FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی اور علمائے دیوبند کا کردار

 

ہندوستان میں انگریز کی آمد و قبضہ

انکار خدا بھی کر بیٹھو انکار محمد بھی لیکن

جانباز تماشہ دیکھیں گے محشر میں نافرمانوں کا

قلم اور زبان سے نکلے ہوئے الفاظ، تاریخ کو جنم دیتے ہیں، قومیں جب حقوق کی میز پر آمنے سامنے بیٹھتیں ہیں تو وہاں ووٹ نہیں، لاشیں شمار کی جاتی ہیں۔ جس قوم کی لاشیں اپنے حقوق کے حصول میں زیادہ ہوں گی وہی ہر اول دستہ کہلائے گی۔ ہندوستان میں فرنگی سامراج کے خلاف جد و جہد آزادی میں پہل کی تو مسلمانوں نے۔ انگریز کے خلاف عسکری جنگ لڑی تو مسلمانوں نے۔ تو پوں کے دہانوں کے ساتھ باندھ کر اڑائے گئے تو مسلمان۔ پھانسی کے تختے پر انقلاب زندہ باد کہا تو مسلمانوں نے۔ جزائر انڈیمان کو آباد کیا تو انگریز کے باغی مسلمانوں نے۔

ایسٹ انڈیا کمپنی کا قیام

گزرے زمانے کا یہ محاورہ کہ زن ،زمین اور زر بناء فساد ہیں، سرمایہ دار کسی رنگ و روپ کا ہو، ہمیشہ اپنے نفع کی سوچتا ہے، قصہ در اصل یوں شروع ہوا کہ ہالینڈ کے سوداگروں نے ایک پونڈ گرم مصالحہ کی قیمت میں پانچ شلنگ کا اضافہ کرد یا۔تو لندن کے دو درجن تاجر سیخ پا ہو گئے، انہوں نے ایک تجارتی کمپنی بنانے کا فیصلہ کیا، اس کمپنی کا نام ایسٹ انڈیا ٹریڈنگ کمپنی رکھا گیا (برطانیہ) کی ملکہ الزبتھ نے ایسٹ انڈیا کمپنی کو شاہی پروانہ عطا کیا، اس کے بعد کمپنی کے ارکان نے بحری سفر کے ذریعے مختلف مقامات پر اپنے کو کارو باری انداز اور طریق سے منظم کرنا شروع کیا،چنانچہ سب سے پہلی بار کپتان ولیم باکنس ایک جہاز کے ذریعے سورت کی بندرگاہ میں داخل ہوا اور ہندوستان میں آ پہنچا۔ ۱۴۱۵ یا ۱۴۰۹ھ میں سر تھامسن راؤ جہانگیر کے دربار میں حاضر ہوا اور ایک درخواست کے ذریعے شہنشاہ سے کاروباری رعائتیں حاصل کر لیں اور ساتھ ہی اس کو (علاقہ) سورت میں ایک کوٹھی بنانے کی اجازت بھی مل گئی۔ یہ ہے وہ گھڑی جب تجارت کے بہانے انگریز کے ناپاک قدم ہندوستان میں آئے۔ یہ قدم پھر ایسے جمے کہ تین سو سال تک اس ملک کی تمام بہاریں غیر ملکی لوٹتے رہے اور جب یہ رخصت ہوئے تو سارا ہندوستان خزاں کی ایسی زد میں تھا کہ پھر اس پر کبھی بہار نہ آئی۔ غیر ملکی سوداگروں نے آہستہ آہستہ اپنے پاؤں ہندوستان میں پھیلانے شروع کئے۔ آج یہاں، کل وہاں، پرسوں ذرا آگے۔ پہلے سورت میں کوٹھی بنائی پھر بڑھوچ، پھر آگرہ پھر دریائے ہگلی پار کر کے کلکتہ کو اپنا مرکز قرار دے لیا۔‘‘ آگ لینے آئی گھر کی مالک بن بیٹھی‘‘ مغل سلطنت کے زوال میں رعایا کو مجرم قرار نہیں دیا جا سکتا، بلکہ یہ گھر اپنے ہی چراغوں سے جل کر راکھ ہو گیا۔ مسلمان بادشاہ جنہیں قریباً ہزار سال ہندوستان میں استحکام حاصل رہا، جب سرنگوں ہوا تو اس کی فرد جرم پر غیروں کے دستخط نہیں تھے، بلکہ اپنا ہی خون تھا جو محلات کی اندرونی رقابتوں اور سازشوں سے اسے بہا کر لے گیا۔ جو قوم مغل شہنشاہوں کے آستانوں پر تجارت کی بھیک مانگنے آتی تھی، جب وہ آستانے اجڑ گئے، جب بھیک دینے والے ہاتھ خود محتاج ہو گئے اور لال قلع کے باشی شاہ جہاں کی مسجد کی سیڑھیوں پر بیٹھ کر بھیک مانگنے لگ پڑے تو پھر غیر ملکی تاجروں نے اپنے بھنڈار کھول دیئے، جیسے جیسے ان کے قدم بڑھتے گئے، ہندوستان کی آزادی سمٹ کر ان کے قدموں میں ڈھیر ہوتی گئی ۔

اورنگ زیب عالم گیر کی وفات

اورنگ زیب عالم گیر کی وفات کے بعد ہندوستان کے مختلف علاقوں میں چھوٹی چھوٹی ریاستیں قائم ہوئیں، اسی ابتری کے دور میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے اپنے پاؤں پھیلانے شروع کر دیئے، ان کے ساتھ دوسری کاروباری قومیں بھی حصولِ اقتدار میں ہاتھ پاؤں مارنے لگیں۔ یہاں تک کہ ملک کے مختلف حصوں میں صوبہ خود مختاری کے اعلانات ہونے لگے، اس افرا تفری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کمپنی نے نوابوں اور راجاؤں سے گٹھ جوڑ شروع کر دیئے۔عالم گیر نے مرشد قلی خان کو بنگال کا نواب ناظم مقرر کیا ہوا تھا، مگر عالم گیر کی محنت کے بعد یہی صوبہ دار، عملی طور پر فرمانروا بن بیٹھا، ابھی پوری طرح سنبھلا نہ تھا کہ بہار کے حاکم، علی وردی خان نے بنگال کو فتح کر لیا، یہ اس علاقے کے لئے بہترین حاکم ثابت ہوا۔ ۱۷۵۶ء میں علی وردی خان کا انتقال ہو گیا، اس کی عنانِ اقتدار اس کے نواسے سراج الدولہ نے سنبھال لی، مرنے سے قبل سراج الدولہ کو وصیت کی کہ مغربی اقوام کی اس قوت کو ہمیشہ پیشِ نظر رکھنا جو انہیں ہندوستان میں حاصل ہو چکی ہے۔ سراج الدولہ اپنے خاندان میں اَن گنت صلاحیتوں کا مالک تھا، لیکن تخت سنبھالتے ہی اسے پہلے اپنے خاندان سے نمٹنا پڑا، اپنی چچی بیگم گھسیٹی اور چچازاد بھائی شوکت سے جنگ آزما ہوا، اندرون خانہ مارِ آستین (دوست نما دشمن) بنے ہوئے تھے، ان کو ٹھکانے لگایا تو اصل دشمن کا پتہ چلا کہ اندر خانے یہ ساری گیم تو انگریز کھیل رہا ہے، اس دوران انگریزوں نے کلکتہ میں تعمیر کردہ اپنا قلعہ فورٹ ولیم کو مزید مضبوط کرنا شروع کرد یا، نواب نے انگریزوں سے قلعہ کی واپسی کا مطالبہ کیا تو انہوں نے انکار کرد یا، اس پر سراج الدولہ نے غصہ میں آ کر انگریزوں پر حملہ کر کے کلکتہ ان سے چھین لیا۔

سراج الدولہ کی شہادت، انگریز کا پہلا باغی مسلمان

لیکن اس کامیابی کی عمر، دیر پا ثابت نہ ہوئی جیسے ہی مدراس میں یہ خبر پہنچی کہ کلکتہ انگریزوں سے چھن گیا ہے، اس کے ساتھ ہی انگریز افواج کے سپہ سالار کلائیو نے مدراس سے کلکتہ پہنچ کر خفیہ طور پر نواب کی فوج کے سپہ سالار میر جعفر سے ایک خفیہ معاہدہ طے کیا۔

جنگ پلاسی

مذکورہ بالا سازشی معاہدے کے بعد ۲۳/ جون ۱۷۵۷ء کو نواب سراج الدولہ اور انگریز کے درمیان پلاسی کے میدان میں جنگ ہوئی، اس موقع پر میر جعفر نے غداری کی کہ اپنی فوجوں کو عین وقت پر میدان میں جانے سے روک دیا، ۲۹/ جون ۱۷۵۷ء کو انہیں کے اہل کاروں کی سازش اور سپہ سالار میر جعفر کی غداری سے انگریزوں کے اس بہت بڑے دشمن کو شہید کرد یا گیا، اس کامیابی نے بنگال کو مکمل طور پر انگریزوں کے ہاتھ میں دے دیا، اس جنگ کی کامیابی نے کمپنی کے خاص تجارتی دور کا خاتمہ کیا اور ایک وسیع خطۂ ملک ہاتھ آ جانے سے تجارت کے ساتھ حکومت کا دور شروع ہوا، انگریزوں کے مقابلے میں یہ مسلمانوں کی پہلی شکست تھی، اس شکست سے ہندوستان کا ایک بڑا محاذ ختم ہو گیا۔

رو ہلکھنڈ کا نواب حافظ رحمت خان

روہلکھنڈ کا علاقہ اودھ کے شمال مغرب میں ایک خوشحال اور سرسبز علاقہ تھا، یہاں روہلوں کی مختصر ایک مخصوص ریاست تھی، حافظ رحمت خان اس قبیلے کا سردار تھا، وہ پانچ ہزار علماء کرام کو ملکی خزانے سے وظیفے اور تنخواہیں دیتا تھا، طلباء کے اخراجات کی خود کفالت کرتا تھا، اس نے دیہات اور قصبات میں مسجدیں بنوائیں اور ان میں باقاعدہ خطیب اور خادم مقرر کئے۔ اورنگ زیب عالم گیر کی وفات کے بعد ہندوستان کے مختلف علاقوں میں جو چھوٹی چھوٹی ریاستیں قائم ہوئیں، روہلکھنڈ کی ریاست انہیں میں شمار ہوتی تھی، نواب وزیر خان والیِ اودھ سے مل کر انگریز نے حافظ رحمت خان سے جنگ کی۔ اس لڑائی میں تیس ہزار کے قریب روہیلے مارے گئے، ان کے علاوہ حافظ رحمت خان اور ان کے تینوں بیٹے بھی اس میدان میں کام آئے۔ اس شہر یعنی بریلی پر انگریز کا تسلط ہو گیا۔

غداری کا انجام

اسلام کی اجتماعی زندگی میں شہید اور غدار، دو لفظ اس قدر وزن رکھتے ہیں کہ ان کا انکار مسلمانوں کے لئے خصوصیت سے ناواجب قرار دیا گیا ہے، لیکن رواں دور میں یہ الفاظ کم و بیش اپنا وقار کھو چکے ہیں۔ ایک بدمعاش دوسرے بدقماش کو قتل کر دے تو مقتول کے ہمنوا اسے شہید کا درجہ دے دیتے ہیں، کسی کی بہو، بیٹی کے اغوأ میں کوئی مارا جائے تو اس کے وارث بھی مرنے والے کو شہید کہہ کر پکارنے لگتے ہیں، اگر دو جواری باہم رقابت میں لڑکر مارے جائیں تو ان کے ماننے والے انہیں بھی شہید فی سبیل اللہ کہتے ہیں۔ اسی طرح لفظ غدار بھی مذاق بن کر رہ گیا ہے اور ہلکے پن کا یہ عالم ہے کہ محض رائے سے اختلاف کی بناء پر غدار کا خطاب دے دیا جاتاہے۔ غدار کسی بھی لباس میں ہو جب اپنے انجام کو پہنچتا ہے تو قوموں کے مستقبل میں عبرت کا نشان چھوڑ جاتاہے ۔ چنانچہ میر جعفر نے سراج الدولہ اور وطن عزیز سے جو غداری کی، اس کے انگریز آقاؤں نے اسے بہت جلد اس کی سزادے دی کہ اسے نا اہل قرار دے کر اس کی جگہ اس کے داماد میر قاسم کو بنگال کا نواب مقرر کرد یا۔ میر قاسم نے برسراقتدار آ کر‘‘ مدنا پور‘‘ اور چٹاگانگ کے اضلاع کمپنی بہادر یعنی انگریزوں کے حوالے کرد یئے اور وہ بغیر محصول ادا کئے ذاتی طور پر تجارت کرنے لگے۔ حکومت کو آمدنی میں خسارہ ہونے لگا، جس پر اودھ کے نواب شجاع الدولہ اور شہنشاہ شاہ عالم ثانی کی مدد سے میر قاسم نے انگریزوں سے جنگ کی، یہ جنگ ‘‘بکسر‘‘ کے مقام پر ہوئی، اس لڑائی میں انگریزوں کو کامیابی ہوئی، جنگ ختم ہونے پر ایک معاہدہ طے پایا، تاریخ میں یہ معاہدہ الٰہ آباد کے نام سے مشہور ہے۔ ۱۷۶۵ء میں یہ معاہدہ (انگریز) کلائیو اور نواب شجاع الدولہ اور شاہ عالم کے درمیان طے پایا تھا، اس کی رو سے باد شاہ دہلی (شاہ عالم ثانی) کی طرف سے ایسٹ انڈیا کمپنی کو بنگال، بہار ، اڑیسہ کا دیوان ( حاکم) مقرر کرد یا یعنی کمپنی ان اضلاع سے مال گزاری (زمین کا محصول مالیہ وغیرہ) وصول کرسکتی ہے، اگر اس معاہدہ کو ہندوستان کی غلامی کی ابتداء کہا جائے تو درست ہو گا۔ شاہ عالم ثانی نے انگریزوں کی اطاعت قبول کر لی اور وہ انگریزوں کا وظیفہ خور ہو گیا۔ بادشاہ پورے دس برس بعدالٰہ آباد سے دہلی آیا، وہ یہاں آ کر نئے فتنوں، امراء کے جوڑ توڑ، روہیلوں کی نئی طاقت اور سکھوں کے حملوں سے دوچار ہوا۔ بالآخر نجیب الدولہ کے پوتے غلام قادر روہیلہ نے ۱۷۸۸ء میں دہلی پر قبضہ کر لیا، شاہی محل لوٹا، شہزادیوں کو کوڑے لگوائے اور سلطنت تیموری کے وارث مغل شہنشاہ کی آنکھیں نوک خنجر سے نکالیں۔ ۱۷۸۹ء میں سندھیہ (مرہٹہ) نے غلام قادر کو بڑے دردناک طریقہ پر قتل کیا اور شاہ عالم کو دوبارہ تخت پر بٹھایا۔

ٹیپوسلطان کی شہادت

میسور کی ہندو ریاست کا دلیر سپہ سالار حیدر علی (راجہ کے کمزور ہو جانے پر) ۱۷۶۱ء میں میسور ریاست کا سربراہ بنا دیا گیا، اس نے ۲۲ سال حکومت کر کے ریاست کی شیرازہ بندی کی، اپنے بیٹے فتح علی کو اپنا جانشین بنا کر ۱۷۸۳ء میں وفات پاگیا۔

فتح علی عرف ٹیپو سلطان

۱۷۸۳ء تا ۱۷۹۹ء فتح علی (عرف ٹیپو سلطان) نے اقتدار سنبھالا، اس وقت یہ دور ہندوستان میں انتشار کا دور تھا۔

‘‘ چراغ بے داغ ہو تو آئینے کی شہادت کی ضرورت نہیں پڑتی، ضمیر زندہ ہو تو کسی پر بد اعتماد ہونے کو جی نہیں چاہتا ‘‘۔

میر صادق اور ایک ہندو وزیر سب سے پہلے اپنے آقا کے قتل میں انگریز کے آلہ کار بنے۔ سلطان کا گھڑ سوار فوج کا کور کمانڈر بدر الزمان انگریز سے جاگیر کے لالچ میں سودا کرچکا تھا، انگریزوں نے وزیر اعظم میر صادق اور کئی امراء کو ملا لیا اور ریاست پر بڑی فوج سے حملہ کرد یا۔ ٹیپو سلطان قلعہ میں محفوظ تھا، مگر غداروں نے دروازہ کھول دیا، انگریزی فوج قلعہ میں گھس آئی، ٹیپو سلطان بڑی دلیری سے لڑتا ہوا شہید ہوا، سلطان کی شہادت کے بعد انگریز نے قلعہ اور محلات پر قبضہ کر لیا، سلطان کا جھنڈا اتار کر انگریز نے اپنا جھنڈا لہر ادیا، اس کے بعد ایک جنرل نے کہا:

‘‘ آج ہندوستان کی آخری کڑی بھی ٹوٹ گئی، اب دنیا کی کوئی طاقت ہندوستان کو ہماری غلامی سے نہیں بچا سکتی‘‘۔

ٹیپو سلطان کی وصیت

میں خوش ہوں کہ ایک کافر کے مقابلے میں لڑ کر خدا کے راستے میں جان دے رہا ہوں، خدا کا شکر ہے کہ میں فرنگی فوج کو مارتے مارتے جان دے رہا ہوں، کاش! کوئی میرے بعد ان فرنگیوں کو ہندوستان سے نکال بھگائے۔ اس وقت تک میری روح کو قبر میں چین نہیں آئے گا، جب تک ہندوستان کی سرزمین فرنگیوں سے پاک نہ ہو جائے۔

دہلی پر انگریزوں کا قبضہ

۱۸۰۳ء میں لارڈ لیک انگریزی فوج کے ساتھ دہلی میں داخل ہوا، مرہٹوں کو نکال دیا اور بادشاہ کی پنشن ایک لاکھ روپیہ سالانہ مقرر کرد ی۔

ہندوستان دار الحرب ہے کا فتویٰ

انگریز کی بظاہر پالیسی رہی کہ بادشاہ دہلی کو تخت و تاج کے ساتھ جوں کا توں رہنے دیا گیا، لیکن ملکی اختیارات تمام کے تمام ایسٹ انڈیا کمپنی کے لئے تسلیم کرا لئے گئے، اس طرح یہ اعلان ہونے لگا:

‘‘ خلق خدا کی، ملک بادشاہ سلامت کا، اور حکم کمپنی (یعنی انگریز) بہادر کا‘‘۔

ان مشکل تر لمحوں میں حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلیؒ  کے بڑے صاحبزادے حضرت شاہ عبد العزیزؒ  نے ہندوستان کو دار الحرب ہونے کا فتویٰ دے دیا ، شاہ عالم ثانی ۴۵ برس تخت نشین اور ۱۸ سال نابینا رہ کر ۱۸۰۶ء میں راہی ملک بقا ہوا۔

سندھ پر انگریزوں کا قبضہ

شاہ افغانستان، شاہ شجاع کے زمانہ میں انگریز ، رنجیت سنگھ اور شاہ شجاع کے درمیان ایک معاہدے پر دستخط ہوئے، اس معاہدے کی روسے کشمیر ، پشاور اور ملتان پر رنجیت سنگھ کا قبضہ تسلیم کر لیا گیا، جس کے بدلے رنجیت سنگھ نے سندھ سے دستبردار ہونے کا فیصلہ کر لیا، اس طرح سندھ کابل کا ایک صوبہ قرار پایا، اب کابل پر انگریز کی کٹھ پتلی حکومت قائم تھی، سندھ پر قبضہ کرنے میں اب انگریز کے راستے میں کوئی دوسری دیوار نہیں تھی، یہ زمانہ سندھ پر تالپور خاندان کی حکمرانی کا تھا، انگریز نے امیر سندھ کو رنجیت سنگھ کے حملے کا خوف دلا کر سندھ کو اپنی نگرانی میں لے لیا، جب تالپور خاندان کا میر پور میں تخت نشینی کا تنازع شروع ہوا تو انگریز نے میر علی مراد کے حق میں فیصلہ دے دیا، نئے امیر نے خراج کے بدلے سندھ کے اہم علاقے انگریز کمپنی کے حوالے کر دیئے ۔ مختصر یہ کہ انگریزوں نے مارچ ۱۸۴۳ء کو میر پور پر قبضہ کر لیا اور اگست ۱۸۴۳ء کو امیر سندھ کو جلا وطن کر کے پورے سندھ کا الحاق اپنے ساتھ کر لیا۔

پنجاب میں انگریزوں کی آمد

سندھ کے بعد جب انگریز کی نظر یں پانچ دریاؤں کے اس خوبصورت خطہ ارض پر پڑیں تو اس وقت رنجیت سنگھ اس کی بہاریں لوٹ رہا تھا، پنجاب کا یہ سکھ حاکم ان پڑھ ہونے پر بھی بڑا زیرک اور معاملہ فہم حکمران تھا۔ ۱۸۳۹ء کو رنجیت سنگھ کا انتقال ہو گیا، پنجاب کے اس سکھ حکمران کو شیرِ پنجاب کا خطاب دیا گیا، رنجیت سنگھ کے بعد ہرسکھ سردار نے وہ فتور مچایا کہ پنجاب تباہ ہو کر رہ گیا، رنجیت سنگھ کے کئی بیٹوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ بالآخر رنجیت سنگھ کا نابالغ بیٹا دلیپ سنگھ گدی نشین ہوا۔ اس کی والدہ رانی (المعروف جنداں) اپنے چہیتے لال سنگھ سمیت، راج کی سربراہ بن گئی، اندرونی خلفشار رک نہ سکا۔ دسمبر ۱۸۴۵ء میں سکھ اور انگریزوں کے درمیان جنگ شروع ہو گئی،سکھوں کو شکست اٹھانا پڑی، صلح نامہ لاہور کے نام سے معاہدہ ہوا، ستلج اور بیاج کے علاقے انگریز سلطنت میں شامل کر لئے گئے، بالآخر مارچ ۱۸۴۹ء میں لارڈ لہوزی نے پنجاب کو اپنی قلمرو (عملداری) میں شامل کر لیا، رنجیت سنگھ کے بیٹے دلیپ سنگھ کو پنشن دے کر لندن بھیج دیا، وہاں اس نے عیسائی مذہب قبول کر لیا۔

جنگ آزادی اور علماء دیوبند کا کردار

تعبیر پاکستان کے مصنف: ایس ایم شاہد شعبہ تعلیم، استاذ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی، اسلام آباد ص:۶۰پر تحریر فرماتے ہیں کہ:

‘‘(شاہ عالم ثانی) کی وفات کے بعد اس کے بقید حیات لڑکوں میں جو سب سے بڑا لڑکا تھا وہ تخت نشین ۱۸۰۶ء میں ہوا۔ اس نے اپنا لقب اکبر شاہ ثانی اختیار کیا، ۱۸۳۷ء میں جب اس کا انتقال ہوا تو مرزا عبد المظفرسراج الدین محمد اس کے جانشین کی حیثیت سے بہادر شاہ کا لقب اختیار کر کے تخت نشین ہوا۔ بہادر شاہ آخری مغل تاج دار تھا، چنانچہ مغلیہ سلطنت ایک ظاہری اور نمائشی سلطنت کے روپ میں ۱۸۵۷ء تک چلتی رہی، سلطنت مغلیہ کا شیرازہ پوری طرح بکھر گیا تھا، زوال پذیر دور میں روشنی کی کچھ کرنیں اگر نظر آرہی تھیں تو وہ محض شاہ ولی اللہ دہلویؒ  ان کے صاحبزادے شاہ عبد العزیزؒ  اور ان کے پوتے مولانا شاہ اسماعیلؒ  کی تحریکات: ‘‘تطہیر‘‘ اور‘‘ اصلاح‘‘ تھیں اور سید احمد بریلوی کا بہادرانہ اور سرفروشانہ مقابلہ تھا۔‘‘

بر صغیر پاک و ہند کی سیاست میں علماء کا کردار

۱۹۴۵ء تک کے مصنف ڈاکٹر ایچ، بی خان ص:۲۲ پر تحریر کرتے ہیں:

۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں اہل ہند نے ملک سے بیرونی طاقت کے اخراج اور حصولِ آزادی کے لئے جد و جہد کی تھی، عہد برطانیہ سے ملکی اور غیر ملکی مؤرخین اس جنگ کو بغاوت کے نام سے موسوم کرتے چلے آئے ہیں جو ایک تاریخی غلطی ہے۔ جنگ آزادی کے علل واسباب متنوع بھی ہیں اور مختلف فیہ بھی۔ ان پر مؤرخین نے بالتفصیل بحث بھی کی ہے، یہاں موضوع کی مناسبت سے ہم صرف مذہبی وجوہات سے مختصر بحث کر رہے ہیں:

الف:- مغل تاجدار سے کمپنی نے عہد کیا تھا کہ ہم قضات (یعنی قاضی) کا عہدہ برقرار رکھیں گے۔ ابتداء میں اس عہد پر عمل ہوتا رہا، مگر جیسے جیسے انگریزوں کا اقتدار و غلبہ مضبوط ہوتا گیا ویسے ویسے اس عہد میں کمزوری اور لچک پیدا ہوتی گئی، تا آں کہ ۱۸۶۵ء میں قضات کو ختم کرد یا۔

ب:- ایک برطانوی مؤرخ مسٹر لڈلو اور ایک دوسرے مؤرخ پروفیسر ماکس اور تیسرے برطانوی باشندے نے علیحدہ علیحدہ بیان کیا ہے کہ جب سے ہم نے دیسی طریقہ تعلیم کو ختم کیا ہے، تب سے ہندوستانی بے علم ہوتے جا رہے ہیں، مسٹر نے سرکاری کاغذات کے حوالے سے لکھا ہے کہ:

‘‘برطانیہ سے قبل بنگال میں اسی ہزار دیسی مدارس تھے۔ نیز کیپٹن نے اپنے سفرنامہ میں لکھا ہے کہ: شہر ٹھٹھ میں عالم گیر اورنگ زیب کے زمانہ میں چار سو کالج مختلف علوم و فنون کے تھے‘‘۔

ج:- عہد سلطنت دہلی و عہد مغل میں معلمین اور متعلمین کے لئے وظائف اور عطیات دیئے جاتے تھے۔ نیز اوقاف کی آمدنی سے مدرسین و طلباء کی مستقلاً مالی اعانت کا اہتمام تھا، ۱۸۳۵ء میں اوقاف کی ضبطی سے یہ مدارس تباہ و برباد ہو گئے۔

د:- کمپنی نے شروع عملداری سے ہی پادریوں کی سرپرستی کی، ان پادریوں نے مختلف طریقوں سے زر کثیر صرف کر کے لوگوں کو مرتد بنانا شروع کیا، چنانچہ لوگوں کو خدشہ ہوا کہ ہمارا دین و مذہب بھی محفوظ نہ رہ سکے گا۔

جانباز مرزا تحریر فرماتے ہیں:

‘‘ مہمان بن کر آنے والے جب حاکم بن بیٹھے تو اپنے تخت پر اس قدر اتراتے کہ ابلیس کے ہم دوش ہو کر انسان کو غلام بنا کر بھی ان سے حیوانوں کا سا برتاؤ کرنے لگے، عوام نئے حاکموں سے دست و گریبان ہونے کے بہانے تلاش کرنے لگی‘‘ ۔

حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ  کا فتویٰ مسلم عوام کے دلوں میں جہاد کی آگ روشن کر چکا تھا، ہندو عیسائی پادر یوں کے طریق تبلیغ سے دھرم کی رسوائی دیکھ رہے تھے، انسان ہونے کے ناطے سے بھی انگریزوں کا برتاؤ رعایا سے ظالمانہ تھا، انگریزوں کے قدم جمنے لگے تو فوجیوں کے لئے ایسے احکام جاری کئے جو کسی طرح بھی ان کے لئے پسندیدہ نہیں تھے۔ مثلاً :دیسی ، سپاہی جب فوجی لباس میں ہوں تو ماتھے پر تلک نہ لگائیں اور نہ ان کے کانوں میں بالیاں ہوں، سپاہیوں کو چاہئے کہ اپنی ڈاڑھیاں منڈوایا کریں، پگڑی کی جگہ ٹوپی استعمال کریں۔ ان احکام سے قدرتی طور پر اس خیال کو اور تقویت ملی کہ انگریز ہندوستانیوں کی وضع قطع، رسم و رواج اور طور طریقوں میں دخل اندازی کر کے ان کے مذہب کو خراب کرنا چاہتے ہیں۔

چربی کے کارتوس

۱۸۵۳ء میں انگلستان سے ایک خاص قسم کے کارتوس کا ذخیرہ ہندوستانی فوج کے استعمال کے لئے بھیجا گیا، ان کا رتوسوں میں سور کی چربی استعمال کی گئی تھی، چربی والے کارتوس کو دانتوں سے کاٹنا پڑتا تھا، کارتوسوں میں سور اور گائے کی چربی قصداً اس لئے استعمال کی گئی کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کا مذہب خراب کیا جائے ،ہندوؤں کو تو گائے کی جھلی کا اشتباہ واقع ہوا اور اہل اسلام کو سور کی جھلی کا۔ چنانچہ ایک دن ایسا ہوا کہ کلکتہ میں ایک فرنگی سپاہی نے ایک برہمن ذات کے فوجی سپاہی سے پانی طلب کیا، اس پر برہمن نے کہا: تم ملیچھ (نجس) ہو، میں تمہیں پانی نہیں دوں گا، میرا دھرم مجھے ایسا کرنے سے منع کرتا ہے۔ فرنگی سپاہی نے طنزاً کہا: اس وقت تمہارا دھرم کیا رہ جائے گا جب تمہیں گائے اور سور کی چربی کے کارتوس استعمال کرنے پڑیں گے۔ یہ جنوری ۱۸۵۷ء کا واقعہ ہے۔ اس خبر سے کلکتہ کی فوج میں اشتعال ہوا تو میجر کوانا نے اس کو دبا دیا، البتہ یہ خبر پھیل کر بار کپور پہنچی تو وہاں کی فوج نے افسروں کی حکم عدولی کی، جس پر اس مذموم فضا میں بریلی کے کوچہ و بازار میں ایک اشتہار پایا گیا، جس کی عبارت تھی: ہندوؤ اور مسلمانو اٹھو ! اللہ تعالیٰ کی بخشی ہوئی نعمتوں سے آزادی سب سے بڑی نعمت ہے، کیا وہ ظالم شیطان جنہوں نے ہم سے آزادی چھین لی ہے، ہمیں ہمیشہ سے آزادی سے محروم رکھ سکتے ہیں؟ ہرگز ہرگز نہیں وغیرہ۔ چلتے چلتے اس قسم کے اشتہار ، دہلی، لکھنو، آگرہ، بنارس، الٰہ آباد، جھانسی، حیدر آباد دکن، کانپور اور مدراس تک جا پہنچے تھے، گو اشتہارات کی عبارت مختلف تھی، تاہم مفہوم ایک ہی تھا یعنی ہندو اور مسلمانوں کو اکسایا گیا تھا، کمپنی کی حکومت نے لاکھ کوشش کی کہ ان اشتہارات کے مصنف یا محرک کا پتہ لگ سکے، مگر تمام کوشش ناکام ثابت ہوئی ۔ دوسری طرف، پنڈت، مولوی، سنیاس ملک کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک پھیل کر انگریزوں کے خلاف انقلابی تقریریں کر رہے تھے، یہاں تک کہ مداری اور بھانڈ، پتلیا نچانے والے بھی اپنے کھیل تماشوں کے ذریعے تماشائیوں کو جنگ آزادی کا پیغام دے رہے تھے، لوگ بازاروں اور چوپالوں میں بیٹھ کر مولویوں کا وعظ سنتے، مسلمان قرآن پر ہاتھ رکھ کر اور ہندو گنگا جلی اٹھا کر قسمیں کھاتے کہ فرنگیوں کو اپنے دیس سے نکال کر دم لیں گے۔ اس دوران اندر خانے ایک اور تحریک رواں دواں تھی یعنی کاٹھ کی روئی اور کنول کا پھول دونوں ایک ساتھ لئے ہوئے دیہاتوں دیہات پھر کر کسانوں اور دیہاتیوں کو جنگ آزادی میں شمولیت کی دعوت دی جا رہی تھی، جس سے مراد یہ تھی کہ روئی کے حصول کے لئے پھول کی پتیوں کی طرح ایک ساتھ مل کر محبت اور پیار کی خوشبو ملک میں پیدا کریں اور غیر ملکیوں سے نجات حاصل کریں‘‘۔ (انگریز کے باغی مسلمان ص:۸۹ تا ۹۵) اس لئے تمام ہندوستانیوں نے عموماً اور مسلمانوں نے خصوصاً اس انقلاب ۱۸۵۷ء کو ضروری سمجھا اور مقرر کیا گیا کہ ۱۱/مئی یا ۳۱/ مئی کو تمام ہندوستان میں انقلابی کارروائی عمل میں لائی جائے اور عَلَم جہاد بلند کیا جائے، مگر افسوس کہ اس پر عمل نہ ہوا، بلکہ ۲۲/ مارچ کو مدم (صوبہ بنگال) میں منگل پانڈے کے ہاتھوں (دو ماہ پہلے) یہ آتشیں مادہ بھڑک اٹھا۔ ایک دن دوپہر کے وقت ایک فوجی سپاہی منگل پانڈے بندوق لئے پریڈ کے میدان میں آن کھڑا ہوا اور زور زور سے چلانے لگا۔ بھائیو! اٹھو اور مکار دشمنوں پر حملہ کر کے آزادی حاصل کر لو، اس کا یہ کہنا تھا کہ سارجنٹ میجر ہیجن نے اس کی گرفتاری کا حکم دے دیا، مگر اس حکم کی تعمیل کسی ہندوستانی سپاہی نے نہ کی۔ اتنے میں منگل پانڈ نے دین دین کا نعرہ لگا کر میجر ہیجن پر فائر کرد یا، جس سے وہ ہلاک ہو گیا، اتنے میں رجمنٹ کے ایڈجوانٹ لیفٹیننٹ باگو کو اس واقعہ کی اطلاع ملی اور وہ فوراً موقع پر پہنچا، وہ گھوڑے سے اترا ہی تھا کہ منگل پانڈے نے اس پر بھی گولی چلا دی، مگر نشانہ ٹھیک نہ بیٹھا، لیفٹیننٹ باگو نے فوراً تلوار سے کام لینا چاہا، مگر منگل پانڈے نے اسے فرصت نہ دی کہ اس پر فائر کرد یا جس سے وہ جہنم واصل ہوا۔ جنرل ہیرے انگریز سپاہیوں کی پلٹن کے ہمراہ موقع واردات پر پہنچ گیا، منگل پانڈے گرفتار ہوا، کورٹ مارشل ہوا اور ۸/اپریل ۱۸۵۷ء کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا، اس واقعہ نے دیسی سپاہیوں کو اس قدر مشتعل کرد یا کہ مئی ۱۸۵۷ء سے پہلے ہی ایکشن شروع ہو گیا۔ وہاں کی دو رجمنٹیں (۱۹) اور (۲۴) اپریل ختم ہونے سے قبل توڑ دی گئیں، جو آگ کلکتہ سے شروع ہوئی تھی وہ انبالہ، لکھنؤ سے ہوتی ہوئی میرٹھ تک آن پہنچی۔ ۲۳/ اپریل ۱۸۵۷ء کو میرٹھ میں اس واقعہ کا پھر اعادہ کیا گیا یعنی پچاس افسروں اور سپاہیوں نے چربی والے کارتوس استعمال کرنے سے انکار کرد یا، اس جرم میں انہیں مارشل لا کورٹ کے تحت دس دس سال قید سنائی گئی، بالآخر ۱۰/ مئی ۱۸۵۷ء کو ہندوستانی فوجی نے اپنے انگریز افسروں کو قتل کر کے جیل توڑ کر سپاہیوں کو رہا کرا لیا، باقی فوج بھی ان سے مل گئی اور یہ تمام فوج دہلی روانہ ہو گئی۔

شہنشاہ بہادر شاہ ظفر کے روبرو

بہادر شاہ ظفر فریضہ صبح سے فراغت کے بعد ذکر الٰہی میں مصروف تھے کہ یکایک ہنگامے کی آواز سنائی دی، آنکھ جھپکنے میں یہ لوگ قلعہ کی ڈیوڑھی میں با ادب آن کھڑے ہوئے، شہر میں کہرام تھا، لوگ دیکھا دیکھی بازاروں میں نکل آئے، شہنشاہ نے حکیم احسن اللہ کو فرمایا: ان لوگوں سے پوچھو: تم کون لوگ ہو؟ کیا چاہتے ہو؟ گزارشات پیش کرتے ہوئے ان لوگوں نے کہا: آج تک ہندوستان میں جو منادی پھرتی ہے تو یہی بیان کیا جاتا ہے : ‘‘خلقت خدا کی، ملک بادشاہ کا، حکم کمپنی کا‘‘۔ انگریز لوگ آپ کی طرف سے مالک و مختار ہیں، ہم لوگوں نے اپنی جانیں کٹوا کر کلکتہ سے لے کر کابل تک فتح کر کے چودہ سو کوس میں عملداری انگریز کی قائم کرا دی اور ہم لوگوں کی استعانت و امداد سے انگریز کا تمام ہندوستان پر تسلط ہو گیا، اب سرکار کی نیت میں فتور واقع ہوا اور ہمارے دین و مذہب کے درپے تخریب ہوئے اور چاہا کہ تمام ہندوستان کو عیسائی کر لیں۔چار مہینے سے تنازع در پیش ہے، چنانچہ مفسدہ کا ظہور اب آ کر ہوا، بادشاہ سلامت ہمارے سر پر ہاتھ رکھیں اور ہمارا انصاف فرما دیں۔

بادشاہ کا جواب

سنو بھائی! مجھے بادشاہ کون کہتا ہے، میں تو فقیر ہوں، ایک تکیہ بنائے ہوئے اپنی اولاد کو لئے بیٹھا ہوں، بادشاہت تو بادشاہوں کے ہمراہ گئی، سلطنت تو سو برس پہلے میرے گھر سے جاچکی تھی، میرے جد و آبا کے نوکر چاکر اپنے خاندان نعمت کی اطاعت سے جداگانہ رئیس بن بیٹھے، میرے باپ دادا کے قبضہ سے ملک نکل گیا ۔خصوصاً میرے جد بزرگوار حضرت شاہ عالم بادشاہ غازی کو جب غلام قادر روہیلہ قادر نمک حرام نے قید کر کے نابینا کیا ہے تو پہلے تو مرہٹوں کو طلب کیا گیا تھا اور انہوں نے اس نمک حرام کو کیفر کردار کو پہنچایا، حضرت بادشاہ کو قید سے چھڑایا، چند سال مرہٹے بادشاہ کی جانب سے خود مختار رہے، مگر بادشاہ کے صرف مطبخ کا بندو بست بھی نہ کرسکے، لاچار ہو کر میرے دادا نے منجانب سلطنت برطانیہ رجوع کی اور انگریز کو بلوا کر اپنے گھر کا مختار فرمایا اور ملک ہندوستان ان کو تفویض کیا اور ان لوگوں نے حسبِ دل خواہ اخراجات شاہی کا بندوبست کرد یا۔ (انگریز کے باغی مسلمان ص:۱۰۵، جانباز مرزا) بہادر شاہ ظفر کو اس کے انکار اور سیاسی معذوری کے باوجود بادشاہ تسلیم کر لیا اور کمپنی کی حکومت کے خاتمہ کا اعلان کرد یا۔ بادشاہ سلامت نے جنرل بخت خان کو لارڈ گورنر کا خطاب دیکر افواج مجاہدین کا کمانڈر انچیف بنا دیا، نیز اسے شہری نظام کا حاکم اعلیٰ نامزد کرد یا، بہادر شاہ ظفر کو بادشاہ تسلیم کرنے کے بعد جنگ آزادی دہلی، آگرہ، کانپور، مراد آباد، شاہ جہان پور، سہارنپور، شاملی تھانہ بھون، مظفر نگر ، میرٹھ، جھانس، الٰہ آباد، رام پور، لکھنؤ اور روھیل کھنڈ وغیرہ میں پھیل گئی، جس میں بلا امتیاز مذہب و ملت (یعنی ہندو اور مسلمان) اہل وطن نے حصہ لیا، علمائے کرام اور خصوصاً مسلک ولی اللہ سے وابستہ حضرات نے اس جنگ میں بھر پور حصہ لیا ۔ امام عبد العزیز محدث دہلویؒ  کی تحریک انقلاب جنگ آزادی سے بہت پہلے سرحد اور اس کے قرب و جوار میں شروع تھی (یعنی تحریک سید احمد شہید) اس تحریک کے آخری امام مہاجر مکی حاجی امداد اللہؒ  تھے، ان حضرات میں جو لوگ دہلی میں تھے جامع مسجد دہلی میں جمع ہوئے اور ایک فتویٰ جہاد صادر کرد یا، معدودے (قلیل) چند علماء نے اس فتویٰ کی مخالفت کی، اس فتویٰ کے صادر ہونے کے بعد ملک میں سبز پرچم لہرانے کا بھی اعلان کرد یا گیا۔

محاذ شاملی

دہلی میں فتویٰ جہاد جاری ہونے کے بعد ہندوستان کے مختلف مقامات پر جنگی مراکز قائم ہو گئے، ان میں سے ایک اہم مرکز شاملی تھانہ بھون کا بھی تھا، یہ مرکز حاجی امداد اللہؒ  اور ان کے رفقاء کار نے قائم کیا تھا، حاجی صاحب امام عبد العزیز کی اصلاحی اور انقلابی پارٹی کے آخری امام تھے، حاجی صاحب چوں کہ شاہ ولی اللہ کی تحریک سے وابستہ تھے، اس لئے اس جماعت کے اکابرین و معتقدین (جو زیادہ تر علماء تھے) آپ کے حلقۂ ارادت میں جہاد کے لئے جمع ہو گئے، حاجی صاحب نے جنگ کی اطلاع پا کر ایک اجلاس طلب کیا، اس اجلاس میں مولانا محمد قاسم نانوتویؒ  (جو بعد میں دارالعلوم دیوبند کے بانی بنے) مولانا رشید احمد گنگوہیؒ ، مولانا فیض الحسن سہارن پوریؒ ، مولانا رحمت اللہ کیرانویؒ ، مولانا محمد منیر ؒ  اور مولانا محمد یعقوبؒ  نے شرکت کی، اس کے بعد مولانا کیرانویؒ  کو دہلی بھیجا گیا، مولانا کیرانوی نے دہلی سے واپس آ کر حاجی صاحب کو تفصیلی حالات سے آگاہ کیا۔ لہذا حاجی صاحب نے اپنی جماعت کی عسکری (فوجی) تنظیم کی اور خود امیر جماعت مقرر ہوئے اور دیگر علماء کو مختلف شعبوں کا نگران بنایا گیا، شروع شروع میں مجاہدین کو بڑی کامیابی ہوئی، حتی کہ ایک موقع پر برطانوی سپاہی کا توپ خانہ بھی مجاہدین نے اپنے قبضہ میں کر لیا، نیز برطانوی فوج کو شکست دے کر تھانہ بھون اور قرب و جوار کے علاقے میں اسلامی حکومت کے قیام کا اعلان کرد یا، اس معرکہ میں حافظ محمد ضامن ، حاجی صاحب کے معتمد شہید ہو گئے۔

یا تخت جگہ آزادی کی ، یا تختہ مقام آزادی کا

ان کے سامنے خاتم الانبیاء اکا ارشاد تھا کہ ‘‘حب الوطن من الایمان‘‘ وطن کی محبت ایمان کی نشانی ہے۔ البتہ اس جذبہ کے اظہار کے لئے موقع کی تلاش تھی :

ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زر خیز ہے ساقی

ہمارے تمام اکابر (علماء دیوبند وسہارنپور و مظفر نگر) حضرت شاہ عبد العزیز صاحبؒ  اور ان کے تلامیذ کے شاگرد اور خوشہ چین رہے ہیں، یہ نہیں ہوسکتا تھا کہ حضرت شاہ صاحب اور ان کے مسلک اور حکم کے خلاف چلیں، چنانچہ جب سید احمد شہیدؒ  کی تحریک جہاد شروع ہوئی تو حضرت حاجی عبد الرحیم صاحب شہید ولایتی (دادا پیر حضرت حاجی امداد اللہ صاحب مہاجر مکی) اور شاہ نصر الدین صاحب دہلوی سابق پیر و مرشد حاجی امداد اللہ صاحب اور بہت سے حضرات شریک ِ تحریک ہوئے اور ساتھ ہی ساتھ سرحد میں جا کر شہید ہوئے، حضرت سید صاحب رحمہ اللہ اور ان کے اعلیٰ جذبات حریت و جہاد اور ان کی تعلیمات روحانیہ سے ان حضرات کو انتہائی شغف اور حسن اعتقاد رہتا تھا، اس تمام جماعت میں حضرت حافظ ضامن صاحب قدس اللہ سرہ العزیز زیادہ پیش پیش تھے (حضرت حافظ صاحب قطب العالم میاں جی نور محمد جھنجھانوی ؒ  کے اولین اور اعلیٰ ترین خلفاء میں سے تھے، نسبت روحانیہ نہایت قوی اور بے مثل پائی تھی، میاں جی نور محمد صاحب مرحوم کی وفات کے وقت تک حاجی امداد اللہ صاحب کی تکمیل سلوک و تصوف پوری نہیں ہوئی تھی تو میاں جی صاحب نے حاجی صاحب کو تکمیل کے لئے حافظ ضامن صاحب کے سپرد کیا تھا) شاملی اس زمانہ میں مرکزی مقام تھا، ضلع سہارنپور سے متعلق تھا، وہاں تحصیل بھی تھی، کچھ فوجی طاقت بھی وہاں رہتی تھی، قرار پایا کہ اس پر حملہ کیا جائے، چنانچہ چڑھائی ہوئی اور قبضہ کر لیا گیا، جو طاقت پولیس اور فوج کی وہاں رہتی تھی وہ مغلوب ہو گئی، حضرت حافظ ضامن صاحب اسی ہنگامے میں شہید ہو گئے، حافظ ضامن صاحب کا شہید ہونا تھا کہ معاملہ بالکل ٹھنڈا پڑ گیا، ان کی شہادت سے پہلے روزانہ خبر آتی تھی کہ آج فلاں مقام انگریزوں سے چھین لیا گیا، آج فلاں مقام پر ہندوستانیوں کا قبضہ ہو گیا، مگر حافظ ضامن صاحب مرحوم کی شہادت کے بعد پہلی خبر آئی کہ دہلی پر انگریز کا قبضہ ہو گیا اور یہی حال ہر جگہ کی خبروں کا تھا۔ اس سے پہلے گورے فوجی چھپتے پھرتے تھے مگر بعد میں معاملہ بالکل برعکس ہو گیا۔ دہلی کے سقوط کی خبر سے لوگوں کی ہمتیں بالکل پست ہو گئیں اور سب اپنے اپنے وطن کو واپس آ گئے۔ تقدیر تدبیر پر غالب آ گئی، ہندوستانیوں کو اپنے سابقہ اعمال کی سزا ملنی تھی۔گذشتہ مصائب ،پاداش کے لئے احکم الحاکمین کے دربار عدالت میں کافی نہ تھے، اس لئے باوجود اس قدر جاں بازیوں کے برٹش شہنشا ہیت کو ہندوستان پر اس طرح مسلط کرد یا گیا جس طرح کوڑے لگانے والے بھنگی جلاد کو مجرم پر مسلط کرد یا جاتا ہے۔ تحریک انقلاب ۱۸۵۷ء دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس انقلاب میں حصہ لینے والے ہندو اور مسلمان دونوں ہی تھے، فوجیوں میں بھی اور امراء میں بھی، عوام میں بھی اور خواص میں بھی۔ علماء میں مولانا احمد اللہ شاہ صاحب دلاور جنگ ، مولانا فضل حق خیر آبادی، مفتی صدر الدین صاحب صد الصدور دہلی، مولوی عبد القادر صاحب ، قاضی فیض اللہ صاحب دہلوی، مولانا فیض احمد صاحب بدایونی، ڈاکٹر مولوی وزیر خان اکبر آبادی۔ الحاصل ان علماء نے آخر وقت تک اپنے فتویٰ کے مطابق عمل کیا، جنرل بخت خان اور اس کی فوج اور مجاہدین نے پوری داد شجاعت دی، مگر آپس کے غداروں نے (جن کے سرغنہ مرزا الٰہی بخش اور مرزا مغل شہزادہ تھے) ہرقسم کی ابتری پھیلادی اور نتیجہ وہی ہوا جو ایسی باتوں کا ہوتا ہے۔ ۱۹/ستمبر ۱۸۵۷ء کو پوری دہلی پر انگریزوں کا قبضہ ہو گیا اور انتہائی سفاکی سے دہلی میں قتل عام جاری کرد یا گیا۔(ماخوذ نقش حیات مصنف حضرت مدنیؒ )

ایسا کیوں ہوا

جانباز مرزا اپنی تصنیف انگریز کے باغی مسلمان ص:۱۲۸ پر تحریر کرتے ہیں کہ:

۱:- شہنشاہ ہند بہادر شاہ ظفر نے جنرل بخت خان کو اس کی جرات اور بہادری کے اعزاز میں افواج ہند کا سپہ سلار مقرر کرد یا۔ جنرل بخت خان نے یہ عہدہ سنبھالتے ہی یہ اعلان کیا کہ: اگر شہزادے بھی کوئی غیر آئین حرکت کرتے پائے جائیں تو انہیں بھی سزا دی جائے گی۔ جنرل بخت خان سے پہلے یہ عہدہ مرزا مغل کے پاس تھا، مرزا مغل کو اپنا عہدہ چھن جانے کا رنج تھا۔

۲:- بہادر شاہ ظفر اپنے تمام شہزادوں میں سے شہزادہ خضر سلطان کو پسند کرتا تھا اور یہ ذہین بھی تھا، عام گمان تھا کہ شاہ کے بعد امور سلطنت اس کے سپرد ہوں گے ۔

۳:- ملکہ زینت محل جو بادشاہ کی محبوب ملکہ تھی، وہ مرزا جواں بخت کو ولی عہد سلطنت بنانا چاہتی تھی، کیونکہ مرزا جواں بخت اس کے بطن سے تھا اور باہر سے انگریز اس آگ کو مزید روشن کرنے کے لئے ایندھن مہیا کر رہا تھا۔ اس اندرونی کھینچا تانی کے باعث تمام شہزادے جنرل بخت خان کے خلاف تھے،‘‘ یوں اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے‘‘ مرزا الٰہی بخش اور میر رجب علی بادشاہ کے نمک خوار بھی تھے اور انگریز کے تنخواہ دار بھی، یہ دونوں شہزادوں اور جنرل بخت خان کے درمیان رقابت کو وسیع کرنے میں انگریزوں کے مشورے پر کام کر رہے تھے، دہلی پر قبضہ کے بعد جنرل بخت خان نے ۱۹/ ستمبر ۱۸۵۷ء کو بادشاہ سے کہا: آپ میرے ساتھ (اودھ) چلیں، میری جانثار فوج موجود ہے، ہم وہاں بیٹھ کر جنگ لڑیں گے، اس کے جواب میں بہادر شاہ ظفر نے کہا: تم کل مجھے ہمایوں کے مقبرہ میں ملو، اس رات غدار، الٰہی بخش نے بادشاہ سے مل کر اسے اپنے شیشے میں اتار لیا اور جنرل بخت خان کے ساتھ جانے سے منع کرد یا۔ نیز بادشاہ کو یقین دلایا کہ انگریز آپ کو معاف کرد یں گے، اس یقین دہانی پر بادشاہ نے جنرل بخت خان کے ساتھ جانے سے انکار کرد یا، جنرل بخت خان نے دہلی چھوڑ کر افواج کے ساتھ اودھ کا راستہ لیا۔ مرزا الٰہی بخش کی تجویز کامیاب رہی، اس کامیابی کی اطلاع جب رجب علی کو ہوئی تو اس نے مرزا الٰہی بخش کو لکھا کہ: اب آپ یہ کام کریں کہ باغیوں کے چلے جانے کے بعد بادشاہ کو چوبیس گھنٹے تک ہمایوں کے مقبرہ سے باہر نہ جانے دیں۔ رجب علی (۱۰۰) سو فوجی سواروں کے ساتھ بادشاہ کو لینے پہنچ گیا، بادشاہ انگریز کی پالکی میں سوار ہو گیا، بادشاہ کو یقین ہو چکا تھا کہ وہ گرفتار کر لیا گیا ہے اس پر بادشاہ نے پوچھا :مجھے گرفتار کرنے والا ہیڈسن ہے ۔جی۔پھر بادشاہ نے ہیڈسن کو بلا کر کہا: میں آپ سے اپنے بیٹے اور بیوی کے لئے جان بخشی کا وعدہ سننا چاہتا ہوں۔ ہیڈسن: یہ وعدہ پختہ ہے، بادشاہ کے ساتھ جو شاہی ارکان گرفتار ہوئے، ان کی تعداد بانوے (۹۲) ہے، ۲۷/ جنوری ۱۸۵۸ء کو بہادر شاہ ظفر پر مقدمہ چلانے کا فیصلہ کیا گیا، اسی دوران شہزادہ مرزا مغل، شہزادہ خضر سلطان، مرزا ابوبکر اور مرزا عبد اللہ کو گرفتار کر لیا گیا۔ ہیڈسن انہیں رتھوں (یعنی گاڑی) پر سوار کر کے شہر سے ایک میل دور لے گیا اور وہاں انہیں برہنہ کر کے گولی ما کر شہید کرد یا گیا، شہادت کے بعد ہیڈسن نے ان کا چلو بھر خون پیا اور کہا: اگر میں ان کا خون نہ پیتا تو میرا دماغ خراب ہو جاتا۔ شہزادوں کے قتل کے بعد ان کے سرایک طشت ( تھال) میں رکھ کر بادشاہ کے سامنے پیش کرتے ہوئے ہیڈسن نے کہا: یہ آپ کی نظر ہے جو بند ہو گئی تھی اور جس کو جاری کرنے کے لئے آپ نے غدر میں حصہ لیا تھا، شہنشاہ نے جوان سال بیٹوں اور پوتوں کے کٹے ہوئے سر دیکھے، حیرت انگیز استقلال کے ساتھ کہا: الحمد للہ! تیمور کی اولاد ایسے ہی سرخرو ہو کر باپ کے سامنے آیا کرتی ہے، اس کے بعد شہزادوں کی لاشیں کوتوالی کے سامنے لٹکا دی گئیں اور ان کے سر جیل کے سامنے خونی دروازے میں لٹکا دیئے گئے۔ اس انتقامی کارروائی کے بعد مارچ ۱۸۵۸ء کو سرجان لارنس کے حکم پر بادشاہ کے خلاف مقدمہ چلانے کا فیصلہ کیا گیا۔ مختصر یہ کہ کارروائی کے بعد یک طرفہ فیصلہ دیتے ہوئے عدالت نے لکھا:‘‘ فیصلے کے مطابق بادشاہ کو مجرم قرار دیتے ہوئے ان کی جان بخش دی گئی اور جلاوطنی کی سزا دی گئی اور ساتھ ہی خوراک کے لئے چھ سو (۶۰۰) روپے ماہوار مقرر کرد یا گیا‘‘۔

اس کے بعد انہیں نومبر ۱۸۵۸ء کو بمع ان شاہی افراد کے رنگون روانہ کرد یا گیا، رنگون پہنچنے کے بعد شاہی مجرموں کو گورے سپاہیوں کی حراست میں بندرگاہ سے باہر لایا گیا اور ایک بنگلے میں گورے سپاہیوں کے پہرے میں نظر بند کرد یا گیا، تا دم واپس ہندوستان کے سابق شہنشاہ یہیں رہے، آخر ۷/نومبر ۱۸۶۲ء بروز یک شنبہ اپنے وطن سے سینکڑوں میل دور ان کا انتقال ہوا۔ کتنا ہے بدنصیب ظفر دفن کے لئے دو گز زمین بھی نہ مل سکی کوئے یار میں

باقی ماندہ مسلمان علماء اور مجاہدین کا معاملہ

جنرل بخت صاحب، ڈاکٹر وزیر خان صاحب اور مولوی فیض احمد صاحب مع اپنے ماتحتوں اور فوجیوں کے حالات، خطرناک دیکھ کر دہلی سے نکل کر لکھنؤ چلے گئے اور مولوی حمد اللہ شاہ صاحب دلاور جنگ کے جھنڈے کے نیچے جمع ہو گئے اور وہاں انگریز فوج سے خوب مقابلہ کیا، مگر اپنوں ہی کی غداریوں سے شکست کھانا پڑی، اس لئے جب حالات خطرناک دیکھے تو شاہ جہان پور کو روانہ ہو گئے، آخری جنگ انگریزوں سے شاہ جہاں میں ہوئی اور یہاں بھی مختلف وجوہ سے شکست کا منہ دیکھنا پڑا اور یہ سب لوگ نیپال چلے گئے، مولوی حمد اللہ شاہ صاحب دلاور جنگ کو راجہ پوائین بلدیو سنگھ نے دعوت کے بہانے سے بلا کر دھوکہ سے ۱۵/ جون ۱۸۵۸ء مطابق ۲/ ذوالقعدہ ۱۲۷۴ھ کو شہید کرد یا۔

مولانا فضل حق خیر آبادی

۱۸۵۹ء میں سلطنت مغلیہ کی وفاداری یا فتویٰ جہاد کی پاداش یا جرم بغاوت میں مولانا ماخوذ ہو کر ستاپور سے لکھنؤ لائے گئے، مقدمہ چلا، عدالت نے حبس دوام دریائے شور کا حکم سنایا،آپ نے کمالِ مسرت اور خندہ پیشانی سے سنا آخرش جزیرہ انڈمان روانہ کر دیئے گئے، صاحبزدگان مولانا عبد الحق صاحب اور مولوی شمس الحق صاحب نے اپیل لندن میں دائر کرد ی تھی۔ خواجہ غلام غوث صاحب میر منشی لفٹنٹ مغربی و شمالی صوبہ اودھ سرگرم سعی تھے، بالآخر ولایت سے رہائی کا حکم آ گیا، اس کو لے کر مولوی شمس الحق صاحب جزیرہ انڈمان روانہ ہو گئے، جب وہاں پہنچے تو معلوم ہوا کہ ۱۲/ صفر ۱۲۷۸ھ مطابق ۱۸۶۱ء کو مولانا فضل حق صاحب کا انتقال ہو گیا ہے، جنازہ حاضر ہے، بصد حسرت ویاس شریک دفن ہوئے اور بے نیل و مرام واپس ہوئے ۔(نقش حیات) معلوم ہونا چاہئے کہ مولانا فضل حق خیر آبادی حضرت شاہ عبد القادر اور حضرت شاہ عبد العزیز کے شاگرد تھے، علامہ خیر آباد کے استاد بھائی اور رفیق خاص مفتی صدر الدین صاحب آزردہ صدر الصدور نے بھی علامہ کی خاطر فتویٰ پر شہادت بالخیر لکھ کر دستخط کر دیئے تھے، گرفتاری کے بعد مفتی صاحب نے بتایا کہ: میں نے تو پہلے ہی لکھ دیا تھا کہ جبراً دستخط کرنا پڑ رہے ہیں، بالجبر پر نقطے نہ لگائے تھے علماء وقت نے اسے بالخیر پڑھا اور مفتی صاحب نے الجبر بتا کر جان چھڑائی، البتہ جائداد و املاک کا حصہ ضبط کر لیا گیا ۔(نقش حیات،ص:۲۶۳)

حاجی امداد اللہ، مولانا محمد قاسم نانوتوی اور مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہم اللہ

مخبروں کی ریشہ دوانیوں سے ان حضرات کے متعلق بھی بغاوت کا الزام لگایا گیا، حضرت حاجی صاحب بقصد مکہ معظمہ روانہ ہو گئے، راستہ میں مختلف مقامات پر جہاں پہلے سے تعلقات تھے، ٹھہرتے جاتے تھے، مگر جاسوس پیچھے لگے ہوئے تھے، راستہ میں مختلف واقعات عبرتناک پیش آئے۔ پنجلاسہ (پنجاب) میں مقیم تھے، کسی نے حکومت کے یہاں مخبری کرد ی (اس زمانہ میں باغیوں کی تفتیش اور پکڑ دھکڑ بہت سختی سے ہو رہی تھی) کہ حضرت حاجی صاحب فلاں شخص کے اصطبل میں مقیم ہیں، کلکٹر (ڈپٹی کمشنر) ضلع جو کہ انگریز تھا، خود سوار ہو کر آدھی رات کے قریب اصطبل کے دروازہ پر پہنچ گیا اور کواڑ کھلوانے چاہے، بڑے بھائی نے جو کہ مالک مکان تھے، انگریز سے کہا کہ: آپ نے اس وقت کیوں تکلیف فرمائی، کلکٹر نے کہا: گھوڑے دیکھنے کے لئے آیا ہوں، کواڑ کھولو، چنانچہ کواڑ کھولے گئے، دیکھا تو بستر لگا ہوا ہے اور سب سامان لیٹنے کا درست ہے، لیکن حضرت حاجی صاحب موجود نہ تھے، ادھر ادھر دیکھا، کہیں پتہ نہ لگا، مالک مکان سے پوچھا: یہ بستر کس کا ہے، اس نے کہا: میرے چھوٹے بھائی کا ہے، لیکن انگریز نے اور کچھ نہ پوچھا اور گھوڑوں کو دیکھتے ہوئے واپس ہو گیا (غالباً) حضرت کو کشف سے یہ حال آمد انگریز کا معلوم ہو گیا کہ پہلے سے تشریف لے گئے اور یہ بھی ممکن کہ اس وقت بھی وہاں ہی تشریف رکھتے ہوں اور اللہ تعالیٰ نے ابصار (آنکھوں سے پوشیدہ فرما دیا ہو کہ (کما فسر بعضہم قولہ تعالیٰ:

‘‘وجعلنا بینک وبین الذین لایؤمنون بالآخرة حجابا مستوراً‘‘۔ (اسرائیل:۴۵)

ترجمہ: ہم نے تم میں اور ان میں کہ آخرت پر ایمان نہیں لاتے ایک چھپا ہوا پردہ کرد یا‘‘۔

اس قسم کے متعدد واقعات حضرت حاجی صاحب اور مولانا محمد قاسم نانوتوی اور مولانا رشید احمد گنگوہی قدس اللہ اسرارہم کے پیش آتے رہے۔ دشمنوں کی انتہائی جد و جہد کے باوجود تینوں حضرات محفوظ رہے، کسی کا بال بیکا نہ ہوا۔ حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ  وارنٹ کے بعد تین دن تک بتقاضائے احباب و اعزہ روپوش رہے، اس کے بعد مکان سے باہر نکل آئے، لوگوں نے اصرار کیا تو فرمایا کہ: جناب رسول اللہ ﷺ صرف تین دن تک غار ثور میں روپوش رہے، وہ سنت پوری ہو گئی، اب روپوش ہونا خلاف سنت ہو گا۔ کسی کی نہ مانی اور قرب و جوار کے موضع میں کبھی نانوتہ میں، کبھی دیوبند میں کبھی املیا میں، کبھی آباد میں، کبھی جنگل میں پھرتے رہے۔ ایک مرتبہ قصبہ دیوبند چھتہ کی مسجد میں تھے کہ دوش آ گئی، آپ اپنی جگہ سے ہٹ گئے، افسر مسجد میں داخل ہوا اور پوچھا کہ: مولوی قاسم کہاں ہیں؟ آپ پہلی جگہ کی طرف اشارہ کر کے بولے کہ ابھی تو یہاں تھے، دیکھ لو، کہیں مسجد میں ہوں گے، وہ ڈھونڈنے دوسری طرف گیا،آپ مسجد کے دوسرے دروازے سے نکل کر جنگل کو چلے گئے، اس نے اور سپاہیوں نے مسجد میں چاروں طرف کونے کونے کو اور حجروں کو خوب دیکھا ،مگر نہ ملے۔ اس طرح ہر جگہ مخبریاں ہوتی رہیں اور دوش آتی رہیں، مگر مولانا ہاتھ نہ آئے ۔

حضرت گنگوہی

حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ  اپنی جگہ گنگوہ سے نہیں ٹلے، بالآخر گرفتار ہوئے۔ گنگوہ سے سہارن پور اور وہاں سے مظفر نگر لائے گئے۔ آپ پر علاوہ شرکت جہاد شاملی یہ بھی الزام تھا کہ سپاہیوں کی رائفل ان کے پاس ہے، آپ نے دونوں کا بالفاظ توریہ انکار کیا۔حاکم نے پوچھا کہ: تم نے خلاف گورنمنٹ ہتھیار اٹھایا؟ آپ نے جیب سے تسبیح نکال کر فرمایا کہ: یہ میرا ہتھیار ہے۔ اس نے کہا: وہ بندوق کہاں ہے؟ آپ نے فرمایا: مجھ سے بندوق سے کیا سروکار۔سپاہیوں کو حکم ہوا کہ ننگی تلوار لے کر ا س کے سر پر کھڑے ہو جاؤ ۔ الغرض جب آپ ان تمام تخویفات اور دھمکیوں سے متاثر نہیں ہوئے اور نہایت استقلال سے جواب دیتے رہے، سپاہی ننگی تلواروں سے آپ پر پہرہ دیتے رہے، آپ کو مظفر نگر جیل بھیج دیا گیا اور شہادتوں کے حصول کے لئے پولیس اور حکومت کوشش کرتی رہی، تاکہ ثبوت بہم پہنچا کر مقدمہ چلایا جائے۔ قید ہونے کے اوائل زمانہ میں یہی مشہور ہو گیا تھا کہ مولانا رشید احمد صاحب کو پھانسی دے دی جائے گی اور انگریزوں کی بوکھلاہٹ بھی اس کی مؤید تھی۔ حضرت گنگوہیؒ  سے ایک مرتبہ کسی شخص نے دریافت کیا تھا کہ اعلیٰ حضرت (حاجی امداد اللہ صاحبؒ ) نے تو آپ سے وعدہ فرمایا تھا کہ: اطمینان رکھو، میں عرب روانہ ہوتے وقت تم سے مل کر جاؤں گا، مگر آپ گرفتاری و حوالات میں رہے، آپ کی رہائی سے قبل ہی اعلیٰ حضرت نے بیت اللہ کی جانب ہجرت فرمائی، گویا سائل کا مطلب یہ تھا کہ ملاقات کے خوش کن الفاظ محض تسلی کے لئے تھے، جس کا وقوع نہیں۔ حضرت نے بہت ہی ہلکی آواز سے فرمایا : اعلیٰ حضرت وعدہ خلاف نہ تھے، چنانچہ دوسرے طریق سے معلوم ہوا کہ باوجود سنگین پہرہ کے اعلیٰ حضرت جیل خانہ کے اندر قدم رکھا اورکئی گھنٹے باتیں کر کے شب ہی میں واپس ہوئے اور عرب کو روانہ ہوئے۔ مولوی ولایت حسین کی روایت ہے کہ حکیم صاحب جو اعلیٰ حضرت کے مرید انبالہ کے رہنے والے بندہ کے ساتھ سفر حج میں شریک تھے، فرمایا: جس زمانہ میں مولانا گنگوہی جیل خانہ میں تھے، اعلیٰ حضرت حاجی صاحب ایک دن فرمانے لگے کہ: میں نے کچھ سنا،کیا مولوی رشید احمد کو پھانسی کا حکم ہو گیا؟ خدام نے عرض کیا کہ: حضرت! کچھ پتہ نہیں، ابھی تک تو کوئی خبر نہیں آئی، فرمایا: ہاں حکم ہو گیا، چلو، یہ فرما کر اٹھ کھڑے ہوئے، حکیم صاحب کا بیان تھا کہ برسات کا زمانہ تھا، مغرب کے بعد اعلیٰ حضرت اور میں غالباً مولوی مظفر حسین کاندھلوی غرض تین آدمی چلے، شہر سے باہر نکل کر تھوڑی دور جا کر اعلیٰ حضرت گھاس کے قدرتی سبزہ پر بیٹھ گئے اور کچھ دیر سکوت فرما کر گردن اوپر اٹھائی اور فرمایا: چلو مولوی رشید احمد کو کوئی پھانسی نہیں دے سکتا، خدا تعالیٰ کو ابھی ان سے بہت کام لینا ہے۔ چنانچہ چند روز بعد اس کا ظہور ہو گیا۔ (امداد المیثاق، ص:۱۷۲ از تذکرہ الرشید ص:۸۵ ماخوذ نقش حیات)

یہ سب باطنی تصرفات تھے، ورنہ ظاہری حیثیت سے کسی صاحب کی ان میں سے بچنے کی کوئی صورت نہیں تھی، مگر قدرت نے ان سے کام لینا تھا، ان کی تعلیم و تربیت سے ایسے لوگ تیار کرانے تھے جو کہ بے دھڑک ہو کر بلا خوف و خطر میدان آزادی اور تحریک انقلاب میں جان کو ہتھیلی پر رکھ کر باوجود انگریز کے آہنی پنجہ اور انتہائی سفاکیت کے کود پڑیں یعنی مولانا محمود حسن صاحب شیخ الہند مرحوم اور ان کے تلامذہ، شاگرد اور متوسلیں کو پیدا کرنا تھا، اس لئے ان حضرات کو بچایا گیا تھا اور ہر طرح حفاظت عمل میں لائی گئی، جس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فرعون جیسے دشمن کے گھر پیدا کیا گیا اور اس سے پرورش کرائی گئی، اسی طرح مولانا محمود حسن صاحب کو انگریز کے زیر حکومت پرورش کرایا گیا، حضرت کے والد ماجد انگریز کے ملازم تھے، مسٹن گورنر یوپی کہتا تھا کہ: ‘‘ہم اگر مولوی محمود حسن کو جلا کر خاکستر کر دیں تو اس کی خاک بھی ہم سے نفرت کرے گی‘‘۔ جانباز مرزا انگریز کے باغی مسلمان میں تحریر فرماتے ہیں کہ: جب کسی بستی کے وارث اپنا کردار کھو بیٹھتے ہیں فطرت ان پر ایسے لوگ مسلط کرد یتی ہے جن کی نسل تک کا پتہ نہیں چلتا، فاتح قوم مفتوح کے نشان تک مٹا دیتی ہے۔ قرآن کریم کا بھی ارشاد ہے سورہ نمل: ۳۴ میں:

‘‘ان الملوک اذا دخلوا قریةً افسدوہا وجعلوا اعزة اہلہا اذلة وکذلک یفعلون‘‘۔

ترجمہ:․․․‘‘ جب بادشاہ کسی بستی میں فاتحانہ داخل ہوا کرتے ہیں تو بستی کو برباد کر ڈالتے ہیں اور وہاں کے عزت دار باشندوں کو ذلیل کرتے ہیں اور یہ لوگ ایسا ہی کریں گے‘‘ ۔ بہادر شاہ ظفر کی گرفتاری اور جلاوطنی کے بعد انگریز پوری طرح دہلی پر قابض ہو گیا، پھر دہلی پر کیا گزری، گورے سپاہیوں کو کھلی چھٹی دے دی گئی کہ وہ آوارہ چوپاؤں کی طرح جہاں چاہیں منہ مارتے پھریں، گھروں کے گھر اجڑ گئے، محلے برباد کر دیئے گئے ۔ رئیس اور امراء گدا گروں کی طرح نان جوی کے محتاج نظر آنے لگے۔ عصمت مآب عورتوں نے اپنی آبرو کی حفاظت میں کنوؤں میں چھلانگ لگا کر اپنی پاک دامنی کو محفوظ رکھا۔امراء قتل ہو چکے تھے، جو رہے وہ بھی دلی چھوڑ کر بھاگ گئے، دلی کا حسن خاک و خون میں تڑپ تڑپ کر ختم ہو رہا تھا، کوئی کسی کا نہ تھا، جو کسی کا تھا وہ دم نہ بھر سکتا تھا، گلی کوچوں میں لوگ انگریز کے خوف سے تھر تھرا رہے تھے، چاندنی چوک کے ساتھ بنی ہوئی عظیم الشان حویلیوں کے دروازے کھٹکھٹا کر گورے سپاہی چیخ چیخ کر کہہ رہے تھے: لال بی بی دو، ورنہ گولی مار دیں گے(دلی کی حسیناؤں کا نام لال بی بی رکھا گیا جو مریم کی طرح معصوم اور سیتاسے زیادہ مقدس تھیں) دلی کی عصمت مآب بیبیوں کی عصمت سر بازار لٹ رہی تھی، لوگ در و دیوار سے ٹکرا رہے تھے۔ دلی والوں پر کھا نا پینا سب بند تھا، جو مکان سے باہر نکلتا اور پانی کی تلاش میں قدم بڑھاتا وہ زخم کھا کر خون میں نہایا ہوا گھر لوٹتا۔ گردنوں کی کوئی قیمت نہ تھی، بے دریغ کٹ رہی تھیں، فتح پور سے جامع مسجد تک پھانسیوں کا جال بچھا ہوا تھا ۔ (انگریز کے باغی مسلمان ص:۱۵۲) شارع عام پر پھانسی گھر بنائے گئے اور پانچ پانچ یا چھ چھ آدمیوں کو روزانہ سزائے موت دی جاتی تھی۔ وال پول کا بیان ہے کہ تین ہزار آدمیوں کو پھانسی دی گئی، جن میں سے انتیس شاہی خاندان سے تعلق رکھتےتھے۔

مؤلف تبصرة  التواریخ لکھتا ہے کہ:

ستائیس ہزار مسلمان قتل کے گئے اور سات دن تک برابر قتل جاری رہا، زندہ مسلمانوں کو سور کی کھال میں سلوا کر گرم تیل کے کڑھاؤ ڈلوانا اور فتح پور کی مسجد سے قلعہ کے دروازے تک درختوں کی شاخوں پر مسلمانوں کی لاشوں کا لٹکانا یہ سب کچھ کیا گیا۔

٭٭٭

ماخذ:

ماہنامہ دار العلوم، دیوبند

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید