FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

سانپوں کا شنشہ

 

 

                ظفر سید

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

 

 

بدیسی پیڑ

 

سنو پیارے بچو، جہاں ہم کھڑے ہیں، یہاں آج سے سال ہا سال قبل ایک شہر ایسا آباد تھا جس کے چرچے زمانے کے وردِ زباں تھے۔

یہاں آسماں ایسا شفاف تھا اس میں سب مہ جبیں اپنی صورت تکا کرتے تھے۔ اس کی گلیاں سرِ شام زلفوں کے عنبر سے رچتی تھیں، آب و ہوا معتدل اور کثافت سے عاری تھی۔ برسات کے موسموں میں یہاں سے وہاں شہر کے شہر میں سبزہ ہلکورے لے لے کے بچوں، بڑوں کے دلوں میں تراوٹ کے موتی کھلاتا تھا۔

لیکن خدا کا یہ کرنا ہوا اس خداداد بستی کے فرماں روا کو ولایت کی سوجھی۔ وہاں اس نے اک دن کسی پیڑ کی اک نہایت حسیں نسل دیکھی، بہت دل کو بھائی۔۔۔ وطن واپسی پر وہ اس پیڑ کی چند قلمیں بھی سامان میں رکھ کے لایا۔

ابھی چند ہی سال گزرے تھے، بستی کے باشندوں پر اک انوکھا مرض حملہ آور ہوا۔ رات دن چھینکتے چھینکتے، کھانستے کھانستے ہی گزرتے تھے۔۔۔ آنکھوں میں مرچیں سی بھر جایا کرتی تھیں۔۔۔ سینے سے سانسوں کے کانٹے نکلتے نہیں تھے۔

پھر اک روز تنگ آ کے کلہاڑیاں لے کے خلقِ خدا اس بدیسی حسین پیڑ کی فصل پر پِل پڑی۔ صبح سے شام تک۔۔۔ شام سے صبح تک۔۔۔ کاٹتے کاٹتے بانہیں شل ہو گئیں، کندھے سن ہو گئے۔

پر جہاں پیڑ کی شاخ گرتی۔۔۔ وہاں ایک اکھوا نیا پھوٹتا تھا۔۔۔

سو بچو، جہاں تم افق تا افق سبز کائی میں لپٹے کھنڈر دیکھتے ہو۔۔۔ یہاں آج سے سال ہا سال قبل ایک شہر ایسا آباد تھا جس کے چرچے زمانے کے وردِ زباں تھے۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

شہر آشوبِ پشاور

 

 

پھولوں کے نگر میرے

چاہتوں کے گھر میرے

اے مرے پشاور آج

یاد تیری آتی ہے

 

تیرے نام کا مطلب

پھولوں کا نگر تھا کبھی

پشپاپور میرے تو

جگ میں نام ور تھا کبھی

قافلوں کی منزل تھا

منڈلی قصہ خوانوں کی

زندگی کا حاصل تھا

شیر دل جوانوں کی

زندگی کے پانچ برس

تیری بانہوں میں گزرے

اولین جوانی کے

شوخ سپنوں میں گزرے

سادگی و سادہ دلی

تھیں روایتیں تیری

صاف گوئی، بے باکی

خاص عادتیں تیری

شاعروں کا ڈیرا تھا

صوفیوں کا مسکن تو

مطربوں کا مرکز تھا

گل رخوں کا گل بن تو

شہرِ گل، مرے تجھ پر

سحر کون بول گیا

لگ گئی ہے کس کی نظر

زہر کون گھول گیا

کیا سے کیا بنا ہے تو

حشر کیسا گزرا ہے

تیرا بھولا چہرہ مجھے

اجنبی سا لگتا ہے

شہرِ گل تری سڑکیں

اٹ گئی ہیں کانٹوں سے

تیرے پھول اور کلیاں

جل گئے ہیں شعلوں سے

تیرے کوچے اور گلیاں

بھر گئے ہیں چیخوں سے

ہے دھواں دھواں سا فلک

سوختہ زمیں تیری

بھر گئی ہے کالک سے

چاند سی جبیں تیری

دور ہو کے بھی مجھ کو

تیرا غم ستاتا ہے

کھولتے ہوئے اخبار

دل کو ہول آتا ہے

آج تیری مٹی سے

بو لہو کی آتی ہے

خبروں کی ہر اک سرخی

مجھ کو خوں رلاتی ہے

 

پھولوں کے نگر میرے

چاہتوں کے گھر میرے

اے مرے پشاور آج

یاد تیری آتی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

تنکا

 

 

 

جگوں سے ترے در کے آگے کھڑا ہوں میں

اک دائمی پیاس لے کر

بجھی آس لے کر

مرے جلتے ماتھے کو

صندل ہتھیلی کی سوغات دے

میرے تن کے بیاباں کو

شبنم گلابوں کے باغات دے

میری چھاتی کے بنجر کو اکرام کی سبز برسات دے

 

شک کی سرحد پہ بھٹکے ہوئے کارواں کو

جرس کی صداؤں سے مسحور کر

روح کے تشنہ پیالے کو معمور کر

تیرہ آنگن کو جگ مگ چنبیلی سے پرنور کر

ایک موہوم سی بوند کو بے کراں کر

مری سُونی دہلیزکو اپنے درشن کی مدرا سے مخمور کر

خشک مٹی کی ڈھیری کو

اپنے مہکتے ہوئے لمس سے جاوداں کر

 

قیامت کے کہرام میں اک ٹھٹھرتی صدا

برف پاتال میں ٹمٹماتا دیا

تند صدیوں کے جھکڑ میں اڑتی ہوئی ایک دھجی

زمانے کے سیلاب میں ڈوبتی ڈوبتی زندگی

 

۔۔۔ کوئی تنکا عطا کر

٭٭٭

 

 

 

 

چادر

 

 

 

رات کے بارہ بجے تھے

نیند آنکھوں میں کسی آوارہ بدلی کی طرح آتی تھی، اور انگلی چھڑا کر بھاگ جاتی تھی

اچانک ذہن میں اک نظم کا کوندا سا لپکا

ہڑبڑا کر، پھینک کر چادر میں اٹھا

میز پر سے پین اٹھایا اور کاپی کھول کر

کاغذ پہ پہلا حرف لفظ لکھنا چاہتا ہی تھا

یکایک کان میں آواز آئی

 

’’اے میاں شاعر

ذرا تخلیق کے گھوڑے سے اترو

ایک پل ٹھہرو، کہو کیا لکھ رہے ہو؟

میرے ماتھے پر سیاہی تھوپنے سے پیشتر

سینے پہ اپنا ہاتھ رکھ یہ بتاؤ

تم جو لکھو گے

وہ کیا اس اجلے اجلے پاک دامن سے بھی افضل ہے؟‘‘

 

یہ سن کر رک گیا میں

میز پر آگے کی جانب جھک گیا میں

سوچ کے گہرے بھنور میں کھو گیا میں

۔۔۔ اٹھ کے پھر بتی بجھا کے

اور چادر کے مطابق پاؤں کو پھیلا کے

گہری نیند کی آغوش میں گم ہو گیا میں

٭٭٭

 

 

 

 

 

زمیں آسماں

 

بڑے ملک کے اک بڑے شہر کی

تنگ و تیرہ گلی میں کھڑا ہوں

فلک

اونچے برجوں کے بھالوں سے کٹ کر افق تا افق کرچی کرچی پڑا ہے

زمیں

پاؤں کے نیچے بدمست کشتی کی مانند ہچکولے کھاتی ہے

 

اور میں کھڑا سوچتا ہوں

کہ دستار کو دونوں ہاتھوں سے تھاموں

کہ فٹ پاتھ کی گرتی دیوار سے

اپنے سر کو بچاؤں

٭٭٭

 

 

 

 

بہروپیا

 

شاعر نے اس نظم کا ایک عنوان ’پلوٹو‘ بھی دیا ہے)

 

 

مرے پیارے بچے

بڑا ظلم تم پر ہوا ہے

بہ یک جنبشِ سر تمہیں اپنی مسند سے معزول ہونا پڑا ہے

سمجھ میں نہیں آتا ایسی خطا کیا ہوئی تم سے

مانا کہ تم آٹھ کے آٹھ بھائیوں سے ٹھگنے تھے

یا پھر تمہارا ٹھکانا مقرر نہیں تھا

تم اپنی حدوں سے بھٹک کر کسی اور کے دائرے میں

در انداز ہوتے تھے

 

پاتال کی منجمد آتماؤں کے داروغہ

میں جانتا ہوں تمہارے بدن پر سے اندوہ کا سیل گزرا ہے

لیکن مری بات کا مت برا ماننا

میں اگر یہ کہوں تم ازل ہی سے اس مسندِ عالیہ کے تقدس کے لائق نہیں تھے

سو جتنے برس تم نے اس سوانگ میں کروفر سے گزارے ہیں

ان پر قناعت کرو

 

اور زمیں کے کسی دورافتادہ گوشے میں

مکتب کو جاتے ہوئے ایک بچے کی آنکھوں سے

یہ بات سن کر

اگر ایک آنسو گرا ہے

اسے سینت کر طاقچے میں سجا لو

خلاؤں کی بے نور یخ بے کرانی میں اک دن

یہ تارا تمہارا سہارا بنے گا

٭٭٭

 

 

 

 

پیغام

 

بڑے جتنوں سے

چمٹی سے پکڑ کر

حرف کے جگ مگ نگینے

سادہ کاغذ کی انگوٹھی میں جڑے ہیں

فاعلاتن فاعلن فعلن کا سرکش اونٹ مشکل سے سدھایا ہے

علامت، استعارہ، پیکر و تشبیہ کی چولیں بٹھائی ہیں

 

یہی تعویذ اب الفاظ کی بوتل میں رکھ کر

وقت کے ساگر کی لہروں کے حوالے کر رہا ہوں

 

دور دیسوں کے سہانے ساحلوں کی ایک رنگیں شام

یہ پیغام

یہ الہام

اترے گا

٭٭٭

 

 

 

 

معما

 

کبھی میں نظم لکھنے بیٹھتا ہوں جب

رجسٹر کھول کر، پنسل ترش کر

میز پر کہنی جما کر

اور ابھی تاریخ ہی کاغذ پر لکھ پاتا ہوں

یک دم وہ مری کرسی کے پیچھے آ دھمکتی ہے

حنا آلود ہاتھوں سے مری آنکھوں کو ڈھکتی ہے

تو اس کی گرم سانسوں سے

مری گردن پگھلتی ہے۔۔۔

وہ مجھ سے چھین کر پنسل

سبھی سطریں مکمل کرتی جاتی ہے

 

میں پنسل کی سرا سر

اور اس کی چوڑیوں کی کھنکھناہٹ

پی کے مدہوشی میں کھو جاتا ہوں

پھر جب آنکھ کھلتی ہے

مرا دل ایک لمحے کو دھڑکنا بھول جاتا ہے

میں حیرانی سے کاغذ کی طرف جب دیکھتا ہوں

ایک کومل نظم کاغذ سے جھلکتی ہے

میں بیٹھا سوچتا رہتا ہوں

کیا میں نظم لکھتا ہوں

کہ مجھ کو نظم لکھتی ہے؟

٭٭٭

 

 

 

 

برف

 

زمیں پر

پتی

پتی

گر رہی ہے برف

بیری کا اکیلا

پیڑ

چاندی کے شگوفے اوڑھ کر

ساکت

کھڑا ہے

گاؤں سناٹے کی بکل مار کر سوچوں میں گم ہے

میرے آتش دان میں انگار بھوبل اوڑھ کر دبکے پڑے ہیں

اک کبوتر گاؤں بھر میں

پھڑپھڑاتا

اڑ رہا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

نیند

 

 

ایک کبوتر

نیل سمندر

کے ساحل پر

دم لینے کو

اترا پل بھر

لیکن خوابوں

کی چھتری کو

جال سمجھ کر

ایسا پلٹا

دھوپ چڑھے تک

گھر نہیں لوٹا

٭٭٭

 

 

 

 

 

شکاگو

 

بڑے ملک کے اک بڑے شہر کی

تنگ و تیرہ گلی میں کھڑا ہوں

فلک

اونچے برجوں کے بھالوں سے کٹ کر افق تا افق کرچی کرچی پڑا ہے

زمیں

پاؤں کے نیچے بدمست کشتی کی مانند ہچکولے کھاتی ہے

 

اور میں کھڑا سوچتا ہوں

کہ دستار کو دونوں ہاتھوں سے تھاموں

کہ فٹ پاتھ کی گرتی دیوار سے

اپنے سر کو بچاؤں

٭٭٭

 

 

 

دیوار

 

 

سمندر خان، اک پشتو کا شاعر

جا رہا تھا گاؤں سے دور ایک ویرانے میں

یک دم اک جھپاکا سا ہوا،

اور ذہن کے پردے پہ اک دھندلا ہیولا بننے اور مٹنے لگا

پر شومی ِقسمت، قلم ہی جیب میں تھا اور نہ کاغذ کا کوئی پرزہ

سمندر خان رک کر، اور اک پتھر پہ ٹک کر، میچ کر آنکھوں کو

دنیا اور مافیہا سے بیگانہ ہوا

 

پھر شام کو گاؤں کے لوگوں نے عجب نظارہ دیکھا

ڈھلتے سایوںمیںسمندر خان، وہ پشتو کا شاعر

ڈگمگاتا، ہانپتا، اپنے پسینے میں نہاتا

پیٹھ پر دو من کی اک چٹان لادے

گاؤں کی سرحد میں داخل ہو رہا ہے

اور اس کے بعد عادت بن گئی اس کی

سمندر خان ویرانے سے بھاری سل

کوئی جب تک اٹھا کے گھر نہ لاتا تھا

تو اس پر نظم کی اک سطر تک القا نہ ہوتی تھی

 

سو رفتہ رفتہ اس کی کوٹھڑی، دالان اور چھت

ان گھڑی بے ڈھب سلوں کے بوجھ سے دبتے گئے

اک دن سمندر خان، وہ پشتو کا شاعر

کھردری نظموں کے اس انبار کے نیچے دھنسا پایا گیا

٭٭٭

 

 

 

 

داستاں گو

 

میر باقر علی

تم نے پھر بیچ میں داستاں روک دی؟

شاہ گل فام گنجل طلسموں کی گتھیوں کو سلجھاتا

صرصار جنگل کے شعلہ نفس اژدروں سے نمٹتا

بیابانِ حیرت کی بے انت وسعت کو سر کر کے

پہرے پہ مامور یک چشم دیووں کی نظریں ?بچا

سبز قلعے کی اونچی کگر پھاند کر

مہ جبیں کے معنبر شبستان تک آن پہنچا ہے

اور اس طرف حق و طاغوت مدِ مقابل ہیں

آنکھیں جدھر دیکھتی ہیں کلہاڑوں کی، نیزوں کی، برچھوں کی فصلیں کھڑی لہلہاتی نظر آ رہی ہیں

جری سورما آمنے سامنے ہنہناتے ، الف ہوتے گھوڑوں پہ زانو جمائے ہوئے منتظر ہیں

ابھی طبل پر تھاپ پڑنے کو ہے

اور ادھر شاہ زادہ طلسمی محل کے حسیں دودھیا برج میں شاہ زادی کے حجلے کے اندر

ابھی لاجوردی چھپرکھٹ کا زربفت پردہ اٹھا ہی رہا ہے

مگر میر باقر علی ۔۔تم نے پھر بیچ میں داستاں روک دی

راہ داری، منقش در و بام، ست رنگ قالین، بلور قندیل، فوارہ بربط سناتا

جھروکوں پہ لہراتے پردوں کی قوسِ قزح

میمنہ، میسرہ، قلب، ساقہ، جناح

آہنی خود سے جھانکتی مرتعش پتلیاں

رزم گہ کی کڑی دھوپ میں ایک ساکت پھریرا

چھپرکھٹ پہ سوئی ہوئی شاہ زادی کے پیروں پہ مہندی کی بیلیں۔۔۔

فصاحت کے دریا بہاتے چلے جا رہے ہو ۔۔۔

بلاغت کے موتی لٹاتے چلے جا رہے ہو ۔۔۔

مگر میر باقر علی داستاں گو، سنو

داستاں سننے والے تو صدیاں ہوئیں اٹھ کے جا بھی چکے ہیں

تم اپنے طلسماتی قصے

تم اپنے طلسماتی قصے کے پر پیچ تاگوں میں ایسے لپٹتے گئے ہو

کہ تم کو خبر ہی نہیں ۔۔۔

سامنے والی نکڑ پہ اک آنے کی بائیسکوپ آ گئی ہے !

٭٭٭

 

 

 

 

ردی

 

سموسوں کی ریڑھی

سموسوں کی ریڑھی سے آگے

گھڑی ساز کا ٹوٹا کھوکھا

گھڑی ساز کے ٹوٹے کھوکھے سے آگے

کتابوں کی دکان

ردی کتابوں کی دکان

جس میں پرانے رسالے ، کرم خوردہ ناول، پھٹی جلد والی نصابی کتابیں

خجالت زدہ لغزشوں کی طرح بھولی بسری ہوئی

کہنہ لکڑی کے ریکوں میں ٹھونسی ہوئی

اک رسالہ اٹھاؤ تو مٹی کا بادل امڈتا تھا

 

مگر سال دو سال بعد آپ ہی آپ

ردی کتابوں کی دکان میں

چمچماتی، لشکتی کتابوں کی اک کھیپ آتی

مجلد صحیفے ، نفاست سے کاڑھے ہوئے گرد پوشوں میں محفوظ نسخے

نئی کھیپ کی یہ کتابیں الگ کاؤنٹر پر سلیقے سے نقشہ جماتیں

پرانی کتابوں کو نخوت بھری بے نیازی سے تکتیں

 

مجھے ایک دن شیخ رحمت علی(مالکِ ایں دکاں)نے بتایا

کہ جب بھی کتابوں کا عاشق کوئی اس جہاں سے گزرتا ہے

اور اس کی اولاد کو اپنے مرحوم ابا کے کمرے کو بچوں کا بیڈروم، گودام، مہمان خانہ وغیرہ

بنانے کا نادر خیال آتا ہے تو

تڑوا کے مرحوم کے شیلف

عشروں کی محنت ،ورق در ورق جمع کردہ خزانہ

مرے پاس کاروں میں بھر بھر کے لاتے ہیں

دھندا اسی رنگ سے چل رہا ہے

 

بہت خوب دھندا ہے یہ شیخ رحمت

مگر یہ کتابیں، مری یہ کتابیں

مرے روز و شب کے مڑے کونوں والے کیلنڈر

کسی کارنس پر پڑی خستہ یادوں کے البم

(کہ رنگینیاں جن کی گھل گھل کے کاغذ میں حل ہو گئی ہیں)

تپائی پہ سپنوں کی دیمک زدہ جنتری

ارادوں کی الماریوں میں دھری کچے پکے سے منصوبوں کی فائلیں

تشنہ ارمانوں، خفتہ تمناؤں کے ادھڑے ادھڑے رجسٹر

(کہ جن کے ورق پچھلی نقلِ مکانی میں جانے کہاں کھو گئے تھے )

 

شیخ رحمت علی

سائبر دور میں ایسی ردی کو

ردی کی دکاں ملے گی؟

٭٭٭

 

 

 

 

سرخ ہندی سردار بنام جارج واشنگٹن

 

 

بڑے سردار واشنگٹن نے اپنی راج دھانی سے مجھے سندیس بھیجا ہے کہ میں اپنے قبیلے کی زمینیں بیچنا چاہوں تو وہ اس کا بڑا معقول ہدیہ دینے کو تیار ہیں۔

لیکن میں بیٹھا سوچ میں گم ہوں۔ سفید انساں بڑا ہشیار ہے لیکن، زمانے میں زمیں بھی بیچی جاتی ہے ؟ بھلا دھرتی کا بھی بیوپار ہوتا ہے ؟ زمیں میں نے خریدی ہی نہیں، میرا قبیلہ اس پہ صدیوں سے بسیرا کرتا آیا ہے ، اسی کی خاک میں میرے سبھی اجداد کی بوسیدہ خستہ ہڈیاں محفوظ ہیں، میں کس طرح سے سودا کر لوں اس زمیں، اس خاک کا، ان ہڈیوں کا؟

اور ان کو بیچنا چاہوں بھی تو، بتلاؤ اس دھرتی پہ اٹھلاتی ہوا کا دام کیا دو گے ؟ جو نٹ کھٹ ندیاں اس پر مچلتی، کھیلتی، اک دوسری کو چھیڑتی، دریا کی چاہت میں برہ کے گیت گاتی بہہ رہی ہیں، اور اس کے گل بنوں میں یہ جو الھڑ ہرنیوں کی ڈاریں مستی میں کلانچیں مارتی پھرتی ہیں، جن کو دیکھ کر اوپر سے کونجوں کی تکون اک ثانیے کو اپنی منزل سے بھٹک جاتی ہے ، اور کلکاریاں بھر کر کسیلے کالے کوسوں کے سفر پر پھر سے جٹ جاتی ہے ۔۔۔ ان کا دام کیا ہو گا؟

یہاں کے سبزہ زاروں کی ہری مٹیالی چادر پر سنہری، ارغوانی تتلیاں قوسِ قزح اپنے پروں سے کاڑھتی ہیں اور سلونا جھٹ پٹا جب رات کے کاجل میں گھلتا ہے تو جگنو مشعلیں تھامے ہوئے خوشبو سے بوجھل جھاڑیوں کے بیچ میں چُھپن چھپائی کھیلتے ہیں، آخر ان کا بھی تو اس دھرتی پر کچھ حق ہے ۔ یہ سب میری طرح، میرے قبیلے کی طرح اس سرزمیں کے باسی ہیں، پھر ان کا عوضانہ بھلا کیا ہے ؟

سفید انساں بڑا ہشیار ہے ، لیکن مجھے لگتا ہے وہ دن آنے والا ہے جب اس دھرتی کے سب سے آخری کنج میں بھی آدم باس بس جائے گی، جب ہر اک پرندے کو، چرندے کو، درندے کو سدھایا جا چکا ہوگا، فضا جب بولتی لہروں کے لچھوں میں الجھ کر سسکیاں لے گی، مہا ساگر کا سینہ کشتیوں کے خنجروں سے چھلنی ہو جائے گا۔

تب تم عافیت کے ایک لمحے کو بھی ترسو گے ، اور اس لمحے کو پانے کے لیے سب جمع پونچی داؤ پر رکھ دو گے

 

لیکن

وقت کا کیا مول آنکو گے ؟

٭٭٭

 

 

 

صحارا

 

ابھی چوتھا درویش اپنی کہانی سنا ہی رہا تھا کہ یک لخت ہی پانچویں کھونٹ سے ایک جوگی برآمد ہوا اور الاؤ کے نزدیک جا، آلتی پالتی مار کر بیٹھ کے اور گلا صاف کر کے یہ کہنے لگا:

چھوڑو رہنے بھی دو اپنے بھوتوں کے پریوں کے جنوں کے فرسودہ قصے ، بھلا ان میں رکھا ہی کیا ہے ؟ زمانہ کہاں سے کہاں تک چلا آیا ہے ، آج کے دور میں ان کے چکر میں دو سال کا کوئی بچہ ہی آئے تو آئے ۔

سنو داستاں میری، کانوں سے کم اور دلوں سے زیادہ کہ اس میں تمہاری کتھاؤں کا وہ سبزطوطا ہے اب جس کے خوش رنگ دھندلا گئے ہیں۔ سنو، یہ کہانی ہے اک پیڑ کی جو صحارا کے سینے پہ صدیوں سے یوں ایستادہ تھا، جیسے اماوس کی تاریک شب میں بشارت کی کرنیں۔

اک اعزاز حاصل تھا اس کو کہ یہ ساری دنیا کا سب سے اکیلا شجر تھا۔ یہ یکتا، یہ تنہا شجر، جس کے چاروں طرف چار سو کوس کے دائرے میں کہیں گھاس کی خشک پتی، کسی ناگ پھن کا نشاں تک نہیں تھا۔

یہ یکتا، یہ تنہا شجر سالہا سال سے اس بیاباں کی بخشی ہوئی ہر صعوبت کو ہنس ہنس کے سہتا تھا، دھرتی کے سینے کے اندر گزوں تک جڑیں اپنی پھیلا کے پانی کی ہر آخری بوند تک سینچ لاتا تھا اور اس کو ممتا کے آنچل سی مشفق، گھنی چھاؤں میں ڈھال کر راہیوں کے سروں پر سجاتا تھا۔

جب بھی کبھی ’آغادِیز‘ او ر’ بِلما‘ قبیلوں کے سوداگروں کے لدے کارواں اس علاقے میں آتے تو ان کے شکستہ مسافر گھڑی دو گھڑی اس کی چھاؤں میں سستاتے ، اپنا پسینہ سکھاتے تھے ۔

یا پھر کبھی رات کو بھولا بھٹکا کوئی قافلہ اس طرف آ نکلتا، تو اس کے نمک اور ریشم کے تاجر شجر کے تنے سے کمر ٹیک کر اپنے قہوے کے فنجانوں سے چسکیاں لے کے تاروں کی منڈلی کو حیرت سے تکتے تھے ۔ صحرا کی پہنائی میں پھیلے اسرار کی داستانیں سناتے سناتے تھکے راہیوں کے نِنداسی پپوٹوں پہ خوابوں کی شبنم اترتی تھی۔

پھر کیا ہوا، رفتہ رفتہ زمانہ بدلنے لگا اور صحارا ترقی کے فیضان سے بہرہ ور ہو گیا، اس کی وسعت میں اونٹوں کی مسحور کن گھنٹیوں کی جگہ گھرگھراتے ہوئے انجنوں کی صداؤں نے لے لی۔

پھر اک دن کوئی بے مہار اور بدمست چھکڑا اکیلے شجر کے ستم آشنا جسم کو بے دھیانی میں ٹھوکر لگا کر کہیں چل دیا۔

اور اگلے سویرے وہاں سے ’طراقی‘ قبیلے کا اک شخص گزرا تو اس کو یقیں ہی نہیں آیا آنکھوں پہ اپنی۔۔۔ وہ ممتا کا چھتنار آنچل، وہ صحرا کا قطبی ستارہ، زمیں پر کسی بے کفن اور گمنام لاشے کی مانند پڑا تھا۔

یہ کہہ کر وہ جوگی بنا کچھ کہے اور سنے دھند میں کھو گیا اور درویشوں نے ہڑبڑا کر جو چاروں طرف اک نظر کی تو دیکھا کہ اب چارسو کوس کا دائرہ پھیلتے پھیلتے سب کرہ اپنے گھیرے میں لپٹا چکا ہے ، یہاں سے وہاں چار سو لق و دق دشت پھیلا ہوا ہے ، جہاں پر کہیں گھاس کی خشک پتی، کسی ناگ پھن کا نشاں تک نہیں ہے ۔

٭٭٭

 

 

 

 

سانپوں کا شہنشہ

 

گوگا سائیں، ذات کا چوہان، سانپوں کا شہنشہ

سارا دن جنگل میں جا کے

کالے پھنیئر، ڈھائی گھڑیے ، سنگ چور اور کوڑیالے

خالی ہاتھوں سے پکڑ کر

بھر کے بوری میں کمر پر لاد کر گھر لوٹتا تھا

رات کو وہ اینٹھ کر ان شوکتے پٹھوں کو

اپنی چارپائی میں بنا کرتا تھا

اور اس لجلجے ، پھنکارتے بستر پہ ساری شب

مزے کی نیند سوتا تھا

سویرے سانپ اس کی چارپائی سے نکل کر

گاؤں بھر میں پھنپھناتے تھے

اور ان کی سرسراہٹ سے سبھوں کی چھاتیوں میں زلزلے لرزہ مچاتے تھے

یہ منظر گوگا سائیں دیکھتا تھا

اور اس کے قہقہوں کی سرمئی چمگادڑیں مستی میں آ کے رقص کرتی تھیں

کئی برسوں سے یہ معمول جاری تھا

مگر پھر سانپ آخر سانپ ہے آخر

سو اک شب سرپھرا پھنیئر کوئی

سائیں کو گہری نیند کے پاتال میں پا کر

بڑی آہستگی سے آستیں سے نکلا اور پھن کاڑھ کر بچھو کی مانند ڈنک مارا

سارا گاؤں تاڑتا تھا

گوگا سائیں کرب کی شدت سے دیواروں پہ سر اپنا پٹختا، چیختا پھرتا تھا

زہری کوڑیالے ، ڈھائی گھڑیے ، سنگ چور، افعی

بھڑوں کی طرح گوگا سائیں کے پیچھے لگے تھے

منتروں کے شبد اس کی جیبھ سے لٹکے ہوئے تھے

اور بدن ڈنکوں کی نیلی سوئی سے گودا ہوا تھا

آج کل دن رات گوگا سائیں، سانپوں کا شہنشہ، ذات کا چوہان

اپنے جھونپڑے کے ایک کونے میں

پڑا دیوار کو تکتا ہے

اگر رسی کا سایہ بھی سرکتا ہے

تو دس دس گز کلیجہ گوگے سائیں کا تھلکتا ہے

٭٭٭

ماخذ: اردو محفل اور ادبی دنیا ڈاٹ کام

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید