FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

فہرست مضامین

دیس بَنا پردیس

(دوسرا ایڈیشن)

                   ناصر ناکاگاوا

ترتیب و تالیف: سیّدہ زہرہ عمران

انتساب

اپنے پاکستانی والدین

 اور جاپانی والدین (ساس سُسر)

                                 کے نام

 

 

حرفِ تشکر

ناصرناکاگاوا۔ ٹوکیو

میری پہلی تصنیف ’’ دیس بَنا پردیس ‘‘ اس قدر مقبول ہو گی میں نے کبھی سوچا نہ تھا۔ اس کامیابی کے لئے میں سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کا بے حد شکر گزار ہوں کہ اس نے مجھ ناچیز کی اس ادنیٰ سی کوشش کو میرے لئے عزت و شہرت کا سبب بنا دیا بے شک اللہ بے نیاز ہے۔

میری زندگی میں آج تک مجھے جو بھی خوشی یا کامرانی نصیب ہوئی ہے بلاشبہ وہ سب میرے والدین اور ساس سسر جنہیں میں جاپانی والدین کہتا ہوں کی دعاؤں کا نتیجہ ہے۔ اس کے علاوہ میری بیگم جو واقعی ’’بے غم‘‘ ہیں اور میرے بچے میرے لئے ہر وقت دعا گو رہتے ہیں۔ ’’دیس بَنا پردیس ‘‘کی اشاعت کا تمام کریڈٹ میں اپنی چھوٹی ہمشیرہ سیدہ زہرہ عمران کو دوں گا کہ اسی نے پہلے پہل نہ صرف میری توجہ سائبر میڈیا میں شائع شدہ میرے مضامین کو کتابی صورت میں محفوظ کرنے کی طرف دلائی بلکہ کتاب کی ترتیب و تدوین، اشاعت اور ساری دنیا میں اس کی ترسیل تک کی ذمہ داری میرے محسن و دوست جاوید اختر بھٹی صاحب کے تعاون سے احسن طریقہ سے نبھائی جس کے لئے میں جاوید اختر بھٹی صاحب کا بھی شکر گزار ہوں۔ عالمی شہرت یافتہ نعت گو شاعر و مزاح نگار محترم جناب سید سلمان گیلانی نے بھی ہمشیرہ سیدہ زہرہ عمران کی اس سلسلہ میں خوب رہنمائی فرمائی جس کے لئے میں ان کا تہہ دل سے مشکور ہوں۔

کتاب کی کامیاب اشاعت کے بعد جاپان اور پاکستان میں اس کی تقاریبِ رونمائی کے ذریعے اس کی مقبولیت میں مزید اضافہ ہوا۔ آرٹس کونسل آ ف پاکستان کراچی میں سال 2013 کے پہلے دن کی پہلی شاندار ادبی تقریب ’’دیس بَنا پردیس‘‘ کی تقریبِ رونمائی کو ہی قرار دیا گیا جس کی کامیابی کا سہرا میرے عزیز دوست عرفان صدیقی کے سر ہے۔ اردو نیٹ جاپان کے نوجوان بیورو چیف برائے ہندوستا ن کامران غنی صبا کا بھی بے حد مشکور ہوں جنہوں نے ’’دیس بَنا پردیس ‘‘ ہندوستان کی معروف علمی و ادبی شخصیات کو پیش کیں۔  دوحہ کی معروف ادبی تنظیم ’’شائقینِ فن ‘‘ کے صدر محترم جناب شوکت علی ناز ؔ کا بھی میں بے حد مشکور ہوں جنہوں نے میری کتا ب قطر کی معروف شخصیات جن میں سفیر پاکستان بھی شامل ہیں کی خدمت میں پیش کیں۔ اس کے علاوہ پاکستان و جاپان میں یکساں مقبول سیاسی، سماجی و کاروباری شخصیت جناب ملک افضل صاحب کا احسان مند ہوں جنہوں نے کینیا میں نہ صرف ’’دیس بنا پردیس ‘‘ کی تقریبِ رو نمائی کا اہتمام کیا بلکہ پاکستان، یوگنڈا اور کینیا میں مقیم اردو ادب سے دلچسپی رکھنے والے اپنے احباب کو یہ کتاب پیش کر کے مجھے متعارف کرایا۔ میں اُن دوستوں کا بھی مشکور ہوں جنھوں نے میری کتاب کو اعزازی طور پر بھاری قیمت پر خریدا اور اس طرح مجھ پر مالی بوجھ بھی نہ پڑا۔

ان تمام احباب ( پاکستان پیپلز ادبی فورم کے چئیر مین محترم جناب طارق حسین بٹ۔ یو اے ای، انٹرنیشنل مسلم سینٹر و انجمن فروغ اردو ادب جاپان کے چیئرمین محترم جناب عبدالرحمٰن صدیقی ٹوکیو، جواہر لعل نہرو یونی ورسٹی نئی دہلی کے پروفیسر ڈاکٹر خواجہ اکرام، آدم جی ادبی ایوارڈ یافتہ افسانہ نگار محترم جناب طاہر نقوی صاحب کراچی، بین الاقوامی کالم نگار سینئرپاکستانی محترم جناب حسین خان صاحب ٹوکیو، معروف ادیب و کالم نگار محترم جناب محمد ظہیر بدر صاحب لاہور، سینئر پاکستانی محترم جناب طیب خان صاحب ٹوکیو، پنجاب یونیورسٹی اوریئنٹل کالج کے شعبہ اردو کے پروفیسر ڈاکٹر محمد کامران لاہور، پریسٹن یونی ورسٹی اسلام آباد کے اسسٹنٹ پروفیسر انٹرنیشنل ریلیشن ڈاکٹر احمد رشید ملک اسلام آباد، دوحہ کی معروف ادبی تنظیم شائقین فن کے صدر محترم جناب شوکت علی ناز صاحب قطر، ٹوکیو یونیورسٹی کے شعبہ مطالعات خارجی کے سابق استادپروفیسر عامر علی خان صاحب کراچی، جاپان انٹرنیشنل پریس کلب کے ایگزیکٹیو ممبر شاعرِ  جاپان محترم جناب محمد مشتاق قریشی صاحب ٹوکیو، لندن انسٹی ٹیوٹ آف ساؤتھ ایشیاء (لیزا) کے ڈائریکٹر محترم جناب سمیع اللہ ملک صاحب لندن، معروف ادیب و شاعر محترم جناب عزیز بلگامی صاحب بنگلور، ندوۃ ایجوکیشن سینٹر جاپان کے چئیر مین ڈاکٹر سلیم الرحمٰن صاحب ٹوکیو، جنگ گروپ کے معروف کالم نگار محترم جناب عرفان صدیقی صاحب (ٹوکیو ) کا بھی شکر گزار ہوں جنہوں نے اردو نیٹ جاپان پر شائع شدہ میری تحریروں پر تبصرہ کیا اور وہ تبصرے ’’دیس بَنا پردیس‘‘ کے پہلے ایڈیشن میں شامل کئے گئے جبکہ ضخامت کے خوف کو پیش نظر رکھتے ہوئے دوسرے ایڈیشن میں ان تبصروں کا صرف خلاصہ ہی شامل کیا جا رہاہے۔ ان احباب کا بھی شکر گزار ہوں جنہوں نے’’دیس بَنا پردیس ‘‘کے پہلے ایڈیشن کاذوق و شوق سے مطالعہ کرنے کے بعد میری تحریروں پر قیمتی آراء اور تجاویز کا اظہار کیا ہے ان کے تبصرے اس ایڈیشن میں شامل کئے جا رہے ہیں۔ ان میں دنیائے صحافت کے بے تاج بادشاہ اور جہانِ پاکستان کے گروپ منیجنگ ڈائریکٹر محترم جناب محمود شام، سینئر صحافی جناب خان ظفر افغانی اور ڈاکٹر معین الدین عقیل کے نام سرِفہرست ہیں۔

اور اب میں اُس ہستی سے اظہار تشکر کروں گا کہ جن کی شفقت اور خلوص کی بدولت میری پہلی کتاب کا دوسرا ایڈیشن پہلے سے کئی گنا زیادہ خوبصورت انداز میں، پہلے سے کئی گنا خوبصورت سرورق کے ساتھ آپ کے ہاتھوں میں ہے وہ ہستی معروف شاعر اور ادارہ ماورا کے چیئرمین جناب محترم خالد شریف کی ہے۔ میرے ساتھ ان کی شفقت اور خلوص کا رنگ اس کتاب کو دیکھ کر قارئین خود ہی محسوس کر لیں گے۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔

آپ سب سے پُر خلوص دعاؤں کا متمنی

                                        ناصر ناکاگاوا

                                         (ٹوکیو-جاپان)

                                   بانی و سرپرست ’’اردو نیٹ جاپان ‘‘

E-mail: nasir.nakagawa@gmail.com

Cell:  81-8030020158

 

 

’’چھوٹے بھائی‘‘ کی خدمت میں چند گزارشات

                   سیدہ زہرہ عمران

پہلے پہلے میں نے جب’’ چھوٹے بھائی‘‘ سے ان کے مضامین کو کتابی صورت میں شائع کروانے کی خواہش کا اظہار کیا تھا تو انہوں نے انتہائی کسر نفسی سے کام لیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اپنے آپ کو اتنا بڑا لکھاری نہیں سمجھتے کہ ان کی کوئی کتاب شائع کرائی جائے۔ لیکن میں نے ان کی تحاریر کی علمی افادیت کو جانچ کر اور اپنے شوق کی تسکین کے لئے اردو نیٹ جاپان پر شائع شدہ ان کے مضامین کو کتابی صورت میں مرتب کر کے اسے ’’ دیس بَنا پردیسِ ‘‘ کے عنوان سے شائع کرانے کا اہتمام کیا۔ کتاب منظر عام پر آتے ہی دنیا بھر میں پھیلے ہوئے اردو نیٹ جاپان کے قارئین میں اس کا چرچا ہو گیا۔ اردو نیٹ جاپان کے بیورو چیف برائے پاکستان استاد محترم جناب جاوید اختر بھٹی صاحب کے تعاون سے کتاب کی ترسیل نہ صرف پاکستان کے مختلف شہروں بلکہ دنیا بھر میں ممکن ہو سکی۔ اردو ادب و صحافت سے دلچسپی رکھنے والے احباب نے اسے نہ صرف خوب سراہا بلکہ اسے اپنی قیمتی آراء و تجاویز سے بھی نوازا۔ کتاب کا پہلا ایڈیشن باقاعدہ طور پر مارکیٹ میں فروخت کے لئے پیش کرنے کی نوبت ہی نہ آسکی کیونکہ آدھی سے زیادہ تعداد کی کاپیاں ’’ چھوٹے بھائی ‘‘کے احباب کو تحفتاً پیش کر دی گئیں اور باقی کاپیاں جاپان میں بہت سے قدر دانوں نے اعزازی قیمت میں خرید لیں۔ اس کے علاوہ پچاس کاپیاں آرٹ کونسل آف پاکستان کراچی میں منعقدہ کتاب کی تقریب رونمائی کے مہمان خصوصی سابق صوبائی وزیر جناب عبدالرؤف صدیقی نے اعزازی قیمت میں خرید فرما کر اپنے احباب میں اعزازی طور پر تقسیم کیں۔ اپنی نوعیت کی یہ منفرد تصنیف جہاں جہاں بھی پہنچی اس کی مانگ اور پسندیدگی میں دن بدن اضافہ ہوتا گیا اور بالآخر اشاعت کے دو ماہ بعد ہی اس کا دوسرا ایڈیشن شائع کرانے کی ضرورت محسوس ہوئی۔

کتاب کا پہلا ایڈیشن شائع کرانے سے قبل بین الاقوامی شاعر و مزاح نگار کہ جن کی شرکت کے بغیر ملک کے کسی بھی ٹی وی چینل کا مزاحیہ مشاعرہ ادھورا سمجھا جاتا ہے، محترم سید سلمان گیلانی نے مجھے اپنے بہت سے قیمتی مشوروں سے نوازا تھا جس کے لئے میں ان کی بے حد مشکور ہوں۔ اب الحمدللہ اس کتاب کا دوسرا ایڈیشن بھی آپ کے ہاتھوں میں ہے جس میں اردو ادب و صحافت کی نامور شخصیات کے تبصرے شامل کئے گئے ہیں جن میں انہوں نے’’ دیس بَنا پردیس‘‘ کے پہلے ایڈیشن کے حوالہ سے اپنے تاثرات پیش کئے ہیں جبکہ سابقہ ایڈیشن میں شائع شدہ تبصرہ نگاروں کے تبصروں کو بھی مختصر کر کے شامل کر دیا  گیا ہے۔ اس ایڈیشن میں گزشتہ ایڈیشن کے کچھ مضامین خارج کر دئیے گئے ہیں اور کچھ نئے مضامین (دیارِ غیر میں کمپیوٹرائزڈ پاکستانی پاسپورٹ کے مسائل اور ان کا آسان حل، جاپان میں بچوں کے جاپانی و غیر ملکی والدین دونوں ہی یکطرفہ قانون حوالگی سے دلبرداشتہ ہیں،  سال 2102ء میں جاپان میں مقیم پاکستانیوں کی اموات، کیا آپ دیار غیر میں اپنی میت پر چندہ اکٹھا کرانا گوارا کریں گے؟، سائیں سلیم شیرو المعروف پیر پگارو آف جاپان سے دو مکالمے، جاپانی قوم نے آج بھی اپنی قدیمی روایات و رسم رواج کو گلے سے لگایا ہوا ہے، جاپان میں ذہنی و جسمانی معذور افراد معاشرے پر بوجھ نہیں، ٹوکیو سے 1300کلومیٹر دور فُوکوؤکا میں ’’دیس بَنا پردیس‘‘کی تقریب رونمائی، کراچی کا سہ روزہ دورہ اور ’’دیس بَنا پردیس‘‘ کی تقریب رونمائی) شامل کئے گئے ہیں جبکہ چند ایک مضامین میں ترمیم بھی کی گئی ہے اور گزشتہ ایڈیشن میں پائی جانے والی طباعت و املاء کی کچھ معمولی غلطیوں کی تصحیح بھی کر دی گئی ہے اس کے علاوہ سرورق بھی پہلے ایڈیشن سے قطعاًَ مختلف ہے۔

’’دیس بَنا پردیس‘‘ کے دوسرے ایڈیشن سے متعلق بات کرنے کے بعد میں اپنی اس تحریر کے توسط سے’’ چھوٹے بھائی‘‘ کے مزاج کی اس قناعت پسندی اور عاجزی و انکساری کا ضرور ذکر کروں گی جس سے ان کے نزدیکی احباب تو یقیناً واقف ہیں ہی لیکن نئے پڑھنے والوں کو بھی ان کی ان صفات سے آگاہی ہو جائے گی۔ ’’چھوٹے بھائی ‘‘ہر کام کو سخت جانفشانی سے کرتے ضرور ہیں لیکن انہیں کبھی بھی بہت کچھ پا لینے کی ہوس، طمع یا لالچ نہیں ہوتا۔ انہیں دیس سے پردیس ہوئے چوبیس سال کا عرصہ گزر چکا ہے اتنے طویل عرصہ میں جتنی سخت محنت انہوں نے کی ہے اگر ان کی جگہ کوئی حریص شخص ہوتا تو اپنی ذات کے لئے بہت کچھ جمع کر چکا ہوتا لیکن یہاں میں ’’چھوٹے بھائی‘‘ کی عظمت کو سلام کروں گی کہ انہوں نے چوبیس سال کے عرصہ میں محنت مشقت کر کے پاکستان میں بسنے والے اپنے بہن بھائیوں اور والدین کے لئے ہی سب کچھ کیا۔ تمام بہن بھائیوں کی شادیاں کیں، گھر بنا کر دئیے والدین کو حج کرائے لیکن اپنی ذات کے لئے کچھ نہ کیا ان کی ہمیشہ یہی خواہش رہی ہے کہ ان سے ان کا سب کچھ لے لو اور سب لوگ انہیں خوش رہ کر دکھائیں۔ وہ جب بھی پاکستا ن آتے ہیں یہی کہتے ہیں کہ آپ لوگ خوش قسمت ہو آپ ایک دوسرے کے نزدیک ہو اور سب سے بڑی بات اپنے دیس میں رہتے ہو۔ ’’چھوٹے بھائی ‘‘نے گزشتہ سال جاپان میں اپنا ذاتی گھر بنایا تو ہمیں بہت خوشی ہوئی کہ شکر ہے انہیں بھی اپنے لئے کچھ کرنے کا خیال آیا لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ گھر بھی انہوں نے اپنی فیملی کی ضرورت پورا کرنے کے لئے بنایا ہے اس میں کسی قسم کا دکھاوا یا ہوسِ زر نظر نہیں آتی۔ جاپان میں گھر بنا لینے کے بعد اور کتاب شائع ہو جانے کے بعد تو’’ چھوٹے بھائی‘‘ یہ سمجھنے لگے ہیں کہ اب انہوں نے سب کچھ حاصل کر لیا ہے۔ مجھ سے اکثر کہا کرتے ہیں ’’اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ میری زندگی کی تمام خواہشات پوری ہو چکی ہیں یعنی اچھی ملازمت ہے، اچھی بیوی ہے، نیک اولاد ہے، اپنا گھر ہے، اردو نیٹ جاپان کی صورت میں احباب کی محبت، اور ’’دیس بَنا پردیس‘‘ کی اشاعت کی صورت میں شہرت بھی بہت مل چکی ہے اب صرف ایک ہی خواہش ہے کہ حج کر لوں تو اس کے بعد خواہ موت بھی آ جائے تو کوئی غم نہ ہو گا میں نے بہت مطمئن زندگی گزاری ہے اور اطمینان کی موت ہی مرنا چاہتا ہوں ‘‘۔ ’’چھوٹے بھائی‘‘ کے حلقۂ احباب اور شہرت میں جیسے جیسے اضافہ ہوتا جا رہا ہے انہیں ہر لمحہ اطمینان قلب نصیب ہوتا جا رہا ہے یہاں تک کہ وہ موت کا سامنا کرنے میں بھی کوئی خوف محسوس نہیں کرتے حالانکہ مشاہدہ میں یہی بات آئی ہے کہ دولت اور شہرت انسان کو موت سے غافل کر دیتی ہیں جبکہ ’’چھوٹے بھائی‘‘ کے نزدیک معاملہ اس کے برعکس ہے۔ ’’دیس بَنا پردیس‘‘ کی اشاعت سے قبل بھی اردو نیٹ جاپان کے توسط سے اپنی علمی و صحافتی شہرت سے بہت مطمئن تھے انہیں اس سے زیادہ شہرت کا لالچ ہر گز نہ تھا۔ کتاب کی اشاعت کے بعد ان کی شہرت میں اضافہ ہوا تو اس پر خوش ضرور ہوئے لیکن کبھی اس پر نہ اِترائے اور نہ ہی غرور کیا بلکہ اب کثرت سے یہی کہتے ہیں کہ بس اب حج کی سعادت نصیب ہو جائے اور مزید کی تمنا نہیں ہے۔

میں اپنی اس تحریر کے توسط سے چھوٹے بھائی سے کہنا چاہتی ہوں کہ ویسے تو آپ نے اپنے اندر تمام خوبیاں ہی جاپانی قوم کی پیدا کر لی ہیں تو عمر کے حوالہ سے بھی اپنے آپ کو ایک جاپانی قوم کے فرد کی حیثیت سے سوچیں گے تو آپ کو معلوم ہو گا کہ آپ تو ابھی لڑکپن کا دور ہی گزار رہے ہیں یعنی بقول آپ کے جاپانی زیادہ تر طویل العمر ہوتے ہیں اور ساٹھ سال کی عمر میں بھی کبھی اپنے آپ کو بوڑھا نہیں سمجھتے آپ تو ابھی پچاس سال کے بھی نہیں ہوئے۔ میری تو دعا ہے کہ آپ صحیح معنوں میں ایک جاپانی کی طرح طویل عمر پائیں اورہمیشہ تندرست و توانا رہیں اور خوب کام کریں۔ بلکہ میرا خیال ہے کہ اب آپ کو اپنے اور اپنی فیملی کے لئے جینا ہے۔ ابھی تو آپ نے سائبر میڈیا میں اردو نیٹ جاپان کوایک اعلیٰ مقام دلانا ہے، ابھی آپ نے پاکستان جاپان کے نام سے ٹی وی چینل اور ریڈیو چینل قائم کر کے الیکٹرانک میڈیامیں پیش قدمی کرنی ہے، ابھی تو آپ نے ’’دیس بَنا پردیس‘‘ جیسی مختلف عنوانات پر بہت سی کتابیں تحریر کر نی ہیں، ابھی آپ نے سیر و سیاحت کو باقاعدہ اپنا کر ملک ملک گھومنا ہے اور اپنی اس سیر و سیاحت پر کئی دلچسپ سفرنامے تحریر کرنے ہیں، ابھی آپ نے اپنے آپ کو جاپان میں پاکستان کا غیر سرکاری سفیر ثابت کرنا ہے، ابھی آپ نے جاپان کی تہذیب و تمدن، تاریخ، ثقافت، سیاست، قوانین، زبان و ادب پر بے شمار کتابیں تحریر کرنی ہیں، ابھی آپ نے جاپانی اور اردو زبان کو ’’جاپانی اردو لغت ‘‘اور ’’جاپانی اردو بول چال ‘‘جیسی تخلیقات کا تحفہ دینا ہے، ابھی آپ نے پاکستان میں جاپانی زبان سکھانے اور جاپان میں اردو زبان سکھانے کے ادارے قائم کرنے ہیں، ابھی آپ نے ہم پاکستانیوں کو ایک ایسا پلیٹ فارم مہیا کرنا ہے جس کے توسط سے’’ ہم پاکستانی ‘‘بھی ’’آپ جاپانیوں ‘‘جیسی مثالی قوم بن جائیں، ابھی آپ نے جاپان میں اردو زبان و ادب اور مذہب اسلام کی ترویج کے لئے اپنی توانائیوں کو بروئے کار لانا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ جب آپ کا بڑا بیٹا یعنی میرا بھتیجا عادل یوتا پانچ سال کی عمر میں پاکستان آیا تھا تو کہا کرتا تھا کہ میں بڑا ہو کر پاکستان کا صدر بنوں گا تو ہم سب اس کا جواب سن کر بہت خوش اور جذباتی ہو جاتے تھے۔

میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو جاپانیوں والی طویل اور مگر با مقصد عمر عطا فرمائے اور آپ کی زندگی پر ہزاروں زندگیاں رشک کریں، میرے دل نے آپ سے جو توقعات وابستہ کر رکھی ہیں وہ تمام پوری ہوں اور اردو ادب و صحافت میں آپ کی بے شمار کتابوں کا اضافہ ہو۔ آمین ثم آمین

سیدہ زہرہ عمران

مدیرہ  ’’اردو نیٹ جاپان ‘‘

 

 

خصوصی اظہارِ تشکر

اس کتاب کے دوسرے ایڈیشن کے حوالے سے ایک خاص بات کرنا چاہوں گی۔ میری اور ’’چھوٹے بھائی‘‘ کی شدید خواہش تھی کہ دوسرا ایڈیشن پاکستان کے بہترین ناشر، معروف شاعر، چیف ایڈیٹر ماورا انٹرنیشنل اور چیئرمین ماورا پبلشرز جناب خالد شریف کی زیرِ نگرانی شائع ہو۔ ہماری خواہش کو انہوں نے محبت اور فراخدلی سے قبول کیا اور جس توجّہ اور عرق ریزی سے میری رہنمائی کی، کتاب کو خوبصورت بنانے میں انہوں نے جو کاوش کی اس کا شکریہ ادا کرنا ممکن نہیں۔ میں بس معروف کالم نگار ڈاکٹر اجمل نیازی کی اس بات کی تائید کرنا چاہوں گی کہ خالد شریف کتاب کو دُلہن بنا دیتے ہیں۔

حال ہی میں پنجاب یونیورسٹی میں منعقدہ پاکستان کے سب سے بڑے کتاب میلہ میں ’’دیس بنا پردیس ‘‘ کو ’’ماورا‘‘ کے خوبصورت سٹال پر خصوصی طور پر ڈسپلے کیا گیا جہاں اس کی متعدد کاپیاں فروخت ہوئیں اور پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر جناب مجاہد کامران سمیت نامور صحافیوں اور ادیبوں نے اس کتاب کے لئے توصیفی کلمات کہے۔

سیدہ زہرہ عمران

مدیرہ ’’اردو نیٹ جاپان‘‘

 

 

’’اردو نیٹ جاپان‘‘ سے آیا ناصر نا کاگاوا

سید سلمان گیلانیؔ۔ لاہور

ناصر ناکا گاواستمبر 2012میں پاکستان تشریف لائے تو ان کے اعزاز میں اردو نیٹ جاپان کے بیورو چیف برائے پاکستان جناب جاوید اختر بھٹی کی جانب سے رائل پام گالف اینڈ کنٹری کلب لاہور میں شانداراستقبالیہ دیا گیا۔ اس تقریب میں پاکستان کی معروف علمی و ادبی شخصیات امجد اسلام امجد، خالد شریف، ڈاکٹر محمد کامران، صائمہ کامران، محمد ظہیر بدر، ڈاکٹر اظہر وحید، اعزاز احمد آذر، علامہ ابتسام الٰہی ظہیر، امانت رسول، میاں محمد ریاض، سہیل مبارک، مقصود حسنی، حسنین جاوید کے علاوہ عالمی شہرت یافتہ نعت گو شاعرو مزاح نگار سید سلمان گیلانی نے بھی شرکت کی۔ اس شاندار ادبی تقریب میں سید سلمان گیلانی نے اپنی خوبصورت آواز اور اپنے مخصوص مترنم لہجہ میں نا صر ناکاگاوا کے لئے ایک فکاہیہ نظم بھی پیش کی جسے حاضرین سے خوب داد موصول ہوئی۔

اردو نیٹ جاپان سے آیا ناصر ناکا گاوا

اس سے ملنے میں بھی پہنچوں بھٹی کا ملا بلاوا

اس سے مل کر لگتا ہے اب میں جو نہ اس سے ملتا

زندگی بھر کا شاید مجھ کو لگ جاتا پچھتاوا

ناکا گاوا، سن کر میں نے جانا، کوئی ہو گا

چینا، پینا، چھوٹی آنکھوں والا چنا باوا

شاعروں اور ادیبوں سے ہے اس کا گہرا رشتہ

اردو ادب کا ہے جاپان میں اس کا اونچا پاوا

اردو نیٹ جاپان میں اس کی چھپتی ہیں تحریریں

میں نہیں جانتا اور یہ کیا کرتا ہے اس کے علاوہ

پڑھ کر اس کی تحریریں، شاباش کہوں میں اس کو

وہ شاباش جسے پنجابی میں کہتے ہیں شاوا

آیا ہے جاپان سے لے کر سب کے لئے یہ تحفہ

جاتے ہوئے سب لے کر جائیں تھوڑا تھوڑا لاوا

’’دیس بَنا پردیس‘‘ کتاب ہے اس کی آنے والی

اہلِ ذوق میں گیلانیؔ جو نام ہے پانے والی

سید سلمان گیلانیؔ       لاہور

 

 

ناصر ناکاگاوا کا اسلوب !اہل قلم کی نظر میں

                   (’’دیس بَنا پردیس ‘‘کے پہلے ایڈیشن میں شائع شدہ تبصروں کی تلخیص)

شوکت علی نازؔ 

صدر شائقینِ فن دوحہ۔ قطر

’’ناصر ناکا گاوا جو دلکش بلوری آنکھیں رکھتے ہوئے بھی بادامی آنکھوں اور کالی زلفوں والی جاپانی ساحرہ کی زلفوں کے اسیرہوکراس تراب الشمس کے ہی ہو کر رہ گئے۔ ۔ ۔ ناصر ناکا گاوا پاکستانی نژاد جاپانی نیشنل ہیں پاکستان کی محبت اُن کے دل میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے، اس کا اندازہ آپ اُن کی ان تحریروں سے لگا سکتے ہیں جو اُن کے اسلام آباد، راولپنڈی، لاہور اور کراچی میں گزارے ہوئے یادگار ایام کی عکاس ہیں۔ اپنوں کی محبت کا تذکرہ، بزرگانِ دین سے عقیدت، اُن کے مزاروں پر حاضری، رشتہ داروں کی محبتیں، پیاروں کی اُلفتیں، دوستوں کی یاریاں، ماں کی قبر پر حاضری، پرائمری سکول، بازار، گلیاں،  سڑکیں، تانگے، گدھا گاڑیاں، اُونٹ گاڑیاں، تلے پکوڑے، مچھلی، چاٹ، چھولے،   مٹھائیاں، شور شرابا اور ہارنوں کی آوازسے مچل جانے والا یہ انسان اپنی مادر دھرتی سے کتنا پیار کرتا ہے۔ یوں تو ہر پر دیسی کے اپنے وطن کے حوالے سے تقریباً ملتے جلتے خیالات و جذبات ہوتے ہیں مگر ناصر نے جس خوش اسلوبی سے ان کو اپنے الفاظ میں ڈھالا ہے، پردیس میں بسنے والا ہر قاری اس کو اپنی آپ بیتی محسوس کرتا ہے۔ ناصر جب شنگھائی کی سیر کو نکلتا ہے تو پورے جاپان اور شنگھائی کی سیرکچھ اس سلیقے سے کرا دیتا ہے جیسے آپ اُس کا ہاتھ تھامے ہوئے اُس کے ساتھ محوِ سفرہیں۔ ۔ ۔      ناصر ناکاگاوا کی تحریروں میں الفاظ کا چناؤ، بندش، روانی، نئی نئی ترکیبات اور اصطلاحیں پڑھ کران کے ادبی قد کا اندازہ لگانا بالکل مشکل کام نہیں رہتا۔ عشائیہ، ظہرانہ، عصرانہ کے ساتھ ساتھ فجرانہ کی اصطلاح حیران کر دینے کی حد تک خوبصورت اور نئی ہے جس کے لیے میں ناصر بھائی کو مبارک باد دیئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ ۔ ۔ ‘‘

٭٭٭

 

 

طارق حسین بٹ

(UAE)
چیئرمین پاکستان پیپلز ادبی فورم

’’ناصر ناکا گاوا نے جاپان میں رہتے ہوئے اردو کی ترویج، اس کی مقبولیت اور افادیت کا جو علم بلند کیا ہوا ہے وہ قابلِ ستائش ہے جو اردو زبان سے ان کی محبت کا آئینہ دار ہے۔ وہ جاپان کے علاقائی رسم و رواج اور ان کے اندازِ معاشرت کو بڑے دلنشین انداز میں پیش کرتے ہیں جس سے رسم و رواج کی اہمیت دو چند ہو جاتی ہے۔ جاپانی معاشرت پر ان کی بڑی گہری نظر ہے لہٰذا وہ جاپانی عادات، اصولوں، معاشرتی قدروں اور امیگریشن قوانین کو بڑے سادہ اور موثر انداز میں پیش کرتے ہیں تا کہ جا پان میں رہنے والے غیر ملکی ان کی تحریروں سے استفادہ کر کے قوانین کی نزاکتوں، گہرائیوں اور اہمیت سے کما حقہ آگاہ ہو سکیں۔ جاپان میں رہنے والے پاکستانیوں اور غیرملکیوں کے لئے ناصر ناکا گاوا کی یہ کتاب ,,دیس بَنا پردیس،، کسی خوبصورت تحفے سے کم نہیں ہے۔ ۔ ۔ ‘‘

٭٭٭

 

 

ڈاکٹر خواجہ اکرام

ایسوسی ایٹ پروفیسرجواہر لال نہرو یونیورسٹی نئی دہلی،
ڈائریکٹر قومی اردو کونسل برائے فروغ اردو زبان،
وزارت برائے فروغ انسانی وسائل، حکومت ہند

’’ناصر صاحب کی زیر نظر تصنیف کئی طرح کی معلومات کا ذخیرہ ہے۔ اس کتاب میں شامل تمام مضامین عصری ضروریات پر مبنی ہیں۔ ناصر صاحب جس طرح پُر مزاح، شگفتہ مزاج اور کشادہ قلب ہیں، ان کی تحریروں میں بھی یہ عناصر نمایاں ہیں۔ اس کتاب کی اشاعت سے کئی نئے پہلو سامنے آئیں گے اور لوگ مستفیدہوں گے۔ ۔ ۔ ‘‘

٭٭٭

 

 

طاہر نقوی

کراچی
آدم جی ایوارڈ یافتہ افسانہ نگار

 ’’ناصر صاحب کے قلم میں تخلیقی قوت توانائی کے ساتھ نہ صرف موجود ہے بلکہ وہ ہر موضوع پر روانی سے لکھ سکتے ہیں  جگہ جگہ شستہ اور ہلکے پھلکے فقرے ان کی تحریر میں جان ڈال دیتے ہیں۔ قاری کو پڑھتے ہوئے کسی لمحہ اکتاہٹ محسوس نہیں ہوتی۔ یہی کسی تخلیقی ادیب کی خوبی ہوا کرتی ہے۔ ان مضامین میں مصنف کا مشاہدہ غضب کا ہے کیونکہ انہوں نے جزئیات تک بیان کی ہیں۔ ۔ ۔ ‘‘

٭٭٭

حسین خان

 سینئر پاکستانی، بین الاقوامی کالم نگار
ایم اے معاشیات۔ ٹوکیو یونیورسٹی

 ’’ان کا اندازِ تحریر اتنا شگفتہ اور دلچسپ ہوتا ہے کہ اگر ایک دفعہ قاری اس کو پڑھنا شروع کر دے تو پورا پڑھے بغیر اس تحریر کو چھوڑنا مشکل ہو جاتا ہے۔ ناصر ناکا گاوا کو اللہ تعالیٰ نے ایسا اندازِ تحریر ودیعت کیا ہے کہ دل چاہتا ہے کہ بس اسے پڑھتے ہی چلے جائیں۔ ۔ ۔ ‘‘

٭٭٭

محمد ظہیر بدر

لاہور
شاعر و ادیب

’’اس کتاب کے مضامین میں زبان اتنی سادہ اور حیران کن حد تک شستہ اور رواں ہے کہ ناصر ناکاگاوا پر کسی ایسے ثقہ لکھاری کا گمان ہوتا ہے جو زبان کے اسرار و موز جانتا ہے۔ جسے پتہ ہے کہ نثر کی کس صنف کے لئے کس قسم کی زبان استعمال ہو نی چاہئے۔ مجھے یقین ہے کہ اس کتاب کو قبول عام حاصل ہو گا۔ اور اگر ترسیل کے لئے سنجیدہ کاوشیں کی گئیں اور اہل اختیار اور ارباب اقتدار نے بھی ساتھ دیا تو یہ کتاب بین الاقوامی سطح پر اپنی اہمیت تسلیم کروانے میں ضرور کامیاب ہو جائے گی۔ ۔ ۔ ‘‘

٭٭٭

ڈاکٹر محمد کامران

 پروفیسر
شعبہ اُردو، پنجاب یونیورسٹی اور یئنٹل کالج، لاہور

ناصر ناکاگاواکے مضامین ایسے آئینہ کی حیثیت رکھتے ہیں جس میں جاپا ن اور پاکستان کے علاوہ چین، متحدہ عرب امارات اور ملائشیاء کی رنگارنگ زندگی کے عکس ریزے جھلکتے ہیں۔ یہ صرف مضامین نہیں بلکہ اقوال زریں اور دانش کے بیش بہا موتی ہیں جن کے مطالعہ سے پتا چلتا ہے کہ مصنف نے زندگی اور اس کے مظاہر کو کھلی آنکھوں سے دیکھا ہے اور زندگی کی حقیقت سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ ناصر ناکاگاوا ایک محب وطن پاکستانی ہونے کے ساتھ ساتھ جاپان سے بھی غیر مشروط محبت رکھتے ہیں۔ ۔ ‘‘

٭٭٭

ڈاکٹر احمد رشید ملک

اسسٹنٹ پروفیسرانٹرنیشنل ریلیشنز پریسٹن یونیورسٹی،
اسلام آباد

 ’’میں بلا تامل یہ بات کہہ سکتا ہوں کہ بے شک ناصر ناکاگاوا ٹوکیو میں ابتدائی مسلمانوں میں سے ایک عظیم مسلمان ہستی مولوی برکت اللہ آف بھوپال (1911-1913) کی روایت کو برقرار رکھے ہوئے ہیں جو انڈیا کی آزادی کے لئے ایک سیاسی کارکن تھے۔ وہ ٹوکیویونیورسٹی سے منسلک تھے اور یہاں انہوں نے اردو رسالے اور اردو زبان کو متعارف کرایا۔ آج بھوپال میں ان کے نام پر ایک یونیورسٹی بھی قائم ہے۔ مولوی برکتا للہ کی روایات کی پاسداری کرتے ہوئے ناصر ناکاگاوا نے جاپان میں ’’اردو نیٹ جاپان‘‘ کو متعارف کرایا۔ ۔ ۔ ‘‘

٭٭٭

 پروفیسر عامر علی خان

کراچی
سابق پروفیسر ٹوکیو یونیورسٹی برائے شعبہ مطالعات خارجی

’’ان کے اسلوب کا جائزہ لیں تو انہوں نے اپنی تحریروں میں فصاحت و بلاغت کے دریا نہیں بہائے اور نہ ہی مقفیٰ و مسجع نثر سے تحریر کو بوجھل بنایا ہے۔ بلکہ سادگی، سلاست و روانی ناصر کے اسلوب کا نمایاں وصف ہے۔ سیدھے سادھے بے لاگ لپٹ انداز میں اپنی بات کہنے کا ہنر وہ اچھی طرح جانتا ہے۔ ناصر کی شخصیت کی طرح محبت و اخلاص کی چاشنی اس کی تحریروں کی بھی نمایاں خصوصیت ہے۔ ۔ ۔ ‘‘

٭٭٭

محمد مشتاق قریشی

شاعرِ جاپان
ایگزیکیوٹیو ممبر جاپان انٹرنیشنل پریس کلب۔ ٹوکیو

’’ناصر ناکاگاوا کی تحریر روانی، سلاست اور طنزو مزاح کا حسین امتزاج ہے۔ مجھے یہ تو نہیں معلوم کہ ناصر نڈر و بے باک ہے کہ نہیں لیکن اتنا جانتا ہوں کہ یہ تحریر کے آئینہ میں اپنا حساب صاف رکھتا ہے۔ حساس اتنا کہ تحریر بھیگی بھیگی لگتی ہے اور سنگدل اسقدر کہ مارا کیجئے دیواروں سے ٹکر کچھ اثر نہیں ہوتا۔ ناصر کا قلم بے تکان ہے وہ اپنے اچھوتے انداز سے چاہے تو پاکستان کے بڑے اخبار کا کالم نویس بن سکتا ہے لیکن شاید اسے پیکر کا کاغذی پیرہن پسند نہیں۔ ۔ ۔ ‘‘

٭٭٭

 سمیع اللہ ملک

ڈائریکٹرآ ف لندن انسٹیٹیوٹ آف ساؤتھ ایشیا
(LISA)

 ’’ناصر ناکاگاوا نے ابن بطوطہ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے دنیا کے مختلف حصوں کے سفر کی داستانیں رقم کی ہیں خاص کر دبئی کی مہکتی فضاؤں کاذکر کر کے بڑی خوبصورتی کے ساتھ اپنی صاف گوئی کو بہکنے سے محفوظ رکھا ہے۔ ۔ ۔ ناصرناکاگاوا نے دنیا کے ایسے کونے میں اردوکاجھنڈاسربلندکیاہے جہاں اب یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ اب اردو زبان بھی بہت جلد عالمی زبان کا لقب حاصل کر لے گی۔ ۔ ۔ ‘‘

٭٭٭

عزیز بلگامیؔ

شاعر و ادیب
بنگلور۔ انڈیا

’’ ناصر ناکاگاوا ردو کا ایک جانباز سپاہی ہے جس نے دیارِ غیر میں اردو کی بقاء کے لیے جہاد چھیڑ رکھا ہے اور ُسرخرو ہے۔ میں سلام کرتا ہوں ناصر صاحب کی اِن کاوشوں کو اور دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اِس مردِ قلندر کو بس نواز دے کہ پھر وہ کبھی رکے نہیں نہ تھکے۔ بس لکھتا چلا جائے، لکھاتا چلا جائے، تا وقتیکہ، جاپان بر صغیر کے بعد اردو کا مرکزِ ثانی بن کر اُبھرے اور ہم بھی خون لگا کر شہیدوں کی صف میں شامل ہو جائیں۔ ۔ ۔ ‘‘

٭٭٭

حافظ مولانا ڈاکٹر سلیم الرحمٰن خان ندوی

چیئرمین، ندوہ ایجوکیشن سینٹر جاپان
 پروفیسر، چوؤیونیورسٹی جاپان

’’جاپان میں اردو نیٹ جاپان کے ذریعے مسلسل اردو زبان اور اس زبان کے بولنے والوں کی خدمت کرنا بہت بڑی بات ہے جو ہر طرح کی تعریف کے مستحق ہیں۔ اب ان کے مضامین پر مشتمل کتاب منظر عام پر آ رہی ہے، امید ہے کہ تمام لوگ اس سے استفادہ حاصل کریں گے۔ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا ہے کہ اس کتاب کو علم اور امت مسلمہ کی خدمت کا ذریعہ بنائے آمین۔ ۔ ۔ ‘‘

٭٭٭

عرفان صدیقی

بیورو چیف برائے جاپان
 روزنامہ جنگ، دی نیوز، جیو نیوز اور اخبارِ جہاں

ــــــ’’دیس بناپردیس‘‘کے نام پر غور کریں تو یہ بات آشکار ہوتی ہے کہ انہوں نے پر دیسی محبت کو دیس کے رنگ میں دیکھا اور اس رنگ کو ایسا اپنایا کہ پردیس ہی ان کا دیس ٹھہرا اور دیس میں جانے کے لئے انہیں ویزہ درکار ہے۔ ۔ ۔ ۔  ‘‘

٭٭٭

 

 

ناصر ناکاگاوا نے جاپان میں اردو کا جال بچھایا ہے

                   محمود شام۔ کراچی

’’عرفان صدیقی صاحب کا ٹوکیو سے فون آیا کہ نئے سال کا آغاز ایک پاکستانی نژاد جاپانی شہری کی کتاب کی تقریب رونمائی سے ہو گا۔

ٹارگٹ کلنگ، لانگ مارچ، بلاول بھٹو زرداری کے آغاز سیاست اور سندھ میں معصوم بچوں کی خسرے سے ہلاکتوں سے فرار کا ایک اچھا موقع ملے گا۔ ہم نے ہاں کر لی۔ ۔ ۔

اگلے دن کتاب بھی گھر پہنچ گئی۔ بے اعتباری بڑھ گئی ہے اس لئے کتاب لانے والے نے اس کی رسید پر دستخط بھی کروا لئے۔ یہ بھی اچھی بات لگی ورنہ کتاب کی اتنی نقد اہمیت کہاں ہے کہ اس کی رسید بھی لی جائے۔

پاکستانیوں کو ملک سے باہر جا کر بہت سی بری عادتیں ہو جاتی ہیں۔ ان میں سے ایک کتاب لکھنا، چھاپنا بھی ہو گئی ہے۔ امریکہ، کینیڈا اور یورپ میں جا کر بہت سے ہم وطن اہل قلم بن گئے ہیں۔ زیادہ تر کو شاعری کا عارضہ لاحق ہوتا ہے۔ خیر سے پاکستان میں بہت سی شخصیات اور ادارے ایسے ہیں جو بیرون ملک پاکستانیوں کی کتابیں چھاپ کر خوشحال ہو رہے ہیں۔ ایسی کتابیں دیکھ کر یہ مصرع ذہن میں گھومنے لگتا ہے

غربت میں جا کے چمکا گمنام تھا وطن میں

پاکستان میں میسر ماحول تو احتجاجی اور چیخنے چلانے والا پیدا کرتا ہے۔ ٹی وی اینکر پرسن سے لے کر سیاستدانوں حکمرانوں تک کو آپ روز پھٹی آنکھوں، تنی رگوں اور ادھر ادھر اٹھتے ہاتھوں کے ساتھ سڑکوں، گلیوں اور چینلوں کی سکرینوں پر دیکھ سکتے ہیں۔ کمائی بولنے میں ہے۔ اس لئے پاکستان میں آپ کو سب بولتے نظر آئیں گے۔ کام کرتے بہت کم دیکھے جاتے ہیں۔ اب شہزادے شہزادیاں بھی میدان میں اتاری جا رہی ہیں۔ انہیں بھی صرف بولنے کی تربیت دی جا رہی ہے کوئی ٹھوس کام کرنے کی نہیں۔ لیکن ناصر ناکاگاوا صرف بولنے پر نہیں لکھنے پر یقین رکھتے ہیں۔ ایک غیر ملک میں انہوں نے ’’اردو نیٹ ‘‘ شروع کر رکھا ہے۔ نیٹ بچھائے جاتے ہیں یعنی جال۔ پہلے انسان جال بچھاتا تھا مچھلیوں سمیت دوسرے جانوروں کے لئے۔ اب انسان ترقی کر گیا ہے اس لئے انسانوں کو پھنسانے کے لئے جال بچھاتا ہے۔ جال زمین کے رنگ جیسے ہوں تو زیادہ شکار پھنستے ہیں۔ اسے دام ہمرنگ زمیں کہتے ہیں۔

ناصر ناکاگاوا نے جاپان میں اردو کا جال بچھایا ہے۔ جاپان میں اردو گزشتہ صدی سے پڑھائی جا رہی ہے۔ عرفان صدیقی کی دعوت پر ہم جاپان گئے تو یو نیورسٹیوں میں اردو کی کلاسز دیکھیں۔ اردو میں شاعری بھی کی جا رہی ہے، ڈرامے بھی تیار کئے جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں کئی قونصل جنرل ایسے آئے جو اردو فر فر بولتے تھے، پڑھتے تھے۔

میں کتابوں کی کسی تقریب میں بغیر کتاب پڑھے نہیں جاتا آ ج بھی میری کوشش یہی تھی۔ آسانی یہ رہی کہ ’’دیس بَنا پردیس ‘‘ کی قریباً ایک تہائی تو ناصر صاحب کی تعریف میں لکھی ہوئی دوسروں کی تحریروں پر مشتمل ہے وہ میں نے نہیں پڑھیں کیوں کہ اس طرح میں ان سے متاثر ہو جاتا اور صرف تحسین تک محدود رہ جاتا۔ میری یہ خواہش بھی ہوتی ہے کہ کسی بھی تحریر کا اپنے لمحہ موجود سے تعلق دریافت کروں اس میں بھی ناکامی نہیں ہوئی۔

آج نئے سال کا پہلا دن ہے۔ کتاب کے صفحہ نمبر 146 پر تحریر موجود ہے کہ جاپانی نئے سال کی خوشیاں کیسے مناتے ہیں اس سے یہ انکشاف ہوتا ہے کہ دنیا کے کیلینڈر اپنی جگہ لیکن جاپان والے اپنا کلینڈر الگ رکھتے ہیں۔ ان کا نیا کلینڈر اس روز سے شروع ہوتا ہے جب ان کا شہنشاہ وفات پاتا ہے۔ اس طرح2011ء کی جو روداد لکھی گئی ہےا س میں جاپان والے اپنا23 واں سال منا رہے تھے۔

ناصر صاحب نے قارئین کی مصروفیت اور مشغولیت دیکھتے ہوئے اپنے نیٹ پر جاپانیوں کی عادات، طرز زندگی کے بارے میں مختصر مختصر مضامین شامل کئے ہیں جس سے نئے نئے جاپان آنے والوں کی بڑی رہنمائی ہو سکتی ہے۔ ان میں جاپانی شہریت کے حصول کے طریقہ کار، امیگریشن کے نئے قوانین، مسلم آبادی کے لئے قبرستان کی کمی، خودکشی، کتب بینی، ٹریفک سگنل، ٹریفک حادثات اور سرکاری دفاتر کا طریق کار وغیرہ نمایاں ہیں۔ پاکستان جیسی بجلی کی کمی سے دوچار قوموں کے لئے جاپان میں ’’بجلی کا بحران، کوٹا سسٹم، اور عوامی تعاون‘‘ جیسے مضامین فائدہ مند ہو سکتے ہیں۔ یہ اچھی بات ہے کہ ناصر صاحب کی توجہ معلومات کی فراہمی پر رہتی ہے۔ وہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ فیس بک پر پچاس لاکھ سے زیادہ جاپانی موجود ہیں۔ جاپان کا ذکر ہو اور خودکشی کی بات نہ ہو۔ ناصر صاحب کا کہنا ہے کہ جاپان میں خودکشی جرم نہیں بلکہ بہادری اور غیرت کی علامت تصور کی جاتی ہے۔ پاکستان اور جاپان میں اگر تعلقات اسی طرح بڑھتے رہے تو جاپانیوں میں بھی برداشت کی قوت بڑھ جائے گی۔ بڑے سے بڑا گناہ، کرپشن بھی پاکستان میں کسی کو اپنی جان لینے پر آمادہ نہیں کرتی۔ جاپانیوں کو ایسے ہی دل چھوٹا نہیں کرنا چاہئے۔ پاکستانیوں سے سبق حاصل کریں۔ اگر خودکشی کرنا ہی ہے تو ہمارے خود کش بمباروں کی طرح چالیس پچاس کو ساتھ لے کر مریں۔

آجکل وطن عزیز میں تحریک منہاج القرآن کا ستارہ عروج پر ہے۔ اس کتاب سے بھی منہاج القرآن کی عالمی سطح پر موجودگی کا حوصلہ افزا ذکر ملتا ہے۔ منہاج القرآن کے مرکز اور مسجد المصطفیٰ کا تفصیلی ذکر ہے۔ ملائشیاء میں بھی منہاج القرآن موجود ہے۔

ناصر صاحب ما شاء اللہ جوان جہان ہیں۔ کہیں کہیں ان کی جوانی جوش میں آتی ہے۔ ہر ملک میں ایسی جگہ بھی جاتے ہیں جہاں جوانوں کو جانا چاہئے۔ مجرے وغیرہ بھی دیکھتے ہیں لیکن اس ذکر میں جلدی جھینپ جاتے ہیں۔ اپنے اوپر بزرگی طاری کر لیتے ہیں۔ یہ ہماری معاشرتی مجبوری ہے۔ کتاب کی زبان سادہ، جملے چھوٹے اور مضامین بھی مختصر مختصر۔ جس سے پڑھنے والے کو اکتاہٹ نہیں ہوتی۔ میں مصنف کو ان کی کتاب کی رونمائی پر اور منتظمین کو اچھے اہتمام پر مبارکباد دیتا ہوں۔ ‘‘

محمود شام

کراچی

گروپ مینجنگ ایڈیٹر۔ روزنامہ جہانِ پاکستان

٭٭٭

 

 

’’دیس بَنا پردیس‘‘ دلچسپ اور مفید معلومات کا خزانہ

                   خان ظفر افغانی۔ کراچی

سالِ نو کی پہلی شام ہو رہی تھی اور ہم دفتر میں اپنے کاغذات سمیٹ رہے تھے کہ گھر جانے کی تیاری تھی۔ ہمارے شام جی اپنے کمرے سے نیوز روم میں داخل ہوئے ’’کیا کر رہے ہیں ؟‘‘۔ ۔ ’’گھر جانے کی تیاری‘‘

’’آئیے آرٹس کونسل چلئے، ایک کتاب کی تقریب ہے ‘‘’’جی بہتر ہے چلئے ‘‘ہم نے اپنا بستہ شام جی کے کمرے میں رکھا اور دفتر کی عمارت سے باہر آ گئے۔ شام جی کے ساتھ ان کی کار میں بیٹھے اور آرٹس کونسل کی جانب روانہ ہوئے۔ ’’کس کتاب کی تقریب ہے ‘‘

’’جاپان سے ایک صاحب آئے ہوئے ہیں ان کی کتاب ہے۔ عرفان صدیقی بھی ساتھ آئے ہوئے ہیں۔ ہمیں کتاب کے بارے میں اظہار رائے کے لئے دعوت دی ہے۔ ‘‘

عرفان صدیقی سے ہماری بھی شناسائی ہے جو شام جی کے توسط سے ہی ہوئی تھی۔ وہ جاپان میں اس اخبار کی نمائندگی کر رہے ہیں جس اخبار سے ہم بھی سولہ برس وابستہ رہے اور وہاں سے ’’جہانِ پاکستان ‘‘ میں اپنا بسیرا کر لیا ہے۔

آرٹس کونسل پہنچے، شام جی کو پہچانتے ہوئے پھاٹک کھول دیا گیا اور گاڑی احاطہ کے اندر داخل ہو کر ٹھہر گئی۔ شام جی کو دیکھتے ہی وہاں موجود کتنے ہی لوگ آگے بڑھے، سلام، علیک ,مصافحے,عرفان صدیقی خیر مقدم کر رہے ہیں۔ اس تقریب میں شرکت کے لئے خصوصی طور پر جاپان سے کئی افراد آئے ہوئے ہیں، چند افراد ایسے بھی ہیں جو جاپان میں رہتے ہیں اور پنجاب میں اپنے گھر آئے ہوئے تھے وہ بھی خصوصی طور پر کراچی آئے ہوئے ہیں۔

تقریب کی نظامت سردار خان کی ذمہ داری ہے۔ آرٹس کونسل جانے والے افراد اور کھیلوں کی دنیا سے وابستہ لوگ ان کو جانتے ہیں، ایک کتاب کے مصنف بھی ہیں۔ وہ ڈائس پر مقررین کو آنے کی دعوت دے رہے ہیں۔ رب کریم کے کلام سے تقریب کی کاروائی کا آغاز کیا جا رہا ہے۔ نعت رسول ﷺ نہایت خوش الحانی سے پیش کی گئی ہے۔

عرفان صدیقی نے کتاب اور اس کے مصنف کے بارے میں تعارفی کلمات ادا کئے۔ معروف اداکار اور ٹی وی کی معروف شخصیت تنویر جمال نے جاپان کے حوالے سے باتیں کیں۔ عرفان صدیقی کی طرح جاپان ان کی بھی سسرال ہے۔

دیگر مقررین نے اظہار رائے کیا۔ اسی دوران تقریب کے مہمان خصوصی حکومت سندھ کے وزیر عبدالرؤف صدیقی تشریف لائے اور جب انہیں خطاب کی دعوت دی گئی تو انہوں نے اپنے مخصوص انداز میں گفتگو کی اور حاضرین کو محظوظ کیا۔

’’دیس بَنا پردیس‘‘ کے مصنف ناصر ناکاگاوا ہیں۔ یہاں ہم ناصر ناکاگاوا کی کتاب کے بارے میں بھی بتاتے چلیں کہ یہ تین سو دس صفحات پر مشتمل ہے، آخر میں ان کی لوگوں کے ساتھ رنگین تصاویر ہیں۔ مصنف کے حوالے سے مختلف لوگوں کی سترہ تحریریں ہیں پھر مصنف کی تحریریں ہیں جو جاپان کے بارے میں ہیں، پھر ان کے مختلف سفرنامچے ہیں۔ جاپان میں چوبیس برس سے مقیم ناصر ناکاگاوا نے کتاب کو ’’اپنے پاکستانی اور جاپانی والدین (ساس سسر) ‘‘ کے نام منسوب کیا ہے۔

مصنف نے جاپان کے حوالے سے بہت دلچسپ اور مفید معلومات قارئین تک پہنچائی ہیں۔ مثلاً ’’جاپان میں خودکشی جرم نہیں بلکہ بہادری اور غیرت کی علامت تصور کی جاتی ہے ‘‘کے عنوان سے وہ بتاتے ہیں کہ ’’جاپان کی تاریخ میں بڑے بڑے لوگوں نے اپنے فرائض منصبی میں ذرا سی کوتاہی یا اپنے ماتحت عملے کی لاپروائی سے اپنے محکمے کی بدنامی پر تمام ذمہ داری اپنے اوپر لیتے ہوئے خودکشیاں کی ہیں جن میں مشہور سیاستدان، مصنف، اداکار، ماہرِ قانون، وزیر، استاد، گلوکار، غریب ترین مزدور اور امیر ترین آجر غرض یہ کہ زندگی کے ہر شعبہ کے افراد شامل ہیں۔ خودکشی کرنے والے افراد کی تعداد میں مستقل اضافہ ہو رہا ہے۔ 2007ء میں تینتیس ہزار ترانوے افراد نے خودکشی کی۔ ‘‘

’’جاپان میں نوجوان نسل میں ادھیڑ عمر ہمسفر کی تلاش کا رجحان ‘‘کے عنوان سے مصنف نے بتایا ہے کہ ’’جاپان میں عموماً دیکھا گیا ہے کہ ہم عمر شادی شدہ جوڑوں میں آپس کے لڑائی جھگڑے عروج پر رہتے ہیں۔ بسا اوقات یہ جھگڑے اتنے عروج پر جاتے ہیں کہ طلاق پر شادی کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔ ہم عمر جوڑوں میں اکڑ فوں زیادہ ہوتی ہے، کوئی بھی ایک فریق دوسرے کو اپنے سے بڑھ کر اہمیت دینے کو تیار نہیں ہوتا مگر وہ شادی شدہ جوڑے جن میں عمروں کا تفاوت ہو وہ اور بھی خوش حال نظر آتے ہیں اور ان کے درمیان لڑائی جھگڑے نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں اور دونوں میں جو زیادہ جوان ہوتا ہے اس کا پلہ بھاری رہتا ہے۔ آج کل جاپان میں اپنے سے زیادہ عمر کا شریک حیات تلاش کرنے کا رجحان عام ہے خصوصاً خواتین میں۔ ان خواتین کا کہنا ہے کہ عمر رسیدہ شریک حیات قابل اعتماد اور با وفا ہوتا ہے اور وہ عام زندگی میں بھی بہت زیادہ شفیق اور مہربان ہوتا ہے اور تنگ بھی نہیں کرتا۔ ـــ‘‘

انہوں نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سادگی سے اعتراف کیا کہ وہ خطاب کرتے ہوئے نروس ہو جاتے ہیں۔ وہ کہہ رہے تھے کہ ’’جاپانی پاسپورٹ پر میں دنیا میں ہر جگہ جا سکتا ہوں لیکن میرے لئے دکھ کی بات یہ ہے کہ جب پاکستان آتا ہوں تو مجھے ویزہ لینا پڑتا ہے۔ دیس، پردیس بن گیا ہے۔ ‘‘کیوں جناب! اس میں دکھ کی کیا بات ہے ؟شکایت کیوں ؟آپ پاکستانی تھے۔ اب جاپانی ہیں یعنی جاپان کی شہریت کے حامل ہیں۔ آپ تو اتنے سسرال زدہ ہو گئے کہ ’’ناکاگاوا‘‘ ہو گئے۔ آپ نے تو اپنے اسلامی، پاکستانی نام تک کو جاپانائز کر دیا تو پھر پاکستان سے شکایت کیوں کر؟کیا ہمیں جاپان جانے کے لئے ویزہ درکار نہ ہو گا ؟ہماری شہریت پاکستانی ہے، پاسپورٹ حکومت پاکستان کا جاری کردہ ہے تو کیا جاپان اپنی ویزہ کے بغیر ہمیں قبول کر لے گا؟آپ جاپانی شہریت والے، بیگم جاپانی، پاسپورٹ جاپانی، آپ غیر ملکی ہیں۔ ہر ملک غیر ملکیوں کو ویزہ کے حصول کے بعد اپنے ہاں آنے دیتا ہے۔ ہاں اپنے سابقہ وطن سے محبت اپنی جگہ۔ یہ لگاؤ تو مرتے دم تک رہتا ہے۔ آپ کو اپنے محلے لانڈھی کی یاد ستاتی ہے تو یہ بھی قدرتی امر ہے۔ لیکن یہ یاد رکھئے پاکستان آپ کا وطن’’ تھا ‘‘اب آپ جاپانی ہیں۔ یہ المیہ ان تمام لوگوں کا ہوتا ہے جو حصول معاش کے لئے، زندگی کی آسائشات کے لئے، معیار زندگی بلند کرنے کے لئے یا حالات کے جبر کے تحت ترک وطن کرتے ہیں اور پھر یادوں، وابستگیوں اور رشتوں کی پرچھائیوں سے مرتے دم تک قطع تعلق نہیں کر پاتے۔ گھومنے پھرنے کے لئے، دیکھنے کے لئے تو دنیا بہت خوبصورت ہے، دل کش ہے، حصول معاش کے لئے بھی بیرون ملک جانا ضروری ہو جاتا ہے لیکن شہریت اپنے وطن کی سب سے بہترین، مستقل رہائش اور دفن ہونے کے لئے وطن عزیز کی سرزمین سارے جہاں سے اچھی ہے۔ ہم تو یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ تیس برسوں، چالیس برسوں سے ترک وطن کئے ہوئے لوگ بہو اور داماد بنانے اپنے سابقہ وطن آتے ہیں۔ یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی۔ ۔ ۔

خان ظفر افغانی

کراچی

سینئر صحافی، روزنامہ جہانِ پاکستان

٭٭٭

 

 

ناصر ناکا گاوا کے لیے ایک نظم

                   خالد شریف -لاہور

بڑی پیاری ہے اپنے دیس کی مٹّی

کہ جس کی سوندھی خوشبو میں ہمیں ملتا ہے ماں کا پیار بھی

                  اور باپ کی شفقت کا سایہ بھی

کوئی اپنے وطن کو چھوڑ کر

رشتوں کے بندھن توڑ کر

                جائے تو کیوں جائے؟

مگر یہ اک معمّہ ہے

ہمارے نوجوانوں کیلئے جو دیس سے اپنے

                  محبت کم نہیں کرتے

مگر وہ خواب، اُجلے خواب-!

جو بچپن سے ماں نے ان کی گھٹی میں سموئے ہیں

یہ کہتے ہیں

کہ دیس اپنا تو اپنا ہے، مگر دنیا بھی اپنی ہے

سو اس دنیا کے سارے دیس اپنے ہیں

چلو ہم خواب ہاتھوں پر سجا کر، دیس کی خوشبو کو سانسوں میں بسا کر

اک نئی منزل کی جانب گامزن ہوں

جس جگہ تعبیر مل جائے ہمیں خوابوں کی اپنے

اور دھرتی ماں کو بھی ہم اپنی محنت کے پسینے سے

زرِ افرنگ بھیجیں

تاکہ چل نکلیں ہمارے کارخانے اور روشن ہوں ہماری بستیاں

                       جن پر اندھیرے چھا گئے ہیں

مرا یہ دوست ناصر ناکاگاوا  بھی

اِسی دھُن میں

اک ایسے دیس میں پہنچا جہاں انسان اور انسانیت معیارِ ہستی ہے

ترابِ آفتاب اس دیس کو کہتے ہیں

اور اک جانب جہاں صنعت میں کوئی ملک بھی ثانی نہیں اس کا

وہیں اس دیس کے باسی روایت اور کلچر پر کبھی ذرہ برابر

                     آنچ بھی آنے نہیں دیتے

سو ناصر نے بھی اپنے خواب کی تعبیر پائی

بس گیا اِس دیس میں، شادی رچائی اور

یوں جاپان و پاکستان کی تہذیب کو آمیز کر کے

اپنی محنت اور ریاضت سے

وہ سب حاصل کیا جس کی تمنا لوگ کرتے ہیں

محبت عاجزی اور دوستی اس شخص کی مصروفیت اور زندگی

                           کے استعارے ہیں

کہ اس کی زندگی کا منبع و محور بس اس کے دوست سارے ہیں

                    جو اُس کو جاں سے پیارے ہیں

دعا خالدؔ کی ہے ناصرؔ

کہ اپنے نام کی مانند تم کو ہر گھڑی ہو فتح و نصرت کی عطا-!

ہوں پنج تن مشکل کشا

یہ بحر و بر، جن و بشر، ہاتف سبھی افلاک پر

                ہوں تمہارے واسطے وقفِ دعا-!

٭٭٭

 

 

ہمیشہ زندہ رہنے والی کتاب’’دیس بَنا پردیس‘‘

                   پروفیسر ڈاکٹر معین الدین عقیل۔ کراچی

عزیزم ناصر ناکاگاوا صاحب سے شناسائی دیرینہ ہے اور جاپان سے ہے۔ انہیں پہلے پہل ٹوکیو ہی میں دیکھا اور متحرک و توانا پایا۔ ایسے نوجوان مجھے عزیز ہوتے ہیں جو صرف اپنے روزگار ہی کے نہیں ہوتے بلکہ زندگی کو سمجھتے ہیں اور اس کے سماجی و انسانی تقاضے بھی ملحوظ رکھتے ہیں اور ان تقاضوں کے ساتھ ساتھ زندہ رہتے ہیں اور ان کو پورا کرتے ہیں اور اسی طرح زندگی کا حق ادا کرتے ہیں۔

یاد نہیں پڑتا کہ ان سے پہلی ملاقات کب ہوئی لیکن ایک عرصہ کے وقفہ کے بعد جب میں 2009ء کے درمیان میں ایک یونیورسٹی کی دعوت پر ایک ماہ کے لئے جاپان گیا تو اس وقت ان سے ملاقات ہوئی اور میرے لئے یہ بات بہت کشش کا باعث تھی کہ ناصر صاحب نے اس وقت ایک اردو نیٹ کی ویب گاہ کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ اس نیٹ کے ذریعے سے وہ اپنے ہم وطنوں کو باہم جوڑے رکھنے اور اردو میں انہیں ان کی دلچسپی اور ضرورت کی خبریں اور متنوع تحریریں فراہم کرتے تھے۔ اس حوالہ سے ان کا ایک حلقہ احباب بھی بن گیا تھا جو اب پھیل کر سارے جاپان تک وسعت اختیار کر گیا ہے۔ یہ خوش آئند بات ہے کہ جاپان میں رہتے ہوئے اور وسیلہ روزگار کی جستجو اور اس کے معاملات اور معمولات انجام دیتے رہنے کے ساتھ ساتھ فاضل وقت نکال کر کوئی اس وقت کو عیش و آرام اور سیرو تفریح میں صرف کرنے کی بجائے اس طریقہ سے بھی صرف کرے جیسا کہ ناصر ناکا گاوا صاحب صرف کرتے ہیں۔ اب زمانہ قلم اور کاغذ کا نہیں رہا اب تیزی کا دور ہے اب جو کچھ لکھنا اور دوسروں تک پہنچانا ہے اس کے لئے کمپیوٹر کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ ناصر صاحب نے اب اپنے لئے اس سہارے کو مستقل اور مستحکم کر لیا ہے۔ وہ اس میں خوب خوب لکھ رہے ہیں ہر تازہ اور اہم موضوع پر ان کے خیالات اور اظہار کی صورتیں ان کی ویب گاہ پر عام ہوتی رہتی ہیں اور اس سے منسلک رہنے والوں کے لئے دنیا جہاں کی معلومات، خبریں، باہمی تبادلہ خیال اور وہ سب کچھ جو خاص طور پر جاپان میں مقیم پاکستانیوں کے لئے ضروری اور دلچسپ ہوسکتا ہے اس ویب سائٹ پر دیکھا جا سکتا ہے۔ جاپان کی معاشرت، علمی و تعلیمی صورتحال، پاکستان سے متعلق تحقیقات کے تعارف و جائزے پر مشتمل میری بھی چند تحریریں جو کبھی پاکستان میں شائع ہوئی تھیں وہ بھی کسی طرح دستیاب ہونے پر شاید ناصر صاحب کی اس ویب سائٹ پر شائع ہوئی ہیں۔ ویب سائٹ کا یہ سلسلہ جاپان میں خاصہ کامیاب اور مرکز نگاہ ہے اور اکثر پاکستانی اس سے استفادہ کرتے ہیں۔ اس مقبولیت کا سبب یہ ہے کہ صرف یہی نہیں دو تین اور ویب سائٹس وہاں پاکستانی نوجوانوں نے جاری کر رکھی ہیں۔ جن کے باعث ایک مسابقت اور رنگارنگی کی دل کش فضاء بھی وہاں قائم ہے۔ اور اس میں شک و شبہ نہیں کہ یہ سب ہی ویب سائٹس اپنی اپنی افادیت بھی رکھتی ہیں۔

ناصر ناکاگاوا صاحب جو کچھ اپنی ویب گاہ میں لکھتے ہیں۔ اگرچہ ان کے مخاطب جاپان میں مقیم پاکستانی ہوتے ہیں لیکن ان میں دلچسپی کا سامان ان لوگوں کے لئے بھی ہوتا ہے جو جاپان میں نہیں رہتے۔ چنانچہ ناصر صاحب نے ان تحریروں کو صرف اپنی ویب گاہ ہی میں قید رکھنا مناسب نہ سمجھا اور ایک اچھا فیصلہ یہ کیا کہ انہیں یکجا کر کے کتابی صورت میں بھی شائع کر دیا۔ یہ ایک دور رس فیصلہ ہے اور اس اعتبار سے اہم ہے کہ اس طرح ان کے خیالات، تاثرات، مشاہدات عام ہو کر ان لوگوں کی نظر سے بھی گزریں گے جو ان کی ویب گاہ تک رسائی نہیں رکھتے۔ پھر ویب گاہ کے مندرجات بلکہ مشمولات کی زندگی اخبار کی طرح ایک عارضی زندگی ہوتی ہے جو بالعموم ایک آدھ دن کے لئے ہوتی ہے جبکہ کتاب ہمیشہ کے لئے ہوتی ہے اور نسلوں تک پڑھی جاتی ہے۔ اس لحاظ سے ناصر ناکاگاوا نے یہ بہت عمدہ فیصلہ کیا ہے کہ اپنی تحریروں کو اپنی ویب گاہ سے نکال کر کتاب میں اس طرح محفوظ کر دیا ہے کہ جن کے قاری اگر ویب سائٹ سے کم بھی ہوں لیکن یہ نسلوں پر مشتمل ہوں گے۔ یہ کتاب ہمیشہ زندہ رہے گی اور اپنے ساتھ ناصر ناکاگاوا صاحب کو بھی زندہ رکھے گی۔ ناصر ناکاگاوا کی اس کتاب کو دیکھ کر اور ان کی ویب گاہ کے اجراء کو سامنے رکھ کے یہ کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے خاصہ ذہن رسا پایا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ معاشرے کی ضرورتیں کیا ہوتی ہیں اور ان ضرورتوں کا لحاظ اگر رکھنا ہے تو کس طرح رکھنا چاہیے۔ اس مناسبت سے ویب گاہ کا خیال بھی اپنی جگہ نہایت مناسب، صائب اور موثر تھا۔ اور اب اس کتاب کی اشاعت کا خیال بھی اپنی خاص افادیت کا مظہر ہے۔

ہم امید رکھتے ہیں کہ ناصر ناکاگاوا صاحب کا ذہن اسی طرح زندگی اور معاشرے کی ضرورتوں کو ملحوظ رکھ کر نئے نئے تجربات پر آمادہ ہوتا رہے گا اور ہم ان کے ایسے تجربات سے اور ان کی کاوشوں سے مستفید ہوتے رہیں گے۔

پروفیسر ڈاکٹر معین الدین عقیل

پروفیسر و صدر شعبۂ اردو کراچی یونیورسٹی

سابق مہمان پروفیسر اور ریسرچ فیلو، گریجویٹ اسکول آف ایشیا افریقہ ایریا اسٹڈیز۔

کیوتو یونیورسٹی، دائتو یونیورسٹی، ٹوکیو یونیورسٹی، جاپان۔

پروفیسر و صدر شعبۂ اردو انٹرنیشنل سلامک یونیورسٹی، اسلام آباد۔

٭٭٭

 

 

’’دیس بَنا پردیس ‘‘ جاپان کا ایک دلچسپ انسائیکلو پیڈیا

                   عبدالرحمٰن صدیقی۔ ٹوکیو

جناب ناصر ناکا گاوا صاحب کی یہ کتاب جاپان کے بارے میں ایک دلچسپ انسائیکلو پیڈیا ہے۔ اسے ہر پاکستانی کو پڑھنا چاہیے تاکہ ملک کو ترقی دینے کا راستہ نظر آئے۔ ادبی اور علمی حلقوں کی جانب سے اس کتاب کو ایوارڈ ملنا چاہیے، یہ اس کتاب کا حق ہے۔

جناب ناصر گاوا صاحب کی یہ کتاب ڈیزائن، خوبصورتی، سائز، عنوانات اور مواد کے اعتبار سے معیاری ہے، بلکہ اعلیٰ درجہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ تبصرہ و تجزیہ کرنے والوں کی تصاویر اور کتاب کے آخر میں گروپ تصاویر نے کتاب میں زندگی کی روح پھونک دی ہے، ماشاء اللہ۔

کتاب پڑھنے سے پتہ چلتا ہے کہ یہ مصنف کس قدر مصروف زندگی گزارتا ہے۔ شاید ان مقالوں کو ناصر ناکاگاوا صاحب کی سوانح عمری کی حیثیت حاصل ہو گئی ہے۔ یہ ناصر صاحب کی زندگی کا آئینہ ہے، یہ افسانہ نہیں حقیقت کا بیان ہے۔ مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی کہ پاکستان میں اس کتاب کی تقریب رونمائی کے موقعہ پر پاکستان کے درجہ اول کے ادیب، شعراء، دانشوروں اور اہلِ قلم نے شرکت فرمائی اور جناب ناصر ناکاگاوا صاحب کو اور ان کی کتاب کو زبردست خراج تحسین پیش کیا۔ یہ بات جاپان میں پاکستانی کمیونٹی کے لئے باعث فخر ہے۔

جناب ناصر ناکاگاوا صاحب نے دوسرے پاکستانیوں کو راستہ دکھایا ہے اور جو لوگ ابھی جاپان نہیں آئے اور وہ جاپان کی ترقی کا راز جاننا چاہتے ہیں ان کے لئےا س کتاب کا مطالعہ بہت مفید ہو گا۔ اس کتاب کا نام ’’پردیس بنا دیس ‘‘بھی ہوسکتا تھا، مگر گلاب کے پھول کو کوئی نام دیا جائے اس کی خوشبو میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ مصنف نے کتاب کا دام صرف 400 روپے مقرر کر کے اسے صدقہ جاریہ بنا دیا ہے ورنہ ایسی معلوماتی کتاب باآسانی ایک ہزار روپے میں بھی فروخت ہوسکتی ہے۔ مزید یہ کہ یہ کتاب سے بڑھ کر ایک دستاویز ہے اور ایک تاریخی ریکارڈ بھی ہے جو آئندہ نسلوں کے بھی کام آئے گا۔

اللہ ناصر ناکاگاوا کو مزید توفیق دے کہ وہ ایسی معلوماتی اور دلچسپ کتابوں کا مستقل بنیادوں پر اجراء کرتے رہیں۔ آمین

عبدالرحمٰن صدیقی

ٹوکیو

چئیر مین انٹرنیشنل مسلم سینٹر و انجمن فروغِ اردو ادب۔ جاپان

٭٭٭

 

 

’’دیس بنا پردیس‘‘ ایک کتا ب! بیسیوں رنگ

                   پروفیسر ڈاکٹر سید مقصود حسنی۔ قصور

ناصر ناکاگاوا سے میری روبرو ملاقات لاہور اردو نیٹ جاپان کی ایک تقریب میں ہوئی۔ بڑا نفیس سادہ گو، ملنسار، مجلسی ادب و آداب سے آگاہ مگر قدرے شرمیلا سا اور رکھ رکھاؤ والا شخص ہے۔ بڑا اچھا اور پیارا لگا۔ ملاقات کا دورانیہ اگرچہ مختصر تھا لیکن پر لطف اور یادگار تھا۔ اس کا ادبی اور ملاقاتی ذائقہ آج اور اب بھی محسوس کرتا ہوں۔ ’’دیس بنا پردیس‘‘ کا میں نے پوری توجہ اور دیانتداری سے اول تا آخر مطالعہ کیا ہے۔ بڑے کام کی چیز ہے۔ یہی نہیں اردو ادب میں اسے ایک خوبصورت اضافہ قرار دینا کسی طرح بھی غلط اور مبالغہ نہ ہو گا۔

کتاب کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے لیکن میں اسے پانچ حصوں پر مشتمل کتاب سمجھتا ہوں۔ پہلا حصہ اہلِ قلم کی آراء پر مشتمل ہے۔ اس حصہ کے مطالعہ سے مصنف کی شخصیت، اردو نیٹ جاپان کے حوالہ سے خدمات اور اس کے اسلوب کے بارے میں بہت ساری معلومات ہاتھ لگتی ہیں۔ پہلے حصہ ہی میں اہلِ رائے حضرات سے چہرہ بہ چہرہ ملاقات ہوتی ہے۔ وہ سب کتاب کے قاری کو پُر تحسین نظروں سے دیکھتے نظر آتے ہیں۔ زبان سے نہیں قلم سے بہت کچھ اور مختلف زاویوں سے کہتے محسوس ہوتے ہیں۔ کتاب کے آخری حصہ میں ( جسے میں پانچواں حصہ کہہ رہا ہوں )بہت سارے خوبصورت چہروں سے ملاقات ہوتی ہے۔ ان کی آنکھوں میں بھی ناصر ناکا گاوا کے حوالہ سے بہت کچھ پڑھنے کو مل جاتا ہے۔ اس ’’بہت کچھ‘‘ میں جہاں زندگی سے متعلق  تلخ حقائق، مصنف کا سچا اور کھرا پن، شامل ہے وہاں طنز و مزاح کا عنصر پایا جاتا ہے۔

کچھ تلخ حقائق:

’’جاپانی خواتین خوش اخلاق اور شوہروں کی وفادار ہیں۔ جاپانی بیویاں پاکستانی بیویوں کی طرح نہیں ہوتیں کہ انہیں پاؤں کی جوتی سمجھ کر تبدیل کر لیا جائے۔ یہاں کہ بچے بھی اتنے فرمانبردار اور بدھو نہیں ہوتے کہ آپ خود جس کام کو اچھا سمجھیں اسے بچوں کو کرنے سے روکیں۔ ‘‘ (پاکستانی شوہروں اور جاپانی بیویوں کے درمیان تشدد کے واقعات و محرکات)

چند مزید حقائق:

’’جاپان میں دیکھا گیا ہے کہ زیادہ مساجد جاپانی بازاروں اور گلی محلے میں ہی قائم ہیں مگر شاذ و نادر ہی کبھی کوئی نا خوشگوار واقعہ پیش آیا ہو۔ ‘‘

(جاپان کی میٹرو پولیٹین پولیس ڈپارٹمنٹ کی خارج زدہ خفیہ فائلوں میں کیا ہے ؟)

’’پا کستان میں قیام کے دوران مجھے ہر جگہ انٹرنیٹ کی سہولت میسر تھی مگر لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے میں استعمال ہی نہیں کر سکتا تھا۔ یہ کراچی تھا جسے روشنیوں کا شہر کہا کر تے تھے آج روشنی ائیرپورٹ کے علا قے اور زرداری اور بلاول ہاؤس اور میاں ہاؤس تک محدود ہو کر رہ گئی ہے کیونکہ یہ لوگ زیادہ حقدار ہیں۔ ‘‘(ٹوکیو سے کراچی تک)

ذرا یہ پُر مزاح مکالمے ملاحظہ ہوں :

’’خیبر پختونخواہ اسمبلی کے اسپیکر طویل قامت کے کرامت اللہ خان تشریف لائے تو ان کے استقبال میں مجھ سمیت ندا خان، یوسف انصاری اور امین سجن بھی شامل تھے، لو گوں کو کرامت اللہ سے گلے ملتے ہوئے دیکھ کر ایسا لگا  جیسے لوگ ان کے گھٹنوں میں کچھ سرگوشی کر رہے ہوں۔ ‘‘(ٹوکیو سے متحدہ عرب امارات کا سفر )

’’ امیگر یشن نو جوان افسر نے میرے پاسپو رٹ پر تین ماہ کا ویزہ لگایا تو میں نے اس سے پوچھا کہ آپ کی زبان میں شکریہ کو کیا کہتے ہیں ’’ تیری ماں کیسی ‘‘کیا؟’’تیری ماں کیسی‘‘۔ میں سمجھا اسے اردو آتی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں نے کہا ان کی وفا ت ہو گئی ہے۔ وہ کچھ سمجھا نہیں تو  میں نے انگریزی میں کہا تو وہ ہنسنے لگا کہ نہیں میں نے جو کہا اس کا مطلب ہو تا ہے شکر یہ۔ وہ تو بعد میں پتا چلا کہ صحیح تلفظ یہ ہے کہ۔ ۔ ۔ ۔ ’’ تیری ماکاسی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘(سہ روزہ دورۂ ملائشیاء )

         شنگھائی کے ایک باتھ رو م کا نا ک نقشہ ملاحظہ ہو:

’’ باتھ روم کے تولیے گھسے ہوئے تھے اور گنجے تھے اور امتیاز کرنا مشکل تھا کہ تولیہ ہے یا رو مال، لگتا تھا جب سے ہوٹل تعمیر ہوا ہے یہی تولیے چل رہے ہیں۔ چھو ٹی چھو ٹی صابن کی ٹکیہ رکھی ہوئی تھیں کافی دیر ہاتھوں میں رگڑنے سے بھی نہیں گھستی تھیں۔ شیمپو پلا سٹک کی بوتل میں اس طر ح سے نکلتا تھا جیسے سردیوں میں شہد کی بوتل الٹا بھی دیں تو شہد باہر نہیں آتا۔ ‘‘(اسلام آباد سے شنگھائی تک)

نا صر نا کا گا وا کے کھرے اور سچے پن کی مثال ملاحظہ ہو:

 ’’اس سے قبل مہینوں گزر جاتے تھے مجھے نماز کی توفیق نہیں ہوتی تھی، اتفاق سے کسی مسجد کا دورہ ہو گیا تو نماز ادا کر لی کبھی خصوصی طور پر نماز ادا کرنے کی توفیق ہوئے عرصہ گزر چکا تھا۔ ‘‘

(ناگویا اور گیفو کا یادگار سفر۔ ۔ ۔ بذریعہ بلیٹ ٹرین  )

درج با لا ٹکڑے کتاب کے مختلف حصوں سے لیے گئے ہیں۔ ان کے مطالعہ سے اندازہ ہو جا تا ہے کہ کتا ب کتنی بھرپور ہے اور نا صر نا کا گاوا کس درجہ کی تحسین کا حق رکھتے ہیں۔ کتاب میں افسانہ اور ایک خط بھی شا مل کیا گیا ہے۔ ایک کتا ب لیکن بیسیوں رنگ، ایسے میں ان کی خوب صورت پیش کش پر شکریہ ادا کر نا لا زم آتا ہے۔ اللہ کریم نا صر نا کا گا وا کی توفیقات میں اضافہ فر مائے اور اسے شاد و شاداب رکھے۔

پروفیسر ڈاکٹر سید مقصود حسنی

 قصور۔ پاکستان

٭٭٭

 

 

سفر نامے کی صنف میں قابلِ تحسین طبع آزمائی

                   سید خالد شاہ۔ ساؤتھ افریقہ

ناصر ناکاگاوا اور اردو نیٹ جاپان سے میرا تعلق کافی پرانا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی کتاب ’’ دیس بَنا پردیس ‘‘ میں شامل زیادہ تر کالم میرے پڑھے ہوئے تھے۔ لیکن کتاب میں شامل ناصر کے سفر نامے پڑھ کر میری حیرت کی انتہا نہ رہی۔ کتاب میں پہلا سفر نامہ جو میری نظر سے گزرا ’’ٹوکیو سے متحدہ عرب امارات کا سفر ‘‘تھا اسے میں نے اس لئے شوق سے پڑھنا شروع کیا کہ اس میں امین سجن اور یوسف انصاری کے نام نظر آئے جو میرے پرانے دوستوں میں سے ہیں مگر جب میں نے یہ سفر نامہ پڑھنا شروع کیا تو حیرت انگیز حد تک میں اس میں محو ہو کر رہ گیا۔ میں نے اس سے قبل بھی نا صر ناکاگاوا کی بہت سی تحریریں پڑھی ہیں جو عموماً ہموطنوں کے لئے دلچسپ معلومات پر مبنی ہوتی ہیں لیکن آج ان کے سفرنامے پڑھے تو حیرت اور خوشی کی انتہا نہ رہی۔ ان میں کسی تجربہ کار سیاح اور سفرنامہ نگار کی جھلک نظر آئی۔ انہوں نے اپنے سفرناموں میں ارد گرد کے ماحول کو اس انداز سے بیان کیا ہے کہ حقیقت بیانی کے ساتھ ساتھ مزاح کا عنصر بھی شامل کر دیا ہے، دوستوں کی تعریف کرنے میں ذرا بھی بخل سے کام نہیں لیتے اس کے باوجود اس میں خوشامد کا رنگ نام کو نہیں جھلکتا۔ شروع سے آخر تک انداز بیان ایسا کہ جس میں تسلسل اور حقیقت بیانی ساتھ ساتھ چلتے ہیں اور پڑھنے والا خود کو بھی ان کا ہمسفر سمجھتا ہے۔ ملائشیاء کے دو مختلف علاقوں کے مناظر کو بیک وقت خوبصورت انداز میں بیان کرنا یعنی ایک طرف خوبصورت مسجدانڈیا کا علاقہ و دوسری جانب کانکورڈ جیسا ریڈ لائٹ ایریا کا تذکرہ جس خوبصورتی سے کیا گیا ہے وہ ناصر ناکاگاوا کے ہی قلم کا خاصہ ہے۔ میرا خیال ہے کہ صنفِ ادب میں سفرنامہ نگاری ایک مشکل اور ذمہ داری کا کام ہے جس میں حقائق و معلومات کو ذمہ داری اور تسلسل سے ایک لڑی میں پرونا پڑتا ہے اس مشکل صنفِ ادب میں ناصر ناکاگاوا نے طبع آزمائی کر کے سو فیصد نمبر حاصل کر لئے ہیں۔

میں نے جاپان کے دورہ کے دوران اپنے دوستوں سے کہا تھا کہ ہر آدمی کو کچھ نہ کچھ لکھنا چاہئے تاکہ ہم میں بہت سارے ناصر پیدا ہوں۔

آخر میں ناصر ناکاگاوا کو میں ’’دیس بَنا پردیس ‘‘کے دوسرے ایڈیشن کی اشاعت پر مبارکباد پیش کرتا ہوں اور مشورہ دیتا ہوں کہ وہ سیر وسیاحت پر خصوصی توجہ دیتے ہوئے اپنے یادگار اسفار کا بھی ایک مجموعہ کتابی صورت میں شائع کروائیں۔

سید خالد شاہ

ساؤتھ افریقہ

بانی و سرپرست ماہنامہ ایس اے اردو

٭٭٭

 

 

عالمی شہرت یافتہ کتاب ’’دیس بَنا پردیس‘‘

(اس کتاب کو نصابی کتاب کا درجہ دینا چاہیے)

                   طیب خان۔ ٹوکیو

 ناصر ناکاگاوا اردو نیٹ جاپان کے بانی و سرپرست ہونے کے علاوہ روزنامہ’’ امت کراچی‘‘ کے جاپان میں نمائندہ بھی ہیں۔ ایک صحافی ہونے کے ناطے ان کی تحریروں میں صحافتی جھلک نمایاں نظر آتی ہے۔ جاپان کے قانونی معاملات سے چونکہ وہ بخوبی آگاہ ہیں اسی لئے قانونی معاملات پر ان کے مضامین کمیونٹی کے لئے بہت اہم ثابت ہو رہے ہیں۔ وہ اردو، انگریزی اور جاپانی ز بان پر دسترس اور مہارت رکھنے کی وجہ سے جاپانی تحریروں کا اردو زبان میں ترجمہ کر کے جاپانی ثقافت اور جاپان میں ہونے والے مختلف واقعات سے اپنے قارئین کو دنیا بھر میں معلومات فراہم کرتے ہیں اور یہ فریضہ تین چار سال سے بخوبی سرانجام دے رہے ہیں۔ جاپان اور پاکستان کے تعلقات کے حوالے سے بھی ان کی تحریروں میں ان کے تعلقات کی تاریخی، ثقافتی اور تجارتی معلومات فراہم ہوتی ہیں۔

میری دنیا بھر کی ادبی تنظیموں اور پاکستان کے تعلیمی اداروں سے اپیل ہے کہ معروف صحافی ناصر ناکاگاوا کی عالمی شہرتِ یافتہ کتاب ’’دیس بَنا پردیس‘‘ جس کے بارے میں بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے اور شنید ہے کہ اس کا دوسرا ایڈیشن بھی جلد ہی شائع ہونے والا ہے کو مستقبل میں ایک نصابی کتاب کا درجہ دیا جائے تاکہ ہمارے ملک کی نوجوان نسل جاپان کے اعلیٰ نظامِ تعلیم، نظامِ ٹیکس اور کئی قسم کی معلومات سے بہرہ ور ہو سکے اور ملک کی ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکے۔ کہنے کو تو یہ محض ایک کتاب ہے لیکن اس میں جاپانی قوانین سے لے کر جاپانی ثقافت اور یہاں کی ترقی کے راز مضمر ہیں جو کسی بھی قاری کے لئے مفید ثابت ہو سکتے ہیں۔ اس کتاب پر دنیا کے مشہور و معروف ادیب اور کالم نگاروں کے تبصرے ایک سند کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ’’دیس بَنا پردیس‘‘ ایک مستند تصنیف کی حیثیت اختیار کر چکی ہے جسے نصابی کتاب کا درجہ دیا جانا اس کا حق ہے۔

طیب خان

سینئر پاکستانی۔ ٹوکیو

٭٭٭

 

 

ناصر ناکاگاوا کی تحریروں میں ادبی حُسن اور صحافتی بے باکی

                   کامران غنی صبا۔ نئی دہلی

ناصر ناکاگاوا پیشے کے اعتبار سے نہ صحافی ہیں اور نہ ہی زبان و ادب کے استاد لیکن ان کی تحریروں میں ادبی حسن بھی ہے اور صحافتی بے باکی بھی۔

ناصر ناکاگاوا کے ادبی ذوق کا اندازہ ان کی گفتگو اور تحریر دونوں میں ہوتا ہے۔ ناصر صاحب کی تحریر کا ادبی حسن ملاحظہ کیجیے:

’’اچھا میں نے شادی ہال میں کیا دیکھا کہ ایک مغل شہزادی گھوم رہی ہے اور ایک خوبصورت سے گلاس میں دولہا کو دودھ پیش کر رہی ہے۔ یقین کرنا کہ وہ بالکل عابدہ کی طرح لگ رہی تھی۔ شاید وہ عابدہ ہی تھی، ہاں ہاں وہ عابدہ ہی تھی کیونکہ شہزادی ہونے کے جملہ حقوق تو اسی کے پاس محفوظ ہیں۔‘‘

(ہمشیرہ زہرہ عمران کے نام ایک خط۔ ’’دیس بَنا پردیس‘‘، ص: 126)

’’مچھلی آنکھوں کے لیے بہت مفید ہے شاید یہی وجہ ہے کہ جاپانی آنکھیں کم دکھاتے ہیں، یعنی ماہر چشم کو‘‘۔

                                (’’دیس بَنا پردیس‘‘، ص: 153)

اپنے ملک سے کسے محبت نہیں ہوتی اور جو غریب الوطن ہو اس کی محبت کا تو اندازہ ہی نہیں کیا جا سکتا۔ ناصر ناکاگاوا کو بھی اپنے وطن (پاکستان) سے شدید محبت ہے ( اس کا اندازہ اُن کی تحریروں سے بھی ہوتا ہے) لیکن 2010ء میں سیالکوٹ میں دو کمسن بچوں کے ساتھ اجتماعی بربریت اور ان بچوں کی موت پر وہ کتنے جذباتی ہو جاتے ہیں اور جذباتیت میں اُن کا قلم کتنا بے باک ہو جاتا ہے اس کا اندازہ اُن کی اِس تحریر سے بآسانی لگایا جا سکتا ہے :

’’۔ ۔ یہ مسلمان ملک ہے؟ یہ اللہ اور اس کے رسول کے ماننے والے مسلمان لوگ ہیں ؟ نہیں نہیں یہ لوگ مسلمان یا انسان نہیں ہو سکتے۔ ان کا اسلام یا انسانیت سے دور کا بھی واسطہ نہیں پھر یہ لوگ اپنے آپ کو پاکستانی یا مسلمان کہلاتے ہیں تو ان حالات میں ہمارے ملک پر اللہ اپنا عذاب نازل کرتا ہے تو کوئی عجب نہیں۔ ہم اور ہماری قوم اسی قابل ہے کہ اسے صفحۂ ہستی سے ہی مٹا دیا جائے، جہاں انسانوں کے ساتھ حیوانوں سے بھی بدتر سلوک کیا جاتا ہے۔ ‘‘       (’’دیس بَنا پردیس‘‘، ص:118)

کتاب کا تیسرا اور آخری حصہ ناصر ناکاگاوا کے سفر ناموں پر مشتمل ہے۔ اس حصے میں پاکستان، چین، متحدہ عرب امارات اور ملائشیا کے اسفار کی رودار نہایت ہی دلکش انداز میں پیش کی گئی ہے۔ طرز تحریر اتنا مؤثر ہے کہ اکثر قاری بھی فرط تصور میں سفیر کا ہم سفر ہو جاتا ہے۔

 راولپنڈی میں بری امامؒ کی درگاہ پر حاضری کا نقشہ جس انداز میں کھینچا گیا ہے اس سے بیک وقت مصنف کے زور قلم، جذبۂ عقیدت اور خانقاہوں کے پامال ہوتے ہوئے تقدس سے اُس کی دلبرداشتہ کیفیت کا اندازہ ہوتا ہے۔

دیدہ زیب سرورق اور رنگین تصاویر سے مزین کتاب پہلی نظر میں ہی قارئین پر اپنا تاثر چھوڑتی ہوئی نظر آتی ہے۔ ناصر ناکاگاوا کی مقبولیت کا اندازہ صرف اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ’’دیس بَنا پردیس‘‘ کا پہلا ایڈیشن دنیا بھر میں پھیلے محبانِ اردو نے ہاتھوں ہاتھ لیا اور صرف تین ماہ کے معمولی عرصہ میں کتاب کا دوسرا ایڈیشن شائع کرانے کی ضرورت محسوس کی جانے لگی۔ اردو کی زبوں حالی پر بین کرنے والوں کے لیے ناصر ناکاگاوا کی شخصیت لائق تقلید ہے کہ جنھوں نے دیار غیر میں وہ شمع روشن کر رکھی ہے جس کی ضو پاش کرنوں سے سارا عالم فیضیاب ہو رہا ہے۔ احمد فرازؔ کے اس شعر کے مصداق ناصر ناکاگاوا کی شخصیت ہمیں یہ پیغام دیتی ہے کہ:

شکوۂ ظلمتِ شب سے تو کہیں بہتر تھا

اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے

کامران غنی صبا

نئی دہلی

بیورو چیف اردو نیٹ جاپان برائے ہندوستان

٭٭٭

 

 

چھوٹے بھائی ! بلا شبہ آپ نے پردیس میں دیس کا نام بلند کیا ہے

                   سلطان وحید۔ ہانگ کانگ

’’دیس بَنا پردیس ‘‘جیسی خوبصورت تصنیف کا مطالعہ کر کے بہت لطف اندوز ہوا ہوں۔ چھوٹے بھائی ! دراصل ہم سب اپنے دیس پردیس میں بنا کر اپنے دیس سے محبت بھی کرتے ہیں اور اس پردیس میں رہتے ہوئے اپنے دیس کی پہچان بنتے ہیں اب یہ ہمارے کام پر منحصر ہے کہ پردیس میں رہتے ہوئے ہم اپنے دیس کا نام اونچا کرتے ہیں یا ایسی ویسی حرکتیں کر کے اپنے دیس کو بدنام کرتے ہیں۔

چھوٹے بھائی ! آپ نے بلاشبہ ایسے کام کئے کہ اس پردیس میں دیس کا نام بلند کیا، قومی زبان کی ترقی و ترویج کے لئے کام کئے اور ہم سارے پاکستانیوں کے بیچ ایک ایسا پلیٹ فارم قائم کیا کہ آج اردو نیٹ جاپان پر نہ جائیں تو پردیس میں دن کاٹے نہ کٹے۔ بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ آج اردو نیٹ جاپان کے نام کے ساتھ ناصر اور پھر ناصر کے ساتھ ناکاگاوا لازم و ملزوم ہو گئے ہیں۔

سلطان وحید

ہانگ کانگ

اصلاحی کالم نگار، معلم اسلامک قاسم ٹیوٹ میموریل کالج ہانگ کانگ

٭٭٭

 

 

’’دیس بَنا پردیس ‘‘ لاکھوں تارکینِ وطن کا عنوان

                    رئیس صدیقی۔ ٹوکیو

’’دیس بَنا پردیس ‘‘یہ عنوان کسی ایک انسان کا عنوان نہیں بلکہ یہ دیار غیر میں بسنے والے ان لاکھوں پاکستانیوں کا عنوان ہے جو رات دن محنت کر کے اپنے خون پسینے سے ملین نہیں بلکہ بلین ڈالرز کما کر پاکستان کی معیشت کو چلا رہے ہیں اگر یہ زرِ مبادلہ رک جائے تو شاید پاکستان ایک دن بھی نہ چل سکے۔ اس اتنے بڑے عنوان کا ذہن میں آنا ہی بہت بڑی بات ہے چہ جائیکہ اس عنوان پر ایک کتاب ہی لکھ دی جائے۔ یہ تائید خداوندی اور حمایت خداوندی کے بغیر ممکن نہیں۔ ویسے تو ہر کام میں اللہ تبارک تعالیٰ کی مشیت ہی ہوتی ہے لیکن اس کام میں کچھ خاص حمایت و تائید نظر آتی ہے۔ ویسے بھی جب ناصر ناکاگاوا نام ہی ذہن میں آتا ہے تو ایک عجیب سی کیفیت محسوس ہوتی ہے۔ اس نوجوانی میں جبکہ دل کسی اور طرف مائل ہوتا ہے۔ اردو نیٹ کا اجراء اور پھر ایک دو سال کے مختصر عرصہ میں اسے ایسے مقام پر لے جانا کہ پرانے اداروں پر سبقت لے جانا اور ہر دل میں عزیز ہو جانا ہی ایک بڑا کام ہے۔ اللہ تعالیٰ کے معصوم اور بھولے بندوں کو صحافت کے غلاف پہنے ہوئے بلیک میلروں سے آزادی دلانا بھی اسی نام اور شخصیت کا کام ہے۔ الحمد للہ اب جبکہ ان کا کارنامہ ایک کتاب کی صورت میں آ جائے تو طرہ امتیاز ہے۔ میں پہلے بھی ناصر ناکاگاوا کے بارے میں بہت کچھ لکھ چکا ہوں اور مختلف مواقع پر انہیں خراج تحسین بھی پیش کر چکا ہوں۔ زیر عنوان کتاب یقیناً ایک کارنامہ ہے۔ جاپان میں اس سے قبل بھی دو کتابیں لکھی گئی ہیں، لیکن وہ منظر عام پر نہ آسکیں اور بہت لوگ ان کتابوں سے ناواقف رہے۔ یہ شخصیت کا کمال بھی ہوتا ہے کہ اگر وہ پہلے سے مقبول عام ہو تو پھراس کی تصنیف کو بھی پذیرائی ملتی ہے۔ وقت کی کمی کے باعث چاہتے ہوئے پوری کتاب تو میں نہیں پڑھ سکا لیکن اس میں میں نے جھانکا ضرور ہے۔ کتاب میں ناصر ناکاگاوا نے اپنے سچے جذبات کا اظہار کرنے میں موقع کی نزاکتوں کو ملحوظ رکھا ہے مثلاً سیالکوٹ کے دو معصوم بچوں کے ساتھ بربریت کی نشاندہی اور اس پر جذباتی اظہار ایک سچے، مخلص اور ہمدرد صحافی کا ہی خاصہ ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ معلومات اور پرسرور سفرناموں کے ساتھ ساتھ بہت سی اہم و ضروری معلومات خصوصی طور امیگریشن کے قوانین اور طریقہ کار، گھریلو تلخیاں اور مسائل پر توجہ دلانا کتاب کے خاص موضوع ہیں۔ ہر گھر میں اگر یہ کتاب کسی نہ کسی طرح پہنچ جائے تو بوقتِ ضرورت مسائل کو حل کرنے میں معاون و مددگار ہوسکتی ہے۔ بہرحال یہ ایک بڑی کوشش ہے اور بعد میں لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی اور راہ نمائی ہے۔ میں تو پہلے بھی ان کے لئے دعا گو ہوں اور اب زیادہ ہو گیا ہوں کہ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔

آخر میں ایک ایک شعر ناصر ناکاگاوا کی نذر کرتا ہوں۔

صداقت، دیانت، امانت اور شرافت

جہاد زندگانی میں مردوں کی یہ شمشیریں

رئیس صدیقی

ٹوکیو

سربراہ مسلم سوسائٹی جاپان

٭٭٭

 

 

 ’’دیس بَنا پردیس ‘‘میں انصاف کا پہلو

سید کما ل حسین رضوی۔ ٹوکیو

تمام تعریفیں اللہ واحد ولا شریک کی ہیں، درود و سلام اللہ تعالیٰ کے نبی و رسول محمّد مصطفی ﷺ پر اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:جن لوگوں نے تم سے دین کے بارے میں لڑائی نہیں لڑی، اور تمہیں جلا وطن نہیں کیا، اُن کے ساتھ سلوک و احسان کرنے اور منصفانہ بھلے برتاؤ کرنے سے اللہ تعالیٰ تمہیں نہیں روکتا، بلکہ اللہ تعالیٰ تو انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔  (المُمتَحِنہ60:آیت نمبر8)

جب میں نے ناصر صاحب کی کتاب ’’دیس بَنا پردیس‘‘ کا مطالعہ کیا، تو میرے ذہن میں اللہ تعالیٰ کا مندرجہ بالا فرمان یاد آگیا۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ ہمیں اللہ تعالیٰ کے حکم اور اُس کے رسولﷺ کے عمل کے مطابق ہی زندگی گذارنی چاہئے، تب ہی ہم انصاف کی راہ قائم کرسکیں گے۔ جیسا کہ اس کتاب میں کافی انصاف کے ساتھ جاپان اور اِ س ملک میں رہنے والے مقامی جاپانیوں کے بارے میں، جاپان کے بنیادی قوانین، جن کو غیرملکیوں کو جاننا ضروری ہے، اُن پر کافی گہرائی سے ذکر کیا گیا ہے۔ اُس کے ساتھ ہی خاص طور پر پاکستانی حضرات کے گھریلو زندگی کے فائدے کے لئے کافی کچھ مواد جمع کر دیا گیا ہے، جس کو سمجھنے کی اور پھر اُس پر عمل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اس کتاب میں جاپانیوں کے اخلاق و اطوار کا ذکر کیا گیا ہے، وہ قابل ستائش ہے، اور یہ غیر ملکی حضرات کے لئے ایک اشارہ بھی ہے، کہ وہ عموماً جاپانیوں کی تعریف تو کرتے ہیں مگر اُن کی اچھی باتوں پر عمل کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔ اس کتاب کے پڑھنے والے کو یہ بھی احساس ہوتا ہے کہ ناصر صاحب اپنے جاپانی خاندان کے ساتھ بہت اچھا برتاؤ کرتے ہیں، جس کا اثر کتاب کے کچھ مضامین میں جھلکتا ہے۔ چونکہ ناصر صاحب ایک صحافی کی نظر رکھتے ہیں، اور صحافی کی یہی ایک کیفیت ہوتی ہے کہ پہلے اپنے آپ پر نظر رکھتا ہے پھر یہ چاہتا ہے کہ اُس کے ساتھی بھی وہی اچھا راستہ اپنائیں، جس کی معلومات اُس تک پہنچ چکی ہیں، اور جن پر وہ خود بھی عمل کرتا ہے۔ اِسی وجہ سے ناصر صاحب، اس کتاب میں کئی جگہ جذبات میں کچھ الفاظ ایسے بھی لکھ گئے ہیں، جس کو پڑھ کر بہت سے حضرات کے دل کو ٹھیس بھی پہنچ سکتی ہے، مگر یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ حق بات کو ’’ٹھیس‘‘سمجھنا راہ راست سے فرار یا بھٹکنے کی ایک صورت ہے۔ اور حق بات تب ہی کوئی شخص کرتا ہے جب وہ کسی کو اپنا سمجھتا ہے۔ اور کوئی اچھا شخص یہ چاہ ہی نہیں سکتا کہ اُس کے ساتھی اور ہم وطن کسی ایسے راستے پر گامزن ہوں، جس سے اُن کو نقصان پہنچ جائے۔

امّید کرتے ہیں کہ ہمارے پاکستانی حضرات اور دوسرے ممالک کے حضرات بھی، مثبت نظر سے اِس کتاب کا مطالعہ کر کے، خود بھی فائدہ اُٹھائیں گے اور یہ ’’پیغام ناصر‘‘دوسروں تک پہنچائیں گے تاکہ ہر شخص اس سے مستفیض ہو سکے۔

اللہ تعالیٰ سے امّید لگاتے ہیں کہ ناصر ناکاگاوا صاحب کو مزید ایسی تحریریں لکھنے کی توفیق عنایت فرمائے گا، جس سے وہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کوف ائدہ پہنچا سکیں، آمین

سید کما ل حسین رضوی

ٹوکیو

دینی و اصلاحی کالم نگار

٭٭٭

 

 

ناصر ناکاگاوا کی وجہِ شہرت ان کی عاجزانہ صفات ہیں

                   جاوید اختر بھٹی۔ لاہور

میں نے اپنی ساٹھ سال کی طویل زندگی میں عربی دیکھے، عجمی دیکھے، سوڈانی دیکھے، مصری دیکھے، گورے دیکھے، کالے دیکھے، بٹ دیکھے، بھٹی دیکھے، شیخ دیکھے، میاں دیکھے مگر اصلی اور با کردار انسان (جاپانی) پہلی بار دیکھے۔ ایسا موقع مجھے جنت نظیر ملک جاپان میں اس وقت نصیب ہوا جب ہمارے برخوردار شاہد عباس نے ہمیں سیر و تفریح کے لئے جاپان بلایا۔ انہی اصلی اور با کردار انسانوں میں ایک انسان ایسا بھی دیکھا جسے فرشتہ کہوں تو یہ اس کا حق ہے۔ ناصر بھائی پہلی ہی ملاقات میں انسانوں کو محبت کی زنجیروں میں جکڑ لیتا ہے اور پھر ان کے اسیر عمر قید خود ہی قبول کر لیتے ہیں۔ برخوردار شاہد عباس نے جب میرا پہلی بار ناصر بھائی سے ٹیلیفونک تعارف کرایا تو ان کی عاجزانہ اور دھیمی آواز کے چند الفاظ میری سمجھ میں نہ آسکے مگر یوں لگا جیسے پہاڑوں کے اس پار سے کوئی کہہ رہا ہو کہ اب تم بھی میری قید میں ہو اور آج تک ناصر بھائی کی قید میں ہوں۔ یہ مسمریزم اور بنگالی جادو نہ جانے انہوں نے کہاں سے سیکھا۔ نام کا بھی زندگی پر اثر ہوتا ہے۔ ناصر جس کا معنی مدد گار، حامی، اور معاون ہوتے ہیں آپ ان پرسو فیصد پورے اترتے ہیں۔ میں نے ایک تحریر اردو نیٹ جاپان پر اشاعت کی غرض سے ان کی خدمت میں پیش کی اور بس ناصر ناکاگاوا صاحب نے محبت کا جال پھینک دیا۔ آج الحمدُﷲ مجھے ان کی محبت میں گرفتار ہوئے پورے دو سال ہو گئے ہیں۔ پچھلے سال جب لاہور تشریف لائے تو مجھے انہوں نے میزبانی کا شرف بخشا اور رائل پام گاف اینڈ کنڑی کلب میں لاہور کے نامور ادباء اور علماء حضرات نے میری دعوت قبول فرماتے ہوئے شرکت سے نوازاجس میں علامہ ابتسام الٰہی ظہیر، اعزاز احمد آذر، امجد اسلام امجد، ڈاکٹر کامران و بیگم کامران، ظہیر بدر، امانت رسول، میاں محمد ریاض، سہیل مبارک، سید سلمان گیلانی، مقصود حسنی، حسنین جاوید، ڈاکٹر اظہر وحید اور خالد شریف نے خطاب کے دوران ناصر ناکاگاوا کے بارے میں اتنے خوبصورت الفاظ استعمال کئے کہ محفل جگمگا  اٹھی۔

 ان کی ایک عادت جو میں نے اپنے سمیت بہت کم لوگوں میں دیکھی ہے کہ وہ دوسروں کی بڑی سے بڑی زیادتی اورگستاخی کو مسکرا کر معاف کر دیتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ ان کی انسانیت اور ان کا صبر کرنا ان کی وجہ ٔ شہرت ہے جس کی وجہ سے ان کے دشمن بھی تنہائی میں سوچتے ہوں گے کہ عجیب شخص ہے جو جی میں آئے اسے کہہ دو پھر بھی مسکرا کر دعا ہی دیتا ہے۔ سبحان اﷲ۔

 آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں منعقدہ ’’ دیس بَنا پردیس‘‘ کی تقریب رونمائی میں شرکت کرنے کے لئے انہوں نے بڑی محبت سے مجھے جاپان سے فون کیا تو دل باغ باغ ہو گیا کہ ان سے ملاقات ہو گی۔ اس تقریب میں خاص بات پاکستان میں ناصر بھائی کے چاہنے والوں کی طرح جاپان سے بھی ایک خاصی تعداد ان لوگوں کی تھی جو لاکھوں روپے خرچ کر کے اس فرشتہ سیرت انسان کی خوشی میں شرکت کے لیے کراچی آئے تھے۔

ناصر ناکاگاوا کی کتاب ’’ دیس بَنا پردیس‘‘ کا ہر قاری اس نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ عروج کی بلندیاں چھونے والا ناصر ناکاگاوا دھیمے سروں میں دل میں اتر جانے والی بات کہنے کا سلیقہ رکھتا ہے۔ اپنے موقف کے حق میں ٹھوس دلائل، سیاسی حرکات پر کامل عبور، اعلیٰ انتظامی صلاحیتیں، انتھک محنت، مقصد کی زبردست لگن، کھری اور دو ٹوک بات کہنے کا حوصلہ، حق گوئی، بے باکی اور سادگی اور عاجزی، درویشی، وہ اجزائے ترکیبی ہیں جن سے ناصر ناکاگاوا نامی شخص تخلیق ہوا۔ کتاب میں دلچسپ تحریریں اور سمجھ آنے والا انداز ناصر صاحب کے طرز تحریر کی خوبصورتی ہے جو ہر ایک کے من کو بھاتی ہے۔

اس کی امیدیں قلیل اس کے مقاصد جلیل

 ہر دو جہاں سے غنی اس کا دل بے نیاز

 ناصر بھائی کی دیگر اعلیٰ صفات کے ساتھ رب العزت نے ان کو ایک خاص عادت سے نوازا ہے جو مجھ جیسے بہت سے لوگوں کو نصیب نہیں ہے، انہوں نے کبھی اپنے فیصلوں کو دوسروں پر زبردستی نہیں تھوپا۔ ہمیشہ مشورہ کے عادی ہیں جو ان کی عاجزانہ صفت ہے۔ اگر کبھی مد مقابل کوئی دوست ان کے مشورہ کو ادھر ادھر دھکیل دے تو ناصر بھائی فوراً اس کی ہاں میں ہاں ملا کر کام کو کر گزرتے ہیں یہ ہر ایک کے بس کی بات نہیں ہے۔ بہتر سے بہتر کی تلاش اور بہتر رفت ناصر ناکاگاوا کا نصب العین ہے۔

جہاں ناصر صاحب کی خدمات کی خوشی ہے وہاں اپنی بد نصیبی کا غم بھی ہے کہ ہم پاکستانیوں نے اپنی ہی کوتاہیوں کیوجہ سے ملک کا خانہ خراب کر دیا اور ناصر ناکاگاوا جیسے انمول ہیروں کو پاکستان کے سر سبز باغوں سے نکال کرجاپان کے پہاڑوں میں گم کر دیا اور اپنے ہی دیس کو ان کے لیے پردیس بنا دیا اور انہیں جاپان جیسے پردیس کو اپنا دیس بنانا پڑا۔

جاوید اختر بھٹی

لاہور

کالم نگار و بیورو چیف ’’اردو نیٹ جاپان برائے پاکستان‘‘

٭٭٭

 

 

ناصر ناکاگاوا کا ہر کارنامہ لا جواب ہے

                   ملک خالد منور۔ ٹوکیو

’’دیس بَنا پردیس‘‘نے منظر عام پر آتے ہی اردو ادب و صحافت کی دنیا میں جادو جگا دیا ہے اس کتاب کی شاندار پذیرائی کے بعداس کتاب کے دوسرے ایڈیشن کی تیاریاں بھی عروج پر ہیں۔ ماشا ء اللہ ہر طرف خوشیاں، قہقہے، دوستوں کا ہجوم، مبارکبادیں وصول کرتا ناصر نہیں تھکا۔ ناصر کے چہرے کی چمک بتاتی ہے کہ اس کی محنت رنگ لائی ہے۔ اس کو اتنی خوشیاں ملی ہیں کہ اس کی جھولی کم پڑ گئی ہے۔

ناصر خداداد صلاحیت اور مضبوط اعصاب کی مالک اور انتہائی خوش اخلاق ادبی شخصیت ہے۔ اس بات میں کوئی الگ رائے نہیں ہے کہ ناصر نے آج تک جتنا بھی کام کیا وہ لاجواب ہے۔ اسی لاجواب کام کی وجہ سے ہی وہ آج زینہ بزینہ کامیابی کی منزل کی طرف گامزن ہے۔ میں اس با ہمت انسان کو اس وقت سے جانتا ہوں جب وہ ایک مقامی اخبار میں مضامین لکھا کرتا تھا۔ اس وقت بھی ناصر کی تحریریں خوبصورت اور دلکش ہوا کرتی تھیں اور آج کی منجھی ہوئی تحریروں کے متعلق تو لب کشائی کرنا سورج کو چراغ دکھلانے کے مترادف ہے۔

ناصر چڑھتے سورج کی اس دھرتی پر پاکستانیوں کے لئے بذات خود ایک سورج ہے جس کی کرنیں پہلے’’ اردو نیٹ جاپان‘‘ کی صورت میں اور پھر’’ دیس بَنا پردیس‘‘ کی شکل میں جاپان سے نکل کر پاکستان اور دنیا بھر میں بکھر چکی ہیں۔ ناصر نے ہر چھوٹے بڑے، امیر غریب کو یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ زندگی میں کتنی ہی مشکلیں اور رکاوٹیں کیوں نہ ہوں صلاحیتوں کو دبایا نہیں جا سکتا۔ اس کی سب سے بڑی خوبی جو مجھے متاثر کرتی ہے کہ وہ پہلی ہی ملاقات میں اپنا سا لگنے لگتا ہے اور ملنے والا جو کہ اس کو کبھی جانتا بھی نہیں ہوتاناصراسے اپنی گفتگو سے اپنی خوش اخلاقی سے یہ سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے کہ وہ ناصر کو پہلے سے جانتا ہے اور دوسری ملاقات پر تو کمال ہی ہو جاتا ہے کہ جب ناصر ملنے والے کو باقاعدہ نام لے کر مخاطب کرتا ہے۔ مطلب یہ کہ ناصر اپنے حافظہ اور یادداشت میں بھی کوئی ثانی نہیں رکھتا۔ ایک ہی ملاقات میں ملنے والے کا نام اور اس کا مکمل تعارف ذہن نشین کر لیتا ہے۔

ناصر نے اپنے مختصر دور صحافت میں بہت سے اتار چڑھاؤ بھی دیکھے ہیں لیکن ہمت نہیں ہاری۔ متواتر خوبصورتی سے لکھتا بھی گیا اور لکھواتا بھی گیا۔ ناصر کی ہمیشہ کوشش ہوتی ہے کہ ہر شخص کچھ نہ کچھ لکھے بے شک تھوڑا ہی ہو مگر کچھ ہو۔ اسی لئے اردو نیٹ جاپان پر  ہمیں ہر انداز اور ہر معیار کی تحاریر نظر آتی ہیں۔ چھوٹے سے چھوٹے بیان سے لے کر دنیا بھر سے تعلق رکھنے والے اردو ادیبوں اور صحافیوں کی ادبی و صحافتی تخلیقات اردو نیٹ جاپان کو زینت بخشتی ہیں۔ ناصر نے اپنی تمام تر مصروفیات کے باوجود جس خوبصورتی اور لگن سے اردو نیٹ جاپان کو سنبھالا ہوا ہے یہ سب اس کی خداداد صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ایک قلمکار کی یہ خوبی ہوتی ہے کہ جو محسوس کرے وہ سچائی کے ساتھ کاغذ کے سپرد کر دے۔ جس میں کوئی بے جا تعریف، لالچ یا خوف نہ ہو اور ڈنکے کی چوٹ پر سچ کو سامنے لائے۔ اور اسی دلیرانہ صفت کی بدولت آج ناصر ادب و صحافت کی بلندیوں کو چھو رہا ہے۔

جس خوبصورتی سے ناصر نے اپنے مضامین کو مجموعہ’’دیس بَنا پردیس‘‘ کی صورت میں ہمارے سامنے پیش کیا ہے اس طرح کا کارنامہ جاپان میں مقیم پاکستانی کمیونٹی کی تاریخ میں کسی نے انجام نہیں دیا۔ ’’دیس بَنا پردیس‘‘ کے مطالعہ کے بعد آج میں بڑے فخر سے کہنے میں حق بجانب ہوں کہ میرے دوست اور میرے بھائی نے چند برسوں میں جو محنت کی ہے وہ آج رنگ لا رہی ہے۔ اس کتاب کی ستائش کرنے اور اس کی حوصلہ افزائی کرنے کے لئے میرے پاس تعریفی الفاظ کم پڑ رہے ہیں۔ امید ہے کہ اس کا دوسرا ایڈیشن بھی اپنی مثال آپ ہو گا۔

ملک خالد منور

ٹوکیو

مسلم لیگی رہنما، شاعر و کالم نگار

٭٭٭

 

 

’’دیس بَنا پردیس‘‘ کا مطالعہ جاپان میں بیس سال قیام کے مترادف

                   ہم خیال گروپ۔ ٹوکیو

دنیا کے کسی بھی کونے میں بسنے والا اور اردو زبان سمجھنے اور پڑھنے والا کوئی بھی شخص خواہ وہ کبھی جاپان نہ بھی گیا ہو اگر ناصر ناکاگاوا کی تصنیف ’’دیس بَنا پردیس‘‘ کو ایک بار توجہ اور لگن سے پڑھ لے تو گویا اس نے جاپان میں اپنی بیس سال زندگی گزار لی، وہ جاپان کے طرز زندگی اور ماحول سے مکمل طور پر واقفیت حاصل کر لیتا ہے کیونکہ ناصر بھائی جو جاپان میں پاکستانی کمیونٹی کا فخر ہیں نے جاپان میں گزارے ہوئے اپنی زندگی کے چوبیس سالہ زندگی کے تجربات اپنی اس کتاب میں کشید کر دیئے ہیں۔ جاپان کے طرز معاشرت، ثقافت، رہن سہن، قوانین اور جاپانی قوم سے متعلق ایسی مستند معلومات اس قدر جامع انداز میں اس سے پہلے کبھی مرتب نہیں کی گئیں۔ ناصر ناکاگاوا نے جس محنت اور لگن سے یہ کتاب مرتب کی ہے وہ ان کا ایک غیر معمولی کارنامہ ہے۔ ہم سب کو ناصر بھائی پر فخر ہے کہ وہ پاکستانی کمیونٹی کا حصہ ہیں۔ ان کی یہ تصنیف دنیا بھر میں مقبول ہو چکی ہے۔ جب دنیا بھر سے لوگ اس کتاب کے بارے میں ہم سے پوچھتے ہیں تو ہمیں یہ بتاتے ہوئے فخر محسوس ہو تا ہے کہ اس شاہکار تصنیف کے مصنف کوئی اور نہیں بلکہ ہمارے اپنے ناصر بھائی ہیں۔

اس کتاب میں موجود سفرنامے بھی لاجواب ہیں جنہیں پڑھتے وقت ایسا محسو س ہوتا ہے کہ ہم بھی مصنف کے ہمسفر ہیں۔

ہم خیال گروپ

(ملک سلیم، چوہدری ارشاد، چوہدری شعیب، تایا امجد فیصل آبادی، عامر فواد، شیخ سرفراز، عبیداللہ بٹ، ملک ذوالفقار، مقصود عالم، ریاض ایبیساوا، مدثر پسیا، منیر احمد)

ٹوکیو

٭٭٭

 

 

حصہ اوّل

پاکستان زندہ باد

 

 

جاپان میں مقیم غیر ملکیوں کے لئے جاپانی شہریت کے حصول کا طریقۂ کار

(واضح رہے کہ اس معلوماتی مضمون پر راقم کو پاک جاپان ٹی وی کی طرف سے بہترین کالم نگار ہونے کا قائد اعظم ایوارڈ بھی مل چکا ہے اور یہ مضمون پاکستان کے معروف ہفت روزہ میگزین اخبارِ جہاں میں بھی شائع ہو چکا ہے۔ )

(23 فروری 2008ء) جاپان دنیا کے ترقی یافتہ اور امیر ترین ممالک میں سے ایک ہے جس کی آبادی تیرہ کروڑ کے لگ بھگ ہے جسے ایشیا کا ٹائیگر بھی کہا جاتا ہے اور ترابِ آفتاب بھی۔ جاپان  نے اس خطے کے چھوٹے بڑے کئی ممالک کو معاشی سنبھالا بھی دے رکھا ہے۔ ایشیا میں دیگر ممالک کے لوگ بجا طور پر جاپان کو اپنا دوست اور محسن ماننے پر فخر محسوس کرتے ہیں، 80 کی دہائی میں جاپان کی معیشت جب اپنے عروج پر تھی تو دنیا بھر سے لوگ اس ملک کو جو جنگِ عظیم کے بعد بالکل تباہ و برباد ہو چکا تھا اور اس کی تیزی سے بدلتی ہوئی معاشی حالت اور ترقی کو دیکھنے کے لئے بے چین رہنے لگے۔ اس دور میں جاپان کا سکّہ ین کی قدر کچھ زیادہ نہ تھی جس کی وجہ سے غریب ممالک کے سیاح بھی یہاں آسانی سے آیا جایا کرتے تھے اور کاروبار کے مواقع بھی بہت اچھے تھے۔ جوں جوں جاپان کی معیشت مستحکم ہوتی گئی تو ین کی قدر میں بھی اضافہ ہو تا چلا گیا اور جاپان اپنے ہم عصروں کو بہت پیچھے چھوڑ کر دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی صفوں کی اگلی صف میں جا کھڑا ہوا۔

جاپان اس وقت دنیا کے آٹھ ترقی یافتہ ممالک میں سے ایک ہے۔ اس وقت جاپان میں دنیا کے ہر ملک کا باشندہ موجود ہے اور دنیا کے کسی بھی ملک سے لوگ اپنے روشن مستقبل کے لئے امریکہ و یورپ کی طرح جاپان کا بھی رخ کرنے لگے ہیں۔ گزشتہ پندرہ سالوں میں حکومتِ جاپان نے غیر ملکیوں کے لئے اقامت نامہ (ویزہ) کے قوانین بہت سخت کر دیئے ہیں جس کی وجہ سے پہلے کی طرح کسی ملک سے خصوصاً ایشیا کے ممالک سے لوگوں کی آمد بہت کم ہو چکی ہے لیکن جہاں غیر ملکیوں کے لئے قوانین میں سختی ہوئی ہے وہیں ان لوگوں کے لئے کچھ نرمی بھی ہوئی جو مستقل جاپان میں قیام پذیر ہیں۔ جاپان میں سیرو تفریح یا دیگر مقاصد کے لئے اقامت نامہ حاصل کرنے کے لئے حکومتِ جاپان کی وزارتِ انصاف کے ماتحت کام کرنے والا ایک ادارہ امیگریشن قائم کیا گیا ہے جو دنیا بھر سے آنے والے غیر ملکیوں کو جانچ پڑتال کے بعد انھیں ملک میں داخل ہونے کی اجازت دیتا ہے۔ جاپان میں دیگر ترقی یافتہ ممالک کی طرح غیر ملکیوں کو بھی شہریت دینے کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے اور اس وقت ہزاروں کی تعداد میں غیر ملکی جاپانی شہریت حاصل کر چکے ہیں جس میں پاکستانی بھی شامل ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت پاکستانی نژاد جاپانی شہریوں کی تعداد تین سو کے لگ بھگ ہے اور اس میں دن بہ دن اضافہ ہی ہو رہا ہے لیکن جاپان کے سخت قوانین اور نظم و ضبط کی وجہ سے اکثرپاکستانی حضرات ان کی شرائط پر پورا نہیں اترتے۔

آج ہم آپ کو جاپان میں شہریت کے حصول کے لئے ضروری دستاویزات، شرائط اور طریقۂ کار کے بارے میں تفصیل بتا رہے ہیں جو یقیناً ہمارے اردو نیٹ جاپان کے قارئین کے لئے مفید ثابت ہوں گی۔ واضح رہے کہ اس مضمون کی کئی بار اشاعت کے بعد سینکڑوں پاکستانیوں نے راقم الحروف سے فون پر رابطے کئے اور اظہارِ تشکر بھی کیا اور مزید معلومات حاصل کیں اور یہ بھی کہا کہ اس مضمون کی اشاعت سے انھیں وہ تمام معلومات مفت حاصل ہو گئی ہیں جو کسی جاپانی وکیل سے کثیر رقم دینے کے بعد بھی حاصل نہیں ہوتیں۔ اس مضمون کو پڑھنے کے بعد کئی پاکستانیوں نے جاپانی شہریت کے حصول کے لئے متعلقہ محکمہ میں درخواستیں دی ہیں۔

ہر وہ غیر ملکی جو جاپان میں پانچ سال سے زائد عرصہ سے قانونی طور پر قیام پذیر ہو وہ یہاں کی شہریت کے لئے درخواست دے سکتا ہے۔ ہر وہ غیر ملکی جس کی بیوی یا شوہر جاپانی شہریت کا حامل ہو تو اسے درخواست دینے کے لئے پانچ سال کی بجائے تین سال درکار ہوں گے۔ لیکن یاد رہے کہ یہ پانچ سال یا تین سال کی مدت ان غیر ملکیوں کے لئے ہے جو روزِ اول سے ہی جاپان میں قانونی طور پر داخل ہوئے ہوں یا قیام پذیر ہوں اور ان غیر ملکیوں کے لئے جو کبھی ماضی میں ایک بار بھی غیر قانونی طور پر جاپان میں داخل ہوئے ہوں یا قانونی طور پر عارضی ویزے کی مدت گزرنے کے بعد بھی جاپان میں غیر قانون طور پر رہے ہوں (یعنی overstay) خواہ وہ ایک دن ہو یا ایک  سال یا کئی سال۔ ایسے غیر ملکیوں کے لئے مذکورہ بالا پانچ یا تین سال کی مدت کے بجائے انھیں کم از کم آٹھ سال سے  دس سال درکار ہوں گے (واضح رہے کہ یہ مدت کم یا زیادہ بھی ہو سکتی ہے) اور یہ مدت اس دن سے شمار کی جائے گی جس دن انھیں حکومتِ جاپان کی طرف سے کسی بھی بنیاد پر ویزہ جاری کیا گیا ہو۔ جاپانی شہریت کے حصول کے لئے یہ ضروری نہیں کہ کسی غیر ملکی کی بیوی یا شوہر جاپانی شہریت کا حامل ہو۔ جاپانی شہریت کے حصول کے لئے سب سے مشکل اور سب سے آسان شرط بھی جاپانی زبان لکھنا اور پڑھنا ہے جس میں جاپانی حروفِ تہجی صرف 46 ہیں، جن کی دو قسمیں ہیں ہیرا گانا اور کھاتا کانا جو کہ کے جی نرسری میں پڑھائے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ رسم الخط کانجی جو کہ شکلوں کی صورت میں لکھی جاتی ہے، ویسے تو اس کی تعداد بہت زیادہ ہے لیکن غیر ملکیوں کو شہریت کے حصول کے لئے کم از کم سالِ اول اور سالِ دوم کی جماعتوں میں لکھائی اور پڑھائی جانے والی کانجی کے 70سے 90 الفاظ سیکھنا ضروری ہیں۔ ہیرا گانا اور کاتاگانا صرف پندرہ سے بیس دنوں میں سیکھی جا سکتی ہے جبکہ کانجی کے مطلوبہ الفاظ بھی ایک سے دو ماہ کے دوران سیکھے جا سکتے ہیں۔ واضح رہے کہ جاپانی قوم ہزاروں سال سے تعلیم یافتہ چلی آ رہی ہے۔ یہاں تعلیم کا تناسب 99.99ہے یہی وجہ ہے کہ غیر ملکیوں کو شہریت دیتے وقت کم از کم سالِ دوم تک کی تعلیم لازمی قرار دی گئی ہے کیونکہ اگر یہ شرط عائد نہ کی گئی تو اندیشہ ہے کہ جاپانی تعلیم کا تناسب وہ نہیں رہے گا جو اس وقت قائم ہے۔ تعلیمی شرط کے بعد وہ غیر ملکی جو جاپان کا ڈرائیونگ لائیسنس رکھتا ہو تو اسے گزشتہ پانچ یا تین سال کا ریکارڈ پیش کرنا ہو گا جس شخص کے پاس لائسینس ہو تو ٹریفک کی چھوٹی موٹی خلاف ورزیاں دانستہ یا غیر دانستہ طور پر ہوتی ہی رہتی ہیں، لیکن کسی سنگین نوعیت کی خلاف ورزی کے مرتکب ہونے پر حصولِ شہریت کے امکانات معدوم ہو سکتے ہیں، مثلاً شراب نوشی کی حالت میں ڈرائیونگ کرتے ہوئے یا اپنی ہی غلطی کی وجہ سے سنگین حادثے سے کسی کی ہلاکت کا موجب بنے ہوں یا پھر لگاتار کئی چھوٹے موٹے چالان کروانے کے عادی افراد۔ جو لوگ شہریت کے حصول کے لئے درخواستیں دیتے ہیں دیکھا گیا ہے کہ ان کے لئے گزشتہ پانچ سالوں میں اگر درخواست دہندہ کسی بھی وجہ سے جاپان سے باہر تین سو ایام سے زائد گزار کر واپس آتا ہے تو اس کے امکانات بھی کم ہو جاتے ہیں گزشتہ پانچ سالوں میں جاپان سے باہر قیام کرنے کا دورانیہ سو سے ڈیڑھ سو ایام مناسب خیال کیا جاتا ہے۔

شہریت کے حصول کے لئے درخواست دہندہ کا گزشتہ پانچ سالوں میں پولیس ریکارڈ بھی بہت اہمیت رکھتا ہے۔ اگر کسی جرم میں قید گزاری ہو تو اس کے لئے بھی جاپانی شہریت کے حصول کے لئے کچھ مشکلات پیش آسکتی ہیں۔ عموماً دیکھا گیا ہے کہ وہ غیر ملکی جو ملازمت کرتے ہیں انھیں بہ نسبت ان لوگوں کے جو کسی بھی قسم کے کاروبار سے منسلک ہوں کے لئے شرائط زیادہ سخت نہیں ہیں۔ شہریت کے حصول کے لئے یہ سمجھنا کہ درخواست دہندہ ایک بہت بڑا اور کامیاب کاروباری شخص ہے اور وہ ملک کو بہت زیادہ محصول بھی ادا کرتا ہے اس کے لئے کچھ آسانیاں ہوں گی یا اس کی زیادہ آؤ بھگت کی جائے گی تو یہ خام خیالی ہے (معذرت کے ساتھ جو کہ اکثر ہمارے پاکستانی بھائیوں کی سوچ ہے) مذکورہ بالا تمام شرائط سے بھی بڑھ کر کاروباری افراد کے لئے کچھ سخت شرائط رکھی گئی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ جاپان میں بڑے بڑے کاروباری پاکستانی حضرات جو جاپانی شہریت لینے کی شدید خواہش رکھتے ہیں مگر اپنی دولت کے بل بوتے پر جاپانی شہریت حا صل نہیں کر سکتے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہنا مناسب ہو گا کہ جاپانی شہریت کے حصول کے لئے تقریباً وہ تمام شرائط رکھی گئی ہیں جو کسی غیر مسلم کے لئے دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے لئے رکھی جاتی ہیں صرف کلمہ طیبہ کی کمی ہے یعنی جاپانی شہریت کے حصول کے لئے ایک مومن کی سی خصوصیات دیکھی جاتی ہیں۔ نظم و ضبط، قوانین کی پابندی، وقت کی پابندی، لڑائی جھگڑا نہ کرنے والے، امن پسند، خوش اخلاق، پڑوسیوں سے خوشگوار تعلقات، ایمانداری، محنت سے روزی کمانا، باقاعدگی سے محصول ادا کرنا، بنیادی تعلیم حاصل کرنا، سادگی، انکساری اور انسانیت، ظاہری و باطنی صفائی یہ وہ تمام شرائط ہیں جو کسی بھی مسلمان میں ہوں تو وہ مومن کہلاتا ہے اگر کوئی مومن جاپانی شہریت کے حصول کے لئے درخواست دینا چاہے تو یقیناً اس کے لئے کوئی مشکل نہ ہو گی۔ ان تمام شرائط کے علاوہ درخواست دہندہ کو اپنے ملک سے چند دستاویزات بھی منگوانا ہوتی ہیں جن میں درخواست دہندہ سمیت اس کے تمام بہن بھائیوں کے پیدائش کے سرٹیفیکیٹ، والدین کا نکاح نامہ، والدین کی طرف سے حلف نامہ اوردرخواست دہندہ کی تعلیمی اسناد شامل ہیں والدین یا بہن بھائی میں سے خدا نخواستہ کوئی وفات پا گیا ہو تو اس صورت میں ان کے موت کے سرٹیفیکیٹ بھی منگوانا ہوں گے اور جاپان میں قائم اپنے سفارتخانے سے ایک سرٹیفیکیٹ بھی درکار ہو گا جس پر درخواست دہندہ کی شناخت کی جا سکے۔ وہ درخواست دہندگان جن کا تعلق پاکستان یا بنگلہ دیش سے ہے ان کے والدین کی شادی اگر 1961سے پہلے ہونے کی صورت میں نکاح نامہ موجود نہ ہو گا کیونکہ پاکستان میں اسلامی فیملی آرڈینینس 1961 میں رائج ہوا ہے اس لئے اس سے پہلے پاکستانیوں کی شادیاں باقاعدہ رجسٹرڈ کرنے کا نظام نہ تھا لہٰذا ان کے لئے ایک خاص حلف نامہ تیار کروانا ہو گا۔ اپنے ملک سے جاری کی گئیں تمام دستاویزات کو وزارتِ خارجہ سے تصدیق کروانا ضروری ہے (بعض اوقات اس ملک کے سفارتخانے سے تصدیق کروانے کی درخواست بھی کی جا سکتی ہے) اور جب یہ دستاویزات جاپان پہنچ جائیں تو ان کا جاپانی زبان میں ترجمہ کروانا ہو گا خواہ وہ انگریزی میں ہوں یا اردو یا کسی اور زبان میں، ہر ایک کاغذ کا ترجمہ جاپانی زبان میں کروانا لازمی ہے۔ لیکن ایک بات یاد رہے کہ اپنے ملک سے تمام دستاویزات منگوانے سے پہلے درخواست دہندہ کو چاہئے کہ وہ اگر شروع میں بیان کی گئیں شرائط پر پورا اترتا ہے تو اپنے شہر میں قائم وزارتِ انصاف کے علاقائی دفترHoumu Kyoku فون پر رابطہ کرے اور اپنا تعارف کرواتے ہوئے جاپانی شہریت کے حصول کی خواہش کرتے ہوئے پہلے انٹرویو کے لئے وقت کا تعین کر لے۔ چند دنوں بعد پہلے ہی انٹرویو پر اگر کوئی شہریت کے حصول کا اہل ہے تو اسے اسی دن ایک فہرست جاری کی جاتی ہے اور اپنے ملک سے وہ تمام دستاویزات منگوانے کے لئے کہا جاتا ہے جس کا ذکر اوپر کیا جا چکا ہے۔

پاکستان یا کسی بھی دوسرے ملک سے منگوائے ہوئے کاغذات پہنچنے پر فوری طور پر ان کا جاپانی ترجمہ کروا کر دوبارہ وزارتِ انصاف کے دفتر میں فون کیجئے اور اپنے منگوائے ہوئے اصلی کاغذات اور ان کا جاپانی ترجمہ دکھانے کے لئے وقت لے کر جائیں۔ یاد رہے کہ کسی بھی دستاویزات کے غلط یا جعلی ہونے کے امکانات پر آپ کو انکار بھی ہو سکتا ہے لہٰذا تمام دستاویزات کی اچھی طرح پڑتال کی جائے اور اسی طرح ان کا جاپانی میں ترجمہ بھی کروایا جائے۔ ترجمہ کروانے کے لئے ضروری نہیں کہ کسی وکیل یا پیشہ ور ترجمان سے رابطہ کیا جائے اگر آپ خود ترجمہ کرنے کے اہل ہیں تو بھی کوئی مضائقہ نہیں۔ اکثر پاکستانی یہ سمجھتے ہیں کہ لکھنا پڑھنا نہ بھی آئے تو وکیل کے ذریعے سب کچھ ہو سکتا ہے یہ ان کی غلط فہمی ہے اس سلسلے میں وکیل آپ کی کوئی مدد نہیں کرسکتا ہر کام آپ کو خود کرنا ہے اور خود ہی انٹرویو دینا ہے اور خود ہی شروع سے آخر تک بات کرنی ہے۔ تمام کاغذات اگر پہلے مرحلے میں صحیح ہو جاتے ہیں تو پھر دوسرا مرحلہ آسان ہو جاتا ہے کیوں کہ اس مرحلے میں آپ کو وہ دستاویزات درکار ہوں گی جن کا تعلق جاپان سے ہے اور یہ چند دستاویزات جن میں لائسینس کا ریکارڈ، ایلیین رجسٹریشن، محصولات کا ریکارڈ، فیملی ریکارڈ، پولیس ریکارڈ، ملازمت کا سرٹیفیکیٹ، اپنی کمپنی، بنک بیلینس یا جائداد کا ریکارڈ  پیش کرنا ہوتے ہیں اور یہ ان دستاویزات کو جمع کرنے میں چند ایک دن صرف ہوتے ہیں اس کے بعد تیسرے مرحلے پر پاکستان سے منگوائے ہوئے کاغذات اور ان کے ساتھ ہی یہاں کے کاغذات ایک بار پھر پڑتال کئے جائیں گے اس موقع پر آپ سے ایک تفصیلی خط بھی لکھوایا جائے گا جو یقیناً جاپانی زبان میں تحریر کرنا ضروری ہے اگر اس تیسرے مرحلے میں بھی کوئی مسئلہ کھڑا  نہ ہو تو آج آپ کے تمام کاغذات جمع کر لئے جائیں گے اور ایک نمبر جاری کر دیا جائے گا۔ اور تقریباً دو ماہ کے بعد دوبارہ انٹرویو کے لئے بلایا جاتا ہے یہ انٹرویو ہونے کے بعد تقریباً چھ سے دس ماہ میں آپ کو شہریت ملنے یا نہ ملنے کی اطلاع کر دی جائے گی اس دوران آپ سے کچھ اضافی دستاویزات کا مطالبہ بھی کیا جا سکتا ہے شہریت کے کاغذات جمع ہونے کے بعد جاپان سے باہر جانے اور واپس آنے کی اطلاع کرنا ضروری ہو گی۔ اس دوران آپ کی روز مرہ کی زندگی میں کسی بھی قسم کی تبدیلی ہونے پر فوری طور پر متعلقہ دفتر میں اطلاع کرنا بھی ضروری ہے مثلاً شادی، طلاق، بچے کے پیدائش، سانحہ، حادثہ، ملازمت یا رہائش کی تبدیلی وغیرہ۔ اکثر غیر ملکیوں اور خصوصاً پاکستانیوں میں یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ جاپانی شہریت کے حصول کے لئے جاپانی نام رکھنا لازمی ہے لیکن ایسی کوئی شرط نہیں ہے البتہ جاپان میں طویل نام رکھنے کا رواج نہیں ہے مثلاً کسی کا نام محمد خالد حسین زیدی ہے جو کہ جاپان کی نظر میں چار حصوں پر مشتمل ہے تو اسے صرف دو ناموں کا انتخاب کرنا ہو گا اور اس کے لئے ہیرا گانا، کھاتا کانا یا کانجی استعمال کی جائے گی۔ خیال رہے کہ جاپان کے قانون میں برطانیہ یا امریکہ کی طرح دوہری شہریت نہیں رکھ سکتے۔ لہٰذا آپ کو جاپان کی شہریت حاصل کرنے سے پہلے اپنی اصلی شہریت منسوخ کرنے کا تحریری حلف نامہ بھی دینا ہو گا جو سفارتخانۂ پاکستان سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔

٭٭٭

 

 

الف سے اچھی گ سے گڑیا ج سے جاپانی

الف سے اچھی گ سے گڑیا ج سے جاپانی

لوٹ لیا ہے تو نے ایک مسافر پاکستانی

( 2دسمبر2012ء)مذکورہ بالا فلمی گانا پاکستانی فلم ’’خاموش نگاہیں ‘‘ میں احمد رشدی کی آواز میں منور ظریف پر ٹوکیو گنزہ اور وینو پارک میں آج سے تقریباً تیس پینتیس برس قبل فلمایا گیا تھا اور اس فلم کے چند مناظر بھی ٹوکیو میں فلمائے گئے تھے۔ یہ وہ دور تھا جب متوسط طبقے کا کوئی بھی پاکستانی دو ہفتے یا ایک ماہ کیلئے باآسانی جاپان کی سیر و سیاحت کیلئے آسکتا تھا کیونکہ اُس وقت پاکستان کی معیشت یا پاکستانی عوام کے مالی حالات جاپان سے بہتر نہیں تو برے بھی نہ تھے۔ کراچی شہر ٹوکیو سے زیادہ ترقی یافتہ نہیں تو کم بھی نہ تھا وہاں بھی جاپان کی طرح دن رات رونق ہی رہتی تھی اور امن کا گہوارہ تھا۔ اُس دور میں پاکستانی فلمیں غیر ممالک میں بھی فلمائے جانے کا رجحان عام تھا جن میں جاپان، چین، سنگاپور، انگلینڈ اور امریکہ وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔ اُس وقت اگر ایک فلمساز اپنا پچیس سے تیس افراد کا فلمی یونٹ لے کر جاپان میں چند ایک مناظر یا ایک دو گانے فلمانے کے لئے دو ماہ تک بھی قیام کرتا تھا تو کوئی خاص مہنگا نہیں پڑتا تھا کیونکہ ایک ڈالر کے عوض تقریباً 350ین ملتے تھے اور ایک امریکی ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر تین یا ساڑھے تین روپے ہوا کرتی تھی یعنی پاکستانی ایک پیسہ ایک ین کے مساوی ہوا کرتا تھا جب کہ ایک متوسط پاکستانی کی ماہانہ تنخواہ تین سو سے پانچ سو روپے تک ہوا کرتی تھی۔ تحقیقات کے مطابق اُس دور میں ایک جاپانی کی اوسط آمدنی تیس سے پچاس ہزار ین ہوا کرتی تھی، دونوں ممالک میں خوشحالی بھی یکساں تھی اور اپنے اپنے طور پر ترقی کی منازل بھی طے کر رہے تھے۔ جیسا کہ ہماری قوم میں لکھنؤ کے نوابوں کی طرح دریا دلی، تکلف، انکساری اور اخلاق کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے لہٰذا ہم نے مذکورہ بالا تمام صفات کواستعمال کرتے ہوئے ملک کی ترقی اور تعلیم کے معاملے میں بھی وہی انداز اپنایا اور پہلے آپ پہلے آپ کے مصداق دوسرے ممالک کو موقع دیا کہ نہیں جناب پہلے آپ…….. اجی پہلے آپ ……ہم بعد میں ……….پہلے آپ ترقی کر لیں ہم تو کر ہی لیں گے!!!اُس دور میں بھی جاپان کی آمدنی کا بڑا حصہ برآمدات سے حاصل ہوتا تھا جبکہ یہاں کی سیاحت کی صنعت بھی عروج پر تھی۔ دنیا کے تقریباً ہر ملک سے سیاح یہاں آیا کرتے تھے اور اپنی دولت لٹا کر جایا کرتے تھے جن میں پاکستانی سیاح بھی پیش پیش تھے۔

 پاکستان کی طرح دوسرے ممالک کے فلمساز بھی جاپان میں فلمیں بنانے کیلئے آتے تھے اور یہاں کی سیاحت کی صنعت کو بہت نفع ہوتا تھا۔ ان فلموں میں فلمائے گئے جاپان کے تاریخی اور قدرتی خوبصورت مناظر دیکھنے کے لئے سینما ہال بھر جاتے تھے جو لوگ جاپان کے خوبصورت مناظر فلموں میں دیکھتے تھے وہ ایک بار جاپان دیکھنے کی تمنا ضرور کرتے تھے۔

جوں جوں جاپان ترقی کرتا ہوا دوسرے ممالک کو پیچھے چھوڑتا گیا اس کی مصنوعات کی طلب دنیا بھرمیں بڑھتی گئی۔ جاپانی سکّے ین کی قدر میں دن بدن اضافہ ہوتا گیاجس کی وجہ سے جاپان کی سیاحت کی صنعت بری طرح متاثر ہوتی رہی۔ لیکن حال ہی میں ین کی قدر میں تیزی سے اضافہ اور امریکی ڈالر کی قدر میں کمی نے جاپان کی نہ صرف برآمدات بلکہ سیاحت کی رہی سہی صنعت پر بھی برے اثرات مرتب کئے ہیں۔ پچھلے دنوں حکومتِ جاپان کے محکمہء سیاحت نے جو اعداد و شمار جاری کئے اس کے مطابق امسال ماہِ اکتوبر میں جاپان آنے والے غیر ملکی سیاح یا کاروباری حضرات کی تعداد سات لاکھ اُنتالیس ہزار ایک سو تھی جو کہ گزشتہ سال کے اِسی ماہ کے مقابلے میں تقریباً چھ فیصد کم ہے۔ گزشتہ تین ماہ سے سیاحوں کی جاپان آمد میں متواتر کمی واقع ہو رہی ہے۔ اس کمی کی وجوہات کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا کہ امریکہ سے شروع ہونے والے عالمی مالیاتی بحران اور جاپانی ین کی قدر میں اضافے کے باعث امریکہ، انگلینڈ، کوریا اور چین سے سیاحوں کی آمد میں خصوصاً کمی واقع ہوئی ہے کیونکہ ان ممالک کے سکّے کی قدر جاپانی ین کے مقابلے میں سستی ہوئی ہے جبکہ دوسرے ممالک جن میں ہانگ کانگ، تھائی لینڈ، سنگاپور اور فرانس وغیرہ سے سیاحوں کی آمد میں اضافہ ہوا ہے کیونکہ ان ممالک کے سکے ین کے مقابلے میں مہنگے ہوئے ہیں۔ تاہم جاپانی سیاحوں کا دوسرے ممالک میں جانے کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے سوائے پاکستان کے جس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں جاپانی سیاح جانے سے گھبراتے ہیں کیونکہ اب یہ بات کہی جانے لگی ہے کہ پاکستان جیسے ملک میں لوگ جاتے تو جہاز میں ہیں لیکن آتے اخبار میں یا ٹی وی میں ہیں۔ اگر آج کسی پاکستانی فلمسازکو اپنے پچیس سے تیس افراد کا فلمی یونٹ اپنی فلم کیلئے جاپان کے چند مناظر یا نصیبو لال کے ایک دو گانے اگر صاف ستھرے ہوں تو اُنہیں فلمانے کیلئے ایک یا دو ماہ ٹوکیو میں قیام و طعام کرنا پڑے تو اس پر اتنا ہی خرچ آئے گا جتنا کہ پاکستان میں ’’گجر دا کھڑاک ‘‘یا ‘‘ٹوپک زما قانون ‘‘جیسی دو فلمیں بنانے میں آتا ہے۔ کئی ممالک نے جاپان کیلئے اپنی پروازوں میں کمی بھی کر دی ہے لیکن ایک دوست نے کہا کہ یار بڑی بات ہے کہ جاپان اتنا مہنگا ملک ہے پھر بھی ہماری قومی ایئر لائن ہفتے میں دو پروازیں بھر بھر کر پاکستانی مسافروں کو لاتی ہیں !میں نے کہا کہ بھائی یہ تازہ مسافر یا سیاح نہیں ہوتے بلکہ ان میں زیادہ تر وہ مسافر ہوتے ہیں جنہیں کبھی کسی اچھی جاپانی گڑیا نے لوُٹ لیا تھا ان میں راقم بھی پیش پیش ہے۔ یہ پرانے مسافر اُنکی بادامی آنکھوں اور کالی زلفوں کے ایسے اسیر ہوئے کہ یہیں کے ہو کر رہ گئے ہیں تاہم ان میں کچھ پرانے مسافر وہ ہوتے ہیں جو ذرا کم ہی وطن کا رُخ کرتے ہیں۔

٭٭٭

 

 

جاپان امیگریشن کے نئے قوانین

(27جون2012ء)جاپان میں مقیم غیر ملکیوں کی درمیانی و طویل مدتی رہائش سے متعلق مزید آسانیاں پیدا کرنے اور جعل سازی کو روکنے کے لئے وزارتِ انصاف کے تحت کام کرنے والے ادارے ٹوکیو امیگریشن نے ایک نئے انتظامی نظام کو متعارف کرانے کا اعلان کیا ہے جس کا مقصد جاپان میں مقیم غیر ملکیوں کی موجودہ رہائشی صورتِ حال کو مزید بہتر بنا نا ہے۔ اس نئے نظام کا اطلاق سالِ رواں کی9 جولائی سے ہو رہا ہے جس کے تحت جاپان میں رہائش کے طویل ویزے کی میعاد جو تین سال ہے اس میں توسیع کر کے پانچ سال کر دی جائے گی۔ واضح رہے کہ جاپان میں مقیم غیر ملکیوں کو اپنے ویزے کی مدت کے دوران جاپان سے آؤٹ ہونے کی صورت میں موجودہ نظام کے تحت Re-Entryیعنی دوبارہ جاپان میں داخل ہونے کا اجازت نامہ درکار ہوتا ہے جس کی فیس چار ہزار ین سے چھ ہزار ین تک ہے اور اس کی مدت ویزے کی مدت کے مساوی ہوتی ہے جبکہ وہ غیر ملکی جو جاپان کا مستقل رہائشی ویزہ رکھتے ہیں (یعنی انھیں ویزے کی تجدید کی ضرورت نہیں ہوتی) انھیں بھی یہ اجازت نامہ درکار ہوتا ہے اور ان کے لئے Re-Entry کی مدت زیادہ سے زیادہ تین سال مقرر ہے اور انھیں کسی بھی صورت میں تین سال کے اندر جاپان واپس آنا لازمی ہوتا ہے بصورتِ دیگر ان کا مستقل ویزہ منسوخ کر کے ایک سال میں تبدیل کرنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں، ایسی کئی مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں۔ جولائی سے متعارف ہونے والے نئے رہائشی انتظامی نظام کے تحت Re-Entry کا نظام بھی تبدیل کیا جائے گا۔ نئے نظام کے تحت درمیانی اور طویل مدتی ویزہ رکھنے والوں کے لئے Re-Entry میں بہت چھوٹ دی جا رہی ہے، مثلاً پانچ سال کا رہائشی ویزہ اور مستقل ویزہ کے حامل لوگوں کے لئے Re-Entryبھی پانچ سال کی ہو گی۔ تاہم اس نئے نظام کے تحت جو غیر ملکی ایک سال سے کم عرصہ جاپان سے آؤٹ رہنے کا ارادہ رکھتا ہو وہ Re-Entry سے مستثنیٰ ہو گا۔ مگر یاد رہے کہ اسے جاپان سے باہر جانے کی تاریخ سے ایک سال پورا ہونے سے قبل جاپان میں داخل ہونا ہو گا۔ یہ سہولت ان لوگوں کے لئے بہت پرکشش ہو گی جو سال میں کئی مرتبہ جاپان سے باہر جاتے ہیں مگر ان کے دورے مختصر ہوتے ہوں۔ اس بات کا خیال رکھا جائے کہ یہ سہولت ان غیر ملکی رہائشیوں تک محدود ہو گی جو جاپانی خواتین سے شادی شدہ ہوں، ان کے جاپانی بچے ہوں یا جاپان میں مختلف شعبوں میں طویل عرصے کے لئے رہائش پذیر ہوں، وہ لوگ جو تین ماہ سے کم مدت کے لئے سیاحتی موجودہ ’’ایلین کارڈ‘‘ کا نظام جس کے نام سے انسان عجیب سا محسوس کرتا ہے اسے ختم کر دیا جائے گا اور اس کی جگہ ’’رہائشی کارڈ‘‘ جاری کئے جائیں گے جو درمیانی اور طویل مدت کے رہائشیوں کے لئے مخصوص ہوں گے جس پر جاپان آمد کی تاریخ، رہائشی درجہ، تاریخِ تجدید، رہائش کی مدت یعنی ویزے کا اندراج، نام، تاریخ پیدائش، شہریت، پیشہ اور پتہ وغیرہ درج ہو گا۔ رہائشی کارڈ کو جعل سازی سے محفوظ رکھنے کے لئے اس میں IC چِپ نصب کی جائے گی جس میں کارڈ پر درج تمام معلومات یا اندراج کے کچھ حصے مخفی طور پر ریکارڈ کئے جائیں گے۔ اس کارڈ کے لئے خصوصی تصویر درکار ہو گی، جس میں چہرہ ٹھوڑی تک واضح طور پر نظر آئے، بغیر ٹوپی اور بغیر کسی پسِ منظر اور تین ماہ پرانی تصویر ہی قبول کی جائے گی۔ جاپان میں مستقل رہائش کے حامل سولہ سال سے زائد عمر کے لوگوں کے لئے مذکورہ کارڈ سات سال تک کارآمد ہو گا جبکہ سولہ سال سے کم عمر لوگوں کے لئے ان کی سولہویں سالگرہ تک کارآمد ہو گا۔

نئے رہائشی کارڈ کے اجراء تک ایک مخصوص مدت تک پرانے ایلین کارڈ کارآمد رہیں گے اور انھیں رہائشی کارڈ تصور کیا جائے گا تاہم نئے کارڈ کے اجراء کے لئے مقامی امیگریشن دفاتر سے رجوع کیا جا سکے گا۔ البتہ نئے آنے والے وہ غیر ملکی جو درمیانی و طویل مدت کے ویزے کے زمرے میں آتے ہوں انھیں ایئرپورٹ پر ہی ان کے پاسپورٹ پر لگائی جانے والی آمد کی مہر لگاتے وقت ہی رہائشی کارڈ جاری کر دیا جائے گا، تاہم یہ سہولیات شروع میں صرف ٹوکیو ناریتا، ٹوکیو ہانیدا، چُوب اور کھانسائی انٹرنیشنل ایئرپورٹس تک محدود ہوں گی۔ مذکورہ بالا ایئرپورٹس کے علاوہ پہنچنے والے غیر ملکی اپنے پاسپورٹ پرذ٭٭یثبت کی گئی آمد کی مہر اپنے رہائشی شہر کے سٹی آفس میں دکھا کر رہائشی کارڈ حاصل کرسکیں گے۔

                   موجودہ ویزے کے اقسام و مدت میں تبدیلی و اضافہ

جاپان میں رہائشی ویزے کی اقسام اور مدت میں تبدیلی کی جائے گی۔ موجود ہ رہائشی ویزہ جس میں اعلیٰ مہارت، انسانیت کی بنیادوں پر، بین الاقوامی کاروبار اور ملازمت کے ویزے شامل ہیں (جن میں ثقافتی، سیاحتی فروغ اور تیکنیکی مہارت کی تربیت لینے والے اس زمرے میں نہیں آتے )کے لئے موجودہ مدت کم سے کم ایک سال اور زیادہ سے زیادہ تین سال ہے جسے نئے نظام کے تحت کم سے کم تین ماہ اور زیادہ سے زیادہ پانچ سال کر دیاجائے گا۔

غیر ملکی طلباء طالبات، جاپانی شہریوں اور غیر ملکی مستقل رہائشی ویزہ رکھنے والوں کے بیوی بچوں کے لیے:

غیر ملکی طلباء طالبات کے لئے پانچ قسم کی مدتیں ہیں (چھ ماہ، ایک سال، ایک سال تین ماہ، دو سال اور دوسال تین ماہ) جس میں کم سے کم مدت چھ ماہ ہے جبکہ زیادہ سے زیادہ مدت دو سال تین ماہ ہے، نئے نظام کے تحت مدت کی اس قسام میں مزید پانچ مدتوں کا اضافہ کیا جائے گا(تین ماہ، تین سال، تین سال تین ماہ، چار سال اور چار سال تین ماہ) جس میں کم سے کم مدت تین ماہ زیادہ سے زیادہ مدت چار سال تین ماہ کر دی جائے گی لہٰذا نئے نظام کے تحت غیر ملکی طلباء کے لئے دس قسم کی مدتیں ہوں گی۔ ویزے کی تیسری قسم کے زمرے میں آنے والے وہ لوگ ہیں جو جاپانی شہریوں اور غیر ملکی مستقل رہائشی ویزہ رکھنے والوں کے بچے، بیوی یا شوہر کی حیثیت رکھتے ہیں، ایسے لوگوں کے لئے موجودہ ویزے کی کم سے کم مدت ایک سال اور تین سال ہے جبکہ نئے نظام کے بعد ان کے ویزہ کی مدت کم سے کم چھ ماہ اور زیادہ سے زیادہ پانچ سال کر دی جائے گی۔

اس نئے نظام کے اطلاق کے بعد کسی بھی جاپانی شہری یا جاپان کے مستقل رہائشی کے حامل غیر ملکی کی بیوی یا شوہر خاص وجوہات کے بغیر اگر چھ ماہ سے زائد کا عرصہ ایک ساتھ رہتے ہوئے نہ پائے گئے تو ان کا ویزہ منسوخ کیا جا سکتا ہے، کسی خاص وجوہات میں گھریلو تشدد، روزگار کا چھوٹ جانا، کمپنی کا دیوالیہ نکل جانا یا اچانک بیمار ہونے کی صورت میں طویل عرصہ ہسپتال میں داخل ہو جانا شامل ہیں۔

٭٭٭

 

 

جاپان میں مستقل اقامت رکھنے والوں کے لئے نئے نظام میں کوئی پیچیدگی نہیں

(10 مارچ2012) گزشتہ دنوں اردو نیٹ جاپان پر امیگریشن سے متعلق ایک تفصیلی مضمون شائع کیا گیا تھا جس پر مجھے جاپان بھرسے سینکڑوں پاکستانی بھائیوں کے فون موصول ہوئے اور اس مضمون کی اشاعت پر تمام لوگوں نے خوشی کا اظہار کیا اور مجھ سے اظہارِ تشکر بھی اور ہر ایک نے اپنے موجودہ ویزہ سٹیٹس یا مستقل اقامت یعنی Permanent Residenceکے بارے میں بھی سوالات کئے۔ واضح رہے کہ نئے قوانین کا اطلاق9 جولائی 2012ء بروز پیر سے ہو گا اور اس سے پہلے تک موجودہ نظام برقرار رہے گا۔ ایک بار پھر وضاحت کر دوں کہ ابھی تک کسی کو بھی جاپان سے باہر جانے کے بعد واپس آنے کے لئے ری اینٹری کی ضرورت ہوتی تھی جو آئندہ بھی رہے گی مگر وہ لوگ جو ایک سال کے اندر اندر جاپان واپس آنے کا ارادہ رکھتے ہوں انھیں آئندہ ری اینٹری کے حصول کی ضرورت نہیں ہو گی البتہ کوئی غیر ملکی جو طویل عرصے تک جاپان سے باہر قیام کرنے کا ارادہ رکھتا ہو اسے حسبِ معمول ری اینٹری لے کر جاپان سے باہر جانا چاہئے، کوئی بھی غیر ملکی کتنا عرصہ باہر رہے گا اس کے بارے میں وہ خود ہی بہتر جانتا ہو گا، لہٰذا جو لوگ طویل عرصے تک جاپان آنے کا ارادہ نہیں رکھتے مگر اپنے ویزے یا مستقل اقامت کی وجہ سے جاپان واپس آ کر دوبارہ اپنی سرگرمیاں بحال کرنا چاہیں تو انھیں جانے سے پہلے ری اینٹری لے لینی چاہئے کیونکہ ری اینٹری جاپان سے باہر رہ کر حاصل نہیں کی جا سکتی۔ موجودہ نظام کے مطابق زیادہ سے زیادہ ری انٹری کی مدت تین سال ہے جولائی 2012ء سے ویزے کی مدت بھی تین سال سے بڑھا کر پانچ سال کی جا رہی ہے لہٰذا جس کے پاس جتنی مدت کا ویزہ ہو گا وہ اتنی ہی مدت کی ری اینٹری بھی حاصل کرنے کا مجاز ہو گا۔ نئے نافذ ہونے والے قوانین سے یہ افواہ بھی پھیلی ہوئی ہے کہ مستقل اقامت نامے  Permanent Residenceجاری کرنا بند کر دیئے جائیں گے تو اس سلسلے میں نئے قوانین میں ایسا کوئی ذکر نہیں کیا گیا لہٰذا وہ بھائی جن کے پاس تین سال کا ویزہ ہے اور وہ آئندہ Permanent Residence کے لئے درخواست دینا چاہتے ہیں تو ان کے لئے وہی قانون ہے جو ابھی تک چل رہا ہے۔ وہ غیر ملکی عورت یا مرد جو کسی جاپانی یا Permanent Residence رکھنے والے سے شادی کریں گے ان کے ویزے کی میعاد اس وقت کم از کم ایک سال اور زیادہ سے زیادہ تین سال ہے مگر جولائی سے اس میعاد کے علاوہ کم از کم مدت چھ ماہ اور زیادہ سے زیادہ مدت پانچ سال کر دی جائے گی اور یہ ضروری نہیں ہے کہ تمام لوگوں کو اسی قسم کے ویزے جاری کئے جائیں بلکہ نئے نظام کے تحت ویزے کی مدت کی قسمیں دو کی بجائے چار ہو جائیں گی یعنی چھ ماہ، ایک سال، تین سال اور پانچ سال اور جس کے پاس ویزے کی جتنی مدت ہو گی اسے ری اینٹری بھی زیادہ سے زیادہ اتنی ہی مدت کی جاری کی جائے گی۔ اور اس قسم کا ویزہ رکھنے والے غیر ملکی خواہ وہ عورت ہو یا مرد اسے اپنے شوہر، بیوی کے ساتھ چھ ماہ سے زائد کا عرصہ رہتے ہوئے نہ پایا گیا تو اس کا ویزہ منسوخ یا اس میں تبدیلی کے امکانات ہو سکتے ہیں، بشرطیکہ اس کے ساتھ کوئی خاص وجوہات پیش نہ آ جائیں، اپنے شوہر یا بیوی سے چھ ماہ سے زائد عرصہ الگ رہنے کی معقول وجوہات پیش کر کے اس قسم کی سزا سے بچا جا سکتا ہے۔

نئے نظام میں Permanent Residenceرکھنے والوں کے لئے کوئی پیچیدگی نہیں ہے بلکہ انھیں مزید آسانیاں میسر ہو جائیں گی۔ یاد رہے کہ ایک سال کے اندر واپس جاپان آنے والوں کے لئے ری اینٹری اجازت نامہ ضروری نہیں ہو گا جس کی وجہ سے لوگوں کا وقت اور ایک بار چار ہزار ین صرف کرنے کی بچت ہو گی۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہو گا کہ جس کے پاس چھ ماہ کا ویزہ ہو گا وہ ایک سال تک ری اینٹری سے مستثنیٰ ہو گا بلکہ اس کے لئے ری اینٹری اجازت نامہ بھی اتنی ہی مدت کا ہو گا۔

نئے قوانین میں وہ لوگ جو جاپان میں غیر قانونی طور پر مقیم ہیں یعنی Overstay ہیں وہ اب تک سٹی آفس سے ایلین کارڈ بنوا سکتے تھے مگر نئے نظام میں ایلین کارڈ کی جگہ رہائشی کارڈ جاری کئے جائیں گے اور وہ صرف انہی لوگوں کو جاری کئے جائیں گے جو قانونی طور پر جاپان میں مقیم ہوں گے۔ وہ لوگ جو غیر قانونی طور جاپان میں مقیم ہیں ان کے لئے جاپان امیگریشن نے اعلان کیا ہے کہ وہ رضا کارانہ طور پر پیش ہو جائیں تو انھیں گرفتار نہیں کیا جائے اور ان پر دوبارہ جاپان میں داخل ہونے کی پابندی تین سال ہو گی تاہم وہ غیر قانونی مقیم جو خود پیش نہ ہوں بلکہ ٹوکیو امیگریشن کے چھاپے یا کسی جرم میں ملوث ہونے کے بعد گرفتار ہوں گے انھیں ضروری کاروائی کے لئے زیرِ حراست رکھا جائے گا اور ان پر جاپان میں دوبارہ داخل ہونے پر پانچ سال کی پابندی ہو گی۔

٭٭٭

 

 

جاپان امیگریشن کے نئے قوانین سے متعلق متفرق سوالات و جوابات

(27جون 2012) وزارتِ انصاف کے تحت کام کرنے والا ادارہ جاپان امیگریشن جو غیر ملکیوں کی آبادکاری کے سلسلے میں قوانین تشکیل دیتا ہے اور جاپان میں غیر ملکیوں کی نقل و حرکت کی نگرانی کرنے کا ذمہ دار ہے۔ جاپان امیگریشن نے غیر ملکیوں سے متعلق موجودہ قوانین میں کچھ ترمیم کی ہے جس کا اطلاق سالِ رواں کی9 جولائی سے ہونے والا ہے۔ اس سلسلے میں اردو نیٹ جاپان پر گزشتہ ماہ نئے قوانین سے متعلق ایک تفصیلی مضمون لکھ چکا ہوں جسے جاپان بھر میں مقیم پاکستانیوں نے بہت سراہا اور میری ہمت افزائی بھی کی۔ تاہم ابھی بھی کئی پاکستانی بھائی ایسے ہیں جنھیں نئے قوانین سمجھنے میں کچھ دقت محسوس ہو رہی ہے اور ہر روز مجھے کئی پاکستانی بھائیوں کے فون بھی موصول ہوتے رہتے ہیں۔ کام کی مصروفیت کی وجہ سے تمام لوگوں سے تفصیلی گفتگو کرنا میرے لئے مشکل ہے۔ لہٰذا میں نے کوشش کی ہے کہ گزشتہ 2 ماہ میں جتنے پاکستانی بھائیوں نے فون پر نئے قوانین سے متعلق سوالات پوچھے ہیں ان کے ممکنہ جوابات تحریری صورت میں اردو نیٹ جاپان پر شائع کروں۔ یہ سلسلہ گزشتہ دنوں چار حصوں میں شائع کیا گیا تھا جسے آج مکمل طور پر ایک ہی مضمون کی صورت میں شائع کیا جا رہا ہے اور اسے دیکھنے کے لئے اردو نیٹ جاپان کی سائٹ کے بالکل فرنٹ پر میرے مضامین کو کلک کر کے پڑھا جا سکتا ہے۔

                   متفرق سوالات

سوال: اگلے ماہ ایک غیر ملکی خاتون ایک جاپانی مرد Aسے شادی کرتی ہے اور اس کا خاندانی نام Aہو جانے کی صورت میں نئے قوانین کے مطابق اس معلومات کی درخواست دینے کا طریقۂ کار کیا ہو گا؟

جواب: نئے قوانین کے مطابق اپنی شادی کی رجسٹریشن مقامی سٹی آفس میں کروانے کے 14روز کے اندر بمعہ اپنا رہائشی کارڈ ٹوکیو امیگریشن پیش ہو جائیں یا بذریعہ ڈاک درخواست بھیجی جائے۔ یاد رہے کہ اگر مذکورہ بالا 14روز کے اندر درخواست نہ دی گئی تو 2لاکھ ین جرمانہ عائد ہو سکتا ہے۔

سوال: میں ایک جاپانی یا مستقل اقامتی ویزہ ہولڈر غیر ملکی کی شریکِ حیات کا ویزہ رکھتی ہوں مگر گزشتہ ایک ماہ سے کچھ ناگزیر وجوہات کی بناء پر اپنے شوہر سے علیحدگی اختیار کر رکھی ہے، اس صورت میں میرے ویزہ پر کیا اثر پڑے گا؟ واضح رہے کہ مجھے طلاق نہیں ہوئی۔

جواب: پرانے قانون کے مطابق مذکورہ صورتِ حال میں ویزہ پر کوئی اثر نہیں پڑتا تھا۔ مگر نئے قانون کے مطابق کسی جاپانی یا مستقل اقامتی ویزہ ہولڈر غیر ملکی کے شریکِ حیات کا ویزہ کے حامل افراد اگر چھ ماہ سے زائد عرصہ تک علیحدگی اختیار کرتے ہیں تو اس صورت میں ان کا ویزہ منسوخ ہو جائے گا۔ تاہم وہ لوگ جن کے بچے جاپانی ہوں اور ان کا مقدمہ عدالت میں زیرِ سماعت ہو، گھریلو تشدد یا کوئی اور واضح وجوہات ہوں تو ان کا ویزہ منسوخ نہیں ہو گا۔ البتہ ویزہ کی منسوخی کی اطلاع محکمۂ امیگریشن سے بذریعہ ڈاک کی جائے گی۔ ویزہ منسوخ ہونے کی صورت میں ایک بار امیگریشن میں انٹرویو یا بات چیت سننے کے لئے موقع فراہم کیا جائے گا۔ امیگریشن کا افسر مطمئن ہونے پر منسوخ کئے ہوئے ویزہ کو دوسری قسم میں تبدیل کرنے کا موقع فراہم کر سکتا ہے۔

سوال: ایک غیر ملکی نے کسی جاپانی سے شادی کی ہوئی تھی اور اس کے پاس جاپانی شریکِ حیات(Spouse Visa or Nihonjin no haigusha) کا ویزہ تھا مگر گزشتہ روز دونوں میں طلاق واقع ہو چکی ہے، اس صورت میں نئے قوانین کے مطابق اس کی اطلاع امیگریشن کو دینا لازمی ہو گی؟ نیز درخواست دینے کا طریقۂ کار کیا ہو گا؟

جواب: نئے قوانین کے مطابق طلاق کے کاغذات سٹی آفس میں جمع کروانے کے 14روز کے اندر بمعہ اپنا رہائشی کارڈ ٹوکیو امیگریشن پیش ہو جائیں یا بذریعہ ڈاک درخواست بھیجی جائے۔ یاد رہے کہ اگر مذکورہ بالا 14روز کے اندر درخواست نہ دی گئی تو 2لاکھ ین جرمانہ عائد ہو سکتا ہے۔

سوال: میرے پاس جاپان میں کام کرنے کا ویزہ ہے اور اس ویزے کی مزید ایک سال کی مدت باقی ہے مگر میں جہاں کام کرتا تھا وہ کمپنی دو ماہ قبل دیوالیہ ہو گئی۔ اس وقت میں بے روزگار ہوں اور کام کی تلاش میں ہوں۔ کیا اس صورت میں میرے working visaپر کوئی اثر پڑے گا؟

جواب: پرانے قانون کے مطابق مذکورہ صورتِ حال میں ویزہ پر کوئی اثر نہیں پڑتا تھا۔ مگر نئے قانون کے مطابق working visa ہونے کے باوجود تین ماہ سے زائد کام نہ کرنے کی صورت میں ویزہ منسوخ ہونے کا خدشہ ہے۔ مگر اس صورت میں جہاں آپ ملازم ہیں اس کا دیوالیہ نکل جاتا ہے اور وہ کمپنی ٹھپ ہو جاتی ہے اور آپ کام کرنے کے قابل نہیں رہتے مگر ایسی صورت میں سنجیدگی سے نئے کام کی تلاش کرنے کی کوشش اور کام نہ ملنے کی واضح وجوہات ہوں تو آپ کا ویزہ منسوخ نہیں کیا جائے گا۔

سوال: میں ایک غیر ملکی طالب علم ہوں اور یونیورسٹی میں زیرِ تعلیم ہوں، میرا ویزے کی میعاد ابھی ایک سال باقی ہے مگر بیمار ہونے کی وجہ سے میں چھ ماہ یونیورسٹی نہ جا سکا۔ اس طویل چھٹیوں کے سبب میرے ویزے پر کیا اثر پڑے گا؟

جواب: پرانے قوانین کے مطابق آپ کے ویزے پر کوئی اثر نہ پڑتا تھا مگر نئے قوانین کے اطلاق کے بعد ملازمت کی ویزے کی طرح یہ بھی منسوخی کے زمرے میں آتا ہے، چونکہ بیماری کی وجہ سے یونیورسٹی کی چھٹیاں ہوئیں لہٰذا بیماری صحیح ہو جانے کے بعد تعلیمی سلسلہ جاری رکھنے کا مصمم ارادہ ہونے کی صورت میں اور مناسب وجوہات پیش کرنے پر آپ کے ویزے میں توسیع کی جا سکتی ہے۔

سوال: میرے پاس جاپان میں کام کرنے کا ویزہ ہے اور ایک کمپنی میں ملازم ہوں، اگلے ماہ سے مزید پُر کشش تنخواہ ملنے والی کمپنی میں جانے کا فیصلہ کر چکا ہوں، ملازمت تبدیل کرنے کی صورت میں کیا مجھے امیگریشن اطلاع کرنا ضروری ہے؟

جواب: نئے قانون کے مطابقworking visa رکھنے والوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنی ملازمت کی تبدیلی کی صورت میں کمپنی تبدیل کرنے کے 14 روز یعنی دو ہفتوں کے اندر اندر ٹوکیو امیگریشن اپنے رہائشی کارڈ کے ساتھ پیش ہو جائیں یا ٹوکیو امیگریشن کو بذریعہ ڈاک اس کی اطلاع کریں، اگر آپ بروقت اطلاع کرنے میں ناکام رہے تو یاد رکھیں کہ دو لاکھ ین تک کا جرمانہ عائد ہو سکتا ہے۔

نوٹ : ان غیر ملکیوں کے لئے جن کے شریکِ حیات جاپانی یا مستقل رہائشی ویزہ کے حامل افراد ہوں انھیں آزادی ہے کہ وہ جب چاہیں اور جہاں چاہیں ملازمت کریں اور انھیں اس تبدیلی کی اطلاع ٹوکیو امیگریشن کو دینا ضروری نہیں ہے۔

سوال: میں جاپان میں مستقل مقیم ہوں اور میرے پاس ایجوکین (مستقل ویزہ ) ہے نئے قوانین کے مطابق مجھے نیا رہائشی کارڈ مل چکا ہے۔ تاہم اگلے ماہ یعنی اگست سے چھ ماہ کے لئے میں اپنے آبائی ملک جانے کا پروگرام ہے، کیا جانے سے قبل مجھے Re-Entry Permit جاپان میں دوبارہ داخل ہونے کا اجازت نامہ لینا ضروری ہے؟

جواب: پرانے قوانین کے مطابق جاپان سے باہر جاتے وقت کسی بھی غیر ملکی کو خواہ اس کے پاس ایجوکین (مستقل ویزہ ) ہی کیوں نہ ہو اسےRe-Entry Permit جاپان میں دوبارہ داخل ہونے کا اجازت نامہ لینا ضروری تھا، مگر نئے قوانین کے مطابق جو9 جولائی 2012ء سے نافذ ہوں گے، اگر آپ جاپان سے آؤٹ ہونے کے ایک سال کے دوران واپس جاپان آنے کا ارادہ رکھتے ہیں تو اس صورت میں جاپان سے آؤٹ ہوتے وقت اپنا رہائشی کارڈ دکھائیں اور اس پر ایک سال کے اندر اپنے واپس آنے کے ارادے کا اظہار کر دیں تو دوبارہ جاپان واپس آسکیں گے اور آپ کو جاپان سے آؤٹ ہونے سے پہلے Re-Entry Permitجاپان میں دوبارہ داخل ہونے کا اجازت نامہ لینا ضروری نہیں ہو گا۔ لیکن یاد رکھیں کہ اگر آپ ایک سال سے زائد عرصہ جاپان سے باہر گزارنے کے خواہش مند ہیں تو آپRe-Entry Permit لے کر جائیں اور پھر بلا خوف پانچ سال تک واپس نہ آئیں آپ کےمستقل ویزہ پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، تاہم پانچ سال سے ایک دن قبل جاپان آنا ضروری ہو گا۔

سوال: میرے پاس جاپانی شریکِ حیات کا ویزہ ہے اور اس وقت کوشی گایا شہر میں مقیم ہوں لیکن اگلے ماہ یعنی نئے قوانین کے اطلاق کے بعد میں سوکا شہر میں منتقل ہونے کا ارادہ رکھتا ہوں یا رکھتی ہوں، اس صورت میں مجھے کیا کرنا ہو گا؟

جواب: ابھی تک تو یہ ہوتا تھا کہ اپنے موجودہ شہر کے دفتر سے غیر ملکی رجسٹریشن سرٹیفیکیٹ لے کر نئے شہر کے دفتر میں اسے پیش کر دیتے تھے اور اس طرح آپ کی نئی رجسٹریشن ہو جایا کرتی تھی مگر نئے قانون کے مطابق کوشی گایا شہر چھوڑنے کا سرٹیفیکیٹ آپ کو سٹی آفس سے حاصل کرنا ہو گا، اور جس دن آپ سوکا شہر میں منتقل ہوں گے اس دن سے دو ہفتے یعنی 14روز کے اندر سوکا سٹی آفس میں کوشی گایاسٹی آفس سے جاری کردہ منتقلی کا سرٹیفیکیٹ پیش کرنا ہو گا اور اس وقت آپ کو اپنا رہائشی کارڈ جو امیگریشن سے جاری کیا جائے گا وہ بھی پیش کرنا ہو گا۔ اس وقت آپ کے رہائشی کارڈ کی دوسری جانب نیا پتا درج کیا جائے گا اور نیاپتا IC Chipمیں بھی ریکارڈ کیا جائے گا جس سے یہ ظاہر ہو گا کہ آپ نے اب تک کتنے شہر تبدیل کئے تمام ریکارڈ اس میں جمع ہوتا رہے گا اور ٹوکیو امیگریشن آپ کی تازہ ترین صورتِ حال سے آگاہ ہوتی رہے گی۔ ایک شہر سے دوسرے شہر منتقلی کی اطلاع نہ دینے پر دو لاکھ ین کا جرمانہ عائد ہوسکتا ہے اور ایک شہر سے دوسرے شہر منتقلی کی اطلاع تین ماہ یعنی 90 روز گزرنے کے باوجود نہ دینے کی صورت میں آپ کا ویزہ منسوخ ہونے کے امکانات ہیں۔ تاہم تین ماہ گزرنے کے بعد بھی غیر معمولی اور ٹھوس وجوہات مثلاً گھریلو تشدد یا مہلک بیماری جیسی وجوہات کی بناء پر آپ کا ویزہ منسوخ نہیں کیا جا سکے گا۔

سوال: میں جاپان میں تین ماہ کے خصوصی ویزے پر مقیم تھا، ویزے کی تجدید کے لئے درخواست دی تو نئے سرے سے چھ ماہ کا ویزہ جاری کر دیا گیا۔ اس صورت میں مجھے کیا کرنا ہو گا؟

جواب: تین ماہ کا ویزہ مزید چھ ماہ تک توسیع کر دیا گیا ہے، لہٰذا اب آپ کو نئے سرے سے درمیانے اور طویل مدتی ویزہ کی سہولت مل چکی ہے، تین ماہ کے ویزہ پر رہائشی کارڈ جاری نہیں کیا جائے گا، لیکن آپ کو چھ ماہ کی توسیع کر دی گئی ہے لہٰذا آپ کو رہائشی کارڈ بھی جاری کیا جائے گا۔ اس صورت میں فوری طور پر جس دن آپ کو چھ ماہ کا ویزہ ملا ہے اس روز سے چودہ دن کے اندر اپنے سٹی آفس میں رہائشی کارڈ دکھا کر درخواست دینا لازم ہو چکی ہے۔ واضح رہے کہ چھ ماہ کا ویزہ ملنے کے 90 دن بعد تک بھی سٹی آفس میں درخواست نہ دینے کی صورت میں آپ کا ویزہ منسوخ بھی ہو سکتا ہے تاہم ٹھوس وجوہات کی بناء پر نظرِ ثانی کے امکانات ہیں۔

سوال: ابھی تک غیر ملکی رجسٹریشن کا سرٹیفیکیٹGAIKOKUJIN TOUROKU SHOUMEISHO  سٹی آفس سے جاری کیا جاتا تھا، نئے قوانین کے تحت بھی یہیں سے جاری کیا جائے گا؟

جواب: ابھی تک یہ سرٹیفیکیٹ سٹی آفس سے حکومتِ جاپان کی ایما پر جاری کیا جاتا تھا مگر نئے قوانین کے اطلاق کے بعد یہ سرٹیفیکیٹ جاری نہیں کیا جائے گا۔ بلکہ اس کے عوض رہائشی سرٹیفکیٹ جسے جاپانی زبان میں JUMIN HYOUکہتے ہیں اس کی تصدیق شدہ کاپی جاری کی جائے گی جس میں کئی چیزوں کا اندراج نہیں ہو گا، مثلاً جاپان میں اب تک رہائش کا مکمل ریکارڈ، نام یا ملک کی تبدیلی یا جاپان آمد کی تاریخ کا ریکارڈ وغیرہ، ان تمام چیزوں کے ریکارڈ کے حصول کے لئے وزارتِ انصاف سے رجوع کرنا ہو گا۔

٭٭٭

 

 

دیارِ غیر میں پاکستانیوں کو درپیش کمپیوٹرائزڈ پاکستانی پاسپورٹ کے مسائل اور ان کا آسان حل

(13جنوری 2013ء) گزشتہ کئی سالوں سے نہ صر ف جاپان بلکہ دنیا کے کئی ممالک میں مقیم پاکستانیوں کو کمپیوٹرائزڈ پاسپورٹ کے حصول کے مسائل کا سامنا ہے، دیارِ غیر میں مقیم تمام پاکستانی جو اپنے خون پسینے کی کمائی سے زرِ مبادلہ وطنِ عزیز کو بھیجتے ہیں اس کے صلے میں اگر ان کے پاسپورٹ کمپیوٹرائزڈ کرنے کے لئے ریڈایبل پاسپورٹ مشینیں مختلف ممالک میں قائم سفارتخانوں میں نصب کر دی جائیں تو سودا مہنگا نہیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ملکی مفادات کے لئے یہ سودے بازی کون کرے؟ اور کیوں کرے؟ ہمارے سفارتخانوں میں متعین اعلیٰ افسران جنھیں صرف اور صرف اپنے ذاتی مفاد ات کی فکر ہوتی ہے اور ان کے نزدیک دیارِ غیر میں مقیم پاکستانیوں کے مسائل حل کرنے کی بجائے اپنے روشن مستقبل کی فکر ہوتی ہے اور ان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنی معینہ مدت کامیابی کے ساتھ پوری کریں اور ترقی پا کر دوسرے ملک میں خدمات انجام دیں۔ وہ اپنے موجودہ سفارتخانوں کو سرائے سمجھتے ہیں جہاں انھیں صرف تین یا چار سال گزارنے ہوتے ہیں اس لئے ان کے نزدیک کمیونٹی کے مسائل حل کرنے میں کوئی کشش نہیں ہوتی۔ تاہم کئی سفارتخانوں میں ایسے افسران بھی ہیں جو اس قلیل مدت میں اپنے فرائض نہایت ہی ایمانداری کے ساتھ انجام دیتے ہیں اور اپنے تئیں جو بھی کچھ ہوسکتا ہے وہ کوشش ضرور کرتے ہیں۔ جاپان میں مقیم پاکستانی کمیونٹی کی اکثریت گاڑیوں کے کاروبار سے وابستہ ہے اور انھیں اپنے کاروبار کے سلسلے میں سال میں کئی کئی بار جاپان سے باہر دوسرے ممالک کا سفر بھی کرنا ہوتا ہے۔ اس وقت دنیا کا شاید ہی کوئی ایسا ملک ہو گا جس کے شہری کے پاس کمپیوٹرائزڈ پاسپورٹ نہ ہو، مگر ہمارے پاکستانی بھائیوں کی تعداد لاکھوں میں ہو گی جو جاپان سمیت دیگر ممالک میں مستقل رہائش پذیر ہیں مگر ان کے پاس ابھی تک کمپیوٹرائزڈ پاسپورٹ نہیں ہیں اور وہ اس کے بغیر کئی ممالک کا ویزہ حاصل نہیں کرسکتے کیونکہ کمپیوٹرائزڈپاسپورٹ کے بغیر یہ ممالک انھیں ویزہ جاری نہیں کرتے۔ جاپان میں مقیم دس ہزار کے قریب پاکستانیوں کی تعداد مقیم ہے جس میں نصف سے زائد لوگ ایسے ہیں جنھیں یہ سہولت میسر نہیں ہے، کمیونٹی کے کئی نمائندوں نے سفارتخانۂ پاکستان ٹوکیو اور پاکستان میں متعلقہ وزارت و اداروں سے اس مسئلے کے حل کے لئے مذاکرات بھی کئے اور تحریری درخواستیں بھی دیں مگر کئی سال گزرنے کے باوجود جاپان میں سفارتخانۂ پاکستان میں ریڈ ایبل پاسپورٹ مشین نصب نہیں ہو سکی جس کی وجہ سے کئی کاروباری لوگ پریشان نظر آتے ہیں۔ سفارتخانۂ پاکستان کی طرف سے اکثر یہ جواب ملتا ہے کہ یہ مسئلہ نادرا NADRAوالوں کا ہے اور جب وہ ہمیں مشین اور عملہ بھیجیں گے تو ہم یہ سروس شروع کر دیں گے، ساتھ ہی یہ جواب بھی ملا ہے کہ جاپان میں پاکستانیوں کی تعداد کم ہونے کی وجہ سے یہ مہنگی سہولت مہیا نہیں کی جا سکتی۔ دوسری طرف جاپان سے قریب ترین ملک ملائشیاء جہاں جاپان سے کئی گنا زیادہ پاکستانی آباد ہیں وہاں پر مشینیں نصب کی گئی ہیں مگر عملہ نہ ہونے کی وجہ سے وہاں بھی یہ سہولت نہیں دی جا رہی ہے اور مشین کو زنگ لگ رہا ہے۔

اطلاعات کے مطابق حکومتِ پاکستان نے حال ہی میں پاسپورٹ کی میعاد پانچ سال سے بڑھا کر دس سال کر دی ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ وہ ممالک جہاں پاکستانیوں کی تعداد کم ہے اور اتنی مہنگی مشینیں اور عملہ فراہم نہیں کیا جا سکتا تو ایسے تمام ممالک کی ایک فہرست تیار کی جائے اور متعلقہ وزارت ایک ایسے متحرک یا گشتی عملے (MOVING STAFF) پر مبنی ٹیم تشکیل دے جو ہر ملک میں اس مشین کے ساتھ دورہ کرے، وہاں دو ماہ سے تین ماہ تک قیام کرے اور وہاں قائم سفارتخانۂ پاکستان تمام پاکستانیوں کو مطلع کر دے کہ جو کمپیوٹرائزڈپاسپورٹ کے خواہاں ہیں وہ اس مخصوص دورانیہ میں تشریف لائیں اور اپنے پاسپورٹ تجدید کروائیں، اگر کسی کا پاسپورٹ اس دورانیہ میں قابلِ تجدید نہیں بھی ہے یعنی اس کے ختم ہونے میں اگر ایک سال یا چند ماہ باقی بھی ہیں تو وہ قبل از وقت اپنا پاسپورٹ تجدید کرواس کتے ہیں اور یہ شرط صرف انہی لوگوں کے لئے رکھی جائے جن کے پاس کمپیوٹرائزڈ پاسپورٹ نہیں ہیں، اگر اس طریقۂ کار کے مطابق تین ماہ کے دوران پانچ ہزار افراد کے کمپیوٹرائزڈ پاسپورٹ جاری کر دئے جائیں تو اگلے دس سال تک جاپان میں ریڈایبل پاسپورٹ مشین اور اس کے عملے کی ضرورت باقی نہیں رہے گی، کیونکہ بعد میں پاکستان سے آنے والے لوگوں کے پاس پہلے سے ہی کمپیوٹرائزڈ پاسپورٹ ہوں گے اور جو لوگ پاکستان سے یہ پاسپورٹ جاری کروا چکے ہیں وہ جب بھی پاکستان جائیں تو اس کی تجدید چند دنوں میں کروا سکتے ہیں۔ اس طرح متحرک عملہ ایک ملک سے دوسرے ملک جا کر یہ خدمات انجام دے سکتا ہے اور اس طرح کسی بھی عملے اور مشین کو مستقل کسی ملک میں رہنے کی ضرورت نہیں ہو گی۔ جب تک حکومتِ پاکستان یہ مستقل سہولت مہیا نہیں کرتی یہ طریقہ ٔکار گر ثابت ہو سکتا ہے۔ جبکہ جاپان میں قائم سفارتخانۂ پاکستان کی نئی عمارت میں اس عملے کی رہائش کا مسئلہ بھی نہیں ہو گا کیونکہ سفیرِ پاکستان سمیت تمام عملہ سفارتخانۂ پاکستان کی بالائی منزلوں میں رہائش پذیر ہے اور یقیناً دو افراد پر مشتمل عملے کے لئے بھی گنجائش نکل سکتی ہے، جہاں تک عملے کا مسئلہ ہے نادرا جیسے اداروں میں سینکڑوں افسران دن بھر کام نہ ہونے کی وجہ سے مکھیاں مارتے نظر آتے ہیں انھیں جاپان یا دیگر ممالک بھیج کر کھوٹے سکوں کو بھی چلایا جا سکتا ہے۔ مشین کی تنصیب پر جو اخراجات آئیں گے وہ پاسپورٹ جاری کر کے فیس کی مد میں پورے کئے جا سکتے ہیں۔ آم کے آم گٹھلیوں کے دام۔ ۔ ۔

٭٭٭

 

 

جاپان میں بچوں کے غیر ملکی و جاپانی والدین دونوں ہی یکطرفہ قانون حوالگی سے دل برداشتہ ہیں

(15 جنوری 2012ء)جاپان میں عموماً دیکھنے میں آتا ہے کہ کسی غیر ملکی باپ کو اس کی جاپانی بیوی سے علیحدگی کی صورت میں عدالت بچوں کی حوالگی کے حقوق جاپانی ماں کو دے دیتی ہے اور باپ کو اپنے بچوں سے ملنے تک کی اجازت نہیں ہوتی حتیٰ کہ طلاق کے بعد ان کا جاپان میں مستقل رہنا بھی دشوار ہو جاتا ہے، اس قسم کے ہزاروں واقعات جاپان میں آئے دن رونما ہوتے رہتے ہیں اور غیر ملکی باپ عدالتوں کے چکر کاٹتے رہتے ہیں بالآخر انھیں یکطرفہ فیصلہ سنا کر بچوں سے جدا کر دیا جاتا ہے اور وہ ہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں جبکہ جاپانی بیوی اپنے بچوں کو لے کر اپنے میکے چلی جاتی ہے۔ اس قسم کے واقعات کا شکار غیر ملکی والدین ہی نہیں بلکہ جاپانی والدین بھی ہوتے رہتے ہیں جس کی تازہ ترین مثال یہ ہے کہ گزشتہ دنوں جاپان کے قومی اخبار میں انہی حالات کے شکار چند والدین کے واقعات کا ذکر کیا گیا ہے۔

’’میں اپنے بچوں کو کسی مادی شئے کی طرح سلوک کرنے پر عدالت کو کبھی معاف نہیں کروں گا،، یہ الفاظ ایک اس چالیس سالہ باپ کے تھے جسے عدالت نے اس کے بچے اچانک اس کی بیوی کے حوالے کر دینے کا حکم سنا دیا تھا۔ اگرچہ بچے باپ کے ساتھ رہنا چاہتے تھے لیکن عدالتی حکم نافذ کرنے والے عملے نے انہیں دور کر دیا۔ باپ نے کچھ مزاحمت بھی کی لیکن اس کے پاس بچوں کو چھوڑ دینے کے سوا کوئی اور راستہ نہ تھا‘‘۔

سپریم کورٹ نے اپنے ایک سروے میں پہلی مرتبہ اس بات کا انکشاف کیا ہے کہ طلاق یا طلاق یافتہ والدین سے متعلق حوالگی کے کیسز میں قانونی طاقت کا استعمال جسے  ’’براہ راست نافذالعملی‘‘ کہا جاتا ہے ہر تین دن میں ایک مرتبہ وقوع پذیر ہوتا ہے۔ یہ عمل متعلقہ بچوں اور والدین دونوں کے لئے جذباتی طور پر داغدار ہوتا ہے۔

2009ء میں جب اس جوڑے کے درمیان طلاق ہوئی تو عدالت کے ذریعہ مرد کو حکم دیا گیا کہ وہ اپنی پانچ سالہ بیٹی اور پرائمری اسکول کی عمر کا بیٹا اپنی بیوی کے حوالے کر دے۔ طلاق سے ایک سال قبل شوہر نے اپنا مشترکہ گھر چھوڑ دیا تھا اور اپنی بیوی کی مرضی کے خلاف اپنے بچے بھی اپنے ساتھ لے گیا تھا۔ عدالت نے اس معاملہ کو ’’اغوا‘‘ کا کیس قرار دیا تھا۔ عدالت کے حکم کی تعمیل میں مرد نے بچے ماں کے حوالے کر دئیے تھے۔ لیکن اگلی رات ہی بچے اس کے پاس واپس آ گئے۔ بیٹے نے اسے کہا کہ وہ اس کے پاس ہی رہنا چاہتا ہے جس پر اس شخص نے عدالت کو اس حکم کو معطل کر دینے کی درخواست کی۔ دو ہفتے بعد اسے بتایا گیا کہ اگر وہ ایک ملین ین یعنی دس لاکھ ین عدالت کو جمع کرا دے تو عدالتی حکم کو معطل کر دیا جائے گا۔

رقم کی ادائیگی سے قبل جب وہ اپنی بیٹی کو لینے پرائمری اسکول گیا تو تین عدالتی آفیسر ان کا انتظار کر رہے تھے۔ انہیں حوالگی کے عمل میں حکم کی تعمیل کے لئے بھیجا گیا تھا۔ جب مرد نے کہا کہ عدالت کی طرف سے معطلی کے حکم کا تحریری ثبوت ملنے تک انتظار کیا جائے تو عدالتی افسران نے اس کی التجا کو نظر انداز کر دیا۔ جب اس نے بیٹی کو اپنے ساتھ لے جانے کی غرض سے پکڑا تو عدالتی افسران نے اسے روک دیا۔ اسی وقت عدالتی آفیسراس کے بیٹے کو اسی انداز سے اس کے پرائمری اسکول سے لے گئے اور بچوں کو کار کے ذریعہ مشرقی جاپان کے علاقہ میں موجود ننھیال (ماں کے والدین کے گھر )جبراً بھیج دیا گیا۔ اس واقعہ کو جب بھی بچوں کا باپ اپنے ذہن میں لاتا ہے غم و غصہ سے اس کا برا حال ہو جاتا ہے۔ کیونکہ اس کے بچے اسے چھوڑ کر نہیں جانا چاہتے تھے۔

اسی نوعیت کے دوسرے کیس کی تفصیل کچھ اس طرح ہے کہ کھانتو کے علاقہ میں رہنے والی ایک عورت کو اس کے سابقہ سسر نے کہا کہ وہ اپنی چھ سالہ اور چار سالہ پوتیوں سے ملنا چاہتا ہے اور اس کے لئے اس نے بچوں کے خصوصی تہوار shichigosan(جب بچے تین، پانچ یا سات سال کے ہوتے ہیں تویہ تہوار منایا جاتا ہے )کے موقع پر ایک دعوت کا اہتمام کر رکھا ہے۔ اگرچہ بچوں کے والدین کے مابین طلاق کا معاملہ عدالت میں چل رہا تھا پھر بھی ماں نے اپنے بچوں کو ان کے دادا دادی سے ملنے کی اجازت دے دی۔ لیکن دراصل یہ دعوت بچوں کو ان کی ماں سے دور لے جانے کا ایک بہانہ تھی اور انہیں ان کے دادا دادی کے گھر کھانسائی کے علاقے میں لے جایا گیا۔ جس پر عورت نے بچوں کی واپسی کے لئے عدالتی حکم نافذ کرنے کے لیے وکیل سے رابطہ کیا۔ عدالت سے حکم حاصل کرنے کے بعد وہ کھانسائی کے ایک پارک میں گئی جہاں اس کے سابقہ ساس سسر نے وعدہ کیا کہ وہ اس کی بیٹیوں کو عدالتی آفیسر کے ساتھ بھیج دیں گے۔ عورت اپنی بڑی بیٹی کو گلے لگانا چاہتی تھی جو پارک میں کھیل رہی تھی۔ جوں ہی ماں نے اپنی بچی کو گلے لگانے کے لئے اپنی بانہیں کھولیں تو اس کی سابقہ ساس چلانے لگی اور اس کی بیٹیاں اپنے دادا دادی کے پاس واپس چلی گئیں اور وہ انہیں اپنے ساتھ لے گئے۔ عورت کے وکیل نے مشورہ دیا کہ ایسی صورت میں اسے ’’براہ راست نافذالعملی‘‘ کے طریقہ کار کی ضرورت ہے تاکہ بچوں کو والدین میں سے کوئی بھی دھوکہ دہی سے اپنے ساتھ نہ لے جا سکے۔

عدالت کی نظر میں بچوں کو زبردستی ماں کے حوالے کرنے کے قانون کی اہمیت اپنی جگہ لیکن ٹوکیو ڈسٹرکٹ کورٹ کے ایک سابقہ انفورسمنٹ آفیسر کا خیال ہے کہ اس نوعیت کے عدالتی فیصلوں سے بچوں کے جذبات مجروح ہوتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے اس قسم کے دس کیسز کو نمٹایا ہے اور وہ ایک ایسے واقعہ کے بھی چشم دید گواہ ہیں کہ عدالت کے حکم پر پانچ سالہ بچی کو باپ سے چھین کر ماں کے حوالے زبردستی کر دیا گیا اور ماں اپنی پانچ سالہ بیٹی کو لے کر ٹیکسی میں بیٹھی تو بچی کے باپ نے ٹیکسی کی راہ میں لیٹ کر ٹیکسی کو روکنے کی کوشش کی اور پولیس نے اسے وہاں سے زبردستی ہٹایا۔

ایک دوسرے کیس میں جب ایک سات سالہ بچے کو جو کہ اپنے دادا دادی کے ساتھ رہ رہا تھا اس کی ماں کے حوالے کیا گیا تو اس کی دادی نے چلاتے ہوئے کہا کہ اغوا کرنے والے آ گئے ہیں اور یہ کہتے ہوئے اپنے آپ کو بچے کے ساتھ ایک عمارت میں بند کر لیا جہاں سے زبردستی بچے کو نکال کر ماں کے حوالے کیا گیا۔ سابقہ انفورسمنٹ آفیسر نے کہا کہ ان کے خیال میں بچوں کے ساتھ عدالت میں ایک عذر کے طور پر سلوک کرنا غیر ضروری ہے ان کا خیال ہے کہ براہ راست نافذالعملی کے کیسز میں فریقین کے مابین پہلے سے ہی معاہد ہ ہو جانا چاہئے تاکہ بچوں کے جذبات مجروح نہ ہوں۔

٭٭٭

 

 

دنیا کے ہر ملک کا شخص جاپان کا داماد ہے

 (31اکتوبر 2012ء)جاپان شاید وہ واحد ملک ہے جس کی خواتین نے دنیا بھر کے ممالک کے ہر فرد سے شادی کی ہوئی ہے یعنی دنیا کے ہر ملک کا شخص جاپان کا داماد ہے۔ جاپانی خواتین کا غیر ملکی مردوں سے شادی رچانے کا شوق کوئی زیادہ پرانا نہیں ہے۔ جاپان کی معیشت آج سے بیس سال قبل جب عروج پر تھی تو جاپانی قوم میں غیر ممالک کی سیر و تفریح کے رجحان میں اضافہ ہوا۔ جاپانی مرد و خواتین جاپان کی بڑھتی ہوئی مقبولیت اور ترقی کرتی ہوئی معیشت سے بھر پور مستفید ہوتے رہے۔ غیر ممالک کی سیاحت کرنے والوں میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا اور اسی طرح جاپان میں روزگار اور کاروبار کے بڑھتے ہوئے رجحان کو دیکھتے ہوئے دنیا بھر سے غیر ملکیوں نے بھی جاپان آنا شروع کیا جن میں محنت مزدوری کرنے کے لئے ایشیائی ممالک کے باشندوں کی تعداد بہت زیادہ تھی۔ جاپان میں کسی غیر ملکی کو کسی کمپنی میں ملازمت کرنے کی اجازت نہیں تھی لیکن اندرونِ خانہ جاپانی کمپنیاں اور چھوٹی بڑی فیکٹریوں کے مالکان ایشیائی لوگوں کو ملازمت دینے میں دلچسپی رکھتے تھے تاہم پولیس یا امیگریشن کی نظر پڑنے پر انھیں گرفتار کر کے زبردستی ان کے ممالک بھیج دیا جاتا تھا اور بعض اوقات پولیس یا امیگریشن کے حکام جانتے بوجھتے ہوئے انھیں اس لئے گرفتار نہیں کرتے تھے کہ ان غیر ملکی مزدوروں کی وجہ سے جاپانی معیشت اور بھی مستحکم ہو رہی تھی۔ ان تمام پابندیوں سے بچنے اور جاپان میں مستقل اقامت اختیار کرنے کے لئے صرف ایک ہی راستہ تھا کہ جاپانی خواتین سے شادی کر لی جائے اور اپنی اقامت کی حیثیت تبدیل کر لی جائے جس کی وجہ سے جاپان میں قانونی طور اپنی صلاحیت کے مطابق ملازمت بھی کی جا سکتی تھی اور کاروبار بھی کیا جا سکتا تھا، لہٰذا کہا جا سکتا ہے کہ جاپانی خواتین سے غیر ملکی حضرات کی اکثریت نے جاپان میں مستقل اقامت رکھنے کے لئے شادیاں کیں۔ تاہم ایسے بھی سینکڑوں افراد ہیں جنھوں نے بغیر کسی مقصد کے صرف اور صرف محبت اور فطری انداز میں شادیاں بھی کر رکھی ہیں۔ جب کوئی کام کسی مقصد کے حصول یا عارضی مطلب نکالنے کے لئے کیا جائے تو اس کے نتائج بھی منفی ہوتے ہیں۔ اس قسم کی شادیوں کے کئی برس گزر جانے کے بعد فطری طور اس قسم کی شادیوں کی ناکامی کا آغاز ہوا جس کے نتیجے میں ان کے درمیان پیدا ہونے والے بچوں پر برا اثر پڑا اور وہ بیچارے والدین کے ہوتے ہوئے بھی یتیموں کی سی زندگی بسر کرنے لگے۔ ایسی شادیوں میں طلاقیں بھی ہوتی رہیں اور جاپانی خواتین اپنا حق جتاتے ہوئے غیر ملکیوں سے بچے اپنی تحویل میں لے کر انھیں انہی کے ملک واپس بھیجنے کے اقدامات کرتی رہیں اور اس سلسلے میں جاپانی قوانین بھی جاپانی عورت کے حق میں ہوتے تھے۔ جب اس قسم کے واقعات میں اضافہ ہونے لگا تو دیگر ممالک کی طرف سے حکومتِ جاپان پر دباؤ ڈالا گیا کہ وہ بین الاقوامی ہیگ معاہدے پر دستخط کرے تاکہ بین الاقوامی شادیوں میں طلاق کے نتیجے میں بچوں کی تحویل و نگہداشت کی ذمہ داری منصفانہ طریقے پر عدالت کے ذریعے عمل میں آئے۔ سالِ رواں میں جاپان نے آخر کار اس معاہدے پر دستخط کرنے کی رضامندی ظاہر کر دی۔ تاہم ابھی بھی کئی ممالک کے مر د حضرات کی طرف سے شکایات موصول ہو رہی ہیں کہ ان کی جاپانی زوجہ طلاق کے بعد ان کی اجازت کے بغیر بچوں کو جاپان لے گئیں۔ اس قسم کے واقعات میں پاکستانی، بنگلہ دیشی، انڈونیشیائی، افریقہ کے ممالک سمیت امریکہ کے مر د حضرات بھی شکار ہوئے ہیں۔ جو لوگ جاپان میں مقیم ہیں انھیں جاپانی بیوی سے طلاق ملنے پر اپنے بچوں کے حقوق سے بھی محروم کر دیا گیا اور انھیں جاپان میں مزید رہنے کی اجازت بھی ختم کر دی گئی مگر جاپانی قوانین صرف اور صرف جاپانی خواتین کے حق میں فیصلہ دیتے رہے ہیں جس کی وجہ سے سینکڑوں لوگ ایسے ہیں جو اپنے بچوں سے جدا ہو کر اپنے ممالک جا چکے ہیں۔ گزشتہ دنوں اسی طرح کا ایک واقعہ امریکہ کے شہر نکاراگوا کے39 سالہ ایک شہری کے ساتھ پیش آیا جس نے2002ء میں ایک43جاپانی خاتون سے شادی کی تھی اور ان کے درمیان ایک بچی پیدا ہوئی جس کی عمر اس وقت نو سال ہے۔ 2008 ء میں دونوں کے درمیان طلاق کا معاملہ امریکی عدالت میں پیش کیا گیا لیکن عدالتی سماعت کے بغیر ہی وہ اپنی نو سالہ بچی کو شوہر اور عدالت کو بتائے بغیر ہی جاپان لے کر آ گئی۔ امریکی عدالت نے 2009ء کے جون میں طلاق کی تصدیق کے بعد بچی کو باپ کی تحویل میں دینے کا فیصلہ سنا دیا۔ جاپانی خاتون نے جاپان کی عدالت میں اپنی بچی کو مستقل طور پر اپنی تحویل میں لینے کے لئے درخواست دائر کر دی، سالِ رواں کے مارچ میں جاپانی عدالت نے فیصلہ سنایا کہ بچی کے باپ کو ایک سال میں تیس دن یعنی ایک ماہ اپنی بچی سے ملاقات کرنے کا حق ہو گا، تاہم دونوں نے فیصلے پر اعتراض کرتے ہوئے اوساکا کی ہائی کورٹ میں اپیل کر دی جو ابھی تک جاری تھا کہ جاپانی خاتون ماہِ اپریل میں اپنے امریکہ کے مستقل ویزے کی توثیق کے لئے امریکہ پہنچی تو اسے ایئرپورٹ پر ہی حراست میں لے لیا گیا اور عدالت کی حکمِ  عدولی کے الزام میں اس پر مقدمہ دائر کر دیا تھا جس پر گزشتہ ماہ ستمبر میں عدالت کی سماعت کا آغاز ہوچکا ہے۔ جاپانی خاتون کا کہنا ہے کہ جب وہ اپنی بچی کو جاپان واپس لے کر گئی تھی تو اس وقت اسے معلوم نہیں تھا کہ طلاق کا معاملہ عدالت میں چل رہا ہے لہٰذا وہ بے قصور ہے۔ تاہم اس کا قصور ثابت ہو جانے پر اسے امریکی عدالت سے بارہ سال سے زائد قید کی سزا سنائی جا سکتی ہے۔ واضح رہے کہ ہیگ معاہدے پر جاپان بھی دستخط کر چکا ہے اور اب جاپان میں یا جاپان سے باہر کوئی بھی جاپانی مرد یا خاتون اپنے غیر ملکی شوہر یا بیوی کی اجازت کے بغیر بچے کو جاپان میں رکھنے یا دوسرے ملک سے جاپان نہیں لا سکیں گے۔ طلاق کی صورت میں بچوں کی سرپرستی کے حق کا فیصلہ بین الاقوامی عدالت کرے گی۔

٭٭٭

 

 

پاکستانی شوہروں اور جاپانی بیویوں کے درمیان تشدد کے واقعات اور محرکات!!!

        (26 مارچ 2012ء)جاپان میں مقیم پاکستانی کمیونٹی میں گزشتہ چند ماہ میں یکے بعد دیگرے چند ایسی اموات یا حادثات ہوئے ہیں جن پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اس وقت جاپان میں تقریباً دس ہزار کے لگ بھگ پاکستانی مستقل طور پر قیام پذیر ہیں جن میں زیادہ تر تعداد ان لوگوں کی ہے جو جاپانی خواتین سے شادی شدہ ہیں اور ان کے دویا تین بچے بھی ہیں اور اکثریت گاڑیوں کے کاروبار سے منسلک ہے اور کامیاب و خوشحال زندگی گزار رہے ہیں۔ ان میں سے نصف تعداد ایسے پاکستانیوں کی بھی ہے جنھوں نے جاپان کو ہی اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا ہے اور جاپان کو بلا شبہ اپنا دوسرا گھر تصور کرتے ہیں یہاں تک کہ کئی پاکستانیوں نے وصیت تک کر دی ہے کہ ان کی مو ت واقع ہونے پر ان کی تدفین جاپان میں ہی کی جائے جن میں راقم الحروف بھی شامل ہے۔ اس وقت جاپان میں جو لوگ مقیم ہیں ان میں زیادہ تعداد ان پاکستانیوں کی ہے جو 80ء کی دہائی میں جاپان آئے اور چند سالوں بعد یا فوری طور پر ہی انھوں نے جاپانی خواتین سے شادیاں رچا لیں اور اب ان کے بچے بھی جوان ہو چکے ہیں اور کئی تو ایسے بھی ہیں جو دادا نانا بھی بن چکے ہیں۔ بد قسمتی سے یورپ اور امریکہ کی طرح جاپان کا رخ کرنے والے ہم وطنوں کی اکثریت زیادہ تعلیم یافتہ نہیں ہے مگر ایک طویل عرصہ جاپان جیسے موڈرن اور مہذب ملک میں رہتے ہوئے ان کی تربیت ایسی ہو چکی ہے کہ امریکہ و یورپ میں جانے والے اعلیٰ تعلیم یافتہ پاکستانیوں سے زیادہ مہذب، با اخلاق اور سمجھدار ہیں۔ تاہم تعلیم یافتہ یا غیر تعلیم یافتہ سے قطع نظر ان میں کئی پاکستانیوں کی ایسی تعداد بھی موجود ہے جو ایک طویل عرصہ جاپان میں گزارنے کے باوجود جاپان کے ماحول میں رچ بس نہیں سکی اور انھوں نے جاپان کو ذہنی طور پر قبول نہیں کیا جس کا اظہار وہ عموماً کرتے رہتے ہیں مگر جاپان چھوڑنے پر بھی تیار نہیں ہیں۔ اپنی جاپانی بیوی سے وہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ مکمل پاکستانی بیوی کا کردار ادا کرے، ان کے بچے جاپان میں رہتے ہوئے پاکستان کا طرزِ زندگی اختیار کریں، جبکہ وہ خود اپنی اصلاح کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ ان کی سوچ وہی ہے کہ پاکستانی مرد کو تمام حقوق حاصل ہیں اور بیوی ان کی جوتی کے برابر ہے، اور جب وہ اپنا یہ طرزِ عمل اپنی ان جاپانی بیویوں کو دکھاتے ہیں جنھوں نے ان سے شادی کے لئے اپنے والدین، رشتہ دار اور دوست احباب کی شدید مخالفت کے باوجود سر نہیں جھکایا اور ان کی خاطر اپنا مذہب تک چھوڑ کر اسلام قبول کیا، تو وہ اسے تسلیم نہیں کرتیں اور یہیں سے ان کے اختلافات شروع ہو جاتے ہیں۔

ہمارے پاکستانی بھائی جو اب جوان بچوں کے باپ ہیں اور ان کی خواہش ہے کہ وہ اپنے بیوی بچوں کو خصوصاً بیٹیوں کو ہمیشہ کے لئے پاکستان بھیج دیں اور خود جاپان میں ہی رہتے ہوئے عیاشی کریں اور انھیں روک ٹوک کرنے والا کوئی نہ ہو۔ کئی پاکستانی ایسے ہیں جو ابھی بھی ہر برائی میں گرفتار ہیں اور جاپان کی ہر برائی کرنے میں فخر کرتے ہیں مگر اپنے بیوی بچوں کو دور رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اپنے جوان بیٹے کے جوان لڑکیوں کے ساتھ فلرٹ اور دوستی کو بڑے فخر سے محفلوں میں بتاتے ہیں اور بیٹی کے لئے ایک لفظ بھی سننے کو تیار نہیں۔ جاپانی بیویاں پاکستانی بیویوں کی طرح اللہ میاں کی گائے نہیں ہوتیں کہ انھیں پاؤں کی جوتی سمجھ کر تبدیل کر لیا جائے یا جب چاہے منہ سے تین الفاظ نکال کر اسے زندگی سے خارج کر دیا جائے اور بچے چھین کر اسے گھر سے نکال دیا جائے، یہاں کے بچے بھی اتنے فرمانبردار اور بدھو نہیں کہ آپ خود جس کام کو اچھاسمجھیں اسے بچوں کو کرنے سے روکیں۔ ہمارے بھائی اپنی جاپانی بیوی کو پاکستانی عورت کی صورت میں دیکھنا چاہتے ہیں مگر خود جاپانی مرد بننے کی بجائے پاکستانی روایتی مرد ہونے پر ہی فخر محسوس کرتے ہیں جو سراسر زیادتی اور نا انصافی ہے۔ ہم لاکھ جاپانی فر فر بولیں، لکھیں بھی پڑھیں بھی اور ساری زندگی یہاں گزار بھی دیں تو ہماری زندگی کے وہ چند سال جو ہم نے پاکستان میں گزارے ہیں وہ ہمیشہ ہم پر حاوی رہتے ہیں اور یہ ایک فطری امر ہے۔ اسی طرح ہم اپنی جاپانی بیوی کو جو پیدائشی طور پر ہی جاپانی ہے اور اس کی پرورش بھی یہیں ہوئی ہے اس سے کیونکر یہ توقع رکھ سکتے ہیں کہ وہ اپنے آپ کو پاکستانی بیوی کے روپ میں ڈھال لے؟لہٰذا وہ پاکستانی بڑے کامیاب ہیں جو آدھے جاپانی اور آدھے پاکستانی ہیں اور ان کی بیویاں بھی آدھی جاپانی اور آدھی پاکستانی ہیں اور بچوں میں جاپان اور پاکستان دونوں معاشروں کے اثرات ہوتے ہیں۔ جن گھروں میں ایسا ماحول نہیں پایا جاتا وہاں آئے دن لڑائی جھگڑے اور فسادات ہوتے رہتے ہیں جو بچوں پر منفی اثرات مرتب کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ چند ماہ سے بچوں کی وجہ سے گھریلو لڑائی جھگڑے اور تشدد کے واقعات رونما ہو رہے ہیں، جو کسی طرح بھی مناسب نہیں ہیں۔ گزشتہ سال ستمبر میں چیبا پریفیکچر میں ایک پاکستانی نے اپنے دو نوجوان بچوں کے سامنے اپنی بیوی کو خنجر سے قتل کر کے خود کشی کی کوشش کی۔ گُنما پریفیکچر میں جاپانی بیوی اور سوتیلی بیٹی نے پاکستانی باپ کو بیدردی سے قتل کر دیا، کھاناگاوا پریفیکچر میں ایک پاکستانی نے دل برداشتہ ہو کر اپنے آپ کو جلا کر خود کشی کر لی اس کے علاوہ اور بھی کئی تشدد کے واقعات  ہوئے ہیں جس کی وجہ سے پاکستانیوں کو جیل کی ہوا کھانا پڑی۔ اس قسم کے واقعات سے گھریلو مسائل حل نہیں ہوئے بلکہ پورے پورے خاندان تباہ و برباد ہو گئے، قاتل جیل میں اور مقتول قبر میں اور معصوم بچے یتیم ہو کر نہ پاکستان کے رہے اور نہ ہی جاپان کے۔ ہمیں اپنی اصلاح کی شدید ضرورت ہے اور بچوں کے معاملے میں بھی ہمیں انتہا پسندی سے نہیں بلکہ جاپان اور پاکستان کے مشترکہ ماحول کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ان کی تربیت کرنا ہو گی۔ ایسا نہ ہو کہ ان کی اچھی تربیت کرنے کے چکر میں ہم انھیں ہمیشہ کے لئے کھو دیں۔ ہمیں اپنے بچوں اور بیویوں کو اعتماد میں لے کر ان کی تربیت کرنا ہو گی اور سب سے پہلے اپنے آپ کو ایک مثالی باپ بن کر انھیں دکھانا ہو گا۔ خدا نخواستہ جاپان کا ماحول ابھی یورپ و امریکہ کی طرح اتنا خراب نہیں ہے کہ ہم اپنے بچوں کی طرف سے اتنے پریشان ہو جائیں۔ اس وقت پاکستان کا ماحول جاپان سے بھی کہیں زیادہ خراب ہے۔ بچوں کی صحیح اور مناسب تعلیم و تربیت کے لئے والدین کا ان کے پاس ہونا بہت ضروری ہے۔ ہمیں صبر و تحمل اور حکمتِ عملی سے کام لینا ہو گا اگر ایسا نہ کیا تو اس کے نتائج بھیانک ہوں گے۔ بچوں کے سر پر ماں یا باپ کا سایہ نہ ہوتو انھیں بگڑنے سے بچانا بہت مشکل ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے بچوں کی پرورش جاپان کی بجائے پاکستان میں ہو تو ہمیں خود بھی ان کے ساتھ جاپان کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خیرباد کہنا ہو گا۔ ہمیں اپنی جاپانی بیویوں کی ان قربانیوں کو کبھی بھی فراموش نہیں کرنا چاہئے جو انھوں نے ہمارے ساتھ شادی کرتے وقت دی تھیں۔

٭٭٭

 

 

خبردار!پاکستانیوں کی جاپانی بیویوں کا ایک گروپ اپنے شوہروں کے خلاف سرگرمِ عمل ہے

( 28 مارچ 2012ء)ادارہ اردو نیٹ جاپان کو گزشتہ کئی ماہ سے اطلاعات مل رہی ہیں کہ جاپان میں مستقل رہائش رکھنے والے پاکستانی جنھوں نے جاپانی خواتین سے شادی کر رکھی ہے اور ان کے بچے بھی ہیں، ان پاکستانیوں کی چند جاپانی بیویاں جنھوں نے انٹرنیٹ پر ایک بلاگ کے ذریعہ ایک گروپ تشکیل دیا ہوا ہے جس میں وہ اپنے شوہروں کے خلاف پروپیگینڈہ کرنے میں مصروفِ عمل ہیں۔ ذرائع کے مطابق یہ گروپ پورے جاپان میں ایسی بیویوں پر مشتمل ہے جو اپنے پاکستانی خاوندوں سے نالاں ہیں مگر ان سے علیحدگی بھی نہیں کرنا چاہتیں۔ نام نہاد بلاگ میں وہ اپنے شوہروں کی خصلتیں اور ان کی روز مرہ کی باتیں اور حرکات پر بحث کرتی ہیں اور ان کے خلاف نفرت انگیز خیالات کا برملا اظہار کرتی ہیں۔ گزشتہ ایک سال میں پاکستانی شوہروں اور جاپانی بیویوں کے درمیان بچوں کے مستقبل کے بارے میں اختلافات سامنے آئے ہیں اور یہ اختلافات اس نہج پر پہنچ گئے کہ قتل و غارت کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ ذرائع کے مطابق حال ہی میں اس قسم کے واقعات رونما ہوئے ہیں جن میں قتل، خود کشی اور تشدد شامل ہیں اور ان میں شامل تمام جاپانی بیویاں مذکور ہ بلاگ کی رکن تھیں۔ ذرائع نے اردو نیٹ جاپان کے توسط سے تمام پاکستانیوں کو خبردار اور ہوشیار رہنے کی تلقین کی ہے کہ وہ اپنے اپنے گھروں میں ماحول کو ٹھیک رکھیں اور اپنے بچوں کی خاطر چھوٹے موٹے گھریلو اختلافات کو نظر انداز کرتے ہوئے آپس میں تعلقات اچھے رکھیں تاکہ چند فتنہ پرور خواتین کے شر سے بچا جا سکے۔ جس طرح ہمارے پاکستانی بھائیوں میں ایک دو ایسے شر پسند انسان موجود ہیں جن کے پاس کرنے کو کچھ نہیں ساراد ن فارغ رہ کر بیوی کی کمائی یا اسے ذہنی معذور بنا کر حکومت سے رقمیں بٹور کر گزارہ کرتے ہیں اور لوگوں کو جعلی ناموں سے میل کر کے ان کی تضحیک کر کے خود ہی خوش ہوتے رہتے ہیں بالکل اسی طرح جاپانی بیویوں میں بھی چند ایسی فتنہ پرور خواتین ہیں جنھیں ان کے پاکستانی شوہروں نے عزت دی ان کا ہر طرح سے خیال رکھا مگر ان کے ذہن میں جاپانیت گھسی ہوئی ہے جو انھیں چین سے بیٹھنے نہیں دیتی تو سارا دن اپنی فراغت سے فائدہ اٹھا کر الٹے سیدھے کام کرتی نظر آتی ہیں۔ واضح رہے کہ زیادہ تر جاپانی خواتین خوش اخلاق اور شوہروں کی وفادار ہیں مگر جس طرح ہماری کمیونٹی میں ایک دو مسٹنڈے پورے پاکستان اور اسلام کو بدنام کرنے پر تلے ہوئے ہیں اسی طرح صرف چند ایک خواتین نے بھی یہ بیڑہ اٹھا رکھا ہے کہ کچھ بھی ہو پاکستان کو بدنام کرنا ہے۔

٭٭٭

 

 

سیالکوٹ میں دوکمسن بھائیوں کے ساتھ بربریت کا مظاہرہ

(21 اگست2010ء) یو ٹیوب پر دکھائی گئی ایک فلم جس میں چند روز قبل پاکستان کے شہر سیالکوٹ میں دو کمسن بے گناہ بھائیوں کے ساتھ اجتماعی بربریت کا مظاہرہ کیا گیا۔ ایسا ظلم کرنے والے درجنوں افراد واجب القتل ہیں، دو کمسن بھائیوں کے ساتھ یوں سر عام درجنوں سفاک لوگوں نے پولیس اور عوام کے سامنے دائرہ بنا کر جس بربریت اور سفاکی کا مظاہرہ کیا وہ قابل مذمت ہے۔ ایسے لوگ قطعی مسلمان کہلانے کے مستحق نہیں اور نہ ہی اسلام کے پیروکار ہو سکتے ہیں۔ جم غفیر کے سامنے دو معصوم بچوں کو اس طرح زد و کوب کرنا اور بے دردی سے ہلاک کرنا کوئی مسلمان تصور بھی نہیں کر سکتا۔ دو بچوں کو اس طرح کئی افراد نے لاٹھیوں، پتھروں، گھونسوں سے مار مار کر لہولہان کیا اور ان کی جان لے لی وہ مناظر دیکھ کر ایک عام انسان لرز اٹھتا ہے۔

تف ہے ان لوگوں پر جنہوں نے اپنی آنکھوں سے یہ منظر دیکھا، اس کی فلم بنائی اور بمعہ پولیس کے دیگر تماشبین بھی یہ منظر دیکھتے رہے۔ ایسا آج کی دنیا میں کہاں ہوتا ہے؟یہ پاکستان ہے؟یہ مسلمان ملک ہے؟یہ اللہ اور اس کے رسولﷺ کو ماننے والے مسلمان لوگ ہیں ؟نہیں نہیں یہ لوگ مسلمان یا انسان نہیں ہو سکتے۔ ان کا اسلام یا انسانیت سے دور کا بھی واسطہ نہیں پھر یہ لوگ اپنے آپ کو پاکستانی یا مسلمان کہلاتے ہیں تو ان حالات میں ہمارے ملک پر اللہ اپنا عذاب نازل کرتا ہے تو کوئی عجب نہیں۔ ہم اور ہماری قوم اسی قابل ہے کہ اسے صفحہ ہستی سے ہی مٹا دیا جائے، جہاں انسانوں کے ساتھ حیوانوں سے بھی بد تر سلوک کیا جاتا ہے۔ آج بھی ہم پتھر کے زمانے میں رہ رہے ہیں، کوئی قانون، دین، ایمان یا شرافت کہیں نظر نہیں آتی، ایک بے گناہ انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے۔ بربریت کا وہ منظر ابھی بھی یاد آتا ہے تو جی متلانے لگتا ہے۔ آج وطن عزیز میں قہر الہٰی نازل ہوا ہے تو وہ ہمارے گناہوں ہی کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ ایک چوتھائی پاکستان تباہ ہو چکا ہے ہزاروں لوگ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں، لاکھوں لوگ بے گھر ہو چکے ہیں، کراچی میں ڈھونڈ ڈھونڈ کر ایک ایک مخالف کو موت کے گھاٹ اتارا جا رہا ہے، کوئی قانون کوئی مذہب ایسے سفاک اور جابر لوگوں پر اثر نہیں کر رہا۔

اے اللہ! تو ہم پر رحم فرما اور ایسے ظالموں کو عبرت کا نشانہ بنا دے جو اس دنیا میں شر پھیلاتے ہیں اور بے گناہ لوگوں کی زندگیوں کو اجیرن بنا رہے ہیں۔ اس المناک واقعہ پر مقامی پولیس نے بیان دیا ہے کہ قانون کو ہاتھ میں لینے والوں کو جلد ہی گرفتار کیا جائے گا!!!صدقے جاؤں ایسے قانون نافذ کرنے والے اداروں پر جو ملزمان کے چہروں کو پہچانتے بھی ہیں اور ان سے واقف بھی ہیں لیکن اپنے دوزخی پیٹ کو بھرنے کی خاطر حقائق سے آنکھ چراتے ہیں۔ اس ماں کے دل پر کیا گزر رہی ہو گی جس نے انہیں پیدا کیا تھا، ماں نے جیو نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ اس کے دونوں بیٹے کرکٹ کھیلنے گئے تھے اور واپس لاشوں کی صورت میں آئے ہیں، ان میں سے ایک بھائی حافظ قرآن بھی تھا، اہل محلہ نے ان کی شرافت اور معصومیت کی تصدیق بھی کی ہے۔

٭٭٭

 

 

 سال2012ء میں جاپان میں مقیم سترہ پاکستانی  اس دنیا سے رخصت ہوئے

(30دسمبر2012ء )جاپان میں مقیم پاکستانیوں کی تعداد ایک اندازے کے مطابق دس ہزار کے لگ بھگ ہے اور ان میں زیادہ تر وہ پاکستانی ہیں جو جاپانی خواتین سے شادی شدہ ہیں۔ ان دس ہزار پاکستانیوں کی اکثریت 80ء کی دہائی میں روشن مستقبل کی تلاش میں اپنا گھر بار، بہن بھائی، ماں باپ اور دوست احباب کو چھوڑ کر جاپان آئی تھی جو اپنی زندگی کا نصف حصہ جاپان میں گزار چکے ہیں اور ان کی اوسط عمر چالیس سے پینتالیس ہے۔ جاپان کا سہل طرزِ زندگی، بہترین سہولیات، خالص آب و ہوا اور خوش خوراکی کی فراوانی اور فکرِ معاش جیسے مسائل نہ ہونے کے باعث ان پاکستانیوں کی جسمانی و ذہنی صحت جاپانی لوگوں کی طرح قابلِ رشک ہے جو اپنی عمروں سے دس پندرہ سال کم نظر آتے ہیں اور جاپانیوں کی طرح وہ بھی طویل عمر پاتے ہیں۔ تاہم بعض اوقات اچانک مہلک بیماری، ٹریفک حادثہ یا غیر فطری موت سے کسی کو فرار حاصل نہیں۔ گزشتہ سال 2011ء میں 2 جنوری سے 29 دسمبر تک اردو نیٹ جاپان کے ریکارڈ کے مطابق بارہ پاکستانی مختلف بیماریوں یا حادثات کے باعث اس جہانِ فانی سے کوچ کر گئے تھے۔

 سالِ رواں 2012ء میں پہلی وفات ٹوکیو میں مقیم سینئر پاکستانی اقبال نیازی خان صاحب کی ہوئی انھیں اچانک دل کا دورہ پڑا اور وہ اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے، مرحوم لطیف نیازی کے ماموں اور معروف نعت خواں اقبال نیازی کے چچا تھے۔ دوسری وفات فروری میں ایک معصوم ڈیڑھ سالہ بچے کی ہوئی جو یاشیو مسجد کے چیئرمین سلیم ساندہ کے بھتیجے کے بیٹے کی تھی جو اچانک سردی لگنے سے اللہ کو پیارا ہو گیا، تیسری موت فروری میں ہی یاشیو میں مقیم سینئر پاکستانی رفیق المعروف لالہ ہزاروی اچانک حرکتِ  قلب بند ہو جانے کی وجہ سے وفات پا گئے ان کی عمر پچاس برس تھی۔ 16 مارچ کو کھاناگاوا پریفیکچر میں مقیم سینئر پاکستانی رانا ارشد صاحب اپنے گھر میں گیس پھٹنے کی وجہ سے جل کر لقمۂ اجل بن گئے ان کی عمر37 سال تھی۔ 24 مارچ کو سینئر ترین پاکستانی اور معروف ادبی شخصیت اور اسلامک سینٹر جاپان کے ڈائریکٹر برائے تعلیم جناب سید مطلوب صاحب بھی چند ماہ ہسپتال میں زیرِ علاج رہے اور داغِ مُفارقت دے گئے، ان کی عمر73 سال تھی اور وہ جاپان میں گزشتہ چالیس سال سے مقیم تھے، انھیں جاپان کے یاماناشی قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔ صرف ایک دن کے بعد ایک اور سینئر پاکستانی اور تحریکِ انصاف کے جیالے کھاناگاوا پریفیکچر میں مقیم47 سالہ تصدق حسین جو اپنی والدۂ محترمہ کی عیادت کے لئے پاکستان گئے ہوئے تھے اپنے ہی گھر میں آگ لگنے سے جھلس گئے اور دوسرے روز وفات پا گئے انھیں پاکستان میں ہی سپردِ خاک کیا گیا۔ ٹھیک دو ماہ بعد 25 جون کو ٹوکیو میں مقیم ایک اور48 سالہ سینئر پاکستانی اور معروف کاروباری شخصیت نعیم چوہان کینسر میں مبتلا ہو کر چل بسے اور ان کا جسدِ خاکی بذریعہ قومی ایئرلائین پاکستان بھیج دیا گیا مرحوم چوبیس سال سے جاپان میں مقیم تھے۔ ٹھیک چار دن بعد یعنی 29 جون کو پاکستان سے علاج کی غرض سے جاپان تشریف لائے ہوئے طارق جاوید آرائیں صاحب جو چیبا کے عارف آرائیں کے برادرِ بزرگ تھے دورانِ علاج وفات پا گئے۔ 26 جولائی کو توچیگی میں مقیم سینئر پاکستانی اعجاز بٹ المعروف جاجی صاحب جو پاکستان گئے ہوئے تھے اسی دوران حرکتِ قلب بند ہو جانے کی وجہ سے انتقال کر گئے ان کی عمر 45برس کے لگ بھگ تھی۔ منہاج القرآن انٹرنیشنل جاپان ٹوکیو کے صدر قاری ابو بکر صاحب جو کینسر کی موذی بیماری میں مبتلا ہوئے اور انھیں ڈاکٹروں نے جواب دے دیا تو وہ مستقل پاکستان تشریف لے گئے23 جولائی کو ان کی وفات کی خبر ملی۔ ماہِ اگست میں کھاسوکابے میں مقیم اکبر گجر کے والدِ محترم جن کی عمر52 برس کے لگ بھگ تھی شوروم پر اچانک حرکتِ قلب بند ہو جانے کی وجہ سے اس جہانِ فانی سے کوچ کر گئے۔ اور16 ستمبر کو ناگویا شہر میں مقیم فقیر محمد صاحب اچانک وفات پا گئے ان کی عمر50 سال تھی۔ اور اسی دن یعنی 16 ستمبر کو تھویاما میں مقیم پاکستانی حامد محمدجو کراچی گئے ہوئے تھے اور دہشتگردی کا نشانہ بن گئے۔ 27 اکتوبر کو منہاج القرآن کے تا حیات رفیق سینئر پاکستانی امانت علی گوندل صاحب مسجد کے قریب ہی رات کے وقت اپنے دوست کے ساتھ سڑک پر مسجد کی طرف پیدل جا رہے تھے کہ عقب سے ایک تیز رفتار گاڑی نے انھیں ٹکر ماردی اور وہ موقع پر ہی وفات پا گئے ان کی عمر55 سال تھی۔ 20 نومبر کو ناگانو میں مقیم پاکستانی طارق بٹ کی پاکستانی اہلیہ جو طویل عرصہ سے علیل تھی وفات پا گئیں اور ان کی میت کو بھی پاکستان بھیج دیا گیا۔ کھاناگاوا میں مقیم لیاقت صاحب کا نومولود بیٹا جس کی عمر صرف ایک ماہ تھی وفات پا گیا۔ 20نومبر کو ایک اور سینئر پاکستانی سردار محمد اچانک حرکتِ قلب بند ہو جانے کی وجہ سے ایک ریستوران میں وفات پا گئے  ان کی عمر 52 سال تھی۔ سالِ رواں کی 29 دسمبر تک جاپان میں ہونے  والی اموات کی تعدا17 ریکارڈ کی گئی جبکہ گزشتہ سال2011ء میں اسی تاریخ تک12پاکستانیوں کی وفات ہوئی۔ اللہ تعالیٰ ہمارے ان تمام بھائیوں کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور ان کے تمام لواحقین کو صبرِ جمیل عطا فرمائے۔ اور دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ سالِ نو میں اپنا خاص رحم و کرم فرمائے اور تمام بھائیوں کو اپنی امان میں رکھے، ایک دوسرے سے اتفاق و محبت سے رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔ قومی ایئرلائین پی آئی اے کے ہم مشکور ہیں جو ایسے سوگوار موقع پر مرنے والے کے لواحقین کے غم میں اضافے کی بجائے ان کے آنسو صاف کرتی ہے، گزشتہ سال بھی مذکورہ بالا تمام پاکستانیوں کی میتیں بلا معاوضہ پاکستان روانہ کی گئیں جبکہ میت کو بھیجنے کے لئے ضروری قانونی و دستاویزی کاروائی اور جاپان کے دور دراز علاقوں سے ٹوکیو ایئرپورٹ پر پہنچانے کے لئے سفارتخانۂ پاکستان کا عملہ، نعیم آرائیں، رئیس صدیقی، خسرو خان، انعام الحق اور دیگر ہمدرد پاکستانیوں کی کاوشیں بھی قابلِ ستائش ہیں۔

٭٭٭

 

 

کیا دیارِ غیر میں آپ اپنی میت پر چندہ اکٹھا کرانا گوارا کریں گے؟

( 24نومبر2012ء) حالیہ چند ماہ میں دیکھنے میں آ رہا ہے کہ جاپان میں کوئی بھی پاکستانی کسی حادثے، بیماری یا اپنی طبعی موت مر جاتا ہے توا اس کی نمازِ جنازہ کے وقت اس کی میت پر رومال پھیلا کر چندہ اکٹھا کیا جاتا ہے تاکہ پاکستان میں اس کے لواحقین جن میں اس کے بیوی بچے، بہن بھائی اور والدین شامل ہوتے ہیں کی مالی اعانت کی جا سکے۔ کسی انسان کی مد د کرنا یا اس کے ساتھ مالی تعاون کرنا کوئی بری بات نہیں ہے مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا وہ شخص جو تابوت میں پڑا ہے اس کے لواحقین اس قسم کی مالی مدد کے مستحق بھی ہیں یا نہیں ؟ جہاں تک جاپان میں مقیم پاکستانیوں کا تعلق ہے تو اس میں کوئی ابہام نہیں کہ وہ سب مالی طور پر آسودہ حال ہیں کوئی کاروبار کرتا ہے تو کوئی ملازمت کر رہا ہے اور اگر کوئی کچھ نہیں کر رہا تو اس کے پاس اتنی دولت ہے کہ وہ اپنا گزارا جاپان جیسے ملک میں کر رہا ہے کیونکہ اگر کوئی بیروزگار یا کنگال ہے تو وہ جاپان جیسے دنیا کے مہنگے ترین ملک میں چند ایام بھی نہیں گزار سکتا۔ لیکن عموماً دیکھا گیا ہے کہ جب کسی پاکستانی کی وفات ہوتی ہے تو اس کی میت پر مسجد میں چندہ اکٹھا کرنے کی اپیل کی جاتی ہے اور لوگ اس میت پر اپنی استطاعت کے مطابق چندہ دیتے ہیں اور اس طرح لاکھوں روپے اس کی میت پر چندے کے جمع ہو جاتے ہیں جو اس کے پاکستانی لواحقین کو پہنچا دئیے جاتے ہیں اور پاکستانی لواحقین بھی اس سے قطعِ نظر کہ ان کا بیٹا، بھائی یا باپ جاپان میں کتنا کماتا تھا یا اس کا کیا کاروبار تھا اس رقم کو اپنا حق سمجھ کر قبول کر لیتے ہیں اور عجیب بات یہ ہے کہ مرنے والے کے صرف پاکستانی لواحقین کے بارے میں فکر کی جاتی ہے اور اس کے جاپانی فیملی کے لواحقین کی کوئی فکر نہیں کرتا جن کی وجہ سے مرنے والا جاپان میں رہتا تھا اور ان کے ساتھ ہنسی خوشی زندگی بسر کیا کرتا تھا۔ مجھے حیرت ہوتی ہے جب لوگ کسی کی میت پر کھڑے ہو کر پانچ لاکھ، دس لاکھ اور ایک لاکھ ین چندہ دینے کا اعلان کرتے ہیں اور اس طرح ایک خطیر رقم جمع کر کے اس کی میت کے ساتھ پاکستان بھیج دی جاتی ہے اور چندہ اکٹھا کرنے والے حضرات عذر یہ پیش کرتے ہیں کہ مرحوم مالی طور پر بہت کمزور تھا اس کا کاروبار بھی ٹھیک نہ تھا یا وہ بیروزگار تھا۔ کاش کہ اتنی رقوم چندہ دینے والے حضرات اس کی زندگی میں ہی اس کی مدد کے طور پر دے دیتے تو وہ عزت سے کوئی کاروبار شروع کر سکتا تھا۔ یہاں زندہ انسانوں کے لئے کسی کے پاس دینے کو گالیاں، دھکے اور زہر کے علاوہ کچھ نہیں مگر جب کوئی مر جائے تو اس کے لئے لاکھوں کا چندہ دیتے ہیں۔ میں نے یہ تحریر سپردِ قلم کرنے سے قبل گزشتہ ایک ماہ میں سینکڑوں پاکستانیوں سے پوچھا کہ کیا آپ چاہیں گے کہ آپ کی میت پر چندہ اکٹھا کیا جائے ؟ اور آپ کی میت کو چندے کی رقم یا بلا معاوضہ قومی ایئرلائین سے بھیجا جائے ؟ تو مجھے کسی ایک نے بھی ہاں میں جواب نہیں دیا گو کہ ان میں ارب پتی، کروڑ پتی، کاروباری، اعلیٰ آفیسر، برسرِروزگار، بے روزگار، بیمار، غریب، بوڑھے، طویل اور قلیل عرصے سے مقیم ہم وطن شامل ہیں۔ سب نے یہی کہا کہ وہ اپنی میت پر چندہ اکٹھا کرانا گوارا نہیں کریں گے مگر مرنے کے بعد وہ بے بس ہوتے ہیں گھر والوں کو اگر ہماری میت کے ساتھ خطیر رقم بھی مل جائے تو وہ کیوں منع کریں گے؟ اسی طرح کئی امیر ترین لوگوں کی میتوں کو بذریعہ قومی ایئرلائین بلا معاوضہ پاکستان بھیجا گیا حالانکہ جو شخص اس دنیا سے رخصت ہوا ہے اس کی بے حساب دولت موجود ہے جاپان میں بھی اور پاکستان میں بھی، اس کی دولت سے پورا جہاز چارٹر کر وا کر اس کی میت عزت و احترام سے بھیجی جا سکتی ہے اس کے باوجود اس کی میت کوپاکستان بھیجنے کا معاوضہ ادا نہیں کیا جاتا اور نہ ہی کسی کے لواحقین نے اس بات پر اعتراض کیا ہے کہ ان کے بیٹے کی میت پر جو چندہ اکٹھا کیا گیا ہے وہ ہمیں نہیں چاہئے کیونکہ مرحوم نے اپنی زندگی کے پچیس سالوں میں ہمیں کروڑوں روپے بھیجے ہیں اس کی میت پر چندہ اکٹھا کر کے اور اس کی میت کو مفت میں پاکستان نہ لایا جائے بلکہ ادائیگی کی جائے، ایسی کوئی مثال نہیں ملتی، میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ ابھی کسی وجہ سے اگر قومی ایئرلائین یہ سہولت ختم کر دے اور مرنے والے کے لواحقین سے پاکستان رابطہ کیا جائے اور ان سے درخواست کی جائے کہ میت کو پاکستان بھیجنے پر پندرہ لاکھ روپے درکار ہیں فوری بھیج دیجئے تو شاید ہی دس فیصد لوگ اپنی میت کو پاکستان منگوانے کی کوشش کریں، کئی لوگوں کا کہنا ہو گا کہ بھائی میت کو اتنے دن نہ رکھیں بلکہ اسے وہیں دفنا دیں کیونکہ اسلام میں میت کو وہیں دفنانا چایئے جہاں اس کی موت واقع ہوئی ہو، زیادہ دیر رکھنے سے میت کی بے حرمتی ہوتی ہے وغیرہ وغیرہ۔ جو شخص اپنی زندگی میں اتنا خوددار ہو کہ جس نے کبھی کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلایا ہو اس کی میت پر چندہ اکٹھا کرنا اس کی خود داری کی توہین نہیں تو اور کیا ہے؟ کیا آپ اپنی میت پر چندہ اکٹھا کرانا گوارا کریں گے؟

میری ان بھائیوں سے اپیل ہے جنھیں اللہ تعالیٰ نے بے حساب دیا ہے اور وہ کسی کی میت پر لاکھوں چندہ دے سکتے ہیں وہ اپنے زندہ بھائیوں کی مدد کریں تاکہ وہ اپنی زندگی میں عزت سے جی سکیں اور انھیں دعا دے سکیں۔ یہ بات کسی بھی پاکستانی کے لئے کتنی اذیت ناک ہو گی کہ اس نے جاپان جیسے ملک میں بیس یا پچیس سال سخت محنت کی اور کروڑوں روپے اپنے گھر والوں کو بھیجے ہوں اور اس کی میت چندے کی رقم، عطیات اور بلا معاوضہ قومی ایئرلائین سے بھیجی جائے؟

راقم الحروف نے جب تک جاپان میں اپنی تدفین کی وصیت نہیں کی تھی ہمیشہ اپنے ذاتی اکاؤنٹ میں سات سے آٹھ لاکھ ین کی رقم محفوظ کر رکھی تھی اور اپنے قریبی دوستوں کو بتا دیا تھا کہ میری میت کو چندے کی رقم سے پاکستان نہ بھیجا جائے۔ جاپان میں مقیم دوستوں کو مشورہ ہے کہ وہ اپنی زندگی میں ہی اتنی رقم کا بندوبست کر کے رکھیں تاکہ ان کی میت پر ان کے لواحقین کو چندہ نہ دیا جا سکے، چندے سے بہتر ہو گا کہ جاپان میں رہتے ہوئے مختلف انشورنس پالیسی خرید لیں تاکہ ہمارے بعد ہمارے لواحقین کو کچھ مالی فائدہ ہوسکے اور وہ بھائی جن کی دونوں ممالک میں فیملیاں موجود ہیں وہ دونوں کے بارے میں یکساں طور پر اپنی زندگی میں ہی وصیت کر دیں۔

٭٭٭

 

 

ابراہیم تھومیناگا صاحب سے پہلی اور آخری ملاقات اور یادگار گفتگو

 (7جنوری2011ء) میں بھی اپنے ان دوستوں کی طرح جنہیں آلامِ روزگار اجازت ہی نہیں دیتے کہ ہر بار جمعہ کی نماز با جماعت ادا کرسکوں، پھر بھی دو تین ماہ میں دنیا کی پروا کئے بغیر کمپنی سے ایک دن کی چھٹی ضرور کرتا ہوں، اور یہ چھٹی کرنے کا دن میں ہمیشہ جمعہ کا روز منتخب کرتا ہوں تاکہ ٹوکیو کی ترک مسجد میں با جماعت جمعہ ادا کرسکوں اور اس کے بعد کراچی ریستوران شنجوکو میں جاپان میں مقیم ہمارے معزز بزرگ اور دانشور شخصیات کی چند گھنٹوں کی صحبت نصیب ہو سکے جو عام دنوں میں میرے لئے ناممکن ہوتی ہے۔ میں نے جب کبھی بھی چھٹی کے لئے جمعہ کا انتخاب کیا ہے وہ دن میرے لئے بہت کارآمد اور یادگار ہو کر رہ جاتا ہے۔ اُس دن بھی جب میں نے جمعہ کی چھٹی کی اور اپنے محسن اصغر حسین صاحب کے ساتھ ترک مسجد پہنچا تو ابھی جماعت ہونے میں کچھ وقت باقی تھا۔ مسجد کی دوسری منزل پر وضو کر کے ہال میں پہنچا تو اصغر بھائی نے ایک شخص کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ناصر وہ دیکھو خان صاحب کا بیٹا ابراہیم کھڑا ہے، جاؤ اس سے مل لو۔ میں نے خوشی سے کہا کہ کہاں !!!کہاں !! تو اصغر بھائی نے کہا کہ وہ جو ایک جاپانی کے ساتھ محوِ گفتگو ہے، میں فوراً اس شخص کی طرف لپکا اور سلام کرتے ہوئے اپنا تعارف کروایا اور استفسار کیا کہ آپ ابراہیم!! خان صاحب کے بیٹے ہیں ؟ جی ہاں۔ ۔ میں خوشی میں اس سے لپٹ گیا اس نے بھی اسی گرم جوشی سے مجھے گلے لگایا۔ مجھے یہ تو معلوم تھا کہ خان صاحب کا بیٹا ابراہیم ان کے ساتھ ہی رہتا ہے اور تھوڑا سا ذہنی معذور ہے۔ شکل و صورت بالکل حسین خان صاحب کی جوانی یاد دلاتی تھی، میں اس سے رواں اردو میں گفتگو کرتا رہا تو ابراہیم نے کہا کہ میں پاکستان میں کچھ عرصہ رہا ہوں لیکن میری اردو اتنی اچھی نہیں ہے اور میں جاپانی ہوں۔ میں نے معذرت کرتے ہوئے اس سے جاپانی میں گفتگو کی تو کہنے لگا کہ میں نے اپنے والد صاحب سے آپ کا نام سنا ہوا ہے آج آپ سے مل کر بہت خوشی ہوئی۔ مجھے اس سے گفتگو کے دوران شائبہ تک نہ ہوا کہ وہ ذہنی مریض ہو گا یا کبھی رہا ہو گا۔ ابراہیم تھومیناگا حسین خان صاحب کی جاپانی اہلیہ سے اولاد تھی، باتیں ہوتی رہیں اسے اتنا صحت مند اور خوش و خرم دیکھ کر مجھے اندازہ ہوا کہ اس کی عمر بمشکل تیس سال ہو گی، مگر ابراہیم نے کہا میری عمر چالیس سال ہے اور میں کافی عرصہ ذہنی بیمار رہا ہوں اور علاج کے سلسلے میں ہسپتال میں بھی داخل رہ چکا ہوں مگر اب اللہ کا شکر ہے کہ میں بالکل ٹھیک ہوں اور اب مجھے کوئی تکلیف بھی نہیں ہے اور دستاویزات کا ترجمہ بھی کرتا ہوں اور آمدنی بھی معقول ہے۔ میں نے پوچھا کہ چالیس کے ہو گئے ہو شادی کیوں نہیں کی؟ کہنے لگا کہ بیماری کی وجہ سے تھوڑی تاخیر ہو گئی ہے، مگر میں کسی جاپان لڑکی سے شادی نہیں کرنا چاہتا کیونکہ جاپانی لڑکی سے میری ذہنی ہم آہنگی نہیں ہو سکتی کیونکہ میں مسلمان ہوں اور اسلام مذہب کو بہت پسند کرتا ہوں، اگر میں نے کسی جاپانی لڑکی سے شادی کی تو شاید فوراً طلاق ہو جائے، اس لئے میری خواہش ہے کہ پاکستانی مسلمان لڑکی سے شادی کروں، اور وہ بھی جماعتِ اسلامی سے تعلق رکھنے والی لڑکی سے۔ ۔ ۔ چونکہ جمعہ کی جماعت کا وقت ہوا جا رہا تھا ہم دونوں مسجد کے اندر داخل ہو گئے اور ایک ساتھ ہی کھڑے ہو کر جمعہ کی نماز ادا کی اور پھر دوبارہ باہر آ گئے اور گفتگو کا سلسلہ شروع ہو گیا، ابراہیم نے کہا کہ میں ہر جمعہ کو اسی مسجد میں نماز پڑھنے آتا ہوں مگر تمھیں پہلی بار دیکھا ہے، میں نے کہا کہ میں ایک کمپنی میں ملازم ہوں ہر جمعہ کو چھٹی نہیں کرسکتا اس لئے میں اکثر جمعہ کی نماز نہیں پڑھ سکتا۔

ابراہیم نے کہا کہ کمپنی اور روزگار کی فکر نہ کرو ہر جمعہ کو یہاں نماز پڑھنے آیا کرو تمھاری نوکری کو کچھ نہیں ہو گا اور اللہ تمھارے روزگار میں برکت کرے گا۔ ۔ یہ میری ابراہیم صاحب سے آخری گفتگو کی تھی میں نے ابراہیم کی ایک تصویر اتاری تو کہنے لگا کہ یہ میرے جاپانی دوست ہیں ان کے ساتھ بھی ایک تصویر اتار دو، میں نے حکم کی تعمیل کی، پھر کہا کہ یہ کیمرہ کسی اور کو دو اور ہم تینوں کی ایک تصویر اترواؤ، میں نے کسی کو کیمرہ دیا اور ابراہیم کے ساتھ ایک گروپ فوٹو کے لئے پوز بنایا۔ ابراہیم سے میری یہ پہلی اور آخری ملاقات اس کی وفات سے35 روز قبل ہوئی تھی، میں تصور بھی نہیں کرسکتا تھا کہ میری اس سے دوسری ملاقات یاماناشی کے قبرستان میں ہو گی جہاں میں نے اسے ابدی نیند سوتے ہوئے دیکھا اور ایک مٹھی مٹی ڈال کر واپس آگیا۔ انا للہ وانا علیہ راجعون۔

ابراہیم تھومیناگا صاحب سے میری وہ مختصر ملاقات میری زندگی کی ایک یادگار ہے جسے میں کبھی بھی فراموش نہیں کر سکتا اور اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ 26 نومبر 2010ء کے جمعہ کی چھٹی میرے لئے یادگار چھٹی کا دن ہو گیا۔ اگر جمعہ کو چھٹی کرنے کی یہ عادت نہ ہوتی تو ایک ایسے خوبصورت اور پکے مسلمان سے ملاقات سے محروم رہتا۔ ابراہیم اپنے والد ِ محترم حسین خان صاحب کی طرح ہی اعلیٰ تعلیم یافتہ اور اسلامی مفکر اور دانشور تھا۔ ابراہیم کی اچانک موت سے جاپان میں مقیم تمام کمیونٹی سوگوار ہے اور دعاگو ہے اللہ تعالیٰ اسے غریقِ رحمت کرے اور حسین خان صاحب کو صدمۂ عظیم برداشت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

٭٭٭

 

 

جاپان میں مسلم آبادی کے لیے قبرستان کی کمی پریشانی کا باعث بن گئی

(21 اگست 2010ء) جاپان میں مسلم قبرستان کے لئے عرصہء دراز سے کوششیں جاری ہیں مگر خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہو رہی۔ حال ہی میں ایباراکی پریفیکچر میں واقع ICLکارپوریشن کے ڈائریکٹر سید جاوید علی زیدی نے اس علاقے میں مسلمانوں کے لئے ایک قبرستان کے حصول کے لئے انتھک کوششیں کی ہیں اور امید کی جا رہی ہے کہ وہ اس نیک مشن میں ضرور کامیاب ہوں گے، جاپان میں مقیم وہ مسلمان جو اپنی زندگی کا زیادہ حصہ جاپان میں گزار چکے ہیں اور اب ان کی اولادیں بھی جوان ہو رہی ہیں اور ان کی جڑیں مضبوط ہو چکی ہیں ایسے مسلمانوں کی خواہش ہے کہ مرنے کے بعد ان کی تدفین جاپان میں ہی کی جائے۔ مسلمانوں کے اس سنگین مسئلے کو یہاں کی مقامی و وفاقی حکومتیں بھی سنجیدگی سے لے رہی ہیں۔ اسی سلسلے میں گزشتہ دنوں جاپان کے مقامی اخبار میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق جاپان میں آباد مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد مسلمانوں کے قبرستان کی کمی کے باعث نہ صرف پریشانی کا شکار ہے بلکہ فکر مند بھی ہے کیونکہ اسلامی اصولوں کے مطابق ایک مسلمان کو مرنے کے بعد جلائے بغیر زمین میں دفن کیا جاتا ہے۔ نئے قبرستانوں کے لیے جگہ کا حصول مشکل ہوتا ہے کیونکہ ملک کے بہت سے حصوں میں مقامی قوانین کے مطابق لاش کو جلائے بغیر دفن کرنا ممنوع ہے۔ اس کے علاوہ مقامی آبادی کی طرف سے اس فعل کی مخالفت بھی کی جاتی ہے۔ اگرچہ جلائے بغیر نعش کو دفنانے کی ملکی قانون میں کوئی ممانعت نہیں ہے لیکن بہت سی مقامی حکومتیں ٹوکیو، اوساکا، ناگویا وغیرہ میں مقامی حکومتوں نے صحت و صفائی کے پیش نظر اس فعل کی مختلف قوانین و ضوابط کے ذریعے ممانعت کر رکھی ہے۔

جاپان میں رہنے والے مسلمانوں میں ابدی آرام کی جگہ ایک مسئلہ بنتی جا رہی ہے۔ 2006ء میں ہکائیدو پریفیکچر کے شہر ساپورومیں ایک مسلمان مرد ایک بیوہ اور تین بچے چھوڑ کر فوت ہوا۔ اس کے مسلمان دوستوں نے اس کی میت کو دفنانے کے لیے چندہ اکٹھا کیا۔ انہوں نے یوئی چیچو، ہوکائیدو میں قبرستان سے اجازت حاصل کرنے کے انتظامات کیے۔ اسی سال فوکوؤکا پریفیکچر سے ایک مسلمان جوڑا اپنے نومولود بچے کی میت کو بھی اس قبرستان میں دفنانے کے لیے لے کر آیا۔

یاماناشی پریفیکچر کوشو میں سوتوشو مسلک سے تعلق رکھنے والا ایک بدھسٹ مندر مونجوئن ان محدود مقامات میں سے ایک ہے جہاں لاش کو جلائے بغیر دفنانے کی اجازت ہے۔ اس مندر میں چار ہزار آٹھ سو مربع میٹر جگہ قبرستان کے لیے مخصوص ہے جہاں اب مسلمانوں کی بھی ایک سو بیس قبریں موجود ہیں۔ تمام قبروں میں بغیر جلی میتیں دفن ہیں اور کچھ قبروں پر پتھر کے کتبے بھی نصب ہیں جن پر عربی میں مدفون کے نام در ج ہیں۔ بدھسٹ مندر نے زمین کا ایک حصہ پیش کیا ہے جس کا انتظام ایک مذہبی تنظیم جاپان مسلم ایسوسی ایشن شیبویا وارڈ ٹوکیو کے ذمہ ہے۔ اس قبرستان میں پاکستان، سعودی عرب اور مشرق وسطیٰ کے دیگر مسلم ممالک سے تعلق رکھنے والے وہ مسلمان دفن ہیں جو ٹوکیو اور یاماناشی پریفیکچر کے علاوہ توہوکو اور کوشو کے علاقوں میں رہائش پذیر تھے۔ یہاں اسلام قبول کرنے والے جاپانیوں کی میتیں بھی دفن ہیں۔

حالانکہ جاپان میں رہنے والے عیسائی باشندے جاپان کے قوانین کے مطابق اپنی میتوں کو جلا دیتے ہیں۔ لیکن مسلمان اپنے مذہبی اصولوں پر سختی سے کاربند رہتے ہیں۔ عموماًمسلمانوں کی میتیں اس جگہ پر دفنائی جاتی ہیں جہاں انہوں نے اپنی زندگی کا زیادہ حصہ گزارا ہوتا ہے۔

اگرچہ سیتاگایا وارڈ ٹوکیو میں مسلمانوں کی امداد باہمی کی تنظیموں جاپان مسلم ایسوسی ایشن اور اسلامک سینٹر جاپان نے ملک بھرمیں ایسی جگہوں کی تلاش کی جہاں مسلمان میتوں کو دفنایا جا سکے لیکن اکثر قبرستانوں کی انتظامیہ کی جانب سے ان کی درخواست کو رد کر دیا گیا۔ ایک قبرستان کے منتظم نے کہا ,,جلائے بغیر میت کو دفنانے کا تصور اچھا نہیں ہے،، اس قسم کی کوششوں کے باوجود یہ دونوں مسلم تنظیمیں صرف تین مقامات کوشو، کوبے اور یوئی چیچو میں ایسی جگہ تلاش کرسکے جہاں مسلمان میتوں کو جلائے بغیر دفنایا جا سکے۔ تاہم کوبے کا قبرستان بلدیاتی حکومت کے زیر انتظام ہے جہاں صرف وہیں کے رہائشیوں کو دفنانے کی اجازت دی جاتی ہے۔ جبکہ یوئی چیچو کا قبرستان ہوکائیدو سے دور واقع ہونے کی وجہ سے لواحقین کے لیے قبروں کی زیارت کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے مسلمانوں نے کوشو کے اسلامی قبرستان کو منتخب کیا ہے جو ٹوکیو کے مغرب میں یاماناشی پریفیکچر میں واقع ہے۔ تاہم مونجوئین کے پیشوا اعظم کاکازو ہیکوفورویا نے بتایا ہے کہ مسلمانوں کا یہ قبرستان چند سالوں میں بھر جائے گا۔ کچھ مقامی رہائشیوں نے بتایا کہ میت کو جلائے بغیر دفنانے سے انہیں خوف آتا ہے اسی لیے وہ اس عمل کی مخالفت کرتے ہیں۔ اس صورت حال کی وجہ سے مسلمانوں کے لیے نئے قبرستان تعمیر کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔

اسلامک سینٹر جاپان کے ڈائریکٹر اور چو اُونیورسٹی کے لیکچرار جناب سلیم الرحمٰن خان کیا کہنا ہے ایک اندازے کے مطابق جاپان میں مسلمانوں کی تعداد ایک لاکھ کے قریب ہے اور مستقبل میں اس تعداد میں اضافے کے امکانات ہیں لیکن جاپانی شہریت رکھنے والے مسلمانوں کے لیے مرنے کے بعد دفن ہونے کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔

٭٭٭

 

 

سائیتاما پریفیکچر کے مشہور شہر کوشی گایا کے سالانہ شہری میلے میں پاکستان کی بھر پور نمائندگی

( 29 ستمبر2010ء)کوشی گایا شہر سائیتاما پریفیکچر کا چھٹے نمبر پر بڑا شہر ہے جو ٹوکیو سے پندرہ کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے جس کی آبادی تقریباً ساڑھے تین لاکھ کے قریب ہے جہاں چار ہزار سے زائد غیر ملکی بھی رہائش پذیر ہیں اور پاکستانیوں کی کثیر تعداد بھی یہاں کی رہائشی ہے جن میں کئی پاکستانی نژاد جاپانی شہری بھی شامل ہیں۔ گزشتہ ماہ اسی شہر میں پی پی پی جاپان کی طرف سے پہلا بے نظیر کرکٹ کپ کا میچ پاکستان اور سری لنکا کے مابین کھیلا گیا جس میں سفیرِ پاکستان جناب نور محمد جادمانی صاحب، جناب امتیاز احمد صاحب اور تھرڈ سیکریٹری مروان ایاش صاحب نے بھی شرکت کی تھی۔

جاپان میں دیگر شہروں کی طرح یہاں بھی سالانہ شہری میلہ منعقد کیا جاتا ہے جس میں اس شہر کے باسی اپنے شہر کی تاریخی روایات برقرار رکھنے کے لئے تاریخی رقص و موسیقی کا انتظام بھی کرتے ہیں۔ صبح سے ہی ہزاروں کی تعداد میں لوگ شہری دفتر کے قریب جمع ہونا شروع ہو جاتے ہیں اور مختلف شعبوں اور کاروبار سے منسلک لوگ اپنی اپنی مصنوعات یا کھانے پینے کی چھوٹی چھوٹی دکانیں سجاتے ہیں اور خوب چہل پہل رہتی ہے۔ شہری دفتر کی انتظامیہ کے تحت کام کرنے والی تنظیم بنام بین الاقوامی باہمی تبادلہء تہذیب و ثقافت یہاں مقیم غیر ملکیوں کو بھی اپنی اس خوشیوں میں شامل ہونے کے لئے خصوصی دعوت دیتی ہے اور تقریباَ19 ممالک کے لوگ اپنے اپنے ملک کی ثقافت کو جاپانیوں میں متعارف کروانے کے لئے اپنے اسٹال لگاتے ہیں جہاں کھانے پینے کی ہلکی پھلکی اشیاء یا وہاں کی مصنوعات نمائش کے طور پر سجاتے ہیں اور اپنے روایتی ملبوسات پہن کر آتے ہیں جس میں جاپانی شہری بہت دلچسپی لیتے ہیں۔ پچھلے سال سے مجھے بھی اس میلے میں پاکستان کی نمائندگی کرنے کے لئے درخواست کی گئی۔ گزشتہ سال پہلی بار اس میلے میں پاکستانی اسٹال لگایا گیا تھا جسے جاپانیوں نے بہت پسند کیا اور شہری انتظامیہ نے خصوصی طور پر شکریہ ادا کیا۔

گزشتہ روز اتوار کو 35 واں شہری میلہ تھا جس میں پاکستان کے علاوہ19 ممالک نے بھی اپنے اسٹال لگائے تھے۔ اس مرتبہ اس میلے میں آنے والے جاپانیوں کے لئے سوکا شہر کے مشہور ریستوران نیو ہاٹ مصالحہ کا تیار کردہ مٹن پلاؤ دو سو سے زائد جاپانیوں میں مفت تقسیم کیا گیا اس کے علاوہ پندرہ سو افراد کے لئے ٹھنڈے مشروبات کا بھی انتظام کیا گیا تھا۔ مٹن پلاؤ جاپانیوں میں مفت تقسیم کرنے کا مقصد پاکستانی خوشبو دار اور خوش ذائقہ چاولوں کو یہاں متعارف کروانا تھا۔ اس کے علاوہ اس میلے میں آنے والے پاکستانیوں کے لئے پہچان ریستوران کا چکن پلاؤ، نیو ہاٹ مصالحہ اور الکرم ریستوران کی مزیدار بریانی تھی۔ ٹھیک ساڑھے گیارہ بجے مٹن پلاؤ چھوٹے ڈبوں میں نیو ہاٹ مصالحہ کے روحِ رواں رانا عامر اور سینئر پاکستانی عبدالرحمٰن صدیقی صاحب نے بہت دلچسپ انداز سے جاپانیوں کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہوئے تقسیم کیا۔ ہر جاپانی بچے، بڑے، بوڑھے اور خواتین سے پوچھا جاتا تھا کہ یہ جھنڈا کہاں کا ہے صحیح جواب دینے والوں کو مٹن پلاؤ کا ڈبہ پیش کیا جاتا تھا اور جو نہیں جانتے تھے انھیں جھنڈے کے ساتھ جاپانی میں تحریر شدہ’’پاکستان‘‘ کی طرف اشارہ کر کے بتا دیا جاتا تھا تو وہ پاکستان کہتا تھا تو رانا عامر اور عبدالرحمٰن صدیقی صاحب ’’جواب درست ہے‘‘۔ ۔ ۔ کہتے ہوئے انھیں پلاؤ کا ڈبہ پیش کر دیتے تھے اس دلچسپ مظاہرے کو دیکھنے کے لئے لوگوں کا ہجوم لگ گیا اور آناً فاناً دو سو سے زائد ڈبے ختم ہو گئے اس کے بعد ٹھنڈے مشروبات بھی اسی طرح تقسیم کئے گئے جنہیں تقسیم کرنے کے لئے پاکستانی سینئر سماجی کارکن بیگم تنویر جو کہ پاکستان کی محبت کی خاطر صوبہ کھانا گاوا سے تشریف لائی تھیں، راقم کی بیوی اور بچوں کے ساتھ جاپانی لوگوں کو تقسیم کرتی رہیں۔ مشروبات تقسیم کرنے کے لئے میلے میں تشریف لائے ہوئے پاکستانی دوستوں نے بھی بھر پور حصہ لیا اور اس میلے میں دیگر اسٹالوں سے زیادہ مجمع رہا۔ اکثر جاپانیوں کو پاکستان کے بارے میں کچھ بھی نہیں معلوم بلکہ اکثریت کو تو یہ بھی نہیں معلوم کہ پاکستان کہاں واقع ہے جب ان سے کہا جاتا ہے کہ پاکستان، بھارت کا پڑوسی ملک ہے تو انھیں سمجھ آتی ہے۔

اگر ہم اسی طرح پاک برادری میں محبت و اتفاق اور اخوت کا مظاہرہ کرتے رہیں گے اور اپنے ملک کی صحیح نمائندگی کرتے رہیں گے تو مجھے یقین ہے کہ انشاء اللہ تعالیٰ وہ دن دور نہیں جب ہر جاپانی یہ کہے گا کہ بھارت پاکستان کے پڑوس میں واقع ہے نہ کہ پاکستان بھارت کے پڑوس میں واقع ہے۔ اس میلے میں پاکستانی اسٹال کے سامنے سے دن بھر میں ہزاروں جاپانی گزرے اور انھیں معلوم ہوا کہ پاکستان کہاں واقع ہے۔ میلے کے اختتام سے پہلے کوشی گایا کے صدرِ بلدیہ بھی پاکستان کے اسٹال پر چند لمحوں کے لئے رکے اور شکریہ ادا کیا۔ شہری انتظامیہ نے پچھلے سال کی طرح اس بار بھی پاکستانیوں کی دریا دلی کو سراہا اور شکریہ ادا کیا۔

اس میلے میں مالی تعاون کرنے کے لئے پاک ایسوسی ایشن کے سابق صدر عبدالرحیم آرائیں، پاک جاپان فاؤنڈیشن کے صدر حافظ مہر شمس، مسلم لیگ جاپان کے شیخ قیصر، پی پی پی جاپان صدر نعیم آرائیں، منتخبہ کے سابق صدر شہزاد علی بہلم، پاکستان ایسوسی ایشن کے سابق صدر ندا خان، پاک جاپان فرینڈشپ کے صدر اور انٹرنیشنل پریس کلب جاپان کے کوآرڈینیٹر راشد صمد خان، غریب عوام پاکستان فاؤنڈیشن کے بانی سید مقصود ہاشمی، پاکستان اسٹوڈینٹس فیڈریشن جاپان کے سیکریٹری مالیات ڈاکٹر سعید اختر، نیو ہاٹ مصالحہ کے رانا عامر، پہچان ریستوران کے چوہدری اشفاق اور الکرم ریستوران کے ذوالفقار علی نے تعاون کیا اور سامان ڈھونے اور اسٹال لگانے اور بعد میں صفائی کرنے کے لئے ایڈووکیٹ شاہد مجید، ممتاز بھٹی، چوہدری نثار، حامد رشید، شاہد رحمٰن، سید شہباز شاہ نے تعاون کیا۔ آج اس میلے میں بڑی تعداد میں پاکستانی حضرات بھی اپنی جاپانی فیملیز کو لے کر آئے تھے جن کی بریانی سے تواضع کی گئی۔ دیگر پاکستانیوں میں مسلم لیگ جاپان کے رانا ابرار حسین، حاجی قیصر محمود، اسد، تنویر، قاسم سوزوکی، اشرف خان، زاہد خان، بابر علی، قاری علی حسن، عوام نیوز کے شیخ فیاض حسین اور پاک جاپان نیوز کے چوہدری شاہد رضا کوریج کے لئے موجود تھے۔ پروگرام کے آخر میں تمام پاکستانیوں نے پاکستانی پرچم کو تھام کر ملی نغمے اور قومی ترانہ پیش کیا جسے وہاں موجود جاپانیوں نے بڑے شوق سے دیکھا۔

٭٭٭

 

 

جاپان میں مقیم بنگالی کمیونٹی نے بھوئشاک میلہ منایا

(17 اپریل 2011ء)  جاپان میں دنیا بھر کے ممالک کے لوگ آباد ہیں گو کہ ان کی تعداد اتنی زیادہ نہیں جتنی یورپ یا امریکہ میں پائی جاتی ہے، تاہم ہر ملک کے افراد اپنے رسم و رواج کے مطابق اپنی ثقافت کو جاپانی عوام میں روشناس کروانے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ بنگلہ دیش کے لوگ بھی جاپان میں مقیم ہیں مگر ان کی صحیح تعداد کا اندازہ لگانا ذرا مشکل ہے کیونکہ بنگلہ دیشی بھائی جو جاپان میں مقیم ہیں وہ زیادہ تر یہاں تعلیم کے لئے آتے ہیں اور تعلیم کے بعد جاپان میں ہی اچھی ملازمت اختیار کرتے ہیں اور اپنے وطن کا نام روشن کر رہے ہیں، جاپانی عوام اور حکومتی حلقے بھی بنگلہ دیشی بھائیوں کو عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ یہاں تک کہ ٹوکیو کی مقامی حکومت نے ٹوکیواِیکے بُکورو اسٹیشن کے قریب ایک پارک میں چند میٹر کی جگہ بنگلہ دیش کے نام مختص کر دی ہے۔ اس پارک میں ہر سال ماہِ اپریل میں جاپان بھر میں مقیم بنگالی شہری اپنے خاندانوں کے ساتھ جمع ہوتے ہیں اور اپنے سالانہ میلہ جسے بنگالی زبان میں بھوئیشاک میلہ کہا جاتا ہے میں شرکت کر کے یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اس میلے میں مرد، خواتین اور بچے رنگ برنگے اور بنگلہ دیش کے علاقائی ملبوسات زیبِ تن کئے خوشی کا اظہار کرتے ہیں، اور بنگلہ دیش کے پکوان، روزمرہ کی اشیاء اور ملبوسات کے اسٹال لگائے جاتے ہیں۔ اس میلے میں بنگلہ دیش کے مشہور و معروف اسٹیج، ٹی وی اور فلمی اداکار بھی شرکت کرتے ہیں، اس میلے کو دیکھنے کے لئے نہ صرف بنگلہ دیشی بلکہ، جاپانیوں کے علاوہ بھی کئی ممالک کے لوگ جوق در جوق آتے ہیں اور لطف اندوز ہوتے ہیں۔ اسی طرز پر سفارتخانہ ٔ پاکستان کی جانب سے یومِ پاکستان کے موقع پر ٹوکیو میں پاکستان بازار لگانے کا انتظام کیا گیا تھا مگر جاپان میں 11 مارچ2011ء کو آنے والے زلزلے و تسونامی* کی وجہ سے جاپانی عوام کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے طور پر اس بازار کی تقریب کو منسوخ کر دیا تھا۔

کسی بھی ملک کی عوام کی یکجہتی کا مظاہرہ اگر دیکھنا مقصود ہو تو اس کے میلے میں ضرور شرکت کریں۔ بھوئشاک میلہ میں شرکت کر کے آپ کو اندازہ ہو گا کہ بنگالی بھائی کس طرح دیارِ غیر میں اپنے ملک کا نام روشن کر رہے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اس میلے میں 2سے 3 ہزار بنگالی شرکت کرتے ہیں۔ واضح رہے کہ بنگلہ دیش کا سرکاری مذہب اسلام نہیں ہے اس کے باوجود اس میلے میں مسلمان، ہندو اور عیسائی بنگالی بڑی تعداد میں شرکت کرتے ہیں اور وہ صرف بنگالی ہوتے ہیں، جاپان میں مقیم پاکستانی کمیونٹی میں شاید ایسی مثال کبھی نہیں دیکھی گئی کہ ایک ہی مقام پر ایک ہزار لوگ بھی جمع ہو سکیں، ہمارے ہاں ایک ہزار لوگوں میں آٹھ سو افراد سماجی و سیاسی رہنما ہوتے ہیں اور ان میں 2 سو افراد عوام ہوتے ہیں اور رہنماؤں کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ عوام کو منتشر کر سکیں اور انھیں دھڑوں میں تقسیم کر کے ایک دوسرے کا دشمن بنا سکیں، در اصل یہ رہنما سیاسی نہیں بلکہ فسادی رہنما ہوتے ہیں اور چند لوگوں کو جمع کر کے انھیں کھانا کھلا کر ان سے اپنے مفادات حاصل کرتے ہیں اور اگر کسی بڑے مجمع میں انھیں تقریر کے لئے نہ بلایا جائے تو وہ تقریبات سے واک آؤٹ کر جاتے ہیں اور اپنی فسادی طبیعت کے مطابق کھل کر سامنے آ جاتے ہیں اور بدلے کی آگ میں جل کر نہ جانے کیا کیا کر گزرتے ہیں۔

 آئیے !ہم جاپانی عوام اور جاپان میں مقیم دوسری اقوام کے لوگوں سے ہی کچھ سیکھیں، بلکہ ہمیں اپنے پڑوسی اور برادر ملک بنگلہ دیش سے ہی کچھ سیکھنا چاہئے۔

*   پاکستان میں جس لفظ کو ’’سونامی‘‘ بولا جاتا ہے، اصل میں جاپان میں اس کو ’’تسونامی‘‘ بولا جاتا ہے۔

٭٭٭

 

 

ایک نوجوان سکھ دوست رنجیت سنگھ کی خواہش پر گُرو نانک دربار ٹوکیو کا دورہ

(12جون2012)مجھے جاپان میں اردو نیٹ جاپان کے چیف ایڈیٹر کی حیثیت کے علاوہ لوگ ایک مترجم کے طور پر بھی جانتے ہیں اور سینکڑوں ایسے پاکستانی، بنگلہ دیشی، اور بھارتی دوست بھی ہیں جن کی دستاویزات جاپانی زبان میں ترجمہ کی ہیں ان سے میری کبھی ملاقات نہیں ہوئی البتہ فون پر رابطہ رہتا ہے۔ گزشتہ سال ایک نوجوان سکھ رنجیت سنگھ نے اپنے ایک دوست کے کچھ کاغذات ترجمہ کے لئے مجھے بھیجے اور اس کے بعد دوستی کا سلسلہ چل نکلا۔ میں نے کبھی بھی مجبور اور مالی طور پر کمزور لوگوں سے منہ مانگا معاوضہ نہیں لیا اور یہی وجہ ہے کہ میرا حلقۂ احباب نہ صرف پاکستانی بلکہ دیگر ممالک کے لوگوں تک بھی پھیلا ہوا ہے جن میں غیر مسلم بھی شامل ہیں جبکہ مسلمانوں میں بھی مختلف مسالک سے تعلق رکھنے والے دوست بھی شامل ہیں اور میرے لئے سب ہی قابلِ احترام ہیں۔ رنجیت سنگھ نے کہا کہ میرے پاکستانی مسلمان دوست بھی کافی ہیں جو مجھے اکثر مسجد میں بھی لے جاتے ہیں اور مجھے بہت ہی محبت سے ملتے ہیں۔ گزشتہ ماہ رنجیت سنگھ نے مجھے کہا کہ ویر جی 10 جون2012ء بروز اتوار ہماری سکھ برادری کا خاص مجمع ہو گا کیا آپ میرے ساتھ چلیں گے ؟ تو میں نے فوراً حامی بھر لی اور کہا کہ اگر تم مسجد میں جا سکتے ہو تو مجھے بھی گردوارہ جانے میں کوئی اعتراض نہیں ہے ہاں مجھے گاہے بگاہے یاد دلاتے رہنا تاکہ میں اس دن کہیں اور وعدہ نہ کر بیٹھوں۔ رنجیت تقریباً ہر دو روز بعد ہی مجھے ایس ایم ایس کے ذریعے یاد دلاتا رہا۔ بالآخر10 جون اتوار کا دن بھی آگیا۔ رنجیت سے وعدہ کیا کہ ٹھیک ساڑھے گیارہ بجے ٹوکیو کے میوگادانی اسٹیشن پہنچ جاؤنگا وہاں سے ساتھ ہی چلیں گے۔ رنجیت سنگھ کو میں نے عین وقت پر اپنا منتظر پایا اور ہم اسٹیشن سے نکل چند میٹر کے فاصلے پر واقع انڈیا ویزہ سینٹر کی عمارت سے متصل زیرِ زمین ایک ہال میں داخل ہو گئے جہاں سیڑھیوں کے بعد لوگ اپنے جوتے اور موزے اتار کر سلیقے سے ایک جگہ رکھ کر ہال میں داخل ہونے سے پہلے ہاتھ منہ دھوتے اور سر پر پگڑی یا رومال باند ھ کر اندر داخل ہوتے ہی دونوں ہاتھ ماتھے تک لے جا کر پرنام کرتے تھے اور ایک قالین پر چلتے ہوئے سامنے اسٹیج پر براجمان گیانی بھر پور سنگھ جو پاٹھ کر رہے تھے انھیں تعظیم کے ساتھ آداب کرتے اور ان کے سامنے سجی ہوئی گرو نانک کی تصویر کے سامنے ما تھا ٹیکتے اور حسبِ توفیق اپنے پرس میں کچھ رقم نکال کر وہاں رکھتے جاتے تھے اور ہال میں جہاں جگہ خالی ملتی وہاں بیٹھ جاتے تھے۔ رنجیت سنگھ نے بھی ایسا ہی کیا میں نے جیب سے اپنی اوقات کے مطابق ایک ہزار ین کا نوٹ نکال کر تعظیم کے ساتھ وہاں رکھ دیا اور گیانی بھرپور سنگھ کو جھک کر آداب کیا مگرگیانی بھرپور سنگھ نظریں جھکائے مسلسل اپنی مقدس کتاب شری گُورو گرانتھ صاحب جی کا پاٹھ(پڑھ) کر رہے تھے اور ان کے ساتھ ہی ہال میں بیٹھے ہوئے لوگ بھی ان کی تقلید میں پاٹھ کر رہے تھے جن میں نوجوان خواتین اور بچے بھی شامل تھے۔ رنجیت نے کچھ دیر بیٹھ کر مجھے دوسرے ہال میں چلنے کا اشارہ کیا وہاں کچھ مرد و خواتین خدمتگار کے طور پر تمام مہمانوں کے لئے لنگر کا اہتمام کر رہی تھیں کوئی دال پکا رہی تھی تو کوئی خاتون توے پر روٹیاں لگا رہی تھی اور مرد حضرات بھی کچھ پکانے میں مصروف تھے۔ میں بھی رنجیت کی تقلید میں سب کو ست سری اکال کہتا رہا اور آگے بڑھتا گیا جہاں دودھ کے شربت کی سبیل لگائے ایک گورے چٹے سردار صاحب نے بڑی محبت و خلوص سے شربت اور مصالحے دار کالے چھولے پیش کئے۔ میرے تعارف پر انھوں نے مسرت کا اظہار کیا اور خوش آمدید کہا۔ تھوڑی دیر بعد ہم واپس مرکزی ہال میں آ گئے اور آگے کی طرف بائیں جانب بیٹھ گئے، درمیان میں قالین بچھا ہوا تھا اور قالین کے دائیں جانب خواتین بیٹھی ہوئی تھیں جن میں جاپانی خواتین کی تعداد بھی کافی تھی۔ سب لوگ مسلسل پاٹھ کر رہے تھے لوگ آرہے تھے اور ما تھا ٹیک کر خاموشی سے خالی جگہ پر بیٹھ جاتے تھے۔ میں نے الجھن کی وجہ سے رومال اتار دیا تو میرے عقب سے کسی نے کہا کہ رومال سے سر اچھی طرح ڈھانپ لو۔ میں نے حکم کی تعمیل کی اور پاٹھ جو پنجابی میں تھا مگر غیر مانوس الفاظ تھے جو مجھے بالکل سمجھ نہیں آرہے تھے میں سننے لگا بہت حیران تھا کہ گیانی صاحب مسلسل پاٹھ کر رہے تھے اور وہاں موجود لوگ ان کا ساتھ دے رہے تھے۔ تقریباً ایک گھنٹے بعد گیانی بھرپور صاحب نے سر اٹھایا اور کہا کہ آج ہم یہاں اپنے ان شہداء کے لئے خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لئے جمع ہوئے ہیں جنھیں 28 سال قبل 1984ء میں بھارتی حکومت نے بے دردی سے قتل کر دیا تھا اور دربار صاحب کے علاوہ اڑتیس گردواروں کی بھی بے حرمتی کی تھی جسے ہم کبھی فراموش نہیں کر سکیں گے۔ انھوں نے کہا کہ وہ نوجوان نسل جو1984ء کے بعد پیدا ہوئی ہے اسے شاید وہ احساس نہ ہو سکے جن کے سامنے وہ ظلم ہوا، آج ہم اپنے ان بہادروں اور شہداء کو خراجِ عقیدت پیش کریں گے جنھوں نے اپنی قیمتی جانیں دے کر سکھ برادری کو زندہ رکھا اور آج ہم موجود ہیں۔ ہمیں ان کا احسا ن مند ہونا چاہئے جنھوں نے اپنی جانیں دیکر ہماری نسلوں کو بچایا اگر وہ اپنی جانوں کی قربانیاں نہ دیتے تو آج ہمارا نام و نشان مٹ چکا ہوتا۔ گیانی صاحب نے وہاں موجود دو نوجوانوں اور ایک خاتون کو جو ان کی اہلیہ تھیں سے درخواست کی وہ کرتن کریں یعنی شہداء کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لئے مقدس کتاب سے کچھ سنگیت گائیں تو موسیقی اور ڈھولک کے ساتھ سنگیت سنائے گئے جسے سب بڑے احترام سے سنتے رہے۔ مجھے وہ سمجھ تو نہیں آ رہا تھا مگر محسوس کر رہا تھا کہ اس میں ایک درد اور اداسی ہے کئی حاضرین کی آنکھیں نم ہو چکی تھیں ماحول سوگوار ہو چکا تھا۔ گیانی صاحب نے تمام حاضرین سے درخواست کی کہ وہ ہر ماہ کے دوسرے اتوار کو یہاں ضرور آیا کریں اور اپنے دوستوں کو بھی ساتھ لایا کریں اور یہاں نہ آسکیں تو کم از کم اپنے گھروں میں ہی کبھی کبھار سنگت کا اہتمام کیا کریں، انھوں نے سب کے ساتھ ایک نعرہ بھی لگایا کہ٭ راج کرے گا خالصہ آکی رہے نہ کوئی (یعنی سچے اور ایماندار لوگ ہی راج کریں گے اور انھیں روکنے والا کوئی نہ ہو گا)٭۔ (میں آج تک اس نعرے کو یہ سمجھتا رہا تھا کہ سکھ کہتے ہیں کہ راج کرے گا خالصہ باقی رہے نہ کوئی۔ ۔ تو مجھے عجیب سا محسوس ہوتا تھا مگر آج رنجیت سے ایک ایک لفظ کو بغور سنا تو معلوم ہوا کہ باقی نہیں آکی کہا جاتا ہے جس کے معنی روکنے والا ہوتا ہے )انھوں نے حاضرین سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ مجھے حال ہی میں اس قسم کی باتیں بھی سننے میں آئی ہیں کہ شاید میں یہ سب کچھ دولت جمع کرنے کے لئے کر رہا ہوں تو میں آپ لوگوں کو یقین دہانی کرواتا ہوں کہ میں نے اس گردوارے کا آغاز تیرہ سال قبل کیا تھا اور میں نے اپنی توفیق کے مطابق یہاں خدمات انجام دی ہیں اور یہ میرا ذریعہ معاش نہیں ہے میں آپ سے کچھ نہیں مانگتا، اگر آپ کچھ دینا ہی چاہتے ہیں تو اس گرو صاحب کے گھر کے لئے دے دیا کریں لنگر کا اہتمام کر دیا کریں میرے لئے کچھ کرنے کی ضرورت نہیں میں اپنا اور اپنے بچوں کا گزارا بہت اچھے طریقے سے اپنے روزگار کے ذریعہ کر رہا ہوں۔ انھوں نے اگلے ماہ کی 15تاریخ کے بڑے اجتماع کے لئے تمام حاضرین کو خصوصی دعوت بھی دی۔ سہ پہر دو بجے گیانی بھر پور سنگھ صاحب نے اجتماعی دعا کروائی اور حاضرین میں حلوے کا پرشاد تقسیم کیا گیا۔ بعد ازاں حاضرین کے لئے لنگر کھول دیا گیا۔ تمام حاضرین اپنی اپنی جگہ اسی طرح آلتی پالتی مار کر بیٹھ گئے خدمت گاروں نے دستر خوان پر تھالیاں سجا دیں اور باری باری ہر خدمتگار تھالی میں دال، سبزی کا سالن، چپاتی، سویٹ ڈش، اور فروٹ رکھتا گیا۔ چپاتی اور فروٹ دینے والے خدمت گار جب چپاتی دیتے تھے تو لینے والا دونوں ہاتھوں سے قبول کر کے اس کا شکریہ ادا کرتا تھا، میری باری آئی تو میں نے لینے کے لئے ایک ہاتھ بڑھایا تو مجھے کہا گیا کہ دونوں ہاتھ بڑھائیں میں نے شرمندہ ہوتے ہوئے دونوں ہاتھ آگے بڑھا دیئے۔ جب تمام لوگوں کے سامنے کی تھالیاں بھر گئیں تو گیانی صاحب کی اجازت سے سب نے ایک ساتھ کھانا شروع کیا۔ لنگر کے لئے دو شفٹیں بنائی گئیں تھیں مگر میں مسلسل دیکھ رہا تھا کہ گیانی صاحب نے ابھی تک کھانا نہیں کھایا تھا بلکہ اپنی جگہ کھڑے ہوئے مسلسل کچھ پاٹھ کر رہے تھے اور سب کو بڑی خوشی سے دیکھ رہے تھے۔ رنجیت سنگھ مجھے ان کے قریب لے گیا اور میرا تعارف کروایا تو بہت ہی خوش ہوئے اور بڑی شفقت سے میرے ساتھ مصافحہ کیا، گیانی بھرپور سنگھ نے بتایا کہ وہ کوئی بیس سال قبل جاپان آئے تھے اور اس وقت چیبا میں مقیم ہیں اور گزشتہ تیرہ سالوں سے جب سے یہ گرو نانک دربار بنا ہے وہ یہاں رضا کارانہ طور پر اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ جاپان بھر میں تقریباً چار ہزار کے قریب سکھ برادری مقیم ہے مگر بغیر پگڑی اور داڑھی والے سکھ زیادہ ہیں جو موڈرن ہو گئے ہیں اور اپنی پہچان سے بھی گھبراتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ٹوکیو کے علاوہ ایباراکی اور فوکوؤکا میں بھی سکھ بھائی خاصی تعداد میں مقیم ہیں اور سب کے تعلقات پاکستانی بھائیوں سے بہت اچھے ہیں۔ گیانی صاحب نے کہا کہ ہر مذہب اچھا مذہب ہوتا ہے اور انسانیت کا سبق دیتا ہے۔ بنیادی طور پر ہم سب ایک ہی رب کو ماننے والے ہیں صرف ہمارے رہنما مختلف ہیں، انھوں نے کہا کہ کئی بزرگ ایسے ہیں جو مسلمانوں اور سکھوں دونوں کے لئے قابلِ احترام ہیں۔ انھوں نے میری توسط سے حکومتِ پاکستان اور پاکستانی عوام کا شکریہ ادا کیا کہ وہ ان کے گردوارے جو پاکستان میں قائم ہیں اوران کے لئے مقدس مقامات ہیں کی دل و جان سے حفاظت کرتے ہیں اور جب وہ وہاں جاتے ہیں تو ان کا شاندار استقبال کرتے ہیں۔ گیانی بھرپور سنگھ نے بتایا کہ ان کے والدِ محترم کا تعلق تقسیم سے قبل کراچی اور والدہ محترمہ کا تعلق لاہور سے تھا، گیانی صاحب کی باتیں بہت ہی بھلی لگ رہی تھیں ان کے چہرے پر گھنی داڑھی اور مونچھوں کے درمیان خوبصورت چمکدار دانتوں کی مسکراہٹ اور معصومیت نمایاں تھی جبکہ آنکھیں سرخ اور اداس تھیں۔ ان سے باتیں کرنے کو بہت جی چاہ رہا تھا مگر مجھے کھانا گاوا ایک پارٹی میں جانا تھا۔ تین بجے ان سے اجازت لی، انھوں نے مجھے ڈھیروں دعائیں دیں اور دوبارہ آنے کی دعوت بھی دی۔ میں نے از راہ معلومات ان سے پوچھا کہ پرشاد دونوں ہاتھوں سے لینا کیوں ضروری ہے؟ تو انھوں نے شاید مجھے ٹالنے کے لئے بڑا ہی پیا را اور سادہ جواب دیا کہ ایک ہاتھ سے پرشاد نیچے گرنے کا احتمال ہوتا ہے۔ ۔ ۔ اور ویسے بھی دونوں ہاتھ بڑٖھائے جائیں تو دینے والے کی تعظیم ہوتی ہے اور اسے خوشی ہوتی ہے۔

٭٭٭

 

 

وطن سے پہلے وطن کی خوشبو۔ ۔ پاکستانی قومی ایئر لائین پی آئی اے

(25 جنوری2011ء) ہمارے پاکستانی بھائی اکثر یہ کہتے ہوئے پائے جاتے ہیں کہ یار ہمیں اپنی قومی ایئرلائین میں ہی سفر کرنا چاہئے تاکہ ہمارے ملک کو زیادہ سے زیادہ زرِ مبادلہ حاصل ہو سکے جسے اپنے ملک کی ترقی و خوشحالی پر خرچ کر کے ہم وطنوں کا معیارِ زندگی بلند کیا جا سکے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پوری دنیا میں مقیم پاکستانی اپنے ملک آنے جانے کے لئے پی آئی اے میں ہی سفر کرتے ہیں مگر اس کے باوجود ہمارے ملک کے زرِ مبادلہ میں اضافہ نہیں ہوتا اور نہ ہی لوگوں کا معیارِ زندگی بلند ہوا ہے۔ اکثر پاکستانی جو دیارِ غیر میں مقیم ہیں وہ یہی کہتے نظر آتے ہیں کہ ہمیں اپنی ایئرلائین استعمال کرنی چاہئے۔ ۔ ۔ میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ ان میں 50 فیصد لوگوں کا مقصد یہ نہیں ہوتا کہ ان کے سفر کرنے سے ملک کو زرِ مبادلہ حاصل ہو یا ان کی وجہ سے ملک میں خوشحالی و ترقی ہو بلکہ وہ صرف اپنے مطلب کے لئے مجبوراً قومی ایئرلائین میں سفر کرتے ہیں (مجبوریوں کا ذکر بعد میں کریں گے) اور ان کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ جب بھی پاکستان جائیں تو ان کا سفر پی آئی اے کے ذریعے ہی طے ہو۔ گو کہ ہر پاکستانی پی آئی اے کے زمینی و فضائی عملے، ان کے اخلاق کی گراوٹ اور ٹکٹ کی گرانی سے شاکی و نالاں نظر آتا ہے مگر محبِ وطن پاکستانی ان تمام حالات سے واقف ہوتے ہوئے بھی پی آئی اے سے ہی سفر کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ خصوصاً وہ پاکستانی جن میں میں خود بھی شامل ہوں جو شاذو نادر ہی پاکستان جاتے ہیں یا سال دو سال میں ایک دفعہ ہی زحمت کرتے ہیں اور وہ بھی قلیل مدت ہفتہ یا دس دن کے لئے۔ جب یہ پاکستانی ایئرپورٹ پر پہنچتے ہیں تو ان کا واسطہ پی آئی اے کے زمینی عملے سے پڑتا ہے جو ان سے مقررہ وزن سے چند کلو زیادہ ہو جانے پر اضافی رقم مانگتا ہے بلکہ بقول ان کے عملہ ان سے انتہائی بدتمیزی سے اور غیر اخلاقی رویہ اختیار کرتا ہے حالانکہ دیکھا گیا ہے کہ دوسری ایئر لائین میں سفر کرنے والوں کو مقررہ وزن سے ایک کلو زائد وزن کی بھی اجازت نہیں ہوتی اور جب تک وہ اپنا وزن کم نہیں کرتے انھیں بورڈنگ کار ڈ والی قطار سے باہر کر دیا جاتا ہے یا پھر وہ فوری طور پر زائد وزن کی ادائیگی کر کے بورڈنگ کارڈ بنوانے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں اور اس ایئرلائین کے عملے سے کوئی گلہ شکوہ نہیں کرتے، اس مثال سے ظاہر ہوتا ہے گلہ شکوہ بھی صرف اپنوں سے ہی کیا جاتا ہے۔ بالکل اسی طرح جب ہم جاپان میں ہوتے ہیں تو کسی بنک، پوسٹ آفس، سرکاری یا غیر سرکاری اداروں میں کسی کام کے لئے جائیں تو بڑی خاموشی اور صبر و تحمل سے اپنی باری آنے کا انتظار کرتے ہیں۔ لیکن جونہی ہمارا اپنے ملکی بنک، سفارتخانہ یا قومی ایئرلائین سے واسطہ پڑتا ہے تو ہم پر تھوڑی دیر کے لئے پاکستانیت کا دورہ پڑ جاتا ہے اور یہ نظم و ضبط اور اخلاقیات یوں غائب ہو جاتی ہیں جیسے سینگوں کے درمیان سے۔ ۔ ۔ وہی جو آپ غلط سمجھ رہے ہیں۔

در اصل ہمارے وہ پاکستانی جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ صرف اور صرف پاکستان کو زرِ مبادلہ بھیجنے کی خاطر ہی پی آئی اے سے سفر کرتے ہیں وہ جھوٹ بولتے ہیں ان کا سفر کرنے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ وطن جانے سے پہلے وطن کی خوشبو یہیں سے سونگھنا شروع کر دیں، کیونکہ یہ پاکستانی جاپان میں اپنے آپ کو بڑا تیس مار خان سمجھتے ہیں اور ان کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ جونہی ایئرپورٹ پر پہنچیں تو وہاں موجود عملہ ان کی اس طرح آؤ بھگت کرے کہ آؤ جی۔ ۔ ملک صاحب، چوہدری صاحب، بٹ صاحب، عثمانی صاحب، صدیقی صاحب، شاہ صاحب، میاں صاحب وغیرہ وغیرہ اور ان کا سامان ترازو پر رکھے بغیر جہاز میں بھیج دیا جائے اور ان کا دستی سامان جو ان کے دونوں دستوں کی پہنچ سے باہر ہو رہا ہوتا ہے کو ان کے ہاتھوں سے لے کر جہاز کے دروازے تک چھوڑنے جائیں اور دروازے پر فضائی میزبانوں میں مرد نہیں بلکہ فضائی خاتون ہو اور انھیں خوش آمدید کہے اور انھیں ان کی نشست تک رہنمائی کرنے کے لئے ان کے ساتھ بھی جائے۔ جب موصوف اپنی نشست پر براجمان ہوتے ہیں تو ان کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ ایسے زاویئے سے بیٹھیں کہ نشست کی ہتھی پر ان کی کہنی ہو اور مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے ہر آنے جانے والی فضائی میزبان کو اوپر سے نیچے تک آسانی سے دیکھتے رہیں اور جب وہ آ رہی ہو تو آنکھیں بند کر لیں اور جا رہی ہو تو آنکھیں کھول سکیں اور دور تک اسے ایسے دیکھ سکیں کہ کوئی انھیں نہ دیکھ سکے کہ یہ کسے دیکھ رہے ہیں۔ لیکن پی آئی اے ائیرلائن میں مذکورہ صاحبان کو ایسی کوئی سہولت فراہم نہیں کی جاتی، حالانکہ پی آئی اے اگر چاہے تو ایسی سہولیات باآسانی دے سکتی ہے مگر ایسا کرنے سے ان کا وہ سلوگن’’ وطن سے پہلے وطن کی خوشبو‘‘ کا مقصد فوت ہو جائے گا۔ ان کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنے ہم وطنوں کو جو عرصۂ دراز سے دیارِ غیر میں مقیم ہوتے ہیں انھیں پاکستانی ماحول کا عادی بنانے کا عمل ایئرپورٹ کے زمینی عملے سے ہی شروع کرسکیں تاکہ انھیں پاکستان پہنچنے پر جاپان کا خوبصورت ماحول، سرکاری و غیر سرکاری اداروں کا نظم و ضبط، شاپنگ سینٹرز کی خوبصورتیاں اور بشمولِ سیلز گرلز جاپان کی گھریلو یا بین الاقوامی ایئرلائین میں حسین و جمیل اور نازک اندام فضائی خواتین میزبان جہاں مردوں کا نام و نشان نہیں ہوتا یاد نہ آسکے جو ان کے لئے اچانک تکلیف کا باعث بنے۔ کیونکہ جاپان جیسے ملک کے خوبصورت ماحول کو چھوڑ کر جب ہم اپنے خوف صورت ماحول میں داخل ہوتے ہیں تو طبیعت زیادہ خراب ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے لہٰذا ہمارے 50 فیصد پاکستانی اس ماحول سے آشنا ہونے کے لئے مجبوراً قومی ایئرلائین کا انتخاب کرتے ہیں کہ کسی بھی ماحول کی یادیں ذہن سے کم کرنے کے لئے بارہ سے اٹھارہ گھنٹے کافی ہوتے ہیں، اور جن کے ذہن میں یہ بات ہوتی ہے وہ کبھی پی آئی اے سے گلہ شکوہ نہیں کرتے بلکہ مشکور ہوتے ہیں اور جب یہ لوگ پاکستان کے کسی ایئرپورٹ پر اترتے ہیں تو جب تک ان کے اذہان سے جاپان کا ماحول ماند پڑ چکا ہوتا ہے اور وہ آسانی سے اپنے دورے کو خوشگوار بنا کر جاپان لوٹتے ہیں تو زیادہ پریشان نہیں لگتے۔ کیونکہ قومی ایئرلائین نے انھیں صرف چند گھنٹوں میں ہی وطن کے ماحول سے آشنا کروادیا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پی آئی اے کا نعرہ ’’ وطن سے پہلے وطن کی خوشبو‘‘ کسی حدتک درست نظر آتا ہے۔

٭٭٭

 

 

قومی ائیر لائن پی آئی اے کی پرواز مقررہ وقت سے  چار گھنٹے دس منٹ پہلے ہی ٹوکیو پہنچ گئی!!

(6 دسمبر 2011ء)پاکستان میں عید الاضحیٰ کی خوشیاں اپنے عزیز و اقارب و احباب کے ساتھ منانے کے بعد مسلسل ہموطنوں کی قومی ایئر لائین سے ٹوکیو واپسی ہو رہی ہے، اور عموماً اردو نیٹ جاپان کو یہی اطلاعات ملتی ہیں کہ آج بھی فلائٹ اتنے گھنٹے تاخیر سے پہنچی۔ مگر گزشتہ روز پرواز نمبر852 جس کا ٹوکیو پہنچنے کا مقررہ وقت دوپہر بارہ بج کر پچاس منٹ تھا براستہ بیجنگ سے ٹوکیو اپنے مقررہ وقت سے دس منٹ پہلے یعنی بارہ بج کر چالیس منٹ پر ہی پہنچ گئی اور تمام پاکستانی مسافروں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور کئی معروف شخصیات نے اس خوشخبری کو اردو نیٹ جاپان کے توسط سے دیگر ہم وطنوں کو بھی پہنچانا اپنا اخلاقی فرض سمجھا۔ قومی ایئر لائین کی ہفتہ وار دو پروازیں ہیں پہلی پرواز پیر اور دوسری پرواز جمعہ کو ٹوکیو پہنچتی ہے جس میں اوسطاَ80 سے ایک سو دس مسافر ہوتے ہیں جبکہ جاپان کی مخصوص تعطیلات میں پروازیں بھر کر جاتی ہیں جس میں پاکستانیوں کے علاوہ چینی اور جاپانی مسافر بھی سفر کرتے ہیں۔ مذکورہ پرواز سے ٹوکیو پہنچنے والے ایک صاحب نے اردو نیٹ جاپان کو فون کیا کہ آج پرواز نمبر852، اپنے وقت سے چار گھنٹے دس منٹ پہلے ہی پہنچ گئی ہے چار گھنٹے تاخیر تو کئی بار سنا تھا مگر یہ چار گھنٹے وقت سے پہلے والی خبر نے چونکا دیا، بعد ازاں خبر کی تصدیق کے لئے اردو نیٹ جاپان نے مذکورہ فلائٹ کے پہنچنے کا وقت دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ فلائٹ چار گھنٹے نہیں صرف دس منٹ پہلے پہنچی ہے، معلوم ہوا کہ جن صاحب نے خبر دی تھی ان کی کلائی کی گھڑی پاکستانی وقت بتا رہی تھی جو جاپان سے چار گھنٹے پیچھے ہے اور جب  فلائٹ ٹوکیو پہنچی تو موصوف کی گھڑی صبح کے آٹھ بج کر چالیس منٹ بتا رہی تھی اور اسی بنیاد پر وہ سمجھے کہ فلائٹ چار گھنٹے قبل پہنچ گئی ہے۔

٭٭٭

 

 

سائیں سلیم شیرو المعروف پیر پگارا آف جاپان سے دو دلچسپ مکالمے

                   (1)

(16اکتوبر 2012ء )جاپان میں غیر ملکیوں کے لئے مستقل ویزہ حاصل کرنا اتنا مشکل نہیں ہے جتنا یہاں کا ڈرائیونگ لائیسنس۔ سائیں سلیم شیرو غالباً جاپان میں رہنے والے آخری پاکستانی ہوں گے جنھوں نے جاپانی لائیسنس حاصل کیا ہے پہلا کون تھا کچھ وثوق سے نہیں کہا جا سکتا مگر قیاس ہے کہ80 سالہ حسین خان صاحب ہی ہوں گے کیونکہ وہ جاپان میں سب سے زیادہ سینئر ہیں اور ماشاء اللہ ابھی بھی ڈرائیونگ کرتے ہیں۔ جہاں تک آخری پاکستانی کا تعلق ہے وہ ایباراکی پریفیکچر میں مقیم سینئر پاکستانی، بھٹو ہاؤس کے بانی اور عمر ابنِ خطاب مسجد کمیٹی کے صدر، معروف سماجی کارکن سائیں سلیم شیرو المعروف پیر پگارا آف جاپان ہیں جنھوں نے گزشتہ روز مجھے فون پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ۔ ہے لو۔ کِبلہ۔ ۔ ۔ حضور۔ ۔ صلاوا لیکم۔ ۔ ۔ آپ کو مبارک ہو۔ ۔ آخر کار مجھے لُوسن مل گیا ہے۔ ۔

میں نے سلام کا جواب دیتے ہوئے حیرانگی سے پوچھا ! کیا؟  لُوسن مل گیا ہے؟

 ہاں ہاں کبلہ لُوسن مل گیا ہے۔ ۔ ۔

اوہ!چلو اچھا ہو گیا تم میں بھی گدھوں والی خصوصیت پیدا ہو جائے گی۔ ۔

کیا مطلب ؟ شیرو نے غصے سے کہا۔ ۔ ۔

میں نے کہا کہ بھائی لُوسن مل گیا نا!!

ہاں کبلہ اتنا حیران کیوں ہو رہے ہو۔ ۔ لُوسن مل گیا ہے اب دیکھو میں کیسے بھگاتا ہوں گاڑی۔ ۔ ۔ میں نے کہا کہ۔ ۔ بھائی لُوسن کراچی کے مکرانی لوگ جانوروں کے اُس چارے خصوصاً کھوتے یعنی گدھے کے فجرانے، ظہرانے یا عشائیہ کے لوازمات کو کہتے ہیں اور انھیں باقاعدگی سے پیش کیا جاتا ہے تاکہ گدھا گاڑی کھینچنے میں انھیں دشواری نہ ہو۔ سائیں نے کہا کہ بھائی جان میں اُس لُوسن کی بات نہیں کر رہا ہوں بلکہ جاپانی ڈرائیو اِن لُوسن کی بات کر رہا ہوں جو بندے کے پاس نہ ہو تو جاپانی پولیس اسے گاڑی کے ہینڈل پر بیٹھنے نہیں دیتی۔ ۔ کیا سمجھے کِبلہ؟۔ ۔ ۔

میں نے کہا کہ سائیں ہینڈل پر بیٹھ کر چلانے کی اجازت تو کسی کو بھی اور کسی بھی صورت نہیں مل سکتی۔ ۔ کیونکہ وہ گول ہوتا ہے اور اس پر بیٹھ کر پھسلنے کا خطرہ ہوتا ہے۔، موٹر سائکل یا سائکل تو ہینڈل پر بیٹھ کر کرتب دکھاتے ہوئے چلائی جا سکتی ہے مگر گاڑی تو بھائی مشکل ہے، سائیں سلیم شیرو پھر غصے میں آ گئے اور کہنے لگے ک۔ ۔ ۔ بلہ حضور لگتا ہے کہ آپ آج اپنے گھر میں اکیلے ہو اور بھابی بچے اور خشک دامن(خوش دامن ) گھر پر نہیں ہیں۔ ۔ اور مذاق کے موڈ میں ہو۔ ۔ ۔ یا آپ ہماری بات جان بُوجھ کر نہیں سمجھنا چاہتے تو نہ سمجھو۔ ۔ ۔ میں نے جلدی سے کہا کہ بھائی مجھے معلوم ہے کہ آپ کو ڈرائیونگ لائیسنس مل گیا ہے مبارک ہو۔ سائیں نے کہا کہ کِبلہ حضور آپ کا دماغ بہت موٹا ہے اتنی دیر لگا دی سمجھنے میں، خیر مجھے وہ مل گیا ہے جو لفظ میرے منہ سے ادا نہیں ہو رہا ہے۔ ۔ ان پڑھ ہوں ناں۔ ۔ ۔ چلو مبارک ہو جلدی سے مٹھائی کھلا دو۔ سائیں نے کہا کہ آج وہ پہلی بار بڑی شان سے گاڑی خود چلا کر ٹوکیو کے بین الاقوامی ہوائی اڈے تک گئے تھے اور وہاں کھڑی ہوئی پولیس کے سامنے سے یوں گزرے تھے جیسے کوئی صاب گزرتا ہے۔ سائیں نے کہا کہ مجھے جاپان میں رہتے ہوئے 24 سال ہو رہے ہیں مگر ڈرائیونگ لائیسنس اب ملا ہے، سائیں نے کہا کہ لگتا ہے میں شاید آخری پاکستانی ہوؤں گا جسے اب لائیسنس ملا ہے۔ میں نے اسے شاباش دیتے ہوئے کہا کہ شیرو بھائی شکر کرو اللہ کا تمھیں لائسنس مل گیا ہے .جاپان میں اس کی ویزے، جاپانی پاسپورٹ اور جاپانی بیوی سے بھی زیادہ اہمیت ہے۔ سائیں شیرو نے کہا کہ آج مجھے بہت خوشی ہو رہی ہے کہ میں نے آج خود گاڑی چلا کر اپنے دوست کو ایئرپورٹ تک الوداع کہا۔ سائیں نے کہا کہ مجھے لائیسنس بنوانے میں شاید اتنی دشواری پیش نہ آتی جتنی مجھے وہاں کے عملے کو اپنے پاکستانی بھائیوں کی بتائی ہوئی باتوں کی تفصیل بتانے میں مشکل پیش آئی، اللہ معاف کرے ہمارا جو بھی بھائی لائیسنس بنوانے جاتا ہے اور جب اس کا کام نہیں ہوتا تو وہ وہاں پر اپنا پیٹ خالی کر کے آ جاتا ہے۔ ۔ پیٹ خالی کر کے ؟؟یعنی۔ ۔ وہ!! ار ے نئیں بھائی میرا مطبل ہے کہ اپنے پیٹ کی ہر بات کر کے آ جاتا ہے جس کی وجہ سے بعد میں جانے والوں کو بلغم ہوتی ہے۔ ۔ بلغم نہیں پرابلم۔ ۔ ہاں ہاں وہی۔ ۔، سائیں شیرو نے ایسے پاکستانی بھائیوں سے اپیل کی ہے کہ بھائی اگر آپ کا کام نہیں ہورہا تو کم از کم ساری باتیں سچ تو مت اُگلو تاکہ تمھارے بعد کسی کا کام ہی نہ ہوسکے۔ لیکن کبلہ اب کوئی فائدہ نہیں اپیل کرنے کا۔ ۔ کیونکہ اب میں نے سارے بدلے لے لئے ہیں اگر ہے کوئی مائی کا لعل تو ایباراکی سے ڈرون لُوسن لے کر دکھاوے!!!!!

میرا مطبل ہے کہ ڈرائیونگ لائسنس لے کر دکھاوے!! ان لوگوں کو ایسی ایسی باتیں بتا کر آیا ہوں کہ اب وہ کسی پاکستانی کو دیکھتے ہی منع کر دیں گے۔ اب سمجھ آئی کہ سائیں سلیم شیرو جاپان میں آخری پاکستانی ہیں جو لائسنس یافتہ ہوئے ہیں۔

                   (2) کمیونٹی کے حالات حاضرہ پر سائیں سلیم شیرو سے تبادلہ خیال

(17دسمبر2012ء)

کبلہ حضور سلاوالیکم۔ ۔

واعلیکم السلام شیرو۔ ۔ ۔ کیا حال ہیں بھئی۔ ۔ کہاں ہو۔

کبلہ ہم آپ سے ناراض ہیں یا پھر آپ ہم سے بہت ناراض ہو۔

میں نے کہا نہیں شیرو ایسی کوئی بات نہیں ہے میں بھلا کیوں آپ سے ناراض ہوؤں گا ؟ میں تو شیطانوں کی شیطانیوں سے بھی کبھی ناراض نہیں ہوا، تم تو معصوم انسان ہو۔ ۔ ۔

 نہیں کبلہ پھر بھی کوئی بات ضرور ہے آپ ہمیں لفٹ نہیں لگا رہے۔ ۔

کیا!!! لفٹ نہیں لگا رہے؟؟؟

ہاں کبلہ وہ ہوتی ہے نا اکثر یار دوست بات چیت کے دوران انگریجی میں بولتے ہیں نا۔ ۔ میں نے فلاں کو لفٹ نہیں لگائی۔ ۔ ۔ ۔

 شیرو!! وہ لفٹ تو بڑی بڑی کمپنیوں، اسٹوروں اور اسٹیشنوں پر لگائی جاتی ہیں تاکہ لوگ سیڑھیوں کی بجائے لفٹ کے ذریعے کم وقت میں اور تھکے بغیر اپنی منزل تک پہنچ سکیں عموماً وہ بوڑھے اور ضعیف لوگوں کی سہولت کے لئے بھی لگائی جاتی ہے اور اگر وہ ایک تمھیں لگوا دی گئی تو بھائی تمھارا تو برا حال ہو جائے گا، عجیب مطالبہ کر رہے ہو، کہیں ایسا تو نہیں کہ اپنے یارڈ یا مسجد میں لفٹ لگوانے کی سوچ رہے ہو؟؟ کیونکہ یہاں پر بھی آجکل ضعیف العمر لوگوں کا آنا جا نا کافی ہو گیا ہے۔ ۔ ۔

نہیں کبلہ نہیں۔ ۔ ہمیشہ کی طرح میری بات کو دوسری طرف مت لے جایا کرو۔ ۔ تم اچھی طرح سمجھ رہے ہو کہ میں کیا کہنا چاہتا ہوں۔ ۔

 اوہ۔ ۔ ۔ سمجھا۔ ۔ ۔ تمھارا مطلب ہے کہ میں تمھیں لفٹ نہیں کروا رہا۔ ۔

ہاں۔ ۔ اگر کوئی ناراضگی ماراجگی ہے تو بھائی حکم کرو ہم میڈیا سے اور تم جیسے کھترے ناک صافی سے پنگا تو لے نہیں سکتے، آپ بھلے آج یا کل آ جاؤ بھٹو ہاؤس میں ادھر بہت ساری پرانی گاڑیاں کھڑی ہیں کسی بھی ایک گاڑی کے پیچھے جا کر آپ کے پاؤں پکڑ لوں گا۔ سب کے سامنے ذرا شرم آتی ہے بے عزتی خراب ہونے کا ڈر لگا رہتا ہے۔ ۔ ۔ آخر لیڈر ہوں نا!!!!

میں نے کہا کہ نہیں شیرو بھائی ایسی کوئی بات نہیں ہے بس ویسے ہی مصروف تھا اور تم سے میں ناراض ہوسکتا ہوں بھلا؟؟ ویسے بھی تم تو میرے چھوٹے بھائی کی طرح ہو،

اچھا کبلہ میں ایک جبردست بیان لگوانا چاہتا ہوں آپ کے اخبار میں، آجکل جو الیشکن کروا رہی ہے نا ایمبیسی تو مجھے کسی نے بتایا ہے کہ ایمبیسی کی سائٹ پر الیشکن میں امیدواروں کی تعداد گیارہ ہو چکی ہے اور اب ان کی تعداد میں اضافہ نہیں کیا جائے گا۔

میں نے کہا بالکل ٹھیک ہے کیونکہ آخری تاریخ گزر چکی ہے مگر ووٹرز اپنے نام رجسٹریشن کروا سکتے ہیں۔

شیرو نے کہا کہ مجھے کسی نے پڑھ کر سنایا ہے کہ گیارہ میں سے ایک شیطان ہے جسے سفیرِ پاکستان نے 48 گھنٹے کا ٹائم دیا تھا کہ وہ انسان کا بچہ بن جائے مگر وہ آدھا انسان کا بچہ بن تو گیا ہے ابھی تھوڑی کسر ہے، ایک خاتون ہے 8انسان ہیں اور ایک کھرا مسلمان پٹھان ہے

میں نے کہا کہ بھائی خاتون ہو، شیطان ہو، مسلمان ہو یا پٹھان ہو سب پہلے انسان ہوتے ہیں۔

شیرو نے کہا خیر چھوڑو اس بات کو میں ان چکروں میں نہیں پڑنا چاہتا۔ میری تو خواہش ہے کہ بس ہمارا حاجی پٹھان خسرو خان الیشکن میں کامیاب ہو جاوے۔

الیشکن نہیں الیکشن۔ ۔

ہاں ہاں وہی۔ ۔ اور وہ بہادر خاتون ارضِ خورشید کی بیگم خورشید چوہدری کو نائب صدرہ بنا دیا جاوے تو مجا آ جائے گا۔ پھر دیکھنا جاپان میں چند ٹھیکیدار پاکستانی کیسے انسان کے بچے بن کر دوبارہ اسلام قبول کریں گے اور پھر سچے مسلمان کہلائیں گے ابھی وہ پاکستانی ڈرون مسلمان ہیں۔ ڈرون مسلمان!!!نہیں کبلہ وہ کیا کہتے ہیں ڈورمین۔ ۔

آہ۔ ۔ موڈرن مسلمان !!

ہاں ہاں وہی۔ ۔ کبلہ آپ بہت کھترناک ہو۔ ۔

میں نے کہا کہ میرا ناک بالکل صاف ہے کہیں پر بھی کھترے پن کا نشان نہیں ہے۔ ۔

نہیں قبلہ میرا مطبل ہے کہ آپ بہت ڈینجر اور انڈر سافی ہو۔

میں سمجھ گیا کہ شیرو کہنا چاہ رہا ہے کہ میں بہت خطر ناک اور نڈر صحافی ہوں۔ خیر بتاؤ کیا ہوا؟ وہ اس دن کبلہ جب آپ نے میرا انڈرویو لیا تھا نا۔ ۔

انڈرویو نہیں لیا تھا انٹرویو لیا تھا۔ ۔

ہاںں۔ ۔ وہی۔ ۔ تو کبلہ میں نے جو اس میں بیان دیا تھا اس کی وجہ سے دو تین لوگ مجھ سے سخت ناراض ہو گئے ہیں جن میں ایک بابا جی ہیں جو اکثر ہماری مسجد میں آتے ہیں چندہ بھی کبھی کبھار دیتے ہیں اور اخبار بھی پھینک کر جاتے ہیں، اخبار تو خسرو خان نان فروخت کرتا ہے تو اس میں استعمال ہو جاتے ہیں یا جب ہم کھانا وغیرہ کھاتے ہیں تو دسترخوان کے کام بھی آ جاتا ہے اس اخبار کے بہت فائدے ہیں بڑی معلوماتی تصویریں بھی لگی ہوتی ہیں ایک دن کھانا کھاتے ہوئے میں نے ہڈی دسترخوان پر رکھی تو ٹھیک تصویر میں کسی نے منہ کھولا ہوا تھا اس میں فٹ ہو گئی تو مجھے بہت ہنسی آئی۔ خیر کبلہ تمھارے اُس انڈرویو سے وہ باباجی اور دو تین لوگ ناراج ہو گئے ہیں پچھلے دنوں جمعہ کی نماز دیکھنے آئے تھے،

دیکھنے آئے تھے؟

 ہاں وہ صرف دیکھتے ہی ہیں پڑھتے کم ہیں، ایک دن جماعت کے ساتھ نماز میں کھڑے ہوئے تھے کسی نے پیچھے سے آواز لگائی بابا جی کیسے ہیں تو پلٹ کر انگلی منہ پر رکھ کر کہنے لگے۔ ۔ خا۔ ۔ مو۔ ۔ ش۔ ۔ جماعت ہو رہی ہے بعد میں بات کریں گے، مگر اب وہ مجھے سلام نہیں کرتے اور بہت ناراج لگتے تھے۔ شاید میں نے اپنے بیان میں کہا تھا نا کہ چکن میں بیٹھ کر ایسوسی ایشن بنانے والے جو اپنے ماں باپ اور بھائیوں کے نہ ہوسکے وہ ہمارے کیا ہوں گے تو بس کبلہ وہی بات لگتا ہے انکو لگ گئی ہے، ان کا منہ چھوٹا سا مرجھایا ہوا تھا، پہلے سلام بھی کرتے تھے اور میری کھیریت بھی پوچھتے تھے کہ شیر۔ ۔ ۔ ر۔ ۔ و۔ ۔ ۔ کیا۔ ۔ حا۔ ۔ ۔ ل ہے۔ خیر چھوڑو کبلہ جب سے میں نے خسرو کی حمایت میں اعلان کیا ہے مجھے تو لوگوں نے اپنی پارٹیوں میں دعوت دینا بھی چھوڑ دی ہے سیدھے منہ بات بھی نہیں کرتے ہیں جب بھی بات کرتے ہیں دوسری طرف منہ کر کے کرتے ہیں، میں ایسے مطبلی لوگوں کو صاف بتا دینا چاہتا ہوں کہ میں تمھاری دعوتوں کا بھوکا نہیں ہوں اور نہ ہی کسی پلاؤ زردے کا بھوکا ہوں البتہ نان اور قورمہ ہو تو چلے گا، میں خسرو خان کا ہی ساتھ دوں گا کیونکہ وہ اتنا پرہیز گار اور نیک انسان ہے کہ پٹھان ہونے کے باوجود وہ نسوار سے دو میٹر دور رہتا ہے،

دو میٹر دور کیوں ؟

 کیونکہ نسوار پچھلے کمرے میں رکھی ہوتی ہے وہ ادھر کم ہی جاتا ہے اور وہ جہاں سے گزرتا ہے اس کمرے کا فاصلہ اس سے دو میٹر دور ہے۔ لیکن کبلہ میں انشاللہ تعالیٰ خسرو کو کامیاب کروا کر دم لوں گا۔ چاہے لوگ میرے کتنے ہی خلاف کیوں نہ ہو جائیں۔ حاجی خسرو خان زندہ باد اور ہمارا مستقل کا صدر خسرو خان ہو گا۔ انشا اللہ۔

٭٭٭

 

 

کالے کوٹ کی کہانی

(ایک افسانہ)

(فروری 2011ء)زندگی میں کئی اچھے اور برے تجربات ہوتے ہی رہتے ہیں اور کئی تو بہت مہنگے بھی پڑتے ہیں۔ ایسا ہی ایک تجربہ مجھے اس وقت ہوا جب ہمارے صدر جناب آصف علی زر داری جاپان کے دورے پر تھے۔ جیسے تیسے منت سماجت کر کے ان کے قریب ہونے کا پروانہ مل ہی گیا خوشی کی انتہا نہ تھی۔

دل میں بار بار آ رہا تھا یہ کروں گا وہ کروں گا۔ ۔ ۔ ایک دن پہلے خیال آیا کہ سوٹ تو ہے ہی نہیں !!!سوچا کسی دوست سے مستعار لے لوں مگر ارد گرد میرا کوئی ایسا دوست بھی نہیں جسے سوٹ پہننے کا شعور ہو۔ ۔ ۔ مرتے کیا نہ کرتے سوٹ لینے چلے گئے۔ یہ سوچ کر کہ صدر سے ملنا ہے۔ کپڑے اچھے ہونے چاہئیں حالانکہ جب میں کسی مسجدمیں اللہ کے حضور جاتا ہوں تو اتنا پریشان نہیں ہوتا جتنا صدر صاحب سے ملاقات کے لئے پریشان تھا۔ ۔ ۔ اف ہم تو سمجھتے تھے مہنگائی صرف پاکستان میں ہی ہے کوئی سوٹ بھی سات آٹھ مان ین سے کم ہی نہیں ہے اتنا تو میرے اپارٹمنٹ کا کرایہ اور ماہانہ خرچ ہے۔ ۔ ۔ کیا کیا جائے دل میں آیا چھوڑو سوٹ ووٹ کو۔ ۔ وہی زیب تن کریں گے جو اکثر کرتے ہیں۔ ۔ ۔ لیکن یہ سوچ کر رہ گئے کہ انہی چکروں میں ایوان صدر کو جاتا راستہ چھوڑا تھا۔ ۔ ۔ مگر اس مرتبہ ایسا نہیں ہو گا۔ ۔ ۔ صدر سے کون سا بار بار ملنا ہوتا ہے۔ ایک دوکان سے دوسری دوکان آخر ایک دوکان میں سیل میں لگا سوٹ مل ہی گیا رنگ مجھے پسند تو نہیں تھا مگر کیا کرتے ایک ہی سوٹ تھا وہی لے لیا۔

دل تو چاہ رہا تھا کہ سوٹ پہن کر ہی سو جاؤں پر صبح کام پر بھی جانا تھا۔ ۔ وہاں تو میلا ہو جائے گا، اس لئے اسے اچھے طریقے سے لپیٹ کر الماری میں رکھ دیا۔ صبح ہوئی تو سب سے پہلے الماری کھول کر دیکھا سوٹ وہیں پر تھا میں نے سوچا کہیں سوٹ لینا خواب ہی نہ ہو۔ منہ ہاتھ دھو کر کام پر چلے گئے۔ سارا دن سوچتے رہے کس طرح سے ہاتھ ملائیں گے یہ بات کریں گے وہ بات کریں گے اور موقع ملا تو ایک دو نعرے بھی لگا ہی دیں گے۔ کتنا لمبا ہو گیا آج کا دن کٹنے میں ہی نہیں آ رہا۔ صدر سے ملنے کی خوشی اور پہلی دفعہ سوٹ پہننے کی جلدی۔ ۔ ۔ آج کا دن بھی شیطان کی آنت کی طرح لمبا ہو گیا تھا کام پر جی نہیں لگ رہا تھا۔ بہر حال اللہ اللہ کر کے کا م ختم ہوا، اور اپنی پرانی پھٹ پھٹی پر گھر کی طرف بھاگے۔ جلدی جلدی غسل کیا اور سوٹ پہن کر تیار ہو گیا۔ گھڑی دیکھی تو معلوم ہوا کہ ابھی تو کافی ٹائم ہے۔ تھوڑی دیر بعد جب صبر نہ ہو سکا تو اسٹیشن کی طرف چل دئیے ٹرین نے بھی ابھی ایک گھنٹے سے زیادہ لینا ہے ہوٹل تک۔ ۔ ۔ کیونکہ ہوٹل سے ہی گلے میں ڈالنے والا پٹہ میرا مطلب ہے کہ پاس ملنے تھے اور وہاں سے پاکستان سے آئے ہوئے لوگوں نے ہمارے ساتھ جانا تھا۔ صدر کے استقبال کے لئے بارہ بجے کے لگ بھگ ہم لوگ ایئر پورٹ کی طرف روانہ ہوئے۔ تیس منٹ میں وہاں پہنچ گئے۔ بس سے اترے تو ہلکی بارش ہو رہی تھی صدر صاحب کی آمد میں ایک گھنٹے کی تاخیر تھی۔ نیا سوٹ اور بارش۔ ۔ ۔ ایک نئی ٹینشن۔ ۔ ۔ لیکن ہم بھی ہوشیار تھے قریب ہی چھت کے نیچے ہو گئے۔ پتہ چلا صدر صاحب آنے والے ہیں تو ہم جہاں طیارے نے رکنا تھا اس طرف روانہ ہونے لگے تو ہمارے مالک میرا مطلب ہے کہ دوست نے سامان زیادہ ہونے کی وجہ سے ہمیں بھی کچھ پکڑا دیا۔ تھوڑا وزنی تھا بارش بھی تیز ہو رہی تھی۔ ہمیں کچھ فاصلے پر کھڑا کر دیا گیا اور کہا کہ اس سے آگے آنا منع ہے۔ دوست کو سامان واپس کیا تو پتہ چلا کہ وہ کیمرے کا اسٹینڈ تھا۔ اللہ اس کا بیڑہ غرق کرے ذرا سا احسان کرتا ہے اور پہاڑ جیسا کام کرواتا ہے کمبخت۔ ۔ ۔ ہم بھی اپنے کیمرے کی سیٹنگ میں لگ گئے لیکن ہمارا کیمرہ تو کسی کام کا بھی نہیں رہا، یہ تو قریب سے تصویر نہیں بناتا اتنی دور سے کیا خاک تصویر بنے گی۔ ۔ ۔ اور نہ ہی صدر سے ہاتھ ملا پائیں گے اور نہ نعرے لگا سکیں گے، صدر کی تصویر اتارتے ہیں تو ہماری کون اتارے گا؟؟اور جب ہماری تصویر ہی نہ ہو تو فائدہ ہی کیا ایسا سوٹ پہننے کا اور کام کی ایک چھٹی کرنے کا۔ ۔ ۔ کیا کرتے میرا پہلا تجربہ تھا۔ صدر صاحب کا طیارہ لینڈ کر گیا تھا اور عین ہمارے سامنے آ کر رکا۔ صدر صاحب طیارے سے نیچے اترے اور گاڑی میں بیٹھے اور یہ جا وہ جا۔ ۔ ۔ ارے یہ کیا!!!ہم کیمرہ سیٹ کرنے میں ہی لگے رہے۔ واپسی کے لئے سامان سمیٹا دوست کے کہنے سے پہلے ہی ان کے کیمرے کا اسٹینڈ اٹھایا اور واپسی سارے راستے خود کو کوستے رہے کہ اگر صرف اسٹینڈ ہی اٹھانا تھا تو نیا سوٹ لینے کی کیا ضرورت تھی۔ مجھے اپنے سوٹ اور ایک چھٹی کا تو اتنا ملال نہیں مگر میری وجہ سے ایک دوست اور بھی اسی طرح شرم سار ہوا جس نے کبھی پینٹ میں ازاربند تک نہیں ڈالا، میں نے اسے بھی نیا سوٹ پہنوا دیا تھا، اس سے تو چلنا بھی دشوار ہو رہا تھا کہ کیا مصیبت پال لی ہے۔

٭٭٭

 

 

ہمشیرہ زہرہ عمران کے نام ایک خط

ڈیئر زہرہ اور عمران

   السلام و علیکم

(جون2004ء)امید ہے آپ سب لوگ خیریت سے ہوں گے اور سعدیہ کی شادی کے بعد اداسی کے بادل کچھ چھٹ گئے ہوں گے۔ یہاں پر بھی ہر طرح کی خیریت ہے خالی بادل چھائے ہوئے ہیں کبھی بھی برس سکتے ہیں کیونکہ بہت غصے میں ہیں۔

گزشتہ روز تمہارا ارسال کردہ تفصیلی خیریت نامہ بلکہ شادی نامہ موصول ہوا۔ پڑھ کر بہت ہی لطف آیا گو کہ میں سعدیہ کی شادی میں شریک نہ تھا، لیکن تمہارے خط کے ذریعے مجھے ایسامحسوس ہوا کہ میں نے بھی شادی کی تمام رسومات میں شرکت کی ہو، واہ مزہ آگیا خط پڑھ کر۔ تم نے مجھے وہ تمام پاکستانی شادیوں کی رسوم اور روایات یاد دلا دی ہیں جو کہ میں تقریباً تقریباً بھول ہی چکا تھا۔ تم نے شادی کی افتتاحی تقریبات سے لے کر اختتامی تقریبات تک جو تصویر کشی کی تھی بہت زبردست تھی، واقعی مجھے بہت ہی لطف آیا اور خط پڑھنے کے دوران میں یہ شدت سے محسوس کرنے لگا کہ میں بھی اس شادی کی تقریب میں برابر کا شریک ہوں۔ خط پڑھنے کے دوران کئی بار تو مجھے ڈھولک کی تھاپ اور گانے بجانے تک کی آوازیں سنائی دینے لگیں اور میں نے حنا کی خوشبو بھی محسوس کی، کوک کے ساتھ سموسے کھاتے ہوئے محسوس کیا۔ باہر ویسے بھی بارش ہو رہی تھی اور ہوائیں چل رہی تھیں۔ شادی ہال کا منظر بھی چشم تصور سے دیکھا، دولہا کا پگڑ اور دلہن کا لہنگا بھی دیکھا، دولہا کے دوست اور سعدیہ کی سہیلیاں بھی دیکھیں جن میں تم، عابدہ، سمیرا، طاہر ہ، باجی شہناز کی بیٹیاں ارم اور توقیر پیش پیش تھیں۔ باجی شازیہ کو اقبال بھائی کے تصور میں گم پایا، انکل کو مطمئن اور اداس دیکھا، آنٹی کو روتے ہوئے دیکھا، لیکن خوشی اور مسرت کے جذبات کے ساتھ اپنے دوپٹے سے نہ نظر آنے والے آنسوؤں کو صاف کر رہی ہیں، عمران کو اپنے سامنے کے دو دانت جو کسی حادثے کی نذر ہو گئے تھے چھپاتے ہوئے پریشان دیکھا، عثمان میاں اپنا چشمہ درست کرتے ہوئے دیکھے گئے، ریحان دولہا کے دوستوں کے ساتھ خوش اخلاقی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نظر آئے۔ اور ہاں سعدیہ یعنی دلہن کو میں نے دیکھا کہ دولہا کے پہلو میں براجمان ہے اور دو بار اسے اپنے ہیرو کو کہنی مارتے ہوئے اور گھوڑے کی لگامیں کسنے کا اشارہ کرتے ہوئے بھی دیکھا۔ جب خط اختتام پر تھا تو میری آنکھوں میں آنسو بھر چکے تھے۔ خوشی کے آنسو، اپنے بہن بھائیوں سے جدائی کے آنسو، اپنی بہن کی شادی میں شرکت نہ کر سکنے کے آنسو، کاش کہ میں بھی حقیقت میں اس خوشی کے موقع پر ہوتا !خیر اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ سعدیہ اپنے گھر میں خوش و خرم رہے آمین۔

اچھا میں نے شادی ہال میں کیا دیکھا کہ ایک مغل شہزادی گھوم رہی ہے اور ایک خوبصورت سے گلاس میں دولہا کو دودھ پیش کر رہی ہے۔ یقین کرنا کہ وہ بالکل عابدہ کی طرح لگ رہی تھی۔ شاید وہ عابدہ ہی تھی، ہاں ہاں وہ عابدہ ہی تھی کیونکہ شہزادی ہونے کے جملہ حقوق تو اسی کے پاس محفوظ ہیں۔ اچھا جب میں غیر شادی شدہ تھا تو سوچا کرتا تھا کہ جب میری شادی ہو گی تو اپنی ہونے والی سالیوں کو جوتا چھپانے کا خوب مزہ چکھاؤں گا۔ منصوبہ بنایا ہوا تھا کہ جاتے وقت پرانے سے جوتے پہن کر جاؤں گا اور شیروانی میں جوتوں کی نئی جوڑی چھپا لوں گا جونہی جوتا چوری ہو گا، نیا نکال کر پہن لوں گا لیکن جب شادی ہوئی تو سالی تو کوئی سرے سے تھی ہی نہیں نہ شیروانی نہ پگڑ اور نہ ہی جوتے چھپانے کی رسم، کیونکہ جہاں میری شادی ہوئی وہاں ہال میں نہ صرف دولہا میاں بلکہ سارے میاں جوتے اتار کر ہی جاتے ہیں۔ اب کوئی سالی موزے تو اتارنے سے رہی !! صرف ایک گھر والی ملی جو سب سالیوں اور سالوں پر بھاری ہے وزن میں نہیں رعب میں۔ ہائے ساری حسرتیں دل میں ہی رہ گئیں۔ ۔ ۔

ارے ہاں عمران! یاد آیا کہ بھائی وہ تمہارے مرحوم عمر رسیدہ مرغے کو ایک سازش کے تحت قتل کیا گیا ہے۔ کیونکہ رسم حنا کی ادائیگی کے لیے اوپر والا پورشن درکار تھا جہاں تمہارے مرحوم مرغے کی رہائش تھی اس لئے مذکورہ بالا رسم ادا کرنے کے لیے بالائی جگہ حاصل کرنا پڑی اور مرغے میاں کو اوپر والے پورشن سے بھی اوپر مستقل پورشن میں روانہ کر دیا گیا اور بہانہ یہ بنایا گیا تھا کہ گرمی بہت تھی۔ ویسے بھی سننے میں آیا تھا کہ وہ بے وقت اذانیں دینے لگا تھا حالانکہ اس سے زیادہ بے وقت کی اذانیں ہمارے مسجد کے مؤذن دیتے رہتے ہیں انہیں کوئی کچھ نہیں کہتا ؟یار یہ سب مؤذن ایک ہی وقت میں اذانیں کیوں نہیں دے دیتے؟ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے اذانوں کا مقابلہ ہو رہا ہو، ایک موذن خاموش ہوتا ہے تو دوسرا شروع ہو جاتا ہے اور کئی بار تو کورس میں اذانیں سنائی دیتی ہیں۔ جب مسجد میں جاؤ تو مؤذن صاحب خود خراٹے لے رہے ہوتے ہیں تو انھیں اٹھانے کے لئے نمازیوں کو اذان دینا پڑتی ہے پھر وہ ہڑ بڑا کر اٹھتے ہیں ارے چور آگیا۔ ۔ چور آگیا۔

                میری طرف سے تمام گھر والوں کو سلام کہنا           والسلام

                                                آپ کا بھائی ناصر

٭٭٭

 

 

حصہ دوم: جاپان زندہ باد

 

 

جاپان کی آبادی

(19 ستمبر2008) برّاعظم ایشیا کا ہر خطّہ قدرتی وسائل سے مالامال ہے۔ مغربی ممالک کے مقابلے میں ہم ایشیائی اس بات پر بجا طور پر فخر کر سکتے ہیں کہ یہاں کے ہر خطّے میں کھانے پینے کی اشیاء وافر مقدار میں موجود ہیں اور یہی حضرتِ انسان کی بنیادی اور پہلی ضرورت ہے جس کی خاطر وہ روزِ اوّل سے یومِ آخر تک کوشاں رہتا ہے۔ علاوہ ازیں ہمارے ایشیا کی ایک خصوصیت اور بھی ہے وہ ہے اللہ تعالیٰ کی خاص نعمت یعنی بچّے جو بعد میں انسان کہلاتے ہیں۔ یہ ہمارے ہر خطّے میں مقابلے کی حد تک ایک دوسرے پر سبقت لیے جاتے ہیں۔ یہاں کا سب سے بڑا ملک چین جہاں پر آبادی اتنی ہو چکی تھی کہ حکومت نے عوام کی منتیں ترلے کر کے آبادی کے مزید اضافے کو روکنے کی درخواست بلکہ یہ شرط عائد کر دی کہ اگر کسی کے ہاں ایک سے زائد بچّہ پیدا ہوا تو انھیں فی الفور سرکاری سہولیات سے محروم کر دیا جائے گا۔ اس کے برعکس اسی خطّے کا ایک اور خوبصورت ملک جہاں امن و امان اور خوشحالی کا دور دورہ ہے جسے عرفِ عام میں ایشیا کا ٹایئگر بھی کہا جاتا ہے جی ہاں جاپان جسے ترابِ آفتاب بھی کہتے ہیں جس نے اس خطّے کے ہر چھوٹے بڑے ملک کو معاشی سنبھالا بھی دے رکھا ہے۔ بدقسمتی سے یہاں پر اللہ تعالیٰ کی نعمت یعنی بچوں کی پیدائش دن بدن کم سے کم تر ہوتی جا رہی ہے نتیجتاً آبادی میں تیزی سے کمی اور عمر رسیدہ آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے جو کہ نہ صرف جاپان کے لیے بلکہ ایشیا بھر کے ممالک کے لیے بھی باعثِ تشویش ہے کیونکہ جہاں عمر رسیدہ آبادی زیادہ ہو وہاں آمدنی کم اور ان کی دیکھ بھال پر اخراجات زیادہ ہوتے ہیں اور جب اپنے گھر کے اخراجات پورے نہ ہوں تو پڑوسیوں کی مدد کرنا ثانوی فریضہ کی حیثیت اختیار کر جاتا ہے۔

حکومتِ جاپان ہر سال 15ستمبر کو یومِ تعظیم برائے بزرگان مناتی ہے۔ سرکاری طور پر 65سال سے زائد افراد عمر رسیدہ تصور کیے جاتے ہیں اور اس موقع پر وزارتِ امورِ عامّہ آبادی کے اعداد و شمار پیش کرتی ہے۔ واضح رہے کہ جاپان میں سرکاری و نجی اداروں میں ریٹائرمنٹ کی عمر 65سال مقرر ہے تاہم کوئی بھی 65سالہ جاپانی دیکھنے میں بالکل جوان اور تندرست ہوتا ہے لہٰذا کسی بھی اس عمر کے جاپانی کو چاچا، پھوپھا، تایا، انکل یا خالو کہنے کی غلطی کر کے اپنے تعلقات کو خراب کرنے سے گریز کیجیے۔ وطنِ عزیز میں تو اس عمر سے پہلے ہی پٹ سے گر جاتے ہیں اگر خود نہ بھی گریں تو وہاں کے حالات انھیں مجبور کر دیتے ہیں۔ جاپان کی کل آبادی اس وقت بارہ کروڑ 81لاکھ بتائی گئی ہے جس میں 65سال سے زائد افراد کی تعداد 2کروڑ 81لاکھ90ہزار بتائی گئی ہے جو کہ کل آبادی کا 22.1فیصد بنتی ہے اس سال یہ نیا ریکارڈ قائم ہوا ہے جبکہ 70سال سے زائد عمر کے لوگوں کی تعداد 2کروڑ ایک لاکھ 70ہزار شمار کی گئی ہے جو کہ جاپان کی تاریخ میں پہلی بار 2کروڑ سے بھی تجاوز کر گئی جسمیں مردوں کی تعداد 82لاکھ اور عورتوں کی تعداد ایک کروڑانیس لاکھ ستّر ہزار بتائی گئی ہے جو کہ کل آبادی کا 15.8فی صد کا تناسب ہے اور حیرت کی بات ہے کہ چودہ سال تک کے بچوں کا تناسب صرف 13.5ہے۔ 75سال سے زائد افراد ایک کروڑ بتیس لاکھ دس ہزار ہیں جو کہ کل آبادی کا 10.3فی صد ہوتا ہے جبکہ 80سال سے زائد افراد کی نفری 75لاکھ دس ہزار ہے جو کہ کل آبادی کا چھ فیصد کی لگ بھگ ہوتا ہے۔ اور اسوقت جاپان میں صد سالہ افراد کی تعداد 36276پر مشتمل ہے جو کہ ایک رکارڈ تعداد ہے۔ حکومتِ جاپان کی وزارتِ امورِ عامّہ نے آبادی کے اعداد و شمار 1963میں جمع کرنا شروع کئے تھے اور اسوقت جاپان میں صد سالہ افراد کی تعداد صرف 153تھی۔ صد سالہ بزرگان میں مردوں کی تعداد پانچ ہزار سے کچھ زیادہ اور عورتوں کی تعداد اکتیس ہزار سے زائد ہے۔ تاہم اسوقت نہ صرف جاپان بلکہ ورلڈ گینیز بک میں بھی دنیا کا معمر ترین شخص ایک جاپانی ہے جن کا نام یوجی تنابے ہے ان کی عمر اسوقت 113برس سے چند روز زیادہ ہے ان کا تعلق جاپان کے میاگی پریفیکچر سے ہے۔ انہوں نے اپنی 113ویں سالگرہ پر ٹی وی پر انٹرویو دیتے ہوئے روز کے معمولات کے بارے میں کہا کہ وہ ہر روز اخبار پڑھتے ہیں۔ شام کو ایک گلاس دودھ ضرور پیتے ہیں اور رات کہ سونے سے قبل دن بھر کی ڈائری لکھتے ہیں۔ جاپان کا معروف پریفیکچر اوکیناوا جہاں امریکہ کے سب سے زیادہ فوجی اڈّے ہیں وہاں سب سے زیادہ طویل عمر پانے والے افراد پائے جاتے ہیں اور جاپان کی معمر ترین خاتون کا تعلق بھی وہیں سے ہے جن کی عمر اسوقت 113سے زائد ہے۔ اسوقت جاپانی مرد کی اوسط عمر 79.19اور عورت کی اوسط عمر 85.99ہے۔ جاپانی خواتین گزشتہ 23سالوں سے مسلسل دنیا میں طویل ترین عمر پانے والی خواتین میں نمبر ون آ رہی ہیں جبکہ دوسرے نمبر پر ہانگ کانگ اور تیسرے نمبر پر فرانس کی خواتین ہیں جہاں عورتوں کی اوسط عمر 84.1سال ہے۔ جاپانی قوم اپنی صحت کے بارے میں بہت سنجیدہ ہے اور جاپان کے کھانے دنیا بھرمیں متوازن غذا کے طور پر بہت مشہور ہیں۔ جاپانی اپنے کھانوں میں مچھلی کا استعمال بہت زیادہ کرتے ہیں اور تینوں وقت کے کھانے پابندی سے وقت پر کھانے کے عادی ہیں اور اپنی صحت کو برقرار رکھنے کے لئے روزانہ ورزش کو بہت اہمیت دیتے ہیں۔

٭٭٭

 

 

جاپان میں بچوں کی ابتدائی تعلیم و تربیت اور نظامِ تعلیم

(13 جون 2010ء)دنیا کے2 سو سے زائد ممالک میں کوئی بھی ایک ایسا ترقی یافتہ ملک نہ ہو گا جہاں بچوں کی تعلیم و تربیت پر بھر پور توجہ نہ دی جاتی ہو۔ کیونکہ کسی بھی معاشرے یا ملک کی ترقی یا خوشحالی کا دارو مدار بچوں کی صحیح تعلیم و تربیت پر منحصر ہوتا ہے اور تعلیم ہی انسان کو حیوانوں سے ممتاز کرتی ہے۔ اسلام میں بھی تعلیم کی اہمیت پر بہت زور دیا گیا ہے۔ تعلیم کی بدولت ہی انسان انفرادی یا اجتماعی ترقی کرتا ہے اور تعلیم ہی سے ممالک قومی سطح پر ترقی بھی کرتے ہیں۔ بلا شبہ وہ ممالک جو پسماندگی اور مسلسل تنزلی کا شکار ہیں ان کی وجوہات میں ایک وجہ یقیناً مناسب تعلیم کا فقدان ہے۔ دنیا میں ایسے ممالک شاید بہت کم ہوں جس کی قوم تعلیمِ یافتہ ہو لیکن ملک ترقی یافتہ نہ ہو۔ جاپان بھی دیگر ترقی یافتہ ممالک میں سے ایک ملک ہے جہاں خواندگی کی شرح تقریباً صد فیصد ہے۔ ہر ملک کا طرزِ تعلیم تو مختلف ہو سکتا ہے مگر تعلیم کا بنیادی مقصد یکساں ہی ہوتا ہے۔

جاپان میں سرکاری طور پر بچوں کو6 سال کی عمر میں اسکو ل میں داخل کروایا جاتا ہے تاہم 6 سال سے کم عمر کے بچے باقاعدہ اسکول جانے سے پہلے 2 سال یا تین سال کے جی نرسری (یوؤچی اینyouchien) جو نجی ادارے ہوتے ہیں وہاں بھی جاتے ہیں۔

 جاپان کے پرائمری اسکو ل۔ ۔ ۔ شوگاکّوؤ (shougakkou):

جاپانی بچوں کو 6 سال کی عمر میں اسکول بھیجنا لازمی اور والدین پر قومی فریضہ ہوتا ہے جو والدین اپنے بچوں کو 6 سال کی عمر تک اسکول نہ بھیجیں تو ان سے سرکاری طور پر پوچھ گچھ کی جاتی ہے۔ جاپان میں ہر بچے کو9 سال تک(15سال کی عمر تک) تعلیم دلوانا لازمی قرار دیا گیا ہے اور 9 سال تک حکومتِ جاپان کی طرف سے تعلیم مفت ہے تاہم دوپہر کا کھانا اور دوسرے لوازمات کی مد میں ہر بچے سے ماہانہ پانچ ہزار ین وصول کئے جاتے ہیں جو خود کار طریقے سے بچے کے والدین کے بنک اکاؤنٹ سے منہا کر لئے جاتے ہیں تاہم جو ماں باپ یہ خرچہ برداشت نہ کرسکیں وہ اپنی مالی حالات کے واضح ثبوت پیش کر کے اسکول کی طرف سے مخصوص شرائط پر یہ رقم معاف بھی کروا سکتے ہیں۔ 6 سال کی عمر کے بچے پرائمری اسکول شوگاکّوؤ(shougakkou) میں جاتے ہیں جہاں وہ 6سال تک یعنی 12 سال کی عمر تک بنیادی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ جاپان کے ہر شہر ہر علاقے میں پرائمری اسکول قائم کئے گئے ہیں اور ہر علاقے کے بچوں کے لئے لازمی ہوتا ہے کہ وہ اسی اسکول میں جائیں جو ان کی رہائش سے نزدیک ترین واقع ہو۔ کونسے علاقے کا بچہ کس اسکول میں جائے گا اس کا تعین ہر شہر کی مقامی حکومت کی طرف سے کیا جاتا ہے اور بلدیہ کے پاس بچوں کی پیدائش کا ریکارڈ موجود ہونے کی وجہ سے بچہ 6 سال کی عمر میں داخل ہوتے ہی بچے کے والدین کو بلدیہ کی طرف سے پیشگی مطلع کر دیا جاتا ہے کہ آپ کا بچہ آپ کے علاقے کے فلاں اسکول میں جائے گا۔ مقامی حکومت نے پرائمری اسکولوں کے لئے ہر علاقے کی حدود مقرر کر دی ہے مخصوص علاقے کے بچے ہی اس اسکول میں جائیں گے۔ تاہم بعض ناگزیر وجوہات کی بناء پر کوئی بچہ دوسرے اسکول یا دوسرے علاقے کا بچہ کسی دوسرے اسکول میں بھیجا سکتا ہے۔ پرائمری اسکول میں جانے کے لئے بچوں کی کوئی مخصوص وردی نہیں ہوتی بلکہ ہر بچے کے سر پر ایک پیلے رنگ کی ٹوپی ہوتی ہے جو یہ ظاہر کرتی ہے کہ یہ بچہ پرائمری اسکول کا طالبعلم ہے۔ پرائمری اسکول کے بچوں کو اسکول جانے کے لئے اپنے گھر سے پیدل اپنے جونیئر و سینئر ساتھیوں کے ساتھ ہی اسکو ل تک کا فاصلہ پیدل طے کرنا ہوتا ہے۔ کسی بھی بچے کے والدین کو اجازت نہیں کہ وہ انھیں اپنی گاڑی میں اسکول چھوڑنے یا لینے کے لئے جائیں یا کسی بچے کو یہ اجازت بھی نہیں کہ وہ اسکول جانے کے لئے سائیکل استعمال کرے۔ جاپانی حکومت کی طرف سے یہ اقدامات بچوں کی جسمانی ورزش کے پیشِ نظر کئے گئے ہیں تاکہ بچوں کو بچپن سے ہی محنت کا عادی بنایا جا سکے۔ صبح سویرے پرائمری اسکول کے بچے اپنے محلے کی ایک مخصوص جگہ پر جمع ہو جاتے ہیں اور وقتِ مقررہ پر اس محلے کے تمام بچے اپنے سینئر ساتھیوں کے پیچھے پیچھے قطار بنا کر اسکول کی طرف رواں دواں ہوتے ہیں اور ہر روز ایک محلے سے ایک دو بچوں کی مائیں باری باری ان بچوں کو اپنی نگرانی میں گھر کے قریب سڑک تک چھوڑنے جاتی ہیں اور جب بچے ان کی نظروں سے اوجھل ہو جاتے ہیں تو اگلے محلے کی مائیں انھیں مزید آگے تک پہنچانے کی ذمہ داری نبھاتی ہیں اس طرح گھر سے اسکول تک راستہ تمام بچے اپنے ماں باپ کی نگرانی میں خیریت سے اسکول تک پہنچ جاتے ہیں۔

جاپان میں اسکولوں کی ہفتہ وار دو چھٹیاں ہوتی ہیں اور اسکول کے اوقات صبح آٹھ بجے سے سہ پہر ساڑھے تین بجے تک مقرر ہیں۔ لیکن جماعتوں میں باقاعدہ پڑھائی کا آغاز9 بجے ہوتا ہے پہلے اور دوسرے ہر ایک گھنٹے (ایک پیریڈ45 منٹ پر مشتمل ہوتا ہے)کے بعد 10 منٹ کا وقفہ دیا جاتا ہے جس میں بچوں کو کلاس سے باہر جانے کی اجازت نہیں ہوتی، تیسرے گھنٹے میں 20 منٹ کا وقفہ دیا جاتا ہے جس میں بچے کلاس سے باہر میدان میں کھیل کود کر سکتے ہیں چوتھے گھنٹے کے بعد دوپہر کے کھانے کا وقفہ ہوتا ہے تمام بچے کھانا اپنی جماعت میں ہی کھاتے ہیں اور بچوں کو گھروں سے کھانا لانے کی اجازت نہیں ہوتی۔ جاپان کے تمام اسکولوں میں بچوں کو دوپہر کا کھانا مہیا کیا جاتا ہے اور ہر بچے کے والدین سے ماہانہ مخصوص رقم لی جاتی ہے۔ اسکولوں میں کھانے مہییا کرنے والی بڑی بڑی کمپنیاں ہوتی ہیں جو ہر روز نئے مینیو کے ساتھ کھانے تیار کر کے لاتی ہیں جو بچوں کی صحت کا خیال رکھتے ہوئے متوازن غذاؤں پر مشتمل ہوتے ہیں۔ ہر کلاس میں بچوں کی تعداد کے مطابق کھانا پہنچا دیا جاتا ہے اور کلاس کے تمام بچے اپنی اپنی جگہوں پر بیٹھ کر کھانا کھاتے ہیں اور ہر روز کھانا بچوں کو تقسیم کرنے کا فریضہ باری باری چار بچوں کا گروپ انجام دیتا ہے جبکہ کلاس ٹیچر بھی ان کے ساتھ کھانا کھاتے ہیں۔ اس طرح بچوں میں نظم و ضبط اور سلیقے سے کھانا کھانے کی تربیت دی جاتی ہے۔ کھانا کھانے کے بعد ہر بچہ اپنا ٹفن اٹھا کر مخصوص جگہ پر رکھتا ہے اور30 منٹ تک بچے آرام کرتے ہیں۔

جاپان کے پرائمری اسکولوں میں 6 سال تک بچوں کو بنیادی تعلیم سے آراستہ کیا جا تا ہے اور ہر بچے کے لئے اس کے یہ6 تعلیمی سال بڑی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں جنھیں بچے بالغ ہونے تک اپنی بہترین یادوں کے طور پر محفوظ رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جن والدین کے بچے پرائمری اسکول میں زیرِ تعلیم ہوتے ہیں ان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اس اسکول کے علاقے سے باہر اپنے گھر منتقل نہ کریں کیونکہ اس صورت میں بچوں کو اپنا پرائمری اسکول کو بھی خیرباد کہہ کر دوسرے علاقے کے اسکول میں داخل ہونا پڑتا ہے۔ یہاں جاپان میں بچوں کے زیادہ تر دوست اسکول کے ہم جماعت ہی ہوتے ہیں اس لئے والدین کی بھی کوشش ہوتی ہے کہ انھیں 6 سال تک اسی ایک اسکول میں تعلیم دلوائیں۔ جاپان کے تعلیمی نظام میں ہر سال بچوں کو اگلی جماعتوں میں ترقی دی جاتی ہے خواہ کوئی بچہ کند ذہن ہو یا ذہین انھیں اگلی جماعتوں میں ترقی دی جاتی ہے اس طرح بچے احساسِ کمتری میں مبتلا نہیں ہوتے۔ اگر آپ جاپان میں کسی بچے سے اس کی عمر معلوم کریں اور وہ یہ کہے کہ میں پرائمری اسکول کے تیسرے سال کا طالبعلم ہوں تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ اس کی عمر 9 سال ہے۔ دوسرا بچہ اگر یہ کہے کہ وہ چھٹے سال میں ہے تو اس کی عمر 12 سال ہو گی۔ ہر جماعت میں تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کا سالِ پیدائش ایک ہی ہوتا ہے مہینوں کا فرق ہو سکتا ہے لیکن کسی بچے کی عمر دوسرے بچے سے چند ماہ سے زیادہ نہیں ہو سکتی۔ جاپان کے اسکولوں میں ایک جماعت میں 25 سے 35 بچوں کی تعداد ہوتی ہے جس میں بچے اور بچیوں کی تعداد برابر ہوتی ہے۔ کلاس ٹیچر ز بھی مرد اور خواتین برابر تعداد میں ہوتے ہیں۔ ہر کلاس ٹیچر کا اپنی کلاس کے ہر بچے سے گہرا تعلق ہوتا ہے اور کوئی بچہ اگر پڑھائی میں زیادہ تیز نہ ہو تو یہ اس استاد کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ اسے اس قابل کرے کہ وہ اگلے سال کامیاب ہو سکے۔ اس کے لئے کلاس ٹیچر کو اس کے والدین سے بھی رابطہ کرنا پڑتا ہے لہٰذا والدین خاص طور پر اس بچے کی ماں اور کلاس ٹیچر کے باہمی تعاون سے اس بچے پر خاص توجہ دی جاتی ہے۔ ہر کلاس میں بچوں کو جدید تعلیم سے آراستہ کرنے کے لئے ٹیلیویژن، ریڈیو، ویڈیو اور کمپیوٹر بھی استعمال کئے جاتے ہیں۔ ہر اسکول کی ایک ڈسپینسری میں ڈاکٹر ہمہ وقت موجود ہوتا ہے جو ہنگامی حالت میں بچوں کو طبی امداد دے سکے۔ اسکولوں میں ہی بچوں کے سالانہ طبی معائنے کئے جاتے ہیں۔ پیدائیشی طور پر جسمانی یا ذہنی معذور بچوں کو بھی اسی عمر میں اسکول بھیجنا لازمی ہوتا ہے تاہم ایسے بچوں کے لئے ہر شہر میں مخصوص اسکول قائم کئے گئے ہیں اور انھیں لانے لے جانے کے اسکول کی طرف سے سواری کا بندوبست ہوتا ہے اور ایسے بچوں کی تربیت بھی مخصوص تعلیم کے ذریعے انھیں تعلیمِ یافتہ اور کارآمد شہری بنانے کی بھر پور کوشش کی جاتی ہے تاکہ وہ جوان ہو کر معاشرے پر بوجھ نہ بن سکیں یہی وجہ ہے کہ جاپان میں معذور یا عادی گداگر نظر نہیں آتے۔ کسی بھی طرح سے معذور لوگوں کے لئے جاپان کی ہر کمپنی میں انھیں روزگار دینے کا کوٹہ موجود ہوتا ہے۔

پرائمری اسکول کے بچے سال بھر اپنے ساتھیوں اور کلاس ٹیچر کے ساتھ خوب دل لگا کر تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ کھیل کود میں بھی حصہ لیتے ہیں اور اپنی دوستیوں کو پروان چڑھاتے ہیں لیکن اگلے سال ان میں زیادہ تر بچے کلاس کے دوسرے گروپ میں بھیج دئیے جاتے ہیں تاکہ نئے بچوں سے دوستی استوار ہو سکے اور ان کے دوستوں میں اضافہ ہو سکے اس طر ح پرائمری اسکول کا ہر طالبعلم اپنے6 سالہ تعلیمی دور میں 150 سے 200 دوست بناتا ہے۔ پرائمری اسکولوں میں ہر بچے کو کسی نہ کسی کھیل میں حصہ لینا ضروری ہوتا ہے اور سال کے آخر میں مشترکہ طور پر بچے کھیل کود کے مقابلوں میں حصہ لیتے ہیں جسے جاپانی زبان میں اُندو کائی Undoukai یعنی کھیلوں کے مقابلے کہا جاتا ہے جس میں ہر بچہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا ہے۔ یہ موقع بچوں کی زندگی میں یاد گار ترین موقع ہوتا ہے بچوں کے والدین بھی اس دن اپنے بچوں کو کھیلوں میں حصہ لیتے ہوئے دیکھتے ہیں اور ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ پرائمری اسکولوں میں کھیلوں کے یہ مقابلے بہت دلچسپ ہوتے ہیں۔ جاپان میں تعلیمی سال کا آغاز ماہِ اپریل سے ہوتا ہے۔ ہر سال پرائمری اسکول کی تعلیم مکمل کرنے والے بچے مڈل اسکول جسے جاپانی زبان میں چُوگاکّوchuugakkoکہتے ہیں میں جانے کے لئے تیاریاں کرتے ہیں اور6 سال کی عمر تک پہنچنے والے بچوں کو پرائمری اسکول میں داخلے کے لئے لایا جاتا ہے۔ چھٹے سال کے طالبعلموں کے آخری دن انھیں کامیابی کی اسنادتقسیم جاتی ہیں اور نئے بچوں کو خوش آمدید کہا جاتا ہے۔ اس موقع پر بھی ہر بچے کے والدین اسکول میں تقسیمِ اسناد کی تقریب دیکھنے آتے ہیں۔ مسلسل ایک اسکول میں 6 سال تک تعلیم حاصل کرنے والے بچے جب اسکول میں اپنا آخری دن گزارتے ہیں تو بہت افسردہ ہوتے ہیں اور یہ منظر بھی قابلِ دید ہوتا ہے۔ بچوں کے ساتھ ساتھ ان کے والدین بھی افسردہ ہو جاتے ہیں اور اسکول کے بڑے ہال میں والدین کے رونے کی آوازیں بھی سنائی دیتی ہیں خصوصاً مائیں بہت افسردہ ہو جاتی ہیں اور بچے اپنے دوستوں اور اساتذہ سے بچھڑنے کے غم میں بوجھل قدموں سے اسکول چھوڑتے ہیں، اور اپنے اساتذہ اور دوستوں کے ساتھ یادگار تصاویر بناتے ہیں اور دوبارہ ملنے کا وعدہ کر کے اپنی اگلی منزل مڈل اسکول میں جانے کی خوشیوں میں کھو جاتے ہیں۔

جاپان کے مڈل اسکول کی تعلیم تین سالوں پر مشتمل ہوتی ہے مڈل اسکول میں جانے کے لئے پرائمری اسکولوں کی طرح ہر علاقے کے بچوں کو مخصوص مڈل اسکول میں جانا لازمی نہیں ہوتا بلکہ وہ والدین کی مرضی پر منحصر ہوتا ہے لیکن زیادہ تر مڈل اسکول میں بھی وہی بچے ایک ہی جگہ جمع ہو جاتے ہیں جو پرائمری اسکول میں دوست تھے اس طرح مڈل اسکول کا زمانہ بھی بچوں کے لئے خاص اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ مڈل اسکولوں میں بچے یونیفارم میں جاتے ہیں اور کئی بچے جو اسکول سے خاصے فاصلے پر رہتے ہوں انھیں سائیکل پر آنے کی اجازت ہوتی ہے۔ مڈل اسکولوں کا نظامِ تعلیم بھی پرائمری اسکولوں کی طرز پر ہوتا ہے یہاں پر بچوں کو تین سال تعلیم حاصل کرنا لازمی ہوتا ہے اس کے بعد بچے ہائی اسکول جسے جاپانی زبان میں کھوؤکو Koukouکہتے ہیں جس میں داخلے کے لئے مختلف ٹیسٹ ہوتے ہیں جو بچہ جتنا زیادہ ذہین ہو گا اسے اپنی پسند کے شہر کے اچھے اور سرکاری اسکول میں داخلہ ملتا ہے اور جو بچے ٹیسٹ میں کامیاب نہ ہو سکیں انھیں دوسرے اور تیسرے نمبر کے نجی اسکولوں میں داخلہ لینا پڑتا ہے جہاں تعلیم اخراجات سرکاری اسکولوں کے مقابلے میں قدرے زیادہ ہوتے ہیں اور تعلیم کا معیار بھی اعلیٰ ہوتا ہے، اسی لئے والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے بچے پڑھنے میں تیز ہوں، تاکہ انھیں سرکاری اسکول میں آسانی سے داخلہ مل سکے اور ان کے اخراجات میں کمی ہو سکے۔ جاپانی ہائی اسکولوں کی تعلیم بھی 3 سالوں پر مشتمل ہوتی ہے گویا جاپانی ہائی اسکول کا فارغ التحصیل بچہ جس کی عمر18 سال ہوتی اور اس کا تعلیمی دور 12 سال پر مشتمل ہوتا ہے یعنی پاکستانی ایف۔ اے کے طالبعلم کی حیثیت رکھتا ہے۔ پاکستان میں ایف۔ اے کرنے کے لئے ہائی اسکول نہیں بلکہ کالج ہوتے ہیں۔ جبکہ جاپان میں ہائی اسکول کے بعد کالج کا تصور نہیں ہے بلکہ براہِ راست یونیورسٹی میں داخلہ لیا جاتا ہے جہاں  2یا4 سال کے نصاب ہوتے ہیں۔ ہائی اسکول سے فارغ ہونے کے بعد ملازمت کی جا سکتی ہے، مختلف شعبوں میں مزید اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لئے بھی ہائی اسکول کی تعلیم ضروری ہوتی ہے۔ لہٰذا ہائی اسکول کے بعد مزید تعلیم کی خواہش نہ رکھنے والے لوگوں کے لئے ملازمت کے دروازے کھلے ہوتے ہیں، جاپان میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لئے تیکنیکی اسکول اور جامعات سینکڑوں کی تعداد میں قائم کئے گئے ہیں۔

٭٭٭

 

 

جاپان کے اسکولوں میں بچوں کو تنگ کرنے کے واقعات

 (17 اگست 2001ء)ترقی یافتہ ممالک میں وہاں کے لوگوں کے مسائل بھی ترقی یافتہ ہی ہوتے ہیں، ویسے تو جاپان میں کوئی کسی کے کام میں مداخلت یا دخل در معقولات سے پرہیز ہی کرتا ہے یہی وجہ ہے کہ یہاں کے لوگوں کے مسائل بھی کوئی خاص نہیں ہیں۔ ہر انسان اپنی دنیا میں مگن ہے۔ کوئی اپنے پڑوسی کے بارے میں بھی کچھ زیادہ نہیں جانتا، کب کوئی نیا ہمسایہ بنا۔ ۔ ۔ کسی کو معلوم ہی نہیں ہوتا، کب پرانا پڑوسی گھر چھوڑ کر چلا گیا اس کا بھی محلے والوں کو پتہ نہیں چلتا، زیادہ تر لوگ اپنے پڑوسیوں، ہمسایوں یا محلے داروں سے میل ملاپ ہی نہیں رکھتے بلکہ لوگ اپنے رشتہ داروں سے ملنے سے بھی کتراتے ہیں اور جاپان میں ایک دوسرے کے گھروں پر آنا جانا بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔ گلی محلے میں شادی بیاہ یا فوتگی کے موقع پر بھی کوئی کسی کو دعوت نہیں دیتا، کسی کے ہاں بیٹا پیدا ہو یا بیٹی کسی کو کوئی غرض نہیں، کسی جوڑے میں طلاق ہو یا اس کی دوسری تیسری شادی کسی کو کوئی غرض نہیں، پڑوسی کی لڑکی یا لڑکا باہر کیا کر رہے ہیں کسی کو کوئی غرض نہیں ہوتی، یہاں گلی محلے میں کوئی چوہدری نہیں ہوتا جسے دیکھ کر سب اپنے اپنے گھروں میں دبک کر بیٹھ جائیں یا کسی کے دوست کے ابا جان یا بھائی جان کو دیکھ کر سیدھے ہو جائیں۔ مگر اتنا ضرور ہے کہ جب کبھی محلے میں کوئی اجتماعی مسئلہ درپیش ہو تو اسے مناسب طریقے سے حل کرنے کے لئے محلہ کمیٹی اپنا کردار ادا کرتی ہے۔ محلے میں بچے ایک دوسرے سے لڑائی جھگڑا کرتے ہوئے بھی نظر نہیں آتے۔ البتہ جاپان کے اسکولوں میں جس میں پرائمری اور ہائی اسکول شامل ہیں میں اکثر بچوں میں لڑائی جھگڑا یا ایک دوسرے کو تنگ کرنے کے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں۔ جاپان کے بالغان کی طرح یہاں کی کمسن اور نوجوان نسل بھی کم گو، حساس طبیعت اور شرمیلے ہوتے ہیں۔ اسکول میں کسی سے لڑائی جھگڑا یا کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آ بھی جائے تو بچے گھر واپس آ کر اپنے والدین سے شکایت کم ہی کرتے ہیں اور اگر شکایت کر بھی دیں تو ماں باپ ہاتھ میں ڈنڈا لے کر اسکول کا رخ کر کے اسکول میں مار دھاڑ نہیں کرتے بلکہ صبر و تحمل سے اسکول کی انتظامیہ یا بچے کے نگران استاد سے مشورہ کرتے ہیں۔ اسکول کی انتظامیہ بھی اس بات کا خاص خیال رکھتی ہے کہ اسکول میں بچے آپس میں محبت و سلوک سے رہیں، تاہم جاپان میں اسکول میں چھوٹے یا کمزور بچوں سے چھیڑ خوانی یا تنگ کرنے کا رجحان بھی عام پایا جاتا ہے اور اس قسم کے واقعات سے تنگ آ کر اکثر بچے خود کشی کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں اور جاپان میں ہر سال تیس ہزار سے زائد افراد خود کشی کرتے ہیں جن میں اسکول کے بچوں کی بھی خاصی تعداد ہوتی ہے۔ وزارتِ تعلیم کی طرف سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ سال ملک بھر کے پرائمری، سیکنڈری اور ہائی اسکولوں کے بچوں کو تنگ کرنے کے واقعات میں 2517واقعات کے اضافے کے ساتھ کُل 5295واقعات ریکارڈ کئے گئے۔ بچوں کو تنگ کرنے کے واقعات کی یہ تعداد 2006ء کے بعد پہلی بار شمار کی گئی ہے۔ وزارتِ تعلیم کی طرف سے کئے گئے ایک سروے کے مطابق فوکوشیما، میافی اور ایواتے پریفیکچرز کے اسکولوں کے علاوہ 44 پریفیکچر ز کے 37183کے چالیس فیصد  15675 اسکولوں میں بچوں کو تنگ کرنے کے واقعات رپورٹ کئے گئے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بچوں کو تنگ کرنے کی اس تعداد میں رو ز بروز اضافہ ہو رہا ہے جس کا سدِ باب کرنے کے لئے وزارتِ تعلیم کئی اقدامات کر رہی ہے۔

٭٭٭

 

 

23ہزار سے زائد بچوں نے وزارتِ انصاف کو اپنے والدین کی شکایات بھیجیں

(13 فروری 2011ء) جاپان دنیا کے ان ترقی یافتہ ممالک میں سے ایک ہے جہاں ہر شہری کے لئے بلا امتیاز روزگار، تعلیم، علاج و معالجہ، قانون، انصاف اور انسانی حقوق یکساں ہیں۔ جاپان وہ ملک ہے جہاں کسی بھی سطح پر کسی بھی قسم کے کام کے لئے اتنی ہی سفارش و رشوت لی جاتی ہے جتنی ہمارے ممالک خصوصاً پاکستان میں نہیں لی جاتی یا یوں سمجھ لیجئے کہ یہاں اتنے ہی کام بغیر رشوت و سفارش کے ہوتے ہیں جتنے پاکستان میں رشوت و سفارش کے بغیر نہیں ہوتے۔ جاپان میں شاذو نادر ہی کسی سرکاری یا غیر سرکاری محکموں میں کسی کام کے لئے ,,چائے پانی،، کا تصور ہو۔ یہاں کا ایک سرکاری ملازم اپنی عام زندگی میں عام شہری کی بہ نسبت زیادہ حساس اور ذمہ دار ہوتا ہے۔ جاپان میں والدین اور اساتذہ کو بھی خصوصی فرائض تفویض کئے جاتے ہیں جن کی مناسب ادائیگی میں وہ لاپرواہی کے مرتکب ہوں تو ان کی جواب طلبی ہوتی ہے۔ جاپان میں چھوٹے بچوں کو بہت اہمیت دی جاتی ہے اور ان کے بنیادی حقوق کا بہت زیادہ خیال رکھا جاتا ہے۔ چھوٹے بچے جو پرائمری و مڈل اسکول کے طالبعلم ہیں ان کے لئے جاپان کے ہر شہر میں وزارتِ انصاف نے فلاحی مراکز قائم کر رکھے ہیں جہاں چھوٹے کمسن بچے اپنے مسائل یا مشکلات جو ان کے والدین یا اساتذہ حل کرنے میں سنجیدہ نہیں ہوتے اپنی شکایات درج کروا سکتے ہیں۔ اس سلسلے میں وزارتِ انصاف نے ان بچوں کے لئے جنھیں ان کے والدین کی طرف سے ایذا پہنچانے یا ان پر تشدد کئے جانے کے واقعات کے متعلق خصوصی مراکز قائم کئے ہیں اور یہ مراکز پرائمری و مڈل اسکولوں کے تمام بچوں کو جوابی خطوط بھیجتے ہیں جن پر ’’حقوقِ اطفال SOS مختصر خطوط‘‘ درج ہوتا ہے۔ ان خطوط کے ذریعے بچے اپنے مسائل رازدارانہ طور پر وزارتِ انصاف کے علاقائی محکمے کو بھیجتے ہیں جہاں ان خطوط کو انتہائی سنجیدگی سے پڑھا جاتا ہے۔ وزارتِ انصاف نے یہ سلسلہ 2006ء سے جب شروع کیا تھا تو اس سال کے مقابلے میں گزشتہ سال 2011ء میں دگنا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، جاپانی میڈیا کے مطابق 2011ء میں تقریباَ23 ہزار سے بھی زائد خطوط ملے ہیں جن میں ایسے خطوط بھی تھے جن میں کئی بچوں نے لکھا کہ ہمیں گھر میں کھانا نہیں دیا جاتا یا امی ابا مجھے مارتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ اس قسم کے خطوط ہر سال وزارتِ انصاف جاپان بھر کے تمام پرائمری و مڈل اسکولوں کے بچوں میں تقسیم کرنے کا اہتمام کرتی ہے جن پر ڈاک ٹکٹ کی ضرورت نہیں ہوتی اسے تمام بچے لکھ کر قریبی کسی بھی پوسٹ بکس میں ڈال دیں تو وہ خطوط وزارتِ انصاف کو موصول ہو جاتے ہیں جہاں ان خطوط کو پڑھا جاتا ہے اور ضرورت پڑنے پر کاروائی بھی کی جاتی ہے اور بچوں کو جواب بھی دیا جاتا ہے اور اگر بچے کی مرضی شامل ہو تو اس کا ذکر اس کے والدین سے بھی نہیں کیا جاتا۔ پچھلے سال جو 23 ہزار39 خطوط موصول ہوئے اُن میں سب سے زیادہ بچوں کو دق کرنے کی تعداد آٹھ ہزار سات سو تیراسی خطوط، تشدد کی شکایات کے خطوط چار سو پچیس، جسمانی ایذا رسانی کے خطوط کی تعداد دو سو چونتیس تھی۔ جس میں بعض ایسی شکایات بھی تھیں کہ جن پر فوری طور پر کاروائی کرنے کی ضرورت تھی۔ وزارتِ انصاف کا کہنا ہے کہ ہر سال اس قسم کے خطوط میں اضافہ ہو رہا ہے اور ہمیں چاہئے کہ بچوں کی مناسب دیکھ بھال کی جائے اور ان کا ہر طرح سے تحفظ کیا جائے کہ یہ مستقبل کے معمار ہیں۔

٭٭٭

 

 

جاپانی قوم نے آج بھی اپنی قدیمی روایات اور رسم و رواج کو سینے سے لگایا ہوا ہے

(7نومبر 2012ء )دنیا میں وہی قومیں زندہ ہیں اور ترقی یافتہ ہیں جنھوں نے اپنی قدیمی اعلیٰ رسم و رواج کو اپنے سینے سے لگا کر رکھا ہوا ہے۔ جاپانی قوم بھی ان ترقی یافتہ قوموں میں سے ایک ہے جس نے اپنی تمام رسوم کو زندہ رکھا ہوا ہے اور اپنی ایک مخصوص پہچان اور شناخت رکھتے ہیں۔ آپ جاپان کے کسی بھی شہر یا علاقے میں چلے جائیں آپ کو تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ تقریباً ایک جیسے رسم و رواج، مکانات، بازار اور گلیاں دیکھنے کو ملیں گی۔ بعض اوقات باہر سے آنے والا اس یکسانیت کو دیکھ کر بہت بوریت بھی محسوس کرتا ہے کہ کہیں انفرادیت نہیں پائی جاتی۔ جاپانی قوم نے اپنے قدیم رسم و رواج کو طاق نہیں کیا بلکہ بہت ہی خوبصورت انداز سے اپنی قدیمی روایات کو جدید تقاضوں کے ساتھ لے کر چلتے ہیں۔ جاپانی قوم نے قدیمیت اور جدیدیت کے امتزاج کو بہت ہی خوبصورت انداز دیا ہے۔ مثلاً آپ جاپان کے کسی بھی گھر میں چلے جائیں تو اس سے قطعِ نظر کہ وہ امیر کا گھر ہے یا غریب کا مکان، چھوٹا ہے یا بڑا، لگثری مینشن ہے یا لکڑیوں سے بنا ہوا گھر، وہاں آپ کو سوندھی سوندھی خوشبو کی چٹائی والا کمرہ جسے جاپانی زبان میں WASHITSUکہتے ہیں یعنی دیسی کمرہ ضرور ملے گا۔ یہ روایت بھی جاپان میں صدیوں سے چلی آ رہی ہے۔ اگر آپ کو چٹائی والے کمرے میں داخل ہونے کا اتفاق ہو تو آپ بھی یہی محسوس کریں گے کہ آپ سامرائی دور میں چلے گئے ہیں، اس کمرے میں آپ کو اس گھرانے کے آباؤ اجداد کی تصاویر ان کی استعمال شدہ اشیاء ملیں گی جو ان کی یاد دلاتی ہیں۔ اور عموماً دیکھا گیا ہے کہ اس کمرے میں گھر کے بزرگ یا عمر رسیدہ افراد اپنا فارغ وقت گزارنا پسند کرتے ہیں کیونکہ یہ انسانی فطرت ہے کہ وہ جوں جوں بوڑھا ہوتا ہے اسے پرانا دور اور پرانی اشیاء سے عشق ہونے لگتا ہے(بیویاں اور شوہر مستثنیٰ ہیں )۔ جاپان دنیا کا ترقی یافتہ ملک ہے اور حدِ درجہ ترقی کرنے کے با وجود اپنی صدیوں پرانی روایات کو آج بھی گلے سے لگا کر رکھا ہوا ہے اور اپنے روایتی تہوار بڑے فخر سے مناتے ہیں اور انھیں اسی انداز سے مناتے ہیں جس طرح پرانے وقتوں میں منائے جاتے تھے۔ اگر کوئی دوسرے ملک کا باشندہ انھیں اپنے پرانے تہوار مناتے ہوئے دیکھے تو شاید اسے یقین نہ آئے کہ یہ وہی قوم ہے جس نے اپنے کامیابی کے جھنڈے دنیا بھر میں گاڑ دئے ہیں !!۔ پرانے اور قدیمی تہوار اسی انداز سے منانے کا مطلب یہ نہیں کہ جاپانی قوم دقیانوسی ہے یا جدید دور کے ساتھ نہیں چل رہے بلکہ یہاں پر امریکی اور مغرب کی تہذیب کا بھی بہت اثر ہے۔ جاپان میں کرٹسمس، وائٹ ڈے، مدر ڈے اور فادر ڈے بھی اسی انداز سے منائے جاتے ہیں جیسے امریکہ یا مغرب میں منائے جاتے ہیں۔ یہاں کے بعض قدیم تہوار تو دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں جن میں جاپانی نوجوان نسل بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہے اور انھیں منانے میں کوئی شرم یا عار محسوس نہیں کرتی۔ مثلاً ہر سال پورے جاپان میں مختلف اوقات میں گرمیوں میں کئی تہوار منائے جاتے ہیں جس میں بچوں سے لے کر جوان اور بوڑھے لوگ رنگ برنگے حلیہ بنا کر اور قدیمی لباس زیبِ تن کر کے بھرے بازاروں میں رقص بھی کرتے ہیں اور انھیں دیکھنے کے لئے پورا شہر امڈ پڑتا ہے اس موقع پر لوگ خوشیاں مناتے ہیں اور اپنے قدیمی تہوار سے لطف اندوز ہوتے ہیں اور رات گئے تک یہ رقص جاری رہتا ہے۔

٭٭٭

 

 

جاپانی عوام نے بھی اپنے روایتی انداز میں نئے سال کو خوش آمدید کہا

(3 جنوری2011ء)  دنیا بھر کی طرح جاپان میں بھی نئے سال کی خوشیاں منائی جاتی ہیں، جدید جاپان میں مغربی رنگ بہت غالب ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہاں کی عوام خصوصاً نوجوان نسل میں مغربی انداز اپنانے کا رجحان بھی بڑی تیزی سے عام ہو رہا ہے۔ تاہم جاپانی قوم اپنے قومی تہواروں کو بھی بڑی دھوم دھام سے منانے کی شوقین ہے، گو کہ جاپان میں ان کا کیلنڈر دنیا سے مختلف ہے۔ جاپان میں جب کوئی شہنشاہ وفات پا جاتا ہے تو اسی روز سے ان کا نیا کیلنڈر شروع ہو جاتا ہے، مگر نئے سال کا آغاز سنِ عیسوی سے ہی ہوتا ہے اور ساتھ ساتھ ان کا اپنا سال بھی چلتا رہتا ہے، جاپانی شہنشاہ کے تخت پر بیٹھنے کے روزِ اول سے اس کی وفات تک ان کا کیلنڈر ختم ہو جاتا ہے۔، جاپان کے سرکاری کاغذات میں یہی سال کثرت سے استعمال کیا جاتا ہے آجکل، Heisei ہے اس سے قبل شووا  Showa تھا جو63سال تک رہا، موجودہ شہنشاہ کی عمر تو 77سال ہے مگر ان کا دورِ شہنشائیت23 سال ہے اور یہ دور ان کی وفات تک جاری رہے گا۔ لہٰذا اس سال جاپانی عوام نے 2011ء کے ساتھ ساتھ اپنا 23 ئ؁ واں منایا۔ جاپان کے ہر شہر میں ایک بڑا عبادت خانہ ہوتا ہے جہاں اس علاقے کے تمام لوگ سال کے پہلے روز صبح سویرے عبادت کے لئے پہنچتے ہیں اور اپنے من کی مرادیں مانگتے ہیں، اور یہ سلسلہ تین روز تک جاری رہتا ہے، ایک ہی بڑے عبادت خانے میں جسے جاپانی زبان میں جنجاJINJAکہتے ہیں جہاں ان کے روحانی پیشوا لوگوں کو خوش آمدید کہتے ہیں اور انھیں نئے سال کی مبارکباد پیش کرتے ہیں، اس موقع پر جنجا کے اردگرد طرح طرح کی دکانیں اور اسٹال لگائے جاتے ہیں اور لوگ اس دن کو مقدس دن کے طور پر مناتے ہیں، جاپانی زبان میں نئے سال کو شوگاتسوShougatsuکہتے ہیں اور جاپان بھر میں ایک ہفتے سے زائد تعطیلات منائی جاتی ہیں تاہم سرکاری ادارے، ریلوے، بنک، ایئرپورٹ وغیرہ عوام کی سہولت کے لئے کھلے رہتے ہیں۔ سالِ نو کے پہلے روز مقامی لوگ اپنے قریبی جنجا میں اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ جوق در جوق جاتے ہیں اور پچھلے سال حاصل کئے ہوئے تعویذ واپس کر کے نئے خوش بختی کے تعویذ بنواتے ہیں۔ جنجا کی چہار دیواری میں داخل ہوتے ہی چاروں طرف کھانے پینے کی چھوٹی چھوٹی دکانیں سجی ہوتی ہیں جہاں بچے بوڑھے اور جوانوں کے پسندیدہ کھانے اور مشروبات فروخت ہور رہے ہوتے ہیں۔ کئی جاپانی لوگ اس موقع پر اپنے روایتی لباس کھیمونو زیبِ تن کرتے ہیں اور خوشیاں مناتے ہیں۔ نئے سال کی خوشی میں گزشتہ سال کے آخری روز کارخانے، دفاتر، محلے اور گھروں کی بڑے پیمانے پر صفائیاں کی جاتی ہیں۔ لوگ اپنے بچوں کے ساتھ اپنے آبائی شہروں کا رخ کرتے ہیں۔، گھروں میں خصوصی پکوان تیار کئے جاتے ہیں۔ اپنے عزیز و اقارب کو نئے سال کے کارڈز ارسال کئے جاتے ہیں، اپنے آباؤ اجداد کی قبروں پر جا کر دعائیں مانگتے ہیں اور صفائی کرتے ہیں۔

گزشتہ روز نئے سال کے دوسرے دن ہم نے بھی اپنی فیملی کے ساتھ سائیتاما پریفیکچر کے دوسرے نمبر پر بڑے شہر کوشی گایا کے جنجا کا دورہ کیا۔

٭٭٭

 

 

جاپان میں خود کشی جرم نہیں بلکہ بہادری اور غیرت کی علامت تصوّر کی جاتی ہے

(31 جنوری2008ء) اللہ تعالیٰ کی طرف سے زندگی ایک خوبصورت اور انمول تحفہ ہے اور اس حسین تحفے کی قدر نہ کرنا بھی کفرانِ نعمت میں شمار ہوتا ہے اسی لئے خود کشی کو اسلام میں گناہِ کبیرہ قرار دیا گیا ہے اور یہاں تک حکم دیا گیا کہ جو مسلمان حرام موت یعنی خودکشی کا مرتکب ہو اس کی نمازِ جنازہ بھی جائز نہیں۔ پاکستان اور دیگر اسلامی ممالک میں خودکشی کرنا بھی ایک جرم ہے اور جو مسلمان خودکشی کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں وہ یقیناً دوزخ کے مستحق ہیں اور جو ناکام ہو جائیں وہ اسلامی قانون کے تحت سزا پاتے ہیں۔ وطنِ عزیز میں جو افراد خود کشی کرنے میں ناکام ہو جائیں وہ ہماری پولیس کے چھترول کے مستحق ہوتے ہیں اور کم از کم چھ ماہ قید کی سزا بھی بھگتنی ہوتی ہے۔ دورانِ قید ہماری فرض شناس پولیسا ن سے اپنے چھترول کے ساتھ ایسی تفتیش کرتی ہے کہ جیسے پوچھ رہی ہو کہ بتاؤ تم خودکشی کرنے میں ناکام کیوں ہوئے؟؟قانون کی اس تفتیش کے بعد وہ اس قابل ہو جاتے ہیں کہ رہائی کے فوری بعد نہایت ہی کامیاب خودکشی کرتے ہیں تاہم جاپان میں خودکشی کرنے والوں کی مذہبی یا قانونی سطح پر کسی قسم کی حوصلہ شکنی یا تنبیہ نہیں کی جاتی بلکہ جاپان کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہو گا کہ جاپان میں خودکشی کرنا بہادری اور غیرت کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ جاپان کی تاریخ میں بڑے بڑے لوگوں نے اپنے فرائضِ  منصبی میں ذرا سی کوتاہی یا اپنے ماتحت عملے کی لاپرواہی سے اپنے محکمے کی بدنامی پر تمام ذمہ داری اپنے اوپر لیتے ہوئے خودکشیاں کی ہیں جن میں مشہور سیاستدان، مصنف، اداکار، ماہرِ قانون، وزیر، استاد، گلوکار، غریب ترین مزدور اور امیر ترین آجر غرضیکہ زندگی کے ہر شعبے کے افراد شامل ہیں۔ ہمارے ہاں تو کچھ بھی ہو جائے خودکشی تو درکنار ناخن بھی نہیں کاٹتے کہ کہیں خودکشی کا الزام نہ لگ جائے اور خود کشی اسلئے نہیں کرتے کہ ان کی نمازِ جنازہ حرام ہو جائے گی!!!گزشتہ سال سابق وزیرِ اعظم آبے شنزو کی کابینہ کے وفاقی وزیر برائے جنگلات، زراعت و پیداوار جناب ماتسواوکاMatsuokaنے آن ڈیوٹی خودکشی کی تھی۔ اس کے علاوہ ایک مشہور کامیڈین اداکار، ایک گلو کارہ اور ایک اسکول کے ہیڈ ماسٹر بھی شامل ہیں۔ جاپان کے سامرائی دور میں جو شخص بدعنوانی یا معاشرے کے لئے کسی بڑے نقصان کا سبب بنتا تھا وہ اپنی غلطی یا بدعنوانی کی ذمّہ داری قبول کرتے ہوئے بھرے مجمع میں تیز دھار خنجر یا تلوار اپنے پیٹ میں اتار کر انتڑیاں کاٹ کر موت کو گلے لگایا کرتا تھا جسے جاپانی زبان میں seppukuیاharakiriکہتے ہیں۔ جاپان میں آج بھی اسی طرز پر بیشمار خودکشیاں کی جاتی ہیں۔ حکومتِ جاپان کی طرف سے ہر سال محکمۂ پولیس ملک میں خودکشی کرنے والوں کے اعداد و شمار جاری کرتی ہے جس کا آغاز1978ء سے ہوا ہے اور اُس وقت سے اب تک خودکشی کرنے والوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ قومی پولیس کے ریکارڈ کے مطابق گزشتہ سال یعنی 2007ء میں تینتیس ہزار ترانوے افراد نے خودکشی کی ہے جو کہ پچھلے دس سالوں میں ریکارڈ تعداد ہے جبکہ گزشتہ تیس برسوں میں اب تک خودکشی کرنے والوں میں یہ تعداد دوسرے نمبر پر ہے۔ 2007ء میں خودکشی کرنے والوں کی زیادہ تعداد ساٹھ سال یا اس سے زائد عمر کے لوگوں کی تھی جو کہ اپنی صحت و بیماری، معاشرتی مسائل، اکیلا پن اور مالی مسائل سے دوچار تھے۔ دوسرے نمبر پر پچاس سال سے کم افراد جو کہ اپنی زندگی کی عمر کے عروج پر تھے اِن افراد نے کام کی زیادتی، گھریلو مسائل، بچوں کی پرورش کے مسائل یا اپنے ساتھ کام کرنے والے افراد کے ساتھ ہم آہنگی میں ناکامی کے باعث خودکشی کی۔ تیسرے نمبر پر بیس سال سے کم عمر کے افراد ہیں جن میں پرائمری، مڈل اور ہائی اسکول کے طلبہ و طالبات شامل ہیں۔

آجکل جاپان میں جوان لوگ جو کہ تیزی سے سرپٹ دوڑتے ہوئے معاشرے کی کج خلقیاں، اپنے خاندان کے ساتھ رہتے ہوئے بھی تنہائی اور اکیلے پن کا احساس اور محبت میں ناکامی سے مایوس ہو کر اجتماعی طور پر خود کشی کرنے کی طر ف مائل ہیں۔ اکثر ویب سائٹ پر یکساں مسائل سے دوچار نوجوان لڑکے اور لڑکیاں خود کشی کرنے کے مختلف طریقۂ کار کو اپنا کر خودکشی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جاپان میں چونکہ مذہبی یا قانونی طور پر خودکشی کرنے والے پر یا خودکشی کرنے کی کوشش کرنے والوں پر کوئی جرم عائد نہیں ہوتا اس لئے جاپان میں خود کشیوں کا سلسلہ دن بہ دن بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ اسوقت جاپان کے دیگر بڑے مسائل میں خود کشی کا مسئلہ بھی ایک اہم اور فوری توجہ طلب کا مسئلہ کی صورت اختیار کر چکا ہے جس کی روک تھام کے لئے حکومتِ جاپان کے علاوہ مختلف ادارے اور ویلفئر سینٹر مصروفِ عمل ہیں۔ کھاناگاوا پریفیکچر کے یوکوہاما میونسپل نفسیاتی میڈیکل کالج اور اس سے ملحقہ انسدادِ خودکشی کے مرکز کی تحقیقاتی ٹیم کے سروے کے مطابق گزشتہ سال جولائی تک ان کے مرکز میں کل554 مریض لائے گئے جنھوں نے خودکشی کرنے کی کوشش کی تھی لیکن کامیاب نہ ہوسکے۔ ان میں مردوں کی تعداد222 اور عورتوں کی تعداد332بتائی گئی۔ کل تعداد کے دس فیصد افراد سے مختصراً پوچھ گچھ کی گئی تو انکشاف ہوا کہ 47 فیصد افراد نے پہلی بار اور23 فیصد افراد نے دوسری اور 30 فیصد افراد نے ماضی میں دو سے زائد بار خودکشی کرنے کی کوشش کی ہے جنھیں ہر بار ناکامی ہوئی۔ 73 فیصد افراد وہ تھے جو اپنے خاندان کے ساتھ رہتے تھے۔ واضح رہے کہ جاپان میں ایک خاندان عموماً دو سے چار افراد پر مشتمل ہوتا ہے میاں بیوی اور دو بچے۔ مذکورہ افراد سے خود کشی کرنے کی وجہ دریافت کی گئی تو زیادہ تر نے کہا کہ وہ اپنی بیماری اور مستقبل سے خوفزدہ ہیں یا خطرناک قسم کی بیماری کے باعث معذور ہو جانے کے اندیشے کا سامنا کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے یا پھر بے کیف زندگی سے بیزار ہو چکے ہیں۔ خود کشی کرنے کی کوشش کرنے والوں میں محبت، کاروبار، ملازمت، بچوں کی پرورش اور گھریلو مسائل وغیرہ سے بھی پریشان تھے۔

اکثریت نے خودکشی کرنے کے لئے زہریلی دوائیں پی کر جان دینے کی کوشش کی۔ دوسرے نمبر پر اونچی جگہ سے چھلانگ لگا کر اپنے آپ کو ختم کرنے کی کوشش کی اور بعض نے کسی تیز دھار چاقو وغیرہ سے اپنے آپ کو زخمی کر ڈالا۔ انسدادِ خودکشی کے مرکز کے سربراہ نے خودکشی میں ناکام ہو جانے والے لوگوں کے خاندان کے افراد سے رابطہ کیا اور انھیں تجویز پیش کی کہ انھیں مناسب علاج و معالجے اور سوشل سپورٹ کی اشد ضرورت ہے اور ان کی مناسب دیکھ بھال کے لئے ضروری ہے کہ مکمل صحت یاب ہونے تک کچھ عرصے کے لئے ویلفئر سینٹر یا نفسیاتی ہسپتالوں میں داخل کیا جائے تاکہ وہ دوبارہ خودکشی کرنے کی کوشش نہ کریں۔

گزشتہ سال یعنی 2007 میں کل 33093تینتیس ہزار ترانوے افراد نے خود کشی کی جن میں 23478تیئس ہزار چارسو اٹھتر مردوں کی تعداد تھی اور عورتوں کی تعداد9615نو ہزار چھ سو پندرہ بتائی گئی ہے واضح رہے کہ یہ وہ تعداد ہے جو کہ جاپان کی نیشنل پولیس نے ویب سائٹ اور مختلف اسپتالوں کے ریکارڈ سے حاصل کی ہیں۔ اصل تعداد اس سے زیادہ بھی ہو سکتی ہے۔ جاپان میں خودکشی کے سدِّ باب کے لئے راقم کے ذہن میں ایک تجویز ہے کہ اگر حکومتِ جاپان بھی اسلامی قانون پر عمل کرتے ہوئے خود کشی کرنے کی کوشش کرنے والوں کے لئے کوئی سخت قانون، اخلاقی پابندی یا جرمانہ عائد کر دے تو یقیناً خودکشی کرنے والوں کی تعداد میں خاطرخواہ کمی واقع ہو گی۔ کیونکہ جاپانی قوم قانون کا بہت احترام کرتی ہے اور جو لوگ قانون کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوتے ہیں انھیں معاشرے میں اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا۔        ٭٭٭

 

 

جاپانی دنیا میں سب سے زیادہ مچھلی کھانے والی قوم

(12 اپریل2012ء) جاپانی دنیا میں سب سے زیادہ مچھلی کھانے والی قوم ہے۔ مچھلی جاپان کی غذائی ضروریات کا ایک اہم حصہ ہے۔ مچھلی کے بغیر جاپانی قوم زندہ رہنے کا تصور بھی نہیں کر سکتی۔ صبح کا ناشتہ ہو دوپہر یا شام کا کھانا مچھلی کی ڈش کے بغیر کسی بھی وقت کا کھانا نا مکمل سمجھا جاتا ہے۔ جاپان کا شاید ہی کوئی ایسا باشندہ ہو جو دن بھر میں کم از کم ایک بار مچھلی نہ کھاتا ہو۔ تمام جاپانی بچپن سے ہی مچھلی بڑے شوق سے کھاتے ہیں اور پوری قوم مچھلی کھانے کی شیدائی ہے۔ جاپان وہ ملک ہے جس کے چاروں اطراف سمندر، دریا، سر سبز وادیاں اور خوبصورت پہاڑ واقع ہیں۔ سمندر کے قریب رہنے کی وجہ سے مچھلی جاپانیوں کی مرغوب غذا ہے۔ جاپانی لوگ نہ صرف مچھلی بلکہ سمندر میں پائی جانے والی ہر چیز کھاتے ہیں حتیٰ کہ سمندر کی تہہ سے نکلے ہوئے سبز پتّے بھی بہت شوق سے کھاتے ہیں۔ خصوصاً دو قسم کے پتّے جن میں کھونب یعنی sea tangleاور واکامےsea weed بہت کھائے جاتے ہیں۔ واکامے کو سوپ اور سلاد وغیرہ میں استعمال کیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ اس کے استعمال سے بالوں کو تقویت ملتی ہے اور اسے باقاعدہ استعمال کیا جائے تو بندہ بِن بال یعنی گنجا ہونے سے بچا رہتا ہے۔

جاپان کا مشہور صوبہ اوکی ناوا جہاں امریکہ بہادر کی فوجوں کا سب سے بڑا اڈہ قائم ہے وہاں کے مقامی لوگوں کی عمریں بہت طویل ہوتی ہیں۔ آپ کسی سے بھی اس کی درازیٔ عمر کے راز کے بارے میں استفسار کریں تو وہ بڑے فخر سے کہے گا میں ہر روز مچھلی اور سبزی کھاتا ہوں یا کھاتی ہوں اور گوشت سے پرہیز کرتا ہوں جبکہ وطنِ عزیز میں لوگ مچھلی سے پرہیز کرتے ہیں گوشت کے چکر میں رہتے ہیں اور سبزی مجبوراً کھاتے ہیں۔ نکلے ہوئے پیٹ پر رشک کرتے ہیں اور پچکے ہوئے پیٹ پر ترس کھاتے ہیں۔

جاپان میں عام خیال کیا جاتا ہے کہ مچھلی کھانے سے انسان جسمانی و ذہنی طور پر تندرست اور چاق و چوبند رہتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جاپانی مرد یا عورت بہت صحت مند جسم رکھتے ہیں اور ہمیشہ چاق و چوبند رہتے ہیں جو اپنی اصل عمر سے بہت کم نظر آتے ہیں۔ ساٹھ سالہ مرد یا عورت چاچا یا چاچی کہلوانا پسند نہیں کرتے بلکہ نام سے پکارنے کو پسند کرتے ہیں۔ اگر کسی نے چاچا یا چاچی کہہ دیا تو سمجھ لو تعلقات ختم، وطنِ عظیم میں اس عمر کے لوگوں کا نام لے کر پکارو تو گھر والوں کو شکایت کر دی جاتی ہے کہ اپنی اولاد کو تمیز سکھاؤ بڑوں کا نام لیتا ہے۔

مچھلی آنکھوں کے لئے بہت مفید ہے شاید یہی وجہ ہے کہ جاپانی آنکھیں کم دکھاتے ہیں یعنی ماہرِ چشم کو۔ سمندری غذائیں اور مچھلی کے استعمال سے جسم پر فالتو چربی نہیں چڑھتی اس لئے جاپانی مردوں کے پیٹ اپنی پیٹی سے باہر کم ہی نظر آتے ہیں اس کے برعکس وطنِ عزیز میں پیٹی سے تجاوز کرتے ہوئے پیٹ کو دیکھ کر لوگ رشک کرتے ہیں اور اکثر تو ماشاء اللہ کا لفظ بھی استعمال کرتے ہیں اور بڑھی ہوئی توند کو صحت مندی کی علامت سمجھا جاتا ہے جبکہ جس کی توند نکلی ہوئی ہو اس کی سانسیں پھولی رہتی ہیں۔ پھر بھی اس کی توند پر رشک کیا جاتا ہے اور جس کی توند پچکی ہوئی ہو اس پر ترس کھاتے ہیں۔

جاپانی سمندروں میں ایک سو پچاس سے بھی زائد اقسام کی مچھلیاں پائی جاتی ہیں۔ دیگر ممالک کی طرح عموماً یہاں بھی مچھلی کو بھون کر، ابال کر یا تل کر استعمال کیا جاتا ہے لیکن مچھلی کو خام یعنی کچا کھانے کا رواج بھی عام ہے۔ بعض مخصوص مچھلیوں کو کچا ہی سلائیس کر کے ان پر چٹنی یا سوس لگا کر بڑے شوق سے کھایا جاتا ہے۔ مچھلی کی اس ڈش کو ساشیمیsashimiاور سُوشیsushi کہا جاتا ہے جو کہ بہت مہنگی ڈش ہے  جسے ہر روز افورڈ نہیں کیا جا سکتا۔ جاپان کے کھانے غذائیت سے بھر پور ہوتے ہیں اور اب دنیا بھر میں جاپانی کھانے خصوصاً ساشیمی اور سُو شی کے ساتھ واکامے کا سوپ تو بہت ہی مقبول ہو رہا ہے

جاپان کے سمندر اور دریا مچھلیوں اور جھینگوں سے بھرے پڑے ہیں جسے خالی کرنے کے لئے ہر روز لاکھوں کی تعداد میں ماہی گیری کی صنعت سے وابستہ لوگ انھیں بحری جہاز اور موٹر بوٹس کے ذریعے پکڑنے جاتے ہیں لیکن پھر بھی جاپان کی مچھلی اور جھینگوں کی ضرورت کے لئے نا کافی ہوتی ہیں۔ اس طلب کو پورا کرنے کے لئے حکومتِ جاپان مختلف ممالک سے بڑی مقدار میں سمندری غذائیں درآمد کرتی ہے جن میں مچھلی، جھینگے، کٹل فش، شیل فش سرِ فہرست ہیں جو کہ چین، روس اور بھارت سے درآمد کی جاتی ہیں۔، کبھی کبھار مارکیٹ میں پاکستانی مچھلی یا جھینگے کے بھی درشن ہو جاتے ہیں۔ اگر پاکستان کی ماہی گیری کی صنعت سنجیدگی سے جاپان کو مچھلی یا جھینگے برآمد کرے تو وطنِ عزیز کو اچھا خاصا بزنس مل سکتا ہے حالانکہ جاپان میں ہمارے چند لوگ اس شعبے سے بڑی گہری دلچسپی رکھتے ہیں۔ انھیں پاکستان میں مچھلی پکڑنے کا تجربہ بھی ہے۔ ,, نیٹ،، اور,, جال،، کے ذریعے بھی پکڑنے میں ماہر سمجھے جاتے ہیں لیکن یہ سب خواب و خیال کی باتیں ہیں ہمارے وزراء جو جاپان آتے ہیں تو انھیں اتنی فرصت ہی نہیں ہوتی کہ وہ اس طرف بھی توجہ دے سکیں کہ کون کس میں دلچسپی رکھتا ہے وہ تو بس اپنی دلچسپی کی باتیں کرتے ہیں اور جو اس طرف توجہ دلانے کی بات کرتے ہیں ان کی توجہ کہیں اور موڑ دی جاتی ہے۔

٭٭٭

 

 

 جاپان میں ذہنی یا جسمانی معذور لوگ بھی معاشرے پر بوجھ نہیں ہوتے

(اپریل 2011)دو سال قبل آئیچی پریفیکچر کے اوکازاکی شہر میں وفات پا جانے والے 71 سالہ جاپانی ایواسے نے اپنی زندگی میں ایک وصیت نامہ لکھا تھا کہ اس کی موت کے بعد اس کی تمام جمع پونجی جسمانی و ذہنی معذور بچوں کے لئے وقف کر دی جائے۔ جاپان میں مرحوم ایواسے جیسے ہزاروں لوگ ہیں جو اپنی زندگی میں ہی اپنی تمام جائداد کے بارے میں واضح طور پر وصیت نامہ لکھ دیتے ہیں کہ ان کی جائداد یا رقم فلاں ادارے یا مقامی حکومت کے حوالے کر دی جائے اور اس رقم کا مصرف بھی بیان کر دیتے ہیں۔ دو سال قبل وفات پا جانے والے ایواسے کے وکیل اِشی ہارا نے گزشتہ ہفتے مقامی حکومت کو اپنے مؤکل کی طرف سے لکھی گئی وصیت کے متعلق مطلع کیا۔ وصیت کے مطابق مرحوم ایواسے آئیچی پریفیکچر کے شہر اوکازاکی میں پیدا ہوئے تھے، ایک سال کی عمر میں ان کے والد جنگِ عظیم دوم میں مارے گئے تھے ان کے والد کی وفات کے بعد ان کی والدہ نے دوسری شادی نہیں کی بلکہ اپنے ایک سالہ بیٹے کی تعلیم و تربیت پر توجہ دی، ایواسے پندرہ سال کے ہوئے تو وہ بیمار ہو گئے اور اس بیماری کے علاج کے لئے استعمال کی گئی دوائی کے اثر سے وہ جسمانی طور پر بہت کمزور ہو گئے اور بار بار بیمار ہونے کی وجہ سے وہ مستقل جسمانی طور پر معذور ہو گئے، جسمانی معذوری کی وجہ سے وہ کوئی ملازمت یا کاروبار نہیں کرسکتے تھے، لہٰذا انھوں نے اپنے مستقبل کے لئے حصص کی خرید و فروخت کے بارے میں تعلیم حاصل کی، ایواسے کی وصیت کے مطابق انھوں نے کبھی بھی ملازمت یا کوئی کاروبار نہیں کیا، تاہم گھر میں بیٹھے بیٹھے مختلف کمپنیوں کے حصص (Shares)کی خرید و فروخت کرتے رہے، جسمانی معذوری کے باعث انھوں نے شادی بھی نہیں کی تھی اور انھوں نے ساری زندگی اپنی ماں کی خدمت کرنے میں گزار دی، حصص کی خرید و فروخت سے حاصل ہونے والی آمدنی جمع کرتے رہے اور کبھی بھی فضول خرچی نہ کی، چھ سال قبل جب ان کی ماں کا انتقال ہو گیا تو انھوں اپنی پس انداز کی ہوئی رقم کے مناسب استعمال کے لئے سنجیدگی سے غور کرتے ہوئے اپنے وکیل سے مشورہ کیا۔ انھوں نے اپنی وصیت میں لکھا کہ ان کے پاس نقدی پندرہ کروڑ ین کی رقم ہے جسے وہ جسمانی و ذہنی معذور بچوں کی فلاح و بہبود کے لئے وقف کرتے ہیں، ان کی خواہش ہے کہ اس رقم کو ان کے شہر میں قائم دو اداروں جو معذور بچوں کی دیکھ بھال کرتے ہیں میں مساوی تقسیم کر دیا جائے۔ مرحوم ایواسے نے اپنی وصیت میں لکھا تھا کہ ان کی خواہش ہے کہ وہ اپنی قوم کے بچوں کے کسی کام آسکیں جو جسمانی یا ذہنی معذور ہیں۔

 واضح رہے کہ جاپان میں مکمل یا جزوی طور پر جسمانی یا ذہنی معذور لوگوں کو حکومت کی طرف سے باقاعدہ وظیفہ ملتا ہے اور دیگر سہولیات بھی مہیا کی جاتی ہیں، معذور بچوں کے لئے علیحدہ اسکول اور مختلف تربیتی ادارے قائم کئے گئے ہیں جہاں انھیں اچھے اور صاف ستھرے ماحول میں تربیت دی جاتی ہے اور ایسے معذور لوگوں کو بچپن سے ہی خصوصی تربیت دی جاتی تاکہ وہ معاشرے پر بوجھ نہ بن سکیں اور اپنے پاؤں پر خود کھڑے ہو سکیں۔ جاپان بھر میں بڑی بڑی کمپنیوں اور سرکاری اداروں میں معذور لوگوں کو ملازمت دینے کے لئے کوٹہ مخصوص کیا جاتا ہے جہاں وہ عام لوگوں کی طرح کام کر رہے ہوتے ہیں اور ملک و قوم کی ترقی میں اپنا اہم کردار بھی ادا کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جاپان میں لاکھوں کی تعداد میں جسمانی و ذہنی معذور لوگ ہونے کے باوجود جاپان کے کسی بھی حصے میں گداگر نظر نہیں آتے اور نہ ہی وہ اپنے والدین یا معاشرے پر بوجھ ہوتے ہیں۔

٭٭٭

 

 

جاپانی عوام میں نظم و ضبط کی اعلیٰ مثال قابلِ تقلید ہے

 ( 16 اپریل 2011ء) زلزلے و تسونامی سے متاثرہ علاقوں میں قائم عارضی کیمپوں میں زندگی بسر کرنے والوں کی کیفیت کا اندازہ وہی لوگ لگا سکتے ہیں جو خود ان حالات سے گزر رہے ہوں۔ اچانک ہنستا بستا گھر اجڑ جائے، اپنے پیارے بچھڑ جائیں اور لا پتہ ہو جائیں اور ان کی خیریت کی اطلاع بھی نہ ملے، بچے ماؤں سے بچھڑ جائیں اور مائیں اپنے معصوم سے بچوں سے بچھڑ جائیں اور اس طرح کے عارضی کیمپوں میں زندگی بسر کرنے کی مجبوری آن پڑے تو یہ لمحات زندگی بھر کے تلخ تجربات سے بھی زیادہ تلخ ہو جاتے ہیں۔ عیش و عشرت کی زندگی گزارنے والوں کے لئے اس طرح کی اچانک قدرتی آفات سے نبرد آزما ہونا بھی ایک کڑا امتحان ہوتا ہے۔ جاپان میں ہر گھرانہ ایک خوشحال گھرانہ ہے۔ دیگر ممالک کی طرح یہاں پر غربت اور امارت میں کوئی خاص فرق محسوس نہیں کیا جا سکتا۔، لوگوں کا معیارِ  زندگی بھی بلند ہے اور ہر گھر میں ایک یا دو بچوں کی تعداد ہوتی ہے اور ہر بچہ والدین کا لاڈلہ بچہ ہو تا ہے خواہ وہ بیٹی ہو یا بیٹا والدین کے لئے دونوں ہی لاڈلے ہوتے ہیں۔ اس لاڈ پیار میں پرورش پانے والے بچوں کو جب ان عارضی کیمپوں میں زندگی گزارتے ہوئے دیکھا جائے تو آنکھیں خود بخود نم ہو جاتی ہیں۔ یہ جاپانی قوم کی تربیت ہے کہ وہ غریب ہو یا امیر کسی بھی حال میں نظم و ضبط اور صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے۔ اس وقت جاپان کے کئی علاقوں میں عارضی کیمپ قائم ہو چکے ہیں جہاں بے آسرا لوگ امدادی تنظیموں یا سرکاری اعانت پر گزر بسر کر رہے ہیں لیکن ابھی تک ان کیمپوں سے مظاہرے، بد نظمی، حکومت سے گلے شکوے کرنے کی آوازیں تک سنائی نہیں دیتیں، تمام متاثرین منتظمین کی نظر میں برابر ہیں۔ وہاں کسی امیر یا غریب یا اثر و رسوخ رکھنے والوں کے ساتھ خصوصی سلوک نہیں کیا جا رہا۔ تمام لوگوں کو ان کی ضروریات کے مطابق امدادی سامان فراہم کیا جاتا ہے۔ امدادی سامان کے حصول کے لئے کوئی دھینگا مشتی کرتا ہوا نظر نہیں آتا، جاپان کی سیاسی جماعتیں جو اقتدار میں ہیں یا اختلاف میں اپنا اپنا کام کر رہی ہیں۔ کبھی کوئی ایسا واقعہ دیکھنے میں نہیں آیا کہ حزبِ اختلاف لاشوں کی سیاست کر رہے ہوں اور لوگوں کی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لئے حکومتی حلقوں کو بدنام کرنے اور ان کی نا اہلی پر تنقید کر رہے ہوں بلکہ ہر سیاسی، مذہبی و سماجی تنظیمیں ایک دوسرے کے ساتھ باہمی تعاون کرتے ہوئے صرف اور صرف اپنی عوام کے لئے جو انھیں سالہا سال ٹیکس ادا کرتے رہے ہیں بھلائی کے کاموں میں مصروف ہیں اور ہر ایک کی کوشش یہی ہے کہ جلد از جلد مشکلات پر قابو پایا جائے اور حالات بحال کئے جائیں۔ زلزلے اور تسونامی کے دوسرے روز سے ہی جاپان بھر میں فلاحی تنظیموں نے اپنا کام شروع کر دیا تھا۔ ہر گھر کے ہر فرد نے اپنی اپنی بساط کے مطابق اپنے متاثرین بھائیوں کی مدد کے لئے فوری طور نقد رقم عطیات کیں۔ جاپان کے شہنشاہ نے اپنے محل اور اس کے غسل خانے تک اپنی عوام کے عام استعمال کے لئے کھول دئیے اور خود اپنی ملکہ کے ساتھ جاپان بھر کے دورے کر رہے ہیں اور متاثرین کے پاس جا کر ایک ایک کو تسلی دے رہے ہیں۔ اسی طرح جاپانی شہزادے اور شہزادیاں بھی متاثرہ علاقوں میں اپنی عوام کے پاس جا کر ان کی حوصلہ افزائی میں مصروف ہیں۔ جاپانی وزیرِ اعظم اور بڑے بڑے وفاقی وزراء کام کی وردیوں میں متاثرہ علاقوں کا دورہ کر رہے ہیں اور لوگوں کی ہمت افزائی کر رہے ہیں۔ ریڈیو، ٹی وی، اسٹیج اور فلموں کے ٹاپ سپر اسٹارز، معروف اداکار اور اداکارائیں متاثرہ علاقوں میں جا کر ان کے لئے خود کھانے پکا رہے ہیں اور انھیں اپنے ہاتھوں سے کھانا پکا کر کھلا رہے ہیں۔ یہ وہ اداکار ہیں جن کی عام حالات میں ایک جھلک دیکھنے کے لئے ان کے پرستار گھنٹوں قطاریں باندھ کر کھڑے ہوتے ہیں۔ جاپانی شاہی خاندان کے ایک فرد کو دور سے دیکھ لینا بھی جاپانی عوام کے لئے باعثِ فخر ہے، اور یہی ہستیاں آج عام علاقوں میں مصیبت زدہ لوگوں کے پاس جا کر اُکڑوں بیٹھ کر ان کے حال احوال پوچھ رہی ہیں۔ جہاں حکمران اور اعلیٰ طبقہ اپنی عوام سے اتنی محبت اور پیار رکھتے ہوں وہ قوم کبھی تباہ نہیں ہو سکتی، کامیابی ہمیشہ اس کے قدم چومتی ہے۔ امید ہے کہ تاریخ کے بدترین زلزلے و تسونامی جاپان اور اس کی عوام کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ چند سال بعد ہی ان علاقوں میں جو مکمل تباہ و برباد ہو چکے ہیں زندگی کی رونقیں یوں نظر آئیں گی جیسے یہاں کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ دنیا کی وہ قومیں جو صرف اپنے لئے نہیں بلکہ دوسروں کے لئے جیتی ہیں وہی زندہ قومیں کہلاتی ہیں۔

٭٭٭

 

 

جاپان کی ترقی کا راز

(31 مارچ2001ء) 11 مارچ کو آنے والے زلزلے اور تسونامی سے جہاں جانی و مالی نقصان ہوا ہے وہیں تین لاکھ کے لگ بھگ جاپانی عوام بھی بے گھر ہو گئے ہیں اور محفوظ علاقوں میں قائم پناہ گزین کیمپوں میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ پورے جاپان میں وہاں کی مقامی حکومتوں اور عوام نے اپنے جاپانی بھائیوں کو جو ان متاثرہ علاقوں میں قیام پذیر تھے اور اپنے عزیز و اقارب کے ساتھ ساتھ اپنے گھر بھی ہار چکے ہیں، اپنے محفوظ علاقوں میں آنے کی دعوت دی ہے اور پناہ گاہیں اور اپنے علاقے کے کمیونٹی ہال وغیرہ ان کے لئے وقف کر دئیے ہیں اور ہر روز ان کی روزمرہ کی ضروریات اور کھانے پینے کا خاص خیال رکھ رہے ہیں۔ یہ حب الوطنی اور محبت کے جذبات ہیں جو ہر جاپانی اپنے دوسرے جاپانی بھائی کیلئے محسوس کرتا ہے۔ انہیں یہ باتیں بتانے کی ضرورت پیش نہیں آتی کہ ہم ایک ہیں، ہم جاپانی ہیں، آؤ جاپان سے محبت کرو، اپنوں کی مدد کرو وغیرہ۔ حالانکہ جاپان47 صوبوں میں تقسیم کیا گیا ہے جس کے47 ہی گورنرز بھی ہیں اور ہر صوبہ آزاد ہے اور ہر صوبہ کی مخصوص زبان بھی ہے جن کا لہجہ ایک دوسرے سے قدرے مختلف بھی ہے مگر کوئی جاپانی اپنے آپ کو اپنے صوبے کے حوالہ سے شناخت کروانے کی کوشش نہیں کرتا بلکہ بڑے فخرسے کہتا ہے کہ وہ جاپانی ہے اور اُس کا ملک جاپان ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت جاپان تاریخ کے بد ترین زلزلہ اور تسونامی کی تباہیوں سے دوچار ہے جس کی حقیقت کا اندازہ فی الوقت لگانا بہت مشکل ہے مگر جاپانیوں کے حوصلے اور آپس میں محبت و اتحاد کے سامنے ایسی تباہیاں بھی بھاگنے پر مجبور نظر آتی ہیں۔

ایٹمی پلانٹ جو بجلی پیدا کرتے تھے تسونامی سے متاثر ہوئے ہیں جس کی وجہ سے جاپان بھر میں بجلی کا بحران بھی پیدا ہو گیا ہے اور اس کمی کو پورا کرنے کیلئے حکومت جاپان نے صرف ایک بار اعلان کیا کہ جاپان کے بعض صوبوں میں عارضی طور پر لوڈشیڈنگ کی جائے گی جس کے لئے عوامی تعاون کی ضرورت ہے، اس اعلان کے بعد فوری طور پر لوگوں نے متاثرین کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے لوڈ شیڈنگ کے منصوبے پر عمل درآمد ہونے سے پہلے ہی اپنے گھروں اور کمپنیوں میں بجلی کی بچت کا آغاز اس طرح کیا کہ غیر ضروری بتیاں بجھا دی جاتی ہیں ایک گھر میں جہاں چار بتیاں جلتی تھیں وہاں ایک پر گزارا کیا جانے لگا ہے، باہر گلی محلوں میں بتیاں بند کی جا رہی ہیں، چھوٹی بڑی کمپنیوں میں وقفے کے دوران مشینیں مکمل طور پر بند اور غیر ضروری بتیاں بھی بند کی جا رہی ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ بجلی کی بچت ہو سکے اور اپنا ملک جاپان مزید کسی بحران کا شکار نہ ہو سکے۔ یہ تمام باتیں جاپانی لوگوں نے اپنے بچوں کو صرف ایک بار گھر میں یا سکول میں بتائی ہیں اور اس وقت جاپان بھر میں شائد ہی ایسا کوئی بچہ ہو جسے بجلی کی بچت کا احساس نہ ہو اور شائد ہی کسی کمپنی یا فیکٹری میں کوئی ملازم ایسا ہو جو غیر ضروری بتی جلائے رکھے۔ متاثرین کی مالی مدد کے لئے مختلف طریقوں سے عطیات جمع کئے جا رہے ہیں اپنے متاثرین بھائیوں کے لئے ہر جاپانی نے عطیہ دیا ہے اور صرف ایک بار ہی نہیں بار بار عطیات دے رہے ہیں۔ ان کی ہمت افزائی کے لئے ان کے حوصلے بڑھانے کے لئے ٹی وی، ریڈیو یا انٹرنیٹ کے ذریعے پیغامات بھیجے جا رہے ہیں، انہیں تسلیاں دی جا رہی ہیں کہ ہم آپ کے ساتھ ہیں، ہمت کریں، اپنے آپ کو تنہا مت سمجھیں، ہمارا ملک جاپان ایک زبردست قوت ہے، حالات کیسے بھی کیوں نہ ہو اگر ہمت کی جائے تو سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا، ہمیں یقین ہے کہ ہم ان حالات پر قابو پا لیں گے کیونکہ ہمیں اپنے جاپان پر بھروسہ اور اعتماد ہے وغیرہ وغیرہ۔ جاپان کے کئی علاقوں میں لوڈ شیڈنگ پر عمل در آمد کیا جا رہا ہے، ہر روز جس علاقے میں لوڈ شیڈنگ ہونا ہوتی ہے اس کے بارے میں ایک دن پہلے اطلاع کی جاتی ہے کہ کل فلاں علاقے میں فلاں وقت سے فلاں وقت تک لائٹ چلی جائے گی ہم آپ سے پیشگی معذرت خواہ ہیں اپنے اپنے کام نمٹا لیجئے۔ اور پھر دوسرے اعلان کردہ وقت سے تقریباً دس منٹ بعد بجلی چلی جاتی ہے اور ٹھیک تین گھنٹے پورے ہونے سے چند منٹ پہلے ہی بجلی آ جاتی ہے۔ لوڈ شیڈنگ کے لئے امیر غریب علاقے یا چھوٹی یا بڑی کمپنی یا بڑے سرکاری آدمی یا وزیر کے درمیان امتیاز کئے بغیر پورے علاقے کی بجلی جاتی ہے اور گرد و نواح کے تمام سٹور اور چھوٹی دکانیں بھی اپنا کاروبار تین گھنٹوں کے لئے بند کر دیتی ہیں۔ کمپنیوں میں ملازمین اپنے مالکان کے حکم کے بغیر ہی خودہی طے کر لیتے ہیں کہ ہم کچھ افراد لوڈ شیڈنگ سے پہلے آ جائیں گے اور کچھ افراد لوڈ شیڈنگ کے بعد آ جائیں گے اور ہر ملازم اس لوڈ شیڈنگ میں بھی آٹھ گھنٹے ملازمت کر کے اپنی کمائی کو حلال کرتا ہے جس کی وجہ سے کمپنیوں میں بجلی نہ ہونے کی وجہ سے پیداوار اتنی متاثر نہیں ہو رہی، البتہ پیداوار متاثر ہونے کے اسباب دوسرے ہو سکتے ہیں کہ اس کمپنی کو کام متاثرہ علاقے سے آیا کرتا تھا وہاں سے خام مال نہ آنے کی صورت میں بعض کمپنیوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔ اس کے باوجود ملک کے کسی کونے میں بھی کوئی احتجاجی جلسہ جلوس یا سرکاری و نجی عمارتوں اور گاڑیوں پر پتھراؤ نہیں کیا جا رہا، کوئی بھی حکومت وقت سے اس بات پر نالاں نہیں ہے کہ ملک میں پیٹرول کی کمی کیوں ہو رہی ہے، اس کی قیمتیں کیوں بڑھ رہی ہیں، ہمیں کھانے پینے کی اشیاء کیوں نہیں مل رہیں، بجلی کی لوڈ شیڈنگ ہمارے علاقے میں کیوں ہو رہی ہے؟؟ بڑے صبر و تحمل کے ساتھ حالات کا مقابلہ کیاجا رہا ہے خوشی کی تقریبات منسوخ کر دی گئی ہیں، فضول خرچیاں کم کر دی گئی ہیں، پہلے سے زیادہ کمر بستہ ہو کر کام میں جت گئے ہیں، ایٹمی پلانٹ جنہیں تسونامی سے زبردست نقصان پہنچا ہے وہاں اس علاقے کے تیس کلو میٹر تک عام لوگوں کو داخلہ ممنوع قرار دے دیا گیا ہے، مگر وہاں دن رات کام کرنے والے آٹھ سو کے قریب ملازمین اپنی جانوں کی پرواہ کئے بغیر ری ایکٹروں کو ٹھیک کرنے میں مشغول ہیں۔ انہیں کھانے پینے اور سونے کا ہوش نہیں ہے اپنے گھر والوں سے کئی کئی دن سے رابطہ نہیں ہے مگر اپنے ملک اور اپنی عوام کے لئے مگن ہو کر لگے ہوئے ہیں کہ ہم نہیں کریں گے تو کون کرے گا ؟دنیا کے کئی ممالک سے لاکھوں ٹن امدادی سامان جاپان پہنچ چکا ہے اور کئی ممالک جاپان کی طرف سے اشارے کے منتظر ہیں مگر حکومت جاپان غیر ملکی امداد لینے میں ہچکچاہٹ محسوس کر رہی ہے، اس کی ایک بڑی وجہ سمجھ آتی ہے کہ جاپانی لوگ اپنی پیداوار کو ترجیح دیتے ہیں اور اگر غیر ملکی امدادی سامان پہنچ بھی گیا تو اس کے استعمال کی نوبت کم ہی آئے گی اور اسے تلف کرنا ایک الگ مسئلہ ہو گا مثلاً تھائی لینڈ کی حکومت نے تین ملین یعنی تیس لاکھ ٹن چاول بھیجنے کی پیشکش کی ہے مگر حکومت جاپان جانتی ہے کہ جاپانی قوم آخری دم تک جاپانی چاول ہی کو ترجیح دے گی۔ جو لوگ متاثرین کی براہ راست مدد کے لئے جا رہے ہیں وہ خود حیران ہیں کہ جب انہیں کوئی امدادی سامان یا کھانا دیا جاتا ہے تو لوگ بڑے نظم و ضبط کے ساتھ قطار میں لگ کر سامان وصول کرتے ہیں اور جھک کر شکریہ ادا کرتے ہیں۔ جاپانی قوم جن اصولوں پر زندگی گزار رہی ہے مجھے یقین ہے کہ وہ سب کچھ ہمارے اسلام میں پہلے سے ہی موجود ہے مگر ہم نے اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے کی کوشش ہی نہیں کی، کاش کہ ہماری قوم بھی جاپانیوں سے کچھ نہ کچھ سیکھ سکے!!!

٭٭٭

 

 

جاپان میں افرادی قوت کا بحران اور اس کا حل

(29 اگست 2008ء) سرزمینِ آفتاب جاپان جہاں صدیوں تک غیر ملکیوں کے لیے دروازے بند رہے، چھوٹے بڑے بیشمار جزیروں اور سمندر سے گھِرا ہوا ایک چھوٹا سا خوبصورت ملک ہے جس کی زمینی سرحدیں کسی دوسرے ملک سے نہیں ملتیں یہی وجہ تھی کہ طویل عرصے تک جاپان میں کسی غیر ملکی کوآنے کی ہمت نہ ہوئی۔ جاپان کی اس مخصوص جغرافیائی ہئیت کا اثر اس قوم میں بھی پایا جاتا ہے۔ جاپانی قوم بہت ہی کم گو، شرمیلی اور اجنبیوں سے جلد گھلنے ملنے کی عادی نہیں ہے۔ تقریباً چار سو سال قبل سب سے پہلے جاپان میں جو غیر ملکی بحری جہاز لنگر انداز ہوا وہ پرتگال کے تاجروں کا تھا اس کے بعد جاپان میں غیر ملکیوں کی آمدورفت کا آغاز ہوا اور باقاعدہ دنیا کے دیگر ممالک سے سفارتی تعلقات میجی دور میں ہوئے۔ جنگِ عظیم دوم کے بعد جاپان مکمل طور پر تباہ و برباد ہو چکا تھا اور اس جنگ میں لاکھوں جاپانی مرد ہلاک ہوئے لیکن جاپانی قوم کی ہمت اور بہادری کی قدیم تاریخ ہے کہ یہ قوم کبھی حوصلہ نہیں ہارتی اور بڑے سے بڑے غم و نقصان کو برداشت کرنے کی اعلیٰ صلاحیت رکھتی ہے۔ قدرتی آفات ہوں یا انسانی تباہ کاریاں یہ قوم وقت ضائع کیے بغیر اور بربادی پر ماتم کئے بغیر آگے بڑھتی ہے اور تیزی سے حالات کو اپنے قابو میں کرنے کی بھر پور صلاحیت رکھتی ہے۔ جاپانی قوم میں یہ صلاحیت انفرادی اور اجتماعی طور پر بدرجۂ اتم موجود ہے۔

جنگِ عظیم کے بعد اس قوم نے اپنے تمام غموں کو پسِ پشت ڈال کر صرف مستقبل کے بارے میں سوچا اور عملی طور پر اسوقت کی عوام جن میں بچے، بوڑھے، جوان، مرد اور عورتیں شامل تھیں سب نے دن رات محنت کر کے جاپان کو دیکھتے ہی دیکھتے دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی صفِ اوّل میں لا کھڑا کیا اور برّاعظم ایشیا کا ٹائیگر بنا دیا۔ لیکن اسے ٹائیگر بنانے میں مرکزی کردار ادا کرنے والے سارے کردار آج پیرانہ سالی کی زندگی گزار رہے ہیں اور گزشتہ دو دہائیوں سے بچوں کی پیدائش میں مسلسل کمی اور عمر رسیدہ آبادی میں تیزی نے جاپان کو بیک وقت کئی ایک مسائل سے دوچار کر رکھا ہے جس کے نتیجے میں افرادی قوت کی قلّت دن بہ دن سنگین صورت اختیار کرتی جا رہی ہے۔ جاپان میں افرادی قوت کے بحران کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ گزشتہ چند برسوں میں جاپان کے بڑے بڑے صنعتکاروں نے افرادی قوت کے بحران پر قابو پانے کے لئے ایشیا کے دیگر ترقی پذیر ممالک جن میں چین، بھارت، ویتنام اور انڈونیشیا قابلِ ذکر ہیں میں اپنی ذیلی صنعتیں قائم کرنا شروع کر دی ہیں۔ ذرائع کے مطابق صرف چین میں ہی سینکڑوں کی تعداد میں جاپانی صنعتیں قائم ہو چکی ہیں جہاں مقامی مزدور کم اجرت پر آسانی سے دستیاب ہو جاتے ہیں۔ اسطرح غیر ممالک میں جاپانی صنعتوں میں صرف چند ایک جاپانی نگرانوں کے ذریعے ہزاروں مزدوروں کو استعمال کر کے زیادہ سے زیادہ پیداوار حاصل کی جا رہی ہے اور چین میں جاپان کے اس اقدام سے بیروزگاری میں کمی واقع ہو رہی ہے۔ کاش کہ ہمارے ملک کے حالات سازگار ہوں تو ہمیں بھی جاپان کی اس حکمتِ عملی سے خاصا فائدہ ہو سکتا ہے لیکن یہ سب خواب و خیال کی باتیں ہیں۔ ہمارے حالات سازگار بنانے والے کم اور بگاڑنے والے زیادہ ہیں۔ جاپان کی اس حکمتِ عملی پر ایک صنعتکار نے راقم سے اپنے خیال کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اسطرح جہاں ہمیں فائدہ ہوتا ہے وہاں اپنی مصنوعات کے معیار کے تیکنیکی راز افشا ہونے کا خطرہ بھی لاحق رہتا ہے۔

جاپان میں افرادی قوت کے بحران پر قابو پانے کے لئے 19جون کو جاپان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سالانہ اجلاس میں ایک رپورٹ پیش کی گئی کہ ہمیں اسوقت چھوٹی اور درمیانے درجے کی صنعتوں کے علاوہ زراعت، جنگلات، فشری اور نرسنگ کے شعبوں میں افرادی قوت کے بحران کی سنگین صورتِ حال کا سامنا ہے۔ اس صورتِ حال سے نمٹنے کے لئے ہمیں زندگی کے ہر شعبے میں غیر ملکی افراد کی اشد ضرورت ہے اور اس بات پر زور دیا گیا کہ ایسی پالیسی وضع کی جائے جس کے تحت زیادہ سے زیادہ غیر ملکی عام مزدور جاپان آسکیں اور ایک جامعہ منصوبہ تیار کیا جائے تاکہ جن شعبوں میں مزدوروں کی قلت ہے وہاں ان کی کھپت کی جا سکے۔ اس سلسلے میں جاپان کی حالیہ پالیسی کے تحت غیر ملکی غیر ہنر مند افراد کو صرف دو سے تین سال کی مدت کا ورک پرمٹ دیا جاتا ہے۔ سفارش کی گئی کہ اس مدت میں توسیع کر کے پانچ سال تک کیا جائے اور جاپان آنے والے غیر ملکی ورکرز کو انہی کے ملکوں میں جاپانی زبان سے واقفیت اور قلیل مدت کے تربیتی کورسز کی تکمیل لازمی قرار دی جائے تاکہ وہ جاپان آ کر یہاں کے رہن سہن اور ماحول سے جلد ہم آہنگ ہو سکیں اور اپنی اپنی استطاعت کے مطابق جلد ہی مختلف شعبوں میں افرادی قوت کے بحران کو دور کرنے کے لئے کلیدی کردار ادا کرسکیں۔ اس رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے اقوامِ متحدہ کی طرف سے جاپان میں مقیم اقوامِ متحدہ کے شعبہء پناہ گزین کے ایک اعلیٰ افسر جناب تھاکی زاوا نے کہا کہ اکیسویں صدی مہاجرین کی صدی ہے۔ وہ مہاجرین کی تعریف اسطرح کرتے ہیں کہ وہ لوگ جو اپنے اچھے مستقبل اور بہتر روزگار کی تلاش میں اپنا ملک چھوڑ کر دوسرے ممالک میں ایک سال سے زائد عرصہ گزاریں انھیں مہاجرین کہا جاتا ہے۔ اسوقت ساری دنیا میں مہاجرین کی تعداد بیس کروڑ سے زائد ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ حکو متِ جاپان طویل مدت تک غیر ملکیوں کو قبول کرنے سے انکاری رہی ہے۔ اسوقت جاپان میں عمر رسیدہ لوگوں کی بڑھتی ہوئی تعداد اور بچوں کی پیدائش میں مسلسل کمی کی وجہ سے جاپان کو اپنی موجودہ حیثیت کو برقرار رکھنے کے لئے غیر ملکی افراد کی اشد ضرورت ہے اور اب جاپان میں یہ خیال زور پکڑ رہا ہے کہ مہاجرین کی مدد کے بغیر افرادی قوت کے بحران پر قابو پانا مشکل ہے۔ آخر میں انھوں نے اپنی تجویز پیش کرتے ہوئے کہا کہ مہاجرین کو قبول کرنے سے پہلے چند سو پناہ گزینوں refugeesکو ترجیح دینی چاہئے جو اپنے ملکوں سے سیاسی، مذہبی یا خانہ جنگی کے شکار ہو کر اپنی جانیں بچا کر اور اپنا سب کچھ چھوڑ کر دنیا بھر میں مارے مارے پھر رہے ہیں جن کی تعداد اسوقت سوا کروڑ کے لگ بھگ ہے۔

جاپان نے 1981ئمیں کیے گئے معاہدہ پناہ گزیں کے تحت گزشتہ چھبّیس سالوں میں صرف 451 پناہ گزینوں کو قبول کیا ہے جبکہ گزشتہ سال ان کی تعداد صرف 41 تھی۔ جاپان کی پناہ گزینوں کے بارے میں سخت پالیسی پر یورپین ممالک سمیت امریکہ کی طرف سے بھی اکثر تنقید کی جاتی ہے۔ 2007میں ترقی یا فتہ ممالک میں تقریباّ تین لاکھ پچاس ہزار پناہ گزینوں نے درخواستیں دائر کیں جبکہ جاپان میں درخواست دینے والے صرف 816افراد تھے۔ زیادہ تر پناہ گزین جن کا تعلق ایشیا سے ہے ان میں اکثریت امریکہ یا یورپ کی طرف بھاگتے ہیں۔ جاپان میں پناہ گزینوں کی نہ آنے کی کئی ایک وجوہات ہیں جن میں زبان کے مسئلے کے ساتھ ساتھ روزگار کے مواقع نہیں ہیں کیونکہ ایک درخواست دہندہ کو جاپان میں پناہ گزیں تسلیم کرنے کے فیصلے تک دو سال کا عرصہ درکار ہوتا ہے اور وہ اس دوران کام کرنے کا مجاز نہیں ہوتا اس کے علاوہ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہاں انھیں سپورٹ کرنے والی NGOsکا فقدان ہے۔ 2004 میں جاپان کی امیگریشن نے پناہ گزین کو تسلیم کرنے کے قوانین میں ترمیم کرتے ہوئے سرکاری پالیسی میں کچھ نرمی کی تھی جس کی وجہ سے اب جاپان میں بھی پناہ گزینوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ وزارتِ انصاف و قانون کے ذرائع کے مطابق سالِ رواں میں ایک ہزار سے زائد لوگوں کی درخواستیں زیرِ غور ہیں۔ جاپان کے ان اقدام سے یقیناً بین الاقوامی طور پر پناہ گزینوں کے لیے ملک کے دروازے بند کرنے کا جو imageبنا ہوا ہے وہ ضرور زائل ہو گا۔ اسطرح ایک تیر سے دو شکار والی مثل فٹ بیٹھے گی کہ یک طرف تو پناہ گزینوں کو قبول نہ کرنے کا جو imageبنا ہوا ہے وہ زائل ہو گا اور دوسری طرف انہی پناہ گزینوں کو جاپان کی افرادی قوت کے بحران سے نجات دلانے میں خاصی مدد ملے گی اور جب ان پناہ گزینوں کے اپنے ممالک کے حالات سازگار ہوں گے تو یہ لوگ اپنے وطن واپس جا کر جاپان میں گزارے ہوئے وقت اور یہاں کے تجربہ کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنے ملک کے لئے بھی کارآمد شہری ثابت ہوسکیں گے۔

٭٭٭

 

 

جاپان میں بجلی کا بحران، کوٹہ سسٹم اور عوامی تعاون

 (یکم جولائی2011ء) سالِ رواں کے مارچ میں آنے والے زلزلے و تسونامی کے نتیجے میں فوکوشیما پریفیکچر میں ٹوکیو الیکٹرک پاور کمپنی کے زیرِ انتظام چلنے والے جوہری بجلی گھروں میں پیدا ہونے والے نقائص کے باعث جاپان میں بجلی کا بحران جاری ہے، یوں تو جاپان میں کئی ایک بجلی پیدا کرنے والی کمپنیاں مختلف علاقوں میں کام کر رہی ہیں مگر ٹوکیو الیکٹرک پاور کمپنی TEPCO کھانتو ایریا میں سب سے زیادہ بجلی سپلائی کرنے والی بڑی کمپنی ہے۔ فوکوشیما کے ایک ایٹمی پلانٹ کے مکمل طور پر بند ہو جانے کی وجہ سے بجلی کی پیدا وار میں کمی واقع ہوئی ہے۔ فوری طور اس کمی کو پورا کرنے کے لئے TEPCO نے مارچ اور اپریل میں لوڈ شیڈنگ کا آغاز بھی کیا تھا اور جاپانی عوام کی جانب سے بھر پور تعاون کرنے کی وجہ سے بجلی کے بحران پر عارضی طور پر قابو پا لیا گیا تھا، تاہم جاپان میں ماہِ جون سے گرمیاں شروع ہو جاتی ہیں اور جولائی، اگست اور ستمبر کے مہینوں میں سردیوں کی نسبت بجلی کا استعمال بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے۔ بجلی کے اس بحران پر قابو پانے کے لئے حکومتِ جاپان اور TEPCO نے چھوٹی بڑی کمپنیوں، کارخانے، فیکٹریوں اور کئی منزلہ دفاتر چلانے والوں سے درخواست کی ہے کہ بجلی کے بحران پر قابو پانے کے لئے بھر پور تعاون کریں۔ اس سلسلے میں TEPCO نے کھانتو ایریا کی چھوٹی بڑی کمپنیوں میں گزشتہ سال استعمال کی جانے والی بجلی کی اوسط نکال کر تین ماہ کے لئے کوٹہ سسٹم قائم کر دیا ہے اور درخواست کی ہے کہ وہ اپنے اس مخصوص کوٹے سے زائد بجلی کا استعمال کرنے سے گریز کریں۔ تین ماہ کے اس نظام کو نافذ العمل کرنے کے لئے حکومت نے احکامات بھی جاری کر دئیے ہیں کہ جو کمپنی اپنے مخصوص کوٹے سے زائد بجلی خرچ کرے گی اس پر جرمانے بھی عائد کئے جائیں گے۔ توقع کی جا رہی ہے کہ تین ماہ تک اس نظام کو رائج کر کے پندرہ سے بیس فیصد بجلی کی بچت کی جا سکے گی۔ اس نظام کو نافذ کرنے کے لئے چھوٹی، بڑی اور درمیانی کمپنیوں نے آج یکم جولائی سے ستمبر کے دوران اپنے ملازمین سے درخواست کی ہے کہ وہ ہفتہ اور اتوار کو کام کریں اور عام دنوں میں چھٹیاں کریں کیونکہ جاپان میں ہفتہ اتوار کو تمام سرکاری و نیم سرکاری محکمے، دفاتر، بینک اور ڈاکخانے وغیرہ بند ہوتے ہیں جس کی وجہ سے بجلی کا استعمال بھی کم ہوتا ہے لہٰذا ہفتہ اور اتوار بجلی زیادہ سے زیادہ استعمال کی جائے اور عام دنوں میں بچت کی جائے، مثلاً ایک درمیانی کمپنی جس میں 5 سیکشن یا شعبے قائم ہیں جہاں ہر شعبے میں آٹھ افراد کام کر رہے ہیں اور کمپنی کی کل بجلی کا25 فیصد ہر شعبے میں استعمال ہو رہا ہے اور اس کمپنی کے پاس استعمال کرنے کے لئے صرف پانچ سو کلو واٹ بجلی موجود ہے اور اس سے ایک کلو واٹ بھی تجاوز کرنے سے جرمانہ عائد کیا جا سکتا ہے۔ (واضح رہے کہ اس وقت TEPCO کی رسد پانچ کروڑ کلو واٹ کے لگ بھگ ہے جبکہ طلب 93 فیصد ہے ) کمپنی نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ہفتے میں دو روز ایک سیکشن مکمل طور پر بند کیا جائے اور باقی چار سیکشنوں میں کام کیا جائے تو مخصوص کئے گئے کوٹے سے زائد بجلی خرچ ہونے کا احتمال نہیں ہو گا اور یقینی طور پر ایک سیکشن کے بند ہونے سے25 فیصد بجلی کی بچت ہو سکے گی اور لوڈ شیڈنگ کا خطرہ بھی نہیں رہے گا۔ اسی طرح ایک ہفتے میں ہر سیکشن دو دن کے لئے باری باری بند رکھا جائے گا تاکہ مخصوص کوٹے سے تجاوز نہ ہوسکے۔ اس کے علاوہ جاپانی عوام نے اپنے طور پر بھی بجلی کے کم استعمال کے لئے کئی ایک طریقے اختیار کئے ہیں، مثلاً وہ لوگ جو ایک گھر میں تنہا یا میاں بیوی زندگی بسر کر رہے ہیں وہ اپنے چند گھنٹے باہر کسی پارک یا سرکاری اداروں کے مہمان خانوں میں گزار رہے ہیں کیونکہ ایک گھر میں چار افراد ہوں یا ایک فرد ریفریجریٹر یا ایئرکنڈیشنر چلانے کے لئے بجلی کی مقدار اتنی ہی خرچ ہوتی ہے، لہٰذا کئی گھرانوں میں سرِ شام ہی سارے کام نمٹا کر فارغ ہو جاتے ہیں تاکہ بجلی کی بچت کی جا سکے۔

٭٭٭

 

 

جاپان میں موسمِ گرما میں سرکاری و نیم سرکاری دفاتر میں CoolBizکا آغاز

(2 جون 2011ء) جاپان میں چھ سال قبل موسمِ سرما میں بجلی کی بچت کے پیشِ نظر تمام سرکاری و نیم سرکاری دفاتر میں بغیر ٹائی لگائے سوٹ پہننے کے رواج کا آغاز ہوا تھا جسے CoolBizکہتے ہیں۔ جاپان میں CoolBizکا یہ دورانیہ جون سے غالباً ستمبر تک رہتا ہے جس میں تمام سرکاری و نیم سرکاری دفاتر کے ملازمین کو اجازت ہوتی ہے کہ بغیر ٹائی کے سوٹ زیبِ تن کریں اور دفتر چلے آئیں۔ CoolBizکے آغاز کا مقصد سرکاری سطح پر بجلی کی بچت کرنا ہے۔ سوٹ بوٹ میں دفتر آنے والوں کے لئے ضروری ہو جاتا ہے کہ اندرونِ دفاتر ایئر کنڈیشن ہر وقت چلتے رہیں تاکہ کسی ملازم کو گرمی کا احساس نہ ہو، روزانہ آٹھ گھنٹے ایئرکنڈیشن چلنے سے بجلی بہت زیادہ صرف ہوتی تھی، بجلی کی توانائی کو بچانے کے لئے CoolBizکا آغاز ہوا، جو بہت کامیاب رہا۔ دوسری طرف مسلسل ایئرکنڈیشن چلنے سے ملازمین کے کندھوں اور جسم کے مختلف حصوں میں درد بھی ہونے لگا تھا۔ جاپان میں 11 مارچ کو آنے والے زلزلے و تسونامی کے نتیجے میں فوکوشیما پریفیکچر میں واقع جوہری بجلی گھر کے کئی ری ایکٹروں میں نقص پیدا ہو گیا جس کی وجہ سے جاپان بھر میں بجلی کی رسد بری طرح متاثر ہوئی اور حکومتِ جاپان کو عارضی طور پر پہلی لوڈ شیڈنگ بھی کرنی پڑی۔ جون جولائی کے مہینوں میں گرمی بھی عروج پر ہوتی ہے اور توقع کی جا رہی تھی کہ اس سال بجلی کی قلت کی وجہ سے گرمی کا موسم بہت دشوار گزار ہو گا، لہٰذا طے پایا کہ اس سال CoolBiz کو مزید سہل بنانے کے لئے ایک قدم آگے بڑھا جائے اس طرح CoolBizسے اس سال Super CoolBizکے آغاز اعلان کیا گیا ہے جس میں بغیر ٹائی کے سوٹ کے علاوہ ملازمین عام شرٹ یا پتلون بھی زیبِ تن کر سکتے ہیں، تاہم تاکید کی گئی ہے کہ لباس ایسا ہو جس سے لا ابالی اور لاپرواہی نہ ٹپکے۔ مذکورہ بالا لباس پہن کر دفاتر میں میں کام کرنے کے دوران گرمی کے احساس میں کمی واقع ہو گی اور اس طرح بجلی کی قلت پر قابو پایا جا سکے گا۔ جاپان میں سرکاری و نیم سرکاری دفاتر کے ملازمین کی تقلید کرتے ہوئے عام نجی اداروں کے ملازمین بھی CoolBizپر عمل کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ جاپان بھر میں عموماً لوگ جو ن سے ستمبر تک بغیر نیک ٹائی کے سوٹ پہنے ہوئے نظر آتے ہیں۔ جاپانی عوام کی روایت ہے کہ سرکاری احکامات اور قوانین پر دل و جان سے عمل کریں، اسی طرح حکومتِ جاپان بھی ایسے ہی قوانین نافذ کرتی ہے جو اپنی عوام کے مفاد میں ہوں نہ کہ ان کے لئے باعثِ تکلیف۔ کوئی قانون آخری قانون نہیں سمجھا جاتا بلکہ اس میں وقت کے ساتھ ساتھ اور عوامی رجحان کو دیکھتے ہوئے ترمیم بھی کی جاتی ہے اور بعض اوقات جو قوانین عوام کے لئے باعثِ آزار ہوں انھیں ختم بھی کر دیا جاتا ہے۔

٭٭٭

 

 

جاپان میں فیس بُک صارفین کی تعداد پچاس لاکھ

(29فروری2012ء) بلا معاوضہ اپنے دوست و احباب کے ساتھ باہمی معلومات کا تبادلہ، اپنے پرانے و نئے دوستوں سے تعلقات استوار کرنا فیس بُک استعمال کرنے والوں کے لئے ایک پُر کشش ذریعہ ہے جس کے ذریعے کوئی بھی اپنی اہم معلومات کو اپنی مرضی کے مطابق عام لوگوں کے لئے شائع کر سکتا ہے۔ فیس بُک اس وقت دنیا میں مختلف معلومات کے تبادلے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے، اس کا رکن بننے کے لئے اصولاً اصلی نام کی رجسٹریشن کے علاوہ اپنی تصویر اور تعارف وغیرہ دینا بھی ضروری خیال کیا جاتا ہے۔ رجسٹریشن کے بعد پہلے سے موجود لوگوں سے رابطے اور دوستیاں استوار کی جا سکتی ہیں، لوگوں کو تلاش کیا جا سکتا ہے، کسی کو دوست بنانا مقصود ہو تو اسے دوست بننے کی اپیل کی جاتی ہے اور اس کی منظوری کے بعد وہ آپ کا دوست بھی بن جاتا ہے اور اس طرح اپنی باہمی معلومات کو مشترکہ طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ تاہم اس سلسلے میں مختلف مسائل میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ جہاں لوگ اچھی اور معلوماتی خبریں اپنے دوستوں اور غیر دوستوں سے شیئر کرتے ہیں وہیں چند شیطان اور اوباش لوگ اس کارآمد چیز کا ناجائز فائدہ بھی اٹھاتے ہیں اور خواہ مخواہ لوگوں کو تنگ اور پریشان کرنے کے واقعات بھی آئے دن رونما ہوتے رہتے ہیں۔ فیس بُک استعمال کرنے والے اناڑی لوگوں کی شائع شدہ ذاتی و نجی خبروں اور کوائف میں تبدیلی کر کے انھیں استعمال کرنے کے واقعات بھی عام ہو رہے ہیں۔ کسی معروف شخصیت کے نام سے جعلی فیس بُک بھی بنالی جاتی ہے اور لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ وہی شخص ہے جس کے بارے میں فیس بُک میں شائع ہو رہا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق نصف سے زیادہ لوگ اپنے جعلی نام اور جعلی تصاویر کے ذریعہ فیس بُک استعمال کر رہے ہیں۔ جاپان جہاں فیس بُک استعمال کرنے والے صارفین کی تعداد پچاس لاکھ سے بھی تجاوز کر چکی ہے اور ہر روز اس سے متعلق شکایات بھی موصول ہو رہی ہیں اور عام صارفین جو اس کے استعمال سے کماحقہ آگاہ نہیں ہیں ڈر و خوف میں مبتلا نظر آتے ہیں اور فیس بُک سے نجات حاصل کرنے کے متمنی ہیں۔ جاپانی میڈیا کے مطابق فیس بُک کے استعمال میں روز بہ روز اضافہ بھی ہو رہا ہے۔ گزشتہ دنوں ایک تیس کی دہائی کی ایک خاتون نے کہا کہ وہ اس وقت سخت حیران و پریشان ہوئی جب فیس بُک کی سکرین پر ایک مرد کی تصویر چپکی ہوئی تھی اور یہ عبارت درج تھی کہ شاید تم مجھے جانتی ہو۔ ۔ خاتون نے کہا کہ اسے یاد آیا کہ ماضی میں اس شخص کے ساتھ اس کی ملاقات ایک پارٹی میں ہوئی تھی جہاں انھوں نے اپنے ای میل وغیرہ کا تبادلہ کیا تھا۔ ۔ مگر یہ فیس بُک پر ہمارے اس تعلق کا انکشاف کیسے ہوا؟؟

اگر آپ فیس بُک پر اپنے آپ کو رجسٹر کرواتے ہیں تو آپ دیکھتے ہوں گے کہ فیس بُک کی دائیں جانب دیگر صارفین کی تصاویر یا ان کی نام وغیرہ نظر آتے ہیں اور لکھا ہوتا ہے کہ کیا آپ ان سے واقف ہیں ؟ رجسٹرڈ کروانے والے صارفین کے دوست و احباب، ان کے کیریئر اور کسی تنظیم وغیرہ سے ان کی وابستگی میں اشتراکیت وغیرہ یا کسی اور تعلق سے کوئی نہ کوئی واقف کار ضرور نکل آتا ہے، اور اگر آپ اپنے ای میل بکس کو فیس بُک کے ذریعہ چیک کروائیں تو کوئی مخصوص ای میل کے مالک کو بھی تلاش کیا جا سکتا ہے اور اس کے بارے میں معلومات بھی حاصل کر سکتے ہیں۔ اس قسم کی خطر ناک صورتِ حال سے فراڈ اور دھوکہ دہی کرنے والوں کو بہت آسانیاں پیدا ہو گئیں، اس کے ذریعے کسی کو بھی بیوقوف بنانے اور اس سے رقم اینٹھنے یا اپنی دشمنی نکالنے کے مواقع بہت زیادہ ہوچکے ہیں۔ کسی کی ذاتی و نجی معلومات حاصل کر کے اسے دھوکہ دیا جا سکتا ہے۔ عموماً شروع میں جب کوئی فیس بُک بناتا ہے تو اس میں اس کی ذاتی و نجی معلومات نہ چاہنے کے باوجود دنیا بھر میں پھیل جاتی ہیں اور بعد میں اسے غیر محفوظ ہونے کا احساس ہوتا ہے جب تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔

جاپان آئی بی ایم کے سینئر سیکیورٹی تجزیہ کار موریا کا کہنا ہے کہ تمام صارفین ایک بار اپنی ذاتی و نجی معلومات جو وہ پہلے سے ہی فیس بک میں ڈال چکے ہیں ان پر نظرِ ثانی کی ضرورت ہے تاکہ مستقبل میں کسی خطرے سے دوچار ہونے سے بچا جا سکے۔

٭٭