فہرست مضامین
موبائلیا
نوشاد عادل
آدھے گھنٹے کے اندر اندر یہ خبر پورے ادارے میں پھیل چکی تھی کہ واحد بھائی نے موبائل فون خرید لیا ہے۔ جس جس نے یہ خبر سنی وہ واحد بھائی کو مبارک باد دینے چلا آیا۔ فخر کے مارے واحد بھائی کا سینہ غبارے کی طرح پھولا ہوا تھا۔ وہ کسی سیاسی لیڈر یا دانشور کی طرح ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ گردن ہلا ہلا کر مبارک بادیں وصول کر رہے تھے۔ ہر کوئی ان سے مخصوص سوالات کر رہا تھا۔
"کتنے کا موبائل خریدا، کہاں سے خریدا، خریدا یا بس میں سے ملا ہے؟”
واحد بھائی ہر ایک کو تفصیل کے ساتھ اپنی موبائل داستان سنا رہے تھے۔ کسی نے ان کا موبائل نمبر حاصل کر کے پورے ادارے میں پھیلا دیا۔ اب واحد بھائی کا موبائل فون ہر چند سیکنڈ کے بعد ایک مزاحیہ ٹون کے ساتھ بج اٹھتا تھا۔ ہر مس کال کے ساتھ واحد بھائی کام کرتے کرتے زور سے چونک جاتے اور سامنے ہی میز پر رکھے ہوئے موبائل کو خوشی خوشی دیکھنے لگتے،
واحد بھائی کے ساتھ پٹیل صاحب بیٹھتے تھے۔ انھوں نے کہا: "کیا بات ہے واحد بھائی! پہلے ہی دن آپ کا فون اتنا بج رہا ہے۔”
واحد بھائی نے ناک پر سے پھسلتی ہوئی عینک درست کرتے ہوئے کہا: "یہ تو لیا ہی بجانے کے لیے ہے، لیکن پتا نہیں کس کس کے نمبر ہیں۔ جن کے نمبر میرے موبائل میں محفوظ ہیں وہ فون ہی نہیں کر رہے۔”
ان کی بات پر شعبے کے بہت سے لوگ ہنس پڑے۔ واحد بھائی کے موبائل فون پر مسلسل مس کالز آ رہی تھیں۔ ان کے لیے کام کرنا دشوار ہو گیا تھا۔ انھیں نہیں معلوم تھا کہ ان کے شعبے کے لوگ ہی انھیں مس بیلز دے رہے ہیں۔ جیسے ہی واحد بھائی موبائل فون کی طرف ہاتھ بڑھاتے، فون بند ہو جاتا۔ وہ جھنجلا کر رہ جاتے۔ چھٹی کے بعد واحد بھائی گھر پہنچے۔ وہاں ان کے کچھ عزیز آئے ہوئے تھے۔ گھر میں داخل ہوتے ہی واحد بھائی کی ان لوگوں پر نظر پڑی۔ انھوں نے جھٹ اپنی جیب سے موبائل فون نکالا اور بٹن دبا کر اسے ہوں غور سے دیکھنے لگے جیسے صدر مملکت نے انھیں کسی خاص مشن کے لیے میسج بھیجا ہو۔
ان کی بیگم نے برآمدے سے ہی چنگھاڑ کر کہا: "ارے کیا ہو گیا؟ ادھر ہی کیوں جام ہو گئے۔ ایسا کون سا اہم فون آ گیا کسی کمبخت کا؟”
واحد بھائی تلملا کر بولے: "فون نہیں آیا ہے، میسج بھیجا ہے تمھارے بھائی نے۔”
بیگم صاحب نے اپنی ٹھوڑی پکڑتے ہوئے کہا: "آئے ہائے، میرے بھائی کے پاس تو یہ کم بخت موبائل ہی نہیں ہے۔ کیا اس نے تمھیں کیلکولیٹر سے میسج کر دیا؟”
واحد بھائی نے بوکھلا کر مہمانوں کی طرف دیکھا، جو حیرت اسے انھیں دیکھ رہے تھے۔ واحد بھائی وہاں نہیں رکے اور بند موبائل فون کان سے لگا کر تیز تیز آواز میں کچھ بولتے ہوئے اپنے کمرے میں چلے گئے، جیسے کسی سے بہت ہی اہم بات کر رہے ہوں۔
ایک عورت نے ان کی بیگم سے کہا: "بہن! یہ انھیں کیا ہو گیا ہے؟ انھوں نے تو سلام دعا بھی نہیں کی۔”
بیگم صاحبہ نے ناک چڑھاتے ہوئے کہا: "ابھیں موبائلیا ہو گیا ہے۔ کل سے باؤلے ہو گئے ہیں۔ کم بخت موبائل فون کیا خریدا خود کو گورنر سمجھنے لگے ہیں۔ کل رات کو کھانا کھانا بھول گئے اور رات بھر موبائل میں لگے رہے۔ صبح ناشتے کے وقت موبائل بجا تو گرم گرم چائے کا کپ کان سے لگا لیا۔”
وہاں بیٹھی ہوئی ایک بوڑھی خاتون نے ٹھوڑی پکڑتے ہوئے تشویش ناک لہجے میں کہا: "اے پروین! برا مت مانیو، مجھے تو لگتا ہے کہ اس پر کسی نے تعویذ کرا دیا ہے۔ میری مان تو اسے مکرانی بابا کے پاس لے جا۔ دو منٹ میں جھاڑو سے گندے اثرات اتار دے گا۔”
بیگم صاحبہ نے کہا: "اس جھاڑو سے ان کے گندے اثرات کہاں اتریں گے۔ جھاڑو سے مار کھانے کے تو وہ پہلے ہی عادی ہیں۔” پھر انھوں نے جلدی سے اپنے منہ پر یوں ہاتھ رکھ لیا، جیسے کوئی غلط بات کہہ دی ہو۔
آدھی رات کو سب گھر والے سو رہے تھے۔ مہمان اپنے کمرے میں تھے، اچانک ایک آواز سن کر بیگم صاحبہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھیں، انھوں نے خوف زدہ نظروں سے تاریک کمرے میں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھا۔ کچھ نظر نہیں آیا، لیکن وہ عجیب سی آواز مسلسل سنائی دے رہی تھی۔ اتنے میں بچے بھی جاگ گئے۔ دونوں بڑے بچے تو مارے ڈر کے چادر اوڑھ کر لیٹ گئے، جب کہ چھوٹے بچے نے دریائی گھوڑے کی طرح منھ پھاڑ کر رونا شروع کر دیا۔ بیگم صاحبی نے جلدی سے اٹھ کر لائٹ جلائی۔ روشنی ہوئی تو انھوں نے دیکھا کہ واحد صاحب اپنے بستر پر نہیں تھے۔ ادھر ان کا کالا کلوٹا، بے ڈھنگا سا بچہ جسے وہ پیار سے چندا کہتی ہیں، روئے جا رہا تھا۔ بیگم صاحبہ نے اس بے وقت کی راگنی پر آگے بڑھ کر اس کے کالے گلاب جان جیسے گال پر ایک تھپڑ جڑ دیا اور ڈانٹتے ہوئے کہا: "چپ کر جا کم بخت! ورنہ دوں گی ایک اور تھپڑ۔”
تھپڑ کھا کر بچے کا باجا بند ہو گیا اور وہ بستر پر لیٹ کر سکون سے سو گیا، جیسے تھپڑ کے بجائے اس نے نیند کی گولی کھائی ہو۔ اب وہ عجیب سی آواز بند ہو گئی تھی۔ بیگم صاحبہ کمرے سے باہر نکلیں اور باورچی خانے سے بیلن نکال لیا۔ اس وقت مہمانوں کے کمرے کا دروازہ کھلا اور وہ لوگ بھی باہر نکل آئے۔ چندا کے باجے نے انھیں بھی جگا دیا تھا۔ ایک لڑکے نے پوچھا: "کیا ہوا باجی! یہ کیسا شور ہے؟”
بیگم صاحبہ نے ہونٹوں پر انگلی رکھتے ہوئے دبی آواز میں کہا۔”میرا خیال ہے، کوئی کم بخت چور آ گیا ہے۔ ابھی میں نے کچھ عجیب سی آوازیں سنی تھیں۔”
بوڑھی خاتون بولیں: "ہائے اللہ! اب کیا ہو گا۔ کہیں وہ میرا پاندان نہ چرا لے۔”
دوسری عورت نے تنک کر کہا: "اماں! تمھارے پاندان میں کون سی اشرفیاں بھری ہوئی ہیں۔ دو تین بغیر لگے ہوئے پان اور کتھا، چونا ہی تو پڑا ہوگا۔” اس سے پہلے کہ اماں پٹاخے کی طرح پھٹ پڑتیں۔ وہ سب لوگ اچھل پڑے، کیوں کہ وہی عجیب سی آواز پھر سنائی دینے لگی تھی۔ اماں کے ساتھ ان کا بھی ایک چاند سا بیٹا تھا، جو پہلے والے چاند سے کسی طرح بھی کم نہ تھا۔ وہ کانپتے ہوئے بولا: "باجی! باجی” یہ تو مجھے اڑن طشتری کی آواز لگتی ہے۔ شاید خلائی مخلوق نے حملہ کر دیا ہے۔”
بیگم صاحبہ نے بہت ہی برا منہ بنا کر کہا: "تمھارے ہوتے ہوئے کوئی اور مخلوق یہاں آنے کی جرات کر سکتی ہے بھلا۔ تمھیں دیکھ کر اس کا ہارٹ فیل نہیں ہو جائے گا۔ اب اپنی چونچ بند رکھنا۔”
اس کی بہن نے پوچھا: "باجی! بھائی صاحب کہاں ہیں۔”
بیگم صاحبہ نے جھنجلا کر کہا: "پتا نہیں وہ کہاں چلے گئے ہیں؟” اس کے بعد بیلن تلوار کی طرح سونت کر اس آواز کی طرف بڑھنے لگیں۔ باقی لوگ ایک لائن بنا کر ان کے پیچھے پیچھے آ رہے تھے۔ چند قدم آگے جانے کے بعد معلوم ہوا کہ وہ آواز اسٹور میں سے ابھر رہی ہے۔ اسٹور کا دروازہ تھوڑا سا کھلا ہوا تھا۔
بیگم صاحبہ نے آستینیں چڑھائیں اور بیلن سر سے بلند کر کے زور سے دروازے پر لات ماری۔ اس کے ساتھ ہی اندر سے ایک گھگھیائی ہوئی آواز ابھری۔ بیگم صاحبہ نے نیم تاریکی میں ایک سائے کو دیکھا۔ انھوں نے زور سے گھما کر بیلن اس کی کھوپڑی پر جما دیا، اس بار درد میں ڈوبی ہوئی چیخ سنائی دی اور فوراً ہی واحد بھائی اپنا سر پکڑ کر بھنگڑا ڈالتے ہوئے باہر آئے۔ ان کے ایک ہاتھ میں موبائل فون دبا ہوا تھا اور اسی میں سے وہ عجیب سی آوازیں ابھر رہی تھیں۔ آناً فاناً وہ لوگ ساری صورت حال بھانپ گئے۔ بیگم صاحبہ چلائیں: "ناس جائے اس کم بخت موبائل کا۔ آدھی رات کو اسٹور میں گھس کر اس کی پیں پیں سن رہے ہو، جیسے اب کبھی صبح تو نصیب ہوگی نہیں۔” مہمان منہ پھاڑے حیرت سے واحد بھائی کو دیکھ رہے تھے، جو شرمندہ ہوئے بغیر اپنی کھوپڑی پر نکلنے والے نئے نویلے گومڑ کو سہلا رہے تھے۔
موبائل خریدنے سے پہلے واحد بھائی اپنے مالک مکان کے گدھے کی مکروہ آواز پر صبح اٹھنے کے عادی تھے۔ اس گدھے میں بھی ایسا قدرتی الارم لگا ہوا تھا کہ ہر صبح عین ساڑھے پانچ بجے اس کا ڈبل ایکو ساؤنڈ اسٹارٹ ہو جاتا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ وہ نیم گرم پانی سے غرارے کر کے چلا رہا ہو۔ واحد بھائی بیدار بخت کی طرح بیدار ہو جاتے، لیکن جب سے موبائل خریدا تھا، انھوں نے گدھے کی آواز پر انحصار کرنا چھوڑ دیا تھا، چلا چلا کر گدھے کے گلے میں درد ہو جاتا تھا۔ اب تو گدھے نے بھی ان کے موبائل کے الارم کی آواز پر اٹھنا شروع کر دیا تھا۔ الارم پر واحد بھائی نے کسی شوخ گانے کی دھن لگا رکھی تھی۔ ایک صبح وہ آفس جانے کی تیاریاں کر رہے تھے۔ اتنے میں ایک پڑوسی نے آ کر اطلاع دی کہ محلے کے سب سے ضعیف بزرگ شاہ بابا کا انتقال ہو گیا ہے۔ نہ جانے ان کی اصل عمر کیا تھی۔ کچھ لوگ تو مذاق میں یہ بھی کہا کرتے تھے کہ شاہ بابا فرعون کے دربار میں دربان ہوا کرتے تھے۔ واحد بھائی نے آفس جانے کا ارادہ ملتوی کیا اور ٹوپی لگا کر شاہ بابا کے گھر جا پہنچے۔ وہاں لوگوں کا بہت رش تھا۔ جب جنازہ اٹھانے کا وقت آیا تو لوگوں کو میت کا دیدار کرایا جانے لگا۔ واحد بھائی بھی بھیڑ کو چیرتے ہوئے آگے بڑھے۔ اتنے میں ان کے موبائل کا الارم بج گیا اور گانے کی آواز گونجنے لگی۔ واحد بھائی بوکھلا کر جیبوں پر ہاتھ مارنے لگے۔ لوگوں نے شور مچا دیا۔ سب انھیں لعن طعن کر رہے تھے۔
"نکالو، انھیں باہر نکالو۔”
"بند کرو یہ گانا۔”
"واحد صاحب! آپ کو میت میں آنے کی تمیز نہیں ہے۔”
"قیامت کے آثار ہیں بھیا! اب بتاؤ بھلا، میت پر گانے بجنے لگے ہیں۔”
واحد بھائی گھبراہٹ میں اپنی جیبوں میں موبائل تلاش کر رہے تھے، مگر وہ نہیں مل رہا تھا۔ اتنے میں دو پہلوان نما آدمی آگے بڑھے اور واحد بھائی کو ڈنڈا ڈولی کر کے میت والے گھر سے باہر چبوترے پر رکھ آئے۔
موبائل نے واحد بھائی کی زندگی اجیرن کر دی تھی۔ اس کے باوجود وہ اسے چھوڑنے پر آمادہ نہیں تھے۔ اب وہ اپنے بچوں سے بھی اتنا پیار نہیں کرتے تھے جتنا موبائل فون سے کرتے تھے۔ واحد بھائی کی بیگم کو جتنے بھی کوسنے آتے تھے وہ انھیں دے چکیں تھیں، مگر ان پر کوئی اثر نہیں ہوا تھا۔ آفس میں بھی لوگ ان کے موبائل کے الارم سے تنگ آ چکے تھے، جو ہر پندرہ منٹ کے بعد بجنے لگتا تھا۔
ایک دن آفس والوں نے حیرت ناک منظر دیکھا کہ واحد بھائی اپنی سیٹ پر گم صم بیٹھے ہوئے ہیں۔ ان کی حالت پاگلوں جیسی ہو رہی تھی۔ بال کھڑے ہوئے تھے، ایک پیر کا جوتا غائب تھا اور وہ مسلسل چھت کو گھورے جا رہے تھے۔
ان کے ایک ساتھی نے پوچھا: "کیا ہوا واحد صاحب! یہ کیا حالت ہو رہی ہے آپ کی؟” انھوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔
دوسرے ساتھی نے کہا: "طبعیت خراب لگتی ہے۔ میرا خیال ہے کہ کسی سے ان کا جھگڑا ہو گیا ہے اور خوب پٹ کر آ رہے ہیں۔”
ایک دم واحد بھائی کے جسم میں حرکت ہوئی اور وہ خونی لہجے میں بولے: "میں کسی سے پٹ کر نہیں آ رہا۔ میں نے اب پٹنا چھوڑ دیا ہے، کیوں کہ اب میں پہلے ہی معافی مانگ لیتا ہوں۔”
ایک ساتھی نے ہمدردی کی: "تو پھر کیا ہوا ہے، یہ جنگلیوں جیسا حلیہ کیوں ہو رہا ہے؟”
واحد بھائی کی شکل رونے جیسی ہو گئی اور وہ کسی دکھیاری بڑھیا کی طرح دہائی دیتے ہوئے بولے: ” ارے مت پوچھو بھائیو! مجھ پر تو قیامت ٹوٹ پڑی ہے۔ دل چاہتا ہے، خود کشی کر لوں،”
ان کے ایک بےتکلف دوست نے کہا: ٹھیرو! میں ابھی چلو میں پانی لے کر آتا ہوں۔”
واحد بھائی نے اس کی بات نہیں سنی۔ وہ مسلسل بول رہے تھے: "آج صبح میں آفس آنے کے لیے بس میں سوار ہوا۔ بس میں بہت رش تھا، جب میں بس سے اترا تو معلوم ہوا کہ کسی بد بخت نے میرا پیارا موبائل فون نکال لیا ہے، ہائے، اب میں کیا کروں گا۔ میرا تو سکون برباد ہو گیا ہے۔”
کسی ساتھی نے کہا: "شکر ہے کہ اب ہمارا سکون لوٹ آیا اور آپ کی موبائلیا کی بیماری ختم ہو گئی۔” واحد بھائی چونک کر اسے گھورنے لگے۔ وہ ساتھی خاموشی سے وہاں سے کھسک گیا۔
٭٭٭
ٹائپنگ : مقدس
پروف ریڈنگ: فہیم اسلم۔ اعجاز عبید
ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید