FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

فہرست مضامین

تکرارِ ساعت

 

 

 

                عرفان ستار

 

 

 

 

 

 

میں

 

’’ دلِ ناداں تجھے ہوا کیا ہے ؟ میاں اس مصرعہ پر گرہ لگاؤ۔‘‘

یہ الفاظ تھے ڈی جے سائنس کالج کے صدر شعبۂ اردو شاہد عشقی کے۔ میں اپنی غزل کالج کے سالانہ مجلے ’’ مخزن‘‘ میں اشاعت کی غرض سے اُن کے پاس لے کر پہنچا تھا ۔ جب میں اس زمین میں ایک مطلع اور دو شعر انہیں سنا چکا تو کہنے لگے ۔ ’’ بھئی بچے اِدھر اُدھر سے چیزیں لا کر دے دیتے ہیں اس لیے مجھے یہ احتیاطی تدابیر اختیار کرنا پڑتی ہیں۔ ‘‘ انہوں نے غزل رکھ لی اور میں اُٹھ کر چلا آیا۔ آج بیس برس گزرنے کے بعد بھی یہی ایک مصرعہ ہے جس کے حصار سے باہر میں کوشش کے باوجود نہیں نکل پایا۔ دل ہے کہ کسی پل ٹھہرتا ہی نہیں۔ اضطراب ہے کہ ہر پل میرے وجود کو گھیرے رہتا ہے۔ ذمہ داریوں کے باب میں بظاہر چاق و چوبند نظر آنے والا ’میں‘ اندر سے ایک بالکل مختلف انسان ہوں، جو شاید آج پہلی بار خود سے باہر منکشف ہو رہا ہے۔ مگر یہ انکشاف بھی کتنا واضح ہو سکتا ہے جب کہ میں خود بھی نہیں جانتا کہ ’’ دلِ ناداں تجھے ہوا کیا ہے ‘‘

بچپن ہی سے تنہائی میری مجبوری نہیں ترجیح رہی ہے ۔ مطالعہ اور تفکر ، یہ دو میری محبوب ترین مصروفیات ہیں ۔ پڑھتے پڑھتے سوچنے لگنا اور سوچتے سوچتے کچھ اٹھا کر پڑھنا شروع کر دینا دو ایسی کیفیات ہیں جن سے میری شخصیت اور شاعری کا سارا تار و پود بُنا گیا ہے۔ کسی بھی بات کو بلا جواز و تحقیق مان لینا میری سرشت میں نہیں ہے۔ میں جانتا ہوں کہ میں کوئی پہلا انسان نہیں جو یہ سرشت لے کر پیدا ہوا ہو۔ جو سوالات میرے ذہن میں ہیں، وہ مجھ سے پہلے بھی اُٹھائے جاتے رہے ہیں۔ مگر مجھے اس سے کیا؟ میرے لیے تو میرے سوالات یکسر اچھوتے اور نئے ہیں اور ان کے جوابات کی تلاش میں سرگرداں رہنا سراسر میرا ذاتی مسئلہ ہے۔ ہر سوچنے والے انسان کے لیے یہ ایک ذاتی مسئلہ ہے۔ اس لیے کہ ان سوالات کے کوئی standard جوابات نہیں ہوتے۔ کائنات کے اسرار و رموز ہر انسان پر الگ طرح سے منکشف ہوتے ہیں۔ میں اس بات کا بھی قائل ہوں کہ یہ سوال اتنے بڑے ہیں کہ ان کا قائم رہنا ان کے جوابات حاصل کرنے سے زیادہ اہم ہے۔ یہ نہ رہیں، تو انسان اور کائنات کے درمیان تعلق محضphysical نوعیت کا ہو کر رہ جائے۔ خیر یہ ایک الگ بحث ہے جو اس مجموعے کے قارئین کے لیے شاید کسی دلچسپی کا سامان مہیا نہ کر سکے، اس لیے اس سے گریز کر کے میں کچھ اور باتوں کی طرف آتا ہوں۔

شاعری میرے نزدیک کوئی آفاقی حیثیت کا حامل ہنر ہے، نہ ہی نصف پیغمبری! میں اسے صرف فنونِ لطیفہ کی ایک خوبصورت ترین صنف اور اظہار کا ایک پُر تاثیر ذریعہ مانتا ہوں۔ یہ اور بات ہے کہ اس صنف میں الفاظ کی موجودگی اسے پیچیدہ اور گہرے افکار کی ترسیل کے لیے دیگر اصناف کے مقابلے میں زیادہ موثر بنا دیتی ہے۔ اس نظریے کے تحت میرے نزدیک شاعری کی بنیادی ضرورت شعریت ہے، اور شعریت عبارت ہے اظہار کے حُسن سے۔ اگر کسی شعر کو پڑھ کر یا سن کر میرے احساس میں ایک خوبصورت ہیجان برپا نہیں ہوتا تو مجھے اس شعر میں بیان کردہ بڑے خیال سے کوئی خوشی حاصل نہیں ہوتی۔ میرے نزدیک مضمون کے نیا یا پرانا ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ اُس مضمون کا بیان کتنے شاعرانہ انداز سے ہوا ہے، یہ بات اس شعر کے اچھا یا بُرا ہونے، اور اس سے بھی قبل اُس کے شعر ہونے یا نہ ہونے کا تعین کرتی ہے۔ مجھے اکثر یہ شکایت رہتی ہے کہ شاعری پر تبصرہ کرتے ہوئے عام طور پر نقاد اور قارئین فوری طور پر خیال تک جست لگا دیتے ہیں اور اس بات سے کوئی سروکار نہیں رکھتے کہ جس موزوں خیال کو وہ شعر سمجھ رہے ہیں اس میں شاعرانہ طرزِ اظہار ہے بھی یا نہیں؟ ولیؔ اور میرؔ سے آج اجملؔ سراج تک جن شعراء کے سینکڑوں اشعار مجھے ازبر ہیں، اُن میں یہ شاعرانہ طرزِ احساس ہی مجھے ایک ایسا common factorنظر آتا ہے جو کسی شعر کو میرے حافظے اور احساس کا حصہ بناتا ہے۔

میں نے شاعری کی باقاعدہ تربیت حاصل نہیں کی اور نہ ہی میں اردو زبان سے گہری واقفیت کا دعویٰ کر سکتا ہوں۔ہاں لفظ اور تکنیک کے سلسلے میں ایک واضح conciousnessکا میں دعویدار ضرور ہوں اور میرے نزدیک یہ ذہنی بیداری کسی بھی شاعر کے احساس اور اظہار کے ارتقاء میں ایک بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ میں بہت کم شعر کہتا ہوں۔ اس لیے کہ مجھے inspirationعام طور پر کسی تجربے سے حاصل ہوتی ہے اور وہ بھی اس وقت جب وہ تجربہ میرے احساس کا حصہ بن جاتا ہے۔ اسی وجہ سے میری شعر گوئی کم گوئی کی حدود سے باہر نہیں نکل پاتی۔

میری شاعری میرے ہونے کے جواز کی تلاشِ مسلسل کے دوران میرے اظہار کا ایک ذریعہ ہے۔ میری شاعری میں موجود کوئی بھی کیفیت شاید نئی نہ ہو۔ اس لیے کہ اس کائنات میں کچھ بھی نیا نہیں۔ خود انسان کون سا نیا ہے؟ مگر اس انسان کا ذہن گزرتے ہوئے وقت کے ساتھ مسلسل ارتقاء پذیر ہے۔ صلاحیت کے اعتبار سے نہیں بلکہ چیزوں کو perceiveکرنے کے اعتبار سے۔ اس لیے طرزِ احساس و اظہار ہی کسی شاعر کے اپنے عہد سے وابستگی کا اعلان ہوتا ہے۔ جدید حسّیت کی طویل بحث کے ضمن میں مجھے صرف اتنا ہی کہنا ہے۔

کسی بھی شاعر کی طرح حُسن میرے احساس کا اہم ترین جزو ہے۔ مگر یہ حُسن اگر انسانی ہے تو اسے میرے احساس تک رسائی حاصل کرنے سے پہلے مجھے ذہنی سطح پر متاثر کرنا لازمی ہے۔ ذہانت میرے نزدیک حسین ہونے کی بنیادی شرائط میں شامل ہے۔ کند ذہنی اور روایتی طرزِ فکر مجھ سے زیادہ دیر برداشت نہیں ہوتی اور تعلق کی سطح پر اپنے اس رویے کی وجہ سے میں اکثر مشکلات کا شکار رہتا ہوں۔ دل ہی دل میں شرمندہ بھی ہوتا ہوں کہ بعض اوقات کچھ لوگ اپنے پُر خلوص طرزِ عمل کے باوجود میرے نزدیک نہیں آ پاتے۔ یہ میری ایک ایسی مجبوری ہے جس کے ہاتھوں میں اپنے آپ کو بالکل لاچار پاتا ہوں۔

میری خوش قسمتی کہ اس مشکل رویے کے باوجود میرے گرد ایسے لوگ ہمیشہ رہے جو میرے مزاج کی ہر کیفیت کو خوش دلی کے ساتھ برداشت کرتے رہے۔ ان لوگوں میں سرِ فہرست میرے عزیز دوست اور خوبصورت آرٹسٹ یوسف تنویر کا نام ہے۔ ان کا دفتر میری ذہنی پناہ گاہ ہے۔ میری بیشتر غزلیں وہیں بیٹھ کر تخلیق ہوئیں اور انہوں نے میرے اولین سامع ہونے کا فرض بھی نہایت محبت کے ساتھ انجام دیا۔ میرے احباب میں مجھے شاعر تسلیم کرنے والے پہلے شخص عبدالرزاق معرفانی ہیں۔ انہوں نے اپنے احباب کی خوش ذوق نشستوں میں مجھ سے شعر سنے اور میری حوصلہ افزائی کی۔ ادبی دُنیا میں جن لوگوں نے میری رہنمائی و پذیرائی کی ان میں جونؔ ایلیا کو میں آج بھی اپنا استاد تسلیم کرتا ہوں۔ میری شاعری کی تمام تر خامیاں میری اپنی ناکامی پر دلیل ہیں۔

مگر اس سے قطع نظر میرے شعری ذوق کی تشکیل میں اولاً جونؔ صاحب کی شاعری کے مطالعے، اور بعد ازاں ان سے شعری مسائل پر بالمشافہ گفتگو کا بہت اہم کردار رہا۔ خواجہ رضیؔ حیدر میرے دوست ہی نہیں ، میرے بڑے بھائی کی جگہ ہیں۔ شعری سفر میں وہ میرے سمت نما ہیں اور میرے نزدیک اُن کی پسندیدگی میری کسی غزل کے باقی رہنے یا تلف کر دیے جانے کا سب سے بڑا جواز ہے۔ قیصرؔ عالم کی پُر مغز گفتگو نے ہمیشہ میرے ذہن میں اکثر اٹھنے والی سوچوں کو channelize کرنے میں مدد دی جس کا شاید اُنہیں خود بھی علم نہیں، مگر جس کے لیے میں اُن کا ممنون ہوں۔ محترم نسیم درّانی، احمد ندیمؔ قاسمی، شمس الرحمن فاروقی، مبین مرزا، خالدؔ احمد اور آصف فرخّی کا میں تہہِ دل سے ممنون ہوں کہ انہوں نے میری غزلوں کو اپنے موقر جرائد میں شائع کر کے میرے بحیثیت شاعر تعارف میں اہم کردار ادا کیا۔ انور شعورؔ، محبؔ عارفی، نگارؔ صہبائی، رساؔ چغتائی، احمد جاویدؔ، احمد نویدؔ، ڈاکٹراسلم فرخی، ڈاکٹر آصف فرخی، صابر وسیمؔ، احسن ؔ سلیم، لیاقت علی عاصمؔ، اجملؔ سراج، عزمؔ بہزاد، جاذبؔ ضیائی، سعیدؔ آغا، انور جاوید ہاشمیؔ، قیصرؔ عالم، انیق احمد، شادابؔ احسانی، معراج صاحب، میر حامد علی کانپوری(مرحوم)، سلمان علوی، قمر اللہ دتہ، احمد جمال اور محمد علی احسان کے نام ان لوگوں میں شامل ہیں جن کی رفاقت سے گزر کر میں یہ شعری مجموعہ آپ کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔

نہیں معلوم کہ ابھی میری سوچ کو وقت کے اس بے کراں سمندر کے کتنے اُتار چڑھاؤ دیکھنا ہیں۔ کیسے کیسے تیز دھار لمحے میرے خیمۂ خواب کی طنابوں کے درپے ہیں۔ اس کٹھن سفر میں ’’ تکرارِ ساعت‘‘ میرے لیے کسی ایسے لمحے کا انتظار ہے جو مجھ پر مجھے ظاہر کر دے، اور میرے وجود کو ایک دائمی اثبات سے ہم آہنگ کر دے۔ آئیے اور اس خاص ساعت کے انتظار میں میرے ساتھ ہو جائیں۔

 

عرفانؔ ستار

٭٭٭

 

 

 

 

عرفانؔ کے شعر کی اندرونی اور بیرونی ساخت

 

                احمد جاویدؔ

 

 

جدید زندگی اپنی گرہ میں اگر تخلیقی اعتبار سے کوئی قابلِ قدر چیز رکھتی ہے تو وہ احساس کی complexityہے جس میں اتنی طاقت بہرحال ہے کہ ذہن کو ان حقائق سے مانوس رکھتی ہے جو اس کی حدودِ رسائی سے بالکل باہر چلے گئے ہیں۔ مجھے جدید شاعروں سے ایک مستقل شکایت یہ ہے کہ ان لوگوں کا طرزِ احساس انسانی نہیں، یعنی اس میں معنی پن غائب ہے۔ عرفانؔ ستار کے ہاں کہیں کہیں مہارت کی کمی تو نظر آتی ہے لیکن طرزِ احساس کی سطح پر وہ بعض ایسی خصوصیات رکھتے ہیں جو کسی نہایت اچھے شاعر کے لیے بھی موجبِ فخر ہو سکتی ہے۔ ان کی غزل میں محسوسات کی حسّی بناوٹ اور معنوی ساخت جس طرح یکجا ہو کر اظہار پاتی ہے، نئے غزل گو اسے تصور کرنے کی بھی صلاحیت نہیں رکھتے۔ ان کے احساس کا contentتجربی سے زیادہ ذہنی ہے اور ذہنی سے زیادہ تجربی۔ یہی ان کی غزل کا بنیادی جوہر ہے۔ مجھے بعض اوقات حیرت ہوتی ہے کہ یہ شخص قریب قریب ہر احساس یعنی خوشی غم وغیرہ کو کیفیت میں بھی نیا بنا دیتا ہے اور معنویت میں بھی۔ ان کے ہاں کوئی احساس متعین، ٹھوس اور سطحی نہیں ہے، اور نہ وہ کوئی طے شدہ اور یک رُخا مطلب رکھتا ہے جبکہ دوسری طرف ان کا اُسلوب بالکل وہی ہے جوpolicy matterپر بیان دینے والوں کا ہوتا ہے۔ صاف، دو ٹوک اور پتھریلا۔ ان دو متضاد انتہاؤں کو اکٹھا کر لینا، ظاہر ہے خاصی تعجب انگیز بات ہے۔ ٹھوس اسلوب اور سیّال کیفیت اور معنویت۔ یہ ہے عرفان کے شعر کی اندرونی اور بیرونی ساخت۔

عرفان ستار بنیادی طور پر شدّتِ احساس کے شاعر ہیں۔ احساس کی شدّت اگر ذہن کی شمولیت سے عاری ہو تو شعر میں کم از کم دو چیزیں داخل نہیں ہو سکتیں۔ ایک لفظ کے بیشتر امکانات کو برتنے کا سلیقہ اور دوسرے تخیل۔ عرفان ستار کی غزل میں یہ دونوں چیزیں تمام و کمال موجود ہیں۔

احمد جاویدؔ

٭٭٭

 

 

 

 

یقیں سرشت شاعری

 

                خواجہ رضیؔ حیدر

 

 

میں گزشتہ دو ماہ سے عرفان ستار کی شاعری پر گفتگو کے لیے ذہن کو راغب کرنے کی کوشش کر رہا ہوں مگر ذہن ہے کہ وہ ہنوز یکسوئی سے محروم ہے۔ عرفان ستار کا مصرعہ لکھنے کا ڈھب، خیال کی بندش، موضوعات کا تنوع، اشاراتی معنویت، محسوساتی نظام، الفاظ کا انتخاب اور پھر ان الفاظ سے ایک آہنگ کی نموداری جیسے متعدد خیالات میرے ذہن میں تشکیلی مراحل طے کرتے رہے اور میں خوش ہوتا رہا کہ جس وقت بھی قلم کاغذ لے کر بیٹھوں گا مضمون لکھ دوں گا۔ مگر اب قلم کاغذ ہاتھ میں آیا تو معلوم ہوا کہ اظہار کے حوالے سے انگلیوں میں سناٹا منجمد اور ذہن میں خیالات کم آواز ہیں۔ یہ صورتحال میرے ساتھ پہلی مرتبہ پیش آئی ہے ورنہ میری زود نویسی تو بطور طعنہ میرے احباب میں معروف رہی ہے۔ میں سوچتا ہوں کہ ایسا کیوں ہے؟ کیا عرفان ستار سے میری قریبی رفاقت کی بنا پر ایسا ہے اور کیا اس رفاقت نے اظہار کے لمحے میں عرفانؔ ستار کی شاعرانہ صلاحیتوں کی کہکشاں کو میری نگاہ میں دھندلا دیا ہے؟ کیا ان کی شاعری کے بانکپن تک رسائی کے لیے دوری کی شرط قابلِ اعتنا ہے؟ میں سوالات کے ایک ہجوم میں سر نہوڑائے بیٹھا ہوا سوچ رہا ہوں کہ میں کیا لکھوں اور لکھوں بھی تو کہاں سے آغاز کروں۔

گزشتہ آٹھ سال کے دوران میں نے عرفان ستار کی جو شاعری پڑھی اور سنی ہے اور جس شاعری کو میں کسی نوجوان شاعر کی موثر و تہہ دار شاعری قرار دیتا رہا ہوں کیا وہ میرے اندر اپنی کوئی توضیح نہیں رکھتی، یا پھر کیا میری اظہاری صلاحیت محجوب ہو گئی ہے اور میں اپنی مبادیات میں معطل ہو گیا ہوں۔ مگر پھر مجھے خیال آتا ہے کہ ایسا نہیں ہے کیونکہ ادھر گزشتہ پندرہ دن کے اندر میں نے مذہبی، تاریخی اور ادبی موضوعات پر کئی مضامین لکھے ہیں اور ان مضامین کے اندازِ تحریر و مندرجات کے حوالے سے تحسین آمیز جملے بھی مجھ تک پہنچے ہیں۔ بس عرفانؔ ستار کے باب میں میرا قلم بھی خاموش ہے اور ذہن بھی۔۔۔۔۔۔میں خود سے بارہا سوال کرتا ہوں کہ کہیں میں نے عجلت میں عرفانؔ ستار کی شاعری کے بارے میں اپنی پسندیدگی کا اظہار تو نہیں کیا تھا، یا عرفانؔ ستار سے رفاقت کی بنا پر کسی مصلحت آثار لمحے نے میری صداقت کو میرے اظہار سے بے دخل تو نہیں کر دیا تھا۔۔۔۔۔۔ان سوالات کے جواب میں ہر مرتبہ غزل کے کئی ثقہ اور صاحبِ طرز شعراء کے چہرے میری آنکھوں میں لَو دینے لگتے ہیں۔

جونؔ ایلیا، محبؔ عارفی، احمد ہمدانیؔ، قمرؔ جمیل، رساؔ چغتائی، انور شعورؔ، عرفانؔ صدیقی، خالدؔ احمد، احمد جاویدؔ، اور اجملؔ سراج کے تحسین آمیز جملے میری سماعت میں گونجنے لگتے ہیں۔

نگارؔ صہبائی، ڈاکٹر اسلمؔ فرخّی، نسیم درانی، عبداللہ جاویدؔ، قیصرؔ عالم، آصف فرخی، اور عتیقؔ جیلانی کی عرفانؔ ستار کے اشعار کی پذیرائی میں داد و تحسین مجھے اپنی طرف متوجہ کرتی ہے اور میں مطمئن ہو جاتا ہوں کہ میں نے عرفانؔ ستار کے شاعر ہونے کی پہلے مرحلے میں جو تصدیق کی تھی وہ گماں زاد نہیں بلکہ یقیں سرشت تھی۔ پھر ہوا یہ کہ عرفان ستار نے بھی اپنی تخلیقی ذہانت کو شعر کے حوالے سے اس قدر فروغ دیا کہ بعض بے تربیت اساتذہ کی مفخّر و مکلّف گردنیں اپنے ہی شانوں پر جھول گئیں۔ مجھے یاد آیا کہ جونؔ ایلیا نے پہلی ملاقات میں جب عرفانؔ ستار سے اپنی مخصوص ترنگ میں کہا تھا کہ ’’ میاں وہ شخص شاعر ہو ہی نہیں سکتا جسے جونؔ ایلیا کے اشعار یاد نہ ہوں‘‘ تو عرفانؔ ستار نے ایک سانس میں ان کے تیس پینتیس شعر سنا دیے تھے اور انہوں نے جواباً کہا تھا کہ ’’ میاں عرفان۔ اب اگر تم اپنے شعر نہ بھی سناؤ تو ہم کہہ رہے ہیں کہ تم شاعر ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیونکہ تم نے بہترین تلفّظ کے ساتھ ہمیں ہمارے وہ اشعار سنائے ہیں جو ہمیں خود بہت پسند ہیں۔‘‘

میرؔ و غالبؔ اور فیضؔ و فراقؔ تو اپنی جگہ عرفانؔ ستار نے ہر اُس شاعر کا مطالعہ کیا ہے جو رجحان ساز ہے یا جس میں انفرادی لب و لہجے کا کوئی امکان موجود ہے۔یہی نہیں، عرفانؔ نے اردو کے قدیم و جدید نثری ادب کے علاوہ مذہبیات اور مغربی ادب و فلسفے کے مطالعے سے بھی اپنی فکری توسیع کی ہے جس کی بنا پر عرفانؔ ستار کی غزل اپنے موضوعات اور اظہار میں ایک امتزاجی مزاج لیے ہوئے ہے۔ صنفی تقاضوں اور فنی لوازم کا پاس و لحاظ رکھتے ہوئے عرفانؔ نے نہ صرف موضوعات کی مخفی ندرت کو تلاش کیا بلکہ ایک پُر تاثیر محسوساتی اور اسلوبی وضع بھی اختراع کی ہے۔ اُن کا مصرعہ لکھنے کا طور عامیانہ نہیں خلّاقانہ ہے یہی وجہ ہے کہ اُن کے ہاں لفظ مقصود بالذّات نہیں بلکہ معنویت اور متخیلہ کی ایک بلیغ ترسیل کا وسیلہ ہیں۔ یہ ایک کھُلی ہوئی حقیقت ہے کہ جدیدیت کی پیروی میں بیسوی صدی کے نصف آخر کے دوران غزل میں جو تجربات ہوئے اُن میں خیال سے زیادہ لفظ پر انحصار کیا گیا جس کی بنا پر بوجھل اور مہمل شاعری کو رواج ملا اور غزل کسی حد تک نہ صرف زود فہمی کی صلاحیت سے محروم ہوئی بلکہ قاری سے اُس کا ابلاغی رابطہ بھی مجروح ہوا۔

عرفانؔ ستار نے بیسوی صدی کے آخری عشرہ کے نصف آخر میں جب باقاعدہ شعر گوئی کا آغاز کیا تو اُن سے ایک سیڑھی اوپر جو غزل لکھی جا رہی تھی وہ کسی حد تک اپنی لفظیات میں بھی اور موضوعات میں بھی نہ صرف غیر شخصی تھی بلکہ الفاظ کا برتاؤ بھی غیر تخلیقی اور اتباعی تھا۔ چنانچہ عرفانؔ ستار نے اپنا قبلہ درست رکھنے کے لیے سوچتی ہوئی استفہامیہ زمینوں کے اہتمام کے ساتھ مترنم بحروں میں اپنی ہمہ جہت تخلیقی ذہانت کو بھی اس قدر صیقل کیا کہ اُن کی شاعری ایک خلّاقانہ حُسن سے ہمکنار ہو گئی۔ اسی خلّاقانہ حُسن کے سہارے وہ اپنے قاری کو انسانی احساسات کی ایک ایسی فضا میں لے جاتے ہیں جہاں شاعر کا ہر تجربہ قاری کے تجربے کا غماز ہو جاتا ہے۔ عرفانؔ ستار کے محسوساتی نظام کی اساس محبت کی لا حاصلی پر ہے ۔ لا حاصلی اپنی تاثیر میں چونکہ الم انگیز ہوتی ہے اس لیے اکثر شعراء اس الم انگیزی کو ہی اپنے تجربے کی اساس بنا لیتے ہیں۔ لیکن جن شعراء کے یہاں تخلیقی ذہانت متخیلہ سے جڑی ہوئی ہوتی ہے وہ اس الم انگیزی میں نشاط کا ایک ایسا پیوند لگا دیتے ہیں کہ یہ الم انگیزی جہاں ایک عمومی تجربہ بن کر ظاہر ہوتی ہے وہاں رسائی میں نا رسائی کا احساس شاعر کی اپنی ذات میں دو آتشہ ہو جاتا ہے۔

سنا رہے ہو ہمیں کس نگاہِ ناز کے غم

ہم اُس کے سامنے ہوتے تو پوچھتی بھی نہیں

 

تعلق کی یہی صورت رہے گی کیا ہمیشہ

میں اب اُکتا چکا ہوں تیری اس وارفتگی سے

 

عجیب ہے یہ مری لا تعلقی جیسے

جو کر رہا ہوں بسر میری زندگی ہی نہ ہو

 

مسلسل قرب نے کیسا بدل ڈالا ہے تجھ کو

وہی لہجہ، وہی ناز و ادا ہوتے ہوئے بھی

 

حُسن تیرا بہت جاں فزا ہی سہی، خوش نظر ہی سہی خوش ادا ہی سہی

سُن مگر دل رُبا تیرا نغمہ سرا، دیکھتا ہی نہیں سوچتا بھی تو ہے

 

کبھی تو چند لمحے خود سے بھی باہر بسر کر لوں

ذرا دیکھوں تو وحشت کی فراوانی کہاں تک ہے

 

جانے ہے کس کی اداسی مری وحشت کی شریک

مجھ کو معلوم نہیں کون یہاں تھا پہلے

 

بے خوابی کے سائے میں جب دو آنکھیں بے عکس ہوئیں

خاموشی نے وحشت کی تصویر اٹھا کر رقص کیا

 

یا مجھ سے گزاری نہ گئی عمرِ گریزاں

یا عمرِ گریزاں سے گزارا نہ گیا میں

 

ہجر کا عیش کہاں ہے مری قسمت میں کہ اب

زندگی رنج بہ اندازِ دگر کھینچتی ہے

 

تعلقات کے برزخ میں عین ممکن ہے

ذرا سا دُکھ وہ مجھے دے تو میں ترا ہو جاؤں

 

خرد کی سادگی دیکھو کہ ظاہر حالتوں سے

مری وحشت کا اندازہ لگایا جا رہا ہے

جدید انسان چونکہ حال اور مستقبل سے جڑ کر چلتا ہے، اس لیے وہ ماضی کے کسی تجربے کو اپنا مطمحِ نظر نہیں بناتا۔ وہ کسی انتہائی تجربے اور کسی دیرپا کیفیت کی تلاش و جستجو میں رہتا ہے۔ وجود اور وجدان کی یکجائی اُس کا مسئلہ ہے۔ ایک لازوال تلاش و جستجو کی دائمی تشنگی اس کی فکر کو سیراب کرتی اور اسے حاصل سے انحراف پر آمادہ کرتی رہتی ہے۔ عرفانؔ ستار کی شاعری میں یہ انحراف ایک نامیاتی وحدت کے طور پر ہی موجود نہیں بلکہ ان کی تخلیقی ذہانت کا سر چشمہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کی ایسی لفظیات، تلازمے اور استعارے جوکسی بالذّات کیفیت کی نمائندگی کرتے ہیں ان کی اپنی معنویت میں قلبِ ماہیت ہو گئی ہے اور یہ اسی قلبِ ماہیت کا نتیجہ ہے کہ عرفانؔ ستار کے ہاں یکسانیت سے بے زاری کا اعلان اپنی کلیت میں ’’ تکرارِ ساعت‘‘ کے طور پر ظاہر ہوا ہے۔ عرفانؔ ستار تغیر اور تبدل کے محاصل سے آشنا رہتے ہوئے تغیر و تبدل کے بطون میں موجود ایک تسلسل ، اور اس تسلسل میں موجود مطلق یکسانیت کے محرکات و مدرکات پر غور کرتے ہیں اور پھر ایک بے زاری سے دوچار ہو جاتے ہیں۔ یہ بے زاری زندگی کے مختلف شعبوں میں مروج اور نافذ عوامل اور اصولوں سے بیک وقت ہے ورنہ ’’ تکرارِ ساعت‘‘ کا اعلان بے معنی نظر آنے لگے گا۔ یہاں ایک وضاحت ضروری ہے کہ عرفانؔ ستار کی یہ بے زاری کسی نفسیاتی پیچیدگی

یا خالصتاً شکستِ شیشۂ دل کی پیداوار نہیں ہے۔ بلکہ جدید ترین صورتحال میں شخصی پھیلاؤ اور معدوم احساس کی بازیافت کا انعام ہے۔

ترا ہونا تو ہے بس ایک صورت کا اضافہ

ترے ہونے سے کیا تیری کمی کم ہو گئی ہے

اظہار میں جدید ہونا اور احساس میں جدید ہونا دو مختلف حالتیں ہیں، لیکن عرفانؔ ستار اپنی تخلیقی ذہانت کی بنا پر اظہار میں بھی جدید ہیں اور احساس میں بھی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ رسائی سے نا رسائی اور نا رسائی سے رسائی کشید کرتے رہتے ہیں۔ ’’تکرارِ ساعت‘‘ کی ترکیب اگرچہ بظاہر اپنی ہیت میں طبیعات کی کوئی اصطلاح معلوم دیتی ہے مگر عرفانؔ ستار کے محسوسات میں یہ ترکیب نہ صرف مابعدالطبیعات کی نمائندہ ہو گئی ہے بلکہ عرفانؔ ستار کے سماجی اور روحانی شعور کا ایک شعری اظہار ہے۔

میرے سوا بھی کوئی گرفتار مجھ میں ہے

یا پھر مرا وجود ہی بیزار مجھ میں ہے

 

یہاں تکرارِ ساعت کے سوا کیا رہ گیا ہے

مسلسل ایک حالت کے سوا کیا رہ گیا ہے

 

بہت ممکن ہے کچھ دن میں اسے ہم ترک کر دیں

تمہارا قرب عادت کے سوا کیا رہ گیا ہے

 

سرِ صحرائے یقیں شہرِ گماں چاہتے ہیں

ہم کسی شے کو بھی موجود کہاں چاہتے ہیں

 

گماں میں بھی گماں لگتی ہے اب تو زندگی میری

نظر آتا ہے اب وہ خواب میں بھی خواب سا مجھ کو

 

اپنا دل برباد کیا تو پھر یہ گھر آباد ہوا

پہلے میں اک عرش نشیں تھا اب پاتال میں زندہ ہوں

 

ڈرا رہا ہے مسلسل یہی سوال مجھے

گزار دیں گے یونہی کیا یہ ماہ و سال مجھے

زندگی کی نئی وسعتوں کا ادراک اور اپنے تخلیقی احساس میں اُن کا تجربہ جہاں کسی تخلیق کار کی محویت میں اضافہ کرتا ہے، وہاں اُس کے اندر ایسا استفہامی اضطراب پیدا کرتا ہے جو اُس کی باطنی کیفیات کو ہی زیر و زبر نہیں کرتا بلکہ اُسے ایک ایسی نوعی یکسانیت سے دوچار کر دیتا ہے کہ وہ ظاہری و باطنی تمام اشیاء اور معاملات کی طرف سے ابتدائی مرحلے پر تشکیک کا شکار ہوتا ہے اور ثانوی طور پر ان سے بے زاری کا اعلان کرنے لگتا ہے۔ ایسی صورت میں خود مرکزیت بھی پیدا ہوتی ہے اور خود پسندی بھی۔ جن افراد کی تخلیقی ذہانت کُند ہوتی ہے وہ اس صورتحال سے خود رحمی میں بھی مبتلا ہو جاتے ہیں جو بلا شبہ ایک مرض ہے۔ جیسا میں نے پہلے عرض کیا کہ عرفانؔ ستار نے اپنی تخلیقی ذہانت کو مطالعے اور تفکر سے صیقل کیا ہے لہذا اُن کے ہاں شاعرانہ بے ساختگی و پُر کاری آ گئی ہے اور انہوں نے استفہامی اضطراب کو اپنی تخلیقی ذہانت سے اس طرح جوڑ دیا ہے کہ اُن کی شاعری میں زندگی کی آگہی اور اُس کا تصرف ایک مزاج کے طور پر نمایاں ہو گیا ہے۔

میں کہیں ہوں کہ نہیں ہوں وہ کبھی تھا کہ نہ تھا

تو ہی کہہ دے یہ سخن بے سروپا ہے کہ نہیں

 

میں تو وارفتگی ٔ شوق میں جاتا ہوں ادھر

نہیں معلوم وہ آغوش بھی وا ہے کہ نہیں

 

سبھی زندہ ہیں اور سب کی طرح میں بھی ہوں زندہ

مگر جیسے کہیں سے زندگی کم ہو گئی ہے

 

یہ بے سبب نہیں سودا خلا نوردی کا

مسافرانِ عدم رہ گزر کو دیکھتے ہیں

 

سُن جاناں ہم ترکِ تعلق اور کسی دن کر لیں گے

آج تجھے بھی عجلت سی ہے ہم بھی کچھ رنجیدہ ہیں

 

تیری ہر دلیل بہت بجا، مگر انتظار بھی تا کجا

ذرا سوچ تو مرے راز داں، میری آدھی عمر گزر گئی

 

میں تجھ سے ساتھ بھی تو عمر بھر کا چاہتا تھا

سو اب تجھ سے گلہ بھی عمر بھر کا ہو گیا ہے

 

ہمارے ساتھ جب تک درد کی دھڑکن رہے گی

ترے پہلو میں ہونے کا گماں باقی رہے گا

 

کھینچ رہی تھی کوئی شے، ہم کو ہر ایک سمت سے

گردشِ بے مدار میں، عمر گزار دی گئی

 

ہمیں بھی روز جگاتی تھی آ کے ایک مہک

چمن میں کوئی ہمارا بھی تھا صبا کر کے

اس وقت رات کا ایک بج رہا ہے اور میں شام سے عرفانؔ ستار کی غزلوں پر مشتمل مجموعے کے مسودّے کو نہ صرف کئی بار پڑھ چکا ہوں بلکہ اب تو عرفانؔ ستار کے بہت سے شعر مجھے ازبر ہو چکے ہیں۔ یہی نہیں عرفان ستار کے بعض ایسے اشعار جو پہلی سماعت کے دوران اپنی معنویت مجھ پر واضح نہیں کر سکے تھے اب میری تفہیمی صلاحیت پر زیرِ الفاظ مسکرارہے ہیں اور میں کاغذ قلم سامنے رکھے ہوئے سوچ رہا ہوں کہ کیا میں کوئی مضمون لکھ کر عرفانؔ ستار کی شاعری پر کسی تشریحی گفتگو کا حق ادا کرسکوں گا ؟

 

خواجہ رضیؔ حیدر

٭٭٭

 

 

 

 

 

جس دن سے اُس نگاہ کا منظر نہیں ہوں میں

ہر چند آئنہ ہوں، منور نہیں ہوں میں

 

بکھرا ہوا ہوں شہرِ طلب میں اِدھر اُدھر

اب تیری جستجو کو میسر نہیں ہوں میں

 

یہ عمر اک سراب ہے صحرائے ذات کا

موجود اس سراب میں دم بھر نہیں ہوں میں

 

گردش میں ہے زمین بھی، ہفت آسمان بھی

تُو مجھ پہ رکھ نظر کہ مکرر نہیں ہوں میں

 

ہوں اُس کی بزمِ ناز میں مانندِ ذکرِ غیر

وہ بھی کبھی کبھار ہوں، اکثر نہیں ہوں میں

 

تُو جب طلب کرے گا مجھے بہرِ التفات

اُس دن خبر ملے گی کہ در پر نہیں ہوں میں

 

ہے بامِ اوج پر یہ مری تمکنت مگر

تیرے تصرفات سے باہر نہیں ہوں میں

 

میں ہوں ترے تصورِ تخلیق کا جواز

اپنے کسی خیال کا پیکر نہیں ہوں میں

 

کر دے سلوکِ جاں سے معطر مشامِ جاں

چھُو لے مجھے کہ خواب کا منظر نہیں ہوں میں

 

عرفانؔ خوش عقیدگی اپنی جگہ مگر

غالبؔ کی خاکِ پا کے برابر نہیں ہوں میں

٭٭٭

 

 

 

 

آج بام حرف پر امکان بھر میں بھی تو ہوں

میری جانب اک نظر اے دیدہ ور، میں بھی تو ہوں

 

بے اماں سائے کا بھی رکھ باد وحشت کچھ خیال

دیکھ کر چل، درمیان بام و در میں بھی تو ہوں

 

رات کے پچھلے پہر، پُر شور سنّاٹوں کے بیچ

تُو اکیلی تو نہیں اے چشم تر، میں بھی تو ہوں

 

تُو اگر میری طلب میں پھر رہا ہے در بدر

اپنی خاطر ہی سہی، پر دربدر میں بھی تو ہوں

 

سُن اسیر خوش ادائی، منتشر تُو ہی نہیں

میں جو خوش اطوار ہوں، زیرو زبر میں بھی تو ہوں

 

خود پسندی میری فطرت کا بھی وصف خاص ہے

بے خبر تُو ہی نہیں ہے، بے خبر میں بھی تو ہوں

 

دیکھتی ہے جُوں ہی پسپائی پہ آمادہ مجھے

رُوح کہتی ہے بدن سے، بے ہُنر، میں بھی تو ہوں

 

دشت حیرت کے سفر میں کب تجھے تنہا کیا؟

اے جُنوں میں بھی تو ہوں، اے ہم سفر میں بھی تو ہوں

 

کوزہ گر بے صورتی سیراب ہونے کی نہیں

اب مجھے بھی شکل دے، اس چاک پر میں بھی تو ہوں

 

یوں صدا دیتا ہے اکثر کوئی مجھ میں سے مجھے

تجھ کو خوش رک ہے خدا یوں ہی، مگر میں بھی تو ہوں

٭٭٭

 

 

 

 

اگر ہے شرط بچھڑنا تو رسم و راہ بھی کیا

یہ اہتمامِ ملاقات گاہ گاہ بھی کیا

 

نہ ہو جو ذوقِ تماشا یہاں تو کچھ بھی نہیں

نظر کی بزم بھی کیا دل کی خانقاہ بھی کیا

 

بہت سکون ہے بیداریوں کے نرغے میں

تو مجھ کو چھوڑ گئی خواب کی سپاہ بھی کیا

 

سب اپنے اپنے طریقے ہیں خود نمائی کے

قبائے عجز بھی کیا فخر کی کلاہ بھی کیا

 

یہ راہِ شوق ہے اس پر قدم یقین سے رکھ

گماں کے باب میں اس درجہ اشتباہ بھی کیا

 

نہیں ہے کوئی بھی صورت سپردگی کے سوا

ہوس کی قید بھی کیا عشق کی پناہ بھی کیا

 

مجھے تمہاری تمہیں میری ہم نشینی کی

بس ایک طرح کی عادت سی ہے، نباہ بھی کیا

 

کوئی ٹھہر کے نہ دیکھے میں وہ تماشا ہوں

بس اک نگاہ رُکی تھی، سو وہ نگاہ بھی کیا

٭٭٭

 

 

 

 

 

خود سے غافل بہت دیر ہم رہ چکے اب ہمیں کچھ ہماری خبر چاہیے

چشمِ رمز آشنا، قلبِ عقدہ کشا، اک ذرا سی توجہ اِدھر چاہیے

 

مستقل دل میں موجود ہے اک چبھن، اب نہ وہ خوش دلی ہے نہ ویسا سخن

مضطرب ہے طبیعت بہت ان دنوں، کچھ علاج اس کا اے چارہ گر چاہیے

 

چاک عہدِ تمنا کے سب سل گئے، ہجر کے ساز سے دل کے سُر مل گئے

بس یہی ٹھیک ہے کاتبِ زندگی، عمر باقی اسی طرز پر چاہیے

 

ذوقِ تخلیق کی آبیاری کہاں، ہم کہاں اور یہ ذمہ داری کہاں

حسبِ توفیق محوِ سخن ہیں مگر، یہ نہیں جانتے کیا ہنر چاہیے

 

ہر کسی کو گلہ بیش و کم ہے یہی، آدمی کا ہمیشہ سے غم ہے یہی

جو ملا اُس کی ایسی ضرورت نہ تھی، جو نہیں مل سکا وہ مگر چاہیے

 

رنگ و خوشبو کا سیلاب کس کام کا، ایک لمحہ تو ہے عمر کے نام کا

یہ نظارا بہ قدرِ نظر چاہیے، یہ مہک بس ہمیں سانس بھر چاہیے

 

نخلِ دل کی ہر اک شاخ بے جان ہے، تازگی کا مگر پھر بھی امکان ہے

زندگی کی ذرا سی رمق چاہیے، اب نفس کا یہاں سے گزر چاہیے

 

کام کچھ خاص ایسا یہاں پر نہیں، قرض بھی اب کوئی جسم و جاں پر نہیں

یعنی اپنی طرف واپسی کے لیے، اب ہمیں صرف اذنِ سفر چاہیے

 

لفظ کافی نہیں ہیں سفر کے لیے، اس دیارِ سخن میں گزر کے لیے

عاجزی چاہیے، آگہی چاہیے، دردِ دل چاہیے، چشمِ تر چاہیے

 

آپ کی در بہ در جبہ سائی کہاں، میرؔ کی خاکِ پا تک رسائی کہاں

آپ کو خلعتِ سیم و زر چاہیے، وہ بھی کچھ وقت سے پیشتر چاہیے

٭٭٭

 

 

 

 

 

وہ چراغِ جاں کہ چراغ تھا کہیں رہ گزار میں بجھ گیا

میں جو اک شعلہ نژاد تھا ہوسِ قرار میں بجھ گیا

 

مجھے کیا خبر تھی تری جبیں کی وہ روشنی مرے دم سے تھی

میں عجیب سادہ مزاج تھا ترے اعتبار میں بجھ گیا

 

مجھے رنج ہے کہ میں موسموں کی توقعات سے کم رہا

مری لَو کو جس میں اماں ملی میں اُسی بہار میں بجھ گیا

 

وہ جو لمس میری طلب رہا وہ جھلس گیا مری کھوج میں

سو میں اُس کی تاب نہ لا سکا کفِ داغ دار میں بجھ گیا

 

جنہیں روشنی کا لحاظ تھا جنہیں اپنے خواب پہ ناز تھا

میں اُنہی کی صف میں جلا کِیا میں اُسی قطار میں بجھ گیا

٭٭٭

 

 

 

 

وفا کے باب میں اپنا مثالیہ ہو جاؤں

ترے فراق سے پہلے ہی میں جدا ہو جاؤں

 

میں اپنے آپ کو تیرے سبب سے جانتا ہوں

ترے یقین سے ہٹ کر تو واہمہ ہو جاؤں

 

تعلقات کے برزخ میں عین ممکن ہے

ذرا سا دُکھ وہ مجھے دے تو میں ترا ہو جاؤں

 

ابھی میں خوش ہوں تو غافل نہ جان اپنے سے

نہ جانے کون سی لغزش پہ میں خفا ہو جاؤں

 

ابھی تو راہ میں حائل ہے آرزو کی فصیل

ذرا یہ عشق سوا ہو تو جا بہ جا ہو جاؤں

 

ابھی تو وقت تنفس کے ساتھ چلتا ہے

ذرا ٹھہر کہ میں اس جسم سے رہا ہو جاؤں

 

ابھی تو میں بھی تری جستجو میں شامل ہوں

قریب ہے کہ تجسس سے ماورا ہو جاؤں

 

خموشیاں ہیں، اندھیرا ہے، بے یقینی ہے

رہے نہ یاد بھی تیری تو میں خلا ہو جاؤں

 

کسی سے مل کے بچھڑنا بڑی اذیت ہے

تو کیا میں عہدِ تمنا کا فاصلہ ہو جاؤں

 

ترے خیال کی صورت گری کا شوق لیے

میں خواب ہو تو گیا ہوں اب اور کیا ہو جاؤں

 

یہ حرف و صوت کا رشتہ ہے زندگی کی دلیل

خدا وہ دن نہ دکھائے کہ بے صدا ہو جاؤں

 

وہ جس نے مجھ کو ترے ہجر میں بحال رکھا

تُو آ گیا ہے تو کیا اُس سے بے وفا ہو جاؤں

٭٭٭

 

 

 

 

ایک دنیا کی کشش ہے جو اُدھر کھینچتی ہے

اک طبیعت ہے کہ آزارِ ہنر کھینچتی ہے

 

ایک جانب لیے جاتی ہے قناعت مجھ کو

ایک جانب ہوسِ لقمۂ تر کھینچتی ہے

 

اک بصیرت ہے کہ معلوم سے آگے ہے کہیں

اک بصارت ہے کہ جو حدِ نظر کھینچتی ہے

 

ہجر کا عیش کہاں ہے مری قسمت میں کہ اب

زندگی رنج بہ اندازِ دگر کھینچتی ہے

 

ایک منزل ہے جو امکان سے باہر ہے کہیں

کیا مسافت ہے کہ بس گردِ سفر کھینچتی ہے

 

ایک خواہش ہے جسے سمت کا ادراک نہیں

اک خلش ہے جو نہ معلوم کدھر کھینچتی ہے

 

اک طرف دل کا یہ اصرار کہ خلوت خلوت

اک طرف حسرتِ تسکینِ نظر کھینچتی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

کاوشِ روزگار میں، عمر گزار دی گئی

جبر کے اختیار میں، عمر گزار دی گئی

 

لمحۂ تازہ پھر کوئی آنے نہیں دیا گیا

ساعتِ انتظار میں، عمر گزار دی گئی

 

سوزنِ چشمِ یار سے، شوق رفو گری کا تھا

جامۂ تار تار میں، عمر گزار دی گئی

 

بامِ خیال پر اُسے دیکھا گیا تھا ایک شب

پھر اُسی رہ گزار میں، عمر گزار دی گئی

 

کھینچ رہی تھی کوئی شے ہم کو ہر ایک سمت سے

گردشِ بے مدار میں، عمر گزار دی گئی

 

رکھا گیا کسی سے یوں، ایک نفس کا فاصلہ

سایۂ مشک بار میں، عمر گزار دی گئی

 

زخمِ امید کا علاج، کوئی نہیں کیا گیا

پرسشِ نوکِ خار میں، عمر گزار دی گئی

 

دھول نظر میں رہ گئی، اُس کو وداع کر دیا

اور اُسی غبار میں، عمر گزار دی گئی

 

ساری حقیقتوں سے ہم، صرفِ نظر کیے رہے

خواب کے اعتبار میں، عمر گزار دی گئی

 

آیا نہیں خیال تک، شوق کے اختتام کا

خواہشِ بے کنار میں، عمر گزار دی گئی

 

صحبتِ تازہ کار کی، نغمہ گری تھی رایگاں

شورِ سکوتِ یار میں، عمر گزار دی گئی

 

وہ جو گیا تو ساتھ ہی، وقت بھی کالعدم ہوا

لمحۂ پُر بہار میں، عمر گزار دی گئی

٭٭٭

 

 

 

 

اس طرح دیکھتا ہوں اُدھر وہ جدھر نہ ہو

جیسے دکھائی دے کوئی صورت، مگر نہ ہو

 

یہ شہرِ نا شناس ہے کیا اس کا اعتبار

اچھا رہے گا وہ جو یہاں معتبر نہ ہو

 

ایسے قدم قدم وہ سراپا غرور ہے

جیسے خرامِ ناز سے آگے سفر نہ ہو

 

میں آج ہوں سو مجھ کو سماعت بھی چاہیے

ممکن ہے یہ سخن کبھی بارِ دگر نہ ہو

 

ہونے دو آج شاخِ تمنا کو بارور

ممکن ہے کل صبا کا یہاں سے گزر نہ ہو

 

میں بھی دکھاؤں شوق کی جولانیاں تجھے

یہ مشتِ خاک راہ میں حائل اگر نہ ہو

 

اک یہ فریب دیکھنا باقی ہے وقت کا

دل ڈوب جائے اور دوبارہ سحر نہ ہو

 

یہ کیا کہ ہم رکاب رہے خوفِ رہ گزر

کس کام کا جنوں جو قدم دشت بھر نہ ہو

٭٭٭

 

 

 

 

 

خوش مزاجی مجھ پہ میری بے دلی کا جبر ہے

شوقِ بزم آرائی بھی تیری کمی کا جبر ہے

 

کون بنتا ہے کسی کی خود ستائی کا سبب

عکس تو بس آئینے پر روشنی کا جبر ہے

 

خواب خواہش کا، عدم اثبات کا، غم وصل کا

زندگی میں جو بھی کچھ ہے سب کسی کا جبر ہے

 

اپنے رد ہونے کا ہر دم خوف رہتا ہے مجھے

یہ مری خود اعتمادی خوف ہی کا جبر ہے

 

کارِ دنیا کے سوا کچھ بھی مرے بس میں نہیں

میری ساری کامیابی بے بسی کا جبر ہے

 

میں کہاں اور بے ثباتی کا یہ ہنگامہ کہاں

یہ مرا ہونا تو مجھ پر زندگی کا جبر ہے

 

یہ سخن یہ خوش کلامی در حقیقت ہے فریب

یہ تکلم روح کی بے رونقی کا جبر ہے

 

شہرِ دل کی راہ میں حائل ہیں یہ آسائشیں

یہ مری آسودگی کم ہمتی کا جبر ہے

 

جس کا سارا حُسن تیرے ہجر ہی کے دم سے تھا

وہ تعلق اب تری موجودگی کا جبر ہے

 

جبر کی طابع ہے ہر کیفیتِ عمرِ رواں

آج کا غم جس طرح کل کی خوشی کا جبر ہے

 

کچھ نہیں کھلتا مرے شوقِ تصرف کا سبب

شوقِ سیرابی تو میری تشنگی کا جبر ہے

 

جو سخن امکان میں ہے وہ سخن ہے بے سخن

یہ غزل تو کچھ دنوں کی خامشی کا جبر ہے

٭٭٭

 

 

 

 

(نذر غالب)

 

نگاہ شوق سے راہ سفر کو دیکھتے ہیں

پھر ایک رنج سے دیوارو در کو دیکھتے ہیں

 

نجانے کس کے بچھڑنے کا خوف ہے اُن کو

جو روز گھر سے نکل کر شجر کو دیکھتے ہیں

 

یہ روز و شب ہیں عبارت اِسی توازن سے

کبھی ہُنر کو، کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں

 

ہمارے طرز توجّہ پہ خوش گمان نہ ہو

تجھے نہیں تری تاب نظر کو دیکھتے ہیں

 

فراق ہم کو میّسر بھی ہے، پسند بھی ہے

پہ کیا کریں کہ تری چشم تر کو دیکھتے ہیں

 

ہم اہل حرصو ہوس تجھ سے بے نیاز کہاں

دعا کے بعد دعا کے اثر کو دیکھتے ہیں

 

یہ بے سبب نہیں سودا خلا نوردی کا

مسافران عدم رہگزر کو دیکھتے ہیں

 

وہ جس طرف ہو نظر اُس طرف نہیں اٹھتی

وہ جا چکے تو مسلسل اُدھر کو دیکھتے ہیں

 

ہمیں بھی اپنا مقلّد شمار کر غالب

کہ ہم بھی رشک سے تیرے ہُنر کو دیکھتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

کہاں نجانے چلا گیا انتظار کر کے

یہاں بھی ہوتا تھا ایک موسم بہار کر کے

 

جو ہم پہ ایسا نہ کار دنیا کا جبر ہوتا

تو ہم بھی رہتے یہاں جنوں اختیار کر کے

 

نجانے کس سمت جا بسی باد یاد پرور

ہمارے اطراف خوشبوؤں کا حصار کر کے

 

کٹیں گی کس دن مدار و محور کی یہ طنابیں؟

کہ تھک گئے ہم حساب لیل و نہار کر کے

 

تری حقیقت پسند دنیا میں آ بسے ہیں

ہم اپنے خوابوں کی ساری رونق نثار کر کے

 

یہ دل تو سینے میں کس قرینے سے گونجتا تھا

عجیب ہنگامہ کر دیا بے قرار کر کے

 

ہر ایک منظر ہر ایک خلوت گنوا چکے ہیں

ہم ایک محفل کی یاد پر انحصار کر کے

 

تمام لمحے وضاحتوں میں گزر گئے ہیں

ہماری آنکھوں میں اک سخن کو غبار کر کے

 

یہ اب کھلا ہے، کہ اُس میں موتی بھی ڈھونڈنے تھے

کہ ہم تو بس آ گئے ہیں دریا کو پار کر کے

 

بقدر خواب طلب لہو ہے، نہ زندگی ہے

ادا کرو گے کہاں سے اتنا اُدھار کر کے؟

٭٭٭

 

 

 

 

اب ترے لمس کو یاد کرنے کا اک سلسلہ اور دیوانہ پن رہ گیا

تُو کہیں کھو گیا اور پہلو میں تیری شباہت لیے اک بدن رہ گیا

 

وہ سراپا ترا وہ ترے خال و خد میری یادوں میں سب منتشر ہو گئے

لفظ کی جستجو میں لرزتا ہوا نیم وا غنچہ سا اک دہن رہ گیا

 

حرف کے حرف سے کیا تضادات ہیں تُو نے بھی کچھ کہا میں نے بھی کچھ کہا

تیرے پہلو میں دنیا سمٹتی گئی میرے حصے میں حرفِ سخن رہ گیا

 

تیرے جانے سے مجھ پر یہ عقدہ کھلا رنگ و خوشبو تو بس تیری میراث تھے

ایک حسرت سجی رہ گئی گُل بہ گُل ایک ماتم چمن در چمن رہ گیا

 

ایک بے نام خواہش کی پاداش میں تیری پلکیں بھی باہم پرو دی گئیں

ایک وحشت کو سیراب کرتے ہوئے میں بھی آنکھوں میں لے کر تھکن رہ گیا

 

عرصۂ خواب سے وقتِ موجود کے راستے میں گنوا دی گئی گفتگو

ایک اصرار کی بے بسی رہ گئی ایک انکار کا بانکپن رہ گیا

 

تُو ستاروں کو اپنے جلو میں لیے جا رہا تھا تجھے کیا خبر کیا ہوا

اک تمنا دریچے میں بیٹھی رہی ایک بستر کہیں بے شکن رہ گیا

٭٭٭

 

 

 

 

میرے سوا بھی کوئی گرفتار مجھ میں ہے

یا پھر مرا وجود ہی بے زار مجھ میں ہے

 

میری غزل میں ہے کسی لہجے کی بازگشت

اک یارِ خوش کلام و طرح دار مجھ میں ہے

 

حد ہے، کہ تُو نہ میری اذیت سمجھ سکا

شاید کوئی بلا کا اداکار مجھ میں ہے

 

جس کا وجود وقت سے پہلے کی بات ہے

وہ بھی عدم سے برسرِ پیکار مجھ میں ہے

 

تُو ہے کہ تیری ذات کا اقرار ہر نفس

میں ہوں کہ میری ذات کا انکار مجھ میں ہے

 

تجھ سے نہ کچھ کہا تو کسی سے نہ کچھ کہا

کتنی شدید خواہشِ اظہار مجھ میں ہے

 

میں کیا ہوں کائنات میں کچھ بھی نہیں ہوں میں

پھر کیوں اسی سوال کی تکرار مجھ میں ہے

 

جس دن سے میں وصال کی آسودگی میں ہوں

اُس دن سے وہ فراق سے دوچار مجھ میں ہے

 

میں ہوں کہ ایک پل کی بھی فرصت نہیں مجھے

وہ ہے کہ ایک عمر سے بے کار مجھ میں ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

یہاں جو ہے کہاں اُس کا نشاں باقی رہے گا

مگر جو کچھ نہیں، وہ سب یہاں باقی رہے گا

 

سفر ہو گا سفر کی منزلیں معدوم ہوں گی

مکاں باقی نہ ہو گا لا مکاں باقی رہے گا

 

کبھی قریہ بہ قریہ اور کبھی عالم بہ عالم

غبارِ ہجرتِ بے خانماں باقی رہے گا

 

ہمارے ساتھ جب تک درد کی دھڑکن رہے گی

ترے پہلو میں ہونے کا گماں باقی رہے گا

 

بہت بے اعتباری سے گزر کر دل ملے ہیں

بہت دن تک تکلف درمیاں باقی رہے گا

 

رہے گا آسماں جب تک زمیں باقی رہے گی

زمیں قائم ہے جب تک آسماں باقی رہے گا

 

یہ دنیا حشر تک آباد رکھی جا سکے گی

یہاں ہم سا جو کوئی خوش بیاں باقی رہے گا

 

جنوں کو ایسی عمرِ جاوداں بخشی گئی ہے

قیامت تک گروہِ عاشقاں باقی رہے گا

 

تمدن کو بچا لینے کی مہلت اب کہاں ہے

سر گرداب کب تک بادباں باقی رہے گا

 

کنارہ تا کنارہ ہو کوئی یخ بستہ چادر

مگر تہہ میں کہیں آبِ رواں باقی رہے گا

 

ہمارا حوصلہ قائم ہے جب تک سائباں ہے

خدا جانے کہاں تک سائباں باقی رہے گا

 

تجھے معلوم ہے یا کچھ ہمیں اپنی خبر ہے

سو ہم مر جائیں گے تُو ہی یہاں باقی رہے گا

٭٭٭

 

 

 

 

لفظوں کے برتنے میں بہت صرف ہوا میں

اک مصرعۂ تازہ بھی مگر کہہ نہ سکا میں

 

اک دستِ رفاقت کی طلب لے کے بڑھا میں

انبوہِ طرحدار میں اک شور اُٹھا میں!

 

آ تجھ کو تقابل میں الجھنے سے بچا لوں

سب کچھ ہے تری ذات میں، باقی جو بچا میں

 

میں اور کہاں خود نگری یاد ہے تجھ کو

جب تُو نے مرا نام لیا میں نے کہا میں؟

 

میں ایک بگولہ سا اٹھا دشتِ جنوں سے

روکا مجھے دنیا نے بہت پر نہ رُکا میں

 

یا مجھ سے گزاری نہ گئی عمرِ گریزاں

یا عمرِ گریزاں سے گزارا نہ گیا میں

 

معلوم ہوا مجھ میں کوئی رمز نہیں ہے

اک عمرِ ریاضت سے گزرنے پہ کھلا میں

 

جو رات بسر کی تھی مرے ہجر میں تُو نے

اُس رات بہت دیر ترے ساتھ رہا میں

٭٭٭

 

 

 

 

اِدھر کچھ دن سے دل کی بے کلی کم ہو گئی ہے

تری خواہش ابھی ہے تو سہی، کم ہو گئی ہے

 

نظر دھندلا رہی ہے یا مناظر بجھ رہے ہیں

اندھیرا بڑھ گیا یا روشنی کم ہو گئی ہے

 

ترا ہونا تو ہے بس ایک صورت کا اضافہ

ترے ہونے سے کیا تیری کمی کم ہو گئی ہے

 

خموشی کو جنوں سے دست برداری نہ سمجھو

تجسس بڑھ گیا ہے سر کشی کم ہو گئی ہے

 

ترا ربط اپنے گرد و پیش سے اتنا زیادہ

تو کیا خوابوں سے اب وابستگی کم ہو گئی ہے

 

سرِ طاقِ تمنا بجھ گئی ہے شمعِ امّید

اُداسی بڑھ گئی ہے بے دلی کم ہو گئی ہے

 

سبھی زندہ ہیں اور سب کی طرح میں بھی ہوں زندہ

مگر جیسے کہیں سے زندگی کم ہو گئی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

یا ملاقات کے امکان سے باہر ہو جا

یا کسی دن مری فرصت کو میسّر ہو جا

 

تجھ کو معلوم نہیں ہے مری خواہش کیا ہے

مجھ پہ احسان نہ کر اور سبک سر ہو جا

 

ارتقا کیا تری قسمت میں نہیں لکھا ہے؟

اب تمنّا سے گزر میرا مقدّر ہو جا

 

بے حسی گر تری فطرت ہے تو ایسا کبھی کر

اپنے حق میں بھی کسی روز تُو پتھر ہو جا

 

اس سے پہلے تو غزل بھی تھی گریزاں مجھ سے

حالتِ دل تُو ذرا اور بھی ابتر ہو جا

 

میں جہاں پاؤں رکھوں واں سے بگولا اُٹھّے

ریگِ صحرا مری وحشت کے برابر ہو جا

 

اے مرے حرفِ سخن تُو مجھے حیراں کر دے

تُو کسی دن مری امید سے بڑھ کر ہو جا

٭٭٭

 

 

 

 

 

دل کے پردے پہ چہرے ابھرتے رہے، مسکراتے رہے، اور ہم سو گئے

تیری یادوں کے جھونکے گزرتے رہے، تھپتھپاتے رہے، اور ہم سو گئے

 

یاد آتا رہا کوچۂ رفتگاں، سر پہ سایہ فگن ہجر کا آسماں

نا رسائی کے صدمے اترتے رہے، دل جلاتے رہے، اور ہم سو گئے

 

ہجر کے رت جگوں کا اثر یوں ہوا، وصلِ جاناں کا لمحہ بسر یوں ہوا

دوش پر اُس کے گیسو بکھرتے رہے، گدگداتے رہے، اور ہم سو گئے

 

کیسے تجدیدِ عہدِ وفا کیجئے، غم مزا دے رہے ہیں سو کیا کیجئے

در پہ آ کے وہ اکثر ٹھہرتے رہے، کھٹکھٹاتے رہے، اور ہم سو گئے

 

اوّل اوّل تو ہر شب قیامت ہوئی، رفتہ رفتہ ہمیں ایسی عادت ہوئی

گھر کے آنگن میں غم رقص کرتے رہے، غل مچاتے رہے، اور ہم سو گئے

٭٭٭

 

 

 

 

چاند بھی کھویا کھویا سا ہے تارے بھی خوابیدہ ہیں

آج فضا کے بوجھل پن سے لہجے بھی سنجیدہ ہیں

 

جانے کن کن لوگو سے اس درد کے کیا کیا رشتے تھے

ہجر کی اس آباد سرا میں سب چہرے نادیدہ ہیں

 

اتنے برسوں بعد بھی دونوں کیسے ٹوٹ کے ملتے ہیں

تُو ہے کتنا سادہ دل اور ہم کتنے پیچیدہ ہیں

 

سن جاناں ہم ترکِ تعلق اور کسی دن کر لیں گے

آج تجھے بھی عجلت سی ہے ہم بھی کچھ رنجیدہ ہیں

 

کانوں میں اک سرگوشی ہے بے معنی سی سرگوشی

آنکھوں میں کچھ خواب سجے ہیں خواب بھی صبح رسیدہیں

 

گھر کی وہ مخدوش عمارت گر کے پھر تعمیر ہوئی

اب آنگن میں پیڑ ہیں جتنے سارے شاخ بریدہ ہیں

 

اس بستی میں ایک سڑک ہے جس سے ہم کو نفرت ہے

اس کے نیچے پگڈنڈی ہے جس کے ہم گرویدہ ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

نظر کو پھر کوئی چہرہ دکھایا جا رہا ہے

یہ تم خود ہو کہ مجھ کو آزمایا جا رہا ہے

 

بہت آسودگی سے روز و شب کٹنے لگے ہیں

مجھے معلوم ہے مجھ کو گنوایا جا رہا ہے

 

سرِ مژگاں بگولے آ کے واپس جا رہے ہیں

عجب طوفان سینے سے اٹھایا جا رہا ہے

 

مرا غم ہے اگر کچھ مختلف تو اِس بنا پر

مرے غم کو ہنسی میں کیوں اڑایا جا رہا ہے؟

 

بدن کس طور شامل تھا مرے کارِ جنوں میں؟

مرے دھوکے میں اِس کو کیوں مٹایا جا رہا ہے؟

 

وہ دیوارِ انا جس نے مجھے تنہا کیا تھا

اُسی دیوار کو مجھ میں گرایا جا رہا ہے

 

مری خوشیوں میں تیری اِس خوشی کو کیا کہوں میں؟

چراغِ آرزو تجھ کو بجھایا جا رہا ہے

 

خرد کی سادگی دیکھو کہ ظاہر حالتوں سے

مری وحشت کا اندازہ لگایا جا رہا ہے

 

ابھی اے بادِ وحشت اس طرف کا رخ نہ کرنا

یہاں مجھ کو بکھرنے سے بچایا جا رہا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

مراسم کی ضرورت خندہ پیشانی کہاں تک ہے

رویّوں کی اذیّت ناک یکسانی کہاں تک ہے

 

ذرا آنسو رکیں تو میں بھی دیکھوں اس کی آنکھوں میں

اُداسی کس قدر ہے اور پشیمانی کہاں تک ہے

 

نہ جانے انکشافِ ذات سے خود مجھ پہ کیا گزرے

کسے معلوم تابِ چشمِ حیرانی کہاں تک ہے

 

کہیں تو جا کے سمٹے گا ترا کارِ جہاں بانی

کبھی تُو بھی تو دیکھے گا کہ ویرانی کہاں تک ہے

 

کبھی تو چند لمحے خود سے باہر بھی بسر کر لوں

ذرا دیکھوں تو وحشت کی فراوانی کہاں تک ہے

 

کسے معلوم بعد از باریابی کیا تماشا ہو

خبر کیا نا رسائی کی یہ آسانی کہاں تک ہے

 

کبھی وہ بے حجابانہ ملے تو پھر کھلے مجھ پر

کہ میرے بس میں آخر دل کی جولانی کہاں تک ہے

 

تلاطم خیزیِ خواہش نہ تھی اُس کے تخاطب میں

مگر آنکھیں بتاتی تھیں کہ طغیانی کہاں تک ہے

 

کہاں تک دل کو میں اس یاد پر معمور رکھوں گا

مرے ذمّے ترے غم کی نگہبانی کہاں تک ہے

 

رفو گر! میں تو شہرِ عشق سے باہر نہیں جاتا

میں کیا جانوں کہ رسمِ چاک دامانی کہاں تک ہے

٭٭٭

 

 

 

 

چھلک رہی ہے جو مجھ میں وہ تشنگی ہی نہ ہو

وہ شے جو دل میں فراواں ہے بے دلی ہی نہ ہو

 

گزر رہا ہے تُو کس سے گریز کرتا ہوا

ٹھہر کے دیکھ لے اے دل کہیں خوشی ہی نہ ہو

 

ترے سکوت سے بڑھ کر نہیں ہے تیرا سخن

مرا سخن بھی کہیں میری خامشی ہی نہ ہو

 

میں شہرِ جاں سے اُسی کی طرف ہی لوٹوں گا

یہ اور بات کہ اب میری واپسی ہی نہ ہو

 

وہ آج مجھ سے کوئی بات کہنے والا ہے

میں ڈر رہا ہوں کہ یہ بات آخری ہی نہ ہو

 

نہ ہو وہ شخص مزاجاً ہی سرد مہر کہیں

میں بے رُخی جسے کہتا ہوں بے حسی ہی نہ ہو

 

یہ کیا سفر ہے کہ جس کی مسافتیں گُم ہیں

عجب نہیں کہ مری ابتدا ہوئی ہی نہ ہو

 

ہر اعتبار سے رہتا ہے با مراد وہ دل

امید جس نے کبھی اختیار کی ہی نہ ہو

 

عجیب ہے یہ مری لا تعلقی جیسے

جو کر رہا ہوں بسر میری زندگی ہی نہ ہو

 

یہ شعلگی تو صفت ہے الم نصیبوں کی

جو غم نہ ہو تو کسی دل میں روشنی ہی نہ ہو

 

کہیں غرور کا پردہ نہ ہو یہ کم سخنی

یہ عجز اصل میں احساسِ برتری ہی نہ ہو

 

مرے سپرد کیا اُس نے فیصلہ اپنا

یہ اختیار کہیں میری بے بسی ہی نہ ہو

٭٭٭

 

 

 

تیری یاد کی خوشبو نے بانہیں پھیلا کر رقص کیا

کل تو اک احساس نے میرے سامنے آ کر رقص کیا

 

اپنی ویرانی کا سارا رنج بھلا کر صحرا نے

میری دل جوئی کی خاطر خاک اُڑا کر رقص کیا

 

پہلے میں نے خوابوں میں پھیلائی درد کی تاریکی

پھر اُس میں اک جھلمل روشن یاد سجا کر رقص کیا

 

دیواروں کے سائے آ کر میری جلو میں ناچ اُٹھے

میں نے اُس پُر ہول گلی میں جب بھی جا کر رقص کیا

 

اُس کی آنکھوں میں بھی کل شب ایک تلاش مجسم تھی

میں نے بھی کیسے بازو لہرا لہرا کر رقص کیا

 

اُس کا عالم دیکھنے والا تھا جس دم اک ہُو گونجی

پہلے پہل تو اُس نے کچھ شرما شرما کر رقص کیا

 

رات گئے جب ستاٹا سرگرم ہُوا تنہائی میں

دل کی ویرانی نے دل سے باہر آ کر رقص کیا

 

دن بھر ضبط کا دامن تھامے رکھا خوش اسلوبی سے

رات کو تنہا ہوتے ہی کیا وجد میں آ کر رقص کیا

 

مجھ کو دیکھ کے ناچ اُٹھی اک موج بھنور کے حلقے میں

نرم ہوا نے ساحل پر اک نقش بنا کر رقص کیا

 

بے خوابی کے سائے میں جب دو آنکھیں بے عکس ہوئیں

خاموشی نے وحشت کی تصویر اٹھا کر رقص کیا

 

کل عرفان کا ذکر ہُوا جب محفل میں، تو دیکھو گے

یاروں نے ان مصرعوں کو دہرا دہرا کر رقص کیا

٭٭٭

 

 

 

 

ملے گا کیا تجھے تازہ یہ سلسلہ کر کے

ابھی تو زخم بھرے ہیں خدا خدا کر کے

 

ہمیں بھی روز جگاتی تھی آ کے ایک مہک

چمن میں کوئی ہمارا بھی تھا صبا کر کے

 

سخن میں تیرے تغافل سے آ گیا یہ ہنر

ذرا سا غم بھی سناتے ہیں سانحہ کر کے

 

اُداس تھے سو ترے در پہ آ کے بیٹھ گئے

فقیر ہیں سو چلے جائیں گے صدا کر کے

 

ابھی ہوئی ہے پلک سے پلک ذرا مانوس

ابھی نہ جا مجھے اس خواب سے رہا کر کے

 

عجب نہیں کہ کوئی بات مجھ میں ہو میری

کبھی تو دیکھ مجھے خود سے تُو جدا کر کے

٭٭٭

 

 

 

 

کوئی نغمہ بنو چاندنی نے کہا، چاندنی کیلیے ایک تازہ غزل

کوئی تازہ غزل، پھر کسی نے کہا، پھر کسی کے لیے ایک تازہ غزل

 

زخمِ فرقت کو پلکوں سے سیتے ہوئے، سانس لینے کی عادت میں ‌جیتے ہوئے

اب بھی زندہ تم، زندگی نے کہا، زندگی کیلیے ایک تازہ غزل

 

اس کی خواہش پہ تم کو بھروسہ بھی ہے، اس کے ہونے نہ ہونے کا جھگڑا بھی ہے

لطف آیا تمھیں، گمرہی نے کہا، گمرہی کیلیے ایک تازہ غزل

 

ایسی دنیا میں کب تک گزارا کریں، تم ہی کہہ دو کہ کیسے گوارا کریں

رات مجھ سے مری بے بسی نے کہا، بے بسی کیلیے ایک تازہ غزل

 

منظروں سے بہلنا ضروری نہیں، گھر سے باہر نکلنا ضروری نہیں

دل کو روشن کرو، روشنی نے کہا، روشنی کیلیے ایک تازہ غزل

 

میں عبادت بھی ہوں، میں محبت بھی ہوں، زندگی کی نمو کی علامت بھی ہوں

میری پلکوں پہ ٹھہری نمی نے کہا، اس نمی کیلیے ایک تازہ غزل

 

آرزوؤں کی مالا پرونے سے ہیں، یہ زمیں آسماں ‌میرے ہونے سے ہیں

مجھ پہ بھی کچھ کہو، آدمی نے کہا، آدمی کیلیے ایک تازہ غزل

 

اپنی تنہائی میں رات میں تھا مگن، ایک آہٹ ہوئی دھیان میں دفعتاً

مجھ سے باتیں کرو، خامشی نے کہا، خامشی کیلیے ایک تازہ غزل

 

جب رفاقت کا ساماں بہم کر لیا، میں نے آخر اسے ہم قدم کر لیا

اب مرے دکھ سہو، ہمرہی نے کہا، ہمرہی کیلیے ایک تازہ غزل

٭٭٭

 

 

 

 

ڈرا رہا ہے مسلسل یہی سوال مجھے

گزار دیں گے یونہی کیا یہ ماہو سال مجھے

 

بچھڑتے وقت اضافہ نہ اپنے رنج میں کر

یہی سمجھ کہ ہُوا ہے بہت ملال مجھے

 

وہ شہر ہجر عجب شہر پُر تحیّر تھا

بہت دنوں میں تو آیا ترا خیال مجھے

 

تُو میرے خواب کو عجلت میں رائگاں نہ سمجھ

ابھی سخن گہ امکاں سے مت نکال مجھے

 

کسے خبر کہ تہہ خاک آگ زندہ ہو

ذرا سی دیر ٹھہر، اور دیکھ بھال مجھے

 

کہاں کا وصل کہ اِس شہر پُر فشار میں اب

ترا فراق بھی لگنے لگا محال مجھے

 

اِسی کے دم سے تو قائم ابھی ہے تار نفس

یہ اک امید، کہ رکھتی ہے پُر سوال مجھے

 

کہاں سے لائیں بھلا ہم جواز ہم سفری

تجھے عزیز ترے خواب، اپنا حال مجھے

 

ابھر رہا ہوں میں سطح عدم سے نقش بہ نقش

تری ہی جلوہ گری ہوں، ذرا اُجال مجھے

 

یہاں تو حبس بہت ہے، سو گرد باد جنوں

مدار وقت سے باہر کہیں اچھال مجھے

 

پھر اُس کے بعد نہ تُو ہے، نہ یہ چراغ، نہ میں

سحر کی پہلی کرن تک ذرا سنبھال مجھے

٭٭٭

 

 

 

 

 

ہونے کا اظہار نہیں ہے، صرف خیال میں زندہ ہوں

عمر کا کچھ احوال نہیں ہے اور مآل میں زندہ ہوں

 

ٹھیک ہے میرا ہونا تیرے ہونے سے مشروط نہیں

لیکن اتنا یاد رہے میں ایک ملال میں زندہ ہوں

 

اپنا دل برباد کیا تو پھر یہ گھر آباد ہوا

پہلے میں اک عرش نشیں تھا اب پاتال میں زندہ ہوں

 

اک امکان کی بے چینی سے ایک محال کی وحشت تک

میں کس حال میں زندہ تھا اور میں کس حال میں زندہ ہوں

 

دنیا میری ذات کو چاہے رد کر دے، تسلیم کرے

میں تو یوں بھی تیرے غم کے استدلال میں زندہ ہوں

 

کتنی جلدی سمٹا ہوں میں وسعت کی اس ہیبت سے

کل تک عشق میں زندہ تھا میں آج وصال میں زندہ ہوں

 

ایک فنا کی گردش ہے یہ ایک بقا کا محور ہے

ایک دلیل نے مار دیا ہے ایک سوال میں زندہ ہوں

٭٭٭

 

 

 

 

شکستِ خواب کا ہمیں ملال کیوں نہیں رہا

بچھڑ گئے تو پھر ترا خیال کیوں نہیں رہا

 

اگر یہ عشق ہے تو پھر وہ شدتیں کہاں گئیں

اگر یہ وصل ہے تو پھر محال کیوں نہیں رہا

 

وہ زلف زلف رات کیوں بکھر بکھر کے رہ گئی

وہ خواب خواب سلسلہ بحال کیوں نہیں رہا

 

وہ سایہ جو بجھا تو کیا بدن بھی ساتھ بجھ گیا

نظر کو تیرگی کا اب ملال کیوں نہیں رہا

 

وہ دور جس میں آگہی کے در کھلے تھے کیا ہوا

زوال تھا تو عمر بھر زوال کیوں نہیں رہا

 

کہیں سے نقش بجھ گئے کہیں سے رنگ اڑ گئے

یہ دل ترے خیال کو سنبھال کیوں نہیں رہا

٭٭٭

 

 

 

 

جاگتے ہیں تری یاد میں رات بھر، ایک سنسان گھر، چاندنی، اور میں

بولتا کوئی کچھ بھی نہیں ہے مگر، ایک زنجیر در، خامشی، اور میں

 

اک اذّیت میں رہتے ہوئے مستقل، ایک لمحے کو غافل نہیں ذہنو دل

کچھ سوالات ہیں اِن کے پیش نظر، انتہا کی خبر، آگہی، اور میں

 

تیری نسبت سے اب یاد کچھ بھی نہیں، اُس تعلق کی رُوداد کچھ بھی نہیں

اب جو سوچوں تو بس یاد ہے اِس قدر، ایک پہلی نظر، تشنگی، اور میں

 

اُس کو پانے کی اب جستجو بھی نہیں، جستجو کیا کریں آرزو بھی نہیں

شوق آوارگی بول جائیں کدھر، ہو گئے دربدر، زندگی، اور میں

 

لمحہ لمحہ اُجڑتا ہُوا شہر جاں، لحظہ لحظہ ہوئے جا رہے ہیں دھواں

پھول، پتّے، شجر، منتظر چشم تر، رات کا یہ پہر، روشنی، اور میں

 

کس مسافت میں ہوں دیکھ میرے خدا، ایسی حالت میں تُو میری ہمت بندھا

یہ کڑی رہگزر، رائیگانی کا ڈر، مضمحل بال و پر، بے بسی، اور میں

 

گفتگو کا بہانہ بھی کم رہ گیا، رشتۂ لفظو معنیٰ بھی کم رہ گیا

ہے یقیناً کسی کی دعا کا اثر، آج زندہ ہیں گر، شاعری، اور میں

٭٭٭

 

 

 

 

سمجھوتہ کوئی وقت سے کرنے کا نہیں میں

اب ترکِ مراسم سے بھی ڈرنے کا نہیں میں

 

زنجیر کوئی لا مری وحشت کے برابر

اس حلقۂ مژگاں میں ٹھہرنے کا نہیں میں

 

کل رات عجب دشتِ بلا پار کیا ہے

سو بادِ سحر سے تو سنورنے کا نہیں میں

 

کیوں مملکتِ عشق سے بے دخل کیا تھا

اب مسندِ غم سے تو اترنے کا نہیں میں

 

دم بھر کے لیے کوئی سماعت ہو میسّر

بے صوت و صدا جاں سے گزرنے کا نہیں میں

 

اب چشمِ تماشا کو جھپکنے نہیں دینا

اس بار جو ڈوبا تو ابھرنے کا نہیں میں

 

ہر شکل ہے مجھ میں مری صورت کے علاوہ

اب اس سے زیادہ تو نکھرنے کا نہیں میں

٭٭٭

 

 

 

 

رفتگاں کی صدا نہیں، میں ہوں

یہ ترا واہمہ نہیں، میں ہوں

 

تیرے ماضی کے ساتھ دفن کہیں

میرا اک واقعہ نہیں، میں ہوں

 

کیا ملا انتہا پسندی سے؟؟

کیا میں تیرے سِوا نہیں؟ میں ہوں !

 

ایک مدّت میں جا کے مجھ پہ کھُلا

چاند حسرت زدہ نہیں، میں ہوں !!

 

اُس نے مجھ کو محال جان لیا

میں یہ کہتا رہا، نہیں، میں ہوں !

 

میں ہی عجلت میں آ گیا تھا اِدھر

یہ زمانہ نیا نہیں، میں ہوں !!

 

میری وحشت سے ڈر گئے شاید؟

یار۔ ۔ باد فنا نہیں، میں ہوں !!

 

میں ترے ساتھ رہ گیا ہوں کہیں

وقت ٹھہرا ہُوا نہیں، میں ہوں

 

گا ہے گا ہے سخن ضروری ہے

سامنے آئینہ نہیں، میں ہوں !

 

سرسری کیوں گزارتا ہے مجھے؟

یہ مرا ماجرا نہیں، میں ہوں !!!

 

اُس نے پوچھا، کہاں گیا وہ شخص؟

کیا بتاتا؟ کہ تھا نہیں، میں ہوں؟

 

یہ کسے دیکھتا ہے مجھ سے اُدھر؟

تیرے آگے خلا نہیں، میں ہوں !!!

٭٭٭

 

 

 

 

کوئی بتائے کہ وہ کیسے اشتباہ میں ہے

جو قید کر کے مجھے خود مری پناہ میں ہے

 

مقابلہ ہے مرا دوپہر کی حدت سے

بس ایک شام کا منظر مری سپاہ میں ہے

 

تری تمام ریا کاریوں سے واقف ہوں

یقین کر کہ بڑا لطف اس نباہ میں ہے

 

مرے سلوک میں شامل نہیں ہے بے خبری

ہر ایک شخص کا منصب مری نگاہ میں ہے

 

وہ سادہ دل ہے اُسے کیا خبر زمانے کی

خبر جو ہو بھی تو کیا حرج انتباہ میں ہے

 

ضمیر سے تو ابھی تک ہے خاکداں روشن

یہی چراغ مرے خیمۂ سیاہ میں ہے

 

میں معترف ہوں روایت کی پاسداری کا

کجی تو حسبِ ضرورت مری کلاہ میں ہے

 

سپردگی مری فطرت کے ہے خلاف مگر

یہ انکسار ترے غم کی بارگاہ میں ہے

 

ترے لیے بھی کوئی فیصلہ میں کر لوں گا

ابھی تو شوق تمنا کی سیرگاہ میں ہے

٭٭٭

 

 

 

 

مرے خواب سے اوجھل اُس کا چہرہ ہو گیا ہے

میں ایسا چاہتا کب تھا پر ایسا ہو گیا ہے

 

تعلق اب یہاں کم ہے ملاقاتیں زیادہ

ہجومِ شہر میں ہر شخص تنہا ہو گیا ہے

 

تری تکمیل کی خواہش تو پوری ہو نہ پائی

مگر اک شخص مجھ میں بھی ادھورا ہو گیا ہے

 

جو باغِ آرزو تھا اب وہی ہے دشتِ وحشت

یہ دل کیا ہونے والا تھا مگر کیا ہو گیا ہے

 

میں سمجھا تھا سیئے گی آگہی چاکِ جنوں کو

مگر یہ زخم تو پہلے سے گہرا ہو گیا ہے

 

میں تجھ سے ساتھ بھی تو عمر بھر کا چاہتا تھا

سو اب تجھ سے گلہ بھی عمر بھر کا ہو گیا ہے

 

ترے آنے سے آیا کون سا ایسا تغیر

فقط ترکِ مراسم کا مداوا ہو گیا ہے

 

مرا عالم اگر پوچھیں تو اُن سے عرض کرنا

کہ جیسا آپ فرماتے تھے ویسا ہو گیا ہے

 

میں کیا تھا اور کیا ہوں اور کیا ہونا ہے مجھ کو

مرا ہونا تو جیسے اک تماشا ہو گیا ہے

 

یقیناً ہم نے آپس میں کوئی وعدہ کیا تھا

مگر اس گفتگو کو ایک عرصہ ہو گیا ہے

 

اگرچہ دسترس میں آ گئی ہے ساری دنیا

مگر دل کی طرف بھی ایک در وا ہو گیا ہے

 

یہ بے چینی ہمیشہ سے مری فطرت ہے لیکن

بقدرِ عمر اس میں کچھ اضافہ ہو گیا ہے

 

مجھے ہر صبح یاد آتی ہے بچپن کی وہ آواز

چلو عرفانؔ اٹھ جاؤ سویرا ہو گیا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

رزق کی جستجو میں کسے تھی خبر، تو بھی ہو جائے گا رائیگاں یا اخی

تیری آسودہ حالی کی امید پر، کر گئے ہم تو اپنا زیاں یا اخی

 

جب نہ تھا یہ بیابان دیوارو در، جب نہ تھی یہ سیاہی بھری رہگذر

کیسے کرتے تھے ہم گفتگو رات بھر، کیسے سنتا تھا یہ آسماں یا اخی

 

جب یہ خواہش کا انبوہ وحشت نہ تھا، شہر اتنا تہی دست فرصت نہ تھا

کتنے آباد رہتے تھے اہل ہنر، ہر نظر تھی یہاں مہرباں یا اخی

 

یہ گروہ اسیران کذب و ریا، بندگان درم، بندگان انا

ہم فقط اہل دل، یہ فقط اہل زر، عمر کیسے کٹے گی یہاں یا اخی

 

خود کلامی کا یہ سلسلہ ختم کر، گوش و آواز کا فاصلہ ختم کر

اک خموشی ہے پھیلی ہوئی سر بسر، کچھ سخن چاہیئے درمیاں یا اخی

 

جسم کی خواہشوں سے نکل کر چلیں، زاویہ جستجو کا بدل کر چلیں

ڈھونڈنے آگہی کی کوئ رہگذر، روح کے واسطے سائباں یا اخی

 

ہاں کہا تھا یہ ہم نے بچھڑتے ہوئے، لوٹ آئیں گے ہم عمر ڈھلتے ہوئے

ہم نے سوچا بھی تھا واپسی کا مگر، پھر یہ سوچا کہ تو اب کہاں یا اخی

 

خود شناسی کے لمحے بہم کب ہوئے، ہم جو تھے درحقیقت وہ ہم کب ہوئے

تیرا احسان ہو تو بتا دے اگر، کچھ ہمیں بھی ہمارا نشاں یا اخی

 

قصۂ رنجو حسرت نہیں مختصر، تجھ کو کیا کیا بتائے گی یہ چشم تر

آتش غم میں جلتے ہیں قلب و جگر، آنکھ تک آ رہا ہے دھواں یا اخی

 

عمر کے باب میں اب رعایت کہاں، سمت تبدیل کرنے کی مہلت کہاں

دیکھ باد فنا کھٹکھٹاتی ہے در، ختم ہونے کو ہے داستاں یا اخی

 

ہو چکا سب جو ہونا تھا سود و زیاں، اب جو سوچیں تو کیا رہ گیا ہے یہاں

اور کچھ فاصلے کا یہ رخت سفر، اور کچھ روز کی نقد جاں یا اخی

 

تو ہمیں دیکھ آ کر سر انجمن، یوں سمجھ لے کہ ہیں جان بزم سخن

اک تو روداد دلچسپ ہے اس قدر، اور اس پر ہمارا بیاں یا اخی

٭٭٭

 

 

 

 

وہ چہرہ پُر یقیں ہے، گرد سا ہوتے ہوئے بھی

میں سرتاپا گماں ہوں آئنہ ہوتے ہوئے بھی

 

وہ اک روزن قفس کا جس میں کرنیں ناچتی تھیں

مری نظریں اُسی پر تھیں، رہا ہوتے ہوئے بھی

 

مرے قصّے کی بے رونق فضا مجھ میں نہیں ہے

میں پُر احوال ہوں، بے ماجرا ہوتے ہوئے بھی

 

شرف حاصل رہا ہے مجھ کو اُس کی ہمرہی کا

بہت مغرور ہوں میں خاک پا ہوتے ہوئے بھی

 

وہ چہرہ جگمگا اُٹھا نشاط آرزو سے

وہ پلکیں اُٹھ گئیں بار حیا ہوتے ہوئے بھی

 

مجھے تُو نے بدن سمجھا ہُوا تھا، ورنہ میں تو

تری آغوش میں اکثر نہ تھا، ہوتے ہوئے بھی

 

چلا جاتا ہوں دل کی سمت بھی گا ہے بگاہے

میں اِن آسائشوں میں مبتلا ہوتے ہوئے بھی

 

عجب وسعت ہے شہر عشق کی وسعت، کہ مجھ کو

جُنوں لگتا ہے کم، بے انتہا ہوتے ہوئے بھی

 

اگر تیرے لیے دنیا بقا کا سلسلہ ہے

تو پھر تُو دیکھ لے مجھ کو فنا ہوتے ہوئے بھی

 

مسلسل قُرب نے کیسا بدل ڈالا ہے تجھ کو

وہی لہجہ، وہی نازو ادا ہوتے ہوئے بھی

 

وہ غم جس سے کبھی میں اور تم یکجا ہوئے تھے

بس اُس جیسا ہی اک غم ہے جُدا ہوتے ہوئے بھی

 

نہ جانے مستقل کیوں ایک ہی گردش میں گم ہوں

میں رمز عشق سے کم آشنا ہوتے ہوئے بھی

٭٭٭

 

 

 

 

طلب تو جزو تمنا کبھی رہی بھی نہیں

سو اب کسی کے نہ ہونے سے کچھ کمی بھی نہیں

 

ہمیں تمہاری طرف روز کھینچ لاتی تھی

وہ ایک بات، جو تم نے کبھی کہی بھی نہیں

 

وہ سب خیال کے موسم کسی نگاہ سے تھے

سو اب خوشی بھی نہیں، دل گرفتگی بھی نہیں

 

وہ ایک پل ہی سہی، جس میں تم میسر ہو

اُس ایک پل سے زیادہ تو زندگی بھی نہیں

 

کسی کی سمت کچھ ایسے بڑھی تھی چشم طلب

صدائے دل پہ پلٹتی تو کیا، رُکی بھی نہیں

 

یہ جانتے، تو مزاج آشنا ہی کیوں ہوتے

جو روز تھا وہ سخن اب کبھی کبھی بھی نہیں

 

ہزار تلخ مراسم سہی، پہ ہجر کی بات

اُسے پسند نہ تھی، اور ہم نے کی بھی نہیں

 

سُنا رہے ہو ہمیں کس نگاہ ناز کے غم

ہم اُس کے سامنے ہوتے تو پوچھتی بھی نہیں

 

کرم کیا کہ رُکے تم نگاہ بھر کے لیے

نظر کو اِس سے زیادہ کی تاب تھی بھی نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

یونہی بے یقیں یونہی بے نشاں، مری آدھی عمر گزر گئی

کہیں ہو نہ جاؤں میں رائگاں، مری آدھی عمر گزر گئی

 

کبھی سائباں نہ تھا بہم، کبھی کہکشاں تھی قدم قدم

کبھی بے مکاں کبھی لا مکاں، مری آدھی عمر گزر گئی

 

ترے وصل کی جو نوید ہے، وہ قریب ہے کہ بعید ہے

مجھے کچھ خبر تو ہو جانِ جاں، مری آدھی عمر گزر گئی

 

کبھی مجھ کو فکرِ معاش ہے، کبھی آپ اپنی تلاش ہے

کوئی گُر بتا مرے نکتہ داں، مری آدھی عمر گزر گئی

 

کبھی ذکرِ حرمتِ حرف میں، کبھی فکرِ آمد و صرف میں

یونہی رزق و عشق کے درمیاں، مری آدھی عمر گزر گئی

 

کوئی طعنہ زن مری ذات پر، کوئی خندہ زن کسی بات پر

پئے دل نوازیِ دوستاں، مری آدھی عمر گزر گئی

 

ابھی وقت کچھ مرے پاس ہے، یہ خبر نہیں ہے قیاس ہے

کوئی کر گلہ مرے بد گماں، مری آدھی عمر گزر گئی

 

اُسے پا لیا اُسے کھو دیا، کبھی ہنس دیا کبھی رو دیا

بڑی مختصر سی ہے داستاں، مری آدھی عمر گزر گئی

 

تری ہر دلیل بہت بجا، مگر انتظار بھی تا کجا

ذرا سوچ تو مرے رازداں، مری آدھی عمر گزر گئی

 

کہاں کائنات میں گھر کروں، میں یہ جان لوں تو سفر کروں

اسی سوچ میں تھا کہ ناگہاں، مری آدھی عمر گزر گئی

٭٭٭

 

 

 

 

 

خانۂ دل کی طرح ساری فضا ہے کہ نہیں

کس کو معلوم کہ باہر بھی ہوا ہے کہ نہیں

 

جشن برپا تو ہوا تھا دمِ رخصت لیکن

وہی ہنگامہ مرے بعد بپا ہے کہ نہیں

 

پوچھتا ہے یہ ہر اک خار سرِ دشتِ طلب

آنے والا بھی کوئی آبلہ پا ہے کہ نہیں

 

دیکھ تو جا کہ مسیحائے غمِ عشق اُسے

ہاتھ اب تک یونہی سینے پہ دھرا ہے کہ نہیں

 

دل کے تاریک در و بام سے اکثر ترا غم

پوچھتا ہے کہ کوئی میرے سوا ہے کہ نہیں

 

میں کہیں ہوں کہ نہیں ہوں، وہ کبھی تھا کہ نہ تھا

خود ہی کہہ دے یہ سخن بے سر و پا ہے کہ نہیں

 

فیصلہ لوٹ کے جانے کا ہے دشوار بہت

کس سے پوچھوں وہ مجھے بھول چکا ہے کہ نہیں

 

میں تو وارفتگیِ شوق میں جاتا ہوں اُدھر

نہیں معلوم وہ آغوش بھی وا ہے کہ نہیں

 

جانے کیا رنگ چمن کا ہے دمِ صبحِ فراق

گُل کھلے ہیں کہ نہیں بادِ صبا ہے کہ نہیں

 

اے شبِ ہجر ذرا دیر کو بہلے تو یہ دل

دیکھ عرفانؔ کہیں نغمہ سرا ہے کہ نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

سر صحرائے یقیں شہر گماں چاہتے ہیں

ہم کسی شئے کو بھی موجود کہاں چاہتے ہیں

 

جس سے اٹھتے ہیں قدم راہ جنوں خیز میں تیز

ہم بھی شانے پہ وہی بار گراں چاہتے ہیں

 

رخ نہ کر جانب دنیا، کہ اسیران نظر

تجھ کو ہر دم اسی جانب نگراں چاہتے ہیں

 

ایسے گرویدہ کہاں ہیں لبو رخسار کے ہم

ہم تو بس قربت شیریں سخناں چاہتے ہیں

 

چاہتے ہیں، کہ وہ تا عمر رہے پیش نظر

ایک تصویر سر آب رواں چاہتے ہیں

 

جس میں سیراب ہیں آنکھیں، جہاں آباد ہیں دل

ہم اسی شہر تخیل میں مکاں چاہتے ہیں

 

راز ہستی سے جو پردہ نہیں اٹھتا، نہ اٹھے

آپ کیوں اپنے تجسس کا زیاں چاہتے ہیں

 

شام ہوتے ہی لگاتے ہیں در دل پہ صدا

آبلہ پا ہیں، اکیلے ہیں، اماں چاہتے ہیں

 

دور عرفان رہو ان سے کہ جو اہل ہنر

التفات نگہ کم نظراں چاہتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

تجھ کو چشمِ تحیّر سے تکتا ہوا، صرف میں ہی نہیں آئنہ بھی تو ہے

جانِ من حُسن کی بات اپنی جگہ، مسئلہ کوئی اس کے سوا بھی تو ہے

 

دشتِ فرقت کی اس تشنگی تک نہیں، آزمائش فقط ہجر ہی تک نہیں

اس سے آگے تمنا کے اظہار کا، ایک دشوار تر مرحلہ بھی تو ہے

 

میرا لہجہ تعلق سے بھرپور تھا، اور چہرہ تاثر سے معمور تھا

خال و خد سے اُدھر لفظ سے ماورا، ایک احوالِ بے ماجرا بھی تو ہے

 

حُسن تیرا بہت جاں فزا ہی سہی، روح پرور سہی خوش ادا ہی سہی

سن مگر دل رُبا تیرا نغمہ سرا، دیکھتا ہی نہیں سوچتا بھی تو ہے

 

حرف کی جستجو میں پگھلتا رہا، شاعرِ خوش نوا روز جلتا رہا

تُو سنے تو سنے ورنہ ہر بات کا، سننے والا کہیں اک خدا بھی تو ہے

 

کس قدر خوش نفس، کس قدر خوش ادا، یاد کے پھول کھلتے ہوئے جا بہ جا

عشق کی راہ میں غم اگر ہیں تو کیا، عشق کے دم سے ایسی فضا بھی تو ہے

 

وہ توقع پہ پورا اترتا نہیں، میں اگر چپ رہوں تو سمجھتا نہیں

یوں تو کہنے کو ہے وہ مرا ہم نوا، اک سخن کا مگر فاصلہ بھی تو ہے

 

وہ نہیں تو سخن کی ضرورت نہیں، مجھ کو سب سے تکلّم کی عادت نہیں

ہجر سے کچھ سوا ہے مرا واقعہ، حرف کی موت کا سانحہ بھی تو ہے

٭٭٭

 

 

 

 

جنوں کے دم سے آخر مرتبہ کیسا ملا مجھ کو

ابھی فرہاد و قیس آئے تھے کہنے مرحبا مجھ کو

 

کسی صورت بھی رد ہوتا نہیں یہ فیصلہ دل کا

نظر آتا نہیں کوئی بھی تجھ سا دوسرا مجھ کو

 

سرِ کنجِ تمنا پھر خوشی سے گنگناؤں گا

اگر وہ لوٹ کر آئے تو پھر تم دیکھنا مجھ کو

 

نہ جانے رشک سے، غصے سے، غم سے یا رقابت سے

یہ کس انداز سے تکتا ہے تیرا آئنہ مجھ کو

 

کھلے تو سب زمانوں کے خزانے ہاتھ آ جائیں

درِ اقلیمِ صد عالم ہے وہ بندِ قبا مجھ کو

 

گماں میں بھی گماں لگتی ہے اب تو زندگی میری

نظر آتا ہے اب وہ خواب میں بھی خواب سا مجھ کو

 

کثافت بار پا سکتی نہیں ایسی لطافت میں

کرم اُس کا کہ بخشا دل کے بدلے آئنہ مجھ کو

 

صبا میری قدم بوسی سے پہلے گُل نہ دیکھے گی

اگر وحشت نے کچھ دن باغ میں رہنے دیا مجھ کو

 

نہ نکلی آج گر کوئی یہاں یکجائی کی صورت

تو کل سے ڈھونڈتے پھرنا جہاں میں جا بہ جا مجھ کو

 

گزر گاہِ نفس میں ہوں مثالِ برگِ آوارہ

کوئی دم میں اڑا لے جائے گی بادِ فنا مجھ کو

 

وہ دل آویز آنکھیں، وہ لب و رخسار، وہ زلفیں

نہیں اب دیکھنا کچھ بھی نہیں اس کے سوا مجھ کو

 

ازل سے تا ابد، دنیا سے لے کر آسمانوں تک

نظر آتا ہے تیری ہی نظر کا سلسلہ مجھ کو

 

مرے ہونے سے ہی کچھ اعتبار اس کا بھی قائم ہے

جنوں تم سے نمٹ لے گا جو دیوانہ کہا مجھ کو

 

کوئی عرفانؔ مجھ میں سے مجھے آواز دیتا ہے

ارے تُو سوچتا کیا ہے کبھی کچھ تو بتا مجھ کو

٭٭٭

 

 

 

 

 

بتاتا ہے مجھے آئینہ کیسی بے رُخی سے

کہ میں محروم ہوتا جا ریا ہوں روشنی سے

 

کسے الزام دوں میں رائگاں ہونے کا اپنے

کہ سارے فیصلے میں نے کیے اپنی خوشی سے

 

ہر اک لمحہ مجھے رہتی ہے اک تازہ شکایت

کبھی تجھ سے، کبھی خود سے، کبھی اِس زندگی سے

 

مجھے کل تک بہت خواہش تھی خود سے گفتگو کی

میں چھپتا پھر رہا ہوں آج اپنے آپ ہی سے

 

وہ بے کیفی کا عالم ہے کہ دل یہ چاہتا ہے

کہیں روپوش ہو جاؤں اچانک، خامشی سے

 

سکون خانۂ دل کے لیے کچھ گفتگو کر

عجب ہنگامہ برپا ہے تری لب بستگی سے

 

تعلق کی یہی صورت رہے گی کیا ہمیشہ؟

میں اب اُکتا چکا ہوں تیری اِس وارفتگی سے

 

جو چاہے وہ ستم مجھ پر روا رک ہے یہ دنیا

مجھے یوں بھی توقع اب نہیں کچھ بھی کسی سے

 

ترے ہونے نہ ہونے پر کبھی پھر سوچ لوں گا

ابھی تو میں پریشاں ہوں خود اپنی ہی کمی سے

 

رہا وہ ملتفت میری طرف، پر اُن دنوں میں

خود اپنی سمت دیکھے جا رہا تھا بے خودی سے

 

کوئی خوش فکر سا تازہ سخن بھی درمیاں رکھ

کہاں تک دل کو بہلاؤں میں تیری دلکشی سے؟

 

کرم تیرا، کہ یہ مہلت مجھے کچھ دن کی بخشی

مگر میں تجھ سے رخصت چاہتا ہوں آج ہی سے

 

وہ دن بھی تھے تجھے میں والہانہ دیکھتا تھا

یہ دن بھی ہیں تجھے میں دیکھتا ہوں بے بسی سے

 

ابھی عرفانؔ آنکھوں کو بہت کچھ دیکھنا ہے

تمہیں بے رنگ کیوں لگنے لگا ہے سب ابھی سے؟

٭٭٭

 

 

 

 

زندہ ہوں اور ہجر کا آزار تک نہیں

وہ کام کر رہا ہوں جو دشوار تک نہیں

 

اب میں ہوں اور تجھ کو منانے کی جستجو

کچھ بھی نہیں ہے راہ میں، پندار تک نہیں

 

یعنی مرا وجود ہی مشکوک ہو گیا

اب تو میں اپنے آپ سے بیزار تک نہیں

 

لَو بھی تھکن سے چُور ہوئی ہے، دماغ بھی

اور آسماں پہ صبح کے آثار تک نہیں

 

اقرار کر کے اُس کو نبھانا کسے نصیب

اس عمر میں تو مہلتِ انکار تک نہیں

 

تھی جس کی پور پور مری لمس آشنا

اب یاد اُس کے گیسو و رخسار تک نہیں

 

اس بے کراں خلا میں نگاہوں کو کیا کروں

اب تو نظر کے سامنے دیوار تک نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

تخیل اور ہے، نا دیدہ بینی اور ہوتی ہے

یہ تنہائی ہے بس، خلوت نشینی اور ہوتی ہے

 

عجب دھڑکا لگا رہتا ہے دل کو اُس کی فرقت میں

مگر وہ پاس ہو تو بے یقینی اور ہوتی ہے

 

سیہ چشمی حسینوں کی تو ویسے بھی قیامت ہے

مگر پاسِ حیا کی سرمگینی اور ہوتی ہے

 

گریز اُس کا بجائے خود ادائے خاص ہے لیکن

خمارِ وصل کی ناز آفرینی اور ہوتی ہے

 

نہیں مشروط کارِ عاشقاں ترکِ سکونت سے

میاں، اہلِ جنوں کی نا مکینی اور ہوتی ہے

 

ہمیں اہلِ جہاں ویسے تو کب کیا کچھ نہیں کہتے

مگر احبابِ دل کی نکتہ چینی اور ہوتی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

بہت خجل ہیں کہ ہم رائگاں بھی زندہ رہے

جہاں پہ تُو بھی نہیں تھا وہاں بھی زندہ رہے

 

عجیب شرط ہے اس بے یقیں مزاج کی بھی

کہ تُو بھی پاس ہو تیرا گماں بھی زندہ رہے

 

تجھے یہ ضد ہے مگر اس طرح نہیں ہوتا

کہ تُو بھی زندہ رہے داستاں بھی زندہ رہے

 

وہ کون لوگ تھے جن کا وجود جسم سے تھا

یہ کون ہیں جو پسِ جسم و جاں بھی زندہ رہے

 

جو یہ نہ ہو تو سخن کا کوئی جواز نہیں

ضمیر زندہ رہے تو زباں بھی زندہ رہے

 

یہ کائنات فقط منفعت کا نام نہیں

یہاں پہ کوئی برائے زیاں بھی زندہ رہے

 

عدم میں جو بھی نہیں تھا وہ سب وجود میں تھا

یہ ہم ہی تھے جو کہیں درمیاں بھی زندہ رہے

٭٭٭

 

 

 

 

ایسا احوال محبت میں کہاں تھا پہلے

دل تھا برباد مگر جائے اماں تھا پہلے

 

ایک امکان میں رُو پوش تھا سارا عالم

میں بھی اُس گرد تحیّر میں نہاں تھا پہلے

 

ایک خوشبو سی کیے رہتی تھی حلقہ میرا

جیسے اطراف کوئی رقص کناں تھا پہلے

 

اُس نے مجھ سا کبھی ہونے نہ دیا تھا مجھ کو

کیا تغیّر مری جانب نگراں تھا پہلے

 

اب فقط میرے سخن میں ہے جھلک سی باقی

ورنہ یہ رنگ تو چہرے سے عیاں تھا پہلے

 

کون مانے گا کہ مجھ ایسا سراپا تسلیم

سر برآوردۂ آشفتہ سراں تھا پہلے

 

کون یہ لوگ ہیں ناواقف آداب و لحاظ

تیرا کوچہ تو رہ دل زدگاں تھا پہلے

 

اب تو اک دشت تمنّا کے سِوا کچھ بھی نہیں

کیسا قُلزم مرے سینے میں رواں تھا پہلے

 

اب کہیں جا کے یہ گیرائی ہوئی ہے پیدا

تجھ سے ملنا تو توجّہ کا زیاں تھا پہلے

 

جانے ہے کس کی اداسی مری وحشت کی شریک

مجھ کو معلوم نہیں، کون یہاں تھا پہلے

 

میں نے جیسے تجھے پایا ہے وہ میں جانتا ہوں

اب جو تُو ہے، یہ فقط میرا گُماں تھا پہلے

 

دل ترا راز کسی سے نہیں کہنے دیتا

ورنہ خود سے یہ تعلق بھی کہاں تھا پہلے

 

اب جو رہتا ہے سر بزم سخن مہر بہ لب

یہی عرفان عجب شعلہ بیاں تھا پہلے

٭٭٭

 

 

 

 

دم بخود میری انا تیری ادا بھی دم بخود

تیرے پہلو میں رہا میں اور رہا بھی دم بخود

 

دیکھئے پہلے لہو ٹپکے کہ پھیلیں کرچیاں

دم بخود تیری نظر بھی آئنہ بھی دم بخود

 

اتنا سنّاٹا ہے کہ جیسے اوّلیں شامِ فراق

دم بخود ہے آسماں بھی اور ہَوا بھی دم بخود

 

یاد ہے تجھ کو وہ پہلے لمس کی حدّت کہ جب

رہ گئی تھی دفعتاً تیری حیا بھی دم بخود

 

ایک سے عالم میں دونوں مختلف اسباب سے

دم بخود تیرا کرم میری دعا بھی دم بخود

 

ایسا لگتا ہے کہ دونوں سے نہیں نسبت مجھے

دم بخود عمرِ رواں سیلِ فنا بھی دم بخود

 

رقص کرنے پر تُلی ہیں ہجر کی ویرانیاں

دم بخود سارے دیئے بھی غم کدہ بھی دم بخود

 

جب کھلے میری حقیقت تم وہ منظر دیکھنا

دم بخود نا آشنا بھی آشنا بھی دم بخود

٭٭٭

 

 

 

 

مری کم مائیگی کو ترے ذوق نے دولتِ حرفِ تازہ بیاں سونپ دی

میں کہ ٹھہرا گدائے دیارِ سخن مجھ کو یہ ذمّہ داری کہاں سونپ دی

 

قاصدِ شہرِ دل نے مرے خیمۂ خواب میں آ کے مجھ سے کہا جاگ جا

بادشاہِ جنوں نے تجھے آج سے لشکرِ اہلِ غم کی کماں سونپ دی

 

میرا ذوقِ سفر یوں بھی منزل سے بڑھ کر کسی ہمرہی کا طلب گار تھا

اس لیے وصل کے موڑ پر ہجر کو اُس نے رہوارِ دل کی عناں سونپ دی

 

تشنگی کو مرے شوق کی لہر نے کس سرابِ نظر کے حوالے کیا

کیسے بنجر یقیں کو مرے خواب نے اپنی سر سبز فصلِ گماں سونپ دی

 

احتیاطِ نظر اور وضعِ خرد کے تقاضوں کی تفصیل رہنے ہی دے

یہ مجھے بھی خبر ہے کہ میں نے تجھے اپنی وارفتگی رائگاں سونپ دی

 

اپنے ذوقِ نظر سے تری چشمِ حیراں کو تازہ بہ تازہ مناظر دیے

تیرے پہلو میں دھڑکن جگانے کی خاطر ترے جسم کو اپنی جاں سونپ دی

 

رازداری کی مہلت زیادہ نہ ملنے پہ احباب سب مجھ سے ناراض ہیں

قصہ گو مجھ سے خوش ہیں کہ میں اُنہیں ایک پُر ماجرا داستاں سونپ دی

 

میری وحشت پسندی کو آرائشِ زلف و رخسار و ابرو کی فرصت کہاں

تُو نے کس بے دلی سے یہ امید کی یہ کسے خدمتِ مہ وشاں سونپ دی

 

دل پہ جب گُل رُخوں اور عشوہ طرازوں کی یلغار کا زور بڑھنے لگا

میں نے گھبرا کے آخر تری یاد کو اپنی خلوت گہِ بے اماں سونپ دی

 

کار گاہِ زمانہ میں جی کو لگانے سے آخر خسارہ ہی مقدور تھا

یہ بھی اچھا ہوا میں نے یہ زندگی تیرے غم کو برائے زیاں سونپ دی

 

اُس نے ذوقِ تماشا دیا عشق کو خوشبوؤں کو صبا کے حوالے کیا

مجھ رفاقت طلب کو نگہبانیِ دشتِ وحشت کراں تا کراں سونپ دی

 

مجھ میں میرے سوا کوئی تھا جو ہوس کے تقاضے نبھانے پہ مائل بھی تھا

میں نے بھی تنگ آ کر اُسی شخص کو ناز برداریِ دلبراں سونپ دی

 

ایک امکان کیا گنگنایا مرے چند اشعار میں حرفِ اظہار میں

میں یہ سمجھا خدائے سخن نے مجھے مسندِ بزمِ آئندگاں سونپ دی

٭٭٭

 

 

 

 

یہاں تکرار ساعت کے سوا کیا رہ گیا ہے

مسلسل ایک حالت کے سوا کیا رہ گیا ہے

 

تمہیں فرصت ہو دنیا سے، تو ہم سے آ کے ملنا

ہمارے پاس فرصت کے سوا کیا رہ گیا ہے

 

ہمارا عشق بھی اب ماند ہے، جیسے کہ تم ہو

تو یہ سودا رعایت کے سوا کیا رہ گیا ہے

 

بہت نادم کیا تھا ہم نے اک شیریں سخن کو

سو اب خود پر ندامت کے سوا کیا رہ گیا ہے

 

بہت ممکن ہے کچھ دن میں اسے ہم ترک کر دیں

تمہارا قرب عادت کے سوا کیا رہ گیا ہے

 

کہاں لے جائیں اے دل ہم تری وسعت پسندی

کہ اب دنیا میں وسعت کے سوا کیا رہ گیا ہے

 

سلامت ہے کوئی خواہش، نہ کوئی یاد زندہ

بتا اے شام، وحشت کے سوا کیا رہ گیا ہے

 

کسی آہٹ میں آہٹ کے سوا کچھ بھی نہیں اب

کسی صورت میں صورت کے سوا کیا رہ گیا ہے

 

بہت لمبا سفر طے ہو چکا ہے ذہنو دل کا

تمہارا غم، علامت کے سوا کیا رہ گیا ہے

 

اذیت تھی، مگر لذت بھی کچھ اس سے سوا تھی

اذیت ہے، اذیت کے سوا کیا رہ گیا ہے

 

ہمارے درمیاں ساری ہی باتیں ہو چکی ہیں

سو اب ان کی وضاحت کے سوا کیا رہ گیا ہے

 

بجا کہتے ہو تم، ہونی تو ہو کر ہی رہے گی

تو ہونے کو قیامت کے سوا کیا رہ گیا ہے

 

شمارو بے شماری کے تردد سے گزر کر

مآل عشق، وحدت کے سوا کیا رہ گیا ہے

٭٭٭

 

 

 

فرد فرد

 

 

تعلق کو نبھانے کے بہت دُکھ سہہ چکے ہم

سو باقی عمر اپنے ساتھ رہنا چاہتے ہیں

ایک ملال تو ہونے کا ہے، ایک نہ ہونے کا غم ہے

شہرِ وجود سے بابِ عدم تک، ایک سا ہُو کا عالم ہے

تحیر خیز موجیں ہیں نہ پُر ہیبت تلاطم

عجب اک بے تغیر بے کرانی رہ گئی ہے

تکمیل تو زوال کا پہلا پڑاؤ ہے

خود کو اسی سبب سے مکمل نہیں کیا

بے رنگ ترے در سے کب، خاک بسر اٹھے

یا پیراہنِ گُل میں، یا خون میں تر اٹھے

چلے آئے ہیں آنکھوں میں کسی کا عکس پا کر

یہ آنسو آج پھر کوئی تماشا چاہتے ہیں

جس دن سے روزگار کو سب کچھ سمجھ لیا

راتیں خراب ہو گئیں اور دن سنور گئے

کچھ آنکھ بھی ہے سطح سے آگے کی کھوج میں

کچھ دل بھی اک خیال میں ڈوبا ہوا سا ہے

بے رونقی سے کوچہ و بازار بھر گئے

آوارگانِ شہر کہاں جا کے مر گئے

ہمیں بھی سودا کہاں تھا ایسا کہ اپنے دل میں ملا ل رکھتے

اگر تُو اپنا خیال رکھتا تو ہم بھی اپنا خیال رکھتے

بہارِ جاں سے تجھے باریاب کر دیں گے

نظر اٹھائیں گے چہرہ گلاب کر دیں گے

خیالِ ترکِ تعلق جو ہو، تو مل لینا

کسی دعا کو ترا ہم رکاب کر دیں گے

اک عکس کھو گیا ہے مرے دن کے پیچ میں

اک خواب میری رات سے الجھا ہوا ساہے

قدم جما نہ سکا رہگزارِ وقت پہ میں

میں اک اُچٹتا سا لمحہ، مری کہانی کیا

زندگی ہم سے ہی روشن ہے یہ آئینہ ترا

ہم جو مشّاطۂ وحشت کے سنوارے ہوئے ہیں

بڑھ کے آغوش میں بھر لے ہمیں اے روحِ وصال

آج ہم پیرہنِ خاک اتارے ہوئے ہیں

٭٭٭

ماخذ:

http://sukhansara.com/%D8%B3%D8%AE%D9%86-%D8%B3%D8%B1%D8%A7-%D9%BE%D8%B1-%D8%AE%D9%88%D8%B4-%D8%A7%D9%93%D9%85%D8%AF%DB%8C%D8%AF/newposts/%D8%B9%D8%B1%D9%81%D8%A7%D9%86-%D8%B3%D8%AA%D8%A7%D8%B1/%D8%AA%DA%A9%D8%B1%D8%A7%D8%B1%D9%90-%D8%B3%D8%A7%D8%B9%D8%AA-%D8%A7%D8%B2-%D8%B9%D8%B1%D9%81%D8%A7%D9%86-%D8%B3%D8%AA%D8%A7%D8%B1/

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید