FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

ردراپریاگ کا آدم خور تیندوا​

 

 

 

                جم کاربٹ

تلخیص و ترجمہ: انیس الرحمٰن

 

 

 

 

 

 

 

ہندوستان کے تپتے ہوئے میدانوں کے باسی کیدارناتھ اور بدری ناتھ کی یاتراؤں پر جاتے ہیں۔ ان یاتراؤں کا آغاز ضلع گڑھوال میں ہردوار سے ہوتا ہے۔ ہردوار سے رکی کیش، لچھمن جھولا، شری نگر، چٹخال اور گلاب رائے سے ہوتے ہوئے ردراپریاگ پہنچا جاتا ہے اور وہاں سے کیدارناتھ اور بدری ناتھ۔

پریاگ ہندی میں "سنگم” کو کہتے ہیں۔ ردراپریاگ کے مقام پر دریائے منداکنی اور دریائے الک نندہ اپس میں مل جاتے ہیں۔ یہ تیندوا جس نے ردراپریاگ سے بارہ میل دور کیدارناتھ کی یاترا سڑک پر آدم خوری کا آغاز کیا تھا بعد میں ردراپریاگ کے آدم خور تیندوے کے نام سے جانا گیا۔

۱۹۱۸ء میں ہندوستان میں انفلوئنزا کی جو وبا پھیلی تھی اس سے گڑھوال میں بھی سینکڑوں لوگ ہلاک ہوئے تھے۔ اس وبا ء کے اختتام پر آدم خور کی تباہ کاریوں کا آغاز ہوا۔ ردراپریاگ کے آدم خور تیندوے نے اپنا پہلا انسانی شکار ۹ جون ۱۹۱۸ء کو اور آخری انسانی شکار ۱۴ اپریل ۱۹۲۶ء کو کیا۔ سرکاری ریکارڈ کے مطابق اس آدم خور نے ان آٹھ سالوں میں ۱۲۵ انسانوں کو ہلاک کیا۔ جبکہ غیر سرکاری تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔

میں نے سرسری طور پر سن رکھا تھا کہ گڑھوال میں کوئی آدم خور تیندوا ہے اور اخبارات میں بھی اس کے متعلق خبریں پڑھی تھیں۔ لیکن ۱۹۲۵ء میں مجھے ردراپریاگ کے آدم خور کے متعلق معتبر خبر ملی۔ میرے پاس گڑھوال کے ڈپٹی کمشنر ایبٹ سن کا خط آیا تھا اور وہ اپنے ضلع کو آدم خور سے نجات دلانا چاہتے تھے۔

میں نے جلد تیاری کی اور اپنے ساتھیوں کے ہمراہ ردراپریاگ روانہ ہو گیا۔ ہم دس روز کی طویل مسافت کے بعد نگراسو کے ایک ریسٹ ہاؤس پہنچے۔ لیکن ہمیں وہاں ٹھہرنے کی اجازت نہ ملی۔ مجبوراً ہم نے ردراپریاگ سڑک پر خیمے لگا کر رات بسر کرنے کا فیصلہ کیا۔ دس روز کے مسلسل سفر سے ہم سخت تھکن کا شکار تھے۔ اگر تیندوا اس رات وہاں آ نکلتا تو اسے آسانی سے انسانی شکار حاصل ہو جاتا۔ اگلے روز دن چڑھے ہم ردراپریاگ پہنچ گئے۔ ایبٹ سن اور وہاں کے لوگوں نے ہمارا استقبال انتہائی گرمجوشی سے کیا۔

ردراپریاگ کے مشرق میں واقع پہاڑی سے پانچ سو مربع میل کا وہ علاقہ دکھائی دیتا ہے جہاں آدم خور سرگرم تھا۔ دریائے الک نندہ نے یہ علاقہ دو ٹکڑوں میں تقسیم کر رکھا ہے۔ دریائے الک نندہ ردراپریاگ کے جنوب میں بہتا ہے۔ جہاں وہ شمال سے آنے والے دریائے منداکنی سے مل جاتا ہے۔ پہاڑی سے کچھ دور سرسبز کھیتوں کا ایک سلسلہ ہے۔ یہ کھیت پچاس گز تک چوڑے ہیں اور دیہاتی مکانات کھیتوں کے بالائی حصوں پر واقع ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ فصل کو مویشی اور جنگلی جانوروں سے بچایا جا سکے کیونکہ یہاں حفاظتی باڑ نہ تھی۔ اس علاقے میں فقط دو سڑکیں تھیں۔ ایک کیدار ناتھ اور دوسری بدری ناتھ تک جاتی تھی۔ اس زمانے میں یہ سڑکیں بڑی ناہموار تھیں اور ان پر کسی قسم کی گاڑی نہ چل سکتی تھی۔

ردراپریاگ میں میری آمد سے قبل ایبٹ سن نے ایک ہانکا منظم کیا تھا جو ناکام ہو گیا تھا۔ اس کی وجہ ایک یاتری سادھو کی موت بنی تھی جو متھرا سے بدری ناتھ جا رہا تھا۔ یہ سادھو یہاں جب پہنچا جب شام کے وقت سڑک کے کنارے ایک دوکان پر یاتریوں کی دوکاندار سے بحث چل رہی تھی۔ دوکاندار کا کہنا تھا کہ یاتری یہاں سے چار میل دور ایک آشرم تک پہنچنے کی کوشش کریں جہاں انہیں رات گزارنے کی جگہ مل جائے گی۔ جب کہ یاتری یہیں ٹھہرنے پر بضد تھے۔ سادھو نے بھی یاتریوں کی ہاں میں ہاں ملائی اور کہا کہ اگر تیندوے نے ان کو تنگ کرنے کی کوشش کی تو وہ اسے جبڑے سے پکڑ کر دو حصوں میں چیر دے گا۔ ناچار دوکاندار کو اس کی بات ماننی پڑی۔

اگلی صبح جب یاتری بیدار ہوئے تو ان کو سادھو نظر نہ آیا۔ جو چادر اس نے اوڑھ رکھی تھی وہ نیچے پڑی تھی اور اس پر خون کے دھبے پڑے تھے۔ خون کی لکیر کا تعاقب کیا گیا تو کھیت میں سادھو کی ادھ کھائی لاش پڑی ملی۔ ہانکا ناکام ہونے کی وجہ یہ رہی کہ جب ہانکا دیا جا رہا تھا اس وقت تیندوا وہاں موجود ہی نہ تھا۔

میرا ردراپریاگ آنے کا مقصد تیندوے کو تلاش کر کے اسے ٹھکانے لگانا تھا۔ لیکن اس علاقے کا جو نقشہ مجھے دیا گیا تھا اس کے مطابق آدم خور پانچ سو مربع میل میں سرگرم تھا۔ اتنے بڑے علاقے میں ایسے درندے کو تلاش کرنا جو فقط رات کے وقت کاروائی کرتا تھا، خاصا مشکل کام تھا۔ لہذا میں نے سب سے پہلے دریائے الک نندہ کو اپنی توجہ کا مرکز بنایا جو اس علاقے کو دو حصوں میں تقسیم کرتا ہے۔ مجھے یقین تھا کہ جب تیندوے کو ایک حصے میں شکار نہ ملتا ہو گا تو وہ دوسرے حصے میں جھولا نما پلوں سے آتا ہو گا۔ جو دونوں حصوں کو آپس میں جوڑتے ہیں۔ اس علاقے میں دو پل تھے۔ ایک ردراپریاگ میں اور دوسرا وہاں سے بارہ میل دور چٹواپی پال کے مقام پر۔ مجھے یقین تھا کہ اگر میں ان دونوں پلوں پر ناکہ بندی کر لوں تو تیندوے کو ایک علاقے تک محدود کر لوں گا اور اسے وہیں تلاش کرنے کی کوشش کروں گا۔

ردراپریاگ پہنچتے ہی میں نے دو بکریاں خرید لیں۔ ایک کو میں نے یاترا سڑک پر ایک میل دور باندھا اور دوسری کو دریائے الک نندہ کے دوسری جانب جنگل میں باندھا۔ دوسری صبح دورہ کرنے پہ معلوم پڑا کہ جنگل میں باندھے جانے والی بکری ہلاک ہو چکی تھی اور اسے تھوڑا سا کھایا بھی گیا تھا۔ بکری کو بلاشبہ تیندوے نے ہلاک کیا تھا مگر کھایا اسے گیدڑ نے تھا۔

آدم خور کی کوئی خبر نہ پاکر میں نے ہلاک شدہ بکری کی نگرانی کا فیصلہ کیا اور شام چار بجے بکری سے پچاس گز دور ایک درخت پر چڑھ کر بیٹھ گیا۔ جب اندھیرا پھیلنے لگا تو میں درخت سے اتر کر ریسٹ ہاؤس کی طرف روانہ ہو گیا۔ ریسٹ ہاؤس پہنچنے تک میں خاصا محتاط رہا اور یہ میری خوش قسمتی تھی کہ میں نے ایسا کیا۔ کیونکہ اگلی صبح جب میں ریسٹ ہاؤس کے بیرونی دروازے پر آیا تو وہاں کچی زمین پر مجھے تیندوے کے پنجوں کے نشانات ملے۔ میرا تعاقب کرنے والا یقیناًً آدم خور ہی تھا۔ اس دن میں جتنا پیدل چل سکتا تھا چلا اور دور دراز دیہاتوں میں جا کر آدم خور کے متعلق لوگوں سے پوچھ گچھ کی۔ وہ دن بغیر کسی حادثے کے گزر گیا۔

دوسرے دن میں ناشتے سے فارغ ہوا ہی تھا کہ ایک دیہاتی میرے پاس خبر لایا کہ آدم خور نے کل رات پہاڑی کے ایک گاؤں میں ایک عورت کو ہلاک کر دیا ہے۔ میں نے فوری طور پر تیاری کی اور اپنے دو ملازموں اور اس دیہاتی کے ہمراہ جائے حادثہ کی طرف چل پڑا۔ گاؤں پہنچتے ہی اس عورت کے شوہر نے مجھے حادثے کی تفصیل بتائی۔ وہ عورت رات کو کھانے کے برتن دھونے کے واسطے گھر سے نکلی تھی کہ تیندوے کا شکار بن گئی۔ اس گھر کا بیرونی دروازہ ایک چار فٹ چوڑی گلی میں کھلتا تھا۔ زمین کے نشانات سے پتا چلتا تھا کہ آدم خور اس عورت کو گھسیٹ کر پہاڑی کے نیچے ایک کھیت میں لے گیا تھا۔ یہاں اس نے اس عورت کو کھایا اور باقی ادھ کھائی لاش چھوڑ کر چلتا بنا۔

اس عورت کی لاش سے کچھ فاصلے پر ناریل کا ایک درخت تھا۔ اس کے دو شاخے پر جو زمین سے چار فٹ اونچا ہو گا ایک گھاس کا گٹھا پڑا تھا۔ میں نے اس گٹھے میں چھپ کر بیٹھنے کا فیصلہ کر لیا۔ ادھر سے ایک تنگ راستہ ندی کی سمت جاتا تھا جس پر آدم خور کے پنجوں کے نشان موجود تھے۔ یہ نشان ایک بوڑھے تیندوے کے تھے۔ اس کے بائیں پنجے میں ذرا نقص تھا۔ چار سال پہلے اسے یہیں گولی لگی تھی۔

میں نے آٹھ فٹ اونچے دو بانس لیئے اور انہیں لاش کے گرد گاڑ کر ان پر اپنی رائفل اور شاٹ گن باندھ دیں۔ اور ان کا رخ زمین کی سمت کر دیا۔ پھر مچھلی کی ڈوری سے ان کی لبلبیوں کو باندھ کر زمین میں دو کیلیں گاڑ کر اس راستے پر باندھ دیا جہاں تیندوے کے پنجوں کے نشان تھے۔ اگر تیندوا اس راستے آتا اور ڈوری کو کھینچ دیتا تو اس کے ہلاک ہونے کا امکان ہو سکتا تھا۔ پھر ایک سفید پتھر میں نے لاش کے قریب رکھ دیا تاکہ اندھیرے میں نشانہ لگانا آسان ہو۔ پھر میں نے گھاس کے گٹھے میں کچھ گھاس اپنے پیچھے اور کمر تک آگے رکھ لی۔ اب تیندوا کہیں سے بھی آتا مجھے نہ دیکھ سکتا تھا۔ پھر میں نے اپنے آدمیوں کو نمبردار کے گھر رہنے کی ہدایت کی اور کہا کہ وہ سورج نکلنے پر میرے پاس آئیں۔

سورج غروب ہونے کو تھا اور وادی کا منظر آنکھوں کے لیئے جنت سے کم نہ تھا۔ میرے دیکھتے ہی دیکھتے دن کا اجالا رات کی تاریکی میں چھپ گیا۔

ابھی اندھیرا پھیلا ہی تھا کہ دور بجلی چمکنے لگی اور بادل گرجنے کی آواز سنائی دی۔ کچھ ہی دیر میں ابر چھا گیا اور پھر بارش شروع ہو گئی۔ ایسا باد و باراں میں نے پہلے کبھی نہ دیکھا تھا۔ تھوڑی دیر بعد بارش بند ہو گئی۔ بادل پھٹ رہے تھے کہ اچانک سفید پتھر دھندلا ہو گیا۔ پھر مجھے تیندوے کے کھانے کی آواز آئی۔ دس منٹ کے بعد مجھے پھر پتھر دکھائی دیا۔

رائفل اٹھا کر میں پھر سے انتظار کرنے لگا کہ کب پتھر پھر دھند لائے اور میں گولی چلاؤں۔ لیکن بھاری رائفل میں زیادہ دیر اٹھا نہ سکتا تھا۔ بازوؤں کو آرام دینے کے لیئے میں نے رائفل نیچے رکھی۔ رائفل کو نیچے رکھنا ہی تھا کہ پتھر پھر دھندلا گیا۔ اگلے دو گھنٹوں میں تین مرتبہ ایسا ہی ہوا اور مجھے گولی چلانے کا موقع نہ مل سکا۔ آخر تنگ آ کر جب تیندوا چوتھی مرتبہ پتھر دھند لایا تو میں نے تیندوے کی غیر واضح ہئیت پر گولی چلا دی۔

اگلی صبح جب میں نے وہاں کا جائزہ لیا تو میری گولی سے اس کی گردن کو چھو کر گزر گئی تھی۔ اس رات وہ دوبارہ دکھائی نہ دیا۔ صبح سورج طلوع ہونے پر میں آدمیوں کے ہمراہ ردراپریاگ چل پڑا۔ ردراپریاگ جاتے ہوئے میرے خیالات و جذبات بڑے تلخ تھے۔ تقدیر نے میرے اور گڑھوال کے باسیوں کے ساتھ جو کھیل کھیلا تھا ہم اس کے مستحق نہ تھے۔

ریسٹ ہاؤس پہنچنے کے بعد میں نے تقدیر کو کوسنا بند کیا اور اپنی رات کی ناکامی کا جائزہ لینے لگا۔ نشانہ خطا ہونے پر افسوس کرنا بے کار تھا۔ اگر تیندوے نے الک نندہ عبور نہ کیا تھا تو اسے ہلاک کرنے کے مواقع میرے لیئے بہتر ہو گئے تھے۔

پہلی بات تو مجھے یہ معلوم کرنی تھی کہ آدم خور دریا عبور کر گیا تھا کہ نہیں۔ لہذا میں نے اپنی تلاش کو ردراپریاگ کے پل تک محدود کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ رات کے وقت پلوں کے چار فٹ چوڑے راستے پر خار دار جھاڑیاں رکھ دی جاتی تھیں۔ تاکہ تیندوا پل عبور نہ کر سکے۔

ردراپریاگ پل کے بائیں کنارے والے مینار پر میں نے تقریباً بیس راتیں بسر کیں۔ وہ مینار کوئی بیس فٹ بلند تھا۔ اس کی چھت چار فٹ چوڑی اور آٹھ فٹ لمبی تھی۔ اس پر بانس کی سیڑھی کے ذریعے چڑھا جاتا تھا۔ جو بیس راتیں میں نے مینار پر بسر کیں اس دوران پل پر جھاڑیاں نہ رکھی گئیں اور ان بیس راتوں میں فقط ایک گیدڑ نے پل عبور کیا۔

ابھی میں پل کی نگرانی کر رہا تھا کہ وہاں ایبٹسن اور اس کی بیوی آ پہنچے۔ چونکہ بنگلہ میں جگہ محدود تھی اس لیئے میں نے ان کے قیام کے لیئے بنگلہ خالی کر دیا اور ایک قریبی پہاڑی پر اپنا خیمہ نصب کروا دیا۔ پھر میں نے اس کے گرد خار دار جھاڑیوں کی ایک بلند باڑ کھڑی کروا دی۔ اس جگہ ناشپاتی کا ایک بڑا درخت تھا۔ اس کی شاخیں باڑ کے اندر تک آ رہی تھیں۔ دن کی دھوپ سے بچنے کا سوچ کر میں نے اسے کٹوا یا نہ تھا۔ ہمارے دفاع کا سب سے کمزور پہلو یہ درخت ہی تھا۔

نصف شب کے قریب درخت پر تیندوے کے چڑھنے کی آواز سے میری آنکھ کھل گئی۔ اپنے پہلو میں پڑی رائفل اٹھا کر خیمے سے نکلا لیکن تیندوا شاخوں کی آواز سے گھبرا کر درخت سے چھلانگ لگا گیا۔ میں نے نشانہ لینے کی غرض سے رائفل اٹھائی تھی کہ وہ ملحقہ ویران کھیت میں غائب ہو گیا۔ دور پہاڑی سے ایک گیدڑ کی چونکنی آواز سنائی دی، جس کا مطلب تھا کہ تیندوا میری دسترس سے نکل چکا ہے۔

دوسرے دن میں نے درخت کٹوا دیا اور باڑ مزید مضبوط کروا دی۔ اس کے بعد ہم چند ہفتے اس کیمپ میں رہے مگر پھر ہماری نیند خراب نہ ہوئی۔

ایبٹسن کی آمد کے چند روز بعد مجھے خبر ملی کہ تیندوے نے ردراپریاگ سے دو میل دور گاؤں میں ایک گائے ہلاک کر دی ہے۔ وہاں جا کر معلوم ہوا کہ تیندوے نے باڑے کا دروازہ توڑ کر ایک گائے کو ہلاک کیا۔ پھر اسے دروازے تک لایا جب وہاں سے باہر نکالنے میں ناکام رہا تو اس کا تھوڑا بہت گوشت کھا کر چلتا بنا۔

وہ مکان گاؤں کے وسط میں تھا۔ اس کے سامنے کے ایک دوسرے مکان کی دیوار میں چھید کر کے ہم ہلاک شدہ گائے کی نگرانی کر سکتے تھے۔ اس گھر کا مالک ہمارے منصوبے سے متفق تھا۔ ہم شام سے اس مکان سے گائے کی نگرانی میں لگ گئے۔ لیکن تیندوا رات بھر دکھائی نہ دیا اور نہ ہی اس کی آواز سنائی دی۔

دو دن بعد ایک دوسرے گاؤں میں ایک گائے کے ہلاک ہونے کی خبر ملی۔ یہاں بھی تیندوا گائے کو دروازے سے باہر نہ لے جا سکا تھا۔ وہاں بھی ہم نے گھات لگائی اور ناکام رہے۔

آدم خور کو ہلاک کرنے کی خاطر حکومت نے چند روز پہلے ہمیں لوہے کا ایک پھندہ بھیجا تھا جو پانچ فٹ لمبا اور اسی پونڈ وزنی تھا۔ اس کے جبڑے میں تین انچ لمبے دانت لگے تھے۔ میں نے وہ پھندہ اس کھیت میں لگا دیا جہاں تیندوے کے پنجوں کے نشانات موجود تھے اور تیندوے کو وہاں آنے اور پھندے کے اوپر سے گزرنے کی ترغیب دینے کی خاطر اس راستے کے دونوں اطراف خار دار جھاڑیوں کی باڑ لگا دی۔ اور زمین میں میخ گاڑ کر زنجیر سے پھندہ اس کے ساتھ باندھ دیا۔

پھر میں اور ایبٹسن درخت کے اوپر چڑھ کر تیندوے کا انتظار کرنے لگے۔ ہمیں یقین تھا کہ تیندوا اس بار بچ کر نہ جا سکے گا۔ شام ہوتے ہی مطلع ابر آلود ہو گیا۔

اندھیرا پھیلے ابھی ایک گھنٹہ گزرا تھا کہ تیندوے کی گرج سنائی دی۔ تیندوا پھندے میں پھنس چکا تھا۔ میں نے برقی ٹارچ روشن کی تو دیکھا کہ اس کا اگلا پنجہ پھندے میں پھنسا ہوا ہے۔ میں نے لمحہ بھر میں نشانہ لگا کر اس پر گولی چلا دی۔ گولی تیندوے کے بجائے زنجیر کو لگی اور اس کی ایک کڑی ٹوٹ گئی۔ زنجیر کے ٹوٹتے ہی تیندوا پھندے کو لے آگے کھیتوں میں بھاگنے لگا۔ میں نے اور ایبٹسن نے یکے بعد دیگرے اس پر تین گولیاں داغیں جو سب خالی گئیں۔ میں اور ایبٹسن درخت سے اترے اور ان چٹانوں کی طرف چل دیئے جہاں تیندوا گیا تھا۔ اسی دوران ٹارچ کی بیٹری نکل کر کہیں گر گئی۔ ایبٹسن نے وہ پٹرول لیمپ روشن کر لیا جو ہم مچان پر لے کر گئے تھے۔ ہم بڑی احتیاط سے ان چٹانوں پر پہنچے۔ چٹانوں سے دور ایک نشیب میں تیندوا ہماری طرف منہ کر کے غرّا رہا تھا۔ اگلے ہی لمحے میری گولی نے اس کے سر کے پڑخچے اڑا دیئے۔

میرے سامنے ایک بڑا تیندوا لیٹا تھا۔ اور یہ اس علاقے میں ہلاک ہوا تھا جہاں آدم خور نے درجنوں انسانوں کا شکار کیا تھا۔ لیکن مجھے یقین نہ آ رہا تھا کہ یہی آدم خور ہے۔

پھر ہم آدمیوں کی مدد سے اسے اٹھا کر کیمپ میں لے آئے۔ رات کھانے کے وقت میں ریسٹ ہاؤس پہنچا۔ کھانے کے دوران اور بعد بھی کافی دیر تک ہم میں بحث ہوتی رہی کہ یہ آدم خور تھا کہ نہیں۔ پھر ہم نے فیصلہ کیا کہ کل تیندوے کی کھال اتاریں گے اور پرسوں پوری چلے جائیں گے۔ جہاں ایبٹسن کو ضروری کام تھے اور میں بھی ردراپریاگ میں اپنے طویل قیام سے تھک گیا تھا۔

اگلے دن صبح سے شام تک لوگ تیندوے کو دیکھنے آتے رہے۔ بہت سے لوگوں کا کہنا تھا کہ وہ آدم خور کو جانتے تھے اور یہ وہی ہے۔ ان باتوں سے ایبٹسن کا یہ یقین پختہ ہو رہا تھا کہ وہ صحیح اور میں غلط ہوں۔ لیکن میں نے اس سے دو باتوں کی درخواست کی کہ وہ لوگوں سے کہیں کہ آدم خور کے معاملے میں اب بھی احتیاط برتیں اور حکومت کو ابھی آدم خور کی ہلاکت سے مطلع نہ کرے۔ اس رات ہم جلدی سوگئے کیونکہ اگلی صبح ہمیں سفر کا آغاز کرنا تھا۔ جب میں ناشتہ کر رہا تھا تو چار آدمی میرے پاس یہ اطلاع پہچانے آئے کہ چٹواپی پال کے پل سے ایک میل دور آدم خور نے ایک عورت ہلاک کر دی ہے۔ اس اطلاع کے بعد میں ایبٹسن کے پاس پہنچ گیا۔ پوری جانے کا ارادہ ملتوی کرنے بعد ہم نے آئندہ کا لائحہ عمل طے کرنے لگے۔

جائے حادثہ پر پہنچنے پر پتا چلا یہ عورت اپنے شوہر اور چھ ماہ کے بچے کے ساتھ ایک پکے مکان میں رہتی تھی۔ رات کسی کام سے گھر سے باہر نکلی تھی اور تیندوے کا شکار بن گئی۔

چار بجے کے قریب ہم لاش کی نگرانی کرنے چل پڑے۔ لاش سے ساٹھ گز کی دوری پر ایک بڑ کا پیڑ تھا۔ یہاں سے لاش صاف دکھائی دے رہی تھی۔ ہمارا ارادہ تھا جب تک لاش دکھائی دے تب تک ہم وہاں بیٹھے رہیں اور پھر پٹرول لیمپ کی مدد سے گاؤں پہنچ جائیں۔

لاش کی مشرق میں گھنا جنگل تھا۔ اگر تیندوا ادھر سے آتا تو ایبٹسن اسے دیکھ لیتا۔ سورج غروب ہو رہا تھا اور ہمارے چاروں سمت سائے پھیلنے لگے۔ اتنے میں ایک ککر جنگل سے پہاڑی کی سمت شور مچاتا ہوا آیا۔ اس نے یقیناًً تیندوے کو دیکھا تھا۔ اتنے میں ایک سوکھی شاخ پہاڑی سے لڑکھتی ہوئی آئی اور ہمارے درخت سے آ ٹکرائی۔ جب اندھیرا پھیل گیا تو ہم نے واپسی کا ارادہ کیا۔ ہم نے لیمپ روشن کیا اور واپسی کے لیئے چل پڑے۔ ایبٹسن لیمپ اٹھائے آگے اور میں رائفل تھامے پیچھے چل رہا تھا۔ ایک چٹان پر چلتے ہوئے ایبٹسن کا پیر پھسلا اور لیمپ کا پیندا زور سے چٹان کے ساتھ ٹکرایا اور اس کا شیشہ ٹوٹ گیا۔ تھوڑی دیر میں لیمپ بجھ گیا۔ ‎ ‎

اب ہمیں اندھیرے میں نصف میل تک چلنا تھا اور وہ بھی ایسی پہاڑی پر جس پر قدم قدم پر خار دار جھاڑیاں اور چٹانیں تھیں۔ اس پر یہ دھڑکا بھی تھا کہ کہیں آدم خور تعاقب نہ کر رہا ہو۔ بعد میں معلوم ہوا کہ آدم خور واقعی ہمارا پیچھا کر رہا تھا۔

آخر ہم خیریت سے گاؤں پہنچ گئے۔ جس مکان میں ہمارے آدمی ٹھہرے تھے اس کا زینہ چڑھنے کے بعد برآمدہ تھا جس کے ساتھ دو کمرے تھے۔ جب ہم برآمدے میں پہنچے تو جانے کہاں سے ایک کتا وہاں آ گیا۔ ہمارے جوتے سونگھ کر دم ہلانے کے بعد وہ زینے کی طرف چلا گیا۔ دوسرے ہی لمحے وہ بھونکتا ہوا ہمارے پاس پلٹا۔ کتے پر نظر رکھ کر تیندوے کی نقل و حرکت کا اندازہ کیا جا سکتا تھا۔ جب تیندوا صحن سے گزر کر زینہ اتر گیا تو کتے نے بھونکنا بند کر دیا۔ ہمارا جو کمرہ تھا اس میں کوئی کھڑکی نہ تھی۔ لہذا ہم نے برآمدے میں سونے کا فیصلہ کیا۔ کتا ہمارے پاؤں میں بڑے آرام سے رات بھر سویا رہا۔ ایبٹسن اور میں باری باری رات بھر جاگتے رہے۔

اگلے دن علی الصبح ہم عورت کی لاش پر گئے اور یہ دیکھ کر ہمیں مایوسی ہوئی کہ تیندوا ہمیں شکار کرنے میں ناکام ہونے کے بعد واپس وہاں نہ آیا تھا۔ وہ رات بھی ہم نے تیندوے کے انتظار میں لاش کے قریب ایک صنوبر کے درخت پر گزاری۔ لیکن تیندوا نہ آیا۔

اگلی صبح ناشتہ کرنے کے بعد ایبٹسن ردراپریاگ روانہ ہو گیا۔ میں جسمانی اور ذہنی طور پر تھک چکا تھا۔ یہ جانتے ہوئے کہ اخبارات میں مجھ پر کڑی تنقید ہو گی میں بھی پندرہ دن کے لیئے نینی تال روانہ ہو گیا۔ رخصت ہونے سے پیشتر میں نے گڑھوال کی باشندوں کو یقین دلایا کہ میں جلد از جلد وہاں آنے کی کوشش کروں گا۔

میں تین ماہ بعد گڑھوال واپس لوٹا۔ پوری پہنچنے پر ایبٹسن مجھے مل گیا۔ پھر ہم ردراپریاگ آئے۔ میری عدم موجودگی میں آدم خور نے دس انسانوں کو شکار کیا تھا۔ اور اس کو ہلاک کرنے کی کوئی کوشش نہ کی گئی تھی۔

آخری ہلاکت ایک چھوٹے لڑکے کی تھی۔ یہ موت ہمارے ردراپریاگ میں آمد سے دو روز قبل دریائے الک نندہ کے بائیں کنارے پر واقع ایک گاؤں میں ہوئی تھی۔ جب ہم جائے واقعہ پر پہنچے تو ہمیں یہ دیکھ کر مایوسی ہوئی کہ وہاں سوائے ہڈیوں کے کچھ نہ بچا تھا۔

وہ لڑکا ردراپریاگ سے چار میل دور ایک گاؤں میں ہلاک ہوا تھا۔ لہذا ہم نے جھولا نما پل کو فوری بند کروا دیا۔ تاکہ تیندوا دوسری طرف نہ جا سکے۔ ایبٹسن نے جھولا نما پل کے مینار پر ایک پلیٹ فارم تیار کرایا۔ وہ ردراپریاگ میں پانچ راتیں ٹھہر سکتا تھا۔ وہ راتیں ہم نے اس پلیٹ فارم پر بسر کیں۔

ایبٹسن کے جانے کے بعد تیندوے نے ایک کتا، چار بکریاں اور دو گائیں ہلاک کیں۔ اس عرصے میں کوئی ہلاکت نہ ہوئی تھی۔ لیکن آدم خور نے ایک عورت اور اس کے بچے کو شدید زخمی کیا تھا۔ جس کمرے میں عورت اپنے بچے کے ہمراہ سوئی ہوئی تھی کہ تیندوا زبردستی دروازہ توڑ کر اندر داخل ہوا اور عورت کو بازو سے گھسیٹ کر دروازے تک لے گیا۔ پھر اس ارادے سے باہر نکلا کہ باہر سے اسے کھینچے گا۔ اسی اثنا میں عورت ایک دم اٹھی اور دروازہ اندر سے بند کر لیا۔ عورت کے بازو اور سینے پر زخم آئے تھے اور بچے کے سر پر ایک زخم آیا تھا۔ اگلی دو راتیں میں نے اس کمرے میں گزاریں پر تیندوا نہ آیا۔

مارچ کے آخری دن ایبٹسن پوری سے واپس آ گیا۔ ہمیں رپورٹ ملی تھی کہ ردراپریاگ کے شمال میں ایک گاؤں میں تیندوا بار بار آیا تھا۔ وہ گاؤں اس جگہ سے ایک میل دور تھا جہاں ہم نے ایک تیندوے کو پھندے میں پھنساکر ہلاک کیا تھا۔

دوپہر کا کھانا کھا کر میں اور ایبٹسن ایک ملازم کے ہمراہ اس گاؤں کی سمت چل پڑے۔ گاؤں پہنچ کر ہم نے ایک بکرا خریدا۔ گاؤں سے ایک پگڈنڈی پہاڑی کے اوپر سے گزرتی تھی۔ اس کے بالائی اور نچلے کنارے پر گھاس اور جھاڑیاں اور گھاس اگی تھی۔ ہم نے بکرے کو پگڈنڈی کے قریب کلہ گاڑ کر باندھ دیا اور خود سو گز دور چٹانوں کے عقب میں چھپ کر بیٹھ گئے۔ بکرا زور زور سے ممیا رہا تھا۔ جب اندھیرا پھیل گیا تو بکرے ممیانا ایک دم بند کر دیا۔ میں نے چٹان کی عقب سے دیکھا تو بکرے کے کان کھڑے تھے اور وہ جھاڑیوں کی سمت دیکھ رہا تھا۔ بلا شبہ تیندوا آ پہنچا تھا۔ روشنی تیزی سے گھٹ رہی تھی۔ اب بکرا صرف سرخ و سفید دھبا دکھائی دیتا تھا۔ ہم نے لمبا سفر طے کرنا تھا اور مزید انتظار کرنا بے فائدہ ہونے کے ساتھ ساتھ خطرناک بھی تھا۔ ہم نے بکرے کا کھونٹے سے رسا کھول کر اسے ملازم کے حوالے کیا اور گاؤں کی سمت چل پڑے۔ بکرا رسا کھلتے ہی پہاڑی کی طرف پگڈنڈی پر بھاگ نکلا۔ ہم اسے پکڑنے اس کے پیچھے بھاگے۔ ایک موڑ پر آ کر بکرا بائیں طرف مڑ گیا اور ہماری نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ اس خیال کے تحت کہ بکرا شارٹ کٹ سے گاؤں جا رہا ہو گا ہم بھی واپس مڑ گئے۔ ابھی ہم نے سو گز کا فاصلہ طے کیا ہو گا کہ بکرا ہمیں سڑک پر پڑا دکھائی دیا۔ اس کی گردن سے خون بہہ رہا تھا اور یہ کام سوائے آدم خور کے کس کا ہو سکتا تھا۔ میرے پاس دیا سلائی کا ایک ڈبا تھا۔ ہم اس کی روشنی کے سہارے گاؤں تک پہنچے۔

بکرے کو ہم نے وہیں چھوڑ دیا تھا۔ اگلی صبح اسے دیکھنے جب میں گاؤں سے نکلا تو مجھے تیندوے کے پنجوں کے نشان دکھائی دیئے۔ اس نے گاؤں تک ہمارا پیچھا کیا تھا۔ جہاں تک بکرے کا تعلق ہے، تیندوے نے اسے چھوا تک نہ تھا۔

بکرے کو دیکھنے کے بعد جب میں ریسٹ ہاؤس واپس آیا تو مجھے اطلاع ملی کہ گزشتہ شب آدم خور نے ردراپریاگ میں ایک شخص کو ہلاک کر دیا ہے۔ جب ہم جائے وقوع پر پہنچے تو دیکھا کہ تیندوے نے اس شخص کے کندھے اور ران سے تھوڑا سا گوشت کھایا تھا۔ آس پاس کوئی درخت نہ تھا جس پر ہم بیٹھ سکتے۔ لہذا تیندوے نے جہاں جہاں سے گوشت کھایا تھا ہم نے وہاں وہاں سائنائڈ کے کیپسول رکھ دیئے۔ پھر ہم وہاں سے چلے آئے۔ اگلی صبح جب ہم وہاں پہنچے۔ تیندوے نے ان جگہوں کو چھوا تک نہ تھا جہاں زہر رکھا گیا تھا۔ باقی جگہوں سے اس نے پیٹ بھر کر گوشت کھایا تھا۔ پھر اس نے لاش جھاڑیوں میں چھپا دی تھی۔ وہاں بھی کوئی درخت نہ تھا۔ پھر ہم نے فیصلہ کیا کہ ایبٹسن گاؤں سے ایک میل دور ایک آم کے درخت پر مچان پر رات بسر کرے اور میں لاش سے چار سو گز دور پگڈنڈی کے کنارے ایک صنوبر کے درخت پر رات بسر کروں۔ میرے درخت کے بائیں جانب پگڈنڈی تھی اور دائیں سمت پہ وہ جھاڑیاں تھیں جس میں تیندوے نے لاش چھپا رکھی تھی۔ رات چاندنی تھی اگر تیندوا پگڈنڈی کی طرف سے آتا تو میں اس پر آسانی سے گولی چلا سکتا تھا۔

رات آٹھ بجے لاش کی سمت سے ایک ککر چلانے لگا۔ تیندوا آ گیا تھا اور وہ اس راستے سے نہ آیا تھا جس کا میں نے اندازہ لگایا تھا۔ دس بجے کے قریب ککر پھر چلایا۔ تیندوے نے دو گھنٹے میں پیٹ بھر کے گوشت کھایا ہو گا اور ظاہر ہے زہر کی بڑی مقدار اپنے اندر داخل کر لی ہو گی۔ دو بجے کے قریب میں نے تیندوے کو پگڈنڈی کی سمت آتے دیکھا۔ وہ بڑی لا پروائی سے چل رہا تھا۔ مجھے امید تھی کہ اگلے چند لمحوں میں میں اس کے بھیجے میں گولی اتار دوں گا۔ لیکن پھر وہ اچانک نشیب میں اتر گیا اور ایک چشمے پر جا کر پانی پینے لگا۔ پھر ایک طویل خاموشی چھا گئی۔ مجھے یقین تھا کہ زہر نے اپنا کام دکھا دیا ہے اور وہ چشمے پر مر گیا ہو گا۔ لیکن پھر میں نے تیندوے کو پہاڑی کی دوسری سمت جاتے دیکھا اور پھر ہر آواز رات کی تاریکی میں ڈوب گئی۔

اگلی صبح لاش کا معائنہ کرنے پر پتا چلا کہ تیندوے ہر اس جگہ سے گوشت کھایا تھا جہاں زہر رکھا گیا تھا۔ اب اسے ڈھونڈنا ضروری تھا۔ ایبٹسن نے پٹواری سے آدمی جمع کرنے کا کہا۔ پٹواری دوپہر کو دو سو آدمیوں کو لے آیا۔ ہم نے پہاڑی کا وہ حصہ چھانٹا جہاں تیندوا گیا تھا۔ مگر ہم اسے تلاش کرنے میں ناکام رہے۔ اگلے دس دن تک کوئی واردات نہ ہوئی تو سب یہی سوچنے لگے کہ تیندوا مر گیا ہے۔ مگر اگلے دن خبر ملی کہ ردراپریاگ سے ایک میل دور ایک گاؤں میں تیندوے نے ایک عورت کو ہلاک کر دیا ہے۔

ظاہر ہے سائنائڈ نے بھی اس پر کچھ اثر نہ کیا تھا۔ بلا شبہ تیندوے نے زہر کھایا تھا۔ اب میرے لیئے یہ عجیب بات نہ تھی کہ گڑھوال کے لوگ جو گزشتہ آٹھ سال سے آدم خور کے پنجے میں گرفتار تھے اسے بد روح کیوں کہتے تھے۔

ناشتے کے بعد ہم اس گاؤں کی طرف چل پڑے جہاں آدم خور نے عورت کو ہلاک کیا تھا۔ گاؤں کا نمبردار اور متوفی کے رشتہ دار ہمارے منتظر تھے۔ انہوں نے ہمیں وہ جگہ دکھائی جہاں تیندوے نے اس عورت کو پکڑا تھا جب کہ وہ اپنے گھر کا دروازہ بند کر رہی تھی۔ وہاں سے تیندوا اسے گھسیٹ کر پگڈنڈی کے سنگم تک لے گیا اور پھر وہاں اسے ہلاک کر دیا۔ پھر وہ اسے اٹھا کر پہاڑی کی دوسری سمت لے گیا۔ اس خاتون کی عمر ستر برس کے قریب تھی۔

وہ علاقہ میرے لیئے نیا تھا۔ میں نے اس سارے علاقے کا معائنہ بڑی احتیاط سے کیا کیونکہ مجھے یقین تھا کہ تیندوا یہیں کہیں موجود ہے اور میں نہیں چاہتا تھا کہ اسے مناسب وقت سے پہلے میری موجودگی کا علم ہو جائے۔

ایبٹسن نے مجھ سے دو بجے ندی کے کنارے ملنے کا وعدہ کیا تھا۔ دو بجے سے پہلے وہ اپنے آدمیوں کے ساتھ ضروری چیزیں جن میں پٹرول لیمپ، دو فالتو رائفلیں، سائنائڈ کے کیپسول اور لوہے کا پھندہ شامل تھے لے کر پہنچ گیا۔ ندی کے کنارے ہم نے کھانا کھایا اور پھر لاش کی طرف چل پڑے۔

لاش ہموار زمین کے قطعے سے پانچ فٹ دور تھی۔ یہ قطعہ چار فٹ چوڑا اور چار فٹ طویل تھا۔ اس کا بالائ حصہ اونچا اور نچلے حصے پر ڈھلان تھی جس پر گلاب کی جھاڑی پھیلی ہوئی تھی۔ یہاں کوئی درخت ایسا نہ تھا جس پر مچان بنائی جا سکے۔ لہذا ہم نے زہر، بندوقوں اور پھندے پر انحصار کرنے کا فیصلہ کیا۔

سب سے ہم نے لاش میں زہر چھپایا۔ تیندوا کسی بھی سمت سے لاش پر آ سکتا تھا لیکن اس کا سب سے فطری راستہ زمین کا ہموار قطعہ تھا۔ اس جگہ ہم نے پھندہ لگایا۔ پھر لاش سے پندرہ گز دور دو بانسوں کے ساتھ رائفلیں باندھیں اور ان کا رخ ادھر کر دیا جہاں تیندوے نے بیٹھ کر لاش کھانی تھی۔ پھر مچھلی کی ڈوری کے ایک سرے سے پہلی رائفل کے گھوڑے کو باندھا اور اسے عورت کی لاش کے گرد چکر دے کر دوسری رائفل کے گھوڑے سے باندھ دیا۔

گاؤں سے پچاس گز دور ایک درخت پر مچان تیار کرائی اور اس ارادے سے رات بسر کرنے کا فیصلہ کیا کہ اگر تیندوا پھندے میں پھنسا تو اسے ہلاک کر دیں گے۔ غروب آفتاب کے وقت ہم مچان پر چڑھ گئے۔ لاش مچان سے سو گز اوپر پہاڑی پر پڑی تھی۔ پہاڑیوں کی چوٹیاں دھوپ کی آخری کرنوں سے چمک رہی تھیں۔ جب گولی چلانے کی روشنی نہ رہی تو میں نے رائفل ایک طرف رکھ دی۔ تیندوے کو ہلاک کرنے ایک موقع ضائع ہو چکا تھا۔ اندھیرا ہونے کے کچھ دیر بعد بارش شروع ہو گئی۔ پونے آٹھ کے وقت تیندوے کی بپھری ہوئی آوازیں سنائی دیں۔ ردراپریاگ کا آدم خور پھندے میں پھنس چکا تھا۔ ہم فوری طور پر درخت سے اترے اور پھندے کی جانب چلے۔ ایبٹسن نے لیمپ روشن کر لیا تھا۔ پہاڑی پر پہنچے تو دیکھا کہ پھندہ پہاڑی سے دس گز دور بند حالت میں پڑا تھا۔ لاش اپنی جگہ سے ہلی ہوئی تھی اور کافی حد تک کھا لی گئی تھی۔ ان حالات کو دیکھ کر ہمارے خیالات انتہائی تلخ ہو گئے۔ ہم دوبارہ مچان پر جا بیٹھے اور چادر اوڑھ کر سو گئے۔ اس رات تیندوا جس طرح موت کے منہ سے بچ نکلنے میں کامیاب ہوا تھا اس کو اس کی خوش قسمتی کے سوا کچھ نہ کہا جا سکتا تھا۔ اس دن میں نے زہر اور پھندے کے سہارے ترک کر کے اور صحیح معنوں میں اپنی رائفل کو استعمال کر کے آدم خور کی کھوپڑی کے پڑخچے اڑانے کا فیصلہ کر لیا۔

آدم خور کو ہلاک کرنے کے سلسلے میں ہماری ناکامی کی وجہ یہ نہ تھی کہ ہم نے کوئی ایسی حرکت کی تھی جو ہمیں نہ کرنی چاہیئے تھی یا ہمارے انتظامات میں کوئی کمی رہ گئی تھی۔ اس کی وجہ فقط بدنصیبی تھی۔ برقی ٹارچ کا وقت پر کام چھوڑ دینا، زہر کا تیندوے پر اثر نہ کرنا اور پھندے سے بچ نکلنا۔

اس ناکامی کے بعد ایبٹسن پوری چلے گئے۔ یہ بات میرے لیئے بے چینی کا سبب تھی کہ میں نے پل کی ناکہ بندی کر کے تیندوے کو دریا کے بائیں جانب ہی رکھا تھا۔ میں نے راستوں اور دیہات میں جتنے بھی لوگوں سے ملا کسی نے بھی مجھ سے شکوہ نہ کیا کہ تیندوے کو ان کے علاقے میں کیوں محدود رکھا ہوا ہے۔

دوسری صبح میں ردراپریاگ کے مشرق کے دیہات دیکھ رہا تھا تو آدم خور کے پنجوں کے نشان ایسے راستے پر ملے جو ایک گاؤں کی سمت جاتا تھا۔ اس گاؤں میں آدم خور نے ایک ایسے مکان کا دروازہ توڑنے کی کوشش کی تھی جس میں ایک بچہ کھانسی میں مبتلا تھا۔ دو میل چلنے کے بعد وہ نشان مجھے اس پہاڑی کی طرف لے گئے جہاں چند دن پہلے میں نے بکرا باندھا تھا۔

ابھی دن نکلا ہی تھا۔ اس غرض سے کہ شاید تیندوا کہیں آرام کرتا ہوا مل جائے میں ایک بلند چٹان پر چڑھ کر وادی میں نگاہیں دوڑانے لگا۔ مگر مجھے تیندوا کہیں دکھائی نہ دیا۔ مجھے چٹان پر لیٹے ایک گھنٹہ ہو گیا تھا کہ دو آدمی پہاڑی سے اترے وہ بازار کی سمت جا رہے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ طلوع آفتاب سے تھوڑی دیر پہلے اس طرف انہوں نے تیندوے کی آواز سنی تھی۔ ہم بکری باندھ کر تیندوے پر گولی چلانے کے امکانات پر بحث کرتے رہے۔ پھر انہوں نے اپنے گاؤں سے بکری لانے کی پیشکش کی اور وعدہ کیا کہ مغرب سے دو گھنٹے پہلے وہ مجھے یہیں ملیں گے۔

جب وہ چلے گئے تومیں نے رات بیٹھنے کے لیئے جگہ کی تلاش شروع کی۔ اس جگہ صنوبر کا صرف ایک درخت تھا۔ یہ اسی راستے پر تھا جہاں سے وہ آدمی آئے تھے۔ درخت میں کم شاخوں کی وجہ سے چھپ کر بیٹھنا ممکن نہ تھا۔ مگر اس پر بیٹھنے کے علاوہ میرے پاس کوئی چارہ نہ تھا۔

چار بجے کے قریب میں وہاں دوبارہ پہنچا تو دونوں آدمی بکری کے ہمراہ میرا انتظار کر رہے تھے۔ میں صنوبر کے درخت پر چڑھ گیا۔ ان آدمیوں نے بکری کو درخت کی جڑ کے ساتھ باندھا اور اگلی صبح آنے کا کہہ کر چلے گئے۔

جب اندھیرا پھیل گیا اور تیندوے کا کوئی سراغ نہ ملا تو تیندوے کو خود کی طرف متوجہ کرنے کی خاطر میں نے تیندوے کی آواز نکالی اور حیرت انگیز طور پر مجھے اس کا جواب دائیں طرف چار سو گز کے فاصلے سے ملا۔ میں جانتا تھا کہ تیندوا سیدھی لکیر میں میری طرف نہ آئے گا بلکہ چٹانوں کے گرد گھوم کر سامنے کی چٹان کے قریب نمودار ہو گا۔ جب تیندوے کی دوسری آواز آئی تو میرا خیال درست ثابت ہو رہا تھا۔ میں نے اس کا جواب دیا۔ پھر اس کی تیسری آواز سو گز کے فاصلے سے آئی تو میں نے رائفل آواز کی سیدھ میں رکھ کر اس پر لگی ٹارچ کے بٹن پر اپنا انگوٹھا رکھ دیا۔ درخت سے ساٹھ گز کے فاصلے پر تیندوا پھر بولا اور پہاڑ کی دوسری سمت سے ایک اور تیندوے نے اس کی آواز کا جواب دیا۔ اس غیر متوقع آواز کے لیئے میں ہرگز تیار نہ تھا۔ کیونکہ تیندوے نے اب اپنا رخ پہاڑی کی طرف کر لیا تھا۔ اب میں اس کو متوجہ کرنے کی خاطر آواز بھی نہ نکال سکتا تھا۔ کیونکہ وہ نقلی آواز پہچان جاتا۔ اس پر گولی چلانے کا موقع ہاتھ سے نکل گیا تھا۔

ابھی میں اسی ادھیڑ بن میں تھا کہ اچانک آندھی آ گئی۔ آندھی اس قدر شدید تھی کہ صنوبر کا درخت بری طرح ہلنے لگا۔ مجھے لگ رہا تھا کہ وہ جڑ سے اکھڑ جائے گا۔ میں بھی اس سے گرتے گرتے بچا تھا۔ تقریباً ایک گھنٹے بعد طوفان تھم گیا۔ اب تیندوے کے آنے کا سوال ہی نہ تھا۔ چناچہ میں نے ایک سگریٹ سلگا کر پی اور پھر درخت پر سو گیا۔

سورج طلوع ہونے پر میں درخت سے اتر آیا۔ اتنے میں میرے نئے ساتھی مزید دو افراد کے ہمراہ وہاں پہنچ گئے۔ میں نے ان کو رات بھر کی کار گزاری سنانے کے بعد پوچھا کہ کیا وہ رات کے طوفان سے باخبر تھے۔ تو ان میں سے ایک نے کہا، "نہیں صاحب! ایسا طوفان پہلے کبھی نہ آیا تھا۔ تیز ہوا سے میری جھونپڑی بھی اڑ گئی ہے۔ ”

صنوبر کے درخت پر جاگنے کے بعد کئی دن تک آدم خور کی کوئی خبر نہ ملی۔ میں نے اسے جنگلوں اور کھیتوں میں بارہا تلاش کیا مگر بے سود۔ میں چند راتیں پل پر بھی گزاریں۔ پھر کچھ دن بعد اس نے ایک کتے کو ہلاک کیا اور اس کے دو دن بعد خبر ملی کہ شمال کی سمت یاترا سڑک سے سات میل دور ایک گائے ہلاک کر دی ہے۔ میں جائے حادثہ کی طرف چل پڑا۔ گائے ایک نشیب میں ہلاک کی گئی تھی۔ سڑک سے دو فرلانگ اور دریا سے سو گز کے فاصلے پر۔ وہاں کوئی ایسا درخت نہ تھا جس پر میں بیٹھ سکوں۔ گائے سے تیس گز کے فاصلے پر ایک چٹان تھی جس کے پیندے میں ایک کھوہ تھی۔ میں نے اس کھوہ میں بیٹھنے کا فیصلہ کیا۔

میں اپنے ساتھ ایک شکاری چاقو اور ٹارچ بھی لے آیا تھا۔ مجھے یقین تھا کہ تیندوا مجھے نہ دیکھ سکے گا اور میں اسے آسانی سے شکار کر لوں گا۔

میں ساری شام وہاں بیٹھا رہا مگر تیندوا نہ آیا۔ آہستہ آہستہ اندھیرا ہو گیا اور تھوڑی ہی دیر بعد بارش شروع ہو گئی۔ میں نے اپنا کوٹ اتار کر گردن پر لپیٹا۔ رائفل بائیں ہاتھ میں اور چاقو دائیں ہاتھ میں لے کر گاؤں کی طرف روانہ ہو گیا جو فقط پانچ سو گز پر تھا۔ بارش میں بھیگتا اور خوف سے تھرتھراتا میں بالآخر گاؤں پہنچ گیا۔

دو دن تک گردو نواح سے آدم خور کی کوئی خبر نہ ملی۔ تیسرے دن صبح کے وقت دو آدمی آئے اور انہوں نے بتایا کہ گزشتہ روز شام کے وقت بھیس واڑہ میں تیندوے نے ایک لڑکے کو ہلاک کر دیا ہے۔ بھیس واڑہ، ردراپریاگ سے اٹھارہ میل جنوب مشرق میں تھا۔

تقریباً ایک بجے میں ان میں سے ایک آدمی کے ساتھ بھیس واڑہ کی طرف روانہ ہوا۔ یہ دونوں آدمی راستے میں ہر گاؤں میں بتا کر آئے تھے کہ وہ مجھے لینے جا رہے ہیں۔ اس لیئے جو جو گاؤں راستے میں پڑے اس کی ساری آبادی میری منتظر ہوتی اور لوگ مجھے کامیاب ہونے کی دعائیں دیتے۔ سورج غروب ہونے سے کچھ پہلے ہم بھیس واڑہ پہنچ گئے۔

وہاں کے نمبردار نے بتایا کہ گزشتہ شام کو ایک بیوہ اپنے دو بچوں اور ہمسائے کے ایک بچے کے ساتھ بھیس واڑہ سے تھوڑی دور پانی بھرنے گئی۔ وہ ایک دو منزلہ مکان میں رہتی تھی۔ واپسی پر ہمسائے کا لڑکا سب سے آگے تھا۔ جب وہ زینہ چڑھنے لگا تو ملحقہ کمرے میں اس نے کوئی جانور دیکھا وہ اندھیرے میں اسے کتا سمجھا اور اپنے ساتھیوں سے اس کا ذکر نہ کیا۔ اس کے پیچھے لڑکی پھر بیوہ عورت اور آخر میں اس کا لڑکا تھا۔ ابھی عورت نے آدھا زینہ طے کیا تھا کہ اسے لڑکے کے سر پر رکھی پانی کی گاگر گرنے کی آواز آئی۔ وہ واپس پلٹی اور لڑکے کو وہاں نہ پاکر اسے آوازیں دینے لگی۔ پڑوس کے لوگ بھی یہ شور سن کر وہاں آ گئے اور لڑکے کی ڈھونڈ شروع ہوئی۔ پھر ایک آدمی کی نظر نیچے خون کی لکیر پر پڑی اس نے دوسرے لوگوں کی توجہ اس طرف مبذول کرائی۔ پھر لکیر کا پیچھا کرتے کرتے وہ اروی کے ایک کھیت تک پہنچے وہاں ان کو تیندوے کے پنجوں کے نشان دکھائی دیئے۔ اس پر لوگ رات بھر ڈھول وغیرہ پیٹنے لگے۔ پھر دن کے وقت لڑکے کی لاش مل گئی۔

اروی کے کھیت کے بعد ایک اور کھیت تھا اس کے آخر میں ایک گلاب کی جھاڑی تھی۔ اس جھاڑی کے پاس ایک دیوار تھی جس میں مویشیوں کا ایک راستہ بنا ہوا تھا۔ ڈھول وغیرہ کے شور سے ڈر کر اس راستے پر تیندوا اپنا شکار چھوڑ کر چلا گیا تھا۔

گرد و نواح کا معائنہ کرنے کے بعد جب میں واپس لوٹا تو میں نے نمبردار سے ایک کلہ، ایک ہتھوڑا اور ایک زنجیر مانگی۔ جب یہ چیزیں آ گئیں تو میں نے صحن کے وسط میں کلہ گاڑ کر زنجیر اس کے ساتھ باندھ دی اور لڑکے کی لاش کو دوسرے سرے سے باندھ دیا۔ پھر میں نے گھر خالی کروا لیا اور لوگوں کو خاموش رہنے کی تاکید کی۔

آسمان پر شام سے ہی گھٹا چھائی ہوئی تھی۔ آٹھ بجے کے قریب دور بجلی کڑکنے لگی اور بادل گرجنے لگے۔ طوفان آ رہا تھا۔ یہ طوفان ایک گھنٹے تک جاری رہا۔ پھر بارش تھم گئی۔ تیندوا جو طوفان میں کہیں چھپ گیا تھا اب اس کے نکلنے کا وقت آ گیا تھا۔ اچانک مجھے اپنے قدموں کے سرسراہٹ سی محسوس ہوئی۔ وہ آدم خور ہی ہو سکتا تھا جو بڑی احتیاط سے رینگ رہا تھا اور اپنے دانت میری گردن میں گاڑنے کی فکر میں تھا۔ میں یکدم پیچھے ہٹا اور رائفل چلانے ہی والا تھا کہ ایک بلی کا بچہ اچھل کر میری گود میں آ بیٹھا۔ وہ بھیگا ہوا تھا اور ہر گھر کا دروازہ بند پا کر میرے پاس آ گیا تھا۔

اچانک دور کھیتوں میں مجھے سرسراہٹ سی سنائی دی۔ جو بتدریج بلند ہوتی چلی گئی اور پھر ایک خوفناک لڑائی میں تبدیل ہو گئی۔

ظاہر سی بات ہے آدم خور اپنے شکار کی تلاش میں آیا ہو گا اور اس کا سامنا اس علاقے کے تیندوے سے ہو گیا ہو گا جو اپنے علاقے میں کسی اور کی مداخلت دیکھ کر اس پر ٹوٹ پڑا تھا۔ آدم خور نے مصیبت خود مول لی تھی اور اس سے نکلنے کے لیئے اسے اپنی جان کی بازی لگانا پڑ رہی تھی۔ اب میرے پاس آدم خور پر گولی چلانے کا موقع نہ رہا تھا۔ آدم خور اگر حملہ آور کو شکست دے دیتا تو بھی اس کے زخموں نے اس کو چند روز شکار نہ کرنے دینا تھا اور اگر اس جنگ میں ہلاک ہو جاتا تو گڑھوال میں امن لوٹ آتا۔

یہ لڑائی وقفہ وقفہ سے لڑی گئی اور تقریباً چار گھنٹے جاری رہی۔ مقامی تیندوا آدم خور کو پسپا کرنے میں کامیاب رہا۔ ابھی دن نکلنے میں چھ گھنٹے باقی تھے۔ میرا بھیس وارہ آنے کا مقصد فوت ہو چکا تھا۔ بلی کا بچہ ساری رات میرے پہلو میں آرام سے سوتا رہا۔ صبح ہوتے ہی میں نمبردار کے گھر گیا۔ وہ اب تک سورہا تھا۔ اس کو اٹھا کر میں نے اسے بتایا کہ اب آدم خور اس کے گاؤں دوبارہ نہ آئے گا۔ اس کے بعد میں ردراپریاگ کے طویل سفر پر نکل پڑا۔

گزشتہ روز اٹھارہ میل میرے لیئے طویل تھے لیکن آج مجھے یہ کل کی نسبت زیادہ طویل لگ رہے تھے۔ راستے میں ہر گاؤں کے لوگ میرے منتظر تھے۔ پر میرے پاس ان کے لیئے اچھی خبر نہ تھی۔ آخری چار میل چلتے ہوئے مجھے پتا چلا کہ میں آدم خور کے پنجوں کے نشانات پر چل رہا ہوں۔ یہ نشانات گلاب رائے کی ندی تک گئے تھے پھر وہاں سے تیندوا آگے جنگل میں روپوش ہو گیا تھا۔

ردراپریاگ میں قیام کے دوران میرے کھانے کے اوقات بڑے غلط ہو گئے تھے۔ گزشتہ دن کے بے وقت کھانے کے سوا میں نے اب تک کچھ نہ کھایا تھا۔ بھیس واڑہ سے واپسی پر میں نے پیٹ بھر کے کھانا کھایا اور پھر گلاب رائے کی طرف چل دیا تاکہ وہاں کے آشرم کے پنڈت کو اس علاقے میں آدم خور کی موجودگی سے آگاہ کر دوں۔

اس شام گلاب رائے آنے پر میں نے پنڈت کو تنبیہ کی کہ وہ اپنی حفاظت اور اپنے آشرم میں ٹھہرنے والے یاتریوں کے تحفظ کے سلسلے میں زیادہ چوکنا ہو جائے۔ وہ رات اور اس کی اگلی تین راتیں میں سڑک کے قریب گھاس کے ایک گٹھے پر بیٹھا آدم خور کا انتظار کرتا رہا۔

چوتھے دن ایبٹسن وہاں آ گیا۔ اسے بتانے کو میرے پاس بہت کچھ تھا۔ اگرچہ میری اس سے خط و کتابت ہوتی رہتی تھی۔ اس کی باوجود میں اسے وہ سب کچھ نہ لکھ سکا تھا جس کو سننے کا وہ مشتاق تھا۔

اس دن ہم دیر تک باتیں کرتے رہے اور اپنی ناکامیوں کا جائزہ لیتے رہے۔ پھر میں نے اسے تیندوے کی ایک عادت کا بتایا کہ وہ پانچ دن میں ایک دفعہ ردراپریاگ اور گلاب رائے کے درمیان یاترا سڑک سے گزرتا تھا اور اسے ہلاک کرنے کا اب یہی طریقہ رہ گیا ہے کہ اب میں اگلی دس راتیں سڑک کے کنارے کسی مناسب جگہ اس کا انتظار کروں۔ پہلے تو ایبٹسن میری تجویز سے متفق نہ تھا لیکن میں نے اسے اپنا ہم خیال بنا ہی لیا۔ پھر اسے بتایا کہ اگر اس عرصے میں میں تیندوے کو ہلاک نہ کر سکا تو نینی تال لوٹ جاؤں گا۔

اس شام ہم گلاب رائے گئے اور آشرم سے سو گز پر موجود آم کے درخت پر مچان باندھی۔ درخت اور سڑک کے درمیان ایک مضبوط کھونٹ گاڑ کر اس کے ساتھ ایک بکری باندھ دی اور اس کی گردن میں ایک گھنٹی باندھ دی۔ گلاب رائے کی مشرقی پہاڑیاں چاند کو وادی میں زیادہ دیر چمکنے نہیں دیتیں۔ اگر تیندوا اندھیرے میں آتا تو بکری نے مجھے مطلع کر دینا تھا۔

جب تمام تیاریاں مکمل ہو گئیں تو ایبٹسن نے یہ وعدہ کر کے چلا گیا کہ کل صبح وہ دو آدمی میرے پاس بھیج دے گا۔ اندھیرا پھیلنے سے پہلے آشرم کا پنڈت میرے پاس آیا اور ترغیب دینے لگا کہ میں مچان پر بیٹھنے کا ارادہ ترک کر کے بستر پر مزے کی نیند لوں۔ میں نے اسے بتایا کہ میں اگلی نو راتیں بھی مچان پر بسر کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں۔ رات میں فقط ایک بار ککر بولا۔ اس کے بعد رات خاموش رہی۔ صبح میرے دو آدمی وہاں پہنچ گئے۔ میں سڑک پر تیندوے کے پنجوں کے نشان دیکھتا ہوا ریسٹ ہاؤس کی طرف چل پڑا۔

اگلی نو راتوں میں میرا یہی معمول رہا۔ شام کے وقت مچان پر آنا اور صبح ریسٹ ہاؤس روانہ ہو جانا۔ ان دس راتوں میں پہلی رات ککر کی آواز کے سوا میں نے کچھ نہ سنا۔ آدم خور کی گردو نواح میں موجودگی کے میرے پاس کئی ثبوت تھے۔ ان راتوں میں اس نے دو دفعہ دو مکانوں پر حملے کیئے تھے۔ پہلی دفعہ ایک بکری اور دوسری دفعہ ایک بھیڑ اٹھا کر لے گیا تھا۔ اس کے علاوہ آدم خور نے ایک مکان کا دروازہ بھی توڑ دیا تھا۔ لیکن وہ مکان دو کمروں پر مشتمل تھا اور اس کا دوسرا دروازہ انتہائی مضبوط تھا۔

دسویں رات مچان پر گزارنے کے بعد جب میں واپس ریسٹ ہاؤس آیا تومیں اور ایبٹسن آئندہ منصوبے کے متعلق بات کرتے رہے۔ اب تک کسی شکاری کا خط نہ آیا تھا۔ مجھے ضروری کام سے افریقہ جانا تھا جو پہلے ہی تین ماہ تاخیر کا شکار ہو چکا تھا۔ لیکن میں گڑھوال کو آدم خور کے رحم و کرم پر چھوڑنے کو تیار نہ تھا۔ اس فیصلے پر پہنچنے کے بعد میں نے ایبٹسن کو بتایا کہ یہ رات گڑھوال کے آم کے درخت پر میری آخری رات ہو گی۔

گیارہویں رات ایبٹسن مجھے مچان پر چھوڑنے آیا۔ ایبٹسن کے جانے کے بعد پنڈت میرے پاس آیا اور بتانے لگا کہ آج ڈیڑھ سو یاتری آشرم کے قریب آئے ہیں اور رات وہیں گزارنا چاہتے ہیں۔ میں نے پنڈت کو تنبیہ کی کہ وہ یاتریوں سے کہ دے کہ سب ایک جگہ رہیں اور اندھیرا ہونے کے بعد کوئی باہر نہ نکلے۔ چند منٹ بعد اس نے اطلاع دی کہ اس نے یاتریوں کو خبردار کر دیا ہے۔

میرے درخت سے تقریباً سو گز دور ایک کھیت میں خار دار جھاڑیوں کا باڑہ تھا۔ جس میں ایک مسافر گلہ بان ٹھہرا ہوا تھا۔ اس کے ساتھ دو کتے بھی تھے۔

چاندنی رات ڈھل چکی تھی اور وادی اندھیرے میں ڈوبی تھی۔ رات نو بجے کے قریب ایک آدمی آشرم سے لالٹین لیئے نکلا اور سڑک عبور کی۔ چند منٹ بعد وہ دوبارہ آشرم کی طرف آیا اور اندر داخل ہو کر لالٹین بجھا دی۔ اسی لمحہ گلہ بان کے کتے بڑی تیزی سے بھونکنے لگے۔ شاید تیندوے کو دیکھ کر جو لالٹین والے آدمی کو دیکھ کر اس کے تعاقب میں آ رہا تھا۔

پہلے تو کتے سڑک کی طرف منہ کر کے بھونکتے رہے۔ پھر چند منٹ بعد میری طرف منہ کر کے بھونکنے لگے۔ شاید تیندوے نے بکری کو دیکھ لیا تھا۔ پھر کتے خاموش ہو گئے۔ تیندوا ان کی نظروں سے اوجھل ہونے کے لیئے زمین پر لیٹ گیا تھا۔ میں تیندوے کی آمد سے با خبر ہو گیا تھا۔ اب سوال یہ تھا کہ وہ بکری پر حملہ کرے گا یا آشرم جا کے قسمت آزمائی کرے گا۔ اگر وہ بکری پر حملہ کرتا تو مجھے اس پر گولی چلانے کا موقع مل جانا تھا۔

میری مچان اور بکری کے درمیان بیس فٹ کا فاصلہ تھا۔ لیکن درخت کے نیچے اس قدر کثیف اندھیرا تھا کہ بکری دکھائی نہ دے رہی تھی۔ آخر میں نے اپنے کانوں پر بھروسہ کرنے کا فیصلہ کر لیا۔

میں نے اپنی رائفل کو جس کے ساتھ برقی ٹارچ لگی ہوئی تھی بکری کی سمت کر رکھا تھا۔ میرے ذہن میں یہی خیال تھا کہ تیندوا آشرم کی طرف شکار کی تلاش میں ہو گا کہ اچانک بکری کے گلے کی گھنٹی زور سے بجنے لگی۔ ٹارچ کا بٹن دباتے ہی میں نے دیکھا کہ رائفل کی دونوں نالیاں تیندوے کے کندھے کا نشانہ لیئے ہوئے تھیں۔ رائفل کو انچ برابر ہلائے ہوئے میں نے لبلبی دبا دی۔ گولی چلتے ہی ٹارچ خودبخود بجھ گئی۔ اب میرے چاروں طرف اندھیرا تھا اور اسی لیئے مجھے اپنی گولی کا نتیجہ معلوم نہ ہو سکا تھا۔

میری گولی کی گونج بتدریج وادی میں کھو رہی تھی۔ میں نے اپنی تمام تر توجہ تیندوے کی کوئی آواز سننے پر مرکوز رکھی تھی۔ میری گولی کی آواز سے یاتری جاگ اٹھے تھے۔ مگر چند منٹ کی سرگوشیوں کے بعد دوبارہ سو گئے۔ بکری زخمی نہ تھی کیونکہ وہ رسے کی لمبائی تک ادھر ادھر گھوم کر گھاس چر رہی تھی۔

میں نے رات دس بجے گولی چلائی اور دن نکلنے میں ابھی خاصا وقت تھا۔ میں اس دوران سگریٹ پیتا رہا اور کوئی آواز سننے کی کوشش کرتا رہا۔ جب مشرقی افق سے دن جنم لینے کی تیاری کر رہا تھا تو گرد و پیش کی چیزیں ہلکی ہلکی دکھائی دینے لگیں تو میں درخت سے اترا۔ بکری نے ممیا کر میرا استقبال کیا۔

سڑک کے کنارے چھوٹی چھوٹی چٹانوں پر مجھے خون کی ایک انچ چوڑی لکیر دکھائی دی۔ جس تیندوے سے وہ خون نکلا تھا وہ چند منٹ سے زیادہ زندہ نہ رہ سکتا تھا۔ پچاس گز چلنے کے بعد مجھے تیندوا مل گیا۔ وہ ایک گڑھے کے اندر پڑا ہوا تھا۔ وہ ایک بوڑھا تیندوا تھا۔ اس کا منہ خاکستری تھا اور اس کی مونچھوں کے بال غائب تھے۔

اتنے میں میرے آدمی وہاں پہنچ گئے اور مجھے آواز دینے لگے۔ میں نے انہیں اپنے پاس بلایا۔ تیندوا گڑھے میں پڑے پڑے اکڑ گیا تھا۔ لہذا قدرے تاخیر سے اسے باہر نکالا گیا۔ پھر اسے بانس سے باندھ کر ایبٹسن کے پاس ریسٹ ہاؤس پہنچا۔ وہ ابھی تک سویا ہوا تھا۔ مجھے دیکھتے ہی بستر سے نکلا، دروازہ کھولا اور مجھے بانہوں میں بھینچ لیا اور پھر تیندوے کے گرد ناچنے لگا۔ پھر ایبٹسن اور میں نے تیندوے کا بغور معائنہ کیا۔ اس کی لمبائی سر سے دم تک آٹھ فٹ کے قریب تھی، رنگ خاکستری اور زبان اور منہ کالے تھے۔ بائیں بازو میں گولی کا پرانا زخم تھا۔ سر اور دم پر بھی کئی زخم تھے جو بڑی حد تک مندمل ہو چکے تھے۔ پیمائش کے بعد ہم نے اسے ایک درخت کے نیچے ڈال دیا۔ صبح سے شام تک ہزاروں لوگ اسے دیکھنے کے لیئے آئے۔

ہندوستان کے باشندے جب کسی خاص مقصد کے تحت کسی سے ملنے جاتے ہیں تو وہ کبھی خالی ہاتھ نہیں جاتے۔ اس سے پہلے بھی لوگ مجھ سے عقیدت کا اظہار کر چکے تھے لیکن اس موقع پر ان کا جوش عقیدت اپنے عروج پر تھا۔ پہلے ریسٹ ہاؤس میں پھر ردراپریاگ بازار میں ایک استقبالیہ کے موقع پر لوگوں نے مجھے صحیح معنوں میں پھولوں سے دفنا دیا۔

٭٭٭​

ماخذ:

http://www.urduweb.org/mehfil/threads/%D8%B1%D8%AF%D8%B1%D8%A7%D9%BE%D8%B1%DB%8C%D8%A7%DA%AF-%DA%A9%D8%A7-%D8%A2%D8%AF%D9%85-%D8%AE%D9%88%D8%B1-%D8%AA%DB%8C%D9%86%D8%AF%D9%88%D8%A7.51840/

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید