FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

حسن عباس رضا کی شاعری

 

                مدیر: حیدر قریشی، جمع و ترتیب: اعجاز عبید

ماخذ: جدید ادب، جرمنی، شمارہ ۱۱، مدیر: حیدر قریشی

 

 

 

 

 

من آنم کہ من دانم

 

                حسن عباس رضا

 

 

کوچۂ شعر میں آوارہ گردی کرتے ہوئے عمر کا ایک طویل حصہ بیت گیا، الزام بھی اکثر لگے، اور طعنہ و دشنام بھی بہت ملے، مگر صد شکر کہ  ’’ ہر داغ ہے اس دل میں، بجز داغِ ندامت ‘‘ ۔

یوں تو دشتِ حرف میں بادیہ پیمائی پر ہمیشہ فخر رہا، اور لفظ کی بازی گری بھی کرتے رہے، مگر اپنے بارے میں کچھ کہنے اور لکھنے کا مرحلہ جب بھی آیا، زبان میں لکنت آ گئی  اور قلم پر لرزہ طاری ہو گیا، کہ میرے نزدیک یہ دنیا کا مشکل ترین کام ہے، مگر اس بار حکم، اپنے یارِ دیرینہ حیدر قریشی کی طرف سے آیا، اور بقول میاں محمد ؛            پَھس گئی  جان  شکنجے  اندر ،  جیوں  ویلن  وچ  گنّا

روہ  نوں کہو، ہُن رہو  محمدؔ، ہُن جے رہویں تے منّاں

سو، نجات اسی میں ہے کہ کچھ عرض کر کے، جان بچا لی جائے،

۲۰ نومبر ۱۹۵۱  کی کسی عام سی شام کو راولپنڈی کے ایک لوئر مڈل کلاس گھر میں پیدا ہوا، والد محترم صوفی محمد زمان، ایک فرشتہ صفت، انتہائی ہمدرد اور نیک  انسان تھے،  والدہ  مرحومہ کا نام زینب بی بی تھا۔ ہم پانچ بھائی اور ایک بہن تھی، تین  بھائی ایام جوانی ہی میں داغِ مفارقت دے گئے، ان تینوں کی موت نے مجھے بھی توڑ کے رکھ دیا۔   اسلامیہ ہائی سکول، راولپنڈی کے مدرّس کی حیثیت سے والد صاحب  نے ہزاروں طالب علموں کو فارسی اور  اردو  کی تعلیم دی۔  آپ کے بے شمار طالبعلموں نے ادب  و  شعر کے علاوہ زندگی کے ہر شعبے میں نام کمایا۔  میں نے میڑک تک ابا جی مرحوم سے فارسی اور اردو پڑھی، بعد ازاں گورنمنٹ کمرشل کالج سے ڈی کام کرنے کے بعد پرائیویٹ بی اے اور ایم اے کیا۔

شاعری مجھ پر کب مہربان ہوئی، اس کا علم نہیں، تاہم سکول کے زمانے ہی میں کچھ تُک بندی کرتا تھا، تاہم پہلا شعر ۱۹۷۲ میں لکھا، ، قافیے ردیف میں تھوڑی گڑ بڑ تھی، لیکن شعر وزن میں اور موزوں تھا، میر ا بھی یہ ایمان ہے کہ  شاعر پیدائشی ہوتا ہے، البتہ وقت، مطالعہ ، تجربہ، اور مشاہدہ اسے پالش کرتا رہتا ہے۔  میرے دو بڑے بھائی ادب و شعر کی کتابیں پڑھتے تھے،  لہذا گھر میں کافی مواد میسر تھا، جس کو پڑھ کر ادبی ذوق دو گونہ ہوا ا، سچ بات تو یہ ہے کہ فیض صاحب کی نظم ’’ مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ‘‘  پڑھ کر ہی مجھے شعر کہنے کا شوق پیدا ہوا۔  موسیقی سننے کا شوق جنون کی حد تک تھا، اور ہے،  میں خوش قسمت ہوں کہ پاک و ہند کے بہت سے نامور گلوکاروں کو دیکھنے اور سننے کا موقع ملا،  میڈم نورجہاں سے دوستی تھی، بلاشبہ وہ بہت عظیم گلوکارہ اور بہت شفقت کرنے والی شخصیت تھیں۔

محکمہ تعلیم پنجاب سے سرکاری ملازمت کا آغاز کیا، بعد ازاں میرے محترم اور دوست احمد فراز  مجھے اکیڈمی آف لیٹرز لے گئے، وہاں چھ برس تک فرائض سرانجام دیئے۔ اس دوران آمر ضیاع الحق کا مارشل لا لگ گیا، فراز صاحب کو تو گرفتار کر کے وہ اٹک قلعہ لے گئے، مگر مجھ کو تین روز تک روزانہ جی ایچ کیو کے کسی آفس میں لے جاتے، پوچھ گچھ کرتے، اور  ’’معصوم‘‘  جان کر شام کو گھر چھوڑ جاتے۔   اکیڈمی آف لیٹرز کے بعد میں نے ایک اور نیم سرکاری ادارے  اوورسیز پاکستانیز فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام شایع ہونے والے میگزین  ’’ یارانِ وطن ‘‘ کو جوائن کر لیا، یہاں پر محترم ممتاز مفتی مرحوم، ضیا اقبال شاہد مرحوم، اور محمد علی چراغ کے ساتھ دو برس تک کام کیا۔

دورانِ ملازمت میں نے اپنے ادبی میگزین ’’ خیابان ‘‘ کی اشاعت جاری رکھی،  مارشل لاء کے عروج کا زمانہ تھا، جب خیابان کا تیسرا شمارہ منظرِ عام پر آیا،  اس میں میرا  اداریہ، میری نظموں کے علاوہ، اختر حسین جعفری مرحوم، ظفر خان نیازی کی نظم، رشید احمد کی نظمیں، اعجاز راہی مرحوم کا مضمون، احمد داؤد مرحوم کا افسانہ، احمد فراز کی غزل، غرضیکہ بہت سی دیگر تخلیقات پر سرخ نشان لگا کر، خیابان پر پابندی لگا دی گئی،  اعتراض وہی پرانے، کہ اسلام، فوج  اور پاکستان کے خلاف مواد ہے، نیز فحاشی کا بھی الزام لگایا گیا،  خیر فوج اور پولیس کی بھاری نفری نے میرے گھر کا محاصرہ کیا، اور گھر میں موجود خیابان کے نئے، پرانے شمارے  اور بہت سی دیگر کتابیں اپنے ساتھ لے گئے۔

میں اس وقت گھر پر نہیں تھا، اور اتفاق سے وہ پاکستان نیشنل کونسل آف دی آرٹس (P.N.C.A) میں میری ملازمت کا پہلا دن تھا، میں اس شام پی این سی اے کے زیر اہتمام لیاقت میموریل ہال میں ہونے والی محفل موسیقی میں ڈیوٹی پر مامور تھا اور اس وقت ہال میں اقبال بانو غزل سرا تھیں، جب کسی دوست نے مجھے وہاں آ کر اطلاع دی، اور یہ مشورہ بھی دیا کہ فوری طور پر روپوش ہو جاؤں، ابھی میں ایسا کرنے کے بارے میں سوچ ہی رہا تھا کہ تازہ اطلاع ملی کہ میری گرفتاری کی شرط پرپولیس میرے والد صاحب کو اپنے ساتھ لے گئی ہے، لہذا  فوری طور پر میں نے گرفتاری ے دی، دوسرے دن پولیس نے عدالت سے دس روزہ جسمانی ریمانڈ لے کر مجھے ہتھکڑی پہنائی، اور صدر بازار لے گئے، اور وہاں کے تمام بک سٹالز سے خیابان کے شمارے ضبط کر لیے، ایک بک سٹال کے مالک خواجہ صاحب نے مجھے پولیس کی حراست میں ہتھکڑی پہنے دیکھا تو انہوں نے پولیس سے باقاعدہ احتجاج بھی کیا کہ آپ ایک شاعر کو یوں ہتھکڑی لگا کر سرِ بازار گھما رہے ہیں، یہ علم و ادب کی توہین ہے، مگر پولیس کو ایسی باتیں سننے سے کوئی دلچسپی نہ تھی، بہرحال اس روز مجھے فیض صاحب کی نظم ’’ آج بازار میں پابجولاں چلو ‘‘ بہت یاد آئی۔ خیر اجمالاً بتا دوں کہ بارہ روز تک مجھے حراست میں رکھا گیا، حکام شاید مجھے بہت ہی ’’ خطرناک ‘‘ مجرم سمجھتے تھے، کیونکہ دن کو  و ہ میرے ہاتھوں میں اور رات کو پاؤں میں زنجیر ڈال کر رکھتے تھے، ان دنوں مجھے کسی استاد کا شعر بہت یاد آتا تھا          تھا  مجھے  طفلی  میں  ہی  ذوقِ اسیری  اس  قدر

کھیلتا  رہتا  تھا  دروازے کی زنجیروں کے ساتھ

خیر رہائی کے کچھ عرصے بعد آمر ضیاع الحق کی حکومت کا خاتمہ ہوا، اور عدالت کے ذریعے مجھے ملازمت پر بحال کر دیا گیا۔ تا دمِ تحریر میں پی این سی اے ، ہی سے منسلک ہوں۔

۱۹۹۹ میں ایک نظم لکھی تھی ’’ میرے بادشاہ ‘‘ اس پر بھی سرکار دربار کے حکم سے مقدمہ تیار کیا گیا، لیکن اس دوران نہ صرف حکومت کا خاتمہ ہو گیا، بلکہ میں خود بھی امریکہ آ گیا، یوں ا  وہ مقدمہ پایۂ تکمیل تک نہ پہنچ سکا، اور دوبارہ سرکاری مہمان بننے کی ’’ خواہش ‘‘ دل ہی میں رہ گئی۔

میری ادبی تربیت میں حلقہ اربابِ ذوق کا بہت اہم کردار ہے، میں کافی عرصے تک حلقے کا سیکریٹری اور جوائنٹ سیکریٹری رہا، اور تنقیدی نشستوں میں اپنے سینئر اور ہم عصروں سے بہت کچھ سیکھا، یہ بھی میری خوش قسمتی تھی کہ مجھے محترم فیض احمد فیض، احمد ندیم قاسمی، احمد فراز، اور دیگر بہت سے سینئر شعراء اور ادیبوں کی رفاقت مل گئی، جس کے باعث میں نے ان سے بہت سیکھا، میرے ادبی دوستوں اور مہربانوں میں گلزار، کشور ناہید، محسن احسان، افتخار عارف، جمال احسانی مرحوم، ثروت حسین مرحوم، ثروت محی الدین، نیلوفر اقبال، ڈاکٹر انور سجاد، اصغر ندیم سیدشامل ہیں۔ فکری اور نظریاتی اعتبار سے سیکولر ہوں، اور بائیں بازو کی سیاست اور نظریات کا حامل ہوں۔

یہ میری خوش بختی تھی کہ۱۹۸۵  میں میرے پہلے شعری مجموعے ’’ خواب عذاب ہوئے ‘‘ کا فلیپ فیض صاحب نے لکھا، اور یہ فیض صاحب کی زندگی کی آخری تحریر تھی، اس کتاب کا پیش لفظ کشور ناہید نے تحریر کیا تھا۔ ٹھیک دس برس بعد ۱۹۹۵ میں میرا دوسرا شعری مجموعہ ’’ نیند مسافر‘‘ شایع ہوا، جس کا دیباچہ قاسمی صاحب نے لکھا تھا، اور فلیپ احمد فراز نے ۲۰۰۰ میں مجھے بوجوہ امریکہ آنا پڑا، یوں میں پہلے دو برس ورجینیا میں اور بعد ازاں نیویارک میں مقیم ہوں، میرا تیسرا اور تادمِ تحریر نیا شعری مجموعہ ’’ تاوان ‘‘  ۲۰۰۴ میں اسلام آباد سے شایع ہوا جس کا دیباچہ گلزار نے لکھا ہے۔ میرا نیا شعری مجموعہ زیرِ ترتیب ہے اور انشا اللہ ۲۰۰۸ کے آخر تک شایع ہو جائے گا۔ یوں تو میں نے بے شمار نظمیں بھی لکھی ہیں، مگر غزل میری پسندیدہ صنفِ سخن ہے۔  مجھے لندن، اور بھارت جا کرکئی مشاعرے پڑھنے کا موقع بھی ملا، گزشتہ برس میں نے نیویارک سے خیابان کا دوبارہ اجراء کیا، اور امریکہ کے پچاس شاعروں کی پانچ پانچ غزلوں پر مشتمل غزل نمبر شایع کیا۔

پاکستان میں قیام کے دوران میں نے ٹی وی، ریڈیو اور سٹیج کے لیے متعدد ڈرامے، گیت اور سکرپٹ تحریر کیے، اور پی این سی اے کے زیر اہتمام منعقدہ ڈرامہ فیسٹیول میں ہونے والے ڈراموں کو کتابی شکل میں شایع کیا۔

۱۹۸۴ میں میری شادی ہوئی، خوش قسمتی سے میری اہلیہ روبینہ شاہین نہ صرف شعر شناس، اور ادب دوست تھیں، بلکہ وہ باقاعدہ افسانہ نگار بھی ہیں، شاید یہی وجہ ہے کہ مجھ جیسے ’’ منتشر ‘‘ شخص کو اس نے سمیٹا ہوا ہے، اور  ابھی تک میری آوارہ گردیوں کو برداشت کرتی ہے۔ اللہ پاک نے مجھے دو خوبصورت بیٹے عطا کیے ہیں، بڑا بیٹا فرہاد حسن، پاکستان میں ہے، اور پاکستان ایئر فورس میں پائلٹ ہے، دوسرا بیٹا  وامق حسن ہے، جو ہمارے ساتھ نیویارک میں ہے، اور ہائی سکول میں زیر تعلیم ہے۔ اللہ پاک دنیا کے تمام بچوں کے طفیل میرے بیٹوں کو بھی زندگی، صحت اور کامیابی عطا کرے۔ (آمین)

اللہ کرے میری اس قلم برداشتہ بے ربط تحریر، شکستہ جملوں اور دھندلے خوابوں کی طرح ادھورے واقعات کو پڑھ کر میرے دوست اور قارئین کو قدرے ’’ تسلی‘‘ ہو جائے۔             وما علینا الالبلاغ    ٭٭٭

 

 

 

 

حسن عباس رضا کے  شعری مجموعے

 

۱۔ خواب عذاب ہوئے   ۱۹۹۲۔ ۱۹۸۵

۲۔ نیند مُسافر          ۱۹۹۵                   ۳۔ تاوان                      ۲۰۰۴

بطور مرتّب

۴۔ پاکستان کے بہترین افسانے     ۱۹۹۹           ۵۔ ہندوستان کے بہترین افسانے   ۱۹۹۹

۶۔ فسادات کے افسانے          ۱۹۹۹           ۷۔ پاکستان کی بہترین غزلیں       ۲۰۰۲

۸۔ ہندوستان کی بہترین غزلیں     ۲۰۰۲            ۹۔ محبت کی نظمیں             ۲۰۰۲

بطور  مدیر

خیابان       ۱۹۷۹ تا ۱۹۹۶              دوست (بچوں کا رسالہ)        ۱۹۸۰ تا ۱۹۸۱

رابطہ کے لیے

Hasan Abbas Raza

80-06, 30th Ave: East Elmhurst

NY – 1137 0- New York (USA)

E.Mail. hasan_shah22968@yahoo.com

Tel:718-290-6570- 718-651-4382

Website: www.hasanabbasraza.com

 

 

 

 

 

 

حسن عباس رضاؔ کا فکری منظر نامہ

 

                ڈاکٹر اعجاز راہی

 

حسن عباس رضاؔکا شاعری میں ظہور ایک واقعہ تھا۔ جب وہ آیا،  دیکھنے میں شانت، روح میں جوار بھاٹا، نیناں میں سلگن، باتوں میں قوسِ قزح،  شہزادگی مطمع نظر اور شہزادی منتہائے مقصود تھی۔ آنا اور چھا جانا اس کی عادت، پانا اور کھو دینا ا س کا بھاگ۔ ا س وقت اسے فون پر باتیں کرنا اچھا لگتا تھا اور دوسری طرف موجود میں کوئی نہ کوئی قدرِ مشترک ڈھونڈ لیتا تھا

ہم دونوں مستانوں کی اک خواہش ملتی جلتی ہے

مجھ کو  شہزادی، اُس کو  شہزادے اچھے لگتے ہیں

پھر پتہ نہیں دوسری طرف شہزادہ  مِلا  یا  نہیں، لیکن آنکھ کھلتے ہی پلکوں کے آشرم میں موجود  شہزادی اس کی دسترس سے باہر جا چکی تھی، پھر خواب میں کھویا، نیند میں چلنے کے چلن سے پانے کی جستجوکی؛

کسی شب نیند میں چلتے ہوئے آ جائیں گے تم تک

کہ اے جانِ حسنؔ، ہم گھر کبھی تیر ا  نہیں  بھُولے

مگر خیال و خواب کا سچ کہاں ہوا ہے، یوں بھی وہ ان دنوں دکھ  اور تمنا ساتھ لے کر چلتا تھا۔ تمنا ثمر بار ہوتی تو دکھ راستہ روک لیتا تھا۔ دکھ بڑھا تو اک نیا خواب دیکھنے لگا، بس اسی دھوپ چھاؤں کے کھیل میں بالآخر اس کے خواب عذاب ہو گئے۔ خواب عذاب ہوئے تو نیند مسافر جاگا، مگر آنکھوں میں سندر سپنے دیکھنے کی سزا وقت کی عدالت میں طے پا چکی تھی، چنانچہ پہلے دو مجموعوں میں فکر و نظر کی جو دھندلی تصویریں اور خوابیدگی کی ردا تھی،  تاوان ادا کرتے ہوئے چھٹ گئی۔ اب ایک ہمہ گیر دردمندی اور عصری شعور کی بازیافت اس کے شعروں میں در آئی، اور اب جا بجا ملنے کی خواہش شرائط کے ساتھ نظر آنے لگی ؛

سیلابِ  غمِ   ہجر  اُتر  جائے  تو   ملنا

جب صبر ترا  حد سے گزر جائے،  تو  ملنا

ہم ایسے مقّدر کے  سکندر بھی نہیں  ہیں !

پھر بھی جو کوئی شام  سنور  جائے  تو  ملنا

حسن عباس رضاؔ، ۱۹۷۰ء کے بعد آنے والے شعراء کے جم غفیر میں سے ایک تھا اور شعری صفات میں بھی ایک ہی تھا۔ اس کے پاس کہنے کو نئی بات، بیان کا نیا انداز، لفظوں کے چناؤ  میں ندرت، بنت کاری میں انوکھا پن،  لبوں پر مسکان اور آنکھوں میں بلب روشن تھے۔ اوّل اوّل اس کا محور ذات تھی، پھر کائنات بن گئی۔ تب وہ سارے دکھ بھی دیکھنے لگا جو اس کے ارد گرد بستے لوگوں کا نصیب تھے، بس وہ حسن عباس نہیں رہا، جو آتے وقت تھا، کھلنڈری شاعری کا نویکلا شاعر۔ ایک بار پکڑا گیا، پکڑا ہی جانا تھا، کوئی اور بھی وہ کہتا، جو یہ کہہ رہا تھا، پکڑا جاتا، مگر بات کہنے سے باز نہ آیا، کسی وردی والے نے پوچھا: ’’کس جرم وچ آیا ایں سو ہنٹریاں ؟‘‘

کہنے لگا۔

” ہمارا جرم اتنا ہے

کہ جس دن شہر بھر میں

سگ شماری ہو رہی تھی

ہم نے

اپنا نام

فہرستِ سگاں میں کیوں نہ لکھوایا !  ؟   ”  (گھناؤنا جرم)

اب بات اس سے آگے چلی گئی ہے۔ سوچتا ہے ․․․․․․سوچتا ہے تو دکھ پاتا ہے ․․․․․․․دکھ پاتا ہے تو دکھی ہو جاتا ہے۔

ارادہ تھا کہ اب کے رنگِ دنیا دیکھنا ہے    خبر کیا تھی کہ  اپنا  ہی  تماشا  دیکھنا ہی

اور پھر ایسے ہی کسی لمحے نے، جس پر مادی ضرورتوں کا غلبہ ہو،  اسے نقل مکانی پر مجبور کر دیا، پھر یوں بھی اقتصادی افراتفری اور سماجی انار کی کے عہد میں انسانوں کے ساتھ پرندے بھی ہجرت کر جاتے ہیں، مگر سوال یہ ہے کہ اسے ہجرت نے کیا دیا؟

 

تلاشِ  رزق میں نکلے ،  تو  آنکھیں  رہ  گئیں  گھر  میں

نہیں  معلوم   پھر  اُلٹا   قدم  کب ،   اور  کہاں   رکھا

۰۰

دیس  میں  ا پنی  جاں  اور  مٹی  تلک  چھوڑ  آیا   ہے  جو

جانے  انصار  کو   اور  کیا   چاہیے ، اُس  پنہ  گِیر  سے

۰۰

یہ   ایک   ہجر   کا    دن    ہی   نہیں   کٹا   ہم   سے

ابھی   تو   رات  بھی   ساری  ہے  ،   کیا  کِیا    جائے

 

یہ  کیسے  موڑ   پر   ہم  آ گئے   ہیں

کہ  اپنے آپ  سے  اُکتا  گئے  ہیں

۰۰

دعا  کا  شامیانہ  بھی  نہیں  ہے  اب  تو  سر پر

سو، خود  کا  حدتِ  غم  میں  سلگتا   دیکھنا   ہے

۰۰

شکست  و  ریخت  اتنی  ہو  چکی  ہے  وقت  کے  ہاتھوں

کہ  پھر  اک  بار   مجھ  کو   میرا  کوزہ  گر  بلاتا  ہے

حسن رضاؔ  نے اس ہجرت کو جلاوطنی کے کرب کے ساتھ دیکھا ہے، اس کے ہاں بعض اوقات اتنا درد امڈ آتا ہے کہ روح تک لرز جاتی ہے۔

دیارِ  غیر  میں  ایسی  بھی  رات  اُتری،  کہ  میں  نے

بدن    مٹی    کو   سونپا  ،  اور   سر   پتھر   پہ   رکھا

۰۰

بدن  میں   قطرہ   قطرہ  زہر   اُتارا  جا   رہا   ہے

کہ ہم  کو  آج  کل  قسطوں  میں  مارا  جا  رہا  ہے

 

بظاہر  تو  بہت  ہی   دُور  ہیں   گرداب  سے  ہم

مگر  لگتا   ہے   ہاتھوں  سے  کنارا  جا  رہا   ہے

 

ہم   اہلِ  درد   جوئے  میں  لگی   ایسی   رقم   ہیں

جسے  دانستہ   ہر  بازی   میں   ہارا    جا   رہا   ہے

۰۰

حسنؔ،   میں  ایک  لمبی   سانس   لینا   چاہتا  ہوں

میں  جیسا  تھا،  کسی  دن  خود  کو  ویسا  دیکھنا ہے

عمیق نگہی، نفسی درون بینی اور خارجی عوامل کے اشتراک نے حسنؔ  کے پورے شعری نظام کو بدل کر رکھ دیا ہے،  بنت، اسلوب، ترتیب خیال اور عصری شعور نے اس کے فنی افلاک میں نیا رنگ بھر دیا ہے،  اب وہ روایتی ترتیب میں بھی نئی بات کہتا ہے، اور سچ تو یہ ہے کہ  یہ  وہ  مقام ہے جو  ہر شاعر کی کب نصیب ہے  ؟

حسنؔ کا تخلیقی عمل تجرباتی اور مشاہداتی بحرِ بے کنار  سے ابھرتے شعور و آگہی کا فن ہے۔  معاشرتی استبدادیت اور معاشی استحصال  فکری گوشوں کو جب انگیخت کرتا ہے تو وہ خواب دیکھنے لگتا ہے، آپ مجھ سے اتفاق کریں گے کہ خواب ہر آنکھ کا نصیب نہیں ہوتے، میں نے ایک کتاب پر بات کرتے ہوئے لکھا تھا کہ خواب دیکھنے کے لیے انقلاب دیکھنا بہت ضروری ہے،  جن آنکھوں میں روشن مستقبل ہو، ان آنکھوں کے خواب بھی انقلاب آور ہوتے ہیں۔  حسنؔ، ڈرا ہوا، سہما ہوا ہے، مگر پھر بھی خواب دیکھتا ہے، کہ اس کی آنکھوں کے دید بانوں میں انقلاب بدستور سجا ہے۔  ہاتھوں سے کنارا جانے کا ادراک ہے، اور  پھر سے خود کو  ویسا ہی دیکھنے کی آرزو مندی اب بھی  زور آور  ہے۔  اس نے اپنے سامنے امکانات کے دیے بجھنے نہیں دیئے، مگر اسے زندگی نے کیا دیا۔ ۔ ؟

جب  وراثت  کی  تقسیم   پوری  ہوئی ،  تب  یہ  جا کر  کھلا

تین  چوتھائی   حصہ   مِلا  ہے  ہمیں  دکھ   کی   جاگیر  سے

۰۰

قمار  خانۂ     جاں    میں    ہارنا   کچھ    تو  !

سو،  ہم  نے  زندگی  ہاری  ہے ،  کیا  کِیا  جائے

 

ڈسے  گا  بے  بسی   کا  ناگ  جانے  اور  کب  تک

نہ  جانے    اور   کتنے   دن   یہ  نقشہ   دیکھنا   ہے !

۰۰

برہنہ   پا   ہی   نہیں   ہُوں  حسنؔ   بہ  نوکِ  سناں

مرے  تو   سر  پہ   آری   ہے  ،  کیا  کِیا    جائے

اگر چہ عصری صداقتوں کے ساتھ اس کا رشتہ اوائل سے تھا، مگر جا بجا تجربات کے تھپیڑوں نے مزید گہرا کر دیا۔ شاعری کی سب سے بڑی ضرورت تو واقعیت کا ادراک اور عصری آگہی ہے۔ حسنؔ کی شاعری کا تدریجی ارتقا وقت کے ساتھ  ساتھ اس کے وژن کے پھیلاؤ اور اجتماعی زندگی سے قرابت داری کے بڑھتے ہوئے دروبست کا گواہ ہے۔ اب وہ بات محبوبہ کی بھی کر رہا ہو تو وہ پھیلتی ہوئی پورا عہد بن جاتی ہے،۔ اس کے جسم کی قوسیں سماجی صداقتوں کے نشیب و فراز میں بدل چکی ہیں، جب وہ خود کو مضمون بناتا ہے تو نا ہموار معاشرتی  در  و  بست کی علامت بن جاتا ہے۔ اس کا عرفانِ ذات وسیع تناظر میں اس طرح پھیلا ہے کہ اس میں پوری کائنات سموئی ہوئی ہے۔ زندگی کے مشاہدات و تجربات نے اسے فہم و ادراک کی وہ سطح عطا کر دی ہے، جس سے اس کے فن کی نامیاتی خصوصیات، لفظ کی انفرادی اور اجتماعی(اکہری اور کثیر الجہات)ماہیت سے کما حقہ آگاہی کے سبب حسنِ استعمال کا سلیقہ پا گیا ہے، اور پھر اس کی مسلسل ریاضت، موضوعی استغراق اور فنی مکاشفے نے اس کی اسلوبیاتی شناخت وضع اور واضح کر دی ہے، وہ شعروں کی بنت کاری میں لفظیات کی شائستگی کے ساتھ فکری تزئین و ترتیب پر کمال قادر ہے۔

حسنؔ بظاہر مضبوط اعصاب کا آدمی ہے، لیکن اندر سے ابریشم کی طرح نرم، چنانچہ کرخت مضمون اور کھردری لفظیات اس کے شعر میں ڈھل کر نرمل ہو جاتی ہے، اصلاً یہ نرماہٹ اس کی درونِ ذات کوملتا کا فیض ہے اور یہی کوملتا اسے سخت جانی سے رقیق القلب بنا دیتی ہے۔

حسن کچھ تو ہماری آنکھ میں پانی بہت ہے

کچھ اس دریا میں  بھی اس بار طغیانی بہت ہے

 

کبھی صحراؤں کی وسعت بھی ناکافی تھی ہم کو

اور اب چھوٹے سے اک کمرے میں وحشت کر رہے ہیں

 

کیسی ساعت تھی جب ہم ہوئے در بدر، تُو کدھر رہ گئی، میں کہاں آ گیا

کچھ بتاتا نہیں آئنہ بھی مجھے، اے مری بیکسی میں کہاں آ گیا

شہرِ غم کے دوراہے پہ لا کر ہمیں، شامِ ہجراں بھی روتی رہی دیر تک

پھر نہ جانے ردائے ملال اوڑھ کر، تُو کہاں جا بسی، میں کہاں آ گیا

 

گزشتہ شام سے دل کو عجب دھڑکا لگا ہے

نہ جانے کیوں مرا ہمزاد اتنا رو رہا ہے

اس نوع کے اشعار میں المیاتی کرب ایسی شدت کے ساتھ وارد ہوتا ہے جس کے سبب اس کے باطن میں جلتے بھانبڑ کا  سیک پوری حدتوں کے ساتھ قاری تک پہنچتا ہے،  وہیں اس کی قادرالکلامی اپنا اعتراف بھی کراتی ہے۔ حسنؔ کا تلاشِ معاش کے لئے گھر اور اپنی زمین سے نکلنا اور جلا وطنی میں بدل جانا بظاہر اس کی ذات کو فوکس کرتا ہے، مگر رفتہ رفتہ یہ ذاتی واردات ایک ہمہ گیر درد مندی اور اجتماعی سانچے میں ڈھلنے لگتی ہے کہ نہ جانے کتنے حسن عباس رضا، روشن مستقبل کے خواب دیکھتے دیکھتے تلاشِ رزق میں گھر سے نکلے اور پرائے جزیروں کی خاک میں خاک ہو گئے۔

دور سفر پر گئے مسافر کا سندیسہ گھر نہیں  آیا

جسم تو آیا، لیکن اس کا ہنستا چہرہ گھر نہیں آیا

حسنؔ کی اس شدت اظہار سے بسا اوقات یہ خوف محسوس ہونے لگتا ہے کہ کہیں اس کے لہجے کا ملال اور آزردگی اور خود ترسی تک نہ لے جائے، کہ جہد البقا کے سفر میں یہ درندے مسافر کو بے ثبات کر دیتے ہیں، مگر وہ بھی کیا کرے کہ ایک ذات کا سوال تو نہیں، یہاں تو دلگیروں کی بارات ہے، چنانچہ پیچھے مڑکر بار بار دیکھنا اور دیکھتے رہنا اس کے سلسلۂ فکر و جستجو سے وابستہ ہے جو اسے مدام فعال رکھتا ہے۔ تاہم کبھی کبھی جب دکھ زور مارتا ہے تو اپنے زمین و آسمان کی پناہ گیری ملامت یا حزیمت کی بجائے Restorationکا کام بھی دیتی ہے۔

احمد ندیم قاسمی نے حسن کی شاعری کے بارے میں فرمایا تھا۔

’’ حسن عباس رضا، اس دور کی جدید نسل کا نہایت با شعور اور نہایت ذہین شاعر ہے، اسے تخلیق کار کے منصب  و  مقام کا علم ہے ․․․․․․․․․ وہ اردو ادب کے ان جدید غزل گو  شعراء کی صف میں شمولیت کی طرف بڑھ رہا ہے جن میں فراق  و  فراز، ناصر و  اطہر نفیس، احمد مشتاق اور شکیب شامل ہیں۔ حسن عباس رضا کے ہاں بھی ان اعجاز کاروں کی طرف روایت اور جدت کا امتزاج موجود ہے ․․․․․․․حسن رضا ایک ترقی پسند، ارتقاء پسند شاعر ہے، اس لئے اس کی غزل کے دائرے میں انسانیت متعدد مثبت امکانات سے سج کر جلوہ نما ہوتی ہے۔ ‘‘

حسن عباس رضاؔ کی فکر  و  نظر، مقام و  مرتبہ اور فنی معراج کی تفہیم کے لئے قاسمی صاحب نے بہت خوبصورت بات کہی ہے، اصلاً حسن عباس رضا نے اجتماعی زندگی کے تمام رنگوں کو شاعری کی ایزل پر مصور کیا ہے، پتہ دیتا ہے کہ اس نے شاعری کے اس جوہر کامل کو پا لیا ہے، جو اسے اس منزل کی طرف لے جا رہا ہے، جس کی طرف فیض صاحب نے اس کے پہلے شعری مجموعے کے فلیپ میں اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’اس خوبصورت نقش اول کے بعد ان کی مزید کاوش انتظار کے قابل ثابت ہو گی۔ ‘‘

جس مفہوم میں چاہتے ہیں وہ  مجھے حسنؔ

کاش وفا کے وہی معانی ہو جائیں

٭٭٭

 

 

 

 

حسن عباس رضاؔ

 

                اشرف قریشی (نیویارک)

 

حسن عباس رضاؔ، ایک طویل موضوع ہے، جس پر مختصر لکھنا بے حد مشکل ہے، حسنؔ، سراپا شعر ہے، نثر میں اس کا احاطہ کرنا اس سے زیادہ مشکل ہے۔ فی الوقت میں حسن رضا اور اس کی شاعری کے صرف چند اور چیدہ چیدہ پہلوؤں پر لکھوں گا، تفصیل سے لکھنے کا قرض کبھی ادا ہو گیا تو اسے اپنی خوش بختی سمجھوں گا۔

محبت ایک ترشا ہوا ہیرا ہے، جس کے ہر پہلو    Facet سے نکلنے والی رنگا رنگ شعاعیں کائناتِ کبیر کی تخلیق کرتی ہیں، اس ہیرے کو خون جگر دے کر دل بنانا جگر کاوی اور شاعر کا فن ہے۔  ’’ دل‘‘ جس پر کائناتِ صغیر کی حیات کا دار و مدار ہے۔  حسن عباس رضاؔ، اس ہیرے کو دل بنانے کا علم  (سائنس) بہت اچھی طرح جانتا ہے۔

اُٹھے ہیں اب کے وہ  بھونچال  دل میں

کہ  دیوارِ  بدن  بھی   ڈھا  گئے  ہیں

مری  محرومیوں کا  گوشوارہ  کون دیکھے

کسی  کو  کیا، مجھے کتنا خسارہ ہو چکا ہے

ایک دو اشعار، نمونہ از خروارے ہیں، وگرنہ یہ سائنسی کیفیت حسن رضا کی ساری شاعری میں جاری و ساری ہے۔

کہنا  آسان  ہے،  کرنا  مشکل

عشق  میں جاں  سے گزرنا مشکل

اب  کریں  ترکِ تعلق  کیسے

جو  کہا ، اُس سے مُکرنا  مشکل

جیسا کہ حرفِ ابتدا میں عرض کر چکا ہوں کہ کائنات کی ابتدا محبت ہے، محبت کی ایک ارفع شکل عشق ہے۔  کائنات کا  اَور چھور معلوم نہیں، عشق کی وسعتیں بھی حد و حساب سے باہر ہیں۔  تھوڑی سی محبت، تھوڑے سے عشق پر قناعت، تنک ظرفی اور تنگ دامانی تو ہو سکتی ہے، شاعری نہیں ہو سکتی۔  حسن رضا شاعر ہے ؛

ہم  عشق  بدوش   ایک  محبت  نہیں  کرتے

ملتا  ہے  جو  پیار،  اُس  پہ  قناعت نہیں کرتے

حسن عباس رضا ؔ، واقعات  Events  کو وارداتِ محبت اور وارداتِ محبت کو وارداتِ قلب بنا دینے میں بڑی فنکاری دکھاتا ہے

ہوائی  مستقر تک  تھا  کوئی  سایہ  فگن ہم پر

کسی نے بعد ازاں،  سر پر نہ دستِ مہرباں رکھّا

تُو نے  پوچھا تو  تھا  حال میرا، مگر ،  چشم  نم تھی مری،  کچھ نہیں کہہ  سکا

دیکھتی ہی  رہی  تُو  مجھے غور  سے ،  سوچتی  ہی  رہی،  میں کہاں آ  گیا؟

شہرِ جاں میں کبھی  ایک گھر تھا  جہاں ،  بام و  در سے کوئی جھانکتا تھا  مجھے

سوچتا  ہوں کہاں رہ  گیا ہے  وہ گھر، کیا ہوئی وہ گلی ،  میں کہاں  آ گیا؟

واردات ہائے قلب کی یہ کیفیت شاعر کو فریبِ آگہی سے نکال کر، عذابِ آگہی کی دنیا میں لے آتی ہے، جہاں وارداتِ قلب، آگہی کا دکھ، انسانی نارسائی کا کرب مل جل کر شعر کو حُسن، خیال کو وسعت اور تاثر کو قبائے صد رنگ پہنا کر وسعتِ کائنات میں بکھیر دیتی ہے۔ حسن رضاؔ کی یہ پوری غزل اس کیفیت میں گندھی ہوئی ہے ؛

غم ایک  ر ات  کا  مہمان  تھوڑی  ہوتا ہے

کہ اس کے جانے  کا امکان تھوڑی  ہوتا  ہے

یہ  دکھ  تو  چپکے سے آ  بیٹھتے ہیں  سینوں  میں

کہ ان کے  آنے کا  اعلان  تھوڑی ہوتا ہے

عذاب  ہوتا ہے اُن کے  لیے، جو سوچتے ہیں

بُتانِ  سنگ  کو   سرطان  تھوڑی  ہوتا ہے

کمال  یہ ہے  کہ  میں نے بھُلا  دیا  اُس کو

وگرنہ  کام  یہ  آسان   تھوڑی  ہوتا  ہے

حسن رضاؔ کی شاعری میں ہجرت کے دکھ بھی بہت نمایاں ہیں۔  امریکہ کی ہجرت نہ تو اونچے آدرشوں کی تکمیل کرتی ہے، نہ ہر ایک کو آسودگی سے ہم کنار کرتی ہے۔  عیش کوشی کے رسیا اگر حقائق سے نظریں چراتے رہیں تو شاید لذت کوشی کے مزے لے سکتے ہیں، لیکن ایسے عیش کوش شاعر نہیں ہو سکتے۔  آسودگی سے گذر بسر یہاں ایک خواب ہے اور یہی امریکن ڈریم ہے۔ حسن عباس رضاؔ جیسے لوگ امریکہ۔ ۔ ۔  خواہشات کے حمامِ باد گرد کے اسیر ہیں، اور حسن رضاؔ کی شاعری میں جا بجا یہ کرب جھلکتا ہے ؛

دیارِ  غیر میں  ایسی بھی  رات  اُتری، کہ میں نے

بدن  مٹی  کو  سونپا  ،  اور  سر  پتھر  پہ   ر کھا

مشقت کے  بغیر  اجرت  ملا  کرتی  تھی  ہم  کو

سو ، اب کے ہم  بغیر  اجرت  مشقت کر رہے ہیں

دیس میں  اپنی جاں  اور  مٹی  تلک چھوڑ  آیا  ہے  جو

جانے  انصار  کو  اور  کیا  چاہیے  ،  اس  پنہ گیر سے

غرض ایسا ایک آدھ شعر حسن رضا کی ہر غزل میں آپ کو مل جائے گا۔

تری  سمجھ   میں  بھی  آ جائے   ہجر  کا  موسم

ترے بھی  نام  کے  آخر  اگر  رضاؔ  لگ جائے

جذبوں کی بے ساختگی  نے حسن رضا کے لیے لفظوں کی تنگ دامانی کی صورت کبھی اختیار نہیں کی، زبان کو خوبصورت انداز میں برتنے کا سبھاؤ  اُس کی شاعری میں نمایاں ہے،

آنکھوں سے خواب،  دل  سے تمنا  تمام  شد

تم  کیا  گئے  ، کہ  شوقِ  نظارا   تمام  شد

میں  تار  تار  تو  کر دوں  حسنؔ  زمانے  کو

مگر   یہ   میرا   گریبان  تھوڑی  ہوتا   ہے

کہیں  پر  مہلتِ  یک خواب کو  ترسی  ہیں  آنکھیں

کہیں  بے  صرفہ  نقدِ  شب   لٹائی   جا  رہی  ہے

اہلِ زبان کو شاید حسن عباس رضاؔ کی شاعری میں ’’  زبان کے شعر‘‘  ڈھونڈنے  میں مشکل پیش آئے،  لیکن حسن رضاؔ کی معاملہ بندی، اچھوتے قافیے، اور ردیف، الفاظ کا در و بست، ان کی مشق سخن کی پختگی اور زبان پر عبور کی تاباں دلیل ہے۔  ان کی تمثیلی غزل ( مکالماتی غزل) اس کی بے حد خوبصورت مثال ہے

میں  نے  کہا ،  مجھے  تیری   یادیں  عزیز  تھیں

ان  کے  سوا  کبھی  ،  کہیں  الجھے  نہیں  رہے

کیا  یہ  بہت  نہیں  کہ  تری  یاد   کے   چراغ

اتنے  جلے،  کہ  مجھ  میں   اندھیرے نہیں  رہے

کہنے  لگی ،  تسلیاں  کیوں  دے  رہے  ہو  تم

کیا  اب  تمہاری  جیب  میں  وعدے  نہیں رہے

پوچھا    تمہیں   کبھی  نہیں   آیا   مرا    خیال؟

کیا   تم   کو    یاد   یار   پرانے   نہیں   رہے ؟

کہنے   لگی  ،  میں   ڈھونڈتی   تیر ا   پتہ  ،  مگر

جن  پر  نشاں  لگے  تھے ،   وہ  نقشے  نہیں  رہے

حسن عباس رضاؔ کے بے شمار اشعار خوبصورت سہل ممتنع ہیں،  اس کے ہاں قوافی کی تکرار نہیں ملتی،  اکیس  اشعار کی غزل میں مجال کیا کہ کوئی قافیہ دوسری بار، بار پا لے۔

حسن عباس رضاؔ، کی ندرتِ فکر اور  جودتِ طبع اسے روایت سے منفرد اور ممیز رکھتی ہے، شاید اسی باعث  وہ بھونڈے انداز میں روایت شکنی پر تُلا ہوا کہیں دکھائی نہیں دیتا، شاعری بذات خود ایک روایت ہے، اور اس روایت میں ندرت کاری، فن کاری اور فن کی معراج ہے۔

حسن رضاؔ  روایت کو پامال کر کے جدت طرازی کا قائل نہیں ہے، تاہم میں یہاں جناب احمد ندیم قاسمی سے بصد احترام اختلاف کرنے کی جرات کروں گا کہ ’’ وہ اردو ادب کے ان جدید غزل کے شعراء کی صف میں شمولیت کی طرف بڑھ رہا ہے جن میں فراق اور فراز، ناصر اور اطہر نفیس، احمد مشتاق اور شکیب جلالی شامل ہیں۔ ‘‘  جناب احمد ندیم قاسمی نے ایک تو اس فہرست میں کسی خاتون (شاعرہ) کا نام شامل نہیں کیا۔  دوسرے مجھے ذاتی طور پر علم ہے کہ حسن عباس رضا  بھیڑ بھاڑ میں گھسنا پسند نہیں کرتا، یہ الگ بات ہے کہ وہ جہاں جائے، وہیں بھیڑ لگ جائے۔

ہمارے بعض شعراء نے بے حد محنت کر کے اس بات کو اپنے عمل سے ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ اچھا شاعر، اچھا انسان ہو ہی نہیں سکتا، میں اس مفروضے کا کسی حد تک قائل ہو چلا تھا کہ حسن عباس رضا سے ملاقات ہو گئی، اور اب میری نظر میں یہ مفروضہ یا مقولہ پوری طرح مشکوک ہو چکا ہے،

اچھا انسان، اچھا شاعر ہو سکتا ہے ، اس پہ شاہد حسن عباس رضاؔ ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

حسن عباس رضاؔ کی شاعری

 

                حمیرہ رحمن ( نیویارک)

 

امریکہ میں رہنے والوں کی زندگی بھی عجیب ہے، ہر شخص وقت کے بہاؤ میں تیزی سے بہتا چلا جا رہا ہے۔ سوموار سے اتوار تک ایک عجیب بے کیف اور سمجھ میں نہ آنے والی مصروفیت گھیرے رکھتی ہے اور پھر ہفتہ مہینوں میں، مہینے سال میں تبدیل ہوتے چلے جاتے ہیں۔ کوئی پوچھے کہ کس چیز نے اتنا مصروف رکھا ہے، تو تفصیل اتنی حماقت آمیز ہے کہ ندامت ہونے لگتی ہے۔

ایسی ہی ایک ندامت مجھے حسن عباس رضاؔ سے بھی ہے۔  انہیں میں نے اب تک دو شعری نشستوں میں سنا ہے، اور ان کی کتاب    ’’ تاوان‘‘ (جو مجھے حال ہی میں موصول ہوئی تھی) کو کئی بار پڑھا ہے۔  یہ بات میں انتہائی خلوصِ دل سے کہہ رہی ہوں کہ ان کے کلام میں جو بے ساختہ پن ہے، وہ بہت کم شاعروں کا نصیب ہوتا ہے۔ میں ان کی شاعری کے بارے میں تاثر دینا چاہتی تھی، مگر اس کی تاثیر سے نکل نہیں پا رہی تھی۔ میں نے ان کے باقی شعری مجموعے ابھی نہیں دیکھے ہیں، لیکن جتنا کلام اب تک مجھے مل سکا ہے، اس نے مجھے حیرت میں ڈال دیا ہے۔

ہجرت کے موضوع پر جس انداز سے انہوں نے لکھا ہے، وہ  ایک ہجرت زدہ شخص کا ایسا تجربہ ہے، جس کے ساتھ اس کا براہ راست تعلق ہے،

زمیں  چھوڑی  تو  اس  نے بھی  نہ  سر  پر  آسماں  رکھا

وہیں  کے  ہو گئے ،  پھر  وقت نے  جیسے ،  جہاں  رکھا

تلاشِ  رزق  میں نکلے ،  تو  آنکھیں  رہ  گئیں گھر میں !

نہیں  معلوم  پھر  اُلٹا  قدم ،  کب،  اور  کہاں   رکھا

ہوائی   مستقر   تک   تھا   کوئی  سایہ   فگن   ہم  پر

کسی  نے  بعد  ازاں  سر  پر ، نہ   دستِ  مہرباں  رکھا

اُن کے یہاں رومان تو ہے، مگر اس میں سطحیت نہیں،  ان کے اشعار میں غنائیت تو ہے، مگر بے معنی نہیں ؛

اتنا  تمہیں  دیکھیں ، کہ تمہارے   خدّ و خال

چشمِ  طلب  کو    یاد   زبانی    ہو  جائیں

 

مجھے  مُجھ  سے  ملانے  کے  لیے  میرے  تعاقب  میں

جہاں   جاتا  ہوں ،  وہ  آئینہ  خانے   ڈھونڈ لیتا  ہے

 

مرے  کاسے  میں  شاید  اک  دلاسے  کی  جگہ  ہے

سو،  اُس  کو  آخری   وعدے   سے  بھرنا  چاہتا  ہوں

ایک بامعنی اور کیفیت سے بھرپور شعر کہنے میں بعض اوقات شاعر کی پوری عمر خرچ ہو جاتی ہے،  لیکن حسن رضاؔ وہ خوش نصیب ہیں، جن کے حصے میں بے شمار ایسے شعر آئے ہیں۔  ان کی بعض غزلیں تو ایسی رواں دواں ہیں کہ ان میں ایک بھی کمزور شعر نہیں۔  ان کی ایک نظم  ’’ ایشیائی پرندوں کا گیت‘‘ نے خاص طور پر مجھے بہت متاثر کیا ہے، یہ امریکہ میں رہنے والے ہر شخص کا المیہ ہے۔  اور اسے انہوں نے بڑی تاثیر کے ساتھ لکھا ہے۔

مجموعی طور پر حسن عباس رضا کی شاعری میں پختگی، کیفیت اور بے ساختگی تینوں ایک ساتھ دکھائی دیتے ہیں۔  یہ حیرت انگیز تکون ان کی شاعری کو ہمارے ادب میں نظر انداز نہیں ہونے دے گی۔

٭٭٭

 

 

 

 

حسن عباس رضاؔ  :معاصرین کی نظر میں

 

’’ خواب عذاب ہوئے ‘‘ کے عنوان سے حسن عباس رضاؔ نے اپنا پہلا مجموعہ شایع کیا ہے، آپ نے مختلف اصناف اور پیرایوں میں اپنے افکار و جذبات سے عہدہ برآ ہونے کی کامیاب کوشش کی ہے، ان سب تخلیقی تجربات میں تنوع کے ساتھ ساتھ خلوصِ جذبات اور صداقتِ فکر کا یکساں اظہار بھی نمایاں ہے، جس کے باعث یہ توقع ضرور کی جا سکتی ہے کہ اس خوبصورت نقشِ اول کے بعد اُن کی مزید کاوش انتظار کے قابل ثابت ہو گی‘‘

فیض احمد فیض ۔ ۱۴ نومبر ۱۹۸۴

٭٭

 

’’حسن عباس رضاؔ، اس دور کی جدید نسل کا نہایت با شعور اور بہت ذہین شاعر ہے، اسے تخلیق کار کے منصب و مقام کا علم ہے۔ ۔ ۔ وہ اردو ادب کے ان جدید غزل کے شعراء کی صف میں شمولیت کی طرف بڑھ رہا ہے، جن میں فراقؔ، اور فرازؔ،  ناصر اور اطہر نفیس، احمد مشتاق اور شکیب جلالی شامل ہیں۔  حسن رضا کے ہاں بھی ان اعجاز کاروں کی طرح روایت اور جدت کا امتزاج موجود ہے۔ ۔ ۔   حسن عباس رضا ایک ترقی پسند، ارتقا پسند، اور  تغیر پسند شاعر ہے، اس لیے اس کی غزل کے دائرے میں انسانیت متعدد مثبت امکانات سے سج کر جلوہ نما ہوتی ہے۔   غزل کے ساتھ ہی حسن رضاؔ نے نظم کے میدان میں بھی اپنی انفرادی سوچ اور سلیقہ مندی کو برقرار رکھا ہے، ایسا بہت کم ہُوا ہے کہ کامیاب غزل کہنے والا، کامیاب نظم کہنے پر بھی قادر ہو یا کوئی بڑا نظم نگار بڑی غزل بھی کہہ سکا ہو، فیض اور فراز کی سی مثالیں اکا دکا ہی ہیں، جنہوں نے عمدہ غزل کے ساتھ ساتھ عمدہ نظم بھی کہی، اور خوشی کا مقام ہے کہ ہمارا نوجوان شاعر حسن رضا، ان دونوں اصنافِ سخن پر اطمینان بخش حد تک حاوی ہے۔ ‘‘

احمد ندیم قاسمی ۔ ۱۹۹۵    ’’نیند مسافر ‘‘ کے پیش لفظ سے اقتباس

٭٭

 

’’ میرے سامنے کی بات ہے جب تم نے شعر موزوں کرنے شروع کیے تھے، پھر تم اکیڈمی میں میرے ساتھ شامل رہے، اور سب سے بڑا رشتہ یہ کہ ہمسفری کے ساتھ ساتھ ہم نظری کے عذاب و  نشاط میں ہم تجربہ بھی رہے،  اور اب وہ دن آیا کہ تم صاحبِ کتاب بن رہے ہو، اپنے سامنے کا پودا دیکھتے دیکھتے بھرپور درخت بن جائے تو خوشی ہوتی ہے، گو  کہ اس پودے کی دیکھ بھال اور آبیاری میں میرا کوئی Contribution  نہیں، محض پودے کی اپنی سخت جانی اور نمو کی قوت تھی کہ جان لیوا موسموں کے باوجود نہ صرف زندہ رہا، بلکہ اس میں پھل پھول بھی آ گئے، سو مجھے اس حوالے سے بے حد خوشی ہے۔ ۔ مجھے اور مجھ جیسے سر پھروں کو تمہارے اشعار اور تحریریں جب بھی عزیز تھیں، اور آئندہ بھی عزیز رہیں گی، اور میں تو خاص طور پر ایسی نوید سے خوش ہوتا ہوں کہ ۔ ۔  سلسلہ ٹوٹا نہیں ہے درد کی زنجیر کا ۔ ۔ ۔   سو  لکھتے رہو، اور ہو سکے تو دوسروں تک پہنچاتے رہو، چاہے کتابی صورت میں تمہاری تحریریں لوگوں تک پہنچیں یا قاصد کبوتروں کے توسط سے۔  مجھے یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں کہ تم اور دیگر نوجوان شاعروں اور افسانہ نگاروں کا جو گروہ موجودہ عہد میں اسلام آباد، راولپنڈی میں جمع ہے، ایک با وقار اور سچا ادب پیدا کر رہا ہے ‘‘

احمد فراز   ۱۹۸۵      لندن سے آئے ایک خط سے اقتباس

٭٭

 

’’حسن عباس رضاؔ، کی خوبصورت شاعری سے میں پہلے ہی Impress  ہو چکا تھا، یہ غزل کے رنگ میں بہت اچھے شعر کہتے ہیں۔ ۔ ۔ حسن رضا کے اشعار کی خوبی یہی ہے کہ وہ بیک وقت انفرادی بھی ہیں اور اجتماعی بھی، وہ ان کے حالات بھی بیان کرتے ہیں، اور ہمارے بھی، ان کا درد بڑا تخلیقی ہے، مگر یوں بھی کیا کہ دوست سن کر اداس ہو جائیں۔

بدن  میں  قطرہ  قطرہ  زہر  اُتارا  جا  رہا  ہے      کہ ہم کو آج  کل قسطوں  میں  مارا  جا  رہا  ہے

بظاہر  تو  بہت ہی  دُور  ہیں  گرداب سے  ہم        مگر  لگتا  ہے ہاتھوں سے  کنارا  جا  رہا  ہے ‘‘

گُلزا ر ۔  بمبئی     ’’تاوان ‘‘  کے پیش لفظ سے اقتباس

٭٭

 

’’ حسن عباس رضاؔ نے عمر کی زنبیل میں ہاتھ ہی ڈالا تو وقت کے سانپوں نے اُسے ڈسنا شروع کر دیا، شعر لکھنے پر سزا ، اور شعر چھاپنے پر سزا ، مگر یہ دونوں تجربوں کے باوجود حسن عباس رضا کو خود پر پابندیاں عاید کرنا نہیں آئیں، مجھے تو یہ پاکستان کا آندرے مالرو ؔ  لگتا ہے ، مالرو  فاشزم کے خلاف تھا،  حسن رضاؔ محکومیت اور بے حسی کے خلاف ہے۔  حسن عباس رضاؔ کی شاعری سن کر میرے جیسے بے حِس وجود میں بھی حرارت محسوس ہوتی ہے، شاید یہی انفرادیت کہیں اجتماعی حرارت بھی بن سکے ‘‘

کشور ناہید ’’خواب عذاب ہوئے ‘‘ کے پیش لفظ سے اقتباس

٭٭

 

’’  مقامِ شکر ہے کہ ہمارے درمیان ابھی ایسی آوازیں زندہ ہیں، جو حرمتِ لفظ کے تحفظ کی ذمہ داریوں سے کماحقہٗ واقف ہیں۔ حسن عباس رضاؔ بھی ایک ایسی ہی خوبصورت اور جاندار آواز کا نام ہے، جس نے گزشتہ چند برسوں میں اردو شاعری کو بہت سے باقی رہ جانے والے شعر دیئے۔  حسن عباس رضاؔ کی شاعری نے نہ صرف یہ کہ بہت جلد اپنی شناخت کا مرحلہ طے کیا ہے، بلکہ مستقبل کے امکانات کی نشاندہی بھی کی ہے۔  مدت سے اردو کا مزاحمتی ادب اپنے ایک نمائندہ شاعر کے انتظار میں ہے، حسن عباس رضاؔ کا اپنے خوابوں پر یقین راسخ، اور  اپنی سچائیوں پر ایمانِ تمام فن کی ریاضتوں کے ساتھ یونہی مسلسل و متواتر رہا تو کیا عجب کہ یہ منصب اسی کا مقدر ٹھہرے ‘‘

افتخار عارف         ’’خواب عذاب ہوئے ‘‘ کے فلیپ سے اقتباس

٭٭٭

ماخذ: جدید ادب، جرمنی، شمارہ ۱۱، مدیر: حیدر قریشی

تشکر: پنجند لائبریری ڈاٹ کام  کے وقاص  جن کے ذریعے  اس کا متن حاصل ہوا

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید