FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

بڑا ہے درد کا رشتہ

               ابوالکلام قاسمی

 

بڑا ہے درد کا رشتہ

(قرۃ العین حیدر کی یاد میں )

            قرۃالعین حیدر بیسویں صدی کے نصف آخر کی شاید اردو میں سب سے ممتاز دانش ور تھیں ۔ اتفاق سے ان سے ناچیز کی محض رسمی راہ و رسم نہ تھی۔ نیاز مندانہ روابط رکھنے، بے تکلّفانہ باتیں کرنے اور ان کی خوش مزاجی سے بھی لطف اندوز ہونے کے مواقع ان کے ساتھ بار بار ملے۔ اس لیے ان کے علمی، دانش ورانہ اور ہمہ جہت باخبری کے باعث اکثر اس بات پر ناز بھی ہوتا تھا کہ اپنے زمانہ کی ممتاز ترین ادیبہ اور با بصیرت دانش ور سے ہمیں بھی نیاز حاصل ہے  —- ان سے پہلی ملاقات سری نگر میں مظہر امام کے گھر پر ہوئی تھی۔ ان دنوں وہ اپنے بعض عزیزوں کے ساتھ کشمیر گئی ہوئی تھیں اور مظہر امام کے گھر کے قرب میں ہی کسی سرکٹ ہاؤس میں قیام پذیر تھیں ، وہ جسٹس جرار حیدر اور ان کے بچوں کے ساتھ کشمیر گئی تھیں ۔ میں اپنی بیگم دردانہ قاسمی کے ساتھ پہلی بار کشمیر کے سفر پر گیا تھا اور ہم دونوں مظہر امام کے ساتھ ہی قیام پذیر تھے۔ سری نگر پہنچ کر ہم ٹھہرے تو ایک ہوٹل میں تھے مگر مظہر امام صاحب نے ایک دو روز بعد ہی اصرار کر کے ہمیں اپنے گھر منتقل ہونے پر مجبور کر دیا تھا۔ یوں بھی مظہر امام کے اخلاق و تواضع کے ان کے تمام جاننے والے قائل رہے ہیں ۔ میرے ساتھ تو یوں بھی ان کا دوہرا تعلق تھا۔ ایک تو وہ میرے ہم وطن تھے اور دوسرے میرے رسالے ’الفاظ‘ کے شماروں میں ان کی شاعری متعدد بار چھپ چکی تھی۔ مظہر امام کے گھر پر ان کی بیگم، اپنے زمانے کی اہم افسانہ نگار مبینہ امام اور بیٹی ڈولی (فرزانہ) تھیں ۔ ان کے صاحب زادے شہیر امام ان دنوں سری نگر سے باہر گئے ہوئے تھے۔ مبینہ بھابھی بڑی اپنائیت سے پیش آنے والی خاتون تو تھیں ہی فرزانہ، دردانہ سے عمر میں کچھ ہی چھوٹی رہی ہو گی۔ جس کا نتیجہ یہ تھا کہ ہم سب لوگ دو ایک روز میں ہی گھل مل گئے تھے۔ ہم لوگ تقریباً پندرہ روز تک وہاں بالکل اپنے گھر کی طرح رہے۔ عینی آپا اکثر مظہر امام صاحب کے گھر پر آ جایا کرتیں اور دیر دیر تک بے تکلّفانہ باتیں کیا کرتیں ۔ ہم دونوں سے ان کو بے تکلف ہونے میں زیادہ وقت اس لیے نہیں لگا کہ دردانہ، ان دنوں عینی آپا کے والد سیدسجادحیدر یلدرم پر ریسرچ کر رہی تھیں اور عینی آپا سے ان کی متعدد بار خط و کتابت ہو چکی تھی۔ میں نے بھی اپنے رسالے میں ان کا ایک افسانہ چھاپا تھا اور اس سلسلے میں میری بھی ان سے خط و کتابت رہ چکی تھی۔ ان کے مزاج کے بارے میں طرح طرح کی باتیں مشہور تھیں ۔ وہ ناک پر مکھی نہیں بیٹھنے دیتیں ، تنک مزاج ہیں ، لوگوں سے سیدھے منھ بات نہیں کرتیں وغیرہ وغیرہ  —- مگر ہمیں ان کی شخصیت میں ، شروع میں اس طرح کی کوئی بات دیکھنے کو نہیں ملی۔ یہ تو وقت کے ساتھ بعد میں اندازہ ہوا کہ وہ حد درجہ نازک مزاج اور زود رنج تو ضرور ہیں مگر جن لوگوں کو ناپسند نہیں کرتیں ان کے ساتھ ان کا رویہ اکثر معتدل بلکہ خوش مزاجی کا ہوا کرتا تھا۔ اس زمانے میں مجھے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں تدریس کے شغل سے وابستہ ہوئے محض چار سال ہوئے تھے مگر اپنے زمانے کے قدرے معیاری اور مقبول ادبی رسالے کی ادارت کے سبب مجھے ادبی حلقوں میں خاصا جانا جانے لگا تھا۔ دردانہ کی ریسرچ آخری مراحل میں تھی اور انھوں نے اس وقت تک یونیورسٹی کی ملازمت کا آغاز نہیں کیا تھا۔ سری نگر میں شمیم احمد شمیم، جسٹس جرار حیدر، کشمیری لال ذاکر اور ان کے علاوہ کئی اور ادیبوں ، صحافیوں اور ممتاز لوگوں سے عینی آپا اور مظہر امام کے وسیلے سے ملنے اور ان کی محفلوں میں شریک رہنے کا موقع ملا۔ عینی آپا تقریباً روز ہی صبح یا شام ٹہلتی ہوئی مظہر امام کے گھر آ جایا کرتیں اور دیر دیر تک بیٹھتیں ۔ اس سفر کی ایک بات ہنوز یاد ہے کہ مظہر امام چوں کہ سری نگر ٹی۔ وی میں اسسٹنٹ ڈائرکٹر تھے اس لیے انھوں نے عینی آپا کے متعدد پروگرام ریکارڈ کیے۔ اس سلسلے میں انھوں نے مجھ ہیچ مداں کو بھی شرف بخشا اور انٹرویو کے ارادے سے ایک روز وہ مجھے لے کر ٹی۔ وی اسٹیشن کے لیے نکلنے ہی والے تھے کہ عینی آپا اچانک ان کے گھر آ گئیں ۔ دوچار رسمی باتوں کے بعد انھیں اندازہ ہو گیا کہ ہم لوگ ٹی۔ وی اسٹیشن جا رہے ہیں اور وہاں ہم دونوں کی گفتگو ریکارڈ اور نشر ہو گی، تو بے تکلفی سے بولیں کہ پھر تو صاحب ہم یہیں بیٹھیں گے، آپ لوگوں کا لائیو پروگرام دیکھیں گے اور مجھے دیکھ کر مسکراتے ہوئے بولیں کہ دیکھیں کہ تم کیا عالمانہ باتیں کرتے ہو  —-  یہ ان کا بے تکلفی میں عام انداز تکلم ہوا کرتا تھا۔

            کشمیر سے واپسی کے چند ہی ماہ بعد عینی آپا جامعہ ملیہ میں وزیٹنگ پروفیسر بن کر آ گئیں ۔ ان کا زیادہ تر وقت شمیم حنفی کے گھر گزرتا۔ ان سے کشمیر میں ہی طے ہو گیا تھا کہ ان کے دہلی آنے پر ان سے ملاقات کی جائے۔ چنانچہ دردانہ نے ان سے ملنے اور تحقیقی مقالے کے سلسلے میں ان کی بعض وضاحتوں کو آخری شکل دینے کا منصوبہ بنایا۔ کشمیر کی ملاقاتوں نے ہمارے درمیان کی اجنبیت کو پوری طرح ختم کر دیا تھا اور یہ اندازہ بھی ہو گیا تھا کہ وہ اپنے خاندان بالخصوص اپنے والد بزرگوار کے بارے میں ہر طرح کا تعاون دینے کو تیار ہیں ۔ دردانہ نے کچھ عرصہ پہلے جب ان کے نام بمبئی کے دورانِ قیام خط لکھے تھے تو انھوں نے بڑی دلچسپی لے کر جواب دیے تھے۔ دہلی میں جب شمیم حنفی صاحب کے گھر میں ان سے ملاقاتیں ہوئیں تو یلدرم سے متعلق اَن گنت کارآمد باتیں معلوم ہوئیں جن کی وجہ سے دردانہ کو اپنی تھیسس کے آخری مراحل میں خاصی سہولت رہی۔ اس زمانے میں علی گڑھ کے شعبۂ اردو میں پروفیسرثریا حسین سربراہ ہو کر ویمنس کالج سے آ گئی تھیں ۔ عینی آپا سے ان کی عزیزداری بھی تھی اس لیے وہ خاص طور پر اس بات کے لیے کوشاں رہیں کہ عینی آپا وزیٹنگ پروفیسر ہو کر علی گڑھ پہنچ جائیں ۔ جامعہ میں تو ان کی مدت قیام محض چند ماہ کی تھی مگر علی گڑھ میں سال ڈیڑھ سال کی مدت کی بات چل رہی تھی۔ اس سلسلے میں کاغذی کارروائی چل ہی رہی تھی کہ عین اس زمانے میں شعبۂ اردو کی طرف سے سجادحیدریلدرم کی صدی تقریبات منانے اور ان پر ایک بڑا سمینار منعقد کرنے کا پروگرام طے ہوا اور عینی آپا سمینار میں شرکت کی غرض سے علی گڑھ تشریف لائیں ۔ ثریاحسین اور ان کے اہلِ خانہ کے بعد عینی آپا کے شناساؤں میں شہریار اور ہم دونوں میاں بیوی نمایاں تھے۔ چنانچہ اچھا خاصا وقت ان کے ساتھ گزارنے کا موقع ملا۔ وہ بہت لمبے عرصے کے بعد علی گڑھ تشریف لائی تھیں ۔ ان کو دیکھنے، ان سے ملنے اور ان کی باتیں سننے کا علی گڑھ کے با ذوق ادب دوست حضرات کا اشتیاق قابلِ دید تھا۔ شاید وہ چھٹی دہائی کے آغاز میں پاکستان سے ’آگ کا دریا‘ کی اشاعت کے بعد آئی تھیں بلکہ وہ باقاعدہ طور پر پاکستان چھوڑ کر ہندوستان لوٹ آئی تھیں ۔ انھوں نے ایک محفل میں اپنا افسانہ بھی سنایا تھا۔ ان کے والد اور خاندان کا علی گڑھ سے ربط، پہلے رجسٹرار کی حیثیت سے ان کی تاریخی حیثیت اور سب سے زیادہ عینی آپا کی تحریروں کی علی گڑھ میں غیر معمولی پذیرائی نے ان کی علی گڑھ آمد کو ایک بڑے واقعہ میں تبدیل کر دیا تھا۔ یلدرم سمینار کے بعد ہی وزیٹنگ پروفیسر شپ کے مراحل بھی طے ہو گئے، وہ اس طرح علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبۂ اردو سے بحیثیت ایک پروفیسر وابستہ ہو گئیں ۔ اس زمانے میں یونیورسٹی کی فراہم کردہ رہائش کے بجائے انھوں نے قیام کے لیے پروفیسر ثریاحسین صاحبہ کے گھر کا ہی انتخاب کیا۔ وہ ہر روز شعبۂ اردو آتیں اور باقاعدہ کلاس لیتیں ۔ ان کی کلاسوں کی نوعیت بالخصوص ریسرچ اسکالرز کے لیے روزانہ کم از کم دو گھنٹے اور ایم۔ اے کے طلبا و طالبات سے ہفتے میں دو تین بار ملاقاتوں اور استفادے پر مبنی تھی۔ علی گڑھ میں ان کے قیام اور ان کی محفل میں متواتر بیٹھنے اور تبادلۂ خیال کرنے کے دوران ان کے مزاج کو سمجھنے کا اچھا خاصا موقع ملا۔ گویا ان کے افسانوں ، ناولوں خاص طور پر ’آگ کا دریا‘ اور دوسری تحریروں نے جس نوع کا رعب و دبدبہ ہمارے ذہن پر قائم کر رکھا تھا، ان سے ملاقات اور اندازِ گفتگو نے اس میں اعتدال سا پیدا کر دیا۔ وہ نہایت فراخ دلی کے ساتھ طالب علموں سے گفتگو کرتیں اور تدریس کے پیشے سے وابستہ نہ ہونے کے باوجود مختلف موضوعات پر دیر دیر تک لکچر دیتی رہتیں ۔ ہم سب لوگ محدود جامعاتی انداز کے درس و تدریس سے وابستہ رہنے کے باعث بڑی حد تک رسمی لکچر دینے اور سننے کے عادی رہے ہیں ۔ اس عالم میں عینی آپا کی آزاد دانش ورانہ گفتگو ایک تو رسمی ہونے کا تاثر نہیں قائم کرتی تھی اور دوسرے ان کا علم و فضل اتنا پھیلا ہوا محسوس ہوتا تھا کہ شاید وہ خود بھی بہت شعوری تیاری کر کے ایسے عالمانہ اور مربوط انداز میں توسیع علم سے ہمیں آشنا نہ کر پاتیں ۔

            علی گڑھ میں عینی آپا کا قیام اس زمانے کی عام ادبی سرگرمیوں کے نقطۂ عروج تک پہنچانے کا محرک بنا رہا۔ انھوں نے علمی اور ادبی طور پر خود کو بھی بے حد مصروف رکھا اور اپنے متعلقین کو بھی۔ ان کا قیام اس اعتبار سے بھی بڑا ثمر آور  تھا کہ اپنے قیام علی گڑھ میں طلبا کی رہنمائی اور بعض تحقیقی مقالوں کی نگرانی کے علاوہ انھوں نے شعبۂ اردو کی تاریخ پر ایک کتابچہ بھی مرتب کر دیا جس کی طرف اس سے پہلے کسی شخص نے توجہ ہی نہیں دی تھی۔ اس کتابچے سے مدد لے کر شعبۂ اردو کی پوری تاریخ کو پوری تفصیل کے ساتھ اور بڑے کارآمد انداز میں مرتب کیا  جاسکتا ہے۔ اسی زمانے میں انھوں نے اپنا افسانہ ’دریں گرد سوارے باشد‘ لکھا تھا، اور یہ وہی زمانہ تھا جب ’گردش رنگ چمن‘ (ناول) کا منصوبہ بنا  کر انھوں نے اس کے موضوع پر ریسرچ کرنا شروع کر دی تھی۔ ڈیرہ وار طوائفوں سے متعلق واقفیت کے لیے انھوں نے لکھنؤ اور کلکتہ کے بعض اسفار بھی کیے تھے۔ ان کی پروفیسری کی مدت تو سال ڈیڑھ سال تھی جو بہت جلد ختم ہو گئی، لیکن ’گردش رنگ چمن‘ لکھنے کی مصروفیت کے سبب علی گڑھ میں مزید ایک سال تک قیام پذیر رہیں ۔ ناچیز نے اس ناول کی تحریر کے زمانے میں عینی آپا کے ناول لکھنے کے انداز، ان کے ریسرچ کے مزاج اور بار بار  نظر ثانی اور نظر ثالث کے طریقِ کار کو بہت قریب سے دیکھا۔ وہ عموماً ایک ایک باب کو بار بار لکھتیں اور اپنے کسی بھی مسودے سے آسانی سے مطمئن نظر نہ آتیں اور بسااوقات اپنے لکھے ہوئے صفحے کے صفحے کو مسترد کر دیا کرتی تھیں ۔ اس زمانے میں کتابوں کی فراہمی اور دوسرے علمی تعاون کے لیے انھوں نے ڈاکٹر دردانہ، ڈاکٹر نیلم فرزانہ اور ڈاکٹرنسرین ممتاز سے بھی رابطہ رکھا، لیکن مسودے کی صفائی وہ کسی نہ کسی ایسے شخص سے معاوضتاً کرایا کرتی تھیں جو اردو زبان کی نزاکت سے کچھ زیادہ واقف اور املا شناس ہو۔ نا چیز نے ان کی ’میز پر گردش رنگ چمن‘ کے کم از کم پانچ مسترد مسودات خود اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں ۔ ان رویوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ اتنی کہنہ مشقی کے باوجود اپنی کسی تحریر سے آسانی سے مطمئن نہ ہونے نے ہی شاید قرۃالعین حیدر کو ’قرۃالعین‘ بنایا تھا۔ انھوں نے اپنا کوئی ناول محض قصہ گوئی اور خالی خولی واقعات اور کرداروں کی کھتونی کی صورت میں نہیں لکھا۔ ہر ناول کا کوئی نہ کوئی تاریخی یا علمی یا ثقافتی پس منظر ہے جس کے لیے گہرے غور و خوض اور انتھک ریسرچ کی ضرورت ہوا کرتی ہے۔ میں نے اکثر اپنے ایم۔ اے کے طالب علموں اور ریسرچ اسکالرز کے سامنے نظر ثانی کرنے، اصلاح کی غرض سے مسودے کو بار بار پڑھنے، اور ابتدائی ڈرافٹ کو حرفِ آخر نہ سمجھ لینے کی تلقین کرتے ہوئے عینی آپا کے اس نوع کے تخلیقی عمل کی مثال پیش کی ہے۔ مجھے خود بھی اس طریقِ کار کے سبب خود تنقیدی کے مزاج کے باوجود مزید احتساب اور اپنی کسی تحریر سے جلد مطمئن نہ ہونے کا سبق ملا ہے۔

            عینی آپا کے قیامِ علی گڑھ کے زمانے میں ، میرے اصرار پر انھوں نے دو بڑے اہم اور غیر معمولی مضامین لکھے۔ ہوا یوں کہ رسالہ ’الفاظ‘ سے کنارہ کشی کے بعد میں نے کسی اور ادبی رسالے کے نکالنے کی ٹھان رکھی تھی، چنانچہ ’انکار‘ کے نام سے ایک نیا کتابی سلسلہ شائع کرنے کا تہیہ کر لیا۔ ان ہی دنوں وہ ثریاحسین صاحبہ کے ساتھ حیدرآباد کے سفرپر گئی تھیں اور یادوں کا نہ جانے کیا کیا خزانہ اپنے ساتھ لائی تھیں ۔ وہ وہاں کی تاریخ، تہذیب، زبان، جغرافیہ اور بعض شناساؤں کا اکثر ذکر کیا کرتیں ۔ میں مصر ہو گیا کہ رسالہ ’انکار‘ کے پہلے شمارے کے لیے آپ حیدرآباد کا سفرنامہ لکھ ڈالیں ۔ ابتدا میں تو انھوں نے خاموشی اختیار کی، مگر مجھے اندازہ ہو گیا کہ وہ اس سفرنامے کے لیے ذہنی طور پر آمادہ ہو گئی ہیں ۔ بعض حقائق کی تلاش و جستجو اور بعض دکنی مصنّفین کی نثر و نظم کی کتابیں ان کے مطالعہ میں رہنے لگیں اور جب ایک روز موصوفہ نے یہ بشارت دی کہ دیکھو تمہارے لیے مجھے جو سفرنامہ لکھنا ہے اس کا میں نے عنوان ڈھونڈھ لیا ہے۔ یہ ملا وجہی کا ایک مصرع تھا   ع  دکن سا نہیں ٹھار سنسار میں  —- ظاہر ہے اندھا کیا چاہے دو آنکھیں ۔ میں تو نہال ہو گیا اور دوچار ہی ہفتوں میں انھوں نے سفرنامہ مکمل کر کے میرے حوالے کر دیا۔ میں نے جب پہلے شمارے میں اس سفرنامے کو چھاپا تو گویا اس شمارے کا سب سے بڑا سرمایہ وہی سفرنامہ بن گیا۔ اس کے علاوہ انھوں نے ’انکار‘ کے لیے دوسری تحریر ایران کے انقلاب پر لکھی تھی۔ انقلاب کا عمل جاری تھا اور پاسدارانِ انقلاب کے بارے میں ہیبت ناک خبریں آ رہی تھیں ۔ عینی آپا نے اس انقلاب پر جو مضمون لکھنا شروع کیا اس میں خاصا روشن خیال نقطۂ نظر اختیار کیا گیا تھا۔ اسی لیے واجب و القتل، واجب القتل کی تکرار اس میں بہت تھی اور لہجہ احتساب اور تنقید کا تھا۔ اہم بات یہ تھی کہ عینی آپا نے اس مضمون (جس کا نام عالمِ آشوب رکھا گیا تھا) میں کثرت سے مرزا دبیر اور بعض مقامات پر میرانیس کے مراثی کے مصرعے کے مصرعے استعمال کر ڈالے تھے۔ پہلی نظر میں تاثر یہ ہوتا تھا کہ انھوں نے لکھنوی مرثیوں کی بنیاد پر کوئی اسمبلائز سا تیار کیا ہے مگر ایسا نہیں تھا۔ درمیان میں بعض مصرعوں کی معنویت اور خود مصنفہ کے قائم کردہ سیاق و سباق نے اس میں چار چاند لگا دیے تھے اور بصیرت کے ساتھ عبرت کی فراوانی دکھائی دیتی تھی۔ اس عالم آشوب کا ذیلی عنوان تھا ’’قید خانے میں تلاطم ہے کہ ہند آتی ہے‘‘ جو حضرت مرزا دبیر لکھنوی کے ایک مرثیے سے لیا گیا تھا۔ اس عالم آشوب کے لکھنے کے زمانے میں ایک اور قابلِ ذکر بات یہ ہوئی کہ جب کبھی میں ان سے ملنے جاتا تو دیکھتا کہ وہ مرثیوں کے متعدد بند  بہ آواز بلند دُہرایا کرتی ہیں اور جو مصرعے یاد نہ آتے انھیں یاد کرنے یا حوالہ دیکھنے کی کوشش کرتی تھیں ۔ اس سلسلے میں حیرت انگیز طور پر ان کی مدد پروفیسرثریاحسین کے خاوند پروفیسر اظہارحسین کیا کرتے۔ اظہار صاحب ادب دوست کی حیثیت سے ضرور جانے جاتے تھے مگر کیا پتہ تھاکہ علم ریاضیات کے ایک ممتاز اور نامور عالم اور پروفیسر ہونے کے ساتھ ساتھ ان کی گھٹی میں شعر و ادب بالخصوص مرثیوں کی روایت اس حد تک پڑی ہوئی تھی کہ وہ جب سنانے پر آتے تو مختلف مرثیہ نگاروں کے مرثیے جگہ جگہ سے اپنی یادداشت سے سناتے چلے جاتے۔ خود عینی آپا جو اظہارحسین صاحب کی طرح سکہ بند شیعہ روایات کی شاید پروردہ نہ رہی ہوں مگر انھوں نے مرثیے کی معنویت میں کچھ ایسے اضافے کیے جن سے روایت اور روشن خیالی دونوں کی آمیزش ناگزیر طور پر محسوس کی جاسکتی تھی۔ ویسے قرۃالعین حیدر کے بارے میں اس بات کی وضاحت کی چنداں ضرورت نہیں کہ شاعری میں ان کا ذوق نہایت بالیدہ تھا۔ ان کو کثرت سے اساتذہ کے ہی نہیں اپنے زمانے کے بھی پسندیدہ شعرا کا کلام ازبر تھا۔ یہ تو ہم سب جانتے ہیں کہ وہ اپنے ناولوں اور افسانوں تک کے عنوان میں عموماً کسی نہ کسی شعر سے استفادہ کیا ہے  ع:  اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے، ع: میرے بھی صنم خانے تیرے بھی صنم خانے، ع: گردش رنگ چمن ہے ماہ و سال عندلیب، ع: دو نیناں مت کھائیو انھیں میں ملن کی آس، ع: اگلے جنم موہے بٹیا نہ کیجو، وغیرہ وغیرہ۔ ان مصرعوں کی معنویت کو نظر انداز کر کے ان کے فکشن کی تحت البیان کو بہت زیادہ سمجھا بھی نہیں جاسکتا۔ فیض احمد فیض کی بہت سی نظمیں اور غزلوں کے اشعار اچانک ان کی زبان پر آ جایا کرتے۔ میں نے فیض کی نظم ’انتساب‘ پہلے بھی ایک سے زیادہ بار پڑھی تھی اور یوں ہی سرسری گزر گیا تھا۔ ایک روز جب انھوں نے یوں ہی پڑھا  ع  آج کے نام اور آج کے غم کے نام  — آج کا غم کہ ہے۔ ۔ ۔ ۔ ، تو میں نے ان سے پوچھ لیا کہ یہ کون سی نظم ہے تو بولیں ، ارے تمہیں یاد نہیں کیا اور لگاتار کئی مصرعے پڑھ ڈالے۔

آج کا غم کہ ہے، زندگی کے بھرے گلستاں سے خفا

 کرم خوردہ دلوں اور زبانوں کے نام

 تانگے والوں کے نام

 ریل بانوں کے نام

 کارخانوں بھوکے جیالوں کے نام

 بادشا ہِ جہاں ، والیِ مِاسوا، نائب اﷲ فی الارض دہقاں کے نام

 جس کے ڈھوروں کو ظالم ہنکا لے گئے

 جس کی بیٹی کو ڈاکو اٹھا لے گئے   —

 ان دکھی ماؤں کے نام

 رات میں جن کے بچے بلکتے ہیں ، اور نیند کی مار کھائے ہوئے بازوؤں سے سنبھلتے نہیں

 دکھ بتاتے نہیں

منتوں زادیوں سے بہلتے نہیں ۔ ۔ ۔ ۔

 اس لیے ناچیز کو اس اعتراف میں کوئی تکلف نہیں کہ فیض کی اس نظم کی معنویت مجھ پر عینی آپا کی باتوں سے نئے سرے سے منکشف ہوئی۔ اس گفتگو کے بعد جب میں نے فیض صاحب کی اس نظم کو مزید توجہ سے پڑھا اور اس پر غور کیا تو اندازہ ہوا کہ اس میں تو ترقی پسند جمالیات کا سارا جوہر سمٹ آیا ہے۔

            عینی آپا کے قیام علی گڑھ میں انھیں مختلف موڈ اور کیفیت میں دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ شعبے میں ایک رفیقِ شعبہ کی حیثیت سے، ان سے تبادلۂ خیال کرتے ہوئے ایک استاد اور دانش ور کی حیثیت سے اور ذاتی ملاقاتوں میں ایک بزرگ اور شفیق معاصر اور دوست کی حیثیت سے۔ انھیں اپنے والد اور اپنے خاندان سے جو جذباتی لگاؤ تھا اس کا اندازہ ان کی عام تحریروں سے بھی کیا جاسکتا ہے اور خاص طور پر ان کی کتاب ’کارِ جہاں دراز ہے‘ سے۔ وہ میری بیگم دردانہ قاسمی سے کبھی ان کی ریسرچ کے حوالے سے اور کبھی ذاتی خوش گپی میں دیر دیر تک اپنی والدہ اور والد کے معمولات کی تفصیل بتلاتی رہتی تھیں ۔ ان کا اور والدہ کا ساتھ چوں کہ عرصۂ دراز تک رہا اور ہندوستان سے پاکستان ہجرت اور پھر واپسی جیسے تمام مراحل میں والدہ ان کے ہمراہ رہیں ، اس لیے اس طرح کی گفتگو میں والدہ کی یاد زیادہ غالب رہتی۔ ایک بار دردانہ نے انھیں کھانے پر اپنے گھر مدعو کیا۔ اس زمانے میں ہمارا گھر محض دو چھوٹے چھوٹے کمروں اور ایک ناکافی ورانڈے پر مشتمل تھا۔ پہلے سے تو انھوں نے کھانے میں نمک نہ ڈالنے یا سبزی اور گوشت کے بارے میں اپنی پسندو ناپسندیدگی پر متعدد ہدایات دے دی تھیں مگر جب آئیں تو حد درجہ خوش مزاجی کا مظاہرہ کرتی رہیں ۔ دروازے کی چوکھٹ، کمروں کے دروازوں اور ریفریجریٹر وغیرہ پر جو آیتیں اور دعائیں لگائی گئی تھیں ان کو پڑھتیں اور مجھ سے ان کے معنی دریافت کرتی رہیں ۔ ویسے ان آیتوں اور دعاؤں کا ہلکا سا مفہوم ان پر پہلی نظر میں واضح بھی لگتا تھا۔ پھر بولیں کہ خدا کا شکر ہے کہ کوئی تحریر بے موقع اور نامعقولیت سے نہیں لگی ہوئی۔ بھئی تم تو خاصے معقول آدمی ہو۔ چوکھٹ پر گھر کی حفاظت، دروازوں پر عام صحت و عافیت اور فریج پر رزق سے متعلق آیتوں کو پڑھ کر انھیں خوب اندازہ ہو گیا تھا کہ جو آیت جس جگہ تھی اسے وہیں ہونا چاہیے تھا۔ وہ معمولی معمولی باتوں سے انسان کے معمولات اور رویوں کے بارے میں گہرائی سے رائے قائم کیا کرتی تھیں ۔ ایک بار میں ان کے پاس بیٹھا ان سے ہم کلام تھا کہ میں نے کسی وجہ سے گھڑی دیکھ لی، پھر کیا تھا وہ اچانک چراغ پا ہو گئیں ۔ بولیں ، اگر آپ کو کہیں جانے کی جلدی ہے تو آپ جاسکتے ہیں ، بار بار گھڑی کیا دیکھ رہے ہیں ۔ انھوں نے علی گڑھ میں اپنے قیام کے دوران اردو فکشن کے مطالعہ اور مقبولیت کا ایک سروے بھی کرایا تھا۔ ہوا کچھ ایسا تھا کہ انھوں نے ایک سوال نامہ تیار کیا جس میں نام، دلچسپی، شعبہ کا نام، ناولوں کے نام، اہم ناول اور افسانہ لکھنے والوں کے نام وغیرہ درج تھے۔ یہ سوال نامہ یونیورسٹی کی مختلف فیکلٹیوں اور شعبوں کے ایسے لوگوں کے پاس بھیجے گئے جو الگ الگ علوم و فنون کے ماہر ہونے کے ساتھ اردو ادب کے قاری بھی تھے۔ دراصل اس سروے سے یہ اندازہ لگانا مقصود تھا کہ فکشن کی مقبولیت اور عدم مقبولیت کی صورت حال کیا ہے اور یہ بھی کہ کون کون سی تحریریں زیادہ پڑھی جاتی ہیں اور کون سی کم ۔ ممکن ہے اس پورے عمل میں بحیثیت فکشن نگار خود اپنی مقبولیت یا درجہ بندی کا اندازہ لگانا بھی ایک ضمنی مقصد رہا ہو۔ اس طرح جب سروے مکمل ہوا تو اس کے نتائج بہت دلچسپ اور اہم نکلے۔ انھوں نے ان نتائج پر مبنی ایک رپورٹ بھی تیار کرنا شروع کی تھی۔ پتہ نہیں بعد میں اس رپورٹ کا کیا بنا۔ تاہم اگر وہ نتائج چھپ جاتے تو ان کی بنیاد پر اردو فکشن کی مقبولیت، نا مقبولیت، معیار وغیرہ پر خاصی کارآمد گفتگو کی جاسکتی تھی۔ اس سروے کی تیاری اور نتائج وغیرہ کی ترتیب و تدوین میں انھیں پروفیسرثریاحسین اور پروفیسر اظہارحسین کا بھی تعاون حاصل تھا۔ پروفیسرثریاحسین نے عینی آپا کے قیامِ علی گڑھ کے زمانے میں خود بھی متعدد علمی کاموں کا منصوبہ بنایا۔ ’پیرس و پارس‘ کے نام سے اپنا ایران اور فرانس کا سفرنامہ لکھا، ’’جمالیات شرق و غرب‘‘ کے نام سے ایک کتاب لکھی اور متعدد مضامین قلم بند کیے۔ ان چیزوں میں انھیں عینی آپا کے بھرپور تعاون کے ساتھ ان کی رہنمائی بھی حاصل رہا کرتی تھی۔ واضح رہے کہ اس زمانے میں ایک تو وہ شعبۂ اردو کی صدر ہو چکی تھیں اور باقاعدہ طور پر ادبی نظم و نسق میں شریک بھی رہا کرتی تھیں ۔ چوں کہ اس سے پہلے ان کا کوئی خاص علمی کام سامنے نہیں آیا تھا اس لیے عینی آپا کے ورود کو ان کے لیے ورودمسعود سے کم نہیں قرار دیا جاسکتاتھا۔

            ایک بار مجھے عینی آپا کے ساتھ یونیورسٹی کے رجسٹرار آفس جانے کا اتفاق ہوا۔ شاید امتحان کے کسی کام کے معاوضے کا معاملہ تھا۔ (پیسے وغیرہ کے معاملے میں وہ اپنے واجبات کو کبھی ثانوی حیثیت نہ دیتی تھیں ) وہ تھوڑی دیر بیٹھی رہیں اور ادھر اُدھر دیکھتے ہوئے کہنے لگیں کہ شاید یہ وہی عمارت ہے جو بچپن ہمارا گھر ہوا کرتا تھا، جس میں میری پیدائش ہوئی تھی۔ تحقیق کرنے پر معلوم ہوا کہ بیسویں صدی کی تیسری دہائی میں یونیورسٹی کے پہلے رجسٹرار کی کوٹھی سچ مچ وہی تھی جس میں کئی سال تک یونیورسٹی کے پہلے رجسٹرار سجاد حیدر یلدرم قیام پذیر رہ چکے تھے۔  وہ اکثر کہا کرتی تھیں کہ میرا حافظہ یوں تو بہت اچھا نہیں مگر جیسا بھی ہے، ہے فوٹو جینک ہے، یعنی ان کی یادیں تصویری شکلوں میں ان کے حافظے میں محفوظ رہا کرتی تھیں ۔ یادوں کی بازگشت کے اس عمل کی انوکھی کارفرمائی ان کی تحریروں میں جگہ جگہ بخوبی دیکھی جاسکتی ہے۔

            علی گڑھ سے واپسی کے بعد وہ بمبئی کے بجائے باقاعدہ طور پر دہلی منتقل ہو گئیں اور ذاکر باغ میں رہنے لگیں ۔ اس وقت BCCI کی طرف سے ہندوستانی ادیبوں کے وظیفے کاا یک سلسلہ شروع ہوا تھا، وہ کئی سال تک اس پروگرام کی سربراہ رہیں ۔ ہم لوگ جب بھی دہلی جاتے ان سے ملاقات کی غرض سے ذاکر باغ ضرور جاتے۔ وہ چاہتی تھیں کہ ہم اپنے بچوں کے ساتھ ان کے گھر جا کر ان سے ملا کریں ۔ یاد آتا ہے کہ ایک بار انھوں نے آموں سے ہماری ضیافت کی تھی۔ بچوں کو الگ الگ بٹھا کر سامنے اخبار بچھا دیے تھے۔ اسی موقع پر ہمارے چھوٹے بیٹے سمیر کی تیزی اور شرارت کی وجہ سے اس کا نام انھوں نے چالو چکر رکھ دیا۔ بعد میں عرصے تک وہ اس کی خیریت چالو چکر کے نام سے ہی پوچھا کرتی تھیں ۔ ذاتی تعلقات میں وہ یوں بھی چھوٹی چھوٹی باتوں کی خاصی پرواہ کیا کرتی تھیں اور خیال بھی زیادہ رکھا کرتی تھیں ۔ دہلی میں ان کے مراسم پروفیسرشمیم حنفی، صبا بھابی اور ان کے بچوں سے بہت گہرے رہے۔ ان کے گھر عینی آپا کا آ جانا بھی بہت تھا اور شمیم صاحب کی ذاتی اور ادبی باتوں کو وہ اہمیت بھی بہت زیادہ دیا کرتی تھیں ۔

            دہلی کے زمانۂ قیام میں ان کی روحانی عقیدت ایک صوفی ’میاں صاحب‘ سے بہت گہری ہو گئی تھی جو بہ ظاہر دیکھنے میں خاصے ماڈرن اور روشن خیال لگتے تھے۔ وہ جب دہلی آتے تو عینی آپا کے ہی گھر ٹھہرتے۔ ان کے ساتھ عموماً ان کے دوچار مریدین اور عقیدت مند بھی ہوتے۔ جب تک وہ وہاں ٹھہرتے ان سے ملنے والے لگاتار آتے جاتے رہتے۔ وہ عینی آپا، جو بے حد نفاست پسند تھیں اور غیر ضروری بھیڑ بھاڑ کو ناپسند کرتی تھیں ، وہ اب نہ صرف اپنے پیرکی عادات و اطوار سے مطمئن تھیں بلکہ ان کی ناز برداری میں بھی کوئی کسر نہیں اُٹھا رکھتی تھیں ۔ وہ خود بھی عینی آپا کو آپا ہی کہا کرتے اور اکثر اپنی گفتگو میں حسِّ مزاح کا مظاہرہ کرتے رہتے تھے۔ ان سے عقیدت کے معاملے میں عینی آپا کی غیر معمولی سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ انھوں نے اپنے ناول ’گردش رنگ چمن‘ میں ان کے اور ان کے بعض عقیدت مندوں کے کرداروں پر تقریباً سو ڈیڑھ سو صفحات صَرف کیے ہیں اور ان کے کردار کو ماورائی کے بجائے حقیقی بنا کر پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ یوں تو بعض لوگوں نے اس صوفی کردار پر اعتراضات بھی کیے ہیں مگر زندگی کے معمولات میں اگر اس نوع کے کردار، ان سے غیر معمولی عقیدت اور بعض محیرالعقول واقعات کو ہم تسلیم کیے رہتے ہیں تو ناول کی یہ کون سی حقیقت نگاری ہوتی ہے کہ کردار کے ظاہر کے ساتھ باطن اور نفسیات کی ساری پیچیدگیوں کو اُبھارنے کی کوشش نہ کی جائے۔ اگر انسانی زندگی کے تضادات کو ناقابلِ یقین حد تک بیان کرنے کو تہہ دار حقیقت نگاری کا نام دیا جائے یا اگر آزاد تلازمۂ خیال وغیرہ کی تکنیک کی مدد سے تخلیقی عمل کے سارے داخلی رشتوں تک رسائی حاصل کرنے کو کردار کی زیادہ بہتر پیش کش کا بدل قرار دیا جائے، تو ایسے رویوں کو ناول نگاری کا حصہ بنانا قابلِ اعتراض کیوں کر کہا جاسکتاہے؟

            قرۃالعین حیدر نے ہمیشہ تجرد کی زندگی گزاری۔ وہ جس حد تک نازک مزاجی اور اپنی پسند و ناپسند کے ساتھ جینا چاہتی تھیں ، شاید ان کا یہ فیصلہ زیادہ دانش مندانہ تھا۔ وہ اپنی زود رنجی کی بنا پر بلا تکلف اپنے غصے کا اظہار کر دیا کرتی تھیں اور کسی رو رعایت کی قائل نہ تھیں ۔ بیسویں صدی کی آخری دہائی کے اوائل میں انھیں گیان پیٹھ کے اعزاز سے نوازا گیا تھا اور صحیح معنوں میں اس طرح اردو کے جس ممتاز ترین ادیب، دانش ور اور عالم کو اس انعام کا سب سے زیادہ استحقاق حاصل تھا وہ فرض پورا ہوا۔ اگر اردو والوں کو اس بات کا رنج ہوتا ہے کہ ہندوستانی ادبیات میں ٹیگور کو نوبل ایوارڈ ملا اور علامہ اقبال کو نہیں ملا تو اس بات کی خوشی ضرور ہونی چاہیے کہ اگر نوبل انعام نہیں تو کم از کم گیان پیٹھ کے انعام کو قرۃالعین حیدر کی پذیرائی کر کے وہ عزت ملی جو بلا تفریق زبان بہت کم ایوارڈ یافتگان کی پذیرائی کی بدولت مل سکتی تھی۔ عینی آپا اس موقع پر بھی علی گڑھ تشریف لائی تھیں جب اس ایوارڈ کا اعلان ہوا تھا۔ علی گڑھ میں مختلف جگہوں پر اس اعزاز کے سلسلے میں تقریبات منائی گئیں ۔ شعبۂ اردو کی تقریب میں اس موقع سے انھوں نے اپنا قدرے پرانا اور غیر معمولی افسانہ ’ملفوظات گل بابا بیگ تاشی‘ پڑھ کر سنایا تھا۔ یاد آتا ہے کہ اس موقع پر ناچیز اور شہریار نے ان سے ایک طویل گفتگو یا انٹرویو ریکارڈ کیا تھا۔ بعد میں یہ انٹرویو شعر و حکمت میں شائع ہوا۔ ان کے شائع شدہ انٹرویوز میں شاید یہ انٹرویو سب سے زیادہ کارآمد، جامع، معلوماتی اور گہری سنجیدگی پر مبنی گفتگو پر مشتمل تھا۔ شاید اسی باعث اس انٹرویو کو بعد میں میری معلومات کے مطابق کم از کم آٹھ دس جگہ نقل کیا جا چکا ہے۔

٭٭٭

 

بڑا ہے درد کا رشتہ

(شہریار کی یاد میں )

            میرے لیے وہ علی گڑھ کے ابتدائی ایام تھے۔ ہم چند دوست جو جامعہ ملیہ سے اسکول کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں زیرِ تعلیم تھے، ان کے لیے علی گڑھ کے ابتدائی مہینے کچھ ایسے گزرے کہ جیسے یہاں کوئی روشن خیالی نہ ہو، ذہنی اور فکری آزادی کا ماحول نہ ہو اور طالب علم اپنی ذاتی یا علاقائی دنیائیں بنائے انھیں کے خول میں بند رہتے ہوں ۔ مگر جیسے جیسے تعلیمی میقات کے آخری چند مہینے آنے شروع ہوئے، علی گڑھ میں ادب، ثقافت اور کھیل کود کی سرگرمیوں کا سیلاب سا آگیا۔ معلوم ہوا کہ آخری دو تین مہینوں میں ہرہوسٹل اور ہال کے ادبی اور ثقافتی مقابلے بھی ہوتے ہیں اور آزادانہ طور پر کہیں موسیقی، کہیں مشاعرہ، کہیں مونو ایکٹنگ اور کہیں طلبا کی مختلف صلاحیتوں کے اظہار کے مواقع اپنے آپ نکل آتے ہیں ۔ ایسی ہی کوئی شام تھی جب سرسیدہال میں ایک شعری نشست منعقد ہوئی تھی۔ اس میں علی گڑھ کے تقریباً ان تمام شاعروں کو دیکھنے اور سننے کا موقع ملا جن کے نام اور کلام سے آشنائی گذشتہ چند برسوں میں مشاعروں اور ادبی رسائل کے توسط سے ہ وچکی تھی۔ ان شاعروں میں خورشیدالاسلام بھی تھے، خلیل الرحمن اعظمی بھی، شہریار بھی تھے اور وارث کرمانی بھی۔ ان کے علاوہ مسعودعلی ذوقی، وحید اختر، بشیر بدر وغیرہ اہم تھے۔ زیادہ تر شاعروں کے نام سنے ہوئے تھے اور بعض ہمارے لیے اجنبی تھے۔ بی۔ اے فرسٹ ایر کے طالب علم کی بساط ہی کیا، محض سننے، داد دینے اور کوئی شعر پسند آگیا تو اس کو لکھ لینے تک اپنا مذاق محدود تھا۔ شہریار کے بارے میں سن رکھا تھا کہ ان کے استاد خلیل الرحمن اعظمی ہیں اور ان کے ہی فیضِ تربیت نے شہریار کو شہریار بنایا ہے۔ اس وقت یہ قوتِ فیصلہ تو تھی ہی نہیں کہ یہ طے کر پاتے کہ ان دونوں میں کس کا کلام زیادہ موثر اور زیادہ بہتر تھا یا پھر یہ کہ کس کا اندازِ شاعری استادانہ تھا اور کس کا مبتدیانہ۔ اتفاق سے اس مشاعرے کے بعد شہریار صاحب سے کسی نے تعارف کرا دیا اور بتایا کہ اس طالب علم کو بھی شعرو ادب کا ذوق ہے۔ اپنی فطری کم آمیزی کے باعث کسی بزرگ اور ممتاز شخصیت سے بار بار ملنے کا سوال ہی نہیں تھا البتہ دو ایک بار شہریار صاحب سے ملاقات ہوئی تو انھوں نے اجنبیت کا تاثر نہیں دیا۔ ناچیز کے لیے یہ بھی کوئی کم اہم بات نہ تھی۔ چندسال گزرے تو بی۔ اے مکمل ہو چکا تھا اور یہ انکشاف بھی ہو گیا تھا کہ عربی زبان میں یہ جو میں نے آنرز لے لیا تھا اور خصوصیت کے ساتھ عربی کے جو زیادہ کورسز لیے تھے۔ ان سے عربی دانی میں تو کوئی اضافہ نہیں ہوا بلکہ اپنی دلچسپی کی زبان اردو سے دوری بڑھتی جا رہی ہے   —- بی۔ اے میں ضمناً اردو کے بعد پرچے پڑھے ضرور تھے مگر اردو میرا کوئی باقاعدہ سبجیکٹ نہ تھا۔ تاہم اردو افسانے اور شاعری سے فطری لگاؤ کے باعث راقم الحروف نے اردو ادب میں ایم۔ اے کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ چوں کہ بی۔ اے میں بہت امتیازی حیثیت سے پاس ہوا تھا اس لیے داخلہ تو ملنا ہی تھا، مگر اردو زبان و ادب کی ایک نئی دنیا سامنے تھی۔ جس سبجیکٹ کو محض مادری زبان سمجھ کر اپنانے کی کوشش کی تھی، اس کے بارے میں اب اندازہ ہونے لگا تھا کہ یہ تو علم دریاؤ ہے۔ شاعری میں نظم، غزل، مثنوی، قصیدہ، مرثیہ اور نثر میں افسانہ، ناول، سوانح وغیرہ وغیرہ۔ جہاں تک سوال نصابات کا تھا اس کے تقاضے بالکل الگ اور محدود تھے مگر شعر و ادب کا ذوق علی گڑھ کی علمی و ادبی سرگرمیوں کی طرف بار بار متوجہ کرتا اور للچاتا رہتا تھا۔ اسی لگن اور شعر و ادب کی وارفتہ مزاجی نے شہریار سے باقاعدہ ملاقات کرائی۔

            شہریار مجھے ایم۔ اے کے پہلے سال میں شعبۂ اردو میں کہیں دکھائی نہیں دیے۔ معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ وہ ایک سال کی تعلیمی رخصت پر ہیں ۔ شاید اپنی پی ایچ۔ ڈی مکمل کرنے کی خاطر۔ ایک روز اپنے رفیقِ جماعت خورشید احمد کے ساتھ شہریار کے گھر کا راستہ معلوم کر کے ان سے ملنے چلا گیا۔ تعارف کرانے کی چنداں ضرورت نہ تھی، یہ تو ان کو معلوم ہوہی چکا تھا کہ ہم دونوں ایم۔ اے اردو کرنے کی غرض سے شعبۂ اردو کے طالب علم بن چکے ہیں ۔ وہ اپنے کسی کام میں مصروف تھے۔میز پر  ناصر کاظمی کا مجموعۂ کلام ’دیوان‘ نظر آیا۔ ان کا پہلا مجموعۂ کلام ’برگِ نے‘ پہلی ہی پڑھ چکا تھا اس لیے ’دیوان‘ کو بڑے تجسّس اور اشتیاق کے ساتھ اُلٹ پلٹ کر دیکھنے لگا۔ واپسی پر شہریار نے جب ناصر کاظمی کا کلام میرے ہاتھ میں دیکھا تو دریافت کیا کہ کیا آپ لوگوں کو بھی شاعری سے کچھ شغف ہے؟ ظاہر ہے کہ ہمارا جواب اثبات میں تھا۔ میں نے تو ان کے سوال کے جواب میں اپنی یادداشت سے شہریار کے متعدد شعر بھی وہاں سنا دیے اور ان کے چہرے پر یہ تاثر ڈھونڈھنے کی کوشش کرنے لگا کہ ان کو اپنے ذکر سے کتنی خوشی حاصل ہوئی۔ مگر شہریار ان کم سواد لوگوں میں نہ تھے جو اپنے ذکر سے بلاوجہ سرشار ہو جاتے۔ اس طرح ان کی ایک خاص اُفتادِ طبع ہم پر منکشف ہوئی۔ شہریار کے چہرے میں پختہ عمر میں بھی جو عجیب و غریب معصومیت تھی، بھولاپن تھا وہ ان کی عمر کے لوگوں میں مشکل سے تلاش کیا جاسکتا تھا۔ اتفاق دیکھیے کہ شہریار کے چہرے کی یہ معصومیت اگر ان کے گھر میں کسی اور کے چہرے پر نظر آتی ہے تو وہ ان کے بڑے بیٹے ہمایوں (بھیّو) ہیں جو جب تک بات نہ کریں اندازہ ہی نہیں ہوسکتاکہ وہ اس قدر پختہ کار اور ہوش مند نوجوان ہیں ۔ البتہ وہ وارفتہ مزاجی اور گرم جوشی جو شہریار میں تھی وہ اتفاق سے ان کے تینوں بچوں میں ہے۔

            دلچسپ بات یہ تھی کہ شہریار نے ایک سال کی تعلیمی رخصت کے بعد شعبہ جوائن کر لیا پھر بھی ہمیں ان کی شاگردی کا شرف حاصل نہ ہوسکا۔ تاہم ان سے روز بروز مراسم بڑھتے رہے جو اُن کے گھر کے ذاتی ملاقاتوں سے لے کر مختلف محفلوں میں بیٹھنے، باتیں کرنے اور دیر دیر تک تبادلۂ خیال تک پھیلے ہوئے تھے۔ ان کے لیے میری نیاز مندی دوستانہ مراسم کی حدوں میں بہت جلد داخل ہو گئی۔ میں نے ویسے کبھی ان سے بے تکلف ہونے کی کوشش نہیں کی اور رسمی طور پر شاگرد نہ ہونے کے باوجود خود کو گویا شاگرد ہی سمجھتا رہا اور ان کو استاد کے منصب پر فائز۔ چھٹی کے دنوں میں ان کے گھر پر یا نجی ملاقاتوں میں جب کبھی ان سے گفتگو کا موقع ملا تو اس میں شعر و ادب یا زیادہ سے زیادہ ادبی سیاست قسم کی چیزیں موضوعِ گفتگو رہیں ۔ شہریار کی عادت تھی کہ وہ اپنے چھوٹوں کو مختلف ادیبوں سے ملاقاتوں کا حال بتاتے یا پھر علی گڑھ میں ان کے ایامِ طفلی سے ہی جو ادبی سرگرمیاں عروج پر رہیں ان کی تفصیلات سے آگاہ کرتے رہتے تھے۔ پھر مجھ سے کچھ زیادہ بے تکلف ہونے اور میرا ظرف آزمانے کے بعد اردو اور شعبۂ اردو کی بظاہر پُرسکون مگر دراصل داخلی کش مکش پر مبنی صورت حال کی  طرف اشارہ بھی کرتے رہتے۔ متعدد ملاقاتوں کے بعد اور شہریار ہی کے توسط سے حاصل ہونے والی معلومات اور رشتوں کے نازک ارتعاشات سے باخبر ہونے کے سبب ہمیں ایسا لگتا گویا ہم خود علی گڑھ کی ادبی صحبتوں میں عرصے سے شریک ہوتے چلے آرہے ہیں ۔ ان کی گفتگو بے لوث، مثبت اور نہایت غیر متعصبانہ ہوا کرتیں ۔ شاید یہی سبب تھا کہ شہریار کی محفلیں معلوماتی بھی ہوتی تھیں ، مخلصانہ بھی اور ذہنی تحفظات اور ادبی تعصبات سے آزاد رہ کر غور و فکر کی دعوت بھی دیا کرتی تھیں ۔

            میں نے اپنے ادبی کیریر کا آغاز یوں تو شاعری، افسانہ نگاری اور چھوٹے موٹے مضامین لکھنے سے کیا تھا مگر قابلِ اعتنا انداز میں میرا ادبی اظہار رسالہ ’الفاظ‘، علی گڑھ کے مدیر کی حیثیت سے اداریہ اور تبصرہ لکھنے کے ساتھ ہوا۔ ’الفاظ‘ کی اشاعت اور میری تدریسی ملازمت کا سلسلہ تقریباً ایک ساتھ شروع ہوا تھا۔ چنانچہ میں نے شعبۂ اردو کے جن بعض اربابِ حل و عقد کو رسالے کی مجلس مشاورت میں شامل کر لیا تھا، وہ تھے خورشیدالاسلام، قاضی عبدالستار، خلیل الرحمن اعظمی اور نسیم قریشی۔ ان ناموں کے انتخاب میں اپنے احساسِ تحفظ، رفع شر، خلوص اور عقیدت جیسی تمام کیفیات ملی جلی تھیں ۔ شہریار ہمارے رسمی مشیروں میں سے تو نہ تھے مگر ادبی اور ادارتی مشورے عام طور پر انھیں سے لیا کرتا۔ اسی باعث تقریباً چار سال کے عرصے میں جب تک میں اس رسالے سے فعال طریقے پر وابستہ رہا، شہریار کا تازہ ترین کلام چھاپنے کا شرف ہمیں ہی حاصل ہوتا رہا۔ بلکہ ایک بار تو ایسی ہنگامی صورت حال درپیش آئی کہ میں نے شہریار کے ایک شعر کے علاوہ الگ سے اداریہ لکھنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی۔ ہوا یوں کہ مئی ۱۹۷۹ء میں علی گڑھ میں بھیانک فساد پھوٹ پڑا۔ مکانات نذرِ آتش ہوئے اور قتل و غارت گری کا بازار گرم ہوا۔ شہریار نے اسی زمانے میں ایک غزل ’الفاظ‘ میں اشاعت کے لیے دی، میں نے اس کے ایک مناسب حال شعر کو اداریہ کی جگہ پر شائع کر دیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ نہ صرف وہ شعر بلکہ پوری غزل اپنے دوسرے مضمرات سے کہیں زیادہ فرقہ پرستی کے سیاق و سباق میں پڑھی گئی اور نت نئے انداز میں اس غزل کے اشعار کی تعبیریں کی گئیں ۔ اداریے کی جگہ پر جو شعر شائع کیا گیا تھا وہ یہ تھا:

آگ شعلوں سے سارا شہر روشن ہو گیا

ہو مبارک آرزوئے خار و خس پوری ہوئی

شاید یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ ادبی حلقوں میں شہریار کے شعر کو بطور اداریہ بے حد پسند کیا گیا ہو گا۔ اس اتفاق کے ساتھ ایک بات اور بھی ہوئی، وہ یہ کہ شہریار کا شمار جدیدیت کے حلقہ بہ گوشوں میں ہوتا تھا مگر محمدحسن اور سردارجعفری نے اپنی متعدد تحریروں میں ان کی سماجی وابستگی کا جو متعدد بار ذکر کر رکھا تھا، اس کی مزید توثیق کے طور پر بعد کے زمانے میں بھی خصوصیت کے ساتھ شہریار کی متذکرہ غزل کے حوالے سے ان دونوں حضرات نے بار بار شہریار کی وابستگی کو نشان زد کیا۔

            یہ جس زمانے کا ذکر ہے اس وقت شعر و ادب کی عام صورت حال کے متوازی شعبۂ اردو کے پلیٹ فارم پر ایک قسم کی سرد جنگ بھی جاری تھی۔ پروفیسرخورشیدالاسلام اس زمانے میں نہ صرف یہ کہ شعبۂ اردو کے سربراہ تھے بلکہ یونیورسٹی کے اربابِ اختیار لوگوں میں بھی ان کی اہمیت مسلّم تھی۔ خورشیدالاسلام کے بعد شعبۂ اردو میں اگر کوئی اور شخص سینئرتھا تو وہ تھے خلیل الرحمن اعظمی۔ چنانچہ ان کی غیر موجودگی میں اعظمی صاحب ہی کارگزار صدر کی حیثیت سے خدمات انجام دیا کرتے تھے۔ اتفاق سے ایک بار خورشیدالاسلام کئی ماہ کی رخصت پر لندن چلے گئے اور اعظمی صاحب حسبِ توقع ان کی جگہ پر صدارت کے فرائض انجام دینے لگے۔ واضح رہے کہ اس زمانے میں یہ مسئلہ بھی درپیش تھا کہ شعبے میں پروفیسر کی جو ایک اسامی ہے اس پر عام لوگوں کی توقع اور اپنی غیر معمولی صلاحیت کے اعتبار سے خلیل الرحمن اعظمی کا پروفیسر ہونا عین متوقع سمجھا جاتا تھا۔ مگر ایک اور صاحب جو اعظمی صاحب سے جونیئر بھی تھے اور جن کا تنقیدی قد و قامت بھی ان کے برابر نہ تھا، انھوں نے اپنے لیے ماحول بنانا شروع کر دیا۔ ان کے ہم خیال لوگوں میں ڈاکٹر نعیم احمد اور ڈاکٹر محمد انصاراﷲ کے علاوہ یونیورسٹی سے دور کا تعلق رکھنے والے ان کے بعض خیرخواہ نمایاں تھے۔ ظاہر ہے کہ ان دونوں حضرات کو اوّل الذکر کسی کو پروفیسر بنوانے سے غرض کم تھی، خورشیدالاسلام کے خلاف محاذ آرائی کرنا زیادہ مقصود تھی۔ جب خورشیدالاسلام لندن سے واپس آئے تو شخص مذکور نے ان کے کان بھرے اور یہ احساس دلایا کہ خلیل الرحمن اعظمی تو پورے عرصے میں آپ کے بد خواہوں کے گرد گھرے رہے اور آپ کے خلاف سازشیں کرتے رہے  — اتفاق یہ تھا کہ خلیل الرحمن اعظمی اس زمانے میں ’لیوکومیا‘ (بلڈکینسر) کی جان لیوا بیماری میں بھی مبتلا تھے۔ سازش تو دور کی بات ہے کسی طرح کی دنیاداری بھی ان کے مزاج کے خلاف تھی۔ ایک تو علی گڑھ کے اہلِ علم کو ان کی شرافت اور انسانیت کا احساس تھا، دوسرے یہ ان کی مہلک بیماری کے سبب سے بھی بیش تر لوگوں کو خلیل صاحب سے ہمدردی تھی۔ مگر شخص مذکور نے تمام اخلاقیات، رحم و کرم اور مروّت کو بالائے طاق رکھ کر ان کے خلاف اس حد تک ماحول بنایا کہ خورشیدالاسلام کو  خلیل صاحب سے پوری طرح بدگمان کر کے رکھ دیا۔ سلیکشن کمیٹی تو ہوئی مگر خورشیدالاسلام، خلیل الرحمن اعظمی کو کاٹنے میں پوری طرح کامیاب نہیں ہو پائے۔ طے یہ پایا کہ درمیان کا راستہ یہ ہوسکتا ہے کہ دونوں حضرات کو پروفیسر بنا دیا جائے۔ مگر جگہ تو صرف ایک تھی، اس لیے اب یہ کوشش شروع ہوئی کہ ایک کے بجائے یو جی سی سے پروفیسر کی دو جگہیں طلب کی جائیں ۔ تاہم اس کام میں اتنا لمبا وقفہ صَرف ہو گیا کہ جون ۱۹۷۸ء میں خلیل الرحمن اعظمی کا انتقال ہو گیا۔ اس قدرتی حادثہ نے خورشیدالاسلام کی رہی سہی نیک نامی کو مٹی میں ملا دیا، اب خورشیدالاسلام بھی تلافی کی راہیں ڈھونڈھنے لگے۔ اس پوری صورت حال میں خلیل الرحمن اعظمی کے پروردہ اور عزیز ترین شاگرد شہریار کی حکمت عملی کام آئی اور انھوں نے خورشیدالاسلام کو راہِ راست پر لانے میں بڑا اہم کردار ادا کیا۔ مگر ان کے راہِ راست پر آنے کا اب جب کہ اعظمی کی وفات ہو چکی تھی کوئی فائدہ نہ تھا۔ بس جو ہوا سو یہ ہوا کہ خورشیدالاسلام نے اپنی شخصیت کا سارا زور صرف کر کے اور یونیورسٹی کے اربابِ حل و عقد کو اپنی طلاقت لسانی سے مرعوب کر کے دو نسبتاً جونیر اور کم صلاحیت اساتذہ کو پروفیسر بنوانے میں کامیابی حاصل کر لی۔ حالاں کہ وہ مذکورہ شخصیت جس نے غلط طریقے سے خود کو اس عہدہ پر فائز کرانا چاہا تھا، وہ ان دونوں جونیر اساتذہ سے بہرحال زیادہ باصلاحیت تھی۔ پھر کیا تھا شعبۂ اردو کے اندر اور باہر طوفانِ بدتمیزی کا ایک طویل سلسلہ شروع ہو گیا۔ مگر اب ہونا ہی کیا رہ گیا تھا  — ان تمام تفصیلات سے محض یہ بتانا مقصود ہے کہ شہریار اپنے مزاج اور افتادِ طبع کے اعتبار کسی کے خیرخواہ تو ہوسکتے تھے مگر بدخواہ نہیں ۔ یہ شاید واحد معاملہ تھا جس میں انھوں نے بہ ظاہر منفی مگر دراصل حقیقت پسندانہ کردار ادا کیا تھا، اور خلیل الرحمن اعظمی کے بد خواہوں کو آئینہ دکھانے کی کوشش کی تھی۔ پروفیسر خورشیدالاسلام صاحب خلیل الرحمن اعظمی کے ساتھ انصاف نہ کرنے کی جو غلطی کر چکے تھے شہریار نے انھیں اس کا ایسا شدید احساس دلا دیا کہ وہ اپنی اتنہاپسندی کے مزاج کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی فروگزاشت کی تلافی کرنے کی خاطر کچھ بھی کرنے کو آمادہ ہو گئے تھے۔

            پروفیسرشہریار کو ۱۹۸۷ء میں ساہتیہ اکیڈمی انعام و اعزاز کا مستحق قرار دیا گیا تھا۔ مجھے یاد آتا ہے کہ میں اس انعام کے اعلان کے وقت پاکستان گیا ہوا تھا۔ واپس آیا تو یہ خوش خبری خود شہریار صاحب نے سنائی۔ میں ان دنوں یونیورسٹی کے جنرل ایجوکیشن سنٹر میں لٹریری کلب کا صدر تھا۔ وہاں کسی استاد کی صدارت میں طلبا کی ایک بڑی ٹیم ہوتی ہے جو یونیورسٹی کی ادبی سرگرمیوں کے مواقع فراہم کرتی ہے۔ پورے ملک میں تقریری مقابلہ ہو یا مضمون نگاری کا مقابلہ، بیت بازی ہو یا کسی نوع کا مباحثہ یا پھر ڈرامہ وغیرہ سے متعلق آل انڈیا مقابلے، لٹریری سوسائٹی کے صدر کو ہی ان تمام معاملات کی نگہ داشت کرنا ہوتی ہے۔ علی گڑھ میں مختلف شعبۂ جات، ہاسٹل یا ہال اور چھوٹی چھوٹی سوسائٹیوں کی ادبی سرگرمیاں اپنی مگر جگہ، لٹریری سوسائٹی کو مرکزی اہمیت حاصل ہے۔ میں نے پہلی فرصت میں لٹریری سوسائٹی کی جانب سے شہریار کے اس اعزاز پر ایک بڑے جلسے کا اہتمام ’شامِ شہریار‘ کے نام سے کیا۔ یہ محض اتفاق تھا کہ ’شامِ شہریار‘ کی تقریب نہایت معیاری، خوب صورت، متوازن اور یادگار سی بن گئی۔ شہریار سے متعلق چھوٹے چھوٹے بعض مضامین، سنجیدہ تقاریر، ان کے کلام کی بلند خوانی اور موسیقی کے ساتھ ’غزل گائکی‘ نے اس پروگرام میں رنگ بھر دیا تھا۔ اس زمانے میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبۂ اردو کے صدر پروفیسر قاضی عبدالستار تھے۔ ظاہر ہے کہ ان کی صدارت کے زمانے میں شہریار کے اس انعام پر کسی جلسے یا تہنیتی تقریب کا سوال ہی نہیں تھا۔ مگر جب شعبۂ اردو کے ہی ایک نسبتاً جونیر استاد کی ایما اور اہتمام کے سبب یہ عظیم الشان شامِ شہریار منائی گئی تو شعبۂ اردو میں اس کا شدید ردِ عمل محسوس ہوا۔ تاہم اب شعبۂ اردو کی جانب سے مثبت یا منفی ردِ عمل سے ہوہی کیا سکتا تھا۔ شہریار کے ساہتیہ اکیڈمی اعزاز کے سلسلے میں ایک اور واقعہ قابلِ ذکر ہے۔ ان دنوں دوردرشن سے اردو کا ایک ادبی پروگرام ’بزم‘ کے نام سے پابندی سے ہر ہفتے نشر ہوا کرتا تھا۔ اتفاق سے ایک روز میں مہتاب حیدر نقوی کے ساتھ کسی دوست کے گھر بیٹھا تھا تو دیکھا اردو کے معروف شاعر زبیر رضوی اس انعام کے حوالے سے شہریار کا انٹرویو لے رہے ہیں ۔ شہریار سے زبیر رضوی کا پہلا سوال یہ تھا کہ کیا آپ کو ایسا نہیں لگتا کہ بہت کم عمری میں آپ کو ساہتیہ اکیڈمی انعام سے نوازا گیا ہے۔ اس سوال میں طنز و تحقیر کے ساتھ حسرت و ارمان کے سارے تحفظات سمٹ آئے تھے۔ واضح رہے کہ اس وقت شہریار کی عمر پچاس سے بھی تجاوز کر چکی تھی — شہریار اس نوع کے ردِ عمل کے ہمیشہ شکار رہے۔ ان کے متعدد معاصرین جن کو ساہتیہ اکیڈمی کا انعام یا تو بعد میں ملا یا ہنوز ان کی حسرتیں ان کا دم گھونٹ رہی ہیں ، ان کی طرف سے اس نوع کا ردِ عمل عام طور پر دیکھا گیا۔ زبیر رضوی صاحب کی اس منفی اندازِ فکر نے شہریار کا تعاقب کرنا آخر آخر تک نہ چھوڑا۔ حد یہ ہے کہ ابھی کچھ عرصہ پہلے جب ان کا انتقال ہو گیا تو اپنے تعزیتی نوٹ میں بھی زبیر رضوی نے اپنے رسالے ’ذہن جدید‘ میں اسی قسم کے تاثر کا اظہار کیا اور بتایا کہ شہریار کی پذیرائی ہمیشہ ان کے استحقاق سے زیادہ ہوئی۔ ’ذہن جدید‘ کے فوری بعد کے شمارے میں اس نوٹ کو سیدامین اشرف نے صرف پسند ہی نہیں کیا بلکہ زبیر رضوی کی اس رائے پر شہریار کے لیے اپنی عصبیت کا اظہار ان الفاظ کے ساتھ کیا کہ وہ تو علی گڑھ کے انسائیکلوپیڈیا ہیں ، بھلا ان سے زیادہ علی گڑھ کے شاعروں اور ادیبوں کی نشوونما کا حال کوئی اور کیا جان سکتاہے۔ انھوں نے اپنے تاثر میں شہریار کو معمولی درجے کا شاعر اور حد درجہ دنیا دار آدمی بتایا۔ سید امین اشرف نے خود شاعری تو طالب علمی کے زمانے میں شروع کر دی تھی مگر تقریباً پچاس سال کے تعطل اور اپنی ملازمت سے سبک دوشی کے بعد ان کا پہلا مجموعۂ کلام شائع ہوا ۔ اس لیے اس تاثر پر حیرانی یوں بھی فطری ہے کہ عمر میں وہ ان سے لاکھ بڑے رہے ہوں مگر جب شہریار ایک جدید شاعر کے طور پر اپنا پورا اعتبار حاصل کر چکے تھے، اُس وقت بھی  ع

’’کہ مجنوں لام الف لکھتا تھا دیوار دبستاں پر‘‘

            شہریار کو اگر صحیح معنوں میں مرجع خلائق کہیں تو کوئی حیرت کی بات نہ ہو گی۔ ان کے حلقۂ احباب میں مختلف النوع اور مختلف الخیال لوگ بالخصوص شاعر و ادیب شامل تھے۔ ان کی قربت شمس الرحمن فاروقی سے بھی تھی، گوپی چند نارنگ سے بھی اور پروفیسر محمدحسن بھی ان پر اپنی جان فدا کرتے تھے۔ علی گڑھ آنے والا کوئی بھی ادیب یا شاعر شہریار کی مہمان نوازی کی توقع ضرور رکھتا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ باہر کے متعدد شاعروں اور ادیبوں سے میری پہلی ملاقات شہریار کے گھر پر یا شہریار کے توسط سے ہوئی۔ ساقی فاروقی، اطہرنفیس، قاضی سلیم، محمد علوی، حسن نعیم، زیب غوری، مغنی تبسم، شاذ تمکنت، پریم کمار نظر وغیرہ وغیرہ۔ یہ شہریار ہی تھے جنھوں نے گوپی چند نارنگ اور شمس الرحمن فاروقی کے درمیان شدید اختلافات کو دور کرنے اور دونوں کو ایک پلیٹ فارم پہ جمع کرنے کا ایک سے زیادہ بار اہتمام کیا۔ کنور اخلاق محمد خاں ایک راجپوت تھے اس لیے ان کا راجپوتی رنگ ان کی شاعری میں تو تلاش کرنا مشکل ہے مگر شعری نزاکت احساس کے درمیانی وقفوں میں اکثر اپنا رنگ ضرور دکھاتا تھا۔ انھوں نے ایک بار اپنے انٹرویو میں کہا تھا کہ اردو کے تین آدمی میرے ایسے دوست ہیں جن کے لیے میں جان دے بھی سکتا ہوں اور ان کے لیے جان لے بھی سکتاہوں ، وہ ہیں مغنی تبسم، گوپی چند نارنگ اور شمس الرحمن فاروقی۔ زیادہ تر لوگوں کو ان کی یہ بات پسند نہیں آئی تھی اور بعض نے تو اس بیان میں بھی شہریار کی مصلحت کوشی ڈھونڈھنے کی کوشش کی تھی، مگر جو لوگ شہریار کے مزاج سے واقف تھے ان کے لیے شہریار کا یہ بیان یا انداز بیان کوئی قابلِ حیرت بات نہ تھی۔ ناچیز نے متعدد بار انھیں حیرت انگیز ردِ عمل کا اظہار کرتے دیکھا۔ ایک بار انھوں نے سرورصاحب کے سامنے پروفیسرنعیم احمد کے لیے اپنی بانہیں چڑھائی تھیں ۔ خود میرے ساتھ ایک بار شدید لڑائی کی نوبت آ گئی تھی۔ ہوا یہ تھا کہ اس زمانے میں اردو کے انوکھے شاعر شجاع خاور اچانک ادبی مطلع پر بہت چونکا دینے والی شاعری کے ساتھ نمودار ہوئے تھے۔ شجاع خاور نے ایک طویل نظم اپنی طالب علمی کے زمانے میں بھی کہہ رکھی تھی مگر اس سے ان کو زیادہ شہرت نہ مل پائی تھی۔ اس درمیان کہیں سننے کو ملا کہ وہ شمس الرحمن فاروقی کی نخوت اور اتراہٹ کو سخت ناپسند کرتے ہیں ۔ واضح اندازہ اس وقت ہوا جب انھوں نے ایک رسالہ ’طُر ّہ‘ کے نام سے شائع کیا جس میں فاروقی کو تنقید سے لے کر ان کے ذاتی معاملات تک گھسیٹنے کی کوشش کی گئی تھی۔ فاروقی کو اس رسالے میں معشوقی کے نام سے پکارا گیا تھا اور ان کے دیے ہوئے شعری اقتباسات میں غیر موزونیت ڈھونڈھی گئی تھی، مزید یہ کہ  ان کی تنقیدی آرا اور ان کے رسالے شب خوں کے ساتھ تمسخر کا انداز نہایت شدت سے روا رکھا گیا تھا۔ فاروقی کے ساتھ جن بعض جدیدیوں کو دو ایک جگہ مشق ستم بنانے کی کوشش کی گئی تھی ان میں شہریار نمایاں تھے۔ ہاں ، شجاع خاور کا پہلا مجموعۂ کلام ’واوین‘ کے نام سے چھپ کر آیا تو ادبی و شعری ماحول میں خاصی ہلچل پیدا ہوئی تھی۔ اس میں شاعر کا طرزِ احساس یا تو مختلف تھا یا پھر غیر متوقع، جو چونکاتا بھی تھا، قائل بھی کرتا تھا اور شجاع خاور کی غیر معمولی تخلیقی اُپج کا غماز بھی تھا۔ مثلاً اس کتاب میں اس نوع کے اشعار کثرت سے شامل تھے:

ہم صوفیوں کا دونوں طرف سے زیاں ہوا

عرفانِ ذات بھی نہ ہوا رات بھی گئی

یاد کی بستی سے گزرا تو نظر جاتی رہی

ایک منظر ٹھیک میری آنکھ پر  آ کر لگا

سامان میرا عرش بریں پر پڑا رہا

میں بد دماغ اور کہیں پر پڑا رہا

یہ شجاع خاور کا عام اندازِ بیان تھا، بہت چونکانے والا، بہت انوکھا اور بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرنے والا۔ مجھے یہ مجموعۂ کلام اپنے انوکھے پن اور غزل کے بالکل نئے ذائقے کے باعث بہت عمدہ بلکہ معاصر غزل کے لیے ایک مبارک آواز کی طرح لگا تھا۔ میں نے اپنے رسالے ’انکار‘ میں واوین پر تبصرہ کیا اور دل کھول کر داد دی۔ مثال میں بہت سے اشعار بھی پیش کیے۔ ’انکار‘ کا تازہ شمارہ شہریار کو مل گیا تھا۔ میں شامت کا مارا یہی پوچھنے اتوار کی صبح ان کے گھر جا پہنچا کہ ان کو رسالہ ملا یا نہیں ، اس لیے کہ اس رسالے میں شہریار کی غزلیں بھی چھپی تھیں ۔ شہریار تو پوری طرح بھرے بیٹھے تھے، بولے رسالہ کا ملنا کیا؟ میں آپ کا تبصرہ بھی پڑھ چکا ہوں ، آپ نے شجاع خاور کی بالکل غلط تعریف کی ہے۔ اس کی شاعری بکواس ہے وغیرہ وغیرہ۔ میں نے بڑی معصومیت سے کہا کہ ’’ہوسکتا ہے کہ یہ آپ کی ذاتی رائے ہو، مگر اس طرح اپنی ذاتی پسندوناپسند کی بنیاد پر ادبی رائے قائم کرنا بھی تو کوئی اچھی بات نہیں ۔ آپ شاید اس لیے خفا ہیں کہ ابھی کچھ دن پہلے شجاع خاور نے شمس الرحمن فاروقی کے ساتھ آپ پر بھی جملے کسے ہیں جو شاید غلط ہوں مگر اس باعث بھی تو آپ کی رائے خراب ہوسکتی ہے۔ ‘‘ پھر کیا تھا، شہریار آپے سے باہر ہو گئے۔ آپ میرے گھر پر ہیں ورنہ میں آپ کو بتاتا۔ آپ کے پاس رسالہ ہے تو کیا ہوا، جوجی چاہے اپنی رائے بناسکتے ہیں ، یہ رسالے کا غلط استعمال ہے اور نہ جانے انھوں نے کیا کیا کہا۔ میں صرف اتنا کہہ سکاکہ آپ کی مہمان نوازی کا شکریہ۔ نہ انھوں نے مجھے روکا اور نہ اس صورت حال کے بعد میں خود رکنے کا روادار تھا۔ خدا حافظ کر کے واپس آگیا اور پھر شعبۂ اردو میں آمنے سامنے کمرہ ہونے کے باوجود تقریباً دو ماہ تک ان سے ہم کلام تک نہ ہوا۔ مگر یہ شہریار کا ہی بڑ ّپن تھا کہ وہ خود ایک روز صبح سویرے میرے کمرے آئے اور شرمندگی کا اظہار کیا۔ جس پر میں نے ان سے زیادہ خود کو خفیف اور شرمندہ محسوس کیا۔ شہریار یوں تو دنیاوی معاملات میں غیر معمولی حکمت عملی اور حیرت انگیز سوجھ بوجھ کے آدمی تھے، مگر ذاتی تعلقات اور رشتوں کے معاملے میں وہ اپنا کوئی بھی نقصان برداشت کرسکتے تھے۔ ان کے ذاتی مسائل بہت محدود تھے، وہ اپنے احباب اور متعلقین کی خیرخواہی اور فائدہ اور نقصان میں توازن رکھنے کے قائل تھے۔ جیساکہ عرض کیا گیا کہ وہ زود رنج بھی تھے اور نازک مزاج بھی مگر تعلقات کو نبھانے کے سلسلے میں ان کی قوت برداشت بے مثال تھی۔ شاید یہی وجہ تھی کہ ان کا حلقۂ احباب و متعلقین بڑا وسیع تھا۔ وہ تو موقع موقع سے پتہ چلتا تھا کہ بہت سے ایسے لوگوں سے بھی ان کے گہرے مراسم ہیں یا رہ چکے ہیں جو بہ ظاہر ان کے معمولات کا عموماً حصہ نہ تھے۔ وہ اپنے کسی بھی طرح کے بنے ہوئے تعلقات کو بگاڑنے کے قائل نہ تھے۔ ہم نے اکثر، لوگوں کی خیرخواہی میں انھیں حدسے تجاوز کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ میں اکثر مذاق میں ان سے کہہ بھی دیا کرتا تھا کہ آپ محض یہ دیکھتے ہیں کہ فلاں شخص کا کام کیسے ہو گا یہ پرواہ بالکل نہیں کرتے کہ وہ شخص آپ کی سفارش سے جس جگہ یا جس ادارے میں پہنچے گا، اس کی نالائقی سے اس ادارے کا کیا بنے گا۔ وہ ایسی باتوں پر مسکرا کر رہ جایا کرتے۔ ان کے بزرگ اور معاصر احباب میں جو بعض نہایت بارسوخ اور با اختیار لوگ ہوئے ان میں پروفیسر گوپی چند نارنگ، شمس الرحمن فاروقی، شاہد مہدی، سیدحامد، مشیرالحسن کے نام لیے جاسکتے ہیں ۔ ان تمام حضرات نے شہریار کے کہنے پر یا ان کی سفارش کو نظرانداز نہ کر پانے کے سبب متعدد ایسے لوگوں کی ترقی کرائی، ملازمت فراہم کی یا کسی نہ کسی انداز میں ان پر نوازش کی جن کا عام حالات میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ شہریار کو سفارشی کلمات کہنے اور تیر بہ ہدف الفاظ کے ادا کرنے کا غیر معمولی سلیقہ آتا تھا۔ میں نے ایسے مواقع دیکھے ہیں جب انھوں نے اپنے ایک یا دو مختصر جملوں سے وہ کر دکھایا جس کو بڑی بڑی لمبی گہری باتوں کی مدد سے بھی کارآمد بنانا آسان نہ ہوتا۔ میں نے شہریار کو اقبال سمان ملنے کی تہنیتی تقریب کے موقع پر اپنی تقریر میں اس بات پر خاص زور دیا تھا کہ شہریار کی شاعری میں ایسے تضادات کثرت سے ڈھونڈھے جاسکتے ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ سماجی اور دنیاوی ضروریات کے لیے جہاں جہاں مصلحت سے کام لیتے ہیں یا خاموش رہ جاتے ہیں ، وہ سارے تضادات ان کی شاعری میں خیر و شر کی کش مکش کی صورت میں ضرور ظاہر ہوتے ہیں ۔ شہریار مختلف اور متفرق انداز کے لوگوں اور تعلقاتیوں کو مجتمع رکھنے کا ہنر جانتے تھے۔ اب جب کہ شہریار اس دنیا میں نہیں ہیں ، مرزا غالب کا یہ شعر ان سے زیادہ شاید ہی کسی اور پر صادق آتا ہو کہ:

تھا میں گلدستہ احباب کی بندش کی گیاہ

متفرق ہوئے میرے رفقا میرے بعد

٭٭٭

تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید