انکارِ حدیث کرنے والوں سے 50 سوالات
شیخ حماد اقبال
حفظہ اللہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد للہ رب العالمین والصلوٰۃ والسلام علی سید الانبیاء و المرسلین نبینا محمدا و علی الہ و صحبہ اجمعین۔ اما بعد!
آج کے اس پر فتن ماحول میں جہاں قدم قدم پر نت نئے فتنوں کا سامنا ہے ان فتنوں میں عوام الناس اس لئے مبتلا ہو جاتے ہیں کہ ان فتنوں کا داعی اپنے باطل مقصد کو قرآن و سنت سے زبردستی ثابت کرنے کی ناکام کوشش کرتا ہے مثلاً منکرین حدیث کا کہنا کہ ہمیں کتاب اللہ کافی ہے، دلیل یہ ہے کہ جناب عمرؓ نے ایک موقع پر کہا تھا: ’’حسبنا کتاب اللہ‘‘۔ یعنی ہمیں کتاب اللہ کافی ہے۔ (بحوالہ بخاری)۔ نیز صحیح مسلم کے حوالے سے کبھی اس حدیث کو بھی نقل کر دیتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ مجھ سے قرآن کے علاوہ کچھ اور نہ لکھو، اب کون کج فہم منکرین حدیث معلوم کرے کہ جناب بخاری و مسلم کی جن دو حدیثوں کا آپ نے حوالہ دیا ہے کیا ان احادیث کی صحت کی اطلاع انہیں جبرئیل امین نے آ کر دی ہے ؟ یہ وہ خبط ہے جس میں منکرین حدیث ملوث ہیں۔ نہ ان کے پاس کوئی اصول ہے نہ ہی کوئی ٹھوس بنیاد اور نہ ہی کوئی دلیل۔ بس سرسری کانٹ چھانٹ کر حدیث و قرآن کو پیش کرنا اور سمجھ لینا کہ ہم نے کوئی قلعہ فتح کر لیا ہے۔
اور یوں عوام الناس دھوکہ کھا جاتے ہیں اور ان کے دام فریب میں آ جاتے ہیں۔ لیکن ان کی یہ سازش اہل علم پر مخفی نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ منکرین سنت/حدیث علماء کو تو جاہل کہہ کر خود ان کے سامنے آنے سے کنی کترا جاتے ہیں یہ ہے ان کا مبلغ علم کہ عوام کو قائل کرنا ان پر محنت کرنا اور علماء سے دور بھاگنا۔ عوام الناس کو حقائق سے آگاہ کرنے کے اس سلسلہ میں علماء نے ماضی میں بڑی ضخیم و مختصر کتب اس موضوع پر لکھیں اور اس فتنہ کی سرکوبی کی رب کریم ان کی ان کاوشوں کو قبول فرمائے آمین۔ اور اس سلسلہ میں ایک مختصر مگر جامع کاوش بنام ’’انکارِ حدیث کرنے والوں سے 50 سوالات‘‘ حماد اقبال صاحب جو کہ اچھا مطالعہ رکھتے ہیں اور علم دوست ساتھی ہیں نے کی ہے۔
رب کریم اس کتاب کو منکرین حدیث فتنہ کے لئے بھی اور جو اس حوالے سے شکوک و شبہات میں گرفتار ہیں ان سب کے لئے ہدایت کا سبب بنا دے۔ آمین اور جملہ معاونین کو بھی اجر عظیم سے نوازے آمین۔
کتبہ :
حافظ محمد سلیم
مدرس المعہد السلفی گلستان جوہر کراچی
۲۲۔ صفر ۱۴۲۸ھ
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْد للہِ نَحْمَدہٗ وَ نَسْتَعِیْنہٗ وَ نَسْتَغْفِرہٗ وَ نَعوْذ بِاللہِ مِنْ شروْرِ اَنْفسِنَا وَ مِنْ سَیِّاٰتِ اَعْمَالِنَا مَنْ یّھَْدِہِ اللہ فَلَا مضِلَّ لَہٗ وَمَنْ یّضْلِلْہ فَلَا ھَادِیَ لَہٗ وَ اَشْھَد اَنْ لَّآ اِلٰہَ اِلآَ اللہ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَاَشْھَد اَنَّ محَمَّدًا عَبْدہٗ وَ رَسوْلہٗ یٰٓاَیّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنوا اتَّقوا اللہَ حَقَّ تقَاتِہٖ وَ لَا تَموْتنَّ اِلَّا وَ اَنْتمْ مّسْلِموْنَ یٰٓاَیّھَا النَّاس اتَّقوْا رَبَّکم الَّذِیْ خَلَقَکمْ مِنْ نَفْسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّ خَلَقَ مِنْھَا زَوْجھََا وَبَثَّ مِنْھمَا رِجَالًا کَثِیْرًا وَّ نِسَآئً وَاتَّقوا اللہَ الَّذِیْ تَسَائَ لوْنَ بِہِ وَالْاَرْحَامَ اِنَّ اللہَ کَانَ عَلَیْکمْ رَقِیْبًا (سورہ النساء) یٰٓاَ یّھا الَّذِیْنَ اٰمَنوا اتَّقوْا اللہَ حَقَّ تقَاتِہٖ وَلَا تَموْتنَّ اِلَّا وَ اَنْتمْ مّسْلِموْنَ (آل عمران) یٰٓاَیّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنوا اتَّقوْا اللہَ وَ قوْلوْا قَوْلاً سَدِیْدًا یصْلِحْ لَکمْ اَعْمَالَکمْ وَ یَغْفِرْلَکمْ ذنوْبَکمْ وَ مَنْ یّطِعِ اللہَ وَ رَسوْلَہ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِیْمًا (الاحزاب:۷۰ تا ۷۱) (حوالہ ابو داود، ترمذی باب النکاح)
سب تعریفیں اللہ تعالیٰ ہی کے لئے ہیں (اس لئے ) ہم اس کی تعریفیں کرتے ہیں اور (اپنے ہر کام) میں اسی سے مدد مانگتے ہیں۔ ہم اس (رب العالمین) سے اپنے گناہوں کی بخشش چاہتے ہیں اور اس پر ایمان لاتے ہیں اور اسی (پاک ذات) پر ہمارا بھروسہ ہے۔ ہم اپنے نفس کی شرارتوں سے اللہ تعالیٰ کی پناہ چاہتے ہیں اور اپنے اعمال کی برائیوں سے (بھی) اس کی پناہ میں آتے ہیں۔ (یقین مانو) جسے اللہ راہ دکھا دے، اسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا اور جسے وہ (خود ہی) اپنے دَر سے دھتکار دے اس کے لئے کوئی رہبر نہیں ہو سکتا۔ اور ہم (تہ دل سے ) گواہی دیتے ہیں کہ معبود برحق (صرف) اللہ تعالیٰ ہی ہے اور وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں۔ اور (اسی طرح تہِ دل سے ) ہم اس بات کے بھی گواہ ہیں کہ محمدﷺ اس کے بندے اور آخری رسول ہیں۔ حمد و صلوٰۃ کے بعد یقیناً تمام باتوں سے بہتر بات اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے اور تمام راستوں سے بہتر راستہ محمدﷺ کا ہے۔ اور تمام کاموں سے بدترین کام وہ ہیں جو اللہ کے دین میں اپنی طرف سے نکالے جائیں (یاد رکھو) دین میں جو نیا کام نکالا جائے وہ بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی دوزخ میں لے جانے والی ہے۔
نبی کریمﷺ کا یہ ایسا جامع خطبہ ہے جو آپﷺ ہر وعظ اور تقریر کے شروع میں پڑھا کرتے تھے۔ اس میں دو باتیں واضح ہوتی ہیں : ایک یہ اعمال کی قبولیت کے لئے نیت خالص ہو یعنی یہ کام صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے کیا جا رہا ہے اور دوسرا یہ کہ یہ عمل صرف اور صرف رسول اللہﷺ کے طریقے کے مطابق کیا جا رہا ہے۔ اگر ان دونوں شرطوں سے کوئی بھی عمل خالی ہے تو وہ اللہ کے ہاں قابل قبول نہیں۔
یہ بھی یاد رکھنا چاہیئے کہ جو شخص ان دونوں شرطوں سے انکار کرے، کسی دوسرے راستے پر چلے، نبیﷺ کا کلمہ پڑھنے کے باوجود کسی اور کی بات اور قول و عمل کے مطابق نماز اور دیگر اعمال کرے، تو ایسا شخص سیدھے راستے سے گمراہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں سمجھ دے اور خالص دین پر چلائے آمین یا رب العالمین۔
منکرین حدیث کا فتنہ آج کل شدید ہوتا جا رہا ہے اور لوگوں کو اعمال سے دور کر کے یہ خود ساختہ نظریہ دیا جا رہا ہے کہ ہم کو صرف قرآن کافی ہے۔ احادیث عجمی سازش ہے جس کا دین سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ انتہائی گمراہ کن نظریہ ہے۔ کیونکہ جس ہستی پر قرآن نازل ہوا ہے کیا انہوں نے قرآن پر عمل بھی کیا تھا؟ وہ عمل کیا تھا؟ کیا ان کا عمل قرآن پر صحیح تھا؟
آج لوگوں کو اسلام سے دور کرنے کے لئے قرآن کی خود ساختہ تاویل کی جاتی ہے، من مانے معنی بنائے جاتے ہیں اور کہا یہ جاتا ہے کہ ہمارے لئے صرف قرآن کافی ہے۔ قرآن ہی حجت ہے۔ قرآن ہی کی حفاظت ہو رہی ہے۔ صرف قرآن ہی پر عمل کرنا چاہیئے۔ پھر مزید احادیث کے خلاف یوں کہا جاتا ہے کہ احادیث عجمی سازش ہے۔ دین میں اضافہ ہے۔ مولویوں کا اسلام ہے۔ احادیث کا کوئی بھروسہ نہیں۔ اس قسم کی باتیں کر کے عام فہم لوگوں کو اسلام کے خلاف کیا جا رہا ہے اور اسلام اور کفر کے درمیان ایک نیا راستہ بنایا جا رہا ہے۔
ہم عام فہم لوگوں کی آسانی کے لئے ان حضرات سے 50 سوالات کرتے ہیں جو لوگوں کو یہ دھوکہ دیتے ہیں کہ صرف قرآن کی ہی بات کی جائے، احادیث کی بات نہ کی جائے۔ وہ ہمارے ان سوالوں کے جواب صرف اپنے قانون کے مطابق قرآن ہی سے دیں اور اگر وہ ان سوالوں کے جواب قرآن سے نہ دے سکے تو ان کو چاہیئے کہ حق کو تسلیم کر لیں کہ جس طرح قرآن حجت اور دین ہے اسی طرح صاحب قرآن: محمد رسول اللہﷺ کا عالیشان فرمان اور عمل بھی ہمارے لئے دین کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ آپﷺ صرف وحی کی پیروی کرتے تھے (اپنے پاس سے اعمال نہیں کرتے تھے ) (سورۂ یونس)۔
بعض لوگ اپنی من پسند احادیث کو تسلیم کرتے ہیں۔ جن احادیث کو انہوں نے تسلیم نہ کرنا ہو اس کے لئے منکرین احادیث نے خود ساختہ نظریات بنائے کہ جو حدیث عقل کے خلاف ہو وہ تسلیم نہیں کی جائے گی۔ جو حدیث قرآن کے خلاف ہو وہ تسلیم نہیں کی جائے گی جبکہ یہ نظریہ ہی باطل ہے۔ ثابت شدہ احادیث کو تسلیم کرنا پڑے گا چاہے وہ ہماری عقل میں آئے یا نہ آئے۔ اسی طرح کوئی صحیح حدیث قرآن کے خلاف نہیں۔ یہ ہماری عقل کا قصور ہے۔ دونوں میں تطبیق دے کر دونوں کو تسلیم کرنا ہو گا۔ اگر بظاہر قرآنی دو آیات ایک دوسرے کے خلاف ہوں تو ہم ایک کو ضعیف کہہ کر ردّ نہیں کر دیتے بلکہ دونوں کو تسلیم کر کے تطبیق دیتے ہیں۔ اسی طرح صحیح احادیث اور قرآن میں اختلاف نہیں۔ اگر کوئی ایسی بات ظاہری طور پر محسوس ہوتی ہے تو دونوں میں تطبیق دے کر دونوں کو تسلیم کرنا پڑے گا۔ ایسے سوالات ان شاء اللہ آئندہ صفحات میں آپ کو ملیں گے جن کے جوابات اپنی مرضی کی احادیث کو ماننے اور نہ ماننے والے اور تمام احادیث کا انکار کرنے والے کسی کے پاس نہیں ہیں (ان شاء اللہ) اللہ ہم سب کو دین اسلام پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے کیونکہ توفیق دینے والی ذات صرف اور صرف اللہ رب العزت کی ہے۔ اور ہم اسی سے توفیق کا سوال کرتے ہیں۔
حجیت حدیث اور فتنہ انکارِ حدیث
انکارِ حدیث کا فتنہ پڑھے لکھے جاہلوں اور کھاتے پیتے آسودہ حال، متمول لوگوں کا فتنہ ہے۔ نبی اکرمﷺ نے اس فتنہ کی پیشگوئی کرتے ہوئے فرمایا:
الا یوشک رجل شبعان علی اریکتہ یقول علیکم بھذا القرآن فما وجدتم فیہ من حلال فاحلوہ و وجدتم فیہ من حرام فحرموہ
خبردار! عنقریب ایک شکم سیر آدمی اپنے ’’مزین و آراستہ پلنگ یا صوفے پر بیٹھ کر کہے گا کہ تم پر اس قرآن کا (اتباع) فرض ہے۔ اس میں جو حلال ہے تم اسے حلال جانو اور جو اس میں حرام ہے تم اسے حرام جانو۔ (ابوداؤد:۱۶۳، مشکوٰۃ باب الاعتصام ص:۲۹)۔
اور امام ترمذیؒ نے ابورافع سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ میں تم میں سے کسی کو اس حال میں نہ پاؤں کہ وہ اپنے پلنگ پر تکیہ لگائے بیٹھا ہو، اس کے سامنے میرا حکم (از قسم امر و نہی) پیش ہو اور وہ کہے :
لا ادری ما وجنا فی کتاب اللہ اتبعناہ
میں اسے نہیں جانتا، ہم تو جو کچھ کتاب اللہ میں پائیں گے اسی پر عمل کریں گے۔ (مشکوۃ: باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ)۔
ان احادیث سے ثابت ہوا کہ منکرین حدیث پر تکلف امیرانہ زندگی گذارتے ہوں گے اور خوب پیٹ بھر کر آراستہ و پیراستہ تختوں، مسندوں پر، نرم و نازک تکیوں سے ٹیک لگا کر احادیث کا ردّ اور انکار کریں گے۔ منکرین احادیث پر اللہ کے سچے مخبر صادقﷺ کی یہ پیشگوئی لفظ بہ لفظ پوری ہو رہی ہے اور آج بنگلوں میں ٹھاٹھ سے رہنے والے اور فراغت و خوشحالی و عیش و نشاط سے زندگی گذارنے والی ہیں اور صرف قرآن کو حجت قرار دیتے ہیں۔
لسانِ رسالت سے اس فتنہ کی تردید
منکرین حدیث کے اس استدلال کا رَدّ بھی آپﷺ نے خود فرما دیا:
الا انی اوتیت القرآن و مثلہ معہ … وان ما حرم رسول اللہ کما حرم اللہ الا لا یحل لکم الحمار الاھلی
خبردار رہو! بلاشبہ مجھے قرآن دیا گیا ہے اور اس کیساتھ اس کی مثل بھی دی گئی ہے … اور بلاشبہ جو رسول اللہﷺ نے حرام کیا ہے وہ اسی طرح حرام ہے جس طرح اللہ کا حرام کردہ ہے۔ خبردار رہو! پالتو گدھا تمہارے لئے حلال نہیں … (مشکوۃ: باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ)
ثابت ہوا کہ رسول اللہﷺ کی حرام کردہ چیزیں (جو کہ احادیث میں ہیں ) وہ اللہ کی حرام کردہ چیزوں کی طرح حرام ہیں۔ آپﷺ نے کئی چیزوں کی حرمت کا ذکر فرمایا جن کی حرمت قرآن میں نہیں ہے مثلاً گدھے کا حرام ہونا حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اس کا ذکر قرآن میں نہیں کیا بلکہ اسے رسول اللہﷺ نے حرام کیا ہے اور آپﷺ نے اپنے حکم کو اللہ کے حکم سے تعبیر کیا ہے۔ چونکہ رسول اللہﷺ کا حرام کرنا بھی اللہ کی وحی سے ہی ہوتا ہے۔ ثابت ہوا کہ حدیث رسولﷺ قرآن کی طرح حجت ہے اور حدیث بھی قرآن کی طرح منزل من اللہ ہے۔
قرآن کریم سے اس کا ثبوت
رسول اللہﷺ پر صرف قرآن نازل نہیں ہوا بلکہ قرآن کے ساتھ حکمت بھی نازل ہوئی۔
وَ مَا اَنْزَلَ عَلَیْکمْ مِّنَ الْکِتَابِ وَ الْحِکْمَۃِ (سورۃ البقرۃ:۲۳۱)
اور جو اتاری تم پر کتاب اور حکمت
وَ اَنْزَلَ اللہ عَلَیْکَ الْکِتٰبَ وَ الْحِکْمَۃَ (سورۃ النسآء:۱۱۳)
اور اللہ نے آپ پر کتاب اور حکمت نازل کی۔
پھر نبی کریمﷺ کتاب اللہ کی طرح اس الحکمۃ کی بھی تعلیم دیتے تھے :
وَ یعَلِّمہم الْکِتٰبَ وَ الْحِکْمَۃَ (سورۃ البقرۃ:۱۲۹)
’’آپ ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتے تھے ‘‘۔
حکمت کیا ہے ؟
اللہ رب العزت نے امہات المؤمنین کو حکم دیا کہ یاد کرو اللہ کی آیات اور حکمت جو تمہارے گھروں میں تلاوت کی جاتی ہیں۔ (سورۂ احزاب:۳)
نبیﷺ کی بیویوں کے گھروں میں جو اللہ کی آیات اور حکمت کی باتیں کی جاتی ہیں اللہ نے ان کو یاد کرنے کا حکم دیا۔ اللہ کی آیات سے مراد تو قرآن اور حکمت سے مراد رسول اللہﷺ کی باتیں ہی ہوتی تھیں۔ پس قرآن سے بھی یہ ثابت ہوا کہ حکمت سے مراد فرمانِ رسولﷺ ہے جو اللہ نے نازل کیا ہے۔
سوال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولﷺ پر کتاب (قرآن) کے ساتھ جو حکمت نازل فرمائی ہے اس سے کیا مراد ہے ؟ سیدنا قتادہؓ کہتے ہیں کہ ’’والحکمۃ أی السنۃ‘‘ حکمت یعنی سنت نبویﷺ ہے۔
امام شافعیؒ فرماتے ہیں : ’’والسنۃ الحکمۃ التی فی روعہ عن اللہ عز و جل‘‘ اور رسول اللہﷺ کی سنت وہ حکمت ہے جو آپ کے دل میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ڈالی گئی ہے۔
قرآن اور حدیث میں فرق
یہ بات تو واضح ہو گئی کہ قرآن کی طرح سنت و حدیثﷺ بھی منزل من اللہ اور وحی الٰہی ہے۔ فرق صرف اس قدر ہے کہ قرآنِ کریم کا مضمون بھی ربانی ہے اور الفاظ بھی ربانی ہیں۔ جبرئیل امین الفاظِ قرآنی رسول اللہﷺ پر نازل کرتے تھے۔
جبکہ حدیث نبویﷺ کا مضمون تو ربانی ہے مگر الفاظ ربانی نہیں۔ مقامِ تعجب ہے کہ منکرین حدیث جناب محمد رسول اللہﷺ کو رسول اللہ تو مانتے ہیں مگر آپﷺ کے ارشادات کو وحی الٰہی نہیں مانتے بلکہ محمد بن عبداللہ کی ذاتی بات مانتے ہیں۔ یہ لوگ یا تو دِل سے آپﷺ کو رسول نہیں مانتے یا پھر رسول کے معنی نہیں جانتے۔ رسول کے معنی ہیں : پیغام پہچانے والا۔ پیغام پہچانے والا دوسرے کا پیغام پہنچاتا ہے، اپنی نہیں سناتا۔ اگر وہ دوسرے کا پیغام پہچانے کے بجائے اپنی بات شروع کر دیتا ہے تو وہ ’’امین‘‘ نہیں، خائن ہے۔ (معاذ اللہ)۔ رسول کی پہلی اور آخری صفت یہ ہے کہ وہ ’’امین‘‘ ہو۔ آپﷺ مسند رسالت پر فائز ہونے سے قبل ہی ’’امین‘‘ مشہور تھے۔
’’رسول‘‘ اس کو کہتے ہیں جو اپنی بات نہ کہے بلکہ اللہ تعالیٰ کا پیغام حرف بحرف پہنچا دے۔ جو لوگ محمد رسول اللہﷺ کے اِرشادات کو نبیﷺ کی ذاتی بات سمجھ کر رَدّ کر دیتے ہیں وہ صرف منکرین حدیث ہی نہیں در حقیقت وہ منکر رسالت ہیں۔ اگر رسول اللہﷺ کی رسالت کے سچے دل سے قائل ہوتے تو آپﷺ کی احادیث آیاتِ قرآنی کی طرح سر آنکھوں پر رکھتے۔
محمد بن عبداللہ یا محمد رسول اللہﷺ
یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اپنی تو وہ کہتا ہے جس کا تعارف ذاتی ہوتا ہے۔ وہ اپنے نام سے متعارف ہوتا ہے، نبی کریمﷺ کے سوا، سب اپنے باپ کے نام سے پہچانے اور پکارے جاتے ہیں جیسے عثمان بن عفان، عمر بن خطاب، ابوبکر بن ابی قحافہ وغیرہ ] سب اپنے اپنے والد کے نام سے پکارے جاتے ہیں مگر ایک محمد رسول اللہﷺ ہیں جو اپنے باپ کے نام سے نہیں بلکہ محمد رسول اللہﷺ سے متعارف ہوئے۔ کوئی کافر لاکھ محمد بن عبداللہ کہے، وہ مسلمان نہیں ہو گا۔ لیکن دل سے لا الہ الا اللہ کے ساتھ محمد رسول اللہﷺ کہے گا تو مسلمان ہو جائے گا۔
قرآن ہو، اذان ہو، تکبیر ہو، تشہد ہو، کلمہ ہو، ہر جگہ محمد رسول اللہﷺ ہیں محمد بن عبداللہ کسی جگہ پر بھی وارد نہیں۔ تو محمد بن عبداللہ، محمد بن عبداللہ ہو کر بھی محمد بن عبداللہ نہ کہلائے بلکہ محمد رسول اللہﷺ ہو گئے۔ اب آپ کی بات محمد بن عبداللہ کی بات نہ ہوئی، اب تو آپ کی ہر بات اللہ کی بات ہوئی۔ منصب رسالت کا مطلب ہی یہ ہے کہ آپﷺ کا ہر بول جو دین کے احکام سے متعلق ہو وہ اللہ کا بول ہے۔ بس زبان آپﷺ کی ہے۔
وَ مَا یَنْطِق عَنِ الْھَویٰ اِنْ ھوَ اِلَّا وَحْیٌ یّوْحیٰ (النجم:۳، ۴)
آپﷺ اپنی خواہش سے نہیں بولتے بلکہ آپ کا ارشاد وحی ہے
تو حقیقت یہ ہے کہ دین کے دائرے کے اندر نبی کا ہر ارشاد اللہ کا ارشاد ہے اور منزل من اللہ ہے۔
صحابہ کرام ؓ حکم رسول کو حکم الٰہی مانتے ہیں
اصحابِ رسول آپﷺ کے اوامر و نواہی کو اللہ کا اَمر و نہی مانتے تھے۔ سیدنا سعد بن معاذؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کے ہر فرمان کو ہمیشہ اللہ کا اِرشاد سمجھا۔ علقمہ روایت کرتے ہیں کہ سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ نے فرمایا کہ:
’’ان عورتوں پر اللہ نے لعنت کی ہے جو جسم کو گودتی یا گدواتی ہیں یا خوبصورتی کے لئے بال چنتی یا چنواتی ہیں، اور دانتوں کو باریک کرتی ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ صورت میں تغیر و تبدل کرنا چاہتی ہیں ‘‘۔
ایک عورت ان کے پاس آئی اور کہا کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ نے اس اس قسم کی عورتوں پر لعنت کی ہے۔ آپؓ نے فرمایا: جن پر رسول اللہﷺ نے لعنت فرمائی ہے، میں ان پر کیوں لعنت نہ کروں اور وہ چیز کتاب اللہ میں بھی موجود ہے۔ اس نے کہا کہ میں نے سارا قرآن پڑھا ہے، اس میں تو یہ بات مجھے نہیں ملی جو آپ فرماتے ہیں۔ تو آپؓ نے فرمایا:اگر تو قرآن کو سمجھ کر پڑھتی تو یہ بات ضرور اس میں پالیتی۔ کیا تو نے یہ آیت نہیں پڑھی:
وَمَا اٰتٰکم الرَّسوْل فَخذوْہ‘ وَ مَا نھََاکمْ عَنْہ‘ فَانْتھَوْا
جو کچھ تمہیں رسول دیں اسے لے لو اور جس سے تمہیں منع کریں، اس سے رک جاؤ۔
اس عورت نے کہا: ہاں یہ تو پڑھا ہے۔ پھر سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ نے کہا: یقیناً رسول اللہﷺ نے ان افعال کی ممانعت فرمائی ہے (صحیح بخاری کتاب اللباس)
صحابہ کرام ؓ احکامِ شریعت کو قرآنی حکم کی تعمیل میں تسلیم کرتے، گویا اس کو کتاب اللہ ہی سمجھتے بلکہ یوں کہئے کہ انہوں نے ہر حدیث کو قرآن کی طرح تسلیم کیا، اس لئے کہ حدیث کے ماننے کا حکم قرآن مجید میں ہے۔ چنانچہ وہ خاتون سیدنا ابن مسعودؓ کا جواب سن کر مطمئن ہو گئی۔ (صحیح مسلم) قرونِ اولیٰ میں مسلمانوں میں ایسا ہی طرز عمل پایا جاتا تھا۔
حدیث کتاب اللہ ہے
سیدنا ابوہریرہؓ اور سیدنا زید بن خالدؓ روایت کرتے ہیں کہ:
’’ہم لوگ رسول اللہﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ اسی اثناء میں ایک شخص کھڑا ہوا اور اس نے کہا کہ میں آپﷺ کو اللہ کی قسم دے کر کہتا ہوں کہ آپ ہمارے درمیان کتاب اللہ سے فیصلہ کر دیجئے۔ پھر فریق ثانی کھڑا ہوا … وہ زیادہ سمجھ دار تھا … اس نے بھی کہا: اقض بیننا بکتاب اللہ اور پھر فیصلہ طلب واقعہ یوں سنایا کہ میرا لڑکا اس شخص کے ہاں مزدور تھا، اس نے اس کی بیوی سے زنا کیا، میں نے اس کی طرف سے سو بکریاں اور ایک خادم بطور فدیہ ادا کیا۔ پھر میں نے اہل علم سے دریافت کیا تو انہوں نے مجھے بتایا کہ میرے لڑکے کو سو کوڑے اور ایک سال کی جلاوطنی کی سزا دی جائے گی اور اس کی بیوی کو سنگسار کیا جائے گا۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
’’قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، میں ضرور تمہارا فیصلہ کتاب اللہ سے کروں گا۔ سو بکریاں اور خادم تمہیں واپس کیا جائے اور تمہارے بیٹے کو سو کوڑے مارے جائیں گے اور ایک سال کے لیے جلاوطن کیا جائے ‘‘۔ (صحیح بخاری کتاب المحاربین)
مذکورہ بالا حدیث سے ثابت ہوا کہ احادیث کو بھی کتاب اللہ کہا جاتا ہے کیونکہ جو سزا یہاں بیان کی گئی ہے، وہ حدیث ہی میں ہے، قرآن میں کہیں نہیں۔ صرف قرآن قرآن کا دعویٰ کرنے والوں کو اتنی سیدھی سی بات سمجھ میں نہیں آتی کہ قرآن اور حدیث دونوں ہی وحی ہیں، دونوں زبانِ نبوت سے ادا ہوتے ہیں، اِن میں سے بعض کو ہم قرآن قرار دیتے ہیں اور بعض کو حدیث نبویﷺ ۔ کیونکہ ہمیں ہمارے نبیﷺ نے بتایا کہ فلاں الفاظ بطور رقرآن ہیں اور فلاں بطور حدیث۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اگر انہیں نبی کریمﷺ کے فرمان پر یقین نہیں ہے تو پھر بتائیے، قرآن بھی کس کے کہنے سے ’’قرآن‘‘ بنتا ہے ؟ فرمانِ نبوی نے ہی بتلایا کہ یہ قرآن ہے۔ ہم سے نہ اللہ نے یہ فرمایا، نہ جبرئیل امین نے کہا کہ یہ قرآن ہے۔ کس قدر گمراہی کی طرف جا رہے ہیں یہ لوگ جو آج قرآن کی آڑ لے کر حدیث کے انکار پر تلے ہوئے ہیں جبکہ احادیث ہی نے انہیں قرآن سے روشناس کیا۔
اگر حدیث سے انکار ہے تو قرآن کا ثبوت کیسے ممکن ہے ؟ اگر حدیث کا اعتبار نہیں تو قرآن کا ہم کو کس نے بتایا کہ یہ قرآن ہے ؟۔ حدیث ہی نے ہمیں بتلایا کہ یہ قرآن ہے۔ منکرین کس منہ سے قرآن کو ’’کتاب اللہ‘‘ کہتے ہیں ؟ قرآن تو صرف انہی بانصیب کے لئے ’’کتاب اللہ‘‘ ہے جن کا حدیث رسولﷺ پر ایمان ہے اور جن کے لئے حدیث حجت ہے۔
تدوین حدیث
منکرین حدیث میں سے کچھ لوگ تو ایسے ہیں جو احادیث کو اس شرط پر قبول کرتے ہیں کہ وہ انسانی عقل کے مطابق ہوں جبکہ بعض منکرین حدیث ایسے ہیں جو احادیث کی تدوین پر عدم اعتماد کو بنیاد بنا کر کلی طور پر احادیث نبوی کو قبول ہی نہیں کرتے۔ جبکہ قرآن مجید جو حدیث کی بنسبت اعلیٰ معیار پر محفوظ ہے، وہ ان دونوں کی اسنادی تحقیق میں بنیادی فرق ملحوظ رکھے بغیر دونوں کے لیے یکساں اسلوب اور مساوی درجہ حفاظت کا تقاضا کرتے ہیں۔ حالانکہ قرآن کے کلام الٰہی ہونے کی حیثیت سے الفاظ کی بھی محفوظ رہے اور حدیث مفہومِ کلامِ الٰہی ہونے کے ناطے مفہوم کی حفاظت کے اصولوں پر روایت و تدوین ہوتی ہے۔
اسی طرح منکرین حدیث موجودہ حالات پر قیاس کرتے ہوئے صحیح تجزیہ کئے بغیر برسوں قبل کے حالات کو اپنے دور کے اندازوں کے مطابق پرکھنا چاہتے ہیں۔ انسان کی محدود عقل و فراست میں یہ صلاحیت بڑی نادر ہے کہ وہ حالت کے معروضی فرق کو ملحوظ رکھ کر ہر دور کے تقاضوں اور اس کے مسلمات کو سمجھ سکے۔ جس طرح ہمارے مغرب گزیدہ مفکرین نے اسلام کے اسلوبِ استدلال کو ملحوظ نہ رکھ کر اور دونوں کے معروضی حالات کا فرق نہ کر کے جدید علم الکلام کو اپنایا اور اس کو ترقی یافتہ قرار دیا جو کہ دراصل ایمان و یقین کی کمزوری کی علامت کا مظہر ہے۔ اسی طرح دورِ نبوت میں حفاظت کے تقاضوں کو آج کے دور کے حفاظت کے تقاضوں سے پرکھنا بھی ایسی ہی بڑی غلطی ہے۔ موجودہ دور میں اگر کتابت کو حفاظت کا معتمد ذریعہ مانا گیا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہمیشہ سے کتابت ہی معتمد اور مستند ترین ذریعہ رہا ہو بلکہ شاید مستقبل میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کی بدولت کتاب و تدوین بھی اپنی موجودہ حیثیت برقرار نہ رکھ سکے۔
اسلام کی حفاظت کا ذمہ اللہ تعالیٰ نے خود لیا ہے۔ نبی آخر الزمانﷺ پر نبوت کا سلسلہ ختم ہوا تو ضروری تھا کہ قیامت تک ایک مکمل دین انسانوں کے لئے محفوظ ترین صورت میں موجود ہو۔ اسی طرح اسلام کے احکام اپنے پیروکاروں کے لئے ہمیشہ ایک جیسے رہے ہیں۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ کوئی حکم پہلے مخاطبین اوّل صحابہ کرام ؓ کے لئے تو دین کا درجہ رکھتی ہو اور بعد میں آنے والوں کے لئے اس کی کوئی دینی حیثیت نہ ہو۔ احادیث نبویہ کی تعمیل صحابہ کرام پر فرض تھی اور وہ اپنے نبیﷺ کے احکامات ماننے کے پابند تھے ضروری ہے کہ ان پر لاگو شرعی احکام آگے بھی اسی حیثیت سے منتقل ہوں کیونکہ اسلام تب ہی اللہ کا بھیجا ہوا دائمی آخری دین ہو سکتا ہے جب وہ قیامت تک اپنی اصل شکل اور یکساں حیثیت میں سب کے لئے موجود ہو۔ دین کی حفاظت کی یہ ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے ذریعے اس طرح سادہ انداز میں پوری کرائی ہے جو ہر دور میں حفاظت کا آسان اور مروجہ انداز رہا ہے اور اس پر عمل کرنا، اس کے تقاضے بجا لانا انسانوں کے لئے بآسانی ممکن رہا ہے۔ چنانچہ ابتداء میں قرآن و حدیث کو بحفاظت آگے منتقل کرنے کے لئے جو طریقہ اختیار کیا گیا وہ بنیادی طور پر حافظہ پر اعتماد کا طریقہ ہے جس کو بعد میں کتابت اور دیگر ذرائع سے بھی تقویت دی گئی ہے۔
منکرین حدیث نے یہ فرض کر لیا ہے کہ قرآن تو گویا ہمیشہ سے تحریری شکل میں محفوظ چلا آ رہا ہے، جبکہ حدیث کی تدوین میں زیادہ اعتماد صرف حافظہ پر رہا ہے، اس لئے احادیث ناقابل اعتماد ہیں۔
کیا مکتوبہ چیز ہی قابل اعتماد ہے …؟
یہ بات کہی جاتی ہے کہ چونکہ حدیث لکھی ہوئی نہ تھی، عہد رسالت میں صرف حافظہ کی مدد سے ہی اس کو محفوظ رکھا جاتا تھا یا حدیث عہد رسالت یا عہد خلافت میں لکھوائی نہیں گئی تھی اس لئے حجت نہیں (حالانکہ احادیث عہد رسالت اور صحابہ کرام ؓ کے دور میں بھی لکھی گئی تھیں )۔ قرآنِ مجید کو جس وجہ سے لکھوایا گیا تھا وہ یہ تھی کہ اس کے الفاظ و معانی دونوں ہی من جانب اللہ تھے اس کے الفاظ کی ترتیب ہی نہیں اس کی آیتوں، سورتوں کی ترتیب بھی اللہ کی جانب سے تھی۔ اس کے الفاظ کو دوسرے الفاظ سے بدلنا بھی جائز نہ تھا۔ تاکہ جس طرح نازل ہوا لوگ انہی الفاظ و انداز میں اسی ترتیب سے اس کو محفوظ کریں۔ سنت کی نوعیت اس سے مختلف تھی اس کے الفاظ قرآن کے الفاظ کی طرح نازل نہیں ہوئے تھے بلکہ رسول اللہﷺ نے اس کو اپنے قول و فعل سے ادا کیا تھا۔ پھر اس کا بڑا حصہ ایسا تھا جسے رسول اللہﷺ کے شاگردوں نے اپنے الفاظ میں بیان کیا تھا۔ مثلاً رسول اللہﷺ کے اخلاق ایسے تھے، زندگی ایسی تھی، فلاں موقع پر رسول اللہﷺ نے فلاں کام کیا، رسول اللہﷺ کے اقوال و افعال نقل کرنے میں کوئی پابندی نہ تھی کہ انہیں سامعین لفظ بلفظ نقل کریں بلکہ سامعین کے لئے یہ جائز تھا کہ وہ آپﷺ کے قول و فعل کو معنی و مفہوم بدلے بغیر اسے اپنے الفاظ میں بیان کر دیں۔ رسول اللہﷺ کے الفاظ کی تلاوت مقصود نہ تھی بلکہ اس تعلیم کی پیروی مقصود تھی جو آپﷺ نے دی تھی۔ احادیث میں قرآن کی آیتوں اور سورتوں کی طرح ترتیب محفوظ رکھنا بھی ضروری نہ تھا کہ فلاں حدیث پہلے ہو اور فلاں بعد میں۔ اس بنا پر احادیث کے معاملے میں یہ کافی تھا کہ لوگ انہیں یاد رکھیں اور دیانت کے ساتھ انہیں دیگر لوگوں تک پہنچائیں۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ کسی چیز کے حجت ہونے کے لئے اس کا لکھا ہوا ہونا ضروری نہیں ہے۔ اعتماد کی اصل بنیاد اس شخص یا اشخاص کا بھروسہ کے قابل ہونا ہے، جس کے ذریعہ بات دوسروں تک پہنچے خواہ مکتوب ہو یا غیر مکتوب اللہ تعالیٰ نے بھی پورا انحصار اس بات پر کیا کہ جو لوگ نبی کو سچا مانیں گے وہ نبی کے اعتماد پر قرآن کو بھی کلام الٰہی مان لیں گے۔
نبی کریمﷺ کی جتنی تبلیغ و اشاعت تھی زبانی تھی۔ آپﷺ کے صحابہ ؓ مختلف علاقوں میں جا کر تبلیغ کرتے۔ وہ قرآن کی سورتیں لکھی ہوئی نہ لے جاتے تھے۔ تقریباً ساری تبلیغ و اشاعت زبانی ہوتی تھی۔ چند ایک خطوط تھے جو آپﷺ نے لکھوائے تھے۔
نئے ایمان لانے والے، صحابہ پر اعتماد کرتے تھے کہ جو کچھ وہ سنا رہے ہیں وہ اللہ کا کلام ہے یا پھر رسول اللہﷺ کا حکم ہے، جو حکم وہ پہنچا رہے ہیں۔
تیسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ لکھی ہوئی چیز خود کبھی قابل اعتماد نہیں ہوتی جب تک زندہ انسانوں کی شہادت اس کی توثیق نہ کرے۔ محض لکھی ہوئی چیز اگر ہمیں ملے اور ہم لکھنے والے کا خط (لکھائی کا انداز) نہ پہچانتے ہوں یا لکھنے والا خود نہ بتائے یہ اس کی تحریر ہے یا ایسے شواہد موجود نہ ہوں جو اِس امر کی تصدیق کریں کہ یہ تحریر اسی شخص کی ہے جس کی طرف منسوب کی گئی ہے تو ہمارے لئے وہ تحریر کیا معنی ہو سکتی ہے ؟
کسی چیز کا لکھا ہوا ہونا ہی حجت نہیں جب تک زندہ انسانوں کی شہادت موجود نہ ہو۔ قرآن رسول اللہﷺ کو تحریری شکل میں نہیں دیا گیا تھا۔ جبرئیل امین زبانی ہی وحی لاتے تھے اور رسول اللہﷺ بھی زبانی ہی صحابہ ؓ کو بتاتے تھے۔ آج بھی قرآن اس لئے حجت نہیں کہ یہ لکھا ہوا ہمارے پاس موجود ہے بلکہ زندہ انسانوں کی شہادت ہے جو مسلسل اس کو سنتے اور بعد میں آنے والوں تک اسے پہنچاتے چلے آ رہے ہیں۔ اگر قرآن کے سلسلہ میں زندہ انسانوں کی شہادت حجت ہے تو سنت رسولﷺ کے بارے میں حجت کیوں نہیں ؟؟
اب ان لوگوں سے سوالات کئے جاتے ہیں جو کسی بھی حوالے سے کسی بھی صحیح ثابت شدہ حدیث کا انکار کرتے ہیں وہ اگر اپنے دعویٰ میں سچے ہیں تو ان 50 سوالات کے جوابات صرف قرآن ہی سے دیں ورنہ اپنے باطل عقیدہ سے توبہ کر لیں۔
سوالات
سوال نمبر1 ۔قرآن مجید کی جو 114 سورتیں ہیں ان سورتوں کے نام کس نے رکھے ہیں کیا قرآن نے خود ان سورتوں کے نام رکھے ہیں ؟ اگر یہ نام قرآن نے رکھے ہیں تو کس پارے میں یہ نام موجود ہیں ؟ یا یہ نام رسول اللہﷺ نے رکھے ہیں ؟ اگر یہ نام رسول اللہﷺ نے رکھے ہیں تو کیا آپﷺ کے پاس اختیار تھا کہ اللہ نے بغیر نام کے سورتوں کو نازل کیا اور آپ نے ان کے نام رکھ دیئے ؟ یا پھر اللہ کے حکم سے رسول اللہﷺ نے رکھے ہیں ؟
سوال نمبر2۔ قرآن مجید میں 15 مقامات پر (آیت سجدہ پڑھ کر) سجدہ کرنے کا حکم ہے کیا یہ حکم قرآن میں موجود ہے یا یہ حکم رسول اللہﷺ نے دیا ہے ؟
سوال نمبر3۔ قرآن مجید کی ہر سورت کی ابتداء بسم اللہ الرحمن الرحیم سے ہوتی ہے سوائے سورۂ توبہ کے۔ سورۃ انفال اور سورۂ توبہ کے درمیان بسم اللہ الرحمن الرحیم نہیں ہے۔ یہ کس نے بتایا کہ اب سورۃ توبہ شروع ہو گئی؟ یہ بات قرآن میں موجود ہے یا پھر رسول اللہﷺ نے بتایا کہ سورۃ انفال کے بعد بغیر بسم اللہ الرحمن الرحیم کے سورۂ توبہ شروع ہوتی ہے۔ تو کیا رسول اللہﷺ کا اِرشاد دین ثابت نہیں ہوتا؟
سوال نمبر4۔ کیا قرآن نے حروف مقطعات کے معنی بیان کئے ہیں ؟ اگر کئے ہیں تو کس سورت میں بیان کئے ہیں ؟ اور اگر قرآن اس پر خاموش ہے تو کیا قرآن نے اس کی وجہ بتائی ہے ؟
سوال نمبر5۔ مَا نَنْسَخْ مِنْ ایٰۃٍ اَوْ ننْسھِا نَاْتِ بِخَیْرٍ مِّنْھَآ اَوْ مِثْلھَِا اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللہَ عَلیٰ کلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ (سورۂ بقرہ:106)
ہم جس آیت کو منسوخ کر دیتے یا اس کو فراموش کرا دیتے ہیں تو اس سے بہتر یا ویسی ہی اور آیت لے آتے ہیں۔ کیا تم نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ ہر بات پر قادر ہے ؟
اس آیت قرآنی میں اللہ نے بتایا ہے کہ ہم جس آیت کو چاہیں منسوخ کر دیں۔ کیا قرآنی آیات منسوخ بھی ہوتی ہیں؟ آیات کی منسوخی کے لئے کوئی آیت نازل ہوئی ہے کہ فلاں آیت اب منسوخ ہے یا پھر رسول اللہﷺ نے بتایا کہ فلاں آیت اب منسوخ ہے ؟ اگر احادیث سے پتہ چلا کہ فلاں آیت منسوخ ہے تو پھر یقیناً یہ کہنا پڑے گا اور ماننا پڑے گا کہ جس طرح قرآن حجت اور دین ہے اسی طرح رسول اللہﷺ کا اِرشاد دین اور حجت ہے۔
سوال نمبر6۔ وَ مِنْ حَیْث خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْھَکَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَ اِنَّہٗ لَلْحَقّ مِنْ رَّبِّکَ وَ مَا اللہ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلوْنَ وَ مِنْ حَیْث خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْھَکَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَ حَیْث مَا کنْتمْ فَوَلّوْا وجوْھَکمْ شَطْرَہٗ لِئَلآَ یَکوْنَ لِلنَّاسِ عَلَیْکمْ حجَّۃٌ اِلَّا الَّذِیْنَ ظَلَموْا مِنْھمْ فَلَا تَخْشَوْھمْ وَاخْشَوْنِیْ وَ لِاتِمَّ نِعْمَتِیْ عَلَیْکمْ وَ لَعَلَّکمْ تھَْتَدوْنَ (بقرہ 149۔ 150)
اور تم جہاں سے نکلو اپنا منہ مسجد حرام کی طرف کر لیا کرو بلاشبہ وہ تمہارے رب کی طرف سے حق ہے اور تم لوگ جو کچھ کرتے ہو اللہ اس سے بے خبر نہیں ہے۔ اور تم جہاں سے نکلو مسجد محترم کی طرف منہ کرو اور مسلمانو تم جہاں ہوا کرو اسی (مسجد) کی طرف رخ کیا کرو (یہ تاکید) اس لئے (کی گئی ہے ) کہ لوگ تمہیں کسی طرح کا الزام نہ دے سکیں مگر ان میں سے جو ظالم ہیں (وہ الزام دیں تو دیں ) سو ان سے مت ڈرنا اور مجھ ہی سے ڈرتے رہنا اور یہ بھی مقصود ہے کہ میں تمہیں اپنی تمام نعمتیں بخشوں اور یہ بھی کہ تم راہِ راست پر چلو۔
اِن آیات میں قرآن کریم نے یہ حکم دیا ہے کہ ہم جب بھی جہاں پر بھی ہوں ہر حال میں ہر وقت اپنے چہرے مسجد الحرام کی طرف کر لیں۔ بتائیں اس آیت پر عمل کیسے ہو گا؟ دنیا میں کون ہے جو اس حکم پر عمل کر سکے ؟ جب تک احادیث کو تسلیم نہیں کیا جائے گا جب تک اس حکم پر عمل ممکن ہی نہیں۔ احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ یہ حکم صرف حالت نماز کے لیے ہے۔ اب بتائیے کیا احادیث دین نہیں ؟
سوال نمبر7۔ اَلْحَجّ اَشْھرٌ مَّعْلوْمٰتٌ فَمَنْ فَرَضَ فِیْھِنَّ الْحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَ لَا فسوْقَ وَ لَا جِدَالَ فِی الْحَجِّ وَ مَا تَفْعَلوْا مِنْ خَیْرٍ یَّعْلَمْہ اللہ وَ تَزَوَّدوْا فَاِنَّ خَیْرَ الزَّادِ التَّقْویٰ وَ اتَّقوْنِ یٰٓاولِی الْاَلْبَابِ
حج کے مہینے (معیّن ہیں جو) معلوم ہیں تو جو شخص ان مہینوں میں حج کی نیت کر لے تو حج (کے دنوں ) میں نہ عورتوں سے اختلاط کرے نہ کوئی برا کام کرے نہ کسی سے جھگڑے اور جو نیک کام تم کرو گے اس کو اللہ جانتا ہے اور زادِ راہ (یعنی رستے کا خرچ) ساتھ لے جاؤ کیونکہ بہتر (فائدہ) زادِ راہ (کا) پرہیز گاری ہے اور اے اہل عقل مجھ سے ڈرتے رہو۔ (سورۂ بقرہ آیت نمبر197)۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ حج کے مہینے معلوم ہیں۔ اشھر جمع کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے جو کہ کم از کم 3 کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ اب آپ قرآن سے بتائیے کہ حج کے کون کون سے مہینے ہیں ؟ یا پھر اس آیت کو سمجھنے کے لئے بھی حدیث کی ضرورت ہے ؟ تو پھر ماننا پڑے گا کہ احادیث بھی قرآن کی طرح دین کا حصہ ہیں۔
سوال نمبر8۔ وَ الَّذِیْنَ یتَوَفَّوْنَ مِنْکمْ وَ یَذَروْنَ اَزْوَاجًا یَّتَرَبَّصْنَ بِاَنْفسھِِنَّ اَرْبَعَۃَ اَشْھرٍ وَّ عَشْرًا فَاِذَا بَلَغْنَ اَجَلھَنَّ فَلَا جنَاحَ عَلَیْکمْ فِیْمَا فَعَلْنَ فِیْ اَنْفسھِنَّ بِالْمَعْروْفِ وَ اللہ بِمَا تَعْمَلوْنَ خَبِیْرٌ (سورۂ بقرہ آیت نمبر234)۔
اور جو لوگ تم میں سے مر جائیں اور عورتیں چھوڑ جائیں تو عورتیں ’’چار مہینے اور دس‘‘ اپنے آپ کو روکے رہیں اور جب (یہ) عدت پوری کر چکیں تو اپنے حق میں پسندیدہ کام (یعنی نکاح) کر لیں تو تم پر کچھ گناہ نہیں اور اللہ تعالیٰ تمہارے سب کاموں سے واقف ہے۔
اس آیت میں اللہ رب العزت نے بتایا کہ جو عورتیں ایام عدت میں ہوں یعنی جن کے شوہر انتقال کر جائیں وہ 4 مہینے اور دس … انتظار کریں۔ اب قرآن سے بتائیے کہ یہ دس کیا ہیں ؟ چار مہینے اور دس دن؟ چار مہینے اور دس ہفتے ؟ چار مہینے اور دس عشرے ؟ چار مہینے اور دس سال؟ کیا قرآن نے اس کی وضاحت کی ہے ؟۔
سوال نمبر9۔ یٰٓاَیّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنوْآ اَطِیْعوا اللہَ وَ اَطِیْعوا الرَّسوْلَ وَ اولِی الْاَمْرِ مِنْکمْ فَاِنْ تَنَازَعْتمْ فِیْ شَیْئٍ فَردّوْہ اِلَی اللہِ وَ الرَّسوْلِ اِنْ کنْتمْ تؤْمِنوْنَ بِاللہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ ذٰلِکَ خَیْرٌ وَّ اَحْسَن تَاْوِیْلاً (سورۃ النساء آیت نمبر59)۔
مومنو! اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرو اور جو تم میں سے صاحب حکومت ہیں ان کی بھی۔ پھر اگر کسی بات میں تم میں اختلاف واقع ہو تو اگر اللہ اور روزِ آخرت پر ایمان رکھتے ہو تو اس میں اللہ اور اس کے رسول (کے حکم) کی طرف رجوع کرو یہ بہت اچھی بات ہے اور اس کا انجام بھی اچھا ہی۔
قرآن نے کہا: اگر تمہارے درمیان اختلاف ہو جائے تو اگر تم اللہ پر اور آخرت پر ایمان رکھتے ہو تو اللہ اور اس کے رسولﷺ کی طرف رجوع کرو۔
اب ہم اس آیت پر عمل کیسے کریں کہ اپنے اختلافات کے حل کے لئے اللہ اور اس کے رسول کی طرف رجوع کریں ؟ اللہ کی طرف رجوع کا مطلب قرآن کی طرف رجوع ہے اور رسول اللہﷺ کی طرف رجوع کا مطلب کیا احادیث کی طرف رجوع نہیں ؟ ثابت ہوا کہ حدیث بھی قرآن کی طرح حجت ہے۔
سوال نمبر 10۔ وَ مَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا کَآفَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِیْرًا وَّ نَذِیْرًا وَّ ٰلکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَموْنَ
اور (اے محمدﷺ !) ہم نے تم کو تمام لوگوں کے لیے خوشخبری سنانے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔
قلْ یٰٓاَیّھَا النَّاس اِنِّیْ رَسوْل اللہِ اِلَیْکمْ جَمِیْعَا نِالَّذِیْ لَہٗ ملْک السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ لَآ اِٰلہَ اِلَّا ھوَ یحْیٖ وَ یمِیْت فَاٰمِنوْا بِاللہِ وَ رَسوْلِہِ النَّبِیِّ الْامِّیِّ الَّذِیْ یؤْمِن بِاللہِ وَ کَلِمٰتِہٖ وَ اتَّبِعوْہ لَعَلَّکمْ تھَْتَدوْنَ (سورۂ اعراف:158)۔
(اے محمدﷺ !) کہہ دو کہ لوگو! میں تم سب کی طرف اللہ کا بھیجا ہوا (رسول) ہوں (وہ) جو آسمانوں اور زمین کا بادشاہ ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں وہی زندگی بخشتا اور وہی موت دیتا ہے تو اللہ پر اور اس کے رسول پیغمبر امّی پر، جو اللہ پر اور اس کے تمام کلام پر ایمان رکھتے ہیں، ایمان لاؤ اور ان کی پیروی کرو تاکہ ہدایت پاؤ۔
ان دونوں آیات سے ثابت ہوا کہ رسول اللہﷺ کو تمام لوگوں کے لئے رسول بنا کر بھیجا گیا ہے۔ پہلے کسی نبی کو کسی خاص بستی کی طرف، کسی شہر کی طرف یا کسی قوم کی طرف بھیجا جاتا۔ رسول اللہﷺ کو تمام انسانیت کے لئے رسول بنا کر بھیجا اب قیامت تک کوئی اور نیا رسول نہیں آئے گا بلکہ تمام لوگوں کے لئے محمدﷺ رسول ہیں۔ تو کیا رسول ماننے کا مطلب یہ نہیں کہ آپ کی لائی ہوئی تعلیمات پر عمل کیا جائے۔ آپ کے بتائے ہوئے راستے پر چلا جائے۔ رسول اللہﷺ کے راستے اور طریقے کے لئے کیا احادیث کی ضرورت ہو گی؟ یقیناً ہو گی۔ پھر ماننا پڑے گا کہ احادیث پر عمل کرنا لازمی اور ضروری ہے۔
سوال نمبر11۔ فَلَا وَ رَبِّکَ لَا یؤْمِنوْنَ حَتّیٰ یحَکِّموْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنھَمْ ثمَّ لَا یَجِدوْا فِیْٓ اَنْفسھِِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَ یسَلِّموْا تَسْلِیْمًا
تمہارے رب کی قسم! یہ لوگ جب تک اپنے تنازعات میں تمہیں منصف نہ بنائیں اور جو فیصلہ تم کر دو اس سے اپنے دل میں تنگ نہ ہوں بلکہ اس کو خوشی سے مان لیں تب تک مومن نہیں ہوں گے (النساء:۶۵)
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو رسول اللہﷺ کے فیصلے کو دل سے تسلیم نہ کرے اور آپ کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لے وہ مومن نہیں۔ اب بتائیں اللہ قسم کھا کر اس بات کی نفی کر رہا کہ وہ مومن نہیں ہے جو رسول اللہﷺ کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لے اور آپ کے فیصلے پر دل سے راضی نہ ہو جائے ؟ رسول اللہﷺ کا فیصلہ کہاں ملے گا؟ احادیث میں ملے گا۔ اس آیت کی روشنی میں بھی ہم کو ماننا پڑے گا کہ احادیث دین ہیں۔
سوال نمبر12۔ مَنْ یّطِعِ الرَّسوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللہَ وَ مَنْ تَوَلّیٰ فَمَآ اَرْسَلْنٰکَ عَلَیْھِمْ حَفِیْظًا (سورۃ النساء:80)۔
جو شخص رسول کی فرمانبرداری کرے گا تو بیشک اس نے اللہ کی فرمانبرداری کی اور جو نافرمانی کرے تو اے پیغمبر تمہیں ہم نے ان کا نگہبان بنا کر نہیں بھیجا۔
اللہ رب العزت نے فرمایا: جس نے رسولﷺ کی پیروی کی اس نے اللہ کی پیروی کی۔ اب بتائیں کہ رسول اللہﷺ کی پیروی ہم کس طرح کریں گے ؟ یقیناً احادیث کے ذریعے۔ تو مان لیں کہ احادیث دین کا لازمی جز ہیں۔
سوال نمبر13۔ یٰٓاَیّھَا الَّذِیْنَ ٰامَنوْآ اِذَا قمْتمْ اِلَی الصَّلٰوۃِ فَاغْسِلوْا وجوْھَکمْ وَ اَیْدِیَکمْ اِلَی الْمَرَافِقِ وَامْسَحوْا بِرئ وْسِکمْ وَ اَرْجلَکمْ اِلَی الْکَعْبَیْنِ وَ اِنْ کنْتمْ جنبًا فَاطّھََّروْا وَ اِنْ کنْتمْ مَّرْضٰٓی اَوْ عَلیٰ سَفَرٍ اَوْ جَآئَ اَحَدٌ مِّنْکمْ مِّنَ الْغَآئِطِ اَوْ لٰمَسْتم النِّسَآئَ فَلَمْ تَجِدوْا مَآئً فَتَیَمَّموْا صَعِیْدًا طَیِّبًا فَامْسَحوْا بِوجوْھِکمْ وَ اَیْدِیْکمْ مِّنْہ مَا یرِیْد اللہ لِیَجْعَلَ عَلَیْکمْ مِّنْ حَرَجٍ وَّ ٰلکِنْ یّرِیْد لِیطھَِّرَکمْ وَلِیتِمَّ نِعْمَتَہٗ عَلَیْکمْ لَعَلَّکمْ تَشْکروْنَ (سورۂ مائدہ:6)۔
مومنو! جب تم نماز پڑھنے کا قصد کیا کرو تو منہ اور کہنیوں تک ہاتھ دھو لیا کرو اور سر کا مسح کر لیا کرو اور ٹخنوں تک پاؤں (دھو لیا کرو) اور اگرنہانے کی حاجت ہو تو (نہا کر) پاک ہو جایا کرو اور اگر بیمار ہو یا سفر میں ہو یا کوئی تم میں سے بیت الخلاء میں سے ہو کر آیا ہو یا تم عورتوں سے ہمبستر ہوئے ہو اور تمہیں پانی نہ مل سکے تو پاک مٹی لو اور اس سے منہ اور ہاتھوں کا مسح (یعنی تیمم) کر لو اللہ تعالیٰ تم پر کسی طرح کی تنگی نہیں کرنا چاہتا بلکہ یہ چاہتا ہے کہ تمہیں پاک کرے اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کرے تاکہ تم شکر کرو۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جب نماز کے لئے کھڑے ہو تو اپنے چہرے دھو لو اپنے ہاتھ دھو لو اور اپنے پاؤں دھو لو اور سر پر مسح کر لو (یعنی وضو کر لو)(کیا آپ اسی ترتیب سے وضو کرتے ہیں کہ پہلے منہ دھویا پھر ہاتھ دھوئے وغیرہ)۔ اب ہمارا سوال یہ ہے کہ کیا وضو توڑنے والی بھی کوئی چیز یا کوئی عمل ہے جو قرآن سے ثابت ہو؟ یا صرف ایک بار ہی وضو کر لینا کافی ہے ؟۔ قرآن سے جواب دیں۔
سوال نمبر14۔ اِنَّمَا حَرَّمَ عَلَیْکم الْمَیْتَۃَ وَ الدَّمَ وَ لَحْمَ الْخِنْزِیْرِ وَ مَآ اھِلَّ بِہٖ لِغَیْرِ اللہِ فَمَنِ اضْطرَّ غَیْرَ بَاغٍ وَّ لَا عَادٍ فَلَآ اِثْمَ عَلَیْہِ اِنَّ اللہَ غَفوْرٌ رَّحِیْمٌ (سورۃ البقرۃ آیت نمبر173)۔
اس نے تم پر مرا ہوا جانور اور لہو اور سؤر کا گوشت اور جس چیز پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام پکارا جائے حرام کر دیا ہے۔ ہاں جو ناچار ہو جائے (بشرطیکہ) اللہ کی نافرمانی نہ کرے اور حد (ضرورت) سے باہر نہ نکل جائے اس پر کچھ گناہ نہیں بیشک اللہ تعالیٰ بخشنے والا (اور) رحم کرنے والا ہے۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مرا ہوا جانور، خنزیر، خون اور جس پر غیر اللہ کا نام پکارا جائے وہ حرام قرار دیا ہے۔ آج تقریباً سب لوگ مچھلی کھاتے ہیں جو کہ پانی سے نکلنے کے بعد فورااً مر جاتی ہے۔ اگر صرف قرآن ہی حجت ہے تو بتائیے کہ مچھلی حلال ہے یا حرام؟ اگر یہ کہا جائے کہ سمندری جانور حلال ہے تو سمندری جانور جو زندہ ہو وہ حلال ہے یا سمندری مرا ہوا جانور بھی حلال ہے ؟ (اور اگر احادیث کو تسلیم کر لیا جائے تو صحیح بخاری سے پتہ چلتا ہے کہ مری ہوئی مچھلی حلال ہے )۔
سوال نمبر15۔ اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَروْا سَوَآءٌ عَلَیْھِمْ ئَ اَنْذَرْتھَمْ اَمْ لَمْ تنْذِرْھمْ لَا یؤْمِنوْنَ (سورۂ بقرہ:۶)۔
بیشک جو لوگ کافر ہیں انہیں تم نصیحت کرو یا نہ کرو ان کے لئے برابر ہے وہ ایمان نہیں لائیں گے۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ کا اِرشاد ہے کہ جو لوگ کافر ہیں آپ ان کو ڈرائیں یا نہ ڈرائیں وہ ایمان نہیں لائیں گے۔ اس آیت کی روشنی میں بتائیں کہ کفار کو ہم نصیحت کریں یا نہ کریں کیا وہ ایمان لائیں گے ؟ اگر کوئی کفر کرنے والا مسلم ہونا چاہے تو اس آیت کی روشنی میں ہم اس کو کیا کہیں ؟ یا اس آیت کو سمجھنے کے لئے احادیث کی طرف رجوع کریں؟
سوال نمبر16۔ اِنَّ اللہَ لَا یَغْفِر اَنْ یّشْرَکَ بِہٖ وَ یَغْفِر مَا دوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَآء وَ مَنْ یّشْرِکْ بِاللہِ فَقَدِ افْتَرٰٓی اِثْمًا عَظِیْمًا
اللہ تعالیٰ اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے اور اس کے سوا اور گناہ جس کو چاہے معاف کر دے اور جس نے اللہ کاشریک مقر ر کیا اس نے بڑا بہتان باندھا۔ (سورۃ النساء:48)۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ کا اِرشادِ گرامی ہے کہ اللہ تعالیٰ شرک معاف نہیں کرے گا۔ کیا اس آیت کی روشنی میں مشرک کی توبہ قبول ہو سکتی ہے ؟ یا اس آیت کو حدیث کی روشنی میں سمجھنا پڑے گا؟
سوال نمبر 17۔ قلْ لَّآ اَجِد فِیْ مَآ اوْحِیَ اِلَیَّ محَرَّمًا عَلیٰ طَاعِمٍ یَّطْعَمہٗٓ اِلَّآ اَنْ یَّکوْنَ مَیْتَۃً اَوْ دَمًا مَّسْفوْحًا اَوْ لَحْمَ خِنْزِیْرٍ فَاِنَّہٗ رِجْسٌ اَوْ فِسْقًا اھِلَّ لِغَیْرِ اللہِ بِہٖ فَمَنِ اضْطرَّ غَیْرَ بَاغٍ وَّ لَا عَادٍ فَاِنَّ رَبَّکَ غَفوْرٌ رَّحِیْمٌ (سورۂ انعام :145)۔
کہو کہ جو احکام مجھ پر نازل ہوئے ہیں میں ان میں کوئی چیز جسے کھانے والا کھائے حرام نہیں پاتا بجز اس کے کہ وہ مرا ہوا جانور ہو یا بہتا لہو یا سؤر کا گوشت کہ یہ سب ناپاک ہیں یا کوئی گناہ کی چیز ہو کہ اس پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام لیا گیا ہو اگر کوئی مجبور ہو جائے لیکن نہ تو نافرمانی کرے اور نہ حد سے باہر نکل جائے تو تمہارا رب بخشنے والا مہربان ہے۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آپ فرما دیجئے کہ میں ان (4) چیزوں کے سوا کسی چیز کو حرام نہیں پاتا۔ اب بتائیں کیاصرف یہ چار چیزیں حرام ہیں اور کتے، بلی، گدھے اور چیل وغیرہ باقی سب حلال ہیں ؟ یا اس آیت کو حدیث کی روشنی میں سمجھنا پڑے گا؟
سوال نمبر18۔ قَاتِلوا الَّذِیْنَ لَایؤْمِنوْنَ بِاللہِ وَ لَا بِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ لَا یحَرِّموْنَ مَا حَرَّمَ اللہ وَرَسوْلہٗ وَ لَا یَدِیْنوْنَ دِیْنَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِیْنَ اوْتوا الْکِتٰبَ حَتّیٰ یعْطوا الْجِزْیَۃَ عَنْ یَّدٍ وَّ ھمْ صَاغِروْنَ (سورۂ توبہ:29)۔
جو لوگ اللہ پر ایمان نہیں لاتے اور نہ روزِ آخرت پر (یقین رکھتے ہیں ) اور نہ ان چیزوں کو حرام سمجھتے ہیں جو اللہ اور اس کے رسول نے حرام کی ہیں اور نہ دینِ حق کو قبول کرتے ہیں ان سے جنگ کرو یہاں تک کہ ذلیل ہو کر اپنے ہاتھ سے جزیہ دیں۔
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ ان لوگوں کو قتل کرو جو اللہ کے حرام کو حرام نہیں مانتے اور رسول اللہﷺ کے حرام کو حرام نہیں مانتے۔ اللہ کا حرام تو قرآن سے ثابت ہے، رسول اللہﷺ کا حرام کیا ہے ؟ جس کو رسول اللہﷺ نے حرام قرار دیا ہو؟ ماننا پڑے گا کہ احادیث بھی دین ہیں۔
سوال نمبر19۔ اِنَّ عِدَّۃَ الشّھوْرِ عِنْدَ اللہِ اثْنَا عَشَرَ شھَْرًا فِیْ کِتٰبِ اللہِ یَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ مِنْھَآ اَرْبَعَۃٌ حرمٌ ذٰلِکَ الدِّیْن الْقَیِّم فَلَا تَظْلِموْا فِیْھِنَّ اَنْفسَکمْ وَقَاتِلوا الْمشْرِکِیْنَ کَآفَّۃً کَمَا یقَاتِلوْنَکمْ کَآفَّۃً وَاعْلَموْآ اَنَّ اللہَ مَعَ الْمتَّقِیْنَ (سورۂ توبہ: 36)
اللہ کے نزدیک مہینوں کی گنتی بارہ ہے اس روز سے کہ اس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا، کتابِ الٰہی میں (برس کے بارہ مہینے لکھے ہوئے ) ان میں سے چار مہینے حرمت والے ہیں۔ یہی دین کا سیدھا رستہ ہے تو ان مہینوں میں (قتالِ ناحق سے ) اپنے آپ پر ظلم نہ کرنا۔ اور تم سب کے سب مشرکوں سے لڑو جیسے وہ سب کے سب تم سے لڑتے ہیں اور جان رکھو کہ اللہ پرہیزگاروں کیساتھ ہے۔
اس آیت میں اللہ رب العزت نے فرمایا کہ اللہ کی کتاب میں مہینوں کی تعداد 12 ہے اور چار حرمت والے مہینے ہیں۔ اب بتائیں کتاب اللہ میں 12 مہینے کون کون سے ہیں ؟ اور چار حرمت والے مہینے کون کون سے ہیں ؟ نیز کتاب اللہ سے مراد اللہ کی وحی ہے جو کہ قرآن و حدیث میں موجود ہے۔ مزید فرمایا کہ:
اِنَّمَا النَّسِیْئ زِیَادَۃٌ فِی الْکفْرِ یضَلّ بِہِ الَّذِیْنَ کَفَروْا یحِلّوْنَہٗ عَامًا وَّ یحَرِّموْنَہٗ عَامًا لِّیوَاطِئوْا عِدَّۃَ مَا حَرَّمَ اللہ فَیحِلّوْا مَا حَرَّمَ اللہ زیِّنَ لھَمْ سوْٓئ اَعْمَالھِمْ وَ اللہ لَا یھَْدِی الْقَوْمَ الْکٰفِرِیْنَ (سورۂ توبہ:37)
امن کے کسی مہینے کو ہٹا کر آگے پیچھے کر دینا کفر میں اضافہ کرنا ہے اس سے کافرگمراہی میں پڑے رہتے ہیں، ایک سال تواس کو حلال سمجھ لیتے ہیں اور دوسرے سال حرام، تاکہ ادب کے مہینوں کی گنتی جو اللہ نے مقر ر کی ہے پوری کر لیں اور جو اللہ نے منع کیا ہے اس کو جائز کر لیں۔ ان کے برے اعمال ان کو بھلے دکھائی دیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کافر لوگوں کو ہدایت نہیں دیا کرتا۔
مہینوں کا آگے پیچھے کر لینا کفر میں زیادتی ہے۔ تو کیا صرف قرآن سے حرمت والے مہینے ثابت ہیں ؟
سوال نمبر20۔ فَلَمَّا دَخَلوْا عَلیٰ یوْسفَ اٰوٰٓی اِلَیْہِ اَبَوَیْہِ وَ قَالَ ادْخلوْا مِصْرَ اِنْ شَآئَ اللہ ٰامِنِیْنَ وَ رَفَعَ اَبَوَیْہِ عَلَی الْعَرْشِ وَخَرّوْا لَہٗ سجَّدًا وَ قَالَ یٰٓاَبَتِ ھٰذَا تَاْوِیْل رئْیَاءَ مِنْ قَبْل قَدْ جَعَلھَا رَبِّیْ حَقًّا وَ قَدْ اَحْسَنَ بِیْٓ اِذْ اَخْرَجَنِیْ مِنَ السِّجْنِ وَ جَآءَ بِکمْ مِّنَ الْبَدْوِ مِنْ بَعْدِ اَنْ نَّزَغَ الشَّیْطٰن بَیْنِیْ وَ بَیْنَ اِخْوَتِیْ اِنَّ رَبِّیْ لَطِیْفٌ لِّمَا یَشَآئ اِنَّہٗ ھوَ الْعَلِیْم الْحَکِیْم
اور اپنے والدین کو تخت پر بٹھایا اور سب یوسف کے آگے سجدے میں گر پڑے (اس وقت) یوسف نے کہا کہ ابا جان یہ میرے اس خواب کی تعبیر ہے جومیں نے پہلے (بچپن میں ) دیکھا تھا میرے رب نے اسے سچ کر دیا اور اس نے مجھ پر (بہت سے ) احسانات کئے ہیں کہ مجھے جیل خانے سے نکالا اور اس کے بعد کہ شیطان نے مجھ میں اور میرے بھائیوں میں فساد ڈال دیا تھا، آپ کو گاؤں سے یہاں لایا۔ بیشک میرا رب جوچاہتا ہے تدبیر سے کرتا ہے۔ وہ دانا (اور) حکمت والا ہے۔ (سورۂ یوسف:100-99)۔
اس آیت سے پتہ چلا کہ جناب یعقوبؑ نے اپنے بیٹے یوسفؑ کو سجدہ کیا۔ اس آیت کی روشنی میں کوئی شخص اپنے بیٹے کو سجدہ کر سکتا ہے ؟ کیا غیر اللہ کو سجدہ کرنا جائز ہے ؟ یا ہم احادیث کی روشنی میں اس آیت کو سمجھیں گے ؟۔
سوال نمبر21۔ وَ اِذْ قلْنَا لَکَ اِنَّ رَبَّکَ اَحَاطَ بِالنَّاسِ وَ مَا جَعَلْنَا الرّؤْیَا الَّتِیْٓ اَرَیْنٰکَ اِلَّا فِتْنَۃً لِّلنَّاسِ وَ الشَّجَرَۃَ الْمَلْعوْنَۃَ فِی الْقرْاٰنِ وَ نخَوِّفھمْ فَمَا یَزِیْدھمْ اِلَّا طغْیَانًا کَبِیْرًا (سورۂ بنی اسرائیل:60)
جب ہم نے تم سے کہا کہ تمہارا رب لو گوں کو احاطہ کیے ہوئے ہے، اور جو نمائش (معراج) ہم نے تمہیں دکھائی اس کو لوگوں کے لیے آزمائش کیا، اور اسی طرح ایک درخت کو جس پر قرآن میں لعنت کی گئی ہے، اور ہم انہیں ڈراتے ہیں تو ان کو اس سے بڑی (سخت) سر کشی پیدا ہوئی ہے۔
اس آیت میں ایک درخت کا ذکر ہے جس پر قرآن میں لعنت کی گئی ہے۔ بتائیں قرآن کی 114 سورتوں میں سے اس درخت کا نام کس سورت میں ہے جس پر لعنت کی گئی ہے ؟ لعنت کے الفاظ کہاں ہیں یا اس آیت کو احادیث کے حوالے سے سمجھیں گے ؟
سوال نمبر22۔ وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا موْسَی الْکِتٰبَ فَلَا تَکنْ فِیْ مِرْیَۃٍ مِّنْ لِّقَآئِہٖ وَجَعَلْنٰہ ھدًی لِّبَنِیْٓ اِسْرَآئِیْلَ (سورۂ الم سجدہ:23)
اور ہم نے موسیٰ کو کتاب دی تو تم اس کے ملنے سے شک میں نہ ہونا اور ہم نے اس کو بنی اسرائیل کے لیے (ذریعہ) ہدایت بنایا۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ ہم نے موسیٰu کو کتاب دی تم ان سے ملاقات میں شک نہ کرنا۔ اب بتائیں کہ رسول اللہﷺ سے موسیٰؑ کی ملاقات کب اور کہاں ہوئی تھی؟ اور اگر احادیث کو تسلیم کر لیا جائے تو واقعہ معراج اس ملاقات کو ثابت کر دیتا ہے۔ ماننا پڑے گا کہ احادیث قرآن کی تفسیر ہیں۔
سوال نمبر23۔ وَ لَمَّا ضرِبَ ابْن مَرْیَمَ مَثَلًا اِذَا قَوْمکَ مِنْہ یَصِدّوْنَo وَ قَالوْآ ئَ اٰلھَتنَا خَیْرٌ اَمْ ھوَ مَا ضَرَبوْہ لَکَ اِلَّا جَدَلاً بَلْ ھمْ قَوْمٌ خَصِموْنَ o اِنْ ھوَ اِلَّا عَبْدٌ اَنْعَمْنَا عَلَیْہِ وَ جَعَلْنٰھا مَثَلًا لِّبَنِیْٓ اِسْرَآئِیْلَ o وَ لَوْ نَشَآء لَجَعَلْنَا مِنْکمْ مَّلٰٓئِکَۃً فِی الْاَرْضِ یَخْلفوْنَ o وَ اِنَّہٗ لَعِلْمٌ لِّلسَّاعَۃِ فَلَا تَمْتَرنَّ بھَِا وَ اتَّبِعوْنِ ھٰذَا صِرَاطٌ مّسْتَقِیْمٌo (سورۂ زخرف:57 تا 61)۔
اور جب مریم کے بیٹے (عیسیٰ) کا حال بیان کیا گیا تو تمہاری قوم کے لوگ اس سے چِلا اٹھے۔ اور کہنے لگے کہ بھلا ہمارے معبود اچھے ہیں یا وہ؟ انہوں نے عیسیٰ کی جو مثال بیان کی ہے تو صرف جھگڑنے کو۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ ہیں ہی جھگڑالو۔ وہ تو ہمارے ایسے بندے تھے جن پر ہم نے فضل کیا اور بنی اسرائیل کے لیے ان کو (اپنی قدرت کا) نمونہ بنا دیا۔ اور اگر ہم چاہتے تو تم میں سے فرشتے بنا دیتے جو تمہاری جگہ زمین میں رہتے۔ اور وہ قیامت کی نشانی ہیں۔ تو (کہہ دو کہ لوگو!) اس میں شک نہ کرو اور میرے پیچھے چلو یہی سیدھا راستہ ہے۔
اس آیت میں اللہ جل جلالہ نے فرمایا کہ مریم کے بیٹے (عیسیٰؑ ) قیامت کی نشانی ہے۔ اس نشانی سے کیا مراد ہے ؟ نشانی تو آنے والی چیز کو کہا جاتا ہے۔ کیا عیسیٰؑ قرب قیامت میں آئیں گے ؟ جبکہ انکار احادیث کرنے والے عیسیٰؑ کا آنا غلط خیال کرتے ہیں۔
سوال نمبر24۔ اِنَّ اللہَ وَ مَلٰٓئِکَتَہٗ یصَلّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ یٰٓاَیّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنوْا صَلّوْا عَلَیْہِ وَ سَلِّموْا تَسْلِیْمًا (سورۂ احزاب:56)۔
اللہ اور اس کے فرشتے پیغمبر پر درود بھیجتے ہیں مومنو! تم بھی ان پر درود اور سلام بھیجا کرو۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ نبیﷺ پر صلوٰۃ و سلام بھیجیں۔ کیا قرآن نے صلوٰۃ و سلام کا طریقہ بتایا؟ کب بھیجیں، نماز میں ؟ دعا میں ؟ یا عام حالات میں ؟ کن الفاظ سے بھیجیں ؟ بغیر احادیث کے ہم قرآن پر عمل کیسے کریں ؟
سوال نمبر25۔ وَ اَنْزَلَ اللہ عَلَیْکَ الْکِتٰبَ وَ الْحِکْمَۃَ وَ عَلَّمَکَ مَا لَمْ تَکنْ تَعْلَم وَ کَانَ فَضْل اللہِ عَلَیْکَ عَظِیْمًا (سورۃ النساء:113)۔
اور اللہ نے تم پر کتاب اور دانائی نازل فرمائی ہے اور تمہیں وہ باتیں سکھائی ہیں جو تم نہیں جانتے تھے۔ اور تم پر اللہ کا بڑا فضل ہے۔
اس آیت میں اللہ رب العزت نے فرمایا کہ ہم نے کتاب اور حکمت نازل فرمائی۔ کتاب سے مراد اگر قرآن ہے تو حکمت کیا ہے ؟ ایک مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ہم نے ذکر نازل کیا (سورۂ نحل:44)۔ (سورۂ حجر:9) اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے ذکر نازل کیا اور اس کی حفاظت کی ذمہ داری لی۔ بتائیں اس ذکر سے کیا مراد ہے ؟۔
سوال نمبر26۔ (سورۂ فیل مکمل)۔
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلَمْ تَرَ کَیْفَ فَعَلَ رَبّکَ بِاَصْحٰبِ الْفِیْلِo اَلَمْ یَجْعَلْ کَیْدھَمْ فِیْ تَضْلِیْلٍلo وَّ اَرْسَلَ عَلَیْھِمْ طَیْرًا اَبَابِیْلَo تَرْمِیْھِمْ بِحِجَارَۃٍ مِّنْ سِجِّیلٍo فَجَعَلھَمْ کَعَصْفٍ مَّاْکوْلٍo
کیا تم نے نہیں دیکھا کہ تمہارے رب نے ہاتھی والوں کیساتھ کیا کیا؟ کیا ان کا داؤ غلط نہیں کیا؟ اور ان پر جھنڈ کے جھنڈ جانور بھیجے۔ جو اِن پر کنکر کی پتھریاں پھینکتے تھے۔ پس انہیں کھائے ہوئے بھوسے کی طرح کر دیا۔
یہ ہاتھی والے کون تھے ؟ ان کا جرم کیا تھا؟ قرآن نے ان کا قصور بتایا ہے ؟ قرآن سے جواب دیں ؟
سوال نمبر27۔ مَا قَطَعْتمْ مِّنْ لِّیْنَۃٍ اَوْ تَرَکْتموْھَا قَآئِمَۃً عَلٰٓی اصوْلھَِا فَبِاِذْنِ اللہِ وَ لِیخْزِیَ الْفٰسِقِیْنَ (سورۂ حشر:5)۔
اللہ تعالیٰ نے اِرشاد فرمایا کہ جو درخت تم نے کاٹے اور جو چھوڑ دیئے وہ اللہ کے حکم سے تھا۔ یہ اللہ کا حکم کس آیت میں موجود ہے ؟
سوال نمبر28۔ اِنَّآ اَعْطَیْنٰکَ الْکَوْثَرَ (کوثر:۱)
بے شک ہم نے تم کو کوثر عطا کی۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے تم کو کوثر عطا کی۔ بتائیں کہ کوثر کیا ہے ؟ جو اللہ تعالیٰ نے رسول اللہﷺ کو عطا کی۔ کیا کسی عورت کا نام ہے یا یہ کوئی اور چیز ہے ؟۔ قرآن مجید سے جواب دیں۔
سوال نمبر29۔ لَقَدْ کَانَ لَکمْ فِیْ رَسوْلِ اللہِ اسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنْ کَانَ یَرْجوا اللہَ وَ الْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَ ذَکَرَ اللہَ کَثِیْرًا (سورۂ احزاب:21)۔
تم کو پیغمبر الٰہی کی پیروی (کرنی) بہتر ہے (یعنی) اس شخص کو جسے اللہ (سے ملنے ) اور روزِ قیامت (کے آنے ) کی امید ہو اور وہ اللہ کا کثرت سے ذکر کرتا ہو۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ رسول اللہﷺ بہترین نمونہ ہیں۔ اگر ایک شخص رسول اللہﷺ کو بہترین نمونہ سمجھے پھر آپ کے طریقے پر عمل کرنا چاہے تو وہ کیسے عمل کرے گا؟ ماننا پڑے گا کہ احادیث کو تسلیم کرنا پڑے گا جب ہی ہم قرآن پر عمل کر سکیں گے۔
سوال نمبر30۔ الٓرٰکِتٰبٌ احْکِمَتْ ایٰتہٗ ثمَّ فصِّلَتْ مِنْ لَّدنْ حَکِیْمٍ خَبِیْرٍ
الٓر۔ یہ وہ کتاب ہے جس کی آیتیں مستحکم ہیں اور اللہ حکم و خبیر کی طرف سے بہ تفصیل بیان کر دی گئی ہیں۔ (سورۂ ھود:1)
ثمَّ اِنَّ عَلَیْنَا بَیَانَہٗ (سورۂ قیامۃ:19)۔
پھر بے شک اس قرآن کا بیان ہمارے ذمہ ہے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ قرآن کا بیان ہمارے ذمہ ہے۔ پھر قرآن کی تفسیر ہمارے ذمہ ہے حکیم اور خبیر ذات کی طرف سے قرآن کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔ یہ تفسیر کہاں اور کس سپارے میں ہے ؟ قرآن کا بیان کہاں ہے ؟ قرآن نے ایک عمل کا حکم دیا۔ اب سب اپنی مرضی کے مطابق عمل کریں تو اللہ کی چاہت پوری ہو گی یا سب ویسے ہی عمل کریں جس طرح اللہ چاہتا ہے۔ جب اللہ کی چاہت پوری ہو گی تو ماننا پڑے گا کہ قرآن کے ساتھ ساتھ قرآن کا بیان اور تفصیل بھی اللہ کی طرف سے احادیث کی صورت میں ہے۔
سوال نمبر31۔ وَ اِذَا تتْلیٰ عَلَیْھِمْ ایٰتنَا بَیِّنٰتٍ قَالَ الَّذِیْنَ لَا یَرْجوْنَ لِقَآءَ نَا ائْتِ بِقرْاٰنٍ غَیْرِ ھٰذَآ اَوْ بَدِّلْہ قلْ مَا یَکوْن لِیْٓ اَنْ ابَدِّلَہٗ مِنْ تِلْقَآءِِ نَفْسِیْ اِنْ اَتَّبِع اِلَّا مَا یوْحٰٓی اِلَیَّ اِنِّیْٓ اَخَاف اِنْ عَصَیْت رَبِّیْ عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیْمٍ (سورۂ یونس:15)۔
اور جب ان کو ہماری آیتیں پڑھ کرسنائی جاتی ہیں تو جن لوگوں کو ہم سے ملنے کی امید نہیں وہ کہتے ہیں کہ (یا تو) اس کے سِوا کوئی اور قرآن (بنا) لاؤ یا اس کو بدل دو۔ کہہ دو کہ مجھے اختیار نہیں ہے کہ اسے اپنی طرف سے بدل دوں میں تو اسی حکم کا تابع ہوں جو میری طرف آتا ہے اگر میں اپنے رب کی نافرمانی کروں تو مجھے بڑے (سخت) دن کے عذاب سے خوف آتا ہے۔
رسول اللہﷺ وہ ہی عمل کرتے ہیں جس کی ان کو وحی کی جاتی ہے۔ رسول اللہﷺ نے مکہ سے مدینہ ہجرت کی کیا قرآن میں ہجرت کا حکم موجود ہے ؟ یا پھر رسول اللہﷺ نے اپنی مرضی سے ہجرت کی تھی؟ جبکہ رسول اللہﷺ فرماتے ہیں : ’’میں تو اسی حکم کا تابع ہوں جو میری طرف آتا ہے ‘‘۔
ایک نظریہ کچھ لوگوں نے بنا رکھا ہے کہ ہم احادیث تو مانیں گے مگر وہ حدیث نہیں مانیں گے جو عقل میں نہ آئے۔ کس کی عقل کو معیار بنایا جائے گا؟ ایک حدیث ایک آدمی کی عقل میں آتی ہے دوسرے کی عقل میں نہیں آتی۔ کس کی عقل تسلیم کی جائے گی؟ ایک موچی اور ڈاکٹر دونوں کی عقل کیا ایک جیسی ہوتی ہے ؟ کیا عقل دین میں معیار ہے ؟ اگر یہ معیار ہم قرآن پر رکھیں تو جو آیت ہماری عقل میں نہ آئے ہم اس کو تسلیم نہیں کریں گے ؟ یقیناً کریں گے کیونکہ قرآن ثابت شدہ ہے۔ اسی طرح جو احادیث صحیح سند سے ثابت ہوں ہم اس کو تسلیم کریں گے چاہے وہ ہماری عقل میں آئے یا نہ آئے (کیونکہ وہ احادیث ثابت شدہ ہیں )۔ دیکھیں آیت قرآنی جو ہماری عقل کے خلاف ہیں مگر ہم اس کو تسلیم کرتے ہیں، اس حوالے سے چند سوال:
سوال نمبر32۔ قلْنَا یٰنَارکوْنِیْ بَرْدًا وَّ سَلٰمًا عَلٰٓی اِبْرَاھِیْمَ (سورۂ انبیائ:69)۔
ہم نے حکم دیا کہ اے آگ! سرد ہو جا اور ابراہیم پر (موجبِ) سلامتی (بن جا)۔
اللہ تعالیٰ نے آگ کو ٹھنڈا اور سلامتی والا بنا دیا کیا یہ بات عقل کے خلاف نہیں کہ آگ کا کام تو جلانا ہے اور وہ ٹھنڈی اور سلامتی والی بن گئی؟ مگر ہم اس پر ایمان رکھتے ہیں کیونکہ یہ ثابت شدہ ہے۔
سوال نمبر33۔ (سورۂ یوسف:100)۔ وَ رَفَعَ اَبَوَیْہِ عَلَی الْعَرْشِ وَخَرّوْا لَہٗ سجَّدًا وَ قَالَ یٰٓاَبَتِ ھٰذَا تَاْوِیْل رئْیَءیَ مِنْ قَبْل قَدْ جَعَلھََا رَبِّیْ حَقًّا وَ قَدْ اَحْسَنَ بِیْٓ اِذْ اَخْرَجَنِیْ مِنَ السِّجْنِ وَ جَآءَ بِکمْ مِّنَ الْبَدْوِ مِنْ بَعْدِ اَنْ نَّزَغَ الشَّیْطٰن بَیْنِیْ وَ بَیْنَ اِخْوَتِیْ اِنَّ رَبِّیْ لَطِیْفٌ لِّمَا یَشَآء اِنَّہٗ ھوَ الْعَلِیْم الْحَکِیْم
اور اپنے والدین کو تخت پر بٹھایا اور سب یوسف کے آگے سجدے میں گر پڑے (اس وقت) یوسف نے کہا کہ ابا جان یہ میرے اس خواب کی تعبیر ہے جومیں نے پہلے (بچپن میں ) دیکھا تھا میرے رب نے اسے سچ کر دیا اور اس نے مجھ پر (بہت سے ) احسانات کئے ہیں کہ مجھے جیل خانے سے نکالا اور اس کے بعد کہ شیطان نے مجھ میں اور میرے بھائیوں میں فساد ڈال دیا تھا، آپ کو گاؤں سے یہاں لایا۔ بیشک میرا رب جوچاہتا ہے تدبیر سے کرتا ہے۔ وہ دانا (اور) حکمت والا ہے
جناب یعقوبؑ نے اپنے بیٹے یوسفؑ کو سجدہ کیا، دونوں نبی ہیں، باپ نے بیٹے کو سجدہ کیا۔ کیا کوئی انسان انسان کو سجدہ کر سکتا ہے ؟ اور اگر سجدہ کرنا ہی ہو تو بیٹا باپ کو سجدہ کرے گا یا باپ بیٹے کو؟ عقل کہتی ہے کہ سجدہ کرنا ہی تھا تو بیٹا باپ کو کرتا کہ عقل اس کو تسلیم کرتی ہے مگر ہم عقل کے مقابلے میں قرآن کو تسلیم کرتے ہیں کہ وہ ثابت شدہ ہے۔ لہٰذا وہ احادیث بھی قابل قبول ہیں جو صحیح ہیں۔ چاہے وہ عقل میں آئیں یا نہ آئیں۔
چند ایسی آیات جو عقل میں نہیں آتیں مگر ہم پھر بھی ان کو تسلیم کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے نازل کی ہیں مثلاً سورۂ نحل:40، انفال:50، الاعراف:172)۔
ایک اور دھوکہ دیا جاتا ہے کہ ہم وہ احادیث نہیں مانیں گے جو قرآن کے خلاف ہوں گی حالانکہ کوئی صحیح حدیث قرآن کے خلاف نہیں، یہ صرف ہماری کم علمی کا قصور ہے ورنہ دونوں میں تطبیق دے کر دونوں کو ماننا پڑے گا۔ ورنہ اگر یہ قانون قرآن پر رکھا جائے تو دو آیات اگر ایک دوسرے کے خلاف ہم کو محسوس ہوں تو ہم کیا کریں گے ؟ یقیناً ہم دونوں کو تسلیم کریں گے کیونکہ ثابت شدہ ہیں۔ کیا ایک آیت کو تسلیم کر کے دوسری کو ضعیف کہہ کر ردّ کر دیں گے یا دونوں کو تسلیم کریں گے ؟ جب ہم دونوں کو تسلیم کرتے ہیں تو احادیث کے لئے ہم یہ فارمولہ کیوں نہیں اپناتے ؟۔
قرآنی آیات دیکھیں۔
سوال نمبر34۔ وَ قَالَ الَّذِیْنَ کَفَروْا لَوْ لَا نزِّلَ عَلَیْہِ الْقرْاٰن جمْلَۃً وَّاحِدَۃً کَذٰلِکَ لِنثَبِّتَ بِہٖ فؤَادَکَ وَ رَتَّلْنٰہ تَرْتِیْلًا (سورۂ فرقان:32)۔
اور کافر کہتے ہیں کہ اس پر قرآن ایک ہی دفعہ کیوں نہ اتارا گیا؟ اس طرح (آہستہ آہستہ) اس لئے اتارا گیا کہ اس سے تمہارے دل کو قائم رکھیں اور اسی واسطے ہم اس کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھتے ہیں۔
اِنَّآ اَنْزَلْنٰہ فِیْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ (سورۂ قدر:1)۔
ہم نے اس (قرآن) کو شب قدر میں نازل کیا۔
ایک آیت میں فرمایا کہ کافر کہتے ہیں کہ یہ قرآن ایک ساتھ نازل کیوں نہیں ہوا؟ دوسری آیت میں فرمایا کہ ہم نے اس کو ایک رات میں نازل کیا۔ اب ہم دونوں آیتوں میں تطبیق دے کر دونوں کو تسلیم کرتے ہیں، اسی قانون کے تحت ہم احادیث کو تسلیم کیوں نہیں کرتے ؟۔ دوسری مثال:
سوال نمبر35۔ فَوَ رَبِّکَ لَنَسْئَلَنَّہ اَجْمَعِیْنَo عَمَّا کَانوْا یَعْمَلوْنَ
تمہارے رب (ہونے ) کی قسم! ہم ضرور ان سب سے پرسش کریں گے۔ ان کاموں کی جو وہ کرتے رہے۔ (سورۂ حجر:93-92)
فَیَوْمَئِذٍ لَّا یسْئَل عَنْ ذَنْبِہٖٓ اِنْسٌ وَّ لَا جَآنٌّ (سورۂ رحمن:39)۔
اس روز نہ تو کسی انسان سے اس کے گناہوں کے بارے میں پرسش کی جائے گی اور نہ کسی جن سے۔
ایک آیت میں فرمایا کہ تمہارے رب کی قسم ہم ان سے ضرور سوال کریں گے جو عمل یہ کرتے تھے۔ دوسری آیت میں فرمایا کہ اس دن کسی جن سے اور انسان سے اس کے گناہوں کے بارے میں سوال نہیں ہو گا۔ دونوں آیتوں میں تطبیق دے کر دونوں کو ماننا پڑے گا۔ ایسے ہی کوئی صحیح سند سے حدیث ثابت ہو تو اس کو ماننا پڑے گا اور کیا اس کا انکار کفر نہ ہو گا؟
سوال نمبر36۔ کیا قرآن کی کوئی ایسی آیت موجود ہے کہ وحی قرآن کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے جو وحی آپﷺ پر نازل کی وہ تمام کی تمام قرآن ہی میں موجود ہے ؟
سوال نمبر37۔ رسول اللہﷺ نے جو پیش گوئیاں کیں اور وہ پوری ہوئی وہ کس بنا پر تھیں ؟ جبکہ قرآن اس بات کی نفی کرتا ہے کہ اللہ کے علاوہ کوئی غیب کا علم نہیں جانتا۔
قلْ لَّا یَعْلَم مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ الْغَیْبَ اِلَّا اللہ وَ مَا یَشْعروْنَ اَیَّانَ یبْعَثوْنَ (سورۂ نمل:65)۔
کہہ دو کہ جو لوگ آسمانوں اور زمین میں ہیں اللہ کے سوا غیب کی باتیں نہیں جانتے اور نہ یہ جانتے ہیں کہ کب (زندہ کر کے ) اٹھائے جائیں گے ؟
سوال نمبر38۔ اگر احادیث حجت نہیں ہیں تو موضوع (جھوٹی، بناوٹی) احادیث کیوں گھڑی جاتی رہی ہیں ؟ نقل اسی کی بنائی جاتی ہے جس کے اصل کا کوئی مقام ہوتا ہے۔ مارکیٹ میں 1000 کا نوٹ چلتا ہے، جب ہی تو نقلی نوٹ مارکیٹ میں چلایا جاتا ہے اگر اصلی نہ چلتا ہو تو بتائیں کون بیوقوف ہے جو نقلی نوٹ بنائے۔ 10000 (دس ہزار) کا نوٹ اس وقت تک تو نہیں چلتا۔ بتائیں کیا کوئی دس ہزار کا جعلی نوٹ بنائے گا؟ نہیں بنائے گا کیونکہ دس ہزار کا نوٹ چلتا ہی نہیں۔
جب احادیث شروع سے ہی دین سمجھی جاتی تھیں اسی وجہ سے ہی موضوع احادیث بنائی گئیں اور اگر حدیث کو دین نہ سمجھا جاتا تو موضوع احادیث کیوں گھڑی جاتی رہیں ؟
سوال نمبر39۔ مَآ اَصَابَ مِنْ مّصِیْبَۃٍ فِی الْاَرْضِ وَ لَا فِیْٓ اَنْفسِکمْ اِلَّا فِیْ کِتٰبٍ مِّنْ قَبْلِ اَنْ نَّبْرَاھََا اِنَّ ذٰلِکَ عَلَی اللہِ یَسِیْرٌ لِّکَیْلَا تَاْسَوْا عَلیٰ مَا فَاتَکمْ وَ لَا تَفْرَحوْا بِمَآ اٰتٰکمْ وَ اللہ لَا یحِبّ کلَّ مخْتَالٍ فَخوْرِ (سورۂ حدید:23-22)
کوئی مصیبت ملک پر اور خود تم پر نہیں پڑتی مگر پیشتر اس کے کہ ہم اس کو پیدا کریں ایک کتاب میں (لکھی ہوئی) ہے (اور) یہ کام اللہ کو آسان ہے تاکہ جو (مطلب) تم سے فوت ہو گیا ہے اس کا غم نہ کھایا کرو اور نہ عطا کردہ چیز پر اِتراؤ۔ اور اللہ اِترانے والے اور شیخی خوروں کو دوست نہیں رکھتا۔
وَ مَا مِنْ دَآبَّۃٍ فِی الْاَرْضِ اِلَّا عَلَی اللہِ رِزْقھَا وَ یَعْلَم مسْتَقَرّھَا وَ مسْتَوْدَعھََا کلٌّ فِیْ کِتٰبٍ مّبِیْنٍ (ھود:6)۔
اور زمین پر کوئی چلنے پھرنے والا نہیں مگر اس کا رزق اللہ کے ذمے ہے وہ جہاں رہتا ہے اسے بھی جانتا ہے اور جہاں سونپا جاتا ہے اسے بھی، یہ سب کچھ کتابِ روشن میں (لکھا ہوا) ہے۔
ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو مصیبت دنیا میں آتی ہے یا خود تم کو پہنچتی ہے، وہ اس کے پیدا کرنے سے پہلے کتاب میں لکھی ہوتی ہے۔ یہ لکھا ہوا کیا ہے ؟ کیا تقدیر ہے ؟ کیا تقدیر لکھی ہوتی ہے ؟ انکار حدیث کرنے والے تقدیر کا انکار کیوں کرتے ہیں ؟ اور یہ کون سی کتاب ہے جس میں لکھا ہوا ہے ؟ براہِ مہربانی قرآن سے جواب دیں۔
سوال نمبر40۔ وَ اَتِمّوا الْحَجَّ وَ الْعمْرَۃَ لِلّٰہِ (سورۂ بقرۃ:96)۔
اور اللہ تعالیٰ (کی خوشنودی) کے لئے حج و عمرہ پورا کرو۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اللہ کے لئے حج اور عمرہ کو پورا کرو۔ یہ حج کیا ہے ؟ کہاں اور کیسے ہو گا؟ اور عمرہ کیا ہے پورا کیسے ہو گا؟ صرف قرآن سے جواب دیں۔
سوال نمبر41۔ وَ اِذْ اَسَرَّ النَّبِیّ اِلیٰ بَعْضِ اَزْوَاجِہٖ حَدِیْثًا فَلَمَّا نَبَّاَتْ بِہٖ وَ اَظْھَرَہ اللہ عَلَیْہِ عَرَّفَ بَعْضَہٗ وَ اَعْرَضَ عَنْ بَعْضٍ فَلَمَّا نَبَّاھََا بِہٖ قَالَتْ مَنْ اَنْبَاَکَ ھٰذَا قَالَ نَبَّاَنِیَ الْعَلِیْم الْخَبِیْر
اور یاد کرو جب نبی نے اپنی بعض عورتوں سے ایک پوشیدہ بات کہی۔ پس جب اس نے اس بات کی خبر (دوسری کو) کر دی۔ اور اللہ نے اپنے نبی کو اس پر آگاہ کر دیاتو نبی نے تھوڑی سی بات تو بتا دی اور تھوڑی سی ٹال گئے۔ پھر جب نبی نے اپنی اس بیوی کو یہ بات بتائی تو وہ کہنے لگی کہ اس کی خبر آپ کو کس نے دی؟ کہا کہ مجھے اس نے بتایا ہے جو جاننے والا خبردار ہے۔ (سورۂ تحریم:3)۔
قرآن مجید میں کہیں نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو مطلع کیا کہ فلاں بی بی نے تمہارا راز طاہر کر دیا پھر علیم و خبیر اللہ نے کس طرح خبر دی؟ ظاہر ہے یہ کہنا پڑے گا کہ قرآن کے علاوہ بھی وحی آتی تھی۔ ورنہ آپ کو یہ خبر کیسے ملی؟
سوال نمبر42۔ قرآن مجید سے بتائیں کہ مرغی حلال ہے یا حرام؟ اور کتا اور گدھا حرام ہے یا حلال؟ قرآن کی واضح آیت بتائیں، اِدھر ادھر کی باتوں میں نہ الجھائیں۔
سوال نمبر43۔ فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَ انْحَرْ (سورۂ کوثر:2)۔
تو اپنے رب کے لیے نماز پڑھا کرو اور قربانی کیا کرو۔
قرآن مجید میں نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے، رکوع کرنے، سجدہ کرنے کا ذکر بھی قرآن میں آیا ہے، کھڑے ہونے کا بھی حکم موجود ہے، سوال یہ ہے کہ پہلے کھڑے ہوں یا پہلے رکوع کریں یا سجدہ کریں ؟ اور کھڑے ہوں تو ہاتھ باندھ کر یا چھوڑ کر کھڑے ہوں ؟ ہاتھ اگر باندھے جائیں تو کہاں باندھے جائیں ؟ رکوع کرنے کا حکم ہے رکوع کا معنی جھکنا ہے۔ کہاں جھکیں، آگے جھکیں یا دائیں بائیں ؟ رکوع کی حالت میں ہاتھ کہاں رکھیں ؟ سجدہ کس طرح کریں ؟ کون سے اعضاء کو زمین پر رکھیں ؟ سجدہ ایک کریں یا دو؟ ان سوالات کا جو بھی جواب آپ دیں اس کا ثبوت قرآن سے دیں عقلی تک بندیاں دین کا حصہ نہیں، وہ نہیں مانی جائیں گی۔ اور اگر آپ قرآن سے ان سوالات کا جواب نہیں دے سکتے (اور یقیناً نہیں دے سکتے ) تو مان جائیں کہ قرآن پر عمل کرنے کے لئے حدیث کی ضرورت ہے اور حدیث بھی قرآن کی طرح دین کا حصہ ہے۔
سوال نمبر44۔ وَ اَقِیْموا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتوا الزَّکٰوۃَ وَ ارْکَعوْا مَعَ الرّٰکِعِیْنَ
اور نماز پڑھا کرو اور زکوٰۃ دیا کرو اور (اللہ تعالیٰ کے آگے ) جھکنے والوں کیساتھ جھکا کرو۔ (سورۂ بقرہ:43)۔
الَّذِیْنَ لَا یؤْتوْنَ الزَّکٰوۃَ وَ ھمْ بِالْاٰخِرَۃِ ھمْ کٰفِروْنَ
جو زکوٰۃ نہیں دیتے اور آخرت کے بھی قائل نہیں۔ (سورہ حم سجدہ:7)
یہ زکوۃ کب دی جائے گی؟ کیا ہر نماز کے ساتھ زکوۃ دی جائے گی؟ یا سال میں ایک مرتبہ دی جائے گی؟ کس حساب سے دی جائے گی؟ غلے پر کتنی اور سونے چاندی پر کتنی دی جائے گی؟ زکوٰۃ نہ دینے والوں کو سخت عذاب کی دھمکی بھی دی گئی ہے، یہ سارے مسائل قرآن سے بتائیں ؟ یہ سب مسائل قرآن سے ثابت نہیں، احادیث سے پتہ چلتے ہیں۔ ثابت ہوا کہ حدیث مانے بغیر قرآن پر بھی عمل نہیں ہو سکتا۔
سوال نمبر45۔ وَاعْلَموْآ اَنَّمَا غَنِمْتمْ مِّنْ شَیْئٍ فَاَنَّ لِلّٰہِ خمسَہٗ وَ لِلرَّسوْلِ وَ لِذِی الْقرْبیٰ وَ الْیَتٰمیٰ وَ الْمَسٰکِیْنِ وَابْنِ السَّبِیْلِ اِنْ کنْتمْ اٰمَنْتمْ بِاللہِ وَ مَآ اَنْزَلْنَا عَلیٰ عَبْدِنَا یَوْمَ الْفرْقَانِ یَوْمَ الْتَقَی الْجَمْعٰنِ وَ اللہ عَلیٰ کلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ (الانفال:41)۔
اور جان رکھو کہ جو چیز تم (کفار سے ) لوٹ کر لاؤ اس میں سے پانچواں حصہ اللہ کا اور اس کے رسول کا اور اہلِ قرابت کا اور یتیموں کا اور محتاجوں کا اور مسافروں کا ہے، اگر تم اللہ پر اور اس (نصرت) پر ایمان رکھتے ہو جو (حق و باطل میں ) فرق کرنے کے دن (یعنی جنگ بدر میں )، جس دن دونوں فوجوں میں مڈبھیڑ ہو گئی، اپنے بندے (محمدﷺ ) پر نازل فرمائی اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔
مال غنیمت میں پانچ حصے کر کے ایک حصہ اللہ اور اس کے رسولﷺ کے لئے الگ کر لیا جائے۔ سوال یہ ہے کہ باقی چار حصے کیا کئے جائیں ؟ کیا قرآن اس بارے میں کوئی حکم دیتا ہے ؟ اگر دیتا ہے تو کیا دیتا ہے ؟ اور اگر نہیں دیتا تو ان چار حصوں کو ہم کیا کریں ؟ صرف قرآنِ مجید سے جواب دیں۔
سوال نمبر46۔ وَ السَّارِق وَ السَّارِقَۃ فَاقْطَعوْآ اَیْدِیھَمَا جَزَآئًم بِمَا کَسَبَا نَکَالًا مِّنَ اللہِ وَ اللہ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ (سورۃ المائدہ:38)۔
اور جو چوری کرے مرد ہو یا عورت ان کے ہاتھ کاٹ ڈالو یہ ان کے فعلوں کی سزا اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے عبرت ہے اور اللہ زبردست حکمت والا ہے۔
قرآن میں حکم ہے کہ چوری کرنے والے مرد اور عورت کے ہاتھوں کو کاٹ دو۔ اب سوال یہ ہے کہ دونوں ہاتھ کاٹیں یا ایک ہاتھ؟ دایاں ہاتھ یا بایاں ہاتھ؟ بغل سے کاٹیں یا کہنی سے ؟ کتنی چوری پر ہاتھ کاٹ دیا جائے ؟ 2، 4 روپے پر بھی کیا ہاتھ کاٹ دیا جائے ؟ براہ مہربانی ان مسائل کو قرآن سے حل کریں ؟
سوال نمبر47۔ یٰٓاَیّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنوْآ اِذَا نوْدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنْ یَّوْمِ الْجمعَۃِ فَاسْعَوْا اِلیٰ ذِکْرِ اللہِ وَ ذَروا الْبَیْعَ ذٰلِکمْ خَیْرٌ لَّکمْ اِنْ کنْتمْ تَعْلَموْن (سورۂ جمعہ:9)۔
مومنو! جب جمعے کے دن نماز کے لیے پکارا جائے تو اللہ کی یاد (یعنی نماز) کے لیے جلدی کرو اور (خرید و) فروخت ترک کر دو اگر سمجھو تو یہ تمہارے حق میں بہتر ہے۔
اللہ تعالیٰ کا اِرشاد ہے کہ جب جمعہ کی نماز کے لئے پکارا جائے تو اس کے ذکر کی طرف دوڑو اور خرید و فروخت چھوڑ دو۔ سوال یہ ہے کہ جمعہ کے دن کب پکارا جائے ؟ کس نماز کے لئے پکارا جائے ؟ کن الفاظ سے پکارا جائے ؟ کیا کچھ پکارا جائے ؟ جس نماز کے لئے پکارا جائے وہ کیسے پڑھی جائے ؟ ان ساری باتوں کے ثبوت قرآن سے دیں ؟
سوال نمبر 48۔ دنیا میں بہت سے جانور ہیں، مثلاً بلی، گیدڑ، بھیڑیا، چیتا، شیر، بندر، ریچھ، ہرن، بھینسا، خرگوش، کوا، چیل، باز، شکرہ، کبوتر، مینا وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب جانور حلال ہیں یا حرام؟ یا کچھ حلال ہیں یا حرام؟ آپ جو بھی جواب دیں قرآن سے دیں کیونکہ دعویٰ یہ کیا جاتا ہے کہ ہر مسئلہ کا حل قرآن میں موجود ہے۔ حدیث کی ضرورت نہیں ہے۔ اور آپ ان سوالوں کا جواب قرآن سے یقیناً نہیں دے سکتے تو مان لیں کہ قرآن سمجھنے اور عمل کرنے کے لئے احادیث بھی ضروری ہیں۔
سوال نمبر49۔ اِنَّ الَّذِیْنَ یَکْفروْنَ بِاللہِ وَ رسلِہٖ وَ یرِیْدوْنَ اَنْ یّفَرِّقوْا بَیْنَ اللہِ وَ رسلِہٖ وَ یَقوْلوْنَ نؤْمِن بِبَعْضٍ وَّ نَکْفر بِبَعْضٍ وَّ یرِیْدوْنَ اَنْ یَّتَّخِذوْا بَیْنَ ذٰلِکَ سَبِیْلًاo اولٰٓئِکَ ھم الْکٰفِروْنَ حَقًّا وَ اَعْتَدْنَا لِلْکٰفِرِیْنَ عَذَابًا مّھِیْنًاo وَ الَّذِیْنَ اٰمَنوْا بِاللہِ وَ رسلِہٖ وَ لَمْ یفَرِّقوْا بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْھمْ اولٰٓئِکَ سَوْفَ یؤْتِیْھِمْ اجوْرھَمْ وَ کَانَ اللہ غَفوْرًا رَّحِیْمًاo
(سورۃ النساء:150تا 152)۔
جو لوگ اللہ سے اور اس کے پیغمبروں سے کفر کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے پیغمبروں میں فرق کرنا چاہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم بعض کو مانتے ہیں اور بعض کو نہیں مانتے اور ایمان اور کفر کے بیچ میں ایک راہ نکالنی چاہتے ہیں۔ وہ بلا شبہ کافر ہیں اور کافروں کے لیے ہم نے ذلت کا عذاب تیار کر رکھا ہے۔ اور جو لوگ اللہ اور اس کے پیغمبروں پر ایمان لائے اور ان میں کسی میں فرق نہ کیا (یعنی سب کو مانا) ایسے لوگوں کو وہ عنقریب ان (کی نیکیوں ) کے صلے عطا فرمائے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔
ان آیات میں اللہ تعالیٰ اور رسول اللہﷺ کے درمیان فرق کرنے والے کو اسلام اور کفر کے درمیان نئے راستے سے تعبیر کیا گیا ہے۔ بتائیں اس سے کیا مراد ہے ؟ ایک شخص قرآن کو مانتا ہے اور حدیث کو نہیں مانتا، کیا وہ اس تنبیہ میں شامل نہیں ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ حق یہ ہی ہے کہ وہ کافر ہیں۔
سوال نمبر50۔ حرِّمَتْ عَلَیْکم الْمَیْتَۃ وَ الدَّم وَلَحْم الْخِنْزِیْرِ وَ مَآ اھِلَّ لِغَیْرِ اللہِ بِہٖ وَ الْمنْخَنِقَۃ وَ الْمَوْقوْذَۃ وَ الْمتَرَدِّیَۃ وَ النَّطِیْحَۃ وَ مَآ اَکَلَ السَّبع اِلَّا مَا ذَکَّیْتمْ وَ مَا ذبِحَ عَلَی النّصبِ وَ اَنْ تَسْتَقْسِموْا بِالْاَزْلَامِ ذٰلِکمْ فِسْقٌ اَلْیَوْمَ یَئِسَ الَّذِیْنَ کَفَروْا مِنْ دِیْنِکمْ فَلَا تَخْشَوْھمْ وَاخْشَوْنِ اَلْیَوْمَ اَکْمَلْت لَکمْ دِیْنَکمْ وَ اَتْمَمْت عَلَیْکمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْت لَکم الْاِسْلَامَ دِیْنًا فَمَنِ اضْطرَّ فِیْ مَخْمَصَۃٍ غَیْرَ متَجَانِفٍ لِّاِِاثْمٍ فَاِنَّ اللہَ غَفوْرٌ رَّحِیْمٌ (سورۂ مائدہ:3)۔
تم پر مرا ہوا جانور اور (بہتا) لہو اور سؤر کا گوشت اور جس چیز پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام پکارا جائے اور جو جانور گلا گھٹ کر مر جائے اور جو چوٹ لگ کر مر جائے اور جو گر کرمر جائے اور جو سینگ لگ کر مر جائے یہ سب حرام ہیں اور وہ جانور بھی جس کو درندے پھاڑ کھائیں مگر جس کو تم (مرنے سے پہلے ) ذبح کر لو اور وہ جانور بھی جو تھان پر ذبح کیا جائے اور یہ بھی کہ پانسوں سے قسمت معلوم کرو یہ سب گناہ (کے کام) ہیں۔ آج کافر تمہارے دین سے نا امید ہو گئے ہیں تو ان سے مت ڈرو اور مجھ ہی سے ڈرتے رہو (اور) آج ہم نے تمہارے لئے تمہارا دین کامل کر دیا اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کر دیں اور تمہارے لئے اسلام کو دین پسند فرمایا۔ ہاں جوشخص بھوک میں ناچار ہو جائے (بشرطیکہ) گناہ کی طرف مائل نہ ہو تو اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے۔
قرآن مجید جو ہمارے پاس موجود ہے کیا کہ اللہ رب العزت نے اسی طرح نازل کیا ہے یا یہ ترتیب رسول اللہﷺ نے دی ہے ؟ اگر یہ ترتیب رسول اللہﷺ نے دی ہے تو کیا حدیث حجت نہ ہو گی؟ کہ ہم رسول اللہﷺ کی دی ہوئی ترتیب کے مطابق تلاوت قرآن کرتے ہیں اور کیا رسول اللہﷺ کے پاس اختیار تھا کہ اللہ کی نازل کردہ کتاب میں اپنی مرضی سے آیات کو ترتیب دیں یا یہ کام آپﷺ نے اللہ تعالیٰ کی وحی کے مطابق کیا؟ تو پھر مان لینا چاہیئے کہ قرآن کے علاوہ بھی آپﷺ پر وحی نازل ہوتی تھی اور وہ بھی دین ہے جو احادیث صحیحہ کی صورت میں ہمارے پاس موجود ہے۔ اور اگر کوئی منکر حدیث یہ بات کہہ دے کہ قرآن جس ترتیب سے ہمارے پاس موجود ہے اسی ترتیب سے اللہ نے نازل فرمایا ہے تو سورۂ مائدہ میں چھٹے سپارے میں اللہ تعالیٰ نے اِرشاد فرمایا:
اَلْیَوْمَ اَکْمَلْت لَکمْ دِیْنَکمْ وَ اَتْمَمْت عَلَیْکمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْت لَکم الْاِسْلَامَ دِیْنًا
آج ہم نے تمہارے لئے تمہارا دین کامل کر دیا اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کر دیں اور تمہارے لئے اسلام کو دین پسند فرمایا۔
کہ آج ہم نے دین مکمل کر دیا۔ جب چھٹے سپارے میں دین مکمل ہو گیا تو باقی سپارے کیوں نازل کئے گئے ؟ کیا کسی بھی انکارِ حدیث کرنے والے کے پاس اس کا کوئی جواب ہے ؟؟؟
ایک دھوکہ عوام الناس کو یہ دیا جاتا ہے کہ حدیث کا انکار کرنا کفر ہے۔ ہم احادیث کا انکار نہیں کرتے۔ لوگوں نے باتیں بنا کر رسول اللہﷺ کی طرف منسوب کی ہیں، ہم ان باتوں کا انکار کرتے ہیں جبکہ حقیقت ایسی نہیں ہے۔ جو فرمانِ رسول اللہﷺ سے ثابت ہیں، صحیح احادیث کی صورت میں، وہ آپ کے فرامین ہیں ان میں سے کسی ایک کا بھی انکار رسول اللہﷺ کے فرمان کا اِنکار ہے۔ اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کوئی شخص سورۂ فیل کا انکار کر دے اور کہے کہ میں قرآن کا انکار نہیں کرتا، قرآن پر میرا ایمان ہے میں قرآن پر ایمان رکھتا ہوں اور سورۂ فیل کے بارے میں کہے کہ میں اس کو نہیں مانتا کہ یہ اللہ نے نازل کی ہے۔ وہ اپنے انکار کی وجہ یہ بتائے کہ یہ سورت اللہ نے نازل نہیں کی تب بھی وہ کافر ہے کیونکہ وہ قرآن کے ایک حصے کا منکر ہے۔ اسی طرح اگر کوئی شخص احادیث رسولﷺ کا یہ سمجھ کر انکار کرے کہ یہ آپﷺ کا اِرشاد نہیں ہیں بلکہ لوگوں کی باتیں ہیں جو آپﷺ کی طرف لوگوں نے منسوب کی ہیں حالانکہ وہ فرمان رسول اللہﷺ صحیح اسناد سے ثابت ہوں تو ان فرامین کا انکار کرنے والا بھی اسی طرح دائرۂ اسلام سے خارج ہے جس طرح قرآن مجید کے ایک چھوٹے سے حصے کا انکار کرنے والا دائرۂ اسلام سے خارج ہے۔ اللہ تعالیٰ سے ہم اپنے لئے اور تمام پڑھنے والوں کے لئے دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس حق کوسمجھنے کی اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے جو اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی محمد رسول اللہﷺ پر نازل کیا ہے۔ کیونکہ توفیق دینے والی ذات صرف اور صرف اللہ رب العزت کی ہے۔
چند اشکالات
الحمد للہ
کتاب کا مطالعہ کرنے کے بعد ہمارے ایک عزیز دوست نے بذریعہ خط چند اشکالات روانہ کیے تھے، اس خط کا متن اور ان اشکالات کا حل آئندہ صفحات میں آئے گا۔
مکرمی جناب شیخ محمد اقبال صاحب اسلام علیکم و رحمۃاللہ و برکاتہ
آپ کی کتاب انکارِ حدیث کرنے والوں سے 50 سوالات کا مطالعہ کیا تو چند اشکالات ذہن میں آئے جن کو رفع کرنے کے لیے یہ خط تحریر کر رہا ہوں برائے مہربانی تشنگی دور کر دیجئے۔ کتاب ہٰذا کے صفحہ نمبر 13پر آپ نے حدیث رسولﷺ کو بھی منزل من اللہ کہا ہے۔ آپ نے تحریر کیا ہے کہ (یہ بات تو واضح ہو گئی کہ قرآن کی طرح سنت و حدیث بھی منزل من اللہ اور وحی الٰہی ہے فرق صرف اس قدر ہے کہ قرآن کریم کا مضمون بھی ربانی ہے اور الفاظ بھی ربانی ہیں جبکہ حدیث رسولﷺ کا مضمون تو ربانی ہے مگر الفاظ ربانی نہیں ہیں ) اس سلسلے میں عرض ہے کہ قرآن میں اگر کوئی ایسی بات کہی گئی ہے کہ دونوں ہی ربانی ہیں تو وہ آیت تحریر کر دیجئے ہاں ایک بات ذہن میں رہے کہ آپی کتاب کے صفحہ نمبر 12 میں ’’حکمت کیا ہے ‘‘ کے عنوان سے جو آپ نے سورۂ احزاب کی آیت کے حوالے سے بات کی ہے کہ اللہ کی آیات سے مراد تو قرآن اور حکمت سے مراد رسول اللہﷺ کی باتیں ہوتی تھیں تو اس بات سے تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ قرآن حکیم میں صرف آیات ہوتی ہیں اور حکمت صرف فرمانِ رسولﷺ ہے یعنی قرآن (نعوذ) حکمت سے خالی ہے لہٰذا آپ کی یہ بات قابل قبول نہیں ہے کیوں کہ قرآن میں ہے کہ ’’یہ اس کتاب کی آیات ہیں جو اپنا مدعا صاف صاف بیان کرتی ہے سورۂ یوسف آیت نمبر1۔ اس آیت کی روشنی میں دیکھا جائے تو آیات اور حکمت کا چونکہ ساتھ ساتھ ذکر ہوا ہے لہٰذا دونوں ہی من جانب اللہ ہیں۔ علاوہ ازیں سورۃ الحاقۃ میں قرآن کو ہی رسول کریم کا قول کہا گیا ہے۔ آیت نمبر40۔
مزید یہ کہ قرآن کے متعلق فرمانِ ربی ہے کہ: ’’کیا یہ لوگ قرآن پر غور نہیں کرتے اگر یہ اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو اس میں بہت کچھ اختلاف بیانی پائی جاتی‘‘۔ (82/4)۔ یہاں ایک بات اور واضح کر رہا ہوں کہ چونکہ رسول کا تعلق براہِ راست رب سے ہوتا ہے لہٰذا رسول کی بات میں بھی تضاد نہیں ہو سکتا۔ ہاں جو باتیں دوسرے لوگ رسول اللہﷺ سے منسوب کر دیتے ہیں وہ باتیں رسول اللہﷺ کی نہیں ہوتیں بلکہ منسوبہ ہوتی ہیں لہٰذا ان میں تضاد و تخالف کثرت سے ملتا ہے ایسی چند احادیث ذیل میں صحیح بخاری سے پیش کی جا رہی ہیں برائے مہربانی یہ بتائیے گا کہ کیا متضاد احادیث بھی منزل من اللہ ہیں اور یہ مان لیا جائے تو کیا ایمان باقی رہ جاتا ہے ؟
1۔ جدید بخاری شریف جلد دوم صفحہ 73 حدیث نمبر116 کتاب الجہاد و السیر پارہ نمبر11 علم و عرفان پبلشرز 34، اردو بازار لاہور۔
ہم سے علی بن حفص نے حدیث بیان کی، ان سے ابن المبارک نے حدیث بیان کی، انہیں طلحہ بن ابی سعید نے خبر دی کہ میں نے سعید مقری سے سنا وہ بیان کرتے تھے کہ انہوں نے ابوہریرہؓ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ جس شخص نے اللہ تعالیٰ پر ایمان کے ساتھ اور ان کے وعدہ کو سچا جانتے ہوئے اللہ کے راستے میں (جہاد کے لئے ) گھوڑا پالا تو اس گھوڑے کا کھانا پینا اور اس کا بول و براز سب قیامت کے دن اس کی میزان میں ہو گا (یعنی سب پر ثواب ملے گا)۔
صحیح بخاری جلد دوم صفحہ 74 پارہ نمبر11 کتاب الجہاد والسیر حدیث نمبر121 مطبوعہ ھٰذا
ہم سے ابوالیمان نے حدیث بیان کی، انہیں شعیب نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا، انہیں سالم بن عبداللہ نے خبر دی اور ان سے عبداللہ بن عمرؓ نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریمﷺ سے سنا، آپ نے فرمایا تھا کہ نحوست صرف تین چیزوں میں ہے : گھوڑے میں عورت میں اور گھر میں۔
برائے مہربانی اس بات کو واضح کر دیجئے کہ اگر دونوں ہی احادیث من جانب اللہ نازل ہوئی ہیں تو دونوں میں تضاد کیوں ہے اور یہ کہ نحوست کی تین چیزوں میں صرف کا لفظ استعمال ہوا ہے اور گھوڑے کے علاوہ نحوست عورت اور گھر میں بتائی جا رہی ہے جبکہ آپﷺ کے پاس گھر بھی تھے اور کئی عورتیں بطور ازواج مطہرات اور باندیاں بھی تھیں کیا منحوس ہونے کے باوجود آپﷺ کے پاس یہ چیزیں تھیں ایک طرف تو رب ان چیزوں کو اگر حدیث کو منزل من اللہ تسلیم کیا جائے تو منحوس کہہ رہا ہے اور گھوڑے کو مبارک بھی کہہ رہا ہے اور دوسری جانب قرآن میں ایسی کوئی بات نہیں ملتی ہے اشکال رفع کیجئے۔
2۔ صحیح بخاری جلد دوم صفحہ 80 پارہ نمبر11 کتاب الجہاد و السیر حدیث نمبر 138مطبوعہ ھٰذا ہم سے محمد بن کثیر نے حدیث بیان کی انہیں سفیان نے خبر دی انہیں معاویہ بن اسحاق نے انہیں عائشہ بنت طلحہ نے اور ان سے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریمﷺ سے جہاد کی اجازت چاہی تو آپﷺ نے فرمایا کہ تمہارا جہاد حج ہے اور عبداللہ بن ولید نے بیان کیا کہ ہم سے سفیان نے حدیث بیان کی اور ان سے معاویہ نے یہی حدیث بیان کی۔
صحیح بخاری جلد دوم صفحہ 82 پارہ نمبر 11 کتاب الجہاد والسیر حدیث نمبر144۔ ہم سے علی بن عبداللہ نے حدیث بیان کی ان سے بشر بن فضل نے حدیث بیان کی، ان سے خالد بن ذکوان نے حدیث بیان کی، ان سے ربیع بنت معوذ نے بیان کیا کہ ہم نبی کریمﷺ کے ساتھ (غزوہ) میں شریک ہوئے تھے (مسلمان) زخمیوں کو پانی پلاتے تھے اور جو لوگ شہید ہو جاتے تھےن کو مدینہ اٹھا کر لاتے تھے۔
حدیث نمبر 145 اس طرح ہے کہ ہم سے مسدود نے حدیث بیان کی ان سے بشر بن مفضل نے حدیث بیان کی، ان سے خالد بن ذکوان نے حدیث بیان کی اور ان سے ربیع بنت معوذ نے بیان کیا کہ ہم نبی کریمﷺ کے ساتھ غزوے میں شریک ہوئے تھے، مسلمانوں کو پانی پلاتے تھے ان کی خدمت کرتے تھے اور زخمیوں اور شہیدوں کو مدینہ منتقل کرتے تھے۔
جناب مولف صاحب جہاد کی ان تینوں احادیث میں جو تضاد ہے کیا یہ بھی منزل من اللہ ہے ؟ کیا اللہ وقت کے ساتھ ساتھ (نعوذ) اپنے فیصلے تبدیل کرتا رہتا ہے۔ یہ تصور تو اہل تشیوع کا ہے کہ (نعوذ) اللہ کو بداء ہوتا ہے جبکہ رب ہر خامی سے پاک ہے۔
3۔ آنحضورﷺ کا تعلق قبیلہ مضر سے تھا۔
بخاری جلد دوم صفحہ 311 پارہ نمبر14 کتاب المناقب حدیث نمبر706۔ 707۔
ہم سے قیس بن حفص نے حدیث بیان کی ان سے عبدالواحد نے حدیث بیان کی ان سے کلیب بن وائل نے حدیث بیان کی کہا مجھ سے زینب بنت ابی سلمہ نے بیان کیا جو نبی کریمﷺ کے زیر پرورش رہ چکی تھیں کلیب نے بیان کیا میں نے آپ سے پوچھا آپ کا کیا خیال ہے کیا نبی کریمﷺ کا تعلق قبیلہ مضر سے تھا؟ انہوں نے فرمایا پھر کسی سے تھا یقیناً آنحضور مضر کی شاخ بنی النضر بن کنانہ سے تعلق رکھتے تھے۔
حدیث نمبر707۔ ہم سے موسیٰ نے حدیث بیان کی ان سے عبدالواحد نے بیان کی ان سے کلیب نے حدیث بیان کی اور ان سے ربیعہ نبی کریمﷺ نے دباء و خنتم نقیر اور مزفت کے استعمال سے منع فرمایا تھا اور میں نے ان سے پوچھا تھا کہ آپ مجھے بتائیے کہ آنحضور کا تعلق کس قبیلے سے تھا کیا واقعی آپ کا تعلق مضر سے تھا؟ انہوں نے فرمایا کہ پھر اور کس سے ہو سکتا ہے یقیناً آپ کا تعلق اسی قبیلہ سے تھا اپ نضر بن کنانہ کی اولاد میں سے تھے۔
جناب مولف صاحب کیا آپ بھی آنحضور کو قریش قبیلہ کے بجائے مضر قبیلہ کا فرد مانتے ہیں اور یہ بھی منزل من اللہ ہے اشکال رفع کیجئے۔
4۔ بخاری جلد دوم صفحہ 151 پارہ نمبر12 کتاب الجہاد و السیر حدیث نمبر 314۔
ہم سے محمد بن بشار نے حدیث بیان کی ان سے غندر نے حدیث بیان کی ان سے شعبہ نے حدیث بیان کی ان سے محمد بن زیاد نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ حسن بن علیؓ نے صدقہ کی کھجور میں سے (جو بیت المال میں آئی تھی) ایک کھجور اٹھا لی اور اپنے منہ کے قریب لے گئے لیکن آنحضورﷺ نے انہیں فارسی زبان کا یہ لفظ کہہ کر روک دیا کہ کخ کخ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ ہم صدقہ نہیں کھاتے۔ ابو عبداللہ نے فرمایا کہ اس عورت یعنی ام خالد کے برابر کی عورت کی عمر نہیں ہوئی۔
نوٹ کیا یہ بات بھی رسولﷺ نے منزل من اللہ کہی کیا حسن بن علی فارسی زبان سمجھتے تھے اور کیا رسول اللہﷺ فاطمہؓ کے گھر میں فارسی بولتے تھے کیا رب نے آنحضور کو ہدایت کی تھی کہ آپ بچے سے فارسی زبان بولیں۔
5۔ صحیح بخاری جلد دوم صفحہ 149۔ 148۔ پارہ نمبر12 کتاب الجہاد و السیر حدیث نمبر 307
ہم سے محمد بن بشار نے حدیث بیان کی ان سے ابن عددی نے حدیث بیان کی اور سہل بن یوسف نے حدیث بیان کی ان سے سعید نے ان سے قتادہ نے اور ان سے انسؓ نے کہ نبی کریمﷺ کی خدمت میں رعل ذکوان عصیہ اور بنو لحیان قبائل کے کچھ لوگ حاضر ہوئے اور یقین دلایا کہ وہ لوگ اسلام لا چکے ہیں اور انہوں نے اپنی قوم کو (اسلامی تعلیمات سمجھانے کے لئے ) آپ سے مدد چاہی ہے تو نبی کریمﷺ نے ستر انصار ان کے ساتھ کر دیئے۔ انسؓ نے بیان کیا کہ ہم انہیں قاری کہا کرتے تھے یہ حضرات ان قبیلہ والوں کے ساتھ چلے گئے لیکن جب بئر معونہ پر پہنچے تو انہوں نے ان صحابہ کے ساتھ دھوکہ کیا اور انہیں شہید کر ڈالا۔ رسول اللہﷺ نے ایک مہینہ تک (نماز میں ) قنوت پڑھی تھی اور علی ذکوان اور بنو لحیان کے لئے بدعا کی تھی۔ قتادہ نے بیان کیا کہ ہم سے انسؓ نے فرمایا کہ ان شہداء کے متعلق قرآن مجید ہم یہ آیت پڑھتے تھے (ترجمہ) ہاں ہماری قوم (مسلم کو) بتا دو کہ ہم اپنے رب سے جا ملے اور وہ ہم سے راضی ہو گیا ہے اور ہمیں بھی اس نے اپنی بے پایاں نوازشات سے خوش کیا ہے پھر یہ آیت منسوخ ہو گئی تھی۔
جناب مولف صاحب اللہ تعالیٰ نے یہ حدیث واقعہ ہونے سے یقیناً پہلے نازل کی ہو گی تو کیا آپ کے ساتھ ان لوگوں نے (نعوذ) اللہ کو بھی دھوکہ دینے میں کامیاب ہو گئے اس کے علاوہ قرآن میں جس آیت کی منسوخی کے بارے میں حدیث میں بات کی گئی ہے کیا وہ آیت بھی منزل من اللہ تھی کیونکہ پورا کا پورا قرآن اللہ کی جانب سے ہے لیکن ان شہداء کا پیغام جو انہوں نے اپنی قوم کو دیا وہ تو پورا کلام انسانی ہے رب یہ کیسے کہہ سکتا کہ ہماری قوم کو بتا دو کہ ہم اپنے رب سے جا ملے … اگر رب نے یہ آیت نال کی ہے تو کیا رب کی اپنی بھی کوئی قوم ہے۔ یہ اشکالات رفع کر دیجئے نوازش ہو گی۔
محترم مولف صاحب پہلا خط لکھ رہا ہوں اسے علاوہ بہت سی احادیث میں اشکال ہے وہ بعد میں لکھوں گا جواب کا منتظر: عبدالمالک خاں۔ﷺ -4 پوسٹل کالونی سائٹ کراچی۔ تاریخ:5-11-07۔
جوابات
بسم اللہ الرحمن الرحیم
جناب عبدالمالک خان صاحب
السلام علیکم۔
آپ نے انکار حدیث کرنے والوں سے 50 سوالات کا مطالعہ کیا تو آپ کے ذہن میں چند اشکالات آئے جن کی وضاحت کے لئے آپ نے خط تحریر کیا۔ آپ کو ان شاء اللہ العزیز ان اشکالات کے جوابات مل جائیں گے جو کہ آئندہ سطروں میں تحریر ہیں مگر ہماری آپ سے گذارش ہے کہ آپ نے اپنے اشکالات تو تحریری صورت میں بھیج دیئے مگر جو 50 سوالات اس رسالے میں درج ہیں آپ نے ان میں سے ایک کا بھی جواب نہیں بھیجا۔ ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ آپ ان سوالات کے جوابات ہم کو ارسال کرتے اور پھر اپنے ان سوالات کے جوابات طلب کرتے۔ مگر آپ نے ایسا نہ کیا کیونکہ کسی بھی انکارِ حدیث کرنے والے کے پاس ان سوالات کے جوابات نہیں ہیں۔ اور حق یہ ہی ہے کہ ہم قرآن اور حدیث پر عمل کرنے کے پابند ہیں۔ یہ ہی ہمارا دین ہے اور یہ ہی اللہ رب العزت نے نازل کیا ہے۔
اب آپ کے اعتراضات کے جوابات پیش خدمت ہیں۔
اعتراض نمبر1۔ آپ نے فرمایا کہ حدیث اگر منزل من اللہ ہے تو کوئی آیت تحریر کر دیں۔
جواب: انکارِ حدیث والوں کا اصل اعتراض ہی یہ ہے کہ وہ رسول اللہﷺ کے فرامین کو وحی نہیں مانتے۔ جب وہ فرمانِ رسولﷺ کو وحی نہیں مانتے تو پھر وہ اس کو دین بھی نہیں مانتے حالانکہ رسول اللہﷺ کا اِرشاد بھی اللہ کی وحی ہے۔ جیسا کہ قرآنی آیات سے واضح ہے۔ اگر فرمانِ رسولﷺ کو وحی نہ مانا جائے تو قرآن کا انکار ہوتا ہے۔ دیکھئے :
1 اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَ مَا یَنْطِق عَنِ الْھَویٰ اِنْ ھوَ اِلَّا وَحْیٌ یّوْحیٰ (النجم:4-3)
اور نہ وہ اپنی خواہش سے کوئی بات کہتے ہیں۔ وہ تو وحی ہے جو اتاری جاتی ہے۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ رسول اللہﷺ اپنی خواہش سے بات نہیں کرتے بلکہ وحی کے ذریعے کلام کرتے ہیں۔
2 اللہ رب العالمین کا اِرشاد گرامی ہے :
مَا قَطَعْتمْ مِّنْ لِّیْنَۃٍ اَوْ تَرَکْتموْھَا قَآئِمَۃً عَلٰٓی اصوْلھَِا فَبِاِذْنِ اللہِ (الحشر:۵)۔
جو درخت تم نے کاٹے اور جو چھوڑ دیئے سب اللہ کے حکم سے تھا۔
اس آیت سے معلوم ہوا کہ درخت اللہ کے حکم سے کاٹے گئے تھے اور ہر حکم قرآن میں موجود نہیں ہے۔ مزید یہ بھی معلوم ہوا کہ قرآن کے علاوہ بھی وحی آتی تھی اور وہ فرمان رسولﷺ کی صورت میں آج بھی موجود ہے۔
3 رب العالمین فرماتا ہے :
وَ مَا جَعَلْنَا الْقِبْلَۃَ الَّتِیْ کنْتَ عَلَیْھَآ اِلَّا لِنَعْلَمَ مَنْ یَّتَّبِع الرَّسوْلَ مِمَّنْ یَّنْقَلِب عَلیٰ عَقِبَیْہِ (سورۃ البقرۃ:۱۳)۔
اور اس قبلہ (یعنی بیت المقدس) کو جس پر آپ اس وقت ہیں، ہم نے اس لئے مقر ر کیا تھا کہ ہم جان لیں کون رسول کی اتباع کرتا ہے
بیت المقدس کو قبلہ مقر ر کرنے کا حکم قرآن مجید میں کہیں نہیں لہٰذا یہ حکم بذریعہ وحی خفی تھا۔ واضح ہو کہ اس آیت میں قبلہ سے مراد بیت المقدس ہے کیونکہ اس سے آگے ارشاد ہے :
فَلَنوَلِّیَنَّکَ قِبْلَۃً تَرْضٰھَا
ہم عنقریب اس قبلہ کی طرف آپ کو موڑ دیں گے جس قبلہ کی آپ کو خواہش ہے۔
یعنی مسجد الحرام کی طرف منہ کرنے کا حکم ابھی نازل نہیں ہوا تھا۔
4 احکم الحاکمین لم یزل عز و جل نے فرمایا ہے :
فَلَمَّا نَبَّاھََا بِہٖ قَالَتْ مَنْ اَنْبَاَکَما ھٰذَا قَالَ نَبَّاَنِیَ الْعَلِیْم الْخَبِیْر (التحریم:۳)
پس جب نبیﷺ نے اس بیوی سے اس بات کا ذکر کیا تو بیوی نے پوچھا کہ آپ کو کس نے خبر دی؟ نبی نے فرمایا: مجھ کو اس علیم و خبیر نے خبر دی۔
قرآن مجید میں کہیں نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو مطلع کیا کہ فلاں بی بی نے تمہارا راز ظاہر کر دیا۔ پھر علیم و خبیر اللہ نے کس طرح خبر دیا؟ ظاہر ہے وحی خفی کے ذریعہ یعنی وحی خفی ہی حدیث ہے۔
5 اللہ ذوالجلال والاکرام نے اِرشاد فرمایا:
اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ نھوْا عَنِ النَّجْویٰ ثمَّ یَعوْدوْنَ لِمَا نھوْا عَنْہ
کیا آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جن کو سرگوشی سے منع کر دیا گیا تھا لیکن وہ اب بھی وہی کام کر رہے ہیں۔ (سورۂ مجادلہ:)۔
اس آیت کے نزول سے پہلے سرگوشی سے منع کیا گیا ہو گا لیکن ممانعت کا حکم قرآن مجید میں اس آیت کے بعد ہے۔ پس ثابت ہوا کہ پہلے بذریعہ وحی خفی منع کیا گیا تھا۔
6 اللہ تعالیٰ نے اہلیہ کے خصوصی تعلقات کے حوالے سے فرمایا:
احِلَّ لَکمْ لَیْلَۃَ الصِّیَامِ الرَّفَث اِلیٰ نِسَآئِکمْ (البقرۃ:۱۸۷)
اب تم رمضان کی راتوں میں اپنی بیویوں سے مل سکتے ہو۔
اس آیت سے معلوم ہوا کہ پہلے رمضان کی راتوں میں اپنی بیویوں سے ملنا منع تھا لیکن ممانعت کا حکم قرآن مجید میں کہیں نہیں۔ لہٰذا یہ حکم بذریعہ وحی خفی نازل ہوا تھا اور حدیث وحی خفی ہوئی۔
7 اللہ تعالیٰ نے اپنی خاص کتاب اور حکمت کا تذکرہ یوں فرمایا:
وَ اَنْزَلَ اللہ عَلَیْکَ الْکِتٰبَ وَ الْحِکْمَۃَ (النسائ:۱۱۳)
اللہ تعالیٰ نے آپ پر کتاب اور حکمت نازل کی۔
حکمت اقوال رسولﷺ ہی ہیں۔ قرآن میں شفاء بھی ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ آپ پر کتاب اور شفاء نازل کی۔ اسی طرح قرآن میں بھی حکمت ہے مگر یہاں پر اللہ تعالیٰ نے حکمت کو علیحدہ کر کے بیان کیا جو کہ رسول اللہﷺ کے فرامین ہیں۔
8 اللہ احکم الحاکمین نے ارشاد فرمایا:
قَاتِلوا الَّذِیْنَ لَایؤْمِنوْنَ بِاللہِ وَ لَا بِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ لَا یحَرِّموْنَ مَا حَرَّمَ اللہ وَرَسوْلہٗ (توبہ:۲۹)
ان لوگوں سے لڑو جو اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان نہیں لاتے جو اللہ اور اس کے رسول کی حرام کردہ شے کو حرام نہیں جانتے۔
چنانچہ آپ لوگوں کے مطابق: اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ اشیاء تو قرآن مجید میں موجود ہیں۔ لیکن جو چیزیں رسول اللہﷺ نے حرام کی ہیں ان کا تذکرہ قرآن میں کہاں ہے ؟اور جو چیزیں نبی اکرمﷺ نے حرام قرار دی ہیں اور لوگ انہیں حرام نہیں مانتے، تو اللہ تعالیٰ ان لوگوں سے باقاعدہ اعلانِ جنگ کر رہا ہے۔ معلوم ہوا کہ جو چیزیں رسول اللہﷺ نے حرام کی ہیں وہ بھی وحی الٰہی پر مبنی ہیں۔ ثابت ہوا کہ حدیث بھی وحی ہے۔
9 رسول اللہﷺ مبعوث ہوئے اور قوم کو خطاب کیا:
’’میں اللہ کا رسول ہوں۔ مجھے اللہ تعالیٰ نے بندوں کی طرف مبعوث کیا ہے کہ میں انہیں اس بات کی دعوت دوں کہ اللہ کی عبادت کرو۔ اس کے ساتھ ذرا سا بھی شرک نہ کرو۔ اور مجھ پر اللہ تعالیٰ نے کتاب نازل کی ہے ‘‘۔ (مسند احمد)۔
اگر رسول اللہﷺ کے مندرجہ بالا الفاظ حجت ہیں تو پھر یہ ماننا پڑے گا کہ آپ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں۔ اور قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے اور یہ بات آپﷺ کو وحی خفی کے ذریعے بتائی گئی۔ اگر ان الفاظ کو وحی نہ سمجھا جائے تو پھر آپ کا یہ دعویٰ کس بنیا پر تھا؟
اور جب آپﷺ پر قرآن نازل ہوا تو آپﷺ نے صحابہ کرام ؓ کے سامنے قرآن بیان۔ آپﷺ نے اس کی تشریح اور تفسیر بھی بیان کی تو کیا کسی کے لئے جائز تھا کہ وہ اس تفسیر کو تسلیم کرنے سے انکار کرے ؟ کیا وہ کہہ سکتا تھا کہ آپ کی بیان کردہ آیت وحی ہے اور تفسیر وحی نہیں ؟ آیت صحیح ہے اور تفسیر غلط۔ (نعوذ باللہ من ذلک)۔ بس آپ آیت سنا دیں تفسیر ہم خود کر لیں گے۔ ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ رسول اللہﷺ کی حیثیت نبی اور رسول کی ہے۔ کسی ڈاکیا کی طرح نہیں کہ ڈاکیا آیا، خط دیا اور چلا گیا۔ بلکہ آپﷺ نے قرآن دیا پھر اللہ کی مرضی کے مطابق قرآن پر عمل کیا جیسا کہ سورۂ یونس میں موجود ہے :
اِنْ اَتَّبِع اِلَّا مَا یوْحٰٓی اِلَیَّ (۱۵)۔
میں صرف اس چیز کی پیروی کرتا ہوں جو مجھ پر وحی کی جاتی ہے۔
آپﷺ کا عمل بھی وحی کے مطابق تھا اور اہل ایمان کے لئے آپﷺ کی ذات کو بہترین نمونہ بنا کر پیش کیا جیسا کہ سورۂ احزاب میں موجود ہے۔ (سورۂ احزاب آیت نمبر` کا مطالعہ کریں )۔ معلوم ہوا کہ قرآن کے علاوہ بھی آپﷺ پر وحی آتی تھی جس پر آپﷺ عمل کرتے تھے۔
0 آپ نے خود اپنے خط کے پہلے صفحے پر لکھا ہے کہ رسول کا تعلق براہِ راست رب سے ہوتا ہے لہٰذا رسول کی بات میں تضاد نہیں ہو سکتا۔
ہم بھی یہ ہی کہتے ہیں کہ رسول کا تعلق رب سے ہوتا ہے اور رب سے تعلق وحی کے ساتھ ہوتا ہے اور وحی میں تضاد نہیں۔ اس وجہ سے رسول کی بات میں تضاد نہیں ہوتا تو معلوم ہوا کہ رسول کے پاس قرآن کے علاوہ بھی وحی آتی تھی۔
تلک عشرۃ کاملۃ
یہ دس دلائل اس بات پر ہیں کہ قرآن کے علاوہ بھی اللہ تعالیٰ نے وحی نازل کی ہے۔ اب آپ کے باقی اعتراضات کی طرف آتے ہیں۔
آپ نے لکھا ہے کہ جو باتیں دوسرے لوگ رسول اللہﷺ سے منسوب کر دیتے ہیں وہ باتیں رسول اللہﷺ کی نہیں ہوتیں بلکہ منسوبہ ہوتی ہیں۔
ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ جو لوگ احادیث گھڑ کر بیان کرتے تھے یا کرتے ہیں وہ رسول اللہﷺ کی باتیں نہیں ہیں۔ وہ تو آپﷺ پر بہتان ہے۔ جس کا انجام جہنم ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ موضوع اور گھڑی ہوئی روایات کا انکار کرتے ہوئے ہم ان احادیث کا بھی انکار کر دیں جو کہ صحیح اسناد سے ہم تک پہنچی ہیں۔ جو بھی حدیث صحیح سند سے ثابت ہے اس کو ماننا پڑے گا۔ چاہے وہ ہماری عقل میں آئے یا نہ آئے۔ حقیقت میں صحیح احادیث ایک دوسرے کے خلاف نہیں لیکن اگر بظاہر ایک دوسرے کے خلاف ہم کو نظر آئیں اور ہم یہ کہہ کر انکار کر دیں کہ دو حدیثیں ایک دوسرے کے خلاف ہیں لہٰذا یہ دونوں صحیح نہیں، یہ رَوش اہل ایمان کی نہیں کیونکہ ثابت شدہ بات کو ماننا پڑتا ہے جیسے قرآن مجید کی دو آیات اگر بظاہر ایک دوسرے کے خلاف ہوں تو ہم تطبیق دے کر دونوں کو تسلیم کرتے ہیں۔ انکارِ حدیث کرنے والوں سے پچاس سوالات رسالے کے سوال نمبر چونتیس اور پینتیس کا دوبارہ مطالعہ کر لیں۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ بظاہر دونوں آیتیں ایک دوسرے کے خلاف ہیں اس وجہ سے ہم نہیں مانتے بلکہ ہم دونوں آیات کو تسلیم کرتے ہیں اور ایمان کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ ثابت شدہ چیزوں کو مانا جائے۔
اعتراض نمبر2۔ آپ نے صحیح احادیث کو ایک دوسرے کے خلاف ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی ہے جبکہ احادیث جو کہ صحیح سند سے ثابت ہیں ایک دوسرے کے خلاف نہیں۔ آپ نے صحیح بخاری کے حوالے سے لکھا کہ جس نے جہاد کے لئے گھوڑا پالا تو اس گھوڑے کا کھانا پینا اور اس کا بول و براز سب قیامت کے دن اس کی میزان میں ہو گا (یعنی سب پر ثواب ملے گا)
دوسری حدیث نقل کی کہ نحوست صرف تین چیزوں میں ہے ؛ گھوڑے میں، گھر میں اور عورت میں۔ (بخاری)۔ براہِ مہربانی اس بات کو واضح کر دیں کہ اگر دونوں ہی احادیث من جانب اللہ نازل ہوئی ہیں تو دونوں میں تضاد کیوں ہے اور یہ کہ نحوست عورت اور گھر میں بتائی جا رہی ہے جبکہ آپ کے پاس گھر بھی تھے کئی عورتیں بطور ازواج مطہرات اور باندیاں بھی تھیں کیا منحوس ہونے کے باوجود آپ کے پاس یہ چیزیں تھیں ایک طرف تو رب ان چیزوں کو اگر حدیث کو منزل من اللہ تسلیم کیا جائے تو منحوس کہہ رہا ہے اور گھوڑے کو مبارک بھی کہہ رہا ہے اور دوسری جانب قرآن میں کوئی ایسی بات نہیں ملتی۔ اشکال رفع کریں۔ (آپ کے خط کا صفحہ نمبر2 میں آپ کا احادیث پر اعتراض)۔
جواب اعتراض نمبر2۔ آپ کا اشکال حقیقت میں غلط فہمی پر مبنی ہے۔ اس بات کو یوں سمجھیں جیسے کہ قرآن مجید میں ہے کہ:
1 تمہارے مال اور اولاد فتنہ ہیں۔ (سورۂ تغابن آیت نمبر ۱۵)۔
2 اے ایمان والو تمہاری بیویاں اور اولاد تمہاری دشمن ہیں (سورۂ تغابن آیت نمبر۱۴)
کیا ہر مال اور اولاد انسان کے لئے فتنہ ہیں ؟
کیا ہر بیوی اور بچے انسان کے دشمن ہیں ؟
ایک مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
اَلَّذِیْنَ ینْفِقوْنَ اَمْوَالھَمْ بِالَّیْلِ وَ النّھََارِ سِرًّا وَّ عَلَانِیَۃً فَلھَمْ اَجْرھمْ عِنْدَ رَبِّھِمْ وَ لَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَ لَا ھمْ یَحْزَنوْنَ
جو لوگ اپنا مال خرچ کرتے ہیں دن رات کھلے اور چھپے ان کے لئے اجر ہے ان کے رب کے نزدیک نہ ان پر خوف ہو گا نہ وہ غمگین ہوں گے۔ (سورۂ بقرہ آیت۲۷۴)۔
یہاں مال خرچ کرنے پر فضیلت بتاتی ہے۔ اور انبیاء کو بھی اللہ نے اولاد دی جن میں بعض نبی ہوئے جیسے اسماعیل علیہ السلام اور اسحق علیہ السلام اور یحییٰ علیہ السلام ان کی اولادوں کے بارے میں ہم کیا نظریہ رکھیں ؟
ایک جگہ پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَقَاتِلوْھمْ حَتّیٰ لَا تَکوْنَ فِتْنَۃٌ (انفال:۳۹)
اور (کفار و مشرکین سے ) قتال کرتے رہو حتی کہ فتنہ ختم ہو جائے
مال اور اولاد کو فتنہ کہا کیا مال اور اولاد ختم کرنے کے لئے بھی قتال کریں ؟ ان آیات کو پڑھ کر ہم کو کہنا پڑے گا کہ ہر مال، ہر بیوی اور ہر اولاد فتنہ نہیں ہے۔ ہر بیوی اور اولاد دشمن نہیں ہے۔ بلکہ جو مال انسان کو اللہ کی راہ سے ہٹا کر شیطان کے راستے پر لگا دے جو اولاد اس کو دین سے دور کر دے جو بیوی اس کے اور دین کے درمیان حائل ہو جائے وہ اس کے لئے فتنہ بھی ہے اور ان کے دشمن بھی ہیں۔
اسی طرح اگر انسان گھوڑا پالے اور اس پر جوئے کھیلے، گھر کو فحاشی اور بے حیائی کا مرکز بنالے اور عورت کے لئے دین پر عمل کرنا چھوڑ دے تو یہ چیزیں اس کے لئے منحوس ہوتی ہیں یا نہیں ؟؟ ویسے اگر آپ صحیح بخاری کی اگلی حدیث پڑھتے اور تعصب کی نگاہ نہ رکھتے تو آپ خود پڑھ لیتے۔ سہل بن سعد ساعدیؓ فرماتے ہیں کہ اگر نحوست کسی چیز میں ہوتی تو عورت، گھوڑا اور گھر میں ہوتی۔ (صحیح بخاری)۔
حدیث خود اس بات کی وضاحت کر رہی ہے کہ اگر نحوست ہوتی تو ان چیزوں میں ہوتی۔ جب حدیث نے وضاحت کر دی تو پر فرمانِ رسولﷺ پر اعتراض کیوں ؟؟؟
اعتراض نمبر3۔ آپ نے خواتین کے جہاد سے متعلق تین احادیث نقل کی ہیں کہ:
1 عائشہؓ نے نبی کریمﷺ سے جہاد کی اجازت چاہی۔ آپ نے فرمایا تمہارا جہاد حج ہے۔
2 ربیع بنت معوذؓ نے بیان کیا کہ ہم نبیﷺ کے ساتھ (غزوہ) میں شریک ہوئے تھے (مسلمان) زخمیوں کو پانی پلاتے تھے اور جو لوگ شہید ہو جاتے تھے ان کو مدینہ اٹھا کر لاتے تھے۔
3 دوسری حدیث بھی ربیع بنت معوذ سے ہی روایت ہے۔ آپ کہتے ہیں کہ ان تینوں احادیث میں جو تضاد ہے کیا یہ بھی منزل من اللہ ہے ؟ کیا اللہ وقت کے ساتھ ساتھ (نعوذ باللہ) اپنے فیصلے تبدیل کرتا رہتا ہے یہ تصور تو اہل تشیع کا ہے کہ نعوذ باللہ اللہ کو بداء ہوتا ہے جبکہ رب ہر خامی سے پاک ہے۔ (آپ کا خط صفحہ نمبر۳)۔
جواب اعتراض نمبر3۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ تینوں احادیث ایک دوسرے کے خلاف نہیں ہیں۔ سیدہ عائشہؓ والی روایت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جہاد و قتال عورتوں پر فرض نہیں ہے۔ ان کے لئے جہاد کے بدلے حج ہے۔ اور دوسری اور تیسری حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اگر کوئی عورت اپنے شوہر سے اجازت لے کر (کسی محرم کے ساتھ) جہاد میں شریک ہو جائے (کھانا وغیرہ پکانے کا اہتمام کرے یا زخمیوں کی مرہم پٹی کر لے تو ایسا جائز ہے۔ ان میں تضاد نہیں۔ یہ آپ کی عقل کا تضاد ہے۔ ویسے بھی اہل ایمان کا عقیدہ ہے کہ اللہ جس حکم کو چاہے بدل دے اور اس کی جگہ دوسرا حکم لے آئے یہ عیب نہیں ہے بلکہ اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔ دیکھیں قرآن مجید، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
وَ اِذَا بَدَّلْنَآ ایَٰۃً مَّکَانَ ایَٰۃٍ وَّ اللہ اَعْلَم بِمَا ینَزِّل
اللہ تعالیٰ جس آیت (حکم) کو چاہتا ہے دوسری آیت (حکم) کے ذریعے بدل دیتا ہے۔ (سورۂ نحل:۱۰۱)۔
مثال کے لئے بھی قرآن مجید ہی کو دیکھ لیجئے ؛ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
فَاَمْسِکوْھنَّ فِی الْبیوْتِ حَتّیٰ یَتَوَفّٰھنَّ الْمَوْت (سورۂ نسائ:۱۵)
اللہ تعالیٰ نے زانی کی سزا قید مقر ر کی حتی کہ اس کو موت آ جائے۔
پھر اللہ تعالیٰ نے اس سزا کو سورۂ نور میں بتائی گئی سزا سے بدل دیا؛ دیکھئے قرآن مجید :
اَلزَّانِیَۃ وَ الزَّانِیْ فَاجْلِدوْا کلَّ وَاحِدٍ مِّنْھمَ مِائَۃَ جَلْدَۃٍ
زانی مرد ہو یا عورت، اس کو 100 کوڑے مارو۔ (سورۂ نور:۲)۔
(نوٹ یہ بات بھی یاد رہے کہ یہ سزا کنواروں کی ہے۔ شادی شدہ کی سزا سنگسار کرنا ہے )۔
اب دیکھیں یہاں پر اللہ تعالیٰ نے اپنا ہی نازل شدہ فیصلہ بدل دیا۔ اول تو احادیث جو آپ نے نقل کی ہیں۔ ان میں ایسی کوئی بات نہیں اور اگر ایسی کوئی بات ہو بھی تو آپ کو اب اعتراض کا کیا حق حاصل ہے ؟
اعتراض نمبر4۔ آپ نے یہ اعتراض کیا ہے کہ بخاری میں ہے : زینب بنت ابی سلمہؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہﷺ مضر کی شاخ بنی النصربن کنانہ سے تعلق رکھتے تھے۔ یقیناً آپ کا تعلق اسی قبیلہ سے تھا آپ نضر بن کنانہ کی اولاد میں سے تھے۔ (آپ کا خط صفحہ ۳) پھر آپ لکھتے ہیں کہ کیا آپ بھی رسول اللہﷺ کو قریش کے بجائے مضر قبیلے کا فرد مانتے ہیں اور یہ بھی منزل من اللہ ہے۔ اشکال رفع کریں۔ (آپ کے اعتراض کا خط صفحہ نمبر۳)۔
جواب اعتراض نمبر4۔ پہلے تو یہ بتائیں کہ کیا قرآن میں ہے کہ رسول اللہﷺ قریش قبیلے سے تھے ؟؟؟ آپ تو احادیث مانتے نہیں ؛ یہ بات کیوں اور کیسے مان لی؟؟؟
رسول اللہﷺ قریش قبیلے سے تعلق رکھتے تھے اور قریش (بنی ہاشم) نضر بن کنانہ ہی کی اولاد سے تھے تو اگر کسی نے نضر بن کنانہ کہا تو اس میں کیا حرج ہے ؟ امام بخاریؒ نے رسول اللہﷺ کا نسب ذکر کیا ہے۔ صحیح بخاری میں ہے : محمدﷺ بن عبداللہ بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبد مناف بن قصی بن کلاب بن مرۃ بن کعب بن لوی بن غالب بن فہر بن مالک بن نضر بن کنانہ بن خزیمہ بن مدرکہ بن الیاس بن مضر بن نزار بن معد بن عدنان۔
رسول اللہﷺ تو نضر بن کنانہ کی اولاد سے ہیں اس میں کیا اعتراض کی بات ہے ؟ ہمارے ہاں شیخ برادری موجود ہے مگر شیخ برادری میں کوئی چنیوٹ کا شیخ ہے اور کوئی امرتسر کا شیخ ہے۔ ان میں لوگوں کو امرتسری بھی کہا جاتا ہے اور شیخ بھی کہا جاتا ہے اسی طرح کسی کو چنیوٹی کہتے ہیں اور کسی کو شیخ کہتے ہیں۔
رسول اللہﷺ بنی ہاشم کی اولاد تھے۔ کسی نے آپ کو قریش قبیلے کا سپوت کہا اور کسی نے نضر بن کنانہ کا کہہ دیا۔ کیونکہ آپﷺ نضر بن کنانہ کی اولاد سے تھے تو اس میں حر کی کیا بات ہے ؟ آپﷺ تو ابراہیم اور اسمٰعیل i کی اولاد سے ہیں۔ اگر کوئی آپ کو ان کی طرف منسوب کر دے تو آپ کیا کہیں گے ؟
دوسری اہم بات حدیث کے بارے میں ہمارے (مسلمانوں ) کے عقائد یہ ہیں کہ حدیث وحی خفی ہے، اقوال تابعی یا صحابی وحی نہیں ہے۔
اعتراض نمبر5۔ آپ کا اعتراض ہے کہ حسن بن علیؓ نے صدقہ کی کھجور میں سے ایک کھجور اٹھا لی اور اپنے منہ کے قریب لے گئے لیکن رسول اللہﷺ نے انہیں فارسی زبان کا یہ لفظ کہہ کر روک دیا کہ کخ کخ۔ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ ہم صدقہ نہیں کھاتے۔ (آپ لکھتے ہیں کہ) کیا یہ بات بھی رسول اللہﷺ نے منزل من اللہ کہی؟ کیا حسن بن علی فارسی زبان سمجھتے تھے اور کیا رسول اللہﷺ فاطمہ کے گھر میں فارسی بولتے تھے ؟ کیا رب نے رسول اللہﷺ کو ہدایت کی تھی کہ آپ بچے سے فارسی بولیں ؟
جواب اعتراض نمبر 5۔ ہمارا (مسلمانوں ) کا دعوی ہے کہ احادیث رسولﷺ کا مضمون ربانی ہے اور الفاظ ربانی نہیں۔ یہاں اصل بات مضمون کی ہے کہ رسول اللہﷺ نے حسن بن علیؓ کو صدقہ کی کھجور کھانے سے منع کیا، یہ حکم ربانی ہے۔ باقی رہی فارسی زبان کے الفاظ استعمال کرنے کی بات تو کسی بھی زبان کا ایک آدھ لفظ بولنے کا ہرگز ہرگز مطلب یہ نہیں ہوتا کہ انسان کو اس زبان پر مکمل عبور حاصل ہے۔ یا اس کے گھر میں وہ زبان بولی جاتی ہے۔ ہمارے ملک میں اکثر لوگ گفتگو کے دوران انگریزی کے الفاظ بول جاتے ہیں۔ کیا جو لوگ انگریزی کے ایک آدھ لفظ اپنی گفتگو میں ادا کرتے ہیں اس کا مطلب آپ کے نزدیک یہ ہے کہ یہ ایک آدھ لفظ بولنے والا اور جس سے مخاطب ہے وہ دونوں انگریزی پر مکمل عبور رکھتے ہیں ؟؟
ہرگز ایسی بات نہیں ہے۔ اسی طرح فارسی زبان کا ایک آدھ لفظ بولنے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ جس سے مخاطب ہے اور جو مخاطب ہے دونوں فارسی پر عبور رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جتنے بھی رسول بھیجے وہ رسول اس قوم ہی کی زبان میں تھے۔ (سورۂ ابراہیم آیت نمبر۴)۔
اللہ تعالیٰ نے ان رسولوں کو ان ہی زبان میں وحی بھیجی۔ مگر جب قرآن میں ان کے قصے بیان کئے تو تمام رسولوں کے قصے عربی میں بیان کئے۔ اب آپ کیا کہیں گے کہ جو الفاظ رسولوں سے کہے تھے قرآن میں وہ الفاظ عربی میں نازل ہوئے اور زبان کی تبدیلی ہوئی۔ آپ الفاظ و زبان کی اس تبدیلی کو کیا کہیں گے ؟؟
اور اگر ایک آدھ لفظ سے یہ معنی اور مفہوم بنتا ہے کہ مخاطب اس زبان پر مکمل عبور رکھتا ہے تو سنئے ! اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے :
اِنَّآ اَنْزَلْنٰہ قرْء اٰنًا عَرَبِیًّا لَّعَلَّکمْ تَعْقِلوْنَ (سورۂ یوسف:۲)
ہم نے اس قرآن کو عربی میں نازل کیا۔
اور سورۂ بنی اسرائیل آیت نمبر ۳۵ اور سورۂ شعراء میں آیت نمبر ۱۸۲ میں لفظ بالقسطاس آیا ہے۔ قسطاس رومی زبان کا لفظ ہے، جس کے معنی عدل کے ہیں۔ اب بتائیں قرآن میں رومی زبان کا لفظ آیا ہے کیا آپ کو قرآن مجید پر بھی اعتراض ہے ؟؟؟
قرآن مجید میں اگر رومی زبان کا لفظ ہے تو ہم اس پر ایمان رکھتے ہیں۔ اور کوئی بھی مسلمان قرآن پر اعتراض نہیں کر سکتا۔ اسی طرح کوئی بھی مسلمان، اگر کسی حدیث میں فارسی کا لفظ آیا ہے تو اس پر اعتراض نہیں کر سکتا بلکہ حدیث پر ایمان رکھتا ہے۔
اعتراض نمبر6۔ آپ کا آخری اعتراض ہے کہ جب 70 صحابہ کو دھوکے سے شہید کیا گیا تو نبیﷺ نے ان پر نماز میں قنوت پڑھی۔ (پھر) انس tفرماتے ہیں کہ ان شہداء کے متعلق قرآن مجید میں ہم یہ آیت پڑھتے تھے (ترجمہ) ہاں ہماری قوم (مسلم کو) بتادو کہ ہم اپنے رب سے جا ملے اور وہ ہم سے راضی ہو گیا اور ہمیں بھی اس نے اپنی بے پایاں نوازشات سے خوش کیا ہے۔ پھر یہ آیت منسوخ ہو گئی تھی۔ (پھر آپ لکھتے ہیں )۔ جناب مولف صاحب ! اللہ تعالیٰ نے یہ حدیث واقعہ ہونے سے یقیناً پہلے نازل کی ہو گی تو کیا آپ کے ساتھ ان (لوگوں نے نعوذ باللہ) اللہ کو بھی دھوکہ دینے میں کامیاب ہو گئے۔ اس کے علاوہ قرآن کی جس آیت کی منسوخی کے بارے میں حدیث میں بات کی گئی ہے کیا وہ آیت بھی منزل من اللہ تھی؟ کیونکہ پورا کا پورا قرآن اللہ کی جانب سے ہے لیکن ان شہداء کا پیغام جو انہوں نے اپنی قوم کو دیا وہ تو پورا کلام انسانی ہے۔ رب یہ کیسے کہہ سکتا ہے کہ ہماری قوم کو بتا دو کہ ہم اپنے رب سے جا ملے ؟ اگر رب نے یہ آیت نازل کی ہے تو کیا رب کی اپنی بھی کوئی قوم ہے ؟ یہ اشکالات رفع کر دیں نوازش ہو گی۔ (آپ کا خط صفحہ نمبر۴)۔
جواب اعتراض نمبر6۔ یہ اعتراض بھی اپ کی بہت بڑی غلط فہمی پر مبنی ہے۔ آپ کا پہلا نقطہ اعتراض اس سوال میں شاید یہ ہے کہ جب رسول اللہﷺ نے ستر صحابہ ؓ کو روانہ کیا تو یہ آپ کا حکم وحی کی بنا پر تھا اور اللہ کو تو علم تھا کہ یہ ستر صحابہ کرام ؓ شہید ہو جائیں گے۔ تو اللہ تعالیٰ نے رسول اللہﷺ کو یہ حکم کیوں دیا کہ صحابہ کو ان کے ساتھ روانہ کر دیں ؟
اگر میں آپ سے پوچھوں کہ اللہ نے جتنے بھی نبی بھیجے سب اللہ کے حکم سے آئے اور اللہ کو علم تھا کہ بعض انبیاء کو ان کی قومیں قتل کر دیں گی جیسا کہ قرآن مجید میں ہے :
وَ یَقْتلوْنَ النَّبِیّٖنَ بِغَیْرِ الْحَقِّ (سورۂ بقرہ:۶۱)
اور نبیوں کو ناحق قتل کرتے ہیں۔
یَکْفروْنَ بِایٰتِ اللہِ وَیَقْتلوْنَ الْاَنْبِیَآءَ بِغَیْرِ حَقٍّ (آل عمران: ۱۱۲)
یہ اللہ کی آیات کا انکار کرتے تھے اور انبیاء کو ناحق قتل کرتے تھے۔
قرآن سے ثابت ہے کہ ان قوموں نے نبیوں کو قتل کیا۔ جب اللہ تعالیٰ کو معلوم تھا کہ انبیاء قتل کئے جائیں گے مگر پھر بھی اللہ تعالیٰ نے نبیوں کو بھیجا (اس کی مکمل حکمت اللہ ہی جانتا ہے مگر ہمارا ان آیات پر ایمان ہے )۔
اسی طرح ستر صحابہ ؓ کو شہید کیا جانا تھا، اللہ کے علم میں تھا۔ رسول اللہﷺ نے ان کو روانہ کیا (اس کی حکمت اللہ ہی مکمل جانتا ہے۔ ہمارا ان احادیث پر ایمان ہے )۔ اگر اس حوالے سے قرآن مجید پر اعتراض نہیں ہے تو حدیث پر کیوں اعتراض کیا جا رہا ہے ؟؟؟
آپ نے آیت کے منسوخ ہونے کی بات کی، یہ بھی قرآن سے ثابت ہے :
مَا نَنْسَخْ مِنْ ایَٰۃٍ اَوْ ننْسھَِا نَاْتِ بِخَیْرٍ مِّنْھَآ اَوْ مِثْلھِا
ہم جس آیت کو چاہتے ہیں منسوخ کر دیتے ہیں یا بھلا دیتے ہیں اور اسی جیسی یا اس سے بہتر (کوئی دوسری آیت) نازل فرما دیتے ہیں۔
یہ بات تو قرآن سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ آیات منسوخ کر سکتا ہے۔ تو اس آیت کے منسوخ ہونے پر کیا اعتراض؟؟
آپ لوگوں کا حقیقت میں قرآن پر ہی صحیح ایمان نہیں۔ اسی وجہ سے آپ لوگ محمد رسول اللہﷺ کے فرامین پر اعتراض کرتے ہیں اور دورِ حاضر کے نام نہاد دانشوروں کے اقوال کو دین سمجھتے ہیں۔ ہم اللہ سے آپ کے لئے ہدایت کا ہی سوال کرتے ہیں کہ اللہ آپ جیسے لوگوں کو صراطِ مستقیم کی سمجھ عطا کرے۔
پھر اپ نے لکھا کہ پورا کا پورا قرآن اللہ کا کلام ہے۔ جو شہداء نے پیغام دیا وہ پورا انسانی کلام ہے۔ کیا رب یہ کہہ سکتا ہے کہ ہماری قوم کو بتا دو ہم اپنے رب سے جا ملے ؟
آپ کا یہ اعتراض بھی قرآنی علم نہ ہونے کی وجہ سے ہے۔ ورنہ بات یہ ہے کہ رب نے صحابہ ؓ کے قول کو نازل کیا ہے۔ اگر صحابہ کے اس قول کے نازل ہونے پر اعتراض ہے تو سنیے : قرآن مجید میں ایک مرد صالح کے اقوال کچھ اس طرح ہیں :
وَ مَا لِیَ لَآ اَعْبد الَّذِیْ فَطَرَنِیْ وَ اِلَیْہِ ترْجَعوْنَ
مجھ کو کیا ہے کہ میں اس کی عبادت نہ کروں جس نے مجھ کو پیدا کیا اور مجھ کو اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ (سورۂ یٰسین:۲۲)
اگر ہم آپ کا قانون اور ضابطہ مانیں تو کیا ہم یہ کہیں کہ معاذ اللہ! اللہ عبادت کی بات کر رہا ہے۔ کیا اللہ بھی عبادت کرتا ہے ؟؟
پھر مزید دیکھیں :
اِنِّیْٓ اٰمَنْت بِرَبِّکمْ فَاسْمَعوْنِ (سورۂ یٰسین:۲۵)
پس تم یہ سن رکھو! بے شک میں ایمان لایا تمہارے رب پر
معاذ اللہ کیا اللہ کا کوئی رب ہے جس پر اللہ ایمان لایا؟؟؟
مزید دیکھیں :
قَالَ یٰلَیْتَ قَوْمِیْ یَعْلَموْنَ بِمَا غَفَرَ لِیْ رَبِّیْ وَ جَعَلَنِیْ مِنَ الْمکْرَمِیْنَ
کہنے لگا کاش میری قوم جان لے ! مجھ کو میرے رب نے معاف کر دیا اور عزت والوں میں شامل کر دیا۔ (سورۂ یٰسین:۲۷)۔
معاذ اللہ کیا اللہ کو کسی نے معاف کر کے عزت والوں میں شامل کیا؟؟؟؟
ہرگز ہرگز ایسا نہیں۔ یہ تو اللہ نے اس مردِ صالح کی بات کی جس کو اس کی قوم نے قتل کر دیا۔ اگر ان آیات کو بھی ہم کلام رحمن مانتے ہیں تو اس آیت کو جو ستر صحابہ کے بارے میں نازل ہوئی ہم کلامِ انسان کیوں کہتے ہیں کیا یہ ظلم نہیں کہ ایک جیسی دو باتوں میں سے ہم ایک کو مانیں اور دوسری کا انکار کر دیں۔
سوچئے ! خوب سوچئے اور حق پر عمل کرنے کی کوشش کریں۔ ہم نے آپ کے بھیجے ہوئے اعتراضات کے جوابات بھی دے دیئے۔ ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ پہلے آپ ہمارے پچاس سوالات کے جوابات دیتے پھر ہم سے اپنے جوابات کا مطالبہ کرتے مگر آپ ایسا نہیں کر سکتے تھے کیونکہ منکرین احادیث کے پاس ان کا کوئی جواب نہیں ہے۔ اب ہم آپ کو دعوت دیتے ہیں کہ آپ فرمان رسولﷺ کو دین مان لیں اور مزید شیطان کی پیروی نہ کریں ورنہ آج صفحات سیاہ کرنے کے آپ کو جوابات مل گئے۔ نامہ اعمال جب سیاہ ہو چکا ہو گا تو اس کا کوئی کفارہ نہیں ہو گا۔ اس کی سزا جہنم ہے۔ اللہ رب العزت سے ہم پھر دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں بھی تمام پڑھنے والوں کو اور آپ کو بھی حق کو سمجھنے کے ساتھ قبول کرنے کی اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔ یا رب العالمین۔ کیونکہ توفیق دینے والی ذات تو صرف اور صرف اللہ ہی کی ہے۔
احقر
حماد اقبال عفی عنہ
٭٭٭
کمپوزنگ : محمد آصف
تشکر: مرثد ہاشمی، مکتبہ جبرئیل۔ جن کے توسط سے فائل کی فراہمی ہوئی
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
Thank you very much for depending Islam from
Faton of the time، جزاك الله خيرا في الدارين