FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

فہرست مضامین

آئینۂ دل

               ظہور احمد فاتح

 


 

انتساب

اپنے  ہر  اس  نوجواں  ہم  سِن  کے  نام

جذبۂ  الفت  ہے  جس  میں   موجزن

جو  تلاشِ  یار  میں  ہر  صبح  و  شام

چھانتا  ہے  خاکِ  کوہ  و  دشت  و  بن

جس  کا  مدحِ  یار  ہے  ہر  وقت  کام

جس  کو  ذکرِ  یار  ہے  لطفِ  دہن

نوش کرتا ہے جو درد و غم کے جام

ہو چکا ہے زخم خوردہ جس کا من

ہر پری چہرہ حسیں پیکر کے نام

ہیچ جس کے سامنے سرو و سمن

جس کی آنکھوں میں ہے الفت کا پیام

لوٹتا ہے دل کو جس کا بانکپن

حشر کی تصویر ہے جس کا خرام

وہ جو ہے شیریں دہن ، سیمیں ، بدن

ہے   دلِ   ناہید   میں  جس   کا   مقام

جس  کے  آگے  مہر  و  مہ  وقف ِ  گہن

اپنے ہر اس ہم سفر ہمدم کے نام

جو تلاشِ راہِ حق میں ہے مگن

ہے خلوص و مہر جس کے دل میں عام

ہے جسے مطلوب مولا کا ملن

غم کو جس کی زندگی میں ہے دوام

ہے جہاں جس کے لیے دار المحن

جو   نہیں    دنیا   کا    محکوم   و   غلام

کچھ  نہیں  جس  کے  لیے  دار  و  رسن

٭٭٭

 

حمد

اے خدائے لم یزل اے خالقِ کون و مکاں

کر سکوں تعریف تیری اتنی طاقت ہے کہاں

کن کے کہنے پر دو عالم تو نے قائم کر دئیے

عرش و کرسی جنت و دوزخ زمین و آسماں

خاک سے پیدا کیا ہے تو نے اس انسان کو

اور بخشے ہیں اسے تونے دماغ وقلب وجاں

ہم تیرے بندے ہیں یارب اور تو معبود ہے

ہم خطا پیشہ ہیں آقا اور تو ہے مہرباں

تیری رحمت، تیری قدرت، تیری حکمت، کے نثار

تیرے انوارِ مبارک سے منور ہیں جہاں

تیرے احسانات کا مولا نہیں کوئی شمار

حق ادا شکرِ نعم کا کر نہیں سکتی زباں

قادرِ مطلق ہے تو قہار تو رحمان تو

ہے ازل سے سجدہ گاہِ خلق تیرا آستاں

اکبر و یکتا ہے تو تیرا کوئی ہمسر نہیں

ذرہ ذرہ دے رہا ہے تیری ہستی کا نشاں

حمد کر مولا کی فاتح جتنی تجھ سے ہو سکے

 مانگ رب سے ، آس رکھ پھر دیکھ رحمت کا سماں

٭٭٭

 

قطعہ

مِرا ایمان ہے محکم خدایا

مِرا مالک مِرا خالق بھی تو ہے

کسی کے آگے میں کیوں سر جھکاؤں

مِرا ناصر مِرا رازق بھی تو ہے

٭٭٭

 

نعت

اے حبیبِ کبریا اے رحمۃ اللعالمیں

اے خدا کی آنکھ کے تارے شفیع المذنبیں

نورِ حق سے تو نے گمراہوں کو رہبر کر دیا

میرے ہادی تجھ سا رہبر کوئی ہو سکتا نہیں

تھام لے دامن جو تیرا اُس کا بیڑا پار ہے

جنت الفردوس ہے اس کا ٹھکانہ بالیقیں

تیری ہستی باعثِ رحمت ہے دنیا کے لیے

فخر کرتی ہے تِری ذاتِ مقدس پر زمیں

تو ہمارا پیشوا ہے تو ہے فخر الابنیأ

والی ِکونین تو ہے اے حسیں روشن جبیں

رب سے نصرت مانگتا ہے تو ہمارے واسطے

جب بھی ہم پہ آن پڑتی ہے کوئی مشکل کہیں

تیرے مکہ و مدینہ سے محبت ہے مجھے

مانگتا ہوں یہ دعا رب سے کہ لے جائے وہیں

یاد کرتا رہتا ہے فاتح تجھے صبح و مسا

اے مِرے پیارے نبی اے سبز گنبد کے مکیں

٭٭٭

 

قطعہ

اگر مطلوب ہے حق آشنائی

جلا دل میں چراغِ  مصطفائی

علمبردارِ عدل و امن بن جا

مٹا سنسار سے ظلم و برائی

٭٭٭

 

شاعر  کی  دعا

خدایا عطا کر کچھ ایسے ذرائع

کہ ہو جائے میرا یہ دیوان شائع

مِرے شعر کو بخش دے یا الہی

لطافت نزاکت صنائع بدائع

کچھ ایسی حرارت ہو میرے سخن میں

کہ ہوں اس کی گرمی سے پتھر بھی مائع

دلوں پر موثر ہوں اشعار میرے

سکوں ان سے حاصل کریں سب طبائع

مِری مشعلِ فن سے روشن جہاں ہو

دعا ہے مِری کاوشیں ہوں نہ ضائع

٭٭٭

 

دو راستے

یہ جہاں اک رہگذر ہے زندگی ہے اِک سفر

حضرتِ انساں ہے رہرو عقل و دل ہیں راہبر

سامنے ہوتے ہیں ہر انسان کے دو راستے

مختلف سمتوں کو جاتے ہیں سدا جو راستے

نام پہلے راستے کا ہے صراطِ مستقیم

گامزن ہوتے ہیں جس پر صاحبِ عقلِ سلیم

عدل و انصاف و اخوت عام ہے اس دین میں

ہے مقرر جرم کی تعزیر اِس آئین میں

زندگی کے ایک اک شعبے کا ہے اس میں اصول

 اس کا رہرو ہی سدا کرتا ہے عظمت کا حصول

مفلسوں کو اس میں حاصل ہے فلاح و اِرتقا

اس میں ایثار و محبت کی نہیں کچھ انتہا

اس میں شامل ہیں مساوات و مروت کے دروس

ہر طرح سے دلنشیں ہے زندگانی کی عروس

اَمر بالمعروف بھی ہے نہی عن المنکر بھی ہے

اس کے سالک میں جہاد و جنگ کا جوہر بھی ہے

اس طریقِ پُر سکوں میں رحمتِ رب عام ہے

نام اس راہِ فلاح الناس کا اسلام ہے

دوسرا ہے راستہ گمراہی و عدوان کا

اس میں ہو جاتا ہے سرکش ذہن ہر انسان کا

منحنی یہ راستہ ہے پُر خطر پُر خار ہے

جس میں تاریکی ہی تاریکی ہے یہ وہ غار ہے

عام ہے بے مہری و تخریب و عیاری یہاں

گھات میں ہے رہزنی و مکر و بدکاری یہاں

جبر و استبداد و استحصال اس میں عام ہے

حق پرست و عادل و منصف یہاں ناکام ہے

اس کے رہرو ہیں دغا باز و ذلیل و بد دماغ

لوٹتے ہیں خوب لوگوں کو دکھا کر سبز باغ

چوستے ہیں خوب خوش ہو کر غریبوں کا لہو

ان کے خونیں رنگ کو کرتے ہیں پھر زیبِ گلو

راستے واضح ہیں جو چاہو کرو تم اختیار

باعثِ عزت ہے پہلا ، دوسرا ذلت شعار

٭٭٭

 

وقت کی آواز

اے مسلماں ، خوابِ غفلت سے ذرا بیدار ہو

وقت نازک ترہے ، جلدی اُٹھ ، سنھبل ہُشیار ہو

اے گرفتارِ مصائب وقت کی للکار سن

ذرہ ذرۂ جہاں سے اپنا حالِ زار سن

تو تھا خورشیدِ زمانہ آفتابِ ضو فشاں

تیری ہستی آج ذرہ سے بھی کم تر الاماں

تو کہ تھا شمعِ ہدایت ، آج ہے بھٹکا ہوا

تجھ سے ڈرتے تھے سبھی ، اب خود تجھے کھٹکا ہوا

مشتعل تھی تیری ہمت ، خوب تھے تیرے نصیب

ڈوبنے والا ہے اب تو دیکھ ساحل کے قریب

لمحہ لمحہ قیمتی ہے جلد اے ناداں سنھبل

زورِ بازو کام میں لا اور طوفاں سے نکل

فتح و نصرت کے لیے رب سے طلب اِمداد کر

غفلتوں سے باز آ جا ، عہد اپنا یاد کر

اٹھ کھڑا ہو اپنے وعدے کو نبھانے کے لئے

ملک میں اسلام کا آئین لانے کے لئے

دہر کو اسلام کا نقشہ دکھانے کے لئے

سکہ طاقت کا زمانے پر بٹھانے کے لئے

بے کس ومسکین کی ڈھارسں بندھانے کے لئے

دشمنانِ دینِ احمدؐ کو مٹانے کے لئے

٭٭٭

 

سر چشمۂ نور

یہ تیرے نورِ مقدس کا اثر ہوتا ہے

جس کو مل جاتا ہے ، وہ شخص امر ہوتا ہے

یہ تِرا نورِ جہاں تاب ہے ، جس کے باعث

عقل فہمیدہ و دل اہلِ خبر ہوتا ہے

یہ تِرا نور ہے ، جس نور کے باعث انساں

صاحبِ معجزہ و اہلِ نظر ہوتا ہے

یہ تِرا نور ہے ایمان جسے کہتے ہیں

یہ تِرا نور ہے جو نورِ بصر ہوتا ہے

یہ تِرا نور تو ہے جس کی پذیرائی سے

ذرۂ خاک دلِ شمس و قمر ہوتا ہے

یہ تِرا نور تو ہے جس کی ضیا پاشی سے

قطرۂ آب گراں قدر گہر ہوتا ہے

یہ تِرا نور ہے جو قاطعِ تاریکی ہے

جس طرح آخرِ شب وقتِ سحر ہوتا ہے

یہ تِرا نور ہے آتا ہے توکل بن کر

دل میں جس وقت غم و خوف و خطر ہوتا ہے

یہ ترا نور ہے اس کو بھی بناتا ہے ولی

جس کا ہر لمحہ گناہوں میں بسر ہوتا ہے

٭٭٭

 

قطعہ

ترے سینے میں حق کی ضو نہیں ہے

جمالِ یار کا پَرتو نہیں ہے

سمجھ سکتا نہیں اَسرارِ اُلفت

کہ تو اس راہ کا رہرو نہیں ہے

٭٭٭

 

ڈاکٹر نذیر احمد شہید

منددب قومی اسمبلی کے قتل پر

آج ہر اک دل غم و اندوہ سے لبریز ہے

آج ہر اک آنکھ روتی اشکِ خوں آمیز ہے

آج  ظلم  و  جور  نے  چھو لی ہے  حدِ  انتہا

آج وحشت کے سبب ہر دل کی دھڑکن تیز ہے

اک طرف محشر بپا ہے ، ہائے ہے کا شور ہے

اک طرف پُر غم خموشی کتنی معنی خیز ہے

موجزن ہے ایک جانب جذبۂ افضل جہاد

اک طرف ظلمِ ہلاکو دہشتِ چنگیز ہے

ہر طرف آہ و فغاں کا شور ، غم کا دور ہے

آج سارے شہر کا ماحول درد انگیز ہے

آج اک مردِ خدا کو قتل کر ڈالا گیا

اک مجاہد رہنما کو قتل کر ڈالا گیا

قتل کر ڈالا گیا ہے اک عظیم انسان کو

جانثارِ مصطفی کو قتل کر ڈالا گیا

وہ جو حق کہتا تھا ظالم حکمراں کے سامنے

قوم کے اُس با وفا کو قتل کر ڈالا گیا

مخلصِ قوم و وطن کو قتل کر ڈالا گیا

صاحبِ جود و سخا کو قتل کر ڈالا گیا

تھا فنا فی القوم پہلے ، اب شہیدِ قوم ہے

خوگرِ صدق و صفا کو قتل کر ڈالا گیا

وہ جو حق گوئی کے بدلے ظلم ہی سہتا رہا

مرجعِ جور و جفا کو قتل کر ڈالا گیا

قوم کی تھی فکر جس کو گھر کی کچھ پروا نہ تھی

عادیِ فقر و غنا کو قتل کر ڈالا گیا

جس کا دل کڑھتا رہا ہر دم زوالِ قوم پر

قوم کے اُس دلربا کو قتل کر ڈالا گیا

منتظر رہتے تھے زنداں اُس عظیم انسان کے

پیکرِ صبر و رضا کو قتل کر ڈالا گیا

صاحبِ اَخلاقِ احسن ، غمگسارِ قوم تھا

اُس حقیقت آشنا کو قتل کر ڈالا گیا

وہ محبِ قوم وہ ہمدردِ ملت چل دیا

وہ مجاہد ، نیک خصلت ، نیک سیرت چل دیا

عالمِ دیں ، صاحبِ دانش سبھی مغموم ہیں

اِک علمبردارِ آئینِ شریعت چل دیا

اک جواں مردِ خدا ناموسِ حق پر کٹ گیا

دے کے درسِ حق پرستی و صداقت چل دیا

وہ جو ظالم حکمرانوں سے کبھی ڈرتا نہ تھا

پی کے وہ سالارِ حق جامِ شہادت چل دیا

آہ ، اِس فانی جہاں دار المحن کو چھوڑ کر

آج وہ غمخوارِ اُمت ، پاک طینت چل دیا

اپنے نصب العینِ حق گوئی پہ وہ قائم رہا

اُس کی خاطر دے کے جاں وہ فخرِ ملت چل دیا

٭٭٭

 

ضبط ِنفس

ماخوذ از پند نامہ ۔۔۔۔۔شیخ فریدالدین عطارؒ

زندگی ہے اک مسافت آدمی ہے راہگیر

دہر ہے ظلمت کدہ ، اسلام ہے ماہِ منیر

دو عوامل کارگر ہیں ، ابنِ آدم کے خلاف

جن کی کوشش ہے کرے انسان حق سے انحراف

ان میں پہلا نفس ہے اور دوسرا شیطان ہے

کام دونوں کا فقط گمراہیِ  انسان ہے

درحقیقت نفس ہے شیطان کا طاعت گزار

یعنی ہوتا ہے اسیرِ نفس شیطاں کا شکار

جس طرح شیطاں ازل سے دشمنِ انسان ہے

نفس بالکل اس طرح غارت گرِ ایمان ہے

خوب بہلاتا ہے انساں کو دکھا کر سبز باغ

تیز آندھی بن کے گل کرتا ہے تقوے کے چراغ

دہر میں جو بھی غلامِ نفسِ اَمارہ بنا

باغی و مفسد بنا ، دوزخ کا بنجارہ بنا

عقلمندی ہے یہی ، حاصل ہو قدرت نفس پر

ہوں خدائے پاک کے فرماں سدا مدِ نظر

خرمنِ دل تک نہ پہنچے آتشِ حرص و ہوس

ہو رضائے ربِ اکبر کی تمنا ہر نفس

غصہ آ جائے اگر تو ضبط کرنا چاہیے

مالکِ قہار سے ہر وقت ڈرنا چاہیے

معذرت کوئی کرے تو بخش دینا چاہیے

بُردباری سے ہمیشہ کام لینا چاہیے

رحمدل بننے کی ہر دم آدمی کوشش کرے

تاکہ محشر میں خدا بھی رحم و آمُرزِش کرے

جس قدر بھی ہو کرے انسان غیبت سے گریز

پھول کی مانند ہو باغِ جہاں میں عطر بیز

کیوں زمانے میں کسی کا دل دکھائے آدمی

کیوں کسی انساں پہ ناحق ظلم ڈھائے آدمی

دہر میں قلب و زبان و ہوش پر قابو رہے

دست و پا پر ضبط ، چشم و گوش پر قابو رہے

نفسِ شیطانی کو دے سکتا ہے وہ انسان مات

مرد بن کر توڑ ڈالے جو بتانِ خواہشات

نفس کوبی کے لئے شکر و قناعت چاہیے

صبر کی خو چاہیے ، ذوقِ اطاعت چاہیے

نفس کے عفریت پر جس نے بھی قابو پالیا

اس نے خود کو جنت الفردوس میں پہنچا دیا

کھینچ کر رکھی نہ اسپِِ نفس کی جس نے لگام

دہر سے لوٹا وہ نا اندیش بے نیلِ مرام

آخرش نارِ جہنم میں سزا پائے گا وہ

نفسِ اَمارہ کی طاعت کا مزا پائے گا وہ

٭٭٭

 

کم گوئی

[ماخوذ از پند نامہ ۔۔۔۔۔شیخ فریدالدین عطارؒ]

یہ مسلم امر ہے جس کی زباں ہے بے لگام

عقل نا پختہ ہے اس کی ، خام ہے اس کا کلام

جو زیادہ بولتا ہے ، اس کا دل جاتا ہے مر

اس کی باتیں بھی ہوا کرتی ہیں اکثر بے اثر

کم ہی برسے گا وہ بادل جو گرجتا ہو بہت

کاٹتا ہے کم وہ کتا ، بھونکتا ہے جو بہت

جس طرح اَسراف کرنے والا خالی جیب ہے

اِس طرح بسیار گوئی بھی سراسر عیب ہے

ایک پاگل کو کوئی پاگل سمجھ سکتا نہیں

اپنے منہ سے بے تکی جس وقت تک بکتا نہیں

اس لئے اَے ہمنشیں حتی الوسع کم بولنا

بولنے سے پہلے اپنی بات دل میں تولنا

عقل والے بات کرتے ہیں مدلل اِس طرح

چند قطرے عطر کے ہوتے ہیں کافی جس طرح

جھوٹ سے ، غیبت سے بہتر ہے کہ انساں چپ رہے

منہ سے جو کچھ بھی کہے واضح کہے ، سچ سچ کہے

ذکرِ حق کر کے کرے انساں زباں کا حق ادا

راست گوئی سے کرے اہلِ جہاں کا حق ادا

بھنبھنانا یونہی مکھی کی طرح اچھا نہیں

لغو باتوں سے خموشی ہے زیادہ دلنشیں

سچ تو یہ ہے عقلمندی کا نشاں ہے خامشی

بات چاندی ہے تو سونا بے گماں ہے خامشی

٭٭٭

 

سورج سے خطاب

مرحبا ، اے بادشاہِ شرق ، اے مہرِ منیر

ذرہ ذرہ ہے تیری تنویر سے روشن ضمیر

تیری شوکت سے سرور و سوز پاتا ہے وجود

تو عطا کرتا ہے ہر مستور کو ذوقِ نمود

روشنی تیری ہے رشکِ تابشِ دستِ کلیم

ندیاں ہیں تیری کرنوں کی چمک سے جوئے سیم

چاند کو تو نے عطا کی روح پرور چاندنی

لعل کے سنگیں بدن میں تو نے بھر دی روشنی

پرورش پاتا ہے تیرے فیض سے سوزِ دروں

تیری گرمی سے رگوں میں دوڑتی ہے موجِ خوں

تو سناتا ہے ازل سے مژدۂ صبحِ مراد

اے نقیبِ شادمانی ، زندۂ و تابندہ باد

مجھ کو بھی اے ضو فشاں روشن ضمیری چاہیے

ہر قدم پر نورِ حق کی دستگیری چاہیے

میری ہستی سے چھٹے افکار کی تیرہ شبی

قوم کو ہونے نہ دوں میں راہِ حق سے اجنبی

پختگی بخشے مِرا احساس فکرِ خام کو

نوکِ خامہ سے بدل دوں گردشِ ایام کو

توڑ دوں افکارِ مغرب کا سراب آگیں طلسم

روح پائے میرے فن سے مشرقِ خفتہ کا جسم

روح کے باعث ہے گرمی عالمِ سیار میں

رازِ آزادی نہاں ہے عفتِ افکار میں

سوچنے لگتی ہیں جو قومیں غلط انداز میں

سوز کا فقدان ہو جاتا ہے ان کے ساز میں

کوچ کر جاتا ہے ان کے جسم سے قلبِ سلیم

ٹیڑھی ترچھی ان کو لگتی ہے صراطِ مستقیم

چھوڑ دیتی ہیں وہ قومیں حرب و ضربِ کائنات

اور سکون و عیش و عشرت کو سمجھتی ہیں حیات

مرغِ بسمل کی طرح ہوتا ہے ان کا حوصلہ

ان کے اندر جوش ہوتا ہے نہ کوئی ولولہ

صرف اس صورت ہی رک سکتا ہے قوموں کا زوال

پیدا ہو ان کے دماغ و دل میں تطہیرِ خیال

پختگی پیدا نہ ہو جس وقت تک افکار میں

بہتری ممکن نہیں اُس وقت تک کردار میں

ماخوذ از پس چہ باید کرد اے اقوامِ شرق۔۔۔۔اقبال

٭٭٭

 

قطعہ

حسنِ اخلاق میں محبوب ادا پیدا کر

سوزِ کردار میں اسلوبِ وفا پیدا کر

لاج اپنی تجھے رکھنا ہے زمانے میں اگر

اپنے اندر صفتِ شرم و حیا پیدا کر

٭٭٭

 

قطعات

جہاں میں ہر طرف بے رہروی ہے

حسیں کردار کے مالک کہاں ہیں

بنایا ہے جہاں نے کفر مسلک

رہِ ایمان کے سالک کہاں ہیں

٭٭

یہ دل جس میں کہ اپنا عکس بھی دیکھا نہیں تو نے

اگر تو چاہتا ہے ساغرِ جمشید ہو جائے

صفائی اتنی کر اس کی محبت کے مصفیٰ سے

کہ اس سے گردِ بغض و دشمنی ناپید ہو جائے

٭٭٭

 

اَسرارِ عظمت

کیوں جذبہ مردہ ہے تِرا ، اس کو حیات انگیز کر

رہ عمر بھر گرمِ عمل ، آرام سے پرہیز کر

منزل سمٹ کر آئے گی ،خود ہی تِرے قدموں میں پھر

پائے عزیمت کو عطا ایقان کا مہمیز کر

بزمِ زمانہ میں جلا اخلاق و الفت کے دئیے

گلدستۂ ہستی کو حسنِ خلق سے گلریز کر

تجھ سے نہ ہو پائیں جدا ، دم بھر بھی تیرے آشنا

اپنے حریمِ ذات کو تو اتنا نگہت بیز کر

تیرے ہر اِک دشمن کا دل تیری طرفداری کرے

یوں عظمتِ کردار سے تو خود کو دلاویز کر

تو اس مشینی دور میں پیچھے نہ رہ جائے کہیں

رفتار تیری سست ہے ، اس کو ابھی کچھ تیز کر

سائنس کے مطلق دور میں ابہام کچھ اچھا نہیں

فاتح کا ہے یہ مشورہ ، ہر بات معنی خیز کر

٭٭٭

 

قطعہ

کیا ہوا مجھ کو مشقت سے نہیں حاصل فراغ

غم نہیں گر زندگی پُر لطف و آسودہ نہیں

میں نہیں کرتا کسی کا حق دبا لینا پسند

نفرتوں سے شیشۂ دل میرا آلودہ نہیں

٭٭٭

 

خون  کے آنسو

دل تڑپ اٹھتا ہے مسلم دیکھ کر حالت تِری

خون کے آنسو رلاتی ہے مجھے غفلت تِری

آہ ، ناداں کھول آنکھیں اور اپنا حال دیکھ

دیکھ کیسے مل رہی ہے خاک میں عظمت تِری

درد ہوتا ہے جگر میں اور پھٹتا ہے دماغ

دیکھ کر بدحالی و رسوائی و ذلت تِری

تیری بربادی کا باعث ہیں تِری بد کاریاں

تیری گمراہی کے باعث ہے یہ کیفیت تِری

جس قدر تو اپنے دیں سے منحرف ہوتا گیا

اُس قدر گھٹتی گئی ہے عزت و قوت تِری

تو نے اوروں کے سہارے پر بھروسہ کر لیا

تیری کم فہمی کے باعث آ گئی شامت تِری

تو ہوا کرتا تھا ہر دم دوسروں کا آسرا

آج تجھ کو کیا ہوا ہے ، کیا ہوئی غیرت تِری

زندہ رہنا ہے تو شمشیر و سناں کی مشق کر

موت کا پیغام ہو گی مستی و عشرت تِری

تیری ناکامی و رسوائی ہے عیاشی کا پھل

یاد رکھ جدوجہد میں ہے نہاں عزت تِری

اے مسلماں ، اب خدارا چھوڑ بد اعمالیاں

نیک اعمالی میں پوشیدہ ہے عافیت تِری

ضامنِ رفعت ہے اسلامی نظامِ زندگی

دور ہو سکتی ہے اس ہی سے فقط عسرت تیری

اے کہ سرگرمِ عمل ہو زندہ قوموں کی طرح

سخت کوشی اور سرگرمی میں ہے طاقت تیری

محنت و کوشش کو تو ہر دم بنا اپنا شعار

دیکھنا کیسے چمک اٹھتی ہے پھر قسمت تیری

٭٭٭

 

پند نامہ

ہوتی ہے اسی شخص کی تعظیم ہمیشہ

کرتا ہے جو انسان کی تکریم ہمیشہ

پی لیتا ہے جو شخص یہاں جامِ صبوری

ملتی ہے اُسے کوثر و تسنیم ہمیشہ

ہر وقت جہاں سے غم و آلام سمیٹو

دنیا میں کرو راحتیں تقسیم ہمیشہ

تھامے رہو ہر حال میں امید کی مشعل

تا دور رہے تیرگیِ بیم ہمیشہ

ہر فن میں کرو کسبِ مہارت میرے یارو

ہر قسم کی حاصل کرو تعلیم ہمیشہ

مطلوب ہے دنیا میں اگر چین سے رہنا

اپنائے رہو وحدت و تنظیم ہمیشہ

کرتے رہو تم تیشۂ ایمان و عمل سے

ہر مسکنِ ظلمات کی تہدیم ہمیشہ

ہو کے رہا حق غالب و مقبول جہاں میں

ڈالے گئے آتش میں براہیم ہمیشہ

اک مذہبِ اسلام ہے ناقابلِ ترمیم

ہر دین میں ہوتی رہی ترمیم ہمیشہ

کردار میں ، اخلاق میں جو قوم ہو یکتا

کرتا ہے زمانہ اُسے تسلیم ہمیشہ

جو قوم اٹھا لیتی ہے شمشیرِ عزائم

بنتی ہے وہی وارثِ اقلیم ہمیشہ

٭٭٭

 

قوم کا نوحہ

کہنے کو تو دنیا میں ہے موجود مسلمان

لیکن نہیں موجود مسلمان کے اوصاف

اب قوم میں باقی نہیں وہ جذبۂ ایمان

موجود ہے اب اس میں نہ وہ قوتِ اسلاف

اب اس میں ہیں وہ مرد مجاہد نہ قلندر

اب اس میں نہ وہ متقی و صوفی و احناف

اَب اس میں رذیلوں کی ، لٹیروں کی ہے کثرت

کمیاب ہیں اس قوم میں اب محسن و اشراف

اب چھائی ہے اُس دل پہ گناہوں کی سیاہی

جو نور سے ایمان کے تھا روشن و شفاف

ناپید ہے اب قوم میں یک جہتی و الفت

اب اس میں دیانت ہے ، نہ اخلاق نہ انصاف

متروک ہے اس قوم میں اب خوئے سخاوت

یا بخل ہے اب طرز عمل اس کا یا اسراف

ہلتی ہیں اسی وقت سے ملت کی اساسیں

جس وقت سے دل گردِ کدورت سے نہیں صاف

اس قوم کی اب دوسری قوموں پہ نظر ہے

یہ ایک زمانے میں تھی خود قبلۂ اطراف

٭٭٭

 

ایک خوش آئند تصور

یہ جہاں اک روز فردوسِ نظر ہو جائے گا

ذرہ ذرہ صورتِ شمس و قمر ہو جائے گا

ہو ہی جائے گی شبِ تاریک و طولانی تمام

دیکھتے ہی دیکھتے وقتِ سحر ہو جائے گا

دم دبا کر بھاگ جائے گی سیاہی رات کی

بادشاہِ روشنی جب جلوہ گر ہو جائے گا

ہے کشاکش آج بھی تاریکیِ  شب سے جسے

مہر میں تبدیل آخر وہ شرر ہو جائے گا

دیکھ لینا نورِ حق کی خیرگی کے سامنے

دشمنِ انسان شیطاں بے بصر ہو جائے گا

ہاں جہاں میں پھیل جائے گی ضیا اسلام کی

ہاں ، فسونِ کفر و ظلمت بے اثر ہو جائے گا

ختم ہو جائے گا طوفانِ جہالت ایک دن

ہر بشر دلدادۂ علم و ہنر ہو جائے گا

آج جو انسان خود کو بھی سمجھ سکتا نہیں

کل یہی رازِ ازل سے باخبر ہو جائے گا

ہاں بنے گا آدمی کل آدمی کا قدر داں

دل سے رخصت اشتیاقِ سیم و زر ہو جائے گا

گوہرِ دل اس قدر مقبول ہو گا دہر میں

غیر جاذب خوش نما سنگیں گہر ہو جائے گا

آج نادانی سے جو انساں غلامِ نفسں ہے

کل غلام اللہ یہ آشفتہ سر ہو جائے گا

اس سے دھل جائے گی عصیاں کی سیاہی ایک دن

مطلعِ انوار قلبِ ہر بشر ہو جائے گا

بیٹھ جائے گا دلِ انساں میں جب خوفِ خدا

ہر مصیبت ، ہر بلا سے بے خطر ہو جائے گا

آج خود سے بھی جو ڈرتا ہے یہی انسان کل

بالمقابل موت کے سینہ سپر ہو جائے گا

کل یہی انسان ، جو ہے آج وحشی بھیڑیا

امن کا ، انصاف کا پیغامبر ہو جائے گا

آج جو خونِ برادر کا ہے پیاسا آدمی

اپنے دشمن کے لئے بھی بے ضرر ہو جائے گا

موجزن ہر دل میں ہو گا جذبۂ مہر و خلوص

حضرتِ انساں بہم شیر و شکر ہو جائے گا

نوعِ انساں کو چُرائے گا مسیحائی کا شوق

عام ہر سو کارِ الیاس و خضر ہو جائے گا

جلد ہی مل جائے گی اپنی حسیں منزل اُسے

کارواں جب شوق سے محو سفر ہو جائے گا

جس جگہ سے جانے جل اٹھتے ہیں پر جبریل کے

پھر وہیںسے ابنِ آدم کا گزر ہو جائے گا

جلد ہی سمجھے گا انساں فلسفہ معراج کا

نورِ جوہر سے جہاں تابندہ تر ہو جائے گا

ہاں جہاں بن جائے گا گہوارۂ عیش و نشاط

دورِ آلام و محن دنیا بدر ہو جائے گا

داغِ حسرت سینۂ ہستی سے ہو گا بے نشاں

نرگسِ گریاں کو وصلِ دیدہ ور ہو جائے گا

اس سے بجھ جائے گی ہر میخوار و تشنہ لب کی پیاس

رونقِ محفل مِرا خونِ جگر ہو جائے گا

٭٭٭

 

قطعہ

حیاتِ جاوداں کا راز کہہ جا

زمانے کے مصائب ہنس کے سہہ جا

نہیں یہ جھیل سا ٹھہراؤ اچھا

تلاطم خیز دریا بن کے بہہ جا

٭٭٭

 

اے  وطن

اے وطن ، مجھ کو دل و جان سے پیارا تو ہے

میرا محبوب مری آنکھ کا تارا تو ہے

تو جو باقی ہے تو مجھ کو بھی بقا حاصل ہے

میری معصوم امنگوں کا سہارا تو ہے

اے وطن ، تجھ میں ہمیشہ ہو بہاروں کا ہجوم

ہو تیری مانگ پہ براق ستاروں کا ہجوم

وطنِ پاک ، مِری جنتِ ارضی تو ہے

ہر طرف ہے تیرے پُر کیف نظاروں کا ہجوم

تیرے باشندے ہمیشہ رہیں مسرور وطن

خوش رہیں تیرے یہ دہقاں ، تیرے مزدور وطن

تیرا ہر فرد مسرت کے ترانے گائے

راحتوں سے تو ہمیشہ رہے معمور وطن

اے وطن ، ہم تیری ناموس بچائیں گے سدا

ہم یہ پیمانِ وفا اپنا نبھائیں گے سدا

اے وطن ، محنت و کوشش کی حسیں افشاں سے

تیری زلفیں ، تیری پیشانی سجائیں گے سدا

اے وطن ہم تیرے ٹکڑے نہیں ہونے دیں گے

ہم تعصب کے یہاں بیج نہ بونے دیں گے

اے وطن! تیری قسم جان میں جاں ہے جب تک

ایک چپہ بھی تِرا ہم نہیں کھونے دیں گے

٭٭٭

 

ایک واقعہ

یہ خبر میں نے سنی ہے کہ کسی لڑکے نے

جبر کے قصر کو ڈھانے کی جسارت کی ہے

دستِ مظلوم نے غیرت کا سہارا لے کر

ظلم کے سر کو جھکانے کی جسارت کی ہے

اس نے اِک ظالم و جابر کو بڑی جرات سے

اس کا انجام دکھانے کی جسارت کی ہے

اس نے اس دورِ پر آشوب میں ہمت کر کے

بیڑیاں کاٹ گرانے کی جسارت کی ہے

قابلِ داد و ستائش ہے شجاعت اس کی

ظلم کو جس نے مٹانے کی جسارت کی ہے

٭٭٭

 

انسان

[بزبانِ خویش]

میں خلیفہ ہوں خدا کا خلقِ ذی توقیر ہوں

میں یقیناًاحسن التقویم کی تفسیر ہوں

میں ہوں مسجودِ ملائک ، میں ہوں محبوب خدا

دہر کے ظلمت کدے میں باعثِ تنویر ہوں

عقل رفعت آشنا ہے ، دل مِرا حساس ہے

صاحبِ فہم و ذکا ہوں ، صاحبِ تدبیر ہوں

میری فطرت ہے ازل سے اختلاف و انقلاب

مختلف ہیں روپ میرے ، طالبِ تغئیر ہوں

توڑ تا ہوں میں کبھی تو قہقہوں سے آسماں

یا کبھی میں شکوہ سنجِ آسمانِ پیر ہوں

میں مظالم سہہ کے بھی دیتا ہوں پیغامِ خدا

میں خلیل و مصطفے ہوں ، یاسر و شبیر ہوں

میں سیہ کاری میں شیطانوں کو دے دیتا ہوں مات

خوابِ ابلیسِ لعیں شرمندۂ تعبیر ہوں

عشق سے لبریز ہے دل سرمد و منصور ہوں

قیس ہوں ، فرہاد ہوں یا وامقِ دلگیر ہوں

ظلم پر اُتروں تو میں نمرود ہوں فرعون ہوں

جبر و استبداد میں چنگیز کی تصویر ہوں

میں خدا کا بندۂ اقرب ہوں دل مومن میرا

دشمنِ دیں کے لیے میں تیر ہوں شمشیر ہوں

زور ہے تو دوسرے انسان کا صیاد ہوں

ضعف ہے تو دوسرے انسان کا نخچیر ہوں

کانپتا ہے جوشِ ایمانی سے میرے اہرمن

میں جہاں میں کفر و ظلم و شرک کی اکسیر ہوں

میرا عیاری میں ہمسر دہر میں کوئی نہیں

لومڑی سے اپنی عیاری میں پر تزویر ہوں

جو ہلا دیتی ہے جا کر آسمان و عرش کو

وہ دعائے مستجاب و آہِ پر تاثیر ہوں

ہے کبھی مختارِ کل ہونے کا جذبہ موجزن

یا کبھی مجبورِ محض و تابعِ تقدیر ہوں

عقل و دل کی کشمکش راہیں بدلتی ہے میری

گاہ تخریبی ہوں میں ، گہ مائلِ تعمیر ہوں

کام اچھے ہیں مِرے تو لائقِ تحسین ہوں

میں اگر بدکار ہوں تو قابلِ تعزیر ہوں

خادمِ انسان ہوں تو میں عظیم انسان ہوں

دشمنِ انسان ہوں تو قابلِ تحقیر ہوں

٭٭٭

 

ملی ترانہ

ہم مسلماں ہیں ، غلامانِ شہِ لولاک ہیں

ہم مجاہد ہیں قوامِ سرزمینِ پاک ہیں

ہر قدم پر فتح و نصرت ہے ہماری منتظر

ہم بحارِ کاہش و ظلمات کے پیراک ہیں

ہم شجاعت میں زبیر و حیدر و ضرار ہیں

ہم جیالے ہیں بہادر ہیں جری بیباک ہیں

خالد و طارق ہیں ابنِ قاسم و محمود ہیں

اپنی ضربوں سے بتانِ سنگ سینہ چاک ہیں

لرزہ بر اندام ہے ہم سے طلسمِ اہرمن

ہم جہاں میں سمِ کفر و شرک کا تریاک ہیں

اپنا عزم و حوصلہ آہن سے ہے مضبوط تر

اپنے دشمن کے عزائم سب سپردِ خاک ہیں

کانپ اٹھتی ہے ہمارے دبدبے سے رزمگاہ

اپنے عزم و زور سے ہیبت زدہ افلاک ہیں

ہم رفیقوں کے رفیق و مونس و غمخوار ہیں

عرصۂ پیکار میں شیرانِ ہیبت ناک ہیں

ہم وہ شبنم ہیں گل و لالہ سے جو کرتی ہے پیار

ہم وہ شعلے ہیں ، جلاتے جو خس و خاشاک ہیں

ہم خداکے خلفا ہیں ہم امینِ دہر ہیں

ہم عیارِ عدل و حق ہیں صاحبِ ادراک ہیں

ہم اٹھے ہیں لے کے انصاف و ہدایت کا نشاں

اپنے خنجر ظلم و ظالم کے لیے سفاک ہیں

٭٭٭

 

اے بندۂ اغراض

کرتا ہوں میںاک عرض اگر تو نہ ہو ناراض

ناواقفِ الفت ہے تو اے بندۂ اغراض

تو کم نہیں بھنورے سے کہ ہے رس کا ہی رسیا

جب رس نہ ہو پھولوں میں تو کر لیتا ہے اِعراض

ہوتے ہیں محبت میں تو برباد بھی ہنس کر

تو تھوڑے سے نقصاں سے نہ کر پائے گا اغماض

ایثار جو چاہے گا کبھی تجھ سے تعلق

تو کاٹ کے رکھ دے گا اسے صورتِ مقراض

بہتر ہے کہ تو دشتِ وفا میں نہ قدم رکھ

ہاں مان یہی مشورۂ شاعرِ نباض

٭٭٭

 

لوری

سوجا ، ماں کے دل ٹکڑے ، باپ کی آنکھ کے تارے

سو جا ، سو جا خیر خوشی سے میرے راج دلارے

سن کے میٹھی میٹھی لوری ، سو جا میرے پیارے

سو جا ، جلدی چاند کے ٹکڑے ، امی صدقے جائے

سو جا ، میرے لال ، سدا تو اچھی صحت پائے

دیکھ کھڑی ہے نیند پری کس وقت سے ہاتھ پسارے

سو جا ، دنیا کی ہر فرحت تیرا دل بہلائے

سو جا ، خوابوں کی شہزادی تیری لوری گائے

سو جا ، چاند کی دادی اماں تیرے بال سنوارے

سو جا ، بیٹے ، اللہ تیرے نیک نصیب بنائے

اچھے اچھے کپڑے پہنے اچھا اچھا کھائے

سو جا ، تیرے پاؤں چومیں سورج ، چاند ، ستارے

سو جا ، تو دنیا میں دولت ، عزت ، عظمت پائے

نیکی سیکھے ، علم کمائے ، کام جہاں کے آئے

مردِ مجاہد بن کے اپنی قوم کا حال سدھارے

سو جا ، سو جا ، خیر خوشی سے میرے لاج دلارے

٭٭٭

 

عالمِ بے یقینی

کر تو لیا ہے آپ کے پیماں کا اعتبار

آتا نہیں مگر ہمیں اب جاں کا اعتبار

اے دوست اس کی ہر گھڑی حالت خراب ہے

میں کس طرح کروں دلِ سوزاں کا اعتبار

جانے عدم کی راہ پر کس وقت چل پڑے

آتا نہیں مجھے غمِ ہجراں کا اعتبار

کیا جانے ہجرِ یار میں کب مر کے گر پڑے

ہے کیا حیاتِ بلبلِ نالاں کا اعتبار

ہے مہرباں کبھی ، کبھی نامہربان ہے

کیسے کروں طبیعتِ دوراں کا اعتبار

٭٭٭

 

پروانہ شمع سے

نہ آپ ہوں خفا اگر

کہوں فدا ہوں آپ پر

ہیں آپ دل کا مدعا

ہیں آپ باردِ جگر

مِرے حبیبِ قلب و جاں

ہیں آپ جنتِ نظر

میں آپ کی تلاش میں

پھرا کیا ہوں دربدر

کسی تو دن مِری فغاں

کرے گی آپ پر اثر

نہ کیجیے گا بے رخی

ہے آج دل فسردہ تر

میں ہو چکا ہوں آپ کا

مجھے نہ جانئے دگر

٭٭٭

 

وصال کی رات

آج مِرے پہلو میں تم ہو،آج وصال کی رنگیں شب ہے

آج کی رات مِری نظروں میں ساری راتوں سے بہتر ہے

آج خوشی ہے قلبِ حزیں کو،آج مِری آنکھوں میں دم ہے

دیکھ رہا ہوں آج کا منظر،کتنا دل خوش کن منظر ہے

دلکش رات میں ننھا تارا اس انداز میں چمک رہا ہے

جیسے الھڑ دوشیزہ کو گبھرو آنکھیں مار رہا ہو

اودے بادل کے آنچل میں ایسے چاند چھپا جاتا ہے

جیسے کہنہ مشق جواری جیتی بازی ہار رہا ہو

دریا کے بہتے پانی پر یوں رقصاں ہیں چاند کی کرنیں

جیسے ننھے منے تارے آنکھ مچولی کھیل رہے ہوں

اُٹھتی گرتی مضطر موجیں اس انداز سے محوِ سفر ہیں

جسے ورزش کے میداں میں کچھ فوجی ڈنڑ پیل رہے ہوں

دیکھو دیکھو،کبک فضا میں کیسے چکر کاٹ رہے ہیں

جیسے عاشق اپنے دلبر کی فرقت میں سرگرداں ہوں

خنک ہوا میں ننھے جگنو کس خوبی سے چمک رہے ہیں

جیسے پراَسرار سے اڑتے دیپ فضا میں افروزاں ہوں

رات کی فرحت بخش خموشی اور وصال کے رنگیں لمحے

دل کہتا ہے یہ کیفیت ایک زمانے تک طاری ہو

کاش تمہارا موہن مکھڑا پل پل میرے پیش نظر ہو

کاش مِری تقدیر میں ساری عمر تمہاری دلداری ہو

٭٭٭

 

ایمان

دنیا بشر کے واسطے مانندِ کشت ہے

دوزخ  ہے  اس  کا  ماحصل  یا  پھر  بہشت  ہے

ہو جان و دل سے کلمۂ توحید پر یقیں

ایمان کے مکان کی پہلی یہ خشت ہے

مرنے کے بعد آئے گا ایسا بھی ایک روز

مقصود جس کا فیصلۂ خوب و زشت ہے

قاہر کے قہر سے سدا انساں ڈرا کرے

رحم و کرم بھی اس کی اگرچہ سرشت ہے

٭٭٭

 

راحتِ ہوش ربا

اے دل! وہ دیکھ آ گئی فصلِ بہار ناچ

گا گا کے ، جھوم جھوم کے بے اختیار ناچ

لے آ گئے ہیں راحتوں کے ، عشرتوں کے دن

لے کٹ گئی ہے آج شب انتظار ناچ

کتنا حسیں یہ موسمِ عیش و نشاط ہے

اے دل ادائے شکر کو تو بار بار ناچ

لے آ گیا ہے آج وہ محبوبِ نازنیں

اے دل ، وفورِ کیف سے دیوانہ وار ناچ

ہرگز نہ کچھ خیال کر دنیا جہان کا

پی کر شرابِ بے خودی مستانہ وار ناچ

فاتح پہ آج آمدِ جبریلِ شعر ہے

کاغذ پہ کر قلم رقم نقش و نگار ناچ

٭٭٭

 

التماس

واسطہ ہے دوستی کا روز آیا کیجئے

اے مِرے دلدار آ کر دل لبھایا کیجئے

تم مِرے ساقی ہو ، میرا دل ہو میری جان ہو

بادۂ الفت کا پیارے جام لایا کیجئے

ایک پاگل ، ایک شاعر ، ایک دیوانہ ہوں میں

میری باتوں پر ہمیشہ مسکرایا کیجئے

منتظر رہتا ہے دل تیرے وصال و دید کا

پیاس میرے قلبِ تشنہ کی بجھایا کیجئے

پیار کی باتیں ہوں کچھ تو کچھ سکونِ قلب ہو

سن کے حالِ ما غریباں کچھ سنایا کیجئے

تم مِرے دل کی کلی ہو ، تم مہکتے پھول ہو

اپنی خوشبوئیں مِرے دل میں بسایا کیجئے

ایک لمحہ بھی گراں ہے انتظارِ یار میں

بات یہ فاتح کی پیارے مت بھلایا کیجئے

٭٭٭

 

قطعہ

تم آئے ہو تو دردِ دل گیا ہے

سکونِ قلب مجھ کو مِل گیا ہے

تمہارے ہجر میں تھا چاک سینہ

تم آئے ہو تو خود ہی سل گیا ہے

٭٭٭

 

بہار آئی ہے

غضب کا شور مچاؤ بہار آئی ہے

خوشی کے جشن مناؤ بہار آئی ہے

جنوں شعار بناؤ بہار آئی ہے

خرد کے پاس نہ جاؤ بہار آئی ہے

وفا کے دیپ جلاؤ بہار آئی ہے

نویدِ وصل سناؤ بہار آئی ہے

قدم قدم پہ مسرت کا اہتمام کرو

غموں کو دل سے بھلاؤ بہار آئی ہے

کہا تھا تم نے ملیں گے بہار میں باہم

یہ عہد اپنا نبھاؤ بہار آئی ہے

تڑپ رہا ہوں تمہارے فراق میں کب سے

خدا کے واسطے آؤ بہار آئی ہے

تمھاری دید کو اب بے قرار ہیں نظریں

نقاب رخ سے اٹھاؤ بہار آئی ہے

ترس رہا ہوں زمانے سے کیف و مستی کو

لبوں کے جام پلاؤ بہار آئی ہے

مِلا دو خاک میں میرا غرورِ تشنہ لبی

نظر نظر سے ملاؤ بہار آئی ہے

دلِ فسردہ کو جس سے سکوں میسر ہو

وہ گیت جھوم کے گاؤ بہار آئی ہے

تمھارے ہجر میں ہر دم اُداس ہے فاتح

قریب اس کو بلاؤ بہار آئی ہے

٭٭٭

 

قطعہ

تیری آمد کا منتظر ہوں میں

تیرا غم ، تیری یاد باقی ہے

تیری فرصت کے درد میں ساقی

کب دلِ نامراد باقی ہے

٭٭٭

 

اِنتظارِ شدید

اے مِرے پیارے ،مِرے محبوب کب آئیں گے آپ

کب نویدِ فرحت و تریاقِ غم لائیں گے آپ

کب شرابِ وصل کی لذت سے بخشیں گے سرور

میری اس تشنہ لبی پر رحم کب کھائیں گے آپ

کب مِرے غمگین دل کو آپ بخشیں گے خوشی

کب دلِ بیتاب کو تسکین پہنچائیں گے آپ

کب محبت کے کئے وعدے وفا ہوں گے حضور

کب مِرا ویران گھر آباد فرمائیں گے آپ

آزمائش کی ہوا کرتی ہے آخر انتہا

اور کتنے دن مِرے پیارے ستم ڈھائیں گے آپ

آپ کے جانے سے جاناں حال ہے نازک مِرا

خوش نظر آؤں گا میں لیکن جب آ جائیں گے آپ

چھیڑ دوں گا آپ سے مل کر میں باتیں پیار کی

کیا مزا آئے گا جب سن سن کے شرمائیں گے آپ

منتظر ہے کب سے یہ نخچیرِ دل صیاد کا

کب مِرے پیارے نظر کے تیر برسائیں گے آپ

تک رہا ہے کیسی بے چینی سے راہیں آپ کی

اپنے فاتح کو ہمیشہ منتظر پائیں گے آپ

٭٭٭

 

واسوخت

ہے تِرا پیکر مِری نظروں میں جاذب آج بھی

عشق تیرا ہے جہانِ دل میں واجب آج بھی

تو سمجھتا ہے کمی آئی ہے میرے پیار میں

دل کھِنچا جاتا ہے پیارے تیری جانب آج بھی

داغ جو بخشے ہیں تو نے کج ادائی سے مجھے

ان کی گرمی سے شہابِ دل ہے ثاقب آج بھی

آج بھی چھائی ہوئی ہے دل پہ تیرے غم کی رات

اے کہ تو ہے خرمنِ راحت کا غاصب آج بھی

صبر و خاموشی سے سہتا ہوں تِرے جور و جفا

میں سمجھتا ہوں شکایت نا مناسب آج بھی

آج بھی موجود ہے تجھ میں وہی خوئے ستم

تو نظر آتا ہے دکھ دینے پہ راغب آج بھی

طاقِ نسیاں پہ سجا رکھا ہے اب تو نے جسے

دِل ہے تجھ سے اس وفا داری کا طالب آج بھی

کل بھی میرے دل کے چاروں سمت تھی غم کی فصیل

کم نہیں ہیں میرے سر پر کچھ مصائب آج بھی

چل بسا ہے ان کے دل سے جذبۂ مہرو خلوص

شہر میں آباد ہیں ورنہ اقارب آج بھی

کیا ہوا گر گردشِ دوراں نے مفلس کر دیا

اصل میں تو ہم وہی ہیں خان صاحب آج بھی

حالی و اقبال ہیں فاتح ہمارے معترف

ہے ہمِیں سے تازہ یادِ میر و غالب آج بھی

٭٭٭

 

بچھوڑا

ہر دم تیرے ہجر میں سائیں ، روؤں کر کر بین

اشکوں سے سب کپڑے بھیگیں،خشک نہ ہوویں نین

سارا دن بیتابی سے ہم تیرا رستہ دیکھیں

دل کو جتنا بہلائیں ،ہرگز نہ پائے چین

کروٹ پر ہم کروٹ بدلیں،نیند نہ آئے پاس

تارے گن گن آنکھیں سوجیں ،ختم نہ ہووے رین

اک جانب من موہن سوئے چین کی میٹھی نیند

اک جانب ہم تڑپیں،لوٹیں ،یہ داتا کی دین

٭٭٭

 

تیرے آگے سوال ہے تیرا

دل میں ہر دم خیال ہے تیرا

ہجر یکسر وبال ہے تیرا

چاند جیسے ہو آنکھ کے تِل میں

یوں نظر میں جمال ہے تیرا

تیرے اَبرو ہلال جیسے ہیں

چہرہ ماہِ کمال ہے تیرا

میرے لاہور سے کراچی سے

قیمتی ایک خال ہے تیر۱

مجھ سا ہشیار پھنس گیا جس میں

صرف وہ جال جال ہے تیرا

اور کچھ مانگتے نہیں تجھ سے

تیرے آگے سوال ہے تیرا

تیری فرقت ہے یومِ عاشورا

عید کا دن وصال ہے تیرا

یوں تو کتنے ملال ہیں مجھ کو

سب سے بڑھ کر ملال ہے تیرا

اس کو معلوم بھی نہیں فاتح

جس کے غم میں یہ حال ہے تیرا

٭٭٭

 

روانگی

تیری بزمِ ناز سے اے مہ جبیں چلتا ہوں میں

ہاتھ میں تھامے ہوئے قلبِ حزیں چلتا ہوں میں

بارِ خاطر ہے مِری موجودگی سب کے لئے

ہاں،سوا چلنے کے اب چارہ نہیں،چلتا ہوں میں

یوں نہ ہو کہ راز کھل جائے ہمارے پیار کا

میرے باعث تو نہ ہو رسوا کہیں چلتا ہوں میں

اب جدائی ہی سے رہتا ہے محبت کا بھرم

ہو اجازت اب مجھے اے نازنیں،چلتا ہوں میں

یاد آئیں گی مجھے تیری وفائیں بار بار

نقشِ دل کر کے تری یادِ حسیں چلتا ہوں میں

کس قدر دلکش ہے تیری مست آنکھوں کی شراب

پی کے تیری چاہتوں کا انگبیں چلتا ہوں میں

ہو خدا حافظ تِرا کہتا ہوں اب میں الوداع

فی امان اللہ ، میرے ہمنشیں ، چلتا ہوں میں

٭٭٭

 

قطعہ

ہمارا رازِ الفت کھل نہ جائے

مظالم پر زمانہ تل نہ جائے

مِرے باعث نہ ہو رسوا کہیں تو

مِرا دل تیرے غم میں گھل نہ جائے

٭٭٭

 

ماہئے

خوشبو سے چمن مہکے

جو بھول گیا ہم کو

یاد آتا ہے رہ رہ کے

٭

کلیوں پہ نکھار آیا

دلبر کی اداؤں پر

بے ساختہ پیار آیا

٭

یہ بات ہے قسمت کی

اس نے مجھے دکھ بخشے

جس سے بھی محبت کی

٭

جب چاندنی رات آئی

یادوں کی جلیں شمعیں

اشکوں کی برات آئی

٭

اک عرض ذرا سی ہے

بیتاب نظر میری

دیدار کی پیاسی ہے

٭

رت آئی ہے برکھا کی

ہم سادہ مزاجوں سے

اچھی نہیں چالاکی

٭

تقدیر کے کارن ہیں

کل غیر بھی تھے اپنے

آج اپنے بھی دشمن ہیں

٭

اتنا سا ہے افسانہ

ہم اپنا جسے سمجھے

وہ بن گیا بیگانہ

٭٭٭

 

غزلیات

دردِ دل میرا کس نے بانٹا ہے

تو نے بھی عرضِ غم پہ ڈانٹا ہے

داد دی ہے تیری سخاوت کی

میں نے جب بھی غموں کو چھانٹا ہے

خوش نہیں تیری بے رخی ہم کو

یہ تو روئے وفا پہ چانٹا ہے

ایک پابوس ایک گوش آویز

یہ بھی کانٹا ہے وہ کانٹا ہے

لوگ فاتح سکوں نہیں دیتے

ہم نے لوگوں سے درد بانٹا ہے

٭٭٭

 

یہ کس کی آج محفل میں کمی ہے

نہ کیف و بے خودی نہ بے غمی ہے

تلطف ہے تو غیروں کے لئے ہے

روا ہے تو ہمیں سے برہمی ہے

بنے جاتے ہیں یوں انجان ہم سے

نہ جیسے آگہی ہے محرمی ہے

یہ غم کیسا ہے آہیں ہیں لبوں پر

نہ اب آنکھوں میں اشکوں کی نمی ہے

کسی کے جسم پر تو چیتھڑے ہیں

کوئی پہنے لباسِ ریشمی ہے

نہیں ملتی زمانے میں محبت

یہاں قحطِ خلوص و مردمی ہے

لگے دل کس طرح فاتح جہاں میں

یہاں ہر چیز میں نا محکمی ہے

٭٭٭

 

پھر گرانا تھا اگر تو نہ سنبھالا ہوتا

تھا ڈبونا تو نہ طوفاں سے نکالا ہوتا

مجھ سے گر پیار نہ تھا پیار کی باتیں کر کے

خواہ مخواہ آپ نے الجھن میں نہ ڈالا ہوتا

اِس قدر خوف اگر تھا تجھے رسوائی کا

مجھ پہ ساغر سرِ محفل نہ اچھالا ہوتا

صاف کہہ دیتے اگر آپ کو منظور نہ تھی

یوں مِری بات کو ہنس ہنس کے نہ ٹالا ہوتا

میں اگر جانتا ڈس لے گی تمہاری الفت

خونِ دل دے کے اسے دل میں نہ پالا ہوتا

کاش ہم اہلِ وفا اتنے نہ مفلس ہوتے

کاش دل ماہ جبینوں کا نہ کالا ہوتا

راحتیں آتیں ، غم و درد نہ آنے پاتے

قصرِ دل کا کوئی درباں کوئی تالا ہوتا

اے خدا مجھ کو اگر جور و جفا سہنا تھے

پہلے آرام کے سانچے میں نہ ڈھالا ہوتا

جان لیوا ہے شبِ یاس کی ظلمت فاتح

صبحِ اُمید کا اے کاش اجالا ہوتا

٭٭٭

 

دوسروں کو تو نہ جانے کیسی سوغاتیں ملیں

مجھ کو لیکن آہ! درد و غم کی باراتیں ملیں

ان کی قسمت ہے جنھیں پرکیف سی رم جھم نصیب

میری قسمت مجھ کو ژالہ بار برساتیں ملیں

کان اب شیریں کلامی کو ترستے ہیں مِرے

مجھ کو سننے کے لئے تلوار سی باتیں ملیں

میں سمجھ سکتا نہیں بزمِ شبانہ کی نشاط

مجھ کو تنہائی ملی کالی سیہ راتیں ملیں

کیوں نہ حیراں ہو زمانہ پھر بھی ہم فاتح رہے

گو بساطِ زندگی پر بارہا ماتیں ملیں

٭٭٭

 

بنا دلدار کے دل کو قرار آئے تو کیوں آئے

نظر سے پی نہیں میں نے ، خمار آئے تو کیوں آئے

یہاں تو ایک ٹوٹا بوریا تک بھی نہیں ملتا

مِری ویران کٹیا میں نگار آئے تو کیوں آئے

مِرے حالِ پریشاں پر وہ ہو جائے گا افسردہ

مجھے ملنے وہ میرا گل عذار آئے تو کیوں آئے

اسے تو ناز ہے بے مہری و ایذارسانی پر

وہ میرے پاس ہو کے شرمسار آئے تو کیوں آئے

جفا پیشہ! تِرا جب بے وفائی ہی وتیرہ ہے

تِرے وعدے پہ مجھ کو اعتبار آئے تو کیوں آئے

مجھے جب کچھ خیال اپنا نہیں رہتا تو پھر کہیے

اسے میرا تصور بار بار آئے تو کیوں آئے

اسے تو جیتے جی بھی میری حالت پہ نہ رحم آیا

وہ بعد از موت اب سوئے مزار آئے تو کیوں آئے

جہاں مشتاق دیدہ ور نہیں ملتا اسے کوئی

تو پھر ایسے گلستاں میں بہار آئے تو کیوں آئے

جہاں ہر وقت یاس و درد و غم کا رقص جاری ہے

وہاں آخر نسیمِ مشکبار آئے تو کیوں آئے

میسر ہے اسے خوراکِ حسن و سایۂ گیسو

نکل کر دامِ الفت سے شکار آئے تو کیوں آئے

اسے تو گردشِ راہِ وفا سے کام ہے پیہم

سکوں میں یہ دلِ الفت شعار آئے تو کیوں آئے

مسلسل ڈس رہا ہے مارِ فرقت جس کے سینے پر

بتاؤ ہوش میں وہ دلفگار آئے تو کیوں آئے

تِرا جب رات دن فاتح تڑپنا ہی مقدر ہے

تو انجامِ غمِ لیل و نہار آئے تو کیوں آئے

٭٭٭

 

جس کو بھی اچھا یہاں جانا برا ثابت ہوا

ہر حسیں پیکر وفا ناآشنا ثابت ہوا

ایک تو ہی تھا جسے میں با وفا سمجھا کیا

ہائے!  صد افسوس تو بھی بے وفا ثابت ہوا

میں تو سمجھا تھا نہیں ہے کوئی بھی دل کا علاج

وصلِ جاناں دل کے زخموں کی دوا ثابت ہوا

آپ کے آنے سے پہلے غم سے میں ہلکان تھا

آپ کا آنا سرورِ جاں فزا ثابت ہوا

لوگ جانے کس لئے اس کے سدا شاکی رہے

مجھ کو درد و سوزِ اُلفت کیف زا ثابت ہوا

ہر کسی نے بے وفائی کی جہاں میں میرے ساتھ

ایک غم ہی تھا کہ میرا ہمنوا ثابت ہوا

میں موحد ہوں میرا اسلام پر ایمان ہے

ہر قدم پر دین میرا رہنما ثابت ہوا

عقل کے اندھو! نہ تم اسلام کو سمجھو قدیم

ہر زمانے کے لئے یہ دیں نیا ثابت ہوا

ایک میں یا تو نہیں سارے جہاں میں خودستا

میں نے جس انساں کو دیکھا خود ستا ثابت ہوا

کل جہاں دیکھا تھا جس کو آج وہ ملتا نہیں

یہ جہانِ رنگ و بو دار الفنا ثابت ہوا

عشق جب سے میں نے اپنایا ، ہوا بیمارِ دل

عشق ہی بیماریِ  دل کی دوا ثابت ہوا

میں اسے مانوں گا اپنا پیر و مرشد عمر بھر

جو کوئی بھی مجھ سے بڑھ کر دل جلا ثابت ہوا

ہم تو سمجھے تھے کہ ہو گا خشک فاتح کا کلام

جب سنا تو شاعرِ رنگیں نوا ثابت ہوا

٭٭٭

 

وقفِ گناہ جب میرے شام و سحر نہ تھے

پوشیدہ چشمِ دہر سے میرے ہنر نہ تھے

دنیا میں اہلِ علم و ہنر دب کے رہ گئے

آگے بڑھے جو صاحبِ فکر و نظر نہ تھے

کاوش کے باوجود ہم محروم رہ گئے

منزل انھیں ملی جو شریکِ سفر نہ تھے

اس میں تھی مصلحت کہ ہم خاموش رہ گئے

ورنہ تیرے فریب سے ہم بے خبر نہ تھے

صد حیف! آج بن گئے ہمدرد و رہنما

وہ لوگ جو کسی بھی طرح معتبر نہ تھے

افسوس! دستِ مرگ نے ان کو اچک لیا

اہلِ جہاں کے واسطے جو دردِ سر نہ تھے

سمجھا تھا زندگی کو میں پھولوں کی سیج ہے

جب رنج و درد و غم میرے پیشِ نظر نہ تھے

جتنے دیئے ہیں دکھ ہمیں تیرے جہان نے

اتنے گناہگار ہم اے داد ور نہ تھے

آتے ہیں خوب یاد وہ ایامِ زندگی

آلامِ روزگار جو دردِ جگر نہ تھے

احسان کر کے آپ نے نادم کیا ہمیں

ہم داد کے تو مستحق اے داد گر نہ تھے

روشن جہاں تھا جلوۂ حسنِ حبیب سے

جب اس کے حسن میں ڈھلے شمس و قمر نہ تھے

کی اُس نے سیر عالمِ اِمکان کی سدا

مرغِ تخیلات کے گو بال و پر نہ تھے

فاتح تِرا فسانۂ غم کون سن سکا

کتنے تھے ایسے لوگ جو با چشم تر نہ تھے

٭٭٭

 

نقدِ دل و متاعِ جاں ہارے چلے گئے

سب کچھ حضورِ حسن میں وارے چلے گئے

جوں جوں نصابِ عشق پہ پاتے گئے عبور

بڑھتے کتابِ قلب کے پارے چلے گئے

رخصت ہوا جو رات وہ طنازِ  ماہتاب

ہو کر اداس چاند اور تارے چلے گئے

جانے لگا تو دے گیا اک دردِ لازوال

آیا تو درد و رنج و غم سارے چلے گئے

ساقی نے کی نہ دیر تک جب چشمِ التفات

مایوس ہو کے رند بے چارے چلے گئے

زوروں پہ ہیں جہاں میں اب مادہ پرستیاں

جنسِ وفا کے آہ بنجارے چلے گئے

فاتح نہ کوئی پائے گا ڈھونڈے سے بھی خوشی

دنیا سے گر یہ درد کے مارے چلے گئے

٭٭٭

 

کیسے کیسے حسین چہرے ہیں

کچھ روپہلے ہیں کچھ سنہرے ہیں

لٹ چکا ہے مذاقِ نظارہ

دل پہ اب بے دلی کے پہرے ہیں

یا مجھے بولنا نہیں آتا

یا زمانے کے لوگ بہرے ہیں

دار پر ہے سرِ خلوص و وفا

سر پہ اہلِ ہوس کے سہرے ہیں

عدل ملتا نہیں زمانے میں

عام گو عدل کے کٹہرے ہیں

سرمدی نقش چھوڑ آئے ہیں

ہم جہاں تھوڑی دیر ٹھہرے ہیں

چارہ سازوں کو کیا خبر فاتح

زخمِ دل اپنے کتنے گہرے ہیں

٭٭٭

 

بلائے جان گو تیری گلی ہے

مِری نظروں میں جنت سے بھلی ہے

وہ اک حسرت کہ تو نے بخش دی ہے

مِرے دل میں بہت پھولی پھلی ہے

اٹھا کر خاک تیرے نقشِ پا کی

ادب سے میں نے آنکھوں سے ملی ہے

تو اک تخلیق ہے نوری کہ ناری

جو انسانوں کے سانچے میں ڈھلی ہے

تِری بے مہریوں سے مر نہ جائے

جو خواہش خونِ دل پی کر پلی ہے

لگا دی زندگی داؤ پہ ہم نے

بصد مشکل شبِ ہجراں ٹلی ہے

دھواں اٹھتا نہیں دیکھا کسی نے

ہمارے دل کی بستی یوں جلی ہے

نہیں ملتی کسی دل میں محبت

ہوا یوں سرد مہری کی چلی ہے

وہی ہے غمزدوں کا حال فاتح

وہی بے چارگی ہے ، بے کلی ہے

ہمیں قدرت سے وہ رتبہ ملا ہے

کہ رندی میں بھی اک شانِ ولا ہے

محبت اک مصفیٰ ہے جہاں میں

اسی سے قلبِ ہستی کی جِلا ہے

ابھی تک یاد تازہ ہے جنوں کی

ابھی اپنا گریباں ان سِلا ہے

ہمیں اپنی تباہی یاد آئی

چمن میں پھول جب کوئی کھلا ہے

جہاں میں زلزلہ آیا ہے فاتح

پہاڑ اپنی جگہ سے جب ہلا ہے

٭٭٭

 

جو بھی انساں دہر میں کمزور ہے قلاش ہے

ہر کسی کو اس سے ناحق بیر ہے ، پرخاش ہے

ہر شریف انسان پر ڈھاتا ہے یہ ظلم و ستم

ہر کمینے آدمی کا یار یہ آکاش ہے

دوستو! مجھ کو نہ دو طعنے کہ میں ہوں بے قصور

مجھ پہ جو گزری ہے دل کے جرم کی پاداش ہے

مجھ کو دیکھو آج پہچانا نہیں جاتا ہوں میں

اس کو دیکھو شوخ پہلے کی طرح بشاش ہے

قتل کر کے اپنے عاشق کو نگاہِ ناز سے

کتنی معصومی سے کہتا ہے یہ کس کی لاش ہے

میرے اندازِ وفا کو تو سمجھتا ہے برا

تیرا طرزِ بے وفائی قابلِ شاباش ہے

اس قدر کمزور ہے فاتح کہ ہل سکتا نہیں

لوگ ناداں ہیں سمجھتے ہیں کہ یہ عیاش ہے

٭٭٭

 

سوئے منزل دوستو! ہم یوں سفر کرتے رہیں

اپنے ہر اِک نقشِ پا کو رہگزر کرتے رہیں

چھوڑ کر چھالوں سے رستے خون کے رنگیں نشاں

فاصلے راہِ وفا کے مختصر کرتے رہیں

کیوں نہ درماں خود ہی اپنے درد کا پیدا کریں

کب تلک ہم انتظارِ چارہ گر کرتے رہیں

قافلے کو بارہا جس شخص نے دھوکا دیا

کس طرح آخر اسے ہم راہبر کرتے رہیں

ہے اگرچہ راج گلشن میں خزاں کا دوستو!

پھر بھی ہم نشو و نمائے ہر شجر کرتے رہیں

لوگ دنیا کو بنا سکتے ہیں فردوسِ بریں

شرط یہ ہے امتیازِ خیر و شر کرتے رہیں

ہے جنھیں مقصود تزئینِ عروسِ زندگی

وہ سدا غواصیِ  علم و ہنر کرتے رہیں

ہے جنھیں مطلوب دل کی بے سکونی کا علاج

خدمتِ خلقِ خدا شام و سحر کرتے رہیں

جی میں آتا ہے کہ فاتح ملکۂ اُردو کو ہم

نذر یونہی رات دن خونِ جگر کرتے رہیں

٭٭٭

 

سن اے جانِ جاں ، پیکر خوش ادائی

تجھے یاد کرتا ہے تیرا فدائی

تجھے بھول سکتا نہیں دل کہ میں نے

تِری یاد سے اس کی دنیا بسائی

ہمارے لئے بن گئی آفتِ جاں

تِری دلفریبی ، تِری خود نمائی

تِرے عشق نے یہ تلون دیا ہے

کبھی ہوں قنوطی ، کبھی ہوں رجائی

نویدِ حیاتِ ابد تیرا ملنا

پیامِ ہلاکت ہے تیری جدائی

سمجھتا ہوں تو مجھ سے ناراض کیوں ہے

غنیموں نے کی ہے لگائی بجھائی

بہت تنگ کرتی ہیں قلبِ حزیں کو

تِری یہ جفائیں ، تِری یہ رکھائی

وفا کر وفاؤں کے بدلے میں ظالم

بری چیز ہے چھوڑ دے بے وفائی

ہوئے قید ہم ایسے پختہ قفس میں

کہ ممکن نہیں اب ہماری رہائی

مِری سادگی کہیے یا بے وقوفی

ہر آوارہ آفت گلے سے لگائی

دعا ہے کہ فاتح سدا تو رہے خوش

ہمیشہ رہے تیری نغمہ سرائی

٭٭٭

 

کیوں مِری آہوں کی تیرے ہاں پذیرائی نہیں

کیوں تجھے خوش اے خدا میری جبیں سائی نہیں

ہر گھڑی سودا سمایا ہے مِرے سر میں تیرا

پھر بھی تو مجھ کو سمجھتا کہ سودائی نہیں

میری یہ حالت ہے کوئی وقت بھی ایسا نہیں

دل کے ویرانے میں تیری یاد جب آئی نہیں

کر کے اک لمبا سفر آیا تھا میں ملنے تجھے

بات کرنے کی بھی زحمت تو نے فرمائی نہیں

تو نے کس دن درد کا تحفہ مجھے بخشا نہیں

تو نے کس دن غم کی مالا مجھ کو پہنائی نہیں

مجھ سے تو مت پوچھ احوال جدائی ہم نشیں

داستاں لمبی ہے لیکن تابِ گویائی نہیں

سچ بتا اے دلربا! تیری بھی ہے رائے یہی

میری الفت لوگ تو کہتے ہیں رنگ لائی نہیں

مجھ سے تیری بے رخی ،غیروں سے تیری التفات

کس طرح کہہ دوں کہ میرا یار ہرجائی نہیں

ہر طرف چھائی ہوئی ہیں غم فزا خاموشیاں

کوئی مطرب ، کوئی نغمہ ، کوئی شہنائی نہیں

مولوی ہو یا برہمن ، پیر ہو یا نوجواں

کون ہے جس کو تلاشِ حسن و زیبائی نہیں

مجھ سے پوچھو ،میں کہوں گا نیک ہیں اس کے نصیب

جس کی دنیا میں حسینوں سے شناسائی نہیں

لاکھ یہ تکلیف دے ، نقصان پہنچائے مگر

خار کی ممنون میری آبلہ پائی نہیں

دل پہ کرتی ہے اثر فاتح تیری ہر ایک بات

کون کہتا ہے تِری باتوں میں گہرائی نہیں

٭٭٭

 

اے خدا ان کی طرف سے کوئی آئے کاغذ

ان کے اَحوال مجھے آ کے بتائے کاغذ

لے کے آئے کوئی سندیسہ حسیں پیکر کا

مژدۂ وصل کوئی آ کے سنائے کاغذ

یہ تو ساماں ہے کئی نصف ملاقاتوں کا

ہم نشیں! کیسے مِرے دل کو نہ بھائے کاغذ

سامنے ان کے کسی طور خدایا جائے

وعدۂ وصل انھیں یاد دلائے کاغذ

وہ عیادت کو مِری آئیں گے دوڑے دوڑے

ان کی جانب کوئی لے کر تو یہ جائے کاغذ

میں وہ کاتب ہوں کہ جس وقت بھی لکھنے بیٹھوں

میرے خامے سے ذرا بچنے نہ پائے کاغذ

آج تیزی میں ہے خامہ کوئی کہہ دو اس سے

اڑ کے جلدی سے کہیں جان بچائے کاغذ

٭٭٭

 

تِری افشاں سے ہے جیسے تِری زلفوں کی آرائش

مِرے خونِ جگر سے ہے مِرے شعروں کی آرائش

لب و رخسار کو دلکش بناتی ہے جھلک جس کی

نہ پونچھو میری آنکھوں سے مِرے بہتے ہوئے آنسو

کہ ہے ان موتیوں سے ہی مِری پلکوں کی آرائش

نہ جانے کس لئے ان کو سیہ فاموں سے نفرت ہے

سیہ کاجل سے ہی کرتے ہیں جو آنکھوں کی آرائش

ہمارے ہی لئے ہیں بند اِن محلوں کے دروازے

ہمارے خوں سے وابستہ ہے جن محلوں کی آرائش

کچھ اس انداز سے دل کو سجا رکھا ہے داغوں سے

کہ برقی قمقموں سے جیسے ہو شہروں کی آرائش

کچھ ایسے خون رستا ہے مِرے پاؤں کے چھالوں سے

گلوں کے دم سے فاتح جیسے ہو باغوں کی آرائش

٭٭٭

 

 

غموں کے انبار لے رہا ہوں ، خوشی کی دولت لٹا رہا ہوں

دلِ فسردہ کو تھام کر آج تیرے کوچے سے جا رہا ہوں

یہ جانتا ہوں کہ جان لیوا ہے اس کی تلخی مگر مِری جاں

جہاں کے ہاتھوں سے ہوکے مجبور زہرِ ہجراں بھی کھا رہا ہوں

یہ سوچتا ہوں لکیر ٹیڑھی ہے میری قسمت کی یا ہوں خود میں

کہ خارگلشن سے چن رہا ہوں گلوں سے دامن بچا رہا ہوں

اتر رہے ہیں مِرے دروں میں غموں کے پیکان درحقیقت

اگرچہ ظاہر میں غم نہیں ہے اگرچہ میں مسکرا رہا ہوں

دلِ فسردہ حقیقتاً آج بین کر کر کے رو رہا ہے

مگر بظاہر میں نغمہ ہائے نشاط انگیز گا رہا ہوں

یہ اتنا سرکش ہے ، سخت جاں ہے اسی قدر سر اُٹھا رہا ہے

میں جذبۂ دل کو جس قدر بھی کچل رہا ہوں دبا رہا ہوں

اگر پلا ہوتا میں خوشی میں تو غم مجھے آج مار کھاتے

اسی لے آج جی رہا ہوں کہ غم سے میں آشنا رہا ہوں

یہ کیا سبب ہے کہ اتنی شدت سے آج تو یاد آ رہا ہے

کہ میں تو سمجھا تھا رفتہ رفتہ خیال تیرا بھلا رہا ہوں

نظر اٹھا کے نہ دیکھا میری طرف تغافل شعار تو نے

نگاہِ الفت طلب سے پیہم تِری طرف دیکھتا رہا ہوں

مجھے یقیں ہے کسی کو اس پر نہ آئے گا اعتبار ہرگز

اے میرے غمخوار قصۂ غم تجھے جو میں یہ سنا رہا ہوں

مِری طرف آہ تو نہ آئی ، بہت کیا انتظار تیرا

یہ دیکھ اے موت! خود ہی چل کر تِری طرف آج آ رہا ہوں

دکھا رہا ہوں میں عکس ہر ایک تجربے کا ، مشاہدے کا

جو میرے دل پر گزر رہی ہے بعینہ وہ بتا رہا ہوں

میں ایک تارا ہوں آسمانِ سخن کا لیکن بلند فاتح

دکھائی دیتا ہوں کم جہاں کو مگر سدا جھلملا رہا ہوں

٭٭٭

 

اس طرح کلفتِ ایام نے مارا مجھ کو

کہ نہیں حال سنانے کا بھی یارا مجھ کو

پہلے ہی مجھ کو ستایا ہے بہت دنیا نے

اب کے تم اور ستاؤ نہ خدارا مجھ کو

آگے بڑھ بڑھ کے لئے پاؤں مِرے کانٹوں نے

نام لے لے کے مصائب نے پکارا مجھ کو

جان دے دینا تو آساں تھا رہِ الفت میں

پر نہ توہینِ محبت تھی گوارا مجھ کو

پاسِ ناموس نے کی دل میں حرارت پیدا

آس نے کوششِ پیہم پہ اُبھارا مجھ کو

عزم نے بخشی مجھے ہمت و ثابت قدمی

رحمتِ رب نے دیا بڑھ کے سہارا مجھ کو

میں نے اَمواج سے دن رات لڑائی کی ہے

تب کہیں جا کے ملا ہے یہ کنارا مجھ کو

٭٭٭

 

کر ایسے دل کی وادیِ  ایمن کی احتیاط

کرتا ہے جیسے پاسباں مخزن کی احتیاط

اس خارزارِ عشق میں اہلِ جنون سے

ممکن نہیں کہ ہو سکے دامن کی احتیاط

بجلی نے اس کو راکھ میں تبدیل کر دیا

میں نے اگرچہ کی بہت خرمن کی احتیاط

حالت پہ میری اُسکے بھی آنسو نکل پڑے

کی لاکھ اس نے آنکھ کے انجن کی احتیاط

تیروں سے آہ سینکڑوں بلبل گرا دیئے

کی باغباں نے بے طرح گلشن کی احتیاط

ہو بے نظیر آپ کا اخلاق و ارتقا

پیشِ نظر ہو عزتِ میہن کی احتیاط

فاتح سدا کدورت و نفرت کی گرد سے

کرتا ہوں قلب کے حسیں گلبن کی احتیاط

٭٭٭

 

رخسار و لب کی بات نہ زلف و کمر کی بات

میں تو کروں گا اپنے ہی دردِ جگر کی بات

جس نے جہانِ قلب کو بخشی متاعِ غم

جی چاہتا ہے چھیڑ دوں اس رہگزر کی بات

آلامِ روزگار ، فسردہ دلی ، جنوں

ایسے میں کیا کرے کوئی فکر و نظر کی بات

سمجھیں گے ایسے لوگ کیا دل کا معاملہ

سنتے ہیں دل لگا کے جو لعل و گہر کی بات

میں نے جو عرض کی کہ مرا جا رہا ہوں میں

کہنے لگے نہیں کوئی ایسی خطر کی بات

خرمن ہے جس پہ ہر گھڑی گرتی ہیں بجلیاں

کیا کیجئے تعلقِ قلب و نظر کی بات

رو رو کے اس نے اشک کے طوفاں بہا دئیے

ہر سمت ہو رہی ہے مِری چشمِ تر کی بات

یاد آئے گا مجھے میرا اجڑا ہوا چمن

مت کر بہار و بلبل و برگ و ثمر کی بات

میری فغاں پہ کان مت دھرنا اے ہم نشیں

رونا ہے میرے واسطے شام و سحر کی بات

ہے بے تکی تقابلِ حسنِ حبیب میں

تحسینِ گل کی ، شوکتِ شمس و قمر کی بات

جب عقل و دل ہی کھو گئے ہوں ناصحا بتا

کب سوجھتی ہے آدمی کو خیر و شر کی بات

جو بھی سنے گا آج مِری مفلسی کا حال

وہ سن نہ پائے گا کبھی پھر اہلِ زر کی بات

مجبور کر رہا ہے مجھے ترکِ عشق پر

حیراں ہوں کیسے مان لوں میں چارہ گر کی بات

مجھ خستہ حال سے میرا مسکن نہ پوچھئے

کچھ ہوشمند جانتے ہیں اپنے گھر کی بات

فاتح جنونِ عشق میں آوارہ گرد ہے

کیا پوچھتے ہیں آپ اس آشفتہ سر کی بات

٭٭٭

 

شررِ عشق سے دامن کو بچاؤں کیونکر

کوئی سمجھائے لگی دل کی بجھاؤں کیونکر

اپنے ہاتھوں سے جو کل میں نے بوئے تھے کانٹے

اپنی راہوں سے انھیں آج ہٹاؤں کیونکر

ہر گھڑی میرے تصور میں ہے جس کی صورت

اس جفا کار کی یادوں کو بھلاؤں کیونکر

کیا بتاؤں میں تجھے گرمیِ  ہجراں ہمدم

دل نکلتا ہے ، لبِ بند ہلاؤں کیونکر

مجھ کو ڈر ہے کہ تڑپ جائیں گے سننے والے

قصۂ درد و الم اپنا سناؤں کیونکر

اتنا اِصرار نہ کر ، دیکھ کے غش آئے گا

زخمِ دل شوخ ہیں اے دوست! دکھاؤں کیونکر

جو تڑپتا ہوا خود چھوڑ گیا تھا مجھ کو

اس مسیحا کو میں حیراں ہوں بلاؤں کیونکر

جس سے نکلا تھا میں روتا ہوا خوں کے آنسو

میں جفا کاروں کی اس بزم میں جاؤں کیونکر

جس میں چلتے ہیں سدا حسرت و غم کے جھکڑ

ایسے ویرانے میں قندیل جلاؤں کیونکر

جو ہے مخصوص خدا ہی کی عبادت کے لئے

غیر کے آگے میں اس سر کو جھکاؤں کیونکر

جو مِرا قصۂ غم سن کے ہو غمگیں فاتح

میں اسے محرم و ہمراز بناؤں کیونکر

٭٭٭

 

جب بھی آتا ہے مجھے اس دشمنِ جاں کا خیال

محو ہو جاتا ہے دل سے دین و ایماں کا خیال

آتشِ ہجراں کی گرمی اور ہو جاتی ہے تیز

جونہی آتا ہے مجھے اس شوخ جاناں کا خیال

چارہ گر تدبیر کوئی ایسی بتلا دے مجھے

میں بھلا دوں جس سے اپنے سوزِ پہناں کا خیال

کر رہی ہیں رقص میرے دل میں لاکھوں حسرتیں

کیا کروں گا میں بھلا کر ایک ارماں کا خیال

رونما ہوتا ہے دردِ دل غزل کی شکل میں

جب بھلا سکتا نہیں دل دردِ ہجراں کا خیال

ایک لمحہ بھی نہیں غافل میں اس کی یاد سے

ہر گھڑی ہے موجزن اس ماہِ تاباں کا خیال

عشق کے ظالم شرر سے بچتے رہیے گا سدا

ہے اگر ملحوظِ خاطر اپنے داماں کا خیال

کانپتا ہے دل مِرا جب آخرت کے خوف سے

اس کو دیتا ہے تسلی رحمِ یزداں کا خیال

آنے والے لوگ اس کو خام کہتے ہیں سدا

جس قدر بھی حاملِ رفعت ہو انساں کا خیال

٭٭٭

 

تیری فرقت کو پیامِ درد و رنجوری کہیں

اور تیرے وصل کو جینے کی منظوری کہیں

تیرے پیکر کی ضیا پاشی کو سمجھیں مہر تاب

تیری زلفوں کی مہک کو بوئے کستوری کہیں

اپنی ہستی پر تجھے دیں ہم مکمل اختیار

آہ! تیری ذات کو ہم اپنی مجبوری کہیں

کرکے کوشش بھی تجھے دل سے بھلا سکتے نہیں

اس کو تیری برتری یا اپنی معذری کہیں

آج تیرے پاس رہ کر بھی نہیں ملتا سکوں

ایسی قربت کو بھلا قربت کہیں دوری کہیں

دھندلی دھندلی سی نظر آتی ہے تصویرِ حیات

ظلمتِ دنیا کہیں یا اپنی بے نوری کہیں

یہ تو فاتح زاویے ہیں اپنی اپنی سوچ کے

تم اسے رسوائی سمجھو ، ہم تو مشہوری کہیں

٭٭٭

 

زیست کیونکر بسر نہیں ہو گی

پر حسیں اس قدر نہیں ہو گی

جل بجھے گا چراغِ دل اک دن

پر کسی کو خبر نہیں ہو گی

گھپ اندھیرے میں آج شب ہر سو

وہ پری بام پر نہیں ہو گی

لازماً ہو گی پر ہمارے بعد

کیوں کہیں ہم سحر نہیں ہو گی

بات اپنی منا کے چھوڑے گی

بے اثر چشم تر نہیں ہو گی

نامہ لکھا تو ہے انھیں لیکن

آمدِ نامہ بر نہیں ہو گی

٭٭٭

 

دردِ فرقت سے بے قراری سی

جو اِدھر ہے اُدھر نہیں ہو گی

آرزوئے علاج رہنے دے

آرزو چارہ گر نہیں ہو گی

جس کو سمجھا ہوں رہگزر تیری

وہ تِری رہگزر نہیں ہو گی

چشم و دل کا ہوا تھا جب سودا

موت مدِ نظر نہیں ہو گی

ذکر جس پر نہ ہو گا تیرا مِرا

ایسی شاخِ شجر نہیں ہو گی

ہو گا گرمِ سفر مِرا دل ، جب

جان محوِ سفر نہیں ہو گی

کیوں کرے دوستی وہ شمع سے

بزم جو رات بھر نہیں ہو گی

دل کی گہرائی سے جو نکلے گی

وہ دعا بے اثر نہیں ہو گی

کچھ نہ کچھ تو ہنر کرو پیدا

عزتِ بے ہنر نہیں ہو گی

غیر محکم ہے ایسی آزادی

خوں سے جو بہرہ ور نہیں ہو گی

شعر کہتے ہیں اس لئے فاتح

شاعری بے ثمر نہیں ہو گی

٭٭٭

 

کیا کہیے اِن مہ پاروں کو ، بے وجہ ستایا کرتے ہیں

پہلے تو یہ آنکھ ملاتے ہیں پھر آنکھ چرایا کرتے ہیں

اتنا تو قصور ان کا بھی نہیں ، ہم خود بھی تماشہ بنتے ہیں

ہم آپ ہی اپنی حالت پر دنیا کو ہنسایا کرتے ہیں

دنیا ہمیں پاگل کہتی ہے ، ہم اس کو سمجھتے ہیں پاگل

یہ ہم کو نچانا چاہتی ہے ، ہم اس کو نچایا کرتے ہیں

اس راز کو شاید دل والے مجبوریِ  الفت کہتے ہیں

آنکھوں سے ٹپکنے لگتا ہے ، دل میں جو چھپایا کرتے ہیں

یہ سوچ کے شاید آ جائے اِمروز کوئی مہمانِ حسیں

ہر روز نئے انداز سے ہم گھر بار سجایا کرتے ہیں

اے دل اتنا غمگین ہے کیوں ، احسان یہ ان کا کیا کم ہے

ملتے جو نہیں بیداری میں خوابوں میں تو آیا کرتے ہیں

الزام نہیں پھر بھی ان پر ، ہم پھر بھی گردن زدنی ہیں

وہ آگ لگایا کرتے ہیں ، ہم آگ بجھایا کرتے ہیں

کٹیا میں ہماری ملتا ہے سامانِ سکوں ہر آفت کو

ہر درد کو ہم با خندہ جبیں سینے سے لگایا کرتے ہیں

اے عیش و طرب کے دلدادو ، آؤ نہ ہماری محفل میں

ہم درد کے مارے غم آگیں اشعار سنایا کرتے ہیں

ممکن ہی نہیں کہ جھک جائیں وہ اور کسی کے آگے بھی

جو ایک خدا ہی کے آگے سر اپنا جھکایا کرتے ہیں

اپنا تو عقیدہ ہے فاتح تہذیب سے وہ ناواقف ہیں

جو لوگ کسی انسان کا دل بے وجہ دکھایا کرتے ہیں

٭٭٭

 

جھلملا کر مجھے کہتے ہیں ستارے شاید

ہے تڑپنا ہی نصیبوں میں تمہارے شاید

پیرہن چاک ، جگر چھلنی ہے ، جاں زخمی ہے

عمر بھر رہتے ہیں یوں درد کے مارے شاید

بولا وہ شوخ کہ روتے ہو تم اپنا رونا

ہم نہیں ہیں تمہیں جی جان سے پیارے شاید

نامہ بر دل میرا صد چاک ہوا جاتا ہے

ہو گئے ہیں میرے مکتوب کے پارے شاید

اور کچھ بڑھ گئے ہچکولے میری کشتی کے

آ گئے ہیں ذرا نزدیک کنارے شاید

منتظر رہتی ہے اللہ کی رحمت ہر دم

درد کا مارا کوئی ہاتھ پسارے شاید

جی رہا ہوں اسی امید میں فاتح اب بھی

مہرباں ہو کے مجھے کوئی پکارے شاید

٭٭٭

 

کچھ بھی ہو ، انساں مگر منتِ کش عالم نہ ہو

زخم اچھا ہو نہ ہو شرمندۂ مرہم نہ ہو

دل کہاں وہ ایک پتھر ہے کہ جس میں غم نہ ہو

آنکھ کب ہے ، کانچ کی گولی ہے جو پرنم نہ ہو

عقل کہتی ہے خداوندا ، تفکر دور کر

دل مگر کہتا ہے یا رب درد ہرگز کم نہ ہو

ساتھ سر کے دل بھی جھک جائے خدا کے سامنے

اور غیر اللہ کے آگے کبھی سر خم نہ ہو

ہم نہ بلبل ہیں نہ گلچیں ہیں نہ صیادِ چمن

ہم سے اے بادِ بہاری! اس قدر برہم نہ ہو

وصل کی شب یار کہتا ہے کہ اب جاتا ہوں میں

سوچتا ہوں زندگی کا موت سے سنگم نہ ہو

کس پہ یہ دنیا ہمارے بعد ڈھائے گی ستم

کیوں ہماری موت پر فاتح بپا ماتم نہ ہو

٭٭٭

 

ہے زلفِ تر سے تیری تر نسیم سنتے ہیں

مہک چراتی ہے تیری شمیم سنتے ہیں

کمالِ شوق سے کہئے ہمیں برا لیکن

نہ اتنا زور سے کہئے غنیم سنتے ہیں

کوئی بتائے خدارا ، منائیں ہم کیسے

خفا ہے ہم سے ہمارا ندیم سنتے ہیں

ہمیشہ آدمی امید کا سہارا لے

کہ دل میں اچھی نہیں یاس و بیم سنتے ہیں

خدا سے ہم نہیں مایوس ، حضرتِ واعظ

خدا بہت ہے کریم و رحیم سنتے ہیں

ملائے جلد خدا سے جو اپنے بندے کو

وہی ہے راہ ، رہِ مستقیم سنتے ہیں

انھیں جو پیتے ہیں بادہ یہاں مزے لے کر

پلایا جائے گا آبِ حمیم سنتے ہیں

جو ساری دنیا کے آلام اپنے سر لے لے

اسی کو کہتی ہے دنیا عظیم سنتے ہیں

یہ تیرا ذکرِ محبت ہے بر زباں فاتح

کہ حالِ عاشقِ عصرِ قدیم سنتے ہیں

٭٭٭

 

بہت بے چین ہوتے ہیں بہت بیتاب ہوتے ہیں

فراقِ یار میں ہم صورتِ سیماب ہوتے ہیں

جگاتی ہیں ہمیں اس وقت بھی تیری حسیں یادیں

بڑے آرام سے جب لوگ محوِ خواب ہوتے ہیں

سمجھ ہم کو نہ گونگا دیکھ کر خاموش اے ہمدم

ہم ایسے ساز ہیں جو تشنۂ مضراب ہوتے ہیں

نجانے ان کی باتیں اس قدر کیوں تلخ ہوتی ہیں

وہ جن کے شکریں لب مثلِ لعلِ ناب ہوتے ہیں

رواں ہیں اس طرح آنکھوں سے میری آج کل آنسو

کہ جیسے موسمِ برسات میں سیلاب ہوتے ہیں

اگر میں چھوڑ دوں رونا بیچارے سوکھ جائیں گے

مرے اشکوں سے میرے داغِ دل سیراب ہوتے ہیں

مجھے خوشحال پاتے ہیں تو میرے پاس آتے ہیں

نجانے تیرہ روزی میں کہاں احباب ہوتے ہیں

بہاراں بھی عجب تاثیر والا ایک موسم ہے

دلوں میں جوش ہوتا ہے ، چمن شاداب ہوتے ہیں

نہ کر اے مدعی! اتنے بڑے دعوے بلاغت کے

جو دریا شور سے بہتے ہیں ، وہ پایاب ہوتے ہیں

نہ ہو ایسا حریصِ مال و دولت اے مِرے ساتھی!

اسی دنیائے فانی کے یہ سب اسباب ہوتے ہیں

تو خوش قسمت ہے فاتح مفت تیرے ہاتھ آیا ہے

بہت انمول ایسے گوہرِ نایاب ہوتے ہیں

٭٭٭

 

یوں تو درد و غم ازل سے ہی مِرا مقسوم ہے

آج لیکن دل بہت بیتاب ہے ، مغموم ہے

پوچھتے ہیں لوگ میں خاموش کیوں بیٹھا ہوں آج

کیا کروں ، نا گفتنی حالِ دلِ مرحوم ہے

ایک تجھ ہی کو نہیں میرے اجڑنے کی خبر

ہر نفس کو ورنہ میرا حالِ غم معلوم ہے

تو سمجھ سکتا نہیں بیتابی و دردِ فراق

آہ! سوزِ عشق تیرے قلب سے معدوم ہے

آ بتا دوں ایک بے حد قیمتی نسخہ تجھے

راز عمرِ جاوداں کا عشق میں مکتوم ہے

بات قیس و کوہکن کی اب کوئی کرتا نہیں

ساری دنیا میں مِرے جوشِ جنوں کی دھوم ہے

تجھ کو اکسایا نہ ہو اغیار نے میرے خلاف

تیرا اندازِ تکلم آج کچھ مسموم ہے

سوچتا ہوں کیوں دلِ وحشی ہے تجھ سے بدگماں

گو یقیں ہے اے مِرے محبوب تو معصوم ہے

رہ رہی ہے ساری دنیا چین سے ، آرام سے

آہ! اک فاتح تِرا تسکین سے محروم ہے

٭٭٭

 

 

جانِ من ، یہ ہے حقیقت مانئے نہ مانئے

ہیں برابر سالہا کے ،ہجر کے کچھ ثانئے

آپ کو اس نے ودیعت کی ہے دولت حسن کی

کیجئے شکرِ خدا ، احسان اس کا جانئے

یوں نہ بنئے ہم نشیں غفلت شعار و خود فریب

توڑئیے بت نفس کا ، اللہ کو پہچانئے

ہم نے الفت میں کبھی دیکھا نہیں سود و زیاں

آپ بے شک عقل کا دشمن ہمیں گردانئے

کیوں نہ اب آ جایئے اے حضرتِ دل ہوش میں

بن کے دیوانہ کہاں تک خاکِ صحرا چھانئے

٭٭٭

 

ہو اگر میری طرف تیری نگاہِ التفات

میں جہاں کے ہر الم ، ہر غم کو دے سکتا ہوں مات

اتنی الفت ہے مجھے تجھ سے کہ کر سکتا ہوں میں

تیری اک خواہش پہ قرباں اپنی ساری خواہشات

زندگی بے رنگ ہے ، بے لطف ہے تیرے بغیر

باعثِ لطف و سکوں ہے میری خاطر تیری ذات

کیوں محبت سے گریزاں ہے مِرے محبوب تو

دیکھ پیغامِ محبت دے رہی ہے کائنات

کب تلک کرنا پڑے گا مجھ کو تیرا انتظار

کب تلک اختر شماری میں کٹے گی میری رات

تجھ کو اپنی زندگی تو کہہ دیا میں نے مگر

ہے تِرا ملنا بھی مشکل صورتِ آبِ حیات

لٹ چکی ہیں آہ! سوغاتیں سکون و کیف کی

اب تو آتی ہے مِری جانب مصائب کی برات

ایسی بیماری لگی ہے ، کم نہیں ہوتی ذرا

میں نے استعمال کر دیکھی ہیں ساری ادویات

بہہ گیا اشکوں میں کاجل ، ہو گئیں آنکھیں سفید

کیا بتاؤں کتنی روئی میری مجبوری پہ رات

کس قدر دشوار راہِ منزلِ مقصود ہے

کھا نہ جائے اے خدا ، لغزش کہیں پائے ثبات

ہر قدم پر پیش آتے ہیں یہاں پر حادثے

ہے یہ دنیا اصل میں جائے وقوعِ حادثات

اس جہاں میں اے دلِ ناداں سکوں لازم نہیں

ہے یہ دنیا درد و رنج و غم کی جائے واردات

آدمی آئینِ فطرت پر اگر چلتا رہے

دور ہو جاتی ہیں خود ہی اس کی ساری مشکلات

چاہئے اس کو سمجھنے کے لئے عقلِ سلیم

دے رہا ہے میرا ہر اک شعر اک درسِ حیات

میں سمجھتا ہوں کہ دانائے رموزِ دل ہے تو

دل پہ کرتی ہے اثر فاتح تیری ہر ایک بات

٭٭٭

 

شرابِ بے خودی میں رات دن مدہوش رہتے ہیں

جہانِ دل شکن سے بچ کے ہم روپوش رہتے ہیں

گراں ان کو گزرتی ہے ، اگر ہم بات کرتے ہیں

شکایت ان کو ہوتی ہے اگر خاموش رہتے ہیں

کہیں وہ ہیں کہ فاقوں سے جنھیں فرصت نہیں ملتی

کہیں وہ ہیں سدا جو مستِ نا و نوش رہتے ہیں

نہیں معلوم کچھ کیفیتِ عیش و طرب یارو

کہ ہم تو تلخی و غم ہی سے ہم آغوش رہتے ہیں

نگارِ مرگ نا معلوم کب آئے ، کہاں آئے

اسی باعث ہمیشہ ہم کفن بردوش رہتے ہیں

نہ جانے ایسی کیا تاثیر ہے فاتح کی باتوں میں

وہ جب بھی بولتا ہے ، سب ہمہ تن گوش رہتے ہیں

٭٭٭

 

آثارِ غم و درد چھپائے نہیں جاتے

نالے میرے سینے میں دبائے نہیں جاتے

مت پوچھئے بیماریِ  جاں کاہ کا باعث

احوالِ غمِ ہجر سنائے نہیں جاتے

اتنا تپِ ہجراں نے کیا ہے مجھے لاغر

اب مجھ سے میرے لب بھی ہلائے نہیں جاتے

اے دوست! غمِ ہجر کے باعث میرے دل پر

وہ زخم لگے ہیں کہ دکھائے نہیں جاتے

تم وصل کے لمحات بھلا دو تو بھلا دو

مجھ سے یہ حسیں خواب بھلائے نہیں جاتے

ہو جاتے ہیں بے قابو محبت میں قویٰ سب

مل جاتے ہیں خود نین ملائے نہیں جاتے

یہ سوچ کے ممکن ہے وہ کر لیتے ہیں وعدہ

وعدے کیے جاتے ہیں ، نبھائے نہیں جاتے

ہیں نقش مِرے دل پہ سب احوالِ گذشتہ

یہ نقش مِرے دل سے مٹائے نہیں جاتے

فاتح کو ہدف تم نے بنایا تو بہت خوب

ترچھے تو مگر تیر چلائے نہیں جاتے

٭٭٭

 

کاش! رکھ لیتا مقدر میرے ارماں کا لحاظ

درد رکھ لیتا ہے جیسے اپنے درماں کا لحاظ

جانتے ہو شب کو تارے تھرتھرا اٹھتے ہیں کیوں

ہے انھیں تیری سیہ زلفوں پہ افشاں کا لحاظ

میری نظروں میں بڑی گستاخ ہے بادِ صبا

کہ نہیں کرتی کبھی یہ زلفِ پیچاں کا لحاظ

تم سے گل اچھا ہے یہ تو دور چل دیتا نہیں

رکھ لیا کرتا ہے کچھ خارِ مغیلاں کا لحاظ

مت کرو اتنی جفائیں فاتحِ بیمار پر

کچھ کرو رنجور کے حالِ پریشاں کا لحاظ

٭٭٭

 

گدگدی جیسے صبا سے غنچۂ نورس میں ہے

یوں تِری الفت سے ہلچل سی بپا نس نس میں ہے

یہ تمہاری آرزو ہے خواہشوں کی بھیڑ میں

یا گلِ رعنا کوئی انبوہِ خار و خس میں ہے

اب معاذ اللہ میرے دل میں آتا ہے خیال

زندگی اور موت میری آپ ہی کے بس میں ہے

اس سے بڑھ کر اور کیا ہوں گی مِری مجبوریاں

موت بھی آتی نہیں اور تو بھی پیش و پس میں ہے

کیا ہوا سیم و زر و گوہر اگر رکھتا نہیں

جنسِ اخلاص و محبت تو دلِ بے کس میں ہے

وائے قسمت ہے کسی کا جسم محرومِ لباس

اور کسی کی قبر لپٹی مخمل و اطلس میں ہے

دے ہمیں توفیق یا رب عدل کی ، احسان کی

عرض یہ فاتح کی تیری خدمتِ اقدس میں ہے

٭٭٭

 

جو بھی انساں آسماں کے نیل گوں گنبد میں ہے

حادثات و رنج و غم ، درد و الم کی زد میں ہے

کھو گیا ہوں اس طرح ان میں نکل سکتا نہیں

اے صنم ، کیا جاذبیت تیرے خال و خد میں ہے

نیک عالم میں فرشتے اور بد شیطاں بھی ہیں

آدمی کا رازِ عظمت فرقِ نیک و بد میں ہے

وہ دکھائی دے رہا ہے خوش نما شہرِ عدم

اب پڑاؤ زندگی کی آخری سرحد میں ہے

ہیں سبھی ساماں بہم تیری تواضع کے لئے

کیوں تامّل اے نگارِ مرگ اب آمد میں ہے

لیجئے پڑنے لگے ہیں سنگ بھی اب قبر پر

ہو گئی سب کو خبر دیوانہ اس مرقد میں ہے

تو بھی اس میں فکر کے ظلمت رُبا موتی سجا

حصہ تیرا بھی تو فاتح شعر کی مسند میں ہے

٭٭٭

 

آپ اپنے کو اپسرا سمجھیں

مجھ کو الفت کا دیوتا سمجھیں

باقی سارے جہاں کو بیگانہ

خود کو اک میرا آشنا سمجھیں

تو ملا ہے تو دل ہے گم گشتہ

کیوں نہ ہم تجھ کو دلربا سمجھیں

دیکھیں غازے کو یا کہ افشاں کو

لالہ رخ سمجھیں ، مہ لقا سمجھیں

یار نے کی ہے ابتدائے کرم

لوگ دیکھیں تو انتہا سمجھیں

ہے تقاضا یہی محبت کا

ان کے ہر جور کو وفا سمجھیں

ان کے ہر درد کو حسیں تحفہ

ان کے ہر غم کو جانفزا سمجھیں

ہے تو سجدہ گہِ وفا میری

نا سمجھ لوگ نقشِ پا سمجھیں

جاں سے پیارا ہے داغِ عشق ہمیں

لوگ جتنا بھی بدنما سمجھیں

مجھ پہ رکھیں بڑی خوشی سے روا

جو ستم یار ناروا سمجھیں

موج کیوں ہے بضد ڈبونے پر

یہ معمہ تو ناخدا سمجھیں

عیب میرے نکالنے والے

اپنے تائیں نہ ماورا سمجھیں

ہم تو فاتح غریقِ عصیاں ہیں

لوگ ہم کو نہ پارسا سمجھیں

٭٭٭

 

نگاہِ ناز پھر ہم پر پڑی ہے

نوازش آپ کی کتنی بڑی ہے

یہ عشوے ہیں کہ بجلی کے شرارے

تبسم ہے تِرا یا پھلجھڑی ہے

کوئی دانتوں کو دیکھے تو گماں ہو

کہ ہیروں سے کوئی مالا جڑی ہے

چمک اٹھا مقدر کا ستارہ

نظر تیری نظر سے جب لڑی ہے

جلی ہے شمع پروانہ جلا ہے

محبت کی سزا کتنی کڑی ہے

یہ پابندی یہ نگرانی یہ پہرے

یہ دنیا جیل کی اک کوٹھڑی ہے

غموں نے تو مجھے گھیرا ہوا ہے

طبیعت آپ کی کیوں چڑچڑی ہے

فریب و مکر ہو انداز جس کا

نہیں وہ مرد بلکہ لومڑی ہے

سدا ہے اشتیاقِ دشت گردی

کہ جیسے نال صحرا میں گڑی ہے

دمِ نزع اسے ملنے کی خواہش

خدایا کس قدر مشکل گھڑی ہے

وہی رنگیں مزاجی ہے ہماری

اگرچہ موت سرہانے کھڑی ہے

وہ قاتل کس ادا سے کہہ رہا ہے

یہ کس کی لاش بے ہنگم پڑی ہے

غزل فاتح کی سن کر لوگ بولے

لئے کیا کیا گہر یہ گودڑی ہے

٭٭٭

 

جلوے تیرے محدود نہیں صرف نظر تک

پہنچی ہے ضیا ان کی مِرے قلب و جگر تک

یوں پیش نہ آ جانِ وفا اپنے گدا سے

پہنچا ہے بہت رنج اٹھا کر تیرے در تک

اس میں تو کوئی نقشِ کفِ پا بھی نہیں ہے

شاید کوئی پہنچا نہیں اس راہگزر تک

پہلے ہی جلا ڈالے گا مجھ کو تپِ ہجراں

اے شمع مِرا بچنا ہے دشوار سحر تک

برپا ہے زمانے میں مِرے سوگ میں ماتم

اور اس کو نہیں ہے میرے مرنے کی خبر تک

٭٭٭

 

اک یہ نہیں کہ گمرہِ منزل بنا دیا

تو نے تو مجھ کو خود سے بھی غافل بنا دیا

ہائے! وہ آنکھ آنکھ ہے یا برقِ طور سے

جس آنکھ نے تجھے میرا قاتل بنا دیا

وہ جستجو حقیقتاً رازِ حیات ہے

جس کو خرد نے سعیِ لاحاصل بنا دیا

یا رب ہے آج اس قدر دل بے قرار کیوں

یہ کس کی یاد نے مجھے بسمل بنا دیا

سنتا ہے آج غور سے ہر شخص میری بات

یہ غم ہے جس نے مجھ کو اس قابل بنا دیا

یہ ٹھیک ہے کبھی ہمیں دنیا سے پیار تھا

اس کے سلوک نے مگر بے دل بنا دیا

اب تو قدم بھی اٹھ نہیں سکتے اے چارہ گر!

افراطِ غم نے لاغر و کاہل بنا دیا

دراصل خوش نصیب ہے وہ مردِ حق شناس

جس کو خدا نے دشمنِ باطل بنا دیا

فاتح تِرے بغیر تھی بے رنگ انجمن

تو نے تو اور نقشۂ محفل بنا دیا

٭٭٭

 

روز کرتا ہے دعا یہ عاشقِ فرقت نصیب

یا الہی کر وصالِ یار کی راحت نصیب

کیوں مسلسل دل مِرا بے چین ہے بیتاب ہے

کر کبھی تو اے خدا تسکین کی لذت نصیب

چار سو دنیا میں پہرے ہیں غم و آلام کے

خوب ہے اس کا مقدر ہے جسے راحت نصیب

مایۂ الفت سے میرا قلب مالامال ہے

جانِ من تجھ کو اگر ہے حسن کی دولت نصیب

اب نہ تنہائی میں لذت ہے نہ محفل میں مزا

کیا حسیں ایام تھے جب تھی تِری صحبت نصیب

ذلت و عزت خدا کے ہاتھ میں ہے ہم نشیں

جس کو ذلت دے جسے چاہے کرے عزت نصیب

اصل میں مضمر ہے عظمت رفعتِ کردار میں

زر کے بندو زر سے ہو سکتی نہیں عظمت نصیب

اس کی سطوت اسکی دار و گیر کا رکھو خیال

اے! کہ جس نے کی ہے تم کو سطوت و قوت نصیب

تجھ سے غافل ہے خدایا بندۂ عیش و نشاط

یاد کرتا ہے تجھے ہر بندۂ آفت نصیب

بے اثر ہو قوتِ طاغوت میرے سامنے

یاالٰہی کر مجھے وہ جذبۂ طاعت نصیب

یا بچا یارب مِرے دل کو غم و آلام سے

یا اسے ہو صبر و ضبط و ہمت و وسعت نصیب

یا مِرے مدمقابل کو خدایا زیر کر

یا ہو میرے دست و بازو کو جواں طاقت نصیب

کس طرح کرتا ہوں پورے دل کے ارماں دیکھنا

گر ہوئی مجھ کو مصائب سے کبھی فرصت نصیب

حضرتِ فاتح کا ہر اک شعر ہے جادو اثر

ہو نہیں سکتی کسی کو اس پہ فوقیت نصیب

٭٭٭

 

اے کہ تعریفِ جمالِ یار کے نغمے الاپ

کیف زا چشم و لب و رخسار کے نغمے الاپ

وہ جو آئے گا تو لے آئے گا خوشیوں کی برات

اے مِرے دل! آمدِ دلدار کے نغمے الاپ

کیا حسین و دلنشیں منظر ہیں تیرے روبرو

چشمِ بینا لذتِ دیدار کے نغمے الاپ

تیری یہ حالت ہوئی ہے جس کا کر کر کے طواف

خستہ پائی اس در و دیوار کے نغمے الاپ

چاہتا ہے تو جو اپنے فن کی تکمیل و عروج

اے مغنی فاتحِ فنکار کے نغمے الاپ

٭٭٭

 

اپنے ذہنوں پہ یہ کیا ٹوٹی ہے آفت ایسی

کہ ہمیں بھاتی ہے غیروں کی ثقافت ایسی

طائرِ دل جسے اک آن میں طے کرتا ہے

مدتوں عقل سے طے ہو نہ مسافت ایسی

جس کی بنیاد ہو حق گوئی و بیباکی پر

باعثِ رفعتِ ملت ہے صحافت ایسی

جس کی تعمیل میں ہو غیرت و ایمان کی موت

دوستو! باعثِ نقصاں ہے شرافت ایسی

ٹھیس لگ جائے کسی شخص کے دل کو جس سے

زیب دیتی نہیں انساں کو ظرافت ایسی

ایک لحظہ بھی تجھے رنج گوارا نہ ہوا

روز ملتی ہے مجھے دوست ضیافت ایسی

اک اثر چھوڑتا ہے دل پہ کلامِ فاتح

جانے کیا اس کے بیاں میں ہے لطافت ایسی

٭٭٭

 

جگر تھامو کہ چھیڑی ہے غموں کی داستاں میں نے

کیا ہے آج زخمِ قلبِ شوریدہ عیاں میں نے

حقیقت ہے کہ جب سے میں نے تم سے دل لگایا ہے

بنائے ہیں عدو اپنے زمین و آسماں میں نے

نہ پوچھو خارزارِ عشق کی دشواریاں مجھ سے

مِرے پاؤں ہوئے زخمی قدم رکھا جہاں میں نے

زمانے بھر میں اس ظالم نے مجھ کو کر دیا رسوا

جسے بھی وائے ناکامی بنایا راز داں میں نے

جگر زخمی ہوا ، دل بے قرار و عقل بے قابو

تبھی جا کر کہیں پایا مقامِ عاشقاں میں نے

مِرا صبر و تحمل قابلِ داد و ستائش ہے

نہیں کھولی کبھی سیلِ حوادث میں زباں میں نے

تکالیف و مصائب سے ہوا دو چار میں اکثر

نہ نالہ سر کیا میں نے ، نہ کی آہ و فغاں میں نے

ہمیشہ درد و رنج و غم سے ہی پالا پڑا مجھ کو

نہ جانا زندگانی کو مگر بارِ گراں میں نے

یہ ظالم گلبدن پتھر کا دل سینے میں رکھتے ہیں

سنو ، کہ پا لیا ہے آج سرِ دلبراں میں نے

تمہاری مہربانی بھی جفا کا پیش خیمہ ہے

نہیں دیکھا ہے تم سا آج تک نا مہرباں میں نے

جنوں ایسا ہوا مجھ چودھویں صدی کے مسلم کو

کبھی مسجد کو اپنایا ،کبھی کوئے بتاں میں نے

مِرا پیرِ مغاں لگتا ہے سب سے اعلی و ارفع

جہاں میں جس قدر دیکھے ہیں پیرانِ مغاں میں نے

بہار آئے گی ہنگامِ وصالِ یار آئے گا

گزاری ہے اسی امید میں فصلِ خزاں میں نے

اسے بادِ خزاں کے تند جھونکوں نے گرا ڈالا

بنایا تھا بڑی محنت سے اپنا آشیاں میں نے

حقیقت ہے کہ فاتح پیکرِ مہر و محبت ہے

لیا ہے بارہا اس با وفا کا امتحاں میں نے

٭٭٭

 

بے شک نشاطِ زیست کا ساماں نہ کیجئے

اے چرخ مجھ کو اس طرح گرداں نہ کیجئے

اس میں نہ کچھ بھی رحمتِ یزداں سما سکی

کیوں شکوہ ہائے تنگیِ  داماں نہ کیجئے

جوشِ جنونِ عشق ہے فصلِ بہار ہے

کیا کیجئے جو چاک گریباں نہ کیجئے

یہ ابتدا سے وقفِ خیالِ حبیب ہے

دل میں کسی خیال کو مہماں نہ کیجئے

زہرِ فراق مجھ سے پھر کھایا نہ جائے گا

صہبائے وصل اس طرح اَرزاں نہ کیجئے

پھر دم گھٹے گا ظلمتِ شامِ فراق میں

یوں جلوہ ہائے حسن فراواں نہ کیجئے

ہر لمحہ اس کا کوشش و کاوش میں ہو بسر

نا قدریِ  حیاتِ گریزاں نہ کیجئے

دنیا جفا کشوں کی اطاعت گزار ہے

اے دل جہاں میں عیش کا ارماں نہ کیجئے

جاں سے بھی اس کی لذتِ ایذا عزیز ہے

جی چاہتا ہے درد کا درماں نہ کیجئے

مت بعدِ مرگ آیئے میرے مزار پر

بندہ نواز مجھ پہ یہ احساں نہ کیجئے

قابل نہیں جو صحبتِ اہلِ صفا کے ہم

پھر کیوں رجوعِ محفلِ رنداں نہ کیجئے

ساحل کے لوگ در پئے آزار ہوں جہاں

اے دوست کیسے منتِ طوفاں نہ کیجئے

فاتح نہ کہئے درد میں ڈوبی ہوئی غزل

یوں خواہ مخواہ کسی کو پریشاں نہ کیجئے

٭٭٭

 

تمہیں ہوتی نہیں محسوس اپنی ابلہی لوگو

ہمیں پاگل سمجھتے ہو چلو یوں ہی سہی لوگو

مِری مانو اگر تو اس کو چکنا چور کر ڈالو

شرابِ عشق سے جو شیشۂ دل ہو تہی لوگو

بہارستانِ دل میں صرصرِ نفرت نہ چلنے دیں

تمہاری بھی ہماری بھی اسی میں ہے بہی لوگو

اگر انسان میں ہو جائیں اوصافِ خودی پیدا

سما سکتا نہیں نظروں میں اورنگِ شہی لوگو

ہمارے پاس دوڑے دوڑے آؤ گے پئے بیعت

کبھی گر کھل گئی تم پر ہماری آگہی لوگو

دلوں میں مشعلیں ایمان کی روشن اگر کر لو

کبھی تم ہو نہیں سکتے شکارِ گمرہی لوگو

تمہارا دوست ہے فاتح تمہیں ہے دشمنی اس سے

بتاؤ خیرخواہی کا ثمر کیا ہے یہی لوگو

٭٭٭

 

سمندر پی چکا ہوں میں وہی ہے تشنگی پھر بھی

مداوا ہو چکا باقی ہے دل کی خستگی پھر بھی

اگرچہ نالہ و شیون سے کچھ فرصت نہیں ملتی

چراتا ہے کبھی ہم کو مذاقِ نغمگی پھر بھی

دلِ افسردہ و بسمل کبھی کا چل بسا ہو گا

نہیں جاتی ستم ایجاد تیری دل لگی پھر بھی

نہ جانے کتنے مہر و ماہ و انجم جلوہ فرما ہیں

اسی صورت ہے اس ظلمت کدے کی تیرگی پھر بھی

مہک ان کی چراتی ہے صبا گو جھولیاں بھر بھر

وہی خوشبو ہے پھولوں کی وہی ہے تازگی پھر بھی

اگرچہ شوہروں کی کچھ کمی اس کو نہیں یارو!

ابھی تک ذالِ دنیا پر ہے داغِ بیوگی پھر بھی

غموں کی آندھیاں آلام کے جھکڑ چلے فاتح

فروزاں ہے ابھی اپنا چراغِ زندگی پھر بھی

٭٭٭

 

بے قراری ہے خستہ حالی ہے

منزلِ شوق ہم نے پا لی ہے

ظرفِ دل اپنا کتنا عالی ہے

جانکنی میں بھی خوش خیالی ہے

خواہشیں ، حسرتیں ، تمنائیں

دل میں اک انجمن سجا لی ہے

جل بجھے جیسے شمعِ گورستاں

ہم نے یوں زندگی بتا لی ہے

ہو کے یکسر خرد سے بیگانہ

دل کو خوئے وفا سکھا لی ہے

ہم ہیں تشنہ اگر تو کیا غم ہے

پیاس یاروں نے تو بجھا لی ہے

ہے وہ خوش بخت جس نے دنیا میں

اپنی کچھ آبرو بچا لی ہے

دل تو ہے دولتِ وفا سے غنی

کیا ہوا ہاتھ زر سے خالی ہے

ہم نے اک پیکرِ جفا کے لئے

زندگی کیا سے کیا بنا لی ہے

پیار میں سوز ، جور میں لذت

شوخ کی ہر ادا نرالی ہے

وصل کے لمحے کتنے روشن تھے

ہجر کی رات کتنی کالی ہے

شمعِ اُمید گل نہ ہونے دیں

صبحِ پر کیف ہونے والی ہے

سچ تو یہ ہے کہ گلشنِ دل کا

تو ہی گلچیں ہے تو ہی مالی ہے

شمع نے تجھ سے رنگ مانگا ہے

پھول نے تیری بو چرا لی ہے

ہے معطر دماغ شام و سحر

دل میں تیری مہک بسا لی ہے

خون ثابت ہے قاتلِ دل پر

لب پہ سرخی ہے رخ پہ لالی ہے

ہوش میں آ نہیں سکا فاتح

تو نے جب سے نگاہ ڈالی ہے

٭٭٭

 

 

دلِ مضطرب کیوں نہ تم کو سراہے

دئیے زخم خود ہی رکھے خود ہی پھاہے

اگر روز ملنا ہے مشکل تو پیارے

ملا کیجئے آ کے گاہے بہ گاہے

صبا کی طرح ہم نہیں ہیں کہ لپٹیں

گلِ ناز پروردہ چاہے نہ چاہے

نہیں دیتا میں اس کو جھوٹی تسلی

دلِ غمزدہ جس قدر بھی کراہے

ہماری نظر میں ہے وہ شخص فاتح

ستمگر جہاں میں جو ہنس کر نباہے

٭٭٭

 

مے کشی کے نہ سکھا ساقیا انداز مجھے

عیش و آرام سے پیاری ہے تگ و تاز مجھے

دل سے بیساختہ اک آہ نکل جاتی ہے

عمرِ رفتہ جو کبھی دیتی ہے آواز مجھے

جان دے سکتا ہوں الفت کی بقا کی خاطر

یار سے کوئی بھی رکھ سکتا نہیں باز مجھے

کیوں نہ محفوظ اسے رکھوں ہمیشہ دل میں

اس کا غم اصل میں ہے باعثِ اعزاز مجھے

اپنے دلدار کے دیدار کو جاتا اُڑ کر

کاش مل جاتی ذرا قوتِ پرواز مجھے

اس کے ہر ناز میں ہیں موت کے سامان بہم

پھر بھی خوش آتا ہے اس شوخ کا ہر ناز مجھے

یہ نیا دور نئے سُر کا تمنائی ہے

ہم نشیں لا کے ذرا دینا نیا ساز مجھے

میرے غمخواروں پہ ہے نیند ابھی سے طاری

آپ بیتی کا ابھی کرنا ہے آغاز مجھے

میں تو ہر شخص کا ہمدرد ہوں فاتح لیکن

ایک بھی مل نہ سکا محرم و ہمراز مجھے

٭٭٭

 

جفا و جور کا یہ التزام کیا معنی؟

دلِ غریب کا یہ قتلِ عام کیا معنی؟

یہ تیر و خنجر و شمشیر کس لئے آخر

ہمارے واسطے یہ اہتمام کیا معنی؟

کل اپنی بزم سے جس کو اٹھا دیا تم نے

اسی سے آج دعا و سلام کیا معنی؟

یہ عشقِ لالہ رخاں چھوڑ کہہ گیا ناصح

بجائے سود ، زیاں دے جو کام کیا معنی؟

وہ شخص! زخم لگانا ہی کام ہو جس کا

اسی سے آرزوئے التیام کیا معنی؟

نہیں وہ پیرِ مغاں جس کے رند تشنہ ہوں

شراب سے جو ہو خالی وہ جام کیا معنی؟

وہ جس کے واسطے دل میں کوئی مقام نہ ہو

بظاہر اس کے لئے احترام کیا معنی؟

خدا کی یاد نہ موجود ہو اگر دل میں

تو سجدے کیا ہیں رکوع و قیام کیا معنی؟

جب ایک چیز خدائی ہے ایک طاغوتی

تو انضمامِ حلال و حرام کیا معنی؟

انھیں حیاتِ گریزاں کے نقشِ پا کہئے

وگرنہ روز و شب و صبح و شام کیا معنی؟

یہ بات خوب ہے فاتح بغیر از مقصد

حسین کتنا ہو کوئی کلام کیا معنی؟

٭٭٭

 

وہ کیف وہ سرور وہ رعنائیاں گئیں

وہ روز و شب کی انجمن آرائیاں گئیں

اٹکی ہے اب نظر تیری سطحی نقوش پر

شاعر تیرے خیال کی گہرائیاں گئیں

سمٹے ہیں اب تو نقطۂ پَرکار کی طرح

آفاق جن میں گم تھے وہ پہنائیاں گئیں

مہماں ہوا ہے آہ! جس دن سے غمِ فراق

اس دن سے میری کیف زا تنہائیاں گئیں

کیا کیا کٹھن سفر کئے میں نے تِرے بغیر

دل سے نہ تیری یاد کی پرچھائیاں گئیں

یارو کہیں بھی میں کبھی تنہا نہ جا سکا

ہمراہ میرے ہر جگہ رسوائیاں گئیں

لگتا ہے روز دیکھ کر فاتح صعوبتیں

اب تو خدا کی بھی کرم فرمائیاں گئیں

٭٭٭

 

معمہ سا مجھے یہ رات دن محسوس ہوتے ہیں

مِرے حالات میری سوچ کے معکوس ہوتے ہیں

بظاہر دلبرانہ کج ادائی مجھ سے کرتے ہیں

مگر دراصل وہ مجھ سے بہت مانوس ہوتے ہیں

جدا ہوتا ہے جب محبوب کوئی اپنے عاشق سے

وہ لمحے زندگی میں کس قدر منحوس ہوتے ہیں

نہیں دیتے جہاں میں جو کسی کو تحفۂ الفت

حقیقت میں وہی نا مہرباں کنجوس ہوتے ہیں

نہ جانا اے دلِ نادان اُس معصوم صورت پر

سنا ہے یہ حسیں پیکر بہت سالوس ہوتے ہیں

مقیّد ہوں جہاں میں اسطرح میں اے جہاں والو!

کہ جیسے طائرانِ بے نوا محبوس ہوتے ہیں

سمجھ کر ، سوچ کر اور تول کر باتیں کرو یارو

کہ ہر انسان کے پہلو میں کچھ جاسوس ہوتے ہیں

سدا محتاط رہنا شعبدہ گاہِ زمانہ میں

لباسِ خضر میں قزاق بھی ملبوس ہوتے ہیں

ہماری کاوشیں اِس عہد میں یوں مشعلِ رہ ہیں

کہ جیسے آندھیوں میں ضو فشاں فانوس ہوتے ہیں

نہیں نومید فاتح تیری رحمت سے خداوندا

تِری رحمت سے تو کم عقل ہی مایوس ہوتے ہیں

٭٭٭

 

میرے ٹوٹے دل کا پیارے کچھ تو چارہ کیجئے

جڑ نہیں سکتا اگر تو پارہ پارہ کیجئے

یا جگہ دے دیجئے گا اپنے پہلو میں مجھے

کوچ کر جانے کا یا مجھ کو اشارہ کیجئے

یوں نہ تنہا چھوڑ کر مجھ کو یہاں سے جایئے

یوں نہ مجھ سے بے رخی اے ماہ پارہ کیجئے

برق ہے تیرا تبسم صاعقہ تیری نظر

کیوں نہ آخر تجھ کو وقفِ استعارہ کیجئے

شکریں لب ، سیب گوں عارض ، سیہ پر پیچ زلف

محوِ حیرت ہوں کہ کس کس کا نظارہ کیجئے

حکمرانو! عاشقوں کی حق رسانی کے لئے

مہربانی کر کے قائم اک ادارہ کیجئے

گوہرِ مقصود مل جائے گا ہم کو تابکے ؟

حضرتِ عارف سے کہہ دو استخارہ کیجئے

کس طرح بیدار کیجئے اپنا خوابیدہ نصیب

کس طرح روشن مقدر کا ستارہ کیجئے

کس طرح اپنوں کو کہئے بے وفا و خود غرض

اپنے ہاتھوں کس طرح اپنا خسارہ کیجئے

عصرِ حاضر میں طریقِ عشق صاحب چھوڑیئے

دل سے اس عادت کو اب نو دو گیارہ کیجئے

کب کیا کرتی ہے دنیا احترامِ خواہشات

جس طرح بھی بن پڑے فاتح گزارہ کیجئے

٭٭٭

 

جدائی کے جہنم میں جلیں گے تابکے آخر

تمہیں سوچو کہ مرمر کر جئیں گے تابکے آخر

شبِ تنہائی کا ہم ساتھ دیں گے تابکے آخر

غمِ ہجراں میں گھٹ گھٹ کر مریں گے تا بکے آخر

کسی دن اپنا رازِ عشق افشا ہو ہی جائے گا

زمانے کی نظر سے ہم بچیں گے تابکے آخر

یہی ہو گا کہ یہ نازک سا یہ شیشہ ٹوٹ جائے گا

ہم اپنے دل پہ سنگِ غم سہیں گے تابکے آخر

کسی دن ہاتھ دھو بیٹھیں گے مجھ سے چارہ گر میرے

مداوا میرے زخموں کا کریں گے تابکے آخر

ہمیں اب کھولنا ہو گی زباں اپنی کہ چپکے سے

جہاں کی بے تکی باتیں سنیں گے تابکے آخر

انھیں محسوس ہو جائے گی آخر اپنی کوتاہی

بتوں کے سامنے مومن جھکیں گے تابکے آخر

ہمیں اب گردشِ حالات کا رخ موڑنا ہو گا

اسیرِ گردشِ دوراں رہیں گے تابکے آخر

کبھی تو آپ پر اوصاف اُس گے منکشف ہوں گے

برا آپ اپنے فاتح کو کہیں گے تابکے آخر

٭٭٭

 

کوئی پیہم جفائیں کرتا ہے

کوئی پھر بھی دعائیں کرتا ہے

جب سے وہ دلربا ہوا رخصت

گھر میرا بھائیں بھائیں کرتا ہے

کتنی رونق تھی کوئے جاناں میں

اب مگر سائیں سائیں کرتا ہے

دل یہ کہتا ہے کوئی آئے گا

کوا جب کائیں کائیں کرتا ہے

اس کو بدلے میں درد ملتے ہیں

جو بھی فاتح وفائیں کرتا ہے

٭٭٭

 

دور تک دشتِ وفا میں کوئی سایہ بھی نہ تھا

قلزمِ دردِ محبت کا کنارہ بھی نہ تھا

اتنا مفلس بھی نہ تھا دل کہ تہی دست کہیں

گو سوا غم کے کوئی اس کا اثاثہ بھی نہ تھا

غم کی بارود سے بھرپور تھا بم کی صورت

دل کے پھٹنے کا سنا کوئی دھماکہ بھی نہ تھا

ہم سے کیا پوچھتے ہو دیر و حرم کی بابت

اپنی تقدیر میں تو کوئی خرابہ بھی نہ تھا

حسبِ معمول جو ہوتا بھی تو خالی ہوتا

یہ الگ بات کہ کل ہاتھ میں پیالہ بھی نہ تھا

تجھ سے ظالم سے رہ و رسم ضروری تو نہ تھے

تجھ سا دلدار مگر تیرے علاوہ بھی نہ تھا

غور سے دخترِ تہذیب کو دیکھا فاتح

صاف عریاں بھی نہ تھی ، تن پہ لبادہ بھی نہ تھا

٭٭٭

 

ہمیں انجامِ الفت بھگتنا تھا

کسی ہمدم نے خنجر گھونپنا تھا

یہ دنیا تو مسافت تھی ہماری

عدم آباد ہم کو پہنچنا تھا

مِری یہ جان کیسے باقی رہتی

جہاں ہر چیز کو حکمِ فنا تھا

مجھے رسوا جو ہونا تھا جہاں میں

ابھرنا تھا ، ابھر کر ڈوبنا تھا

یہی تقدیر تھی شاید ہماری

سرِ رہ راہبر نے لوٹنا تھا

تم آتے یا نہ آتے اے ستمگر

ہمیں تو رات ساری جاگنا تھا

جفائیں تو نہ بھولیں ایک پل بھی

تمھیں عہد وفا ہی بھولنا تھا

اسے کیوں استوار اتنا کیا تھا

اگر پیمان الفت توڑنا تھا

تِرا وہ شہر یاد آتا ہے اکثر

جہاں بیگانہ ہر اک آشنا تھا

قریب آیا تو دل آزار نکلا

بظاہر جو بہت من موہنا تھا

انھیں مانع تھی خوئے بے نیازی

ہمیں روکے ہوئے پاسِ انا تھا

بتوں کو پوجتے جیون گنوایا

یہ حسرت ہے خدا کو پوجنا تھا

رہی مسکان فاتح کے لبوں پر

اگر چہ غم سے ہر دم سامنا تھا

٭٭٭

 

جس وقت ہماری محفل سے وہ شوخ روانہ ہوتا ہے

نہ وہ لذتِ بادہ رہتی ہے نہ وہ لطف شبانہ ہوتا ہے

دراصل وہ میرا ماہ لقا کہتا ہے کہ ہو تجدیدِ وفا

پھر رنجش کا یا خفگی کا دلچسپ بہانہ ہوتا ہے

اس راہِ وفا میں دوست مِرے آتے ہیں مواقع کچھ ایسے

دل روتا ہے چپکے چپکے ہونٹوں پہ ترانہ ہوتا ہے

کچھ ایسے بھی لمحے آتے ہیں ہم دل والوں پر دنیا میں

جب اپنے پرائے بنتے ہیں جب غیر یگانہ ہوتا ہے

وہ ظالم بھی رو دیتا ہے سن سن کے جسے ہمرازوں سے

وہ میری کہانی ہوتی ہے وہ میرا فسانہ ہوتا ہے

حیران ہیں ہم اے جانِ وفا کیا تجھ کو بتائیں اپنا پتہ

آزاد منش دیوانوں کا کب ایک ٹھکانہ ہوتا ہے

دنیا کے خزانوں کا افسوں چلنے نہیں دیتے اہلِ جنوں

ان کے لئے اپنا داغِ دروں ہیروں کا خزانہ ہوتا ہے

جس وقت وہ ہوتے ہیں زندہ کرتی ہے عداوت یہ دنیا

جب ہوتے ہیں رخصت اہلِ وفا مغموم زمانہ ہوتا ہے

زر دار تو دولت کے بل پر اپنے کو بچا لیتے ہیں مگر

دنیا کے مظالم کا فاتح نادار نشانہ ہوتا ہے

٭٭٭

 

 

آہ! کب مجھ کو ملے گا میرے نامے کا جواب

کب مِرے دل سے ٹلے گا امتحانِ اضطراب

جگمگا اُٹھیں گے کب دل کی امنگوں کے چراغ

آہ! کب ثاقب بنیں گے حسرتِ دل کے شہاب

کب تِرا دیدار مضطر دل کو بخشے گا سکون

آہ! کب میں وصل کی لذت سے ہوں گا فیضیاب

لٹ گئی میری جوانی عشق میں تو غم نہیں

ہے دعا اے دلربا باقی رہے تیرا شباب

ہے کبھی خواہش تجھے تا عمر میں دیکھا کروں

ہے کبھی کوشش تجھے رکھوں حجاب اندر حجاب

ایک حالت زندگی میں میں نہیں کرتا پسند

موجزن ہے میرے دل میں آرزوئے انقلاب

عشق میں ہوتے ہیں عاشق رفعتوں سے آشنا

عشق ہی کرتا ہے عاشق کا سدا خانہ خراب

میں ہوں متلاشی شرابِ معرفت کا دوستو

بے حقیقت ، قابلِ نفرت ہے دنیا کی شراب

کچھ تو رکھئے گا خدارا حق و ناحق کا خیال

کس قدر نزدیک تر ہے دیکھئے یومِ حساب

بعد میں اوروں کے تو عیب و ہنر کی بات کر

ہے یہی اچھا کہ پہلے کر لے اپنا احتساب

کہہ گیا فاتح بہت کچھ ہو کے مجبورِ جنوں

ہو نہ جائے اے خدا رازِ محبت بے نقاب

٭٭٭

 

میری دانست میں اس روز قیامت ہو گی

اس کو جب اپنی جفاؤں پہ ندامت ہو گی

آفریں ہے کہ اٹھا لیتا ہے دل غم کا پہاڑ

ایک چڑیا سے بھی کم اس کی جسامت ہو گی

میں تجھے کہتا نہیں ظالم و تکلیف رساں

اے فلک میرے گناہوں کی یہ شامت ہو گی

صورتِ اشک جو مے اس کی بہی جاتی ہے

چارہ گر دل کی صراحی نہ سلامت ہو گی

کوئی مانے گا نہ پیرانِ حرم کی باتیں

جب زمانے پہ عیاں میری کرامت ہو گی

دل پہ طاری ہوا جاتا ہے جنوں کا عالم

آمدِ موسمِ گل کی یہ علامت ہو گی

ہم نفس عشق تو کرتے ہو مگر دیکھو گے

دستِ غمخوار میں بھی تیغِ ملامت ہو گی

اس قدر اپنی روایات سے الفت ہے مجھے

میری جدت بھی لئے رنگِ قدامت ہو گی

تو اگر لکھتا رہا یونہی مسلسل فاتح

مثلِ قرآں تیرے دیواں کی ضخامت ہو گی

٭٭٭

 

اہلِ دنیا کبھی تولے ، کبھی ماشے ہوں گے

دیکھنا دہر میں کیا کیا نہ تماشے ہوں گے

وہ ہو معصومیِ  مریم کہ جمالِ یوسف

کس پہ دنیا نے نہ الزام تراشے ہوں گے

روئے تہذیبِ فرنگی جو حسیں لگتا ہے

اترے میک اپ تو ہزاروں ہی مہاشے ہوں گے

ہڈیاں ان میں ہیں کتنی ہی فنا جانوں کی

آج تقسیم خوشی میں جو بتاشے ہوں گے

سیکڑوں ایسے بھی انسان ملیں گے فاتح

جو اٹھائے ہوئے خود اپنے ہی لاشے ہوں گے

ہم بھی بڑے اخلاص سے کھا جاتے ہیں دھوکے

دنیا بھی بصد شوق لگاتی ہے کچوکے

کرنے کو تو اک عہد بھی ایفا نہیں کرتے

کہنے کو تو کہہ دیتے ہیں ہر بات پہ اوکے

جو کچھ بھی وہ کہتے ہیں بڑے شوق سے کہہ لیں

ہے کس کی یہ جرات کہ غلط بات پہ ٹوکے

ناراض ہوا جاتا ہے مجھ سے بہت پر ناز

ہے کوئی جو آگے بڑھے اس شوخ کو روکے

لوٹے ہیں جدائی نے تِری جن کے خزانے

لاؤں گا وہ موتی کبھی پلکوں میں پرو کے

شاید کبھی لوٹ آئے وہ بھولا ہوا مہمان

ہر وقت کھلے ہیں میری آنکھوں کے جھروکے

وہ عالمِ بیداری میں آتے نہیں فاتح

خوابوں میں تو آئیں گے ذرا دیکھئے سو کے

٭٭٭

اے پیرِ مغاں ایسا کوئی جام پلا دے

جو عالمِ آلام سے بیگانہ بنا دے

ایسا نہ ہو فرقت کی یہ پرہول و سیہ رات

دل کا یہ دیا صبح سے پہلے ہی بجھا دے

بلبل تیرا بیتاب ہے اے مستِ بہاراں

پیغام مِرا اس گلِ رعنا کو صبا دے

الفت کی حسیں رسم سے تائب ہو زمانہ

اتنی نہ مجھے جرمِ محبت کی سزا دے

ایسا نہ ہو شک کرنے لگوں تیری وفا پر

رنجش کا سبب کیا ہے فقط اتنا بنا دے

سج دھج ہے مِرے دل کی تیری یادِ حسیں سے

اے انجمن آرا میری محفل بھی سجا دے

گفتار میں وہ رس کہ سماعت کو نوازے

رفتار میں وہ لوچ کہ اک حشر اٹھا دے

آ جائے گا اکھڑے ہوئے سانسوں میں تسلسل

آ اپنے جواں مرگ کو آنچل کی ہوا دے

مانگ اپنی کا سیندور سمجھ مجھ کو میری جاں

میں اشک نہیں ہوں کہ تو آنکھوں سے گرا دے

الفت میں ہے وہ سحر ، وہ اعجاز ، وہ طاقت

پانی میں بھی یہ چاہے اگر آگ لگا دے

میں دنیا کے ہر مکر سے نمٹوں گا بصد شوق

اے جانِ وفا! تو نہ اگر مجھ کو دغا دے

ایسا کوئی زیور نہیں بازارِ جہاں میں

اے دوست! خداوند تجھے صدق و صفا دے

وقتی ہیں وہ مہر و مہ و انجم ہوں کہ شمعیں

جل جائے دیا دل کا تو ہر وقت ضیا دے

تو رکھتا نہیں دولتِ راحت تو ہوا کیا

اے حاتمِ دل درد کی دولت ہی لٹا دے

ہو تیرے مسافر کو تِری سمت تو معلوم

اے منزلِ مقصود! ذرا مجھ کو صدا دے

بخشا ہے جسے ذوقِ سفر تو نے خدایا

ہے تجھ سے مناجات اسے پائے رسا دے

اے چارہ گرو! فکر کرو کچھ تو دوا کی

قبل اس سے کہ دیوانگی کہرام مچا دے

درویش ہوں میں ایسا کہ جو خود ہو پریشان

اوروں کو مگر فرحت و تسکیں کی دعا دے

ہم سادہ مزاجوں کے اجڑنے کا ہے یہ راز

یار اس کو سمجھ لیتے ہیں جو ہاتھ بڑھا دے

میں جراتِ رندانہ سے لیتا ہوں سدا کام

دنیا کی یہ کوشش ہے مجھے مکر سکھا دے

فاتح نہیں اس دل سے کوئی اور تونگر

جس دل کو خدا مایۂ تسلیم و رضا دے

٭٭٭

 

عقل خوش ہے تیری باتوں کی گھلاوٹ دیکھ کر

دل حزیں ہے تیرے لہجے کی بناوٹ دیکھ کر

آپ کو ہو گا کسی نادر نمائش کا گماں

اپنی یادوں سے مِرے دل کی سجاوٹ دیکھ کر

اے فلک! تو غمزدوں کو اور بھی کرتا ہے تنگ

دکھ ہوا ہے تیری اخلاقی گراوٹ دیکھ کر

آپ کی مرضی ہے میرے دوست جو چاہیں کہیں

ہم نہیں خوش یہ تکلف کی رکاوٹ دیکھ کر

شک گزرتا ہے کہ ہے اخلاص شاید اب حرام

دہر کی ہر چیز میں فاتح ملاوٹ دیکھ کر

٭٭٭

تشکر: جلیل حیدر لاشاری، جنہوں نے اس کی ان یپج فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید