FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

(ادارے کا اس کتاب میں موجود نظریات سے متفق ہونا ضروری نہیں)

 

عوامی جمہوریہ پاکستان

 

 

 

                   نعمان نیر کلاچوی

 

 

 

 

 

 

 

پیش لفظ

 

پاکستان ایک ایسی دھرتی  ہے جس کے ساتھ  نہ صرف ہمارا طبعی  بلکہ روحانی تعلق بھی استوار ہے اہلِ ہند وطن کو دھرتی ماتا کی مقدس اصطلاح سے تعبیر کیا کرتے تھے مسلمان ہوں یا سنسکرتی ( ہنود) دونوں اہلِ نظر نے ہندوستانی ہونے کا خوب خوب حق ادا کیا اس دھرتی نے دنیا کو عالم، فاضل، قانون دان، سائنسدان، مہان کلاکار  اور دنیا کے بہترین سیاسی لیڈر عطاء کو کئی نوبل انعام یافتہ جنگ بہادر رابندر ناتھ ٹیگور ہوں یا علم الکلام کے لاثانی ماہر ڈاکٹر علامہ محمد اقبال ہوں، ماہر تعلیم و اخلاق سرسید احمد خان ہوں یا زیرک قانون دان محترم محمد علی جناح یا پھر عظیم سیاسی لیڈر و  انسان دوست انسان شری مہاتما اندھی، دنیا آج بھی ان تمام شخصیات کی علمی  و سیاسی وقار میں رطب اللّساں ہے ہند کے آخری فرمانروا مغل تھے پھر  تجارت کی غرض سے ہند میں گوروں نے قدم رکھا تو  ابتداء میں اُن کا مقصد شاید تجارت ہی تھا لیکن دیکھتے ہی دیکھتے ہندوستان کے ثقافتی سحر نے اُنہیں مدہوش کر کے رکھ دیا مغل خاندان کے آخری فرمانروا کا تختہ اُلٹنے کے بعد اہلِ  فرنگ خود کو ہندوستان کے سیاہ و سفید کا مالک سمجھنے لگے نہ صرف سنسکرتی بلکہ اہلِ اسلام بھی اُس وقت ہندوستان میں اپنی سیاسی، سماجی اور مذہبی ساکھ کھو بیٹھے۔ چنانچہ اہلِ سنسکرت  اور اہلِ اسلام پر اپنی سیاسی، سماجی اور مذہبی دھاک بٹھانے کا اِس سے بہتر موقع فرنگی کے پاس نہ تھا اور پھر اُنہوں نے ایک منظم ضابطہ کے تحت ہندوستان کو اپنی تہذیب کا گہوارہ بنانے  اور اہلِ سنسکرت و اہل اسلام کو آپس میں لڑوانے کا تہیہ کیا   پس بہت ہی قلیل عرصہ میں کامیاب بھی ہو گئے اہلِ فرنگ قریباً سو سال تک اِس خوشبودار اور ہری بھری دھرتی پر راج کرتے رہے پھر کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے کے مصداق اہلِ فرنگ نے ہندوستان سے رخصت ہونے کی ٹھانی تو اہلِ فرنگ کی رخصتی اِن کے جاتے جاتے ہندوستان کو بھی دو لخت کر گئی القصہ مختصر ہندوستان دو ٹکڑے ہو گیا ایک حصے کو پاکستان کا نام دے دیا گیا اور دوسرے کو آزاد ہندوستان، چنانچہ پاکستان معرضِ وجود میں آ گیا اور پھر اہلِ اسلام کا ایک مختصر گروہ اپنی صدیوں پر محیط علمی، سیاسی، سماجی اور مذہبی وراثت سے منقطع ہو گیا، آج ہم جس خطہ میں موجود ہیں یہ پاکستان کہلاتا ہے پاکستان کی اساس کچھ بھی ہو حقائق کتنے تلخ کیوں نہ ہوں لیکن بہرحال ہمیں اپنے خطے سے پیار ہے کیونکہ ماں چاہے سوتیلی ہو یا سگی بہرحال ماں ہی  ہوتی ہے، پاکستان کس کا آئیڈیا تھا اور کون لوگ تھے جو اہلِ اسلام کو مختلف گروہوں میں تقسیم کرنا چاہتے تھے اس کا تذکرہ تو ہم آگے چل کر ہی کریں گے سرِ دست یہ عرض کرنا مقصود ہے کہ پاکستان کی ضرورت کیوں پیش آئی؟  کیا یہ ضرورت محض مذہب کی اساس پر قائم تھی یا کسی مخصوص سیاسی عزائم کی تکمیل کا سرچشمہ، ؟چنانچہ اس مقالہ میں ایسے اور ان جیسے تمام سوالات کے جوابات تلاش کرنے کی کوشش کی گئی ہے، مباحثہ کا بنیادی اُصول ہمیشہ "دلیل ”  ہی رہا ہے چنانچہ دلائل کی بنیاد پر کسی واقعہ یا موضوع پر جرح کا حق ہر کس محفوظ رکھتا ہے ہمارا مقصد کسی کی ذات کو تختہ مشق بنانا نہیں نہ ہی کسی کے جذبات کو ٹھیس پہنچانا بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ ہم  نے ان تمام معاملات کی حقیقت جاننے کی کوشش کی ہے اور کوشش اس لئے کہ ” ہم پاکستان ہیں ” پاکستان ہمارا ماضی حال اور مستقبل ہے ہم نے جس دھرتی پر جنم لیا پلے بڑھے شعور سنبھالا فلہٰذا اُس کے متعلق بلا ملمع حقائق تلاش کرنے کا بھی حق  بسرِ چشم محفوظ رکھتے ہیں، پاکستان کو بنے نصف صدی سے زائد عرصہ گزر چکا، کہنے کو تو ساٹھ سال بیت گئے لیکن ان ساٹھ سالوں میں آج تک کسی زعیمِ  عظیم نے اس دھرتی کے سپوتوں کو یہ بتانے کی زحمت گوارا نہ کی کہ پاکستان کی اساس کیا تھی ؟  ہم نے جو بچپن میں پڑھا اُن میں سے  صرف دو جملے یاد ہیں ایک یہ کہ پاکستان کا مطلب کیا "لا الٰہ الا اللہ” دوسرا یہ کہ ہندو اور مسلمان دو الگ الگ قومیں تھیں اس لئے پاکستان بنانا پڑا، نہ ہمیں اپنے تعلیمی نصاب میں بانی پاکستان کے متعلق مبنی بر حقائق بتائے گئے ہیں نہ ہی مصورِ پاکستان ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کے متعلق بنیادی معلومات فراہم کی گئی ہیں، البتہ ان دو نہایت اہم شخصیات کو تقدیس و التفات کی دبیز تہوں میں لپیٹ کر ہمیشہ اور ہر مقام پر رام اور کرشنا بنا کر پیش کیا گیا چنانچہ اب نوبت یہاں تک پہنچی کہ اِن دو شخصیات  کے متعلق تحقیق بھی شجرِ ممنوعہ کی وعید بصد شدید ہے، پاکستان ہے کیا؟  اس کی نظریاتی اساس کیا تھی ؟ مذہب کا اس سارے معاملہ سے کیا سمبندھ تھا ؟ اس ملک کو بنانے میں پاکستان کے بانی و دیگر اہم شخصیات کا پشِ منظر و پیش منظر کیا تھا؟  کیا واقعی پاکستان کا مطلب کیا ” لا الٰہ الا اللہ” تھا یا کسی خود سر اور مطلق العنان گروہ کی سیاسی شعبدہ بازی؟  کیا پاکستان  کی بنیاد واقعی مسلمان اور اہلِ سنسکرت  کو دو قومیں سمجھ کر مسلمانوں کی مذہبی، سیاسی و سماجی اقدار کا تحفظ تھی یا پھر سیاسی ہٹ دھرمی کی بنیاد پر ہندوستان کو دو لخت کرنا مقصود تھا ؟  نقد کی بنیاد خالص منطق پر قائم کی گئی ہے چنانچہ اگر کسی نفسِ لطیف کی طبعِ کومل کو ہمارے الفاظ مانندِ ضرب السیف  معلوم ہوں تو ہم پیشگی معذرت کے طلبگار ہیں، پسِ منظر کے علاوہ پاکستان کے پیش منظر پر بھی مختصر بحث کی گئی ہے چنانچہ پاکستان کے موجودہ حالات میں مبنی برحق و صحیح لائحہ عمل کیا ہونا چاہئے، ریاست کے آئینی ڈھانچے میں وہ کونسی جوہری تبدیلیاں لانی چاہئیں جس سے ریاست نہ صرف معاشی بلکہ علمی، مذہبی و سماجی طور پر ایک مضبوط اور خود مختار ریاست  کی طور پر سامنے آسکے، چنانچہ ایسے اور اس جیسے تمام موضوعات پر قلم اُٹھائی گئی ہے، ہمارے ہاں یہ تاثر عام ہے کہ جو بھی حق پر کاربند ہو کر حقائق سامنے لائے تو وہ کسی ملک دشمن عناصر کا ایجنٹ یا پھر مخبر تصور کیا جاتا ہے، اصل میں ہمارے ہاں شعور و تجزیہ کی جگہ عوام کو تسلیم و رضا کے جام مع صمصام پلائے جاتے ہیں تو اُنہیں تحقیق کفر اور سچائی دغا معلوم ہوتی ہے، آخر میں ہندوستان کے ایک عظیم انسان دوست انسان شری مہاتما گاندھی کا ایک قول عرض کرتا ہوں پھر اصل موضوعات کی جانب بڑھوں گا، آپ نے ایک جگہ فرمایا تھا کہ

” کوئی خدا سچ سے زیادہ طاقتور نہیں ہوسکتا”

نعمان نیر کلاچوی

 

 

 

 

پاکستان کی نظریاتی اساس

 

پاکستان کی مبّینہ نظریاتی اساس وہی ہے جو زبانِ زدِ عام ہے گویا پاکستان کا کیا "لا الٰہ الا اللہ”، ہمیں جو بتایا گیا ہے اُس کے مطابق یہ کہ پاکستان دراصل دو قومی نظریئے کی بنیاد پر قائم ہوا، دو قومی نظریہ پر ہم آگے چل کر بات کریں گے سرِ دست ہم پاکستان کا مطلب کیا ” لا الٰہ الا اللہ ” کی تحقیق کرتے ہیں، ہم عرض کر چکے ہیں کہ ہندوستان پر اہلِ اسلام نے لگ بھگ 325 سال حکومت کی، مغلِ اعظم جلال الدین محمد اکبر سے یہ سلسلہ شروع ہو کر بہادر شاہ ظفر پر آ کر رُکتا ہے، مغلیہ خاندان کو عرش سے فرش پر لانے والے سنسکرتی نہیں  اہلِ فرنگ تھے، دورِ اکبر میں اہلِ سنسکرت کی جانب سے کوئی بھی منظم سازش تاریخ میں نہیں ملتی جس کا تذکرہ اہمیت کا حامل ہو، چنانچہ بلا شک و شبہ ہندوستان اُس دور میں اہلِ اسلام کی علمی، مذہبی، سیاسی و سماجی شان و شوکت کا گہوارہ شمار ہوتا تھا، جامع مسجد دہلی، قطب مینار، جامعہ  علی گڑھ اور دارالعلوم دیوبند آج بھی اہلِ اسلام کے لازوال شاہکار ہیں، قطب مینار کو دیکھنے والے آج بھی اہلِ اسلام کے کمال و جلال کے گرویدہ ہو جاتے ہیں، اس سب کے باوجود کیا وجہ تھی کہ اچانک اہلِ اسلام کو کلمہ طیبہ کی یاد آ گئی اور پھر کیا وجہ تھی جو اہلِ اسلام اپنی تمام تر علمی، مذہبی، سیاسی و سماجی وراثت سے منقطع ہو کر ایک الگ ٹکڑے پر کلمہ طیبہ کی تنفیذ کا سوجھنے لگ گئے، کیا یہ سوجھ ہندوستان میں موجود تمام اہلِ اسلام کی تھی ؟ اس سوال کا جواب تو نہیں مطلق میں ہے کیونکہ پاکستان سے زیادہ مسلمان آج ہندوستان میں قیام پذیر ہیں  اگر یہ سوجھ تمام اہلِ اسلام کی نہیں تھی تو پھر یقیناً کسی ایک ٹولے ہی کی تھی اور بلا شک و شبہ وہ ٹولہ مسلم لیگ ہی تھا، جیسا کہ اِس سیاسی تنظیم کے نام سے ظاہر ہے یہ دراصل چند ایک آزاد خیال مسلمانوں کا  ایک ٹولہ   تھا جس کو مسلم لیگ یا مسلمانوں کے گروہ کا نام دیا گیا، اہلِ علم جانتے ہیں کہ مسلم لیگ کے بانی محترم محمد علی جناح نے اپنی سیاست کا آغاز ہندوستان کی معروف سیاسی تنظیم انڈین نیشنل کانگریس سے کیا، کانگریس اُس وقت کی ایک مضبوط سیکولر جماعت تھی چنانچہ ہندوستان کے معروف مذہبی تنظیم جمعیت علمائے ہند کانگریس کا ایک مضبوط بازوتسلیم کی جاتی تھی، خود جمعیت کے روحِ رواں اور ممتاز مذہبی سکالر مولانا حسین احمد مدنی اپنی آخری عمر تک کانگریس کے زبردست حامی رہے آپ  آخری دم تک  ہندوستان کے بٹوارے کی مخالفت کرتے رہے اور مسلم لیگ کے کارکنان پر کڑی تنقید کرتے رہے، اس حقیقت کی تو راقم الحروف بھی گواہی دے سکتا ہے کیونکہ مولانا حسین احمد مدنی کے تلمیذِ خاص مولانا قاضی عبدالکریم دیوبندی کلاچوی  راقم الحروف کے اُستاد رہے ہیں راقم نے فقہ کی بنیادی تعلیم آپ ہی حاصل  کی، چنانچہ آپ بھی اپنی آخری عمر تک  اپنے مشفق اُستاد کی طرح ہندوستان کے بٹوارے کے سخت مخالف اور مسلم لیگ کے شدید ناقد رہے ، اس کے علاوہ  معروف پختون لیڈر خان عبدالغفار خان المعروف سرحدی گاندھی اورہندوستان کے بلند پایہ   مذہبی سکالر مولانا ابو الکلام آزاد بھی بٹوارے کے سخت مخالف تھے  آپ کو قرآن، حدیث، فقہ اور منطق میں کمال حاصل تھا آپ کی پرورش مکہ اور مدینہ کی گلیوں میں ہوئی، آپ بٹوارے کے اتنے شدید مخالف تھے کہ 1947 میں جامع مسجد دہلی میں مسلمانوں کو وعظ کے ذریعے  پاکستان جانے سے باقاعدہ روکتے رہے اور آپ کو لفظ پاکستان پر بھی زبردست علمی اعتراض تھا کہ یہ لفظ قرآن و احادیث کے منافی ہے کیونکہ الارض للہ کے مطابق کسی بھی زمین کے ٹکڑے کو پاک اور ناپاک میں تقسیم نہیں کیا جا سکتا، جامع مسجد دہلی میں دیا گیا لازوال خطبہ آج بھی سنا جا سکتا ہے، اس کے علاوہ بٹوارے کی شدید  مخالفت کرنے والوں میں اُس وقت کے ایک معروف خطیب سید عطاء اللہ شاہ بخاری  المعروف امیرِ شریعت کا نام بھی قابلِ ذکر ہے آپ نے قیامِ پاکستا ن کی مخالفت میں 1929 میں اپنی ایک الگ سیاسی تنظیم ” مجلس احرارِ اسلام ” کی بنیادی رکھی جس کا مقصدِ اصلی محض قیامِ پاکستان کی مخالفت تھی، آپ اپنے ایک خطبے میں فرماتے ہیں کہ ”  پاکستان کے بارے میں گزشتہ سال میں نے جس جگہ بھی تقریر کی ہے پاکستان کو مسلمانانِ ہند کیلئے مہلک اور ہلاکت آفریں بتایا ہے ”  قارئین اتنی طویل تمہید عرض کرنے کے بعد لبِ لباب صرف اتنا ہے کہ پاکستان کا مطلب کیا” لا الٰہ الا اللہ ” کے بنیادی شعور سے اتنے قد آور علماء کیسے بے بہرہ ہوسکتے تھے ؟ لا الٰہ الا اللہ کا یہ بنیادی شعور محض مسلم لیگ کے آزاد خیال نوجوانوں کے بخرے میں کیوں آیا؟ کیا اُمت میں تفرقہ پیدا کرنا جائز ہے اگر نہیں تو پھر مسلم لیگ کو کس زمرے میں شمار کیا جائے گا؟ اور کیا جمعیت علمائے ہند میں موجود تمام تر علمائے اسلام  اعلائے کلمۃ اللہ کے شعور و تنفیذ سے بے بہرہ تھے ؟ اگر نہیں تو پھر قارئین پاکستان کا مطلب کیا” لا الٰہ الا اللہ ” کا بنیادی آخر تھا کیا؟  سوال یہ ہے کہ اگر پاکستان کی نظریاتی اساس خالص مذہب اسلام پر قائم تھی تو پھر ہندوستان کے تمام تر جید علمائے اسلام اس کی مخالفت کیوں کرتے رہے؟

٭٭٭

 

 

 

 

دو قومی نظریہ کی حقیقت

 

دو قومی نظریہ کا سادہ مطلب یہ ہے کہ اہلِ سنسکرت (ہنود) اور اہلِ سلام دو الگ الگ قومیں ہیں، اس لئے مسلمانوں کو اہلِ سنسکرت سے الگ اپنی ایک ریاست قائم کرنی چاہئے جس میں خالص اسلامی قوانین کا نفاذ کیا جا سکے، دو قومی نظریہ کی اختراع کو عموماً دو شخصیات سے منسوب کیا جاتا ہے ایک سرسید احمد خان جبکہ دوسری شخصیت مولانا ابوالاعلیٰ مودودی ہیں، راقم کے نزدیک قوی روایت یہ ہے کہ دو قومی نظریہ کے بانی دراصل مولانا ابو الاعلیٰ مودودی ہی تھے کیونکہ سرسید احمد خاں کا طبعی رجحان زیادہ تر  اہلِ سلام کی تعلیم و تعلم اور اخلاقی بہتری کی طرف تھا جبکہ ہندوستان میں مذہبی و سیاسی لحاظ  سے اپنی ایک الگ وضع رکھنے والی شخصیت مولانا ابوالاعلیٰ مودودی ہی تھے جن کی طبیعت براہِ راست سیاست کی جانب مائل تھی اور آپ اسلامی قوانین کے نفاذ کیلئے ہر وقت کوشاں رہتے تھے یہی وجہ ہے کہ قیامِ پاکستان سے سات  سال قبل 1941میں آپ نے اپنی ایک الگ اسلامی سیاسی تنظیم کی بنیاد رکھی جس کو مسلم لیگ کہا جا سکتا ہے نہ کانگریس بلکہ وہ موصوف کی اپنی ہی طبع زاد جماعت تھی جن میں زیادہ تر تعداد نوجوانوں کی تھی جن میں مولانا امین احسن اصلاحی اور میاں طفیل محمد کے نام قابلِ ذکر ہیں، دو قومی نظریہ جس کسی نے بھی پیش کیا بہرحال ہندوستان کے فاضل اہلِ اسلام کی اکثریت اِس کو اسلام کے منافی  ہی سمجھتی رہی کیونکہ دو قومی نظریہ کی بنیاد نہ تو قرآن میں کہیں پائی جاتی ہے اور نہ کہیں مجموعہ احادیث میں، آج تک پاکستانی قوم کو دو قومی نظریہ کی اساس کے متعلق نہیں بتایا گیا، عوام تو درکنار غضب یہاں تک کہ دو قومی نظریہ سے خود بانی پاکستان محمد علی جناح بھی لاعلم تھے چنانچہ 14 نومبر 1946 کو آپ ایک پریس کانفرنس میں فرماتے ہیں ” یقین کیجئے جب میں پاکستان کا مطالبہ کرتا ہوں تو میں مسلمانوں کی جنگ نہیں لڑ رہا ہوتا”دو قومی نظریہ کے خلاف اس سے مستند قول کسی کا بھی نہیں ہو سکتا، با لفرض اگر دو قومی نظریہ کی اہمیت واقعتاً موجود تھی تو پھر ہندوستان میں رہنے والا ایک مسلمان بھی اِس کی مخالفت نہ کرتا کیونکہ اگر وہ ایسا کرتا تو وہ دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا کیونکہ امارتِ اسلامیہ  کے نفاذ کی ذمہ داری کسی مخصوص گروہ پر نہیں بلکہ تمام اہلِ اسلام پر عائد ہوتی ہے، سوچنے کی بات یہ ہے کہ وہ کون سا اسلام تھا جو آزاد منش مسلمانوں کا ایک  گروہ ہندوستان کے دو ٹکڑے کر کے نافذ کرنا چاہتا تھا ؟ دو قومی نظریہ کا خیال ہندوستان کے معروف عالمِ دین  اور مجتہد فی المذہب مولانا اشرف علی تھانوی، شیخ الہند مولانا محمود الحسن، مولانا حسین احمد مدنی، مولانا ابوالکلام آزاد  و دیگر علمائے ہند کو کیوں نہیں آیا؟  اگر قیامِ پاکستان کی بنیاد اسلام ہی تھی تو پھر اسلام کے اتنے بلند پایہ علمائے دین آخری دم تک کیوں بٹوارے کی مخالفت کرتے رہے؟قیامِ پاکستان کی مخالفت میں علمائے دیوبند کا نظری  اختلاف تو یہاں تک پہنچ گیا تھا کہ  معروف صحافی آغا شورش کاشمیری کے گھر میں ایک بار معروف دیوبندی عالم مفتی محمود والد گرامی  مولانا فضل الرحمان  نے کہا تھا کہ ” خدا کا شکر ہے کہ ہم پاکستان بنانے کے گناہ میں شریک نہیں تھے” لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ قیامِ پاکستان کے بعد یہی مولوی عسکری قوتوں کا آلہ کار بن کے ریاست پر آج تک حکمرانی کر رہے ہیں، دو قومی نظریہ کا مقصد اگر ہندو و مسلم دو الگ الگ قومیں تھیں تو پھر سب سے اہم سوال یہ ہے کہ 1971 میں پاکستان سے الگ ہونے والے بنگالی مسلمانوں کا تعلق کس قوم سے تھا؟ کیا وہ بھی سنسکرتی یعنی ہندو ہی تھے اگر نہیں تو پھر نظریہ پاکستان کی اساس باقی رہتی یا نہیں ؟ سقوطِ ڈھاکہ کے بعد دو قومی نظریہ  کی اساس باقی رہی اگر رہی تو کس بنیاد پر نہیں تو پھر پاکستان آج کس بنیاد پر کھڑا ہے؟ ہر سوال کا جواب سوال میں ہی موجود ہے صرف سمجھنے کی زحمت لابدی ہے، دو قومی نظریہ کی حقیقت  اس کے پسِ منظر اور پیش منظر کے متعلق مبنی برحق معلومات آج تک چھپائی جاتی ر ہیں، دو قومی نظریہ کی بنیاد عموماً اہلِ سنسکرت کے نسلی تعصب اور اہلِ اسلام سے اُن کے مذہبی بغض کے طور پر سامنے لائی جاتی رہی حالانکہ یہ دلیل صریح ملمع سازی ہے اگر ایسی ہی کوئی سنگین صورتحال تھی تو پھر ہندوستان کے مدبر علمائاس بنیادی اور نہایت اہم شورش سے کیوں غافل ہو گئے تھے؟ کیا ہندوستان کے حالات اُن کے سامنے نہیں تھے؟ کیا اُنہیں اُمتِ مسلمہ کی بہتری کی فکر نہیں تھی؟ ان تمام سوالات کا جواب اگر نفی میں دیا جائے تو پھر ہندوستان میں کچھ نہیں بچتا کیونکہ بٹوارے کی مخالفت کرنے والے  بنیاد پرست اور اپنے وقت کے جید علماء تھے۔

 

 

 

 

مسلم لیگ،  پاکستان اور اسلام

 

 

آل انڈیامسلم لیگ دراصل ایک اسماعیلی شیعہ سیاسی تحریک تھی جس کا مقصد دراصل اہلِ اسلام کے اندر عقل و شعور کی تحریک بیدار کر کے اِ نہیں سیکولر دماغ بنانا تھا چنانچہ مسلم لیگ کے بانی صدر آغا خان سوم سلطان سر محمد بن امام آغا علی شاہ  تھے آپ اسماعیلیہ فرقے کے اڑتالیسویں امام تھے عظیم مدبر اور بلند پایہ سیاستدان تھے آپ 1906 سے 1912 تک  مسلم لیگ کے باقاعدہ صدر رہے اس تحریک کے تانے بانے معروف  شیعہ باطنی تحریک  نزاریہ سے ملتے ہیں، ہندوستان میں مسلم لیگ کا شمار مسلم اشرافیہ میں ہوتا تھا ابتداء میں یہ تنظیم اتنی فعال نہیں تھی جبھی تو ہفت روزہ ” الہلال ” میں مولانا شبلی  نعمانی نے اپنی ایک تحریر میں یوں چٹکی لی تھی

سال بھر حضرتِ والا کو کوئی کام بھی ہے

بانی پاکستان محترم محمد علی جناح   بھی اسماعیلی فرقہ سے تعلق رکھتے تھے آپ  نے اپنی سیاست کا آغاز انڈین نیشنل  کانگریس سے کیا  1906ء میں آپ کو کانگریس کی رکنیت مل گئی تھی، اسی دور میں آپ  ہندو مسلم اتحاد کے علمبردار بن کے سامنے آئے، 1916ء میں  لکھنو میں کانگریس اور مسلم لیگ کے درمیان انتظامیہ اور قانون سازی میں شرکت دار کے سمجھوتے ” لکھنؤ پیکٹ ” کا سہرہ بھی آپ ہی کے سر ہے، مختصر یہ کہ 1920ء تک آپ بلاشبہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے اتحاد کی علامت بنے ہوئے تھے اور دونوں کے ہاں یکساں مقبول تھے، 1920ء کے ناگپور سیشن میں آپ کانگریس کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے  چھوڑ کر انگلستان چلے گئے ہندوستان واپس آنے کے بعد 1938ء میں آپ نے مسلم لیگ کی باقاعدہ  باگ دوڑ سنبھالی، اس دوران کانگریس کے سربراہ گاندھی جی آپ سے مصالحت کی بارہا کوشش کرتے رہے لیکن آپ نہ مانے، 1944ء میں گاندھی جی گجرات کے ہندوؤں، اسماعیلی خوجوں اور پارسیوں کی عام زبان گجراتی میں ایک خط سیاسی سمجھوتے کیلئے لکھا  لیکن جناح کے ساتھ آپ کی اس مکاتبت کا کوئی مثبت اور جامع نتیجہ نہ  نکل سکا،   نہ تو جناح گاندھی جی کو قائل کرسکے تھے کہ پاکستان کس اعتبار سے مسلمانوں کے لیے فائدہ مند ثابت ہو گا نہ ہی گاندھی جی جناح کو متحد ہندستان کے اقتدار میں مسلمانوں کی محفوظ شرکت داری کی بابت اطمینان دلا سکے تھے۔ آخر میں گاندھی جی نے مشورہ دیا تھا کہ وہ گفتگو کی ناکامی کا اعلان کرنے کی بجائے صرف ایک بار اُنھیں مسلم لیگ کی کونسل یا اجلاس سے خطاب کرنے دیں، شاید وہ اُن لوگوں کو قائل کرسکیں ! یا پھر جناح کسی کو ثالث بنا لیں ! جناح نے کچھ اس طرح جواب دیا تھا کہ "وہ خود ہی مسلم لیگ ہیں اور اُنھیں کسی کی ثالثی بھی منظور نہیں ” اسی طرح ایک بار   مولانا حسین احمد مدنی اور مولانا حفظ الرحمان سیوہاروی نے اُن سے پاکستان کے نظریہ کو سمجھنا چاہا  تو جناح نے اُن کی سیاسی پختگی کو بھانپتے ہوئے لاپروائی سے جواب دیا کہ ” آپ پہلے مسلم لیگ میں آ جائیں پھر خود  ہی سمجھ جائیں گے”  وہ اکابر غالباً   ”  ہم ترے دام میں  یوں ہی نہیں آنے والے”کہہ کر اُٹھ کھڑے ہوئے تھے، آپ نسلاً  خالص گجراتی یعنی ہندو راجپوت تھے لیکن عقیدے کے لحاظ سے اسماعیلی شیعہ مسلمان تھے، طبعاً آپ مطلق آزاد خیال تھے، آپ کی ذاتی زندگی اور اسلام میں ایک زبردست  بُعد  پایا جاتا ہے، آپ  آخری عمر تک فرنگی وضع قطع اور خالص انگلستانی لباس پہنتے رہے، آپ کے متعلق یہ بات ریکارڈ پر موجود ہے کہ آپ نے اپنی پوری زندگی سلک کی ٹائی ایک بار استعمال کرنے کے بعد دوبارہ استعما ل نہیں کی، محمد علی جناح کی مغرب زدگی پر بلراج پوری کا یہ فقرہ مشہور ہے کہ ” جناح نے مرتے وقت بھی اصرار کیا تھا کہ کہ اُنہیں  اُن   لباس (مغربی لباس) پہنایا جائے وہ پائجامہ میں نہیں جائیں گے”آپ دادا بھائی نوروجی اور فیروز شاہ مہتا جیسے مثالی پارسی رہنماؤں سے متاثر تھے، آپ کی ذاتی زندگی سے شریعت کافی حد تک دور رہی، چین سموکر ہونے کے ساتھ ساتھ آپ کا پسندیدہ مشروب جانی واکر(شراب) تھی جو آپ باقاعدگی سے پیتے تھے، علاوہ ازیں آپ کو انگلستانی کتوں سے بڑا پیار تھا، آپ نے دو کتے پال رکھے تھے جن کی دیکھ بھال خود کیا کرتے تھے، نہ آپ کو کبھی کسی نے  مسجد  میں دیکھا اور نہ ہی کبھی نماز پڑھتے ہوئے، راقم نے بڑی جانفشانی کی لیکن کہیں سے کوئی مستند حوالہ نہ مل سکا جس کا تذکرہ کیا جا سکے،  راقم نے اپنے ایک مشفق اُستاد جو کہ  ملک کی ایک معروف جامعہ میں تاریخ کے اُستاد ہیں سے ایک دن دریافت کیا کہ "قبلہ !  محترم محمد علی جناح نے کبھی نماز پڑھی، کیا کوئی ذکر موجود ہے؟ ”  موصوف نے فرمایا کہ  محمد علی جناح نے  اس خطے کے لوگوں کیلئے جو کیا میرے خیال میں وہ کافی ہے اُن کو بخشوانے کیلئے، راقم نے جھٹ سے جواب دیا کہ قبلہ ! اگر ایک مضبوط ملک کو تقسیم کرنے سے محترم محمد علی جناح کی بخشش ہوسکتی ہے تو پھر آپ ایک تحریک شروع کیجئے جس سے بلوچوں، سندھیوں، پختونوں اور سرائیکیوں کو آزادی دلائی جائی اور آپ کو بخشوایا جائے،  کوئی بھی ذی ہوش بخوبی اندازہ لگا سکتا ہے کہ محترم محمد علی جناح  نہ کوئی مذہبی شخصیت تھے اور نہ ہی ہندوستان کو تقسیم کر کے وہ کوئی مذہبی ریاست قائم کرنا چاہتے تھے اگر ایسی بات تھی تو آپ انگلستانی اُصول کے تابع تھے چنانچہ  ایک معروف انگریزی مثل ہے کہ ” Charity begins at home”

( بھلائی گھر سے شروع کی جاتی ہے) کہنے کا سادہ مطلب یہ ہے کہ اگر محترم محمد علی جناح پاکستان میں شریعت نافذ کرنا چاہتے تھے تو یہ کام اُصولاً  سب سے پہلے اُنہیں اپنی ذات سے شروع کرنا چاہئے تھا ،  علاوہ ازیں  مصورِ پاکستان ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کا بھی نام مسلم لیگ کے ساتھ جوڑا جاتا ہے حالانکہ راقم کی تحقیق کے مطابق مسلم لیگ میں ڈاکٹر محمد اقبال کا کوئی مرکزی کردار سامنے نہ آسکا اور نہ ہی آپ کبھی جماعت کے کسی اہم عہدے پر فائز رہے، البتہ انگلستان میں دورانِ تعلیم کچھ عرصہ  آل انڈیا مسلم لیگ برٹش کمیٹی کی مجلسِ  عاملہ کے رُکن رہے، آپ بھی محترم محمد علی جناح کی طرح ایک آزاد منش انسان تھے، نسلاً آپ خالص سنسکرتی یعنی کشمیری  ہندو برہمن تھے  مغل فرمانروا عالمگیر اورنگزیب کے دور میں آپ کے اجداد نے اسلام قبول کیا، آپ معروف جرمنی لادین فلسفی فریڈرک نطشے کے گرویدہ تھے، اقبال کی خودی دراصل انہی فلسفی کے نظریہ سپرمین کا اسلامی ورڑن ہے، ہمارے ہاں یہ پڑھایا جاتا ہے کہ نظریہ خودی ڈاکٹر محمد اقبال کی اپنی اختراع ہے جبکہ یہ نظریہ  معروف جرمن فلسفی فریڈرک نطشے کے فلسفہ سپرمین کی اسلامی شکل ہے، محترم محمد علی جناح کے بعد مسلم لیگ کی باگ دوڑ آپ ہی کے دستِ راست نوابزادہ لیاقت علی خان نے سنبھالی، آپ بھی مسلم لیگ کے نوجوان  کارکن تھے جو بعد میں  ملک کے پہلے وزیر اعظم بنے، آپ کے جانشین خواجہ ناظم الدین تھے جس کا تعلق بنگال سے تھا آپ بھی بنگال میں مسلم لیگ کے سرگرم کارکن رہے محمد علی جناح کے بعد آپ  ملک کے دوسرے گورنر جنرل مقرر  ہوئے، ملک کے پہلے چیف آف آرمی سٹاف جرنل فرینک والٹر مسرویجبکہ ملک کے سب سے مضبوط ترین مخابراتی ادارے آئی ایس آئی کے بانی میجر جرنل رابرٹ کاتھوم تھے، گورنر جرنل محمد علی جناح کی کابینہ یعنی ملک کی پہلی کابینہ میں آپ نے ایک لیگی رہنما معروف ہندو جوگندر ناتھ منڈل کو رکھا جو ملک کے پہلے باقاعدہ وزیر قانون تھے بعد میں وزارتِ محنت و افرادی و قوت کا قلمدان بھی سونپ دیا گیا، کسی بھی خالص مذہبی ریاست کے بانی اپنی ریاست کا اتنا اہم اور بنیادی قلمدان یعنی قانون ایک سنسکرتی یعنی خالص ہندو کے سپرد کر رہے تھے جبکہ اہلِ اسلام کے ہاں قانون کو بنیادی حیثیت حاصل ہے اور فقہ کی روشنی میں  اسلامی قوانین کو شریعت کی اصطلاح سے تعبیر کیا جاتا ہے چنانچہ اگر مسلم لیگ واقعتاً کوئی مذہبی جماعت تھی تو پھر ریاست کا اتنا اہم اور بنیادی  قلمدان  اُصولاًکسی ماہرِ دین کے سپرد کرنا چاہئے تھا جبکہ ہندوستان میں اُس وقت جید علمائے اسلام کی کمی نہیں تھی اب محمد علی جناح نے   یہ اہم اور بنیادی ذمہ داری ایک خالص سنسکرتی یعنی ہندو کے سپرد کیوں کی ؟اس سوال کا جواب سرِ دست ممکن نہیں، کیا  جس ملک کی بنیاد ” لا الٰہ الا اللہ ” پر رکھی جا رہی  ہواُس ملک کی قانون سازی کا اختیار ایک غیر مسلم کو دیا  جا سکتا ہے؟ جبکہ سب سے اہم سوال تو یہ کہ جن سنسکرتیوں یعنی ہندوؤں سے نجات حاصل کرنے کیلئے پاکستان کا قیام عمل میں لایا  گیا کیا اُنہی کے ایک اہم فرد کو ریاستِ پاکستان کی قانون سازی کا اختیار دیا جا سکتا ہے؟  سوالات کا سلسلہ یہیں پر نہیں رُکتا، ریاست پاکستان کے پہلے سپہ سالار جرنل مسروے اور ملک کے حساس ادارہ کے بانی  جرنل کاتھوم دونوں غیر مسلم تھے علاوہ ازیں جس ملک میں آج جماعت احمدیہ  المعروف  فرقہ قادیانیہ کو قانونی طور پر کافر قرار دیا گیا ہے اسی غیر مسلم فرقہ کے عالم اور لیگی رہنما  چوہدری سرمحمد  ظفر اللہ خان   کا شمار پاکستان کے بانیوں میں ہوتا ہے آپ جماعتِ احمدیہ کے مستقل مبلغ، بین الاقوامی مدبر اور پاکستان کے پہلے وزیرِ خارجہ رہے ہیں گویا آئینِ پاکستان 1973 کے مطابق پاکستان کے پہلے وزیرِ خارجہ ایک غیر مسلم تھے  چالیس کی دہائی میں قادیانیت کے خلاف پوری اُمتِ مسلمہ یکجا ہو گئی تھی  اور اس ساری صورتحال سے مسلم لیگ کی انتظامیہ بخوبی واقف تھی لیکن اس سب کے باوجود بھی دنیا میں نووارد ریاستِ پاکستان  کی نمائندگی بمطابق آئینِ پاکستان 1973 ایک غیر مسلم یعنی قادیانی کے سپرد کی گئی، سوالات کی بھرمار کچھ یوں شروع ہوتی ہے کہ پاکستان اگر ایک خالص مذہبی ریاست ہی تھی تو پھر اس ریاست کی قانون سازی ایک خالص سنسکرتی یعنی ہندو اور اس کی عسکری سربراہی غیر مسلموں کے سپرد کیوں کی گئی ؟ کیا ایک خالص مذہبی ریاست میں کسی غیر مسلم کو اتنی اہم اور بنیادی ذمہ داریاں سپرد کی جا سکتی ہیں ؟ کیا پاکستان کی پہلی باقاعدہ کابینہ میں کوئی عالمِ دین جو قرآن، حدیث اور فقہ کا ماہر ہو موجود تھا؟  اگر موجود تھا تو پھر اُس کا تذکرہ کیوں نہیں ملتا اور اگر نہیں تھا تو پھر پاکستان کو ایک خالص مذہبی ریاست کہنا کس زمرے میں آئے گا؟  جس طرح دو قومی نظریہ نے ایک مضبوط ریاست کو ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا ٹھیک اسی طرح قیامِ پاکستان کے بعد مسلم لیگ بھی ٹکڑوں میں تقسیم ہو گئی، وکی پیڈیا کی تازہ ترین دستاویز کے مطابق اس وقت کوئی 17 مسلم لیگز ہیں لیکن ان میں سے معروف صرف دو ہی ہیں ایک مسلم لیگ ن(میاں نواز شریف ونگ) اور دوسری مسلم لیگ ق ( قائد  اعظم محمد علی جناح ونگ)، اس کے علاوہ بھی مسلم لیگ ض، ف اور ج وغیرہ بھی موجود ہیں لیکن وہ اتنے زیادہ معروف نہیں ہیں، مسلم لیگ ن کا قیام 1988 میں عمل میں آیا، قیامِ پاکستان کے بعد سے آج تک مسلم لیگ میں  انتخاب کی جمہوری  روش نہ پڑسکی، یہی وجہ ہے کہ  جس کو موقع ملا اُس نے اپنا ایک الگ دھڑا بنا لیا، افسوس بلکہ دل خراش امر یہ ہے کہ قیامِ پاکستان سے لے کر آج تک اس بنیادی قضیہ کا فیصلہ نہ ہوسکا کہ پاکستان آخر کس بنیاد پر قائم کیا گیا تھا، چھبیس سال تک ملک بغیر کسی منظم آئین کے تحت چلتا رہا، محمد علی جناح کی وفات اور آپ کے دستِ راست نوابزادہ لیاقت علی خان کے بہیمانہ قتل کے بعد ملک اپنی آئینی اور انتظامی حیثیت کھو بیٹھا، یہ وہ دور تھا جب پاکستانی عوام کو ابھی یہ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ قیامِ پاکستان کا مقصد کیا ہے اور اس ٹکڑے میں آگے چل کر کیا کچھ ہو گا، کیونکہ اُس دور میں میر جعفر کے پڑپوتے اسکندر مرزا نے ریاست کو اپنا راجواڑہ بنا لیا تھا آپ ہی نے سب سے پہلے عسکری قوت کو سیاست کی راہ دکھائی  جو آج عسکری قوتوں کی منزل بن چکی ہے، آپ ہی نے ریاست میں پہلی بار مارشل لاء  کا نفاذ کر کے اپنے دستِ راست محمد ایوب خان کو ملک کا پہلا فیلڈ مارشل تعینات کیا، جس نے بعد میں مرزا کی وراثتی خصلت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے  مرزا  کو برطرف کر کے ملک بدر کر دیا، ایک مبہم نظریاتی ریاست کو عسکری قوتوں کے سپرد کرنے والوں کے راہ رو یہی اسکندر مرزا ہی تھے،  ور دی کے ساتھ ساتھ حکمرانی کا لطف کچھ ایسا نشہ آور ثابت ہوا کہ فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کے بعد جرنل یحییٰ خان، جرنل ضیاءالحق اور جرنل پرویز مشرف  جیسے خود سر مطلق العنان باوردی حکمران یکے بعد دیگرے مارشل لاء لگاتے گئے، چنانچہ آج بھی ریاست کے خفیہ فرمانروا یہی عسکری ادارے ہی ہیں کیونکہ ریاست کی نظریاتی اساس آج بھی کل کی طرح مبہم ہے  کیونکہ پاکستان دنیا کی واحد ریاست ہے جس میں کہنے کو تو اسلام بھی ہے اور جمہوریت بھی لیکن عملاً نہ اسلام ہے اور نہ ہی جمہوریت، کیونکہ اسلام کا نظامِ حکومت شریعت کے نفاذ کے ساتھ معلق ہے اور شریعت کی تعبیر کا مسئلہ ایسا گھمبیر اور خرد توڑ ہے کہ آج تک ریاست میں شریعت کا نفاذ نہ ہوسکا، رہی بات جمہوریت کی تو جمہوری ریاستوں کی بنیادی کسی مذہب پر نہیں بلکہ خالص رائے عامہ پر ہوتی ہے جبکہ پاکستان میں جب کوئی خالص جمہوریت کی بات کرے تو پھر نفاذِ شریعت کا مسئلہ پیدا ہو جاتا ہے اسی طرح جب خالص شریعت کے نفاذ کی بات کی جائے تو پھر بین الاقوامی جمہوری اقدار کا پرچار کیا جاتا ہے، یہی وہ بنیادی وجہ ہے جس کے باعث عسکری قوتیں ریاست کے سیاہ وسفید  کی مالک بنی ہوئی ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

مذہب اور ریاست

 

مذہب کا تعلق فکر اور ریاست کا  عمل سے ہے، مذہب نے ہمیشہ انفرادیت کو مخاطب کیا، انسانی رویہ کی بہتری اور تہذیب کا نام دراصل مذہب ہے، دنیا کے تمام مذاہب نے انسان کو ہمیشہ انسانیت کا درس دیا، چنانچہ مذہب  کا اصل الاصول تزکیہ نفس ہے، قرآن میں ارشاد ہے کہ ” قَداَفلَحَ مَن تَزَکیٰ سورہ اعلیٰ آیت 14،  ترجمہ: بے شک اُس نے فلاح پا لی جو پاک ہو گیا(محمد جوناگڑھی) پاک ہونے سے مراد دراصل انسان کی اخلاقی آلائش کو دور کرنا ہے پس یہی دنیا کے ہر مذہب کا اصل الاصول ہے، انسان کو وراثت میں ملنے والے غیر طبعی احساس میں والدین اور اقارب کی محبت کے علاوہ مذہب بھی داخل ہے گویا مذہب انسان کو ہمیشہ وراثت میں ہی ملتا ہے یعنی ایک بچے کا وہی مذہب ہوتا ہے جو اُس کے والدین کا ہوتا ہے کیونکہ بچہ شعور و احساس سے نابلد ہوتا ہے اس لئے دیگر علوم و احساسات کے ساتھ مذہب بھی یہ والدین یا معاشرہ سیلے لیتا ہے البتہ سن شعور تک پہنچنے کے بعد اسے مذہب تبدیل کرنے کا اختیار حاصل ہو جاتا ہے، فکر کے حوالے سے ایک مستقل سچ یہ ہے کہ دنیا کے ہر انسان کا کیمیائی تعامل یا روحانی تنظیم مختلف ہوتی ہے اور دنیا کے کسی بھی دو اشخاص کا کیمیائی تعامل ایک جیسا نہیں ہوسکتا، یعنی سادہ الفاظ میں یہ کہ ہر انسان اپنا ایک مخصوص شعور لے کے پیدا ہوتا ہے، نزع اُس وقت پیدا ہوتی ہے جب ایک انسان اپنے ہی جیسے دوسرے انسان کو اپنے کیمیائی تعامل کا تابع کرنا چاہتا ہے گویا کہا جا سکتا ہے کہ دنیا میں فساد کی اصل بنیاد دراصل اپنی فکر کو دوسروں پر مسلط کرنا ہے، دنیا میں مطلق سچ کوئی نہیں اس لئے ہر انسان کا اپنا اپنا سچ ہوتا ہے اور سچ تو یہ ہے کہ سچ بھی فی نفسہ سچ نہیں ہوتا، سچ  جھوٹ اور جھوٹ سچ ہوتا رہتا ہے، فکری آزادی دراصل قدرت کا انمول تحفہ اور  شرفِ انسانیت ہے اس پر قدغن لگا کرانسان نے ہمیشہ فساد ہی برپا کیا ہے، شعور سنبھالنے کے بعد اگر کوئی مذہب تبدیل کر لیتا ہے تو اُس پر گرفت بھی ظلمِ عظیم سے کم نہیں، اور صاحبِ گرفت کو کس نے گرفت کرنے کا اختیار دیا؟فی زمانہ اسلام کا عالمگیر المیہ یہ ہے کہ  جو چیز اسلام نہیں تھی اُس کو بھی اسلامائز کر کے پیش کیا گیا، خدا اور رسول کے احکامات کا مواخذہ ایک خاص طبقہ کرنے لگا جس کو بزعمِ خود یہ اختیار حاصل ہو گیا کہ وہ جس کی چاہے گرفت کرسکتا ہے، دور رسالت میں اسلام سے برگشتہ ہونے والوں کو خدا کے سپرد کر دیا گیا اُن کا معاملہ براہِ راست خدا سے منسلک کر دیا گیا لیکن بعد میں اہلِ اسلام کے چند سرکردہ فرمانروا اپنے سیاسی عزائم کی تکمیل کی  خاطر مذہب کے نام پر قتل و غارت کا بازار گرم کرتے رہے، حالانکہ قرآن میں اسلام سے برگشتہ ہونے والوں کے متعلق واضح اور دو ٹوک حکم موجود ہے چنانچہ ارشاد ہے کہ ” اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ثُمَّ كَفَرُوْا ثُمَّ اٰمَنُوْا ثُمَّ كَفَرُوْا ثُمَّ ازْدَادُوْا كُفْرًا لَّمْ یَكُنِ اللّٰهُ لِیَغْفِرَ لَهُمْ وَ لَا لِیَهْدِیَهُمْ سَبِیْلًا سورہ النساء  آیت 137? ”  ترجمہ: جن لوگوں نے ایمان قبول کر کے پھر کفر کیا، پھر ایمان لا کر پھر کفر کیا، پھر اپنے کفر میں بڑھ گئے، اللہ تعالیٰ اِنہیں نہ بخشے گا اور نہ اِنہیں راہِ ہدایت سمجھائے گا(محمد جونا گڑھی)، آیت سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ دورِ رسالت میں ایمان و کفر کی مکمل آزادی تھی اور یہ بھی ظاہر ہو گیا کہ لوگ ایمان لانے کے بعد کفر بھی اختیار کر لیتے تھے، چنانچہ جب پیغمبرِ اسلام ?ص نے کسی مرتد کو قتل نہیں کیا تو آپ کے بعد کسی  اُمتی کو یہ حق کیسے حاصل ہو گیا کہ وہ اسلام سے برگشتہ ہونے والوں کو قتل کرتا پھرے؟درج بالا آیت کے علاوہ بھی مختلف مقامات پر مذہب کو انفرادیت سے منسلک کیا گیا چنانچہ سورہ کافرون میں ارشاد ہے کہ ” قُلْ یاَیُّهَا الْكٰفِرُوْنَ۱ لاَاعْبُدُ مَا تَعْبُدُوْنَ۲ وَ لَاۤ اَنْتُمْ عٰبِدُوْنَ مآ اَعْبُدُۚ۳ وَ لآ اَنَا عَابِدٌ مَّا عَبَدْتُّمْ۴ وَ لَاۤ اَنْتُمْ عٰبِدُوْنَ آم اَعْبُدُ۵ لَكُمْ دِیْنُكُمْ وَ لِیَ دِیْنِ۶”  ترجمہ: آپ کہہ دیجئے کہ اے کافرو!  نہ میں عبادت کرتا ہوں اس کی جس کی تم عبادت کرتے ہو، نہ تم عبادت کرنے والے ہو اس کی جس کی میں عبادت کرتا ہوں، اور نہ میں عبادت کروں گا جس کی تم عبادت کرتے ہو، اور نہ تم اس کی عبادت کرنے والے ہو جس کی میں عبادت کر رہا ہوں، تمہارے لئے تمہارا دین ہے اور میرے لئے میرا دین ہے(محمد جوناگڑھی ) درج بالا سورہ میں معاملہ کو واضح اور دو ٹوک کر دیا گیا کہ "تمہارے لئے تمہارا دین اور میرے لئے میرا دین ہے” ایک اور جگہ تو اس سے بھی واضح اور اختیاری حکم موجود ہے چنانچہ ارشاد ہے کہ "لَا اِکرَاہَ فِی الدِّینِ ?(سورہ بقرہ آیت 256) ” ترجمہ: ” دین کے بارے میں کوئی زبردستی نہیں "(محمدجوناگڑھی) آیت بالکل واضح ہے یعنی کہ دین کے معاملہ میں زبردستی کے بجائے اختیار کو ترجیح دی گئی ہے اسی طرح ایک اور جگہ ارشاد ہے ” اَفَاَنْتَ تُكْرِهُ النَّاسَ حَتّیٰ یَكُوْنُوْا مُؤْمِنِیْنَ (سورہ یونس 99) ” ترجمہ: تو کیا آپ لوگوں پر زبردستی کرسکتے ہیں یہاں تک کہ وہ مومن ہی ہو جائیں (محمد جوناگڑھی) مذکورہ آیت میں تو پیغمبر اسلام ? کو بھی واضح اور دو ٹوک الفاظ کے ذریعے منع کر دیا گیا کہ آپ کسی کے ساتھ زبردستی نہیں کرسکتے، تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دین کے معاملہ میں جب خود پیغمبرِ اسلام? کسی کے ساتھ زبردستی نہیں کرسکتے تو پھر کسی اُمتی کو یہ حق کس نے دیا کہ وہ لوگوں کے ایمان اور کفر کا فیصلہ کرتا پھرے؟ مختصر کا یہ کہ مذہب کا معاملہ بالکل واضح اور دو ٹوک ہو گیا کہ اس معاملہ میں کوئی بھی کسی پر زبردستی نہیں کرسکتا، اب ہم ریاست کی جانب آتے ہیں، ریاست کی بنیاد دراصل سیاست ہے اور سیاست نظمِ اجتماعی کو کہا جاتا ہے گویا سیاست کا براہِ راست تعلق معاشرہ یا ریاست سے ہے، ریاست سے مراد دراصل ارضی سکونت ہے مطلب کچھ لوگ کسی جگہ یکجا ہو جاتے ہیں تو وہ ریاست کہلاتی ہے وہاں پر پھر سیاست کی ضرورت پڑتی ہے سیاست سے مراد عوام کے رویہ کیلئے نظم مقرر کرنا، نظم یا قانون سازی کا اختیار فی زمانہ کسی فردِ واحد کو نہیں دیا جا سکتا، گویا  یا پائیت کا دور لد گیا، قانون جب انسان کے فائدہ کیلئے ہی  وضع کیا جاتا ہے تو پھر عوام سے بڑھ کے اُن کا فائدہ کون جان سکتا ہے، طبعی طور پر دنیا کے تمام انسان برابر ہیں کسی بھی  انسان کو کسی دوسرے انسان پر فوقیت حاصل نہیں، اس لئے عوام جس طرح قانون سازی کا حق رکھتی ہے ٹھیک اُسی طرح اپنے اُوپر حکمرانی کرنے والے  نفوس کو بھی منتخب کرنے کا حق رکھتی ہے اس اسلوب کو جدید اصطلاح میں جمہوریت کہا جاتا ہے، اس وقت دنیا میں طرزِ سیاست کا اس سے بہترین اور منطقی اسلوب کوئی نہیں، مذہب دراصل عقائد کا  ایک گھمبیر دفتر فراہم کرتا ہے جس کا تعلق خالصتاً انفرادی نوعیت کا ہوتا ہے اسی طرح ہر مذہب کے اپنے الگ عقائد ہوتے ہیں  بالفرض ایک ریاست میں اگر پانچ قسم  عقائد کے حاملین موجود ہیں تو پھر قانون سازی ہوہی نہیں سکتی کیونکہ ایک مذہب کے حاملین کے عقائد دوسرے مذہب کے حاملین کے عقائد سے باہم متصادم ہوں گیجس کے سبب ہر مذہب کے حاملین اپنے ہی عقائد کی بنیاد پر قانون سازی  کو ترجیح دیں گیاسی طرح  دوسرے مذہب کے عقائد کے حاملین اپنے عقائد کے مطابق قانون سازی کریں گے پس یہی وہ مقام ہے جہاں پر ریاست زبردست انارکی کا شکار ہو جائے گی    اب  اس کا واحد حل یہ ہے کہ قانون سازی رائے عامہ کی بنیاد پر کی جائے عقائد کے لحاظ سے سب کو آزاد چھوڑ دیا جائے اور عمل کی بنیاد پر تمام اہلِ مذاہب کو کسی ایک قانون کا پابند کر دیا جائے یہ بالکل اس طرح  ہو گا جیسے دورانِ سفر سرخ بتی جلنے پر ریاست کا ہر شہری فوری طور پر رُک جاتا ہے چاہے وہ مسلم ہو ہندو یا پھر عیسائی، مطلب سرخ بتی جلنے کے بعد قانون کی پاسداری تینوں اہلِ مذاہب پر فرض ہو جاتی ہے قطع نظر اس سے کہ کون جنت جائے گا اور کون دوزخ۔

٭٭٭

 

 

 

 

شریعت اور جمہوریت

 

شریعت کے لغوی معنی تو گھاٹ کے ہیں لیکن عام اصطلاح میں قوانین اسلامیہ کو شریعت سے تعبیر کیا جاتا ہے چنانچہ نفاذِ شریعت سے پہلے جو لاینحل اور گھمبیر مسئلہ درپیش ہو جاتا ہے وہ ہے قوانین اسلامیہ کی حتمی تعبیر, یہ ایک ایسا مسئلہ جو پچھلے  کہ 14 سو سالوں سے حل نہ ہوسکا، یہی وجہ تھی کہ معروف مملوک فرمانروا رکن الدین بیبرس نے1260ء میں مصر کو فتح کرنے کے بعد کعبہ میں چار مصلے گاڑھ دیئے اور چاروں مذاہب حنفیہ، شافعیہ، مالکیہ اور حنبلیہ کی قانونی حیثیت کو قبول کر کے اُنہیں اپنی اپنی تعبیر کے مطابق قانون سازی کا مکمل اختیار دے دیا، گویا جو مسئلہ کل درپیش تھا اُمت کو وہی مسئلہ آج بھی درپیش ہے شریعت کی تعبیر کا مسئلہ، پاکستان میں اس وقت مختلف تعبیرات موجود ہیں اب مسئلہ یہ ہے کہ کس کی تعبیر مستند اور معتبر ہے اور کس کی مبنی بر جہالت و غیر مستند، گویا مسئلہ کے اندر چھپا مسئلہ، بالفرض اگر شریعت کی چار تعبیرات موجود ہیں تو اس کا فیصلہ کون کرے گا کہ ان میں سے کونسی تعبیر مستند ہے یہی وہ بنیادی مسائل ہیں جن کی وجہ سے پاکستان کی نظریاتی اساس بھی مبہم ہو جاتی ہے  کہ بانیانِ پاکستان کے پیش نظر شریعت کی کونسی تعبیر تھی جس کو وہ اس ریاست میں نافذ کرنا چاہتے تھے، ذیل میں ہم شریعت کی موجودہ تعبیرات کا ذکر کرتے ہیں  ہندوستان میں شریعت کی جو سب سے اہم تعبیر موجود تھی وہ اہلِ دیوبند کی تعبیر تھی جس کی فقہی آبیاری مولانا اشرف علی تھانوی اور رشید احمد گنگوہی نے کی، آپ دونوں حضرات فقہ حنفیہ کے اسرار و رموز کے ماہر اور بلند پایہ فقیہ تھے، ہند میں مولانا اشرف علی تھانوی کا فقہی کام آج بھی ہند کے مسلمانوں کیلئے مرجع تقلید ہے  ان سے قبل سرسید احمد خان کی معتزلانہ مساعی بھی قابلِ ذکر ہے لیکن آپ کی تحریک کو ماضی کی طرح ہند میں پذیرائی نہ مل سکی کیونکہ ہمیشہ کی طرح ہند میں بھی  اہلِ اسلام کی اکثریت تسلیم کو تحقیق  پر ترجیح دیتی رہی، سر سید احمد خان کے بعد تحریکِ دیوبند نے ہند میں اپنا اثر رسوخ قائم کیا، لگ بھگ اسی دور میں شمالی ہند کے علاقے رائے بریلی سے تعلق رکھنے والے ایک بنیاد پرست مسلمان احمد رضا خان بریلوی کی عشقِ رسول پر مبنی والہانہ تحریک بھی ہند کی تاریخ میں ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہے آپ نے سر سید کے برعکس  مذہب  سے عقل کو خارج کر کے مذہب  کی بنیاد خالص عشق پر رکھی، آپ نے تحقیق کی بجائے مطلق تسلیم کی راہ اپنائی اور اسی طرح ایک نئی شرعی تعبیر منظم ہو کے  سامنے آئی، ہند میں مذہب  کی اس قدر والہانہ ضخیم فقہی تعبیر شاید آپ ہی کا امتیاز ہے، ہند میں آپ کے پیروکاروں کو بریلوی کہا جاتا،  درایں اثناء ہند میں ایک اور مذہبی تحریک بھی رونما ہوئی جس کو سلفیہ سے تعبیر کیا جاتا رہا، یہ تحریک دراصل عرب نژاد عالمِ دین محمد بن عبدالوہاب النجدی کی موحدانہ تحریک کاتسلسل تھی، ہند میں یہ تحریک اہلِ حدیث، وہابی اور پتھری کے ناموں سے یاد کی جاتی رہی ہے اس تحریک کا دعویٰ تھا کہ اصلی اہلِ سنت اور فرقہ ناجیہ صرف وہی ہیں، ہند میں اس تحریک کے بانیوں میں سید نذیر حسین دہلوی اور نواب صدیق حسن خان کے نام قابلِ ذکر ہیں  اس تحریک کی بنیاد محض روایات پر قائم  کی گئی اس تحریک سے وابستہ  افراد خود کو چاروں فقہاء ے فقہی قوانین سے ماورا ء  سمجھتے تھے یہی وجہ تھی کہ بہت جلد ان کی بھی اپنی ایک الگ فقہی تعبیر سامنے آ گئی ، سرسید کی عقلی و علمی  تحریک کے علاوہ ہند میں ایک اور تحریک کا تذکرہ بھی ضروری ہے  مرزا غلام احمد قادیانی کی مسیحی تحریک، 1889ء  سے قبل آپ  کا شمار ہندوستان کے نہایت معتبر اور جید علماء میں ہوتا تھا بالخصوص مسیحیت کے خلاف آپ کا مناظرانہ علمی کام آج بھی صاحبِ علم کو ورطہ حیرت میں ڈال دیتا ہے، آپ اپنے وقت کے ہمہ جہت عالمِ دین مانے جاتے تھے، 1889سے قبل ہند میں آپ کے پائے کا کوئی عالم موجود نہیں تھا، 1889 میں آپ نے الہام، مہدیت، مسیحیت اور آخر میں بروزی نبوت کا دعویٰ کر کے ہند کے مسلمانوں کے عقائد کو جھنجھوڑ کے رکھ دیا، ابتداء میں علماء  نے آپ کے علمی قد کے سبب آپ پر تنقید سے گریز کیا لیکن جیسے جیسے آپ اہلِ اسلام کے مستقل اور 14 سو سال سے چلے آ رہے عقائد کا کچومر نکالنا شروع کیا تو اُمت کی جانب سے آپ پر ایسا بھاری بھرکم علمی و سماجی عتاب نازل ہوا  جس کے نیچے آپ کا مذہبی، علمی اور سماجی وقار دب کر رہ گیا اور پھر آخر کار پوری اُمت کو آپ کے جدید اور سنسی خیز خیالات کا بائیکاٹ کرنا پڑا، آپ کی قائم کردہ مسیحی جماعت جماعتِ احمدیہ اس وقت یورپ میں بہت تیزی سے پھیل کر رہی ہے، پاکستان میں آپ کی جسماعت سرکاری  طور پر کالعدم اور جماعت سے وابستہ ہر شخص کو  غیر مسلم قرار دیا گیا ہے، قیامِ  پاکستان سے قبل ہند میں ایک اور اسلام کی  سیاسی تعبیرسامنے آئی یہ تحریک اپنی ترنگ کے ایک ذہین عالم سید ابو الاعلیٰ مودودی کی تحریک تھی اس تحریک کی بنیاد خالص سیاست پر مبنی تھی، یہ تحریک فقہی طور پر نہ عقلی تھی اور نہ نقلی، بلکہ اپنے مزاج میں ایک بالکل انوکھی تحریک تھی جس میں عقل و نقل کا سفوف نظر آتا ہے فقہی لحاظ سے یہ تحریک دیوبندیہ و بریلویہ کے بین بین واقع ہے، البتہ ایک وقت میں سید ابوالاعلیٰ مودودی  کا اُصولِ امامت اور شیعہ فرقہ کی جانب طبعی میلان رہا، جس کے سبب اہلِ سنت کی جانب سے آپ کو رافضیت کے خطاب  بھی ملتے رہے،  اس تحریک کا اپنا ایک الگ فقہ ہے جس کے بانی سید ابوالاعلیٰ مودودی ہیں، قیامِ پاکستان سے کچھ عرصہ قبل آپ نے اپنی فقہی تعبیر کو ایک سیاسی جماعت جماعتِ اسلامی کی شکل میں منظم کیا،  قیامِ پاکستان کے بعد محترم محمد علی جناح کے دستِ راست اور معروف معتزلی عالم غلام احمد پرویز کی تعبیر بھی قابلِ ذکر ہے آپ ہندوستان کے بلند پایہ انشاء پرداز اور قرآن کے بے مثل عالم تھے آپ ہی کے  متعلق یہ بیان کیا جاتا ہے کہ محمد علی جناح سے آپ کو کسی بھی وقت ملنے کی اجازت تھی حالانکہ محمد علی جناح پروٹوکول کے بہت سخت پابند تھے، آپ کا علمی کام آج بھی اصحابِ علم کیلئے مرجع فکر ہے، آپ نے اسلام کی بالکل ایک جدید عقلی تعبیر وضع کی، معتزلہ کی طرح آپ نے قرآن کے بعد عقل کو دین کا ماخذ بتایا، علاوہ ازیں احادیث کے متعلق آپ کا یہ دعویٰ تھا کہ یہ عجمی سازش اور اسلام کا حلیہ بگاڑنے کیلئے وضع کی گئی ہیں، یہی وجہ تھی کہ  اہلِ دیوبند و اہلِ بریلویہ کو آپ کی تکفیر کرنا پڑی، دورِ حاضر میں سر سید اور غلام احمد پرویز کی عقلی تحریک سے متاثر  عالمِ دین جاوید احمد غامدی کی تعبیر بھی قابلِ ذکر ہے آپ کے اور غلام احمد پرویز کے درمیان جوہری فرق یہ کہ آپ نے روایات کو عقلانے کی کوشش کی اور غلام احمد پرویز نے روایات کو یکسر مسترد کر دیا، علاوہ ازیں احمد رضا خان کے تسلسل کو جلا بخشتے ہوئے ڈاکٹر طاہر القادری کی والہانہ تحریک بھی قابلِ ذکر ہے، ہندوستان میں اہل تشیع کے جدید فقہی فرقوں میں بوہری فرقہ معروف ہے، بوہری دراصل مستعلی شیعہ فرقہ کی ذیلی شاخ ہے جس کا گڑھ مغربی ہند ہے، بوہری فرقہ مزید دو ذیلی فرقوں میں تقسیم ہو گیا، ہندوستان میں داؤد قطب شاہ کی حمایت کرنے والے داؤدی بوہری کہلائے  جبکہ یمن میں مقیم بوہری سلیمان بن حسن کو داعی مان کر  سیمانی کہلائے، پاکستان اور بھارت میں اکثریت  داؤدی بوہریوں کی ہے، ہند و پاک میں داؤدی بوہری فرقہ کو منظم کرنے والے بوہریوں کے معروف روحانی پیشوا سیدنا برہان الدین داؤدی بوہری ہیں  جنہوں نے بوہری فرقہ کو نہ صرف منظم کیا بلکہ اپنے فرقہ کے  جدید عقائد و اعمال بھی مرتب کئے، آپ ایک ذہین و فطین عالمِ دین اور برِ صغیر کے  چند با اثر ترین شخصیات میں سے ایک تھے، آپ کے پیروکاروں کی تعداد کراچی اور بھارت کے مختلف شہروں تک پھیلی ہوئی ہے، اہلِ تشیع(  اثناء عشریہ ) کے ذیلی فرقے اُصولی و اخباریوں کے ہاں ہند میں کوئی منظم جدید فقہی تحریک نمودار نہ ہوسکی اسی طرح نزاریہ شیعہ فرقہ جو کہ اسماعیلیہ کے نام سے مشہور ہے میں بھی کوئی جدید فقہی تعبیر سامنے نہ آسکی،  ہند کی مختلف مذہبی تعبیرات کے بعد اب ہم ترتیب سے ان تمام تعبیرات کو درج کرتے ہیں

اہلِ سنت والجماعت

علمائے دیوبند کی تعبیر

تحریک طالبان پاکستان کی تعبیر

رضوی تعبیر

طاہری تعبیر

سلفی تعبیر

اہلِ تشیع

اثنا عشری تعبیر

اسماعیلی تعبیر

بوہری تعبیر

عقلی تعبیرات

پرویزی تعبیر

غامدی تعبیر

مودودی تعبیر

ایک اہم امر یہ کہ تمام اہلِ تعبیرات کے مطابق اُن کی تعبیر مبنی برحق اور اُن کے مخالف کی  تعبیر مبنی بر ضلالت ہے یہی وجہ ہے کہ قیامِ پاکستان سے قبل اور بعد میں آج تک اہلِ اسلام کے ہاں ایک دوسرے کی تکفیر کا سلسلہ جاری و ساری ہے، آئین پاکستان کے آرٹیکل 2 کے مطابق  ریاست کا مملکتی مذہب "اسلام "ہے، تشریح میں درج ہے کہ ملک کا کوئی بھی قانون قرآن و سنت کے خلاف نہیں بنے گا، اب سوال یہ ہے کہ قرآن و سنت سے کیا مراد ہے؟ اور قرآن و سنت کی تعبیر کا حق کس کے پاس ہے؟ ان سوالات کی وضاحت آج تک نہ ہوسکی، اور کیا مملکت کا  کوئی مذہب ہوتا ہے ؟ مطلب ریاست کا مذہب ہوتا ہے یا اہلِ ریاست کا؟  اگر اہلِ ریاست کا مذہب ہوتا ہے تو پھر ریاست کو مذہب کے ساتھ معلق کرنے سے کیا مراد ہے؟ اسلامی جمہوریہ سے کیا مراد ہے ؟ جمہوریت کا مطلب تو رائے عامہ ہے گویا عوام کو قانون سازی کا مطلق اختیار دے دینا اگر ایسا ہی ہے تو پھر اسلام سے کیا مراد ہے؟ بالفرض اگر عوام شراب پینے کو جائز قرار دے دیں تو کیا مملکت ایسا قانون وضع کرسکتی ہے اگر نہیں تو پھر جمہوریت سے کیا مراد ہے ؟ ملک میں اگر شرعی نظام نافذ  ہے تو پھرکونسی شرعی تعبیر مستند تسلیم کر کے قانون سازی کی گئی ہے؟ اور اگر ملک کا نظام خالص جمہوری ہے تو پھر شریعت کا لاحقہ کیا معنی رکھتا ہے؟ ان تمام سوالات کا جواب ریاست کو راجواڑہ بنا کر اِس پر سالوں سے حکومت کرنے والے ہی دے سکتے ہیں، ہمارے پاس ان سوالات کے جواب نہیں کیونکہ ہمارے نزدیک  ملک کی نظریاتی اسا س ابھی تک مبہم اور چوپٹ راج پر قائم ہے، آج بھی پاکستانی عوام ملک میں نفاذِ شریعت کی بات کرتے ہیں گویا وہ یہ بات جانتے ہیں کہ ملک میں ابھی تک شریعت نافذ نہیں ہوئی، اگر واقعتاً ایسا ہی ہے تو پھر  اسلامی جمہوریہ کیا ہے؟

جمہوریت کا سادہ مطلب عوام کی حکومت عوام کے ذریعے عوام پر، شریعتِ اسلامیہ کی کوئی بھی تعبیر براہِ راست  اس امر کی اجازت نہیں دیتی،  کیونکہ اسلام میں قوانین مطلق ہیں اس لئے عوام چاہتے ہوئے بھی ان میں ترمیم نہیں کرسکتی، مثلاً شراب پینا اسلام میں مطلق حرام ہے ، اب اگر لوگوں کی اکثریت چاہے بھی تو شراب کو حلال نہیں کرسکتی ، جمہوریت میں قوانین دراصل عوام کی مرضی سے بنتے ہیں جبکہ شریعت میں قوانین خدا بناتا ہے، یہی وہ بنیادی بُعد ہے جو شریعت اور جمہوریت میں پایا جاتا ہے، جمہوریت میں ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہوتا، ایک جمہوری ریاست میں ہر شخص کو اپنی مرضی کا مذہب اپنانے کا مکمل حق حاصل ہوتا ہے جبکہ غیر جمہوری یا مذہبی ریاست میں کسی بھی شخص کو کسی دوسرے مذہب کی تبلیغ یا اُس کے پرچار کی اجازت نہیں دی جاتی اور نہ ہی ریاستی مذہب کے خلاف کچھ بولنے کی اجازت ہوتی ہے، گویا ایک جمہوری ریاست ایک مکمل سیکولر سٹیٹ ہوتی ہے، تو کیا پاکستان کو ایک سیکولر سٹیٹ کہا جا سکتا ہے اگر اس سوا ل کا جواب نفی میں ہے اور یقیناً  نفی میں ہی ہے تو پھر جمہوریہ پاکستان  کا مطلب کیا ہے؟ اگر ریاست خالص مذہبی سٹیٹ ہے تو پھر مذہب کی کونسی تعبیر کی بنیاد پر ریاست کا نظام چل رہا ہے؟ کیا پارلیمنٹ، سینیٹ اور سپریم کورٹ شرعی ادارے ہیں اگر ہیں تو کس بنیاد پر؟شریعت کی کسی بھی تعبیر میں عوام کو قانون سازی کا اختیار نہیں دیا جا سکتا اگر ایسا ہی ہے اور واقعتاً ایسا ہی ہے تو پھر عوامی نمائندے پارلیمنٹ میں کیا کرنے جاتے ہیں ؟ کیونکہ پارلیمنٹ کا مطلب وہ جگہ جہاں پر عوامی نمائندوں کو قانون سازی کا اختیار دیا گیا ہو تو آج کیا واقعتاً عوامی نمائندوں کو قانون سازی کا اختیار دیا گیا ہے ؟ جمہوریت میں قانون سازی کا مطلق حق عوام کے پاس ہوتا ہے جبکہ شریعت میں قانون سازی کی مطلق مختار خدا کی ذات ہے، کیا عوامی نمائندے ایوان میں شراب کو حلال کرنے کا قانون پاس کرسکتے ہیں اگر نہیں تو پھر ایوان کا مقصد کیا ہے جمہوری حق کہاں ہے؟ اگر ریاست  کی اساس خالص جمہوری طرز کی نہیں تو پھر شریعت کی تنفیذ کیوں نظر نہیں آتی؟  سیدھی سی بات ہے ریاست نہ تو ایک خالص مذہبی سٹیٹ ہے اور نہ ہی خالص جمہوری، وہ کیا ہے نا کہ آدھا تیتر آدھا بٹیر،

?    رند کے رند رہے، ہاتھ سے جنت نہ گئی

گویا جب جمہوری حقوق کی بات کرو تو مذہب آڑے آ جاتا ہے، اس طرح جب نفاذِ شریعت کی بات کرو تو جمہوری اقدار آگے بڑھنے نہیں دیتیں، یہی وہ دیمک ہے جو پچھلے ساٹھ سالوں سے ملک کو پھلنے پھولنے نہیں دے رہی، جب تک ریاست کی نظریاتی اساس کو واضح اور دو ٹوک نہیں کر دیا جائے گا ملک اسی طرح دن بدن تنزلی کی طرف رواں دواں رہے گا، ریاست کے شاندار اذہان آج  بھی پوری طرح کنفیوز ہیں کہ ریاست کی نظریاتی اساس کیا ہے اور ملک میں کونسا نظم چل رہا ہے؟ کیونکہ موجودہ نظم کو نہ تو خالص جمہوری کہا جا سکتا ہے اور نہ ہی خالص شرعی، سچ تو یہ ہے کہ پاکستان کو ابھی تک کوئی پالنہار ہی نہیں ملا، جو بھی آیا اُس نے مفت کا مال  سمجھ کر خوب کھایا اور پھر چلتا بنا، جس کی لاٹھی اُس کی بھینس کے مصداق اس دھرتی پر کبھی ایوب خان، کبھی جرنل یحییٰ، کبھی خود ساختہ اسلام کے سیپاہی جرنل ضیاء اور کبھی وردی کو کھال سمجھنے والے جرنل مشرف نے   خوب راج کیا، مطلب اگر کوئی مضمحل جمہوری نظم قائم بھی ہوا تو اُس کو عسکری قوتوں نے سبوتاڑ کر کے اپنے چوپٹ راج میں تبدیل کر دیا

٭٭٭

 

 

 

 

پاکستان کا تنظیمی ڈھانچہ

 

ایمان، اتحاد، تنظیم، یہ ہیں پاکستان کے نظری شعائر، ٹرانپیرنسی انٹرنیشنل 21 مئی 2014 کی رپورٹ کے مطابق جنوبی ایشیاء دنیا کا سب سے  بے ایمان خطہ ہے اور جنوبی ایشیا کے بے ایمان  ممالک کی فہرست میں پاکستان سرِ فہرست ہے، اِ سی طرح فاکس نیوز 13 جولائی  2010 کی رپورٹ کے مطابق پاکستان انٹرنیٹ (گوگل) پر فحش مواد((Pornography  دیکھنے والے ممالک میں سرِ فہرست ہے، اسی  کے علاوہ  اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے انسدادِ منشیات(UNODC) کی رپورٹ 2013 کے مطابق گزشتہ  سال پاکستان میں منشیات استعمال کرنے والوں کی تعداد میں صرف ایک برس کے دوران سو فیصد سے بھی زیادہ اضافہ ہوا ہے، ایک مضبوط ریاست (ہندوستان)کو دو قومی نظریہ کی بھینٹ چڑھا کر اہلِ اسلام کے ایک گروہ  کو کثیر قومی نظریات میں تبدیل کر دیا گیا ، سقوطِ ڈھاکہ کے بعد بنگالی قوم پاکستانی قوم سے الگ ہو گئی، پھر پاکستانی قوم میں نسلی شعور بیدار ہوا اور آج سندھی، بلوچی، پختون،  سرائیکی اور مہاجر اپنے اپنے نسلی امتیاز کو سامنے رکھ کر ریاست کے مزید بخرے کرنے پر تُل گئے ہیں، اُمید ہے کہ ایمان اور اتحاد اچھی طرح کھل کر سامنے آ گیا ہو گا، رہی بات تنظیم کی تو اگر ریاست خالص مذہبی بنیاد پر  قائم کی گئی تھی  تو آج ریاست کے کس ادارے میں مذہب کی مطلق عملداری ہے؟  پرائمری سے لے کر پی ایچ ڈی تک کا مکمل تعلیمی نصاب غیر اسلامی اور درآمد شدہ ہے، سیشن کورٹ لے کر سپریم کورٹ تک کا سارا نظام نہ صرف غیر شرعی ہے بلکہ مکمل برطانوی نظام ہے، تعلیم ہو یا قانون، عسکری ادارے ہوں یا سول انتظامیہ، تمام کا تمام غیر شرعی اور درآمد شدہ ہے، ریاست کی قومی زبان اُردو ہے لیکن سرکاری زبان انگریزی، قومی ترانہ فارسی میں ہے اور مذہبی دستاویزات عربی میں، جمہوری اقدار  اور آزادی رائے کی بات کرو تو مذہب ڈنڈہالے کے کھڑا ہو جاتا ہے اس کے برعکس اگر نفاذِ شریعت کا مطالبہ ہو تو جمہوری اقدار یاد آ جاتی ہیں، جہالت، بدنظمی اور اندھیر نگری کی انتہاء کی بھی انتہاء  ہو گئی، جس طبقہ نے ہندوستان کو دو لخت کرنے کی شدید مخالفت کی تھی اُن کی آل آج پاکستان کے سیاہ و سفید کی مالک بنی بیٹھی ہے، علمائے دیوبند آخری دم تک قیامِ پاکستان کی مخالفت  کرتے رہے لیکن آج اُن کی اولاد اور پیروکار   خفیہ و ظاہر ی طور پر ریاست پر قابض ہو چکے ہیں، مذہبی جنونیت اس حد تک پہنچ گئی کہ کسی  بھی شریف شہری پر  ذاتی عناد کی بنیاد پر توہینِ مذہب کا مقدمہ دائر کیا جا سکتا ہے، 13 مئی 2014 بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق ضلع جھنگ میں 68 وکلاء پر توہینِ  مذہب کا مقدمہ دائر کیا گیا جس کی بنیاد محض ذاتی نوعیت کی تھی، اسی طرح 20 مئی 2014 بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق میرپور خاص سندھ میں میاں بیوی سمیت چار افراد کے خلافِ توہینِ مذہب کا مقدمہ دائر کر کے اُنہیں گرفتار کر لیاگیا،  اور تو اور    ملک کی مختلف جامعات کے پروفیسر سمیت پنجاب کے ذہین اور دلیر گورنر کو بھی نہیں بخشا گیا، جبکہ منافقت کی انتہائاس حد تک کہ 28 فروری 2014 روزنامہ نوائے وقت کی ایک رپورٹ کے مطابق ایک رکن قومی اسمبلی نے ایوان میں  چند ثبوت کے ساتھ یہ دعویٰ کیا کہ  اراکینِ پارلیمنٹ پارلیمنٹ لاجز میں شراب پیتے اور مُجرہ کرواتے ہیں  اُنہوں نے مزید کہا کہ پالیمنٹ لاجز میں سالانہ 5 کروڑ روپے سے زائد کی  شراب پی جاتی ہے، کسی بھی خالص جمہوری ریاست میں اگر عوامی نمائندے چاہیں تو ایوان میں کوئی بھی قانون منظورکرسکتے ہیں یہی جمہوریت کا حُسن ہے، مگر پاکستان میں اپنے مرضی کے قانون تو کیا کھل کے بولنے کی آزادی بھی میسر نہیں کیونکہ پاکستان میں سچ بولنا کفر اور تحقیق کرنا غداری ہے، قانون نافذ کرنے والے اداروں کی حالت یہ ہے کہ وہ خود مذہبی عسکریت کے ہاتھوں یرغمال بنے ہوئے ہیں، انارکی اور فوضیت  اس حد تک پھیل گئی کہ کوئی بھی عسکری گروہ اُٹھ کے مذہب کے نام پر ریاست کے کسی بھی ادارے کو نہ صرف اپنی جنونیت و بربریت کا نشانہ بنا سکتا ہے بلکہ یہ تمام سرگرمیاں وہ کھلے دل سے قبول کرنے میں بھی فخر محسوس کرتا ہے، سچ تو یہ ہے کہ ریاست کل بھی یتیم تھی اور آج بھی، جہالت  میں لت پت اور شعور سے بے بہرہ  حکمران عسکری اداروں کی شکم پروری میں  تو کمی نہ کرسکے البتہ تعلیم و تعلم  پر اپنی بھڑاس نکالتے رہے، تعلیم کسی بھی ریاست میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے بدقسمتی سے ریاست   کے سالانکہ بجٹ  کے کُل میں سے تعلیم کی مد میں ڈیڑھ سے دو فیصد  تک فنڈ  رکھا جاتا ہے جو کہ انتہائی مضحکہ خیز ہے، ریاست کا تعلیمی نصاب فرسودگی اور منافقت کی دبیز تہوں میں دب چکا ہے، آج بھی معصوم ذہنوں میں یہ بات انجیکٹ کی جاتی  ہے کہ ہندوستان کو تخت و تاراج کرنے والے بربریت کے رسیا بنو اُمیہ کے لا اُبال سپہ سالارمحمد بن قاسم  اور خراسان کے خود سر مطلق العنان محمود غزنوی  اسلام کے بے مثل ہیرو تھے،  اسلام جس کے معنی سلامتی اور ایمان جس کے معنی امن کے ہیں اُسی مذہب کے پیروکار وں نے دنیا کی ایک مضبوط ترین تہذیب کو اپنی بربریت کا خوب خوب نشانہ بنایا، چنانچہ جس قوم کے ہیرو جلاد ہوں تو اُس قوم سے عدم تشدد اور رواداری کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے؟  ڈاکٹر محمد اقبال جو خالص کشمیری براہمن تھے نے  اسلام کے انہی بے مثل سپہ سالاروں کے گُن گا گا کر پوری قوم کو جلاد بنا کے رکھ دیا، مہاویر، گوتم اور رابندر ناتھ ٹیگور جیسی  شخصیات جنہوں نے ہندوستان کو پیار و محبت کی زبان دی، عدم تشدد کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کے کھڑے ہوئے اُن کا نام تعلیمی نصاب میں کہیں دور دور تک نظر نہیں آتا البتہ وہ لوگ جنہوں نے فرقہ پرستی اور بربریت کو ہوا دے کر ایک مضبوط ریاست کو ٹکڑوں میں تقسیم کر کے ایک اپاہج نسل پیدا کی اُن کے قصے کہانیاں پرائمری سے لے کر پی ایچ ڈی تک ہر کہیں پڑھنے کو ملیں گی، تحقیق یا سچ بیان کرو تو انہی کے پیروکاروں میں سے کچھ سفاک منش  زندہ رہنے کا حق بھی چھین لیتے ہیں، معصوم ذہنوں میں پیار و محبت کی آشا جلانے کی بجائے اُن کے دماغ کو تیر و تلوار کے زہر سے بھرنے والے آج دہشت گر دی کا رونا رونے بیٹھ جاتے ہیں، چنانچہ جب تک ریاست کا تعلیمی نصاب ان تمام غیر ضروری اور سفاکیت پر مبنی سیاہ ادب سے منزہ نہیں ہو گا تب تک بہتری کی اُمید بھی وہم ہے کیونکہ افعال کا دارو مدار فکر پر قائم ہے اور فکر کو جلا بخشنے کا ذریعہ صرف مثبت تعلیم و تعلم ہی ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

پاکستان کا تہذیبی ڈھانچہ

 

ہمالیہ سے لے کر دکن تک اور سندھ سے لے کر برما تک صرف ایک تہذیب پائی جاتی ہے جس کو تہذیبِ ہند کے نام جانا جاتا ہے، ہندوستان کو برِ صغیر بھی کہا جاتا رہا ہے، برِ صغیر کی تہذیب دنیا کی چند ایک شاداب تہاذیب  میں شمار ہوتی رہی ہے، کسی زمانے میں ہند کے جواہرات کی پوری دنیا میں دھوم ہوا کرتی تھی اسی شہرت نے شما ل مغربی درّوں سے آریاؤں، ایرانیوں، ہنوں، سیتھیوں، ترکوں، تاتاریوں، سمندری راستوں سے ولنذیروں، پرتگیزیوں، انگریزوں اور فرانسیسیوں کو فوج کشی  کی ترغیب دی تھی، ہندوستان میں تہذیب کی ابتدا دراوڑیوں نے کی، یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے یہاں پر باقاعدہ کھیتی باڑی اور شہر بسا کر رہنے کا بندوبست کیا، وادی سندھ کا تمدن  جس کے آثار، موئن  جودڑو اور ہڑپا سے ملے ہیں، جنابِ مسیح کی پیدائش سے تین ہزار سال پہلے موجود تھا، آریائی قبائل قریباً دو ہزار اور پندرہ سو قبل مسیح کی درمیانی صدیوں میں ایران سے وادی سندھ میں داخل ہونا شروع ہوئے، اُن کی زبان میں دریا کو سندھو کہا جاتا، سندھ کا نام اُنہی  کا دیا ہوا ہے، اسی دریا کی نسبت وہ ملک کو سندھ یا سندھو کہنے لگے، کم و بیش یہ پانچ سو سال تک پنجاب میں مقیم رہے پھر وادی گنگا جمنا کی طرف بڑھ گئے اور پھر اُس کا نام آریہ ورت رکھا، پرانوں (سنسکرتی مذہبی دستاویزات) میں اِسے بھارت ورش کہا گیا ہے، ایرانیوں نے اپنے لہجے میں سندھوکو  ہندو اور سندھ کو ہند کہنا شروع کیا جو یونانیوں اور رومیوں  کا انڈیا بن گیا، آٹھویں صدی عیسوی سے قبل ہندوستان میں صرف ایک  ہی قوم مختلف حصوں میں منقسم ہو گئی تھی اس قوم کو آریائی یا سنسکرتی کہا جاتا، اور ان کی تہذیب  دنیا کی چند ایک شاداب اور خوبصورت ترین تہاذیب میں شمار ہوتی تھی، ہند کی یہی شادبی بنو اُمیہ کو اس خطہ پر لشکر کشی کی دعوت دے رہی تھی، چنانچہ اُموی خلیفہ کے دستِ راست کمانڈر حجاج بن یوسف ثقفی نے اس تہذیب کو تاراج کرنے کی ذمہ داری اپنے نونہال بھتیجے محمد بن قاسم کے کندھے پر ڈال دی، چنانچہ آٹھویں صدی عیسوی کے دوسرے عشرے کے درمیان میں یہ نوجوان سپہ سالار دیبل کے راستے ہند پر حملہ آور ہوتا ہے اور ایک بھینکر خونریزی کے بعد  ہند کو دو قوموں یعنی کہ سنسکرتی اور مسلمان میں تقسیم کر کے آگے نکل جاتا ہے، کہا یہ جاتا ہے کہ یہ دنیا مکافاتِ عمل کی بنیاد پر قائم ہے اس اُصول میں کتنی سچائی ہے اس سے قطع نظر مگر محمد بن قاسم کے معاملہ میں یہ اُصول نکھر کے سامنے آیا، چچ نامہ کے مطابق آپ کو اپنے ہی فرمانروا کے حکم کے مطابق ہند سے اُون میں لپیٹ کر دمشق لے جایا گیا جہاں پر عرب فرمانروا نے آپ کا مواخذہ کرنا چاہا لیکن آپ یہاں تک پہنچنے سے قبل ہی انتقال کر چکے تھے، چچ نامہ کے مطابق آپ اس خوفناک انجام سے اس لئے دوچار ہوئے آپ پر الزام تھا کہ آپ نے سندھ کے مہاراجہ  راجہ داہر  کو شکست دینے کے بعد اُن کی دو نوجوان بیٹیوں کے ساتھ جنسی اختلاط کیا جبکہ بدوی سیاست کے مطابق مفتوح بادشاہ کی بیوی اور بیٹیاں وقت کے فرمانروا کی امانت ہوا کرتی تھیں چنانچہ محمد بن قاسم نے فرمانروا کی امانت میں خیانت کر لی تھی اس لئے اُسے اس حالت میں فرمانروا کے پاس حاضر کرنا پڑا، اصل معاملہ جو بھی ہو بہرحال چچ نامہ کے مطابق عرب فرمانروا سلیمان  بن عبدالملک کے حکم   کے مطابق  سپہ سالار محمد بن قاسم کو اُون میں لپیٹ کر آپ پر گھوڑے دوڑا تے ہوئے  دمشق پہنچایا گیا، ماہرِین فعلیات (Psychology)  کے مطابق انسان دو صرف دو صورتوں میں  ہی اپنی تہذیب سے دستبردارہوتا ہے ایک جب وہ اپنی تہذیب کا بنیادی شعور حاصل کر کے اُس میں موجود خرابیوں کو پرکھ لیتا ہے تو  پھر اُس سے کنارہ کر لیتا ہے جیسا کہ  مہاویر اور گوتم نے ہند میں کیا، دوسری صورت جب کوئی دوسری تہذیب حملہ آور ہو جائے اور اپنی نسلی تہذیب سے دستبردار نہ ہونے کی صورت میں خون بہانے پر آمادہ ہو جائے تو پھر حکمتِ عملی یہ ہوتی ہے کہ حملہ آور کی تہذیب کو قبول کر کے جان  بچائی جاتی ہے ، سندھ پر محمد بن قاسم کی لشکر کشی کے سبب جو لوگ مسلمان ہوئے وہ بلا شک و شبہ دوسری صورت میں شمار کئے جائیں گے، البتہ بہت بعد میں جب ہند کو مسلم راہبوں نے اپنا مسکن بنایا تو سنسکرتی اُن کی شیریں طبع اور عدم تشدد کے جذبات سے متاثر ہو کے مسلمان ہوتے رہے، اہلِ فرنگ کی آمد سے قبل تک ہند اپنی تہذیب و تمدن میں پوری دنیا میں معروف تھا گو کہ مغل فرمانروا اتنے دور رس اور ذہین نہیں تھے لیکن امن پسند اور عدم تشدد کے قائل ضرور تھے یہی وجہ ہے کہ مغلوں کا دور ہندوستان کا سب سے رومانوی دور ہے، مقبرہ ہمایوں اور تاج محل ہندوستان کی تہذیب کے وہ فقید المثل نوادرات ہیں جن کی نظیر پوری دنیا میں کہیں نہیں ملتی، امن و محبت پر مبنی یہ تہذیب بے مثل رومانیت اور ارفع جمالیات کا حسین امتزاج تھی، دنیا کی کوئی بھی تہذیب محبت و عشق کے فلسفہ  کو اتنے اوج پر نہیں لے کے گئی، یہ کمال بے مثال صرف ہند کی تہذیب کو ہی حاصل ہے، دنیا کی کوئی بھی تہذیب محبت و عشق کی ایسی لازوال عملی داستان رقم نہیں کرسکی جیسا کہ مغل فرمانروا  شاہجہاں نے اپنی محبوب اہلیہ ممتاز محل کیلئیتاج محل بنوا کے کی، یہ شاہکار محبت ہی کا ثمرہ تھا، امن و سکون اور آزادی کی بنیاد پر مبنی ایک شاداب تہذیب جس کو مغلوں نے اوج پر پہنچا دیا، مغلوں کے  پورے دور میں صرف ایک  عالمگیر اورنگزیب کا دور انتہائی سفاک دور تھا، اپنے عزیزو اقارب کو بے دردی سے  قتل کرنے کے بعد تخت پر بیٹھنے والے اورنگزیب نے اپنے آپ کو معصوم اور بیگناہ ثابت کرنے کیلئے مذہب کا لبادہ اوڑھ کر مولویوں سے خوب داد حاصل کی، بہادر شاہ ظفر پر مغل دور کا خاتمہ ہوتا ہے اور یہی وہ دور ہے جب اہلِ فرنگ ہندوستان پر قابض ہونے لگتے ہیں، ہندوستان میں فرنگیوں کے آنے کے بعد اہلِ اسلام کے اندر عدم تحفظ کا احساس بڑھتا چلا گیا اور اسی کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے فرنگیوں نے سنسکرتیوں اور اہلِ اسلام کو ایک دوسرے کے سامنے کھڑا کر دیا، اس دور میں کئی   ایک مذہبی و سیاسی تحریکیں نمودار ہوئیں جن کا تذکرہ اجمالاً ہم کر چکے ہیں، اہلِ فرنگ کی آمد کے بعد ہندوستان کی تہذیب نے بالکل ایک نیا رُخ اختیار کر لیا، اس تہذیب کو فرنگی اینگلو انڈین تہذیب کہا کرتے، آج ہند و پاک میں اسی تہذیب کے آثار موجود ہیں، پاکستان کی کوئی الگ تہذیب نہیں یہ دراصل ہندی تہذیب کا  ایک حصہ ہے، دو بھائی اگر اپنے ہی گھر میں دیوار کھڑی کر دیں تو اُن کی بود و باش اور رہن سہن  نہیں بدل جاتا، یہی حال پاکستان کا بھی ہے، ساٹھ گزرنے کے بعد آج بھی پاکستان دنیا میں اپنی کوئی الگ جدید تہذیب متعارف نہ کروا سکا، البتہ ہندوستان نے اینگلو انڈیا کو خالص اینگلو میں تبدیل کر کے خود کو دنیا کے سامنے پیش کیا جس کو آج دنیا گھوُر بھی رہی ہے، لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ  اہلِ پاکستان  ہندوستان سے الگ ہونے کے بعد اپنی کوئی جدید تہذیب پیش نہیں کرسکے، اس کی کئی ایک وجوہات ہوسکتی ہیں، جن میں سے  بنیادی وجہ پاکستانی کی نظری اساس کا مبہم اور متنازعہ ہونا ہے، کہنے کا مقصد یہ ہے کہ پاکستان نہ تو ایک خالص مذہبی ریاست اور نہ ہی خالص جمہوری، اہلِ ہندوستان نے خود کو   سیکولر ڈیکلیئر کر کے آگے بڑھنے کی ٹھان لی لیکن پاکستان اسلام اور جمہوریت میں پھنس کر ایک کنفیوز سٹیٹ کی شکل میں  ایک جگہ  پر رُک گیا، اس ریاست کے مصور ڈاکٹر محمد اقبال نے کہا تھا کہ

وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنود

یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود

حالانکہ دلچسپ بات یہ ہے کہ موصوف خود بھی آخری عمر تک فرنگی وضع قطع میں ملبوس رہے، نسل کے لحاظ سے آپ خالص کشمیری براہمن ہیں آپ کا جدِ امجد اورنگزیب کے زمانہ میں مسلمان ہوا، آپ پرائمری سے پی ایچ ڈی تک نصاریٰ   ہی  سیتربیت لیتے رہے، پروفیسرتھامس  آرنلڈ جیسے بنیاد پرست عیسائی آپ کی شعوری تربیت کرتے رہے، جھوٹ اور منافقت کی بنیاد پر قائم کیا گیا معاشرہ آخر کب تک اپنی ساکھ برقرار رکھ سکتا ہے آخر کار پول کھل ہی جاتا ہے، جھوٹ کی بنیاد پر قائم کی گئی عمارتیں آخر کار زمیں بوس ہی ہو جاتی ہیں، کوئی بھی عقلِ سلیم اور خرد سے علاقہ رکھنے والا انسان بٹوارے کو کوئی منطقی اقدام نہیں  قرار دے  سکتا کیونکہ زمینی سچ یہ ہے کہ قوموں کا خمیر ہمیشہ خاک  ہی  سے اُٹھتا ہے، نظریہ کی بنیاد پر گروہ بندی تو ہو سکتی ہے  قومیں وجود میں نہیں آسکتیں، ہندوستان کے بخرے کرنے والے شاید یہ بھول گئے کہ عرب اور عجم کی تفریق آج بھی اُسی طرح موجود ہے جس طرح کہ کل موجود تھی، خیالات کی بنیاد پر قومیں وجود میں نہیں آتیں، قوموں کا خمیر ہمیشہ مٹی سے اُٹھتا ہے اور مٹی ہی انسان کی پہچان بنتی ہے، افسوس اس بات کا ہے کہ اتنی معمولی سی بات بھی قیامِ پاکستان کے محرکین کو سمجھ نہ آسکی، تقسیم سے قبل پورے ہندوستان میں کسی نے نسلی امتیاز کی بات نہیں کی اور نہ ہی کسی نسل میں فکری شعور بیدار ہوا کیونکہ وہ خود ایک مضبوط ریاست کا حصہ سمجھتے تھے، سرحد کے عظیم سپوت خان عبدالغفار خان، بنگال کے عظیم دانشور رابندر ناتھ ٹیگور اور ہندوستان کی کوکھ میں مقیم بے مثال عالمِ دین مولانا ابوالکلام آزاد آخری دم تک اس دھرتی پر فخر کرتے رہے، یہ وہ شخصیات ہیں جن کو دنیا جانتی ہے، علم و فضل اور  حب الوطنی کے جیتے جاگتے نمونے  اپنے وقت کے معروف سیاسی، مذہبی اور سماجی لیڈر تھے، اہلِ فرنگ سے آزادی کے بعد  یہ خطہ آج دنیا کی سیاہ وسفید کا مالک بن جاتا لیکن افسوس کہ اہلِ فرنگ نے جاتے جاتے اپنے معروف سیاسی اُصول  "Divide and rule”کے مطابق ہند کو دو لخت کر دیا تاکہ  آنے والے وقتوں میں اس خطہ کے اُوپر اٹھنے کا امکان ہی  ختم کر دیا جائے، اور پھر ہم نے آج  دیکھ ہی  لیا، پاکستان آج تک سیاسی، مذہبی اور سماجی انتشارسے نہ نکل سکا  جبکہ ہندوستان نے آخر کار خود کو دنیا کے سامنے پیش کرنے جوگا بنا ہی  لیا، قیامِ پاکستان کے سترہ سال بعد ایک ہی ماں کی اولاد باہم برسرِ پیکار ہوئی اور اس جنگی حماقت کے سبب دونوں ریاستوں کو خوب خسارے کا سامنا کرنا پڑا، یہی نہیں بلکہ اس جنگ کے چھ سال بعد پھر ایک ہنگامہ برپا ہوا جو بنگالی قوم کو نظریہ پاکستان سمیت لے ڈوبا، البتہ بنگالی قوم نے تو آج خود کو اپنے پیروں پر کھڑا کر لیا لیکن دو قومی  نظریہ  بخارات بن کر فضا ء میں بکھر گیا، بعد میں  نظریہ پاکستان کے پرچارک ہاتھوں پر ہاتھ دھرے رہ گئے کہ اب نظریہ پاکستان کو کونسی بنیاد فراہم  کریں، اس ہنگامہ کے بعد ریاست میں ایسا طوفانِ بدتمیزی برپا ہوا کہ جس کا خمیازہ آج تک اہلِ ریاست بھگت رہے ہیں، بلکہ نظریہ پاکستان کی شہادت کے بعد ریاست کی بے لگام قوتوں نے نظریہ عنادِ ہندوستان کا تصور  پیش کر کے ہندوستان سے دشمنی کو ایمان کا جُزو لاینفک  بنا دیا چنانچہ آج ایک حب الوطن پاکستانی کیلئے ہندوستان سے بغض رکھنا بالکل اس طرح اہم ہے جس طرح پاکستانی ہونا

٭٭٭

 

 

 

 

عوامی جمہوریہ پاکستان

 

اسلامی جمہوریہ پاکستان، یعنی ریاست جمہوری اقدار پر  تو  قائم ہے لیکن یہ جمہوریت مغرب والی نہیں بلکہ ” Pak Made” جمہوریت ہے، سیدھی طرح کچھ یوں ہے کہ یہ جمہوریت شریعت کے مصالحہ دار تڑکے کے امتزاج سے وقوع پذیر ہوئی، منافقت کے لغوی معنی عربی میں سرنگ نما غار میں ایک طرف گھس کر دوسری طرف چلے جانے کو کہا جاتا ہے، مطلب اسلامی جمہوریہ کا مطلب اسلام  کے منہ میں داخل ہو کر جمہوریت کی پشت  سے باہر نکل جانا، ہماری ہی کوکھ سے جنم لینے والا چھوٹا سا خطہ بنگال آج اپنے پاؤں کھڑا ہو گیا لیکن وہ ریاست جس کے چرچے ایک وقت میں آسمان کا سینہ چیرنے پر تلے ہوئے تھے ساٹھ سال گزرنے کے بعد بھی یتیم ہی معلوم ہوتی ہے، جس کی بنیادی وجہ ہمارا وہ منافقانہ رویہ ہے جس سے ہم جان بوجھ کر پیچھا نہیں چھڑا رہے، مجھے یہ بات کہنے میں کوئی اشکال نہیں کہ اگر ریاست میں صحیح معنوں میں شریعت کی کوئی بھی تعبیر نافذ کر دی جاتی تو ملک آج اس حد تک دیوالیہ نہ ہوتا، دیوالیہ شعور سے، دیوالیہ معیشت سے، دیوالیہ بے روزگاری سے، کسی بھی ریاست کی بنیادی ترجیح تعلیم و تربیت ہوتی ہے جبکہ پاکستان میں تعلیم و تربیت کی بجائے فرقہ واریت کی ترغیب دی جاتی ہے، معصوم اذہان کے اندر بے دردی سے انجیکٹ کیا جاتا ہے کہ ملک میں کون کونسے  افراد کافر ہیں اور کن کن کو مارنے سے براہِ راست جنت مل سکتی ہے، ریاست کے دور افتادہ گلی کوچوں میں آج بھی لکھا ہوا دیکھا جا سکتا ہیکہ ” جمہوریت کفر ہے ” وہ سارے مذہب فروش جو اپنے خطبات میں عوام کو گیان دیتے ہیں کہ جمہوریت خالص مغربی طرزِ سیاست اور غیر اسلامی قدر ہے اور جس کی شریعت میں کوئی اجازت نہیں، وہی مذہب فروش الیکشن کے سمے ووٹ مانگنے آ جاتے ہیں کہ اجی ہمیں ووٹ دو تاکہ ہم ملک میں شریعت نافذ کرسکیں، جبکہ  ان مذہب فروشوں کو  اسلام نہیں اسلام آباد چاہئے ہوتا ہے افسوس اس بات کا ہے کہ  اس سارے چکر ویو میں بیچاری معصوم اور مطلق انجان عوام ہی پستی رہتی ہے، اشرافیہ کبھی نہیں چاہتا کہ عوام با شعور ہو کیونکہ جس دن عوام با شعور ہو گئی ٹھیک اُسی دن  یہی عوام ان تمام سفید پوش جانوروں کو ننگا کر کے خچروں پر بٹھا دے گی، ملک میں اس وقت بھی شریعت نافذ کی جا سکتی ہے اور اس میں کوئی رکاوٹ بھی حائل نہیں لیکن بنیادی منطق یہ کہ شریعت کا ماخذ اللہ تعالیٰ کی ذات اور اُس کے پیغمبر ? ہیں جو اس وقت طبعی طور پر ہمارے درمیان موجود نہیں، رہی بات خدا کی تو خدا نے آج تک زمین پر آ کر حکمرانی نہیں  کی، چنانچہ نبوت کا سلسلہ بھی منقطع ہو گیا اب کسی نئے نبی کی آمد بھی ناممکن ہیتو اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شریعت کا نفاذ کون کرے گا اور شریعت کی کونسی تعبیر نافذ کی جائے گی؟ اس سے پہلے ہم عرض کر چکے ہیں کہ اہلِ اسلام کے اندر  اس وقت شریعت کی مختلف تعبیرات  پائی جاتی ہیں، فلہٰذا اس کا فیصلہ کون کرے گا کہ شریعت کی کونسی تعبیر مبنی برحق ہے اور کونسی مبنی بر ضلالت؟ یہاں پر عالم یہ ہے کہ ہر کوئی اپنی شرعی تعبیر کو خدا اور رسول سے منسوب کر کے ڈنڈا ہاتھ میں لئے  کھڑا ہے، ایک کی مانو تو دوسرے کے ہاں کافر دوسرے کی مانو تو پہلے کے ہاں کافر،  سیدھی سی بات ہے کہ شریعت کا مسئلہ اتنا گھمبیر اور لاینحل ہے کہ پچھلے چودہ سو سال اُمت اس معاملہ میں کنفیوژن کا شکار رہی ہے، فلہٰذا ہمارے پاس اس کے علاوہ کوئی آپشن نہیں کہ ہم شریعت یا مذہب کا معاملہ انسان کی انفرادی صوابدید پر چھوڑ دیں، اور خدائی ڈنڈا بردار بننے کی بجائے ہر انسان کو اپنی فطرتی روش پر چھوڑ دیں، اس معاملہ میں بانی پاکستان محمد علی جناح کے چند اقوال بہت اہمیت کے حامل ہیں چنانچہ 7 فروری 1935 کو مرکزی قانون ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے آپ نے فرمایا  "مذہب کو سیاست میں آنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے، مذہب انسان اور خدا کا آپس کا معاملہ ہے”قیامِ پاکستان کے بعد 19 فروری 1948 کو آسٹریلیا کی عوام کے نام پیغام میں آپ نے فرمایا” لیکن غلط مت سمجھئے گا، پاکستان ہرگز ایک مذہبی ریاست یا اِ س طرح کی کوئی چیز نہیں ” محمد علی جناح کے ان واضح اور دو ٹوک بیانات کے بعد اب کوئی انتہائی اُجڈ اور جاہل ہی پاکستان کو مذہبی ریاست کہہ سکتا ہے، قیامِ پاکستان سے صرف 3 دن پہلے 11 اگست 1947 کو آپ نے قانون ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا ” آپ آزاد ہیں، آپ کو اپنے مندروں میں جانے کی آزادی ہے، پاکستان کی ریاست میں آپ کو اپنی مسجدوں یا عبادت کی کسی بھی جگہ جانے کی آزادی ہے، آپ کا تعلق چاہے کسی بھی مذہب، ذات یا نسل سے ہو، اس کا ریاست کے امور سے کوئی لینا دینا نہیں ” آپ نے فرمایا کہ  مذہبی اعمال کا ریاست کے اُمور سے کوئی لینا نہیں اور ہونا بھی نہیں چاہئے کیونکہ یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ دنیا کے ہر انسان کا کیمیائی تعامل کسی بھی دوسرے انسان سے میل نہیں کھاتا، بلکہ اب تو میڈیکل سائنس نے یہ بھی ثابت کر دیا ہے کہ ایک انسان کا ڈی این اے دنیا کے کسی بھی دوسرے انسان سے میچ نہیں کرتا،  مذہب کا تعلق عقائد اور جذبات سے ہوتا ہے، ایک شخص کیلئے مہاویر اور گوتم اُس کے خدا ہوسکتے ہیں اور اُس کا بنیادی حق  بھی ہے کہ وہ جن کو چاہے خدا تسلیم کرے، ہمیں کسی نے یہ اختیار نہیں دیا کہ ہم جا کے کسی کے گلے پر بیٹھ جائیں کہ تم اپنے خدا سے دستبردار ہو جاؤ، بہت ہو گیا فکری جبر و استبداد، یہ دور فکری آزادی کا دور ہے، اگر مجھے مسلمان ہونے میں نجات معلوم ہوتی ہے تو میرے مخاطب کو اگر مسلمان  نہ ہونے میں نجات معلوم ہوتی ہے تو اُسے زبردستی مسلمان ہونے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا، انسان آزاد پیدا ہوتا ہے  اور آزادی ہی اس کا وصف ہے، ریاست کی بنیاد ٹھوس حقائق پر ہونی چاہئے نہ کہ بے ہنگم جذبات پر، جذبہ یا ایمان کوئی ایسی ٹھوس حقیقت نہیں کہ جو مطلق یا جامد ہو، بلاشبہ  انسان ایک جذباتی وجود ہے اور جذبہ کی حقیقت یہ ہے کہ یہ ہمیشہ ستاروں کی طرح گردش میں رہتا ہے، ایسا نہیں ہے کہ ہم جن پر یقین رکھتے ہیں اُن سے کبھی نا اُمید نہیں ہوتے، انسان تو رجائیت و قنوطیت کے درمیان جھولتا رہتا ہے، جذبات میں زبردست جھول پایا جاتا ہے اس لئے انسان جھولتا رہتا ہے یہی وجہ ہے کہ جذبات کی بنیاد پر قائم کیا گیا معاشرہ یا  ریاست ہمیشہ جھولتی رہتی ہے، ایمان اور جذبات کا تعلق چونکہ انسانی روح سے ہے اس لئے اس کو انسانی کے روح تک  ہی محدود کرنے میں عافیت ہے، ریاست کی بنیاد ہمیشہ عملی نوعیت کے حقائق پر ہونی چاہئے جبکہ  انسانی عمل ہی سب سے بڑی حقیقت ہے دنیا میں اگر کوئی مطلق حقیقت ہے تو وہ ہے خود انسان کی ذات، اُس کا عمل، انسان کا ہونا ہی  سب سے بڑی حقیقت ہے، چنانچہ ایک بہترین ریاست کی بنیاد انسانی عمل پر ہوتی ہے نہ کہ انسانی جذبات پر، اس کیلئے  بہترین ضابطہ سیکولر ازم ہے،  سیکولرازم کو ہمارے ہاں عموماً لادینیت سے تعبیر کیا جاتا ہے جبکہ سیکولرازم کی یہ تعبیر سرازسر غیر منطقی اور جہالت پر مبنی ہے، لادینیت کیلئے انگریزی زبان میں اپنی ایک الگ اصطلاح ” Atheism ” موجود ہے جس کے معنی لادینیت کے ہیں، سیکولرازم کے معنی  قطعاً لادینیت نہیں ہوتے یہ دراصل  مولویوں  کی علمی بد دیانتی ہے  ایک سیکولر سٹیٹ  کے شہری کو کسی بھی وقت مسجد یا چرچ جانے کی مکمل آزادی حاصل ہوتی ہے جبکہ لادین معاشروں  میں مسجد  یا چرچ کا تصور بھی ممکن نہیں،  اصطلاح سیکولرازم پہلی بار برطانوی لکھاری جارج جیکوب ہولیوک نے 1851 ء میں وضع کی جس کا مقصد  دراصل ریاست کو چرچ کے چنگل سے آزاد کرانا تھا،  سیکولرازم کیلئے اُردو میں موزوں اصطلاح ” خیارِ فکر” ہے یعنی ایک سیکولرریاست   میں ہر انسان کو بلا مذہبی امتیاز کے اپنی فکر کا پرچار کرنے اور اُسے حکومتی ایوان میں پیش کرنے کا مکمل اختیار حاصل ہوتا ہے قطع نظر اس سے کہ وہ فکر کسی مذہب کے خلاف ہے یا اُس کے حق میں،  سیکولرازم کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ایک سیکولر سٹیٹ میں عوام لادین ہو جاتی ہے بلکہ ایسی ریاست میں عوام کو مکمل مذہبی  آزادی  حاصل ہوتی ہے ایک خالص سیکولرسٹیٹ دراصل ایک مضبوط جمہوری ریاست ہوتی ہے، چند ممالک کو چھوڑ کر اس وقت پوری دنیا ضابطہ سیکولرازم پر عمل پیرا ہے اور دنیا کی تمام ترقی یافتہ مضبوط جمہوری ریاستیں دراصل سیکولرازم کی بنیاد پر قائم ہیں، چنانچہ پاکستان کی بہتری اسی زریں اُصول میں پوشیدہ ہے،  ہم عرض کر چکے ہیں کہ دنیا میں مطلق حق انسان کی ذات ہی ہے، تو اس کا مطلب یہ ہے  کہ انسان اپنا بھلا اور  بُرا خود ہی متعین کرسکتا ہے کیونکہ ہر انسان کی روح یا کیمیائی توازن مختلف ہے، اگر کوئی انسان سمجھتا ہے کہ اُس کیلئے شراب پینا حرام یا نقصان دہ ہے تو اُس پر کوئی جبر نہیں کہ وہ شراب پئے اس کے برعکس اگر کوئی شخص شراب کو اپنے لئے فائدہ مند تصور کرتا ہے تو اُس کو پوری آزادی کے ساتھ شراب پینے کی اجازت ہونی چاہئے، یہ ہے ایک خالص سیکولر اور جمہوری ریاست کا حُسن، خدا دیکھ رہا ہے، خدا نے اختیار بھی دے دیا ہے اور خدا گرفت بھی کرسکتا ہے تو اگر کسی کو کسی  دوسرے انسان کا عمل خدا کی نافرمانی معلوم ہورہا ہے تو اس معاملہ میں اُسے پریشان ہونے کی قطعاً ضرورت نہیں کیونکہ یہ اُس کا اور اُس کے خدا کا معاملہ ہے، اگر کسی نے شراب پینے کو حرام قرار دے کر شراب پینے والے کو قتل کر دیا تو پھر جو لوگ شراب پیتے ہیں وہ بھی یہ حق رکھتے ہیں کہ وہ شراب نہ پینے والوں کو قتل کرنا شرع کر دیں، یہی بنیادی خرابی ہے جس کے سبب ریاست انارکی اور لاقانونیت کا شکار ہو جاتی ہے، چنانچہ جذبات، ایمان اور مذہب کو انسان کی ذات کے ساتھ وابستہ کر کے ریاست سے اس کو قطعی طور پر لاتعلق کر دیا جائے، کیونکہ ریاست مسلمان ہوتی نہ کافر، ریاست جمہوری ہوتی ہے اور ایک جمہوری ریاست میں ہر انسان کو اپنی پسند کا  مذہب رکھنے اور مکمل فکری آزادی حاصل ہوتی ہے، ایک جمہوری ریاست خالص سیکولر ریاست ہوتی ہے کیونکہ جمہوریت  کوسیکولرازم سے  جدا نہیں کیا جا سکتا، اگر حکومت عوام نے ہی کرنی ہے عوام ہی کے ذریعے اور عوام ہی پر تو پھر اُصولاً عوام کو پوری آزادی کے ساتھ بولنے کی اجازت بھی ہونی چاہئے پس یہی جمہوری ریاستوں میں ہوتا ہے، ہم عرض کر چکے ہیں کہ پاکستان نہ تو ایک خالص جمہوری ریاست ہے اور نہ ہی خالص شرعی، یہ جمہوریت اور شریعت کے بین بین کہیں پائی جاتی ہیجس کا تعین بھی ممکن نہیں البتہ سادہ الفاظ میں اسے ایک "Hippocratic State  ”  کہا جا سکتا ہے یہی وجہ ہے کہ ریاست کے سرپر آج تک چنڈال ہی منڈا لا رہے ہیں اور یہ لوگ نہیں چاہتے کہ عوام کے اندر شعور بیدار ہو کیونکہ جس دن عوام کے اندر شعور بیدار ہو گیا نا ٹھیک اُسی دن  نہ صرف پاکھنڈی سیاسی لیڈر اپنے انجام کو پہنچ جائیں گے بلکہ ان کے ساتھ  مذہب  کو کمرشلائز کر کے اپنی دُکانیں چمکانے والے مذہب فروش بھی اپنی موت آپ مر جائیں گے، شعور وہ فطرتی چراغ ہے جو ہر انسان کے اندر موجود ہوتا ہے بس اُسے جلانا  پڑتا ہے جس دن یہ چراغ جل پڑا اُسی دن ریاست کے باگ کھل جائیں گے، چنانچہ ہماری اس معمولی  کاوش  کا مقصدِ اصلی بھی دراصل اسی چراغ کو جلانے  کا سامان مہیا کرنا ہے تاکہ عوام شعور کا چراغ کا جلا کر نہ صرف  ریاست کو لا محدود ترقی کی راہ پر  گامزن کر دے بلکہ خود بھی اپنی ترنگ سے جینا سیکھ لے، ایک جمہوری معاشرے میں عوام ہی سیاہ و سفید کی مالک ہوتی ہے اور اسی وجہ سے ریاست کو ” People Republic ” یا عوامی جمہوریہ کہا جاتا ہے، ہم بھی آج پاکستان کو عوامی جمہوریہ پاکستان دیکھنا چاہتے ہیں، ہمیں کل کے باسی پاکستان کو بھولنا ہو گا شریعت اور جمہوریت کے بیچ میں واقع اُس اپاہج پاکستان کو بھول کر ایک نیا پاکستان تعمیر کرنا ہو گا، ہاں وہ نیا پاکستان، وہ پاکستان عوام کا پاکستان ہو گا، جس  میں دنیا کے ہر مذہب کے حامل کو پوری آزادی کے ساتھ بولنے اور اپنی مرضی کا قانون منظور کروانے کی مکمل اجازت ہو گی، جہاں  بولنا کفر اور تحقیق بغاوت نہیں ہو گی اور جہاں    شعور ہر قسم کے خوف بالاتر ہو کر طلوع ہو گا، وہ عوامی جمہوریہ پاکستان  جہاں۔ ۔ ۔ ۔

Where the mind is without fear and the head is held high

Where knowledge is free

Where the world has not been broken up into fragments

By narrow domestic walls

Where words come out from the depth of truth

Where tireless striving stretches its arms towards perfection

Where the clear stream of reason has not lost its way

Into the dreary desert sand of dead habit

Where the mind is led forward by thee

Into ever widening thought and action

Into that heaven of freedom, my Father, let my country awake.

(Rabindranath Tagore)

ذیل میں   ہم عوامی جمہوریہ پاکستان کا ایک  جدید اجمالی خاکہ  بیان کرتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

آئینِ   نو

 

جس طرح اس قوم نے بانی پاکستان کی وصیت پر عمل نہیں کیا ٹھیک اسی طرح مصورِ پاکستان ڈاکٹر محمد اقبال  کی وصیت پر بھی عمل نہیں کیا، آپ نے فرمایا

آئینِ نو سے ڈرنا طرزِ کہن پہ اَڑنا

منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں

آئینِ نو یعنی جدید ضوابط، اخلاقی، سماجی، معاشی اور سیاسی، عوام تو جانتی نہیں کہ پاکستان کی بنیاد کیا تھی اور کیا چل رہا ہے اس وقت ملک میں، اشرافیہ بھی اصل حقائق سے نظریں چرائے ہوئے ہے کہ اگر سچ بولا تو دو کوڑی کے بھی نہیں رہیں گے، تعلیمی نظام اتنا جدید اور منظم ہے نہیں کہ جس کے ذریعے عوام کے اندر حقائق کو پرکھنے کا شعور بیدار ہوسکے، فلہٰذا چلتی کا نام گاڑی کے مصداق ملک چل رہا ہے، آئی ایم ایف اور یو ایس ایڈ  بھیک پر بھیک دیتا جائے اور حکمران ڈھٹائی سیبٹورتے  رہیں، بہتری کی اُمید نہیں کی جا سکتی  جب تک کہ ریاست کی نظری بنیاد کی تجدید نہ کر لی جائے، آئین پر نظر ثانی کر کے اسے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ نہ کر لیا جائے، ملک کے تعلیمی، و سماجی ڈھانچے از سر نو نہ تعمیر کر لیا جائیں، جب تک یہ بنیادی اقدامات نہیں اٹھائے جائیں گے بہتری اور ترقی کے خواب بھی نہیں دیکھے جا سکتے، اقوام کی تاریخ اُٹھا کے دیکھ لیں جب کوئی قوم علم و اخلاق میں پستی کا شکار ہوئی وقت نے اُس کو نیست  ونابود کر دیا، ریاست اُس وقت تک ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہوسکتی جب تک کہ اس کو نئے سرے سے اپنے پاؤں پر کھڑا نہ کر لیا جائے چنانچہ اقوام کے اُتار چڑھاؤ کا بغور مطالعہ کرنے کے بعد ہم  نے موجودہ اپاہج ریاست کو بالکل ایک نئی شکل میں پیش کرنے کی کوشش کی ہیاسی اُمید کے ساتھ کہ کبھی  نہ کبھی تو ریاست کی باگ دوڑ کسی مردِ جری کے ہاتھ لگے گی اگر ایسا ہوا تو ایک جدید پاکستان کا نظری ڈھانچہ موجود ہو تاکہ ریاست کو بالکل نئے سرے سے اپنے پاؤں پر کھڑا کیا جا سکے، ذیل میں ہم عوامی جمہوریہ پاکستان کے خدوخال بیان کرتے ہیں

 

                   نظری شعائر

 

ایمان، اتحاد اور تنظیم، ایمان سے مراد  اگر اسلام ہی ہے تو پھر اس ریاست میں کبھی بھی کسی غیر مسلم کا بھلا نہیں ہوسکتا اور اتفاق سے پاکستان کی تاریخ اقلیتوں کے حق میں جس قدر مکروہ واقع ہوئی ہے اس کا  ایک ادنیٰ سا مشاہدہ آج بھی کیا جا سکتا ہے، دنیا کی کسی بھی ریاست میں احمدی(قادیانی) سرکاری طور پر غیر مسلم نہیں ہیں یہ اعزاز صرف پاکستان کو حاصل ہے، جرنل ضیاء نے اقلیتوں با الخصوص  احمدیوں  پر جو  مظالم ڈھائے اُس کی نظیر تو پورے ایشیاء میں کہیں  نہیں ملتی، وہ مذہبی طبقہ جو قیامِ پاکستان کو گناہ سے تعبیر کر رہا تھا خود ساختہ اسلامی ہیرو جرنل ضیاء کے ہاتھوں اس گناہ کی لذت سے خوب بہرہ مند ہوا، اور یہ  سب اس لئے ہوا کہ عوام سے زیادہ ریاست مذہبی تھی گویا پاکستان میں عوام کے ساتھ ساتھ ریاست بھی مذہبی ہے، بارہا ہم عرض کر چکے ہیں کہ ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہوتا، لیکن کیا کریں پاکستان کے نظری شعائر ہی سب سے پہلے یہ باور کراتے ہیں کہ اجی آپ مذہبی ہوں یا نہ ہوں ریاست تو بہرحال مذہبی ہے، چنانچہ سب سے پہلے ریاست کو اس بنیادی دلدل سے باہر نکالنا ہو گا، ایمان، اتحاد اور تنظیم کی بجائے ریاست کا  نظری شعار صرف ایک ہی جملہ کافی و شافی ہے

” سچ کے ساتھ جیو”

” Live with the truth ”

سچ سے بڑھ کے طاقتور چیز اور کیا ہوسکتی ہے؟ اگر آپ صحیح معنوں میں حق پر قائم ہو گئے ہیں تو ایمان، اتحاد اور تنظیم آپ کا اوڑھنا بچھونا بن جائے گا،

 

                   نام کا مسئلہ

 

ایک خالص جمہوری ریاست کا ہر شہری مساوی حقوق کا حامل ہوتا ہے، قطع نظر اس سے کہ اُس کے عقائد کیا ہیں اور جذباتی طور پر وہ کس مذہب سے متعلق ہے، چنانچہ ایک مضبوط اور منظم ریاست کے ہر شہری کو برابر کا حق دینا جمہوری ریاست کی اولین ذمہ داری ہوتی ہے، ریاست جمہوری یعنی کہ عوام کی بالا دستی پس جہاں عوام  کی بالادستی ہو وہاں عوام ہی ریاست کا مرکز ہوتی ہے چنانچہ عوامی ریاست کا نام بھی عوامی ہونا چاہئے

عوامی جمہوریہ پاکستان

 

                   قانون

 

قیامِ پاکستان سے چند روز قبل لاہور میں ایک جلسہ کے دوران احرار الاسلام کے جرنل سیکرٹری مولانا مظہر علی اظہر نے کہا تھا کہ ”  قائد اعظم ( محمد علی جناح) کافرِ اعظم ہے ” جبکہ اس جلسہ میں مولانا غلام غوث ہزاروی بھی موجود تھے، اسی طرح ایک دن روزنامہ نوائے وقت کے چیف ایڈیٹر ڈاکٹر مجید نظامی کی موجودگی میں معروف صحافی آغا شورش کاشمیری سے مولانا مفتی محمود نے کہا   "خدا کا  شکر ہے کہ ہم پاکستان بنانے کے گناہ میں شریک نہیں تھے” تمہید کا مقصد یہ تھا کہ پاکستان کے شعلہ بیاں سیاسی لیڈر جناب ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی اسمبلی میں ریاست کا جو آئین مرتب کروایا اُس میں مولانا غلام غوث ہزاروی اور مولانا مفتی محمود دونوں حضرات موجود تھے، بانی پاکستان کی منشا کے عین برعکس بھٹو صاحب نے مذہبی طبقہ کو قانون سازی کا اختیار دے کر قیامِ پاکستان کا  مقصد ہی گوا دیا، مذکورہ بالا دونوں مولانا حضرات کا تعلق  مکتبہ دیوبند سے ہے اور  مکتبہ دیوبند کے علماء    آخری دم تک قیامِ پاکستان کی مخالفت کرتے رہے، یہاں پر صورتحال کافی گھمبیر ہو جاتی ہے کہ وہ لوگ جو قیامِ پاکستان کو گناہ سے تعبیر کر رہے تھے وہ پھر اس گناہ سے محظوظ کیوں ہوئے؟ شاید فیض صاحب کے شعر پر عمل کر رہے تھے

اِ ک فرصت گناہ ملی، وہ بھی چار دن

دیکھے ہیں ہم نے حوصلے پروردگار کے

جمہوری اُصول کا تقاضا تو یہ تھا کہ قانون سازی عوام ہی کرتی لیکن بھلا ہو بھٹو صاحب کا  آپ نے یہ ذمہ داری مولویوں کے سپرد کر دی، آج بھی تحریکِ طالبان پاکستان کے ترجمان کہتے ہیں کہ پاکستان کا آئین غیر شرعی ہے، گویا اُن کے نزدیک مولانا غلام غوث ہزاروی اور مولانا مفتی محمود جیسے بزرگ عالم یہود و نصاریٰ کے ایجنٹ تھے جنہوں نے اسمبلی میں بیٹھ کے یہ قانون مرتب کروایا، ایک اور کنفیوژن، ہمارا یہ رونا ہے کہ محمد علی جناح کے سیکولر پاکستان میں مولوی کیسے گھس آئے، اِدھر   یار لوگوں کا کہنا ہے کہ پاکستان کا آئین ہی غیر شرعی ہے، جبکہ سچ تو یہ ہے کہ پاکستان کا آئین شرعی ہے نہ غیر شرعی، کنفیوژ سٹیٹ کا قانون بھی کنفیوژ ہی ہے، ایک طرف جمہوریت تو دوسری شریعت، آج تک فیصلہ نہ ہوسکا کہ ریاست کس آئینی بنیاد پر چل رہی ہے، اس لئے سب سے پہلے آئین کو نئے سرے سے مرتب کرنا ضروری ہے، اس سلسلہ میں براہِ راست عوام سے رائے لی جائے، ایک عوامی  جمہوری ریاست میں  قانون بھی عوام ہی کی مرضی کا ہوتا ہے فلہٰذا ضروری ہے کہ آئینِ پاکستان نئے سرے سے ترتیب دیا جائے،

 

                   تعلیمی  نظام

 

نظامِ تعلیم دراصل ریاست کی بنیاد تصور کیا جاتا ہے، جس ریاست کا تعلیمی نظام جدید تقاضوں سے ہم آہنگ اور رواداری پر مبنی ہوتا ہے وہ کبھی بھی تنزلی کا شکار نہیں ہوتی، چنانچہ  آج ریاست کے تعلیمی نصاب کو از سر نو ترتیب دینے کا وقت آن پہنچا ہے، تمام جعلی روایات اور غیر ضروری مذہبیت کو نصاب سے الگ کر دیا جائے، پرائمری سے   اُو لیول تک سیکولر اخلاقیات (Golden Rule)کے مضامین شامل کئے جائیں، دینیات کی بجائے خالص اخلاقیات  کے مضامین  بلا کسی مذہبی تفریق   کے شامل کئے جائیں،  ذیل میں ہم مطلق گولڈن رول یا سیکولر اخلاقیات کا ایک خاکہ پیش کرتے ہیں

1: دوسروں کو تکلیف نہ دو تاکہ دوسرے بھی تمہیں تکلیف نہ دیں (پیغمبرِ اسلام حضرت محمد ﷺ)

2: تم نہ بدلو گے، نہ ہی اپنے لوگوں کے بچوں کے خلاف کوئی نفرت اپنے دل میں رکھو گے، تم اپنے ہمسائے سے محبت  کرو گے جیسا کہ تم اپنے آپ سے کرتے ہو (پیغمبرِ یہود حضرت موسیٰ علیہ السلام)

3: دوسروں کیلئے وہی کرو جو تم چاہتے ہو کہ دوسرے تمہارے ساتھ کریں ( پیغمبرِ نصاریٰ حضرت مسیح علیہ السلام)

4: یہ کام کا اُصول ہے، دوسروں کے ساتھ وہ  نہ کرو جو تم نہیں چاہتے کہ تمہارے ساتھ بھی کیا جائے ( مہابھارت)

5: جو تمہیں اپنے لئے پسند نہیں ہے، دوسروں کیلئے نہ چاہو ( کنفیوشس)

6: جو تمہارے لئے قابلِ نفرت ہے وہ دوسروں کیلئے نہ چاہو(ہلل دی ایلڈر)

خالص دینیات کو انفرادی نوعیت تک محدود کر دیا جائے، سرکاری تعلیمی ادارے صرف سیکولر اخلاقیات اور جدید تکنیکی تعلیم سے آراستہ ہوں، اگر کسی نے قرآن، گیتا اور انجیل پڑھی  ہو گی تو وہ اس کا اہتمام گھر میں  بھی کر سکتا ہے، ایک بچہ اگر مسلمان گھرانے میں پیدا ہوا تو اُسے اپنے مذہب کے متعلق بنیادی شعور دینا اُس کے والدین یا پھر اُس کی خود کی ذمہ داری ہے ریاست کا ان معاملات سے کوئی لینا دینا نہیں، سیکولر اخلاقیات کی بنیاد صرف ایک زریں اُصول پر قائم ہونی چاہئے کہ دنیا کے کسی بھی انسان کی جان مال اور عزت پر حملہ کرنا ایک ناقابلِ تلافی جرم تصور ہے چنانچہ ریاست کا ہر شہری دوسرے شہری کی جان، مال اور عزت کا محافظ  رہے گا، اگر کوئی  شہری کسی دوسرے شہری پر زیادتی کا مرتکب ہوتا  ہے تو اُس کو سزا دینا ریاست کی اولین  ذمہ داری ہونی چاہئے، تمام سرکاری تعلیمی اداروں میں اول کلاس سے انگریزی زبان کو شامل کیا جانا چاہئے کیونکہ انگریزی اس دور کی بین الاقوامی زبان بن چکی ہے، قومی زبان اُردو  جبکہ سرکاری زبان رومن اُردو (Sarkari Zuban Roman urdu) ہونی چاہئے کیونکہ اہلِ ریاست مجموعی لحاظ سے اس قدر تعلیم یافتہ نہیں کہ وہ خالص انگریزی زبان کو پوری طرح سمجھ سکیں، اس لئے  ابتداء میں سرکاری زبان رومن اُردو ہی ہونی چاہئے بعد میں جب معاشرہ تعلیمی لحاظ سے بہتر ہو جائے تو خالص انگریزی کو سرکاری زبان بنایا جا سکتا ہے،  اے لیول یعنی انٹر میڈیٹ میں میڈیکل اور انجنیئرنگ کے علاوہ بھی اہم تکنیکی مضامین شامل کرنے چاہئیں، با الخصوص فائن آرٹس کے مضامین، ضروری نہیں کہ تمام طلبہ کا ذہن تکنیکی ہو، ہمارے ہاں فرسودہ نظامِ تعلیم کے سبب کئی ایک بہترین آرٹس کو زبردستی   انجینئر یا ڈاکٹر بنا دیا جاتا ہے جو بعد میں ساری عمر اپنے پیشے کے ذریعہ عوام سے اپنی محرومیوں کا ازالہ لیتے رہتے ہیں، چنانچہ جب ایک میوزیشن کوزبردستی  ڈاکٹر بنا دیا جائے گا تو نہ چس حضرت محمد ?نڈہ ?کھنو کلمتی تشکیل: اجاز عبیدگے ہیں۔ وہ کبھی اپنے پیشے کے ساتھ مخلص نہیں ہو گا اور نہ  ہی اپنے کام کو خدمت سمجھ کر سرانجام دے گا اس لئے ضروری ہے کہ اے لیول میں بنیادی مضامین انجینئرنگ اور میڈیکل کے علاوہ میوزک اور دیگر فنون کو بھی شامل کیا جائے، اے لیول کے بنیادی مضامین میں مذہب کو بھی  لازماً شامل کیا جائے کہ اگر کوئی طالبعلم کسی مذہب  میں سپیشلائیزیشن(تخصص) کرنا چاہے تو اُس کیلئے بھی اے لیول میں یہ سہولت  موجود ہو کیونکہ معاشرہ میں جہاں انجینئر، ڈاکٹر  اور فنکار پیدا ہوتے ہیں وہاں صوفی اور سادھو بھی پیدا ہوتے رہتے ہیں اس لئے  تخصص کیلئے مذہب کا مضمون لازمی ہونا چاہئے مذہب سے ہماری اسلام نہیں بلکہ تمام معروف مذاہب ہیں، مثال کے طور پر اسلام، مسیحیت، ہندو ازم، بدھ ازم، جین ازم، کنفیوشس ازم، احمدیت، بہائی مت وغیرہ وغیرہ

 

                   معاشی نظام

 

روٹی کپڑا اور مکان، یہ معروف نعرہ تھا پاکستان کے ایک جمہوری ذہن رکھنے والے نڈر سیاسی لیڈر ذوالفقار علی بھٹو کا، لیکن کیا ہے کہ ریاست کو دیمک کی طرح چاٹنے والوں نے کبھی ریاست کو عوام  کا نہیں ہونے دیا، ایک مضبوط جمہوری ریاست  کی معاشی پالیسی بھی مضبوط ہونی چاہئے، اس سلسلہ میں سب  سیبہترین اور معتدل معاشی پالیسی اشتمالیت(Socialism) ہے، اشتمالیت ہی واحد معاشی حل ہے کیونکہ انسان کی ضرورت محدود اور خواہشات لا محدود ہیں، سرمایہ اگر ایک ہاتھ میں آ جائے تو انسان اپنے ہی جیسے دوسرے انسانوں کا خون چوسنے لگ جاتا ہے کیونکہ خواہشات کی کوئی انتہا نہیں اور آگے بڑھنے کے چکر میں انسان اپنے آگے پیچھے موجود انسانوں کو کچلتا جاتا ہے،  سرمایہ دارانہ نظام میں غریب کا بھلا ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ غریب کو امیر ہونے کا موقع ہی نہیں دیا جاتا   اسی سبب امیر امیر تر سے امیر ترین بنتا جا رہا ہوتا ہے اور غریب غریب تر سے غریب ترین ہوتا بنتا  جا رہا ہوتا ہے،  طبعی لحاظ سے دنیا کے تمام انسان برابر ہیں، ہر انسان کو اپنی محنت کا پھل ملنا چاہئے، اس کیلئے اشتمالیت سے بہترین اور کوئی معاشی پالیسی نہیں ہوسکتی گو کہ اشتمالیت کے خلاف پاکستانیوں کے ماضی کے تجربات تلخ ہیں، امریکہ یو ایس ایس آر کے تیزی سے آگے بڑھنے پر کافی تشویش کا شکار تھا یہی وجہ تھی کہ پھر معصوم افغانیوں اور پاکستانیوں کو مذہب کے نام پر استعمال کر کے امریکہ مفاد المعروف افغان جہاد میں جھونک دیا گیا، جس کیلئے کل لڑ رہے تھے آج اُن سے برسرِ پیکار ہیں، یو ایس ایس آر کے ٹوٹنے کے بعد امریکہ کی  تو چاندی لگ گئی لیکن اہلِ اسلام کی قربانیاں رائیگاں چلی گئیں، کچھ عرصہ پہلے جو لوگ وائٹ ہاؤس میں عشایئے اُڑا نے جاتے تھے وہی لوگ آج امریکہ کی ہٹ لسٹ  پر آ گئے ہیں، یہ دنیا ایسے ہی چلتی ہے،  اہلِ اسلام امریکہ کا تو کچھ نہ بگاڑ سکے البتہ نظریہ اشتمالیت پر خوب بھڑاس  نکالی، کھسیانی بلی اب کھمبا نہ نوچے تو اور کیا کرے،  ریاستِ  پاکستان کو ایک مضبوط اکنامک سٹیٹ بنانے کیلئے اشتمالیت سے بڑھ کے کوئی ضابطہ نہیں، البتہ اس میں کچھ جدید نوعیت کی  شنجس ریاست سے خطرہ ہے تو وہ عوامی جمہوریہ چین ہی ہے، پاکستان کو کندھا دینے والا ملک بھی یہی چین ہی ہے، چین ہمارے لئے ہر لحاظ سے ایک آئیڈیل سٹیٹ ہے

٭٭٭

 

 

 

اصلاحات

 

وَالعَصرِ اِنَّ الاِنسَانَ لَفِی خُسرٍاِلَّا الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوا بِالحَقِّ وَتَوَاصَوا بِالصَّبرِ

ترجمہ: وقت کی قسم، انسان تو گھاٹے سے چمٹا ہوا ہے، ہاں مگر وہ لوگ جنہوں اصلاح کی، وصیت کی سچ  اور صبر کی، (راقم)

آج سے چودہ سو سال قبل پیغمبر اسلام ? نے جس معاشرہ کی بنیاد رکھی یقین کیجئے اُس معاشرہ کی بنیاد آج کے جدید اقدار یعنی جمہوریت، سیکولرازم اور سوشلزم پر مبنی تھی، چنانچہ آپ کے ساتھ جتھ جانے والوں کو قرآن میں مومن کہا گیا جس کے معانی امن قائم کرنے والا، اور آپ کے بعد معاشرہ کی اصلاح کرنے والوں کو صالح کہا گیا، یہی ابدی سچ ہے، یہی سچ چلتا رہا کہ حتیٰ کہ دین فروش آئے اور اُنہوں چند ٹکوں کی خاطر پورے دین کا حلیہ بگاڑ دیا، جس اسلام کے معنی سلامتی اور جس مومن کے معنی امن قائم کرنے والا مراد لیا جاتا تھا آج وہ ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتا، غالباً اسی بنیادی نقطہ کی جانب ڈاکٹر محمد اقبال نے اشارہ کیا تھا

بجھی عشق کی آگ اندھیر ہے

مسلماں نہیں راکھ کا ڈھیر ہے

یہ اُمت روایات میں کھو گئی

حقیقت خرافات میں کھو گئی

ایک خالص جمہوری بنیادوں پر قائم ہونے والا اسلامی  معاشرہ دیکھتے ہی دیکھتے عربوں کی خونریز سرشت کی بھینٹ چڑھ گیا، یہی وجہ ہے کہ بنو اُمیہ کے مسلسل جبر و استبداد کے بعد عباسیوں نے اسلام کی آڑ لے کر دنیا پر صدیوں راج کیا اور تو اور قرآن کے اسلام کو بالائے طاق رکھ کر  اپنی مرضی کا ایرانی اسلام وضع کر کے دنیا کے سامنے پیش کیا، آج اُمتِ مسلمہ جس اسلام کی بات کرتی ہے وہ دراصل یہی ایرانی اسلام ہے جس کو علامہ پرویز صاحب نے عجمی اسلام کی اصطلاح سے تعبیر کیا، آج قرآن کا براہِ راست مطالعہ نہ صرف ناپید  ہو چکا ہے بلکہ دین فروش  قرآن کو براہِ راست سمجھنے کو گمراہی کا سبب قرار دیتے ہیں،

خرد کا نام جنوں رکھ دیا جنوں کا خرد

جو چاہے ترا  حسن کرشمہ ساز کرے

راقم کا یہ دعویٰ ہے کہ دنیا کا کوئی بھی انسان اگر قرآن کو براہِ راست سمجھنے میں کامیاب ہو جائے تو  اُسے پھر کوئی بھی فلسفہ پڑھنے کی ضرورت نہیں، دنیا کی کوئی بھی مذہبی کتاب اس قدر اٹل اور سدا بہار فلسفہ فراہم نہیں کرتی جیسا کہ قرآن نے بیا ن کیا ہے بشرطیکہ اس کو اُسی طرح سمجھنا چاہئے جس طرح اس کو سمجھنے کا حق ہے، عربی ادب اور لغت  سیبنیادی جانکاری  قرآن کو سمجھنے میں مدد دے سکتی ہے، ہم جب جمہوریت کی بات کرتے ہیں تو فوراً ہمارے دماغ میں فوراً یہود و نصاریٰ کا ایک مذموم خاکہ بن جاتا ہے، کہ جمہوریت وغیرہ تو مغرب کی دین ہے جوکہ اسلام کے سر از سر خلاف ہے بلاشبہ جمہوریت اور اس جیسی دیگر اقدار مغرب ہی کی دین ہیں لیکن کیا کبھی یہ بھی سوچا کہ ان اقدار کا تعلق ہماری مذہبی کتاب میں بھی ہے یا نہیں ؟ اصل میں ہمارے ہاں تو قرآن اب تک صرف بریانی کی دیگوں پر  پھونکنے  کا ہی ذریعہ ہے، یا پھر مرد اور عورت کو آپس میں باندھنے کیلئے چار آیتیں پڑھنے کا نام، یا پھر جاں بلب پر بوقتِ نزع پڑھ پڑھ کے پھونکنے کا نام، غالباً اس  قسم کے اسلام کا تذکرہ  امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد نے اپنے  ایک جریدے  الہلال میں  کیا تھا”دنیا کو ایسے مذہب کی کیا ضرورت ہے جو صرف خطبہ نکاح میں چند آیتیں پڑھ دینے یا بسترِ نزع پر سورہ یٰسین کو دہرا دینے کیلئے کار آمد ہوسکتا ہے(الہلال صفحہ 6 مورخہ 9 اکتوبر 1912ء)،

 

                   قرآن اور جمہوریت

 

وَ اَمْرُهُمْ شُوْرٰی بَیْنَهُمْ ( سورہ شوریٰ آیت 38) ترجمہ: اور اُن (اہلِ اسلام ) کا   ہر کام آپس کے مشورے سے ہوتا ہے(مولانا محمد جونا گڑھی) جمہوریت اور کیا ہے؟ رائے عامہ ہی تو ہے نا؟ اگر جمہوریت رائے عامہ ہی ہے تو پھر اتنا شور کس بات کا؟ ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ ہر انسان کو اُس کی رائے کا حق دیا جائے اگر قرآن بھی یہی بات کر رہا ہے تو پھر ہماری اور قرآن کی بات میں اختلاف کہاں ہے؟ جب قرآن ہی جمہوریت کی بات کر رہا ہے تو پھر جمہوریت پر عتاب کس بات کا؟  نہیں ہونا چاہئے مغرب اگر آج جمہوریت کی بات کر رہا ہے تو قرآن نے تو چودہ سو سال پہلے یہ اُصول بیان کر دیا تھا پھر نزع کی گنجائش کہاں سے پیدا ہو گئی؟ اصل میں دین فروش کبھی بھی یہ نہیں چاہیں گے کہ مذہب پر اُن کی اُجارہ داری ختم ہو جائے اور اُن کا سارا کاروبار ٹھپ ہو جائے، اس لئے اپنا پیٹ بچانے کیلئے قرآن کو عوام کی پہنچ سے دور رکھ دیا جائے تاکہ نہ رہے گا بانس اور نہ بجے گی بانسری، جب قرآن کو سمجھنے والے ہی نہیں ہوں گے تو پھر دین فروش سے برسرِ پیکار کون ہو گا جب دین فروشوں سے مزاحمت کرنے والے ناپید ہو جائیں گے تو پھر معاشرہ نت نئے دین فروش پیدا کرنے میں خود کفیل ہوتا جائے گا

 

                   قرآن اور سیکولرازم

 

لَکُم دِینُکُم وَلِیَ دِینِ (سورہ کافرون آیت 6) ترجمہ: تمہارے لئے تمہارا دین اور میرے لئے میرا دین ہے (مولانا محمد  جونا گڑھی) سیکولرسٹیٹ میں اور کیا ہوتا ہے؟ یہی بنیادی اُصول ہوتا ہے نا کہ ہر کسی کو اپنے دین پر عمل کرنے کی مکمل آزادی حاصل ہے، ریاست میں اقلیت کا کوئی تصور نہیں ہوتا، کسی بھی انسان کو اس لئے حقیر نہیں سمجھا جاتا کہ وہ ریاستی مذہب کا حامل نہیں ہے، کسی بھی سیکولر سٹیٹ میں یہ بربریت نہیں ہوتی کہ غیر مسلم السلام علیکم کہہ دے تو اُسے جیل بھیج دیا جائے، جرنل ضیاء کے سیاہ دور میں اقلیتی گروہ احمدیوں کے ساتھ جو بدترین تاریخی سلوک روا رکھا گیا اُس کی مثال پچھلے چودہ سو سالوں میں نہیں ملتی، جرنل ضیاء کے دور میں احمدیوں کے خلاف درج کئے گئے مقدمات کی تحقیق کرنے کے بعد معلوم ہوا کہ درجنوں مقدمات کے مندرجات کچھ ہوں تھے کہ میں نے فلاں قادیانی کو کلمہ پڑھتے ہوئے دیکھا، میں نے فلاں قادیانی کو السلام علیکم پڑھتے ہوئے سنا، ان جیسے کئی ایک مقدمات کی تفصیلات ہمیں ریاست کے ایک قانونی  ادارے کے ذمہ دار آفیسر نے نام صیغہ راز میں رکھنے اور حوالہ نہ دینے کی شرط پر مہیا کیں، میں اگر کسی شخص کو کافر سمجھتا ہوں تو مجھے یہ حق حاصل ہے لیکن یہ کہ وہ شخص اب کافر بن کے مجھے دکھائے یہ حق قطعاً مجھے حاصل نہیں، احمدیوں (قادیانیوں ) کو سرکاری طور غیر مسلم قرار دینے کے بعد اہلِ ریاست کی مذہبی اور  سیاسی ذمہ داری پوری ہو چکی تھی اس کے بعد اب اُن کواقلیت کی بنیاد پر ملک کے شہری ہونے کے ناتے تمام حقوق مہیا کرنا ریاست کی اولین ذمہ داریوں میں سے تھا، لیکن افسوس کی بات یہ کہ ایسا تو نہ ہوسکا اُلٹا اہلِ ریاست نے اُن کا جینا محال کر دیا، کیا سرکاری مسلمان اور  خود ساختہ اسلام کے ہیرو قرآن کا یہ زریں  اُصول بھول گئے تھے؟

وَ لَا یَجْرِمَنَّكُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلی اَلَّا تَعْدِلُوْا  اِعْدِلُوْا  هُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی (سورہ مائدہ آیت 8) ترجمہ: کسی قوم کی عداوت تمہیں خلافِ عدل پر آمادہ نہ کرے، عدل کیا کرو جو پرہیز گاری کے زیادہ قریب ہے(مولانا محمد جونا گڑھی)، اہلِ مغرب  نے سیکولر نظریہ کا کی بات آج کی ہے جبکہ قرآن  نیسیکولرازم کا اُصول چودہ سو سال پہلے بتا دیا تھا، ایک سیکولر سٹیٹ میں ہر انسان کو اپنی مرضی کا دین اختیار کرنے کی پوری پوری آزادی ہوتی ہے اور یہی بات دوسرے لفظوں میں قرآن کہہ رہا ہے

 

                   قرآن اور سوشلزم

 

وَ?َس??َلُونَ?َ مَاذَا ?ُنفِقُونَ قُلِ ال?عَف?وَ ? (سورہ بقرہ آیت 219) ترجمہ: آپ سے یہ بھی دریافت کرتے ہیں کہ کیا کچھ خرچ کریں ؟ تو آپ کہہ دیجئے حاجت سے زائد چیز ( مولانا محمد جونا گڑھی) سوشلزم اور کیا ہے، یہی ہے کہ ضرورت سے زائد  کو معاشرہ کیلئے کھلا چھوڑ دیا جائے، اس میں دھن دولت کے علاوہ ہر چیز شامل ہے، کسی بھی انسان کو اپنی حاجت سے زائد مال رکھنے کی اجازت نہیں، ضرورت سے زائد مال ریاست کے تحویل میں ہو گا جس کو ریاست تمام مستحق شہریوں تک پہنچائے گے وہ لوگ جو کام نہیں کرسکتے، معاشرے کا معذور طبقہ اور  وہ عمر رسیدہ افراد جو کسبِ معاش کی سکت نہیں رکھتے  اُن کی بنیادی  ضروریات کو پورا کیا جائے، دھن کے بنیادی ماخذ زمین، جنگلات، معدنیات، بینک، کارخانے اور فیکٹریاں ہیں جن پر تمام انسانوں کامساوی حق ہے، انسان کو صرف اپنی ضرورت کے مطابق  اپنے پاس رکھنا چاہئے، ضرورت سے زائد کو ریاست کے سپرد کرنا دراصل سوشلزم کہلاتا ہے، ضرورت کا تعین ریاست ہی کرے گی، اس نظام کو مزید بہتر بنایا جا سکتا ہے، قرآن میں اس نظام کا ایک بنیادی اُصول بیان کر دیا گیا ہے، چنانچہ اس اُصول پر نظم کا اہتمام مشاورت سے عوام کی صوابدید پر مبنی ہے  ۔

٭٭٭

تشکر: مصنف جنہوں نے فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید