FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

عاقبت منزلِ ما وادیِ خموشان است

حالیا غلغہ در گنبدِ افلاک انداز

حافظ

(ترجمہ) بالآخر ہمیں خاموشوں کی وادی میں جانا ہے تو پھر ابھی اِس آسمان کے گنبد تلے ہنگامہ برپا کر لیا جائے!


 

فہرست مضامین

پہلی بات

پاکستان میں تاریخ نگاری ایک عجیب ڈھب پر آ کر ٹھہر گئی ہے۔ ہم کسی بھی تاریخی شخصیت کو سیاہ یا سفید میں سے ایک رنگ میں دیکھنا چاہتے ہیں اور اُس کے بارے میں پڑھتے ہوئے یا اکثر پڑھنے سے پہلے اور پڑھے بغیر یہ فیصلہ کرنا چاہتے ہیں کہ وہ اچھا تھا یا برا تھا۔ تاریخ کا یہ نظریہ جس کے تحت ہماری تمام درسی کتابیں لکھی جاتی ہیں ہماری زندگی پر بھی اثرانداز ہوتا ہے اور اب یوں محسوس ہونے لگا ہے کہ اجتماعی طور پر ہم زندگی کی پیچیدگیوں کو سمجھنے سے قاصر ہوتے جا رہے ہیں ۔ ہم زندگی کے کسی بھی مسئلے کا اُس کے بہت سے پہلوؤں سمیت تجزیہ کر نے اور اُس کی روشنی میں اپنا راستہ متعین کرنے کی بجائے بندھے ٹکے مفروضوں کی روشنی میں فوراً کسی نتیجے پر پہنچنا چاہتے ہیں اور اس طرح زندگی کے تجربے سے محروم رہ جاتے ہیں ۔

اِس مشکل کا ایک حل یہ ہے کہ تاریخ کے بنیادی ماخذوں کا مطالعہ کیا جائے تاکہ ہمیں معلوم ہو کہ دوسرے زمانوں میں لوگ کس طرح سوچتے تھے اور زندگی کو کس طرح دیکھتے تھے۔ بنیادی ماخذوں کا مطالعہ ذہن کو کشادگی بھی عطا کرتا ہے اور اس کا یہ فائدہ بھی ہے کہ تمام جدید مصنفین بھی چونکہ انہی کتابوں کی بنیاد پر اپنی تصانیف مرتب کرتے ہیں لہٰذا بنیادی ماخذ کا مطالعہ کر کے آپ ایک طرح سے جدید مصنفین کے ساتھ برابری کی سطح پر آ جاتے ہیں اور اُن کی رائے کو قبول کرنے یا رد کرنے کے لئے تمام وسائل آپ کے ذہن کو دستیاب ہوتے ہیں ۔

یہ سکندراعظم کے بارے میں ایک بنیادی ماخذ ہے۔ پلوٹارک جو سوانح نگاری کے بانیوں میں سے ایک ہے وہ ق م میں یونان میں پیدا ہوا اور  ق م میں فوت ہو گیا۔ اُس کے زمانے میں یونان اپنی عظمت اور اقتدار سے محروم ہو کر روم کی حکومت میں آ چکا تھا۔ پلوٹارک نے یونانی مشاہیر اور رومی مشاہیر میں مماثلت پیدا کرنے کی کوشش کی مثلاً سکندر اور سیزر کی سوانح ایک ہی جلد میں شامل کیں ۔ اِس طرح کے مجموعوں کو اس نے متوازی سوانح کا نام دیا۔ یورپ میں یہ کتابیں ہر زمانے میں مقبول رہی ہیں ۔ شیکسپئر نے بھی اپنے رومی ڈراموں کا مسالہ پلوٹارک کے ترجمے ہی سے اکٹھا کیا تھا۔ رُوسو اور نپولین بھی بچپن میں یہی کتابیں پڑھا کرتے تھے۔

پلوٹارک کی لکھی ہوئی سکندراعظم کی سوانح جس کا ترجمہ پیش کیا جا رہا ہے اپنی حقیقت نگاری کی وجہ سے بعض ناولوں کے قریب پہنچتی ہے۔ اس کے صفحوں میں آپ کو سکندر اور اُس کے زمانے کے دوسرے لوگ چلتے پھرتے اور بولتے دکھائی دیتے ہیں ۔ اُن کی زندگی، اُن کے دکھ سکھ اور اُن کی فطرت کے تضادات بڑی ہنر مندی سے ظاہر کئے گئے ہیں ۔

اِس کتاب میں ہم دیکھتے ہیں کہ جو شخص بے انتہا مہربانی کر سکتا ہے وہی کسی اور موقع پر ہولناک مظالم کی قدرت بھی رکھتا ہے۔ ایک بہت بڑا آدمی کس طرح اپنے زمانے سے آزاد بھی ہے  اور اُس کا پابند بھی، کس طرح اُس کی تیز نگاہ کبھی زندگی کے حقائق سے بھی پرے جا پہنچتی ہے اور کبھی اُس کے توہمات میں الجھ کر رہ جاتی ہے۔

چنانچہ یہ کتاب اُن قارئین کے لئے ہے جنہیں انسان میں اُس کی خوبیوں اور خامیوں کے ساتھ دلچسپی ہے ۔اگر کسی کو یہ معلوم کرنا ہو کہ سکندراعظم اچھا آدمی تھا یا برا تھا اور خاص طور پر جسے اِس بحث سے دلچسپی ہو کہ سکندر کو اعظم کہنا جائز بھی ہے یا نہیں ، اُسے دوسری کتابیں پڑھنی چاہئیں ۔  خاص طور پر اُن لوگوں کی تحریریں جنہوں نے تاریخ لکھی ہے مگر پڑھی نہیں ہے۔ یہ کتاب اُن کے مطلب کی ثابت نہ ہو گی کیونکہ سنجیدہ تاریخ نگاری کو اس قسم کی کج بحثیوں سے سروکار نہیں ہوتا۔

 زیرِ نظر اُردو ترجمہ میں نے ۱۹۸۳ء میں یونانی کتاب کے ایک انگریزی ترجمے سے کیا تھا۔ اصل کتاب میں ابواب کے عنوانات نہ تھے صرف نمبر شمار تھے۔ عنوانات میرا اپنا اضافہ ہیں ۔

یہ ترجمہ کسی وجہ سے اب تک شائع نہ ہو سکا تھا۔ اب اِسے الحمرا کے حوالے کرتے ہوئے میں نے اِس کی تمہید میں ہومر کی نظم ایلئڈ سے ایک اقتباس کا اضافہ کر دیا ہے کہ اِس داستان نے سکندر کے دل و دماغ پر گہرا اثر چھوڑا تھا اور اِس کا مرکزی کردار ایکیلیز تو بچپن میں اُس کا ہیرو تھا۔ ایلئڈ کے اقتباس سے ایک کھڑکی کھلتی ہے جو ہمیں سکندر کے ذہن میں لے جاتی ہے اگر ہم جانا چاہیں !

اِس اڈیشن کے شروع میں حافظ ؔکا جو شعر درج ہے اُس کے معانی میں اُن قارئین کے لئے ایک خاص گہرائی ہے جنہیں اقبال کے مطالعے سے دلچسپی ہے۔ میں یہاں بالِ جبریل کی نظم ’’نپولین کے مزار پر‘‘ کی طرف صرف  اشارہ کر رہا ہوں ، تشریح کرنے کو غیرمناسب سمجھتا ہوں ۔

خرم علی شفیق

 

ایلئڈ کا ایک ورق

’’اے عظیم ایکیلیز!‘‘ پرائم نے کہا۔ ’’ذرا اپنے ہی باپ کا خیال کرو جو میری ہی عمر کا ہے اور میری طرح اُس کے سامنے بھی ایک مجبور بڑھاپے کے سوا اور کچھ نہیں ۔ کس طرح اُس کے ہمسایہ حکمراں اُسے تنگ کر رہے ہیں اور کوئی اُسے بچانے والا نہیں ہے۔ مگر کم سے کم ایک بات میں اُس کے دل کو تسلّی مل سکتی ہے۔ جب تک تم زندہ ہو وہ ایک ایک دن کر کے اُس وقت کا انتظار کر سکتا ہے جب تم ٹرائے کی مہم سے واپس اپنے گھر جاؤ گے۔

’’اب میری طرف دیکھو کہ میری قسمت اُس سے زیادہ اُجڑی ہوئی ہے۔اِس وسیع سلطنت میں میرے بیٹے سب سے بہتر تھے اور اب اُن میں سے کوئی باقی نہیں رہا۔ میرے پچاس بیٹے تھے جب تم لوگوں نے حملہ کیا۔ اُن میں سے انیس میری ملکہ سے اور باقی میرے حرم کی دوسری عورتوں سے پیدا ہوئے تھے۔اُن میں سے اکثر جنگ میں مارے گئے اور ہیکٹر، میرا واحد لڑکا جس پر میں آج بھی بھروسہ کر سکتا تھا، وہ میری سلطنت کا مضبوط سہارا، اب وہ اپنے وطن کی راہ میں لڑتے ہوئے تمہارے ہاتھوں قتل ہو گیا ہے۔ اُس کی لاش تم سے واپس لینے میں آج تمہارے جنگی بیڑے کے درمیان پہنچا ہوں اور ایک بھاری معاوضہ اپنے ساتھ لایا ہوں ۔

’’ایکیلیز، دیوتاؤں سے ڈرو! اپنے باپ کا سوچ کر مجھ پر ترس کھاؤ۔ میں بہت قابلِ رحم ہوں کہ آج مجھے وہ کرنا پڑا ہے جو ساری دنیا میں کسی نے  نہ کیا ہو گا۔ میں نے اُن ہاتھوں کو بوسہ دیا ہے جنہوں نے میرے بیٹے کا خون کیا!‘‘

پرائم نے ایکیلیز کے ذہن کو اُس کے اپنے باپ کے تصوّر میں محو کر دیا تھا اور اب ایکیلیز بھی رونے کے قریب تھا۔ اس نے بوڑھے کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیا اور بڑی نرمی کے ساتھ اُسے اپنے گھٹنوں سے الگ کیا۔ دونوں اپنی اپنی یادوں کے طوفان میں بہہ کر رونے لگے۔ پرائم ایکیلیز کے قدموں میں سمٹا ہوا جنگجو ہیکٹر کے لئے رو رہا تھا اور ایکیلیز پہلے اپنے باپ کے لئے رویا۔ پھر اپنے دوست پٹروکلوس کو یاد کر کے رویا جسے ہیکٹر نے جنگ میں قتل کیا تھا۔

جب ایکیلیز خوب رو چکا تو اُس کے حواس واپس آئے اور اب وہ ایک جست لگا کر اپنی کرسی سے اُتر آیا۔ اچھے ایکیلیزنے بوڑھے پرائم کے سفید بالوں اور سفید ڈاڑھی کا لحاظ کرتے ہوئے اُسے بازوؤں سے پکڑ کر اٹھایا اور سیدھا کھڑا کیا۔ پھر اُس نے اپنے دل کی گہرائیوں سے اُسے مخاطب کیا۔

’’یقیناً تم بہت دکھی ہو اور تم نے صدمے اٹھائے ہیں ۔ مگر تم نے کس طرح ایک دشمن بحری بیڑے کے درمیان اُس شخص کے پاس آنے کی ہمت کر لی جس نے تمہارے اِتنے بیٹوں کو قتل کیا ہے؟ یقیناً تمہارے پاس فولاد کا دِل ہے۔ اب مہربانی کرو اور بیٹھو، یہاں اِس کرسی پر، اور ہم دونوں اپنے اپنے صدمے اپنے دلوں میں چھپا کر بند کر دیں خواہ وہ کیسے ہی تلخ کیوں نہ ہوں ۔ رونا ایک ادھورا سہارا ہے جس کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔

’’ہم انسان بے بس مخلوق ہیں اور دیوتا جو کسی بات کی پرواہ کرنے سے آزاد ہیں انہوں نے غم کو ہماری زندگی کے لباس کا دھاگہ بنا دیا ہے۔ میرے باپ پیلئس ہی کو دیکھو۔ وہ جب سے پیدا ہوا آسمانوں نے اپنے بہترین تحفے اُس پر نچھاور کئے، اقبال اور دولت سے نوازا، مرمیڈوں کی حکومت عطا کی اور اگرچہ وہ ایک انسان تھا مگر ایک دیوی سے اس کی شادی ہوئی۔ مگر ہم میں سے باقی لوگوں کی طرح غم اُس کے حصے میں بھی تھا۔

’’اُس کی کوئی اولاد نہیں ہے جو اُس کے شاہی خاندان کو اُس کے بعد آگے بڑھائے صرف ایک بیٹا ہے، میں ، جس کی قسمت میں لکھا ہے کہ اُسے نوجوانی میں موت آئے گی۔ اور اگرچہ وہ بوڑھا ہو رہا ہے مگر میں اُس کی کوئی خدمت نہیں کر سکا۔میں اپنے وطن سے دُور یہاں تمہاری سرزمین پر بیٹھا تمہاری اور تمہاری اولادوں کی زندگیاں عذاب کر رہا ہوں ۔

’’اور تم اے بادشاہ! میں مانتا ہوں کہ ایک وقت تھا جب خوشی تم پر بھی مسکراتی تھی۔ سب کہتے ہیں کہ دولت اور شاندار بیٹوں کے معاملے میں کوئی تم سے زیادہ خوش قسمت نہ تھا۔سمندر سے گھرے ہوئے لیسبوس کے اِس سارے علاقے میں جس پر کبھی ماکر نے حکومت کی ہے، شمالی فرائجیا میں اور بیکراں درّۂ دانیال میں ! مگر جب سے اوپر والوں نے تمہاری قسمت میں مجھے لکھ کر یہاں بھیجا کہ میں تمہارے پہلو میں کانٹا بن کر چُبھ جاؤں تمہارے شہر کے گرد سوائے جنگ اور قتلِ عام کے اور کچھ نہیں رہا۔ تمہیں برداشت کرنا چاہئیے اور اپنے دل کو قابو میں رکھنا چاہئیے۔ بیٹوں کے لئے رونے سے کچھ نہیں ہو گا۔ تم انہیں موت سے واپس نہیں لا سکتے مگر اِس طرح تم خود اُن کے غم میں مر جاؤ گے۔‘‘

’’مجھ سے بیٹھنے کو مت کہو، شہزادے!‘‘ بلند مرتبہ پرائم نے کہا۔ ’’جب تک ہیکٹر کی لاش تمہارے خیمے میں بے گور و کفن پڑی ہے ۔ مجھے ابھی اُس کی لاش واپس کر دو کہ میں اپنے بیٹے کو ایک دفعہ اور دیکھ سکوں ۔ یہ بھاری تاوان جو میں لایا ہوں اِسے قبول کرو اور خیریت سے اپنے گھر چلے جاؤ کیونکہ جب میں پہلی بار تمہارے سامنے آیا تھا تب بھی تم نے میری زندگی کو نقصان نہیں پہنچایا تھا۔‘‘

’’اے معزز بوڑھے مجھے مجبور مت کرو!‘‘ ایکیلیز نے ذرا ناراض ہو کر کہا۔ ’’میں تمہارے یہاں آنے سے پہلے ہی ہیکٹر کی لاش تمہیں واپس کرنے کا فیصلہ کر چکا تھا۔ میری اپنی ماں نے جو سمندر کے دیوتا کی بیٹی ہے مجھے زیوس دیوتا کا پیغام دیا تھا کہ لاش واپس کر دی جائے۔ اور تم بھی یہ بات مجھ سے نہیں چھپا سکتے کہ تمہیں کوئی دیوتا ہی یہاں لایا ہے ورنہ کوئی جوانمرد بھی اِس طرح دشمن کے گھر آنے کی جرات نہیں کرتا اور اتنے محافظوں کی نظر بچا کر تمہارا مجھ تک آ پہنچنا بھی محال تھا۔

’’بس اب مجھ پر میری ہمت سے زیادہ دباؤ مت ڈالو کہ میرے ذہن پر پہلے ہی بہت بوجھ ہے۔ ایسا نہ ہو کہ میں زیوس کا حکم بھول بیٹھوں اور اگرچہ تم فریادی بن کر آئے ہو کہیں میں تمہارے ساتھ بھی وہی سلوک نہ کر بیٹھوں جو میں نے ہیکٹر کے ساتھ کیا ۔‘‘

بوڑھا پرائم یہ سن کر خوفزدہ ہو گیا اور اس دھمکی کو اپنے دل میں اُتار لیا۔

اب ایکیلیز ایک شیر کی طرح لپک کر دروازے سے باہر نکل گیا۔ اُس کے دو ساتھی آٹومیڈون اور آلکیمس کے ہمراہ جنہیں وہ پڑوکلوس کے بعد سب سے زیادہ عزیز رکھتا تھا    اس کے ہمراہ تھے۔ اُنہوں  نے گھوڑوں اور خچروں کو کھولا اور پرائم بادشاہ کے قاصد کو ساتھ لے کر واپس آئے جسے بیٹھنے کے لئے ایک اسٹول دیا گیا۔

اس کے بعد اُنہوں نے پرائم کی عالیشان رَتھ سے وہ بیش قیمت چیزیں نکالیں جو ہیکٹر کی لاش کے معاوضے کے طور پر آئی تھیں مگر ایک جوڑا سفید کپڑوں کا اور ایک عمدہ قبا انہوں نے رَتھ میں پڑی رہنے دی تاکہ ہیکٹر کی لاش واپس کرتے ہوئے ایکیلیز اُسے اِن میں لپیٹ سکے۔

اس کے بعد ایکیلیزنے کچھ خادماؤں کو بلایا اور انہیں حکم دیا کہ وہ ہیکٹر کی لاش کو دھو کر صاف کریں اور زیتون کا تیل لگا کر اُسے تیار کر دیں مگر پرائم کی نظروں سے بچا کر کیونکہ ایکیلیز کو خوف تھا کہ اگر پرائم بے قابو ہو گیا اور اُس نے ایکیلیز پر حملہ کیا تو یہ بھی خود کو قابو میں نہ رکھ سکے گا اور زیوس کی حکم عدولی ہو جائے گی۔

جب خادماؤں نے لاش کو دھو کر صاف کر دیا ، اُس پر زیتون کا تیل بھی لگا دیا اور اُسے عمدہ کپڑوں اور قبا میں ڈھانپ دیا تو ایکیلیز نے اُسے اپنے ہاتھوں میں اٹھا کر ایک جنازے پر رکھا اور اُس کے ساتھیوں نے اُسے رَتھ میں رکھنے میں اُس کی مدد کی۔

اب ایکیلیز کے حلق سے ایک آہ نکلی اور وہ اپنے دوست پڑوکلوس کا نام لے کر پکارا۔

’’پٹروکلوس! اگر دوسری دنیا کی راہداریوں میں تم کہیں یہ سنو کہ میں نے تمہارے قاتل کی لاش اُس کے باپ کے حوالے کر دی ہے تو مجھ پر ناراض مت ہونا۔ اس لاش کا معاوضہ جو اُس نے مجھے ادا کیا ہے وہ شایانِ شان ہے اور میں اُس میں سے بھی تمہارا حصہ ضرور نکالوں گا!‘‘

 

پلوٹارک کی سوانحِ سکندر

               ۱ موقف

اس کتاب کے لکھنے سے میرا مقصد سکندر اور جولئس سیزر کی سوانح نگاری ہے (۱) ۔اِن  دونوں کی زندگیاں اتنے کارناموں سے لبریز ہیں کہ کتاب کی ابتدا سے پہلے میں اپنے قارئین سے ایک گزارش کروں گا۔ اگر کسی جگہ وہ محسوس کریں کہ میں نے ان کارناموں کو مختصر کر کے بیان کیا ہے تو اسے میری غلطی پر محمول نہ کریں بلکہ یاد رکھیں کہ میں سوانح لکھ رہا ہوں تاریخ نہیں !

یہ حقیقت ہے کہ بعض اوقات کسی انسان کے بڑے بڑے معرکے بھی اُس کے کردار پر اتنی روشنی نہیں ڈالتے جتنی کہ محض ایک برجستہ جملہ یا محض ایک لطیفہ۔ جس طرح مصور کسی کی تصویر بناتے ہوئے سب سے زیادہ توجہ اس کے چہرے کے نقوش پر دیتا ہے اسی طرح  میں بحیثیت سوانح نگار ان واقعات پر زیادہ توجہ دوں گا جو کسی انسان کی روح کی عکاسی کرتے ہیں اور اس طرح میں ان کی زندگی کی تصویر بناؤں گا۔ جہاں تک بڑی بڑی جنگوں کا تعلق ہے وہ دوسرے مورخین بیان کر دیں گے۔

               ۲ آباء و اجداد

سکندر اپنے باپ کی طرف سے کارینوس کی اولاد میں سے تھا جسے خود ہرکولیس کی نسل سے سمجھا جاتا تھا۔ سکندر کی ماں کا شجرہ نیوپٹالیموس سے ہوتا ہوا آئیکس سے جا ملتا تھا۔ اس بات پر سبھی مورخین متفق ہیں (۲)۔

کہتے ہیں کہ ساموتھریس کے مقدس جزیرے میں فیلقوس کو اولپیاس سے محبت ہو گئی۔ اس وقت فیلقوس نوجوان تھا اور اولمپیاس یتیم تھی۔ اس کے بھائی کی رضامندی حاصل کر کے فیلقوس نے اولمپیاس سے شادی کر لی(۳)۔

شوہر سے ہمبستر ہونے سے ایک رات پہلے اولمپیاس نے ایک خواب دیکھا۔ اس نے دیکھا کہ آسمان پر ایک بجلی گرجی ہے، اُس کے رحم سے ٹکرائی ہے اور بہت دُور تک اپنی روشنی پھیلا کر ختم ہو گئی ہے۔ شادی کے بعد فیلقوس نے بھی دیکھا کہ وہ اولمپیاس کے رحم پر مہر لگا رہا ہے اس مہر پر شیر کی تصویر بنی ہوئی ہے۔ نجومیوں اور کاہنوں کا خیال تھا کہ اس خواب کا مطلب یہ ہے کہ فیلقوس کو اپنی بیوی کی طرف سے ہوشیار رہنا چاہئیے لیکن ایک کاہن ارسٹانڈر نے جس کا تعلق ٹلمیسس سے تھا کہا، ’’اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کی بیوی سے ایک بیٹا پیدا ہو گا جو شیر کی طرح نڈر اور دلیر ہو گا۔‘‘

ایک رات جب اولپمیاس سو رہی تھی فیلقوس نے دیکھا کہ ایک سانپ بھی اس کے بستر پر لیٹا ہوا ہے۔ اُس رات سے فیلقوس اپنی بیوی سے دُور رہنے لگا۔ شائد وہ یہ سمجھ رہا تھا کہ اولپمیاس اس پر جادو کر دے گی۔ ہو سکتا ہے وہ اس خوف میں مبتلا ہوا ہو کہ اولمپیاس کسی غیر مرئی ہستی کی محبوبہ ہے۔

اس کہانی کی ایک اور صورت بھی مشہور ہے۔ اس کے مطابق بہت قدیم زمانے سے اس علاقے کی تمام عورتیں آرفک مذہب میں داخل تھیں اور ڈیانیسس کی جنسی رسومات میں حصہ لیتی تھیں ۔ اسی لیے انہیں کلاڈون اور ممالون بھی کہا جاتا تھا اور وہ کوہِ ہیمس کے اطراف میں رہنے والی ایڈونیا اور تھریس کی عورتوں والے تہوار بھی مناتی تھیں جن سے لفظ ’’تھریسکوئین‘‘ نکلا ہے جس کا مطلب ہی رنگارنگ اور توہم پرستی پر مبنی رسمیں منانا ہے۔ اولمپیاس کو دوسروں سے زیادہ ہیجانی خودسپردگی کے ساتھ اپنے آپ پر حال طاری کرنے کی عادت تھی بلکہ وہ تہوار کے جلوس میں سانپوں کو بھی شامل کر لیتی تھی جو اس کے اپنے ہاتھ کے سدھائے ہوئے ہوتے تھے اور جب وہ عشق پیچاں کے ہاروں یا مقدس ٹوکریوں میں سے سر اٹھاتے تھے یا عورتوں کی چھڑیوں اور گجروں سے لپٹ جاتے تھے تو مرد تماشائی بہت خوفزدہ ہوتے تھے۔

 

               ۳ پیدائش

بہرحال اس رات سانپ دیکھنے کے بعد فیلقوس نے اپنا ایک آدمی روانہ کر دیا تھا۔ اُسے کہا گیا تھا کہ ڈیلفی پر واقع اپالو کے مندر سے شگون حاصل کرے۔ یہ آدمی واپس آیا تو اس نے بتایا کہ شگون کے مطابق فیلقوس کو دیوتا زیوس آمون کے نام پر قربانی دینی چاہئیے اور اس کا احترام باقی دیوتاؤں سے زیادہ کرنا چاہئیے۔ تاہم یہ اس کے مقدر میں لکھا جا چکا ہے کہ وہ اپنی اُس آنکھ سے محروم ہو جائے گا جس سے اس نے دروازے کی درز میں سے جھانک کر اس نے دیوتا کو سانپ کی صورت میں اپنی بیوی سے ہمبستری کرتے دیکھا تھا۔

اراٹوستھینز کے مطابق اولمپیاس نے سکندر کو مشرق کی طرف عظیم مہم پر بھیجتے ہوئے اُسے، اور صرف اسی کو، اُس کی پیدائش کا راز بتایا تھا اور اسے تاکید کی تھی کہ دیوتا کی اولاد ہونے کا حق ادا کر کے دکھائے۔ مگر دوسرے مصنفین کا بیان ہے کہ اس نے اس کہانی کی تردید کر دی تھی اور کہا کرتی تھی، ’’کیا سکندر،ہِرا کو مجھ سے حسد کرنے پر اُکسانے سے باز نہیں آئے گا؟‘‘

اصل بات جو بھی رہی ہو سکندر ہکاٹومبیان کے مہینے کی چھٹی تاریخ کو پیدا ہوا جسے مقدونوی لُؤس کہتے تھے(۴)۔ اُسی روز ایفیسس کے مقام پر دیوی آرٹیمس کا مندر جل گیا۔ بعد میں کسی نے مذاقاً کہا: ’’اس میں کوئی عجیب بات نہیں ہے کیونکہ دیوی دراصل سکندر کی پیدائش کے سلسلے میں مصروف تھی لہٰذا اپنے مندر کی حفاظت میں غفلت برت گئی۔‘‘

لیکن مندر جو ایشیا میں واقع تھا اس کے کاہنوں کا کہنا تھا کہ یہ تباہی اس سے بڑی تباہی کا پیش خیمہ ہے جو اُس رات کے باعث ایشیا کی عظیم سلطنت پر آنے والی ہے۔ چنانچہ وہ اپنا منہ پیٹتے ہوئے شہر کی گلیوں میں نکل پڑے۔

اس وقت فیلقوس نے ایک شہر، جس کا نام پوٹیڈیا  تھا، فتح کیا اور اسی روز اسے تین پیغامات ملے۔

پہلا پیغام یہ تھا کہ اس کے جرنیل پارمینیو نے دشمن قبائل پر شاندار فتح حاصل کی ہے۔ دوسرا یہ کہ اس کے گھوڑے نے اولمپک کھیلوں میں دوڑ کا مقابلہ جیت لیا ہے اور تیسری خبر سکندر کی پیدائش کی تھی۔

فیلقوس کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا۔ کاہنوں نے یہ کہہ کر اس کی خوشی دوبالا کر دی کہ جس بیٹے کی پیدائش تین کامیابیوں کے ساتھ ہوئی ہے وہ خود بھی ناقابلِ شکست ثابت ہو گا۔

               ۴  حلیہ

سکندر کی بہترین شباہت ہمیں لسی پس کے بنائے ہوئے مجسموں میں ملتی ہے۔ یہ اس کا پسندیدہ سنگتراش تھا۔

 سکندر کے نقوش میں کئی خصوصیات تھیں جنہیں بعد میں آنے والے مصوروں نے بھی ظاہر کرنے کی کوشش کی، مثلاً گردن کا بائیں جانب خفیف سا جھکاؤ اور آنکھوں میں ایک خاص تاثر جس کی وجہ سے ایسا لگتا تھا جیسے نگاہیں دل میں اتری چلی جا رہی ہوں اور انسان گویا پگھلنے سا لگتا تھا۔ مذکورہ سنگتراش کے بنائے ہوئے مجسموں میں یہ خصوصیات نظر آتی ہیں جبکہ اپیلز (Apelles) نے سکندر کی جو تصویر بنائی اُس میں سکندر کی رنگت بہت سانولی دکھائی تھی حالانکہ روایات میں آیا ہے کہ سکندر کا رنگ خاصا گورا تھا۔ اس کے چہرے اور سینے پر ایک مخصوص فاخرانہ بے نیازی جھلکتی تھی ۔ ارسٹوکسینس کے بیان کے مطابق سکندر کی جلد بہت خوبصورت تھی اور اس سے خوشبو آتی تھی۔ اس کی سانس بلکہ پورے جسم سے خوشبو آتی تھی اور اس کا اثر اُن کپڑوں پر بھی رہتا تھا جنہیں وہ پہنتا تھا۔

سکندر کم عمر ہی تھا کہ اس میں اپنے نفس پر قابو پانے کا مادہ ظاہر ہو گیا۔ وہ بہت تندمزاج تھا لیکن جسمانی تعیش سے اسے چنداں لگاؤ نہ تھا۔ اگر کبھی اسے اس قسم کی چیزوں میں حصہ لینا بھی پڑتا تو وہ ضبط کا مظاہرہ کرتا۔ البتہ اس میں شہرت کی خواہش بدرجہ اتم موجود تھی اور اِس نے اُس میں ایک ایسا فخر اور اس کے انداز میں ایسا جاہ و جلال پیدا کر دیا تھا جو اس کی عمر سے کہیں بڑھ کر تھا۔ اس کے باوجود اس میں کبھی یہ خواہش پیدا نہ ہوئی کہ وہ اس شہرت و عظمت کے حصول کے لیے کوئی گھٹیا راستہ اختیار کرے۔ فیلقوس اپنی فصاحت کے چرچے کرتا تھا اور جب اُسے اولمپک کھیلوں میں رَتھ کی دوڑ میں جیت ہوتی تو وہ اس کے اعزاز میں نئے سکے جاری کرتا۔ لیکن سکندر کے رویے کی وضاحت صرف چند مکالموں سے ہو جاتی ہے جو ایک دفعہ اس کے اور اس کے دوستوں کے درمیان ہوئے۔ اس کے دوستوں نے پوچھا:

’’تم اولمپک دوڑوں میں حصہ لینا چاہو گے کیونکہ تم تیز دوڑتے ہو؟‘‘

’’ہاں !‘‘ سکندر نے جواب دیا۔ ’’اگر میرے مقابلے پر بادشاہ ہوں !‘‘

بہرحال بعد میں برسرِ اقتدار آنے کے بعد اگرچہ اس نے کئی قسم کے مقابلے منعقد کیے جن میں المیہ ڈرامے، شاعری، سونٹے بازی اور مختلف قسم کے شکار شامل تھے لیکن اس نے کبھی کُشتی یا مُکا بازی کے لیے انعامات نہ دئیے۔

               ۵ امنگیں

ایک دفعہ فارس سے ایک سفارت مقدونیہ آئی۔ فیلقوس ان دنوں باہر گیا ہوا تھا لہٰذا اس کی جگہ سکندر نے سفیروں کا استقبال کیا اور ان کے دل جیت لیے کیونکہ نہ صرف یہ کہ اس نے اُن سے انتہائی دوستانہ سلوک روا رکھا اور بے تکلفی سے پیش آیا بلکہ انہیں بچکانہ سوالوں سے پریشان بھی نہ کیا اور نہ ہی تکلف کے طور پر فضول باتیں کیں ۔ اس کی بجائے سکندر نے ان سے سنجیدہ اور اہم سوالات کیے مثلاً یہ کہ فارس اور مقدونیہ کے درمیان سڑک پر کتنا فاصلہ طے کرنا پڑتا ہے؟ فارس کے حالات اور تہذیب؟ بادشاہ کا کردار؟ اس کی جنگی صلاحیتیں اور تجربہ؟ اس کی عسکری قوت؟ لوگوں کی انفرادی جنگی صلاحیتیں ؟ وغیرہ، وغیرہ۔

جب یہ سفیر لوٹے تو سکندر کے مداح ہو چکے تھے اور جان چکے تھے کہ فیلقوس کا تدبر جس کی اتنی شہرت ہے بیٹے کی جوانمرد ی اور امنگوں کے مقابلے میں کچھ نہیں ۔

جب کبھی سکندر کو یہ خبر ملتی کہ ا سکے باپ نے کوئی مشہور شہر فتح کیا ہے یا کسی کٹھن محاذ پر شاندار کامیابی حاصل کی ہے تو وہ کسی خوشی کا اظہار نہ کرتا بلکہ اپنے ساتھیوں سے کہتا: ’’میرے والد صاحب ہر کارنامہ جس کی مجھے آرزو ہے مجھ سے پہلے انجام دے لیں گے اور پھر میرے اور تمہارے لیے عظمت کا کوئی شاہکار نہیں رہ جائے گا کہ دنیا کو دکھایا جائے!‘‘

اسے دولت و عشرت کی کوئی پرواہ نہ تھی۔ اسے صرف عظمت اور شجاعت کے کارنامے سرانجام دینے کی خواہش تھی۔ اسی لیے اس کا خیال تھا کہ جتنا زیادہ ورثہ ملے گا اتنا ہی کم خود اس کے کرنے کے لیے رہ جائے گا۔ لہٰذا جب بھی فیلقوس کوئی کارنامہ انجام دیتا یا اسے کوئی شاندار فتح حاصل ہوتی سکندر کو یہ افسوس ہوتا کہ عظیم کام کرنے کا ایک اور موقعہ اس کے لیے کم ہو گیا۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ اس کا باپ شاندار سلطنت اور خزانے اس کی جھولی میں ڈال دے۔ وہ تو ایک ایسی زندگی چاہتا تھا جس میں جدوجہد ہو، خطرات ہوں اور خطروں میں کودنے کی آرزو اور امنگ ہو۔

سکندر کی تربیت کے لیے کئی عورتیں اور مرد مقرر کیے گئے۔ ان سب کا سردار لیونی دس نامی ایک شخص تھا۔ یہ نظم و ضبط وغیرہ کے معاملے میں بہت سخت تھا اور سکندر کی ماں کا رشتہ دار بھی تھا۔ لائیکی میکس جو جاہل اور اجڈ تھا ان غلاموں میں سے ایک تھا جن کے ذمے یہ کام تھا کہ صبح کی دوڑ کے وقت اور اس قسم کے دوسرے تربیتی مواقع پر سکندر کے ساتھ رہیں اور اس کا خیال رکھیں ۔ یہ شخص سکندر کو ایکیلیز کہتا تھا۔

               ۶ سرکش گھوڑا

ایک دن ایسا ہوا کہ تھسلی سے گھوڑوں کا ایک سوداگر مقدونیہ آیا(۵)۔ اس کا نام بھی فیلقوس تھا اور یہ بادشاہ کے لیے ایک گھوڑا لایا تھا۔ بیوسیفالس نامی اس گھوڑے کی قیمت اس نے تیرہ ٹیلنٹ بتائی(۶)۔ فیلقوس اپنے ساتھیوں کے ساتھ ایک میدان میں پہنچا تاکہ گھوڑے کی آزمائش دیکھ سکے۔ آزمائش دیکھ کر وہ سب اس فیصلے پر پہنچے کہ گھوڑا بالکل وحشی ہے کیونکہ کوئی بھی اس پر سوار نہ ہو سکا تھا اور وہ کسی کو اپنے قریب نہ پھٹکنے دیتا تھا۔ بادشاہ کو سخت غصہ آیا کہ ایسا گھوڑا اس کے سامنے کیوں پیش کیا گیا۔ اس کے حکم پر گھوڑے کو لے جایا ہی جانے والا تھا کہ قریب کھڑے سکندر نے کہا۔

’’ایک شاندار گھوڑے سے محض اس لیے ہاتھ دھوئے جا رہے ہیں کہ کوئی اسے سدھانا نہیں جانتا یا ایسا کرنے کی ہمت نہیں رکھتا۔‘‘

فیلقوس خاموش رہا لیکن جب سکندر نے کئی دفعہ یہ الفاظ دہرائے تو وہ بول اٹھا۔

’’کیا تم اپنے سے زیادہ جہاندیدہ لوگوں کو اس لیے بیوقوف سمجھ رہے ہو کہ تمہارا خیال ہے تم ان سے زیادہ جانتے ہویا گھوڑے کو رام کرنے میں ان سے زیادہ مہارت رکھتے ہو؟‘‘

’’کم از کم اس گھوڑے کو قابو میں کرنے کی صلاحیت رکھتا ہوں ،‘‘ سکندر نے جواب دیا۔

’’اور اگر تم ایسا نہ کر سکے؟‘‘ فیلقوس نے پوچھا۔

’’تو میں اس گھوڑے کی قیمت ادا کر دوں گا!‘‘

یہ سن کر حاضرین ہنس پڑے مگر باپ اور بیٹے میں شرط لگ گئی۔ سکندر گھوڑے کی طرف بڑھا، اس کی لگام ہاتھ میں لی اور اس کا منہ سورج کی طرف کر دیا۔ سکندر نے یہ بات محسوس کی تھی کہ گھوڑا دراصل اپنے سائے سے ڈر رہا تھا۔ کچھ دیر وہ گھوڑے کے ساتھ دوڑتا رہا اور اس پر ہاتھ پھیر کر اسے رام کرنے کی کوشش کرتا رہا۔ پھر اس نے اپنی چادر کندھوں سے پھینکتے ہوئے ایک ہلکی سی جست لگائی اور گھوڑے پر سوار ہو گیا۔ کچھ دیر تک اس نے گھوڑے کی لگام ڈھیلی چھوڑے رکھی تاکہ گھوڑا کسی قسم کی تکلیف محسوس نہ کرے اور جب اس نے دیکھا کہ گھوڑا خوف سے آزاد ہو چکا ہے اور اپنی تیز رفتاری کا مظاہرہ کرنے کو بیتاب ہے تو اس نے اسے تیز دوڑانا شروع کر دیا۔

فیلقوس اور اس کے رفیق یہ تماشا دم سادھے دیکھ رہے تھے۔ وہ منتظر تھے کہ اب کیا ہوتا ہے جب انہوں نے دیکھا کہ سکندر دوڑ کی حد عبور کر چکا ہے۔ اس نے سرکش گھوڑے کو واپس موڑا جو اب پوری طرح اس کے قابو میں تھا۔ سب لوگوں نے آفرین کے نعرے لگائے اور، کہتے ہیں ، فیلقوس کی آنکھوں میں خوشی سے آنسو آ گئے۔ سکندر نیچے اترا تو فیلقوس نے اسے گلے سے لگا لیا، چوما اور کہا۔

’’میرے بیٹے!تمہیں اپنی امنگوں کی تکمیل کے لیے ایک بہت بڑی سلطنت چاہئیے۔ مقدونیہ تمہارے لیے بہت چھوٹا ہے!‘‘

               ۷ نیا اُستاد

فیلقوس کو اندازہ ہو چکا تھا کہ اس کے بیٹے کی طبیعت میں خودمختاری کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔ زبردستی سے اس پر اثرانداز ہونا مشکل تھا البتہ دلائل دے کر باآسانی فرض کی طرف اس کی توجہ دلائی جا سکتی تھی۔ یہی سوچ کر اس نے سکندر کو حکم دینے کی بجائے قائل کرنا شروع کر دیا۔

فیلقوس کو یہ احساس بھی ہو گیا کہ سکندر کی تربیت عام اساتذہ کے بس کا روگ نہیں ۔ چنانچہ اس نے زمانے کے سب سے مشہور اور دانا فلسفی ارسطو کو بلا بھیجا تاکہ وہ سکندر کا اتالیق بن جائے۔ اس کام کے لیے اس نے ارسطو کو شایانِ شان معاوضہ ادا کیا۔ ارسطو، اسٹاجیرا کے قصبے کا رہنے والا تھا اور یہ قصبہ فیلقوس کے ہاتھوں تباہ ہو چکا تھا۔ فیلقوس نے اسے دوبارہ آباد کیا اور اس کے تمام باشندوں کو، جن میں سے اکثر جلاوطنی یا غلامی کی زندگی بسر کر رہے تھے، پھر سے آباد کر دیا۔

ارسطو اور اس کے شاگردوں کو میزا کے مقام پر واقع پریوں کا مندر دے دیا گیا۔ یہاں وہ مطالعہ اور مباحثہ کرتے تھے۔ آج بھی پتھر کے بنچ اور پرانی راہداریاں موجود ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہاں ارسطو سکندر کو درس دیا کرتا تھا۔

 صاف معلوم ہوتا ہے کہ ارسطو نے سکندر کو محض سیاست وغیرہ کی عام تعلیم ہی نہیں دی تھی بلکہ فلسفے کی اس پوشیدہ صنف کے بارے میں بھی بتایا تھا جس کا درس عام طلبہ کو نہیں دیا جاتا تھا۔

کچھ عرصہ بعد جب سکندر فارس پر حملے کی مہم پر روانہ ہو چکا تھا اسے معلوم ہوا کہ ارسطو نے اس صنف کے بارے میں ایک مقالہ شائع کیا ہے۔ سکندر نے ارسطو کو تند زبان میں ایک خط لکھا جس کا مضمون مندرجہ ذیل تھا۔

سکندر کی جانب سے ارسطو کے نام!

آداب!

آپ نے ان خیالات کو شائع کر کے اچھا نہیں کیا جو آپ نے مجھے زبانی طور پر سمجھائے تھے۔ جس فلسفے کا درس مجھے دیا گیا ہے اگر اسے عوامی ملکیت بنا دیا گیا تو بھلا دوسروں پرمیری کیابرتری رہ جائے گی؟ دوسروں پر طاقت حاصل کرنے سے بھی زیادہ خواہش مجھے اس بات کی ہے کہ میں حق و باطل کی پہچان کے علم میں ان پر سبقت لے جاؤں ۔

بخیر!

ارسطو نے اپنے شاگرد کے شوق و اُمنگ کی داد دینا چاہی لہٰذا اپنی صفائی  پیش کرتے ہوئے یہ بھی کہا، ’’یہ خاص نظریاتی اسباق جنہیں ’زبانی‘ کہا جاتا ہے، یہ ایک طرح سے شائع ہوئے بھی ہیں اور نہیں بھی ہوئے، مثلاً مابعد الطبیعات پر مقالہ نوآموزوں کے لیے بیکار ہے۔ یہ کتاب تو دراصل صرف ان لوگوں کے لیے ایک یادداشت کا کام دیتی ہے جنہوں نے اس کے بنیادی اصول سیکھ رکھے ہیں ۔‘‘

               ۸  علم سے دلچسپی

میرے خیال میں سکندر میں طب اور فلسفے کا شوق بیدار کرنے میں سب سے زیادہ حصہ ارسطو کا ہے۔ سکندر کو نہ صرف طبی نظریات سے دلچسپی ہو گئی بلکہ وہ اپنے دوستوں کی تیمار داری کرتے ہوئے انہیں بعض دوائیں بھی تجویز کر دیتا تھا۔ اس کا ثبوت اس کے خطوط سے بھی ملتا ہے۔

سکندر کو علم کی ہر صنف سے قدرتی لگاؤ تھا اور اُسے کتابوں سے محبت تھی۔ ایلئڈ کو وہ فنِ حرب کے متعلق ایک دستی کتاب کہتا تھا اور جب وہ جنگوں پر روانہ ہوا تو اپنے ساتھ اس کا ایک نسخہ لے گیا جس کے حاشیے پر ارسطو نے وضاحتیں لکھی ہوئی تھیں ۔ بعد میں یہ نسخہ ’’صندوقچی والا نسخہ‘‘ کہلایا۔ یہ اور ایک خنجر ہمیشہ اس کے تکیے کے نیچے موجود ہوتا۔ پھر جب وہ اپنی مہم کے سلسلے میں مشرق کے دُور دراز علاقوں میں چلا گیا جہاں اسے مزید کتابیں نہ ملیں تو اس نے ہارپالوس کو جو مغربی حصے میں اس کا خزانچی تھا خط لکھ کر کچھ کتابیں منگوائیں ۔ ہارپالوس نے اُسے فلسٹس کی لکھی ہوئی تاریخی کتب، آئیسکائیلوس، سوفوکلیز اور یورِپیڈیز کے المیے اور ٹلسٹیز اور فلوکسینز کی نظمیں ارسال کیں ۔

سکندر جلد ہی ارسطو کا مدّاح ہو گیا اور اس سے باپ سے بھی زیادہ قربت محسوس کرنے لگا۔ وہ کہتا، ’’میرے باپ نے مجھے زندگی عطا کی لیکن استاد نے بہترین طریقے سے زندگی گزارنا سکھایا۔‘‘ تاہم زندگی کے آخری دَور میں وہ ارسطو کے متعلق بعض شبہات میں مبتلا ہو گیا تھا۔اگرچہ اس زمانے میں بھی اس نے کبھی ارسطو کو نقصان پہنچانے کی کوئی کوشش نہیں کی مگر تعلقات میں وہ پہلی سی بات نہ رہی۔ فلسفے سے سکندر کی دلچسپی البتہ کبھی کم نہ ہوئی۔ فلسفہ تو گویا اس کی گھٹی میں پڑا ہوا تھا اور جوں جوں اس کی عمر بڑھتی گئی یہ ذوق بھی پختہ ہوتا گیا۔ اس نے اس بات کا کئی دفعہ اظہار کیا، مثلاً اناکسارکس کی عزت افزائی کر کے، ایکسینوکریٹس کو پچاس ٹیلنٹ بطور تحفہ دے کر اور داندامس اور کالینوس کی حوصلہ افزائی کر کے۔

               ۹ باپ سے قربت اور کشیدگی

فیلقوس جب بازنطینی غنیم پر حملے کے لیے روانہ ہوا تو اس نے سکندر کو مقدونیہ میں اپنا قائم مقام اور مہرِ شاہی کا حامل بنا دیا حالانکہ اس وقت سکندر کی عمر صرف سولہ برس تھی۔ مختاری کے اس عرصے میں سکندر نے مائدی قبائل کی بغاوت فرو کی اور ان کے شہر کو باغیوں سے خالی کر کے وہاں یونانیوں کی نو آبادی قائم کی اور اس کا نام الیگزانڈروپولس یعنی شہرِ سکندررکھا(۷)۔

 جب کائرونیا کے مقام پر مقدونیہ نے باقی تمام یونان کی متحدہ افواج کے خلاف جنگ لڑی تو سکندر نے بھی اس میں اس میں حصہ لیا(۸)۔ کہتے ہیں کہ میدانِ جنگ میں اُسی نے پہل کی تھی۔ میرے زمانے میں شاہ بلوط کا ایک درخت ’’بلوطِ سکندر‘‘ کے نام سے موسوم ہے کیونکہ کہا جاتا ہے کہ سکندر کا خیمہ اسی درخت کے نیچے لگا تھا۔ اس سے کچھ ہی فاصلے پر ان مقدونیوں کی اجتماعی قبر ہے جو اس جنگ میں کام آئے۔

اِن کارناموں کی وجہ سے اپنے بیٹے سے فیلقوس کی محبت اور زیادہ بڑھ گئی، اتنی کہ جب وہ لوگوں کو یہ کہتے سنتا کہ بادشاہ سکندر ہے اور کماندار فیلقوس، تو وہ خوشی محسوس کرتا۔

زیادہ عرصہ نہ گزرا تھا کہ ایک گھریلو جھگڑے نے پوری سلطنت کو متزلزل کر دیا اور فیلقوس کی متعدد شادیوں کے باعث محل کے زنانے میں ہونے والے جھگڑوں نے باپ بیٹے کے درمیان کشیدگی اور ناچاقی پیدا کر دی۔ اولمپیاس کی تند مزاجی کی وجہ سے یہ خلیج مزید وسیع ہو گئی اور پھر ایک تقریب میں ناچاقی اپنی انتہا کو پہنچ گئی۔ یہ تقریب ایک شادی کی تھی۔

فیلقوس کو ایک لڑکی سے محبت ہو گئی تھی اور اب وہ اس سے شادی کر رہا تھا حالانکہ وہ عمر میں اس سے بہت چھوٹی تھی۔ اس کا نام قلوپطرہ تھا۔ قلوپطرہ کے چچا اٹالوس نے بہت زیادہ شراب پی اور پھر نشے میں آ کر مقدونیوں سے کہا کہ دیوتاؤں سے دعا کرو کہ اب فیلقوس کا ایسا بیٹا پیدا ہو جو اس کا جائز وارث ہو۔ سکندر کو غصہ آ گیا اور اس نے پیالہ کھینچ مارا۔ ساتھ ہی دہاڑا۔

’’بدمعاش! تم مجھے حرامی کہہ رہے ہو؟‘‘

یہ دیکھ کر فیلقوس اٹھ کھڑا ہوا اور اپنے بیٹے کے مقابلے پر تلوار سونت لی لیکن چونکہ وہ بہت پئے ہوئے تھا اور غصے سے کانپ بھی رہا تھا لہٰذا لڑکھڑایا اور منہ کے بل گر گیا۔ سکندر نے اُسے ایک نظر دیکھا اور گرج کو بولا۔

’’یہ ہے وہ شخص جو یورپ سے ایشیا جانے کو تیار تھا، جو ایک میز سے دوسری تک جاتے ہوئے اپنا توازن نہیں رکھ سکتا!‘‘

اس کے بعد سکندر اپنی ماں اولمپیاس کو ساتھ لے کر مقدونیہ سے نکل کھڑا ہوا۔ اپنی ماں کو اپیرس میں ٹھہرا کر خود اِلرّیا کے پہاڑوں کی راہ لی اور وہیں رہنے لگا۔

اسی دوران ڈیماریٹس فیلقوس سے ملنے آیا۔ وہ کارنتھ کا رہنے والا تھا اور مقدونیہ کے شاہی خاندان کا پرانا دوست تھا اس لیے خاصی بے تکلفی سے بات کر سکتا تھا۔ فیلقوس نے جب اس سے پوچھا کہ یونان کی دور دراز ریاستوں میں امن و امان اور نظم و ضبط قائم ہے یا نہیں تو اس نے جواب دیا۔

’’یہ بڑی اچھی بات ہے کہ تم دور دراز کی ریاستوں کے امن اور نظم و ضبط میں دلچسپی لے رہے ہو لیکن یہ تو سوچو کہ تم نے خود اپنے گھر میں یہی چیزیں ختم کر دی ہیں ؟‘‘

اس بات نے فیلقوس پر بڑا اثر کیا اور اس نے سکندر کو بلا بھیجا۔ ڈیماریٹس نے بھی کوشش کی تو سکندر واپس آنے پر رضامند ہو گیا(۹)۔

               ۱۰ بادشاہ کا قتل

اگلے سال کاریا کے گورنر پکسوڈارس نے فیلقوس سے تعلقات مضبوط کرنا چاہا تاکہ اپنی عسکری قوت بڑھا سکے۔ اس کا ارادہ تھا کہ اپنی سب سے بڑی بیٹی کی شادی ارہیڈایوس سے کر دے ۔ اس نے ارسٹوکریٹس کے ہاتھ فیلقوس کے پاس پیغام بھیجا۔ اولمپیاس اور سکندر کے دوستوں نے سکندر سے کہا کہ فیلقوس اپنی سلطنت ارہیڈایوس کے حوالے کرنا چاہتا ہے اور اسی لیے اس کی شادی کر رہا ہے تاکہ اس کی حیثیت سکندر سے زیادہ ظاہر کر سکے۔ ان باتوں نے سکندر کو پریشان کر دیا اور اس نے تھسالوس نامی ایک المیہ اداکار کو پکسوڈارس کے پاس بھیجا اور کہلوایا کہ وہ اپنی بیٹی کی شادی ارہیڈایوس کی بجائے جو نیم پاگل ہے سکندر سے کر دے۔

پکسوڈارس کو یہ سن کر بہت خوشی ہوئی لیکن جب فیلقوس کو معلوم ہوا تو وہ فلوٹاس کو اپنے ساتھ لے کر سکندر کے کمرے میں گیا۔ فلوٹاس، پارمینیو کا بیٹا تھا اور سکندر کے ساتھیوں میں سے تھا۔ فیلقوس نے سکندر کو ڈانٹا اور اِس گری ہوئی حرکت پر ملامت کی۔ اس نے کہا کہ سکندر کو اپنی حیثیت کا خیال رکھنا چاہئیے نہ کہ ایک ایسے شخص کی بیٹی کے لیے شادی کا پیغام بھیجنا چاہئیے جس کی حیثیت اس کے سامنے غلام کی سی ہے۔

فیلقوس نے حکم دیا کہ تھسالوس کو پا بہ زنجیر مقدونیہ بھیجا جائے اور سکندر کے اُن چار ساتھیوں کو جلاوطن کر دیا جنہوں نے اسے اس کام پر اُکسایا تھا۔ یہ ہارپالوس، نیارکس، ارائگس اور بطلیموس تھے۔ جب سکندر بادشاہ بنا تو اس نے انہیں واپس بلا کر اونچے عہدے عطا کئے۔

پکسوڈارس والے واقعے کے کچھ ہی عرصہ بعد پاسانیاس نامی ایک شخص نے فیلقوس کو قتل کر دیا۔ اس نے یہ اس لیے کیا کہ اٹالوس اور قلوپطرہ نے اس کی بے عزتی کی تھی اور اسے تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔ فیلقوس نے بھی اس پر کوئی توجہ نہ دی۔ اولمپیاس پر بھی فیلقوس کے قتل کی سازش کا الزام لگایا گیا کیونکہ لوگوں کو شک تھا کہ اسی نے قاتل کی حوصلہ افزائی کی اور اسے قتل کرنے پر اکسایا تھا۔ کہتے ہیں کہ جب پاسانیاس سکندر سے ملا تو سکندر نے یورِپیڈیز کے ڈرامے ’’میڈیا‘‘ کا یہ ٹکڑا  پڑھا:

’’انتقام کی بجلی، باپ پر، نئی دلہن پر اور شوہر پر!‘‘(۱۱)

معاملہ جو بھی رہا ہو یہ حقیقت ہے کہ سکندر نے اپنے باپ کے قتل کا بدلہ لینے میں کوئی کسر نہ چھوڑی اور اپنی بے گناہی ثابت کر دی۔ جب سکندر کی غیر موجودگی میں اولمپیاس نے قلوپطرہ سے ایک ہولناک انتقام لیا تو سکندر نے سخت برہمی کا اظہار کیا (۱۲)۔

               ۱۱ بغاوت

سکندر کی عمر اُس وقت صرف بیس سال تھی اور ایک ایسی سلطنت اس کے ذمے ہو گئی تھی جس کی بنیادیں اندرونی انتشار سے ہل چکی تھیں اور بیرونی خطرات نے بھی اُسے چاروں طرف سے گھیر رکھا تھا۔ آس پاس کے علاقے جو فیلقوس کی قوت سے مرعوب ہو کر مقدونیہ کے ساتھ مل گئے تھے اب طوقِ اطاعت اتار پھینکنا چاہتے تھے۔ اگر فیلقوس کچھ عرصہ اور زندہ رہتا تو شائد فارس پر حملے کے لیے اپنی تیاریاں مکمل کر لیتا یعنی یونانی ریاستوں میں مکمل امن و امان قائم کر دیتا۔ لیکن اس وقت صورت حال یہ تھی کہ ان بدلتے ہوئے حالات نے یونان میں ابتری پھیلا رکھی تھی۔

سکندر کے مقدونی مشیروں نے اسے مشورہ دیا کہ اس بحران کی حالت میں یونانی ریاستوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا جائے اور ان پر کسی قسم کا دباؤ ڈالنے کی کوشش نہ کی جائے۔ جہاں تک شمالی نیم وحشی قبائل کا تعلق ہے انہیں رعایات اور سہولتیں دے کر دوست بنانے کی کوشش کی جائے۔ لیکن سکندر نے بالکل مختلف طریقہ اختیار کیا۔ اس کا خیال تھا کہ خود کو محفوظ کرنے کے لیے دلیری اور بلند عزائم کا اظہار ضروری ہے۔ اگر ذرا بھی لچک کا ثبوت دیا گیا تو دشمن فوراً اس پر حملہ کر دیں گے۔

یہ فیصلہ کر کے سکندر نے نہایت تیزی کے ساتھ دریائے دنیوب کے کنارے رہنے والے قبائلیوں کی بغاوت کچلی اور ایک بڑی جنگ میں ان کے بادشاہ سِرمس پر غلبہ پا لیا۔ تھیبز اور ایتھنز کی بغاوت کی خبر ملی تو اس نے فوراً جنوب کا رخ کیا اور درّۂ تھرموپائلی سے گزرتے ہوئے کہا۔

’’جب میں اِلرّیا میں تھا تو ڈیماستھنیز نے مجھے بچہ کہا۔ میں تھسلی میں یلغار کر رہا تھا تو اس نے مجھے نوعمر کہا۔ میں اس پر ثابت کر دوں گا کہ ایتھنز تک پہنچتے پہنچتے میں مرد بن چکا ہوں ۔‘‘

تھیبز پہنچ کر اس نے انہیں ایک اور موقع دینا چاہا اور ان سے صرف اتنا مطالبہ کیا کہ اپنے دو باغیوں کو جن کے نام فوئینکس اور پروتھائیٹس تھے اس کے حوالے کر دیں ۔ اس کے بدلے سکندر تھیبز والوں کو مکمل امان اور دوستی دینا چاہتا تھا۔ تھیبز والوں نے جواب میں کہا۔

’’تم فلوٹاس اور انٹی پیٹر کو ہمارے حوالے کر دو!‘‘

اس کے ساتھ ہی  انہوں نے تمام یونان سے آزادی کے نام پرسکندر کے خلاف ڈٹ جانے کی درخواست بھی کی۔

اب سکندر نے اپنی فوج کو تھیبز والوں کے مقابلے پر تیار ہونے کا حکم دے دیا۔

اگرچہ تھیبز والے تعداد میں مقدونیوں کی نسبت بہت کم تھے لیکن انہوں نے بہادری کا مظاہرہ کیا حتیٰ کہ مقدونیوں کا ایک دستہ جسے صلح کے دنوں میں اندر رکھا گیا تھا اور جسے اب خود تھیبز والوں نے محصور کر رکھا تھا ان پر عقب سے پِل پڑا۔ تھیبز کی فوج اپنے دشمنوں میں گھِر گئی۔ ان میں سے اکثر مارے گئے اور پھر شہر پر یلغار کر دی گئی۔ تھیبز کو لوٹا گیا اور پھر تباہ کر دیا گیا۔ سکندرنے یہ سوچ کر اپنی فوج کو اس بات کی اجازت دی تھی کہ باقی دشمن ریاستیں خوفزدہ ہو جائیں اور مقابلے کی ہمت نہ کریں ۔ اس کے پاس یہ عذر بھی تھا کہ وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا بدلہ لے رہا ہے اور یہ حقیقت تھی کہ سکندر کے دو حلیف پلاٹیانی اور فونیقی تھیبز کی چیرہ دستیوں کے خلاف سکندر سے شکایت کر چکے تھے۔

جہاں تک ایتھنز کے باشندوں کا تعلق ہے تو سکندر نے بعض لوگوں کو چھوڑ کر باقی تمام کو غلام بنا کر بیچ دیا۔ جنہیں چھوڑا گیا ان میں پجاری، کچھ ایسے شہری جن کے مقدونیہ سے دوستانہ تعلقات تھے، شاعر پندار کی اولادیں اور وہ لوگ شامل تھے جنہوں نے بغاوت کی مخالفت کی تھی۔ غلام بننے والوں کی تعداد بیس ہزار کے قریب تھی اور جنگ میں تقریباً چھ ہزار سپاہی تھیبز کی جانب سے ہلاک ہوئے تھے۔

               ۱۲ دلیر عورت

تھیبزکی فتح کے بعد غارتگری کے کئی واقعات ہوئے۔ انہی میں سے ایک یہ تھا کہ سکندری فوج میں شامل تھریس کے بعض سپاہی ایک معزز گھرانے کی شریف عورت کے گھر میں گھس گئے۔ اس کا نام ٹائموکلئیا تھا۔

سپاہیوں نے اس کا گھر لوٹ لیا اور ان کے سالار نے اس کے ساتھ زنا بالجبر کیا۔ پھر اس سے مزید دولت طلب کی۔ عورت نے بتایا کہ اس نے کچھ دولت دفن کر رکھی ہے۔ یہ کہہ کر وہ اسے باغ میں لے گئی اور ایک کنویں کی طرف اشارہ کر کے سالار کو بتایا کہ جب شہر میں غارتگری ہو رہی تھی تو اس نے کچھ زیورات اس کنویں میں پھینک دئیے تھے۔ جب سالار کنویں میں جھانکنے کو جھکا تو عورت نے اس کے پیچھے پہنچ کر اسے اندر دھکیل دیا اور اس پر پتھراؤ کر دیا۔ اس سے پہلے کہ سپاہی اپنے سالار کی مدد کو پہنچتے وہ مر چکا تھا۔

 انہوں نے عورت کو گرفتار کر لیا اور اس کے ہاتھ باندھ کر سکندر کے پاس لے گئے۔ سکندر نے  اس کے چہرے کے تاثرات، اطمینان اور بے خوفی سے فوراً اندازہ لگا لیا کہ اس کا تعلق کسی اونچے خاندان سے ہے۔ جب سکندر نے اس سے پوچھا کہ وہ کون ہے تو اس نے جواب دیا۔

’’میں تھیاجینس کی بہن ہوں ۔ اس نے کائرونیا کی جنگ میں تمہارے باپ کے خلاف ہماری فوج کی قیادت کی تھی اور یونان کی آزادی کی خاطر اپنی جان دی تھی۔‘‘

سکندر نہ صرف اس کے الفاظ سے متاثر ہوا بلکہ جو کچھ اس عورت نے کیا تھا اس کی بھی تعریف کی اور حکم دیا کہ اسے اور اس کے بچوں کو آزاد کر دیا جائے، وہ جہاں جانا چاہیں انہیں اجازت ہے۔

               ۱۳ ایتھنز

ایتھنز والوں نے کھلے عام تھیبز کی حمایت کی تھی لیکن سکندر نے ان سے صلح کے لیے بات چیت کی۔ اس وقت وہ ڈیمیٹر کے اعزاز میں ایک جشن منانے والے تھے لیکن باغی تھیبز کی تباہی کے سوگ کے طور پر اس جشن کا ارادہ ترک کر دیا۔ تھیبز سے فرار ہونے والوں کی بھی انہوں نے بڑی آؤ بھگت کی۔

شیر کی طرح سکندر کا غصہ بھی خون بہا کر ختم ہو گیا تھا یا شائد اُسے تھیبز کے ساتھ اپنے سلوک پر پشیمانی تھی اور اب وہ رحمدلی کا ثبوت دے کر اس کا بدلہ دینا چاہتا تھا۔ وجہ جو بھی رہی ہو اس نے نہ صرف ایتھنز والوں کی تمام کوتاہیاں معاف کر دیں بلکہ انہیں یہ بھی کہا کہ حالات پر گہری توجہ رکھیں تاکہ اگر سکندر کو کچھ ہو جائے تو ایتھنز ایک دفعہ پھر یونان کا رہنما بن جائے۔

روایات میں آیا ہے کہ بعد سکندر تھیبز کے ساتھ اپنے سلوک کی یاد پر بہت تکلیف محسوس کرتا تھا اور اس کی یاد اُسے کئی دوسرے خطا کاروں کے ساتھ رحمدلی برتنے پر مجبور کر دیتی تھی۔ تھیبز کے جو باشندے بچ گئے ان میں سے جو بھی سکندر کو ملے ان کی ہر درخواست اس نے منظور کی اور جو کچھ بھی انہوں نے مانگا انہیں عطا کیا۔ یہ تھا سکندر اور تھیبز کا معاملہ!

               ۱۴ بے نیاز فلسفی

کارنتھ کے مقام پر یونانی ریاستوں کی مجلس منعقد ہوئی جس میں یہ فیصلہ کای گیا کہ یونان کی تمام سپاہ فارس پر حملے میں سکندر کا ساتھ دیں اور سکندر کو ان سپاہ کا کماندارِ اعلیٰ مقرر کیا گیا۔

یونان کے کئی مشہور سیاستدان اور فلسفی اسے مبارکباد دینے آئے۔ سائنوپ کا مشہور فلسفی دیوجانس بھی ان دنوں کارنتھ میں موجود تھا اور سکندر کو امید تھی کہ وہ بھی اس کے پاس آئے گا لیکن جب اس نے سکندر کی طرف کوئی توجہ نہ دی تو سکندر خود اس کے پاس پہنچ گیا۔

دیوجانس کارنتھ کے نواح میں کرانیون نامی جگہ پر پڑا تھا۔ سکندر اس کے پاس گیا تو وہ زمین پر لیٹا دھوپ سینک رہا تھا۔ اتنے سارے لوگوں کو اپنی جانب آتا دیکھ کر دیوجانس نے کہنی کا سہارا لیتے ہوئے اپنا سر اٹھایا اور سکندر پر نگاہیں جما دیں ۔ سکندر نے پوچھا۔

’’میں آپ کے لیے کچھ کر سکتا ہوں ؟‘‘

’’ہاں ،‘‘ فلسفی نے جواب دیا۔ ’’ذرا ایک طرف ہٹ کر کھڑے ہو تاکہ دھوپ نہ رکے!‘‘

سکندر اس جواب سے بہت متاثر ہوا اور اس شخص کے لیے اس کی قدر بڑھ گئی جو اتنے آزاد ذہن کا مالک تھا۔ جب اس نے دیکھا کہ اس کے دوست دیوجانس کا مذاق اڑا رہے ہیں تو اس نے ان سے کہا۔

’’تم لوگ جو بھی کہو لیکن اگر میں سکندر نہ ہوتا تو دیوجانس ہوتا!‘‘

اس کے بعد اس نے ڈیلفی کے مندر کا رخ کیا تاکہ فارس پر حملے کی مہم کے بارے میں شگون حاصل کر سکے۔ اتفاق سے وہ ان دنوں میں وہاں پہنچا جب شگون نکالنا منع ہوتا ہے۔ اس کے باوجود اس نے کاہنہ سے جواب طلب کیا۔ کاہنہ نے انکار کیا اور بتایا کہ ان دنوں معجزے سے جواب طلب نہیں کیا جا سکتا۔ سکندر خود اس کے پاس گیا اور اسے زبردستی مندر کی طرف لے جانے لگا۔ آخر سکندر کے اصرار پر مجبور ہو کر اس نے کہا۔

’’میرے بچے تمہیں روکا نہیں جا سکتا!‘‘

یہ سن کر سکندر یہ کہتا ہوا واپس چلا گیا کہ اب کسی اور شگون کی ضرورت نہیں ۔

بعض اور حیرت انگیز اتفاقات بھی اس موقعے پر رونما ہوئے جب سکندر فارس پر حملے کے لیے روانہ ہونے والا تھا، مثلاً اورفئس کا مجسمہ جو جزیرہ قبرص سے درآمد شدہ لکڑی کا بنا ہوا تھا پسینے میں نہا گیا۔ لوگ یہ دیکھ کر ڈر گئے لیکن کاہن ارسٹانڈر نے کہا۔

’’اس کا مطلب یہ ہے کہ سکندر اپنی اس مہم کے دوران ایسے شاندار کارنامے انجام دے گا جو ادب، شاعری اور نغموں کی صورت میں زندہ رہیں گے لیکن شاعروں اور موسیقاروں کو انہیں لکھنے کے لیے بہت عرق ریزی کرنا پڑے گی۔‘‘

               ۱۵ مشرق کی طرف

جہاں تک سکندر کی فوج کا تعلق ہے اس کی تعداد کم سے کم تیس ہزار پیدل اور چار ہزار سوار بتائی جاتی ہے۔ ارسٹوبولوس کے مطابق فوج کے اخراجات کے لیے جو رقم اس وقت موجود تھی وہ ستر ٹیلنٹ سے زیادہ نہ تھی۔ ڈؤرِس کا کہنا ہے کہ رسد صرف تیس دن کے لیے تھا۔ اونیسیقریٹس بتاتا ہے کہ سکندر پہلے ہی سے دو سو ٹیلنٹ کا مقروض تھا۔

ان سب باتوں کے باوجود سکندر نے جہاز پر سوار ہونے سے پہلے اپنی تمام جاگیریں ساتھیوں میں بانٹ دیں ۔ پرڈیکاس نے اس سے پوچھا۔

’’آپ نے اپنے لیے کیا رکھا ہے؟‘‘

’’امید!‘‘ سکندر نے جواب دیا۔

’’بہت بہتر!‘‘ پرڈیکاس بولا۔ ’’تو پھر جو لوگ آپ کی خدمت کر رہے ہیں وہ بھی اسی میں سے حصہ لیں گے۔‘‘

اور پرڈیکاس نے اپنا حصہ واپس کر دیا۔

اس کی دیکھا دیکھی بہت سے دوسرے دوستوں نے بھی یہی کیا۔ تاہم وہ لوگ جنہوں نے یہ جائدادیں قبول کیں یا خود طلب کیں انہیں بھی نہایت فیاضی سے انعامات اور جاگیریں دی گئیں حتیٰ کہ آخر میں سکندرمقدونیہ میں واقع اپنی ذاتی جاگیروں میں سے اکثر دوسروں کو عطا کر چکا تھا۔

ان تیاریوں اور عزائم کے ساتھ اس نے درۂ دانیال عبور کیا(۱۳)۔

ایشیا پہنچنے کے بعد وہ ٹرائے پہنچا اور ایتھنا دیوی اور یونانی بہادروں کے نام پر قربانیاں دیں ۔ وہ خطہ جہاں ایکیلیز کی قبر تھی وہاں اس نے تیل چھڑکا اور رسم کے مطابق اپنے ساتھیوں کے ساتھ اس کے گرد دوڑ لگائی۔ اس نے یہ بھی کہا۔ ’’ایکیلیز خوش نصیب تھا کہ جب  زندہ تھا تو اسے ایک وفادار دوست میسر تھا اور جب مر گیاتو ایک عظیم شاعر مل گیا جو اس کے کارنامے نظم کر کے گاتا پھرے۔

جب سکندر اس شہر میں گھوم پھر رہا تھا اور اس کے قدیم آثار دیکھ رہا تھا کسی نے اس سے پوچھا۔

’’کیا آپ وہ ساز دیکھنا پسند کریں گے جس پر کبھی پیرس گاتا تھا؟‘‘

سکندر نے جواب دیا۔

’’نہیں ، اس کا مجھے کوئی شوق نہیں البتہ اگر ایکیلیز کا ساز مل جاتا جسے وہ بہادروں کے کارنامے گاتے ہوئے بجاتا تھا تو بہت اچھا ہوتا!‘‘

               ۱۶ فارس سے پہلا مقابلہ

اس دوران دارا کے جرنیلوں نے ایک بڑی فوج جمع کر کے اسے دریائے گرینیکس کے محاذ پر کھڑا کر دیا۔ اس طرح فارس میں داخلے کے لیے سکندر کو گویا دروازے پر ہی مقابلہ شروع کر دینا پڑا۔

مقدونی افسروں میں سے زیادہ تر دریا کی گہرائی کے بارے میں سن کر تشویش میں مبتلا ہو گئے تھے۔ ان کے سامنے یہ دشواری تھی کہ دریا عبور کرتے ہی غیرمسطّح اور دشوار گزار زمین تھی اور اس پر دشمن محاذ بنائے ہوئے پوری طرح چوکنا بیٹھا تھا۔ بعضوں کا خیال تھا کہ سکندر کو مقدونیہ کی روایات کا لحاظ کرتے ہوئے اس وقت جنگ نہیں کرنی چاہئیے کیونکہ اس مہینے میں مقدونوی بادشاہ جنگ نہیں کرتے تھے۔

سکندر نے ان باتوں پر کوئی توجہ نہیں دی۔ پارمینیو نے اسے دریا عبور کرنے کی دشواریاں بتا کر قائل کرنا چاہا تو اس نے جواب دیا۔

’’اگر میں گرینیکس سے مرعوب ہو گیا تو درۂ دانیال کو شرمندہ ہونا پڑے گا۔‘‘

یہ کہتے ہی وہ دریا میں کود پڑا۔ سوار فوج کے تیرہ دستے بھی فوراً پانی میں اتر گئے۔ کسی سمجھدار سپہ سالار سے یہ توقع ہرگز نہ کی جا سکتی تھی بلکہ سکندر اس وقت کوئی ایسا پاگل انسان معلوم ہو رہا تھا جو خودکشی پر مائل ہو۔ صورتحال یہ تھی کہ گہرے دریا میں پانی کا بہاؤ اتنا تیز تھا کہ سپاہیوں کے قدم اکھڑ جاتے تھے۔ ستم بالائے ستم سامنے سے تیروں کی بوچھاڑ آ رہی تھی اور پھر سکندر اپنے ساتھیوں کو ان حالات میں جس ساحل پر لے جانا چاہتا تھا وہ نہ صرف چٹان کی طرح عمودی تھا بلکہ دشمن اس پر ایک مستحکم محاذ بنائے بیٹھا تھا۔

ان سب باتوں کے باوجود وہ آگے بڑھتا رہا اور خاصی جدوجہد کے بعد ساحل پر پہنچنے میں کامیاب ہو گیا جو نہ صرف عمودی تھا بلکہ وہاں پھسلن بھی تھی اور اس کی سطح کیچڑ کی تھی۔ یہاں پہنچ کر ایک دم بوکھلائے ہوئے دشمن سے دست بدست جنگ شروع ہو گئی۔ سکندر کو اتنی مہلت بھی نہ ملی کہ اپنے پیچھے آنے والے دستوں کو ترتیب دے سکتا۔ جوں ہی اس کے ساتھیوں نے ساحل پر قدم جمائے دشمن نے نعرے لگا کر ان پر حملہ کر دیا۔ وہ نیزوں سے لڑ رہے تھے اور نیزے ٹوٹ جاتے تو تلوار نکال لیتے۔

ان میں سے کئی سکندر پر حملہ آور ہو گئے کیونکہ اسے اس کی ڈھال اور خود کے دونوں جانب لگی ہوئی سفید کلغی کی وجہ سے باآسانی پہچانا جا سکتا تھا۔

فارسی فوج کے دو کماندار جن کے نام رہوسیسز اور سپتھریڈیٹس تھے سکندر پر چڑھ دوڑے(۱۴)۔ اس نے ایک کا وار خالی دے کر رہوسیسز کے سینے میں اپنا نیزہ بھونک دینا چاہا لیکن نیزے کی انّی دشمن کے سینہ بند سے ٹکرا کر ٹوٹ گئی۔ سکندر نے تلوار نکال لی۔ وہ رہوسیسز کا مقابلہ کر رہا تھا کہ سپتھریڈیٹس نے دوسری طرف سے پہنچ کر اپنا کلہاڑا پوری قوت کے ساتھ سکندر کے سر پر دے مارا۔ اس ضرب نے خود کو نقصان پہنچایا اور ایک کلغی بھی علیٰحدہ ہو گئی۔ لیکن جونہی اس نے دوسری ضرب کے لیے اپنا کلہاڑا بلند کیا سیاہ کلایٹس نے (جیسا کہ وہ کہلاتا تھا) سپتھریڈیٹس کو اپنے نیزے سے ہلاک کر دیا۔ اُسی لمحے سکندر بھی اپنے حریف کو ہلاک کر چکا تھا۔

مقدونوی سوار اس خطرناک اور خونی جنگ میں مصروف تھے کہ پیدل فوج نے بھی دریا عبور کر لیا اور دونوں جانب کی پیدل افواج بھی مقابلے میں شریک ہو گئیں ۔ تھوڑی دیر تک فارسیوں نے مقابلہ کیا لیکن پھر جلد ہی میدان چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے البتہ وہ تنخواہ دار یونانی جو دارا کی ملازمت میں اپنے ہموطنوں سے لڑ رہے تھے اپنی جگہ ڈٹے رہے۔ پھر انہوں نے ایک چٹان پر قبضہ کر لیا اور سکندر کو مقابلے کے لئے للکارا۔

سکندر جذبات سے مغلوب ہو گیا اور ان پر چڑھ دوڑا۔ اس وقت وہ بیوسیفالس پر سوار نہیں تھا بلکہ یہ کوئی اور گھوڑا تھا۔ دشمن نے اس کی پسلیوں میں تلوار ماردی اور یہ مارا گیا۔ مقدونویوں کو سب سے زیادہ نقصان جنگ کے اس حصے میں اٹھانا پڑا۔ ان کا مقابلہ ماہر پیشہ ور سپاہیوں سے تھا اور یہ مقابلہ دست بدست تھا۔ اس کے علاوہ دشمن فتح کی تمام امیدیں ہار بیٹھا تھا لہٰذا اب زندگی اور موت سے بے پروا ہو کر لڑ رہا تھا۔

فارسیوں کے بیس ہزار پیدل سپاہی اور ڈھائی ہزار سوار اس جنگ میں کام آئے جبکہ سکندر کی طرف سے کل چونتیس سپاہی کام آئے۔ یہ بیان ارسٹوبولوس کا ہے۔  سکندر نے حکم دیا کہ ان تمام لوگوں کے مجسمے بنائے جائیں ۔ یہ کام لِسّی پس نے انجام دیا۔

سکندر دوسری یونانی ریاستوں کو بھی اس فتح میں حصہ دار بنانا چاہتا تھا چنانچہ اس نے ایتھنز والوں کو مالِ غنیمت میں سے تین سو ڈھالیں بھجوائیں اور باقی تمام چیزوں پر اس نے یہ عبارت کندہ کروائی:

’’سکندر، پسرِ فیلقوس اور تمام یونانیوں نے، ماسوائے اسپارٹا کے، یہ مالِ غنیمت ان دشمنوں سے جنگ کر کے جیتا جو ایشیا میں رہتے ہیں ۔‘‘

جہاں تک برتنوں ، پردوں اور اس قسم کی دوسری چیزوں کا تعلق ہے تو ان میں سے چند کے سوا باقی تمام اس نے اپنی ماں کو بھجوا دیں ۔

 

               ۱۷ پیش قدمی

اس جنگ سے سکندر کی حیثیت میں بڑی تبدیلی آ گئی۔ ساحلی علاقوں میں فارسی سلطنت کے لیے سب سے اہم شہر سارڈس تھا لیکن اس کے باشندوں نے بھی فوراً اطاعت قبول کر لی۔ آس پاس کی باقی آبادیوں نے بھی یہی کیا البتہ ہیلی کارنیسس اور مائلیٹس مقابلے پر جمے رہے۔ ان پر یلغار کی گئی اور گرد و نواح کو مطیع کر لیا گیا۔ اس موقعے پر سکندر تذبذب میں پڑ گیا کہ اس کا اگلا قدم کیا ہونا چاہئیے۔ کبھی وہ اس بات کا قائل ہو جاتا کہ دارا کی طرف پیش قدمی کرنی چاہئیے اور ایک فیصلہ کن جنگ میں سب کچھ داؤ پر لگا دینا چاہئیے لیکن پھر وہ سوچتا کہ پہلے ساحلی علاقے حاصل کرنا ضروری ہیں اور اسی بہانے اس کی فوج مزید مشق بھی کر لے گی۔ اس کے بعد شہنشاہ پر حملہ کرنا مناسب ہو گا۔

کہتے ہیں کہ لائشیا کے صوبے میں ایکسانتھس کے شہر میں ایک چشمہ تھا جس میں اس موقعے پر سیلاب آ گیا اور اس کی تہہ سے کانسی کی ایک تختی برآمد ہوئی جس پر قدیم حروف میں یہ پیشین گوئی درج تھی کہ فارس کی حکومت یونانیوں کے ہاتھوں ختم ہو جائے گی۔

سکندر اور اس کے ساتھیوں کے حوصلے بڑھ گئے اور سکندر ساحلی علاقے حاصل کرنے کے لیے بڑھ گیا۔ اس کا ارادہ تھا کہ سلیشیا اور فونیقیوں کے علاقوں تک پیش قدمی کر دی جائے۔

پمفائلیا میں اس کی پیش قدمی سے مورخین نے ایک واقعہ منسوب کیا ہے جسے بڑی شہرت اور مقبولیت حاصل ہوئی۔ یہ واقعہ سکندر کی غیر معمولی کامیابیوں کے متعلق ہے۔ مورخین کا کہنا ہے کہ کسی غیرمعمولی محرک کے سبب سمندر کا چڑھا ہوا پانی اسے راستہ دینے کے لئے ہٹ گیا حالانکہ عام طور پر یہ ایک طوفان کی صورت میں راہِ راست کھلے سمندر سے آتا تھا اور ساحلی چٹانیں ڈھانپ لیتا تھا۔

تاہم سکندر نے ایسے کسی معجزے کا ذکر اپنے کسی خط میں نہیں کیا بلکہ کہا ہے کہ لائشیا کے صوبے میں وہ فاسیلس کی طرف سے داخل ہوا اور پمفائلیا میں ایک درّے کے راستے پیش قدمی کی۔ یہ درہ کلائمکس یعنی زینہ کہلاتا تھا۔

فاسیلس میں اس نے کئی روز قیام کیا۔ اس نے وہاں کے بازار میں تھیوڈیکٹس کا مجسمہ بھی دیکھا(۱۵)۔ یہ شخص کبھی اس شہر میں رہا کرتا تھا۔ ایک رات کھانے کے بعد جب اس نے شراب پی ہوئی تھی تو اس نے ارسطو اور فلسفے کے ساتھ اپنے تعلق کے اعزا ز میں اس مجسمے کے سر پر ایک ہار لپیٹ دیا۔

               ۱۸ دو شگون

اس کے بعد وہ پسیڈیا پہنچا اور ہر مذمت کو ختم کرتے ہوئے فرائجیا کا مالک بن گیا۔

جب اُس نے گارڈئم پر قبضہ کیا جسے قدیم بادشاہ مایڈئس کا وطن سمجھا جاتا ہے تو اس نے وہ مشہور رَتھ دیکھا جس کے بارے میں مشہور تھا کہ جو شخص اس رسی کی گرہ کھولے گا جس سے رتھ بندھا ہوا ہے وہ پوری دنیا کا بادشاہ بن جائے گا۔ زیادہ تر مورخین یہی کہتے ہیں کہ یہ گرہ اس مہارت سے باندھی گئی تھی اور اس کے بل کچھ اس طرح ایک دوسرے کے اوپر لائے گئے تھے کہ اس کے سرے چھُپ گئے تھے۔ سکندر اسے کھولنے کی کوئی تدبیر نہ سوچ سکا تو اس نے تلوار سے گرہ کو کاٹ دیا اور گرہ خودبخود کھل گئی۔ لیکن ارسٹوبولس کے بیان کے مطابق سکندر نے وہ میخ نکال دی جس کے گرد گرہ باندھی گئی تھی اور یوں یہ مسئلہ حل کیا (۱۶)۔

اس کے بعد سکندر نے شمال کی جانب پیش قدمی کی اور کیپاڈوشیا اور پافلاگونیا کے لوگوں نے بخوشی اس کی اطاعت قبول کر لی۔ سکندر نے یہ بھی سنا کہ میمنن مر گیا ہے۔ اس جرنیل کے ذمے دارا نے ایشیائے کوچک کی حفاظت کا کام لگایا تھا اور اگر یہ زندہ رہتا تو سکندر کی پیش قدمی کی راہ میں روڑے اٹکاتا اور اس کے لیے مشکلات کھڑی کرتا۔ اسی کی موت نے فارس کے اندرونی حصوں میں پیش قدمی کے لئے سکندر کا ارادہ اور بھی اٹل کر دیا۔

اس وقت تک دارا بھی سوسا کی طرف سے ساحل کے ساتھ ساتھ پیش قدمی شروع کر چکا تھا۔ اسے اپنی عسکری قوت پر بہت بھروسہ تھا کیونکہ وہ چھ لاکھ سپاہیوں کی قیادت کر رہا تھا۔ اس کے علاوہ ایک خواب نے بھی اس کی حوصلہ افزائی کی تھی جس کی تعبیر مجوسیوں نے اسے خوش کرنے کی خاطر غلط بتائی تھی۔ دارا نے خواب دیکھا تھا کہ مقدونوی فوج شعلوں میں گھری ہے ، سکندر نوکروں کی طرح دارا کی خدمت کر رہا ہے اور ویسا لبادہ پہن رکھا ہے جیسا دارا اس وقت پہنتا تھا جب وہ درباری تھا۔ پھر وہ بیلوس کے مندر میں جا کر غائب ہو گیا ہے۔ لیکن دراصل اس خواب سے دیوتاؤں کا مطلب یہ تھا کہ مقدونوی شاندار کارنامے انجام دیں گے اور سکندر پورے فارس کا مالک بن جائے گا جس طرح دارا بنا تھا جب وہ محض ایک درباری سے بادشاہ کے مرتبے تک پہنچا تھا۔ اور یہ کہ سکندر جلد ہی مر جائے گا لیکن اپنی شہرت ہمیشہ کے لیے چھوڑ جائے گا۔

               ۱۹ اعتبار

سکندر نے سلیشیا میں کئی دن لگا دئیے۔ اس بات سے بھی دارا کا حوصلہ بڑھ گیا کیونکہ وہ یہ سمجھ بیٹھا کہ سکندر اس سے ڈر کر یہ التوا کر رہا ہے لیکن دراصل اس کی وجہ بیماری تھی جو بعض لوگوں کے بیان کے مطابق تھکن کے باعث ہوئی تھی جبکہ کچھ کہتے ہیں کہ اس کی وجہ دریائے سڈنس میں غسل تھا۔

بہرحال کوئی طبیب اس کے علاج پر تیار نہ ہوا کیونکہ انہیں یقین ہو چلا تھا کہ مرض اتنی شدّت اختیار کر چکا ہے کہ دوا کوئی اثر نہیں کر سکے گی اور سکندر مر گیا تو الزام اس کے معالج پر آئے گا۔ البتہ ایک طبیب جو آرکینیا کا رہنے والا تھا اور جس کا نام فیلقوس تھا سکندر کے علاج پر تیار ہو گیا۔ جب اس نے دیکھا کہ اس کا بادشاہ اب صحت کی تمام امید کھوبیٹھا ہے تو اس نے اس بات کو موردِ ملامت خیال کیا کہ اس کے علاج کے لیے اپنا تمام نہ آزمائے اور اپنی جان داؤ پر لگانے کا فیصلہ کر لیا۔ چنانچہ اس نے ایک دوا تیار کی اور سکندر سے کہا کہ اگر وہ اپنی مہم میں پھر پہلی سی سرعت چاہتا ہے تو کوئی وسوسہ اپنے دل میں لائے بغیر دوا پی لے۔

اسی دوران سکندر کو پارمینیو کا پیغام موصول ہوا جس میں پارمینیو نے اسے خبردار کیا تھا کہ اس طبیب سے ہوشیار رہے اور اس کی دوا استعمال نہ کرے کیونکہ شبہ ہے کہ دارا نے اس شخص کو رشوت دے کر سکندر کے قتل پر مامور کیا ہے۔ سکندر نے خط پڑھ کر بغیر اپنے کسی دوست کو دکھائے اپنے تکیے کے نیچے رکھ لیا۔ جب مقررہ وقت پر فیلقوس اُس کے ساتھیوں کے ساتھ دوا کا پیالہ لے کر اس کے پاس آیا تو سکندر نے اسے خط دے دیا اور خوش دلی سے اس کی دوا پی لی۔

 یہ ایک حیران کن منظر تھا بلکہ کسی ڈرامے کا حصہ معلوم ہوتا تھا۔ طبیب خط پڑھ رہا تھا اور مریض اس کی دوا پی رہا تھا اور پھر دونوں ایک دوسرے کی طرف دیکھ رہے تھے اگرچہ اُن کے چہرے کے تاثرات میں بڑا فرق تھا۔  بادشاہ کی دوستانہ مسکراہٹ اس کے دوست فیلقوس کے متعلق اس کے جذبات ظاہر کر رہی تھی اور فیلقوس حیران پریشان کھڑا اپنے اوپر عائد کردہ الزام پر غور کر رہا تھا۔

 اُس نے آسمان کی طرف اپنا ہاتھ بلند کر کے دیوتاؤں کے سامنے اپنی بے گناہی کا اعتراف کیا اور پھر گھٹنوں کے بل سکندر کے سامنے جھک گیا اور اسے مطمئن رہنے کے لیے اور اپنی ہدایت پر عمل کرنے کے لیے کہا۔

پہلے پہل اس دوا نے سکندر کو بے حال کر دیا اور اس کی قوتِ گویائی بھی کچھ دیر کے لیے ختم ہو گئی۔ اس پر غشی طاری ہو گئی اور زندگی کے آثار اس میں مفقود ہوتے چلے گئے۔ فیلقوس جلد ہی اسے ہوش میں لے آیا اور جب اس کی حالت بہتر ہوئی تو وہ مقدونویوں کے سامنے نمودار ہوا کیونکہ اپنے بادشاہ کو خود اپنی آنکھوں سے دیکھے بغیر ان کا اطمینان نہ ہوتا تھا۔

               ۲۰ جنگِ اِسوس

اس وقت دارا کی فوج میں ایک شخص تھا جس کا نام امنٹاس تھا اور یہ مقدونیہ سے دارا کے پاس پناہ لینے آیا تھا۔ اسے سکندر کی فطرت سے خاصی واقفیت حاصل تھی۔ جب امنٹاس کو معلوم ہوا کہ دارا سکندر پر حملہ کرنے کے لیے آگے بڑھ رہا ہے اور پہاڑی علاقوں میں اس سے مقابلہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے تو اس نے دارا سے درخواست کی کہ کھلے میدان میں ہی رہے تاکہ جنگ میں فارسیوں کو اپنی بڑی تعداد سے فائدہ اٹھانے کا موقع مل سکے۔ دارا نے کہا کہ اسے یہ کھٹکا ہے کہ کہیں سکندر واپس نہ بھاگ جائے۔ امنٹاس نے جواب دیا۔

’’عالی قدر کو اس قسم کی کوئی فکر نہیں کرنی چاہئیے۔ سکندر آپ کے مقابلے پر خود ہی آگے بڑھتا رہے گا بلکہ اب تک وہ روانہ بھی ہو چکا ہو گا۔‘‘

دارا نے امنٹاس کی تجویز پر کوئی توجہ نہ دی بلکہ کوچ کیا اور سلیشیا کے صوبے میں داخل ہو گیا۔ سکندر اس کی تلاش میں شام کے علاقے میں پہنچ گیا۔ رات کو وہ ایک دوسرے سے بیخبری کے عالم میں گزر گئے اور پھر واپس پلٹے۔ سکندر اپنی خوش قسمتی پر نازاں جلدی سے اپنے دشمن کی طرف بڑھا تاکہ اسے تنگ گھاٹیوں میں پکڑ سکے۔ دارا بھی اب دوبارہ میدانوں میں پہنچ جانے کو مضطرب تھا۔ ا ب اسے اپنی غلطی کا احساس ہو رہا تھا جو اس نے ایسے علاقے میں اپنی کثیر فوج لا کر کی تھی جہاں ایک طرف سمندر تھا، دوسری طرف پہاڑ اور دریائے پائنارس بھی اس کا راستہ کاٹنے کو موجود تھا۔ اِن چیزوں نے اسے اپنی فوج کو چھوٹی چھوٹی ٹکڑیوں میں تقسیم کرنے پر مجبور کر دیا۔ مزید برآں اُس کی سوار فوج بھی اس علاقے میں بیکار تھی۔ انہی حالات نے اس کے دشمنوں کو فائدہ پہنچایا کیونکہ وہ بہت کم  تعداد میں تھے۔

قسمت نے سکندر کو جنگ کے لیے بالکل موزوں جگہ دے دی تھی لیکن فتح حاصل کرنے میں زیادہ کمال اس کی اپنی صلاحیتوں کا تھا کیونکہ اگرچہ اس کے دشمن اس سے کئی گنا زیادہ تھے اس نے انہیں اس بات کا موقع نہ دیا کہ وہ اس کی فوج کو گھیرے میں لے سکیں ۔ نہ صرف یہ بلکہ اس نے اپنی فوج کے دائیں بازو کے ذریعے جس کی قیادت وہ خود کر رہا تھا دارا کی فوج کے بائیں بازو کو گھیر لیا اور خود سب سے اگلی صف میں لڑتے ہوئے دشمن کی فوج کو کارزار سے فرار ہونے پر مجبور کر دیا۔ اس کوشش میں اسے ران پر تلوار کا زخم بھی آیا۔ چیرز کے بیان کے مطابق یہ زخم دارا نے خود لگایا تھا جس سے سکندر کی دست بدست لڑائی ہوئی۔ سکندر نے انٹیپیٹر کو خط لکھا تو اس میں زخم کا ذکر کیا لیکن یہ نہ بتایا کہ زخم اسے کس نے لگایا۔اس نے صرف اتنا لکھا کہ اسے ران میں خنجر کا زخم لگا لیکن چوٹ خطرناک نہیں تھی۔

اس جنگ کا نتیجہ سکندر کے حق میں ایک شاندار فتح کی صورت میں نکلا(۱۷)۔ اس کے آدمیوں نے دشمن کے ایک لاکھ دس ہزار سپاہی ہلاک کئے لیکن وہ دارا کو گرفتار نہ کر سکے جو فرار ہو گیا۔ البتہ اس کا رَتھ اور کمان ان کے ہاتھ لگ گئے۔

سکندر نے دیکھا کہ اس کے آدمی مالِ غنیمت سمیٹنے میں مصروف ہیں کیونکہ یہ ایک بڑے خزانے کی مانند تھا حالانکہ فارسی اپنے حساب سے اِس جنگ میں کچھ زیادہ سامان نہیں لائے تھے۔ ان کا زیادہ تر سامان دمشق میں پڑا تھا۔ دارا کا خیمہ جس میں کئی خزانے، آرام دہ اور قیمتی ساز و سامان اور کئی چاق و چوبند خدمت گزار شامل تھے سکندر کے لیے رکھ چھوڑا گیا تھا۔ اس نے آتے ہی اپنی زرہ اتاری اور یہ کہتا ہوا دارا کے حمام میں چلا گیا کہ ’’اِس جنگ کا پسینہ دارا کے حمام میں صاف کر لوں !‘‘

’’دارا کا نہیں سکندر کا حمام،‘‘ اس کے ساتھیوں میں سے کسی نے کہا۔ ’’فاتح مفتوح کی تمام ملکیت لے لیتا ہے اور وہ چیزیں اسی کی کہلاتی ہیں ۔‘‘

سکندر حمام میں داخل ہوا تو دیکھا کہ نہانے کے برتن وغیرہ اوردوسری سب چیزیں سونے کی بنی ہوئی ہیں اور ان پر نہایت جانفشانی سے کندہ کاری کی گئی ہے۔ اس نے دیکھا کہ پورے حمام میں خوشبو پھیلی ہوئی ہے اور پھر ایک دوسرے شاندار خیمے میں جو طعام گاہ کا کام دیتا تھا داخل ہوا تو اسے کھانے کی شاندار میزیں نظر آئیں ۔ ان پر اس کے لیے شاندار کھانے چن دئیے گئے تھے۔ وہ اپنے ساتھیوں کی طرف مڑا اور کہا۔

’’ شائد اِسے بادشاہت کہتے ہیں !‘‘

               ۲۱ سلوک

سکندر کھانا شروع کرنے ہی والا تھا کہ اسے دارا کی ماں ، بیوی اور دو غیر شادی شدہ لڑکیوں کے بارے میں بتایا گیا جو اب اس کی قید میں تھیں ۔ جب انہوں نے دارا کی کمان اور رَتھ دیکھی تو رونے لگ گئیں کیونکہ وہ یہ سمجھیں کہ دارا مر گیا ہے۔

سکندر نے یہ سنا تو کچھ دیر کے لیے خاموش ہو گیا۔ اس پر دارا کے لواحقین کے غم کا بہت اثر ہوا تھا اور اپنی فتح کی خوشی پر یہ غم غالب آ گیا تھا۔ پھر اس نے لیوناٹس کو دارا کے لواحقین کے پاس بھیجا کہ وہ انہیں جا کر بتائے کہ دارا مرا نہیں اور انہیں سکندر سے کسی قسم کا خوف کھانے کی کوئی ضرورت نہیں ۔ وہ دارا سے فارس کی سلطنت کے لیے جنگ کر رہا ہے لیکن اس کے خاندان والوں کر ہر وہ سہولت بدستور ملتی رہے گی جو پہلے میسر تھی جب دارا خود بادشاہ تھا۔

یہ فیاضانہ پیغام حرفِ آخر نہ تھا۔ کچھ ہی دیر بعد اس میں یہ اضافہ بھی ہو گیا کہ جنگ میں جو فارسی کام آئے ہیں ان میں سے جن کی لاشیں بھی وہ چاہیں اپنے طور پر دفن کر لیں اور اس کے لیے مقدونویوں کے حصے کے مالِ غنیمت میں سے جو کچھ چاہیں لے لیں ۔ سکندر نے انہیں یہ اجازت بھی دے دی تھی کہ جو نوکر چاکر پہلے ان کی خدمت پر مامور تھے وہ اب بھی ان کے پاس رہ سکتے ہیں ۔اُس نے معزول شاہی خاندان کے لیے وظیفہ بھی مقرر کر دیا۔

لیکن ان شریف اور عزت دار عورتوں کے ساتھ اس کا سب سے زیادہ شریفانہ اور شاہانہ اقدام یہ تھا کہ اس نے اس بات کو یقینی بنایا کہ وہ کبھی کوئی ایسی بات نہ سنیں ، نہ ہی ان کے وہم و گمان میں کبھی کوئی ایسا خوف آئے جس کا تعلق ان کی عزت و ناموس سے ہو۔ وہ سپاہیوں کی نگاہوں اور آوازوں سے دُور رہتی تھیں اور بالکل نہیں معلوم ہوتا تھا کہ وہ دشمنوں کی قید میں ہیں بلکہ ایسا انتظام کیا گیا تھا جیسے وہ کوئی مقدس پجارنیں ہیں ۔ اس اقدام سے سکندر کی شرافت کا ثبوت ملتا ہے اور اس کی وقعت اس لحاظ سے اور بھی بڑھ جاتی ہے کہ دارا کی بیوی کو ایشیا کی حسین ترین عورت تسلیم کیا جاتا تھا جس طرح دارا خود فارس کا سب سے خوبرو اور  دراز قد مرد کہلاتا تھا۔ دارا کی لڑکیاں بھی اپنے ماں باپ کی طرح تھیں ۔

بہرحال یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ سکندر کے نزدیک اپنی نفسانی خواہشات پر قابو پانا دشمن پر قابو پانے سے زیادہ اہم تھا۔ چنانچہ وہ کبھی ان عورتوں کے قریب نہیں آیا اور نہ ہی اپنی شادی سے پہلے کسی اور عورت سے تعلق قائم کیا سوائے ایک عورت کے اور وہ بارسین تھی۔ یہ تنخواہ دار یونانی جرنیل میمنن کی بیوہ تھی اور دمشق سے ہاتھ لگی ۔ اس نے یونانی تعلیم حاصل کی تھی، مہذب طور طریقوں کی مالک تھی اور شاہی خاندان سے تعلق رکھتی تھی کیونکہ اس کا باپ آرٹابازس تھا جس نے فارس کی ایک شہزادی سے شادی کی تھی۔ان سب باتوں نے بھی سکندر کو مائل کیا اور ارسٹوبولس کے مطابق پارمینیو نے بھی حوصلہ افزائی کی کہ ایسی حسین اور عالی نسب عورت سے ضرور تعلق قائم کرنا چاہئیے۔

جہاں تک دوسری عورتوں کا تعلق ہے سکندر نے ان کے حسن اور ان کی شان کو دیکھ کر صرف مزاحاً اتنا کہا، ’’یہ فارسی عورتیں ہماری آنکھوں کے لیے تکلیف دہ ہیں !‘‘ اس نے فیصلہ کیا تھا کہ اپنی پارسائی اور ضبطِ نفس کی نمائش سے ان کے حسن کی چکا چوند کو ماند کر دے گا چنانچہ وہ ان کے پاس سے اس طرح گزر گیا جیسے وہ پتھر کے بے جان بت ہوں ۔

               ۲۲ ضبط

فلوکیسنس جو ساحلی علاقوں پر سکندر کی افواج کا کماندار تھا اس نے سکندر کو خط لکھا کہ ٹارنٹم کے ایک سوداگر تھیوڈورس کے پاس کچھ بہت خوبصورت لڑکے فروخت کے لیے ہیں اور سکندر سے پوچھا کہ کیا وہ انہیں خریدنا چاہے گا؟ سکندر غصے سے بپھر گیا اور اپنے ساتھیوں سے پوچھا، ’’کیا تم نے کبھی مجھ میں کوئی ایسی گندگی دیکھی ہے کہ مجھے اس قسم کی پیشکش کی جائے؟‘‘ پھر اس نے فلوکسینس کو جواب لکھا کہ تھیوڈورس اور اس کی تجارت کے لیے شیطان سے رجوع کرے۔

اس نے ہیگنن کو بھی بہت سختی سے ڈانٹا جو اس کے لیے کروبائلس نامی ایک لڑکا خریدنا چاہتا تھا جو اپنے حسن کے لیے پورے کارِنتھ میں مشہور تھا۔

سکندر کو معلوم ہوا کہ ڈیمن اور ٹائموتھئس جو مقدونوی فوج کے دو سپاہی تھے انہوں نے دشمنوں کے تنخواہ دار یونانی سپاہی کی بیوی کی بے حرمتی کی ہے۔ سکندر نے پارمینیو کو لکھ بھیجا کہ اگر یہ سچ ہو تو ان دونوں کو وحشی درندوں کی طرح ہلاک کیا جائے جن کا کام ہی انسانوں کو اپنی خونخواری کا شکار بنانا ہوتا ہے۔ اسی خط میں اس نے اپنے بارے میں لکھا:

’’مجھے دیکھو، میں نے نہ صرف یہ کہ دارا کی بیوی کو کبھی دیکھا تک نہیں اور نہ اسے دیکھنے کا خواہش مند ہوں بلکہ میں نے اس بات کی بھی اجازت نہیں دی کہ میری موجودگی میں اس کے حسن کی تعریف کی جائے!‘‘

سکندر کہا کرتا تھا کہ نیند اور جنسی عمل ہی اسے اپنے فانی ہونے کا احساس دلاتے ہیں ۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ تھکاوٹ اورلذت دونوں ایک ہی قسم کی انسانی کمزوری سے پیدا ہوتے ہیں ۔

خوراک کے معاملے میں سکندر خاص طور پر خود کو قابو میں رکھتا تھا۔ اس کا اظہار کئی باتوں سے ہوتا ہے، خصوصاً اس جواب سے جو اس نے ملکہ آڈا کو دیا تھا(۱۸)۔ ملکہ آڈا کو وہ ماں کہا کرتا تھا اور اُسے کاریا کی ملکہ بھی بنا دیا تھا۔سکندر پر اپنی شفقت ظاہر کرنے کے لیے ملکہ آڈا روزانہ اُسے لذیذ کھانے بھجواتی۔ آخر ایک دن اس نے چند ماہر نان بائی اور خانساماں سکندر کے پاس بھیجے جنہیں پورے ملک میں بہترین کھانا پکانے کے لیے شہرت حاصل تھی۔ سکندر کا جواب یہ تھا کہ اُسے ان کی ضرورت نہیں کیونکہ اس کے اتالیق لیونیڈس نے اسے ان سے بھی اچھے خانساماں دے رکھے ہیں یعنی یہ اصول کہ رات کو چہل قدمی کی جائے تاکہ ناشتہ اچھا اثر دے، ہلکا ناشتہ کیا جائے تاکہ کھانے کے لیے گنجائش رہے، ’’اور لیونیڈس، ‘‘ سکندر نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا، ’’اکثر میری الماریوں اور بستر وغیرہ کی تلاشی لیتے تھے کہ کہیں میری ماں نے کوئی لذیذ کھانے نہ چھپا رکھے ہوں ۔‘‘

               ۲۳ طعام

سکندر کے بارے میں عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ اسے شراب سے بے اندازہ شغف تھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ نہ تو اسے شراب اچھی لگتی تھی اور نہ ہی پینے کی عادت تھی۔ غلط تاثر اس لیے پڑا کہ جب وہ بالکل فارغ ہوتا اور کرنے کے لیے کوئی کام نہ ہوتا تو اپنا پیالہ دیر تک سامنے رکھے رہتا اور آہستہ آہستہ چسکیاں لیتا رہتا لیکن حقیقت یہ ہے کہ اصل میں وہ شراب پینے کی بجائے اپنے ساتھیوں سے باتیں کرنے میں مصروف ہوتا۔ اسے گپ شپ لڑانے میں بہت مزہ آتا لیکن ایسا وہ صرف تب کرتا تھا جب اسے مکمل فراغت ہوتی اور کرنے کے لیے کوئی کام نہ ہوتا۔ اگر اس کے دماغ میں کوئی کام کرنے کا خیال آ جاتا تو پھر دنیا کی کوئی دلچسپی اسے اس کے راستے سے نہ ہٹا سکتی تھی۔ پھر نہ شراب، نہ نیند، نہ کھیل، نہ عیش اور نہ ہی کوئی اور تماشا اس کی توجہ اپنی جانب مبذول کرسکتا تھا حالانکہ دوسرے جرنیل ان کے پھندے میں باآسانی گرفتار ہو جاتے تھے۔ سکندر کی اس فطرت کا ثبوت اس کا پورا دَورِ حیات ہے جو اتنا مختصر ہونے کے باوجود عظیم ترین اور حیرت انگیز کارناموں سے بھرا پڑا ہے۔

فراغت کے دنوں میں یعنی جب وہ اپنی زندگی حسبِ معمول گزارتا تو صبح اٹھنے کے بعد اس کا پہلا کام دیوتاؤں کو قربانی پیش کرنا ہوتا۔ اس کے بعد وہ ناشتہ کرتا۔ باقی تمام دن مشغولیت کا دار و مدار اس کی طبیعت پر  ہوتا۔ وہ شکار، عدل و انصاف کو برقرار رکھنے، فوجی منصوبے بنانے یا کتابیں پڑھنے میں مشغول ہو جاتا۔ پیش قدمی کے دوران اگر تیزی کی ضرورت نہ ہوتی تو وہ راستے میں نشانہ بازی کرتا جاتا یا پھر چلتے ہوئے رَتھ پر چڑھنے اور اترنے کا شغل کرتا۔ اکثر وہ لومڑ اور پرندے شکار کرتا جیساکہ اس نے اپنے روزنامچوں میں لکھا ہے۔

اس کی عادت تھی رات کا کھانا دیر سے کھاتا جبکہ اندھیرا چھا گیا ہوتا۔ وہ ایک لمبی سی میز پر جھک کر کھاتا اور اس بات کا خاص خیال رکھتا کہ میز پراچھی چیزیں موجود ہوں ، اس کے مہمانوں کا بھی خاص خیال رکھا جائے اور کسی کو نظرانداز نہ کیا جائے۔ جیسا کہ میں پہلے لکھ چکا ہوں وہ دیر تک شراب کی میز پر بیٹھا رہتا محض اس لیے کہ اپنے ساتھیوں سے گپ شپ کرے۔ اگرچہ عام طور پر اس کی محفل عام شہزادوں سے ہر لحاظ سے اچھی ہوتی لیکن بعض اوقات وہ شراب پی کر بہت جارح ہو جاتا۔ اس حالت میں وہ خوشامدیوں کی باتیں بھی سن لیتا۔

جب شراب کی محفل ختم ہوتی تو سکندر غسل کرتا اور سو جاتا۔ اکثر وہ اگلی دوپہر تک سوتا اور بعض اوقات اگلے پورے دن سوتا رہتا۔

جہاں تک لذیذ چیزوں کا تعلق ہے سکندر اس حد تک بے پروا تھا کہ جب اسے نایاب ترین پھل بھی لا کر دئیے جاتے تو وہ انہیں بھی نہایت فراخدلی سے اپنے ساتھیوں میں بانٹ دیتا اور اکثر خود اس کے لیے کچھ نہ بچتا۔ البتہ اس کے رات کے کھانے پر بہت خرچ آتا تھا لیکن یہ خرچ اس لیے نہ ہوتا تھا کہ خود اسے زبان کی لذتوں کی کچھ پروا تھی۔ یہ خرچ مہمانوں اور ساتھیوں کی تواضع میں آتا۔ جوں جوں اس کی سلطنت بڑھتی گئی یہ خرچ بھی بڑھتا گیاحتیٰ کہ رات کے کھانے پر صرف ہونے والی رقم دس ہزار سکوں تک پہنچ گئی۔ تب سکندر نے حد مقرر کی اور جن لوگوں کے ذمے انتظام تھا انہیں بتا دیا گیا کہ اس حد سے آگے نہیں بڑھنا ہے۔

               ۲۴ صور کا محاصرہ

جنگِ اسوس کے بعد سکندر نے ایک بڑی فوج کو دمشق روانہ کیا اور فارسی افواج کے تمام خزانوں اور ساز و سامان پر قبضہ کر لیا۔ ان کے خاندان والے بھی قید میں آ گئے۔ اس موقعے پر سب سے زیادہ حصہ تھسلی کے سواروں کو ملا۔ انہوں نے جنگِ اسوس میں بہت شاندار کام دکھایا تھا لہٰذا سکندر نے یہی سوچ کر انہی کو اس مہم پر بھیجا تاکہ انہیں اس شاندار کارنامے کا انعام مل جائے۔ لیکن مالِ غنیمت اتنا زیادہ تھا کہ پوری فوج کو امیر کر دینے کے لیے کافی تھا۔

 مقدونویوں نے اتنی دولت و عشرت یہیں پر پہلی دفعہ دیکھی اور اس کے بعد تو وہ شکاری کُتّوں کی طرح فارسیوں کا تعاقب کرنے لگے۔

لیکن یہ خواہش بھی سکندر کو اپنے ارادے سے باز نہ رکھ سکی۔ وہ فیصلہ کر چکا تھا کہ ملک میں اندر کی جانب بڑھنے سے پہلے ساحلی علاقے حاصل کرے گا۔ قبرص کا بادشاہ خود اس کے پاس آیا اور جزیرہ اس کے حوالے کر دیا۔ تمام فونیقیوں نے بھی سکندر کی اطاعت قبول کر لی البتہ صور کے قلعے والے بدستور ڈٹے رہے۔ سکندر نے سات ماہ تک صور کا محاصرہ کئے رکھا(۱۹)۔ اس دوران وہ منجنیقیں اور ایسی ہی دوسری چیزیں بنواتا رہا جن سے قلعے کی دیوار پر ضرب لگائی جا سکے۔

محاصرے کے دوران اس نے خواب میں دیکھا کہ قلعے کے اندر سے ہرکولیس نے ہاتھ باہر نکالا ہے اور اسے اندر آنے کا اشارہ کر رہا ہے۔ صور کے کئی باشندوں نے بھی خواب میں اپالو دیوتا کو دیکھا کہ وہ کہہ رہا ہے، ’’میں یہ شہر سکندر کے حوالے کر رہا ہوں کیونکہ شہر میں جو کچھ ہوا ہے میں اس سے ناخوش ہوں ۔‘‘ اس پر شہریوں نے اپنے دیوتا کو غدار سمجھنا شروع کر دیا۔ انہوں نے اس کے مجسمے کو رسیوں سے باندھا، اُس میں میخیں ٹھونکیں اور اسے سکندر کا طرفدار ہونے کو الزام دیا۔

سکندر نے ایک اور خواب بھی دیکھا وہ یہ کہ ساٹائر اُس کا مذاق اڑا رہا ہے۔ سکندر اسے پکڑنے بھاگا ہے اور وہ بچنے کی کوشش کررہا ہے لیکن پھر خود کو سکندر کے حوالے کر دیا ہے۔ کاہنوں نے ساٹائر کو دو یونانی لفظوں ’’سا-ٹائر‘‘ میں تقسیم کر دیا۔ ان کا مطلب تھا، ’’ٹائر تمہارا ہو جائے گا!‘‘ آج کے زمانے میں بھی اُس علاقے کے باشندے ایک کنواں دکھا کر بتاتے ہیں کہ اِسی کنویں کے قریب سکندر نے یہ خواب دیکھا تھا۔

محاصرے کے دوران سکندر نے عرب قبائل کے خلاف بھی اپنی فوج کا ایک حصہ بھیجا۔ یہ قبیلے انٹی لبنان کے پہاڑوں میں رہتے تھے۔ اس مہم کے دوران ایک موقعے پر لائکیمیکس کی جان بچانے کے لیے سکندر کو خود اپنی زندگی خطرے میں ڈالنی پڑی۔ لائکیمیکس نے اس کے ساتھ جانے پر اصرار کیا تھا اور یہ دلیل پیش کی تھی کہ وہ ایکیلیز کے اتالیق فیونکس سے زیادہ کمزور اور بوڑھا نہیں ۔ پہاڑوں کے قریب پہنچ کر فوج گھوڑوں سے اتر پڑی اور پیدل چلنے لگی۔ فقج کا زیادہ حصہ آگے نکل گیا۔ لائکیمیکس تیز نہ چل سکا اور پیچھے رہ گیا لیکن سکندر نے اس کا ساتھ چھوڑنے سے انکار کر دیا کیونکہ اندھیرا چھا رہا تھا اور دشمن قریب ہی تھا۔

سکندر کے ساتھ صرف مٹھی بھر سپاہی تھے اور اس سے قبل کہ اسے اس بات کا احساس ہو سکتا وہ بقیہ فوج سے کٹ چکا تھا۔ اب اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ یہ سرد رات ایک ایسے بنجر علاقے میں گزاری جائے جہاں کوئی پناہ نہ تھی۔ آخرکار اسے کچھ فاصلے پر کچھ الاؤ جلتے نظر آئے۔ یہ دشمن کے سپاہیوں کا پڑاؤ تھا۔

سکندر کی عادت تھی کہ پریشان کن صورتحال میں ہمیشہ خود خطرے میں کود پڑتا تاکہ مقدونویوں کا حوصلہ بلند ہو۔ یہاں بھی وہ اپنی تیزی اور پھرتی پر انحصار کرتے ہوئے دشمن کے پڑاؤ پر چڑھ دوڑا۔ دو سپاہی آگ کے پاس بیٹھے تھے۔ اُن پر خنجر سے حملہ کیا اور کام تمام کر دیا۔ پھر آگ لے کر اپنے ساتھیوں میں لوٹ آیا۔ انہوں نے جلد ہی اتنی تیز آگ روشن کر دی کہ دشمن خوفزدہ ہو گیا اور بھاگ نکلا۔ بقیہ رات مقدونویوں نے بیخوفی سے گزار دی۔

کیریز نے یہ واقعہ اِسی طرح بیان کیا ہے۔

               ۲۵ غزہ کی فتح

بالآخر اس محاصرے کا اختتام کچھ اس طرح ہوا۔

سکندر کی فوج کا بڑا حصہ اس کی اجازت سے آرام کر رہا تھا۔ سکندر کو احساس تھا کہ یہ لوگ پچھلے دنوں ہونے والی لڑائیوں کی وجہ سے سخت تھک گئے ہیں ۔ لیکن وہ یہ بھی جانتا تھا کہ دشمن پر یہ بات ظاہر نہیں ہونی چاہئیے۔ چنانچہ وہ اپنی فوج کے ایک چھوٹے سے حصے کو ساتھ لے کر قلعے پر حملہ آور ہوا۔ اسی دوران میں اس کے کاہن ارسٹانڈر نے قربانی دی اور پھر شگون دیکھنے کے بعد حاضرین کو پورے یقین کے ساتھ بتایا کہ یہ شہر اسی ماہ فتح ہو جائے گا۔ اس بات پر لوگ ہنسنے لگے کیونکہ اس دن مہینے کی آخری تاریخ تھی۔ بادشاہ (سکندر)  نے جب یہ دیکھا تو اعلان کر دیا کہ اس تاریخ کو تیس نہ گنا جائے بلکہ اٹھائیسویں سمجھا جائے۔

طبل بجا اور سکندر نے پہلے سے طے شدہ منصوبے سے کہیں زیادہ زوردار حملہ کیا۔ لڑائی زور پکڑ گئی حتیٰ کہ وہ دستے جو آرام کر رہے تھے ان کے لیے خاموش تماشائی بنے رہنا ناقابلِ برداشت ہو گیا۔ وہ بھی یلغار کرتے ہوئے اپنے ساتھیوں کی مدد کو آن پہنچے اور صور والوں نے ہتھیار ڈال دئیے۔ اس طرح سکندر نے اسی روز شہر فتح کر لیا۔

اُسی سال خزاں میں اس نے غزہ کا محاصرہ کر لیا(۲۰)۔ یہ شام کے تمام شہروں سے زیادہ اہم تھا۔ اسی اثنا میں ایک پرندہ اس کے سر پر منڈلانے لگا اور ایک کنکر پھینکا جو اس کے کاندھے پر لگا۔ پھر یہ پرندہ اُڑ کر منجیق پر جا بیٹھا اور اس کی رسیوں میں الجھ گیا۔

ارسٹانڈر نے جو شگون نکالا وہ اس دفعہ بھی پورا ہوا یعنی غزہ فتح ہو گیا لیکن جنگ کے دوران سکندر کے کندھے پر چوٹ آئی۔ غزہ سے ملنے والے مالِ غنیمت کا ایک بڑا حصہ اس نے اپنی ماں اولمپیاس، اپنی بہن قلوپطرہ اور اپنے دوستوں کو بھجوا دیا۔ اُسے اپنا اتالیق لیونیڈس بھی یاد تھا۔ اُسے سکندر نے پانچ سو ٹیلنٹ کے برابر خوشبو اور ایک سو ٹیلنٹ کے برابر لوبان بھیجا(۲۱)۔ یہ گویا لیونی دس کی اس لگن کا اعتراف تھا جس کے ساتھ اس نے بچپن میں سکندر میں امنگیں بیدار کرنے کی کوشش کی تھی۔ بچپن میں ایک دن جب سکندر مٹھیاں بھر بھر کر لوبان قربانی کے لیے آگ میں ڈال رہا تھا تو لیونیڈس نے اس سے کہا تھا، ’’سکندر، جب تم وہ علاقے فتح کر لو جہاں سے یہ خوشبوئیں لائی جاتی ہیں تب جتنی چاہو خرچ کرنا لیکن اس وقت تک اعتدال برتو!‘‘

اب سکندر نے اسے لکھا، ’’میں نے یہ خوشبوئیں آپ کو خاصی مقدار میں بھیج دی ہیں تاکہ آپ کو دیوتاؤں سے بخل نہ کرنا پڑے۔‘‘

               ۲۶ سکندریہ

ایک دن سکندر کے پاس ایک صندوقچی لائی گئی۔ جن لوگوں کے پاس دارا کا شاہی سامان تھا ان کا کہنا تھا کہ یہ صندوقچی سب سے زیادہ قیمتی ہے۔ سکندر نے اپنے ساتھیوں سے پوچھا کہ اُسے اپنی قیمتی چیزکے طور پر کس چیز کو اس میں رکھنا چاہئے جو اس کے شایانِ شان ہو۔ دوستوں نے مختلف مشورے دئیے۔ بالآخر سکندر نے کہا، ’’میں نے اس میں ایلئڈ رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ‘‘ کئی مستند تاریخوں سے اس واقعے کی تصدیق ہوتی ہے۔

جب سکندر نے مصر فتح کر لیا تو اسے وہاں ایک شہر آباد کرنے کا شوق ہوا جو اس کے نام سے مشہورہو۔ اس نے معماروں اور انجینئروں کے مشورے سے ایک جگہ پسند کر لی اور اب زمین پر نشان لگانے کا مرحلہ باقی تھا۔ ایسے میں سکندر کی آنکھ لگ گئی۔ خواب میں اس نے ایک بوڑھے آدمی کو دیکھا جو اس کے سرہانے کھڑا ہومر کی نظم اوڈیسی کا یہ حصہ پڑھ رہا تھا:

’’اچھلتے سمندر سے، جب وہ مصر کے ساحل پہ بکھرتا ہے،

ایک جزیرہ نکلتا ہے جسے لوگ فیروس کہتے ہیں ۔۔۔‘‘

اگلی صبح بیدار ہوتے ہی سکندر فیروس دیکھنے گیا۔ اس وقت سے پہلے تک یہ جزیرہ تھا لیکن سکندر نے اسے زمین سے ملا دیا۔ وہ اس جگہ سے بہت متاثر ہوا اور کہنے لگا کہ ہومر میں دوسری خصوصیات کے ساتھ شائد فن تعمیر کی دوراندیشی بھی تھی!

یہ کہہ کر اس نے حکم دیا کہ شہر کا نقشہ اس جگہ کی مناسبت سے بنایا جائے۔ اس وقت اتفاق سے کوئی ایسی چیز موجود نہیں تھی جسے زمین پر نقشے کے مطابق نشان لگایا جا سکتا چنانچہ جَو نکالا گیا اور اسے زمین پر چھڑک کر ایک نصف دائرہ لگایا گیا۔ پھر اس کے اندر لکیریں کھینچی گئیں ۔ یہ شکل فوجیوں کے گھاگھروں سے مشابہ تھی۔

بادشاہ اس نقشے کو دیکھ کر محظوظ ہو رہا تھا کہ دریا کی جانب سے پرندوں کے جھنڈ آئے اور تمام جَو چُگ لیا۔ سکندر اس شگون سے بہت پریشان ہوا لیکن کاہنوں نے تسلی دی اور پھر اس واقعے سے یہ شگون نکالا کہ یہ شہر نہ صرف خود کفیل ہو گا بلکہ دوسری کئی اقوام کے لوگوں کو بھی ضروریاتِ زندگی مہیّا کرے گا۔ یہ سن کر سکندر نے معماروں کو کام جاری رکھنے کا حکم دیا اور خود دیوتا آمون کا مندر دیکھنے کے لیے روانہ ہو گیا(۲۲)۔

یہ سفر بہت طویل اور تکلیف دِہ تھا اور اس میں دو بڑی دقتیں تھیں ۔ پہلی تو یہ کہ رستے میں دُور دُور تک پانی کا نام و نشان تک نہ تھا اور دوسری مصیبت ریت کے طوفان تھے۔ جنوبی ہوا اگر طوفانی شکل اختیار کر لیتی تو مسافر کا نام و نشان مٹ جاتا جیسا کہ کافی عرصہ پہلے کمبیسس کی فوج کے ساتھ ہوا تھا کہ طوفانی ہواؤں سے ریت کے ٹیلے بکھر کے اُڑے اور جب دوبارہ قائم ہوئے تو کمبیسس کے چپاس ہزار آدمیوں کو نگل چکے تھے۔

یہ خدشے سکندرکے تقریباً تمام ساتھیوں کے ذہن میں تھے لیکن سکندر ایک دفعہ جو بات دل میں ٹھان لیتا پھر اُسے اُس سے ہٹانا بہت مشکل ہوتا۔ تقدیر نے ہمیشہ اس کی ضد کے سامنے ہتھیار ڈالے تھے اور یوں سکندر کے فیصلے اور زیادہ اٹل ہو گئے تھے۔ جس ولولے کے ساتھ وہ غیر معمولی کاموں میں کود پڑتا اس کی وجہ سے اسے خطرات سے کھیلنے میں لطف آنے لگا تھا۔ آخر میں اس نے نہ صرف تمام دشمنوں کو شکست دی تھی بلکہ موسم اور فطری رکاوٹوں پر بھی غلبہ حاصل کر لیا تھا۔

               ۲۷ سوالات

بہرحال اس سفر میں سکندر کو دیوتاؤں کی جانب سے بھی مد د ملی اور شائد اسی وجہ سے لوگوں نے وہ شگون فوراً درست مان لیے جو اس سفر کے بعد ملے۔

دیوتاؤں کی جانب سے پہلی مدد تو یہ تھی کہ رستے میں بارش ہوتی رہی اور اس طرح پانی کی قلت دُور ہو گئی۔

دوسری مدد یہ ملی کہ اس بارش کی وجہ سے ریت سخت اور بھاری ہو کر زمین پر جم گئی اور ریت کے بگولوں کا خطرہ باقی نہ رہا۔ اس کے علاوہ بارش کی وجہ سے اس سفر کے رہنماؤں کو راستے کا اندازہ نہ رہا اور وہ  راستے سے بھٹک گئے تو کچھ کوّے نمودار ہو کر ان کے آگے آگے اُڑنے لگے۔ سپاہی ان کوّوں کے پیچھے چل پڑے۔ جب سپاہی تیز چلتے تو کوّے بھی تیز تیز اُڑنے لگتے اور جب سپاہی تھک کر رکتے تو کوّے بھی رک جاتے۔ اور سب سے عجیب بات تو یہ تھی کہ کلستھنیزکے بیان کے مطابق اگر کبھی رات کے وقت کوئی دستہ یا سپاہی بے خبری میں رستے سے دور ہٹنے لگتا تو کوّے کائیں کائیں کرنے لگتے اور اس وقت تک بولتے رہتے جب تک کہ سپاہی واپس نہ لوٹ آتے۔

صحرا عبور کر کے جب سکندر عبادت گاہ میں پہنچا تو سب سے بڑے پجاری نے دیوتاکی طرف سے اُس کا استقبال یوں کیا جیسے باپ بیٹے کا کرتا ہے۔

 سکندر نے سب سے پہلے یہ پوچھا کہ اس کے باپ کے قاتلوں میں سے کوئی ایسا بھی ہے جو اپنی سزا سے بچ گیا ہو؟ پجاری نے یہ کہتے ہوئے وضاحت چاہی، ’’تمہارا باپ تو غیر مرئی ہے یہاں باپ سے تمہاری کیا مراد ہے؟‘‘

اس پر سکندر نے اپنے سوال کو یوں دہرایا کہ کیا فیلقوس کے قاتل اپنی سزا پا چکے ہیں ؟اس کے ساتھ ہی اس نے ایک سوال اپنی سلطنت کے متعلق بھی کیا کہ کیا تمام انسانوں پر حکومت اس کے مقدر میں لکھی جا چکی ہے؟

پجاری نے دیوتا کا جواب اسے بتایا کہ اس کی یہ خواہش ضرور پوری ہو گی اور فیلقوس کے قتل کا انتقام بھی پوری طرح لیا جا چکا ہے۔ اس موقعے پر سکندر نے دیوتا کی خدمت میں انتہائی شاندار نذر دی اور اس کے پجاریوں کو خطیر رقم کا تحفہ دیا۔

زیادہ تر مصنفین کا یہی بیان ہے البتہ سکندر نے اپنی ماں کو جو خط لکھا اس میں اس نے لکھا۔

’’مجھے چند خفیہ بشارتیں ملی ہیں جو میں صرف آپ ہی کو بتاؤں گا لیکن واپس آنے کے بعد!‘‘

مصر میں قیام کے دوران سکندر نے وہاں کے فلسفی سامن کی باتیں بھی سنیں اور اس کے اس نظریے کو بہت پسند کیا کہ تمام انسان خدا کے زیرِ اثر ہیں کیونکہ تخلیق اور برتری کا مادّہ ایک الٰہی قوت ہے۔ اس سے بھی زیادہ فلسفیانہ خود سکندر کا اپنا نظریہ تھا کہ چونکہ خدا تمام انسانوں کا خالق ہے اس لے سب سے بہتر اور برتر انسان وہ ہے جسے خدا اپنی صفات سے نوازے۔

               ۲۸ دیوتا کی اولاد

اجنبی اقوام کے ساتھ سکندر اپنا رویہ فاتحانہ رکھتا اور برتری ظاہر کرتا جیسے اسے یہ احساس ہو کہ وہ دیوتا کا بیٹا ہے لیکن یونانیوں کے درمیان وہ شاذونادر ہی ایسا کرتا۔ البتہ اس نے ایتھنز والوں کو ساموس کے بارے میں جو خط لکھا اس سے یہ احساس جھلکتا تھا:

’’میں وہ آزاد اور شاندار شہر کبھی تمہارے حوالے نہ کرتا لیکن آج اگر تم اس پر حکومت کر رہے ہو تو یہ محض اس کی وجہ سے ہو جو تمہارا آقا تھا، وہ جو میرا باپ کہلاتا ہے!‘‘

آخری الفاظ میں سکندر نے فیلقوس کی طرف اشارہ کیا تھا۔ البتہ چند برس بعد جب سکندر ایک تیر سے زخمی ہوا تو اُس نے کہا۔

’’یہ سیال جو میرے جسم سے بہتا نظر آ رہا ہے لہو ہے، وہ اِقر نہیں ہے جو آسمانوں کی مقدس غیر مرئی آبادی رگوں میں دوڑتا ہے۔ ‘‘

ایک اور موقعے پر بجلی کی کڑک سن کی فلسفی انکسارکس نے سکندر سے کہا۔

’’ آپ دیوتا زیوس کے بیٹے ہیں تو کیا آپ بھی ایسی آواز نکال سکتے ہیں ؟‘‘

سکندر یہ سن کر ہنسا اور کہنے لگا۔

’’میں اپنے ساتھیوں کو خوفزدہ نہیں کرنا چاہتا کیونکہ اگر تمہاری بات مان لی جائے تو پھر میری میز پر مچھلیوں کی بجائے بادشاہوں کے سر ہونے چاہئیں ۔‘‘

اس جملے میں سکندر نے انکسارکس کی اس بات کی طرف اشارہ کیا تھا جو اس نے ایک موقعے پر کہی تھی جب سکندر نے ہیفا اسشن کو مچھلی کا تحفہ بھیجا تھا۔

بہرحال مندرجہ بالا باتوں سے ثابت ہوتا ہے کہ دیوتا کی اولاد ہونے کے احساس نے سکندر میں خودسری یا غرور پیدا نہیں کیا تھا جو اس کی عقل اور انسانیت سلب کر لیتا بلکہ اس بات کو وہ صرف اپنی برتری برقرار رکھنے کے لیے استعمال کرتا تھا۔

 

               ۲۹ سکندر اور پارمینیو

مصر سے فونیقیا واپس آ کر سکندر نے دیوتاؤں کے اعزاز میں قربانیاں دیں اور جشن منائے۔ اس نے گانوں اور ڈراموں کے مقابلے بھی منعقد کروائے۔ یہ بہت شاندار تھے۔ نہ صرف اس لحاظ سے کہ ان کے اہتمام میں بہت شان و شوکت سے کام لیا گیا تھا بلکہ اس لیے بھی کہ ان میں حصہ لینے والے خاصی اہمیت کے حامل تھے۔ جس طرح ایتھنز میں اس قسم کے جشن میں اکابرینِ شہر حصہ لیتے تھے اُسی طرح اسموقعے پر قبرص کے بادشاہان شامل تھے جو ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے لیے شاندار کوشش کر رہے تھے۔ سب سے زیادہ قابلِ دید مقابلہ سالیمس کے حاکم نکاکریون اور سَولی کے حاکم پاسیکریٹس کے درمیان ہوا تھا۔ ان دونوں کو دو بہترین اداکاروں کی خدمات حاصل تھیں ۔ ان اداکاروں میں سے ایک کا نام اتھینوڈورس اور دوسرے کا نام تھسالس تھا۔ پہلا اداکار پاسیکریٹس کو اور دوسرا نکاکریون کو دیا گیا۔

سکندر تھسالس کا طرفدار تھا لیکن اس نے ایسی کوئی بات اس وقت تک ظاہر نہیں ہونے دی جب تک منصفین نے مقابلے کے نتیجے کا فیصلہ نہیں کر دیا۔ یہ فیصلہ منصفین کی بھاری اکثریت سے اتھینوڈورس کے حق میں تھا۔ تھیٹر سے نکلتے ہوئے سکندر نے کہا کہ وہ فیصلہ قبول کرتا ہے لیکن تھسالس کو شکست کھاتے دیکھنے کے مقابلے میں اپنی سلطنت کا ایک حصہ دے دینا اسے زیادہ گوارا ہوتا!

تاہم جب ایتھنز والوں نے اس الزام کے تحت اتھینوڈورس پر جرمانہ عائد کیا کہ اس نے معاہدے کے باوجود ڈیانیسس کے جشن میں شرکت نہیں کی اور وہ سکندر سے سفارش کروانے آیا تو سکندر نے اگرچہ یہ درخواست مسترد کر دی لیکن اس کا جرمانہ اپنی طرف سے ادا کر دیا۔

لائکن جس کا تعلق سکارنئیا سے تھا ایک دفعہ اس نے سکندرکے سامنے اداکاری کے مظاہرے کے دوران طربیہ ڈرامے میں اپنی طرف سے ایک سطر کا اضافہ کر دیا جس میں دس ٹیلنٹ کے لیے درخواست کی گئی تھی۔ سکندر ہنسا اور اسے دس ٹیلنٹ دے دئیے۔

دارا نے سکندر کے نام خط لکھ کر اپنے کچھ دوستوں کے ہاتھ بھیجا(۲۳)۔ اس میں اس نے سکندر سے درخواست کی تھی کہ یرغمالیوں کے بدلے دس ہزار ٹیلنٹ کا ہرجانہ قبول کر لے۔ اس نے سکندر کو دریائے فرات کے مغرب کے تمام علاقے کی پیشکش کرتے ہوئے کہا کہ اگر سکندر واپس چلا جائے تو دارا اپنی لڑکی کی شادی اس سے کر دے گا اور آئندہ کے لیے دارا اور سکندر آپس میں دوست بن جائیں گے۔

سکندر نے یہ پیشکش اپنے ساتھیوں اور فوج کے افسروں کو سنائی اور اس کے متعلق مشورہ طلب کیا۔ اس پر پارمینیو نے کہا۔

’’اگر میں سکندر ہوتا تو میں یہ پیشکش قبول کر لیتا!‘‘

سکندر نے برجستہ جواب دیا۔

’’زیوس کی قسم! میں بھی قبول کر لیتا اگر میں پارمینیو ہوتا!‘‘

جواب میں اس نے دارا کو لکھ بھیجا کہ اگر وہ ہتھیار ڈال دے اور خود کو سکندر کے حوالے کر دے تو اسے تمام مراعات ملیں گی۔ بصورتِ دیگر سکندر اس پر حملہ کرنے ہی والا ہے۔

               ۳۰ دارا کی دُعا

لیکن کچھ ہی عرصہ بعد جب دارا کی ملکہ بچے کی پیدائش کے دوران مر گئی تو سکندر کو اپنے سخت جواب پر بہت افسوس ہوا۔ اُسے اس بات کا پچھتاوا تھا کہ اس نے اس موقعے پر فیاضی کیوں نہ برتی۔ چنانچہ اس نے ملکہ کے جنازے اور تدفین میں پورا اعزاز اور شان و شوکت برتنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔

ٹیریوس نامی ایک خواجہ سرا جو ملکہ کے ساتھ ہی گرفتار ہوا تھا کسی طرح فرار ہو گیا۔ وہ گھوڑے پر سوار ہو کر دارا تک جا پہنچا اور اسے ملکہ کی موت کی خبر دی۔ یہ خبر سن کر دارا سر پیٹنے لگا اور غم سے نڈھال ہو کر اپنی قسمت کو کوستے ہوئے بولا۔

’’یہی ستم کیا کم تھا کہ اس کی زندگی قید میں گزری۔ اب مرنے پر وہ تدفین کے شاہی اعزازات سے بھی محروم رہ گئی!‘‘

’’جہاں تک اُن کی تدفین کا تعلق ہے،‘‘ خواجہ سرا بولا۔ ’’اور وہ تمام اعزازات جو ان کے مرتبے کے شایانِ شان تھے ان کے لیے آپ کو افسوس کرنے کی ضرورت نہیں ۔ آپ کی ملکہ سٹاٹیرا جب تک وہ زندہ تھیں اور آپ کی والدہ اور بیٹیاں کسی ایسی چیز سے محروم نہیں کی گئیں جو انہیں پہلے حاصل تھیں ، سوائے آپ کے سایۂ پر جلال و شفقت کے جو یزداں نے چاہا تو بہت جلد انہیں دوبارہ مل جائے گا، اپنے سابقہ وقار و عروج کے ساتھ! نہ صرف یہ کہ مرنے کے بعد ملکۂ عالیہ کی تدفین میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی بلکہ ان کے اعزاز میں ان کے دشمنوں کے آنسو بھی شامل تھے۔ سکندر جنگ میں جتنا خطرناک ہے فتح کے بعد اتنا ہی فیاض اور شریف ہے۔‘‘

یہ سن کر دارا کی حالت اور بھی قابلِ رحم ہو گئی کیونکہ اس نے خواجہ سرا کی بات کا غلط مطلب لیا تھا اور اب اس کے ذہن میں انتہائی اذیت ناک شکوک پیدا ہو گئے تھے۔ وہ خواجہ سرا کو اپنے خیمے کے ایک کونے میں لے گیا اور بولا۔

’’اگر تم بھی کشورستانِ فارس کی طرح میرا ساتھ چھوڑ کر مقدونویوں کے ساتھ نہیں ہو گئے اور اگر تم مجھے، دارا کو، اب بھی اپنا بادشاہ اور آقا تسلیم کرتے ہو تو مجھے بتاؤ، کیا اُس کی موت اس کی دوسری بدقسمتی سے کم نہیں تھی؟ کیا اس کی زندگی میرے لیے اس کی موت سے زیادہ باعثِ ذلّت نہیں تھی؟ کیا میری تقدیر اُس صورت میں کچھ بہتر نہ ہوتی اگر میرا ٹکراؤ کسی زیادہ اجڈ اور درندہ صفت دشمن سے ہوا ہوتا کیونکہ ایک نوجوان شخص کا سلوک اپنے دشمن کی بیوی کے ساتھ با عزت کس طرح ہو سکتا ہے؟‘‘

دارا کی بات جاری تھی کہ ٹیریوس اس کے قدموں میں گر پڑا اور اس سے درخواست کی۔

 ’’ایسا نہ کہئیے!سکندر کے متعلق ایسی باتیں نہ کیجئیے اور نہ ہی اپنی مرحوم ملکہ کو باعثِ شرمندگی سمجھئیے۔ اس یقین کو اپنی عداوت کی نذر نہ کیجئیے جو آپ کے لیے سب سے بڑی تسلی ہے یعنی یہ کہ جس دشمن کو آپ پر غلبہ  حاصل ہوا ہے اس کے کام اُسے انسانی سطح سے کہیں زیادہ بلند کر دیتے ہیں ۔ بے شک سکندر نے جو شرافت فارسی عورتوں کے معاملے میں دکھائی ہے وہ اس شجاعت سے کہیں بڑھ کر ہے جو اس نے ان کے شوہروں کے خلاف دکھائی۔‘‘

اپنے بیان کو سچ ثابت کرنے کے لیے خواجہ سرا نے بڑی بڑی قسمیں کھائیں اور سکندر کی فیاضی، شرافت اور اپنے نفس پر ضبط کے کئی واقعے بھی سنائے۔ دارا اپنے ساتھیوں میں گیا اور اپنے ہاتھ آسمانوں کی طرف بلند کرتے ہوئے با آوازِ بلند یہ دعا کی۔

’’اے میری قوم اور سلطنت کے دیوتاؤ! مجھے فارس کی سلطنت اُسی عروج کے ساتھ واپس دلوا دو جس طرح تم نے پہلے عطا کی تھی تاکہ میں سکندر کے اُن احسانات کا بدلہ دوں جو اس نے مجھ پر اس وقت کیے ہیں جبکہ میں ان تمام چیزوں سے محروم ہو چکا ہوں جو مجھے عزیز ہیں ۔ لیکن اگر وہ وقت آ گیا ہے جب فارس کی حکومت کا خاتمہ مقدر بن چکا ہے اور اگر ہمارا زوال ایک ایسا قرض بن چکا ہے جو ہم نے بہرصورت دیوتاؤں کی مرضی کے مطابق تغیر کے قانون کو ادا کرنا ہے تو میری یہ دعا ہے کہ کوروش کے تخت پر سکندر کے سوا کوئی نہ بیٹھے!‘‘

زیادہ تر مورخین اس موقعے پر ہونے والی باتوں اور واقعات کے بارے میں اُس بیان سے اتفاق کرتے ہیں جو یہاں درج کیا گیا ہے۔

               ۳۱ گاگامیلہ

دجلہ اور فرات کے درمیانی علاقے جو اس کی راہ میں پڑتے تھے فتح کرنے کے بعد سکندر دوبارہ دارا کے خلاف روانہ ہوا۔ دارا بھی دس لاکھ سپاہیوں کے ساتھ سکندر سے مقابلہ کرنے کے لیے بڑھا(۲۴)۔

 اس پیش قدمی کے دوران سکندر کے ساتھیوں نے اسے بتایا کہ کچھ سپاہیوں نے تفریحاً خود کو دو گروہوں میں بانٹ کر ایک کے سردار کا نام سکندر اور دوسرے کے سردار کا نام دارا رکھا گویا یونانی اور فارسی فوج کی تمثیل پیش کی گئی۔ پہلے یہ دونوں ’’فوجیں ‘‘ مٹی کے ڈھیلوں سے لڑتی رہیں ۔ پھر مکّا بازی شروع ہوئی اور پھر یہ لڑائی جوش پکڑ گئی۔ کئی دوسرے سپاہی بھی اس میں شامل ہوتے گئے حتیٰ کہ ایسا ہجوم ہو گیا جسے علیٰحدہ کرنا مشکل تھا۔

سکندر کو اس کی خبر ہوئی اس نے حکم دیا کہ صرف سرداروں کی لڑائی ہو یعنی ’’سکندر‘‘ اور ’’دارا‘‘ کی! اپنے ہمنام کو اس نے زرہ اور ہتھیار دئیے اور فلوٹس نے دارا کہلانے والے کو۔ تمام فوج اس مقابلے کو دیکھ رہی تھی اور انہیں احساس تھا کہ اس کی حیثیت شگون کی سی ہے۔ سخت مقابلے کے بعد بالآخر سکندر کا ہمنام جیت گیا اور اسے بارہ گاؤں بطور انعام ملے۔ کم از کم اراٹستھنیز نے یہ قصہ بیان کیا ہے۔

دارا کے خلاف لڑی گئی خونریز جنگ اربیلہ کے مقام پر نہیں ہوئی تھی، جیسا کہ اکثر مورخین کو غلط فہمی ہے۔ یہ جنگ گاگامیلہ کے مقام پر ہوئی تھی۔ گاگامیلہ کے لفظی معنی ’’خانۂ اشتر‘‘ کے ہیں ۔ فارس کا ایک قدیم بادشاہ دشمنوں سے بچ کر اس علاقے میں پہنچا تھا تو اس نے اپنے تیز رفتار اونٹ کو یہاں ٹھہرایا اور اس کے لیے کئی دیہاتوں کی پیداوار کا ذخیرہ کر دیا۔

اتفاق سے تقریباً اُسی موقعے پر جب ایتھنز میں جشن شروع ہونے والا تھا چاند کو گرہن لگ گیا(۲۵)۔ اس گرہن کے بعد گیارہویں رات کو دارا نے اپنے سپاہیوں کو ہتھیار باندھنے اور جنگی ترتیب میں رہنے کا حکم دیا۔ دونوں فوجیں آمنے سامنے تھیں ۔ دارا کی فوج میں مشعلیں روشن کر دی گئیں ۔ سکندر نے اپنے سپاہیوں کو آرام کرنے کے لیے کہا لیکن خود تمام رات اپنے خیمے کے سامنے بیٹھا رہا۔ ارسٹانڈر بھی اس کے پاس تھا اور سکندر نے اس کے ساتھ مل کر عبادت کی اور دیوتائے خوف کے نام پر قربانی دی۔

اسی دوران پارمینیو اور کچھ دوسرے تجربہ کار جرنیلوں نے اُس میدان پر نگاہ ڈالی جو دریائے نافات اور پہاڑوں کے درمیان پھیلا ہوا تھا۔ انہوں نے دیکھا کہ میدان کے ایک سرے سے دوسرے تک دشمن کی مشعلیں روشن تھیں اور دشمن کے پڑاؤ سے سپاہیوں کے باتیں کرنے کی آوازیں آ رہی تھیں ۔ فاصلے کے باعث یہ ملی جُلی آوازیں ایسی معلوم ہو رہی تھیں جیسے سمندر کی لہریں ساحل سے ٹکرا رہی ہوں ۔ مقدونوی جرنیل اتنا بڑا لشکر دیکھ کر حیران رہ گئے اور ایک دوسرے سے کہنے لگے:

’’دن کی روشنی میں اتنے بڑے لشکر کر شکست دینا بہت مشکل ہو گا!‘‘

چنانچہ وہ بادشاہ کے پاس گئے۔ سکندر قربانی سے فارغ ہوا ہی تھا۔ جرنیلوں نے اسے شبخون مارنے کا مشورہ دیا تاکہ عام سپاہیوں کو دشمن کی صحیح تعداد کا اندازہ نہ ہو سکے اور وہ بددل نہ ہوں ۔ یہی موقع تھا جب سکندر نے اپنا مشہور فقرہ کہا:

’’میں اپنی فتح چوری نہیں کروں گا۔‘‘

اس کے بعض ساتھیوں کے نزدیک یہ ایک بچکانہ شیخی تھی لیکن دوسروں نے اس کا مطلب یہ لیا کہ اسے موجودہ صورتحال کا صحیح اور دوُر رس اندازہ تھا اور مستقبل کے بارے میں اس کا اندازہ غلط نہ تھا۔ بالفاظِ دیگر اس دفعہ وہ دارا سے مزید کسی جنگ کا امکان ختم کر دینا چاہتا تھا اور نہیں چاہتا تھا کہ دارا اپنی شکست کی وجہ تاریکی کو گردانے۔ اِسّوس کی شکست کے سلسلے میں دارا بہانہ بناتا تھا کہ یہ شکست اُسے محض اس وجہ سے ہوئی تھی کہ اس کی فوج پہاڑی گھاٹیوں میں پھنس کر رہ گئی تھی اور دوسری جانب سمندر تھا۔

یقیناً دارا کبھی ہتھیار نہ ڈالتا کیونکہ اس پاس سپاہ کی کوئی کمی نہ تھی۔ وہ ایک جنگ کے بعد دوسری اور پھر تیسری کا سلسلہ جاری رکھتا۔ وہ صرف اُسی صورت میں ہتھیار ڈالتا جب وہ اپنے کثیر التعداد لشکر کو روزِ روشن میں شکستِ فاش کھاتے دیکھ کر حوصلہ ہار بیٹھتا اور احساسِ کمتری میں مبتلا ہو جاتا۔

               ۳۲ جنگ کا آغاز

جب سکندر کے ساتھی چلے گئے تو وہ اپنے خیمے میں لیٹ گیا اور کہتے ہیں کہ باقی رات اس نے معمول سے کہیں زیادہ گہری نیند سو کر گزاری۔ بہرحال، صبح سویرے جب اس کے ساتھی آئے تو انہیں یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ وہ ابھی تک سو رہا تھا۔ چنانچہ انہوں نے اپنی ذمہ داری پر سپاہیوں کو حکم دے دیا کہ سب سے پہلے ناشتہ تیار کر لیں ۔ وقت گزرتا جا رہا تھا اس لیے پارمینیو سکندر کے خیمے میں داخل ہوا، اُس کے بستر کے قریب کھڑا ہوا اور دو تین مرتبہ نام لے کر سکندر کو پکارا۔ جب وہ جاگا تو پارمینیو نے پوچھا۔

’’آپ اس اطمینان سے کیسے سو گئے کہ جیسے آپ جنگ جیت کر فارغ ہو چکے ہوں حالانکہ آپ اپنی زندگی کی سب سے بڑی جنگ لڑنے والے ہیں ؟‘‘

سکندر مسکرایا اور جواب دیا۔

’’کیوں نہیں ؟ کیا تم نے نہیں دیکھا کہ ہمیں فتح ہو چکی ہے اور اب ہم ان علاقوں میں مارے مارے پھر کے دارا کا تعاقب کرنے سے بچ گئے ہیں ۔ یہ دارا جو کبھی جم کر نہیں لڑ سکتا!‘‘

اور سکندر نے نہ صرف جنگ سے پہلے بلکہ جنگ کے عروج پر بھی انتہائی خوداعتمادی کا مظاہرہ کیا۔

جنگ شروع ہوئی تو سکندر کی فوج کا بایاں بازو جو پارمینیو کے زیرِ قیادت لڑ رہا تھا پسپا کر دیا گیا اور پھر باختری سواروں اور مازائیوس کے فارسی سواروں کے دباؤ میں آ گیا۔ مازائیوس نے یہ سوار اس لیے بھیجے تھے کہ مقدونویوں کے ساز وسامان پر قبضہ کر لیں ۔ پارمینیو نے سکندر کے پاس یہ پیغام بھیجا۔’’اگر فوراً اِس طرف کمک نہ بھیجی تو آپ اپنے قیمتی سامان سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے!‘‘

اُس وقت سکندر اپنی فوج کے دائیں بازو کو حملے کا حکم دینے ہی والا تھا۔ فوج کا یہ حصہ براہِ راست اس کے ماتحت تھا۔ یہ پیغام سکندر کو ملا تو اس نے کہا۔

’’پارمینیو ہوش کھو بیٹھا ہے؟ وہ یہ بات بھول رہا ہے کہ فاتح بہرحال اپنے دشمن کی چیزوں پر قبضہ کرتا ہے اور ہارنے والے کو سازوسامان کی بجائے صرف اس کی پرواہ کرنی چاہئیے کہ کس طرح بہادری سے لڑتے ہوئے جان دیں ۔ ‘‘

پارمینیو کو یہ پیغام بھیج کر سکندر نے اپنا خود پہن لیا۔ باقی چیزیں اس نے پہلے ہی پہن رکھی تھیں جب وہ اپنے خیمے سے نکلا تھا۔ اس لباس میں جزیرہ صقلیہ کی بنی ہوئی قبا تھی جس کے اوپر ایک صدری پہنی گئی تھی اور یہ صدری جنگِ اسوس کے مالِ غنیمت میں شامل تھی۔ اس کا خود لوہے کی پتلی چادر کا بنا ہوا تھا اور یوں چمکتا تھا جیسے چاندی کا بناہوا ہو۔ یہ خود تھیوپیلس نے بنایا تھا۔ اس کے گرد ایک ہلکا سا دائرے کی شکل کا تاج لگایا گیا تھا جس پر قیمتی پتھر جڑے تھے۔ سکندر کے ہاتھ میں جو تلوار تھی وہ سائطم کے بادشاہ نے تحفتہً دی تھی۔ یہ تلوار بہت شاندار اور ہلکی تھی۔ سکندر کی عادت بن گئی تھی کہ دست بدست لڑائی میں زیادہ کام اسی تلوار سے لیتا تھا۔

سکندر کا لبادہ اس کے باقی لباس سے کہیں بڑھ کر خوبصورت تھا۔ یہ پرانے زمانے کے ایک فنکار ہیلیکون نے بنایا تھا اور رہوڈز کے باشندوں نے اسے سکندر کی نذر کیا تھا۔ یہ بھی سکندر جنگ میں ہمیشہ پہنتا تھا۔

فوج کی صفیں درست کرتے ہوئے سکندر بیوسیفالس کے علاوہ کسی دوسرے گھوڑے پر سوار تھا۔ بیوسیفالس جوانی کی حدود سے گزر چکا تھا البتہ جب سکندر اصل لڑائی شروع کرنے لگتا بیوسیفالس کو نکالا جاتا، سکندر اس پر سوار ہوتا اور یکدم حملہ کر دیتا۔

               ۳۳ معرکہ

اس موقعے پر سکندر نے تھسلی کے سواروں اور دیگر یونانی افواج سے خطاب کیا جو بہت طویل تھا۔ جواب میں انہوں نے شور مچایا کہ ہمیں دشمنوں سے مقابلے پر لے جاؤ۔ ککستھنیز کہتا ہے کہ اس پر سکندر نے اپنی برچھی بائیں ہاتھ میں لے لی اور دایاں ہاتھ آسمانوں کی طرف اٹھاتے ہوئے دعا مانگی کہ اگر وہ حقیقتاً زیوس کا بیٹا ہے تو دیوتا اس کو اپنی حفاظت میں لے لیں اور یونانیوں کے حوصلے بلند کر دیں ۔

 اس کے بعدارسٹانڈر جس نے سفید خلعت پہن رکھی تھی اور سر پر سونے کا تاج رکھا ہوا تھا گھوڑے پر سوار ہو کر صفوں میں گھوما اور لوگوں کی توجہ ایک عقاب کی طرف مبذول کروائی جو چند لمحے سکندر کے سر پر منڈلانے کے بعد سیدھا دشمن کی جانب اُڑ گیا تھا۔

 اس نظارے نے فوج کے ولولے حد سے بڑھا دئے اور انہوں نے نعرے لگاتے ہوئے ایک دوسرے کے حوصلے بڑھاتے ہوئے پوری رفتار کے ساتھ دشمن پر یلغار کر دی۔ ان کے پیچھے پیچھے نفری بھی طوفان کے ریلے کی طرح آ رہی تھی۔

اس سے پہلے کہ اگلی صفیں پوری طرح جنگ میں ملوث ہوتیں ، دشمن پیچھے ہٹنے لگا۔ سکندر پورے جوش و خروش سے حملے کر رہا تھا اور پیچھے ہٹتے ہوئے دشمنوں کو دھکیلتے ہوئے قلب کی جانب بڑھ رہا تھا جہاں دارا موجود تھا۔

سکندر نے اپنے دشمن کو دیکھ لیا تھا۔ وہ شاہی دستے کی صفوں کے پیچھے تھا جنہوں نے اس کے گرد گھیرا ڈال کر اسے اپنی حفاظت میں لے رکھا تھا۔ یہ دستہ جنگ سے الگ رہ کر انتظار کر رہا تھا کہ کوئی دشمن دارا پر حملہ کرے تو یہ حفاظت کرے۔

دارا ایک دراز قد اور وجیہہ آدمی تھا اور اپنے گھڑسوار محافظوں کے درمیان اونچا نظر آتا تھا جو اس کی شاہی رَتھ کی حفاظت پر متعین تھے لیکن ان محافظوں نے سکندر کو خوفناک انداز میں اپنی طرف آتے دیکھا تو دہشت زدہ ہو گئے۔ سکندر بھاگنے والوں کو اُسی طرف دھکیل رہا تھا اور وہ گرتے پڑتے اپنے ہی ساتھیوں کے قدم اکھاڑ رہے تھے۔

زیادہ تر محافظ بھاگ گئے مگر بہادر اور اعلیٰ نسب کے چند لوگ ڈٹے رہے اور اپنے بادشاہ کے سامنے ہی مارے گئے۔ یہ لوگ دوسرے پر انبار کی صورت میں ڈھیر تھے اور اس حالت میں بھی جب تک جان رہتی بڑھتے ہوئے گھڑسواروں کے گھوڑوں کی ٹانگیں پکڑ لیتے تاکہ انہیں آگے بڑھنے سے روک سکیں ۔

اور دارا؟ جنگ کی تمام ہولناکیاں اس کی نگاہوں کے سامنے تھیں ۔  جو سپاہ اس کی حفاظت کے لئے فوج کے قلب میں متعین کی گئی تھی وہ اب اُسی پر ڈھیر کر دی گئی تھی اور جنہیں اس نے اپنی حفاظت کے لیے رکھا تھا انہی کی لاشوں کے ڈھیر اب فرار میں رکاوٹ پیدا کر رہے تھے کیونکہ رَتھ کے پہئے لاشوں میں الجھ گئے تھے اور رَتھ بانوں نے رَتھ کو بھگانے کی کوشش کی تو رَتھ اچھلی، لڑکھڑائی اور اتنے دھچکے لگے کہ سنبھالنا مشکل ہو گیا۔ اس صورتحال میں شہنشاہ کو رَتھ سے دستبردار ہونا پڑا اور وہ اپنی بھاری زِرہ اتار کر ایک گھوڑی پر فرار ہو گیا۔

عام خیال ہے کہ وہ فرار ہونے میں کامیاب نہ ہو سکتا تھا اگر اُسی وقت پارمینیو نے سکندر کے پاس ایک اور جماعت بھیج کر کمک کی درخواست نہ کی ہوتی۔ پارمینیو نے سکندر سے فوراً آنے کی التجا کرتے ہوئے کہلوایا کہ میرے مقابل جو دستے ہیں وہ میرے سپاہیوں کی ہمت سے زیادہ قوی ہیں ۔

اس جنگ کے سلسلے میں پارمینیو پر کم ہمتی کا الزام لگایا جاتا ہے۔ ہو سکت اہے یہ کم ہمتی اس کے بڑھاپے کے باعث ہو۔ بہرحال پارمینیو کی اِس درخواست نے سکندر پر اثر کیا لیکن ظاہراً اس نے فوری حکم یہی دیا کہ طبلِ بازگشت بجایا جائے، اندھیرا پھیل رہا ہے لہٰذا اب وہ اس قتل و غارت کا اختتام چاہتا ہے۔

یہ حکم دیتے ہی وہ واپس مڑا اور اس طرف چلا جہاں پارمینیو کے دستے اطلاع کے مطابق دشمنوں کے نرغے میں تھے لیکن راستے ہی میں اطلاع ملی کہ دشمن کو مکمل شکست دی جا چکی ہے اور وہ میدان سے بھاگ گئے ہیں ۔

               ۳۴ ایشیا کا نیا شہنشاہ

جنگ کے اس انداز میں خاتمے کے بعد فارس کی سلطنت کا مکمل طور پر تختہ الٹا جا چکا تھا۔ سکندر نے فارس کے شہنشاہ کی حیثیت حاصل کر لی اور دیوتاؤں کی خدمت میں قربانیاں نذر کرنے کے بعد اس نے اپنے دوستوں کو دولت، جاگیر اور منصب سے نوازا۔

 وہ یونان میں بھی اپنا وقار بڑھانا چاہتا تھا لہٰذا اس نے یونانی ریاستوں کو لکھ بھیجا کہ اب تمام غارتگری ختم کر دی گئی ہے اور وہ سب اپنے علاقوں میں اپنے قانون نافذ کرنے کے مختار ہیں ۔ پلاٹائیوں کو بطورِ خاص اس نے لکھا کہ وہ اُن کے شہر کی ازسرِنو تعمیر کروا دے گا کیونکہ اُن کے اسلاف نے یونان کی مشترکہ آزادی کی جدوجہد میں یونانیوں کو اجازت دی تھی کہ وہ اُن کے علاقوں کو اپنا مرکز بنا لیں (۲۶)۔

سکندر نے اٹلی میں واقع کروٹون کے لوگوں کو بھی مالِ غنیمت میں سے حصہ بھیجا کیونکہ ان کے علاقے کے ایک باشندے فیلس نے فارس اور یونان کی قدیم جنگوں میں یہ خدمت انجام دی تھی کہ جب اٹلی میں موجود تمام یونانیوں نے کسی قسم کی مدد دینے سے انکار کر دیا تھا تو اس شخص نے اپنے ذاتی خرچ سے ایک جنگی بحری جہاز تیار کروایا اور اس کے ساتھ سالیمس کی تاریخی جنگ میں حصہ لینے پہنچ گیا تاکہ اپنے ہموطنوں کے خطرات میں شریک ہو سکے۔

سکندر جرات کے ہر مظاہرے کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کا خواہاں تھا اور اچھے کاموں کی سرپرستی کرنا چاہتا تھا۔

 

               ۳۵ آگ کے چشمے

اس کے بعد سکندر بابل کے صوبے میں داخل ہوا جس نے فوراً ہی اطاعت تسلیم کر لی۔

اس پیش قدمی کے دوران سکندر نے زمین سے تیل کے چشمے ابلتے بھی دیکھے۔ ان سے اتنی زیادہ مقدار میں تیل نکل رہا تھا کہ قریب ہی ایک جھیل بن گئی تھی۔ یہ نفط کئی اعتبار سے رال سے مشابہ ہے لیکن اتنا آتشگیر ہے کہ آگ اسے چھوئے نہ بلکہ محض قریب لائی جائے تب بھی بھڑک اٹھتا ہے اور اکثر اردگرد کی ہوا بھی شعلے میں تبدیل ہو جاتی ہے۔

 مقامی باشندوں نے اس سیال مادے کی قوت کا تماشا دکھانے کی یہ تدبیر سوچی کہ سکندر کی قیام گاہ کے سامنے جو سڑک تھی اس پر اسے چھڑک دیا۔ رات ہوئی تو وہ آخری سرے پر کھڑے مشعلیں لے کر کھڑے ہو گئے۔ نم آلود زمین سے مشعل چھوئی تو تمام راستے پر اتنی تیزی سے شعلے بھڑک اٹھے کہ اس تیزی سے انسان سوچ بھی نہیں سکتا۔ یوں پوری سڑک آتش زار بن گئی۔

بادشاہ کے ان خادموں میں جو اس کے لیے حمام تیار کرتے تھے ایتھنز کا رہنے والا ایک شخص اتھینوفینس بھی تھا۔ اس نے بادشاہ سے کہا۔

’’کیا آپ ہمیں اس بات کی اجازت دیں گے کہ ہم اس نفط کا تجربہ سٹیفینس پر کریں ؟‘‘

سٹیفینس بھی ایک خادم تھا جس کی صورت شکل اچھی نہیں تھی لیکن وہ گاتا بہت اچھا تھا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ وہ فوراً اس تجربے کے لیے تیار ہو گیا۔ اتھینوفینس نے کہا کہ اگر اس سیال مادے نے سٹیفینس کے جسم پر بھی آگ پکڑ لی اور وہ آگ فوراً ہی بجھ نہ گئی تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ یہ سیال غیر معمولی قوت کا حامل ہے۔

جونہی سٹیفینس کے جسم پر یہ سیال مل کر تجربہ شروع کیا گیا آگ بھڑک اٹھی اور شعلوں نے سٹیفینس کو اپنی آغوش میں لے لیا۔ اس نوجوان کی جان کا خطرہ لاحق ہو گیا اور سکندر بری طرح پریشان ہو گیا۔ اتفاق سے یہ واقعہ اس وقت پیش آیا تھا جب سکندر کے لیے حمام تیار کر دیا گیا تھا اور وہ نہانے جا رہا تھا چنانچہ پانی کی بالٹیاں قریب ہی بھری پڑی تھیں ۔ نوکروں نے یہ سٹیفینس کے اوپر انڈیل دیں ورنہ وہ کوئی اور مدد پہنچنے سے پہلے ہی جل مرا ہوتا۔ پھر بھی نوکروں کو آگ بجھانے میں بڑی دقت پیش آئی تھی اور سٹیفینس کا جسم اس بری طرح جھلس گیا تھا کہ کافی عرصہ تک وہ شدید بیمار رہا۔

وہ لوگ جو افسانوں کو حقیقت سے ملانا چاہتے ہوں یقیناً یہی کہیں گے کہ یہی سیال مادہ المیہ ڈرامے کے کردار میڈیا نے استعمال کیا تھا جب اس نے تاج اور خلعت کسی چیز میں بھگو کر کرئیون کی بیٹی کو تحفتہً دئے تھے۔ مگر حقیقت میں جیسا کہ بتایا جاتا ہے آگ درحقیقت ان چیزوں سے پیدا نہیں ہوتی اور نہ ہی خودبخود وجود میں آ جاتی ہے  بلکہ اس کے لیے ضروری ہے کہ کوئی جلتی ہوئی چیز قریب لائی جائے۔ اس عمل کے نتیجے میں اس تیل اور جلتی ہوئی آگ میں اس تیزی سے رابطہ قائم ہوتا ہے کہ انسانی آنکھ اس کا مطالعہ نہیں کر سکتی۔

نفط کس طرح پیدا ہوتا ہے؟ اس کے متعلق خاصا اختلاف پایا جاتا ہے۔ مثلاً یہ کہ کیا یہ مادہ جو شعلوں کے لیے بہترین ایندھن ہے ایسی مٹی میں خودبخود پیدا ہو جاتا ہے جو چکنی اور کسی حد تک آتشیں خصوصیات کی حامل ہو؟ بیشک بابل کی مٹی جہاں یوناینوں کو یہ مادہ پہلی دفعہ ملا بہت گرم ہے، اتنی کہ بعض اوقات جَو کے دانے زمین میں سے نکل پڑتے ہیں کیونکہ حِدّت کی وجہ سے زمین میں دراڑیں پڑ جاتی ہیں اور جب گرمیاں عروج پر ہوں تو وہاں کے لوگ کھال کے بستر پر سوتے ہیں جس میں پانی بھرا ہوتا ہے۔ جب سکندر نے اپنے خزانچی ہارپالوس کو اس صوبے کا گورنر بنایا تو اس نے یہاں یونانی پودے لگانا چاہے۔ باقی پودے تو یہاں لگ گئے لیکن عشق پیچاں کی بیل اس مٹی میں کسی طرح پھل پھول نہ سکی۔ یہ بیل اس مٹی کی گرمی نہ سہار سکتی تھی کیونکہ یہ ٹھنڈی جگہوں پر پائی جاتی ہے۔

میری کتاب پڑھنے والے اگرچہ آگے کے واقعات جاننے کے لیے بیتاب ہوں گے مجھے یقین ہے کہ ایک معقول حد تک اِدھر اُدھر کی بحث بھی زیادہ ناگوار نہیں گزری ہو گی۔

 

               ۳۶ خزانہ

شوش کو اپنے زیرِ نگیں لانے کے بعد سکندر کو محل کے خزانے میں چالیس ہزار ٹیلنٹ سکّوں کی صورت میں ملے اور پانچ ہزار ٹیلنٹ مالیت کا شاندار کپڑا ملا۔

یہ کپڑا کاسنی رنگ کا تھا اور ہرمؤن کی بندرگاہ سے آیا تھا۔ اسے یہاں پڑے ایک سو نوّے برس ہو گئے تھے لیکن اس کے باوجود اس کے نئے پن میں کوئی فرق نہیں آیا تھا۔ اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ اسے رنگتے وقت رنگ میں شہد اور زیتون کے تیل کی آمیزش کی گئی تھی اور کہتے ہیں کہ یہ دونوں اجزا رنگ کی دلکشی برقرار رکھنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں ۔

ڈائیون کے بیان سے ہمیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ فارس کے شہنشاہوں نے دریائے نیل اور دنیوب سے پانی منگوا کر یہاں رکھا ہوا تھا کہ ان کی سلطنت کی وسعت کا اندازہ رہے۔ وہ خود کو تمام عالم کا بادشاہ سمجھتے تھے۔

               ۳۷ تختِ جمشید

شوش سے آگے بڑھنے پر صوبۂ پرسس کو دشوار گزار پایا گیا۔ نہ صرف یہ کہ یہ پہاڑی علاقہ تھا بلکہ فارس کے بہادر ترین لوگ بھی اس کی حفاظت کر رہے تھے کیونکہ دارا نے یہیں پناہ لی تھی۔ پھر بھی سکندر نے ایک رہنما کو ساتھ لیا اور تھوڑا سا گھوم کر آگے بڑھنے لگا۔ اس شخص کا باپ لائشیا کا رہنے والا تھا اور ماں فارسی تھی۔ سکندر کے بچپن میں پائتھین کاہنہ نے ایک دفعہ کہا تھا کہ فارسیوں کے خلاف ایک بھیڑیا سکندر کی رہنمائی کرے گا۔ اب مقدونویوں کا خیال تھا کہ بھیڑئے سے مراد یہی شخص تھا۔

صوبۂ پرسس سے گزرتے ہوئے یونانیوں نے اپنے فارسی قیدیوں میں سے کئی قیدیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ خود سکندر نے اپنے روزنامچے میں لکھا تھا کہ اس نے فارسی قیدیوں کو ہلاک کروا دیا تاکہ دشمن دہشت زدہ ہو جائے۔

کہتے ہیں کہ تختِ جمشید پہنچ کر بھی سکندر کو اتنا ہی سونا ملا جتنا شوش میں مل چکا تھا۔ یہاں کے خزانے اور دیگر قیمتی چیزوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانے کے لئے خچروں  کے دو ہزار جوڑے اور پانچ سو اونٹ درکار تھے۔

تختِ جمشید ہی میں سکندر کو زرکسیز کا ایک بڑا مجسمہ ملا۔ یہ مجسمہ اپنے چبوترے سے گر پڑا تھا اور جب سپاہی اس کے پاس سے گزرتے ہوئے شاہی محل میں داخل ہونے لگے تو کسی نے توجہ نہ دی۔ سکندر اس کے پاس رکا اور مجسمے سے یوں گویا ہوا جیسے وہ کوئی جیتا جاگتا انسان ہو۔

’’کیا میں تمہارے پاس سے منہ پھیر کر گزر جاؤں اور تمہیں یوں ہی بے یار و مددگار پڑا رہنے دوں کیونکہ تم نے یونان پر حملہ کیا تھا؟ یا تمہارے تعمیری کارناموں اور مرتبے کا لحاظ کرتے ہوئے تمہیں دوبارہ چبوترے پر کھڑا کر دوں ؟‘‘ کافی دیر وہ خاموشی سے کھڑا مجسمے کو دیکھتا رہا اور پھر آگے بڑھ گیا۔

اب سردیاں شروع ہو گئی تھیں ۔ سکندر نے اپنے سپاہیوں کو آرام دینے کے لیے تختِ جمشید میں چار ماہ قیام کیا۔ کہتے ہیں کہ جب سکندر پہلی دفعہ شہنشاہانِ فارس کے تخت پر بیٹھا تو ڈیماریٹس جو اُس کے باپ کا وفادار تھا اور اب سکندر سے بھی بہت محبت کرتا تھا اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے جیسا کہ بوڑھوں کے ساتھ اکثر ہوتا ہے۔ وہ کہنے لگا کہ جو یونانی یہ دن دیکھنے سے پہلے مر گئے وہ زندگی کے ایک بہترین لطف سے محروم رہ گئے کہ سکندر کو دارا کے تخت پر نہ دیکھ سکے (۲۷)۔

               ۳۸ آتش زدگی

موسمِ بہار میں سکندر نے پھر دارا کا تعاقب شروع کیا لیکن ایسا کرنے سے ذرا پہلے ایک واقعہ ہو گیا۔ ہوا یوں کہ سکندر کے کچھ ساتھیوں نے اسے شراب کی دعوت دی جسے اس نے قبول کر لیا۔ اس موقعے پر کئی عورتیں بھی اپنے چاہنے والوں کے پاس پہنچ گئیں اور اس محفل میں شریک ہو گئیں ۔ بطلیمو کی منظورِ نظر تھائیس ان میں پیش پیش تھی۔

یہ وہی بطلیموس تھا جو بعد میں مصر کا حکمران بنا۔

تھائیس ایتھنز کی رہنے والی تھی۔ زراب نوشی کے دوران اس نے ایک تقریر کی جس میں سکندر کی تعریف کی اور کسی حد تک اس تقریر کا مقصد اسے خوش کرنا تھا۔ لیکن جو کچھ تھائیس نے کہا وہ اگرچہ ایتھنز والوں کی فطرت کے مطابق تھا لیکن خود تھائیس کی حالت سے میل نہیں کھاتا تھا۔ اس نے کہا۔

’’میں نے ایشیا کے سفر میں جو صعوبتیں اٹھائی ہیں ان کا صلہ آج مجھے مل گیا ہے کہ میں فارس کے محل میں عیش کر رہی ہوں ، لیکن کیا ہی اچھا ہو کہ اس پر تکلف تقریب کا اختتام اس صورت پر ہو کہ رزکسیز کے محل کو آگ لگا دی جائے۔ وہی زرکسیز جس نے ایتھنز کو راکھ کا ڈھیر بنا دیا تھا!‘‘

وہ چاہتی تھی کہ سکندر کے سامنے خود اپنے ہاتھوں سے محل کو آگ لگائے تاکہ آنے والی نسلیں جان سکیں کہ ایک عورت جو سکندر کے ساتھ گئی تھی اس نے یونان کی تباہی کا جو انتقام لیا وہ جنگجو بھی نہ لے سکے۔

تھائیس کی تقریر کا پر جوش نعروں کے ساتھ خیرمقدم کیا گیا اور بادشاہ کے ساتھی اسے اس بات پر آمادہ کرنے کی کوشش کرنے لگے حتّیٰ کہ اس نے ان کے اصرار کے سامنے ہتھیار ڈال دئیے۔ وہ کھڑا ہوا، سر پر ہار باندھا، ہاتھ میں مشعل لی اور سب سے آگے چلنے لگا۔ مضطرب مقدونویوں نے محل کے گرد گھیرا ڈال دیا اور جب دوسروں کو خبرملی کہ کیا ہونے والا ہے تو وہ بھی مشعلیں اٹھا کر دوڑ پڑے۔ محل کی بربادی سے وہ لوگ یہ نتیجہ نکال رہے تھے کہ سکندر اپنے وطن واپس جانا چاہتا ہے اور اِن اجنبی لوگوں کے درمیان رہنے کا خواہشمند نہیں ہے۔

زیادہ تر مورخین کا خیال یہی ہے کہ آگ اسی طرح لگی لیکن بعض کہتے ہیں کہ یہ سب کچھ حکمتِ عملی کے تحت کیا گیا۔ بہرحال آگ جس طرح بھی لگی ہو یہ بات مسلّم ہے کہ سکندر کو بہت جلد ہی اپنی اس حرکت پر پشیمانی ہوئی اور اس نے آگ بجھانے کے لیے احکام جاری کر دئیے۔

               ۳۹ فیاضیاں

سکندر طبعاً فیاض تھا اور جوں جوں اس کی دولت بڑھی اس کی فیاضیاں بھی بڑھتی گئیں ۔ وہ ہمیشہ نہایت فراخدلی اور عالی ظرفی کے ساتھ تحفے دیتا تھا اور درحقیقت یہی چیزیں ہیں جو دینے والے کی سیرچشمی کا پتہ دیتی ہیں ۔ میں یہاں چند واقعات بیان کروں گا۔

ارسٹان جو پائیونین دستے کا سالار تھا ایک دفعہ جب اس نے سکندر کے ایک دشمن کو موت کے گھاٹ اتار کر اس کا سر سکندر کی خدمت میں پیش کیا تو ساتھ ہی یہ بھی کہا۔

’’میرے وطن میں ایسے تحفے کا انعام سونے کا پیالہ ہوتا ہے۔‘‘

سکندر ہنس پڑا اور کہا۔

’’ہاں ، مگر خالی پیالہ! میں تمہارے ساتھ سونے کے پیالے میں شراب پیوں گا اور پیالہ تمہیں دے دوں گا۔‘‘

ایک اور موقع پر ایک مقدونوی سپاہی ایک خچر پر شاہی سامان لاد کر لے جا رہا تھا اور جب جانور میں تھکن کے باعث سامان اٹھانے کی سکت نہ رہی تو سپاہی نے سامان اپنے کاندھوں پر اٹھا لیا۔ جب سکندر نے اسے یوں نڈھال گرتے پڑتے دیکھا اور اسے معلوم ہوا کہ معاملہ کیا ہے تو اس نے سپاہی سے جو سامان اتارنے ہی لگا تھا کہا۔

’’ہمت مت ہارو! چلتے رہو اور جو کچھ تم نے اٹھا رکھا ہے اسے اپنے خیمے میں لے جاؤ۔‘‘

یقیناً جو لوگ اس سے کچھ طلب کرتے تھے وہ انہیں اتنا برا نہیں سمجھتا تھا جتنا ان کو جو اس کے تحائف لینے سے انکار کر دیتے تھے۔ اس نے فوشون کو لکھا کہ اگر اس نے سکندر کے تحائف ٹھکرائے تو آئندہ وہ اسے دوست نہیں سمجھے گا۔

اور سیراپیون کے سلسلے میں یہ ہوا کہ سیراپیون جو سکندر کے ستاھ کھیلتا تھا اسے سکندر نے کبھی کچھ نہ دیا تھا کیونکہ اس نے کبھی کچھ طلب نہیں کیا تھا۔ چنانچہ ایک دن سیراپیون نے یہ کیا کہ جب بھی گیند اس کے پاس آتی وہ اسے کسی دوسرے کی طرف پھینک دیتا لیکن سکندر کو نہ دیتا حتیٰ کہ وہ بول ہی اٹھا۔

’’کیا تم مجھے گیند نہیں دو گے؟‘‘

’’نہیں ،‘‘ سیراپیون نے جواب دیا۔ ’’آپ نے مانگی نہیں !‘‘

اس پر بادشاہ ہنس پڑا اور اس ے تحائف سے مالامال کر دیا۔

اور پھر پروٹئیس کا قصہ بھی ہے۔ یہ بادشاہ کا ساقی بھی تھا اور ظریف بھی۔ ایک دفعہ اس نے بادشاہ کو سخت ناراض کر دیا۔ پروٹیئس کے دوستوں نے رو رو کر ا سکے لئے معافی کی درخواست کی۔ بالآخر سکندر نے اسے معافی دے دی۔

تو  پھر کیا آپ اس معافی کے اظہار کے طور پر مجھے کچھ دیں گے؟‘‘ پروٹئیس نے کہا۔ اس پر سکندر نے حکم دیا کہ پروٹئیس کو پانچ ٹیلنٹ دے دئیے جائیں ۔

لیکن سکندر نے جس فراخدلی کے ساتھ اپنے ساتھیوں اور محافظوں پر دولت کی بارش کی تھی اس نے ان کے دماغ آسمان پر پہنچا دئیے تھے۔ اس کا اظہار ایک خط میں بھی ہوتا ہے جو اولمپیاس نے اسے لکھا تھا:

’’کاش تم اپنے پسندیدہ لوگوں کو انعام دینے کا کوئی دوسرا طریقہ نکال سکو۔ اس طرح تو تم انہیں بادشاہوں کے برابر بنا رہے ہو، انہیں اس قابل کر رہے ہو کہ اپنے بہت سے وفادار بنا لیں اور خود تم اس سے محروم رہو!‘‘

اولمپیاس اکثر اسے اس مسئلے پر خط لکھتی لیکن سکندر اس کے خط ہمیشہ اپنی ذات ہی تک محدود رکھتا۔ ہاں البتہ ہیفا اسشن سکند رکے خطوط اس کے ساتھ ہی پڑھتا تھا۔ ایک موقع پر اسے ایک ایسا خط نظر آیا جسے سکندر کھول چکا تھا۔ سکندر نے اسے خط پڑھنے سے منع نہیں کیا لیکن اپنی انگشتری اتار کر مہر ہیفا اسشن کے ہونٹوں پر رکھ دی اور اسے دبا کر اشارہ کیا کہ اس معاملے میں کبھی اپنی زبان مت کھولے۔

دارا کے افسروں میں سب سے بارسوخ مازائیوس تھا۔ اس کے بیٹے کو سکندر نے ایک صوبے کی گورنری عطا کر رکھی تھی لیکن پھر ایک اور صوبہ بھی اس کے حوالے کرنے کا ارادہ کیا جو پچھلے صوبے سے بھی بڑا تھا۔ نوجوان گورنر نے یہ صوبہ نہ لیا اور کہا۔

’’جنابِ عالی! پہلے تو صرف ایک دارا ہوا کرتا تھا لیکن اب آپ نے کئی سکندر بنا دئیے ہیں !‘‘

اس کے علاوہ سکندر نے پارمینیو کو شوش میں واقع بوگواس کا محل دے دیا جس کے متعلق کہتے ہیں کہ ایک ہزار ٹیلنٹ مالیت کے کپڑے بھی وہاں پڑے ہوئے ملے تھے۔

 سکندر نے انٹی پیٹر کو بھی خط میں تاکید کی کہ اپنے اردگرد محافظ رکھا کرے تاکہ ان سازشوں سے محفوظ رہے جو اس کی جان لینے کے لیے کی جائیں (۲۸)۔ سکندر نے اپنی ماں کو تحائف کے انبار بھجوائے لیکن اسے سلطنت کے امور یا مہموں میں رخنہ اندازی نہیں کرنے دی۔ البتہ جب وہ اس بات کے متعلق اسے سخت باتیں لکھتی تو وہ ہمیشہ انہیں برداشت کرتا۔ ہاں ، ایک دفعہ جب انٹی پیٹر نے سکندر کو ایک لمبا چوڑا خط لکھا جس میں اولمپیاس کی غلطیاں لکھی ہوئی تھیں تو سکندرنے کہا۔

’’انٹی پیٹر نہیں جانتا کہ میری ماں کا ایک آنسو ایسے دس ہزار خطوط دھو سکتا ہے۔‘‘

               ۴۰ عیش و عشرت کی تباہ کاریاں

اب سکندر نے محسوس کیا کہ اس کے ساتھی عیش و عشرت میں پڑ گئے ہیں اور پر تکلف زندگی گزارنے کے سلسلے میں حد سے بڑھ گئے ہیں ۔

ہگنون جو ٹیوس کا رہنے والا تھا وہ اپنے جوتوں میں چاندی کی کیلیں لگواتا تھا۔ لیونیٹس کشتی کرنے سے پہلے اپنے جسم پر جو سفوف چھڑکتا وہ بطورِ خاص اسی کے لیے مصر سے اونٹوں پر لد کر آتا تھا اور فلوٹس نے شکار کھیلنے کے لیے ایسے جال بنوائے تھے جو بارہ میل کا احاطہ کر سکتے تھے۔

سکندر کے ساتھی جب نہاتے تھے تو مالش کے لیے اکثرو بیشتر سادہ تیل کی بجائے لُوبان استعمال کرتے اور ان کے گرد مالشیوں اور محافظوں کا جمگھٹا لگا رہتا۔

سکندر نے اُن سے بحث کی اور نرمی کے ساتھ انہیں اس آرام پسندی سے باز رکھنے کی کوشش کی۔ اس نے انہیں بتایا۔

’’مجھے حیرت ہوتی ہے جب میں یہ دیکھتا ہوں کہ وہ جنگجو جنہوں نے اتنی خونریز جنگیں لڑی ہیں یہ بھول گئے ہیں کہ محنت کرنے والا محنت کروانے والے سے زیادہ گہری نیند سوتا ہے۔ جب تم اپنے طرزِ حیات کا موازنہ فارسیوں سے کرتے ہو تو کیا یہ بات تمہاری سمجھ میں نہیں آتی کہ آسائش کی بندگی سے زیادہ غلامانہ اور محنت کی زندگی سے زیادہ شاہانہ کچھ نہیں ؟ وہ شخص اپنے گھوڑے کو بھلا کس طرح درست رکھ سکے گا، اپنا نیزہ کیونکر سنبھالے گا یا اپنے خود کو چمکیلا اور صاف کیسے رکھ سکے گا جو اپنے قیمتی جسم کے لیے اپنے ہاتھ استعمال نہ کرتا ہو؟ کیا تم نہیں جانتے کہ فتح تب مکمل ہوتی ہے جب فاتح وہ کام نہ کرے جو مفتوح کرتے رہے ہیں ۔‘‘

اور پھر مثال قائم کرنے کے سکندر نے ان دنوں بہت کثرت سے شکار کھیلنا شروع کر دیا اور ہمیشہ اس میں اپنی ذات کو خطرے اور دشواریوں میں ڈال دیتا۔ ایک دفعہ جب سکندر نے برچھی سے شیر کا شکار کیا تو سپارٹا کا ایک سفیر کہنے لگا۔

’’سکندر! آپ اس شیر سے اس طرح لڑے کہ اس بات کا فیصلہ ہو گیا کہ آپ دونوں میں سے کسے بادشاہ ہونا چاہئیے!‘‘

بعد ازاں کریٹرس نے شکار کے اس منظر کو کانسی کے مجسموں کی شکل میں تیار کروایا اور ڈیلفی کے مقام پر رکھوا دیا۔ یہ منظر کشی شیر کو، شکاری کُتّوں کو، شیر سے لڑتے ہوئے بادشاہ کو اور بادشاہ کی مدد کو بڑھتے ہوئے کریٹرس کو ظاہر کرتی تھی۔ اِن مجسموں میں سے کچھ لسیپس نے اور کچھ لیوکئریز نے تیار کیے تھے۔

               ۴۱ دوست بادشاہ

اپنی جان خطرے میں ڈالنے سے سکندر کا مقصد اپنے آپ کو کاہلی اور عیش پسندی سے بچانے کے ساتھ ساتھ اپنے دوستوں میں بھی یہی جذبہ پیدا کرنا تھا لیکن دولت اور کامیابی کی وجہ سے وہ محض عشرت اور کاہلی کی زندگی بسر کرنا چاہتے تھے۔ سکندر کی مہمات اور جنگیں انہیں ایک ناقابلِ برداشت بوجھ محسوس ہونے لگیں اورآہستہ آہستہ وہ اتنے بڑھتے گئے کہ بادشاہ پر الزام دھرنے لگے اور اس میں خامیاں تلاش کرنے لگے۔ شروع شروع میں سکندر انہیں نہایت تحمل سے ہدایت کرتا۔ وہ کہا کرتا تھا کہ رعایا کی بہتری کرنا اور اس کے بدلے میں الزام اٹھانا بادشاہت کا حصہ ہے!

اور بیشک اس نے ایسا ہی کیا حتیٰ کہ اس نے اپنے ساتھیوں کی بھلائی میں اگر کوئی انتہائی معمولی کام بھی کیا تو اس سے بھی اس کا خلوص اور محبت ظاہر ہوتی تھی۔میں چند مثالیں دوں گا۔

پیوکسٹس جسے ایک ریچھ نے کاٹ کھایا تھا اس سے سکندر نے خط میں شکایت کی کہ اس نے باقی تمام دوستوں کو اپنے زخمی ہونے کا تمام حال بتایا لیکن سکندر سے اس کے متعلق کچھ نہیں کہا۔ ’’اور اب،‘‘ اس نے بات جاری رکھتے ہوئے لکھا۔ ’’تم مجھے ضرور لکھنا کہ اب تم کیسے ہو اور اگر تمہارے کسی ساتھی شکاری نے کوتاہی کی تھی تو مجھے بتاؤ تاکہ میں اُسے سزا دے سکوں ۔‘‘

جب ہیفا اسشن کسی کام کے سلسلے میں اس سے دُور ہوا تو سکندر نے اسے یہ بھی بتایا کہ شکار کے دوران پرڈیکاس غلطی سے اپنی برچھی کریٹرس کی ران میں مار بیٹھا۔

ایک دفعہ جب پیوکسٹس کسی بیماری سے تندرست ہوا تو سکندر نے اس کے طبیب الکسیپس کو مبارکباد کا خط بھیجا۔ جب کریٹرس بیمار ہوا تو سکندر نے خواب میں خود کو اپنے دوست کی جانب سے دیوتاؤں کے حضور قربانی پیش کرتے دیکھا اور پھر کریٹرس کو بھی ایسا کرنے کی ہدایت کی۔ کریٹرس کے طبیب پاسانیاس نے کریٹرس کو ایک تیز دوا دینا چاہی تو سکندر نے طبیب کو ایک خط لکھا جس میں اپنی بییچینی ظاہر کی اور اس دوائی کے استعمال کے متعلق ہدایات بھی لکھیں ۔

ہارپالوس کے بھاگنے کی خبر سب سے پہلے افالٹوس اور کسس لائے (۲۹)۔ سکندر نے اُن دونوں کو زنجیروں میں جکڑوا دیا کیونکہ اس کا خیال تھا کہ یہ بہتان ہے۔

اسی طرح جب سکندر اپنی فوج کے نا اہل اور بیمار سپاہیوں کو وطن واپس بھیج رہا تھا تو آئیگائی کے یوریلوچس نے کوشش کی کہ اس کا نام بیماروں کی فہرست میں آ جائے۔ جب یہ بات کھل گئی کہ وہ بالکل تندرست ہے تو اس نے اقرار کر لیا کہ درحقیقت وہ ایک لڑکی سے محبت کرتا ہے جس کا نام ٹیلیسپی ہے اور وہ چاہتا ہے کہ بندرگاہ پر اس کے ساتھ ہی روانہ ہو جائے۔ سکندر نے اس لڑکی کے حسب نسب کے متعلق تفتیش کی تو معلوم ہوا کہ وہ ایک آزاد یونانی ہے۔ سکندر نے یوریلوچس سے کہا۔

’’میں اس معاملے میں تمہاری مدد کروں گا یوریلوچس! لیکن چونکہ وہ ایک آزاد لڑکی ہے اس لیے تمہیں بھی اس کی رضامندی حاصل کرنا ہو گی خواہ تحفے دو یا اپنی باتوں اور تہذیب سے اس کا دل جیتو لیکن اس کے علاوہ کوئی حربہ استعمال مت کرنا!‘‘

               ۴۲ تعاقب

یہ بات سچ مچ حیران کن ہے کہ سکندر کو اتنے خط لکھنے کے لئے وقت مل جاتا تھا۔ مثلاً ایک خط اس نے محض سلیوکس کے ایک مفرور غلام کی تلاش کے سلسلے میں لکھا تھا جو سلیشیا کی جانب بھاگ گیا تھا۔ ایک اور تعریفی خط پیوکسٹس کے نام لکھا کیونکہ اس نے کریٹرس کے بھگوڑے غلام نائکن کو پکڑ لیا تھا۔ ایک تیسرا خط میگابازوس کے نام ایک ایسے غلام سے متعلق تھا جس نے ایک مندر میں پناہ لے لی تھی جو فارسیوں کے نزدیک مقدس تھا۔ اس خط میں سکندر نے تاکید کی کہ غلام کو اس مندر سے باہر نکال لینا اور مقدس مقام کی حدود میں فساد مت پھیلانا۔

یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ مقدمے کے دوران مدعی کا بیان سنتے وقت وہ ایک کان پر انگلی رکھ لیتا تھا تاکہ جب یہ کان مدعا علیہ کی صفائی سنے تو پہلے متاثر نہ ہو چکا ہو۔

لیکن بعد میں اس کے پاس اتنی چغلیاں اور شکایتیں آنا شروع ہو گئیں کہ اس کا رویہ انتہائی سخت ہو گیا اور بعض اوقات وہ غلط باتوں پر بھی یقین کر لیتا۔ بالخصوص اگر کوئی سکندر کے خلاف بولتا تو سکندر کا فیصلہ بھی اس کے خلاف ہوتا اور اس کے مزاج میں سخت گیری اور بے رحمی عود کر آتی کیونکہ اسے اپنی نیک نامی اپنی جان اور تاج و تخت سے بھی زیادہ عزیز تھی۔

اب سکندر پھر دارا کے تعاقب میں روانہ ہوا(۳۰)۔ وہ سمجھ رہا تھا کہ شائد ابھی ایک اور جنگ لڑنی پڑے مگر جب اسے یہ معلوم ہوا کہ باختر کے گورنر بسوس نے شہنشاہ فارس کو گرفتار کر لیا ہے تو اس نے تھسلی کے سواروں کو واپس بھیج دیا۔ ان کی طے شدہ تنخواہ کے علاوہ انہیں دو ہزار ٹیلنٹ بطور انعام بھی دئیے۔

دارا کا تعاقب بہت طویل اور تھکا دینے والا ثابت ہوا۔ سکندر نے گیارہ دنوں میں چار سو میل سے کچھ زیادہ فاصلہ طے کر لیا اور اب اس کے گھڑسوار ساتھی پیاس سے بیدم ہونے کو تھے۔ اس وقت اسے کچھ مقدونوی ملے جو خچروں کی پیٹھ پر مشکیں رکھے لے جا رہے تھے۔

انہوں نے سکندر کو پیاس سے بیدم دیکھا تو جلدی سے ایک خود میں پانی بھر کر اسے دیا۔ اس نے پوچھا کہ یہ پانی وہ کس کے لیے لے جا رہے ہیں ۔ ’’اپنے بیٹوں کے لیے،‘‘ انہوں نے اسے بتایا۔ ’’لیکن جب تک آپ کا سایہ قائم ہے ہمیں اور بچے مل جائیں گے اگر ہم انہیں کھو بیٹھے۔‘‘

یہ سن کر اس نے خود اپنے ہاتھ میں لے لیا لیکن پھر اس نے نگاہ اٹھائی تو اپنے پیاسے سواروں کو دیکھا جن کی نظریں پانی پر جمی ہوئی تھیں ۔ اس نے ایک بھی قطرہ پیے بغیر پانی واپس کر دیا۔ اس نے پانی لانے والوں کا شکریہ ادا کیا اور پھر کہا۔

’’اگر میں نے اکیلے پانی پیا تو دوسرے ہمت ہار بیٹھیں گے!‘‘

اس کے ساتھیوں نے ضبطِ نفس اور عالی ظرفی کا یہ مظاہرہ دیکھا تو انہوں نے فوراً ہی نعرے بلند کئے اور چلّا اٹھے کہ وہ انہیں بلا توقف آگے لے جائے۔ وہ اچک رک اپنے گھوڑوں پر سوار ہو گئے اور کہنے لگے کہ انہیں نہ تھکن محسوس ہو سکتی ہے نہ پیاس اور نہ ہی وہ خود کو عام انسانوں کی طرح سمجھ سکتے ہیں جب تک کہ ان کے پر ایک ایسا بادشاہ حکمراں ہے۔

               ۴۳ دارا کا انجام

اگرچہ سکندر کے تمام ساتھی اسی جذبے سے سرشار تھے لیکن کہانی کے مطابق صرف ساٹھ ساتھی اس وقت تک اس کی تیزرفتاری کا ساتھ دے سکے جب وہ دارا کے پڑاؤ میں داخل ہوا۔

سونے چاندی کے برتوں کے انباروں کو پھلانگتے ہوئے جو زمین پر پڑے ہوئے تھے وہ عورتوں اور بچوں سے بھری ہوئی گاڑیوں کے پاس سے گزرتے ہوئے جو بغیر کوچوانوں کے اِدھر اُدھر گھوم رہی تھیں بالآخر شاہی رَتھوں کے جتھے میں پہنچ گئے۔ ان کا خیال تھا کہ دارا یہیں ہو گا۔

بالآخر وہ انہیں ایک گاڑی میں پڑا مل گیا۔ وہ برچھیوں سے چھلنی کر دیا گیا تھا اور اپنی آخری سانسیں گن رہا تھا۔ اس نے پانی مانگا۔

ایک مقدونوی نے جس کا نام پالسٹراٹس تھا  اُسے ٹھنڈا پانی دیا۔ یہ پانی حلق سے اتارنے کے بعد دارا نے کہا۔

’’یہ میری آخری بدقسمتی ہے کہ میں تم سے خدمت لوں اور تمہیں اس کا معاوضہ دینے کے قابل نہ ہوں ۔ لیکن سکندر تمہیں اس مہربانی کا صلہ دے گا اور دیوتا اسے ان احسانات کا بدلہ دیں گے جو اس نے میری ماں ، بیوی اور بچوں پر کئے ہیں ۔ میں تمہارے ہاتھ پر سکندر کی اطاعت قبول کرتا ہوں ۔‘‘

یہ کہتے ہوئے اس نے پالسٹراٹس کا ہاتھ پکڑ لیا اور مر گیا۔

سکندر آیا تو اس نے بادشاہ کی موت پر بہت رنج و الم کا اظہار کیا اور اپنی چادر اتار کر اُس سے دارا کی لاش ڈھانپ دی۔ بعد ازاں جب اس نے بادشاہ کے قاتل بسوس کو گرفتار کر لیا تو اس کا ایک ایک عضو چیر دیا۔

سکندر کے حکم پر دو درختوں کی شاخیں اتنی جھکائی گئیں کہ وہ آپس میں مل گئیں ۔ بسوس کے جسم کو ان درختوں کے درمیان باندھ دیا گیا۔ پھر جب درختوں کو چھوڑا گیا اور وہ واپس اپنی اصلی حالت پر پہنچنے کے لئے زور سے کھنچے تو جسم کے وہ حصے جو ان سے بندھے ہوئے تھے جسم سے علیٰحدہ ہو گئے۔

جہاں تک دارا کی لاش کا تعلق ہے سکندر نے اسے دارا کی ماں کے پاس بھجوا دیا تاکہ شاہی اعزاز کے ستاھ اس کی تدفین کی جائے۔ نیز اس کے بھائی اکساتھرنیر کو اپنے خاص ساتھیوں کے حلقے میں شامل کر لیا۔

 

               ۴۴ نیا سمندر

دریں اثنا اسکندر اپنی فوج کے قلب کو اپنے ساتھ لے کر ہرکانیا میں بڑھتا چلا گیا۔ یہاں اسے ایک خلیج نظر آئی جو بحیرۂ اسود سے بھی زیادہ وسیع معلوم ہوتی تھی اور جس کا پانی بحیرۂ روم کے پانی سے زیادہ میٹھا تھا۔ اسے اس کے متعلق کچھ خاص معلومات نہیں مل سکیں لیکن اس نے اندازہ لگایا کہ یہ پانی غالباً جھیل مائیوٹس سے یہاں آیا ہے۔

کئی جغرافیہ دان اس سے پہلے ہی حقیقت کا سراغ پا چکے تھے اور سکندر کی مہم سے کئی برس قبل انہوں نے کہہ دیا تھا کہ یہ ان چاروں خلیجوں میں سب سے شمال میں واقع ہے جو بحرِ محیط سے اند رکی جانب بڑھی ہوئی ہیں (۳۱)۔ اس سمندر کا نام بحیرۂ اخضر ہے۔

اس علاقے کے مقامی لوگ سائیسوں کو چکما دے کر بیوسیفالس لے بھاگے۔ سکندر کو سخت غصہ آیا اور اس نے اعلان کروا دیا کہ اگر گھوڑا واپس نہ کیا گیا تو وہ پورے قبیلے کو موت کے گھاٹ اتار دے گا، عورتوں اور بچوں کو بھی معاف نہیں کیا جائے گا۔ لیکن جب چوروں نے گھوڑا واپس کر دیا اور اس کی اطاعت قبول کر لی تو سکندر نے سب کے ساتھ بہت اچھا سلوک کیا حتیٰ کہ ان لوگوں کو انعام بھی دیا جنہوں نے اس کا گھوڑا چرا لیا تھا۔

               ۴۵ لباس کامسئلہ

یہاں سے وہ پارتھیا میں داخل ہوا اور یہ وہ مقام تھا جہاں اس نے پہلی مرتبہ فارسیوں کا لباس اپنایا۔

 ہو سکتا ہے اس نے یہ اس لیے کیا ہو کہ وہ مقامی لوگوں میں گھل مل جانا چاہتا ہو کیونکہ وہ جانتا تھا کہ نسلی اور تمدنی شرکت سے لوگوں کے دل نرم ہو جاتے ہیں ۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ تبدیلی مقدونویوں کو فارس کی درباری رسوم پر آمادہ کرنے کی جانب پہلا قدم ہو۔اس نے سوچا ہو گا کہ سب سے پہلے مقدونویوں کو اس بات کا عادی بنا دے کہ وہ اس کے لباس اور طرزِ زندگی میں کوئی بھی تبدیلی بے چون و چرا تسلیم کر لیں ۔

 بایں ہمہ اس نے میدوی لباس نہیں اپنایا جو  بالکل ہی اجنبی تھا نہ اس نے پائجامے پہنے اور نہ ہی فارسیوں کی پگڑی نما ٹوپیاں ۔ اس کی بجائے سکندر نے جو انداز اپنایا وہ فارسی اور میدی ملبوسات کا درمیانی راستہ تھا جو فارسی لباس سے زیادہ دیدہ زیب اور میدوی لباس سے زیادہ با وقار تھا۔

ابتدا میں یہ لباس وہ صرف مقامی لوگوں کے درمیان ہی استعمال کرتا یا پھر اس وقت جب وہ اپنے مخصوص رفقا کے ساتھ خیمے میں ہوتا لیکن بعد میں وہ اس لباس کو سواری اور عام لوگوں کے درمیان بھی استعمال کرنے لگا۔

یہ نظارہ مقدونویوں کے لیے خوشگوار نہ تھا لیکن وہ سکندر کی دوسری خوبیوں کے اتنے مداح تھے کہ انہیں معقولیت اِسی میں نظر آئی کہ وہ سکندر کو ایسی باتوں میں رعایت دے دیں جو اسے لطف دیتی ہوں یا اس کے وقار میں اضافہ کرتی ہوں ۔ دوسری سخت کوشیوں کے علاوہ ابھی حال ہی سکندر نے اپنی پنڈلی پر تیر کا زخم کھایا تھا جس نے ہڈی کو اس بری طرح توڑ ڈالا تھا کہ چھوٹے چھوٹے ٹکڑے نکالنے پڑے تھے۔ اسی طرح ایک اور موقع پر اس کی گردن پر ایسی ضرب لگی تھی جس کی وجہ سے کافی عرصہ تک اسے دھندلا دکھائی دیتا رہا۔ اس کے باوجود بھی اس نے اپنی ذات کو خطرے میں ڈالنا جاری رکھا مثال کے طور پر اس نے دریائے ارکسارٹیز عبور کیاجسے وہ ٹنائز سمجھ رہا تھا ، ستھیوں کو گھیرا، بارہ میل یا اس سے بھی زیادہ دور تک ان کا پیچھا کیا اور اس تمام دوران وہ پیچش میں مبتلا رہا۔

               ۴۶ جنگجو ملکہ

یہیں سکندر کی ملاقات امیزنوں کی ملکہ سے ہوئی۔

اس واقعے کو تسلیم کرنے والوں میں کلیکارٹس، اونیسکریٹس،اینٹگنیز اور اِسٹر شامل ہیں جبکہ بطلیموس، انٹکلیڈس، تھیبزکا رہنے والا  فیلو، تھیانگیلا کا رہنے والا فیلقوس اور ان کے علاوہ اریٹریا کا ہیکاٹائیس، کلسیڈیا کا فیلقوس اور ساموس کا رہنے والا ڈورس یہ تمام کہتے ہیں کہ یہ محض افسانہ ہے اور سکندر کو دیکھتے ہوئے ان کی بات درست معلوم ہوتی ہے۔انٹیپیٹر کے نام اپنے ایک خط میں سکندر نے اس زمانے کے تمام واقعات تفصیل کے ساتھ لکھے، یہ بھی بتایا کہ ستھیوں کے بادشاہ نے اپنی بیٹی کی شادی اس سے کرنا چاہی مگر امیزنوں کا کوئی ذکر اس خط میں نہیں ہے۔

ایک اور کہانی بھی اس سلسلے میں بیان کی جاتی ہے کہ لائکیمیکس جو سکندر کی مہمات میں اس کے ساتھ تھا بعد ازاں جب وہ مقدونیہ کا بادشاہ بن گیا تو ایک دن  اونیسکریٹس اس کے دربار میں اپنی تاریخ کی چوتھی جلد سنا رہا تھا۔ اس میں امیزنوں کا قصہ آیا تو لائکیمیکس نے کہا۔

’’مجھے حیرت ہے میں اُس وقت کہاں تھا!‘‘

بہرحال حقیقت جو بھی رہی ہو نہ تو اس کہانی کو جھوٹ کہنے سے ہمارے دل میں سکندر کی قدر و منزلت کم ہو سکتی ہے اور نہ ہی اس کے سچ ثابت ہونے سے بڑھ جائے گی۔

               ۴۷ رُخسانہ

اب سکندر کے دل میں یہ خدشہ پیدا ہو رہا تھا کہ کہیں مقدونوی اس کے ساتھ آگے بڑھنے سے انکار نہ کر دیں چنانچہ اس نے اپنی فوج کے بڑے حصے کو یہیں آرام کرنے کے لیے کہا اور چند اچھے دستے اپنے ساتھ لیے جو بیس ہزار پیدل اور تین ہزار سواروں پر مشتمل تھے۔ ان کے ساتھ وہ ہرکانیہ میں آگے بڑھ گیا۔

اس نے اپنی اس منتخب فوج سے کہا کہ اب تک فارسی ہمیں ایسے دیکھتے رہے ہیں جیسے وہ خواب میں ہوں لیکن اب اگر ہم ان کے ملک میں ابتری پھیلا کر واپس ہو گئے تو وہ ہم پر اس طرح ٹوٹ پڑیں گے کہ جیسے ہم سب عورتیں ہوں ۔

اس نے کہا کہ اگر ان میں سے کوئی واپس جانا چاہتا ہو تو اسے اجازت مل جائے گی لیکن وہ گواہ رہے گاکہ اس نے اس وقت سکندرکا ساتھ چھوڑ کر اسے صرف اس کے ذاتی دوستوں اور آگے بڑھنے پر آمادہ گنے چنے لوگوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جبکہ سکندر مقدونویوں کے لیے تمام دنیا کی حکومت حاصل کر رہا تھا ۔

مندرجہ بالا الفاظ تقریباً وہی ہیں جو اس کے مکتوب بنام انٹیپیٹر میں درج ہیں ۔ نیز اس خط میں یہ بھی لکھا ہے کہ جب وہ یہ الفاظ کہہ چکا تو حاضرین نے نعرے لگائے اور درخواست کی کہ دنیا میں جہاں کہیں بھی ہمیں لے جانا چاہتے ہیں لے جائیے۔ ان سپاہیوں کی وفاداری جیت لینے کے بعد اسے باقی فوج سے اپنی بات منوا لینے میں بھی کوئی دِقّت نہ ہوئی اور اس کے بعد یقیناً انہوں نے اپنی خوشی سے اس کا ساتھ دیا۔

اس کے بعد وہ مقامی لوگوں کے سے انداز میں زندگی بسر کرنے لگا۔ اس نے کوشش کی کہ مقدونوی بھی ان لوگوں کے رہن سہن کا اثر لے لیں ۔ اسے یقین تھا کہ اگر اِن دونوں قوموں کے تمدن میں رشتہ قائم ہو گیا تو اس کی حکومت زیادہ مضبوط ہو جائے گی خواہ وہ دور دراز خطوں ہی میں کیوں نہ چلا جائے کیونکہ اس صورت میں اس حکومت کی بنیاد قوت پر نہیں بلکہ عوام کی اپنی رضامندی پر ہو گی۔ اسی وجہ سے اس نے تیس ہزار فارسی لڑکے منتخب کئے اور احکام جاری کر دئیے کہ انہیں یونانی زبان اور مقدونوی انداز ِ سپہ گری سکھائے جائیں ۔ اس کام کے لیے کثیرتعداد میں اساتذہ مقرر کئے۔

رخسانہ سے اس کی شادی محبت کی وجہ سے ہوئی۔ یہ محبت اسے پہلی ہی نظر میں ہو گئی جب اس نے رخسانہ کو اپنے عنفوانِ شباب میں ایک تقریب میں رقص کرتے ہوئے دیکھا۔ یہ تھی تو محبت ہی کی شادی لیکن اس نے سکندر کی اس حکمتِ عملی میں بھی بہت مدد دی جو وہ اپنی حکومت کے استحکام کے سلسلے میں اختیار کرنا چاہتا تھا یعنی دونوں نسلوں کا ملاپ۔ ایشیائی لوگوں کے لیے یہ ملاپ نہایت حوصلہ افزا بات تھی اور سکندر کے اس شریفانہ فعل نے ان کے دل بالکل ہی جیت لیے کہ وہ شادی کے بندھن میں بندھے بغیر اس لڑکی کے پاس بھی نہ گیا جسے وہ دل دے بیٹھا تھا۔

سکندر نے محسوس کیا کہ اس کے قریبی ساتھیوں میں سے ہیفا اسشن اس کی ان باتوں کو پسند کرتا تھا اور نئے طرزِ زندگی میں اس کا ساتھ بھی دیتا تھا جبکہ کریٹرس مقدونوی انداز ہی پر قائم تھا۔ اسی لئے سکندر نے یہ طریقہ اختیار کیا کہ مقامی لوگوں کے معاملات میں ہیفا اسشن سے کام لیتا اور یونانیوں کے معاملے میں کریٹرس سے۔ بہرحال سکندر ہیفا اسشن سے بہت محبت کا اظہار کرتا اور کریٹرس کی بھی اتنی ہی قدر کرتا۔ اس کی رائے جس کا وہ اکثر اظہار کرتا یہ تھی کہ ہیفا اسشن سکندر کا دوست ہے اور کریٹرس بادشاہ کا!

ان دونوں میں رقابت کا احساس پیدا ہوتا گیا اور وہ اکثر کھلم کھلا جھگڑنے لگے۔ ایک دفعہ ایک مہم کے دوران انہوں نے تلواریں سونت لیں اور ایک دوسرے پر حملے کرنے لگے۔ ان کے دوست بھی اس لڑائی میں شریک ہوتے گئے۔

سکندر موقع پر پہنچ گیا اور ہیفا اسشن کو سب کے سامنے سخت سست کہا۔ اسے کہا کہ وہ انتہائی احمق اور پاگل ہے اگر اتنی سی بات نہ سمجھے کہ بادشاہ کی پشت پناہی کے بغیر وہ کچھ بھی نہیں ۔ پھر تنہائی میں اس نے کریٹرس کو ڈانٹا۔ اس کے بعد دونوں کو بلایا اور انہیں دوبارہ دوست بنا دیا۔ اُس نے زیوس آمون اور دوسرے دیوتاؤں کی قسم کھائی کہ یہ دونوں آدمی اسے دنیا میں سب سے زیادہ عزیز ہیں لیکن اگر آئندہ اُس نے انہیں جھگڑتے دیکھا تو وہ دونوں کو جان سے مار دے گا یا کم از کم اسے جس نے جھگڑا شروع کیا ہو۔

کہتے ہیں کہ اس کے بعد انہوں نے کبھی ایک دوسرے کے خلاف کوئی حرکت نہ کی، نہ ہی کوئی لفظ منہ سے نکالا حتیٰ کہ مذاق میں بھی نہیں ۔

               ۴۸ فلوٹس

اُس وقت مقدونویوں میں شائد ہی کوئی ایسا تھا جو پارمینیوں کے بیٹے فلوٹس سے زیادہ بارسوخ ہو(۳۲)۔ وہ اپنی شجاعت اور قوتِ برداشت کی وجہ سے خاصی شہرت رکھتا تھا اور فیاضی اوردوستوں سے محبت کے سلسلے میں سکندر کے سوا کوئی بھی اس کا مقابلہ نہ کر سکتا تھا۔

بتایا جاتا ہے کہ ایک دفعہ جب اس کے کسی دوست کو رقم کی ضرورت پڑی اورفلوٹس کے خزانچی نے بتایا کہ اس کے پاس دینے کے لیے کچھ نہیں بچا تو فلوٹس بولا۔

’’کیا مطلب؟ کیا تم یہ کہنا چاہتے ہو کہ میرے پاس کوئی ایسا برتن یا سامان نہیں ہے جسے بیچ سکوں ؟‘‘

تاہم فلوٹس غرور، شان و شوکت اور ٹھاٹھ باٹھ کا اظہار کرتا تھا اور اس کی یہ عادات بادشاہ کو اس سے بد ظن کر سکتی تھیں ۔ خاص طور پر اِن دنوں وہ کچھ ایسے شاہانہ طور طریقے اپنا رہا تھا کہ ایک دفعہ اس کے باپ پارمینیو نے اسے مشورہ دیا۔

’’بیٹے، اتنی خود نمائی سے باز رہو۔‘‘

اور بیشک فلوٹس سے متعلق شکوک و شبہات کافی عرصہ پہلے ہی سکندر کے ذہن میں پیدا ہو چکے تھے۔ جب سلیشیا میں دارا کو شکست ہوئی(۳۳)  اور دمشق میں اس کے خزانے پر قبضہ کر لیا گیا تو جو قیدی سکندر کے پڑاؤمیں لائے گئے ان میں ایک خوبصورت یونانی لڑکی بھی تھی۔ یہ پڈنا میں پیدا ہوئی تھی اور اس کا نام انٹیگنی تھا۔ یہ لونڈی فلوٹس کے حوالے کی گئی تھی اور شراب کے نشے میں فلوٹس اس کے سامنے اکثر شیخیاں بگھارتا رہتا۔ یہاں تک کہہ جاتا کہ تمام شاندار مہمات پارمینیو اور خود فلوٹس کی کوششوں سے کامیاب ہوئی ہیں ۔ وہ سکندر کا ذکر ایسے کرتا جیسے وہ محض بچہ ہے اور محض اِن باپ بیٹوں کی بدولت بادشاہ کہلاتا ہے۔

انٹیگنی نے اپنی کسی سہیلی سے یہ باتیں کہہ دیں اور اس نے کسی اور سے کہا۔ ہوتے ہوتے یہ بات کریٹرس کے کانوں تک جا پہنچی۔ وہ لونڈی کو سکندر کے پاس لے گیا۔ بادشاہ نے اس کی کہانی سن کو تاکید کی کہ فلوٹس سے بدستور ملتی رہے لیکن وہاں جو کچھ بھی سنے آ کر بتا دے۔

               ۴۹ فلوٹس کی موت

فلوٹس کو اس جال کا خواب و خیال نہ تھا جو اس کے گرد پھیلایا جا رہا تھا۔ وہ انٹیگنی سے باتیں کرتے ہوئے اب بھی الٹی سیدھی ہانکتا رہا اور بادشاہ کی شان میں بھی گستاخانہ کلمات کہتا رہا کبھی غصے میں اور کبھی شیخی میں ۔

اگرچہ سکندر کو فلوٹس کے خلاف کافی مواد مل چکا تھا وہ اب بھی یہ گستاخیاں خاموشی کے ساتھ درگزر کرتا رہا اور خود کو قابو میں رکھا کیونکہ اسے فلوٹس کی وفاداری پر اعتماد تھا یا شائد اس لیے کہ اسے باپ بیٹے کے اثرورسوخ کا خوف تھا۔

لیکن اس دوران کلائسٹرا سے آنے والے ایک مقدونوی نے سکندر کے خلاف سازش کی۔ اس کا نام ڈمناس تھا۔ اس نے نکومیکس نامی ایک نوجوان کو اپنے ساتھ شریک کرنے کی کوشش کی لیکن نکومیکس نے انکار کر دیا اور اپنے بھائی قبالنوس کو اس قصے کی خبر کر دی۔ قبالنوس یہ سن کر فلوٹس کے پاس گیا اور کہنے لگا کہ ان کے پاس کوئی ایسی خبر ہے جسے فوراً بادشاہ تک پہنچانا ضروری ہے لہٰذا اسے بادشاہ کے پاس پہنچا دیا جائے۔ فلوٹس نے انہیں سکندر کے پاس نہ جانے دیا اور کہا کہ بادشاہ اس وقت کسی ضروری کام میں مصروف ہے۔

فلوٹس نے ایسا کیوں کیا؟ اس کی صحیح وجہ معلوم نہیں ہو سکی۔ اور یہ اس نے ایک دفعہ نہیں بلکہ دو دفعہ کیا۔ دوسری دفعہ بھی انکار سن کر دونوں بھائیوں کو اس پر بھی شبہ ہو گیا اور کسی دوسرے آدمی کے پاس جا پہنچے جس نے انہیں بادشاہ کے پاس پہنچا دیا۔

انہوں نے سب سے پہلے توڈمناس کی سازش کو بے نقاب کیا اور پھر فلوٹس کے خلاف شکایتوں کا دفتر کھول کر رکھ دیا کیونکہ اس نے دو مرتبہ ان کی باریابی کی درخواست رد کر دی تھی۔

یہ خبر سن کر سکندر غصے میں آ گیا اور جب اسے یہ اطلاع پہنچی کہ ڈمناس نے گرفتار ہونے سے انکار کر دیا اور اس شخص کے ہاتھوں مارا گیا جو اسے پکڑنے کے لیے بھیجا گیا تھا تو سکندر کا اضطراب اور بھی بڑھ گیا کیونکہ وہ سوچ رہا تھا کہ سازش کی تہہ تک پہنچنے کا امکان ختم ہو گیا۔ فلوٹس کے خلاف اس کے ذہن میں ناپسندیدگی پیدا ہو گئی اور اس نے اُن لوگوں کی باتوں پر یقین کیا جو عرصے سے فلوٹس کے خلاف موقعے کی تلاش میں تھے۔ ان لوگوں نے صاف کہہ دیا کہ بادشاہ کے لیے یہ سمجھنا حماقت ہو گی کہ ڈمناس جیسا شخص جو کلائسٹرا جیسے گمنام قصبے سے آیا تھا وہ ایسی گھناؤنی سازش کرنے کی ہمت کر سکتا ہے۔ وہ محض آلۂ کار تھا، کسی خاصے بارسوخ آدمی کا مہرہ۔ وہ کہتے تھے کہ سکندر کو چاہئیے کہ وہ اصل سازشی تک پہنچنے کی کوشش کرے اور اسے ان لوگوں میں تلاش کرے جو اِس ساز ش کو چھپانے کی کوشش کر رہے تھے۔

سکندر نے یہ شکایتیں سننا شروع کیں فلوٹس کے دشمن اس کے خلاف بیشمار الزامات لے آئے۔ فلوٹس کو گرفتار کر لیا گیا اور سکندر کے رفقائے خاص کی موجودگی میں اس پر تشدد کیا گیا جبکہ خود سکندر ایک پردے کے پیچھے چھپ کر جرح سنتا رہا۔

 بتایا جاتا ہے کہ جب فلوٹس سسکیاں لے رہا تھا اور ہیفا اسشن سے رحم کی درخواست کر رہا تھا تو سکندر نے کہا۔

’’اوہ، فلوٹس اگر تم اتنے ہی کمزور اور بزدل تو اتنی بڑی سازش میں خود کو ملوث کیوں کر بیٹھے!‘‘

فلوٹس کو سزائے موت دے دی گئی اور اس کے فوراً بعد سکندر نے اپنے کاردنے میدا بھجوا کر پارمینیو کو بھی مروا دیا۔ یہ ایک ایسا شخص تھا جس نے فیلقوس کے لیے کئی عظیم خدمات انجام دی تھیں اور جس نے فارس پر حملے کے لیے سکندر کے تمام ساتھیوں سے زیادہ اصرار کیا تھا۔ اپنے تین بیٹوں میں سے دو تو اس نے اپنی آنکھوں سے میدانِ جنگ میں مرتے دیکھا اور اب تیسرے کے ساتھ ہی اسے بھی موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا(۳۴)۔

سکندر کی ان باتوں نے اس کے تمام دوستوں بالخصوص انٹیپیٹر کو اس سے خوفزدہ کر دیا۔ یہی وجہ ہے کہ بعد میں وہ اٹولیوں کے ساتھ خفیہ معاہدے میں شریک ہو گیا۔ اٹولی سکندر سے بہت خوفزدہ تھے کیونکہ انہوں نے اوئنیڈے کا شہر تباہ کر دیا تھا۔

سکندر نے یہ سنا تو کہا۔

’’اوئنیڈے کے بیٹوں کو انتقام کی فکر نہیں کرنی چاہئیے کیونکہ اٹولیوں کو میں خود سزا دوں گا۔‘‘

               ۵۰ کلائیٹس

زیادہ عرصہ نہ گزرا تھا کہ کلائٹس کے قتل کا واقعہ پیش آیا (۳۵)۔ کلائیٹس کے ساتھ سکندر کا سلوک  ظاہری حقائق کی روشنی میں دیکھا جائے تو فلوٹس کے قتل سے بھی زیادہ دہلا دینے والا معلوم ہوتا ہے۔ تاہم اگر اس کے مواقع اور اسباب کا جائزہ لیا جائے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ دانستہ فعل کی بجائے تقدیر کی خرابی تھی۔ کلائٹس کے بد فطرت ہمزاد (۳۶) نے سکندر کے غصے اور مدہوشی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کلائٹس کو تباہ کر دیا۔

یہ واقعہ کچھ اس طرح ہوا۔

ساحل کی جانب سے کچھ لوگ بادشاہ کے لیے پھلوں کا تحفہ لائے۔ سکندر کو یہ پھل بہت پسند آئے اور اس نے کلائٹس کو بھی بلا بھیجا۔ اتفاق سے کلائٹس اس وقت قربانی دے رہا تھا۔ وہ یہ عمل شروع کر چکا تھا لیکن سکندر کے بلاوے پر اسے چھوڑ کر اٹھ کھڑا ہوا۔ تین بھیڑیں جن پر قربانی کا تیل ملا جا چکا تھا اس کے پیچھے پیچھے آ گئیں ۔ اِس پر سکندر نے اپنے جوتشی ارسٹانڈر اور سپارٹا کے کلومنٹاس سے رائے لی۔ دونوں نے اسے برا شگون بتایا لہٰذا سکندر نے انہیں حکم دیا کہ کلائٹس کے تحفظ کے لیے قربانیاں دی جائیں ۔ سکندر کو ایک عجیب خواب بھی پریشان کر رہا تھا جو اس نے دو روز پہلے دیکھا تھا۔ اس خواب میں اس نے کلائٹس کو پارمینیو کے بیٹوں کے ساتھ بیٹھے دیکھا۔ ان کے لباس سیاہ رنگ کے تھے اور چاروں مردہ تھے۔

لیکن اس سے پہلے کہ وہ قربانی جو کلائٹس کے لئے دی جا رہی تھی مکمل ہوتی کلائٹس بادشاہ کے ساتھ کھانا کھانے آ گیا۔ سکندر خود اسی دن ڈئسکوری کے نام قربانی دے چکا تھا۔

جب یہ لوگ خوب شراب پی چکے تو کسی نے پرانیکس نامی ایک شخص کے اشعار پڑھنا شروع کر دئیے (بعضوں کے نزدیک یہ اشعار پیرئیو کے تھے)۔ ان اشعار میں بعض ایسے مقدونوی کمانداروں کی تضحیک کی گئی تھی جنہیں ابھی حال ہی میں ایک جگہ شکست ہوئی تھی۔ حاضرین میں جو پرانے لوگ موجود تھے انہیں یہ بات ناگوار گزری اور انہوں نے ان اشعار کے شاعر اور گانے والے دونوں کے خلاف نفرت کا اظہار کیا لیکن سکندر اور اس کے پاس بیٹھے لوگوں کے تاثر سے ظاہر ہوتا تھا کہ انہیں یہ اشعار سننے میں لطف آ رہا ہے۔ انہوں نے گانے والے سے اشعار جاری رکھنے کے لئے کہا۔

کلائٹس جو بہت سی شراب پی چکا تھا اور فطرتاً اُجڈ اور تند مزاج تھا اب غصے میں آ گیا اور چیخ کر بولا۔

’’مقدونویوں کی توہین ان اجنبیوں اور دشمنوں کے درمیان نہیں ہونی چاہئیے خواہ انہیں بدقسمتی کا سامنا کرنا پڑا ہو۔ وہ یقیناً ان سے بہتر تھے جو آج یہاں ان کی ہنسی اُڑا رہے ہیں ۔‘‘

سکندر نے طنزاً کہا۔

’’بزدلی کو بدقسمتی کہہ کر غالباً تم اپنی صفائی پیش کر رہے ہو؟‘‘

یہ سن کر کلائٹس کھڑا ہو گیا اور بولا۔

’’ہاں ہاں یہ میری بزدلی تھی جس نے تمہاری جان بچائی تھی جب تم سپتھریڈیٹس کی تلوار کی طرف پیٹھ کئے کھڑے تھے۔ یہ انہی مقدونویوں کے لہو اور زخموں کا ثمرہ ہے کہ آج تم اتنی عظمت کو پہنچ گئے ہو کہ فیلقوس کا بیٹا ہونے سے انکار کر کے دیوتا آمون سے شجرہ جوڑتے ہو!‘‘

               ۵۱ کلائٹس کی موت

ان الفاظ نے سکندر کو انتہائی غصہ دلا دیا۔ وہ بولا۔

’’کمترین! کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ مجھ سے اس طرح بات کرنے اور مقدونیوں میں انتشار پھیلانے کی سزا نہیں پاؤ گے؟‘‘

’’لیکن ہم مقدونوی اس کی قیمت دے چکے ہیں ،‘‘ کلائٹس نے ترکی بہ ترکی جواب دیا۔ ’’ذرا سوچو، ہمیں ہماری مشقت کا کیا صلہ ملا؟ وہ جو مر گئے ہیں خوش نصیب ہیں ہیں کیونکہ وہ یہ دیکھنے کے لیے زندہ نہیں کہ مقدونوی اپنے محکوم میدیوں کے ہاتھوں ذلیل ہو رہے ہیں یا خود اپنے ہی بادشاہ سے ملاقات کے لیے فارسیوں سے درخواست کرتے پھر رہے ہیں !‘‘

کلائٹس نے انتہائی گستاخی سے یہ تمام بکواس کی تو سکندر کے دوست اٹھ کھڑے ہوئے اور کلائٹس کو ملامت کرنے لگے جبکہ بڑے بوڑھوں نے طرفین کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش شروع کر دی۔ پھر سکندر نے کارڈیا کے زینوڈوکس اور کولوفون کے آرٹیمئس کو مخاطب کیا اور ان سے پوچھا۔

’’ جب تم یونانیوں کو مقدونویوں کے درمیان چلتے دیکھتے ہو تو کیا ایسا نہیں لگتا جیسے ناخدا جنگلی جانوروں کے درمیان پھر رہے ہو؟‘‘

لیکن کلائٹس بھی بات ختم کرنے پر آمادہ نہ تھا۔ وہ بولا۔

’’تم اپنی میز پر آزاد لوگوں کو مت بلایا کرو جو وہی بات کہہ دیتے ہیں جو ان کے ذہن میں ہوتی ہے۔ تم اپنا تمام وقت ان اجنبیوں اور غلاموں کے درمیان گزار لیا کرو۔ یہ تمہارے سفید چغے اور فارسی صدری کو سجدے کریں گے۔‘‘

اب سکندر سے برداشت نہ ہو سکا۔ اس نے میز پر پڑے ہوئے سیبوں میں سے ایک اٹھایا اور کلائٹس پر کھینچ مارا۔ پھر اس نے اپنے خنجر کی تلاش میں نگاہ دوڑائی۔ اس کے محافظوں میں سے ایک نے جس کا نام ارسٹوفنیز تھا پہلے ہی خنجر چھپا دیا تھا تاکہ کوئی حادثہ نہ ہو جائے۔

سب لوگ کلائٹس کے گرد جمع ہو گئے اور اُس سے خاموشی اختیار کرنے کی درخواست کرنے لگے لیکن سکندر چھلانگ لگا کر اٹھ کھڑا ہوا اور مقدونوی زبان میں اپنے محافظ کے لیے چلّایا۔ یہ خطرے کا اشارہ تھا۔

پھر سکندر نے تُری بجانے والے سے کہا کہ خطرے کے اشارے کے طور پر تُری بجا دے۔ اس نے تعمیل نہیں کی تو سکندر نے اُسے مُکّا مارا۔ بعد ازاں تری بجانے والے کو بہت سراہا گیا کیونکہ اسی کی وجہ سے پورا لشکر انتشار کا شکار ہونے سے بچ گیا تھا۔

کلائٹس کسی بھی صورت وہاں سے ہٹنے پر آمادہ نہیں تھا لہٰذا اس کے دوست اسے زبردستی کھینچ کر طعام گاہ سے باہر لے گئے لیکن وہ فوراً ہی ایک اور دروازے سے دوبارہ آ موجود ہوا اور ساتھ ہی بلند اور گرجتی ہوئی آواز میں یوریپڈیز کے ڈرامے کا یہ مصرعہ پڑھا:

’’افسوس! کیسی برائیوں کی حکومت ہے یونان پر!‘‘

یہ سن کر سکندر نے ایک سپاہی سے برچھی چھینی اور کلائٹس کے سامنے پہنچ کر جو دروازے کا پردہ ہٹا رہا تھا برچھی اسے گھونپ دی۔ اس کے منہ سے تکلیف کے باعث ایک چیخ نکلی اور وہ ایک آہ کھینچتے ہوئے ڈھیر ہو گیا۔

دفعتہً سکندر کا غصہ اتر گیا۔ اب وہ اپنے آپے میں آیا اور اپنے گرد ساتھیوں کو کھڑے دیکھا جن کی زبانیں گنگ ہو کر رہ گئی تھیں تو اس نے لاش میں سے برچھی نکالی اور اپنے حلق میں گھونپ لی ہوتی اگر پاس کھڑے ہوئے محافظوں نے اس کے ہاتھ نہ پکڑ لئے ہوتے۔ وہ اسے دھکیلتے ہوئے اس کے خیمے میں لے گئے۔

               ۵۲ پچھتاوا

باقی رات، اگلا دن اور اگلی رات بھر وہ وہیں پڑا رہا۔ پچھتاوا اتنا شدید تھا کہ وہ سسکیاں لیتا رہا۔ بالآخر وہ رو رو کر نڈھال ہو گیا۔ سرد آہیں بھرتا تھا لیکن ٹھیک طرح سے بات کرنے کے قابل نہ تھا۔

اس کے کچھ ساتھی اس کی خاموشی سے پریشان ہو گئے اور اس کے خیمے میں گھس گئے مگراس نے کسی کی بات پر توجہ نہ دی۔

ارسٹانڈر نے اسے اس کا خواب یاد دلایا اور اس کی تعبیر بتاتے ہوئے کہا کہ یہ حادثات مقدر میں لکھے جا چکے تھے۔ اس بات کا سکندر پر کچھ اثر ہوا۔

 اس مقصد کے لیے دو فلسفی بھی اس کے پاس لائے گئے۔ ایک کیلستھنیز جو ارسطو کا بھتیجا تھا اور دوسرا اناکسارکس جو آبدیرہ کا رہنے والا تھا۔ کیلستھنیز نے نرم اور دلجویانہ باتوں سے اسے اس تکلیف سے نجات دلانے کی کوشش کی۔ اس نے براہِ راست س معاملے کی طرف اشارہ نہ کیا بلکہ اِدھر اُدھر کی باتوں کے ذریعے اسے مطلب کی باتیں کہیں ۔ اس کے برعکس اناکسارکس ہمیشہ بیباکی کے ساتھ فلسفہ بیان کرتا تھا اور اپنے ساتھیوں پر طنز و تفنن کرنے کے لیے مشہور تھا۔ اس نے خیمے میں داخل ہوتے ہوئے کہا۔

’’یہ ہے وہ سکندر جسے پوری دنیا ہر معاملے میں معیار سمجھتی ہے اور یہ ایک غلام کی طرح فرش پر پڑا رو رہا ہے۔ اسے قانون کا خوف  ہے، اس بات کا ڈر ہے کہ لوگ اس کے متعلق کیا کہیں گے؟ حالانکہ قانون بنانے اور فیصلہ کرنے کا مختار یہ خود ہے۔ یہ فتوحات پر کیوں نکلتا اگر حکمرانی اور مطلق العنانی نہ چاہتا؟ یقیناً یہ فتوحات اس لیے حاصل نہیں کیں کہ خود کو ایک غلام کی طرح دوسروں کے احمقانہ تبصروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے۔ کیا معلوم نہیں کہ زیوس نے انصاف اور قانون کو اپنے دائیں بائیں بٹھا رکھا ہے تاکہ وہ اس بات کی تصدیق کرتے رہیں کہ دنیا کے حکمراں کا ہر عمل حسبِ قانون اور منصفانہ ہے؟‘‘

اس قسم کے دلائل استعمال کر کے اناکسارکس سکند رکی حالت سدھارنے میں کامیاب ہو گیا لیکن ساتھ ہی اس نے سکندر کو پہلے سے زیادہ ضدی اور جابر بنا دیا۔ اس نے بادشاہ کی نظروں میں اپنے لیے بڑی قدر و منزلت حاصل کر لی اور کیلستھنیز جسے بادشاہ پہلے ہی ناپسند کرتا تھا اب اناکسارکس کی کوششوں کے سبب سکندر کی نظروں سے اور بھی گر گیا۔

ایک قصہ ہے کہ ایک دن وہ سب میز پر بیٹھے ہوئے تھے ۔ موسم اور آب و ہوا کے متعلق گفتگو ہر رہی تھی۔ کیلستھنیز نے ان لوگوں کی حمایت کی جو یہ کہتے تھے کہ یہاں فارس میں یونان سے زیادہ سردی پڑتی ہے۔ اناکسارکس نے اپنے مخصوص ہتک آمیز انداز میں اس کی مخالفت کی تو کیلستھنیز نے جواب دیا۔

’’تمہیں تو یہ بات مان لینی چاہئیے کہ یہاں زیادہ سردی ہے کیونکہ یونان میں سردیوں بھر تم محض ایک چادر اوڑھے رہتے تھے جبکہ یہاں تم میز پربھی تین اُونی چادریں اوڑھے بیٹھے ہو!‘‘

اس پھبتی نے اناکسارکس کو کیلستھنیز سے اور زیادہ متنفر کر دیا۔

               ۵۳ کیلستھنیز

کیلستھنیز نے دیگر درباری فلسفیوں اور سکندر کے خوشامدیوں کو بھی جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ وہ اپنی گرم گفتاری کے باعث نوجوانوں میں زیادہ مقبول تھا اور پرانے لوگ بھی اس کے باقاعدہ، پر وقار اور قناعت پسندانہ طرزِ زندگی سے بہت خوش تھے۔

اس کی روش سے ان خبروں کی تصدیق ہوتی تھی جو اس بات کے متعلق ملی تھیں کہ وہ یونان سے یہاں کیوں آیا ۔ وہ اس بات کی کوشش کرنے آیا تھا کہ سکندر کو اس بات پر آمادہ کر لے کہ وہ اس کا آبائی شہر اولنتھس دوبارہ آباد کر دے (۳۷)۔

کیلستھنیز کا اثررسوخ اپنی جگہ مسلّم تھا لیکن اس کی روش نے اس کے دشمنوں کو اس کے خلاف باتیں بنانے کے کئی مواقع بھی فراہم کر دئیے تھے۔ وہ عام طور پر دعوتیں قبول نہیں کرتا تھا اور اگر کہیں جاتا بھی تو ایسا لگتا جیسے اس کے اردگرد جو کچھ ہو رہا ہے وہ اس کے خلاف ناپسندیدگی کا اظہار کرنا چاہتا ہو کیونکہ وہ عجیب سی خاموشی اپنے اوپر طاری کئے رہتا۔ خود سکندر نے بھی کئی مرتبہ اس کے متعلق کہا۔

’’ایک دانشور جو اپنا بھلا نہیں دیکھ سکتا!‘‘(۳۸)

ایک اور واقعہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ ایک دفعہ کئی آدمیوں کو بادشاہ کے ساتھ کھانے کی دعوت دی گئی۔ جام اس کی طرف بڑھا تو کسی نے اس سے فرمائش کی کہ مقدونویوں کی تعریف میں کچھ بولے۔ اس نے اتنی خوش اسلوبی سے اس موضوع پر بات کی کہ حاضرین نے اس پر ہار برسائے۔

اس پر سکندر نے یوریپڈیز کے ڈرامے باخئی میں سے یہ مصرعہ پڑھا:

’’اچھے موضوع پر سب لوگ اچھا بول سکتے ہیں !‘‘

’’لیکن اب،‘‘ سکندر نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا۔ ’’مقدونویوں پر تنقید کر کے اپنی خوش گفتاری کا ثبوت دو تاکہ وہ اپنی خامیوں پر قابو پا سکیں اور اپنی اصلاح کر سکیں ۔‘‘

کیلستھنیز نے تصویر کا دوسرا رخ دکھایا اور کئی حقائق کا اظہار کیا۔ اس نے یہ بھی کہا کہ فیلقوس کی قوت دراصل یونانی ریاستوں کے آپس میں نفاق کی وجہ سے تھی۔ ساتھ ہی اس نے یہ شعر پڑھا:

’’خانہ جنگی  ہو جائے تو لفنگے بھی خود کو معززین میں شمار کروا سکتے ہیں ۔‘‘

اس تقریر نے مقدونویوں کے دلوں میں اس کے خلاف نفرت کی نہ بجھنے والی آگ لگا دی۔ سکندر نے کہا کہ کیلستھننیز نے اپنی خوش گفتاری کا نہیں ان سے اپنی حقیقی نفرت کا اظہار کیا ہے۔

               ۵۴ کورنش

ہریپس کے بیان کے مطابق سٹریوبس نے ارسطو کو یہ قصہ اسی طرح سنایا جیسے یہاں درج کیا گیا ہے۔ سٹریوبس وہ غلام تھا جو کیلستھنیز کو پڑھ کر سنانے پر مامور کیا گیا تھا۔ اس نے ارسطو سے یہ بھی کہا کہ جب کیلستھنیز کو اندازہ ہو گیا کہ اس نے بادشاہ کی دشمنی مول لے لی ہے اس نے وہاں سے جاتے ہوئے ایلئڈ کا یہ مصرعہ تین مرتبہ دہرایا:

’’تم سے کہیں زیادہ بہادر پٹروکلوس تھا لیکن موت نے اسے نہ چھوڑا۔‘‘

ارسطو نے کہا۔

’’کیلستھننیز میں خوش بیانی تو بہت تھی لیکن سمجھداری کی کمی تھی۔‘‘

ایسا لگتا ہے کہ ارسطو نے درست ہی کہا تھا لیکن پھر بھی کورنش بجا لانے والے معاملے میں کیلستھنیز نے ایک سچا فلسفی ہونے کا ثبوت دیا۔ نہ صرف اس طرح کہ اس نے حق پسندی کے ساتھ ایسا کرنے سے انکار کر دیا بلکہ اس لحاظ سے بھی کہ صرف وہی تھا جس نے اُس نفرت کا اظہار بھی کر دیا جو پرانے اور چیدہ چیدہ مقدونویوں کے دل میں کورنش کی رسم کے لیے تھی۔ اس نے سکندر کو آمادہ کر لیا کہ یونایوں کو اس پر مجبور نہ کیا جائے۔

اس طرح اس نے یونانیوں کو بہت بڑی ذلّت سے بچا لیا اور سکندر کو اس سے بھی بڑی ذلّت سے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی اس نے اپنی تباہی کا سامان کر لیا کیونکہ اس نے یہ تاثر چھوڑا کہ اس آمادگی کے لئے اس نے دلائل سے قائل کرنے کی بجائے دباؤ ڈالا ہے۔

مٹائلین کا رہنے والا کیریز کہتا ہے کہ ایک دفعہ ایک بڑی تقریب میں سکندر نے خود شراب پینے کے بعد اپنے کسی دوست کو جام دیا جو اسے لیتے ہوئے تعظیماً کھڑا ہوا، جام پیا، سکندر کے سامنے کورنش بجائی، اس کا بوسہ لیا اور واپس اپنی جگہ پر بیٹھ گیا۔تمام حاضرین نے یہی کیا اور پھر جام کیلستھنیز کے ہاتھوں تک پہنچا۔

اس وقت سکندر ہیفا ا سشن سے بات کر رہا تھا اور اس کی توجہ کیلستھنیز کی طرف سے ہٹی ہوئی تھی۔ فلسفی شراب پی لینے کے بعد سکندر کا بوسہ لینے بڑھا۔ ڈیٹریوس، جس کا خاندانی نام فیڈو تھا، بول اٹھا۔

’’جناب! اِسے بوسہ مت دیجئیے، یہ واحد شخص ہے جس نے آپ کے آگے کورنش نہیں بجائی۔‘‘

چنانچہ سکندر نے بوسے سے انکار کر دیا اور کیلستھنیز نے اونچی آواز میں کہا۔

’’بہت بہتر! تب میں دوسروں  کے مقابلے میں ایک بوسے سے غریب رہ جاؤں گا۔‘‘

               ۵۵ سازش

اُن کے درمیان ایک دفعہ یہ خیلج حائل ہو گئی تو ہیفا اسشن کی اس بات پر یقین آ جانا آسان ہو گیا کہ کیلستھنیز نے اس سے وعدہ کیا تھا کہ وہ سکندر کے آگے کورنش بجا لائے گا لیکن اپنے عہد سے پھر گیا۔

 اس کے علاوہ لائکیمیکس اور ہیگن جیسے لوگ یہ خبر بھی پھیلاتے رہے کہ یہ فلسفی ایسا تاثر دیتا پھرتا ہے جیسے وہ کسی استبداد کو ختم کرنے پر کمر باندھے ہوئے ہو اور نوعمر لوگ اس طرح اس کے گرد جمع رہتے ہیں اور اس کے پیچھے پیچھے پھرتے ہیں جیسے وہی ان ہزاروں لوگوں کا گرو گھنٹال ہو۔

جب سکندر کے خلاف ہرمولوس کی سازش پکڑی گئی تو انہی افواہوں کی وجہ سے کیلستھنیز کے دشمنوں کو موقع مل گیا۔ ان دشمنوں کے کہنے کے مطابق ایک دفعہ ہرمولوس نے کیلستھنیز سے دریافت کیا تھا۔

’’میں کس طرح سب انسانوں سے بڑا بن سکتا ہوں ؟‘‘

اور فلسفی نے جواب دیا تھا۔

’’سب سے بڑے انسان کو قتل کر کے!‘‘

یہ بھی کہا گیا کہ اس سازش کے لیے ہرمولوس کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے اس نے اسے کہا تھا کہ سکندر کی سنہری مسہری سے متاثر ہونے کی بجائے یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ سابقہ ایک انسان سے ہے جس پر دوسرے لوگوں کی طرح بیماری اور جوئیں اثرانداز ہوتی ہیں ۔

لیکن حقیقت بہرحال یہی ہے کہ تشدد کے باوجود ہرمولوس کے ساتھیوں میں سے کسی نے بھی کیلستھنیز کے خلاف کچھ نہ کہا۔ اس کے فوراً بعد کریٹرس، اٹالوس اور الکٹس کے نام سکندر نے جو خطوط لکھے ان میں وہ خود کہتا ہے کہ ’’لڑکوں نے اپنی بات کا اعتراف کیا  کہ یہ سازش ان کی اپنی تھی اور ان کے علاوہ کسی اور کو اس کا علم نہیں تھا۔‘‘

البتہ انٹیپیٹر کے نام  ایک خط میں سکندر نے لکھا۔

’’لڑکوں کو مقدونویوں نے سکنگسار کر دیا لیکن فلسفی کو سزا میں خود دوں گا اور میں ان لوگوں کو نظرانداز نہیں کروں گا جنہوں نے اسے میرے پاس بھیجا تھا یا میرے خلاف سازش کرنے والوں کو اپنے شہروں میں پناہ دیتے ہیں ۔‘‘

کم از کم ان الفاظ میں ضرور اس نے ارسطو کے خلاف اپنے جذبات کا اظہار کیا ہے جس کے گھر میں کیلستھنیز کی پرورش ہوئی تھی کیونکہ وہ ارسطو کی بھتیجی کا بیٹا تھا۔

جہاں تک کیلستھننیز کی موت کا تعلق ہے تو کچھ روایات کے مطابق سکندر نے اسے پھانسی دی دینے کا حکم دیا لیکن دوسری روایات کے مطابق سکندر نے اسے بیڑیاں ڈلوا دیں اور وہ بیمار ہو کر مر گیا۔

کیریز کہتا ہے کہ گرفتاری کے بعد سات ماہ اُسے قید میں رکھا گیا تاکہ جمعیتِ کارِنتھ کی کونسل ارسطو کی موجودگی میں اس کے مقدمے کا فیصلہ کرے لیکن جس زمانے میں سکندر ہندوستان میں زخمی ہوا تقریباً اسی زمانے میں کیلستھنیز جوؤں کی بیماری سے مر گیا۔

               ۵۶ ڈیماریٹس کی تدفین

بہرحال یہ واقعات بعد کے ہیں ۔

اس دوران کارِنتھ سے ڈیماریٹس آیا۔ اگرچہ وہ بوڑھا ہو چکا تھا لیکن سکند رسے ملنے کا مشتاق تھا۔ سکندر کے پاس پہنچ کر اس نے کہا کہ جو یونانی سلندر کو دارا کے تخت پر دیکھنے سے پہلے مر گئے وہ دنیا کی ایک بہترین مسّرت سے محروم رہ گئے۔

لیکن ڈیماریٹس زیادہ عرصہ زندہ نہ رہا کہ سکندر کی دوستی سے لطف اندوز ہوتا بلکہ جلد ہی وہ بیمار پڑ گیا اور مر گیا۔

اس کی شاندار تدفین کی گئی۔ فوج نے اس کی یادگار میں اسّی کیوبٹ بلند اور خاصی چوڑی پہاڑی تعمیر کی۔ نیز اس کی راکھ جس بگھی میں ساحل تک لے جائی گئی اسے چار گھوڑے کھینچ رہے تھے اور اسے شاندار طریقے سے سجایا گیا تھا۔

               ۵۷ نئی مہم

اب سکندر ہندوستان پر حملہ کرنے والا تھا۔ وہ یہ بھی محسوس کر چکا تھا کہ اس کی فوج مالِ غنیمت سے بری طرح لدی ہوئی ہے اور اپنی تیز رفتاری کھو چکی ہے چنانچہ ایک صبح سویرے جب سامان گاڑیوں پر لادا جا چکا تھا تو اس نے پہلے اپنے اور اپنے رفقا کی گاڑیوں کو آگ لگوا دی اور پھر مقدونویوں کی گاڑیوں کو بھی آگ لگانے کے احکام جاری کر دئیے۔ اس پر عمل کرنا اتنا مشکل ثابت نہ ہوا جتنا کہ اس کا فیصلہ کرنا مشکل تھا۔ صرف چند سپاہیوں نے اسے ناپسند کیا مگر زیادہ تر نے خوشی کا اظہار کیا، جنگی نعرے لگائے اور اس مہم کے لوازمات بخوشی اپنے مستحق ساتھیوں میں بانٹ دئے۔ اس کے بعد انہوں نے غیر ضروری سامان کو آگ لگانے میں مدد کی اور اپنے ہاتھوں سے اسے تباہ کیا۔

 سکندر ان کا جذبہ دیکھ کر خود بھی بیحد جوش میں آ گیا اور اس کے عزائم بلندیوں کی انتہا کو پہنچ گئے۔اس وقت تک اس کے ساتھیوں میں اس کا خوف بھی پیدا ہو چکا تھا کیونکہ فرض میں کوتاہی کرنے والوں کے ساتھ وہ نہایت سختی سے پیش آتا تھا۔ مثال کے طور پر اس نے مینانڈر کو اس لیے سزائے موت دی تھی کہ اسے ایک شہر میں مقیم فوج کی کمان سونپی گئی تھی مگر اس نے انکار کر دیا تھا۔ سکندر نے ایک مقامی شخص ارسوڈاٹس کو اپنے ہاتھ سے مار ڈالا تھا۔ اس نے بغاوت کی تھی۔

تقریباً اسی زمانے میں ایک بکرا نظر آیا جس کا سر کسی ایسی چیز سے ڈھکا ہوا تھا جو رنگ اور شکل میں فارسی بادشاہوں کی پگڑی سے ملتی جلتی تھی اور اس کے دونوں جانب پٹکے لٹک رہے تھے۔ سکندر اس شگون سے بہت متاثر ہوا اور بابل کے پروہت سے اپنی نذر اتروائی۔ اسے وہ اسی قسم کے مقاصد کے لیے اپنے ساتھ لایا تھا۔

جب اس نے اس واقعے کے متعلق اپنے ساتھیوں سے بات کی تو انہوں نے بتایا کہ اس واقعے سے اسے جو پریشانی ہوئی وہ اپنی خاطر نہیں تھی بلکہ انہی کے لیے تھی کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ اس کی موت کی صورت میں دیوتا اقتدار کسی ایسے شخص کو دے دیں جو نا اہل اور کمزور ہو۔

تاہم ایک حوصلہ افزا واقعہ بھی پیش آیا جس نے ان بد شگونیوں کی تلافی کر دی۔ سکندر کے ملازمین کا سردار جس کا نام پروکینس تھا ایک جگہ کھدائی کر رہا تھا تاکہ دریائے آکس کے کنارے شاہی خیمہ لگایا جائے کہ ایک چکنے سیّال کا چشمہ دریافت ہو گیا۔ جب اس کی سطح ہٹائی گئی تو خالص اور صاف تیل پھوٹ نکلا جو خوشبو اور ذائقے میں زیتون کے تیل کی مانند تھا۔ نیز یہ چمک میں بھی بے مثال تھا اور پھر یہ تیل ملا بھی ایسے علاقے میں جہاں زیتون کے درخت نہیں تھے۔ کہا جاتا ہے کہ دریائے آکس کا پانی بھی بہت عمدہ ہے اور نہانے والوں کی جِلد کو فرحت کا احساس بخشتا ہے۔ اگر ہم سکندر کے ایک خط کو مدِّنظر رکھیں جو اس نے انٹی پیٹر کے نام لکھا تھا تو ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اس شگون سے بہت خوش ہوا تھا۔ اس خط میں اس واقعے کو دیوتاؤں کی بڑی حمایت قرار دیا ہے۔

البتہ کاہنوں نے اس کی تعبیر ایک ایسی مہم سے کی جو اگرچہ عظمت بخشے گی لیکن ساتھ ہی مشقت طلب اور تکلیف دہ بھی ہو گی۔ دلیل دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ تیل دیوتاؤں کی طرف سے انسانوں کو ان کی محنت کے ثمرے کے طور پر دیا جاتا ہے۔

               ۵۸ ہندوستان میں

اور یقیناً اسی طرح ہوا!

سکندر نے یہاں جو جنگیں لڑیں ان میں اس نے کئی خطرات کا سامنا کیا اور بری طرح زخمی ہوا لیکن اس کی فوج کو سب سے زیادہ نقصانات سامانِ رسد کی قلّت اور ناموزوں آب و ہوا کی وجہ سے اٹھانا پڑے۔ تاہم اپنے طور پر وہ یہ ثابت کرنا چاہتا تھا کہ دلیری قسمت پر فتح پا سکتی ہے اور جرات برتر قوّتوں پر۔ اس کا خیال تھا کہ چونکہ کوئی دفاع بہادروں کو روک نہیں سکتا لہٰذا بزدلوں کو محفوظ بھی نہیں رکھ سکتا۔

کہتے ہیں کہ جب وہ سِسی متِھرِس نامی ایک حاکم کے قلعے کا محاصرہ کیے ہوئے تھا تو مقدونوی دل ہار بیٹھے۔ یہ قلعہ ایک عمودی اور ناقابلِ تسخیر چٹان پر تھا۔ سکندر نے اوکسی  یارٹس سے پوچھا کہ کیا سِسی مِتھرِس خود بھی کوئی با حوصلہ انسان ہے؟ جواب ملا کہ وہ دنیا کا سب سے بڑا بزدل ہے۔

’’تب پھر تم مجھے جو کچھ بتا رہے ہواس کا مطلب یہ ہے کہ ہم یہ قلعہ حاصل کر سکتے ہیں کیونکہ اس کے محافظوں میں کوئی قوّت نہیں ہے،‘‘ سکندر نے کہا۔

اور یہ حقیقت ہے کہ اس نے سِسی مِتھرِس کے خوف سے کھیلتے ہوئے اس قلعے کو فتح کر لیا۔

 بعد ازاں جب وہ ایک اور ناقابلِ تسخیر قلعے پر حملہ کر رہا تھا تو وہ نوجوان مقدونویوں کی حوصلہ افزائی کر رہا تھا جن میں سے ایک  اس کا ہمنام تھا۔ اس سے سکندر نے کہا۔

’’کم از کم تمہیں اپنے نام کی خاطر خود کو ایک بہادر شخص ثابت کرنا ہو گا!‘‘

اس کے بعد وہ نوجوان بہت مہارت سے لڑا اور جنگ میں مارا گیا۔ سکندر کو اس کی موت پر بہت افسوس ہوا۔

ایک موقع پر مقدونوی نائسا کے قلعے پر حملہ کرنے سے کترا رہے تھے کیونکہ اس کے آگے ایک گہرا دریا بہہ رہا تھا۔ سکندر اس دریا کے کنارے پر رکا اور چلّایا۔

’’میں بھی کتنا بے وقوف ہوں ! آخر میں نے تیرنا کیوں نہ سیکھا!‘‘

پھر اس نے اپنی ڈھال اپنے بازو پر لے لی۔ جب اس نے جنگ میں وقفے کا حکم دیا تو آس پاس کے محصور شہروں سے سفیر آنے لگے۔ وہ سب صلح کی شرائط پوچھنے آئے تھے اور یہ دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئے کہ سکندر ابھی تک زِرہ پہنے زمین پر بیٹھا تھا۔ پھر جب اس کے لئے تکیہ لایا گیا تو اس نے سب سے معزز سفیر آکوفِس سے کہا کہ وہ اس تکئے سے ٹیک لگا لے۔ آکوفِس جو اس کی عالی ظرفی اور مہمان نوازی سے کافی متاثر ہوا تھا پوچھنے لگا کہ سکندرمقامی باشندوں سے کیا چاہتا ہے۔ سکندر نے اسے بتایا۔

’’میں یہ پسند کروں گا کہ تمہارے ہموطن تمہیں اپنا حکمران بنا لیں اور اپنے ایک سو بہترین آدمی میرے ساتھ کر دیں ۔‘‘

اس پر آکوفِس ہنسا اور کہنے لگا۔

’’میں زیادہ بہتر حکمرانی کر سکوں گا اگر میں آپ کے ساتھ بہترین آدمیوں کی بجائے بیکارترین آدمیوں کو بھیج دوں ۔‘‘

               ۵۹ ٹیکسلا میں

بتایا جاتا ہے کہ ٹکشائلز نامی ایک شہزادہ تھا جس کی سلطنت مصر سے بھی زیادہ وسیع تھی اور نہایت سرسبز اور زرخیز تھی۔ وہ ایک دانشمند حکمراں تھا اور اُس نے سکندر کا استقبال کر کے کہا۔

’’ہمیں جنگ لڑنے کی کیا ضرورت ہے؟ آپ یہاں ہم سے ضروریاتِ زندگی چھیننے نہیں آئے اور دانشمند لوگ انہی چیزوں کے لیے لڑنے کو جائز قرار دیتے ہیں ۔ جہاں تک دوسری قسم کی دولت اور جائیداد کا تعلق ہے وہ اگر میرے پاس آپ سے زیادہ ہوئیں تو میں آپ سے فیاضی برتنے پر تیار ہوں اور اگر میرے پاس آپ سے کم ہیں تو آپ مجھے جو کچھ دیں گے میں اُسے لینے سے انکار نہیں کروں گا۔‘‘

ان باتوں سے سکندر بہت خوش ہوا اور اس کا ہاتھ تھام کر بولا۔

’’شائد تمہارا خیال ہے کہ تمہارے خوشنما الفاظ اور میزبانی کے بعد ہماری ملاقات کسی مقابلے کے بغیر ختم ہو جائے گی؟ ہر گز نہیں ! یہ طریقہ اختیار کر کے بھی تم مجھے مقابلے سے باز نہیں رکھ سکتے۔ میں تم سے بڑا سخت مقابلہ کروں گا لیکن ہم دوست نوازی کا مقابلہ کریں گے اور اس مقابلے میں مَیں تمہیں جیتنے نہیں دوں گا۔‘‘

سکندر کو اُس سے بیشمار تحائف موصول ہوئے لیکن ان سے کہیں زیادہ اس نے جواب کے طور پر پیش کر دئیے اور آخر میں ایک ہزار ٹیلنٹ سکّوں کی صورت میں دئیے۔ اس سلوک نے جہاں اس کے اپنے دوستوں کوحیرت میں ڈال دیا وہیں کئی محکوم لوگوں کے دل موہ لئے۔

ہند میں بہترین جنگجو تنخواہ دار سپاہی تھے جو ایک شہر سے دوسرے شہر جاتے رہتے جہاں بھی ان کی ضرورت ہوتی۔ وہ اپنے  تنخواہ دہندگان کی طرف سے دیوانہ وار لڑے اور سکندر کو بھاری نقصانات پہنچائے چنانچہ اُس نے اُن کے ساتھ ایک معاہدہ کیا۔ اُس وقت وہ ایک شہر میں محصور تھے۔ معاہدے کی رُو سے اُس نے انہیں امان دے کر جانے کی اجازت دے دی اور پھر جب وہ جا رہے تھے تو اُن پر حملہ کر دیا۔

یہ واقعہ اُس کی سپاہیانہ زندگی پر ایک دھبّہ ہے۔ اِس ایک موقع کے علاوہ اس نے ہمیشہ جنگی اصولوں کی پابندی کی اور شاہانہ طرزِ عمل اختیار کیا۔

جہاں تک فلسفیوں کا تعلق ہے وہ بھی اس کے لئے اتنے ہی نقصان دہ ثابت ہوئے تھے کیونکہ وہ سکندر کا ساتھ دینے والے راجاؤں کو غدّار کہتے اور باقی لوگوں کو بغاوت پر اُکساتے تھے۔ اِسی وجہ سے اُس نے اُن میں سے کئی فلسفیوں کو پھانسی دے دی۔

               ۶۰ جہلم کے کنارے

پورس کے خلاف جنگ کے واقعات سکندر کے خطوط میں بیان ہوئے ہیں ۔ وہ ہمیں بتاتا ہے کہ دریائے جہلم  دونوں لشکروں کے درمیان تھا، پورس نے دوسرے کنارے پر اپنے ہاتھی جمع کر رکھے تھے اور چوکس تھا۔ سکندر نے اپنے پڑاؤ میں روزانہ شور و غل پیدا کرنے کا حکم دیا اور اس طرح دشمنوں نے اس کے لشکر کی نقل و حرکت پر چوکنّا ہونا چھوڑ دیا۔

آخرکار ایک طوفانی اور اندھیری رات کو اُس نے اپنے بہترین سوار اور اپنی پیادہ فوج کا ایک حصہ اپنے ساتھ لیا اور دریا کے ساتھ کچھ دُور تک چلتا رہا حتیٰ کہ دشمن کے پڑاؤ سے آگے نکل گیا۔ پھر وہ دریا عبور کر کے ایک چھوٹے سے جزیرے پر پہنچ گیا۔ یہاں بارش کا زبردست طوفان آیا۔ ساتھ ہی بجلی بھی چمک رہی تھی۔ سکندر نے دیکھا کہ اُس کے کئی ساتھی بجلی کا شکار ہو گئے ہیں لیکن پھر بھی اُس نے پیش قدمی جاری رکھی اور دوسرے کنارے کی طرف روانہ ہوا۔

بارش اور طوفان کے باعث دریا میں زبردست طغیانی آ گئی تھی اور کنارے پر پھسلن بہت بڑھ گئی تھی۔ سپاہیوں کے لیے یہاں قدم جمانا بہت مشکل ہو رہا تھا۔ یہی موقع تھا جب،کہتے ہیں کہ سکندر نے کہا۔

’’تم، ایتھنز والو! کیا تم کبھی یقین کرو گے کہ میں محض تم سے تعریف سننے کے لئے کیا خطرات مول لے رہا ہوں ؟‘‘

اونیسیکریٹس نے اس جنگ کا یہی حال لکھا ہے لیکن سکندر کے روزنامچے کے مطابق مقدونویوں نے اپنی کشتیاں چھوڑ دیں اور پانی میں چلتے ہوئے دوسرے کنارے پر پہنچے۔ انہوں نے مکمل زِرہ پہن رکھی تھی اور چھاتیوں تک پانی میں تھے۔

دریا عبور کرنے کے بعد دومیل سے کچھ زیادہ فاصلے تک سکندر اپنی پیدل فوج کے آگے گھوڑا دوڑاتا رہا۔ اُس نے اندازہ لگایا کہ اگر دشمن اپنے شہسواروں کے ساتھ حملہ کرے تو یہ باآسانی اُس پر قابو پا سکتا ہے اور اگر دشمن کی پیدل فوج حملہ کرے تو اِس کی پیدل فوج کو قریب پہنچنے کی مہلت مل جائے گی۔

 یہ اندازہ بالکل درست ثابت ہوا۔ دشمن نے اپنے ایک ہزار سواروں اور ساٹھ جنگی رتھوں کے ساتھ حملہ کیا اور اُن میں سے  چارسو(۴۰۰)  سوار مارے گئے۔

اب پورس کو اچھی طرح معلوم ہو گیا کہ سکندر نے دریا عبور کر لیا ہے چنانچہ وہ اپنی تمام فوج کے ساتھ آگے بڑھا البتہ فوج کا ایک حصہ چھوڑ آیا جو باقی ماندہ مقدونویوں کو دریا عبور کرنے سے باز رکھنے کے لیے کافی تھا۔

سکندر کو ہاتھیوں کے خطرے کا احساس تھا لہٰذا اس نے دشمن کے بائیں بازو پر حملہ کر دیا اور کوئینوس کو دائیں بازو پر حملہ کرنے کا حکم دیا۔ دونوں بازوؤں پر دباؤ پڑا تو وہ اپنے ہی ہاتھیوں پر گرتے پڑتے درمیان میں جمع ہو گئے۔ یہاں اُن کے قدم جمے اور پھر دست بدست لڑائی میں گھمسان کا رَن پڑا۔ آٹھ گھنٹے بعد ہی دشمن پر قابو پایا جا سکا۔

یہ ہے اس جنگ کے متعلق وہ بیان جو ہمیں خود فاتح ہی کے ایک خط سے ملتا ہے۔

زیادہ تر مورخین اس بات پر متفق ہیں کہ پورس تقریباً چھ فٹ تین انچ لمبا تھا اور اپنی جسامت اور قد کاٹھ کے باعث وہ ہاتھی پر ایسا ہی موزوں لگتا تھا جیسے ایک عام آدمی گھوڑے پر بیٹھ کر لگتا ہے۔اس کا ہاتھی بھی بہت بڑا تھا اور اس نے بھی خاصی ذہانت اور بادشاہ سے اپنی وفاداری کا مظاہرہ کیا۔ جب تک پورس مضبوطی سے لڑتا رہا ہاتھی اس کا بچاؤ کرتا رہا اور حملہ آوروں کو بھگاتا رہا۔ پھر جب اس نے محسوس کیا کہ اس کا مالک زخمی ہے تو گھٹنے ٹیک کر بیٹھ گیا کہ مبادا پورس گر نہ جائے۔ نیز اس کے جسم میں پیوستہ برچھیاں اپنی سونڈ سے پکڑ کر نکالتا رہا۔

جب پورس گرفتار ہوا تو سکندر نے اُس سے پوچھا کہ وہ کیسے سلوک کی توقع کرتا ہے۔

’’جو ایک بادشاہ کے ساتھ ہوتا ہے،‘‘ پورس نے جواب دیا۔

پھر جب سکندر نے مزید پوچھا کہ کیا وہ کچھ اور بھی کہنا چاہتا ہے تو پورس نے کہا۔

’’اِن الفاظ میں سب کچھ آ گیا ہے۔‘‘

بہرحال سکندر نے نہ صرف اُسے سابقہ سلطنت پر بدستور حکومت کرنے کی اجازت دے دی بلکہ اُس میں ایک اور صوبہ بھی شامل کر دیا۔ یہ اُن لوگوں کے علاقے پر مشتمل تھا جنہیں سکندر نے جنگ کر کے شکست دی تھی۔ کہتے ہیں کہ اِس میں پندرہ اقوام، پانچ ہزار بڑے بڑے قصبے اور کئی گاؤں شامل تھے۔ اُس کی مزید فتوحات میں اِس سے تین گنا زیادہ علاقہ شامل تھا۔ سکندر نے اپنے رفقا میں سے ایک شخص کو جس کا نام فیلقوس تھا اس کا گورنر بنا دیا۔

               ۶۱ گھوڑے کی یاد میں

پورس سے جنگ کے بعد بیوسیفالس بھی مر گیا۔

بیوسیفالس اس جنگ کے فوراً بعد نہیں مرا بلکہ کچھ عرصہ بعد اس کی موت واقع ہوئی۔ بیشتر مورخین کہتے ہیں کہ اس کی موت اُن جنگوں کی وجہ سے ہوئی جو اِس جنگ میں اُسے آئے اور اِن زخموں کا علاج کیا جا رہا تھا۔ البتہ اونیسیکریٹس کا بیان یہ ہے کہ اس کی موت کا باعث تھکن اور ضعیف العمری تھی۔ اس وقت وہ تیس برس کا ہو چکا تھا۔

اُس کی موت پر سکندر بہت مغموم ہوا اور اس کا افسوس اُسے کسی دوست یا ساتھی کی موت سے کم نہ تھا۔ اس نے بیوسیفالس کی یادگار کے طور پر دریائے کے کنارے ایک شہر آباد کیا اور اس کا نام بیوسیفالیہ رکھا (۳۹) ۔

ایک اور قصہ بھی ہے کہ اُس کا ایک پالتو کُتّا تھا جس کا نام پاریٹس تھا اور جسے سکندر نے اُس وقت سے رکھا ہوا تھا جب وہ محض ایک پلّا تھا۔ جب یہ کُتّا مرا تو سکندر نے اس کی یادگار کے طور پر بھی ایک شہر بسایا اور اُس شہر کا نام اس کُتّے کے نام پر رکھا۔

مؤرخ سوٹیون کہتا ہے کہ یہ واقعہ اُسے لیسبوس کے پٹامون سے معلوم ہوا ہے۔

               ۶۲ واپسی

پورس کے ساتھ جنگ کے متعلقات میں سے یہ بات بھی تھی کہ اس نے مقدونویوں کا جوش و خروش ٹھنڈا کر دیا اور انہوں نے فیصلہ کر لیا کہ اب وہ اس ملک میں آگے نہیں بڑھیں گے۔ جس دشمن کو شکست دینے میں انہیں اتنی تکالیف کا سامنا کرنا پڑا وہ محض بیس ہزار پیدل اور دو ہزار سوار میدان میں لایا تھا!

یہی وجہ تھی کہ جب سکندر نے دریائے گنگا عبور کرنے کے لئے اصرار کیا تو انہوں نے کھل کر انکار کر دیا(۴۰) ۔ انہیں بتایا گیا تھا کہ یہ دریا چار میل چوڑا اور بہت گہرا ہے اور دوسرے کنارے پر پیدل فوجوں اور ہاتھیوں کا جمِ غفیر ہے۔ کہا جاتا ہے کہ گنڈیرڈائی اور پرائسائی کے راجہ اسّی ہزار سوار، دو لاکھ پیدل، آٹھ ہزار رَتھ اور چھ ہزار جنگی ہاتھیوں کے ساتھ سکندر کے حملے کے منتظر تھے۔ یہ محض گپ نہ تھی کیونکہ چندر گپت جو کچھ ہی عرصہ بعد اس علاقے کا بادشاہ بنا اُس نے بعد ازاں سلیوکس کو پانچ سو ہاتھی تحفتہً دئے اور چھ لاکھ سپاہیوں کی فوج کے ساتھ پورے ملک پر یلغار کر کے اُس پر قبضہ کر لیا۔

شروع میں مایوسی اور غصے نے اس طرح سکندر پر غلبہ پایا کہ اس نے خود کو نظربند کر لیا اور اپنے خیمے میں لیٹا رہا۔ اُس کا خیال تھا کہ اگر اس کے سپاہی گنگا عبور نہیں کرسکتے تو اُن کی سابقہ خدمات کا لحاظ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں بلکہ اس طرح پیٹھ پھیرنے کو سکندر اُن کی طرف سے شکست کا اعتراف سمجھ رہا تھا لیکن اس کے دوست اس کے ساتھ بحث کرنے اور اسے قائل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔

سپاہی اس کے خیمے کے داخلے کے گرد جمع ہو گئے اور اس کی منّت سماجت کرنے لگے۔ وہ نعرے بھی لگا رہے تھے اور گڑگڑا بھی رہے تھے۔ بالآخر سکندر نے ان کی بات مان لی اور انہیں پڑاؤ اٹھانے کا حکم دے دیا۔

لیکن اس کے ساتھ ہی اس نے مقامی باشندوں کو متاثر کرنے کی خاطر ظاہرداری کی کئی رسمیں ادا کیں مثلاً ہتھیار، گھوڑے کا ساز اور دیگر چیزیں تیار کروائیں جن کا حجم اور وزن معمول سے زیادہ تھا۔ اُنہیں اس علاقے میں بکھیر دیا گیا۔ اُس نے یونانی دیوتاؤں کے نام پر ستون بھی بنائے اور آج بھی جب پرائیسائی کے راجہ اس دریا کو عبور کرتے ہیں تو یہاں اُن دیوتاؤں کے اعزاز میں قربانی دیتے ہیں ۔

چندر گپت جو اُس وقت ایک لڑکے سے زیادہ نہ تھا اس نے سکندر کو خود دیکھا اور بتایا جاتا ہے کہ بعد میں وہ اکثر یہ کہتا تھا کہ سکندر پورے ملک کی فتح سے محض ایک قدم پر رہ گیا کیونکہ جو بادشاہ اُس وقت وہاں حکمراں تھا اُس کے گھناؤنے کردار اور نیچی ذات کے باعث اُس سے نفرت کی جاتی تھی۔

               ۶۳ موت کے منہ میں

اب سکندر بحرِ بیرونی دیکھنے کے لئے بیتاب تھا۔ اُس نے چپّو سے چلنے والی بہت سی کشتیاں تیار کروائیں اور دریا میں آہستہ آہستہ سفر کرنے لگا لیکن اس سفر کو کسی بھی طرح پرسکون یا آسان گزار نہیں کہا جا سکتا۔ نیچے کی جانب سفر کرتے ہوئے وہ ساحل پر اُترتا، قریبی شہروں پر یلغار کرتا اور اُن سب کو اپنا مطیع بنا لیتا۔ تاہم جب اُس نے ملہی قبیلے پر حملہ کیا جو سب سے زیادہ جنگجو کہلاتا تھا تو وہ موت کے منہ میں پہنچتے پہنچتے رہ گیا۔

ملہی قبیلے کے محصور لوگ مقدونویوں کے تیروں کی بوچھاڑ کی وجہ سے اپنے اندرونی حصار سے نکلے تو سکندر دیوار پر چڑھنے والوں میں سب سے پہلا تھا۔ وہ سیڑھی کے ذریعے دیوار پر چڑھا لیکن فوراً ہی بعد سیڑھی ٹوٹ گئی۔ اب مزید مقدونوی اس کے پاس نہیں پہنچ سکتے تھے۔ دشمن دیوار کی جڑ کے قریب جمع ہو گئے اور اس پر تیر چلانے لگے۔

 جب سکندر نے دیکھا کہ وہ تقریباً تنہا ہے اور دشمنوں کے تیروں کے سامنے ہے تو وہ نیچے اترا اور ان کے درمیان کود پڑا۔ خوش قسمتی سے وہ اپنے پَیروں پر گرا اور سیدھا کھڑا ہو گیا۔ اب جو اس نے اپنے ہتھیار استعمال کرنا شروع کئے تو دشمنوں کو ایسا معلوم ہوا کہ جیسے چنگاریوں کی دیوار نے اچانک اس کے جسم کے گرد حصار قائم کر دیا ہو۔ وہ منتشر ہو کر بھاگ گئے لیکن پھر جب انہوں نے دیکھا کہ اس کے ساتھ دو محافظوں کے علاوہ اور کوئی نہیں ہے تو وہ اُس پر حملے کے لئے دَوڑ آئے۔ اُن میں سے کچھ اُس کے ساتھ دست بدست لڑائی میں ملّوث ہو گئے اور اور اُس کی زِرہ پر تلوار اور برچھیوں کی بارش کرنے لگے جبکہ وہ اپنے دفاع کے لئے لڑ رہا تھا۔ دریں اثنا ایک دشمن نے ذرا فاصلے پر کھڑے ہو کر اُس پر کمان سے تیر چلایا۔ یہ تیر نشانے پر بیٹھا اور اس قوت کے ساتھ سکندر کے جسم سے ٹکرایا کہ سینہ بند توڑتا ہوا اس کے سینے میں پسلیوں کے درمیان پیوست ہو گیا۔ اس کا اثر اتنا شدید تھا کہ سکندر لڑکھڑا کر پیچھے کی جانب ہٹا اور گھٹنوں کے بل بیٹھ گر گیا۔

سکندر کا مخالف تلوار سونت کر اس کی جانب دوڑا مگر پیوکسٹس اور لمنائیس سکندر کے سامنے آ گئے۔ دونوں زخمی ہو گئے۔ لمنائیس مارا گیا لیکن پیوکسٹس ڈٹا رہا جبکہ سکندر نے اپنے دشمن کو خود اپنے ہاتھ سے قتل کیا لیکن پھر اُسے بار بار زخم لگتے رہے اور آخر میں اسے گردن پر زخم لگا جس نے اُسے دیوار سے ٹیک لگا دینے پر مجبور کر دیا لیکن وہ ابھی تک اپنے دشمنوں کا سامنا کئے ہوئے تھا۔ اس موقع پر مقدونوی اس کے پاس پہنچ گئے اور اسے اٹھا لیا کیونکہ وہ اپنے ہوش و حواس کھو رہا تھا۔

وہ اسے اس کے خیمے میں لے گئے۔ فوراً ہی یہ افواہ پھیل گئی کہ سکندر مارا جا چکا ہے۔

دوسری طرف اس کے تیمار داروں نے بڑی مشکل سے تیر کا چوبی شہپر توڑ ا اور سکندر کا سینہ بند کھولنے میں کامیاب ہو گئے۔ اس کے بعد انہیں تیر کا پھل کاٹنا پڑا جو اُس کی پسلیوں کے درمیان پھنسا ہوا تھا۔ تیر کی پیمائش کی گئی اور بتایا جاتا ہے کہ یہ چار اُنگل لمبا اور تین اُنگل چوڑا تھا۔

جب یہ تیر نکالا گیا تو سکندر پر غشی کا دورہ پڑا اور وہ نیم جان ہو گیا لیکن بالآخر اس حالت پر قابو پا لیا۔ تاہم خطرے سے نکلنے کے بعد بھی اس پر نقاہت طاری رہی اور عرصہ تک وہ کڑی تیمار داری اور پرہیز کا محتاج رہا۔ پھر ایک دن جب اس نے اپنے خیمے کے باہر آوازیں سنیں تو سمجھ گیا کہ مقدونوی اسے دیکھنے کے لئے بیتاب ہیں چنانچہ اس نے لبادہ اوڑھا اور ان کے پاس چلا گیا۔

دیوتاؤں کو قربانی پیش کرنے کے بعد بھی وہ ایک مرتبہ پھر اپنے جہاز پر سوار ہو گیا اور دریا میں سفر جاری کیا۔ وہ عظیم شہروں اور وسیع علاقوں کو اپنا مطیعِ فرمان کرتا گیا۔

               ۶۴ دس پہیلیاں

سکندر نے دس فلسفیوں کو گرفتار کیا۔ سبّاس کو بغاوت پر آمادہ کرنے میں اِن فلسفیوں نے سب سے اہم کردار کیا تھا اور انہی کی وجہ سے مقدونویوں کو سب سے زیادہ تکالیف اٹھانی پڑی تھیں ۔ یہ فلسفی سوالوں کے مختصر اور جامع جوابات دینے کے لئے بہت شہرت رکھتے تھے اس لئے سکندر نے پہیلیوں کا سلسلہ اُن کے سامنے رکھ دیا۔ اس نے کہہ دیا تھا کہ سب سے پہلا غلط جواب دینے والے کو وہ سب سے پہلے موت کے گھاٹ اتارے گا اور اس کے بعد باقی تمام کو اُن کے جوابوں کی عمدگی کے لحاظ سے!

سب سے معمر فلسفی کو حکم دیا گیا کہ اِس مقابلے میں مُنصف کے فرائض انجام دے۔ پھر یہ سوال جواب یوں ہوئے۔

پہلا فلسفی

سوال: کون زیادہ کثیر التعداد ہیں ، زندہ یا مردہ؟

جواب: زندہ، کیونکہ مردے اب موجود نہیں ہیں ۔

دوسرا فلسفی

سوال: زیادہ مخلوقات کہاں رہتی ہیں ، زمین پر یا سمندر میں ؟

جواب: زمین پر، کیونکہ سمندر بھی زمین ہی کا ایک حصہ ہے۔

تیسرا فلسفی

سوال: سب سے زیادہ چالاک جانور کون سا ہے؟

جواب: وہ جسے انسان اب تک دریافت نہیں کر پایا۔

چوتھا فلسفی

سوال: تم نے سبّاس کو بغاوت پر کیوں اُکسایا؟

جواب: کیونکہ میں اُس کی زندگی یا موت با عزّت چاہتا تھا۔

پانچواں فلسفی

سوال: پہلے کیا بنایا گیا، دن یا رات؟

جواب: دن، ایک دن!

جب فلسفی نے دیکھا کہ بادشاہ اس جواب سے متذبذب ہو گیا ہے تو اس نے کہا۔

’’مجہول سوال پر مجہول جواب ہی ملے گا۔‘‘

چھٹا فلسفی

سوال: کوئی شخص کس طرح خود کو محبوب ترین بنا سکتا ہے؟

جواب: اگر وہ مطلق العنان ہونے کے باوجود خوف پیدا نہ کرے۔

ساتواں فلسفی

سوال: کوئی انسان دیوتا کیسے بن سکتا ہے؟

جواب: کوئی ایسا کام کر کے جو انسان کے بس سے باہر ہو۔

آٹھواں فلسفی

سوال: کون زیادہ طاقتور ہے، زندگی یا موت؟

جواب: زندگی، کیونکہ یہ اتنی ساری برائیوں کو برداشت کر لیتی ہے۔

نواں فلسفی

سوال: انسان کے لئے کتنا جینا اچھا ہے؟

جواب: اُس وقت تک جب تک موت اُس کے لئے زندگی سے بہتر نہ ہو۔

آخر میں سکندر منصف کی طرف مڑا اور اس سے کہا کہ وہ اپنا فیصلہ سنائے۔ فیصلہ یہ تھا کہ ہر ایک نے پچھلے سے برا جواب دیا ہے۔

’’اِس صورت میں سب سے پہلے تمہیں سزائے موت دی جائے گی،‘‘ سکندر نے کہا۔ ’’کیونکہ تمہارا فیصلہ یہی ہے!‘‘

’’یہ تو درست نہیں ہے جنابِ عالی!‘‘ منصف نے کہا۔ ’’جب تک آپ اپنی بات سے نہ مکر جائیں ۔ آپ نے کہا تھا کہ سب سے پہلے اس شخص کو موت کے گھاٹ اتاریں گے جس کا جواب سب سے زیادہ غلط ہو گا۔‘‘

               ۶۵ ہِند کے فلسفی

 سکندر نے اِن سب میں تحائف بانٹے اور انہیں کسی نقصان کے بغیر جانے دیا۔ پھر اس نے اونیسیکریٹس کو اُن فلسفیوں کے پاس بھیجا جو خاصی شہرت کے حامل تھے مگر تارک الدّنیا ہو کر الگ تھلگ زندگی بسر کر رہے تھے۔ اونیسیکریٹس کے ذریعے سکندر نے انہیں بلاوا بھجوایا۔

اونیسیکریٹس خود بھی فرقی کلبیہ سے تعلق رکھتا تھا۔ وہ کہتا ہے کہ ایک ہندی نے جس کا نام کالینوس تھا اس کے ساتھ بہت گستاخانہ انداز میں بات کی اور اس سے کہا کہ اگر وہ اس کے نظریات سے استفادہ کرنا چاہتا ہے تو اپنے کپڑے اتار دے ورنہ یہ کوئی بات نہ کرے گا خواہ وہ یونانی دیوتا زیوس ہی کی طرف سے کیوں نہ آیا ہو۔

اونیسیکریٹس بتاتا ہے کہ ایک اور دانشور نے جس کا نام دندامس تھا یقیناً خندہ پیشانی کے ساتھ اس کا استقبال کیا اور جب یہ سقراط، فیثا غورث اور دیوجانس کے متعلق تفصیل کے ساتھ اُسے بتا چکا تو اُس نے جواب دیا کہ اُسے یوں لگتا ہے جیسے یہ لوگ اچھی فطرت کے مالک تھے لیکن قوانین کے ساتھ ضرورت سے زیادہ تضاد رکھتے تھے۔ البتہ دوسرے مصنفین کہتے ہیں کہ دندامس نے صرف اتنا ہی کہا تھا کہ سکندر کیوں آیا ہے؟

ٹیکسلا کا راجہ بھی کالینوس کو سکندر کے پاس آنے پر آمادہ نہ کر سکا۔ کالینوس کا سفائنز تھا مگر چونکہ وہ لوگوں سے ملتے وقت یونانی لفظ ’’چیرئٹ‘‘ (chairete) کی بجائے ہندی لفظ ’’کالی‘‘ استعمال کرتا تھا لہٰذا یونانیوں نے اس کا نام کالینوس رکھ دیا۔ بتایا جاتا ہے کہ یہی تھا جس نے سکندر کو سب سے پہلے حکومت کے متعلق مشہور مثال سے آگاہ کیا تھا جو کچھ یوں تھی کہ کالینوس نے سوکھی اور سکڑی ہوئی کھال کا ایک ٹکڑا زمین پر پھینکا اور اس کے بیرونی کنارے پر اپنا پاؤں رکھا۔ اس طرح کھال ایک طرف سے دب گئی لیکن دوسری طرف سے اٹھ گئی۔ وہ کھال کے کناروں پر چلتا رہا اور دکھایا کہ جب وہ کنارے پر قدم رکھتا ہے تو یوں ہوتا ہے۔ آخر میں اُس نے اپنے پورے وزن کے ساتھ درمیانی حصے پر دباؤ ڈالا اور تب تمام کھال سیدھی اور ساکت ہو گئی۔

اس مظاہرے کا مقصد یہ بتانا تھا کہ سکندر کو چاہئیے کہ وہ اپنے اقتدار کا زور اپنی سلطنت کے مرکز پر رکھے اور اس کی سرحدوں پر نہ پھرتا رہے۔

               ۶۶ بھیانک صحرا

دریائے انڈس کے دہانے تک سکندر کا سفر سات ماہ میں طے ہوا۔

جب وہ اپنے جہازوں کے ساتھ کھلے سمندر میں پہنچا تو ایک جزیرے پر اترا جس کا نام اس نے سکلوسٹس رکھا جبکہ دوسرے اسے سلٹیوکس کہتے تھے۔ یہاں اتر کر اس نے دیوتاؤں کے حضور قربانی پیش کی اور سمندر اور ساحل کے متعلق جتنا مطالعہ ہو سکتا تھا کیا۔ پھر اُس نے دعا کی کہ اس کے بعد کوئی اور شخص اس سے آگے نہ بڑھ سکے۔

اس نے نیارکس کو بحری بیڑے کا کماندارِ اعلیٰ بنایا اور اونیسیسکریٹس کو جہاز رانِ اعلیٰ۔ پھر اس نے انہیں حکم دیا کہ انڈیا کی سرزمین کو اپنی دائیں جانب رکھتے ہوئے ساحل کے ساتھ ساتھ چلتے جائیں ۔ دریں اثنا خود اس نے برّی راستہ اختیار کیا اور اریٹیز کے علاقے میں پیش قدمی کی۔ یہاں اُسے بہت مصائب برداشت کرنے پڑے اور اپنے کئی آدمیوں سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ نتیجتاً وہ انڈیا سے جس فوج کو سلامت واپس لا سکا وہ اصل فوج کے چوتھائی سے زیادہ نہ تھی جبکہ اس کی عسکری قوت ایک لاکھ بیس ہزار پیدل اور پندرہ ہزار سواروں پر مشتمل تھی(۴۱)۔ اس کے کچھ آدمی بیماری سے مرے، کچھ ناقص خوراک کی وجہ سے، کچھ سورج کی حدّت سے لیکن سب سے زیادہ فاقے کے باعث مرے کیونکہ انہیں بنجر علاقے میں سفر کرنا پڑا تھا جہاں آبادی نہ ہونے کے برابر تھی۔ اُس کے پاس چند بھیڑیں تھیں اور جن سمندری مچھلیوں پر انہیں گزارا کرنا پڑا وہ بھی اچھی تاثیر نہ رکھتی تھیں ۔

انتہائی دقّت کے ساتھ ہی سکندر اِس خطّے کو عبور کرنے میں کامیاب ہوا۔ اُسے ساٹھ دن لگے لیکن گڈروسیا پہنچنے پر وہ ایک زرخیز علاقے میں داخل ہو گیا اور وہاں کے گورنر نے اُسے ضرورت کی تمام اشیا مہیّا کر دیں ۔

               ۶۷ خوشی کے شادیانے

اپنی فوج کو یہاں آرام دینے کے بعد وہ دوبارہ روانہ ہوا اور سات دن تک کارمینیا میں پیش قدمی کی۔ پیش قدمی، جو جلد ہی ایک جلوس میں تبدیل ہو گئی!

سکندر خود دن رات مسلسل جشن مناتا رہا ۔ وہ اپنے رفقا کے ساتھ ایک اونچے اور عجیب سے چبوترے پر بیٹھا ہوا تھا جسے آٹھ گھوڑے آہستہ آہستہ کھنچتے جاتے تھے۔ اِس شاہی چبوترے کے پیچھے پیچھے کئی گاڑیاں چلی آتی تھیں ۔ ان میں سے کچھ کے اوپر کاسنی رنگ کی یا کڑھی ہوئی چادریں تھیں جنہیں شاداب رکھا جارہا تھا۔ اِن سواریوں میں سکندر کی فوج کے افسر تھے۔ اُن سب کے سروں پر پھولوں کے ہار بندھے تھے اور وہ شراب پی رہے ہوتے تھے۔ کوئی ہود، ڈھال یا نیزہ نظر نہیں آتا تھا بلکہ جلوس کے ساتھ ساتھ جو سپاہی قطاروں میں تھے وہ راستے بھر اپنے ساغر اور پیالے بڑے بڑے پیپوں سے بھرتے رہتے اور کھاتے کھلاتے، پیتے پلاتے چلتے جاتے تھے۔

پورا خطّہ بانسریوں ، شادیانوں اور بربط کی موسیقی، گانے بجانے اور عورتوں کی اونچی آوازوں کے شور سے گونج رہا تھا۔ یہ سب خوشی سے مست چلے جاتے تھے۔ نہ صرف شراب نوشی بلکہ دوسری تفریحات بھی جو ایسے موقع پر ہوتی تھیں جاری تھیں ۔ ایسا معلوم ہوتا تھا گویا کوئی دیوتا خود اِس بے ہنگم جلوس کی قیادت کے لئے اُتر آیا ہے۔

پھر گڈروسیا کے شاہی محل پہنچے پر سکندر نے اپنی فوج کو آرام کرنے اجازت دی اور ایک اور جشن منایا۔ کہتے ہیں کہ ایک دن جب وہ خوب شراب پی چکا تو رقص و سرود کے مقابلے دیکھنے چلا گیا۔ وہاں اس کے پسندیدہ فنکار باگواس نے انعام جیت لیا۔ اِس موقع پر وہ نوجوان اُسی لباس میں اور اپنا تاج پہنے ہوئے جو اُسے اِس موقع پر ملا تھا تماش گاہ سے گزر کر سکندر کے ساتھ بیٹھ گیا۔ یہ دیکھ کر مقدونویوں نے نعرے لگا کر سکندر سے درخواست کی کہ وہ جیتنے والے کو چُوم کر اُس کی عزت افزائی کرے۔ بالآخر سکندر نے اس کے شانے کے گرد اپنا بازو ڈالا اور اُسے چُوم لیا۔

               ۶۸ نیارکس کی بازیابی

یہاں نیارکس اور اس کے ہمسر افسر سکندر سے آملے اور وہ ان کی لائی ہوئی اطّلاعات سے اتنا خوش ہوا کہ اس کے دل میں فوراً دریائے فرات میں ایک عظیم بیڑے کے ساتھ سفر کرنے کی خواہش بیدار ہوئی۔ اُس کا ارادہ تھا کہ اس کے بعد عرب اور افریقہ کے گرد چکر لگاتے ہوئے آبنائے ہرقل سے گزر کر دوبارہ بحیرۂ روم پہنچ جائے گا۔

اُس نے تھپساکوس کے مقام پر کئی اقسام کے بحری جہاز بنوانے اور دنیا کے ہر حصے سے جہاز راں اکٹھے کرنے شروع کر دئیے لیکن دریں اثنا وہ مشرق کی جانب مہم میں جن مصائب کا سامنا کر چکا تھا، ملہیوں کے خلاف لڑائی میں اُسے جو زخم آیا تھا اور اس کے علاوہ وہ بھاری نقصانات جو اس کی فوج اٹھا چکی تھی ان کی وجہ سے یہاں لوگوں کو یہ خیال رہا تھا کہ شائد وہ واپس نہیں آئے گا اور اس کی غیر موجودگی میں انہی واقعات نے عوام کو بغاوت کے لئے شہہ دی تھی اور انہی کی وجہ سے حکام کو ظلم و تعدّی کا موقع مل گیا تھا۔ غرض کہ پوری سلطنت ہی انتشار کا شکار تھی اور ہر جگہ ابتری پھیلی ہوئی تھی حتیٰ کہ وطن میں اس کی ماں اولمپیاس اور بہن قلوپطرہ (۴۲)، گورنر انٹیپیٹر کے خلاف کوشاں تھیں ۔ اولمپیاس نے اپیرس کا علاقہ لے لیا اور قلوپطرہ  نے مقدونیہ!

سکندر نے یہ سنا تو کہنے لگا کہ ماں نے دانشمندی سے اپنا حصہ چنا ہے کیونکہ مقدونوی کبھی کسی عورت کے تابعِ فرمان ہونا برداشت نہ کرتے۔

انہی باتوں کی وجہ سے اس نے نیارکس کو واپس سمندروں میں بھیج دیا تاکہ وہ ساحلی علاقوں میں جنگ جاری رکھے جبکہ خود اُس کا ارادہ یہ تھا کہ وہ شمالی ایشیا سے پیش قدمی کر کے اُن حکام کو سزا دے جنہوں نے اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کیا تھا۔ سوسیانہ کے حاکم آبولیٹس کے ایک بیٹے اُکسیارٹس کو اس نے اپنے ہاتھ سے مقدونوی برچھی گھونپ کر ہلاک کر دیا۔

آبولیٹس کے ذمے سامانِ رسد پہنچانے کا کام تھا لیکن وہ اس کی بجائے تین ہزار ٹیلنٹ سکّوں کی شکل میں لے آیا۔ سکندر نے حکم دیا کہ یہ سکّے گھوڑوں کے آگے ڈال دئیے جائیں ۔ پھر جب گھوڑوں نے انہیں منہ نہ لگایا تو اُس نے آبولیٹس سے پوچھا۔

’’تمہاری لائی ہوئی چیزیں ہمارے کس کام کی ہیں ؟‘‘

اور اُسے قید میں ڈالنے کا حکم دے دیا۔

 

               ۶۹ مزار اور چِتا

پرسس پہنچنے پر اُس کے اولین کاموں میں سے ایک عورتوں میں رقم بانٹنا بھی تھا۔ یہ اس نے فارس کے بادشاہوں کی رسم کے مطابق کیا۔ فارسی بادشاہ جب کبھی پرسس کے صوبے میں آتے ہر عورت کو ایک ایک طلائی سکّہ بخشتے۔ کہتے ہیں کہ اِسی لئے کئی بادشاہ پرسس آنے سے گریز کرتے اور اوقس نے تو کبھی وہاں قدم نہیں دھرا تھا۔ وہ اتنا بد فطرت تھا کہ پیسہ بچانے کے لئے خود کو جلاوطن کر لیا۔

کچھ زیادہ دن نہ گزرے تھے کہ سکندر کو معلوم ہوا کہ سائرس کا مقبرہ لوٹ لیا گیا ہے۔ سکندر نے مجرم کو موت کے گھاٹ اتار دیا حالانکہ  وہ خود سکندر کے شہر پیلا کا خاصا بارسوخ شخص تھا۔ اُس کا نام پولیمیکس تھا۔

جب سکندر نے سائرس کے مزار پر کندہ عبارت پڑھی تو حکم دیا کہ اِس کے نیچے اس کا ترجمہ یونانی الفاظ میں لکھ دیا جائے۔ یہ عبارت کچھ یوں تھی:

اے شخص! تو جو کوئی بھی ہے اور جہاں سے بھی آیا ہے، کیونکہ میں جانتا ہوں کہ تُو آیا ہے، جان لے کہ میں سائرس ہوں جس نے فارسیوں کو اُن کی سلطنت دلوائی۔ اِس لئے مجھے تھوڑی سی اِس زمین سے محروم نہ کر جس نے میرا جسم ڈھانپ رکھا ہے۔

اِن الفاظ نے سکندر پر گہرا اثر کیا کیونکہ یہ حیاتِ فانی کی بے ثباتی اور تغیر کا احساس دلاتے تھے۔

یہیں پر کالینوس نے اپنے لئے ایک چِتا تیّار کروانے کی خواہش ظاہر کی۔ کچھ عرصے سے اُسے آنتوں کی بیماری لاحق تھی۔ وہ ایک گھوڑے پر بیٹھ کر چِتا کے قریب پہنچا، دعا مانگی، اپنے اوپر قربانی کا تیل ڈالا اور اپنے بالوں کی ایک لٹ کاٹ کر آگ میں پھینک دی۔ پھر وہ چِتا کے اوپر جا چڑھا اور مقدونویوں کو الوداع کہتے ہوئے بتایا کہ وہ آج کے دن جشن منائیں اور اپنے بادشاہ کے ساتھ شراب پئیں ۔ اُن کے بادشاہ سے وہ جلد ہی بابل میں ملے گا۔

اِن الفاظ کے ساتھ ہی وہ لیٹ گیا اور خود کو ڈھانپ لیا۔ جب شعلے اُس کی طرف بڑھے تب بھی اس نے کوئی حرکت نہ کی اور جوں کا توں پڑا رہا۔ اُس کے ملک کے معزز لوگوں کی روایات کے مطابق یہ طریقہ دیوتاؤں کے نزدیک محبوب تھا۔

بہت عرصے بعد آگسٹس سیزر کے دَور کے ایک ہندی نے بھی ایتھنز میں ایسا ہی کیا اور اُس کی سمادھی آج تک وہاں دیکھی جا سکتی ہے۔

               ۷۰ اتّصالِ اقوام

چتا سے واپس آ کر سکندر نے اپنے کئی دوستوں اور افسروں کو دعوت دی۔ اس دعوت میں اس نے عمدہ شراب پینے کا ایک مقابلہ منعقد کروایا جس میں جیتنے والے کے لئے ایک تاج انعام رکھا گیا۔ یہ مقابلہ پرومیکس نے جیتا۔ وہ چار مٹکے پی گیا تھا۔ تاج کی قیمت پورا ایک ٹیلنٹ تھی مگر پرومیکس اس کے بعد صرف تین دن زندہ رہا۔ اس کے علاوہ جن لوگوں نے اس مقابلے میں حصہ لیا تھا ان میں سے اکتالیس شراب نوشی کے اثرات سے مر گئے۔ یہ کیریس کا بیان ہے۔ اس کے مطابق شراب نوشی کے انہیں شدید سردی لگنے لگی تھی۔

شوش کے مقام پر سکندرنے اپنے کئی رفقا کی شادیاں کیں ۔ خود اس نے دارا کی بیٹی اسٹاٹیرا سے شادی کی (۴۳)  اور معزز ترین فارسی عورتوں کی شادیاں اپنے سب سے زیادہ بہادر آدمیوں سے کروائیں ۔ اس موقع پر اس نے ایک شاندار دعوت کا اہتمام کیا جس میں ان تمام مقدونویوں کو مدعو کیا گیا تھا جو پہلے ہی فارسی عورتوں سے شادی کر چکے تھے۔ بتایا جاتا ہے کہ نو ہزار مہمان اس دعوت میں آئے اور اُن میں سے ہر ایک کو سونے کا ایک پیالہ ملا۔ یہ تمام تفریحات شاہانہ پیمانے پر ہوئیں ،یہاں تک کہ سکندر نے کہا کہ حاضرین میں سے جس کے ذمے جتنا بھی قرضہ ہو وہ سکندر خود ادا کرے گا۔

اس موقعے پر نوہزار آٹھ سو ستّرٹیلنٹ صرف ہو گئے۔

سکندر کے افسروں میں سے ایک کا نام انٹی جینز تھا اور وہ یک چشم تھا۔ اس موقعے پر اس نے دھوکے سے خود کو مقروض لوگوں کی فہرست میں شامل کرنا چاہا اور ایک جھوٹا گواہ بھی تیار کر لیا۔ بعد میں یہ جھوٹ پکڑا گیا اور سکندر نے اُسے کمانداری سے معزول کروا کے اپنے دربار سے نکلوا دیا۔

انٹی جینز شاندار سپاہیانہ خدمات انجام دے چکا تھا۔ ابھی وہ نوجوان ہی تھا کہ اس نے فیلقوس کے زیرِ قیادت پرنتھس کے محاصرے میں حصہ لیا اور جب ایک منجنیق سے پھینکے جانے والے بھاری تیر سے اس کی آنکھ پر چوٹ آئی تب بھی اُس نے میدانِ   جنگ سے ہٹنے سے انکار کر دیا اور اپنی آنکھ سے تیر نہیں نکلوایا بلکہ دشمنوں کو پیچھے ہٹانے اور دوبارہ شہر میں دھکیل دینے میں مدد کی۔

اب وہ اپنی یہ بے عزتی برداشت نہیں کر سکتا تھا اور صاف نظر آ رہا تھا کہ صدمے اور شرمندگی کی وجہ سے وہ خودکشی کرنا چاہتا ہے۔ سکندر کو خدشہ ہوا کہ کہیں وہ اپنے ارادے پر عمل نہ کر بیٹھے لہٰذا اس نے اسے معافی دے دی اور کہا کہ جو رقم تم نے لی تھی وہ بھی رکھ لو۔

               ۷۱ فوج کا خاتمہ

وہ تیس ہزار لڑکے جنہیں سکندر یونانی تعلیم اور فوجی تربیت کے لئے چھوڑ گیا تھا اب بہترین فوجی صلاحیتوں کے مالک بن چکے تھے۔

سکندر اُن کی اعلیٰ تربیت دیکھ کر بہت خوش ہوا لیکن مقدونوی یہ سوچ کر دل شکستہ اور مایوس ہو گئے کہ اب سکندر کے نزدیک خود ان کی اہمیت گھٹ جائے گی۔ چنانچہ جب سکندر نے اُن میں سے ضعیف اور معذور فوجیوں کو واپس بھجوانے کا انتظام کیا تو انہوں نے احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ سکندر نہ صرف ان کے ساتھ نا انصافی کر رہا ہے بلکہ دانستہ انہیں دِق کرنا چاہتا ہے۔ پہلے اُن سے طرح طرح کی خدمات لے انہیں تھکا مارا اور اب بے عزّت کر کے واپس بھیجنا چاہتا ہے اور انہیں ان کے والدین اور ان کے آبائی شہروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دینا چاہتا ہے جہاں اس واپسی کے بعد اُن کی حیثیت اُس سے بھی بدتر ہو گی جو ایشیا کی طرف روانگی کے وقت تھی۔ اُنہوں نے سکندر سے کہا کہ وہ اُن سب کو ایک ساتھ واپس کیوں نہیں بھیج دیتا کیونکہ اب اُس کے پاس یہ ناچنے گانے والے سپاہی ہیں جن کے ساتھ وہ دنیا فتح کرنے جا سکتا ہے۔

اِن الفاظ پر سکندر تلملا اٹھا اور غصے کی حالت میں اُس مقدونویوں کو معطل کر دیا یہاں تک کہ محافظ دستے کو بھی معطل کر کے اُن کے فرائض فارسیوں کے حوالے کر دئیے اور اُنہی میں سے اپنے ذاتی ملازمین بھی بھرتی کر لئے۔

جب مقدونویوں نے سکندر کو اِن لوگوں میں گھرا ہوا دیکھا اور جانا کہ خود انہیں اُس کے پاس جانے سے روکا جا رہا ہے اور توہین آمیز سلوک کیا جا رہا ہے تو وہ بہت مغموم ہوئے۔ انہوں نے مسئلے پر غور کیا تو سمجھ گئے کہ حسد اور غصے میں وہ اپنے آپے سے باہر ہو گئے تھے۔ آخرکار اُن کے ہوش ٹھکانے آ گئے اور وہ غیرمسلّح ہو کر سکندر کے خیمے کے سامنے پہنچ گئے۔ انہوں نے صرف سادہ چغے پہن رکھے تھے۔ وہ رونے لگے، سسکیاں بھرنے لگے، خود کو اُس کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا اور درخواست کی کہ وہ اپنے گستاخانہ روّیے پر جس سلوک کے مستحق ہیں سکندر اُن سے وہی سلوک کرے۔

سکندر نے اُن سے ملنے سے انکار کر دیا حالانکہ اب خود اُس کا بھی دل بھر آیا تھا۔ اُس کے انکار کے باوجود وہ لوگ اُس کے خیمے کے سامنے سے نہ ہٹے ۔ دو دن رات وہ وہیں روتے رہے اور سکندر کو اپنا آقا کہتے رہے۔

تیسرے دن سکندر باہر نکلا اور جب انہیں اتنی قابلِ رحم حالت میں دیکھا تو کچھ دیر کے لئے خود بھی رو پڑا۔ پھر اُس نے نرمی سے اُن کے گزشتہ رویے کے بارے میں بات کی اور آخر میں ان سے حوصلہ افزا باتیں کرنے لگا۔

بعدازاں اس نے اُن لوگوں کو برخاست کر دیا جو اب جنگوں کے قابل نہیں رہے تھے۔ اُن کی خدمات کے اعتراف کے طور پر انہیں بیش بہا انعامات دئیے گئے۔ علاوہ ازیں اس نے انٹیپیٹر کے نام ہدایات بھجوا دیں کہ آئندہ جتنے بھی اجتماع، مقابلے یا ڈرامے ہوں اُن میں اِن لوگوں کو سب سے بہتر جگہ بٹھایا جائے اور یہ لوگ اپنے سروں پر پھولوں کے ہار باندھیں ۔ نیز یہ احکام بھی جاری کر دئے کہ جو لوگ اُس کی ملازمت میں مارے گئے ہیں ان کی تنخواہیں اُن کے بچوں کو بطور وظیفہ ملتی رہیں ۔

               ۷۲ آخری معرکہ

موسمِ بہار میں وہ شوش سے اکتبانہ کی جانب روانہ ہوا جو میدّہ میں واقع تھا۔ وہاں اہم ترین مسائل حل کر لینے کے بعد ایک دفعہ پھر اُس نے اپنی توجہ کھیل تماشوں کی طرف مبذول کر لی کیونکہ یونان سے تین ہزار فنکار آئے تھے۔ اِس موقع پر ایسا ہوا کہ ہیفا اسشن کو بخار چڑھ گیا اور ایک نوجوان اور سپاہیانہ زندگی کا عادی ہونے کے ناطے وہ کھانے میں پرہیز نہ کر سکا۔ جونہی اُس کا طبیب گلوکس تھیٹر دیکھنے روانہ ہوا ہیفا اسشن ناشتہ کرنے بیٹھ گیا۔ اس نے ایک اُبلا ہوا پرندہ کھایا اور بہت سی ٹھنڈی شراب پی لی۔ اس کا بخار تیزی سے بڑھا اور وہ کچھ ہی دیر بعد مر گیا۔

سکندر غم سے بے حال ہو گیا۔ ماتم کے طور پر اس نے تمام گھوڑوں کی ایال اور دُم کے بال جھڑوانے کا حکم دیا، آس پاس کے شہروں کی چوکیاں ختم کر وا دیں ، بدقسمت طبیب کو سولی پر لٹکوا دیا اور بانسری اور دیگر ساز کافی عرصے تک ممنوع قرار دئیے رکھے حتیٰ کہ ایک دن آمون کے مندر سے ایک شگون میں اُسے ہدایت ملی کہ ہیفا اسشن کے اعزاز میں اس طرح قربانیاں دی جائیں جیسے روایتی بہادروں کے لئے دی جاتی ہیں ۔

اپنا غم غلط کرنے کی خاطر سکندر ایک جنگی مہم پر روانہ ہوا گویا آدمیوں کا شکار اُس کا دل بہلا دے گا۔ چنانچہ اُس نے کئی قبیلوں کو مغلوب کیا اور تمام مَردوں کو، جن میں بچے اور بڑے شامل تھے، موت کے گھاٹ اتار دیا۔ یہ قتل ہیفا اسشن کی رُوح کے لئے نذرانہ کہلایا۔

اُس نے اپنے دوست کی تجہیز و تکفین اور مقبرے پر دس ہزار ٹیلنٹ صرف کرنے کا فیصلہ کر لیا اور چونکہ وہ چاہتا تھا کہ یہ مقبرہ اپنے اچھوتے پن اور حدّت کے لحاظ سے اپنی کثیر لاگت سے بڑھ کر ہو لہٰذا اس نے نٹاسیکریٹس کو بطورِ خاص اس کام پر مامور کیا۔ یہ فنکار اپنے طرزِ تعمیر میں نِت نئی اختراعات کے لئے بہت شہرت رکھتا تھا جو حد سے زیادہ شاندار ہوتی تھیں ۔

سٹاسیکریٹس ہی نے کچھ عرصہ قبل ایک ملاقات میں سکندر کو رائے دی تھی کہ تمام پہاڑوں میں سے کوہِ ایتھوس ایک ایسا پہاڑ ہے جسے تراش کر انسانی شکل دینا نسبتاً آسان ہے اور اگر سکندر حکم دے تو وہ اس پہاڑ کو تراش کر دنیا میں سکندر کے سب عظیم اور پائیدار مجسمے میں تبدیل کر دے گا۔ اس کے بائیں ہاتھ میں دس ہزار باشندوں کا شہر ہو گا اور دائیں ہاتھ سے دریا کا پانی قربانی کے سیّال کی مانند بہتا ہوا سمندر میں گرے گا۔

سکندر نے یہ تجویز رد کی دی تھی مگر اب وہ اپنا زیادہ تر وقت انجنئیروں اور معماروں کے درمیان گزارتا اور اس سے بھی زیادہ عجیب و غریب منصوبے بناتا رہتا تھا۔

               ۷۳ موت کے اشارے

اُسی سال کے اواخر میں سکندر بابل کی جانب روانہ ہوا۔ وہاں پہنچنے سے پہلے ہی نیارکس اُس سے  آملا اور کہنے لگا کہ وہ چند کلازیڈیوں سے ملا تھا جو کہہ رہے تھے کہ سکندر کو بابل سے دُور رہنا چاہئیے۔ سکندر نے اِس تنبیہ پر کوئی توجہ نہ دی اور اپنا سفر جاری رکھا لیکن جب وہ شہر کی دیواروں کے سامنے پہنچا تو اُس نے کوؤں کا جھُنڈ دیکھا۔ وہ سب ایک دوسرے پر جھپٹ رہے تھے اور اُن میں سے کچھ مر کر اُس کے سامنے ہی آگِرے۔

اِس کے بعد اُسے اطلاع ملی کہ بابل کے گورنر اپالوڈورس نے سکندر کی قسمت کا حال جاننے کے لئے قربانی دی تھی۔ سکندر نے فیثا غورث کو بلا بھیجا(۴۴)۔ اِسی کاہن نے اپالوڈورس کے کہنے پر قربانی کروائی تھی۔اُس نے اقرار کیا کہ یہ بات سچ ہے۔ سکندر نے پوچھا کہ قربانی کا جانور کس حالت میں ملا تھا۔

’’جگر پر کوئی نشان نہیں تھا،‘‘ فیثا غورث بولا۔

’’بے شک یہ شگون خطرے کی علامت ہے،‘‘ سکندر نے جواب دیا۔

تاہم اُس نے فیثا غورث کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا اور اب اُسے نیارکس کی نصیحت قبول نہ کرنے پر افسوس ہونے لگا چنانچہ اُس نے حتیٰ المقدور بابل کی دیواروں سے باہر ہی رہنے کی کوشش کی۔ اُس کا زیادہ تر وقت یا تو اپنے خیمے میں گزرتا یا وہ کشتی میں بیٹھ کر دریائے فرات میں نکل جاتا۔

کئی دوسرے شگون بھی سامنے آئے جن سے وہ پریشان ہو گیا۔

ایک سِدھائے ہوئے جنگلی گدھے نے ایک پالتو شیر پر حملہ کر دیا اور دو لتیاں جھاڑ جھاڑ کر اُسے موت کے گھاٹ اتار دیا۔

ایک اور موقع پر سکندر نے کھیلنے کے لئے اپنا لبادہ اتارا اور گیند سے کھیلنے لگا۔ پھر جب دوبارہ کپڑے پہننے کا وقت آیاتو وہ نوجوان جو اُس کے ساتھ کھیل رہے تھے اُن میں سے ایک نے اچانک دیکھا کہ کوئی شخص سکندر کے تخت پر خاموشی سے بیٹھا ہوا ہے اور اس نے سکندر کا تاج اور لبادہ اوڑھ رکھا ہے۔ جب اُس سے پوچھا گیا تو کچھ دیر تک وہ کچھ بھی نہ بول سکا لیکن ہوش میں آ گیا اور بتایا کہ وہ مَسینیا کا شہری ہے۔ اُس کا نام ڈیونیسس ہے۔ اُس پر کسی جرم کا الزام تھا۔ اُسے ساحل سے بابل لایا گیا اور کافی عرصے تک زنجیروں میں جکڑے رکھا گیا۔ پھر دیوتا سیراپس اس کے سامنے نمودار ہوا، اُس کی زنجیریں اتاریں اور اُسے اِس جگہ لے آیا۔ یہاں اُسے حکم ہوا کہ بادشاہ کا لبادہ اور تاج پہن لے، اُس کے تخت پر چڑھے اور اُس کی جگہ بیٹھا رہے۔

               ۷۴ کسنڈر

جب سکندر نے اُس کی کہانی سنی تو کاہنوں کے کہنے پر اُسے موت کے گھاٹ اتار دیا۔

لیکن اب اس کا اعتماد ختم ہو چکا تھا اور اُسے یقین ہو چلا تھا کہ وہ دیوتاؤں کی حمایت کھو بیٹھا ہے۔ اپنے دوستوں پر اُس کے شکوک و شبہات بڑھتے چلے گئے۔ انٹیپیٹر اور اس کے بیٹوں کی جانب سے اُسے سب سے زیادہ خطرہ تھا۔ اُن میں سے ایک جس کا نام ائیولاس تھا اُس کا ساقی تھا۔ دوسرا جس کا نام کسنڈر تھا ابھی ابھی بابل پہنچا تھا۔ جب اُس نے مقامی لوگوں کو بادشاہ کے سامنے جھک کر کورنش بجاتے دیکھا تو وہ ایک بلند اور اہانت آمیز قہقہہ لگا کر ہنس پڑا کیونکہ اس کی تربیت یونانی انداز میں کی گئی تھی اور ایسا نظارہ اُس نے اپنی زندگی میں کبھی نہیں دیکھا تھا(۴۵)۔

سکندر اِس توہین پر غضبناک ہو گیا، دونوں ہاتھوں سے اُس کے سر کے بال پکڑ لئے اور اُس کا سر دیوار کے ساتھ ٹکرا دیا۔

ایک اور موقع پر کچھ لوگ مقدونیہ سے سکندر کے پاس آ کر کسنڈر کے باپ انٹیپیٹر کے خلاف شکایات کر رہے تھے۔ کسنڈر  نے انہیں ٹوک دیا تو سکندر نے اُس سے کہا۔

’’کیا مطلب ہے تمہارا؟ کیا تم سچ مچ یہ کہنا چاہتے ہو کہ اِن لوگوں نے محض ایک جھوٹا الزام تراشنے کی خاطر یہ تمام سفر کیا ہے؟‘‘

کسنڈر نے کہا۔

ــ’’یہی بات اِن کے جھوٹا ہونے کی دلیل ہے کہ یہ لوگ جس پر الزام عائد کر رہے ہیں اُس سے دُور بھاگ آئے ہیں ۔‘‘

سکندر ہنسا اور کہنے لگا۔

’’یہ بات تو ارسطو کے چند فلسفیانہ جملوں کی طرح ہے جو مسئلے کی تائید اور تردید میں یکساں طور پر دلیل ہوتے ہیں ۔ لیکن اگر یہ ثابت ہو گیا کہ تم لوگوں نے اِن کے ساتھ ذرا بھی برائی کی ہے تو تمہیں اِس کے لئے پچھتانا پڑے گا!‘‘

بہرطور، بتایا جاتا ہے کہ یہ خوف کسنڈر کے دل میں کچھ اِس طرح بیٹھ گیا تھا اور کچھ ایسا تسلط اِس خوف نے اُس کے ذہن پر جما لیا تھا کہ کافی عرصہ بعد جب خود مقدونیہ کا بادشاہ اور یونان کا آقا بن گیا تب بھی ایک دن جب گھوم پھر کر ڈیلفی کے مقام پر موجود مجسمے دیکھ رہا تھا تو سکندر کے مجسمے کو دیکھتے ہی وہ خوف سے ٹھٹھک گیا، کانپنے لگا اور اُس کے جسم پر لرزہ طاری ہو گیا۔ اُس کا سر بھی بری طرح ڈولنے لگا اور با ہزار دقّت  وہ اپنے اوپر قابو پانے میں کامیاب ہو ا۔

               ۷۵ آخری دعوت

دریں اثنا غیرمرئی قوّتوں کا خوف سکندر پر شدّت کے ساتھ طاری ہو چکا تھا۔ اِس خوف نے اُس کے ذہن میں انتشار پیدا کر دیا تھا اور اُس کے ذہن پر تسلّط جما لیا تھا۔ چنانچہ وہ ہر عجیب واقعے کو شگون سے تعبیر کرنے لگا خواہ وہ کتنا ہی معمولی واقعہ کیوں نہ ہوتا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ شاہی محل غیب دانوں ، کاہنوں ، نذر اتارنے والوں اور اِسی قسم کے لوگوں سے بھر گیا۔ بلاشبہ دیوتاؤں کی باتوں پر یقین نہ کرنا یا اُن کی قوّت کے متعلق شکوک و شبہات کا اظہار کرنا خطرناک بات ہے لیکن وہم پرستی بھی اُتنی ہی خطرناک چیز ہے۔ چنانچہ جب سکندر غیر منطقی خوف کا غلام بن گیا تو پھر یہ خوف اُس کے ذہن میں احمقانہ اور بے بنیاد باتیں ڈالتا چلا گیا۔

بایں ہمہ جب ہیفا اسشن کی موت کے متعلق دیوتاؤں کا اشارہ اُس تک پہنچایا گیا تو اُس نے غم سے نجات حاصل کر لی، کثرت کے ساتھ قربانیاں دینے لگا اور شراب نوشی کی محفلوں میں شرکت کرنے لگا۔

اُس نے نیارکس کے اعزاز میں ایک شاندار دعوت منعقد کی اور پھر حسبِ معمول غسل کیا تاکہ اس کے بعد سو جائے لیکن جب میڈیوس نے اُسے دعوت دی تو وہ اُس کے گھر جا کر ایک تقریب میں شریک ہو گیا۔ وہاں اُس نے اگلا دن بھی شراب نوشی میں گزار دیا۔ پھر اُسے کچھ بخار سا محسوس ہونے لگا۔

ایسی کوئی بات نہیں کہ ’’وہ جامِ ہرقل پی رہا تھا‘‘ اور نہ ہی اُسے اچانک اپنی پیٹھ میں کوئی ایسا درد اُٹھتا محسوس ہوا کہ جیسے نیزہ مارا گیا ہو(۴۶)۔ یہ وہ باتیں ہیں جنہیں کئی مورخین اِس واقعے کی تفصیلات کے طور پر بیان کرتے ہیں اور اس طرح ایک عظیم کارنامے کے لئے المیہ اور متاثر کن اختتام اختراع کر لیتے ہیں ۔ ارسٹوبولس بتاتا ہے کہ اُسے سخت بخار ہو گیا تھا اور یہ کہ جب اُسے سخت پیاس لگی تو اُس نے شراب پی جس نے اُس پر مدہوشی طاری کر دی ۔ وہ یہ بھی بتاتا ہے کہ سکندر ماہِ ڈائیسوس کی تیسویں تاریخ کو فوت ہوا(۴۷)۔

               ۷۶ موت

خود اُس کے روزنامچوں کے مطابق اِس بیماری کے دوران کے واقعات کچھ اِس طرح ہیں ۔

 ماہِ ڈائیسوس کی اٹھارہویں تاریخ کو وہ حمام ہی میں سو گیا کیونکہ اپس کا جسم بخار کے باعث گرم تھا۔ اگلے روز غسل کرنے کے بعد وہ خواب گاہ میں چلا گیا اور باقی دن میڈیوس کے ساتھ پانسہ کھیلنے میں گزار دیا۔ شام کو اندھیرا پھیلنے کے بعد اُس نے غسل کیا، دیوتاؤں کے حضور قربانی پیش کی، کھانا کھایا اور اُسے تمام رات بخار بدستور رہا۔

بیسویں تاریخ کو اُس نے پھر غسل کیا، حسبِ معمول قربانی دی اور حمام میں لیٹے ہوئے وہ نیارکس سے اُس کے سفر کا حال سن کر لطف اندوز ہوتا رہا۔

اکیسویں تاریخ کو بھی اُس نے اپنا وقت اِسی طرح گزارا لیکن بخار مزید تیز ہو گیا۔ اُس کی رات تکلیف میں گزری اور اگلے روز، دن بھر اُس کا بخار بہت تیز رہا۔ اُس نے اپنا بستر ایک بڑے حوض کے کنارے منتقل کروایا اور اس میں پڑا رہا۔ یہاں اُس نے اپنے کمانداروں سے فوج میں خالی جگہوں کے متعلق بات کی اور ان جگہوں کو تجربہ کار فوجیوں سے پُر کرنے کے سلسلے میں مشورہ کیا۔

چوبیسویں تاریخ کو بخار سے اُس کی حالت مزید بری ہو گئی اور قربانی پیش کرنے کے لئے اُسے اُٹھا کر باہر لے جانا پڑا۔ اُس نے بڑے افسروں کو حکم دیا کہ وہ بدستور محل کے اندر، دربار میں حاضر رہیں اور فوجی ٹکڑیوں اور دستوں کے کمانداروں کو محل کے باہر رات گزارنے کا حکم دیا۔

پچیسویں تاریخ کو اُسے محل میں لے جایا گیا جو دریا کے دوسرے کنارے پر واقع تھا۔ یہاں وہ کچھ دیر سویا لیکن اُس کے بخار میں افاقہ نہ ہوا۔ جب کماندار اُس کے کمرے میں آئے تو وہ بول نہیں سکتا تھا اور اگلے روز بھی اُس کی یہی حالت رہی۔

اب مقدونویوں کو خیال ہو چلا کہ سکندر مر گیا ہے۔ وہ محل کے دروازے پر ٹوٹ پڑے، نعرے لگانے لگے اور رفقائے خاص کو دھمکانے لگے جو بالآخر اُنہیں اندر آنے کی اجازت دینے پر مجبور ہو گئے۔

جب دروازے کھولے گئے تو وہ سب آہستہ آہستہ اُس کے بستر کے پاس سے ایک قطار میں گزرنے لگے۔ انہوں نے نہ تو اپنے اوپر لبادے ڈال رکھے تھے نہ ہی وہ زِرہ پہنے ہوئے تھے۔

اُس دن بھی پائتھن اور سلیوکس کو دیوتا سیراپس کے مندر بھیجا گیا تاکہ وہ معلوم کریں کہ آیا سکندر کو وہاں منتقل کر دیا جائے۔ دیوتا کی طرف سے جواب آیا کہ وہ جہاں ہے اُسے وہیں رہنے دیا جائے۔

اٹھائیسویں تاریخ کو شام کے قریب وہ فوت ہو گیا۔

               ۷۷ سکندر کے بعد

مندرجہ بالا بیان میں زیادہ تر اُس بیان کی حرف بحرف نقل ہے جو روزنامچوں میں دیا گیا ہے۔ اُس وقت کسی کو شبہ تک نہ تھا کہ سکندر کو زہر دیا گیا ہے لیکن کہتے ہیں کہ پانچ برس بعد کچھ اطلّاعات موصول ہوئیں جن کی بنا پر اولمپیاس نے کئی آدمیوں کو موت کے گھاٹ اتروا دیا اور انٹیپیٹر کے بیٹے ائیولاس کی راکھ فضا میں بکھیر دی کیونکہ اس شبہے کے تحت اُسی نے زہر دیا تھا۔

بعضوں کے نزدیک انٹیپیٹر کو سکندر کو زہر دینے کا مشورہ دینے والا خود ارسطو تھا اور صرف اُسی کی کوششوں سے زہر فراہم ہوا تھا۔ یہ الزام لگانے والے لوگ ہکنوتھیمس نامی ایک آدمی کو سَنَد کے طَور پر پیش کرتے ہیں ۔ اُس کا دعویٰ ہے کہ اُس نے یہ تمام باتیں انٹیگونز سے سنی تھیں ۔

اِس کہانی کے مطابق یہ زہر ایک قسم کا برفیلا پانی تھا۔ یہ پانی کسی پہاڑی کی چوٹی سے لایا گیا تھا جو لُٹا کریس نامی قصبے کے پاس واقع تھی۔ یہاں اِسے شفاف شبنم کی طرح جمع کیا گیا تھا اور ایک گدھے کے کھُر میں رکھا گیا تھا ۔ کوئی دوسری چیز اس پانی کی متحمل نہیں ہو سکتی تھی کیونکہ یہ اِتنا سرد اور تیزابی تھا کہ اس کے علاوہ دیگر چیزوں کو گلا کر اُن میں سے پار ہو جاتا تھا۔

لیکن زیادہ تر مستند مورخین کا خیال ہے کہ یہ زہر والی داستان مکمل طور پر اختراعی ہے اور اس بات کو اِس حقیقت سے تقویت ملتی ہے کہ سکندر کی وفات کے بعد اُس کی تدفین کے سلسلے میں کوئی دنوں تک اُس کے کمانداروں میں بحث ہوتی رہی لیکن اس تمام عرصے کے دَوران اُس کی لاش صحیح سلامت رہی اور ایسی کوئی علامت ظاہر نہ ہوئی جیسی زہرخوردنی کے معاملات میں ظاہر ہوتی ہے۔ لاش بالکل صحیح حالت میں اور شاداب رہی (۴۸)۔

اُس وقت رخسانہ امید سے تھی اور اسی لئے مقدونوی اُسے خاص احترام کی نگاہ سے دیکھتے تھے لیکن وہ سکندر کی دوسری بیوی سٹاٹیرا سے حسد کرتی تھی۔ چنانچہ اُس نے سکندر کی طرف سے سٹاٹیرا کے نام ایک جعلی خط لکھا جس میں اُسے بلایا گیا تھا۔ اِس طرح اُس پر قابو پا کر رخسانہ نے اُسے اور اُس کی بہن کو قتل کروا دیا اور اُن کی لاشیں ایک کنویں میں پھنکوا کر کنویں کو مٹی سے بھر دیا۔

اِس جرم میں پرڈیکاس اُس کا آلۂ کار تھا جو سکندر کی موت کے بعد سب سے زیادہ قوّت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا تھا۔ اس کام کے لئے اُس نے شاہی خاندان کے فرد ارہی ڈائیس کو بھی استعمال کیا۔ ارہی ڈائیس فیلقوس ہی کا بیٹا تھا جو ایک گمنام اور نچلے طبقے کی عورت فلینیا سے پیدا ہوا۔ کسی بیماری کے باعث اُس کی نشوونما معمول کے مطابق نہیں ہو سکی تھی لیکن یہ بیماری نہ تو پیدائشی تھی اور نہ ہی فطری طور پر پیدا ہوئی تھی بلکہ کہا یہ جاتا ہے کہ بچپن میں وہ ٹھیک تھا اور اولمپیاس اس بیماری کا باعث تھی۔ اُسی نے ارہی ڈائیس کو ایسی جڑی بوٹیاں کھلا دیں جنہوں نے اُس کے جسم کی نشوونما میں خلل ڈالا اور اُس کے دماغ کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا(۴۹)۔

٭٭٭

 

حواشی

نوٹ: اِس ترجمے میں یونانی نام اُسی طرح استعمال کئے گئے ہیں جس طرح وہ پلوتارک کے یہاں استعمال ہوئے ہیں ۔ صرف اُن ناموں میں اِس اُصول سے استثنا برتا گیا ہے جو اُردو زبان میں پہلے ہی سے کسی دوسری صورت میں رائج ہیں ۔ ان کی تفصیل درجِ ذیل ہے:

سکندر (اِسکندر) کا اصل نام یونانی اور مقدونوی میں Alexandros تھا جسے انگریزی میں Alexander کہتے ہیں ۔

رخسانہ کا اصل نام رُوشنک (رُشنا) رہا ہو گا کیونکہ یونانی مورخین نے لکھا ہے کہ اس کے نام کا مطلب روشنی کی بیٹی تھا۔ اُنہوں نے اُس کے نام کو Roxana لکھا ہے جسے انگریزی میں Roxane لکھتے ہیں ۔ اس نام کا یونانی تلفظ ہی بعد میں مشرقی زبانوں میں رخسانہ بن گیا۔

فیلقوس (Philip) ، بطلیموس (Ptolemy) ، ارسطو (Aristotle) ، قلوپطرہ (Cleopatra) اور فیثاغورث (Pythagoras) ہمارے یہاں صدیوں سے مشہور ہیں ۔

جگہوں کے ناموں میں سے سکندریہ کا اصل Alexandria ہے اور دریائے جہلم کو یونانی Hydaspes کہتے تھے۔ دریائے سندھ کا نام Indus بھی یونانیوں کا دیا ہوا ہے مگر یہ اب ہمارے یہاں بھی مشہور ہے چنانچہ اِس کے ترجمے میں یونانی نام ہی رہنے دیا گیا ہے۔

٭

(ا)  پلوتارک نے اپنی کتاب میں سکندر کے ساتھ جولئس سیزر کی سوانح بھی شامل کی تھی۔ یہاں صرف سکندر کی سوانح پیش کی جا رہی ہے۔

(۲)ہرکولیس، کارینوس اور آئیکس نیم افسانوی کردار ہیں جنہیں اُس زمانے میں تاریخی شخصیات تسلیم کیا جاتا تھا۔ اِن میں سے ہرکولیس مشہور ہیرو ہے جس کی شہ زوری کے افسانے مشہور ہیں ۔ کارینوس کا زمانہ نویں صدی عیسوی متعین کیا جاتا ہے اور یونانی دیومالا کے مطابق یہ ہرکولیس کی اولاد میں سے تھا۔ جدید مورخ کی نظر میں یہ شجرہ مشکوک ہے اور اِس کی اہمیت صرف یہی ہے کہ اپنے آپ کو اِن لوگوں کی اولاد سمجھنے کا سکندر کے ذہن پر کچھ نفسیاتی اثر بھی ہوا ہو گا۔

(۳) فیلقوس ۳۸۲قبل مسیح میں پیدا ہوا۔ اولمپیاس اُس کی تیسری بیوی تھی جبکہ پہلی دونوں بیویاں فوت ہو چکی تھیں ۔ یہ شادی ۳۵۷ قبل مسیح کے موسمِ خزاں میں ہوئی۔

(۴)  ۲۰ جولائی ۳۵۶ قبل مسیح

(۵) خیال ہے کہ اُس وقت سکندر کی عمر تیرہ برس تھی۔

(۶) موجودہ موجودہ زمانے میں اِس قیمت کا صحیح تخمینہ لگانا مشکل ہے۔ اُس زمانے کے لحاظ سے یہ ایک بہت بڑی رقم تھی۔

(۷) یونان میں ترکی کی سرحد کے قریب اس کے آثار اب بھی موجود ہیں ۔

(۸) یہ جنگ ۳۳۸ قبل مسیح میں لڑی گئی جب سکندر کی عمر اٹھارہ برس تھی۔ اِس میں فتح کے بعد فیلقوس کو تمام یونان نے فارس پر حملے کے لیے کماندارِ اعلیٰ تسلیم کر لیا۔

(۹) یہ پورا واقعہ ۳۳۷ قبل مسیح کا ہے۔

(۱۰) ارہی ڈائیوس، فیلقوس کا ایک ناجائز بیٹا تھا جس کا ذہنی توازن درست نہیں تھا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ اولمپیاس نے زہریلی جڑی بوٹیاں کھلا کر اُس کی یہ حالت کی ہو گی۔

(۱۱) فیلقوس جون ۳۳۶ قبل مسیح میں قتل ہوا۔ بعض مورخین کے نزدیک پاسانیاس کو اُکسانے میں فارس والوں کا ہاتھ تھا۔

(۱۲)اولمپیاس نے قلوپطرہ اور اُس کے شیرخوار بچے کو انگیٹھی میں زندہ جلوا دیا۔اٹالوس کو سکندر نے ایتھنز والوں کے ساتھ غدارانہ مراسلت کرنے کے الزام میں سزائے موت دے دی۔

(۱۳) سکندر فارس پر حملے کے لئے ۳۳۴ قبل مسیح کے موسمِ بہار میں روانہ ہوا۔

(۱۴)پلوتارک نے فارسی ناموں کو یونانی شکل میں لکھا ہے۔

(۱۵)  تھیوڈیکٹس المیہ ڈرامہ نگار تھا اور ارسطو کا شاگرد رہ چکا تھا۔

(۱۶)یہ واقعہ ۳۳۳ قبل مسیح کے شروع کا ہے۔

(۱۷) یہ جنگِ اسوس تھی جو ستمبر ۳۳۳ قبل مسیح میں لڑی گئی۔ اس میں سکندر کی فوج تقریباً چالیس ہزار تھی اور دارا کی فوج کی تعداد ڈھائی لاکھ سے دس لاکھ تک بتائی جاتی ہے۔

(۱۸) ملکہ آڈا اُس پکسوڈورس کی بہن تھی جس کا ذکر باب ۱۰ میں ہوا ہے۔

(۱۹) صور کا محاصرہ ۳۳۲ قبل مسیح میں جنوری سے اگست تک جاری رہا۔

(۲۰) غزہ کا محاصرہ ستمبر اور اکتوبر ۳۳۲ قبل مسیح میں کیا گیا۔

(۲۱) ساڑھے تیرہ ٹن خوشبو اور ڈھائی ٹن لُوبان۔

(۲۲) مؤرخ آریاں کے مطابق یہ سفر ۳۳۲ قبل مسیح کے آخر میں شروع ہوا اور اگلے برس کے آغاز تک جاری رہا۔یہ سردیوں کا زمانہ تھا۔

(۲۳) مؤرخ آریاں کے مطابق یہ وفد صور کے محاصرے کے دوران آیا تھا۔

(۲۴)دس لاکھ کی تعداد میں غالباً مبالغہ شامل ہے۔ جدید مؤرخ دارا کی فوج کا اندازہ تقریباً ایک لاکھ پیادہ اور چونتیس ہزار سوار لگاتے ہیں ۔

(۲۵) یہ گرہن ۳۳۱ قبل مسیح میں ۲۰ اور ۲۱ ستمبر کی درمیانی رات کو لگا تھا۔

(۲۶) یہ اجازت تقریباً ۴۷۹ میں دی گئی تھی۔

(۲۷) ڈیماریٹس کا ذکر باب ۹ میں بھی آ چکا ہے۔

 (۲۸) سکندر کی غیرموجودگی میں انٹی پیٹر ، مقدونیہ کا گورنر تھا۔

(۲۹)ہارپالوس، سکندر کے بچپن کے زمانے کا دوست تھا۔ سکندر نے اُسے خزانچی بنادیا اور ایک بار غبن کرنے پر بھی اُسے معاف کر کے عہدے پر برقرار رکھا۔ جب سکندر ہندوستان کی طرف گیا تو ہارپالوس نے یہ سوچ کر دوبارہ غبن کیا کہ شائد سکندر واپس نہ آ سکے۔ جب سکندر واپس آیا تو ہارپالوس روپوش ہو گیا۔ یہاں بظاہر اُس کے پہلے غبن کی اطلاع ملنے کا واقعہ بیان ہوا ہے۔

(۳۰) سکندر نے دارا کا تعاقب ۳۲۰ قبل مسیح میں دوبارہ شروع کیا۔ اُس وقت دارا نے اکبتانہ (ہمدان) میں چھ ہزار پیدل اور تین ہزار سوار جمع کر لئے تھے۔

(۳۱) اکثر یونانی دانشوروں کے مطابق زمین کے چاروں طرف سمندر پھیلا ہوا تھا اوراس کے درمیان زمین ایک جزیرے کی طرح تھی۔

(۳۲)  یہاں سے پلوتارک ۳۳۰ قبل مسیح کے واقعات کی طرف واپس آتا ہے یعنی دارا کے قتل کے فوراً بعد کا زمانہ۔

(۳۳) جنگِ اسوس سلیشیا کے درّے کے قریب لڑی گئی تھی۔

(۳۴) پارمینیو کے ساتھ اُس کے داماد کو بھی قتل کر دیا گیا۔

(۳۵)  یہ واقعہ دو سال بعد ۳۲۸ قبل مسیح میں پیش آیا۔

(۳۶) یونانی عقیدے کے مطابق ہر شخص کے ساتھ اُس کا daimon ہوتا تھا جو نیک بھی ہو سکتا تھا اور برا بھی۔ اِس کے لئے میں یہاں ہمزاد کا لفظ استعمال کیا ہے۔

(۳۷)  یہ شہر فیلقوس نے برباد کیا تھا۔

(۳۸)  یہ جملہ  یوریپڈیز کے کسی ڈرامے کا ہے۔

(۳۹)  اس علاقے میں پھالیہ نامی تحصیل آج بھی موجود ہے۔

(۴۰)  پلوتارک کو غلطی لگی ہے۔ سکندر دریائے گنگا تک نہیں پہنچ سکا تھا بلکہ اُس کی فوجوں نے دریائے بیاس پر پہنچ کر دریا عبور کرنے سے انکار کیا تھا۔

(۴۱) معلوم ہوتا ہے کہ پلوتارک نے اُن لوگوں کو بھی شمار کیا ہے جوسکندر کے لشکر کے ساتھ آ رہے تھے ورنہ لڑنے والے سپاہیوں کی تعداد ہندوستان میں داخلے کے وقت صرف پینتیس ہزار تھی۔

(۴۲) اِسے مصر کی مشہور ملکہ قلوپطرہ نہ سمجھا جائے۔ وہ سکندر کے دوست بطلیموس کی اولاد میں سے تھی اور تقریباً تین سو سال بعد پیدا ہوئی۔ مقدونیہ میں لڑکیوں کے لئے قلوپطرہ ایک مقبول نام تھا۔

(۴۳) شہزادی کا اپنا نام بارسین تھا مگر ماں کے نام پر اسٹاٹیرا کہلاتی تھی۔ سکندر کی موت کے بعد رخسانہ اور اولمپیاس نے مل کر اسے قتل کروا دیا۔

(۴۴) اِس فیثا غورث کو مشہور ریاضی دان نہ سمجھا جائے۔

(۴۵) کیلستھینز والے واقعے کے بعد یونانیوں کے لئے کورنش کی پابندی ختم کر دی گئی تھی مگر فارسی اب بھی یہ رسم ادا کرتے تھے۔

 (۴۶)  جامِ ہرقل ایک بڑا جگ ہوتا تھا۔ پلوتارک یہاں ڈیوڈورس اور کوئینٹس کرٹئیس کی روایات پر گرفت کر رہا ہے۔

(۴۷)  ۱۰ جون ۳۲۳ قبل مسیح

(۴۸) سکندر کا دوست بطلیموس جو سکندر کی موت کے بعد مصر کا بادشاہ بنا وہ بالآخر سکندر کے تابوت کو مصر لے جانے میں کامیاب ہو گیا۔ اُس کا کہنا تھا کہ ایک دفعہ سکندر نے خود مصر میں دفن ہونے کی خواہش ظاہر کی تھی۔ سکندر کی لاش کو بڑے عمدہ طریقے پر حنوط کیا گیا تھا اور اُس کا تابوت اُس زمانے کی کاریگری کا بہترین نمونہ تھا۔ کئی صدیوں تک یہ تابوت سکندریہ میں محفوظ رہا اور لوگ سکندر کی لاش کا دیدار کرتے رہے۔

(۴۹) اولمپیاس، رخسانہ اور سکندر کا کم سن لڑکا بھی آخر میں کسنڈر کے سپاہیوں کے ہاتھوں مارے گئے۔

 

ماہ و سال

نوٹ: تمام تاریخیں قبل مسیح ہیں ۔

۳۵۶

۲۰ جولائی کو سکندر کی پیدائش

۳۴۳

ارسطو سکندر کا استاد بنتا ہے۔

۳۴۰

بازنطین پر فیلقوس کا حملہ۔ اُس کی غیر موجودگی میں سکندر اس کے قائم مقام کے فرائض انجام دیتا ہے۔

۳۳۸

یونانی ریاستوں کی متحدہ فوج کا فیلقوس پر حملہ۔ فیلقوس کائرونیا کے مقام پر انہیں شکست دیتا ہے۔ سکندر اس جنگ میں نمایاں کارنامے انجام دیتا ہے۔

۳۳۶

جون میں فیلقوس قتل کر دیا جاتا ہے اور سکندر اُس کا جانشین بنتا ہے۔

۳۳۵

سکندر کے خلاف تھیبز کی بغاوت اور تباہی۔

۳۳۴

موسمِ بہار میں سکندر فارس پر حملے کا آغاز کرتا ہے۔

مئی میں گرانیکس کی جنگ میں سکندر فتح حاصل کرتا ہے۔

۳۳۳

سکندر گارڈیم پہنچتا ہے۔

ستمبر میں جنگِ اسوس میں سکندردارا کو پہلی شکست دیتا ہے۔

۳۳۲

جنوری سے اگست تک صور کا محاصرہ ہوتا ہے۔ آخر سکندر صور فتح کر لیتا ہے۔

ستمبر سے اکتوبر تک غزہ کا محاصرہ۔ آخر غزہ بھی فتح ہو جاتا ہے۔

۱۴ نومبر

سکندر مصر میں فرعون کی حیثیت سے تخت نشین ہوتا ہے۔

۳۳۱

۷ اپریل کو سکندریہ کی تعمیر شروع ہوتی ہے۔

بہار کے اواخر میں سکندر مصر سے روانہ ہوتا ہے۔

یکم اکتوبر کو گاگامیلہ کی جنگ میں سکندر دارا کو دوسری اور فیصلہ کن شکست دیتا ہے۔

۳۳۰

جنوری سے مئی تک سکندر پرسی پولس میں قیام کرتا ہے۔

وسط مئی میں پرسی پولس کی آتشزدگی کا واقعہ پیش آتا ہے۔

جولائی میں دارا قتل ہو جاتا ہے۔

۳۲۹

سکندر کوہِ ہندو کش پہنچتا ہے اور ستھیوں کے خلاف مہم کا آغاز ہوتا ہے۔

۳۲۸

سکندر باختر پہنچتا ہے۔

۳۲۷

بہار کے اوائل میں سکندر باختر میں سُغد پر حملہ کرتا ہے اور رخسانہ سے شادی کرتا ہے۔

بہار کے اواخر میں سکندر باختر سے روانہ ہوتا ہے اور ہندوستان کی جانب پیش قدمی کرتے ہوئے ٹیکسلا پہنچتا ہے۔

۳۲۶

مئی میں جہلم کے کنارے سکندر کی پورس کے ساتھ جنگ ہوتی ہے۔

نومبر میں دریائے جہلم سے سکندر کی واپسی کا سفر شروع ہوتا ہے۔

۳۲۵

اگست میں پٹالہ سے سکندر خشکی کا راستہ اختیار کرتا ہے اور اس کا بحری بیڑا دریائی سفر جاری رکھتا ہے۔

۳۲۴

اس سال کے شروع میں سکندر کارمینیا پہنچتا ہے۔ ا

بہار میں سکندر شوش پہنچتا ہے۔

۳۲۳

اِس سال کے شروع میں سکندراپنی زندگی کا آخری معرکہ کسئیوں کے خلاف لڑتا ہے۔

بہار میں سکندر واپس بابل پہنچتا ہے۔

۱۰ جون کو سکندر بابل میں وفات پاتا ہے۔

مترجم کے بارے میں

خرم علی شفیق مورخ ، ڈرامہ نگار اور ماہرِ اقبالیات ہیں ۔ اُن کی دیگر تصانیف میں قائد اعظم محمد علی جناح کے بارے میں سوانحی ناول ’’سمندر کی آواز سنو‘‘ شامل ہیں ۔ پانچ جلدوں پر مشتمل اقبال کی جامع سوانح اُن کی زیرِ تصنیف کتابوں میں سرِ فہرست ہے جس کی پہلی جلد ’’دمادم رواں ہے یمِ زندگی‘‘ الحمرا سے شائع ہو چکی ہے ۔

ویب سائٹ:

http://khurramshafique.com

ای میل: khurramsoffice@yahoo.com

٭٭٭

تشکر: اقبال اکادمی پاکستان اور وصی اللہ کھوکھر  جنہوں نے فائل فراہم کی

ان پیج سے تدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید