FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

اندھیروں کا رپورٹر

اور دوسرے افسانے

 

 

                   رضوان الحق

 

 

 

 

اندھیروں کا رپورٹر

 

 

 

نکڑ پر پہنچ کر طالب کچھ لمحوں کے لیے ٹھٹک گیا، وہاں سے کئی گلیاں جاتی تھیں اس لیے وہ سوچ میں پڑ گیا کہ اب کدھر جاؤں ؟ اس نے ساری گلیوں کی طرف مڑ مڑ کے دیکھا لیکن کچھ سمجھ میں نہ آیا کہ کدھر سے جانا چاہیے، ساری گلیاں اندھیری تھیں ، تھوڑی دیر سوچ بچار کر اس نے مغرب کی جانب جانے والی گلی کا انتخاب کیا اور آگے بڑھنے لگا، رات اندھیری اور گلی سنسان تھی، بجلی شام سے ہی حسب معمول گل تھی۔ گرمی اور امس عروج پر تھی، ایک روز پہلے بارش ہوئی تھی اس لیے جہاں تہاں ٹوٹی سڑک پر پانی بھرا ہوا تھا۔ بجلی نہ ہونے کی وجہ سے کیچڑ سے بچ پانا مشکل تھا۔ تھوڑی دور آگے بڑھنے پر ایک گھر کی روشنی چھن چھن کر کھڑکی سے باہر نکل رہی تھی۔ وہاں پہنچ کر طالب نے گھڑی دیکھی دس بج چکے تھے۔ اس نے گلے میں پڑے کیمرے کو درست کیا اور چلنے کی رفتار تیز کر دی۔

طالب یہ سوچ کر فکر مند ہو گیا کہ مشاعرہ دس بجے شروع ہونا تھا اور اس سے پہلے ایک پریس کانفرنس بھی ہونی تھی، میں ابھی تک یہیں ہوں ، نو منتخب چیر مین صاحب نے ساڑھے آٹھ بجے تک گھر پہنچنے کو کہا تھا۔ انھوں نے یہ بھی بتایا تھا کہ شاعروں ، بیرونی مندوبین اور شہر کے معزز لوگوں کے کھانے اور ’’پینے‘‘ کا انتظام گھر میں ہی کیا گیا ہے، اس لیے تم بھی گھر ہی آ جانا، وہیں سب سے تعارف بھی ہو جائے گا اور کھانا پینا بھی۔ پھر سب لوگ ساتھ میں مشاعرہ گاہ چلیں گے۔ اس نے یہ سوچ کر کہ کہیں سب کچھ وقت ہی سے نہ شروع ہو گیا ہو اپنی رفتار بڑھا دی لیکن چند لمحوں بعد ہی اس نے یہ سوچ کر اپنے آپ کو تسلی دے لی کہ مشاعرہ چیر مین صاحب کرا رہے ہیں اور ان کا کوئی بھی پروگرام وقت سے کبھی نہیں شروع ہوتا ہے، اس لیے یہ پروگرام بھی وقت سے نہیں شروع ہونا چاہیے اور اگر تھوڑی دیر بھی ہو گئی تو کیا فرق پڑتا ہے؟ آج تو جشن کا دن ہے۔ لیکن طالب کے بھوک کافی لگ چکی تھی اس لیے اس نے سوچا کہ پروگرام جب بھی شروع ہو جتنی جلد ہو سکے وہاں پہنچ کر کھانا کھا لینا چاہیے، کھانے کے وقت ہی سب سے ملاقاتیں ہو پاتی ہیں ۔ جلسوں اور مشاعروں میں تو دھیان رپورٹ میں لگا رہتا ہے، اس وقت سلام دعا کے علاوہ کسی سے کوئی خاص بات نہیں ہو پاتی ہے۔ اس لیے جتنی جلدی ہو سکے مجھے وہاں پہنچ جانا چاہیے۔ پھر اگر شاعروں اور مندوبین سے اس جلسے اور مشاعرے کے بارے میں گفتگو ہو گئی تو رپورٹ اور جاندار ہو جائے گی۔ یہ سوچ کر اس نے اپنی رفتار اور بڑھا دی، ابھی وہ یہی سب سوچ رہا تھا کہ اسے اچانک محسوس ہوا کہ کوئی اس کا تعاقب کر رہا ہے۔ جب وہ چلتا ہے تو تعاقب کرنے والا بھی ساتھ ساتھ چلنے لگتا ہے اور جب رکتا ہے تو تعاقب کرنے والا چھپ جاتا ہے۔ اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو اندھیرے میں کوئی نظر نہ آیا البتہ کہیں کہیں اندھیرا کچھ زیادہ گہرا لگ رہا تھا، لیکن کہنا مشکل تھا کہ وہاں واقعی کوئی تھا یا محض کسی کے ہونے کا التباس تھا۔ لیکن پیچھے مڑ کر دیکھتے ہی اس کا پیر کیچڑ میں پڑ گیا اور اس کے پیر بری طرح سے کیچڑ سے بھر گئے۔

اب سوال یہ تھا کہ پیر کیسے صاف کیے جائیں ؟ اس نے اپنے چاروں طرف دیکھا ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا تھا، اگر کوئی ایسی چیز وہاں رہی بھی ہوگی کہ جس سے پیر صاف کیے جا سکیں تو اس اندھیرے میں نظر نہ آئی۔ اس نے اندھیرے میں ہی ٹٹولنا شروع کیا لیکن ہر بار پولی تھن ہی اس کے ہاتھ لگی، جن میں کوئی نہ کوئی گندگی ضرور لگی ملتی، بار بار پالی تھن ہاتھ لگنے سے وہ جھنجلا گیا۔ ’’اف یہ پالی تھن نہ جانے کہاں سے آ گئیں ہیں جدھر دیکھو ادھر بس پالی تھن ہی پالی تھن ہیں ۔‘‘

اس نے ان دنوں کو یاد کیا جب کہیں بھی پالی تھن کا نام و نشان نہ تھا، یہ کتنی تیزی سے بڑھتی جا رہی ہیں ۔ اسے ٹی وی کا وہ اشتہار یاد آ گیا جس میں کہا گیا تھا کہ اگر اسی رفتار سے پالی تھن کا استعمال ہوتا رہا تو وہ دن دور نہیں جب ساری دنیا پالی تھن سے ڈھک جائے گی اور اشتہار میں پوری دنیا پالی تھن سے ڈھکی نظر آتی۔ کیونکہ ان کے سڑنے گلنے میں لاکھوں برس لگتے ہیں ، تب تک نہ جانے کتنی پالی تھنیں استعمال ہو چکی ہوں گی۔

طالب پالی تھنوں کو چھوڑ کر آگے چل دیا تھوڑی دوری پر ایک گھر کی کھڑکی سے روشنی باہر نکل رہی تھی۔ روشنی کو دیکھ کر وہ یہ سوچ کر آگے بڑھا کہ وہاں روشنی میں کچھ نہ کچھ ایسا ضرور مل جائے گا جس سے میں اپنے پیر اور چپل صاف کر لوں گا۔ اس بار اس کی رفتار بہت ہی دھیمی تھی کہ کہیں پیروں کا کیچڑ کپڑوں میں بھی اچھل کر نہ لگ جائے۔ خاص طور سے دایاں پیر جس میں کیچڑ لگا ہوا تھا وہ بہت ہی آہستہ سے اٹھا رہا تھا۔ اگر کوئی دور سے دیکھتا تو یہی سمجھتا کہ اس کے پیر میں لنگ ہے۔ کچھ دیر میں وہ روشنی کے قریب پہنچ گیا۔ وہاں کھڑے ہو کر ادھر ادھر دیکھا جب اطمینان ہو گیا کہ کوئی اسے نہیں دیکھ رہا ہے تو اس کی نظریں پیر اور چپل صاف کرنے کے لیے کچھ ادھر ادھر تلاش کرنے لگیں ۔ تھوڑی دوری پر کوڑے کا ایک چھوٹا سا ڈھیر نظر آیا، وہاں دو کتّے کچھ کھانے کے لیے آپس میں لڑ رہے تھے، کوڑے کے ڈھیر پر پالی تھن کے علاوہ کاغذ اور کپڑے کے کچھ چیتھڑے بھی نظر آ رہے تھے۔ انھیں دیکھ کر وہ کوڑے گھر کے پاس پہنچ گیا اور دھت … کہہ کر سب سے پہلے کتوں کو بھگایا اور جھک کر داہنے ہاتھ سے کپڑے کا ایک ٹکڑا اٹھا کر مٹھی میں دبا لیا اور اسے موڑ کر پیر کے پاس لے جانے لگا کہ اسی دوران اسے پیٹھ اور گردن میں کھجلی محسوس ہوئی تو اس نے کپڑا بائیں ہاتھ میں پکڑا اور چپل صاف کرنے سے پہلے پیٹھ اور گردن کھجلانے لگا۔ وہاں کافی پسینا آیا ہوا تھا اور گھموریاں بھی تھیں ایک عجیب سی لذت کا احساس ہوا، تھوڑی دیر کھجلانے کے بعد ایک بو سی محسوس ہوئی اس نے ادھر ادھر مڑ کر دیکھا کیا کوئی عورت آس پاس ہے؟ لیکن کوئی عورت نظر نہ آئی، پھر بائیں ہاتھ میں پکڑے ہوئے کپڑے کی طرف دھیان گیا تو احساس ہوا کہ شاید بو وہیں سے آ رہی ہے۔ اب جو غور کیا تو ہاتھوں میں عجب سی چپچپاہٹ بھی محسوس ہوئی اسے تجسس ہوا دیکھوں کہ کیا ہے؟ جب وہ اس کپڑے کو ناک کے قریب لے گیا تو پیپ اور خون کا ملا جلا سا مادہ نظر آیا اور بو کا ایک تیز بھبکا اس کی ناک میں گھسا، اس نے جلدی سے کپڑے کو پھینک دیا۔ ’’اُف یہ تو حیض کا لتّا …‘‘

کپڑا پھینکنے کے بعد وہ کچھ اور تلاش کرنے لگا، اس بار اس نے اخبار کا ایک ٹکڑا اٹھایا اور اسے الٹ پلٹ کر اور سونگھ کر دیکھا۔ اس میں کوئی ویسی بات نظر نہ آئی تو اسے پھاڑ پھاڑ کر پیر اور چپل پونچھنے لگا۔ کچھ دیر میں پیر اور چپل دونوں کا کیچڑ تقریباً صاف ہو گیا، کچھ کیچڑ سوکھ چکا تھا اس کے داغ پڑے رہ گئے۔ اس کے بعد اس نے کپڑوں کی طرف دھیان دیا کھدر کے سفید کرتا پائے جامہ پر بھی کچھ چھینٹیں پڑی ہوئی تھیں اس نے انھیں بھی صاف کیا لیکن وہاں بھی داغ باقی رہ گئے۔ سوچا چلو بعد میں آگے کہیں پانی کا نل مل گیا تو وہاں اچھے سے صاف کر لوں گا۔ ابھی تو جتنی جلدی ہو سکے مجھے چیرمین صاحب کے یہاں پہنچنا چاہیے۔ اس نے سوچا کپڑے تو خیر بعد میں صاف ہو جائیں گے لیکن ہاتھ دھل جاتے تو اطمینان مل جاتا۔ آس پاس دیکھنے پر کہیں ہاتھ سے چلنے والا نل بھی نظر نہ آیا۔ ٹنکی والے نل میں اس وقت پانی آنے کا کوئی امکان نہ تھا اس میں نو بجے کے بعد تو آج تک کبھی بھی پانی نہ آیا تھا۔ جب کہیں پانی ملنے کی امید نظر نہ آئی تو وہ یہ سوچ کر آگے چل دیا کہ چیرمین صاحب کے گھر میں صابن سے ہاتھ دھو لوں گا۔

گرمی کی وجہ سے پہلے ہی اس کی طبیعت گھبرا رہی تھی لیکن کچھ دیر پیدل چلنے سے پیٹھ پوری طرح پسینے سے بھیگ گئی۔ اس کی پیٹھ اور گردن میں بہت ساری گھموریاں نکلی ہوئی تھیں ، اب جو پسینا نکلا تو ان گھموریوں میں کھجلی اور جلن پیدا ہو گئی اور وہ ایک جگہ کھڑے ہو کر کھجلانے لگا، کھجلاتے کھجلاتے اس کے جسم میں ایک عجیب سی سنسنی پیدا ہو گئی اور ایک عجیب قسم کی لذت کا احساس بھی ہوا۔ اس نے سوچا کھجلانے سے پوری پیٹھ اور گردن سرخ ہو گئی ہوگی لیکن وہ کھجلاتا رہا، کھجلانے کا دائرہ بھی بڑھتا گیا، گردن اور پیٹھ کے علاوہ جسم کے دوسرے اعضا تک اس کا ہاتھ کھجلاتے کھجلاتے رینگنے لگا۔ پھر پیٹھ اور گردن میں کھجلی کے ساتھ ساتھ ہلکا سا درد بھی ہونے لگا، کھال چھل گئی تھی اور لہو کھال کی سطح تک رِس کر آ گیا تھا۔ کھجلاتے کھجلاتے اچانک اسے حیض یاد آ گیا اور اس کے ہاتھ رک گئے۔ اس نے سوچا کہ زنانی بو بھی کیا چیز ہے بالکل بد حواس کر دیتی ہے … پتہ نہیں کس نے پھینکا ہوگا وہ کپڑا اور آج کل وہ نہ جانے کن حالات سے گزر رہی ہوگی۔ اس نے اپنی انگلیوں کو آپس میں چھوا تو انگلیوں میں ابھی بھی چپچپاہٹ موجود تھی اور لگا کہ کپڑے کا وہ مادّہ ابھی بھی اس کے ہاتھ میں لگا ہوا ہے۔ پھر اسے دھیان آیا کہ میں نے تو ابھی اسی ہاتھ سے پورے جسم کو کھجلایا ہے اس لیے یہ رطوبت تو سب جگہ لگ گیا ہوگا، اتنا یاد آتے ہی اس کا جی مالش کرنے لگا اور الٹی سی آنے لگی، او … او کر کے وہ اسی جگہ بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر تک الٹی جیسی کیفیت بنی رہی لیکن الٹی نہ ہو سکی۔ اس کی طبیعت گھبرانے لگی یک بارگی تو اس نے سوچا کہ واپس گھر چلا جاؤں اور نہا دھوکر پھر سے آ جاؤں گا، لیکن اسے احساس تھا کہ تب تک بہت دیر ہو چکی ہوگی، جلسے میں بہت دور دور سے آئے ہوئے شاعر، حکام، تاجر اور سیاست داں موجود ہوں گے۔ کچھ بہت اہم لوگوں کی تقریریں بھی ہوں گی، چیرمین صاحب کی آج کی تقریر تاریخی حیثیت کی ہوگی، مشاعرے میں مقامی اور بیرونی سارے شاعر اپنے اپنے طور پر لوگوں کو مرعوب کرنے کی کوشش کریں گے۔ ان سب کی رپورٹ تیار کرنا نہایت ضروری ہے۔ چیرمین صاحب شہر کی حالیہ سرگرمیوں پر اپنا رد عمل بھی ظاہر کریں گے اور قریب مستقبل میں کیے جانے والے تمام کاموں کے منصوبے کا بھی اعلان کریں گے۔ اس اعلان کی رپورٹ نہایت ضروری ہے اس شہر میں ایسے موقعے بہت کم ہی آتے ہیں ۔

مشاعرہ کے علاوہ دور دور سے آئے ہوئے مندوبین کے ساتھ ایک پریس کانفرنس بھی شاید ہوگی۔ جس میں دن میں منعقدہ کانفرنس کی بھی رپورٹ پیش کی جائے گی، پھر ان لوگوں کی تقریروں کا ذکر آنا نہایت ضروری ہے جو اشتہار دیتے ہیں یا جن کے دم سے شہر میں چار لوگ میری عزت کرتے ہیں ۔ ان سے آئے دن ملاقات ہوتی رہتی ہے اور وہ اخبار میں اپنا نام نہ دیکھ کر مہینوں شکایت کرتے رہیں گے۔

اس نے سوچا اگر جلسے میں جاؤں ہی نا اور بیمار ہونے کا بہانہ بنا کر چپ چاپ گھر جا کر نہا دھو کر سو جاؤں تو کون پوچھنے آئے گا، بعد میں کوئی پوچھے گا تو بیماری کا بہانہ بنا دوں گا۔ لیکن جب اس کا ذہن نگر پالیکا اور چند دیگر تاجروں سے ملنے والے اشتہاروں کی طرف گیا تو اس نے سوچا نہیں وہاں جانا نہایت ضروری ہے۔ نہیں تو کل رپورٹ کیا بھیجوں گا؟ اس چھوٹے سے شہر میں کبھی کبھی ہی تو ایسے موقعے آتے ہیں ، اگر ایسے موقعے پر بھی میری رپورٹ نہیں چھپی تو ہو چکی صحافت۔ پھر مقامی شاعروں نے، جن میں سے اکثر میرے دوست ہیں ان کو کیا جواب دوں گا، ان لوگوں نے ذاتی طور پر بھی جستہ جستہ گذارش کی تھی کہ رپورٹ میں ان کا ذکر ان کے شعر کے ساتھ کیا جائے۔ اخبار سے بھی مدیر کی ہدایت تھی کہ کانفرس اور مشاعرے کی الگ الگ مفصل رپورٹ بھیجی جائے۔ چیرمین سے بڑا اشتہار ملا ہے۔ ایک پورا صفحہ جو اشتہاروں اور رپورٹ پر مبنی ہوگا اس پروگرام کے لیے مختص کیا گیا ہے۔ چیرمین صاحب اس کی کئی ہزار کاپیاں خرید کر بٹوائیں گے۔ اس کے بعد ان سے مسلسل اشتہار ملتے رہیں گے۔ اس لیے طالب نے فیصلہ کیا کہ اس بد بو کے ساتھ ہی جا کر رپورٹنگ کرنی ہوگی۔ ابھی طالب یہی سب سوچ رہا تھا کہ اسے ایک جانی پہچانی سی آواز سنائی پڑی۔

’’کیا اسی لیے تم اس مقدس پیشہ میں آئے تھے؟‘‘

آواز اتنی ہلکی تھی کہ یہ سمجھ پانا مشکل تھا کہ وہ آواز واقعی تھی؟ یا اسے بس محسوس ہوا ہے کہ کسی نے ایسا کہا ہے۔ سوال ایسا تھا کہ اس نے اسے نظر انداز کرنے میں ہی عافیت سمجھی۔ طالب سوچ میں پڑ گیا اب اگر گھر واپس بھی چلا جاؤں تو کھانا کیا کھاؤں گا؟ ایسی دعوت جو کبھی کبھی ہی نصیب ہوتی ہے اسے چھوڑ کر جاؤں گا تو گھر میں خود سے پکا کر کھانا پڑے گا، ٹفن والے سے بھی منع کر دیا تھا کہ آج کھانا مت لانا میری دعوت ہے۔ بھوک ابھی سے بہت تیز لگ چکی ہے۔ اگر آج اچھی سی رپورٹ نہ چھپی تو چیرمین صاحب بھی ناراض ہو جائیں گے، پھر تو نگر پالیکا سے اشتہار ملنے میں بہت دقت ہوگی، اس لیے ہر حال میں جانا پڑے گا۔ یہ فیصلہ لیتے ہی اسے ایک بار پھر کسی کی آہٹ سنائی پڑی، اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا لیکن کوئی نظر نہ آیا، وہ ابھی حیران کھڑا تھا کہ اچانک بہت آہستہ سے وہ آواز پھر سنائی دی۔

’’کیوں جا رہے ہو وہاں ؟ ایسی حالت میں تمھیں کہیں نہیں جانا چاہیے، جی مالش کر رہا ہے، الٹی ہو سکتی ہے، تم بیمار بھی پڑ سکتے ہو، مت جاؤ، تم وہاں کسی کار خیر میں تو جا نہیں رہے ہو؟ ایسے لوگ اگر ناراض بھی ہو جائیں تو تمھیں بہت زیادہ فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے، وہ اچھا آدمی نہیں ہے۔‘‘

اس بار آواز زیادہ واضح تھی، یہ آواز اسے مانوس سی محسوس ہوئی، جیسے بہت پہلے سے وہ اس آواز کو پہچانتا ہو لیکن بہت دن سے رابطے میں نہ ہو۔ اتنا سننے کے بعد اس نے غور سے ادھر ادھر دیکھا لیکن وہ کچھ سمجھ نہ سکا کہ اس آواز کا راز کیا ہے؟ آخرکار وہ اس آواز کو نظر انداز کر کے ایک بار پھر اپنی منزل کی طرف چل پڑا۔

طالب نے سوچا ہاتھوں کی چپچپاہٹ اور گردن و پیٹھ کے پسینے میں سمائی اس بو اور کھجلی کے ساتھ بھی جانا ہی پڑے گا۔ ہاتھ کا کوئی مسئلہ نہیں ہے چیرمین کے یہاں کھانے سے قبل صابن سے صاف کر لوں گا۔ جہاں تک گردن اور پیٹھ کا سوال ہے وہ کسی کو کچھ دکھتا تھوڑے ہی ہے بس میں جانتا ہوں مسئلہ صرف بدبو کا ہے تو کسی طرح برداشت کر لوں گا۔ ابھی تھوڑی دیر میں کھانے پینے اور رپورٹنگ میں مصروف ہو جاؤں گا تو سب بھول جاؤں گا۔ یہی سب سوچتے سوچتے وہ چلتا رہا اور واقعی اس کپڑے کو تھوڑی دیر کے لیے بھول بھی گیا۔ لیکن اب پسینا اور بھی زیادہ آ گیا، گھموریاں بری طرح سے کاٹ رہی تھیں اور بار بار کھجلی ہو رہی تھی۔ تھوڑا اور چلنے کے بعد وہ ایک چوراہے پر پہنچا جہاں بہت تیز روشنیاں جل رہی تھیں ۔ اس چوراہے سے چیرمین کے گھر جانے والے راستے پر بے شمار روشنیاں جگمگا رہی تھیں ، باقی راستے اندھیرے میں گم تھے، چیرمین کے گھر کی راہ گزر میں ہی شہر کے اکثر صاحب حیثیت لوگوں کی رہائش گاہیں تھیں ۔ طالب اس روشن سڑک پر آسانی سے تیز تیز قدموں چل کر چیرمین صاحب کے گھر پہنچ گیا گھر کو سنسان دیکھ کر اس کا دل تیزی سے دھڑکا۔

’’یہ کیا؟ یہاں تو کوئی نظر ہی نہیں آ رہا ہے۔‘‘

گھڑی دیکھی تو گیارہ بج چکے تھے، گھر کی گھنٹی بجانے پر تیرہ چودہ سال کا ایک لڑکا باہر نکلا اس نے کہا۔

’’پاپا نے جاتے وقت کہا تھا اب اگر کوئی مہمان آئے تو اسے مشاعرہ گاہ پہنچا جانا، چلیے میں آپ کو وہاں بھیج آتا ہوں ۔‘‘

’’مشاعرہ گاہ مجھے معلوم ہے، میں چلا جاؤں گا۔ لیکن کھ … ‘‘

کھانا کہتے کہتے وہ رک گیا، اس بچے سے کھانے کے بارے میں پوچھنا مناسب نہ ہوگا اور شراب کے بارے میں تو ہرگز نہیں ۔ پھر میں تو مقامی صحافی ہوں باہر سے آیا ہوا شاعر یا مندوبین میں سے ہوتا تو کھانے کے بارے میں پوچھ بھی سکتا تھا۔ پھر اس نے ہاتھ دھونے کے لیے پانی منگوانے کے بارے میں سوچا تبھی وہ بچہ پھر بولا۔

’’چلیے میں آپ کو مشاعرہ گاہ پہنچا دیتا ہوں وہاں پاپا سے بھی ملوا دوں گا۔‘‘

’’نہیں بیٹا تم گھر جاؤ، میں چلا جاؤں گا، میں باہر سے نہیں آیا ہوں ، میں تو اسی شہر کا ہوں ۔‘‘

یہ کہہ کر طالب مشاعرہ گاہ کی طرف چل دیا اور ہاتھ دھلنا بھول گیا۔ پورا راستہ روشنیوں سے جگمگا رہا تھا۔ تھوڑی دیر چلنے کے بعد اسے ایک بار پھر وہی سب یاد آنے لگا، پسینا آتا رہا، گھموریوں میں کھجلی ہوتی رہی، حیض میں بسے بدن سے بدبو آتی رہی اور اس نے تیز روشنی میں سفر جاری رکھا۔ راستے میں لوگوں نے جگہ جگہ مبارک باد کے پوسٹر اور بینر لگا رکھے تھے۔ کچھ ناموں کو پڑھ کر اسے حیرت ہو رہی تھی، ان کا چیرمین صاحب سے کبھی کوئی تعلق ہی نہیں رہا تھا اور کچھ نام تو ایسے بھی تھے جنھیں چیرمین صاحب کے مخالفین میں شمار کیا جاتا تھا۔ چیرمین کے گھر سے جلسہ گاہ تک کی شہ راہ کی تعمیر نو ہوئی تھی اور بہت صاف ستھری و خوبصورت نظر آ رہی تھی، عموماً لوگ خوش لباس اور خوش گفتار تھے، لیکن کچھ غریب لوگوں کو خاص طور سے بلایا گیا تھا جو حیرانی سے چاروں طرف تک رہے تھے۔ یہ سب دیکھ کر طالب کا دل بیٹھا جا رہا تھا بار بار اسے وہاں جانے سے کوئی روک رہا تھا اور اس کے قدم بھاری ہوتے جا رہے تھے۔

’’تم اس حالت میں اس زرق برق محفل میں کیسے جا سکتے ہو؟‘‘

’’دیکھو تم جانتے ہو میری مجبوری ہے، میں اس جلسے کو کسی حال میں نظر انداز نہیں کر سکتا۔ میں نے وہاں جانے کا حتمی فیصلہ کر لیا ہے اب میں اس سلسلے میں تمھاری کوئی بات نہیں سننا چاہتا۔‘‘

یہ کہہ کر وہ اپنی تمام حشر سامانیوں کے ساتھ ایک بار پھر چلنے لگا اور چلتے چلتے تھوڑی دیر میں مشاعرہ گاہ پہنچ گیا۔ وہاں بہت ساری روشنیاں اور طرح طرح کے قمقمے جگمگا رہے تھے، میلے سا سماں تھا، چائے کی خصوصی دکانیں لگی ہوئی تھیں ۔ بھوک سے طالب کا پیٹ کلبلا رہا تھا۔ اس نے سوچا پتا نہیں اب چیرمین صاحب کچھ کھانے پینے کا انتظام کریں گے یا نہیں ؟ غلطی میری ہی ہے میں ہی دیر سے پہنچا تھا۔ ایسے میں اگر ایک دو انڈے کھا کر چائے پی لی جائے تو کم از کم کچھ دیر کے لیے تو پیٹ کی آگ ٹھنڈی ہو جائے گی۔ یہ سوچ کر اس نے چائے کی دکان والے سے دو ابلے ہوئے انڈے اور ایک چائے کے لیے کہا۔ دکان کے پاس ہی ایک لاؤڈ اسپیکر لگا ہوا تھا، کوئی خاتون تقریر کر رہی تھیں ، لوگ اسے سن کر واہ واہ کی صدائیں بلند کر رہے تھے۔ تھوڑی ہی دیر میں دکان دار نے چائے اور انڈے دیے، جنھیں کھا پی کر وہ جلسہ گاہ کے صدر دروازے کی طرف چل پڑا۔ وہاں جا کر دیکھا تو ایک جمِ غفیر جمع تھا، ہزاروں کی تعداد میں لوگ موجود تھے۔ ابھی وہ مشاعرہ گاہ کے صدر دروازے کے پاس کھڑا ہوا سوچ رہا تھا کہ کہاں جاؤں ؟ بیٹھنا تو دور یہاں تو صحیح سے کھڑے ہونے کی بھی جگہ نہیں ہے۔ اگر بیٹھنے کی جگہ نہ ملی تو رپورٹ بنانے میں بڑی دقت ہوگی طالب انھیں سوچوں میں گم تھا کہ منتظمین میں سے ایک نے اسے پہچان لیا اور اس کے قریب آکر بولا۔

’’صاحب! آپ پریس کے لیے مخصوص نشستوں میں تشریف لے چلیں ۔‘‘

یہ کہہ کر وہ راستہ بناتے ہوئے آگے آگے چلنے لگا اور طالب پیچھے پیچھے۔ وہاں پہنچ کر اس نے دیکھا کہ ایک تختی لگا کر پریس کے لیے کچھ نشستیں محفوظ کی گئی تھیں ۔ ان نشستوں کے بغل میں وی۔ وی۔ آی۔ پی۔ کی تختی لگی ہوئی تھی جہاں شہر اور بیرون شہر سے آئی ہوئی بہت سی معروف شخصیتیں موجود تھیں جن میں سیاست داں ، اعلیٰ افسر، تاجر، عوامی نمائندے، دانشور، فن کار اور شاعر شامل تھے۔ وی وی آی پی کی نشستوں سے کچھ لوگ ڈائس پر جا رہے تھے اور چیرمین کی شان میں اپنے اپنے طور پر اور اپنی اپنی زبان و انداز میں قصیدہ پڑھ رہے تھے، وہ سب چیرمین کو اپنے گروہ یا جماعت کا میر کارواں بتا رہے تھے کہ تبھی ناظم مشاعرہ نے اعلان کیا۔

’’معزز خواتین (یہ لفظ سن کر طالب کو حیض کا کپڑا ایک بار پھر یاد آ گیا، اس نے خواتین کے لیے مخصوص نشست کی طرف دیکھا، اسے اپنی نفسانی خواہشوں کی محرومی کا احساس ہوا اور زمانۂ طالب علمی کی وہ محبوبہ یاد آئی جو ایک رئیس سے شادی کر کے دو بچوں کی ماں بن چکی تھی۔) و حضرات، آپ لوگ تشریف رکھیں مشاعرہ سے قبل کی چند ضروری کارروائی واجب تھیں جو اب اختتام پذیر ہیں ۔ جیسا کہ آپ کے علم میں ہے آج دن میں عہد حاضر کے حالات پر چیرمین صاحب کی کوششوں سے یہاں ایک بین الاقوامی کانفرنس منعقد ہوئی اور کانفرس کی اختتامیہ تقریب کے طور پر ہی اس مشاعرہ کا انعقاد کیا گیا ہے۔ اب میں اس تقریب کے آخری مقرر اور اس مشاعرے کے روح رواں نو منتخب چیرمین صاحب سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ ڈائس پر تشریف لائیں اور سامعین سے خطاب فرمائیں ، اس کے بعد مشاعرہ کا باقاعدہ آغاز ہوگا۔‘‘

’’خواتین و حضرات آج ایک تاریخی دن ہے …‘‘

طالب نے چیرمین کی تصویریں کھینچنی شروع کر دیں ۔ چیرمین نے بھی تصویر کھنچوانے کے لیے اپنا حلیہ درست کیا اور تقریر جاری رکھی۔

’’… جیسا کہ آپ کے علم میں ہے، یہ پوری تقریب … یہ مشاعرہ، یہ کانفرنس سب بظاہر حالیہ انتخاب میں میری فتح کے سلسلے میں منعقد ہوئے ہیں ۔ لیکن در حقیقت ایسا نہیں ہے میں نے انتخاب سے قبل بھی اعلان کیا تھا، میں ہاروں یا جیتوں لیکن میری جد و جہد جاری رہے گی، کچھ عرصہ پہلے ہمارے شہر پر ایک تاریخی حملہ ہوا تھا، … میں دشمنوں سے کہنا چاہوں گا کہ ہم جمہوریت میں یقین رکھتے ہیں اور جمہوریت کی بقا کے لیے ہم کچھ بھی کر سکتے ہیں ، یہ حملہ چند عمارتوں یا ایک شہر پر نہیں بلکہ ہماری جمہوریت پر ہوا ہے … حملہ وروں کو ہم سبق سکھا کر رہیں گے۔ ‘‘

پیچھے بیٹھے لوگوں نے جو پیسے دے کر تالی بجانے کے لیے لائے گئے تھے، بہت زوردار تالیاں بجائیں ۔ چیرمین نے اپنی تقریر جاری رکھی۔

’’… میں آپ سب سے خاص طور سے باہر سے آئے ہوئے مندوبین سے کہنا چاہوں گا کہ ایسے مشکل وقت میں جب کہ جنگ کا اعلان ہو چکا ہے خاموشی کا کوئی مطلب نہیں ہوتا، جو ہمارے ساتھ نہیں ہے … ہمارا دشمن ہے۔ انسانی ارتقا مختلف ادوار سے گزرا ہے اور آج یہ عالم کاری کے دور میں داخل ہو چکا ہے، زندگی بہر حال آگے ہی بڑھتی ہے،اب اس حقیقت کا کوئی منکر نہیں ہو سکتا، اس لیے عالم کاری کے اس دور کو کوئی روکنے کی کوشش نہ کرے، قدرتی وسائل کسی کی جاگیر نہیں ہوتے ان پر جتنا آپ کا حق ہے اتنا ہی میرا بھی، مجھے ان کے استعمال سے روکنے کا حق کسی کو نہیں ہے۔ آپ سب سمجھدار لوگ ہیں ، سمجھدار کے لیے اشارہ کافی ہوتا ہے … ۔‘‘

طالب کو انڈا اور چائے سے وقتی راحت تو مل گئی تھی لیکن پیٹ ابھی بھی خالی ہی تھا اس لیے اس کا دل تقریر میں نہیں لگ رہا تھا اور بار بار ذہن ادھر ادھر بھٹک رہا تھا، جس سے راستے کی پھر وہی ساری باتیں یاد آنے لگتی تھیں ۔ اس نے انگوٹھے اور کلمے کی انگلی کو ایک بار پھر چھو کر دیکھا چپچپاہٹ ابھی بھی موجود تھی۔ اچانک اسے خیال آیا کہ ابھی میں نے اسی ہاتھ سے انڈا کھایا ہے اتنا یاد آتے ہی اسے ایک بار پھر قے سی کیفیت ہونے لگی جی مالش کرنے لگا، اسے وہاں مزید بیٹھ پانا ناممکن ہو گیا۔ اس لیے وہ اٹھ کر چل دیا، ابھی وہ جلسہ گاہ میں تھوڑی ہی دور چلا تھا کہ چیرمین صاحب کا ایک خاص کارندہ ملا، اس نے طالب سے پوچھا۔

’’صاحب کہاں تھے ابھی تک میں آپ کو تلاش کر رہا تھا، چیرمین صاحب نے پریس والوں کی میزبانی کے لیے مجھے ہی مختص کیا تھا۔‘‘

’’کیا میاں میں تو یہیں تھا لیکن کوئی پوچھنے والا ہی نہیں تھا۔‘‘

’’صاحب آپ کو تو معلوم ہی تھا کہ یہاں تو صرف مشاعرہ ہوگا کچھ تقریریں بھی ہونی تھیں باقی سارا انتظام تو گھر میں ہی تھا اور آپ گھر میں آئے ہی نہیں ۔‘‘

’’اچھا خیر، جو ہو گیا سو ہو گیا، اب یہ بتاؤ ابھی کچھ ہو سکتا ہے یا نہیں ؟ بڑی تیز طلب لگی ہے۔‘‘ اس نے سوچا ایک بار نشا چڑھ گیا تو سب بھول جاؤں گا۔

’’ابھی چلیے صاحب۔‘‘

طالب اس کے ساتھ چل دیا وہ اسے ایک کمرے میں لے گیا، وہاں پہنچ کر لڑکے نے طالب سے کہا۔

’’چیرمین صاحب نے اپنے گھر میں ہر چیز کا انتظام کیا تھا۔ لیکن آپ آئے ہی نہیں ، وہ آپ کو پوچھ بھی رہے تھے، مشاعرے میں تاخیر ہو رہی تھی اس لیے وہ سب کو لے کر آ گئے، ویسے کچھ لوگوں کے پینے کا انتظام یہاں بھی کیا گیا تھا۔ چیرمین صاحب نے کہا تھا کہ کوئی وی۔ آئی۔ پی۔ آ گیا تو اس کا انتظام یہاں بھی رہنا چاہیے۔ یہ کہہ کر اس نے کچھ نمکین طالب کے سامنے پیش کیے۔ پھر وہسکی کی ایک بوتل نکالی اسے جام میں انڈیلا اور پانی اور برف ملا کر طالب کو پیش کیا، طالب نے پوچھا۔

’’تمھارا پیگ کہاں ہے؟‘‘

’’میں نہیں پیتا۔‘‘

’’کیوں ؟‘‘

’’بس صاحب نہیں پیتا… ایسے ہی … کبھی عادت نہیں رہی۔‘‘

’’چلو اچھا کوئی بات نہیں ، اگر نہیں پیتے ہو تو میں زور نہیں دوں گا … نام کیا ہے تمھارا؟‘‘

’’حامد۔‘‘

طالب کو بھوک لگی ہوئی تھی، اس کے جی میں آیا کہ اس سے پوچھوں کہ اب میرے کھانے کا کیا انتظام ہے؟ لیکن اس کمرے کو دیکھ کر صاف ظاہر تھا کہ یہاں کھانے کا کوئی انتظام نہیں تھا، صرف پینے کا تھا۔ اس لیے کھانے کے بارے پوچھنا بیکار ہے یہ سوچ کر وہ خاموش رہا۔ پھر تھوڑی دیر بعد جب آدھا گلاس خالی ہو گیا تو اس نے حامد سے کہا۔

’’حامد میاں میرا ایک کام کرو گے؟‘‘

’’جی فرمائیے۔‘‘

’’باہر جو چائے کی دکان لگی ہوئی ہیں وہاں سے دو ابلے ہوئے انڈے لے آؤ۔‘‘

یہ کہہ کر طالب کرتے کی جیب سے پیسے نکالنے لگا۔ لیکن حامد نے کہا۔

’’صاحب پیسوں کی کوئی ضرورت نہیں ،چیر مین صاحب کے حساب میں آ جائیں گے۔‘‘

’’نہیں حامد میاں بات تو سنو، تم پیسے لیے جاؤ۔‘‘

’’نہیں چیرمین صاحب نے منع کیا تھا کہ کوئی بھی مہمان اگر کچھ منگوائے تو اس سے پیسے مت لینا، میرے حساب میں لے آنا۔‘‘

یہ کہہ کر حامد بہت تیزی سے باہر نکل گیا، طالب پکارتا رہا …

’’حامد میاں … ارے سنو تو، میں کوئی شاعر یا مہمان نہیں ہوں ۔‘‘

لیکن تب تک حامد کافی دور جا چکا تھا۔ اس کے جانے کے بعد طالب نے ایک پیگ اور بنایا اور پینے لگا۔ جب تھوڑا سرور آیا تو وہ رپورٹ کے بارے میں سوچنے لگا کہ کئی طرح کے پروگرام ہیں ، بہت ساری تقریریں سن بھی نہیں سکا ہوں ، ان کی تفصیل کیسے معلوم کی جائے؟ کہیں کسی نے کوئی متنازع بات نہ کہہ دی ہو، جو باقی اخباروں میں تو چھپ جائے اور میرے اخبار میں چھپنے سے رہ جائے۔ تھوڑی دیر میں حامد انڈے لے کر آ گیا۔ طالب نے انڈے کا ایک قتلا اپنے منہ میں رکھتے ہوئے دوسرا قتلا حامد کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔ ’’لو حامد میاں کسی چیز میں تو میرا ساتھ دو شراب نہیں پیتے نہ سہی انڈے تو کھاتے ہی ہو گے۔‘‘

’’نہیں مجھ سے ابھی کچھ نہ کھایا پیا جائے گا، میرا پیٹ بالکل بھرا ہوا ہے۔‘‘

’’حامد میاں ! جیسی مرضی آپ کی لیکن میں تو کھاؤں گا بھی اور پیوں گا بھی۔‘‘

یہ کہہ کر اس نے شراب کا ایک اور گھونٹ گلے میں اتار لیا اور انڈے کا ایک اور قتلا اٹھا کر منہ میں رکھ لیا۔

حامد نے کہا۔ ’’جی بالکل آپ شوق سے شوق فرمائیں … میرے لائق اگر کوئی اور خدمت ہو تو حکم فرمائیے۔‘‘

’’نہیں نہیں حامد میاں ، آپ نے میرے لیے بہت زحمت کی میری وجہ سے آپ مشاعرہ بھی نہیں سن پا رہے ہیں ، حامد میاں اب آپ مشاعرہ گاہ چلیے، یہاں سے فارغ ہو کر ابھی میں بھی حاضر ہوتا ہوں ۔‘‘

’’جیسا آپ کا حکم۔‘‘

’’اچھا خدا حافظ۔‘‘

’’خدا حافظ۔‘‘

حامد کے جانے کے بعد طالب نے ایک پیگ اور بنایا اور آہستہ آہستہ پھر سے پینے لگا، شاعروں کا کلام لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے اس تک پہنچ رہا تھا۔ ایک خاتون کی مترنم آواز سن سن کر لوگ پاگل ہو رہے تھے، داد و تحسین کی صداؤں سے فضا گونج رہی تھی۔ طالب نے ابلے ہوئے انڈے کا آخری قتلا منہ میں رکھتے ہوئے کہا۔

’’واہ … واہ کیا بات ہے، بہت خوب۔‘‘

اس کے بعد اس نے جام کو ہاتھ میں اٹھایا اور کمرے میں ادھر ادھر گھوم گھوم کر پینے لگا۔ اور بغیر کچھ سنے ’واہ واہ کیا بات ہے، بہت خوب‘ کی صدائیں بلند کرنے لگا۔ یہ سلسلہ کافی دیر تک جاری رہا۔

کچھ دیر میں اسے پیشاب کی حاجت محسوس ہوئی، تو پیشاب گھر کی طرف چل پڑا، یہ پیشاب گھر عارضی طور پر بنایا گیا تھا اور یہاں صفائی کا معقول انتظام نہ تھا، پھر بھی پیشاب کرنے والوں کی کافی لمبی قطار تھی، لوگ اپنے نمبر کے انتظار میں تھے، اس لیے اس نے سوچا رات کا وقت ہے چلو کہیں اندھیرے میں کھلے میدان میں کر کے واپس آتا ہوں ، اس کے بعد صرف رپورٹنگ کروں گا اور کچھ نہیں ۔ یہ سوچ کر طالب باہر نکل گیا، جلسہ گاہ کے چاروں طرف دور تک روشنیاں جگمگا رہی تھیں ۔ ایک شاعر چیرمین کی شان میں قصیدہ پڑھ رہا تھا لوگ واہ واہ اور چیرمین صاحب زندہ باد کے نعرے بلند کر رہے تھے۔ اسٹیج کے سامنے سے گزرتے وقت وہ ایک لمحے کے لیے رکا سوچا تھوڑی دیر سن لوں ، مشاعرہ کیسا بھی ہو رپورٹ تو تیار ہی کرنی ہوگی۔ اسٹیج کے سامنے دیکھا جہاں وی۔ وی۔ آئی۔ پی کی تختی لگی ہوئی تھی وہاں شہر کے سارے نام نہاد معزز افراد… سیاست دان، اعلیٰ افسران اور تاجر سب بیٹھے ہوئے تھے۔ وہ سب مشاعرہ سن نے سے زیادہ اپنے رعب، مرتبے، وقار اور چیرمین سے اپنی قربت کا مظاہرہ کر رہے تھے۔ یہ پورا ماحول اسے نہایت بے حس اور پر تشدد لگا اسے وحشت سی ہونے لگی، پیشاب نے ایک بار پھر زور مارا اور وہ اندھیرے کی جانب چل دیا۔

کافی دور تک روشنیاں طالب کے ساتھ ساتھ چلتی رہیں ، اس کا سایہ بار بار پینترے بدل رہا تھا، کبھی آگے نکل جاتا تو کبھی پیچھے رہ جاتا، کبھی چھوٹا ہو جاتا کبھی بڑا، کبھی گہرا ہو جاتا تو کبھی مدھم۔ کبھی ایک رہ جاتا اور کبھی کئی ہو جاتے۔ روشنی اور سایوں کا یہ کھیل اسے بڑا خطرناک لگا اور سایوں سے اسے وحشت سی ہونے لگی، پیچھے سے آ رہی واہ واہ کی آوازیں اسے اور بھی دہشت ناک بنا رہی تھیں ۔ جب یہ سب برداشت سے باہر ہونے لگا تو طالب روشنی اور سائے دونوں سے دور نکل جانے کے لیے بیتاب ہو گیا اور دوڑنے لگا۔ دوڑتے دوڑتے وہ شہر سے باہر کھیتوں تک پہنچ گیا جب وہ ان سب دہشت ناکیوں سے نکل آیا تو اس نے دوڑنا بند کیا اور ایک مناسب جگہ دیکھ کر پیشاب کرنے لگا۔ فراغت کے بعد اس نے شہر کی طرف دیکھا باقی شہر اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا صرف مشاعرہ گاہ اور اس کے ارد گرد کا کچھ حصہ روشن تھا، ہوا کی لہروں کے ساتھ کچھ مدھم سی آوازیں ابھی بھی آ رہی تھیں ان کو نظر انداز کر کے تھوڑی دیر تک وہ خاموشی سے وہیں بیٹھا رہا۔

تھوڑی دیر گزر جانے کے بعد اس نے سوچا اپنی ذمہ داریوں سے فرار بہت ہو چکا، اب ہمیں چل کر سنجدیگی سے رپورٹ تیار کرنی چاہیے، اب نمائندہ شاعر ہی بچے ہوں گے اگر اب بھی نہیں گئے پھر تو مشاعرہ کی رپورٹ تیار ہو چکی۔ یہ سوچ کر وہ جلسہ گاہ کی طرف پھر چل پڑا لیکن بھوک اور سرور کی وجہ سے اس سے چلا نہیں جا رہا تھا۔ تھوڑی دیر چلنے کے بعد اس نے سوچا تھوڑا آرام کر لوں اس دوران ذہن میں رپورٹ کا ایک خاکہ بھی تیار کر لوں گا، یہ سوچ کر اس نے بیٹھنے کی مناسب جگہ کی تلاش میں اپنے چاروں طرف نظر دوڑائی، اب تک تھوڑی تھوڑی چاندنی نمودار ہو چکی تھی۔ پاس میں ہی ایک تالاب نظر آیا تو وہ اسی طرف چل پڑا۔ تالاب کے کنارے ایک پیڑ کٹا ہوا پڑا تھا وہ اسی پر جا کر بیٹھ گیا۔ وہاں بیٹھ کر اسے کافی سکون ملا۔ اس نے ایک نظر تالاب پر ڈالی، بچپن میں وہ اکثر اس تالاب پر آتا رہتا تھا۔ لیکن آج برسوں بعد وہ اس جگہ پر آیا تھا۔ اس نے ایک بار پھر چاروں طرف نظریں دوڑائیں ، ایسا لگا جیسے کوئی گمشدہ زندگی واپس مل گئی ہو۔ لیکن یہ منظر بالکل بچپن جیسا بھی نہیں تھا۔ بہت سے درخت ندارد تھے، ہلکی سی چاندنی کی وجہ سے یہ منظر بہت پر اسرار لگ رہا تھا۔ سب سے بڑی تبدیلی یہ تھی کہ تالاب پہلے سے چھوٹا محسوس ہو رہا تھا، جب کہ اس کی سرحدوں میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی تھی۔

اچانک کوئی پرندہ اس کے سر کے اوپر سے تیز آواز میں چیختا ہوا اڑا، طالب نے سر اٹھا کر اوپر دیکھا تو ایک ٹوٹا ہوا تارہ چمک کر معدوم ہو گیا۔ رات میں تارے کچھ یوں آہستہ آہستہ دمک رہے تھے جیسے آنکھ مچولی کھیل رہے ہوں ۔ طالب نے سوچا یہ ستارے کہاں چھپ جاتے ہیں ؟ آسمان میں تو تاروں کے چھپنے کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ پھر یہ میری نظروں سے اوجھل کیسے ہو جاتے ہیں ؟ … تو سارا معاملہ محویت کا ہے۔ نظر ذرا ہٹی کہ کہکشاں میں اس باریک شے کو تلاش کرنے میں وقت درکار ہوتا ہے اور جب اسے تلاش کر لیتے ہیں تو دوسرے تاروں سے محویت ختم ہو جاتی ہے۔ اس طرح یہ آنکھ مچولی چلتی رہتی ہے۔ لیکن یہ کتنی عجیب بات ہے کہ اتنے گرم اور وسیع و عریض تارے ایک معمولی فرحت بخش جگنو کی طرح ٹمٹما رہے ہیں ۔ اگر کوئی ان ستاروں پر جا کر مجھے دیکھے تو میری کیا حیثیت ہوگی؟ میں تو کہیں نظر ہی نہیں آؤں گا، خیر میری کیا حیثیت تمام انسانوں کی کوئی حیثیت نہیں ہے، خود یہ نظام شمسی کسی نزدیکی ستارے سے چاہے ایک ٹمٹماتے ہوئے تارے کی طرح نظر بھی آ جائے لیکن کسی دور کے ستارے سے خود یہ سورج بھی نظر نہ آئے گا۔

’’دور سے؟‘‘ … تو کیا دور اور نزدیک کا کوئی تصور آفاق کے پاس ہے؟ یہ تصور تو محض اس لیے ہے کہ ہم نے اپنے آپ کو مرکز میں مان لیا ہے لیکن کیا واقعی ہم مرکز میں ہیں ؟ یہ تو محض ہماری خود پسندی ہے۔ تو ثابت یہ ہوا کہ اس آفاق میں انسان کی کوئی حیثیت ہی نہیں ہے ہم بس وہی ہیں جو کسی دوسرے ستارے سے دیکھنے پر نظر آئیں گے یعنی کچھ بھی نہیں ، ایک نکتہ بھی نہیں ۔ بالکل اسی طرح جیسے دوسرے ستاروں کے انسان (اگر ہیں ) ہمارے لیے کوئی وجود ہی نہیں رکھتے۔ رہی بات یہ کہ ہم جو کچھ بھی ہیں نظام شمسی میں ہی ہیں اور اس میں بھی بس کچھ حصے میں ہی روشنی ہے باقی تو اندھیرا ہی اندھیرا ہے ۔ ہم ابھی تک نظام شمسی کے سیاروں تک کا تو صحیح حساب لگا نہیں سکے ہیں ۔ اگر ہم وسیع النظر بن کے دیکھیں تو یہ ارض اس نظام شمسی کا ایک بہت معمولی ذرہ ہے۔ اب میری جو بھی کہانی ہے اس ذرے کے اندر کی کہانی ہے اور ہم ایسے اینڈتے پھرتے ہیں کہ جیسے آفاق میں بس ہم ہی ہم ہیں ۔ ذرے کی بات پر طالب کو یاد آیا چلو طبیعیاتی اور مادی دنیا میں میری کوئی حیثیت نہ سہی لیکن ہمارے داخل میں علم، فن، فلسفہ، سائنس احساس و جذبات کی بھی تو ایک دنیا آباد ہے جو اس ٹھوس حقیقی دنیا سے کم وسیع نہیں ہے، طبیعیاتی اور مادی دنیا میں ہم صفر سہی لیکن داخلی اور ذہنی دنیا میں ہم نظام شمسی ہی کیا پورے آفاق سے بھی زیادہ وسیع ہیں ۔ در اصل یہ خارجی اور ٹھوس حقیقت بھی اسی ذہنی دنیا سے ہی قائم ہے اسی کے ذریعے ہی تو ہم اس وسیع آفاق کو پہچانتے ہیں ۔ وگرنہ ہم اس ارض سے باہر ہی کب نکلے ہیں ؟ چاند اور خلا کا سفر تو انسان کی محض اچھل کود ہے، اچھل کود کر نے کے بعد ہم واپس اسی ارض پر آ کر گرتے ہیں ۔

ابھی وہ یہی سب سوچ ہی رہا تھا کہ اچانک بائیں طرف سے ہوا کے ایک تیز جھونکے کی آواز سنائی پڑی۔ طالب نے بائیں طرف مڑ کر دیکھا، ہلکی چاندنی میں کچھ خاص نظر نہ آیا تو اس کا ذہن درون میں چلا گیا اور وہاں آباد زندگی کی کچھ پرچھائیاں ابھرنے لگیں ۔

بچپن سے اب تک کی زندگی کا سفر یاد آنے لگا، وہ دن یاد آئے جب اس میں اپنے ملک، سماج اور سب سے بڑھ کر اپنی فکر اور سوچ کے لیے زندگی میں کچھ کر گزرنے کے جذبات پیدا ہوئے تھے۔ اس وقت ایک طرح کی عینیت پسندی تھی طالب علمی کے زمانے کی بہت سی باتیں یاد آنے لگیں کتنے یقین کے ساتھ صحافت کے پیشہ میں داخل ہوا تھا، لیکن آہستہ آہستہ وہ ساری عینیت پسندی معدوم ہوتی چلی گئی، اب ان سب باتوں کے لیے اس کے پاس کوئی وقت نہ تھا، لیکن ابھی بھی کچھ تھا جو کبھی کبھی اس سے سوال کرتا رہتا تھا، وہ سوال اتنے موثر تو نہ تھے کہ سامنے آ کر اس کا راستہ روک لیتے اور اب تو اس نے ان سوالوں کو نظر انداز کر کے جینا سیکھ لیا تھا۔ تنہا ہو کر کبھی اپنی اور کبھی سماجی زندگی کے سوالوں کے بارے میں اس نے ایک زمانے سے سوچنا ترک کر رکھا تھا لیکن آج جب شہر سے دور دیر رات میں ایک تالاب کے کنارے بیٹھا تو نہ جانے کتنے بھولے بسرے سوال سامنے آ کر کھڑے ہو گئے۔

اتنے میں مشاعرہ گاہ کی جانب سے ہوا کا ایک تیز جھونکا آیا، جس کے ساتھ ہی مشاعرے کی آوازیں بھی ہلکی ہلکی سنائی پڑیں تو اسے خیال آیا کہ مجھے اب ہر حال میں چلنا چاہیے اور کل کی خبر کے لیے رپورٹ تیار کرنی چاہیے۔ جو شاعر پڑھ چکے ہوں گے ان کے اشعار کو کسی سے لے کر رپورٹ میں شامل کرنا ہوگا۔ یہ سوچ کر طالب مشاعرہ گاہ کی جانب چل پڑا۔ تبھی اسے وہی جانی پہچانی آواز سنائی دی۔

’’کیا لازمی ہے کہ اس تماشے کی ہی رپورٹنگ کی جائے؟‘‘

’’پھر؟ … اور کس کی رپورٹنگ کروں ؟‘‘

’’کیا اندھیرے کی رپورٹنگ نہیں کی جا سکتی؟‘‘

’’اندھیرے کی رپورٹنگ؟ وہاں ایسا کیا ہے جس کی رپورٹنگ کی جائے؟ اور اگر کچھ ہو بھی تو اندھیرے میں نظر کیا آئے گا؟‘‘

’’اندھیرے میں جا کر دیکھو، یہاں جن مسائل پر اتنی توجہ دی جا رہی ہے، یہ سب مصنوعی ہیں یہ سارا تماشا اسلحوں کی فروخت کا ہے۔ ادھر جاؤ دیکھو روز کتنے لوگ خوراک، علاج اور تعلیم کے دستیاب نہ ہونے سے کیا کیا مصائب جھیل رہے ہیں ، لوگ کیڑے مکوڑوں کی طرح جینے اور مرنے پر مجبور ہیں ۔‘‘

طالب کو صحافت کی طالب علمی کا زمانہ یاد آیا اور اس نے سوچا واقعی ادھر کی صورت حال کتنی ابتر ہے کسی دن وہاں کی بھی رپورٹنگ کروں گا۔ یہ سوچ کر طالب ایک بار پھر مشاعرہ گاہ کی طرف چل پڑا۔ لیکن اس کے ذہن میں بار بار اندھیری بستی کی تصویریں ابھرنے لگیں ۔ کچھ دیر تک طالب کے ذہن میں اندھیری بستی کے مناظر ابھرتے رہے۔ لیکن جیسے جیسے وہ مشاعرہ گاہ کی طرف بڑھتا گیا مشاعرے کی آوازیں تیز تر ہوتی گئیں اور اس کے ذہن میں ایک بار پھر مشاعرے کے بہت سے چہرے ابھرنے لگے۔ شہر کے تمام اشراف کو چیرمین نے جلسہ گاہ میں بلا رکھا تھا۔ باہر کے سارے شاعر اور ’’دانشور‘‘ بھی اس ’’عظیم الشان‘‘ مشاعرہ اور کانفرنس میں بلانے کے لیے جھک جھک کر شکریہ ادا کر رہے تھے۔ وہاں رپورٹنگ کے لیے بہت کچھ تھا ایک ایک شخص پر کئی کئی رپورٹیں شائع ہو سکتی تھیں ایک صفحہ میں تو صرف تصویریں چھاپی جا سکتی تھیں ۔ کہنے کو تو وہ صفحہ ’’تین‘‘ تھا لیکن وہ کئی صفحوں پر مشتمل تھا۔ پچھلے کئی برسوں میں سب سے زیادہ فروغ اسی صفحہ کا ہوا ہے۔ یہ سوچ کر اس کے ہونٹوں پر ایک پر اسرار مسکراہٹ کھل گئی۔ کچھ دیر پیدل چلنے سے ایک بار پھر کھجلی ہونے لگی، اس نے کھجلانا تو لاشعوری طور پر شروع کیا لیکن گھموریوں میں کھجلانے سے کھجلی اور بڑھ گئی پھر وہ کھڑا ہو کر شعوری طور پر کھجلانے لگا… کھجلی بڑھتی ہی گئی۔

اسے حیض کی بھی یاد آئی، اس نے ایک بار پھر انگلیوں کو آپس میں چھوا اب چپچپاہٹ تو نہ تھی لیکن اب اسے محسوس ہوا کہ پورے جسم پر حیض کی مالش کی گئی ہے۔ اسے قے سی ہونے لگی، ایسا محسوس ہوا جیسے پورے جسم کی کھال حیض کے لتے میں تبدیل ہو گئی ہو، جسے جلد از جلد اتار پھینکنا چاہیے۔ اب تو نہانے سے بھی کوئی فائدہ نہ ہوگا۔ اب کیا کروں ؟ … جب کچھ سمجھ میں نہ آیا تو طالب وہیں زمین پر اکڑو بیٹھ گیا، ازلی آرام گاہ کی طرح۔ اسے شام سے پیش آئے تمام واقعے ایک ایک کر کے یاد آنے لگے، انھیں یاد کر کے اس کا جی چاہا کہ خوب روؤں ۔ کچھ دیر تک سارے واقعات کو یاد کرنے کے بعد وہ واقعتاً رونے لگا۔ رات کے اندھیرے میں ، ایک سنسان سڑک پر اکڑو بیٹھا اور روتا ہوا انسان … اس میں نو زائیدہ بچے کی صفات ابھر آئیں ۔ اچانک اسے کسی کے پیروں کی آہٹ سنائی دی اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا، کوئی نظر نہ آیا لیکن محسوس ہوا کہ جیسے سڑک کے کنارے کی جھاڑیوں میں کوئی چھپ گیا ہو۔ طالب اس کو نظر انداز کر کے کافی دیر تک یوں ہی بالکل گم صم اور اداس بیٹھا رہا۔

اس طرح اس کا تزکیۂ نفس ہو گیا، اس میں صحافی ہونے کا جو رعب تھا جاتا رہا اور اس کی جگہ نیکی نے لے لی۔ جلسے میں جمع شہر کے تمام نام نہاد ’’اشراف‘‘ سے ملنے اور ان کے بارے میں لکھنے کو اس کا جی نہیں چاہا اور وہ واپس گھر کی طرف چل پڑا۔ چلتے چلتے وہ ایک ایسے مقام پر پہنچ گیا جہاں سے ایک راستہ روشنی سے جگمگاتے شہر کی طرف جاتا تھا اور دوسرا تاریکی کی طرف۔ اس نے روشنی والے راستے پر ایک نظر ڈالی، یہ روشنی بڑی وحشت ناک محسوس ہوئی تو اس نے دوسری طرف نظر کی ادھر ایک خوفناک اندھیرا مسلط تھا۔ کچھ دیر سوچنے کے بعد اس کے پیر اندھیروں کی طرف چل پڑے۔ بجلی ابھی تک نہیں آئی تھی لیکن وہ بلا خوف و خطر اندھیروں کی طرف بڑھتا چلا گیا۔ جس گلی میں وہ داخل ہوا سرکاری کاغذات کے مطابق وہ ایک غیر قانونی بستی تھی۔ کچھ مکانوں میں ایک آدھ کمرے بنے ہوئے تھے لیکن زیادہ تر صرف جھگیاں تھیں ۔ کچھ لوگ چھتوں پر لیٹے ہوئے تھے، کچھ آنگن میں اور کچھ گلی میں سو رہے تھے یا گرمی اور مچھروں سے لڑنے کی کوشش میں ہاتھ کا پنکھا جھل رہے تھے۔

طالب پر اچانک ایک آدمی نے حملہ کر دیا اور اس کا کیمرا چھین کر بھاگنے کی کوشش کی، لیکن کیمرا اس کے گلے میں پڑا ہوا تھا اس لیے وہ کیمرا نہ نکال سکا، حملہ آور کیمرا چھیننے کی ناکام کوشش کرنے کے بعد بے تحاشا بھاگا لیکن وہ ابھی تھوڑی ہی دور بھاگا تھا کہ اس کا پیر ایک پتھر سے ٹکرایا اور وہ وہیں پر ڈھیر ہو گیا۔ اس کے منہ سے ایک دل خراش چیخ نکلی، طالب دوڑ کر حملہ آور کے قریب پہنچا، طالب کے قریب آتے ہی حملہ آور نے رگڑ رگڑ کر بھاگنے کی کوشش کی لیکن اس طرح وہ کتنی دور بھاگ سکتا تھا آخر کار طالب نے اسے پکڑ لیا۔ حملہ آور کے ایک پیر میں کافی چوٹ لگی تھی، انگوٹھے سے خون نکل رہا تھا، طالب نے پہلے تسلی دی پھر جیب سے رومال نکال کر باندھا تا کہ خون بہنا رک جائے۔ پھر اس کا ہاتھ اپنے شانے پر رکھ کر اسے سہارا دے کر کھڑا کرتے ہوئے بڑے پیار سے اس کی خیریت پوچھی۔ کافی دیر تک تو حملہ آور کچھ معاملہ ہی نہ سمجھ سکا، وہ چوٹ سے زیادہ پکڑے جانے سے گھبرا رہا تھا، پکڑے جانے پر وہ کیا توقع کر رہا تھا اور یہاں کیا سلوک کیا جا رہا ہے، طالب نے بڑے نرم لہجے میں پوچھا۔

’’زیادہ چوٹ تو نہیں آئی؟ ہسپتال لے چلوں ؟‘‘

’’نا ساب، میں ٹھیک ہوں ، بڑی گلتی ہو گئی ساب… اب ایسا کبھو نہ کرب، ماپھ کر دو ساب۔‘‘

یہ کہہ کر وہ طالب کے پیر پکڑنے لگا۔ طالب نے ایک بار پھراسی طرح سہارا دے کر کھڑا کیا اور کہا۔

’’کوئی بات نہیں ! تمھارا گھر کدھر ہے؟ تم ابھی اکیلے نہیں چل پاؤ گے، چلو میں تمھارے گھر بھیج آتا ہوں ۔‘‘

حملہ آور پہلے تو نہیں نہیں کرتا رہا وہ ابھی بھی ڈرا ہوا تھا لیکن جب وہ بغیر سہارا لیے نہ چل سکا تو طالب کے شانے پر اپنا ہاتھ رکھ کر چلنے لگا اور ہاتھ سے جھگیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ ادھر ہے میرا گھر۔ اس طرح اندھیری رات میں جھگیوں میں رہنے والا ایک لٹیرا اور ایک بڑے اخبار کا صحافی ہاتھ میں ہاتھ ڈالے یوں چلنے لگے جیسے دونوں بہت گہرے دوست ہوں ۔ وہ ایک کچے راستے سے گزر رہے تھے جس کے دونوں طرف جھگیاں بنی ہوئی تھیں جو چھپر، کھپریل، ٹین یا برساتی کی بنی ہوئی تھیں ۔ کچھ لوگوں نے راستے میں چارپائی ڈال رکھی تھیں اور کچھ بغیر چارپائی کے ہی راستے میں کتھری بچھا کر سو رہے تھے، وہ دونوں اسی طرف ساتھ ساتھ چلنے لگے، طالب نے بات شروع کرتے ہوئے پوچھا۔

’’تم کیمرا لے کر کیوں بھاگنا چاہتے تھے۔‘‘

’’ساب میں اپنے محلے کے چائے خانہ پر روز ڈیلی اخبار میں دیکھتا ہوں لوگوں کی بنا کسی بات کے رنگین پھوٹویں چھپتی ہیں ، ان میں کھبر جیسا کچھ بھی نہیں ہوتا، تو ساب میں نے سوچا اگر میرے پاس کیمرا ہو جائے تو ہمارے محلے میں روز ڈیلی کچھ نہ کچھ ہوتا رہتا ہے تو اخبار والوں کو چھاپنے کے لیے اس کی پھوٹویں بھیج دیا کروں گا، ان کو بھی چھاپنے کے لیے اچھی تصویریں مل جایا کریں گی اور مجھے بھی چار پیسے مل جایا کریں گے، ساب میں پانچوی پاس ہوں کھبر تو نہیں لکھ سکتا لیکن پھوٹو کھینچ سکتا ہوں ۔‘‘

طالب حملہ آور کی معصومیت پر دل ہی دل میں مسکرایا۔ پھر پوچھا۔

’’تمھیں کیسے معلوم ہوا کہ میں ابھی یہاں سے گزروں گا؟‘‘

’’ساب میں بہت دیر سے جلسہ والے میدان کے ارد گرد تاک لگائے گھوم رہا تھا، آپ کو کیمرا لَے جاتے دیکھا، تو لگا شکار مل گیا اور میں آپ کے پیچھے ہو لیا، پھر موکا پاتے ہی لپک لیا۔ لیکن ساب چوک ہو گئی۔‘‘

یہ کہہ کر وہ ایک بار پھر طالب کے پیروں کو پکڑنے کے لیے جھک گیا۔

’’ساب ماپھ کر دو … گلتی ہو گئی آپ تو بہت بھلے آدمی معلوم ہوت ہَو۔‘‘

’’میں نے کہا نا کوئی بات نہیں ، میں نے تمھیں معاف کر دیا۔ لیکن تم یہ بتاؤ تمھارے محلے میں کیا کیا کچھ روز روز ہوتا رہتا ہے؟ جن کی تصویر چھپوانا چاہتے ہو، مجھے بتاؤ، میں وہ تصویریں  چھپواؤں گا؟‘‘

’’ہاں ساب! میں بتاؤں گا، سب بتاؤں گا، جیسے سامنے والا گھر، یہ جگو کا ہے، او کی بیٹی بڑی کھب سورت تھی، جگو کی جورو ایک گھر میں کام کریہ جات رہیہ، ایک دن جورو بیمار پڑی تو بٹیا کا کام پر بھیج دیا، اس سے پہلے بھی کبھی کبھی جب کام زیادہ ہوت رہیہ تو وہ اوکے ساتھ جات رہیہ، تو اس دن وہ اکیلی چلی گئی۔ جب وہ واپس آئی تو لہو لہان تھی، ساب وہ لوگ بہت بڑے آدمی ہیں … بہت پہنچ ہے ان کی، نہ پولس نے رپٹ لکھی، نہ اخباروں میں کھبر چھپی، اب وہ پیٹ سے ہے۔ ہر وخت گھومتی رہتی ہے اور پاگلوں کی طرح رٹتی رہتی ہے، میرا بچہ اسکول جائے گا… میرا بچہ اسکول جائے گا، بڑا آدمی بنے گا ۔‘‘

کہانی ختم ہونے پر دونوں خاموش اور اداس ہو گئے، طالب کی سمجھ میں نہ آیا کہ وہ کیا کہے، وہ حملہ آور کو سہارا دے کر رات کے اندھیرے میں بڑھتا رہا، اچانک ایک بار پھر اسے حیض یاد آ گیا اس نے اپنے آپ کو سونگھ کر یہ جاننے کی کوشش کی کہ آیا ابھی تک بو آ رہی ہے؟ یا نہیں ، لیکن اب تو اس کی ناک ہی نہیں دماغ میں بھی وہ بو بسی گئی تھی اس لیے اسے یہ جان پانا بہت مشکل ہو گیا کہ بو ابھی آ رہی ہے یا نہیں ؟ وہ یہ سوچ کر تذبذب میں پڑ گیا کہ اس حالت میں حملہ آور سے اس طرح لپٹ کر چلنا چاہیے یا نہیں ؟ لیکن اگر اسے چھوڑ دوں تو یہ کیسے جائے گا؟ تھوڑی دیر اسی کشمکش میں چلنے کے بعد طالب نے پوچھا تمھیں کوئی بدبو تو نہیں آ رہی ہے؟‘‘

حملہ آور نے کہا، ’’کیسی بدبو؟‘‘

’’کوئی بھی؟ جیسے کسی عورت کی یا …۔‘‘

عورت سن کے وہ ہنسنے لگا، ’’ساب آپ بھی … یہاں عورت کہاں رکھی جو اس کی باس آئے گی۔‘‘

یہ سن نے کے بعد اسے کچھ تسلی ہوئی، پھر اس نے سوچا جتنا حیض لگنا تھا وہ تو پہلے ہی لگ چکا ہوگا اس لیے اب جیسے چل رہے ہیں چلتے رہنا چاہیے۔ پھر اچانک اس کے منہ سے نکل گیا۔

’’تم نہاتے کب کب ہو؟ … اے …میرا مطلب ہے پچھلی بار کب نہایا تھا۔‘‘

’’ساب! کیا میرے بدن سے بدبو آ رہی ہے؟ ساب میں تو روز ڈیلی نہاتا ہوں ، جس دن پانی نہیں آتا اس دن تو مجبوری ہے۔‘‘

’’نہیں نہیں میرا مطلب وہ نہیں تھا، میں کہہ رہا تھا تھوڑی دیر میں صبح ہو جائے گی۔ رات بھر جاگتے رہے ہو، تمھیں چوٹ بھی لگ گئی ہے، کل کام پر تو جا نہیں پاؤ گے۔ اس لیے صبح سونے سے پہلے نہا لینا… اس سے … نیند اچھی آئے گی۔‘‘

’’جی ساب!‘‘

یہ کہہ کر ایک بار پھر دونوں خاموشی سے چلنے لگے۔ تھوڑی دیر میں حملہ آور نے ہاتھ سے ایک طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔

’’ساب یہ جو بوڑھیا رستے میں سو رہی ہے، ایک سال پہلے پولس اس کے اکلوتے لڑکے کو اٹھا لے گئی، بولی آتنک وادی ہے، ساب پولس جس دن کا کیس بتا کر لے گئی اس دن ہم کئی لوگ ایک ہی مکان میں کام کرت رہن، او کا لڑکا بھی ہمرے ساتھ رہیہ۔ جب وہ لڑکا بس تین مہینا کا تھا تبھی بڑھیا کا پتی مر گیا تھا تب سے اس نے کیسی کیسی مسیبتیں جھیلیں ، جب لڑکا کو پال پوس کے جوان کر دیا تو پولس اٹھا لے گئی، ایک دفع ہم لوگ تھانے گئے تھے تو پولس بولی اگر جادا چوں چڑاک کیا تو تڑی پار کر دوں گا۔ نہیں تو لڑکا مل جئی۔ لیکن ساب ایک سال ہو گیا، ماں جب بھی جاتی ہے پولس ایک ہی جواب دیتی ہے مل جائے گا لڑکا، مْلا آج تک او کا پتا نئی چلا، بڑھیا تب سے روج لوگن سے مانگ مونگ کے کھانا پکاوت ہئے کہ آج ہمار   بچوا آئی ملا وہ کبھو نئی آوت ہے۔‘‘

یہ کہہ کر حملہ آور ایک آہ بھر کے بیٹھ گیا اور طالب سے بولا۔

’’ساب آپ بھی سہتائے لیو، تھک گئے ہو گے۔‘‘

طالب بھی بیٹھ گیا بڑھیا کو غور سے دیکھا اچانک اسے خیال آیا اس بڑھیا کی فوٹو کھینچ لی جائے رپورٹ کے ساتھ چھپ جائے گی اور بہت اچھی آ گئی تو کہیں فوٹو کمپٹیشن میں بھی بھیج دوں گا۔ اس نے کیمرا تیار کیا اور اس کی فوٹو کھینچ لی لیکن اسکرین پر دیکھا تو اس میں کچھ نظر نہ آیا تو اس نے ایک بار اور فوٹو کھینچی لیکن اس بار بھی اندھیرے کی وجہ سے فوٹو نہ کھنچ سکی تو وہ جھنجلا گیا، جھنجلاہٹ میں کچھ سمجھ میں نہ آیا کہ کیا کروں ؟ تو وہ حملہ آور کی طرف دیکھنے لگا۔ وہ ایک گھر کی طرف بڑی حسرت سے دیکھ رہا تھا، کچھ دیر تک دیکھتا رہا پھر اچانک سسکی بھر کے رونے لگا۔ اسے روتا دیکھ طالب نے بے چین ہو کر پوچھا۔

’’کیا ہوا؟ کیا درد بہت زیادہ ہو رہا ہے؟‘‘

’’نئی ساب یہ بات نئی ہے، ہم آپ کا سب کی بپدا سنائن لیکن اپنی ماں کی نئی سنائن، ساب ہمری ماں بڑے مسیبت میں ہم کا پالس، اور جب ہم تھوڑا کام کر یہ لاگِن تو شراب کی لت ایسی پڑی کہ جو کچھ کام کرت رہن، سب سراب کباب پر اڑائے دیت رہن، اوپر سے ماں کا بھی جو کچھ بچا کھچا تھا سب چھین کے شراب گانجا میں اڑا دیا، ماں نے گم سے دانا پانی چوھڑ دیا، اگر کوئی پڑوسی کھانا دیتا تو کہتی جب اپنا جنا اور پالا پوسا بیٹا کھانے کو نہ پوچھے تو کسی اور سے لے کر کھانے سے اچھا ہے کہ مر جائے۔ اور کچھ دن میں وہ مر …‘‘

یہ کہہ کر حملہ آور تیز تیز رونے لگا۔ طالب اسے اس طرح تسلی دیتا رہا جیسے پردیس میں رہنے والے کسی دوست کی ماں کے انتقال کی خبر آئی ہو، اس نے کچھ تسلی تو دی لیکن رونے سے روکنے کی زیادہ کوشش بھی نہیں کی، وہ جانتا تھا کہ اگر تھوڑی دیر یہ رو لے گا تو جلدی سکون مل جائے گا نہیں تو افسوس کی یہ لہر زیادہ طویل ہوتی جائے گی اور یہی ہوا، کچھ دیر رو لینے کے بعد وہ بہت پر سکون ہو گیا اور اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔

’’ماپھ کرو ساب … اب چلتے ہیں ۔‘‘

ایک بار پھر دونوں اسی طرح چلنے لگے، تھوڑی دور آگے بڑھے تو دیکھا کہ ایک چارپائی کے گرد کچھ لوگ جمع ہیں پاس میں مٹی کے تیل کی ایک ڈبیا جل رہی تھی۔ قریب پہنچے تو دیکھا کہ ایک آدمی بیمار پڑا ہے، طالب نے ان لوگوں سے پوچھا۔

’’کیا ہوا انھیں ؟‘‘

ایک نسبتاً پڑھے لکھے سے نوجوان نے جواب دیا۔ ’’کچھ روز پہلے یہ ایک مکان میں مزدوری کر رہے تھے کہ اچانک بجلی کا کرنٹ لگنے سے دوسری منزل سے نیچے گر گیے۔‘‘

یہ سن کر طالب نے پوچھا۔

’’ اسے ہسپتال میں کیوں نہیں بھرتی کرایا؟‘‘

’’سرکاری اسپتال میں بھرتی کرانے لے گئے تو انھوں نے پہلے تھانے میں رپورٹ درج کرانے کو کہا بولے رپٹ کے بغیر اسپتال میں بھرتی نہیں ہو سکتی۔ تھانے میں ٹھیکے دار نے پیسے دے دیے تھے اس لیے رپٹ نہیں لکھی گئی۔ ٹھیکے دار سے جب علاج کرانے کو کہا گیا، تو وہ صاف مکر گیا، وہ تو یہی ماننے کو تیار نہیں ہے کہ حادثہ اس کے مکان میں کام کرتے وقت ہوا ہے، اس لیے علاج کے پیسے دینے کا کوئی سوال ہی نہیں ، ہم لوگوں سے جو کچھ ہو سکتا تھا کر رہے ہیں ۔‘‘

مریض کی آخری سانسیں چل رہی تھیں اسے اس حالت میں دیکھ کر طالب وہیں رک گیا۔ اس کے گھر والوں اور حملہ آور سے بات کرنے کے بعد اس نے کہا۔

’’سرکاری ہسپتال کے سپریٹنڈنٹ ڈاکٹر سے میری جان پہچان ہے۔ اسے ابھی ہسپتال لے چلو میں اس کی بھرتی کرا دوں گا اور تھانے میں رپورٹ لکھوانے کی بھی میں ذمہ داری لیتا ہوں ، تھانے میں مجھے سب جانتے ہیں ۔ جلدی کرو میں تم لوگوں کے ساتھ چلتا ہوں ۔‘‘

وہ لوگ جلدی جلدی چلنے کی تیاری کرنے لگے۔ طالب نے سوچا چلو اس کی تصویر کھینچ لیتا ہوں ، رپورٹ کے ساتھ تصویر بھی چھپ جائے گی تو زیادہ اچھا رہے گا۔ یہ سوچ کر طالب کیمرا نکال کر تصویریں کھینچنے لگا، لیکن اندھیرے میں ایک تصویر بھی نہ کھنچ سکی وہ جھنجلا کر بولا۔

’’اف یہ تصویریں تو آ ہی نہیں رہی ہیں ، بس اندھیرا ہی اندھیرا نظر آتا ہے جیسے ان کی زندگیوں میں بس اندھیرا ہی اندھیرا ہے۔ لگتا ہے کیمرا بھی انھیں لوگوں کا ایجنٹ ہے، صرف روشنیوں کی تصویر کھینچتا ہے اندھیروں کی تصویریں ہی نہیں کھینچتا۔‘‘

یہ کہہ کر اس نے کیمرے کو زمین پر پٹک دیا۔

طالب نے مریض کو اب جو غور سے دیکھا تو اس کا دم نکل چکا تھا۔ کچھ دوسرے لوگوں نے بھی اس کے مرنے کی تصدیق کی سب رونے دھونے لگے، طالب نے کچھ لوگوں سے اس کے خاندان کے بارے میں پوچھا اور مزدور کی بیوی کو تسلی دینے کی کوشش کی لیکن وہ بدحواس سی تھی۔ اس نے طالب کی طرف کوئی توجہ نہ دی۔ پورے واقعے اور اہلِ خانہ کی ساری تفصیل حاصل کر کے طالب وہاں سے چلا آیا۔

طالب جب گھر پہنچا تو صبح کے چار بج چکے تھے ، وہ چپ چاپ لیٹ گیا۔ اس کے ذہن میں بار بار مرنے والے اور اس کے خاندان کی تصویریں ابھر رہی تھیں ، حملہ آور نے جو کہانیاں سنائی تھیں وہ بھی ایک ایک کر کے اس کے ذہن میں گونج رہی تھیں ۔ دیر تک نیند نہ آ سکی۔ جب سویا تو بار بار عجیب عجیب سے خواب آتے رہتے اور بار بار نیند کھل جاتی لیکن جلد ہی پھر سو جاتا جب پوری طرح سے آنکھ کھلی تو دن کے گیارہ بج چکے تھے۔ معمولات سے فارغ ہونے کے بعد وہ جلسے کی رپورٹ تیار کرنے بیٹھا تو اسے احساس ہوا کہ کل میں نے بہت لاپرواہی کی ہے، رپورٹ کے لیے ضروری مواد تو میرے پاس ہے ہی نہیں ، لیکن اسے یہ سوچ کر دلی تشفی ہوئی کہ کل دن میں منعقدہ کانفرنس کی رپورٹ میں نے کل شام کو ہی تیار کر کے بھیج دی تھی، پھر اس نے اپنے تجربہ اور کچھ اندازوں سے رپورٹ تیار کرنی شروع کی، رپورٹ تیار کرتے وقت اس کے ذہن میں بار بار اندھیروں کی تصویریں ابھرنے لگتیں ، تو اس نے سوچا اندھیروں کی بھی ایک رپورٹ تیار کرنی ہے اس لیے اس سے متعلق جو کچھ بھی ذہن میں آئے انھیں نکات کی شکل میں ایک الگ کاغذ پر لکھتا جاؤں جب اندھیروں کی رپورٹ تیار کروں گا تو یہ نکات کام آئیں گے۔ اسی طرح جلسے کی رپورٹ تیار کرتے کرتے اس کی توجہ نہ جانے کب جلسے سے ہٹ کر اندھیروں کی طرف چلی گئی اور اس نے اندھیروں کی مکمل رپورٹ تیار کر لی، جب کہ جلسے کی رپورٹ ادھوری رہ گئی۔ اس نے سوچا چلو ابھی اندھیروں کی رپورٹ اخبار کو بھیج دیتا ہوں جلسے کی رپورٹ کے لیے چیر مین صاحب سے مزید تفصیلات حاصل کر کے شام تک بھیج دوں گا۔ جب پورا صفحہ اس جلسے کے لیے مختص ہے تو رپورٹ دیر سے پہنچنے سے بھی جگہ کی قلت نہیں پیش آئے گی۔

اندھیروں کی رپورٹ بھیجنے کے بعد اس میں کچھ سستی سی آ گتی اور وہ شام تک بھی جلسے کی رپورٹ نہ تیار کر سکا، اگلے روز اس نے اخبار دیکھا تو اندھیروں کی رپورٹ نہیں چھپی تھی جب کہ ایک پورا صفحہ جلسے کی رپورٹ، تصویروں اور چیرمین کے انتخاب کی مبارک باد کے اشتہاروں پر مبنی تھا۔ رپورٹ ایک مشہور خبر رساں ایجنسی سے لی گئی تھی، طالب نے اخبار کے مدیر کو فون کیا اس سے قبل کہ طالب یہ پوچھتا کہ اندھیروں والی رپورٹ کیوں نہیں چھپی، مدیر نے اسے ڈانٹنا شروع کر دیا کہ تمھیں پہلے سے اتنی ہدایت دے دی گئیں تھیں کہ پورے جلسے بشمول مشاعرہ کی اچھی سی رپورٹ تیار کرنی ہے، اس کے باوجود تم اس جلسے کو جھوڑ کر نہ جانے کہاں کہاں اندھیروں میں بھٹکتے رہے، میں اندھیروں کی رپورٹ کا مخالف نہیں ہوں لیکن ہر چیز کا ایک وقت ہوتا ہے، دیکھو تم نے اتنی بڑی غلطی کی ہے اب میں تمھارے سہارے نہیں رہ سکتا اس لیے میں نے تمھارے شہر کا رپورٹر کسی اور کو بنا دیا ہے، ویسے تم کبھی کبھی کوئی مضمون لکھ کر بھیج سکتے ہو چھپنے لائق ہوگا تو اس کا چیک تمھیں مل جایا کرے گا اور تمھارے اس اندھیروں والے مضمون کو بھی کسی دن جب اشتہار کم ہوں گے یا جگہ خالی ہوگی تو چھاپ دیا جائے گا لیکن تم اب رپورٹنگ کے لائق نہیں رہے۔

یہ کہہ کر مدیر نے فون رکھ دیا۔

طالب نے بھی فون رکھ دیا اس نے مدیر سے اپنے کیے پر افسوس کا اظہار نہیں کیا۔ لیکن مدیر کی باتیں سن کر اس کے دل میں ہول سا اٹھنے لگا وہ بے چین ہو کر ادھر ادھر بے معنی گھومنے لگا، اسے لگ رہا تھا جیسے وہ بھرے بازار میں ننگا کر دیا گیا ہو، اس لیے وہ لوگوں سے نظریں چرانے لگا، اگر کوئی جان پہچان والا دکھتا تو وہ نظریں پھیر لیتا اور اگر کسی سے نظریں مل بھی جاتیں تو اس سے انجان بن جاتا۔ تھوڑی دیر تک یوں ہی بے معنی گھومتے رہنے کے بعد وہ گھر واپس آ گیا۔ وہاں اس نے مدیر، چیرمین اور بورژوا سماج کو خوب گالیاں دیں ۔ اور اس کے بعد چادر تان کر لیٹ گیا۔ نیند تو خیر کیا آتی لیکن تھوڑی دیر لیٹا رہا، اسے اپنے گھر کے تمام افراد یاد آنے لگی سب سے زیادہ ماں کی یاد آئی، بچھڑی محبوبہ کی بھی یاد آئی لیکن آج جب محبوبہ کی یاد آئی تو اسے محسوس ہوا کہ اس سے بچھڑنے کی اصل وجہ میں ہی تھا، میں نے ہی اپنے پیروں پر کھڑے ہونے میں اتنی دیر کر دی تھی۔ جب میں خود بے سہارا تھا تو کوئی میرے سہارے اپنے گھر والوں سے بغاوت کیسے کر سکتا تھا؟ یہ سب سوچتے سوچتے وہ رونے لگا۔ کچھ دیر تک رو تا رہا پھر جو خاموش ہوا تو تھوڑی دیر میں نیند آ گئی۔

سو کر اٹھا تو مغرب کا وقت ہو چکا تھا اسے پھر بے چینی محسوس ہوئی، اب کیا کروں ؟ کچھ سمجھ میں نہ آ رہا تھا، آخر کار وہ اندھیری بستی کی اس گلی میں چلا گیا اور حملہ آور کو تلاش کرنے لگا، بہت دیر تک وہ اسے تلاش کرتا رہا لیکن وہ نہ مل سکا۔ طالب نے بھی ہمت نہیں ہاری ساری رات اسی گلی کے ادھر ادھر چکر کاٹتا رہا۔ حملہ آور کے بتائے ہوئے واقعات کے بارے میں سوچتا رہا اور اپنے طور پر بھی ان کی تحقیق کرتا رہا۔ جب صبح کے آثار نظر آنے لگے تو وہ گھر واپس آ کر سو گیا۔ جب آنکھ کھلی تو تیز بھوک لگی تھی۔ اس نے محلے کے ہوٹل میں جا کر کھانا لگانے کو کہا، کچھ لوگ جان پہچان کے نظر آئے، طالب نے ان سے نظریں نہ ملائیں ۔ وہ سب کسی بات پر تیز تیز ہنس رہے تھے، طالب کو محسوس ہوا کہ وہ سب اس کا مذاق اڑا رہے ہیں اس نے جلدی جلدی کھانا کھایا اور گھر واپس آ گیا۔ پھر طالب پچھلی رات کے سارے واقعات کو اپنی ڈائری پر لکھنے لگا۔ ان سب واقعات کو لکھنے کے بعد اسے دلی اطمینان محسوس ہوا۔ اسے لگا اخبار میں اس کی رپورٹ نہ چھپے کوئی بات نہیں لیکن ڈائری میں لکھنے سے تو مجھے کوئی نہیں روک سکتا، اب میں زیادہ گہرائی کے ساتھ اور بے لاگ ہو کر لکھ سکتا ہوں ۔ اب میرے قلم پر کسی مدیر کا کوئی زور نہیں ہے، اب میرا قلم آزاد ہے۔ یہ کیا کم ہے کہ اب میں اپنے عہد کے اندھیروں کو اپنے طور پر لکھنے میں کامیاب ہوں ۔ اور اس طرح طالب نے اندھیروں کی رپورٹنگ کا یہ نیا طریقہ ایجاد کر لیا۔

اس کے بعد طالب نے اپنا یہ معمول بنا لیا، وہ روز رات کو اس گلی میں نکل جاتا رات بھر پاگلوں کی طرح گھومتا رہتا اور وہاں کی خبریں جمع کرتا رہتا صبح ہونے سے قبل گھر واپس آ جاتا، دوسرے دن حملہ آور سے بھی ملاقات ہو گئی تھی، وہ بھی اس کی مدد کرنے لگا، اس نے طالب کا کیمرا بھی واپس کر دیا، اس رات جب طالب نے غصے میں کیمرا پھینک دیا تھا تو اس نے اٹھا کر رکھ لیا تھا، طالب اسے کچھ دیر تک دیکھتا رہا، پھر اس میں کچھ گھمایا اس کے بعد حملہ آور کی فوٹو کھینچی تو فوٹو صاف آ گیا۔ اب سب کچھ ٹھیک ہو گیا تھا، بس ایک دقت تھی جب کوئی پرانا چان پہچان والا مل جاتا تو اسے نظریں چرانی پڑ جاتیں ، کبھی کبھی وہ اسے گھیر کر طرح طرح کے سوال پوچھنے لگتے۔ طالب نے ان کے سوالوں سے تنگ آ کر اپنا گھر بیچ دیا اور حملہ آور کے ساتھ رہنے لگا۔ وہ اپنی پرانی دنیا سے بالکل الگ ہو گیا۔ اس طرح اسے ان سوال کرنے والوں سے بھی نجات مل گئی اور سب سے بڑی بات یہ ہوئی کہ اس کے اپنے سوال جو جو اکثر اس کا تعاقب کرتے رہتے تھے کبھی کبھی اسے گھیرنے کی بھی کوشش کرتے تھے ان سوالوں سے بھی نجات مل گئی۔ اس طرح وہ اب اپنی زندگی سے بہت مطمئن ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

نیا پرزہ

 

 

’’سر!کرین پھر رک گئی، نئی ٹرالی پرانی پٹری پر چل ہی نہیں رہی ہے!‘‘

اسسٹنٹ انجینیرنے چیف انجینیرسے کہا۔

’’گریس لگا دو، نئی ٹرالی ہے ایڈجسٹ کرنے میں کچھ وقت تو لگے گا ہی۔ اتنی چھوٹی چھوٹی باتوں کو بھی مجھے ہی بتانا پڑ ے گا؟ کرین کے طریقۂ عمل سے تو تم واقف ہی ہو؟‘‘

’’سر گریس لگائی تو تھی، لیکن اس سے بھی کوئی فرق نہیں پڑا۔ سر گریس وہاں رک ہی نہیں رہی ہے، ٹرالی اسے باہر پھینک دے رہی ہے۔‘‘

’’تو تیل ڈال دو چکنائی میں تو ہر چیزپھسلنے لگتی ہے۔‘‘

ٌٌٍََٗٗٔٔٔ’’اس سے بھی کوئی فائدہ نہیں ہوا، تیل بھی وہاں نہیں رک پا رہا ہیں ، نیا پرزہ خود اتنا چکنا ہے کہ کوئی چکنائی وہاں رک ہی نہیں رہی ہے۔ سر! مجھے لگتا ہے اس نئے پرزے کو چکنائی کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘

’’لگتا ہے تیل صحیح جگہ نہیں پہنچ رہا ہے۔ کہیں بیچ میں ہی رک جا رہا ہے۔‘‘

’’سر لگتا ہے نئی ٹرالی پرانی پٹری پر چلے گی نہیں ۔ ‘‘

’’اسے میرے پاس بھیج دو… میں دیکھ لوں گا، چلے گی کیسے نہیں ؟ اس کا باپ بھی چلے گا۔ تم بہت جلد نا ا مّید ہو جاتے ہو۔‘‘

اسسٹنٹ ٹرالی کو بڑے جوش سے چیف کے پاس لے گیا۔ اس نے باریکی سے اس کا جائزہ لیا اور بولا۔

’’ہاں … یہ ٹرالی تھوڑی اڑیل سی لگتی ہے، خیر … ابھی نئی آئی ہے، کچھ نخرے تو دکھائے گی ہی، دو چار ٹھوکریں کھا کر سب صحیح ہو جاتی ہیں ۔ ذرا دو چار ٹھوکریں تو لگانا۔‘‘

’’سر کہیں غلط ٹرالی کا انتخاب تو نہیں ہو گیا؟‘‘

’’ہاں ممکن ہے، انتخاب کے وقت کوئی غلطی ہو گئی ہو۔‘‘

’’سر اس غلطی کو اب سدھارا نہیں جا سکتا؟ اس ٹرالی کو واپس بھیج کر دوسری منگوا لیجیے۔‘‘

چیف کچھ دیر سوچنے کے بعد بولے۔

’’نہیں ۔۔۔ کمیٹی کے خریدے سامان پر ہم کچھ نہیں کر سکتے، ویسے بھی نئے پرزے اکثر ایسے ہی ہوتے ہیں ۔ اس لیے پھر سے خریدنے سے بھی کہا نہیں جا سکتا کہ وہ اچھا ہی ہوگا؟ ہمیں اسی کو اپنی ضرورت کے مطابق ڈھالنا ہوگا۔‘‘

’’سر اگر یہ ٹرالی نہ ٹھیک ہوئی تو کیا ہو گا؟‘‘

چیف جھنجلا کر بولے۔

’’بکواس بند کرو! آخر کیوں نہیں چلے گی؟ تم کہنا کیا چاہتے ہو؟ ٹھیک ہے خرید کمیٹی میں میں بھی تھا۔ لیکن اسے خریدنے کا فیصلہ صرف میرا نہیں تھا پوری کمیٹی کا تھا … اور ایک بات یاد رکھنا، مجھ سے بات بڑھانے کی کوشش مت کرنا ورنہ میں خوب اچھی طرح جانتا ہوں تم جیسے نئے لوگوں سے کیسے نمٹا جاتا ہے۔‘‘

اسسٹنٹ کو غصہّ تو بہت آیا لیکن اس نے یہ سوچ کر خاموشی اختیار کر لی کہ ابھی یہ پہلی نوکری ہے اور فیکٹری کی معلومات بھی اتنی اچھی نہیں ۔ اس لیے تھوڑی بہت ذلت برداشت کرنا چاہیے۔ لیکن چیف کی تیز نظریں سمجھ گئیں کہ اسسٹنٹ کو یہ بات گراں گزری ہے تو اس نے معاملے کو رفع دفع کرنے کے ارادے سے کہا۔

’’گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں ، میں نے اپنی زندگی میں نہ جانے کتنے نئے اور اڑیل پرزوں کو صحیح کیا ہے۔ اس کی کیا بساط ہے۔ فی الحال اسے اسٹور میں رکھ دو میں کل دیکھ لوں گا … دوسری کرینیں تو صحیح سے چل رہی ہیں نا؟ ‘‘

’’جی ہاں ، باقی سب ٹھیک چل رہی ہیں ۔‘‘

’’ٹھیک ہے اس کو میں کل صحیح کر دوں گا۔‘‘

چیف نے اگلے دن ٹرالی کو اسٹور سے منگوا کر اس کا بغور جائزہ لیا۔ اس کے پہیے گھمائے، بیرِنگوں میں تیل ڈالا، ایک آدھ پینچ ڈھیلے کیے اور کسے، ایک آدھ جگہ ہاتھ سے ہلکی ہلکی چوٹیں کیں ۔ پھر پٹری میں لگا کر کرین شروع کرنے کا حکم دیا، کرین شروع کی گئی۔ ٹرالی ایک جھٹکے کے ساتھ آگے بڑھی اور تھوڑا چل کر رک گئی۔ اس کے بعد بہت کوشش کے باوجود ٹرالی وہاں سے ٹس سے مس نہ ہوئی، چیف نے جھنجلا کر غصے میں ہتھوڑے سے اس پر کئی چوٹیں کیں ، اور کرین کا سوِچ آن کرایا۔ ٹرالی تھوڑا آگے بڑھ کر پھر رک گئی۔ چیف نے ایک بار پھر ٹرالی کو وہاں سے کھلوا کر باہر نکلوایا اور ریتی سے گھسوانا شروع کیا، ٹرالی ابھی گھسی ہی جا رہی تھی کہ پیچھے سے کچھ ٹوٹنے کی ایک تیز آواز آئی۔ جسے سن کر انھوں نے اسسٹنٹ سے کہا۔

’’جاؤ دیکھو کیا ہوا؟‘‘

’’ لیکن سر… !!‘‘

’’کیا؟ بولو …‘‘

’’سر یہ ٹھیک نہیں ہو رہا ہے۔‘‘

’’کیا ٹھیک نہیں ہو رہا ہے؟‘‘

’’یہی سر… جو آپ… اس نئی ٹرالی کو ریتی سے گھسوا رہے ہیں ، پھر نئی ٹرالی خریدنے کا فائدہ ہی کیا رہا؟‘‘

چیف نے تھوڑا جھڑکتے ہوئے کہا۔

’’اسے میرے اوپر چھوڑو کہ اس سے کیسے کام نکالنا ہے۔ تم سے جو کہا جا رہا ہے وہ کرو، وہاں جاؤ دیکھو کیا ہوا ہے؟‘‘

اتنا سن کر اسسٹنٹ چلا گیا۔ چیف نے ریتی سے ٹرالی گھسوانے کے بعد اسے کرین میں لگوا کر پھر سوِچ آن کرایا۔ اس بار ٹرالی چلنے لگی۔ یہاں تک کہ آخری سرے تک پہنچ گئی۔ لیکن وہاں پہنچ کر ایک تیز آواز کے ساتھ پھر رک گئی۔ جب کہ وہاں پہنچ کر اسے خود بخود واپس آنا تھا۔ کئی بار کرین کا سوِچ آن کیا گیا، اس کے بیرنگوں میں تیل ڈالا گیا، ہتھوڑے سے چوٹیں کی گئیں ، لیکن لا حاصل۔ اس پر کوئی اثر نہ ہوا، یہاں تک کہ جب ٹرالی نکالنے کی کوشش کی گئی، تو وہ ہل تک نہ سکی۔ پھر کرین کا بہت بڑا حصہّ کھولنے کے بعد ہی ٹرالی باہر نکالی جا سکی۔ اتنے میں اسسٹنٹ بھی آ گیا، اس نے بتایا:

’’نرم گنّوں کے درمیان نہ جانے کہاں سے ایک فولادی سریا آ گئی تھی اور اس نے پورا نظام ہی درہم برہم کر دیا۔ چین ٹوٹ گئی ہے۔‘‘

’’اوہ! گاڈ، پھر تو پوری فیکٹری بند ہو گئی ہوگی؟ اب کیا ہوگا؟‘‘

’’سر اس سریا کو نکلوا دیا گیا ہے اور چین جوڑی جا رہی ہے۔ فیکٹری جلدی ہی پھر شروع ہو جائے گی۔ سر آپ اس کی فکر بالکل نہ کریے وہ سب میں دیکھ لوں گا۔ آپ بس اس پر غور کیجیے کسی طرح یہ ٹرالی چلنے لگے بس۔‘‘

’’آج ہو کیا رہا ہے؟کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا ہے، سب کام بگڑتے جا رہے ہیں ۔ جاؤ آج اسے اسٹور میں ڈال دو، آج رات میں کوئی دوسری ترکیب سوچوں گا۔‘‘

رات میں چیف کافی پریشان رہا اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا کہ اب کیا کِیا جائے؟۔ اگر اس ٹرالی نے کام نہ کیا تو بڑی بدنامی ہوگی۔ یونین نے پہلے سے ہی ناک میں دم کر رکھا ہے اگر ایک بھی ثبوت ان کے ہاتھ لگ گیا تو وہ لوگ میرا جینا دشوار کر دیں گے۔ پتہ نہیں کون ہے جو ساری ڈیلنگز کی خبریں ان تک پہنچاتا ہے۔ اور اس نئے لڑکے کے بھی تیور ٹھیک نہیں لگ رہے ہیں ۔ چیف اِنہیں سوچوں میں گم تھے کہ ان کی بیوی نے چیف کو پریشان دیکھ کر پوچھا۔

’’کیا بات ہے؟ آج آپ بہت پریشان دکھ رہے ہیں ؟‘‘

’’ایک نیا پرزہ منگوایا تھا۔ وہ کسی طرح کام ہی نہیں کر رہا ہے، اگر وہ نہ چلا تو بڑی مشکل ہو جائے گی۔‘‘

’’آپ ان چھوٹی موٹی باتوں کو لیکر اتنا پریشان مت ہوا کریے۔ ویسے بھی آپ نے آفس میں کتنی پریشانیاں اٹھائی ہیں ۔ ذرا وہ زمانہ یاد کریے، جب آپ کا تبادلے پر تبادلہ ہو رہا تھا۔ ایک ایک سیزن میں کئی کئی بار۔ پورا محکمہ آپ کے پیچھے پڑا ہوا تھا، وہ دن میں نے کتنی مشکلوں سے کاٹے ہیں میں ہی جانتی ہوں ۔ وہ تو میری بیٹیوں کی قسمت اچھی تھی کہ جب سے وہ پیدا ہوئی تھیں تبھی سے تبادلے بھی رک گئے تھے۔ اب ذرا اطمینان ملا ہے تو آپ پھر پریشانی لے کر بیٹھ گئے۔‘‘

’’اب ان دنوں کی یاد دلا کر میری پریشانی اور نہ بڑھاؤ۔ اب میں ان دنوں کو یاد بھی نہیں کرنا چاہتا۔ بس ایک جنون تھا ان دنوں ۔‘‘

اسسٹنٹ کی ابھی شادی نہیں ہوئی تھی، وہ گھر میں اکیلا تھا۔ رات میں وہ سوچ رہا تھا کہ ایک اچھا موقع ہے اگر وہ اس معاملے میں دب گیا تو چیف ہمیشہ دبائے رکھے گا اور میں ایسا کبھی نہیں ہونے دوں گا۔ وہ ہم سے سینئر ہے تو کیا ہوا؟ ڈگری تو ہم دونوں کی ایک ہی ہے۔ بلکہ میری ڈگری تو اس سے اچھے کالج کی ہے۔ کل کو میں بھی اس کی طرح سینئر بنوں گا۔ اس لیے خاموش رہنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ کچھ بھی ہو اس نئے پرزے کو ہر حال میں بچانا ہے۔

اگلے دن اسسٹنٹ انجینئر نے چیف کے فیکٹری پہنچے سے پہلے ہی اس نئی ٹرالی کو چلانے کی کوشش کرنی شروع کر دی وہ پوری محویت سے اس میں لگا ہوا تھا اور ہر طرح سے چلانے کی کوشش کر رہا تھا۔ اسی دوران چیف آ گئے لیکن وہ چپ چاپ اسے کام کرتے دیکھتے رہے۔ اسسٹنٹ کو ان کے آنے کا احساس نہ ہو سکا۔ کافی دیر بعد اس نے مڑ کر دیکھا تو چیف کو کھڑا دیکھ کر اس نے کہا۔

’’سر لگتا ہے پوری کرین بدلنی پڑے گی، نہیں تو یہ پٹری تو بدلنی ہی پڑے گی۔‘‘

’’تمھارا دماغ خراب ہو گیا ہے؟ اس ٹرالی کے لیے پوری کرین بدلوا دو گے؟ معلوم ہے پوری کرین کتنے میں آتی ہے؟ دس لاکھ میں ، پورے دس لاکھ میں اور یہ پٹری دو لاکھ کی ہے۔ پھر اس بات کی بھی کیا گارنٹی ہے کہ کرین بدلنے سے فیکٹری بالکل صحیح چلنے لگے گی؟ اس طرح فیکٹری تو پرانی ہی رہے گی، کل کسی دوسرے حصہّ میں گڑبڑی ہوگی تو تم کہو گے کہ پوری فیکٹری بدل دو۔ آخر کیا کیا بدلا جائے گا؟ نہیں کچھ نہیں بدلا جائے گا۔ نئے پرزہ کو ہی پرانی مشین کے مطابق ڈھلنا ہوگا۔سیدھی انگلی سے گھی نہیں نکلتا ہے تو اسے ٹیڑھا کرنا پڑتا ہے۔ اس ٹرالی کو یہاں سے نکلوا کر ورکشاپ پہنچوا دو۔ پھر میں دیکھ لوں گا کہ یہ ٹرالی کیسے نہیں چلے گی۔‘‘

ورکشاپ پہنچ کر انہوں نے حکم دینا شروع کیا۔

’’پہلے اسٹیل کٹر پر لگاؤ ۔۔۔۔۔ اب خرادی پر چڑھاؤ ۔۔۔ اب ریتی سے ہموار کرو پھر سے اسٹیل کٹر ۔۔۔۔۔ خرادی ۔۔۔۔۔ ریتی ۔۔۔۔‘‘

اسسٹنٹ سے یہ سب نہ دیکھا گیا اور وہ ورکشاپ کے باہر آ کر کھڑا ہو گیا۔ چیف دوسرے ٹکنیشینوں کی مدد سے یہ سب کام کرواتا رہا۔ کچھ دیر بعد ایک ٹیکنیشین نے کہا۔

’’بہت ہو گیا سر! اب بند کیجیے۔ نہیں تو ٹرالی بالکل برباد ہو جائے گی۔‘‘

’’ہونے دو دیکھتا ہوں کون زیادہ ضدّی ہے۔ اب یا تو یہ میری مرضی کے مطابق چلے گی یا برباد ہو جائے گی۔ اس کا اڑیل پن اب میں اور برداشت نہیں کر سکتا۔۔۔۔۔چلاؤ۔۔۔۔۔ اور چلاؤ۔۔۔۔۔ ‘‘

’’اب خرادی پر چڑھاؤ ۔۔۔۔۔۔ اب ریتی سے ہموار کرو پھر سے اسٹیل کٹر ۔۔۔۔۔ خرادی ۔۔۔۔۔ ریتی ۔۔۔۔۔۔۔‘‘

اتنا سنتے ہی اسسٹنٹ تیزی سے اندر داخل ہوا اور اس نے جلدی سے ٹرالی کو ان سے چھین کر الگ کر دی۔

’’بہت ہو گیا سر… یہ آپ کی ذاتی جائداد نہیں ہے جو آپ اس طرح من مانی کر رہے ہیں ، یہ سرکاری فیکٹری ہے۔‘‘

’’اور تم بھی بھول گئے کہ میں اس فیکٹری کا چیف انجینئر اور تمھارا افسر ہوں ، تم نے ایسی گستاخی کرنے کی حماقت کیسے کی؟ نکل جاؤ یہاں سے۔ باہر چلو … گیٹ آؤٹ۔‘‘

اسسٹنٹ یہ سن پر پیر پٹکتے ہوئے باہر نکل گیا۔

اس کے جانے کے بعد چیف نے ٹیکنیشین کی مدد سے پھر سے ٹرالی کو وہیں لگوا کر اسی طرح حکم دینا شروع کیا۔

’’اب خرادی پر چڑھاؤ ۔۔۔۔۔۔ اب ریتی سے ہموار کرو پھر سے اسٹیل کٹر ۔۔۔۔۔ خرادی ۔۔۔۔۔ ریتی ۔۔۔۔۔۔۔‘‘

تھوڑی دیر بعد ٹیکنیشن نے ڈرتے ڈرتے کہا۔

’’سر اب لگتا ہے بالکل ٹھیک ہو گئی ہے، اب ضرور چلے گی، اب نکال لوں سر؟‘‘

چیف نے ٹرالی کو غور سے دیکھا اور کہا۔

’’ٹھیک ہے لے چلو۔‘‘

اسسٹنٹ وہاں سے نکلنے کے بعد جنرل مینیجر سے پاس پہنچ گیا اور ان کے سامنے پہنچتے ہی بولا۔

’’سر! یہ بہت غلط ہو رہا ہے، اسے کسی طرح بچائیے۔‘‘

’’کیا غلط ہو رہا ہے، کسے بچاؤں ؟‘‘

’’سر! وہ ٹرالی جو ابھی نئی خریدی گئی تھی… چیف صاحب اسے تباہ کیے دے رہے ہیں ۔ سر یہ غلط ہے۔ اس ٹرالی کو اس طرح برباد کرنے کا انھیں کوئی حق نہیں ہے، ٹرالی بالکل ٹھیک ہے۔ غلطی کرین کی اور دوسری پرانی چیزوں کی ہے۔ نئی ٹرالی بالکل صحیح ہے پھر اس کے ساتھ کیوں ایسا کیا جا رہا ہے؟‘‘

جنرل مینیجر نے اسسٹنٹ کو سمجھاتے ہوئے کہا۔

’’انجینئر صاحب آپ اتنے بے چین کیوں ہو رہے ہیں ؟ چیف صاحب بہت تجربے کار آدمی ہیں وہ جو مناسب سمجھتے ہیں وہی کر رہے ہوں گے۔ مجھے خوشی ہے کہ تم فیکٹری کے کاموں میں اتنی دلچسپی لے رہے ہو جیسے تمھارا کوئی ذاتی کام ہو۔ لیکن تمھیں ذرا صبر سے کام لینا چاہیے۔ تم پریشان مت ہو، یہ نئے پرزے اکثر ایسے آ جاتے ہیں جو شروع شروع میں کافی پریشانی پیدا کرتے ہیں ۔ لیکن چیف صاحب بہت تجربے کار آدمی ہیں وہ سب کو صحیح کر دیتے ہیں ۔ دیکھنا یہ بھی صحیح ہو جائے گا۔‘‘

’’لیکن سر! وہ نیا پرزہ بہت اچھا ہے، چیف صاحب اسے صحیح نہیں کر رہے ہیں بلکہ اسے خراب کر رہے ہیں ۔ اس گھسی پٹی فیکٹری میں اگر کوئی نئی اور اچھی چیز آتی ہے تو وہ اسے بھی اسی طرح بنا دیتے ہیں ۔ سر میں چاہتا ہوں کہ نئی اور اچھی ویسی ہی رہیں بلکہ فرسودہ چیزیں ہیں انھیں ختم کیا جائے۔‘‘

’’یہ کیسے ممکن ہے؟‘‘

’’سر ان پرانے پرزوں کو بدلیے، جن کی وجہ سے نئے پرزے کام نہیں کرتے۔‘‘

’’یہ ممکن نہیں ہے، اس طرح تو سب کچھ بدلنا پڑے گا۔ پورا نظام درہم برہم ہو جائے گا۔ ایک پرزے کے لیے پوری فیکٹری نہیں بدلی جا سکتی۔ جیسا سب کچھ چل رہا ہے چلنے دو، جاؤ تم اپنا کام دیکھو اور باقی چیزوں کو ہم لوگوں پر چھوڑ دو۔‘‘

یہ سن کر اسسٹنٹ جنرل مینیجر کے دفتر سے مایوس ہو کر چلا آیا اور کرین کی طرف چل پڑا۔ وہاں پہنچ کر وہ چپ چاپ ایک کنارے بیٹھ گیا اور چیف کو کام کرواتے ہوئے چپ چاپ دیکھتا رہا۔

چیف نے ٹیکنیشین کو پھر سے ٹرالی کو کرین میں فٹ کرا کے اس کے پینچ کسوائے اور اور سوِچ آن کروایا۔۔۔ٹرالی چل پڑی۔ لیکن تھوڑی دور جا کر جھٹکے کے ساتھ پھر رک گئی۔ یہ دیکھ کر چیف بہت غصے میں آ گئے انہوں نے اسے نکلوا کر بہت تیز نیچے پٹک دیا۔

’’چٹاک۔۔۔‘‘

کچھ ٹوٹنے کی آواز آئی۔ جب اسے اٹھا کر دیکھا گیا تو کوئی ٹوٹی ہوئی چیز نظر نہ آئی، شاید کچھ اندر ہی اندر ٹوٹ گیا تھا۔ ایک بار پھر اسے لگایا گیا۔ اس بار ٹرالی چلنے لگی، بغیر رکے۔ سبھی لوگ غور سے دیکھنے لگے، سب کو اندیشہ تھا کہ ٹرالی ابھی پھر رک جائے گی لیکن وہ نہیں رکی۔

ایک ٹیکنیشین نے کہا۔’’سر اب ٹھیک چل رہی ہے ۔۔۔۔۔ لیکن سر ابھی کچھ آواز آ رہی ہے اور رفتار بھی کچھ کم ہے۔‘‘

’’اب اس میں تیل ڈال دو۔‘‘

اس بار تیل پڑتے ہی نیا پرزہ پرانی مشین میں بالکل معمول کے مطابق چلنے لگا۔

یہ منظر دیکھ کر اسسٹنٹ کو ایک تیز جھری جھری سی محسوس ہوئی۔ اور پورے بدن میں خارش سی ہونے لگی، تھوڑی دیر وہ پورے بدن میں کھجلاتا رہا۔ جب کچھ دیر بعد کھجلاہٹ کم ہوئی اور اس نے اپنے بدن کی طرف دیکھا تو یہ اس کا بدن نہیں تھا بلکہ کسی انجان بوڑھے کا تھا۔ یہ دیکھ کر وہ وہیں زمین پر تڑپنے اور لوٹنے لگا، لوٹتے لوٹتے کچھ دیر بعد اسے نیند آ گئی اور جب وہ سو کر اٹھا تو کسی سے کچھ کہے بغیر چپ چاپ کام کرنے لگا۔

٭٭٭

 

 

 

زوال جسم سے پہلے

 

 

دوسرے شخص کا دیباچہ

 

مجھے یہ اعتراف کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہے کہ میں کوئی باقاعدہ افسانہ نگار نہیں ہوں ، یہ بات دیگر ہے کہ زمانۂ طالب علمی میں تفریحاً میں نے کچھ افسانے ضرور لکھے تھے، ظاہر ہے ہر شخص لڑکپن میں بہت سے الول جلول کام کرتا ہے لیکن ان کی کوئی وقعت نہیں ہوتی۔ مجھے یہ بھی اعتراف کرنے میں کوئی گریز نہیں ہے کہ میں زندگی میں ایک نہایت ناکام شخص رہا ہوں اور کوئی بھی بامعنی کام نہ کر سکا۔ ہر جگہ تفریح کرتا رہا اور اکثر خود بھی لوگوں کے لیے تفریح کا ایک سامان بن گیا۔ افسانہ نگار بھی بننا چاہا وہ بھی نہیں بن سکا۔ اس میں کسی کا کوئی قصور نہیں ہے، میرا بھی نہیں ۔ در اصل میں کبھی کوئی کام سنجیدگی سے کر ہی نہیں سکا، یہاں تک کہ تفریح بھی تفریحاً ہی کی کبھی سنجیدگی سے تفریح بھی نہ کر سکا۔ میں اس سلسلے میں آپ خواتین و حضرات کو ایک راز کی بات بتانا چاہوں گا، در اصل میں قبض کا پرانا مریض ہوں ، اور قبض کا مریض کبھی ایک جگہ چین سے نہیں بیٹھ سکتا۔ یہی بات میرے مزاج میں شامل ہو گئی۔ اس لیے میں کوئی کام زیادہ دنوں تک مستقل مزاجی سے نہیں کر سکتا اور جب کوئی مستقل مزاجی نہیں ہوگی تو ایسا ہی ہوگا جیسا میرے ساتھ ہوتا آ رہا ہے۔

ابھی کچھ روز پہلے میرے دوست مجھ سے تفریح کرنے لگے، انھوں نے کہا تم نے افسانے لکھنے کیوں بند کر دیے؟ ہم سب کو تم سے بڑی توقعات ہیں اور تم ہو کہ خاموشی اختیار کیے بیٹھے ہو۔ پہلے تو میں حیران ہوا کہ میں اور افسانہ نگار؟ لیکن جلد ہی میں سمجھ گیا کہ میرے دوست مجھ سے تفریح کر رہے ہیں اور میں نے ان کی بات کو تفریح میں ہی اڑا دیا۔ لیکن ایک دن میں نے سوچا جب اس قبیل کی تفریح میں پہلے بھی کر چکا ہوں تو وہی تفریح ایک بار اور کرنے میں کیا مضائقہ! سوچا چلو ایک افسانہ اور لکھتا ہوں ، ایک تفریح اور سہی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اب میں افسانہ لکھنے کی تفریح یکسر بھول چکا ہوں ۔ پہلے بھی بس تفریح ہی تھی لیکن جو تھوڑے بہت تخلیقی سر چشمے تھے بھی وہ بھی دوسری قسم کی تفریح میں تبدیل ہو چکے ہیں ۔ افسانہ نگاری تو خیر زمانۂ طالب علمی کی تفریح تھی۔ مجبوراً اس تفریح کا خیال ترک کر کے میں دوسری تفریحات میں مشغول ہو گیا۔ کبھی فلم دیکھنے چلا گیا اور کبھی تھیئٹر لیکن میرا سب سے مرغوب مشغلہ تھا دوستوں کے ساتھ بیٹھ کر لوگوں کا مضحکہ اڑانا، ایک اور تفریح مجھے بہت مرغوب تھی – سرکس دیکھنا، لیکن افسوس! اب سرکس کہاں رہے۔ اسے میری خوش قسمتی ہی سمجھیے کہ ایک دن اچانک میرے شہر میں سرکس آ گیا اور میں نے اس کی طرف رخ کیا۔ اس سرکس میں ایک بڑا عجیب و غریب واقعہ پیش آیا … گھبرائیے نہیں ، میں خود اپنی زبانی اس سرکس کی روداد سنا کر اچھی خاصی تفریح کو برباد نہیں کروں گا۔ میں تو بس آپ کو سرکس لیے چلتا ہوں وہ واقعہ تو آپ سرکس میں خود دیکھیں گے بلکہ سنیں گے۔

تو دوستوں یہ دوسرے شخص کا دیباچہ یہیں ختم ہوتا ہے، اب میں سرکس اور آپ کے درمیان سے ہٹتا ہوں اور آپ براہ راست سرکس کے اس عجیب و غریب واقعے کا ملاحظہ فرمائیے۔

 

طالب کا اعتراض

 

ٹھہریے …

ابھی آپ سرکس کے میدان میں نہیں جا سکتے، سرکس اور افسانہ نگار کے درمیان ایک لازمی کڑی میں بھی تو ہوں ۔ بھئی سرکس میں رکاوٹ ڈالنے کے لیے مجھے معاف فرمائیے گا۔ لیکن میری مجبوری ہے میں اپنے ساتھ ہونے والی اس نا انصافی کو برداشت نہیں کر سکتا، مجھے اپنا حق چاہیے، ایک منٹ روکیے … اس سے قبل کہ اس افسانے میں کوئی ابہام پیدا ہو میں آپ تمام خواتین و حضرات سے اپنا تعارف کرا دینا اخلاقی فرض سمجھتا ہوں ۔ در اصل میں آپ کے افسانہ نگار کا تخلیق کردہ ایک کردار ہوں ۔ اپنے ابتدائی افسانوں کے بعد اس افسانہ نگار نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ اب ان کے تمام افسانوں کا مرکزی کردار میں ہی رہوں گا۔ اس لیے مجھے اپنے حق کے لیے آپ کے درمیان آنا پڑا۔ آپ نے مجھ سے جو وعدہ کیا تھا اس سے مکر نہیں سکتے اس لیے آپ میرے بغیر یہ افسانہ نہیں لکھ سکتے۔

افسانہ نگار صاحب! میں نے آپ کو رنگے ہاتھوں پکڑا ہے، لیکن گھبرائیے نہیں ، میں آپ کو سرِ سرکس رسوا نہیں کروں گا، میں حقیقی انسانوں کی طرح تشدد پر بھی نہیں اتر آؤں گا اور نہ منہ لٹکا کر جذباتی کر کے اپنا کام نکالوں گا۔ مجھے جمہوری انداز میں اپنا حق چاہیے، میں اپنے حق سے ہرگز دست بردار نہیں ہونے والا۔ لیکن یہ جمہوریت بے حس نہیں ہے، اس میں انسانیت بھی ہے اور رحم بھی۔ مجھے یہ بھی اعتراف ہے کہ آپ کو اپنی پسند کا افسانہ لکھنے کا پورا حق ہے اس لیے میں آپ کی راہ میں حائل بھی نہیں ہونا چاہتا۔ اسیے میں کیا کیا جائے؟ … مجھے سوچنے کے لیے دو منٹ کا وقت چاہیے۔

………

ہاں … افسانہ نگار صاحب ایک خیال ابھی ابھی میرے ذہن میں آیا ہے۔ جس سے میری بھی حق تلفی نہیں ہوگی اور آپ کی خواہش کی بھی تکمیل ہو جائے گی۔ یہ ہم دونوں کے تنازع کا ایک با عزت مفاہمہ ہوگا۔ جیسا کہ ابھی آپ نے بتایا کہ آپ ایک کتے کی حکایت لکھنا چاہتے ہیں اسی لیے آپ نے مجھے اپنا مرکزی کردار نہیں بنایا، میں آپ کی مجبوری سمجھ سکتا ہوں ۔ اب میرے پاس ایک تجویز ہے اگر آپ کو منظور ہے تو بات آگے بڑھے گی ورنہ آج سے میرا اور آپ کا رشتہ ختم۔ جیسا کہ آپ چاہتے ہیں یہ کہانی کتے کی حکایت ہی ہوگی لیکن یہ حکایت سنانے کے لیے آپ کسی کتے کی تخلیق نہیں کریں گے بلکہ میں ہی کتے کا سوانگ بھروں گا۔ میں آپ کی خواہش کی تکمیل کے لیے حتیٰ الامکان کوشش کروں گا۔ لیکن کتے کے سوانگ میں اگر کہیں طالب باقی رہ جائے تو مجھے معاف کر دیجیے گا، کہ سوانگ آخر سوانگ ہے، حقیقت نہیں ۔ البتہ میں اپنے طور پر پوری کوشش کروں گا کہ اس میں طالب بالکل نہ آنے پائے۔ لیکن پھر بھی اگر طالب باقی رہ جائے تو اس میں پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ، آخر طالب بھی تو آپ ہی کی تخلیق ہے۔ اس لیے وہ بھی تو آپ ہی کا زاویۂ نگاہ ہوگا۔

تو جناب اگر یہ مفاہمہ منظور ہے تو چلیں سرکس! بولیے؟

منظور ہے … بہت خوب تو چلتے ہیں سرکس۔

بھوں … …بھوں … …

بھوں … …بھوں … …

ہاں اب میں نے اپنی آواز کی مقدارِ ارتعاشات کو سمیٹ کر اتنا محدود کر لیا ہے جتنا کہ انسان سمجھ سکتا ہے۔ اس لیے اب میں آپ تک اپنی آواز پہنچا سکتا ہوں ۔ یہ کام اگر چہ میرے لیے بہت مشکل ہے۔ لیکن میری مجبوری ہے، پتہ نہیں آپ کو میری عمر کا اندازہ ہے یا نہیں ، در حقیقت میں بہت بوڑھا ہو چکا ہوں اور میرے جسم کا زوال شروع ہو چکا ہے۔ جسم کے زوال سے قبل میں اپنی کہانی بیان کر دینا چاہتا ہوں ۔  جس کا یہ مناسب ترین موقع ہے، اگر میں آج بھی اپنی حکایت نہ سنا سکا تو یہ موقع مجھے پھر کبھی میسر نہ ہوگا اس لیے میں اس سنہری موقعے کو ہرگز نہیں گنوانا چاہتا۔ میں زندگی بھر سرکس میں تفریح سے آپ لوگوں کا دل بہلاتا رہا، لیکن آج میں پوری سنجیدگی سے اپنی آپ بیتی سنانا چاہتا ہوں کہ ممکن ہے اس میں بھی کوئی عبرت ہو۔

اس شہر میں سرکس کی آخری پیش کش تکمیل کو پہنچ چکی ہے۔ اب اس شہر میں کوئی سرکس نہیں ہوگا۔ کیونکہ یہ میدان جہاں آپ سرکس دیکھتے آئے ہیں ، سرکار نے اسے ایک غیر مقیم ہندستانی کو بیچ دیا ہے، وہ اس میدان پر ایک عالی شان ملٹی پلیکس سنیما ہال بنوائے گا۔ حکومت نے عوام کی تفریح کی ذمہ داری اب انھیں لوگوں کو دے دی ہے۔ اب یہ ایک ترقی یافتہ شہر ہے، اس لیے ہم جیسے روایتی تفریح فراہم کرنے والوں کے لیے اس شہر میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ ویسے بھی سرکار کا خیال ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں سرکس کے فن کاروں کا عوام سے براہ راست مکالمہ کرنا ایک خطر ناک کھیل ہو سکتا ہے، جس پر روک لگانا بہت ضروری ہے۔ اب تفریح کی ذمہ داری شو کیس سے نکال کر لائے گئے چند افراد پر ہی ہوگی۔ سرکس کو بند کرنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ سرکس کی روایتی تفریح سے باہری ممالک میں ہمارے ملک کی بہت بے عزتی ہوتی ہے۔ وہاں کے لوگ سمجھتے ہیں کہ ہندستان میں اب بھی تفریح کے ساز و سامان میں بس وہی بندر بھالو کا ناچ ہیں ۔ اس لیے اب مغربی ممالک کے تربیت یافتہ ہی عوامی تفریح کا مجاز رکھتے ہیں ۔ اب جب کہ ہمارا ملک جلد ہی ایک ترقی یافتہ ملک بننے جا رہا ہے تو اس میں لوک کلاؤں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہوگی۔

جیسا کہ میں نے عرض کیا، اب اس شہر میں کوئی ایسی جگہ نہیں بچی ہے جہاں سرکس کیا جا سکے۔ تو صاحبان اب جب کہ یہ شہر سرکس سے ہمیشہ کے لیے محروم ہو چکا ہے میں چاہتا ہوں کہ آج آپ حضرات کو اپنی حکایت سنا دوں ۔ کل یہ سرکس پھر کسی دوسرے شہر کا رخت سفر باندھے گا، یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک کچھ شہروں کے میدان ابھی اس طوفان سے محفوظ ہیں ، یہ طوفان مختلف ناموں سے ہمارے سامنے نمودار ہو رہا ہے کبھی کرکٹ کے نام سے، کبھی مال کے نام سے اور کبھی ملٹی پلیکس سنیما ہال کے نام سے، یہ طوفان ہمارے شہروں کی فضاؤں کو یکسر تبدیل کیے دے رہا ہے۔

اب یہ سرکس کسی دوسرے شہر کا رخت سفر ضرور باندھے گا لیکن اب میرا مالک مجھے نئے شہر میں نہیں لے جائے گا۔ مجھے یہیں کچھ دن بھٹکنے کے لیے چھوڑ دے گا اور کچھ دنوں بعد میں معدوم ہو جاؤں گا، ہم کتے فوت ہونے سے قبل ہی لوگوں کی نظروں سے بہت دور نکل جاتے ہیں اور اپنے فنا ہونے کا تماشا نہایت تنہائی میں کرتے ہیں ۔ لیکن اس بات کے امکانات بہت کم ہیں کہ وہ مجھے بھٹکنے کے لیے چھوڑے گا۔ وہ قطعاً نہیں چاہے گا کہ سرکس کا یہ بوڑھا کتا گلیوں میں مارا مارا پھرے یا کوئی دوسرا شخص اسے پکڑ کر پالے، اس بات کے قوی امکانات ہیں کہ وہ مجھے زہر دے کر ہلاک کر دے گا۔ اس لیے میں چاہتا ہوں کہ ہلاکت سے قبل ایک بار آپ صاحبان کو اپنی حکایت سنا دوں ۔

میرا یقین مانیے، میں یہ حکایت آپ کو جبراً نہیں سناؤں گا، آپ جب جی چاہے بیچ میں اٹھ کر جا سکتے ہیں ۔ سرکس کے مالک سے میں نے اجازت لے لی ہے۔ مجھے پوری امید ہے کہ زیادہ تر ناظرین اٹھ کر چلے جائیں گے۔ کچھ لوگ ہوش ربا فلم دیکھیں گے۔ کچھ لوگ گھر جا کر ٹی۔ وی۔ پر خبریں سنیں گے اور کچھ لوگ ہماری بدیسی خواتین فن کاروں کے کرتب دیکھتے ہوئے، جو جذبات برانگیختہ ہوئے ہیں گھر جا کر ان کی تسکین کریں گے۔ لیکن مجھے امید ہے کہ چند لوگ جو ہر قسم کی تفریح میں یقین رکھتے ہیں یہاں تشریف رکھیں گے اور میری حکایت کو ضرور سماعت فرمائیں گے۔ میں نے بھی آج تہیہ کر لیا ہے کہ اگر ایک سامع بھی میسر آ گیا تو میں اپنی حکایت ضرور سناؤں گا۔ یہاں میں ایک بات کی اور وضاحت کرتا چلوں کہ یہ حکایت ایک کتے کی ضرور ہے لیکن مجھے اس بات کا احساس ہے کہ اس کے مخاطب انسان ہیں ، اس لیے اس حکایت میں انسانوں کے بارے میں بھی در آنا فطری امر ہے۔ اب اگر کوئی یہ سوچ کر جا رہا ہے کہ کتے کے بارے میں کیا سنا جائے تو وہ غلطی کر رہا ہے۔ اگر اس حکایت کے مخاطب انسان نہ ہوتے تو یہ حکایت آپ لوگوں کی زبان میں نہ ہو کر محض ایک کتے کی بھوں … …بھوں … … ہوتی۔

آپ سمجھ رہے ہوں گے کہ ہم کتوں کی یہ بھوں بھوں محض بھوں … …بھوں … … ہے۔ اس میں کوئی گفتگو یا مکالمہ نہیں ہوتا ہے۔ لیکن یہ آپ کی غلط فہمی ہے، ورنہ ہماری اپنی ایک مکمل زبان ہے۔ جس میں ہم کتے تمام احساس و جذبات کا اظہار اپنے ہم نواؤں سے کرتے ہیں ۔ لیکن اسے آپ نہیں سن سکتے کیونکہ آپ کی قوت سماعت اور گویائی کی مقدار ارتعاشات بہت محدود ہوتی ہیں ، آپ اس سے کم یا زیادہ مقدار ارتعاشات کو نہیں سن سکتے لیکن ہم کتے انھیں سن سکتے ہیں ۔ اس لیے جب ہم اپنی پوری قوت سماعت و گویائی کا استعمال کرتے ہیں تو آپ کو لگتا ہے کہ وہ آوازیں محض بھوں … بھوں … ہیں ۔ اس میں آپ کی کوئی خطا نہیں ہے، ہم کتے بھی پہلے آپ کی زبان کو محض ایک قسم کی منمناہٹ سمجھتے تھے۔ لیکن ایک طویل ریاضت کے بعد میں نے آپ کی زبان میں مکالمہ سیکھ لیا ہے۔

معاف کرنا ابھی میں نے اپنی زبان کو مکمل زبان کہا ہے اور یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ ہم کتے اس میں تمام احساس و جذبات کا اظہار کر سکتے ہیں ۔ در اصل یہ امر ذرا وضاحت طلب ہے۔ ہماری زبان محض زبانی زبان ہے، جسے آپ بولی بھی کہہ سکتے ہیں ، میں علم لسان سے ناواقف ہوں اس لیے نہیں جانتا کہ آپ اسے زبان کہیں گے یا کچھ اور۔ میری زبان بولی، سنی اور سمجھی تو جا سکتی ہے، لیکن یہ بولے ہوئے لفظ ضابطۂ تحریر میں نہیں لائے جا سکتے۔ ہمارے ہم جنسوں نے اپنی زبان کو تحریری زبان بنانے کی کبھی کوئی سنجیدہ اور اجتماعی کوشش نہیں کی، کچھ انفرادی کوششیں ضرور ہوئیں ، لیکن وہ ناکافی تھیں ، جب میں جوان تھا تو میں نے بھی کئی بار تحریر کرنے کی کوشش کی تھی۔ میں نے اگلے پیروں سے زمین کو خرچ خرچ کر لکھنا چاہا تھا لیکن ناکام رہا تھا۔ زبان انفرادی کوششوں سے نہیں بنتی۔

مجھے نہیں معلوم کہ آپ لوگ میری اس بات سے کتنا اتفاق کریں گے لیکن میرا خیال ہے کہ انسان کی سب سے بڑی ایجاد تحریر ہے جب کوئی بات تحریر میں آ جاتی ہے تو وہ بات اگلی نسلوں تک آسانی سے منتقل ہو جاتی ہے۔ اور اس طرح تحریری زبان میں بسا ہوا علم بھی دوسری نسلوں تک منتقل ہو جاتا ہے۔ جس سے اس کے علم کا خزانہ بڑھتا جاتا ہے۔ جب کہ ہم کتوں کی ہر نسل کو اپنا کنوا آپ کھودنا پڑتا ہے۔ اسی علم کی بنیاد پر انسان نے ایسے ایسے کارنامے انجام دیے ہیں کہ ہم کتے تو کتے خود انسان حیران ہیں کہ وہ کس منزل پہ آ گیا ہے۔ افسوس کہ ہم کتوں نے بولے ہوئے لفظوں کو ضابطۂ تحریر میں لانا نہیں سیکھا۔ وگرنہ ہم کتے انسان سے زیادہ فرتیلے تھے، اس سے زیادہ قوت سماعت تھی، اور سونگھنے میں بھی ہم انسان سے میلوں آگے تھے۔ علم کیمیا میں تو ہم تہلکہ مچا سکتے تھے لیکن تحریری زبان کے نہ ہونے سے کچھ نہ کر سکے۔ مجھے ان مفکروں اور فلسفیوں پر ہنسی آتی ہے جو بولے ہولے لفظوں کو تحریری لفظوں سے مقدم و مقدس سمجھتے ہیں ۔

اس سے قبل کہ میں اپنی حکایت سنانا شروع کروں آپ کے گوش گزار کر دوں کہ یہ حکایت نہایت بے ترتیب اور بد نظم ہوگی، کچھ ضروری تفصیلات بیان سے رہ بھی سکتی ہیں اور کچھ غیر ضروری باتیں دہرائی بھی جا سکتی ہیں ۔ اگر ایسا ہوا تو اس میں میری کوئی خطا نہیں ہوگی۔ یہ تو اس زبانی بیانیہ کی خامی ہے۔ کاش مجھے لکھنا آتا ہوتا تو میں اپنی کہانی کو کئی کئی بار لکھ کر، اس کی ترتیب و تہذیب کر کے، نئی نئی تکنیکوں کا استعمال کر کے ایک اچھی کہانی بنا دیتا لیکن آپ کو یہ میری داستان سننے پر ہی اکتفا کرنا ہوگا، میں لکھ نہیں سکتا۔ لیکن میں اس حکایت میں دلچسپی پیدا کرنے کے لیے کسی اداکار کی طرح اپنے بیان میں اداکاری کر کے، الفاظ میں زیر و بم لا کر اور حرکات و سکنات کو شامل کر کے تھوڑی دلچسپی کا سامان فراہم کرنے کی کوشش کروں گا۔

اب جب کہ میں بوڑھا ہو چکا ہوں اور اپنی اس زندگی سے مجھے کچھ خاص توقع نہیں ہے تو شاید میں زیادہ معروضی ہو کر اپنی زندگی کو دیکھ اور بیان کر سکوں ۔ اس بڑھاپے میں جب میں اپنی بیتی ہوئی زندگی کی طرف مڑ کر دیکھتا ہوں تو مجھے بہت سے واقعے یاد آ رہے ہیں ۔ کئی تلخ ہیں اور کچھ خوش نما بھی۔ لیکن مجموعی طور پر میں اپنی زندگی سے مطمئن ہوں ۔ جو تلخ یادیں ہیں ، ان کی بھی بس یادیں ہی ہیں ان کے تئیں بھی اب کوئی غصہ نہیں ہے، خوشی اس بات کی ہے کہ میں نے اپنی زندگی میں بہت ساری باتیں سیکھی ہیں ، کچھ علم بھی حاصل کیا ہے، جب کتوں کی ارتقا کی کہانی لکھی جائے گی تو شاید اس میں میرا بھی ذکر ہو کہ میں نے ایک طویل ریاضت کے بعد انسانوں سے مکالمہ کرنا سیکھ لیا تھا۔ لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ ارتقا کی تاریخ بھی انسان ہی لکھے تو لکھے، ہم کتوں نے لکھنا ابھی بھی نہیں سیکھا ہے۔ ظاہر ہے اگر ارتقا کی یہ تاریخ کوئی کتا لکھتا تو یقیناًانسانوں کے ذریعے لکھی گئی کتوں کی تاریخ سے تھوڑی مختلف ہوتی۔ پہلے میں سمجھتا تھا کہ جہاں علم ہے وہاں تعصبات کم ہوں گے لیکن میرا تجربہ اس سے مختلف کہانی کہتا ہے۔ بہر حال کتے کی تاریخ جو بھی لکھے یا نہ لکھے ابھی میں آپ کو اپنی کہانی تو سنا ہی سکتا ہوں ۔

یہ لمبی چوڑی تمہید سن کر بہت سارے سامعین چھوڑ کر جا چکے ہیں ۔ در اصل میں نے یہ تمہید جان بوجھ کر اتنی طویل کر دی تھی۔ کیونکہ مجھے خوف تھا کہ میری حکایت سنتے سنتے آپ میں سے کوئی تشدد پر نہ اتر آئے اور مجھ پر ڈنڈے برسانے لگے۔ میں نے تجربے سے سیکھا ہے کہ انسانوں میں جو لوگ اتاولے اور بے صبرے ہوتے ہیں وہ فطری طور پر تشدد پسند بھی ہوتے ہیں ۔ جن میں ضبط کا مادّہ ہوتا ہے وہ تشدد نہیں کر سکتے ایسا تو میں نہیں کہہ سکتا لیکن اس کے امکانات بہر حال کم ہو جاتے ہیں ۔ اس لیے اپنی حکایت تب شروع کر رہا ہوں جب کہ اس محفل سے بے صبرے لوگ جا چکے ہیں ، اب میں آپ کا اور امتحان نہیں لوں گا۔

تو میں اب اپنی حکایت شروع کرتا ہوں ملاحظہ فرمائیے۔ … کہاں سے شروع کروں ؟ … ذرا مجھے سوچنے دو۔

ہاں … اپنی پیدائش سے ہی گفتگو کا آغاز کرنا زیادہ مناسب ہوگا، ظاہر ہے انسانوں کی طرح میرا بھی یہ تجربہ ذاتی حافظے کا حصہ نہیں ہے۔ اس وقت کی کوئی بات مجھے یاد نہیں تھی لیکن میری حکایت کا یہ حصہ میری ماں نے مجھے تھوڑا بڑے ہونے پر سنایا تھا، جو اب میرے حافظہ کا بھی حصہ بن چکا ہے۔

 

وہ ایک برسات کی رات تھی، دو بج رہے تھے، چاروں طرف اندھیرے کی ایک دبیز پرت چھائی ہوئی تھی، تھوڑی تھوڑی دیر پر ہلکی ہلکی بارش ہونے لگتی تھی یہ سلسلہ شام سے ہی جاری تھا اس لیے زمین کافی نم تھی اور وہ بھی رات کی طرح سیاہ لگ رہی تھی اس لیے اندھیرا اور بڑھ گیا تھا۔ پورا ماحول انسانی آوازوں سے یکسر خالی تھا، بارش کی بوندیں ایک آسیب زدہ ماحول کی تخلیق کر رہی تھیں ، جب بارش بند ہوتی تھی تو بھی اس گھر کے پاس لگے ایک بڑے سے برگد کے درخت سے بوندیں ٹپکتی رہتی تھیں ۔ ماحول جھینگر اور کچھ دیگر برساتی کیڑے مکوڑوں کی آوازوں سے گونج رہا تھا۔ لیکن بیچ بیچ میں جب کوئی کچا مکان گرتا تھا تو ایسا لگتا تھا جیسے وہ آسیب کسی پر حملہ آور ہوا ہو۔ میری ماں ایک مکان کے کھنڈر میں چھپی بیٹھی تھی وہ مکان پچھلے ہی سال کی بارش میں گر گیا تھا اور اب وہاں کوئی نہیں رہتا تھا۔ میری ماں کے درد زہ کی شروعات ہو چکی تھی۔ زمین سے آسمان تک تاریکی کے سوا کچھ دکھائی نہ دیتا تھا۔ سارا آسمان بادلوں سے گھرا ہوا تھا اس لیے چاند تاروں کا کہیں دور دور تک پتا نہ تھا۔

ایسے میں اچانک میری ماں کو کسی کے قدموں کی آہٹ سنائی پڑی، غور کرنے پر دو شخص ادھر ہی آتے ہوئے محسوس ہوئے۔ عام حالات ہوتے تو شاید اس وقت میری ماں بھونک بھونک کر ان دونوں کو دوڑا لیتی۔ لیکن وہ اس وقت درد زہ میں مبتلا تھی اس لیے دبکی ہوئی ایک کونے میں چھپی بیٹھی رہی۔ وہ دونوں شخص اس کھنڈر کے بغل والے گھر میں سیندھ لگانے لگے۔ مٹی کی دیوار وہ بھی بارش میں بھیگی ہوئی، دونوں نے بہت جلد سیندھ لگا دی اور ایک آدمی گھر کے اندر داخل ہو گیا۔ اب میری ماں سے یہ منظر دیکھا نہ گیا اور وہ اچانک تیز تیز بھونکنے لگی۔ اس کے بھونکتے ہی اس سیندھ سے ٹارچ کی تیز روشنی باہر نکلی۔ یہ منظر دیکھ کر باہر والا آدمی ماں کی طرف دوڑا، اس کے پاس لاٹھی تھی اس نے جاتے جاتے میری ماں کے اوپر ایک بھر پور وار کیا۔ میری ماں درد سے چیخ اٹھی کہ اتنے میں اس کا دوسرا ساتھی سیندھ سے باہر نکلا ا س کے پاس بیلچا تھا اور اس نے سارا غصہ میری ماں پر اتار دیا۔ اس نے بیلچے سے میری ماں پر دو وار کیے ایک پیٹ پر اور ایک سر پر اور بھاگتا چلا گیا۔ میری ماں یہ وار برداشت نہ کر سکی، اس کی آنکھیں چوندھیا گئیں ، اور غشی سی طاری ہو گئی کچھ دیر وہیں پڑی رہی، لیکن خوف سے جلد ہی اٹھ کر بھاگی۔ اس کا دماغ کام نہ کر رہا تھا، اسے سمتوں کا احساس نہ رہا اور کافی دیر تک ایک دائرے میں گھومتی رہی، کچھ دیر تک دائرے میں چکر کاٹنے کے بعد بڑی مشکل سے وہ اس جگہ سے نکل پائی، تھوڑی دور تک بھاگی اور ایک جگہ گر گئی، وہیں پر اس نے ہم پانچ بچوں کو جنم دیا تھا جن میں سے دو مرے ہوئے پیدا ہوئے تھے۔

جس گھر میں وہ چور گھسا تھا اس گھر کے لوگ جاگ گئے تھے، انھوں نے شور مچایا تو گاؤں کے دوسرے لوگوں نے بھی شور مچانا شروع کر دیا تھا، کچھ لوگ باہر نکل کر آئے اور چور کو دوڑا کر پکڑنے کی کوشش کی لیکن کوئی بھی چوروں تک نہ پہنچ سکا وہ بھاگ گئے۔ جب وہ چوروں کو پکڑنے سے ناکام ہو کر واپس آئے تو اسی گھر کے سامنے جمع ہو کر باتیں کرنے لگے۔ ان لوگوں کے ہاتھ میں ٹارچیں تھیں اور انھیں جلا جلا کر ادھر ادھر دیکھ رہے تھے۔ میری ماں ان لوگوں سے کچھ ہی دور پر پڑی درد سے کراہ رہی تھی۔ اس کی کراہنے کی آواز سن کر ان میں سے کسی نے ماں کو ڈانٹا، خوف سے میری ماں کچھ لمحوں کے لیے خاموش ہو گئی لیکن درد اتنا شدید تھا کہ وہ زیادہ دیر تک خاموش نہ رہ سکی اور کچھ ہی دیر میں پھر سے اس امید پر کراہنے لگی کہ بچوں کو دیکھ کر شاید کسی کو ترس آ جائے لیکن اس بار ماں کے کراہنے کی آواز سن کر ایک شخص نے پاس میں پڑے ہوئی ایک اینٹ اٹھائی اور وہیں سے کھڑے کھڑے ہم لوگوں کی طرف اچھال دی۔ اینٹ میری ایک زندہ بہن کو لگی، ہم سب پہلے سے ہی بری طرح سے زخمی زندگی اور موت کے درمیان جھول رہے تھے، اینٹ کے وار سے میری بہن تاب نہ لا سکی اور خاموش ہو گئی۔ اسی وقت ایک آدمی ہاتھ میں لاٹھی لیے ہوئے ہماری طرف دوڑا۔ ماں نے اسے ہماری طرف آتے ہوئے دیکھا تو اس نے نہ جانے کیسے ہمت جٹائی اور ہم تینوں بچوں کو اپنے منہ میں دبا کر بھاگی۔ لیکن میری زخمی بہن ماں کے منہ سے پھسل گئی شاید وہ مر چکی تھی۔ اس لیے ماں نے ہماری جان بچانے کے لیے اسے دوبارہ اٹھانے کی کوشش نہ کی اور بھاگتی رہی۔ اس کے منہ میں میری بھی حالت کافی خراب تھی، در اصل ماں کے دانت مجھے بری طرح سے چبھ رہے تھے، میں درد سے بے جان ہوا جا رہا تھا۔ ماں ہم دونوں کو منہ میں دبائے کچھ دیر تک دوڑتی رہی پھر ایک پرانی جھونپڑی میں گھس گئی۔

اس جھونپڑی کے پیچھے ایک کچی کوٹھری تھی، جس میں صرف ایک بزرگ رہتے تھے دوسرا کوئی نہ تھا، اس کے تین بیٹیاں تھیں بیٹا کوئی نہ تھا اور ان تینوں کی شادیاں ہو چکی تھیں ، جو اب اپنی اپنی سسرال میں رہتی تھیں اب یہاں اس کا کوئی نہ تھا۔ وہ بزرگ میری ماں سے ہمدردی رکھتا تھا اور کبھی کبھی ماں کو کچھ کھانے پینے کو بھی دے دیتا تھا۔ وہ آدمی جو لاٹھی لے کر ہمیں دوڑا رہا تھا زیادہ دور تک نہ آیا تھوڑی دور دوڑانے کے بعد واپس چلا گیا تھا۔ میری ماں خوف سے چپ چاپ اس جھونپڑی میں گھس گئی کوئی آواز کیے بغیر، اس بزرگ کو بھی ہمارے آنے کی خبر نہ لگ سکی۔ ماں رات بھر درد سے تڑپتی رہی، لیکن اس بار منہ سے ذرا بھی آواز نہ نکالی، ہم دونوں کی بھی حالت کافی خراب تھی۔ کسی طرح رات گزری، صبح ہوئی تو ہم سب کی حالت کچھ بہتر تھی۔ ہم دونوں نے اپنی ماں کے تھن سے دودھ پینا شروع کر دیا۔ صبح سورج نکلنے سے بہت پہلے وہ بزرگ اٹھ گیا تھا اس نے ہمارے دودھ پینے کی آواز سنی تو ہماری طرف آیا اور ہم لوگوں کو دیکھ کر بہت خوش ہوا، اس نے ماں کو کچھ کھانے کے لیے دیا۔ دھیرے دھیرے حالات میں سدھار آنے لگا۔ جب اس بزرگ کا ہمیں سہارا مل گیا تو ماں نے گھوم گھوم کر باقی تینوں بھائی بہنوں کے بارے میں جاننے کی کوشش کی لیکن کسی کے زندہ ہونے کی کوئی خبر نہ مل سکی۔

اف بہت تھک گیا ہوں … اب اس وقت میں انسانوں کی محدود مقدارِ ارتعاشات میں اور نہیں بول سکتا۔ میرا یہ انسانوں کی آواز میں بولنا ایسا ہی ہے جیسے کسی انسان سے کہا جائے کہ وہ منہ سے کوئی آواز نکالے بغیر صرف منہ چلا چلا کر کسی کو چڑاتا رہے۔ گالی گلوج کرنا یا تقریر کرنا اور بات ہے، بھلا کوئی کتنی دیر تک کسی کو صرف منہ چلا چلا کر چڑا سکتا ہے۔ اس لیے اب مجھے اپنی باقی حکایت سنانے کے لیے اپنی آواز کی پوری قوت کے ساتھ تھوڑی دیر بول لینے دیجیے۔ اس سے مجھے تھوڑا آرام مل جائے گا اور ایک بار پھر میں آپ انسانوں کی محدود مقدارِ ارتعاشات میں بولنے کے لیے تیار ہو جاؤں گا۔

بھوں …… بھوں ……

بھوں ……بھوں ……

 

آہ بہت تھک گیا تھا۔ اب جا کر تھوڑا آرام ملا ہے۔

ہاں … تو میں کہاں تک پہنچا تھا؟ اب آگے کیا سنانا ہے؟

……  کیا؟ اس بزرگ کی جھونپڑی میں سہارا ملنے تک؟ اچھا اچھا! یاد آ گیا … ہاں وہ سہارا تو مل گیا تھا … پھر اس میں آگے کیا بتاؤں … سوانگ بہت ہے رات تھوڑی … مجھے ڈر ہے کہ اگر میں ایک ایک بات سنانے لگا تو آپ بھی چھوڑ کر چل دیں گے اس لیے میں چاہتا ہوں کچھ خاص خاص واقعے سنا دوں جو میری زندگی کے ناقابل فراموش حصے ہیں ورنہ رات ختم ہو جائے گی اور قصہ نہیں ختم ہوگا۔ … لیکن اس سہارے کا ایک واقعہ سنانا بہت ضروری ہے اسے سناتا چلوں پھر آگے بڑھوں گا۔ … ہاں وہ سہارا تو مل گیا تھا …لیکن کتنے دن تک؟ ابھی کوئی چار مہینے ہی بیتے تھے کہ ایک ایسا واقعہ ہوا کہ اس کے بعد میں اس دنیا میں بالکل بے یار و مددگار ہو گیا تھا۔

ہوا یوں تھا، جیسا کہ میں نے بیان کیا اس بزرگ کے صرف تین بیٹیاں ہی بیٹیاں تھیں بیٹا کوئی نہ تھا اور وہ بھی اپنی سسرال میں رہ رہی تھیں ، لیکن اس کا ایک بھائی تھا، اسے کسی نے بتایا کہ چونکہ اس کے بھائی کی زیادہ تر جائداد گھر اور زمین پشتینی ہیں اس لیے اگر اس کا بھائی اپنی جائداد اپنی بیٹیوں کے نام لکھوانے سے پہلے مر جائے تو بھائی کی جائداد اسے مل سکتی ہے۔ اسی لالچ میں ایک رات اس بزرگ کے بھتیجوں نے آ کر اپنے انگوچھے سے اس کا گلا دبا کر مار دیا۔ مرتے وقت اس بزرگ کے گلے سے عجیب قسم کی آواز نکل رہی تھی کچھ کچھ ہم کتوں جیسی شاید اس نے پوری طاقت لگا دی تھی اس لیے اس کی آواز کی مقدار ارتعاشات بڑھ کر ہماری آواز کے قریب پہنچ گئی تھیں ۔ میری ماں نے اس بزرگ کو بچانے کی بہت کوشش کی شور بھی مچایا، ان بھتیجوں پر حملہ بھی کیا، ماں نے اسے کاٹ بھی لیا، میں نے بھی اپنے بھر کوشش کی لیکن انھوں نے ہم دونوں کو ڈنڈے سے مار مار کر بے حال کر دیا… ہم کچھ نہ کر سکے۔ اسے مارنے کے بعد دونوں بھائی اس گھر کی ساری قیمتی چیزیں اٹھا لے گئے۔ اور تھوڑی دیر بعد وہ خوب تیز تیز چیخنے لگے، دوڑو دوڑو میرے چچا کو ڈاکوؤں نے مار دیا اور سارا سامان اٹھا لے گئے کچھ دیر میں محلے کے لوگ آ گئے ان کے آنے کے بعد اوہ بھتیجے چیخ مار مار کر رونے لگے۔

ان لوگوں نے گاؤں والوں کو بتایا کہ میرے چچا کو ڈاکوؤں نے مار دیا اور سارا قیمتی سامان اٹھا لے گئے۔ جب وہ یہ جھوٹی کہانی سنا رہے تھے میری ماں نے بہت شور مچایا کہ یہ دونوں جھوٹ بول رہے ہیں اور اپنی زبان میں سچائی بتانے کی کوشش کی لیکن کوئی نہ سمجھ سکا میری ماں کو انسانوں کی زبان نہیں آتی تھی، اس وقت تک مجھے بھی نہیں آتی تھی اس طرح سچائی لوگوں کے سامنے نہ آ سکی۔ لیکن وہ دونوں بھتیجے سمجھ گئے تھے کہ میری ماں کیا کہنا چاہ رہی ہے اس لیے ان دونوں نے میری ماں کو بھی ٹھکانے لگانے کی سوچ لی تھی۔ ایک دن انھوں نے میری ماں کے کھانے میں زہر ملا دیا۔ وہ نہ جانے کون سا زہر تھا اس کا اثر دھیرے دھیرے ہوا، پہلے میری ماں سست سی پڑی، پھر اس کا پاخانہ پتلا ہونے لگا، دھیرے دھیرے وہ پونکنے سی لگی۔ جسم بالکل ڈھلنے لگا، چلنے پھرنے کی تو دور اٹھنے بیٹھنے کی بھی طاقت نہ رہی۔ سارے بال جھڑنے لگے، جسم سے بدبو آنے لگے۔ بدبو کی وجہ سے پہلے گاؤں والوں نے اسے خوب مارا کہ شاید مار کے ڈر سے وہ کسی طرح گاؤں کے باہر بھاگ جائے لیکن وہ چپ چاپ مار کھاتی رہی اس میں چلنے کی بالکل طاقت نہ رہی تھی۔ جب وہ نہ بھاگی تو کچھ لوگ اسے زندہ ہی اٹھا کر گاؤں کے باہر پھینک آئے، دو دن تک وہیں پڑے رہنے کے بعد وہ فوت ہو گئی۔ میں خاموش تماشائی بنا اس کے ارد گرد منڈراتا رہا لیکن کچھ نہ کر سکا۔ اس کے بعد میں بالکل یتیم بے یار و مدد گار زندگی کے تھپیڑوں سے جوجھتا رہا اور جیتا رہا۔

مجھے افسوس ہے کہ یہ حکایت کچھ زیادہ ہی دکھ بھری ہوتی جا رہی ہے لیکن زندگی میں اور ہے ہی کیا؟ جب زندگی اتنی حرص و ہوس سے بھری ہو، تشدد اور تعصب سے بھری ہو۔ تو اس کا انجام دکھ کے سوا اور کیا ہوگا؟ … موت؟ موت تو انجام ہے دکھ کا، جس میں زندگی کے تمام دکھ بھیانک ترین شکل میں اجاگر ہوتے ہیں ۔ کبھی کتوں کی پھولی اور سڑتی ہوئی لاش دیکھی ہے؟ بکھرتے ہوئے عناصر کو ہوا میں ملتے ہوئے دیکھا ہے؟ ہم کتوں کی زندگی میں بس یہی ہوتا ہے اور کچھ نہیں ۔ اس چند روزہ تماشے کے بعد سب کچھ ختم ہو جاتا ہے زندگی بھی اور دکھ بھی۔

ماں کے فوت ہونے کے بعد ہم دونوں بھائیوں میں کوئی خاص تعلق نہ رہا، ہمارے سماج میں صرف بہت چھوٹے بچوں سے رشتہ قائم رکھا جاتا ہے، اس کے تحفظ اور دیکھ بھال کی روایت ہے۔ اس کے بعد بھائی بہن یا بچے کا کوئی رشتہ باقی نہیں رہتا۔ اسی لیے ہمارا سماج بہت سی برائیوں سے پاک ہے۔ در اصل انسانوں میں اپنے بچوں ، عزیزوں اور دیگر اقربا کے لیے یہاں تک کہ اپنے ہم مذہب اور ہم قوموں کے لیے بھی اتنا کچھ جمع کرنے کی ہوس ہے کہ اس کے واسطے کچھ بھی کر گزرتے ہیں ۔ اقربا پرستی نے انسانوں کو اتنے خانوں میں تقسیم کر دیا ہے اور دوسرے خانوں کے لیے اتنا تعصب اور تشدد ذہنوں میں بھر دیا ہے کہ اچھے خاصے بظاہر مہذب اور روادار انسان بھی اندر سے تعصب اور تشدد گزیدہ ہوتے ہیں ۔ ہم کتوں میں بہت ساری انسانی برائیاں محض اسی لیے نہیں ہے کیونکہ ہم میں اقربا پرستی نہیں ہے۔

 

یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں جوان ہو چکا تھا۔ برسات کا موسم تھا، اس دن صبح سے ہی تیز ہوائیں چل رہی تھیں ، دھوپ بالکل نہیں نکلی تھی، بادل کبھی کبھی بہت دبیز اور کالے ہو جاتے تھے جس سے روشنی بہت کم ہو جاتی تھی۔ دن میں ہی اندھیرا سا ہونے لگتا تھا اور کبھی کبھی بادل ہلکے ہو جاتے تھے تو روشنی بڑھ جاتی تھی۔ بادلوں کی یہ آنکھ مچولی کئی گھنٹوں سے جاری تھی۔ پربا ہوائیں بہت تیز چل تھیں ، ایسا لگ رہا تھا جیسے ہم سے کچھ دوری پر بارش ہو رہی ہو، ہوا وہاں سے بھیگ کر آ رہی تھی اس لیے بہت ٹھنڈی تھی۔ میں گاؤں سے تھوڑی دور تالاب کے کنارے ایک املی کے درخت کے نیچے بیٹھا ہوا تھا، کسی بھی وقت بارش شروع ہونے کا اندیشہ تھا اس لیے لوگ گھر سے بہت کم نکل رہے تھے۔ بس کچھ کسان کھیتوں میں کام کر رہے تھے۔

اچانک تیز بارش شروع ہو گئی، ہوا بہت تیز تھی اس لیے بارش کی بوندوں کو اڑا لے جا رہی تھی، ہوا کے تیز جھونکوں سے بارش کی بوندیں ترچھی گر رہی تھیں ۔ میں چپ چاپ درخت کے نیچے بیٹھا بارش سے بچنے کی کوشش کرتا رہا۔ لیکن ہوا کے جھونکے مجھے بار بار بھگو دے رہے تھے۔ کچھ دیر بعد پانی بہہ بہہ کر میرے نیچے آنے لگا۔ پانی بہت ٹھنڈا تھا اس لیے میں کھڑا ہو گیا، چیونٹیوں کے بلوں میں بھی پانی پہنچ چکا تھا جس سے وہ بھی اپنے بلوں سے باہر آ کر درخت پر ادھر ادھر رینگ رہی تھیں ۔ اب املی کا چھتنار درخت بھی پوری طرح سے بھیگ کر سکڑ چکا تھا اس لیے مجھے بارش سے نہیں بچا پا رہا تھا۔ تقریباً ایک گھنٹے تک موسلا دھار بارش ہوتی رہی، دور دور تک کوئی نظر نہ آ رہا تھا بس کبھی کبھی اکا دکا کوّے ادھر سے ادھر اڑتے ہوئے نظر آ جاتے تھے۔ پتہ نہیں درخت مستی میں جھوم رہے تھے یا اپنے وجود کیو بچانے میں لگے ہوئے تھے، تالاب میں بارش کی بوندیں حباب بن بن کے فنا ہو رہی تھیں اور میں بارش میں بھیگ بھیگ کر اپنے آپ میں سمٹتا جا رہا تھا۔

شروع شروع میں تو بارش مجھے بہت اچھی لگی لیکن تھوڑی دیر بعد سردی لگنے لگی، ہوا کے جھونکوں کے ساتھ سرد لہریں میرے اندر تک سرایت کرتی جا رہی تھیں جس سے مجھ پر ایک عجیب سی کپکپی طاری ہونے لگی اور میرا جی چاہنے لگا کہ کہیں ایسی جگہ پناہ مل جائے جہاں بارش سے بچ سکوں ۔

تقریباً ایک گھنٹے تک بارش ہونے کے بعد تھوڑی تھمی تو میں جلدی سے گاؤں کی طرف چل پڑا۔ گاؤں کے کنارے ایک جھونپڑی پڑی تھی وہاں پہنچ کر میں اس کے سائے میں ٹھہر گیا اور سونگھ کر اندر کا جائزہ لیا، وہاں کوئی انسان نہیں تھا اور کوئی ہے یا نہیں ؟ اس پر میں نے کوئی توجہ نہیں دی اور میں جھوپڑی کے اندر داخل ہو گیا وہاں ایک بھینس بندھی ہوئی چارا کھا رہی تھی، ایک گوشے میں ایک کتیا بیٹھی ہوئی تھی جو عمر میں مجھ سے کچھ بڑی تھی، میں اس کے قریب گیا وہ سردی سے کانپ رہی تھی اس لیے میں نے اس کی گردن اور چہرے کے آس پاس اپنے اگلے پیروں سے چھو کر جائزہ لینا چاہا کہ کہیں بخار تو نہیں ہے۔ میرے چھونے سے اس کے بدن میں بھی حرکت ہوئی اس نے بھی میرے بدن کو چھو کر رد عمل ظاہر کیا۔ تھوڑی دیر تک ہم دونوں ایک دوسرے کو چھوتے اور اچھلتے کودتے رہے جس سے ہمارے جسموں میں تھوڑی حرارت پیدا ہوئی اور سردی کا اثر کم ہوا۔ جب سردی کم ہوئی تو اس نے کچھ زیادہ ہی اگلے پیروں اور منہ کو چلانا شروع کر دیا، کبھی وہ میرے منہ پر سہلاتی کبھی پیٹھ پر، اسی اثنا میں مجھ میں ایک عجیب سے لذت آمیز سنسناہٹ پیدا ہو گئی اور مجھے کچھ پتا ہی نہ چلا کہ میں کب اس کے پچھلے حصے پر سوار ہو گیا۔

باہر بارش بالکل بند ہو چکی تھی، لوگ گھروں سے باہر نکل کر اپنے ضروری کاموں کو نمٹا رہے تھے بادل ابھی بھی گھرے ہوئے تھے کبھی بھی دوبارہ بارش شروع ہو سکتی تھی۔ اچانک ایک آدمی جھوپڑی میں داخل ہوا اس کے ہاتھوں میں ایک جھوائی تھی جس میں بھوسا اور کٹی ہوئی گھاس تھی۔ اس نے ہم سے کوئی رد عمل ظاہر کیے بغیر جھوائی بھینس کے سامنے رکھ دی۔ لیکن میں اسے دیکھتے ہی گھبرا گیا۔ میں اسے اچھی طرح پہچانتا تھا وہ مجھے اکثر دوڑا دوڑا کر مارتا تھا۔ جیسے ہی وہ آدمی بھینس کے سامنے چارا رکھنے کے لیے جھکا میں نے بھاگنے کی کوشش کی لیکن ایسا نہ ہو سکا کیونکہ میرا عضوِ تناسل اس کتیا کے ساتھ جڑا ہوا تھا۔ اس نے بھینس کے سامنے چارا رکھا اور آرام سے ہم سے دور والے کونے کی طرف چل دیا میں نے سوچا شاید ہم دونوں بچ گئے، وہاں ایک ڈنڈا رکھا ہوا تھا اس نے وہ ڈنڈا اٹھایا اور ہماری جانب چل پڑا، کوئی جلد بازی دکھائے بغیر ہمارے سامنے آ کھڑا ہوا اور بڑے ہی اطمینان سے ایک ڈنڈا کھینچ کر مارا۔ اف… بہت تیز وار تھا، ہم دونوں درد سے کراہ اٹھے۔ ایک بار پھر ہم دونوں نے بھاگنے کی کوشش کی لیکن یہ کوشش بھی علیحدہ علیحدہ سمتوں میں تھی اس لیے ہم دونوں بھاگ نہ سکے۔ اس کے بعد اس نے پورا زور لگا کر دو تین وار اور کیے۔ آہ … یہ وار اتنے شدید تھے کہ جان سی نکل گئی، جسم سنسنا گیا۔ ہم دونوں ان حملوں کی تاب نہ لا سکے اور وہیں گر پڑے۔ ہم دونوں کو گرا دیکھ کر وہ آرام سے وہیں ٹہلنے لگا۔ کچھ دیر میں ہم لوگوں کے ہواس درست ہوئے تو ہم دونوں نے اٹھ کر ایک بار پھر بھاگنے کی کوشش کی، جیسے ہی ہم بھاگنے والے تھے اس نے پھر اسی ڈنڈے سے ہم پر وار کیا۔ اس بار اس نے خاص اسی مقام پر وار کیا جس مقام پر ہم ایک دوسرے سے جڑے ہوئے تھے۔ ہم دونوں تلملا اٹھے۔ اسی دوران کچھ آدمی اور آ گئے ان نئے لوگوں میں سے کچھ تو محض تماشائی بن کر ہمارے پٹنے کا تماشا دیکھتے رہے اور کچھ پیٹنے میں بھی شامل ہو گئے۔ اب وہ لوگ زیادہ تر اسی مقام پر وار کر رہے تھے، وہ حصہ ہم دونوں کے لیے عذاب جاں بن گیا۔ تقریباً آدھے گھنٹے تک ہم پٹتے رہے، پٹتے پٹتے لہولہان ہو گئے، تکلیف سے ہم پر غشی سی چھا گئی، دماغ نے کام کرنا بند کر دیا اور آخر کار ہم دونوں بے ہوش ہو گئے۔

جب دوبارہ ہوش آیا تو وہ لوگ وہاں سے جا چکے تھے۔ اب ہم دونوں ایک دوسرے سے الگ ہو چکے تھے۔ زخموں سے ہم دونوں لت پت تھے، کسی طرح گھسٹ گھسٹ کر ہم دونوں گاؤں سے دور نکل گئے۔ میں مہینوں تک گھسٹتا رہا، نہ جانے کیا کیا کھا کر زندہ رہا لیکن گاؤں کے قریب نہ گیا۔ اس واقعے کے بعد میں نے اس کتیا کو کبھی نہیں دیکھا پتہ نہیں وہ مر گئی تھی یا کسی دوسرے گاؤں بھاگ گئی تھی۔

اس واقعے کے وقت میں نیا نیا جوان ہوا تھا اور اس سے قبل مجھے جنسیت کا نہ کوئی علم تھا نہ تجربہ۔ اس دن میں زندگی میں پہلی دفعہ جنسی فعل میں ملوث ہوا تھا۔ وہ بھی انجانے میں ، میں کب کیسے اس فعل میں شامل ہو گیا کچھ پتا ہی نہ چلا تھا۔ چند مہینوں بعد میں بالکل ٹھیک ہو گیا تھا اور گاؤں واپس آ گیا تھا، جیسے انسان اب جنگل میں نہیں رہ سکتے، ہم کتے بھی اب بستی سے دور زیادہ دنوں تک نہیں رہ سکتے۔ اگرچہ ہماری نسل کے باقی جانور ابھی بھی جنگل میں رہتے ہیں ۔ اس واقعے کے بعد میرا نہ جانے کتنی کتیوں سے سابقہ پڑا لیکن کبھی کسی کتیا سے جنسی فعل میں شامل نہ ہو سکا۔ ایسا نہیں تھا کہ میرے جسم میں جنسی عمل کی قوت نہ رہی ہو، لیکن جب بھی کوئی کتیا میرے پاس آتی اور مجھے رجھانے کی کوشش کرتی مجھے وہی واقعہ یاد آ جاتا اور میں اس سے دور بھاگ کھڑا ہوتا، کچھ تو میری مردانگی پر بھی شک کرنے لگی تھیں لیکن میں نے کبھی ان کی باتوں پر توجہ نہیں دی اور ذلالت برداشت کرتا رہا، انسان کے ہاتھوں ذلیل ہونا تو ہماری فطرت میں شامل ہے، لیکن اس واقعے کے بعد میں اپنی نسل میں بھی ذلیل ہوتا رہا۔

 

اف! بہت تھک گیا ہوں … آپ صاحبان کی زبان میں ہم کتوں کو بولنا بہت مشکل کام ہے۔ اب مجھے پھر سے تھوڑے آرام کی ضرورت ہے۔ کیا کروں ؟ … اگر میں آرام کرتا ہوں تو یہ خوف ہے کہ باقی ناظرین بھی چلے جائیں گے۔ لیکن مجھ سے اب آپ کی زبان میں بولا نہیں جا رہا ہے۔ دیکھو میں ہانف رہا ہوں ، میرے منہ سے جھاگ نکل رہی ہے۔ اب کیا کروں … ایسا کرتا ہوں ، اب تھوڑی دیر میں اپنے سرکس کے کرتب دکھاتا ہوں ، جب تک میری زبان کو تھوڑا آرام مل جائے گا اور آپ کا دل بھی بہلا رہے گا۔ اس کے بعد میں اپنی حکایت پھر سے جاری رکھ سکوں گا۔

………………

 

پہلی دیوالی کے وقت میں محض دو مہینے کا بے حد کمزور اور بیمار پلا تھا۔ اس لیے میری ماں نے مجھے گاؤں سے دور ایک محفوظ جگہ پر پہنچا دیا تھا۔ اس دیوالی میں میں نے گاؤں میں بہت ساری روشنیاں تو دیکھی تھیں لیکن یہ تماشا میں نے بہت دور سے دیکھا تھا۔ اسے دیکھ کر ایسا لگ رہا تھا جیسے بہت سارے جگنو جگمگا رہے ہوں ۔ پٹاخوں کی آوازیں بھی ہلکی ہلکی پہنچ رہی تھیں لیکن وہ کیا ہو رہا تھا اور یہ آوازیں کیسی تھیں اس وقت میں کچھ نہ سمجھ سکا تھا۔ ہاں دیوالی کی وجہ سے گاؤں سے اتنی دور ہونے کے باوجود مجھے ایک پریشانی ہوئی تھی۔ وہ تھی پٹاخوں سے نکلنے والی بدبو کی۔ اگرچہ اس وقت میری سونگھنے کی قوت آج کے مقابلے کافی کم تھی، اس کے باوجود وہ بدبو میرے لیے ناقابل برداشت ہو رہی تھی لیکن کسی طرح میں نے سب برداشت کیا تھا۔

خیر! وہ دیوالی تو کسی خاص سانحہ کے بغیر گزر گئی، لیکن دوسری دیوالی میرے لیے عذاب جاں بن کر آئی۔ اس روز شام سے ہی گاؤں میں رونق تھی، لوگوں کے گھر کافی صاف ستھرے تھے۔ دو روز پہلے سے ہی لوگوں نے اپنے گھروں کی گندگی نکال نکال کر گھوروں پر جمع کرنی شروع کر دی تھی۔ ہم کتوں کے لیے اس دن گھوروں پر بہت کچھ تھا۔ جب کوئی کوڑا پھینکنے آتا تو ہم لوگ گھورے سے تھوڑا دور ہٹ جاتے اور اس کے جاتے ہی پھر جمع ہو جاتے۔ میں کچھ زیادہ ہی تیزی اور جوش دکھا رہا تھا اور دوڑ دوڑ کر اپنی پسندیدہ غذائیں تلاش کر کر کے کھا رہا تھا۔ جب میرا پیٹ خوب بھر گیا اور مجھ سے مزید نہ کھایا گیا تو وہاں سے چلا گیا اور ادھر ادھر گلیوں میں بے وجہ آوارگی کرنے لگا۔ لوگوں کے گھروں میں چراغ روشن ہو رہے تھے۔ بیچ بیچ میں اکا دکا پٹاخوں کی آوازیں بھی سنائی دے رہی تھیں ، ان آوازوں کو سن کر ایک عجیب سا خوف طاری ہونے لگتا تھا۔ اگرچہ روشنیوں کی رونق مجھے لبھا رہی تھی لیکن ایک تو زیادہ کھانے کی وجہ سے تھوڑا نشا سا ہو رہا تھا، دوسرے ان پٹاخوں کی آوازوں کی وجہ سے دل میں ایک ہول سا اٹھ رہا تھا۔ اس لیے میں ایک سنسان سی جگہ تلاش کر کے وہاں لیٹ گیا اور جلدی ہی مجھے نیند آ گئی۔

تھوڑی دیر میں آنکھ کھلی تو دیکھا دو نوجوان میرے پاس کھڑے ہیں ، ایک نے مجھے کچھ کھانے کو دیا اور دوسرا مجھے سہلانے لگا۔ کیونکہ ان دونوں سے میں پہلے سے ہی ہلا ہوا تھا اس لیے میں نے کچھ خاص توجہ نہ دی۔ وہ میرے لیے گوشت کی ہڈیاں لائے تھے، جو ہمیشہ سے میری مرغوب غذا تھیں اس لیے پیٹ بھرا ہونے کے باجود میں انھیں ٹونگنے لگا کہ اچانک جیسے قیامت آ گئی۔ میری دم کے پاس بہت سارے پٹاخے پھٹنے لگے، ڈر سے میں کانپنے لگا اور تیزی سے بھگا۔ لیکن بھاگنے کے باوجود وہ ابھی بھی میری دم کے پاس پھٹے جا رہے تھے بلکہ میرے ساتھ ساتھ وہ پٹاخے بھی بھاگ رہے تھے۔ ان پٹاخوں سے نکلنے والے شعلے میرے جسم پر پڑ رہے تھے جن سے جسم میں جلن پیدا ہو رہی تھی۔ میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہ دونوں نوجوان قہقہہ لگا کر ہنس رہے تھے۔ میں نے جب اپنی دم کی طرف دیکھا تو پٹاخوں کی لمبی قطار میری دم سے بندھی ہوئی تھی، اور وہ لگاتار پھٹے جا رہے تھے۔ یہ منظر دیکھ کر میں چکرا گیا ایسا مذاق بھی کیا جا سکتا ہے میں نے کبھی سوچا تک نہ تھا۔

اپنی دم دیکھ کر میں اور تیز بھگا لیکن وہ اسی طرح پھٹے جا رہے تھے، سب کچھ اتنا اچانک تھا کہ میں اس وقت صحیح فیصلہ نہ کر پایا کہ مجھے کیا کرنا چاہیے اور کدھر جانا چاہیے؟ الجھن میں کچھ سوجھا ہی نہیں اور میں گاؤں کے باہر تالاب کی طرف بھاگنے کی بجائے ٹھیک بیچ و بیچ گاؤں کی طرف بھاگا۔ گاؤں کے اندر پہنچا تو دیکھا کہ بے شمار چراغ جل رہے ہیں ، پھل جھڑیاں چھوٹ رہی ہیں ، چاروں طرف پٹاخے پھٹ رہے ہیں ۔ اتنی تیز روشنی، لوگوں اور پٹاخوں کا شور، اور سب سے بڑھ کر پٹاخوں سے نکلنے والی بدبو جو میرے نتھنوں کو بری طرح سے عذاب میں مبتلا کر رہی تھی، یہ ساری کیفیت ناقابل برداشت ہو گئی۔ جشن کے جنون نے تشدد کا رخ اختیار کر لیا تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ میں پہچان ہی نہ سکا کہ یہ وہی گاؤں ہے جس میں بچپن سے رہتا آیا تھا۔ میں حیران تھا کہ کہاں آ گیا اور یہ سب کیا ہو رہا ہے۔ میری دم سے لپٹے ہوئے پٹاخے ابھی بھی تھوڑے تھوڑے وقفے پر دغے جا رہے تھے، چونکہ اب چاروں طرف پٹاخے دغ رہے تھے اس لیے میرے لیے یہ پہچاننا مشکل تھا کہ وہ میری دم میں دغ رہے تھے یا ادھر ادھر۔ لیکن میں ان کے دغنے کے ساتھ ہی اور تیز بھاگ رہا تھا۔ جیسے جیسے میں بھاگ رہا تھا میں اور بڑے ہجوم میں گھرتا جا رہا تھا۔ ایک طرف تھوڑی دیر دوڑتا کہ آگے پھر ایک ہجوم مل جاتا، وہاں سے مڑتا اور دوسری طرف بھاگتا کہ پھر اس سے بھی بڑا ہجوم وہی روشنی اور وہی پٹاخے لیے کھڑا نظر آتا… میری آنکھیں چوندھیا گئیں ۔

کافی دیر تک یہ سلسلہ چلتا رہا، تیز روشنی اور پٹاخوں کے شور میں اس گاؤں کو اب میں بالکل نہ پہچان پا رہا تھا بس جدھر قدم چل پڑتے میں بے تحاشا بھاگنے لگتا۔ سمتوں کا احساس نہ رہا، بھاگتے بھاگتے میں ایک ایسی جگہ پہنچ گیا کہ جہاں چاروں طرف سے ہجوم میں گھر گیا اور ایسا محسوس ہونے لگا کہ میری دم توسیع ہو کر سارے گاؤں میں پھیل گئی ہو اور سارا گاؤں میری دم کی طرح پھٹ رہا ہو۔ اسی اثنا میں بہت تیز روشنی کے ساتھ نہ جانے کون سے پٹاخے پھٹے جن کی چنگاریاں میری آنکھوں میں پڑیں اور انھیں جھلسا گئیں ۔ اگر چہ میری آنکھوں کو بہت زیادہ نقصان تو نہ پہنچا لیکن اس کے بعد مجھے آنکھیں کھولنا نا ممکن سا ہو گیا۔ اور میں اندھوں کی طرح بھاگنے لگا کبھی کسی دیوار سے ٹکراتا تو کبھی کسی انسان سے اور کبھی پھٹتے ہوئے پٹاخوں سے۔ سارا بدن جلا جا رہا تھا اور میں ایک اندھے پاگل کی طرح چاروں طرف دوڑے جا رہا تھا۔ نہ جانے کتنی دیر تک دوڑنے کے بعد میں چراغوں اور پٹاخوں کا سمندر پار کر کے کنارے آ لگا۔ … روشنی تشدد کا رخ اختیار کر سکتی ہے اس دن مجھے پہلی بار معلوم ہوا۔

 

گوشت بچپن سے ہی میری مرغوب غذا تھی، مرغ کا گوشت کھانے میں مجھے کبھی مزہ نہیں آیا، اسے تو زندہ ہی پکڑ کر نوچنے کو جی چاہتا ہے، اگرچہ میں یہ کام کرنے میں کبھی کامیاب نہ ہو سکا۔ انھیں پکڑ کر نوچنے میں میں کبھی سنجیدہ نہ تھا۔ در اصل یہ سب میں بس عادتاً کرتا تھا یہ عادت میری نسلی ہے، نہ کہ ذاتی۔ فطرت نے مجھے اسی لیے بنایا تھا لیکن ارتقا کے سفر میں یہ کام چھوڑ کر ہم انسانی زندگی کے ہم سفر بن گئے تھے، میری نسل کے دوسرے جانور مثلاً بھیڑیا آج بھی اسی طرح شکاری ہے۔ اس لیے ہم لوگ شکاری بننے کی کبھی کبھی صرف تفریح کرتے ہیں ورنہ ہم کتے تو اب پوری طرح سے انسانی غذا پر منحصر ہیں ۔ میں اپنے ان ساتھیوں کی بات نہیں کر رہا ہوں جو  بسکٹ کھا کر کار میں سفر کرتے ہیں بلکہ میں اپنے جیسے کتوں کی بات کر رہا ہوں ۔ بہر حال لوگوں کے گھروں سے مرغ کا گوشت کھانے میں میری کبھی دلچسپی نہ تھی البتہ کبھی مجبوری میں کھانا پڑ جائے تو بات دیگر ہے۔ بکرے میں جانے کیسی شرافت ہوتی ہے کہ میں نے اس کی طرف کبھی نظر ٹیڑھی نہیں کی۔ قد و کاٹھی میں وہ میرے برابر ہوتا ہے اس لیے اس سے ایک بھائی چارے جیسا رشتہ تھا یا کوئی نفسیاتی وجہ ہو، بہر حال اس کے لیے میرے دل میں ہمیشہ ایک رفاقت سی رہی اور اس کے گوشت میں بھی کوئی خاص دلچسپی کبھی نہ رہی۔ لیکن بڑے کا گوشت ہمیشہ مجھے بہت مرغوب رہا۔ میرے محلے میں ایک گھر میں بڑے کا گوشت تقریباً ہر شام کو پکتا تھا۔ شام ہوتے ہی اس گھر سے خوشبو آنے لگتی تھی وہ خوشبو اتنی شدید ہوتی تھی کہ مجھے کسی طرح سے کہیں اور چین نہ ملتا تھا۔ وہ خوشبو مجھے دیوانہ بنا دیتی، میں اس گھر کے ارد گرد چکر کاٹتا رہتا اور موقع ملتے ہی اس گھر میں گھس جاتا تھا۔

اس گھر میں ہمیشہ صدر دروازے کے پیچھے ایک ڈنڈا چھپا رہتا تھا، وہ لوگ مجھے دیکھتے ہی چپ کے سے ڈنڈا اٹھا کر اپنے پیچھے چھپا لیتے اور میری طرف ایسے بڑھتے جیسے مجھے دیکھا ہی نہ ہو۔ پھر اچانک مجھ پر وار کر دیتے۔ لیکن ایک دو بار مار کھانے کے بعد میں سمجھنے لگا تھا کہ ہو نہ ہو ان کے ہاتھ میں ڈنڈا ضرور ہوگا اس لیے میں پہلے سے ہی ہوشیار رہتا تھا۔ ان کی طرف سے شعوری طور پر ڈنڈے کے علاوہ مجھے کبھی کچھ نہیں ملا تھا۔ اس کے علاوہ جو بھی مجھے اس گھر سے ملا وہ میں نے سب چھین جھپٹ کر یا چوری کر کے حاصل کیا تھا۔ میں اس گھر میں گھسنے کے لیے مجبور تھا کئی بار سوچا ایسے آدمی کے یہاں نہ جاؤں لیکن شام ہوتے ہی وہ خوشبو مجھے دیوانہ بنا دیتی تھی، ایک جنون سا طاری ہو جاتا تھا اس گھر کے علاوہ مجھے کہیں اور چین ہی نہ ملتا۔ لیکن اب صرف گوشت کا معاملہ نہ رہا تھا بلکہ مجھے اس کھیل میں ایک لطف سا آنے لگا تھا۔ میرا چوری چوری اس کے گھر میں داخل ہونا اور گوشت کی پتیلی میں منہ ڈالنے کی کوشش کرنا اور ان کا چوری چوری میرے اوپر ڈنڈے سے وار کرنے کی کوشش کرنا۔ اس کھیل میں لطف کا یہ عالم تھا ایک دو ڈنڈے کھا کر بھی بد مزہ نہ ہوتا تھا۔

آج اس گھر کے بہت سے قصے یاد آ رہے ہیں ۔ میں اس گھر کے ارد گرد چکر لگاتا رہتا تھا، ایسے میں اکثر مجھے ان کی باتیں سننی پڑتیں تھیں لیکن ان کی طرف میں کبھی توجہ نہیں دیتا تھا۔ ایک دن ان کی باتیں سن کر اچانک میرے کان کھڑے ہو گئے۔ در اصل اس دن وہ میرے بارے میں ہی بات کر رہے تھے۔ وہ بڈھا جو گھر کا مالک کہلاتا تھا کہہ رہا تھا کہ میں ناپاک ہوں ، میرا ایک بال بھی جہاں گر جائے چالیس قدم تک وہ جگہ ناپاک ہو جاتی ہے، وہاں نماز نہیں پڑھی جا سکتی اور رحمت کے فرشتے نہیں آتے ہیں ۔ وہ اپنے گھر والوں کو ڈانٹ رہا تھا کہ تم لوگ خیال نہیں رکھتے، وہ کتا اکثر اس گھر میں گھس آتا ہے۔ آئندہ خیال رکھنا اول تو وہ اب اس گھر میں داخل نہ ہونے پائے، اور اگر آ بھی جائے تو اس کی اس قدر پٹائی کرو کہ دوبارہ اس گھر کی طرف کبھی رخ نہ کر سکے اور اس کے بعد پورے گھر کو دھل کر پاک کرنا۔

اس کی باتیں سن کر مجھے بہت غصہ آیا اور اسی غصے کی حالت میں اس کے گھر میں داخل ہو گیا، اس بڈھے کا وعظ ابھی بھی جاری تھا گھر کے سارے لوگ اس کے گرد جمع ہو کر بہت غور سے سن رہے تھے۔ اس گھر میں باقاعدہ باورچی خانہ نہ تھا ایک دالان میں کھانا پکتا تھا میں اس دالان میں چپ چاپ گیا۔ ایک ڈلیا میں روٹیاں پکی ہوئی رکھی تھیں ، میں نے ساری روٹیاں اپنے منہ میں دبائیں کہ اچانک میرے ذہن میں ایک خیال آیا اور میں نے ساری روٹیاں اسی طرح چھوڑ دیں کہ جیسے میں نے انھیں چھوا ہی نہ ہو پھر چپ چاپ بغیر کوئی آہٹ کیے ہوئے واپس چلا آیا اور اس گھر کے ارد گرد چکر لگاتا رہا۔

سارے لوگوں نے وہی روٹیاں کھائیں کسی کو کچھ نہیں ہوا یہ سب ان کا تعصب تھا، نہیں تو ایسا کچھ نہیں ہے، وہ تو ہم کتوں میں ایک قسم کی بیماری ہے جو کسی کسی کو ہو جاتی ہے جیسے انسانوں میں ایڈز ہوتا ہے۔ کتوں کی اس بیماری کی حالت میں اگر خون یا رال انسان کے خون میں داخل ہو جائے تو وہ بیماری انسانوں میں بھی پھیل جاتی ہے۔ یہ بیماری جس کتے کو ہو جاتی ہے وہ بہت جلد فوت ہو جاتا ہے لیکن انسان بہت دیر سے اور کبھی کبھی بچ بھی جاتا ہے لیکن صحت مند کتے کا جھوٹا کھانے یا اس کے کاٹنے سے کچھ نہیں ہوتا۔ اور سب سے آسانی کی بات یہ ہے کہ ہماری بیماری کا فوراً پتا چل جاتا ہے جسے یہ بیماری ہوتی ہے وہ کتا پاگل ہو جاتا ہے اور بہت جلد مر جاتا ہے۔ لیکن عام حالات میں جیسے دوسرے جانور ہیں کتا بھی ویسے ہی ہے۔ بلکہ کتا تو انسانوں کا سب سے قریبی اور ہمدرد جانور ہے۔ یہاں تک کہ اب کتا انسانوں کی ہم نسل بندر سے بھی زیادہ قریبی ہو گیا ہے۔ کبھی ہم کتے بھیڑیے کی ہی طرح شکاری جانور تھے، لیکن ہم نے اپنے ارتقا کو جاری رکھا اور اب ہم پالتو جانور ہیں ۔ میں نے انسانوں سے بہت کچھ سیکھا ہے، جس طرح انسان بندروں سے بہت آگے نکل آیا ہے، اسی طرح کتے بھی بھیڑیے سے بہت آگے نکل آئے ہیں اور ان کے اندر کی ساری وحشت اور شکاری پن نہ جانے کب کا غائب ہو چکا ہے۔ میں تو اب انسانوں کا بہت قریبی دوست بن چکا ہوں ۔ مجھ میں کچھ غیر معمولی صلاحیتیں ہیں ، جو انسانوں میں بھی نہیں ہیں جیسے، بم تلاش کرنے اور مجرم کی شناخت کرنے جیسے پیچیدہ کاموں میں تو ہم انسان سے بھی زیادہ مہارت رکھتے ہیں اور ان کاموں میں انسان میرا سہارا لینے پر مجبور ہے۔

یہ انھیں دنوں کی بات ہے جب میں نے اس گھر کی ساری روٹیاں جھوٹی کر دی تھیں تب کبھی کبھی میں سوچتا تھا کہ انسان کی ترقی کا راز کیا ہے؟ اس کے بہت سے ممکن جواب ہو سکتے تھے۔ لیکن اس وقت میرے دل میں یہ بات گھر کر گئی تھی کہ ہو نہ ہو اس کا کچھ نہ کچھ تعلق غذا سے ضرور ہے۔ اس لیے ان دنوں مجھے انسانی غذا کا جنون سا ہو گیا تھا۔ ایک دن میں ایک دوسرے گھر میں گیا اور اس کے یہاں بھی میں نے ساری روٹیاں اپنے منہ میں دبائیں اور چل دیا۔ لیکن اسی وقت اس گھر کا آدمی آ گیا تو میں نے ساری روٹیاں وہیں چھوڑ دیں اور جلدی سے بھاگا۔ میں بھاگ تو گیا لیکن وہ ایک غریب کا گھر تھا۔ اس گھر میں پانچ بچے اور ان کے ماں باپ تھے۔ وہ روٹیاں انھوں نے نہیں کھائیں ، اس رات دوبارہ ان کے یہاں روٹیاں نہ پکیں ، چھوٹے چھوٹے بچے صرف پانی پی کر سو گئے۔ اس دن اپنی اس حرکت پر مجھے بہت افسوس ہوا تھا۔

 

گاؤں کے سارے لوگ جانتے ہیں اگر میں بظاہر بنا کسی وجہ کے روتا ہوں تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ گاؤں میں کوئی بد شگونی ہونے والی ہے، ایک بار میں بہت رو رہا تھا، میں اپنی غیر معمولی قوت سماعت کی بنا پر زمین کے نیچے کی سرگرمیوں کو سن رہا تھا اور وہاں اٹھ رہے طوفان کو محسوس کر رہا تھا، میں سمجھ رہا تھا کہ یہ سرگرمی کس بات کا پیش خیمہ ہے لیکن لوگ اس سے بے خبر تھے۔ میرے رونے سے گاؤں والے یہ تو سمجھ رہے تھے کہ کچھ نہ کچھ غیر معمولی ہونے والا ہے اور یہ کوئی اچھا شگن نہیں ہے، کئی بوڑھے تو بہت اچھی طرح سمجھ گئے تھے کہ کچھ نہ کچھ انہونی ہونے والی ہے۔ وہ گھنٹوں میرے ارد گرد منڈراتے رہتے اور کیا ہونے والا ہے اس کو سمجھنے کی کوشش کرتے رہتے۔ میں انھیں سمجھانے کے لیے بار بار زمین میں اپنا سر رگڑتا کہ شاید وہ سمجھ جائیں کہ میں کس طرف اشارہ کر رہا ہوں ، لیکن وہ لوگ میرے اشاروں کو نہ سمجھ سکے۔ افسوس! کہ اس وقت تک میں نے مقدار ارتعاشات کو محدود کر کے بولنا نہ سیکھا تھا اس لیے میں یہ نہیں بتا سکا تھا کہ کیا ہونے والا ہے۔ میں روتا رہا اور کچھ بزرگ بے چینی سے میرے رونے کی وجہ سمجھنے کی ناکام کوشش کرتے رہے۔ کچھ نوجوان میرے رونے کو کوئی بدشگنی نہیں مانتے تھے وہ ڈنڈا لے کر آئے اور مجھے دوڑا دوڑا کر مارنے لگتے۔ وہ مجھے دوڑاتے دوڑاتے گاؤں کے باہر تک چھوڑ آتے لیکن میں فوراً واپس آ کر پھر رونے لگتا۔ آخر کار زلزلہ آ گیا۔ بہت لوگ مارے گئے، اس کی تفصیل کیا بتاؤں اس زلزلے میں بھی وہی سب کچھ ہوا تھا جو اکثر زلزلوں میں ہوتا ہے اور آپ سب جس سے بخوبی واقف ہیں ۔

 

یہ بھی انھیں دنوں کی بات ہے جب میں گوشت کی ناقابل برداشت خوشبو کی وجہ سے اس گھر کے ارد گرد چکر لگاتا رہتا تھا۔ ایک دن گوشت پکا ہوا تھا اور میں گھر کے دالان میں پہنچ گیا جسے باورچی خانہ کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا، گھر کے سارے لوگ اندر کمرے میں تھے۔ اس دن ایک چھوٹی سی پتیلی میں گوشت پکا تھا شاید کچھ ہی دیر پہلے وہ گوشت پک کر تیار ہوا تھا اور ابھی کسی نے کھایا نہیں تھا۔ میں نے ادھر ادھر دیکھا اور جلدی سے پتیلی میں منہ ڈال دیا، پتیلی کا منھ کافی چھوٹا تھا لیکن پتیلی تھی کافی گہری جب میں نے اس پتیلی میں اپنا منہ ڈالا تو میرے کان تک کا حصہ اندر چلا گیا اور اندر جانے کے بعد کان پھیل گئے۔ میں نے منہ اندر ڈالتے ہی زبان سے گوشت کو چاٹا۔ گوشت بہت مزے کا تھا، میں نے ایک ہڈی کو چچوڑا اور گردن اٹھا کر منہ پتیلی سے باہر نکالنا چاہا لیکن میرے سر کے ساتھ ہی پتیلی بھی اوپر اٹھ گئی وہ میرے منہ میں پھنس گئی۔ میں نے ایک بار پھر جھٹکا دے کر پتیلی نکالنے کی کوشش کی پتیلی تو نہ نکل سکی لیکن اس کی آواز سن کر اس گھر کا مالک کمرے سے باہر نکل آیا۔ اب پتیلی میرے سر کے چاروں طرف ہلمیٹ کی طرح گھری ہوئی تھی اور مجھے کچھ بھی نظر نہیں آ رہا تھا، سر، آنکھوں ، ناک اور کان وغیرہ میں سالن جا رہا تھا جس سے میں تلملایا جا رہا تھا۔

میں نے بھاگنے کی کوشش کی لیکن کچھ نظر نہ آنے کی وجہ سے بار بار ادھر ادھر ٹکرا جا رہا تھا شاید میں باہر نکلنے کی بجائے غلطی سے کسی کمرے میں چلا گیا تھا۔ اب تک وہ آدمی ڈنڈا اٹھا چکا تھا اور میری پٹائی کرنے لگا۔ میں لگاتار بھاگ رہا تھا لیکن بار بار کسی چیز سے ٹکرا جا رہا تھا، اس بار جو اس نے ڈنڈا چلایا تو میں اس کی ٹانگوں کے بیچ سے نکل گیا۔ وہ لاحول … پڑھتے ہوئے ہٹ گیا لیکن ڈنڈے سے پیٹتا رہا۔ ایسے ہی ٹکراتے ٹکراتے میں جانے کیسے باہر نکل آیا لیکن وہ آدمی ابھی بھی ڈنڈا چلائے جا رہا تھا میں سر پر پتیلی کی وجہ سے ابھی بھی صحیح سے بھاگ نہیں پا رہا تھا۔ محلے کے کچھ اور لوگ بھی جمع ہو گئے تھے جن میں سے کچھ لوگوں کے ہاتھوں میں لاٹھی ڈنڈے تھے اور موقع ملتے ہی وہ بھی اپنا ہاتھ صاف کر لیتے تھے، جن کے پاس کچھ نہیں تھا وہ موقع ملتے ہی لات کا استعمال کر لیتے تھے۔ کچھ لوگ محض تماشائی تھے اور ہنس ہنس کر میرے پٹنے کا تماشا دیکھ رہے تھے۔ اس دن میں نے محسوس کیا کہ بہت سے لوگ جو مجھے کبھی نہیں مارتے تھے آج وہ بھی مار رہے تھے، ان کے اندر کا بھی تشدد آج باہر آ گیا تھا۔

میں پٹتے پٹتے ادھر ادھر بھاگ رہا تھا بار بار کسی نہ کسی چیز سے ٹکرا جاتا تھا کہ اچانک سامنے سے ایک جیپ آ گئی، مجھے جیپ آنے کا تھوڑا احساس تو تھا لیکن جب کسی نے ڈنڈا مارا تو میں بغیر کچھ سوچے سمجھے بھاگ پڑا اور جیپ سے جا ٹکرایا۔ میں بری طرح سے زخمی ہو گیا، کئی جگہ سے خون بہنے لگا۔ اس جیپ والے نے فوراً جیپ روکی اور مجھے اٹھایا۔ اس نے لوگوں کی طرف دیکھا وہ لاٹھی ڈنڈے لیے ہوئے تھے اس لیے انھیں ڈانٹنا شروع کر دیا۔ اس پر وہ لوگ الٹے اس جیپ والے پر برس پڑے کہ تم نے کتے کو کچل دیا۔ اس نے پوچھا کتا کس کا ہے؟ اس سوال پر سب خاموش ہو گئے، کچھ دیر کی خاموشی کے بعد ایک لڑکے نے جواب دیا کسی کا نہیں آوارہ ہے۔ یہ سن کر ایک بار پھر جیپ والے نے ان لوگوں کو ڈانٹا۔ پھر اس نے اپنے ہاتھوں سے میرے سر سے پتیلی نکالی میں بری طرح سے زخمی تھا اوپر سے میری، آنکھ، ناک، منھ، سب جگہ سالن لگ جانے کی وجہ سے اور بھی پریشان تھا۔ اس جیپ والے کو مہربان دیکھ کر میں رونے لگا۔ اس نے اپنی جیپ سے روئی اور دوا نکالی، پہلے اس نے میرے پورے چہرے کو روئی سے صاف کیا پھر دوا لگائی۔ میں خوشی سے دل ہی دل میں جیپ والے کو دعائیں دینے لگا لیکن ڈر بھی لگ رہا تھا کہ جیپ والے کے جانے کے بعد یہ لوگ مجھے پھر ماریں گے ۔ جب دوائی لگ گئی تب میں نے تھوڑا ادھر ادھر دیکھا جیپ پر ایک پوسٹر لگا تھا جس میں ایک شیر کی تصویر بنی ہوئی تھی اور کچھ لکھا ہوا تھا۔ مجھے یہ پوسٹر بڑا پر اسرار لگا، تحریریں مجھے ہمیشہ بڑی پر اسرار اور ڈراؤنی لگتی تھیں ۔

اس کے بعد جیپ والے نے مجھے بٹھا لیا اور اپنے ساتھ لے کر چل دیا۔ میں عجیب وسوسے میں تھا کہ یہ مجھے کہاں لے جائے گا اور میرے ساتھ جانے کیسا سلوک کرے گا ؟ میں تھوڑا گھبرا بھی رہا تھا لیکن اب اس گاؤں سے تنگ آ چکا تھا اس لیے میں نے سوچا جو بھی ہوگا دیکھا جائے گا۔ اس گاؤں میں بھی کون سے بڑے سکھ تھے۔ گاؤں سے چلنے کے پندرہ بیس منٹ بعد میں شہر پہنچ گیا، وہاں جانے کے بعد معلوم ہوا کہ وہ جیپ والا سرکس کا مینجر تھا۔

کبھی کبھی حالات بھی زندگی کے ساتھ کیسا مذاق کرتے ہیں ، میں انسان کے تعصب اور تشدد کے سائے میں ہمیشہ ذلیل و خوار ہوتا رہا، لیکن میری قسمت دیکھیے کہ میری باقی زندگی اسی انسان کا دل بہلانے میں گزری۔ ان دنوں میں انسان سے بہت بدگمان سا ہو گیا تھا، ہم کتوں کی دنیا میں نفرت جیسی کوئی شے ہوتی ہی نہیں ورنہ شاید نفرت بھی ہو گئی ہوتی۔ شروع شروع میں سرکس میں بھی مجھے کم اذیتیں نہ دی گئیں ، سرکس میں بھی میرے ابتدائی شب و روز اس گاؤں سے کم غیر نہ تھے لیکن یہ امر بعد میں واضح ہوا کہ در اصل سرکس میں مجھے جو اذیتیں دی گئیں وہ سب مجھے سدھانے کا عمل تھا۔ وگرنہ سرکس کے لوگ بہت حساس تھے اور ہمیں تکلیف دینا ان کا قطعاً مقصد نہ تھا۔ سدھانے کا عمل ختم ہونے کے بعد سرکس میں مجھے بہت مزہ آنے لگا تھا۔ سچ پوچھو تو سرکس میں آنے کے بعد ہی مجھ پر زندگی کے بہت سے راز کھلے، اور اپنے وجود کا احساس ہوا۔ میں نے اپنی اہمیت کو سمجھا، اس سے قبل تو میں بس زندگی کو کسی طرح ڈھو رہا تھا۔ یہاں آنے کے بعد ایسا نصیب جاگا کہ لوگ میرے کرتب دیکھنے کے لیے بے تاب رہنے لگے۔

میں جب گاؤں میں تھا تو اکثر سوچتا تھا ہمارے بزرگوں نے جنگل کو چھوڑ کر انسانوں کے گاؤں میں آکر بڑی غلطی کی ہے۔ وہ کیوں جنگل چھوڑ کر اس سماج کا حصہ بنے؟ جہاں ہر طرف تشدد اور تعصب ہے، ایسا کون سا سکھ ہے جو یہاں آ کر انھیں نصیب ہوا ہے؟ لیکن سرکس میں آنے کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ جب ہمارے بزرگ جنگل چھوڑ کر انسانی سماج میں شامل ہوئے تھے تو ضرور وہ سماج کسی سرکس کے سماج کی طرح رہا ہوگا۔ جہاں کتوں کو نہ صرف انسانی سماج کا پیار اور انصاف ملا ہوگا بلکہ اس نے انسانوں سے بہت کچھ علم بھی حاصل کیا ہوگا۔

 

اس طرح میں سرکس میں پہنچ گیا، جب تک میرے زخم ٹھیک نہ ہوئے تب تک تو وہاں میری بڑی خدمت ہوئی وقت سے کھانا پینا ملتا اور دوائی کا بھی اہتمام کیا گیا، میں بڑا خوش تھا۔ وہاں طرح طرح کے کے جانور اور انسان رہتے تھے خاص بات یہ تھی کہ میں نے وہاں کبھی کسی کو لڑتے بھڑتے نہیں دیکھا۔ شروع میں میرے بارے میں ان کا خیال تھا کہ ایک ’وفادار‘ جانور ہونے کے ناتے جب لوگ سرکس میں مصروف ہونگے تو میں رہائشی شامیانوں کی دیکھ بھال کروں گا۔ لیکن جب میں بالکل ٹھیک ہو گیا، تو میرے پاس کافی خالی وقت رہتا تھا جب شامیانوں میں لوگ ہوتے تھے اس وقت میرے پاس کوئی کام نہ ہوتا تھا۔ مجھے سرکس کے اندر کہیں بھی آنے جانے کی پوری آزادی تھی لیکن سرکس کے باہر جانے کی اجازت نہ تھی، ویسے مجھے سرکس سے باہر جانے میں کوئی دلچسپی بھی نہ تھی۔ اسی دوران کچھ کتے سرکس میں اور آئے انھیں دیکھ کر میں کافی دنوں تک یقین ہی نہ کر سکا کہ وہ سچ مچ کے کتے ہیں ۔ انھیں دیکھ کر ایسا لگتا تھا کہ وہ روئی کے گالے ہوں ، بالکل سفید، نہ کوئی داغ نہ دھبا۔ ان کے چلنے پھرنے میں ایک عجیب سی نفاست تھی۔ مجھے لگتا تھا کہ وہ ضرور روئی یا فر کے بنائے ہوئے ہوں گے اور ان کے اندر کوئی مشین لگی ہوگی جس سے وہ چل پھر رہے ہیں ۔ سرکس آنے سے پہلے میں نے کچھ بچوں کو اس طرح کے کھلونوں سے کھیلتے دیکھا تھا۔

لیکن جب ان کو سدھایا جانے لگا تو مجھے یقین آ گیا کہ وہ بھی کتے ہیں ۔ میں جب خالی ہوتا تو ان کا سدھایا جانا دیکھتا انھیں دیکھ کر میرے بھی دل میں امنگیں پیدا ہونے لگتیں کہ میں بھی انھیں کتوں کی طرح کرتب دکھاؤں اور فن کار بنوں ۔ میں ان کتوں سے تھوڑی دوری پر کھڑا رہتا اور ان کی تربیت دیکھتا رہتا، پھر جب میں اکیلا ہوتا تو ان کی نقل کرتا اور مجھے لگتا کہ میں بھی ان لوگوں کی طرح فن کار بن سکتا ہوں ۔ ایک دن جب ان کتوں کی تربیت ہو رہی تھی میں ان کی نقل کرنے لگا۔ میں ان کی طرح کرتب نہیں کر سکا اس لیے لوگ مجھے دیکھ کر ہنسنے لگے۔ دو تین دنوں تک نقل کرنے کا یہ سلسلہ جاری رہا، ایک دن سرکس کا مینیجر بھی وہاں تھا اس نے مجھے نقل کرتے دیکھا تو بہت تیز ڈانٹا اور ایسا کرنے سے باز رہنے کو کہا، اس پر میں منہ لٹکا کر بیٹھ گیا۔

مجھے اداس دیکھ کر اس کے دل میں رحم آ گیا اور اس نے وہی عمل دہرانے کو کہا، جو دوسرے کتے کر رہے تھے، میں ان کی نقل کرنے لگا، اس بار میری نقل کو دیکھ کر مینیجر بھی ہنس دیا، پھر کچھ دیر وہ سوچتا رہا۔ اس کے بعد اس نے کتوں کو سدھانے والے ماسٹر سے کچھ بات کی اور میں ان کتوں کی نقالی پر معمور ہو گیا یعنی میں کتوں کا جوکر بنا دیا گیا۔ پھر جب وہ کتے سدھ گئے اور وہ سرکس میں اپنا تماشا دکھانے لگے تو میں ان کی نقالی کرتا اور لوگ میری نقالی دیکھ کر خوب ہنستے، کچھ دنوں تک مجھے بہت اچھا لگا۔ لیکن یہ سلسلہ زیادہ دنوں تک نہیں چلا، کچھ دنوں بعد نقالی کرنے میں میری دلچسپی نہیں رہی اور میں نے غور کیا کہ اب تماشائی بھی میری اسی گھسی پٹی نقالی میں اتنا مزہ نہیں لے رہے ہیں ۔ اس کے بعد میرے لیے ایک وجودی مسئلہ کھڑا ہو گیا، میں اکثر سوچتا کہ کیا میں صرف نقالی کرنے اور لوگوں کو ہنسانے کے لیے پیدا ہوا ہوں ، کیا میں ان سفید کتوں کی طرح کوئی ایسا کام نہیں کر سکتا جس سے میں سچا فن کار بن جاؤں ۔ وہاں رہ کر میں نے ان روئی کے گالوں جیسے کئی کتوں سے دوستی کر لی تھی۔ اور ایک دن میں نے وہاں ایک دوست سے اس مسئلے پر بات کی تو ان لوگوں نے کہا کہ میں خود سے کوئی کھیل تیار کر کے مالک کو دکھاؤں اگر وہ کھیل ان کو پسند آ گیا تو وہ مجھے سرکس میں کھیل پیش کرنے کی اجازت دے دیں گے۔

اس کا مشورہ مناسب تھا اب میرے دل میں یہ بات بیٹھ گئی تھی کہ کچھ کر دکھانا ہے میں کئی دنوں تک سوچتا رہا کہ کیا کھیل دکھاؤں ؟ میں نے سوچا کہ کوئی ایسا کھیل دکھاؤں جس میں اپنی مخفی صلاحیتوں کا استعمال کر سکوں ۔ تھوڑا غور و فکر کرنے پر میں یہ تو سمجھ گیا کہ اس کھیل میں مجھے اپنی غیر معمولی قوت سماعت اور سونگھنے کی صلاحیت کو استعمال کرنا ہوگا۔ لیکن اس سے کون سا کھیل دکھاؤں یہ فیصلہ کرنے میں کافی وقت لگ گیا۔ کچھ دن سوچنے کے بعد میں نے ایک کھیل ترتیب دیا۔ اس کھیل میں میری آنکھوں پر پٹی باندھ دی جاتی پھر کوئی سیٹی بجا کر بھیڑ میں چھپ جاتا میں اسے تلاش کر لاتا۔ کچھ دنوں تک میں نے اس کھیل کی کتوں کے ساتھ ریاضت کی، پھر انسانوں کے ساتھ۔ مالک نے میرا کھیل پاس کر دیا۔ کچھ دنوں تک یہ کھیل ایسے ہی چلتا رہا۔ پھر مالک کے دماغ میں ایک خیال اور آیا وہ تماشائیوں میں سے کسی بچے کو گیند پکڑا دیتا بچہ مجھے مارتا اور میں تماشائیوں میں گھس کر اس بچے کو تلاش کرتا۔ اصل بچے کے پاس جانے سے قبل میں جان بوجھ کر پہلے دوسرے بچوں کے پاس جاتا اور نفی میں سر ہلا کر آگے بڑھ جاتا اور آخر کار اصلی بچے کے پاس جا کر اسے پکڑ لیتا۔ اس طرح تماشائی بھی اس کھیل میں شریک ہونے لگے جس سے کھیل کی مقبولیت بہت بڑھ گئی اور میں بچوں کا ہیرو بن گیا۔ یہ کھیل بہت زمانے تک چلتا رہا، وقت کے ساتھ ساتھ میں اس کھیل میں چھوٹی موٹی تبدیلیاں بھی کرتا رہا اور کبھی کبھی وہ جوکر والا کھیل بھی کرتا رہا، اس طرح میں نے اپنی باقی زندگی سرکس میں گزار دی۔

 

اس سے قبل کہ میرے جسم کا مکمل زوال ہو جائے میرا یہ اخلاقی فرض بنتا ہے کہ جب میں نے انسانوں سے مکالمہ قائم کر لیا ہے تو میں ان مسائل کو بھی آپ کے گوش گزار کر دوں جو ہمارے تمھارے اور اس کائنات میں موجود ہر شے سے تعلق رکھتے ہیں ، میری مراد ماحولیاتی مسائل سے ہے، اگرچہ میں علم ماحول سے تو واقف نہیں ہوں لیکن میں نے سونگھنے اور سننے کی غیر معمولی صلاحیت سے انھیں محسوس کیا ہے۔ وہ راز میں اپنے آخری بیان کے طور پر آپ کے حوالے کرتا ہوں ، مجھے معلوم ہے کہ اس صورت حال کا اصل مجرم انسان ہی ہے لیکن میں یہ بھی جانتا ہوں کہ اس صورت حال سے نمٹنے کی قوت بھی صرف انسان ہی میں ہے اور اس سلسلے میں بس وہی کچھ کر سکتا ہے۔ اب تمام جانداروں کی زندگی انسان کے ہاتھ میں ہے۔

جب میں اپنے گرد و پیش کا جائزہ لیتا ہوں تو محسوس ہوتا ہے کہ اشیا اپنی اصل شکل میں باقی نہیں رہیں ، ہوا میں نہ جانے کیا گھل گیا ہے کہ اس کا اثر ہر شے پر پڑ رہا ہے۔ اس کے رابطے میں آنے والی ہر شے برباد ہو رہی ہے اور ظاہر ہے دنیا کی ہر شے براہ راست یا بالواسطہ ہوا کے رابطے میں ضرور آتی ہے۔ اس لیے ہوا کا کالا سایہ اب ہر جگہ پڑ رہا ہے اور اشیا ویران ہوتی جا رہی ہیں ، یہاں تک کہ سانس لینا بھی خطرے سے خالی نہیں ہے اور جسم کے اندر کی اشیا وقت سے پہلے ہی سڑ رہی ہیں ۔ بہت سی بے ضرر مخلوقات کم ہوتی جا رہی ہیں اور مضر مخلوقات بڑھتی جا رہی ہیں ، مثال کے طور پر گدھ اب نظر نہیں آتے اور مچھر بڑھتے جا رہے ہیں ۔ ہر طرف ایک ناقابل برداشت بدبو پھیل رہی ہے، سب سے زیادہ بدبو تو بارود اور اسی نوعیت کے دوسرے کیمیا کی ہے۔ کائنات کی ہر شے اب ان کے نشانے پر ہے۔

ادھر کچھ برسوں سے میری قوت سماعت کم ہوتی جا رہی ہے، یہ میری اپنی سماعت کم ہونے کا عمل بھی ہو سکتی ہے لیکن مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ یہ صرف میرا مسئلہ نہیں ہے میرے ہم جنس بھی شاید ایسا ہی محسوس کر رہے ہیں ، مجھے لگتا ہے کہ سماعت کم ہونے کا سبب موسم کی بد مزاجی اور آلودگی ہے۔ قوت سماعت کم ہونے کے باوجود میں کائنات کی بہت سی مخفی آوازوں کو سن رہا ہوں زمین سے آسمان تک نہ جانے کیسی کیسی آوازیں آ رہی ہیں جو میری راتوں کی نیند اڑا رہی ہیں ، خطرے کے بہت سے بادل اس کائنات پر منڈلا رہے ہیں ، کچھ برسوں سے زمین کے اندر کی سرگوشیاں بڑھتی جا رہی ہیں ، وہاں کیا ہو رہا ہے؟ مجھے بھی نہیں معلوم لیکن یہ زلزلے والی سرگوشی نہیں ہے، یہ سرگوشی زلزلے کی سرگوشی سے آہستہ لیکن اس سے زیادہ مستحکم اور مسلسل ہے۔

 

اب میری عمر چودہ برس ہو چکی ہے، آپ لوگ جانتے ہی ہیں کہ زیادہ تر کتے اس عمر کو پہنچنے سے پہلے ہی فوت ہو جاتے ہیں ، تو ظاہر ہے جلد ہی میں بھی فوت ہو جاؤں گا۔ اپنی غیر معمولی سونگھنے کی قوت کی بنا پر میں نے جسم کے زوال ہونے کے عمل کو سونگھ لیا ہے۔ میرے جسم سے وہ بدبو اٹھنی شروع ہو چکی ہے جو زوال جسم سے ٹھیک پہلے اٹھتی ہے، چند روز بعد اسے آپ بھی محسوس کرنے لگیں گے۔ اگر آپ مجھے غور سے دیکھ رہے ہوں گے تو آپنے یہ بھی دیکھا ہوگا کہ میں بار بار اپنے پیروں سے جسم کے مختلف حصوں کو چھو رہا ہوں ، دراصل یہ اس بات کی علامت ہے کہ اس خارش کا بھی آغاز ہو چکا ہے جو فوت ہونے سے قبل ہم کتوں پر بھیانک طور پر چھا جاتی ہے۔ یہ ساری علامتیں اس بات کا اشاریہ ہیں کہ ہمارے جسم کا زوال شروع ہو چکا ہے لیکن ابھی ابتدائی مرحلے میں ہے اس لیے ابھی کچھ روز آپ کو اس کا کوئی اثر میرے جسم میں نظر نہیں آئے گا۔

یہ زوال کا لفظ میں نے شعوری طور پراستعمال کیا ہے کیونکہ میرے لیے موت کا مطلب صرف جسم کا زوال ہی ہے، ہم کتوں کے لیے موت کے بعد کوئی آخرت نہیں ہوتی، جنت یا جہنم کا کوئی تصور نہیں ہوتا، ہمارے لیے زندگی کا مطلب ایک کیمیائی رد عمل ہے اور موت کا مطلب اس رد عمل کے اثر کا ضائع ہونا۔ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ انسان جیسا ذی علم، فلسفی اور دانشور اب تک خدا کے ہونے کے خواب سے باہر کیوں نہیں نکل سکا۔ مجھے نہیں معلوم کہ خدا کا تصور کب کیسے اور کن حالات میں کیا گیا، یہ بھی نہیں معلوم کہ خدا کسی علم، فلسفے یا دانشوری کے ذریعے وجود میں آیا یا کسی قسم کی اقربا پرستی، فسطائیت یا تعصب کا نتیجہ ہے۔ اور اگر مان بھی لیں کہ خدا نے ہی تمام ذی روحوں کی تخلیق کی ہے تو اس نے ہم کتوں کو نجس و ناپاک کیوں ٹھہرایا؟ میرے ساتھ یہ ناانصافی کیوں کی؟ بہر حال خدا کی جو بھی حقیقت ہو ہمارے لیے اس کی کوئی حقیقت نہیں ، میں تو ابھی بس موت سے پہلے کے سناٹے کو محسوس کر رہا ہوں اور جسم کی گہرائیوں سے اٹھنے والی بدبو کی لہروں کو محسوس کر رہا ہوں ۔ یہ لہریں کچھ دیر بعد میرے جسم کو پگھلا کر بدبو میں تبدیل کر دیں گی۔

 

طالب کی وضاحت

 

ذرا میں اپنے حواس درست کر لوں … ہوں … میں بالکل ٹھگا ہوا سا محسوس کر رہا ہوں اور حیران ہو کہ مجھ سے آج یہ کیا ہوا گیا؟ کردار کی شکل میں ہمیشہ ہی میں ایک طرح کا سوانگ ہی تو بھرتا آیا تھا لیکن آج میں نے جیسے ہی کتے کا سوانگ بھرا میرے اوپر ایک عجیب و غریب کیفیت طاری ہو گئی اور اس کے بعد میں اپنے آپ پر بالکل قابو نہ رکھ سکا۔ ایسا محسوس ہوا جیسے مجھے کسی آسیب نے جکڑ لیا ہو اور میرا جسم اوڑھ کر وہ اپنی باتیں کہنے لگا۔ اس پورے سوانگ کے دوران مجھے ایک بار بھی یہ احساس نہ ہو سکا کہ میں کون ہوں ؟ اور کیا کہہ رہا ہوں ۔ سوانگ کے دوران اگر میں نے کوئی قابل اعتراض بات کہہ دی ہو تو اس کے لیے میں قطعی ذمہ دار نہیں ہوں کیونکہ اس وقت میں بالکل اپنے ہوش و حواس میں نہ تھا۔

افسانہ نگار صاحب آپ سچ کہہ رہے تھے کہ یہ کہانی آپ کی نہیں ہے، میں نے بے جا دخل اندازی کی، میں اعتراف کرتا ہوں کہ اس کہانی میں آپ کا تو خیر کیا… خود میرا جس نے سوانگ بھرا تھا اور بظاہر جو کہانی سنا رہا تھا اس کا بھی کوئی عمل دخل نہیں ہے یہ کہانی تو کسی غیبی طاقت نے سنائی ہے۔

 

افسانہ نگار کا اعتراف

 

اب مزید جھوٹ بولنے کا میرا کوئی ارادہ نہیں ہے، میں اعتراف کرتا ہوں کہ یہ کہانی میں نے شروع کی تھی پھر طالب کو کتے کا سوانگ بھرنے کی دعوت میں نے ہی دی تھی۔ اس کے بعد میں خود بھی سرکس کے ناظرین کے درمیان جا کر بیٹھ گیا تھا۔ یہ سب بالکل ویسے ہی تھا جیسے کوئی ڈراما نگار کسی دوسرے کی ہدایت میں کھیلے جانے والے اپنے ہی ڈرامے کو بطور ناظر دیکھے۔ اس وقت میرے اختیار میں کچھ بھی نہ تھا، میں چاہ کر بھی کچھ نہ کر سکا، میں نے کئی بار کتے کی طرف اشارہ کیا کہ یہ کیا کر رہے ہو؟ میں نے اپنے افسانے کو اس طرح تو ترتیب نہیں دیا تھا۔ لیکن اس پر میرے اشاروں کا کوئی اثر نہ ہوا۔ میں نے اپنے تفریحی مشغلوں میں کتوں پر کئی فلمیں و ڈرامے دیکھے تھے اور کئی افسانے و نظمیں پڑھی تھیں ، ان سب نے اپنے اپنے طور پر اپنے آئینے میں کتے کا عکس دکھایا تھا کچھ اسی طرح کا میرا بھی ارادہ تھا لیکن یہ کتا تو اس آئینے میں ہمیں اپنا ہی عکس دکھا گیا۔

٭٭٭

مصنف کی اجازت اور تشکر کے ساتھ

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید