۔ سر آر کے ونس، ایم اے ایل ایل ایم اپنی کتاب "ڈائجسٹ آف اینگلو محمڈن لاء” کے دیباچہ میں لکھتے ہیں کہ "ہندوؤں کے قانون کا ماخذ شاستر ہیں جو ویدوں کی تفسیر اور شرح ہیں۔ شاستروں اور ویدوں کی نسبت کہا جاتا ہے کہ آسمانی اور الہامی کتابیں ہیں۔ لیکن کسی نے اس امر کو معلوم کرنے کی کوشش نہیں کی کہ کب اور کن پر یہ وسیع متضاد طو مار نازل ہوا۔ عیسائیوں کے پاس بھی مقدس بائیبل ہے جس کا ابتدائی حصہ تو یہودیوں اور عیسائیوں میں مشترک ہے اور آخری حصہ صرف عیسائیوں کا حصہ ہے۔ یہودیوں اور مسلمانوں کی طرح ان کا بھی ایک واحد تواریخی شخص ہے۔ جس کی تقدیس وہ بلحاظ بانی مذہب کرتے ہیں۔ لیکن نیا عہد نامہ (انا جیل اربعہ) قرآن کی طرح خود بانی مذہب نے نہیں لکھا۔ بلکہ مختلف شاگردوں نے اس کی وفات سے بہت سال بعد میں تحریر کیا۔ اور یہ شاگرد چونکہ ایک آئینی سلطنت کے محکوم تھے جس کے قوانین پر وہ کسی طرح اپنا اثر نہیں ڈال سکتے تھے اور جس کی تباہی کے وہ قریب زمانہ مستقبل میں مسیحؑ کی آمد ثانی پر منتظر تھے۔ اس لئے وہ دیوانی اور فوجداری قوانین سے بالکل بے تعلق ہے۔ مقدس سوانح نگاروں نے کسی اور خیال سے مسیحؑ کے اقوال و افعال کا جو عملاً آنجناب کی مختصر عمر کے آخری دو سالوں میں محدود ہے اور جس میں آپ کو کبھی دنیاوی بادشاہت کا موقع نہیں ملا۔ تذکرہ چند اوراق میں کیا اس لئے نتیجہ یہ ہے کہ عیسائیت نے کوئی قانون وضع نہیں کیا۔
مسیحؑ نے تقسیم وراثت کا جھگڑا فیصل کرنے سے صاف انکار کر دیا اور نہایت ہوشیاری سے ایک زانیہ عورت کے متعلق مروجہ قانون کے مطابق سزا کے سوال کو ٹال دیا۔ لیکن اس کے برخلاف محمدؐ نے ان تمام مسائل کے متعلق صریح الہامی احکام صادر کئے”۔ سر آر کے ونس نے بالکل صحیح لکھا ہے کہ عیسائی عدالتوں کا دستور العمل کسی زمانہ میں بائیبل نہیں رہی۔ اس وقت جب کہ پوپ کی عظمت سمت الراس پر تھی یہ نیم مقدس قانون کل میں اتنا بھی جزو نہ تھا جتنا کہ رومی اور جرمنی کے قوانین کا حصہ تھا۔ اور اس بات کا تذکرہ تو درکنار کہ اس کا ایک حصہ ان قوانین سے اخذ کیا گیا تھا جو قبل از مسیحؑ مروج تھے۔ موجودہ انگلستان میں سلطنت کا نظم و نسق نہ تو رومی قوانین اور نہ موسوی شریعت پر ہے۔ اور نہ بالخصوص عیسائی عقائد پر مبنی ہے۔ بلکہ بلحاظ ضرورت وقت اور احساس قوانین وضع ہوتے ہیں۔ اور ان کے مطابق ترمیم و تنسیخ ہوتی ہے۔
"یُن”صاحب "ہندولا” (دھرم شاستر) کے دیباچہ اور "سمرتی” کے ضمن میں لکھتے ہیں کہ
"وانایان ہند اور مفسرین منو کے دھرم شاستر کو قدیم الایام سے اعلیٰ مستند کتاب سمجھتے ہیں۔ لیکن جب کبھی موقع ملا اس رائے کو مسترد کرنے میں کوئی امر مانع نہیں ہوتا۔ منو کی ہستی جیسا کہ سمرتی خود شاہد ہے، موہومہ ہے۔ اس کے متعلق اس طرح لکھا ہے کہ "رشی” منو کے حضور استدعا کرتے ہیں کہ مقدس قوانین سے مطلع فرمائے۔ منو اول اپنی پیدائش کا تذکرہ کرتا ہے کہ برہما سے پیدا ہوا۔ اور پھر دنیا کی پیدائش کا حال بتاتا ہے۔ اس کے بعد بیان کرتا ہے کہ دھرم شاستر مجھے برہما سے ملا۔ یہی مقدس قانون منو دس رشیوں کو تعلیم کرتا ہے۔ جو بظاہر اسے فراموش کر چکے تھے۔ ان میں سے ایک "بھر گو” نامی کو بذاتہ براہ راست بتاتا ہے اور بھرگو باقی نو کو تعلیم دیتا ہے”۔
یُن صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ "ہندو دھرم شاستر کے مطالع میں سخت مشکلات کا سامنا ہے۔ تواریخ کا علم ہندوؤں میں معدوم ہے وہ جگوں کا حساب لگاتے ہیں۔ ناممکن ہے کہ مقدس رشیوں کی نسبت معلوم ہو کہ کب ہوئے بلکہ سوال ہو سکتا ہے کہ دنیا میں کبھی تھے بھی ؟”
"روایتوں کی وقعت کچھ نہیں۔ جبکہ ان کے ماخذ جھوٹے فسانے ہوں” یُن صاحب نے سخت کوشش کی ہے کہ کسی طرح منو سمرتی کی تاریخ معلوم ہو۔ لیکن یہ امر ناممکن تھا۔ پہلے اس سوال کا تصفیہ ضروری ہے کہ موجودہ منو سمرتی سب سے پرانی ہے یا دیگر منو سمرتیاں جو بلا شک و شبہہ کبھی موجود تھیں۔ ” نارد دیباچہ میں لکھا ہے کہ ابتداء میں منو سمرتی ہزار فصلوں میں تحریر ہوئی تھی۔ جس میں ایک لاکھ شلوک تھے۔ نارد نے کانٹ چھانٹ کے بعد بارہ ہزار شلوک نقل کئے۔ سوماتی نے ان کا بھی اختصار کیا اور صرف چار ہزار شلوک لکھے۔ لیکن موجودہ سمرتی میں کتابیں بھی ہیں جن میں منو سمرتی کے شلوک جا بجا نقل کئے گئے ہیں۔ اور بعض کتابوں کا حوالہ منو سمرتی میں ہے۔ مثلاً موجود "منو” میں "وششٹ” کا اقتباس کیا گیا ہے جو وششٹ میں موجود ہے۔ مگر وششٹ میں منو کے چار شلوک نقل کئے گئے ہیں۔ دو کا پتہ تو موجودہ منو میں ملتا ہے لیکن دو موجود نہیں۔ موخر الذکر میں سے ایک ایسے بحر میں منظوم ہے جس میں موجودہ منو کا ایک شلوک بھی نہیں۔ بظاہر اس کی اور کچھ وجہ نہیں کہ اس منو میں جس کا اقتباس وششٹ کرتا ہے اور اس منو میں جس میں وششٹ کا اقتباس کیا گیا ہے بہت عرصہ گذرا” ورنہ اس کا پتہ لگانا ناممکن ہوگا کہ منو پہلے گذرا یا وششٹ یا دونوں ہمعصر تھے۔ اس امر کا مزید ثبوت کہ موجودہ منو سے پیشتر اور منو سمرتیاں بھی تھیں یہ بھی ہے کہ بُدہایانا ، منو کا اقتباس کرتا ہے۔ لیکن موجودہ منو سمرتی میں بالکل اس کے متضاد موجود ہے۔ (9-89) نیز ایسی کتابوں میں چھٹی صدی عیسوی میں تحریر ہوئیں منو کے شلوک نقل کئے گئے ہیں۔ لیکن موجودہ منو میں ان کا کوئی کوئی جزو ملتا ہے۔ یہ تو بیرونی شہادت کا نتیجہ ہے کہ یا تو "منو” کا اکثر حصہ معدوم ہو چکا ہے اور موجودہ منو میں تحریف کی گئی ہے یا دیگر مقدس کتابیں سرتاپا غلط ہیں۔ اور ان کی شہادت قابل اعتبار نہیں۔ موجودہ منو سمرتی خود شاہد ہے کہ وہ ایک محفوظ کتاب نہیں۔ مثلاً اس کتاب میں گوشت خوری اور عورت کا نکاح ثانی جائز قرار دے دیا ہے اور اس کے برخلاف احکام بھی ہیں۔ (منو 250-5-7-9-56 اور 5-157-9-65) بلکہ مرد کے دوبارہ نکاح کی نسبت حکم ہے کہ پہلی عورت کی زندگی میں جائز نہیں۔ لیکن ایسے احکام بھی ہیں جن کی رو سے صریحاً دوسری شادی کا جواز تسلیم کیا گیا ہے اور اس کے متعلق قواعد اور ضابطے باندھ رکھے ہیں” (یُن۔ ہندولا)
قرآن و توریت۔ انجیل۔ ژند۔ وید اور ہندوؤں کے دیگر شاستروں کی نسبت جو کچھ ہم نے بالاختصار لکھا ہے اہم نتائج اخذ کرنے کے لئے کافی ہے۔ لیکن مناسب ہے کہ ہم کسی ایک مسئلہ کو مد نظر رکھ کر ان مقدس کتب کی تعلیم اور اس کے اثر پر بحث کریں۔ ہم "تبنیت” کا انتخاب اس لئے کرتے ہیں کہ ہندوؤں کو اس مسئلہ پر بڑا ناز ہے۔ اور مخالفین اسلام کے ضمن میں آنحضرت صلعم پر بہت کچھ نکتہ چینی کرتے ہیں۔ اس مسئلہ پر بحث کرتے ہوئے ہم ضمناً نکاح اور طلاق کے مسائل پر تنقیدی نظر کریں گے۔ ہم نے دید و دانستہ ایسے مسائل کو منتخب کیا ہے جس کی نسبت مخالفین اسلام کی متفقہ رائے اسلام کے برخلاف ہے۔ وہ بار بار ان مسائل کے ضمن میں اسلام کے تعلیمی نقص اور عیوب بیان کرتے ہیں۔ ہم نے ارادتاً ان امور کا تذکرہ بالتفصیل نہیں کیا اور نہ ایسے مسائل کتب مقدس کی تعلیم اور اس کے اثر کے واسطے بغرض بحث منتخب کئے گئے ہیں جن کے جواب میں مخالفین بالکل خاموش ہیں۔ مسئلہ "تبنیت” پر بالخصوص ہم اس لئے بحث کرتے ہیں کہ اس کے ضمن میں آنحضرت صلعم کے ایک صحابی زیدؓ کے حالات بیان کریں گے۔ ہم صدیق اکبرؓ اور فاروق اعظمؓ اور دیگر صحابہ کرامؓ کا اس واسطے تذکرہ نہیں کرتے کہ ایک انصاف پسند عیسائی نے لکھا ہے کہ "ہم یسوع مسیح کے شاگردوں کا مقابلہ محمد کے اصحاب سے کرتے ہوئے شرمندہ ہوتے ہیں۔ ان میں سے ایک نے صرف تیس روپے لے آنجنابؑ کو دشمنوں کے ہاتھوں میں دے دیا اور پطرس نے جو سب سے زیادہ ممتاز ہے گرفتاری کے بعد علی الاعلان آپ پر لعنت کی اور آپ کا انکار کیا اور باقی شاگرد بھاگ گئے۔ لیکن محمدؐ کے اصحابؓ میں ایک بھی مثال ایسی نہیں” مقدس کتب کی تعلیم کا اثر ایسی مثالوں سے بخوبی واضح ہو جاتا ہے۔ ہم نے ارادتاً زیدؓ کو منتخب کیا ہے اور دیدہ و دانستہ ایسی وضع اختیار کی ہے جو مخالفین کے خیال میں بہت کمزور ہے۔ اور یہ وضع ہم نے اس لئے اختیار کی ہے کہ مخالفین کو یہ کہنے کا موقع نہ ملے کہ "قلم در کف دشمن است”۔
ابن اشیر نے اسد اسد الغالبہ میں حضرت زید کا نسب اس طرح لکھا ہے کہ زید بن حارثہ بن شراحیل بن کعب بن عبدالغری بن امری القیس بن عامر بن نعمان بن عامر بن عبدووبن عوف بن کنانہ بن بکر بن عوف بن غدرہ بن زید لات بن رفیدہ بن ثور بن کلب بن وبرہ بن ثعلب بن بن حلوان بن عمران بن العاف بن قضاعہ۔ زید کی والدہ سعدی بنت ثعلبہ بن عامر عبد عامر بن افلت خاندان بنی معن قبیلہ طے سے تھی۔ زید کی عمر آٹھ سال کی تھی کہ والدہ ان کو ساتھ لے کر اپنے خاندان بنی معن سے ملنے کے لئے گئی۔ راستے میں "بنو قین” کے کچھ سواروں نے ڈاکہ مارا اور زید کو پکڑ کر بازار "عکاظ” میں لائے۔ حکم بن حزان نے زید کو اپنی پھوپھی خدیجہ بنت خویلد کے لئے چار سو درہم میں خرید لیا۔ حضرت خدیجہؓ آنحضرت صلعم کی زوجہ تھیں۔ آنحضرت صلعم کو دے دیا۔ اس وقت تک آنحضرت صلعم نے نبوت کا دعویٰ نہ کیا تھا۔ زیدؓ کو آزاد کر دیا اور اپنا متنبیٰ بنا لیا۔ زید کی فرقت میں آپ کے والد کا وہی حال تھا جو حضرت یعقوب کا یوسف کی جدائی میں ہوا۔ حضرت یوسفؑ کی طرح زید تو آرام میں بسر کرنے لگے لیکن یعقوب کی طرح زید کے والد سخت بے قرار تھے۔ رات دن گریہ و زاری سے کام تھا۔ کچھ عرصہ تو ادھر ادھر تلاش کی کہیں پتہ نہ چلا۔ نور دیدہ کے فراق میں اکثر اشعار کہتے ، جن میں سے یہ مشہور ہیں
بکیت علیٰ زید ولم ارد مافعل احی یرجی ام اتی دونہ الا جل
زید کے لئے رو رہا ہوں اور مجھے معلوم نہیں کہ زید کو کیا پیش آیا۔ آیا وہ زندہ ہے کہ پھر ملنے کی امید ہو یا اسے موت آ گئی۔
فواللہ ما اوریو ان کنت سائلا اغالک سھل العوض ام غالک الجبل
خدا کی قسم مجھے پتہ نہ ملا اگرچہ میں نے ہر ایک سے دریافت کیا۔ تجھے ہموار زمین کھا گئی یا کسی پہاڑ کے اوجھل ہو گیا۔
فیالیت شعری ھل لک الدھر رجعۃ فحسبی من الدنیا رجو عک لی علل
اے کاش مجھے معلوم ہو جاتا کہ تو دنیا میں کبھی میری طرف واپس لوٹے گا۔ دنیا میں دل بہلانے کے لئے تیری واپسی کی امید کافی ہے۔
تذکرینہ الشمس عند طلوعھا و لیعرض ذاکرہ اذا قارب الطفل
جب سورج نکلتا ہے میں زید کو یاد کرتا ہوں۔ اور جب چھپ جاتا ہے تو میں اسی کا ذکر کرتا ہوں۔
وان ھلبت الارواح ھیجن ذکرہ فیا طول مااخذی علیہ ویا دجل
جب ہوائیں چلتی ہیں تو اس کی یاد تازہ ہے۔ میرا رنج و غم اس کی یاد میں بہت طول پکڑ گیا۔
ساعمل نص العیش فی الارض جاھدا ولا اسام التطواف اوتسام الابل
میں اسی غم میں اپنی زندگی کے دن بسر کروں گا۔ اور چکر لگانے سے باز نہ رہوں گا اگرچہ اونٹ تھک جائے۔
حیاتی اوتاتی علیٰ منتھی اوکلامری فان وان غرمالامل
یہاں تک کہ مجھے موت آ جائے اور ہر ایک شخص مرنے والا ہے گو آرزوئیں اسے فریب دیں ہیں۔
ساء صی بہ قیسا و عمرا کلاھما واوصی یزید اثم من بعد جبل
میں زید کی تلاش کی وصیت قیس اور عمر دونوں کو کر جاؤں گا۔ اور یزید اس کے بعد جبل کو بھی یہی وصیت کروں گا۔
کچھ عرصہ اسی طرح گذر گیا۔ ایک دفعہ کچھ لوگ قبیلہ کلب کے حج بیت اللہ کے لئے مکے میں آئے۔ اور اس جگہ زید سے ملاقات ہوئی۔ والد کی بے قراری اور آہ و زاری کا حال بیان کیا۔ اور یہ اشعار بھی سنائے۔ زید کا دل بھی بھر آیا۔ جواب میں چند شعر لکھے۔
احق الی قومی وان کنت نائیا فانی قعید البیت عند المساعر
میں اپنی قوم سے دور افتادہ روتا ہوں۔ اور کعبہ کے قریب ایک گھر میں رہتا ہوں۔
فکفو امن الوجد الذی قد شجاکم ولا تعلموافی الارض اض الا باعر
لہذا تم اس غم سے جس نے تمھیں زخمی کر دیا ہے باز آؤ۔ اور اونٹ کی طرح محنت و مشقت نہ اٹھاؤ۔
فانی بحمداللہ فی خیرہ اسرہ کرام معد کابر ابعد کابر
خدا کا شکر ہے کہ میں قید ہو کر اچھے گھرانے میں آیا۔ یعنی معد کے گھرانے میں جہاں عظمت و کرم موروثی ہے۔
زیدؓ کا یہ منظوم پیغام لوگوں نے اس کے والد کو پہونچا دیا۔ اور مقام رہائش اور آنحضرت صلعم کا پتا بتایا۔ زید کے والد اور چچا زر فدیہ لے کر مکے میں آنحضرت صلعم کی خدمت میں آئے اور کہا کہ "عبد المطلب کے صاحبزادے اے ہاشم کے بیٹے! اے سید القوم کے لڑکے ہم آپ کے پاس اپنے بیٹے زیدؓ کے واسطے آئے ہیں۔ آپ زر فدیہ لے کر اسے آزاد فرمائیں اور ہم پر احسان کریں” آپؐ نے فرمایا”اگر زید تمھیں پسند کرتا ہے تو وہ آزاد اور مختار ہے۔ اسے لے جاؤ۔ اور اگر وہ میرے پاس رہنا چاہتا ہے تو بخدا میں وہ شخص نہیں ہوں کہ جو مجھے پسند کرے میں اس کے خلاف مرضی کسی کو اختیار دوں” دونوں نے جواب دیا کہ” آپ نے ہم پر نصف احسان پہلے ہی کر دیا” اس کے بعد زید کو بلوایا اور اس سے دریافت کیا۔ باپ اور چچا کے ہمراہ جانے سے صاف انکار کر دیا۔ اور کہا "میں ان کے ساتھ نہ جاؤں گا آپ ہی میرے باپ اور چچا ہیں اور نہ میں ایسا شخص ہوں کہ آپ پر کسی کو ترجیح دے کر پسند کروں” زید کے والد اور چچا نے کہا ” زید تیرا برا ہو۔ کیا تو غلامی کو آزادی پر اور غیروں کو لواحقین پر ترجیح دیتا ہے ؟” جواب دیا "ہاں میں نے آپ سے ایسی باتیں دیکھی ہیں کہ اور شخص کو آپ پر ترجیح نہ دوں گا” اس گفتگو کے بعد آنحضرت صلعم زید اور اس کے والد اور چچا کو مقام حجر تک لے گئے۔ اور با آواز بلند فرمایا کہ اے حاضرین تم لوگ گواہ رہو کہ زید میرا بیٹا ہے۔ وہ میرا وارث ہو گا اور میں اس کا وارث ہوں گا۔ زید کے والد اور چچا نے جب یہ حال دیکھا تو ان کے دل خوش ہو گئے۔ اور خوشی خوشی گھر کو واپس لوٹے۔
جب آنحضرت نے اظہار نبوت کیا تو سب سے پہلے جنھوں نے اسلام قبول کیا ان میں سے زید ؓ بھی ہیں۔ وہ ہمیشہ رسول اللہ کی خدمت میں رہتے اور ایک لمحہ کے لئے بھی جدا ہونا پسند نہ کرتے تھے۔ اور یہی کیفیت ان اصحاب کی بھی تھی جو ایک دفعہ آپؐ کی صحبت میں بیٹھتے۔ پھر کسی اور جگہ جانے کا نام لیتے تھے۔ اسی لئے کفار مکہ نے یہ مشہور کر رکھا تھا کہ محمدؐ جادوگر ہیں اور لوگوں کو اس لئے آپ کے پاس جانے سے منع کرتے تھے کہ پھر ان واپس لوٹنے کی امید منقطع ہو جاتی تھی۔ مقدس سوانح نگاروں نے صاف صاف الفاظ میں حضرت یسوع مسیحؑ کے شاگردوں کی نسبت لکھا ہے کہ جب آنجنابؑ نے یہودیوں اور ان کے آباء و اجداد کو کوسنا شروع کیا کہ "تمھارے باپ دادؤں نے بیابان میں مین کھایا اور مر گئے” تو اکثر شاگردوں نے کہا کہ "یہ سخت کلام بہت ناگوار ہے۔ بھلا ایسے ٹھنڈے دل سے کون سن سکتا ہے” اور اس کے بعد یسوع سے پھر گئے صرف بارہ باقی رہ گئے (یوحنا باب 6 آیت 50 سے 67 تک)۔ لیکن جب آپ دشمنوں کے ہاتھ میں گرفتار ہوئے تو ایک شاگرد نے بھی ساتھ نہ دیا۔ خود پکڑوا دیا۔ آپ کا انکار کیا۔ اور بھاگ گئے۔ تعجب ہے کہ ان لوگوں پر آپ کی تعلیم کا کیا اثر ہوا تھا۔ اور وہ معجزات جو آپ کو الوہیت کی زبردست دلائل بیان کئے جاتے ہیں۔ اگر بالفرض صحیح بھی ہوں تو کیا مفید ہو سکتے ہیں جبکہ ان کا اثر ایسا الٹا پڑا۔ مسیحؑ نے بیماروں کا شفا دی۔ بد روحوں کو نکالا۔ مردوں کو زندہ کیا۔ لیکن اس سے کیا فائدہ حاصل ہوا۔ لیکن آنحضرت صلعم کا جب ایک دفعہ کسی نے کلمہ پڑھا تو پھر غیر کا ذکر زبان پر نہ آیا۔ زیدؓ ہی کی طرف دیکھو۔ لواحقین جن کی محبت اس کے دل میں تھی ایک عرصہ دراز کے بعد اسے ملتے ہیں۔ لیکن وہ آنحضرت صلعم کو چھوڑ نہیں سکتا۔ وہ غلامی کو آزادی پر ترجیح دیتا ہے۔ لیکن آنحضرت صلعم کی خدمت میں رہنا چاہتا ہے۔ اگر زیدؓ گھر سے لڑ کر نکلتے یا اپنے رشتے داروں سے کسی اور وجہ سے نفرت ہوتی اور پھر واپس جانا پسند نہ کرتے تو اور بات تھی۔ باپ زید کو یوسف گم گشتہ سمجھتا ہے اور زید کے دل میں بھی مہر فرزندی موجود ہے۔ با ایں ہمہ وہ آنحضرتؐ کی ملازمت ترک نہیں کر سکتا۔ یہ سب کچھ آپ کے اخلاق حسنہ کا اثر تھا۔ اور آپ کے "خلق عظیم”کا کلام اللہ بھی شاہد ہے۔ اس کے مقابلے میں ان تمام معجزات کی بھی کچھ وقعت نہیں۔ جن کا اثر جیسا کہ توریت اور انجیل میں مذکور ہے کچھ بھی نہیں۔ بلکہ سوال ہو سکتا ہے کہ یہ معجزات جو یسوع مسیح سے منسوب کئے جاتے ہیں فی الحقیقت سچے واقعات ہیں ؟ ہم ان معجزات پر بحث نہیں کرنا چاہتے۔ لیکن جو کچھ ان کا اثر بنی اسرائیل پر ہوا اس کا نتیجہ کچھ قابل فخر نہیں۔ سخت حیرت ہے کہ اس زمانہ میں جب ان معجزات کا ظہور ہوا مخالفین تو ایک طرف مقلدین نے کوئی ثبوت عملاً اس کی تائید میں نہیں دیا۔ اور فی زمانہ صد ہا سال کے بعد یہی معجزات اس دعوے کی شہادت ہیں کہ یسوع مسیح الوہیت مجسم ہیں۔
اگر آنحضرت صلعم کی نسبت اس قسم کے معجزات کا صادر ہونا بیان کیا جائے تو انکار کی کوئی وجہ نہیں ہو سکتی۔ بلکہ انصافاً تسلیم کرنا چاہیے کیونکہ آپ کے اصحاب نے آپ کی متابعت میں عزیز و اقارب سے منہ موڑا وطن کو چھوڑا۔ اور ہر ایک قسم کی تکلیف برداشت کی۔ اور کبھی آپ کا انکار نہیں کیا۔ ہر ایک چیز آپ پر قربان کر دی اور اپنی ہستی کو بھی فنا کر دیا۔ لیکن آپ کو نہ چھوڑا۔ ان کا ایمان نہایت قوی تھا۔ اور آپ کی رسالت پر کامل یقین تھا۔ اور آپ کی زندگی میں تمام مخالف مسلمان ہو گئے اور منکر ہلاک ہو گئے۔
زید کے متعلق ہم ان واقعات کو مفصل بیان نہیں کرنا چاہتے جو اسلام لانے کے بعد ظہور میں آئے۔ مختصر یہ کہ ابتداء میں رسول اللہ کی رفاقت میں ہر ایک مصیبت برداشت کی۔ غزوہ بدر میں شریک ہوئے۔ فتح کا مژدہ اہل مدینہ کو سب سے پہلے آپ نے سنایا۔ وہ لڑائیاں جس میں رسول خدا بذاتہ شریک نہیں ہوئے "سریہ” کہلاتے ہیں۔ زید کی شرکت ہر ایک سریہ میں بحیثیت سپہ سالار تھی۔ البتہ جس میں زید شریک نہیں ہوئے دوسرے اصحاب سردار لشکر ہوتے۔ آنحضرت صلعم نے زید اور عم مکرم حضرت حمزہؓ سید الشہدا کے درمیان "مواخاۃ” یعنی بھائی چارہ قائم کر دیا تھا۔ زید کی ابتدائی حالت پر غور کرو۔ جب بازار عکاظ میں فروخت ہوئے۔ اور اس مرتبہ عزت دیکھو کہ عالی نسب آزاد اصحاب کے ہمسر ہیں۔ بلکہ ان میں بھی ممتاز ہیں۔ غلامی کا الزام مخالفین اسلام پر عائد کرتے ہیں کہ جائز رکھا۔ لیکن اس کا جواب کچھ نہیں دیتے کہ کیا ایسے اشخاص پر غلام کا اطلاق ہو سکتا ہے؟ اور "غلام” اور لفظ غلام کا یہی کچھ مفہوم ہے۔ جیسا کہ زید کے حالات سے واضح ہوتا ہے؟ غلامی نہ تو اسلام کی تعلیم ہے اور نہ اسلام نے اسے جائز رکھا ہے۔ لیکن اس سے انکار نہیں ہو سکتا کہ مسلمان ہمیشہ غلاموں کو آزاد کرنے کے لئے خریدتے رہے۔ ان کی پرورش اور اور تعلیم و تربیت کے متکفلف ہوئے۔ ان کا نکاح اپنی بیٹیوں سے کیا۔ اور وہ ان کی جائداد اور سلطنت کے وارث ہوئے۔ خلفائے بغداد اور مصر کے غلام سلطان بنے۔ خاندان غزنی اور خاندان غلامان کے حالات ہندوستان کی تاریخ میں بدیہی ثبوت اس دعوےٰ کا ہیں کہ اسلام نے غلاموں سے کیا نیک سلوک کی تعلیم دی اور سچ تو یہ ہے کہ جو کچھ عزت اور عظمت دنیا نے مسلمان غلاموں کی تسلیم کی وہ غیر مذاہب کے آزاد اشخاص کو کم نصیب ہوتی ہے۔
آنحضرتؐ کی بعثت سے پیشتر دنیا میں ہر ایک جگہ غلامی کا بازار گرم تھا۔ قرآن شریف کی ان آیات سے جو غلاموں کے متعلق ہیں واضح ہوتا ہے کہ اسلام نے غلاموں کی آزادی کی مناسب تدبیر کی۔ ضرورت نہیں کہ ہم اس پر مفصل بحث کریں۔ سرسید احمد مرحوم نے اپنے رسالہ” تبریتہ الاسلام عن شین الامتہ و الغلام” اور مولوی چراغ علی مغفور نے "اسلام کی دنیاوی برکتیں” میں اس مسئلہ پر محققانہ بحث کی ہے۔ اس میں کچھ شک نہیں ہے کہ ہر ایک شخص فطرتاً آزاد پیدا ہوا ہے۔ اور کبھی کسی بندہ کی بندگی پسند نہیں کرتا۔ مگر احتیاج نے رفتہ رفتہ غلامی کی مذموم رسم کو رواج دیا اور غلاموں کی خرید و فروخت باقاعدہ تجارت بن گئی۔ موجودہ مہذب زمانہ میں حسن معاشرت نے غلام کا نام "خدمتگار” رکھا۔ اسلام نے اگرچہ اس کا کوئی خاص نام وضع نہیں کیا لیکن اس سے انکار نہیں ہو سکتا کہ موجودہ خدمتگاروں سے مسلمان غلاموں کی حالت بدرجہا بہتر تھی۔ جیسا کہ ہم ثابت کر چکے ہیں اور ہم یقین کرتے ہیں کہ آئندہ ترقی کے زمانے میں خدمتگاروں کو اس سے بڑھ کر حقوق حاصل نہیں ہو سکتے جو مسلمانوں نے اپنے غلاموں کو عملاً دئیے۔
محققین کی بالاتفاق رائے یہی ہے کہ غلامی کی بنیاد جنگ نے ڈالی۔ اسیران جنگ فتح مند قوم کے غلام بنائے جاتے یا قتل کئے جاتے۔ قرآن شریف کا ناطق فیصلہ اس کے متعلق یہ ہے "فاذا لقیتم ا لذین کفروا فضرب الرتاب حتی اذا اثخنتمو ھم فشد واالو ثاق فاما مناً بعد و اما فدآء حتی تضع الحرب اوزارھا ذالک (سورہ محمد) یعنی کفار سے جب تمھاری مڈبھیر ہو تو ان کی گردنیں مارو حتی کہ انکا زور ٹوٹ جائے اور پھر ان کی مشکیں کس لو اس کے بعد یا تو فدیہ لیکر یا احسان رکھ کر چھوڑ دو۔ یہاں تک کہ جنگ کا خاتمہ ہو جائے۔ یہ ہمارا حکم ہے اس کی تعمیل بالفظ ہونی چاہیے۔ اس آیت میں اسیران جنگ کی نسبت قطعی حکم دیا گیا ہے جس کی خلاف ورزی نہیں ہو سکتی۔ عموماً اسیران جنگ کو لڑائی کے بعد قتل کیا جاتا تھا۔ یا وہ مدت العمر غلامی کی قید رہتے۔ ممکن ہے کہ معاوضہ پر آزادی بھی نصیب ہوتی ہو۔ لیکن بعثت سے پیشتر کوئی ایسی مثال موجود نہیں کہ اسیران جنگ بلا معاوضہ رہا کئے گئے ہوں۔ اسلام نے حکماً اسیران جنگ کے قتل کی ممانعت کر دی۔ اگر فدیہ ادا ہو سکے تو اس کے عوض ورنہ احسان رکھ کر رہا کئے جائیں۔ احسان رکھ کر آزاد کر نا اسلام کی تعلیم ہے۔ اسپر زیادہ بحث کی ضرورت نہیں۔
آیات بالکل صاف صاف الفاظ میں اپنے معانی کا اظہار کر رہی ہیں کہ اسیران جنگ کسی صورت قتل نہیں ہو سکتے اور صرف جنگ کے خاتمہ تک قید رہ سکتے ہیں۔ اس کے بعد حکماً وہ آزاد ہیں۔ اگر فدیہ ادا نہ کر سکیں تو انھیں زادِ راہ دے کر واپس کر دو تاکہ راستہ میں فقر و فاقہ سے نہ مریں، احسان رکھ کر آزاد کرنے کے یہی معنی ہیں۔ اس آیت نے ہمیشہ کے لئے اسیران جنگ کی آزادی کا فیصلہ کر دیا۔ فی زمانہ مہذب دنیا نے اس حکم کی خوبیوں کو عملاً تسلیم کر لیا ہے۔
غلامی کے متعلق اسلام کی تعلیم کا تذکرہ تو ہم بالاختصار کر چکے ہیں دیگر مقدس کتب احکام پر غور کرنا چاہیے۔ ہندوستان میں ہندو مذہب نے شودروں کے ساتھ جو کچھ ظلم و ستم روا رکھا وہ تواریخی واقعات ہیں۔ اور "منو” کا دھرم شاستر اس کا شاہد ہے۔ مورخین کی بالاتفاق رائے یہ ہے کہ شودر ہندوستان کے اصلی باشندے تھے۔ آریوں نے ان پر حملے کئے۔ مغلوب کیا۔ کچھ تو پہاڑوں اور جنگلوں میں بھاگ گئے۔ جن کا بقیہ بھیل اور گونڈ تو میں اب بھی موجود ہیں۔ جو اسیر ہوئے وہ نہایت تلخ کامی سے زندگی بسر کرتے رہے۔ شودروں کے متعلق منو دھرم شاستر میں جو احکام ہیں ان کا منشا یہ ہے کہ وہ ہمیشہ نسلاً بعد نسلاً ذلیل و خوار رہیں اور کبھی اس قعر مذلت سے سر نہ اٹھائیں جس میں ہندو مذہب نے انھیں گرایا ہے۔ شودروں کو ایسا حقیر اور ناپاک خیال کیا گیا تھا کہ اگر کوئی زنار بند ذات کا ہندو ان سے چھو جائے تو خاص خاص مذہبی رسوم ادا کرنے کے بغیر پاک نہیں ہو سکتا تھا۔ غالبا کسی ملک میں غلامی کے مفہوم میں ایسی حقارت اور ذلت نہیں جیسا کہ شودر کا لفظ ظاہر کرتا ہے۔ ہندو مذہب نے اس ذلیل جماعت کی ایک علیحدہ ذات قرار دی ہے۔ اس پر مفصل بحث کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ یہ تواریخی واقعات ہیں جن کا انکار نہیں ہو سکتا۔ آخر اس مظلوم فرقہ کی آہ جگر سوز کا اثر ہوا اور موجودہ زمانہ میں سوال پیدا ہوا کہ "ہندو کون ہیں” پیشتر اس کے کہ ہم اس سوال کے جواب میں کچھ لکھیں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان واقعات کا بالاختصار ذکر کریں۔ جن سے یہ سوال پیدا ہوا۔ موجودہ زمانہ میں مختلف اقوام عالم میں سخت کشمکش جاری ہے۔ اور ہر ایک قوم میدان ترقی میں سبقت لے جانا چاہتی ہے۔ ہم نے اس مضمون کے شروع میں لکھا کہ مسلمانوں کا مقابلہ دنیا کے مختلف حصوں میں مختلف اقوام سے آ پڑا ہے۔ یعنی ایک ہی وقت میں عیسائیوں، ہندوؤں اور بدھ مذہب کے مقلدین سے سابقہ پڑا ہے اور ہر ایک جگہ اسلام غالب آ رہا ہے۔ مسلمانوں کی تعداد روز افزوں ترقی کر رہی ہے۔ اور دوسری قومیں نسبتاً کم ہوتی جاتی ہیں۔ اس لئے قدرتاً ان قوموں کو فکر لاحق ہو رہا ہے کہ اگر یہی حالت قائم رہی تو ایک دن ان کا نام صفحہ ہستی سے حرف غلط کی طرح مٹ جائے گا۔ حال میں مسٹر مکرجی ایک بنگالی بابو نے مشرقی بنگال کے ہندو اور مسلمانوں کی تعداد پر ایک مضمون واقعات کی بنا پر لکھا ہے۔ اور ہندوؤں کی حالت نزع کا نقشہ دردناک الفاظ میں کھینچا ہے۔ مشرقی بنگال میں مسلمانوں کی تعداد ہندوؤں سے بہت کم تھی۔ لیکن بیس سال کے عرصے میں مسلمانوں نے نہ صرف اس نمایاں کمی کو پورا کر لیا بلکہ ہندوؤں سے دگنے ہو گئے۔ اور ہندوؤں کی نسبت وہی حالت اب ہے جو مسلمانوں کی بیس سال پیشتر تھی۔ 1909ء میں "پنجاب ہندو کانفرنس” کا پہلا اجلاس لاہور میں ہوا۔ اس کانفرنس میں ہندوؤں کے تمام سر بر آوردہ ارکان اس سوال پر غور کر رہے تھے کہ ہندو کس لئے دن بدن کم ہوتے جاتے ہیں اور مسلمان کیوں روزبروز تعداد میں بڑھ رہے ہیں ؟
اس سوال کے جواب میں روشن دماغ ہندوؤں نے ان اسباب کا تذکرہ کیا جو اسلام نے مسلمانوں کے لئے فراہم کئے ہیں۔ مثلاً اسلام بیوگان کے نکاح کا زبردست حامی ہے اور ہندوؤں میں اس کا دستور نہیں۔ ممکن ہے کہ ویدوں یا دیگر شاستروں میں بیوگان کے نکاح کی اجازت ہو۔ اور ایک مردہ زبان کے الفاظ کو کھینچ تان کر مفید مطلب معانی پیدا کر لینا کچھ مشکل بھی نہیں۔ جبکہ اس زبان کے عالم چند آدمی ہوں۔ لیکن اس سے انکار نہیں ہو سکتا کہ تواریخی زمانہ میں کبھی بھی کسی بیوہ کا نکاح نہیں ہوا۔ اور موجودہ زمانہ میں صرف مسلمانوں کی تقلید کی گئی ہے۔ فی الحقیقت ان کے مذہب نے انھیں یہ سیدھا راستہ نہیں دکھایا۔ "ستی” کی مذموم رسم اس امر کی شاہد ہے کہ بیوگان سے کیا سلوک ہوتا تھا۔
ہندوؤں میں اشاعت مذہب ممنوع ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ ہندو مذہب ذاتوں کے امتیاز کی تعلیم دیتا ہے جس کی پابندی ہر ایک زمانہ میں نہایت سختی سے کی گئی ہے۔ اعلیٰ ذات کے ہندو ادنیٰ ذاتوں کو حقیر سمجھتے ہیں۔ غیر اقوام سے رابطہ و اختلاط پیدا کر کے مساوات کو تسلیم کرنا تو مذہباً ناممکن ہے۔ ذاتوں کا امتیاز تناسخ کا نتیجہ ہے جس پر ہندو مذہب قائم ہے۔ یعنی پہلے جنم کی کرم اور کرتوتوں کا نتیجہ یہ سمجھا گیا ہے کہ ہر ایک شخص عزت اور ذلت دولت اور مسکنت افلاس اور ثروت رنج و راحت پیدائش سے اپنے ساتھ لاتا ہے۔ اور علیٰ ہذا قیاس سب کچھ پہلے جنم کے باعث ظہور میں آتا ہے۔ موجودہ زمانہ میں ہندوؤں نے اپنے مذہب کی مضرتوں کو بخوبی محسوس کر لیا ہے۔ تناسخ ان کی ترقی میں سدِ راہ ہے۔ ان کے سامنے اسلام کی اشاعت کا بازار گرم ہے اور ہر ایک شخص خواہ وہ کسی قوم اور کسی حیثیت کا ہو مسلمانوں کا دینی بھائی ہو سکتا ہے اور ہر ایک قسم کا رابطہ پیدا کر سکتا ہے۔ پنجاب ہندو کانفرنس میں مسلمانوں کی ترقی کے راز کو اشاعت مذہب نے منکشف کر دیا اور ہندوؤں نے تقلیداً اس کی ضرورت محسوس کی۔ تعجب ہے کہ وہ نا معقول اعتراض جو اسلام پر عرصہ دراز سے ہو رہا تھا کہ اسلام نے اپنی اشاعت تلوار کے زور سے کی کس لئے نظر انداز کیا گیا۔ ہندو کانفرنس نے نہایت عقلمندی سے سمجھ لیا کہ اشاعت مذہب اس وقت تک ناممکن ہے جب تک ذاتوں کا امتیاز قائم ہے یا جب تک ہم ہر ایک قوم کے مساوی حقوق تسلیم نہ کر لیں گے۔ اس لئے قولاً ذاتوں کے امتیاز کو اٹھا دیا اور اس کے ساتھ عملاً تناسخ کا انکار کر دیا۔
یہ واقعات ہیں جن سے اب یہ سوال پیدا ہوا کہ ہندو کون ہیں؟ اس کا آسان اور صحیح جواب تو یہ تھا کہ بلحاظ مذہب ہندو دنیا میں کوئی نہیں۔ لیکن پنجاب ہندو کانفرنس کے ارکان اور کُل ہندوستان کے ہندو لیڈروں نے یہ حیرت انگیز جواب دیا ہے کہ "ہر ایک شخص جو کسی خاص مذہب مثلاً اسلام یا عیسائیت وغیرہ کو تسلیم نہیں کرتا ہندو ہے” ہندوستان کے اخباروں میں اس پر مفصل بحث ہوئی اور اس جواب کی نامعقولیت کا اظہار بخوبی کیا گیا۔ لیکن ہندوؤں کو معلوم تھا کہ یہی ایک ذریعہ ہے جو عملاً ان کی تعداد بڑھا سکتا ہے۔ اس لئے ایک نہ سنی۔ سنہ حال کی مردم شماری میں چوہڑوں کو بھی ہندوؤں میں شمار کیا گیا جبکہ چوہڑے ہندو برادری میں شامل ہو گئے ہیں تو امید ہو سکتی ہے کہ رفتہ رفتہ وہ مساوی حقوق حاصل کر لیں گے۔ لیکن ہم کسی طرح یقین نہیں کر سکتے کہ ہندو مذہب کی موجودگی میں غلاموں کو کبھی وہ حقوق حاصل ہو سکتے ہیں جو اسلام نے عطا کئے ہیں۔
زیدؓ کا نکاح آنحضرتؐ نے ام ایمن سے کیا۔ ان کے بطن سے اسامہؓ پیدا ہوئے۔ رسول خدا کو اسامہ سے اس درجہ محبت تھی کہ لوگ انھیں "حُب رسول” کہتے تھے۔ اگرچہ ان کا رنگ سیاہ اور ناک چپٹی تھی۔ اٹھارہ برس کی عمر میں عامل مقرر ہوئے۔ فاروق اعظم نے صحابہ کے وظیفے مقرر کئے تو اسامہ ؓکا وظیفہ پانچ ہزار مقرر کیا اور اپنے بیٹے عبداللہؓ کا دو ہزار۔ حضرت عبداللہ نے کہا کہ آپنے اسامہ کو مجھ پر ترجیح دی، حالانکہ میں ان کاموں میں شریک ہوا ہوں جن میں اسامہ شریک نہیں ہوئے۔ حضرت عمرؓ نے جواب دیا کہ اسامہ رسول خدا صلعم کو تجھ سے زیادہ محبوب تھے اور اسامہ کا باپ (زید) رسول خدا کو تیرے باپ (عمر) سے زیادہ محبوب تھا۔ کیا کسی غلام یا غلام کی اولاد کو اس سے زیادہ حقوق کسی مذہب نے عطا کئے ہیں؟
آنحضرت صلعم نے زیدؓ کا دوسرا نکاح اپنی پھوپھی کی بیٹی زینبؓ بنت حجش سے باندھا۔ لیکن میاں بیوی میں نا موافقت کے باعث نوبت طلاق تک پہنچی۔ اگرچہ آنحضرت صلعم نے زید کو سمجھایا کہ طلاق نہ دو مگر زید نے طلاق دے دی۔ اور آنحضرت نے زینب سے خود نکاح کر لیا۔ اس سوال کا جواب کہ زید اور زینب میں کس لئے نا موافقت ہوئی اور زید نے کیوں طلاق دی؟ اور رسول خدا نے کس لئے اپنا نکاح زینب سے کیا؟ زیادہ غور و فکر کا محتاج نہ تھا۔ کیونکہ قرآن شریف میں اس کا مفصل تذکرہ ہے۔ لیکن افسوس ہے کہ بعض روایتیں جن کے بعض حصوں کی نسبت ہمیں کامل یقین ہے کہ غلط ہیں یا غلط فہمی پر مبنی ہیں۔ عالمگیر شہرت حاصل کر چکے ہیں۔ اس لئے موجودہ صورت میں ضرور ہے کہ ہم مذکورہ بالا سوالات کا جواب کسی قدر تفصیل سے دیں۔
روایت یہ ہے کہ زینب ایک عالی خاندان عورت تھی ان کو یہ پسند نہ آیا کہ ان کا عقد ایک غلام سے باندھا جائے۔ اس لئے ابتدا سے اس نکاح پر رضامند نہ تھیں۔ مگر رسول اللہ کے اصرار پر طوعاً یا کرہاً نکاح کرنے پر راضی ہو گئیں۔ لیکن اپنے شوہر کو نہایت حقیر سمجھتی تھیں اور ان سے بدزبانی کرتی تھیں۔ اور جو کچھ وہ کہتا تھا اس کو نہیں مانتی تھیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ زید نے زینب کی باتوں سے تنگ آ کر طلاق دے دی۔ ہمارے رائے میں اس روایت کی بنیاد صرف قیاسات پر ہے۔ زینب کا عالی نسب اور زید کا غلام ہونا ایسے واقعات ہیں جو مسلمہ ہیں۔ راویوں نے ان سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ میاں بیوی میں بلحاظ حسب و نسب بڑا فرق تھا اس لئے آپس میں نا موافقت ہو گئی۔ یہ نتیجہ اسی صورت میں معقول اور غالباً صحیح ہو سکتا ہے اگر یہ ثابت ہو جائے کہ زینب کو اپنی عالی نسبی پہ ناز تھا۔ اور اس لئے وہ زید کو حقیر سمجھتی تھیں۔ قرآن شریف میں اس واقعہ کا مفصل تذکرہ ہے اور کسی آیت میں اشارتاً بھی وہ بات پیدا نہیں ہوتی جو اس روایت میں بالتصریح بیان کی گئی ہے۔ بلکہ اس کے برخلاف کافی سے زیادہ ثبوت موجود ہے۔
سب سے پہلے ہم اس پر بحث کرتے ہیں کہ کیا آنحضرت ؐ کے زمانہ میں ایک مومن مسلمان مرد یا عورت اپنے حسب نسب پر فخر کیا کرتے تھے اور اس فخر سے کسی دوسرے مسلمان مرد یا عورت کی تحقیر مقصود تھی ؟ قرآن شریف کی متعدد آیات اس سوال کا جواب نفی میں دیتی ہیں۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ ایام جاہلیت میں ہر ایک شخص اپنے حسب و نسب پر فخر کیا کرتا تھا اور دوسرے قبیلوں کی تحقیر اور تذلیل میں باتیں بنایا کرتا تھا۔ مختلف قبائل میں اکثر خانہ جنگی کی آگ مشتعل رہتی لیکن جب عرب نور ہدایت سے معمور ہو گیا تو مسلمان ایک دوسرے کو اپنا بھائی سمجھتے تھے۔ جاہلیت کی تمام برائیاں ان سے دور ہو گئیں۔ ان کے دلوں میں ایک دوسرے کی محبت تھی ایک دوسرے کی امداد میں مال و جان سے دریغ نہ کرتا۔ ایام جاہلیت میں بزرگی کا معیار خاندانی وجاہت تھی جیسا کہ اب بھی بت پرست قوموں میں ذاتوں کے امتیاز کے یہی معنی ہیں۔ ایک برہمن اپنے حسب نسب پر اس لئے فخر کرتا ہے کہ وہ برہمن ہے اور دوسری ذاتوں کو حقیر اور ذلیل سمجھتا ہے۔ اسلام نے اس کے برخلاف تعلیم دی کہ عزت اور عظمت موروثی نہیں ہو سکتی۔ اور حسب و نسب کے باعث کوئی شخص ذلیل یا ممتاز نہیں ہو سکتا۔ کسی قبیلہ کسی ذات کسی شخص کو کوئی شرف بذاتہ حاصل نہیں۔ وہی شخص زیادہ معزز ہے جو زیادہ نیک عمل کرتا ہے۔ قرآن شریف کی ان آیات میں صاف صاف الفاظ میں یہی تعلیم ہے۔
ولکن اللہ حبب الیکم الایمان وزینہ فی قلوبکم وکرہ الیکم الکفرو الغسوق و العصیات اولئک ھم الرا شدون فضلاً من اللہ ونعمۃ خلقنکم من ذکرو انثی و جعلنکم شعو باؤ قبائل لتعارفوا ط ان اکرمکم عنداللہ اتقکم ط ان اللہ علیم خبیر۔
ان آیات میں اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے وہ اوصاف بیان فرماتا ہے جو فی الحقیقت ان میں موجود تھے۔ ان کی دل میں ایمان کی محبت تھی اور ایمان کی خوبیوں کو سمجھتے تھے اور اس لئے ایمان کو دل میں جگہ دی تھی۔ کفر اور خود سری اور نافرمانی سے نفرت تھی۔ یہ اصحاب رسول اللہ، اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے نیک کردار تھے۔ ایسی صورتیں پیدا ہو جایا کرتیں ہیں کہ کسی بات پر تکرار ہو جایا کرتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ جب ایک فریق دوسرے فریق سے لڑے تو آپس میں صلح و صفائی کرا دو اور اگر ایک فریق ظلم کرتا ہے تو ظلم کی سزا دو اور انصاف اور عدل سے ان میں مساوات قائم رکھو، تمام مومن آپس میں ایک دوسرے کے بھائی ہیں۔ اس آیت انما المومنون اخوۃ میں اللہ تعالیٰ نے تمام مومنوں کو ایک دوسرے کا بھائی قرار دیا ہے۔ اور اصحاب رسول اللہ ایک دوسرے کو اپنا بھائی ہی سمجھتے تھے۔ ایک بھائی دوسرے بھائی پر حسب و نسب کے لحاظ سے کیا شرف رکھتا ہے اور اس حیثیت سے اسے کیا ترجیح ہو سکتی ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ اگر ایک بھائی دوسرے بھائی سے ناراض ہو تو آپس میں صلح کرا دو اور کوئی مرد یا عورت کسی پر ہنسی نہ اڑایا کرے۔ اور یہ گمان نہ کرے کہ وہ اس سے بہتر ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ دلوں میں کدورت بیٹھ جاتی ہے اور نفاق کا بیج تلخ پھل لاتا ہے۔ جب تمام مسلمان آپس میں
بھائی ہیں تو زیبا نہیں کہ ایسی ایسی باتوں سے ایک دوسرے کو طعن و ملامت کرے اور نہ ایک دوسرے پر نام دھرو۔ ایمان لانے کے بعد ان باتوں سے کنارہ کرو۔ آپس میں بد ظنی نہ کرو۔ اور نہ غیبت کرو۔ کون شخص پسند کرے گا کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے۔ اول تو مردار گوشت کھانا ہی سخت مکروہ ہے دوسرے اپنے مردہ عزیز بھائی کا گوشت کھانا کون پسند کرے گا۔ مسلمان چونکہ آپس میں بھائی ہیں کسی بھائی کی عدم موجودگی میں اس کے متعلق بری باتوں کا تذکرہ نہایت مذموم فعل ہے۔ یہاں تک تو صرف مسلمانوں کی نسبت ارشاد ہوا اور اس لئے ان آیات میں مسلمان مومن مخاطب ہیں کہ وہ اسلام کے باعث ایک قوم بن گئے۔ اور ایک قبیلہ کے لوگ ہیں اور اس لئے ان میں قدرتاً اتفاق و اتحاد قائم رہنا چاہیے۔ وہ اسباب جو نااتفاقی اور حسد و عداوت پیدا کرتے ہیں مثلاً حسب نسب پر فخر جن سے دوسرے خاندان کی تحقیر و تذلیل مقصود ہو۔ بد گوئی۔ بد ظنی۔ غیبت اور علیٰ ہذا القیاس یک قلم معدوم کر دئیے گئے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ بنی نوع انسان کو مخاطب فرماتا ہے کہ یا ایھاالناس ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور اس کے بعد تمھاری ذاتیں اور قبیلے مقرر فرمائے۔ مدعا یہ تھا کہ اس تقسیم سے ایک دوسرے کو شناخت کر سکو۔ یہ مطلب نہ تھا کہ تم ذاتوں اور قبیلوں کو عزت و عظمت کا معیار سمجھو۔ اللہ کے نزدیک وہی زیادہ معزز ہے جو زیادہ پرہیز گار ہے۔ اسلام نے اس حد تک ذاتوں اور قبائل کے امتیاز کو تسلیم کیا ہے کہ یہ تقسیم قدرتی ہے اور اس کی غرض یہی ہے کہ تعارف میں آسانی پیدا ہو۔ نہ کہ فخر و مباہات کا موجب ہو۔ جیسا کہ بت پرست قوموں نے سمجھ رکھا ہے۔ جب تمام انسان ایک ہی مرد اور عورت کی اولاد ہیں تو اس لحاظ سے وہ ایک دوسرے کے بھائی ہیں۔ اس لئے حسب و نسب پر فخر کرنا سخت جہالت ہے۔ اس کے ہم معنی رسول خدا صلعم کا وہ مشہور خطبہ ہے جو آنحضرت صلعم نے حجتہ الوداع کی تقریب پر فرمایا تھا کہ یا ایھاالناس ان ربکم واحدوان باکم واحد کلکم لا دم و ادم من تراب اکرمکم عنداللہ اتقا کم لیس لعربی علی عجمی فضل الا بالتقوی۔ یعنی اے لوگو تمھارا رب ایک ہے اور تم ایک ہی شخص کی اولاد ہو اور اس شخص یعنی آدمؑ کی اصل مٹی تھی۔ کسی عربی کو کسی عجمی پر کوئی فضیلت نہیں، مگر پرہیزگاری کے باعث۔ آدم جو مٹی سے پیدا ہوا اگر آگ کی طرح سرکشی کرے تو سخت تعجب ہے۔ اس کا شیوہ تو خاکساری ہونا چاہیے نہ کہ تکبر اور غرور اور حسب و نسب پر بیہودہ فخر۔ اس لحاظ سے ایک انسان کو دوسرے انسان پر مطلق فضیلت نہیں۔ خواہ وہ عرب کا رہنے والا ہو یا عجم کا۔ حسب نسب پر فخر کرنا سرے سے تقاضا انسانیت نہیں ؟ کیونکہ اس لحاظ سے ہر ایک شخص کی حیثیت یکساں ہیں اور مسلمانوں میں بوجہ اسلام مساوات قائم کر دی گئی ہے۔ اس لئے اس حیثیت کو اور بھی تقویت حاصل ہو گئی۔ وہ بحیثیت مسلمان ایک ہی مذہب کے تابع ہیں اور آپس میں دینی بھائی ہیں۔
تعجب ہے کہ زید جو رسول اللہ کی نظروں میں معزز تھے اور اصحاب کبار میں ممتاز تھے جن کے بیٹے کو حضرت عمرؓ نے اپنے بیٹے پر ترجیح دی۔ ان کی نسبت قیاس کیا جائے کہ چونکہ وہ ایک غلام تھے اس لئے عالی نسب زینبؓ کی نظروں میں حقیر تھے، کیا یہ قیاس نہیں ہو سکتا کہ چونکہ وہ رسول خدا کے متبنیٰ تھے اس لئے زینب کی نظروں میں حقیر تھے۔ ہم ان قیاسات کو نظر انداز کرتے ہیں صرف واقعات پر بحث کرتے ہیں جو کہ قرآن شریف کی آیات بینات سے ثابت ہیں۔
سخت حیرت ہے کہ اس روایت میں یہ ظاہر کیا گیا ہے۔ زینب بدزبانی سے پیش آتی تھیں اور زید کو حقیر سمجھتی تھیں حالانکہ عتاب الٰہی کا مورد حضرت زیدؓ ہیں۔ "وماکان بمومن ولا مومنۃ اذا قضی اللہ و رسولہ امراً ان یکون لھم الخیرۃ من امرھم ط ومن یعص اللہ ورسولہ فقد ضل ضلٰلاً بیناہ و اذ تقول للذی انعم اللہ علیہ و انعمت علیہ امسک علیک زوجک و اتق اللہ” یعنی جب اللہ اور اس کا رسول کسی مومن مر د و عورت کو کوئی حکم کسی کام کرنے کا دیں تو اس مرد و عورت کو اختیار باقی نہیں رہتا کہ اس میں چوں چراں کرے۔ اللہ اور اس کا رسول کوئی حکم ایسا نہ دیں گے اور نہ ایسے حکم کی ان سے توقع ہو سکتی ہے جو مسلمانوں کی بہتری کے خلاف ہو بلکہ اس حکم میں مسلمانوں کی بہبودی مد نظر ہو گی۔ اس لئے ایسے حکم کی نافرمانی صریحاً اپنی بہتری کی مخالفت کرنا ہے۔ یہ تو ایک عام ارشاد ہے اگرچہ روئے سخن زید کی طرف ہے۔ جیسا کہ اس آیت کے بعد فرمایا کہ اس شخص کو دیکھو کہ جس پر اللہ تعالیٰ نے احسان کیا اور جس پر تو نے احسان کیا اس شخص سے توقع ہو سکتی تھی کہ اللہ اور اس کے رسولؐ کے کسی حکم کی تعمیل میں کوتاہی نہ کرے۔ مگر جب تو نے اسے کہا کہ اپنی زوجہ کو مت چھوڑ اور خدا سے ڈر تو کہا نہ مانا۔ یہ عجیب بات ہے کہ زینبؓ بد زبان ہو اور اپنے شوہر کو حقیر سمجھے اور بیچارہ شوہر ہی پر اللہ اور اس کے رسول کی خفگی کا اظہار ہو۔ حالانکہ انصاف تقاضا کرتا ہے کہ اس موقع پر زیدؓ کی دلجوئی کی جاتی اور زینبؓ پر عتاب ہوتا۔ کیونکہ قصور تو سراسر زینبؓ کا تھا۔ زیدؓ مظلوم نے کیا گناہ کیا تھا۔
سورہ الاحزاب کی آیت مذکورہ سے واضح ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اور رسول خدا نے زید پر خفگی کا اظہار فرمایا، اس لئے کچھ شک نہیں کہ زید قصوروار تھا۔ لیکن قرآن شریف کی کسی آیت سے ظاہر نہیں ہوتا کہ زینب سے کچھ غلطی یا قصور ہوا ہو۔ اس لئے یہ روایت کہ زینب عالی نسبی کی وجہ سے زید کو حقیر سمجھتی تھیں اور بدزبانی کرتی تھیں غلط ہے اور محض قیاس ہے۔ اور بلحاظ حالات اصحاب رسول اللہ اور تعلیم اسلام اس قیاس میں ذرا بھی معقولیت نہیں اور ہم یقین نہیں کرتے کہ رسول خدا نے زینب کا خلاف مرضی فریقین عقد باندھا ہو۔ جب ابتداء ہی میں آنحضرت کو اس بات کا علم ہو چکا تھا کہ زینب زید کو پسند نہیں کرتی تو کس طرح یہ یقین ہو سکتا ہے کہ بعد نکاح ان دونوں میں موافقت ہو جائے گی۔ سورہ نساء میں علت غائی اللہ تعالیٰ اس طرح فرماتا ہے کہ ” و خلق لکم من انفسکم ازواجاً تسکنوا الیھا و جعل بینکم مودۃ و رحمۃ” یعنی مر و عورت ایک جنس ہیں اور ان کی پیدائش نفس واحد سے ہوئی ہے۔ اس لئے قدرتاً مرد اور عورت میں انس ہے اور بحالت زوجیت ایک دوسرے کے باعث چین آرام حاصل کرتا ہے۔ اور ان میں محبت اور پیار ہوتا ہے۔ اور اسی سورہ کی ایک آیت کا یہ جزو ہے "محصنین غیر مسافحین” یعنی نکاح نفسانی خواہشات کو پورا کرنے کے لئے نہیں بلکہ دائمی تعلقات قائم رکھنے کے لئے ہیں۔ نکاح کی علت غائی تو یہی کچھ ہے لیکن جب ایک عورت کو اپنے حسب و نسب پہ ناز ہو اور دوسرے مرد کو غلام سمجھ کر حقیر اور ذلیل خیال کرتی ہو تو ان دونوں میں مودۃ اور رحمت پیدا ہونے کی کون سی صورت ہے۔ بروئے شریعت اسلام کوئی عورت یا مرد خلاف مرضی خود نکاح پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔ خود شارع سے کب امید ہو سکتی ہے کہ زینبؓ کو زیدؓ سے نکاح پر مجبور کیا ہو۔ زینب نکاح سے پیشتر زید کے حسب و نسب سے بخوبی واقف تھیں۔ اس لئے اگر بعد نکاح زیدؓ کو حقیر سمجھتی تھیں تو اس کے یہ معنی ہیں کہ نکاح سے پیشتر بھی انکا یہی خیال تھا۔ اس حالت میں اگر زید سے عقد منظور کیا تو بکراہت اور بحالت مجبوری رضامندی ظاہر کی۔ لیکن ہم یقین نہیں کرتے کہ آنحضرتؐ کے زمانے میں ایسا عقد باندھا گیا ہو۔
المختصر زینبؓ زیدؓ کو حقیر اور ذلیل نہ سمجھ سکتی تھیں اور نہ کبھی سمجھا ورنہ اللہ اور اس کا رسول زینبؓ پر خفگی کا اظہار فرماتے لیکن معاملہ برعکس ہے کہ زید پر عتاب ہو رہا ہے۔ اس لئے کچھ شک نہیں کہ قصور زید کا تھا۔ اور یہی نا موافقت کا باعث ہوا۔ پیشتر اس کے کہ ہم نا موافقت کے اسباب پر بحث کریں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ آیت محو بالا کی پہلی ملحقہ آیت پر غور کریں اور ان تعلقات کو ظاہر کریں جو معناً ان آیات میں باہمی ہے۔ "ان المسلمین و المسلمت و المومنین و المومنات و القنتین و القنتت و الصدقین و الصدقت و الصبرین و الصبرات و الخشعین والخشعت و المصدقین و المصدقات و الصلحین و الصالحت و الحفظین فروجھم و الحفظت و الذاکرین اللہ کثیرا و الذاکرات اعداللہ لھم معفرۃ و اجرا عظیماط وما کان بمومن و لا مومنۃ اذ قضی اللہ و رسولہ امرا ان یکون ھم الخیرۃ من امرھم ط ومن بعض اللہ و رسولہ فقد ضل ضلٰلا بینام” ان آیات میں مرد و عورت کی تمام خوبیوں کو بالتصریح بیان فرمایا ہے جو مغفرۃ اور اجر عظیم کا ذریعہ ہو سکتی ہیں۔
اسلام صرف انھی خوبیوں کو تسلیم کرتا ہے اور یہی عورت یا مرد میں محبوب ہیں اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک مردوں اور عورتوں کا مرتبہ انھی خوبیوں کے لحاظ سے کم و بیش ہے۔ قرآن شریف کی مختلف آیات سے ان خوبیوں کی تفسیر ہو سکتی ہے۔ لیکن ہم اس موقع پر اس کی ضرورت نہیں سمجھتے۔ اس لئے صرف مطلب پر اکتفا کرتے ہیں۔ مدعا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ انسان میں ان خوبیوں کو پسند فرماتا ہے۔ اور اس لئے جو امر اللی تعالیٰ کی نگاہ میں پسندیدہ ہے وہ اہل اللہ کی نظروں میں بھی پسندیدہ ہونا چاہیے۔ دنیا اور آخرت میں سرخ روئی اسی صورت میں حاصل ہو سکتی ہے جب ان اوصاف سے متصف ہو
ان آیات کی ماقبل آیات سے مزید تائید ہوتی ہے۔ "یا ایھا النبی کل لاازواجک ان کفتن ترون الحیواۃ الدنیا رزینتھا فتعالین امتعکن و اسر حکن سراحا جمیلا۔ و ان کنتن ترون اللہ و رسولہ والدارا لاخرۃ فان اللہ اعد للخینت منکن اجرا عظیما” یعنی اے نبی اپنی بیویوں سے کہہ دو کہ اگر تم دنیا کی زندگی اور اس کے سازو سامان کی طلبگار ہو تو آؤ میں تمھیں کچھ دے دلا کر خوش اسلوبی سے رخصت کر دوں۔ اور اگر تم خدا اور اس کے رسول اور عاقبت کی خواہاں ہو تو جو تم سے نیکو کار ہیں ان کے لئے اللہ تعالیٰ کے ہاں اجر عظیم ہے۔ دنیاوی زندگی اور دنیاوی زینت کی تفسیر قرآن شریف کی دیگر آیات سے با آسانی ہو سکتی ہے۔ مولانا روم نے انھی آیات کو مد نظر رکھ کر لکھا ہے کہ
چیست دنیا از خدا غافل شدن نے قلاش و نقرۃ فرزند و زن
اگرچہ اس شعر میں ان آیات کا مفہوم اچھی طرح ظاہر نہیں کیا گیا لیکن مولانا روم کا مطلب یہ ہے کہ مال و دولت و فرزند و زن وغیرہ دنیاوی زندگی کے ساز و سامان ہیں۔ لیکن بذاتہ یہ اسباب برے نہیں۔ اگر کوئی شخص کسی سبب سے خدا سے غافل ہو جائے تو یہ ضرور نہیں کہ یہ اسباب مال و دولت و فرزند و زن ہی ہوں۔ بلکہ کوئی ہوں ایسے اسباب جو خدا سے غافل کرتے ہیں برے ہیں۔ اور اسی کو دنیا کہتے ہیں۔ ایک شخص مالدار اور عیالدار بھی ہے اور خدا سے غافل نہیں تو مال اور اولاد اس کے واسطے دنیا نہیں ہے۔ چنانچہ قرآن شریف میں بھی مذکور ہے کہ اہل اللہ کو تجارت اور کاروبار اللہ تعالیٰ کی یاد سے غافل نہیں کرتے۔ بلکہ ہو سکتا ہے کہ ایک شخص مفلس ہو اور غافل ہو تو افلاس اس دنیا کے لئے ہے۔ آیات مذکورہ بالا میں ان خواہشات کی طرف اشارہ ہے جو دنیاوی جاہ و جلال کی طلب کی تحریک کرتی ہیں۔ اور اس کے ساتھ اللہ اور اس کے رسول کی خوشنودی اور دار الآخرہ کے اجر کو نظر انداز کرتی ہیں۔ ایسی خواہشیں سخت مذموم ہیں۔ اور فی الحقیقت ان خوبیوں کے مخالف ہیں۔ جو اللہ تعالیٰ کو پسندیدہ ہیں۔ جن کا تذکرہ ہم کے چکے ہیں۔ قرآن شریف کی کسی آیت سے ثابت نہیں ہوتا کہ مال و دولت یا فرزند و زن برے اسباب ہیں اور اس لئے انھیں جمع نہیں کرنا چاہیے۔ بلکہ اس کے برخلاف یہ خواہشیں اولوالعزم پیغمبروں کی دعاؤں میں ظاہر ہوتی ہیں۔ وہ خدا تعالیٰ سے دعائیں مانگتے ہیں کہ ان کے ہاں اولاد ہو ذلت اور مسکنت اللہ تعالیٰ کے غضب کا نتیجہ ہیں۔ اہل اللہ اور دنیا دار دونوں اسی دنیا میں رہتے۔ چلتے۔ پھرتے۔ کھاتے پیتے ہیں۔ یہی اسباب ہیں جو دنیا میں موجود ہیں اور دونوں استعمال کرتے ہیں۔ لیکن فرق صرف اتنا ہے کہ ایک مال جمع کرتا ہے اور ضروریات زندگی اور نیک کاموں میں صرف کر تا ہے اور دوسرا عیش و عشرت میں اڑاتا ہے۔ یہی مال اور یہی اسباب ایک کی مغفرت کے باعث ہیں اور دوسرے کی ہلاکت کا موجب ہیں۔ "حیات الدنیا و زینتھا” ایسے لفظ ہیں جو اپنے معنے آپ ظاہر کرتے ہیں۔ یعنی اسی زندگی اور اسی زندگی کی زینت جو دنیا تک محدود ہے۔ مال دولت اور فرزند و زن کو حیات دنیا اور اس کی زینت سمجھنا سخت غلطی ہے۔ اور نہ اس آیت کا یہ مفہوم ہے۔ یہ تو صرف اسباب ہیں اور ان کے اچھے یا برے استعمال کا انحصار خواہشات پر ہے۔ مثلاً ایک شخص مال جمع کرتا ہے اور اس کی یہ خواہش ہے کہ وہ اس کے ذریعہ سے مال دار کہلائے۔ لوگ اس کے محتاج و دست نگر ہوں اور اس کی عزت کریں۔ بیشک اسے اختیار ہے۔ اس کی خواہش پوری ہو گی۔ لیکن یہ عزت صرف اس کے جیتے جی ہے۔ مرنے کے بعد معاملہ دگرگوں ہے۔ یا ایک عورت کی یہ خواہش ہے کہ اس کا خاوند مال دار ہو تاکہ وہ بیش قیمت زیورات سے لدی ہو۔ اور عورتوں کے حلقہ میں ممتاز نظر آئے۔ اسے دنیاوی زندگی کہتے ہیں۔ یا اس کی خواہش ہو کہ اس کا خاوند علی نسب ہو تاکہ فخر کا موجب ہو یا ایک طرف ایک غلام مومن۔ ان اوصاف سے موصوف جن کا ذکر ہو چکا طلبگار ہو۔ اور دوسری طرف ایک عالی نسب مالدار عیاش اوباش بدمعاش اس کا خواہاں ہے اور وہ دونوں میں سے آخر الذکر کو اس کے عالی نسبی اور مال کی وجہ سے ترجیح دیتا ہے اور اول الذکر کے اوصاف حسنہ اور موخرالذکر کے خصائل ذمیمہ کو نظر انداز کرتی ہے تو کچھ شک نہیں کہ ایسی عورت "حیاۃ الدنیا و زینتھا” کی طالب ہے۔ اور اس سے انکار نہیں ہو سکتا کہ خبیث مرد خبیث عورتوں اور طیب مر د طیب عورتوں کے لئے موزوں اور مناسب ہیں۔ اگر مرد و عورت میں صرف ان خوبیوں کی تلاش کی جائے جو اللہ تعالی کو پسندیدہ ہیں تو ممکن نہیں کہ ایسے میاں بیوی میں نا موافقت ہو۔ نا موافقت کے اسباب صرف "حیاۃ الدنیا و زینتھا” ہیں۔ لوگ حسب و نسب مال و جاہ اور صرف خوبصورتی کو دیکھتے ہیں۔ افسوس ہے کہ صرف ان باتوں سے عورت اور مرد مو مودۃ رحمت پیدا نہیں ہو سکتی۔ جب تک کہ مرد اور عورت میں وہ خوبیاں نہ ہوں جن کا ذکر کیا گیا ہے۔
اگر زینب حسب و نسب پر ناز کرتی تھی اور زید کو غلام سمجھ کر حقیر سمجھتی تھی تو کچھ شک نہیں کہ وہ "حیاۃ الدنیا و زینتھا” کی طالب تھی۔ اور اس نے وہ تمام خوبیاں نظر انداز کر دیں جو زید کی ذات میں موجود تھیں اور جن کے باعث وہ صحابہ کبارؓ میں ممتاز تھا۔ اور زید بالکل حق بجانب تھا کہ زینب کو کہتا کہ آؤ میں تمھیں کچھ دے دلا کر خوش اسلوبی سے رخصت کر دوں۔ کیونکہ تم دنیاوی زندگی اور اس کی زینت کی طالب ہو اور اگر تم اس زندگی کو پسند کرو جو اللہ اور اس کے رسول نے پسند فرمائی تو آخرت میں اجر عظیم ہے۔ اس پر بھی اگر زینب اس کو حقیر سمجھتی تھی اور ان سے بذریعہ طلاق علیحدگی اختیار کی تو وہ کیوں مورد عتاب ہوا۔
جیسا کہ ہم نے بیان کیا ہے۔ اصل بات میں یہ ہے کہ زینب کی عالی نسبی اور زید کی غلامی پر یہ قیاس کیا گیا ہے کہ زینب زید کو حقیر سمجھتی تھی۔ اس لئے زید نے طلاق دے دی۔ یہ قیاس صریحاً غلط ہے۔ محدثین نے بالاتفاق لکھا ہے کہ زینب قدیمتہ الاسلام اور مہاجرات میں داخل تھیں۔ راست باز اور منصف مزاج، سخی اور فیاض عورت تھیں۔ رحم دلی اور ہمدردی کا قدرتی مادہ موجود تھا۔ اپنے ہاتھ سے چمڑے کو دیاغت کرتیں اور اس کی آمدنی یتیموں اور محتاجوں میں تقسیم کرتیں۔ حضرت عمرؓ نے آپ کا وظیفہ بارہ ہزار درہم سالانہ مقرر کیا۔ آپ ہمیشہ یہ رقم محتاج رشتے داروں اور یتیموں میں خیرات کر دیتیں غرض زینب میں ان تمام خوبیوں کا موجود ہونا بیان کیا ہے جو ہم مذکورہ بالا آیت الاضراب میں لکھ چکے ہیں۔ اس لئے امید نہیں ہو سکتی کہ ایسی مومنہ اور پرہیز گارہ اپنے شوہر کو حسب نسب کے لحاظ سے حقیر سمجھتی ہو۔
ہمارے روزانہ تجربہ اور مشاہدہ سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ میاں بیوی میں نزاع کے اسباب صرف "حیاۃ الدنیا و زینتھا” ہیں۔ اس لئے قیاس یہ کیا گیا کہ زینب دنیاوی زندگی اور اس کی زینت کی خواہاں تھیں۔ لیکن قرآن شریف کی کسی آیت سے اس کی تائید نہیں ہو تی۔ اگر یہ قیاس زید کی نسبت کیا جاتا تو معقول تھا کیونکہ زید پر خفگی کا اظہار ہو رہا ہے۔ ہمارے ایک فاضل دوست نے یہ قیاس کیا ہے کہ ” زینبؓ خوبصورت عورت نہ تھی بلکہ کریہہ منظر تھی۔ طبعی نفرت کے باعث زیدؓ نے طلاق دے دی” ہم نہیں کہہ سکتے کہ یہ قیاس کہاں تک درست ہے۔ لیکن معقول ضرور ہے۔ جب زینبؓ کا نکاح ہوا اس وقت ان کی عمر 35 سال کی تھی۔ اس وقت تک کوئی شخص ان کا خواستگار نہ ہوا تھا۔ اس عمر تک عرب جیسے گرم ملک میں بن بیاہی رہنا قیاس پیدا کر سکتا ہے کہ وہ خوبصورت نہ تھیں۔ وہ مہاجرہ اور قدیمتہ الاسلام تھیں۔ اور آنحضرت صلعم سے قرابت قریبہ تھیں۔ اس لئے قدرتا آنحضرت صلعم کو فکر تھا کہ ان کا نکاح کسی صالح مومن مرد سے ہو جائے۔ زید ایک ایسا شخص تھا جس پر آپ نے بچپن سے احسانات کئے تھے۔ اور اس پر آپ کو بہت کچھ دعویٰ تھا۔ اور آپ کو زید سے توقع تھی کہ وہ انکار نہ کرے گا۔ آیت "واذ تقول للذی انعم اللہ علیہ وانعمت علیہ” میں صاف صاف احسانات کی طرف اشارہ ہے جس کا ذکر ہم کر چکے ہیں۔
آیت ماقبل "وما کان لمومن و لامومنۃ اذ قضی اللہ و رسولہ امران یکو ھم الخیرہ من امرھم” سے بھی یہی استدلال ہو سکتا ہے۔ ایسا امر جس کی نسبت اللہ کا حکم ہو۔ قرآن شریف میں مذکور ہونا چاہیے۔ جس کی تبلیغ رسول اللہ نے فرمائی وہ اللہ کا ارشاد ہے۔ اور اس کا ثبوت قرآن شریف کی آیات میں ہونا چاہیے۔ اس آیت میں فیصلہ شدہ امر کی طرف اشارہ ہے۔ اور یہ فیصلہ شدہ امر سورہ نساء (3ع) میں اس طرح مذکور ہے۔ "وعاشروھن بالمعروف فان کرھتمو ھن فصی ان تکرہ سیئا و یجعل اللہ فیہ خیرًا کثیرًاط یعنی عورتوں سے اخلاق کے ساتھ سلوک کرو اور اگر وہ تم کو مکروہ معلوم ہوں تو (صبر کرو اور ان کو جدا نہ کرو) ہو سکتا ہے کہ تم کو کوئی چیز مکروہ معلوم ہو اور خدا نے اسی میں اصلاح اور خیر اور برکت رکھی ہو۔
بہرحال نا موافقت کی کچھ ہی وجہ کیوں نہ ہو۔ اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ قصور زید کا تھا۔ عموماً میاں بیوی میں بعض اوقات کھٹ پٹ ہو جایا کرتی ہے۔ اور معمولی باتوں پر سخت کلامی تک نوبت پہونچ جاتی ہے۔ اگرچہ موسوی شریعت کے حاملان نے مرد کو طلاق کی اجازت ایسی معمولی باتوں پر بھی دی ہے۔ لیکن اسلام کی یہ تعلیم نہیں۔ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ ہر ایک کوشش میاں بیوی میں صلح و صفائی پیدا کرنے کے لئے کرنی چاہیے۔ سورہ نساء میں مرد اور عورت کے باہمی تعلقات اور مباشرت کے مفصل احکام ہیں۔ ممکن ہے کہ ایسی ہی صورت زید اور زینب کے درمیان پیدا ہو گئی ہو اور زید نے طلاق دینے میں جلدی کی۔ ہم یقین کرتے ہیں کہ زینب اگرچہ پرلے درجے کی پارسا اور پرہیزگار عورت تھی مگر خوبصورت نہ تھی۔ زید نے رسول خدا کے کہنے سننے پر نکاح تو کر لیا لیکن "دعاشر و ھن بالمعروف” پر عمل نہ کر سکا۔ اور یہ ممکن ہے بلکہ قیاس غالب ہے کہ نکاح سے پیشتر اس نے زینب کو دیکھا نہ تھا۔ اگر رسول خدا کو ابتداء سے معلوم ہو جاتا کہ زید کراہت کی حالت میں زینب سے گذارن نہیں کر سکتا تو ہم یقین کرتے ہیں کہ وہ کبھی زینب کا عقد زید سے نہ باندھتے۔
ہمارا خیال ہے کہ ہم نے ضرورت سے زیادہ نا موافقت کے اسباب پر بحث کی ہے۔ مگر اس سوال کو نظر انداز نہیں کر سکتے کہ "کیا یہی کچھ اثر تعلیم اسلام کا اصحاب رسول اللہ پر ہوا کہ ایک معزز صحابی نے آنحضرت کا کہا نہ مانا؟
ہم نے بالااختصار اس سوال کا جواب دے دیا ہے کہ نکاح کے معاملہ میں اسلام کسی شخص کی طبعیت پر جبر نہیں کرتا۔ میاں بیوی نے ایک دوسرے کے ساتھ تمام عمر بسر کرنی ہوتی ہے۔ اب اگر ایک شخص کامیابی کے ساتھ اپنی طبعی خواہشات کا مقابلہ نہیں کر سکتا اور دیکھتا ہے کہ تمام عمر اسی جدو جہد میں بسر ہو گی کہ کسی طرح بیوی کی محبت اپنے دل میں پیدا کروں اور اس تکلیف سے بچنے کے لئے علیحدگی اختیار کرتا ہے تو ہماری رائے میں ان حالات میں وہ گنہگار نہیں اگرچہ بلحاظ تقویٰ قصور وار ضرور ہے۔ زید کی جگہ اگر کوئ اور کم پایہ کا شخص ہوتا تو اس پر اتنا عتاب بھی نہ ہوتا۔ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ زید سا پرہیزگار اور خدا ترس آدمی اس کمزوری سے نہ بچ سکا جو تقاضا بشریت ہیں۔ اللہ اور اس کے رسول کا زید کو ملامت کرنا یہی معنے رکھتا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کے نزدیک زید کا رتبہ عام مسلمانوں سے بلند تھا۔ زید کا پہلا نکاح رسول اللہ کی لونڈی ام ایمن سے ہوا۔ یہ بیوہ عورت تھی۔ زید نے اس کے جیتے جی دوسرا نکاح نہ کیا۔ اور تمام عمر خوش اسلوبی سے بسر کی۔ ام ایمن کی وفات کے بعد دوسرا نکاح زینبؓ سے ہوا۔ جو عالی نسب ہونے کے علاوہ رسول خدا سے قرایب قریبہ رکھتی تھی۔ زید نہایت خوش قسمت تھا کہ اسے ایسی زوجہ نصیب ہوئی۔ اس لئے اگر اس سے چند روز بھی نباہ نہ ہو سکا تو یہ سمجھنا چاہیے کہ زید نے تقاضاء طبعی سے کس قدر مجبور ہو کر طلاق دی ہو گی۔ ان حالات میں کوئی انصاف پسند عقلمند یہ فتویٰ نہ دے گا کہ زید گنہگار تھا۔ نکاح کی علت غائی کچھ شک نہیں کہ یہی ہے کہ میاں بیوی باہمی محبت و پیار سے عمر بسر کریں۔ زید ؓ نے جب دیکھا کہ وہ زینب کے معاملہ میں ایسا نہیں کر سکتا تو سوائے اس کے اور کچھ چارہ ہی نہ تھا کہ وہ علیحدگی اختیار کرے۔ اس قصور پر جن الفاظ میں اللہ اور اس کے رسول نے زید کو ملامت کی ہے اس کی نسبت زید کے جی سے پوچھنا چاہیے۔ ہم انصافاً یقین کرتے ہیں کہ زید کو کافی سزا مل گئی۔ یہ ایسا قصور نہ تھا کہ جو معاف نہ ہو سکے۔ اس پر ہم مزید بحث آگے چل کریں گے۔
پرانے عہد نامے میں حضرت داؤد کی نسبت لکھا ہے کہ ایک دن شاہی محل کی چھت پر ٹہل رہے تھے کہ بے محابا نگاہ ایک ہمسایہ گھر پر پڑی۔ دیکھا کہ عورت نہا رہی ہے۔ اس وقت عورت کے حسن و جمال کا یہ عالم تھا کہ گویا چاند پانی میں لہریں لے رہا تھا۔ بادشاہ سلامت دل ہاتھ سے دے بیٹھے۔ دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ یہ عورت بادشاہ کے ایک جانثار وفادار بہادر سپاہی "حتی اوریاہ” کی زوجہ ہے۔ جو اس وقت بادشاہ کے دشمنوں سے لڑ رہا ہے۔ داؤدؑ نے عورت کو وصل کا پیغام دیا۔ جو منظور ہو گیا۔ رات کو ہم بستر ہوا۔ اور صبح سے پیشتر عصمت مجسم عورت کو حاملہ کر کے رخصت کیا۔ اسی پر اکتفا نہ کیا۔ بلکہ اپنے سپہ سالار کو لکھ بھیجا کہ اوریاہ کو جنگ کے وقت ایسے مقام پر کھڑا کر و کہ مارا جائے۔ سپہ سالار نے تعمیل کی اور اوریاہ مارا گیا۔ اور داؤدؑ نے اس کی زوجہ کو اپنے گھر میں ڈال لیا۔ اس کے پیٹ سے حضرت سلیمانؑ پیدا ہوئے (3سموئیل باب 11 و 12)
حضرت سلیمانؑ کی نسبت لکھا ہے کہ اگرچہ اللہ تعالیٰ کا حکم تھا کہ موابی اور عمونی اور ارومی اور چندانی اور جتی عورتوں کو اپنے نکاح میں نہ لاؤ۔ لیکن سلیمانؑ نے سب احکام خداوندی بالائے طاق رکھے اور ان عورتوں سے جفت ہوا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان عورتوں نے اپنے اپنے معبودوں کے مندر اور بت بنائے۔ اور بت پرستی کا بازار گرم ہو گیا۔ اور چونکہ سلیمان ؑ ان کا عاشق تھا اس لئے اس کا دل بھی خدا کی یاد کی طرف سے برگشتہ ہو گیا۔ اس کے محلات میں بیگمات اور حرموں کی تعداد نو سو تھی (اسلاطین باب 1 آیت الغایت 13)
داؤد اور سلیمان کی حسن پرستی کی کیفیت تو مذکورہ بالا دو مثالوں سے بخوبی واضح ہوتی ہے۔ لیکن کیا کسی کو توقع ہو سکتی ہے کہ ایسے اولوالعزم پیغمبر اور ایسے عالیشان بادشاہ ایسے قبیح جرائم کے مرتکب ہوں گے اور اس طرح فسق و فجور میں مبتلا ہوں گے کہ کفر و شرک کی حد تک پہنچ جائیں گے ؟ زید نے تو صرف اتنا ہی کیا کہ اپنی عورت سے جو اس کی نظروں میں مکروہ تھی علیحدگی اختیار کی۔ کیا یہ ایسا قصور ہے کہ قابل عفو نہیں؟ جبکہ زید کو کافی سرزنش ہو چکی ہو۔ اگر داؤد ؑیا سلیمانؑ نے ایسا فعل کیا ہوتا تو غالباً پرانے عہد نامہ میں قابل ذکر بھی نہ ہوتا۔ لیکن قرآن شریف میں اس امر کا تذکرہ اس لئے کیا گیا ہے کہ آئندہ کسی مومن کو ایسے امور پر جرات نہ ہو جو اللہ تعالیٰ کی مرضی کے خلاف ہیں۔ اور جن سے رسول خدا نے منع کر دیا ہے۔ خواہ ایسے احکام کی خلاف ورزی گناہ کی حد تک نہ پہونچے۔ اور بالخصوص طلاق پر جرات نہ کریں اگر میاں بیوی بیوی میں تعلقات کسی قدر کشیدہ ہو گئے ہوں۔ نفسانی خواہشات کا دلیرانہ مقابلہ کریں۔ قرآن شریف میں کسی پیغمبر کے کسی حواری یا شاگرد کا نام نہیں لکھا گیا۔ آنحضرتؐ کے اکثر اصحاب اس پایہ اور مرتبہ کے گذرے ہیں کہ انکا نظیر کہیں نہیں ملتا۔ لیکن ان کا نام بھی نہیں لیا گیا۔ صرف زید کا نام اس واقع کے تذکرے میں آتا ہے۔ مدعا یہ ہے کہ ایک نظیر قائم ہو جائے کہ ایک شخص سے ایک قصور سر زد ہوا اور اس کو بھی بغیر سرزنش نہیں چھوڑ ا۔ آئندہ نسلوں کے واسطے اس مثال سے عمدہ سبق مل سکتا ہے اور بالخصوص "تبنیت” کی خرابیوں کی اصلاح جو کچھ اس واقعہ نے عملاً کی قابل ذکر ہے۔
تبنیت کی رسم ہندوؤں میں قدیم الایام سے رائج ہے۔ مگر مورخین کی رائے ہے کہ ہندوستان میں اس رسم کے اختراع کا فخر آریہ ہندوؤں کو نہیں۔ قدرتاً ہر ایک شخص کے دل میں تمنا ہوتی ہے کہ اس کے ہاں بیٹا ہو جو بڑھاپے میں کام آوے۔ اور اس کی موت کے بعد جائداد کا وارث ہو۔ یہ ضرورتیں جیسا کہ آریہ ہندوؤں نے محسوس کیں ہر ایک ملک اور زمانہ میں ہر ایک شخص ویسے ہی محسوس کرتا ہے اور اس لئے تبنیت ایک عالمگیر رسم ہے۔ یہ تو قدرتی آرزو ہے۔ لیکن اس کے علاوہ کثرت نفوس قومی اور شخصی طاقت بناتے ہیں۔ اور ہر ایک زمانہ میں ہر ایک خاندان اور قوم نے دشمنوں کے مقابلہ میں اپنی ہستی کو قائم رکھنے کے لئے اس ضرورت کو محسوس کیا۔ آریہ ہندوؤں میں تبنیت کی ابتداء خواہ کچھ ہی ہو ہمیں اس سے بحث نہیں۔ ہم صرف تبنیت پر بلحاظ رسم مذہب بحث کرتے ہیں۔ ہندو مذہب نے تبنیت نجات کا ایک ذریعہ سمجھا ہے۔ ہر ایک لاولد ہندو کا "نرگ” سے بچنے کے لئے متنبیٰ بنانا اعلیٰ فرض ہے۔ جو اس کی کریا کرم اور دیگر رسم جو مذہباً ضروری ہیں ادا کرتا ہے۔ جس کے بغیر مردہ کی روح کو سخت عذاب ہوتا ہے۔ یہ عقائد کی مضرتوں کو تعلیم یافتہ ہندوؤں نے بخوبی محسوس کیا ہے اور ہم اس پر بحث کی ضرورت نہیں سمجھتے۔ تبنیت پر مختلف پہلوؤں سے اگر گفتگو اور مختلف مذاہب کی خصوصیتوں پر بحث کی جائے تو ایک دفتر بن جائے۔ ہم نمونہ از خروارے کے مقولہ پر کاربند ہوتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ تبنیت کا اثر سلسلہ نسب پر کیا ہوتا ہے۔ اور اس غرض کے لئے ہم سب سے پہلے کتاب مقدس یعنی بائیبل کی جو پرانے اور نئے عہد نامے کے مجموعے کا نام ہے۔ چند آیات کا حوالہ دیتے ہیں۔ اگرچہ ان آیات میں مسئلہ تبنیت زیر بحث نہیں لیکن اس مسئلہ کی خصوصیات بلحاظ نسب بخوبی واضح ہوتی ہیں۔
یسوع مسیح کی اعجازی پیدائش کے قائل یقین کرتے ہیں کہ آنجنابؑ بغیر باپ کے پیدا ہوئے اور اس لئے ایسے شخص کے لئے شجرہ نسب پیدا کرنا بالکل بے معنی ہے۔ لیکن چونکہ ایک پیشگوئی یہودیوں میں مشہور تھی کہ داؤد بادشاہ کی ایک شاخ سے ایک شخص پیدا ہو گا جو اس کے تخت و تاج کا وارث ہو گا۔ اور عیسائی دنیا کا عقیدہ ہے کہ یہ پیش گوئی یسوع مسیحؑ کی ذات میں پوری ہوئ۔ اس لئے ضروری تھا کہ آنجناب کو ابن داؤد ثابت کیا جائے۔
اعجازی پیدائش کا تو یہ منشا تھا کہ یسوع مسیحؑ ابن آدم نہیں اور اس لئے آدم کا گناہ آپ کو وراثتاً نہیں پہونچتا۔ لیکن ابن داؤد ہونے کا فخر کافی ثبوت اس دعویٰ کا ہے کہ تخت و تاج کا وارث آنجناب تھے۔ لیکن یہ ایک معما تھا جو ہماری سمجھ میں نہیں آ سکتا کہ آبائی قرضہ سے سبکدوشی بھی حاصل ہو اور وراثت کے مالک بھی بن بیٹھے۔ آخر اس عقدہ لاینحل کو تبنیت نے کھول دیا۔ یعنی اس میں کوئی کلام نہیں کہ یسوع مسیحؑ مریم کے پیٹ سے پیدا ہوئے جو یوسف نجار کی منگیتر تھی۔ یوسف نے آنجنابؑ کو متنبیٰ بنا لیا۔ یوسف ابن داؤد تھا۔ اس لئے یسوع مسیح بھی ابن داؤد ٹھہرے۔
تبنیت متنبیٰ کی حقیقی نسب کو تسلیم نہیں کرتی۔ اس کی مثال ایک پیوندی درخت کی مانند ہے۔ اس لئے متنبیٰ حقیقی آبا و اجداد سے کٹ کر مصنوعی باپ کے شجرہ نسب میں پیوند ہو جاتا ہے۔ اور متنبیٰ کو مصنوعی باپ کے نام پر پکارا جاتا ہے۔ چناچہ یسوع مسیح کو آپ کے
ہم وطن ابن یوسف کہتے (متی باب 13 آیت 55) اگر ہمیں کسی اور ذریعہ سے یسوع مسیح کی اعجازی پیدائش علم نہ ہوتا تو ہم یوسف کو آپ کا حقیقی باپ ہی سمجھتے۔
مقدس متی تو نئے عہد نامہ کا آغاز یسوع مسیح ابن داؤد ابن ابراہیم کے نسب نامہ سے کرتے ہیں۔ لیکن مقدس لوقا (باب 3 آیت 23) یسوع مسیح کا ایک اور نسب نامہ تحریر فرماتے ہیں جو متی سے بالکل مختلف ہے۔ عیسائی یہ قیاس کرتے ہیں کہ ان میں سے ایک جو متی نے لکھا ہے یوسف کا ہے اور دوسرا جو لوقا نے لکھا ہے آپ کی والدہ مریم کا ہے۔ اگرچہ یہودی آئین کے مطابق عورت کی طرف سے نسب قائم نہیں ہوتا۔ لیکن ہمیں اس سے بحث نہیں۔ عیسائیوں کا اختیار ہے یہ نسب نامے جس سے چاہیں منسوب کریں۔ سوال تو یہ ہے کہ ان میں سے یسوع کا نسب نامہ کونسا ہے۔ ایک معترض کو حق حاصل ہے کہ ان نسب ناموں پر آزادانہ اعتراض کرے اور عیسائیوں کا اعلیٰ فرض ہے کہ معقول جواب دیں۔ ہماری رائے میں یہ کوئی معقول جواب نہیں کہ ایک نسب نامہ تو یوسف کا اور دوسرا مریم کا خوامخواہ بنایا جائے۔ جبکہ یہودیوں کے آئین و قوانین اس قیاس کی زور سے تردید کرتے ہیں۔ اور یہ بھی معقول جواب نہیں کہ متی اور لوقا نے ان نسب ناموں کو جیسا کہ سرکاری کاغذات میں دیکھا نقل کر دیا۔ عیسائی مفسرین نے کئی ایک تاویلیں کی ہیں مگر ایک بھی معقول نہیں۔ ہنری اور سکاٹ، مفسرین بائیبل ان نسب ناموں کے متعلق عیسائی علماء کی محنت کو داد دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس اعتراض کو جو ہر دو نسب ناموں کے اختلاف پر کیا جاتا ہے ہمارے فاضل مسیحی علماء نہایت محنت سے رد کیا ہے۔ غالباً یسوع یوسف کا متنبیٰ تھا۔ اور اس لئے سرکاری رجسٹروں میں یسوع ابن یوسف کا اندراج ہو گیا۔ منکرین تو اس اختلاف سے ٹھوکر کھاتے ہیں اور لفظی مبحث میں پڑے ہوئے ہیں لیکن ہماری نجات کا مدار اس پر نہیں کہ ہم ان تمام عقدوں کو حل کر سکیں۔ اور اس اختلاف کی وجہ سے آسمانی شہادت کسی طرح کمزور نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ مقدس سوانح نگاروں نے یہ نسب نامے ذاتی علم سے یا بذریعہ الہام نہیں لکھے۔ بلکہ جیسا رجسٹروں میں لکھا دیکھا نقل کر دیا۔ یہ نہایت معقول جواب ہے اگرچہ کسی عقلمند کی تشفی اس سے نہیں ہو سکتی۔ اگر ذاتی علم اور الہام سے یہ نسب نامے نہیں لکھے یا کم از کم ان تصدیق ذاتی علم یا الہام سے نہیں کی تو یہ ایک نہایت آسان طریقہ مقدس سوانح نگاروں کو بری الذمہ کرنے کا ہے کہ وہ تمام اختلافات جو اناجیل اربعہ میں پائے جاتے ہیں اس کے ذمہ دار مقدس سوانح نگار نہیں ہو سکتے۔ کیونکہ انھوں نے جو کچھ کسی سے سنا لکھ دیا۔ دروغ بر گردن راوی۔ وہ واقعات ذاتی علم یا الہام کے ذریعے قلمبند نہیں کرتے اور فی الحقیقت ایسے واقعات میں جسے ایک ہمعصر قلمبند کرتا ہے الہام کو کیا دخل ہو سکتا ہے۔ اور ذاتی علم کی بھی کچھ ضرورت نہیں ایک معتبر راوی کی شہادت ہی کافی ہے۔ اگر مقدس سوانح نگاروں نے اسے رجسٹروں سے نقل کیا اور ذاتی علم یا الہام کو انکی تصدیق کے واسطے تکلیف دینا مناسب خیال نہیں کیا تو کیا یہ اختلاف اب دور ہو گیا ہے؟ اختلاف تو اب بھی موجود ہے۔ خواہ یہ اختلاف ابتدا میں رجسٹروں میں تھا یا متی اور لوقا کی تحریروں میں۔ رجسٹر جن کا حوالہ دیا جاتا ہے اب موجود نہیں ورنہ اس تاویل کی حقیقت کا بھی انکشاف ہو جاتا۔ ایسا دعویٰ جس کی شہادت موجود نہیں کسی طرح قابل تسلیم نہیں۔ لیکن متی اور لوقا کی تحریریں موجود ہیں اور ان میں یہ اختلاف صریحاً موجود ہے۔ اور لوقا کے نسب نامے ایک حرف بھی ایسا نہیں جس سے یہ ظاہر ہو کہ مقدس سوانح نگار مریم کا نسب نامہ لکھ رہا ہے۔ معلوم نہیں کہ مسیحی علماء کو کس طرح معلوم ہوا کہ یہ نسب نامہ مریم کا ہے۔ ذاتی علم یا الہام سے جس کا دعویٰ خود مقدس سوانح نگاروں کو بھی نہیں۔
المختصر یہ ثابت نہیں ہوتا کہ لوقا مریم کا نسب نامہ لکھتا ہے بلکہ ثبوت اور قطعی شہاست موجود ہے کہ یہ نسب نامہ مریم کا نہیں ہو سکتا۔ ایک معترض جو تبنیت کے اصولوں سے واقف ہے کہہ سکتا ہے کہ ان میں سے ایک تو یسوع مسیح کے حقیقی والد کا اور دوسرا یوسف آنجنابؑ کے مصنوعی باپ کا نسب نامہ ہے۔ اس میں تو کوئی کلام نہیں اور ہر ایک عیسائی تسلیم کرتا ہے کہ یسوع مسیحؑ یوسف نجار کے متنبیٰ تھے اور کسی متنبیٰ کا حقیقی سلسلہ نسب اگر کسی زمانہ میں قلمبند نہ کیا جائے تو چند پشتیں گزرنے کے بعد منقطع ہو جاتا ہے کیونکہ کسی شخص کو اس کے حقیقی آبا و اجداد کا علم نہیں ہوتا۔ ہر ایک شخص اس کے مصنوعی باپ کو اس کا حقیقی والد تصور کرتا ہے اگر اسے یہ علم نہ ہو کہ وہ متنبیٰ تھا۔ لیکن یہ علم اسی صورت میں ہو سکتا ہے جبکہ معتبر زبانی روایتیں اور محفوظ تحریریں اس کی شاہد ہوں۔ اب اگر متی اور لوقا نسب نامے تحریر نہ کرتے یا ان میں سے ایک نسب نامہ کے متعلق کچھ نہ لکھتا۔ اور ہمیں مقدس سوانح نگاروں کی تحریروں سے صرف اتنا معلوم ہوتا ہے کہ یسوع مسیح یوسف کا متنبیٰ تھا۔ تو اعجازی پیدائش کی نسبت ایک معترض اعتراض کر سکتا ہے اور نہایت معقول اعتراض کر سکتا ہے کہ چونکہ متنبیٰ کے حقیقی آبا و اجداد کا سلسلہ اس رسم تبنیت کے نا معقول اصولوں کے باعث ہمیشہ کے لئے اس سے منقطع ہو جاتا ہے۔ اس لئے خوش اعتقادوں کو یہ سند ہاتھ لگ گئی کہ یسوع کا حقیقی باپ کوئی تھا ہی نہیں۔ اب جبکہ متی یوسف نجار کا نسب نامہ قلم بند کرتا ہے اور لوقا ایک اور نسب نامہ یسوع کا لکھتا ہے تو معقول اور صحیح تعبیر اس نسب نامہ کی یہ ہے کہ یسوع کا حقیقی نسب نامہ ہے۔ جسے لوقا نے نہایت دوراندیشی سے خواہ رجسٹروں سے یا ذاتی علم سے محفوظ رکھا۔
مقدس متی یسوع ابن داؤد ابن ابراہیم کے نسب نامہ میں اس طرح تحریر کرتے ہیں کہ "ابراہیم سے اسحاق پیدا ہوا اور اسحاق سے یعقوب پیدا ہوا۔ اور یعقوب سے یہوداہ اور اس کے بھائی پیدا ہوئے۔ اور یہوداہ سے فرض اور زورح تامار کے پیٹ سے پیدا ہوئے” اس نسب نامہ میں یعقوب سے یہوداہ اور اس کے بھائیوں کا تذکرہ ضروری تھا اور اس طرح یہوداہ سے فرض اور زورح کا تعلق بھی لازمی ہے۔ ورنہ بظاہر بھائیوں کا نام لکھنا کیا ضرور تھا۔ پیدائش (باب 38) میں ان ناموں کی مفصل کیفیت درج ہے کہ یہوداہ ابن یعقوب کے تین بیٹے "عیر” اونان ” اور "سیلہ” تھے۔ یہوداہ نے بڑے بیٹے عیرہ کا نکاح تامار نامی عورت سے کیا۔ لیکن عیر بہ قضاء الٰہی لاولد فوت ہو گیا۔ تب یہوداہ نے اونان کو کہا کہ اپنے بھائی کی جورو کے پاس جا اور اپنی بھاوج کا حق ادا کر اور اپنے بھائی کے لئے نسل چلا۔ لیکن اونان نے جانا کہ یہ نسل میری نہ کہلائے گی۔ اور یوں ہوا کہ جب وہ اپنے بھائی کی جورو کے پاس جاتا تھا تو نطفہ کو زمین پر ضائع کر تا تھا۔ تانہ ہوئے کہ اس کا بھائی اس سے نسل پاوے۔ یہ لڑکا بھی مر گیا۔ یہوداہ ڈر گیا کہ ایسا نہ ہو کہ تیسرا خورد سال لڑکا بھی مر جائے۔ اس لئے تامار کو کہا کہ اپنے باپ کے گھر بیٹھ رہ جب تک سیلہ جوان ہو۔ لیکن تامار اس قدر عرصہ دراز تک صبر نہیں کر سکتی تھی ایک دن کسی کا بھیس بدلا اور برقہ اوڑہ کر یہوداہ سے ملاقات کی۔ یہوداہ اس سے ہم بستر ہوا۔ تامار حاملہ ہوئی اور وہ توام بیٹے جنی، ایک کا نام فرض اور دوسرے کا نام زورح رکھا گیا۔
اس واقعہ سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ گئی ہے کہ بنی اسرائیل میں اگر ایک بھائی لا ولد مر جاتا تو دوسرا بھائی اس کا سلسلہ نسب قائم رکھنے کے لئے اس کی عورت سے ہم بستر ہوتا۔ اور اگرچہ حقیقی باپ دوسرا بھائی ہوتا۔ لیکن سلسلہ نسب پہلے متوفی اور لاولد بھائی کے نام پر چلتا۔ یہ دلچسپ سوال ہو سکتا ہے کہ فرض اور زورح عیر کے بیٹے ہیں یا عیر کے باپ یہوداہ کے ؟ مقدس متی نے اس غلط فہمی کو رفع کر دیا ہے۔ لیکن ان حالات میں کون کہہ سکتا ہے کہ وہ حقیقی آباؤ اجداد کی نسل سے ہے ؟ یہی نتیجہ اس مذموم رسم کا ہے جسے ہندوؤں کی اصطلاح میں "نیوگ” کہتے ہیں۔ بنی اسرائیل میں تو ایک لا ولد شخص کی وفات کے بعد اس کا سلسلہ نسب قائم رکھنے کے لئے اس کے بھائی حق برادرانہ ادا کرتے تھے لیکن نیوگ ایسی حیا سوز رسم ہے کہ شوہر کی زندگی میں زوجہ غیر مرد سے اولاد حاصل کرتی ہے۔ کذب۔ فریب۔ دغا ان تمام رسموں کی تعلیم ہے۔
اسلام نے تبنیت کو اسی حد تک تسلیم کیا ہے کہ متنبیٰ کی پرورش اور اس کی تعلیم و تربیت اور اس کے ساتھ احسان و مروت کی جائے۔ چناچہ "وانعمت علیہ” میں اس کا تذکرہ صراحتاً کیا گیا ہے۔ اور اس کے ساتھ تمام خرابیوں کی اصلاح کر دی کہ "ما جعل اللہ لرجل من قلبین فی جوفہ وما جعل ازواجکم الیٰ تظھرون منھن امھنتکم و ماجعل اوعیآء کم بنآء کم ذلکم قولکم بافواللہ ھکم واللہ یقول الحق و ھو یھدی السبیل ادھو ھم لٰا بآ بھم ہو اقسط عنداللہ فان لم تعلمواابآء ھم فا خوانکم فی الدین و موالیکم” یعنی اللہ تعالیٰ نے کسی شخص کے وجود میں دو قلب نہیں بنائے۔ قدرتی خواہشات اور محبت کی جگہ ایک ہی قلب ہے۔ وہ قدرتی تعلقات جو باپ کو بیٹے سے اور بیٹے کو باپ سے اور والدہ کو بیٹے سے ہوتے ہیں۔ اور وہ قدرتی محبت کا مضبوط رشتہ جو بیٹے اور والدین کے مابین ہے کسی صنعت سے پیدا نہیں ہو سکتا۔ ایک شخص کو مونہہ سے بیٹا کہہ دیا تو وہ حقیقی بیٹا نہیں ہو سکتا۔ ایک شخص کسی کو مونہہ سے ماں کہہ بیٹھتا ہے تو وہ فی الحقیقت اس کی ماں نہیں بن جاتی ۔ یہ تو صرف مونہہ کی باتیں ہیں اور باپ۔ ماں۔ بیٹے میں قلبی رشتہ زبانی باتوں سے قائم نہیں ہو سکتا۔ اگر ایک شخص کا حقیقی بیٹا موجود ہو تو کیا وہ کسی غیر کے لڑکے کو متنبیٰ بنانے کی خواہش کرے گا؟ ہرگز نہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ قدرتی محبت صرف حقیقی بیٹے سے ہو گی۔ فطرت ان جاہلوں پر ہنستی ہے جو اپنے زعم ناقص میں یہ سمجھتے ہیں کہ متنبیٰ ان کو حقیقی باپ سمجھ کر قلبی محبت رکھتا ہے۔ حقیقی بیٹے اور متنبیٰ میں بہت فرق ہے۔ قدرت نے متنبیٰ کو حقیقی بیٹے کا رتبہ نہیں دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا کام "نیچر” ہے اور اس لئے وہی الٰہی کلام ہو سکتا ہے جو اس کے مطابق ہو۔ قرآن شریف کی اس آیت پر غور کرو۔ "واللہ یقول الحق و ھو یھدی السبیس” یعنی اللہ تعالیٰ کا کلام حق ہے اور وہی سیدھا راستہ بتاتا ہے۔ متنبیٰ جو حقیقی بیٹا سمجھنا اور اس کو حقیقی آبا و اجداد سے قطع کر کے اپنے نسب میں ملانا دنیا کو دُکھا دیتا ہے۔ یہ سراسر جھوٹ ہے۔ اللہ تعالیٰ سچی بات فرماتا ہے کہ "ھواقسط عنداللہ” یہ امر عین نیچر کے مطابق اور صحیح اور درست ہے۔ ادعوھم لا باھم نے ان تمام خرابیوں کی اصلاح کر دی جو تبنیت میں موجود تھیں۔ حضرت زید کی نسبت روایت کی گئی ہے کہ ان کو لوگ ابن محمد کہتے تھے۔ لیکن جب یہ آیت نازل ہوئی تو حقیقی باپ کے نام سے پکارتے تھے۔ ممکن ہے کہ کسی لے پالک یا اور کسی شخص کے باپ کا نام معلوم نہ ہو اور وہ مجہول النسب ہو۔ اس کی نسبت جب ایسی صورت ہو تو حکم ہے کہ "فان الم تعملوااباھم فاخوالکم فی الدین و موالیکم” یعنی وہ تمھارے دینی بھائی اور رفیق ہیں۔ "انما المومنون اخوۃ” یعنی تمام مومن آپس میں بھائی ہیں۔ "اخوت” اسلام کی تعلیم ہے اور اس کا اثر یہ ہے کہ مسلمانوں میں ایک ایسا رشتہ قائم ہے کہ ان میں اتفاق اور اتحاد، خواہ وہ دنیا کے کسی حصے میں ہوں موجود ہے۔ اخوت نے مسلمانوں کو ایک قوم بنا دیا ہے۔ ہندو مذہب میں یہ بات ہی نہیں۔ ذاتوں کا امتیاز اخوت کے سخت مخالف ہے۔ اور اس لئے ہندو کبھی ایک قوم نہیں بن سکتے۔ جب تک وہ ذاتوں کو معیار عزت اور عظمت سمجھتے ہیں۔ قدرت نے ذاتوں کو صرف اس لئے بنایا کہ تعارف کے لئے امتیاز پیدا ہو سکے۔ اور یہ اسلام کی تعلیم ہے۔ لیکن ہندو ذاتوں کے امتیاز کو اٹھا نہیں سکتے جب تک کہ تناسخ کا انکار نہ کریں جو ہندو مذہب کی جان ہے۔ اس لئے اگر ہندو ایک قوم بننا چاہتے ہیں تو اس کے سوائے کوئی صورت نہیں کہ سب سے پیشتر وہ اپنے مذہب سے بیزاری ظاہر کریں اور اسلام کی متابعت میں اخوت قائم کریں۔
متنبیٰ جبکہ حقیقی بیٹا نہیں ہو سکتا تو کوئی وجہ نہیں کہ اس کو وہ رتبہ دیا جائے جو ایک حقیقی بیٹا قدرتاً رکھتا ہے۔ لیکن تبنیت کی خرابیوں میں یہ بھی ہے کہ متنبیٰ کی زوجہ کو حقیقی بیٹے کی زوجہ سمجھا گیا ہے۔ سورہ نساء میں اسلام نے اس خلاف فطرت عقیدہ کی تردید اس طرح کر دی کہ "وحلائل انبائکم الذین من اصلا بکم” یعنی صلبی بیٹے کی زوجہ حرام ہے متنبیٰ کی بیوہ یا مطلقہ حرام نہیں۔ آنحضرتؐ نے اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی تبلیغ کر دی تھی۔ لیکن ابھی اس حکم پر عمل کرنیکا موقع کسی مسلمان کو نہیں ملا تھا۔ ایسا اتفاق شاذ ہی ہوتا ہے کہ ایک متنبیٰ بیوہ چھوڑے یا اپنی زوجہ کو طلاق دے۔ جاہلیت میں ہندوؤں کی طرح کئی ایک مذموم رسمیں جاری تھیں۔ اگر آنحضرت صلعم کی زندگی میں تبنیت کی اس خرابی کو رفع کرنے کا موقعہ نہ ملتا تو غالباً یہ رسم مسلمانوں میں بھی جاری رہتی۔ امید نہیں کہ کوئی شخص اس توڑنے کی جرات کرتا۔ اس وقت جبکہ زیدؓ نے زینبؓ کو طلاق دی تو آنحضرت کے دل میں قدرتاً یہ خیال پیدا ہوا ہو گا کہ اگر کسی اور مسلمان کو زینب سے نکاح کے لئے کہتا ہوں تو ممکن ہے کہ وہی صورت پھر پیدا ہو جائے جو زید کے معاملہ میں ہوئی تو یہ تو ایک قیاس ہے لیکن اس میں کچھ شک نہیں کہ آپ کے دل میں یہ خیال ضرور تھا کہ اب وہ وقت آ گیا ہے کہ تبنیت کی خرابی کو عملاً رفع کیا جائے۔ اور ہر ایک مسلمان آپ سے اس امر کی توقع رکھتا ہے کہ زینب سے خود نکاح کر کے پہلی مثال آپ قائم کریں گے۔ اس لئے اگر آنحضرت کسی اور مسلمان کو زینب سے نکاح کے لئے کہتے تو اصحاب ضرور خیال کرتے کہ آنحضرت نے متنبیٰ کی مطلقہ زوجہ سے خود نکاح کرنا مکروہ خیال کیا اور آئندہ نسلوں کو تو ایک سند ہاتھ لگ جاتی کہ اگرچہ اللہ تعالیٰ نے متنبیٰ کی بیوہ یا مطلقہ عورت کو حلال کیا ہے مگر ان سے نکاح کرنا سنت رسول اللہ نہیں، اس کا اثر یہ ہوتا کہ اسلام کی تعلیم ناقابل عمل ثابت ہوتی جیسا کہ یسوع مسیح کی تعلیم ہے۔ اگرچہ موخرالذکر اس لئے ناقابل عمل ہے کہ اس پر عمل ہی نا ممکن ہے۔ اس لئے ضرور تھا کہ آنحضرت تبنیت کی خرابیوں کی اصلاح عملاً فرماتے۔ مگر ا سکے ساتھ یہ بھی ڈر تھا کہ کفار اور مشرکین جو متنبیٰ کو حقیقی بیٹا سمجھتے ہیں کیا کچھ نہ کہیں گے۔ ہنسیں گے کہ دیکھو محمدؐ نے اپنے بیٹے کی زوجہ سے نکاح کیا ہے اس میں کچھ شک نہیں کہ کسی رسم کو توڑنا خواہ وہ کیسی ہی مذموم کیوں نہ ہو سخت مشکل کام ہے۔ کوئی شخص ایسی مذموم رسموں کے برخلاف آواز بلند کرنے کی جرات نہیں کرتا۔ تمام لوگ اس کے مخالف ہو جاتے ہیں۔ مصلحان قوم کا عموماً یہی حال ہوتا رہا ہے۔ ایسی مروجہ رسموں کو عملاً توڑنا تو فوق العادت جرات کا کام ہے۔ کچھ شک نہیں کہ آنحضرت صلعم کے دل میں یہی ڈر تھا کہ کفار اور مشرکین کو چہ مے گوئی کا موقع ملے گا۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے آنحضرتؐ کا حوصلہ بڑہایا اور ارشاد ہوا کہ "یا ایھاالنبی اتق اللہ ولا تطع الکافرین و المنافقین۔ ان اللہ کان علیما حکیما۔ و اتبع مایوحی الیک من ربک ان اللہ کان بما تعلمون خبیرا۔ و توکل علی اللہ و کتیٰ باللہ وکیلا۔ یعنی اے نبی۔ اللہ تعالیٰ سے ڈر اور کافروں اور منافقوں کی باتوں پر نہ جاؤ۔ بیشک اللہ تعالیٰ علیم اور حکیم ہے جو کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف ست تم پر وحی ہوتی ہے اس کی متابعت کرو۔ بیشک اللہ کو تمھارے ہر ایک عمل کی خبر ہے۔ اور اللہ پر بھروسہ رکھو۔ اللہ تمھارا کافی کارساز ہے۔ (الاحزاب) اور صاف صاف الفاظ میں ارشاد ہوا کہ”و تخفی فی نفسک مااللہ مبدیہ و تخشی الناس واللہ احتی ان تخشٰہ فلما قضی زید منھا فطراً زوجنکھا لکی لا یکون علی المومنین حرج فی ازواج اوصیاء ھم اذا قضموا منھن وطراً۔ وکان امراللہ مفعولا” یعنی تو اپنے جی میں ایک ایسی بات چھپاتا تھا جس کو اللہ ظاہر کرنا چاہتا ہے اور تو لوگوں سے ڈرتا تھا۔ کہ یہ کفار اور منافقین باتیں بنائیں گے۔ ہنسی میں اڑائیں گے۔ لیکن ڈرنا اللہ سے چاہیے کہ جب وہ ایک امر کی اجازت دیتا ہے یا حکم کرتا ہے تو اس کی تعمیل کرنا چاہیے۔
جب زید زینب سے بالکل علیحدگی اختیار کر چکا تو ہم نے اس کو تیرے نکاح میں دے دیا اور غرض یہ تھی کہ مومنین کو اپنے لے پالکوں کی عورتوں سے نکاح کرنے میں دقت واقع نہ ہو۔ وہ اسے مکروہ یا مذموم یا گناہ نہ سمجھیں۔ جبکہ ان کے لے پالک اپنی عورتوں سے علیحدگی اختیار کر لیں۔
ان آیات سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اگر اس وقت آنحضرتؐ زینب سے نکاح نہ کرتے تو آئندہ کوئی مومن کسی لے پالک کی بیوہ یا مطلقہ عورت سے نکاح نہ کرتا۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے اسباب جمع کر دئیے کہ خود آنحضرتؐ کو مثال بننا پڑا۔ ہم کہتے ہیں کہ اگر آنحضرتؐ ایسا نہ کرتے اور اگر کوئی اور صحابی ایسا کرتا تو مدعا حاصل نہ ہوتا۔ ایسی رسموں کو توڑنے کے لئے خود آنحضرت کو مثال بننا چاہیے تھا۔
مخالفین اعتراض کرتے ہیں کہ آنحضرت نے اس خیال سے کہ اللہ تعالیٰ نے زینبؓ کو زوجیت میں دے دیا ہے اس لئے عدت کی ضرورت کو محسوس نہیں کیا۔ حالانکہ طلاق کے بعد ایام عدت کے گذرنے پر نکاح کرنا چاہیے تھا۔ یہ اعتراض غلط فہمی پر مبنی ہے۔ عدت اسلام کی تعلیم ہے۔ اور اس کی بھی وہی غرض ہے جو ادعوھم لا ائھم کی ہے۔ بلکہ عدت حقیقی آبا و اجداد کا نسب قائم رکھنے کے لئے پہلا اصول ہے۔ اگر ایک عورت حاملہ ہو اور حمل کے آثار ظاہر نہ ہوئے ہوں اور اس کا خاوند اسے طلاق دے دے اور وہ عورت فی الفور دوسرے مرد سے نکاح کر لے تو وہ اولاد جو اب پیدا ہو گی کس کی کہلائے گی۔ کون کہہ سکتا ہے کہ یہ اولاد اس کے پہلے خاوند کی ہے۔ یا دوسرے شوہر کی؟ عدت نے اس خرابی کی اصلاح کر دی۔ اگر عورت حاملہ ہے تو حمل کے آثار ضرور ظاہر ہوں گے۔ ورنہ ایام عدت کے بعد اولاد دوسرے خاوند کی۔ کسی اور مذہب میں یہ خوبیاں ہی نہیں ہیں۔ اور نہ ان کے حقیقی آبا و اجداد کا پتا مل سکتا ہے۔
مثلاً د۔ ویدی۔ اس خاندان کی مشترکہ جائداد تھی اور روپاہی کی اولاد بھی سب کی مشترکہ اولاد تھی۔ لیکن اس امر کی تحقیق کہ اس کی اولاد کا حقیقی باپ کون ہے بالکل ناممکن نہیں تھا۔
ہم نے تبنیت کی خرابیوں کا ذکر کرتے ہوئے ثابت کر دیا ہے کہ کسی مذہب نے کسی شخص کا حقیقی نسب قائم رکھنے کے لئے کوئی اصول وضع نہیں کیا۔ مگر اسلام نے تمام خرابیوں کی اصلاح عملاً اور اصولاً کی ہے۔ چنانچہ عدت کی خوبیوں میں سے ایک یہ خوبی ہے جس کا تذکرہ ہم کر چکے ہیں۔ صرف ایک سخت متعصب آدمی جس کی طبعیت پر انصاف کچھ اثر نہیں کر سکتا آنحضرت سے یہ امید کر سکتا ہے کہ وہ خود ان احکام کے پابند نہ تھے جن کی تعلیم دوسروں کو کرتے تھے۔ اور جبکہ یہ احکام ایسے ہوں کہ ان پر عمل سراسر ذاتی فائدہ ہو۔ اور کسی قسم کی تکلیف نہ ہو۔ ہم کبھی یقین نہیں کرتے۔ اور کوئی عقلمند انصاف پسند آدمی کبھی یقین نہیں کرے گا کہ آنحضرت نے عدت کی خوبیوں کو نظر انداز کر دیا تھا حالانکہ دنیا کو عدت کی تعلیم صرف اسلام نے ہی دی ہے۔
لیکن ہمارا قیاس یہ ہے کہ اس موقع پر آنحضرت نے عدت کی ضرورت کو فی الواقع محسوس نہیں کیا۔ آیات محولہ بالا کے بعد یہ آیت ہے "یا ایھا الذین امنوا اذا نکحتم المومنٰت ثم طلقتوحسن من قبل ان تمسو ھن فمالکم علیھن من عدۃ تعتدوا لھا فمتوھن و سرحوھن سراحاً جمیلا (الاحزاب)۔
یعنی اے ایمان والو جب تم نکاح کرو مومنہ عورتوں سے اور ان کو مس کرنے سے پیشتر چھوڑ دو تو تمھارا کوئی حق نہیں کہ ان عورتوں سے عدت کے ایام کی گنتی پوری کراؤ۔
ان کو جو کچھ انکا حق ہے دے کر خوش اسلوبی سے فورا رخصت کر دو۔ مثلاً ایک شخص نے اپنی منکوحہ کو ہم بستر ہونے سے پیشتر طلاق دے دی تو عدت کی اس کے بعد ضرورت نہیں جیسا کہ ہم نے ظاہر کیا ہے۔ عدت کا یہ منشاء ہے کہ پہلے اور دوسرے خاوند کی اولاد کے متعلق کسی قسم کا شبہہ پیدا نہ ہو۔ جب پہلا خاوند اس عورت کے نزدیک ہی نہیں گیا تو اس قسم کا شبہہ پیدا ہونے کی کوئی صورت نہیں۔ ہمارا قیاس ہے کہ زیدؓ نے زینبؓ کو مس تک نہیں کیا۔ اور اس لئے طلاق کے بعد عدت کی ضرورت نہیں تھی۔ قرآن شریف کی آیات کا تعلق ایک دوسرے کے ساتھ ہے۔ اور ایک ہی سورۃ کی آیات کا باہمی تعلق اور بالخصوص ایسے آیات کا تعلق جو ایک ہی سورۃ میں معناً ملحق ہوں بے معنی نہیں ہو سکتا۔ غالباً اس آیت کا شان نزول یہی ہے کہ زید نے زینب کو جس مس تک نہیں کیا تو عدت کی کیا ضرورت تھی۔
ہم نے لکھا ہے کہ زینب خوبصورت نہ تھی اور زید کی نگاہ میں مکروہ معلوم ہوتی۔ اس سے زید اس کے نزدیک نہ گیا۔ ورنہ قیاس ہو سکتا ہے کہ جب کچھ عرصہ ہم بستر ہوتا رہا تو پھر طبعیت میں کراہت کس طرح پیدا ہو گئی۔ اور اس لئے علیحدگی کی کوئی وجہ نہ تھی۔ لیکن زیدؓ کی طبعیت ابتدا ہی سے ایسی برگشتہ ہوئی کہ اسے یقین ہو گیا کہ نکاح کی مصلحتوں کو نباہ نہیں سکتا۔
اب آنحضرت کے مرتبہ پر غور کرو۔ کہ آپ نے نہ صرف تبنیت کی خرابیوں کو عملاً رفع کیا بلکہ ایک ایسی علامت سے نکاح کیا جس کا 35 سال تک کوئی خواست گار نہ ہوا۔ اور جب آپ نے اس کا عقد ایسے شخص کے ساتھ باندھا جو آپ کے احسان و مروت کی مجسم مثال تھی۔ اور جس سے امید ہو سکتی تھی کہ وہ ایسی عورت سے آنحضرت کے کہنے پر نباہ کرے گا تو وہ بھی نہ کر سکا۔ آنحضرت نے اپنی خواہشات نفسانی کو اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے کیسا مغلوب کیا ہوا تھا۔ 33 سال تک مجرد رہنا کوئی خوبی تو نہیں۔ حضرت اسحٰق چالیس سال تک مجرد رہے (پیدائش باب 25 آیت 20) اور ایسی سینکڑوں مثالیں ہیں جو تمام عمر مجرد رہے۔ لیکن ایک ایسی عورت سے نکاح کرنا اعلیٰ نیکی ہے۔
زینب کے مرتبہ پر غور کرو کہ اسے یہ فخر حاصل ہے کہ وہ خاتم النبین رحمۃ اللعالمین کی زوجہ بنی اور ام المومنین ہے۔ اس کے تقوے اور فیاضی اور بے شمار نیک خصلتوں کا اجر دنیا میں جو کچھ انھیں ملا وہ فی الواقع ان کا حصہ تھا۔
حضرت زید کی زندگی کے حالات جو بالاختصار ہم تحریر کر چکے ہیں غلامی۔ تبنیت۔ نکاح۔ طلاق اور متعلقہ مسائل کو واضح طور پر بیان کرتے ہیں۔ ہمارا خیال ہے کہ زید نے تمام عمر میں کوئی قصور کیا جو قابل ملاحت ہے تو وہی ہے جس کا ذکر ہو چکا ہے۔ لیکن جو کچھ مفید نتائج اس قصور کے باعث پیدا ہوئے اور دنیا اسلام کو جو کچھ اس کا عملی فائدہ پہنچا وہ اگر گناہ بھی ہوتا تو قابل بخشش ہے۔ ان اللہ غفور الرحیم۔ بہرحال زید کی مثال یسوع مسیح کے شاگردوں میں تلاش کرنا بے فائدہ ہے۔
8 ہجری میں سرحد شام پر آنحضرت کے قاصد مارے گئے تو آنحضرت نے ایک لشکر شام پر حملہ آور ہونے کے لئے روانہ کیا اس لشکر میں صحابہ کبار کی ایک جماعت تھی جن میں عبداللہ ابن رواحہ جعفر بن ابی طالب خالد بن ولید بھی شامل تھے۔ حضرت زید اس لشکر کے سردار تھے۔ مسلمانوں کی کل تعداد تین ہزار تھی۔ مقام "معان” پر ہرقلیاس شہنشاہ قسطنطنیہ کی فوجوں کی نسبت پرچہ لگا کہ ایک لاکھ رومی اور ایک لاکھ عرب مستنصرہ سپاہ مسلمانوں کا انتظار کر رہی ہے۔ اس وقت حضرت زید نے اصحاب رسول اللہ کو جمع کر کے مشورہ کیا کہ مناسب ہو گا کہ آنحضرت کو اپنی قلت اور دشمن کی کثرت کی اطلاع دی جائے اور امداد کے واسطے لکھا جائے۔ آخر یہ فیصلہ ہوا کہ خواہ کچھ ہو دشمن کے مقابلہ
میں پیچھے ہٹنا مومنوں کا کام نہیں۔ اس لئے خود پیش قدمی کی اور شہر بلقا کی ایک بستی جسے شراٹ کہتے ہیں رومیوں سے مڈبھیڑ ہو گئی۔ حضرت زید کے ایک ہاتھ میں علم تھا اور دوسرے ہاتھ میں تلوار، مردانہ وار دشمنوں کی صفوں میں گھس گئے اور لڑتے لڑتے شہید ہو گئے۔ حضرت جعفر بن ابی طالب نے علم سنبھالا زخموں سے بدن چھلنی ہو رہا تھا لیکن ایک قدم پیچھے نہ ہٹے اور شہید ہو گئے۔ عبداللہ بن رواحہ نے علم ہاتھ میں لیا اور کہا
یا نفس الا لقتلی تموی ھذا احبض لمرت قدصلیت
اے دل اگر تو قتل نہ ہو گا اور آخر ایک دن مرنا ہے یہ موت کے حوض لبریز ہیں تو نے بھی ان میں غرق ہونا ہے۔
وما نمنیت و لقد لقیت وان تفعلی فعلھماھدت وان تاخرت فقد شقیت
تیری آرزو شہادت پوری ہوئ اگر زید اور جعفر کی طرح کام کرے گا تو منزل مقصود پر پہونچ جائے گا اور اگر پیچھے رہا تو نامراد ہو گا۔
عبداللہ بن رواحہ نے بھی داد مردانگی دی اور شہید ہوئے۔ خالد بن ولید آگے بڑھے اور اس زور سے حملہ کیا کہ دشمن پسپا ہو گیا۔ آفتاب غروب ہو چکا تھا۔ دونوں لشکر جدا ہوئے اور خالد بن ولید مسلمانوں کو واپس مدینہ کی طرف لائے۔ یہ جنگ غزوہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کے نام سے مشہور ہے۔ یہ ان لڑائیوں کا پیش خیمہ ہے جو صدیق اکبرؓ اور فاروق اعظمؓ کے عہد خلافت میں واقع ہوئیں۔ مسلمانوں نے آخر کار شام کو مسخر کیا اور آج تک قابض ہیں۔ حضرت زید اور جعفر کی شہادت پر رسول اللہ نے آنسو بہائے اور فرمایا کہ یہ میرے مونس دوست تھے۔
ہم نے اس مختصر رسالہ میں آنحضرت اور دیگر بانیان مذاہب اور قرآن شریف اور دیگر مقدس کتب اور اسلام اور دیگر مذاہب کی تعلیم اور اس کے اثر کا باہمی مقابلہ کیا ہے۔ اور اس نتیجہ پر پہونچے ہیں کہ
"ھوالذی ارسل رسولہ با لھدیٰ و دین۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ الذین امنو و عملو الصلحت منھم مغفرہ و اجرا عظیما۔ (الحجرات)
تمت بالخیر
٭٭٭
ٹائپنگ۔ ظہیر اشرف
تدوین اور ای بک کی تشکیل۔ اعجاز عبید