فہرست مضامین
تفہیم القرآن
۴۔ سورۂ الاعراف ، سورۂ الانفال
مولانا ابو الاعلیٰ مودودی
۷۔ الاعراف
نام
اس سورت کا نام اعراف اس لیے رکھا گیا ہے کہ اس کی آیات ۴۶ اور ۴۷ میں اعراف اور اصحاب کا ذکر آیا ہے۔ گویا اسے "سورۂ اعراف” کہنے کا مطلب یہ ہے کہ "وہ سورت جس میں اعراف کا ذکر ہے "۔
زمانۂ نزول
اس کے مضامین پر غور کرنے سے بین طور پر محسوس ہوتا ہے کہ اس کا زمانۂ نزول تقریباً وہی ہے جو سورۂ انعام کاہے۔ یہ بات تو یقین کے ساتھ نہیں کہی جا سکتی کہ یہ پہلے نازل ہوئی یا وہ مگر اندازِ تقریر سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ یہ اسی دور سے متعلق ہے۔ لہٰذا اس کے تاریخی پس منظر کو سمجھنے کے لیے سورۂ انعام کے مضمون پر نگاہ ڈال لینا کافی ہو گا۔
مباحث
اس سورت کی تقریر کا مرکزی مضمون دعوت رسالت ہے ساری گفتگو کا مدعا یہ ہے کہ مخاطبوں کو خدا کے فرستادہ پیغمبر کی پیروی اختیار کرنے پر آمادہ کیا جائے لیکن اس دعوت میں انداز (تنبیہ اور ڈراوے ) کا رنگ زیادہ نمایاں پایا جاتا ہے کیونکہ جو لوگ مخاطب ہیں (یعنی اہل مکہ) انہیں سمجھاتے سمجھاتے ایک طویل زمانہ گزر چکا ہے اور ان کی گراں گوشی، ہٹ دھرمی اور مخالفانہ ضد اس حد کو پہنچ چکی ہے کہ عنقریب پیغمبر کو ان سے مخاطبہ بند کر کے دوسروں کی طرف رجوع کرنے کا حکم ملنے والا ہے۔ اس لیے تفہیمی انداز میں قبولِ رسالت کی دعوت دینے کے ساتھ ان کو یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ جو روش تم نے اپنے پیغمبر کے مقابلے میں اختیار کر رکھی ہے ایسی ہی روش تم سے پہلے کی قومیں اپنے پیغمبروں کے مقابلے میں اختیار کر کے بہت برا انجام دیکھ چکی ہیں۔ پھر چونکہ ان پر حجت تمام ہونے کے قریب آ گئی ہے اس لیے تقریر کے آخری حصہ میں دعوت کا رخ اُن سے ہٹ کر اہل کتاب کی طرف پھر گیا ہے اور ایک جگہ تمام دنیا کے لوگوں سے عام خطاب بھی کیا گیا ہے جو اس بات کی علامت ہے کہ اب ہجرت قریب ہے اور وہ دور جس میں نبی کا خطاب تمام تر اپنے قریب کے لوگوں سے ہوا کرتا ہے، خاتمے پر آ لگا ہے۔ دورانِ تقریر میں چونکہ خطاب کا رخ یہود کی طرف بھی پھر گیا ہے اس لیے ساتھ ساتھ دعوتِ رسالت کے اس پہلو کو بھی واضح کر دیا گیا ہے کہ پیغمبر پر ایمان لانے کے بعد اس کے ساتھ منافقانہ روش اختیار کرنے اور سمع و طاعت کا عہد استوار کرنے کے بعد اسے توڑ دینے اور حق و باطل کی تمیز سے واقف ہو جانے کے بعد باطل پرستی میں مستغرق رہنے کا انجام کیا ہے۔ سورت کے آخری میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور آپ کے صحابہ کو حکمتِ تبلیغ کے متعلق چند اہم ہدایات دی گئی ہیں اور خصوصیت کے ساتھ انہیں نصیحت کی گئی ہے کہ مخالفین کی اشتعال انگیزیوں اور چیرہ دستیوں کے مقابلے میں صبر و ضبط سے کام لیں اور جذبات کے ہیجان میں مبتلا ہو کر کوئی ایسا اقدام نہ کریں جو اصل مقصد کو نقصان پہنچانے والا ہو۔
ترجمہ
ہم نے تمہاری تخلیق کی ابتدا کی، پھر تمہاری صورت بنائی، پھر فرشتوں سے کہا آدم کو سجدہ کرو،۱۰ اس پر سب نے سجدہ کیا مگر ابلیس سجدہ کرنے والوں میں شامل نہ ہوا۔ پوچھا ’’تجھے کس چیز نے سجدہ کرنے سے روکا جب کہ میں نے تجھ کو حکم دیا تھا ؟ ‘‘ بولا ’’ میں اُس سے بہتر ہوں، تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا ہے اور اُسے مٹی سے ‘‘۔ فرمایا، ’’اچھا، تو یہاں سے نیچے اُتر۔ تجھے حق نہیں ہے کہ یہاں بڑائی کا گھمنڈ کرے۔ نکل جا کہ درحقیقت تُو اُن لوگوں میں سے ہے جو اپنی ذلّت چاہتے ہیں۔‘‘ ۱۱ بولا، ’’مجھے اُ س دن تک مہلت دے جب کہ یہ سب دوبارہ اُٹھائے جائیں گے۔ ‘‘ فرمایا، ’’تجھے مہلت ہے۔ ‘‘ بولا، ’’اچھا تو جس طرح تُو نے مجھے گمراہی میں مبتلا کیا ہے میں بھی اب تیری سیدھی راہ پر اِن انسانوں کی گھات میں لگا رہوں گا، آگے اور پیچھے، دائیں اور بائیں، ہر طرف سے اِن کو گھیروں گا اور تو ان میں سے اکثر کو شکر گزار نہ پائے گا۔‘‘ ۱۲ فرمایا، ’’نِکل جا یہاں سے ذلیل اور ٹھکرایا ہوا۔ یقین رکھ کہ اِن میں سے جو تیری پیروی کریں گے، تُجھ سمیت ان سب سے جہنم کو بھر دوں گا۔ اور اے آدم، تُو اور تیری بیوی، دونوں اس جنت میں رہو، جہاں جس چیز کو تمہارا جی چاہے کھاؤ، مگر اس درخت کے پاس نہ پھٹکنا ورنہ ظالموں میں سے ہو جاؤ گے ‘‘۔ پھر شیطان نے اُن کو بہکایا تاکہ ان کی شرمگاہیں جو ایک دُوسرے سے چھپائی گئی تھیں ان کے سامنے کھول دے۔ اس نے ان سے کہا ’’ تمہارے ربّ نے تمہیں جو اس درخت سے روکا ہے اس کی وجہ اِس کے سِوا کچھ نہیں ہے کہ کہیں تم فرشتے نہ بن جاؤ، یا تمہیں ہمیشگی کی زندگی حاصل نہ ہو جائے۔ ‘‘ اور اس نے قسم کھا کر ان سے کہا کہ میں تمہارا سچا خیر خواہ ہوں۔ اس طرح دھوکا دے کر وہ ان دونوں کو رفتہ رفتہ اپنے ڈھب پر لے آیا۔ آخرِ کار جب انہوں نے اس درخت کا مزا چکھا تو ان کے ستر ایک دوسرے کے سامنے کھُل گئے اور وہ اپنے جسموں کو جنّت کے پتّوں سے ڈھانکنے لگے۔ تب ان کے ربّ نے انہیں پکارا ’’ کیا میں نے تمہیں اس درخت سے نہ روکا تھا اور نہ کہا تھا کہ شیطان تمہارا کھُلا دشمن ہے ؟‘‘ دونوں بول اُٹھے ’’اے ربّ! ہم نے اپنے اوپر ستم کیا، اب اگر تُو نے ہم سے درگزر نہ فرمایا اور رحم نہ کیا تو یقیناً ہم تباہ ہو جائیں گے۔ ‘‘ ۱۳فرمایا، ’’اُتر جاؤ،۱۴ تم ایک دُوسرے کے دشمن ہو، اور تمہارے لیے ایک خاص مدّت تک زمین ہی میں جائے قرار اور سامانِ زیست ہے۔ ‘‘اور فرمایا، ’’وہیں تم کو جینا اور وہیں مرنا ہے اور اسی میں سے تم کو آخرِ کار نکالا جائے گا۔‘‘ ؏ ۲
تفسیر
۱۰-تقابل کے لیے ملاحظہ ہو سورہ بقرہ۔آیات ۳۰تا ۳۹۔
سورہ بقرہ میں حکم سجدہ کا ذکر جن الفاظ میں آیا ہے ان سے شبہ ہو سکتا تھا کہ فرشتوں کو سجدہ کرنے کا حکم صرف آدم علیہ السلام کی شخصیت کے لیے دیا گیا تھا۔ مگر یہاں وہ شبہ دور ہو جاتا ہے۔ یہاں جو اندازِ بیان اختیار کیا گیا ہے اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ آدم علیہ السلام کو جو سجدہ کرایا گیا تھا وہ آدم ہونے کی حیثیت سے نہیں بلکہ نوع انسانی کا نمائندہ فرد ہونے کی حیثیت سے تھا۔
اور یہ جو فرمایا کہ ’’ہم نے تمہاری تخلیق کی ابدا کی، پھر تمہیں صورت بخشی، پھر فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو،‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے پہلے تمہاری تخلیق کا منصوبہ بنایا اور تمہارا مادہ آفرینش تیار کیا، پھر اس مادے کو انسانی صورت عطا کی، پھر جب ایک زندہ ہستی کی حیثیت سے انسان وجود میں آ گیا تو اسے سجدہ کرنے کے لیے فرشتوں کو حکم دیا۔اس آیات کی یہ تشریح خود قرآن مجید میں دوسرے مقامات پر بیان ہوئی ہے۔ مثلاً سورہ صٓ ۳۸ میں ہے اِذْقَالَ رَبُّکَ لِلْمَلَا ئِکَةِ اِنِّیْ خَالِق ٌۢبَشَرًامِّنْ طِیْنٍ° فَاِذَا سَوَّیْتُہٗ وَنَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رّ ُوْحِیْ فَقَعُوْالَہٗ سٰجِدِیْنَ°(آیات ۷۱-۷۲) ’’تصور کرو اس وقت کا جب کہ تمہارے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں ایک بشر مٹی سے پیدا کرنے والا ہوں، پھر جب میں اُسے پوری طرح تیار کر لوں اور اس کے اندر اپنی روح سے کچھ پھونک دوں تو تم سب اس کے آگے سجدہ میں گر جانا۔‘‘ اس آیت میں وہی تین مراتب ایک دوسرے انداز میں بیان کیے گئے ہیں، یعنی پہلے مٹی سے ایک بشر کی تخلیق، پھر اس کا تسویہ، یعنی اس کی شکل و صورت بنانا اور اس کے اعضاء اور اس کی قوتوں کا تناسب قائم کرنا، پھر اس کے اندر اپنی روح سے کچھ پھونک کہ آدم کو وجود میں لے آنا۔اسی مضمون کو سورہ حِجْر ۱۵ میں بایں الفاظ ادا کیا گیا ہے، وَاِذْقَالَ رَبُّکَ لِلْمَلَا ئِکَةِ اِنِّیْ خَالِق ٌۢ بَشَرًامِّنْ صَلْصَالٍ مّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ° فَاِذَا سَوَّیْتُہٗ وَنَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رّ ُوْحِیْ فَقَعُوْالَہٗ سٰجِدِیْنَ°(آیات ۲۸-۲۹) ’’اور تصور کرو اس وقت کا جب کہ تمہارے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں خمیر اُٹھی ہوئی مٹی کے گارے سے ایک بشر پیدا کرنے والا ہوں، پھر جب میں اُسے پوری طرح تیار کر لوں اور اس کے اندر اپنی روح سے کچھ پھونک دوں تو تم سب اس کے آگے سجدہ میں گر پڑنا۔‘‘
تخلیقِ انسانی کے اِس آغاز کو اس کی تفصیلی کیفیّت کے ساتھ سمجھنا ہمارے لیے مشکل ہے۔ ہم اس حقیقت کا پوری طرح ادراک نہیں کر سکتے کہ موادِ ارضی سے بشر کس طرح بنایا گیا، پھر اس کی صورت گری اور تعدیل کیسے ہوئی، اور اس کے اندر روح پھونکنے کی نوعیّت کیا تھی۔ لیکن بہرحال یہ بات بالکل ظاہر ہے کہ قرآن مجید انسانیت کے آغاز کی کیفیت ان نظریات کے خلاف بیان کرتا ہے جو موجودہ زمانہ میں ڈاروِن کے متبعین سائینس کے نام سے پیش کرتے ہیں۔ ان نظریات کی رو سے انسان غیر انسانی اور نیم انسانی حالت کے مختلف مدارج سے ترقی کرتا ہوا مرتبۂ انسانیت تک پہنچتا ہے اور اس تدریجی ارتقاء کے طویل خط میں کوئی نقطۂ خاص ایسا نہیں ہو سکتا جہاں سے غیر انسانی حالت کو ختم قرار دے کر ’’نوعِ انسانی ‘‘ کا آغاز تسلیم کیا جائے۔ بخلاف اس کے قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ انسانیت کا آغاز خالص انسانیت ہی سے ہوا ہے، اُس کی تاریخ کسی غیر انسانی حالت سے قطعاً کوئی رشتہ نہیں رکھتی، وہ اوّل روز سے انسان ہی بنایا گیا تھا اور خدا نے کامل انسانی شعور کے ساتھ پوری روشنی میں اس کی ارضی زندگی کی ابتدا کی تھی۔
انسانیت کی تاریخ کے متعلق یہ دو مختلف نقطۂ نظر ہیں اور ان سے انسانیت کے دو بالکل مختلف تصوّر پیدا ہوتے ہیں۔ایک تصور کو اختیار کیجیے تو آپ کو انسان اصلِ حیوانی کی ایک فرع نظر آئے گا۔ اس کی زندگی کے جملہ قوانین، حتیٰ کہ اخلاقی قوانین کے لیے بھی آپ بنیادی اصول اُن قوانین میں تلاش کریں گے جن کے تحت حیوانی زندگی چل رہی ہے۔ اُس کے لیے حیوانات کا سا طرزِ عمل آپ کو بالکل ایک فطری طرزِ عمل معلوم ہو گا۔ زیادہ سے زیادہ جو فرق انسانی طرز عمل اور حیوانی طرز عمل میں آپ دیکھنا چاہیں گے وہ بس اتنا ہی ہو گا کہ حیوانات جو کچھ آلات اور صنائع اور تمدنی آرائشوں اور تہذیبی نقش و نگار کے بغیر کرتے ہیں انسان وہی سب کچھ ان چیزوں کے ساتھ کر لے۔ اس کے بر عکس دوسرا تصوّر اختیار کرتے ہی آپ انسان کو جانور کے بجائے ’’انسان‘‘ ہونے کی حیثیت سے دیکھیں گے۔ آپ کی نگاہ میں وہ ’’حیوانِ ناطق‘‘ یا ’’متمدن جانور‘‘ ( Civilized Animal)نہیں ہو گا بلکہ زمین پر خدا کا خلیفہ ہو گا۔ آپ کے نزدیک وہ چیز جو اُسے دوسری مخلوق سے ممتاز کرتی ہے اس کا نطق یا اس کی اجتماعیت نہ ہو گی بلکہ ا س کی اخلاقی ذمہ دار ی اور اختیارات کی وہ امانت ہو گی جسے خدا نے اس کے سپرد کیا ہے اور جس کی بنا پر وہ خدا کے سامنے جواب دہ ہے۔ اس طرح انسانیت اور اس کے جملہ متعلقات پر آپ کی نظر پہلے زاویہ نظر سے یک سر مختلف ہو جائے گی۔ آپ انسان کے لیے ایک دوسرا ہی فلسفہ حیات اور ایک دوسرا ہی نظامِ اخلاق و تمدّن و قانون طرب کرنے لگیں گے اور اس فلسفے اور اس نظام کے اصول و مبادی تلاش کرنے کے لیے آپ کی نگاہ خود بخود عالم اسفل کے بجائے عالم بالا کی طرف اُٹھنے لگے گی۔
اعتراض کیا جا سکتا ہے کہ یہ دوسرا تصور انسان چاہے اخلاقی اور نفسیاتی حیثیت سے کتنا ہی بلند ہو مگر محض اس تخیل کی خاطر ایک ایسے نظریہ کو کس طرح رد کر دیا جائے جو سائنٹیفک دلائل سے ثابت ہے ‘‘ لیکن جو لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں ان سے ہمارا سوال یہ ہے کہ کیا فی الواقع ڈاروینی نظریہ ارتقاء سائنٹیفک دلائل سے ’’ثابت ہو چکا ہے ؟ سائنس سے محض سرسری واقفیت رکھنے والے لوگ تو بے شک اس غلط فہمی میں ہیں کہ یہ نظر یہ ایک ثابت شدہ علمی حقیقت بن چکا ہے، لیکن محققین اس بات کو جانتے ہیں کہ الفاظ اور ہڈیوں کے لمبے چوڑے سرو سامان کے باوجود ابھی تک یہ صرف ایک نظریہ ہی ہے اور اس کے جن دلائل کو غلطی سے دلائل ثبوت کہا جا تا ہے وہ دراصل محض دلائل اِمکان ہیں، یعنی ان کی بنا پر زیادہ سے زیادہ بس اتنا ہی کہا جا سکتا ہے کہ ڈاروینی ارتقاء کا ویسا ہی امکان ہے جیسا براہِ راست عملِ تخلیق سے ایک ایک نوع کے الگ الگ وجود میں آنے کا امکان ہے۔
۱۱-اصل میں لفظ صاغرین استعمال ہوا ہے۔ صاغر کے معنی ہیں الراضی بالذُّل، یعنی وہ جو ذلت اور صفار اور چھوٹی حیثیت کو خود اختیار کرے۔ پس اللہ تعالیٰ کے ارشاد کا مطلب یہ تھا کہ بندہ اور مخلوق ہونے کے باوجود تیرا اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں مبتلا ہونا اور اپنے رب کے حکم سے اس بنا پر سرتابی کرنا کہ اپنی عزّت و برتری کا جو تصوّر تو نے خود قائم کر لیا ہے اس کے لحاظ سے وہ حکم تجھے اپنے لیے موجب توہین نظر آتا ہے، یہ دراصل یہ معنی رکھتا ہے کہ تو خود اپنی ذلت چاہتا ہے۔ بڑائی کا جھوٹا پندار، عزت کا بے بنیاد اِدعا، اور کسی ذاتی استحقاق کے بغیر اپنے آپ کو خواہ مخواہ بزرگی کے منصب پر فائز سمجھ بیٹھنا، تجھے بڑا ور ذی عزت اور بزرگ نہیں بنا سکتا بلکہ یہ تجھے چھوٹا اور ذلیل اور پست ہی بنائے گا اور اپنی اس ذلّت و خواری کا سبب تو آپ ہی ہو گا۔
۱۲-یہ وہ چیلنج تھا جو ابلیس نے خدا کو دیا۔ اس کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ یہ مہلت جو آپ نے مجھے قیامت تک کے لیے دی ہے اِس سے فائدہ اُٹھا کر میں یہ ثابت کرنے کے لیے پورا زور صرف کر دوں گا کہ انسان اُس فضیلت کا مستحق نہیں ہے جو آپ نے میرے مقابلہ میں اسے عطا کی ہے۔ میں آپ کو دکھا دوں گا کہ یہ کیسے ناشکرا، کیسا نمک حرام اور کیسا احسان فراموش ہے۔
یہ مہلت جو شیطان نے مانگی اور خدا نے اسے عطا فرما دی، اس سے مراد محض وقت ہی نہیں ہے بلکہ اُس کام کا موقع دینا بھی ہے جو وہ کرنا چاہتا تھا۔ یعنی اس کا مطالبہ یہ تھا کہ مجھے انسان کو بہکانے اور اس کی کمزوریوں سے فائدہ اُٹھا کر اس کی نا اہلی ثابت کرنے کا موقع دیا جائے، اور یہ موقع اللہ تعالیٰ نے اسے دے دیا۔ چنانچہ سورہ بنی اسرائیل آیات ۶۱-۶۵ میں اِس کی تصریح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اُسے اختیار دے دیا کہ آدم اور اس کی اولاد کو راہ راست سے ہٹا دینے کے لیے جو چالیں وہ چلنا چاہتا ہے، چلے۔ ان چال بازیوں سے اسے روکا نہیں جائے گا بلکہ وہ سب راہیں کھُلی رہیں گی جن سے وہ انسان کو فتنہ میں ڈالنا چاہے گا۔ لیکن اس کے ساتھ شرط یہ لگا دی کہ اِنَّ عِبَا دِیْ لَیْسَ لَکَ عَلَیْھِم سُلْطَانٌ، یعنی میرے بندوں پر تجھے کوئی اقتدار نہ ہو گا۔ تو صرف اس بات کا مجاز ہو گا کہ ان کو غلط فہمیوں میں ڈالے، جھوٹی امیدیں دلائے، بدی اور گمراہی کو ان کے سامنے خوش نما بنا کر پیش کرے، لذتوں اور فائدوں کے سبز باغ دکھا کر ان کو غلط راستوں کی طرف دعوت دے۔ مگر یہ طاقت تجھے نہیں دی جائے گی کہ انہیں ہاتھ پکڑ کر زبردستی اپنے راستے پر کھینچ لے جائے اور اگر وہ خود راہِ راست پر چلنا چاہیں تو انہیں نہ چلنے دے۔ یہی بات سورہ ابراہیم آیت ۲۲ میں فرمائی ہے کہ قیامت میں عدالتِ الٰہی سے فیصلہ صادر ہو جانے کے بعد شیطان اپنے پیرو انسانوں سے کہے گا وَمَا کَانَ لِیَ عَلَیْکُمْ مِّن سُلْطَا نٍ اِلَّا ٓاَنْ دَعَوْ تَکُمْ فَاسْتَجِبْتُم لِی ْفَلَا تَلُوْ مُوْنِی وَلُوْمُوْٓا اَنْفُسَکُمْ، یعنی میرا تم پر کوئی زور تو تھا نہیں کہ میں نے اپنی پیروی پر تمہیں مجبور کیا ہو،میں نے اس کے سوا کچھ نہیں کیا کہ تمہیں اپنی راہ پر بلایا اور تم نے میری دعوت قبول کر لی۔ لہٰذا اب مجھے ملامت نہ کرو بلکہ اپنے آپ کو ملامت کرو۔
اور جو شیطان نے خدا پر الزام عائد کیا ہے کہ تو نے مجھے گمراہی میں مبتلا کیا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ شیطان اپنی معصیّت کی ذمہ دار ی خدا پر ڈالتا ہے۔ اُس کو شکایت ہے کہ آدم کے آگے سجدہ کرنے کا حکم دے کر تو نے مجھے فتنے میں ڈالا اور میرے نفس کے تکبر کو ٹھیس لگا کر مجھے اس حالت میں مبتلا کر دیا کہ میں نے تیری نافرمانی کی۔ گویا اس احمق کی خواہش یہ تھی کہ اس کے نفس کی چوری پکڑی نہ جاتی بلکہ جس پندارِ غلط اور جس سرکشی کو اس نے اپنے اندر چھپا رکھا تھا اس پر پردہ ہی پڑا رہنے دیا جاتا۔ یہ ایک کھُلی ہوئی سفیہانہ بات تھی جس کا جواب دینے کی کوئی ضرورت نہ تھی، اس لیے اللہ تعالیٰ نے سرے سے اس کا کوئی نوٹس ہی نہیں لیا۔
۱۳-اس قصّے سے چند اہم حقیقتوں پر روشنی پڑتی ہے :
(۱) انسان کے اندر شرم و حیا کا جذبہ ایک فطری جذبہ ہے اور اس کا اوّلین مظہر وہ شرم ہے جو اپنے جسم کے مخصوص حصّوں کو دوسروں کے سامنے کھولنے میں آدمی کو فطرةً محسوس ہوتی ہے۔ قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ یہ شرم انسان کے اندر تہذیب کے ارتقاء سے مصنوعی طور پر پیدا نہیں ہوئی ہے اور نہ یہ اکتسابی چیز ہے، جیسا کہ شیطان کے بعض شاگردوں نے قیاس کیا ہے، بلکہ درحقیقت یہ وہ فطری چیز ہے جو اوّل روز سے انسان میں موجود تھی۔
(۳) شیطان کی پہلی چال جو اس نے انسان کو فطرتِ انسانی کی سیدھی راہ سے ہٹانے کے لیے چلی، یہ تھی کہ اُس کے اِس جذبہ شرم و حیا پر ضرب لگائے اور برہنگی کے راستے سے اس کے لیے فواحش کا دروازہ کھولے اور اس کو جنسی معاملات میں بد راہ کر دے۔ بالفاظِ دیگر اپنے حرف کے محاذ میں ضعیف ترین مقام جو اس نے حملہ کے لیے تلاش کیا وہ اس کی زندگی کا جنسی پہلو تھا،اور پہلی ضرب جو اس نے لگائی وہ اُس محافظ فصیل پر لگائی جو شرم و حیا کی صورت میں اللہ تعالیٰ نے انسانی فطرت میں رکھی تھی۔ شیاطین ور ان کے شاگردوں کی یہ روش آج تک جوں کی توں قائم ہے۔ ’’ترقی‘‘ کا کوئی کام ان کے ہاں شروع نہیں ہو سکتا جب تک کہ عورت کو بے پردہ کر کے وہ بازار میں نہ لا کھڑا کریں اور اُسے کسی نہ کسی طرح عریاں نہ کر دیں۔
(۳) یہ بھی انسان کی عین فطرت ہے کہ وہ برائی کی کھلی دعوت کو کم ہی قبول کرتا ہے۔ عموماً اُسے جال میں پھانسنے کے لیے ہر داعیِ شر کو خیر خواہ کے بھیس ہی میں آنا پڑتا ہے۔
(۴) انسان کے اندر معالیِ امور مثلاً بشریت سے بالا تر مقام پر پہنچنے یا حیاتِ جاوداں حاصل کرنے کی ایک فطری پیاس موجود ہے اور شیطان کو اُسے فریب دینے میں پہلی کامیابی اِسی ذریعہ سے ہوئی کہ اس نے انسان کی اِس خواہش سے اپیل کیا۔ شیطان کا سب سے زیادہ چلتا ہوا حربہ یہ ہے کہ وہ آدمی کو بلندی پرلے جانے اور موجودہ حالت سے بہتر حالت پر پہنچا دینے کی امید دلاتا ہے اور پھر اُس کے لیے وہ راستہ پیش کرتا ہے جو اُسے اُلٹا پستی کی طرف لے جائے۔
(۵) عام طور پر یہ جو مشہور ہو گیا ہے کہ شیطان نے پہلے حضرت حوّا کو دام فریب میں گرفتار کیا اور پھر انہیں حضرت آدم ؑ کو پھانسنے کے لیے آلۂ کار بنایا، قرآن اس کی تردید کرتا ہے۔ اس کا بیان یہ ہے کہ شیطان نے دونوں کو دھوکا دیا اور دونوں اس سے دھوکا کھا گئے۔ بظاہر یہ بہت چھوٹی سی بات معلوم ہوتی ہے، لیکن جن لوگوں کو معلوم ہے کہ حضرت حوّا کے متعلق اِس مشہور روایت نے دنیا میں عورت کے اخلاقی، قانونی اور معاشرتی مرتبے کو گرانے میں کتنا زبردست حصہ لیا ہے وہی قرآن کے اس بیان کی حقیقی قدر و قیمت سمجھ سکتے ہیں۔
(۶)یہ گمان کرنے کے لیے کوئی معقول وجہ موجود نہیں ہے کہ شجر ممنوعہ کو مزہ چکھتے ہی آدم و حوّا کے ستر کھُل جانا اُس درخت کی کسی خاصیّت کا نتیجہ تھا۔ درحقیقت یہ اللہ تعالیٰ کی نا فرمانی کے سِوا کسی اور چیز کا نتیجہ نہ تھا۔ اللہ تعالیٰ نے پہلے ان کا ستر اپنے انتظام سے ڈھانکا تھا۔ جب انہوں نے حکم کی خلاف ورزی کی تو خدا کی حفاظت اُن سے ہٹا لی گئی، اُن کا پردہ کھول دیا گیا اور انہیں خود اُن کے اپنے نفس کے حوالے کر دیا گیا کہ اپنی پردہ پوشی کا انتظام خود کریں اگر اس کی ضرورت سمجھتے ہیں، اور اگر ضرورت نہ سمجھیں یا اس کے لیے سعی نہ کریں تو خدا کو اِس کی کچھ پروا نہیں کہ وہ کس حال میں پھرتے ہیں۔ یہ گویا ہمیشہ کے لیے اس حقیقت کا مظاہرہ تھا کہ انسان جب خدا کی نا فرمانی کرے گا تو دیر یا سویر اس کا پردہ کھل کر رہے گا۔ اور یہ کہ انسان کے ساتھ خدا کی تائید و حمایت اسی وقت تک رہے گی جب تک وہ خدا کا مطیع فرمان رہے گا۔ طاعت کے حدود سے قدم باہر نکالنے کے بعد اسے خدا کی تائید ہرگز حاصل نہ ہو گی بلکہ اسے خود اس کے اپنے نفس کے حوالے کر دیا جائے گا۔ یہ وہی مضمون ہے جو متعدد احادیث میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا ہے اور اسی کے متعلق حضور ؐ نے دُعا فرمائی ہے کہ اللھم رحمتک ارجو افلا تکلنی الیٰ تفسی طرفة عین (خدایا !میں تیری رحمت کا امیدوار ہوں پس مجھے ایک لمحہ کے لیے بھی میرے نفس کے حوالے نہ کر)۔
(۷) شیطان یہ ثابت کرنا چاہتا تھا کہ انسان اُس فضیلت کا مستحق نہیں ہے جو اُس کے مقابلہ میں انسان کو دی گئی ہے۔ لیکن پہلے ہی معرکے میں اس نے شکست کھائی۔ اس میں شک نہیں کہ اس معرکے میں انسان اپنے رب کے امر کی فرمانبرداری کرنے میں پوری طرح کامیاب نہ ہو سکا اور اس کی یہ کمزوری ظاہر ہو گئی کہ وہ اپنے حریف کے فریب میں آ کر اطاعت کی راہ سے ہٹ سکتا ہے۔ مگر بہر حال اس اولین مقابلہ میں یہ قطعی ثابت ہو گیا کہ انسان اپنے اخلاقی مرتبہ میں ایک افضل مخلوق ہے۔ اولاً، شیطان اپنی بڑائی کا خود مدعی تھا، اور انسان نے اس کا دعویٰ آپ نہیں کیا بلکہ بڑائی اسے دی گئی۔ ثانیاً، شیطان نے خلص غرور تکبر کی بنا پر اللہ کے امر کی نا فرمانی آپ اپنے اختیار سے کی اور انسان نے نافرمانی کو خود اختیار نہیں کیا بلکہ شیطان کے بہکانے سے وہ اس میں مبتلا ہوا۔ ثالثاً، انسان نے شر کی کھلی دعوت کو قبول نہیں کیا بلکہ داعیِ شر کو داعیِ خیر بن کر اس کے سامنے آنا پڑا۔ وہ پستی کی طرف پستی کی طلب میں نہیں گیا بلکہ اس دھوکے میں مبتلا ہو کر گیا کہ یہ راستہ اُسے بلندی کی طرف لے جائے گا۔ رابعاً، شیطان کو تنبیہ کی گئی تو وہ اپنے قصور کا اعتراف کرنے اور بندگی کی طرف پلٹ آنے کے بجائے نا فرمانی پر اور زیادہ جم گیا، اور جب انسان کو اس کے قصور پر متنبہ کیا گیا تو اس نے شیطان کی طرح سر کشی نہیں کی بلکہ اپنی غلطی کا احساس ہوتے ہی وہ نادم ہوا، اپنے قصور کا اعتراف کر کے بغاوت سے اطاعت کی طرف پلٹ آیا اور معافی مانگ کر اپنے رب کے دامنِ رحمت میں پناہ ڈھونڈنے لگا۔
(۸) اس طرح شیطان کی راہ اور وہ راہ جو انسان کے لائق ہے، دونوں ایک دوسرے سے بالکل متمیّز ہو گئیں۔ خالص شیطانی راہ یہ ہے کہ بندگی سے منہ موڑے، خدا کے مقابلہ میں سرکشی اختیار کرے، متنبہ کیے جانے باسجود پورے استکبار کے ساتھ اپنے باغیانہ طرزِ عمل پر اصراف کیے چلا جائے اور جو لوگ طاعت کی راہ چل رہے ہوں ان کو بھی بہکائے اور معصیّت کی راہ پر لانے کی کوشش کرے۔ بخلاف اس کے جو راہ انسان کے لائق ہے وہ یہ ہے کہ اوّل تو وہ شیطانی اغوا کی مزاحمت کرے اور اپنے اِس دشمن کی چالوں کو سمجھنے اور اُن سے بچنے کے لیے ہر وقت چوکنّا رہے، لیکن اگر کبھی اس کا قدم بندگی وطاعت کی راہ سے ہٹ بھی جائے تو اپنی غلطی کا احساس ہوتے ہی ندامت و شرمساری کے ساتھ فورًا اپنے رب کی طرف پلٹے اور اُس قصور کی تلافی کر دے جو اس سے سرزد ہو گیا ہے۔ یہی وہ اصل سبق ہے جو اللہ تعالیٰ اس قصے سے یہاں دینا چاہتا ہے۔ ذہن نشین یہ کرنا مقصود ہے کہ جس راہ پر تم لوگ جا رہے ہو یہ شیطان کی راہ ہے۔ یہ تمہارا خدائی ہدایت سے بے نیا ز ہو گا شیاطینِ جن و انس کو اپنا ولی و سرپرست بنانا،اور یہ تمہارا پے در پے تنبیہات کے باوجود اپنی غلطی پر اصرار کیے چلے جانا، یہ دراصل خالص شیطانی رویّہ ہے۔ تم اپنے ازلی دشمن کے دام میں گرفتار ہو گئے ہو اور اس سے مکمل شکست کھا رہے ہو۔ اس کا انجام پھر وہی ہے جس سے شیطان خو دوچار ہونے والا ہے۔ اگر تم حقیقت میں خود اپنے دشمن نہیں ہو گئے ہو اور کچھ بھی ہوش تم میں باقی ہے تو سنبھلو اور وہ راہ اختیار کرو جو آ کر کار تمہارے باپ اور تمہاری ماں آدم و حوّا نے اختیار کی تھی۔
۱۴-یہ شبہ نہ کیا جائے کہ حضرت آدم و حوا علیہما السلام کو جنت سے اُتر جانے کا یہ حکم سزا کے طور پر دیا گیا تھا۔ قرآن میں متعدد مقامات پر اس کی تصریح کی گئی ہے کہ اللہ نے ان کی توبہ قبول کر لی اور انہیں معاف کر دیا۔ لہٰذا اس حکم میں سزا کا کوئی پہلو نہیں ہے بلکہ یہ اُس منشاء کی تکمیل ہے جس کے لیے انسان کو پیدا کیا گیا تھا۔(تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورة بقرہ، حاشیہ ۴۸ و ۵۳)۔
ترجمہ
اے اولادِ آدم،۱۵ ہم نے تم پر لباس نازل کیا ہے کہ تمہارے جسم کے قابلِ شرم حصّوں کو ڈھانکے اور تمہارے لیے جسم کی حفاظت اور زینت کا ذریعہ بھی ہو، اور بہترین لباس تقویٰ کا لباس ہے۔ یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے، شاید کہ لوگ اِس سے سبق لیں۔ اے بنی آدم، ایسا نہ ہو کہ شیطان تمہیں پھر اُسی طرح فتنے میں مبتلا کر دے جس طرح اُس نے تمہارے والدین کو جنّت سے نکلوایا تھا اور اُن کے لباس اُن پر سے اُتروا دیے تھے تاکہ اُن کی شرمگاہیں ایک دوسرے کے سامنے کھولے۔ وہ اور اُس کے ساتھی تمہیں ایسی جگہ سے دیکھتے ہیں جہاں سے تم اُنھیں نہیں دیکھ سکتے۔ اِن شیاطین کو ہم نے اُن لوگوں کا سرپرست بنا دیا ہے جو ایمان نہیں لاتے۔ ۱۶یہ لوگ جب کو ئی شرمناک کام کرتے ہیں تو کہتے ہیں ہم نے اپنے باپ دادا کو اِسی طریقہ پر پایا ہے اور اللہ ہی نے ہمیں ایسا کرنے کا حکم دیا ہے۔ ۱۷ اِن سے کہو اللہ بے حیائی کا حکم کبھی نہیں دیا کرتا۔۱۸ کیا تم اللہ کا نام لے کر وہ باتیں کہتے ہو جن کے متعلق تمہیں علم نہیں ہے کہ وہ اللہ کی طرف سے ہیں؟اے محمدؐ، اِن سے کہو، میرے ربّ نے تو راستی اور انصاف کا حکم دیا ہے، اور اُس کا حکم تو یہ ہے کہ ہر عبادت میں اپنا رُخ ٹھیک رکھو اور اُسی کو پکارو اپنے دین کو اس کے لیے خالص رکھ کر،جس طرح اُس نے تمہیں اب پیدا کیا ہے اسی طرح تم پھر پیدا کیے جاؤ گے۔ ۱۹اور ایک گروہ کو تو اُس نے سیدھا راستہ دکھا دیا ہے، مگر دوسرے گروہ پر گمراہی چسپاں ہو کر رہ گئی ہے، کیونکہ اُنھوں نے خدا کے بجائے شیاطین کو اپنا سرپرست بنا لیا ہے اور وہ سمجھ رہے ہیں کہ ہم سیدھی راہ پر ہیں۔اے بنی آدم، ہر عبادت کے موقع پر اپنی زینت سے آراستہ رہو ۲۰ اور کھاؤ پیو اور حد سے تجاوز نہ کرو، اللہ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔۲۱ ؏ ۳
تفسیر
۱۵-اب قصہ آدم و حوا کے ایک خاص پہلو کی طرف توجہ منعطف کر کے اہل عرب کے سامنے خود اُن کی اپنی زندگی اکے اندر شیطانی اغوا کے ایک نمایاں ترین اثر کی نشان دہی فرمائی جاتی ہے۔ یہ لوگ لباس کو صرف زینت اور موسمی اثرات سے جسم کی حفاظت کے لیے استعمال کرتے تھے، لیکن اس کی سب سے پہلی بنیادی غرض، یعنی جسم کے قابل شرم حصّوں کی پردہ پوشی ان کے نزدیک کوئی اہمیت نہ رکھتی تھی۔ اُنہیں اپنے ستر دوسروں کے سامنے کھول دینے میں کوئی باک نہ تھا۔ برہنہ منظرِ عام پر نہا لینا، راہ چلتے قضائے حاجت کے لیے بیٹھ جانا، ازار کھل جائے تو ستر کے بے پردہ ہو جانے کی پروا نہ کرنا اُن کے شب و روز کے معمولات تھے۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ ان میں سے بکثرت لوگ حج کے موقع پر کعبہ کے گرد برہنہ طواف کرتے تھے اور اس معاملہ میں ان کی عورتیں ان کے مردوں سے بھی کچھ زیادہ بے حیا تھیں۔ ان کی نگاہ میں یہ ایک مذہبی فعل تھا اور نیک کام سمجھ کر وہ اس کا ارتکاب کرتے تھے۔ پھر چونکہ یہ کوئی عربوں ہی کی خصوصیت نہ تھی، دنیا کی اکثر قومیں اسی بے حیائی میں مبتلا رہی ہیں اور آج تک ہیں اس لیے خطاب اہل عرب کے لیے خاص نہیں ہے بلکہ عام ہے، اور سارے بنی آدم کو متنبہ کیا جا رہا ہے کہ دیکھو، یہ شیطانی اغوا کی ایک کھلی ہوئی علامت تمہاری زندگی میں موجود ہے۔ تم نے اپنے رب کی رہنمائی سے بے نیاز ہو کر اور اُس کے رسولوں کی دعوت سے منہ موڑ کر اپنے آپ کو شیطان کے حوالے کر دیا اور اس نے تمہیں انسانی فطرت کے راستے سے ہٹا کر اُسی بے حیائی میں مبتلا کر دیا جس میں وہ تمہارے پہلے باپ اور ماں کو مبتلا کرنا چاہتا تھا۔ اس پر غور کرو تو یہ حقیقت تم پر کھل جائے کہ رسولوں کی رہنمائی کے بغیر تم اپنی فطرت کے ابتدائی مطالبات تک کو نہ سمجھ سکتے ہو اور نہ پورا کر سکتے ہو۔
۱۶-ان آیات میں جو کچھ ارشاد ہوا ہے اس سے چند اہم حقیقتیں نکھر کر سامنے آ جاتی ہیں:
اوّل یہ کہ لباس انسان کے لیے ایک مصنوعی چیز نہیں ہے بلکہ انسانی فطرت کا ایک اہم مطالبہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کے جسم پر حیوانات کی طرح کوئی پوشش پیدائشی طور پر نہیں رکھی بلکہ حیا اور شرم کا مادہ اس کی فطرت میں ودیعت کر دیا۔ اس نے انسان کے لیے اُس کے اعضائے صنفی کو محض اعضائے صنفی ہی نہیں بنا یا بلکہ سَوْأة ْ بھی بنایا جس کے معنی عربی زبان میں ایسی چیز کے ہیں جس کے اظہار کو آدمی قبیح سمجھے۔ پھر اس فطری شرم کے تقاضے کو پورا کرنے کے لیے اس نے کوئی بنا بنایا لباس انسان کو نہیں دے دیا بلکہ اس کی فطرت پر لباس کو الہام کیا (اَنْزَلْنَا علَیْکُمْ لِبَاسًا)تاکہ وہ اپنی عقل سے کام لے کر اپنی فطرت کے اِس مطالبے کو سمجھے اور پھر اللہ کے پیدا کردہ مواد سے کام لے کر اپنے لیے لباس فراہم کرے۔
دوم یہ کہ اس فطری الہام کی رو سے انسان کے لیے لباس کی اخلاقی ضرورت مقدم ہے، یعنی یہ کہ وہ اپنی سَوْأة کو ڈھانکے۔ اور اس کی طبعی ضرورت مؤخر ہے، یعنی یہ کہ اس کا لباس اس کے لیے رِیش (جسم کی آرائش اور موسمی اثرات سے بدن کی حفاظت کا ذریعہ) ہو۔ اس باب میں بھی فطرةً انسان کا معاملہ حیوانات کے برعکس ہے۔ اُن کے لیے پوشش کی اصل غرض صرف اس کا ’’ریش‘‘ ہونا ہے، رہا اس کا ستر پوش ہونا تو اُن کے اعضاء صنفی سرے سے سَوْأة ہی نہیں ہیں کہ اُنہیں چھپانے کے لیے حیوانات کی جبلت میں کوئی داعیہ موجود ہوتا اور اس کا تقاضا پورا کرنے کے لیے ان کے اجسام پر کوئی لباس پیدا کیا جاتا۔ لیکن جب انسانوں نے شیطان کی رہنمائی قبول کی تو معاملہ پھر اُلٹ گیا۔ اس نے اپنے ان شاگردوں کو اس غلط فہمی میں ڈال دیا کہ تمہارے لیے لباس کی ضرورت بعینہٖ وہی ہے جو حیوانات کے ریش کی ضرورت ہے، رہا اس کا سَوْأة والی چیز ہونا، تو یہ قطعاً کوئی اہمیت نہیں رکھتا، بلکہ جس طرح حیوانات کے اعضاء سَوْأة نہیں ہیں اسی طرح تمہارے یہ اعضاء بھی سَوْأة نہیں، محض اعضاء صنفی ہی ہیں۔
سوم یہ کہ انسان کے لیے لباس کا صرف ذریعہ ستر پوشی اور وسیلہ زینت و حفاظت ہونا ہی کافی نہیں ہے بلکہ فی الحقیقت اس معاملہ میں جس بھلائی تک انسان کو پہنچنا چاہیے وہ یہ ہے کہ اس کا لباس تقویٰ کا لباس ہو، یعنی پوری طرح ساتر بھی ہو، زینت میں بھی حد سے بڑھا ہوا یا آدمی کی حیثیت سے گرا ہوا نہ ہو، فخر و غرور اور تکبرو ریا کی شان لیے ہوئے بھی نہ ہو، اور پھر اُن ذہنی امراض کی نمائندگی بھی نہ کرتا ہو جن کی بنا پر مرد زنانہ پن اختیار کرتے ہیں، عورتیں مردانہ پن کی نمائش کرنے لگتی ہیں، اور ایک قوم دوسری قوم کے مشابہ بننے کی کوشش کر کے خود اپنی ذلت کا زندہ اشتہار بن جاتی ہے۔ لباس کے معاملہ میں اِس خیر مطلوب کو پہنچنا تو کسی طرح اُن لوگوں کے بس میں ہے ہی نہیں جنہوں نے انبیاء علیہما السلام پر ایمان لا کر اپنے آپ کو بالکل خدا کی رہنمائی کے حوالے نہیں کر دیا ہے۔ جب وہ خدا کی رہنمائی تسلیم کرنے سے انکار کر دیتے ہیں تو شیاطین ان کے سرپرست بنا دیے جاتے ہیں، پھر یہ شیاطین ان کو کسی نہ کسی غلطی میں مبتلا کر کے ہی چھوڑتے ہیں۔
چہارم یہ کہ لباس کا معاملہ بھی اللہ کی اُن بے شمار نشانیوں میں سے ایک ہے جو دنیا میں چاروں طرف پھیلی ہوئی ہیں اور حقیقت تک پہنچنے میں انسان کی مدد کرتی ہیں۔ بشرطیکہ انسان خود ان سے سبق لینا چاہے۔ اُوپر جن حقائق کی طرف ہم نے اشارہ کیا ہے انہیں اگر تَامُّل کی نظر سے دیکھا جائے تو یہ بات بآسانی سمجھ میں آسکتی ہے کہ لباس کس حیثیت سے اللہ تعالیٰ کا ایک اہم نشان ہے۔
۱۷-اشارہ ہے اہل عرب کے برہنہ طواف کی طرف، جس کا ہم اوپر ذکر کر چکے ہیں۔ وہ لوگ اس کو ایک مذہبی فعل سمجھ کر کرتے تھے اور ان کا خیال تھا کہ خدا نے یہ حکم دیا ہے۔
۱۸-بظاہر یہ ایک بہت ہی مختصر سا جملہ ہے مگر درحقیقت اس میں قرآن مجید نے ان لوگوں کے جاہلانہ عقائد کے خلاف ایک بہت بڑی دلیل پیش کی ہے۔ اس طرزِ استدلال کو سمجھنے کے لیے دو باتیں بطور مقدمہ کے پہلے سمجھ لینی چاہییں:
ایک یہ کہ اہل عرب اگرچہ اپنی بعض مذہبی رسموں میں برہنگی اختیار کرتے تھے اور اسے ایک مقدس مذہبی فعل سمجھتے تھے، لیکن بر ہنگی کا بجائے خود ایک شرمناک فعل ہونا خود ان کے نزدیک بھی مسلَّم تھا، چنانچہ کوئی شریف اور ذی عزت عرب اس بات کو پسند نہ کرتا تھا کہ کسی مہذب مجلس میں، یا بازار میں، یا اپنے اعزّہ اور اقربا کے درمیان برہنہ ہو۔
دوسرے یہ کہ وہ لوگ برہنگی کو شرمناک جاننے کے باوجود ایک مذہبی رسم کی حیثیت سے اپنی عبادت کے موقع پر اختیار کرتے تھے اور چونکہ اپنے مذہب کو خدا کی طرف سے سمجھتے تھے اس لیے کہ ان کا دعویٰ تھا کہ یہ رسم بھی خدا ہی کی طرف سے مقرر کی ہوئی ہے۔ اس پر قرآن مجید یہ استدلال کرتا ہے کہ جو کام فحش ہے اور جسے تم خود بھی جانتے اور مانتے ہو کہ فحش ہے اس کے متعلق تم یہ کیسے باور کر لیتے ہو کہ خدا نے اس کا حکم دیا ہو گا۔ کسی فحش کام کا حکم خدا کی طرف سے ہر گز نہیں ہو سکتا، اور اگر تمہارے مذہب میں ایسا حکم پایا جاتا ہے تو یہ اس بات کی صریح علامت ہے کہ تمہارا مذہب خدا کی طرف سے نہیں ہے۔
۱۹-مطلب یہ ہے کہ خدا کے دین کو تمہاری ان بیہودہ رسموں سے کیا تعلق۔ اُس نے جس دین کی تعلیم دی ہے اس کے بنیادی اصول تو یہ ہیں کہ :
(۱) انسان اپنی زندگی کو عدل و راستی کی بنیاد پر قائم کرے،
(۲) عبادت مین اپنا رُخ ٹھیک رکھے، یعنی خد ا کے سوا کسی اور کی بندگی کا شائبہ تک اس کی عبادت میں نہ ہو، معبود حقیقت کے سوا کسی دوسرے کی طر ف اطاعت و غلامی اور عجز و نیاز کا رُخ ذرا نہ پھرنے پائے،
(۳)رہنمائی اور تائید و نصرت اور نگہبانی و حفاظت کے لیے خدا ہی سے دُعا مانگے، مگر شرط یہ ہے کہ اس چیز کی دُعا مانگنے والا آدمی پہلے اپنے دین کو خدا کے لیے خالص کر چکا ہو۔ یہ نہ ہو کہ زندگی کا سارا نظام تو کفر و شرک اور معصیّت اور بندگیِ اغیار پر چلا یا جا رہا ہو اور مدد خدا سے مانگی جائے کہ اے خدا، یہ بغاوت جو ہم تجھ سے کر رہے ہیں اس میں ہماری مدد فرما۔
(۴) اور اس بات پر یقین رکھے کہ جس طرح اس دنیا میں وہ پیدا ہوا ہے اسی طرح ایک دوسرے عالم میں بھی اس کو پیدا کیا جائے گا اور اسے اپنے اعمال کا حساب خدا کو دینا ہو گا۔
۲۰-یہاں زینت سے مرد مکمل لباس ہے۔ خدا کی عبادت میں کھڑے ہونے کے لیے صرف اتنا کافی نہیں ہے کہ آدمی محض اپنا ستر چھپا لے، بلکہ اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ حسب استطاعت وہ اپنا پورا لباس پہنے جس میں ستر پوشی بھی ہو اور زینت بھی۔ یہ حکم اُس غلط رویہ کی تردید کے لیے ہے جس پر جہلا اپنی عبادتوں میں عمل کرتے رہے ہیں اور آج تک کر رہے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ برہنہ یا نیم برہنہ ہو کر اور اپنی ہیئتوں کو بگاڑ کر خدا کی عبادت کرنی چاہیے۔ اس کے برعکس خدا کہتا ہے کہ اپنی زینت سے آراستہ ہو کو ایسی وضع میں عبادت کرنی چاہیے جس کے اندر بر ہنگی تو کیا، نا شائستگی کا بھی شائبہ تک نہ ہو۔
۲۱-یعنی خدا کو تمہاری خستہ حالی ور فاقہ کشی اور طیّباتِ رزق سے محرومی عزیز نہیں ہے کہ اس کی بندگی بجا لانے کے لیے یہ کسی درجہ میں بھی مطلوب ہو۔ بلکہ اس کی عین خوشی یہ ہے کہ تم اس کے بخشے ہوئے عمدہ لباس پہنو اور پاک رزق سے متمتع ہو۔ اس کی شریعت میں اصل گناہ یہ ہے کہ آدمی ا س کی مقرر کردہ حدوں سے تجاوز کرے، خواہ یہ تجاوز حلال کو حرام کر لینے کی شکل میں ہو یا حرام کو حلال کر لینے کی شکل میں۔
ترجمہ
اے محمد ؐ، اِن سے کہو کس نے اللہ کی اُس زینت کو حرام کر دیا ہے جسے اللہ نے اپنے بندوں کے لیے نکالا تھا اور کس نے خدا کی بخشی ہوئی پاک چیزیں ممنوع کر دیں؟۲۲ کہو، یہ ساری چیزیں دنیا کی زندگی میں بھی ایمان لانے والوں کے لیے ہیں، اور قیامت کے روز تو خالصتًہ انہی کے لیے ہوں گی۔۲۳ اِس طرح ہم اپنی باتیں صاف صاف بیان کرتے ہیں اُن لوگوں کے لیے جو علم رکھنے والے ہیں۔ اے محمد ؐ، اِن سے کہو کہ میرے ربّ نے جو چیزیں حرام کی ہیں وہ تو یہ ہیں: بے شرمی کے کام۔۔۔۔خواہ کھُلے ہوں یا چھُپے۔۔۔۔۲۴ اور گُناہ ۲۵ اور حق کے خلاف زیادتی ۲۶ اور یہ کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرو جس کے لیے اُس نے کوئی سند نازل نہیں کی اور یہ کہ اللہ کے نام پر کوئی ایسی بات کہو جس کے متعلق تمہیں علم نہ ہو کہ وہ حقیقت میں اُس نے فرمائی ہے۔ ہر قوم کے لیے مہلت کی ایک مدّت مقرر ہے، پھر جب کسی قوم کی مدّت آن پوری ہوتی ہے تو ایک گھڑی بھر کی تاخیر و تقدیم نہیں ہوتی۔۲۷ (اور یہ بات اللہ نے آغازِ تخلیق ہی میں صاف فرما دی تھی کہ) اے بنی آدم، یاد رکھو، اگر تمہارے پاس خود تم ہی میں سے ایسے رسول آئیں جو تمہیں میری آیات سُنا رہے ہوں، تو جو کوئی نا فرمانی سے بچے گا اور اپنے رویّہ کی اصلاح کر لے گا اس کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہیں ہے، اور جو لوگ ہماری آیات کو جھُٹلائیں گے اور ان کے مقابلہ میں سرکشی برتیں گے وہی اہلِ دوزخ ہوں گے جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ ۲۸ظاہر ہے کہ اُس سے بڑا ظالم اور کون ہو گا جو بالکل جھوٹی باتیں گھڑ کر اللہ کی طرف منسُوب کرے یا اللہ کی سچی آیات کو جھُٹلائے۔ ایسے لوگ اپنے نوشتۂ قدیر کے مطابق اپنا حصّہ پاتے رہیں گے، ۲۹ یہاں تک کہ وہ گھڑی آ جائے گی جب ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے ان کی روحیں قبض کرنے کے لیے پہنچیں گے۔ اُس وقت وہ اُن سے پوچھیں گے کہ بتاؤ، اب کہاں ہیں تمہارے وہ معبود جن کو تم خدا کے بجائے پُکارتے تھے ؟ وہ کہیں گے کہ ’’سب ہم سے گُم ہو گئے ‘‘۔ اور وہ خود اپنے خلاف گواہی دیں گے کہ ہم واقعی منکرِ حق تھے۔ اللہ فرمائے گا جاؤ،تم بھی اُسی جہنم میں چلے جاؤ جس میں تم سے پہلے گُزرے ہوئے گروہِ جِن و انس جا چکے ہیں۔ ہر گروہ جب جہنم میں داخل ہو گا تو اپنے پیش رو گروہ پر لعنت کرتا ہوا داخل ہو گا، حتیٰ کہ سب وہاں جمع ہو جائیں گے تو ہر بعد والا گروہ پہلے گروہ کے حق میں کہے گا کہ اے ربّ، یہ لوگ تھے جنہوں نے ہم کو گمراہ کیا لہٰذا اِنہیں آگ کا دوہرا عذاب دے۔ جواب میں اِرشاد ہو گا، ہر ایک کے لیے دوہرا ہی عذاب ہے مگر تم جانتے نہیں ہو۔۳۰اور پہلا گروہ دوسرے گروہ سے کہے گا(اگر ہم قابلِ الزام تھے ) تو تمہی کو ہم پر کون سی فضیلت حاصل تھی، اب اپنی کمائی کے نتیجہ میں عذاب کا مزا چکھو۔۳۱؏ ۴
تفسیر
۲۲-مطلب یہ ہے کہ اللہ نے تو دنیا کی ساری زینتیں اور پاکیزہ چیزیں بندوں ہی کے لیے پیدا کی ہیں، اس لیے اللہ کا منشاء تو بہر حال یہ نہیں ہو سکتا کہ انہیں بندوں کے لیے حرام کر دے۔ اب اگر کوئی مذہب یا کوئی نظامِ اخلاق و معاشرت ایسا ہے جو انہیں حرام، یا قابلِ نفرت، یا ارتقائے روحانی میں سدِّ راہ قرار دیتا ہے تو اس کا یہ فعل خود ہی اس بات کا کھُلا ثبوت ہے کہ وہ خدا کی طرف سے نہیں ہے۔ یہ بھی اُن حجتوں میں سے ایک اہم حجت ہے جو قرآن نے مذاہب باطلہ کے رد میں پیش کی ہیں، اور اس کو سمجھ لینا قرآن کے طرزِ استدلال کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے۔
۲۳-یعنی حقیقت کے اعتبار سے تو خدا کی پیدا کردہ تمام چیزیں دنیا کی زندگی میں بھی اہل ایمان ہی کے لیے ہیں، کیونکہ وہی خدا کی وفادار رعایا ہیں اور حقِ نمک صرف نمک حلالوں ہی کو پہچانتا ہے۔ لیکن دنیا کا موجودہ انتظام چونکہ آزمائش اور مہلت کے اصول پر قائم کیا گیا ہے، اس لیے یہاں اکثر خدا کی نعمتیں نمک حراموں پر بھی تقسیم ہوتی رہتی ہیں اور بسا اوقات نمک حلالوں سے بڑھ کر انہیں نعمتوں سے نواز دیا جاتا ہے۔ البتہ آخرت میں (جہاں کا سارا انتظام خالص حق کی بنیاد پر ہو گا) زندگی کی آرائشیں اور رزق کے طیبات سب کے سب محض نمک حلالوں کے لیے مخصوص ہوں گے اور وہ نمک حرام ان میں سے کچھ نہ پا سکیں گے جنہوں نے اپنے رب کے رزق پر پلنے کے بعد اپنے رب ہی کے خلاف سر کشی کی۔
۲۴-تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ انعام، حواشی ۱۲۷و ۱۳۱۔
۲۵-اصل میں لفظ اِثْمٌ استعمال ہوا ہے جس کے اصل معنی کوتا ہی کے ہیں۔ اٰثِمَہ اُس اونٹنی کو کہتے ہیں جو تیز چل سکتی ہو مگر جان بوجھ کو سُست چلے۔ اسی سے اس لفظ میں گناہ کا مفہوم پیدا ہوا ہے، یعنی انسان کا اپنے رب کی اطاعت و فرماں برداری میں قدرت و استطاعت کے باوجود، کوتاہی کرنا اور اس کی رضا کو پہنچنے میں جان بوجھ کر قصور دکھانا۔
۲۶-یعنی اپنی حد سے تجاوز کر کے ایسے حدود میں قدم رکھنا جن کے اندر داخل ہونے کا آدمی کو حق نہ ہو۔ اس تعریف کی رو سے وہ لوگ بھی باغی قرار پاتے ہیں جو بندگی کی حد سے نکل کر خدا کے ملک میں خود مختارانہ رویّہ اختیار کرتے ہیں، اور وہ بھی جو خد ا کی خدائی میں اپنی کبریائی کے ڈنکے بجاتے ہیں، اور وہ بھی جو بندگانِ خدا کے حقوق پر دست درازی کرتے ہیں۔
۲۷-مہلت کی مدت مقرر کیے جانے کا مفہوم یہ نہیں ہے کہ ہر قوم کے لیے برسوں اور مہینوں اور دنوں کے لحاظ سے ایک عمر مقرر کی جاتی ہو اور اس عمر کے تمام ہوتے ہی اس قوم کو لازماً ختم کر دیا جاتا ہو۔ بلکہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ ہر قوم کو دنیا میں کام کرنے کا موقع دیا جاتا ہے اس کی ایک اخلاقی حد مقرر کر دی جاتی ہے، بایں معنی کہ اس کے اعمال میں خیر اور شر کا کم سے کم کتنا تناسُب برداشت کیا جا سکتا ہے۔ جب تک ایک قوم کی بُری صفات اس کی اچھی صفات کے مقابلہ میں تناسُب کی اُس آخری حد سے فروتر رہتی ہیں اس وقت تک اُسے اس کی تمام برائیوں کے باوجود مہلت دی جاتی رہتی ہے، اور جب وہ اس حد سے گزر جاتی ہیں تو پھر اس بدکار و بد صفات قوم کو مزید کوئی مہلت نہیں دی جاتی، اس بات کو سمجھنے کے لیے سورہ نوح ؑ آیات۴-۱۰-۱۲ نگاہ میں رہیں۔
۲۸-یہ بات قرآن مجید میں ہر جگہ اُس موقع پر ارشاد فرمائی گئی ہے جہاں آدم و حوّا علیہما السلام کے جنت سے اتارے جانے کا ذکر آیا ہے (ملاحظہ ہو سورہ بقرہ، آیات ۳۹-۳۹۔طٰہٰ، آیات ۱۲۳-۱۲۴)لہٰذا یہاں بھی اس کو اسی موقع سے متعلق سمجھا جائے گا، یعنی نوعِ انسانی کی زندگی کا آغاز جب ہو رہا تھا اسی وقت یہ بات صاف طور پر سمجھا دی گئی تھی (ملاحظہ ہو سورہ آل عمران، حاشیہ ۶۹)
۲۹-یعنی دنیا میں جتنے دن ان کی مہلت کے مقرر ہیں یہاں رہیں گے اور جس قسم کی بظاہر اچھی یا بُری زندگی گزارنا اُن کے نصیب میں ہے گزار لیں گے۔
۳۰-یعنی بہرحال تم میں سے ہر گروہ کسی کا خلف تھا تو کسی کا سلف بھی تھا۔ اگر کسی گروہ کے اسلاف نے اُس کے لیے فکر و عمل کی گمراہیوں کا ورثہ چھوڑا تھا تو خود وہ بھی اپنے اخلاف کے لیے ویسا ہی ورثہ چھوڑ کر دنیا سے رخصت ہوا۔ اگر ایک گروہ کے گمراہ ہونے کی کچھ ذمہ دار ی اس کے اسلاف پر عائد ہوتی ہے تو اس کے اخلاف کی گمراہی کا اچھا خاصا بار خود اس پر بھی عائد ہوتا ہے۔ اسی بنا پر فرمایا کہ ہر ایک کے لیے دو ہرا عذاب ہے۔ ایک عذاب خود گمراہی اختیار کرنے کا اور دوسرا عذاب دوسروں کو گمراہ کرنے کا۔ ایک سزا اپنے جرائم کی اور دوسری سزا دوسروں کے جرائم پیشگی کی میراث چھوڑ آنے کی۔
حدیث میں اسی مضمون کی توضیح یوں بیان فرمائی گئی ہے کہ من ابتدع بدعة ضلالةِ لا یر ضا ھا اللہ و رسولہ کان علیہ من الاثم مثل اٰثام من عمل بھا لا ینقص ذالک من اوزارھم شیئا۔ یعنی جس نے کسی نئی گمراہی کا آغاز کیا جو اللہ اور اس کے رسول کے نزدیک نا پسندیدہ ہو، تو اس پر ان سب لوگوں کے گناہ کی ذمہ دار ی عائد ہو گی جنہوں نے اس کے نکالے ہوئے طریقہ پر عمل کیا، بغیر اس کے کہ خود ان عمل کرنے والوں کی ذمہ دار ی میں کوئی کمی ہو۔ دوسری حدیث میں ہے لاتقتل نفس ظلما الاکان علی ابن اٰدم الاول کفل من دمھالا نہ اول من سن القتل۔ یعنی دنیا میں جو انسان بھی ظلم کے ساتھ قتل کیا جاتا ہے اس کے خونِ نا حق کا ایک حصہ آدم کے اُس پہلے بیٹے کو پہنچتا ہے جس نے اپنے بھائی کو قتل کیا تھا، کیونکہ قتلِ انسان کا راستہ سب سے پہلے اسی نے کھولا تھا۔ اس سے معلوم ہوا کہ جو شخص یا گروہ کسی غلط خیال یا غلط رویّہ کی بنا ڈالتا ہے وہ صرف اپنی ہی غلطی کا ذمہ دار نہیں ہوتا بلکہ دنیا میں جتنے انسان اس سے متاثر ہوتے ہیں اُن سب کے گناہ کی ذمہ دار ی کا بھی ایک حصہ اس کے حساب میں لکھا جاتا رہتا ہے اور جب تک اس کی غلطی کے اثرات چلتے رہتے ہیں اس کے حساب میں ان کا اندراج ہوتا رہتا ہے۔ نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ہر شخص اپنی نیکی یا بدی کا صرف اپنی ذات کی حد تک ہی ذمہ دار نہیں ہے بلکہ اس امر کا بھی جواب دہ ہے کہ اس کی نیکی یا بدی کے کیا اثرات دوسروں کی زندگیوں پر مرتب ہوئے۔
مثال کے طور پر ایک زانی کو لیجیے۔ جن لوگوں کی تعلیم و تربیت سے، جن کی صحبت کے اثر سے، جن کی بُری مثالیں دیکھنے سے، اور جن کی ترغیبات سے اس شخص کے اندر زنا کاری کی صفت نے ظہور کیا وہ سب اس کے زنا کار بننے میں حصہ دار ہیں۔اور خود اُن لوگوں نے اوپر جہاں جہاں سے اس بد نظری و بدنیتی اور بدکاری کی میراث پائی ہے وہاں تک اس کی ذمہ دار ی پہنچتی ہے حتیٰ کہ یہ سلسلہ اس اولین انسان پر منتہی ہوتا ہے جس نے سب سے پہلے نوعِ انسانی کو خواہش نفس کی تسکین کا یہ غلط راستہ دکھایا۔ یہ اُس زانی کے حساب کا وہ حصہ ہے جو اس کے ہم عصروں اور اس کے اسلاف سے تعلق رکھتا ہے۔ پھر وہ خود بھی اپنی زنا کاری کا ذمہ دار ہے۔ اُس کو بھلے اور بُرے کی جو تمیز دی گئی تھی، اس میں ضمیر کی جو طاقت رکھی گئی تھی، اس کے اندر ضبطِ نفس کی جو قوت ودیعت کی گئی تھی، اس کو نیک لوگوں سے خیر و شر کا جو علم پہنچا تھا، اس کے سامنے اخیار کی جو مثالیں موجود تھیں، اس کو صنفی بد عملی کے برے نتائج سے جو واقفیت تھی، ان میں سے کسی چیز سے بھی اس نے فائدہ نہ اُٹھایا اور اپنے آپ کو نفس کی اُس اندھی خواہش کے حوالے کر دیا جو صرف اپنی تسکین چاہتی تھی خواہ وہ کسی طریقہ سے ہو۔ یہ اس کے حساب کا وہ حصہ ہے جو اس کی اپنی ذات سے تعلق رکھتا ہے۔ پھر یہ شخص اُس بدی کو جس کا اکتساب اس نے کیا اور جسے خود اپنی سعی سے وہ پرورش کرتا رہا، دوسروں میں پھیلانا شروع کرتا ہے۔ کسی مرضِ خبیث کی چھوت کہیں سے لگا لاتا ہے اور اسے اپنی نسل میں اور خدا جانے کن کن نسلوں میں پھیلا کر نہ معلوم کتنی زندگیوں کو خراب کر دیتا ہے۔ کہیں اپنا نطفہ چھوڑ آتا ہے اور جس بچہ کی پرورش کا بار اسے خود اُٹھانا چاہیے تھا اسے کسی اور کی کمائی کا ناجائز حصہ دار، اس کے بچوں کے حقوق میں زبردستی کا شریک، اس کی میراث میں ناحق کا حق دار بنا دیتا ہے اور اِس حق تلفی کا سلسلہ نہ معلوم کتنی نسلوں تک چلتا رہتا ہے۔ کسی دوشیزہ لڑکی کو پھُسلا کر بد اخلاقی کی راہ پر ڈالتا ہے اور اس کے اندر وہ بُری صفات ابھار دیتا ہے جو اس سے منعکس ہو کر نہ معلوم کتنے خاندانوں اور کتنی نسلوں تک پہنچتی ہیں اور کتنے گھر بگاڑ دیتی ہیں۔ اپنی اولاد، اپنے اقارب، اپنے دوستوں اور اپنی سوسائٹی کے دوسرے لوگوں کے سامنے اپنے اخلاق کی ایک بُری مثال پیش کرتا ہے اور نہ معلوم کتنے آدمیوں کے چال چلن خرب کرنے کا سبب بن جاتا ہے جس کے اثرات بعد کی نسلوں میں مدّتہائے دراز تک چلتے رہتے ہیں۔ یہ سارا فساد جو اس شخص نے سوسائٹی میں برپا کیا، انصاف چاہتا ہے کہ یہ بھی اس کے حساب میں لکھا جائے اور اس وقت تک لکھا جاتا رہے جب تک اس کی پھیلائی ہوئی خرابیوں کا سلسلہ دنیا میں چلتا رہے۔
اس پر نیکی کو بھی قیاس کر لینا چاہیے۔ جو نیک ورثہ اپنے اسلاف سے ہم کو ملا ہے اُس کا اجر اُن سب لوگوں کو پہنچنا چاہیے جو ابتدائے آفر نیش سے ہمارے زمانہ تک اُس کے منتقل کرنے میں حصہ لیتے رہے ہیں پھر اس ورثہ کو لے کر اسے سنبھالنے اور ترقی دینے میں جو خدمت ہم انجام دیں گے اس کا اجر ہمیں بھی ملنا چاہیے۔ پھر اپنی سعی خیر کے جو نقوش و اثرات ہم دنیا میں چھوڑ جائیں گے انہیں بھی ہماری بھلائیوں کے حساب میں اس وقت تک برابر درج ہوتے رہنا چاہیے جب تک یہ نقوش باقی رہیں اور ان کے اثرات کا سلسلہ نوعِ انسانی میں چلتا رہے اور ان کے فوائد سے خلقِ خدا متمتع ہوتی رہے۔
جزا کی یہ صورت جو قرآن پیش کر رہا ہے، ہر صاحبِ عقل انسان تسلیم کرے گا کہ صحیح اور مکمل انصاف اگر ہو سکتا ہے تو اسی طرح ہو سکتا ہے۔ اس حقیقت کو اگر اچھی طرح سمجھ لیا جائے تو اس سے اُن لوگوں کی غلط فہمیاں بھی دور ہو سکتی ہیں جنہوں نے جزا ء کے لیے اسی دنیا کی موجودہ زندگی کو کافی سمجھ لیا ہے، اور اُن لوگوں کی غلط فہمیاں بھی جو یہ گمان رکھتے ہیں کہ انسان کو اس کے اعمال کی پوری جزاء تناسُخ کی صورت میں مل سکتی ہے۔ دراصل ان دونوں گروہوں نے نہ تو انسانی اعمال اور ان کے اثرات و نتائج کی وسعتوں کو سمجھا ہے اور نہ منصفانہ جزا اور اس کے تقاضوں کو۔ ایک انسان آج اپنی پچاس ساٹھ سال کی زندگی میں جو اچھے یا بُرے کام کرتا ہے ان کی ذمہ دار ی میں نہ معلوم اوپر کی کتنی نسلیں شریک ہیں جو گزر چکیں اور آج یہ ممکن نہیں کہ انہیں اس کی جزاء یا سزا پہنچ سکے۔ پھر اس شخص کے یہ اچھے یا بُرے اعمال جو وہ آج کر رہا ہے اس کی موت کے ساتھ ختم نہیں ہو جائیں گے بلکہ ان کے اثرات کا سلسلہ آئندہ صد ہا برس تک چلتا رہے گا، ہزاروں لاکھوں بلکہ کروڑوں انسانوں تک پھیلے گا اور اس کے حساب کا کھاتہ اس وقت تک کھلا رہے گا جب تک یہ اثرات چل رہے ہیں اور پھیل رہے ہیں۔ کس طرح ممکن ہے کہ آج ہی اِس دنیا کی زندگی میں اس شخص کو اس کے کسب کی پوری جزا مل جائے در آں حالے کہ ابھی اس کے کسب کے اثرات کا لاکھواں حصہ بھی رونما نہیں ہوا ہے۔ پھر اس دنیا کی محدود زندگی اور اس کے محدود امکانات سرے سے اتنی گنجائش ہی نہیں رکھتے کہ یہاں کسی کو اس کے کسب کا پورا بدلہ مل سکے۔ آپ کسی ایسے شخص کے جرم کا تصور کیجیے جو مثلاً دنیا میں ایک جنگِ عظیم کی آگ بھڑکاتا ہے اور اس کی اس حرکت کے بے شمار برے نتائج ہزاروں برس تک اربوں انسانوں تک پھیلتے ہیں۔ کیا کوئی بڑی سے بڑی جسمانی، اخلاقی، روحانی، یا مادّی سزا بھی، جو اس دنیا میں دی جانی ممکن ہے، اُس کے اِس جرم کی پوری منصفانہ سزا ہو سکتی ہے ؟ اسی طرح کیا دنیا کا کوئی بڑے سے بڑا انعام بھی، جس کا تصور آپ کر سکتے ہیں، کسی ایسے شخص کے لیے کافی ہو سکتا ہے جو مدّة العمر نوعِ انسانی کی بھلائی کے لیے کام کرتا رہا ہو اور ہزاروں سال تک بے شمار انسان جس کی سعی کے ثمرات سے فائدہ اُٹھائے چلے جا رہے ہوں۔ عمل اور جزا کے مسئلے کو اس پہلو سے جو شخص دیکھے گا اُسے یقین ہو جائے گا کہ جزا کے لیے ایک دوسرا ہی عالم درکار ہے جہاں تمام اگلی اور پچھلی نسلیں جمع ہوں، تمام انسانوں کے کھاتے بند ہو چکے ہوں، حساب کرنے کے لیے ایک علیم و خیبر خدا انصاف کی کُرسی پر متمکن ہو، اور اعمال کا پورا بدلہ پانے کے لیے انسان کے پاس غیر محدود زندگی اور اس کے گرد و پیش جزا و سزا کے غیر محدود امکانات موجود ہوں۔
پھر اسی پہلو پر غور کرنے سے اہلِ تناسُخ کی ایک اور بنیادی غلطی کا ازالہ بھی ہو سکتا ہے جس میں مبتلا ہو کر انہوں نے آواگون کا چکر تجویز کیا ہے۔ وہ اس حقیقت کو نہیں سمجھے کہ صرف ایک ہی مختصر سی پچاس سالہ زندگی کے کارنامے کا پھل پانے کے لیے اُس سے ہزاروں گُنی زیادہ طویل زندگی درکار ہے، کجا کہ اس پچاس سالہ زندگی کے ختم ہوتے ہی ہماری ایک دوسری اور پھر تیسری ذمہ دار انہ زندگی اِسی دنیا میں شروع ہو جائے اور ان زندگیوں میں بھی ہم مزید ایسے کام کرتے چلے جائیں جن کا اچھا یا بُرا پھل ہمیں ملنا ضروری ہو۔ اِس طرح تو حساب بے باق ہونے کے بجائے اور زیادہ بڑھتا ہی چلا جائے گا اور اس کے بے باق ہونے کی نوبت کبھی آ ہی نہ سکے گی۔
۳۱-اہل دوزخ کی اس باہمی تکرار کو قرآن مجید میں کئی جگہ بیان کیا گیا ہے۔ مثلاً سورہ سبا آیات ۳۱-۳۲ میں ارشاد ہوتا ہے کہ ’’کاش تم دیکھ سکو اُس موقع کو جب یہ ظالم اپنے رب کے حضور کھڑے ہوں گے اور ایک دوسرے پر باتیں بنا رہے ہوں گے۔ جو لوگ دنیا میں کمزور بنا کر رکھے گئے تھے وہ اُن لوگوں سے جو بڑے بن کر رہے تھے، کہیں گے کہ اگر تم نہ ہوتے تو ہم مومن ہوتے۔ وہ بڑے بننے والے ان کمزور بنائے ہوئے لوگوں کو جواب دیں گے ہم نے تم کو ہدایت سے روک دیا تھا جب کہ وہ تمہارے پاس آئی تھی؟ نہیں، بلکہ تم خود مجرم تھے۔ ‘‘ مطلب یہ ہے کہ تم خود کب ہدایت کے طالب تھے ؟ اگر ہم نے تمہیں دنیا کے لالچ دے کر اپنا بندہ بنایا تو تم لالچی تھے جب ہی تو ہمارے دام میں گرفتار ہوئے۔ اگر ہم نے تمہیں خریدا تو تم خود بکنے کے لیے تیار تھے جب ہی تو ہم خرید سکے۔ اگر ہم نے تمہیں مادہ پرستی اور دنیا پرستی اور قوم پرستی اور ایسی ہی دوسری گمراہیوں اور بد اعمالیوں میں مبتلا کیا تو تم خود خدا سے بے زار اور دنیا کے پرستار تھے جب ہی تو تم نے خدا پرستی کی طرف بلانے والوں کو چھوڑ کر ہماری پکار پر لبیک کہا اگر ہم نے تمہیں مذہبی قسم کے فریب دیے تو اُن چیزوں کی مانگ تو تمہارے ہی اندر موجود تھی جنہیں ہم پیش کرتے تھے اور تم لپک لپک کر لیتے تھے۔ تم خدا کے بجائے ایسے حاجت روا مانگتے تھے جو تم سے کسی اخلاقی قانون کی پابندی کا مطالبہ نہ کریں اور بس تمہارے کام بناتے رہیں۔ ہم نے وہ حاجت روا تمہیں گھڑ کر دے دیے۔ تم کو ایسے سفارشیوں کی تلاش تھی کہ تم خدا سے بے پرواہ ہو دنیا کے کُتّے بنے رہو اور بخشوانے کا ذمہ وہ لے لیں۔ہم نے وہ سفارشی تصنیف کر کے تمہیں فراہم کر دیے۔ تم چاہتے تھے کہ خشک و بے مزہ دینداری اور پرہیزگاری اور قربانی اور سعی و عمل کے بجائے نجات کا کوئی اور راستہ بتا یا جائے جس میں نفس کے لیے لذتیں ہی لذتیں ہوں اور خواہشات پر پابندی کوئی نہ ہو۔ ہم نے ایسے خوش نما مذہب تمہارے لیے ایجاد کر دیے۔ غرض یہ کہ ذمہ دار ی تنہا ہمارے ہی اوپر نہیں ہے۔ تم بھی برابر کے ذمہ دار ہو۔ ہم اگر گمراہی فراہم کرنے والے تھے تو تم اس کے خریدار تھے۔
ترجمہ
یقین جانو، جن لوگوں نے ہماری آیات کو جھُٹلایا ہے اور ان کے مقابلے میں سرکشی کی ہے ان کے لیے آسمان کے دروازے ہر گز نہ کھولے جائیں گے۔ اُن کا جنّت میں جانا اتنا ہی نا ممکن ہے جتنا سُوئی کے ناکے سے اُونٹ کا گزرنا۔ مجرموں کو ہمارے ہاں ایسا ہی بدلہ ملا کرتا ہے۔ ان کے لیے جہنم کا بچھونا ہو گا اور جہنم ہی کا اوڑھنا۔ یہ ہے وہ جزا جو ہم ظالموں کو دیا کرتے ہیں۔ بخلاف اس کے جن لوگوں نے ہماری آیات کو مان لیا ہے اور اچھے کام کیے ہیں۔۔۔ اور اس باب میں ہم ہر ایک کو اس کی استطاعت ہی کے مطابق ذمہ دار ٹھیراتے ہیں۔۔۔وہ اہلِ جنّت ہیں جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ ان کے دلوں میں ایک دُوسرے کے خلاف جو کچھ کدورت ہو گی اسے ہم نکال دیں گے۔ ۳۲ اُن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، اور وہ کہیں گے کہ ’’ تعریف خدا ہی کے لیے ہے جس نے ہمیں راستہ دکھایا، ہم خود راہ نہ پا سکتے تھے اگر خدا ہماری رہنمائی نہ کرتا، ہمارے ربّ کے بھیجے ہوئے رسول واقعی حق ہی لے کر آئے تھے ‘‘۔ اُس وقت نِدا آئے گی کہ ’’ یہ جنّت جس کے تم وارث بنائے گئے ہو تمہیں اُن کے اعمال کے بدلے میں ملی ہے جو تم کرتے رہے تھے ‘‘۔ ۳۳پھر جنّت کے لوگ دوزخ والوں سے پکار کر کہیں گے، ’’ ہم نے اُن سارے وعدوں کو ٹھیک پا لیا جو ہمارے ربّ نے ہم سے کیے تھے، کیا تم نے بھی ان وعدوں کو ٹھیک پایا جو تمہارے ربّ نے کیے تھے ‘‘ ؟ وہ جواب دیں گے ’’ ہاں۔‘‘ تب ایک پکارنے والا ان کے درمیان پکارے گا کہ ’’خدا کی لعنت اُن ظالموں پر۔۔۔۔۔جو اللہ کے راستے سے لوگوں کو روکتے اور اسے ٹیڑھا کرنا چاہتے تھے اور آخرت کے منکر تھے ‘‘ان دونوں گروہوں کے درمیان ایک اوٹ حائل ہو گی جس کی بلندیوں (اَعراف) پر کچھ اور لوگ ہوں گے۔ یہ ہر ایک کو اس کے قیافہ سے پہچانیں گے اور جنّت والوں سے پکار کر کہیں گے کہ ’’سلامتی ہو تم پر‘‘ یہ لوگ جنّت میں داخل تو نہیں ہوئے مگر اس کے امیدوار ہوں گے۔ ۳۴اور جب ان کی نگاہیں دوزخ والوں کی طرف پھریں گی تو کہیں گے، ’’ اے رب!ہمیں اِن ظالموں میں شامل نہ کیجیو‘‘۔ ؏ ۵
تفسیر
۳۲-یعنی دنیا کی زندگی میں ان نیک لوگوں کے درمیان اگر کچھ رنجشیں، بدمزگیاں اور آپس کی غلط فہمیاں رہی ہوں تو آخرت میں وہ سب دور کر دی جائیں گی۔ ان کے دل ایک دوسرے سے صاف ہو جائیں گے۔ وہ مخلص دوستوں کی حیثیت سے جنت میں داخل ہوں گے۔ اُن میں سے کسی کو یہ دیکھ کر تکلیف نہ ہو گی کہ فلاں جو میرا مخلاف تھا اور فلاں جو مجھ سے لڑا تھا اور فلاں جس نے مجھ پر تنقید کی تھی، آج وہ بھی اس ضیافت میں میرے ساتھ شریک ہے۔ اسی آیت کو پڑھ کر حضرت علیؓ نے فرمایا تھا کہ مجھے امید ہے کہ اللہ میرے اور عثمانؓ اور طلحہ ؓ اور زبیر ؓ کے درمیان بھی صفائی کرا دے گا۔
اس آیت کو اگر ہم زیادہ وسیع نظر سے دیکھیں تو یہ نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ صالح انسانوں کے دامن پر اس دنیا کی زندگی میں جو داغ لگ جاتے ہیں اللہ تعالیٰ ان داغوں سمیت انہیں جنت میں نہ لے جائے گا بلکہ وہاں داخل کرنے سے پہلے اپنے فضل سے انہیں بالکل پاک صاف کر دے گا اور وہ بے داغ زندگی لیے ہوئے وہاں جائیں گے۔
۳۳-یہ ایک نہایت لطیف معاملہ ہے جو وہاں پیش آئے گا۔ اہلِ جنت اس بات پر نہ بھولیں گے کہ ہم نے کام ہی ایسے کیے تھے جن پر ہمیں جنت ملنی چاہیے تھی بلکہ وہ خدا کی حمد و ثناء اور شکر و احسان مندی میں رطب اللسان ہوں گے اور کہیں گے کہ یہ سب ہمارے رب کا فضل ہے ورنہ ہم کس لائق تھے۔ دوسری طرف اللہ تعالیٰ ان پر اپنا احسان نہ جتائے گا بلکہ جواب میں ارشاد فرمائے گا کہ تم نے یہ درجہ اپنی خدمات کہ صلہ میں پایا ہے، یہ تمہاری اپنی محنت کی کمائی ہے جو تمہیں دی جا رہی ہے، یہ بھیک کے ٹکڑے نہیں ہیں بلکہ تمہاری سعی کا اجر ہے، تمہارے کام کی مزدوری ہے، اور وہ با عزت روزی ہے جس کا استحقاق تم نے اپنی قوت بازو سے اپنے لیے حاصل کیا ہے۔ پھر یہ مضمون اِس انداز بیان سے اور بھی زیادہ لطیف ہو جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے جواب کا ذکر اس تصریح کے ساتھ نہیں فرماتا کہ ہم یوں کہیں گے بلکہ انتہائی شان کریمی کے ساتھ فرماتا ہے کہ جواب میں یہ ندا آئے گی۔
درحقیقت یہی معاملہ دنیا میں بھی خدا اور اس کے نیک بندوں کے درمیان ہے۔ ظالموں کو جو نعمت دنیا میں ملتی ہے وہ اس پر فخر کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ یہ ہماری قابلیت اور سعی و کوشش کا نتیجہ ہے، اور اسی بنا پر وہ نعمت کے حصول پر اور زیادہ متکبر اور مفسد بنتے چلے جاتے ہیں۔ اس کے برعکس صالحین کو جو نعمت بھی ملتی ہے وہ اسے خدا کا فضل سمجھتے ہیں، شکر بجا لاتے ہیں جتنے نوازے جاتے ہیں اتنے ہی زیادہ مُتواضع اور رحیم و شفیق اور فیاض ہوتے چلے جاتے ہیں۔ پھر آخرت کے بارے میں بھی وہ اپنے حسنِ عمل پر غرور نہیں کرتے کہ ہم تو یقیناً بخشنے ہی جائیں گے۔ بلکہ اپنی کوتاہیوں پر استغفار کرتے ہیں، اپنے عمل کے بجائے خدا کے رحم و فضل سے اُمیدیں وابستہ کرتے ہیں اور ہمیشہ ڈرتے ہی رہتے ہیں کہ کہیں ہمارے حساب میں لینے کے بجائے کچے دینا ہی نہ نکل آئے۔ بخاری و مسلم دونوں میں روایت موجود ہے کہ حضور ؐ نے فرمایا اعلموا ان احد کم لن ید خلہ عملہ الجنة۔خوب جان لو کہ تم محض اپنے عمل کے بل بوتے پر جنت میں نہ پہنچ جاؤ گے لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! کیا آپ بھی ؟ فرمایا ہاں میں بھی الا ان یتغمد نی اللہ برحمةٍ منہ و فضل، اِلّا یہ کہ اللہ مجھے اپنی رحمت اور اپنے فضل سے ڈھانک لے۔
۳۴-یعنی یہ اصحاب الاعراف وہ لوگ ہوں گے جن کی زندگی کا نہ تو مثبت پہلو ہی اتنا قوی ہو گا کہ جنت میں داخل ہو سکیں اور نہ منفی پہلو ہی اتنا خراب ہو گا کہ دوزخ میں جھونک دیے جائیں۔ اس لیے وہ جنت اور دوزخ کے درمیان ایک سرحد پر رہیں گے۔
ترجمہ
پھر یہ اَعراف کے لوگ دوزخ کی چند بڑی بڑی شخصیتوں کو اُن کی علامتوں سے پہچان کر پکاریں گے کہ ’’دیکھ لیا تم نے، آج نہ تمہارے جتھے تمہارے کسی کام آئے اور نہ وہ ساز و سامان جن کو تم بڑی چیز سمجھتے تھے۔ اور کیا یہ اہلِ جنّت وہی لوگ نہیں ہیں جن کے متعلق تم قسمیں کھا کھا کر کہتے تھے کہ اِن کو تو خدا اپنی رحمت میں سے کچھ بھی نہ دے گا؟ آج انہی سے کہا گیا کہ داخل ہو جاؤ جنّت میں، تمہارے لیے نہ خوف ہے نہ رنج۔‘‘ اور دوزخ کے لوگ جنّت والوں کو پکاریں گے کہ کچھ تھوڑا سا پانی ہم پر ڈال دو یا جو رزق اللہ نے تمہیں دیا ہے اُس میں سے کچھ پھینک دو۔ وہ جواب دیں گے ’’ اللہ نے یہ دونوں چیزیں اُن منکرینِ حق پر حرام کر دی ہیں۔۔۔ جنہوں نے اپنے دین کو کھیل اور تفریح بنا لیا تھا اور جنہیں دنیا کی زندگی نے فریب میں مبتلا کر رکھا تھا۔ اللہ فرماتا ہے کہ آج ہم بھی انہیں اسی طرح بھُلا دیں گے جس طرح وہ اِس دن کی ملاقات بھُولے رہے اور ہماری آیتوں کا انکار کرتے رہے۔ ‘‘ ۳۵ ہم اِن لوگوں کے پاس ایک ایسی کتاب لے آئے ہیں جس کو ہم نے علم کی بنا پر مفصّل بنایا ہے ۳۶ اور جو ایمان لانے والوں کے لیے ہدایت اور رحمت ہے۔ ۳۷اب کیا یہ لوگ اِس کے سوا کسی اور بات کے منتظر ہیں کہ وہ انجام سامنے آ جائے جس کی یہ کتاب خبر دے رہی ہے ؟۳۸ جس روز وہ انجام سامنے آ گیا تو وہی لوگ جنہوں نے پہلے اسے نظر انداز کر دیا تھا کہیں گے ’’ واقعی ہمارے ربّ کے رسول حق لے کر آئے تھے، پھر کیا اب ہمیں کچھ سفارشی ملیں گے جو ہمارے حق میں سفارش کریں؟ یا ہمیں دوبارہ واپس ہی بھیج دیا جائے تاکہ جو کچھ ہم پہلے کرتے تھے اس کے بجائے اب دوسرے طریقے پر کام کر کے دکھائیں ۳۹‘‘۔۔۔۔۔انہوں نے اپنے آپ کو خسارے میں ڈال دیا اور وہ سارے جھوٹ جو انہوں نے تصنیف کر رکھے تھے آج ان سے گم ہو گئے۔ ؏ ٦
تفسیر
۳۵-اہلِ جنت اور اہل دوزخ اور اصحاب الاعراف کی اس گفتگو سے کسی حد تک اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ عالم آخرت میں انسان کی قوتوں کا پیمانہ کس قدر وسیع ہو جائے گا۔ وہاں آنکھوں کی بینائی اتنے بڑے پیمانہ پر ہو گی کہ جنت اور دوزخ اور اعراف کے لوگ جب چاہیں گے ایک دوسرے کو دیکھ سکیں گے۔ وہاں آواز اور سماعت بھی اتنے بڑے پیمانہ پر ہو گی کہ اِن مختلف دنیاؤں کے لوگ ایک دوسرے سے بآسانی گفت و شنید کر سکیں گے۔ یہ اور ایسے ہی دوسرے بیانات جو عالم آخرت کے متعلق ہمیں قرآن میں ملتے ہیں۔ اس بات کا تصور دلانے کے لیے کافی ہیں کہ وہاں زندگی کے قوانین ہماری موجودہ دنیا کے قوانین طبیعی سے بالکل مختلف ہوں گے، اگر چہ ہماری شخصیتیں یہی رہیں گی جو یہاں ہیں۔ جن لوگوں کے دماغ اِس عالمِ طبیعی کے حدود میں اس قدر مقیّد ہیں کہ موجودہ زندگی اور اس کے مختصر پیمانوں سے وسیع تر کسی چیز کا تصور ان میں نہیں سما سکتا وہ قرآن اور حدیث کے اِن بیانات کو بڑے اچنبھے کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور بسا اوقات ان کا مذاق اُڑا کر اپنی خفیف العقلی کا مزید ثبوت بھی دینے لگتے ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ ان بیچاروں کا دماغ جتنا تنگ ہے زندگی کے امکانات اُتنے تنگ نہیں ہیں۔
۳۶-یعنی اس میں پوری تفصیل کے ساتھ بتا دیا گیا ہے کہ حقیقت کیا ہے اور انسان کے لیے دنیا کی زندگی میں کونسا رویّہ درست ہے اور صحیح طرزِ زندگی کے بنیادی اصول کیا ہیں۔ پھر یہ تفصیلات بھی قیاس یا گمان یا وہم کی بنیاد پر نہیں بلکہ خالص علم کی بنیاد پر ہیں۔
۳۷-مطلب یہ ہے کہ اوّل تو اس کتاب کے مضامین اور اس کی تعلیمات ہی بجائے خود اس قدر صاف ہیں کہ آدمی اگر ان پر غور کرے تو اس کے سامنے راہِ حق واضح ہو سکتی ہے۔ پھر اس پر مزید یہ ہے کہ جو لوگ اس کتاب کو مانتے ہیں ان کی زندگی میں عملاً بھی اِس حقیقت کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے کہ یہ انسان کی کیسی صحیح رہنمائی کرتی ہے اور کتنی بڑی رحمت ہے کہ اس کا اثر قبول کرتے ہی انسان کی ذہنیت، اس کے اخلاق اور اس کی سیرت میں بہترین انقلاب شروع ہو جاتا ہے۔ یہ اشارہ ہے اُن حیرت انگیز اثرات کی طرف جو اس کتاب پر ایمان لانے سے صحابہ کرام کی زندگیوں میں ظاہر ہو رہے تھے۔
۳۸-دوسرے الفاظ میں اس مضمون کو یوں سمجھیے کہ جس شخص کو صحیح اور غلط کا فرق نہایت معقول طریقہ سے صاف صاف بتایا جاتا ہے مگر وہ نہیں مانتا، پھر اس کے سامنے کچھ لوگ صحیح راستہ پر چل کر مشاہدہ بھی کرا دیتے ہیں کہ غلط روی کے زمانے میں وہ جیسے کچھ تھے ا س کی بہ نسبت راست روی اختیار کر کے ان کی زندگی کتنی بہتر ہو گئی ہے، مگر اس سے بھی وہ کوئی سبق نہیں لیتا، تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اب وہ صرف اپنی غلط روی کی سزا پا کر ہی مانے گا کہ ہاں یہ غلط روی تھی۔ جو شخص نہ حکیم کے عاقلانہ مشوروں کو قبول کرتا ہے اور نہ اپنے جیسے بکثرت بیماروں کو حکیم کی ہدایات پر عمل کرنے کی وجہ سے شفا یاب ہوتے دیکھ کر ہی کوئی سبق لیتا ہے، وہ اب بسترِ مرگ پر لیٹ جانے کے بعد ہی تسلیم کرے گا کہ جن طریقوں پر وہ زندگی بسر کر رہا تھا وہ اس کے لیے واقعی مہلک تھے۔
۳۹-یعنی وہ دوبارہ اِس دنیا میں واپس آنے کی خواہش کریں گے اور کہیں گے کہ جس حقیقت کی ہمیں خبر دی گئی تھی اور اُس وقت ہم نے نہ مانا تھا، اب وہ مشاہدہ کر لینے کے بعد ہم اس سے واقف ہو گئے ہیں، لہٰذا اگر ہمیں دنیا میں پھر بھیج دیا جائے تو ہمارا طرز عمل وہ نہ ہو گا جو پہلے تھا۔ اس درخواست اور اس کے جوابات کے لیے ملاحظہ ہو الانعام، آیات ۲۷-۲۸ ابراہیم ۴۴-۴۵ السجدہ ۱۲-۱۳ فاطر ۳۷۔الزمر ۵۶تا ۵۹۔ المومن۔ ۱۱-۱۲۔
ترجمہ
درحقیقت تمہارا ربّ اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا،۴۰ پھر اپنے تختِ سلطنت پر جلوہ فرما ہوا۔۴۱ جو رات کو دن پر ڈھانک دیتا ہے اور پھر دن رات کے پیچھے دوڑا چلا آتا ہے۔ جس نے سُورج اور چاند اور تارے پیدا کیے۔ سب اس کے فرمان کے تابع ہیں۔ خبر دار رہو! اُسی کی خلق ہے اور اسی کا امر ہے ۴۲۔ بڑا با برکت ہے اللہ ۴۳، سارے جہانوں کا مالک و پروردگار۔ اپنے ربّ کو پکارو گِڑ گِڑاتے ہوئے اور چپکے چپکے، یقیناً وہ حد سے گزرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔زمین میں فساد برپا نہ کرو جبکہ اس کی اصلاح ہو چکی ہے ۴۴ اور خدا ہی کو پکارو خوف کے ساتھ اور طمع کے ساتھ،۴۵ یقیناً اللہ کی رحمت نیک کردار لوگوں سے قریب ہے۔ اور وہ اللہ ہی ہے جو ہواؤں کو اپنی رحمت کے آگے آگے خوشخبری لیے ہوئے بھیجتا ہے، پھر جب وہ پانی سے لدے ہوئے بادل اُٹھا لیتی ہیں تو انہیں کسی مُردہ سر زمین کی طرف حرکت دیتا ہے اور وہاں مینہ برسا کر ( اُسی مری ہوئی زمین سے ) طرح طرح کے پھل نکال لاتا ہے۔ دیکھو، اس طرح ہم مُردوں کو حالتِ موت سے نکالتے ہیں، شاید کہ تم اس مشاہدے سے سبق لو۔جو زمین اچھی ہوتی ہے وہ اپنے ربّ کے حکم سے خوب پھل پھول لاتی ہے اور جو زمین خراب ہوتی ہے اس سے ناقص پیداوار کے سوا کچھ نہیں نکلتا۔۴۶ اس طرح ہم نشانیوں کو بار بار پیش کرتے ہیں اُن لوگوں کے لیے جو شکر گزار ہونے والے ہیں۔ ؏۷
تفسیر
۴۰-یہاں دن کا لفظ یا تو اسی چوبیس گھنٹے کے دن کا ہم معنی ہے جسے دنیا کے لوگ دن کہتے ہیں، یا پھر یہ لفظ دور (Period) کے معنی میں استعمال ہوا ہے، جیسا کہ سورة الحج آیت نمبر ۴۷ میں فرمایا وَاِنَّ یَوْمًاعِنْدَرَبِّکِ کَاَلْفِ سَنَةٍمِمَّاتَعُدُّوْنَ(اور حقیقت یہ ہے کہ تیرے رب کے ہاں ایک دن ہزار سال کے برابر ہے اُس حساب سے جو تم لوگ لگاتے ہو)، اور سورة مارج کی آیت ۴ میں فرمایا کہ تَعْرُجُ الْمَلٰئِکَةُوَالرُّوْحُ اِلَیْہِ فِیْ یَوْمٍ کَانَ مِقْدَارُہٗ خَمْسِیْنَ اَلْفَ سَنَةٍ(فرشتے اور جبرائیل اس کی طرف ایک دن میں چڑھتے ہیں جس کی مقدار پچاس ہزار سال کی ہے )۔اس کا صحیح مفہوم اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو حٰم السجدہ حواشی ۱۱تا ۱۵)
۴۱-خد ا کے استواء علی العرش(تخت سلطنت پر جلوہ فرما ہونے )کی تفصیلی کیفیت کو سمجھنا ہمارے لیے مشکل ہے۔ بہت ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کائنات کی تخلیق کے بعد کسی مقام کو اپنی اس لا محدود سلطنت کا مرکز قرار دے کر اپنی تجلیات کو وہاں مرتکز فرما دیا ہو اور اسی کا نام عرش ہو جہاں سے سارے عالم پر وجود اور قوت کا فیضان بھی ہو رہا ہے اور تدبیر امر بھی فرمائی جا رہی ہے۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ عرش سے مراد اقتدار فرماں روائی ہو اور ا س پر جلوہ فرما ہونے سے مرادیہ ہو کہ اللہ نے کائنات کو پیدا کر کے اس کی زمامِ سلطنت اپنے ہاتھ میں لی۔ بہر حال استواء علی العرش کا تفصیلی مفہوم خواہ کچھ بھی ہو، قرآن میں اس کے ذکر کا اصل مقصد یہ ذہن نشین کر نا ہے کہ اللہ تعالیٰ محض خالقِ کائنات ہی نہیں ہے بلکہ مدبّرِ کائنات بھی ہے۔ وہ دنیا کو وجود میں لانے کے بعد اس سے بے تعلق ہو کر کہیں بیٹھ نہیں گیا ہے بلکہ عملاً وہی سارے جہان کے جزو کل پر فرماں روائی کر رہا ہے۔ سلطانی و حکمرانی کے تمام اختیارات بالفعل اس کے ہاتھ میں ہیں، ہر چیز اس کے امر کی تابع ہے، ذرّہ ذرّہ اس کے فرمان کا مطیع ہے اور موجودات کی قسمتیں دائماً اس کے حکم سے وابستہ ہیں۔ اس طرح قرآن اُ س بنیادی غلط فہمی کی جڑ کاٹنا چاہتا ہے جس کی وجہ سے انسان کبھی شرک کی گمراہی میں مبتلا ہوا ہے اور کبھی خود مختاری و خودسری کی ضلالت میں۔ خدا کو کائنات کے انتظام سے عملاً بے تعلق سمجھ لینے کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ آدمی یا تو اپنی قسمت کو دوسروں سے وابستہ سمجھے اور ان کے آگے سر جھکا دے، یا بھر اپنی قسمت کا مالک خود اپنے آپ کو سمجھے اور خود مختار بن بیٹھے۔
یہاں ایک بات اور قابل توجہ ہے۔ قرآن مجید میں خدا اور خلق کے تعلق کو واضح کرنے کے لیے انسانی زبان میں سے زیادہ تر وہ الفاظ، مصطلحات، استعارے اور انداز بیان انتخاب کیے گئے ہیں جو سلطنت و بادشاہی سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ طرز بیان قرآن میں اس قدر نمایاں ہے کہ کوئی شخص جو سمجھ کر قرآن کو پڑھتا ہو اسے محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ بعض کم فہم ناقدین کے معکوس دماغوں نے اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ یہ کتاب جس عہد کی ’’تصنیف‘‘ ہے اس زمانہ میں انسان کے ذہن پر شاہی نظام کا تسلط تھا اس لیے مصنف نے (جس سے مراد ان ظالموں کے نزدیک محمد صلی اللہ علیہ و سلم ہیں) خدا کو بادشاہ کے رنگ میں پیش کیا۔ حالانکہ دراصل قرآن جس دائمی و ابدی حقیقت کو پیش کر رہا ہے وہ اس کے بر عکس ہے۔ وہ حقیقت یہ ہے کہ زمین اور آسمانوں میں پادشاہی صرف ایک ذات کی ہے، اور حاکمیت (Sovereignty) جس شے کا نام ہے وہ اسی ذات کے لیے خاص ہے، اور یہ نظامِ کائنات ایک کامل مرکزی نظام ہے جس میں تمام اختیارات کو وہی ایک ذات استعمال کر رہی ہے، لہذا اس نظام میں جو شخص یا گروہ اپنی یا کسی اور کی جزوی یا کُلّی حاکمیت کا مدعی ہے وہ محض فریب میں مبتلا ہے۔ نیز یہ کہ اس نظام کے اندر رہتے ہوئے انسان کے لیے اِس کے سوا کوئی دوسرا رویہ صحیح نہیں ہو سکتا کہ اُسی ایک ذات کو مذہبی معنوں میں واحد معبود بھی مانے اور سیاسی و تمدنی معنوں میں واحد سلطان (Sovereign)بھی تسلیم کرے۔
۴۲-یہ اُسی مضمون کی مزید تشریح ہے جو ’’استواء علی العرش‘‘ کے الفاظ میں مجملاً بیان کیا گیا تھا۔ یعنی یہ کہ خدا محض خالق ہی نہیں آمر اور حاکم بھی ہے۔ اس نے اپنی خلق کو پیدا کر کے نہ تو دوسروں کے حوالے کر دیا کہ وہ اس میں حکم چلائیں، اور نہ پوری خلق کو یا اس کے کسی حصّے کو خود مختار بنا دیا ہے کہ جس طرح چاہے خود کام کرے۔ بلکہ عملاً تمام کائنات کی تدبیر خدا کے اپنے ہاتھ میں ہے۔ لیل و نہار کی گردش آپ سے آپ نہیں ہو رہی ہے بلکہ خدا کے حکم سے ہو رہی ہے، جب چاہے اسے روک دے اور جب چاہے اس کے نظام کو تبدیل کر دے۔ سورج اور چاند اور تارے خود کسی طاقت کے مالک نہیں ہیں بلکہ خدا کے ہاتھ میں بالکل مسخّر ہیں اور مجبور غلاموں کی طرح بس وہی کام کیے جا رہے ہیں جو خدا ان سے لے رہا ہے۔
۴۳-برکت کے اصل معنی ہیں نمو، افزائش اور بڑھوتری کے، اور اسی کے ساتھ اس لفظ میں رفعت و عظمت کا مفہوم بھی ہے اور ثبات اور جماؤ کا بھی۔ پھر ان سب مفہومات کے ساتھ خیر اور بھلائی کا تصورّ لازماً شامل ہے۔ پس اللہ کے نہایت با برکت ہونے کا مطلب یہ ہوا کہ اس کی خوبیوں اور بھلائیوں کی کوئی حد نہیں ہے، بے حد و حساب خیرات اس کی ذات سے پھیل رہی ہیں، اور وہ بہت بلند و بر تر ہستی ہے، کہیں جا کر اس کی بلندی ختم نہیں ہوتی، اور اس کی یہ بھلائی اور رفعت مستقل ہے، عارضی نہیں ہے کہ کبھی اس کو زوال ہو۔(مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو، الفرقان، حواشی ۱-۱۹)۔
۴۴- ’’زمین میں فساد برپا نہ کرو‘‘، یعنی زمین کے انتظام کو خراب نہ کرو۔ انسان کا خدا کی بندگی سے نکل کر اپنے نفس کی یا دوسروں کی بندگی اختیار کرنا اور خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنے اخلاق، معاشرت اور تمدّن کو ایسے اصول اور قوانین پر قائم کرنا جو خدا کے سوا کسی اور کی رہنمائی سے ماخوذ ہوں، یہی وہ بنیادی فساد ہے جس سے زمین کے انتظام میں خرابی کی بے شمار صورتیں رونما ہوتی ہیں اور اسی فساد کو روکنا قرآن کا مقصود ہے۔ پھر اس کے ساتھ قرآن اس حقیقت پربھی متنبہ کرتا ہے کہ زمین کے انتظام میں اصل چیز فساد نہیں ہے جس پر صَلاح عارض ہوئی ہو بلکہ اصل چیز صَلاح ہے جس پر فساد محض انسان کی جہالت اور سرکشی سے عارض ہوتا رہا ہے۔ بالفاظ دیگر یہاں انسان کی زندگی کی ابتدا جہالت و وحشت اور شرک و بغاوت اور اخلاقی بدنظمی سے نہیں ہوئی ہے جس کو دور کرنے کے لیے بعد میں بتدریج اصلاحات کی گئی ہوں، بلکہ فی الحقیقت انسانی زندگی کا آغاز صَلاح سے ہوا ہے اور بعد میں اس درست نظام کو غلط کار انسان اپنی حماقتوں اور شرارتوں سے خراب کرتے رہے ہیں۔ اسی فساد کو مٹانے اور نظامِ حیات کو از سرِ نو درست کر دینے کے لیے اللہ تعالیٰ وقتاً فوقتاً اپنے پیغمبر بھیجتا رہا ہے اور انہوں نے ہر زمانے میں انسان کو یہی دعوت دی ہے کی زمین کا انتظام جس صَلاح پر قائم کیا گیا تھا اس میں فساد برپا کرنے سے باز آؤ۔
اس معاملہ میں قرآن کا نقطۂ نظر اُن لوگوں کے نقطۂ نظر سے بالکل مختلف ہے جنہوں نے ارتقاء کا غلط تصوّر لے کر یہ نظریہ قائم کیا ہے کہ انسان ظلمت سے نکل کر بتدریج روشنی میں آیا ہے اور اس کی زندگی بگاڑ سے شروع ہو کر رفتہ رفتہ بنی اور بنتی جا رہی ہے۔ اس کے برعکس قرآن کہتا ہے کہ خدا نے انسان کو پوری روشنی میں زمین پر بسایا تھا اور ایک صالح نظام سے اس کی زندگی کی ابتدا کی تھی۔ پھر انسان خود شیطانی رہنمائی قبول کر کے بار بار تاریکی میں جاتا رہا اور اس صالح نظام کو بگاڑتا رہا اور خدا بار بار اپنے پیغمبروں کو اس غرض کے لیے بھیجتا رہا کہ اسے تاریکی سے روشنی کی طرف آنے اور فساد سے باز رہنے کی دعوت دیں۔ (سورۂ بقرہ، حاشیہ نمبر ۲۳۰)
۴۵-اس فقرے سے واضح ہو گیا کہ اوپر کے فقرے میں جس چیز کو فساد سے تعبیر کیا گیا ہے وہ دراصل یہی ہے کہ انسان خدا کے بجائے کسی اور کو اپنا ولی و سرپرست اور کارساز اور کارفرما قرار دے کر مدد کے لیے پکارے۔ اور اصلاح اس کے سوا کسی دوسری چیز کا نام نہیں ہے کہ انسان کی اِس پکار کا مرجع پھر سے محض اللہ کی ذات ہی ہو جائے۔
خوف اور طمع کے ساتھ پارنے کا مطلب یہ ہے کہ تمہیں خوف بھی ہو تو اللہ سے ہو اور تمہاری اُمیدیں بھی اگر کسی سے وابستہ ہوں تو صرف اللہ سے ہوں۔ اللہ کو پکارو تو اس احساس کے ساتھ پکارو کہ تمہاری قسمت بالکلیہ اس کی نظرِ عنایت پر منحصر ہے، فلاح و سعادت کو پہنچ سکتے ہو تو صرف اس کی مدد اور رہنمائی سے، ورنہ جہاں تم اس کی اعانت سے محروم ہوئے پھر تمہارے لیے تباہی و نا مرادی کے سوا کوئی دوسرا انجام نہیں ہے۔
۴۶-یہاں ایک لطیف مضمون ارشاد ہوا ہے جس پر متنبہ ہو جا نا اصل مدعا کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے۔ بارش اور اس کی برکتوں کے ذکر سے اِس مقام پر خدا کی قدرت کا بیان اور حیات بعد الممات کا اثبات بھی مقصود ہے اور اس کے ساتھ ساتھ تمثیل کے پیرایہ میں رسالت اور اس کی برکتوں کا اور اس کے ذریعہ سے خوب و زشت میں فرق اور خبیث و طیّب میں امتیاز نمایاں ہو جانے کا نقشہ دکھانا بھی پیش نظر ہے۔ رسول کی آمد اور خدا ئی تعلیم و ہدایت کے نزول کو بارانی ہواؤں کے چلنے اور ابرِ رحمت کے چھا جانے اور امرت بھری بوندوں کے برسنے سے تشبیہ دی گئی ہے۔ پھر بارش کے ذریعہ سے مردہ پڑی ہوئی زمین کے یکا یک جی اُٹھنے اور اس کے بطن سے زندگی کے خزانے اُبل پڑنے کو اُس حالت کے لیے بطور مثال پیش کیا گیا ہے جو نبی کی تعلیم و تربیت اور رہنمائی سے مردہ پڑی ہوئی انسانیت کے یکا یک جاگ اُٹھنے اور اس کے سینے سے بھلائیوں کے خزانے اُبل پڑنے کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے اور پھر یہ بتا یا گیا ہے کہ جس طرح بارش کے نزول سے یہ ساری برکتیں صرف اسی زمین کو حاصل ہوتی ہیں جو حقیقت میں زرخیز ہوتی ہے اور محض پانی نہ ملنے کی وجہ سے جس کی صلاحیتیں دبی رہتی ہیں، اسی طرح رسالت کی ان برکتوں سے بھی صرف وہی انسان فائدہ اُٹھاتے ہیں جو حقیقت میں صالح ہوتے ہیں اور جن کی صلاحیتوں کو محض رہنمائی نہ ملنے کی وجہ سے نمایاں ہونے اور بر سر کار آنے کا موقع نہیں ملتا۔ رہے شرارت پسند اور خبیث انسان تو جس طرح شوریلی زمین بارانِ رحمت سے کوئی فائدہ نہیں اُٹھاتی بلکہ پانی پڑتے ہی اپنے پیٹ کے چھپے ہوئے زہر کو کانٹوں اور جھاڑیوں کی صورت میں اُگل دیتی ہے، اسی طرح رسالت کے ظہور سے انہیں بھی کوئی نفع نہیں پہنچتا بلکہ اس کے بر عکس ان کے اندر دبی ہوئی تمام خباثتیں اُبھر کر پوری طرف برسر کار آ جا تی ہیں۔
اسی تمثیل کو بعد کے کئی رکوعوں میں مسلسل تاریخی شواہد پیش کر کے واضح کیا گیا ہے کہ ہر زمانے میں نبی کی بعثت کے بعد انسانیت دو حِصّوں میں تقسیم ہوتی رہی ہے۔ ایک طیّب حصہ جو فیضِ رسالت سے پھلا اور پھولا اور بہتر برگ و بار لایا۔ دوسرا خبیث حصہ جس نے کسوٹی کے سامنے آتے ہی اپنی ساری کھوٹ نمایاں کر کے رکھ دی اور آخر کار اس کو ٹھیک اسی طرح چھانٹ کر پھینک دیا گیا جس طرح سنار چاندی سونے کے کھوٹ کو چھانٹ پھینکتا ہے۔
ترجمہ
ہم نے نوح ؑ کو اُس کی قوم کی طرف بھیجا۔۴۷ اس نے کہا ’’اے برادرانِ قوم، اللہ کی بندگی کرو، اُسکے سوا تمہارا کوئی خدا نہیں ہے۔ ۴۸ میں تمہارے حق میں ایک ہولناک دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں۔‘‘ اس کی قوم کے سرداروں نے جواب دیا ’’ہم کو تو یہ نظر آتا ہے کہ تم صریح گمراہی میں مبتلا ہو۔‘‘ نوح ؑ نے کہا ’’اے برادرانِ قوم، میں کسی گمراہی میں نہیں پڑا ہوں بلکہ میں ربّ العالمین کا رسول ہوں، تمہیں اپنے ربّ کے پیغامات پہنچاتا ہوں، تمہارا خیر خواہ ہوں اور مجھے اللہ کی طرف سے وہ کچھ معلوم ہے جو تمہیں معلوم نہیں ہے۔ کیا تمہیں اس بات پر تعجب ہوا کہ تمہارے پاس خود تمہاری اپنی قوم کے ایک آدمی کے ذریعہ سے تمہارے ربّ کی یاددہانی آئی تاکہ تمہیں خبردار کرے اور تم غلط روی سے بچ جاؤ اور تم پر رحم کیا جائے ؟۴۹‘‘مگر انہوں نے اس کو جھُٹلا دیا۔ آخرِ کار ہم نے اسے اور اس کے ساتھیوں کو ایک کشتی میں نجات دی اور اُن لوگوں کو ڈبو دیا جنہوں نے ہماری آیات کو جھُٹلایا تھا،۵۰ یقیناً وہ اندھے لوگ ہیں۔ ؏ ۸
تفسیر
۴۷-اس تاریخی بیان کی ابتدا حضرت نوح ؑ اور ان کی قوم سے کی گئی ہے، کیونکہ قرآن کی رو سے جس صالح نظامِ زندگی پر حضرت آدم ؑ اپنی اولاد کو چھوڑ گئے تھے اس میں سب سے پہلا بگاڑ حضرت نوح ؑ کے دور میں رونما ہوا اور اس کی اصلاح کے لیے اللہ تعالیٰ نے ان کو مامور فرمایا۔
قرآن کے ارشادات اور بائیبل کی تصریحات سے یہ بات متحقق ہو جاتی ہے کہ حضرت نوح ؑ کی قوم اُس سر زمین میں رہتی تھی جس کو آج ہم عراق کے نام سے جانتے ہیں۔ بابِل کے آثارِ قدیمہ میں بائیبل سے قدیم تر جو کتبات ملے ہیں ان سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے، اُن میں تقریباً اُسی قسم کا ایک قصہ مذکور ہے جس کا ذکر قرآن اور تورات میں بیان ہوا ہے اور اس کی جائے وقوع موصل کے نواح میں بتائی گئی ہے۔ پھر جو روایات کُردستان اور آرمینیہ میں قدیم ترین زمانے سے نسلاً بعد نسل چلی آ رہی ہیں اُن سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ طوفان کے بعد حضرت نوح ؑ کی کشتی اسی علاقہ میں کسی مقام پر ٹھری تھی۔ موصل کے شمال میں جزیرہ ابنِ عمر کے آس پاس، آرمینیہ کی سرحد پر کوہِ اراراط کے نواح میں نوح ؑ کے مختلف آثار کی نشان دہی اب بھی کی جاتی ہے، اور شہر نَخچِیوان کے باشندوں میں آج تک مشہور ہے کہ اِس شہر کی بنا حضرت نوح ؑ نے ڈالی تھی۔
حضرت نوح ؑ کے اس قصے سے ملتی جُلتی روایات یونان،مصر، ہندوستان اور چین کے قدیم لٹیریچر میں بھی ملتی ہیں اور اس کے علاوہ برما، ملایا، جزائر شرق الہند، آسٹریلیا، نیوگنی اور امریکہ و یورپ کے مختلف حصوں میں بھی ایسی ہی روایات قدیم زمانہ سے چلی آ رہی ہیں۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ قصہ اُس عہد سے تعلق رکھتا ہے جبکہ پوری نسلِ آدم کسی ایک ہی خطہ زمین میں رہتی تھی اور پھر وہاں سے نکل کر دنیا کے مختلف حصوں میں پھیلی۔ اسی وجہ سے تمام قومیں اپنی ابتدائی تاریخ میں ایک ہمہ گیر طوفان کی نشان دہی کرتی ہیں، اگرچہ مرورِ ایام سے اس کی حقیقی تفصیلات انہوں نے فراموش کر دیں اور اصل واقعہ پر ہر ایک نے اپنے اپنے تخیل کے مطابق افسانوں کا ایک بھا ری خول چڑھا دیا۔
۴۸-یہاں اور دوسرے مقامات پر حضرت نوح ؑ اور ان کی قوم کا جو حال قرآن مجید میں بیان کیا گیا ہے اس سے یہ بات صاف ظاہر ہوتی ہے کہ یہ قوم نہ تو اللہ کے وجود کی منکر تھی، نہ اس سے ناواقف تھی، نہ اُسے اللہ کی عبادت سے انکار تھا، بلکہ اصل گمراہی جس میں وہ مبتلا ہو گئی تھی، شرک کی گمراہی تھی۔ یعنی اس نے اللہ کے ساتھ دوسری ہستیوں کو خدائی میں شریک اور عبادت کے استحقاق میں حصہ دار قرار دے لیا تھا۔ پھر اس بنیادی گمراہی سے بے شمار خرابیاں اس قوم میں رونما ہو گئیں۔ جو خود ساختہ معبود خدائی میں شریک ٹھیرا لیے گئے تھے ان کی نمائندگی کرنے کے لیے قوم میں ایک خاص طبقہ پیدا ہو گیا جو تمام مذہبی سیاسی اور معاشی اقتدار کا مالک بن بیٹھا اور اس نے انسانوں میں اُونچ اور نیچ کی تقسیم پیدا کر دی، اجتماعی زندگی کو ظلم و فساد سے بھر دیا او اخلاقی فسق و فجور سے انسانیت کی جڑیں کھوکھلی کر دیں۔ حضرت نوح ؑ نے اس حالت کو بدلنے کے لیے ایک زمانہ دراز تک انتہائی صبر و حکمت کے ساتھ کوشش کی مگر عامۃ الناس کو ان لوگوں نے اپنے مکر کے جال میں ایسا پھانس رکھا تھا کہ اصلاح کی کوئی تدبیر کارگر نہ ہوئی۔ آخر کار حضرت نوح ؑ نے خدا سے دعا کی کہ ان کافروں میں سے ایک کو بھی زمین پر زندہ نہ چھوڑ، کیونکہ اگر تو نے ان میں سے کسی کو بھی چھوڑ دیا تو یہ تیرے بندوں کو گمراہ کریں گے اور ان کی نسل سے جو بھی پیدا ہو گا بدکار اور نمک حرام ہی پیدا ہو گا۔ (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو سورہ ہود، رکوع۳۔ سورہ شعراء رکوع ۶۔ اور سورہ نوح مکمل)۔
۴۹-یہ معاملہ جو حضرت نوح ؑ اور ان کی قوم کے درمیان پیش آیا تھا بعینہٖ ایسا ہی معاملہ مکہ میں محمد صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کی قوم کے درمیان پیش آ رہا تھا۔ جو پیغام حضرت نوح ؑ کا تھا وہی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا تھا۔ جو شبہات اہلِ مکّہ کے سردار حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی رسالت میں ظاہر کرتے تھے، وہی شبہات ہزاروں سال پہلے سردارانِ قومِ نوح ؑ نے حضرت نوح ؑ کی رسالت میں ظاہر کیے تھے۔ پھر ان کے جواب میں جو باتیں حضرت نوح ؑ کہتے تھے بعینہٖ وہی باتیں محمد صلی اللہ علیہ و سلم بھی کہتے تھے آگے چل کر دوسرے انبیاء علیہم السلام اور ان کی قوموں کے جو قصے مسلسل بیان ہو رہے ہیں ان میں بھی یہی دکھایا گیا ہے کہ ہر نبی کی قوم کا رویّہ اہل مکہ کے رویّہ سے اور ہر نبی کی تقریر محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی تقریر سے ہُو بہُو مشابہ ہے۔ اس سے قرآن اپنے مخاطبوں کو یہ سمجھا نا چاہتا ہے کہ انسان کی گمراہی ہر زمانے میں بنیادی طور پر ایک ہی طرح کی رہی ہے، اور خدا کے بھیجے ہوئے معلّموں کی دعوت بھی ہر عہد اور ہر سرزمین میں یکساں رہی ہے اور ٹھیک اسی طرح اُن لوگوں کا انجام بھی ایک ہی جیسا ہوا ہے اور ہو گا جنہوں نے انبیاء کی دعوت سے منہ موڑا اور اپنی گمراہی پر اصرار کیا۔
۵۰-جو لوگ قرآن کے اندازِ بیان سے اچھی طرح واقف نہیں ہوتے وہ بسا اوقات اس شبہہ میں پڑ جاتے ہیں کہ شاید یہ سارا معاملہ بس ایک دو صحبتوں میں ختم ہو گیا ہو گا۔ نبی اٹھا اور اس نے اپنا دعویٰ پیش کیا، لوگوں نے اعتراضات کیے اور نبی نے ان کا جواب دیا، لوگوں نے جھٹلایا اور اللہ نے عذاب بھیج دیا۔ حالانکہ فی الحقیقت جن واقعات کو یہاں سمیٹ کر چند سطروں میں بیان کر دیا گیا ہے وہ ایک نہایت طویل مدّت میں پیش آئے تھے۔ قرآن کا یہ مخصوص طرز بیان ہے کہ وہ قصہ گوئی محض قصہ گوئی کی خاطر نہیں کرتا بلکہ سبق آموزی کے لیے کرتا ہے۔ اس لیے ہر جگہ تاریخی واقعات کے بیان میں وہ قصّے کے صرف اُن اہم اجزاء کو پیش کرتا ہے جو اس کے مقصد و مدعا سے کوئی تعلق رکھتے ہیں، باقی تمام تفصیلات کو نظر انداز کر دیتا ہے۔ پھر اگر کسی قصہ کو مختلف مواقع پر مختلف اغراض کے لیے بیان کر تا ہے تو ہر جگہ مقصد کی مناسبت سے تفصیلات بھی مختلف طور پر پیش کرتا ہے۔ مثلاً اسی قصّہ نوح ؑ کو لیجیے۔ یہاں اس کے بیان کا مقصد یہ بتانا ہے کہ پیغمبر کی دعوت کو جھٹلانے کا کیا انجام ہوتا ہے۔ لہٰذا اس مقام پر یہ ظاہر کرنے کی ضرورت نہیں تھی کہ پیغمبر کتنی طویل مدّت تک اپنی قوم کو دعوت دیتا رہا۔ لیکن جہاں یہ قصّہ اس غرض کے لیے بیان ہوا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کے ساتھیوں کو صبر کی تلقین کی جائے وہاں خاص طور پر دعوتِ نوح ؑ کی طویل مدّت کا ذکر کیا گیا ہے تاکہ آں حضرت محمدصلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کے رفقاء اپنی چند سال کی تبلیغی سعی و محنت کو نتیجہ خیز ہوتے نہ دیکھ کر بد دل نہ ہوں اور حضرت نوح ؑ کے صبر کو دیکھیں جنہوں نے مدتہائے دراز تک نہایت دل شکن حالات میں دعوتِ حق کی خدمت انجام دی اور ذرا ہمّت نہ ہاری۔ ملاحظہ ہو سورہ عنکبوت،آ یت ۱۴۔
اس موقع پر ایک اور شک بھی لوگوں کے دلوں میں کھٹکتا ہے جسے رفع کر دینا ضروری ہے۔ جب ایک شخص قرآن میں بار بار ایسے واقعات پڑھتا ہے کہ فلاں قوم نے نبی کو جھٹلایا اور نبی نے اسے عذاب کی خبر دی اور اچانک اس پر عذاب آیا اور قوم تباہ ہو گئی، تو اس کے دل میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر اس قسم کے واقعات اب کیوں نہیں پیش آتے ؟ اگر چہ قومیں گرتی بھی ہیں اور اُبھرتی بھی ہیں، لیکن اس عروج و زوال کی نوعیت دوسری ہوتی ہے۔ یہ تو نہیں ہوتا کہ ایک نوٹس کے بعد زلزلہ یا طوفان یا صاعقہ آئے اور قوم کی قوم کو تباہ کر کے رکھ دے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ فی الحقیقت اخلاقی اور قانونی اعتبار سے اس قوم کا معاملہ جو کسی نبی کی براہ راست مخاطب ہو، دوسری تمام قوموں کے معاملہ سے بالکل مختلف ہوتا ہے۔ جس قوم میں نبی پیدا ہوا ہو اور وہ بلا واسطہ اس کو خود اسی کی زبان میں خدا کا پیغام پہنچائے اور اپنی شخصیت کے اندر اپنی صداقت کا زندہ نمونہ اس کے سامنے پیش کر دے، اس پر خدا کی حجت پوری ہو جاتی ہے، اس کے لیے معذرت کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی اور خدا کے فرستادہ کو دو بدو جھٹلا دینے کے بعد وہ اِس کی مستحق ہو جاتی ہے کہ اس کا فیصلہ برسرِ موقع چکا دیا جائے۔ یہ نوعیت معاملہ اُن قوموں کے معاملہ سے بنیادی طور پر مختلف ہے جن کے پاس خدا کا پیغام براہ راست نہ آیا ہو بلکہ مختلف واسطوں سے پہنچا ہو۔ پس اگر اب اس طرح کے واقعات پیش نہیں آتے جیسے انبیاء علیہم السلام کے زمانے میں پیش آئے ہیں تو اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں، اس لیے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد نبوت کا سلسلہ بند ہو چکا ہے۔ البتہ تعجب کے قابل کوئی بات ہو سکتی تھی تو یہ کہ اب بھی کسی قوم پر اُسی شان کا عذاب آتا جیسا انبیاء کو دُو بدو جھٹلانے والی قوموں پر آتا تھا۔
مگر اس کے یہ معنی بھی نہیں ہیں کہ اب اُن قوموں پر عذاب آنے بند ہو گئے ہیں جو خدا سے برگشتہ اور فکری و اخلاقی گمراہیوں میں سرگشتہ ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اب بھی ایسی تمام قوموں پر عذاب آتے رہتے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے تنبیہی عذاب بھی اور بڑے بڑے فیصلہ کُن عذاب بھی۔ لیکن کوئی نہیں جو انبیاء علیہم السلام اور کتب آسمانی کی طرح ان عذابوں کے اخلاقی معنی کی طرف انسان کو توجہ دلائے۔ بلکہ اس کے بر عکس ظاہر ہیں سائنس دانوں اور حقیقت سے ناواقف مورخین و فلاسفہ کا ایک کثیر گروہ نوعِ انسانی پر مسلط ہے جو اس قسم کے تمام واقعات کی توجہ طبیعیاتی قوانین یا تاریخی اسباب سے کر کے اس کو بھُلاوے میں ڈالتا رہتا ہے اور اسے کبھی یہ سمجھنے کا موقع نہیں دیتا کہ اوپر کوئی خدا بھی موجود ہے جو غلط کار قوموں کو پہلے مختلف طریقوں سے ان کی غلط کاری پر متنبہ کرتا ہے اور جب وہ اس کی بھیجی ہوئی تنبیہات سے آنکھیں بند کر کے اپنی غلط روی پر اصرار کیے چلی جاتی ہیں تو آخرکار انہیں تباہی کے گڑھے میں پھینک دیتا ہے۔
ترجمہ
اور عاد ۵۱کی طرف ہم نے ان کے بھائی ہود ؑ کو بھیجا۔ اس نے کہا ’’ اے برادرانِ قوم، اللہ کی بندگی کرو، اُس کے سِوا تمہارا کوئی خدا نہیں ہے۔ پھر کیا تم غلط روی سے پرہیز نہ کرو گے ؟‘‘ اس کی قوم کے سرداروں نے، جو اس کی بات ماننے سے انکار کر رہے تھے، جواب میں کہا ’’ہم تو تمہیں بے عقلی میں مبتلا سمجھتے ہیں اور ہمیں گمان ہے کہ تم جھوٹے ہو۔‘‘ اس نے کہا ’’ اے برادرانِ قوم، میں بے عقلی میں مبتلا نہیں ہوں بلکہ میں ربّ العالمین کا رسول ہوں، تم کو اپنے ربّ کے پیغامات پہنچاتا ہوں، اور تمہارا ایسا خیر خواہ ہوں جس پر بھروسہ کیا جا سکتا ہے۔ کیا تمہیں اس بات پر تعجب ہوا کہ تمہارے پاس خود تمہاری اپنی قوم کے ایک آدمی کے ذریعہ سے تمہارے ربّ کی یاد دہانی آئی تا کہ وہ تمہیں خبردار کرے ؟ بھُول نہ جاؤ کہ تمہارے ربّ نے نوح ؑ کی قوم کے بعد تم کو اُس کا جانشین بنایا اور تمہیں خوب تنومند کیا، پس اللہ کی قدرت کے کرشموں کو یاد رکھو،۵۲ اُمید ہے کہ فلاح پاؤ گے۔ ‘‘انہوں نے جواب دیا ’’ کیا تُو ہمارے پاس اِس لیے آیا ہے کہ ہم اکیلے اللہ ہی کی عبادت کریں اور اُنہیں چھوڑ دیں جن کی عبادت ہمارے باپ دادا کرتے آئے ہیں؟۵۳ اچھا تو لے آ وہ عذاب جس کی تُو ہمیں دھمکی دیتا ہے اگر تُو سچا ہے۔ ‘‘اس نے کہا ’’تمہارے ربّ کی پھٹکار تم پر پڑ گئی اور اس کا غضب ٹُوٹ پڑا۔ کیا تم مجھ سے اُن ناموں پر جھگڑتے ہو جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے رکھ لیے ہیں،۵۴ جن کے لیے اللہ نے کوئی سند نازل نہیں کی ہے ؟۵۵ اچھا تو تم بھی انتظار کرو اور میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرتا ہوں۔‘‘ آخرِ کار ہم نے اپنی مہربانی سے ہود ؑ اور اس کے ساتھیوں کو بچا لیا اور اُن لوگوں کی جڑ کاٹ دی جو ہماری آیات کو جھُٹلا چکے تھے اور ایمان لانے والے نہ تھے۔ ۵۶ ؏ ۹
تفسیر
۵۱-یہ عرب کی قدیم ترین قوم تھی جس کے افسانے اہل عرب میں زبان زدِ عام تھے۔ بچہ بچہ ان کے نام سے واقف تھا۔ ان کی شوکت و حشمت ضرب المثل تھی۔ پھر دنیا سے ان کا نام و نشان تک مٹ جانا بھی ضرب المثل ہو کر رہ گیا تھا۔ اسی شہرت کی وجہ سے عربی زبان میں ہر قدیم چیز کے لیے عادی کا لفظ بولا جاتا ہے۔ آثار قدیمہ کو عادیّات کہتے ہیں۔ جس زمین کے مالک باقی نہ رہے ہوں اور جو آباد کار نہ ہونے کی وجہ سے اُفتادہ پڑی ہوئی ہو اُسے عادیُّ الا رض کہا جاتا ہے۔ قدیم عربی شاعری میں ہم کو بڑی کثرت سے اس قوم کا ذکر ملتا ہے۔ عرب کے ماہرینِ انساب بھی اپنے ملک کی معدوم شدہ قوموں میں سب سے پہلے اسی قوم کا نام لیتے ہیں۔ حدیث میں آتا ہے کہ ایک دفعہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں بنی ذُہل بن شیَبان کے ایک صاحب آئے جو عاد کے علاقہ کے رہنے والے تھے اور انہوں نے وہ قصے حضور کو سنائے جو اس قوم کے متعلق قدیم زمانوں سے ان کے علاقہ کے لوگوں میں نقل ہوتے چلے آرہے تھے۔
قرآن کی رو سے اس قوم کا اصل مسکن اَحقاف کا علاقہ تھا جو حجاز، یمن ور یمامہ کے درمیان الرَّبع الخالی کے جنوب مغرب میں واقع ہے۔ یہیں سے پھیل کر ان لوگوں نے یمن کے مغربی سوا حل اور عُمان و حضر موت سے عراق تک اپنی طاقت کا سکّہ رواں کر دیا تھا۔ تاریخی حیثیت سے اس قوم کے آثار دنیا سے تقریباً نا پید ہو چکے ہیں، لیکن جنوبی عرب میں کہیں کہیں کچھ پرنے کھنڈر موجود ہیں جنہیں عاد کی طرف نسبت دی جاتی ہے حضرموت میں ایک مقام پر حضرت ہود علیہ السلام کی قبر بھی مشہور ہے۔ ۱۸۳۷ ء میں ایک انگریز بحری افسر ( James R. Wellested )کو حِصنِ غُراب میں ایک پُرانا کتبہ ملا تھا جس میں حضرت ہود علیہ السلام کا ذکر موجود ہے اور عبارت سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ ان لوگوں کی تحریر ہے جو شریعت ہود کے پیرو تھے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو الاحقاف حاشیہ ۲۵)
۵۲-اصل میں لفظ آلاء استعمال ہوا ہے جس کے معنی نعمتوں کے بھی ہیں اور کرشمائے قدرت کے بھی اور صفات حمیدہ کے بھی۔ آیت کا پورا مطلب یہ ہے کہ خدا کی نعمتوں اور اس کے احسانات کو بھی یاد رکھو اور یہ بھی فراموش نہ کرو کہ وہ تم سے یہ نعمتیں چھین لینے کی قدرت بھی رکھتا ہے۔
۵۳-یہاں یہ بات پھر نوٹ کرنے کے قابل ہے کہ یہ قوم بھی اللہ سے منکر یا نا واقف نہ تھی اور نہ اُسے اللہ کی عبادت سے انکار تھا۔ دراصل وہ حضرت ہود کی جس بات کو ماننے سے انکار کرتی تھی وہ صرف یہ تھی کہ اکیلے اللہ کی بندگی کی جائے، کسی دوسرے کی بندگی اس کے ساتھ شامل نہ کی جائے۔
۵۴-یعنی تم کسی کو بارش کا اور کسی کو ہوا کا اور کسی کو دولت کا اور کسی کو بیماری کا رب کہتے ہو، حالانکہ ان میں سے کوئی بھی فی الحقیقت کسی چیز کا رب نہیں ہے۔ اس کی مثالیں موجود ہ زمانے میں بھی ہمیں ملتی ہیں۔ کسی انسان کو لوگ مشکل کُشا کہتے ہیں، حالانکہ مشکل کشائی کی کوئی طاقت اس کے پاس نہیں ہے۔ کسی کو گنج بخش کے نام سے پکارتے ہیں، حالانکہ اس کے پاس کوئی گنج نہیں کہ کسی کو بخشے۔ کسی کے لیے داتا کا لفظ بولتے ہیں، حالانکہ وہ کسی شے کا مالک نہیں کہ داتا بن سکے۔ کسی کو غریب نواز کے نام سے موسوم کر دیا گیا ہے حالانکہ وہ غریب اُس اقتدار میں کوئی حصہ نہیں رکھتا جس کی بنا پر وہ کسی غریب کو نواز سکے۔ کسی کو غوث(فریاد رس) کہا جاتا ہے، حالانکہ وہ کوئی زور نہیں رکھتا کہ کسی کی فریاد کو پہنچ سکے۔ پس در حقیقت ایسے سب نام محض نام ہی ہیں جن کے پیچھے کوئی مسمّیٰ نہیں ہے۔ جو ان کے لیے جھگڑتا ہے وہ در اصل چند ناموں کے لیے جھگڑتا ہے نہ کہ کسی حقیقت کے لیے۔
۵۵-یعنی اللہ جس کو تم خود بھی ربِ اکبر کہتے ہو، اس نے کوئی سند تمہارے اِن بناوٹی خداؤں کی الٰہیت و ربوبیت کے حق میں عطا نہیں کی ہے۔ اس نے کہیں یہ نہیں فرمایا کہ میں نے فلاں فلاں کی طرف اپنی خدا ئی کا اتنا حِصّہ منتقل کر دیا ہے۔ کوئی پروانہ اس نے کسی کو مشکل کشائی یا گنج بخشی کا نہیں دیا۔ تم نے آپ ہی اپنے و ہم گمان سے اس کی خدا ئی کا جتنا حصّہ جس کو چاہا ہے دے ڈالا ہے۔
۵۶-جڑ کاٹ دی، یعنی ان کا استیصال کر دیا اور ان کا نام و نشان تک دنیا میں باقی نہ چھوڑا۔ یہ بات خود اہل عرب کی تاریخی روایات سے بھی ثابت ہے، اور موجودہ اثری اکتشافات بھی اس پر شہادت دیتے ہیں کہ عاد اولیٰ بالکل تباہ ہو گئے اور ان کی یادگاریں تک دنیا سے مٹ گئیں۔ چنانچہ مورخین عرب انہیں عرب کی اُممِ بائدہ (معدوم اقوام) میں شمار کرتے ہیں۔ پھر یہ بات بھی عرب کے تاریخی مسلّمات میں سے ہے کہ عاد کا صرف وہ حصہ باقی رہا جو حضرت ہود کا پیرو تھا۔ انہی بقایائے عاد کا نام تاریخ میں عاد ثانیہ ہے اور حِصنِ غُراب کا وہ کتبہ جس کا ہم ابھی ابھی ذکر کر چکے ہیں انہی کی یاد گاروں میں سے ہے۔ اس کتبہ میں (جسے تقریباً ۱۸ سو برس قبل مسیح کی تحریر سمجھا جاتا ہے ) ماہرین آثار نے جو عبارت پڑھی ہے اس کے چند جملے یہ ہیں:۔
’’ہم نے ایک طویل زمانہ اس قلعہ میں اس شان سے گزارا ہے کہ ہماری زندگی تنگی و بد حالی سے دور تھی، ہماری نہریں دریا کے پانی سے لبریز رہتی تھیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ہمارے حکمران ایسے بادشاہ تھے جو بُرے خیالات سے پاک اور اہل شر و فساد پر سخت تھے، وہ ہم پر ہود کی شریعت کے مطابق حکومت کرتے تھے اور عمدہ فیصلے ایک کتاب میں درج کر لیے جاتے تھے، اور ہم معجزات اور موت کے بعد دوبارہ اُٹھائے جانے پر ایمان رکھتے تھے۔ ‘‘
یہ عبارت آج بھی قرآن کے اس بیان کی تصدیق کر رہی ہے کہ عاد کی قدیم عظمت و شوکت اور خوشحالی کے وارث آخر کار وہی لوگ ہوئے جو حضرت ہود پر ایمان لائے تھے۔
ترجمہ
رجمہ
را انتظام خالص حق کی بنیا
اور ثمود ۵۷ کی طرف ہم نے اُن کے بھائی صالح کو بھیجا۔ اس نے کہا ’’ اے برادرانِ قوم، اللہ کی بندگی کرو، اس کے سِوا تمہارا کوئی خدا نہیں ہے۔ تمہارے پاس تمہارے ربّ کی کھُلی دلیل آ گئی ہے۔ یہ اللہ کی اُونٹنی تمہارے لیے ایک نشانی کے طور پر ہے، ۵۸ لہٰذا اِسے چھوڑو کہ خدا کی زمین میں چرتی پھرے۔ اس کو کسی بُرے ارادے سے ہاتھ نہ لگانا ورنہ ایک دردناک عذاب تمہیں آلے گا۔ یاد کرو وہ وقت جب اللہ نے قومِ عاد کے بعد تمہیں اس کا جانشین بنایا اور تم کو زمین میں یہ منزلت بخشی کہ آج تم اُس کے ہموار میدانوں میں عالی شان محل بناتے اور اس کے پہاڑوں کو مکانات کی شکل میں تراشتے ہو۔۵۹ پس اس کی قدرت کے کرشموں سے غافل نہ ہو جاؤ اور زمین میں فساد برپا نہ کرو۔‘‘ ۶۰اُس کی قوم کے سرداروں نے جو بڑے بنے ہوئے تھے، کمزور طبقہ کے اُن لوگوں سے جو ایمان لے آئے تھے، کہا ’’ کیا تم واقعی یہ جانتے ہو کہ صالح ؑ اپنے ربّ کا پیغمبر ہے ؟ ‘‘اُن بڑائی کے مدعیوں نے کہا ’’ جس چیز کو تم نے مانا ہے ہم اس کے منکر ہیں۔‘‘ پھر انہوں نے اس اُونٹنی کو مار ڈالا ۶۱ اور پُورے تمّرد کے ساتھ اپنے ربّ کے حکم کی خلاف ورزی کر گزرے، اور صالح سے کہہ دیا کہ ’’لے آ وہ عذاب جس کی تُو ہمیں دھمکی دیتا ہے اگر تُو واقعی پیغمبروں میں سے ہے۔ ‘‘آخرِ کار ایک دہلا دینے والی آفت ۶۲ نے اُنہیں آ لیا اور وہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے کے پڑے رہ گئے۔ اور صالح ؑ یہ کہتا ہوا ان کی بستیوں سے نکل گیا کہ ’’ اے میری قوم، میں نے اپنے ربّ کا پیغام تجھے پہنچا دیا اور میں نے تیری بہت خیر خواہی کی، مگر میں کیا کروں کہ تجھے اپنے خیر خواہ پسند ہی نہیں ہیں۔‘‘ اور لوطؑ کو ہم نے پیغمبر بنا کر بھیجا، پھر یاد کرو جب اُس نے اپنی قوم سے کہا ۶۳ ’’ کیا تم ایسے بے حیا ہو گئے ہو کہ وہ فحش کام کرتے ہو جو تم سے پہلے دنیا میں کسی نے نہیں کیا؟تم عورتوں کو چھوڑ کر مردوں سے اپنی خواہش پوری کرتے ہو،۶۴ حقیقت یہ ہے کہ تم بالکل ہی حد سے گزر جانے والے لوگ ہو۔‘‘ مگر اس کی قوم کا جواب اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ ’’ نکالو اِن لوگوں کو اپنی بستیوں سے، بڑے پاکباز بنتے ہیں یہ۔۶۵‘‘آخرِ کار ہم نے لوط ؑ اور اس کے گھر والوں کو۔۔۔۔ بجز اس کی بیوی کے جو پیچھے رہ جانے والوں میں تھی۔۔۔۔۶۶بچا کر نکال دیا اور اس قوم پر برسائی ایک بارش،۶۷ پھر دیکھو کہ اُن مجرموں کا کیا انجام ہوا۔۶۸ ؏ ١۰
تفسیر
۵۷-یہ عرب کی قدیم ترین اقوام میں سے دوسری قوم ہے جو عاد کے بعد سب سے زیادہ مشہور و معروف ہے۔ نزول قرآن سے پہلے اس کے قصّے اہل عرب میں زباں زدِ عام تھے۔ زمانہ جاہلیت کے اشعار اور خطبوں میں بکثرت اس کا ذکر ملتا ہے۔ اسیریا کے کتبات اور یونان، اسکندریہ اور روم کے قدیم مورخین اور جغرافیہ نویس بھی اس کا ذکر کرتے ہیں۔ مسیح علیہ السلام کی پیدائش سے کچھ عرصہ پہلے تک اس قوم کے کچھ بقایا موجود تھے، چنانچہ رومی مورخین کا بیان ہے کہ یہ لوگ رومن افواج میں بھرتی ہوئے اور نبطیوں کے خلاف لڑے جن سے ان کی دشمنی تھی۔
ا س قوم کا مسکن شمالی مغربی عرب کا وہ علاقہ تھا جو آج بھی اَلحَجِر کے نام سے موسوم ہے۔ موجودہ زمانہ میں مدنیہ اور تبوک کے درمیان حجاز ریلوے پر ایک اسٹیشن پڑتا ہے جسے مدائنِ صالح کہتے ہیں۔ یہی ثمود کا صدر مقام تھا اور قدیم زمانہ میں حجر کہلاتا تھا۔ اب تک وہاں ہزاروں ایکڑ کے رقبے میں وہ سنگین عمارتیں موجود ہیں جن کو ثمود کے لوگوں نے پہاڑوں میں تراش تراش کر بنا یا تھا اور اس شہر خموشاں کو دیکھ کر اندازہ کیا جاتا ہے کہ کسی وقت اس شہر کی آبادی چار پانچ لاکھ سے کم نہ ہو گی۔ نزول قرآن کے زمانے میں حجاز کے تجارتی قافلے ان آثار قدیمہ کے درمیان سے گزرا کرتے تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم غزوہ تبوک کے موقع پر جب ادھر سے گزرے تو آپ نے مسلمانوں کو یہ آثارِ عبرت دکھائے اور وہ سبق دیا جو آثار قدیمہ سے ہر صاحبِ بصیرت انسان کو حاصل کر نا چاہیے۔ ایک جگہ آپ نے ایک کنویں کی نشان دہی کر کے بتایا کہ یہی وہ کنواں ہے جس سے حضرت صالح کی اونٹنی پانی پیتی تھی اور مسلمانوں کو ہدایت کی کہ صرف اسی کنویں سے پانی لینا، باقی کنووں کا پانی نہ پینا۔ ایک پہاڑی در ے کو دکھا کر آپ نے بتایا کہ اسی درے سے وہ اُونٹنی پانی پینے کے لیے آتی تھی۔ چنانچہ وہ مقام آج بھی فَجُّ الناقہ کے نام سے مشہور ہے۔ ان کے کھنڈروں میں جو مسلمان سیر کرتے پھر رہے تھے اُن کو آپ نے جمع کیا اور ان کے سامنے ایک خطبہ دیا جس میں ثمود کے انجام پر عبرت دلائی اور فرمایا کہ یہ اس قوم کا علاقہ ہے جس پر خدا کا عذاب نازل ہوا تھا، لہٰذا یہاں سے جلدی گزر جاؤ، یہ سیر گاہ نہیں ہے بلکہ رونے کا مقام ہے۔
۵۸-ظاہر عبارت سے محسوس ہوتا ہے کہ پہلے فقرے میں اللہ کی جس کھلی دلیل کا ذکر فرمایا گیا ہے اس سے مراد یہی اُونٹنی ہے جسے اس دوسرے فقرے میں ’’نشانی‘‘ کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ سورہ شعراء آیات ۱۵۴ تا ۱۵۸ میں تصریح ہے کہ ثمود والوں نے خود ایک ایسی نشانی کا حضرت صالح سے مطالبہ کیا تھا جو ان کے مامور من اللہ ہونے پر کھلی دلیل ہو، اور اسی جواب میں حضرت صالح نے اونٹنی کو پیش کیا تھا۔ اس سے یہ بات تو قطعی طور پر ثابت ہو جاتی ہے کہ اُونٹنی کا ظہور معجزے کے طور پر ہوا تھا اور یہ اسی نوعیت کے معجزات میں سے تھا جو بعض انبیاء نے اپنی نبوت کے ثبوت میں منکرین کے مطالبہ پر پیش کیے ہیں۔ نیز یہ بات بھی اس اونٹنی کی معجزانہ پیدائش پر دلیل ہے کہ حضرت صالح نے اسے پیش کر کے منکرین کو دھمکی دی کہ بس اب اس اونٹنی کی جان کے ساتھ تمہاری زندگی معلق ہے۔ یہ آزادانہ تمہاری زمینوں میں چرتی پھرے گی۔ ایک دن یہ اکیلی پانی پیے گی اور دوسرے دن پوری قوم کے جانور پیں گے۔ اور اگر تم نے اسے پاتھ لگایا تو یکایک تم پر خدا کا عذاب ٹوٹ پڑے گا۔ ظاہر ہے کہ ا س شان کے ساتھ وہی چیز پیش کی جا سکتی تھی جس کا غیر معمولی ہونا لوگوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہو۔ پھر یہ بات کہ ایک کافی مدّت تک یہ لوگ اس کے آزادانہ چرتے پھرے کو اور اس بات کو کہ اک دن تنہا وہ پانی پیے اور دوسرے دن ان سب کے جانور پیں، بادل ناخواستہ برداشت کرتے رہے اور آخر بڑے مشوروں اور سازشوں کے بعد انہوں نے اسے قتل کیا، در آں حالے کہ حضرت صالح کے پاس کوئی طاقت نہ تھی جس کا انہیں کوئی خوف ہوتا، اِس حقیقت پر مزید دلیل ہے کہ وہ لوگ اس اُونٹنی سے خوف زدہ تھے اور جانتے تھے کہ اس کے پیچھے ضرور کوئی زور ہے جس کے بل پر وہ ہمارے درمیان دندناتی پھرتی ہے۔ مگر قرآن اس امر کی کوئی تصریح نہیں کرتا کہ یہ اُونٹنی کیسی تھی اور کس طرح وجود میں آئی۔ کسی حدیث صحیح میں بھی اس کے معجزے کے طور پر پیدا ہونے کی کیفیت بیان نہیں کی گئی ہے۔ اس لیے اُن روایات کو تسلیم کرنا کچھ ضروری نہیں جو مفسرین نے اس کی کیفیت پیدائش کے متعلق نقل کی ہیں۔ لیکن یہ بات کہ وہ کسی نہ کسی طور پر معجزے کی حیثیت رکھتی تھی، قرآن سے ثابت ہے۔
۵۹-ثمود کی یہ صنعت ویسی ہی تھی جیسی ہندوستان میں ایلورا، اجنتا اور بعض دوسرے مقامات پر پائی جاتی ہے، یعنی وہ پہاڑوں کو تراش کر ان کے اندر بڑی بڑی عالی شان عمارتیں بناتے تھے، جیسا کہ اوپر بیان ہوا۔ مدائن صالح میں اب تک ان کی کچھ عمارتیں جوں کی توں موجود ہیں اور ان کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ اس قوم نے انجینیری میں کتنی حیرت انگیز ترقی کی تھی۔
۶۰-یعنی عاد کے انجام سے سبق لو۔جس خدا کی قدرت نے اُس مفسد قوم کو برباد کر کے تمہیں اس کی جگہ سر بلند کیا، وہی خدا تمہیں برباد کر کے دوسروں کو تمہارا جا نشین بنا سکتا ہے اگر تم بھی عاد کی طرح مفسد بن جاؤ۔(تشریح کے لیے ملاحظہ ہو حاشیہ ۵۲)
۶۱-اگرچہ مارا ایک شخص نے تھا، جیسا کہ سورہ قمر اور سورہ شمس میں ارشاد ہوا ہے، لیکن چونکہ پوری قوم اُس مجرم کی پشت پر تھی اور وہ در اصل اِس جرم میں قوم کی مرضی کا آلہ کار تھا اس لیے الزام پوری قوم پر عائد کیا گیا ہے۔ پر وہ گناہ جو قوم کی خواہش کے مطابق کیا جائے، یا جس کے ارتکاب کو قوم کی رضا اور پسندیدگی حاصل ہو، ایک قومی گناہ ہے، خواہ اس کا ارتکاب کرنے والا ایک فردِ واحد ہو۔ صرف یہی نہیں، بلکہ قرآن کہتا ہے کہ جو گناہ قوم کے درمیان علی الاعلان کیا جائے اور قوم اسے گوارا کرے وہ بھی قومی گناہ ہے۔
۶۲-اس آفت کو یہاں ’’رجفہ‘‘ (اضطراب انگیز، ہلا مارنے والی) کہا گیا ہے اور دوسرے مقامات پر اسی کے لیے صَیْحَةَ (چیخ)، ’’صاعقہ‘‘ (کڑاکا) اور ’’طاغیہ‘‘ (سخت زور کی آواز) کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔
۶۳-یہ قوم اس علاقہ میں رہتی تھی جسے آج کل شرق اردن (Trans Jordan) کہا جاتا ہے اور عراق و فلسطین کے درمیان واقع ہے۔ بائیبل میں اس قوم کے صدر مقام کا نام ’’سدوم‘‘ بتا یا گیا ہے جو یا تو بحیرہ مردار کے قریب کسی جگہ واقع تھا یا اب بحیرہ مردار میں غرق ہو چکا ہے۔ تَلمود میں لکھا ہے کہ سدوم کے علاوہ ان کے چار بڑے بڑے شہر اور بھی تھے اور ان شہروں کے درمیان کا علاقہ ایسا گلزار بنا ہوا تھا کہ میلوں تک بس ایک باغ ہی باغ تھا جس کے جمال کو دیکھ کر انسان پر مستی طاری ہو نے لگتی تھی۔ مگر آج اس قوم کا نام و نشان دنیا سے بالکل نا پید ہو چکا ہے اور یہ بھی متعین نہیں ہے کہ اس کی بستیاں ٹھیک کس مقام پر واقع تھیں۔ اب صرف بحیرہ مردار ہی اس کی ایک یادگار باقی رہ گیا ہے جسے آج تک بحرِ لوط کہا جاتا ہے۔
حضرت لوط علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بھتیجے تھے۔ اپنے چچا کے ساتھ عراق سے نکلے اور کچھ مدت تک شام و فلسطین و مصر میں گشت لگا کر دعوت تبلیغ کا تجربہ حاصل کرتے رہے۔ پھر مستقل پیغمبری کے منصب پر سرفراز ہو کر اس بگڑی ہوئی قوم کی اصلاح پر مامور ہوئے۔ اہل سدوم کو ان کی قوم اس لحاظ سے کہا گیا ہے کہ شاید ان کی رشتہ دار ی کا تعلق اس قوم سے ہو گا۔
یہودیوں کی تحریف کردہ بائیبل میں حضرت لوط کی سیرت پر جہاں اور بہت سے سیاہ دھبے لگائے گئے ہیں وہاں ایک دھبہ یہ بھی ہے کہ وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے لڑ کر سدوم کے علاقے میں چلے گئے تھے (پیدائش، باب ١۳۔آیت۔١۲)۔ مگر قرآن اس غلط بیانی کی تردید کر تا ہے۔ اس کا بیان یہ ہے کہ اللہ نے انہیں رسول بنا کر اس قوم کی طرف بھیجا تھا۔
۶۴-دوسرے مقامات پر اس قوم کے بعض اور اخلاقی جرائم کا بھی ذکر آیا ہے، مگر یہاں اس کے سب سے بڑے جرم کے بیان پر اکتفا کیا گیا ہے جس کی وجہ سے خدا کا عذاب اس پر نازل ہوا۔
یہ قابل نفرت فعل جس کی بدولت اس قوم نے شہرت دوام حاصل کی ہے، اس کے ارتکاب سے تو بد کردار انسان کبھی باز نہیں آئے، لیکن یہ فخر صرف یونان کو حاصل ہے کہ اس کے فلاسفہ نے اس گھناؤنے جرم کو اخلاقی خوبی کے مرتبے تک اٹھا نے کی کوشش کی اور اس کے بعد جو کسر باقی رہ گئی تھی اسے جدید مغربی تہذیب نے پورا کیا کہ علانیہ اس کے حق میں زبر دست پروپیگنڈا کیا گیا، یہاں تک کہ بعض ملکوں کی مجالسِ قانون ساز نے اسے باقاعدہ جائز ٹھیرا دیا۔ حالانکہ یہ بالکل ایک صریح حقیقت ہے کہ مباشرتِ ہم جنس قطعی طور پر وضعِ فطرت کے خلاف ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تمام ذی حیات انواع میں نر و مادہ کا فرق محض تناسُل اور بقائے نوع کے لیے رکھا ہے اور نوع انسانی کے اندر اس کی مزید غرض یہ بھی ہے کہ دونوں صنفوں کے افراد مل کر ایک خاندان وجود میں لائیں اور اُس سے تمدن کی بنیاد پڑے۔ اسی مقصد کے لیے مرد اور عورت کی دو الگ صنفیں بنا ئی گئی ہیں، ان میں ایک دوسرے کے لیے صنفی کشش پیدا کی گئی ہے، ان کی جسمانی ساخت اور نفسیاتی ترکیب ایک دوسرے کے جواب میں مقاصد زوجیت کے لیے عین مناسب بنائی گئی ہے اور ان کے جذب و انجذاب میں وہ لذت رکھی گئی ہے جو فطرت کے منشاء کو پورا کرنے کے لیے بیک وقت داعی و محرک بھی ہے اور اس خدمت کا صلہ بھی۔ مگر جو شخص فطرت کی اس اسکیم کے خلاف عمل کر کے اپنے ہم جنس سے شہوانی لذت حاصل کرتا ہے وہ ایک ہی وقت میں متعدد جرائم کا مرتکب ہوتا ہے۔ اوّلاً وہ اپنی اور اپنے معمول کی طبعی ساخت اور نفسیاتی ترکیب سے جنگ کرتا ہے اور اس میں خللِ عظیم بر پا کر دیتا ہے جس سے دونوں کے جسم،نفس اور اخلاق پر نہایت بُرے اثرات مترتب ہوتے ہیں۔ ۲ ثانیاً وہ فطرت کے ساتھ غداری و خیانت کا ارتکاب کرتا ہے، کیونکہ فطرت نے جس لذت کو نوع اور تمدن کی خدمت کا صلہ بنایا تھا اور جس کے حصول کو فرائض اور ذمہ دار یوں اور حقوق کے ساتھ وابستہ کیا تھا وہ اسے کسی خدمت کی بجا آوری اور کسی فرض اور حق کی ادائیگی اور کسی ذمہ دار ی کے التزام کے بغیر چُرا لیتا ہے۔ ۳ ثالثاً وہ انسانی اجتماع کے ساتھ کھلی بد دیانتی کرتا ہے کہ جماعت کے قائم کیے ہوئے تمدنی اداروں سے فائدہ تو اُٹھا لیتا ہے مگر جب اس کی اپنی باری آتی ہے تو حقوق اور فرائض اور ذمہ دار یوں کا بوجھ اٹھانے کے بجائے اپنی قوتوں کو پوری خود غرضی کے ساتھ ایسے طریقہ پر استعمال کرتا ہے جو اجتماعی تمدن و اخلاق کے لیے صرف غیر مفید ہی نہیں بلکہ ایجاباً مضرت رساں ہے۔ وہ اپنے آپ کو نسل اور خاندان کی خدمت کے لیے نا اہل بنا تا ہے، اپنے ساتھ کم از کم ایک مرد کو غیر طبعی زنانہ پن میں مبتلا کرتا ہے، اور کم از کم دو عورتوں کے لیے بھی صنفی بے راہ روی اور اخلاقی پستی کا دروازہ کھول دیتا ہے۔
۶۵-اس سے معلوم ہوا کہ یہ لوگ صرف بے حیا اور بد کردار اور بد اخلاق ہی نہ تھے بلکہ اخلاقی پستی میں اس حد تک گر گئے تھے کہ انہیں اپنے درمیان چند نیک انسانوں اور نیکی کی طرف بلانے والوں اور بدی پر ٹوکنے والوں کا وجود تک گوارا نہ تھا۔ وہ بدی میں یہاں تک غرق ہو چکے تھے کہ اصلاح کی آواز کو بھی برداشت نہ کر سکتے تھے اور پاکی کے اس تھوڑے سے عنصر کو بھی نکال دینا چاہتے تھے جو ان کی گھناؤنی فضا میں باقی رہ گیا تھا۔ اسی حد کو پہنچنے کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کے استیصال کا فیصلہ صادر ہوا۔ کیونکہ جس قوم کی اجتماعی زندگی میں پاکیزگی کا ذرا سا عنصر بھی باقی نہ رہ سکے پھر اسے زمین پر زندہ رکھنے کی کوئی وجہ نہیں رہتی۔ سڑے ہوئے پھلوں کے ٹوکرے میں جب تک چند اچھے پھل موجود ہوں اس وقت تک تو ٹوکرے کو رکھا جا سکتا ہے، مگر جب وہ پھل بھی اس میں سے نکل جائیں تو پھر اس ٹوکرے کا کوئی مصرف اس کے سوا نہیں رہتا کہ اُسے کسی گھوڑے پر اُلٹ دیا جائے۔
۶۶-دوسرے مقامات پر تصریح ہے کہ حضرت لوط کی یہ بیوی، جو غالباً اسی قوم کی بیٹی تھی، اپنے کافر رشتہ دار وں کی ہمنوا رہی اور آخر وقت تک اس نے ان کا ساتھ نہ چھوڑا۔ اس لیے عذاب سے پہلے جب اللہ تعالیٰ نے حضرت لوط اور ان کے ایمان دار ساتھیوں کو ہجرت کر جانے کا حکم دیا تو ہدایت فرما دی کہ اس عورت کو ساتھ نہ لیا جائے۔
۶۷-بارش سے مراد یہاں پانی کی بارش نہیں بلکہ پتھروں کی بارش ہے جیسا کہ دوسرے مقامات پر قرآن مجید میں بیان ہوا ہے۔ نیز یہ بھی قرآن میں ارشاد ہوا ہے کہ اُن کی بستیاں اُلٹ دی گئیں اور انہیں تلپٹ کر دیا گیا۔
۶۸-یہاں اور دوسرے مقامات پر قرآن مجید میں صرف یہ بتایا گیا ہے کہ عمل قوم لوط ایک بد ترین گناہ ہے جس پر ایک قوم اللہ تعالیٰ کے غضب میں گرفتار ہوئی۔ اس کے بعد یہ بات ہمیں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی رہنمائی سے معلوم ہوئی کہ یہ ایک ایسا جرم ہے جس سے معاشرے کو پاک رکھنے کی کوشش کرنا حکومتِ اسلامی کے فرائض میں سے ہے اور یہ کہ اس جرم کے مرتکبین کو سخت سزا دی جانی چاہیے۔ حدیث میں مختلف روایات جو حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے مروی ہے ان میں سے کسی میں ہم کو یہ الفاظ ملتے ہیں کہ اقتلو ا الفاعل و المفعول بِہٖ(فاعل اور مفعول کو قتل کر دو)۔ کسی میں اس حکم پر اتنا اضافہ اور ہے کہ احصنا اولم یحصنا (شادی شدہ ہوں یا غیر شادی شدہ)۔ اور کسی میں ہے فارجموا الا علی و الاسفل(اُوپر اور نیچے والا، دونوں سنگسار کیے جائیں)۔ لیکن چونکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ میں ایسا کوئی مقدمہ پیش نہیں ہوا س لیے قطعی طور پر یہ بات متعین نہ ہو سکی کہ اس کی سزا کس طرح دی جائے۔ صحابہ کرام میں سے حضرت علی ؓ کی رائے یہ ہے کہ مجرم تلوار سے قتل کیا جائے اور دفن کرنے کے بجائے اس کی لاش جلائی جائے۔ اسی رائے سے حضرت ابوبکر ؓ نے اتفاق فرمایا ہے۔ حضرت عمر اور حضرت عثمان کی رائے یہ ہے کہ کسی بوسیدہ عمارت کے نیچے کھڑا کر کے وہ عمارت اب پر ڈھا دی جائے۔ ابن عباس کا فتویٰ یہ ہے کہ بستی کی سب سے اُونچی پر سے ان کو سر کے بل پھینک دیا جائے اور اوپر سے پتھر برسائے جائیں۔ فقہاء میں سے امام شافعی کہتے ہیں کہ فاعل و مفعول واجب القتل ہیں خواہ شادی شدہ ہوں یا غیر شادی شدہ۔ شعبی، زُہری، مالک اور احمد رحمہم اللہ کہتے ہیں کہ ان کی سزا رجم ہے۔ سعید بن مُسَیَّب، عطاء، حسن بصری،ابراہیم نخعی، سفیان ثوری اور اوزاعی رحمہم اللہ کی رائے میں اس جرم پر وہی سزا دی جائے گی جو زنا کی سزا ہے، یعنی غیر شادی شدہ کو سو کوڑے مارے جائیں گے اور جلا وطن کر دیا جائے گا، اور شادی شدہ کو رجم کیا جائے گا۔ امام ابو حنیفہ کی رائے میں اس پر کوئی حد مقرر نہیں ہے بلکہ یہ فعل تعزیر کا مستحق ہے، جیسے حالات و ضروریات ہوں ان کے لحاظ سے کوئی عبرت ناک سزا اس پر دی جا سکتی ہے۔ ایک قول امام شافعی سے بھی اسی کی تائید میں منقول ہے۔
معلوم رہے کہ آدمی کے لیے یہ بات قطعی حرام ہے کہ وہ خود اپنی بیوی کے ساتھ عمل قوم لوط کرے۔ ابوداؤد میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ ارشاد مروی ہے کہ ملعون من اتی المرا تہ فی دبرھا (اللہ اُس مرد کی طرف ہر گز نظر رحمت سے نہ دیکھے گا جو عورت سے اس فعل کا ارتکاب کرے )۔ ترمذی میں آپ کا یہ فرمان ہے کہ من اتی حائضا او امرا ة فی دبرھا او کاھنا فصدّ قہ فقد کفر بما انزل علیٰ محمّدؐ (جس نے حائضہ عورت سے مجامعت کی، یا عورت کے ساتھ عمل قوم لوط کا ارتکاب کیا، یا کاہن کے پاس گیا اور اس کی پیشن گوئیوں کی تصدیق کی اُس نے اس تعلیم سے کفر کیا جو محمد ؐ پر نازل ہوئی ہے )۔
ترجمہ
اور مَدیَن ۶۹ والوں کی طرف ہم نے ان کے بھائی شعیب ؑ کو بھیجا۔ اس نے کہا ’’ اے برادرانِ قوم، اللہ کی بندگی کرو، اُس کے سوا تمہارا کوئی خدا نہیں ہے۔ تمہارے پاس تمہارے ربّ کی صاف رہنمائی آ گئی ہے، لہٰذا وزن اور پیمانے پُورے کرو، لوگوں کو اُن کی چیزوں میں گھاٹا نہ دو ۷۰، اور زمین میں فساد برپا نہ کرو جب کہ اس کی اصلاح ہو چکی ہے ۷۱، اسی میں تمہاری بھلائی ہے اگر تم واقعی مومن ہو ۷۲۔ اور زندگی کے ہر راستے پر رہزن بن کر نہ بیٹھ جاؤ کہ لوگوں کو خوف زدہ کرنے اور ایمان لانے والوں کو خدا کے راستے سے روکنے لگو اور سیدھی راہ کو ٹیڑھا کرنے کے درپے ہو جاؤ۔ یاد کرو وہ زمانہ جبکہ تم تھوڑے تھے پھر اللہ نے تمہیں بہت کر دیا، اور آنکھیں کھول کر دیکھو کہ دنیا میں مفسدوں کا کیا انجام ہوا ہے۔ اگر تم میں سے ایک گروہ اس تعلیم پر جس کے ساتھ بھیجا گیا ہوں، ایمان لاتا ہے اور دوسرا ایمان نہیں لاتا، تو صبر کے ساتھ دیکھتے رہو یہاں تک کہ اللہ ہمارے درمیان فیصلہ کر دے، اور وہی سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے۔ ‘‘اس کی قوم کے سرداروں نے، جو اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں مبتلا تھے، اس سے کہا کہ ’’اے شعیب ؑ، ہم تجھے اور اُن لوگوں کو جو تیرے ساتھ ایمان لائے ہیں اپنی بستی سے نکال دیں گے ورنہ تم لوگوں کو ہماری مِلّت میں واپس آنا ہو گا۔‘‘ شعیب ؑ نے جواب دیا، ’’ کیا زبردستی ہمیں پھیرا جائے گا خواہ ہم راضی نہ ہوں؟ ہم اللہ پر جھوٹ گھڑنے والے ہوں گے اگر تمہاری مِلّت میں پلٹ آئیں جبکہ اللہ ہمیں اس سے نجات دے چکا ہے۔ ہمارے لیے تو اس کی طرف پلٹنا اب کسی طرح ممکن نہیں اِلّا یہ کہ خدا ہمارا ربّ ہی ایسا چاہے ۷۳،ہمارے ربّ کا علم ہر چیز پر حاوی ہے، اُسی پر ہم نے اعتماد کر لیا، اے ربّ! ہمارے اور ہماری قوم کے درمیان ٹھیک ٹھیک فیصلہ کر دے اور تُو بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔ ‘‘اس کی قوم کے سرداروں نے، جو اس کی بات ماننے سے انکار کر چکے تھے، آپس میں کہا ’’اگر تم نے شعیب ؑ کی پیروی قبول کر لی تو برباد ہو جاؤ ۷۴ گے۔ ‘‘مگر ہُوا یہ کہ ایک دہلا دینے والی آفت نے اُن کو آ لیا اور وہ اپنے گھروں میں اوندھے کے اوندھے پڑے کے پڑے رہ گئے۔ جن لوگوں نے شعیب ؑ کو جھُٹلایا وہ ایسے مِٹے کہ گویا کبھی ان گھروں میں بسے ہی نہ تھے۔ شعیب ؑ کے جھُٹلانے والے ہی آخرِ کار برباد ہو کر رہے۔ ۷۵اور شعیبؑ یہ کہہ کر ان کی بستیوں سے نِکل گیا کہ ’’ اے برادرانِ قوم، میں نے اپنے ربّ کے پیغامات تمہیں پہنچا دیے اور تمہاری خیر خواہی کا حق ادا کر دیا۔ اب میں اُس قوم پر کیسے افسوس کروں جو قبولِ حق سے انکار کرتی ہے۔ ۷۶‘‘ ؏ ١١
تفسیر
۶۹-مَدیَن کا اصل علاقہ حجاز کے شمال مغرب اور فلسطین کے جنوب میں بحرِ احمر اور خلیج عقبہ کے کنارے پر واقع تھا مگر جزیرہ نمائے سینا کے مشرقی ساحل پر بھی اس کا کچھ سلسلہ پھیلا ہوا تھا۔ یہ ایک بڑی تجارت پیشہ قوم تھی۔ قدیم زمانہ میں جو تجارتی شاہ راہ بحرِ احمر کے کنارے یمن سے مکہ اور یَنبوع ہوتی ہوئی شام تک جاتی تھی، اور ایک دوسری تجارتی شاہ راہ جو عراق سے مصر کی طرف جاتی تھی، اس کے عین چوراہے پر اس قوم کی بستیاں واقع تھیں۔ اسی بناء پر عرب کا بچہ بچہ مَدیَن سے واقف تھا اور اس کے مٹ جانے کے بعد بھی عرب میں اس کی شہرت برقرار رہی۔ کیونکہ عربوں کے تجارتی قافلے مصر اور شام کی طرف جاتے ہوئے رات دن اس کے آثارِ قدیمہ کے درمیان سے گزرتے تھے۔
اہل مَد یَن کے متعلق ایک اور ضروری بات، جس کو اچھی طرح ذہن نشین کر لینا چاہیے، یہ ہے کہ یہ لوگ دراصل حضرت ابراہیم علیہ السلام کے صاحبزادے مِد یان کی طرف منسوب ہیں جو ان کی تیسری بیوی قَطُوراء کے بطن سے تھے۔ قدیم زمانہ کے قاعدے کے مطابق جو لوگ کسی بڑے آدمی کے ساتھ وابستہ ہو جاتے تھے وہ رفتہ رفتہ اسی کی آل اولاد میں شمار ہو کر بنی فلاں کہلانے لگتے تھے، اسی قاعدے پر عرب کی آبادی کا بڑا حِصہ بنی اسماعیل کہلایا۔ اور اولاد یعقوب کے ہاتھ پر مشرف باسلام ہونے والے لوگ سب کے سب بنی اسرائیل کے جامع نام کے تحت کھپ گئے۔ اسی طرح مَدیَن کے علاقے کی ساری آبادی بھی جو مدیان بن ابراہیم علیہ السلام کے زیر اثر آئی، بنی مدیان کہلائی اور ان کے ملک کا نام ہی مَدیَن یا مَدیان مشہور ہو گیا۔ اس تاریخی حقیقت کو جان لینے کے بعد یہ گمان کرنے کی کوئی وجہ باقی نہیں رہتی کہ اس قوم کو دینِ حق کی آواز پہلی مرتبہ حضرت شعیب کے ذریعہ سے پہنچی تھی۔ درحقیقت بنی اسرائیل کی طرح ابتداء ً وہ بھی مسلمان ہی تھے اور شعیب علیہ السلام کے ظہور کے وقت ان کی حالت ایک بگڑی ہوئی مسلمان قوم کی سی تھی جیسی ظہور موسیٰ علیہ السلام کے وقت بنی اسرائیل کی حالت تھی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بعد چھ سات سو برس تک مشرک اور بد اخلاق قوموں کے درمیان رہتے رہتے یہ لوگ شرک بھی سیکھ گئے تھے اور بد اخلاقیوں میں بھی مبتلا ہو گئے تھے، مگر اس کے با وجود ایمان کا دعویٰ اور اس پر فخر بر قرار تھا۔
۷۰-اس سے معلوم ہوا کہ اس قوم میں دو بڑی خرابیاں پائی جاتی تھی۔ ایک شرک، دوسرے تجارتی معاملات میں بد دیانتی۔ اور انہی دونوں چیزوں کی اصلاح کے لیے حضرت شعیب مبعوث ہوئے تھے۔
۷۱-اس فقرے کی جامع تشریح اس سورة اعراف کے حواشی ۴۵، ۴۴ میں گزر چکی ہے۔ یہاں خصوصیت کے ساتھ حضرت شعیب کے اس قول کا ارشاد اس طرح ہے کہ دینِ حق اور اخلاق صالحہ پر زندگی کا جو نظام انبیائے سابقین کی ہدایت و رہنمائی پر قائم ہو چکا تھا، اب تم اسے اپنی اعتقادی گمراہیوں اور اخلاقی بد راہیوں سے خراب نہ کرو۔
۷۲-اس فقرے سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ لوگ خود مدعی ایمان تھے۔ جیسا کہ اوپر ہم ارشاد کر چکے ہیں، یہ دراصل بگڑے ہوئے مسلمان تھے اور اعتقادی و اخلاقی فساد میں مبتلا ہونے کے با وجود ان کے اندر نہ صرف ایمان کا دعویٰ باقی تھا بلکہ اس پر انہیں فخر بھی تھا۔ اسی لیے حضرت شعیب نے فرمایا کہ اگر تم مومن ہو تو تمہارے نزدیک خیر اور بھلائی راستبازی اور دیانت میں ہونی چاہیے اور تمہارے معیارِ خیر و شر اُن دنیا پرستوں سے مختلف ہونا چاہیے جو خدا اور آخرت کو نہیں مانتے۔
۷۳-یہ فقرہ اُسی معنی میں ہے جس میں اِن شاء اللہ کا لفظ بولا جاتا ہے، اور جس کے متعلق سورة کہف (آیات ۲۳۔۲۴) میں ارشاد ہوا ہے کہ کسی چیز کے متعلق دعوے کے ساتھ یہ نہ کہہ دیا کرو کہ میں ایسا کروں گا بلکہ اس طرح کہا کرو کہ اگر اللہ چاہے گا تو ایسا کروں گا۔ اس لیے کہ مومن، جو اللہ تعالیٰ کی سلطانی و بادشاہی کا اور اپنی بندگی و تابعیت کا ٹھیک ٹھیک ادراک رکھتا ہے، کبھی اپنے بل بوتے پر یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ میں فلاں بات کر کے رہوں گا یا فلاں حرکت ہر گز نہ کروں گا، بلکہ وہ جب کہے گا تو یوں کہے گا کہ میرا ارادہ ایسا کرنے کا یا نہ کرنے کا ہے لیکن میرے اس ارادے کا پورا ہونا میرے مالک کی مشیت پر موقوف ہے، وہ توفیق بخشے گا تو اس میں کامیاب ہو جاؤں گا ورنہ ناکام رہ جاؤں گا۔
۷۴-اس چھوٹے سے فقرے پر سے سرسری طور پر نہ گزر جائیے۔ یہ ٹھیر کر بہت سوچنے کا مقام ہے۔ مَد یَنَ کے سردار اور لیڈر دراصل یہ کہہ رہے تھے اور اسی بات کا اپنی قوم کو بھی یقین دلا رہے تھے کہ شعیب جس ایمان دار ی اور راست بازی کی دعوت دے رہا ہے اور اخلاق ودیا نت کے جن مستقل اصولوں کی پا بندی کرانا چاہتا ہے، اگر ان کو مان لیا جائے تو ہم تباہ ہو جائیں گے۔ ہماری تجارت کیسے چل سکتی ہے اگر ہم بالکل ہی سچائی کے پابند ہو جائیں اور کھرے کھرے سودے کرنے لگیں۔ اور ہم جو دنیا کی دو سب سے بڑی تجارتی شاہ راہوں کے چوراہے پر بستے ہیں، اور مصر و عراق کی عظیم الشان متمدّن سلطنتوں کی سرحد پر آباد ہیں، اگر ہم قافلوں کو چھیڑنا بند کر دیں اور بے ضرر اور پُر امن لوگ ہی بن کر رہ جائیں تو جو معاشی اور سیاسی فوائد ہمیں اپنی موجودہ جغرافی پوزیشن سے حاصل ہو رہے ہیں وہ سب ختم ہو جائیں گے اور آس پاس کی قوموں پر ہماری جو دھونس قائم ہے وہ باقی نہ رہے گی۔۔۔۔ یہ بات صرف قوم شعیب کے سرداروں ہی تک محدود نہیں ہے۔ ہر زمانے میں بگڑے ہوئے لوگوں نے حق اور راستی اور دیانت کی روش میں ایسے ہی خطرات محسوس کیے ہیں۔ ہر دور کے مفسدین کا یہی خیال رہا ہے کہ تجارت اور سیاست اور دوسرے دنیوی معاملات جھُوٹ اور بے ایمانی اور بد اخلاقی کے بغیر نہیں چل سکتے۔ ہر جگہ دعوت حق کے مقابلہ میں جو زبردست عذرات پیش کیے گئے ہیں ان میں سے ایک یہ بھی رہا ہے کہ اگر دنیا کی چلتی ہوئی راہوں سے ہٹ کر اس دعوت کی پیروی کی جائے گی تو قوم تباہ ہو جائے گی۔
۷۵-مدین کی یہ تباہی مدتہائے دراز تک آس پاس کی قوموں میں ضرب المثل رہی ہے۔ چنانچہ زَبورِ داؤد میں ایک جگہ آتا ہے کہ اے خدا فلاں فلاں قوموں نے تیرے خلاف عہد باندھ لیا ہے لہٰذا تو ان کے ساتھ وہی کو جو تو نے مدیان کے ساتھ کیا (۸۳۔۵تا۹)۔ ا اور یَسعِیاہ نبی ایک جگہ بنی اسرائیل کو تسلی دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ آشور والوں سے نہ ڈرو، اگر چہ وہ تمہارے لیے مصر یوں کی طرح ظالم بنے جا رہے ہیں لیکن کچھ دیر نہ گزرے گی کہ رب الافواج ان پر اپنا کوڑا برسائے گا اور ان کا وہی حشر ہو گا جو مَدیان کا ہوا (یسعیاہ: ١۰۔۲١ تا ۲٦)۔
۷۶-یہ جتنے قصے یہاں بیان کیے گئے ہیں ان سب میں ’’سرِّ دلبراں در حدیث دیگراں‘‘ کا انداز اختیار کیا گیا ہے۔ ہر قصہ اُس معاملہ پر پورا پورا چسپاں ہوتا ہے جو اُس وقت محمد صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کی قوم کے درمیان پیش آ رہا تھا۔ ہر قصہ میں ایک فریق نبی ہے جس کی تعلیم، جس کی دعوت، جس کی نصیحت و خیر خواہی، اور جس کی ساری باتیں بعینہٖ وہی ہیں جو محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی تھیں۔ اور دوسرا فریق حق سے منہ موڑنے والی قوم ہے جس کی اعتقادی گمراہیاں، جس کی اخلاقی خرابیاں، جس کی جاہلانہ ہٹ دھرمیاں، جس کے سرداروں کا استکبار، جس کے منکروں کا اپنی ضلالت پر اصرار، غرض سب کچھ وہی ہے جو قریش میں پایا جاتا تھا۔ پھر ہر قصے میں منکر قوم کا جو انجام پیش کیا گیا ہے اس سے دراصل قریش کو عبرت دلائی گئی ہے کہ اگر تم نے خدا کے بھیجے ہوئے پیغمبر کی بات نہ مانی اور اصلاح حال کا جو موقع تمہیں دیا جا رہا ہے اسے اندھی ضد میں مبتلا ہو کر کھو دیا تو آخر کار تمہیں بھی اسی تباہی و بر بادی سے دوچار ہونا پڑے گا جو ہمیشہ سے گمراہی و فساد پر اصرار کرنے والی قوموں کے حصہ میں آتی رہی ہے۔
ترجمہ
کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ہم نے کسی بستی میں نبی بھیجا ہو اور اُس بستی کے لوگوں کو پہلے تنگی اور سختی میں مبتلا نہ کیا ہو، اس خیال سے کہ شاید وہ عاجزی پر اُتر آئیں۔پھر ہم نے اُن کی بدحالی کو خوشحالی سے بدل دیا یہاں تک کہ وہ خُوب پھلے پھُولے اور کہنے لگے کہ ’’ہمارے اسلاف پر بھی اچھے اور بُرے دن آتے ہی رہے ہیں۔‘‘ آخرِ کار ہم نے اُنہیں اچانک پکڑ لیا اور اُنہیں خبر تک نہ ہوئی۔۷۷ اگر بستیوں کے لوگ ایمان لاتے اور تقویٰ کی روش اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین سے برکتوں کے دروازے کھول دیتے، مگر اُنہوں نے تو جھُٹلایا، لہٰذا ہم نے اُس بُری کمائی کے حساب میں انہیں پکڑ لیا جو وہ سمیٹ رہے تھے۔ پھر کیا بستیوں کے لوگ اب اس سے بے خوف ہو گئے ہیں کہ ہماری گرفت کبھی اچانک اُن پر رات کے وقت نہ آ جائے گی جب کہ وہ سوتے پڑے ہوں؟ یا انہیں اطمینان ہو گیا ہے کہ ہمارا مضبوط ہاتھ کبھی یکایک ان پر دن کے وقت نہ پڑے گا جب کہ وہ کھیل رہے ہوں؟ کیا یہ لوگ اللہ کی چال سے بے خوف ہیں ۷۸ ؟ حالانکہ اللہ کی چال سے وہی قوم بے خوف ہوتی ہے جو تباہ ہونے والی ہو۔ ؏ ١۲
تفسیر
۷۷-ایک ایک نبی اور ایک ایک قوم کا معاملہ الگ الگ بیان کرنے کے بعد اب وہ جامع ضابطہ بیان کیا جا رہا ہے جو ہر زمانہ میں اللہ تعالیٰ نے انبیاء علیہم السلام کی بعثت کے موقع پر اختیار فرمایا ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ جب کسی قوم میں کوئی نبی بھیجا گیا تو پہلے اس قوم کے خارجی ماحول کو قبول دعوت کے لیے نہایت ساز گار بنایا گیا۔ یعنی اس کو مصائب اور آفات میں مبتلا کیا گیا۔ قحط، وبا، تجارتی خسارے، جنگی شکست اور اسی طرح کی تکلیفیں اس پر ڈالی گئیں۔ تا کہ اس کا دل نرم پڑے، اس کی شیخی اور تکبّر سے اکڑی ہوئی گردن ڈھیلی ہو، اس کا غرورِ طاقت اور نشہ دولت ٹوٹ جائے، اپنے ذرائع و وسائل اور اپنی قوتوں اور قابلیتوں پر اس کا اعتماد شکست ہو جائے، اُسے محسوس ہو کہ اُوپر کوئی اور طاقت بھی ہے جس کے ہاتھ میں اس کی قسمت کی باگیں ہیں، اور اس طرح اس کے کان نصیحت کے لیے کھل جائیں اور وہ اپنے خدا کے سامنے عاجزی کے ساتھ جھک جانے پر آمادہ ہو جائے۔ پھر جب اس سازگار ماحول میں بھی اس کا دل قبولِ حق کی طرف مائل نہیں ہوتا تو اس کو خوش حالی کے فتنہ میں مبتلا کر دیا جاتا ہے اور یہاں سے اس کی بربادی کی تمہید شروع ہو جاتی ہے۔ جب وہ نعمتوں سے مالا مال ہونے لگتی ہے تو اپنے بُرے دن بھول جاتی ہے اور اس کے کج فہم رہنما اس کے ذہن میں تاریخ کا یہ احمقانہ تصوّر بٹھاتے ہیں کے حالات کا اُتار چڑھاؤ اور قسمت کا بناؤ اور بگاڑ کسی حکیم کے انتظام میں اخلاقی بنیادوں پر نہیں ہو رہا ہے بلکہ ایک اندھی طبیعت بالکل غیر اخلاقی اسباب سے کبھی اچھے اور کبھی بُرے دن لاتی ہی رہتی ہے، لہٰذا مصائب اور آفات کے نزول سے کوئی اخلاقی سبق لینا اور کسی ناصح کی نصیحت قبول کر کے خدا کے آگے زاری و تضرُّع کرنے لگنا بجز ایک طرح کی نفسی کمزوری کے اور کچھ نہیں ہے۔ یہی وہ احمقانہ ذہنیت ہے جس کا نقشہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اس حدیث میں کھینچا ہے : لا یزال البلا ء بالمؤمن حتیٰ یخر جَ نقیاً من ذنوبہٖ، والمنافقُ مَثَلہُ کمثلِ الحِمار لا یدری فیمَ رَبَطہُ اھلہُ ولاَ فِیمَ ارسلوہ۔ یعنی ’’مصیبت مومن کی تو اصلاح کر تی چلی جاتی ہے یہاں تک کہ جب وہ اِس بھٹی سے نکلتا ہے تو ساری کھوٹ سے صاف ہو کر نکلتا ہے، لیکن منافق کی حالت بالکل گدھے کی سی ہوتی ہے جو کچھ نہیں سمجھتا کہ اس کے مالک نے کیوں اسے باندھا تھا اور کیوں اسے چھوڑ دیا۔ ‘‘ پس جب کسی قوم کا حال یہ ہوتا ہے کہ نہ مصائب سے اس کا دل خدا کے آگے جھکتا ہے، نہ نعمتوں پر وہ شکر گزار ہوتی ہے، اور نہ کسی حال میں اصلاح کرتی ہے تو پھر اس کی بربادی اِس طرح اس کے سر پر منڈلانے لگتی ہے جیسے پورے دن کی حاملہ عورت کہ کچھ نہیں کہا جا سکتا کب اس کا وضع حمل ہو جائے۔
یہاں یہ بات اور جان لینی چاہیے کہ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنے جس ضابطہ کا ذکر فرمایا ہے ٹھیک یہی ضابطہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت کے موقع پر بھی برتا گیا اور شامت زدہ قوموں کے جس طرزِ عمل کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے، ٹھیک وہی طرزِ عمل سورہ اعراف کے نزول کے زمانہ میں قریش والوں سے ظاہر ہو رہا تھا۔ حدیث میں عبد اللہ بن مسعود ؓ عبداللہ بن عباس ؓ دونوں کی متفقہ روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی بعثت کے بعد جب قریش کے لوگوں نے آپ کی دعوت کے خلاف سخت رویہ اختیار کرنا شروع کیا تو حضور ؐ نے دعا کی کہ خدایا، یوسف کے زمانہ میں جیسا ہفت سالہ قحط پڑا تھا ویسے ہی قحط سے ان لوگوں کے مقابلہ میں میری مدد کر۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے انہیں سخت قحط میں مبتلا کر دیا اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ لوگ مردار کھانے لگے، چمڑے اور ہڈیاں اور اُون تک کھا گئے۔ آخر کار مکہ کے لوگوں نے، جن میں ابو سفیان پیش پیش تھا، حضور ؐ سے درخواست کی کہ ہمارے لیے خدا سے دعا کیجیے۔ مگر جب آپ کی دعا سے اللہ نے وہ بُرا وقت ٹال دیا ور بھلے دن آئے تو اُن لوگوں کی گردنیں پہلے سے زیادہ اکڑ گئیں، اور جن کے دل تھوڑے بہت پسیج گئے تھے ان کو بھی اشرارِ قوم نے یہ کہہ کہہ کر ایمان سے روکنا شروع کر دیا کہ میاں، یہ تو زمانے کا اتار چڑھاؤ ہے۔ پہلے بھی آ کر قحط آتے ہی رہے ہیں، کوئی نئی بات تو نہیں ہے کہ اس مرتبہ ایک لمبا قحط پڑ گیا، لہٰذا ان چیزوں سے دھوکا کھا کر محمد ؐ کے پھندے میں نہ پھنس جا نا۔ یہ تقریریں اس زمانے میں ہو رہی تھیں جب یہ سورہ اعراف نازل ہوئی ہے۔ اس لیے قرآن مجید کی یہ آیات ٹھیک اپنے موقع پر چسپاں ہوئی ہیں اور اسی پس منظر کو نگاہ میں رکھنے سے اِن کی معنویت پوری طرح سمجھ میں آسکتی ہے۔ (تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو یونس، آیت ۲۱۔ النحل ۱۱۲۔المومنون ۵۔۷۶۔ الدخان ۶۔۱۶)۔
۷۸-اصل میں لفظ مَکر استعمال ہوا ہے جس کے معنی عربی زبان میں خفیہ تدبیر کے ہیں، یعنی کسی شخص کے خلاف ایسی چال چلنا کہ جب تک اس پر فیصلہ کن ضرب نہ پڑ جائے اس وقت تک اسے خبر نہ ہو کہ اس کی شامت آنے والی ہے، بلکہ ظاہر حالات کو دیکھتے ہوئے وہ یہی سمجھتا رہے کہ سب اچھا ہے۔
ترجمہ
اور کیا اُن لوگوں کو جو سابق اہلِ زمین کے بعد زمین کے وارث ہوتے ہیں، اِس امرِ واقعی نے کچھ سبق نہیں دیا کہ اگر ہم چاہیں تو ان کے قصوروں پر انہیں پکڑ سکتے ہیں؟۷۹ ( مگر وہ سبق آموز حقائق سے تغافل برتتے رہے ) اور ہم ان کے دِلوں پر مُہر لگا دیتے ہیں، پھر وہ کچھ نہیں سُنتے۔ ۸۰ یہ قومیں جن کے قصے ہم تمہیں سُنا رہے ہیں (تمہارے سامنے مثال میں موجود ہیں) ان کے رسُول ان کے پاس کھُلی کھُلی نشانیاں لے کر آئے، مگر جس چیز کو وہ ایک دفعہ جھُٹلا چکے تھے پھر اُسے وہ ماننے والے نہ تھے۔ دیکھو اس طرح ہم منکرینِ حق کے دلوں پر مُہر لگا دیتے ہیں۔۸۱ہم ان میں سے اکثر میں کوئی پاسِ عہد نہ پایا بلکہ اکثر کو فاسق ہی پایا۔۸۲پھر اُن قوموں کے بعد (جن کا ذکر اُوپر کیا گیا) ہم نے موسیٰ کو اپنی نشانیوں کے ساتھ فرعون اور اس کی قوم کے سرداروں کے پاس بھیجا ۸۳ مگر انہوں نے بھی ہماری نشانیوں کے ساتھ ظلم کیا،۸۴ پس دیکھو کہ ان مفسدوں کا کیا انجام ہوا۔موسیٰ نے کہا ’’اے فرعون ۸۵، میں کائنات کے مالک کی طرف سے بھیجا گیا ہوں،میرا منصب یہی ہے کہ اللہ کا نام لے کر کوئی بات حق کے سوا نہ کہوں، میں تم لوگوں کے پاس تمہارے ربّ کی طرف سے صریح دلیلِ ماموریّت لے کر آیا ہوں، لہٰذا تُو بنی اسرائیل کو میرے ساتھ بھیج دے۔ ‘‘ ۸۶فرعون نے کہا ’’ اگر تُو کوئی نشانی لایا ہے اور اپنے دعوے میں سچا ہے تو اسے پیش کر۔‘‘ موسیٰ نے اپنا عصا پھینکا اور یکایک وہ ایک جیتا جاگتا اژدھا تھا۔اس نے اپنی جیب سے ہاتھ نکالا اور سب دیکھنے والوں کے سامنے وہ چمک رہا تھا۔۸۷ ؏ ١۳
تفسیر
۷۹-یعنی ایک گرنے والی قوم کی جگہ جو دوسری قوم اُٹھتی ہے اس کے لیے اپنی پیش رو قوم کے زوال میں کافی رہنمائی موجود ہوتی ہے۔ وہ اگر عقل سے کام لے تو سمجھ سکتی ہے کہ کچھ مدّت پہلے جو لوگ اِسی جگہ دادِ عیش دے رہے تھے اور جن کی عظمت کا جھنڈا یہاں لہرا رہا تھا انہیں فکر و عمل کی کن غلطیوں نے برباد کیا، اور یہ بھی محسوس کر سکتی ہے کہ جس بالا تر اقتدار نے کر اُنہیں اُن کی غلطیوں پر پکڑا تھا اور اُن سے یہ جگہ خالی کرا لی تھی، وہ آج کہیں چلا نہیں گیا ہے، نہ اس سے کسی نے یہ مقدرت چھین لی ہے کہ اس جگہ کے موجود ہ ساکنین اگر وہی غلطیاں کرین جو سابق ساکنین کر رہے تھے تو وہ اِن سے بھی اسی طرح جگہ خالی نہ کرا سکے گا جس طرح اس نے اُن سے خالی کرائی تھی۔
۸۰-یعنی جب وہ تاریخ سے اور عبرتناک آثار کے مشاہدے سے سبق نہیں لیتے اور اپنے آپ کو خود بھلا وے میں ڈالتے ہیں تو پھر خدا کی طرف سے بھی انہیں سوچنے سمجھنے اور کسی ناصح کی بات سننے کی توفیق نہیں ملتی۔ خدا کا قانونِ فطرت یہی ہے کہ جو اپنی آنکھیں بند کر لیتا ہے اس کی بینائی تک آفتابِ روشن کی کوئی کرن نہیں پہنچ سکتی اور جو خود نہیں سننا چاہتا اسے پھر کو ئی کچھ نہیں سنا سکتا۔
۸۱-پچھلی آیت میں جو ارشاد ہوا تھا کہ ’’ہم ان کے دلوں پر مُہر لگا دیتے ہیں، پھر وہ کچھ نہیں سنتے ‘‘، اس کی تشریح اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں خود فرما دی ہے۔ اس تشریح سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ دلوں پر مہر لگانے سے مراد ذہنِ انسانی کا اُس نفسیاتی قانون کی زد میں آ جانا ہے جس کی رُو سے ایک دفعہ جاہلی تعصبات یا نفسانی اغراض کی بنا پر حق سے مُنہ موڑ لینے کے بعد پھر انسان اپنی ضد اور ہٹ دھرمی کے اُلجھاؤ میں اُلجھتا ہی چلا جاتا ہے اور کسی دلیل، کسی مشاہدے اور کسی تجربے سے اس کے دل کے دروازے قبولِ حق کے لیے نہیں کھُلتے۔
۸۲- ’’کوئی پاسِ عہد نہ پایا‘‘ یعنی کسی قسم کے عہد کا پاس بھی نہ پایا، نہ اُس فطری عہد کا پاس جس میں پیدائشی طور پر ہر انسان خدا کا بندہ اور پروردہ ہونے کی حیثیّت سے بندھا ہوا ہے، نہ اُس اجتماعی عہد کا پاس جس میں ہر فرد بشر انسانی برادری کا ایک رکن ہونے کی حیثیّت سے بندھا ہوا ہے، اور نہ اُس ذاتی عہد کا پاس جو آدمی اپنی مصیبت اور پریشانی کے لمحوں میں یا کسی جذبہ خیر کے موقع پر خدا سے بطور خود باندھا کرتا ہے۔ انہی تینوں عہدوں کے توڑنے کو یہاں فسق قرار دیا گیا ہے۔
۸۳-اوپر جو قصے بیان ہوئے ان سے مقصود یہ ذہن نشین کرانا تھا کہ جو قوم خدا کا پیغام پانے کے بعد اسے رد کر دیتی ہے اسے پھر ہلاک کیے بغیر نہیں چھوڑا جاتا۔ اس کے بعد اب موسیٰ و فرعون اور بنی اسرائیل کا قصہ کئی رکوعوں تک مسلسل چلتا ہے جس میں اس مضمون کے علاوہ چند اور اہم سبق بھی کفار قریش، یہود اور ایمان لانے والے گروہ کر دیے گئے ہیں۔
کفار قریش کو اس قصے کے پیرائے میں یہ سمجھا نے کی کو شش کی گئی ہے کہ دعوتِ حق کے ابتدائی مرحلوں میں حق اور باطل کی قوتوں کا جو تنا سب بظاہر نظر آتا ہے، اُس سے دھوکا نہ کھانا چاہیے۔ حق کی تو پوری تاریخ ہی اس بات پر گواہ ہے کہ وہ ایک فی قوم بلکہ ایک فی دنیا کی اقلیت سے شروع ہوتا ہے اور بغیر کسی سرو سامان کے اُس باطل کے خلاف لڑائی چھیڑ دیتا ہے جس کی پشت پر بڑی بڑی قوموں اور سلطنتوں کی طاقت ہوتی ہے، پھر بھی آخر کار وہی غالب آ کر رہتا ہے۔ نیز اس قصے میں ان کو یہ بھی بتایا گیا ہے کہ داعی حق کے مقابلہ میں جو چالیں چلی جاتی ہیں اور جن تدبیروں سے ا س کی دعوت کو دبانے کی کوشش کی جاتی ہے وہ کس طرح اُلٹی پڑتی ہیں۔ اور یہ کہ اللہ تعالیٰ منکرین حق کی ہلاکت کا آخری فیصلہ کرنے سے پہلے اُن کو کتنی کتنی طویل مدّت تک سنبھلنے اور درست ہونے کے مواقع دیتا چلا جاتا ہے اور جب کسی تنبیہ، کسی سبق آموز واقعے اور کسی روشن نشانی سے بھی وہ اثر نہیں لیتے تو پھر وہ انہیں کیسی عبرتناک سزا دیتا ہے۔
جو لوگ نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر ایمان لے آئے تھے ان کو اس قصے میں دوہرا سبق دیا گیا ہے۔ پہلا سبق اس بات کا کہ اپنی قلت و کمزوری کو اور مخالفین حق کی کثرت و شوکت کو دیکھ کر اُن کی ہمت نہ ٹوٹے اور اللہ کی مدد آنے میں دیر ہوتے دیکھ کر وہ دل شکستہ نہ ہوں۔ دوسرا سبق اس بات کا کہ ایمان لانے کے بعد جو گروہ یہودیوں کی سی روش اختیار کرتا ہے وہ پھر یہودیوں ہی کی طرح خدا کی لعنت میں گرفتار بھی ہوتا ہے۔
بنی اسرائیل کے سامنے ان کی عبرتناک تاریخ پیش کر کے انہیں باطل پرستی کے بُرے نتائج پر متنبہ کیا گیا ہے اور اُس پیغمبر پر ایمان لانے کی دعوت دی گئی ہے جو پچھلے پیغمبروں کے لائے ہوئے دین کو تمام آمیزشوں سے پاک کر کے پھر اس کی اصلی صورت میں پیش کر رہا ہے۔
۸۴-نشانیوں کے ساتھ ظلم کیا، یعنی ان کو نہ مانا اور انہیں جادوگری قرار دے کر ٹالنے کی کو شش کی۔ جس طرح کسی شعر کو جو شعریت کا مکمل نمونہ ہو: تک بندی سے تعبیر کرنا اور اس کا مذاق اڑانا نہ صرف اس شعر کے ساتھ بلکہ نفسِ شاعری اور ذوقِ شعری کے ساتھ بھی ظلم ہے، اسی طرح وہ نشانیاں جو خود اپنے من جانب اللہ ہونے پر صریح گواہی دے رہی ہوں اور جن کے متعلق کوئی صاحبِ عقل آدمی یہ گمان تک نہ کر سکتا ہو کہ سحر کے زور سے بھی ایسی نشانیاں ظاہر ہو سکتی ہیں، بلکہ جن کے متعلق خود فنِ سحر کے ماہرین نے شہادت دے دی ہو کہ وہ ان کے فن کی دست رس سے بالا تر ہیں، ان کو سحر قرار دینا نہ صرف ان نشانیوں کے ساتھ بلکہ عقلِ سلیم اور صداقت کے ساتھ بھی ظلمِ عظیم ہے۔
۸۵-لفظ فرعون کے معنی ہیں ’’سورج دیوتا کی اولاد۔‘‘ قدیم اہلِ مصر سورج کو، جو اُن کا مہا دیو یا ربِّ اعلیٰ تھا، رَغ کہتے تھے اور فرعون اسی کی طرف منسوب تھا۔ اہل مصر کے اعتقاد کی رو سے کسی فرماں روا کی حاکمیت کے لیے اس کے سوا کوئی بنیاد نہیں ہو سکتی تھی کہ وہ رَغ کا جسمانی مظہر اور اُس کا ارضی نمائندہ ہو، اسی لیے ہر شاہی خاندان جو مصر میں بر سرِ اقتدار آتا تھا، اپنے آپ کو سورج بنسی بنا کر پیش کرتا، اور ہر فرماں روا جو تخت نشین ہوتا، ’’فرعون‘‘ کا لقب اختیار کر کے باشندگانِ ملک کو یقین دلاتا کہ تمہارا ربِّ اعلیٰ یا مہا دیو میں ہوں۔
یہاں یہ بات اور جان لینی چاہیے کہ قرآن مجید میں حضرت موسیٰ کے قصّے کے سلسلہ میں دو فرعونوں کا ذکر آتا ہے۔ ایک وہ جس کے زمانہ میں آپ پیدا ہوئے اور جس کے گھر میں آپ نے پرورش پائی۔ دوسرا وہ جس کے پاس آپ اسلام کی دعوت اور بنی اسرائیل کی رہائی کا مطالبہ لے کر پہنچے اور بالآخر غرق ہوا۔ موجودہ زمانہ کے محققین کا عام میلان اس طرف ہے کہ پہلا فرعون رعمسیس دوم تھا جس کا زمانہ حکومت سن ۱۲۹۲ء سے سن ۱۲۲۵ء قبل مسیح تک رہا۔ اور دوسرا فرعون جس کا یہاں اِن آیات میں ذکر ہو رہا ہے، منفتہ یا منفتاح تھا جو اپنے باپ رعمسیس دوم کی زندگی ہی میں شریک حکومت ہو چکا تھا اور اس کے مرنے کے بعد سلطنت کا مالک ہوا۔ یہ قیاس بظاہر اس لحاظ سے مشتبہ معلوم ہوتا ہے کہ اسرائیلی تاریخ کے حساب سے حضرت موسیٰؑ کی تاریخ وفات ۱۲۷۲ قبل مسیح ہے۔ لیکن بہر حال یہ تاریخی قیاسات ہی ہیں اور مصری، اسرائیلی اور عیسوی جنتریوں کے تطابق سے بالکل صحیح تاریخوں کا حساب لگانا مشکل ہے۔
۸۶-حضرت موسیٰ علیہ السلام دو چیزوں کی دعوت لے کر فرعون کے پاس بھیجے گئے تھے۔ ایک یہ کہ وہ اللہ کی بندگی (اسلام) قبول کرے، دوسرے یہ کہ بنی اسرائیل کی قوم کو جو پہلے سے مسلمان تھی اپنے پنجہ ظلم سے رہا کر دے۔ قرآن میں ان دونوں دعوتوں کا کہیں یکجا ذکر کیا گیا ہے اور کہیں موقع و محل کے لحاظ سے صرف ایک ہی کے بیان پر اکتفا کیا گیا ہے۔
۸۷-یہ دو نشانیاں حضرت موسیٰ ؑ کو اس امر کے ثبوت میں دی گئی تھیں کہ وہ اُس خدا کے نمائندے ہیں جو کائنات کا خالق اور فرماں روا ہے۔ جیسا کہ اس سے پہلے بھی ہم اشارہ کر چکے ہیں، پیغمبروں نے جب کبھی اپنے آپ کو فرستادہ رب العالمین کی حیثیت سے پیش کیا تو لوگوں نے ان سے یہی مطالبہ کیا کہ اگر تم واقعی رب العالمین کے نمائندے ہو تو تمہارے ہاتھوں سے کوئی ایسا واقعہ ظہور میں آنا چاہیے جو قوانین فطرت کی عام روش سے ہٹا ہوا ہو اور جس سے صاف ظاہر ہو رہا ہو کہ رب العالمین نے تمہاری صداقت ثابت کرنے کے لیے اپنی براہ راست مداخلت سے یہ واقعہ نشانی کے طور پر صادر کیا ہے۔ اسی مطالبہ کے جواب میں انبیاء نے وہ نشانیاں دکھائی ہیں جس کو قرآن کی اصطلاح میں ’’آیات ‘‘ اور متکلمین کی اصطلاح میں ’’معجزات‘‘ کہا جاتا ہے۔ ایسے نشانات یا معجزات کو جو لوگ قوانین فطرت کے تحت صادر ہونے والے عام واقعات قرار دینے کی کوشش کرتے ہیں وہ درحقیقت کتاب اللہ کو ماننے اور نہ ماننے کے درمیان ایک ایسا موقف اختیار کرتے ہیں جو کسی طرح معقول نہیں سمجھا جا سکتا۔ اس لیے کہ قرآن جس جگہ صریح طور پر خارقِ عادت واقعہ کا ذکر کر رہا ہو وہاں سیاق و سباق کے بالکل خلاف ایک عادی واقع بنانے کی جدو جہد محض ایک بھونڈی سخن سازی ہے جس کی ضرورت صرف اُن لوگوں کو پیش آتی ہے جو ایک طرف تو کسی ایسی کتاب پر ایمان نہیں لانا چاہتے جو خارقِ عادت واقعات کا ذکر کرتی ہو اور دوسری طرف آبائی مذہب کے پیدائشی معتقد ہونے کی وجہ سے اُس کتاب کا انکار بھی نہیں کرنا چاہتے جو فی الواقع خارقِ عادت واقعات کا ذکر کرتی ہے۔
معجزات کے باب میں اصل فیصلہ کن سوال صرف یہ ہے کہ آیا اللہ تعالیٰ نظامِ کائنات کو ایک قانون پر چلا دینے کے بعد معطل ہو چکا ہے اور اب اس چلتے ہوئے نظام میں کبھی کسی موقع پر مداخلت نہیں کر سکتا ؟ یا وہ بالفعل اپنی سلطنت کی زمام تدبیر و انتظام اپنے ہاتھ میں رکھتا ہے اور ہر آن اس کے احکام اس سلطنت میں نافذ ہوتے ہیں اور اُس کو ہر وقت اختیار حاصل ہے کہ اشیا کی شکلوں اور واقعات کی عادی رفتار میں جزئی طور پر یا کلّی طور پر جیسا چاہے اور جب چاہے تغیر کر دے ؟ جو لوگ اس سوال کے جواب میں پہلی بات کے قائل ہیں ان کے لیے معجزات کو تسلیم کرنا غیر ممکن ہے، کیونکہ معجزہ نہ ان کے تصّور خدا سے میل کھاتا ہے اور نہ تصورِ کائنات سے۔ لیکن ایسے لوگوں کے لیے مناسب یہی ہے کہ وہ قرآن کی تفسیر و تشریح کرنے کے بجائے اس کا صاف صاف انکار کر دیں کیونکہ قرآن نے تو اپنا زورِ بیان ہی خدا کے مقدم الذکر تصور کا ابطال اور موخر الذکر تصور کا اثبات کرنے پر صرف کیا ہے۔ بخلاف اس کے جو شخص قرآن کے دلائل سے مطمئن ہو کر دوسرے تصور کو قبول کر لے اُس کے لیے معجزے کو سمجھنا ا ور تسلیم کرنا کچھ مشکل نہیں رہتا۔ ظاہر ہے کہ جب آپ کا عقیدہ ہی یہ ہو گا کہ اژدہے جس طرح پیدا ہوا کرتے ہیں اسی طرح وہ پیدا ہو سکتے ہیں، اُس کے سوا کسی دوسرے ڈھنگ پر کوئی اژدہا پیدا کر دینا خدا کی قدرت سے باہر ہے تو آپ مجبور ہیں ایسے بیان کو قطعی طور پر جھٹلا دیں جو آپ کو خبر دے رہا ہو کہ ایک لاٹھی اژدہے میں تبدیل ہوئی اور پھر اژدہے سے لاٹھی بن گئی۔ لیکن اس کے بر عکس اگر آپ کا عقیدہ یہ ہو کہ بے جان مادے میں خدا کے حکم سے زندگی پیدا ہو تی ہے اور خدا جس مادے کو جیسی چاہے زندگی عطا کر سکتا ہے، اس کے لیے خدا کے حکم سے لاٹھی کا اژدہا بننا اتنا ہی غیر عجیب واقعہ ہے جتنا اسی خدا کے حکم سے انڈے کے اندر بھرے ہوئے چند بے جان مادوں کا اژدہا بن جانا غیر عجیب ہے۔ مجرّد یہ فرق کہ ایک واقعہ ہمیشہ پیش آتا رہتا ہے اور دوسرا واقعہ صرف تین مرتبہ پیش آیا، ایک کو غیر عجیب اور دوسرے کو عجیب بنا دینے کے لیے کافی نہیں ہے۔
ترجمہ
اس پر فرعون کی قوم کے سرداروں نے آپس میں کہا ’’ یقیناً یہ شخص بڑا ماہر جادوگر ہے، تمہیں تمہاری زمین سے بے دخل کرنا چاہتا ہے ۸۸، اب کہو کیا کہتے ہو؟‘‘ پھر اُن سب نے فرعون کو مشورہ دیا کہ اسے اور اس کے بھائی کو انتظار میں رکھیے اور تمام شہروں میں ہرکارے بھیج دیجیے کہ ہر ماہرِ فن جادوگر کو آپ کے پاس لے آئیں۔۸۹چنانچہ جادوگر فرعون کے پاس آ گئے۔ اُنہوں نے کہا ’’ اگر ہم غالب رہے تو ہمیں اس کا صلہ تو ضرور ملے گا؟‘‘ فرعون نے جواب دیا ’’ہاں! اور تم مقربِ بارگاہ ہو گے۔ ‘‘پھر اُنہوں نے موسیٰ سے کہا ’’تم پھینکتے ہو یا ہم پھینکیں؟‘‘ موسیٰ نے جواب دیا ’’تم ہی پھینکو۔‘‘ انہوں نے جو اپنے آنچھر پھینکے تو نگاہوں کو مسحُور اور دلوں کو خوف زدہ کر دیا اور بڑا ہی زبر دست جادُو بنا لائے۔ ہم نے موسیٰ کو اشارہ کیا کہ پھینک اپنا عصا۔ اس کا پھینکنا تھا کہ آن کی آن میں وہ ان کے اس جھُوٹے طلسم کو نگلتا چلا گیا۔۹۰اس طرح جو حق تھا وہ حق ثابت ہوا اور جو کچھ اُنہوں نے بنا رکھا تھا وہ باطل ہو کر رہ گیا۔فرعون اور اُس کے ساتھی میدانِ مقابلہ میں مغلوب ہوئے اور (فتح مند ہونے کے بجائے ) اُلٹے ذلیل ہو گئے۔ اور جادوگروں کا حال یہ ہوا کہ گویا کسی چیز نے اندر سے اُنہیں سجدے میں گرا دیا۔کہنے لگے ’’ہم نے مان لیا ربّ العالمین کو، اُس ربّ کو جسے موسیٰ اور ہارون مانتے ہیں۔‘‘ ۹۱فرعون نے کہا ’’تم اس پر ایمان لے آئے قبل اس کے کہ میں تمہیں اجازت دوں ؟ یقیناً یہ کوئی خفیہ سازش تھی جو تم لوگوں نے اِس دار السّلطنت میں کی تاکہ اس کے مالکوں کو اقتدار سے بے دخل کر دو۔اچھا تو اس کا نتیجہ اب تمہیں معلوم ہوا جاتا ہے۔ میں تمہارے ہاتھ پاؤں مخالف سمتوں سے کٹوا دوں گا اور اس کے بعد تم سب کو سُولی پر چڑھاؤں گا۔‘‘ انہوں نے جواب دیا ’’بہر حال ہمیں پلٹنا اپنے ربّ ہی کی طرف ہے۔ تُو جس بات پر ہم سے انتقام لینا چاہتا ہے وہ اِس کے سوا کچھ نہیں کہ ہمارے ربّ کی نشانیاں جب ہمارے سامنے آ گئیں تو ہم نے انہیں مان لیا۔ اے ربّ، ہم پر صبر کا فیضان کر اور ہمیں دنیا سے اُٹھا اِس حال میں کہ ہم تیرے فرمانبردار ہوں۔۹۲‘‘ ؏ ١۴
تفسیر
۸۸-یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر ایک غلام قوم کا ایک بے سرو سامان آدمی یکایک اُٹھ کر فرعون جیسے بادشاہ کے دربار میں جا کھڑا ہوتا ہے جو شام سے لیبیا تک اور بحرِ روم کے سواحل سے حبش تک کے عظیم الشان ملک کا نہ صرف مطلق العنان بادشاہ بلکہ معبود بنا ہوا تھا، تو محض اُس کے اس فعل سے کہ اس نے ایک لاٹھی کو اژدہا بنا دیا اتنی بڑی سلطنت کو یہ خطرہ کیسے لاحق ہو جاتا ہے کہ یہ اکیلا انسان سلطنت مصر کا تختہ الٹ دے گا اور شاہی خاندان کو حکمراں طبقے سمیت ملک کے اقتدار سے بے دخل کر دے گا؟ پھر یہ سیاسی انقلاب کا خطرہ آخر پیدا بھی کیوں ہوا جبکہ اس شخص نے صرف نبوّت کا دعویٰ اور بنی اسرائیل کی رہائی کا مطالبہ ہی پیش کیا تھا اور کسی قسم کی سیاسی گفتگو سرے سے چھیڑی ہی نہ تھی؟
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کا دعوائے نبوت اپنے اندر خود ہی یہ معنی رکھتا تھا کہ وہ دراصل پورے نظامِ زندگی کو بحیثیتِ مجموعی تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ جس میں لا محالہ ملک کا سیاسی نظام بھی شامل ہے۔ کسی شخص کا اپنے کو رب العالمین کے نمائندے کی حیثیت سے پیش کرنا لازمی طور پر اس بات کو متضمن ہے کہ وہ انسانوں سے اپنی کلی اطاعت کا مطالبہ کرتا ہے، کیونکہ ربّ العالمین کا نمائندہ کبھی مطیع اور رعیت بن کر رہنے کے لیے نہیں آتا بلکہ مطاع اور راعی بننے ہی کے لیے آیا کرتا ہے اور کسی کافر کے حق حکمرانی کو تسلیم کر لینا اس کی حیثیت رسالت کے قطعاً منافی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت موسیٰ ؑ کی زبان سے رسالت کا دعویٰ سنتے ہی فرعون اور اس کے اعیانِ سلطنت کے سامنے سیاسی و معاشی اور تمدنی انقلاب کا خطرہ نمودار ہو گیا۔ رہی یہ بات کہ حضرت موسیٰ کے اس دعوے کو مصر کے دربار شاہی میں اتنی اہمیت ہی کیوں دی گئی جبکہ ان کے ساتھ ایک بھائی کے سوا کوئی معاون و مددگار اور صرف ایک سانپ بن جانے والی لاٹھی اور ایک چمک والے ہاتھ کے سوا کوئی نشان ماموریت نہ تھا؟ تو میرے نزدیک اس کے دو بڑے سبب ہیں۔ ایک یہ کہ حضرت موسیٰ ؑ کی شخصیت سے فرعون اور اس کے درباری خوب واقف تھے۔ ان کی پاکیزہ اور مضبوط سیرت، ان کی غیر معمولی قابلیت، اور قیادت و فرماں روائی کی پیدائشی صلاحیت کا سب کو علم تھا۔ تَلْمود اور یوسیفوس کی روایات اگر صحیح ہیں تو حضرت موسیٰ ؑ نے اِن پیدائشی قابلیتوں کے علاوہ فرعون کے ہاں علوم و فنون اور حکمرانی و سپہ سالاری کی وہ پوری تعلیم و تربیت بھی حاصل کی تھی جو شاہی خاندان کے افراد کو دی جاتی تھیں۔ اور زمانہ شاہزادگی میں حبش کی مہم پر جا کر وہ اپنے آپ کو ایک بہترین جنرل بھی ثابت کر چکے تھے۔ پھر جو تھوڑی بہت کمزوریاں شاہی محلوں میں پرورش پانے اور فرعونی نظام کے اندر امارت کے مناصب پر سرفراز رہنے کی وجہ سے ان میں پائی جاتی تھیں، وہ بھی آٹھ دس سال مدین کے علاقہ میں صحرائی زندگی گزارنے اور بکریاں چرانے کی بدولت دور ہو چکی تھیں اور اب فرعونی دربار کے سامنے ایک ایسا سن رسیدہ و سنجیدہ فقیر کشور گیر نبوت کا دعویٰ لیے ہوئے کھڑا تھا جس کی بات کو بہر حال بادِ ہوائی سمجھ کر اڑایا نہ جا سکتا تھا۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ عصا اور ید بیضاء کی نشانیاں دیکھ کر فرعون اور اس کے درباری سخت مرعوب ہو چکے تھے اور ان کو تقریباً یہ یقین ہو گیا تھا کہ یہ شخص فی الواقع کوئی فوق الفطری طاقت اپنی پشت پر رکھتا ہے۔ ان کا حضرت موسیٰ کو ایک طرف جادوگر بھی کہنا اور پھر دوسری طرف یہ اندیشہ بھی ظاہر کرنا کہ یہ ہم کو اس سر زمین کی فرماں روائی سے بے دخل کرنا چاہتا ہے، ایک صریح تضادِ بیان تھا اور اُس بوکھلاہٹ کا ثبوت تھا جو ان پر نبوت کے اس اوّلین مظاہرے سے طاری ہو گئی تھی۔ اگر حقیقت میں وہ حضرت موسیٰ ؑ کو جادوگر سمجھتے تو ہرگز ان سے کسی سیاسی انقلاب کا اندیشہ نہ کرتے۔ کیونکہ جادو کے بل بوتے پر کبھی دنیا میں کوئی سیاسی انقلاب نہیں ہوا ہے۔
۸۹-فرعونی درباریوں کے اس قول سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان کے ذہن میں خدائی نشان اور جادو کے امتیازی فرق کا تصوّر بالکل واضح طور پر موجود تھا۔ وہ جانتے تھے کہ خدائی نشان سے حقیقی تغیر واقع ہوتا ہے اور جادو محض نظر اور نفس کو متاثر کر کے اشیاء میں ایک خاص طرح کا تغیر محسوس کراتا ہے۔ اسی بنا پر انہوں نے حضرت موسیٰ کے دعوائے رسالت کو رد کرنے کے لیے کہا کہ یہ شخص جادوگر ہے، یعنی عصا حقیقت میں سانپ نہیں بن گیا کہ اسے خدائی نشان مانا جائے، بلکہ صرف ہمیں ایسا نظر آیا گویا وہ سانپ تھا جیسا کہ ہر جادوگر کر لیتا ہے۔ پھر انھوں نے مشورہ دیا کہ تمام ملک کے ماہر جادوگروں کو بلایا جائے اور ان کے ذریعہ سے لاٹھیوں اور رسیوں کو سانپوں میں تبدیل کر کے لوگوں کو دکھا دیا جائے تا کہ عامۃ الناس کے دلوں میں اس پیغمبرانہ معجزے سے جو ہیبت بیٹھ گئی ہے وہ اگر بالکلیہ دور نہ ہو تو کم از کم شک ہی میں تبدیل ہو جائے۔
۹۰-یہ گمان کرنا صحیح نہیں ہے کہ عصا ان لاٹھیوں اور رسیوں کو نگل گیا جو جادوگروں نے پھینکی تھیں جو سانپ اور اژدہے بنی نظر آ رہی تھیں۔ قرآن جو کچھ کہہ رہا ہے وہ یہ ہے کہ عصا نے سانپ بن کر اُن کے اُس طلسم فریب کو نگلنا شروع کر دیا جو انہوں نے تیار کیا تھا۔ اس کا صاف مطلب یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ سانپ جدھر جدھر گیا وہاں سے جادو کا وہ اثر کافور ہوتا چلا گیا جس کی بدولت لاٹھیاں اور رسیاں سانپوں کی طرح لہراتی نظر آتی تھیں، اور اس کی ایک ہی گردش میں جادوگروں کی ہر لاٹھی، لاٹھی اور ہر رسی، رسی بن کر رہ گئی۔(مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو طہٰ، حاشیہ ۴۲)۔
۹۱-اسی طرح اللہ تعالیٰ نے فرعونیوں کی چال کو الٹا انہی پر پلٹ دیا۔ انہوں نے تمام ملک کے ماہر جادوگروں کو بلا کر منظر عام پر اس لیے مظاہرہ کریا تھا کہ عوام الناس کو حضرت موسیٰ ؑ کے جادوگر ہونے کا یقین دلائیں یا کم از کم شک ہی میں ڈال دیں۔ لیکن اس مقابلہ میں شکست کھانے کے بعد خود اُن کے اپنے بلائے ہوئے ماہرین فن نے بالاتفاق فیصلہ کر دیا کہ حضرت موسیٰ ؑ جو چیز پیش کر رہے ہیں وہ ہر گز جادو نہیں ہے بلکہ یقیناً ربّ العالمین کی طاقت کا کرشمہ ہے جس کے آگے کسی جادو کا زور نہیں چل سکتا۔ ظاہر ہے کہ جادو کو خود جادوگروں سے بڑھ کر اور کون جان سکتا تھا۔ پس جب انہوں نے عملی تجربے اور آزمائش کے بعد شہادت دے دی کہ یہ چیز جادو نہیں ہے، تو پھر فرعون اور اس کے درباریوں کے لیے باشندگانِ ملک کو یہ یقین دلانا بالکل نا ممکن ہو گیا کہ موسیٰ محض ایک جادوگر ہے۔
۹۲-فرعون نے پانسہ پلٹتے دیکھ کر آخری چال یہ چلی تھی کہ اس سارے معاملہ کو موسیٰ اور جادوگروں کی سازش قرار دے دے اور پھر جادوگروں کو جسمانی عذاب اور قتل کی دھمکی دے کر ان سے اپنے اِس الزام کا اقبال کرالے۔ لیکن یہ چال بھی اُلٹی پڑی۔ جادوگروں نے اپنے آپ کو ہر سزا کے لیے پیش کر کے ثابت کر دیا کہ اُن کا موسیٰ علیہ السلام کی صداقت پر ایمان لانا کسی سازش کا نہیں بلکہ سچے اعتراف حق کا نتیجہ تھا۔ اب اُس کے لیے کوئی چارہ کار اس کے سوا باقی نہ رہا کہ حق اور انصاف کا ڈھونگ جو وہ رچانا چاہتا تھا اسے چھوڑ کر صاف صاف ظلم و ستم شروع کر دے۔
اس مقام پر یہ بات بھی دیکھنے کے قابل ہے کہ چند لمحوں کے اندر ایمان نے ان جادوگروں کی سیرت میں کتنا بڑا انقلاب پیدا کر دیا۔ ابھی تھوڑی دیر پہلے انہی جادوگروں کی دانائیت کا یہ حال تھا کہ اپنے دین آبائی کی نصرت و حمایت کے لیے گھروں سے چل کر آئے تھے اور فرعون سے پوچھ رہے تھے کہ اگر ہم نے اپنے مذہب کو موسیٰ کے حملہ سے بچا لیا تو سرکار سے ہمیں انعام تو ملے گا نا؟ یا اب جو نعمتِ ایمان نصیب ہوئی تو انہی کی حق پرستی اور اولو العزمی اس حد کو پہنچ گئی کہ تھوڑی دیر پہلے جس بادشاہ کے آگے لالچ کے مارے بچھے جا رہے تھے اب اس کی کبریائی اور اس کے جبروت کو ٹھوکر مار رہے ہیں اور اُن بد ترین سزاؤں کو بھگتنے کے لیے تیار ہیں جن کی دھمکی وہ دے رہا ہے مگر اس حق کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہیں جس کی صداقت ان پر کھل چکی ہے۔
ترجمہ
فرعون سے اُس کی قوم کے سرداروں نے کہا ’’ کیا تُو موسیٰ اور اس کی قوم کو یونہی چھوڑ دے گا کہ ملک میں فساد پھیلائیں اور وہ تیری اور تیرے معبُودوں کی بندگی چھوڑ بیٹھے ؟‘‘ فرعون نے جواب دیا ’’میں اُن کے بیٹوں کو قتل کراؤں گا اور اُن کی عورتوں کو جیتا رہنے دوں گا ۹۳۔ ہمارے اقتدار کی گرفت ان پر مضبوط ہے۔ ‘‘موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا ’’ اللہ سے مدد مانگو اور صبر کرو، زمین اللہ کی ہے، اپنے بندوں میں سے جس کو وہ چاہتا ہے اس کا وارث بنا دیتا ہے، اور آخری کامیابی انہی کے لیے ہے جو اُس سے ڈرتے ہوئے کام کریں۔‘‘ اس کی قوم کے لوگوں نے کہا ’’تیرے آنے سے پہلے بھی ہم ستائے جاتے تھے اور اب تیرے آنے پر بھی ستائے جا رہے ہیں۔‘‘ اس نے جواب دیا ’’ قریب ہے وہ وقت کہ تمہارا ربّ تمہارے دشمن کو ہلاک کر دے اور تم کو زمین میں خلیفہ بنائے، پھر دیکھے کہ تم کیسے عمل کرتے ہو؟‘‘ ؏ ١۵
تفسیر
۹۳-واضح رہے کہ ایک دورِ ستم وہ تھا جو حضرت موسیٰ ؑ کی پیدائش سے پہلے رعمسیس ثانی کے زمانہ میں جاری ہوا تھا، اور دوسرا دورِ ستم یہ ہے جو حضرت موسیٰ ؑ کی بعثت کے بعد شروع ہوا۔ دونوں میں یہ بات مشترک ہے کہ بنی اسرائیل کے بیٹوں کو قتل کرایا گیا اور ان کی بیٹیوں کو جیتا چھوڑ دیا گیا تا کہ بتدریج ان کی نسل کا خاتمہ ہو جائے اور یہ قوم دوسری قوموں میں گم ہو کر رہ جائے۔ غالباً اسی دور کا ہے وہ کتبہ جو سن ۱۸۹۶ء میں قدیم مصری آثار کی کھدائی کے دوران میں ملا تھا اور جس میں یہی فرعون منفتاح اپنے کارناموں اور فتوحات کا ذکر کرنے کے بعد لکھتا ہے کہ ’’اور اسرائیل کو مٹا دیا گا، اس کا بیج تک باقی نہیں۔‘‘ (مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو المومن، آیت ۲۵)
ترجمہ
ہم نے فرعون کے لوگوں کو کئی سال تک قحط اور پیداوار کی کمی میں مبتلا رکھا کہ شاید ان کو ہوش آئے۔ مگر اُن کا حال یہ تھا کہ جب اچھا زمانہ آتا تو کہتے کہ ہم اِسی کے مستحق ہیں، اور جب بُرا زمانہ آتا تو موسیٰ اور اس کے ساتھیوں کو اپنے لیے فالِ بد ٹھہراتے، حالانکہ در حقیقت ان کی فالِ بد تو اللہ کے پاس تھی، مگر ان میں سے اکثر بے علم تھے۔ انہوں نے موسیٰ سے کہا ’’ تُو ہمیں مسحور کرنے کے لیے خواہ کوئی نشانی لے آئے، ہم تو تیری بات ماننے والے نہیں ہیں۔‘‘ ۹۴ آخرِ کار ہم نے ان پر طوفان بھیجا ۹۵، ٹِڈی دل چھوڑے، سُرسُریاں پھیلائیں ۹۶، مینڈک نکالے، اور خون برسایا، یہ سب نشانیاں الگ الگ کر کے دکھائیں، مگر وہ سرکشی کیے چلے گئے اور بڑے ہی مجرم لوگ تھے۔ جب کبھی اُن پر بلا نازل ہو جاتی تو کہتے ’’ اے موسیٰ، تجھے اپنے ربّ کی طرف سے جو منصب حاصل ہے اس کی بنا پر ہمارے حق میں دعا کر، اگر اب کے تُو ہم پر سے یہ بلا ٹلوا دے تو ہم تیری بات مان لیں گے اور بنی اسرائیل کو تیرے ساتھ بھیج دیں گے۔ ‘‘مگر جب ہم ان پر سے اپنا عذاب ایک وقتِ مقرر تک کے لیے، جس کو وہ بہرحال پہنچنے والے تھے، ہٹا لیتے تو وہ یک لخت اپنے عہد سے پھر جاتے۔ تب ہم نے اُن سے انتقام لیا اور اُنہیں سمندر میں غرق کر دیا کیونکہ اُنہوں نے ہماری نشانیوں کو جھُٹلایا تھا اور اُن سے بے پروا ہو گئے تھے۔ اور اُن کی جگہ ہم نے اُن لوگوں کو جو کمزور بنا کر رکھے گئے تھے، اُس سرزمین کے مشرق و مغرب کا وارث بنا دیا جسے ہم نے برکتوں سے مالامال کیا تھا۔۹۷ اس طرح بنی اسرائیل کے حق میں تیرے ربّ کا وعدۂ خیر پورا ہوا کیونکہ اُنہوں نے صبر سے کام لیا تھا اور فرعون اور اُ س کی قوم کا وہ سب کچھ برباد کر دیا گیا جو وہ بناتے اور چڑھاتے تھے۔ بنی اسرائیل کو ہم نے سمندر سے گزار دیا، پھر وہ چلے اور راستے میں ایک ایسی قوم پر اُن کا گزر ہوا جو اپنے چند بُتوں کی گرویدہ بنی ہوئی تھی۔ کہنے لگے، ’’اے موسیٰ،ہمارے لیے بھی کوئی ایسا معبود بنا دے جیسے اِن لوگوں کے معبود ہیں۔۹۸‘‘ موسیٰ نے کہا ’’تم لوگ بڑی نادانی کی باتیں کرتے ہو۔یہ لوگ جس طریقہ کی پیروی کر رہے ہیں وہ تو برباد ہونے والا ہے اور جو عمل وہ کر رہے ہیں وہ سراسر باطل ہے۔ ‘‘پھر موسیٰ نے کہا ’’ کیا میں اللہ کے سوا کوئی اور معبود تمہارے لیے تلاش کروں؟ حالانکہ وہ اللہ ہی ہے جس نے تمہیں دنیا بھر کی قوموں پر فضیلت بخشی ہے۔ اور (اللہ فرماتا ہے )وہ وقت یاد کرو جب ہم نے فرعون والوں سے تمہیں نجات دی جن کا حال یہ تھا کہ تمہیں سخت عذاب میں مبتلا رکھتے تھے، تمہارے بیٹوں کو قتل کرتے اور تمہاری عورتوں کو زندہ رہنے دیتے تھے اور اس میں تمہارے ربّ کی طرف سے تمہاری بڑی آزمائش تھی۔‘‘ ؏ ١٦
تفسیر
۹۴-یہ انتہائی ہٹ دھرمی و سخن پروری تھی کہ فرعون کے اہلِ دربار اُس چیز کو بھی جادو قرار دے رہے تھے جس کے متعلق وہ خود بھی بالیقین جانتے تھے کہ وہ جادو کا نتیجہ نہیں ہو سکتی۔ شاید کوئی بے وقوف آدمی بھی یہ باور نہ کرے گا کہ ایک پورے ملک میں قحط پڑ جانا اور زمین کی پیداوار میں مسلسل کمی واقع ہونا کسی جادو کا کرشمہ ہو سکتا ہے۔ اسی بناء پر قرآن مجید کہتا ہے کہ فَلَمَّا جَآ ءَ تْھُمْ اٰیٰتُنَا مُبْصِرَةً قَا لُوْا ھٰذَا سِحْرٌ مُّبِینٌ وَّجَحَدُوا بھَِا و ا ستَیْقَنَتھَٓا اَنفُسھُُمْ ظُلْمًاوَّ عُلُوًّا (النمل۔ آیات ۱۳۔۱۴)یعنی ’’جب ہماری نشانیاں علانیہ ان کی نگاہوں کے سامنے آئیں تو انہوں نے کہا کہ یہ تو کھلا جادو ہے، حالانکہ ان کے دل اندر سے قائل ہو چکے تھے، مگر انہوں نے محض ظلم اور سر کشی کی راہ سے ان کا انکار کیا۔‘‘
۹۵-غالباً بارش کا طوفان مراد ہے جس میں اولے بھی برسے تھے۔ اگر چہ طوفان دوسری چیزوں کا بھی ہو سکتا ہے، لیکن بائیبل میں ژالہ باری کے طوفان کا ہی ذکر ہے اس لیے ہم اسی معنی کو ترجیح دیتے ہیں۔
۹۶-اصل میں لفظ قُمَّلْ استعمال ہوا ہے جس کے کئی معنی ہیں۔ جُوں مکھی، چھوٹی ٹڈی، مچھر، سُرسُری وغیرہ غالباً یہ جامع لفظ اس لیے استعمال کیا گیا ہے کہ بیک وقت جُوؤں اور مچھروں نے آدمیوں پر اور سُرسُریوں (گھُن کے کیڑوں)نے غلہ کے ذخیروں پر حملہ کیا ہو گا۔(تقابل کے لیے ملاحظہ ہو بائیبل کی کتاب خروج، باب ۷تا ۱۲، نیز الزُخرُف، حاشیہ ۴۳)۔
۹۷-یعنی بنی اسرائیل کو فلسطین کی سر زمین کا وارث بنا دیا۔ بعض لوگوں نے اس کا مفہوم یہ لیا ہے کہ بنی اسرائیل خود سر زمین مصر کے مالک بنا دیے گئے۔ لیکن اس کے معنی کو تسلیم کرنے کے لیے نہ تو قرآنِ کریم کے اشارات کافی واضح ہیں اور نہ تاریخ و آثار ہی سے اس کی کوئی قوی شہادت ملتی ہے، اس لیے اس معنی کو تسلیم کرنے میں ہمیں تامل ہے۔ (ملاحظہ ہو الکہف حاشیہ ۵۷۔الشعراء حاشیہ ۴۵)۔
۹۸-بنی اسرائیل نے جس مقام سے بحرِ احمر کو عبور کیا وہ غالباً موجودہ سویز اور اسماعیلیہ کے درمیان کوئی مقام تھا۔ یہاں سے گزر کر یہ لوگ جزیرہ نمائے سینا کے جنوبی علاقے کی طرف ساحل کے کنارے کنارے روانہ ہوئے۔ اُس زمانے میں جزیرہ نمائے سینا کا مغربی اور شمالی حصّہ مصر کی سلطنت میں شامل تھا۔ جنوب کے علاقے میں موجودہ شہر طور اور ابو زَنِیمہ کے درمیان تانبے اور فیروزے کی کانیں تھیں، جن سے اہل مصر بہت فائدہ اُٹھاتے تھے اور ان کانوں کی حفاظت کے لیے مصریوں نے چند مقامات پر چھاؤنیاں قائم کر رکھی تھیں۔ انہی چھاؤنیوں میں سے ایک چھاؤنی مَفْقَہ کے مقام پر تھی جہاں مصریوں کا ایک بہت بڑا بُت خانہ تھا جس کے آثار اب بھی جزیرہ نما کے جنوبی مغربی علاقہ میں پائے جاتے ہیں۔ اس کے قریب ایک اور مقام بھی تھا جہاں قدیم زمانے سے سامی قوموں کی چاند دیوی کا بُت خانہ تھا۔ غالباً انہی مقامات میں سے کسی کے پاس سے گزرتے ہوئے بنی اسرائیل کو، جن پر مصریوں کی غلامی نے مصریّت زدگی کا اچھا خاصا گہرا ٹھپّا لگا رکھا تھا، ایک مصنوعی خدا کی ضرورت محسوس ہوئی ہو گی۔
بنی اسرائیل کی ذہنیّت کو اہل مصر کی غلامی نے جیسا کچھ بگاڑ دیا تھا اس کا اندازہ اس بات سے بآسانی کیا جا سکتا ہے کہ مصر سے نکل آنے کے ۷۰ برس بعد حضرت موسیٰ کے خلیفہ اوّل حضرت یُوشع بن نُون اپنی آخری تقریر میں بنی اسرائیل کے مجمعِ عام سے خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’تم خدا کا خوف رکھو اور نیک نیتی اور صداقت کے ساتھ اس کی پرستش کرو اور ان دیوتاؤں کو دور کر دو جن کی پرستش تمہارے باپ دادا بڑے دریا کے پار اور مصر میں کرتے تھے اور خداوند کی پرستش کرو۔ اور اگر خداوند کی پرستش تم کو بُری معلوم ہوتی ہو تو آج ہی تم اُسے جس کی پرستش کرو گے چن لو۔۔۔۔۔۔۔۔ اب رہی میری اور میرے گھرانے کی بات سو ہم تو خداوند ہی کی پرستش کریں گے ‘‘ (یشوع ۲۴:١۴۔١۵)
اس سے انداز ہوتا ہے کہ ۴۰ سال تک حضرت موسیٰ ؑ کی اور ۲۸ سال حضرت یُوشع کی تربیت و رہنمائی میں زندگی بسر کر لینے کے بعد بھی یہ قوم اپنے اندر سے اُن اثرات کو نہ نکال سکی جو فراغنہ مصر کی بندگی کے دور میں اُس کی رگ رگ کے اندر اتر گئے تھے۔ پھر بھلا کیونکر ممکن تھا کہ مصر سے نکلنے کے بعد فوراً ہی جو بُت کدہ سامنے آ گیا تھا اس کو دیکھ کر ان بگڑے ہوئے مسلمانوں میں سے بہتوں کی پیشانیاں اُس آستانے پر سجدہ کرنے کے لیے بیتاب نہ ہو جائیں جس پر وہ اپنے سابق آقاؤں کو ماتھا رگڑتے ہوئے دیکھ چکے تھے۔
ترجمہ
ہم نے موسیٰ کو تیس شب و روز کے لیے (کوہِ سینا پر) طلب کیا اور بعد میں دس (۱۰) دن کا اور اضافہ کر دیا، اِس طرح اُس کے ربّ کی مقرر کردہ مُدّت پُورے چالیس (۴۰) دن ہو گئی۔۹۹ موسیٰ نے چلتے ہوئے اپنے بھائی سے کہا کہ ’’میرے پیچھے تم میری قوم میں میری جانشینی کرنا اور ٹھیک کام کرتے رہنا اور بگاڑ پیدا کرنے والوں کے طریقے پر نہ چلنا۔۱۰۰‘‘جب وہ ہمارے مقرر کیے ہوئے وقت پر پہنچا اور اس کے ربّ نے اس سے کلام کیا تو اس نے التجا کی کہ ’’ اے ربّ، مجھے یارائے نظر دے کہ میں تجھے دیکھوں۔‘‘ فرمایا ’’ تُو مجھے نہیں دیکھ سکتا۔ ہاں ذرا سامنے کے پہاڑ کی طرف دیکھ، اگر وہ اپنی جگہ قائم رہ جائے تو البتہ تُو مجھے دیکھ سکے گا۔‘‘ چنانچہ اُس کے ربّ نے جب پہاڑ پر تجلّی کی تو اُسے ریزہ ریزہ کر دیا اور موسیٰ غش کھا کر گِر پڑا۔ جب ہوش آیا تو بولا ’’پاک ہے تیری ذات، میں تیرے حضور توبہ کرتا ہوں اور سب سے پہلا ایمان لانے والا میں ہوں۔‘‘ فرمایا ’’ اے موسیٰ، میں نے تمام لوگوں پر ترجیح دے کر تجھے منتخب کیا کہ میری پیغمبری کرے اور مجھ سے ہم کلام ہو، پس جو کچھ میں تجھے دُوں اُسے لے اور شکر بجا لا۔‘‘ اس کے بعد ہم نے موسیٰ کو ہر شعبۂ زندگی کے متعلق نصیحت اور ہر پہلو کے متعلق واضح ہدایت تختیوں پر لکھ کر دے دی ۱۰۱ اور اس سے کہا ’’ اِن ہدایات کو مضبوط ہاتھوں سے سنبھال اور اپنی قوم کو حکم دے کہ ان کے بہتر مفہوم کی پیروی کریں۔ ۱۰۲عنقریب میں تمہیں فاسقوں کے گھر دکھاؤں گا۔۱۰۳میں اپنی نشانیوں سے اُن لوگوں کی نگاہیں پھیر دوں گا جو بغیر کِسی حق کے زمین میں بڑے بنتے ہیں ۱۰۴، وہ خواہ کوئی نشانی دیکھ لیں کبھی اس پر ایمان نہ لائیں گے، اگر سیدھا راستہ اُن کے سامنے آئے تو اسے اختیار نہ کریں گے اور اگر ٹیڑھا راستہ نظر آئے تو اس پر چل پڑیں گے، اس لیے کہ اُنہوں نے ہماری نشانیوں کو جھُٹلا یا اور ان سے بے پروائی کرتے رہے۔ ہماری نشانیوں کو جس کسی نے جھُٹلا یا اور آخرت کی پیشی کا اِنکار کیا اُس کے سارے اعمال ضائع ہو گئے۔ ۱۰۵ کیا لوگ اِس کے سِوا کچھ اور جزا پا سکتے ہیں کہ جیسا کریں ویسا بھریں؟ ‘‘ ؏ ١۷
تفسیر
۹۹-مصر سے نکلنے کے بعد جب بنی اسرائیل کی غلامانہ پابندیاں ختم ہو گئیں اور اُنہیں ایک خود مختار قوم کی حیثیت حاصل ہو گئی تو حکمِ خداوندی کے تحت حضرت موسیٰ ؑ کوہ سینا پر طلب کیے گئے تا کہ انہیں بنی اسرائیل کے لیے شریعت عطا فرمائی جائے۔ چنانچہ یہ طلبی جس کا یہاں ذکر ہو رہا ہے، اس سلسلہ کی پہلی طلبی تھی اور اس کے لیے چالیس دن کی میعاد اس لیے مقرر کی گئی تھی کہ حضرت موسیٰ ایک پورا چِلّہ پہاڑ پر گزاریں اور روزے رکھ کر، شب و روز عبادت اور تفکر و تدبر کر کے اور دل و دماغ کو یکسو کر کے اُس قولِ ثقیل کے اخذ کرنے کی استعداد اپنے اندر پیدا کریں جو ان پر نازل کیا جانے والا تھا۔
حضرت موسیٰ ؑ نے اس ارشاد کی تعمیل میں کوہ سینا جاتے وقت بنی اسرائیل کو اُس مقام پر چھوڑا تھا جو موجودہ نقشہ میں نبی صالح اور کوہِ سینا کے درمیان وادی ایشخ کے نام سے موسوم ہے۔ اس وادی کا وہ حصہ جہاں بنی اسرائیل نے پڑاؤ کیا تھا آج کل میدان الراحہ کہلاتا ہے۔ وادی کے ایک سرے پر وہ پہاڑی واقع ہے جہاں مقامی روایت کے بموجب حضرت صالح علیہ السلام ثمود کے علاقے سے ہجرت کر کے تشریف لے آئے تھے۔ آج وہاں ان کی یادگار میں ایک مسجد بنی ہوئی ہے۔ دوسری طرف ایک اور پہاڑی جبل ہارون نامی ہے جہاں کہا جاتا ہے کہ حضرت ہارون علیہ السلام بنی اسرائیل کی گوسالہ پرستی سے ناراض ہو کر جا بیٹھے تھے۔ تیسری طرف سینا کا بلند پہاڑ ہے جس کا بالائی حصہ اکثر بادلوں سے ڈھکا رہتا ہے اور جس کی بلندی ۷۳۹۵ فیٹ ہے۔ اس پہاڑ کی چوٹی پر آج تک وہ کھوہ زیارت گاہِ عام بنی ہوئی ہے جہاں حضرت موسیٰ ؑ نے چلّہ کیا تھا۔ اس کے قریب مسلمانوں کی ایک مسجد اور عیسائیوں کا ایک گِرجا موجود ہے اور پہاڑ کے دامن میں رومی قیصر جسٹنین کے زمانہ کی ایک خانقاہ آج تک موجود ہے۔ (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو النمل، حواشی ۹-۱۰)۔
۱۰۰-حضرت ہارون علیہ السلام اگرچہ حضرت موسیٰ سے تین سال بڑے تھے لیکن کارِ نبوّت میں حضرت موسیٰ کے ماتحت اور مددگار تھے۔ ان کی نبوت مستقل نہ تھی بلکہ حضرت موسیٰ نے اللہ تعالیٰ سے درخواست کر کے ان کو اپنے وزیر کی حیثیت سے مانگا تھا جیسا کہ آگے چل کر قرآن مجید میں بتصریح بیان ہوا ہے۔
۱۰۱-بائیبل میں تصریح ہے کہ یہ دونوں تختیاں پھتر کی سلیں تھیں، اور ان تختیوں پر لکھنے کا فعل بائیبل اور قرآن دونوں میں اللہ تعالیٰ کی طرف منسُوب کیا گیا ہے۔ ہمارے پاس کوئی ذریعہ ایسا نہیں جس سے ہم اس بات کا تعیُّن کر سکیں کہ آیا ان تختیوں پر کتابت کا کام اللہ تعالیٰ نے براہِ راست اپنی قدرت سے کیا تھا، یا کسی فرشتے سے یہ خدمت لی تھی، یا خود حضرت موسیٰ کا ہاتھ استعمال فرمایا تھا۔(تقابل کے لیے ملاحظہ ہو بائیبل، کتاب خروج، باب ۳١،آ یت ١۸۔باب ۳۲،آیت ١۵،١٦ و استثناء باب ۵آ یت ٦۔۲۲)
۱۰۲-یعنی احکامِ الٰہی کا وہ صاف اور سیدھا مفہوم لیں جو عقلِ عام سے ہر وہ شخص سمجھ لے گا جس کی نیت میں فساد، یا جس کے دل میں ٹیڑھ نہ ہو۔ یہ قید اس لیے لگائی گئی کہ جو لوگ احکام کے سیدھے سادھے الفاظ میں سے قانونی اینچ پینچ اور حیلوں کے راستے اور فتنوں کی گنجائشیں نکالتے ہیں، کہیں ان کی موشگافیوں کو کتاب اللہ کی پیروی نہ سمجھ لیا جائے۔
۱۰۳-یعنی آگے چل کر تم لوگ اُن قوموں کے آثار قدیمہ پر سے گزرو گے جنہوں نے خدا کی بندگی و اطاعت سے منہ موڑا اور غلط روی پر اصرار کیا۔ ان آثار کو دیکھ کر تمہیں خود معلوم ہو جائے گا کہ ایسی روش اختیار کرنے کا کیا انجام ہوتا ہے۔
۱۰۴-یعنی میرا قانونِ فطرت یہی ہے کہ ایسے لوگ کسی عبرت ناک چیز سے عبرت اور کسی سبق آموز شے سے سبق حاصل نہیں کر سکتے۔
’’بڑا بننا‘‘ یا ’’تکبّر کرنا‘‘ قرآن مجید اس معنی میں استعمال کرتا ہے کہ بندہ اپنے آپ کو بندگی کے مقام سے بالا تر سمجھنے لگے اور خدا کے احکام کی کچھ پروا نہ کرے، اور ایسا طرزِ عمل اختیار کرے گویا کہ وہ نہ خدا کا بندہ ہے اور نہ خدا اس کا رب ہے۔ اس خود سری کی کوئی حقیقت ایک پندار غلط کے سوا نہیں ہے، کیونکہ خدا کی زمین میں رہتے ہوئے ایک بندے کو کسی طرح یہ حق پہنچتا ہی نہیں کہ غیر بندہ بن کر رہے۔ اسی لیے فرمایا کہ ’’وہ بغیر کسی حق کے زمین میں بڑے بنتے ہیں۔‘‘
۱۰۵-ضائع ہو گئے، یعنی بار آور نہ ہوئے، غیر مفید اور لاحاصل نکلے۔ اس لیے کہ خدا کے ہاں انسانی سعی و عمل کے بار آور ہونے کا انحصار بالکل دو امور پر ہے۔ ایک یہ کہ وہ سعی و عمل خدا کے قانون شرعی کی پابندی میں ہو۔ دوسرے یہ کہ اس سعی و عمل میں دنیا کے بجائے آخرت کی کامیابی پیش نظر ہو۔ یہ دو شرطیں جہاں پوری نہ ہوں گی وہاں لازماً حبطِ عمل واقع ہو گا۔ جس خدا سے ہدایت لیے بغیر بلکہ اس سے منہ موڑ کر باغیانہ انداز پر دنیا میں کام کیا، ظاہر ہے کہ وہ خدا سے کسی اجر کی توقع رکھنے کا کسی طرح حقدار نہیں ہو سکتا۔ اور جس نے سب کچھ دنیا ہی کے لیے کیا، اور آخرت کے لیے کچھ نہ کیا، کھلی بات ہے کہ آخرت میں اسے کوئی ثمرہ پانے کی اُمید نہ رکھنی چاہیے اور کوئی وجہ نہیں کہ وہاں وہ کسی قسم کا ثمرہ پائے۔ اگر میری مملوکہ زمین میں کوئی شخص میرے منشا کے خلاف تصرّف کرتا رہا ہے تو وہ مجھ سے سزا پانے کے سوا آخر اور کیا پانے کا حق دار ہو سکتا ہے ؟ اور اگر اس زمین پر اپنے غاصبانہ قبضہ کے زمانہ میں اس نے سارا کام خود ہی اس ارادہ کے ساتھ کیا ہو کہ جب تک اصل مالک اس کی جرأتِ بے جا سے اغماض کر رہا ہے، اسی وقت تک وہ اس سے فائدہ اُٹھائے گا اور مالک کے قبضہ میں زمین واپس چلے جانے کے بعد وہ خود بھی کسیِ فائدے کا متوقع یا طالب نہیں ہے، تو آخر کیا وجہ ہے کہ میں اس غاصب سے اپنی زمین واپس لینے کے بعد زمین کی پیداوار میں سے کوئی حصّہ خواہ مخواہ اسے دوں؟
ترجمہ
موسیٰ کے پیچھے ۱۰۶ اس کی قوم کے لوگوں نے اپنے زیوروں سے ایک بچھڑے کا پُتلا بنایا جس میں سے بیل کی سی آواز نکلتی تھی۔ کیا اُنہیں نظر نہ آتا تھا کہ وہ نہ ان سے بولتا ہے نہ کسی معاملہ میں ان کی رہنمائی کرتا ہے ؟ مگر پھر بھی اُنہوں نے اسے معبود بنا لیا اور وہ سخت ظالم تھے۔ ۱۰۷ پھر جب ان کی فریب خوردگی کا طلِسم ٹوٹ گیا اور اُنہوں نے دیکھ لیا کہ درحقیقت وہ گمراہ ہو گئے ہیں تو کہنے لگے کہ ’’ اگر ہمارے ربّ نے ہم پر رحم نہ فرمایا اور ہم سے درگزر نہ کیا تو ہم برباد ہو جائیں گے۔ ‘‘اُدھر سے موسیٰ غصّے اور رنج میں بھرا ہوا اپنی قوم کی طرف پلٹا۔ آتے ہی اس نے کہا ’’ بہت بُری جانشینی کی تم لوگوں نے میرے بعد! کیا تم سے اتنا صبر نہ ہوا کہ اپنے ربّ کے حکم کا انتظار کر لیتے ؟‘‘ اور تختیاں پھینک دیں اور اپنے بھائی (ہارون) کے سر کے بال پکڑ کر اسے کھینچا۔ ہارون نے کہا ’’ اے میری ماں کے بیٹے، اِن لوگوں نے مجھے دبا لیا اور قریب تھا کہ مجھے مار ڈالتے، پس تُو دشمنوں کو مجھ پر ہنسنے کا موقع نہ دے اور اس ظالم گروہ کے ساتھ مجھے نہ شامل کر۔‘‘ ۱۰۸تب موسیٰ نے کہا ’’اے ربّ، مجھے اور میرے بھائی کو معاف کر اور ہمیں اپنی رحمت میں داخل فرما، تُو سب سے بڑھ کر رحیم ہے۔ ‘‘ ؏ ١۸
تفسیر
۱۰۶-یعنی اُن چالیس دِنوں کے دوران میں جب کہ حضرت موسیٰ ؑ اللہ تعالیٰ کی طلبی پر کوہ سینا گئے ہوئے تھے اور یہ قوم پہاڑ کے نیچے میدانُ الرَّاحَہ میں ٹھیری ہوئی تھی۔
۱۰۷-یہ اُس مصریّت زدگی کا دوسرا ظہور تھا جسے لیے ہوئے بنی اسرائیل مصر سے نکلے تھے۔ مصر میں گائے کی پرستش اور تقدیس کا جو رواج تھا اس سے یہ قوم اتنی شدّت کے ساتھ متاثر ہو چکی تھی کہ قرآن کہتا ہے وَاُشْرِبُوْا فِیْ قُلُوْبھِمُ العِجْلَ۔یعنی ان کے دلوں میں بچھڑا بس کر رہ گیا تھا۔سب سے زیادہ حیرت کا مقام یہ ہے کہ ابھی مصر سے نکلے ہوئے ان کو صرف تین مہینے ہی گزرے تھے۔ سمندر کا پھٹنا، فرعون کا غرق ہونا، اِن لوگوں کا بخیریت اُس بندِ غلامی سے نِکل آنا جس کے ٹوٹنے کی کوئی اُمید نہ تھی، اور اس سلسلے کے دوسرے واقعات ابھی بالکل تازہ تھے، اور انہیں خوب معلوم تھا کہ یہ جو کچھ ہوا محض اللہ کی قدرت سے ہوا ہے، کِسی دوسرے کی طاقت و تصرف کا اس میں کچھ دخل نہ تھا۔ مگر اس پر بھی انہوں نے پہلے تو پیغمبر سے ایک مصنوعی خدا طلب کیا، اور پھر پیغمبر کے پیٹھ موڑتے ہی خود ایک مصنوعی خدا بنا ڈالا۔ یہی وہ حرکت ہے جس پر بعض انبیاء بنی اسرائیل نے اپنی قوم کو اُس بدکار عورت سے تشبیہ دی ہے جو اپنے شوہر کے سوا ہر دوسرے مرد سے دل لگاتی ہو اور جو شب اوّل میں بھی بے وفائی سے نہ چُوکی ہو۔
۱۰۸-یہاں قرآن مجید نے ایک بہت بڑے الزام سے حضرت ہارون کی براءت ثابت کی ہے جو یہودیوں نے زبردستی اُن پر چسپاں کر رکھا تھا۔ بائیبل میں بچھڑے کی پرستش کا واقعہ اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ جب حضرت موسیٰ کو پہاڑ سے آنے میں دیر لگی تو بنی اسرائیل نے بے صبر ہو کر حضرت ہارون سے کہا کہ ہمارے لیے ایک معبود بنا دو، حضرت ہارون نے ان کی فرمائش کے مطابق سونے کا ایک بچھڑا بنا دیا جسے دیکھتے ہی بنی اسرائیل پکار اُٹھے کہ اے اسرائیل، یہی تیرا وہ خدا ہے جو تجھے ملک مصر سے نکال کر لایا ہے۔ پھر حضرت ہارون نے اس کے لیے ایک قربان گاہ بنائی اور اعلان کر کے دوسرے روز تمام بنی اسرائیل کو جمع کیا اور اس کے آگے قربانیاں چڑھائیں (خروج۔باب۳۲۔آیت ١۔٦)۔ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر بصراحت اس غلط بیانی کی تردید کی گئی ہے اور حقیقت واقعہ یہ بتائی گئی ہے کہ اس جرم عظیم کا مرتکب خدا کا نبی ہارون نہیں بلکہ خدا کا باغی سامری تھا۔ (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو سورہ طہٰ، آیات ۹۰-۹۴)۔
بظاہر یہ بات بڑی حیرت انگیز معلوم ہوتی ہے کہ بنی اسرائیل جن لوگوں کو خدا کا پیغمبر مانتے ہیں ان میں سے کسی کی سیرت کو بھی انہوں نے داغدار کیے بغیر نہیں چھوڑا ہے، اور داغ بھی ایسے سخت لگائے ہیں جو اخلاق و شریعت کی نگاہ میں بدترین جرائم شمار ہوتے ہیں، مثلاً شرک، جادوگری، زنا، جھوٹ، دغا بازی اور ایسے ہی دوسرے شدید معاصی جن سے آلودہ ہونا پیغمبر تو درکنار ایک معمولی مومن اور شریف انسان کے لیے بھی سخت شرمناک ہے۔ یہ بات بجائے خود نہایت عجیب ہے لیکن بنی اسرائیل کی اخلاقی تاریخ پر غور کرنے سے معلوم ہو جاتا ہے کہ فی الحقیقت اس قوم کے معاملہ میں یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔ یہ قوم جب اخلاقی و مذہبی انحطاط میں مبتلا ہوئی اور عوام سے گزر کر ان کے خواص تک کو، حتیٰ کہ علماء و مشائخ اور دینی منصب دار وں کو بھی گمراہیوں اور بد اخلاقیوں کا سیلاب بہا لے گیا تو اُن کے مجرم ضمیر نے اپنی اس حالت کے لیے عذرات تراشنے شروع کیے اور اسی سلسلہ میں انہوں نے وہ تمام جرائم جو یہ خود کرتے تھے، انبیاء علیہم السلام کی طرف منسوب کر ڈالے تا کہ یہ کہا جا سکے کہ جب نبی تک ان چیزوں سے نہ بچ سکے تو بھلا اور کون بچ سکتا ہے۔ اس معاملہ میں یہودیوں کا حال ہندوؤں سے ملتا جلتا ہے۔ ہندوؤں میں بھی جب اخلاقی انحطاط انتہا کو پہنچ گیا تو وہ لٹریچر تیار ہوا جس میں دیوتاؤں، رشیوں، مُنیوں اور اوتاروں کی، غرض جو بلند ترین آئیڈیل قوم کے سامنے ہو سکتے تھے اُن سب کی زندگیاں بد اخلاقی کے تارکول سے سیاہ کر ڈالی گئیں تا کہ یہ کہا جا سکے کہ جب ایسی ایسی عظیم الشان ہستیاں اِن قبائح میں مبتلا ہو سکتی ہیں تو بھلا ہم معمولی فانی انسان اِن میں مبتلا ہوئے بغیر کیسے رہ سکتے ہیں، اور پھر جب یہ افعال اتنے اُونچے مرتبے والوں کے لیے بھی شرمناک نہیں ہیں تو ہمارے لیے کیوں ؟
ترجمہ
(جواب میں ارشاد ہوا کہ) ’’جن لوگوں نے بچھڑے کو معبود بنایا وہ ضرور اپنے رب کے غضب میں گرفتار ہو کر رہیں گے اور دنیا کی زندگی میں ذلیل ہوں گے۔ جھُوٹ گھٹرنے والوں کو ہم ایسی ہی سزا دیتے ہیں۔اور جو لوگ بُرے عمل کریں پھر توبہ کر لیں اور ایمان لے آئیں تو یقیناً اِس توبہ و ایمان کے بعد تیرا رب در گزر اور رحم فرمانے والا ہے۔ ‘‘ پھر جب موسیٰ کا غصہ ٹھنڈا ہوا تو اس نے وہ تختیاں اُٹھا لیں جن کی تحریر میں ہدایت اور رحمت تھی اُن لوگوں کے لیے جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں، اور اُس نے اپنی قوم کے ستّر آدمیوں کو منتخب کیا تاکہ وہ (اُس کے ساتھ) ہمارے مقرر کیے ہوئے وقت پر حاضر ہوں ۱۰۹۔ جب اِن لوگوں کو ایک سخت زلزلے نے آ پکڑا تو موسیٰ نے عرض کیا ’’اے میرے سرکار، آپ چاہتے تو پہلے ہی اِن کو اور مجھے ہلاک کر سکتے تھے۔ کیا آپ اُس قصور میں جو ہم میں سے چند نادانوں نے کیا تھا ہم سب کو ہلاک کر دیں گے ؟ یہ تو آپ کی ڈالی ہوئی ایک آزمائش تھی جس کے ذریعہ سے آپ جسے چاہتے ہیں گمراہی میں مبتلا کر دیتے ہیں اور جسے چاہتے ہیں ہدایت بخش دیتے ہیں۔۱۱۰ ہمارے سر پرست تو آپ ہی ہیں۔ پس ہمیں معاف کر دیجیے اور ہم پر رحم فرمائیے، آپ سب سے بڑھ کر معاف فر مانے والے ہیں۔ اور ہمارے لیے اس دنیا کی بھلائی بھی لکھ دیجیے اور آخرت کی بھی، ہم نے آپ کی طرف رجوع کر لیا۔‘‘ جواب میں ارشاد ہوا ’’سزا تو میں جسے چاہتا ہوں دیتا ہوں، مگر میری رحمت ہر چیز پر چھائی ہوئی ہے ۱۱۱، اور اُسے میں اُن لوگوں کے حق میں لکھوں گا جو نافرمانی سے پرہیز کریں گے، زکوٰۃ دیں گے اور میری آیات پر ایمان لائیں گے۔ ‘‘(پس آج یہ رحمت اُن لوگوں کا حِصہ ہے ) جو اِس پیغمبر نبی اُمّی کی پیروی اختیار کریں ۱۱۲ جس کا ذکر اُنہیں اپنے ہاں تورات اور انجیل میں لکھا ہوا ملتا ہے۔ ۱۱۳ وہ انہیں نیکی کا حکم دیتا ہے، بدی سے روکتا ہے، ان کے لیے پاک چیزیں حلال اور ناپاک چیزیں حرام کرتا ہے ۱۱۴، اور ان پر سے وہ بوجھ اتارتا ہے جو اُن پر لدے ہوئے تھے اور وہ بندشیں کھولتا ہے جن میں وہ جکڑے ہوئے تھے۔ ۱۱۵ لہٰذا جو لوگ اس پر ایمان لائیں اور اس کی حمایت اور نصرت کریں اور اُس روشنی کی پیروی اختیار کریں جو اس کے ساتھ نازل کی گئی ہے، وہی فلاح پانے والے ہیں۔ ؏ ١۹
تفسیر
۱۰۹-یہ طلبی اس غرض کے لیے ہوئی تھی کہ قوم کے ۷۰ نمائندے کوہِ سینا پر پیشیِ خداوندی میں حاضر ہو کر قوم کی طرف سے گوسالہ پرستی کے جرم کی معافی مانگیں اور از سرِ نو اطاعت کا عہد استوار کریں۔ بائیبل اور تلمود میں ا س بات کا ذکر نہیں ہے۔ البتہ یہ ذکر ہے کہ جو تختیاں حضرت موسیٰ ؑ نے پھینک کر توڑ دی تھیں ان کے بدلے دوسری تختیاں عطا کرنے کے لیے آپ کو سینا پر بلایا گیا تھا (خروج۔باب۳۴)۔
۱۱۰-مطلب یہ ہے کہ ہر آزمائش کا موقع انسانوں کے درمیان فیصلہ کن ہوتا ہے۔ وہ چھاج کی طرح ایک مخلوط گروہ میں سے کارآمد آدمیوں اور ناکارہ آدمیوں کو پھٹک کر الگ کر دیتا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت کا عین مقتضیٰ ہے کہ ایسے مواقع وقتاً فوقتاً آتے رہیں۔ ان مواقع پر جو کامیابی کی راہ پاتا ہے وہ اللہ ہی کی توفیق و رہنمائی سے پاتا ہے اور جو ناکام ہوتا ہے وہ اُس کی توفیق و رہنمائی سے محروم ہونے کی بدولت ہی ناکام ہوتا ہے۔ اگرچہ اللہ کی طرف سے توفیق اور رہنمائی ملنے اور نہ ملنے کے لیے بھی ایک ضابطہ ہے جو سراسر حکمت اور عدل پر مبنی ہے، لیکن بہر حال یہ حقیقت اپنی جگہ ثابت ہے کہ آدمی کا آزمائش کے مواقع پر کامیابی کی رہ پانا یا نہ پانا اللہ کی توفیق ہو ہدایت پر منحصر ہے۔
۱۱۱-یعنی اللہ تعالیٰ جس طریقے پر خدائی کر رہا ہے اس میں اصل چیز غضب نہیں ہے جس میں کبھی کبھی رحم اور فضل کی شان نمودار ہو جاتی ہو، بلکہ اصل چیز رحم ہے جس پر سارا نظامِ عالم قائم ہے اور اس میں غضب صرف اس وقت نمودار ہوتا ہے جب بندوں کا تمردُّ حد سے فزوں ہو جاتا ہے۔
۱۱۲-حضرت موسیٰ کی دعا کا جواب اوپر کے فقرے پر ختم ہو گیا تھا۔ اس کے بعد اب موقع کی مناسبت سے فوراً بنی اسرائیل کو محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے اتباع کی دعوت دی گئی ہے۔ تقریر کا مدعا یہ ہے کہ تم پر خدا کی رحمت نازل ہونے کے لیے جو شرائط موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں عائد کی گئی تھیں وہی آج تک قائم ہیں اور دراصل یہ اُنہی شرائط کا تقاضا ہے کہ تم اِس پیغمبر پر ایمان لاؤ۔ تم سے کہا گیا تھا کہ خدا کی رحمت اُن لوگوں کا حصہ ہے جو نافرمانی سے پرہیز کریں۔ تو آج سب سے بڑی بنیادی نا فرمانی یہ ہے کہ جس پیغمبر کو خدا نے مامور کیا ہے اس کی رہنمائی تسلیم کرنے سے انکار کیا جائے۔ لہٰذا جب تک اِس نافرمانی سے پرہیز نہ کر و گے تقویٰ کی جڑ ہی سرے سے قائم نہ ہو گی خواہ جزئیات و فروعات میں تم کتنا ہی تقویٰ بگھارتے رہو۔ تم سے کہا گیا تھا کہ رحمتِ الٰہی سے حِصہ پانے کے لیے زکوٰۃ بھی ایک شرط ہے۔ تو آج کسی انفاق مال پر اُس وقت تک زکوٰۃ کی تعریف صادق نہیں آسکتی جب تک اقامتِ دینِ حق کی اُس جدوجہد کا ساتھ نہ دیا جائے جو اِس پیغمبر کی قیادت میں ہو رہی ہے۔ لہٰذا جب تک اِس راہ میں مال صرف نہ کرو گے زکوٰۃ کی بنیاد ہی استوار نہ ہو گی چاہے تم کتنی ہی خیرات اور نذر و نیاز کرتے ہو۔ تم سے کہا گیا تھا کہ اللہ نے اپنی رحمت صرف اُن لوگوں کے لیے لکھی ہے جو اللہ کی آیات پر ایمان لائیں۔ تو آج جو آیات اس پیغمبر پر نازل ہو رہی ہیں ان کا انکار کر کے تم کسی طرح بھی آیاتِ الٰہی کے ماننے والے قرار نہیں پا سکتے۔ لہٰذا جب تک اِن پر ایمان نہ لاؤ گے یہ آخری شرط بھی پوری نہ ہو گی خواہ توراة پر ایمان رکھنے کا تم کتنا ہی دعویٰ کرتے رہو۔
یہاں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے لیے ’’اُمّی‘‘ کا لفظ بہت معنی خیز استعمال ہوا ہے۔ بنی اسرائیل اپنے سوا دوسری قوموں کو اُمّی (Gentiles) کہتے تھے اور ان کا قومی فخر و غرور کسی اُمّی کی پیشوائی تسلیم کرنا تو درکنار، اِس پر بھی تیار نہ تھا کہ اُمّیوں کے لیے اپنے برابر انسانی حقوق ہی تسلیم کر لیں۔ چنانچہ قرآن ہی میں آتا ہے کہ وہ کہتے تھے لَیْسَ عَلَیْنَا فِی الْاُمِّیِّیْنَ سَبِیْلٌ(آل عمرانآ یت ۷۵) ’’اُمیوں کے مال مار کھانے میں ہم پر کوئی مواخذہ نہیں ہے۔ پس اللہ تعالیٰ انہی کی اصطلاح استعمال کر کے فرماتا ہے کہ اب تو اسی اُمّی کے ساتھ تمہاری قسمت وابستہ ہے، اس کی پیروی قبول کرو گے تو میری رحمت سے حصہ پاؤ گے ورنہ وہی غضب تمہارے لیے مقدر ہے جس میں صدیوں سے گرفتار چلے آرہے ہو۔
۱۱۳-مثال کے طور پر توراة اور انجیل کے حسبِ ذیل مقامات ملاحظہ ہوں جہاں محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی آمد کے متعلق صاف اشارات موجود ہیں: استثناء، باب ١۸، آیت ١۵ تا١۹۔ متی، باب ۲١ تا۴٦۔ یوحنا، باب ١، آیت ١۹تا ۲١۔ یوحنا باب ١۴،آیت ١۵تا١۷ و آیت ۲۵تا۳۰ یوحنا، باب ١۵،آیت ۲۵۔۲٦ یوحنا، باب ۱۶،آیت ۷تا١۵۔
۱۱۴-یعنی جن پاک چیزوں کو انہوں نے حرام کر رکھا ہے، وہ انہیں حلال قرار دیتا ہے اور جن ناپاک چیزوں کو یہ لوگ حلال کیے بیٹھے ہیں انہیں وہ حرام قرار دیتا ہے۔
۱۱۵-یعنی ان کے فقیہوں نے اپنی قانونی موشگافیوں سے، ان کے روحانی مقتداؤں نے اپنے تورُّع کے مبالغوں سے، اور ان کے جاہل عوام نے اپنے توہمات اور خود ساختہ حدود و ضوابط سے ان کی زندگی کو جن بوجھوں تلے دبا رکھا ہے اور جن جکڑ بندیوں میں کَس رکھا ہے، یہ پیغمبر وہ سارے بوجھ اتار دیتا ہے اور وہ تمام بندشیں توڑ کر زندگی کو آزاد کر دیتا ہے۔
ترجمہ
اے محمد ؐ، کہو کہ ’’اے انسانو، میں تم سب کی طرف اُس خدا کا پیغمبر ہوں جو زمیں اور آسمانوں کی بادشاہی کا مالک ہے، اُس کے سِوا کوئی خدا نہیں ہے، وہی زندگی بخشتا ہے اور وہی موت دیتا ہے، پس ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے بھیجے ہوئے نبی اُمّی پر جو اللہ اور اس کے ارشادات کو مانتا ہے، اور پیروی اختیار کرو اُس کی، اُمید ہے کہ تم راہِ راست پالو گے۔ ‘‘ ۱۱۶موسیٰ کی قوم میں ایک گروہ ایسا بھی تھا جو حق کے مطابق ہدایت کرتا اور حق ہی کے مطابق انصاف کر تا تھا۔۱۱۷ اور ہم نے اس قوم کو بارہ گھرانوں میں تقسیم کر کے انہیں مستقل گرہوں کی شکل دے دی تھی۔۱۱۸ اور جب موسیٰ سے اس کی قوم نے پانی مانگا تو ہم نے اس کو اشارہ کیا کہ فلاح چٹان پر اپنی لاٹھی مارو۔ چنانچہ اس چٹان سے یکایک بارہ چشمے پھُوٹ نِکلے اور ہر گروہ نے اپنے پانی لینے کی جگہ متعیّن کر لی، ہم نے اُن پر بادل کا سایہ کیا اور اُن پر من و سلویٰ اُتارا۔۱۱۹ کھاؤ وہ پاک چیزیں جو ہم نے تم کو بخشی ہیں۔ مگر اس کے بعد انہوں نے جو کچھ کیا تو ہم پر ظلم نہیں کیا بلکہ آپ اپنے ہی اوپر ظلم کرتے رہے۔ ۱۲۰یاد کرو وہ وقت جب ان سے کہا گیا تھا کہ اِس بستی میں جا کر بس جاؤ اور اس کی پیداوار سے اپنے حسبِ منشا روزی حاصل کرو اور حِطَّةٌ حِطَّةٌ کہتے جاؤ اور شہر کے دروازے میں سجدہ ریز ہوتے ہوئے داخل ہو، ہم تمہاری خطائیں معاف کریں گے اور نیک رویہ رکھنے والوں کو مزید فضل سے نوازیں گے۔ ‘‘مگر جو لوگ اُن میں ظالم تھے اُنھوں نے اُس بات کو جو اُن سے کہی گئی تھی بدل ڈالا، اور نتیجہ یہ ہوا کہ ہم نے اُن کے ظلم کی پاداش میں اُن پر آسمان سے عذاب بھیج دیا۔ ۱۲۱ ؏ ۲۰
تفسیر
۱۱۶-اصل سلسلہ کلام بنی اسرائیل سے متعلق چل رہا تھا۔ بیچ میں موقع کی مناسبت سے رسالت محمدی پر ایمان لانے کی دعوت بطور جملہ معترضہ آ گئی۔ اب پھر تقریر کا رخ اسی مضمون کی طرف پھر رہا ہے جو پچھلے کئی رکوعوں سے بیان ہو رہا ہے۔
۱۱۷-بیشتر مترجمین نے اس آیت کا ترجمہ یوں کیا ہے کہ موسیٰ کی قوم میں ایک گروہ ایسا ہے جو حق کے مطابق ہدایت اور انصاف کرتا ہے، یعنی ان کے نزدیک اس آیت میں بنی اسرائیل کی وہ اخلاقی و ذہنی حالت بیان کی گئی ہے جو نزولِ قرآن کے وقت تھی۔ لیکن سیاق و سباق پر نظر کرتے ہوئے ہم اس بات کو ترجیح دیتے ہیں کہ اس آیت میں بنی اسرائیل کا وہ حال بیان ہوا ہے جو حضرت موسیٰ کے زمانے میں تھا، اور اس سے مدعا یہ ظاہر کرنا ہے کہ جب اس قوم میں گوسالہ پرستی کے جرم کا ارتکاب کیا گیا اور حضرت حق کی طرف سے اس پر گرفت ہوئی تو اس وقت ساری قوم بگڑی ہوئی نہ تھی بلکہ اس میں ایک اچھا خاصا صالح عنصر موجود تھا۔
۱۱۸-اشارہ ہے بنی اسرائیل کی اُس تنظیم کی طرف جو سورہ مائدہ آیت ۱۲ میں بیان ہوئی ہے اور جس کی پوری تفصیل بائیبل کی کتاب گنتی میں ملتی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے کوہِ سینا کے بیابان میں بنی اسرائیل کی مردم شماری کرائی، پھر ان کے ۱۲ گھرانوں کو جو حضرت یعقوب کے دس بیٹوں اور حضرت یوسف کے دو بیٹوں کی نسل سے تھے الگ الگ گروہوں کی شکل میں منظم کیا، اور ہر گروہ پر ایک ایک سردار مقرر کیا تاکہ وہ ان کے اندر اخلاقی، مذہبی، تمدنی و معاشرتی اور فوجی حیثیت سے نظم قائم رکھے اور احکامِ شریعت کا اجراء کرتا رہے۔ نیز حضرت یعقوب کے بارھویں بیٹے لاوِی کی اور لاد کو جس کی نسل سے حضرت موسیٰ اور ہارون تھے، ایک الگ جماعت کی شکل میں منظم کیا تاکہ وہ ان سب قبیلوں کے درمیان شمعِ حق روشن رکھنے کی خدمت انجام دیتی رہے۔
۱۱۹-اوپر جس تنظیم کا ذکر کیا گیا ہے وہ منجملہ اُن احسانات کے تھی جو اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل پر کیے۔ اس کے بعد اب مزید تین احسانات کا ذکر فرمایا گیا ہے۔ ایک یہ کہ جزیرہ نمائے سینا کے بیابانی علاقہ میں ان کے لیے پانی کی بہم رسانی کا غیر معمولی انتظام کیا گیا۔ دوسرے یہ کہ ان کو دھوپ کی تپش سے بچانے کے لیے آسمان پر بادل چھا دیا گیا۔ تیسرے یہ کہ ان کے لیے خوراک کی بہم رسانی کا غیر معمولی انتظام من و سلویٰ کے نزول کی شکل میں کیا گیا۔ ظاہر ہے کہ اگر ان تین اہم ترین ضروریاتِ زندگی کا بندوبست نہ کیا جاتا تو یہ قوم جس کی تعداد کئی لاکھ تک پہنچی ہوئی تھی، اس علاقہ میں بھوک پیاس سے بالکل ختم ہو جائی۔ آج بھی کوئی شخص وہاں جائے تو یہ دیکھ کر حیران رہ جائے گا کہ اگر یہاں پندرہ بیس لاکھ آدمیوں کا ایک عظیم الشان قافلہ یکایک آ ٹھیرے تو اس کے لیے پانی، خوراک اور سائے کا آخر کیا انتظام ہو سکتا ہے۔ موجودہ زمانے میں پورے جزیرہ نما کی آبادی ۵۵ ہزار سے زیادہ نہیں ہے اور آج اس بیسویں صدی میں بھی اگر کوئی سلطنت وہاں پانچ چھ لاکھ فوج لے جانا چاہے تو اس کے مُدَبِّروں کو رسد کے انتظام کی فکر میں دردِ سر لاحق ہو جائے۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ زمانہ کے بہت سے محققین نے، جو نہ کتاب کو مانتے ہیں اور نہ معجزات کو تسلیم کرتے ہیں، یہ ماننے سے انکار کر دیا ہے کہ بنی اسرائیل جزیرہ نمائے سینا کے اُس حصہ سے گزرے ہوں گے جس کا ذکر بائیبل اور قرآن میں ہوا ہے۔ ان کا گمان ہے کہ شاید یہ واقعات فلسطین کے جنوبی اور عرب کے شمالی حصہ میں پیش آئے ہوں گے۔ جزیرہ نمائے سینا کے طبعی اور معاشی جغرافیہ کو دیکھتے ہوئے وہ اس بات کو بالکل نا قابلِ تصور سمجھتے ہیں کہ اتنی بڑی قوم یہاں برسوں ایک ایک جگہ پڑاؤ کرتی ہوئی گزر سکی تھی، خصوصاً جب کہ مصر کی طرف سے اس کی رسد کا راستہ بھی منقطع تھا اور دوسری طرف خود اس جزیرہ نما کے مشرق اور شمال میں عَمالِقَہ کے قبیلے اس کی مزاحمت پر آمادہ تھے۔ ان امور کو پیش نظر رکھنے سے صحیح طور پر اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ان چند مختصر آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل پر اپنے جِن احسانات کا ذکر فرمایا ہے وہ درحقیقت کتنے بڑے احسانات تھے اور اس کے بعد یہ کتنی بڑی احسان فراموشی تھی کہ اللہ کے فضل و کرم کی ایسی صریح نشانیاں دیکھ لینے پر بھی یہ قوم مسلسل اُن نا فرمانیوں اور غداریوں کی مرتکب ہوتی رہی جن سے اس کی تاریخ بھری پڑی ہے۔ (تقابل کے لیے ملاحظہ ہو سورہ بقرہ ۷ حواشی نمبر ۷۲، ۷۳، ۷۶)
۱۲۰-اب تاریخ بنی اسرائیل کے اُن واقعات کی طرف اشارہ کیا جا رہا ہے جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے مذکورہ بالا احسانات کا جواب یہ لوگ کیسی کیسی مجرمانہ بے باکیوں کے ساتھ دیتے رہے اور پھر کس طرح مسلسل تباہی کے گڑھے میں گرتے چلے گئے۔
۱۲۱-تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ بقرہ، حاشیہ ۷۴ و ۷۵۔
ترجمہ
اور انہیں یہ بھی یاد دلاؤ کہ جب اُن میں سے ایک گروہ نے دوسرے گروہ سے کہا تھا کہ ’’ ہم یہ سب کچھ تمہارے رب کے حضور اپنی معذرت پیش کرنے کے لیے کرتے ہیں اور اس اُمید پر کرتے ہیں کہ شاید یہ لوگ اس کی نافرمانی سے پرہیز کر نے لگیں۔ ‘‘آخر کار جب اُن ہدایات کو بالکل ہی فراموش کر گئے جو انہیں یاد کرائی گئی تھیں تو ہم نے اُن لوگوں کو بچا لیا جو بُرائی سے روکتے تھے اور باقی سب لوگوں کو جو ظالم تھے ان کی نافرمانیوں پر سخت عذاب میں پکڑ لیا۔۱۲۵ پھر جب وہ پوری سر کشی کے ساتھ وہی کام کیے چلے گئے جس سے انہیں روکا گیا تھا، تو ہم نے کہا کہ بندر ہو جاؤ ذلیل اور خوار۔۱۲۶اور یاد کرو جبکہ تمہارے رب نے اعلان کر دیا ۱۲۷ کہ ’’وہ قیامت تک برابر ایسے لوگ بنی اسرائیل پر مسلّط کرتا رہے گا جو ان کو بدترین عذاب دیں گے، ۱۲۸‘‘ یقیناً تمہارا رب سزا دینے میں تیز دست ہے اور یقیناً وہ در گزر اور رحم سے بھی کام لینے والا ہے۔ ہم نے ان کو زمین میں ٹکڑے ٹکڑے کر کے بہت سی قوموں میں تقسیم کر دیا۔ کچھ لوگ ان میں نیک تھے اور کچھ اس سے مختلف۔ اور ہم ان کو اچھے اور بُرے حالات سے آزمائش میں مبتلا کرتے رہے کہ شاید یہ پلٹ آئیں۔پھر اگلی نسلوں کے بعد ایسے نا خلف لوگ ان کے جا نشین ہوئے جو کتاب الٰہی کے وارث ہو کر اسی دنیائے دَنی کے فائدے سمیٹتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں کہ توقع ہے ہمیں معاف کر دیا جائے گا، اور اگر وہی متاعِ دنیا پھر سامنے آتی ہے تو پھر لپک کر اُسے لے لیتے ہیں۔۱۲۹ کیا ان سے کتاب کا عہد نہیں لیا جا چکا ہے کہ اللہ کے نام پر وہی بات کہیں جو حق ہو؟ اور یہ خود پڑھ چکے ہیں جو کتاب میں لکھا ہے۔ ۱۳۰ آخرت کی قیام گاہ تو خدا ترس لوگوں کے لیے ہی بہتر ہے ۱۳۱، کیا تم اتنی سی بات نہیں سمجھتے ؟جو لوگ کتاب کی پابندی کرتے ہیں اور جنہوں نے نماز قائم رکھی ہے، یقیناً ایسے نیک کردار لوگوں کا اجر ہم ضائع نہیں کریں گے۔ انہیں وہ وقت بھی کچھ یاد ہے جبکہ ہم نے پہاڑ کو ہلا کر اُن پر اس طرح چھا دیا تھا کہ گویا وہ چھتری ہے اور یہ گمان کر رہے تھے کہ وہ ان پر آ پڑے گا اور اُس وقت ہم نے اُن سے کہا تھا کہ جو کتاب ہم تمہیں دے رہے ہیں اسے مضبوطی کے ساتھ تھامو اور جو کچھ اس میں لکھا ہے اسے یاد رکھو، توقع ہے کہ تم غلط روی سے بچے رہو گے۔ ۱۳۲؏ ۲١
تفسیر
۱۲۵-اس بیان سے معلوم ہوا کہ اس بستی میں تین قسم کے لوگ موجود تھے۔ ایک وہ جو دھڑلے سے احکام الٰہی کی خلاف ورزی کر رہے تھے۔ دوسرے وہ جو خود تو خلاف ورزی نہیں کر تے تھے مگر اس خلاف ورزی کو خاموشی کے ساتھ بیٹھے دیکھ رہے تھے اور ناصحوں سے کہتے تھے کہ ان کم بختوں کو نصیحت کرنے سے کیا حاصل ہے۔ تیسرے وہ جن کی غیرت ایمانی حدود اللہ کی اس کھلم کھلا بے حرمتی کو بر داشت نہ کر سکتی تھی اور وہ اس خیال سے نیکی کا حکم کرنے اور بدی سے روکنے میں سرگرم تھے کہ شاید وہ مجرم لوگ ان کی نصیحت سے راہ راست پر آ جائیں اور اگر وہ راہ راست نہ اختیار کریں تب بھی ہم اپنی حد تک تو اپنا فرض ادا کر کے خدا کے سامنے اپنی براءت کا ثبوت پیش کر ہی دیں۔ اس صورت حال میں جب اس بستی پر اللہ کا عذاب آیا تو قرآن مجید کہتا ہے کہ اِن تینوں گروہوں میں سے صرف تیسرا گروہ ہی اس سے بچایا گیا کیونکہ اسی نے خدا کے حضور اپنی معذرت پیش کرنے کی فکر کی تھی اور وہی تھا جس نے اپنی براءت کا ثبوت فراہم کر رکھا تھا۔ باقی دونوں گروہوں کا شمار ظالموں میں ہوا اور وہ اپنے جرم کی حد تک مبتلائے عذاب ہوئے۔
بعض مفسرین نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پہلے گروہ کے مبتلائے عذاب ہونے کی اور تیسرے گروہ کے نجات پانے کی تصریح کی ہے، لیکن دوسرے گروہ کے بارے میں سکوت اختیار کیا ہے لہٰذا اس کے متعلق یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ نجات پانے والوں میں سے تھا یا مبتلائے عذاب ہونے والوں میں سے۔ پھر ایک روایت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے یہ مروی ہے کہ وہ پہلے اس بات کے قائل تھے کہ دوسرا گروہ مبتلائے عذاب ہونے والوں میں سے تھا، بعد میں ان کے شاگرد عِکرِمہ نے ان کو مطمئن کر دیا کہ دوسرا گروہ نجات پانے والوں میں شامل تھا۔ لیکن قرآن کے بیان پر جب ہم غور کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابن عباس کا پہلا خیال ہی صحیح تھا۔ ظاہر ہے کہ کسی بستی پر خدا کا عذاب آنے کی صورت میں تمام بستی دو ہی گروہوں میں تقسیم ہو سکتی ہے، ایک وہ جو عذاب میں مبتلا ہو اور دوسرا وہ جو بچا لیا جائے۔ اب اگر قرآن کی تصریح کے مطابق بچنے والا گروہ صرف تیسرا تھا، تو لا محالہ پہلے اور دوسرے دونوں گروہ نہ بچنے والوں میں شامل ہوں گے۔ اسی کی تائید مَعْذِرَةً اِلٰی رَبِّکُمْ کے فقرے سے بھی ہوتی ہے جس کی توثیق کے بعد کے فقرے میں خود اللہ تعالیٰ نے فرما دی ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ جس بستی میں علانیہ احکامِ الٰہی کی خلاف ورزی ہو رہی ہو وہ ساری کی ساری قابلِ مواخذہ ہوتی ہے اور اس کا کوئی باشندہ محض اس بنا پر مواخذہ سے بری نہیں ہو سکتا کہ اس نے خود خلاف ورزی نہیں کی، بلکہ اُسے خدا کے سامنے اپنی صفائی پیش کرنے کے لیے لازماً اس بات کا ثبوت فراہم کرنا ہو گا کہ وہ اپنی حدِ استطاعت تک اصلاح اور اقامت حق کی کوشش کرتا رہا تھا۔ پھر قرآن اور حدیث کے دوسرے ارشادات سے بھی ہم کو ایسا ہی معلوم ہوتا ہے کہ اجتماعی جرائم کے باب میں اللہ کا قانون یہی ہے۔ چنانچہ قرآن میں فرمایا گیا ہے کہ وَاتَّقُوْ ا فِتْنَةً لَّا تُصِیْبَنَّ ا لَّذَینَ ظَلَمُوْ ا مِنْکُمْ خَآصَّةً (ڈرو اُس فتنہ سے جس کے وبال میں خصوصیت کے ساتھ صرف وہی لوگ گرفتار نہیں ہوں گے جنہوں نے تم میں سے ظلم کیا ہو)۔ اور اس کی تشریح میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں کہ ان اللہ لا یعذب العامة بعمل الخاصة حتیٰ یرو ا المنکربین ظھر ا ینھم وھم قادرون علیٰ ان ینکروہ فلا ینکروہ فاذا فعلوا ذٰلک عذب اللہ الخاصة و العامة، یعنی ’’اللہ عزوجل خاص لوگوں کے جرائم پر عام لوگوں کو سزا نہیں دیتا جب تک عامۃ الناس کی یہ حالت نہ ہو جائے کہ وہ اپنی آنکھوں کے سامنے بُرے کام ہوتے دیکھیں اور وہ ان کاموں کے خلاف اظہارِ ناراضی کرنے پر قادر ہوں اور پھر کوئی اظہار ناراضی نہ کریں۔ پس جب لوگوں کا یہ حال ہو جاتا ہے تو اللہ خاص و عام سب کو عذاب میں مبتلا کر دیتا ہے ‘‘۔
مزید برآں جو آیات اس وقت ہمارے پیش نظر ہیں ان سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس بستی پر خدا کا عذاب دو قسطوں میں نازل ہوا تھا۔ پہلی قسط وہ جسے عذاب بئیس (سخت عذاب)فرمایا گیا ہے، اور دوسری قسط وہ جس میں نافرمانی پر اصرار کرنے والوں کو بندر بنا دیا گیا۔ ہم ایسا سمجھتے ہیں کہ پہلی قسط کے عذاب میں پہلے دونوں گروہ شامل تھے، اور دوسری قسط کا عذاب صرف پہلے گروہ کو دیا گیا تھا، و اللہ اعلم بالصواب۔ اِن ا صبتُ فمن اللہ وان ا خطَئْتُ فمن نفسی، واللہ غفورٌ رحیم۔
۱۲۶-تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ بقرہ، حاشیہ نمبر ۸۳۔
۱۲۷-اصل میں لفظ تَاذَّن استعمال ہوا ہے جس کا مفہوم تقریباً وہی ہے جو نوٹس دینے یا خبردار کر دینے کا ہے۔
۱۲۸-یہ تنبیہ بنی اسرائیل کو تقریباً آٹھویں صدی قبل مسیح سے مسلسل کی جا رہی تھی۔ چنانچہ یہودیوں کے مجموعہ کتبِ مقدسہ میں یسعیاہ اور یرمیاہ اور ان کے بعد آنے والے انبیاء کی تمام کتابیں اسی تنبیہ پر مشتمل ہیں پھر یہی تنبیہ مسیح علیہ السلام نے انہیں کی جیسا کہ انا جیل میں ان کی متعدد تقریروں سے ظاہر ہے۔ آخر میں قرآن نے اس کی توثیق کی۔ اب یہ بات قرآن اور اس سے پہلے صحیفوں کی صداقت پر ایک بین شہادت ہے کہ اُس وقت سے لے کر آج تک تاریخ میں کوئی دور ایسا نہیں گزرا ہے جس میں یہودی قوم دنیا میں کہیں نہ کہیں روندی اور پامال نہ کی جاتی رہی ہو۔
۱۲۹-یعنی گناہ کرتے ہیں اور جانتے ہیں کہ گناہ ہے مگر اس بھروسے پر اس کا ارتکاب کرتے ہیں کہ ہماری تو کسی نہ کسی طرح بخشش ہو ہی جائے گی کیونکہ ہم خدا کے چہیتے ہیں اور خواہ ہم کچھ ہی کریں بہر حال ہماری مغفرت ہونی ضروری ہے۔ اسی غلط فہمی کا نتیجہ ہے کہ گناہ کرنے کے بعد وہ نہ شرمندہ ہوتے ہیں نہ توبہ کرتے ہیں بلکہ جب پھر ویسے ہی گناہ کا موقع سامنے آتا ہے تو پھر اس میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ بد نصیب لوگ ! اُس کتاب کے وارث ہوئے جو اُن کو دنیا کا امام بنانے والی تھی، مگر ان کی کم ظرفی اور پست خیالی نے اس نسخہ کیمیا کو لے کر دنیا کی متاعِ حقیر کمانے سے زیادہ بلند کسی چیز کا حوصلہ نہ کیا اور بجائے اس کے کہ دنیا میں عدل و راستی کے علمبردار اور خیر و صلاح کے رہنما بنتے، محض دنیا کے کُتے بن کر رہ گئے۔
۱۳۰-یعنی یہ خود جانتے ہیں کہ توراة میں کہیں بھی بنی اسرائیل کے لیے نجات کے غیر مشروط پروانے کا ذکر نہیں ہے۔ نہ خدا نے کبھی ان سے یہ کہا اور نہ ان کے پیغمبروں نے کبھی ان کو یہ اطمینان دلایا کہ تم جو چاہو کرتے پھرو بہرحال تمہاری مغفرت ضرور ہو گی۔ پھر آخر انہیں کیا حق ہے کہ خدا کی طرف وہ بات منسوب کریں جو خود خدا نے کبھی نہیں کہی حالانکہ ان سے یہ عہد لیا گیا تھا کہ خدا کے نام سے کوئی بات خلافِ حق نہ کہیں گے۔
۱۳۱-اس آیت کے دو ترجمے ہو سکتے ہیں۔ ایک وہ جو ہم نے متن میں اختیار کیا ہے۔ دوسرا یہ کہ ’’خدا ترس لوگوں کے لیے تو آخرت کی قیام گاہ ہی بہتر ہے ‘‘۔ پہلے ترجمہ کے لحاظ سے مطلب یہ ہو گا کہ مغفرت کسی کا ذاتی یا خاندانی اجارہ نہیں ہے، یہ کسی طرح ممکن نہیں ہے کہ تم کام تو وہ کرو جو سزا دینے کے لائق ہوں مگر تمہیں آخرت میں جگہ مل جائے اچھی محض اس لیے کہ تم یہودی یا اسرائیلی ہو۔ اگر تم میں کچھ بھی عقل موجود ہو تو تم خود سمجھ سکتے ہو کہ آخرت میں اچھا مقام صرف اُنہی لوگوں کو مل سکتا جو دنیا میں خدا ترسی کے ساتھ کام کریں۔ رہا دوسرا ترجمہ تو اس کے لحاظ سے مطلب یہ ہو گا کہ دنیا اور اس کے فائدوں کو آخرت پر ترجیح دینا تو صرف اُن لوگوں کا کام ہے جو نا خدا ترس ہوں، خدا ترس لوگ تو لازماً دنیا کی مصلحتوں پر آخرت کی مصلحت کو اور دنیا کے عیش پر آخرت کی بھلائی کو ترجیح دیتے ہیں۔
۱۳۲-اشارہ ہے اُس واقعہ کی طرف جو موسیٰ علیہ السلام کو شہادت نامہ کی سنگین لوحیں عطا کیے جانے کے موقع پر کوہِ سینا کے دامن میں پیش آیا تھا۔ بائیبل میں اس واقعہ کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے :
’’اور موسیٰ لوگوں کو خیمہ گاہ سے باہر لایا کہ خدا سے ملائے اور وہ پہاڑ کے نیچے آ کھڑے ہوئے اور کوہِ سینا اُوپر سے نیچے تک دھوئیں سے بھر گیا کیونکہ خداوند شعلہ میں ہو کر اس پر اُترا اور دھواں تنور کے دھوئیں کی طرح اوپر کو اُٹھ رہا تھا اور وہ سارا پہاڑ زور سے ہل رہا تھا‘‘ (خروج ١۹: ١۷۔١۸)
اس طرح اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے کتاب کی پابندی کا عہد لیا اور عہد لیتے ہوئے خارج میں ان پر ایسا ماحول طاری کر دیا جس سے انہیں خدا کے جلال اور اس کی عظمت و بر تری اور اس کے عہد کی اہمیت کا پورا پورا احساس ہو اور وہ اس شہنشاہِ کائنات کے ساتھ میثاق استوار کرنے کو کوئی معمولی سی بات نہ سمجھیں۔ اس سے یہ گمان نہ کرنا چاہیے کہ وہ خدا کے ساتھ میثاق باندھنے پر آمادہ نہ تھے اور انہیں زبر دستی خوف زدہ کر کے اس پر آمادہ کیا گیا۔ واقعہ یہ ہے کہ وہ سب کے سب اہلِ ایمان تھے اور دامن کوہ میں میثاق باندھنے ہی کے لیے گئے تھے، مگر اللہ تعالیٰ نے معمولی طور پر ان سے عہد و اقرار لینے کے بجائے مناسب جانا کہ اس عہد و اقرار کی اہمیت ان کو اچھی طرح محسوس کرا دی جائے تا کہ اقرار کرتے وقت انہیں یہ احساس رہے کہ وہ کس قادرِ مطلق ہستی سے اقرار کر رہے ہیں اور اس کے ساتھ بد عہدی کرنے کا انجام کیا کچھ ہو سکتا ہے۔
یہاں پہنچ کر بنی اسرائیل سے خطاب ختم ہو جاتا ہے اور بعد کے رکوعوں میں تقریر کا رُخ عام انسانوں کی طرف پھرتا ہے جن میں خصوصیت کے ساتھ روئے سخن ان لوگوں کی جانب ہے جو براہ راست نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے مخاطب تھے۔
ترجمہ
۱۳۳اور اے نبی، لوگوں کو یاد دلاؤ وہ وقت جبکہ تمہارے رب نے بنی آدم کی پُشتوں سے ان کی نسل کو نکالا تھا اور انہیں خود ان کے اوپر گواہ بناتے ہوئے پوچھا تھا ’’کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟‘‘ انہوں نے کہا ’’ضرور آپ ہی ہمارے رب ہیں، ہم اس پر گواہی دیتے ہیں ۱۳۴‘‘۔ یہ ہم نے اس لیے کیا کہ کہیں تم قیامت کے روز یہ نہ کہہ دو کہ ’’ہم اس بات سے بے خبر تھے ‘‘،یا یہ نہ کہنے لگو کہ ’’شرک کی ابتدا تو ہمارے باپ دادا نے ہم سے پہلے کی تھی اور ہم بعد کو ان کی نسل سے پیدا ہوئے، پھر کیا آپ ہمیں اُس قصُور میں پکڑتے ہیں جو غلط کار لوگوں نے کیا تھا۔‘‘ ۱۳۵دیکھو، اِس طرح ہم نشانیاں واضح طور پر پیش کرتے ہیں۔۱۳۶ اور اس لیے کرتے ہیں کہ یہ لوگ پلٹ آئیں۔۱۳۷اور اے محمد ؐ، اِن کے سامنے اُس شخص کا حال بیان کرو جس کو ہم نے اپنی آیات کا علم عطا کیا تھا ۱۳۸ مگر وہ ان کی پابندی سے نِکل بھاگا۔ آخر کار شیطان اس کے پیچھے پڑ گیا یہاں تک کہ وہ بھٹکنے والوں میں شامل ہو کر رہا۔اگر ہم چاہتے اسے اُن آیتوں کے ذریعہ سے بلندی عطا کرتے، مگر وہ تو زمین کی طرف جھک کر رہ گیا اور اپنی خواہش نفس ہی کے پیچھے پڑا رہا، لہٰذا اس کی حالت کتّے کی سی ہو گئی کہ تم اس پر حملہ کرو تب بھی زبان لٹکائے رہے اور اسے چھوڑ دو تب بھی زبان لٹکائے رہے۔ ۱۳۹ یہی مثال ہے اُن لوگوں کی جو ہماری آیات کو جھٹلاتے ہیں۔تم یہ حکایات اِن کو سناتے رہو، شاید کہ یہ کچھ غور و فکر کریں۔ بڑی ہی بُری مثال ہے ایسے لوگوں کی جنہوں نے ہماری آیات کو جھُٹلایا، اور وہ آپ اپنے ہی اوپر ظلم کرتے رہے ہیں۔جسے اللہ ہدایت بخشے بس وہی راہِ راست پاتا ہے اور جس کو اللہ اپنی رہنمائی سے محروم کر دے وہی ناکام و نامراد ہو کر رہتا ہے۔ اور یہ حقیقت ہے کہ بہت سے جِن اور انسان ایسے ہیں جن کو ہم نے جہنم ہی کے لیے پیدا کیا ہے۔ ۱۴۰، ان کے پاس دل ہیں مگر وہ ان سے سوچتے نہیں۔ ان کے پاس آنکھیں ہیں مگر وہ ان سے دیکھتے نہیں۔ ان کے پاس کان تو ہیں مگر وہ ان سے سنتے نہیں۔ وہ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گئے گزرے، یہ وہ لوگ ہیں جو غفلت میں کھوئے گئے ہیں۔۱۴۱اللہ اچھے ناموں کا مستحق ہے، اس کو اچھے ہی ناموں سے پکارو اور اُن لوگوں کو چھوڑ دوجو اس کے نام رکھنے میں راستی سے منحرف ہو جاتے ہیں۔ جو کچھ وہ کرتے رہے ہیں اس کا بدلہ وہ پا کر رہیں گے۔ ۱۴۲ہماری مخلوق میں ایک گروہ ایسا بھی ہے جو ٹھیک ٹھیک حق کے مطابق ہدایت اور حق ہی کے مطابق انصاف کرتا ہے۔ ؏۲۲
تفسیر
۱۳۳-اوپر کا سلسلہ بیان اس بات پر ختم ہوا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے بندگی و اطاعت کا عہد لیا تھا۔ اب عام انسانوں کی طرف خطاب کر کے انہیں بتایا جا رہا ہے کہ بنی اسرائیل ہی کی کوئی خصوصیت نہیں ہے، درحقیقت تم سب اپنے خالق کے ساتھ ایک میثاق میں بندھے ہوئے ہو اور تمہیں ایک روز جواب دہی کرنی ہے کہ تم نے اس میثاق کی کہاں تک پابندی کی۔
۱۳۴-جیسا کہ متعدد احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ معاملہ تخلیق آدم کے موقع پر پیش آیا تھا۔ اس وقت جس طرح فرشتوں کو جمع کر کے انسان اول کو سجدہ کرایا گیا تھا اور زمین پر انسان کی خلافت کا اعلان کیا گیا تھا، اُسی طرح پوری نسلِ آدم کو بھی، جو قیامت تک پیدا ہونے والی تھی، اللہ تعالیٰ نے بیک وقت وجود اور شعور بخش کر اپنے سامنے حاضر کیا تھا اور ان سے اپنی ربوبیت کی شہادت لی تھی۔ اس آیت کی تفسیر میں حضرت اُبَیّ بن کَعب نے غالباً نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے استفادہ کر کے جو کچھ بیان کیا ہے وہ اس مضمون کی بہترین شرح ہے۔ وہ فرماتے ہیں:۔
’’اللہ تعالیٰ نے سب کو جمع کیا اور (ایک ایک قسم یا ایک ایک دور کے ) لوگوں کو الگ الگ گروہوں کی شکل میں مرتب کر کے انہیں انسانی صورت اور گویائی کی طاقت عطا کی، پھر ان سے عہد و میثاق لیا اور انہیں آپ اپنے اوپر گواہ بناتے ہوئے پو چھا کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ انہوں نے عرض کیا ضرور آپ ہمارے رب ہیں۔ تب اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں تم پر زمین و آسمان سب کو اور خود تمہارے باپ آدم کو گواہ ٹھیراتا ہوں تا کہ تم قیامت کے روز یہ نہ کہہ سکو کہ ہم کو اس کا علم نہ تھا۔ خوب جان لو کہ میرے سوا کوئی مستحقِ عبادت نہیں ہے اور میرے سوا کوئی رب نہیں ہے۔ تم میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھیرانا۔ میں تمہارے پاس اپنے پیغمبر بھیجوں گا جو تم کو یہ عہد و میثاق جو تم میرے ساتھ باندھ رہے ہو، یاد دلائیں گے اور تم پر اپنی کتابیں بھی نازل کروں گا۔ اس پر سب انسانوں نے کہا کہ ہم گواہ ہوئے، آپ ہی ہمارے رب اور آپ ہی ہمارے معبود ہیں، آپ کے سوا نہ کوئی ہمارا رب ہے نہ کوئی معبود‘‘۔
اس معاملہ کو بعض لو گ محض تمثیلی اندازِ بیان پر محمُول کرتے ہیں۔ ان کا خیال یہ ہے کہ دراصل یہاں قرآن مجید صرف یہ بات ذہن نشین کرنا چاہتا ہے کہ اللہ کی ربوبیت کا اقرار انسانی فطرت میں پیوست ہے، اور اس بات کو یہاں ایسے انداز سے بیان کیا گیا ہے کہ گویا یہ ایک واقعہ تھا جو عالمِ خارجی میں پیش آیا۔ لیکن ہم اس تاویل کو صحیح نہیں سمجھتے۔ قرآن اور حدیث دونوں میں اسے بالکل ایک واقعہ کے طور پر بیان گیا گیا ہے اور صرف بیانِ واقعہ پر ہی اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ یہ بھی ارشاد ہوا ہے کہ قیامت کے روز بنی آدم پر حجت قائم کرتے ہوئے اس ازلی عہد و اقرار کو سند میں پیش کیا جائے گا۔ لہٰذا کوئی وجہ نہیں کہ ہم اُسے محض ایک تمثیلی بیان قرار دیں۔ ہمارے نزدیک یہ واقعہ بالکل اسی طرح پیش آیا تھا جس طرح عالمِ خارجی میں واقعات پیش آیا کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فی الواقع اُن تمام انسانوں کو جنہیں وہ قیامت تک پیدا کرنے کا ارادہ رکھتا تھا، بیک وقت زندگی اور شعور اور گویائی عطا کر کے اپنے سامنے حاضر کیا تھا، اور فی الواقع انہیں اس حقیقت سے پوری طرح آگاہ کر دیا تھا کہ ان کا کوئی رب اور کوئی الٰہ اُس کی ذاتِ اقدس و اعلیٰ کے سوا نہیں ہے، اور ان کے لیے کوئی صحیح طریق زندگی اُس کی بندگی و فرماں برداری (اسلام) کے سوا نہیں ہے۔ اس اجتماع کو اگر کوئی شخص بعد از امکان سمجھتا ہے تو یہ محض اس کے دائرہ فکر کی تنگی کا نتیجہ ہے، ورنہ حقیقت میں تو نسلِ انسانی کی موجودہ تدریجی پیدائش جتنی قریب از امکان ہے، اتنا ہی ازل میں ان کا مجموعی ظہور، ابد میں ان کا مجموعی حشر و نشر بھی قریب از امکان ہے۔ پھر یہ بات نہایت معقول معلوم ہوتی ہے کہ انسان جیسی صاحبِ عقل و شعور اور صاحبِ تصرف و اختیارات مخلوق کو زمین پر بحیثیت خلیفہ مامور کرتے وقت اللہ تعالیٰ اسے حقیقت سے آگاہی بخشے اور اس سے اپنی وفاداری کا اقرار (Oath of allegiance) لے۔ اس معاملہ کا پیش آنا قابلِ تعجب نہیں، البتہ اگر یہ پیش نہ آتا تو ضرور قابلِ تعجب ہوتا۔
۱۳۵-اس آیات میں وہ غرض بیان کی گئی ہے جس کے لیے ازل میں پوری نسلِ آدم سے اقرار لیا گیا تھا۔ اور وہ یہ ہے کہ انسانوں میں سے جو لوگ اپنے خدا سے بغاوت اختیار کریں وہ اپنے اِس جرم کے پوری طرح ذمہ دار قرار پائیں۔ اُنہیں اپنی صفائی میں نہ تو لاعلمی کا عذر پیش کرنے کا موقع ملے اور نہ وہ سابق نسلوں پر اپنی گمراہی کی ذمہ دار ی ڈال کر خود بری الذمہ ہو سکیں گویا بالفاظ دیگر اللہ تعالیٰ اس ازلی عہد و میثاق کو اس بات پر دلیل قرار دیتا ہے کہ نوعِ انسانی میں سے ہر شخص انفرادی طور پر اللہ کے الٰہِ واحد اور ربِّ واحد ہونے کی شہادت اپنے اندر لیے ہوئے ہے اور اس بنا پر یہ کہنا غلط ہے کہ کوئی شخص کامل بے خبری کے سبب سے، یا ایک گمراہ ماحول میں پرورش پانے کے سبب سے اپنی گمراہی کی ذمہ دار ی سے بالکلیہ بری ہو سکتا ہے۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ ازلی میثاق فی الواقع عمل میں آیا بھی تھا تو کیا اس کی یاد ہمارے شعور اور حافظہ میں محفوظ ہے؟ کیا ہم میں سے کوئی شخص بھی یہ جانتا ہے کہ آغازِ آفرینش میں وہ اپنے خدا کے سامنے پیش کیا گیا تھا اور اس سے اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ کا سوال ہوا تھا اور اس نے بلیٰ کہا تھا؟ اگر نہیں تو پھر اُس اقرار کو جس کی یاد ہمارے شعور و حافظہ سے محو ہو چکی ہے ہمارے خلاف حجت کیسے قرار دیا جا سکتا ہے ؟
اس کا جواب یہ ہے کہ اگر اُس میثاق کا نقش انسان کے شعور اور حافظہ میں تازہ رہنے دیا جاتا تو انسان کا دنیا کی موجودہ امتحان گاہ میں بھیجا جانا سرے سے فضول ہو جاتا کیونکہ اس کے بعد تو اس آزمائشِ و امتحان کے کوئی معنی ہی باقی نہ رہ جاتے۔ لہٰذا اس نقش کو شعور و حافظہ میں تو تازہ نہیں رکھا گیا، لیکن وہ تحت الشعور(Sub-conscious mind) اور وِجدان (Intuition) میں یقیناً محفوظ ہے۔ اس کا حال وہی ہے جو ہمارے تمام دوسرے تحت الشعوری اور وجدانی علوم کا حال ہے۔ تہذیب و تمدّن اور اخلاق و معاملات کے تمام شعبوں میں انسان سے آج تک جو کچھ بھی ظہور میں آیا ہے وہ سب درحقیقت انسان کے اندر بالقوة (Potentially) موجود تھا۔ خارجی محرکات اور داخلی تحریکات نے مل جل کر اگر کچھ کیا ہے تو صرف اتنا کہ جو کچھ بالقوة تھا اُسے بالفعل کر دیا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ کوئی تعلیم، کوئی تربیت، کوئی ماحول تاثیر اور کوئی داخلی تحریک انسان کے اندر کوئی چیز بھی، جو اُس کے اندر بالقوة موجود نہ ہو، ہر گز پیدا نہیں کر سکتی۔ اور اسی طرح یہ سب موثرات اگر اپنا تمام زور بھی صرف کر دیں تو ان میں یہ طاقت نہیں ہے کہ اُن چیزوں میں سے، جو انسان کے اندر بالقوة موجود ہیں، کسی چیز کو قطعی محو کر دیں۔ زیادہ سے زیادہ جو کچھ وہ کر سکتے ہیں وہ صرف یہ ہے کہ اسے اصل فطرت سے منحرف (Pervert) کر دیں۔ لیکن وہ چیز تمام تحریفات و تمسیخات کے باوجود اندر موجود رہے گی، ظہور میں آنے کے لیے زور لگاتی رہے گی، اور خارجی اپیل کا جواب دینے کے لیے مستعد رہے گی۔ یہ معاملہ جیسا کہ ہم نے ابھی بیان کیا، ہمارے تمام تحت الشعوری اور وجدانی علوم کے ساتھ عام ہے :
وہ سب ہمارے اندر بالقوة موجود ہیں، اور ان کے موجود ہونے کا یقینی ثبوت اُن چیزوں سے ہمیں ملتا ہے جو بالفعل ہم سے ظاہر ہوتی ہیں۔
ان سب کے ظہور میں آنے کے لیے خارجی تذکیر (یاد دہانی)، تعلیم، تربیت اور تشکیل کی ضرورت ہوتی ہے، اور جو کچھ ہم سے ظاہر ہوتا ہے وہ گویا درحقیقت خارجی اپیل کا وہ جواب ہے جو ہمارے اندر کی بالقوة موجودات کی طرف سے ملتا ہے۔
ان سب کو اندر کی غلط خواہشات اور باہر کی غلط تاثیرات دبا کر، پردہ ڈال کر، منحرف اور مسخ کر کے کالعدم کر سکتی ہیں مگر بالکل معدوم نہیں کر سکتیں، اور اسی لیے اندرونی احساس اور بیرونی سعی دونوں سے اصلاح اور تبدیلی (Conversion) ممکن ہوتی ہے۔ ٹھیک ٹھیک یہی کیفیت اُس وجدانی علم کی بھی ہے جو ہمیں کائنات میں اپنی حقیقی حیثیت، اور خالقِ کائنات کے ساتھ اپنے تعلق کے بارے میں حاصل ہے :
اس موجود ہونے کا ثبوت یہ ہے کہ وہ انسانی زندگی کے ہر دور میں، زمین کے ہر خطہ میں، ہر بستی، ہر پشت اور ہر نسل میں اُبھرتا رہا ہے اور کبھی دنیا کی کوئی طاقت اسے محو کر دینے میں کامیاب نہیں ہو سکی ہے۔
اس کے مطابقِ حقیقت ہونے کا ثبوت یہ ہے کہ جب کبھی وہ اُبھر کر بالفعل ہماری زندگی میں کر فرما ہوا ہے اس نے صالح اور مفید نتائج ہی پیدا کیے ہیں۔
اس کو اُبھر نے اور ظہور میں آنے اور عملی صورت اختیار کرنے کے لیے ایک خارجی اپیل کی ہمیشہ ضرورت رہی ہے، چنانچہ انبیاء علیہم السلام اور کتبِ آسمانی اور ان کی پیروی کرنے والے داعیانِ حق سب کے سب یہی خدمت انجام دیتے رہے ہیں۔ اسی لیے اُن کو قرآن میں مذکِّر(یاد دلانے والے ) ذِکر (یاد) تذکرہ (یادداشت) اور اب ان کے کام کو تذکیر(یاد دہانی)کے الفاظ سے تعبیر گیا گیا ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ انبیاء اور کتابیں اور داعیانِ حق انسان کے اندر کوئی نئی چیز پیدا نہیں کرتے بلکہ اُسی چیز کو اُبھارتے اور تازہ کرتے ہیں جو ان کے اندر پہلے سے موجود تھی۔
نفسِ انسانی کی طرف سے ہر زمانہ میں اِس تذکیر کا جواب بصورتِ لبیک ملنا اس بات کا مزید ایک ثبوت ہے کہ اندر فی الواقع کوئی علم چھپا ہوا تھا جو اپنے پکارنے والے کی آواز پہچان کر جواب دینے کے لیے اُبھر آیا۔
پھر اسے جہالت اور جاہلیت اور خواہشات نفس اور تعصبات اور شیاطینِ جن و انس کی گمراہ کن تعلیمات و ترغیبات نے ہمیشہ دبانے اور چھپانے اور منحرف اور مسخ کرنے کی کوشش کی ہے جس کے نتیجے میں شرک، دہریت، الحاد، زندقہ اور اخلاقی و عملی فساد رونما ہوتا رہا ہے۔ لیکن ضلالت کی ان ساری طاقتوں کے متحدہ عمل کے باوجود اس علم کا پیدائشی نقش انسان کی لوح دل پر کسی نہ کسی حد تک موجود رہا ہے اور اسی لیے تذکیر و تجدید کی کوششیں اُسے اُبھارنے میں کامیاب ہوتی رہی ہیں۔
بلاشبہ دنیا کی موجودہ زندگی میں جو لوگ حق اور حقیقت کے انکار پر مصر ہیں وہ اپنی حجت بازیوں سے اس پیدائشی نقش کے وجود کا انکار کر سکتے ہیں یا کم از کم اسے مشتبہ ثابت کر سکتے ہیں۔ لیکن جس روز یوم الحساب برپا ہو گا اس روز ان کا خالق ان کے شعور و حافظہ میں روزِ ازل کے اُس اجتماع کی یاد تازہ کر دے گا جبکہ انہوں نے اس کو اپنا واحد معبود اور واحد رب تسلیم کیا تھا۔ پھر وہ اس بات کا ثبوت بھی ان کے اپنے نفس ہی سے فراہم کر دے گا کہ اس میثاق کا نقش ان کے نفس میں برابر موجود رہا اور یہ بھی وہ ان کی اپنی زندگی ہی کے ریکارڈ سے علیٰ رؤس الا شہاد دکھا دے گا کہ انہوں نے کس کس طرح اس نقش کو دبایا، کب کب اور کن کن مواقع پر ان کے قلب سے تصدیق کی آوازیں اُٹھیں، اپنی اور اپنے گرد و بیش کی گمراہیوں پر ان کے وجدان نے کہاں کہاں اور کس کس وقت صدائے انکار بلند کی، داعیانِ حق کی دعوت کا جواب دینے کے لیے ان کے اندر کا چھپا ہوا علم کتنی کتنی مرتبہ اور کس کس جگہ اُبھرنے پر آمادہ ہوا، اور پھر وہ اپنے تعصبات اور اپنی خواہشات نفس کی بنا پر کیسے کیسے حیلوں اور بہانوں سے اس کو فریب دیتے اور خاموش کر دیتے رہے۔ وہ وقت جبکہ یہ سارے راز فاش ہوں گے، حجت بازیوں کا نہ ہو گا بلکہ صاف صاف اقرار جرم کا ہو گا۔ اسی لیے قرآن مجید کہتا ہے کہ اس وقت مجرمین یہ نہیں کہیں گے کہ ہم جاہل تھے یا غافل تھے، بلکہ یہ کہنے پر مجبور ہوں گے کہ ہم کافر تھے۔ یعنی ہم نے جان بوجھ کر حق کا انکار کیا۔ وَ شَھِدُوْا عَلٓیٰ اَنْفُسِہِمْ اَنَّھُمْ کَانُوْ ا کَا فِرِیْنَ (الاَنعام، ۱۳۰)۔
۱۳۶-یعنی معرفتِ حق کے جو نشانات انسان کے اپنے نفس میں موجود ہیں ان کا صاف صاف پتہ دیتے ہیں۔
۱۳۷-یعنی بغاوت و انحراف کی روش چھوڑ کر بندگی و اطاعت کے رویہ کی طرف واپس ہوں۔
۱۳۸-ان الفاظ سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ ضرور کوئی متعین شخص ہو گا جس کی طرف اشارہ فرما یا گیا ہے لیکن اللہ اور اس کے رسول کی یہ انتہائی اخلاقی بلندی ہے کہ وہ جب کبھی کسی کی برائی کو مثال میں پیش کرتے ہیں تو بالعموم اس کے نام کی تصریح نہیں کرتے بلکہ اس کی شخصیت پر پردہ ڈال کر صرف اس کی بُری مثال کا ذکر کر دیتے ہیں تا کہ اس کی رسوائی کیے بغیر اصل مقصد حاصل ہو جائے۔ اسی لیے نہ قرآن میں بتایا گیا ہے اور نہ کسی صحیح حدیث میں کہ وہ شخص جس کی مثال یہاں پیش کی گئی ہے، کون تھا۔ مفسرین نے عہد رسالت اور اس سے پہلے کی تاریخ کے مختلف اشخاص پر اس مثال کو چسپاں کیا ہے۔ کوئی بلعم بن با عوراء کا نام لیتا ہے، کوئی اُمیّہ بن ابی الصَّلت کا، اور کوئی صَیفی ابن الراہب کا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ خاص شخص تو پردہ میں ہے جو اس تمثیل میں پیش نظر تھا، البتہ یہ تمثیل ہر اس شخص پر چسپاں ہوتی ہے جس میں یہ صفت پائی جاتی ہو۔
۱۳۹-ان دو مختصر سے فقروں میں بڑا اہم مضمون ارشاد ہوا ہے جسے ذرا تفصیل کے ساتھ سمجھ لینا چاہیے۔
وہ شخص جس کی مثال یہاں پیش کی گئی ہے، آیات الٰہی کا علم رکھتا تھا، یعنی حقیقت سے واقف تھا۔ اس علم کا نتیجہ یہ ہونا چاہیے تھا کہ وہ اس رویہ سے بچتا جس کو وہ غلط جانتا تھا اور وہ طرزِ عمل اختیار کرتا جو اسے معلوم تھا کہ صحیح ہے۔ اسی عمل مطابقِ علم کی بدولت اللہ تعالیٰ اس کو انسانیت کے بلند مراتب پر ترقی عطا کرتا۔ لیکن وہ دنیا کے فائدوں اور لذتوں اور آرائشوں کی طرف جھک پڑا، خواہشاتِ نفس کے تقاضوں کا مقابلہ کرنے کے بجائے اُس نے ان کے آگے سپر ڈال دی، معالیِ امور کی طلب میں دنیا کی حرص و طمع سے بالا تر ہونے کے بجائے وہ اس حرص و طمع سے ایسا مغلوب ہوا کہ اپنے سب اُونچے ارادوں اور اپنی عقلی و اخلاقی ترقی کے سارے امکانات کو طلاق دے بیٹھا اور اُن تمام حدود کو توڑ کر نکل بھا گا جن کی نگہداشت کا تقاضا خود اُس کا علم کر رہا تھا۔ پھر جب وہ محض اپنی اخلاقی کمزوری کی بنا پر جانتے بوجھتے حق سے منہ موڑ کر بھاگا تو شیطان جو قریب ہی اس کی گھات میں لگا ہوا تھا۔، اس کے پیچھے لگ گیا اور برابر اُسے ایک پستی سے دوسری پستی کی طرف لے جاتا رہا یہاں تک کہ ظالم نے اسے اُن لوگوں کے زمرے میں پہنچا کر ہی دم لیا جو اس کے دام میں پھنس کر پوری طرح اپنی متاعِ عقل و ہوش گم کر چکے ہیں۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ اس شخص کی حالت کو کُتّے سے تشبیہ دیتا ہے جس کی ہر وقت لٹکی ہوئی زبان اور ٹپکتی ہوئی رال ایک نہ بجھنے والی آتشِ حرص اور کبھی نہ سیر ہونے والی نیت کا پتہ دیتی ہے۔ بنائے تشبیہ وہی ہے جس کی وجہ سے ہم اپنی اُردو زبان میں ایسے شخص کو دنیا کی حرص میں اندھا ہو رہا ہو، دنیا کا کتّا کہتے ہیں کُتّے کی جبلت کیا ہے ؟ حرص و آز۔ چلتے پھرتے اس کی ناک زمین سونگھنے ہی میں لگی رہتی ہے کہ شاید کہیں سے بوئے طعام آ جائے۔ اسے پتھر مار یے تب بھی اس کی یہ توقع دور نہیں ہوتی کہ شاید یہ چیز جو پھینکی گئی ہے کوئی ہڈی یا روٹی کا کوئی ٹکڑا ہو۔ پیٹ کا بندہ ایک دفعہ تو لپک کر اس کو بھی دانتوں سے پکڑ ہی لیتا ہے۔ اس سے بے التفاتی کیجیے تب بھی وہ لالچ کا مارا توقعات کی ایک دنیا دل میں لیے، زبان لٹکائے، ہانپتا کانپتا کھڑا ہی رہے گا۔ ساری دنیا کو وہ بس پیٹ ہی کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ کہیں کوئی بڑی سی لاش پڑی ہو، جو کئی کتوں کے کھانے کو کافی ہو، تو ایک کتا اس میں سے صرف اپنا حصہ لینے پر اکتفا نہ کرے گا بلکہ اسے صرف اپنے ہی لیے مخصوص رکھنا چاہے گا اور کسی دوسرے کتے کو اس کے پاس نہ بھٹکنے دے گا۔اس شہوت شکم کے بعد اگر کوئی چیز اس پر غالب ہے تو وہ ہے شہوتِ فَرج۔ اپنے سارے جسم میں صرف ایک شرمگاہ ہی وہ چیز ہے جس سے وہ دل چسپی رکھتا ہے اور اسی کو سونگھنے اور چاٹنے میں مشغول رہتا ہے۔ پس تشبیہ کا مدعا یہ ہے کہ دنیا پر ست آدمی جب علم اور ایمان کی رسّی تُڑا کر بھاگتا ہے اور نفس کی اندھی خواہشات کے ہاتھ میں اپنی باگیں دے دیتا ہے تو پھر کتے کی حالت کو پہنچے بغیر نہیں رہتا، ہمہ تن پیٹ اور ہمہ تن شرمگاہ۔
۱۴۰-اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم نے اُن کو پیدا ہی اس غرض کے لیے کیا تھا کہ وہ جہنم میں جائیں اور ان کو وجود میں لاتے وقت ہی یہ ارادہ کر لیا تھا کہ انہیں دوزخ کا ایندھن بنانا ہے، بلکہ اس کا صحیح مفہوم یہ ہے کہ ہم نے تو ان کو پیدا کیا تھا دل، دماغ، آنکھیں اور کان دے کر، مگر ظالموں نے ان سے کوئی کام نہ لیا اور اپنی غلط کاریوں کی بدولت آخر کار جہنم کا ایندھن بن کر رہے۔ اس مضمون کو ادا کرنے کے لیے وہ اندازِ بیان اختیار کیا گیا ہے جو انسانی زبان میں انتہائی افسوس اور حسرت کے موقع پر استعمال کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر کسی ماں کے متعدد جوان جوان بیٹے لڑائی میں جا کر لقمہ اجل ہو گئے ہوں تو وہ لوگوں سے کہتی ہے کہ میں نے انہیں اس لیے پال پوس کر بڑا کیا تھا کہ لوہے اور آگ کے کھیل میں ختم ہو جائیں۔ اس قول سے اس کا مدعا یہ نہیں ہوتا کہ واقعی اس کے پالنے پوسنے کی غرض یہی تھی، بلکہ اس حسرت بھرے انداز میں دراصل وہ کہنا یہ چاہتی ہے کہ میں تو اتنی محنتوں سے اپنا خونِ جگر پلا پلا کر ان بچوں کو پالا تھا، مگر خدا ان لڑنے والے فسادیوں سے سمجھے کہ میری محنت اور قربانی کے ثمرات یوں خاک میں مل کر رہے۔
۱۴۱-اب تقریر اپنے اختتام کو پہنچ رہی ہے اس لیے خاتمہ کلام پر نصیحت اور ملامت کے ملے جلے انداز میں لوگوں کو ان کی چند نمایاں ترین گمراہیوں پر متنبہ کیا جا رہا ہے اور ساتھ ہی پیغمبر کی دعوت کے مقابلہ میں انکار و استہزا کا جو رویّہ انہوں نے اختیار کر رکھا تھا اُس کی غلطی سمجھاتے ہوئے اس کے بُرے انجام سے اُنہیں خبردار کیا جا رہا ہے۔
۱۴۲-انسان اپنی زبان میں اشیاء کے جو نام رکھتا ہے وہ دراصل اس تصور پر مبنی ہوتے ہیں جو اس کے ذہن میں اُن اشیاء کے متعلق ہوا کرتا ہے۔ تصور کا نقص نام کے نقص کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے اور نام کا نقص تصوّر کے نقص پر دلالت کرتا ہے۔ پھر اشیاء کے ساتھ انسان کا تعلق اور معاملہ بھی لازماً اُس تصور پر ہی مبنی ہوا کرتا ہے جو اپنے ذہن میں اس کے متعلق رکھتا ہے۔ تصور کی خرابی تعلق کی خرابی میں رونما ہوتی ہے اور تصور کی صحت و درستی تعلق کی صحت و درستی میں نمایاں ہو کر رہتی ہے۔ یہ حقیقت جس طرح دنیا کی تمام چیزوں کے معاملہ میں صحیح ہے اسی طرح اللہ کے معاملہ میں بھی صحیح ہے۔ اللہ کے لیے نام (خواہ وہ اسماء ذات ہوں یا اسماء صفات)تجویز کرنے میں انسان جو غلطی بھی کرتا ہے وہ دراصل اللہ کی ذات و صفات کے متعلق اس کے عقیدے کی غلطی کا نتیجہ ہوتی ہے۔ پھر خدا کے متعلق اپنے تصورو اعتقاد میں انسان جتنی اور جیسی غلطی کرتا ہے، اتنی ہی اور ویسی ہی غلطی اس سے اپنی زندگی کے پورے اخلاقی رویہ کی تشکیل میں سرزد ہوتی ہے، کیونکہ انسان کے اخلاقی رویہ کی تشکیل تمام تر منحصر ہے اُس تصور پر جو اس نے خدا کے بارے میں اور خدا کے ساتھ اپنے اور کائنات کے تعلق کے بارے میں قائم کیا ہو۔ اسی لیے فرمایا کہ خدا کے نام رکھنے میں غلطی کرنے سے بچو، خدا کے لیے اچھے نام ہی موزوں ہیں اور اسے اُنہی ناموں سے یاد کرنا چاہیے، اس کے نام تجویز کرنے میں الحاد کا انجام بہت بُرا ہے۔
’’اچھے ناموں‘‘ سے مراد وہ نام ہیں جن سے خدا کی عظمت و بر تری، اس کے تقدس اور پاکیزگی، اور اس کی صفات کمالیہ کا اظہار ہوتا ہو۔ ’’الحاد‘‘ کے معنی ہیں وسط سے ہٹ جانا، سیدھے رُخ سے منحرف ہو جانا۔ تیر جب ٹھیک نشانے پر بیٹھنے کے بجائے کسی دوسری طرف جا لگتا ہے تو عربی میں کہتے ہیں اَلحد السہمُ الھدفَ، یعنی تیرنے نشانے سے الحاد کیا۔ خدا کے نام رکھنے میں الحاد یہ ہے کہ خدا کو ایسے نام دیے جائیں جو اس کے مرتبے سے فروتر ہوں، جو اس کے ادب کے منافی ہوں، جن سے عیوب اور نقائص اس کی طرف منسوب ہوتے ہوں، یا جن سے اس کی ذاتِ اقدس و اعلیٰ کے متعلق کسی غلط عقیدے کا اظہار ہوتا ہو۔ نیز یہ بھی الحاد ہی ہے کہ مخلوقات میں کسی کے لیے ایسا نام رکھا جائے جو صرف خدا ہی کے لیے موزوں ہو۔ پھر یہ فرمایا کہ اللہ کے نام رکھنے میں جو لوگ الحاد کرتے ہیں ان کو چھوڑ دو۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر یہ لوگ سیدھی طرح سمجھانے سے نہیں سمجھتے تو ان کی کج بحثیوں میں تم کو اُلجھنے کی کوئی ضرورت نہیں، اپنی گمراہی کا انجام وہ خود دیکھ لیں گے۔
ترجمہ
رجمہ
حصہ ہے جو نافرمانی سے پر
رہے وہ لوگ جنہوں نے ہماری آیات کو جھُٹلا دیا ہے، تو انہیں ہم بتدریج ایسے طریقہ سے تباہی کی طرف لے جائیں گے کہ انہیں خبر تک نہ ہو گی۔میں ان کو ڈھیل دے رہا ہوں، میری چال کا کوئی توڑ نہیں ہے۔ اور کیا اِن لوگوں نے کبھی سوچا نہیں؟ اِن کے رفیق پر جُنون کا کوئی اثر نہیں ہے۔ وہ تو ایک خبردار ہے جو (بُرا انجام سامنے آنے سے پہلے ) صاف صاف متنبہ کر رہا ہے۔ کیا ان لوگوں نے آسمان و زمین کے انتظام پر کبھی غور نہیں کیا اور کسی چیز کو بھی جو خدا نے پیدا کی ہے آنکھیں کھول کر نہیں دیکھا؟۱۴۳ اور کیا یہ بھی انہوں نے نہیں سوچا کہ شاید ان کی مہلتِ زندگی پوری ہونے کا وقت قریب آ لگا ہو؟۱۴۴ پھر آخر پیغمبر ؐ کی اِس تنبیہ کے بعد اور کون سی بات ایسی ہو سکتی ہے۔ جس پریہ ایمان لائیں؟ جس کو اللہ رہنمائی سے محروم کر دے اُس کے لیے پھر کوئی رہنما نہیں ہے، اور اللہ انہیں ان کی سر کشی ہی میں بھٹکتا ہوا چھوڑے دیتا ہے۔ یہ لوگ تم سے پوچھتے ہیں کہ آخر وہ قیامت کی گھڑی کب نازل ہو گی؟ کہو ’’اِس کا علم میرے ربّ ہی کے پاس ہے اُسے اپنے وقت پر وہی ظاہر کرے گا۔ آسمانوں اور زمین میں وہ بڑا سخت وقت ہو گا۔وہ تم پر اچانک آ جائے گا۔‘‘ یہ لوگ اِس کے متعلق تم سے اِس طرح پوچھتے ہیں گویا کہ تم اس کی کھوج میں لگے ہوئے ہو۔ کہو ’’اِس کا علم تو صرف اللہ کو ہے مگر اکثر لوگ اِس حقیقت سے ناواقف ہیں۔‘‘ اے محمدؐ، ان سے کہو کہ ’’میں اپنی ذات کے لیے کسی نفع اور نقصان کا اختیار نہیں رکھتا، اللہ ہی جو کچھ چاہتا ہے وہی ہوتا ہے۔ اور اگر مجھے غیب کا علم ہوتا تو میں بہت سے فائدے اپنے لیے حاصل کر لیتا اور مجھے کبھی کوئی نقصان نہ پہنچتا۔میں ۱۴۵ تو محض ایک خبردار کرنے والا اور خوشخبری سُنانے والا ہوں اُن لوگوں کے لیے جو میری بات مانیں۔‘‘ ؏ ۲۳
تفسیر
۱۴۳-رفیق سے مراد محمد صلی اللہ علیہ و سلم ہیں۔ آپ انہی لوگوں میں پیدا ہوئے، انہی کے درمیان رہے بسے، بچے سے جوان اور جوان سے بوڑھے ہوئے۔ نبوّت سے پہلے ساری قوم آپ کو ایک نہایت سلیم الطبع اور صحیح الدماغ آدمی کی حیثیت سے جانتی تھی۔ نبوت کے بعد جب آپ نے خدا کا پیغام پہنچانا شروع کیا تو یکا یک آپ کو مجنون کہنے لگی۔ ظاہر ہے کہ یہ حکمِ جُنون اُن باتوں پر نہ تھا جو آپ نبی ہونے سے پہلے کرتے تھے بلکہ صرف اُنہی باتوں پر لگایا جا رہا تھا جن کی آپ نے نبی ہونے کے بعد تبلیغ شروع کی۔ اسی وجہ سے فرمایا جا رہا ہے کہ ان لوگوں نے کبھی سوچا بھی ہے، آخر ان باتوں میں کونسی بات جنون کی ہے ؟ کونسی بات بے تُکی، بے اصل اور غیر معقول ہے ؟ اگر یہ آسمان و زمین کے نظام پر غور کرتے، یا خدا کی بنائی ہوئی کسی چیز کو بھی بنظرِ تامل دیکھتے تو انہیں خود معلوم ہو جاتا کہ شرک کی تردید، توحید کے اثبات، بندگی رب کی دعوت اور انسان کی ذمہ دار ی و جواب دہی کے بارے میں جو کچھ اُن کا بھائی انہیں سمجھا رہا ہے اس کی صداقت پر یہ پورا نظامِ کائنات اور خلق اللہ کا ذرہ ذرہ شہادت دے رہا ہے۔
۱۴۴-یعنی نادان اتنا بھی نہیں سوچتے کہ موت کا وقت کسی کو معلوم نہیں ہے، کچھ خبر نہیں کہ کب کس کی اجل آن پوری ہو۔ پھر اگر ان میں سے کسی کا آخری وقت آ گیا اور اپنے رویہ کی اصلاح کے لیے جو مہلت اسے ملی ہوئی ہے وہ انہی گمراہیوں اور بداعمالیوں میں ضائع ہو گئی تو آخر اس کا حشر کیا ہو گا۔
۱۴۵-مطلب یہ ہے کہ قیامت کی ٹھیک تاریخ وہی بتا سکتا ہے جسے غیب کا علم ہو، اور میرا حال یہ ہے کہ میں کل کے متعلق بھی نہیں جانتا کہ میرے ساتھ یا میرے بال بچوں کے ساتھ کیا کچھ پیش آنے والا ہے۔ تم خود سمجھ سکتے ہو کہ اگر یہ علم مجھے حاصل ہوتا تو میں کتنے نقصانات سے قبل از وقت آگاہ ہو کر بچ جاتا اور کتنے فائدے محض پیشگی علم کی بدولت اپنی ذات کے لیے سمیٹ لیتا پھر یہ تمہاری کتنی بڑی نادانی ہے کہ تم مجھ سے پو چھتے ہو کہ قیامت کب آئے گی۔
ترجمہ
وہ اللہ ہی ہے جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی کی جنس سے اس کا جوڑا بنایا تاکہ اس کے پاس سکون حاصل کرے۔ پھر جب مرد نے عورت کو ڈھانک لیا تو اسے ایک خفیف سا حمل رہ گیا جس لیے لیے وہ چلتی پھرتی رہی۔ پھر جب وہ بوجھل ہو گئی تو دونوں نے مل کر اللہ، اپنے ربّ سے دعا کی کہ اگر تُو نے ہمیں اچھا سا بچہ دیا تو ہم تیرے شکر گزار ہوں گے۔ مگر جب اللہ نے ان کو ایک صحیح و سالم بچہ دے دیا تو وہ اُس کی اِس بخشش و عنایت میں دوسروں کو اِس کا شریک ٹھہرانے لگے۔ اللہ بہت بلند و برتر ہے اِن مشرکانہ باتوں سے جو یہ لوگ کرتے ہیں۔۱۴۶ کیسے نادان ہیں یہ لوگ کہ اُن کو خدا کا شریک ٹھہراتے ہیں جو کسی چیز کو بھی پیدا نہیں کرتے بلکہ خود پیدا کیے جاتے ہیں،جو نہ ان کی مدد کر سکتے ہیں اور نہ آپ اپنی مدد ہی پر قادر ہیں۔اگر تم انہیں سیدھی راہ پر آنے کی دعوت دو تو وہ تمہارے پیچھے نہ آئیں، تم خواہ انہیں پکارو یا خاموش رہو، دونوں صورتوں میں تمہارے لیے یکساں ہی رہے۔ ۱۴۷تم لوگ خدا کو چھوڑ کر جنہیں پکارتے ہو وہ تو محض بندے ہیں جیسے تم بندے ہو۔ ان سے دعائیں مانگ دیکھو، یہ تمہاری دعاؤں کا جواب دیں اگر ان کے بارے میں تمہارے خیالات صحیح ہیں۔کیا یہ پاؤں رکھتے ہیں کہ ان سے چلیں؟ کیا یہ ہاتھ رکھتے ہیں کہ ان سے پکڑیں؟ کیا یہ آنکھیں رکھتے ہیں کہ ان سے دیکھیں؟ کیا یہ کان رکھتے ہیں کہ ان سے سُنیں؟ ۱۴۸ اے محمدؐ، ان سے کہہ دو کہ ’’ بُلا لو اپنے ٹھہرائے ہوئے شریکوں کو پھر تم سب مِل کر میرے خلاف تدبیریں کرو اور مجھے ہر گز مہلت نہ دو،میرا حامی و ناصر وہ خدا ہے جس نے یہ کتاب نازل کی ہے اور وہ نیک آدمیوں کی حمایت کرتا ہے، ۱۴۹بخلاف اس کے تم جنہیں خُدا کو چھوڑ کر پکارتے ہو وہ نہ تمہاری مدد کر سکتے ہیں اور نہ خود اپنی مدد ہی کرنے کے قابل ہیں،بلکہ اگر تم اُنہیں سیدھی راہ پر آنے کے لیے کہو تو وہ تمہاری بات سُن بھی نہیں سکتے۔ بظاہر تم کو ایسا نظر آتا ہے کہ وہ تمہاری طرف دیکھ رہے ہیں مگر فی الواقع وہ کچھ بھی نہیں دیکھتے۔ ‘‘اے نبی ؐ، نرمی و درگزر کا طریقہ اختیار کرو، معروف کی تلقین کیے جاؤ، اور جاہلوں سے نہ اُلجھو۔اگر کبھی شیطان تمہیں اُکسائے تو اللہ کی پناہ مانگو، وہ سب کچھ سُننے اور جاننے والا ہے۔ حقیقت میں جو لوگ متقی ہیں اُن کا حال تو یہ ہوتا ہے کہ کبھی شیطان کے اثر سے کوئی بُرا خیال انہیں چھُو بھی جاتا ہے تو وہ فوراً چوکنے ہو جاتے ہیں اور پھر اُنہیں صاف نظر آنے لگتا ہے کہ اُن کے لیے صحیح طریقِ کار کیا ہے۔ رہے ان کے (یعنی شیاطین کے ) بھائی بند تو وہ اُنہیں ان کی کج روی میں کھینچے لیے چلے جاتے ہیں اور انہیں بھٹکانے میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھتے۔ ۱۵۰اے نبی، جب تم ان لوگوں کے سامنے کوئی نشانی (یعنی معجزہ) پیش نہیں کرتے تو یہ کہتے ہیں کہ تم نے اپنے لیے کوئی نشانی کیوں نہ انتخاب کر لی؟۱۵۱ اِن سے کہو ’’ میں تو صرف اُس وحی کی پیروی کرتا ہوں جو میرے ربّ نے میری طرف بھیجی ہے۔ یہ بصیرت کی روشنیاں ہیں تمہارے ربّ کی طرف سے اور ہدایت اور رحمت ہے اُن لوگوں کے لیے جو اسے قبول کریں۔۱۵۲ جب قرآن تمہارے سامنے پڑھا جائے تو اسے توجہ سے سُنو اور خاموش رہو، شاید کہ تم پر بھی رحمت ہو جائے۔ ‘‘ ۱۵۳ اے نبیؐ، اپنے ربّ کو صبح و شام یاد کیا کرو دل ہی دل میں زاری اور خوف کے ساتھ اور زبان سے بھی ہلکی آواز کے ساتھ۔ تم اُن لوگوں میں نہ ہو جاؤ جو غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔۱۵۴جو فرشتے تمہارے ربّ کے حضور تقرب کا مقام رکھتے ہیں وہ کبھی اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں آ کر اُس کی عبادت سے منہ نہیں موڑتے، ۱۵۵ اور اُس کی تسبیح کرتے ہیں،۱۵۶ اور اُس کے آگے جھُکتے رہتے ہیں۔۱۵۷ ؏۲۴ السجدة ١
تفسیر
۱۴۶-یہاں مشرکین کی جاہلانہ گمراہیوں پر تنقید کی گئی ہے۔ تقریر کا مدعا یہ ہے کہ نوع انسانی کو ابتداءً وجود بخشنے والا اللہ تعالیٰ ہے جس سے خود مشرکین کو بھی انکار نہیں۔ پھر ہر انسان کو وجود عطا کرنے والا بھی اللہ تعالیٰ ہی ہے اور اس بات کو بھی مشرکین جانتے ہیں۔ عورت کے رحم میں نطفے کو ٹھیرانا، پھر اس خفیف سے حمل کو پرورش کر کے ایک زندہ بچے کی صورت دینا، پھر اس بچے کے اندر طرح طرح کی قوتیں اور قابلیتیں ودیعت کرنا اور اس کو صحیح و سالم انسان بنا کر پیدا کرنا، یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ اگر اللہ عورت کے پیٹ میں بندر یا سانپ یا کوئی اور عجیب الخلقت حیوان پیدا کر دے، یا بچے کو پیٹ ہی میں اندھا بہرا لنگڑا لولا بنا دے، یا اس کی جسمانی و ذہنی اور نفسانی قوتوں میں کوئی نقص رکھ دے تو کسی میں یہ طاقت نہیں ہے کہ اللہ کی اس ساخت کو بدل ڈالے۔ اس حقیقت سے مشرکین بھی اسی طرح آگاہ ہیں جس طرح موحِّدین۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ زمانہ حمل میں ساری امیدیں اللہ ہی سے وابستہ ہوتی ہیں کہ وہی صحیح و سالم بچہ پیدا کرے گا۔ لیکن اس پر بھی جہالت و نادانی کے طغیان کا یہ حال ہے کہ جب اُمید بر آتی ہے اور چاند سا بچہ نصیب ہو جاتا ہے تو شکر یے کے لیے نذریں اور نیازیں کسی دیوی، کسی اوتار، کسی ولی اور کسی حضرت کے نام پر چڑھائی جاتی ہیں اور بچے کو ایسے نام دیے جاتے ہیں کہ گویا وہ خدا کے سوا کسی اور کی عنایت کا نتیجہ ہے، مثلاً حسین بخش، پیر بخش، عبدالرسول، عبدالعُزّیٰ اور عبد شمس وغیرہ۔
اس تقریر کے سمجھنے میں ایک بڑی غلط فہمی واقع ہوئی ہے جسے ضعیف روایات نے اور زیادہ تقویت پہنچا دی۔ چونکہ آغاز میں نوع انسانی کی پیدائش ایک جان سے ہونے کا ذکر آیا ہے، جس سے مراد حضرت آدم علیہ السلام ہیں، اور پھر فوراً ہی ایک مرد و عورت کا ذکر شروع ہو گیا ہے جنہوں نے پہلے تو اللہ سے صحیح و سالم بچے کی پیدائش کے لیے دعا کی اور جب بچہ پیدا ہو گیا تو اللہ کی بخشش میں دوسروں کو شریک ٹھیرا لیا۔ اس لیے لوگوں نے یہ سمجھا کہ یہ شرک کرنے والے میاں بیوی ضرور حضرت آدم و حوا علیہما السلام ہی ہوں گے۔ اس غلط فہمی پر روایات کا ایک خول چڑھ گیا اور ایک پورا قصہ تصنیف کر دیا گیا کہ حضرت حوا کے بچے پیدا ہو ہو کر مر جاتے تھے، آخر کار ایک بچے کی پیدائش کے موقع پر شیطان نے ان کو بہکا کر اس بات پر آمادہ کر دیا کہ اس کا نام عبدالحارث (بندہ شیطان) رکھ دیں۔ غضب یہ ہے کہ ان روایات میں سے بعض کی سند نبی صلی اللہ علیہ و سلم تک بھی پہنچا دی گئی ہے۔ لیکن درحقیقت یہ تمام روایات غلط ہیں اور قرآن کی عبارت بھی ان کی تائید نہیں کرتی۔ قرآن جو کچھ کہہ رہا ہے وہ صرف یہ ہے کہ نوع انسانی کا پہلا جوڑا جس سے آفرینش کی ابتدا ہوئی۔ اس کا خالق بھی اللہ ہی تھا، کوئی دوسرا اس کار تخلیق میں شریک نہ تھا، اور پھر ہر مرد و عورت کے ملاپ سے جو اولاد پیدا ہوتی ہے اس کا خالق بھی اللہ ہی ہے جس کا اقرار تم سب لوگوں کے دلوں میں موجود ہے، چنانچہ اسی اقرار کی بدولت تم امید و بیم کی حالت میں جب دعا مانگتے ہو تو اللہ ہی سے مانگتے ہو، لیکن بعد میں جب امیدیں پوری ہو جاتی ہیں تو تمہیں شرک کی سوجھتی ہے۔ اس تقریر میں کسی خاص مرد اور خاص عورت کا ذکر نہیں ہے بلکہ مشرکین میں سے ہر مرد اور ہر عورت کا حال بیان کیا گیا ہے۔
ا س مقام پر ایک اور بات بھی قابل توجہ ہے۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے جن لوگوں کی مذمت کی ہے وہ عرب کے مشرکین تھے اور ان کا تصور یہ تھا کہ وہ صحیح و سالم اولاد پیدا ہونے کے لیے تو خدا ہی سے مانگتے تھے مگر جب بچہ پیدا ہو جاتا تھا تو اللہ کے اس عطیہ میں دوسروں کو شکریے کا حصہ دار ٹھیرا لیتے تھے۔ بلا شبہہ یہ حالت بھی نہایت بُری تھی۔ لیکن اب جو شرک ہم توحید کے مدعیوں میں پا رہے ہیں وہ اس سے بھی بدتر ہے۔ یہ ظالم تو اولاد بھی غیروں ہی سے مانگتے ہیں۔ حمل کے زمانے میں مَنَّتیں بھی غیروں کے نام ہی کی مانتے ہیں اور بچہ پیدا ہونے کے بعد نیاز بھی انہی کے آستانوں پر چڑھاتے ہیں۔ اس پر بھی زمانۂ جاہلیت کے عرب مشرک تھے اور یہ موحّد ہیں، اُن کے لیے جہنم وا جب تھی اور ان کے لیے نجات کی گارنٹی ہے، اُن کی گمراہیوں پر تنقید کی زبانیں تیز ہیں مگر اِن کی گمراہیوں پر کوئی تنقید کر بیٹھے تو مذہبی درباروں میں بے چینی کی لہر دوڑ جاتی ہے۔ اسی حالت کا ماتم حالی مرحوم نے اپنی مسدس میں کیا ہے :۔
کرے غیر گر بت کی پوجا تو کا فر
جو ٹھیرائے بیٹا خدا کا تو کافر
جھکے آگ پر بہر سجدہ تو کافر –
کواکب میں مانے کرشمہ تو کافر
مگر مومنوں پر کشادہ ہیں راہیں
پرستش کریں شوق سے جس کی چاہیں
نبی کو جو چاہیں خدا کر دکھائیں
اماموں کا رتبہ نبی سے بڑھائیں
مزاروں پہ جا جا کہ نذریں چڑھائیں
شہیدوں سے جا جا کے مانگیں دعائیں
نہ توحید میں کچھ خلل اس سے آئے
نہ اسلام بگڑے نہ ایمان جائے
۱۴۷-یعنی ان مشرکین کے معبودانِ باطل کا حال یہ ہے کہ سیدھی راہ دکھانا اور اپنے پر ستاروں کی رہنمائی کرنا تو درکنار، وہ بیچارے تو کسی رہنما کی پیروی کرنے کے قابل بھی نہیں، حتیٰ کہ کسی پکارنے والے کی پکار کا جواب تک نہیں دے سکتے۔
۱۴۸-یہاں ایک بات صاف طور پر سمجھ لینی چاہیے۔ مشرکانہ مذاہب میں تین چیزیں الگ الگ پائی جاتی ہیں۔ ایک تو وہ اصنام، تصاویر یا علامات جو مرجع پرستش (Objects of worship) ہوتی ہیں۔ دوسرے وہ اشخاص یا ارواح یا معانی جو دراصل معبود قرار دیے جاتے ہیں اور جن کی نمائندگی اصنام اور تصاویر وغیرہ کی شکل میں کی جاتی ہے۔ تیسرے وہ اعتقادات جو ان مشرکانہ عبادات و اعمال کی تہ میں کار فرما ہوتے ہیں۔ قرآن مختلف طریقوں سے ان تینوں چیزوں پر ضرب لگا تا ہے۔ اس مقام پر اُس کی تنقید کا رُخ پہلی چیز کی طرف ہے یعنی وہ بت محلِ اعراض ہیں جن کے سامنے مشرکین اپنے مراسمِ عبادت ادا کرتے اور اپنی عرضیاں اور نیازیں پیش کرتے تھے۔
۱۴۹-یہ جواب ہے مشرکین کی اُن دھمکیوں کا جو وہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو دیتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ اگر تم ہمارے اِن معبودوں کی مخالفت کرنے سے باز نہ آئے اور ان کی طرف سے لوگوں کے عقیدے اسی طرح خراب کرتے رہے تو تم پر ان کا غضب ٹوٹ پڑے گا اور وہ تمہیں اُلٹ کر رکھ دیں گے۔
۱۵۰-ان آیات میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو دعوت تبلیغ اور ہدایت و اصلاح کی حکمت کے چند اہم نکات بتائے گئے ہیں اور مقصود صرف حضور ہی کو تعلیم دینا نہیں ہے بلکہ حضور کے ذریعہ سے اُن سب لوگوں کو بھی حکمت سکھانا ہے جو حضور کے قائم مقام بن کر دنیا کو سیدھی راہ دکھانے کے لیے اُٹھیں۔ ان نکات کو سلسلہ وار دیکھنا چاہیے :۔
(۱) داعی حق کے لیے جو صفات سب سے زیادہ ضروری ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ اسے نرم خو متحمل اور عالی ظرف ہونا چاہیے۔ اس کو اپنے ساتھیوں کے لیے شفیق، عامۃ الناس کے لیے رحیم اور اپنے مخالفوں کے لیے حلیم ہونا چاہیے۔ اس کو اپنے رفقا کی کمزوریوں کو بھی برداشت کرنا چاہیے اور اپنے مخالفین کی سختیوں کو بھی۔ اسے شدید سے شدید اشتعال انگیز مواقع پر بھی اپنے مزاج کو ٹھنڈا رکھنا چاہیے، نہایت ناگوار باتوں کو بھی عالی ظرفی کے ساتھ ٹال دینا چاہیے، مخالفوں کی طرف سے کیسی ہی سخت کلامی بہتان تراشی، ایذا رسانی اور شریرانہ مزاحمت کا اظہار ہو، اُس کو درگزر ہی سے کام لینا چاہیے۔ سخت گیری، درشت خوئی، تلخ گفتاری اور منتقمانہ اشتعالِ طبع اس کام کے لیے زہر کا حکم رکھتا ہے اور اس سے کام بگڑتا ہے بنتا نہیں ہے۔ اسی چیز کو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے یوں بیان فرمایا ہے کہ میرے رب نے مجھے حکم دیا ہے کہ ’’ غضب اور رضا، دونوں حالتوں میں انصاف کی بات کہوں، جو مجھ سے کٹے میں اس سے جڑوں، جو مجھے میرے حق سے محروم کرے میں اسے اس کا حق دوں، جو میرے ساتھ ظلم کرے میں اس کو معاف کر دوں‘‘۔ اور اسی چیز کی ہدایت آپ ان لوگوں کو کرتے تھے جنہیں آپ دین کے کام پر اپنی طرف سے بھیجتے تھے کہ بشروا ولا تنفرو او یسروا ولاتعسروا، یعنی ’’جہاں تم جاؤ وہاں تمہاری آمد لوگوں کے لیے مژدہ جانفزا ہو نہ کہ باعثِ نفرت، اور لوگوں کے لیے تم سہولت کے موجب بنو نہ کہ تنگی و سختی کے۔ ‘‘ اور اسی چیز کی تعریف اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے حق میں فرمائی ہے کہ فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللہِ لِنْتَ لَھُمْ وَلَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَا نْفَضُّوْ ا مِنْ حَوْ لکَ۔ یعنی ’’یہ اللہ کی رحمت ہے کہ تم ان لوگوں کے لیے نرم ہو ورنہ اگر تم درشت خو اور سنگدل ہوتے تو یہ سب لوگ تمہارے گردو پیش سے چَھٹ جاتے ‘‘۔ (آل عمران، ۱۵۹)
(۲) دعوت حق کی کامیابی کا گُر یہ ہے کہ آدمی فلسفہ طرازی اور دقیقہ سنجی کے بجائے لوگوں کو معروف یعنی اُن سیدھی اور صاف بھلائیوں کی تلقین کرے جنہیں بالعموم سارے ہی انسان بھلا جانتے ہیں یا جن کی بھلائی کو سمجھنے کے لیے وہ عقلِ عام (Common sense) کافی ہوتی ہے جو ہر انسان کو حاصل ہے۔ اس طرح داعیٔ حق کا اپیل عوام و خواص سب کو متاثر کرتا ہے اور ہر سامع کے کان سے دل تک پہنچنے کی راہ آپ نکال لیتا ہے۔ ایسی معروف دعوت کے خلاف جو لوگ شورش برپا کرتے ہیں وہ خود اپنی ناکامی اور اس دعوت کی کامیابی کا سامان فراہم کرتے ہیں۔کیونکہ عام انسان، خواہ وہ کتنے ہی تعصبات میں مبتلا ہوں، جب یہ دیکھتے ہیں کہ ایک طرف ایک شریف النفس اور بلند اخلاق انسان ہے جو سیدھی سیدھی بھلائیوں کی دعوت دے رہا ہے اور دوسری طرف بہت سے لوگ اس کی مخالفت میں ہر قسم کی اخلاق و انسانیت سے گری ہوئی تدبیریں استعمال کر رہے ہیں، تو رفتہ رفتہ ان کے دل خود بخود مخالفینِ حق سے پھر تے اور داعی حق کی طرف متوجہ ہوتے چلے جاتے ہیں، یہاں تک کہ آخر کار میدان مقابلہ میں صرف وہ لوگ رہ جاتے ہی جن کے ذاتی مفاد نظامِ باطل کے قیام ہی سے وابستہ ہوں، یا پھر جن کے دلوں میں تقلیدِ اسلاف اور جاہلانہ تعصبات نے کسی روشنی کے قبول کرنے کی صلاحیت باقی ہی نہ چھوڑی ہو۔ یہی وہ حکمت تھی جس کی بدولت نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو عرب میں کامیابی حاصل ہوئی اور پھر آپ کے بعد تھوڑی ہی مدت میں اسلام کا سیلاب قریب کے ملکوں پر اس طرح پھیل گیا کہ کہیں سو فی صدی اور کہیں ۸۰ اور ۹۰ فی صدی باشندے مسلمان ہو گئے۔
(۳) اس دعوت کے کام میں جہاں یہ بات ضروری ہے کہ طالبینِ خیر کو معروف کی تلقین کی جائے وہاں یہ بات بھی اتنی ہی ضروری ہے کہ جاہلوں سے نہ اُلجھا جائے خواہ وہ اُلجھنے اور اُلجھانے کی کتنی ہی کوشش کریں۔ داعی کو اس معاملہ میں سخت محتاط ہونا چاہیے کہ اس کا خطاب صرف ان لوگوں سے رہے جو معقولیت کے ساتھ بات کو سمجھنے کے لیے تیار ہوں۔ اور جب کوئی شخص جہالت پر اُتر آئے اور حجت بازی، جھگڑالو پن اور طعن و تشنیع شروع کر دے تو داعی کو اس کا حریف بننے سے انکار کر دینا چاہیے۔ اس لیے کہ اس جھگڑے میں اُلجھنے کا حاصل کچھ نہیں ہے اور نقصان یہ ہے کہ داعی کی جس قوت کو اشاعتِ دعوت اور اصلاح نفوس میں خرچ ہونا چاہیے وہ اس فضول کام میں ضائع ہو جاتی ہے۔
(۴) نمبر ۳ میں جو ہدایت کی گئی ہے اسی کے سلسلہ میں مزید ہدایت یہ ہے کہ جب کبھی داعی حق مخالفین کے ظلم اور ان کی شرارتوں اور ان کے جاہلانہ اعتراضات و الزامات پر اپنی طبیعت میں اشتعال محسوس کرے تو اسے فوراً سمجھ لینا چاہیے کہ یہ نزغِ شیطانی (یعنی شیطان کی اکساہٹ) ہے اور اسی وقت خدا سے پناہ مانگنی چاہیے کہ اپنے بندے کو اس جوش میں بہ نکلنے سے بچائے ور ایسا بے قابو نہ ہونے دے کہ اُس سے دعوتِ حق کو نقصان پہنچانے والی کوئی حرکت سرزد ہو جائے۔ دعوت حق کا کام بہر حال ٹھنڈے دل سے ہی ہو سکتا ہے اور وہی قدم صحیح اُٹھ سکتا ہے جو جذبات سے مغلوب ہو کر نہیں بلکہ موقع و محل کو دیکھ کر، خوب سوچ سمجھ کر اُٹھایا جائے۔ لیکن شیطان، جو اس کام کو فروغ پاتے ہوئے کبھی نہیں دیکھ سکتا، ہمیشہ اس کوشش میں لگا رہتا ہے کہ اپنے بھائی بندوں سے داعی حق پر طرح طرح کے حملے کرائے اور پھر ہر حملے پر داعی حق کو اکسائے کہ اس حملے کا جواب تو ضرور ہونا چاہیے۔ یہ اپیل جو داعی کے نفس سے کرتا ہے، اکثر بڑی بڑی پر فریب تاویلوں اور مذہبی اصلاحوں کے غلاف میں لپٹا ہوا ہوتا ہے لیکن اس کی تہ میں بجز نفسانیت کے اور کوئی چیز نہیں ہوتی۔ اسی لیے آخری دو آیتوں میں فرمایا کہ جو لوگ متقی (یعنی خدا ترس اور بدی سے بچنے کے خواہشمند) ہیں وہ تو اپنے نفس میں کسی شیطانی تحریک کا اثر اور کسی بُرے خیال کی کھٹک محسوس کرتے ہی فوراً چوکنے ہو جاتے ہیں اور پھر انہیں صاف نظر آ جاتا ہے کہ اس موقع پر دعوتِ دین کا مفاد کس طرزِ عمل کے اختیار کرنے میں ہے اور حق پرستی کا تقاضا کیا ہے۔ رہے وہ لوگ جن کے کام میں نفسانیت کی لاگ لگی ہوئی ہے اور اس وجہ سے جن کا شیاطین کے ساتھ بھائی چارے کا تعلق ہے، تو وہ شیطانی تحریک کے مقابلہ میں نہیں ٹھیر سکتے اور اس سے مغلوب ہو کر غلط راہ پر چل نکلتے ہیں۔ پھر جس جس وادی میں شیطان چاہتا ہے انہیں لیے پھرتا ہے اور کہیں جا کر ان کے قدم نہیں رُکتے۔ مخالف کی ہر گالی کے جواب میں ان کے پاس گالی اور ہر چال کے جواب میں اس سے بڑھ کر چال موجود ہوتی ہے۔
اس ارشاد کا ایک عمومی محمل بھی ہے اور وہ یہ کہ اہلِ تقویٰ کا طریقہ بالعموم اپنی زندگی میں غیر متقی لوگوں سے مختلف ہوتا ہے۔ جو لوگ حقیقت میں خدا سے ڈرنے والے ہیں اور دل سے چاہتے ہیں کہ برائی سے بچیں اُن کا حال یہ ہوتا ہے کہ بُرے خیال کا ایک ذرا سا غبار بھی اگر ان کے دل کو چھو جاتا ہے تو انہیں ویسی ہی کھٹک محسوس ہونے لگتی ہے جیسی کھٹک اُنگلی میں پھانس چُبھ جانے یا آنکھ میں کسی ذرے کے گُر جانے سے محسوس ہوتی ہے۔ چونکہ وہ بُرے خیالات، بُری خواہشات اور بُری نیتوں کے خو گر نہیں ہوتے اس وجہ سے یہ چیزیں ان کے لیے اُسی طرح خلاف مزاج ہوتی ہیں جس طرح اُنگلی کے لیے پھانس یا آنکھ کے لیے ذرہ یا ایک نفیس طبع اور صفائی پسند آدمی کے لیے کپڑوں پر سیاہی کا ایک داغ یا گندگی کی ایک چھینٹ۔ پھر جب یہ کھٹک انہیں محسوس ہو جاتی ہے تو اُن کی آنکھیں کھل جاتی ہیں اور ان کا ضمیر بیدار ہو کر اس غبارِ شر کو اپنے اوپر سے جھاڑ دینے میں لگ جاتا ہے۔ بخلاف اس کے جو لوگ نہ خدا سے ڈرتے ہیں، نہ بدی سے بچنا چاہتے ہیں، اور جن کی شیطان سے لاگ لگی ہوئی ہے، ان کے نفس میں بُرے خیالات، بُرے ارادے، بُرے مقاصد پکتے رہتے ہیں اور وہ ان گندی چیزوں سے کوئی اُپراہٹ اپنے اندر محسوس نہیں کرتے، بالکل اسی طرح جیسے کسی دیگچی میں سور کا گوشت پک رہا ہو اور وہ بے خبر ہو کہ اس کے اندر کیا پک رہا ہے، یا جیسے کسی بھنگی کا جسم اور اس کے کپڑے غلاظت میں لتھڑے ہوئے ہوں اور اسے کچھ احساس نہ ہو کہ وہ کن چیزوں میں آلودہ ہے۔
۱۵۱-کفار کے اس سوال میں ایک صریح طعن کا انداز پایا جاتا تھا۔ یعنی ان کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ میاں جس طرح تم نبی بن بیٹھے ہو اسی طرح کوئی معجزہ بھی چھانٹ کر اپنے لیے بنا لائے ہوتے۔ لیکن آگے ملاحظہ ہو کہ اس طعن کا جواب کس شان سے دیا جاتا ہے۔
۱۵۲-یعنی میرا منصب یہ نہیں ہے کہ جس چیز کی مانگ ہو یا جس کی میں خود ضرورت محسوس کروں اسے خود ایجاد یا تصنیف کر کے پیش کر دوں۔ میں تو ایک رسول ہوں اور میرا منصب صرف یہ ہے کہ جس نے مجھے بھیجا ہے اس کی ہدایت پر عمل کروں۔ معجزے کے بجائے میرے بھیجنے والے نے جو چیز میرے پاس بھیجی ہے وہ یہ قرآن ہے۔ اس کے اندر بصیرت افروز روشنیاں موجود ہیں اور اس کی نمایاں ترین خوبی یہ ہے کہ جو لوگ اس کو مان لیتے ہیں ان کو زندگی کا سیدھا راستہ مل جاتا ہے اور ان کے اخلاقِ حسنہ میں رحمتِ الٰہی کے آثار صاف ہویدا ہونے لگتے ہیں۔
۱۵۳-یعنی یہ جو تعصب اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے تم لوگ قرآن کی آواز سنتے ہی کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیتے ہو اور شور و غل برپا کرتے ہو تا کہ نہ خود سنو اور نہ کوئی دوسرا سن سکے، اس روش کو چھوڑ دو اور غور سے سنو تو سہی کہ اس میں تعلیم کیا دی گئی ہے۔ کیا عجب کہ اس کی تعلیم سے واقف ہو جانے کے بعد تم خود بھی اُسی رحمت کے حصہ دار بن جاؤ جو ایمان لانے والوں کو نصیب ہو چکی ہے۔ مخالفین کی طعن آمیز بات کے جواب میں یہ ایسا لطیف و شیریں اور ایسا دلوں کو مسخر کرنے والا انداز تبلیغ ہے کہ اس کی خوبی کسی طرح بیان کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ جو شخص حکمتِ تبلیغ سیکھنا چاہتا ہو وہ اگر غور کرے تو اس جواب میں بڑے سبق پا سکتا ہے۔
اس آیت کا اصل مقصود تو وہی ہے جو ہم نے اوپر بیان کیا ہے لیکن ضمناً اس سے یہ حکم بھی نکلتا ہے کہ جب خدا کا کلام پڑھا جا رہا ہو تو لوگوں کو ادب سے خاموش ہو جانا چاہیے اور توجہ کے ساتھ اسے سننا چاہیے۔ اس سے یہ بات بھی مُستَنبَط ہوتی ہے کہ امام جب نماز میں قرآن کی تلاوت کر رہا ہو تو مقتدیوں کو خاموشی کے ساتھ اس کی سماعت کرنی چاہیے۔ لیکن اس مسئلہ میں ائمہ کے درمیان اختلاف واقع ہو گیا ہے۔ امام ابو حنیفہؒ اور ان کے اصحاب کا مسلک یہ ہے کہ امام کی قرأت خواہ جہری ہو یا سِرّی، مقتدیوں کو خاموش ہی رہنا چاہیے۔ امام مالکؒ اور امام احمدؒ کی رائے یہ ہے کہ صرف جہری قرأت کی صورت میں مقتدیوں کو خاموش رہنا چاہیے۔ لیکن امام شافعیؒ اس طرف گئے ہیں کہ جہری اور سرّی دونوں صورتوں میں مقتدی کو قرأت کرنی چاہیے کیونکہ بعض احادیث کی بنا پر وہ سمجھے ہیں کہ جو شخص نماز میں سورہ فاتحہ نہ پڑھے اس کی نماز نہیں ہوتی۔
۱۵۴-یاد کرنے سے مراد نماز بھی ہے اور دوسری قسم کی یاد بھی، خواہ وہ زبان سے ہو یا خیال سے۔ صبح و شام سے مراد یہی دونوں وقت بھی ہیں اور ان اوقات میں اللہ کی یاد سے مقصود نماز ہے، اور صبح و شام کا لفظ ’’دائماً‘‘ کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے اور اس سے مقصود ہمیشہ خدا کی یاد میں مشغول رہنا ہے۔ یہ آخری نصیحت ہے جو خطبہ کو ختم کرتے ہوئے ارشاد فرمائی گئی ہے اور اس کی غرض یہ بیان کی گئی ہے کہ تمہارا حال کہیں غافلوں کا سا نہ ہو جائے۔ دنیا میں جو کچھ گمراہی پھیلی ہے اور انسان کے اخلاق و اعمال میں جو فساد بھی رونما ہوا ہے اس کا سبب صرف یہ ہے کہ انسان اس بات کو بھول جاتا ہے کہ خدا اُس کا رب ہے اور وہ خدا کا بندہ ہے اور دنیا میں اُس کو آزمائش کے لیے بھیجا گیا ہے اور دنیا کی زندگی ختم ہونے کے بعد اسے اپنے رب کو حساب دینا ہو گا۔ پس جو شخص راہ راست پر چلنا اور دنیا اُس پر چلانا چاہتا ہو اُس کو سخت اہتمام کرنا چاہیے کہ یہ بھول کہیں خود اُس کو لاحق نہ ہو جائے۔ اسی لیے نماز اور ذکر الٰہی اور دائمی توجہ الی اللہ کی بار بار تاکید کی گئی ہے۔
۱۵۵-مطلب یہ ہے کہ بڑائی کا گھمنڈ اور بندگی سے منہ موڑنا شیاطین کا کام ہے اور اس کا نتیجہ پستی و تنزل ہے۔ بخلاف اس کے خدا کے آگے جھکنا اور بندگی میں ثابت قدم رہنا ملکوتی فعل ہے اور اس کا نتیجہ ترقی و بلندی اور خدا سے تقرب ہے۔ اگر تم اس ترقی کے خواہشمند ہو تو اپنے طرزِ عمل کو شیاطین کے بجائے ملائکہ کے طرزِ عمل کے مطابق بناؤ۔
۱۵۶-تسبیح کرتے ہیں، یعنی وہ اللہ تعالیٰ کا بے عیب اور بے نقص اور بے خطا ہونا، ہر قسم کی کمزوریوں سے اس کا منزہ ہونا، اور اس کا لا شریک اور بے مثل اور ہمتا ہونا دل سے مانتے ہیں، اس کا اقرار و اعتراف کرتے ہیں اور دائماً اس کے اظہار و اعلان میں مشغول رہتے ہیں۔
۱۵۷-اس مقام پر حکم ہے کہ جو شخص اس آیت کو پڑھے یا سنے وہ سجدہ کرے تا کہ اس کا حال ملائکہ مقر بین کے حال سے مطابق ہو جائے اور ساری کائنات کا انتظام چلانے والے کارکن جس خدا کے آگے جھکے ہوئے ہیں اسی کے آگے وہ بھی اس سب کے ساتھ جھک جائے اور اپنے عمل سے فوراً یہ ثابت کر دے کہ وہ نہ تو کسی گھمنڈ میں مبتلا ہے اور نہ خدا کی بندگی سے منہ موڑنے والا ہے۔ قرآن مجید میں ایسے ۱۴ مقامات ہیں جہاں آیات سجدہ آئی ہیں۔ ان آیات پر سجدہ کا مشروع ہونا تو متفق علیہ ہے مگر اس کے وجوب میں اختلاف ہے۔ امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ سجدہ تلاوت کو واجب کہتے ہیں اور دوسرے علماء نے اس کو سنت قرار دیا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم بسا اوقات ایک بڑے مجمع میں قرآن پڑھتے اور اس میں جب آیت سجدہ آتی تو آپ خود بھی سجدہ میں گر جاتے تھے اور جو شخص جہاں ہوتا وہیں سجدہ ریز ہو جاتا تھا، حتیٰ کہ کسی کو سجدہ کرنے کے لیے جگہ نہ ملتی تو وہ اپنے آگے والے شخص کی پیٹھ پر سر رکھ دیتا۔ یہ بھی روایات میں آیا ہے کہ آپ نے فتح مکہ کے موقع پر قرآن پڑھا اور اس میں جب آیت سجدہ آئی تو جو لوگ زمین پر کھڑے تھے انہوں نے زمین پر سجدہ کیا اور جو گھوڑوں اور اونٹوں پر سوار تھے وہ اپنی سواریوں پر ہی جھک گئے۔ کبھی آپ نے دوران خطبہ میں آیت سجدہ پڑھی ہے تو منبر سے اتر کر سجدہ کیا ہے اور پھر اوپر جا کر خطبہ شروع کر دیا ہے۔
اس سجدہ کے لیے جمہور اُنہی شرائط کے قائل ہیں جو نماز کی شرطیں ہیں،یعنی با وضو ہونا، قبلہ رُخ ہونا، اور نماز کی طرح سجدے میں سر زمین پر رکھنا۔ لیکن جتنی احادیث سجود تلاوة کے باب میں ہم کو ملی ہیں ان میں کہیں ان شرطوں کے لئے کو ئی دلیل موجود نہیں ہے۔ اُن سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ آیت سجدہ سن کر جو شخص جہاں جس حال میں ہو جھک جائے، خواہ با وضو ہو یا نہ ہو، خواہ استقبالِ قبلہ ممکن ہو یا نہ ہو، خواہ زمین پر سر رکھنے کا موقع ہو یا نہ ہو،سلف میں بھی ہم کو ایسی شخصیتیں ملتی ہیں جن کا عمل اس طریقے پر تھا۔ چنانچہ امام بخاری نے حضرت عبداللہ بن عمر کے متعلق لکھا ہے کہ وہ وضو کے بغیر سجدہ تلاوت کرتے تھے۔ اور ابو عبدالرحمٰن سُلّمی کے متعلق فتح الباری میں لکھا ہے کہ وہ راستہ چلتے ہوئے قرآن مجید پڑھتے جاتے تھے اور اگر کہیں آیت سجدہ آ جاتی تو بس سر جھکا لیتے تھے، خواہ وضو ہوں یا نہ ہوں، اور خواہ قبلہ رُخ ہوں یا نہ ہوں۔ان وجوہ سے ہم سمجھتے ہیں کہ اگرچہ زیادہ مبنی بر احتیاط مسلک جمہوری کا ہے، لیکن اگر کوئی شخص جمہور کے مسلک کے خلاف عمل کرے تو اسے ملامت بھی نہیں کی جا سکتی، کیونکہ جمہور کی تائید میں کوئی سنت ثابتہ موجود نہیں ہے، اور سلف میں ایسے لوگ پائے گئے ہیں جن کا عمل جمہور کے مسلک سے مختلف تھا۔
٭٭٭
۸۔ الانفال
زمانۂ نزول
یہ سورت ۲ ھ میں جنگ بدر کے بعد نازل ہوئی اور اس میں اسلام و کفر کی اس پہلی جنگ پر مفصل تبصرہ کیا گیا ہے۔ جہاں تک سورت کے مضمون پر غور کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ غالباً یہ ایک ہی تقریر ہے جو بیک وقت نازل فرمائی گئی ہو گی مگر ممکن ہے کہ اس کی بعض آیات جنگ بدر ہی سے پیدا شدہ مسائل کے متعلق بعد میں اتری ہوں اور پھر ان کو سلسلۂ تقریر میں مناسب مقامات پر درج کر کے ایک مسلسل تقریر بنا دیا گیا ہو۔ بہرحال کلام میں کہیں کوئی ایسا جوڑ نظر نہیں آتا جس سے یہ گمان کیا جا سکے کہ یہ الگ الگ دو تین خطبوں کا مجموعہ ہے۔
تاریخی پس منظر
سورت پر تبصرے سے قبل جنگ بدر اور اس سے تعلق رکھنے والے حالات پر تاریخی نگاہ ڈالنا ضروری ہے۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی دعوت ابتدائی دس بارہ سال میں، جبکہ آپ مکہ معظمہ میں مقیم تھے، اس حیثیت سے اپنی پختگی اور استواری ثابت کر چکی تھی کہ ایک طرف اس کی پشت پر ایک بلند سیرت، عالی ظرف اور دانشمندانہ علمبردار موجود تھا جو اپنی شخصیت کا پورا سرمایہ اس کام میں لگا چکا تھا اور اس کے طرز عمل سے یہ حقیقت پوری طرح نمایاں ہو چکی تھی کہ وہ اس دعوت کو انتہائی کامیابی کی منزل تک پہنچانے کے لیے اٹل ارادہ رکھتا ہے اور اس مقصد کی راہ میں ہر خطرے کو انگیز کرنے اور ہر مشکل کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہے۔ دوسری طرف اس دعوت میں خود ایسی کشش تھی کہ وہ دلوں اور دماغوں میں سرایت کرتی چلی جا رہی تھی اور جہالت و جاہلیت اور تعصبات کے حصار اس کی راہ روکنے میں ناکام ثابت ہو رہے تھے۔ اسی وجہ سے عرب کے پرانے نظام جاہلی کی حمایت کرنے والے عناصر، جو ابتداً اس کو استخفاف کی نظر سے دیکھتے تھے، مکی دور کے آخری زمانے میں اسے ایک سنجیدہ خطرہ سمجھنے لگے تھے اور اپنا پورا زور اسے کچل دینے میں صرف کر دینا چاہتے تھے۔ لیکن اُ وقت تک چند حیثیات سے اس دعوت میں بہت کچھ کسر باقی تھی:
اولاً، یہ بات ابھی پوری طرح ثابت نہیں ہوئی تھی کہ اس کو ایسے پیرووں کی ایک کافی تعداد بہم پہنچ گئی ہے جو صرف اس کے ماننے والے ہی نہیں ہیں، بلکہ اس کے اصولوں کا سچا عشق بھی رکھتے ہیں، اس کو غالب و نافذ کرنے کی سعی میں اپنی ساری قوتیں اور اپنا تمام سرمایۂ زندگی کھپا دینے کے لیے تیار ہیں، اور اس کی خاطر اپنی ہر چیز قربان کر دینے کے لیے دنیا بھر سے لڑ جانے کے لیے حتیٰ کہ اپنے عزیز ترین رشتہ دار وں کو بھی کاٹ پھینکنے کے لیے آمادہ ہیں۔ اگرچہ مکہ میں پیروانِ اسلام نے قریش کو ظلم و ستم برداشت کر کے اپنی صداقتِ ایمانی اور اسلام کے ساتھ اپنے تعلق کی مضبوطی کا اچھا خاصا ثبوت دے دیا تھا، مگر ابھی یہ ثابت ہونے کے لیے بہت سی آزمائش باقی تھیں کہ دعوتِ اسلامی کو جانفروش پیرووں کا وہ گروہ میسر آ گیا ہے جو اپنے نصب العین کے مقابلے میں کسی چیز کو بھی عزیز تر نہیں رکھتا۔
ثانیاً اس دعوت کی آواز اگرچہ سارے ملک میں پھیل گئی تھی، لیکن اس کے اثرات منتشر تھے، اس کی فراہم کردہ قوت سارے ملک میں پراگندہ تھی، اس کو وہ اجتماعی طاقت بہم نہ پہنچی تھی جو پرانے جمے ہوئے نظام جاہلیت سے فیصلہ کن مقابلے کے لیے ضروری تھی۔
ثالثاً اس دعوت نے زمین میں کسی بھی جگہ جڑ نہیں پکڑی تھی بلکہ ابھی تک وہ صرف ہوا میں سرایت کر رہی تھی۔ ملک کا کوئی خطہ ایسا نہ تھا جہاں وہ قدم جما کر اپنے موقف کو مضبوط کرتی اور پھر آگے بڑھنے کی سعی کرتی۔ اُ وقت تک جو مسلمان جہاں بھی تھا اس کی حیثیت نظام کفر و شرک میں بالکل ایسی تھی جیسے خالی معدے میں کُنِین، کہ معدہ ہر وقت اسے اُگل دینے کے لیے زور لگا رہا ہو اور قرار پکڑنے کے لیے اس کو جگہ ہی نہ ملتی ہو۔
رابعاً اس وقت تک اس دعوت کو عملی زندگی کے معاملات اپنے ہاتھ میں لے کر چلانے موقع نہیں ملا تھا، نہ یہ اپنا تمدن قائم کر سکی تھی، نہ اس نے اپنا نظامِ معیشت و معاشرت اور نظام سیاست مرتب کیا تھا اور نہ دوسری طاقتوں سے اس کے معاملاتِ صلح و جنگ پیش آئے تھے۔ اس لیے نہ تو ان اخلاقی اصولوں کا مظاہرہ ہو سکا تھا جن پر یہ دعوت زندگی کے پورے نظام کو قائم کرنا اور چلانا چاہتی تھی، اور نہ یہی بات آزمائش کی کسوٹی پر اچھی طرح نمایاں ہوئی تھی کہ اس دعوت کا پیغمبر اور اس کے پیرووں کا گروہ جس چیز کی طرف دنیا کو دعوت دے رہا ہے اس پر عمل کرنے میں وہ خود کس حد تک راستباز ہے۔
بعد کے واقعات نے وہ مواقع پیدا کر دیے جن سے یہ چاروں یکساں پوری ہو گئیں۔
مکی دور کے آخری تین چار سالوں سے یثرب میں آفتابِ اسلام کی شعاعیں مسلسل پہنچ رہی تھیں اور وہاں کے لوگ متعدد وجوہ سے عرب کے دوسرے قبیلوں کی بہ نسبت زیادہ آسانی کے ساتھ اس روشنی کو قبول کرتے جا رہے تھے۔ آخر کار نبوت کے بارہویں سال حج کے موقع پر ۷۵ نفوس کا ایک وفد نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے رات کی تاریکی میں ملا اور اس نے نہ صرف یہ کہ اسلام قبول کیا بلکہ آپ کو اور آپ کے پیرووں کو اپنے شہر میں جگہ دینے پر بھی آمادگی ظاہر کی۔ یہ اسلام کی تاریخ میں ایک انقلابی موقع تھا جسے خدا نے اپنی عنایت سے فراہم کیا اور نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہاتھ بڑھا کر پکڑ لیا۔ اہلِ یثرب نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو محض ایک پناہ گزیں کی حیثیت سے نہیں بلکہ خدا کے نائب اور اپنے امام و فرمانروا کی حیثیت سے بلا رہے تھے اور اسلام کے پیرووں کو ان کا بلاوا اس لیے نہ تھا کہ وہ اکی اجنبی سرزمین میں محض مہاجر ہونے کی حیثیت سے جگہ پالیں، بلکہ مقصد یہ تھا کہ عرب کے مختلف قبائل اور خطوں میں جو مسلمان منتشر ہیں وہ یثرب میں جمع ہو کر اور یثربی مسلمانوں کے ساتھ مل کر ایک منظم معاشرہ بنا لیں۔ اس طرح یثرب نے دراصل اپنے آپ کو "مدینۃ الاسلام” کی حیثیت سے پیش کیا اور نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اسے قبول کر کے عرب میں پہلا دار الاسلام بنایا۔
اس پیشکش کے معنی جو کچھ تھے اس سے اہل مدینہ ناواقف نہ تھے۔ اس کے صاف معنی یہ تھے کہ ایک چھوٹا سا قصبہ اپنے آپ کو پورے ملک کی تلواروں اور معاشی و تمدنی بائیکاٹ کے مقابلے میں پیش کر رہا تھا۔ چنانچہ بیعتِ عَقَبہ کے موقع پر رات کی اُس مجلس میں اسلام کے ان اولین مدد گاروں (انصار) نے اس نتیجے کو خوب اچھی طرح جان کر نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہاتھ میں ہاتھ دیا تھا۔ عین اس وقت جبکہ بیعت ہو رہی تھی۔ یثربی وفد کے ایک نوجوان رکن اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ جو پورے وفد میں سب سے کم سن تھے، اٹھ کر کہا:
"ٹھہرو اے اہل یثرب! ہم لوگ جو ان کے پاس آئے ہیں تو یہ سمجھتے ہوئے آئے ہیں کہ یہ اللہ کے رسول ہیں اور آج انہیں یہاں سے نکال کر لے جانا تمام عرب سے دشمنی مول لینا ہے۔ اس کے نتیجے میں تمہارے نونہال قتل ہوں گے اور تلواریں تم پر برسیں گی۔ لہٰذا اگر تم اس کو برداشت کرنے کی طاقت اپنے اندر پاتے ہو تو ان کا ہاتھ پکڑوں اور اس کا اجر اللہ کے ذمہ ہے اور اگر تمہیں اپنی جانیں عزیز ہیں تو پھر چھوڑ دو اور صاف صاف عذر کر دو کیونکہ اسی وقت عذر کر دینا خدا کے نزدیک زیادہ قابل قبول ہو سکتا ہے "۔
اسی بات کو وفد کے ایک دوسرے شخص عباس بن عبادہ نے دہرایا:
"جانتے ہو اس شخص سے کس چیز کی بیعت کر رہے ہو؟ (آوازیں : ہاں ہم جانتے ہیں ) تم ان کے ہاتھ پر بیعت کر کے دنیا بھر سے لڑائی مول لے رہے ہو۔ پس اگر تمہارا خیال یہ ہو کہ جب تمہارے مال تباہی کے اور تمہارے اشراف ہلاکت کے خطرے میں پڑ جائیں تو تم انہیں دشمنوں کے حوالے کر دوں تو بہتر ہے کہ آج ہی انہیں چھوڑ دو کیونکہ خدا کی قسم یہ دنیا اور آخرت کی رسوائی ہے اور اگر تمہارا ارادہ یہ ہے کہ جو بلاوا تم اس شخص کو دے رہے ہو اس کو اپنے اموال کی تباہی اور اپنے اشراف کی ہلاکت کے باوجود نباہو گے تو بے شک ان کا ہاتھ تھام لو کہ خدا کی قسم یہ دنیا اور آخرت کی بھلائی ہے "۔
اس پر تمام وفد نے بالاتفاق کہا کہ
"ہم انہیں لے کر اپنے اموال کی تباہی اور اپنے اشراف کو ہلاکت کے خطرے میں ڈالنے کے لیے تیار ہیں ”
تب وہ مشہور بیعت واقع ہوئی جسے تاریخ میں "بیعت عقبہ ثانیہ” کہتے ہیں۔
دوسری طرف اہل مکہ کے لیے یہ معاملہ جو معنی رکھتا تھا وہ بھی کسی سے پوشیدہ نہ تھا۔ دراصل اس طرح محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو، جن کی زبردست شخصیت اور غیر معمولی قابلیتوں سے قریش کے لوگ واقف ہو چکے تھے، ایک ٹھکانہ میسر آ رہا تھا اور ان کی قیادت و رہنمائی اور پیروانِ اسلام، جن کی عزیمت و استقامت اور فدائیت کو بھی قریش ایک حد تک آزما چکے تھے، ایک منظم جتھے کی صورت میں مجتمع ہوئے جاتے تھے۔ یہ پرانے نظام کے لیے موت کا پیغام تھا۔ نیز مدینہ جیسے مقام پر مسلمانوں کی اس طاقت کے مجتمع ہونے سے قریش کو مزید یہ خطرہ تھا کہ یمن سے شام کی طرف جو تجارتی شاہراہ ساحل بحیرہ احمر کے کنارے کنارے جاتی تھی، جس کے محفوظ رہنے پر قریش اور دوسرے بڑے بڑے مشرک قبائل کی معاشی زندگی کا انحصار تھا، وہ مسلمانوں کی زد میں آ جاتی تھی اور اس شہ رگ پر ہاتھ ڈال کر مسلمان نظامِ جاہلی کی زندگی دشوار کر سکتے تھے اور صرف اہل مکہ کی وہ تجارت جو اس شاہراہ کے بل پر چل رہی تھی ڈھائی لاکھ اشرفی سالانہ تک پہنچتی تھی۔ طائف اور دوسرے مقامات کی تجارت اس کے ماسوا تھی۔
قریش ان نتائج کو خوب سمجھتے تھے، جس رات بیعت عقبہ واقع ہوئی اسی رات اس معاملے کی بھنک اہل مکہ کے کانوں میں پڑی اور پڑتے ہی کھلبلی مچ گئی۔ پہلے تو انہوں نے اہل مدینہ کو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے توڑنے کی کوشش کی۔ پھر جب مسلمان ایک ایک دو دو کر کے مدینہ کی طرف ہجرت کرنے لگے اور قریش کو یقین ہو گیا کہ اب محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بھی وہاں منتقل ہو جائیں گے تو وہ اس خطرے کو روکنے کے لیے آخری چارۂ کار اختیار کرنے پر آمادہ ہو گئے۔ ہجرت نبوی سے چند روز پہلے قریش کی مجلس شوریٰ منعقد ہوئی جس میں بڑی رد و کد کے بعد آخر کار یہ طے پا گیا کہ بنی ہاشم کے سوا تمام خانوادہ ہائے قریش کا ایک ایک آدمی چھانٹا جائے اور یہ سب مل کر محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو قتل کریں تاکہ بنی ہاشم کے لیے تمام خاندانوں سے تنہا لڑنا مشکل ہو جائے اور وہ انتقام کے بجائے خوں بہا قبول کرنے پر مجبور ہو جائیں لیکن خدا کے فضل اور نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اعتماد علی اللہ اور حُسنِ تدبیر سے اُن کی یہ چال ناکام ہو گئی اور حضور بخیریت مدینہ پہنچ گئے۔
اس طرح جب قریش کو ہجرت کے روکنے میں ناکامی ہوئی تو انہوں نے مدینہ کے سردار عبداللہ بن اُبی کو (جسے ہجرت سے پہلے اہل مدینہ اپنا بادشاہ بنانے کی تیاری کر چکے تھے اور جس کی تمناؤں پر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے مدینہ پہنچ جانے اور اوس و خزرج کی اکثریت کے مسلمان ہو جانے سے پانی پھر چکا تھا) خطا لکھا کہ”تم لوگوں نے ہمارے آدمی کو اپنے ہاں پناہ دی ہے، ہم خدا کی قسم کھاتے ہیں کہ یا تو تم خود اس سے لڑو یا اس سے نکال دو، ورنہ ہم سب تم پر حملہ آور ہوں گے اور تمہارے مردوں کو قتل اور عورتوں کو لونڈیاں بنا لیں گے "۔ عبداللہ بن ابی اس پر کچھ آمادۂ شر ہوا،مگر نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بروقت اس کے شر کی روک تھام کر دی۔ پھر سعد بن معاذ رئیس مدینہ عمرے کے لیے گئے۔ وہاں عین حرم کے دروازے پر ابو جہل نے ان کو ٹوک کر کہا: "تم تو ہمارے دین کے مرتدوں کو پناہ دو اور ان کی امداد و اعانت کا دم بھرو اور ہم تمہیں اطمینان سے مکے میں طواف کرنے دیں ؟ اگر تم امیہ بن خلف کے مہمان نہ ہوتے تو زندہ یہاں سے نہیں جا سکتے تھے۔ سعد نے جواب میں کہا: "بخدا اگر تم نے مجھے اس چیز سے روکا تو میں تمہیں اس چیز سے روک دوں گا جو تمہارے لیے اس سے شدید تر ہے، یعنی مدینہ پر سے تمہاری رہ گزر”۔یہ گویا اہل مکہ کی طرف سے اس بات کا اعلان تھا کہ زیارت بیت اللہ کی راہ مسلمانوں پر بند ہے اور اس کا جواب اہل مدینہ کی طرف سے یہ تھا کہ شامی تجارت کا راستہ مخالفین کے لیے پر خطر ہے۔
اور فی الواقع اس وقت مسلمانوں کے لیے اس کے سوا کوئی تدبیر بھی نہ تھی کہ اس تجارتی شاہراہ پر اپنی گرفت مضبوط کریں تاکہ قریش اور وہ دوسرے قبائل جن کا مفاد اس راستے سے وابستہ تھا، اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ اپنی معاندانہ و مزاحمانہ پالیسی پر نظر ثانی کرنے کے لیے مجبور ہو جائیں۔ چنانچہ مدینہ پہنچتے ہی نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نوخیز اسلامی سوسائٹی کے ابتدائی نظم و نسق اور اطراف مدینہ کی یہودی آبادیوں کے ساتھ معاملہ طے کرنے کے بعد سب سے پہلے جس چیز پر توجہ منعطف فرمائی وہ اسی شاہراہ کا مسئلہ تھا۔ اس مسئلے پر حضور نے دو اہم تدبیریں اختیار کیں۔
ایک یہ کہ مدینہ اور ساحل بحیرہ احمر کے درمیان اس شاہراہ سے متصل جو قبائل آباد تھے ان کے ساتھ گفت و شنید شروع کی تاکہ وہ حلیفانہ اتحاد یا کم از کم نا طرفداری کے معاہدے کر لیں۔ چنانچہ اس میں آپ کو پوری کامیابی ہوئی۔ سب سے پہلے جُہَینَنہ سے، جو ساحل کے قریب پہاڑی علاقے میں ایک اہم قبیلہ تھا، معاہدۂ ناطرفداری طے ہوا۔ پھر ۱ھ کے آخر میں بنی ضَمرَہ سے، جن کا علاقہ یَنبُع اور ذوالعُشَیرہ سے متصل تھا، دفاعی معاونت (Defensive alliance) کی قرارداد ہوئی۔ پھر ۲ھ کے وسط میں بنی مُدلِج بھی اس قرارداد میں شریک ہو گئے کیونکہ وہ بنی ضمرہ کے ہمسائے اور حلیف تھے۔ مزید برآں تبلیغ اسلام نے ان قبائل میں اسلام کے حامیوں اور پیرووں کا بھی ایک اچھا خاصا عنصر پیدا کر دیا۔
دوسری تدبیر آپ نے یہ اختیار کی کہ قریش کے قافلوں کو دھمکی دینے کے لیے اس شاہراہ پر پیہم چھوٹے چھوٹے دستے بھیجنے شروع کیے اور بعض دستوں کے ساتھ آپ خود بھی تشریف لے گئے۔ پہلے سال اس طرح کے چار دستے گئے جو مغازی کی کتابوں میں سریہ حمزہ، سریہ عبیدہ بن حارث، سریہ سعد بن ابی وقاص اور غزوۃ البواء کے نام سے موسوم ہیں۔
اور دوسرے سال کے ابتدائی مہینوں میں دو مزید تاختیں اسی جانب کی گئیں جن کو اہل مغازی غزوۂ بواط اور غزوۂ ذوالعُشَیرہ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ ان تمام مہمات کی دو خصوصیتیں قابل لحاظ ہیں۔ ایک یہ کہ ان میں سے کسی میں نہ تو کشت و خون ہوا اور نہ کوئی قافلہ لوٹا گیا جس سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ان تاختوں کا اصل مقصود قریش کو ہوا کا رخ بتانا تھا۔ دوسرے یہ کہ ان میں سے کسی تاخت میں بھی حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اہل مدینہ کا کوئی آدمی نہیں لیا بلکہ تمام دستے خالص مکی مہاجرین سے ہی مرتب فرماتے رہے تاکہ حتی الامکان یہ کشمکش قریش کے اپنے ہی گھر والوں تک محدود رہے اور دوسرے قبائل کے اس میں الجھنے سے آگ پھیل نہ جائے۔ ادھر سے اہل مکہ بھی مدینہ کی طرف غارت گر دستے بھیجتے رہے، چنانچہ انہی میں سے ایک دستے نے کُرز بن جابر الفہری کی قیادت میں عین مدینہ کے قریب ڈاکہ مارا اور اہل مدینہ کے مویشی لوٹ لیے۔ قریش کی کوشش اس سلسلے میں یہ رہی کہ دوسرے قبائل کو بھی اس کشمکش میں الجھا دیں، نیز یہ کہ انہوں نے بات کو محض دھمکی تک محدود نہ رکھا بلکہ لوٹ مار تک نوبت پہنچا دی۔
حالات یہاں تک پہنچ چکے تھے کہ شعبان ۲ھ (فروری یا مارچ ۶۲۳ء) میں قریش کا ایک بہت بڑا قافلہ، جس کے ساتھ تقریباً ۵۰ ہزار اشرفی کا مال تھا اور تیس چالیس سے زیادہ محافظ نہ تھے، شام سے مکہ کی طرف پلٹتے ہوئے اس علاقے میں پہنچا جو مدینہ کی زد میں تھا۔ چونکہ مال زیادہ تھا، محافظ کم تھے اور سابق حالات کی بنا پر قوی خطرہ تھا کہ کہیں مسلمانوں کا کوئی طاقتور دستہ اس پر چھاپہ نہ مار دے، اس لیے سردارِ قافلہ ابو سفیان نے اس پر خطر علاقے میں پہنچتے ہی ایک آدمی کو مکہ کی طرف دوڑا دیا تاکہ وہاں سے مدد لے آئے۔ اس شخص نے مکہ پہنچتے ہی عرب کے قدیم قاعدے کے تحت اپنے اونٹ کے کان کاٹے۔ اس کی ناک چیر دی، کجاوے کو الٹ کر رکھ دیا اور اپنا قمیص آگے پیچھے سے پھاڑ کر شور مچانا شروع کر دیا کہ:
قریش والو! اپنے قافلۂ تجارت کی خبر لو، تمہارے مال جو ابو سفیان کے ساتھ ہیں، محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنے آدمی لے کر ان کے درپے ہو گیا ہے، مجھے امید نہیں کہ تم انہیں پا سکو گے، دوڑو دوڑو مدد کے لیے۔
اس پر سارے مکہ میں ہیجان برپا ہو گیا۔ قریش کے تمام بڑے بڑے سردار جنگ کے لیے تیار ہو گئے۔ تقریباً ایک ہزار مردان جنگی جن میں سے ۶۰۰ زرہ پوش تھے اور ۱۰۰ سواروں کا رسالہ بھی شامل تھا، پوری شان و شوکت کے ساتھ لڑنے کے لیے چلے۔
ان کے پیش نظر صرف یہی کام نہ تھا کہ اپنے قافلے کو بچا لائیں بلکہ وہ اس ارادے سے نکلے تھے کہ اس آئے دن کے خطرے کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دیں اور مدینہ میں یہ مخالف طاقت جو ابھی نئی نئی مجتمع ہوئی ہے اسے کچل ڈالیں اور اس کے نواح کے قبائل کو اس حد تک مرعوب کر دیں کہ آیندہ کے لیے یہ تجارتی راستہ بالکل محفوظ ہو جائے۔
اب نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے، جو حالات سے ہمیشہ با خبر رہتے تھے، محسوس فرمایا کہ فیصلے کی گھڑی آ پہنچی ہے اور یہ ٹھیک وہ وقت ہے جبکہ ایک جسورانہ اقدام اگر نہ کر ڈالا گیا تو تحریک اسلامی ہمیشہ کے لیے بے جان ہو جائے گی، بلکہ بعید نہیں کہ اس تحریک کے لیے سر اٹھانے کا پھر کوئی موقع ہی باقی نہ رہے۔ نئے دار الہجرت میں آئے ابھی پورے دو سال بھی نہیں ہوئے ہیں۔ مہاجرین بے سر و سامان، انصار ابھی نا آزمودہ، یہودی قبائل برسر مخالفت، خود مدینہ میں منافقین و مشرکین کا ایک اچھا خاصا طاقتور عنصر موجود اور گرد و پیش کے تمام قبائل قریش سے مرعوب بھی اور مذہباً ان کے ہمدرد بھی۔ ایسے حالات میں اگر قریش مدینہ پر حملہ آور ہو جائیں تو ہو سکتا ہے کہ مسلمانوں کی مٹھی بھر جماعت کا خاتمہ ہو جائے لیکن اگر وہ حملہ نہ کریں اور صرف اپنے زور سے قافلے کو بچا کر ہی نکال لے جائیں اور مسلمان دبکے بیٹھے رہیں تب بھی یک لخت مسلمانوں کی ایسی ہوا اکھڑے گی کہ عرب کا بچہ بچہ ان پر دلیر ہو جائے گا اور ان کے لیے ملک بھر میں پھر کوئی جائے پناہ باقی نہ رہے گی۔ آس پاس کے سارے قبائل قریش کے اشاروں پر کام کرنا شروع کر دیں گے۔ مدینہ کے یہودی اور منافقین و مشرکین علی الاعلان سر اٹھائیں گے اور دار الہجرت میں جینا مشکل کر دیں گے۔ مسلمانوں کا کوئی رعب و اثر نہ ہو گا کہ اس کی وجہ سے کسی کو ان کی جان و مال اور آبرو پر ہاتھ ڈالنے میں تامل ہو۔ اس بنا پر نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عزم فرما لیا کہ جو طاقت بھی اس وقت میسر ہے اسے لے کر نکلیں اور میدان میں فیصلہ کریں کہ جینے کا بل بوتا کس میں ہے اور کس میں نہیں۔
اس فیصلہ کن اقدام کا ارادہ کر کے آپ نے انصار و مہاجرین کو جمع کیا اور ان کے سامنے ساری پوزیشن صاف صاف رکھ دی کہ ایک طرف شمال میں تجارتی قافلہ ہے اور دوسری طرف جنوب سے قریش کا لشکر چلا آ رہا ہے، اللہ کا وعدہ ہے کہ ان دونوں میں سے کوئی ایک تمہیں مل جائے گا، بتاؤ تم کس کے مقابلے پر چلنا چاہتے ہو؟ جواب میں ایک بڑے گروہ کی طرف سے اس خواہش کا اظہار ہوا کہ قافلے پر حملہ کیا جائے۔ لیکن نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پیش نظر کچھ اور تھا اس لیے آپ نے اپنا سوار دہرایا۔ اس پر مہاجرین میں سے مقداد بن عمرو نے اٹھ کر کہا:
یا رسول اللہ! جدھر آپ کا رب آپ کو حکم دے رہا ہے اس طرف چلیے۔ ہم آپ کے ساتھ ہیں جس طرف بھی آپ جائیں۔ ہم بنی اسرائیل کی طرف یہ کہنے والے نہیں ہیں کہ جاؤ تم اور تمہارا خدا دونوں لڑیں ہم تو یہاں بیٹھے ہیں، نہیں ہم کہتے ہیں کہ چلیے آپ اور آپ کا خدا، دونوں لڑیں اور ہم آپ کے ساتھ جانیں لڑائیں گے جب تک ہم میں سے ایک آنکھ بھی گردش کر رہی ہے
مگر لڑائی کا فیصلہ انصار کی رائے معلوم کیے بغیر نہیں کیا جا سکتا تھا کیونکہ ابھی تک فوجی اقدامات میں ان سے کوئی مدد نہیں لی گئی تھی اور ان کے لیے آزمائش کا پہلا موقع تھا کہ اسلام کی حمایت کا جو عہد انہوں نے اول روز کیا ا تھا اسے وہ کہاں تک نباہنے کے لیے تیار ہیں۔ اس لیے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے براہ راست ان کو مخاطب کیے بغیر پھر اپنا سوال دہرایا۔ اس پر سعد بن معاذ اٹھے اور انہوں نے عرض کیا شاید حضور کا روئے سخن ہماری طرف ہے ؟ فرمایا ہاں۔ انہوں نے کہا
ہم آپ پر ایمان لائے ہیں، آپ کی تصدیق کر چکے ہیں کہ آپ جو کچھ لائے ہیں وہ حق ہے اور آپ سے سمع و طاعت کا پختہ عہد باندھ چکے ہیں۔ پس اے اللہ کے رسول! جو کچھ آپ نے ارادہ فرما لیا ہے اسے کر گزریئے۔ قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے، اگر آپ ہمیں لے کر سامنے سمندر پر جا پہنچیں اور اس میں اتر جائیں تو ہم آپ کے ساتھ کودیں گے اور ہم میں سے ایک بھی پیچھے نہ رہے گا۔ ہم کو یہ ہرگز ناگوار نہیں ہے کہ آپ کل ہمیں لے کر دشمن سے جا بھڑیں، ہم جنگ میں ثابت قدم رہیں گے، مقابلے میں سچی جاں نثاری دکھائیں گے اور بعید نہیں کہ اللہ آپ کو ہم سے وہ کچھ دکھوا دے جسے دیکھ کر آپ کی آنکھیں ٹھنڈی ہو جائیں، پس اللہ کی برکت کے بھروسے پر آپ ہمیں لے چلیں۔
ان تقریروں کے بعد فیصلہ ہو گیا کہ قافلے کے بجائے لشکر قریش ہی کے مقابلے پر چلنا چاہیے لیکن یہ فیصلہ کوئی معمولی فیصلہ نہ تھا، جو لوگ اس تنگ وقت میں لڑائی کے لیے اٹھے تھے ان کی تعداد ۳۰۰ سے کچھ زائد تھی (۸۶ مہاجر، ۶۱ قبیلۂ اوس کے اور ۱۷۰ قبیلۂ خزرج کے ) جن میں سے صرف دو تین کے پاس گھوڑے تھے اور باقی آدمیوں کے لیے ۱۷۰ سے زیادہ اونٹ نہ تھے جن پر تین تین چار چار اشخاص باری باری سوار ہوتے تھے۔ سامان جنگ بھی بالکل ناکافی تھا، صرف ۶۰ آدمیوں کے پاس زرہیں تھیں۔ اسی لیے چند سرفروش فدائیوں کے سوا اکثر آدمی جو اس خطرناک مہم میں شریک تھے دلوں میں سہم رہے تھے اور انہیں ایسا محسوس ہوتا تھا کہ جانتے بوجھتے موت کے منہ میں جا رہے ہیں۔ مصلحت پرست لوگ، جو اگرچہ دائرۂ اسلام میں داخل ہو چکے تھے مگر ایسے ایمان کے قائل نہ تھے جس میں جان و مال کا زیاں ہو، اس مہم کو دیوانگی سے تعبیر کر رہے تھے اور ان کا خیال تھا کہ دینی جذبے نے ان لوگوں کو پاگل بنا دیا ہے۔ مگر نبی اور مومنین صادقین یہ سمجھ چکے تھے کہ یہ وقت جان کی بازی لگانے کا ہی ہے اس لیے اللہ کے بھروسے پر وہ نکل کھڑے ہوئے اور انہوں نے سیدھی جنوب مغرب کی راہ لی جدھر سے قریش کا لشکر آ رہا تھا۔ حالانکہ اگر ابتدا میں قافلے کو لوٹنا مقصود ہوتا تو شمال مغرب کی رہ لی جاتی۔
۱۷ رمضان المبارک کو بدر کے مقام پر فریقین کا مقابلہ ہوا۔ جس وقت دونوں لشکر ایک دوسرے کے مقابلے ہوئے اور نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دیکھا کہ تین کافروں کے مقابلے میں ایک مسلمان ہے اور وہ بھی پوری طرح مسلح نہیں ہے تو خدا کے آگے دعا کے لیے ہاتھ پھیلا دیے اور انتہائی خضوع و تضرع کے ساتھ عرض کرنا شروع کیا
خدایا، یہ ہیں قریش، اپنے سامان غرور کے ساتھ آئے ہیں تاکہ تیرے رسول کو جھوٹا ثابت کریں، خداوند! بس اب آ جائے تیری وہ مدد جس کا تو نے مجھ سے وعدہ کیا تھا، اے خدا اگر آج یہ مٹھی بھر جماعت ہلاک ہو گئی تو روئے زمین پر پھر تیری عبادت نہ ہو گی۔
اس معرکۂ کارزار میں سب سے زیادہ سخت امتحان مہاجرین مکہ تھا کہ جن کے اپنے بھائی بند سامنے صف آرا تھے۔ کسی کا باپ، کسی کا بیٹا، کسی کا ماموں، کسی کا بھائی اس کی اپنی تلوار کی زد میں آ رہا تھا اور اپنے ہاتھوں اپنے جگر کے ٹکڑے کاٹنے پڑ رہے تھے۔ اس کڑی آزمائش سے صرف وہی لوگ گزر سکتے تھے جنہوں نے پوری سنجیدگی کے ساتھ حق سے رشتہ جوڑا ہو اور جو باطل کے ساتھ سارے رشتے قطع کر ڈالنے پر تل گئے ہوں اور انصار کا امتحان بھی کچھ کم سخت نہ تھا۔ اب تک تو انہوں نے عرب کے طاقتور ترین قبیلے قریش اور اس کے حلیف قبائل کی دشمنی صرف اسی حد تک مول لی تھی کہ ان کے علی الرغم مسلمانوں کو اپنے ہاں پناہ دی تھی۔ لیکن اب تو وہ اسلام کی حمایت میں ان کے خلاف لڑنے بھی جا رہے تھے جس کے معنی یہ تھے کہ ایک چھوٹی سی بستی جس کی آبادی چند ہزار نفوس سے زیادہ نہیں ہے، سارے ملک عرب سے لڑائی مول لے رہی ہے۔ یہ جسارت صرف وہی لوگ کر سکتے تھے جو کسی صداقت پر ایسا ایمان لے آئے ہوں کہ اس کی خاطر اپنے ذاتی مفاد کی انہیں ذرہ برابر پروا نہ رہی ہو۔ آخر کار ان لوگوں کی صداقتِ ایمانی خدا کی طرف سے نصرت کا انعام حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی اور قریش اپنے سارے غرور و طاقت کے باوجود ان بے سر و سامان فدائیوں کے ہاتھوں شکست کھا گئے۔ ان کے ۷۰ آدمی مارے گئے، ۷۰ قید ہوئے اور ان کا سر و سامان غنیمت میں مسلمانوں کے ہاتھ آیا۔ قریش کے بڑے بڑے سردار جو ان کے گلہائے سر سبد اور اسلام کی مخالف تحریک کے روح رواں تھے اس معرکے میں ختم ہو گئے اور اس فیصلہ کن فتح نے عرب میں اسلام کو ایک قابل لحاظ طاقت بنا دیا۔ جیسا کہ ایک مغربی محقق نے لکھا ہے کہ
بدر سے پہلے اسلام محض ایک مذہب اور ریاست تھا مگر بدر کے بعد وہ مذہبِ ریاست بلکہ خود ریاست بن گیا۔
مباحث
یہ ہے وہ عظیم الشان معرکہ جس پر قرآن کی اس سورت میں تبصرہ کیا گیا ہے۔ مگر اس تبصرے کا انداز تمام اُن تبصروں سے مختلف ہے جو دنیوی بادشاہ اپنی فوج کی فتح یابی کے بعد کیا کرتے ہیں۔ اس میں سب سے پہلے ان خامیوں کی نشاندہی کی گئی ہے جو اخلاقی حیثیت سے ابھی مسلمانوں میں باقی تھیں تاکہ آئندہ اپنی مزید تکمیل کے لیے سعی کریں۔ پھر ان کو بتایا گیا کہ اس فتح میں تائید الٰہی کا کتنا بڑا حصہ تھا تاکہ وہ اپنی جرات و شہامت پر نہ پھولیں بلکہ خدا پر توکل اور خدا و رسول کی اطاعت کا سبق لیں۔ پھر اس اخلاقی مقصد کو واضح کیا گیا ہے جس کے لیے مسلمانوں کو یہ معرکۂ حق و باطل برپا کرنا ہے اور ان اخلاقی صفات کی توضیح کی گئی ہے جن سے اس معرکے میں انہیں کامیابی حاصل ہو سکتی ہے۔ پھر مشرکین اور منافقین اور یہود اور ان لوگوں کو جو جنگ میں قید ہو کر آئے تھے، نہایت سبق آموز انداز میں خطاب کیا گیا ہے۔ پھر ان اموال کے متعلق، جو جنگ میں ہاتھ آئے تھے، مسلمانوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ انہیں اپنا مال نہ سمجھیں بلکہ خدا کا مال سمجھیں، جو کچھ اللہ اس میں سے ان کا حصہ مقرر کرے اسے شکریہ کے ساتھ قبول کر لیں اور جو حصہ اللہ اپنے کام اور اپنے غریب بندوں کی امداد کے لیے مقرر کرے اس کو برضا و رغبت گوارا کر لیں۔ پھر قانون جنگ و صلح کے متعلق وہ اخلاقی ہدایات دی گئی ہیں جن کی توضیح اس مرحلے میں دعوت اسلامی کے داخل ہو جانے کے بعد ضروری تھی تاکہ مسلمان اپنی صلح و جنگ میں جاہلیت کے طریقوں سے بچیں اور دنیا پر ان کی اخلاقی برتری قائم ہو اور دنیا کو معلوم ہو جائے کہ اسلام اول روز سے اخلاق پر عملی زندگی کی بنیاد رکھنے کی جو دعوت دے رہا ہے اس کی تعبیر واقعی عملی زندگی میں کیا ہے۔ پھر اسلامی ریاست کے دستوری قانون کی بعض دفعات بیان کی گئی ہیں جن سے دار الاسلام کے مسلمان باشندوں کی آئینی حیثیت ان مسلمانوں سے الگ کر دی گئی ہے جو دار الاسلام کے حدود سے باہر رہتے ہوں۔
ترجمہ
تم سے اَنفال کے متعلق پُوچھتے ہیں؟ کہو ’’یہ انفال تو اللہ اور اُس کے رسُول ؐ کے ہیں، پس تم لوگ اللہ سے ڈرو اور اپنے آپس کے تعلقات درست کرو اور اللہ اور اُس کے رسُول ؐ کی اطاعت کرو اگر تم مومن ہو۔۱‘‘سچے اہلِ ایمان تو وہ لوگ ہیں جن کے دل اللہ کا ذکر سُن کر لرز جاتے ہیں اور جب اللہ کی آیات ان کے سامنے پڑھی جاتی ہیں تو ان کا ایمان بڑھ جاتا ہے ۲، اور وہ اپنے ربّ پر اعتماد رکھتے ہیں۔جو نماز قائم کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے (ہماری راہ میں) خرچ کرتے ہیں۔ایسے ہی لوگ حقیقی مومن ہیں۔ ان کے لیے ان کے ربّ کے پاس بڑے درجے ہیں۔ قصوروں سے درگزر ہے ۳ اور بہترین رزق ہے۔ (اِس مالِ غنیمت کے معاملہ میں بھی ویسی ہی صورت پیش آ رہی ہے جیسی اُس وقت پیش آئی تھی جبکہ) تیرا ربّ تجھے حق کے ساتھ تیرے گھر سے نکال لایا تھا اور مومنوں میں سے ایک گروہ کو یہ سخت ناگوار تھا۔وہ اس حق کے معاملہ میں تجھ سے جھگڑ رہے تھے در آں حالے کہ وہ صاف صاف نمایا ہو چکا تھا۔ ان کا حال یہ تھا کہ گویا وہ آنکھوں دیکھے موت کی طرف ہانکے جا رہے ہیں۔۴یاد کرو وہ موقع جب کہ اللہ تم سے وعدہ کر رہا تھا کہ دونوں گروہوں میں سے ایک تمہیں مِل جائے گا۔۵ تم چاہتے تھے کہ کمزور گروہ تمہیں ملے۔ ۶ مگر اللہ کا ارادہ یہ تھا کہ اپنے ارشادات سے حق کو حق کر دکھائے اور کافروں کی جڑ کاٹ دے تاکہ حق حق ہو کر رہے اور باطِل باطِل ہو کر رہ جائے خواہ مجرموں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔۷اور وہ موقع جبکہ تم اپنے ربّ سے فریاد کر رہے تھے۔ جواب میں اس نے فرمایا کہ میں تمہاری مدد کے لیے پے در پے ایک ہزار فرشتے بھیج رہا ہوں۔یہ بات اللہ نے تمہیں صرف اس لیے بتا دی کہ تمہیں خوشخبری ہو اور تمہارے دل اس سے مطمئن ہو جائیں، ورنہ مدد تو جب بھی ہوتی ہے اللہ ہی کی طرف سے ہوتی ہے، یقیناً اللہ زبر دست اور دانا ہے۔ ؏ ١
تفسیر
۱-یہ اس تبصرہ جنگ کی عجیب تمہید ہے۔ بدر میں جو مال غنیمت لشکر قریش سے لوٹا گیا تھا اس کی تقسیم پر مسلمانوں کے درمیان نزاع برپا ہو گئی۔ چونکہ اسلام قبول کرنے کے بعد ان لوگوں کی پہلی مرتبہ پرچم اسلام کے نیچے لڑنے کا اتفاق ہوا تھا اس لیے ان کو معلوم نہ تھا کہ اس مسلک میں جنگ اور اس سے پیدا شدہ مسائل کے متعلق کیا ضابطہ ہے۔ کچھ ابتدائی ہدایات سورہ بقرہ اور سورہ محمد میں دی جا چکی تھیں۔ لیکن ’’تہذیب جنگ‘‘ کی بنیاد ابھی رکھنی باقی تھی۔ بہت سے تمدنی معاملات کی طرح مسلمان ابھی تک جنگ کے معاملہ میں بھی اکثر پرانی جاہلیت ہی کے تصورات لیے ہوئے تھے۔ اس وجہ سے بدر کی لڑائی میں کفار کی شکست کے بعد جن لوگوں نے جو جو کچھ مال غنیمت لوٹا تھا وہ عرب کے پرانے طریقہ کے مطابق اپنے آپ کو اس کا مالک سمجھ بیٹھے تھے۔ لیکن ایک دوسرا فریق جس نے غنیمت کی طرف رُخ کرنے کے بجائے کفار کا تعاقب کیا تھا، اس بات کا مدعی ہوا کہ اس مال میں ہمارا برابر کا حصہ ہے کیونکہ اگر ہم دشمن کا پیچھا کر کے اسے دور تک بھگا نہ دیتے اور تمہاری طرح غنیمت پر ٹوٹ پڑتے تو ممکن تھا کہ دشمن پھر پلٹ کر حملہ کر دیتا اور فتح شکست سے بدل جاتی۔ ایک تیسرے فریق نے بھی، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی حفاظت کر رہا تھا، اپنے دعاوی پیش کیے۔ اس کا کہنا یہ تھا کہ سب سے بڑھ کر قیمتی خدمت تو اس جنگ میں ہم نے انجام دی ہے۔ اگر ہم رسول اللہ کے گرد اپنی جانوں کا حصار بنائے ہوئے نہ رہتے اور آپ کو کوئی گزند پہنچ جاتا تو فتح ہی کب نصیب ہو سکتی تھی کہ کوئی مال غنیمت ہاتھ آتا اور اس کی تقسیم کا سوال اٹھتا۔ مگر مال عملاً جس فریق کے قبضہ میں تھا اس کی ملکیت گویا کسی ثبوت کی محتاج نہ تھی اور وہ دلیل کا یہ حق ماننے کے لیے تیار نہ تھا کہ ایک امرِ واقعی کے اس زور سے بدل جائے۔ آخر کار اس نزاع نے تلخی کی صورت اختیار کرنی شروع کر دی اور زبانوں سے دلوں تک بد مزگی پھیلنے لگی۔
یہ تھا وہ نفسیاتی موقع جسے اللہ تعالیٰ نے سورہ انفال نازل کرنے کے لیے منتخب فرمایا اور جنگ پر اپنے تبصرے کی ابتدا اسی مسئلے سے کی۔ پھر پہلا ہی فقرہ جو ارشاد ہوا اُسی میں سوال کا جواب موجود تھا فرمایا ’’تم سے انفال کے متعلق پوچھتے ہیں‘‘ ؟ یہ ان اموال کو ’’غنائم‘‘ کے بجائے ’’ انفال ‘‘ کے لفظ سے تعبیر کرنا بجائے خود مسئلے کا فیصلہ اپنے اندر رکھتا تھا۔ انفال جمع ہے نفل کی۔ عربی زبام میں نفل اس چیز کو کہتے ہیں جو واجب سے یا حق سے زائد ہو۔ جب یہ تابع کی طرف سے ہو تو اس سے مراد و ہ رضا کارانہ خدمت ہوتی ہے جو ایک بندہ اپنے آقا کے لیے فرض سے بڑھ کر تَطُوَّعًا بجا لاتا ہے۔ اور جب یہ متبوع کی طرف سے ہو تو اس سے مراد وہ عطیہ و انعام ہوتا ہے جو آقا اپنے بندے کو اس کے حق سے زائد دیتا ہے۔ پس ارشاد کا مطلب یہ ہوا کہ یہ ساری ردّ و کد، یہ نزاع، یہ پوچھ گچھ کیا خدا کے بخشے ہوئے، انعامات کے بارے میں ہو رہی ہے ؟ اگر یہ بات ہے تو تم لوگ ان کے مالک و مختار کہاں بنے جا رہے ہو کہ خود ان کی تقسیم کا فیصلہ کرو۔ مال جس کا بخشا ہوا ہے۔ وہی فیصلہ کرے گا کہ کیسے دیا جائے اور کسے نہیں، اور جس کو بھی دیا جائے اسے کتنا دیا جائے۔
یہ جنگ کے سلسلہ میں ایک بہت بڑی اخلاقی اصلاح تھی۔ مسلمان کی جنگ دنیا کے مادی فائدے بٹورنے کیلے نہیں ہے بلکہ دنیا کے اخلاقی و تمدنی بگاڑ کو اس اصول حق کے مطابق درست کرنے کے لیے ہے، جسے مجبوراً اُس وقت اختیار کیا جاتا ہے جبکہ مزاحم قوتیں دعوت و تبلیغ کے ذریعہ سے اصلاح کو ناممکن بنا دیں۔ پس مصلحین کی نظر اپنے مقصد پر ہونی چاہیے نہ کہ اُن فوائد پر جو مقصد کے لیے سعی کرتے ہوئے بطور انعام خدا کی عنایت سے حاصل ہوں۔ ان فوائد سے اگر ابتدا ہی میں ان کی نظر نہ ہٹا دی جائے تو بہت جلدی، اخلاقی انحطاط رونما ہو کر یہی فوائد مقصود قرار پا جائیں۔
پھر یہ جنگ کے سلسلہ میں ایک بہت بڑی انتظامی اصلاح بھی تھی۔ قدیم زمانہ میں طریقہ یہ تھا کہ جو مال جس کے ہاتھ لگتا وہی اس کا مالک قرار پاتا۔ یا پھر بادشاہ یا سپہ سالار تمام غنائم پر قابض ہو جاتا۔ پہلی صورت میں اکثر ایسا ہوتا تھا کہ فتح یاب فوجوں کے درمیان اموال غنیمت پر سخت تنافُس برپا ہو جاتا اور بسا اوقات ان کی خانہ جنگی فتح کو شکست میں تبدیل کر دیتی۔ دوسری صورت میں سپاہیوں کو چوری کا عارضہ لگ جاتا تھا اور وہ غنائم کو چھپانے کی کوشش کرتے تھے۔ قرآن مجید نے انفال کو اللہ اور رسول کا مال قرار دے کر پہلے تو یہ قاعدہ مقرر کر دیا کہ تمام مال غنیمت لا کر بے کم و کاست امام کے سامنے رکھ دیا جائے اور ایک سوئی تک چھپا کر نہ رکھی جائے۔ پھر آگے چل کر اس مال کی تقسیم کا قانون بنا دیا کہ پانچواں حصہ خدا کے کام اور اس کے غریب بندوں کی مدد کے لیے بیت المال میں رکھ لیا جائے اور باقی چار حصے اُس پوری فوج میں تقسیم کر دیے جائیں جو لڑائی میں شریک ہوئی ہو۔ اس طرح وہ دونوں خرابیاں دور ہو گئیں جو جاہلیت کے طریقہ میں تھیں۔
اس مقام پر ایک لطیف نکتہ اور بھی ذہن میں رہنا چاہیے، یہاں انفال کے قصے کو صرف اتنی بات کہہ کر ختم کر دیا ہے کہ یہ اللہ اور اس کے رسول کے ہیں۔ تقسیم کے مسئلے کو یہاں نہیں چھیڑا گیا تا کہ پہلے تسلیم و اطاعت مکمل ہو جائے۔ پھر چند رکوع کے بعد بتایا گیا کہ ان اموال کو تقسیم کس طرح کیا جائے۔ اسی لیے یہاں انہیں ’’انفال‘‘ کہا گیا ہے اور رکوع ۵ میں جب تقسیم کا حکم بیان کرنے کی نوبت آئی تو انہی اموال کو ’’غنائم‘‘ کے لفظ سے تعبیر کیا گیا۔
۲-یعنی ہر ایسے موقع پر جب کہ کوئی حکمِ الٰہی آدمی کے سامنے آئے اور وہ اس کی تصدیق کر کے سر اطاعت جھکا دے، آدمی کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے۔ ہر اس موقع پر جب کہ کوئی چیز آدمی کی مرضی کے خلاف، اس کی محبتوں اور دوستیوں کے خلاف اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی ہدایت میں ملے اور آدمی اس کو مان کر فرمانِ خدا و رسول کو بدلنے کے بجائے اپنے آپ کو بدل ڈالے اور اس کی قبولیت میں تکلیف انگیز کر ے تو اس سے آدمی کے ایمان کو بالیدگی نصیب ہوتی ہے۔ اس کے بر عکس اگر ایسا کرنے میں آدمی دریغ کرے تو اس کے ایمان کی جان نکلنی شروع ہو جاتی ہے۔ پس معلوم ہوا کہ ایمان کوئی ساکن و جامد چیز نہیں ہے، اور تصدیق و عدم تصدیق کا بس ایک ہی ایک مرتبہ نہیں ہے کہ اگر آدمی نے نہ مانا تو وہ بس ایک ہی نہ ماننا رہا، اور اگر اس نے مان لیا تو وہ بھی بس ایک ہی مان لینا ہوا۔نہیں بلکہ تصدیق اور انکار دونوں میں انحطاط اور نشو نما کی صلاحیت ہے۔ ہر انکار کی کیفیت گھٹ بھی سکتی ہے اور بڑھ بھی سکتی ہے۔ اور اس طرح ہر اقرار و تصدیق میں ارتقاء بھی ہو سکتا ہے ار تنزل بھی۔ البتہ فقہی احکام کے اعتبار سے نظام تمدن میں حقوق اور حیثیات کا تعین جب کیا جائے گا تو تصدیق اور عدم تصدیق دونوں کے بس ایک ہی مرتبے کا اعتبار کیا جائے گا۔ اسلامی سوسائٹی میں تمام ماننے والوں کے آئینی حقوق و واجبات یکساں ہوں گے خواہ ان کے درمیان ماننے کے مراتب میں کتنا ہی تفاوت ہو۔ اور سب نہ ماننے والے ایک ہی مرتبے میں ذمی یا حربی یا معاہد و مسالم قرار دیے جائیں گے خواہ ان میں کفر کے اعتبار سے مراتب کا کتنا ہی فرق ہو۔
۳-قصور بڑے سے بڑے اور بہتر سے بہتر اہل ایمان سے بھی سرزد ہو سکتے ہیں اور ہوئے ہیں، اور جب تک انسان انسان ہے یہ محال ہے کہ اس کا نامہ اعمال سراسر معیاری کارناموں ہی پر مشتمل ہو اور لغزش، کوتاہی، خامی سے بالکل خالی رہے۔ مگر اللہ تعالیٰ کی رحمتوں میں سے یہ بھی ایک بڑی رحمت ہے کہ جب انسان بندگی کی لازمی شرائط پوری کر دیتا ہے تو اللہ اس کی کوتاہیوں سے چشم پوشی فرماتا ہے اور اس کی خدمات جس صلے کی مستحق ہوتی ہیں اس سے کچھ زیادہ صلہ اپنے فضل سے عطا کرتا ہے۔ ورنہ اگر قاعدہ یہ مقرر کیا جاتا کہ ہر قصور کی سزا اور ہر خدمت کی جزا الگ الگ دی جائے تو کوئی بڑے سے بڑا صالح بھی سزا سے نہ بچ سکتا۔
۴-یعنی جس طرح اُس وقت یہ لوگ خطرے کا سامنا کرنے سے گھبرا رہے تھے، حالانکہ حق کا مطالبہ اُس وقت یہی تھا کہ خطرے کے منہ میں چلے جائیں، اسی طرح آج انہیں مال غنیمت ہاتھ سے چھوڑنا ناگوار ہو رہا ہے، حالانکہ حق کا مطالبہ یہی ہے کہ وہ اسے چھوڑیں اور حکم کا انتظار کریں۔ دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اگر اللہ کی اطاعت کرو گے اور اپنے نفس کی خواہش کے بجائے رسول کا کہا مانو گے تو ویسا ہی اچھا نتیجہ دیکھو گے جیسا ابھی جنگ بدر کے موقع پر دیکھ چکے ہو کہ تمہیں لشکر قریش کے مقابلہ پر جانا سخت ناگوار تھا اور اسے تم ہلاکت کا پیغام سمجھ رہے تھے لیکن جب تم نے حکم خدا و رسول کی تعمیل کی تو یہی خطرناک کام تمہارے لیے زندگی کا پیغام ثابت ہوا۔
قرآن کا یہ ارشاد ضمناً اُن روایات کی بھی تردید کر رہا ہے جو جنگ بدر کے سلسلے میں عموماً کتب سیرت و مغازی میں نقل کی جاتی ہیں، یعنی یہ کہ ابتداءً نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور مومنین قافلے کو لوُٹنے کے لیے مدینہ سے روانہ ہوئے تھے۔ پھر چند منزل آگے جا کر جب معلوم ہوا کہ قریش کا لشکر قافلہ کی حفاظت کے لیے آ رہا ہے تب یہ مشورہ کیا گیا کہ قافلے پر حملہ کیا جائے یا لشکر کا مقابلہ؟ اس بیان کے برعکس قرآن یہ بتا رہا ہے کہ جس وقت نبی صلی اللہ علیہ و سلم اپنے گھر سے نکلے تھے اسی وقت یہ امرِ حق آپ کے پیش نظر تھا کہ قریش کے لشکر سے فیصلہ کن مقابلہ کیا جائے۔ اور یہ مشاورت بھی اسی وقت ہوئی تھی کہ قافلے اور لشکر میں کس کو حملہ کے لیے منتخب کیا جائے۔ اور باوجود یکہ مومنین پر یہ حقیقت واضح ہو چکی تھی کہ لشکر ہی سے نمٹنا ضروری ہے، پھر بھی ان میں سے ایک گروہ اس سے بچنے کے لیے حجت کرتا رہا۔ اور بالآخر جب آخری رائے یہ قرار پا گئی کہ لشکر ہی کی طرف چلنا چاہیے تو یہ گروہ مدینہ سے یہ خیال کرتا ہوا چلا کہ ہم سیدھے موت کے منہ میں ہانکے جا رہے ہیں۔
۵-یعنی تجارتی قافلہ یا لشکر قریش۔
۶-یعنی قافلہ جس کے ساتھ صرف تیس چالیس محافظ تھے۔
۷-اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس وقت فی الواقع صورت حال کیا رونما ہو گئی تھی۔ جیسا کہ ہم نے سورہ کے دیباچہ میں بیان کیا ہے، لشکر قریش کے نکل آنے سے دراصل سوال یہ پیدا ہو گیا تھا کہ دعوتِ اسلامی اور نظام جاہلیت دونوں میں سے کس کو عرب میں زندہ رہنا ہے۔ اگر مسلمان اس وقت مردانہ وار مقابلہ کے لیے نہ نکلتے تو اسلام کے لیے زندگی کا کوئی موقع باقی نہ رہتا۔ بخلاف اس کے مسلمانوں کے نکلنے اور پہلے ہی بھر پور وار میں قریش کی طاقت پر کاری چوٹ لگا دینے سے وہ حالات پیدا ہوئے جن کی بدولت اسلام کو قدم جمانے کا موقع مل گیا اور پھر اس کے مقابلہ میں نظام جاہلیت پیہم شکست کھاتا ہی چلا گیا
ترجمہ
اور وہ وقت جبکہ اللہ اپنی طرف سے غنودگی کی شکل میں تم پر اطمینان و بے خوفی کی کیفیت طاری کر رہا تھا،۸ اور آسمان سے تمہارے اوپر پانی برسا رہا تھا تاکہ تمہیں پاک کرے اور تم سے شیطان کی ڈالی ہوئی نجاست دُور کرے اور تمہاری ہمّت بندھائے اور اس کے ذریعہ سے تمہارے قدم جما دے۔ ۹ اور وہ وقت جبکہ تمہارا ربّ فرشتوں کو اشارہ کر رہا تھا کہ ’’ میں تمہارے ساتھ ہوں، تم اہلِ ایمان کو ثابت قدم رکھو، میں ابھی ان کافروں کے دلوں میں رُعب ڈالے دیتا ہوں، پس تم ان کی گردنوں پر ضرب اور جوڑ جوڑ پر چوٹ لگاؤ۔‘‘ ۱۰یہ اس لیے کہ ان لوگوں نے اللہ اور اس کے رسول ؐ کا مقابلہ کیا اور جو اللہ اور اس کے رسول ؐ کا مقابلہ کرے اللہ اس کے لیے نہایت سخت گیر ہے۔۔۔۔۱۱یہ ۱۲ ہے تم لوگوں کی سزا، اب اس کا مزہ چکھو، اور تمہیں معلوم ہو کہ حق کا انکار کرنے والوں کے لیے دوزخ کا عذاب ہے۔ اے ایمان والو، جب تم ایک لشکر کی صورت میں کفار سے دوچار ہو تو ان کے مقابلہ میں پیٹھ نہ پھیرو۔جس نے ایسے موقع پر پیٹھ پھیری۔۔۔۔اِلّا یہ کہ جنگی چال کے طور پر ایسا کرے یا کسی دوسری فوج سے جا ملنے کے لیے۔۔۔۔ تو وہ اللہ کے غضب میں گھِر جائے گا، اُس کا ٹھکانا جہنّم ہو گا، اور وہ بہت بُری جائے بازگشت ہے۔ ۱۳پس حقیقت یہ ہے کہ تم نے انہیں قتل نہیں کیا بلکہ اللہ نے ان کو قتل کیا اور تُو نے نہیں پھینکا بلکہ اللہ نے پھینکا ۱۴ ( اور مومنوں کے ہاتھ جو اس کام میں استعمال کیے گئے ) تو یہ اس لیے تھا کہ اللہ مومنوں کو ایک بہترین آزمائش سے کامیابی کے ساتھ گزار دے، یقیناً اللہ سُننے اور جاننے والا ہے۔ یہ معا ملہ تو تمہارے ساتھ ہے اور کافروں کے ساتھ معاملہ یہ ہے کہ اللہ ان کی چالوں کو کمزور کرنے والا ہے۔ (ان کافروں سے کہہ دو) ’’اگر تم فیصلہ چاہتے تھے تو لو، فیصلہ تمہارے سامنے آ گیا۔۱۵ اب باز آ جاؤ، تمہارے ہی لیے بہتر ہے، ورنہ پھر پلٹ کر اسی حماقت کا اعادہ کرو گے تو ہم بھی اُسی سزا کا اعادہ کریں گے اور تمہاری جمعیت، خواہ وہ کتنی ہی زیادہ ہو، تمہارے کچھ کام نہ آ سکے گی، اللہ مومنوں کے ساتھ ہے۔ ‘‘ ؏ ۲
تفسیر
۸-یہی تجربہ مسلمانوں کو اُحد کی جنگ میں پیش آیا جیسا کہ سورہ آل عمران آیت ۱۵۴ میں گزر چکا ہے۔ اور دونوں مواقع پر وجہ وہی ایک تھی کہ جو موقع شدت خوف اور گھبراہٹ کا تھا اس وقت اللہ نے مسلمانوں کے دلوں کو ایسے اطمینان سے بھر دیا کہ ان پر غنودگی طاری ہونے لگی۔
۹-یہ اُس رات کا واقعہ ہے جس کی صبح کو بدر کی لڑائی پیش آئی۔ اس بارش کے تین فائدے ہوئے۔ ایک یہ کہ مسلمانوں کو پانی کی کافی مقدار مل گئی اور انہوں نے فوراً حوض بنا بنا کر بارش کا پانی روک لیا۔ دوسرے یہ کہ مسلمان چونکہ وادی کے بالائی حصے پر تھے اس لیے بارش کی وجہ سے ریت جم گئی اور زمین اتنی مضبوط ہو گئی کہ قدم اچھی طرح جم سکیں اور نقل و حرکت بآسانی ہو سکے۔ تیسرے یہ کہ لشکر کفار نشیب کی جانب تھا اس لیے وہاں اس بارش کی بدولت کیچڑ ہو گئی اور پاؤں دھنسنے لگے۔
شیطان کی ڈالی ہوئی نجاست سے مراد وہ ہراس اور گھبراہٹ کی کیفیت تھی جس میں مسلمان ابتداءً مبتلا تھے۔
۱۰-جو اصولی باتیں ہم کو قرآن کے ذریعہ سے معلوم ہیں ان کی بنا پر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ فرشتوں سے قتال میں یہ کام نہیں لیا گیا ہو گا یہ وہ خود حرب و ضرب کا کام کریں، بلکہ شاید اس کی صورت یہ ہو گی کہ کفار پر جو ضرب مسلمان لگائیں وہ فرشتوں کی مدد سے ٹھیک بیٹھے اور کاری لگے۔ واللہ اعلم بالصواب۔
۱۱-یہاں تک کہ جنگ بدر کے جن واقعات کو ایک ایک کر کے یاد دلایا گیا ہے اس سے مقصود دراصل لفظ ’’انفال‘‘ کی معنویت واضح کرنا ہے۔ ابتدا میں ارشاد ہوا تھا کہ اس مال غنیمت کو اپنی جانفشانی کا ثمرہ سمجھ کر اس کے مالک و مختار کہاں بنے جاتے ہو، یہ تو دراصل عطیہ الٰہی ہے اور معطی خود ہی اپنے مال کا مختار ہے۔ اب اس کے ثبوت میں یہ واقعات گنائے گئے ہیں کہ اس فتح میں خود ہی حساب لگا کر دیکھ لو کہ تمہاری اپنی جانفشانی اور جرأت و جسارت کا کتنا حصہ تھا اور اللہ کی عنایت کا کتنا حصہ۔
۱۲-خطاب کا رُخ یکایک کفار کی طرف پھر گیا ہے جن کے مستحق سزا ہونے کا ذکر اوپر کے فقرے میں ہوا تھا۔
۱۳-دشمن کے شدید دباؤ پر مرتب پسپائی (Orderly retreat) ناجائز نہیں ہے جبکہ اس کا مقصود اپنے عقبی مرکز کی طرف پلٹنا یا اپنی ہی فوج کے کسی دوسرے حصہ سے جا ملنا ہو۔ البتہ جو چیز حرام کی گئی ہے وہ بھگدڑ (Rout) ہے جو کسی جنگی مقصد کے لیے نہیں بلکہ محض بزدلی و شکست خوردگی کی وجہ سے ہوتی ہے اور اس لیے ہوا کرتی ہے کہ بھگوڑے آدمی کو اپنے مقصد کی بہ نسبت جان زیادہ پیاری ہوتی ہے۔ اس فرار کو بڑے گناہوں میں شمار کیا گیا ہے۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں کہ تین گناہ ایسے ہیں کہ ان کے ساتھ کوئی نیکی فائدہ نہیں دیتی۔ ایک شرک، دوسرے والدین کی حق تلفی، تیسرے میدان قتال فی سبیل اللہ سے فرار۔ اسی طرح ایک اور حدیث میں آپ نے سات بڑے گناہوں کا ذکر کیا ہے جو انسان کے لیے تباہ کن اور اس کے انجام اُخروی کے لیے غارتگر ہیں۔ ان میں سے ایک یہ گناہ بھی ہے کہ آدمی کفر و اسلام کی جنگ میں کفار کے آگے پیٹھ پھیر کر بھاگے۔ اس فعل کو اتنا بڑا گناہ قرار دینے کی وجہ سے صرف یہی نہیں ہے کہ یہ ایک بزدلانہ فعل ہے، بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک شخص کا بھگوڑا پن بسا اوقات ایک پوری پلٹن کو، اور ایک پلٹن کا بھگوڑا پن ایک پوری فوج کو بدحواس کر کے بھگا دیتا ہے۔ اور پھر جب ایک دفعہ کسی فوج میں بھگدڑ پڑ جائے تو کہا نہیں جا سکتا کہ تباہی کس حد پر جا کر ٹھیرے گی۔ اس طرح کی بھگدڑ صرف فوج ہی کے لیے تباہ کن نہیں ہے بلکہ اُس ملک کے لیے بھی تباہ کن ہے جس کی فوج ایسی شکست کھائے۔
۱۴-معرکہ بدر میں جب مسلمانوں اور کفار کے لشکر ایک دوسرے کے مقابل ہوئے اور عام زد و خورد کا موقع آ گیا تو حضور ؐ نے مٹھی بھر ریت ہاتھ میں لے کر شاھتِ الوُجُوہ کہتے ہوئے کفار کی طرف پھینکی اور اس کے ساتھ ہی آپ کے اشارے سے مسلمان یکبارگی کفار پر حملہ آور ہوئے۔ اسی واقعہ کی طرف اشارہ ہے۔
۱۵-مکہ سے روانہ ہوتے وقت مشرکین نے کعبہ کے پردے پکڑ کر دعا مانگی تھی کہ خدایا دونوں گروہوں میں سے جو بہتر ہے اس کو فتح عطا کر۔ اور ابوجہل نے خاص طور پر کہا تھا کہ خدایا ہم میں سے جو بر سر حق ہو اسے فتح دے اور جو برسرِ ظلم ہو اسے رسوا کر دے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کی منہ مانگی دعائیں حرف بحرف پوری کر دیں اور فیصلہ کر کے بتا دیا کہ دونوں میں سے کون اچھا اور بر سرِ حق ہے۔
ترجمہ
اے ایمان لانے والو، اللہ اور اُس کے رسول ؐ کی اطاعت کرو اور حکم سُننے کے بعد اس سے سرتابی نہ کرو۔ اُن لوگوں کی طرح نہ ہو جاؤ جنہوں نے کہا کہ ہم نے سُنا حالانکہ وہ نہیں سُنتے۔ ۱۶ یقیناً خدا کے نزدیک بد ترین قسم کے جانور وہ بہرے گُونگے لوگ ہیں ۱۷ جو عقل سے کام نہیں لیتے۔ اگر اللہ کو معلوم ہوتا کہ ان میں کچھ بھی بھلائی ہے تو وہ ضرور اُنہیں سُننے کی توفیق دیتا ( لیکن بھلائی کے بغیر) اگر وہ اُن کو سُنواتا تو وہ بے رُخی کے ساتھ منہ پھیر جاتے۔ ۱۸اے ایمان لانے والو، اللہ اور اُس کے رسول کی پکار پر لبیّک کہو جبکہ رسول ؐ تمہیں اُس چیز کی طرف بُلائے جو تمہیں زندگی بخشنے والی ہے، اور جان رکھو کہ اللہ آدمی اور اس کے دل کے درمیان حائل ہے اور اُسی کی طرف تم سمیٹے جاؤ ۱۹ گے۔ اور بچو اُس فتنے سے جس کی شامت مخصوص طور پر صرف اُنہی لوگوں تک محدود نہ رہے گی جنہوں نے تم میں سے گناہ کیا ہو۔۲۰ اور جان رکھو کہ اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔ یاد کرو وہ وقت جبکہ تم تھوڑے تھے، زمین میں تم کو بے زور سمجھا جاتا تھا، تم ڈرتے رہتے تھے کہ کہیں لوگ تمہیں مِٹا نہ دیں۔ پھر اللہ نے تم کو جائے پناہ مہیا کر دی، اپنی مدد سے تمہارے ہاتھ مضبوط کیے اور تمہیں اچھا رزق پہنچایا، شاید کہ تم شکر گزار بنو۔۲۱اے ایمان لانے والو، جانتے بُوجھتے اللہ اور اُس کے رسول ؐ کے ساتھ خیانت نہ کرو، اپنی امانتوں میں ۲۲ غداری کے مرتکب نہ ہو،اور جان رکھو کہ تمہارے مال اور تمہاری اولاد حقیقت میں سامانِ آزمائش ہیں ۲۳ اور اللہ کے پاس اجر دینے کے لیے بہت کچھ ہے۔ ؏ ۳
تفسیر
۱۶-یہاں سننے سے مراد وہ سننا ہے جو ماننے اور قبول کرنے کے معنی میں ہوتا ہے۔ اشارہ اُن منافقین کی طرف ہے جو ایمان کا اقرار تو کرتے تھے مگر احکام کی اطاعت سے منہ موڑ جاتے تھے۔
۱۷-یعنی جو حق سنتے ہیں نہ حق بولتے ہیں۔ جن کے کان اور جن کے منہ حق کے لیے بہرے گونگے ہیں۔
۱۸-یعنی جب ان لوگوں کے اندر خود حق پرستی اور حق کے لیے کام کرنے کا جذبہ نہیں ہے تو انہیں اگر تعمیل حکم میں جنگ کے لیے نکل آنے کی توفیق دے بھی دی جاتی تو یہ خطرے کا موقع دیکھتے ہی بے تکلف بھاگ نکلتے اور ان کی معیت تمہارے لیے مفید ثابت ہونے کے بجائے الٹی مضر ثابت ہوتی۔
۱۹-نفاق کی روش سے انسان کو بچانے کے لیے اگر کوئی سب سے زیادہ موثر تدبیر ہے تو وہ صرف یہ ہے کہ وہ عقیدے انسان کی ذہن نشین ہو جائیں۔ ایک یہ کہ معاملہ اُس خدا کے ساتھ ہے جو دلوں کے حال تک جانتا ہے اور ایسا راز دان ہے کہ آدمی اپنے دل میں جو نیتیں، جو خواہشیں، جو اغراض و مقاصد اور جو خیالات چھپا کر رکھتا ہے وہ بھی اس پر عیاں ہیں۔ دوسرے یہ کہ جانا بہرحال خدا کے سامنے ہے۔ اس سے بچ کر کہیں بھاگ نہیں سکتے۔ یہ دہ عقیدے جتنے زیادہ پختہ ہوں گے اتنا ہی انسان نفاق سے دور رہے گا۔ اسی لیے منافقت کے خلاف وعظ و نصیحت کے سلسلہ میں قرآن اِن دو عقیدوں کا ذکر بار بار کرتا ہے۔
۲۰-اس سے مراد وہ اجتماعی فتنے ہیں جو وبائے عام کی طرح ایسی شامت لاتے ہیں جس میں صرف گناہ کرنے والے ہی گرفتار نہیں ہوتے بلکہ وہ لوگ بھی مارے جاتے ہیں جو گناہ گار سوسائٹی میں رہنا گوارا کرتے رہے ہوں۔ مثال کے طور پر اس کو یوں سمجھیے کہ جب تک کسی شہر میں گندگیاں کہیں کہیں انفرادی طور پر چند مقامات پر رہتی ہیں۔ ان کا اثر محدود رہتا ہے اور ان سے وہ مخصوص افراد ہی متاثر ہوتے ہیں۔ جنہوں نے اپنے جسم اور اپنے گھر کو گندگی سے آلودہ کر رکھا ہو۔ لیکن جب وہاں گندگی عام ہو جاتی ہے اور کوئی گروہ بھی سارے شہر میں ایسا نہیں ہوتا جو اس خرابی کو روکنے اور صفائی کا انتظام کرنے کی سعی کرے تو پھر ہوا اور زمین اور پانی ہر چیز میں سمیت پھیل جاتی ہے اور اس کے نتیجہ میں جو وبا آتی ہے اس کی لپیٹ میں گندگی پھیلانے والے اور گندہ رہنے والے گندہ ماحول میں زندگی بسر کرنے والے سب ہی آ جاتے ہیں۔ اسی طرح اخلاقی نجاستوں کا حال بھی ہے کہ اگر وہ انفرادی طور پر بعض افراد میں موجود رہیں اور صالح سوسائٹی کے رعب سے دبی رہیں تو ان کے نقصانات محدود رہتے ہیں۔ لیکن جب سوسائٹی کا اجتماعی ضمیر کمزور ہو جاتا ہے، جب اخلاقی برائیوں کو دبا کر رکھنے کی طاقت اُس میں نہیں رہتی، جب اس کے درمیان بُرے اور بے حیا اور بد اخلاق لوگ اپنے نفس کی گندگیوں کو اعلانیہ اچھالنے اور پھیلانے لگتے ہیں، اور جب اچھے لوگ بے عملی (Passive attitude) اختیار کر کے اپنی انفرادی اچھائی پر قانع اور اجتماعی برائیوں پر ساکت و صامت ہو جاتے ہیں، تو مجموعی طور پر پوری سوسائٹی کی شامت آ جاتی ہے اور وہ فتنہ عام برپا ہوتا ہے جس میں چنے کے ساتھ گھن بھی پس جاتا ہے۔
پس اللہ تعالی ٰ کے ارشاد کا منشا یہ ہے کہ رسول جس اصلاح و ہدایت کے کام کے لیے اٹھا ہے اور تمہیں جس خدمت میں ہاتھ بٹانے کے لیے بلا رہا ہے اسی میں درحقیقت شخصی و اجتماعی دونوں حیثیتوں سے تمہارے لیے زندگی ہے۔ اگر اس میں سچے دل سے مخلصانہ حصہ نہ لو گے اور ان برائیوں کو جو سوسائٹی میں پھیلی ہوئی ہیں برداشت کرتے رہو گے تو وہ فتنہ عام برپا ہو گا جس کی آفت سب کو لپیٹ میں لے لے گی خواہ بہت سے افراد تمہارے درمیان ایسے موجود ہوں جو عملاً برائی کرنے اور برائی پھیلانے کے ذمہ دار نہ ہوں، بلکہ اپنی ذاتی زندگی میں بھلائی ہی لیے ہوئے ہوں۔ یہ وہی بات ہے جس کو سورہ اعراف آیات ۱۶۳-۱۶۶ میں اصحاب السّبت کی تاریخی مثال پیش کرتے ہوئے بیان کیا جا چکا ہے، اور یہی وہ نقطہ نظر ہے جسے اسلام کی اصلاحی جنگ کا بنیادی نظریہ کہا جا سکتا ہے۔
۲۱-یہاں شکر گزاری کا لفظ غور کے قابل ہے۔ اوپر کے سلسلہ تقریر کو نظر میں رکھا جائے تو صاف ظاہر ہو جاتا ہے کہ اس موقع پر شکر گزاری کا مفہوم صرف اتنا ہی نہیں ہے کہ لوگ اللہ کے اس احسان کو مانیں کہ اس نے ا س کمزوری کی حالت سے انہیں نکا لا اور مکہ کی پر خطر زندگی سے بچا کر امن کی جگہ لے آیا جہاں طیبات رزق میسر ہو رہے ہیں، بلکہ اس کے ساتھ یہ بات بھی اسی شکر گزاری کے مفہوم میں داخل ہے کہ مسلمان اُس خدا کی اور اُس کے رسول کی اطاعت کریں جس نے یہ احسانات ان پر کیے ہیں، اور رسول کے مشن میں اخلاص و جاں نثاری کے ساتھ کام کریں، اور اس کام میں جو خطرات و مہالک اور مصائب پیش آئیں ان کا مردانہ وار مقابلہ اُسی خدا کے بھروسے پر کرتے چلے جائیں جس نے اس سے پہلے ان کو خطرات سے بعافیت نکالا ہے، اور یقین رکھیں کہ جب وہ خدا کا کام اخلاص کے ساتھ کریں گے تو خدا ضرور ان کا وکیل و کفیل ہو گا۔ پس شکر گزاری محض اعترافی نوعیت ہی کی مطلوب نہیں ہے بلکہ عملی نوعیت کی بھی مطلوب ہے۔ احسان کا اعتراف کرنے کے باوجود محسن کی رضا جوئی کے لیے سعی نہ کرنا اور اس کی خدمت میں مخلص نہ ہونا اور اس کے بارے میں یہ شک رکھنا کہ نہ معلوم آئندہ بھی وہ احسان کریگا یا نہیں، ہر گز شکر گزاری نہیں ہے بلکہ اُلٹی نا شکری ہے۔
۲۲- ’’اپنی امانتوں‘‘ سے مراد وہ تمام ذمہ دار یاں ہیں جو کسی پر اعتبار (Trust) کر کے اس کے سپرد کی جائیں، خواہ وہ عہد وفا کی ذمہ دار یاں ہوں، یا اجتماعی معاہدات کی، یا جماعت کے رازوں کی، یا شخصی و جماعتی اموال کی، یا کسی ایسے عہدہ وہ منصب کی جو کسی شخص پر بھروسہ کرتے ہوئے جماعت اس کے حوالے کرے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ نساء حاشیہ ۸۸)۔
۲۳-انسان کے اخلاص ایمانی میں جو چیز بالعموم خلل ڈالتی ہے اور جس کی وجہ سے انسان اکثر منافقت، غداری اور خیانت میں مبتلا ہوتا ہے وہ اپنے مالی مفاد اور اپنی اولاد کے مفاد سے اس کی حد سے بڑھی ہوئی دلچسپی ہوتی ہے۔ اسی لیے فرمایا کہ یہ مال اور اولاد، جن کی محبت میں گرفتار ہو کر تم عموماً راستی سے ہٹ جاتے ہو، دراصل یہ دنیا کی امتحان گاہ میں تمہارے لیے سامان آزمائش میں۔ جسے تم بیٹا یا بیٹی کہتے ہو حقیقت کی زبان میں وہ در اصل امتحان کا ایک پر چہ ہے۔ اور جسے تم جائداد یا کاروبار کہتے ہو وہ بھی درحقیقت ایک دوسرا پرچہ امتحان ہے۔ یہ چیزیں تمہارے حوالہ کی ہی اس لیے گئی ہیں کہ ان کے ذریعہ سے تمہیں جانچ کر دیکھا جائے کہ تم کہاں تک حقوق ا ور حدود کا لحاظ کرتے ہو، کہاں تک اپنے نفس کو جو اِن دنیوی چیزوں کی محبت میں اسیر ہوتا ہے، اسی طرح قابو میں رکھتے ہو کہ پوری طرح بندہ حق بھی بنے رہو اور ان چیزوں کے حقوق اس حد تک ادا بھی کرتے رہو جس حد تک حضرتِ حق نے خود ان کا استحقاق مقرر کیا ہے۔
ترجمہ
اے ایمان لانے والوں، اگر تم خدا ترسی اختیار کرو گے تو اللہ تمہارے لیے کسوٹی بہم پہنچا دے گا ۲۴ اور تمہاری بُرائیوں کو تم سے دور کرے گا، اور تمہارے قصور معاف کرے گا۔ اللہ بڑا فضل فرمانے والا ہے۔ وہ وقت بھی یاد کرنے کے قابل ہے جبکہ منکرینِ حق تیرے خلاف تدبیریں سوچ رہے تھے کہ تجھے قید کر دیں یا قتل کر ڈالیں یا جلا وطن کر دیں۔۲۵ وہ اپنی چالیں چل رہے تھے اور اللہ اپنی چال چل رہا تھا اور اللہ سب سے بہترین چال چلنے والا ہے۔ جب ان کو ہماری آیات سُنائی جاتی تھیں تو کہتے تھے کہ ’’ہاں سُن لیا ہم نے، ہم چاہیں تو ایسی ہی باتیں ہم بھی بنا سکتے ہیں، یہ تو وہی پُرانی کہانیاں ہیں جو پہلے سے لوگ کہتے چلے آرہے ہیں۔‘‘ اور وہ بات بھی یاد ہے جو اُنہوں نے کہی تھی کہ ’’ خدایا اگر یہ واقعی حق ہے اور تیری طرف سے ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا دے یا کوئی دردناک عذاب ہم پر لے آ۔‘‘ ۲۶اُس وقت تو اللہ ان پر عذاب نازل کرنے والا نہ تھا جبکہ تُو ان کے درمیان موجود تھا۔ اور نہ اللہ کا یہ قاعدہ ہے کہ لوگ استغفار کر رہے ہوں اور وہ اُن کو عذاب دیدے۔ ۲۷لیکن اب کیوں نہ وہ ان پر عذاب نازل کرے جبکہ وہ مسجدِ حرام کا راستہ روک رہے ہیں، حالانکہ وہ اس مسجد کے جائز متولّی نہیں ہیں۔ اس کے جائز متولّی تو صرف اہلِ تقویٰ ہی ہو سکتے ہیں، مگر اکثر لوگ اس بات کو نہیں جانتے۔ بیت اللہ کے پاس ان لوگوں کی نماز کیا ہوتی ہے، بس سیٹیاں بجاتے اور تالیاں پیٹتے ہیں ۲۸، پس اب لو، اِس عذاب کا مزہ چکھو اپنے اُس انکارِ حق کی پاداش میں جو تم کرتے رہے ہو۔۲۹جن لوگوں نے حق کو ماننے سے انکار کیا ہے وہ اپنے مال خدا کے راستے سے روکنے کے لیے صَرف کر رہے ہیں اور ابھی وہ خرچ کرتے رہیں گے۔ مگر آخرِ کار یہی کوششیں ان کے لیے پچھتاوے کا سبب بنیں گی، پھر وہ مغلوب ہوں گے، پھر یہ کافر جہنم کی طرف گھیر لائے جائیں گے تاکہ اللہ گندگی کو پاکیزگی سے چھانٹ کر الگ کرے اور ہر قسم کی گندگی کو ملا کر اکٹھا کرے پھر اس پلندے کو جہنم میں جھونک دے، یہی لوگ اصلی دیوالیے ہیں۔۳۰ ؏ ۴
تفسیر
۲۴-کسوٹی اُس چیز کو کہتے ہیں جو کھرے اور کھوٹے کے امتیاز کو نمایاں کرتی ہے۔ یہی مفہوم ’’فرقان‘‘ کا بھی ہے اسی لیے ہم نے اس کا ترجمہ اس لفظ سے کیا ہے۔ ارشاد الٰہی کا منشا یہ ہے کہ اگر تم دنیا میں اللہ سے ڈرتے ہوئے کام کرو تو تمہاری دلی خواہش یہ ہو کہ تم سے کوئی ایسی حرکت سرزد نہ ہونے پائے جو رضائے الٰہی کے خلاف ہو، تو اللہ تعالیٰ تمہارے اندر وہ قوتِ تمیز پیدا کردے گا جس سے قدم قدم پر تمہیں خود یہ معلوم ہوتا رہے گا کہ کونسا رویہ صحیح ہے اور کونسا غلط، کس رویہ میں خدا کی رضا ہے اور کس میں اس کی ناراضی۔ زندگی کے ہر موڑ، ہر دوراہے، ہر نشیب اور ہر فراز پر تمہاری اندرونی بصیرت تمہیں بتانے لگے گی کہ کدھر قدم اُٹھانا چاہے اور کدھر نہ اٹھانا چاہیے، کونسی راہ حق ہے اور خدا کی طرف جاتی ہے اور کونسی راہ باطل ہے اور شیطان سے ملاتی ہے۔
۲۵-یہ اس موقع کا ذکر ہے جبکہ قریش کا یہ اندیشہ یقین کی حد کو پہنچ چکا تھا کہ اب محمد صلی اللہ علیہ و سلم بھی مدینہ چلے جائیں گے۔ اس وقت وہ آپس میں کہنے لگے کہ اگر یہ شخص مکہ سے نکل گیا تو پھر خطرہ ہمارے قابو سے باہر ہو جائے گا۔ چنانچہ انہوں نے آپ کے معاملہ میں ایک آخری فیصلہ کرنے کے لیے دار النَّدوَہ میں تمام رؤسائے قوم کا ایک اجتماع کیا اور اس امر پر باہم مشاورت کی کہ اس خطرے کا سدّ باب کس طرح کیا جائے۔ ایک فریق کی رائے یہ تھی کہ اس شخص کو بیڑیاں پہنا کر ایک جگہ قید کر دیا جائے اور جیتے جی رہا نہ کیا جائے۔ لیکن اس رائے کو قبول نہ کیا گیا کیونکہ کہنے والوں نے کہا کہ اگر ہم نے اسے قید کر دیا تو اس کے جو ساتھی قید خانے سے باہر ہوں گے وہ برابر اپنا کام کرتے رہیں گے اور جب ذرا بھی قوت پکڑ لیں گے تو اسے چھڑانے کے لیے اپنی جان کی بازی لگانے میں بھی دریغ نہ کریں گے۔ دوسرے فریق کی رائے یہ تھی کہ اسے اپنے ہاں سے نکال دو۔ پھر جب یہ ہمارے درمیان نہ رہے تو ہمیں اس سے کچھ بحث نہیں کہ کہاں رہتا ہے اور کیا کرتا ہے، بہر حال اس کے وجود سے ہمارے نظام زندگی میں خلل پڑنا تو بند ہو جائے گا۔ لیکن اسے بھی یہ کہہ کر رد کر دیا گیا کہ شخص جادو بیان آدمی ہے، دلوں کو موہنے میں اسے بلا کا کمال حاصل ہے، اگر یہ یہاں سے نکل گیا تو نہ معلوم عرب کے کن کن قبیلوں کو اپنا پیرو بنا لے گا اور پھر کتنی قوت حاصل کر کے قلب عرب کو اپنے اقتدار میں لانے کے لیے تم پر حملہ آور ہو گا۔ آخر کار ابو جہل نے یہ رائے پیش کی کہ ہم اپنے تمام قبیلوں میں سے ایک ایک عالی نسبت تیز دست جوان منتخب کریں اور یہ سب مل کر یک بارگی محمد ؐ پر ٹوٹ پڑیں اور اسے قتل کر ڈالیں۔ اس طرح محمد ؐ کا خون تمام قبیلوں پر تقسیم ہو جائے گا اور بنو عبد مناف کے لیے ناممکن ہو جائے گا کہ سب سے لڑ سکیں اس لیے مجبوراً خوں بہا پر فیصلہ کرنے کے لیے راضی ہو جائیں گے۔ اس رائے کو سب نے پسند کیا، قتل کے لیے آدمی بھی نامزد ہو گئے اور قتل کا وقت بھی مقرر کر دیا گیا،حتیٰ کہ جو رات اس کام کے لیے تجویز کی گئی تھی اس میں ٹھیک وقت پر قاتلوں کا گروہ اپنی ڈیوٹی پر پہنچ بھی گیا، لیکن ان کا ہاتھ پڑنے سے پہلے نبی صلی اللہ علیہ و سلم ان کی آنکھوں میں خاک جھونک کر نکل گئے اور ان کی بنی بنائی تدبیر عین وقت پر ناکام ہو کر رہ گئی۔
۲۶-یہ بات وہ دعا کے طور پر نہیں کہتے تھے بلکہ چیلنج کے انداز میں کہتے تھے۔ یعنی ان کا مطلب یہ تھا کہ اگر واقعی یہ حق ہوتا اور خدا کی طرف سے ہوتا تو اس کے جھٹلانے کا نتیجہ یہ ہونا چاہیے تھا کہ ہم پر آسمان سے پتھر برستے اور عذابِ الیم ہمارے اوپر ٹوٹ پڑتا۔ مگر جب ایسا نہیں ہوتا تو اس کے معنی یہ ہیں کہ یہ نہ حق ہے نہ مِن جانب اللہ ہے۔
۲۷-یہ ان کے اس سوال کا جواب ہے جو ان کی اوپر والی ظاہری دعا میں متضمن تھا۔ اس جواب میں بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مکی دور میں کیوں عذاب نہیں بھیجا۔ اس کی پہلی وجہ یہ تھی کہ جب تک نبی کسی بستی میں موجود ہو اور حق کی طرف دعوت دے رہا ہو اس وقت تک بستی کے لوگوں کو مہلت دی جاتی ہے اور عذاب بھیج کر قبل از وقت ان سے اصلاح پذیری کا موقع سلب نہیں کر لیا جاتا۔ اس کی دوسری وجہ یہ ہے کہ جب تک بستی میں سے ایسے لوگ پے در پے نکلتے چلے آرہے ہوں جو اپنی سابقہ غفلت اور غلط روی پر متنبہ ہو کر اللہ سے معافی کی درخواست کرتے ہوں اور آئندہ کے لیے اپنے رویہ کی اصلاح کر لیتے ہوں، اس وقت تک کوئی معقول وجہ نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ خواہ مخواہ اس بستی کو تباہ کر کے رکھ دے۔ البتہ عذاب کا اصلی وقت وہ ہوتا ہے جب نبی اس بستی پر حجّت پوری کرنے کے بعد مایوس ہو کر وہاں سے نکل جائے یا نکال دیا جائے یا قتل کر ڈالا جائے، اور وہ بستی اپنے طرزِ عمل سے ثابت کر دے کہ وہ کسی صالح عنصر کو اپنے درمیان برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔
۲۸-یہ اشارہ اس غلط فہمی کی تردید میں ہے جو لوگوں کے دلوں میں چھپی ہوئی تھی اور جس سے عام طور پر اہلِ عرب دھوکا کھا رہے تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ قریش چونکہ بیت اللہ کے مجاور اور متولّی ہیں اور وہاں عبادت بجا لاتے ہیں اس لیے ان پر اللہ کا فضل ہے۔ اس کے رد میں فرمایا کہ محض میراث میں مجاورت اور تو لیت پا لینے سے کوئی شخص یا گروہ کسی عبادتگاہ کا جائز مجاور و متولی نہیں ہو سکتا۔ جائز مجاور و متولّی تو صرف خدا ترس اور پرہیز گار لوگ ہی ہو سکتے ہیں۔ اور ان لوگوں کا حال یہ ہے کہ ایک جماعت کو، جو خالص خدا کی عبادت کر نے والی ہے، اُس عبادت گاہ میں آنے سے روکتے ہیں جو خالص خدا کی عبادت ہی کے لیے وقف کی گئی تھی۔ اس طرح یہ متولی اور خادم بن کر رہنے کے بجائے اس عبادت گاہ کے مالک بن بیٹھے ہیں اور اپنے آپ کو اس بات کا مختار سمجھنے لگے ہیں کہ جس سے یہ ناراض ہوں اسے عبادت گاہ میں نہ آنے دیں۔ یہ حرکت ان کے ناخدا ترس اور نا پرہیز گار ہونے کے صریح دلیل ہے۔ رہی ان کی عبادت جو وہ بیت اللہ میں کرتے ہیں تو اس کے اندر نہ خضوع و خشوع ہے، نہ توجہ الی اللہ ہے، نہ ذکر الٰہی ہے، بس ایک بے معنی شور و غل اور لہو و لعب ہے جس کا نام انہوں نے عبادت رکھ چھوڑا ہے۔ ایسی نام نہاد خدمت بیت اللہ اور ایسی جھوٹی عبادت پر آخر یہ فضلِ الٰہی کے مستحق کیسے ہو گئے اور یہ چیز انہیں عذاب الٰہی سے کیونکر محفوظ رکھ سکتی ہے ؟
۲۹-وہ سمجھتے تھے کہ عذابِ الٰہی صرف آسمان سے پھتروں کی شکل میں یا کسی اور طرح قوائے فطرت کے ہیجان ہی کی شکل میں آیا کرتا ہے۔ مگر یہاں انہیں بتایا گیا ہے کہ جنگ بدر میں اُن کی فیصلہ کن شکست، جس کی وجہ سے اسلام کے لیے زندگی کا اور قدیم نظام جاہلیت کے لیے موت کا فیصلہ ہوا ہے، دراصل ان کے حق میں اللہ کا عذاب ہی ہے۔
۳۰-اس سے بڑھ کر دیوالیہ پن اور کیا ہو سکتا ہے کہ انسان جس راہ میں اپنا تمام وقت، تمام محنت، تمام قابلیت، اور پورا سرمایہ زندگی کھپا دے اُس کی انتہا پر پہنچ کر اسے معلوم ہو کہ وہ اسے سیدھی تباہی کی طرف لے آئی ہے اور اس راہ میں جو کچھ اس نے کھپا یا ہے اس پر کوئی سود یا منافع پانے کے بجائے اسے اُلٹا جرمانہ بھگتنا پڑے گا۔
ترجمہ
اے نبی ؐ، ان کافروں سے کہو کہ اگر اب بھی باز آ جائیں تو جو کچھ پہلے ہو چکا ہے اس سے درگزر کر لیا جائے گا، لیکن یہ اگر اُسی پچھلی روِش کا اعادہ کریں گے تو گزشتہ قوموں کے ساتھ جو کچھ ہو چکا وہ سب کو معلوم ہے۔ اے ایمان لانے والو، ان کافروں سے جنگ کرو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین پورا کا پورا اللہ کے لیے ہو جائے۔ ۳۱ پھر اگر وہ فتنہ سے رُک جائیں تو اُن کے اعمال کا دیکھنے والا اللہ ہے، اور وہ نہ مانیں تو جان رکھو کہ اللہ تمہارا سرپرست ہے اور وہ بہترین حامی و مددگار ہے۔ اور تمہیں معلوم ہو کہ جو کچھ مالِ غنیمت تم نے حاصل کیا ہے اس کا پانچواں حصّہ اللہ اور اس کے رسول ؐ اور رشتہ دار وں اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہے، ۳۲ اگر تم ایمان لائے ہو اللہ پر اور اس چیز پر جو فیصلے کے روز، یعنی دونوں فوجوں کی مڈ بھیڑ کے دن، ہم نے اپنے بندے پر نازل کی تھی،۳۳ (تو یہ حصّہ بخوشی ادا کرو)۔ اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ یاد کرو وہ وقت جبکہ تم وادی کے اِس جانب تھے اور وہ دُوسری جانب پڑاؤ ڈالے ہوئے تھے اور قافلہ تم سے نیچے (ساحل) کی طرف تھا۔ اگر کہیں پہلے سے تمہارے اور ان کے درمیان مقابلہ کی قرارداد ہو چکی ہوتی تو تم ضرور اس موقع پر پہلو تہی کر جاتے، لیکن جو کچھ پیش آیا وہ اس لیے تھا کہ جس بات کا فیصلہ اللہ کر چکا تھا اسے ظہور میں لے آئے تاکہ جسے ہلاک ہونا ہے وہ دلیلِ روشن کے ساتھ ہلاک ہو اور جسے زندہ رہنا ہے وہ دلیلِ روشن کے ساتھ زندہ رہے ۳۴، یقیناً خدا سُننے اور جاننے والا ہے۔ ۳۵اور یاد کرو وہ وقت جبکہ اے نبی ؐ، خدا اُن کو تمہارے خواب میں تھوڑا دکھا رہا تھا۔۳۶ اگر کہیں وہ تمہیں اُن کی تعداد زیادہ دکھا دیتا تو ضرور تم لوگ ہمت ہار جاتے اور لڑائی کے معاملہ میں جھگڑا شروع کر دیتے، لیکن اللہ ہی نے اِس سے تمہیں بچایا، یقیناً وہ سینوں کا حال تک جانتا ہے۔ اور یاد کرو جب کہ مقابلے کے وقت خدا نے تم لوگوں کی نگاہوں میں دشمنوں کو تھوڑا دکھایا اور ان کی نگاہوں میں تمہیں کم کر کے پیش کیا، تاکہ جو بات ہوئی تھی اُسے اللہ ظہور میں لے آئے، اور آخرِ کار سارے معاملات اللہ ہی کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ ؏ ۵
تفسیر
۳۱-یہاں پھر مسلمانوں کی جنگ کے اُسی ایک مقصد کا اعادہ کیا گیا ہے جو اس سے پہلے سورة بقر آیت ۱۹۳ میں بیان کیا گیا تھا۔ اس مقصد کا سلبی جزء یہ ہے کہ فتنہ باقی نہ رہے، اور ایجابی جزء یہ کہ دین بالکل اللہ کے لیے ہو جائے بس یہی ایک اخلاقی مقصد ایسا ہے جس کے لیے لڑنا اہل ایمان کے لیے جائز بلکہ فرض ہے۔ اس کے سوا کسی دوسرے مقصد کی لڑائی جائز نہیں ہے اور نہ اہل ایمان کو زیبا ہے کہ اُس میں کسی طرح حصہ لیں۔ (تشریح کے یے ملاحظہ ہو سورہ بقرہ، حواشی ۲۰۴ و ۲۰۵)
۳۲-یہاں اُس مال غنیمت کی تقسیم کا قانون بتایا ہے جس کے متعلق تقریر کی ابتدا میں کہا گیا تھا کہ یہ اللہ کا انعام ہے جس کے بارے میں فیصلہ کرنے کا اختیار اللہ اور اس کے رسول ہی کو حاصل ہے۔ اب وہ فیصلہ بیان کر دیا گیا ہے اور وہ یہ ہے کہ لڑائی کے بعد تمام سپاہی ہر طرح کا مال غنیمت لا کر امیر یا امام کے سامنے رکھ دیں اور کوئی چیز چھپا کر نہ رکھیں۔ پھر اس مال میں سے پانچواں حصہ اُن اغراض کے لیے نکال لیا جائے جو آیت میں بیان ہوئی ہیں، اور باقی چار حصے ان سب لوگوں میں تقسیم کر دیے جائیں جنہوں نے جنگ میں حصہ لیا ہو۔ چنانچہ اس آیت کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ و سلم ہمیشہ لڑائی کے بعد اعلان فرمایا کرتے تھے کہ ان ھٰذہ غنائمکم و انہ لیس لے فیھا الا نصیبی معکم الخمس ولاخمس مردود علیکم جا دو ا الخیط المخیط و اکبر من ذٰلک و اصغر ولا تغلوا جان الغلول عار و نار۔ ’’یہ غنائم تمہارے ہی لیے ہیں، میری اپنی ذات کا ان میں کوئی حصہ نہیں ہے بجز خمس کے اور وہ خمس بھی تمہارے ہی اجتماعی مصالح پر صرف کر دیا جاتا ہے۔ ‘‘ لہٰذا ایک ایک سوئی اور ایک ایک تاگا تک لا کر رکھ دو، کوئی چھوٹی یا بڑی چیز چھپا کر نہ رکھو کہ ایسا کرنا شرمناک ہے اور اس کا نتیجہ دوزخ ہے۔
اس تقسیم میں اللہ اور رسول کا حصہ ایک ہی ہے اور اس سے مقصود یہ ہے کہ خمس کا ایک جزء اعلاء کلمۃ اللہ اور اقامت دینِ حق کے کام میں صرف کیا جائے۔
رشتہ داروں سے مراد نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی زندگی میں تو حضور ہی کے رشتہ دار تھے کیونکہ جب آپ اپنا سارا وقت دین کے کام میں صرف فرماتے تھے اور اپنی معاش کے لیے کوئی کام کرنا آپ کے لیے ممکن نہ رہا تھا تو لامحالہ اس کا انتظام ہونا چاہیے تھا کہ آپ کی اور آپ کے اہل و عیال اور اُن دوسرے اقربا کی، جن کی کفالت آپ کے ذمہ تھی، ضروریات پوری ہوں اس لیے خمس میں آپ کے اقربا کا حصہ رکھا گیا۔ لیکن اس امر میں اختلاف ہے کہ حضور کی وفات کے بعد ذوی القربیٰ کا یہ حصہ کس کو پہنچتا ہے۔ ایک گروہ کی رائے یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد یہ حصہ منسوخ ہو گیا۔ دوسرے گروہ کی رائے ہے کہ حضور کے بعد یہ حصہ اس شخص کے اقربا کو پہنچے گا جو حضور کی جگہ خلافت کی خدمت انجام دے۔ تیسرے گروہ کے نزدیک یہ حصہ خاندان نبوت کے فقراء میں تقسیم کیا جاتا رہے گا۔ جہاں تک میں تحقیق کر سکا ہوں خلفاء راشدین کے زمانہ میں اسی تیسری رائے پر عمل ہوتا تھا۔
۳۳-یعنی وہ تائید وہ نصرت جس کی بدولت تمہیں فتح حاصل ہوئی۔
۳۴-یعنی ثابت ہو جائے کہ جو زندہ رہا اسے زندہ ہی رہنا چاہیے تھا اور جو ہلاک ہوا اسے ہلاک ہی ہونا چاہیے تھا۔ یہاں زندہ رہنے والے اور ہلاک ہونے والے سے مراد افراد نہیں ہیں بلکہ اسلام اور جاہلیت ہیں۔
۳۵-یعنی خدا اندھا، بہرا، بے خبر خدا نہیں ہے بلکہ دانا و بینا ہے۔ اس کی خدا ئی میں اندھا دھُند کام نہیں ہو رہا ہے۔
۳۶-یہ اس وقت کی بات ہے جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم مسلمانوں کو لے کر مدینہ سے نکل رہے تھے یا راستہ میں کسی منزل پر تھے اور یہ متحقق نہ ہوا تھا کہ کفار کا لشکر فی الواقع کتنا ہے۔ اس وقت حضور ؐ نے خواب میں اس لشکر کو دیکھا اور جو منظر آپ کے سامنے پیش کیا گیا اس سے آپ نے اندازہ لگایا کہ دشمنوں کی تعداد کچھ بہت زیادہ نہیں ہے۔ یہی خواب آپ نے مسلمانوں کو سنا دیا اور اس سے ہمت پا کر مسلمان آگے بڑھتے چلے گئے۔
ترجمہ
اے ایمان لانے والو، جب کسی گروہ سے تمہارا مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہو اور اللہ کو کثرت سے یاد کرو، توقع ہے کہ تمہیں کامیابی نصیب ہو گی۔اور اللہ اور اُس کے رسول ؐ کی اطاعت کرو اور آپس میں جھگڑو نہیں ورنہ تمہارے اندر کمزوری پیدا ہو جائے گی اور تمہاری ہوا اُکھڑ جائے گی۔ صبر سے کام لو،۳۷ یقیناً اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ اور اُن لوگوں کے سے رنگ ڈھنگ نہ اختیار کرو جو اپنے گھروں سے اِتراتے اور لوگوں کو اپنی شان دِکھاتے ہوئے نکلے اور جن کی روش یہ ہے کہ اللہ کے راستے سے روکتے ہیں،۳۸ جو کچھ وہ کر رہے ہیں وہ اللہ کی گرفت سے باہر نہیں ہے۔ ذرا خیال کرو اس وقت کا جب کہ شیطان نے ان لوگوں کے کرتُوت ان کی نگاہوں میں خوشنما بنا کر دکھائے تھے اور ان سے کہا تھا کہ آج کوئی تم پر غالب نہیں آ سکتا اور یہ کہ میں تمہارے ساتھ ہوں۔ مگر جب دونوں گروہوں کا آمنا سامنا ہوا تو وہ اُلٹے پاؤں پھر گیا اور کہنے لگا کہ میرا تمہارا ساتھ نہیں ہے، میں وہ کچھ دیکھ رہا ہوں جو تم لوگ نہیں دیکھتے، مجھے خدا سے ڈر لگتا ہے اور خدا بڑی سخت سزا دینے والا ہے۔ ؏ ٦
تفسیر
۳۷-یعنی اپنے جذبات و خواہشات کو قابو میں رکھو۔ جلد بازی، گھبراہٹ، ہِراس،طمع اور نا مناسب جوش سے بچو۔ ٹھنڈے دلی اور جچی تلی قوتِ فیصلہ کے ساتھ کام کرو۔ خطرات اور مشکلات سامنے ہوں تو تمہارے قدموں میں لغزش نہ آئے۔ اشتعال انگیز مواقع پیش آئیں تو غیظ و غضب کا ہیجان تم سے کوئی بے محل حرکت سرزد نہ کرنے پائے۔ مصائب کا حملہ ہو اور حالات بگڑتے نظر آرہے ہوں تو اضطراب میں تمہارے حواس پراگندہ نہ ہو جائیں۔ حصول مقصد کے شوق سے بے قرار ہو کر یا کسی نیم پختہ تدبیر کو سرسری نظر میں کارگر دیکھ کر تمہارے ارادے شتاب کاری سے مغلوب نہ ہوں۔ اور اگر کبھی دنیوی فوائد و منافع اور لذاتِ نفس کی ترغیبات تمہیں اپنی طرف لبھا رہی ہوں تو ان کے مقابلہ میں بھی تمہاری نفس اس درجہ کمزور نہ ہو کہ بے اختیار ان کی طرف کھینچ جاؤ۔ یہ تمام مفہومات صرف ایک لفظ ’’صبر‘‘ میں پوشیدہ ہیں، اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو لوگ ان تمام حیثیات سے صابر ہوں، میری تائید انہی کو حاصل ہے۔
۳۸-اشارہ ہے کفار قریش کی طرف، جن کا لشکر مکہ سے ا س شان سے نکلا تھا کہ گانے بجانے والی لونڈیاں ساتھ تھیں، جگہ جگہ ٹھیر کر رقص و سرود اور شراب نوشی کی محفلیں برپا کرتے جا رہے تھے، جو جو قبیلے اور قریے راستہ میں ملتے تھے ان پر اپنی طاقت و شوکت اور اپنی کثرت تعداد اور اپنے سر و سامان کا رعب جماتے تھے اور ڈینگیں مارتے تھے کہ بھلا ہمارے مقابلہ میں کون سر اٹھا سکتا ہے۔ یہ تو تھی ان کی اخلاقی حالت، اور اس پر مزید لعنت یہ تھی کہ ان کے نکلنے کا مقصد ان کے اخلاق سے بھی زیادہ ناپاک تھا۔ وہ اس لیے جان و مال کی بازی لگانے نہیں نکلے تھے کہ حق اور راستی اور انصاف کا علم بلند ہو، بلکہ اس لیے نکلے تھے کہ ایسا نہ ہونے پائے، اور وہ اکیلا گروہ بھی جو دنیا میں اس مقصد حق کے لیے اٹھا ہے ختم کر دیا جائے تا کہ اس علم کو اٹھا نے والا دنیا بھر میں کوئی نہ رہے۔ اس پر مسلمانوں کو متنبہ کیا جا رہا ہے کہ تم کہیں ایسے نہ بن جانا۔ تمہیں اللہ نے ایمان اور حق پرستی کی جو نعمت عطا کی ہے اس کا تقاضا یہ ہے کہ تمہارے اخلاق بھی پاکیزہ ہوں اور تمہارا مقصد جنگ بھی پاک ہو۔
یہ ہدایت اُسی زمانہ کے لیے نہ تھی، آج کے لیے بھی ہے اور ہمیشہ کے لیے ہے۔ کفار کی فوجوں کا جو حال اُس وقت تھا وہی آج بھی ہے۔ قحبہ خانے اور فواحش کے اڈے اور شراب کے پیپے ان کے ساتھ جزو لا ینفک کی طرح لگے رہتے ہیں۔ خفیہ طور پر نہیں بلکہ علی الاعلان نہایت بے شرمی کے ساتھ وہ عورتوں اور شراب کا زیادہ سے زیادہ راشن مانگتے ہیں اور ان کے سپاہیوں کو خود اپنی قوم ہی سے یہ مطالبہ کرنے میں باک نہیں ہوتا کہ وہ اپنی بیٹیوں کو بڑی سے بڑی تعداد میں ان کی شہوت کا کھلونا بننے کے لیے پیش کرے۔ پھر بھلا کوئی دوسری قوم ان سے کیا امید کر سکتی ہے کہ یہ اس کو اپنی اخلاقی گندگی کی سنڈاس بنانے میں کوئی کسر اٹھا رکھیں گے۔ رہا ان کا تکبر اور تفاخر تو ان کے ہر سپاہی اور ہر افسر کی چال ڈھال اور انداز گفتگو میں وہ نمایاں دیکھا جا سکتا ہے اور ان میں سے ہر قوم کے مدبرین کی تقریروں میں لا غالب لکم الیوم اور من اشد منا قوة کی ڈینگیں سُنی جا سکتی ہیں۔ان اخلاقی نجاستوں سے زیادہ نا پاک ان کے مقاصد جنگ ہیں۔ ان میں سے ہر ایک نہایت مکاری کے ساتھ دنیا کو یقین دلاتا ہے کہ اس کے پیش نظر انسانیت کی فلاح کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ مگر درحقیقت ان کے پیش نظر ایک فلاحِ انسانیت ہی نہیں ہے، باقی سب کچھ ہے۔ ان کی لڑائی کا اصل مقصد یہ ہوتا ہے کہ خدا نے اپنی زمین میں جو کچھ سارے انسانوں کے لیے پیدا کیا ہے اس پر تنہا ان کی قوم متصرف ہو اور دوسرے اس کے چاکر اور دست نگر بن کر رہیں۔ پس اہل ایمان کو قرآن کی یہ دائمی ہدایت ہے کہ ان فساق و فجار کے طور طریقوں سے بھی بچیں اور اُن ناپاک مقاصد میں بھی اپنی جان و مال کھپانے سے پرہیز کریں جن کے لیے یہ لوگ لڑتے ہیں۔
ترجمہ
جب کہ منافقین اور وہ سب لوگ جن کے دلوں کو روگ لگا ہوا ہے، کہہ رہے تھے کہ اِن لوگوں کو تو اِن کے دین نے خبط میں مبتلا کر رکھا ہے۔ ۳۹ حالانکہ اگر کوئی اللہ پر بھروسہ کرے تو یقیناً اللہ بڑا زبردست اور دانا ہے۔ کاش تم اُس حالت کو دیکھ سکتے جب کہ فرشتے مقتول کافروں کی رُوحیں قبض کر رہے تھے ! وہ ان کے چہروں اور ان کے کُولہوں پر ضربیں لگانے جاتے تھے اور کہتے جاتے تھے ’’ لو اب جلنے کی سزا بھُگتو،یہ وہ جزا ہے جس کا سامان تمہارے اپنے ہاتھوں نے پیشگی مہیّا کر رکھا تھا، ورنہ اللہ تو اپنے بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ہے۔ ‘‘یہ معاملہ ان کے ساتھ اُسی طرح پیش آیا جس طرح آلِ فرعون اور ان سے پہلے کے دوسرے لوگوں کے ساتھ پیش آتا رہا ہے کہ انہوں نے اللہ کی آیات کو ماننے سے انکار کیا اور اللہ نے ان کے گناہوں پر انہیں پکڑ لیا۔ اللہ قوت رکھتا ہے اور سخت سزا دینے والا ہے۔ یہ اللہ کی اِس سنت کے مطابق ہوا کہ وہ کسی نعمت کو جو اس نے کسی قوم کو عطا کی ہو اُس وقت تک نہیں بدلتا جب تک کہ وہ قوم خود اپنے طرزِ عمل کو نہیں بدل دیتی۔۴۰ اللہ سب کچھ سُننے اور جاننے والا ہے۔ آلِ فرعون اور ان سے پہلے کی قوموں کے ساتھ جو کچھ پیش آیا وہ اِسی ضابطہ کے مطابق تھا۔ انہوں نے اپنے ربّ کی آیات کو جھٹلایا تب ہم نے ان کے گناہوں کی پاداش میں انہیں ہلاک کیا اور آلِ فرعون کو غرق کر دیا۔ یہ سب ظالم لوگ تھے۔ یقیناً اللہ کے نزدیک زمین پر چلنے والی مخلوق میں سب سے بدتر وہ لوگ ہیں جنہوں نے حق کو ماننے سے انکار کر دیا پھر کسی طرح وہ اسے قبول کرنے پر تیار نہیں ہیں۔ (خصوصاً) ان میں سے وہ لوگ جن کے ساتھ تُو نے معاہدہ کیا پھر وہ ہر موقع پر اس کو توڑتے ہیں اور ذرا خدا کا خوف نہیں کرتے۔ ۴۱پس اگر یہ لوگ تمہیں لڑائی میں مل جائیں تو ان کی ایسی خبر لو کہ ان کے بعد جو دوسرے لوگ ایسی روش اختیار کرنے والے ہوں ان کے حواس باختہ ہو جائیں۔۴۲توقع ہے کہ بد عہدوں کے اِس انجام سے وہ سبق لیں گے۔ اور اگر کبھی تمہیں کسی قوم سے خیانت کا اندیشہ ہو تو اس کے معاہدے کے عَلانیہ اس کے آگے پھینک دو ۴۳، یقیناً اللہ خائنوں کو پسند نہیں کرتا۔ ؏ ۷
تفسیر
۳۹-یعنی مدینہ کے منافقین اور وہ سب لوگ جو دنیا پر ستی اور خدا سے غفلت کے مرض میں گرفتار تھے، یہ دیکھ کر کہ مسلمانوں کی مٹھی بھر بے سر و سامان جماعت قریش جیسی زبردست طاقت سے ٹکرا نے کے لیے جا رہی ہے، آپس میں کہتے تھے کہ یہ لوگ اپنے دینی جوش میں دیوانے ہو گئے ہیں، اس معرکہ میں ان کی تباہی یقینی ہے، مگر اس نبی نے کچھ ایسا افسوں ان پر پھونک رکھا ہے کہ ان کی عقل خبط ہو گئی ہے اور آنکھوں دیکھے یہ موت کے منہ میں چلے جا رہے ہیں۔
۴۰-یعنی جب تک کوئی قوم اپنے آپ کو پوری طرح اللہ کی نعمت کا غیر مستحق نہیں بنا دیتی اللہ اس سے اپنی نعمت سلب نہیں کیا کرتا۔
۴۱-یہاں خاص طور پر اشارہ ہے یہود کی طرف، نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے مدینہ طیبہ میں تشریف لانے کے بعد سب سے پہلے انہی کے ساتھ حسن جوار اور باہمی تعاون و مددگاری کا معاہدہ کیا تھا اور اپنی حد تک پوری کوشش کی تھی کہ ان سے خوشگوار تعلقات قائم رہیں۔ نیز دینی حیثیت سے بھی آپ یہود کو مشرکین کی بہ نسبت اپنے قریب تر سمجھتے تھے اور ہر معاملہ میں مشرکین کے بالمقابل اہل کتاب ہی کے طریقہ کو ترجیح دیتے تھے۔ لیکن اُن کے علماء اور مشائخ کو توحیدِ خالص اور اخلاق صالحہ کہ وہ تبلیغ اور اعتقادی و عملی گمراہیوں پر وہ تنقید اور اقامت دین حق کی وہ سعی، جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کر رہے تھے، ایک آن نہ بھاتی تھی اور ان کی پیہم کوشش یہ تھی کہ یہ نئی تحریک کسی طرح کامیاب نہ ہونے پائے۔ اسی مقصد کے لیے وہ مدینہ کے منافق مسلمانوں سے ساز باز کرتے تھے۔ اسی کے لیے وہ اَوس اور خَزرَج کے لوگوں میں ان پرانی عداوتوں کو بھڑکاتے تھے جوا سلام سے پہلے ان کے درمیان کُشت و خون کی موجب ہوا کرتی تھیں۔ اسی کے لیے قریش اور دوسرے مخالفِ اسلام قبیلوں سے ان کی خفیہ سازشیں چل رہی تھیں اور یہ حرکات اُس معاہد ہ دوستی کے باوجود ہو رہی تھیں جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور ان کے درمیان لکھا جا چکا تھا۔ جب جنگ بدر واقع ہوئی تو ابتدا میں ان کو توقع تھی کہ قریش کی پہلی ہی چوٹ اس تحریک کا خاتمہ کر دے گی۔ لیکن جب نتیجہ ان کی توقعات کے خلاف نکلا تو اُن کے سینوں کی آتشِ حسد اور زیادہ بھڑک اُٹھی۔ انہوں نے اس اندیشہ سے کہ بدر کی فتح کہیں اسلام کی طاقت کو ایک مستقل ’’خطرہ‘‘ نہ بنا دے اپنی مخالفانہ کوششوں کو تیز تر کر دیا۔ حتیٰ کہ اُن کا ایک لیڈر کعب بن اشرف (جو قریش کی شکست سنتے ہی چیخ اُٹھا تھا کہ آج زمین کا پیٹ ہمارے لیے اُس کی پیٹھ سے بہتر ہے ) خود مکہ گیا اور وہاں سے اس نے ہیجان انگیز مرثیے کہہ کہہ کر قریش کو انتقام کا جوش دلا یا۔ اس پر بھی ان لوگوں نے بس نہ کی۔ یہودیوں کے قبیلہ بنی قَینْقاع نے معاہدہ حسنِ جوار کے خلاف ان مسلمان عورتوں کو چھیڑنا شروع کیا جو ان کی بستی میں کسی کام سے جاتی تھیں۔ اور جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو اس حرکت پر ملامت کی تو انہوں نے جواب میں دھمکی دی کہ ’’ یہ قریش نبا شد، ہم لڑنے مرنے والے لوگ ہیں اور لڑنا جانتے ہیں۔ ہمارے مقابلہ میں آؤ گے تب تمہیں پتہ چلے گا کہ مرد کیسے ہوتے ہیں۔‘‘
۴۲-اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی قوم سے ہمارا معاہدہ ہو اور پھر وہ اپنی معاہدانہ ذمہ دار یوں کو پس پشت ڈال کر ہمارے خلاف کسی جنگ میں حصہ لے، تو ہم بھی معاہدے کی اخلاقی ذمہ دار یوں سے سُبک دوش ہو جائیں گے اور ہمیں حق ہو گا کہ اس سے جنگ کریں۔ نیز اگر کسی قوم سے ہماری لڑائی ہو رہی ہو اور ہم دیکھیں کہ دشمن کے ساتھ ایک ایسی قوم کے افراد بھی شریک جنگ ہیں جس سے ہمارا معاہدہ ہے، تو ہم ان کو قتل کرنے اور ان سے دشمن کا سا معاملہ کرنے میں ہر گز کوئی تامل نہ کریں گے، کیونکہ انہوں نے اپنی انفرادی حیثیت میں اپنی قوم کے معاہدے کی خلاف ورزی کر کے اپنے آپ کو اس کا مستحق نہیں رہنے دیا ہے کہ ان کی جان و مال کے معاملہ میں اس معاہدے کا احترام ملحوظ رکھا جائے جو ہمارے اور ان کی قوم کے درمیان ہے۔
۴۳-اس آیت کے رو سے ہمارے لیے یہ کسی طرح جائز نہیں ہے کہ اگر کسی شخص یا گروہ یا ملک سے ہمارا معاہدہ ہو اور ہمیں اس کے طرزِ عمل سے یہ شکایت لاحق ہو جائے کہ وہ عہد کی پابندی میں کوتا ہی برت رہا ہے، یا یہ اندیشہ پیدا ہو جائے کہ وہ موقع پاتے ہی ہمارے ساتھ غداری کر بیٹھے گا، تو ہم اپنی جگہ خود فیصلہ کر لیں کہ ہمارے اور اس کے درمیان معاہدہ نہیں رہا اور یکایک اس کے ساتھ وہ طرز عمل اختیار کرنا شروع کر دیں جو معاہدہ نہ ہونے کہ صورت ہی میں کیا جا سکتا ہو۔ اس کے برعکس ہمیں اس بات کا پابند کیا گیا ہے کہ جب ایسی صورت پیش آئے تو ہم کوئی مخالفانہ کاروائی کرنے سے پہلے فریق ثانی کو صاف صاف بتا دیں کہ ہمارے اور تمہارے درمیان اب معاہدہ باقی نہیں رہا، تا کہ فسخ معاہدہ کا جیسا علم ہم کو حاصل ہے ویسا ہی اس کو بھی ہو جائے اور وہ اس غلط فہمی میں نہ رہے کہ معاہدہ اب بھی باقی ہے۔ اسی فرمان الٰہی کے مطابق بنی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اسلام کی بین الاقوامی پالیسی کا یہ مستقل اصول قرار دیا تھا کہ من کان بینہ وبین قوم عھد فلا یحلن عقدہ حتی ینقضی امدھا او ینبذ الیھم عل سواء۔ ’’جس کا کسی قوم سے معاہدہ ہو اسے چاہیے کہ معاہدہ کی مدت ختم ہونے سے پہلے عہد کا بند نہ کھولے۔ یا نہیں تو ان کا عہد برابری کو ملحوظ رکھتے ہوئے ان کی طرف پھینک دے ‘‘۔ پھر اسی قاعدے کو آپ نے اور زیادہ پھیلا کر تمام معاملات میں عام اصول یہ قائم کیا تھا کہ لا تخن من خانک ’’جو تجھ سے خیانت کرے تو اس سے خیانت نہ کر‘‘۔ اور یہ اصول صرف وعظوں میں بیان کرنے اور کتابوں کی زینت بننے کے لیے نہ تھا بلکہ عملی زندگی میں بھی اس کی پابندی کی جاتی تھی۔ چنانچہ ایک مرتبہ جب امیر معاویہ نے اپنے عہد بادشاہی میں سرحد روم پر فوجوں کا اجتماع اس غرض سے کرنا شروع کیا کہ معاہدہ کی مدت ختم ہوتے ہی یکایک رومی علاقہ پر حملہ کر دیا جائے تو ان کی اس کاروائی پر عمرو بن عَنبَسَہ صحابی ؓ نے سخت احتجاج کیا اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی یہی حدیث سنا کر کہا کہ معاہدہ کی مدت کے اندر یہ معاندانہ طرز عمل اختیار کرنا غداری ہے۔ آخر کار امیر معاویہ کو اس اصول کے آگے سر جھکا دینا پڑا اور سرحد پر اجتماع فوج روک دیا گیا۔
یک طرفہ فسخِ معاہدہ اور اعلان جنگ کے بغیر حملہ کر دینے کا طریقہ قدیم جاہلیت میں بھی تھا اور زمانہ حال کی مہذب جاہلیت میں بھی اس کا رواج موجود ہے۔ چنانچہ اس کی تازہ ترین مثالیں جنگ عظیم نمبر ۲ میں روس پر جرمنی کے حملے اور ایران کے خلاف روس و برطانیہ کی فوجی کاروائی میں دیکھی گئی ہیں۔ عمو ماً اس کاروائی کے لیے یہ عذر پیش کیا جاتا ہے کہ حملہ سے پہلے مطلع کر دینے سے دوسرا فریق ہوشیار ہو جاتا اور سخت مقابلہ کرتا، یا اگر ہم مداخلت نہ کرتے تو ہمارا دشمن فائدہ اٹھا لیتا لیکن اس قسم کے بہانے اگر اخلاقی ذمہ دار یوں کو ساقط کر دینے کے لیے کافی ہوں تو پھر کوئی گناہ ایسا نہیں ہے جو کسی نہ کسی بہانے نہ کیا جا سکتا ہو۔ ہر چور، ہر ڈاکو، ہر زانی، ہر قاتل، ہر جعلساز اپنے جرائم کے لیے ایسی ہی کوئی مصلحت بیان کر سکتا ہے۔ لیکن یہ عجیب بات ہے کہ یہ لوگ بین الاقوامی سوسائٹی میں قوموں کے لیے اُن بہت سے افعال کو جائز سمجھتے ہیں جو خود ان کی نگاہ میں حرام ہیں جب کہ ان کا ارتکاب قومی سوسائٹی میں افراد کی جانب سے ہو۔
اس موقع پر جان لینا بھی ضروری ہے کہ اسلامی قانون صرف ایک صورت میں بلا اطلاع حملہ کرنے کو جائز رکھتا ہے، اور وہ صورت یہ ہے کہ فریق ثانی علی العلان معاہدہ کو توڑ چکا ہو اور اس نے صریح طور پر ہمارے خلاف معاندانہ کار ردائی کی ہو۔ ایسی صورت میں یہ ضروری نہیں رہتا کہ ہم اسے آیت مذکورہ بالا کے مطابق فسخ معاہدہ کا نوٹس دیں، بلکہ ہمیں اس کے خلاف بلا اطلاع جنگی کاروائی کرنے کا حق حاصل ہو جاتا ہے۔ فقہائے اسلام نے یہ استثنائی حکم نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے اس فعل سے نکالا ہے کہ قریش نے جب بنی خُزاعہ کے معاملہ میں صلح حُدَیبیہ کو علانیہ توڑ دیا تو آپ نے پھر انہیں فسخ معاہدہ کا نوٹس دینے کی کوئی ضرورت نہ سمجھی، بلکہ بلا اطلاع مکہ پر چڑھائی کر دی۔ لیکن اگر کسی موقع پر ہم اس قاعدہ استثناء سے فائدہ اٹھانا چاہیں تو لازم ہے کہ وہ تمام حالات ہمارے پیش نظر رہیں جن میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ کاروائی کی تھی، تا کہ پیروی ہو تو آپ کے پورے طرز عمل کہ ہو نہ کہ اس کے کسی ایک مفید مطلب جزء کی۔ حدیث اور سیرت کی کتابوں سے جو کچھ ثابت ہے وہ یہ ہے کہ:
اولاً، قریش کی خلاف ورزی عہد ایسی صریح تھی کہ اس کے نقض عہد ہونے میں کسی کلام کا موقع نہ تھا۔خود قریش کے لوگ بھی اس کے معترف تھے کہ واقعی معاہدہ ٹوٹ گیا ہے۔ انہوں نے خود ابو سفیان کو تجدید عہد کے لیے مدینہ بھیجا تھا جس کے صاف معنی یہی تھے کہ اُن کے نزدیک بھی عہد باقی نہیں رہا تھا۔ تا ہم یہ ضروری نہیں ہے کہ ناقضِ عہد قوم کو خود بھی اپنے نقضِ عہد کا اعتراف ہو۔ البتہ یہ یقیناً ضروری ہے کہ نقضِ عہد بالکل صریح اور غیر مشتبہ ہو۔
ثانیاً، نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کی طرف سے عہد ٹوٹ جانے کے بعد پھر اپنی طرف سے صرا حتہ ً یا اشارةً و کنایتہً ایسی کوئی بات نہیں کی کہ جس سے یہ ایماء نکلتا ہو کہ اس بد عہدی کے باوجود آپ ابھی تک اُن کو ایک معاہد قوم سمجھتے ہیں اور ان کے ساتھ آپ کے معاہدانہ روابط اب بھی قائم ہیں۔ تمام روایات بالاتفاق یہ بتاتی ہیں کہ جب ابو سفیان نے مدینہ آ کر تجدید معاہدہ کی درخواست پیش کی تو آپ نے اسے قبول نہیں کیا۔
ثالثاً، قریش کے خلاف جنگی کاروائی آپ نے خود کی اور کھلم کھلا کی۔ کسی ایسی فریب کاری کا شائبہ تک آپ کے طرز عمل سے نہیں پایا جاتا کہ آپ نے بظاہر صلح اور بباطن جنگ کا کوئی طریقہ استعمال فرمایا ہو۔
یہ اس معاملہ میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا اسوہ حسنہ ہے، لہٰذا آیت مذکورہ بالا کے حکم عام سے ہٹ کر اگر کوئی کاروائی کی جا سکتی ہے تو ایسے ہی مخصوص حالات میں کی جا سکتی ہے اور اسی سیدھے سیدھے شریفانہ طریقہ سے کی جا سکتی ہے جو حضور نے اختیار فرمایا تھا۔
مزید براں اگر کسی معاہد قوم سے کسی معاملہ میں ہماری نزاع ہو جائے اور ہم دیکھیں کہ گفت و شنید یا بین الاقوامی ثالثی کے ذریعہ سے وہ نزاع طے نہیں ہوتی، یا یہ کہ فریق ثانی اس کو بزور طے کرنے پر تُلا ہوا ہے، تو ہمارے لیے یہ بالکل جائز ہے کہ ہم اس کو طے کرنے میں طاقت استعمال کریں، لیکن آیتِ مذکورۂ بالا ہم پر یہ اخلاقی پابندی عائد کرتی ہے کہ ہمارا یہ استعمالِ طاقت صاف صاف اعلان کے بعد ہونا چاہیے اور کھلم کھلا ہونا چاہیے۔ چوری چھپے ایسی جنگی کاروائیاں کرنا جن کا علانیہ اقرار کرنے کے لیے ہم تیار نہ ہوں، ایک بد اخلاقی ہے جس کی تعلیم اسلام نے ہم کو نہیں دی ہے۔
ترجمہ
منکرینِ حق اِس غلط فہمی میں نہ رہیں کہ وہ بازی لے گئے، یقیناً وہ ہم کو ہرا نہیں سکتے۔ اور تم لوگ، جہاں تک تمہارا بس چلے، زیادہ سے زیادہ طاقت اور تیار بندھے رہنے والے گھوڑے اُن کے مقابلہ کے لیے مہیّا رکھو ۴۴ تاکہ اس کے ذریعہ سے اللہ کے اپنے دشمنوں کو اور ان دوسرے اعداء کو خوف زدہ کر دو جنہیں تم نہیں جانتے مگر اللہ جانتا ہے۔ اللہ کی راہ میں جو کچھ تم خرچ کرو گے اس کا پورا پورا بدل تمہاری طرف پلٹایا جائے گا اور تمہارے ساتھ ہر گز ظلم نہ ہو گا۔ اور اے نبی ؐ، اگر دشمن صلح و سلامتی کی طرف مائل ہوں تو تم بھی اس کے لیے آمادہ ہو جاؤ اور اللہ پر بھروسہ کرو، یقیناً وہی سب کچھ سُننے اور جاننے والا ہے۔ اور اگر وہ دھوکے کی نیت رکھتے ہوں تو تمہارے لیے اللہ کافی ہے۔ ۴۵ وہی تو ہے جس نے اپنی مدد سے اور مومنوں کے ذریعہ سے تمہاری تائید کی اور مومنوں کے دل ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ دیے۔ تم رُوئے زمین کی ساری دولت بھی خرچ کر ڈالتے تو اِن لوگوں کے دل نہ جوڑ سکتے تھے مگر وہ اللہ ہے جس نے ان لوگوں کے دل جوڑے ۴۶، یقیناً وہ بڑا زبردست اور دانا ہے۔ اے نبی ؐ، تمہارے لیے اور تمہارے پیرو اہلِ ایمان کے لیے تو بس اللہ کافی ہے۔ ؏ ۸
تفسیر
۴۴-اس سے مطلب یہ ہے کہ تمہارے پاس سامانِ جنگ اور ایک مستقل فوج (Standing army) ہر وقت تیار رہنی چاہیے تاکہ بوقت ضرورت فوراً جنگی کاروائی کر سکو۔ یہ نہ ہو کہ خطرہ سر پر آنے کے بعد گھبراہٹ میں جلدی جلدی رضا کار اور اسلحہ اور سامان رسد جمع کرنے کی کوشش کی جائے اور اس اثنا میں کہ یہ تیاری مکمل ہو، دشمن اپنا کام کر جائے۔
۴۵-یعنی بین الاقوامی معاملات میں تمہاری پا لیسی بزدلانہ نہیں ہونی چاہیے بلکہ خدا کے بھروسہ پر بہادرانہ اور دلیرانہ ہونی چاہیے۔ دشمن جب گفتگوئے مصالحت کی خواہش ظاہر کرے، بے تکلف اس کے لیے تیار ہو جاؤ اور صلح کے لیے ہاتھ بڑھانے سے اس بنا پر انکار نہ کرو کہ وہ نیک نیتی کے ساتھ صلح نہیں کرنا چاہتا بلکہ غداری کا ارادہ رکھتا ہے۔ کسی کی نیت بہر حال یقینی طور پر معلوم نہیں ہو سکتی۔ اگر وہ واقعی صلح ہی کی نیت رکھتا ہو تو تم خواہ مخواہ اس کی نیت پر شبہہ کر کے خونریزی کو طول کیوں دو۔ اور اگر وہ عذر کی نیت رکھتا ہو تو تمہیں خدا کے بھروسے پر بہادر ہونا چاہیے۔ صلح کے لیے بڑھنے والے ہاتھ کے جواب میں ہاتھ بڑھاؤ تا کہ تمہاری اخلاقی برتری ثابت ہو، اور لڑائی کے لیے اٹھنے والے ہاتھ کو اپنی قوت بازو سے توڑ کر پھینک دو تا کہ کبھی کوئی غدار قوم تمہیں نرم چارہ سمجھنے کی جرات نہ کرے۔
۴۶-اشارہ ہے اُس بھائی چارے اور الفت و محبت کی طرف جو اللہ تعالیٰ نے ایمان لانے والے اہل عرب کے درمیان پیدا کر کے ان کو ایک مضبوط جتھا بنا دیا تھا، حالانکہ اس جتھے کے افراد اُن مختلف قبیلوں سے نکلے ہوئے تھے جن کے درمیان صدیوں سے دشمنیاں چلی آ رہی تھیں۔ خصوصیت کے ساتھ اللہ کا یہ فضل اوس و خَزرَج کے معاملہ میں تو سب سے زیادہ نمایاں تھا۔ یہی دونوں قبیلے دو ہی سال پہلے تک ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے اور مشہور جنگ بُعاث کو کچھ زیادہ دن نہیں گزرے تھے جس میں اوس نے خزرج کو اور خزرج نے اوس کو گویا صفحہ ہستی سے مٹا دینے کا تہیہ کر لیا تھا۔ ایسی شدید عداوتوں کو دو تین سال کے اندر گہری دوستی و برادری میں تبدیل کر دینا اور ان متنافر اجزا کو جوڑ کر ایسی ایک بنیان مرصوص بنا دینا جیسی کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ میں اسلامی جماعت تھی، یقیناً انسان کی طاقت سے بالا تر تھا اور دنیوی اسباب کی مدد سے یہ عظیم الشان کارنامہ انجام نہیں پا سکتا تھا۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب ہماری تائید و نصرت نے یہ کچھ کر دکھایا ہے تو آئندہ بھی تمہاری نظر دنیوی اسباب پر نہیں بلکہ خدا کی تائید پر ہونی چاہیے کہ جو کچھ کام بنے گا اسی سے بنے گا۔
ترجمہ
اے نبی ؐ، مومنوں کو جنگ پر اُبھارو۔ اگر تم میں سے بیس آدمی صابر ہوں تو وہ دو سو پر غالب آئیں گے اور اگر سو آدمی ایسے ہوں تو منکرینِ حق میں سے ہزار آدمیوں پر بھاری رہیں گے کیونکہ وہ ایسے لوگ ہیں جو سمجھ نہیں رکھتے۔ ۴۷ اچھا، اب اللہ نے تمہارا بوجھ ہلکا کیا اور اسے معلوم ہوا کہ ابھی تم میں کمزوری ہے، پس اگر تم میں سے سو آدمی صابر ہوں تو وہ دو سو پر اور ہزار آدمی ایسے ہوں تو دو ہزار پر اللہ کے حکم سے غالب آئیں گے، ۴۸ اور اللہ ان لوگوں کے ساتھ ہے جو صبر کرنے والے ہیں۔کسی نبی کے لیے یہ زیبا نہیں ہے کہ اس کے پاس قیدی ہوں جب تک کہ وہ زمین میں دشمنوں کو اچھی طرح کُچل نہ دے۔ تم لوگ دُنیا کے فائدے چاہتے ہو، حالانکہ اللہ کے پیشِ نظر آخرت ہے، اور اللہ غالب اور حکیم ہے۔ اگر اللہ کا نوشتہ پہلے نہ لکھا جا چکا ہوتا تو جو کچھ تم لوگوں نے لیا ہے اس کی پاداش میں تم کو بڑی سزا دی جاتی۔پس جو کچھ تم نے مال حاصل کیا ہے اسے کھاؤ کہ وہ حلال اور پاک ہے اور اللہ سے ڈرتے رہو ۴۹، یقیناً اللہ درگزر کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔ ؏ ۹
تفسیر
۴۷-آج کل کی اصطلاح میں چیز کو قوتِ معنوی یا قوتِ اخلاقی (Morale) کہتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے اسی کو فقہ و فہم اور سمجھ بوجھ (Understanding) سے تعبیر کیا ہے، اور یہ لفظ اس مفہوم کے لیے جدید اصطلاح سے زیادہ سائنٹیفک ہے۔ جو شخص اپنے مقصد کا صحیح شعور رکھتا ہو اور ٹھنڈے دل سے خوب سوچ سمجھ کر اس لیے لڑ رہا ہو کہ جس چیز کے لیے وہ جان کی بازی لگانے آیا ہے وہ اس کی انفرادی زندگی سے زیادہ قیمتی ہے اور اس کے ضائع ہو جانے کے بعد جینا بے قیمت ہے، وہ بے شعوری کے ساتھ لڑنے والے آدمی سے کئی گنی زیادہ طاقت رکھتا ہے اگرچہ جسمانی طاقت میں دونوں کے درمیان کوئی فرق نہ ہو۔ پھر جس شخص کو حقیقت کا شعور حاصل ہو، جو اپنی ہستی اور خدا کی ہستی اور خدا کے ساتھ اپنے تعلق اور حیات دنیا کی حقیقت اور موت کی حقیقت اور حیات بعد موت کی حقیقت کو اچھی طرح جانتا ہو اور جسے حق اور باطل کے فرق اور غلبہ باطل کے نتائج کا بھی صحیح ادراک ہو، اس کی طاقت کو تو وہ لوگ بھی نہیں پہنچ سکتے جو قومیت یا وطنیت یا طبقاتی نزاع کا شعور لیے ہوئے میدان میں آئیں اسی لیے فرمایا گیا ہے کہ ایک سمجھ بوجھ رکھنے والے مومن اور ایک کافر کے درمیان حقیقت کے شعور اور عدم شعور کی وجہ سے فطرةً ایک اور دس کی نسبت ہے۔ لیکن یہ نسبت صرف سمجھ بوجھ سے قائم نہیں ہوتی بلکہ اس کے ساتھ صبر کی صفت بھی ایک لازمی شرط ہے۔
۴۸-اس کا مطلب نہیں ہے کہ پہلے ایک اور دس کی نسبت تھی اور اب چونکہ تم میں کمزوری آ گئی ہے اس لیے ایک اور دو کی نسبت قائم کر دی گئی ہے۔ بلکہ اس کا صحیح مطلب یہ ہے کہ اصولی اور معیاری حیثیت سے تو اہل ایمان اور کفار کے درمیان ایک اور دس ہی کی نسبت ہے، لیکن چونکہ ابھی تم لوگوں کی اخلاقی تربیت مکمل نہیں ہوئی ہے اور ابھی تک تمہارا شعور اور تمہاری سمجھ بوجھ کا پیمانہ بلوغ کی حد کو نہیں پہنچا ہے اس لیے سر دست برسبیلِ تنزل تم سے یہ مطالبہ کیا جاتا ہے کہ اپنے سے دوگنی طاقت سے ٹکرانے میں تو تمہیں کوئی تامل نہ ہونا چاہیے۔ خیال رہے کہ یہ ارشاد سن ۲ ہجری کا ہے جب کہ مسلمانوں میں بہت سے لوگ ابھی تازہ تازہ ہی داخلِ اسلام ہوئے تھے اور ان کی تربیت ابتدائی حالت میں تھی۔ بعد میں جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی رہنمائی میں یہ لوگ پختگی کو پہنچ گئے تو فی الواقع ان کے اور کفار کے درمیان ایک اور دس ہی کی نسبت قائم ہو گئی، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے آخر عہد اور خلفائے راشدین کے زمانہ کی لڑائیوں میں بارہا اس کا تجربہ ہوا ہے۔
۴۹-اس آیت کی تفسیر میں اہل تاویل نے جو روایات بیان کی ہیں وہ یہ ہیں کہ جنگ بدر میں لشکر قریش کے جو لوگ گرفتار ہوئے تھے ان کے متعلق بعد میں مشورہ ہوا کہ ان کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے۔ حضرت ابوبکر ؓ نے رائے دی کہ فدیہ لے کر چھوڑ دیا جائے، اور حضرت عمر ؓ نے کہا کہ قتل کر دیا جائے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت ابوبکر ؓ کی رائے قبول کی اور فدیہ کا معاملہ طے کر لیا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیات بطور عتاب نازل فرمائیں۔ مگر مفسرین آیت کے اس فقرے کی کوئی معقول تاویل نہیں کر سکے ہیں کہ ’’اگر اللہ کا نوشتہ پہلے نہ لکھا جا چکا ہوتا۔‘‘ وہ کہتے ہیں کہ اس سے مراد تقدیر الٰہی ہے، یا یہ کہ اللہ تعالیٰ پہلے ہی یہ ارادہ فرما چکا تھا کہ مسلمانوں کے لیے غنائم کو حلال کر دے گا۔ لیکن یہ ظاہر ہے کہ جب تک وحی تشریعی کے ذریعہ سے کسی چیز کی اجازت نہ دی گئی ہو، اس کا لینا جائز نہیں ہو سکتا۔ پس نبی صلی اللہ علیہ و سلم سمیت پوری اسلامی جماعت اس تاویل کی رو سے گناہ گار قرار پاتی ہے اور ایسی تاویل کو اخبار احاد کے اعتماد پر قبول کر لینا ایک بڑی ہی سخت بات ہے۔
میرے نزدیک اس مقام کی صحیح تفسیر یہ ہے کہ جنگ بدر سے پہلے سورہ محمد میں جنگ کے متعلق جو ابتدائی ہدایات دی گئی تھیں، ان میں یہ ارشاد ہوا تھا کہ فَاِذَا لَقِیۡتُمُ الَّذیۡنَ کَفَرُوۡا فَضَرۡبَ الرِّقَابِ حَتّٰۤی اِذَ ۤا اَثۡخَنۡتُمُوۡ ھُمۡ فَشُدُّوا الوَثَاقَ فَاِمَّا مَنًّا بَعۡدُ وَاِمَّا فِدَآءً حَتّٰی تَضَعَ الۡحَرۡبُ اَوۡزَارَھَا (آیت ۴) اس ارشاد میں جنگی قیدیوں سے فدیہ وصول کرنے کی اجازت تو دے دی گئی تھی لیکن اس کے ساتھ شرط یہ لگائی گئی تھی کہ پہلے دشمن کی طاقت کو اچھی طرح کچل دیا جائے پھر قیدی پکڑنے کی فکر کی جائے۔ اس فرمان کی رو سے مسلمانوں نے بدر میں جو قیدی گرفتار کیے اور اس کے بعد ان سے جو فدیہ وصول کیا وہ تھا تو اجازت کے مطابق، مگر غلطی یہ ہوئی کہ ’’دشمن کی طاقت کو کچل دینے ‘‘ کی جو شرط مقدم رکھی گئی تھی اسے پورا کرنے میں کوتا ہی کی گئی۔ جنگ میں جب قریش کی فوج بھاگ نکلی تو مسلمانوں کا یک بڑا گروہ غنیمت لوٹنے اور کفار کے آدمیوں کو پکڑ پکڑ کر باندھنے میں لگ گیا اور بہت کم آدمیوں نے دشمنوں کا کچھ دور تک تعاقب کیا۔ حالاں کہ اگر مسلمان پوری طاقت سے اُن کا تعاقب کرتے تو قریش کی طاقت کا اسی روز خاتمہ ہو گیا ہوتا۔ اسی پر اللہ تعالیٰ عتاب فرما رہا ہے اور یہ عتاب نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر نہیں ہے بلکہ مسلمانوں پر ہے۔ فرمان مبارک کا منشا یہ ہے کہ ’’تم لوگ ابھی نبی کے مشن کو اچھی طرح نہیں سمجھے ہو۔ نبی کا اصل کام یہ نہیں ہے کہ فدیے اور غنائم وصول کر کے خزانے بھرے، بلکہ اس کے نصب العین سے جو چیز براہ راست تعلق رکھتی ہے وہ صرف یہ ہے کہ کفر کی طاقت ٹوٹ جائے۔ مگر تم لوگوں پر بار بار دنیا کا لالچ غالب ہو جاتا ہے۔ پہلے دشمن کی اصل طاقت کے بجائے قافلے پر حملہ کرنا چاہا، پھر دشمن کا سر کچلنے کے بجائے غنیمت لوٹنے اور قیدی پکڑنے میں لگ گئے، پھر غنیمت پر جھگڑنے لگے۔ اگر ہم پہلے فدیہ وصول کرنے کی اجازت نہ دے چکے ہوتے تو اس پر تمہیں سخت سزا دیتے۔ خیر اب جو کچھ تم نے لیا ہے وہ کھا لو، مگر آئندہ ایسی روش سے بچتے رہو جو خدا کے نزدیک نا پسندیدہ ہے ‘‘۔ میں اس رائے پر پہنچ چکا تھا کہ امام جَصّاص کی کتاب احکام القرآن میں یہ دیکھ کر مجھے مزید اطمینان حاصل ہوا کہ امام موصوف بھی اس تاویل کو کم از کم قابل لحاظ ضرور قرار دیتے ہیں۔ پھر سیرت ابن ہشام میں یہ روایت نظر سے گزری کہ جس وقت مجاہدینِ اسلام مال غنیمت لوٹنے اور کفار کے آدمیوں کو پکڑ پکڑ کر باندھنے میں لگے ہوئے تھے، نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے دیکھا کہ حضرت سعد بن معاذ کے چہرے پر کچھ کراہت کے آثار ہیں۔ حضور نے ان سے دریافت فرمایا کہ ’’اے سعد، معلوم ہوتا ہے کہ لوگوں کی یہ کاروائی تمہیں پسند نہیں آ رہی ہے ‘‘۔ انہوں نے عرض کیا ’’جی ہاں یا رسول اللہ، یہ پہلا معرکہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے اہل شرک کو شکست دلوائی ہے، اس موقع پر انہیں قیدی بنا کر ان کی جانیں بچا لینے سے زیادہ بہتر یہ تھا کہ ان کو خوب کچل ڈالا جاتا (جلد ۲۔ صفحہ ۲۸۔۲۸١)
ترجمہ
اے نبی ؐ، تم لوگوں کے قبضہ میں جو قیدی ہیں ان سے کہو کہ اگر اللہ کو معلوم ہوا کہ تمہارے دلوں میں کچھ خیر ہے تو وہ تمہیں اُس سے بڑھ چڑھ کر دے گا جو تم سے لیا گیا ہے اور تمہاری خطائیں معاف کرے گا، اللہ درگزر کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔ لیکن اگر وہ تیرے ساتھ خیانت کا ارادہ رکھتے ہیں تو اِس سے پہلے وہ اللہ کے ساتھ خیانت کر چکے ہیں، چنانچہ اُسی کی سزا اللہ نے انہیں دی کہ وہ تیرے قابو میں آ گئے، اللہ سب کچھ جانتا اور حکیم ہے۔ جن لوگوں نے ایمان قبول کیا اور ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں اپنی جانیں لڑائیں اور اپنے مال کھپائے، اور جن لوگوں نے ہجرت کرنے والوں کو جگہ دی اور ان کی مدد کی، وہی دراصل ایک دوسرے کے ولی ہیں۔ رہے وہ لوگ جو ایمان تو لے آئے مگر ہجرت کر کے (دار الاسلام میں) آ نہیں گئے تو ان سے تمہارا ولایت کا کوئی تعلق نہیں ہے جب تک کہ وہ ہجرت کر کے نہ آ جائیں۔۵۰ ہاں اگر وہ دین کے معاملہ میں تم سے مدد مانگیں تو ان کی مدد کرنا تم پر فرض ہے، لیکن کسی ایسی قوم کے خلاف نہیں جس سے تمہارا معاہدہ ہو۔۵۱ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اُسے دیکھتا ہے۔ جو لوگ منکرِ حق ہیں وہ ایک دوسرے کی حمایت کرتے ہیں۔ اگر تم یہ نہ کرو گے تو زمین میں فتنہ اور بڑا فساد بر پا ہو گا۔۵۲جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے اللہ کی راہ میں گھر بار چھوڑ ے اور جدوجہد کی اور جنہوں نے پناہ دی اور مدد کی وہی سچے مومن ہیں۔ ان کے لیے خطاؤں سے درگزر ہے اور بہترین رزق ہے۔ اور جو لوگ بعد میں ایمان لائے اور ہجرت کر کے آ گئے اور تمہارے ساتھ مل کر جدوجہد کرنے لگے وہ بھی تم ہی میں شامل ہیں۔ مگر اللہ کی کتاب میں خون کے رشتہ دار ایک دوسرے کے زیادہ حقدار ہیں،۵۳ یقیناً اللہ ہر چیز کو جانتا ہے۔ ؏ ١۰
تفسیر
۵۰-یہ آیت اسلام کے دستوری قانون کی ایک اہم دفعہ ہے۔ اس میں یہ اصول مقرر کیا گیا ہے کہ ’’ولایت‘‘ کا تعلق صرف اُن مسلمانوں کے درمیان ہو گا جو یا تو دار الاسلام کے باشندے ہوں، یا اگر باہر سے آئیں تو ہجرت کر کے آ جائیں۔ باقی رہے وہ مسلمان جو اسلامی ریاست کے حدودِ ارضی سے باہر ہوں، تو ان کے ساتھ مذہبی اخوت تو ضرور قائم رہے گی، لیکن ’’ولایت‘‘ کا تعلق نہ ہو گا، اور اسی طرح ان مسلمانوں سے بھی یہ تعلق ولایت نہ رہے گا جو ہجرت کر کے نہ آئیں بلکہ دار الکفر کی رعایا ہونے کی حیثیت سے دار الاسلام میں آئیں۔ ’’ ولایت‘‘ کا لفظ عربی زبان میں حمایت، نصرت، مددگاری، پشتیبانی، دوستی قرابت، سرپرستی اور اس سے ملتے جلتے مفہومات کے لیے بولا جاتا ہے۔ اور اس آیت کے سیاق و سباق میں صریح طور پر اس سے مراد وہ رشتہ ہے جو ایک ریاست کا اپنے شہریوں سے، اور شہریوں کا اپنی ریاست سے، اور خود شہریوں کا آپس میں ہوتا ہے۔ پس یہ آیت ’’دستوری و سیاسی ولایت‘‘ کو اسلامی ریاست کے ارضی حدود تک محدود کر دیتی ہے، اور ان حدود سے باہر کے مسلمانوں کو اس مخصوص رشتہ سے خارج قرار دیتی ہے۔ اس عدم ولایت کے قانونی نتائج بہت وسیع ہیں جن کی تفضیلات بیان کرنے کا یہاں موقع نہیں ہے۔ مثال کے طور پر صرف اتنا اشارہ کافی ہو گا کہ اسی عدم ولایت کی بنا پر دار الکفر اور دار الاسلام کے مسلمان ایک دوسرے کے وارث نہیں ہو سکتے، ایک دوسرے کے قانونی ولی (Guardian) نہیں بن سکتے، با ہم شادی بیاہ نہیں کر سکتے، اور اسلامی حکومت کسی ایسے مسلمان کو اپنے ہاں ذمہ دار ی کا منصب نہیں دے سکتی جس نے دار الکفر سے شہریت کا تعلق نہ توڑا ہو۔ علاوہ بریں یہ آیت اسلامی حکومت کی خارجی سیاست پر بھی اثر ڈالتی ہے۔ س کی رو سے دولت اسلامیہ کی ذمہ دار ی اُن مسلمانوں تک محدود ہے جو اس کی حدود کے اندر رہتے ہیں۔ باہر کے مسلمانوں کے لیے کسی ذمہ دار ی کا بار اس کے سر نہیں ہے۔ یہی وہ بات ہے جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اس حدیث میں فرمائی ہے کہ انا بری من کل مسلم بین ظھرانی المشرکین۔ ’’میں کسی ایسے مسلمان کی حمایت و حفاظت کا ذمہ دار نہیں ہوں جو مشرکین کے درمیان رہتا ہو‘‘۔ اس طرح اسلامی قانون نے اُس جھگڑے کی جڑ کات دی ہے جو بالعموم بین الاقوامی پیچیدگیوں کا سبب بنتا ہے۔ کیونکہ جب کوئی حکومت اپنے حدود سے باہر رہنے والی بعض اقلیتوں کا ذمہ اپنے سر لے لیتی ہے تو اس کی وجہ سے ایسی الجھنیں پڑ جاتی ہیں جن کو بار بار کی لڑائیاں بھی نہیں سلجھا سکتیں۔
۵۱-اوپر کی آیت میں دار الاسلام سے باہر رہنے والے مسلمانوں کو ’’سیاسی ولایت‘‘ کے رشتہ سے خارج قرار دیا گیا تھا۔ اب یہ آیت اس امر کی توضیح کر تی ہے کہ اس رشتہ سے خارج ہونے کے باوجود وہ ’’دینی اخوت‘‘ کے رشتہ سے خارج نہیں ہیں۔ اگر کہیں ان پر ظلم ہو رہا ہو اور وہ اسلامی برادری کے تعلق کی بنا پر دار الاسلام کی حکومت اور اس کے باشندوں سے مدد مانگیں تو ان کا فرض ہے کہ اپنے ان مظلوم بھائیوں کی مدد کریں۔ لیکن اس کے بعد مزید توضیح کرتے ہوئے فرمایا گیا کہ ان دینی بھائیوں کی مدد کا فریضہ اندھا دھُند انجام نہیں دیا جائے گا بلکہ بین الاقوامی ذمہ دار یوں اور اخلاقی حدود کا پاس و لحاظ رکھتے ہوئے ہی انجام دیا جا سکے گا۔ اگر ظلم کرنے والی قوم سے دار الاسلام کے معاہدانہ تعلقات ہوں تو اس صورت میں مظلوم مسلمانوں کی کوئی ایسی مدد نہیں کی جا سکے گی جو ان تعلقات کی اخلاقی ذمہ دار یوں کے خلاف پڑتی ہو۔ آیت میں معاہدہ کے لیے ’’میثاق‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ اس کا مادہ ’’وثوق‘‘ ہے جو عربی زبان کی طرح اردو زبان میں بھی بھروسے اور اعتماد کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ میثاق ہر اس چیز کو کہیں گے جس کی بنا پر کوئی قوم بطریق معروف یہ اعتماد کرنے میں حق بجانب ہو کہ ہمارے اور اس کے درمیان جنگ نہیں ہے، قطع نظر اس سے کہ ہمارا اُس کے ساتھ صریح طور پر عدم محاربہ کا عہد وپ یمان ہوا ہو یا نہ ہوا ہو۔ پھر آیت میں بینکم و بینھم میثاق کے الفاظ ارشاد ہوئے ہیں، یعنی ’’تمہارے اور ان کے درمیان معاہدہ ہو‘‘۔ اس سے یہ صاف مترشح ہوتا ہے کہ دار الاسلام کی حکومت نے جو معاہدانہ تعلقات کسی غیر مسلم حکومت سے قائم کیے ہوں وہ صرف دو حکومتوں کے تعلقات ہی نہیں ہیں بلکہ دو قوموں کے تعلقات بھی ہیں اور ان کی اخلاقی ذمہ دار یوں میں مسلمان حکومت کے ساتھ مسلمان قوم اور اس کے افراد بھی شریک ہیں۔ اسلامی شریعت اس بات کو قطعاً جائز نہیں رکھتی کہ مسلم حکومت جو معاملات کسی ملک یا قوم سے طے کرے ان کی اخلاقی ذمہ دار یوں سے مسلمان قوم یا اس کے افراد سبک دوش رہیں۔ البتہ حکومتِ دار الاسلام کے معاہدات کی پابندیاں صرف اُن مسلمانوں پر ہی عائد ہوں گی جو اس حکومت کے دائرہ عمل میں رہتے ہوں اس دائرے سے باہر دنیا کے باقی مسلمان کسی طرح بھی ان ذمہ دار یوں میں شریک نہ ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ حدیبیہ میں جو صلح نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے کفار مکہ سے کی تھی اس کی بنا پر کوئی پابندی حضرت ابو بصیر اور ابو جَندل اور اُن دوسرے مسلمانوں پر عائد نہیں ہوئی جو دار الاسلام کی رعایا نہ تھے۔
۵۲-اس فقرے کا تعلق اگر قریب ترین فقرے سے مانا جائے تو مطلب یہ ہو گا کہ جس طرح کفار ایک دوسرے کی حمایت کرتے ہیں اگر تم اہل ایمان اُسی طرح آپس میں ایک دوسرے کی حمایت نہ کرو تو زمین میں فتنہ اور فسادِ عظیم برپا ہو گا۔ اور اگر اس کا تعلق اُن تمام ہدایات سے مانا جائے جو آیت ۷۲ سے یہاں تک دی گئی ہیں تو اس ارشاد کا مطلب یہ ہو گا کہ اگر دار الاسلام کے مسلمان ایک دوسرے کے ولی نہ بنیں، اور اگر ہجرت کر کے دار الاسلام میں نہ آنے والے اور دار الکفر میں مقیم رہنے والے مسلمانوں کو اہل دار الاسلام اپنی سیاسی ولایت سے خارج نہ سمجھیں، اور اگر باہر کے مظلوم مسلمانوں کے مدد مانگنے پر ان کی مدد نہ کی جائے، اور اگر اس کے ساتھ ساتھ اس قاعدے کی پابندی بھی نہ کی جائے کہ جس قوم سے مسلمانوں کا معاہدہ ہو اس کے خلاف مدد مانگنے والے مسلمانوں کی مدد نہ کی جائے گی، اور اگر مسلمان کافروں سے موالاة کا تعلق ختم نہ کریں، تو زمین میں فتنہ اور فساد عظیم برپا ہو گا۔
۵۳-مراد یہ ہے کہ اسلامی بھائی چارے کی بنا پر میراث قائم نہ ہو گی اور نہ وہ حقوق جو نسب اور مصاہرت کے تعلق کی بنا پر عائد ہوتے ہیں، دینی بھائیوں کو ایک دوسرے کے معاملہ میں حاصل ہوں گے۔ ان امور میں اسلامی تعلق کے بجائے رشتہ دار ی کا تعلق ہی قانونی حقوق کی بنیاد رہے گا۔ یہ ارشاد اس بنا پر فرمایا گیا ہے کہ ہجرت کے بعد نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے مہاجرین اور انصار کے درمیان جو مواخاة کرائی تھی اس کی وجہ سے بعض لوگ یہ خیال کر رہے تھے کہ یہ دینی بھائی ایک دوسرے کے وارث ہوں گے۔
٭٭٭
ماخذ:
http://www.tafheemonline.com/tafheem.asp
تشکر: سبط الحسین
جمع و ترتیب: سبط الحسین، اعجاز عبید
مزید ٹائپنگ: مخدوم محی الدین۔ کلیم محی الدین
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید