FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

 

ترجمہ قرآن مجید

 

 

 

 

حصہ سوم: شعراء تا فتح

 

 

 

               ترجمہ: شیخ محسن علی نجفی

 

 

 

 

 

 

سورہ شعراء۔ مکی۔ آیات ۲۲۷

 

بنام خدائے رحمن و رحیم

١۔ طا ، سین، میم

٢۔ یہ کتاب مبین کی آیات ہیں۔

٣۔ شاید اس رنج سے کہ یہ لوگ ایمان نہیں لاتے آپ اپنی جان کھو دیں گے۔

٤۔ اگر ہم چاہیں تو ان پر آسمان سے ایسی نشانیاں نازل کر دیں جس کے آگے ان کی گردنیں جھک جائیں۔

٥۔ اور ان کے پاس رحمن کی طرف سے جو بھی تازہ نصیحت آتی ہے تو یہ اس سے منہ موڑ لیتے ہیں۔

٦۔ یہ تکذیب کر بیٹھے ہیں تو جس چیز کا یہ لوگ مذاق اڑاتے تھے اب عنقریب اس کی خبریں آنے والی ہیں۔

٧۔ کیا انہوں نے کبھی زمین کی طرف نہیں دیکھا کہ ہم نے اس میں کتنی وافر مقدار میں ہر قسم کی نفیس نباتات اگائی ہیں ؟

٨۔ اس میں یقیناً ایک نشانی ضرو رہے مگر ان میں سے اکثر نہیں مانتے۔

٩۔ اور یقیناً آپ کا رب ہی بڑا غالب آنے ولا، رحم کرنے والا ہے۔

١٠۔ اور (وہ وقت یاد کریں ) جب آپ کے رب نے موسیٰ کو پکارا (اور کہا) کہ آپ ظالم لوگوں کے پاس جائیں ،

١١۔ (یعنی) فرعون کی قوم کے پاس، کیا وہ ڈرتے نہیں ؟

١٢۔ موسیٰ نے عرض کی: پروردگارا! مجھے اس بات کا خوف ہے کہ وہ میری تکذیب کریں گے۔

١٣۔ اور میرا سینہ تنگ ہو رہا ہے اور میری زبان نہیں چلتی سو تو ہارون کو (پیغام) بھیج (کہ میرا ساتھ دیں )۔

١٤۔ اور ان لوگوں کے لیے میرے ذمے ایک جرم (کا دعویٰ) بھی ہے لہٰذا مجھے خوف ہے کہ وہ مجھے قتل کر دیں گے۔

١٥۔ فرمایا: ہرگز نہیں ! آپ دونوں ہماری نشانیاں لے کر جائیں کہ ہم آپ کے ساتھ سنتے رہیں گے۔

١٦۔ آپ دونوں فرعون کے پاس جائیں اور (اس سے ) کہیں : ہم رب العالمین کے رسول ہیں ،

١٧۔ کہ تو بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ بھیج دے۔

١٨۔ فرعون نے کہا: کیا ہم نے تجھے بچپن میں اپنے ہاں نہیں پالا؟ اور تو نے اپنی عمر کے کئی سال ہمارے ہاں بسر کیے۔

١٩۔ اور تو کر گیا اپنا وہ کرتوت جو کر گیا اور تو ناشکروں میں سے ہے۔

٢٠۔ موسیٰ نے کہا: ہاں اس وقت وہ حرکت مجھ سے سرزد ہو گئی تھی اور میں خطا کاروں میں سے تھا۔

٢١۔اسی لیے جب میں نے تم لوگوں سے خوف محسوس کیا تو میں نے تم سے گریز کیا پھر میرے رب نے مجھے حکمت عنایت فرمائی اور مجھے رسولوں میں سے قرار دیا۔

٢٢۔ اور تم مجھ پر اس بات کا احسان جتاتے ہو کہ تم نے بنی اسرائیل کو غلام بنائے رکھا ہے ؟ (یہ تو غلامی تھی احسان نہیں تھا)۔

٢٣۔ فرعون نے کہا: اور رب العالمین کیا ہے ؟

٢٤۔ موسیٰ نے کہا : آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے سب کا رب، اگر تم یقین کرنے والے ہو۔

٢٥۔ فرعون نے اپنے اردگرد کے درباریوں سے کہا : کیا تم سنتے نہیں ہو؟

٢٦۔ موسیٰ نے کہا: وہ تمہارا اور تمہارے پہلے باپ دادا کا پروردگار ہے۔

٢٧۔ فرعون نے (لوگوں سے )کہا: جو رسول تمہاری طرف بھیجا گیا ہے وہ دیوانہ ہے۔

٢٨۔ موسیٰ نے کہا: وہ مشرق و مغرب اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے کا پروردگار ہے ، اگر تم عقل رکھتے ہو۔

٢٩۔ فرعون نے کہا: اگر تم نے میرے علاوہ کسی کو معبود بنایا تو میں تمہیں قیدیوں میں شامل کروں گا۔

٣٠۔ موسیٰ نے کہا: اگر میں تیرے پاس واضح چیز (معجزہ) لے آؤں تو؟

٣١۔ فرعون نے کہا: اگر تم سچے ہو تو اسے لے آؤ۔

٣٢۔ پس موسیٰ نے اپنا عصا ڈال دیا تو وہ دفعتاً نمایاں اژدھا بن گیا۔

٣٣۔ اور (گریبان سے ) اپنا ہاتھ نکالا تو وہ تمام ناظرین کے لیے چمک رہا تھا۔

٣٤۔فرعون نے اپنے گرد و پیش کے درباریوں سے کہا: یقیناً یہ شخص بڑا ماہر جادو گر ہے۔

٣٥۔ وہ چاہتا ہے کہ اپنے جادو کے ذریعے تمہیں تمہاری سرزمین سے نکال باہر کرے تو اب تم کیا مشورہ دیتے ہو؟

٣٦۔ وہ کہنے لگے : اسے اور اس کے بھائی کو مہلت دو اور شہروں میں ہرکارے بھیج دو

٣٧۔ کہ وہ تمام ماہر جادوگروں کو تمہارے پاس لے آئیں۔

٣٨۔ چنانچہ مقررہ دن کے مقررہ وقت پر جادوگر جمع کر لیے گئے۔

٣٩۔ اور لوگوں سے کہا گیا کیا تم جمع ہو جاؤ گے ؟

٤٠۔ شاید ہم جادوگروں کے پیچھے چلیں اگر یہ لوگ غالب رہیں۔

٤١۔ جب جادوگر آ گئے تو فرعون سے کہنے لگے : اگر ہم غالب رہے تو ہمارے لیے کوئی صلہ بھی ہو گا؟

٤٢۔ فرعون نے کہا: ہاں ! اور اس صورت میں تو تم مقربین میں سے ہو جاؤ گے۔

٤٣۔موسیٰ نے ان سے کہا: تمہیں جو پھینکنا ہے پھینکو۔

٤٤۔ انہوں نے اپنی رسیاں اور لاٹھیاں ڈال دیں اور کہنے لگے : فرعون کے جاہ و جلال کی قسم بے شک ہم ہی غالب آئیں گے۔

٤٥۔ پھر موسیٰ نے اپنا عصا ڈال دیا تو اس نے دفعتاً ان کے سارے خود ساختہ دھندے کو نگل لیا۔

٤٦۔ اس پر تمام جادوگر سجدے میں گر پڑے۔

٤٧۔ کہنے لگے : ہم عالمین کے پروردگار پر ایمان لے آئے ،

٤٨۔ موسیٰ اور ہارون کے رب پر۔

٤٩۔ فرعون نے کہا: میری اجازت سے پہلے تم موسیٰ کو مان گئے ؟ یقیناً یہ (موسیٰ) تمہارا بڑا ہے جس نے تمہیں جادو سکھایا ہے ابھی تمہیں (تمہارا انجام) معلوم ہو جائے گا، میں تمہارے ہاتھ اور تمہارے پاؤں مخالف سمتوں سے ضرور کٹوا دوں گا اور تم سب کو ضرور سولی پر لٹکا دوں گا۔

٥٠۔وہ بولے کوئی حرج نہیں ہم اپنے رب ے حضور لوٹ جائیں گے ،

٥١۔ ہم امید رکھتے ہیں کہ ہمارا رب ہماری خطاؤں سے درگزر فرمائے گا کیونکہ ہم سب سے پہلے ایما ن لائے ہیں۔

٥٢۔ اور ہم نے موسیٰ کی طرف وحی بھیجی کہ میرے بندوں کو لے کر رات کو نکل پڑیں یقیناً آپ کا تعاقب کیا جائے گا۔

٥٣۔(ادھر) فرعون نے شہروں میں ہرکارے بھیج دیے ،

٥٤۔ (ان کے ساتھ یہ کہلا بھیجا) کہ بے شک یہ لوگ چھوٹی سی جماعت ہیں۔

٥٥۔ اور انہوں نے ہمیں بہت غصہ دلایا ہے۔

٥٦۔ اور اب ہم سب پوری طرح مستعد ہیں۔

٥٧۔ چنانچہ ہم نے انہیں باغوں اور چشموں سے نکال دیا ہے۔

٥٨۔ اور خزانوں اور بہترین رہائش گاہوں سے بھی۔

٥٩۔ اس طرح ہم نے بنی اسرائیل کو ان کا وارث بنا دیا۔

٦٠۔ چنانچہ صبح ہوتے ہی (فرعون کے ) لوگ ان کے تعاقب میں نکل پڑے۔

٦١۔ جب دونوں گروہ ایک دوسرے کو دکھائی دینے لگے تو موسیٰ کے ساتھیوں نے کہا: ہم تو پکڑے جانے والے ہیں۔

٦٢۔ موسیٰ نے کہا: ہرگز نہیں ! میرا پروردگار یقیناً میرے ساتھ ہے ، وہ مجھے راستہ دکھا دے گا۔

٦٣۔ پھر ہم نے موسیٰ کی طرف وحی کی اپنا عصا سمندر پر ماریں چنانچہ دریا پھٹ گیا اور اس کا ہر حصہ عظیم پہاڑ کی طرح ہو گیا۔

٦٤۔ اور وہاں ہم نے دوسرے گروہ کو بھی نزدیک کر دیا ،٦٥۔ پھر ہم نے موسیٰ اور ان کے تمام ساتھیوں کو بچا لیا۔

٦٦۔ اس کے بعد دوسروں کو غرق کر دیا۔

٦٧۔ اس واقعے میں ایک نشانی ہے پھر بھی ان میں سے اکثر ایمان نہیں لائے۔

٦٨۔ اور یقیناً آپ کا پروردگار ہی بڑا غالب آنے والا، رحم کرنے والا ہے۔

٦٩۔ اور انہیں ابراہیم کا واقعہ (بھی) سنا دیجئے :

٧٠۔ انہوں نے اپنے باپ (چچا) اور اپنی قوم سے کہا: تم کس چیز کو پوجتے ہو؟

٧١۔ انہوں نے جواب دیا: ہم بتوں کو پوجتے ہیں اور اس پر ہم قائم رہتے ہیں۔

٧٢۔ ابراہیم نے کہا: جب تم انہیں پکارتے ہو تو کیا یہ تمہاری سنتے ہیں ؟

٧٣۔ یا تمہیں فائدہ یا ضرر دیتے ہیں ؟

٧٤۔ انہوں نے کہا: (نہیں ) بلکہ ہم نے تو اپنے باپ دادا کو ایسا کرتے پایا ہے۔

٧٥۔ ابراہیم نے کہا: کیا تم نے ان کی حالت دیکھی ہے جنہیں تم پوجتے ہو؟

٧٦۔ تم اور تمہارے گزشتہ باپ دادا بھی (پوجتے رہے ہیں )۔

٧٧۔ یقیناً یہ سب میرے دشمن ہیں سوائے رب العالمین کے ،

٧٨۔ جس نے مجھے پیدا کیا پھر وہی مجھے ہدایت دیتا ہے ،

٧٩۔ اور وہی مجھے کھلاتا اور پلاتا ہے ،

٨٠۔ اور جب میں بیمار ہو جاتا ہوں تو وہی مجھے شفا دیتا ہے۔

٨١۔ اور وہی مجھے موت دے گا پھر مجھے زندگی عطا کرے گا۔

٨٢۔ اور میں اسی سے امید رکھتا ہوں کہ روز قیامت میری خطاؤں سے درگزر فرمائے گا۔

٨٣۔ پروردگارا! مجھے حکمت عطا کر اور صالحین میں شامل فرما۔

٨٤۔ اور آنے والوں میں مجھے حقیقی ذکر جمیل عطا فرما۔

٨٥۔ اور مجھے نعمتوں والی جنت کا وارث قرار دے۔

٨٦۔ اور میرے باپ (چچا) کو بخش دے کیونکہ وہ گمراہوں میں سے ہے۔

٨٧۔ اور مجھے اس روز رسوا نہ کرنا جب لوگ (دوبارہ) اٹھائے جائیں گے۔

٨٨۔ اس روز نہ مال کچھ فائدہ دے گا اور نہ اولاد۔

٨٩۔ سوائے اس کے جو اللہ کے حضور قلب سلیم لے کر آئے۔

٩٠۔ اس روز جنت پرہیزگاروں کے نزدیک لائی جائے گی۔

٩١۔ اور جہنم گمراہوں کے لیے ظاہر کی جائے گی۔

٩٢۔ پھر ان سے پوچھا جائے گا : تمہارے وہ معبود کہاں ہے ؟

٩٣۔ اللہ کو چھوڑ کر (جنہیں تم پوجتے تھے ) کیا وہ تمہاری مدد کر رہے ہیں یا خود کو بچا سکتے ہیں ؟

٩٤۔ چنانچہ یہ خود اور گمراہ لوگ منہ کے بل جہنم میں گرا دیے جائیں گے۔

٩٥۔ اور سارے ابلیسی لشکر سمیت۔

٩٦۔ اور وہ اس میں جھگڑتے ہوئے کہیں گے :

٩٧۔ قسم بخدا! ہم تو صریح گمراہی میں تھے۔

٩٨۔ جب ہم تمہیں رب العالمین کے برابر درجہ دیتے تھے۔

٩٩۔ اور ہمیں تو ان مجرموں نے گمراہ کیا ہے۔

١٠٠۔ (آج) ہمارے لیے نہ تو کوئی شفاعت کرنے والا ہے ،

١٠١۔ اور نہ کوئی سچا دوست ہے۔

١٠٢۔ کاش! ہمیں ایک مرتبہ پھر پلٹنے کا موقع مل جاتا تو ہم مومنین میں سے ہوتے۔

١٠٣۔ یقیناً اس میں ایک نشانی ہے لیکن ان میں اکثر ایمان نہیں لاتے۔

١٠٤۔ اور یقیناً آپ کا پروردگار ہی غالب آنے والا، رحم کرنے والا ہے۔

١٠٥۔ نوح کی قوم نے بھی پیغمبروں کی تکذیب کی۔

١٠٦۔ جب ان کی برادری کے نوح نے ان سے کہا: کیا تم اپنا بچاؤ نہیں کرتے ہو؟

١٠٧۔ میں تمہارے لیے ایک امانتدار رسول ہوں ،

١٠٨۔ لہٰذا تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔

١٠٩۔ اور اس کام پر میں تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا میرا اجر تو صرف رب العالمین پر ہے۔

١١٠۔ لہٰذا تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔

١١١۔ انہوں نے کہا: ہم تم پر کیسے ایمان لے آئیں جب کہ ادنی درجے کے لوگ تمہارے پیروکار ہیں۔

١١٢۔نوح نے کہا: مجھے علم نہیں وہ کیا کرتے رہے ہیں۔

١١٣۔ ان کا حساب تو صرف میرے رب کے ذمے ہے ، کاش تم اسے سمجھتے۔

١١٤۔ اور میں مومنوں کو دھتکار نہیں سکتا۔

١١٥۔ میں تو صرف صاف اور صریح انداز میں تنبیہ کرنے والا ہو۔

١١٦۔ ان لوگوں نے کہا: اے نوح! اگر تم باز نہ آئے تو تمہیں ضرور سنگسار کر دیا جائے گا۔

١١٧۔ نوح نے کہا: اے میرے پروردگار! بتحقیق میری قوم نے میری تکذیب کی ہے۔

١١٨۔ پس تو ہی میرے اور ان کے درمیان حتمی فیصلہ فرما اور مجھے اور جو میرے ساتھ مؤمنین ہیں ان کو نجات دے۔

١١٩۔ چنانچہ ہم نے انہیں اور جو ان کے ہمراہ بھری کشتی میں سوار تھے سب کو بچا لیا۔

١٢٠۔ اس کے بعد ہم نے باقی سب کو غرق کر دیا۔

١٢١۔ یقیناً اس میں بھی ایک نشانی ہے لیکن ان میں سے اکثر ایمان نہیں لاتے۔

١٢٢۔ اور یقیناً آپ کا رب ہی بڑا غالب آنے والا، رحم کرنے والا ہے۔

١٢٣۔قوم عاد نے پیغمبروں کی تکذیب کی۔

١٢٤۔ جب ان کی برادری کے ہود نے ان سے کہا: کیا تم اپنا بچاؤ نہیں کرتے ؟

١٢٥۔ میں تمہارے لیے ایک امانتدار رسول ہوں۔

١٢٦۔ لہٰذا اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔

١٢٧۔ اور اس کام پر میں تم سے اجر نہیں مانگتا، میرا اجر تو صرف رب العالمین پر ہے۔

١٢٨۔ کیا تم ہر اونچی جگہ پر ایک بے سود یادگار بناتے ہو؟

١٢٩۔ اور تم بڑے محلات بناتے ہو گویا تم نے ہمیشہ رہنا ہے۔

١٣٠۔ اور جب تم (کسی پر) حملہ کرتے ہو تو نہایت جابرانہ انداز میں حملہ آور ہوتے ہو۔

١٣١۔ پس اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔

١٣٢۔نیز اس سے ڈرو جس نے ان چیزوں سے تمہاری مدد کی جن کا تمہیں (بخوبی) علم ہے۔

١٣٣۔ اس نے تمہیں جانوروں اور اولاد سے نوازا۔

١٣٤۔نیز باغات اور چشموں سے مالا مال کر دیا۔

١٣٥۔ بلاشبہ مجھے تمہارے بارے میں ایک بڑے دن کے عذاب کا خوف ہے۔

١٣٦۔ انہوں نے کہا: تم نصیحت کرو یا نہ کرو ہمارے لیے یکساں ہے۔

١٣٧۔ یہ تو بس پرانے لوگوں کی عادات ہیں۔

١٣٨۔ اور ہمیں عذاب نہیں دیا جائے گا۔

١٣٩۔ (اس طرح) انہوں نے ہود کو جھٹلایا تو ہم نے انہیں ہلاکت میں ڈال دیا، یقیناً اس میں بھی ایک نشانی ہے لیکن ان میں سے اکثر لوگ ایمان لانے والے نہ تھے۔

١٤٠۔ اور بتحقیق آپ کا پروردگار ہی بڑا غالب آنے والا، بڑا رحم کرنے والا ہے۔

١٤١۔ (قوم) ثمود نے بھی رسولوں کو جھٹلایا۔

١٤٢۔ جب ان کی برادری کے صالح نے ان سے کہا: کیا تم اپنا بچاؤ نہیں کرتے ؟

١٤٣۔ میں تمہارے لیے ایک امانتدار رسول ہوں۔

١٤٤۔پس اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔

١٤٥۔ اور اس بات پر میں تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا،میرا اجر تو صرف رب العالمین پر ہے۔

١٤٦۔کیا تم لوگ یہاں پر موجود چیزوں (نعمتوں ) میں یوں ہی بے فکر چھوڑ دیے جاؤ گے ؟

١٤٧۔ باغوں اور چشموں میں ،

١٤٨۔ اور کھیتیوں اور کھجوروں میں جن کے نرم خوشے ہیں ،

١٤٩۔ اور تم پہاڑوں کو بڑی مہارت سے تراش کر گھر بناتے ہو۔

١٥٠۔ پس اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔

١٥١۔ اور حد سے تجاوز کرنے والوں کے حکم کی اطاعت نہ کرو۔

١٥٢۔ جو زمین میں فساد پھیلاتے ہیں اور اصلاح نہیں کرتے۔

١٥٣۔ لوگوں نے کہا: تم تو بلاشبہ سحرزدہ آدمی ہو۔

١٥٤۔ اور تم ہم جیسے بشر کے سوا اور کچھ نہیں ہو، پس اگر تم سچے ہو تو کوئی نشانی (معجزہ ) پیش کرو۔

١٥٥۔ صالح نے کہا: یہ ایک اونٹنی ہے ، ایک مقررہ دن اس کے پانی پینے کی باری ہو گی اور ایک مقررہ دن تمہارے پانی پینے کی باری ہو گی۔

١٥٦۔ اور اسے بری نیت سے نہ چھونا ورنہ ایک بڑے (ہولناک) دن کا عذاب تمہیں گرفت میں لے لے گا۔

١٥٧۔ تو انہوں نے اونٹنی کی کونچیں کاٹ ڈالیں پھر وہ ندامت میں مبتلا ہوئے۔

١٥٨۔ چنانچہ عذاب نے انہیں گرفت میں لے لیا، یقیناً اس میں ایک نشانی ہے لیکن ان میں سے اکثر ایمان نہیں لاتے۔

١٥٩۔ اور بے شک آپ کا پروردگار ہی بڑا غالب آنے والا، بڑا رحم کرنے والا ہے۔

١٦٠۔ قوم لوط نے (بھی) رسولوں کی تکذیب کی۔

١٦١۔ جب ان کی برادری کے لوط نے ان سے کہا: کیا تم اپنا بچاؤ نہیں کرتے ؟

١٦٢۔میں تمہارے لیے ایک امانتدار رسول ہوں۔

١٦٣۔ پس اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔

١٦٤۔ اور میں اس کام پر تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا میرا اجر تو بس رب العالمین پر ہے۔

١٦٥۔ کیا ساری دنیا میں سے تم (شہوت رانی کے لیے ) مردوں کے پاس ہی جاتے ہو؟

١٦٦۔اور تمہارے رب نے جو بیویاں تمہارے لیے خلق کی ہیں انہیں چھوڑ دیتے ہو؟ بلکہ تم تو حد سے تجاوز کرنے والی قوم ہو۔

١٦٧۔ وہ کہنے لگے : اے لوط! اگر تو باز نہ آیا تو تو ضرور نکال دیا جائے گا۔

١٦٨۔ لوط نے کہا: میں تمہارے اس کر دار کے سخت دشمنوں میں سے ہوں۔

١٦٩۔ پروردگارا! مجھے اور میرے گھر والوں کو ان کے (برے ) کر دار سے نجات عطا فرما۔

١٧٠۔ چنانچہ ہم نے انہیں اور ان کے تمام اہل خانہ کو نجات دی۔

١٧١۔ سوائے ایک بڑھیا کے جو پیچھے رہنے والوں میں رہ گئی۔

١٧٢۔ پھر ہم نے باقی سب کو تباہ کر کے رکھ دیا۔

١٧٣۔ اور ان پر ہم نے بارش برسائی، پس تنبیہ شدہ لوگوں پر یہ بہت بری بارش تھی۔

١٧٤۔ یقیناً اس میں ایک نشانی ہے لیکن ان میں سے اکثر لوگ ایمان لانے والے نہیں۔

١٧٥۔ اور یقیناً آپ کا رب ہی بڑا غالب آنے والا ، بڑا رحم کرنے والا ہے۔

١٧٦۔ ایکہ والوں نے بھی رسولوں کی تکذیب کی۔

١٧٧۔ جب شعیب نے ان سے کہا: کیا تم اپنا بچاؤ نہیں کرتے ؟

١٧٨۔میں تمہارے لیے ایک امانتدار رسول ہوں۔

١٧٩۔ پس اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔

١٨٠۔ اور اس کام پر میں تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا،میرا اجر تو صرف رب العالمین پر ہے۔

١٨١۔ تم پیمانہ پورا بھرو اور نقصان پہنچانے والوں میں سے نہ ہونا۔

١٨٢۔ اور سیدھی ترازو سے تولا کرو۔

١٨٣۔اور لوگوں کو ان کی چیزیں کم کر کے نہ دیا کرو اور زمین میں فساد پھیلاتے مت پھرو۔

١٨٤۔ اور اس اللہ سے ڈرو جس نے تمہیں اور گزشتہ نسلوں کو پیدا کیا ہے

١٨٥۔ انہوں نے کہا: تم تو بس سحرزدہ ہو۔

١٨٦۔ اور تم تو بس ہم جیسے انسان ہو نیز ہمارا خیال ہے کہ تم جھوٹے ہو۔

١٨٧۔ پس تم سچے ہو تو آسمان کا کوئی ٹکڑا ہم پر گرا دو۔

١٨٨۔ شعیب نے کہا: میرا پروردگار تمہارے اعمال سے خوب واقف ہے۔

١٨٩۔ انہوں نے شعیب کو جھٹلا ہی دیا، چنانچہ سائبان والے دن کے عذاب نے انہیں گرفت میں لے لیا، بے شک وہ بہت بڑے (ہولناک) دن کا عذاب تھا۔

١٩٠۔ اس میں یقیناً ایک نشانی ہے لیکن ان میں سے اکثر ایمان لانے والے نہ تھے۔

١٩١۔ اور یقیناً آپ کا پروردگار ہی بڑا غالب آنے والا، بڑا رحم کرنے والا ہے۔

١٩٢۔ اور بتحقیق یہ (قرآن) رب العالمین کا نازل کیا ہو ا ہے۔

١٩٣۔ جسے روح الامین نے اتارا،

١٩٤۔ آپ کے قلب پر تاکہ آپ تنبیہ کرنے والوں میں سے ہو جائیں ،

١٩٥۔ صاف عربی زبان میں۔

١٩٦۔ اور اس (قرآن) کا ذکر (انبیائے ) ماسلف کی کتب میں بھی ہے۔

١٩٧۔ کیا یہ قرآن ان کے لیے ایک نشانی (معجزہ) نہیں ہے کہ اس بات کو بنی اسرائیل کے علماء جانتے ہیں۔

١٩٨۔ اور اگر ہم اس قرآن کو کسی غیر عربی پر نازل کرتے ،

١٩٩۔ اور وہ اسے پڑھ کر انہیں سنا دیتا تب بھی یہ اس پر ایمان نہ لاتے۔

٢٠٠۔ اس طرح (کے دلائل دے کر) ہم نے اس قرآن کو ان مجرموں کے دلوں میں سے گزارا ہے۔

٢٠١۔ پھر بھی وہ اس پر ایمان نہیں لائیں گے جب تک دردناک عذاب دیکھ نہ لیں۔

٢٠٢۔ پس یہ عذاب ناگہاں اور بے خبری میں ان پر واقع ہو گا۔

٢٠٣۔ تو وہ کہیں گے : کیا ہمیں مہلت مل سکے گی؟

٢٠٤۔ کیا یہ لوگ ہمارے عذاب کے لیے عجلت کر رہے ہیں ؟

٢٠٥۔ تو کیا آپ نے دیکھا کہ اگر ہم انہیں برسوں سامان زندگی دیتے رہیں ،

٢٠٦۔ پھر ان پر وہ عذاب آ جائے جس کا ان کے ساتھ وعدہ ہوا تھا،

٢٠٧۔ تو وہ (سامان زندگی) ان کے کسی کام نہ آئے گا جو انہیں دیا گیا تھا۔

٢٠٨۔ اور ہم نے کسی بستی کو ہلاک نہیں کیا مگر یہ کہ اس بستی کو تنبیہ کرنے والے تھے۔

٢٠٩۔ یاد دہانی کے لیے ، اور ہم کبھی بھی ظالم نہ تھے۔

٢١٠۔ اور اس قرآن کو شیاطین نے نہیں اتارا

٢١١۔ اور نہ یہ کام ان سے کوئی مناسبت رکھتا ہے اور نہ ہی وہ استطاعت رکھتے ہیں۔

٢١٢۔ وہ تو یقیناً (وحی کے ) سننے سے بھی دور رکھے گئے ہیں۔

٢١٣۔پس آپ اللہ کے ساتھ کسی اور معبود کو نہ پکاریں ورنہ آپ بھی عذاب پانے والوں میں شامل ہو جائیں گے۔

٢١٤۔ اور اپنے قریب ترین رشتے داروں کو تنبیہ کیجیے۔

٢١٥۔ اور مومنین میں سے جو آپ کی پیروی کریں ان کے ساتھ تواضع سے پیش آئیں۔

٢١٦۔ اگر وہ آپ کی نافرمانی کریں تو ان سے کہہ دیجئے کہ میں تمہارے کر دار سے بیزار ہوں۔

٢١٧۔ اور بڑے غالب آنے والے مہربان پر بھروسہ رکھیں۔

٢١٨۔ جو آپ کو اس وقت دیکھ رہا ہوتا ہے جب آپ (نماز کے لیے ) اٹھتے ہیں۔

٢١٩۔ اور سجدہ کرنے والوں میں آپ کی نشست و برخاست کو بھی۔

٢٢٠۔ وہ یقیناً بڑا سننے والا، جاننے والا ہے۔

٢٢١۔ کیا میں تمہیں خبر دوں کہ شیاطین کس پر اترتے ہیں ؟

٢٢٢۔ ہر جھوٹے بدکار پر (اترتے ہیں )۔

٢٢٣۔ وہ کان لگائے رکھتے ہیں اور ان میں اکثر جھوٹے ہیں۔

٢٢٤۔ اور شاعروں کی پیروی تو گمراہ لوگ کرتے ہیں۔

٢٢٥۔ کیا آپ نہیں دیکھتے کہ یہ لوگ ہر وادی میں بھٹکتے پھرتے ہیں۔

٢٢٦۔ اور جو کہتے ہیں اسے کرتے نہیں۔

٢٢٧۔ سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک عمل بجا لائے اور کثرت سے اللہ کو یاد کریں اور مظلوم واقع ہونے کے بعد انتقام لیں اور ظالموں کو عنقریب معلوم ہو جائے گا کہ وہ کس انجام کو پلٹ کر جائیں گے۔

 

 

 

سورہ نمل۔ مکی۔ آیات ۹۳

 

بنام خدائے رحمن و رحیم

١۔ طا، سین، یہ قرآن اور کتاب مبین کی آیات ہیں۔

٢۔ مومنین کے لیے ہدایت و بشارت ہیں۔

٣۔ جو نماز قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔

٤۔ جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے یقیناً ان کے لیے ہم نے ان کے افعال خوشنما بنا دیے ہیں پس وہ سرگرداں پھرتے ہیں۔

٥۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے لیے برا عذاب ہے اور آخرت میں یہی سب سے زیادہ خسارے میں ہوں گے۔

٦۔ اور (اے رسول) یہ قرآن آپ کو یقیناً ایک حکیم، دانا کی طرف سے دیا جا رہا ہے۔

٧۔ (اس وقت کا ذکر کرو) جب موسیٰ نے اپنے گھر والوں سے کہا:میں نے ایک آگ دیکھی ہے ، میں جلد ہی اس میں سے کوئی خبر لے کر تمہارے پاس آتا ہوں یا انگارا سلگا کر تمہارے پاس لاتا ہوں تاکہ تم تاپو۔

٨۔ جب موسیٰ آگ کے پاس پہنچے تو ندا دی گئی: بابرکت ہو وہ (جس کا جلوہ) آگ کے اندر ہے اور (بابرکت ہو) وہ جو اس کے پاس ہے اور پاکیزہ ہے سارے جہاں کا پروردگار اللہ۔

٩۔ اے موسیٰ! یقیناً میں ہی غالب آنے والا، حکمت والا اللہ ہوں۔

١٠۔ اور آپ اپنا عصا پھینک دیں ، جب موسیٰ نے دیکھا کہ عصا سانپ کی طرح جنبش میں آ گیا ہے پیٹھ پھیر کر پلٹے اور پیچھے مڑ کر (بھی) نہ دیکھا (ندا آئی) اے موسیٰ! ڈریے نہیں ، بے شک میرے حضور مرسلین ڈرا نہیں کرتے۔

١١۔ البتہ جس نے ظلم کا ارتکاب کیا ہو پھر برائی کے بعد اسے نیکی میں بدل دیا ہو تو یقیناً میں بڑا بخشنے والا، رحم کرنے والا ہوں۔

١٢۔ اور اپنا ہاتھ تو اپنے گریبان میں ڈالیے بغیر کسی عیب کے چمکتا ہوا نکلے گا، یہ ان نو نشانیوں میں سے ہے جنہیں لے کر فرعون اور اس کی قوم کی طرف (آپ کو جانا ہے ) بے شک وہ بڑے فاسق لو گ ہیں۔

١٣۔ جب ہماری نشانیاں نمایاں ہو کر ان کے پاس آئیں تو انہوں نے کہا: یہ تو صریح جادو ہے۔

١٤۔ وہ ان نشانیوں کے منکر ہوئے حالانکہ ان کے دلوں کو یقین آ گیا تھا، ایسا انہوں نے ظلم اور غرور کی وجہ سے کیا، پس اب دیکھ لو کہ ان مفسدوں کا کیا انجام ہوا۔

١٥۔ اور بتحقیق ہم نے داؤد اور سلیمان کو علم دیا اور ان دونوں نے کہا: ثنائے کامل ہے اس اللہ کے لیے جس نے ہمیں اپنے بہت سے مومن بندوں پر فضیلت عنایت فرمائی۔

١٦۔ اور سلیمان داؤد کے وارث بنے اور بولے : اے لوگو! ہمیں پرندوں کی بولی کی تعلیم دی گئی ہے اور ہمیں سب طرح کی چیزیں عنایت ہوئی ہیں ، بے شک یہ تو ایک نمایاں فضل ہے۔

١٧۔ اور سلیمان کے لیے جنوں اور انسانوں اور پرندوں کے لشکر جمع کیے گئے اور ان کی جماعت بندی کی جاتی تھی۔

١٨۔ یہاں تک کہ جب وہ چیونٹیوں کی وادی میں پہنچے تو ایک چیونٹی نے کہا: اے چیونٹیو! اپنے اپنے گھروں میں گھس جاؤ، کہیں سلیمان اور ان کا لشکر تمہیں کچل نہ ڈالے اور انہیں پتہ بھی نہ چلے۔

١٩۔ اس کی باتیں سن کر سلیمان ہنستے ہوئے مسکرائے اور کہنے لگے : پروردگارا مجھے توفیق دے کہ میں تیری ان نعمتوں کا شکر بجا لاؤں جن سے تو نے مجھے اور میرے والدین کو نوازا ہے اور یہ کہ میں ایسا صالح عمل انجام دوں جو تجھے پسند آئے اور اپنی رحمت سے مجھے اپنے صالح بندوں میں داخل فرما۔

٢٠۔ سلیمان نے پرندوں کا معائنہ کیا تو کہا: کیا بات ہے کہ مجھے ہُدہُد نظر نہیں آ رہا؟ کیا وہ غائب ہو گیا ہے ؟

٢١۔ میں اسے ضرور سخت ترین سزا دوں گا یا میں اسے ذبح کر دوں گا مگر یہ کہ میرے پاس کوئی واضح عذر پیش کرے۔

٢٢۔ زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ اس نے (حاضر ہو کر) کہا: مجھے اس چیز کا علم ہوا ہے جو آپ کو معلوم نہیں اور ملک سبا سے آپ کے لیے ایک یقینی خبر لے کر آیا ہوں۔

٢٣۔ میں نے ایک عورت دیکھی جو ان پر حکمران ہے اور اسے ہر قسم کی چیزیں دی گئیں ہیں اور اس کا عظیم الشان تخت ہے۔

٢٤۔ میں نے دیکھا کہ وہ اور اس کی قوم اللہ کو چھوڑ کر سورج کو سجدہ کرتے ہیں اور شیطان نے ان کے اعمال ان کے لیے خوشنما بنا رکھے ہیں اور اس طرح ان کے لیے راہ خدا کو مسدود کر دیا ہے ، پس وہ ہدایت نہیں پاتے۔

٢٥۔ کیا وہ اللہ کے لیے سجدہ نہیں کرتے جو آسمانوں اور زمین کی پوشیدہ چیزیں نکالتا ہے اور وہ تمہارے پوشیدہ اور ظاہری اعمال کو جانتا ہے ؟

٢٦۔ اللہ کے سوا کو ئی معبود نہیں ، وہی عرش عظیم کا مالک ہے۔

٢٧۔ سلیمان نے کہا:ہم ابھی دیکھ لیتے ہیں کیا تو نے سچ کہا ہے یا تو جھوٹوں میں سے ہے۔

٢٨۔ میرا یہ خط لے جا اور اسے ان لوگوں کے پاس ڈال دے پھر ان سے ہٹ جا اور دیکھ کہ وہ کیا جواب دیتے ہیں۔

٢٩۔ ملکہ نے کہا: اے دربار والو! میری طرف ایک محترم خط ڈالا گیا ہے۔

٣٠۔ یہ سلیمان کی جانب سے ہے اور وہ یہ ہے : خدائے رحمن و رحیم کے نام سے

٣١۔ تم میرے مقابلے میں بڑا ئی مت کرو اور فرمانبردار ہو کر میرے پاس چلے آؤ۔

٣٢۔ ملکہ نے کہا: اے اہل دربار! میرے اس معاملے میں مجھے رائے دو، میں تمہاری غیر موجودگی میں کسی معاملے کا فیصلہ نہیں کیا کرتی۔

٣٣۔ انہوں نے کہا: ہم طاقتور اور شدید جنگجو ہیں تاہم فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے ، آپ دیکھ لیں کہ آپ کو کیا حکم کرنا چاہیے۔

٣٤۔ ملکہ نے کہا: بادشاہ جب کسی بستی میں داخل ہوتے ہیں تو اسے تباہ کرتے ہیں اور اس کے عزت داروں کو ذلیل کرتے ہیں اور یہ لوگ بھی اسی طرح کریں گے۔

٣٥۔ اور میں ان کی طرف ایک ہدیہ بھیج دیتی ہوں اور دیکھتی ہوں کہ ایلچی کیا (جواب) لے کر واپس آتے ہیں۔

٣٦۔پس جب وہ سلمان کے پاس پہنچا تو انہوں نے کہا: کیا تم مال سے میری مدد کرنا چاہتے ہو؟ جو کچھ اللہ نے مجھے دے رکھا ہے وہ اس سے بہتر ہے جو اس نے تمہیں دے رکھا ہے جب کہ تمہیں اپنے ہدیے پر بڑا ناز ہے۔

٣٧۔ (اے ایلچی) تو انہیں کی طرف واپس پلٹ جا، ہم ان کے پاس ایسے لشکر لے کر ضرور آئیں گے جن کا وہ مقابلہ نہیں کر سکیں گے اور ہم انہیں وہاں سے ذلت کے ساتھ ضرور نکال دیں گے اور وہ خوار بھی ہوں گے۔

٣٨۔ سلیمان نے کہا: اے اہل دربار! تم میں سے کون ہے جو ملکہ کا تخت میرے پاس لے آئے قبل اس کے کہ وہ فرمانبردار ہو کر میرے پاس آئیں ؟

٣٩۔ جنوں میں سے ایک عیار نے کہا: میں اسے آپ کے پاس حاضر کر دیتا ہوں قبل اس کے کہ آپ اپنی جگہ سے اٹھیں اور میں یہ کام انجام دینے کی طاقت رکھتا ہوں ، امین بھی ہوں۔

٤٠۔ جس کے پاس کتاب میں سے کچھ علم تھا وہ کہنے لگا: میں آپ کی پلک جھپکنے سے پہلے اسے آپ کے پاس حاضر کر دیتا ہوں ، جب سلیمان نے تخت کو اپنے پاس نصب شدہ دیکھا تو کہا: یہ میرے پروردگار کا فضل ہے تاکہ وہ مجھے آزمائے کہ میں شکر کرتا ہوں یا کفران اور جو کوئی شکر کرتا ہے وہ خود اپنے فائدے کے لیے شکر کرتا ہے اور جو ناشکری کرتا ہے تو میرا پروردگار یقیناً بے نیاز اور صاحب کرم ہے۔

٤١۔ سلیمان نے کہا: ملکہ کے تخت کو اس کے لیے انجانا بنا دو، ہم دیکھیں کیا وہ شناخت کر لیتی ہے یا شناخت نہ کرنے والوں میں سے ہوتی ہے۔

٤٢۔ جب ملکہ حاضر ہوئی تو (اس سے ) کہا گیا: کیا آپ کا تخت ایسا ہی ہے ؟ ملکہ نے کہا: گویا یہ تو وہی ہے ، ہمیں اس سے پہلے معلوم ہو چکا ہے اور ہم فرمانبردار ہو چکے ہیں۔

٤٣۔ اور سلیمان نے اسے غیر اللہ کی پرستش سے روک دیا کیونکہ پہلے وہ کافروں میں سے تھی۔

٤٤۔ ملکہ سے کہا گیا: محل میں داخل ہو جائیے ، جب اس نے محل کو دیکھا تو خیال کیا کہ وہاں گہرا پانی ہے اور اس نے اپنی پنڈلیاں کھول دیں ، سلیمان نے کہا: یہ شیشے سے مرصع محل ہے ، ملکہ نے کہا: پروردگارا! میں نے اپنے نفس پر ظلم کیا اور اب میں سلیمان کے ساتھ رب العالمین اللہ پر ایمان لاتی ہوں۔

٤٥۔ اور ہم نے (قوم) ثمود کی طرف ان کی برادری کے صالح کو (یہ پیغام دے کر) بھیجا کہ اللہ کی عبادت کرو تو وہ دو فریق بن کر جھگڑنے لگے۔

٤٦۔ صالح نے کہا: اے میری قوم! نیکی سے پہلے برائی کے لیے کیوں عجلت کرتے ہو؟ تم اللہ سے معافی کیوں طلب نہیں کرتے تاکہ تم پر رحم کیا جائے ؟

٤٧۔ وہ کہنے لگے : تم اور تمہارے ساتھی ہمارے لیے بد شگونی کا سبب ہیں ، صالح نے کہا: تمہاری بد شگونی اللہ کے پاس ہے بلکہ تم لوگ آزمائے جا رہے ہو۔

٤٨۔ اور اس شہر میں نو دھڑے باز تھے جو زمین میں فساد برپا کرتے تھے اور اصلاح کا کوئی کام نہیں کرتے تھے۔

٤٩۔ انہوں نے کہا: آپس میں اللہ کی قسم کھاؤ کہ ہم رات کے وقت صالح اور ان کے گھر والوں پر ضرور شب خون ماریں گے پھر ان کے وارث سے یہی کہیں گے کہ ہم ان کے گھر والوں کی ہلاکت کے موقع پر موجود ہی نہ تھے اور ہم سچے ہیں۔

٥٠۔ اور انہوں نے مکارانہ چال چلی تو ہم نے ایسی حکیمانہ تدبیریں کیں کہ انہیں خبر تک نہ ہوئی۔

٥١۔ پس دیکھ لو! ان کی مکاری کا کیا انجام ہوا، ہم نے انہیں اور ان کی پوری قوم کو نابود کر دیا۔

٥٢۔ پس ان کے یہ گھر ان کے ظلم کے نتیجے میں ویران پڑے ہیں ، اس میں علم رکھنے والوں کے لیے ایک نشانی ہے۔

٥٣۔ اور ہم نے ایمان والوں کو نجات دی اور وہی تقویٰ والے تھے۔

٥٤۔ اور لوط (کا وہ وقت یاد کرو) جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا: کیا تم بدکاری کا ارتکاب کرتے ہو؟ حالانکہ تم سمجھتے ہو۔

٥٥۔ کیا تم عورتوں کو چھوڑ کر شہوت پرستی کے لیے مردوں کا رخ کرتے ہو؟ بلکہ تم تو جاہل قوم ہو۔

٥٦۔ تو ان کی قوم کا بس یہی جواب تھا کہ وہ کہیں لوط کے گھر والوں کو اپنی بستی سے نکال دو یہ لوگ بڑے پاکباز بنتے ہیں۔

٥٧۔ تو ہم نے لوط اور ان کے گھر والوں کو بچا لیا سوائے لوط کی بیوی کے ، ہم نے اس کا مقدر یہ بنایا تھا کہ وہ پیچھے رہ جائے۔

٥٨۔ اور ہم نے ان پر ایک بارش برسائی جو ان کے لیے بہت ہی بری بارش تھی جنہیں تنبیہ کی گئی تھی۔

٥٩۔ کہہ دیجئے : ثنائے کامل ہے اللہ کے لیے اور سلام ہو اس کے برگزیدہ بندوں پر، کیا اللہ بہتر ہے یا وہ جنہیں یہ شریک ٹھہراتے ہیں ؟

 

پارہ : اَمَّنْ خَلَقَ ٢٠

 

٦٠۔ کس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور آسمان سے تمہارے لیے پانی برسایا؟ پھر ہم نے اس سے پر رونق باغات اگائے ، ان درختوں کا اگانا تمہارے بس میں نہ تھا،تو کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود بھی ہے ؟ بلکہ یہ لوگ تو منحرف قوم ہیں۔

٦١۔ کس نے زمین کو جائے قرار بنایا اور اس کے بیچ میں نہریں بنائیں اور اس کے لیے پہاڑ بنائے اور دو سمندروں کے درمیان ایک آڑ بنائی؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود بھی ہے ؟بلکہ ان میں سے اکثر لوگ نہیں جانتے۔

٦٢۔ کون ہے جو مضطرب کی فریاد سنتا ہے جب وہ اسے پکارتا ہے اور اس کی تکلیف دور کرتا ہے اور تمہیں زمین میں جانشین بناتا ہے ؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود بھی ہے ؟ تم لوگ بہت کم نصیحت حاصل کرتے ہو۔

٦٣۔ کون ہے جو خشکی اور سمندر کی تاریکیوں میں تمہاری رہنمائی کرتا ہے اور کون ہے جو ہواؤں کو خوشخبری کے طور پر اپنی رحمت کے آگے آگے بھیجتا ہے ؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود بھی ہے ؟ اللہ بالاتر ہے ان چیزوں سے جنہیں یہ شریک ٹھہراتے ہیں۔

٦٤۔ کون خلقت کی ابتدا کرتا ہے پھر اسے دہراتا ہے اور کون تمہیں آسمان اور زمین سے رزق دیتا ہے ؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود بھی ہے ؟ کہہ دیجئے : اپنی دلیل پیش کرو اگر تم لوگ سچے ہو۔

٦٥۔ کہہ دیجئے : جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے ، وہ غیب کی باتیں نہیں جانتے سوائے اللہ کے اور نہ انہیں یہ علم ہے کہ کب اٹھائے جائیں گے۔

٦٦۔ بلکہ آخرت کے بارے میں ان کا علم ماند پڑ گیا ہے ، بلکہ وہ اس کے بارے میں شک میں ہیں بلکہ یہ اس کے بارے میں اندھے ہیں۔

٦٧۔ اور کفار کہتے ہیں : جب ہم اور ہمارے باپ دادا خاک ہو چکے ہوں گے تو کیا ہمیں (قبروں سے ) نکالا جائے گا؟

٦٨۔ اس قسم کا وعدہ پہلے بھی ہم سے اور ہمارے باپ دادا سے ہوتا رہا ہے یہ تو قصہ ہائے پارینہ کے سوا کچھ نہیں۔

٦٩۔ کہہ دیجئے : زمین میں چل پھر کر دیکھ لو کہ مجرموں کا کیا انجام ہوا ہے۔

٧٠۔ اور (اے رسول) ان (کے حال) پر رنجیدہ نہ ہوں اور نہ ہی ان کی مکاریوں پر دل تنگ ہوں۔

٧١۔ اور وہ کہتے ہیں : اگر تم سچے ہو تو یہ وعدہ آخر کب پورا ہو گا؟

٧٢۔ کہہ دیجئے : ممکن ہے جن بعض باتوں کے لیے تم عجلت چاہ رہے ہو وہ تمہارے پس پشت پہنچ چکی ہوں۔

٧٣۔ اور بتحقیق آپ کا پروردگار لوگوں پر بڑا فضل کرنے والا ہے لیکن اکثر لوگ شکر نہیں کرتے۔

٧٤۔ اور جو کچھ ان کے سینوں میں پوشیدہ ہے اور جو کچھ وہ ظاہر کرتے ہیں بتحقیق آپ کا پروردگار اسے خوب جانتا ہے۔

٧٥۔اور آسمان اور زمین میں کوئی ایسی پوشیدہ بات نہیں ہے جو کتاب مبین میں نہ ہو۔

٧٦۔ بے شک یہ قرآن بنی اسرائیل کو اکثر وہ باتیں بیان کر دیتا ہے جن میں وہ اختلاف کرتے ہیں۔

٧٧۔ اور یہ اہل ایمان کے لیے یقیناً ہدایت اور رحمت ہے۔

٧٨۔ یقیناً آپ کا رب اپنے حکم سے ان کے درمیان فیصلہ کر دیتا ہے اور وہی بڑا غالب آنے والا ، بڑا علم رکھنے والا ہے۔

٧٩۔ لہٰذا آپ اللہ پر بھروسا کریں ، یقیناً آپ صریح حق پر ہیں۔

٨٠۔ آپ نہ مردوں کو سنا سکتے ہیں نہ ہی بہروں کو اپنی دعوت سنا سکتے ہیں جب وہ پیٹھ پھر کر جا رہے ہوں۔

٨١۔ اور نہ ہی آپ اندھوں کو ان کی گمراہی سے بچا کر راستہ دکھا سکتے ہیں ، آپ ان لوگوں تک اپنی آواز پہنچا سکتے ہیں جو ہماری آیات پر ایمان لاتے ہیں اور پھر فرمانبردار بن جا تے ہیں۔

٨٢۔ اور جب ان پر وعدہ (عذاب) پورا ہونے والا ہو گا تو ہم ان کے لیے زمین سے ایک چلنے پھرنے والا نکالیں گے جو ان سے کلام کرے گا کہ درحقیقت لوگ ہماری آیات پر یقین نہیں کرتے تھے۔

٨٣۔ اور جس روز ہم ہر امت میں سے ایک ایک جماعت کو جمع کریں گے جو ہماری آیات کو جھٹلایا کرتی تھیں پھر انہیں روک دیا جائے گا۔

٨٤۔ جب سب آ جائیں گے تو (اللہ) فرمائے گا: کیا تم نے میری آیات کو جھٹلا دیا تھا؟ جب کہ ابھی تم انہیں اپنے احاطہ علم میں بھی نہیں لائے تھے اور تم کیا کچھ کرتے تھے ؟

٨٥۔ اور ان کے ظلم کی وجہ سے بات ان کے خلاف پوری ہو کر رہے گی اور وہ بول نہیں سکیں گے۔

٨٦۔ کیا انہوں نے یہ نہیں دیکھا کہ ہم نے رات اس لیے بنائی کہ وہ اس میں سکون حاصل کریں اور دن کو روشن بنایا؟ ایمان لانے والوں کے لیے اس میں یقیناً نشانیاں ہیں۔

٨٧۔ اور جس روز صور پھونکا جائے گا تو آسمانوں اور زمین کی تمام موجودات خوفزدہ ہو جائیں گی سوائے ان لوگوں کے جنہیں اللہ چاہے اور سب نہایت عاجزی کے ساتھ اس کے حضور پیش ہوں گے۔

٨٨۔ اور آپ پہاڑوں کو دیکھتے ہیں تو سمجھتے ہیں کہ یہ ایک جگہ ساکن ہیں جب کہ (اس وقت) یہ بادلوں کی طرح چل رہے ہوں گے ، یہ سب اس اللہ کی صنعت ہے جس نے ہر چیز کو پختگی سے بنایا ہے ، وہ تمہارے اعمال سے یقیناً خوب باخبر ہے۔

٨٩۔ جو شخص نیکی لے کر آئے گا اسے اس سے بہتر اجر ملے گا اور وہ اس دن کی ہولناکیوں سے امن میں ہوں گے۔

٩٠۔ اور جو شخص برائی لے کر آئے گا پس انہیں اوندھے منہ آگ میں پھینک دیا جائے گا، کیا تمہیں اپنے کیے کے علاوہ کوئی اور جزا مل سکتی ہے ؟

٩١۔ (اے رسول! آپ یہ کہیں ) مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں اس شہر (مکہ) کے رب کی بندگی کروں جس نے اسے محترم بنایا اور ہر چیز اسی کی ملکیت ہے اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں فرمانبرداروں میں سے رہوں۔

٩٢۔ اور یہ کہ میں قرآن پڑھ کر سناؤں اس کے بعد جو ہدایت اختیار کرے گا وہ اپنے لیے ہدایت اختیار کرے گا اور جو گمراہی میں چلا جائے اسے کہہ دیجئے : میں تو بس تنبیہ کرنے والا ہوں۔

٩٣۔ اور کہہ دیجئے : ثنائے کامل اللہ کے لیے ہے ، عنقریب وہ تمہیں اپنی نشانیاں دکھائے گا تو تم انہیں پہچان لو گے اور آپ کا پروردگار تمہارے اعمال سے غافل نہیں ہے۔

 

سورۃ قصص۔ مکی۔ آیات ٨٨

 

بنام خدائے رحمن و رحیم

١۔ طا، سین ، میم۔

٢۔ یہ کتاب مبین کی آیات ہیں۔

٣۔ ہم آپ کو موسیٰ اور فرعون کا واقعہ اہل ایمان کے لیے حقیقت کے مطابق سناتے ہیں۔

٤۔فرعون نے زمین میں سر اٹھا رکھا تھا اور اس کے باسیوں کو گروہوں میں تقسیم کر دیا تھا، ان میں سے ایک گروہ کو اس نے بے بس کر رکھا تھا، وہ ان کے بیٹوں کو ذبح کرتا اور ان کی عورتوں کو زندہ چھوڑتا تھا اور وہ یقیناً فسادیوں میں سے تھا۔

٥۔ اور ہم یہ ارادہ رکھتے ہیں کہ جنہیں زمین میں بے بس کر دیا گیا ہے ہم ان پر احسان کریں اور ہم انہیں پیشوا بنائیں اور ہم انہی کو وارث بنائیں۔

٦۔ اور ہم زمین میں انہیں اقتدار دیں اور ان کے ذریعے ہم فرعون اور ہامان اور ان کے لشکروں کو وہ کچھ دکھا دیں جس کا انہیں ڈر تھا۔

٧۔ اور ہم نے مادر موسیٰ کی طرف وحی بھیجی کہ انہیں دودھ پلائیں اور جب ان کے بارے میں خوف محسوس کریں تو انہیں دریا میں ڈال دیں اور بالکل خوف اور رنج نہ کریں ، ہم انہیں آپ کی طرف پلٹانے والے اور انہیں پیغمبروں میں سے بنانے والے ہیں۔

٨۔ چنانچہ آل فرعون نے انہیں اٹھا لیا تاکہ وہ ان کے لیے دشمن اور باعث رنج بن جائیں ، یقیناً فرعون اور ہامان اور ان کے دونوں لشکر والے خطاکار تھے۔

٩۔ اور فرعون کی عورت نے کہا:یہ (بچہ) تو میری اور تیری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے ، اسے قتل نہ کرو۔ ممکن ہے یہ ہمارے لیے مفید ثابت ہو یا ہم اسے بیٹا بنا لیں اور وہ (انجام سے ) بے خبر تھے ؟

١٠۔ اور ادھر مادر موسیٰ کا دل بے قرار ہو گیا، قریب تھا کہ وہ یہ راز فاش کر دیتیں اگر ہم نے ان کے دل کو مضبوط نہ کیا ہوتا، تاکہ وہ ایمان رکھنے والوں میں سے ہو جائیں۔

١١۔ اور مادر موسیٰ نے ان کی بہن سے کہا: اس کے پیچھے پیچھے چلی جا تو وہ موسیٰ کو دور سے دیکھتی رہیں کہ دشمنوں کو (اس کا) پتہ نہ چلے۔

١٢۔ اور ہم نے موسیٰ پر دائیوں کا دودھ پہلے سے حرام کر دیا تھا، چنانچہ موسیٰ کی بہن نے کہا: کیا میں تمہیں ایک ایسے گھرانے کا پتہ بتا دوں جو اس بچے کو تمہارے لیے پالیں اور وہ اس کے خیرخواہ بھی ہوں ؟

١٣۔ (اس طرح) ہم نے موسیٰ کو ان کی ماں کے پاس واپس پہنچا دیا تاکہ ماں کی آنکھ ٹھنڈی ہو جائے اور غم نہ کرے اور یہ جان لے کہ اللہ کا وعدہ سچا ہوتا ہے لیکن ان میں سے اکثر نہیں جانتے۔

١٤۔ اور جب موسیٰ رشد کو پہنچ کر تنومند ہو گئے تو ہم نے انہیں حکمت اور علم عطا کیا اور ہم نیکی کرنے والوں کو اسی طرح جزا دیتے ہیں۔

١٥۔ اور موسیٰ شہر میں اس وقت داخل ہوئے جب شہر والے بے خبر تھے ، پس وہاں دو آدمیوں کو لڑتے پایا، ایک ان کی قوم میں سے تھا اور دوسرا ان کے دشمنوں میں سے تھا تو جو ان کی قوم میں سے تھا اس نے اپنے دشمن کے مقابلے کے لیے موسیٰ کو مدد کے لیے پکارا تو موسیٰ نے اس (دوسرے ) کو گھونسا مارا اور اس کا کام تمام کر دیا، پھر موسیٰ نے کہا: یہ تو شیطان کا کام ہو گیا، بے شک وہ صریح گمراہ کن دشمن ہے۔

١٦۔ کہا: پروردگارا! میں نے اپنے نفس پر ظلم کیا پس مجھے معاف فرما، چنانچہ اللہ نے انہیں معاف کر دیا۔ یقیناً وہ بڑا معاف کرنے والا، رحم کرنے والا ہے۔

١٧۔موسیٰ نے کہا: میرے رب! جس نعمت سے تو نے مجھے نوازا ہے اس کے باعث میں آئندہ کبھی بھی مجرموں کا پشت پناہ نہیں بنوں گا۔

١٨۔موسیٰ صبح کے وقت شہر میں ڈرتے ہوئے اور خطرہ بھانپنے کی حالت میں تھے ، اچانک دیکھا کہ جس نے کل مدد مانگی تھی وہ آج پھر اس (موسیٰ) سے فریاد کر رہا ہے ، موسیٰ نے اس سے کہا: تو یقیناً صریح گمراہ شخص ہے۔

١٩۔ جب موسیٰ نے اس شخص پر ہاتھ ڈالنا چاہا جو ان دونوں کا دشمن تھا تو اس نے کہا: اے موسی! کیا تم مجھے بھی اسی طرح قتل کر دینا چاہتے ہو جس طرح کل تم نے ایک شخص کو قتل کر دیا تھا؟ کیا تم زمین میں جابر بننا چاہتے ہو اور اصلاح کرنا نہیں چاہتے ؟

٢٠۔ شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آیا، کہنے لگا: اے موسیٰ ! دربار والے تیرے قتل کے مشورے کر رہے ہیں ، پس (یہاں سے ) نکل جا میں تیرے خیر خواہوں میں سے ہوں۔

٢١۔ چنانچہ موسیٰ ڈرتے ہوئے خطرہ بھانپتے ہوئے وہاں سے نکلے ، کہنے لگے : اے میرے پروردگار! مجھے قوم ظالمین سے بچا۔

٢٢۔ اور جب موسیٰ نے مدین کا رخ کیا تو کہا: امید ہے میرا پروردگار مجھے سیدھے راستے کی ہدایت فرمائے گا۔

٢٣۔اور جب وہ مدین کے پانی پر پہنچے تو انہوں نے دیکھا لوگوں کی ایک جماعت (اپنے جانوروں کو) پانی پلا رہی ہے اور دیکھا ان کے علاوہ دو عورتیں (اپنے جانور) روکے ہوئے کھڑی ہیں ، موسیٰ نے کہا: آپ دونوں کا کیا مسئلہ ہے ؟ وہ دونوں بولیں : جب تک یہ چروا ہے (اپنے جانوروں کو لے کر) واپس نہ پلٹ جائیں ہم پانی نہیں پلا سکتیں اور ہمارے والد بڑی عمر کے بوڑھے ہیں۔

٢٤۔ موسیٰ نے ان دونوں (کے جانوروں ) کو پانی پلایا پھر سایے کی طرف ہٹ گئے اور کہا: پالنے والے ! جو خیر بھی تو مجھ پر نازل فرمائے میں اس کا محتاج ہوں۔

٢٥۔ پھر ان دونوں لڑکیوں میں سے ایک حیا کے ساتھ چلتی ہوئی موسیٰ کے پاس آئی اور کہنے لگی: میرے والد آپ کو بلاتے ہیں تاکہ آپ نے جو ہمارے جانوروں کو پانی پلایا ہے آپ کو اس کی اجرت دیں ، جب موسیٰ ان کے پاس آئے اور اپنا سارا قصہ انہیں سنایا تو وہ کہنے لگے : خوف نہ کرو، تم اب ظالموں سے بچ چکے ہو۔

٢٦۔ ان دونوں میں سے ایک لڑکی نے کہا: اے ابا! اسے نوکر رکھ لیجیے کیونکہ جسے آپ نوکر رکھنا چاہیں ان میں سب سے بہتر وہ ہے جو طاقتور، امانتدار ہو۔

٢٧۔ (شعیب نے ) کہا:میں چاہتا ہوں کہ اپنی ان دو بیٹیوں میں سے ایک کا نکاح اس شرط پر تمہارے ساتھ کروں کہ تم آٹھ سال میری نوکری کرو اور اگر تم دس (سال) پورے کرو تو یہ تمہاری طرف سے (احسان) ہے اور میں تمہیں تکلیف میں ڈالنا نہیں چاہتا، انشاء اللہ تم مجھے صالحین میں پاؤ گے۔

٢٨۔ موسیٰ نے کہا: یہ میرے اور آپ کے درمیان وعدہ ہے ، میں ان دونوں میں سے جو بھی مدت پوری کروں مجھ پر کوئی زیادتی نہیں ہے اور جو کچھ ہم کہ رہے ہیں اس پر اللہ کارساز ہے۔

٢٩۔ پھر جب موسیٰ نے مدت پوری کر دی اور وہ اپنے اہل کو لے کر چل دیے تو کوہ طور کی طرف سے ایک آگ دکھائی دی، وہ اپنے اہل سے کہنے لگے : ٹھہرو ! میں نے ایک آگ دیکھی ہے ، شاید وہاں سے میں کوئی خبر لاؤں یا آگ کا انگارا لے آؤں تاکہ تم تاپ سکو۔

٣٠۔ پھر جب موسیٰ وہاں پہنچے تو وادی کے دائیں کنارے سے ایک مبارک مقام میں درخت سے ندا آئی: اے موسی! میں ہی عالمین کا پروردگار اللہ ہوں۔

٣١۔ اور اپنا عصا پھینک دیجیے ، پھر جب موسیٰ نے عصا کو سانپ کی طرح حرکت کرتے دیکھا تو پیٹھ پھیر کر پلٹے اور پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھا، (ہم نے کہا) اے موسیٰ! آگے آئیے اور خوف نہ کیجیے ، یقیناً آپ محفوظ ہیں۔

٣٢۔ (اے موسیٰ) اپنا ہاتھ گریبان میں ڈال دیجئے وہ بغیر کسی عیب کے چمکدار ہو کر نکلے گا اور خوف سے بچنے کے لیے اپنے بازو کو اپنی طرف سمیٹ لیجیے ، یہ دو معجزے آپ کے پروردگار کی طرف سے فرعون اور اس اہل دربار کے لیے ہیں ، بتحقیق وہ بڑے فاسق لوگ ہیں۔

٣٣۔ موسیٰ نے عرض کیا: پروردگارا! میں نے ان کا ایک آدمی قتل کیا ہے ، لہذا میں ڈرتا ہوں کہ وہ مجھے قتل نہ کر دیں۔

٣٤۔ اور میرے بھائی ہارون کی زبان مجھ سے زیادہ فصیح ہے لہٰذا اسے میرے ساتھ مددگار بنا کر بھیج کہ وہ میری تصدیق کرے کیونکہ مجھے خوف ہے کہ لوگ میری تکذیب کریں گے۔

٣٥۔ فرمایا: ہم آپ کے بھائی کے ذریعے آپ کے بازو مضبوط کریں گے اور ہم آپ دونوں کو غلبہ دیں گے اور ہماری نشانیوں (معجزات ) کی وجہ سے وہ آپ تک نہیں پہنچ پائیں گے ، آپ دونوں اور آپ کے پیروکاروں کا ہی غلبہ ہو گا۔

٣٦۔ پھر جب موسیٰ ہماری واضح نشانیاں لے کر ان کے پاس پہنچے تو وہ کہنے لگے : یہ تو بس گھڑا ہوا جادو ہے اور ہم نے اپنے اگلے باپ دادوں سے ایسی باتیں کبھی نہیں سنیں۔

٣٧۔ اور موسیٰ نے کہا: میرا پروردگار اسے جانتا ہے جو اس کے پاس سے ہدایت لے کر آیا ہے اور یہ بھی جانتا ہے کہ آخرت کا گھر کس کے لیے ہے ، بے شک ظالم فلاح نہیں پاتے۔

٣٨۔ اور فرعون نے کہا: اے درباریو! میں تمہارے لیے اپنے سوا کسی معبود کو نہیں جانتا، اے ہامان! میرے لیے گارے کو آگ لگا (کر اینٹ بنا دے ) پھر میرے لیے ایک اونچا محل بنا دے تاکہ میں موسیٰ کے خدا کو (جھانک کر) دیکھوں اور میرا تو خیال ہے کہ موسیٰ جھوٹا ہے۔

٣٩۔ چنانچہ فرعون اور اس کے لشکر نے زمین میں ناحق تکبر کیا اور یہ خیال کیا کہ وہ ہماری طرف پلٹ کر نہیں آئیں گے۔

٤٠۔ تو ہم نے۔اسے اور اس کے لشکر کو گرفت میں لے لیا اور انہیں دریا میں پھینک دیا، پس دیکھ لو ظالموں کا انجام کیا ہوا۔

٤١۔ اور ہم نے انہیں ایسے رہنما بنایا جو آتش کی طرف بلاتے ہیں اور قیامت کے دن ا ن کی مدد نہیں کی جائے گی۔

٤٢۔ اور ہم نے اس دنیا میں ان کے پیچھے لعنت لگا دی ہے اور قیامت کے دن یہ قبیح (چہرہ والے ) ہوں گے۔

٤٣۔ اور بتحقیق ہم نے پہلی امتوں کو ہلاک کرنے کے بعد لوگوں کے لیے بصیرتوں اور ہدایت و رحمت (کا سرچشمہ) بنا کر موسیٰ کو کتاب دی، شاید لوگ نصیحت حاصل کریں۔

٤٤۔ اور آپ اس وقت (طور کے ) مغربی جانب موجود نہ تھے جب ہم نے موسیٰ کی طرف حکم بھیجا اور آپ مشاہدہ کرنے والوں میں سے نہ تھے۔

٤٥۔ لیکن ہم نے کئی امتوں کو پیدا کیا پھر ان پر طویل مدت گزر گئی اور نہ آپ اہل مدین میں سے تھے کہ انہیں ہماری آیات سنا رہے ہوتے لیکن ہم ہی (ان تمام خبروں کے ) بھیجنے والے ہیں۔

٤٦۔ اور آپ طور کے کنارے پر موجود نہ تھے جب ہم نے ندا دی تھی بلکہ (آپ کا رسول بنانا) آپ کے پروردگار کی رحمت ہے تاکہ آپ اس قوم کو تنبیہ کریں جن

کے ہاں آپ سے پہلے کوئی تنبیہ کرنے والا نہیں آیا شاید وہ نصیحت حاصل کریں۔

٤٧۔اور ایسا نہ ہو کہ اپنے ہاتھوں آگے بھیجی ہوئی حرکتوں کی وجہ سے اگر ان پر کوئی مصیبت نازل ہو جائے تو وہ یہ کہنے لگیں : ہمارے رب! تو نے ہماری طرف رسول کیوں نہ بھیجا کہ ہم تیری آیات کی اتباع کرتے اور ایمان لانے والوں میں شامل ہو جاتے۔

٤٨۔ پھر جب ہماری طرف سے حق ان کے پاس آ گیا تو وہ کہنے لگے : جیسی (نشانی) موسیٰ کو دی گئی تھی ایسی (نشانی) انہیں کیوں نہیں دی گئی؟ کیا انہوں نے اس کا انکار نہیں کیا جو قبل ازیں موسیٰ کو دیا گیا تھا؟ انہوں نے کہا: یہ دونوں ایک دوسرے کی مدد کرنے والے جادو ہیں اور کہا: ہم ان سب کے منکر ہیں۔

٤٩۔ کہہ دیجئے : پس اگر تم سچے ہو تو تم بھی اللہ کی طرف سے کوئی ایسی کتاب لے آؤ جو ان دونوں سے زیادہ ہدایت بخش ہو، میں اس کی اتباع کروں گا۔

٥٠۔ پس اگر وہ آپ کی یہ بات نہیں مانتے تو آپ سمجھ لیں کہ یہ لوگ بس اپنی خواہشات کی پیروی کرتے ہیں اور اللہ کی طرف سے کسی ہدایت کے بغیر اپنی خواہشات کی پیروی کرنے والے سے بڑھ کر گمراہ کون ہو گا؟ اللہ ظالموں کو یقیناً ہدایت نہیں کرتا۔

٥١۔ اور بتحقیق ہم نے ان کے لیے (ہدایت کی) باتیں مسلسل بیان کیں  شاید یہ لوگ نصیحت حاصل کریں۔

٥٢۔ جنہیں ہم نے اس سے پہلے کتاب دی تھی وہ اس پر ایمان رکھتے ہیں۔

٥٣۔ اور جب ان پر (یہ قرآن) پڑھ کر سنایا جاتا ہے تو کہتے ہیں :ہم اس پر ایمان لے آئے ، یقیناً یہ ہمارے پروردگار کی طرف سے برحق ہے ، ہم تو اس سے پہلے بھی فرمانبردار تھے۔

٥٤۔ انہیں ان کے صبر کے صلے میں دو بار اجر دیا جائے گا اور یہ لوگ برائی کو نیکی کے ذریعے دور کر دیتے ہیں اور ہم نے جو روزی انہیں دی ہے اس سے (راہ خدا میں ) خرچ کرتے ہیں۔

٥٥۔ اور جب وہ بیہودہ بات سنتے ہیں تو اس سے منہ پھیر لیتے ہیں اور کہتے ہیں : ہمارے اعمال ہمارے لیے اور تمہارے اعمال تمہارے لیے ، تم پر سلام ہو ہم جاہلوں کو پسند نہیں کرتے۔

٥٦۔ (اے رسول) جسے آپ چاہتے ہیں اسے ہدایت نہیں کر سکتے لیکن اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور وہ ہدایت پانے والوں کو خوب جانتا ہے۔

٥٧۔ اور کہتے ہیں : اگر ہم آپ کی معیت میں ہدایت اختیار کریں تو ہم اپنی زمین سے اچک لیے جائیں گے ، کیا ہم نے ایک پرامن حرم ان کے اختیار میں نہیں رکھا جس کی طرف ہر چیز کے ثمرات کھنچے چلے آتے ہیں ؟ یہ رزق ہماری طرف سے عطا کے طور پر ہے لیکن ان میں سے اکثر لوگ نہیں جانتے۔

٥٨۔ اور کتنی ہی ایسی بستیوں کو ہم نے تباہ کر دیا جن کے باشندے اپنی معیشت پر نازاں تھے ؟ ان کے بعد ان کے مکانات آباد ہی نہیں ہوئے مگر بہت کم اور ہم ہی تو وارث تھے۔

٥٩۔ اور آپ کا رب ان بستیوں کو تباہ کرنے والا نہ تھا جب تک ان کے مرکز میں ایک رسول نہ بھیج دے جو انہیں ہماری آیات پڑھ کر سنائے اور ہم بستیوں کو تباہ کرنے والے نہ تھے مگر یہ کہ وہاں کے باشندے ظالم ہوئے۔

٦٠۔ اور جو کچھ بھی تمہیں دیا گیا ہے وہ اس دنیاوی زندگی کا سامان اور اس کی زینت ہے اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ (اس سے ) زیادہ بہتر اور پائیدار ہے ، کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے ؟

٦١۔ کیا وہ شخص جسے ہم نے بہترین وعدہ دیا ہے اور وہ اس (وعدے ) کو پا لینے والا ہے اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جسے ہم نے صرف دنیاوی زندگی کا سامان فراہم کر دیا ہے ؟ پھر وہ قیامت کے دن پیش کے ے جانے والوں میں سے ہو گا

٦٢۔اور جس دن اللہ انہیں پکارے گا اور کہے گا: کہاں ہیں وہ جنہیں تم میرا شریک گمان کرتے تھے ؟

٦٣۔ جن پر (اللہ کا) فیصلہ حتمی ہو چکا ہو گا وہ کہیں گے : ہمارے پروردگار! یہی لوگ ہیں جنہیں ہم نے گمراہ کیا، جس طرح ہم خود گمراہ ہوئے تھے اسی طرح ہم نے انہیں گمراہ کیا تھا، (اب) ہم تیری طرف متوجہ ہو کر ان سے بیزار ہوتے ہیں کہ وہ ہماری پوجا نہیں کیا کرتے تھے۔

٦٤۔ اور (ان سے ) کہا جائے گا: اپنے شریکوں کو بلاؤ تو یہ انہیں پکاریں گے لیکن وہ انہیں جواب نہیں دیں گے اور وہ عذاب کو بھی دیکھ رہے ہوں گے ، (اس وقت تمنا کریں گے ) کاش وہ ہدایت پر ہوتے۔

٦٥۔ اور اس دن اللہ انہیں ندا دے گا اور فرمائے گا: تم نے پیغمبروں کو کیا جواب دیا تھا؟

٦٦۔ تو ان کو ان باتوں کا پتہ نہیں چلے گا (جن سے رسولوں کو جواب دیا ہے ) اور اس دن وہ ایک دوسرے سے پوچھ بھی نہ سکیں گے۔

٦٧۔ لیکن جو توبہ کرے ، ایمان لائے اور نیک عمل بجا لائے تو امید ہے کہ وہ نجات پانے والوں میں سے ہو جائے گا۔

٦٨۔ اور آپ کا پروردگار جسے چاہتا ہے خلق کرتا ہے اور منتخب کرتا ہے ، انہیں انتخاب کرنے کا کوئی حق نہیں ہے ، اللہ پاک بلند و برتر ہے اس شرک سے جو یہ لوگ کرتے ہیں۔

٦٩۔ اور آپ کا پروردگار وہ سب باتیں جانتا ہے جنہیں ان کے سینے پوشیدہ رکھتے ہیں اور جو ظاہر کرتے ہیں۔

٧٠۔ اور وہی تو اللہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں ، ثنائے کامل اسی کے لیے ہے ، دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی اور حکومت اسی کے ہاتھ میں ہے اور اسی کی طرف تم پلٹائے جاؤ گے۔

٧١۔ کہہ دیجئے : یہ تو بتاؤ کہ اگر اللہ قیامت تک تم پر ہمیشہ کے لیے رات مسلط کر دے تو اللہ کے سوا کون سا معبود ہے جو تمہیں روشنی لا دے ؟کیا تم سنتے نہیں ہو؟

٧٢۔ کہہ دیجئے : یہ تو بتاؤ کہ اگر قیامت تک تم پر ہمیشہ کے لیے دن کو مسلط کر دے تو اللہ کے سوا کون سا معبود ہے جو تمہیں رات لا دے جس میں تم سکون حاصل کرو؟ کیا تم (چشم بصیرت سے ) دیکھتے نہیں ہو؟

٧٣۔ اور یہ اللہ کی رحمت ہی تو ہے کہ اس نے تمہارے لیے رات اور دن کو (یکے بعد دیگرے ) بنایا تاکہ تم (رات میں ) سکون حاصل کر سکو اور (دن میں ) اللہ کا فضل (روزی) تلاش کرو اور شاید کہ تم شکر بجا لاؤ۔

٧٤۔ اور جس دن اللہ انہیں ندا دے گا اور فرمائے گا: کہاں ہیں وہ جنہیں تم میرا شریک گمان کرتے تھے ؟

٧٥۔ اور ہم ہر امت سے ایک گواہ نکال لائیں گے پھر ہم (مشرکین سے ) کہیں گے : اپنی دلیل پیش کرو، (اس وقت) انہیں علم ہو جائے گا کہ حق بات اللہ کی تھی اور جو جھوٹ باندھتے تھے وہ سب ناپید ہو جائیں گے۔

٧٦۔ بے شک قارون کا تعلق موسیٰ کی قوم سے تھا پھر وہ ان سے سرکش ہو گیا اور ہم نے قارون کو اس قدر خزانے دیے کہ ان کی کنجیاں ایک طاقتور جماعت کے لیے بھی بار گراں تھیں ، جب اس کی قوم نے اس سے کہا: اترانا مت یقیناً اللہ اترانے والوں کو دوست نہیں رکھتا،

٧٧۔ اور جو (مال) اللہ نے تجھے دیا ہے اس سے آخرت کا گھر حاصل کر، البتہ دنیا سے بھی اپنا حصہ فراموش نہ کر اور احسان کر جس طرح اللہ نے تیرے ساتھ احسان کیا ہے اور زمین میں فساد نہ کر یقیناً اللہ فسادیوں کو پسند نہیں کرتا۔

٧٨۔ قارون نے کہا: یہ سب مجھے اس مہارت کی بنا پر ملا ہے جو مجھے حاصل ہے ، کیا اسے معلوم نہیں ہے کہ اللہ نے اس سے پہلے بہت سی ایسی امتوں کو ہلاکت میں ڈال دیا جو اس سے زیادہ طاقت اور جمعیت رکھتی تھیں اور مجرموں سے تو ان کے گناہ کے بارے میں پوچھا ہی نہیں جائے گا۔

٧٩۔(ایک روز) قارون بڑی آرائش کے ساتھ اپنی قوم کے سامنے نکلا تو دنیا پسند لوگوں نے کہا: اے کاش! ہمارے لیے بھی وہی کچھ ہوتا جو قارون کو دیا گیا ہے ، بے شک یہ تو بڑا ہی قسمت والا ہے۔

٨٠۔ اور جنہیں علم دیا گیا تھا وہ کہنے لگے : تم پر تباہی ہو! اللہ کے پاس جو ثواب ہے وہ ایمان لانے والوں اور نیک عمل انجام دینے والوں کے لیے اس سے کہیں بہتر ہے اور وہ صرف صبر کرنے والے ہی حاصل کریں گے۔

٨١۔ پھر ہم نے قارون اور اس کے گھر والوں کو زمین میں دھنسا دیا تو اللہ کے سوا کوئی گروہ اس کی نصرت کے لیے موجود نہ تھا اور نہ ہی وہ خود کوئی مدد حاصل کر سکا۔

٨٢۔ اور جو لوگ کل اس کی منزلت کی تمنا کر رہے تھے وہ کہنے لگے : دیکھتے نہیں ہو! اللہ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے روزی کشادہ اور تنگ کر دیتا ہے ، اگر اللہ ہم پر احسان نہ کرتا تو ہمیں بھی دھنسا دیتا، دیکھتے نہیں ہو! کافر فلاح نہیں پا سکتے۔

٨٣۔ آخرت کا گھر ہم ان لوگوں کے لیے بنا دیتے ہیں جو زمین میں بالا دستی اور فساد پھیلانا نہیں چاہتے اور (نیک) انجام تو تقویٰ والوں کے لیے ہے۔

٨٤۔ جو شخص نیکی لے کر آئے گا اسے اس سے بہتر (اجر) ملے گا اور جو کوئی برائی لائے گا تو برے کام کرنے والوں کو صرف وہی بدلہ ملے گا جو وہ کرتے رہے ہیں۔

٨٥۔ (اے رسول) جس نے آپ پر قرآن (کے احکام کو) فرض کیا ہے وہ یقیناً آپ کو بازگشت تک پہنچانے والا ہے ، کہہ دیجئے : میرا رب اسے خوب جانتا ہے جو ہدایت لے کر آیا ہے اور اسے بھی جو واضح گمراہی میں ہے۔

٨٦۔ اور آپ کو یہ امید نہ تھی کہ آپ پر یہ کتاب نازل کی جائے گی مگر آپ کے رب کی رحمت سے لہٰذا آپ کافروں کے پشت پناہ ہرگز نہ بنیں۔

٨٧۔ جب یہ آیات آپ کی طرف نازل ہو چکی ہیں تو کہیں یہ آپ کو اللہ کی آیات (کی تبلیغ) سے روک نہ دیں اور آپ اپنے رب کی طرف دعوت دیں اور آپ مشرکین میں ہرگز شامل نہ ہوں۔

٨٨۔ اور اللہ کے ساتھ کسی اور معبود کو نہ پکارو، اس کے سوا کوئی معبود نہیں ، ہر چیز فنا ہونے والی ہے سوائے اس کی ذات کے ، حکومت کا حق اسی کو حاصل ہے اور اسی کی طرف تم سب پلٹائے جاؤ گے۔

 

 

سورہ عنکبوت۔ مکی۔ آیات ۶۹

 

بنام خدائے رحمن و رحیم

١۔ الف، لام ، میم۔

٢۔ کیا لوگوں نے یہ خیال کر رکھا ہے کہ وہ صرف اتنا کہنے سے چھوڑ دیے جائیں گے کہ ہم ایمان لائے اور یہ کہ وہ آزمائے نہیں جائیں گے ؟

٣۔ اور بتحقیق ہم ان سے پہلوں کو بھی آزما چکے ہیں کیونکہ اللہ کو بہرحال یہ معلوم کرنا ہے کہ کون سچے ہیں اور یہ بھی ضرور معلوم کرنا ہے کہ کون جھوٹے ہیں۔

٤۔ برائی کے مرتکب افراد کیا یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ ہم سے بچ نکلیں گے ؟ کتنا برا فیصلہ ہے جو یہ کر رہے ہیں۔

٥۔ جو اللہ کے حضور پہنچنے کی امید رکھتا ہے تو (وہ باخبر رہے کہ) اللہ کا مقرر کردہ وقت یقیناً آنے ہی والا ہے اور وہ بڑا سننے والا، جاننے والا ہے۔

٦۔ اور جو شخص جفا کشی کرتا ہے تو وہ صرف اپنے فائدے کے لیے کرتا ہے ، اللہ تو یقیناً سارے عالمین سے بے نیاز ہے۔

٧۔ اور جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال بجا لائے ہم ان سے ان کی برائی ضرور دور کر دیں گے اور انہیں ان کے بہترین اعمال کا صلہ بھی ضرور دیں گے۔

٨۔ اور ہم نے انسان کو اپنے والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کا حکم دیا ہے ، اگر تیرے ماں باپ میرے ساتھ شرک کرنے پر تجھ سے الجھ جائیں جس کا تجھے کوئی علم نہ ہو تو تو ان دونوں کا کہنا نہ ماننا، تم سب کی بازگشت میری طرف ہے ، پھر میں تمہیں بتا دوں گا تم کیا کرتے رہے ہو؟

٩۔ اور جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال بجا لائے انہیں ہم بہر صورت صالحین میں شامل کریں گے۔

١٠۔ اور لوگوں میں کچھ ایسے بھی ہیں جو کہتے تو ہیں : ہم اللہ پر ایمان لائے لیکن جب اللہ کی راہ میں اذیت پہنچتی ہے تو لوگوں کی طرف سے پہنچنے والی اذیت کو عذاب الہٰی کی مانند تصور کرتے ہیں اور اگر آپ کے پروردگار کی طرف سے مدد پہنچ جائے تو وہ ضرور کہتے ہیں : ہم تو تمہارے ساتھ تھے ، کیا اللہ کو اہل عالم کے دلوں کا حال خوب معلوم نہیں ہے ؟

١١۔ اور اللہ نے یہ ضرور معلوم کرنا ہے کہ ایمان والے کون ہیں اور یہ بھی ضرور معلوم کرنا ہے کہ منافق کون ہیں ؟

١٢۔ اور کفار اہل ایمان سے کہتے ہیں : ہمارے طریقے پر چلو تو تمہارے گناہ ہم اٹھا لیں گے حالانکہ وہ ان گناہوں میں سے کچھ بھی اٹھانے والے نہیں ہیں ، بے شک یہ لوگ جھوٹے ہیں۔

١٣۔ البتہ یہ لوگ اپنے بوجھ ضرور اٹھائیں گے اور اپنے بوجھوں کے ساتھ مزید بوجھ بھی اور قیامت کے دن ان سے ضرور پرسش ہو گی اس بہتان کے بارے میں جو وہ باندھتے رہے ہیں۔

١٤۔ اور بتحقیق ہم نے نوح کو ان کی قوم کی طرف بھیجا تو وہ ان کے درمیان پچاس سال کم ایک ہزار سال رہے ، پھر طوفان نے انہیں اس حال میں اپنی گرفت میں لیا کہ وہ ظلم کا ارتکاب کر رہے تھے۔

١٥۔ پھر ہم نے نوح اور کشتی والوں کو نجات دی اور اس کشتی کو اہل عالم کے لیے نشانی بنا دیا۔

١٦۔ اور ابراہیم کو بھی (بھیجا) جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا: اللہ کی بندگی کرو اور اس سے ڈرو، اگر سمجھو تو یہ تمہارے حق میں بہتر ہے۔

١٧۔ تم تو اللہ کو چھوڑ کر بس بتوں کو پوجتے ہو اور جھوٹ گھڑ لیتے ہو، اللہ کے سوا تم جن کی پوجا کرتے ہو وہ تمہیں رزق دینے کا اختیار نہیں رکھتے ، لہٰذا تم اللہ کے ہاں سے رزق طلب کرو اور اسی کی بندگی کرو اور اسی کا شکر ادا کرو، تم اسی کی طرف تم پلٹائے جاؤ گے۔

١٨۔ اور اگر تم تکذیب کرو تو تم سے پہلے کی امتوں نے بھی تکذیب کی ہے اور رسول کی ذمے داری بس یہی ہے کہ واضح انداز میں تبلیغ کرے۔

١٩۔ کیا انہوں نے (کبھی) غور نہیں کیا کہ اللہ خلقت کی ابتدا کیسے کرتا ہے پھر اس کا اعادہ کرتا ہے ، یقیناً اللہ کے لیے یہ آسان ہے۔

٢٠۔ کہہ دیجئے : تم زمین میں چل پھر کر دیکھو کہ خلقت کی ابتدا کیسے ہوئی پھر اللہ دوسری خلقت پیدا کرے گا، یقیناً اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔

٢١۔ وہ جسے چاہتا ہے عذاب دیتا ہے اور جسے پر چاہتا ہے رحم فرماتا ہے اور تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔

٢٢۔ اور تم اللہ کو نہ زمین میں عاجز بنا سکتے ہو اور نہ آسمان میں اور اللہ کے سوا تمہارا نہ کوئی کارساز ہو گا اور نہ مددگار۔

٢٣۔ اور جنہوں نے اللہ کی آیات اور اس کی ملاقات کا انکار کیا وہ میری رحمت سے نا امید ہو چکے ہیں اور انہی کے لیے دردناک عذاب ہے۔

٢٤۔ تو اس (ابراہیم) کی قوم کا صرف یہ جواب تھا کہ وہ کہیں : انہیں قتل کر ڈالو یا جلا دو لیکن اللہ نے انہیں آگ سے بچا لیا، ایمان والوں کے لیے یقیناً اس میں نشانیاں ہیں۔

٢٥۔ اور ابراہیم نے کہا: تم صرف اس لیے اللہ کو چھوڑ کر بتوں کو لیے بیٹھے ہو کہ تمہارے درمیان دنیاوی زندگی کے تعلقات ہیں پھر قیامت کے دن تم ایک دوسرے کا انکار کرو گے اور ایک دوسرے پر لعنت بھیجو گے اور جہنم تمہارا ٹھکانا ہو گا اور تمہارا کوئی مددگار بھی نہ ہو گا۔

٢٦۔ اس وقت لوط ان پر ایمان لے آئے اور کہنے لگے میں اپنے رب کی طرف ہجرت کرتا ہوں ، یقیناً وہی بڑا غالب آنے والا، حکمت والا ہے

٢٧۔ اور ہم نے ابراہیم کو اسحاق اور یعقوب عنایت کیے اور ان کی اولاد میں نبوت اور کتاب رکھ دی اور انہیں دنیا ہی میں اجر دے دیا اور آخرت میں وہ صالحین میں سے ہوں گے۔

٢٨۔ اور لوط کو بھی (رسول بنایا) جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا: بلاشبہ تم اس بے حیائی کا ارتکاب کرتے ہو جس کا تم سے پہلے اہل عالم میں سے کسی نے بھی ارتکاب نہیں کیا۔

٢٩۔ کیا تم (شہوت رانی کے لیے ) مردوں کے پاس جاتے ہو اور رہزنی کرتے ہو اور اپنی محافل میں برے کام کرتے ہو؟ پس ان کی قوم کا جواب صرف یہ تھا کہ وہ کہیں : ہم پر اللہ کا عذاب لے آؤ اگر تم سچے ہو۔

٣٠۔ لوط نے کہا: پروردگارا! ان مفسدوں کے خلاف میری مدد فرما۔

٣١۔ اور جب ہمارے فرستادہ (فرشتے ) ابراہیم کے پاس بشارت لے کر پہنچے تو کہنے لگے : ہم اس بستی کے باسیوں کو ہلاک کرنے والے ہیں ، یہاں کے باشندے یقیناً بڑے ظالم ہیں۔

٣٢۔ ابراہیم نے کہا: اس بستی میں تو لوط بھی ہیں ، وہ بولے ہم بہتر جانتے ہیں یہاں کون لوگ ہیں ، ہم انہیں اور ان کے اہل کو ضرور بچائیں گے سوائے ان کی بیوی کے ، جو پیچھے رہنے والوں میں ہو گی۔

٣٣۔ اور جب ہمارے فرستادے لوط کے پاس آئے تو لوط ان کی وجہ سے پریشان اور دل تنگ ہوئے تو فرشتوں نے کہا: خوف نہ کریں نہ ہی محزون ہوں ، ہم آپ اور آپ کے گھر والوں کو بچانے والے ہیں سوائے آپ کی بیوی کے جو پیچھے رہنے والوں میں ہو گی۔

٣٤۔ بے شک ہم اس بستی میں رہنے والوں پر آسمان سے آفت نازل کرنے والے ہیں اس بد عملی کی وجہ سے جس کا وہ ارتکاب کیا کرتے تھے۔

٣٥۔ اور بتحقیق ہم نے عقل سے کام لینے والوں کے لیے اس بستی میں ایک واضح نشانی چھوڑی ہے۔

٣٦۔ اور (ہم نے ) مدین کی طرف ان کی برادری کے شعیب (کو بھیجا) تو انہوں نے کہا: اے میری قوم! اللہ کی بندگی کرو اور روز آخرت کی امید رکھو اور زمین میں فساد برپا نہ کرو۔

٣٧۔ پس انہوں نے شعیب کی تکذیب کی تو انہیں زلزلے نے گرفت میں لے لیا پس وہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے۔

٣٨۔ اور عاد و ثمود کو (بھی ہلاک کیا) اور بتحقیق ان کے مکانوں سے تمہارے لیے یہ بات واضح ہو گئی اور شیطان نے ان کے لیے ان کے اعمال کو آراستہ کیا اور انہیں راہ (راست) سے روکے رکھا حالانکہ وہ ہوش مند تھے۔

٣٩۔ اور قارون و فرعون اور ہامان کو (بھی ہم نے ہلاک کیا) اور بتحقیق موسیٰ واضح دلائل لے کر ان کے پاس آئے تھے پھر بھی انہوں نے زمین میں تکبر کیا لیکن وہ (ہماری گرفت سے ) نکل نہ سکے۔

٤٠۔ پس ان سب کو ان کے گناہ کی وجہ سے ہم نے گرفت میں لیا پھر ان میں سے کچھ پر تو ہم نے پتھر برسائے اور کچھ کو چنگھاڑ نے گرفت میں لیا اور کچھ کو ہم نے زمین میں دھنسا دیا اور کچھ کو ہم نے غرق کر دیا اور اللہ ان پر ظلم کرنے والا نہیں تھا مگر یہ لوگ خود اپنے آپ پر ظلم کر رہے تھے۔

٤١۔ جنہوں نے اللہ کو چھوڑ کر دوسروں کو اپنا ولی بنایا ہے ان کی مثال اس مکڑی کی سی ہے جو اپنا گھر بناتی ہے اور گھروں میں سب سے کمزور یقیناً مکڑی کا گھر ہے اگر یہ لوگ جانتے ہوتے۔

٤٢۔ یہ لوگ اللہ کے علاوہ جس چیز کو پکارتے ہیں اللہ کو یقیناً اس کا علم ہے اور وہی بڑا غالب آنے والا،حکمت والا ہے۔

٤٣۔ اور ہم یہ مثالیں لوگوں کے لیے بیان کرتے ہیں مگر ان کو علم رکھنے والے لوگ ہی سمجھ سکتے ہیں۔

٤٤۔ اللہ نے آسمانوں اور زمین کو برحق پیدا کیا ہے ، اس میں ایمان والوں کے لیے یقیناً ایک نشانی ہے۔

 

پارہ : اُتْلُ مَآاُوْحِیَ ٢١

 

٤٥۔ (اے نبی) آپ کی طرف کتاب کی جو وحی کی گئی ہے اس کی تلاوت کریں اور نماز قائم کریں ، یقیناً نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے اور اللہ کا ذکر سب سے بڑی چیز ہے اور تم جو کرتے ہو اللہ اسے خوب جانتا ہے۔

٤٦۔ اور تم اہل کتاب سے مناظرہ نہ کرو مگر بہتر طریقے سے سوائے ان لوگوں کے جو ان میں سے ظلم کے مرتکب ہوئے ہیں اور کہہ دو کہ ہم اس (کتاب) پر ایمان لائے ہیں جو ہماری طرف نازل کی گئی ہے اور اس (کتاب) پر بھی جو تمہاری طرف نازل کی گئی ہے اور ہمارا اور تمہارا معبود ایک ہی ہے اور ہم اسی کے فرمانبردار ہیں۔

٤٧۔ اور اسی طرح ہم نے آپ کی طرف کتاب نازل کی ہے ، پس جنہیں ہم نے کتاب دی ہے وہ اس پر ایمان لاتے ہیں اور ان لوگوں میں سے بھی بعض اس پر ایمان لے آئے ہیں اور صرف کفار ہی ہماری آیات کا انکار کرتے ہیں۔

٤٨۔ اور (اے نبی) آپ اس (قرآن) سے پہلے کوئی کتاب نہیں پڑھتے تھے اور نہ ہی اسے اپنے ہاتھ سے لکھتے تھے ، اگر ایسا ہوتا تو اہل باطل شبہ کر سکتے تھے۔

٤٩۔ بلکہ یہ روشن نشانیاں ان کے سینوں میں ہیں جنہیں علم دیا گیا ہے اور ہماری آیات کا انکار وہی کرتے ہیں جو ظالم ہیں۔

٥٠۔ اور لوگ کہتے ہیں : اس شخص پر اس کے رب کی طرف سے نشانیاں کیوں نہیں اتاری گئیں ؟ کہہ دیجئے : نشانیاں تو بس اللہ کے پاس ہیں اور میں تو صرف واضح طور پر تنبیہ کرنے والا ہوں۔

٥١۔ کیا ان کے لیے یہ کافی نہیں ہے کہ ہم نے آپ پر کتاب نازل کی ہے جو انہیں سنائی جاتی ہے ؟ ایمان لانے والوں کے لیے یقیناً اس (کتاب) میں رحمت اور نصیحت ہے۔

٥٢۔ کہہ دیجئے : میرے اور تمہارے درمیان گواہی کے لیے اللہ کافی ہے ، وہ ان سب چیزوں کو جانتا ہے جو آسمانوں اور زمین میں ہیں اور جو لوگ باطل پر ایمان لائے اور اللہ کے منکر ہوئے وہی خسارے میں ہیں۔

٥٣۔ اور یہ لوگ آپ سے عذاب میں عجلت چاہتے ہیں اور اگر ایک وقت مقرر نہ ہوتا تو ان پر عذاب آ چکا ہوتا اور وہ (عذاب) ان پر اچانک ایسے حال میں آ کر رہے گا کہ انہیں خبر تک نہ ہو گی۔

٥٤۔ یہ لوگ آپ سے عذاب میں عجلت چاہتے ہیں حالانکہ دوزخ کفار کو گھیرے میں لے چکی ہے۔

٥٥۔ اس دن عذاب انہیں ان کے اوپر سے اور ان کے پاؤں کے نیچے سے گھیر لے گا اور (اللہ) کہے گا: اب ذائقہ چکھو ان کاموں کا جو تم کیا کرتے تھے۔

٥٦۔ اے میرے مومن بندو! میری زمین یقیناً وسیع ہے پس صرف میری عبادت کیا کرو۔

٥٧۔ ہر نفس کو موت (کا ذائقہ) چکھنا ہے پھر تم ہماری طرف پلٹائے جاؤ گے۔

٥٨۔ اور جو لوگ ایمان لائیں اور نیک کام کریں ہم انہیں جنت کے بلند و بالا محلات میں جگہ دیں گے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے ، عمل کرنے والوں کے لیے کیا ہی اچھا اجر ہے۔

٥٩۔ جنہوں نے صبر کیا اور اپنے رب پر بھروسا کرتے ہیں۔

٦٠۔ اور بہت سے جانور ایسے ہیں جو اپنا رزق اٹھائے نہیں پھرتے ، اللہ ہی انہیں رزق دیتا ہے اور تمہیں بھی اور وہ بڑا سننے والا، جاننے والا ہے۔

٦١۔اور اگر آپ ان سے پوچھیں کہ آسمان اور زمین کو کس نے پیدا کیا اور سور ج اور چاند کو کس نے مسخر کیا تو ضرور کہیں گے : اللہ نے ، تو پھر یہ کہاں الٹے جا رہے ہیں ؟

٦٢۔ اللہ اپنے بندوں میں سے جس کے لیے چاہتا ہے رزق کشادہ اور تنگ کر دیتا ہے ، اللہ یقیناً ہر چیز کا خوب علم رکھتا ہے۔

٦٣۔ اور اگر آپ ان سے پوچھیں کہ آسمان سے پانی کس نے نازل کیا اور اس کے ذریعے زمین کو مردہ ہونے کے بعد کس نے زندہ کر دیا؟ تو وہ ضرور کہیں گے : اللہ نے ، کہہ دیجئے : الحمد للہ، البتہ اکثر لوگ نہیں سمجھتے۔

٦٤۔ اور دنیاوی زندگی تو جی بہلانے اور کھیل کے سوا کچھ نہیں اور آخرت کا گھر ہی زندگی ہے ، اگر انہیں کچھ علم ہوتا۔

٦٥۔ وہ جب کشتی پر سوار ہوتے ہیں تو اللہ کو خلوص کے ساتھ پکارتے ہیں پھر جب وہ انہیں نجات دے کر خشکی تک پہنچا دیتا ہے تو وہ شرک کرنے لگتے ہیں۔

٦٦۔ تاکہ ہم نے جو انہیں (نجات) بخشی ہے اس کی ناشکری کریں اور مزے لوٹیں لہٰذا عنقریب انہیں معلوم ہو جائے گا۔

٦٧۔ کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم نے ایک پرامن حرم بنا دیا ہے جب کہ لوگ ان کے گرد و نواح سے اچک لیے جاتے تھے ؟ کیا یہ لوگ باطل پر ایمان لاتے ہیں اور اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کرتے ہیں ۔

٦٨۔ اور اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہو گا جو اللہ پر جھوٹ بہتان باندھے اور جب حق اس کے سامنے آ چکا ہو تو اس کی تکذیب کرے ؟ کیا جہنم میں کفار کے لیے ٹھکانا نہیں ہے ؟

٦٩۔ اور جو ہماری راہ میں جہاد کرتے ہیں ہم انہیں ضرور اپنے راستے کی ہدایت کریں گے اور بتحقیق اللہ نیکی کرنے والوں کے ساتھ ہے۔

 

 

سورۃ روم۔ مکی۔ آیات ۶۰

 

بنام خدائے رحمن و رحیم

١۔ الف ، لام ، میم۔

٢۔ رومی مغلوب ہو گئے ،

٣۔ قریبی ملک میں اور وہ مغلوب ہونے کے بعد عنقریب غالب ہو جائیں گے ،

٤۔ چند سالوں میں ، پہلے بھی اور بعد میں بھی اختیار کل اللہ کو حاصل ہے ، اہل ایمان اس روز خوشیاں منائیں گے ،

٥۔ اللہ کی مدد پر، اللہ جسے چاہتا ہے نصرت عطا فرماتا ہے اور وہ غالب آنے والا، رحم کرنے والا ہے۔

٦۔ یہ اللہ کا وعدہ ہے ، اللہ اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔

٧۔ لوگ تو دنیا کی ظاہری زندگی کے بارے میں جانتے ہیں اور آخرت سے غافل ہیں۔

٨۔ کیا انہوں نے اپنے (دل کے ) اندر یہ غور و فکر نہیں کیا کہ اللہ نے آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے کو برحق اور معینہ مدت کے لیے خلق کیا ہے ؟ اور لوگوں میں یقیناً بہت سے ایسے ہیں جو اپنے رب کی ملاقات کے منکر ہیں۔

٩۔ کیا یہ لوگ زمین میں چلے پھرے نہیں ہیں کہ دیکھ لیتے کہ ان سے پہلوں کا کیا انجام ہوا؟ جب کہ وہ قوت میں ان سے زیادہ تھے انہوں نے زمین کو تہ و بالا کیا(بویا جوتا) اور انہوں نے زمین کو ان سے کہیں زیادہ آباد کر رکھا تھا جتنا انہوں نے زمین کو آباد کر رکھا ہے اور ان کے پاس ان کے رسول واضح دلائل لے کر آئے ، پس اللہ تو ان پر ظلم نہیں کرتا بلکہ یہ لوگ خود اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں۔

١٠۔ پھر جنہوں نے برا کیا ان کا انجام بھی برا ہوا کیونکہ انہوں نے اللہ کی نشانیوں کی تکذیب کی تھی اور وہ ان کا مذاق اڑاتے تھے۔

١١۔ اللہ خلقت کی ابتدا فرماتا ہے پھر وہی اس کا اعادہ فرماتا ہے پھر تم اسی کی طرف پلٹائے جاؤ گے۔

١٢۔ اور جس روز قیامت برپا ہو گی مجرمین نا امید ہوں گے۔

١٣۔ اور ان کے بنائے ہوئے شریکوں میں ے کوئی ان کا سفارشی نہ ہو گا اور وہ اپنے شریکوں کے منکر ہو جائیں گے۔

١٤۔ اور جس دن قیامت برپا ہو گی اس دن لوگ گروہوں میں تقسیم ہو جائیں گے۔

١٥۔ پھر جنہوں نے ایمان قبول کیا اور نیک اعمال انجام دیے وہ جنت میں خوشحال ہوں گے۔

١٦۔ اور جنہوں نے کفر کیا اور ہماری نشانیوں اور آخرت کی ملاقات کی تکذیب کی وہ عذاب میں پیش کیے جائیں گے۔

١٧۔ پس اللہ کی ذات پاک و منزہ ہے جب تم شام کرتے ہو اور جب تم صبح کرتے ہو۔

١٨۔ ثنائے کامل اللہ کے لیے ہے آسمانوں اور زمین میں تیسرے پہر کو اور جب تم ظہر کرو (اللہ کی حمد کرو)۔

١٩۔ اور وہ زندہ کو مردے سے نکالتا ہے اور مردے کو زندہ سے نکالتا ہے اور زمین کو اس کی موت کے بعد زندہ کرتا ہے اور اسی طرح تم بھی نکالے جاؤ گے۔

٢٠۔ اور یہ اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تمہیں مٹی سے بنایا پھر تم انسان ہو کر (زمین میں ) پھیل رہے ہو۔

٢١۔ اور یہ اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تمہارے لیے تمہاری ہی جنس سے ازواج پیدا کیے تاکہ تم ان سے سکون حاصل کرو اور اس نے تمہارے مابین محبت اور مہربانی پیدا کی، غور و فکر کرنے والوں کے لیے یقیناً ان میں نشانیاں ہیں۔

٢٢۔ اور آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنا اور تمہاری زبانوں اور رنگوں کا مختلف ہونا بھی اس کی نشانیوں میں سے ہے ، علم رکھنے والوں کے لیے یقیناً اس میں نشانیاں ہیں۔

٢٣۔ اور تمہارا رات میں سو جانا اور دن میں اس کا فضل(رزق)تلاش کرنا اس کی نشانیوں میں سے ہے ، (دلائل کو توجہ سے ) سننے والوں کے لیے یقیناً اس میں نشانیاں ہیں۔

٢٤۔ اور خوف اور طمع کے ساتھ تمہیں بجلی کی چمک دکھانا اور زمین کو اس کی موت کے بعد زندہ کرنے کے لیے آسمان سے پانی برسانا بھی اس کی نشانیوں میں سے ہے ، عقل سے کام لینے والوں کے لیے یقیناً اس میں نشانیاں ہیں۔

٢٥۔ اور یہ بھی اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ آسمان اور زمین اس کے حکم سے قائم ہیں ، پھر جب وہ تمہیں زمین سے ایک بار پکارے گا تو تم یکایک نکل آؤ گے۔

٢٦۔ اور آسمانوں اور زمین میں جو کچھ بھی ہے اسی کاہے اور سب اسی کے تابع فرمان ہیں۔

٢٧۔ اور وہی خلقت کی ابتدا کرتا ہے پھر وہی اس کا اعادہ کرتا ہے اور یہ اس کے لیے زیادہ آسان ہے اور آسمانوں اور زمین میں اس کے لیے اعلیٰ شان و منزلت ہے اور وہ غالب آنے والا، حکمت والا ہے۔

٢٨۔ وہ تمہارے لیے خود تمہاری ایک مثال دیتا ہے ، جن غلاموں کے تم مالک ہو کیا وہ اس رزق میں تمہارے شریک ہیں جو ہم نے تمہیں دیا ہے ؟ پھر وہ اس میں (تمہارے ) برابر ہو جائیں اور تم ان سے اس طرح ڈرنے لگو جس طرح تم (آزاد) لوگ خود ایک دوسرے سے ڈرتے ہو؟ عقل رکھنے والوں کے لیے ہم اس طرح نشانیاں کھول کر بیان کرتے ہیں۔

٢٩۔ مگر ظالم لوگ نادانی میں اپنی خواہشات کی پیروی کرتے ہیں پس جسے اللہ گمراہ کر دے اسے کون ہدایت دے سکتا ہے ؟ اور ان کا کوئی مددگار نہ ہو گا۔

٣٠۔ پس (اے نبی) یکسو ہو کر اپنا رخ دین (خدا) کی طرف مرکوز رکھیں ،(یعنی) اللہ کی اس فطرت کی طرف جس پر اس نے سب انسانوں کو پیدا کیا ہے ، اللہ کی تخلیق میں تبدیلی نہیں ہے ، یہی محکم دین ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔

٣١۔ اس کی طرف رجوع کرتے ہوئے اور اس سے ڈرو اور نماز قائم کرو اور مشرکین میں سے نہ ہونا۔

٣٢۔ جنہوں نے اپنے دین میں پھوٹ ڈالی اور جو گروہوں میں بٹ گئے ، ہر فرقہ اس پر خوش ہے جو اس کے پاس ہے۔

٣٣۔ اور جب لوگوں کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو اس کی طرف رجوع کرتے ہوئے اپنے رب کو پکارتے ہیں پھر جب وہ انہیں اپنی رحمت کا مزہ چکھاتا ہے تو ان میں سے ایک فرقہ اپنے رب کے ساتھ شرک کرنے لگتا ہے۔

٣٤۔ تاکہ جو ہم نے انہیں بخشا ہے اس کی ناشکری کریں ، پس اب مزے اڑاؤ، عنقریب تمہیں معلوم ہو جائے گا۔

٣٥۔ کیا ہم نے ان پر کوئی ایسی دلیل نازل کی ہے جو اس شرک کی شہادت دے جو یہ لوگ کر رہے ہیں۔

٣٦۔ اور جب ہم لوگوں کو کسی رحمت کا ذائقہ چکھاتے ہیں تو وہ اس پر خوش ہو جاتے ہیں اور جب ان کے برے اعمال کے سبب ان پر کوئی مصیبت آتی ہے تو وہ مایوس ہونے لگتے ہیں۔

٣٧۔ کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ اللہ جس کے لیے چاہتا ہے رزق کشادہ اور تنگ کر دیتا ہے ؟ مومنین کے لیے یقیناً اس میں نشانیاں ہیں۔

٣٨۔ پس تم قریبی رشتہ داروں کو اور مسکین اور مسافر کو ان کا حق دے دو، یہ ان لوگوں کے لیے بہتر ہے جو اللہ کی رضامندی چاہتے ہیں اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔

٣٩۔ اور جو سود تم لوگوں کے اموال میں افزائش کے لیے دیتے ہو وہ اللہ کے نزدیک افزائش نہیں پاتا اور جو زکوٰۃ تم اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے دیتے ہو پس ایسے لوگ ہی (اپنا مال) دوچند کرنے والے ہیں۔

٤٠۔ اللہ ہی نے تمہیں پیدا کیا پھر تمہیں رزق دیا وہی تمہیں موت دیتا ہے پھروہی تمہیں زندہ کرے گا، کیا تمہارے شریکوں میں سے کوئی ہے جو ان میں سے کوئی کام کر سکے ؟ پاک ہے اور بالاتر ہے وہ ذات اس شرک سے جو یہ کرتے ہیں۔

٤١۔ لوگوں کے اپنے اعمال کے باعث خشکی اور تری میں فساد برپا ہو گیا تاکہ انہیں ان کے بعض اعمال کا ذائقہ چکھایا جائے ، شاید یہ لوگ باز آ جائیں۔

٤٢۔ کہہ دیجئے : زمین میں چل پھر کر دیکھ لو گزرے ہوئے لوگوں کا کیا انجام ہوا؟ ان میں سے اکثر مشرک تھے۔

٤٣۔ لہٰذا آپ اپنا رخ محکم دین کی طرف مرکوز رکھیں قبل اس کے کہ وہ دن آ جائے جس کے اللہ کی طرف سے ٹلنے کی کوئی صورت نہیں ہے ، اس دن لوگ پھوٹ کا شکار ہوں گے۔

٤٤۔ جس نے کفر کیا اس کے کفر کا ضرر اسی کے لیے ہے اور جنہوں نے نیک عمل کیا وہ اپنے لیے ہی راہ سدھارتے ہیں ،

٤٥۔تاکہ اللہ ایمان لانے والوں اور نیک اعمال انجام دینے والوں کو اپنے فضل سے جزا دے ، بے شک وہ کافروں کو پسند نہیں کرتا۔

٤٦۔ اور اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ وہ ہواؤں کو بشارت دہندہ بنا کر بھیجتا ہے تاکہ تمہیں اپنی رحمت کا ذائقہ چکھائے اور کشتیاں اس کے حکم سے چلیں اور تم اس کا فضل تلاش کرو اور شاید تم شکر کرو۔

٤٧۔ اور بتحقیق ہم نے آپ سے پہلے بھی پیغمبروں کو ان کی اپنی اپنی قوم کی طرف بھیجا ہے ، سو وہ ان کے پاس واضح دلائل لے کر آئے ، پھر جنہوں نے جرم کیا ان سے ہم نے بدلہ لیا اور مومنین کی مدد کرنا ہمارے ذمے ہے۔

٤٨۔ اللہ ہی ہواؤں کو چلاتا ہے تو وہ بادل کو ابھارتی ہیں پھر اسے جیسے اللہ چاہتا ہے آسمان پر پھیلاتا ہے پھر اسے ٹکڑوں کا انبوہ بنا دیتا ہے پھر آپ دیکھتے ہیں کہ اس کے بیچ میں سے بارش نکلنے لگتی ہے پھر اس (بارش) کو اپنے بندوں میں سے جس پر وہ چاہتا ہے برسا دیتا ہے تو وہ خوش ہو جاتے ہیں۔

٤٩۔ جب کہ اس بارش کے ان پر برسنے سے پہلے وہ نا امید ہو رہے تھے۔

٥٠۔ اللہ کی رحمت کے اثرات کا نظارہ کرو کہ وہ زمین کو کس طرح زندہ کر دیتا ہے اس کے مردہ ہونے کے بعد، یقیناً وہی مردوں کو بھی زندہ کرنے والا ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔

٥١۔ اور اگر ہم ایسی ہوا بھیجیں جس سے وہ کھیتی کو زرد ہوتے دیکھ لیں تو وہ اس کے بعد ناشکری کرنے لگتے ہیں۔

٥٢۔ آپ یقیناً مردوں کو نہیں سنا سکتے اور نہ ان بہروں کو (اپنی) پکار سنا سکتے ہیں جب کہ وہ پشت پھیرے جا رہے ہوں۔

٥٣۔ اور نہ ہی آپ اندھوں کو ان کی گمراہی سے نکال کر ہدایت دے سکتے ہیں ، آپ صرف انہیں سنا سکتے ہیں جو ہماری نشانیوں پر ایمان لاتے ہیں اور فرمانبردار ہیں۔

٥٤۔ اللہ وہ ہے جس نے کمزور حالت سے تمہاری تخلیق (شروع) کی پھر کمزوری کے بعد قوت بخشی پھر قوت کے بعد کمزور اور بوڑھا کر دیا، وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور وہ بڑا جاننے والا صاحب قدرت ہے۔

٥٥۔ اور جس روز قیامت برپا ہو گی مجرمین قسم کھائیں گے کہ وہ (دنیا میں )گھڑی بھر سے زیادہ نہیں رہے ، وہ اسی طرح الٹے چلتے رہتے تھے۔

٥٦۔ اور جنہیں علم اور ایمان دیا گیا تھا وہ کہیں گے : نوشتہ خدا کے مطابق یقیناً تم قیامت تک رہے ہو اور یہی قیامت کا دن ہے لیکن تم جانتے نہیں تھے۔

٥٧۔ پس اس دن ظالموں کو ان کی معذرت کوئی فائدہ نہ دے گی اور نہ ان سے معافی مانگنے کے لیے کہا جائے گا۔

٥٨۔ اور بتحقیق ہم نے لوگوں کے لیے اس قرآن میں ہر طرح کی مثال بیان کی ہے اور اگر آپ ان کے سامنے کوئی نشانی پیش کر بھی دیں تو کفار ضرور کہیں گے : تم تو صرف باطل پر ہو۔

٥٩۔ اس طرح اللہ ان لوگوں کے دلوں پر مہر لگا دیتا ہے جو علم نہیں رکھتے۔

٦٠۔ پس (اے نبی) آپ صبر کریں ، یقیناً اللہ کا وعدہ سچا ہے اور جو لوگ یقین نہیں رکھتے وہ آپ کو سبک نہ پائیں۔

 

 

سورہ لقمان۔ مکی۔ آیات ۳۴

 

بنام خدائے رحمن و رحیم

١۔الف ، لام ، میم۔

٢۔ یہ حکمت بھری کتاب کی آیات ہیں۔

٣۔نیکوکاروں کے لیے ہدایت اور رحمت ہے ،

٤۔ جو نماز قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور وہی تو آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔

٥۔ یہی لوگ اپنے رب کی طرف سے ہدایت پر ہیں اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔

٦۔ اور انسانوں میں کچھ ایسے بھی ہیں جو بیہودہ کلام خریدتے ہیں تاکہ نادانی میں (لوگوں کو) راہ خدا سے گمراہ کریں اور اس (راہ) کا مذاق اڑائیں ، ایسے لوگوں کے لیے ذلت میں ڈالنے والا عذاب ہو گا۔

٧۔ اور جب اسے ہماری آیات سنائی جاتی ہیں تو وہ تکبر کے ساتھ اس طرح منہ موڑ لیتا ہے جیسے اس نے سنا ہی نہ ہو، گویا اس کے دونوں کان بہرے ہیں ، پس اسے دردناک عذاب کی بشارت دے دیں۔

٨۔ جو لوگ ایمان لائیں اور نیک اعمال انجام دیں ان کے لیے نعمت والے باغات ہوں گے ،

٩۔ جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے یہ اللہ کا سچا وعدہ ہے اور وہ بڑا غالب آنے والا، حکمت والا ہے۔

١٠۔ اس نے آسمانوں کو ایسے ستونوں کے بغیر پیدا کیا جو تمہیں نظر آئیں اور اس نے زمین میں پہاڑ گاڑ دیے تاکہ وہ تمہیں لے کر ڈگمگا نہ جائے اور اس میں ہر قسم کے جانور پھیلا دیے اور ہم نے آسمان سے پانی برسایا پھر ہم نے اس (زمین) میں ہر قسم کے نفیس جوڑے اگائے۔

١١۔ یہ ہے اللہ کی تخلیق، اب ذرا مجھے دکھاؤ اللہ کے سوا دوسروں نے کیا پیدا کیا ہے ، بلکہ ظالم لوگ صریح گمراہی میں ہیں۔

١٢۔ اور بتحقیق ہم نے لقمان کو حکمت سے نوازا کہ اللہ کا شکر کریں اور جو شکر کرتا ہے وہ اپنے (فائدے کے ) لیے شکر کرتا ہے اور جو ناشکری کرتا ہے تو اللہ یقیناً بے نیاز، لائق ستائش ہے۔

١٣۔ اور جب لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے کہا: اے بیٹا! اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا، یقیناً شرک بہت بڑا ظلم ہے۔

١٤۔ اور ہم نے انسان کو اس کے والدین کے بارے میں نصیحت کی، اس کی ماں نے کمزوری پر کمزوری سہ کر اسے (پیٹ میں ) اٹھایا اور اس کے دودھ چھڑانے کی مدت دو سال ہے (نصیحت یہ کہ)میرا شکر بجا لاؤ اور اپنے والدین کا بھی(شکر ادا کرو آخر میں ) بازگشت میری طرف ہے۔

١٥۔ اور اگر وہ دونوں تجھ پر دباؤ ڈالیں کہ تو میرے ساتھ کسی ایسے کو شریک قرار دے جس کا تجھے علم نہیں ہے تو ان کی بات نہ ماننا، البتہ دنیا میں ان کے ساتھ اچھا برتاؤ رکھنا اور اس کی راہ کی پیروی کرنا جس نے میری طرف رجوع کیا ہے ، پھر تمہاری بازگشت میری طرف ہے ، پھر میں تمہیں بتا دوں گا کہ تم کیا عمل کرتے رہے ہو۔

١٦۔اے میرے بیٹے ! اگر رائی کے دانے کے برابر بھی کوئی (اچھی یا بری) چیز کسی پتھر کے اندر یا آسمانوں میں یا زمین میں ہو تو اللہ اسے یقیناً نکال لائے گا یقیناً اللہ بڑا باریک بین، خوب باخبر ہے۔

١٧۔ اے میرے بیٹے ! نماز قائم کرو اور نیکی کا حکم دو اور بدی سے منع کرو اور جو مصیبت تجھے پیش آئے اس پر صبر کرو، یہ امور یقیناً ہمت طلب ہیں۔

١٨۔ اور لوگوں سے (غرور و تکبر سے ) رخ نہ پھیرا کرو اور زمین پر اکڑ کر نہ چلا کرو، اللہ کسی اترانے والے خود پسند کو یقیناً دوست نہیں رکھتا۔

١٩۔ اور اپنی چال میں اعتدال رکھو اور اپنی آواز نیچی رکھ، یقیناً آوازوں میں سب سے بری گدھے کی آواز ہوتی ہے۔

٢٠۔ کیا تم نے نہیں دیکھا کہ جو کچھ آسمانوں اور جو کچھ زمین میں ہے اللہ نے تمہارے لیے مسخر کیا ہے اور تم پر اپنی ظاہری اور باطنی نعمتیں کامل کر دی ہیں اور (اس کے باوجود) کچھ لوگ اللہ کے بارے میں بحث کرتے ہیں حالانکہ ان کے پاس نہ علم ہے اور نہ ہدایت اور نہ کوئی روشن کتاب۔

٢١۔ اور جب ان سے کہا جاتا ہے : جو اللہ نے نازل کیا ہے اس کی پیروی کرو تو وہ کہتے ہیں : ہم تو اس چیز کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے ، خواہ شیطان ان (کے بڑوں ) کو بھڑکتی آگ کے عذاب کی طرف بلاتا رہا ہو۔

٢٢۔ اور جو شخص اپنے آپ کو اللہ کے حوالے کر دے اور وہ نیکوکار بھی ہو تو اس نے مضبوط رسی کو تھام لیا اور سب امور کا انجام اللہ ہی کی طرف ہے۔

٢٣۔ اور جو کفر کرتا ہے اس کا کفر آپ کو محزون نہ کرے ، انہیں پلٹ کر ہماری طرف آنا ہے پھر ہم انہیں بتائیں گے کہ وہ کیا کرتے رہے ہیں یقیناً اللہ ہر وہ بات خوب جانتا ہے جو سینوں میں ہے۔

٢٤۔ ہم انہیں (دنیا میں ) تھوڑ ا مزہ لینے کا موقع دیں گے پھر انہیں مجبور کر کے شدید عذاب کی طرف لے آئیں گے۔

٢٥۔ اور اگر آپ ان سے پوچھیں : آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا ہے ؟ تو یہ ضرور کہیں گے : اللہ نے ، کہہ دیجئے : الحمد للہ بلکہ ان میں سے اکثر لوگ نہیں جانتے۔

٢٦۔ جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے اللہ کی ملکیت ہے ، وہ اللہ یقیناً بے نیاز، لائق ستائش ہے۔

٢٧۔ اور اگر زمین کے تمام درخت قلم بن جائیں اور سمندر کے ساتھ مزید سات سمندر مل (کر سیاہی بن) جائیں تب بھی اللہ کے کلمات ختم نہ ہوں گے ، یقیناً اللہ بڑا غالب آنے والا، حکمت و الا ہے۔

٢٨۔ اللہ کے لیے تم سب کا پیدا کرنا پھر دوبارہ اٹھانا ایک جان (کے پیدا کرنے اور پھر اٹھانے ) کی طرح ہے ، یقیناً اللہ خوب سننے والا، دیکھنے والا ہے۔

٢٩۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ اللہ رات کو دن اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے اور اسی نے سورج اور چاند کو مسخر کیا ہے ؟ سب ایک مقررہ وقت تک چل رہے ہیں اور بتحقیق اللہ تمہارے اعمال سے خوب باخبر ہے۔

٣٠۔ یہ اس لیے کہ اللہ (کی ذات) ہی برحق ہے اور اس کے سوا جنہیں وہ پکارتے ہیں سب باطل ہیں اور اللہ ہی برتر و بزرگ ہے۔

٣١۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ کشتی سمندر میں اللہ کی نعمت سے چلتی ہے تاکہ وہ تمہیں اپنی نشانیاں دکھائے ، تمام صبر شکر کرنے والوں کے لیے یقیناً اس میں نشانیاں ہیں۔

٣٢۔ اور جب ان پر (سمندر کی) موج سائبان کی طرح چھا جاتی ہے تو وہ عقیدے کو اسی کے لیے خالص کر کے اللہ کو پکارتے ہیں پھر جب وہ انہیں نجات دے کر خشکی پر پہنچا دیتا ہے تو ان میں سے کچھ اعتدال پر قائم رہتے ہیں اور ہماری نشانیوں کا وہی انکار کرتا ہے جو بد عہد نا شکرا ہے۔

٣٣۔ اے لوگو! اپنے پروردگار (کے غضب) سے بچو اور اس دن کا خوف کرو جس دن نہ باپ بیٹے کے اور نہ بیٹا اپنے باپ کے کچھ کام آئے گا، اللہ کا وعدہ یقیناً سچا ہے لہٰذا دنیا کی یہ زندگی تمہیں دھوکہ نہ دے اور دھوکے باز تمہیں اللہ کے بارے میں دھوکے میں نہ رکھے۔

٣٤۔ قیامت کا علم یقیناً اللہ ہی کے پاس ہے اور وہی بارش برساتا ہے اور وہی جانتا ہے جو کچھ رحموں میں ہے او ر کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کمانے والا ہے اور نہ کوئی یہ جانتا ہے کہ کس سرزمین میں اسے موت آئے گی، یقیناً اللہ خوب جاننے والا، بڑا باخبر ہے۔

 

 

 

سورۃ سجدہ۔ مکی۔ آیات ۳۰

 

بنام خدائے رحمن و رحیم

١۔ الف، لام، میم۔

٢۔ ایسی کتاب کا نازل کرنا جس میں شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے رب العالمین کی طرف سے (ہی ممکن) ہے۔

٣۔ کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ اس (رسول) نے اسے خود گھڑ لیا ہے ؟(نہیں ) بلکہ یہ آپ کے رب کی طرف سے برحق ہے تاکہ آپ ایسی قوم کو تنبیہ کریں جس کے پاس آپ سے پہلے کوئی تنبیہ کرنے والا نہیں آیا، شاید وہ ہدایت حاصل کر لیں۔

٤۔ اللہ وہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے کو چھ دنوں میں پیدا کیا پھر عرش پر متمکن ہو گیا، اس کے سوا تمہارا نہ کوئی کارساز ہے اور نہ شفاعت کرنے والا، کیا تم نصیحت نہیں لیتے ؟

٥۔ وہ آسمان سے زمین تک امور کی تدبیر کرتا ہے پھر یہ امر ایک ایسے دن میں اللہ کی بارگاہ میں اوپر کی طرف جاتا ہے جس کی مقدار تمہارے شمار کے مطابق ایک ہزار سال ہے۔

٦۔ وہی جو غیب و شہود کا جاننے والا ہے جو بڑا غالب آنے والا، رحیم ہے۔

٧۔ جس نے ہر اس چیز کو جو اس نے بنائی بہترین بنایا اور انسان کی تخلیق مٹی سے شروع کی۔

٨۔ پھر اس کی نسل کو حقیر پانی کے نچوڑ سے پیدا کیا۔

٩۔ پھر اسے معتدل بنایا اور اس میں اپنی روح پھونک دی اور تمہارے لیے کان، آنکھیں اور دل بنائے ، تم لوگ بہت کم شکر کرتے ہو۔

١٠۔ اور وہ کہتے ہیں : جب ہم زمین میں ناپید ہو جائیں گے تو کیا ہم نئی خلقت میں آئیں گے ؟ بلکہ یہ لوگ تو اپنے رب کے حضور جانے کے منکر ہیں۔

١١۔ کہہ دیجئے : موت کا فرشتہ جو تم پر مقرر کیا گیا ہے تمہاری روحیں قبض کرتا ہے پھر تم اپنے رب کی طرف پلٹائے جاؤ گے۔

١٢۔ اور کاش! آپ وہ وقت دیکھ لیتے جب کافر اپنے رب کے سامنے سر جھکائے ہوئے ہوں گے (اور کہ رہے ہوں گے ) ہمارے پروردگار! ہم نے دیکھ لیا اور سن لیا پس ہمیں (ایک بار دنیا میں ) واپس بھیج دے تاکہ ہم نیک عمل بجا لائیں کیونکہ ہمیں یقین آ گیا ہے۔

١٣۔ اور اگر ہم چاہتے تو ہر شخص کو اس کی ہدایت دے دیتے لیکن میری طرف سے فیصلہ حتمی ہو چکا ہے کہ میں دوزخ کو جنوں اور انسانوں سے ضرور بھر دوں گا۔

١٤۔ پس اب اس بات کا ذائقہ چکھو کہ تم نے اپنے اس دن کی ملاقات کو فراموش کر دیا تھا، ہم نے بھی تمہیں فراموش کر دیا ہے اور اب تم اپنے ان اعمال کی پاداش میں ہمیشگی کا عذاب چکھتے رہو جو تم کرتے تھے۔

١٥۔ ہماری آیات پر صرف وہ لوگ ایمان لاتے ہیں جب انہیں یہ آیات سمجھا دی جاتی ہیں تو سجدے میں گر پڑتے ہیں اور اپنے رب کی ثناء کے ساتھ اس کی تسبیح کرتے ہیں اور وہ تکبر نہیں کرتے۔

١٦۔ (رات کو) ان کے پہلو بستروں سے الگ رہتے ہیں ، وہ اپنے رب کو خوف اور امید کے ساتھ پکارتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔

١٧۔ اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ ان کے اعمال کے صلے میں ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک کا کیا کیا سامان پردہ غیب میں موجود ہے۔

١٨۔ بھلا جو مومن ہو وہ فاسق کی طرح ہو سکتا ہے ؟ یہ دونوں برابر نہیں ہو سکتے۔

١٩۔ مگر جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے ان کے لیے جنتوں کی قیام گاہیں ہیں ، یہ ضیافت ان اعمال کا صلہ ہے جو وہ انجام دیا کرتے تھے۔

٢٠۔ لیکن جنہوں نے نافرمانی کی ان کی جائے بازگشت آتش ہے ، جب بھی وہ اس سے نکلنا چاہیں گے اس میں لوٹا دیے جائیں گے اور ان سے کہا جائے گا: اس آتش کا عذاب چکھو جس کی تم تکذیب کرتے تھے۔

٢١۔ اور ہم انہیں بڑے عذاب کے علاوہ کمتر عذاب کا ذائقہ بھی ضرور چکھائیں گے ، شاید وہ باز آ جائیں۔

٢٢۔ اور اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہو گا جسے اس کے رب کی نشانیاں سمجھا دی گئی ہوں پھر وہ ان سے منہ موڑ لے ؟ ہم مجرموں سے ضرور بدلہ لینے والے ہیں۔

٢٣۔ اور بتحقیق ہم نے موسیٰ کو کتاب دی ہے لہٰذا آپ اس (قرآن) کے ملنے میں کسی شبہے میں نہ رہیں اور ہم نے اس کتاب کو بنی اسرائیل کے لیے ہدایت(کا ذریعہ) بنایا۔

٢٤۔ اور جب انہوں نے صبر کیا اور وہ ہماری آیات پر یقین رکھے ہوئے تھے تو ہم نے ان میں سے کچھ لوگوں کو امام بنایا جو ہمارے حکم سے ہدایت کرتے ہیں۔

٢٥۔ یقیناً آپ کا رب قیامت کے دن ان کے درمیان ان باتوں کا فیصلہ سنا دے گا جن میں یہ لوگ اختلاف کرتے رہے ہیں۔

٢٦۔ کیا انہیں اس بات سے ہدایت نہیں ملی کہ ہم نے ان سے پہلے بہت سی قوموں کو ہلاک کر دیا ہے جن کی قیام گاہوں میں یہ لوگ چلتے پھرتے ہیں ، بتحقیق اس میں نشانیاں ہیں ، تو کیا یہ لوگ سنتے نہیں ؟

٢٧۔ کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم بنجر زمینوں کی طرف پانی روانہ کرتے ہیں پھر اس سے کھیتی پیدا کرتے ہیں جس سے ان کے جانور بھی کھاتے ہیں اور خود بھی، تو کیا یہ دیکھتے نہیں ہیں ؟

٢٨۔ اور یہ لوگ کہتے ہیں : اگر تم سچے ہو تو (بتاؤ) یہ فیصلہ کب ہو گا؟

٢٩۔ کہہ دیجئے : فیصلے کے دن کفار کو ان کا ایمان لانا فائدہ نہ دے گا اور نہ ہی انہیں مہلت دی جائے گی۔

٣٠۔ ان سے منہ پھیر لیں اور انتظار کریں ، یقیناً یہ بھی انتظار کر رہے ہیں۔

 

 

سورہ احزاب۔ مدنی۔ آیات ۷۳

 

بنام خدائے رحمن و رحیم

١۔ اے نبی اللہ سے ڈریں اور کفار اور منافقین کی اطاعت نہ کریں ، اللہ یقیناً بڑا جاننے والا، حکمت والا ہے۔

٢۔ اور آپ کے پروردگار کی طرف سے آپ کی طرف جو وحی کی جاتی ہے اس کی اتباع کریں ، اللہ تمہارے اعمال سے یقیناً خوب باخبر ہے۔

٣۔ اور اللہ پر توکل کریں اور ضامن بننے کے لیے اللہ کافی ہے۔

٤۔ اللہ نے کسی شخص کے پہلو میں دو دل نہیں رکھے ہیں اور تمہاری ازواج کو جنہیں تم لوگ ماں کہ بیٹھتے ہو ان کو اللہ نے تمہاری مائیں نہیں بنایا اور نہ ہی تمہارے منہ بولے بیٹوں کو تمہارے (حقیقی) بیٹے بنایا، یہ سب تمہارے منہ کی باتیں ہیں اور اللہ حق بات کہتا اور(سیدھا) راستہ دکھاتا ہے۔

٥۔ منہ بولے بیٹوں کو ان کے باپوں کے نام سے پکارو اللہ کے نزدیک یہی قرین انصاف ہے ، پھر اگر تم ان کے باپوں کو نہیں جانتے تو یہ تمہارے دینی بھائی اور دوست ہیں اور جو تم سے غلطی سے سرزد ہو جائے اس میں تم پر کوئی گناہ نہیں ہے ، البتہ اس بات پر (گناہ ضرور ہے ) جسے تمہارے دل جان بوجھ کر انجام دیں اور اللہ بڑا معاف کرنے والا، رحیم ہے۔

٦۔ نبی مومنین کی جانوں پر خود ان سے زیادہ حق تصرف رکھتا ہے اور نبی کی ازواج ان کی مائیں ہیں اور کتاب اللہ کی رو سے رشتے دار آپس میں مومنین اور مہاجرین سے زیادہ حقدار ہیں مگر یہ کہ تم اپنے دوستوں پر احسان کرنا چاہو، یہ حکم کتاب میں لکھا ہوا ہے۔

٧۔اور (یاد کرو) جب ہم نے انبیاء سے عہد لیا اور آپ سے بھی اور نوح سے بھی اور ابراہیم، موسیٰ اور عیسی بن مریم سے بھی اور ان سب سے ہم نے پختہ عہد لیا۔

٨۔ تاکہ سچ کہنے والوں سے ان کی سچائی کے بارے میں دریافت کرے اور کفار کے لیے اس نے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔

٩۔ اے ایمان والو! اللہ کی وہ نعمت یاد کرو جو اس نے تم پر کی جب لشکر تم پر چڑھ آئے تو ہم نے ان پر آندھی بھیجی اور تمہیں نظر نہ آنے والے لشکر بھیجے اور جو کچھ تم کر رہے تھے اللہ اسے خوب دیکھ رہا تھا۔

١٠۔ جب وہ تمہارے اوپر اور نیچے سے تم پر چڑھ آئے اور جب آنکھیں پتھرا گئیں اور (مارے دہشت کے ) دل (کلیجے ) منہ کو آ گئے اور تم لوگ اللہ کے بارے میں طرح طرح کے گمان کرنے لگے۔

١١۔ اس وقت مومنین خوب آزمائے گئے اور انہیں پوری شدت سے ہلا کر رکھ دیا گیا۔

١٢۔ اور جب منافقین اور دلوں میں بیماری رکھنے والے کہ رہے تھے : اللہ اور اس کے رسول نے ہم سے جو وعدہ کیا تھا وہ فریب کے سوا کچھ نہ تھا۔

١٣۔ اور جب ان میں سے ایک گروہ کہنے لگا: اے یثرب والو! تمہارے لیے یہاں ٹھہرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے پس لوٹ جاؤ اور ان میں سے ایک گروہ نبی سے اجازت طلب کر رہا تھا یہ کہتے ہوئے : ہمارے گھر کھلے پڑے ہیں حالانکہ وہ کھلے نہیں تھے ، وہ صرف بھاگنا چاہتے تھے۔

١٤۔ اور اگر (دشمن) ان پر شہر کے اطراف سے گھس آتے پھر انہیں اس فتنے کی طرف دعوت دی جاتی تو وہ اس میں پڑ جاتے اور اس میں صرف تھوڑا ہی توقف کرتے۔

١٥۔ حالانکہ پہلے یہ لوگ اللہ سے عہد کر چکے تھے کہ پیٹھ نہیں پھیریں گے اور اللہ کے ساتھ ہونے والے عہد کے بارے میں باز پرس ہو گی۔

١٦۔ کہہ دیجئے : اگر تم لوگ موت یا قتل سے فرار چاہتے ہو تو یہ فرار تمہیں فائدہ نہ دے گا اور(زندگی کی) لذت کم ہی حاصل کر سکو گے۔

١٧۔ کہہ دیجئے : اللہ سے تمہیں کون بچا سکتا ہے اگر وہ تمہیں نقصان پہنچانا چاہے ؟ یا تم پر رحمت کرنا چاہے (تو کون روک سکتا ہے ؟) اور یہ لوگ اللہ کے سوا کسی کو نہ ولی پائیں گے اور نہ مددگار۔

١٨۔ اللہ تم میں سے رکاوٹیں ڈالنے والوں کو خوب جانتا ہے اور ان کو جو اپنے بھائیوں سے کہتے ہیں : ہماری طرف آؤ اور جو جنگ میں کبھی کبھار ہی شرکت کرتے ہیں۔

١٩۔ تم سے دریغ رکھتے ہیں چنانچہ جب خوف کا وقت آ جائے تو آپ انہیں دیکھیں گے کہ وہ آنکھیں پھیرتے ہوئے ایسے آپ کی طرف دیکھ رہے ہیں جیسے کسی مرنے والے پر غشی طاری ہو رہی ہو، پھر جب خوف ٹل جاتا ہے تو وہ مفاد کی حرص میں چرب زبانی کے ساتھ تم پر بڑھ چڑھ کر بولیں گے ، یہ لوگ ایمان نہیں لائے اس لیے اللہ نے ان کے اعمال حبط کر دیے اور یہ اللہ کے لیے (بہت) آسان ہے۔

٢٠۔ یہ خیال کر رہے ہیں کہ (ابھی) فوجیں گئی نہیں ہیں اور اگر وہ پھر حملہ کریں تو یہ آرزو کریں گے کہ کاش! صحرا میں دیہاتوں میں جا بسیں اور تمہاری خبریں پوچھتے رہیں ، اگر وہ تمہارے درمیان ہوتے تو لڑائی میں کم ہی حصہ لیتے۔

٢١۔ بتحقیق تمہارے لیے اللہ کے رسول میں بہترین نمونہ ہے ، ہر اس شخص کے لیے جو اللہ اور روز آخرت کی امید رکھتا ہو اور کثرت سے اللہ کا ذکر کرتا ہو۔

٢٢۔ اور جب مومنوں نے لشکر دیکھے تو کہنے لگے : یہ وہی ہے جس کا اللہ اور اس کے رسول نے ہم سے وعدہ کیا تھا اور اللہ اور اس کے رسول نے سچ کہا تھا اور اس واقعے نے ان کے ایمان اور تسلیم میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔

٢٣۔ مومنین میں ایسے لوگ موجود ہیں جنہوں نے اللہ سے کیے ہوئے عہد کو سچا کر دکھایا، ان میں سے بعض نے اپنی ذمے داری کو پورا کیا اور ان میں سے بعض انتظار کر رہے ہیں اور وہ ذرا بھی نہیں بدلے۔

٢٤۔ تاکہ اللہ سچوں کو ان کی سچائی کی جزا دے اور چاہے تو منافقین کو عذاب دے یا ان کی توبہ قبول کرے ، اللہ یقیناً بڑا معاف کرنے والا، رحیم ہے۔

٢٥۔ اللہ نے کفار کو اس حال میں پھیر دیا کہ وہ غصے میں (جل رہے ) تھے ، وہ کوئی فائدہ بھی حاصل نہ کر سکے ، لڑائی میں مومنین کے لیے اللہ ہی کافی ہے اور اللہ بڑا طاقت والا، غالب آنے والا ہے۔

٢٦۔ اور اہل کتاب میں سے جن لوگوں نے ان (حملہ آوروں ) کا ساتھ دیا اللہ نے انہیں ان کے قلعوں سے اتار دیا اور ان کے دلوں میں (تمہارا) رعب ڈال دیا کہ تم ان میں سے ایک گروہ کو قتل کرنے لگے اور ایک گروہ کو تم نے قیدی بنا لیا۔

٢٧۔ اور اس نے تمہیں ان کی زمین اور ان کے گھروں اور ان کے اموال اور ان کی ان زمینوں کا جن پر تم نے قدم بھی نہیں رکھا وارث بنایا اور اللہ ہر چیز پر خوب قدرت رکھتا ہے۔

٢٨۔ اے نبی! اپنی ازواج سے کہہ دیجئے : اگر تم دنیاوی زندگی اور اس کی آسائش کی خواہاں ہو تو آؤ میں تمہیں کچھ مال دے کر شائستہ طریقے سے رخصت کر دوں۔

٢٩۔ لیکن اگر تم اللہ اور اس کے رسول اور منزل آخرت کی خواہاں ہو تو تم میں سے جو نیکی کرنے والی ہیں ان کے لیے اللہ نے یقیناً اجر عظیم مہیا کر رکھا ہے۔

٣٠۔ اے نبی کی بیویو! تم میں سے جو کوئی صریح بے حیائی کی مرتکب ہو جائے اسے دگنا عذاب دیا جائے گا اور یہ بات اللہ کے لیے آسان ہے۔

پارہ : وَمَن یّقنُت22

 

٣١۔ اور تم میں سے جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گی اور نیک عمل انجام دے گی اسے ہم اس کا دگنا ثواب دیں گے اور ہم نے اس کے لیے عزت کا رزق مہیا کر رکھا ہے۔

٣٢۔ اے نبی کی بیویو! تم دوسری عورتوں کی طرح نہیں ہو اگر تم تقوی رکھتی ہو تو نرم لہجے میں باتیں نہ کرنا، کہیں وہ شخص لالچ میں نہ پڑ جائے جس کے دل میں بیماری ہے اور معمول کے مطابق باتیں کیا کرو۔

٣٣۔ اور اپنے گھروں میں جم کر بیٹھی رہو اور قدیم جاہلیت کی طرح اپنے آپ کو نمایاں کرتی نہ پھرو نیز نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دیا کرو اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو، اللہ کا ارادہ بس یہی ہے ہر طرح کی ناپاکی کو اہل بیت ! آپ سے دور رکھے اور آپ کو ایسے پاکیزہ رکھے جیسے پاکیزہ رکھنے کا حق ہے۔

٣٤۔ اور اللہ کی ان آیات اور حکمت کو یاد رکھو جن کی تمہارے گھروں میں تلاوت ہوتی ہے ، اللہ یقیناً بڑا باریک بین، خوب باخبر ہے۔

٣٥۔ یقیناً مسلم مرد اور مسلم عورتیں ، مومن مرد اور مومنہ عورتیں ، اطاعت گزار مرد اور اطاعت گزار عورتیں ، راست گو مرد اور راست گو عورتیں ، صابر مرد اور صابرہ عورتیں ، فروتنی کرنے والے مرد اور فرو تن عورتیں ، صدقہ دینے والے مرد اور صدقہ دینی والی عورتیں ، روزہ دار مرد اور روزہ دار عورتیں ، اپنی عفت کے محافظ مرد اور عفت کی محافظ عورتیں نیز اللہ کا بکثرت ذکر کرنے والے مرد اور اللہ کا ذکر کرنے والی عورتیں وہ ہیں جن کے لیے اللہ نے مغفرت اور اجر عظیم مہیا کر رکھا ہے۔

٣٦۔ اور کسی مؤمن اور مومنہ کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ جب اللہ اور اس کے رسول کسی معاملے میں فیصلہ کریں تو انہیں اپنے معاملے کا اختیار حاصل رہے اور جس نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی وہ صریح گمراہی میں مبتلا ہو گیا۔

٣٧۔ اور (اے رسول یاد کریں وہ وقت) جب آپ اس شخص سے جس پر اللہ نے اور آپ نے احسان کیا تھا، کہ رہے تھے : اپنی زوجہ کو نہ چھوڑو اور اللہ سے ڈرو اور وہ بات آپ اپنے دل میں چھپائے ہوئے تھے جسے اللہ ظاہر کرنا چاہتا ہے اور آپ لوگوں سے ڈر رہے تھے حالانکہ اللہ زیادہ حقدار ہے کہ آپ اس سے ڈریں ، پھر جب زید نے اس (خاتون) سے اپنی حاجت پوری کر لی تو ہم نے اس خاتون کا نکاح آپ سے کر دیا تاکہ مومنوں پر اپنے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں (سے شادی کرنے ) کے بارے میں کوئی حرج نہ رہے جب کہ وہ ان سے اپنی حاجت پوری کر چکے ہوں اور اللہ کا حکم نافذ ہو کر ہی رہے گا۔

٣٨۔ نبی کے لیے اس (عمل کے انجام دینے ) میں کوئی مضائقہ نہیں ہے جو اللہ نے ان کے لیے مقرر کیا ہے ، جو (انبیا٫) پہلے گزر چکے ہیں ان کے لیے بھی اللہ کی سنت یہی رہی ہے اور اللہ کا حکم حقیقی انداز سے طے شدہ ہوتا ہے۔

٣٩۔ (وہ انبیاء) جو اللہ کے پیغامات پہنچاتے ہیں اور اسی سے ڈرتے ہیں اور اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے اور محاسبے کے لیے اللہ ہی کافی ہے۔

٤٠۔ محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں ہاں وہ اللہ کے رسول اور خاتم النبیّین ہیں اور اللہ ہر چیز کا خوب جاننے والا ہے۔

٤١۔ اے ایمان والو! اللہ کو بہت کثرت سے یاد کیا کرو۔

٤٢۔ اور صبح و شام اس کی تسبیح کیا کرو۔

٤٣۔ وہی تم پر رحمت بھیجتا ہے اور اس کے فرشتے بھی (دعا کرتے ہیں ) تاکہ تمہیں تاریکیوں سے روشنی کی طرف نکال لائے اور وہ مومنوں کے بارے میں بڑا مہربان ہے۔

٤٤۔ جس روز وہ اس سے ملیں گے ان کی تحیت سلام ہو گی اور اللہ نے ان کے لیے با عزت اجر مہیا کر رکھا ہے۔

٤٥۔ اے نبی! ہم نے آپ کو گواہ اور بشارت دینے والا اور تنبیہ کرنے والا بنا کر بھیجا ہے ،

٤٦۔ اور اس (اللہ) کے اذن سے اللہ کی طرف دعوت دینے والا اور روشن چراغ بنا کر۔

٤٧۔ اور مومنین کو یہ بشارت دیجیے کہ ان کے لیے اللہ کی طرف سے بڑا فضل ہو گا۔

٤٨۔ اور آپ کافروں اور منافقوں کی باتوں میں نہ آئیں اور ان کی اذیت رسانی پر توجہ نہ دیا کریں اور اللہ پر بھروسہ رکھیں اور ضمانت کے لیے اللہ کافی ہے۔

٤٩۔ اے مومنو! جب تم مومنات سے نکاح کرو اور پھر ہاتھ لگانے سے پہلے انہیں طلاق دے دو تو تمہیں کوئی حق نہیں پہنچتا کہ انہیں عدت میں بٹھاؤ، لہٰذا انہیں کچھ مال دو اور شائستہ انداز میں انہیں رخصت کرو۔

٥٠۔ اے نبی! ہم نے آپ کے لیے آپ کی وہ بیویاں حلال کی ہیں جن کے مہر آپ نے دے دیے ہیں اور وہ لونڈیاں بھی جو اللہ نے (بغیر جنگ کے ) آپ کو عطا کی ہیں نیز آپ کے چچا کی بیٹیاں اور آپ کی پھوپھیوں کی بیٹیاں اور آپ کے ماموں کی بیٹیاں اور آپ کی خالاؤں کی بیٹیاں جنہوں نے آپ کے ساتھ ہجرت کی ہے (سب حلال ہیں ) اور وہ مومنہ عورت جو اپنے آپ کو نبی کے لیے ہبہ کرے اور اگر نبی بھی اس سے نکاح کرنا چاہیں ، (یہ اجازت) صرف آپ کے لیے ہے مومنوں کے لیے نہیں ، ہمیں معلوم ہے کہ ہم نے مومنوں پر ان کی بیویوں اور کنیزوں کے بارے میں کیا (حق مہر) معین کیا ہے (آپ کو یہ رعایت اس لیے حاصل ہے ) تاکہ آپ پر کسی قسم کا مضائقہ نہ ہو اور اللہ بڑا معاف کرنے والا، مہربان ہے۔

٥١۔ آپ ان بیویوں میں سے جسے چاہیں علیحدہ رکھیں اور جسے چاہیں اپنے پاس رکھیں اور جسے آپ نے علیحدہ کر دیا ہو اسے آپ پھر اپنے پاس بلانا چاہتے ہوں تو اس میں آپ پر کوئی مضائقہ نہیں ہے ، یہ اس لیے ہے کہ اس میں زیادہ توقع ہے کہ ان کی آنکھیں ٹھنڈی رہیں اور وہ رنجیدہ نہ ہوں اور جو کچھ بھی آپ انہیں دیں وہ سب اسی پر راضی ہوں اور جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے اللہ اسے جانتا ہے اور اللہ بڑا جاننے والا، بردبار ہے۔

٥٢۔ اس کے بعد آپ کے لیے دوسری عورتیں حلال نہیں ہیں اور نہ اس بات ی اجازت ہے کہ ان بیویوں کو بدل لیں خواہ ان (دوسری) عورتوں کا حسن آپ کو کتنا ہی پسند ہو سوائے ان (کنیز) عورتوں کے جو آپ کی ملکیت میں ہوں اور اللہ ہر چیز پر نگران ہے۔

٥٣۔ اے ایمان والو! نبی کے گھروں میں داخل نہ ہونا مگر یہ کہ تمہیں کھانے کے لیے اجازت دی جائے اور نہ ہی پکنے کا انتظار کرو، لیکن جب دعوت دے دی جائے تو داخل ہو جاؤ اور جب کھانا کھا چکو تو منتشر ہو جاؤ اور باتوں میں لگے بیٹھے نہ رہو، یہ بات نبی کو تکلیف پہنچاتی ہے مگر وہ تمہارا لحاظ کرتے ہیں لیکن اللہ حق بات کرنے سے نہیں شرماتا اور جب تمہیں نبی کی بیویوں سے کچھ مانگنا ہو تو پردے کے پیچھے سے مانگا کرو، یہ تمہارے اور ان کے دلوں کی پاکیزگی کے لیے زیادہ بہتر طریقہ ہے تمہیں یہ حق نہیں کہ اللہ کے رسول کو اذیت دو اور ان کی ازواج سے ان کے بعد کبھی بھی نکاح نہ کرو، بتحقیق یہ اللہ کے نزدیک بہت بڑا گناہ ہے۔

٥٤۔ تم کسی بات کو خواہ چھپاؤ یا ظاہر کرو اللہ تو یقیناً ہر چیز کا خوب علم رکھتا ہے۔

٥٥۔ (رسول کی) ازواج پر کوئی مضائقہ نہیں اپنے باپوں ، اپنے بیٹوں ، اپنے بھائیوں ، اپنے بھتیجوں ، اپنے بھانجوں ، اپنی مسلم خواتین اور کنیزوں سے (پردہ نہ کرنے میں ) اور اللہ کا خوف کریں ، اللہ یقیناً ہر چیز پر گواہ ہے۔

٥٦۔ اللہ اور اس کے فرشتے یقیناً نبی پر درود بھیجتے ہیں ، اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود و سلام بھیجو جیسے سلام بھیجنے کا حق ہے۔

٥٧۔ جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کو اذیت دیتے ہیں ان پر دنیا اور آخرت میں اللہ نے لعنت کی ہے اور اس نے ان کے لیے ذلت آمیز عذاب تیار کر رکھا ہے۔

٥٨۔ اور جو لوگ مومن مردوں اور مومنہ عورتوں کو ناکردہ (گناہ ) پر اذیت دیتے ہیں پس انہوں نے بہتان اور صریح گناہ کا بوجھ اٹھایا ہے۔

٥٩۔ اے نبی! اپنی ازواج اور اپنی بیٹیوں اور مومنین کی عورتوں سے کہہ دیجئے : وہ اپنی چادریں تھوڑی نیچی کر لیا کریں ، یہ امر ان کی شناخت کے لیے (احتیاط کے ) قریب تر ہو گا پھر کوئی انہیں اذیت نہ دے گا اور اللہ بڑا معاف کرنے والا، مہربان ہے۔

٦٠۔ اگر منافقین اور وہ لوگ جن کے دلوں میں بیماری ہے اور جو مدینہ میں افواہیں پھیلاتے ہیں اپنی حرکتوں سے باز نہ آئے تو ہم آپ کو ان کے خلاف اٹھائیں گے پھر وہ اس شہر میں آپ کے جوار میں تھوڑے دن ہی رہ پائیں گے۔

٦١۔ یہ لعنت کے سزاوار ہوں گے ، وہ جہاں پائے جائیں گے پکڑے جائیں گے اور بری طرح سے مارے جائیں گے۔

٦٢۔جو پہلے گزر چکے ہیں ان کے لیے بھی اللہ کا یہی دستور رہا ہے اور اللہ کے دستور میں آپ کوئی تبدیلی نہیں پائیں گے۔

٦٣۔ لوگ آپ سے قیامت کے بارے میں پوچھتے ہیں ، کہہ دیجئے : اس کا علم صرف اللہ کے پاس ہے اور تجھے کیا خبر شاید قیامت قریب ہو؟

٦٤۔ بلاشبہ اللہ نے کافروں پر لعنت کی ہے اور ان کے لیے بھڑکتی آگ تیار کر رکھی ہے ،

٦٥۔ جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے ، وہ نہ کوئی حامی پائیں گے اور نہ مددگار۔

٦٦۔ اس دن ان کے چہرے آگ میں الٹائے پلٹائے جائیں گے ، وہ کہیں گے : اے کاش! ہم نے اللہ کی اطاعت اور اس کے رسول کی اطاعت کی ہوتی۔

٦٧۔ اور وہ کہیں گے : ہمارے پروردگار! ہم نے اپنے سرداروں اور بڑوں کی اطاعت کی تھی پس انہوں نے ہمیں گمراہ کر دیا۔

٦٨۔ ہمارے پروردگار! تو انہیں دگنا عذاب دے اور ان پر بڑی لعنت بھیج۔

٦٩۔ اے ایمان والو! ان لوگوں کی طرح نہ ہونا جنہوں نے موسیٰ کو اذیت دی تھی پھر اللہ نے ان کے الزام سے انہیں بری ثابت کیا اور وہ اللہ کے نزدیک آبرو والے تھے۔

٧٠۔ اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور سیدھی (مبنی بر حق) باتیں کیا کرو۔

٧١۔ اللہ تمہارے اعمال کی اصلاح فرمائے گا اور تمہارے گناہ معاف فرمائے گا اور جس نے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت

ی پس اس نے عظیم کامیابی حاصل کی۔

٧٢۔ ہم نے اس امانت کو آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیا تو ان سب نے اسے اٹھانے سے انکار کیا اور وہ اس سے ڈر گئے لیکن انسان نے اسے اٹھا لیا، انسان یقیناً بڑا ظالم اور نادان ہے۔

٧٣۔ تاکہ (نتیجے میں ) اللہ منافق مردوں اور منافق عورتوں کو اور مشرک مردوں اور مشرکہ عورتوں کو عذاب دے اور مومن مردوں اور مومنہ عورتوں کو معاف کرے اور اللہ بڑا بخشنے والا، رحیم ہے۔

 

 

سورہ سبا۔ مکی۔ آیات ۵۴

 

بنام خدائے رحمن و رحیم

١۔ ثنائے کامل اس اللہ کے لیے ہے جو آسمانوں اور زمین کی ہر چیز  کا مالک ہے اور آخرت میں بھی ثنائے کامل اسی کے لیے ہے اور وہ بڑا حکمت والا، خوب باخبر ہے۔

٢۔ جو کچھ زمین کے اندر جاتا ہے اور جو کچھ اس سے نکلتا ہے اور جو کچھ آسمان سے اترتا ہے اور جو کچھ اس میں چڑھتا ہے سب کو اللہ جانتا ہے اور وہی رحیم و غفور ہے۔

٣۔ اور کفار کہتے ہیں : قیامت ہم پر نہیں آئے گی، کہہ دیجئے : میرے عالم الغیب رب کی قسم وہ تم پر ضرور آ کر رہے گی، آسمانوں اور زمین میں ذرہ برابر بھی (کوئی چیز) اس ے پوشیدہ نہیں ہے اور نہ ذرے سے چھوٹی چیز اور نہ اس سے بڑی مگر یہ کہ سب کچھ کتاب مبین میں ثبت ہے۔

٤۔ تاکہ اللہ ایمان لانے والوں اور نیک عمل انجام دینے والوں کو جزا دے ، یہی وہ لوگ ہیں جن کے لیے مغفرت اور رزق کریم ہے۔

٥۔ اور جنہوں نے ہماری آیات کے بارے میں کوشش کی کہ (ہم کو) مغلوب کریں ان کے لیے بلا کا دردناک عذاب ہے۔

٦۔ اور جنہیں علم دیا گیا ہے وہ خوب جانتے ہیں کہ آپ کے رب کی طرف سے آپ پر جو کچھ نازل کیا گیا ہے وہ حق ہے اور وہ بڑے غالب آنے والے اور قابل ستائش (اللہ) کی راہ کی طرف ہدایت کرتا ہے۔

٧۔ اور کفار کہتے ہیں : کیا ہم تمہیں ایک ایسے آدمی کا پتہ بتائیں جو تمہیں یہ خبر دیتا ہے کہ جب تم مکمل طور پر پارہ پارہ ہو جاؤ گے تو بلاشبہ تم نئی خلقت پاؤ گے ؟

٨۔ اس نے اللہ پر جھوٹ بہتان باندھا ہے یا اسے جنون لاحق ہے ؟ (نہیں ) بلکہ (بات یہ ہے کہ) جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے وہ لوگ عذاب میں اور گہری گمراہی میں مبتلا ہیں۔

٩۔ کیا انہوں نے اپنے آگے اور پیچھے محیط آسمان اور زمین کو نہیں دیکھا؟ اگر ہم چاہیں تو انہیں زمین میں دھنسا دیں یا آسمان سے ان پر ٹکڑے برسا دیں  یقیناً اس میں اللہ کی طرف رجوع کرنے والے ہر بند ے کے لیے نشانی ہے۔

١٠۔ اور بتحقیق ہم نے داؤد کو اپنی طرف سے فضیلت دی، (اور ہم نے کہا) اے پہاڑو! اس کے ساتھ(تسبیح پڑھتے ہوئے ) خوش الحانی کرو اور پرندوں کو بھی(یہی حکم دیا) اور ہم نے لوہے کو ان کے لیے نرم کر دیا

١١۔ کہ تم زرہیں بناؤ اور ان کے حلقوں کو باہم مناسب رکھو اور تم سب نیک عمل کرو بتحقیق جو کچھ تم کرتے ہو میں اسے دیکھتا ہوں۔

١٢۔ اور سلیمان کے لیے (ہم نے ) ہوا (کو مسخر کر دیا)، صبح کے وقت اس کا چلنا ایک ماہ کا راستہ اور شام کے وقت کا چلنا بھی ایک ماہ کا راستہ (ہوتا) اور ہم نے اس کے لیے تانبے کا چشمہ بہا دیا اور جنوں میں سے بعض ایسے تھے جو اپنے رب کی اجازت سے سلیمان کے آگے کام کرتے تھے اور ان میں سے جو ہمارے حکم سے انحراف کرتا ہم اسے بھڑکتی ہوئی آگ کے عذاب کا ذائقہ چکھاتے۔

١٣۔ سلیمان جو چاہتے یہ جنات ان کے لیے بنا دیتے تھے ، بڑی مقدس عمارات، مجسمے ، حوض جیسے پیالے اور زمین میں گڑی ہوئی دیگیں ، اے آل داؤد! شکر ادا کرو اور میرے بندوں میں شکر کرنے والے کم ہیں۔

١٤۔ پھر جب ہم نے سلیمان کی موت کا فیصلہ کیا تو ان جنات کو سلیمان کی موت کی بات کسی نے نہ بتائی سوائے زمین پر چلنے والی (دیمک) کے جو ان کے عصا کو کھا رہی تھی،پھر جب سلیمان زمین پر گرے تو جنوں پر بات واضح ہو گئی کہ اگر وہ غیب جانتے ہوتے تو ذلت کے اس عذاب میں مبتلا نہ رہتے۔

١٥۔بتحقیق(اہل) سبا کے لیے ان کی آبادی میں ایک نشانی تھی، (یعنی) دو باغ دائیں اور بائیں تھے ، اپنے رب کے رزق سے کھاؤ اور اس کا شکر ادا کرو، ایک پاکیزہ شہر (ہے ) اور بڑا بخشنے والا پروردگار۔

١٦۔ پس انہوں نے منہ پھیر لیا تو ہم نے ان پر بند کا سیلاب بھیج دیا اور ان دو باغوں کے عوض ہم نے انہیں دو ایسے باغات دیے جن میں بدمزہ پھل اور کچھ جھاؤ کے درخت اور تھوڑے سے بیر تھے۔

١٧۔ ان کی ناشکری کے سبب ہم نے انہیں یہ سزا دی اور کیا ایسی سزا ناشکروں کے علاوہ ہم کسی اور کو دیتے ہیں ؟

١٨۔ اور ہم نے ان کے اور جن بستیوں کو ہم نے برکت سے نوازا تھا، کے درمیان چند کھلی بستیاں بسا دیں اور ان میں سفر کی منزلیں متعین کیں ، ان میں راتوں اور دنوں میں امن کے ساتھ سفر کیا کرو۔

١٩۔ پس انہوں نے کہا : ہمارے پروردگار! ہمارے سفر کی منزلوں کو لمبا کر دے اور انہوں نے اپنے آپ پر ظلم کیا چنانچہ ہم نے بھی انہیں افسانے بنا دیا اور انہیں مکمل طور پر ٹکڑے ٹکڑے کر دیا، یقیناً اس (واقعہ) میں ہر صبر اور شکر کرنے والے کے لیے نشانیاں ہیں۔

٢٠۔ اور بتحقیق ابلیس نے ان کے بارے میں اپنا گمان درست پایا اور انہوں نے اس کی پیروی کی سوائے مومنوں کی ایک جماعت کے۔

٢١۔ اور ابلیس کو ان پر کوئی بالا دستی حاصل نہ تھی مگر ہم یہ جاننا چاہتے تھے کہ آخرت کا ماننے والا کون ہے اور ان میں سے کون اس بارے میں شک میں ہے اور آپ کا رب ہر چیز پر نگہبان ہے۔

٢٢۔ کہہ دیجئے : جنہیں تم اللہ کے سوا (معبود) سمجھتے ہو انہیں پکارو، وہ ذرہ بھر چیز کے مالک نہیں ہیں نہ آسمانوں میں اور نہ زمین میں اور نہ ہی ان دونوں میں ان کی شرکت ہے اور نہ ان میں سے اس کا کوئی مددگار ہے۔

٢٣۔اور اللہ کے نزدیک کسی کے لیے شفاعت فائدہ مند نہیں سوائے اس کے جس کے حق میں اللہ نے اجازت دی ہو، یہاں تک کہ جب ان کے دلوں سے پریشانی دور ہو گی تو وہ کہیں گے : تمہارے رب نے کیا فرمایا؟ وہ کہیں گے : حق فرمایا ہے اور وہی برتر، بزرگ ہے۔

٢٤۔ان سے پوچھیے :تمہیں آسمانوں اور زمین سے رزق کون دیتا ہے ؟ کہہ دیجئے : اللہ، تو ہم اور تم میں سے کوئی ایک ہدایت پر یا صریح گمراہی میں ہے۔

٢٥۔ کہہ دیجئے :ہمارے گناہوں کی تم سے پرسش نہیں ہو گی اور نہ ہی تمہارے اعمال کے بارے میں ہم سے سوال ہو گا۔

٢٦۔ کہہ دیجئے : ہمارا رب ہمیں جمع کرے گا پھر ہمارے درمیان حق پر مبنی فیصلہ فرمائے گا اور وہ بڑا فیصلہ کرنے والا، دانا ہے۔

٢٧۔ کہہ دیجئے : مجھے وہ تو دکھاؤ جنہیں تم نے شریک بنا کر اللہ کے ساتھ ملا رکھا ہے ، ہرگز نہیں ، بلکہ بڑا غالب آنے والا، حکمت والا صرف اللہ ہے۔

٢٨۔ اور ہم نے آپ کو تمام انسانوں کے لیے فقط بشارت دینے والا اور تنبیہ کرنے والا بنا کر بھیجا ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔

٢٩۔ اور یہ کہتے ہیں : اگر تم لوگ سچے ہو (تو بتاؤ قیامت کے ) وعدے کا دن کب آنے والا ہے ؟

٣٠۔ کہہ دیجئے : تم سے ایک دن کا وعدہ ہے جس سے تم نہ ایک گھڑی پیچھے ہٹ سکو گے اور نہ آگے بڑھ سکو گے۔

٣١۔ اور کفار کہتے ہیں : ہم اس قرآن پر ہرگز ایمان نہ لائیں گے اور نہ (ان کتابوں پر) جو اس سے پہلے ہیں اور کاش آپ ان کا وہ حال دیکھ لیتے جب یہ ظالم اپنے رب کے سامنے کھڑے کیے جائیں گے اور ایک دوسرے پر الزام عائد کر رہے ہوں گے ، (چنانچہ) جو لوگ دبے ہوئے ہوتے تھے وہ بڑا بننے والوں سے کہیں گے : اگر تم نہ ہوتے تو ہم مومن ہوتے۔

٣٢۔ اور بڑا بننے والے دبے رہنے والوں سے کہیں گے : ہدایت تمہارے پاس آ جانے کے بعد کیا ہم نے تمہیں اس سے روکا تھا؟ (نہیں ) بلکہ تم خود ہی مجرم ہو۔

٣٣۔ اور کمزور لوگ بڑا بننے والوں سے کہیں گے : بلکہ یہ رات دن کی چالیں تھیں جب تم ہمیں اللہ سے کفر کرنے اور اس کے لیے ہمسر بنانے کے لے ے کہتے تھے ، جب وہ عذاب کو دیکھ لیں گے تو دل میں ندامت لیے بیٹھیں گے اور ہم کفار کی گردنوں میں طوق ڈالیں گے ، کیا ان کو اس کے سوا کوئی بدلہ ملے گا جس کے یہ مرتکب ہوا کرتے تھے۔

٣٤۔ اور ہم نے کسی بستی کی طرف کسی تنبیہ کرنے والے کو نہیں بھیجا مگر یہ کہ وہاں کے مراعات یافتہ لوگ کہتے تھے : جو پیغام تم لے کر آئے ہو ہم اسے نہیں مانتے۔

٣٥۔ اور کہتے تھے : ہم اموال اور اولاد میں بڑھ کر ہیں ہم پر عذاب نہیں ہو گا۔

٣٦۔ کہہ دیجئے : میرا رب جس کے لیے چاہتا ہے رزق فراواں اور تنگ کر دیتا ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔

٣٧۔ اور تمہارے اموال و اولاد ایسے نہیں جو تمہیں ہماری قربت میں درجہ دلائیں سوائے اس کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کرے ، پس ان کے اعمال کا دگنا ثواب ہے اور وہ سکون کے ساتھ بالا خانوں میں ہوں گے۔

٣٨۔ اور جو لوگ ہماری آیات کے بارے میں سعی کرتے ہیں کہ (ہم کو) مغلوب کریں یہ لوگ عذاب میں حاضر کیے جائیں گے۔

٣٩۔ کہہ دیجئے : میرا رب اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے فراوانی اور تنگی سے رزق دیتا ہے اور جو کچھ تم خرچ کرتے ہو اس کی جگہ وہ اور دیتا ہے اور وہ سب سے بہتر رزق دینے والا ہے۔

٤٠۔ اور جس دن وہ ان سب لوگوں کو جمع کرے گا پھر فرشتوں سے پوچھے گا: کیا یہ لوگ تمہاری پرستش کرتے تھے ؟

٤١۔ وہ کہیں گے : پا ک ہے تیری ذات، تو ہی ہمارا آقا ہے نہ کہ وہ، بلکہ وہ تو جنات کی پرستش کرتے تھے اور ان کی اکثریت انہی کو مانتی ہے۔

٤٢۔ لہٰذا آج تم میں سے کوئی ایک دوسرے کو نفع اور نقصان پہنچانے کا اختیار نہیں رکھتا اور ظالموں سے ہم کہہ دیں گے : اب چکھو اس جہنم کا عذاب جس کی تم تکذیب کرتے تھے۔

٤٣۔ اور جب ان پر ہماری واضح آیات کی تلاوت کی جاتی ہے تو کہتے ہیں : یہ شخص تو تمہیں تمہارے باپ دادا کے معبودوں سے روکنا چاہتا ہے اور کہتے ہیں : یہ (قرآن) تو محض ایک خود ساختہ جھوٹ ہے اور کفار (کا یہ وطیرہ رہا ہے کہ ان) کے پاس جب بھی حق آیا تو کہنے لگے : بے شک ی تو ایک کھلا جادو ہے۔

٤٤۔ اور نہ تو ہم نے پہلے انہیں کتابیں دی تھیں جنہیں یہ پڑھتے ہوں اور نہ ہی آپ سے پہلے ہم نے ان کی طرف کوئی تنبیہ کرنے والا بھیجا ہے۔

٤٥۔ اور ان سے پہلے لوگوں نے بھی تکذیب کی تھی اور جو کچھ ہم نے انہیں دیا تھا یہ اس کے دسویں حصے کو بھی نہیں پہنچے مگر جب انہوں نے میرے رسولوں کی تکذیب کی تو (دیکھ لیا) میرا عذاب کتنا سخت تھا۔

٤٦۔ کہہ دیجئے : میں تمہیں ایک بات کی نصیحت کرتا ہوں کہ تم اللہ کے لیے اٹھ کھڑے ہو ایک ایک اور دو دو کر کے پھر سوچو کہ تمہارے ساتھی میں جنون کی کوئی بات نہیں ہے ، وہ تو تمہیں ایک شدید عذاب سے پہلے خبردار کرنے والا ہے۔

٤٧۔کہہ دیجئے : جو اجر (رسالت) میں نے تم سے مانگا ہے وہ خود تمہارے ہی لیے ہے ، میرا اجر تو اللہ کے ذمے ہے اور وہ ہر چیز پر گواہ ہے۔

٤٨۔ کہہ دیجئے : میرا رب یقیناً حق نازل فرماتا ہے اور وہ غیب کی باتوں کا خوب جاننے والا ہے۔

٤٩۔ کہہ دیجئے : حق آ گیا اور باطل نہ تو پہلی بار ایجاد کر سکتا ہے اور نہ ہی دوبارہ پلٹا سکتا ہے۔

٥٠۔ کہہ دیجئے : اگر میں گمراہ ہو گیا ہوں تو اس گمراہی کا نقصان خود مجھے ہی ہے اور اگر میں ہدایت یافتہ ہوں تو یہ اس وحی کی بنا پر ہے جو میرے رب کی طرف سے مجھ پر ہوتی ہے ، اللہ یقیناً بڑا سننے والا قریب ہے۔

٥١۔ اور کاش! آپ دیکھ لیتے کہ جب یہ پریشان حال ہوں گے تو بچ نہ سکیں گے اور نزدیک ہی سے پکڑ لیے جائیں گے۔

٥٢۔ (اب) وہ کہیں گے : ہم اس ایمان پر ایمان لے آئے لیکن اب وہ اتنی دور نکلی ہوئی چیز کو کہاں پا سکیں گے ؟

٥٣۔ اور اس سے پہلے بھی وہ کفر کر چکے تھے اور انہوں نے بن دیکھے دور ہی دور سے (گمان کے ) تیر چلائے تھے۔

٥٤۔ اور اب ان کے اور ان کی مطلوبہ اشیاء کے درمیان پردے حائل کر دیے گئے ہیں جیسا کہ پہلے بھی ان کے ہم خیال لوگوں کے ساتھ (یہی) کیا گیا تھا، یقیناً وہ شبہ انگیز شک میں مبتلا تھے۔

 

 

    سورۃ فاطر۔ مکی۔آیات ۴۵

 

بنام خدائے رحمن و رحیم

١۔ ثنائے کامل اللہ کے لیے ہے جو آسمانوں اور زمین کا ایجاد کرنے والا نیز فرشتوں کو پیام رساں بنانے والا ہے جن کے دو دو، تین تین اور چار چار پر ہیں ، وہ جیسے چاہتا ہے مخلوقات میں اضافہ فرماتا ہے ، یقیناً اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔

٢۔ لوگوں کے لیے جو رحمت (کا دروازہ) اللہ کھولے اسے کوئی روکنے والا نہیں اور جسے وہ بند کر دے اسے اللہ کے بعد کوئی کھولنے والا نہیں اور وہ بڑا غالب آنے والا، حکمت والا ہے۔

٣۔ اے لوگو! اللہ کے تم پر جو احسانات ہیں انہیں یاد کرو، کیا اللہ کے سوا کوئی اور خالق ہے جو آسمان اور زمین سے تمہیں رزق دے ؟ اس کے سوا کوئی معبود نہیں پس تم کہاں الٹے پھرے جا رہے ہو؟

٤۔ اور اگر یہ لوگ آپ کی تکذیب کرتے ہیں تو آپ سے پہلے بھی رسولوں کی تکذیب ہوئی ہے اور تمام امور کی بازگشت اللہ ہی کی طرف ہے۔

٥۔ اے لوگو! اللہ کا وعدہ یقیناً سچا ہے لہٰذا دنیا کی زندگی تمہیں دھوکے میں نہ ڈالے اور نہ ہی وہ دغا باز (شیطان) اللہ کے بارے میں تمہیں فریب دینے پائے۔

٦۔ شیطان یقیناً تمہارا دشمن ہے پس تم اسے دشمن سمجھو، بے شک وہ اپنے گروہ کو صرف اس لے ے دعوت دیتا ہے تاکہ وہ لوگ اہل جہنم میں شامل ہو جائیں۔

٧۔ جنہوں نے کفر کیا ان کے لیے شدید عذاب ہے اور جو ایمان لائے اور نیک اعمال کرتے رہے ان کے لیے مغفرت اور بڑا اجر ہے۔

٨۔ بھلا وہ شخص جس کے لیے اس کا برا عمل خوشنما بنا دیا گیا ہو اور وہ اسے اچھا سمجھنے لگا ہو (ہدایت یافتہ شخص کی طرح ہو سکتا ہے ؟) بے شک اللہ جسے چاہتا ہے گمراہی میں ڈال دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے لہٰذا ان لوگوں پر افسوس میں آپ کی جان نہ چلی جائے ، یہ جو کچھ کر رہے ہیں یقیناً اللہ کو اس کا خوب علم ہے۔

٩۔اور اللہ ہی ہواؤں کو بھیجتا ہے تو وہ بادل کو اٹھاتی ہیں پھر ہم اسے ایک اجاڑ شہر کی طرف لے جاتے ہیں پھر ہم اس سے زمین کو اس کی موت کے بعد زندہ کر دیتے ہیں ، اسی طرح (قیامت کو) اٹھنا ہو گا۔

١٠۔ جو شخص عزت کا خواہاں ہے تو (وہ جان لے کہ) عزت ساری اللہ کے لیے ہے ، پاکیزہ کلمات اسی کی طرف اوپر چلے جاتے ہیں اور نیک عمل اسے بلند کر دیتا ہے اور جو لوگ بری مکاریاں کرتے ہیں ان کے لیے سخت عذاب ہے اور ایسے لوگوں کا مکر نابود ہو جائے گا۔

١١۔ اور اللہ نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا پھر نطفے سے پھر تمہیں جوڑا بنا دیا اور کوئی عورت نہ حاملہ ہوتی ہے اور نہ بچہ جنتی ہے مگر اللہ کے علم کے ساتھ اور نہ کسی زیادہ عمر والے کو عمر دی جاتی ہے اور نہ ہی اس کی عمر میں کمی کی جاتی ہے مگر یہ کہ کتاب میں (ثبت) ہے ، یقیناً یہ سب کچھ اللہ کے لیے آسان ہے۔

١٢۔ اور دو سمندر برابر نہیں ہوتے : ایک شیریں ، پیاس بجھانے والا، پینے میں خوشگوار اور دوسرا کھارا کڑوا اور ہر ایک سے تم تازہ گوشت کھاتے ہو اور زیورات نکال کر پہنتے ہو اور تم ان کشتیوں کو دیکھتے ہو جو پانی کو چیرتی چلی جاتی ہیں تاکہ تم اللہ کا فضل تلاش کرو اور شاید تم شکرگزار بن جاؤ۔

١٣۔ وہ رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے اور سورج اور چاند کو مسخر کیا ہے ، ان میں سے ہر ایک مقررہ وقت تک چلتا رہے گا، یہی اللہ تمہارا رب ہے ، سلطنت اسی کی ہے اور اس کے علاوہ جنہیں تم پکارتے ہو وہ کھجور کی گٹھلی کے چھلکے ( کے برابر کسی چیز) کے مالک نہیں ہیں۔

١٤۔ اگر تم انہیں پکارو تو وہ تمہاری پکار سن نہیں سکتے اور اگر سن بھی لیں تو تمہیں جواب نہیں دے سکتے اور قیامت کے دن وہ تمہارے اس شرک کا انکار کریں گے اور (خدائے ) باخبر کی طرح تجھے کوئی خبر نہیں دے سکتا۔

١٥۔ اے لوگو ! تم اللہ کے محتاج ہو اور اللہ تو بے نیاز، لائق ستائش ہے۔

١٦۔ اگر وہ چاہے تو تمہیں نابود کر دے اور نئی خلقت لے آئے۔

١٧۔ اور ایسا کرنا اللہ کے لیے مشکل تو نہیں۔

١٨۔ اور کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا اور اگر کوئی (گناہوں کے ) بھاری بوجھ والا اپنا بوجھ اٹھانے کے لیے کسی کو پکارے گا تو اس سے کچھ بھی نہیں اٹھایا جائے گا خواہ وہ قرابتدار ہی کیوں نہ ہو، آپ تو صرف انہیں ڈرا سکتے ہیں جو بن دیکھے اپنے رب سے ڈرتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور جو پاکیزگی اختیار کرتا ہے تو وہ صرف اپنے لیے ہی پاکیزگی اختیار کرتا ہے اور اللہ ہی کی طرف پلٹنا ہے۔

١٩۔ اور نابینا اور بینا برابر نہیں ہو سکتے ،

٢٠۔ اور نہ ہی اندھیرا اور نہ روشنی،

٢١۔ اور نہ سایہ اور نہ دھوپ،

٢٢۔ اور نہ ہی زندے اور نہ ہی مردے یکساں ہو سکتے ہیں ، بے شک اللہ جسے چاہتا ہے سنواتا ہے اور آپ قبروں میں مدفون لوگوں کو تو نہیں سنا سکتے۔

٢٣۔ آپ تو صرف تنبیہ کرنے والے ہیں۔

٢٤۔ہم نے آپ کو حق کے ساتھ بشارت دینے والا اور تنبیہ کرنے والا بنا کر بھیجا ہے اور کوئی امت ایسی نہیں گزری جس میں کوئی متنبہ کرنے والا نہ آیا ہو۔

٢٥۔ اور اگر یہ لوگ آپ کی تکذیب کرتے ہیں تو ان سے پہلے والوں نے بھی تکذیب کی ہے ، ان کے پاس ان کے رسول واضح دلائل اور صحیفے اور روشن کتاب لے کر آئے تھے۔

٢٦۔ پھر جنہوں نے کفر کیا میں نے انہیں گرفت میں لے لیا پھر (دیکھا) میرا عذاب کیسا سخت تھا؟

٢٧۔ کیا تو نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے آسمان سے پانی برسایا پھر ہم نے اس سے مختلف رنگوں کے پھل نکالے ؟ اور پہاڑوں میں مختلف رنگوں کی سفید سرخ گھاٹیاں پائی جاتی ہیں اور کچھ گہری سیاہ ہیں۔

٢٨۔ اور اسی طرح انسانوں اور جانوروں اور مویشیوں میں بھی رنگ پائے جاتے ہیں ، اللہ کے بندوں میں سے صرف اہل علم ہی اس سے ڈرتے ہیں ، بے شک اللہ بڑا غالب آنے والا، معاف کرنے والا ہے۔

٢٩۔ بے شک جو لوگ اللہ کی کتاب کی تلاوت کرتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور ہم ے جو رزق انہیں دیا ہے اس میں سے پوشیدہ اور علانیہ خرچ کرتے ہیں ، وہ ایسی تجارت کے ساتھ امید لگائے ہوئے ہیں جس میں ہرگز خسارہ نہ ہو گا۔

٣٠۔ تاکہ اللہ ان کا پورا اجر انہیں دے بلکہ اپنے فضل سے مزید بھی عطا فرمائے ، یقیناً اللہ بڑا معاف کرنے والا، قدردان ہے۔

٣١۔ اور ہم نے جو کتاب آپ کی طرف وحی کی ہے وہی برحق ہے ، یہ ان کتابوں کی تصدیق کرتی ہے جو اس سے پہلے آئی ہیں ، یقیناً اللہ اپنے بندوں سے خوب باخبر، ان پر نظر رکھنے والا ہے۔

٣٢۔ پھر ہم نے اس کتاب کا وارث انہیں بنایا جنہیں ہم نے اپنے بندوں میں سے برگزیدہ کیا ہے پس ان میں سے کچھ اپنے نفس پر ظلم کرنے والے ہیں اور کچھ میانہ رو ہیں اور کچھ اللہ کے اذن سے نیکیوں میں سبقت لے جانے والے ہیں یہی تو بڑا فضل ہے

٣٣۔ وہ دائمی جنتیں ہیں جن میں یہ داخل ہوں گے ، وہاں انہیں سونے کے کنگن اور موتی پہنائے جائیں گے اور وہاں ان کا لباس ریشمی ہو گا۔

٣٤۔ اور وہ کہیں گے : ثنائے کامل ہے اس اللہ کے لیے جس نے ہم سے غم کو دور کیا، یقیناً ہمارا رب بڑا معاف کرنے والا قدردان ہے۔

٣٥۔ جس نے اپنے فضل سے ہمیں دائمی اقامت کی جگہ میں ٹھہرایا جہاں ہمیں نہ کوئی مشقت اور نہ تھکاوٹ لاحق ہو گی۔

٣٦۔ اور جنہوں نے کفر اختیار کیا ان کے لیے جہنم کی آتش ہے ، نہ تو ان کی قضا آئے گی کہ مر جائیں اور نہ ہی ان کے عذاب جہنم میں تخفیف کی جائے گی، ہر کفر کرنے والے کو ہم اسی طرح سزا دیا کرتے ہیں۔

٣٧۔ اور وہ جہنم میں چلا کر کہیں گے : اے ہمارے پروردگار! ہمیں اس جگہ سے نکال، ہم نیک عمل کریں گے برخلاف ان کاموں کے جو ہم (پہلے ) کرتے رہے ہیں ، (جواب ملے گا) کیا ہم نے تمہیں اتنی عمر نہیں دی جس میں نصیحت حاصل کرنے والا نصیحت حاصل کر سکتا تھا؟ جب کہ تمہارے پا س تنبیہ کرنے والا بھی آیا تھا، اب ذائقہ چکھو کہ ظالموں کا کوئی مددگار نہیں۔

٣٨۔ یقیناً اللہ آسمانوں اور زمین کی پوشیدہ باتوں کا جاننے والا ہے اور وہ ان باتوں کو بھی خوب جانتا ہے جو سینوں میں (مخفی) ہیں۔

٣٩۔ اسی نے تمہیں زمین میں جانشین بنایا، پس جو کفر کرتا ہے اس کے کفر کا نقصان اسی کو ہے اور کفار کے لیے ان کا کفر ان کے رب کے نزدیک صرف غضب میں اضافہ کرتا ہے اور کفار کے لیے ان کا کفر صرف ان کے خسارے میں اضافے کا موجب بنتا ہے۔

٤٠۔ کہہ دیجئے : یہ تو بتاؤ ان شریکوں کے بارے میں جنہیں تم اللہ کو چھوڑ کر پکارتے ہو؟ مجھے دکھلاؤ! انہوں نے زمین سے کیا پیدا کیا؟ یا کیا آسمانوں میں ان کی شرکت ہے ؟ یا ہم نے انہیں کوئی کتاب دی ہے س کی بنا پر یہ کوئی دلیل رکھتے ہوں ؟ (نہیں ) بلکہ یہ ظالم لوگ ایک دوسرے کو محض فریب کی خاطر وعدے دیتے ہیں۔

٤١۔ اللہ آسمانوں اور زمین کو یقیناً تھامے رکھتا ہے کہ یہ اپنی جگہ چھوڑ نہ جائیں ، اگر یہ اپنی جگہ چھوڑ جائیں تو اللہ کے بعد انہیں کوئی تھامنے والا نہیں ہے ، یقیناً اللہ بڑا بردبار، بخشنے والا ہے۔

٤٢۔ اور یہ لوگ اللہ کی پکی قسمیں کھا کر کہتے ہیں کہ اگر ان کے پاس کوئی تنبیہ کرنے والا آتا تو وہ ہر قوم سے بڑھ کر ہدایت یافتہ ہو جاتے ، لیکن جب ایک متنبہ کرنے والا ان کے پاس آیا تو ان کی نفرت میں صرف اضافہ ہی ہوا۔

٤٣۔ یہ زمین میں تکبر اور بری چالوں کا نتیجہ ہے ، حالانکہ بری چال کا وبال اس کے چلنے والے پر ہی پڑتا ہے ، تو کیا یہ لوگ اس دستور (الہی) کے منتظر ہیں جو پچھلی قوموں کے ساتھ رہا؟ لہٰذا آپ اللہ کے دستور میں کوئی تبدیلی نہیں پائیں گے اور نہ آپ اللہ کے دستور میں کوئی انحراف پائیں گے۔

٤٤۔ کیا یہ لوگ زمین میں چل پھر کر نہیں دیکھتے کہ ان لوگوں کا کیا انجام ہوا جوان سے پہلے گزر چکے ہیں ؟ جب کہ وہ ان سے زیادہ طاقتور تھے ، اللہ کو آسمانوں اور زمین میں کوئی شے عاجز نہیں کر سکتی، وہ یقیناً بڑا علم رکھنے والا، بڑی قدرت رکھنے والا ہے۔

٤٥۔ اور اگر اللہ لوگوں کو ان کی حرکات کی پاداش میں اپنی گرفت لے لیتا تو وہ روئے زمین پر کسی چلنے پھرنے والے کو نہ چھوڑتا لیکن وہ ایک مقررہ وقت تک مہلت دیتا ہے چنانچہ جب ان کا مقررہ وقت آ جائے گا تو اللہ اپنے بندوں پر خوب نگاہ رکھنے والا ہے۔

 

 

    سورہ یٰسۤ۔ مکی۔ آیات ۸۳

 

بنام خدائے رحمن و رحیم

١۔ یا، سین۔

٢۔ قسم ہے قرآن حکیم کی

٣۔کہ آپ یقیناً رسولوں میں سے ہیں ،

٤۔ راہ راست پر ہیں۔

٥۔ (یہ قرآن) غالب آنے والے مہربان کا نازل کردہ ہے ،

٦۔تاکہ آپ ایک ایسی قوم کو تنبیہ کریں جس کے باپ دادا کو تنبیہ نہیں کی گئی تھی لہٰذا وہ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔

٧۔بتحقیق ان میں سے اکثر پر اللہ کا فیصلہ حتمی ہو چکا ہے پس اب وہ ایمان نہیں لائیں گے۔

٨۔ ہم نے ان کی گردنوں میں طوق ڈال رکھے ہیں اور وہ ٹھوڑیوں تک (پھنسے ہوئے ) ہیں اسی لیے ان کے سر اوپر کی طرف الٹے ہوئے ہیں۔

٩۔ اور ہم نے ان کے آگے دیوار کھڑی کی ہے اور ان کے پیچھے بھی دیوار کھڑی کی ہے اور ہم نے انہیں ڈھانک دیا ہے لہٰذا وہ کچھ دیکھ نہیں پاتے۔

١٠۔ اور ان کے لیے یکساں ہے کہ آپ انہیں تنبیہ کریں یا نہ کریں وہ (ہر حالت میں ) ایمان نہیں لائیں گے۔

١١۔ آپ تو صرف اسے تنبیہ کر سکتے ہیں جو اس ذکر کی اتباع کرے اور رحمن کا بن دیکھے خوف رکھے ، ایسے شخص کو مغفرت اور اجر کریم کی بشارت دے دیں۔

١٢۔ ہم ہی مردوں کو زندہ کرتے ہیں اور جو کچھ وہ آگے بھیج چکے ہیں اور جو آثار پیچھے چھوڑ جاتے ہیں سب کو ہم لکھتے ہیں اور ہر چیز کو ہم نے ایک امام مبین میں جمع کر دیا ہے۔

١٣۔ اور ان کے لیے بستی والوں کو مثال کے طور پر پیش کرو جب ان کے پاس پیغمبر آئے۔

١٤۔ جب ہم نے ان کی طرف دو پیغمبر بھیجے تو انہوں نے دونوں کی تکذیب کی پھر ہم نے تیسرے سے (انہیں ) تقویت بخشی تو انہوں نے کہا: ہم تو تمہاری طرف بھیجے گئے ہیں۔

١٥۔ بستی والوں نے کہا: تم تو صرف ہم جیسے بشر ہو اور خدائے رحمن نے کوئی چیز نازل نہیں کی ہے ، تم تو محض جھوٹ بولتے ہو۔

١٦۔ رسولوں نے کہا: ہمارا رب جانتا ہے کہ ہم تمہاری طرف ہی بھیجے گئے ہیں۔

١٧۔ اور ہم پر تو فقط واضح طور پر پیغام پہنچانا (فرض) ہے اور بس۔

١٨۔ بستی والوں نے کہا: ہم تمہیں اپنے لیے برا شگون سمجھتے ہیں ، اگر تم باز نہ آئے تو ہم تمہیں ضرور سنگسار کر دیں گے اور ہماری طرف سے تمہیں دردناک عذاب ضرور پہنچے گا۔

١٩۔ رسولوں نے کہا: تمہاری بد شگونی خود تمہارے ساتھ ہے ، کیا یہ(بد شگونی) اس لیے ہے کہ تمہیں نصیحت کی گئی ہے ؟ بلکہ تم حد سے تجاوز کرنے والے ہو۔

٢٠۔ شہر کے دور ترین گوشے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آیا، بولا: اے میری قوم! ان رسولوں کی پیروی کرو۔

٢١۔ ان کی اتباع کرو جو تم سے کوئی اجر نہیں مانگتے اور وہ راہ راست پر ہیں۔

 

پارہ : وَمَالِیَ ٢٣

 

٢٢۔ اور میں کیوں نہ اس ذات کی بندگی کروں جس نے مجھے پیدا کیا ہے اور جس کی طرف تم سب کو پلٹ کر جانا ہے۔

٢٣۔ کیا میں اس ذات کے علاوہ کسی کو معبود بناؤں ؟ جب کہ اگر خدائے رحمن مجھے ضرر پہنچانے کا ارادہ کر لے تو ان کی شفاعت مجھے کوئی فائدہ نہیں دے سکتی اور نہ وہ مجھے چھڑا سکتے ہیں۔

٢٤۔ تب تو میں صریح گمراہی میں مبتلا ہو جاؤں گا۔

٢٥۔ میں تو تمہارے پروردگار پر ایما ن لے آیا ہوں لہٰذا میری بات سن لو۔

٢٦۔ اس سے کہہ دیا گیا: جنت میں داخل ہو جاؤ، اس نے کہا: کاش! میری قوم کو اس بات کا علم ہو جاتا،

٢٧۔ کہ میرے رب نے مجھے بخش دیا اور مجھے عزت والوں میں شامل کیا ہے۔

٢٨۔ اور اس کے بعد اس کی قوم پر ہم نے آسمان سے کوئی لشکر نہیں اتارا اور نہ ہم کوئی لشکر اتارنے والے تھے۔

٢٩۔ وہ تو محض ایک ہی چیخ تھی پس وہ یکایک بجھ کر رہ گئے۔

٣٠۔ ہائے افسوس! ان بندوں پر جن کے پاس جو بھی رسول آیا اس کے ساتھ انہوں نے تمسخر کیا۔

٣١۔ کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ان سے پہلے کتنی قوموں کو ہم نے ہلاک کر دیا؟ اب وہ ان کی طرف لوٹ کر نہیں آئیں گے۔

٣٢۔ اور ان سب کو ہمارے روبرو حاضر کیا جائے گا۔

٣٣۔ اور مردہ زمین ان کے لیے ایک نشانی ہے جسے ہم نے زندہ کیا اور اس سے غلہ نکالا جسے یہ کھاتے ہیں۔

٣٤۔ اور ہم نے اس (زمین) میں کھجوروں اور انگوروں کے باغ بنائے اور ہم نے اس (زمین) میں کچھ چشمے جاری کیے۔

٣٥۔ تاکہ وہ اس کے پھلوں سے اور اپنے ہاتھ کی کمائی سے کھائیں ، تو کیا یہ شکر نہیں کرتے ؟

٣٦۔ پاک ہے وہ ذات جس نے تمام جوڑے بنائے ان چیزوں سے جنہیں زمین اگاتی ہے اور خود ان سے اور ان چیزوں سے جنہیں یہ جانتے ہی نہیں۔

٣٧۔ اور رات بھی ان کے لیے ایک نشانی ہے جس سے ہم دن کو کھینچ لیتے ہیں تو ان پر اندھیرا چھا جاتا ہے۔

٣٨۔ اور سورج اپنے مقررہ ٹھکانے کی طرف چلا جا رہا ہے ، یہ بڑے غالب آنے والے دانا کی تقدیر ہے۔

٣٩۔ اور چاند کے لیے ہم نے منزلیں مقرر کی ہیں یہاں تک کہ وہ کھجور کی پرانی شاخ کی طرح لوٹ جاتا ہے۔

٤٠۔ نہ سورج کے لیے سزاوار ہے کہ وہ چاند کو پکڑ لے اور نہ ہی رات دن پر سبقت لے سکتی ہے اور وہ سب ایک ایک مدار میں تیر رہے ہیں۔

٤١۔ اور یہ بھی ان کے لیے ایک نشانی ہے کہ ہم نے ان کی نسل کو بھری ہوئی کشتی میں سوار کیا۔

٤٢۔ اور ہم نے ان کے لیے اس (کشتی) جیسی اور (سواریاں ) بنائیں جن پر یہ سوار ہوتے ہیں۔

٤٣۔اور اگر ہم چاہیں تو انہیں غرق کر دیں پھر ان کے لیے نہ کوئی فریاد رس ہو گا اور نہ ہی وہ بچائے جائیں گے۔

٤٤۔ مگر ہماری طرف سے رحمت ہے اور (جس سے ) انہیں ایک وقت تک متاع (حیات) مل جاتی ہے۔

٤٥۔ اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اس (گناہ) سے بچو جو تمہارے سامنے ہے اور اس (عذاب) سے جو تمہارے پیچھے آنے والا ہے شاید تم پر رحم کیا جائے۔

٤٦۔ اور ان کے رب کی نشانیوں میں سے جو بھی نشانی ان کے پاس آتی ہے وہ اس سے منہ موڑ لیتے ہیں۔

٤٧۔ اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ جو رزق تمہیں اللہ نے عنایت کیا ہے اس سے کچھ (راہ خدا میں ) خرچ کرو تو کفار مومنین سے کہتے ہیں : کیا ہم اسے کھلائیں جسے اگر اللہ چاہتا تو خود کھلا دیتا؟ تم تو بس صریح گمراہی میں مبتلا ہو۔

٤٨۔ اور وہ کہتے ہیں : اگر تم سچے ہو (تو بتاؤ) یہ وعدہ (قیامت) کب (پورا) ہو گا؟

٤٩۔ (درحقیقت) یہ ایک ایسی چیخ کے منتظر ہیں جو انہیں اس حالت میں گرفت میں لے گی جب یہ لوگ آپس میں جھگڑ رہے ہوں گے۔

٥٠۔ پھر نہ تو وہ وصیت کر پائیں گے اور نہ ہی اپنے گھر والوں کی طرف واپس جا سکیں گے

٥١۔ اور جب صور پھونکا جائے گا تو وہ اپنی قبروں سے اپنے رب کی طرف دوڑ پڑیں گے۔

٥٢۔ کہیں گے : ہائے ہماری تباہی! ہماری خوابگاہوں سے ہمیں کس نے اٹھایا؟ یہ وہی بات ہے جس کا خدائے رحمن نے وعدہ کیا تھا اور پیغمبروں نے سچ کہا تھا۔

٥٣۔ وہ تو صرف ایک چیخ ہو گی پھر سب کے سب ہمارے سامنے حاضر کیے جائیں گے۔

٥٤۔ اس روز کسی پر کچھ بھی ظلم نہیں کیا جائے گا اور تمہیں بس وہی بدلہ دیا جائے گا جیسا تم عمل کرتے رہے ہو۔

٥٥۔ آج اہل جنت یقیناً کیف و سرور کے ساتھ مشغلے میں ہوں گے۔

٥٦۔ وہ اور ان کی ازواج سایوں میں مسندوں پر تکیے لگائے بیٹھے ہوں گے۔

٥٧۔ وہاں ان کے لیے میوے اور ان کی مطلوبہ چیزیں موجود ہوں گی۔

٥٨۔ مہربان رب کی طرف سے سلام کہا جائے گا۔

٥٩۔ اے مجرمو! آج تم الگ ہو جاؤ۔

٦٠۔ اے اولاد آدم! کیا ہم نے تم سے عہد نہیں لیا تھا کہ تم شیطان کی پرستش نہ کرنا؟بے شک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔

٦١۔ اور یہ کہ میری بندگی کرنا، یہی سیدھا راستہ ہے۔

٦٢۔ اور بتحقیق اس نے تم میں سے بہت سی مخلوق کو گمراہ کر دیا ہے ، تو کیا تم عقل نہیں رکھتے ؟

٦٣۔ یہ وہی جہنم ہے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا تھا۔

٦٤۔ آج اس جہنم میں جھلس جاؤ اس کفر کے بدلے میں جو تم کیا کرتے تھے۔

٦٥۔ آج ہم ان کے منہ پر مہر لگا دیتے ہیں اور ان کے ہاتھ ہم سے بولیں گے اور ان کے پاؤں گواہی دیں گے اس کے بارے میں جو کچھ وہ کرتے رہے ہیں۔

٦٦۔ اور اگر ہم چاہیں تو ان کی آنکھوں کو مٹا دیں پھر یہ راستے کی طرف لپک بھی جائیں تو کہاں سے راستہ دیکھ سکیں گے ؟

٦٧۔ اور اگر ہم چاہیں تو انہیں ان ہی کی جگہ پر اس طرح مسخ کر دیں کہ نہ آگے جانے کی استطاعت ہو گی اور نہ پیچھے پلٹ سکیں گے۔

٦٨۔اور جسے ہم لمبی زندگی دیتے ہیں اسے خلقت میں اوندھا کر دیتے ہیں ، کیا وہ عقل سے کام نہیں لیتے ؟

٦٩۔ اور ہم نے اس (رسول) کو شعر نہیں سکھایا اور نہ ہی یہ اس کے لیے شایان شان ہے ، یہ تو بس ایک نصیحت(کی کتاب) اور روشن قرآن ہے ،

٧٠۔ تاکہ جو زندہ ہیں انہیں تنبیہ کرے اور کافروں کے خلاف حتمی فیصلہ ہو جائے۔

٧١۔ کیا یہ لوگ نہیں دیکھتے کہ ہم نے اپنے دست قدرت سے بنائی ہوئی چیزوں میں سے ان کے لیے مویشی پیدا کیے چنانچہ اب یہ ان کے مالک ہیں ؟

٧٢۔ اور ہم نے انہیں ان کے لیے مسخر کر دیا چنانچہ کچھ پر یہ سوار ہوتے ہیں اور کچھ کو کھاتے ہیں۔

٧٣۔ اور ان میں ان کے لیے دیگر فوائد اور مشروبات ہیں تو کیا یہ شکر ادا نہیں کرتے ؟

٧٤۔ اور انہوں نے اللہ کے سوا اوروں کو معبود بنا لیا ہے کہ شاید انہیں مدد مل سکے۔

٧٥۔ (حالانکہ) وہ (نہ صرف) ان کی مدد نہیں کر سکتے اور وہ الٹے ان معبودوں کے (تحفظ کے ) لیے آمادہ لشکر ہیں۔

٧٦۔ لہٰذا ان کی باتیں آپ کو رنجیدہ نہ کریں ، ہم سب باتیں جانتے ہیں جو یہ چھپاتے ہیں اور جو ظاہر کرتے ہیں۔

٧٧۔ کیا انسان یہ نہیں دیکھتا کہ ہم نے اسے نطفے سے پیدا کیا ہے اتنے میں وہ کھلا جھگڑالو بن گیا؟

٧٨۔ پھر وہ ہمارے لیے مثالیں دینے لگتا ہے اور اپنی خلقت بھول جاتا ہے اور کہنے لگتا ہے : ان ہڈیوں کو خاک ہونے کے بعد کون زندہ کرے گا؟

٧٩۔ کہہ دیجئے : انہیں وہی زندہ کرے گا جس نے انہیں پہلی بار پیدا کیا تھا اور وہ ہر قسم کی تخلیق کو خوب جانتا ہے۔

٨٠۔ وہی ہے جس نے تمہارے لیے سبز درخت سے آگ پیدا کی پھر تم اس سے آگ سلگاتے ہو۔

٨١۔ جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے ، آیا وہ اس بات پر قادر نہیں ہے کہ ان جیسوں کو پیدا کرے ؟ کیوں نہیں ! وہ تو بڑا خالق ، دانا ہے۔

٨٢۔ جب وہ کسی چیز کا ارادہ کر لیتا ہے تو بس اس کا امر یہ ہوتا ہے : ہو جا پس وہ ہو جاتی ہے۔

٨٣۔ پس پاک ہے وہ ذات جس کے ہاتھ میں ہر چیز کی سلطنت ہے اور اسی کی طرف تم پلٹائے جانے والے ہو۔

 

 

 

سورہ الصفت۔ مکی۔آیات ۱۸۲

 

بنام خدائے رحمن و رحیم

١۔ قسم ہے پوری طرح صف باندھنے والوں کی،

٢۔ پھر بطور کامل جھڑکی دینے والوں کی،

٣۔ پھر ذکر کی تلاوت کرنے والوں کی،

٤۔ یقیناً تمہارا معبود ایک ہی ہے۔

٥۔ جو آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کا پروردگار اور مشرقوں کا پروردگار ہے۔

٦۔ ہم نے آسمان دنیا کو ستاروں کی زینت سے مزین کیا،

٧۔ اور ہر سرکش شیطان سے بچاؤ کا ذریعہ بھی،

٨۔ کہ وہ عالم بالا کی طرف کان نہ لگا سکیں اور ہر طرف سے ان پر (انگارے ) پھینکے جاتے ہیں۔

٩۔ دھتکارے جاتے ہیں اور ان پر دائمی عذاب ہے۔

١٠۔ مگر ان میں سے جو کسی بات کو اچک لے تو ایک تیز شعلہ اس کا پیچھا کرتا ہے۔

١١۔ تو ان سے پوچھ لیجیے کہ کیا ان کا پیدا کرنا مشکل ہے یا وہ جنہیں ہم نے (ان کے علاوہ) خلق کیا ہے ؟ ہم نے انہیں لیس دار گارے سے پیدا کیا۔

١٢۔ بلکہ آپ تعجب کر رہے ہیں اور یہ لوگ تمسخر کرتے ہیں۔

١٣۔ اور جب انہیں نصیحت کی جاتی ہے تو نصیحت نہیں مانتے۔

١٤۔ اور جب کوئی نشانی دیکھتے ہیں تو اس کا مذاق اڑاتے ہیں۔

١٥۔ اور کہتے ہیں : یہ تو ایک کھلا جادو ہے۔

١٦۔ کیا جب ہم مر چکیں گے اور خاک اور ہڈیاں ہو جائیں گے تو کیا ہم (دوبارہ) اٹھائے جائیں گے ؟

١٧۔ کیا ہمارے اگلے باپ دادا بھی (اٹھائے جائیں گے )؟

١٨۔کہہ دیجئے :ہاں اور تم ذلیل کر کے (اٹھائے جاؤ گے )۔

١٩۔ وہ تو بس ایک جھڑکی ہو گی پھر وہ اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے ،

٢٠۔ اور کہیں گے : ہائے ہماری تباہی! یہ تو یوم جزا ہے۔

٢١۔ یہ فیصلے کا وہ دن ہے جس کی تم تکذیب کرتے تھے۔

٢٢۔ گھیر لاؤ ظلم کا ارتکاب کرنے والوں کو اور ان کے ہم جنسوں کو اور انہیں جن کی یہ اللہ کو چھوڑ کر پوجا کیا کرتے تھے ،

٢٣۔ پھر انہیں جہنم کے راستے کی طرف ہانکو۔

٢٤۔ انہیں روکو، ان سے پوچھا جائے گا۔

٢٥۔ تمہیں ہوا کیا ہے کہ تم ایک دوسرے کی مدد نہیں کرتے ؟

٢٦۔بلکہ آج تو وہ گردنیں جھکائے (کھڑے ) ہیں۔

٢٧۔ اور وہ ایک دوسرے کی طرف رخ کر کے باہم سوال کرتے ہیں۔

٢٨۔ کہتے ہیں : تم ہمارے پاس طاقت سے آتے تھے۔

٢٩۔ وہ کہیں گے : بلکہ تم خود ایمان لانے والے نہ تھے ،

٣٠۔ ورنہ ہمارا تم پر کوئی زور نہ تھا بلکہ تم خود سرکش لوگ تھے۔

٣١۔ پس ہمارے بارے میں ہمارے رب کا فیصلہ حتمی ہو گیا، اب ہم (عذاب) چکھیں گے۔

٣٢۔ پس ہم نے تمہیں گمراہ کیا جب کہ ہم خود بھی گمراہ تھے۔

٣٣۔ تو اس دن وہ سب کے سب عذاب میں شریک ہوں گے۔

٣٤۔ ہم مجرموں کے ساتھ یقیناً ایسا ہی کیا کرتے ہیں۔

٣٥۔ جب ان سے کہا جاتا تھا: اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں تو یہ تکبر کرتے تھے ،

٣٦۔ اور کہتے تھے : کیا ہم ایک دیوانے شاعر کی خاطر اپنے معبودوں کو چھوڑ دیں ؟

٣٧۔ (نہیں ) بلکہ وہ حق لے کر آئے ہیں اور اس نے رسولوں کی تصدیق کی ہے۔

٣٨۔ بتحقیق تم دردناک عذاب چکھنے والے ہو۔

٣٩۔ اور تمہیں صرف اس کی جزا ملے گی جو تم کرتے تھے۔

٤٠۔ سوائے اللہ کے مخلص بندوں کے۔

٤١۔ ان کے لیے ایک معین رزق ہے ،

٤٢۔ (ہر قسم کے ) میوے اور وہ احترام کے ساتھ ہوں گے

٤٣۔ نعمتوں والی جنت میں۔

٤٤۔ وہ تختوں پر ایک دوسرے کے سامنے بیٹھے ہوں گے۔

٤٥۔ بہتی شراب کے جام ان میں پھرائے جائیں گے ،

٤٦۔ جو چمکتی ہو گی، پینے والوں کے لیے لذیذ ہو گی،

٤٧۔ جس میں نہ سر درد ہو گا اور نہ ہی اس سے ان کی عقل زائل ہو گی۔

٤٨۔ اور ان کے پاس نگاہ نیچے رکھنے والی بڑی آنکھوں والی عورتیں ہوں گی۔

٤٩۔ گویا کہ وہ محفوظ انڈے ہیں۔

٥٠۔ پھر وہ آمنے سامنے بیٹھ کر آپس میں باتیں کریں گے۔

٥١۔ ان میں سے ایک کہنے والا کہے گا: میرا ایک ہم نشین تھا،

٥٢۔ جو (مجھ سے ) کہتا تھا: کیا تم (قیامت کی) تصدیق کرنے والوں میں سے ہو ؟

٥٣۔ بھلا جب ہم مر چکیں گے اور مٹی اور ہڈیاں ہو جائیں گے تو کیا ہمیں جزا ملے گی؟

٥٤۔ ارشاد ہو گا: کیا تم دیکھنا چاہتے ہو؟

٥٥۔ پھر اس نے جھانکا تو اسے وسط جہنم میں دیکھے گا۔

٥٦۔ کہے گا: قسم بخدا قریب تھا کہ تو مجھے بھی ہلاک کر دے۔

٥٧۔ اور اگر میرے رب کی نعمت نہ ہوتی تو میں بھی (عذاب میں ) حاضر کیے جانے والوں میں ہوتا۔

٥٨۔ کیا اب ہمیں نہیں مرنا؟

٥٩۔ ہماری پہلی موت کے بعد ہمیں کوئی اور عذاب نہ ہو گا؟

٦٠۔ یقیناً یہ عظیم کامیابی ہے۔

٦١۔ عمل کرنے والوں کو ایسی ہی کامیابی کے لیے عمل کرنا چاہیے۔

٦٢۔ کیا یہ مہمانی اچھی ہے یا زقوم کا درخت؟

٦٣۔ ہم نے اسے ظالموں کے لیے ایک آزمائش بنا دیا ہے۔

٦٤۔ یہ ایسا درخت ہے جو جہنم کی تہ سے نکلتا ہے۔

٦٥۔ اس کے خوشے شیاطین کے سروں جیسے ہیں۔

٦٦۔ پھر وہ اس میں سے کھائیں گے اور اس سے پیٹ بھریں گے۔

٦٧۔پھر ان کے لیے اس پر کھولتا ہوا پانی ملا دیا جائے گا۔

٦٨۔ پھر ان کا ٹھکانا بہر صورت جہنم ہو گا۔

٦٩۔ بلا شبہ انہوں نے اپنے باپ دادا کو گمراہ پایا۔

٧٠۔ پھر وہ ان کے نقش قدم پر دوڑ پڑے۔

٧١۔ اور بتحقیق ان سے پہلے اگلوں کی اکثریت گمراہ ہو چکی ہے۔

٧٢۔ اور ہم نے ان میں تنبیہ کرنے والے (رسول) بھیجے تھے۔

٧٣۔پھر دیکھو کہ تنبیہ شدگان کا کیا انجام ہوا،

٧٤۔ سوائے اللہ کے مخلص بندوں کے۔

٧٥۔ اور نوح نے ہمیں پکارا تو دیکھا کہ ہم کیسے بہترین جواب دینے والے ہیں۔

٧٦۔ اور ہم نے انہیں اور ان کے گھر والوں کو عظیم مصیبت سے بچایا۔

٧٧۔ اور ان کی نسل کو ہم نے باقی رہنے والوں میں رکھا۔

٧٨۔ اور ہم نے آنے والوں میں ان کے لیے (ذکر جمیل) باقی رکھا۔

٧٩۔ تمام عالمین میں نوح پر سلام ہو۔

٨٠۔ ہم نیکی کرنے والوں کو ایسے ہی جزا دیتے ہیں۔

٨١۔ بے شک وہ ہمارے مومن بندوں میں سے تھے۔

٨٢۔ پھر ہم نے دوسروں کو غرق کر دیا۔

٨٣۔ اور ابراہیم یقیناً نوح کے پیروکاروں میں سے تھے۔

٨٤۔ جب وہ اپنے رب کی بارگاہ میں قلب سلیم لے کر آئے۔

٨٥۔ جب انہوں نے اپنے باپ(چچا) اور قوم سے کہا: تم کس کی پوجا کرتے ہو؟

٨٦۔ کیا اللہ کو چھوڑ کر گھڑے ہوئے معبودوں کو چاہتے ہو ؟

٨٧۔ پروردگار عالم کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے ؟

٨٨۔ پھر انہوں نے ستاروں پر ایک نظر ڈالی،

٨٩۔ اور کہا: میں تو بیمار ہوں۔

٩٠۔ چنانچہ وہ لوگ انہیں پیچھے چھوڑ گئے۔

٩١۔ پھر وہ ان کے معبودوں میں جا گھسے اور کہنے لگے : تم کھاتے کیوں نہیں ہو؟

٩٢۔ تمہیں کیا ہوا ہے کہ تم بولتے نہیں ہو؟

٩٣۔ پھر انہیں پوری طاقت سے مارنے لگے

٩٤۔ تو لوگ دوڑتے ہوئے ان کے پاس آئے۔

٩٥۔ ابراہیم نے کہا: کیا تم اسے پوجتے ہو جسے تم خود تراشتے ہو؟

٩٦۔ حالانکہ خود تمہیں اور جو کچھ تم بناتے ہو (سب کو) اللہ نے پیدا کیا ہے۔

٩٧۔ انہوں نے کہا: اس کے لیے ایک عمارت تیار کرو پھر اسے آگ کے ڈھیر میں پھینک دو۔

٩٨۔ پس انہوں نے اس کے خلاف ایک چال چلنے کا ارادہ کیا لیکن ہم نے انہیں زیر کر دیا۔

٩٩۔ اور ابراہیم نے کہا: میں اپنے رب کی طرف جا رہا ہوں وہ مجھے راستہ دکھائے گا

١٠٠۔ اے میرے پروردگار! مجھے صالحین میں سے (اولاد) عطا کر۔

١٠١۔ چنانچہ ہم نے انہیں ایک بردبار بیٹے کی بشارت دی۔

١٠٢۔ پھر جب وہ ان کے ساتھ کام کاج کی عمر کو پہنچا تو کہا: اے بیٹا! میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں تجھے ذبح کر رہا ہوں ، پس دیکھ لو تمہاری کیا رائے ہے ، اس نے کہا : اے ابا جان آپ کو جو حکم ملا ہے اسے انجام دیں ، اللہ نے چاہا تو آپ مجھے صبر کرنے والوں میں پائیں گے۔

١٠٣۔ پس جب دونوں نے (حکم خدا کو) تسلیم کیا اور اسے ماتھے کے بل لٹا دیا،

١٠٤۔ تو ہم نے ندا دی: اے ابراہیم!

١٠٥۔ تو نے خواب سچ کر دکھایا، بے شک ہم نیکوکاروں کو ایسے ہی جزا دیتے ہیں۔

١٠٦۔ یقیناً یہ ایک نمایاں امتحان تھا۔

١٠٧۔ اور ہم نے ایک عظیم قربانی سے اس کا فدیہ دیا۔

١٠٨۔ اور ہم نے آنے والوں میں ان کے لیے (ذکر جمیل) باقی رکھا۔

١٠٩۔ ابراہیم پر سلام ہو۔

١١٠۔ ہم نیکو کاروں کو ایسے ہی جزا دیتے ہیں۔

١١١۔ یقیناً وہ ہمارے مومن بندوں میں سے تھے۔

١١٢۔ اور ہم نے ابراہیم کو اسحاق کی بشارت دی کہ وہ صالحین میں سے نبی ہوں گے۔

١١٣۔ اور ہم نے ان پر اور اسحاق پر برکات نازل کیں ، ان دونوں کی اولاد میں نیکی کرنے والا بھی ہے اور اپنے نفس پر صریح ظلم کرنے والا بھی ہے۔

١١٤۔ اور بتحقیق موسیٰ اور ہارون پر ہم نے احسان کیا۔

١١٥۔ اور ان دونوں کو اور ان دونوں کی قوم کو عظیم مصیبت سے ہم نے نجات دی۔

١١٦۔ اور ہم نے ان کی مدد کی تو وہی غالب آنے والے ہو گئے۔

١١٧۔ اور ہم نے ان دونوں کو روشن کتاب دی۔

١١٨۔ اور ان دونوں کو سیدھا راستہ ہم نے دکھایا۔

١١٩۔ اور ہم نے آنے والوں میں ان دونوں کے لیے (ذکر جمیل) باقی رکھا۔

١٢٠۔موسیٰ اور ہارون پر سلام ہو۔

١٢١۔ ہم نیکی کرنے والوں کو ایسے ہی جزا دیتے ہیں۔

١٢٢۔ یہ دونوں ہمارے مومن بندوں میں سے تھے۔

١٢٣۔ اور الیاس بھی یقیناً پیغمبروں میں سے تھے۔

١٢٤۔ جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا: کیا تم اپنا بچاؤ نہیں کرتے ؟

١٢٥۔ کیا تم بعل کو پکارتے ہو اور سب سے بہتر خلق کرنے والے کو چھوڑ دیتے ہو؟

١٢٦۔ اللہ ہی تمہارا اور تمہارے پہلے باپ دادا کا پروردگار ہے۔

١٢٧۔ تو انہوں نے ان کی تکذیب کی پس وہ حاضر کیے جائیں گے ،

١٢٨۔ سوائے اللہ کے مخلص بندوں کے ،

١٢٩۔ اور ہم نے آنے والوں میں ان کے لیے (ذکر جمیل) باقی رکھا۔

١٣٠۔ آل یاسین پر سلام ہو۔

١٣١۔ ہم نیکی کرنے والوں کو ایسے ہی جزا دیتے ہیں۔

١٣٢۔ بے شک وہ ہمارے مومن بندوں میں سے تھے۔

١٣٣۔اور لوط بھی یقیناً پیغمبروں میں سے تھے

١٣٤۔ جب ہم نے انہیں اور ان کے گھر والوں کو نجات دی۔

١٣٥۔ سوائے ایک بڑھیا کے جو پیچھے رہ جانے والوں میں سے تھی۔

١٣٦۔ پھر ہم نے سب کو ہلاک کر دیا۔

١٣٧۔ اور تم دن کو بھی ان (بستیوں ) سے گزرتے رہتے ہو،

١٣٨۔ اور رات کو بھی، تو کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے ؟

١٣٩۔ اور یونس بھی یقیناً پیغمبروں میں سے تھے۔

١٤٠۔ جب وہ بھری ہوئی کشتی کی طرف بھاگے۔

١٤١۔ پھر قرعہ ڈالا تو وہ مات کھانے والوں میں سے ہوئے۔

١٤٢۔ پھر مچھلی نے انہیں نگل لیا اور وہ (اپنے آپ کو) ملامت کر رہے تھے۔

١٤٣۔ پھر اگر وہ تسبیح کرنے والوں میں سے نہ ہوتے ،

١٤٤۔ تو قیامت تک اس مچھلی کے پیٹ میں رہ جاتے۔

١٤٥۔ اور ہم نے بیمار حالت میں انہیں چٹیل میدان میں پھینک دیا۔

١٤٦۔ اور ہم نے ان پر کدو کی بیل اگائی۔

١٤٧۔ اور ہم نے انہیں ایک لاکھ یا اس سے زائد لوگوں کی طرف بھیجا۔

١٤٨۔ پھر وہ ایمان لے آئے تو ہم نے ایک وقت تک انہیں متاع حیات سے نوازا۔

١٤٩۔ پس آپ ان سے پوچھیں : کیا تمہارے رب کے لیے تو بیٹیاں ہوں اور ان کے لیے بیٹے ہوں ؟

١٥٠۔ کیا ہم نے فرشتوں کو جب مؤنث بنایا تو وہ دیکھ رہے تھے ؟

١٥١۔ آگاہ رہو! یہ لوگ اپنی طرف سے گھڑ کر کہتے ہیں ،

١٥٢۔ کہ اللہ نے اولاد پیدا کی اور یہ لوگ یقیناً جھوٹے ہیں۔

١٥٣۔ کیا اللہ نے بیٹوں کی جگہ بیٹیوں کو پسند کیا؟

١٥٤۔ تمہیں کیا ہو گیا ہے ؟ تم کیسے فیصلے کرتے ہو؟

١٥٥۔ کیا تم غور نہیں کرتے ؟

١٥٦۔ یا تمہارے پاس کوئی واضح دلیل ہے ؟

١٥٧۔ پس اپنی کتاب پیش کرو اگر تم سچے ہو۔

١٥٨۔ اور انہوں نے اللہ میں اور جنوں میں رشتہ بنا رکھا ہے ، حالانکہ جنات کو علم ہے کہ وہ (اللہ کے سامنے ) حاضر کیے جائیں گے۔

١٥٩۔ اللہ ان کے ہر بیان سے پاک ہے ،

١٦٠۔ سوائے اللہ کے مخلص بندوں کے (جو ایسی بات منسوب نہیں کرتے )۔

١٦١۔ پس یقیناً تم اور جنہیں تم پوجتے ہو،

١٦٢۔سب مل کر اللہ کے خلاف (کسی کو) بہکا نہیں سکتے ،

١٦٣۔ سوائے اس کے جو جہنم میں جھلسنے والا ہے۔

١٦٤۔ اور (ملائکہ کہتے ہیں ) ہم میں سے ہر ایک کے لیے مقام مقرر ہے ،

١٦٥۔ اور ہم ہی صف بستہ رہتے ہیں ،

١٦٦۔ اور ہم ہی تسبیح کرنے والے ہیں۔

١٦٧۔ اور یہ لوگ کہا تو کرتے تھے :

١٦٨۔ اگر ہمارے پاس اگلوں سے کوئی نصیحت آ جاتی،

١٦٩۔ تو ہم اللہ کے مخلص بندے ہوتے۔

١٧٠۔ لیکن (اب) اس کا انکار کیا لہٰذا عنقریب انہیں معلوم ہو جائے گا۔

١٧١۔ اور بتحقیق ہمارے بندگان مرسل سے ہمارا یہ وعدہ ہو چکا ہے۔

١٧٢۔ یقیناً وہ مدد کیے جانے والے ہیں ،

١٧٣۔ اور یقیناً ہمارا لشکر ہی غالب آ کر رہے گا۔

١٧٤۔ لہٰذا آپ ایک مدت تک ان سے منہ پھیر لیں۔

١٧٥۔ اور انہیں دیکھتے رہیں کہ عنقریب یہ خود بھی دیکھ لیں گے۔

١٧٦۔ کیا یہ ہمارے عذاب میں عجلت چاہ رہے ہیں ؟

١٧٧۔ پس جب یہ (عذاب) ان کے دالان میں اترے گا تو تنبیہ شدگان کی صبح بہت بری ہو گی۔

١٧٨۔ اور آپ ایک مدت تک ان سے منہ پھیر لیں۔

١٧٩۔ اور دیکھتے رہیں عنقریب یہ خود بھی دیکھ لیں گے۔

١٨٠۔ آپ کا رب جو عزت کا مالک ہے ان باتوں سے پاک ہے جو یہ بیان کرتے ہیں۔

١٨١۔ اور پیغمبروں پر سلام ہو۔

١٨٢۔ اور ثنائے کامل اس اللہ کے لیے ہے جو عالمین کا پروردگار ہے۔

 

 

سورہ ص۔ مکی۔آیات ۸۸

 

بنام خدائے رحمن و رحیم

١۔صاد، قسم ہے اس قرآن کی جو نصیحت والا ہے۔

٢۔ مگر جنہوں نے (اس کا) انکار کیا وہ غرور اور مخالفت میں ہیں۔

٣۔ ان سے پہلے ہم کتنی قوموں کو ہلاک کر چکے ہیں پھر (جب ہلاکت کا وقت آیا تو) فریاد کرنے لگے مگر وہ بچنے کا وقت نہیں تھا۔

٤۔ اور انہوں نے اس بات پر تعجب کیا کہ خود انہی میں سے کوئی تنبیہ کرنے والا آیا اور کفار کہتے ہیں : یہ جھوٹا جادو گر ہے۔

٥۔ کیا اس نے بہت سے معبودوں کی جگہ صرف ایک معبود بنا لیا؟ یہ تو یقیناً بڑی عجیب چیز ہے۔

٦۔ اور ان میں سے قوم کے سرکردہ لوگ یہ کہتے ہوئے چل پڑے : چلتے رہو اور اپنے معبودوں پر قائم رہو، اس چیز میں یقیناً کوئی غرض ہے۔

٧۔ ہم نے کبھی یہ بات کسی پچھلے مذہب سے بھی نہیں سنی، یہ تو صرف ایک من گھڑت (بات) ہے۔

٨۔ کیا ہمارے درمیان اسی پر یہ ذکر نازل کیا گیا؟ درحقیقت یہ لوگ میرے ذکر پر شک کر رہے ہیں بلکہ ابھی تو انہوں نے عذاب چکھا ہی نہیں ہے۔

٩۔ کیا ان کے پاس تیرے غالب آنے والے فیاض رب کی رحمت کے خزانے ہیں ؟

١٠۔ یا آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب پر ان کی حکومت ہے ؟ (اگر ایسا ہے ) تو (آسمان کے ) راستوں پر چڑھ دیکھیں۔

١١۔ یہ لشکروں میں سے ایک چھوٹا لشکر ہے جو اسی جگہ شکست کھانے والا ہے۔

١٢۔ ان سے پہلے نوح اور عاد کی قوم اور میخوں والے فرعون نے تکذیب کی تھی۔

١٣۔ اور ثمود اور لوط کی قوم اور ایکہ والوں نے بھی اور یہ ہیں وہ بڑا لشکر۔

١٤۔ ان میں سے ہر ایک نے رسولوں کو جھٹلایا تو میرا عذاب لازم ہو گیا۔

١٥۔ اور یہ لوگ صرف ایک چیخ کے منتظر ہیں جس کے ساتھ کوئی مہلت نہیں ہو گی۔

١٦۔ اور وہ (از روئے تمسخر) کہتے ہیں : اے ہمارے رب! ہمارا (عذاب کا) حصہ ہمیں حساب کے دن سے پہلے دے دے۔

١٧۔ (اے رسول) جو یہ کہتے ہیں اس پر صبر کیجیے اور (ان سے ) ہمارے بندے داؤد کا قصہ بیان کیجیے جو طاقت کے مالک اور (اللہ کی طرف) بار بار رجوع کرنے والے تھے۔

١٨۔ہم نے ان کے لیے پہاڑوں کو مسخر کیا تھا، یہ صبح و شام ان کے ساتھ تسبیح کرتے تھے۔

١٩۔اور پرندوں کو بھی (مسخر کیا)، یہ سب اکٹھے ہو کر ان کی طرف رجوع کرنے والے تھے

٢٠۔ اور ہم نے ان کی سلطنت مستحکم کر دی اور انہیں حکمت عطا کی اور فیصلہ کن گفتار (کی صلاحیت) دے دی۔

٢١۔ اور کیا آپ کے پاس مقدمے والوں کی خبر پہنچی ہے جب وہ دیوار پھاند کر محراب میں داخل ہوئے ؟

٢٢۔ جب وہ داؤد کے پاس آئے تو وہ ان سے گھبرا گئے ، انہوں نے کہا:خوف نہ کیجیے ، ہم نزاع کے دو فریق ہیں ، ہم میں سے ایک نے دوسرے پر زیادتی کی ہے لہٰذا آپ ہمارے درمیان فیصلہ کیجیے اور بے انصافی نہ کیجیے اور ہمیں سیدھا راستہ دکھا دیجیے۔

٢٣۔ یہ میرا بھائی ہے ، اس کے پاس ننانوے دنبیاں ہیں اور میرے پاس صرف ایک دنبی ہے ، یہ کہتا ہے کہ اسے میرے حوالے کرو اور گفتگو میں مجھ پر دباؤ ڈالتا ہے۔

٢٤۔ داؤد کہنے لگے : تیری دنبی اپنی دنبیوں کے ساتھ ملانے کا مطالبہ کر کے یقیناً یہ تجھ پر ظلم کرتا ہے اور اکثر شریک ایک دوسرے ر زیادتی کرتے ہیں سوائے ان لوگوں کے جو ایمان رکھتے ہیں اور نیک اعمال بجا لاتے ہیں اور ایسے لوگ تھوڑے ہوتے ہیں ، پھر داؤد کو خیال آیا کہ ہم نے انہیں آزمایا ہے چنانچہ انہوں نے اپنے رب سے معافی مانگی اور عاجزی کرتے ہوئے جھک گئے اور (اللہ کی طرف) رجوع کیا۔

٢٥۔ پس ہم نے ان کی اس بات کو معاف کیا اور یقیناً ہمارے نزدیک ان کے لیے تقرب اور بہتر بازگشت ہے۔

٢٦۔ اے داؤد! ہم نے آپ کو زمین میں خلیفہ بنایا ہے لہٰذا لوگوں میں حق کے ساتھ فیصلہ کریں اور خواہش کی پیروی نہ کریں ، وہ آپ کو اللہ کی راہ سے ہٹا دے گی، جو اللہ کی راہ سے بھٹکتے ہیں ان کے لیے یوم حساب فراموش کرنے پر یقیناً سخت عذاب ہو گا۔

٢٧۔ اور ہم نے آسمان اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے کو بے مقصد پیدا نہیں کیا، یہ کفار کا گمان ہے ، ایسے کافروں کے لیے آتش جہنم کی تباہی ہے۔

٢٨۔ کیا ہم ایمان لانے اور اعمال صالح بجا لانے والوں کو زمین میں فساد پھیلانے والوں کی طرح قرار دیں یا اہل تقویٰ کو بدکاروں کی طرح قرار دیں ؟

٢٩۔ یہ ایک ایسی بابرکت کتاب ہے جو ہم نے آپ کی طرف نازل کی ہے تاکہ لوگ اس کی آیات میں تدبر کریں اور صاحبان عقل اس سے نصیحت حاصل کریں۔

٣٠۔ اور ہم نے داؤد کو سلیمان عطا کیا جو بہترین بندے اور (اللہ کی طرف) خوب رجوع کرنے والے تھے۔

٣١۔ جب شام کے وقت انہیں عمدہ تیز رفتار گھوڑے پیش کیے گئے ،

٣٢۔ تو انہوں نے کہا: میں نے (گھوڑوں کے ساتھ ایسے ) محبت کی جیسے خیر سے محبت کی جاتی ہے اور اپنے رب کے ذکر سے غافل ہو گیا یہاں تک کہ پردے میں چھپ گیا۔

٣٣۔ (بولے ) انہیں میرے پاس واپس لے آؤ، پھر ان کی ٹانگوں اور گردنوں پر ہاتھ پھیرنے لگے۔

٣٤۔ اور ہم نے سلیمان کو آزمایا اور ان کے تخت پر ایک جسد ڈال دیا پھر انہوں نے (اپنے رب کی طرف) رجوع کیا۔

٣٥۔ کہا: میرے رب! مجھے معاف کر دے اور مجھے ایسی بادشاہی عطا کر جو میرے بعد کسی کے شایان شان نہ ہو، یقیناً تو بڑا عطا کرنے والا ہے۔

٣٦۔ پھر ہم نے ہوا کو ان کے لیے مسخر کر دیا، جدھر وہ جانا چاہتے ان کے حکم سے نرمی کے ساتھ اسی طرف چل پڑتی تھی۔

٣٧۔ اور ہر قسم کے معمار اور غوطہ خور شیاطین کو بھی (مسخر کیا)۔

٣٨۔ اور دوسروں کو بھی جو زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے۔

٣٩۔ یہ ہماری عنایت ہے جس پر چاہو احسان کرو اور جس کو چاہو روک دو، اس کا کوئی حساب نہیں ہو گا۔

٤٠۔ اور ان کے لیے ہمارے ہاں یقیناً قرب اور نیک انجام ہے۔

٤١۔ اور ہمارے بندے ایوب کا ذکر کیجیے جب انہوں نے اپنے رب کو پکارا: شیطان نے مجھے تکلیف اور اذیت دی ہے۔

٤٢۔ (ہم نے کہا ) اپنا پاؤں ماریں ، یہ ہے ٹھنڈا پانی نہانے اور پینے کے لیے۔

٤٣۔ ہم نے انہیں اہل و عیال دیے اور ان کے ساتھ اتنے مزید دیے اپنی طرف سے رحمت اور عقل والوں کے لیے نصیحت کے طور پر۔

٤٤۔ (ہم نے کہا) اپنے ہاتھ میں ایک جھاڑو تھام لیں اور اسی سے ماریں اور قسم نہ توڑیں ، ہم نے انہیں صابر پایا، وہ بہترین بندے تھے ، بے شک وہ (اپنے رب کی طرف) رجوع کرنے والے تھے۔

٤٥۔ اور ہمارے بندوں ابراہیم اور اسحاق اور یعقوب کو یاد کیجیے جو طاقت اور بصیرت والے تھے۔

٤٦۔ ہم نے انہیں ایک خاص صفت کی بنا پر مخلص بنایا (وہ) دار (آخرت) کا ذکر ہے۔

٤٧۔ اور وہ ہمارے نزدیک یقیناً برگزیدہ نیک افراد میں سے تھے۔

٤٨۔ اور (اے رسول) اسماعیل اور یسع اور ذوالکفل کو یاد کیجیے ، یہ سب نیک لوگوں میں سے ہیں۔

٤٩۔ یہ ایک نصیحت ہے اور تقویٰ والوں کے لیے یقیناً اچھا ٹھکانا ہے۔

٥٠۔ وہ دائمی جنتیں ہیں جن کے دروازے ان کے لیے کھلے ہوں گے۔

٥١۔ ان میں وہ تکیے لگائے بیٹھے ہوں گے اور بہت سے میوے اور مشروبات طلب کر رہے ہوں گے۔

٥٢۔ اور ان کے پاس آنکھیں نیچے رکھنے والی ہم عمر (بیویاں ) ہوں گی۔

٥٣۔ یہ وہ بات ہے جس کا روز حساب کے لیے تم سے وعدہ کیا جاتا ہے۔

٥٤۔ یقیناً یہ ہمارا وہ رزق ہے جو ختم ہونے والا نہیں ہے۔

٥٥۔ یہ تو (اہل تقویٰ کے لیے ) ہے اور سرکشوں کے لیے بدترین ٹھکانا ہے۔

٥٦۔ (یعنی) جہنم جس میں وہ جھلس جائیں گے ، پس وہ بدترین بچھونا ہے۔

٥٧۔ یہ ہے کھولتا ہوا پانی اور پیپ جس کا ذائقہ وہ چکھیں ،

٥٨۔ اور اس قسم کی مزید بہت سی چیزوں کا۔

٥٩۔ یہ ایک جماعت تمہارے ساتھ (جہنم میں ) گھسنے والی ہے ، ان کے لیے کوئی خیر مقدم نہیں ہے ، یہ یقیناً آگ میں جھلسنے والے ہیں۔

٦٠۔ وہ کہیں گے : تمہارے لیے کوئی خیر مقدم نہیں ہے بلکہ تم ہی تو یہ (مصیبت) ہمارے لیے لائے ہو، پس کیسی بدترین جگہ ہے۔

٦١۔ وہ کہیں گے : ہمارے پروردگارا! جس نے ہمیں اس انجام سے دوچار کیا ہے اسے آگ میں دگنا عذاب دے۔

٦٢۔ اور وہ کہیں گے : کیا بات ہے ہمیں وہ لوگ نظر نہیں آتے جنہیں ہم برے افراد میں شمار کرتے تھے ؟

٦٣۔ کیا ہم یونہی ان کا مذاق اڑایا کرتے تھے یا اب (ہماری) آنکھیں انہیں نہیں پاتیں ؟

٦٤۔ یہ جہنمیوں کے باہمی جھگڑے کی حتمی بات ہے۔

٦٥۔ آپ کہہ دیجیے : میں تو صرف تنبیہ کرنے والا ہوں اور کوئی معبود نہیں سوائے اللہ کے جو واحد، قہار ہے۔

٦٦۔ وہ آسمان و زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کا مالک ہے ، وہ بڑا غالب آنے والا ، بڑا معاف کرنے والا ہے۔

٦٧۔ کہہ دیجئے : یہ ایک بڑی خبر ہے ،

٦٨۔ جس سے تم منہ پھیرتے ہو۔

٦٩۔ مجھے عالم بالا کا علم نہ تھا جب وہ (فرشتے ) بحث کر رہے تھے۔

٧٠۔ میری طرف وحی محض اس لیے ہوتی ہے کہ میں نمایاں طور پر فقط تنبیہ کرنے والا ہوں۔

٧١۔ جب آپ کے رب نے فرشتوں سے فرمایا:میں مٹی سے ایک بشر بنانے والا ہوں۔

٧٢۔ پس جب میں اسے درست بنا لوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو اس کے لیے سجدے میں گر پڑنا۔

٧٣۔ چنانچہ تمام کے تمام فرشتوں نے سجدہ کیا،

٧٤۔ سوائے ابلیس کے جو اکڑ بیٹھا اور کافروں میں سے ہو گیا۔

٧٥۔ فرمایا: اے ابلیس !جسے میں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے بنایا ہے اسے سجدہ کرنے ے تجھے کس چیز نے روکا؟ کیا تو نے تکبر کیا ہے یا تو اونچے درجے والوں میں سے ہے ؟

٧٦۔ اس نے کہا: میں اس سے بہتر ہوں ، مجھے تو نے آگ سے پیدا کیا ہے اور اسے مٹی سے بنایا ہے۔

٧٧۔ فرمایا: پس نکل جا یہاں سے کہ تو یقیناً مردود ہے۔

٧٨۔اور یوم جزا تک تم پر میری لعنت ہے۔

٧٩۔ اس نے کہا: میرے رب! پس (ان لوگوں کے ) اٹھائے جانے کے روز تک مجھے مہلت دے۔

٨٠۔ فرمایا: تو مہلت ملنے والوں میں سے ہے ،

٨١۔ معین وقت کے دن تک۔

٨٢۔ کہنے لگا : مجھے تیری عزت کی قسم! میں ان سب کو بہکا دوں گا۔

٨٣۔ ان میں سے سوائے تیرے خالص بندوں کے۔

٨٤۔ فرمایا: حق تو یہ ہے اور میں حق بات ہی کرتا ہوں

٨٥۔ کہ میں تجھ سے اور ان میں سے تیری پیروی کرنے والوں سے جہنم کو ضرور پر کر دوں گا۔

٨٦۔ کہہ دیجئے : میں تم لوگوں سے اس بات کا اجر نہیں مانگتا اور نہ ہی میں بناوٹ والوں میں سے ہوں۔

٨٧۔ یہ تو عالمین کے لیے صرف نصیحت ہے۔

٨٨۔ اور تمہیں اس کا علم ایک مدت کے بعد ہو گا۔

 

 

 

    سورۃ الزُّمَر۔ مکی۔ آیا ت۸۵

 

بنام خدائے رحمن و رحیم

١۔ اس کتاب کا نزول بڑے غالب آنے والے اور حکمت والے اللہ کی طرف سے ہے۔

٢۔ ہم نے آپ کی طرف یہ کتاب برحق نازل کی ہے لہٰذا آپ دین کو اسی کے لیے خالص کر کے صرف اللہ کی عبادت کریں۔

٣۔ آگاہ رہو! خالص دین صرف اللہ کے لیے ہے اور جنہوں نے اللہ کو چھوڑ کر اوروں کو سرپرست بنایا ہے (ان کا کہنا ہے کہ) ہم انہیں صرف اس لیے پوجتے ہیں کہ وہ ہمیں اللہ کا مقرب بنا دیں ، اللہ ان کے درمیان یقیناً ان باتوں کا فیصلہ کرے گا جن میں وہ اختلاف کرتے ہیں ، اللہ جھوٹے منکر کو یقیناً ہدایت نہیں کرتا ہے۔

٤۔ اگر اللہ کسی کو اپنا بیٹا بنانا چاہتا تو اپنی مخلوق میں سے جسے چاہتا منتخب کر لیتا، وہ پاکیزہ ہے اور وہ اللہ یکتا، غالب ہے۔

٥۔ اسی نے آسمانوں اور زمین کو برحق پیدا کیا ہے ، وہی رات کو دن پر لپیٹتا ہے اور دن کو رات پر لپیٹتا ہے اور اس نے سورج اور چاند کو مسخر کیا ہے ، یہ سب ایک مقررہ وقت تک چلتے رہیں گے ، آگاہ رہو! وہی بڑا غالب آنے والا معاف کرنے والا ہے۔

٦۔ اسی نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا پھر اس سے اس کا جوڑا بنایا اور اسی نے تمہارے لیے چوپاؤں میں سے آٹھ جوڑے بنائے ، وہی تمہیں تمہاری ماؤں کے شکموں میں تین تاریکیوں میں ایک خلقت کے بعد دوسری خلقت دیتا ہے ، یہی اللہ تمہارا پروردگار ہے ، اسی کی بادشاہی ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں ، پھر تم کہاں پھرے جاتے ہو؟

٧۔ اگر تم کفر کرو تو یقیناً اللہ تم سے بے نیاز ہے اور وہ اپنے بندوں کے لیے کفر پسند نہیں کرتا اور اگر تم شکر کرو تو وہ اسے تمہارے لیے پسند کرے گا اور کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا پھر تمہیں اپنے رب کی بارگاہ کی طرف لوٹنا ہے پھر وہ تمہیں بتا دے گا کہ تم کیا کرتے رہے ہو، یقیناً وہ دلوں کا حال خوب جاننے والا ہے۔

٨۔ اور جب انسان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو اپنے رب کی طرف رجوع کر کے اسے پکارتا ہے ، پھر جب وہ اسے اپنی طرف سے کوئی نعمت دیتا ہے تو جسے پہلے پکارتا تھا اسے بھول جاتا ہے اور اللہ کے لیے شریک بنانے لگتا ہے تاکہ اس کی راہ سے (دوسروں کو) گمراہ کر دے ، کہہ دیجئے : اپنے کفر سے تھوڑا سا لطف اندوز ہو جاؤ، یقیناً تو جہنمیوں میں سے ہے۔

٩۔ (مشرک بہتر ہے ) یا وہ شخص جو رات کی گھڑیوں میں سجدے اور قیام کی حالت میں عبادت کرتا ہے ، آخرت سے ڈرتا ہے اور اپنے رب کی رحمت سے امید لگائے رکھتا ہے ، کہہ دیجئے : کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے یکساں ہو سکتے ہیں ؟ بے شک نصیحت تو صرف عقل والے ہی قبول کرتے ہیں۔

١٠۔ کہہ دیجئے : اے میرے مومن بندو!اپنے رب سے ڈرو، جو اس دنیا میں نیکی کرتے ہیں ان کے لیے بھلائی ہے اور اللہ کی زمین بہت وسیع ہے ، یقیناً بے شمار ثواب تو صرف صبر کرنے والوں ہی کو ملے گا۔

١١۔ کہہ دیجئے : مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں دین کو اس کے لیے خالص کر کے اللہ کی بندگی کروں۔

١٢۔ اور مجھے یہ حکم بھی ملا ہے کہ میں سب سے پہلا مسلم بنوں۔

١٣۔ کہہ دیجئے : اگر میں اپنے رب کی نافرمانی کروں تو بڑے دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں۔

١٤۔ کہہ دیجئے : میں اللہ ہی کی بندگی کرتا ہوں اپنے دین کو اس کے لیے خالص رکھتے ہوئے۔

١٥۔ پس تم اللہ کے علاوہ جس جس کی بندگی کرنا چاہو کرتے رہو، کہہ دیجئے : گھاٹے میں تو یقیناً وہ لوگ ہیں جو قیامت کے دن خود کو اور اپنے عیال کو گھاٹے میں ڈال دیں ، خبردار! یہی کھلا گھاٹا ہے۔

١٦۔ ان کے لیے ان کے اوپر آگ کے سائبان اور ان کے نیچے بھی شعلے ہوں گے ، یہ وہ بات ہے جس سے اللہ اپنے بندوں کو ڈراتا ہے ، پس اے میرے بندو! مجھ سے ڈرو۔

١٧۔ اور جن لوگوں نے طاغوت کی بندگی سے اجتناب کیا اور اللہ کی طرف رجوع کیا ان ے لیے خوشخبری ہے ، پس آپ میرے ان بندوں کو بشارت دے دیجیے ،

١٨۔ جو بات کو سنا کرتے ہیں اور اس میں سے بہتر کی پیروی کرتے ہیں ، یہی وہ لوگ ہیں جنہیں اللہ نے ہدایت دی ہے اور یہی صاحبان عقل ہیں۔

١٩۔ بھلا جس شخص پر عذاب کا فیصلہ حتمی ہو گیا ہو کیا آپ اسے بچا سکتے ہیں جو آگ میں گر چکا ہو؟

٢٠۔ لیکن جو اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں ان کے لیے بالا خانے ہیں جن کے اوپر (مزید) بالا خانے بنے ہوئے ہیں جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں ، یہ اللہ کا وعدہ ہے اور اللہ وعدہ خلافی نہیں کرتا۔

٢١۔ کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ اللہ آسمان سے پانی نازل کرتا ہے پھر چشمے بنا کر اسے زمین میں جاری کرتا ہے پھر اس سے رنگ برنگی فصلیں اگاتا ہے ، پھر وہ خشک ہو جاتی ہیں تو تم دیکھتے ہو کہ وہ زرد پڑ گئی ہیں پھر وہ اسے بھوسہ بنا دیتا ہے ؟ عقل والوں کے لیے یقیناً اس میں نصیحت ہے۔

٢٢۔ کیا وہ شخص جس کا سینہ اللہ نے اسلام کے لیے کھول دیا ہو اور جسے اپنے رب کی طرف سے روشنی ملی ہو (سخت دل والوں کی طرح ہو سکتا ہے ؟)، پس تباہی ہے ان لوگوں کے لیے جن کے دل ذکر خدا سے سخت ہو جاتے ہیں ، یہ لوگ صریح گمراہی میں ہیں۔

٢٣۔ اللہ نے ایسی کتاب کی شکل میں بہترین کلام نازل فرمایا ہے جس کی آیات باہم مشابہ اور مکرر ہیں جس سے اپنے رب سے ڈرنے والوں کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں پھر ان کی جلدیں اور دل نرم ہو کر ذکر خدا کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں ، یہی اللہ کی ہدایت ہے وہ جسے چاہتا ہے اس سے ہدایت دیتا ہے اور جسے اللہ گمراہ کر دے اسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں ہے۔

٢٤۔ کیا وہ شخص جو قیامت کے دن برے عذاب سے بچنے کے لیے اپنے منہ کو سپر بناتا ہے (وہ امن پانے والوں کی طرح ہو سکتا ہے ؟) اور ظالموں سے کہا جائے گا: چکھو اس کا ذائقہ جو تم کماتے تھے۔

٢٥۔ ان سے پہلوں نے تکذیب کی تو ان پر ایسی جگہ سے عذاب آیا جہاں سے وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔

٢٦۔ پھر اللہ نے انہیں دنیاوی زندگی میں رسوائی کا ذائقہ چکھا دیا اور آخرت کا عذاب تو بہت بڑا ہے ، اے کاش! وہ جان لیتے۔

٢٧۔ اور ہم نے اس قرآن میں لوگوں کے لیے ہر طرح کی مثالیں دی ہیں شاید وہ نصیحت حاصل کریں۔

٢٨۔ ایسا قرآن جو عربی ہے ، جس میں کوئی عیب نہیں ہے تاکہ یہ تقویٰ اختیار کریں۔

٢٩۔ اللہ ایک شخص (غلام) کی مثال بیان فرماتا ہے جس (کی ملکیت) میں کئی بد خو (مالکان) شریک ہیں اور ایک(دوسرا) مرد (غلام) ہے جس کا صرف ایک ہی آقا ہے ، کیا یہ دونوں برابر ہو سکتے ہیں ؟ الحمد للہ،بلکہ ان میں سے اکثر نہیں جانتے۔

٣٠۔ (اے رسول) یقیناً آپ کو بھی انتقال کرنا ہے اور انہیں بھی یقیناً مرنا ہے۔

٣١۔ پھر قیامت کے دن تم سب اپنے رب کے سامنے مقدمہ پیش کرو گے۔

 

فَمَن اَظلَمُ ٢٤

 

٣٢۔ پس اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہو گا جس نے اللہ پر جھوٹ باندھا اور جب سچائی اس کے پاس آئی تو اسے جھٹلا دیا؟ کیا کفار کے لیے جہنم میں ٹھکانا نہیں ہے ؟

٣٣۔ اور جو شخص سچائی لے کر آیا اور جس نے اس کی تصدیق کی وہی لوگ اہل تقویٰ ہیں۔

٣٤۔ ان کے لیے جو کچھ وہ چاہیں ان کے پروردگار کے پاس ہے ، نیکی کرنے والوں کی یہی جزا ہے۔

٣٥۔ تاکہ اللہ ا ن کے بدترین اعمال کو مٹا دے اور جو بہترین اعمال انہوں نے انجام دیے ہیں انہیں ان کا اجر عطا کرے۔

٣٦۔ کیا اللہ اپنے بندے کے لیے کافی نہیں ہے ؟ اور یہ لوگ آپ کو اس (اللہ)کے علاوہ دوسروں سے ڈراتے ہیں جب کہ اللہ جسے گمراہ کر دے اسے راہ دکھانے والا کوئی نہیں ہے۔

٣٧۔ اور جس کی اللہ رہنمائی کرے اسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا، کیا اللہ بڑا غالب آنے والا ، انتقام لینے والا نہیں ہے ؟

٣٨۔ اور اگر آپ ان سے پوچھیں : آسمانوں اور زمین کو کس نے پید ا کیا؟ تو وہ ضرور کہیں گے : اللہ نے ، کہہ دیجئے : اللہ کے سوا جنہیں تم پکارتے ہو ان کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے ؟ اگر اللہ مجھے کوئی تکلیف پہنچا نا چاہے تو کیا یہ معبود اس کی اس تکلیف و دور کر سکتے ہیں ؟ یا (اگر) اللہ مجھ پر مہربانی کرنا چاہے تو کیا یہ اس کی مہربانی کو روک سکتے ہیں ؟ کہہ دیجئے : میرے لیے اللہ ہی کافی ہے ، بھروسا رکھنے والے اسی پر بھروسا رکھتے ہیں۔

٣٩۔کہہ دیجئے : اے میری قوم! تم اپنی جگہ عمل کیے جاؤ، میں بھی عمل کر رہا ہوں ، پس عنقریب تمہیں معلوم ہو جائے گا،

٤٠۔کہ کس پر وہ عذاب آئے گا جو اسے رسوا کرے گا اور کس پر دائمی عذاب نازل ہونے والا ہے۔

٤١۔ ہم نے آپ پر یہ کتاب انسانوں کے لیے برحق نازل کی ہے لہٰذا جو ہدایت حاصل کرتا ہے وہ اپنے لیے حاصل کرتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے وہ اپنا ہی نقصان کرتا ہے اور آپ ان کے ذمہ دار نہیں ہیں۔

٤٢۔ موت کے وقت اللہ روحوں کو قبض کرتا ہے اور جو ابھی نہیں مرا اس کی (روح) نیند میں (قبض کر لیتا ہے ) پھر وہ جس کی موت کا فیصلہ کر چکا ہوتا ہے اسے روک رکھتا ہے اور دوسری کو ایک وقت تک کے لیے چھوڑ دیتا ہے ، فکر کرنے والوں کے لیے یقیناً اس میں نشانیاں ہیں۔

٤٣۔ کیا انہوں نے اللہ کے سوا اوروں کو شفیع بنا لیا ہے ؟ کہہ دیجئے : خواہ وہ کسی چیز کا اختیار نہ رکھتے ہوں اور نہ ہی کچھ سمجھتے ہوں (تب بھی شفیع بنیں گے )؟

٤٤۔ کہہ دیجئے : ساری شفاعت اللہ کے اختیار میں ہے آسمانوں اور زمین کی بادشاہت اسی ی ہے پھر تم اسی کی طرف پلٹائے جاؤ گے۔

٤٥۔ اور جب صرف اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو آخرت پر ایمان نہ رکھنے والوں کے دل متنفر ہو جاتے ہیں اور جب اللہ کے سوا اوروں کا ذکر کیا جاتا ہے تو وہ خوش ہو جاتے ہیں۔

٤٦۔ کہہ دیجئے : اے اللہ! آسمانوں اور زمین کے خالق، پوشیدہ اور ظاہری باتوں کے جاننے والے ! تو ہی اپنے بندوں کے درمیان ان باتوں کا فیصلہ کرے گا جن میں وہ اختلاف کر رہے ہیں۔

٤٧۔اور اگر ظالموں کے پاس وہ سب (دولت) موجود ہو جو زمین میں ہے اور اتنی مزید بھی ہو تو قیامت کے دن برے عذاب سے بچنے کے لیے وہ اسے فدیہ دینے کے لیے آمادہ ہو جائیں گے اور اللہ کی طرف سے وہ امر ان پر ظاہر ہو کر رہے گا جس کا انہوں نے خیال بھی نہیں کیا تھا۔

٤٨۔ اور ان کی بری کمائی بھی ان پر ظاہر ہو جائے گی اور جس بات کی وہ ہنسی اڑاتے تھے وہ انہیں گھیر لے گی۔

٤٩۔ جب انسان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ ہمیں پکارتا ہے ، پھر جب ہم اپنی طرف سے اسے نعمت سے نوازتے ہیں تو کہتا ہے : یہ تو مجھے صرف علم کی بنا پر ملی ہے ، نہیں بلکہ یہ ایک آزمائش ہے لیکن ان میں سے اکثر نہیں جانتے۔

٥٠۔ ان سے پہلے (لوگ) بھی یہی کہا کرتے تھے تو جو کچھ وہ کرتے تھے ان کے کسی کام نہ آیا۔

٥١۔ پس ان پر ان کے برے اعمال کے وبال پڑ گئے اور ان میں سے جنہوں نے ظلم کیا ہے عنقریب ان پر بھی ان کے برے اعمال کے وبال پڑنے والے ہیں اور وہ (اللہ کو) عاجز نہیں کر سکتے۔

٥٢۔ کیا انہیں معلوم نہیں کہ اللہ جس کے لیے چاہتا ہے رزق کشادہ اور تنگ کر دیتا ہے ؟ ایمان لانے والوں کے لیے یقیناً اس میں نشانیاں ہیں۔

٥٣۔ کہہ دیجئے :اے میرے بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا، یقیناً اللہ تمام گناہوں کو معاف فرماتا ہے ، وہ یقیناً بڑا معاف کرنے والا ، مہربان ہے۔

٥٤۔ اور اپنے رب کی طرف پلٹ آؤ اور اس کے فرمانبردار بن جاؤ قبل اس کے کہ تم پر عذاب آ جائے ،پھر تمہاری مدد نہیں کی جائے گی۔

٥٥۔ اور جو تمہارے رب کی طرف سے تم پر نازل ہوا ہے اس میں بہترین کی پیروی کرو قبل اس کے کہ تم پر ناگہاں عذاب آ جائے اور تمہیں خبر بھی نہ ہو۔

٥٦۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ کوئی شخص یہ کہے : افسوس ہے اس کوتاہی پر جو میں نے اللہ کے حق میں کی اور میں تو مذاق اڑانے والوں میں سے تھا۔

٥٧۔ یا وہ کہے : اگر اللہ میری ہدایت کرتا تو میں متقین میں سے ہو جاتا۔

٥٨۔ یا عذاب دیکھ کر یہ کہے : اگر مجھے واپس (دنیا میں ) جانے کا موقع ملتا تو میں نیکی کرنے والوں میں سے ہو جاتا۔

٥٩۔(جواب ملے گا) کیوں نہیں !میری آیات تجھ تک پہنچیں مگر تو نے انہیں جھٹلایا اور تکبر کیا اور تو کافروں میں سے تھا۔

٦٠۔ اور جنہوں نے اللہ کی نسبت جھوٹ بولا قیامت کے دن آپ ان کے چہرے سیاہ دیکھیں گے ، کیا تکبر کرنے والوں کا ٹھکانا جہنم میں نہیں ہے ؟

٦١۔ اور اہل تقویٰ کو ان کی کامیابی کے سبب اللہ نجات دے گا، انہیں نہ کوئی تکلیف پہنچے گی اور نہ ہی وہ غمگین ہوں گے۔

٦٢۔ اللہ ہر چیز کا خالق ہے اور وہ ہر چیز کا نگہبان ہے۔

٦٣۔ آسمانوں اور زمین کی کنجیاں اسی کی ملکیت ہیں اور جنہوں نے اللہ کی آیات کا انکار کیا وہی نقصان اٹھانے والے ہیں۔

٦٤۔ کہہ دیجئے : اے نادانو! کیا تم مجھے کہتے ہو کہ میں غیر اللہ کی بندگی کروں ؟

٦٥۔ اور بتحقیق آپ کی طرف اور آپ سے پہلے انبیاء کی طرف یہی وحی بھیجی گئی ہے کہ اگر تم نے شرک کیا تو تمہارا عمل ضرور حبط ہو جائے گا اور تم ضرور نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو جاؤ گے۔

٦٦۔ بلکہ اللہ ہی کی عبادت کرو اور شکر گزاروں میں سے ہو جاؤ۔

٦٧۔ اور ان لوگوں نے اللہ کی قدر شناسی نہ کی جیسا کہ اس کی قدر کرنے کا حق ہے اور قیامت کے دن پوری زمین ا س کے قبضہ قدرت میں ہو گی اور آسمان اس کے دست قدرت میں لپٹے ہوئے ہوں گے ، وہ پاک اور بالاتر ہے اس شرک سے جو یہ کرتے ہیں۔

٦٨۔ اور (جب) صور پھونکا جائے گا تو جو آسمانوں اور زمین میں ہیں سب بیہوش ہو جائیں گے مگر جنہیں اللہ چاہے ، پھر دوبارہ پھونکا جائے گا تو اتنے میں وہ سب کھڑے ہو کر دیکھنے لگیں گے۔

٦٩۔ اور زمین اپنے رب کے نور سے چمک جائے گی اور (اعمال کی) کتاب رکھ دی جائے گی اور پیغمبروں اور گواہوں کو حاضر کیا جائے گا اور ان کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کیا جائے گا اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔

٧٠۔ اور ہر شخص نے جو عمل کیا ہے اسے اس کا پورا بدلہ دیا جائے گا اور اللہ ان کے اعمال سے خوب واقف ہے۔

٧١۔ اور کفار گروہ در گروہ جہنم کی طرف ہانکے جائیں گے ، یہاں تک کہ جب وہ اس کے پاس پہنچ جائیں گے تو اس کے دروازے کھول دیے جائیں گے اور جہنم کے کارندے ان سے کہیں گے : کیا تمہارے پاس تم میں سے پیغمبر نہیں آئے تھے ، جو تمہارے رب کی آیات تمہیں سناتے اور اس دن کے پیش آنے کے بارے میں تمہیں متنبہ کرتے ؟ وہ کہیں گے : ہاں (کیوں نہیں !) لیکن (اب) کفار کے حق میں عذاب کا فیصلہ حتمی ہو چکا ہے۔

٧٢۔ کہا جائے گا: جہنم کے دروازوں میں داخل ہو جاؤ جس میں تمہیں ہمیشہ رہنا ہے ، پس تکبر کرنے والوں کا کتنا برا ٹھکانا ہے۔

٧٣۔اور جو لوگ اپنے رب سے ڈرتے رہے ہیں انہیں گروہ در گروہ جنت کی طرف چلایا جائے گا یہاں تک کہ جب وہ اس کے پاس پہنچ جائیں گے اور اس کے دروازے کھول دیے جائیں گے اور جنت کے منتظمین ان سے کہیں گے : تم پر سلام ہو۔ تم بہت خوب رہے ، اب ہمیشہ کے لیے اس میں داخل ہو جاؤ۔

٧٤۔ اور وہ کہیں گے : ثنائے کامل ہے اس اللہ کے لیے جس نے ہمارے ساتھ اپنا وعدہ سچ کر دکھایا اور ہمیں اس سرزمین کا وارث بنایا کہ جنت میں ہم جہاں چاہیں جگہ بنا سکیں ، پس عمل کرنے والوں کا اجر کتنا اچھا ہے۔

٧٥۔ اور آپ فرشتوں کو عرش کے گرد حلقہ باندھے ہوئے اپنے رب کی ثنا کے ساتھ تسبیح کرتے ہوئے دیکھیں گے اور لوگوں کے درمیان برحق فیصلہ ہو چکا ہو گا اور کہا جائے گا: ثنائے کامل اللّٰہ رب العالمین کے لیے ہے۔

 

 

    سورہ مومن۔ مکی۔ آیات ۸۵

 

بنام خدائے رحمن و رحیم

١۔ حا، میم۔

٢۔ اس کتاب کی تنزیل بڑے غالب آنے والے ، دانا اللہ کی طرف سے ہے ،

٣۔ جو گناہ معاف کرنے والا اور توبہ قبول کرنے والا، شدید عذاب دینے والا اور بڑے فضل والا ہے ، اس کے سوا کوئی معبود نہیں ، اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔

٤۔ اللہ کی آیات کے بارے میں صرف کفار ہی جھگڑتے ہیں لہٰذا ان کا شہروں میں چلنا پھرنا آپ کو دھوکے میں نہ رکھے۔

٥۔ ان سے پہلے نوح کی قوم اور ان کے بعد کے گروہوں نے بھی (انبیاء کی) تکذیب کی ہے اور ہر امت نے اپنے رسول کو گرفتار کرنے کا عزم کیا اور باطل ذرائع سے جھگڑتے رہے تاکہ اس سے حق کو زائل کر دیں تو میں نے انہیں اپنی گرفت میں لیا پس (دیکھ لو) میرا عذاب کیسا تھا۔

٦۔ اور اسی طرح کفار کے بارے میں آپ کے پروردگار کا یہ فیصلہ حتمی ہے کہ وہ اہل دوزخ ہیں۔

٧۔ جو (فرشتے ) عرش کو اٹھائے ہوئے ہیں اور جو (فرشتے ) اس کے اردگرد ہیں سب اپنے رب کی ثناء کے ساتھ تسبیح کر رہے ہیں اور اس پر ایمان لائے ہیں اور ایمان والوں کے لیے مغفرت طلب کرتے ہیں ، ہمارے پروردگار! تیری رحمت اور علم ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے پس ان لوگوں کو بخش دے جنہوں نے توبہ کی ہے اور تیرے راستے کی پیروی کی ہے اور انہیں عذاب جہنم سے بچا لے۔

٨۔ ہمارے پروردگار! انہیں ہمیشہ رہنے والی جنتوں میں داخل فرما جن کا تو نے ان سے وعدہ کیا ہے اور ان کے باپ دادا اور ان کی ازواج اور ان کی اولاد میں سے جو نیک ہوں انہیں بھی، تو یقیناً بڑا غالب آنے والا، حکمت والا ہے۔

٩۔ اور انہیں برائیوں سے بچا اور جسے تو نے اس روز برائیوں سے بچا لیا اس پر تو نے رحم فرمایا اور یہی تو بڑی کامیابی ہے۔

١٠۔ جنہوں نے کفر اختیار کیا بلاشبہ انہیں پکار کر کہا جائے گا: (آج) جتنا تم اپنے آپ سے بیزار ہو رہے ہو اللہ اس سے زیادہ تم سے اس وقت بیزار تھا جب تمہیں ایمان کی طرف دعوت دی جاتی تھی اور تم کفر کرتے تھے۔

١١۔ وہ کہیں گے : اے ہمارے پروردگار! تو نے ہمیں دو مرتبہ موت اور دو مرتبہ زندگی دی ہے ،اب ہم اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہیں تو کیا نکلنے کی کوئی راہ ہے ؟

١٢۔ایسا اس لیے ہوا کہ جب خدائے واحد کی طرف دعوت دی جاتی تھی تو تم انکار کرتے تھے اور اگر اس کے ساتھ شریک ٹھہرایا جاتا تو تم مان لیتے تھے ، پس (آج) فیصلہ برتر، بزرگ اللہ کے پاس ہے۔

١٣۔ وہ وہی ہے جو تمہیں اپنی نشانیاں دکھاتا ہے اور آسمان سے تمہارے لیے رزق نازل فرماتا ہے اور نصیحت تو صرف وہی حاصل کرتا ہے جو (اس کی طرف ) رجوع کرتا ہے۔

١٤۔ پس دین کو صرف اس کے لیے خالص کر کے اللہ ہی کو پکارو اگرچہ کفار کو برا لگے۔

١٥۔ وہ بلند درجات کا مالک اور صاحب عرش ہے ، وہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے اپنے حکم سے روح نازل فرماتا ہے تاکہ وہ ملاقات کے دن کے بارے میں متنبہ کرے۔

١٦۔ اس دن وہ سب (قبروں سے ) نکل پڑیں گے ، اللہ سے ان کی کوئی چیز پوشیدہ نہ رہے گی، (اس روز پوچھا جائے گا) آج کس کی بادشاہت ہے ؟ (جواب ملے گا) خدائے واحد، قہار کی۔

١٧۔ آج ہر شخص کو اس کے عمل کا بدلہ دیا جائے گا، آج ظلم نہیں ہو گا، اللہ یقیناً جلد حساب لینے والا ہے۔

١٨۔ انہیں قریب الوقوع دن کے بارے میں متنبہ کیجیے ، جب دل حلق تک آ رہے ہوں گے ، غم سے گھٹ گھٹ جائیں گے ، ظالموں کے لیے نہ کوئی دوست ہو گا اور نہ ہی کوئی ایسا سفارشی جس کی بات سنی جائے۔

١٩۔ اللہ نگاہوں کی خیانت اور جو کچھ سینوں میں پوشیدہ ہے سے واقف ہے۔

٢٠۔ اور اللہ برحق فیصلہ کرتا ہے اور اللہ کے سوا جنہیں یہ لوگ پکارتے ہیں وہ کسی چیز کا فیصلہ کرنے کے (اہل) نہیں ہیں ، یقیناً اللہ ہی خوب سننے والا، دیکھنے والا ہے۔

٢١۔ کیا یہ لوگ زمین پر چلے پھرے نہیں ہیں تاکہ وہ ان لوگوں کا انجام دیکھ لیتے جو ان سے پہلے گزر چکے ہیں ؟ وہ طاقت اور زمین پر اپنے آثار چھوڑنے میں ان سے کہیں زیادہ زبردست تھے ، پس اللہ نے ان کے گناہوں کی وجہ سے انہیں گرفت میں لے لیا اور انہیں اللہ سے بچانے والا کوئی نہ تھا۔

٢٢۔ یہ اس لیے کہ ان کے پیغمبر واضح دلائل لے کر ان کے پاس آتے تھے لیکن انہوں نے انکار کر دیا، پھر اللہ نے انہیں گرفت میں لے لیا، اللہ یقیناً بڑا طاقتور، عذاب دینے میں سخت ہے۔

٢٣۔ اور بتحقیق ہم نے موسیٰ کو اپنی نشانیوں اور واضح دلائل کے ساتھ بھیجا،

٢٤۔ فرعون اور ہامان اور قارون کی طرف تو ان لوگوں نے کہا: یہ تو بہت جھوٹا جادوگر ہے۔

٢٥۔ پس جب انہوں نے ہماری طرف سے ان لوگوں کو حق پہنچایا تو وہ کہنے لگے : جو اس کے ساتھ ایمان لے آئیں ، ان کے بیٹوں کو قتل کر دو اور ان کی عورتوں کو زندہ رہنے دو (مگر) کافروں کی چال اکارت ہی جاتی ہے۔

٢٦۔ اور فرعون نے کہا: مجھے چھوڑو کہ میں موسیٰ کو قتل کروں اور وہ اپنے رب کو پکارے مجھے ڈر ہے کہ وہ تمہارا دین بدل ڈالے گا یا زمین میں فساد برپا کرے گا۔

٢٧۔ اور موسیٰ نے کہا: میں اپنے اور تمہارے رب کی پناہ مانگتا ہوں ہر اس تکبر کرنے والے سے جو یوم حساب پر ایمان نہیں لاتا۔

٢٨۔ اور آل فرعون میں سے ایک مومن جو اپنا ایمان چھپائے ہوئے تھا کہنے لگا: کیا تم ایسے شخص کو قتل کرنا چاہتے ہو جو کہتا ہے میرا رب اللہ ہے اور تمہارے رب کی طرف سے تمہارے پاس واضح دلائل لے کر آیا ہے ؟ اگر وہ جھوٹا ہے تو اس کا جھوٹ خود اس کے خلاف جائے گا اور اگر وہ سچا ہے تو جس (عذاب) کا وہ تم سے وعدہ کر رہا ہے اس میں سے کچھ تو تم پر واقع ہو ہی جائے گا، اللہ یقیناً تجاوز کرنے والے جھوٹے کو ہدایت نہیں دیتا۔

٢٩۔ اے میری قوم! آج تمہاری بادشاہت ہے اور ملک میں تم غالب ہو پس اگر ہم پر اللہ کا عذاب آ گیا تو ہماری کون مدد کرے گا؟ فرعون نے کہا: میں تمہیں صرف وہی رائے دوں گا جسے میں صائب سمجھتا ہوں اور میں اسی راستے کی طرف تمہاری رہنمائی کرتا ہوں جو درست ہے۔

٣٠۔ اور جو شخص ایمان لایا تھا کہنے لگا: اے میری قوم! مجھے خوف ہے کہ تم پر کہیں وہ دن نہ آئے جیسا (پہلی) امتوں پر آیا تھا،

٣١۔ جیسے قوم نوح اور عاد اور ثمود اور ان کے بعد والی امتوں پر آیا تھا اور اللہ تو بندوں پر ظلم کرنا نہیں چاہتا۔

٣٢۔ اور اے میری قوم! مجھے تمہارے بارے میں فریاد کے دن (قیامت) کا خوف ہے۔

٣٣۔ جس دن تم پیٹھ پھیر کر بھاگو گے تمہیں اللہ (کے عذاب) سے بچانے والا کوئی نہ ہو گا اور جسے اللہ گمراہ کر دے اسے ہدایت دینے والا کوئی نہیں۔

٣٤۔ اور بتحقیق اس سے پہلے یوسف واضح دلائل کے ساتھ تمہارے پاس آئے مگر تمہیں اس چیز میں شک ہی رہا جو وہ تمہارے پاس لائے تھے یہاں تک کہ جب ان کا انتقال ہوا تو تم کہنے لگے : ان کے بعد اللہ کوئی پیغمبر مبعوث نہیں کرے گا اس طرح اللہ ان لوگوں کو گمراہ کر دیتا ہے جو تجاوز کرنے والے ، شک کرنے والے ہوتے ہیں۔

٣٥۔ جو اللہ کی آیات میں جھگڑا کرتے ہیں بغیر ایسی دلیل کے جو اللہ کی طرف سے ان کے پاس آئی ہو (ان کی) یہ بات اللہ اور ایمان لانے والوں کے نزدیک نہایت ناپسندیدہ ہے ، اسی طرح ہر متکبر، سرکش کے دل پر اللہ مہر لگا دیتا ہے۔

٣٦۔ اور فرعون نے کہا: اے ہامان! میرے لیے ایک بلند عمارت بناؤ، شاید میں راستوں تک رسائی حاصل کر لوں ،

٣٧۔ آسمانوں کے راستوں تک، پھر میں موسیٰ کے خدا کو دیکھ لوں اور میرا گمان یہ ہے کہ موسیٰ جھوٹا ہے ، اس طرح فرعون کے لیے اس کی بد عملی کو خوشنما بنا دیا گیا اور وہ راہ راست سے روک دیا گیا اور فرعون کی چال تو صرف گھاٹے میں ہے۔

٣٨۔ اور جو شخص ایمان لایا تھا بولا: اے میری قوم! میری اتباع کرو، میں تمہیں صحیح راستہ دکھاتا ہوں۔

٣٩۔ اے میری قوم! یہ دنیاوی زندگی تو صرف تھوڑی دیر کی لذت ہے اور آخرت یقیناً دائمی قیام گاہ ہے۔

٤٠۔ جو برائی کا ارتکاب کرے گا اسے اتنا ہی بدلہ ملے گا اور جو نیکی کرے گا وہ مرد ہو یا عورت اگر صاحب ایمان بھی ہو تو ایسے لوگ جنت میں داخل ہوں گے جس میں انہیں بے شمار رزق ملے گا۔

٤١۔ اور اے میری قوم! آخر مجھے ہوا کیا ہے کہ میں تمہیں نجات کی طرف بلاتا ہوں اور تم مجھے آتش کی طرف بلاتے ہو؟

٤٢۔ تم مجھے دعوت دیتے ہو کہ میں اللہ کے ساتھ کفر کروں اور اسے اللہ کا شریک قرار دوں جس کا مجھے علم ہی نہیں ہے اور میں تمہیں بڑے غالب آنے والے ، بخشنے والے اللہ کی طرف بلاتا ہوں۔

٤٣۔ حقیقت یہ ہے کہ جس چیز کی طرف تم مجھے دعوت دیتے ہو اس کی نہ دنیا میں کوئی دعوت ہے اور نہ آخرت میں اور ہماری بازگشت یقیناً اللہ کی طرف ہے اور حد سے تجاوز کرنے والے تو یقیناً جہنمی ہیں۔

٤٤۔ جو بات (آج) میں تم سے کہ رہا ہوں (کل) تم اسے ضرور یاد کرو گے اور میں اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کرتا ہوں ، بے شک اللہ بندوں پر خوب نگاہ کرنے والا ہے۔

٤٥۔ پس اللہ نے اس (مومن) کو ان کی بری چالوں سے بچایا اور آل فرعون کو برے عذاب نے گھیر لیا۔

٤٦۔ وہ لوگ صبح و شام آتش جہنم کے سامنے پیش کیے جائیں گے اور جس دن قیامت برپا ہو گی (تو حکم ہو گا) آل فرعون کو سخت ترین عذاب میں داخل کرو۔

٤٧۔ اور جب وہ جہنم میں جھگڑیں گے تو کمزور درجے کے لوگ بڑا بننے والوں سے کہیں گے : ہم تو تمہارے تابع تھے ، تو کیا تم ہم سے آتش کا کچھ حصہ دور کر سکتے ہیں ؟

٤٨۔ بڑا بننے والے کہیں گے : ہم سب اس (آتش) میں ہیں ، اللہ تو بندوں کے درمیان یقیناً فیصلہ کر چکا ہے۔

٤٩۔ اور جو لوگ آتش جہنم میں ہوں گے وہ جہنم کے کارندوں سے کہیں گے : اپنے پروردگار سے درخواست کرو کہ ہم سے ایک دن کے لیے عذاب میں تخفیف کرے۔

٥٠۔ وہ کہیں گے : کیا تمہارے پیغمبر واضح دلائل لے کر تمہارے پاس نہیں آئے تھے ؟ وہ کہیں گے : کیوں نہیں ، تو وہ کہیں گے : پس درخواست کرتے رہو اور کفار کی درخواست بے نتیجہ ہی رہے گی۔

٥١۔ہم اپنے رسولوں اور ایمان لانے والوں کی دنیاوی زندگی میں بھی مدد کرتے رہیں گے اور اس روز بھی جب گواہ کھڑے ہوں گے۔

٥٢۔ اس روز ظالموں کو ان کی معذرت فائدہ نہیں دے گی اور ان پر لعنت پڑے گی اور ان کے لیے بدترین ٹھکانا ہو گا۔

٥٣۔ اور بتحقیق ہم نے موسیٰ کو ہدایت دی اور بنی اسرائیل کو ہم نے اس کتاب کا وارث بنایا،

٥٤۔ جو صاحبان عقل کے لیے ہدایت اور نصیحت تھی۔

٥٥۔ پس آپ صبر کریں ،یقیناً اللہ کا وعدہ برحق ہے اور اپنے گناہ کے لیے استغفار کریں اور صبح و شام اپنے رب کی ثناء کے ساتھ تسبیح کریں۔

٥٦۔ بے شک جو لوگ اللہ کی آیات کے بارے میں جھگڑتے ہیں بغیر کسی دلیل کے جو ان کے پاس آئی ہو، ان کے دلوں میں بڑائی کے سوا کچھ نہیں ، وہ اس (بڑائی) تک نہیں پہنچ پائیں گے ، لہٰذا آپ اللہ کی پناہ مانگیں ، وہ یقیناً خوب سننے والا، دیکھنے والا ہے۔

٥٧۔ آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنا انسانوں کے خلق کرنے سے زیادہ بڑا کام ہے ، لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔

٥٨۔ اور نابینا اور بینا برابر نہیں ہو سکتے نیز نہ ہی ایماندار اور عمل صالح بجا لانے والے اور بدکار، تم لوگ بہت کم نصیحت قبول کرتے ہو۔

٥٩۔ قیامت یقیناً آنے والی ہے ، اس میں کوئی شک نہیں ہے لیکن اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے۔

٦٠۔ اور تمہارا پروردگار فرماتا ہے : مجھے پکارو، میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا، جو لوگ از راہ تکبر میری عبادت سے منہ موڑتے ہیں یقیناً وہ ذلیل ہو کر عنقریب جہنم میں داخل ہوں گے۔

٦١۔ اللہ ہی ہے جس نے تمہارے لیے رات بنائی کہ تم اس میں آرام کرو اور دن کو روشن بنایا، اللہ لوگوں پر بڑا فضل کرنے والا ہے ن اکثر لوگ شکر ادا نہیں کرتے۔

٦٢۔ یہی اللہ تمہارا رب ہے جو ہر چیز کا خالق ہے ، اس کے سوا کوئی معبود نہیں ، پھر تم کہاں بھٹک رہے ہو؟

٦٣۔ اسی طرح وہ لوگ بھی بھٹکتے رہے جو اللہ کی آیات کا انکار کرتے تھے۔

٦٤۔ اللہ ہی ہے جس نے تمہارے لیے زمین کو جائے قرار اور آسمان کو عمارت بنایا اور اسی نے تمہاری صورت بنائی تو بہترین صورت بنائی اور تمہیں پاکیزہ رزق دیا، یہی اللہ تمہارا رب ہے ، پس بابرکت ہے وہ اللہ جو عالمین کا رب ہے۔

٦٥۔ وہی زندہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں لہٰذا تم دین کو اس کے لیے خالص کر کے اسی کو پکارو، ثنائے کامل ہے اس اللہ کے لیے جو عالمین کا پروردگار ہے۔

٦٦۔ کہہ دیجئے : مجھے اس بات سے روک دیا گیا ہے کہ میں ان کی عبادت کروں جنہیں تم اللہ کے علاوہ پکارتے ہو جب کہ میرے پاس میرے رب کی طرف سے واضح دلائل آ چکے ہیں اور مجھے یہ حکم ہوا ہے کہ میں رب العالمین کا تابع فرمان رہوں۔

٦٧۔ وہ وہی ہے جس نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا پھر نطفے سے پھر لوتھڑے سے پھر تمہیں بچے کی صورت میں پیدا کرتا ہے پھر (تمہاری نشو و نما کرتا ہے ) تاکہ تم اپنی جوانی کو پہنچ جاؤ پھر (تمہیں مزید زندگی دیتا ہے ) تاکہ تم بڑھاپے کو پہنچ پاؤ اور تم میں سے کوئی تو پہلے ہی مر جاتا ہے اور (بعض کو مہلت ملتی ہے ) تاکہ تم اپنے مقررہ وقت کو پہنچ جاؤ اور تاکہ تم عقل سے کام لو۔

٦٨۔ وہی تو ہے جو زندگی دیتا ہے اور وہی موت بھی دیتا ہے پھر جب وہ کسی امر کا فیصلہ کر لیتا ہے تو اس سے صرف یہ کہتا ہے : ہو جا! پس وہ ہو جاتا ہے۔

٦٩۔ کیا آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو اللہ کی آیات کے بارے میں جھگڑتے ہیں ؟ یہ لوگ کہاں پھرے جاتے ہیں ؟

٧٠۔ جنہوں نے اس کتاب کی اور جو کچھ ہم نے پیغمبروں کو دے کر بھیجا ہے اس کی تکذیب کی ہے ، انہیں عنقریب معلوم ہو جائے گا۔

٧١۔ جب طوق اور زنجیریں ان کی گردنوں میں ہوں گی، گھسیٹے جا رہے ہوں گے ،

٧٢۔ کھولتے پانی کی طرف، پھر آگ میں جھونک دیے جائیں گے۔

٧٣۔ پھر ان سے پوچھا جائے گا: کہاں ہیں وہ جنہیں تم شریک ٹھہراتے تھے ،

٧٤۔ اللہ کو چھوڑ کر ؟ وہ کہیں گے : وہ تو ہم سے ناپید ہو گئے بلکہ ہم تو پہلے کسی چیز کو پکارتے ہی نہیں تھے ، اسی طرح کفار کو اللہ گمراہ کر دیتا ہے۔

٧٥۔ یہ (انجام) اس لیے ہوا کہ تم زمین میں حق کے برخلاف (باطل پر) خوش ہوتے تھے اور اس کا بدلہ ہے کہ تم اترایا کرتے تھے۔

٧٦۔ جہنم کے دروازوں میں داخل ہو جاؤ جس میں تم ہمیشہ رہو گے ، تکبر کرنے والوں کا کتنا برا ٹھکانا ہے۔

٧٧۔ پس آپ صبر کریں ، یقیناً اللہ کا وعدہ سچا ہے ، اب انہیں ہم نے جو وعدہ (عذاب) دیا ہے اس میں سے کچھ حصہ ہم آپ کو (زندگی ہی میں ) دکھا دیں یا آپ کو دنیا سے اٹھا لیں ، بہرحال انہیں ہماری طرف پلٹ کر آنا ہے۔

٧٨۔ اور بتحقیق ہم نے آپ سے پہلے بہت سے رسول بھیجے ہیں ، ان میں سے بعض کے حالات ہم نے آپ سے بیان کیے ہیں اور بعض کے حالات آپ سے بیان نہیں کیے اور کسی پیغمبر کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اللہ کے اذن کے بغیر کوئی معجزہ پیش کرے ، پھر جب اللہ کا حکم آ گیا تو حق کے ساتھ فیصلہ کر دیا گیا اور اس طرح اہل باطل خسارے میں پڑ گئے۔

٧٩۔ اللہ ہی ہے جس نے تمہارے لیے چوپائے بنائے تاکہ تم ان میں سے بعض پر سواری کرو اور بعض کا گوشت کھاؤ۔

٨٠۔ اور تمہارے لیے ان میں منفعت ہے اور تاکہ تمہارے دلوں میں (کہیں جانے کی) حاجت ہو تو ان پر (سوار ہو کر) پہنچ جاؤ نیز ان پر اور کشتیوں پر تم سوار کیے جاتے ہو۔

٨١۔ اور وہ تمہیں اپنی نشانیاں دکھاتا ہے پس تم اس کی کن کن نشانیوں کا انکار کرو گے۔

٨٢۔ کیا وہ زمین میں چلے پھرے نہیں کہ انہیں ان لوگوں کا انجام نظر آتا جو ان سے پہلے گزر چکے ہیں ؟ وہ تعداد میں ان سے کہیں زیادہ تھے نیز طاقت اور زمین میں (اپنے ) آثار چھوڑنے میں بھی ان سے زیادہ تھے ، (اس کے باوجود) جو کچھ انہوں نے کیا وہ ان کے کچھ بھی کام نہ آیا۔

٨٣۔ پھر جب ان کے پیغمبر واضح دلائل کے ساتھ ان کے پاس آئے تو وہ اس علم پر نازاں تھے جو ان کے پاس تھا، پھر انہیں اس چیز نے گھیر لیا جس کا وہ مذاق اڑاتے تھے۔

٨٤۔ پھر جب انہوں نے ہمارا عذاب دیکھ لیا تو کہنے لگے : ہم خدائے واحد پر ایمان لاتے ہیں اور جسے ہم اللہ کے ساتھ شریک ٹھہراتے تھے اس کا انکار کرتے ہیں۔

٨٥۔ لیکن ہمارا عذاب دیکھ لینے کے بعد ان کا ایمان ان کے لیے فائدہ مند نہیں رہے گا، یہ اللہ کی سنت ہے جو اس کے بندوں میں چلی آ رہی ہے اور اس وقت کفار خسارے میں پڑ گئے۔

 

 

 

سورہ حٰمۤ السجدہ۔ مکی۔ آیات ۵۴

 

بنام خدائے رحمن و رحیم

١۔ حا، میم۔

٢۔ خدائے رحمن و رحیم کی نازل کردہ (کتاب) ہے۔

٣۔ ایسی کتاب جس کی آیات کھول کر بیان کی گئی ہیں ، ایک عربی(زبان کا) قرآن علم رکھنے والوں کے لیے ،

٤۔ بشارت دیتا ہے اور تنبیہ بھی کرتا ہے لیکن ان میں سے اکثر نے منہ پھیر لیا ہے پس وہ سنتے نہیں ہیں۔

٥۔ اور وہ کہتے ہیں : جس چیز کی طرف تو ہمیں بلاتا ہے اس کے لیے ہمارے دل غلاف میں ہیں اور ہمارے کانوں میں بھاری پن (بہرا پن) ہے اور ہمارے درمیان اور تمہارے درمیان پردہ حائل ہے ، پس تم اپنا کام کرو، ہم اپنا کام کرتے ہیں۔

٦۔کہہ دیجئے : میں بھی تم جیسا آدمی ہوں ،میری طرف وحی ہوتی ہے کہ ایک اللہ ہی تمہارا معبود ہے لہٰذا تم اس کی طرف سیدھے رہو اور اسی سے مغفرت مانگو اور تباہی ہے ان مشرکین کے لیے ،

٧۔ جو زکوٰۃ نہیں دیتے اور جو آخرت کا انکار کرتے ہیں۔

٨۔ لیکن جو لوگ ایمان لائے اور اعمال صالح بجا لائے یقیناً ان کے لیے نہ ختم ہونے والا ثواب ہے۔

٩۔ کہہ دیجئے : کیا تم اس ذات کا انکار کرتے ہو اور اس کے لیے مدمقابل قرار دیتے ہو جس نے زمین کود د دن میں پیدا کیا؟ وہی تو عالمین کا پروردگار ہے۔

١٠۔ اور اسی نے زمین میں اس کے اوپر پہاڑ بنائے اور اس میں برکات رکھ دیں اور اس میں چار دنوں میں حاجتمندوں کی ضروریات کے برابر سامان خوراک مقرر کیا۔

١١۔ پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا جو اس وقت دھواں تھا پھر آسمان اور زمین سے کہا: دونوں آ جاؤ خواہ خوشی سے یا کراہت سے ، ان دونوں نے کہا: ہم بخوشی آ گئے۔

١٢۔ پھر انہیں دو دنوں میں سات آسمان بنا دیے اور ہر آسمان میں اس کا حکم پہنچا دیا اور ہم نے آسمان دنیا کو چراغوں سے آراستہ کیا اور محفوظ بھی بنایا، یہ سب بڑے غالب آنے والے ، دانا کی تقدیر سازی ہے۔

١٣۔ اگر یہ منہ پھیر لیں تو کہہ دیجئے : میں نے تمہیں ایسی بجلی سے ڈرایا ہے جیسی بجلی قوم عاد و ثمود پر آئی تھی۔

١٤۔ جب ان کے پاس پیغمبر آ گئے تھے ان کے سامنے اور پیچھے سے کہ اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو تو وہ کہنے لگے : اگر ہمارا پروردگار چاہتا تو فرشتے نازل کرتا پس جس پیغام کے ساتھ تم بھیجے گئے ہو ہم اسے نہیں مانتے۔

١٥۔ مگر عاد نے زمین میں ناحق تکبر کیا اور کہا: ہم سے بڑھ کر طاقتور کون ہے ؟ کیا انہوں نے دیکھا نہیں کہ جس اللہ نے انہیں پیدا کیا ہے وہ ان سے زیادہ طاقتور ہے ؟ (اس طرح) وہ ہماری آیات کا انکار تے تھے۔

١٦۔ تو ہم نے منحوس ایام میں ان پر طوفانی ہوا چلا دی تاکہ ہم دنیاوی زندگی ہی میں انہیں رسوائی کا عذاب چکھا دیں اور آخرت کا عذاب تو زیادہ رسوا کن ہے اور ان کی مدد بھی نہیں کی جائے گی۔

١٧۔ اور (ادھر) ثمود کو تو ہم نے راہ راست دکھا دی تھی مگر انہوں نے ہدایت کی جگہ اندھا رہنے کو پسند کیا تو انہیں ان کے اعمال کے سبب ذلت آمیز عذاب کی بجلی نے گرفت میں لے لیا۔

١٨۔ اور ہم نے انہیں بچا لیا جو ایمان لے آتے تھے اور تقویٰ اختیار کرتے تھے۔

١٩۔ اور جس دن اللہ کے دشمن جہنم کی طرف چلائے جائیں گے تو انہیں روک لیا جائے گا۔

٢٠۔ یہاں تک کہ جب سب وہاں پہنچ جائیں گے تو ان کے کان اور ان کی آنکھیں اور ان کی کھالیں ان کے خلاف گواہی دیں گی کہ وہ کیا کچھ کرتے رہے ہیں۔

٢١۔ تو وہ اپنی کھالوں سے کہیں گے : تم نے ہمارے خلاف گواہی کیوں دی؟ وہ جواب دیں گی: اسی اللہ نے ہمیں گویائی دی ہے جس نے ہر چیز کو گویائی دی اور اسی نے تمہیں پہلی بار پیدا کیا اور تم اسی کی طرف پلٹا جاؤ گے۔

٢٢۔ اور تم (گناہ کے وقت) اپنے کان کی گواہی سے اپنے آپ کو چھپا نہیں سکتے تھے اور نہ اپنی آنکھوں اور نہ اپنی کھالوں کی (گواہی سے ) بلکہ تمہارا گمان یہ تھا کہ اللہ کو تمہارے بہت سے اعمال کی خبر نہیں ہے۔

٢٣۔ اور یہ تمہارا گمان تھا، جو گمان تم اپنے پروردگار کے بارے میں رکھتے تھے اسی نے تمہیں ہلاک کر دیا اور تم خسارہ اٹھانے والوں میں ہو گئے۔

٢٤۔ پس اگر وہ صبر کریں تو بھی ان کا ٹھکانا آتش ہے اور اگر وہ معذرت کریں تو ان کا عذر قبول نہیں کیا جائے گا۔

٢٥۔ اور ہم نے ان کے ساتھ ایسے ہم نشین لگا دیے تھے جو انہیں ان کے اگلے اور پچھلے اعمال کو خوشنما بنا کر دکھاتے تھے اور ان پر بھی وہی فیصلہ حتمی ہو گیا جو ان سے پہلے جنوں اور انسانوں کی امتوں پر لازم ہو چکا تھا، وہ یقیناً خسارے میں تھے۔

٢٦۔ اور جو لوگ کافر ہو گئے ہیں وہ کہتے ہیں : اس قرآن کو نہ سنا کرو اور اس میں شور مچا دیا کرو تاکہ تم غالب آ جاؤ۔

٢٧۔ پس ہم کفار کو ضرور بالضرور سخت عذاب چکھائیں گے اور انہیں ان کے برے اعمال کی بدترین سزا ضرور دیں گے۔

٢٨۔ یہی آتش دشمنان خدا کی سزا ہے۔ اس میں ان کے لیے ہمیشہ کا گھر ہے ، یہ اس بات کی سزا ہے کہ وہ ہماری آیات کا انکار کرتے تھے۔

٢٩۔ اور کفار کہیں گے : اے ہمارے پروردگار! جنوں اور انسانوں دونوں کو ہمیں دکھا دے جنہوں نے ہمیں گمراہ کیا تھا تاکہ ہم انہیں پاؤں تلے روند ڈالیں تاکہ وہ خوار ہوں۔

٣٠۔ جو کہتے ہیں : ہمارا پروردگار اللہ ہے پھر ثابت قدم رہتے ہیں ان پر فرشتے نازل ہوتے ہیں (اور ان سے کہتے ہیں ) نہ خوف کرو نہ غم کرو اور اس جنت کی خوشی مناؤ جس کا تم سے وعدہ کیا تھا۔

٣١۔ ہم دنیا میں بھی تمہارے رفیق تھے اور آخرت میں بھی (تمہارے ساتھی ہیں ) اور یہاں تمہارے لیے تمہاری من پسند چیزیں موجود ہیں اور جو چیز تم طلب کرو گے وہ تمہارے لیے اس میں موجود ہو گی،

٣٢۔اس ذات کی طرف سے ضیافت کے طور پر جو بڑا بخشنے والا رحیم ہے۔

٣٣۔ اور اس شخص کی بات سے زیادہ کس کی بات اچھی ہو سکتی ہے جس نے اللہ کی طرف بلایا اور نیک عمل کیا اور کہا: میں مسلمانوں میں سے ہوں

٣٤۔ اور نیکی اور بدی برابر نہیں ہو سکتے ، آپ (بدی کو) بہترین نیکی سے دفع کریں تو آپ دیکھ لیں گے کہ آپ کے ساتھ جس کی عداوت تھی وہ گویا نہایت قریبی دوست بن گیا ہے۔

٣٥۔ اور یہ (خصلت) صرف صبر کرنے والوں کو ملتی ہے اور یہ صفت صرف انہیں ملتی ہے جو بڑے نصیب والے ہیں۔

٣٦۔ اور اگر آپ شیطان کی طرف سے کوئی وسوسہ محسوس کریں تو اللہ کی پناہ مانگیں وہ یقیناً خوب سننے والا، جاننے والا ہے۔

٣٧۔ اور رات اور دن اور سورج اور چاند اس کی نشانیوں میں سے ہیں ، تم نہ تو سورج کو سجدہ کرو اور نہ ہی چاند کو بلکہ اللہ کو سجدہ کرو جس نے ان سب کو پیدا کیا ہے ، اگر تم صرف اللہ کی بندگی کرتے ہو۔

٣٨۔ پس اگر یہ لوگ تکبر کرتے ہیں تو جو (فرشتے ) آپ کے پروردگار کے پاس ہیں وہ رات اور دن اسی کی تسبیح کرتے ہیں اور تھکتے نہیں ہیں۔

٣٩۔ اور اس کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ آپ زمین کو جمود کی حالت میں دیکھتے ہیں اور جب ہم اس پر پانی برسائیں تو وہ یکایک جنبش میں آتی ہے اور پھلنے پھولنے لگتی ہے ، تو جس نے زمین کو زندہ کیا وہی یقیناً مردوں کو زندہ کرنے والا ہے ، وہ یقیناً ہر چیز پر قادر ہے۔

٤٠۔ جو لوگ ہماری آیات کا انکار کرتے ہیں وہ ہم سے پوشیدہ نہیں ہیں کیا وہ شخص جو جہنم میں ڈالا جائے بہتر ہے یا وہ جو قیامت کے دن امن کے ساتھ حاضر ہو گا؟ تم جو چاہو کرتے رہو، جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اسے یقیناً خوب دیکھنے والا ہے۔

٤١۔ جو لوگ اس ذکر کا انکار کرتے ہیں جب وہ ان کے پاس آ جائے ، حالانکہ یہ معزز کتاب ہے۔

٤٢۔ باطل نہ اس کے سامنے سے آ سکتا ہے اور نہ پیچھے سے ، یہ حکمت والے اور لائق ستائش کی نازل کردہ ہے۔

٤٣۔ آپ سے وہی کچھ کہا جا رہا ہے جو آپ سے پہلے رسولوں سے کہا گیا ہے ، آپ کا رب یقیناً مغفرت والا اور دردناک عذاب دینے والا ہے۔

٤٤۔ اور اگر ہم اس قرآن کو عجمی زبان میں قرار دیتے تو یہ لوگ کہتے کہ اس کی آیات کو کھول کر بیان کیوں نہیں کیا گیا؟ (کتاب) عجمی اور (نبی) عربی؟ کہہ دیجئے : یہ کتاب ایمان لانے والوں کے لیے ہدایت اور شفا ہے اور جو ایمان نہیں لاتے ان کے کانوں میں بھاری پن (بہرا پن) ہے اور وہ ان کے لیے اندھا پن ہے ، وہ ایسے ہیں جیسے انہیں دور سے پکارا جاتا ہو۔

٤٥۔ اور ہم نے موسیٰ کو کتاب دی تو اس میں بھی اختلاف کیا گیا اور اگر آپ کے رب کی بات پہلے طے نہ ہوئی ہوتی تو ان کے درمیان فیصلہ ہو چکا ہوتا اور وہ اس (قرآن) کے بارے میں شبہ پیدا کرنے والے شک میں پڑے ہوئے ہیں۔

٤٦۔ جو نیک عمل کرتا ہے وہ اپنے لیے ہی کرتا ہے اور جو برا کام کرتا ہے خود اپنے ہی خلاف کرتا ہے اور آپ کا پروردگار تو بندوں پر قطعاً ظلم کرنے والا نہیں ہے۔

 

پارہ : اِلیہ یرد ٢٥

 

٤٧۔ قیامت کا علم اللہ کی طرف پلٹا دیا جاتا ہے ، اس کے علم کے بغیر نہ کوئی پھل اپنے شگوفوں سے نکلتا ہے اور نہ کوئی مادہ حاملہ ہوتی ہے اور نہ جنتی ہے اور جس دن وہ انہیں پکارے گا: کہاں ہیں میرے شریک؟ تو وہ کہیں گے : ہم آپ سے اظہار کر چکے ہیں کہ ہم میں سے کوئی بھی گواہی دینے والا نہیں ہے۔

٤٨۔ اور جنہیں وہ پہلے پکارتے تھے وہ ان سے ناپید ہو جائیں گے اور وہ سمجھ جائیں گے کہ ان کے لیے کوئی خلاصی نہیں ہے۔

٤٩۔ انسان آسودگی مانگ مانگ کر تو تھکتا نہیں لیکن جب کوئی آفت آ جاتی ہے تو مایوس ہوتا ہے اور آس توڑ بیٹھتا ہے۔

٥٠۔ اور اگر تکلیف پہنچنے کے بعد ہم اسے اپنی رحمت کی لذت چکھائیں تو ضرور کہتا ہے :یہ تو میرا حق تھا اور میں گمان نہیں کرتا کہ قیامت آنے والی ہے اور اگر میں اپنے رب کی طرف پلٹایا بھی گیا تو میرے لیے اللہ کے ہاں یقیناً بھلائی ہے ، (حالانکہ) کفار کو ان کے اعمال کے بارے میں ہم ضرور بتائیں گے وہ کیا کچھ کرتے رہے ہیں اور انہیں بدترین عذاب چکھائیں گے۔

٥١۔ اور جب ہم انسان کو نعمت سے نوازتے ہیں تو وہ منہ پھیرتا اور اکڑ جاتا ہے اور جب اسے تکلیف پہنچتی ہے تو وہ لمبی دعائیں کرنے لگتا ہے۔

٥٢۔ کہہ دیجئے : یہ تو بتاؤ کہ اگر (یہ قرآن) اللہ کی طرف سے ہو، پھر تم اس سے انکار کرو تو اس شخص سے بڑھ کر گمراہ اور کون ہو گا جو اس (کی مخالفت) میں دور تک نکل گیا ہو؟

٥٣۔ ہم عنقریب انہیں اپنی نشانیاں آفاق عالم میں بھی دکھائیں گے اور خود ان کی ذات میں بھی یہاں تک کہ ان پر واضح ہو جائے کہ یقیناً وہی (اللہ) حق ہے ، کیا آپ کے پروردگار کا یہ وصف کافی نہیں ہے کہ وہ ہر چیز پر خوب شاہد ہے ؟

٥٤۔ آگاہ رہو! بے شک یہ لوگ اپنے رب کی ملاقات کے بارے میں شک میں ہیں ، آگاہ رہو! یقیناً وہ ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔

 

 

سورہ الشوریٰ۔ مکی۔ آیات ۵۳

 

بنام خدائے رحمن و رحیم

١۔ حا، میم۔

٢۔ عین ، سین ، قاف۔

٣۔ اسی طرح آپ کی طرف اور آپ سے پہلوں کی طرف بڑا غالب آنے والا، حکمت والا اللہ وحی بھیجتا رہا ہے۔

٤۔ جو کچھ آسمانوں اور جو کچھ زمین میں ہے سب اسی کی ملکیت ہے اور وہ عالی مرتبہ، عظیم ہے۔

٥۔ قریب ہے کہ آسمان ان کے اوپر سے پھٹ پڑیں اور فرشتے اپنے پروردگار کی ثناء کے ساتھ تسبیح کرتے ہیں اور اہل زمین کے لیے استغفار کرتے ہیں ، آگاہ رہو! اللہ ہی بڑا بخشنے والا، رحم کرنے والا ہے۔

٦۔ اور جنہوں نے اللہ کے سوا دوسروں کو سرپرست بنایا ہے اللہ ہی ان (کے اعمال) پر نگہبان ہے اور آپ ان کے ذمہ دار نہیں ہیں۔

٧۔ اور اسی طرح ہم نے آپ کی طرف عربی قرآن بھیجا ہے تاکہ آپ مکہ اور اس کے گرد و پیش میں رہنے والوں کو تنبیہ کریں اور اجتماع (قیامت) کے دن بارے میں بھی(تنبیہ کریں ) جس میں کوئی شبہ نہیں ہے ، (اس روز) ایک گروہ کو جنت جانا ہے اور دوسرے گروہ کو جہنم جانا ہے۔

٨۔ اور اگر اللہ چاہتا تو ان سب کو ایک ہی امت بنا دیتا لیکن و ہ جسے چاہتا ہے اپنی رحمت میں داخل کرتا ہے اور ظالموں کے لیے نہ کوئی سرپرست ہے اور نہ مددگار۔

٩۔ کیا انہوں نے اللہ کے علاوہ سرپرست بنا لیے ہیں ؟ پس سرپرست تو صرف اللہ ہے اور وہی مردوں کو زندہ کرتا ہے اور وہی ہر چیز پر قادر ہے۔

١٠۔ اور تم جس بات میں اختلاف کرتے ہو اس کا فیصلہ اللہ کی طرف سے ہو گا وہی میرا پروردگار ہے ، اسی پر میں نے بھروسا کیا اور اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں۔

١١۔ (وہی) آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے ، اسی نے خود تمہاری جنس سے تمہارے لیے ازواج بنائے اور چوپایوں کے بھی جوڑے بنائے ، اس طرح سے وہ تمہاری افزائش کرتا ہے ، اس جیسی کوئی چیز نہیں ہے اور وہ خوب سننے والا ، دیکھنے والا ہے۔

١٢۔ آسمانوں اور زمین کی کنجیاں اس کی ملکیت ہیں وہ جس کے لیے چاہتا ہے رزق میں کشادگی اور تنگی دیتا ہے ، وہ یقیناً ہر چیز کا خوب علم رکھنے والا ہے۔

١٣۔ اس نے تمہارے لیے دین کا وہی دستور معین کیا جس کا اس نے نوح کو حکم دیا تھا اور جس کی ہم نے آپ کی طرف وحی بھیجی ہے اور جس کا ہم نے ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ کو حکم دیا تھا کہ اس دین کو قائم رکھنا اور اس میں تفرقہ نہ ڈالنا، مشرکین کو وہ بات ناگوار گزری ہے جس کی طرف آپ انہیں دعوت دیتے ہیں ، اللہ جسے چاہتا ہے اپنا برگزیدہ بنا لیتا ہے اور جو اس کی طرف رجوع کرتا ہے اسی کو اپنی طرف راستہ دکھاتا ہے۔

١٤۔ اور یہ لوگ اپنے پاس علم آنے کے بعد صرف آپس کی سرکشی کی وجہ سے تفرقے کا شکار ہوئے اور اگر آپ کے پروردگار کی طرف سے ایک مقررہ وقت تک کے لیے بات طے نہ ہو چکی ہوتی تو ان کے درمیان فیصلہ ہو چکا ہوتا اور جو لوگ ان کے بعد کتاب کے وارث ہوئے وہ اس کے بارے میں شبہ انگیز شک میں ہیں۔

١٥۔ لہٰذا آپ اس کے لیے دعوت دیں اور جیسے آپ کو حکم ملا ہے ثابت قدم رہیں اور ان کی خواہشات کی پیروی نہ کریں اور کہہ دیجئے : اللہ نے جو کتاب نازل کی ہے میں اس پر ایمان لایا اور مجھے حکم ملا ہے کہ میں تمہارے درمیان انصاف کروں ، اللہ ہمارا رب ہے اور تمہارا بھی رب ہے ، ہمارے اعمال ہمارے لیے اور تمہارے اعمال تمہارے لیے ہیں ، ہمارے اور تمہارے درمیان کوئی بحث نہیں ، اللہ ہی ہمیں (ایک جگہ) جمع کرے گا اور بازگشت بھی اسی کی طرف ہے۔

١٦۔ اور جو لوگ اللہ کے بارے میں جھگڑتے ہیں بعد اس کے کہ اسے مان لیا گیا ہے ، ان کے پروردگار کے نزدیک ان کی دلیل باطل ہے اور ان پر غضب ہے اور ان کے لیے سخت ترین عذاب ہے۔

١٧۔ اللہ وہی ہے جس نے برحق کتاب اور میزان نازل کیا اور آپ کو کیا معلوم کہ شاید قیامت نزدیک آ گئی ہو۔

١٨۔ جو لوگ اس (قیامت) پر ایمان نہیں رکھتے وہ اس کے بارے میں جلدی مچا رہے ہیں اور جو لوگ ایمان لائے ہیں وہ اس سے ڈرتے ہیں اور جانتے ہیں کہ قیامت یقیناً برحق ہے ، آگاہ رہو! جو قیامت کے بارے میں جھگڑتے ہیں ، وہ یقیناً گمراہی میں دور نکل گئے ہیں۔

١٩۔ اللہ اپنے بندوں پر مہربان ہے ، وہ جسے چاہتا ہے رزق دیتا ہے اور وہی بڑا طاقت والا، بڑا غالب آنے والا ہے۔

٢٠۔ جو شخص آخرت کی کھیتی کا خواہاں ہو ہم اس کی کھیتی میں اضافہ کرتے ہیں اور جو دنیا کی کھیتی کا خواہاں ہو ہم اسے دنیا میں سے (کچھ) دے دیتے ہیں اور آخرت میں اس کا کچھ حصہ نہ ہو گا۔

٢١۔ کیا ان کے پاس ایسے شریک ہیں جنہوں نے ان کے دین کا ایسا دستور فراہم کیا ہے جس کی اللہ نے اجازت نہیں دی؟ اور اگر فیصلہ کن وعدہ نہ ہوتا تو ان کے درمیان فیصلہ ہو چکا ہوتا اور ظالموں کے لیے یقیناً دردناک عذاب ہے۔

٢٢۔ آپ ظالموں کو اپنے اعمال کے سبب ڈرتے ہوئے دیکھیں گے اور وہ ان پر واقع ہونے والا ہے اور جو لوگ ایمان لے آئے ہیں اور نیک اعمال بجا لائے ہیں وہ جنت کے گلستانوں میں ہوں گے ، ان کے لیے ان کے پروردگار کے پاس جو وہ چاہیں گے موجود ہو گا، یہی بڑا فضل ہے۔

٢٣۔ یہ وہ بات ہے جس کی اللہ اپنے ان بندوں کو خوشخبری دیتا ہے جو ایمان لاتے ہیں اور اعمال صالح بجا لاتے ہیں ، کہہ دیجئے : میں اس (تبلیغ رسالت) پر تم سے کوئی اجرت نہیں مانگتا سوائے قریب ترین رشتہ داروں کی محبت کے اور جو کوئی نیکی کمائے ہم اس کے لیے اس نیکی میں اچھا اضافہ کرتے ہیں ، اللہ یقیناً بڑا بخشنے والا، قدردان ہے۔

٢٤۔ کیا یہ لوگ کہتے ہیں (رسول نے ) اللہ پر جھوٹ بہتان باندھا ہے ؟ پس اگر اللہ چاہے تو آپ کے دل پر مہر لگا دے اور اللہ باطل کو نابود کر دیتا ہے اور اپنے فرامین کے ذریعے حق کو پائیداری بخشتا ہے ، وہ سینوں کی (پوشیدہ) باتوں سے یقیناً خوب واقف ہے۔

٢٥۔ اور وہ وہی ہے جو اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے اور گناہوں کو معاف کرتا ہے اور جو کچھ تم کرتے ہو اس کا علم رکھتا ہے۔

٢٦۔ اور ایمان لانے والوں اور اعمال صالح بجا لانے والوں کی دعا قبول کرتا ہے اور اپنے فضل سے انہیں اور زیادہ دیتا ہے اور کفار کے لیے سخت ترین عذاب ہے۔

٢٧۔ اور اگر اللہ اپنے بندوں کے لیے رزق میں فراوانی کر دیتا تو وہ زمین میں سرکش ہو جاتے لیکن اللہ جو چاہتا ہے وہ ایک مقدار سے نازل کرتا ہے ، وہ اپنے بندوں سے خوب باخبر، نگاہ رکھنے والا ہے۔

٢٨۔ اور وہ وہی ہے جو ان کے نا امید ہو جانے کے بعد مینہ برساتا ہے اور اپنی رحمت پھیلا دیتا ہے اور وہی کارساز، قابل ستائش ہے۔

٢٩۔ اور آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنا اور وہ جاندار جو اس نے ان دونوں میں پھیلا رکھے ہیں اس کی نشانیوں میں سے ہیں اور وہ جب چاہے انہیں جمع کرنے پر خوب قادر ہے۔

٣٠۔ اور تم پر جو مصیبت آتی ہے وہ خود تمہارے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے آتی ہے اور وہ بہت سی باتوں سے درگزر کرتا ہے۔

٣١۔ اور تم زمین میں (اللہ کو) عاجز تو نہیں کر سکتے ، اللہ کے سوا تمہارا نہ کوئی کارساز ہے اور نہ مددگار۔

٣٢۔ اور سمندر میں پہاڑوں جیسے جہاز اس کی نشانیوں میں سے ہے۔

٣٣۔ اگر اللہ چاہے تو ہوا کو ساکن کر دے تو یہ سطح سمندر پر کھڑے رہ جائیں ، ہر صبر کرنے والے شکرگزار کے لیے اس میں نشانیاں ہیں۔

٣٤۔ یا انہیں ان کے اعمال کے سبب تباہ کر دے اور وہ بہت سے لوگوں سے درگزر کرتا ہے ،

٣٥۔ تاکہ ہماری آیات میں جھگڑنے والوں کو علم ہو جائے کہ ان کے لے ے جائے پناہ نہیں ہے۔

٣٦۔ پس جو کچھ تمہیں دیا گیا ہے وہ دنیاوی زندگی کا سامان ہے اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ بہترین اور زیادہ پائیدار ہے ان لوگوں کے لیے جو ایمان لاتے اور اپنے پروردگار پر بھروسا کرتے ہیں ،

٣٧۔ اور جو بڑے بڑے گناہوں اور بے حیائی کی باتوں سے پرہیز کرتے ہیں اور جب انہیں غصہ آئے تو معاف کر دیتے ہیں۔

٣٨۔ اور جو اپنے پروردگار کو لبیک کہتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور اپنے معاملات باہمی مشاورت سے انجام دیتے ہیں اور ہم نے جو رزق انہیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔

٣٩۔ اور جب ان پر زیادتی سے ظلم کیا جاتا ہے تو وہ اس کا بدلہ لیتے ہیں۔

٤٠۔ اور برائی کا بدلہ اسی طرح کی برائی سے لینا (جائز) ہے ، پھر کوئی درگزر کرے اور اصلاح کرے تو اس کا اجر اللہ پر ہے ، اللہ یقیناً ظالموں کو پسند نہیں کرتا۔

٤١۔ اور جو شخص مظلوم ہونے کے بعد بدلہ لے پس ایسے لوگوں پر ملامت کا کوئی راستہ نہیں ہے۔

٤٢۔ ملامت تو بس ان لوگوں پر ہے جو لوگوں پر ظلم کرتے ہیں اور ملک میں ناحق زیادتی کرتے ہیں ایسے لوگوں کے لیے دردناک عذاب ہے۔

٤٣۔ البتہ جس نے صبر کیا اور درگزر کیا تو یہ یقیناً ہمت کے کاموں میں سے ہے۔

٤٤۔ اور جسے اللہ گمراہ کر دے تو اس کے بعد اس کے لیے کوئی کارساز نہیں ہے اور آپ ظالموں کو دیکھیں گے کہ جب وہ عذاب کا مشاہدہ کریں گے تو کہیں گے :کیا واپس جانے کا کوئی راستہ ہے ؟

٤٥۔ اور آپ دیکھیں گے کہ جب وہ جہنم کے سامنے لائے جائیں گے تو ذلت کی وجہ سے جھکے ہوئے نظریں چرا کر دیکھ رہے ہوں ے اور (اس وقت) ایمان لانے والے کہیں گے : خسارہ اٹھانے والے یقیناً وہ ہیں جنہوں نے آج قیامت کے دن اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو خسارے میں ڈالا، آگاہ رہو! ظالم لوگ یقیناً دائمی عذاب میں رہیں گے۔

٤٦۔ اور اللہ کے سوا ان کے ایسے سرپرست نہ ہوں گے جو ان کی مدد کریں اور جسے اللہ گمراہ کر دے پس اس کے لیے کوئی راہ نہیں ہے۔

٤٧۔ اپنے پروردگار کو لبیک کہو اس سے پہلے کہ اللہ کی جانب سے وہ دن آ جائے جس کے ٹلنے کا کوئی امکان نہیں ، اس دن تمہارے لیے نہ کوئی پناہ گاہ ہو گی اور نہ ہی انکار کی کوئی گنجائش ہو گی۔

٤٨۔ پھر اگر یہ منہ پھیر لیں تو ہم نے آپ کو ان پر نگہبان بنا کر تو نہیں بھیجا، آپ کے ذمے تو صرف پہنچا دینا ہے اور جب ہم انسان کو اپنی رحمت کا ذائقہ چکھا تے ہیں تو اس سے خوش ہو جاتا ہے اور اگر ان کے اپنے بھیجے ہوئے اعمال کی وجہ سے انہیں کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو اس وقت یہ انسان یقیناً ناشکرا ہو جاتا ہے۔

٤٩۔ آسمانوں اور زمین کی بادشاہی صرف اللہ کے لیے ہے ، وہ جو چاہتا ہے خلق فرماتا ہے ، جسے چاہتا ہے بیٹیاں عطا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے نرینہ اولاد عطا کرتا ہے۔

٥٠۔ یا (جسے چاہے ) بیٹے اور بیٹیاں دونوں دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے بانجھ بنا دیتا ہے وہ یقیناً بڑا جاننے والا ، قدرت والا ہے۔

٥١۔ اور کسی بشر میں یہ صلاحیت نہیں کہ اللہ اس سے بات کرے ماسوائے وحی کے یا پردے کے پیچھے سے یا یہ کہ کوئی پیام رساں بھیجے پس وہ اس کے حکم سے جو چاہے وحی کرے ، بے شک وہ بلند مرتبہ ، حکمت والا ہے۔

٥٢۔ اور اسی طرح ہم نے اپنے امر میں سے ایک روح آپ کی طرف وحی کی ہے ، آپ نہیں جانتے تھے کہ کتاب کیا ہے اور نہ ہی ایمان کو (جانتے تھے ) لیکن ہم نے اسے روشنی بنا دیا جس سے ہم اپنے بندوں میں سے جسے چاہتے ہیں ہدایت دیتے ہیں اور آپ تو یقیناً سیدھے راستے کی طرف رہنمائی کر رہے ہیں ،

٥٣۔ اس اللہ کے راستے کی طرف جو آسمانوں اور زمین کی سب چیزوں کا مالک ہے ، آگاہ رہو! تمام معاملات اللہ ہی کی طرف رجوع کرتے ہیں۔

 

سورۃ زخرف۔ مکی۔ آیات ۸۹

 

بنام خدائے رحمن و رحیم

١۔حا، میم۔

٢۔ اس روشن کتاب کی قسم۔

٣۔ ہم نے اس (قرآن) کو عربی قرآن بنایا ہے تاکہ تم سمجھ لو۔

٤۔ اور بلاشبہ یہ مرکزی کتاب (لوح محفوظ) میں ہمارے پاس برتر، پر حکمت ہے۔

٥۔ کیا ہم اس ذکر (قرآن) کو محض اس لیے تم سے پھیر دیں کہ تم حد سے گزرے ہوئے لوگ ہو؟

٦۔ اور پہلے لوگوں میں ہم نے بہت سے نبی بھیجے ہیں۔

٧۔ اور کوئی نبی ان کے پاس نہیں آتا تھا مگر یہ کہ یہ لوگ اس کا مذاق اڑاتے تھے۔

٨۔ پس ہم نے ان سے زیادہ طاقتوروں کو ہلاک کر دیا اور پچھلی قوموں کی سنت نافذ ہو گئی۔

٩۔ اور اگر آپ ان سے پوچھیں : آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا ؟ تو یہ ضرور کہیں گے : بڑے غالب آنے والے ، علیم نے انہیں پیدا کیا ہے ،

١٠۔ جس نے تمہارے لیے زمین کو گہوارہ بنایا اور اس میں تمہارے لیے راستے بنائے تاکہ تم راہ پا سکو۔

١١۔ اور جس نے آسمان سے پانی ایک مقدار میں نازل کیا جس سے ہم نے مردہ شہر کو زندہ کر دیا، تم بھی اسی طرح (قبروں سے ) نکالے جاؤ گے۔

١٢۔ اور جس نے تمام اقسام کے جوڑے پیدا کیے اور تمہارے لیے کشتیاں اور جانور آمادہ کیے جن پر تم سوار ہوتے ہو،

١٣۔ تاکہ تم ان کی پشت پر بیٹھو پھر جب تم اس پر درست بیٹھ جاؤ تو اپنے پروردگار کی نعمت یاد کرو اور کہو: پاک ہے وہ جس نے اسے ہمارے لیے مسخر کیا ورنہ ہم اسے قابو میں نہیں لا سکتے تھے۔

١٤۔ اور ہم اپنے پروردگار کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔

١٥۔ اور ان لوگوں نے اللہ کے بندوں میں سے (کچھ کو) اللہ کا جز (اولاد) بنا دیا، یہ انسان یقیناً کھلا ناشکرا ہے۔

١٦۔ کیا اللہ نے اپنی مخلوقات میں سے (اپنے لیے ) بیٹیاں بنا لیں اور تمہیں بیٹوں کے لیے منتخب کیا؟

١٧۔ حالانکہ جب ان میں سے کسی ایک کو بھی اس (بیٹی) کا مژدہ سنایا جاتا ہے جو اس نے خدائے رحمن کی طرف منسوب کی تھی تو اندر ہی اندر غصے سے پیچ و تاب کھا کر اس کا چہرہ سیاہ ہو جاتا ہے۔

١٨۔ کیا وہ جو زیور (ناز و نعم) میں پلتی ہے اور جھگڑے میں (اپنا) مدعا واضح نہیں کر سکتی (اللہ کے حصے میں ہے )؟

١٩۔ اور انہوں نے فرشتوں کو جو اللہ کے بندے ہیں عورتیں قرار دے دیا، کیا انہوں نے ان کو خلق ہوتے ہوئے دیکھا تھا؟ عنقریب ان کی گواہی لکھی جائے گی اور ان سے پوچھا جائے گا۔

٢٠۔ اور وہ کہتے ہیں : اگر خدائے رحمن چاہتا تو ہم ان (فرشتوں ) کی پوجا نہ کرتے ، انہیں اس کا کوئی علم نہیں یہ تو صرف اندازے لگاتے ہیں۔

٢١۔ کیا ہم نے انہیں اس (قرآن) سے پہلے کوئی دستاویز دی ہے جس سے اب یہ تمسک کرتے ہیں ؟

٢٢۔ (نہیں ) بلکہ یہ کہتے ہیں : ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک رسم پر پایا اور ہم انہی کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔

٢٣۔ اور اسی طرح ہم نے آپ سے پہلے کسی بستی کی طرف کوئی تنبیہ کرنے والا نہیں بھیجا ر یہ کہ وہاں کے عیش پرستوں نے کہا: ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک رسم پر پایا اور ہم انہی کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔

٢٤۔ (ان کے نبی نے ) کہا: خواہ میں اس سے بہتر ہدایت لے کر آؤں جس پر تم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے ؟ وہ کہنے لگے : جو کچھ دے کر تم بھیجے گئے ہو ہم اسے نہیں مانتے۔

٢٥۔ چنانچہ ہم نے ان سے انتقام لیا اور دیکھ لو تکذیب کرنے والوں کا کیا انجام ہوا۔

٢٦۔ اور جب ابراہیم نے اپنے باپ (چچا) اور اپنی قوم سے کہا: جنہیں تم پوجتے ہو ان سے میں یقیناً بیزار ہوں۔

٢٧۔ سوائے اپنے رب کے جس نے مجھے پیدا کیا، یقیناً وہی مجھے سیدھا راستہ دکھائے گا۔

٢٨۔ اور اللہ نے اس (توحید پرستی) کو ابراہیم کی نسل میں کلمہ باقیہ قرار د یا تاکہ وہ (اللہ کی طرف) رجوع کریں۔

٢٩۔ (ان کافروں کو فوری ہلاک نہیں کیا) بلکہ میں نے انہیں اور ان کے باپ دادا کو متاع حیات دی یہاں تک کہ ان کے پاس حق اور واشگاف بیان کرنے والا رسول آ گیا۔

٣٠۔ اور جب حق ان کے پاس آیا تو کہنے لگے : یہ تو جادو ہے ، ہم اسے نہیں مانتے۔

٣١۔ اور کہتے ہیں : یہ قرآن دونوں بستیوں میں سے کسی بڑے آدمی پر کیوں نازل نہیں کیا گیا؟

٣٢۔ کیا آپ کے پروردگار کی رحمت یہ لوگ تقسیم کرتے ہیں ؟ جب کہ دنیاوی زندگی کی معیشت کو ان کے درمیان ہم نے تقسیم کیا ہے اور ہم ہی نے ان میں سے ایک کو دوسرے پر درجات میں فوقیت دی ہے تاکہ ایک دوسرے سے کام لے اور آپ کے پروردگار کی رحمت اس چیز سے بہتر ہے جسے یہ لوگ جمع کرتے ہیں۔

٣٣۔ اور اگر یہ بات نہ ہوتی کہ (کافر) لوگ سب ایک ہی جماعت (میں مجتمع) ہو جائیں گے تو ہم خدائے رحمن کے منکروں کے گھروں کی چھتوں اور سیڑھیوں کو جن پر وہ چڑھتے ہیں چاندی سے ،

٣٤۔ اور ان کے گھروں کے دروازوں اور ان تختوں کو جن پر وہ تکیہ لگاتے ہیں ،

٣٥۔ (چاندی) اور سونے سے بنا دیتے اور یہ سب دنیاوی متاع حیات ہے اور آخرت آپ کے پروردگار کے ہاں اہل تقویٰ کے لیے ہے۔

٣٦۔ اور جو بھی رحمن کے ذکر سے پہلوتہی کرتا ہے ہم اس پر ایک شیطان مقرر کر دیتے ہیں تو وہی اس کا ساتھی ہو جاتا ہے۔

٣٧۔ اور وہ (شیاطین) انہیں راہ (حق) سے روکتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ وہ راہ راست پر ہیں۔

٣٨۔ جب یہ شخص ہمارے پاس آئے گا تو کہے گا:اے کاش! میرے درمیان اور تیرے درمیان دو مشرقوں کا فاصلہ ہوتا، تو بہت برا ساتھی ہے۔

٣٩۔ اور جب تم ظلم کر چکے تو آج (ندامت) تمہیں فائدہ نہیں دے گی، عذاب میں یقیناً تم سب شریک ہو۔

٤٠۔ کیا آپ بہروں کو سنا سکتے ہیں یا اندھے کو یا اسے جو واضح گمراہی میں ہے راستہ دکھا سکتے ہیں ؟

٤١۔ پس اگر ہم آپ کو اٹھا بھی لیں تو یقیناً ہم ان سے انتقام لینے والے ہیں۔

٤٢۔ یا (آپ کی زندگی میں ) آپ کو وہ (عذاب) دکھا دیں جس کا ہم نے ان سے وعدہ کیا ہے ، یقیناً ہم ان پر قدرت رکھنے والے ہیں

٤٣۔ پس آپ کی طرف جو وحی کی گئی ہے اس سے تمسک کریں ، آپ یقیناً سیدھے راستے پر ہیں۔

٤٤۔ اور یہ (قرآن) آپ کے اور آپ کی قوم کے لیے ایک نصیحت ہے اور عنقریب تم سب سے سے سوال کیا جائے گا۔

٤٥۔ اور جو پیغمبر ہم نے آپ سے پہلے بھیجے ہیں ان سے پوچھ لیجیے : کیا ہم نے خدائے رحمن کے علاوہ معبود بنائے تھے کہ ان کی بندگی کی جائے ؟

٤٦۔ اور ہم نے موسیٰ کو اپنی نشانیاں دے کر فرعون اور اس کے درباریوں کی طرف بھیجا، پس موسیٰ نے کہا: میں رب العالمین کا رسول ہوں۔

٤٧۔ پس جب وہ ہماری نشانیاں لے کر ان کے پاس آئے تو وہ ان نشانیوں پر ہنسنے لگے۔

٤٨۔ اور جو نشانی ہم انہیں دکھاتے تھے وہ پہلی سے بڑی ہوتی اور ہم نے انہیں عذاب میں پکڑ لیا کہ شاید وہ باز آ جائیں۔

٤٩۔اور(عذاب دیکھ کر)کہنے لگے :اے جادوگر! تیرے پروردگار نے تیرے نزدیک تجھ سے جو عہد کر رکھا ہے اس کے مطابق ہمارے ے دعا کر، ہم یقیناً ہدایت یافتہ ہو جائیں گے۔

٥٠۔ پھر جب ہم نے عذاب کو ان سے دور کر دیا تو وہ عہد شکنی کرنے لگے۔

٥١۔اور فرعون نے اپنی قوم سے پکار کر کہا: اے میری قوم! کیا مصر کی سلطنت میرے لیے نہیں ہے ، اور یہ نہریں جو میرے (محلات کے ) نیچے بہ رہی ہیں ؟ کیا تم دیکھتے نہیں ہو؟

٥٢۔ کیا میں اس شخص سے بہتر نہیں ہوں جو بے توقیر ہے اور صاف بات بھی نہیں کر سکتا؟

٥٣۔ تو اس پر سونے کے کنگن کیوں نہیں اتارے گئے یا فرشتے اس کے ساتھ یکے بعد دیگرے کیوں نہیں آئے ؟

٥٤۔ چونکہ اس نے اپنی قوم کو بے وقعت کر دیا اور انہوں نے اس کی اطاعت کی، وہ یقیناً فاسق لوگ تھے۔

٥٥۔ پس جب انہوں نے ہمیں غصہ دلایا تو ہم نے ان سے انتقام لیا پھر ان سب کو غرق کر دیا۔

٥٦۔ پھر ہم نے انہیں قصہ پارینہ اور بعد (میں آنے ) والوں کے لیے نشان عبرت بنا دیا،

٥٧۔ اور جب ابن مریم کی مثال دی گئی تو آپ کی قوم نے اس پر شور مچایا۔

٥٨۔ اور کہنے لگے : کیا ہمارے معبود اچھے ہیں یا وہ(عیسیٰ)؟ انہوں نے عیسیٰ کی مثال صرف برائے بحث بیان کی ہے بلکہ یہ لوگ تو جھگڑالو ہیں۔

٥٩۔ وہ تو بس ہمارے بندے ہیں جن پر ہم نے انعام کیا اور ہم نے انہیں بنی اسرائیل کے لیے نمونہ( قدرت) بنا دیا۔

٦٠۔اور اگر ہم چاہتے تو زمین میں تمہاری جگہ فرشتوں کو جانشین بنا دیتے۔

٦١۔ اور وہ (عیسیٰ) یقیناً قیامت کی علامت ہے پس تم ان میں ہرگز شک نہ کرو اور میری اتباع کرو، یہی سیدھا راستہ ہے۔

٦٢۔ اور شیطان کہیں تمہارا راستہ نہ روکے وہ یقیناً تمہارا کھلا دشمن ہے۔

٦٣۔ اور عیسیٰ جب واضح دلائل لے کر آئے تو بولے : میں تمہارے پاس حکمت لے کر آیا ہوں اور جن بعض باتوں میں تم اختلاف رکھتے ہو انہیں تمہارے لیے بیان کرنے آیا ہوں ، پس اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔

٦٤۔ یقیناً اللہ ہی میرا رب ہے اور تمہارا رب ہے پس اسی کی عبادت کرو، یہی سیدھا راستہ ہے۔

٦٥۔ پھر گروہوں نے آپس میں اختلاف کیا، پس ظالموں کے لیے دردناک دن کے عذاب سے تباہی ہے۔

٦٦۔ کیا یہ لوگ صرف قیامت کے منتظر ہیں کہ وہ ان پر اچانک آ پڑے اور انہیں خبر بھی نہ ہو؟

٦٧۔ اس دن دوست بھی ایک دوسرے کے دشمن ہو جائیں گے سوائے پرہیزگاروں کے۔

٦٨۔ (پرہیزگاروں سے کہا جائے گا) اے میرے بندو! آج تمہارے لیے کوئی خوف نہیں ہے اور نہ ہی تم غمگین ہو گے۔

٦٩۔ (یہ وہی ہوں گے ) جو ہماری آیات پر ایمان لائے اور وہ مسلمان تھے۔

٧٠۔ (انہیں حکم ملے گا) تم اور تمہاری ازواج خوشی کے ساتھ جنت میں داخل ہو جاؤ۔

٧١۔ ان کے سامنے سونے کے تھال اور جام پھرائے جائیں گے اور اس میں ہر وہ چیز موجود ہو گی جس کی نفس خواہش کرے اور جس سے نگاہیں لذت حاصل کریں اور تم اس میں ہمیشہ رہو گے۔

٧٢۔ اور یہ وہ جنت ہے جس کا تمہیں وارث بنا دیا گیا ہے ان اعمال کے صلے میں جو تم کرتے رہے ہو۔

٧٣۔ اس میں تمہارے لیے بہت سے میوے ہیں جنہیں تم کھاؤ گے۔

٧٤۔ جو لوگ مجرم ہیں یقیناً وہ ہمیشہ جہنم کے عذاب میں رہیں گے۔

٧٥۔ ان سے (عذاب میں ) تخفیف نہ ہو گی اور وہ اس میں مایوس پڑے رہیں گے۔

٧٦۔ اور ہم نے ان پر ظلم نہیں کیا بلکہ وہ خود ہی ظالم تھے۔

٧٧۔ اور وہ پکاریں گے : اے مالک (پہرے دار) تیرا پروردگار ہمیں ختم ہی کر دے تو وہ کہے گا: بے شک تمہیں یہیں پڑے رہنا ہے۔

٧٨۔ بتحقیق ہم تمہارے پاس حق لے کر آئے تھے لیکن تم میں سے اکثر حق سے کراہت کرنے والے ہیں۔

٧٩۔ کیا انہوں نے کسی بات کا پختہ عزم کر رکھا ہے ؟ (اگر ایسا ہے ) تو ہم بھی مضبوط ارادہ کرنے والے ہیں۔

٨٠۔ کیا یہ لوگ خیال کرتے ہیں کہ ہم ان کی راز کی باتیں اور سرگوشیاں نہیں سنتے ؟ ہاں ! اور ہمارے فرستادہ (فرشتے ) ان کے پاس ہی لکھ رہے ہیں۔

٨١۔ کہہ دیجئے : اگر رحمن کی کوئی اولاد ہوتی تو میں سب سے پہلے (اس کی) عبادت کرنے والا ہوتا۔

٨٢۔ آسمانوں اور زمین کا رب، عرش کا رب، پاکیزہ ہے ان باتوں سے جو یہ لوگ بیان کر رہے ہیں۔

٨٣۔ پس انہیں بیہودہ باتوں میں مگن اور کھیل میں مشغول رہنے دیجئے یہاں تک کہ وہ اپنے اس دن کو پائیں جس کا ان سے وعدہ کیا گیا ہے۔

٨٤۔ اور وہ وہی ہے جو آسمان میں بھی معبود ہے اور زمین میں بھی معبود ہے اور وہ بڑا حکمت والا، خوب جاننے والا ہے۔

٨٥۔ اور بابرکت ہے وہ جس کے لیے آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے سب کی بادشاہی ہے اور اسی کے پاس قیامت کا علم ہے اور تم سب اسی کی طرف پلٹائے جاؤ گے۔

٨٦۔ اور اللہ کے سوا جنہیں یہ لوگ پکارتے ہیں وہ شفاعت کا کچھ اختیار نہیں رکھتے سوائے ان کے جو علم رکھتے ہوئے حق کی گواہی دیں۔

٨٧۔ اور اگر آپ ان سے پوچھیں : انہیں کس نے خلق کیا ہے ؟تو یہ ضرور کہیں گے : اللہ نے ، پھر کہاں الٹے جا رہے ہیں۔

٨٨۔ اور (اللہ جانتا ہے ) رسول کے اس قول کو: اے پروردگار!یہ ایسے لوگ ہیں جو ایمان نہیں لاتے۔

٨٩۔ پس ان سے درگزر کیجیے اور سلام کہہ دیجیے کہ عنقریب یہ جان لیں گے۔

 

 

 

سورۃ دخان۔ مکی۔ آیات ۵۹

 

بنام خدائے رحمن و رحیم

١۔حا، میم۔

٢۔ اس روشن کتاب کی قسم۔

٣۔ہم نے اسے ایک بابرکت رات میں نازل کیا ہے ، یقیناً ہم ہی تنبیہ کرنے والے ہیں۔

٤۔ اس رات میں ہر حکیمانہ امر کی تفصیل وضع کی جاتی ہے۔

٥۔ ایسا امر جو ہمارے ہاں سے صادر ہوتا ہے (کیونکہ) ہمیں رسول بھیجنا مقصود تھا۔

٦۔ (رسول کا بھیجنا) آپ کے پروردگار کی طرف سے رحمت کے طور پر، وہ یقیناً خوب سننے والا، جاننے والا ہے۔

٧۔ وہ آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کا پروردگار ہے اگر تم یقین رکھنے والے ہو۔

٨۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں ، وہی زندگی اور موت دیتا ہے ، وہی تمہارا رب ہے اور تمہارے پہلے باپ دادا کا رب ہے۔

٩۔ لیکن یہ لوگ شک میں پڑے کھیل رہے ہیں۔

١٠۔ پس آپ اس دن کا انتظار کریں جب آسمان نمایاں دھواں لے کر آئے گا،

١١۔ جو لوگوں پر چھا جائے گا، یہ عذاب دردناک ہو گا۔

١٢۔ (وہ فریاد کریں گے ) ہمارے پروردگار! ہم سے یہ عذاب ٹال دے ، ہم ایمان لاتے ہیں۔

١٣۔ ان کے لیے نصیحت کہاں سودمند ہے جب کہ ان کے پاس واضح بیان کرنے والا رسول آیا تھا؟

١٤۔ پھر انہوں نے اس سے منہ پھیر لیا اور کہا: یہ تو تربیت یافتہ دیوانہ ہے۔

١٥۔ ہم تھوڑا سا عذاب ہٹا دیتے ہیں ، تم یقیناً وہی کچھ کرو گے جو پہلے کیا کرتے تھے۔

١٦۔ جس دن ہم بڑی کاری ضرب لگائیں گے ہم (اس دن) انتقام لینے والے ہیں۔

١٧۔ اور بتحقیق ان سے پہلے ہم نے فرعون کی قوم کو آزمائش میں ڈالا اور ان کے پاس ایک معزز رسول آیا۔

١٨۔ (اس رسول نے کہا) کہ اللہ کے بندوں کو میرے حوالے کر دو، میں تمہارے لیے امانتدار رسول ہوں۔

١٩۔ اور اللہ کے مقابلے میں برتری دکھانے کی کوشش نہ کرو، میں تمہارے پاس واضح دلیل لے کر آیا ہوں۔

٢٠۔ اور میں اپنے رب اور تمہارے رب کی پناہ میں آ گیا ہوں (اس بات سے ) کہ تم مجھے سنگسار کرو۔

٢١۔ اور اگر تم مجھ پر ایمان نہیں لاتے تو مجھ سے دور رہو۔

٢٢۔ پس موسیٰ نے اپنے رب کو پکارا کہ یہ مجرم لوگ ہیں۔

٢٣۔ (اللہ نے فرمایا) پس میرے بندوں کو لے کر رات کو چل پڑیں ، یقیناً تم لوگوں کا پیچھا کیا جائے گا۔

٢٤۔ اور سمندر کو شگافتہ چھوڑ دیجئے ان کے لشکری یقیناً غرق ہونے والے ہیں۔

٢٥۔ وہ لوگ کتنے ہی باغات اور چشمے چھوڑ گئے ،

٢٦۔ اور کھیتیاں اور عمدہ محلات،

٢٧۔ اور نعمتیں جن میں وہ مزے لیتے تھے ،

٢٨۔ (یہ قصہ) اسی طرح واقع ہوا اور ہم نے دوسروں کو ان چیزوں کا وارث بنا دیا۔

٢٩۔ پھر نہ آسمان و زمین نے ان پر گریہ کیا اور نہ ہی وہ مہلت ملنے والوں میں سے تھے۔

٣٠۔ اور بتحقیق ہم نے بنی اسرائیل کو ذلت آمیز عذاب سے نجات دی،

٣١۔ (یعنی) فرعون سے ، جو حد سے تجاوز کرنے والوں میں بہت اونچا چلا گیا تھا۔

٣٢۔ اور بتحقیق ہم نے انہیں (بنی اسرائیل کو) اپنے علم کی بنیاد پر اہل عالم پر فوقیت بخشی۔

٣٣۔ اور ہم نے انہیں ایسی نشانیاں دیں جن میں صریح امتحان تھا۔

٣٤۔ یہ لوگ ضرور کہیں گے :

٣٥۔ کہ یہ صرف ہماری پہلی موت ہے پھر ہم اٹھائے نہیں جائیں گے۔

٣٦۔ پس اگر تم سچے ہو تو ہمارے باپ دادا کو (دوبارہ زندہ کر کے ) پیش کرو۔

٣٧۔ کیا یہ لوگ بہتر ہیں یا تبع کی قوم اور ان سے پہلے کے لوگ؟ انہیں ہم نے ہلاک کیا کیونکہ وہ سب مجرم تھے۔

٣٨۔ اور ہم نے آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے کو کھیل نہیں بنایا۔

٣٩۔ ہم نے ان دونوں کو بس برحق پیدا کیا ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔

٤٠۔ یقیناً فیصلے کا دن ان سب کے لیے طے شدہ ہے۔

٤١۔ اس دن کوئی قریبی کسی قریبی کے کچھ کام نہ آئے گا اور نہ ہی ان کی مدد کی جائے گی،

٤٢۔ مگر جس پر اللہ رحم کرے ، یقیناً وہ بڑا غالب آنے والا، رحم کرنے والا ہے۔

٤٣۔ بے شک زقوم کا درخت،

٤٤۔ گنہگار کا کھانا ہے ،

٤٥۔ پگھلے ہوئے تانبے کی طرح ہے جو شکموں میں کھولتا ہے ،

٤٦۔ جس طرح گرم پانی کھولتا ہے۔

٤٧۔ اسے پکڑ لو اور جہنم کے بیچ تک گھسیٹتے ہوئے لے جاؤ،

٤٨۔ پھر اس کے سر پر کھولتے ہوئے پانی کا عذاب انڈیل دو۔

٤٩۔ چکھ (عذاب) بے شک تو (جہنم کی ضیافت میں ) بڑی عزت والا، اکرام والا ہے۔

٥٠۔ یقیناً یہ وہی چیز ہے جس میں تم شک کیا کرتے تھے۔

٥١۔ اہل تقویٰ یقیناً امن کی جگہ میں ہوں گے۔

٥٢۔ باغوں اور چشموں میں۔

٥٣۔ حریر اور دیبا پہنے ہوئے آمنے سامنے بیٹھے ہوں گے۔

٥٤۔ اسی طرح (ہو گا) اور ہم انہیں بڑی آنکھوں والی حوروں سے بیاہ دیں گے۔

٥٥۔ وہاں وہ اطمینان سے ہر طرح کے میوے کی فرمائش کریں گے۔

٥٦۔ وہاں وہ پہلی موت کے سوا کسی اور موت کا ذائقہ نہیں چکھیں گے اور اللہ انہیں جہنم کے عذاب سے بچا لے گا۔

٥٧۔ یہ آپ کے پروردگار کے فضل سے ہو گا، یہی تو بڑی کامیابی ہے۔

٥٨۔ پس ہم نے اس (قرآن) کو آپ کی زبان میں آسان کر دیا تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔

٥٩۔ پس اب آپ بھی منتظر رہیں ، یقیناً یہ بھی منتظر ہیں۔

 

 

سورۃ جاثیہ۔ مکی۔ آیات ۳۷

 

بنام خدائے رحمن و رحیم

١۔ حا، میم۔

٢۔ اس کتاب کا نزول بڑے غالب آنے والے ، حکمت والے اللہ کی طرف سے ہے۔

٣۔ آسمانوں اور زمین میں ایمان والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔

٤۔ اور تمہاری خلقت میں اور ان جانوروں میں جنہیں اللہ نے پھیلا رکھا ہے یقین رکھنے والی قوم کے لیے نشانیاں ہیں۔

٥۔ اور رات اور دن کی آمد و رفت میں نیز اس رزق میں جسے اللہ آسمان سے نازل فرماتا ہے پھر زمین کو اس سے زندہ کر دیتا ہے اس کے مردہ ہونے کے بعد اور ہواؤں کے بدلنے میں عقل رکھنے والی قوم کے لیے نشانیاں ہیں۔

٦۔ یہ اللہ کی آیات ہیں جنہیں ہم آپ کو برحق سنا رہے ہیں ، پھر یہ اللہ اور اس کی آیات کے بعد کس بات پر ایمان لائیں گے؟

٧۔ تباہی ہے ہر جھوٹے گنہگار کے لیے ،

٨۔ وہ اللہ کی آیات کو جو اس کے سامنے پڑھی جاتی ہیں سن تو لیتا ہے پھر تکبر کے ساتھ ضد کرتا ہے گویا اس نے انہیں سنا ہی نہیں ، سو اسے دردناک عذاب کی خوشخبری سنا دیجیے۔

٩۔ اور جب اسے ہماری آیات میں سے کچھ کا پتہ چلتا ہے تو ان کی ہنسی اڑاتا ہے ، ایسے لوگوں کے لیے ذلیل کرنے والا عذاب ہے۔

١٠۔ ان کے پیچھے جہنم ہے اور جو کچھ ان کا کیا دھرا ہے وہ انہیں کچھ بھی فائدہ نہ دے گا اور نہ وہ جنہیں اللہ کے سوا انہوں نے کارساز بنایا تھا اور ان کے لیے تو بڑا عذاب ہے۔

١١۔ یہ (قرآن) ہدایت ہے اور جو لوگ اپنے پروردگار کی آیات کا انکار کرتے ہیں ان کے لیے دردناک عذاب کی سخت سزا ہو گی۔

١٢۔ اللہ وہی ہے جس نے تمہارے لیے سمندر و مسخر کیا تاکہ اس کے حکم سے اس میں کشتیاں چلیں اور تاکہ تم اس کا فضل تلاش کرو اور شاید تم شکر کرو۔

١٣۔ اور جو کچھ آسمانوں اور جو کچھ زمین میں ہے سب کو اس نے اپنی طرف سے تمہارے لیے مسخر کیا، غور کرنے والوں کے لیے یقیناً اس میں نشانیاں ہیں۔

١٤۔ ایمان والوں سے کہہ دیجئے : جو لوگ ایام اللہ پر عقیدہ نہیں رکھتے ان سے درگزر کریں تاکہ اللہ خود اس قوم کو اس کے کیے کا بدلہ دے۔

١٥۔ جو نیکی کرتا ہے وہ اپنے لیے کرتا ہے اور جو برائی کا ارتکاب کرتا ہے اس کا وبال اسی پر ہے ، پھر تم اپنے پروردگار کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔

١٦۔ اور ہم نے بنی اسرائیل کو کتاب، حکمت اور نبوت دی اور ہم نے انہیں پاکیزہ چیزیں عطا کیں اور ہم نے انہیں اہل عالم پر فضیلت دی۔

١٧۔ اور ہم نے انہیں امر (دین) کے بارے میں واضح دلائل دیے تو انہوں نے اپنے پاس علم آ جانے کے بعد آپس کی ضد میں آ کر اختلاف کیا، آپ کا پروردگار قیامت کے دن ان کے درمیان ان باتوں کا فیصلہ فرمائے گا جن میں یہ لوگ اختلاف کرتے تھے۔

١٨۔ پھر ہم نے آپ کو امر (دین) کے ایک آئین پر قائم کیا، لہٰذا آپ اسی پر چلتے رہیں اور نادانوں کی خواہشات کے پیچھے نہ چلیں۔

١٩۔ بلاشبہ یہ لوگ اللہ کے مقابلے میں آپ کے کچھ بھی کام نہیں آئیں گے اور ظالم تو یقیناً ایک دوسرے کے حامی ہوتے ہیں اور اللہ پرہیزگاروں کا حامی ہے۔

٢٠۔ یہ (قرآن) لوگوں کے لیے بصیرت افروز اور یقین رکھنے والوں کے لیے ہدایت اور رحمت ہے۔

٢١۔ برائی کا ارتکاب کرنے والے کیا یہ گمان کرتے ہیں کہ ہم انہیں اور ایمان لانے والوں اور نیک اعمال بجا لانے والوں کو ایک جیسا بنائیں گے کہ ان کا جینا اور مرنا یکساں ہو جائے ؟ برا فیصلہ ہے جو یہ لوگ کر رہے ہیں۔

٢٢۔ اور اللہ نے آسمانوں اور زمین کو برحق خلق کیا ہے تاکہ ہر شخص کو اس کے کیے کا بدلہ دیا جائے اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔

٢٣۔ کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا ہے جس نے اپنی خواہش نفس کو اپنا معبود بنا رکھا ہے اور اللہ نے (اپنے ) علم کی بنیاد پر اسے گمراہ کر دیا ہے اور اس کے کان اور دل پر مہر لگا دی ہے اور اس کی آنکھ پر پردہ ڈال دیا ہے ؟ پس اللہ کے بعد اب اسے کون ہدایت دے گا؟ کیا تم نصیحت حاصل نہیں کرتے ؟

٢٤۔ اور وہ کہتے ہیں : دنیاوی زندگی تو بس یہی ہے (جس میں ) ہم مرتے ہیں اور جیتے ہیں اور ہمیں صرف زمانہ ہی مارتا ہے اور انہیں اس کا کچھ علم نہیں ہے ، وہ صرف ظن سے کام لیتے ہیں۔

٢٥۔ اور جب ان کے سامنے ہماری آیات پوری وضاحت کے ساتھ پڑھی جاتی ہیں تو ان کی حجت صرف یہی ہوتی ہے کہ وہ کہتے ہیں : اگر تم سچے ہو تو ہمارے باپ دادا کو (زندہ کر کے ) لے آؤ۔

٢٦۔ کہہ دیجئے : اللہ ہی تمہیں زندہ کرتا ہے پھر تمہیں مار ڈالتا ہے پھر تمہیں قیامت کے دن جس میں کوئی شبہ نہیں جمع کیا جائے گا لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔

٢٧۔ اور آسمانوں اور زمین کی بادشاہت اللہ کے لیے ہے اور جس دن قیامت برپا ہو گی اس روز اہل باطل خسارے میں پڑ جائیں گے۔

٢٨۔ اور آپ ہر امت کو گھٹنوں کے بل گرا ہوا دیکھیں گے اور ہر ایک امت اپنے نامہ اعمال کی طرف بلائی جائے گی، آج تمہیں ان اعمال کا بدلہ دیا جائے گا جو تم کرتے رہے ہو۔

٢٩۔ ہماری یہ کتاب تمہارے بارے میں سچ سچ بیان کر دے گی جو تم کرتے تھے ، ہم اسے لکھواتے رہتے تھے۔

٣٠۔ پھر جو لوگ ایمان لائے اور اعمال صالح بجا لائے انہیں ان کا رب اپنی رحمت میں داخل کرے گا، یہی تو نمایاں کامیابی ہے۔

٣١۔ اور جنہوں نے کفر کیا (ان سے کہا جائے گا) کیا میری آیات تمہیں سنائی نہیں جاتی تھیں ؟ پھر تم نے تکبر کیا اور تم مجرم قوم تھے۔

٣٢۔ اور جب (تم سے ) کہا جاتا تھا کہ یقیناً اللہ کا وعدہ سچا ہے اور قیامت میں کوئی شک نہیں ہے تو تم کہتے تھے : ہم نہیں جانتے قیامت کیا ہے ، ہمیں گمان سا ہوتا ہے اور ہم یقین کرنے والے نہیں ہیں۔

٣٣۔ اور ان پر اپنے اعمال کی برائیاں ظاہر ہو گئیں اور جس چیز کی وہ ہنسی اڑاتے تھے اس نے انہیں گھیر لیا۔

٣٤۔ اور کہا جائے گا: آج ہم تمہیں اسی طرح بھلا دیتے ہیں جس طرح تم نے اپنے اس دن کے آنے کو بھلا دیا تھا اور تمہارا ٹھکانا جہنم ہے اور کوئی تمہارا مددگار نہیں ہے۔

٣٥۔ یہ (سزا) اس لیے ہے کہ تم نے اللہ کی آیات کا مذاق بنایا تھا اور دنیاوی زندگی نے تمہیں دھوکے میں ڈال رکھا تھا، پس آج کے دن نہ تو یہ اس (جہنم) سے نکالے جائیں گے اور نہ ان کی معذرت قبول کی جائے گی۔

٣٦۔ پس ثنائے کامل اس اللہ کے لیے ہے جو آسمانوں کا رب اور زمین کا رب ہے ، عالمین کا رب ہے۔

٣٧۔ اور آسمانوں اور زمین میں بڑائی صرف اسی کے لیے ہے اور وہی بڑا غالب آنے والا، حکمت والا ہے۔

 

 

پارہ : حٰم ٢٦

    سورۃ احقاف۔ مکی۔ آیات ۳۵

 

 

بنام خدائے رحمن و رحیم

١۔ حا، میم۔

٢۔ اس کتاب کا نزول بڑے غالب آنے والے ، حکمت والے اللہ کی طرف سے ہے۔

٣۔ ہم نے آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے کو برحق اور ایک معینہ مدت کے لیے پیدا کیا ہے اور جو لوگ کافر ہو گئے ہیں وہ اس چیز سے منہ موڑے ہوئے ہیں جس کی انہیں تنبیہ کی گئی تھی۔

٤۔ کہہ دیجئے : یہ تو بتاؤ جنہیں اللہ کے سوا تم پکارتے ہو، مجھے بھی دکھاؤ انہوں نے زمین کی کون سی چیز پیدا کی ہے یا آسمانوں میں ان کی شرکت ہے ؟ اگر تم سچے ہو تو اس سے پہلے کی کوئی کتاب یا کوئی باقی ماندہ علمی (ثبوت) میرے سامنے پیش کرو۔

٥۔ اور اس شخص سے بڑھ کر گمراہ کون ہو گا جو اللہ کے سوا ایسے کو پکارے جو قیامت تک اسے جواب نہ دے سکے بلکہ جو ان کے پکارنے تک سے بے خبر ہوں ؟

٦۔ اور جب لوگ جمع کیے جائیں گے تو وہ ان کے دشمن ہوں گے اور ان کی پرستش سے انکار کریں گے۔

٧۔ اور جب ان کے سامنے ہماری واضح آیات کی تلاوت کی جاتی ہے تو جب حق ان کے پاس آ جاتا ہے تو کفار کہتے ہیں : یہ تو صریح جادو ہے۔

٨۔ کیا یہ کہتے ہیں : اس نے اسے خود گھڑ لیا ہے ؟ کہہ دیجئے : اگر میں نے اسے خود گھڑ لیا ہے تو تم میرے لیے اللہ کی طرف سے (بچاؤ کا)کوئی اختیار نہیں رکھتے ، تم اس (قرآن) کے بارے میں جو گفت و شنید کرتے ہو اس سے اللہ خوب باخبر ہے اور میرے درمیان اور تمہارے درمیان اس پر گواہی کے لیے وہی کافی ہے اور وہی بڑا بخشنے والا، رحم کرنے والا ہے۔

٩۔ کہہ دیجئے : میں رسولوں میں انوکھا (رسول) نہیں ہوں اور میں نہیں جانتا کہ میرے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا اور تمہارے ساتھ کیا ہو گا، میں تو صرف اسی کی پیروی کرتا ہوں جو میری طرف وحی کی جاتی ہے اور میں تو صرف واضح طور پر تنبیہ کرنے والا ہوں۔

١٠۔ کہہ دیجئے : یہ تو بتاؤ اگر یہ (قرآن) اللہ کی طرف سے ہو اور تم نے اس سے انکار کیا ہو جب کہ بنی اسرائیل کا ایک گواہ اس جیسی کتاب پر گواہی دے چکا ہے اور پھر وہ ایمان بھی لا چکا ہو اور تم نے تکبر کیا ہو (تو تمہارا کیا بنے گا؟) بے شک اللہ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا۔

١١۔ جو لوگ کافر ہو گئے وہ ایمان لانے والوں سے کہتے ہیں : اگر یہ (دین) بہتر ہوتا تو یہ لوگ اس کی طرف جانے میں ہم سے سبقت نہ کر جاتے اور چونکہ انہوں نے اس (قرآن) سے ہدایت نہ پائی اس لیے وہ کہیں گے : یہ تو (وہی) پرانا جھوٹ ہے۔

١٢۔ اور اس سے پہلے موسیٰ کی کتاب رہنما اور رحمت تھی اور یہ (قرآن) ایسی کتاب ہے جو عربی زبان میں (کتاب موسیٰ کی) تصدیق کرنے والی ہے تاکہ ظالموں کو تنبیہ کرے اور نیکی کرنے والوں کو بشارت دے۔

١٣۔ جنہوں نے کہا: ہمارا رب اللہ ہے پھر استقامت دکھائی، ان کے لیے یقیناً نہ کوئی خوف ہے اور نہ ہی وہ غمگین ہوں گے۔

١٤۔ یہ لوگ جنت والے ہوں گے (جو) ہمیشہ اسی میں رہیں گے ان اعمال کے صلے میں جو وہ بجا لایا کرتے تھے۔

١٥۔ اور ہم نے انسان کو اپنے ماں باپ پر احسان کرنے کا حکم دیا، اس کی ماں نے تکلیف سہ کر اسے پیٹ میں اٹھائے رکھا اور تکلیف اٹھا کر اسے جنا اور اس کے حمل اور دودھ چھڑانے میں تیس ماہ لگ جاتے ہیں ، یہاں تک کہ جب وہ رشد کامل کو پہنچا اور چالیس سال کا ہو گیا تو کہنے لگا: پروردگار! مجھے توفیق دے کہ میں تیری اس نعمت کا شکر ادا کروں جس سے تو نے مجھے اور میرے والدین کو نوازا اور یہ کہ میں ایسا نیک عمل کروں جسے تو پسند کرے اور میری اولاد کو میرے لیے صالح بنا دے ، میں تیری طرف رجوع کرتا ہوں اور بے شک میں مسلمانوں میں سے ہوں۔

١٦۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے بہترین اعمال کو ہم قبول کرتے ہیں اور ان کے گناہوں سے درگزر کرتے ہیں ، (یہ) اہل جنت میں شامل ہوں گے اس سچے وعدے کے مطابق جو ان سے کیا جاتا رہا ہے۔

١٧۔ اور جس نے اپنے والدین سے کہا: تم دونوں پر اف ہو! کیا تم دونوں مجھے ڈراتے ہو کہ میں (قبر سے ) پھر نکالا جاؤں گا؟ جبکہ مجھ سے پہلے بہت سی نسلیں گزر چکی ہیں (ان میں سے کوئی واپس نہیں آیا) اور وہ دونوں اللہ سے فریاد کرتے ہوئے (اولاد سے ) کہتے تھے : تیری تباہی ہو! تو مان جا کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے ، پھر (بھی) وہ کہتا ہے : یہ تو صرف اگلوں کی فرسودہ کہانیاں ہیں۔

١٨۔ یہ وہ لوگ ہیں جن پر فیصلہ حتمی ہو چکا ہے جنوں اور انسانوں کے ان گروہوں کے ساتھ جو ان سے پہلے گزر چکے ہیں بے شک یہ خسارہ اٹھانے والے تھے۔

١٩۔ اور ہر ایک کے لیے اپنے اپنے اعمال کے مطابق درجات ہیں تاکہ انہیں ان کے اعمال کا (بدلہ) پورا دیا جائے اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔

٢٠۔ اور جس روز کفار آگ کے سامنے لائے جائیں گے (تو ان سے کہا جائے گا) تم نے اپنی نعمتوں کو دنیاوی زندگی میں ہی برباد کر دیا اور ان سے لطف اندوز ہو چکے ، پس آج تمہیں ذلت کے عذاب کی سزا اس لیے دی جائے گی کہ تم زمین میں ناحق تکبر کرتے رہے اور بدکاری کرتے رہے۔

٢١۔ اور (قوم) عاد کے بھائی (ہود) کو یاد کیجیے جب انہوں نے احقاف (کی سرزمین) میں اپنی قوم کو تنبیہ کی اور ان سے پہلے اور بعد میں بھی تنبیہ کرنے والے گزر چکے ہیں کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو، مجھے تمہارے بارے میں بڑے دن کے عذاب کا خوف ہے۔

٢٢۔ وہ کہنے لگے : کیا تم ہمیں ہمارے معبودوں سے باز رکھنے کے لیے ہمارے پاس آئے ہو؟ اگر تم سچے ہو تو لے آؤ وہ (عذاب) جس سے تم ہمیں ڈرا رہے ہو۔

٢٣۔ انہوں نے کہا: (اس کا) علم تو صرف اللہ ہی کے پاس ہے اور جس پیغام کے ساتھ مجھے بھیجا گیا تھا وہ تمہیں پہنچا رہا ہوں لیکن میں دیکھتا ہوں کہ تم ایک نادان قوم ہو۔

٢٤۔ پھر جب انہوں نے عذاب کو بادل کی صورت میں اپنی وادیوں کی طرف آتے ہوئے دیکھا تو کہنے لگے : یہ تو ہمیں بارش دینے والا بادل ہے ، (نہیں ) بلکہ یہ وہ عذاب ہے جس کی تمہیں عجلت تھی (یعنی) آندھی جس میں ایک دردناک عذاب ہے ،

٢٥۔ جو اپنے رب کے حکم سے ہر چیز کو تباہ کر دے گی، پھر وہ ایسے ہو گئے کہ ان کے گھروں کے سوا کچھ دکھائی نہ دیتا تھا، مجرم قوم کو ہم اس طرح سزا دیا کرتے ہیں۔

٢٦۔ اور بتحقیق انہیں ہم نے وہ قدرت دی جو قدرت ہم نے تم لوگوں کو نہیں دی اور ہم نے انہیں سماعت اور بصارت اور قلب عطا کیے تو جب انہوں نے اللہ کی آیات کا انکار کیا تو نہ ان کی سماعت نے انہیں کوئی فائدہ دیا اور نہ ہی ان کی بصارت نے اور نہ ان کے قلوب نے اور جس چیز کا وہ مذاق اڑایا کرتے تھے وہ اسی چیز کے نرغے میں آ گئے۔

٢٧۔ اور بتحقیق ہم نے تمہارے گرد و پیش کی بستیوں کو تباہ کر دیا اور ہم نے (اپنی) نشانیوں کو بار بار ظاہر کیا تاکہ وہ باز آ جائیں۔

٢٨۔ پس انہوں نے قرب الہٰی کے لیے اللہ کے سوا جنہیں اپنا معبود بنا لیا تھا انہوں نے ان کی مدد کیوں نہ کی؟ بلکہ وہ تو ان سے غائب ہو گئے اور یہ ان کا جھوٹ تھا اور وہ بہتان جو وہ گھڑتے تھے۔

٢٩۔ اور (یاد کیجیے ) جب ہم نے جنات کے ایک گروہ کو آپ کی طرف متوجہ کیا تاکہ قرآن سنیں ، پس جب وہ رسول کے پاس حاضر ہو گئے تو (آپس میں ) کہنے لگے : خاموش ہو جاؤ! جب تلاوت ختم ہو گئی تو وہ تنبیہ (ہدایت) کرنے اپنی قوم کی طرف واپس لوٹ گئے۔

٣٠۔ انہوں نے کہا: اے ہماری قوم! ہم نے ایک کتاب سنی ہے جو موسیٰ کے بعد نازل کی گئی ہے جو اپنے سے پہلی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے ، وہ حق اور راہ راست کی طرف ہدایت کرتی ہے۔

٣١۔ اے ہماری قوم! اللہ کی طرف بلانے والے کی دعوت قبول کرو اور اس پر ایمان لے آؤ کہ اللہ تمہارے گناہوں سے درگزر فرمائے گا اور تمہیں دردناک عذاب سے بچائے گا۔

٣٢۔ اور جو اللہ کی طرف بلانے والے کی دعوت قبول نہیں کرتا وہ زمین میں (اللہ کو) عاجز نہیں کر سکے گا اور اللہ کے سوا اس کا کوئی سرپرست بھی نہیں ہو گا، یہی لوگ کھلی گمراہی میں ہیں۔

٣٣۔ کیا وہ نہیں دیکھتے کہ جس اللہ نے آسمانوں اور زمین کو خلق فرمایا ہے اور جو ان کے خلق کرنے سے عاجز نہیں آیا وہ اس بات پر بھی قادر ہے کہ مردوں کو زندہ کر دے ؟ ہاں ! وہ یقیناً ہر چیز پر قادر ہے۔

٣٤۔ اور جس روز کفار آگ کے سامنے لائے جائیں گے (اس وقت ان سے پوچھا جائے گا) کیا یہ برحق نہیں ہے ؟ وہ کہیں گے : ہاں ! ہمارے پروردگار کی قسم (یہ حق ے ) اللہ فرمائے گا : پھر عذاب چکھو اپنے اس کفر کی پاداش میں جو تم کرتے رہے ہو۔

٣٥۔ پس (اے رسول) صبر کیجیے جس طرح اولو العزم رسولوں نے صبر کیا اور ان کے لیے (طلب عذاب میں ) جلدی نہ کیجیے ، جس دن یہ اس عذاب کو دیکھیں گے جس کا انہیں خوف دلایا جا رہا ہے تو انہیں یوں محسوس ہو گا گویا (دنیا میں دن کی) ایک گھڑی بھر سے زیادہ نہیں رہے ، (یہ ایک) پیغام ہے ، پس ہلاکت میں وہی لوگ جائیں گے جو فاسق ہیں۔

 

 

    سورۃ محمد(ص)۔مدنی۔ آیات ۳۸

 

بنام خدائے رحمن و رحیم

١۔ جنہوں نے کفر اختیار کیا اور راہ خدا میں رکاوٹ ڈالی اللہ نے ان کے اعمال حبط کر دیے۔

٢۔ اور جو لوگ ایمان لائے اور صالح اعمال بجا لائے اور جو کچھ محمد  ؐپر نازل کیا گیا ہے اس پر بھی ایمان لائے اور ان کے رب کی طرف سے حق بھی یہی ہے ، اللہ نے ان کے گناہ ان سے دور کر دئیے اور ان کے حال کی اصلاح فرمائی۔

٣۔ یہ اس لیے ہے کہ کفار نے باطل کی پیروی کی اور ایمان لانے والوں نے اس حق کی اتباع کی جو ان کے پروردگار کی طرف سے ہے ، اللہ تعالیٰ اسی طرح لوگوں کے لیے ان کے اوصاف بیان فرماتا ہے۔

٤۔ پس جب کفار سے تمہارا سامنا ہو تو (ان کی) گردنیں مارو یہاں تک کہ جب انہیں خوب قتل کر چکو تو (بچنے والوں کو) مضبوطی سے قید کر لو، اس کے بعد احسان رکھ کر یا فدیہ لے کر (چھوڑ دو) تاوقتیکہ لڑائی تھم جائے ، حکم یہی ہے اور اگر اللہ چاہتا تو ان سے انتقام لیتا لیکن (اللہ کو یہ منظور ہے کہ) تم میں سے ایک کا امتحان دوسرے کے ذریعے سے لے اور جو لوگ راہ خدا میں شہید کیے جاتے ہیں اللہ ان کے اعمال ہرگز حبط نہیں کرے گا۔

٥۔ وہ عنقریب انہیں ہدایت دے گا اور ان کی حالت کی اصلاح فرمائے گا۔

٦۔ اور انہیں جنت میں داخل کرے گا جس کی انہیں پہچان کرا دی ہے۔

٧۔ اے ایمان والو! اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ بھی تمہاری مدد کرے گا اور تمہیں ثابت قدم رکھے گا۔

٨۔ اور جنہوں نے کفر اختیار کیا ہے ان کے لیے ہلاکت ہے اور (اللہ نے ) ان کے اعمال کو برباد کر دیا ہے۔

٩۔ یہ اس لیے ہے کہ انہوں نے اسے ناپسند کیا جسے اللہ نے نازل کیا پس اللہ نے ان کے اعمال حبط کر دیے۔

١٠۔ کیا یہ لوگ زمین میں چلتے پھرتے نہیں ہیں کہ وہ دیکھ لیتے کہ ان سے پہلے والوں کا کیا انجام ہوا؟ اللہ نے ان پر تباہی ڈالی اور کفار کا انجام بھی اسی قسم کا ہو گا۔

١١۔ یہ اس لیے ہے کہ مومنین کا کارساز اللہ ہے اور اور کفار کا کوئی کارساز نہیں ہے۔

١٢۔ اللہ ایمان لانے والوں اور صالح اعمال بجا لانے والوں کو یقیناً ایسی جنتوں میں داخل فرمائے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور جو لوگ کافر ہو گئے وہ لطف اٹھاتے ہیں اور کھاتے ہیں تو جانوروں کی طرح کھاتے ہیں اور ان کا ٹھکانا جہنم ہے۔

١٣۔ اور بہت سی ایسی بستیاں جو آپ کی اس بستی سے کہیں زیادہ طاقتور تھیں جس (کے رہنے والوں ) نے آپ کو نکالا ہے ہم نے انہیں ہلاک کر ڈالا، پس ان کا کوئی مددگار نہ تھا۔

١٤۔ کیا جو شخص اپنے پروردگار کی طرف سے واضح دلیل پر ہو اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جس کے لیے اس کا برا عمل خوشنما بنا دیا گیا ہو اور جنہوں نے اپنی خواہشات کی پیروی کی ہو؟

١٥۔ جس جنت کا پرہیزگاروں سے وعدہ کیا گیا ہے اس کی مثال یوں ہے کہ اس میں ایسے پانی کی نہریں ہیں جو (کبھی) بدبو دار نہ ہو گا اور ایسے دودھ کی نہریں ہیں جس کا ذائقہ نہیں بدلے گا اور ایسی شراب کی نہریں ہیں جو پینے والوں کے لیے لذت بخش ہو گی اور خالص شہد کی نہریں (بھی) ہیں اور اس میں ان کے لیے ہر قسم کے میوے ہیں اور ان کے رب کی طرف سے مغفرت ہے ، کیا یہ اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جو ہمیشہ جہنم میں رہے گا اور جنہیں کھولتا ہوا پانی پلایا جائے گا جو ان کی آنتوں کو کاٹ کر رکھ دے گا۔

١٦۔ ان میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو آپ کو سنتے ہیں لیکن جب آپ کے پاس سے نکل جاتے ہیں تو جنہیں علم دیا گیا ہے ان سے پوچھتے ہیں : اس نے ابھی کیا کہا؟ یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں پر اللہ نے مہر لگا دی ہے اور وہ اپنی خواہشات کی پیروی کرتے ہیں۔

١٧۔ اور جنہوں نے ہدایت حاصل کی اللہ نے ان کی ہدایت میں اضافہ فرمایا اور انہیں ان کا تقویٰ عطا فرمایا۔

١٨۔کیا یہ لوگ بس قیامت ہی کے منتظر ہیں کہ انہیں اچانک آ لے ؟ پس اس کی علامات تو آ چکی ہیں ، لہٰذا جب قیامت آ چکے گی تو اس وقت انہیں نصیحت کہاں مفید ہو گی؟

١٩۔ پس جان لو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اپنے گناہ کی معافی مانگو اور مومنین و مومنات کے لیے بھی اور اللہ تمہاری آمد و رفت اور ٹھکانے کو جانتا ہے۔

٢٠۔ اور جو لوگ ایمان لائے ہیں وہ کہتے ہیں : کوئی (نئی) سورت نازل کیوں نہیں ہوئی؟ (جس میں جہاد کا ذکر ہو) اور جب محکم بیان والی سورت نازل ہو اور اس میں قتال کا ذکر آ جائے تو آپ دیکھتے ہیں کہ جن کے دلوں میں بیماری ہے وہ آپ کی طرف اس طرح دیکھتے ہیں جیسے موت کی بے ہوشی طاری ہو گئی ہو، پس ان کے لیے تباہی ہو۔

٢١۔ ان کی اطاعت اور پسندیدہ گفتار (کا حال معلوم ہے ) مگر جب معاملہ حتمی ہو جاتا ہے تو اس وقت (بھی) اگر وہ اللہ کے ساتھ سچے رہتے تو ان کے لیے بہتر ہوتا۔

٢٢۔ پھر اگر تم نے (جہاد سے ) منہ پھیر لیا تو تم سے توقع کی جا سکتی ہے کہ تم زمین میں فساد برپا کرو گے اور اپنے رشتوں کو توڑ ڈالو گے۔

٢٣۔ یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ نے لعنت کی ہے لہٰذا انہیں بہرا کر دیا اور ان کی آنکھوں و اندھا کر دیا ہے۔

٢٤۔ کیا یہ لوگ قرآن میں تدبر نہیں کرتے یا (ان کے ) دلوں پر تالے لگ گئے ہیں ؟

٢٥۔جو لوگ اپنی پیٹھ پر الٹے پھر گئے بعد اس کے کہ ان پر ہدایت واضح ہو چکی تھی، شیطان نے انہیں فریب دیا ہے اور ڈھیل دے رکھی ہے۔

٢٦۔ یہ اس لیے ہوا کہ انہوں نے اللہ کی طرف سے نازل کردہ (کتاب) کو ناپسند کرنے والوں سے (خفیہ طور پر) کہا: بعض معاملات میں عنقریب ہم تمہاری پیروی کریں گے اور اللہ ان کی پوشیدہ باتیں جانتا ہے۔

٢٧۔ پس اس وقت (ان کا کیا حال ہو گا) جب فرشتے ان کی جان نکالیں گے اور ان کے چہروں اور سرینوں پر ضربیں لگا رہے ہوں گے۔

٢٨۔ یہ اس لیے کہ انہوں نے اس بات کی پیروی کی جو اللہ کو ناراض کرتی ہے اور اللہ کی خوشنودی سے بیزاری اختیار کرتے ہیں لہٰذا اللہ نے ان کے اعمال حبط کر دیے ،

٢٩۔ جن کے دلوں میں بیماری ہے کیا انہوں نے یہ خیال کر رکھا ہے کہ اللہ ان کے کینوں کو ہرگز ظاہر نہیں کرے گا؟

٣٠۔ اور اگر ہم چاہتے تو ہم آپ کو ان کی نشاندہی کر دیتے پھر آپ انہیں ان کی شکلوں سے پہچان لیتے اور آپ انداز کلام سے ہی انہیں ضرور پہچان لیں گے اور اللہ تمہارے اعمال سے واقف ہے۔

٣١۔ اور ہم تمہیں ضرور آزمائش میں ڈالیں گے یہاں تک کہ ہم تم میں سے جہاد کرنے والوں اور صبر کرنے والوں کی شناخت کر لیں اور تمہارے حالات جانچ لیں۔

٣٢۔ یقیناً جنہوں نے ان پر ہدایت ظاہر ہونے کے بعد کفر کیا اور (لوگوں کو) راہ خدا سے روکا اور رسول کی مخالفت کی وہ اللہ کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے اور اللہ عنقریب ان کے اعمال حبط کر دے گا۔

٣٣۔ اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور اپنے اعمال کو ضائع نہ کرو۔

٣٤۔ یقیناً جنہوں نے کفر کیا اور راہ خدا سے روکا پھر کفر کی حالت میں مر گئے تو اللہ انہیں ہرگز نہیں بخشے گا۔

٣٥۔ تم ہمت نہ ہارو اور نہ ہی صلح کی دعوت دو جب کہ تم ہی غالب ہو اور اللہ تمہارے ساتھ ہے اور وہ ہرگز تمہارے اعمال ضائع نہیں کرے گا۔

٣٦۔ بے شک دنیاوی زندگی تو بس کھیل اور فضول ہے اور اگر تم ایمان لے آؤ اور تقویٰ اختیار کرو تو اللہ تمہارا اجر تمہیں دے گا اور تم سے تمہارا مال طلب نہیں کرے گا۔

٣٧۔ اگر (تمہارے رسول) تم لوگوں سے مال کا مطالبہ کریں اور پھر تم سے اصرار کریں تو تم بخل کرنے لگو گے اور وہ بخل کینے نکال باہر کرے گا۔

٣٨۔ آگاہ رہو! تم ہی وہ لوگ ہو جنہیں اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی دعوت دی جاتی ہے تو تم میں سے بعض بخل کرتے ہیں اور جو بخل کرتا ہے تو وہ خود اپنے آپ سے بخل کرتا ہے اور اللہ تو بے نیاز ہے اور محتاج تم ہی ہو اور اگر تم نے منہ پھیر لیا تو اللہ تمہارے بدلے اور لوگوں کو لے آئے گا پھر وہ تم جیسے نہ ہوں گے۔

 

 

 

سورہ فتح۔ مدنی۔ آیات ۲۹

 

 

بنام خدائے رحمن و رحیم

١۔ (اے رسول) ہم نے آپ کو فتح دی، ایک نمایاں فتح۔

٢۔ تاکہ اللہ آپ کی (تحریک کی) اگلی اور پچھلی خامیوں کو دور فرمائے اور آپ پر اپنی نعمت پوری کرے اور آپ کو سیدھے راستے کی رہنمائی فرمائے۔

٣۔ اور اللہ آپ کو ایسی نصرت عنایت فرمائے جو بڑی غالب آنے والی ہے۔

٤۔ وہی اللہ ہے جس نے مومنین کے دلوں پر سکون نازل کیا تاکہ ان کے ایمان کے ساتھ مزید ایمان کا اضافہ کرے اور آسمانوں اور زمین کے لشکر سب اللہ ہی کے ہیں اور اللہ خوب جاننے والا، حکمت والا ہے۔

٥۔ تاکہ اللہ مومنین اور مومنات کو ایسی جنتوں میں داخل کرے جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں اور جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور تاکہ ان کے گناہوں کو ان سے دور کر دے اور اللہ کے نزدیک یہ بڑی کامیابی ہے۔

٦۔ اور (اس لیے بھی کہ) منافق مردوں اور منافق عورتوں کو اور مشرک مردوں اور مشرکہ عورتوں کو جو اللہ کے بارے میں بدگمانی کرتے ہیں عذاب میں مبتلا کرے ، یہ لوگ گردش بد کا شکار ہو گئے اور ان پر اللہ نے غضب کیا اور ان پر لعنت کی اور ان کے لیے جہنم آمادہ کر رکھی ہے جو بہت برا انجام ہے۔

٧۔ اور آسمانوں اور زمین کے لشکر اللہ کے ہیں اور اللہ بڑا غالب آنے والا، حکمت والا ہے۔

٨۔ ہم نے آپ کو گواہی دینے والا، بشارت دینے والا اور تنبیہ کرنے والا بنا کر بھیجا ہے ،

٩۔ تاکہ تم (مسلمان) اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ، اس کی مدد کرو، اس کی تعظیم کرو اور صبح و شام اس کی تسبیح کرو۔

١٠۔ بتحقیق جو لوگ آپ کی بیعت کر رہے ہیں وہ یقیناً اللہ کی بیعت کر رہے ہیں ، اللہ کا ہاتھ ان کے ہاتھ کے اوپر ہے ، پس جو عہد شکنی کرتا ہے وہ اپنے ساتھ عہد شکنی کرتا ہے اور جو اس عہد کو پورا کرے جو اس نے اللہ کے ساتھ کر رکھا ہے تو اللہ عنقریب اسے اجر عظیم دے گا۔

١١۔ صحرا نشین جو پیچھے رہ گئے ہیں وہ جلد ہی آپ سے کہیں گے : ہمیں ہمارے اموال اور اہل و عیال نے مشغول رکھا لہٰذا ہمارے لیے مغفرت طلب کیجیے ، یہ اپنی زبانوں سے وہ بات کرتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں ہے ، کہہ دیجئے : اگر اللہ تمہیں ضرر پہنچانے کا ارادہ کر لے یا فائدہ پہنچانا چاہے تو کون ہے جو اس کے سامنے تمہارے لیے کچھ اختیار رکھتا ہو؟ بلکہ اللہ تو تمہارے اعمال سے خوب باخبر ہے۔

١٢۔ بلکہ تم یہ گمان کرتے تھے کہ پیغمبر اور مومنین اپنے اہل و عیال میں کبھی بھی لوٹ کر نہیں آئیں گے اور یہ بات تمہارے دلوں میں خوشنما بنا دی گئی اور تم نے برا گمان کر رکھا تھا اور تم ہلاک ہونے والی قوم ہو۔

١٣۔ اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول پر ایمان نہ لائے ہم نے (ایسے ) کفار کے لیے دہکتی آگ تیار کر رکھی ہے۔

١٤۔ آسمانوں اور زمین کی بادشاہی صرف اللہ کے لیے ہے ، وہ جسے چاہے بخش دیتا ہے اور جسے چاہے عذاب دیتا ہے اور اللہ بڑا معاف کرنے والا، مہربان ہے۔

١٥۔ جب تم غنیمتیں لینے چلو گے تو پیچھے رہ جانے والے جلد ہی کہنے لگیں گے : ہمیں بھی اجازت دیجیے کہ آپ کے ساتھ چلیں ، وہ اللہ کے کلام کو بدلنا چاہتے ہیں ، کہہ دیجئے : اللہ نے پہلے ہی فرمایا تھا کہ تم ہرگز ہمارے ساتھ نہیں جاؤ گے ، پھر وہ کہیں گے : نہیں بلکہ تم ہم سے حسد کرتے ہو، (دراصل) یہ لوگ بہت ہی کم سمجھتے ہیں۔

١٦۔ آپ پیچھے رہ جانے والے صحرا نشینوں سے کہہ دیجئے : تم عنقریب ایک جنگجو قوم کے مقابلے کے لیے بلائے جاؤ گے ، تم یا تو ان سے لڑو گے یا وہ اسلام قبول کریں گے پس اگر تم نے اطاعت کی تو اللہ تمہیں بہتر اجر دے گا اور اگر تم نے منہ پھیر لیا جیسا کہ تم نے پہلے منہ پھیرا تھا تو وہ تمہیں شدید دردناک عذاب دے گا۔

١٧۔ (جہاد میں شرکت نہ کرنے میں ) اندھے پر کوئی حرج نہیں اور نہ ہی لنگڑے پر کوئی مواخذہ ہے اور نہ ہی بیمار پر کوئی حرج ہے ، جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتا ہے اللہ اسے ایسی ہی جنتوں میں داخل فرمائے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور جو منہ موڑ لے گا اللہ اسے شدید دردناک عذاب دے گا۔

١٨۔ بتحقیق اللہ ان مومنین سے راضی ہو گیا جو درخت کے نیچے آپ کی بیعت کر رہے تھے ، پس جو ان کے دلوں میں تھا وہ اللہ کو معلوم ہو گیا، لہٰذا اللہ نے ان پر سکون نازل کیا اور انہیں قریبی فتح عنایت فرمائی۔

١٩۔ اور وہ بہت سی غنیمتیں بھی حاصل کریں گے اور اللہ بڑا غالب آنے والا، حکمت والا ہے۔

٢٠۔ اللہ نے تم سے بہت سی غنیمتوں کا وعدہ فرمایا ہے جنہیں تم حاصل کرو گے پس یہ (فتح) تو اللہ نے تمہیں فوری عنایت کی ہے ، اس نے لوگوں کے ہاتھ تم سے روک دیے تاکہ یہ مومنین کے لیے ایک نشانی ہو اور تمہیں راہ راست کی ہدایت دے۔

٢١۔ اور دیگر (غنیمتیں ) بھی جن پر تم قادر نہ تھے ، وہ اللہ کے احاطہ قدرت میں آ گئیں اور اللہ ہر چیز پر خوب قادر ہے۔

٢٢۔ اور اگر کفار تم سے جنگ کرتے تو پیٹھ دکھا کر فرار کرتے ، پھر وہ نہ کوئی کارساز پاتے اور نہ مددگار۔

٢٣۔ اللہ کے دستور کے مطابق جو پہلے سے رائج ہے اور آپ اللہ کے دستور میں کبھی کوئی تبدیلی نہیں پائیں گے۔

٢٤۔ اور وہ وہی ہے جس نے کفار پر تم کو فتحیاب کرنے کے بعد وادی مکہ میں ان کے ہاتھ تم سے اور تمہارے ہاتھ ان سے روک دیے اور اللہ تمہارے اعمال پر خوب نظر رکھتا ہے۔

٢٥۔ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے کفر کیا اور تمہیں مسجد الحرام سے روکا اور قربانیوں کو بھی اپنی جگہ (قربان گاہ) تک پہنچنے سے روک دیا اور اگر (مکہ میں ) ایسے مومن مرد اور مومنہ عورتیں نہ ہوتیں جنہیں تم نہیں جانتے تھے (اور یہ خطرہ نہ ہوتا) کہ کہیں تم انہیں روند ڈالو اور بے خبری میں ان کی وجہ سے تمہیں بھی ضرر پہنچ جائے (تو اذن جہاد مل جاتا) تاکہ اللہ جسے چاہے اپنی رحمت میں داخل کرے ، اگر (کافر اور مسلمان) الگ الگ ہو جاتے تو ان میں سے جو لوگ کافر ہیں انہیں ہم دردناک عذاب دیتے۔

٢٦۔ جب کفار نے اپنے دلوں میں تعصب رکھا تعصب بھی جاہلیت کا تو اللہ نے اپنے رسول اور مومنین پر اپنا سکون نازل فرمایا اور انہیں تقویٰ کے اصول پر ثابت رکھا اور وہ اس کے زیادہ مستحق اور اہل تھے اور اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھتا ہے۔

٢٧۔ بتحقیق اللہ نے اپنے رسول کے حق پر مبنی خواب کو سچا ثابت کیا کہ اللہ نے چاہا تو تم لوگ اپنے سر تراش کر اور بال کتروا کر امن کے ساتھ بلا خوف مسجد الحرام میں ضرور داخل ہو گے ، پس اسے وہ بات معلوم تھی جو تم نہیں جانتے تھے ، پس اس نے اس کے علاوہ ہی ایک نزدیکی فتح ممکن بنا دی۔

٢٨۔ وہ وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ وہ اسے ہر دین پر غالب کر دے اور گواہی دینے کے لیے اللہ ہی کافی ہے۔

٢٩۔ محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کفار پر سخت گیر اور آپس میں مہربان ہیں ، آپ انہیں رکوع، سجود میں دیکھتے ہیں ، وہ اللہ کی طرف سے فضل اور خوشنودی کے طلبگار ہیں سجدوں کے اثرات سے ان کے چہروں پر نشان پڑے ہوئے ہیں ، ان کے یہی اوصاف توریت میں بھی ہیں اور انجیل میں بھی ان کے یہی اوصاف ہیں ، جیسے ایک کھیتی جس نے (زمین سے ) اپنی سوئی نکالی پھر اسے مضبوط کیا اور وہ موٹی ہو گئی پھر اپنے تنے پر سیدھی کھڑی ہو گئی اور کسانوں کو خوش کرنے لگی تاکہ اس طرح کفار کا جی جلائے ، ان میں سے جو لوگ ایمان لائے اور اعمال صالح بجا لائے ان سے اللہ نے مغفرت اور اجر عظیم کا وعدہ کیا ہے۔

٭٭٭

پروف ریڈنگ اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید