FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

فہرست مضامین

العتیبی کی کتاب الحکم بغیر ما انزل اللہ پر ردّ

 

مولف:ڈاکٹر طارق عبدالحلیم المصری

اردو ترجمہ:عبدالعظیم حسن زئی

نظرثانی : فضیلۃ الشیخ فاروق احمد قصوری

 

 

 

ناشر : الدَّعوَۃ السَّلَفِیۃ

http://www.muwahideen.tk

info@muwahideen.tk

مسلم ورلڈ ڈیٹا پروسیسنگ پاکستان

 

 


 

 

مقدمہ

الحمد للّٰہ الذ ی¸ ابان الحق وجعل لہ نورا یطلع علیہ من اھتدی بھدی¸ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم، ولم تتغشّی قلبہ ظلمات الاھواء والبدع ولم یلتاث فھمہ بجرثوم التحریف والتحریر۔

بہت سی تالیفات میں اہلِ سنّت و الجماعت کا نام استعمال کیا جاتا ہے مگر حقیقت میں یہ تالیفات استدلال و طریقہ استدلال میں اہلِ سنّت کے منہاج سے دور ہوتی ہیں اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ ان کے مصنفین نے اہلِ سنّت کے بعض قواعد و مفاہیم کو اپنایا ہوتا ہے مگر اہلِ سنّت کا نقطہ نظر اس سے بڑھ کر کچھ اور ہے صرف قواعد و اصول سے مذہب یا نظریہ نہیں بنتا بلکہ یہ معاملہ بہت گہرا اور بڑا ہے کہ ان کے قواعد و اصول کو اس طرح بنایا اور مرتب کیا جائے کہ جن سے اصولِ مقررہ اور فروع ثابتہ کااستنباط کلیات عامہ اور جزئیات خاصہ کے ساتھ ہو سکتا ہو۔یہ اصول اور یہ ترتیب اگر ملحوظ رہے تو اس سے بدعت کا پیدا ہونا ممکن نہیں۔جیسا کہ العتیبی نے ترتیب دی ہے۔جو کتاب ہمارے ان سطور کا موضوع ہے اس کے ابتدائی صفحات سے ہی اندازہ ہو جائے گا کہ مصنف نے کتنی بڑی غلطی کی ہے۔جس کا تذکرہ ہم عنقریب کریں گے ان شاء  اللہ۔

یہ تمام غلطیاں ان لوگوں سے اس لیے سرزد ہوتی ہیں کہ یہ اس توحید کی فہم میں ملاوٹ کرتے ہیں جو توحید کتب آسمانی میں آئی ہے اور جس کو ثابت کرنے کے لیے انبیاء  کرام دنیا میں تشریف لاتے رہے اس توحید کی بنیاد ایک اللہ کی مطلق اطاعت ہے۔اس کا مطلب ہوتا ہے اس اللہ کے تمام احکام کو قبول کرنا اور غیب کے طور پر۔ان لوگوں نے اطاعت مطلق کو مطلق اطاعت کے ساتھ برابر کیا ہے جیسا کہ انھوں نے تشریع مطلق کو مطلق تشریع کے برابر قرار دیا ہے۔مگر جو شخص توحید کا معنی اور اس کی تعریف سے واقف ہے اس کے نزدیک ان دونوں میں فرق ہے۔ان لوگوں کی جسارت کا یہ حال ہے کہ قبول تحاکم الی شرع اللہ اور عدم التشریق المطلق کو ان فرعیات شرعیہ کے برابر قرار دیا ہے جو ایک نبی کے دور میں کچھ اور دوسرے نبی کے دور میں کچھ اور ہوتی رہیں۔پھر انھوں نے اس کو ان احکام شرعیہ میں سے قرار دیا ہے کہ اس کی تعریف کلیہ عامہ کے ماتحت ہے لہٰذا یہ لوگ صحیح منہج اور صراط مستقیم سے گمراہ ہو گئے۔

 

(العتیبی کی کتاب کا )پہلا مبحث

 

ضروری قواعد جن کا جاننا ضروری ہے اس مبحث میں عتیبی نے چھ قواعد سے متعلق بات کی ہے اس میں یہ صاف نظر آتا ہے کہ ان قواعد میں اس نے اپنا وہ مذہب ذکر کیا ہے جو توحید کی بنیاد کو ڈھانے والا ہے جس کا ذکر ہم نے اس کی یہ عبارت کہ :

‘’ایسے قواعد جن کا جاننا ضروری ہے ‘‘

سے گویا وہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ گویا یہ وہ قواعد ہیں جو ثابت شدہ ہیں تیار ہیں ان میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ گویا یہ وہ قواعد ہیں جو ثابت شدہ ہیں تیار ہیں ان میں کوئی اختلاف و تنازع نہیں ہے حالانکہ یہی تو اختلاف کی اصل و بنیاد ہیں یہی تو وجہ تنازع ہیں۔العتیبی پہلے قاعدے کے پانچ اصول ذکر کرتے ہیں کہ الحکم بما انزل اللہ ہرمسلمان پر فرض ہے۔اس جملے کے ذریعے وہ قاری کے دل میں اپنا مقام بنانا چاہتا ہے تاکہ اس کے بعد وہ حکم بغیر ما انزل اللہ کو کفر یہ صورت میں تبدیل کرے یعنی تشریع مطلق وضع کرنا اور پھر وہ اس کے لیے بھی حکم بما انزل اللہ جیسا احترام ثابت کرتا ہے لیکن اصل بات یہ ہے کہ اس نے وضع تشریع مطلق کو شریعت کے دیگر فروعات کے برابر قرار دیا ہے۔سلبی و ایجابی دونوں لحاظ سے۔نماز،زکوٰۃ،داڑھی،پردہ،سب فرض ہیں جس طرح کہ شراب،زنا،غیر عورت کو دیکھنا حرام ہے ان کو ترک کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔تو کیا  جو شخص اللہ کے نازل کردہ کے علاوہ کوئی اور قانون بناتا ہے اور لوگوں کو اس کے ماننے پر مجبور کرتا ہے یہ اس شخص کے برابر ہے جو داڑھی مونڈتا ہے ؟ اور یہ اعتراض بھی صحیح نہیں ہے کہ فرائض کے درجات مختلف ہوتے ہیں اس لیے کہ فرضیت کے درجے کے اختلاف سے مقصد میں اختلاف نہیں آتا اور جو ایسا سمجھتا ہے اسے فرق واضح کرنا چاہیے اور فوارق کی تعریف کرنی چاہیے۔

دوسرے قاعدے میں کہتا ہے:’’کسی شخص کے کفرات میں سے کسی کفر میں واقع و مبتلا ہونے سے اس کا کفر لازم نہیں آتا‘‘۔

یہ عام کلام ہے اسے خاص کرنا چاہیے اس (امر)کے ساتھ جو کفر اکبر میں سے ہو جس میں علم اور پہنچنا شرط نہیں ہوتا۔ورنہ تو قریش نبیؐ کی بعثت سے قبل کافر نہیں تھے۔حالانکہ یہ اجماع کے خلاف ہے۔پھر اگر کلام کو ظاہر پر محمول کیا جائے تو پھر اس میں کوئی ابہام نہیں ہے کہ اس سے اس کا مذہب اور اس کے کلام کا مقصد معلوم ہوتا ہے جبکہ وہ مکفرات کہ جن کے صرف ارتکاب سے کفر لازم نہیں آتا ان کی اقسام ہیں :

1              جس پر شریعت میں کفر کا اطلاق کیا گیا ہو یعنی وہ کفر اصغر یا عملی کافر ہو جس طرح کہ حدیث میں بھاگے ہوئے غلام اور شوہر کی نافرمانی کرنے والی بیوی کے لیے کفر کا لفظ آیا ہے اس طرح کے عمل کو کفر اکبر کا مرتکب نہیں کہا جاتا جب تک کہ اس کے حلال ہونے کا اعتقاد نہ رکھتا ہو۔مثلاًکسی عام قاعدے اور کلیہ کا انکار یا متواتر کا انکار یا اس کا انکار جس کا علم دین میں بدیہی طور پر معلوم ہو اور ا س کے منکر کو اس وقت کا فر کہا جائے گا جب اسے علم ہو اور دین کا وہ مسئلہ اسے پہنچا ہو اس مسئلے کی تفصیل کا مقام کفر الجہل کا مبحث ہے (اس کی تفصیل کے لیے ہماری کتاب الجواب المفید فی حکم جاہل التوحید۔ملاحظہ کریں )البتہ وہ  مکفرات کہ جن کا مرتکب کافر ہوتا ہے اس میں بلاغ پہنچنے کی ضرورت نہیں ہوتی یہ وہ مکفرات ہیں جو توحید کو نقصان پہنچاتے ہیں جو کہ دین کی بنیاد ہے انبیاء ؑ کی بعثت کا مقصد ہے۔ہم عتیبی سے پوچھتے ہیں کیا رسول اللہؐ  کو گالی دینا عمومی قاعدے کے تحت آتا ہے ؟ یا یہ مستثنیٰ ہے ؟ اور اگر عموم سے استثنا ء کیا جائے تو وہ عام نہیں رہتا اسے خاص کہنا صحیح ہوتا ہے (مزید تفصیل کے لیے ابن تیمیہؒکی  الصارم المسلول دیکھیں )

تیسرا قاعدہ:     حاکم کا کفر اس کے خلاف خروج (بغاوت)کو لازم نہیں کرتا۔اس سے زیادہ صحیح اس طرح بیان کیا جا سکتا ہے کہ حاکم کا کفر اس کے خلاف خروج کو جائز نہیں بناتا مگر چند شرعی شرائط کے مکمل طور پر موجود ہونے کے بعد جیسے طاقت و قدرت وغیرہ۔جس کی وضاحت عتیبی نے بعد میں کی ہے۔ہمارا نہیں خیال کہ عتیبی اس میں مخالفت کرے گا اس لیے کہ وہ خروج کے شروط کا اقرار کرتا ہے مگر دونوں عبارتوں میں بہت بڑا فرق عتیبی کی عبارت میں موجود اشارہ کے لحاظ سے موجود ہے وہ یہ کہ عدم جواز الخروج ہی اصل ہے حالانکہ یہ صحیح نہیں ہے بلکہ اصول یہ ہے کہ اس جیسے حاکم کو ہٹانا ہے جب وہ تمام شرطیں پائی جائیں جن کا ذکر عتیبی نے کیا ہے۔عتیبی پر حجت قائم کرنے کے لیے اس کی ذکر کردہ دوسری شرط کی وضاحت ضروری ہے۔اس شرط کا مطلب کیا ہے ؟ یہ ایسی شرط ہے کہ اس پر عتیبی نے ان نصوص میں سے کوئی نص پیش نہیں کی جو ا س نے اس قاعدے کے تحت ذکر کی ہیں بلکہ تمام نصوص اس نے اس استثناء کے بغیر ذکر کی ہیں کہ قدرت و تمکن ہو اور اس (حکمران )کے عوض میں مسلمان کو لایا جائے اور اس خروج کی کوشش سے کوئی اور زیادہ بڑا فساد و خرابی پیدا نہ ہوتی ہو۔یہ سب صحیح ہے۔پھر  عتیبی اس موقع پر یہ شرط کہاں سے لایا؟ یا اس شرط کا اس نے اپنی طرف سے اضافہ کیا ہے تاکہ اس کی بنیاد کو ثابت کرسکے جسے یہ رائج کرنا چاہتا ہے جس کو اس نے عیب چھپانے کا ذریعہ بنا لیا ہے۔

پھر عتیبی کی رائے میں اقامت حجت کی کیا شرائط ہیں ؟ کیا یہ ضروری ہے کہ آدمی خود حاکم کے پاس جائے اور اس کے سامنے اسلام اور توحید کی وضاحت کرے اور اگر وہ حکمران تکبر کرے،توحید کو نہ مانے تو تب یہ اس پر حجت قائم کرنا کہلائے گا؟ یا خود جانے کے بجائے دوسرے لوگوں کے ذریعے بھی کافی ہو جاتا ہے۔یا لاعلمی کو ختم کرنے والے علم کا پھیلنا ہی کافی ہے (قیام حجت کے لیے )وہ اس طرح کہ جو داعی لوگوں میں اللہ کے حکم کو نافذ کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں ان کا یہ مطالبہ ان حکمرانوں تک رسائل اور کتب کے ذریعے پہنچ جائے اور یہ کتب ورسائل دلائل کی وضاحت کرتے ہوں اور براہین قائم کریں۔جبکہ حجت یا اس کی قبولیت سے مراد اس کا نہ پہنچنا اور قائم نہ ہونا سمجھ لیا گیا ہے۔(الجواب المفید ص:118)

کبھی حجت براہ راست پہنچانے سے قائم ہوتی ہے اور کبھی علم کے پھیلنے سے کہ اس سے لاعلمی دور ہوتی ہو۔رسول اللہؐ نے جن کفارسے جنگ کی ان میں سے ہر ہر شخص کو انفرادی طور پر حجت نہیں پہنچائی بلکہ آپؐ کی دعوت سے جو علم پھیلا اقامت حجت کے لیے دلیل کے طور پر اسی پر اکتفاء  کیا گیا۔

وجادلھم بالتی ھی احسن کے تحت علمی مناقشہ کے ذریعے اضطراب میں اضافہ کیا گیا ہے جہاں مسئلہ متعلقہ بحکام المسلمین کے ضمن میں مندرجہ ذیل استدلال کیا ہے کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ اپنے  فتاویٰ(16/434)میں لکھتے ہیں :ہر خطا کار کافر نہیں خاص کر دقیق مسائل میں غلطی کرنے والا وہ دقیق مسائل جن میں امت کے درمیان اختلاف بہت زیادہ پایا جاتا ہے۔مزید فرماتے ہیں :(12/466)کسی کو حق نہیں پہنچتا کہ مسلمانوں کو کافر قرار دے اگرچہ وہ غلطی کرے۔جب تک اس پر حجت قائم نہ کی جائے اور حجت سمجھا نہ دی جائے۔جس کا اسلام یقینی ثابت ہو چکا ہو تو شک کی بناء  پریہ زائل نہیں ہو سکتا بلکہ صرف اقامت حجت اور ازالہ شبہ کے بعد ہی زائل ہو گا۔جیسا کہ ہم نے ذکر کیا کہ ابن تیمیہؒ غلطی کرنے والے مرتکب گناہ کی بات کر رہے ہیں جبکہ ہم یہ تسلیم نہیں کرتے کہ الحکم بغیر ما انزل اللہ تشریع مطلق کی صورت میں گناہ ہے۔لہٰذا اس اختلاف میں ابن تیمیہؒ کی بات سے استدلال صحیح نہیں ہے ابن تیمیہؒ نے جن دقیق مسائل کی بات کی ہے تو اس سے مراد ہے اللہ کی صفات میں اختلاف وغیرہ جیسا اللہ کی صفت قدرت میں اختلاف ہے اور جیسا کہ ایک آدمی نے اپنی راکھ دریا میں بہانے کی وصیت کی تھی۔مطلب یہ کہ مسائل خفیہ میں کفر سرزد ہو جائے نہ کہ ان مسائل میں جو کہ کتاب وسنت اور اجماع سے ثابت ہیں۔

اس عتیبی نے وجادلھم بالتی ھی احسن کے ضمن میں مناقشہ علمیہ کے تحت مسئلہ متعلقہ بحاکم المسلمین میں خلط ملط کیا ہے جہاں اس نے ابن تیمیہؒ کے قول سے استدلال کیا ہے :

‘’شیخ الاسلامؒ فرماتے ہیں (فتاویٰ:16/434) :ہر خطاء  کرنے والا کافر نہیں ہوتا خاص کر دقیق مسائل میں جن میں امت کے درمیان بہت اختلاف ہے۔ابن تیمیہؒ (فتاویٰ:12/466)میں فرماتے ہیں :کسی کے لیے جائز نہیں کہ کسی مسلمان کو کافر کہے اگرچہ اس سے خطاء  و غلطی سرزد ہو گئی ہو جب تک اس پر حجت قائم نہ کی جائے۔حجت کی وجہ واضح نہ کر دی جائے۔جس کا اسلام یقینی طور پر ثابت ہو چکا ہو وہ شک کی بناء پر زائل ہی نہیں ہو سکتا۔

پھر چوتھے قاعدے میں ایک اور بڑی مصیبت آ گئی ہے کہ :ان الاصل فی الاعمال ھو عدم التکفیر(اعمال میں اصول ہے عدم تکفیر)

اور تکفیر اسی اصول سے ماخوذ ہے اسی پر پیش کیا جاتا ہے۔اس اصول کو اس طرح صرف وہی شخص بنا سکتا ہے جو باطن میں مرجۂ ہو اس لیے کہ اعمال کی بنیاد و اصول ہی نہیں بلکہ انہیں اپنے مقام کے لحاظ سے پرکھا جائے گا پتہ نہیں یہ شخص اس طرح کا اصول اور قاعدہ کہاں سے لایا؟ اگر یہ اس طرح کہتا کہ اعمال میں سے کچھ ایسے ہیں جو بظاہر کافر بنا دینے والے ہوتے ہیں مگر ان کا فاعل کافر نہیں ہوتا تب بات صحیح ہوتی۔لیکن اس طرح کے ساتھ کہنا کہ اعمال میں اصل عدم تکفیر ہے تو یہ بات اسلاف میں سے کسی نے نہیں کہی۔البتہ جو شخص مسلمان ہو اور پھر وہ کوئی گناہ یا تاویل کرے تو اس کو اسلام سے خارج کرنے میں اختلاف ہے جیسا کہ ابن عبدالبرؒ سے منقول ہے کہ ابن عبدالبرؒ کے کلام میں صراحت اور وضاحت ہے کہ یہ بات گناہ اور تاویل کے مرتکب کے بارے میں ہے ہر باطل عمل کرنے والے کے بارے میں نہیں ہے۔اگر ہم عتیبی کے منہج اپنائیں یعنی تحریف میں کلام کرنے والا منہج تو پھر ابن عبدالبر کے کلام کہ جس نے گناہ کیا (گناہ فعل ہے)سے جان چھوٹ جاتی ہے جیسا کہ عتیبی نے اس سے استدلال کیا ہے اسی طرح ابن عبدالبر کے کلام (جس نے تاویل کیا )تاویل اعتقاد میں ہوتی ہے (تو گویا مطلب یہ ہو گا کہ )کوئی شخص کسی بھی قسم کا عمل کرے یا کوئی بھی عقیدہ رکھے اسے کافر نہیں کہا جائے گا کیساہی عمل یا اعتقاد کیوں نہ ہو اس لیے کہ اعمال میں اصل عدم تکفیر ہے۔حالانکہ یہ بات پہلے کسی نے نہیں کہی۔نہ ہی بعد میں کسی عقلمند نے کی ہے لیکن اللہ کی مخلوق میں مختلف قسم کے لوگ ہوتے ہیں (یعنی بے وقوف بھی ہوتے ہیں )

پانچواں قاعدہ تو اس بات کی دلیل ہے کہ شیخ توحید کی سمجھ سے بے بہرہ ہیں بلکہ انھوں نے تو اپنے ارجاء کے مذہب کے استدلالات کو خوارج کے دلائل کے ساتھ خلط کیا ہے۔جو قاعدہ اس نے ایجاد کیا ہے وہ یہ ہے کہ الحکم بما انزل اللہ کا مسئلہ کسی کے ساتھ خاص نہیں ہے۔پھر وضاحت اس طرح کرتا ہے کہ جس نے بھی اپنے بارے میں یا د و افراد یا کئی لوگوں کے درمیان یا استاد اپنے شاگردوں کے درمیان باپ اپنی اولاد کے درمیان فیصلہ کرتا ہے تو یہ سب فیصلہ کرنے والے حاکم بغیر ما انزل اللہ ہیں اور جو حاکم بغیر ما انزل اللہ کو کافر کہتے ہیں ان کے نزدیک یہ اشخاص کافر ہیں۔اس پر دلیل ابن تیمیہؒ کے اس قول سے لی ہے جو اس پر دلالت ہی نہیں کرتا۔ابن تیمیہؒ کا قول ہے کہ جس نے دو افراد کے درمیان فیصلہ کیا تو وہ قاضی ہے اس لحاظ سے وہ حاکم ہے۔ابن تیمیہؒ نے اس آدمی کی بات ہی نہیں کی جو اپنی اولاد کے درمیان جائیداد یا زمین کے تقسیم کا فیصلہ کرتا ہے۔وہ ان کے درمیان بغیر ما انزل اللہ کے مطابق فیصلہ کیسے کرے گا ؟ یہ کیسے سوچاجا سکتا ہے کہ قرآن و حدیث میں حکم بما انزل اللہ اور توحید عبودیت کے تذکرے اور یہ واضح ہو جانے کہ عبادت ہی اطاعت ہے اس کے علاوہ توحید کے اصول واضح ہونے کے بعد ابن تیمیہ رحمہ اللہ ایسی باتیں کریں گے جو ایک آدمی (عتیبی)نے اپنے قاعدے اور اصول میں بنا رکھے ہیں ؟

یہ خوارج کا عقیدہ ہے اور ان کی رائے ہے کہ جو بھی شخص دو افراد کے درمیان فیصلہ کرتا ہے وہ حاکم ہے اس کی بھی وہی حالت ہے جو عام شرع وضع کرتا ہے اور لوگوں کو اس کے ماننے پر مجبور کرتا ہے۔اسی لیے انھوں نے مرتکب گناہ کو کافر قرار دیا ہے اس لیے کہ اس نے اپنے لیے اپنی خواہش سے فیصلہ کیا اوراس پر یہ آیت صادق آتی ہے :

 

جو اللہ کے نازل کردہ (احکام )کے مطابق فیصلہ نہیں کرتے تو وہ لوگ کافر ہیں۔اسی طرح وہ باپ جو اپنے گھر والوں کے درمیان یا اپنے بارے میں اللہ کی نافرمانی کرتا ہے وہ کافر ہے اسی طرح استاد (اپنے شاگرد کے درمیان فیصلہ کرے)یا عتیبی سے پوچھا جا سکتا ہے جو ارجاء میں مبتلا ہو چکا ہے اور دو علیحدہ چیزوں کو یکجا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔پھر یہ بات بھی ہر شخص اچھی طرح جانتا ہے کہ ابن تیمیہ ؒبغیر ما انزل اللہ شرع بنانے والے اور اپنے بچوں کے درمیان فیصلہ کرنے والے کو یکساں نہیں سمجھتے۔یہ بات ان کی عبارت جلد 18صفحہ 170 میں موجود ہے۔مگر یہ بات عدل کے بارے میں کہی گئی ہے جس کا حکم ہر شخص کے لیے ہے قاضی ہو یا غیر قاضی،حاکم (حکمران)ہو یا نہ ہو اسی لیے وہ کہتے ہیں کہ :القضاۃ ثلاثۃ….قاضی تین قسم کے ہوتے ہیں۔یہاں وہ عدل کے بارے میں بات کر رہے ہیں جو کہ ہر معاملے و فیصلے میں ضروری ہے اگرچہ بچوں کے درمیان فیصلہ ہی کیوں نہ ہو ابن تیمیہؒ کی مراد فیصلہ کرنے والوں میں برابری پیدا کرنا نہیں ہے جیسا کہ عتیبی نے ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ابن تیمیہ جو عدل مراد لے رہے ہیں یہ تشریع بغیر ما انزل اللہ کے مقابل نہیں ہے بلکہ عدل تو ظلم کے مقابل ہے جو کہ دُونَ کفر ہے۔تو اس سے یہ کیسے سمجھا جا سکتا ہے کہ دو بچوں کے درمیان فیصلہ اللہ کے حکم کے متضاد تشریع مطلق کرنا دونوں برابر ہیں ؟

چھٹا قاعدہ بہت سے اشکالات کا سبب احتمال ہوتا ہے

یہ قاعدہ صحیح ہے اس میں کوئی شک نہیں مگر یہ اس کے خلاف ہے اس کی تائید میں نہیں ہے جیسا کہ تفصیل سے واضح ہو جائے گا۔

 

 

مبحث ثانی :مسئلہ الحکم بغیر ما انزل اللہ کی تفصیل

 

اس آدمی نے کفر اکبر کی حالات کا خلاصہ بیان کیا ہے اور اسے چھ حالات تک محدود کیا ہے :

1      استحلال

2      جحود

3      تکذیب

4      تفضیل

5      مساواۃ

6      تبدیل

پھر تین حالتیں ذکر کی ہیں جنھیں کفر اصغر قرار دیا ہے:

1      استبدال

2      تقنین

3      تشریع العام

تفصیلی ردّ سے پہلے ہم یہ بتانا چاہتے ہیں کہ اس نے جتنے دلائل ذکر کیے ہیں ان میں اس نے حکم بغیر ما انزل اللہ کو دیگر گناہوں سود وغیرہ کی طرح فرض کر لیا ہے جیسا کہ وہ عثیمین کے قول سے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں (ص:18)

ہر اہلِ سنّت کی طرح ہم بھی اس کی ذکر کردہ کفر اکبر کی چھ صورتوں میں اختلاف نہیں کرتے۔ہم ان تفصیلات میں اختلاف کرتے ہیں جو اس نے بیان کی ہیں اور ان میں اس گناہ کو جس کی وجہ سے کہ استحلال کے بغیر کفر لازم نہیں آتا اور اس بنیاد کو جو حکم بغیر ما انزل اللہ کی وجہ سے کافر بناتا ہے کو خلط کیا ہے۔

 

                   پہلی صورت

 

استحلال (حکم بغیر ما انزل اللہ یاکسی بھی حرام کو حلال سمجھنا)اس کے دلائل سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ گناہوں کو حلال سمجھنے والے کے بارے میں بات کر رہا ہے یہی وہ بنیاد ہے جسے ابن تیمیہؒنے اپنے استشھادات میں ذکر کیا ہے۔جیسا کہ ہم نے کہا کہ ہم اس بات کو تسلیم نہیں کرتے کہ تشریع مطلق اور قانون سازی کے طور پر حکم بغیر ما انزل اللہ گناہ ہے لہٰذا اس اختلاف میں ان دلائل سے استدلال صحیح نہیں ہے ہم دیگر صورتوں میں اختلاف و نزاع نہیں کرتے۔اسی طرح استحلال کفر اکبر ہے جو ملت سے خارج کر دینے والا ہے چاہے یہ استحلال حکم بغیر ما انزل اللہ کا ہو یا کسی اجنبی عورت کو دیکھنے کا۔تو پھر کفر کے لیے صرف حکم بغیر ما انزل اللہ کو کیوں خاص کیا ہے استحلال کے بغیر ؟ جس نے عتیبی کو ایسے دلائل لانے پر مجبور کیا ہے جن سے ثابت ہو جائے کہ اس کے ذکر کردہ تمام مقامات یا وجوہات و بنیادیں کفر اکبر میں سے نہیں ہیں۔

(ص:18)پر ابن تیمیہ ؒکا جو قول اس نے نقل کیا ہے اس سے دلیل لینا صحیح نہیں ہے ابن تیمیہ ؒکا قول یہ ہے :’’انسان جب اس حرام کو حلال کہے جس کی حرمت پر اتفاق ہے یااس حلال کو حرام کہے جس کی حلت پر اتفاق ہے۔اس شریعت کو بدل دے جس پر اتفاق ہو چکا ہے۔تو یہ شخص باتفاق فقہاء مرتد کا فر ہے۔اسی کے بارے میں بقول بعض یہ آیت نازل ہوئی ہے :

وَ مَنْ لَّمْ یَحْكُمْ بِمَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ فَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْكٰفِرُوْنَ (المائدۃ:44)

’’جو اللہ کے نازل کردہ (شرع)کے مطابق فیصلے نہیں کرتے وہ لوگ کافر ہیں ‘‘۔یعنی حکم بغیر ما انزل اللہ کو حلال و ناجائز سمجھتا ہو۔س کی وجہ یہ ہے کہ ہم اس بات سے انکار نہیں کرتے کہ حکم بما انزل اللہ کی ایک صور ت جس کے بارے میں ابن تیمیہؒ بات کر رہے ہیں اس سے ان کی مراد حکمران و با اختیار عہدے دار ہیں جو اپنے فائدے کے لیے قاضی کا حکم توڑ دیتے ہیں اس کے احکام ردّ کر دیتے ہیں انہیں نافذ نہیں کرتے(مجموع الفتاویٰ:3/267)۔یہ مقام یا صورت عہدے دار کی طرف سے تبدیل کرنے کی صورت ہے اس کا تعلق اس صورت سے نہیں ہے جس کے بارے میں ہم بات کر رہے ہیں یعنی تشریع مطلق اور اللہ کی شریعت کے متوازی شریعت بنانا اور لوگوں کے معاملات کے فیصلے اس کے مطابق کرنا۔یہ حکم بغیر ما انزل اللہ کی سب سے بڑی صورت ہے۔عتیبی عام اقوال کو استعمال کرتا ہے یہ نہیں دیکھتا کہ یہ کس مقصد اورکس کے بارے میں ہیں۔

اس صورت میں دوسرے مسئلہ میں عتیبی یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ استحلال قلبی امر ہے۔یہ صحیح ہے اس میں کوئی ابہام نہیں ہے۔اس کی مخالفت صرف خارجی کرسکتا ہے جو شرع کے مخالف عمل پر ہی کافر قرار دیتے ہیں۔البتہ ہم یہ بات دہرانا چاہتے ہیں کہ عتیبی نے جو لائل دئیے ہیں وہ ان گناہوں کے بارے میں ہیں جن میں ہمارا ان سے کوئی اختلاف نہیں ہے جیسے اپنی ماں سے شادی کرنا وغیرہ یہ دوسرامعاملہ ہے اور تشریع مطلق اور شریعت اسلامی کے متوازی دوسری شریعت بنانے کو جائز و حلال سمجھنا تاکہ لوگوں کے فیصلے اس کے مطابق ہوں دوسری بات ہے۔ان لوگوں کے ساتھ ہمارا بنیادی اختلاف اس میں ہے۔اور اس (عتیبی )کا ابن بازؒ کے قول سے استشھاد کرنا مشرع مطلق پر صحیح نہیں اترتا یہ دوسری صورتوں پر اترتا ہے جو کفر اصغر کی صورتیں ہیں اگرچہ وہ بھی حکم بغیر ما انزل اللہ ہی ہیں جیسے قاضی و حاکم جو قانون سازی واستبدال کے بغیر بالفعل حکم شرعی کو بدل دیتا ہے۔یہ ہم اس لیے کہہ رہے ہیں تاکہ ابن باز کا یہ قول ان کے دوسرے قول سے معارض نہ ہو جو کہ مجلۃ الدعوۃعدد (963):5/2/1405ھ)

:       حاکم بغیر ما انزل اللہ کی اقسام ہیں ان کے اعتقادات اور اعمال کے لحاظ سے ان کا حکم مختلف ہوتا ہے جو شخص بغیر ما انزل اللہ فیصلہ کرتا ہے اوراسے اللہ کی شرع سے بہترسمجھتا ہے تو وہ تمام مسلمانوں کے نزدیک کافر ہے اسی طرح اگر کوئی شخص وضعی قوانین کو اللہ کے احکام و شرائع کی جگہ ان کے بدلے میں استعمال کرتا ہے اور اس کام کو جائز خیال کرتا ہے (وہ بھی کافر ہے)یہاں تک کہ اگر کوئی شخص (زبان سے )صرف یہ کہہ دے کہ شریعت کی تحکیم افضل ہے تو وہ بھی کافر ہے اس لیے کہ اس نے اللہ کے حرام کردہ کو حلال قرار دیا۔یعنی اگر کوئی شخص بغیر ما انزل اللہ کے مطابق حکم کو جائز کہہ دے اگرچہ وہ تحکیم شریعت کو افضل کہتا ہو تو وہ بھی اس آدمی کی طرح ہے جس کا ہم نے ذکر کیا جیسا کہ کوئی کہے کہ میں جانتا ہوں کہ دین محمد(ؐ )دنیا کے تمام ادیان سے بہتر ہے (جیسا ابوطالب نے کہا تھا)۔

فرماتے ہیں :اگر کوئی کہے تحکیم شریعت افضل ہے تو وہ کافر ہے اس لیے کہ اس نے اللہ کے حرام کردہ کو حلال قرار دے دیا اور جو شخص خواہشات کی پیروی کرے یا رشوت لے کر کسی کی دشمنی کی بناء پر یاکسی اور وجہ سے بغیر ما انزل اللہ فیصلہ کرتا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی تسلیم کرتا ہے۔اعتراف کرتا ہے کہ یہ نافرمانی ہے۔اس پر شریعت الٰہی کے مطابق فیصلہ کرنا واجب ہے۔تو ایسا شخص نافرمان،گناہ کبیرہ کا مرتکب شمار ہو گا۔ہم کس طرح دونوں نصوص میں تطبیق پیدا کریں ؟ اور کس طرح اس تقریر میں تطبیق دیں کہ جو عتیبی جیسے لوگ ابن بازؒ اور دیگر ائمہ امت کے اقوال و نصوص پر رکھتے ہیں ؟ ہمارے پاس ایک ہی راستہ ہے کہ ہم یہاں قابل صد احترام علامہ ناصر الدین الالبانی۔شیخ ابن باز اور شیخ عثیمینؒ سے پوچھیں کہ عتیبی نے صرف ان تین علماء پر ہی کیوں اکتفاء کیا ہے؟ کیا ہماری امت کے علماء نے انہی تینوں پر اکتفا ء کیا ہے؟ کیا امت بانجھ ہو گئی ہے کہ اس کے پاس ان تین علماء کے علاوہ کوئی عالم نہیں رہا کہ صرف ان تینوں سے ہم کو علوم اسلامی منقول ہوں گے؟ اور اس دور میں اسلامی احکام کا ثبوت انہی کے فتووں پر منحصر ہو گا؟ علامہ شیخ محمد ابراہیمؒ۔شیخ الدوسریؒ۔علامہ محدث احمد شاکرؒ۔علامہ محمود شاکرؒ۔اور پاکستان کے بہت بڑے عالم ابوالاعلیٰ مودودیؒجیسے علماء نہیں ہیں ؟ ہم پہلے ان علماء کے اقوال پیش کر چکے ہیں جن کے بعد کسی شک و شبہ کی گنجائش ہی نہیں رہی (دیکھئے ہماری کتاب ادعیاء السلفیہ )

اگر یہ امت صرف تین علماء پر ہی اکتفاء کرے گی اگرچہ یہ بہت بڑے عالم ہوں اور بقیہ علماء کے اقوال کو پش پشت ڈال دے گی تو یہ اس کی بہت بڑی بدنصیبی ہو گی اس لیے کہ ہر شخص کی کچھ خطائیں اور لغزشیں ہوتی ہیں۔ہم جانتے ہیں کہ عتیبی جیسے لوگوں نے یہ طریقہ کیوں اختیار کیا ہے کہ صرف بن باز اور عثیمینؒ  کے اقوال اپنائے ہیں اس لیے کہ یہ اقوال عام یا مجمل ہیں یا مطلق یا مشابہ یا مبہم ہیں انہیں دیگر نصوص کے ساتھ ملا کر سمجھاجاتا ہے تب ان کا معنی واضح ہوتا ہے۔انھوں نے دوسرے علماء کے اقوال کو چھوڑ دیا ہے جو کہ واضح اور مفسّر ہیں ان میں کئی معنوں اور مطالب کی گنجائش نہیں ہے۔لہٰذا ان کے پاس چارہ نہیں ہوتا سوائے اس کے کہ یہ اپنی غلطی اور دوسروں کی بات کی صحت کو تسلیم کر لیں جہاں تک البانی کی بات ہے تو انھوں نے جو کچھ کہنا چاہا اس میں کوئی شک نہیں ہے اور ایمان و عمل کے بارے میں ان کے اقوال و تقریرات کے موافق ہیں۔البتہ خطاء و غلطی کس سے نہیں ہوتی ؟ عتیبی نے شیخ محمد بن ابراہیم سے ص:25 میں جحود کی جو بحث میں نقل کیا ہے :کہ اس میں اہل علم کے درمیان کوئی اختلاف نہیں کہ دین کے وہ اصول جن پر ان کے درمیان اتفاق ہو چکا ہے ان میں سے کسی اصول کا انکار یاکسی ایسی فرع کا انکار جس پر اجماع ہو چکا ہو یا رسول اللہؐ کی لائی ہوئی (قطعی شریعت)کے کسی حرف کا انکار ملت سے خارج کر دینے والا کفر ہے۔تعجب کی بات ہے کہ اس نے حاکم بغیر ما انزل اللہ کے بارے میں شیخ ؒ کی رائے نقل نہیں کی؟ جو کہ کفر اکبر ہے ملت سے خارج کر دینے والا ہے جیسا کہ ہم پہلے بیان کر چکے ہیں۔لیکن شیخ محمد ابراہیم کے رسالۃ القوانین کی ہم وضاحت کریں گے کہ عتیبی نے یہ ذکر نہیں کیا کہ اس نے ملت سے خارج کرنے والے کفر کی تقسیمات اس کتابچے سے لی ہیں قاری کو یہ باور کرایا ہے کہ یہ اس کے طبع زاد خیالات اور اس کے افکار کا نچوڑ ہے۔حالانکہ یہ بات کسی طالبِ علم کو زیب نہیں دیتی کہ جہاں اس نے اپنی تحریر کا مواد اخذ کیا ہے اس کا حوالہ حذف کر دے دوسری بات یہ کہ حوالہ صرف نصوص یعنی عبارت میں ہی ضروری نہیں ہوتا بلکہ اس تقسیم و ترکیب کا بھی حوالہ دینا چاہیے جو بہترین سمجھ اور عقل کی طرف رہنمائی کرتی ہو۔

اب ہم عتیبی کی نقل کردہ بات کی طرف آتے ہیں ہم منکر اور تکذیب کرنے والے افضل قرار دینے والے یا اللہ اور غیر اللہ کی شرع کو برابر قرار دینے والے کے حکم میں مخالفت یا اختلاف نہیں کر رہے۔ہم اس افضلیت اور مساوات والی بات میں ایک اور چیز کا اضافہ کرنا چاہتے ہیں وہ ہے ‘’الحکم بالظاہر‘‘ کے قاعدے پر عمل کرنا۔اس لیے کہ ظاہر گناہ کا عملِ غیر مکفر کو گناہ ہی مانا جاتا ہے جب تک کہ استحلال واضح نہ ہو۔جیسا کہ اسامہؓ  کی حدیث کا تقاضا ہے کہ آدمی کا آخری عمل ہی اس کے اسلام پر دلالت کرتا ہے یہ فیصلہ یا یہ عمل کا اختتام اس وقت تک نہیں تھا جب اسامہt نے اسے قتل کیا۔یہاں قرائن معتبر نہیں ہیں جیسا کہ عتیبی نے کہا ہے۔اسی طرح اللہ اور انسان کے حکم میں مساوات بظاہر مساوات ہے اور جو شخص غیر اللہ کی شرع اپناتا ہے اور لوگوں پر اسے نافذ کرتا ہے اور اس کی مخالفت کرنے والے کو قتل کرتا ہے تو اس پر کم سے کم شبہ مساوات کاہی ہے بلکہ اللہ کی شرع پر تفضیل کا ہے ایسے میں (حکم بغیر ما انزل اللہ کرنے والے )حاکم کو یہ وضاحت کرنی چاہیے کہ وہ اپنے بنائے ہوئے (وضعی )حکم کو اللہ ورسولؐ  کے حکم کی فضیلت نہیں دیتا بلکہ میں انہیں برابر بھی نہیں سمجھتا۔جیسا کہ دوسروں سے (حکم بغیر ما انزل اللہ کرنے والوں سے)استحلال کی وضاحت مانگی جا سکتی ہے اور دونوں باتوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔تو کیا کبھی کسی نے دیکھا ہے کہ حکم بغیر شرع اللہ کرنے والے نے صراحت کی ہو؟ (کہ میں یہ اس لیے کر رہا ہوں کہ میں اسے اللہ کی شرع سے بہتر سمجھتا ہوں )اب ہم آتے ہیں ’’التبدیل‘‘ کی طرف عتیبی نے جو تبدیل اور استبدال میں فرق کیا ہے وہ غیر معروف ہے اس لیے کہ ان دونوں کا مادہ ‘’بدل’‘ ہے لہٰذا کسی چیز کو بدل دینا تغیر کرنا ہے اگرچہ اس کا متبادل کچھ نہ لایا جائے۔ (لسان العرب:1/176)

اسی طرح بَدّل الشیی کا معنی ہے حَرّفہ (ایضاً)لہٰذا تبدیل استبدال و تحریف کی طرح ہے اور اس کے لیے لازم نہیں کہ اس کامتبادل لایا جائے۔جیساکہ یہود کے ہاں زنا کا واقعہ ہوا جس کا ذکر سورہ مائدۃ میں ہے :﴾وَکَیفَ یُحَکِّمُونَکَ وَ عِندَہُمُ التَّوراٰۃُ﴿ یہ آپ سے فیصلے کیونکر کرواتے ہیں جبکہ ان کے پاس تورات ہے۔اس کی تفسیر میں امام طبریؒ لکھتے ہیں :ان کے پاس وہ تورات ہے جو میں نے موسیٰؑ پر نازل کی جس کا یہ اقرار کرتے ہیں یہ میری وہ کتاب ہے جو میں نے اپنے ایک نبی پر نازل کی اس میں جو بھی حکم ہے وہ میرا حکم ہے یہ لوگ اس بات کو جانتے ہیں کہ یہ حق ہے اس سے انکار نہیں کرتے نہ ہی اسے ردّ کرتے ہیں اور یہ جانتے ہیں کہ اس میں میرا حکم شادی شدہ زانی کے لیے رجم ہے وہ اس بات کو جاننے کے باوجود روگردانی کرتے ہیں۔اس کے مطابق فیصلہ کرنا ترک کرتے ہیں جبکہ اس میں میرا حکم جان چکے ہیں۔یہ میری نافرمانی اور اپنی جسارت کی وجہ سے ایسا کر رہے ہیں۔(طبری:6/247)

اب جہاں تک تعلق ہے امام بخاریؒ کے بیان کردہ لفظ’’ نفضحھم ویجلدون‘‘ اور ایک جگہ لفظ ہیں ’’لانجد فیھا شیئا‘‘  تو عتیبی کا خیال ہے کہ یہود نے ’’بَدَّلُوا‘‘ تبدیل کر لیا تھا یعنی متبادل لائے تھے یہ بات اس نے اپنی خودساختہ رائے کے مطابق کہی ہے کہ تبدیل اور استبدال میں فرق ہے کہ انھوں نے اللہ کی کتاب تورات میں تغیر کیا تھا۔حالانکہ انھوں نے تورات میں جو کچھ کہا تھا اسے تبدیل نہیں کیا تھا اس کی دلیل یہ ہے کہ آیت رجم تورات میں موجود تھی جیسا کہ طبریؒ نے کہا ہے۔اس تورات کا وہ اقرار کرتے تھے کہ وہ حق ہے اور وہ میری وہ کتاب ہے جو میں نے اپنے نبی پر نازل کی ہے اور اس میں جو حکم ہے وہ میرا ہی حکم ہے وہ اسے جانتے ہیں اس کا انکار نہیں کرتے اسے ردّ نہیں کرتے اور جانتے ہیں کہ اس میں شادی شدہ زانی کے لیے میرا حکم رجم کا ہے وہ اس کے باوجود منہ موڑتے ہیں یعنی اس کے مطابق فیصلہ کرنے سے اعراض کرتے ہیں یہ صرف میری نافرمانی کی وجہ سے یہ جسارت کر رہے ہیں۔یہ معاملہ جسارت و نا فرمانی کا ہے کہ وہ منہ موڑتے ہیں اور اس کے مطابق فیصلہ نہیں کرتے ‘’یترکون الحکم بہ’‘عتیبی نے نص کو جس طرح غیر موافق مطلب پر منطبق کرنے کی کوشش کی ہے اس کی طبری کو ضرورت پیش نہیں آئی۔اور کیا وہ شخص جو کتاب اللہ میں موجود حکم کو زبانی طور پر تبدیل کر دیتا ہے مگر کتاب میں تبدیلی نہیں کرتا اور یہ اعتراف کرتا ہے کہ یہ اللہ کا حکم ہے جب ان لوگوں کو طبری کے الفاظ کی وجہ سے مشکل پیش آئی اس آدمی کے بارے میں کہ اللہ کی شرع تبدیل کر کے اس کی جگہ متوازی شرع رکھتا ہے اور لوگوں کو اس کے ماننے پر مجبور کرتا ہے۔اور جو اللہ کے حکم کی طرف دعوت دیتا ہے اسے قتل کرتا ہے تاکہ ان کے لیے یہ امر شدید نہ ہو؟ ۔

پانچویں مسئلہ میں عتیبی نے بخاریؒ کی دو عبارتوں پر توضیح کی ہے یہ کہہ کر :اقول:فیھا افھم….میں کہتا ہوں کہ انھوں نے اللہ کے حکم کا انکار کیا اور اس کی جگہ دوسرا حکم لے آئے اور یہ سمجھے کہ یہ اللہ کا حکم ہے۔یہ عتیبی  کا قول ہے طبری کا بیان نہیں ہے جبکہ ان دونوں کے علم میں بہت فرق ہے۔

چھٹا مسئلہ :ابن حجرؒ سے اس نے جو دلیل پیش کی ہے وہ اس کے خلاف جا رہی ہے جبکہ قاضی عیاضؒ کا مرتدین کی تیسری قسم کے بارے میں جو قول ہے تو اس میں وہ مرتدین شمار کیے گئے ہیں جنھیں عتیبی نے القرون الواحد والعشرین میں ثابت کیا ہے۔اس لیے کہ وہ (مرتدین قسم ثالث )دین میں تبدیل کردہ حکم کو اللہ کا حکم سمجھتے ہیں (کس طرح خواہشات کسی آدمی کو اس طرح کرنے پر آمادہ کر لیتی ہیں )جبکہ مرتدین کا مسئلہ توآسان ہے جیسا کہ قاضی کی عبارت ہے کہ :’’لکنھم جحدوا الزکوٰۃ‘‘ انھوں نے زکوٰۃ کا انکار کیا یعنی زکوٰۃ دینے سے رک گئے اور یہ تاویل کی کہ یہ رسول اللہؐ  کے زمانے کے ساتھ خاص تھی۔اگر یہ تاویل جو کہ رسول اللہؐ  کے زمانے کے قریب کی گئی جائز ہوتی تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین اسے معتبر مانتے اور علماء امت،قاضی و ابن حجر بھی مرتدین سے (یہ تاویل قبول کر لیتے )تو ان لوگوں کا اس آدمی کے بارے میں کیا کہنا ہے جو شرع تبدیل کرتا ہے (چاہے عتیبی اسے تبدیل کہے یا استبدال)اور اس کی جگہ خود ساختہ شریعت رکھتا ہے اور لوگوں کو اس کے ماننے پر مجبور کرتا ہے۔

ساتواں مسئلہ :استبدال،یہ افسوس ناک بات ہے اس لیے کہ اس نے ایسی اختراع کی ہے کہ اس کا معنی و مطلب عربی زبان میں کچھ بھی نہیں ہے پھر وہ استدلال کرتا ہے تاکہ یہ باور کرواس کے کہ یہ صورت بالفعل موجود ہے۔اور جس نے بھی تبدیلی کی یا نئی بات کہہ دی تو اس نے وہ نئی بات متبادل کے طور پر کہی ہے۔پھر اس نے اس کی صورت میں جو کچھ ذکر کیا ہے وہ یہ ہے کہ (استبدال یہ ہے کہ )اللہ کے نازل کردہ کو تبدیل کر دے بغیر تکذیب استحلال،تفضیل اور مساوات کے اور اس اظہار کے بغیر کہ وہ نہ تو حلال سمجھ رہا ہے نہ انکار کر رہا ہے اور نہ ہی برابری اور نہ ہی افضلیت کر رہا ہے۔کیا جو شخص حلال سمجھ رہا ہے اس پر یہ صراحت واجب ہے کہ وہ استحلال کا اظہار کرے مگر جو مساوات یا افضلیت کا قائل ہے وہ اس کا اظہار و اعلان نہ کرے حالانکہ اس کے استبدال سے تو خود ہی یہ سب کچھ معلوم ہو رہا ہے۔پھر اس نے اس کو کفر اصغر کہا ہے یہ اس نے اپنی طرف سے حکم لگایا ہے۔ہم اس بات میں مخالفت نہیں کر رہے کہ بغیر ما انزل اللہ کے مطابق مطلق حکم و فیصلہ کفر اکبر نہیں ہے۔یہ تو خوارج کی رائے ہے۔لیکن حکم مطلق یا تشریع مطلق بغیر ما انزل اللہ جو ہے یہ دوسرا معاملہ ہے کوئی بھی سلفیت کا دعویٰ کرنے والا ایسی دلیل نہیں لا سکا ہے جو اس بات پر دلالت کرے کہ یہ (تشریع مطلق )ایسا ہی گناہ ہے جیسا سگریٹ پینا یا غیر عورت کو دیکھنا۔

 

                   اس کے پیش کردہ دلائل

 

1    ظالم کی عدم تکفیر پر اجماع ہے۔

افسوس کہ یہ شخص جدل واستدلال کے بنیادی اصول و قواعد تک سے واقف نہیں ہے یہ نزاع و اختلاف کے موقع پر اختلافی دلیل پیش کر رہا ہے اس لیے کہ اگر ہم یہ تسلیم کرتے ہوئے کہ شرع کو استبدال یا تبدیل کرنے والا ظالم ہے تو پھر بحث ہی ختم ہو جاتی۔ظالم کی عدم تکفیر پر جو اجماع ہے ہم اس کی مخالفت نہیں کر رہے نہ ہی ابن عبدالبرؒ کا قول ہم ردّ کر رہے ہیں لیکن ہم دونوں باتوں میں فرق کرتے ہیں ایک وہ جس پر اجماع ہے اور ایک تشریع مطلق ان دونوں میں بہت زیادہ فرق ہے۔

2          عتیبی کی دوسری دلیل۔

وہ کہتا ہے کہ تشریع مطلق کے کفر اکبر ہونے پر بھرپور دلائل نہیں ہیں جبکہ یہ تشریع مطلق کفر اکبر کے لیے بنیاد ہے۔ہم کہتے ہیں :اس کے لیے جو دلیل مانگتا ہے تو وہ سورۃ مائدہ کی آیات اور دیگر ان آیات کو جو بار بار توحید اور حکم وقبول الشرع سے متعلق ہیں ان کو ان ظاہری معنی سے پھیرتے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ ان آیات سے ان کا ظاہر مراد نہیں سوائے استحلال کے اور یہ لوگ تشریع مطلق اور گناہوں کو یکساں سمجھتے ہیں اور جب اس آدمی نے یہ تاویل اپنا لی ہے تو وہ توحید اور اطاعت کے مفہوم سے غافل ہو گیا ہے۔اس بارے میں ہم ائمہ اہل سنّت کے اقوال عنقریب پیش کریں گے۔جس طرح یہ شخص توحید سے غافل ہے اسی طرح یہ عام قواعد سے بھی غافل ہے اس لیے عام قواعد اور دیگر دلائل میں تطبیق نہیں دے سکتا ورنہ یہ جو تبدیل واستبدال سے شارع کا جو مقصد مراد لیتا ہے وہ مقصد اسے بھی صحیح سمجھ میں آ جائے گا۔اور اس کی اتباع کرنے والوں کو بھی۔

پھر دوسرا مسئلہ: اس صورت کے مسائل میں سے (یہ ہے کہ )جس نے استبدال کرنے والے کو کافر کہا تو اس نے مجرد تارک کو کافر قرار دیدیا۔ہم پوچھتے ہیں عتیبی نے یہ صورت کہاں دیکھی ہے کہ اسے اپنے قول کے لیے دلیل بنا رہا ہے ؟ دوسری بات یہ ہے کہ مبدل ومستبدل دو نئی شریعت لانے والے ہوتے ہیں ان میں سے کوئی ایسا نہیں ہوتا کہ اپنے گھر والوں کے ساتھ بیٹھ کر باتیں کرتا ہے اور فیصلہ نہ کرے۔لہٰذا ترک کی وہ صورت جو عتیبی نے تصور کی ہے اس کا کوئی وجود نہیں ہے اس لیے وہ کوئی اور مسلسل مروزی کے اقوال کو دہرا رہا ہے جس سے ہمارے قول کا ثبوت ملتا ہے اس نے بے فائدہ خود کو تھکا دیا ہے ان تفصیلات بیان کرنے میں جن میں فریق مقابل کوکسی قسم کا اختلاف ہی نہیں ہے یعنی یہ کہ نماز کے علاوہ کسی بھی عمل کے ترک پر کافر نہیں کہا جا سکتا (اگرچہ یہ اختلافی مسئلہ ہے)فقہ کی کتب میں بیان ہوا ہے۔مگر ہم جس مسئلے میں گفتگو کر رہے ہیں وہ یہ نہیں ہے اس لیے کہ یہ بات حکم بما انزل اللہ کی ترک کی نہیں ہو رہی ہے بلکہ متوازی شریعت بنانے کی اور اس کے نفاذ اور تحکیم کی ہے(اس لیے کہ دین وہ ہوتا ہے جس کا لوگوں کو مطیع بنا لیا جائے کاش کہ عتیبی کی سمجھ میں آ جائے )۔

پھر اس کے بعد عتیبی نے حروریہ خوارج کے بارے میں اہلِ سنّت کے جو اقوال پیش کیے ہیں ان کا یہاں استدلال سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ یہ تحریف ہے کلام کو اپنے مقام سے تبدیل کرنا ہے۔آجریؒ کا خوارج کے بارے میں قول ہے کہ جب یہ دیکھتے ہیں امام حق کے بغیر فیصلہ کر رہا ہے تو(کہتے ہیں )اس نے کفر کیا اور جس نے کفر کیا اس نے رب کے ساتھ خود کو برابر کر لیا۔یہ ائمہ مشرک ہیں۔ اس قول سے استدلال صحیح نہیں ہے اس لیے کہ جو وہ بات کر رہے ہیں :1۔امام کے بارے۔2۔ناحق فیصلہ کرتا ہو۔جبکہ یہ دونوں باتیں ایسی ہیں کہ ہمارے (اختلاف سے تعلق نہیں رکھتیں )اختلاف کے خلاف ہیں۔اس لیے کہ اختلاف اس امام کے بارے میں نہیں ہے جو ناحق فیصلہ کرتا ہے جیسا کہ بنوامیہ اور بنوعباس کے خلفاء کرتے تھے جن کے بارے میں ائمہ کے اقوال موجود ہیں اموی وعباسی دور میں اور اس کے بارے میں ہی ابن عبدالبر،قرطبی اور ابوحیان وغیرہ کے اقوال ہیں۔

تیسرا اور چوتھا مسئلہ

معلوم نہیں ان کی کیا دلیل ہے ؟ تیسرے میں عتیبی ثابت کرتے ہیں کہ جس نے استبدال کی وجہ سے کسی کو کافر کہا اس پر لازم ہو گیا کہ وہ الحکم بغیر ما انزل اللہ کی تمام صورتوں کی وجہ سے تکفیر کرے۔یہ ایسی چیز کو لازم کرنا ہے جو لازم نہیں ہے اور نہ یہ ہم نے کہا ہے۔

چوتھا مسئلہ

کہ جس نے استبدال کی وجہ سے کافر قرار دیدیا اس پر لازم ہو گیا کہ گناہگاروں کو کافر قرار دے۔حالانکہ اسی آدمی( عتیبی )نے ایک اور جگہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ قول کے ساتھ جو لازم ہے اس کے ساتھ کسی اور کو لازم نہیں کرسکتے۔اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی یاد رہے کہ یہ ہمارے قول کے ساتھ شروع سے ہی لازم نہیں ہے اس لیے کہ اہل سنّت جس چیز کو کفر کی بنیاد سمجھتے ہیں اس کا مرتکب گناہوں اور معاصی کے مرتکب سے الگ اور مختلف ہے۔لہٰذا یہ استدلال بھی اس موقع پر صحیح نہیں ہے۔

پانچواں مسئلہ

ہم نہیں جانتے کہ عتیبی کی عقل نے اس کے لکھنے کو کیسے صحیح مانا۔اس لیے کہ وہ مانتا ہے کہ شرع کی تبدیلی کی کوئی حد نہیں ہے چاہے پوری شرع کو تبدیل کیا جائے،ایک تہائی یا ایک چوتھائی کو۔یہاں معاملہ زیادہ وسیع ہے مگر صاحب عقل ہی اسے سمجھ سکتا ہے اس لیے کہ بات اس اعلیٰ دستور کی ہے جسے حاکم شہریوں پر لازم قرار دیتا ہے اپنی پارلیمنٹ کی سستی اور موافقت کی وجہ سے۔جو کہ صراحت کے ساتھ یہ بھی کہتا ہے کہ اللہ کی شریعت تمام شریعتوں کا منبع و مصدر ہے یا اس سے بھی اچھے الفاظ میں یوں کہتا ہے کہ یہ مصدر رئیسی ہے قانون کا( سپریم لاء ہے)پھر لوگوں سے اس پر عمل کرواتا ہے۔اگرچہ شرع کے کچھ ریزے بھی اس کے بعض قوانین میں موجود ہوں اس بات کااس میں اثر نہیں ہو گا کہ شرع میں تبدیلی کر دی گئی ہے یا استبدال (بدلے میں قانون لانا)ہوا ہے۔

چھٹا مسئلہ

عتیبی نے ظاہر و باطن کے تلازم کے قاعدے میں اختلاف و جھگڑا کیا ہے۔اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ یہاں اس کا کوئی تعلق نہیں ہے پھر دلیل کے لیے ایک مثال پیش کی ہے ایک چور اور زانی کہ یہ ماننا صحیح نہ ہو گا کہ ان کے ظاہری عمل سے ان کا ایمان مکمل طور پر زائل ہو گیا ہے۔یہ تو ہم بار بار پہلے ذکر کر چکے ہیں کہ اس میں ہمیں بال برابر اختلاف نہیں ہے لہٰذا اس میں تنازعہ کی گنجائش نہیں بلکہ یہ تو ہمارے ذکر کردہ موقف کی تائید ہے کہ اس شخص (عتیبی)نے گناہ اور کفر کی بنیاد میں تمیز ہی نہیں کی۔

آٹھویں حالت تقنین (قانون سازی)

یہاں عتیبی مضطرب ہے الجھن کا شکار ہے لہٰذا اس نے ہماری ہی بات کو ثابت کیا ہے جیسا کہ وہ پہلی حالت میں کہتا ہے مسئلہ ثانیہ ص 43 میں کہ آدمی کوئی عمل کرے اور اپنے لیے صراحت کے ساتھ تشریع کا حق ثابت کرے صرف فعل سے نہیں۔تو یہ آدمی کفر اکبر کا مرتکب ہے اس کے کفر میں شک نہیں الحمد للّٰہ کہ اس کی زبان سے حق جاری ہو گیا اور اسے احساس بھی نہ ہوا۔باوجودیکہ ہم نے تصریح کی استثناء کی تھی اور تشریع کے ایک بنیاد و صفت میں صرف فعل کا کہا تھا۔اس کا دعویٰ  عتیبی نے حالت ثانیہ میں کیا تھا مگر ہم عتیبی سے پوچھتے ہیں کہ کیا مسلمان کے پاس عقل نہیں ہوتی کہ وہ اپنے اردگرد کے حالات سمجھ سکے اور لوگوں کے مقاصد سے آگاہ ہو سکے ؟ عتیبی صراحت سے کیا مراد لیتے ہیں ؟ جب حاکم بار بار کہے کہ دستور (وہ صراحت سے کہتا ہے کہ شرع اسلامی ان وضعی قوانین کی طرح ہے جو مغرب کے قانون سے ماخوذ ہیں یا جنھیں ہماری دستور ساز اسمبلی نے بنایا ہے یہ سب برابر ہیں )اور یہی (دستور ایسا ہے کہ) لوگوں کو اس کے تابع کیا جاتا ہے اور اس کی خلاف ورزی پر سزاء دی جاتی ہے جبکہ شریعت صرف تشریع و قانون سازی کا ماخذ ہے؟ کیا اس (حکمران و حاکم)کی مراد یہ نہیں ہے کہ شریعت اسلامی دیگر قوانین کے برابر ہے ؟ اب عتیبی ایسی کون سی صراحت چاہتے ہیں کہ جس سے قانون وضعی اور شریعت اسلامی کا مساوی ہونا ثابت ہو ؟ اور یہ اس طرح کی فرض کردہ صراحت کہاں سے لائے گا ؟ یہ زبردستی کا فیصلہ کہاں سے لائے ہیں ؟ اور جب حاکم نے ملک میں دستور اعلیٰ (سپریم لاء )اس وضعی قانون کو قرار دیا ہے تو کیا وہ صراحت نہیں ہے جس سے شریعت اور وضعی قوانین کی برابری ثابت ہوتی ہے ؟

عتیبی کا یہ قول کہ یہ لازمی بات ہے کہ آپ اس مقام پر امام ابن قیمؒ کی تقریر سنیں جو اس موضوع کا احاطہ کر رہی ہیں ‘’ظاہر عمل سے تخلف بغیر کسی عذر کے باطن میں فساد کی دلیل اور ایمان سے خالی ہونے کی دلیل ہے۔اور اس کی کوتاہی ایمان ناقص کی دلیل ہے’‘ !میں نہیں جانتا لیکن رسول اللہؐ نے حق فرمایا ہے ‘’حیاء ایمان کا حصہ ہے’‘اس کو بخاری اور مسلم نے روایت کیا ہے۔بعض فاضل علماء نے استدلال کیا ہے کہ جس نے شریعت میں قانون سازی کی وہ طاغوت ہو گیا اور پھر کافر ہو گیا یہ عجیب اختلاف ہے جب شریعت ساز اور غیر ما انزل اللہ کا قانون بنانے والا کافر ہے تو کیا وہ طاغوت کے وصف میں شامل نہ ہو گا۔بلکہ یہ طاغوت بننے سے پہلے کافر ہو گیا۔اس کی مثال یہ ہے کہ جو شخص کفر کرنے والے سے متفق ہو یہ کفر نہیں بلکہ یہ گناہ ہے اس کی دلیل امام بخاری ؒکی صحیح میں اس طرح آئی ہے :

حدثنا مسدد حدثنا بشر بن المفضل حدثنا الجریری وحدثنی قیس بن حفص حدثنا اسماعیل بن ابراہیم اخبرنا سعید الجریری حدثنا عبدالرحمن بن ابی بکرۃ عن ابیہؓ  قال قال النبیؐ  : اکبر الکبائر الاشراک باللّٰہ وعقوق الوالدین وشھادۃ الزور وشھادۃ الزور ثلاثا اور یقول الزور فما زال یکررھا حتی قلنا لیتہ سکت

ابوبکرۃ ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہؐ نے فرمایا:کہ اکبر الکبائر اللہ کے ساتھ شرک کرنا اور والدین کی نافرمانی اور جھوٹی گواہی۔جھوٹی گواہی تین مرتبہ فرمایا آپ اس آخری کلمے کو بار بار دھراتے رہے یہاں تک کہ ہم نے کہا شاید آپ خاموش نہ ہوں گے۔

کیا یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ کے ساتھ شرک کرنا گناہ کبیرہ ہے اور کفر نہیں ہے بلکہ حق بات یہ ہے کہ شرک کفر ہے کبیرہ گناہ بعد میں ہے۔باوجود اس کے کہ کبیرہ گناہ بھی ہے بلکہ اکبر الکبائر اور کفر بھی ہے۔مشرک کا کفر بھی کئی دوسرے مقامات سے ثابت ہے جس میں طاغوت کے وصف سے شامل نہیں ہے۔بلکہ جب شریعت سازی کرنے والے نے کفر کیا تو وہ طاغوت کی بہت اونچی قسم میں شمار ہوا۔یہ اللہ تعالیٰ کی الوہیت میں شرک ہے جیسے اللہ تعالیٰ کا مخلوق کو پیدا کرنا توحید ربوبیت کے ساتھ خاص ہے۔

نویں حالت یہ ہے :عتیبی نے پھر دھراتے ہوئے اپنی پہلی بات ذکر کی کہ اگرچہ شریعت سازی کرنے والا اس کو حلال نہ سمجھتا ہو۔یہ اس کی تکذیب کرنے والا یا انکار کرنے والا۔یا اس کی برابری کرنے والا یا اللہ کے حکم پر اپنی شریعت سازی کو افضل سمجھنے والا تو یہ ساری اقسام کفر اصغر کی ہیں۔ہم اپنی تقریر دوبارہ ذکر کرتے ہیں جو پہلے حالات میں بیان کی تھی۔بے شک یہ آدمی دلائل پیش کرتا ہے کہ معصیت کا مرتکب کافر نہیں لیکن وہ اس کی کوئی دلیل نہ لایا کہ معصیت کی یہ صورت ابتداء کی تھی۔

عتیبی نے سورۃ مائدہ کی آیت میں بار بار کہا ہے کہ یہود نے اللہ کے احکام کو تبدیل کیا۔ نہ تورات میں ثابت ہے۔حقیقت میں وہ تبدیلی نہیں ہوئی۔بے شک رجم کا حکم تورات میں مدون رہا جو وہ رسول اللہؐ کی موجودگی میں لائے یہ حدیث کی تصریح ہے بے شک اس واقعہ میں انھوں نے رسول اللہؐ کو جھٹلایا بے شک وہ رجم میں بغیر شریعت کے فیصلہ کرتے تھے اور ہمیشہ اقرار بھی کرتے تھے کہ یہ اللہ کا حکم ہے۔جیساکہ امام طبریؒ نے اپنی تفسیر میں بیان کیا ہے جو ہم پہلے بیان کر چکے ہیں۔لیکن عتیبی نے امام طبریؒ کے فہم کو نہ مانا اور اپنا خاص مقصد نکالا۔پس کون زیادہ اتباع کا حق رکھتا ہے امام طبری ؒیا  عتیبی۔مجھے خبر دیجئے اگر تم سچے ہو۔

 

 

 

مبحث ثالث :اختتامیہ

 

اس مبحث میں ہم عتیبی کے بیان کردہ فصل سادس وسابع میں ابن عباسt کے قول اور پھر اپنے اوپر لگنے والے اتہامات کے ردّ سے متعلق بات کریں گے۔

چھٹی اور ساتویں فصل میں عتیبی نے اپنی محنت وہاں ضائع کی ہے جہاں نہیں کرنی چاہیے تھی پھر اس نے غفلت یا تغافل سے کام لیا ہے کہ جس چیز کو پیش کرنا اور اس پر ردّ کرنا (اگر ممکن تھا) ضروری تھا (اس کو پیش نہیں کیا )اس نے ابن عباسؓ  کے اس مشہور قول پر دلائل پیش کیے ہیں جو ان کے شاگردوں طاووس عطاء وغیرہ نے نقل کیا ہے یعنی کفر دون کفر حالانکہ ہم اس کے متعلق استعمال کے مخالف نہیں ہیں۔بلکہ ہمارا اختلاف یہ ہے کہ ابن عباسؓ  کا یہ قول آیت کی تفسیر نہیں ہے بلکہ یہ ان کا فتویٰ ہے جو محدود موقع یا بنیاد و صفت کے لیے ہے یعنی بنو امیہ کے حکمرانوں کا ظلم جو خوارج نے آیت سے استدلال کیا تھا کہ یہ کافر ہیں۔یہ بات علامہ احمد شاکر نے تفسیر طبری پرکی جانے والی اپنی تحقیق میں کہی ہے۔یہ ہم اس موقع پر بیان کریں گے جب عتیبی کا حق سے غفلت کا تذکرہ کریں گے۔

 

                   عصر حاضر کے تین ائمہ

 

جہاں تک تین علماء شیخ عبدالعزیز بن باز،ابن عثیمین اور الالبانی کی بات نقل کرنے کا تعلق ہے مذکورہ تینوں علماء کی علمیت میں اہلِ سنّت کے ہاں دو رائے نہیں ہو سکتیں مگر ہم کسی کو معصوم قرار نہیں دے سکتے۔البتہ ہم یہاں جو کچھ ثابت کرنا چاہتے ہیں وہ یہ ہے۔

1              رسول اللہؐ  کے علاوہ کوئی شخص معصوم عن الخطاء نہیں ہے اگرچہ اس اصول پر تمام لوگوں (مسلمانوں ) کا اتفاق ہے مگر عملاً ایسا ہو رہا ہے کہ لوگ بڑے علماء کے بارے میں خطاء کا تصور نہیں کرتے اور اس عمل میں اس دور کی اسلامی جماعتیں بھی شامل ہیں جو اپنے ائمہ اور مرشدین کے بارے میں ایسے ہی عقائد رکھتی ہیں۔جبکہ ہم ایسانہیں کرسکتے بلکہ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ دھوکہ اس شخص کو ہو سکتا ہے جس نے اہلِ سنّت کے مذہب میں پختگی اختیار نہیں کی ہے۔اور اس عالم کو ہو سکتا ہے جو اس دھوکے کے نقصانات سے واقف نہیں ہے۔

2              جو باتیں علامہ ابن بازؒسے منقول و مروی ہیں تواس موضوع و بحث میں وہ متضاد ہیں ہمارے خیال میں اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ اس مسئلے کے بارے میں وہ خود الجھن کا شکار ہیں بلکہ اس کی وجہ ہے مختلف وجوہات یا مقامات جن کے بارے میں ان سے سوال کے گئے۔سوال کی صورت ہی عام طور پر جواب کی شکل متعین کرتی ہے۔اکثر فتویٰ لینے والے یا تو سوال گھما پھرا کر کرتے ہیں یا سوال کا ایک حصہ ذکر نہیں کرتے ان کے خیال میں وہ ضروری نہیں ہوتا اس طرح فتویٰ دینے والا (سوال کے مطابق)محدود جواب دیتا ہے ہم نے ابن بازؒ سے ان کا قول نقل کیا ہے جو بغیر ما انزل اللہ حکم کرنے والے سے متعلق ہے اگر وہ قبول ہو تو صفحہ13پر ملاحظہ فرما لیں۔ہم نہیں سمجھتے کہ ابن باز جیسی علمی شخصیت کے اقوال میں تضاد ہو گا جیسا کہ عتیبی اور اس کے ساتھیوں کا خیال ہے۔لیکن ہم (مختلف دلائل کی تطبیق میں )ہم اہلِ سنّت کے خالص طریق و منہج کی اتباع کرتے ہیں۔جہاں تک بھی تطبیق کا امکان ہو بلکہ اکثر علمی،منطقی اور موضوعی (دلائل میں )ایسا ہوتا ہے۔

3              جہاں تک بات ہے شیخ عثیمینؒ کی تو ہمارے لیے ان کا وہ فتویٰ کافی ہے جو انھوں نے حاکم بغیر ما انزل اللہ سے متعلق دیا تھا۔پھر ان کا دوسرا فتویٰ آیا جس سے سابقہ فتویٰ کے ساتھ تناقض ظاہر ہوا۔اس سے معلوم ہو جاتا ہے کہ عتیبی جو کہ ائمہ ثلاثہ کی علمی شان و مقام کا  دعویٰ کرتے ہیں کس طرح ان کے اقوال میں تضاد ثابت کر رہے ہیں۔گویا عثیمین نے حاکم بغیر ما انزل اللہ کے بارے میں جو فتویٰ دیا تھا اس وقت وہ تعلیم حاصل کرنے کے مرحلہ میں تھے جبھی تو کہتے ہیں :’’یہ لوگ اسلام شریعت کے مقابلے پر قوانین یہ سمجھ کر بناتے ہیں کہ یہ زیادہ مفید ہیں ‘‘۔عتیبی نے یہ ثابت کیا ہے کہ گویا عثیمین اپنے اس فتویٰ سے رجوع کر چکے ہیں جو ان کے مدون اور شائع شدہ فتاویٰ میں موجود ہے۔رجوع اس فتویٰ کی طرف کیا گیا ہے جو بعد میں دیا گیا ہے جو فون پر دیا گیا ہے جسے عتیبی نے ڈھالا ہے یا شائع کیا ہے۔(یعنی ایک فتویٰ جو پہلے شیخ عثیمین کا ان کی کتاب (فتاویٰ )میں شائع ہو چکا ہے مطبوعہ ہے اور دوسرا فتویٰ فون پر دیا گیا ہے جس کو نشر کرنے یا پھیلانے والے عتیبی ہیں )یہ ہے وہ مکمل احترام جو عتیبی ان ائمہ زمانہ کو دے رہے ہیں ؟ جبکہ اہلِ سنّت کا طریقہ (دلائل میں تطبیق دینے میں )یہ ہے کہ پہلے دیکھا جائے کہ فتویٰ دینے کی وجوہات و حالات جن کی وجہ سے فتویٰ دیا گیا ہے ؟ اس کے بعد کسی عالم و امام کے مقام و مرتبہ پر اعتراض کریں۔جبکہ یہاں ہم یہی صورتحال عثیمین کے دونوں اقوال کی تطبیق میں ہے جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ شیخ عثیمین نے کہیں بھی اپنے فتویٰ میں تبدیلی یا رجوع کی بات نہیں کی صراحتاً نہ اشارۃً۔تو پھر عتیبی نے شیخ کا پہلے والا فتویٰ کیوں ردّ کیا ہے؟ اپنے خاص مقصد کے لیے ؟ کیا شیخ عثیمین کے لیے یہ مناسب نہیں تھا کہ وہ کہہ دیتے کہ مجھ سے غلطی ہو گئی ہے اب میں اپنے فتویٰ سے رجوع کرتا ہوں اور وہ فتویٰ لینے والے اور اپنے کثیر تعداد میں موجودہ شاگردوں کو بتا دیتے ؟ تاکہ وہ بھی ان کے سابقہ فتویٰ سے رجوع کر لیتے اور ان کا صرف دوسرا فتویٰ ہی ان سے نقل کر کے آگے بیان کرتے ؟ کیا یہ ممکن ہے کہ شیخ عثیمین عتیبی جیسے لوگوں کا انتظار کرتے رہے کہ وہ ان کے اقوال کی تصحیح کریں ؟ اور جو قول منسوخ ہے اس کی تنسیخ کریں ؟ اور لوگوں کے سامنے اسے بھرپور طریقے سے واضح نہ کریں۔اس طرح کے معاملات ایسے اندازوں اور تخمینوں پر نہیں چھوڑے جاتے کہ عتیبی جیسے لوگ انہیں کھیل بنا لیں۔

4              اب بات کرتے ہیں محدث زمانہ شیخ ناصر الدین الالبانی کے بارے میں۔ ان کے اور ان کے مذہب کے بارے میں بات کرنا بہت احتیاط کا متقاضی ہے۔ان کے متبعین اور سوال کرنے والوں نے ان کی حدیث کے معاملے میں عظمت کو ان کے فقہ اور عقیدے میں مقام کے ساتھ خلط کیا ہے۔حدیث میں وہ بہت ہی قابل اور مانے ہوئے عالم ہیں اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔اگر شیخ محمد بن ابراہیم اور شیخ دوسری کی بات حدیث کے معاملے میں البانی سے معارض ہو تو ہم ترجیح البانی کی بات کو دیں گے اور اگر عقیدہ و فقہ میں معارض ہو تو ترجیح محمد بن ابراہیم اور دوسری کو ہو گی۔کیا یہ طریقہ زیادہ مناسب اور زیادہ حق و تقویٰ کے قریب نہیں ہے؟ شیخ البانی نے متعدد مقامات پر صراحت کی ہے کہ وہ ایمان و عمل اور ان میں سے ہر ایک کا ایک دوسرے کے ساتھ کیا تعلق اور مقام ہے؟ ان کے بیان کا خلاصہ یہ ہے کہ ایمان قول و عمل کا نام ہے زبان سے اقرار اور دل کا قول و عمل۔جبکہ اعضاء کے اعمال ایمان کے ارکان میں شامل نہیں بلکہ یہ اس کی تکمیل کا ذریعہ ہیں [1] رکن و شرط کے فرق میں شیخ الجھن و اضطراب کا شکار ہوئے ہیں جیسا کہ ایمان و عمل کے باہمی تعلق کی تعریف میں اضطراب کا شکار ہیں لہٰذا لفظی طور پر انھوں نے اہل سنّت اور حقیقت میں احناف کی موافقت کی ہے۔

یہ بات شیخ البانی کے محدث ہونے کی اہمیت اور مرتبت میں کمی نہیں کرتی وہ حدیث کے محقق اور عظیم القدر عالم ہیں مگر حق ہمیں سب سے زیادہ عزیز ہے۔اس مقام پر البانی سے پہلے بھی بہت سے اکابر محدثین سے لغزشیں ہوئی ہیں جیسے ابن حجر عسقلانی حالانکہ وہ علم حدیث میں بہت بڑا مقام رکھتے ہیں۔ایسا لگتا ہے کہ (ہماری تحریر دیکھ کر )عتیبی اپنے ہم خیال لوگوں میں یہ چرچا کرتا پھرے گا کہ امت کے عالم البانی کے بارے میں اللہ سے ڈر جاؤ کچھ لوگوں نے ان پر مرجہ ہونے کا الزام لگایا ہے اور ان کو ان کے مقام و مرتبہ سے گرا دیا ہے لہٰذا البانی سے محبت کرنے والو اٹھو اپنے شیخ کی مدد کرو۔وغیرہ وغیرہ۔

ہم دوبارہ عتیبی کی طرف آتے ہیں کہ اس نے بے سوچے سمجھے جو الزامات لگائیں ہیں ان کا کوئی فائدہ نہیں ہے اس لیے کہ میں یہاں ثابت کر رہا ہوں کہ البانی نے اس امت کے لیے بہت کچھ کیا ہے اور حدیث کی تحقیق اور کتب میں احادیث کی تخریج کا جو کام انھوں نے کیا ہے ان شاء اللہ رب کے ہاں وہ انہیں بہت فائدہ دے گا۔لیکن حق زیادہ حق دارہے اتباع کا ان معاملات میں ہم مدخلی کی طرح حسد کے مارے ہوئے نہیں ہیں کہ اس نے سید قطبؒ پر کفر کا فتویٰ اور مختلف الزامات لگا دیے، مدخلی نے جو کچھ لکھا ہے اس کا اعلیٰ درجہ بھی سید قطبؒ کے لکھے ہوئے کے پاؤں کی دھول تک نہیں پہنچ سکتا۔اس کے ساتھ ساتھ اس کے قلم نے ادبی لغزشیں بھی بہت کی ہیں۔دونوں میں زمین وآسمان،ثریا  و ثری کا فرق ہے۔

اب ہم آتے ہیں آٹھویں فصل کی طرف عتیبی نے اپنے مجمل جواب میں جو کچھ لکھا ہے جس کا مقصد کچھ نہیں۔اور پھر ہم ان اقوال کی طرف آئیں گے جو اس نے اپنے اور اپنے ساتھیوں سے ارجاء کے الزامات ختم کرنے کے لیے پیش کیے ہیں۔

1              اگر اہل بدعت کے کچھ اقوال اہلِ سنّت کے بعض اقوال کے موافق ہو جائیں تو اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ ان کو بدعتی نہ کہاجائے یا بدعت کی صفت کی نفی کی جائے۔ایک معمولی سا علم رکھنے والا بھی یہ بات اچھی طرح جانتا ہے کہ مختلف فرقوں کے بعض اقوال اہلِ سنّت کے اقوال کے ساتھ موافق ہوتے ہیں اور فرقے جو اصول ہوتے ہیں اور بنیادی باتیں ہوتی ہیں وہ مختلف ہوتی ہیں۔

2              مختلف فرقو ں کے اقوال دوسرے فرقے کے ان اقوال کے بھی موافق نہیں ہوتے جو اس فرقے سے بنا ہو۔مثلاً مرجہ کے مزیدبیس فرقے بنے ہیں جو ایک دوسرے کے کہیں کم اور کہیں زیادہ اختلاف رکھتے ہیں۔

3              ہمیشہ سے اہل بدعت مسلمانوں میں ہی پیدا ہوئے ہیں اور آخری زمانے تک پیدا ہوتے رہیں گے اور یہ مرجۂ گروہ جس نے اپنے اندر ارجاء عقدی جمع کیا ہے یہ تقلیدی ارجاء سے مختلف شکل رکھتا ہے اگرچہ دونوں کے پیدا ہونے کی وجہ ایک ہے یعنی ایمان اور عمل کے ساتھ اس کے تعلق میں غلط فہمی۔اور صوفیت عملیہ جو اس تقلید کی پیداوار ہے جس کی وجہ سے خفیہ بے دین فرقوں کے متبعین پیدا ہوتے ہیں کہ یہ لوگ عملی طور پر دین کو سیاست سے علیحدہ سمجھتے ہیں اور اپنے متبعین کو ائمہ کے بارے میں بات کرنے سے ڈراتے رہتے ہیں۔ائمہ سے مراد یہ مسلمان قوم کے حکمران لیتے ہیں ہمارے خیال میں اس طرح کے گروہ کا پیدا ہونا کچھ عجیب نہیں ہے نہ ہی تاریخ اسلامی میں کوئی نئی بات ہے اور تاریخ عقائد میں تو یہ عام سی صور ت میں ہوتا ہے۔

4              اور خاص صور ت میں ہو۔تو اس بات کا اقرار کہ ایمان قول و عمل کا نام ہے اس سے لازم نہیں آتا کہ یہ اقرار کرنے والا ارجاء کی بدعت سے کلیۃً نکل گیا۔ائمہ میں سے جس نے یہ کہا تو وہ تقریر و ثبوت کے اہمیت کے پیش نظر اور عقیدہ اہلِ سنّت کے ساتھ پختہ شرائط تعلق اور مقام کی بناء پر کہا ہے اس کے لیے دلیل رسول اللہ ؐ کا یہ فرمان ہے :من قال لاالٰہ الااللّٰہ خالصًا من قلبہ دخل الجنۃ’’جس نے خلوص دل سے لا الٰہ الا اللہ کہہ دیا وہ جنت میں داخل ہو جائے گا ‘‘۔مرجۂ کے علاوہ اہلِ سنّت میں سے کسی نے اس کو عموم کے ساتھ نہیں لیا ہے۔اس لیے کہ یہاں عموم کو مخصوص کیا گیا ہے اس شہادت کے مکملات مقتضیات اور لوازمات کے ساتھ۔اسی طرح ان ائمہ کے اقوال جن سے عتیبی نے استشہاد کیا ہے کہ جس نے ایسا کہا وہ ارجاء سے خارج ہو گیا یا اس طرح کی دیگر باتیں ہوں یہ بھی تعمیم (پر محمول )ہیں اس کے لیے زیادہ مناسب یہ تھا کہ فصیح عربی کلام کو سمجھنے میں اس طرف اشارہ کرتا۔

5              اس بناء پر (یہ کہا جا سکتا ہے )کہ یہ اقرار کہ ایمان قول و  عمل کو کہتے ہیں اس سے کہنے والے کے لیے لازم نہیں آتا کہ وہ یہ بھی اقرار کرے کہ عمل ایمان کی حقیقت و ماہیت کا رکن ہے جیسا کہ علامہ البانی کی رائے اور مذہب کا حال ہے کہ یہ ایمان کی تکمیل کے لیے ہیں ان میں اضافہ و کمی ہوتی ہے۔اس قول اور سلف کے قول میں فرق یہ ہے کہ سلف کا قول ایمان کی ایسی تعریف نہیں کرتا کہ جس کا کم از کم حصہ بھی کمی و بیشی کو قبول نہ کرتا ہو بلکہ اضافہ و کمی ایمان کے تمام مرکبات میں ہوتا ہے۔علم۔تصدیق۔التزام۔انشاءاً ۔تنفیذاً۔وانقیاداً اور یہ بہت بڑا فرق ہے۔صحیح بات یہ ہے کہ سلف کے اقوال سے اس باریک فرق کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ان کی ایسی تحقیق و تلاش کی جائے جو ہر ایک کی تشریح پر مبنی تلاش ہو صرف اقوال جمع کرنا اور انہیں مرتب کرنا نہ ہو۔اکثر ایسا ہوتا ہے کہ محققین جو کچھ لکھتے ہیں تلاش کرنے والے کی عقل اس تحقیق کو سمجھنے سے قاصر و بعید ہوتی ہے یہ بُعد رکاوٹ پیدا کرتا ہے نصوص کی تلاش اور ان سے معانی کے استنباط میں۔بہت سے عوام و خواص کے نفوس میں یہ بات بیٹھی ہوتی ہے کہ وہ تمام لوگ فہم و عقل میں برابر ہیں نفس کے لیے یہ اقرار کرنا بہت مشکل ہوتا ہے کہ اپنی کم عقلی کا اعتراف کرے اورکسی چیز کو سمجھنے سے عاجز ہونے کا اقرار کرے۔اللہ نے ہی ہر چیز تقسیم کی ہے اور اس کی تقسیم عیوب سے پاک ہے۔

6              ہماری ان گزارشات سے واضح ہوتا ہے کہ ایمان کے گھٹنے بڑھنے کے اقرار سے کسی آدمی کے سنّی ہونے پر دلالت نہیں کرتا۔جب تک یہ واضح نہ ہو جائے کہ وہ کمی بیشی کو ایمان کی ماہیت سمجھتا ہو جس کا ایک رکن عمل ہے۔عمل کو شرط نہ مانتا ہو جو کہ عمل کی ماہیت سے خارج کرتا ہے۔رکن اور شرط الگ الگ ہیں جیسا کہ اصولِ فقہ کی کتابوں میں موجود ہے۔

7              عمل کا ایمان کے جنس سے ہونے کی اپنی خاصیت ہے[2] جس سے یہ گروہ غافل ہے۔

اس لیے کہ یہ گروہ ایمان کے مفہوم اور اس کے ساتھ عمل کے تعلق و مقام کو ایک لحاظ سے خلط کیا ہے اور دوسری وجہ ہے جزئی نظر کی عادت جو خالص طور پر ان لوگوں میں ہوتی ہے جو اصولِ فقہ کا زیادہ علم نہیں رکھتے اور نئے ارجائیہ فرقہ کی یہ امتیازی خصوصیت اور صفت ہے۔جب ان کے لیے علم حدیث کی طرف نسبت کرنا آسان ہوا تو ہم اسی اصطلاح میں بات کرتے ہیں کہ عمل کا ترک کرنا ایسانہیں ہے جیسے خبر واحد کا ترک کرنا اس لیے کہ عمل کو کلی طور پر ترک کرنا ایمان کو معیوب بناتا ہے (اس لیے کہ )یہ اس کا رکن ہے جبکہ خبر واحد کو ترک کرنا گناہ اور معاصی میں شمار ہوتا ہے اب ہم آتے ہیں عتیبی کے مبحث رابع کی طرف جس میں اس نے مخالفین کے دلائل کا تذکرہ کیا ہے اس بارے میں ہم کہیں گے کہ :

1۔             اس نے مخالفین کے جو دلائل ذکر کیے ہیں ان کی قوت کو اگر احاد ہونے کے لحاظ سے دیکھیں تو اکثریت کا ایک معنی پر مشتمل ہونا آحاد سے بڑی قوت دیتا ہے۔اور اس طرح ہونا قوت کے لحاظ سے معنی تواتر اور اجماع کی جگہ ہے گویا یہ تواتر معنوی ہے عتیبی اس اہم ترین معنی سے لاعلم رہا اور ایک ایک دلیل کو ردّ کرنا شرع کر دیا حالانکہ اس نے یہ نہیں سوچا کہ یہ ایک معنی پر (ہونے کی وجہ سے)تواتر ہے۔یہی مطلب ہے استقراء (حدیث کے طرق کی تلاش )ہے جیسا کہ شاطبیؒ نے عموم و خصوص کے بحث میں وضاحت کی ہے۔ (الموافقات:3/268)

2۔             ابن عباس ؓ کے قول پر بحث کرتے ہوئے عتیبی نے قصداً یا غلطی سے احمد شاکر ؒ کی بات کو نظر انداز کیا ہے جو انھوں نے کفر دون کفر کے بارے میں کہی ہے کہ ’’کفر دون کفر‘‘ آیت کی تفسیر نہیں بلکہ یہ فتویٰ ہے جو ان اموی حکمرانوں کے بارے میں دیا گیا ہے جن کے ظلم اور بعض احکام شرع ترک کرنے کی بناء پر خوارج نے ان پر کفر کا فتویٰ لگایا تھا۔ابن عباسؓ کے وہم و گمان میں بھی نہ ہو گا کہ یہ فتویٰ وہاں بھی استعمال ہو گا جہاں بنو امیہ (کے ان اعمال یا حکمرانوں کا) تعلق بھی نہ ہو گا۔جب ہمارے پاس احمد شاکرؒ جیسی سمجھ اور رائے موجود ہے تو ہمیں عتیبی کے فہم کی کیا ضرورت ہے بلکہ ابن عباسؓ  کے قول کی صحیح قراء ت ہمارے پاس ہے جب انھوں نے کہا تھا کہ :لیس الکفر الذی یذھبون الیہ ’’یہ وہ کفر نہیں جو یہ مراد لیتے ہیں ‘‘۔اور وہ اثر جو اباضیہ کے ایک گروہ سے منقول ہے جو ابو مجلز کے پاس آئے تھے جس کی طرف امام احمد شاکرؒ نے ہماری رہنمائی کی ہے اور یہ باریک بینی اور نصوص کو بہتر انداز سے پڑھنے کا کام ہے جو عتیبی اور اس کے گروہ کے لیے مشکل ہے کہ ان کے ساتھ مل جائیں (یا دقت نظر میں امام کے برابر ہو جائیں )احمد شاکرؒ فرماتے ہیں :ابن عباس سے منقول یہ آثار ایسے ہیں کہ گمراہ لوگوں نے جو اس دور میں علماء کہلاتے ہیں نے ان کو کھیل بنا لیا ہے یہ دین کے خلاف ان کی جرأت ہے اسے یہ لوگ بہانہ بناتے ہیں وضعی قوانین کے جواز کے لیے جو اسلامی ممالک میں رائج کیے گئے ہیں۔یہاں ایک اثر ابو مجلزؒ سے منقول ہے جوا باضیہ خوارج سے ان کے جدال سے متعلق ہے کہ بعض امراء و حکمران جو ظلم کرتے تھے اور جان بوجھ کر بعض فیصلے شریعت کے خلاف کرتے تھے خواہشات کی پیروی یا شرعی حکم سے لاعلمی کی بنیاد پر۔جبکہ خوارج کا مذہب تھا کہ مرتکب کبیرہ کافر ہوتا ہے وہ اس پر ابو مجلز سے جھگڑتے تھے کہ اس کفر کے فتویٰ میں ہماری رائے کی موافقت کریں تاکہ انہیں مسلح بغاوت کا جواز فراہم ہو سکے۔یہ دونوں اثر طبریؒ نے روایت کیے ہیں اور ان پر احمد شاکرؒ نے بہت عمدہ وضاحت کی ہے میں چاہتا ہوں کہ یہاں طبریؒ کی روایت کردہ اثر اور اس پر احمد شاکرؒ کا تبصرہ من و عن پیش کر دوں۔

1              ‘’طبریؒ نے عمران بن حیدر سے روایت کیا ہے کہتے ہیں ابو مجلز کے پاس بنو عمرو بن سدوس کے کچھ لوگ آئے اور کہنے لگے ابو مجلزؓ  آپ بتائیں کہ اللہ کا یہ حکم حق ہے؟ وَ مَنْ لَّمْ یَحْكُمْ بِمَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ فَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْكٰفِرُوْنَ (المائدۃ:44)ابومجلزؒ نے کہا :ہاں۔انھوں نے کہا اور

بھی؟ انھوں نے کہا :ہاں۔انھوں نے کہا اور بھی حق ہے ؟ ابومجلزؒ نے کہا :ہاں۔انھوں نے کہا ابومجلزؒ کیا یہ ( بنو امیہ کے ظالم حکمران)اللہ کے نازل کردہ کے مطابق فیصلے کر رہے ہیں ؟ ابومجلزؒ نے کہا وہ ان کا دین ہے جو انھوں نے اختیار کر رکھا ہے۔اسی کا پرچار کرتے ہیں اسی کی طرف دعوت دیتے ہیں اگر وہ اس (دین) میں سے کچھ چھوڑیں گے تو وہ جانتے ہیں کہ وہ گناہگار ہوں گے۔انھوں نے کہا نہیں اللہ کی قسم آپ فرق کر رہے ہیں یا فرقہ بنا رہے ہیں۔ابومجلزؒ نے کہا تم اس کے زیادہ حق دار ہو مجھ سے (یعنی تم خارجی ہو میں نہیں )میں ایسا نہیں سمجھتا تم سمجھتے ہو اور اس میں حرج بھی نہیں سمجھتے۔

سید محمود شاکر ؒنے ان دونوں نصوص کی مناسبت سے لکھا ہے:

اللہ میں گمراہی سے برأت کا اعلان کرتا ہوں۔وبعد،شکوک و فتنے پیدا کرنے والوں نے ہمارے اس دور میں ایسی باتیں کرنی شروع کر دی ہیں کہ جن کی بناء پر حکمرانوں کو ترک ما انزل اللہ اور جان و مال اور عزتوں کے فیصلے بغیر ما انزل اللہ کرنے کا جواز مل رہا ہے اور اہل کفر کا قانون اسلامی ممالک میں رائج کرنے کا جواز ملتا ہے۔جب ان دونوں خبروں پر توقف کیا جائے گا (خاموشی اختیار کی جائے گی اور اس کا ردّ نہ ہو گا تو)اس کو ہی اپنایا جائے گا اور جان و مال اور عزتوں میں بغیر ما انزل اللہ فیصلہ کرنا صحیح سمجھاجائے گا اور فیصلہ کرنے میں اللہ کی شرع کے بغیر فیصلہ کرنے والا اس پر راضی رہنے والا اس پر عمل کرنے والا کافر شمار نہیں کیا جائے گا ان دونوں نصوص میں غور کرنے والے کے لیے ضروری ہے کہ وہ سائل ومسئول کو پہچان لے ابومجلز(لاحق بن حمید الشیبانی الدوسیؒ)ثقہ تابعی ہیں یہ علیؓ  کو پسند کرتے تھے ابومجلزؒ کی قوم بنوشیبان جمل وصفین میں علیؓ  کے ساتھ تھے جب صفین میں دونوں فیصلہ کرنے والوں (حکمین)نے فیصلہ کیا اور خوارج علیحدہ ہوئے تو علیؓ  کے خلاف بغاوت کرنے والے گروہ میں بنوشیبان اور بنی سدوس بن شیبان بن ذہل کا ایک گروہ بھی شامل تھا ابومجلزؒ سے سوال کرنے والے لوگ بنوعمرو بن سدوسی تھے جو اباضیہ کے لوگ تھے۔یہ حروریہ (خوارج) فرقہ کے عبداللہ بن اباض کے متبعین تھے۔جس نے کہا تھا جس نے خوارج کی مخالفت کی وہ کافر ہے مشرک نہیں ہے۔اس کے ساتھیوں نے اس کی مخالفت کی ….

واضح ہوا کہ ابومجلزؒسے سوال کرنے والے اباضہ کے لوگ چاہتے تھے کہ ابومجلزؒ کی بات سے حجت لیں اور امراء و حکمرانوں کی تکفیر کریں اس لیے کہ ابومجلز کے لوگ حکمران کی فوج میں شامل تھے اور وہ کبھی نافرمانی کرتے تھے اور اللہ کی منع کردہ بعض امور کا ارتکاب کرتے تھے اسی لیے پہلے اثر میں کہا ہے کہ انھوں نے (دین میں سے)اگر کچھ ترک کر لیا تو وہ جانتے ہیں کہ وہ گناہ کے مرتکب ہوں گے دوسری خبر میں فرماتے ہیں وہ جانتے ہیں جو عمل کر رہے ہیں اور جانتے ہیں کہ وہ گناہ کر رہے ہیں۔لہٰذا ان کا سوال وہ نہیں تھا جس سے ہمارے زمانے کے بدعتی دلیل لیتے ہیں کہ لوگوں کے مال و جان اور عزتوں کے فیصلے شریعت اسلام کے خلاف قانون کے مطابق ہوں اور نہ اس پر دلیل ہے کہ قانون بنا کر اہل اسلام کو اس کا پابند کیا جائے کہ وہ اللہ ورسول کے حکم کے مخالف احکام کو اپنائیں یہ فعل اللہ کے حکم سے روگردانی اور اس کے دین کو چھوڑ کر کفریہ احکام کی طرف رغبت کتنا ہے اسے اللہ کے دین پر ترجیح دینا ہے۔جبکہ یہ کفر ہے اور اس کے کفر ہونے میں اہل قبلہ میں سے کوئی بھی مسلمان شک نہیں کرتا اور اس کی طرف دعوت دینے والے کے کفر میں بھی کسی کو شک نہیں ہے آج ہمارے دور میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ یہ ہے کہ اللہ کے احکام کو مکمل طور پر چھوڑ دیا گیا ہے اور غیر اللہ کے احکام کو اللہ ورسولؐ کے احکام پر ترجیح دی جا رہی ہے اور اللہ کی شریعت کے تمام احکام کو معطل کیا جاچکا ہے۔جبکہ اسلام کی تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہو ا کہ کسی حکمران نے کوئی حکم بنایا ہو اور اسے فیصلہ کرنے کے لیے لازمی شریعت قرار دیا ہو۔اگر ابومجلزؓ کے زمانے میں ہو یا اس سے پہلے یا بعد میں کوئی حاکم ایسا ہوا کہ کسی قسم کا فیصلہ کرتا ہو اور اللہ کے حکم کا انکار کرتا ہو یا اہل کفر کے قانون کا اثر اہل اسلام پر ہو رہا ہو (جیسا کہ آج کل ہو رہا ہے کہ کفر کے احکام کو اسلام کے احکام پر ترجیح دی جا رہی ہے) یہ کبھی بھی نہیں ہوا لہٰذا ابومجلز ؒاور  اباضیین کے قول کو اس طرف نہیں لے جایا جا سکتا اس مسئلے میں جو شخص مذکورہ دونوں اثروں سے دلیل لے لے گا اور ان کو ان معانی سے پھیر ے گا (اور یہ کام وہ )حکمران کی مدد کی نیت سے کر رہا ہو یا اس بات کے لیے حیلہ کر رہا ہو کہ بما  انزل اللہ کے خلاف فیصلہ کرنے کو جائز قرار دے اور اسے لوگوں پر فرض کرتا ہو۔ایسا شخص شریعت میں اللہ کے احکام میں سے ایک حکم کا منکر شمار ہو گا اس سے توبہ کروائی جائے گی اور اگر وہ اصرار کرے اور اللہ کے حکم کا انکار کرے اور احکام (شریعت)تبدیل کرنے پر راضی ہو تو اس کا حکم ایسے کافر کا ہے جو اپنے کفر پر اصرار کرنے والا ہو اور ا س دین کو ماننے والا مشہور ہو۔

2              ابن کثیرؒ نے یاسق کے بارے میں جو بات کی ہے اس پر جس نے کلام کی بنیاد رکھی ہے تو یہ تعجب والی بات ہے اس لیے کہ خواہشات کا پیروکار نصوص کو عقل کے بجائے خواہشات کی نظر سے دیکھتا ہے۔عتیبی یہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ ان (تاتاریوں )نے حکم بغیر ما انزل اللہ کو حلال سمجھاتھا۔اور اللہ کے حکم پر غیر اللہ کو فضیلت دیتے تھے۔ہم عتیبی سے پوچھتے ہیں کیا ان میں سے کسی نے استحلال کی صراحت کی ہے؟ کیا ان میں سے کسی کی یہ عبارت موجود ہے کہ اس نے حکم بغیر ما انزل اللہ کو حلال سمجھتا ہے یا اسے اللہ کے حکم پر فضیلت دیتا ہے تاکہ عتیبی ان پرکفر کا حکم لگا سکے باوجودیکہ وہ لاالٰہ الااللہ کا اقرار کرتے تھے اور روزے نماز کے پابندی کرتے تھے ؟ عتیبی اس معاملے میں کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں ؟ جیسا کہ ابن تیمیہؒ کے قول سے ظاہر ہے ‘’وہ دین اسلام کو یہود و نصاریٰ کے دین کی طرح قرار دیتے تھے ‘‘۔لیکن ہم عتیبی سے پوچھتے ہیں کہ کیا ابن تیمیہؒ کی عبارت سے تحلیل ثابت نہیں ہوتا اور ان کے زمانے کے عالم کا بیان کردہ باتوں سے ان کا عملی فعل ثابت نہیں ہوتا ؟ اس میں صراحت کیوں نہیں ہے؟ بلکہ صاحب نظر دیکھ سکتا ہے کہ ابن تیمیہؒ کا حکم دیگر ثابت شدہ باتوں پر قائم ہے۔تصریح،استحلال اور تفضیل کے علاوہ۔جس پر عتیبی کو اصرار ہے کہ بغیر ما انزل اللہ کے مطابق فیصلہ کرنے والے کو کافر قرار دینے کے لیے (استحلال)اس دور میں شرط ہے۔یہی وہ ثابت شدہ امور ہیں جن پر توحید قائم ہے کاش کے ان کے پاس عقل ہوتی۔کیا ابن تیمیہؒ جیسے ربّانی عالم کے منہج کو اپنانا عتیبی کے لیے مناسب نہیں ہے؟ بجائے اس کے وہ ان کے کلام سے ایسا استشہاد کرے کہ جس پر وہ کلام دلالت نہیں کرتا ؟ اس کی مثال ابن کثیرؒ میں ان کا قول آیا ہے کہ ‘’وہ اسے اللہ کے حکم پر مقدم کرتے تھے ‘‘۔یعنی مقدم کرنے کے لفظ (یقدمونھا) کو تفضیل کے معنی میں لیا ہے جبکہ ان کی طرف سے اس کی تصریح نہیں کی ہے۔علماء نے اس بات کی صراحت نہیں کی کہ وہ تفضیل کے قائل تھے لہٰذا ابن کثیرؒ کی شرع کو اللہ کی شرع کے برابر قرار دیتے تھے۔اس میں فضیلت دینے کی صراحت نہیں ہے۔عتیبی نے اپنی کتاب میں جو دلائل دیے تھے ان کو ردّ کرنے کے بعد ہم یہ وضاحت کرنا چاہتے ہیں کہ ہم کسی حاکم یا حکومت کو معین طور پر کافر قرار نہیں دیتے بلکہ ہمارا مقصد اس تحریر سے توحید کی حمایت اور کلمۂ  اخلاص کا دفاع اور محمدؐ  کی رسالت میں موجود احکام کو حاصل کرنے کی خواہش اور اس بات کی کوشش کہ مرجۂ،خوارج یا کوئی اور خواہش پرست ان احکام کو کھیل تماشا نہ بنا لے۔اللہ سے دعا ہے کہ سب کو ہدایت نصیب فرمائے۔ آمین

ڈاکٹر طارق عبدالحلیم

 

مسلم ورلڈ ڈیٹا پروسیسنگ پاکستان

http://www.muwahideen.tk

Email: info@muwahideen.tk

٭٭٭

ماخذ:

http://www.scribd.com/doc/6759245/raddeotaibi

تدوین اور ای بک: اعجاز عبید

[1]  شیخ نے زمانے کے ایک مرجۂ جو حلبی کے نام سے مشہور ہیں ان کے قول سے دلیل لی ہے جو فتح الباری میں مذکور ہے جہاں وہ ایمان کے بارے میں سلف کے اقوال پر بحث کرتے ہیں تو سلف کے قول کہ :ایمان دل کے اعتقاد،زبان کے اقرار اور اعضاء کے ارکان کانام ہے۔ان کی مراد اس سے یہ ہے کہ اعمال ایمان کے کمال کے لیے شرط ہیں اسی لیے انھوں نے کمی بیشی کی بات کی ہے یہی مراد لیاجاتا ہے کہ شیخ کے مذہب کے مطابق کمی وبیشی سے جو مراد لیا جاتا ہے اس سے مراد یہ نہیں ہے کہ اعمال ایمان کے مرکب میں رکن ہیں۔حقیقۃ الایمان عند الشیخ البانی۔د محمد بن رحیم اور ہماری کتاب ‘’حقیقۃ الایمان’‘ملاحظہ فرمائیں جہاں ایمان کے درجات اور عمل کے اس کے ساتھ تعلق کی تفصیل مل جائے گی.

 

[2]میں نے اپنی کتاب حقیقۃ الایمان (1978ء ) میں اس بارے میں وضاحت کی ہے اس کتاب میں ابن تیمیہ ؒکی کتاب اور دیگر ائمہ سلف کی آراء واقوال پیش کیے تھے اسے ملاحظہ کرنے سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ یہ گروہ اہلِ سنّت کے خلاف ہے.