FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

بلوچستان میں نئی اُردو شاعری کے معمار

 

 

کتاب ’’ معاصر تھیوری اور تعینِ قدر‘‘ کا ایک طویل مضمون جو اس کی برقی کتاب سے علیٰحدہ کر لیا گیا

 

 

                         دانیال طریر

 

 

 

 

 

 

 

 

بلوچستان میں اردو شاعری کی قدیم شعریات کو منسوخ کر کے نئی شعریات کی بنیاد رکھنے اور اسے مستحکم کرنے میں جن شاعروں کے کردار کو اساسی قرار دیا جا سکتا ہے ان میں عین سلام، رب نواز مائل اور عطا شاد خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ گرچہ عطا شاد اس نئی شعریات کے تشکیلی عمل میں تاخیر سے شامل ہوئے لیکن اس کے باوجود ان کے کردار کو ثانوی قرار دینا مبنی بر انصاف نہیں ہو گا۔ اس مضمون کے عنوان میں  ’’نئی ‘‘ کا لفظ شعوری طور پر استعمال کیا گیا ہے تاکہ  ’’نئی‘‘ کو  ’’جدید‘‘  سے الگ تصور کیا جائے۔ جدید کا لفظ چوں کہ جدیدیت سے منسلک ہے جو بعض ایسے تصورات رکھتی ہے کہ جن میں کسی ایک تصور کی عدم موجودگی بھی شاعر کو غیر جدید ثابت کرنے کے لیے کافی ہو سکتی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ ان شاعروں میں جدیدیت کے بیش تر اوصاف کی موجودگی کے باوجود بعض ایسی باتیں بھی دکھائی دیتی ہیں جو جدیدیت کے اساسی تصورات سے متصادم ہیں لہذا انھیں جدید کے برعکس نیا ہی کہنا زیادہ مناسب تنقیدی عمل ہو گا۔ تاہم ان شاعروں کے تجزیے سے قبل یہ ضروری ہے کہ ان سے پہلے بلوچستان میں اردو شاعری کی شعریات پر ایک نظر ڈال لی جائے۔ ان شاعروں سے قبل بلوچستان کی اردو شاعری میں تین طرح کے شعری رجحانات کارفرما دکھائی دیتے ہیں۔

اول:اردو کے کلاسیکی شعرا ء کے شعری اسالیب و موضوعات کی تقلید اور ان کی استادانہ  مہارتوں کو شاعری میں استعمال کر کے اپنی استادی ثابت کرنے  کا رجحان

دوم:بلوچستان کی سیاسی فضا میں مزاحمت اور ترقی پسندانہ فکر کی شعری پیش کش کا رجحان

سوم: اقبال کے فکر و اسلوب سے استفادے کے ذریعے اس کی روایت سے جڑکر اسے تخلیقی سطح پر برتنے کا رجحان

یہی تین رجحانات مقدار کی کمی بیشی کے ساتھ بلوچستان کی اردو شاعری کی قدیم شعریات کی تشکیل کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ بلوچستان میں اردو شاعری کی نئی شعریات کو اسی قدیم کے تناظر میں نیا قرار دیا جا رہا ہے۔ بلوچستان میں نئی شعریات نے قدیم شعریات سے اخذ و استفاد اور انجذاب و تحلیل کے بر عکس اسے بڑی حد تک منسوخ کر دیا ہے اور نئے سرے سے نئی بنیادوں پر شعریات کی تشکیل کی ہے۔ اس نئی شعریات کی تشکیل میں ان شاعروں نے کس طرح کے تخلیقی رویوں کو استعمال کیا ہے اور سیرتی، صورتی اور صوتی سطح پر کن نئے رجحانات کو متعارف کرایا ہے اس کے تعین کے لیے ان تینوں شعرا ء کے انفرادی تنقیدی تجزیے ازبس اہم ہیں کیوں کہ اول تو ان تینوں شاعروں کی شاعری میں مشترک اوصاف کی تلاش ناممکن ہے اور دوسرا جس نئی شعریات کی بنیاد ان شاعروں نے مستحکم کی ہے اس کی اساس تقلید اور روایت سے انسلاک کے برعکس انفکردیت پر قائم ہے یہاں ان تینوں شاعروں کے انفرادی تنقیدی تجزیے پیش کیے جا رہے ہیں جس سے بلوچستان میں اردو شاعری کی نئی شعریات کی حدود اور جہات پوری طرح سامنے آ سکیں گی۔ اس نئی شعریات سے تعارف اس لیے بھی ضروری ہے کہ تا حال اس میں ایک دو استثنائی مثالوں کو چھوڑ کر کوئی خاطر خواہ اضافہ نہیں کیا جا سکا۔ ان ایک دو استثنائی مثالوں میں فی الوقت سعید گوہر اور بیرم غوری ہی کے نام پورے اعتماد سے پیش کیے جا سکتے ہیں۔

۱؎       ’’نظم اور غزل کو اپنی الگ الگ شعریات کے شعور کے ساتھ برتنے، پیرایہ اظہار کو جدید حسیت کے ساتھ جوڑنے اور ایک فکری محیط کے بیچ رہتے ہوئے شاعری کو بامعنی عمل ثابت کرنے کی سعی اولیں کرنے والے بلوچستانی شاعروں میں عین سلام ایک اسم معتبر کی حیثیت رکھتا ہے۔ عین سلام کی شاعری نے معاصرین اور بعد کے شاعروں پر اتنے گہرے اثرات ثبت کیے ہیں کہ کسی کو کاملیت کے ساتھ منفرد کہنا ناممکن نظر آتا ہے اور یہ بات زیادہ حیران کن اس لیے ہے کہ ان منفرد شاعروں میں عطا شاد بھی شامل ہے۔ تاہم یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ یہ اثرات شاعری کے صوری اور صوتی پہلوؤں سے متعلق ہیں سیرتی پہلو جو تخلیقی تجربے کی ساخت میں زیادہ معنویت کا حامل تصور کیا جاتا ہے عموماً ناقابل تقلید ہوتا ہے۔ پھر عین سلام کی شاعری تو اپنے لیے ایک الگ فکری محیط بنانے میں بھی کام یاب نظر آتی ہے۔ اس لیے اس پہلو سے اس کی تقلید ناممکن تر محسوس ہوتی ہے۔ عین سلام کے تخلیقی تجربے کی ساخت میں اس سیرتی پہلو کی حیثیت ا س مرکز کی ہے جس کے گرد صوری اور صوتی پہلو گردش کرتے نظر آتے ہیں۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ اس کے تخلیقی تجربے کو گرفت میں لینے کے لیے اس کے فکری محیط کو گرفت میں لینا از بس ضروری ہے میں نے تنقیدی قرأت کے عمل سے گزرتے ہوئے عین سلام کے تخلیقی تجربے کے اس پہلو کواس کے ایک مصرع میں موجود پایا ہے۔

یہ دوئی بھی عجب اکائی ہے

یہ  ’’تعجب‘‘  اس کا  ’’تخلیقی حاصل ‘‘  ہے۔ جو ایک طرف دوئی (تضادات حیات و تشکیل کائنات کی ساختیات) سے جڑا ہوا ہے اور دوسری طرف اکائی (شاعر کی ذات) سے، جس میں یہ تمام تضادات یک جا ہو گئے ہیں مگر یہ یک جائی مسلسل تغیر پذیر ہے اس لیے تجسس انگیز اور حیرت آمیز ہے۔ یہ ثنویت کے وحدت اور وحدت کے ثنویت میں منقلب ہونے کا نا مختتم عمل ہے جو تخلیقی محرک بن کر عین سلام کی ذات میں تحلیل ہو گیا ہے اس تحلیل نے آگ اور پانی کو اس کی شاعری کی دوایسی مستقل علامات کی شکل دے دی ہے جس میں رشتہ تضاد کی اساس پر قائم نظام حیات اپنی وسعتوں سمیت سمٹ آیا ہے۔ یہ دوئی اکائی میں سمٹ تو آئی ہے مگر تحلیل نہیں ہوئی۔ اس کا تحلیل نہ ہونا  ’’عجب‘‘  ہے۔ یہ تعجب عین سلام کے لیے  ’’ جو ر کرم ‘‘  بھی بنا ہے اور  ’’ لطف ستم ‘‘  بھی، ایک برفاگ ہے جس سے نکلنے کا راستہ تلاش کرتے ہوئے وہ جہنم کے انگاروں سے بھی گزرا ہے اور زمہریر کے برف زاروں سے بھی۔

اس راستے کی تلاش اس نے ایک متشکک کی طرح استفہامیوں کی روشنی میں کی ہے مگر اس کی سرگزشت ایک تحیرزدہ شاعر بن کر لکھی ہے اس شاعری کی قرأت ہمیں ایک تحیر زدہ شاعر کی حیرتوں سے ایک متشکک کے استفہامیوں تک لے جاتی ہے مگر ایک منزل سے دوسری منزل تک کا یہ سفر ایک جمال آباد سے ہو کر گزرتا ہے جس کا نام کبھی  ’’ چکیدہ ‘‘  پڑ جاتا ہے تو کبھی   ’’طیف رواں ‘‘ ۔ مگر فی الحقیقت اس  ’’ جمال آباد‘‘  کا نام  ’’ برفاگ‘‘  ہے۔ عین سلام کے دوسرے شعری مجموعے ’’ طیف رواں ‘‘  میں ’چکیدہ ‘، ’طیف رواں ‘ اور’ برفاگ‘ کے زیر عنوان تین نظمیں شامل ہیں۔ جن میں پہلی دو نظمیں اس کے دونوں شعری مجموعوں  ’’ چکیدہ ‘‘  اور  ’’ طیف رواں ‘‘  کے اسلوب کو سمجھنے کی کلید ہیں۔ جب کہ تیسری نظم  ’’ برفاگ‘‘  اس کے فکری محیط اور کلام کی دو اساسی علامات ’’آگ اور پانی ‘‘  کو گرفت میں لیے ہوئے ہے۔ جن کی مدد سے قاری شاعر کی حیرتوں سے متشکک کے استفہامیوں تک کا سفر طے کرتا ہے۔

 

سادگی ہائے مضامین ادق مت پوچھئے

بے کراں موج ہوا، یہ دل ورق مت پوچھئے

 

حرف ذی آئینہ معنی میں سادہ رو سہی

برگ صوت، آہنگ شبنم، نغمہ خوشبو سہی

شعلہ گل تار پیراہن رم آہو سہی

 

اس صدا کے اسم کی تاویل … مشکل جاں گسل

عقدہ ہائے سادہ کی تحلیل … مشکل جاں گسل

(چکیدہ)

کچھ نہیں جانتا ہوں میں اس کے سوا

زندگی خواب ہے وہ بھی بھولا ہوا

 

جس کی تعبیر کی کاوشوں کی لگن

ایک نا فہم سا اضطراب محن

رات دن سب کو رکھے ہوئے ہے مگن

 

سب ہیں جاگے ہوئے سب ہیں سوئے ہوئے

(طیف رواں )

دیکھ کر تیرے بدن کے

رات دن کی برف آگ

خوش نما اضداد کا

یہ شعلہ و شبنم لباس

تیری نظروں کے مقابل

آس پاس

سرسراتے درد کی

وحشی ہوا کے دوش پر

جل رہے ہیں

تجھ کو چھونے کے چراغ

تیری نظروں کے مقابل

آس پاس

تجھ کو کیا معلوم

کوئی کھو گیا

یا پا گیا اپنا سراغ

(برفاگ)

 

نظم  ’’برفاگ‘‘ کی آخری تین سطور میں موجود استفہامیہ عین سلام کی شاعری میں بار بار ابھرا ہے۔ یہی استفہامیہ اس کے وجود کے کرب کو ظاہر کرتا ہے۔ جس کا مداوا دوئی کا اکائی میں سمٹ آنا نہیں بل کہ تحلیل ہو جانا ہے جو اس شاعری کے فکری محیط کی حد تک ناممکنات میں سے ہے اس لیے کہ یہ کرب زمانے کے تینوں منطقوں (ماضی، حال اور مستقبل ) میں دائم قائم رہتا ہے اور زمانی و مکانی حدود کے اندر متشکل ہوتا نظر آتا ہے۔ زمانی و مکانی حدود سے باہر بلندی کی جانب کوئی پرواز کشش ثقل سے نجات نہیں دلا سکتی۔ اس لیے یہ شاعری پڑھ کر گمان گزرتا ہے کہ جیسے زمین سے دل بستگی اور وابستگی ہی اس کرب کا مآخذ ہے۔ جس سے نکلنے کی کوئی صورت نہیں اس لیے اس کا مداوا بھی نہیں ہو سکتا لہٰذا کوئی بلندی، کشش ثقل اور زمانیت و  مکانیت سے ماورا کوئی دنیا وجود نہیں رکھتی۔ یہ وجود محض ایک فریب نظر ہے ایک دھوکہ ہے، سراب ہے، بے تعبیر خواب ہے۔

 

بگولے کی ما نند

اور پیچ در پیچ

رقصاں، پر افشاں

بلندی کی جانب

بلندی جو حد نظر ہے

بلندی جو نا معتبر ہے

 

مقدر، یہ دھرتی

یہ دھرتی، کہ جس کی کشش کھینچ لائے گی

رقصاں، پرافشاں

بگولے کی مانند

اور پیچ در پیچ

اونچی، بہت اونچی اڑتی ہوئی ہر طلب کو

کہ دھرتی سے جو بھی اڑا ہے

پلٹ کر اسی پر گرا ہے

یہ دھرتی ہی اپنا مقدر ہے

دھرتی ہی آغاز ہے

اور دھرتی ہی اپنی خبر ہے

بلندی جو حد نظر ہے

بلندی جو نا معتبر ہے

فریب نظر ہے

(بلندی…چکیدہ)

 

بلندی کو فریب نظر قرار دینے کے باوجود اس شاعری کے پس منظر میں موجود متشکک اپنے استفہامیوں کے جوابات کے لیے دھرتی کو ناکافی محسوس کرتا ہے ان جوابات کی طلب اسے مقدر کی تحدیدات سے باہرجست لگانے پر مجبور کرتی ہے۔ اس کی خواہش زمانیت و مکانیت کی سرحد یں پاٹنے لگتی ہے۔ اس کی طلب ایک لمحے کو ازل گیر ابد اور ابد گیر ازل میں بدل کر اپنے سرابیں تصور میں جھلملاتے ہوئے مبہم افق کی جانب بار بار لپکتی ہے۔ یہی لپک، یہی جست اسے نئے سوالوں اور حیرتوں سے آشنا کرتے ہوئے اس کی ذات کی وسعتوں کو وسیع تر کرتی ہے یعنی وہی فریب نظر اور نا معتبر بلندی جس تک نارسائی کا کرب دائم ہے اس کر ب کی وسعتوں کا منبع بھی ہے۔ یہاں ذات کی وسعتیں اور کرب کی وسعتیں ہم معنی ہو جاتی ہیں۔ اس لیے یہ شاعری قاری کو اپنے  ’’ جمال آباد‘‘  سے گزارنے کے بعد  ’’ ملال تردد ‘‘  بہ صورت حاصل فراہم کرتی اور رخصت ہو جاتی ہے۔ یہ فکری محیط قاری کو ایک ایسے پیراڈاکس کے مدمقابل لے آتا ہے جہاں نہ وہ یاسیت پرست رہتا ہے نہ آسیت پرست، بل کہ ان دونوں مقامات کے بیچ الجھا ہوا اور حیرت زدہ کھڑا رہ جاتا ہے۔

 

یہ لمحہ

ازل بھی ابد بھی

مسلسل ازل بھی، مسلسل ابد بھی

کراں تا کراں، بے کراں، جاوداں

اس ازل گیر ابد اور ابد گیر از ل کے دھڑکتے

سمندر کے

ان تھک تحرک کا بے انت مواج ٹھہراؤ

اک مختصر موج بے پایاں کا غیر محدود اک

ساحل بے نشان

اپنی ہستی، ہمیشہ نئے روپ کے مٹتے بنتے حبابوں کی تحریک کی کیفیت، کمیت

اپنی تقدیر ، منزل کی موہوم تعئین، دائم مسافت

مسافت، کہ جس کے سرابیں تصور کے مبہم افق

کی طلب کی تڑپ

دور ہی دور سے جگ مگاتے  ہوئے چاند تاروں کی

جاگی ہوئی

مسکراہٹ کی تسخیر کا مرمریں خواب بھی

اور گھمبیر پاتال کے

گہرے دلدل کے مکروہ کیڑوں کی افشردگی کی

مجرب سی

ترکیب زریاب بھی

اور حاصل، تغیر

مسلسل تغیر

تجسس

تحیر

مسلسل تحیر

(خواب تسخیر و ترکیب زریاب…چکیدہ)

اپنے وجود کے حوالے سے زندگی اور موجودات کے بارے میں اٹھنے والے سوالات اور رد عمل میں جنم لینے والا تحیر جس طرح اپنے بڑھاوے کے لیے وقت کا مرہون منت ہے اسی طرح اپنے جنم کے لیے بھی وقت کا دست نگر ہے۔ اس شاعری کے پس منظر میں موجود متشکک اپنے وجود کے حوالے سے جس کرب میں مبتلا ہے وہ وقت کی بے کرانیت میں اپنی زندگی کی محدودیت کے شعور سے پیدا ہوا ہے۔ دیگر استفہامیے اس محدود زندگی کی نارسائیوں اور طلب کی متجاوز حدود ہوتی موجوں سے ٹکراؤ کے نتیجے میں ابھرے ہیں۔ اس لیے اس متشکک کے کرب، استفہامیوں اور حیرتوں کے سمجھنے کے لیے اس متشکک کے تصور زماں کی ساخت کو سمجھنا لازم ہے۔ جسے ایک حد تک اس شاعری کے فکری محیط کا مرکز بھی کہا جا سکتا ہے۔

 

وقت کے بے کراں سمندر میں

ہر تموج، حیات کا غماز

ہر سکون ایک مضطرب تغیر

ہر سکوت ایک بولتا انداز

رقص بے جنبش زمان و مکاں

رنگ و آہنگ و بو و شعلہ و ساز

سحر و شام، وقفہ، عمر، نفس

ایک مبہم تحیر اعجاز

اور اس اڑتے ہوئے سمندر میں

ایک انسان کا وجود جواز

اک طلسم گماں ، فریب قیاس

اک دھڑکتا حباب لمحہ طراز

(حباب لمحہ طراز…چکیدہ)

 

نظم میں موجود تصور زماں ظاہر کرتا ہے کہ جس تغیر اور تحیر کو شاعری میں موجود متشکک حاصلات تمنا کہتا ہے اور جسے وجود کشش ثقل اور زمانیت و مکانیت سے باہر جست لگا کر مس کرتا ہے یا کرنا چاہتا ہے۔ وہ بھی وقت کے بے کراں سمندر کے  بطن سے پیدا ہوئے ہیں۔ وجود زماں کی اس بے کرانیت میں اپنی طبعی عمر کے اختصار کو فریب سے تعبیر کرتا ہے مگر جس طرح بلندی کو فریب نظر کہہ کر اس کی جانب لپکتا ہے اسی طرح وجود کو طلسم گماں کہہ کر اس کی تلاش میں نکل پڑتا ہے۔ یہی عمل اس کے لیے بلندی ، پستی اور گماں، یقین نیز زماں، لا زماں کو وحدت بنا دیتے ہیں مگر یہ وحدت، ثنویت کو یک جا کرتی ہے تحلیل نہیں کرتی، زماں و لا زماں کی وحدت میں یہی یک جائی ( جو عدم تحلیل کی صورت ہے ) عین سلام کے  ’’ تصور زماں ‘‘  کی ساخت کو پیش کرتی ہے۔ اس فکری محیط کی وسعتوں کا اندازہ تصور زماں کی اس ساختیاتی تشکیل سے بھی کیا جا سکتا ہے۔ مگر متشکک کے استفہامیے اس محیط کی وسعتوں کو زیادہ بہتر اور منطقی انداز میں سامنے لانے کا باعث ہو سکتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ ان استفہامیوں کی ایک منظوم فہرست مرتب کر لی جائے۔

 

جسم کے تیرہ زندان میں

کب سے حیران ہے

یہ میرے سامنے، کون

میری طرح

(اسم کی قید میں )

 

احتیاط خود فریبی سے دکانوں کو سجائے

مطمئن خوش فہمیوں کے کرب سے

گھات میں بیٹھے ہیں گاہک کی

مگر گاہک کہاں ؟

(بے ہنر نیکی کا کرب)

 

یہ روح کی بلند اور عمود دار گھاٹیاں

سمندروں پہ جھولتی ہوئی یہ نرم کہکشاں

امنگ کی رسائیاں …مگر کہاں

(سکوت رنج بے کراں )

 

آسماں کتنا پھیلا ہوا، کتنا آباد ہے

،

کب سے ہے، جانے کب تک رہے گا

کون جانے کہ یہ اہتمام مہ و کہکشاں کیوں ہے

کس کے لیے ہے

کون جانے کہ جو کچھ نگاہوں میں، ادراک میں

علم میں

تجربے میں ہے، کیا ہے ؟

کون جانے کہ جو ماسوا ہے وہ کیا ہے ؟

(یہ پھیلا ہوا آسمان )

 

بتا وہ سبھی غم زدہ، مہرباں یار، مجبور غم خوار

خوں خوار خوابوں کے گہرے گھنے اجنبی جنگلوں میں

کہاں کھو گئے؟

(سرد، اجاڑ اور تنہا رات)

 

تو مری ہے مری ہر چیز پرائی کیوں ہے ؟

سوچتا ہوں تو پریشان سا ہو جاتا ہوں

تجھ میں اور مجھ میں یہ مربوط جدائی کیوں ہے؟

(مربوط جدائی)

 

عدم کے تاریک سے خلاؤں کی غیر محدود و سعتیں ہوں

کہ رنگ اور روشنی کے بڑھتے سکڑتے ہالے

فریب ہیں محض یا حقیقت

یہ کون جانے؟

(زندگی ایک لمحہ )

 

اپنی شدت اور فکری محیط کی سمتی وسعتوں کو عیاں کرنے والے یہ استفہامیے جنھیں  ’’ چکیدہ‘‘  کی نظموں سے مرتب کیا گیا ہے۔ اپنی اہمیت اور فکری جہات کو بہ خوبی عیاں کر رہی ہیں مگر یہ ایک عجیب بات ہے کہ عین سلام کے شعری سفر میں  ’’ چکیدہ‘‘  کی حد تک یہ استفہامیے نظموں میں جب کہ  ’’ طیف رواں ‘‘  میں شامل غزلوں میں وفور کے ساتھ ظہور کرتے نظر آتے ہیں۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ عین سلام  ’’ چکیدہ‘‘  میں اپنے قاری کو اپنے فکری محیط سے آگاہی فراہم کر چکا ہے۔ طیف رواں میں صرف اس کی جانب اشارہ کر کے سوال اٹھا دیتا ہے۔ اس خوبی نے عین سلام کی شاعری کو تکرار کی مکدر کر دینے والی فضا سے بچا لیا ہے اور قاری کے لیے یہ لازم کر دیا ہے کہ وہ اس کے شعری ارتقا کے مدارج کے ساتھ ساتھ سفر کرے ورنہ اس فکری محیط کی کلیت کو گرفت میں لینا ناممکن ہو جائے گا جس تک پہنچنا تنقیدی قرأت کے لیے جزو لازم ہے۔ حیرت اور تشکیک عین سلام کی نظموں کی طرح اس کی غزلوں میں بھی ظہور کرتے ہیں کہ ان دونوں اصناف شعر کے پس منظر میں موجود تخلیقی تجربہ جس فکری محیط پر قائم کیا گیا ہے اسے استفہام در استفہام متشکک واحد نے تشکیل دیا ہے ؛

 

وقت کے ساتھ بڑھ رہی ہے سلام

یہ مری عمر ہے کہ حیرت ہے

 

حیرت کا وقت کے ساتھ بڑھنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ حیرت طفلانہ معصومیت کا رد عمل نہیں ہے بل کہ دانش ورانہ تفاعل کا نتیجہ ہے مگر متشکک کے ساتھ کلیت ذات میں شاعر کی موجودگی نے اس تفاعل کے حاصلات کو فلسفے کے بجائے شاعری بنا دیا ہے اس طرح اس میں خواص پسندی کے ساتھ عوام دوستی بھی شامل ہو گئی ہے۔ عین سلام کی شاعر ی ’’ میں ‘‘  کی حدود کے اندر رہ کر کلام کرتی ہے مگر یہ  ’’ میں ‘‘  اپنے وجود کے اثبات کے لیے جو استفہامیے قائم کرتی ہے وہ اس  ’’میں ‘‘  کے اندر  ’’ نوع‘‘  کے مفہوم کو بھی سمیٹ لیتی ہے۔ اس شاعری کا یہ پہلو اسے عوام دوست بنا دیتا ہے۔ غزلیہ تحیر کے پس منظر میں بھی متشکک کے وہی استفہامیے موجود ہیں جو نظموں میں ظاہر ہوئے ہیں مگر ان کا رنگ بہ ہر حال غزلیہ اجمال کا ہے۔

 

کوئی تو ہے یہاں لیکن کہاں ہے ؟

سرآب یقیں عکس گماں ہے

 

تجھے یہ جستجو کس کی ہے اے دل!

یہ تجھ میں کون ہے جو بے نشاں ہے ؟

 

کیسے جانوں جسے دیکھا ہی نہ ہو ؟

روشنی حسن کا سایا ہی نہ ہو

 

زندگی! میری طرح تو خود بھی

ایک موہوم تماشا ہی نہ ہو

 

کس کو کس زاویئے سے پہچانیں ؟

کسی صورت کوئی نہیں کھلتا

 

عین سلام اس تاریکی میں

کب کس نے کس کو پہچانا؟

 

یہ اجالے مجھے لے آئے کہاں ؟

روشنی اس سے بھی کم ہے کہ جو تھی

 

زندگی کی اگر یہ صورت ہے

واہمہ کیا ہے کیا حقیقت ہے ؟

 

کون ہے خود مجھے نہیں معلوم ؟

جس نے پلٹی ہے میری کایا، وہ

 

وہ آسماں ہو کہ صحرا، وجود ہو کہ عدم

فضا بنی ہے یہ کس شرح خامشی کے لیے؟

 

اس سے آگے اب کہاں جائے گا تو؟

بے خبر منزل تری دل ہی تو ہے

 

اس آخری شعر کو پڑھ کر قاری کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ عین سلام کے فکری محیط کے پس منظر میں موجود متشکک اس قطعیت کے ساتھ دل کو اپنی منزل کیسے اور کیوں کر قرار دے سکتا ہے جس کا جواب عین سلام خود کچھ یوں فراہم کرتا ہے۔

 

اس میں دونوں جہان یک جا ہیں

دل کچھ اس طرح کی اکائی ہے

 

آخر میں ایک پھر یاد لاتا چلوں کہ یہ ثنویت کے وحدت میں یک جا ہونے کا مقام ہے تحلیل ہونے کا نہیں اور جب تک ثنویت وحدت میں تحلیل نہیں ہوتی عین سلام کی شاعری کے پس منظر میں موجود متشکک سوال اٹھاتا رہے گا اور ان استفہامیوں کی آتشیں لہر اس کے تخلیقی وجود کی منجمد حیرت کو برفاگ بناتی رہے گی‘‘ ۔

۲؎      ’’ہر صاحب اسلوب تخلیق کار نقاد سے یہ تقاضا کرتا ہے کہ اس پر کی جانے والی تنقید کے معیارات اس کی اپنی تخلیق سے اخذ کیے جائیں لیکن اسلوب کو محض مصرع سازی کا ہنر یا لفظیات کا اچھوتا پن تصور کرنا قطعی غلط ہو گا کیوں کہ اسلوب تو زندگی کے مشاہدے، اسے محسوس کرنے اور بیان کرنے کے عناصر سے بننے والی اکائی کا نام ہے لہٰذا جو تخلیق کار زندگی کو نئے زاویوں سے دیکھ اور محسوس نہیں کرسکتا وہ ہزار نیا پیرایہ اظہار اپنائے صاحب اسلوب تخلیق کار کہلانے کا حق دار نہیں ہو سکتا۔

رب نواز مائل ایک صاحب اسلوب تخلیق کار ہے کیوں کہ اس نے فی الحقیقت زندگی کو نئے زاویوں سے دیکھا، نئے ذائقوں سے محسوس کیا اور نئے انداز میں بیان کیا ہے۔

زندگی پتھر کی میلی آنکھ ہے

زندگی سے گہری وابستگی ظاہر کرنے والا یہ مصرع رب نواز مائل کے منفرد ذوق جمال اور شدت احساس پر دال ہے۔ یہ مصرع صاف ظاہر کرتا ہے کہ زندگی کا یہ تجربہ و مشاہدہ مستعار نہیں بل کہ بڑی کڑی تپسیا کے بعد حاصل کیا گیا ہے۔ یہی مصرع یہ ثابت کرنے کے لیے بھی کافی ہے کہ یہاں شعری اجزا اس اکائی میں تحلیل ہو گئے ہیں جس کے بغیر اسلوب کی شناخت قائم نہیں ہو سکتی مگر رب نواز مائل کی شناخت صرف صاحب اسلوب ہونا نہیں ہے بل کہ اس اسلوب کا قطعی مختلف ہونا بھی ہے۔  ’’ مختلف ‘‘  کا لفظ عموماً ہمارے ناقدین کچھ اچھے معنوں میں استعمال نہیں کرتے لیکن میں اس لفظ کو سوچ سمجھ کر  ’’مثبت‘‘  استعمال کر رہا ہوں۔ اس نے قطعی مختلف شعری لہجہ خلق کیا ہے۔ یہ مختلف لہجہ اس کی نظموں اور غزلوں میں ایک جیسی شدت تاثر کا حامل ہے مگر مختلف نظموں کی قرأت کے شاید ہم کسی حد تک عادی ہو چکے ہیں اس لیے نظموں سے زیادہ غزلوں میں اس کا مختلف ہونا محسوس ہوتا ہے۔ یہ بات ہمارے سبھی ناقدین جانتے اور مانتے ہیں کہ مختلف غزل کہنا کچھ سہل نہیں جب کہ مائل کی ہر غزل اور ہر شعر مختلف ہونے کا بھر پور احساس دلاتا ہے اور اپنی تفہیم و تحسین کے لیے بدلے ہوئے شعری ذوق کا مطالبہ کرتا ہے۔ عام یا رواج پذیر غزل نے ہمارے شعری مذاق کو جس سانچے میں ڈھالا ہے اس پر مائل کی غزل پوری نہیں اترتی اور اترنی بھی نہیں چاہئے کہ یہی منفرد اسلوب کی حامل شاعری کی پہچان ہے۔

 

ویرانہ جمال ہے اور شب زدہ بھی ہے

شمس و قمر کی چوب نہ ہو تو جلائیں کیا

 

وہی اک راہ گم جو گم نہیں تھی

وہی تو کہکشاؤں تک گئی تھی

 

ہم تو برسائیں گے آوازوں کے پتھر عمر بھر

چاہے تم محلوں کی دیواروں کو اور اونچا کرو

 

نظر کی چمک ہے کہ ہے رت ہی ایسی

کہ ہر شے ستارہ نما دیر سے ہے

 

مکیں ہوں کم نظر تو کیا کہیں ہم

حویلی کا تو دروازہ بڑا تھا

 

جدید غزل صرف و نحو کے بدلا وے، اظہار کو کم سے کم رکھنے، معانی تک رسائی کے رستے میں رکاوٹیں کھڑی کرنے اور گھما پھرا کر بات کرنے کی حمایت اور پرچار کرتی نظر آتی ہے۔ جدید غزل یہ تقاضا کرتی ہے کہ بات کہنے کا ڈھنگ نامانوس کی حد تک بدلا ہوا ہو اور معانی آسانی سے ہاتھ نہ آئیں۔ میرا خیال ہے کہ ان تقاضوں پر مائل جتنا اور کوئی پورا نہیں اترتا کیوں کہ گرائمر کے اعتبار سے اس کی لفظیات کا برتاوا ہمیں چونکاتا ہے اور تقلیل اظہار بھی اس کے ہاں تسلسل کی صورت اختیار کیے ہوئے ہے یہی دو باتیں ترسیل معنی کے رستے میں حائل ہیں مگر یہ باتیں معائب شعر نہیں، محاسن شعر ہیں۔

رب نواز مائل لفظوں کو بہت قیمتی تصور کرتا ہے اتنا قیمتی کہ بعض اوقات تو وہ اتنے الفاظ بھی استعمال نہیں کرتا جتنے کہ معنی کو مکمل کرنے کے لیے درکار ہوتے ہیں۔ اسی سبب اس کے اشعار میں مصرعوں کے مابین کافی خلا رہ گیا ہے۔ لیکن یہ کوئی غیر ارادی فعل نہیں ہے بل کہ تقلیل اظہار کی یہ کوشش شعوری ہے۔ مائل قاری کو تخلیقی عمل میں شامل کرنے کا قائل ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ شعر کے معانی بغیر محنت کے ہاتھ نہ آئیں۔ قاری کی فعال شرکت کو یقینی بنانے کے لیے اس نے بعض عام لفظوں سے اس قدر اہم اور اساسی نوعیت کا کام لیا ہے کہ شاید ہی اردو شاعری کی پوری روایت میں کسی نے لیا ہو۔ وہ لفظ جو عموماً مصرع مکمل کرنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ انھیں معانی پہنانا اور منزل معانی تک رسائی کے لیے نشانات بنا کر ان کی معنوی وسعتوں کو لا محدود بنا دینا مائل ہی کا خاصا ہے۔ ایسے، ویسے، یوں، جوں، پھر، بس، ہاں، بہت، ہی، اب، جب، سب، وہی، کہاں، ایسے، اگر، مگر، کیوں، سو، جیسی، ایسی، کہ، پہ، یہ اور اس وغیرہ ایسے کتنے ہی الفاظ ہیں جن سے مائل نے اپنے شعری اسلوب کو مزین کر رکھا ہے۔ یہ الفاظ کثرت اور تسلسل سے اس کی شاعری میں آتے ہیں اور محض تکمیل شعر کے لیے نہیں آتے بل کہ معانی تک رسائی میں قاری کی فعال شرکت کو یقینی بنانے اور معنوی و سعتوں میں اضافہ کرنے کے لیے آتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ ہی وہ الفاظ ہیں جن سے بہ ظاہر اس کے سادہ سے کلام میں پیچیدگی اور ابہام پیدا ہوا ہے اور یہی وہ الفاظ بھی ہیں جن سے اس کے اختصار میں جامعیت اور انداز بیاں میں انفرادیت اور انوکھا پن پیدا ہوا ہے۔ مگر مائل نے ان لفظوں کو اس کثرت سے اس لیے استعمال نہیں کیا کہ وہ انتخاب الفاظ کے حوالے سے منفرد یا مختلف نظر آئے بل کہ وہ تو اپنی شناخت اپنی فکر کے حوالے ہی سے کروانا چاہتا ہے۔ اسی لیے اس نے بعض جدید اور اکثر قدیم شاعروں کی طرح کوئی ایسا ہتھکنڈا استعمال نہیں کیا جس سے قاری لفظی گورکھ دھندے یا لفظیات کی ظاہری چمک دمک سے مرعوب ہو جائے مگر شاعری سے معنوی سطح پر کچھ برآمد نہ ہو اور اگر ہو بھی تو اس کی سطحیت فکر پر کوئی نئے در وا کرنے میں کام یاب نہ ہو پائے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر وہ اچھوتے الفاظ یا مرکبات استعمال کرتا ہے تو صرف اتنی تعداد میں کہ جن سے محض یہ اندازہ ہو سکے کہ ان کا استعمال شاعر کے لیے کوئی مشکل کام نہ تھا۔

ہندی اور انگریزی لفظیات کے علاوہ بردہ خواب خوش، صورت صد نہاں، محو صد فریاد، طرب زار ہستی، نو ادر دل، عہد خوش دوستی، ہست شب، منظر ہر دید، برائے فکر خواب و ہر خوشی اور ناساتھ و غیرہ جیسے خوب صورت مرکبات کے استعمال کے باوجود اس کا مقصد شاعری کچھ اور ہے۔ کچھ اور ہے جو اسے لکھنے پر مجبور کرتا ہے۔ اس کے پاس فکر ی سطح پر بہت سے نئے زاویے اور خیالات ہیں جو اسے محو اظہار رکھتے ہیں۔ اس نے نہ تو صرف عصر کے نام پرداد وصول کرنے والی شاعری کی ہے۔ نہ فطرت کے نام پر محض منظر نگاری، بل کہ اس کا اصل میدان تو رموز حیات و کائنات کی دریافت اور خالق انفس و آفاق کے بھیدوں سے شناسائی ہے۔ اس کی منزل کوئی اور ہے۔ وہ تو ذات کے سمندر کا شناور ہے لیکن اس نے اپنی ذات کو بھی نئے زاویوں سے دیکھا اور دکھایا ہے، کائنات کو بھی وہ اپنے طریقے سے دریافت کرنے کی کوشش کرتا ہے، خالق کائنات سے بھی اس کا مکالمہ روایتی نہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ پھول میں خوشبو نہیں تو بات با آسانی آپ کی سمجھ میں آ جائے گی لیکن اگر کہا جائے کہ خوشبو میں خوشبو نہیں تو بات سمجھنے میں دشواری ہو گی لیکن اگر خوشبو کو جسم تصور کر لیا جائے تواس کے ساتھ ایک روح کا تصور بھی ابھرے گا۔ اب اگر کہا جائے کہ خوشبو کے جسم میں روح نہیں ہے تو یقیناً بات کسی قدر آپ کی سمجھ میں آ جائے گی۔ مائل نے اسی گہری سطح پر زندگی کو سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ اس نے زندگی کو ایک جسم تصور کیا ہے مگر اسے زندگی کے صرف جسم سے سروکار نہیں بل کہ وہ تو زندگی کی روح تک پہنچنے کا آرزو مند ہے وہ جاننا چاہتا ہے۔ کہ زندگی کی روح کی نوعیت کیا ہے ؟ یہ زندگی میں احساس زندگی کیوں نہیں ہے ؟ زندگی کی روح کس کرب میں مبتلا ہے ؟ زندگی کی روح اپنے سفر کے کس مرحلے اور کس منطقے میں داخل ہو چکی ہے ؟ وہ کون سے خواب دیکھ رہی ہے؟ ان استفہامیوں کے ذریعے وہ روح زندگی سے کلام کرنا چاہتا ہے، اسے دیکھنا اور چھونا چاہتا ہے، اسے اپنے احساسات اور فکر کا حصہ بنانا چاہتا ہے کہ اس کے بغیر ہر تفہیم ادھوری ہے لیکن اسے یہ احساس بھی ہے کہ اس متاع عمر قلیل میں جو صرف بہ ظاہر طویل معلوم ہوتی ہے روح زندگی تک رسائی بہ مشکل امکان رکھتی ہے۔ ایسے میں زندگی کی روح شناسی کیوں کر ممکن اور مکمل ہو سکتی ہے ؟ شاید یہی وجہ ہے کہ وہ زندگی کی روح کو اپنی روح میں تلاش کرتا ہے۔ کبھی اپنی روح کو روح حیات تو کبھی روح حیات کو اپنی روح تصور کر لیتا ہے اور کبھی دونوں کو ایک دوسرے میں گھلا ملا کر ایک نئی روح خلق کرتا ہے۔ نتیجتاً اس کی شاعری میں دروں بینی اور خود کلامی کا عنصر نمایاں اور غالب نظر آنے لگتا ہے۔

 

میں محو ذات سا یوں بھی بہت ہوں

سمندر کیا کناروں سے ملے گا

 

یہ اپنے ساٹھ سال اس میں ہوئے گم

کہ جانوں میں بھی کچھ اپنی خودی کو

 

جسے خالی اجل بھی کر سکے کیا

خیال یار کا ہوں وہ مکاں میں

 

رب نواز مائل کی سادہ شعری زمینیں بھی اس کی فکری پیچیدگی اور اسلوبیاتی انفرادیت کو پیش کرتی نظر آتی ہیں۔ اکثر بحریں مختصر ہیں اور مصرعوں میں شاذ و نادرکسی مشکل لفظ یا مرکب کا استعمال ہوا ہے مگر اس سہل انداز میں بھی اس کے قوافی و  ردائف کا انتخاب اور برتاوا سوچنے پر اکساتا ہے۔ یہ زمینیں اپنی معنوی و سعتوں کی جانب کھینچتی چلی جاتی ہیں۔

 

یہ کیسی عجب زیست ہم کو ملی  ’’بس‘‘

یہ کتھا بھی ہماری تو کیا  ’’ہے سنیں ‘‘

سمندر سا آگے پڑا  ’’دیر سے ہے‘‘

وفا کی بات بھی مثل نگیں  ’’لیں ‘‘

 

مطلع اور مقطع کو غزل کی شعریات میں اساسی اہمیت حاصل ہے مگر اکثر شاعر اسے برتنے میں محض خانہ پری سے کام لیتے ہیں۔ مطلعوں اور مقطعوں میں زبردستی اور بھرتی کے احساس نے روح غزل کو بے اثر کر دیا ہے مگر مائل ایسا صاحب فکر اور کہنہ مشق شاعر مطلع اور مقطع کی اہمیت سے بہ خوبی واقف ہے وہ فکری شاعر ہے اس لیے اس کی شاعری کے تمام اجزا اسی نور سے روشن نظر آتے ہیں۔

 

چلو اب کے نہ یوں اک گھات کر لیں

اداسی ہی کو اپنی ذات کر لیں

 

کیا عجب وقت تھا کیا عجب شام تھی

زندگی جیسے ساری مرے نام تھی

 

جو مصر ہو نہ ہونے پر مائل

اس سے بھی ہونا ہی نکلتا ہے

 

رب نواز مائل کی فکر جسمانی اور مکانی سے زیادہ روحانی اور آسمانی ہے۔ جو ہے، اس سے آگے دیکھنے کی تمنا اس کی بیش تر شاعری کا رجحان خاص ہے۔ ضرورت سے زیادہ کائنات بینی نے ایک طرف کائناتی اندھیرے کو گہرا کیا ہے تو دوسری طرف اس کی افسردگی کو بھی فزوں تر کر دیا ہے مگر کچھ زیادہ دیکھ پانے اور جان پانے کی تمنا اس کی چشم بینا کو ٹھہرنے نہیں دیتی اور مسلسل ’ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں ‘ کی کیفیت اس کے ہوش و حواس پر چھائی رہتی ہے۔

 

یہ کس حیرت سرا کا ہوں میں باسی

نظر جو اب ادھر تو اب ادھر ہے

 

بڑھ کر جہان رنگ سے کچھ اور بھی تو ہو

کب تک مرے لبوں پہ یہی اک سوال ہو

 

ترے ہوتے بھی ہے یہ کیا قیامت

کہ منظر کوئی بھی روشن نہیں ہے

 

بہت افسردہ سا ہو جیسے خود بھی

وہ جس نے داستاں میری لکھی ہے

 

فکر کے روحانی اور آسمانی ہونے کے باوجود زندگی سے مائل کا رشتہ منقطع نہیں ہوا۔ زندگی اس کے لیے کوئی جامد حقیقت ہرگز نہیں ہے۔ وہ زندگی کے حرکی تصور میں ایقان رکھتا ہے۔ اس لیے وہ زندگی کو سفر اور سفر کو زندگی قرار دیتا ہے۔ ٹھہرنا اس کے لیے موت کے مترادف ہے وہ ہر دم سرگرم، متحرک اور پیہم رواں دواں زندگی کا قائل ہے۔ اس کے لیے زندگی صرف اس وقت زندگی کہلانے کی حق دار ہو سکتی ہے جب اس میں خوشی ہو، جدوجہد ہو، حالات سے لڑنے کا حوصلہ ہو، محبت کی چاشنی ہو، رشتوں کا احترام ہو، کسی منزل تک پہنچنے کی جستجو ہو۔ جس میں امن ہو، سکون ہو، خوش حالی ہو، جس میں دکھ ہوں، آنسو ہوں مگر مایوسی نہ ہو۔ اسے زندگی کے تمام رنگوں سے محبت ہے مگر یاسیت اور جمود اس کے لیے روح حیات کے منافی ہیں۔ یہی یاسیت اور جمود اس کے نزدیک زندگی کو احساس زندگی سے عاری کر دیتے ہیں، یہی اس کے ارتقا میں سب سے بڑی رکاوٹیں ہیں اور یہی ہمارا انفرادی اور اجتماعی المیہ ہے۔

 

جو کم ظاہر سا بھی ہو کوئی دشمن

بڑھیں اور اس سے دو دو ہاتھ کر لیں

 

یقین و نایقیں کے بیچ ہے کچھ

یہ پیدا جس سے اپنا ہر سفر ہے

 

خیال رہ سے تا صد حاصل رہ

سفر کوئی تو کچھ اسرار میں ہو

 

بہ جائے بیٹھنے کے یوں جما سا

تواتر سے سفر کی ٹھان لینا

 

زندگی سے محبت نے مائل کو جذبہ محبت سے بھی بے گانہ نہیں ہونے دیا۔ وہ غزل کی ہر باریکی سے بہ خوبی آگاہ ہے۔ وہ جانتا ہے کہ غزل کو جتنا بھی وسعت آشنا کر دیا جائے۔ محبت ہمیشہ اس کا پسندیدہ موضوع رہے گی۔ اس لیے اس حوالے سے بھی مائل کا کلام خالی نظر نہیں آتا۔ جذبہ محبت اس کی شاعری میں اپنی فطری سادگی کے ساتھ جلوہ نمائی کرتا ہے مگر مائل کا اسلوب اس سادگی میں بھی رنگینی پیدا کر دیتا ہے لیکن یہ رنگینی مستعار رنگوں کی رنگینی نہیں بل کہ ہر رنگ پر مائل کی انفرادیت کی مہر ثبت ہے۔

 

پتھر سے تراشی تھی مگر جاگ اٹھی ہے

اک سانولی لڑکی مرے خوابوں میں بسی ہے

 

محبت ہے ہاں، ہاں محبت ہے تم سے

کہے جاؤ اس سے یہ ڈرتے ہوئے بھی

 

یہ اتنی سی خواہش بھی کتنا کر لائے

کوئی ساتھ آئے کوئی ساتھ جائے

 

یہ جو ملتا ہے وہ ہم سے آئے دن

کیا ضروری ہے اسے الفت بھی ہو

 

رب نواز مائل کا نظریہ حیات اسے مسائل عصر سے جوڑے رکھتا ہے مگر اپنے بیش تر معاصرین کے برعکس اس نے نظر آنے والی حقیقتوں کے بجائے نہ نظر آنے والی حقیقتوں کے بیان کو ترجیح دی ہے۔ اس نے عصر نہیں روح عصر کو بیان کیا ہے اور صرف بیان کرنے اور حالات کا تجزیہ کرنے ہی پر اکتفا نہیں کیا بل کہ بڑبڑانے کے بجائے طوفان کی طرح اٹھنے، لڑنے اور حالات کو بدلنے کی جرأتوں سے کام لینے کا درس دیا ہے۔

 

کہیں ملبہ پڑا تو خوں کہیں پر

یہ تہذیبوں کا گھر ایسا ہوا کیوں

 

یہ ہر دم بڑبڑانا ہی فقط کیوں

کبھی طوفاں کی صورت بھی اٹھیں ہم

 

مت پوچھئے کلید خوشی کس کے پاس تھی

اب کے ہوا بھی موجب خوف و ہراس تھی

وہی وحشی سا وحشی ہے پرانا

یہ اب جو دیکھتا ہوں آدمی  کو

 

مائل نے غزل کو اس کی شعریات کے شعور کے ساتھ برتا ہے مگر اس کے قطعی مختلف اسلوب نے اس کی غزل کو پوری اردو شعری روایت سے بالکل الگ ذائقے کا حامل بنا دیا ہے۔ بہ ظاہر ایسا لگتا ہے کہ اس کی شاعری، شعری روایت سے کٹ گئی ہے مگر ذرا غور کرنے پر اس کی فکر، فکریات ادب کا تسلسل معلوم ہوتی ہے پھر اس نے غزل میں کوئی غیر معمولی تجربات بھی نہیں کیے بل کہ صرف ایک ایسا لسانی پیرایہ اختیار کیا ہے جو آج کے قاری کو شاعری پڑھنے کے معمول سے کام لینے کے برعکس رکنے پر اور غور کرنے پر آمادہ کرے۔ مائل کی شاعری اسما اور اسمائے صفات کے برعکس افعال پر بل کہ افعال سے بھی زیادہ ان الفاظ پر انحصار کرتی ہے جو افعال کے معانی میں توسیع کا کام سر انجام دیتے ہیں اور یہی وہ اسلوبی رویہ ہے جو اسے منفرد بناتا ہے۔

غزل کی طرح نظم پر بھی مائل کے اسلوب کی چھاپ بڑی گہری ہے۔ وہ شعریات نظم سے بھی رد گردانی نہیں کرتا مگر اس کی کفایت لفظی اس کی نظم کو طویل نہیں ہونے دیتی وہ مختصر نظمیں کہتا ہے۔ اختصار پسندی آج کی شعری ضرورت ہے کم لفظوں میں زیادہ بات کہنے کا ہنر ہر کسی کو حاصل نہیں ہوتا۔ غزل میں بھی مائل مختصر بحروں کو انتخاب کرتا ہے اور نظموں کو بھی طوالت سے بچانے کا فن جانتا ہے۔ مگر ایسا اس لیے نہیں ہے کہ اس کے پاس کہنے کو کچھ نہیں بل کہ ایسا اس لیے ہے کہ وہ کم لفظوں سے زیادہ کام لینا جانتا ہے بل کہ اس نے تو ان لفظیات سے بھی کام لینے کی روایت پیدا کی ہے جو اب تک اردو شاعری میں شعر کے وزن کو پورا کرنے کے لیے استعمال کیے جاتے تھے اور ناقدین شعر انھیں حشو و زوائد کہہ کر چھانٹ دیا کرتے تھے۔ یہ نئی روایت مائل کی شاعری میں ابلاغ کے مسائل پیدا کرتی ہے اور اسے روایتی چاشنی سے عاری ثابت کرتی ہے مگر یہ دونوں مسائل اس کے نہیں بل کہ اردو شعر کے قاری کے ہیں جو ابھی تک صارف کی حیثیت سے دست بردار ہونے کو تیار نہیں۔

رب نواز مائل بلا شبہ ایک مشکل شاعر ہے بیانیہ سطح پر بھی اور فکری طور پر بھی۔ اسے ہر گز سطحی قرأت یا ایک آدھ بار پڑھ کر سمجھا نہیں جا سکتا اسے سمجھنے اور اس کی شاعری سے حظ اٹھانے کے لیے اس کی شاعری سے آشنائی پیدا کرنا پڑے گی، اس کے شعری اسلوب کو گرفت میں لینا پڑے گا، اسے بار بار پڑھنا پڑے گا اور اگر ادب اور بالخصوص شاعری سے قاری کی محبت اور اخلاص اسے اس محنت پر مجبور کرتے ہیں تو میرا دعویٰ ہے کہ مائل کی شاعری کا دیر سے حاصل ہونے والا جادوئی اثر تا دیر قاری کو اپنے حصار سے نکلنے نہیں دے گا۔ ‘‘

۳؎      ’’مجموعی اردو شعری روایت میں بالعموم جب کہ بلوچستان کی اردو شعری روایت میں بالخصوص عطا شاد ایک بدلے ہوئے شعری ذائقے کا شاعر ہے اور ہر بدلے ہوئے شعری ذائقے کے شاعر کی طرح وہ بھی اپنی تفہیم و تحسین کے لیے بدلے ہوئے شعری مذاق اور نئے شعور شعر کا تقاضا کرتا ہے مگر عطا شاد کو جس بدلے ہوئے شعری ذائقے کا شاعر قرار دیا جا رہا ہے۔ کیا وہ عطا شاد کی تمام تر شاعری میں ایک جتنی توانائی کے ساتھ موجود ہے؟ اس سوال کا جواب یقیناً نفی میں ہے۔ عطا شاد کی تمام تر شاعری اس بدلے ہوئے شعری ذائقے کی حامل نہیں ہے جس کے باعث ہم عطا شاد کو صاحب اسلوب اور اپنا انفرادی شعری لہجہ تخلیق کرنے والے اہم ترین شاعروں میں شمار کرتے ہیں۔ عطا شاد کی شاعری میں مجموعی طور پر تین شعری اسالیب واضح طور پر دیکھے اور نشان زد کیے جا سکتے ہیں۔

اول:اردو کی کلاسیکی شعری روایت کی باز آفرینی، تقلید اور اس کے تسلسل کو قائم رکھتے ہوئے اسے آگے بڑھانے کی جستجو اور کاوش سے صورت پذیر ہونے والا شعری اسلوب

دوم:نئی شعری لسانی تشکیلات کے تجربوں اور بلوچستان کی مقامیت کے تخلیقی اظہاریوں میں تحلیلی توازن قائم رکھنے کے شعوری و لاشعوری جتن سے بننے والا شعری لہجہ

سوم:مجموعی فکری شعری روایت سے جڑنے اور الگ ہو کر اپنے فکری نظام کو شعر میں منقلب کرنے کی شدید خواہش سے جنم لینے والا شعری قرینہ

عطا شاد کی شاعری میں یہ تینوں شعری اسالیب اتنے توانا ضرور ہیں کہ ان میں سے کسی کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا مگر عطا شاد کو بہ حیثیت اہم شاعر کے متعارف و ممتاز کرنے میں یقیناً ان تینوں کی اہمیت ایک جتنی نہیں ہے۔ اسی لیے ان اسالیب میں اول اور سوم کو دوم کے مقابلے میں نظر انداز کرنے یا دبانے کی کوشش کی گئی ہے۔ جس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ان تینوں اسالیب کی ایک تخلیقی ذات میں یک جائی مجموعی اسلوب کی سہ لختی ظاہر کرتی ہے۔ جو یقیناً کسی بھی تخلیق کار کو اہم ثابت کرنے کی راہ میں حائل ہو سکتی ہے مگر میرا خیال ہے کہ عطا شاد کی حقیقی اہمیت اور قدر و قیمت کا تعین ان تینوں اسالیب کے تفہیم و تجزیے کے بغیر نامکمل ہے اس لیے ان میں سے کسی کو بھی نظر انداز کرنا عطا شاد کی تخلیقی ذات کے ایک اہم رخ کو منہا کر دینے کے مترادف ہو گا اور کوئی تخلیقی ذات اپنی ادھوری اور نامکمل تفہیم کے باعث نہ تو اہم ثابت ہو سکتی ہے نہ اس کی انفرادیت کے حقیقی شعور کو منظر عام پر لایا جا سکتا ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ عطا شاد کی شاعری میں موجود تینوں اسالیب کو تجزیاتی عمل سے گزارا جائے تا کہ اس کی انفرادیت پر ان تینوں اسالیب کے ان اثرات کی نشان دہی کی جا سکے جن کے بغیر عطا شاد کے حقیقی قد و قامت کا تعین نہیں ہو سکتا۔

عطا شاد کی شاعری میں موجود اسلوب کی اول صور ت میں اس کے تخلیقی تجربے کے اجزا سیرتی، صورتی اور صوتی تینوں اپنے آب و رنگ کے لیے اردو کی کلاسیکی شعری روایت کے دست نگر دکھائی دیتے ہیں۔ یہاں عطا شاد کی انفرادیت تجربے کی سیرتی جزو میں اظہار کرتی ہے لیکن بات مضمون آفرینی سے آگے نہیں بڑھتی یعنی مضامین سب کلاسیکی ہیں صرف ان میں کوئی نیا زاویہ پیدا کر کے اپنا تخلیقی جواز مہیا کیا گیا ہے۔ تاہم سیرتی جزو کی یہ تبدیلی صورتی اور صوتی اجزا پر کوئی غیر معمولی اثرات مرتب کرنے سے قاصر نظر آتی ہے۔ اس اسلوب کے تناظر میں عطا شاد کی انفرادیت ثابت کرنا ناممکن نظر آتا ہے البتہ یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ یہ شاعر شعور روایت سے بہرہ مند ہے اور مضمون آفرینی کی وافر صلاحیت کا حامل ہے جو ہر روایتی شاعر کا خاصا ہوا کرتی ہے مگر عطا شاد کی کام یابی یہ ہے کہ اس نے خود کو اس اسلوب میں مقید ہونے نہیں دیا بل کہ اس اسلوب سے پرانی بات میں نیا زاویہ پیدا کرنے کا شعور حاصل کر کے آگے بڑھ گیا جو عطا شاد کی حقیقی انفرادیت کی تشکیل میں شامل وہ خصوصیت ہے جس سے صرف نظر نہیں کیا جا سکتا۔

 

گزر ہی جانا ہے آخر عذاب مے خانہ

شراب ناب نہیں ہے لہو تو باقی ہے

 

بڑا کٹھن ہے راستہ جو آسکو تو ساتھ دو

یہ زندگی کا فاصلہ مٹا سکو تو ساتھ دو

 

کفر ہے نشہ و مے ساغر و ساقی باطل

اور اگر مست نگاہوں کی خطا ہو جائے !

 

ایک بار اور آکے مل اور عمر بھر تڑپا کے دیکھ

اک جھلک دکھلا کے کب تک روح کو ترسائے ہے

 

واعظ وقت کو شکوہ کہ میں سنبھلا ہی نہیں

کیا سنبھل جائے گا وہ میرے سنبھل جانے سے

 

پارساؤں نے بڑے ظرف کا اظہار کیا

ہم سے پی اور ہمیں رسوا سربازار کیا

 

محدود کلاسیکی شعری روایت کی تقلید و توسیع اشعار غزل کی طرح نظموں میں ظاہر نہیں ہوتی مگر بعض نظمیں مثلاً ’گلباغ خاک‘، ’سحر سخن ‘، ’خاک اور باد کا رشتہ ‘اور’ وفا‘ اپنے موضوع اور پیش کش میں تازگی کا وہ احساس نہیں رکھتیں جو عطا شاد کی دیگر نظموں کا خاصا ہے اس لیے ان نظموں کو بھی اسلوب اول کے دائرے میں رکھ کر پڑھنا زیادہ مناسب ہو گا۔

عطا شاد کے اس اسلوب میں مقید نہ ہونے کی وجہ شاید یہی تھی کہ وہ سمجھ گیا تھا کہ کلاسیکی شعری روایت کے اندر رہ کر اپنے جمالیاتی شعری تجربے کو پیش کرنا ناممکن ہے۔ ایک جداگانہ خد و خال کی حامل ثقافت میں پرورش پانے والی ذات کا تخلیقی تجربہ اپنی ثقافتی شناخت سے بے نیاز کیوں کر ہو سکتا ہے اور یہ کیوں کر ممکن ہے کہ شعری زبان اس ثقافت کے اثرات کو قبول نہ کرتے ہوئے اس کے اندر وقوع پذیر تخلیقی تجربے کو بیان کرنے میں کام یاب ہو۔ یہیں اس کے اندر مقامی وجود کے اظہار اور اس وجود کے اظہار کے لیے شعری زبان کو مقامی ثقافتی زبان سے ہم آہنگ کرنے کی خواہش و کاوش کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ یہ جذبہ اس کے تخلیقی تجربے کی ساخت کو بدل کر قطعی طور پر منفرد بنا دیتا ہے۔ تخلیقی تجربے کے سیرتی، صورتی اور صوتی اجزا اور ان میں موجود نسبت ترکیبی مکمل طور پر تبدیل ہو جاتی ہے۔ یہاں صوتی جزو تخلیقی تجربے کے باقی دونوں اجزا پر غالب آ جاتا ہے۔ اردو شاعری نئے غنائی شعور سے آشنا ہوتی ہے۔ جسے بلوچستان سے جدا کر کے قابل احساس بنانا ناممکن العمل نظر آتا ہے۔ یہاں اردو شاعری بلوچستانی ہو جاتی ہے اور اس کا اہم ترین مرکز دلی، لکھنو یا کراچی نہیں بل کہ کوئٹہ بن جاتا ہے۔ یہی وہ نیا ذائقہ ہے جو عطا شاد کی انفرادی شناخت قائم کرتا ہے مگر مجھے اس انفرادیت پر عین سلام کے اثرات واضح نظر آتے ہیں۔ اردو شاعری کو بلوچستانی بنانے اور کوئٹہ کو اس کا مرکز بنانے کی اولین کاوش بہ ہر حال عین سلام کی شاعری میں نظر آتی ہے مگر عین سلام کی شاعری اپنی شناختی اساس تخلیقی تجربے کی صوتی جزو کے برعکس سیرتی جزو پر قائم کیے ہوئے ہے۔ اس لیے صوتی جزو اس طرح اس کی شاعری میں نہیں ابھرتا جس طرح عطا شاد کی شاعری میں ابھرا ہے مگر یہ حقیقت ہے کہ عطا شاد نے اس رنگ کو عین سلام کی تقلید میں نکھارا ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اس نے اس میں بے شمار اضافے کیے ہیں نیز اختراعات کی وسعتوں سے اس نے اس کی تازگی کو اس قدر بڑھا دیا ہے کہ یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ عین سلام یہ کام اس سطح پر سر انجام نہیں دے سکتا تھا کیوں کہ اس کا شعور شعر عطا شاد کے شعور شعر سے قطعی مختلف تھا۔

یہ حقیقت ہے کہ اس اسلوب کی شناخت صوتی جزو پر قائم ہے مگر صوتی جزو نے سیرتی اور صورتی اجزا دونوں کو بدل کر رکھ دیا ہے یہاں عطا شاد کی لفظ سازی و مرکب سازی کی خلاقیت نے مضامین نو کے ساتھ بحروں کے تجربے، نئی زمینیں اختراع کرنے، نئے امیجز، استعارے اور علامتیں تراشنے اور اس ہر نئی کاوش میں بلوچستانی رہنے کی جو روش اپنائی اور اس پر جس استقامت سے قائم رہا اس نے عطا شاد کو بلوچستان کی مجسم صورت اور اس کے لحن کو بلوچستانی آہنگ کا ترجمان بنا دیا۔

 

یک لمحہ سہی عمر کا ارمان ہی رہ جائے

اس خلوت یخ میں کوئی مہمان ہی رہ جائے

 

قربت میں شب گرم کا موسم ہے ترا جسم

اب خطہ جاں وقف زمستان ہی رہ جائے

 

مجھ شاخ برہنہ پہ سجا برف کی کلیاں

پت جھڑ پہ ترے حسن کا احسان ہی رہ جائے

 

برفاب کے آشوب میں جم جاتی ہیں سوچیں

اس کرب قیامت میں ترا دھیان ہی رہ جائے

 

تجھ بن تو سنائی نہ دے سورج کی صدا بھی

دل دشت ہوا بستہ ہے سنسان ہی رہ جائے

 

مرمر کی سلوں میں تو گھٹے آگ کا دم بھی

یہ قریہ جاناں ہے یہاں جان ہی رہ جائے

 

سوچوں تو شعاعوں سے تراشوں ترا پیکر

چھولوں تو وہی برف کا انسان ہی رہ جائے

 

یہ شام یہ چاندی کا برستا ہوا جھرنا

کوئی تری زلفوں میں پریشان ہی رہ جائے

 

صورت سے وہ گل برف سہی پھر بھی عطا شاد

تاثیر میں وہ مشک کی پہچان ہی رہ جائے

 

اس پوری غزل کے علاوہ ’کوہ کا کرب‘، ’ گل کدہ‘، ’ حانی شہ مرید‘ اور’ میرے ہونے کا عنوان‘ جیسی نظمیں جب کہ درج ذیل دو اشعار جن غزلوں کے ہیں وہ پوری غزلیں عطا شاد کی شاعری کے بلوچستانی آہنگ کی بہترین مثالیں ہے۔

 

خنجر خون چکیدہ ہو یا لالہ لب کی قاش، شہید رنگ کو ہیں یہ ایک سی بات

عشق کی پھیلی ہوئی سرحد تک حسن ہے ایک جہان اور غم بس ایک ہے سب بولان ہو  جیسے

 

کہیں جمتی ہوئی سوچیں، کہیں ٹھٹھرے ہوئے خواب

شہر کا شہر ہے سنسان بہت سردی ہے

 

عطا شاد پر ہونے والی ناقدانہ گفتگو اس کی تخلیقی ذات کے اسی محور پر گردش کرتی رہی مگر کسی نے اس اسلوب کے پس منظر میں موجود تخلیقی تجربے میں صوتی اور سیرتی اجزا کے مابین پایا جانے والا وہ خلا نہیں دیکھا جو کبھی کبھار اس قدر پھیلتا دکھائی دیتا ہے کہ شعر بے معنی ہونے کا احساس دلانے لگتا ہے۔ صوتی جزو کو منفرد و مختلف بنانے کی کاوش میں سیرتی جزو اکثر عطا شاد کی تخلیقی گرفت سے نکل جاتا ہے۔ شعر ایک خوش و نو آہنگ نغمہ تو بن جاتا ہے مگر شعری زبان اس قدر اجنبی ہو جاتی ہے کہ اسے بامعنی بنانے والا تناظر گرفت میں نہیں رہتا۔ یہاں شعر کے معنی شعر میں موجود رنگ و آہنگ سے اخذ کرنے کی کوشش ضرور کی جا سکتی ہے مگر یہ ضروری نہیں کہ قاری اس کوشش میں کام یاب ہو۔

 

بند ہوا میں وقت رکا ہے ورنہ حبس میں دم گھٹتا

شاد جہاں ہم آ ٹھہرے ہیں کب کا زہر کا زنداں ہے

 

اب کے آئی ہے پھواروں کی مہک

جل رہی ہے مری نبضوں کی چتا

 

سورج نے چڑھتے آنگن میں کوئی دھنک لہرائی نہیں

دھوپ کا ڈھلتا ڈھلتا سایہ کچھ ہے میری مٹی ہے

 

گرتی ہوئی ہر بوند میں تھا برف کے رشتہ

شعلوں میں بجھے خون کا پرچم بھی وہی تھا

 

کون احساس کی بند مٹھی میں کوئی سرد سایہ سمیٹے

جب کڑی دھوپ کے ظرف کا حرف صرف کشکول لب شب تلک ہے

 

یخ پت جھڑ ہے شاخ شعاعیں ٹوٹ جمیں

لاوا لاوا پھول پہاڑ مسل جائے

 

ان اشعار کے علاوہ بے معنویت کا مسئلہ اس کی نظم  ’’آدمی ‘‘  میں بھی موجود ہے۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ یہ مسئلہ جدلیاتی لفظ کا پیدا کردہ نہیں ہے جس سے ہمہ وقت معنی کا استخراجی عمل جاری رہتا ہے۔ یہ سوال اٹھایا جا سکتا ہے کہ صوتی جزو کا اجنبی پن تو کہیں معنی تک رسائی میں حائل نہیں جس کے جواب میں یہ اعتراف ضروری ہے کہ یقیناً عطا شاد کی شعری لفظیات و مرکبات کی تحلیل کوئی سہل کام نہیں ہے مگر اس کے باوجود یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس ذیل کے اشعار اور نظمیں صوتی جزو کی نامانوسیت کے سبب بے معنویت کا شکار ہو گئی ہیں۔ یہ بات یقین سے اس لیے کہی جا سکتی ہے کہ عطا شاد نے اپنی انفرادیت کو قائم کرنے والے اس اسلوب کے متوازی ایک اور اسلوب بھی قائم کیا جس میں اس نے تخلیقی تجربے کے سیرتی جزو کو اس دوسرے اسلوب کے صورتی و صوتی اجزا پر مقدم رکھا ہے۔ یہاں عطا شاد نے یہ کوشش کی ہے کہ وہ شاعری کو خوش و نو آہنگ نغمہ کے ساتھ بصیرت افروز اور فکر اساس حقیقت بنا کر پیش کرے۔ اسلوب کی دوسری صورت میں موجود بے معنویت اس تیسری صورت میں شعری ابہام بن کر سامنے آتی ہے یہاں شعر بے معنی نہیں رہتا بل کہ معنوی کثرتیت اور التوائے معنی جیسی صورتیں اختیار کرتے ہوئے فکری شعری روایت سے جڑت اور علاحدگی کے احساسات بہ یک وقت ابھارتا دکھائی دیتا ہے۔ یہیں عطا شاد نے اپنے فکری نظام کو شعر میں منقلب کرنے کی تخلیقی کاوش کی ہے جس میں وہ بڑی حد تک کام یاب نظر آتا ہے۔ یہاں وہ محض بلوچستانیت یا شعری لسانی تشکیلات کی وجہ سے منفرد نظر نہیں آتا بل کہ اس کے فکری خال و خد اس کی انفرادیت ظاہر کرتے ہیں۔

 

ایک دیے کی جست ہے اور شب کٹنے پو پھٹنے تک

سورج بن کر سوچتے ہیں میں اور دل اور آئینہ

 

یہ بھی تو ہو کہ سر کے سبب ہو شکست سنگ

یوں بھی تو ہو کبھی کہ شجر سے تبر کٹے

 

خیموں سے رکی ہوئی ہے بارش

دیوار کی قید میں ہوا ہے

 

لمس کی تہ میں عکس چھپا ہو پس نظر ہو رنگ

گیان مسافت کے ہر پل میں لو دے تری کتاب

 

نظر نظر میں دمکتی ہے رت جگوں کی دھنک

فصیل جسم میں ہم ہیں مثال خواب آزاد

 

جن کی خیرات سے لمحوں کی لویں جاگتی ہیں

شب نژادوں میں وہی دست نگر کہلائے

 

معنی کے شعر میں عطا، کوئی نہیں ہے دور تک

آدمی باب ہست کا نقش ہے اک مٹا ہوا

 

فکری شعری روایت سے انسلاک اور اپنے فکری نظام کی پیش کش کے حوالے سے ان اشعار کے علاوہ عطا شاد کی نظموں ’نہیں کا نغمہ‘، ’ ازل کا آتش کدہ ‘، ’سر گنگ زار ہوس‘، ’خواب کی شہریت‘ اور’ بگولوں کے ستون‘ کا بہ غور مطالعہ اس کی فکری تفہیم میں اساسی اہمیت رکھتا ہے۔ فکری شاعری کے رجحان میں عطا شاد ایک بار پھر عین سلام کے قریب آ جاتا ہے مگر صوتی جزو کے تقابل میں عین سلام کے اثرات کے باوجود عطا شاد ان پر سبقت لے جاتا ہے جب کہ سیرتی جزو کے تقابل میں اپنی تمام تر خوبی کے ساتھ عطا شاد، عین سلام کی برابری نہیں کر سکتاکیوں کہ عین سلام کی فکراساس شاعری مرکز آشنائی کا جوہر رکھتی ہے جب کہ عطا شاد اس جوہر سے بے گانہ نظر آتا ہے۔

عطا شاد کی شاعری کے تینوں اسالیب بالخصوص دوسرا اور تیسرا اسلوب ایک دوسرے سے الگ تو ضرور ہیں مگر ایک نظم اور ایک غزل کے مختلف اشعار میں دونوں متوازی طور پر جلوہ نمائی بھی کرتے ہیں۔ جب کہ کہیں کہیں تو تینوں اسالیب ساتھ نظر آتے ہیں مگر یہ اسالیب ایک مرکب نہیں بناتے بل کہ آمیزے کی صورت غیر تحلیل شدہ صورت میں موجود رہتے ہیں۔ مجموعی طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ عطا شاد ایک محدود شعری روایت کی اسلوبی تقلید سے شعری سفر کا آغاز کرتے ہوئے اپنے انفرادی شعری تجربے کی منزل تک پہنچتا ہے اور پھر ایک لامحدود شعری روایت میں خود کو ضم کرنے کی منزل کی جانب بڑھ جاتا ہے۔ اس لیے یہ شعری سفر بہ ہر صورت ارتقائی شعری سفر کہلانے کا حق دار ٹھہرتا ہے مگر اسے مرکز آشنا ارتقائی عمل کے برعکس مرکز گریز خط مستقیمی ارتقا کہنا زیادہ مناسب تنقیدی عمل ہو گا۔ ‘‘

ان تینوں شاعروں کے انفرادی تنقیدی تجزیے سے یہ بات پوری طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ تخلیقی تجربہ مستعار نہیں ہوتا اور اسلوب تخلیقی تجربے سے الگ نہیں ہو سکتا۔ اسلوب تخلیقی تجربے کے ذریعے صورت پذیر ہوتا ہے لہذا تخلیقی تجربہ جتنا انفرادی اور اوریجنل ہو گا اسلوب پر امتیازی چھاپ اتنی گہری ہو گی۔ یہ وضاحت جس نئے شعری رجحان کو سامنے لاتی ہے وہ یہی ہے کہ تخلیقی عمل کی آزادی اور تجربے کی انفرادیت پر کوئی سمجھوتہ نہ کیا جائے تاکہ قطعی نیا اسلوب خلق کیا جا سکے۔ یہی رجحان بلوچستان میں نئی اردو شاعری کی بنیاد بنتا ہے اور اسی رجحان کو نئی شعریات کی تشکیل میں روح رواں کی حیثیت کا حامل قرار دیا جا سکتا ہے۔

 

                   حواشی

 

۱۔ دانیال طریر،  ’’بلوچستانی شعریات کی تلاش(جلد اول)‘‘ ، لاہور، پائلٹ ایجوکیشنل پروڈکٹس،

۲۰۰۹، ص۳۷، ۵۰

۲۔ دانیال طریر:ص۵۱۔ ۶۱

۳۔ دانیال طریر:ص۷۱۔ ۸۰

٭٭٭

ماخذ: مصنف کی کتاب "معاصر تھیوری اور تعینِ قدر”

تشکر: سدرہ سحر عمران جن سے فائل کا حصول ہوا

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید