FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

کوکلاشاستر

کہانیوں کا مجموعہ

 

سندیپ میل/عامر صدیقی

 

 

مکمل کتاب ڈاؤن لوڈ کریں

 

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

 

کوکلا شاستر

 

نہ چڑیوں کی آواز رہی اور نہ ہوا کی سنسناہٹ۔  اب نہ پھول کھلتے ہیں اور نہ ہی آندھیوں میں پیپل کی ٹہنیاں جھک کر زمین کو آداب بجا لاتی ہیں۔  لوگوں کے کانوں کو مور کی آواز اور پپیہے کی کلکاری میں فرق بھی پتہ نہیں چلتا۔  یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ وہ آواز کس جانور یا پرندے کی ہے۔  لیکن جب رات کے قریب ایک بجے گاؤں کے مشرق میں پرندوں جیسی ایک آواز سنائی دی، تو سارا گاؤں آواز کی سمت میں دوڑ پڑا۔  پرندے کی آواز ہونے کا اندازہ بھی اس لئے لگایا گیا، کیونکہ یہ آواز انسانوں جیسی نہیں تھی۔  گاؤں کی سرحد پر لوگوں کی بھیڑ لگ گئی، لیکن پرندوں کا اتا پتہ نہیں چلا۔  کہاں گیا ہو گا وہ آواز نکالنے والا؟

آپ سوچ رہے ہوں گے کہ کسی درخت پر بیٹھ گیا ہو گا، گھنے برگد کی ٹہنیوں میں چھپ گیا ہو گا؟ لیکن ایسا کسی بھی صورت میں ممکن نہیں تھا۔  کیونکہ برگد کی تو چھوڑیے، اس گاؤں میں کیکر تک کادرخت نہیں تھا۔  جی ہاں، یہ بِنا درختوں والا گاؤں تھا۔  قریب دس سال پہلے گاؤں کے دو فوجی ریٹائرڈ ہو کر آئے اور انہوں نے حساب لگایا کہ ایک درخت کی دیکھ بھال میں دس ہزار کا خرچہ آتا ہے اور آمدنی کچھ بھی نہیں ہوتی۔  ایسا کیا جائے کہ سارے درختوں کو کاٹ کر بیچ دیا جائے اور ان پیسوں کو سود پر چڑھا دیا جائے گا، تو ہر مہینے گاؤں کے ہر خاندان کو دو ہزار روپے منافع کی مد میں ملیں گے۔  پورے گاؤں میں گھنے درخت تھے۔  سارے کاٹ ڈالے گئے اور اب ہر گھر کو دو ہزار روپے منافع کے ملتے ہیں۔

جب درخت نہیں رہے تو پرندوں کو انسانوں کے گھروں میں کون رہنے دیتا؟ حالانکہ اس وقت کبوتروں کے کچھ بچوں نے انسانوں کے گھروں میں گھس کر پناہ ضرور لی تھی، لیکن جب گھر والوں نے دیکھا تو جھاڑو لے کر انہیں بھگا دیا اور اس طرح گاؤں سے آخری پرندہ بھی رخصت ہو گیا۔  گاؤں کے لوگ جب کسی شادی بیاہ میں باہر جاتے ہیں، تو بڑے شوق سے پرندوں کو دیکھتے ہیں۔  جو بچے کبھی گاؤں سے باہر نہیں گئے، وہ صرف کتابوں میں ہی توتا، مینا دیکھ پاتے ہیں۔

تو صاحب، رات کو ایک بجے وہ آواز سنتے ہی مشرق کی طرف گاؤں کے تمام ہی مرد عورتیں، سب کے سب دوڑ پڑتے۔  گاؤں کے آخری سرے پر کانارام کا مکان تھا، وہاں آ کر بھیڑ جمع ہو جاتی۔  اس سے آگے تاحدِنگاہ تک صحرا تھا۔  کون جائے ان ریت کے پہاڑوں پر ایسی تاریک راتوں میں۔  پورے چاند کے دن کچھ لوگوں نے صحرا میں جانے کی کوشش کی، لیکن مشکل سے دو کلومیٹر گئے ہوں گے کہ پھر اسی آواز نے دستک دے دی اور لوگ دبے پاؤں واپس گاؤں کی طرف۔  گاؤں والوں کے سامنے سب سے بڑا سوال تو یہ تھا کہ یہ آواز کس پرندے کی ہے اور وہ اتنی تیزی سے چلا کہاں جاتا ہے؟ کسی نے نہیں دیکھا، لیکن لوگ اپنے اپنے انداز سے اس کی صورت بنا لیتے۔

بسنت کا کہنا ہے کہ بھینس جتنا بڑا جانور ہے اورجہاز جتنی تیزی سے اڑتا ہے۔  ایک رات چھت پر سوتے ہوئے اس کی تھوڑی سی جھلک دیکھنے کوملی تھی۔  جبکہ پرمود اس کی بات کو سرے سے رد کر دیتا ہے، کیونکہ اس کا خیال تھا کہ سانپ جیسی کوئی مخلوق ہے اور آواز دے کر بل میں گھس جاتی ہے۔  بہت سے لوگ اپنی رائے کو ظاہر نہیں کرتے، مگر ان کے ذہن میں بھی ایک شبیہ بہرحال ہے اس البیلی مخلوق کی۔  سو مِترا جو آخری بار اپنے پیہر میں پرندوں کو دیکھ کر آئی تھی، اس کے من میں ہے کہ یہ متوالے ہریل جیسا ہو گا اور بولتے ہی بھاگ کر کسی عورت کی گود میں چھپ جاتا ہو گا۔  جب اس نے یہ بات اپنے شوہر کو بتائی، تو اس نے گاؤں والوں سے صلاح مشورہ کیا، پھر پورے گاؤں کے ہر گھر کے ہر ایک کمرے کی تلاشی لی گئی۔  لیکن نہ ہریل ملا، نہ ہریل کا کوئی نشان۔

کانارام سے بھی سارا گاؤں پوچھتا ہے کہ یار، تیرے گھر کے پاس جب بولتا ہے تو تیرے کو تو معلوم ہونا ہی چاہئے۔

’’ بولے تو میرے گھر کے آس پاس ہی ہے، لیکن اٹھ کر دیکھتا ہوں تو نظر نہیں آتا۔  کئی بار رات کو جگ کر بھی دیکھ لیا۔  گرفت میں نہیں آ رہا ہے۔‘‘کانارام بھی مایوس ہی تھا۔

پہلے تو کوئی کانارام کوراستے تک میں نہیں پوچھتا تھا، لیکن بیٹے کی شادی کے بعد ہر کوئی اسے پوچھنے لگا۔  ایک وجہ تو یہ تھی کہ بہو بلا کی خوبصورت آئی تھی۔  گھونگھٹ کے اندر سے بھی چاند کی طرح چمکتی دکھائی دیتی۔  عورتیں کہتی ہیں کہ کانا کا لڑکا تو اچھی گھروالی کو دیکھ کر ہی جی لے گا۔  بوڑھے بزرگ بھی کانارام سے مذاقیہ لہجے میں کہتے، ’’ بھایا، اس ماٹی کی اور چھوری ہے، تو ہم بھی بڑھاپا خراب کرنے کے لیے تیار ہیں؟‘‘

کانارام کا بھی ایک ہی رٹا رٹایا جواب تھا، ’’ اس ماٹی کی تو یہی بنی تھی۔  اب بڑھاپا بگڑنے کا مجھے تو کوئی رستہ نہیں دِکھ رہا۔‘‘

بہو کی وجہ سے کانارام کی اہمیت بڑھی، لیکن بہو کے آنے کے کچھ عرصے بعد ہی یہ آوازآنا شروع ہوئی اور اس کے بعد کانارام کی بات کو مستند مانا جانے لگا۔  گاؤں کی سرحد پر اکلوتا گھر اسی کا تھا اور آواز بھی وہیں سے آ رہی تھی۔

ایک دن گاؤں والوں نے طے کیا کہ شام کے وقت سے ہی لالٹنیں لے کر کانارام کے گھر کے برابر ڈیرہ ڈال لیتے ہیں، آواز آئے گی تو دیکھیں گے کہ آخر ہے کیا بلا؟ سارے گاؤں میں اس کی اطلاع دے دی گئی۔  بسنت نے بانس والی لاٹھی لے لی تھی کہ دیکھتے ہی ایک وار میں ہی آواز بند کر دے گا۔  پرندہ ہو یا پھر کوئی بلا۔  ادھر سے پرمود نے اپنے دادا کی پرانی بندوق نکال لی اور اس میں بجری کے چھرے بھر کراور چلا کر بھی چیک کر لیا تھا۔  وہ سوچ رہا تھا کہ بسنت کی لاٹھی سے پہلے اس کے دادا کی بندوق آواز کی بولتی بند کر دے گی۔  سارا گاؤں سرِشام ہی جلدی سے کھانا بنا چکا تھا اور دن میں لالٹینوں میں تیل اور بتی ڈال کر انہیں تیار کر دیا گیا تھا۔

یوں تو ہر کوئی بہادر بن رہا تھا، لیکن سب کے دل میں یہ ڈر بھی بیٹھا ہوا تھا کہ کہیں آواز والا البیلا، بھینس جتنا بڑا ہوا اورجہاز جتنا تیز رفتار ہوا تو کیا کیا جائے گا؟ لیکن اب تو گاؤں میں اکیلا رہنا بھی ٹھیک نہیں تھا۔  کہیں البیلا ادھر آ جائے گا تو پھر کیا ہو گا؟ تقریباً پانچ بجے سارا گاؤں کھانا کھا کر چوپال میں آ گیا تھا۔  توبچے، بوڑھے اور عورتیں گھر میں اکیلے کیسے رہ سکتے تھے۔ سو وہ بھی آ گئے۔  تبھی بسنت نے تیز آواز میں کہا، ’’ ہر کوئی لاٹھی، کلہاڑی وغیرہ جیسے ہتھیار لے لو۔  پتہ نہیں البیلا کیا ہو؟‘‘

بسنت کے کہنے کی ہی دیر تھی، لوگوں نے تو پہلے ہی ہتھیار چھپا رکھے تھے، فوراً باہر نکال لیے۔  اب پرمود، بسنت سے پیچھے کیسے رہ سکتا تھا، اس نے کہا، ’’ سبھی لوگ اپنی اپنی لالٹینوں کو بھی جلا کر دیکھو ایک بار۔‘‘

لوگوں نے دن کی روشنی میں ہی لالٹینیں جلا کر چیک کیں۔  ساری جل رہی تھیں، کیونکہ وہ پہلے ہی کئی بار چیک کر کے لائی گئی تھیں۔  پھرہو گئے روانہ، گاؤں کی سرحد کی طرف یا کہہ لیجئے کانارام کے گھر کی طرف۔  ایسا لگ رہا تھا کہ پورا گاؤں اجڑ کر کہیں اور ہجرت کر رہا ہو۔  ہاتھوں میں ہتھیار، دل میں جوش اور ذہن میں خوف والی یہ بھیڑ آج البیلے کو دیکھنے کے لئے جا رہی تھی۔  عورتوں کی گود میں ننھے بچے اپنے رونے کی آواز سے ہی بھیڑ کے زندہ ہونے کا ثبوت دے رہے تھے۔  باقی تو سارے لوگ سہمے جا رہے تھے۔

ایسا نہیں تھا کہ اس گاؤں میں پھر کسی نے درخت لگانے کی سوچی بھی نہیں ہو گی۔  بہت سے لوگوں نے خوب کوششیں کیں، لیکن سارا گاؤں اسے پہلے تو سمجھاتا کہ دیکھ بھئی، دس ہزار روپے کیوں برباد کر رہا ہے، اس سے اچھا تو یہ ہے کہ کچھ بانڈ کی خریداری لو۔  یا تو وہ اس بات کی وضاحت سے مان جاتا اور اگر نہیں مانتا تو گاؤں والے فوری طور پر دھمکی دیتے کہ تیرے گھر کے دو ہزار بند کر دیئے جائیں گے۔  اس دھمکی کولانگھنے کی کوشش کسی نے نہیں کی۔  پچھلے دس سالوں میں بھیڑ گاؤں میں آدھے رہ گئے ہیں۔  برسات کے وقت توہری گھاس مل جاتی ہے، لیکن باقی آٹھ مہینوں کی مشکل نہیں کٹتی ہے۔  خرید کر چارہ ڈالنے سے سستا تو یہ لگتا ہے کہ شہر سے خشک دودھ کے ڈبے لے آئے جائیں اور آج کل زیادہ تر گھر خشک دودھ پر ہی جیتے ہیں۔

کانارام نے بھی ایک دن بکری فروخت کرنے کیلئے قصائی کو بلا لیا تھا، لیکن بہو نے منع کر دیا۔  وہ بولی، ’’ آپ کے زیادہ ہی بھوک آ گئی ہے تو میں کچھ کام کر لوں گی، لیکن چائے گھر میں بکری کے دودھ کی ہی بنے گی۔‘‘

پہلے تو کانارام کو بہو کی یہ بات عجیب لگی۔ لیکن پھر اسے بھی بکری کے دودھ کی چائے کا ذائقہ یاد آ گیا۔

سورج غروب ہونے سے پہلے تک تو گاؤں کی سرحد پر خوب آوازیں اٹھ رہی تھیں، لیکن اندھیرا چھاتے ہی لوگوں کے لب بند ہونے شروع ہو گئے۔  تمام لوگ ایک دوسرے سے چپک کر بیٹھ گئے تھے۔  بسنت نے کھڑے ہو کر کہا، ’’ ڈرنے کی بات نہیں ہے۔  البیلا گاؤں میں گھس کر بھی تو کھا سکتا ہے۔  سارا گاؤں ہے، پچھاڑ دیں گے۔‘‘اس کی بات سے لوگوں میں کچھ اعتماد کی فضا پھیلی ہی تھی کہ تبھی پرمود نے بھی اعلان کر دیا، ’’ بندوق دیکھ رہے ہو، لگ جاتی ہے تو پتھر میں بھی سوراخ کر سکتی ہے۔‘‘

’’ابے! بجری کے چھروں سے کبھی پتھر میں سوراخ ہوا ہے۔  بیوقوف بناتا ہے۔‘‘بسنت سے رہا نہیں گیا۔

’’لے تیرے کو ابھی بتاتا ہوں۔‘‘پرمود اس کی طرف لپکا ہی تھا کہ لوگوں نے پکڑ لیا۔

پھر بزرگوں نے سمجھایا، ’’ یہ لڑائی کا وقت نہیں ہے، پورے گاؤں پر سنکٹ ہے۔  مل کر لڑنا ہو گا اور پرمود کی بندوق سے پتھر میں سوراخ تو نہیں ہو سکتا، لیکن جناور تو مر ہی جائے گا۔‘‘

عورتوں نے خوف دور کرنے کیلئے کچھ نہ کچھ کام کرنے شروع کر دیئے، کیونکہ گاؤں والوں کی ہدایت تھی کہ دس بجے کے بعد کوئی آواز نہیں نکالے گا۔  ہر انسان چوکنا رہے اور چاروں طرف نظریں رکھو۔  لالٹینیں جل رہی تھیں اور سہمے چہرے دل بہلانے کو کچھ ہونٹ ہلا رہے تھے۔  کیا بات کی جائے ایسی حالت میں۔  کوئی بات بھا ہی نہیں رہی تھی، پھر بھی کچھ بولنے سے دھیان بٹ جاتا ہے اور خوف کم ہوتا ہے۔  اسی سوچ کی وجہ سے لوگ بغیر مطلب کے لا یعنی باتیں کر رہے تھے۔  پانی کی تین ٹنکیاں رکھی گئی تھیں اور لالٹینوں میں ڈالنے کیلئے تیل کی دو ٹنکیاں بھی تھیں۔

عورتوں کے پاس بات کرنے کا ایک ہی مزے دار مدعا تھا اور وہ مدعا تھا، کانارام کی بہو سریتا۔  سریتا بھی اپنی ساس کے ساتھ آ گئی تھی۔  جب سارا گاؤں سرحد پر تھا تو سریتا گھر میں اکیلے کیسے رہ سکتی تھی۔  عورتیں اس کے حسن کی تعریف کرتی تھک نہیں رہی تھیں۔ چوں کہ ابھی نئی نئی بہو تھی تو سریتا بول تو کم ہی بول رہی تھی، گردن ہلا کر یا مسکراہٹ سے زیادہ کام نکال رہی تھی۔  اس کی ساس شاردا سینہ چوڑا کئے، بہو کی تعریفیں کر رہی تھی اور چیلنج بھی کر رہی تھی کہ اتنی خوبصورت بہو سارے ضلع میں نہیں آئی ہو گی۔  گاؤں کی عورتوں کو ماننا بھی پڑ رہا تھا، کیونکہ ان کے پاس اس بات کو کاٹنے کیلئے کوئی مثال نہیں تھی۔  حالانکہ زیادہ تر عورتیں دل ہی دل میں جل بھی رہی تھیں۔  شاردا نے انہیں یہ بھی بتایا کہ ایک دن اس کا شوہر بکری دینے کیلئے قصائی کو لے آیا تھا، لیکن سریتا نے انکار کر دیا۔  وہ بکری کے دودھ کی چائے ہی پیتی ہے۔  یہاں تک تو ٹھیک تھا، لیکن جب شاردا نے جوش میں آ کر یہ کہا، ’’ سریتا اگلی بارش میں نیم بھی لگائے گی آنگن میں، گاؤں والے چاہیں تو دو ہزار بند کر دیں۔‘‘

جوں ہی یہ الفاظ شاردا کے منہ سے نکلے، تو عورتوں کی سانس حلق میں آ گئی۔  ایک کے منہ سے تو اچانک ’’او۔۔ ۔‘‘نکل گیا۔

پاس میں بیٹھے مرد یہ ’’او۔‘‘ سنتے ہی فوری طور پر لاٹھی، کلہاڑی لے کر کھڑے ہو گئے، ’’ کدھر ہے۔۔ ۔ کدھر ہے۔۔ ۔‘‘

’’ ارے بھائی، یہ البیلے کے بولی نہیں ہے۔  روز سنتے ہو، بھول گئے۔‘‘کانارام نے ہنستے ہوئے کہا۔

سارے لوگ فوراً خاموش ہو گئے۔  انہیں کانارام کی بات ایکدم لاکھ ٹکے کی لگی۔  ویسے بھی آج کل اس کی بات کا کافی احترام کیا جاتا ہے۔  تقریباً  سارے چھوٹے بچے سو گئے تھے اور کچھ جو سمجھدار تھے، وہ ڈر کے مارے ماؤں کی گود میں دبک کر سونے کا ڈرامہ کرنے لگے تھے۔

ادھر مردوں کی صفوں میں بھی کچھ خاص باتیں نہیں ہو رہی تھیں۔  کچھ نوجوان سریتا کے شوہر دھرمیندر سے مذاق کر رہے تھے۔  اس کی بیوی کو لے کر لڑکے بڑے ہی پرجوش تھے۔  کوئی پوچھ رہا تھا کہ چہرہ کیسا ہے، کوئی گردن کا ناپ اور لمبائی جاننے کی کوشش میں تھا۔  جو دھرمیندر کے زیادہ قریب تھے وہ کمر تک یا اس سے نیچے کی رپورٹس بھی لینے کی فراق میں تھے۔  لیکن وہ کوئی بھی جواب نہیں دے رہا تھا۔  بالکل ڈرا ہوا سا لگ رہا تھا۔  کچھ لڑکوں نے سوچا کہ شاید البیلے کی وجہ سے ڈر رہا ہے۔  حقیقت یہ ہے کہ وہ شادی کے بعد سے ایسے ہی رہنے لگا ہے۔  بہت سے دوستوں نے پوچھا کہ یار، اتنی خوبصورت بیوی کے بعد بھی اداس رہو گے تو کیسے کام چلے گا۔  وہ کسی کو اپنا دکھ نہیں بتا سکا۔

اب رات کے دس بجنے والے تھے اور اسی کے ساتھ شروع ہونا تھا، خاموشی کا وہ دور جس کا کوئی اندازہ ہی نہیں تھا کہ وہ کب ختم ہو گا۔  ابھی دس بجنے میں قریب دس منٹ بچے تھے کہ پرمود نے اعلان کر دیا کہ سارے لوگ پانی پی کر تیار ہو جائیں۔  البیلا بولے گا تو ایک بجے لیکن ہمیں ابھی سے اس کی نگرانی رکھنی ہو گی۔  بسنت بھی کہاں پیچھے رہنے والا تھا، اس نے بھی لالٹینوں کا تیل سنبھالنے اور ہتھیاروں کو ہاتھ کے نیچے رکھنے کی صلاح دے ڈالی۔

لالٹینوں میں تیل شام کو ہی بھردیا گیا تھا، لیکن جو تھوڑا بہت اس دوران جلا تھا، اس کو بھی دوبارہ بھر دیا گیا۔  اپنی لاٹھی، کلہاڑی تو لوگ پہلے سے ہی ہاتھ میں لئے ہوئے تھے۔  پانی بھی بغیر پیاس کے ہی دو دو گھونٹ سب نے پیا، کیونکہ ڈر کے مارے لوگوں کے حلق خشک رہے تھے۔  اور یہ لو بج گئے دس!

کسی نے ایک آواز دی، ’’ تیار۔‘‘

چاروں جانب خاموشی تھی۔  ہوا چل رہی تھی یا نہیں، اس کا تو پتہ نہیں، کیونکہ اس گاؤں میں درخت تو تھے نہیں کہ پتے ہلیں اور لوگ ہوا کی شدت کا اندازہ لگائیں۔  ویسے سب کو گرمی لگ رہی تھی۔  ڈر کی وجہ سے یا ہوا بند ہونے کی وجہ سے، کون جانے!

لالٹینوں کی روشنی میں اندھیری رات میں سینکڑوں سر نظر آ رہے تھے اور کچھ لوگوں کی اندھیرے میں چمکتی ہوئی آنکھیں بھی دکھائی دے رہی تھیں۔  کبھی کسی عورت کی چوڑی کھنکنے کی آواز ہوتی، تو سینکڑوں سانسیں گویا تھم سی جاتیں۔  پورے ماحول پر البیلا چھایا ہوا تھا۔  جوں جوں گھڑی کی سوئیاں گھوم رہی تھیں، لوگوں کی سانسیں بھی تیز ہو رہی تھیں۔  سبھی پسینے میں تربہ تر تھے۔ سبھی کے گلے خشک ہو گئے تھے، لیکن پہلے جا کر ٹنکی سے پانی پینے کی ہمت کسی کی نہیں ہو رہی تھی۔  ہونٹوں پر زبان پھیر کر کچھ نمی پانے کی کوشش کر رہے تھے۔

تبھی ایک بچے کے رونے کی آواز نے اس خاموشی کو توڑا۔  اسے شاید بھوک لگی تھی۔  بچے کے منہ سے ابھی ایک آواز ہی نکلی تھی کہ فوری طور پر اس کی ماں نے منہ میں چھاتی دے دی۔  وہ دودھ پینے لگا اور لوگ اپنی دھڑکنوں کو ٹھکانے پر لانے کی لا حاصل کوشش کرنے لگے، کیونکہ آج یہ دھڑکنیں ٹھکانہ چھوڑ چکی تھیں۔

اب قریب گیارہ بج چکے تھے۔  لوگوں کے گلے اور برداشت دونوں ہی جواب دے چکے تھے۔  تبھی پرمود نے اگلا حکم دیا، ’’ پانچ منٹ میں سب لوگ پانی پی کر واپس اپنے مقام پر آ جائیں۔  شور شرابہ نہیں کرنا ہے۔‘‘

’’ سارے لوگ ایک ساتھ پانی نہیں پئیں۔  کچھ لوگ نگرانی پر رہو۔‘‘ بسنت نے بھی اگلا حکم دینا ضروری سمجھا۔

مرد اورعورتیں پانی پینے کے لیے اٹھے۔  وہ کچھ باتیں بھی کرنا چاہتے تھے، لیکن دل اور زبان دونوں ساتھ نہیں دے رہے تھے۔  پھر بھی ہلکا ہونے کے لیے کچھ سرگوشیاں شروع کر دیں۔  پانی حلق سے نیچے اترا تو گلا تو گیلا ہوا، لیکن دل کا چین تو اس البیلے کی آواز کے نیچے دبا تھا۔  کچھ عورتوں نے اپنے بچوں کے ہونٹ بھی گیلے کئے۔  لوگ واپس آ کر اپنی جگہ پر جم گئے تھے۔  ویسے ہی سناٹا چھا گیا تھا۔  کچھ لوگ آنکھوں کے اشاروں سے کچھ باتیں ضرور کر رہے تھے۔  اس پورے ہجوم میں سریتا کے چہرے پر کسی قسم کی شکن نہیں تھی۔  حالانکہ خوشی کے تاثرات پھر بھی نہیں جھلک رہے تھے۔

آج وقت جیسے رک سا گیا ہو۔  ایک ایک منٹ صدیوں جتنا لمبا ہو رہا ہے۔  بزرگوں کو تھکاوٹ محسوس ہو رہی تھی اور وہ لوگوں کی نظریں چرا کر جھپکیاں مار رہے تھے، کیونکہ ان کا خیال تھا کہ اب زندگی کے آخری سرے پر البیلے سے ڈرنے کا کوئی مطلب نہیں ہے، ویسے بھی کسی روز چپکے سے چلے توجانا ہی ہے۔  گاؤں والوں کے ساتھ آنے کا اتنا سا مقصد تھا کہ گھر میں رک گئے اور بیمار ہو گئے تو کوئی سنبھالنے والا ہی نہیں ہو گا۔  البیلا پکڑ میں آ جائے گا تو اس کا خاندان بھی محفوظ رہے گا۔

کانارام کو بھی ڈر نہیں لگ رہا تھا، کیونکہ البیلا روز ہی اس کے گھر کے برابر میں بولتا ہے۔  آج تک انسان کی تو چھوڑیئے، بکری کے بچے تک کا نقصان نہیں کیا۔  پھر ڈر کس بات کا! اسے تو جب بھی البیلا بولتا ہے، تو ایسا لگتا ہے کہ یہ آواز بہت جانی پہچانی ہے اور اس کے دل کے قریب ہے۔  پھر وہ سوچتا ہے کہ اس نے تو تقریباً سات سالوں سے کسی پرندے کو بہت نزدیک سے دیکھا تک نہیں ہے، آواز دل کے قریب کیسے ہو سکتی ہے؟ یوں ہی اسے ایک بیکار کا خیال مان کر نظر انداز کر دیتا ہے۔

آخری بار وہ جب شہر گیا تھا، تو وہاں پر ایک مور دیکھا تھا۔  بہت خوبصورت تھا۔  ویسا ہی تھا، جیسے اس کے گھر میں لگائی گئی مور کی تصویر میں تھا۔  کافی دیر تک کانارام مور کو دیکھتا رہا، اتنی دیر تک دیکھتا رہاکہ گاؤں جانے والی بس نکل گئی اور پھر شہر سے جیپ کرائے پرلے کے آنا پڑا۔  جیپ والے کو گھر آ کر کانارام نے پانچ سو روپے کرائے کے دیئے، تو سارا گھر اس پر پل پڑا اور تبھی سے اس کا شہر جانا بند کر دیا گیا۔  خریداری زیادہ تر تو گاؤں میں ہی ہو جاتی تھی، لیکن کچھ چیزوں کیلئے شہر جانا ہوتا تھا۔  اس دن کے بعد دھرمیندر، شہر خریداری کے لئے جانے لگا اور کانارام نے سات سال سے کوئی پرندہ نہیں دیکھا۔  وہ تو چاہتا تھا کہ یہ البیلا کیسا بھی ہو، ایک بار سامنے آئے تو کم سے کم اسی پرندے کو تو دیکھا جا سکے۔

پتہ نہیں ایسا بھی کیا ہوا کہ درخت کاٹے جانے کے دو تین سال بعد بارش میں آنے والے پتنگے بھی بند ہو گئے۔  آسمان میں کبھی کچھ اڑتا ہوا نہیں دکھائی دیتا ما سوائے جہازوں اور کچھ پلاسٹک کی تھیلیوں کے۔  آپ گاؤں کا نام بھی پوچھ سکتے ہیں، جو ابھی تک نہیں بتایا گیا ہے۔  گاؤں کا نام نِیماگڑھ تھا اور اس نام کی وجہ تسمیہ بھی یہی تھی کہ کسی زمانے میں یہاں کثرت سے نیم کے بڑے بڑے درخت تھے۔  اب نیم کا ایک پتا بھی نہیں ہے یہاں۔  ہاں گاؤں کے نام میں اور بڑی عمر کے لوگوں کی یادوں میں نیم ضرور موجودہے۔

یہ لو! بارہ بھی بج گئے اور آواز نہیں آئی۔  کچھ لوگوں نے گھر چلنے کی بات کہی، تو خاموشی پھر ٹوٹی۔  بہت سے لوگ اس کے حق میں تھے کہ تھک چکے ہیں، گھر چلنا ہی مناسب ہے۔  بہت سے لوگوں نے کہا کہ جب رات برباد کر ہی چکے ہیں، تو اب ایک بجے کا انتظار کرنا چاہیے۔  روز روز کا جھنجھٹ ہو گیا ہے، جو بھی بلا ہے آج دیکھ لیں گے۔

سریتا بیٹھی بیٹھی تھک چکی تھی اور پیشاب بھی لگ رہا تھا۔  حالانکہ پیشاب تو بہت سے دوسرے مردوں اور عورتوں کو بھی لگا تھا، لیکن خوف کے مارے کسی کی بھی اکیلے جانے کی ہمت نہیں ہو رہی تھی۔  پیشاب دبائے بیٹھے تھے سارے لوگ۔  سریتا اکیلی ہی پیشاب کرنے کے لیے بھیڑ کی شمالی سمت میں نکلی۔  اس کی ساس کو ایک بار توعجیب سا لگا کہ بہو سب کے سامنے اکیلی ہی پیشاب کرنے جا رہی ہے۔  لیکن پھر اسے فخر محسوس ہوا کہ بہو اتنی نڈر ہے کہ جب بڑے بڑے تیس مارخاں بھی پیشاب دبائے بیٹھے ہیں، وہ اکیلی جا رہی ہے۔

’’ گِلگِلگِلگِلگِلگِل ………‘‘

’’ ارے۔۔ ۔ بول گیا البیلا۔۔ ۔ دیکھو کدھر ہے۔‘‘بھیڑ میں آواز سنتے ہی بھگڈر مچ گئی تھی۔  لوگ اردگردالبیلے کو تلاش کرنے کے بجائے ایک دوسرے سے چپک رہے تھے۔  سریتا بھی بھاگ کر بھیڑ میں شامل ہو گئی۔  پرمود نے چپکے سے بندوق پھینک دی تھی۔  بسنت کی لاٹھی بھی معلوم نہیں کہاں غائب ہو گئی! لوگوں ہڑبڑاہٹ سے لالٹینوں کو ٹھوکریں لگیں اور وہ بجھ گئیں۔ کالا سیاہ اندھیرا تھا اور خوفناک خاموشی تھی۔  لوگوں کی سانسوں کی آوازیں بغل والے تک نہیں سن پا رہے تھے۔

رات بھر لوگ ایسے ہی دبکے رہے۔  اس اندھیرے میں نہ گھر جا سکتے تھے اور البیلے کو پکڑنے کا ارادہ تو لوگوں کے ذہن سے غائب بھی ہو چکا تھا۔  پیشاب سریتا کے علاوہ تقریباً  تمام لوگوں نے جہاں بیٹھے تھے وہیں کیا۔  اچانک کسی کے کھانسنے کی آواز آ جاتی تو لوگوں کی جان نکل جاتی۔  حالانکہ کھانسنے والا، کھانسی کو خوب دباتا، لیکن جب بات قابو میں نہیں رہتی تو بالآخر دو چار آوازیں نکل ہی جاتیں۔  سریتا گھر آ کر مزے سے سو گئی تھی۔

صبح کو جب کچھ اجالا ہوا تو لوگ اپنے اپنے گھروں کی طرف روانہ ہوئے۔  شام کو جو بھیڑ دنیا فتح کرنے نکلی تھی، صبح ہارے ہوئے سپاہیوں کی طرح منہ لٹکائے آ رہی تھی۔  دوپہر تک گاؤں میں سناٹا رہا۔  سارا گاؤں سو رہا تھا، کیونکہ رات کی نیند اور تھکاوٹ سے لوگ ٹوٹ چکے تھے۔  اس واقعے کے بعد گاؤں کے لوگ شام ہوتے ہی اپنے اپنے گھروں میں کنڈی لگا کر سو جاتے ہیں اور اسی وقت قریب ایک بجے البیلے کی وہی آواز آتی ہے۔  ڈر کے مارے بستر میں دبکے لوگوں کی، پھر کبھی ہمت نہیں ہوئی کی البیلے کو دیکھا یا پکڑا جائے۔  دن میں بھی کسی بحث میں اس کا ذکر تک نہیں کرتے۔  اب کانارام کو بھی کوئی پوچھتا نہیں ہے کہ آپ کے گھر کے ہی پاس بولتا ہے، آپ نے تو دیکھا ہی ہو گا۔  کیسا ہے البیلا؟

کانارام کی اداسی بھی مسلسل بڑھنے لگی ہے۔  ایک تو لوگوں میں مشہوری کم ہونے کی وجہ سے اور دوسرے بیٹے کی وجہ سے۔  ویسے دھرمیندر کو ہوا کچھ بھی نہیں ہے، لیکن وہ شادی کے بعد سے بالکل خاموش ہو گیا ہے۔  دنیا سے بے زاری کا احساس چھا گیا ہے اس کے ذہن میں۔  نہ کسی کام میں من لگتا ہے اور نہ کبھی ہنسا کرتا ہے۔  کانارام نے کئی بار پوچھنے کی کوشش کی، ’’ بہو سے نہیں بنتی ہے کیا؟‘‘

’’ نہیں، ایسی کوئی بات نہیں ہے۔‘‘دھرمیندر کا ایک ہی جواب ہوتا تھا۔

گاؤں میں ایک نیا ہنگامہ بھی شروع ہو گیا ہے۔  اس دن جب البیلے کیلئے گاؤں کی سرحد پر ڈیرہ ڈالا گیا تھا تو شاردا نے جوش میں آ کر کہہ دیا تھا، ’’ سریتا کہتی ہے کہ اس بارش میں آنگن میں ایک نیم ضرور لگائیں گی۔  چاہے دو ہزار بند کر دیں گاؤں والے۔‘‘

یہ بات اس دن تو خوف کے ماحول کی وجہ سے عورتوں کے خیمے سے مردوں کے پالے میں جا نہیں پائی تھی۔  کئی دنوں تک تو البیلے کا ڈر اتنا تھا کہ لوگوں کے پاس ایک دوسرے سے باتیں کرنے کی ہمت ہی نہیں تھی۔  اب یہ بات مردوں کے پالے میں بھی چلی گئی۔  پھر کیا تھا، سارے گاؤں میں بحث ہونے لگی اور سریتا پر طرح طرح کے طعنے کسے جانے لگے۔

گاؤں کے سرکردہ لوگ اکٹھا ہو کر کانارام کے گھر گئے۔  دن کے قریب بارہ بجے کا وقت رہا ہو گا۔  یہ لوگ اس رات کے بعد گاؤں کی سرحد کی جانب پہلی بار جا رہے تھے، لہذا ذہن میں البیلے کا ڈر بھی کسی نہ کسی کونے سے بار بار باہر نکلنے کی کوشش کر رہا تھا۔  لیکن گاؤں والے جانتے ہیں کہ یہ جانورقانون کا اتنا پکا ہے کہ دن میں نہیں بولے گا۔

کانارام دروازے میں بیٹھا چلم پی رہا تھا۔  گاؤں کے پٹیلوں کو آتے دیکھ کر اس نے بہت آسانی سے اس بات کا اندازہ لگا لیا تھا کہ کوئی نہ کوئی خطرے کی بات ضرور ہے۔  اسے تو یہ بھی خبر نہیں تھی کہ شاردا نے عورتوں کو نیم والی بات بتا دی ہے۔

’’ رام رام کانا۔‘‘گووند پٹیل نے شروعات کی۔

کانارام نے بھی رام رام کر کے پٹیلوں کو بیٹھنے کے لئے پلنگ پیش کیا۔  پھر اس نے سریتا کو آواز دی، ’’ بیٹا، چائے بنانا۔  دودھ والی۔‘‘

پٹیلوں نے راضی خوشی کے سماچار پوچھ کر معاملے کی بات شروع کی۔  انہوں نے وضاحت کی کہ کانا رام، گاؤں کے قوانین کو تو ماننا ہی پڑے گا۔  کسی نے دس سالوں میں ایک گلاب نہیں لگایا اور تو نیم لگانے کی سوچ رہا ہے۔  بھئی، ایک نیم پالنے میں دس ہزار روپے خرچ ہو جاتے ہیں۔  تیرے کون سی آسامی لُٹتی ہے۔  کسی طرح اپنا گزر بسر کر رہا ہے۔  بتا، نیم سے کیا فائدہ ہو گا؟

کانارام پہلے تو چپ رہا۔  پھر اس نے کہا، ’’ سریتا کی ضد ہے۔  ہم نے شادی کے بعد سے اس کی کوئی بات نہیں ٹالی۔‘‘

’’ سریتا‘‘ کا نام سنتے ہی سارے پنچوں کو جیسے سو وولٹ کا جھٹکا لگا ہو۔  انہوں نے ایک دوسرے کی طرف تعجب بھرے انداز سے دیکھا۔  انہیں تو یہ یقین ہی نہیں ہو رہا تھا کہ اس گاؤں کا کوئی مرد، وہ بھی جورشتے میں سسر لگتا ہو، عورت کے بارے میں ایسی بات کہہ سکتا تھا۔

گووند نے گہری سانس لی اور ایک پھر سمجھایا، ’’ دیکھ کانا، ٹھیک ہے تو بہو کی بات نہیں ٹالتا ہے، لیکن اس صورت میں نقصان تیرا ہی ہے۔  یار، تو مرد ہے اور گھر کی ساری ذمہ داری تیری ہے۔  عورتوں کو سر پر نہیں چڑھایا جاتا ہے۔‘‘

سریتا چائے لے کر آ گئی تھی۔  سارے پٹیلوں کو چائے دی۔  کانارام نے جب کوئی جواب نہیں دیا، تو گووند نے سخت لہجے میں کہا، ’’ دیکھ کانا، دو ہزار روپے بند کر دیئے جائیں گے، اگر نیم لگانے کے بارے میں سوچا بھی تو۔‘‘

’’ کر دو پٹیلوں!‘‘

’’ تمہارے دو ہزار کے بھروسے پر زندہ نہیں ہیں۔  نیم تو لگے گا اور اسی برسات میں لگے گا۔‘‘سریتا نے ایک جھٹکے میں گھونگھٹ ہٹا کر پٹیلوں کو خبردار کیا۔

گھونگھٹ سے جب چاند سا مکھڑانکلا تو پٹیلوں کے ہوش اڑ گئے۔  سریتا کے حسن کی انہوں نے تعریف تو ضرور سنی تھی، لیکن اتنی بلا کی خوبصورت ہو سکتی ہے، یہ خواب میں بھی نہیں سوچا تھا۔  ان کی نظریں سریتا کے چہرے سے ہٹ ہی نہیں رہی تھیں۔  وہ یہ بھی سوچ رہے تھے کہ کانارام اسے زور سے ڈانٹے گا اور اندر جانے کی ہدایت کرے گا، لیکن ایساکچھ بھی نہیں ہوا۔  وہ دل ہی دل میں بہو کی بات سے خوش ہو رہا تھا۔

پٹیلوں کی چند لمحوں کی خاموشی کے بعد ان کی نظریں سریتا کے چہرے سے ہٹیں اور ایک دوسرے کے چہروں پرمرکوز ہو گئیں۔  نظروں ہی نظروں میں کچھ باتیں ہوئی اور پھر گووند نے پہل کی، ’’ ٹھیک ہے تو نیم لگائے گا تو ہمارا بھی فیصلہ سن لے! گاؤں سے تیرا رشتہ ختم۔‘‘

’’ ہاں، بالکل۔‘‘دیگر پٹیلوں نے بھی اس کی حمایت کی۔

کانارام جو اب تک خاموش تھا اور کسی قسم کا جھنجھٹ مول لینے کے موڈ میں نہیں تھا، اس نے ایک گہری سانس لی اور کہا، ’’ ویسے بھی میں کما کر کھاتا ہوں، گاؤں والے میرے گھر اناج کی بوری نہیں ڈال کر جاتے ہیں۔  نیم تو اسی بارش میں لگے گا۔‘‘

’’ کانا تُو اس چھوری کا غلام ہو گیا ہے۔  بہو کی طرح رکھ۔  ہمیں تو کچھ گڑبڑ لگ رہی ہے۔‘‘گووند نے غصے سے کہا۔

’’ ساری ہی گڑبڑ ہے بھائی۔  چلواب اس کے گھر میں بیٹھنے کا کوئی مطلب نہیں ہے۔‘‘سارے پٹیل اٹھ کر چل پڑے۔

کانارام چپ چاپ بیٹھا رہا اور ان پٹیلوں کو رخصت کرنے کیلئے پلنگ پرسے اٹھا تک نہیں۔  اس سے پٹیلوں کا غصہ عروج پر پہنچ گیا اور انہوں نے جاتے وقت کہہ دیا، ’’ نیچ ذات کو گاؤں میں رہنے دینے سے یہی ہوتا ہے۔  بہت پچھتائے گا۔‘‘

اس کے بعد گاؤں میں کانارام کے خلاف کئی سازشیں رچی گئیں۔  اس سے لوگوں نے بات کرنا تک بند کر دیا اور گاؤں کے دکانداروں نے سامان دینا بھی بند کر دیا۔  حالانکہ کانارام نیم لگانے کے فیصلے سے پہلے ان خطروں کے بارے میں سوچ چکا تھا۔  لوگوں نے سریتا اور کانارام کے رشتوں کے بارے میں کئی کہانیاں بنائیں۔  شاردا نے بھی بہو کا ساتھ دیا اور اپنے پیہر جا کر ایک خشک نمبولی بھی لے آئی، نیم لگانے کے لئے۔

دھرمیندر اب اور خاموش رہنے لگا تھا۔  اسے لگاتارسامان لانے کے لئے گاؤں سے باہر شہر جانا پڑتا تھا۔  خرچہ بھی زیادہ ہوتا اور پریشانی بھی۔  بسنت بھی شہر جاتا تھا۔  اس نے دھرمیندر سے دوستی کرنا شروع کر دی۔  حالانکہ اس کی بھنک گاؤں میں کسی کو نہیں تھی۔  اسی دوستی میں دھرمیندر کو شراب پینا بھی سکھا دیا۔  یاسیت میں دھرمیندر کو لت لگ گئی۔

البیلا ایک بار دن میں بھی بولا۔

وہی رات والی آواز اور وہی سمت، لیکن اس بار آواز میں درد کچھ زیادہ ہی تھا۔  دن میں اس کے بولنے سے سارا گاؤں پھر خوف میں ڈوب گیا۔  کیونکہ گاؤں والوں کے مطابق اس جانور نے اپنا اصول توڑا ہے۔ اب وہ کبھی بھی گاؤں میں گھس سکتا ہے۔  گاؤں والے دن میں بھی گھروں میں کنڈی لگا کر رہنے لگے۔  صبح دس بجے کے بعد گاؤں میں کوئی بھی نہیں دکھائی دیتا ہے، دکانیں بھی بند ہیں۔  رات کی خاموشی جب دن میں اتر آئے، تو روشنی اور اندھیرے کا فرق مٹ جاتا ہے۔  یہاں بھی ایسا ہی ہوا۔  بچوں کے اسکول تک کے گیٹ دن میں بند رہنے لگے۔  ایسی صورتِ حال ہو گئی تھی کہ یہاں کے لوگ ہنسنا اور قہقہہ لگانا بھی بھول چکے تھے۔  کہیں کوئی آواز نہیں۔  ایک مردہ شانتی چھا گئی تھی۔

دن میں ایک ہی آواز سنائی دیتی تھی۔  کانارام کے گانے کی آواز۔  وہ اپنے دروازے پر بیٹھ کے ہارمونیم پر بھجن گاتا تھا۔  بہت سریلی آواز تھی۔  گاؤں کے کئی بزرگوں کا دل کرتا تھا کہ کانارام کے دروازے پرجا کر بھجن سن لیں، لیکن پٹیلوں کا حکم تھا کہ اس سے بات بھی نہیں کرنی ہے۔  اس کے بھجن میں مور، پیپل، نیم اور کویل کا کئی بار حوالہ آتا تو لوگ اپنے ذہنوں میں ان کی تصویریں بنانے لگتے۔

اب دھرمیندر اور بسنت کی دوستی گہری ہو چکی تھی۔  وہ روز شام کو کانارام کے گھر کے پیچھے بیٹھ کر شراب پیتے۔  ایک دن نشے میں دھرمیندر نے بسنت کو اپنا دکھ سنا ڈالا۔  ویسے تو بسنت نے کئی بار پہلے بھی کئی بار پوچھنے کی کوشش کی تھی، لیکن وہ ہمیشہ خاموش ہی رہتا تھا۔

آج اس نے کہا، ’’ اس بیاہ نے میری زندگی برباد کر دی۔‘‘

’’ کیا ہوا بھائی؟ اتنی خوبصورت بیوی ہے یار۔‘‘بسنت نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر تسلی دی۔

’’ دور سے ایسا ہی لگتا ہے۔  ایسا حسن میرے کس کام کا۔  باپ سمجھتا ہی نہیں میرا درد۔  اس حور پری پر ہی فدا رہتا ہے۔‘‘دھرمیندر نے پیگ ختم کرتے ہوئے کہا۔

’’ یار برا نہ مانو تو کہوں گا کہ تیرے باپ کی نیت مجھے ٹھیک نہیں لگتی ہے۔  اپنی بیوی کو سمجھاؤ۔‘‘بسنت دل ہی دل میں اچھل رہا تھا۔

’’ سمجھانا تو تب ہو جب میری اس سے باتیں ہو!‘‘

’’ یار بیوی سے بات ہی نہیں ہوتی ہے! تو پھر باقی کام۔۔ ۔‘‘

’’ میں ڈرتا ہوں اس سے۔  وہ رات کو کہیں جاتی ہے۔‘‘دھرمیندر اتنا کہہ کر گھر چلا گیا۔

آج بسنت کو ساری جھنجھٹ کا ایک سراملا تھا – وہ رات کو کہیں جاتی ہے۔  اس نے خوب وچار کیا کہ کہاں جاتی ہو گی؟ پہلے پہل اسے لگا کہ کانارام کے پاس جاتی ہو گی، لیکن پھر اس نے سوچا کہ وہاں جاتی تو دھرمیندر دیکھ لیتا اور ڈرتا کیوں؟

وہ دوسرے دن پوری بوتل لے کر آیا اور طے شدہ وقت پر کانارام کے گھر کے پیچھے آ بیٹھا۔  دھرمیندر آج تھوڑا سا ہلکا تھا کیونکہ اس نے اپنے دل کی بات بسنت کو کہہ دی تھی۔  اس بات کو کہہ ڈالا تھا، جسے کہنے کی ہمت پانچ سالوں سے نہیں جٹا پایا تھا، ماں کو بھی نہیں بتا پایا تھا۔  جبکہ شاردا اور کانارام نے کئی بار اس کی اداسی کا سبب جانے کی کوشش کی تھی۔  اور اس دن شراب کی دو بوندیں گٹکیں اور اگل دیا سارا راز۔  دونوں نے پینا شروع کیا۔  دو پیگ مکمل ہونے تک خاموشی ہی رہی۔  خاموشی اس گاؤں کا دستور بن چکی ہے، یہ دستور شراب کی محفلوں سے لے کر تہوار تک دیکھا جا سکتا ہے۔  اگر کسی کے گھر میں مہمان آ جائے اور وہ زور سے بولنے، ہنسنے لگے تو گاؤں والے اسے حیرت سے دیکھتے ہیں۔  کئی لوگوں نے ہنسنے کی کوشش بھی کی، لیکن وہ صرف دانت دکھا کر رہ جاتے ہیں، دل اور چہرے نے ہنسنے کی ترکیب کھو دی تھی۔  بچے بھی ہنسنے کے لیے سنڈاس کا سہارا لیتے ہیں، باہر ہنسنے پر گھر والے ڈانٹتے ہیں، کیونکہ البیلا آج کل دن میں بھی بولنے لگ گیا ہے۔

تو صاحب، بسنت نے دو پیگوں کے بعد خاموشی کو الوداع کہا، ’’ کہاں جاتی ہو گی رات کو یار؟‘‘

’’ پتہ نہیں!‘‘ دھرمیندر کوئی اور بات کرنا چاہتا تھا تاکہ دل بہلے۔

’’ کتنے بجے جاتی ہے؟‘‘ بسنت کو تو یہی بات کرنی تھی۔

’’ قریب گیارہ بجے اور ایک بجے آتی ہے۔‘‘دھرمیندر نے اگلے سوال کا جواب بھی پہلے ہی دے دیا۔

حالانکہ شام ہونے کے بعد کوئی گھر سے باہر نہیں نکلتا ہے، لیکن پھر بھی بسنت کو ہمیشہ ڈر لگا رہتا ہے کہ کوئی اسے دھرمیندر کے ساتھ دیکھ لے گا تو ہنگامہ ہو جائے گا۔  آج بھی اس نے جلد ہی شراب ختم کی اور گھر کی جانب روانہ ہو گیا۔

کانارام تمام بندشوں کے بعد بھی گاؤں والوں کے سامنے جھک نہیں رہا تھا۔ تو پٹیلوں نے نئی ترکیب نکالی اور اس کا گاؤں کے کنویں سے پانی بند کر دیا۔

’’ اب کیسے جئے گا؟ ہمارے کنوئیں کے پانی سے نیم لگائے گا!‘‘ پٹیل دل ہی دل میں خوش ہو رہے تھے۔

حالانکہ یہ بہت بڑا مسئلہ تھا اور کانارام کی اقتصادی حالت بھی اتنی اچھی نہیں تھی کہ گھر میں کنواں کھدوا سکے۔  اب تو بیٹا یاسیت کے ساتھ شراب بھی اپنا چکا تھا، اس سے کانارام کچھ کمزور پڑا تھا، لیکن نیم والی بات پر اب بھی پختہ تھا۔  اور سریتا اس پختگی میں اس کے ساتھ تھی۔  آج جب وہ پانی لانے گئی تو پٹیلوں نے کہا، ’’ اس کنوئیں سے پانی نہیں بھر سکتی۔  اپنا کنواں کھدواؤ۔  بہت اکڑ رہی تھی نیم لگانے کے لئے۔‘‘

اور سریتا کو خالی گھڑا لے کر گھر لوٹنا پڑا۔  جب وہ دروازے میں گھسی تو کانارام بھجن گا رہا تھا۔  سریتا اسے پوری کہانی بتانے ہی والی تھی، لیکن وہ خالی گھڑا دیکھ کر سب سمجھ گیا۔

’’ اب تو گاؤں چھوڑنا پڑے گا بیٹا۔‘‘پہلی بار کانارام کی آنکھیں ڈبڈبائیں۔

’’ گاؤں تو نہیں چھوڑیں گے باپو۔‘‘سریتا نے گھڑا کانارام کے سامنے رکھ کر اسے دلاسا دیا۔

’’ پانی بغیرکیسے جئیں گے؟‘‘

’’ کنواں بنائیں گے باپو۔‘‘

’’ پیسہ؟‘‘

’’ میں اپنے گہنے بیچ دوں گی۔  آپ فکر نہ کریں۔‘‘سریتا نے حل پیش کر دیا۔

سریتا کے اس فیصلے نے کانارام کی آنکھوں کے بند توڑ دیئے۔  آنسوؤں کی دھار بہہ نکلی اور چند بوندیں سامنے رکھے گھڑے پر بھی گریں۔  دھرمیندر کا نشہ نہیں اترا تھا، وہ سو رہا تھا۔  جاگ بھی رہا ہوتا تو نیم لگانے کی اس جد و جہد میں اس کا کوئی کردار نہیں ہوتا۔  وہ تو پورے گھر کو اپنا دشمن سمجھ رہا تھا اور سریتا کو ایک ڈراؤنی عورت جو پتہ نہیں روز رات کو کہاں جاتی ہے۔

شارداب دروازے میں آ گئی تھی۔  کانارام کی آنکھیں خشک ہوئیں تو اس نے ساری کہانی سنائی۔  شاردا کو آج پھر ایک بار سریتا پربے تحاشہ پیار آیا اور کنوئیں کے خیال سے تو وہ کافی خوش ہو گئی۔  وہ سوچنے لگی کہ نیم کا درخت جب بڑا ہو گا، تو کنوئیں کی منڈیر کے سہارے چھاؤں میں بیٹھ کر پوتے کو کہانیاں سنائے گی۔

’’ کہاں بنوائیں کنواں؟‘‘ سریتا نے سوال کیا۔

اچانک سامنے آئے اس سوال کا جواب نہ تو شاردا کے پاس تھا اور نہ ہی کانارام کے پاس۔  کیونکہ انہوں نے اس گھر میں کبھی کنواں بنانے کی بات سوچی بھی نہیں تھی۔  آگے دروازہ تھا، پیچھے چار کمرے تھے اور بیچ میں بڑا سارا آنگن تھا۔  صحن کے بائیں طرف ایک کچی ٹپری تھی، جس میں گاؤں کی اکلوتی بکری بندھتی تھی۔  تینوں آنگن میں کھڑے تھے اور سوچ رہے تھے کہ کنواں کہاں کھدوایا جائے؟

’’ سب سے پہلے نیم کی جگہ کا فیصلہ کرو۔‘‘شاردا نے کہا۔

یہ بات ان دونوں کو بھی اچھی لگی کیونکہ سارا طوفان تو نیم کے لیے ہی مچ رہا تھا۔  تینوں نے نہ جانے کتنی بار اس آنگن کو دیکھا ہے۔ لیکن اب آنگن کچھ الگ ہی نظر آ رہا ہے۔  سریتا کو تو ایسا لگ رہا تھا کہ آنگن کا ہر کونا کہہ رہا ہو کہ اس کی کوکھ میں نیم لگاؤ۔  مٹی کا ذرہ ذرہ نیم کی جڑوں کو اپنے اندر لینے کیلئے بیتاب ہو جیسے۔  کانارام کو بھی سارا آنگن ہنستا ہوا نظر آیا۔  ایک بے خوف ہنسی اس کے کانوں میں گونج رہی تھی۔  بائیں کونے میں بندھی بکری بھی ممیانے لگی۔

’’ نیم تو درمیان میں اچھا رہے گا۔‘‘سریتا نے رائے رکھی۔

کانارام اور شاردا کچھ دیر خاموش رہے۔  ان کے ذہنوں میں آنگن کے بیچ میں لگے نیم کی تصویر گھوم رہی تھی۔  شاردا نے اس تصویر میں رنگ بھرنا کرنا شروع کیا اور بکری والی ٹپری کے ٹھیک سامنے، نیم سے قریب دس فٹ دور ایک کنواں بنایا۔  وہ تیز قدموں سے چلتی اس جگہ جا کھڑی ہوئی، جہاں پر تصور میں ابھی ابھی اس نے کنواں بنایا تھا، ’’ یہاں بنائیں گے کنواں۔‘‘

خیالوں میں کھوئے ہوئے سریتا اور کانارام کی توجہ اچانک شاردا کی طرف گئی۔  کانارام نے جوتی سے، نیم لگانے کیلئے طے شدہ مقام پر مٹی پر ایک دائرہ بنایا اور پھر شاردا کے پاس گیا۔ پھرکنویں کے مقام پر بھی ایک ایسا ہی دائرہ بنایا۔  سریتا بھی پاس آ چکی تھی۔  تینوں نے ان دونوں دائروں کا کافی دیر تک جائزہ لیا اور پھر ایک آوازمیں کہا، ’’ یہ جگہیں ٹھیک ہیں۔‘‘

کانارام نے دروازے میں آ کر ہارمونیم پر دوبارہ بھجن گانا شروع کر دیا تھا۔  آج اس کی آواز میں غم اور خوشی کے ملے جلے تاثرات تھے۔

شاردا اندر اپنے کمرے میں گئی اور ایک بکسا کھول دیا۔  پرانا سا لوہے کا بکسا تھا۔  ایک لال رنگ کے کپڑے کی چھوٹی سی گٹھری نکالی۔  گٹھری میں لگی ہوئی گرہ سخت ہو گئی تھی، ناخن کی مدد سے نہیں کھل پائی تو دانتوں کا سہارا لیا۔  کتنی ہی سخت ہو، آخر تھی تو گرہ ہی، کھل گئی۔  گرہ کھلتے ہی اس کے سامنے وہ گہنے تھے، جو اسے اپنی شادی میں ملے تھے اور بیٹے کی شادی میں سریتا کو دیے گئے تھے۔  چند پلوں تک وہ انہیں دیکھتی رہی۔  یادوں کے پرانے بھنور میں وہ جا چکی تھی۔  جب جوانی میں یہ گہنے پہن کر نکلتی تھی تو زمین ڈگمگانے کا احساس ہوتا تھا۔  آہستہ آہستہ اس کی انگلیاں ان گہنوں پرپھرتی رہیں اور پھراسے کنویں کے پانی جیسا گیلا پن محسوس ہونے لگا۔  پسینے سے انگلیاں گیلی ہو گئی تھیں اور آنسوؤں سے گال۔  پھر اس نے گرہ واپس لگا دی اور گٹھری کو واپس بکسے میں رکھا۔  چنری کے پلو کو گیلے گالوں پرلگا رہی تھی کہ اسے اچانک ایک خیال آیا۔  بکسے کے دوسرے کونے میں ہاتھ ڈال کر ایک اوربہت چھوٹی سی گٹھری نکالی، جس کا رنگ بھی لال تھا۔  گٹھری میں ایک گرہ دکھ رہی تھی اور یہ گرہ آسانی سے کھل گئی۔  ایک خشک نمبولی باہرنکلی، جس کا نیم لگایا جانا تھا۔  سریتا چائے کے لئے بکری کا دودھ نکالنے گئی تھی۔  اس نے پھر ایک بار زمین پر بنے ان دائروں کو دیکھا۔

آج جب دن میں البیلا بولا تو اس کی آواز میں غم اور خوشی کا مساوی احساس تھا۔

گاؤں کے پٹیلوں کو اب یقین ہو گیا تھا کہ بغیر پانی کے کانارام نہیں رہ سکتا ہے اور گاؤں تو چھوڑنا ہی پڑے گا۔  ہیکڑی ٹوٹ کر گلے میں پھنس جائے گی۔  نیم کی چھاؤں میں تو خواب میں ہی بیٹھے گا۔  اسی خیال سے ان کا جی چاہا کہ زور سے قہقہہ لگایا جائے۔  خوب کوشش کی۔  دانت نکالے، ہونٹ ہلائے اور آواز بھی نکالی، لیکن قہقہہ نہیں نکل پایا۔

آج جب دن میں کانارام بھجن گا رہا تھا، تبھی البیلا کی آواز سنائی دی۔  سارے لوگ ہمیشہ کی طرح ڈرے لیکن کانارام کا بھجن اسی رفتار سے جاری رہا۔  پٹیلوں کو کچھ شک ہوا کہ شاید کانارام البیلا کو جانتا ہو گا تو؟اور وہ اس سے پٹیلوں کی شکایت کر دے گا تو مشکل ہو جائے گی۔  دو پٹیلوں کی رائے تو یہ تھی کہ چل کر کانارام کے پاؤں پکڑ لیتے ہیں، تاکہ اس البیلے کے خطرے سے بچ جائیں گے۔  لیکن گووند پٹیل نے کہا کہ ایک نیچ ذات والے کے پیروں میں پڑنے کی سوچ بھی کیسے سکتے ہو! چاہے البیلا مار دے، لیکن کانارام کی عقل ٹھکانے لا کر رہیں گے۔

اگلے ہی دن کانارام اور سریتا دونوں شہر گئے۔  گہنے بیچے اور کنوئیں کھودنے والی مشین کو ساتھ لیا۔  جب مشین گاؤں میں داخل ہوئی تو چاروں طرف طوفان مچ گیا۔  کانارام کا کنواں کھدوانا، سب کے لئے تعجب کی بات تھی۔  کیونکہ گاؤں میں صرف ایک عوامی کنواں تھا۔  بڑے بڑے پٹیلوں کے گھروں میں بھی کنوئیں نہیں تھے۔  جب گووند پٹیل کو خبر ملی تو وہ اتنا دُکھی ہوا کہ کمرابند کر کے سو گیا۔  دیگر پٹیل بھی گھروں میں ہی دبکے رہے۔  کچھ دیر البیلا کا ڈر بھول کر لوگ بحث کرنے لگے کہ یہ کانارام تو سارے گاؤں کے ہی قابو میں نہیں آ رہا ہے۔  مشین لگی اور رات بھر میں کنواں تیار۔  گاؤں کے بچوں کو بڑا شوق تھا کہ وہ جا کر مشین دیکھیں۔  لیکن کانارام کے گھر پر جانا تو منع تھا۔  وہ چھتوں پر چڑھ کر مشین کو دیکھ رہے تھے۔

جس دن کانارام کے کنوئیں سے پانی نکلا، اسی دن گھٹائیں بھی امنڈیں۔  تیز ہوا چلی اور سال کی پہلی بارش ہوئی۔  شام کو کانارام دروازے کے باہر چارپائی ڈال کر اکیلا ہی بیٹھا اور کبیر کا ایک بھجن شروع کیا۔  طویل خشک سالی اور گرمیوں کے بعد پانی پی کر زمین سے ایک ایسی خوشبو آ رہی تھی، جو نس نس میں سرایت کر رہی تھی۔  دھیمی دھیمی ہوا بھی چل رہی تھی، سارے بادل آسمان سے زمین پر اتر چکے تھے۔  ان گنت ستارے دکھائی دے رہے تھے اور ایک چاند بھی۔  دھیمی ہوا کی لہر میں گونجتے بول سننے والوں کی نیند اڑارہے تھے۔  آج آواز میں کچھ ایسا تھا کہ گاؤں کے بہت سے لوگوں کی محبت امڈ پڑی تھی کانارام پر۔  آپ کو تو معلوم ہی ہے کہ پٹیلوں کے فیصلوں کے آگے محبت کی دھجیاں اڑتی ہیں۔  عشق کی قدر قاتلوں کے یہاں نہیں ہوتی۔ من مسوس کے رہ گئے۔  یوں کہہ سکتے ہیں کہ کچھ گاؤں والے بولنا تو ’’واہ‘‘ چاہ رہے تھے لیکن ’’آہ‘‘ بھر کر رہ گئے تھے۔  اسی وقت البیلا بھی بولا۔  اس کی آواز میں بھی مستی تھی آج۔

کانارام بھجن گاتے ہوئے اتنا گہرائی میں چلا گیا تھا کہ آنکھیں بھی بند کر لی تھی۔  اچانک اسے احساس ہوا کہ کوئی اس کی چارپائی پر آ کر بیٹھا ہے۔

کون ہو سکتا ہے؟

کیونکہ پٹیلوں کے حکم کے بعد تو کوئی اس کے گھر آتا ہی نہیں ہے۔  آنکھیں کھول کر دیکھا تو سریتا تھی۔  رات کے گیارہ بجے اسے دیکھ کر ایک بار تو کانارام کا دل دہل گیا تھا۔  تبھی سریتا نے کہا، ’’ باپو بارش تو ہو گئی، نیم لگائیں۔‘‘

کانارام نے یہ بھی نہیں کہا کہ اتنی رات کو نیم لگانے کی کیا ضرورت ہے، صبح لگا دیں گے۔  وہ اٹھ کھڑا ہوا اور آنگن کی طرف چل پڑا۔  صحن کے بیچ میں شاردا کھڑی تھی نمبولی لئے۔  چاند کی گواہی میں تینوں نے نیم لگایا۔

بسنت اپنے مشن پر لگ گیا۔  ایک شام کو دھرمیندر کے ساتھ خوب شراب پی اور اسے بھی رات کیلئے تیار کر لیا۔  بسنت، کانارام کے گھر کے پیچھے بیٹھا گیارہ بجے کا انتظار کرنے لگا۔  دھرمیندر روز کی طرح کمرے میں جا کر چارپائی پر سو گیا۔  سریتا بھی گھرکے کام نپٹا کر کمرے میں آئی اور روز کی طرح الگ چارپائی پر سو گئی۔  دھرمیندر نے خراٹے مار کر سونے کا ڈرامہ کیا۔  قریب گیارہ بجے ہوں گے کہ سریتا اٹھ کر چل پڑی۔  دھرمیندر تو چپکے سے دیکھ ہی رہا تھا، وہ بھی پیچھے ہولیا۔  گھر کے پچھواڑے سے نکلی تھی وہ۔ بسنت بھی دھرمیندر کے ساتھ ہو لیا۔

آگے سریتا تھی اور پیچھے یہ دونوں۔  وہ گاؤں کی سر حد سے باہر صحرا میں گھس چکی تھی۔  حالانکہ ان دونوں کو بہت ڈر لگ رہا تھا، لیکن شراب کی وجہ سے کچھ خود اعتمادی تھی اور کچھ سریتا کے اسرار کو جاننے کی بے چینی بھی۔  چاندنی رات تھی اور وہ تینوں مسلسل چلے جا رہے تھے۔  سریتا کو معلوم نہیں تھا کہ کوئی اس کا پیچھا کر رہا ہے۔

بسنت دل ہی دل میں دھرمیندر کی ہمت کی داد دے رہا تھا کہ بندہ تو دلدار ہے جو اتنی خطرناک عورت کے ساتھ رہ رہا ہے۔  یہ ابھی دبلا ہی ہوا ہے، مگر اس کا زندہ رہنا مشکل ہے۔  ریت کے ٹیلوں پر چڑھ رہے تھے، اتر رہے تھے۔  ان کے پاؤں کے نشانات چاند کی روشنی میں صاف نظر آ رہے تھے۔  کہیں کوئی درخت نہیں تھا اور ان دونوں کو تو سمجھ ہی نہیں آ رہا تھا کہ یہ جا کہاں رہی ہے!

اچانک انہیں کلکلاہٹ اور سرسراہٹ سنائی دی۔  کلکلاہٹ ایسی تھی، جیسے دریا کی ہو اور سرسراہٹ، سینکڑوں درختوں کے پتے ہلنے جیسی تھی۔  لیکن اس صحرا کے بھنور میں دریا ہونے کا تو وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے اور درخت بغیر پانی کے کیسے ہو پاتے۔  تبھی اچانک انہیں چڑیوں کی چہچہاہٹ بھی سنی۔  دونوں کے پاؤں تھرتھرانے لگے۔  سامنے نظر اٹھا کر دیکھا تو پہاڑ سا ریت کا ٹیلا تھا۔  وہ تھک بھی چکے تھے۔  ہانپتے ہوئے چڑھنے لگے۔  آوازیں مسلسل تیز ہوتی جا رہی تھیں۔  پرندوں کے ساتھ کتے اور بلیوں کی بھی آوازیں تھیں۔

ٹیلے کی چوٹی پر پہنچے اور سامنے دیکھا تو پیروں تلے کی زمین کھسک گئی ہو جیسے۔  چاروں طرف ریت کے ٹیلے تھے اور درمیان میں گھنے درختوں کا باغ۔  ایک آبشار پھوٹ رہا تھا اور پانی سے چھوٹاسا تالاب بھی بنا ہوا تھا۔  انہیں ایسا لگ رہا تھا کہ وہ کسی عجیب دنیا میں آ گئے ہیں یا پھر خواب دیکھ رہے ہیں۔  بسنت نے دھرمیندر کو چھو کر دیکھا تو احساس ہوا کہ خواب نہیں، حقیقت ہی ہے۔

سریتا کے پہنچتے ہی اس کے چاروں جانب پرندوں کا جھنڈ بڑھنے لگا۔  توتے بھی پاس آ گئے۔  وہ جا کرتا لاب کے کنارے بیٹھ گئی۔  یہ دونوں جاسوس بھی درختوں کے پیچھے چھپتے ہوئے سریتا سے بیس قدم دور، اوٹ میں بیٹھ گئے۔  اس کے کندھے پر کوئل بیٹھی تھی، گھٹنے پر کوا تھا اور برابر میں اتنے پرندے اور کتے بیٹھے تھے، جیسے کہ اسمبلی کی کار روائی چل رہی ہو۔  حالانکہ آج بسنت اور دھرمیندر کو کئی حیرانیاں ہوئیں، لیکن سب سے بڑا تعجب تو یہ تھا کہ سریتا پرندوں کی بولی بولتی ہے۔  وہ ان سے باتیں کر رہی تھی۔  بسنت کی پتلون میں تو تب پیشاب ہی نکل گیا تھا، جب سریتا نے البیلا والی آواز نکالی۔  پھر وہ پرندوں کی زبان میں ہی گانے لگی اور مور کے ساتھ ناچی بھی۔  سارے کارناموں کو دیکھنے کے بعد، وہ اس کے پیچھے پیچھے گھر آئے۔

صبح گاؤں میں البیلا کا راز کھل گیا تھا۔  پورے گاؤں میں سریتا کی بحث تھی۔  کوئی اسے ’’ڈائن‘‘کہہ رہا تھا اور کوئی اسے ’’بھوتنی‘‘۔  گووند پٹیل نے اپنا علم بگھارا کہ پرندوں کی زبان سمجھنے اور بولنے کے لئے ایک کتاب پڑھنی پڑتی ہے جس کا نام ’’کوکلاشاستر‘‘ہے۔  اس کو پڑھنے کے بعد انسان کسی بھی جانورکی بولی بول لیتا ہے۔  کانارام کی بہو نے بھی یہ کتاب پڑھی ہو گی۔  اب تو بھائی لوگوں، اس کے خاندان کو گاؤں سے باہر نکالنا ہی پڑے گا۔  سالوں تک البیلا بن کر ہماری زندگی کو اجیرن کیا رکھا اس عورت نے۔  پتہ نہیں کل کیا کر دے۔  سارے پٹیلوں سمیت پورے گاؤں نے اس تجویز کی حمایت کی۔  طے یہ ہوا کہ آج انہیں گاؤں چھوڑنے کی وارننگ دے دیں گے اور کل صبح تک اگر گاؤں نہیں چھوڑا، تو پورا گاؤں انہیں نہیں چھوڑے گا۔

شام کو پرمود نے جا کر کانارام کے گھر کہہ دیا تھا کہ زندہ رہنا ہے تو صبح تک گاؤں چھوڑ دو۔  پٹیلوں کا حکم ہے۔

اب کیا کریں! کانارام اور شاردا خوب روئے۔  کہاں جائیں گے!

سریتا نے حوصلہ دیا کہ اسی گاؤں میں رہیں گے اور ڈرنے کی کوئی بات نہیں ہے۔  حالانکہ انہیں گاؤں میں رہنا نا ممکن سا لگ رہا تھا، لیکن اس کی بات پر انہیں یقین تھا۔  کھانا کھا کر سب لوگ سو گئے۔  دھرمیندر آج بھی پی کر سویا۔  رات کے اسی وقت سریتا اٹھ چلی گئی اور پھر ایک بجے لوٹی۔

صبح کو ہی سارا گاؤں لٹھ لے کر کانارام کے گھر پر حملہ کرنے کیلئے چل پڑا، لیکن گھر کے قریب پہنچے تو غضب ہو گیا۔  کانارام کے گھر پر مور، کبوتر، کوے، کتے، بلیاں مورچہ سنبھالے ہوئے تھے۔  وہ گاؤں والوں پر ٹوٹ پڑے۔  اب وہ کوؤں کو اڑ کر تو مار نہیں سکتے تھے اور انہوں نے چونچیں سے بہت سے لوگوں کی آنکھیں پھوڑ ڈالیں۔  بھگدڑ مچ گئی۔  لوگ دوڑ کر اپنے گھروں میں گھس گئے۔  صبح کا سورج نکلا اور اسی کے ساتھ کانارام کے آنگن میں نیم کی پہلی کونپل بھی پھوٹی۔

٭٭٭

 

 

 

جادو کا گلاب نبی

 

ڈاکٹروں کی تمام تر کوششوں کے باوجود بھی گلاب نبی کی طبیعت مسلسل گرتی جا رہی تھی۔  تمام جتن کر ڈالے، لیکن بیماری تھی کہ گرفت میں ہی نہیں آ رہی تھی۔  ڈاکٹر دوا دے سکتے ہیں، آپریشن کر سکتے ہیں اور ضرورت ہوئی تو کسی عضو کا ٹرانسپلانٹ بھی کر سکتے ہیں، لیکن وہ کسی کو گانا نہیں گوا سکتے، نچا نہیں سکتے اور گلاب نبی کے جینے سے زیادہ ضروری تھا اس کا گانا اور ناچنا۔

یہ بات تو صرف گلاب نبی کے ابا کے علاوہ دہلی میں کوئی نہیں جانتا تھا کہ ہوش سنبھالنے کے بعد اس نے پہلی بار ناچنا اور گانا بند کیا ہے۔  وہ تو ہردم ناچتا ہی رہتا تھا۔  کئی بار تو نیند میں بھی اس کی ٹانگیں تھرکتی ہوئی دیکھی گئی ہیں۔  شاید وہ سپنے بھی اپنی طرح کے ہی دیکھتا تھا۔  جب کسی رات وہ نیند میں کھڑا ہو کر ناچنے لگتا، تو اس کی اماں، جس کا نام ریشماں تھا، اسے پکڑ کر چارپائی پر سلاتیں۔  صبح جب گلاب نبی سے پوچھا جاتا کہ رات کو کیوں ناچ رہے تھے، تو اسے کچھ بھی یاد نہیں رہتا۔

’’لائیو نیوز‘‘ کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر رُدْرپرتاپ سنگھ مسلسل اسپتال میں موجود تھے۔  وہ یہاں پر نہ تو کسی نیوز کیلئے آئے تھے اور نہ ہی گلاب نبی سے انہیں کسی قسم کی ہمدردی تھی۔  ان کا تو صرف ایک مقصد تھا، جس کے بدلے بڑی ’’ٹی آر پی‘‘ کمانا چاہ رہے تھے اور ’’ٹی آرپی‘‘ سے لاکھوں کے اشتہارات۔  یہ فیصلہ انہوں نے خود کیا تھا اور آفس میں اپنے اسٹاف کے سامنے خوب ڈینگیں بھی ہانکی تھیں کہ ہندوستانی صحافت کی تاریخ میں گلاب نبی کا لائیو کوریج ایک تاریخی کارنامہ ہو گا۔  ویسے رُدْر پرتاپ سنگھ کو میڈیا میں ڈینگیں ہانکنے کیلئے ہی جانا جاتا ہے اور اسی کیلئے نوکری پر رکھے بھی جاتے ہیں۔  وہ آفس میں محض قصے سناتے ہیں، جن میں زیادہ تر ان کے خود ساختہ عشق یا پھر عظیم صحافی ہونے کے جھوٹے ثبوت ہوتے۔  ملک یا بیرونِ ملک کی ایسی کوئی خاتون وزیر نہیں ہوتی، جس کے بارے میں رُدْر پرتاپ سنگھ یہ قصہ نہیں سناتے کہ ایک بار فلاں خاتون وزیر میرے برابر بیٹھی تھی۔ اور اس نے میز کے نیچے سے میری ٹانگوں کو چھوا، تو میں نے کہا تھا کہ میڈم، اس ملک میں میری بہت عزت ہے۔  یہ سب مجھے زیب نہیں دیتا۔

حالانکہ آفس میں لوگ ہنسی اور جھنجھلاہٹ کو پیٹ میں دبائے رُدرپرتاپ سنگھ کی ان بیہودہ باتوں پر ’’واہ واہ‘‘ کرتے۔  اسی ’’واہ واہ‘‘ کی وجہ سے اس نے غلط فہمی کا اونٹ پال لیا۔  اگر کوئی نیا صحافی ان چیزوں کو ہضم نہیں کر پاتا اور کوئی منطقی سوال کر دیتا تو رُدرپرتاپ سنگھ مینجمنٹ کو کہہ کر فوراً اسے نوکری سے نکلوا دیتے۔  آفس سے باہر نکلنے پر چائے کے تھڑے پر اس کے فرامین کی کھِلّیاں اڑتیں۔  لوگ کہتے کہ اسی کی عزت ہوئی۔  دو ٹکے کا آدمی ہے۔  اسمبلی کا کتاتک تو اسے جانتا نہیں، اورباتیں ایسی کرتا ہے جیسے بہت بڑا ’’تھنک ٹینک‘‘ ہے۔

رُدَرپرتاپ سنگھ کے ساتھ کیمرے لئے، اس کے جونیئر کولیگز تھے، کیونکہ انہیں امید تھی کہ دوا داروسے گلاب نبی ٹھیک ہو جائے گا اور ناچنے گانے لگے گا۔  اسپتال سے ہی اس کے ناچ گانے کو لائیو دکھایا جائے گا۔  ویسے بھی ان کی پروپیگنڈہ کمپنی نے ملک بھر میں گلاب نبی کو لائیو دکھانے کی مہم شروع کر رکھی ہے۔  ان کا اپنا کہنا ہے کہ ’’ گلاب نبی لائیو‘‘ دیکھنے کیلئے پبلک بہت بے چین ہو رہی ہے اور ایک بار وہ ناچ گانا شروع کر دے، تو قسمت کی بازی پلٹ جائے گی۔

ادھر نو نمبر بیڈ پر قسمت کی بازی پلٹنے والا گلاب نبی مد ہوشی میں لیٹاہوا ہے، چھت کی جانب ایک ٹک دیکھتا ہوا۔  اس کا پورا جسم سفید چادر سے ڈھکا ہوا ہے۔  صرف گردن اور سر دکھائی دے رہا ہے، چہرے پر لمبے لمبے کالے سیاہ بالوں کے درمیان دو آنکھیں بھی چمکتی دکھائی دے جاتیں ہیں۔  ان بالوں کی وجہ سے آس پاس کے بیڈوں کے مریضوں کے تیمار دار اسے حیرت سے دیکھنے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن وہ اسے پہچان نہیں پا رہے۔  پہچان نہ پانے کی ایک وجہ تو یہ بھی ہے کہ اپنے پیاروں کی بیماریوں کی وجہ سے دیگر مسائل پر ان کی نظر ہی نہیں جاتی۔  اسپتال کا ہر مریض بذاتِ خود ایک المناک حیرت ہوتا ہے۔  اسی وجہ سے ہر مریض کے رشتہ دار کو دوسرا مریض خاص حیرت انگیز نہیں لگتا۔

دوسری وجہ یہ ہے کہ گلاب نبی کو دہلی لانے کے بعد ہی رُدْر پرتاپ سنگھ نے اسے اپنی سخت سیکورٹی میں رکھا ہے۔  اسے ڈر ہے کہ گلاب نبی جیسے قیمتی ہیرے کو کسی نے چرا لیا تو اس کا خانہ خراب ہو جائے گا۔  وہ یہ تو اچھی طرح جانتا ہے کہ میڈیا میں خبریں ہی نہیں، ان سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی چرا لئے جاتے ہیں۔  وہ چرائے ہوئے لوگ کبھی واپس نہیں ملتے۔  نہ پولیس کو اور نہ ہی میڈیا کو۔  وہ یہ بھی جانتا ہے کہ گلاب نبی تو ’’لانچ‘‘کرنے کی چیز ہے، اس کے بعد پھر انہیں اندھیری گلیوں میں ختم ہو جائے گا۔ جہاں سے وہ آیا ہے۔  کسی کو کچھ لینا دینا نہیں ہو گا۔

ان تمام باتوں کو جاننے کے باوجود بھی گلاب نبی کی خاموشی کی ہرساعت رُدْر پرتاپ سنگھ کی تکلیف بن جاتی اور وہ بلا وجہ ہی اپنے جونیئر ساتھیوں پر جھنجھلاتا۔  اسی جھنجھلاہٹ میں وہ اسپتال میں بنے ریسٹ روم سے اٹھتا اوروی آئی پی روم کے نو نمبر بیڈ کے پاس جاتا۔  ویسے تو وی آئی پی روم میں مریض کے ساتھ رہنے کی اجازت کسی کو نہیں ہے، مگر رُدْر پرتاپ سنگھ کے صحافت کے رتبے کی وجہ سے اس کے دو ذاتی سیکورٹی گارڈز گلاب نبی کی حفاظت پر تعینات تھے۔  اس وی آئی پی روم میں تقریباً دس بیڈ تھے۔  عموماً وی آئی پی روم میں صرف ایک یا دو بیڈ ہی ہوتے ہیں۔  لیکن اسپتال کے لوگوں کا کہنا ہے کہ دہلی میں وی آئی پیز کی تعداد بڑھنے کی وجہ سے ایساسسٹم کرنا پڑا۔  یہ ایک نجی اسپتال تھا، جو اپنے قاعدے قانونوں پر چل رہا تھا۔  مریضوں سے ملنے والے بھی مسلسل آ جا رہے تھے۔

رُدْر پرتاپ سنگھ اس کے بیڈ کے اوپر جھکتا اور آنکھیں نکال کر چند لمحے گھورتا۔  بڑبڑاہٹ میں چھپی چند گالیاں بھی دیتا، جن کی حدِ پرواز سکیورٹی گارڈز کے کانوں تک ہوتی۔  پھر پیشانی پر بل لئے ہوئے دوسرے لوگوں کو جھوٹی ہنسی دکھاتے ہوئے کمرے سے باہر آتا۔  وہاں پر موجود کیمرے لئے اس کے جونیئر کولیگ دوڑ کر اس کے پاس آتے۔

’’ لیجئے آ گئے ہیں رُدْر پرتاپ سنگھ جی۔  یہ ابھی ابھی گلاب نبی سے مل کر آئے ہیں۔  ان سے پوچھتے ہیں کہ اس جادوئی بچے کی صحت کے حال احوال۔ ‘‘رپورٹر پورا دم لگا کرچلاتا۔  کیمرے والا فوری طور پر کیمرا رُدْر پرتاپ سنگھ پر فوکس کر دیتا۔

’’سر کیسا ہے وہ جادوئی بچہ؟ ہمارے ناظرین کو بتائیے کہ اس کو دیکھ کر آپ کو کیا محسوس ہوا؟‘‘ رپورٹر نے سوال کر کے مائیک رُدْر پرتاپ سنگھ کے سامنے کر دیا۔

’’ وہ بچہ موت کو شکست دے چکا ہے۔  سچ بتا رہا ہوں کہ جب سے اسے دیکھا ہے، تب سے میں اس سے مرعوب ہو گیا ہوں۔  وہ واقعی جادو کا پتلا ہے۔  اس کی آنکھیں۔۔ ۔ ‘‘ رُدْر پرتاپ سنگھ نے ایسے پوز لیا جیسے اسکرپٹ میں پہلے سے ہی طے ہو۔

’’ وہ بچہ جادو کا پتلا ہے۔  موت کو شکست دے چکا ہے۔  ایسے بچے کو تلاش کر کے لایا ’’لائیو نیوز‘‘، آئیے مزید جانتے ہیں اس بچے کے بارے میں۔ ‘‘

’’رُدْر پرتاپ سنگھ جی اس کی آنکھوں میں آپ نے کیا دیکھا؟‘‘ رپورٹر، رُدْر پرتاپ سنگھ کی طرف مڑا اور توپ کی نال کی طرح مائیک اس کے سامنے کر دیا۔

’’ میں نے اس کی آنکھوں میں۔۔ ۔ میں نے اس کی آنکھوں میں پہاڑ دیکھے۔  سمندر دیکھا۔  سمندر میں تیرتی ہوئی مچھلیاں دیکھیں۔‘‘ اتنا کہہ کر رُدْر پرتاپ سنگھ مڑا اور ریسٹ روم میں چلا گیا۔

’’اس بچے کی آنکھوں میں مچھلیاں، پہاڑ اور سمندر ہیں۔  اس بچے کے صحت یاب ہونے کی دعا کیجئے۔۔ سوری۔۔ ۔ پرارتھنا کیجیے۔  اور دنیا کا واحد چینل ’’لائیو نیوز‘‘جو دکھائے گا اس جادوئی بچے کا ناچ گانا، تو دیکھتے رہیے۔  کیمرامین ابھیشیک آنند کے ساتھ میں کمل جوشی۔۔ ۔‘‘ کمل جوشی نے جیب سے رو مال نکال کر پسینہ پونچھا، جیسے کسی بھاری چٹان کواٹھا کر، جیٹھ کی دوپہر میں تین کلومیٹر پیدل چل کر آیا ہو۔  پھر ریسٹ روم میں جا کر رُدْر پرتاپ سنگھ کی بغل میں بیٹھ گیا۔  ایک نظر اپنے باس کو دیکھ کر اپنی پرفارمنس کے بارے میں رائے جاننی چاہی، لیکن باس تو کسی دوسری ہی فکر میں ڈوبے ہوئے تھے۔  اس نے بھی وہاں سے نظریں ہٹا لیں۔

تبھی ایک چپراسی آیا اور رُدْر پرتاپ سنگھ سے کہا کہ آپ کو ڈاکٹرپُونیت راٹھی سر اپنے چیمبر میں بلا رہے ہیں۔  رُدْر پرتاپ سنگھ بغیر کچھ بولے چپراسی کے پیچھے چل دیا۔  ڈاکٹر راٹھی میز پر سر جھکائے کچھ پڑھ رہا تھا۔  حالانکہ اس کے قدموں کی آہٹ سے اندازہ ہو گیا تھا کہ کمرے میں کوئی آیا ہے، لیکن نظر نہیں اٹھائی۔  چپراسی نے پاس جا کر کہا کہ سر، رُدْر پرتاپ سنگھ جی آ گئے ہیں۔

ڈاکٹر راٹھی نے ایک نظر رُدْر پرتاپ سنگھ کو دیکھا اور پھر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔  کچھ دیر تک کمرے میں خاموشی چھائی رہی۔  پھر ڈاکٹر راٹھی نے چپراسی کی طرف دیکھا تو وہ کمرے سے باہر چلا گیا۔  ایک گہری سانس لے کر ڈاکٹر نے کہا، ’’ سر، سارے علاج آزمالئے، لیکن آپ کے پیشنٹ کی پرابلم گرفت میں نہیں آ رہی ہے۔‘‘

’’سارے علاج کیا کر لئے؟‘‘ رُدْر پرتاپ سنگھ نے کڑکتے لہجے میں کہا۔

’’یوں سمجھ لیجئے کہ ناچنے گانے کے انجکشن بھی لگا دئیے، لیکن وہ بھی اثر نہیں کر رہے ہیں۔‘‘ ڈاکٹر راٹھی بے بسی بھری آواز میں بولا۔

’’آپ تو کہہ رہے تھے کہ آپ پتھر کو بھی نچا سکتے ہیں اور درخت سے بھی گوا سکتے ہیں۔  نفسیاتی الجھن ہے۔  اچھے سے نفسیاتی معالج کو کال کریں۔  میں نے کہا ہے نا کہ پیسوں کی ندیاں بہا دوں گا۔‘‘ رُدْر پرتاپ سنگھ نے ناراضگی دکھائی۔

’’سر، اچھے سے اچھے نفسیاتی معا لجین کودکھا چکے ہیں۔  بِلیو می پلیز۔۔ ۔  لیکن ان مداریوں کا دماغ پکڑنا بڑا مشکل ہے۔  یہ ہماری طرح نہیں سوچتے۔  اب تو یہ اپنے ماں باپ کے کہنے پر ہی ناچ سکتا ہے۔‘‘ ڈاکٹر راٹھی نے نرمی سے جواب دیا۔

’’ان مداریوں کا دماغ پکڑنا بڑا مشکل ہے۔‘‘ یہ جملہ سنتے ہی رُدْر پرتاپ سنگھ کے دماغ کو جھٹکا سا لگا، کیونکہ گلاب نبی کا سودا کرتے وقت اجمیر کے اس دلال جگل کشور نے بھی یہی کہا تھا۔  ڈاکٹر سے بغیر کچھ کہے ہی رُدْر پرتاپ سنگھ کھڑا ہو کر چل دیا۔  برآمدے سے گزرنے پر دیگر جونیئر کولیگ بھی اس کے پیچھے ہو لئے۔

’’صرف ابھیشیک۔  باقی یہیں رہو۔‘‘ رُدْر پرتاپ سنگھ نے حکم دیا۔

یہ بات سنتے ہی سبھی لوگوں کے قدم رک گئے اور ابھیشیک چلنے لگا رُدْر پرتاپ سنگھ کے پیچھے پیچھے۔  دیگر لوگ واپس ریسٹ روم کی طرف چلے گئے۔  آج وہ بہت تیز چل رہا تھا۔  چل کیا رہا تھا یہ سمجھ لیجئے کہ تقریباً دوڑ رہا تھا۔  ابھیشیک کو بڑا تعجب ہو رہا تھا کہ جو آدمی روز آفس کی چند سیڑھیاں چڑھنے میں ہی ہانپنے لگتا ہے۔  پانچ کلو کا بریف کیس نیچے سے چپراسی اٹھا کر لاتا ہے، وہ ان سیڑھیوں پر پانچ سال کے بچے کی طرح اتر رہا ہے۔  یہی ہوتا ہے جب پیسہ ڈوب رہا ہوتا ہے۔  اسی لئے تو میکاولی نے کہا ہے کہ آدمی اپنے باپ کے قاتل کو بھول سکتا ہے، لیکن پیسے کے چور کو نہیں۔  ابھیشیک ابھی یہ سب سوچ ہی رہا تھا کہ اتنے میں رُدْر پرتاپ سنگھ گاڑی کی سیٹ پر بیٹھ چکا تھا۔  آج اس نے ڈرائیور کا انتظار کرنا بھی ضروری نہیں سمجھا، جو آس پاس کے کسی چائے کے کھوکھے پر بیٹھا یا تو اخبار پڑھ رہا ہو گا یا پھر موبائل میں گیم کھیل رہا ہو گا۔  اس نے جھٹکے سے گاڑی اسٹارٹ کی اور چل پڑا۔  ابھیشیک مسئلے کو سمجھ نہیں پایا تھا۔  وہ بھی تقریباً دوڑتا ہوا گاڑی میں بیٹھا اور پوچھا، ’’ سر، اب؟‘‘

’’گلاب نبی کے ابا سے ملنے جا رہے ہیں۔‘‘ رُدْر پرتاپ سنگھ گاڑی اسپتال سے باہر نکال چکا تھا۔

گلاب نبی کا ابا یعنی مداری زبید شاہ جسے قرول باغ کے علاقے کے ایک ہوٹل میں ٹھہرایا گیا تھا۔  اس نے بھی تین دن سے کھانا نہیں کھایا تھا۔  جگل کشور کافی سمجھا چکا تھا کہ گلاب نبی کو کچھ نہیں ہو گا۔  ہوٹل میں آرام سے من پسند کھانا کھاؤ، پیسہ صاحب دے گا، لیکن اس کے دل کو کچھ پسند ہی نہیں آ رہا تھا۔  ہر وقت اس کی آنکھوں کے سامنے گلاب نبی کی تصویر گھومتی۔  وہی ناچتا گاتا گلاب نبی۔ پھر اچانک گلاب نبی ناچ گانا بند کر کے ہمک ہمک کر رونے لگتا ہے۔  زبید شاہ کی آنکھوں میں بھی آنسو آنے لگتے۔  دلال جگل کشور اس وقت اپنے کمرے میں ہے اور گلاب نبی کا ابا اکیلا ہوٹل کے بیس نمبر کمرے میں گلاب نبی کی آواز سنتا ہے، ’’ ابو۔۔ ۔ ڈمرو بجاؤ۔‘‘

زبید شاہ کو اچھی طرح یاد ہے کہ لگ بھگ پندرہ برس پہلے جب گلاب نبی پیدا ہوا تھا، تب وہ پُشکر کے بس اسٹینڈ کے پاس ایک پرانی حویلی میں کرائے پر رہتا تھا۔  گنتی کے حساب سے گلاب نبی اس کی دسویں اولاد تھا، مگر زندہ بچے بچوں میں وہ چوتھے نمبر پر تھا۔  اس زمانے میں زبید شاہ کی مالی حالت اتنی خستہ نہیں ہوئی تھی۔  حالانکہ امیر وہ تب بھی نہیں تھا، مگر کھیل دکھا کر گزارا مزے سے چل جاتا تھا۔  اگر کہیں باہر جانا ہی نہیں ہوا، تب بھی وہ اگر اسٹینڈ کے پاس دری بچھا کر کھیل دکھانے بیٹھ جاتا تو کم از کم دو تین سو روپے روز کے کما ہی لیتا تھا۔  اس سے تین بچوں اور دو میاں بیوی کا گزارا ہو جاتا۔

اس زمانے میں پُشکر میں غیر ملکی سیاحوں کی اتنی آمد نہیں ہوتی تھی۔  تھوڑے بہت دھارمک سیاح آتے اور میلے کے وقت جانوروں کے بیوپاری۔ اب چونکہ تفریح کے ذرائع اتنے نہیں تھے، اس لئے لوگ مداری کا کھیل دیکھتے تھے۔  زبید شاہ پُشکر میں تو کبھی کبھار ہی کھیل دکھاتا تھا۔  وہ اجمیر اور اس کے آس پاس کے دیہاتوں کے اسکولوں میں جا کر جادو کا کھیل دکھاتا تھا۔  یہ تو اس وقت بھی اس کی خاصیت تھی کہ کھیل شروع کرتے ہی آواز لگاتا۔۔ ۔

’’آؤ ؤؤ۔ دیکھو مداری کا کھیل۔

ہتھیلی پر چلائے گا ریل۔

پل میں آدمی کا بندر دکھائے۔

ریت سے وہ سموسہ بنائے۔

آؤ دیکھو مداری کا کھیل۔

ہتھیلی پر چلائے گا ریل‘‘

’’بھائیوں اور بہنوں، ہم کوئی جادوگر نہیں ہیں۔  ہم تو اپنے فن سے آپ کا منورَنجن کرنے آئے ہیں۔‘‘

ان دو اعلانات کے بعد وہ ڈمرو بجاتا اور زمین پر ایک خالی کپڑا بچھا دیتا۔  کپڑے کو کئی بار الٹ پلٹ کر کے حاضرین کو یقین دلاتا کی یہ واقعی خالی ہی ہے۔  پھر کافی دیر تک ڈمرو بجا کر اچھل کود کرنے لگتا اور اچانک ہوا میں ہاتھ ہلا کر کپڑے کے نیچے ہاتھ رکھتا تو ایک کبوتر نکلتا۔

’’یہ دیکھو سفید کبوتر آگیو۔  یہ سیدھو ہمالیہ سے آیا ہے۔  لیکن ایک گڑبڑ ہو گئی! ہمالیہ سے جوڑو چالیو ہو۔  ایک کبوتربیچ ماں بچھڑ گیو۔  بیچارو اکیلو رہگو۔  اب دوسرے کو بھی بلائیں کیا‘‘زبید حاضرین کی جانب سے جواب ملنے کا انتظار کرتا۔

’’ہاں، دوسرے کو بھی بلاؤ۔‘‘ بھیڑ میں سے کئی آوازیں ایک ساتھ آتی۔

’’ابھی بلاتا ہوں۔

آ جا میرے جھن مچھندر۔

تمہیں بلائے پیا کبوتر۔۔

ساری بادھایں لانگ کے آ جا۔

رِکشا کرے تیری خواجہ۔۔‘‘

وہ پھر ہاتھ ہوا میں لہرا کر کپڑے تک لے جاتا اور کپڑے کے نیچے سے دو کبوترنکالتا۔  بھیڑ تالیاں بجا اٹھتی۔  بہت سے لوگ حیرت سے دیکھتے ہی رہ جاتے۔

عموماً مداری اتنا ہی کھیل دکھا کر بھیڑ سے پیسہ جمع کرنے لگ جاتے ہیں۔  لیکن زبید شاہ کا اصلی کھیل تو اب شروع ہوتا۔  پہلے وہ دو منٹ کی تقریر جھاڑتا، ’’ بھائیو، ہم مداریوں کے پاس کھیل دکھانے کے علاوہ جیون کا کوئی راستہ نہیں ہے۔  نہ گھر ہے، نہ ہی ٹھکانا۔  ہمیں تو راشن تک نہیں ملتا۔  بھٹکتے رہتے ہیں۔  لیکن ہمارو کھیل جادو نہیں ہے۔  یا تو ایک فن ہے، ایک کلا ہے۔  اب میں اپنے بتاؤں گا کہ جادو کس طرح دکھایو جاوے ہے۔‘‘

اس کے بعد وہ ایک ایک کر کے سارے راز کھول دیتا۔  وہ بتاتا کہ کبوتر اس کے پاس پہلے سے موجود تھے۔  صرف اس نے اپنے ہاتھ کی صفائی سے لوگوں میں وہم کا جادو پیدا کیا ہے۔  لوگ زبید کے فن سے زیادہ اس کی سچائی کے قائل ہو جاتے اور دل کھول کر اسے پیسے دیتے۔  اسی سچائی کی وجہ سے زبید جہاں جاتا، وہاں تعریف تو ملتی، لیکن اس جگہ دوبارہ جا کر جادو دکھانے کا اسکوپ ختم ہو جاتا، کیونکہ لوگ جب راز جان لیتے تو کھیل دوبارہ کیوں دیکھتے۔  در اصل، وہ اپنے ہی روزگار کی جڑیں کھودنے میں لگا تھا۔  پھر بھی وہ اپنے اصول پر قائم تھا اور ہر روز نئے نئے دیہاتوں میں جاتا تھا۔

جب گلاب نبی پیدا ہوا تھا، اس وقت تک اس علاقے میں ٹی وی آنے کی وجہ سے لوگوں کو تفریح کا سارا سامان ٹی وی پر دستیاب ہونے لگا تھا اور زبید کا دھندہ تقریباً مندا ہو گیا تھا۔  روز حویلی کا مالک بنیا کرائے کیلئے تقاضہ کرتا اور حویلی خالی کرنے کی دھمکی دیتا۔  وہ روز کسی دیہات میں جاتا اور ڈمرو بجاتا۔  چیخ چیخ کر بھیڑ کو بلاتا، مگر چند بچوں کو چھوڑ کر کوئی نہیں آتا اور ان بچوں کے پاس دینے کو کچھ ہوتا نہیں، وہ تو خود دو چار روپے گھر سے مانگ کر یا چرا کر مزے کرنے کی فراق میں رہتے۔  کبھی پانچ دس روپے ملتے بھی تو اس سے بس زبید کی بیڑی ہی آ پاتی۔

گلاب نبی کے پیدا ہونے سے پہلے۔ کئی دنوں سے وہ کچھ پیسے جوڑ رہا تھا، تاکہ اس کی پیدائش پر ریشماں کی دیکھ بھال پر خرچ کئے جا سکیں۔  اس کے پاس قریب سات سو روپے ہو گئے تھے جو ریشماں کے سرہانے رکھے رہتے تھے اور ہر شام زبید انہیں سنبھال کر ان میں کچھ نہ کچھ شامل کرنے کی کوشش کرتا۔

وہ جس حویلی میں رہتا ہے وہ سیٹھ آنندی لال کی ہے۔  بہت بڑی حویلی ہے، جس کے ایک کمرے میں زبید کا خاندان رہتا ہے۔  شروع میں تو وہ اسٹینڈ کے پاس تنبو لگا کر رہتا تھا، لیکن پھر یہ مکان دو سو روپے مہینہ کرائے پرمل رہا تھا، تو لے لیا۔  اس وقت آمدنی بھی تھی۔  سیٹھ کا اس میں مفاد یہ تھا کہ سونی حویلی میں قبضے کا کوئی خوف نہیں رہا، ایک مداری تو سیٹھ کی حویلی قبضہ کرنے سے رہا۔  ساتھ میں، سیٹھ جو غیر قانونی کاروبار کرتا تھا، اس کا سارا سامان حویلی میں ہی رکھا جاتا تھا، اس کی بھی حفاظت ہو جاتی۔  اتفاق سے کبھی پولیس کا چھاپا پڑ جائے تو، تاہم اس کی امید بہت کم تھی۔  سیٹھ نے پولیس کو مہینہ دینے کے بجائے، جو بھی ایس ایچ او آتا اس کو دو فیصد کا ساجھے دار بنانے کا راستہ نکال رکھا تھا۔  اسے پُشکر میں ہی نہیں، آس پاس بھی مال کی سپلائی پر کوئی روک نہیں ہوتی۔  پھر بھی سیٹھ کوئی خطرہ اٹھانا نہیں چاہتا۔  لہذا زبید کو کرائے دار رکھا کہ کرایہ تو دے گا ہی، جو بھی بلا آئے گی وہ زبید کے نام۔

ریشماں کی ڈیلوری ہونے سے پہلے ہی زبید اپنی پھوپھی کو دیکھ بھال کیلئے لے آیا تھا۔  پُشکر میں اس کے علاوہ مداریوں کی پوری برادری رہتی ہے۔  پہلے تو سبھی کھیل دکھانے کا کام کرتے تھے۔  ریچھ اور بندر بھی رکھتے تھے۔  لیکن حکومت کی جانب سے جانوروں کے استعمال پر پابندی لگنے کے بعد انہوں نے خالی ڈمر وسے ’’جادو کا کھیل‘‘ دکھا کر جانوروں کو ’’محفوظ‘‘بنا ناشروع کر دیا۔  وہ بھی دور دور تک جاتے تھے۔  پُشکر کے سارے جادوگر زبید سے چڑتے ہیں۔  کیونکہ وہ لوگوں کو جادو کی اصلیت بتا دیتا ہے۔  اسی وجہ سے لوگوں کا انٹریسٹ کم ہونے لگا۔  یہی وجہ ہے کہ پوری برادری نے اس کو الگ کر رکھا ہے۔  نہ کسی رسم رواج میں اسے بلاتے ہیں اور نہ ہی اس کے ہاں آتے ہیں۔  لیکن زبید کی ضد ہے کہ چاہے بھوکا مر جائے گا، وہ لوگوں کو غفلت میں نہیں رکھ سکتا۔

پھوپھی کے آنے کے بعد زبید کے کمرے میں ایک پردہ لگا اور کمرہ دو حصوں میں تقسیم ہو گیا۔  اب ایک میں دو کمرے ہو گئے۔  ایک طرف کے حصے میں ریشماں کے ساتھ پھوپھی سوتی تھی اور دوسرے میں تینوں بچوں کے ساتھ زبید۔  تینوں بچوں میں عمر کا بہت زیادہ فرق نہیں ہے۔ لگ بھگ پندرہ مہینوں کے درمیانی فاصلے والے ان بچوں میں دو لڑکے ہیں اور چھوٹی والی لڑکی۔  وہ دو دن پہلے بیاور کی طرف کے دیہاتوں سے آیا تھا۔  پھوپھی نے زچگی کیلئے ضروری سامان پہلے ہی منگوا کر رکھ لیا تھا۔  پچھلی تین زچگیاں بھی پھوپھی نے ہی کروائی تھیں۔

رات کو سارا گھر کھانا کھا کر سو گیا۔  پھوپھی بھی نیند کا ڈرامہ کر کے خراٹے مارنے لگی۔  حالانکہ زبید کہتا تھا کہ پھوپھی کی نیند ہوا سے بھی ہلکی ہے۔  سانسوں کی آہٹ سے بھی کھل جاتی ہے۔  اس لئے وہ ریشماں سے بات کرنے میں ڈرتا رہا تھا۔  یہ تو وہ جانتا تھا کہ پھوپھی کا نیند پر پورا قابو ہے۔  اگر پھوپھی نہیں چاہے تو سانسوں کی آہٹ سے تو کیا، ہاتھیوں کے روندنے سے بھی نہیں کھلے گی۔

زبید اٹھا اور آہستہ سے بچوں کو پھلانگتا ہوا، پردے کی سرحد پار کر ریشماں کے دیس میں آ گیا۔  اسے سچ میں نیند آئی ہوئی تھی۔  زبید نے اس کے پیٹ پر ہاتھ رکھا ہی تھا کہ وہ جھٹکے سے جاگ اٹھی۔  عورت کتنی بھی نیند میں کیوں نہ ہو، مرد کے لمس سے چونک جاتی ہے اور یہ حساسیت تبھی سے شروع ہو جاتی ہے، جب سے عورت کو عورت ہونے کا احساس کرایا جاتا ہے۔  زبید نے اس کے کان میں کہا، ’’ چھت پر چلیں۔‘‘

وہ ’’چھت پر چلنے‘‘کا مطلب خوب سمجھتی ہے، جب بھی ان کے گھر میں کوئی مہمان آیا ہوتا ہے، تب زبید یوں ہی ’’چھت پر چلنے‘‘کی بات کہتا ہے۔  ان دنوں جب پھوپھی آئی ہوتی ہے اور بچہ ہونے والا ہوتا ہے، تب ’’چھت پر چلنے‘‘کا مطلب محض بات چیت ہی ہوتا ہے۔  وہ اٹھی اور دھیمے قدموں سے، آرام سے اپنے پیٹ کو سنبھالتے ہوئے، اندھیرے میں یادوں کی پگڈنڈی کے سہارے، کمرے سے باہر چھت کی طرف جانے والی سیڑھیوں کے پاس کھڑی ہو گئی۔

ریشماں سوچ رہی تھی کہ کتنا پاگل ہے زبید، جو ہر زچگی کے بعد بھول جاتا ہے کہ پیٹ والی عورت سیڑھیاں نہیں چڑھ سکتی اور جن کے دن پورے ہو گئے ہوں، وہ چھت کی سیڑھی تو کیا، آنگن کی سیڑھیاں تک نہیں چڑھتیں۔  مرد کے ذہن میں یہ باتیں کیوں نہیں رہتیں۔  شاید اس لئے نہیں رہتیں کہ انہیں یہ سب حقیقت میں نہیں ہوتا ہے۔  وہ پل بھر تو تکلیف محسوس کرتے ہیں، مگر اسے اپنے ذہن میں جذب نہیں کر پاتے۔

’’اب پھوپھی آرام سے سنبھال لے گی۔  میں کل اجمیر جاؤں گا۔  ایک پروگرام ہے۔  کچھ آمدنی ہو جائے گی۔‘‘ زبید نے ریشماں کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر کہا۔

’’جب بھی پیدائش ہووے، پروگرام آ جاوے۔‘‘ ریشماں نے شکایت کی۔

’’میں تیرو درد دیکھ نہ سکوں۔‘‘ زبید جذباتی ہو گیا تھا۔

’’جب درد دیکھ ہی نہ سکے، تو بٹا کیسے سکے‘‘ اس نے زبید کا ہاتھ اپنے کندھے سے ہٹا دیا۔

’’سو پچاس رپیا لاؤں تو جاپے میں کام آویں۔‘‘ زبید نے تشویش ظاہر کی۔

’’ٹھیک ہے۔‘‘ گھر کی مالی حالت ریشماں سے کون سی چھپی تھی۔

اگلی صبح سویرے ہی زبید اپنے کھیلوں کی جھولی لے کر اجمیر کی طرف روانہ ہو گیا۔  ویسے تو وہ ہزاروں بار اجمیر میں کھیل دکھا چکا ہے، اب وہاں کے لوگوں کی اس میں کوئی دل چسپی نہیں ہے۔  لیکن باہر کے لوگ درگاہ دیکھنے کے لئے یہاں پر خوب آتے ہیں اور کئی بار تو اسکول کے بچے ٹور پر آتے ہیں۔  یہ ٹور والے پیسہ بھی اچھا دیتے ہیں اور تعریف بھی ٹھیک ٹھاک کرتے ہیں۔  وہاں پر ایک ہوٹل والا بھلا آدمی ہے جو ایسے ٹور کے بارے میں زبید کو خبر کر دیتا ہے۔  کل بھی ایک اسکول کے بچے ٹور پر آنے والے ہیں۔

ریشماں چارپائی پر پڑی درد سے تڑپ رہی تھی اور پھوپھی دائی کو بلانے گئی ہوئی تھی۔  اس کوتڑپتے دیکھ کر تینوں بچے رو رہے تھے۔  چھوٹی والی بیٹی ریشماں سے لپٹی ہوئی تھی۔  گرمی کا موسم ہونے کی وجہ سے سبھی پسینے میں تر بہ تر تھے۔  کمرے میں چار روتے ہوئے لوگوں سے ایک دردناک ماحول بنا ہوا تھا۔  آس پاس کے لوگ یہ تو جانتے تھے کہ یہاں پر زبید مداری رہتا ہے۔  مگر وہ مداری کے گھر جانا اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں۔  شہر میں مچے شور شرابے اور گاڑیوں کی چیں پاں کی وجہ سے آواز دور تک جا نہیں رہی تھی۔  آواز کمرے سے نکل کر حویلی کی دہلیز پر آتی اور وہاں سے سڑک پر آ کر شہر کے بین میں آہستہ آہستہ گم ہو جاتی۔

پھوپھی جب دائی کے گھر گئی، تو وہ اناج صاف کر رہی تھی۔  پہلے تو ہر وقت وہ مصروف رہتی تھی، مگر آج کل اسپتالوں میں ڈلیوری کی وجہ سے اس کے حصے میں کچھ غریب لوگوں کے بچوں کو پیدا کرانا ہی رہ گیا تھا۔  اسی لئے وہ گھر پر ہی مل گئی۔ دائی کا نام تو پھوپھی کو بھی نہیں معلوم تھا، کیونکہ محلے کے لوگ اسے ’’اماں جی‘‘ہی کہتے رہے ہیں۔  وہ سب کی ’’اماں جی‘‘تھی اور جو لوگ اس کا نام جانتے تھے، اب ان کا ہی نام لیوا نہیں بچا ہے۔  وہ خود اپنا نام بھول چکی تھی۔

’’اماں جی، ریشماں کے مروڑے آوے ہیں۔  چلو۔‘‘ پھوپھی کی سانسیں پھولی ہوئی تھیں۔

اماں جی عورت کے ’’مروڑ آنے‘‘کا مطلب خوب سمجھتی تھی۔  اس لئے اس بارے میں پھوپھی سے کوئی دوسرا سوال ہی نہیں کیا، گھر کے باہربنے چبوترے کے پاس رکھی اپنی لاٹھی اٹھائی اور پھوپھی کے ساتھ فوراً چل پڑی۔  پھوپھی سوچ رہی تھی کہ اس اماں جی کے گوشت کی ایک بوٹی نہیں دِکھ رہی۔  قسطوں سے سانس لے رہی ہے، لیکن اچانک اتنی طاقت کہاں سے آ گئی۔  اماں جی جس رفتار سے چل رہی تھی، پھوپھی کے لئے اس رفتار سے چلنا مشکل تھا۔  اس کی سانسیں اٹھ کرگلے تک آ گئی تھیں، پھر بھی ہمت کر کے چلی جا رہی تھی۔  جیسے تیسے کر کے گھر پہنچی۔  اماں جی کچھ قدم آگے تھی، اس نے آتے ہی اپنا کام شروع کر دیا۔  بچوں کو کمرے سے باہر نکال دیا تھا۔  وہ سب رو رہے تھے۔  پھوپھی نے آ کر اماں جی کو حکم کے مطابق سامان پکڑایا۔  چند پلوں میں ہی بچہ دنیا میں تھا اور زچہ نڈھال بستر پر۔

بچے کو دیکھ کر اماں جی کا دل دہل گیا۔  وہ اچھل کر پیچھے جا کھڑی ہوئی۔  اس کی زندگی میں آج تک یہ ہوا تھا کہ لڑکے ہونے پر خوشی سے گھر والوں کو مبارکباد دیتی اور لڑکی ہونے پر اسے ’’اللہ میاں کا رحم و کرم‘‘بتاتی۔  لیکن آج تو کچھ اور ہی ہوا تھا، جسے بیان کرنے کا ہنر اماں جی اپنی زندگی کی آٹھ دہائیوں میں بھی نہیں سیکھ پائی تھی۔  ایسا ہوا ہی پہلی بار تھا۔  ریشماں نے تھکاوٹ میں چور آنکھیں بند کر رکھی تھی۔  اماں جی نے فوری طور پر پھوپھی کو بلایا اور پھوپھی نے بچے کو دیکھا تو غیر ارادی طور پرمنہ سے ’’یا اللہ‘‘نکل گیا۔

بچہ انسانوں جیسا نہیں تھا۔  ہاتھ پاؤں، نین نقش تو انسانوں کے جیسے تھے، مگر پورے جسم پر بندر کی طرح بال تھے اور سب سے حیرت انگیز تو یہ تھا کہ اس کی ایک دم بھی تھی۔  اپنی پوری جسمانی بناوٹ میں وہ انسان کم، بندر زیادہ دکھائی دے رہا تھا۔  تھوڑی دیر بعد اماں جی اور پھوپھی میں سرگوشیاں ہونے لگیں۔  اماں جی نے جتایا کہ یہ بچہ ضرور اللہ کا پیارا ہے، اس لئے اسے انسانوں جیسا نہیں بنایا۔  جبکہ پھوپھی کا کہنا یہ تھا کہ ہو سکتا ہے یہ بچہ زبید کیلئے کوئی آفت ہو اور اس کے پیدا ہونے سے اس کی زندگی مزیدآفتوں میں پڑ جائے۔  وہ اپنے بھتیجے کی آفتوں کو بڑھتے نہیں دیکھنا چاہتی تھی، کیونکہ وہی ایک اکیلا ہے، جو سال دو سال میں پھوپھی کی خیر خبر لے لیتا ہے۔  ضرورت ہونے پر خود پر چڑھے تمام قرضوں کے باوجود بھی، اس کی مدد بھی کرتا ہے۔

تھوڑی دیر بعد جب ریشماں مکمل طور پر ہوش میں آئی، تو اپنے جگر کے ٹکڑے کو سینے سے لگایا۔  اس کو پہلا دودھ بھی پلایا۔  اماں جی اور پھوپھی پاس کھڑی بچے کے رونے کا انتظار کر رہی تھیں کہ کیا یہ آواز انسان جیسی ہی نکالے گایا پھر بندر کی طرح۔  جب بھی زچگی کے بعد نوزائیدہ روتا نہیں ہے، تو اماں جی اسے گود میں لے کر ٹانگیں پکڑ کر ہلاتی ہے اور پیچھے سے ہلکا سا تھپتھپاتی ہے اور بچہ رونے لگتا ہے۔  بچوں کو رلانا تو اس کے بائیں ہاتھ کا کھیل رہا ہے، مگر اس بچے کو نہیں رلا سکتی، کیونکہ اسے رلانا تو دور کی بات وہ تو اسے چھونے سے ہی ڈر رہی تھی۔  منہ چومنے کے لئے ریشماں نے اپنے ہونٹ اس کی طرف بڑھائے تو اس کے بھی ہوش اڑ گئے۔  بال اور دم والا بچہ، اپنا ہونے پر بھی اسے خوفناک اور اجنبی سا لگا۔  لیکن وہ ماں تھی۔  بندر جیسا ہونے سے کیا ہوا، پیدا تو اس کی کوکھ سے ہی ہوا تھا۔  پہلے آہستہ سے چھوا۔  پھر پورے جسم پر ہاتھ پھیر کر جائزہ لیا اور آخر میں چوم ہی لیا۔

’’آں۔۔ ۔ آں …آں …۔‘‘ وہ تو جیسے ریشماں کے چومنے کا ہی انتظار کر رہا تھا۔  رو پڑا۔  بالکل انسانوں کی طرح۔  اماں جی کا یہ ڈر تو کم ہوا کہ کہیں یہ بندروں کی طرح بولنے لگ گیا تو کیا ہو گا۔  اب اسے پورا یقین ہو گیا تھا کہ اس بچے پرخدا کی رحمت ہے۔  وہ جلد سے جلد جا کر محلے کے سب لوگوں کو بتانا چاہ رہی تھی، لیکن پھوپھی نے قسم کھلا دی۔  پھوپھی نے کہا کہ خدا کے واسطے وہ اس بچے کے بارے میں کسی کو کچھ نہ بتائے۔  اس سے تو شاید اماں جی کا کبھی منہ کھل ہی جاتا، مگر پھوپھی نے اسے ’’دائی کے ایمان‘‘کی قسم دلا دی۔  اس نے اپنے ایمان کی قسم آج تک نہیں توڑی، تو اب اس بڑھاپے میں تو توڑنے کا سوال ہی نہیں۔  اس بار اماں جی نے کوئی ’’نیگ‘‘نہیں لیا، اس کے دل میں یہ خیال بھی کہیں تھا کہ واقعی یہ بچہ خدا کی رحمت والا ہوا اور اس نے ’’نیگ‘‘لے لیا تو اللہ کو کیا منہ دکھائے گی۔

جب اماں جی روانہ ہوئی تو پھوپھی کو تینوں بچوں کا خیال آیا۔  بڑا والا تھوڑا سمجھدار تھا، وہ بھی گلاب نبی کو حیرت بھری نظروں سے دیکھ رہا تھا۔  بیچ والا جو اسے چھوکر دیکھ رہا تھا، اس نے اس کی دم کو ہاتھ میں پکڑ لیا۔  چھوٹی والی لڑکی ضد کر رہی تھی کہ وہ بھی امی کے پاس سوئے گی اور دودھ پئے گی۔  پھوپھی کو یہ تو یقین ہو گیا تھا کہ اماں جی کسی کو کچھ نہیں کہے گی، مگر یہ بچے تو بھولے ہیں۔  یہ تو سب سے پہلے محلے کے بچوں کو بتائیں گے۔  اس نے تینوں بچوں کو سمجھانا شروع کیا، جبکہ دو تو انسان اور بندر میں فرق کرنا بھی ابھی تک نہیں سیکھے تھے۔  لیکن جب خوف ہوتا ہے اور کچھ چھپانا ہوتا ہے تو انسان درختوں تک پر یقین نہیں کرتا۔  پھوپھی نے بھی تینوں بچوں کے دماغ میں خوفناک ڈر بیٹھا دیا کہ گلاب نبی کے بارے میں کسی کو بتایا تو ’’شیطان‘‘دبوچ لے گا۔

زبید شاہ کو آج پوری دو سو روپے کی آمدنی ہوئی تھی۔  وہ بڑا خوش تھا۔  اجمیر سے پُشکر کی جانب روانہ ہوتے وقت اس نے کرائے کے پیسے تو الگ جیب میں رکھ لئے اور باقی کے پیسوں کو پاجامے کے نیفے میں ٹھونس کر پن لگا لی۔  وہ ان پیسوں کو صحیح سلامت گھر لے جانا چاہتا تھا۔  شام کی بس تھی، اسلئے بھیڑ کم تھی۔  وہ بائیں طرف کھڑکی کے پاس بیٹھ کر بیڑی پیتے ہوئے ریشماں کے بارے میں سوچنے لگا۔  وہ جلد از جلد گھر پہنچنا چاہتا تھا۔  معلوم نہیں ریشماں کس حال میں ہو۔  حالانکہ پہلی تینوں زچگیاں اماں جی نے آرام سے کروا دی تھیں اور کسی قسم کی کوئی پریشانی نہیں ہوئی تھی۔  پھر بھی اسے یہ ڈر تھا کہ اب ریشماں کاجسم کمزور ہو گیا ہے اور اماں جی کی آنکھیں۔  ایسے میں کچھ دِقت ہو سکتی ہے۔  دو بار جلانے کے بعد بیڑی جب تیسری بار بھی بجھ گئی، تو جھنجھلا کر اس نے بیڑی پھینک ہی دی۔

بس چل چکی تھی لگ بھگ بیس سواریوں کو لے کر۔  اندھیرا ہونے کو تھا اور شہر کی لائیٹیں جل چکی تھی۔  زبید شاہ لائٹوں میں چمکتی عمارتوں کو دیکھ رہا تھا اور خواب بُن رہا تھا۔  خواب میں حویلی کے کمرے میں اسے ایک جگمگاتا بلب دکھائی دیا۔  چھت پر ایک پنکھا بھی بہت تیزی سے گھوم رہا تھا۔  بلب کی دودھیا روشنی میں ریشماں کاچمکتا چہرہ نور برسا رہا تھا۔  وہ پاؤں پھیلا کر سوئی ہوئی تھی اور پنکھے کی ہوا سے اس کی زلفیں اڑ کر زبید کے چہرے پر لہراگئیں۔  زبید نے زلفیں ہٹانے کیلئے اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرا ہی تھا کہ اس کی آنکھیں کھل گئیں۔  اجمیر نکل چکا تھا اور بس پہاڑی پر چڑھ رہی تھی۔

اس پہاڑ کے ایک طرف اجمیر ہے اور دوسری طرف پُشکر۔  درمیان میں تقریباً تین کلومیٹر کی پہاڑی چڑھائی اور ڈھلان کا راستہ پار کرنا ہوتا ہے۔  تھوڑی دیر میں بس رک گئی اور کچھ نوجوان، بالکل کالج میں پڑھنے والے، ہاکی کے ڈنڈے لے کر بس میں چڑھے۔  ان میں سے ایک لڑکا جو ان کا لیڈر ٹائپ دِکھ رہا تھا، اس نے فلمی انداز میں اعلان کیا کہ جس کے پاس جونقدی، گہنے اور قیمتی سامان ہو وہ فوری طور پر نکال دیں۔  کسی نے کچھ نہیں نکالا تو غصہ ہو کر ڈنڈا بس کی کھڑکی کے ایک شیشے پر مارا، جس سے وہ چھناکے سے ٹوٹ گیا۔

شیشہ ٹوٹتے ہی لوگوں نے جیبوں سے پیسہ نکالنا شروع کر دیا۔  دو لوگ پیسے بٹور رہے تھے اور دو لوگوں کی جیبیں چیک کر رہے تھے۔  حالانکہ بس میں کوئی عورت نہیں تھی، لیکن کچھ مردوں نے کانوں میں سونے کے گردے پہن رکھے تھے۔  ڈر کے مارے وہ بھی اتار دیے۔  زبید نے کہا کہ وہ تو مداری ہے، اس کے پاس کچھ نہیں ہے۔

’’کھیل دکھا کر خوب پیسہ کماتے ہو۔  نکالو فوراً ۔‘‘ ڈاکوؤں کا لیڈر دھاڑا۔

’’آج کل بابوجی نہ تو کوئی کھیل دیکھے اور نہ ٹکو دے۔‘‘ زبید بولا۔

’’جب ٹکا ہی نہیں ملتا تو کھیل کیوں دکھاتے ہو۔ ہمارے ساتھ چلو، ڈاکہ ڈالو۔  اور تم ٹھہرے جادوگر۔  بینک لوٹ لو گے اور کانوں کان کسی کو خبر تک نہیں ہو گی۔  آؤ!‘‘اس نے زبید کی طرف دیکھ کر کہا۔

زبید چپ رہا۔  ان لوگوں نے سارا مال جمع کیا اور چلے گئے۔ بس دوبارہ چلی، تو چپکے سے زبید نے اپنے نیفے کی انٹی کو ٹٹولا۔  رقم سلامت تھی۔  اسے ان کچھ روپیوں کو بچانے پر اتنا سکون ملا تھا کہ اتنا تواپنی سلطنت کو بچانے پر کسی بادشاہ کو بھی نہ ملا ہو گا۔

زبید جب گھر پہنچا تو پھوپھی جان بوجھ کر حویلی کے پچھواڑے چلی گئی تاکہ وہ ریشماں سے دل کی بات کر سکے۔  کمرے میں لالٹین کی روشنی میں ریشماں کا چہرہ زرد دکھائی دے رہا تھا۔  تینوں بچے چارپائی کے پیتانے کی طرف بیٹھے تھے۔  زبید نے جب ریشماں سے حال چال پوچھا تو اس نے بچہ ہاتھوں میں لے کر آگے بڑھا دیا۔  اس نے گود میں لے کر دیکھا تو بالکل سُن ہو گیا۔  ایسا بچہ تو اس نے زندگی میں دیکھا ہی نہیں تھا۔  بچہ ہاتھ سے چھوٹ کر گرنے ہی والا تھا کہ زبید نے اپنے آپ کو سنبھالا۔  وہ پسینے میں تر بہ تر ہو چکا تھا۔  وہ کبھی اس بچے کو دیکھتا تو کبھی چھت کو۔

چھت پر جالے لٹک رہے تھے اور کسی زمانے میں کئے گئے چونے کی پپڑیاں اتر چکی تھی۔  جہاں سے پپڑیاں اتری تھیں، وہاں سے پتھر کا رنگ صاف دکھائی دے رہا تھا۔  ایسا لگ رہا تھا کہ چھت کوپورا کینوس بنا کر کسی مصور نے تصویریں بنائی ہوں۔ الگ الگ شکلیں نظر آ رہی تھیں۔  کچھ چہرے بھی دکھائی دے رہے تھے۔  اس نے ایک نظر ریشماں پر ڈالی، وہ بھی چھت کو تک رہی تھی۔  شاید تصویریں دیکھ رہی ہو گی یا اس بچے کے مستقبل کے بارے میں کچھ سوچ رہی ہو گی۔  بچے وہیں بیٹھے تھے، جن کے چہرے دیکھے جا سکتے تھے اور سانسیں سنی۔  وہ روز شور شرابہ مچائے رکھتے ہیں، لیکن نہ جانے آج کیوں خاموش تھے۔

زبید نے اپنی گود کی طرف دیکھا تو بچہ آنکھیں بند کر کے سو رہا تھا، اسے تو ابھی تک یہ بھی معلوم نہیں چلا تھا کہ وہ جس گھر میں پیدا ہوا ہے، وہ مداری کا گھر ہے۔  ’’مداری‘‘کیا ہوتا ہے یہ جاننے میں تو اسے بہت وقت لگے گا۔  زبید کو چھت پر خود بخود بنیں تصویریں اپنی طرف متوجہ کر رہی تھیں، اس نے پھر نظریں وہیں ٹکا دیں۔  اب وہ ان میں موجودشکلوں کو غور سے دیکھنے لگا۔  اچانک اسے ایک شکل نظر آئی، جو انسان جیسی تھی، لیکن اس کے ایک دم بھی تھی۔  اس کا دماغ چکرانے لگا۔  کبھی چھت کو دیکھتا تو کبھی گود کے بچے کو۔  دونوں دم والے۔  اب وہ چہرہ ملانے لگا۔  حالانکہ چھت والی شکل کا کوئی چہرہ نہیں تھا، لیکن اسے وہ اس بچے کی طرح دکھائی دے رہی تھی۔  زبید کو پورا یقین ہو گیا تھا، اس نے بچے کو ریشماں کے برابر لٹایا اور بیڑی نکالی۔

’’بیڑی باہر پیو۔  چھوٹو بچو ہے۔‘‘ ریشماں نے ڈانٹنے کے اندازمیں حکم دیا۔

’’اچھو۔‘‘ اسے بھی اپنی غلطی کا احساس ہو گیا تھا۔

زبید نے بیڑی کو جیب میں رکھا اور کہا، ’’ او خدا کوبچّو ہے۔  اِکو نام ’’گلاب نبی‘‘رکھیں گے۔‘‘

پہلے تو ریشماں کو افسوس ہوا کہ ایک مداری کی اولاد کا نام گلاب نبی کیسے ہو سکتا ہے، پھر اس نے سوچا کہ نام میں کیا گناہ ہے۔  بچہ ہے بھی دنیا سے الگ۔  پھوپھی نے زبید کو بتا دیا تھا کہ اس نے اماں جی کو تو کسی کو نہ بتانے کی قسم دی ہے اور بچے کا راز ہم لوگ دنیا کو معلوم نہیں ہونے دیں گے۔  دم کا کیا ہے، پاجامے میں چھپ جائے گی۔

آہستہ آہستہ گلاب نبی بڑا ہونے لگا۔  گھر میں سب کا پیارا تھا اور اسی وقت سے ناچنا گانا شروع کر دیا تھا۔  باتیں کہاں چھپ پاتی ہیں، لوگوں کو پتہ لگ گیا کہ زبید شاہ کے گھر جادوئی بچہ پیدا ہوا ہے۔  سارے پُشکر میں ہلچل مچ گئی۔  دیکھنے آنے والوں کا تانتا لگ گیا۔  پہلے پہل تو لوگوں نے کہا کہ مداری ہے کھیل رَچ رہا ہے، دم والا بچہ بھی بھلا ہوا ہے آج تک۔  لیکن جب آنکھوں سے دیکھا تو سبھی اچنبھے میں تھے، کچھ ایسے کہنے والے بھی تھے کہ اسے کوئی بیماری ہے۔  ڈاکٹر کے پاس لے جاؤ اور دم کٹوا دو۔

’’دم کٹوانے‘‘کے نام پر ریشماں کا خون کھول اٹھتا۔  وہ سوچتی کہ یہ اپنے بچوں کے پاؤں کیوں نہیں کٹواتے، ایسے ہی مجھے پیارا لگتا ہے۔  اتنے لوگوں کو گھر میں آتے دیکھ کر پہلے تو زبید خوش تھا۔  لیکن لوگوں نے اس بچے کو پوجنا شروع کر دیا تو اسے شک ہونے لگا۔  عورتیں تو اس کو چھوکر دعائیں مانگنے لگی۔  وہ ان چیزوں سے ڈرنے لگا۔  کچھ پجاریوں اور مولویوں نے کہا کہ اسے گھر میں مت رکھو، کسی مزار پر چھوڑ دو۔  ننھی سی جان کو وہ مزار پرکیسے چھوڑ دیں۔

آخر کار تنگ آ کر زبید نے پُشکر ہی چھوڑ دیا اور اجمیر اسٹیشن کے قریب آ کر رہنے لگا۔  گلاب نبی کے چہرے پر بال دیکھ کر آس پاس کے لوگ ہنستے، لیکن اس کی دم پتلون میں ہونے کی وجہ سے نظر نہیں آ پاتی۔

جوں جوں ناچتا گاتا گلاب نبی بڑا ہونے لگا، توں توں زبید شاہ کے سامنے روزی روٹی کا بحران بڑھتا گیا۔  اب مداری کا کھیل کوئی دیکھتا ہی نہیں تھا۔  یہاں پر کرائے کا مکان لے کر رہنے کی بات تو دور، دو وقت کے کھانے کے بھی لالے تھے۔  اسٹیشن کے برابر میں بہت سے تنبو تھے، وہیں پر ایک تنبو زبید نے بھی لگا لیا تھا۔  لیکن وہ گلاب نبی سے بڑی محبت کرتا تھا۔  اس کی وجہ یہ تھی کہ اس کی آواز سریلی اور ٹھمکے غضب کے تھے۔  وہ ڈمرو بھی بجانے لگا تھا۔  ویسے بھی زبید نے کھیل دکھانا چھوڑ دیا تھا اور وہ اب درگاہ کے باہر ایک دکان پر پھولوں کو صاف کرنے اور سجانے کا کام کرتا ہے۔

بارہ مہینے یہی کام تھا۔  مشکل سے گزارا ہو پاتا۔  اس کے پاس نہ ووٹر آئی ڈی تھا اور نہ ہی راشن کارڈ۔  کوئی سرکاری منصوبہ بندی اس تک نہیں پہنچی تھی۔  وہ حکومت اور جمہوریت کو صرف اتنا جانتا تھا کہ کئی بار درگاہ میں چادر چڑھانے کچھ سفیدوردی والے لوگ آتے، جن کے ساتھ پولیس کا بھاری انتظام ہوتا۔ اور راستہ خالی کروا لیا جاتا تھا۔  اس نے ایک بار اپنی دکان کے مالک سے ان لوگوں کے بارے میں پوچھا، تو اس نے بتایا کہ یہ ’’سرکاری لوگ‘‘ ہیں۔  اسی دن سے زبید کے دماغ میں حکومت کی شبیہ ایک سفید ہاتھی جیسی بن گئی تھی۔  واسطہ اس کا صرف پولیس سے پڑتا تھا، جب ہر مہینے سپاہی ان سے تنبو کا کرایہ وصول کرنے آتا۔  کرایہ نہیں دینے پر پٹائی ہوتی، لہذا روز آدھی روٹی کم کھا کر اس زمین پر رہنے کا کرایہ دیا جاتا، جو سرکاری تھی اور گندگی سے بھری پڑی تھی۔  گویا کہ زبید اب بھی کرائے پر رہتا ہے، پہلے بنئے کی حویلی میں اور اب حکومت کی گندی زمین پر۔

زندگی کے تھپیڑوں میں فن سے انسان کتنا ہی دور ہو جائے، مگر فن کے ساز و سامان اس کے پاس ہی رہتے ہیں۔  جب بھی کبھی دل میں ہوک سی اٹھتی ہے، تو وہ ان کی سنگت میں چلا جاتا ہے۔  زبید کے کمرے میں ڈمرو اور بانسری دونوں رکھے ہوئے تھے۔  کئی بار تنہائی میں وہ انہیں بجاتا اور یہ طے تھا کہ گلاب نبی کو ناچنے سے کوئی نہیں روک پاتا۔  آواز سن کر آس پاس کے دیگر تنبوؤں کے لوگ بھی آ جاتے۔  خوب تالیاں بجاتے اورواہ واہ کرتے، زبید کا من بھر آتا اور چین کی نیند سوتا۔  چونکہ ان لوگوں کے پاس تفریح کے ذرائع کم ہی تھے۔  ٹی وی تو کسی کے پاس تھا ہی نہیں۔  بجلی بھی کہاں تھی کہ کوئی ٹی وی کے بارے میں سوچے اور پیٹ بھرناکون سا آسان تھا۔  کچھ لوگ ریڈیو لائے تھے، مگر سیلوں کا خرچ دیکھ وہ بھی بیچ آئے۔  سو گلاب نبی کا ناچ اور زبید کا ڈمر ویا بانسری بجانا ان غریب اور ترسے جیونوں کا اکلوتا سکون تھا۔  وہ روز آ کر فرمائش کرتے اور پروگرام شروع ہو جاتا۔  پھر تو یہ ہو گیا کہ شام ہوتے ہی، اس کے تنبو کے پاس لوگ آ جاتے اور پروگرام مستقل طور پر ہونے لگا۔

تنبوؤں کے اس ڈیرے کا ہیرو تھا گلاب نبی۔  اب تو اس کی دم کا راز یہاں بھی کھل گیا تھا اور وہ پتلون سے دم کو باہر رکھنے لگا تھا۔  ان سب کے لئے اب اس دم میں کوئی خاص بات نہیں تھی۔  جب وہ ناچتا تھا تو دم ایسے ہلتی تھی، جیسے سانپ رقص کر رہا ہو۔

ایک دن ’’کلچرل ایجنٹ‘‘جگل کشور کی نظر گلاب نبی پر پڑ گئی۔  اسے لگا کہ ملکی اور غیر ملکی دونوں اقسام کے سیاحوں کیلئے یہ ایک دم مناسب ہو سکتا ہے۔  وہ سیاحوں کے لئے، حکومت کے لئے اور جو کوئی پیسہ دے اس لئے، لوک فنکاروں کے پروگرام کرواتا تھا۔  اس نے زبید شاہ سے جا کر بات کی۔  تنگ حالی میں تھا تو زبید نے فوراً ہاں کر دی۔

پہلے ہی دن کا پروگرام سرکٹ ہاؤس میں تھا۔  رُدْر پرتاپ سنگھ کچھ دوستوں کے ساتھ گھومنے آیا ہوا تھا۔  گلاب نبی کے ناچ پر سارے لوگ جھوم اٹھے۔  رُدْر پرتاپ سنگھ خوب پی چکا تھا، دم والا بچہ دیکھ کر وہ بھی دنگ رہ گیا۔  تبھی اس نے سوچا تھا کہ ’’جادو کا بچہ‘‘جب چینل پر ناچے گا تو ٹی آرپی مریخ پر پہنچ جائے گی۔  پھر کیا تھا، جگل کشور سے سودا کر لیا۔  ایک سال کے لئے پانچ لاکھ میں گلاب نبی کو خریدا۔  زبید کو توفقط تین ہزار ماہانہ پر جگل کشور نے پٹا لیا تھا۔  دونوں کو دہلی لایا گیا اور ’’لائیو نیوز‘‘چینل انتظام کر رہا تھا اس کی لانچنگ کا۔  لیکن گلاب نبی نے سب چوپٹ کر دیا۔  ایسی خاموشی پکڑی کہ اسپتال میں داخل کرانا پڑا۔

’’ابو …ڈمرو بجاؤ۔‘‘

’’جلدی سے تیار ہو جاؤ، صاحب ملنے آ رہے ہیں۔‘‘ جگل کشور نے جب آواز دی تو زبید کے خیالوں کا سلسلہ ٹوٹا۔  اس نے گہری سانس لی۔  پوری زندگی کو دوبارہ دیکھ لیا تھا خواب میں۔  اٹھا اور نہانے چلا گیا۔

’’سر کیا سوچ رہے ہیں‘‘ ابھیشیک نے پوچھا۔

رُدَرپرتاپ سنگھ اسی رفتار سے گاڑی چلا رہا تھا جس رفتار سے اسپتال سے نکلا تھا۔  وہ تو صرف نوئیڈا سے قرول باغ پہنچا ہے اور زبید تو پُشکر سے اجمیر ہوتے ہوئے بیس سال کا سفر کر آیا۔

’’یہی ہوٹل ہے۔‘‘ رُدْر پرتاپ سنگھ نے اترتے ہوئے کہا۔

ابھیشیک بھی اترکر اس کے پیچھے ہوٹل میں گھس گیا۔  انیس نمبر کمرے میں گئے جہاں پر جگل کشور موجود تھا۔  اندر گھستے ہی دیکھا کہ جگل کشور ہاتھ جوڑ کر کھڑا ہو گیا۔

’’میرا سارا پیسہ اور عزت خاک میں مل گئی۔  اس تیرے باپ نے خاموشی اختیار کر لی ہے۔  پیسہ واپس کر۔‘‘ رُدْر پرتاپ سنگھ، جگل کشور پر چڑھ بیٹھا۔

’’صاحب، میں کیا کر سکتا ہوں۔  اس میں میری کیا غلطی ہے۔  اس دن تو آپ کے سامنے ناچ رہا تھا۔‘‘ جگل کشور ہاتھ جوڑے، پیروں میں پڑتا ہوا بولا۔

’’اب کوئی طریقہ ہے‘‘ رُدْر پرتاپ سنگھ نے پوچھا۔

’’صاحب، زبید ہے۔  ہو سکتا ہے وہ اپنے باپ کے سامنے ناچے۔‘‘ جگل کشور کے سامنے کوئی چارہ نہیں تھا۔

’’فوری طور پر لے کر آؤ نیچے۔‘‘ اتنا کہہ کر رُدْر پرتاپ سنگھ نیچے چلا گیا۔

جگل کشور فوری طور پر زبید کو لے کر نیچے آیا، ڈمرو اور بانسری کے ساتھ۔  سب گاڑی میں بیٹھ گئے۔  راستے میں اس نے زبید کو خوب سمجھایا اور دھمکیاں بھی دیں۔

زبید کی تمام تر کوششوں کے بعد بھی جب گلاب نبی نہیں ناچا تو رُدْر پرتاپ سنگھ چراغ پا ہو گیا۔  جگل کشور کے ہاتھ سے لے کر معاہدے کے اوراق کو پھاڑا اور روانہ ہو گیا۔  ہاتھ جوڑتے ہوئے جگل کشور بھی اس کے پیچھے چلا گیا۔

گلاب نبی سچ مچ کا وی آئی پی تو تھا نہیں۔ اسپتال والوں نے رُدْر پرتاپ سنگھ کے جانے کے فوراً بعد بستر خالی کروا لیا۔  وہ آہستہ آہستہ اپنے ابا کے ساتھ چل کر سامنے چائے کی تھڑے پر آ گیا۔  زبید کے پاس کچھ پیسے تھے جو جگل کشور نے دیئے تھے۔  دونوں نے چائے پی۔  وہ تو دہلی کا ’’دال‘‘بھی نہیں جانتے تھے، کہاں جائیں۔  زبید نے جیب سے بانسری نکالی اور بجانے لگا۔  چند پلوں کے بعد نجانے کیا ہوا کہ اس کی بغل میں بیٹھا ’’جادو کاگلاب نبی‘‘ ٹھمک ٹھمک کر ناچنے لگا اور وہی پرانا گانا پھر گانے لگا۔  بھیڑ لگ گئی دیکھنے والوں کی۔

٭٭٭

 

 

 

 

الجھاؤ چودھری

 

باجرے سے بھرے کھیت میں پڑوسی کا بھینسا گھس جانا، یوں تو کسی کو بھی برداشت نہیں ہوتا، مگر یہ بھی کوئی بات ہے کہ چار دن سے ہری بخش گھر سے غائب ہے اور رام ناتھ اسے تلاش کرنے کیلئے گاؤں کے تمام گھروں میں سے زیادہ تر کمروں کی تلاشی لے چکا ہے۔  حالانکہ بہت سے لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہری بخش گاؤں سے باہر چھپا ہوا ہے۔  لیکن رام ناتھ کا دعوی ہے کہ گاؤں سے باہر اس کا کوئی اعتماد کا آدمی ہی نہیں ہے، جس کے یہاں وہ چھپ سکے۔  ہر کھیت میں یہی بحث تھی کہ ہری بخش کے آتے ہی رام ناتھ اس کی لگدی بنا دے گا۔  گاؤں سے باہر کتنے دن رہے آدمی!

اور ہوا بھی تو اتنا ہی تھا کہ ہری بخش کا بھینسا کھونٹا تڑا کر رام ناتھ کے باجرے میں گھس گیا۔  اب اس میں نہ تو ہری بخش کی غلطی ہے اور نہ ہی بھینسے کی کیونکہ ہری بخش نے رَیواسا سے مضبوط پتھر بھی تو اسی لئے منگوایا تھا کہ کھونٹا نہ ٹوٹے اور وہ جھنجھٹ سے بچ جائے۔  غلطی بھینسے کی بھی نہیں مانی جا سکتی ہے، کیونکہ کھونٹے سے آزادی تو انسان اور جانور دونوں کو چاہئے۔

آپ کہہ سکتے ہیں کہ رام ناتھ کی غلطی تھی، اسے اتنی چھوٹی سی بات پر تنازعہ نہیں کرنا چاہئے۔ لیکن غلطی اس کی بھی نہیں تھی۔ کیونکہ وہ دوسرے کے بھینسے کی بات چھوڑیئے، اپنی بکری بھی کھل کر فصل میں گھس گئی، تو کم از کم دو گھنٹے اس کی پٹائی بھی پکی تھی۔  گالیاں تو کئی مہینوں تک ملنی طے تھیں۔  ایسے میں بھائی کا بھینسا ہونے سے کیا ہوا، سزا تو اسے بھی ملنی ہی تھی۔  سو، بھینسے کی مناسب طریقے سے دھنائی ہوئی اور آس پڑوس کے لوگوں کے لئے تماشے کا ماحول بن گیا۔  ہری بخش گاؤں میں تھا۔  کسی لڑکے نے جب سے اسے یہ خبر سنائی، اس کے بعد سے وہ غائب ہے۔

اب فیصلہ کون کرے؟ کون ہری بخش کو واپس گھر آنے کی اجازت دلائے؟

فیصلہ تو رام کمار چودھری ہی کر سکتا تھا، کیونکہ وہی گاؤں کا اکلوتا پٹیل تھا۔  اس کے ہوتے دوسرا کوئی فیصلہ کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔  جس دن بھینسا کھلا، اسی دن رام ناتھ نے چودھری کے پاس جا کر معاملہ درج کرایا، ’’ صاحب، یہ تو روز روز کا کام ہو گیا۔  ہری بخش کا کبھی بھینسا کھلتا ہے تو کبھی بچھڑا۔  میری تو فصل چوپٹ ہو جائے گی۔  کب تک چلے گا یہ سب! پھر مت بولنا پٹیل کہ بتایا نہیں تھا۔  مجھے دکھائی دیتے ہی اس کا سر پھوڑ دوں گا۔‘‘

’’ صحیح بات ہے۔  فصل لاٹنا اتنا آسان تھوڑے ہی ہے۔  اپنے جانوروں کو مضبوطی سے باندھنا چائیے بھائی۔  میری باندھی ہوئی تو بکری بھی نہیں کھلی آج تک۔  سیدھی بات ہے کہ اس نے پول دیکھ رکھی ہے۔  لیکن تم یار سر مت پھوڑنا، پنچایت میں کریں گے فیصلہ اور اس بار دیکھا۔۔ ۔‘‘ چودھری نے سلگتی کو ہوا دے دی۔

بہت ہو گیا پٹیل۔  سر نہ پھو ڑوں گا تو پنڈلی توضرور توڑوں گا۔  میرے کو دوش مت دینا۔‘‘ رام ناتھ نے سینہ پھلا کر کہا۔

’’دیکھ یار، ٹانگ توڑ دے گا، تو گاؤں تجھے ہی برا کہے گا۔  پنچایت پروشواس رکھ۔‘‘

’’ٹھیک ہے، میں جا رہا ہوں اور اس کو خبر پہنچوا دینا، جہاں بھی ہو پنچایت میں آ جائے۔‘‘ رام ناتھ چودھری کے کمرے سے باہر نکلنے لگا۔

’’پنچایت میں نہیں آیا تو گاؤں نکالا کر دیں گے، تو آرام سے جا کر سو جا۔‘‘ چودھری نے مکمل اعتماد دے کر رام ناتھ کو رخصت کیا۔

پھر اندھیری رات میں چودھری کو وہی پرانے خواب آنے لگے کہ ہری بخش آئے گا اور وہ بھی اسی طرح گڑگڑائے گا۔  اس کے گھر پر پوچھنے والوں کی تانتا لگ آئے گا۔  ان دونوں بھائیوں کو تو ہر روز چکر لگانے پڑیں گے۔  پھر پنچایت بیٹھے گی اور پٹیل تو گاؤں میں اکیلا چودھری ہی ہے۔  سارا گاؤں اس کا ہی منہ دیکھے گا اور اس اکڑ دیکھنے کے قابل ہو گی۔  یہ خیال آتے ہی چودھری کے تن میں گدگدی ہونے لگی اور ذہن میں مونچھیں آنے کا احساس ہوا۔ ٹھیک ٹھاک گرمی کے باوجود اس نے چادر کھینچی اور سونے کا ڈرامہ کیا۔  جھوٹے خراٹے مارنے لگا، کیونکہ وہ جانتا تھا کہ رات کو ہری بخش آئے گا اندھیرے میں اور پاؤں پکڑ کر معاملے کو حل کرنے کی گزارش کرے گا۔  دن میں تو رام ناتھ کے خوف سے آ نہیں سکتا۔  اب اس کا گھر میں گھسنے کا دروازہ، چودھری کی حویلی سے ہو کر گزرنا تھا۔

رات کے تقریباً تین بج گئے اور چودھری بار بار کروٹیں بدل رہا ہے۔  گرمی بھی لگ رہی ہے، پسینہ آ گیا ہے۔  کئی بار منہ سے چادر ہٹا کر بھی دیکھ چکا ہے۔ لیکن ہری بخش نہیں آیا۔  آدھا گھنٹے پہلے کمرے کے پاس سے ایک کتا گزرا تھا اور اس کی آہٹ سن کر چودھری نے دُبکی مار لی تھی۔  طویل انتظار کے بعد بھی اس کی امید پوری نہیں ہوئی تو کتے بلیوں کو دل ہی دل میں جم کر گالیاں دی۔

پوری رات بیداری میں گزار دی۔  لیکن ہری بخش نہیں آیا۔  ایسا تو اس کی زندگی میں کبھی نہیں ہوا تھا کہ جنگ کے چوبیس گھنٹے گزر گئے ہوں اور دونوں فریقین اس کے سامنے حاضر نہیں ہوئے ہوں۔  تیس سال سے پٹیلائی کر رہا ہے۔  لیکن آج ایسا ہو گیا تو چودھری کو نیند آنے کا سوال ہی نہیں تھا۔

پانچ بجے اس کے پیٹ میں ہلکا سا مروڑاٹھا تھا اور وہ پانی کا لوٹا لے کر کھیت کی طرف چلا۔  وہ اتنے تناؤ میں آ چکا تھا کہ دماغ نے کچھ بھی سوچنے سے انکار کر دیا۔  کھیت کی طرف چلا جا رہا تھا۔

کھیت میں پہنچنے سے پہلے اس کا ماضی تو جان لیجئے۔  رام کمار چودھری کے چار اور بھی بھائی ہیں اور وہ خود کبھی فوج میں ہوا کرتا تھا۔  جنگ کے دوران ایک ٹانگ میں گولی لگنے کی وجہ سے اسے گھر بھیج دیا گیا تھا۔  سارا گاؤں اسے سمجھدار مانتا تھا اور سب سے زیادہ اس کے بھائی۔  چاروں بھائیوں کے گھروں میں اس کی مرضی کے بغیر پتہ بھی نہیں ہلتا۔  کھانے پینے کے سامان کی خریداری سے لے کر سبزی ترکاری تک اس کی رائے، عموماً حکم ہی مانی جاتی تھی۔

کسی بھی بھائی کے گھر پکوان بنتا تو چودھری کے لئے ایک کٹوری ضرور آتی۔  کچھ دنوں تک تو وہ خاموش رہا، لیکن پھر اپنے ہی بھائیوں کو آپس بھڑانا شر وع کر دیا، بلا وجہ ہی۔  جیسے ایک بار بڑے بھائی کرنارام کے گھر سے چوری ہو گئی تھی، تب رام کمار نے سفید جھوٹ بولا کہ چھوٹے والے بڑدا رام کو چوری کرتے اس نے دیکھا ہے۔  اسی بات پر ٹھن گئی اور بڑدا رام نے اپنے اس بڑے بھائی کے سر پر لاٹھی اٹھائی، جس کے سر کی طرف کبھی نظریں بھی نہیں اٹھائی تھیں۔  پانچ ٹانکے آئے تھے اور دلوں میں جو دراڑیں آئیں وہ الگ۔

آخر میں تنگ آ کر چودھری کے چاروں بھائیوں نے اس سے مشورہ لینا تو دور، بات کرنا بھی بند کر دیا۔  تب باری آئی گاؤں کی۔  جہاں اس کا موقع لگتا، اسے ہی الجھا دیتا۔  ایسا الجھاتا کہ سالوں تک لوگ سلجھا نہیں پاتے اور جب کسی طرح سلجھابھی لیتے، تو رشتے جڑنے سے رہے۔  حالانکہ براہ راست، ان معاملات میں اس کا کوئی مفاد نہیں ہوتا تھا، لیکن ایک بڑا مفاد یہ تھا کہ لوگ اس کو پوچھنے لگتے، گھر کے چکر لگاتے اور بے وجہ ہی سیوا بھی کرتے۔  ان سب سے بھی جدا مسئلہ یہ تھا کہ لڑائی کی وجہ سے لوگ کورٹ کچہری کیلئے چودھری سے ادھار لیتے اور پھر سود کا چکر ایسا چلتا کہ سالوں تک قرضہ اترنے کا نام ہی نہیں لیتا۔

خود کی حفاظت بھی ایک بڑامسئلہ تھا۔  لڑائی کے بعد پولیس تو ہردم گاؤں میں رہتی نہیں۔  ہر پارٹی کواپنی حفاظت ’’خود‘‘ کرنی پڑتی، جس کیلئے چھوٹے موٹے ہتھیار بھی خریدنے پڑتے اور آپ تو جانتے ہی ہیں کہ قرضہ کون دیتا۔۔ ۔ جی ہاں۔۔ ۔  چودھری ہی۔  اس طرح کورٹ میں کھڑے وکیل کی جیب میں تھا چودھری، پرانے کھاتوں کے دستاویزی قرض میں تھا چودھری اور یہاں تک کہ لوگوں کے گھروں کی کھونٹیوں میں ٹنگی بندوق کی نال میں تھا چودھری۔  اسی وجہ سے تو گاؤں کے آخری سرے پر رہنے والا منگو ڈھاڑھی اسے ’’امریکہ‘‘ کہتا ہے۔  لیکن بیچارے منگو کی بات کون مانے، سب پاگل ہی تو کہتے ہیں اسے۔  ہردم گاتا رہتا ہے۔

کئی دنوں سے چودھری سوچ رہا تھا کہ یہ رام ناتھ اور ہری بخش کبھی تو پھنسیں، لیکن ایسا نہیں ہوپا رہا تھا۔  وہ دونوں آپس میں لڑ کر، گھر پر ہی راضی نامہ کر لیتے۔  آج جب اس کا موقع لگا، تب سسرا ہری بخش غائب ہو گیا۔

یہ لو، چودھری پہنچ گئے کھیت میں۔  دن بس نکلنے کو ہے اور جیسے فصلوں کی آنکھیں کھل رہی ہیں۔  نیند سے جگ کر انگڑائی لیتی فصل دیکھنے میں سمندر کی لہروں جیسی دکھتی ہیں اورخوشبو پتہ نہیں کیوں، جوار سے گلاب کی اور باجرے سے شراب کی آتی ہے۔  مگر چودھری کو یہ سب دیکھنے کی فرصت کہاں تھی۔  وہ فوری طور پر فارغ ہو کر گھر جانے کی سوچ رہا تھا، کہیں ہری بخش آ گیا اور وہ گھر پر نہ ملا تو!۔  ویسے وہ زندگی میں ہر کام طے شدہ طریقے سے کرتا تھا۔  ایک مخصوص پلنگ پر سونا، مخصوص لوٹے میں پانی پینا اور الگ تھالی میں کھانا۔  اسی کے ساتھ، کھیت میں پاخانہ کرنے کی جگہ بھی مخصوص تھی۔  بڑے والے جنڈ کے پیڑ کے پاس اور یہ بات وہ بڑے فخر کے ساتھ لوگوں کو بتایا بھی کرتا تھا۔  دباؤ تیز ہونے کی وجہ سے فوری طور پر پاجامے کا ناڑا کھول کر بیٹھنے کیلئے ابھی جھکا ہی تھا کہ پیچھے سے آواز آئی –

’’دادا۔۔ ۔ او۔۔ ۔ دادا۔‘‘

اچانک اس وقت میں چودھری نے یہ آواز سنی تو ڈر کے مارے پاخانہ کھوپڑی میں چڑھ گیا۔  پیچھے مڑ کر دیکھا توجنڈ کی اوٹ میں ہری بخش تھا۔  کرتے سے اپنی شرمگاہ کو ڈھاپنتے ہوئے چودھری بولا، ’’ آرام سے ہگ تو لینے دے۔  تیرا جھنجھٹ بھی سلجھائیں گے۔‘‘

’’ٹھیک ہے دادا، میں انتظار کر رہا ہوں۔  جلدی کرنا۔‘‘ ہری بخش دور جاتے ہوئے دبی آواز میں بولا۔

’’جلدی کرنا۔۔ ۔  میں پکوڑی اتاروں گا کیا یہاں!‘‘ چودھری جھنجھلا کر فارغ ہونے بیٹھ گیا۔

ہمیشہ وہ فارغ ہونے میں پانچ دس منٹ لگاتا ہے، لیکن آج پورا آدھا گھنٹہ لگایا۔  ایک تو اپنی منصوبہ بندی کو مزید درست کرنا تھا، جس کے تحت ہری بخش کے معاملے کو سلجھانا تھا۔  کیونکہ اس نے اس صورتِ حال پر تو غور ہی نہیں کیا تھا کہ ہری بخش پاخانہ کرنے والے جنڈ کے پیڑ کے پاس ملے گا۔  دوسری وجہ یہ بھی تھا کہ اسے ہری بخش پر جھنجھلاہٹ بھی تھی کہ ایک تو رات بھر آیا نہیں اور آیا تو ڈرا دیا۔  ایسے آدمی سے آدھا گھنٹہ انتظار کروانا تو بنتا ہی ہے۔

بڑی فرصت سے فارغ ہو کر چودھری نے لوٹے میں بچائے ہوئے بقیہ پانی سے ہاتھ دھوئے۔  ہری بخش بڑا جذباتی ہو رہا تھا، ’’ دادا، جلدی کرو، دن نکل جائے گا۔  رام ناتھ لٹھ لے کر میرے پیچھے پڑا ہے۔‘‘

’’دیکھو تو بیٹا چودھراہٹ کتنی مشکل ہے۔  لوگ ہگنے بھی نہیں دیتے۔  بولو کیا ہوا؟‘‘چودھری، ہری بخش کے سامنے ہی آ کر بیٹھ گیا۔

’’ہوا کچھ نہیں۔  بھینسا تھا، کھونٹا تڑا لیا اور اس کے باجرے میں چلا گیا۔  اسی بات پر لٹھ لئے گھوم رہے ہیں۔  بول رہا ہے کہ ماروں گا۔  یہ زیادتی ہے؟‘‘ ہری بخش نے اختصار میں بتایا۔

’’بالکل ناجائز بات ہے۔  جانور تو جانور ہوتا ہے۔  اس گائے بھینس کون سے کھلتے نہیں ہے، تمہاری فصل میں بھی گھسے ہوں گے؟‘‘

’’ہاں، کئی بار۔‘‘

’’تب تو لٹھ لیتا تو رام ناتھ کب کا ہی پُرانا ہو جاتا۔‘‘

’’میں نے تو نیچی رکھی ہے دادا۔  پھر بھی نہیں مانتا۔‘‘

’’دیکھ بیٹا، بھلے کا زمانہ لد گیا۔  لاٹھی کا جواب لاٹھی سے ہی دینا پڑے گا۔‘‘

’’بھائی پر میرے سے لاٹھی نہیں اٹھائی جائے گی۔‘‘

’’تو کون سا دشمن ہے؟ وہ تو اٹھا رہا ہے۔  باقی تیری مرضی۔‘‘

’’اور کوئی طریقہ ہے کیا؟‘‘

’’رام ناتھ کے بچے کا تو لاٹھی کے علاوہ زمین پر کوئی اپائے نہیں ہے۔‘‘

’’پھر ملامت مت کرنا۔‘‘

’’ملامت کس بات کی؟ پہل تو اس نے کری ہے۔  اور اکیلانہیں سمجھنا اپنے آپ کو۔  پیسہ چاہئے تو پیسہ لے جا۔  سات گنیں پڑی ہیں گھر میں۔  تیرے کو کبھی انکار تھوڑے ہی کیا ہے۔‘‘

’’ٹھیک ہے دادا۔‘‘ ہری بخش اٹھا اور ادھر ادھر کا معائنہ کر کے جانے لگا۔

’’اور سن! جان سے مت مار دینا۔‘‘ چودھری نے آخری نصیحت کی۔ کیونکہ جان سے مارنے سے معاملے کا ایک فریق ختم ہو جائے گا اور معاملہ سلجھ جائے گا اور اگر معاملہ سلجھ گیا تو چودھری۔۔ ۔

خیر، ہوا یہ کہ ہری بخش نے رام ناتھ کا سر کھولا اور رام ناتھ نے ہری بخش کی ٹانگ توڑی۔  بالآخر پنچایت بیٹھی اور چودھری رام کمار نے فیصلہ سنایا کہ دونوں اپنے جانوروں کو مضبوط رسی سے باندھیں اور اپنے حق کاخود دفاع کریں۔

بس، اس خود دفاع کرنے کے چکر میں، دونوں دوسرے ہی دن پھر الجھ پڑے اور کورٹ کچہری ہو گئی۔  پھر گڑے مردے اکھاڑے گئے کہ قحط والے سال میں نے تمہیں دو بوری گیہوں دیا تھا، سود سمیت واپس کرو۔  ادھر سے جواب آیا کہ تو نے جب مکان بنوایا تھا تو میں نے بغیر اجرت لئے کام کیا تھا، سود سمیت واپس کرو۔  اس طرح کے معاملات کا کبھی تصفیہ ہوا ہے بھلا۔  کبھی تھانے میں جوتی گھستے رہے تو کبھی چودھری کی حویلی میں۔  اس معاملے سے یہ ہوا کہ گاؤں والوں نے بھی چودھری کی بات سننا بند کر دی۔  کوئی انصاف کروانے جاتا ہی نہیں۔  حویلی کے چبوترے پر تنہا بیٹھا رہے لیکن کتا تک نہ پوچھے اسے۔

کیسے جئے رام کمار چودھری؟

کھانا، سونا اور کچھ ضروری کام کرنے سے اس کی زندگی چل ہی نہیں سکتی۔  بھوک بھی مناسب طریقے سے نہیں لگتی ہے۔  پہلے دونوں وقتوں کی آٹھ روٹیاں کھا لیا کرتا تھا۔  اب چار میں آ گیا۔

دو بیٹے ہیں نا!

بیٹوں سے مطلب؟

مطلب، بیٹوں کو الجھانا شروع کر دیا۔  اپنے اپنے دھندوں میں مصروف تھے دونوں۔  ایک کا پرائیویٹ اسکول تھا، تو دوسرے نے ہوٹل کر رکھا تھا۔  کسی طرح کا جھگڑا ہونے کا سوال ہی نہیں تھا۔  چودھری نے یہ کیا کہ چھوٹے بیٹے کو نزدیک لینا شروع کیا۔  جب رات کو وہ ہوٹل سے آتا تو اس سے باتیں کرتا۔ لیکن جے رام اسے زیادہ توجہ نہیں دیتا۔  پھر چودھری اپنی پنشن کے پیسے بھی اسے دینے لگا۔  پیسہ تو توجہ لے لیتا ہے۔  جے رام کا چودھری کو لے کر رویہ ہی بدل گیا۔  روز سیکر سے سَیو آنے لگے اورسیوا وہ علیحدہ۔  سَیو کھا کر چودھری جے رام کو بڑے بیٹے رام تیرتھ کے تئیں بھڑکاتا رہا۔  جب اسے لگا کہ اب معاملہ پک گیا ہے، تو ایک دن شام کو جے رام کو بڑے پیار سے کہا، ’’ میں تیری سیوا سے خوش ہو کر تجھے کچھ دینا چاہتا ہوں۔‘‘

’’دے دو باپوجی۔‘‘ جے رام بات پکڑ نہیں پایا۔

’’میں ساری جائیداد تیرے نام کروانا چاہتا ہوں۔‘‘ چودھری نے مارا تیر۔

’’لیکن رام تیرتھ کا کیا کریں گے؟ وہ بھی بیٹا ہے۔‘‘

’’وہ کس کام کا۔  میرے نام پر کلنک ہے۔‘‘

پھر کیا تھا، دوسرے ہی دن تحصیل جا کر ساری جائداد جے رام کے نام کر دی۔  چودھری کی سیوا اور زیادہ ہونے لگی۔ سَیو کے ساتھ انگور بھی آنے لگے۔  لیکن اس کی صحت کو سَیو نہیں کچھ اور چاہیے تھا۔ وہ اب بھی بیتاب تھا۔ رام تیرتھ سیکر رہتا ہے۔  اس سے کیسے ملے؟ ایک دن کسی سیکر جانے والے ایک بندے کے ساتھ رام تیرتھ کو سندیسہ بھجوایا کہ تیرے باپوجی بہت بیمار ہیں، ملنے آؤ۔ رام تیرتھ سارے کام چھوڑ کر آ گیا۔  چودھری کے پاس بیٹھا، صحت کی خبر لی۔  کچھ دیر بعد چودھری نے دل کی کہہ ڈالی۔

’’تُو میری خدمت کر سکے ہے۔  جے رام تو پوچھتا بھی نہیں۔  ساری جائیداد اپنے نام لکھوا لی۔  لٹھ لے کر میرے سے بھی سائن کرا لیے۔‘‘

چودھری نے دکھاوے کے کچھ آنسو بھی بہائے۔ رام تیرتھ نے تحصیل جا کر پتہ کیا تو بات سچ نکلی۔  دونوں بھائیوں میں بجے لٹھ اور پھر کورٹ کچہری۔  چودھری کی طبیعت چنگی۔  گاؤں والے کہنے لگے، ’’ اب بیٹوں کا نمبر لیا ہے، الجھاؤ چودھری نے۔‘‘

کورٹ کے چکر لگانے کے قریب پانچ سالوں بعد دونوں بھائیوں میں راضی نامہ ہوا اور چودھری کو گھر سے الگ ایک مکان بنا دیا۔  وہیں اکیلا رہتا ہے۔  کوئی نہیں پوچھتا۔

کیسے جئے رام کمار چودھری؟ پریشان ہے۔

ایک دن شام کوکھیت کی طرف پاخانہ کرنے گیا تھا۔  جوہڑی میں گاؤں کے گندے پانی کیلئے کنواں کھد رہا تھا۔  دیکھتے ہی اسے ایک خیال آیا۔ کھیت سے ایک رسی لے کر آیا۔  اندھیرا ہو گیا تھا کسی نے دیکھا بھی نہیں۔  ایک پتھر کے رسی باندھ کر کنویں میں اتر گیا۔  کنواں قریب چالیس فٹ گہرا تھا۔  وہ اندر بیٹھا سوچ رہا تھا کہ اب تو کم سے کم اس کے بیٹے تو الجھ ہی جائیں گے کہ آخر بوڑھا گیا کہاں؟

ہوا بھی یہی کہ جے رام روٹی دینے گیا تو چودھری کمرے پر نہیں ملا۔  ادھر ادھر دیکھا تو بھی پتہ نہیں چلا۔ رام تیرتھ کو فون کیا تو وہ فوراً سیکر سے گاڑی لے کر آ گیا۔  دونوں بھائی تلاش کرنے نکلے، دور ٹیلوں میں الجھے پڑے ہیں۔  چودھری نے کنوئیں سے عجیب آوازیں دینا شروع کیں، تو گاؤں والے ڈر گئے۔  رات کو پاس جانے کی کسی کی ہمت نہیں، وہ اس الجھن میں ہیں کہ یہ بلا کیا ہے؟

چودھری کے دل کو اب تسلی ملی ہے اور وہ خوش ہو کر کنویں میں ہی اچھلنے لگا۔  آدھی رات کو ہر طرف سناٹا ہے اور دور سے منگو کے کسی گانے کے بولوں کے علاوہ کچھ بھی نہیں سنائی دے رہا ہے۔  اچانک اس کے پاؤں کو کسی رسی میں الجھنے کا احساس ہوا۔  چھوکر دیکھا تو وہی رسی تھی جس کے سہارے کنویں میں کودا تھا۔

’’اتنی مضبوط باندھی تھی پتھر سے۔  کس طرح کھل گئی! اب باہر۔۔ ۔‘‘ کنوئیں میں الجھے ہوئے چودھری کے دماغ نے سوچنا بند کر دیا تھا۔

٭٭٭

 

 

 

 

شہادت سے سودے تک

 

رام پیاری کو کبھی بھی نوکری سے چھٹی نہیں ملتی تھی۔  روز صبح ٹھیک دس بجے اس کے گھر کے دروازے پر دس بکریوں کا ریوڑ آ جاتا اور اس کا دفتر شروع۔  دن بھر بیہڑمیں بکریاں چرانا اور شام کو واپس ہر بکری کو اس کے مالک کے گھر پہچانا ہی اس کی ڈیوٹی تھی۔  جب صبح مالک اپنی اپنی بکریوں کو گھر سے نکالتے تو وہ سیدھے رام پیاری کے گھر کے سامنے آ جاتیں۔  وہیں سے وہ انہیں چرانے کیلئے لے جاتی۔  بکریاں اتنی سمجھدار تھیں کہ بغیر بتائے ہی روز کے راستے چلتی بیہڑ پہنچ جاتیں۔  راستے میں کسی کے کھیت میں گھسنا تو دور کی بات، اگر سامنے سے جیپ یا موٹر آتی ہوئی دکھائی دے جاتی تو وہ ایک لائن میں راستے سے ہٹ کر کھڑی ہو جاتیں۔

رام پیاری اس گاؤں کی پہلی گوالن تھی، جس کے ہاتھ میں لاٹھی نہیں ہوتی تھی۔  ایک آواز دیتی تو چند ہی لمحوں میں ساری بکریاں اس کے پاس آ جاتیں۔  اس کے اپنے اشارے تھے، جو بکریاں سمجھتی تھیں۔  جیسے، وہ جب کہتی ’’ناکی‘‘ تو ساری بکریاں لائن لگا کر راستے سے ایک طرف ہٹ جاتی۔  اور جب ’’پاچھی‘‘ پکارتی تو بکریاں جہاں کھڑی ہوتیں، وہیں سے واپس مڑ جاتی۔  جب کوئی نئی بکری اس کی ٹولی میں شامل ہوتی، تو کچھ دنوں تک وہ ان اشاروں کو نہیں سمجھ پاتی۔  پھر آہستہ آہستہ دیگر بکریوں کی چال ڈھال سے وہ ان کی دھن میں رچنے لگتی۔  لیکن شام کو بکریاں ریوڑ سے الگ نہیں ہونا چاہتی تھیں۔  وہ سب کے سب رام پیاری کے گھر میں ہی رہنا چاہتی تھیں۔  اس کی تو صرف دو بکریاں تھیں۔  باقیوں کو اپنے مالک کے گھر جانا ہوتا تھا، جس کیلئے رام پیاری کو کافی مشقت کرنی پڑ جاتی۔

پانچ گھر تھے اور دس بکریاں تھی۔  ہر گھر سے دو بکریاں چرانے کا کام تھا اس کا اور ملتے تھے، ایک بکری پر پانچ روپے مہینہ۔  رام پیاری کی کل آمدنی پچاس روپے مہینہ تھی۔  اسی سے سارا خرچ چلایا جاتا۔  اس کے نہ کوئی آگے تھا اور نہ کوئی پیچھے۔  دو روپے پرکلو کے سرکاری ریٹ پر، وہ ہر ماہ پندرہ کلو گندم خریدتی تھی۔  دس روپے کی لال مرچ، پانچ کا نمک اور پانچ کی ماچس۔  گندم کو ہاتھ کی چکی سے پیس کر، چار روٹیاں صبح شام کی بنا لیتی تھی اور لال مرچ میں پانی اور نمک ملا کر گھوٹ لیتی۔  اسے یاد بھی نہیں رہا تھا کہ پچھلی بار کب سبزی سے واسطہ پڑا تھا اور ’’ذائقہ‘‘کس جادو کا نام ہے۔

حالانکہ بکریوں کے مالک مسلسل الزام لگاتے تھے کہ وہ بیہڑ میں ان کی بکریوں کا دودھ نکال کر پی جاتی ہے۔  حقیقت تو رام پیاری ہی جانتی ہے۔  دودھ نکال کر پینے کی بات تو چھوڑیئے، گزشتہ دنوں جب اسے بخار ہوا تھا، تو سرکاری دواخانے کے ڈاکٹر نے گرم دودھ کے ساتھ دوا لینے کی صلاح دی تھی۔  اس کی خود کی بکریاں گابھن تھیں۔  دودھ نہیں دے رہی تھیں۔  اس نے ساری دوائیں پانی کے ساتھ لیں۔  کسی بکری کا چھٹانک بھر دودھ نکالنا بھی، وہ اپنی شان کے خلاف سمجھتی تھی۔  لیکن مالک کے الزام پر نوکرکی مذمت کرنا، نوکری کو لات مارنے جیسا ہے۔  اس نے بھی سارے الزامات پر خاموشی اختیار کر رکھی تھی۔

بیہڑ کے وسط میں ایک پانی کی ٹنکی تھی اور اسی کے پاس ایک پیپل کے درخت کے چاروں طرف گوالوں نے مٹی کا چبوترہ بنا رکھا تھا۔  چبوترے پر چڑھنے کیلئے ایک طرف مٹی کی ہی سیڑھیاں تھی۔  ہر سال برسات کے پانی سے جب چبوترے کی مٹی کچھ بہہ جاتی، تو سارے گوالے اس پر واپس مٹی ڈال کر ویسی ہی تیار دیتے۔  نئی مٹی ڈالنے کے وقت کچھ گوالنیں اس پر تصویر بنا دیتیں، تو لڑکے ہندی میں دو چار نام لکھ دیتے۔

ان ناموں میں گاؤں کا نام ہوتا، کچھ لڑکوں کے اپنے نام ہوتے اور زیادہ تراپنی ذاتوں کے نام درج کر دیتے۔  مثلاً ، جاٹ قلعہ، راٹھور قلعہ، پٹھان قلعہ، جوشی قلعہ، نٹ قلعہ اور ڈمولیا قلعہ، جیسے درجنوں نام گیلی مٹی پر لکڑی کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کے سہارے لکھ دیے جاتے۔  چونکہ سارے گوالے اس چبوترے کو ’’قلعہ‘‘ کہتے تھے، اس لیے ہر ذات کے نام کے بعد ’’قلعہ‘‘جوڑ کر بچے اسے اپنی ذات کا قلعہ قرار دیتے۔  ذہن میں سب کے یہی رہتا کہ ان کی نسل کا قلعہ ہی بچے، باقی تمام قلعے منہدم کر دیے جائیں۔  ہر روز بچے صبح آنے کی کوشش کرتے اور اپنی ذات کے علاوہ ایک ایک کر کے دوسری قوموں کے قلعوں کے نام مٹا دیتے۔  بہت دن نہیں لگتے۔  دو چار روز میں ہی سارے قلعوں کے نام مٹ چکے ہوتے اور بچتا توفقط چبوترہ۔

دو پانی کے گھڑے بھی رکھے ہوئے تھے، جسے سب باری باری سے گاؤں سے بھر کر لاتے تھے۔  اونچی ذات کے لوگوں کے گھڑے سے دلتوں کا پانی پینا تو ممکن ہی نہیں تھا۔  دونوں گھڑوں میں اتنا فاصلہ رکھا جاتا کہ ان سے گرنے والا پانی تک آپس میں مل نہیں سکتا تھا۔  اسی چبوترے پر دن بھر گوالے، گوالنیں بیٹھکی جمائے رکھتے۔

مرد تاش کھیلتے، عورتیں لباس پر بنائی اور ہاتھ سے سلائی کرتیں اور بچے پیپل کے درخت پر پکڑم پکڑائی کھیلتے رہتے۔  چونکہ ان گوالوں گوالنوں میں زیادہ تر کی عمر چالیس کے آس پاس کی ہی ہوتی تھی، تو آپس میں مذاق بھی کچھ بالغ قسم کے ہو جاتے تھے۔  مذاق کے علاوہ گاؤں کا کوئی ایسا گھر اور انسان نہیں ہو گا، جس کی بحث اس چبوترے پر نہیں ہوئی ہو گی۔  وہ آپس میں ایک دوسرے کی غیبت کرنے سے بھی کبھی نہیں چوکتے۔  ایسا تو ہوتا ہی تھا کہ ان کا ساتھی کوئی نہ کوئی گوالا یا گوالن کسی روز بیہڑ میں نہیں آتا، تو سب سے زیادہ مذاق اسی کا تیار ہوتا تھا۔

موہن جیسے کچھ لوگ تو ایسے بھی تھے کہ کسی بھی غیر موجود عورت، مرد یا بچے کی ہوبہو نقل بھی اتار لیتے تھے۔  اور تو اور عورتوں کی نقل اتارتے وقت وہ جس طرح کی ادائیں کرتا اور آواز نکالتا تھا، اسے دیکھ کر اس چبوترے، جسے سب قلعہ کہتے تھے، پر موجود لوگوں کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جاتی تھیں۔  چند پلوں کیلئے تو یقین ہی نہیں ہوتا تھا کہ یہ مردوں کے لباس سے عورت کی آواز آ رہی ہے، لوگ یہی کہتے تھے کہ یہ موہن آج تک دنیا کو بے وقوف بناتا رہا ہے، اصل میں تو عورت ہے۔  کپڑے اتار کر دیکھ لو۔  حالانکہ بات کی جڑ تو سب جانتے تھے، لیکن کسی نے کپڑے اتار کر دیکھے نہیں۔  ہاں، یہ کئی بار ضرور ہوا تھا کہ کچھ جو نئے بچے جانوروں کو چرانے آئے اور اتفاقاً ان کے سامنے یہ نظارہ آ گیا، تو وہ ضرور موہن کی دھوتی کے نیچے اس حصے پر نظر گڑائے رکھتے، جہاں پر مرد ہونے کا ایک ثبوت لٹکتا رہتا ہے۔

کئی دنوں سے رام پیاری کا آنا بند تھا۔  بیماری نے اس قدر جکڑ لیا تھا کہ پلنگ سے اٹھنا بھی ممکن نہیں تھا۔  ڈاکٹر نے کچھ دوا دی تھی، جسے وہ صحیح وقت پر لے تو رہی تھی، لیکن امید نہیں تھی کہ جسم میں دوبارہ جان آ جائے گی اور وہ اپنے پیروں پر چلنے لگے گی۔  وہ اس بیماری کی گھڑی میں بھی بالکل اکیلی تھی۔  جن لوگوں کی بکریاں چراتی تھی، انہیں تو کوئی احساس نہیں ہوتا تھا کہ گوالن کیسی ہے اور انہیں فکر ہوتی بھی کیوں۔ وہ کون سے اس کے ناطے دار تھے کہ ہر لمحے خبر لیتے۔  بکریاں چرانے کے تو پیسے دیتے تھے۔  اتنا ہی ناطہ تھا۔  رام پیاری کے گھر میں جو پندرہ کلو گندم وہ سرکاری خریداری پر لائی تھی، وہ اب ختم ہونے کو تھی۔

اس کے پڑوسی؟ وہ تو اس کو زندہ دیکھنا تک پسند نہیں کرتے ہیں۔  یہی چاہتے ہیں کہ فوری طور پر مر جائے تو اس کی بچی کچی زمین، جس پر گھر بنا رکھا ہے، اس پر بھی قبضہ حاصل کیا جا سکے۔  باقی کی زمین تو پہلے ہی اپنے ہاتھ کے نیچے کر چکے ہیں۔  اکیلی۔۔ اکیلی۔۔ اکیلی رام پیاری۔ یہ کیا اکیلی اکیلی کر رہے ہو یار، یہ تو بتا دو کہ وہ اکیلی ہوئی کیسے؟

ٹھیک ہے جناب۔  تو سنیں اب۔  گاؤں کی ساری عورتوں کی طرح وہ بھی دلہن جیسی ہی سج دھج کر کے آئی تھی۔  جوانی کی اٹھان کے دن تھے اور تھی بھی امیر باپ کی بیٹی۔  کم از کم اپنے گاؤں میں تو۔ خوبصورت ایسی کہ سوکھے میں بھی بہار آ جائے اور بولنے کے انداز کے بارے میں اس وقت کہا جاتا تھا کہ گلے سے نہیں روح سے بولتی ہے جو میٹھی چاشنی میں ڈوبی رہتی ہے۔  شوہر فوج میں تھا۔  وہ جب بھی چھٹی آتا تو کم از کم اتنا تیل، صابن اور خوشبو لے ہی آتا کہ سال بھر رام پیاری کا بدن مہکتا رہتا۔  کوئی اس کی پاس سے نکلتا، تو چند پلوں کیلئے ہی سہی، وہ اپنے آپ کو مغل گارڈن میں پہنچا ہوا سمجھنے کا وہم پال لیتا۔  یعنی مجموعی طور پر ازدواجی زندگی میں، گہنوں اور سنگار کے من بہلاوے والی عورتوں کی طرح اس وقت تو وہ خوش ہی نظر آتی تھی اور ویسے بھی خوبصورت عورت کو خوش دکھائی دینے کی سزا ہوتی ہے اس دنیا میں۔  یا تو وہ اپنی خوبصورتی کھو دے، ورنہ اسے خوش دکھائی دینا ہی ہو گا۔

یہ تو میں بھی نہیں جانتا کہ اس دور میں رام پیاری کے دل کے کون سے غم تھے اور کون سی خوشیاں۔  بس! اتنا ضرور تھا کہ غربت کا دکھ نہیں جھیلنا پڑ رہا تھا اورآس پاس کا سماج اس کو سکھی مانتا تھا۔  یہ بھی ایک ستم ظریفی ہے کہ لوگ آپ کوسکھی ماننے لگ جائیں، تو لاکھ چاہنے پر بھی آپ کسی کے سامنے اپنا دکھ بیان نہیں کر سکتے۔

باہر سے خوش اور اندر سے دکھی رام پیاری کے ساس سسر گھر کا سارا کام سنبھال لیتے تھے۔  مجھے معلوم ہے کہ آپ یہ بھی پوچھیں گے کہ تمہیں کیسے پتہ کہ وہ اندر سے دکھی تھی؟ آپ کا سوال ایک دم واجب ہے۔  میرا جواب یہ ہے کہ میں اپنی ماں، دادی، نانی جیسی رام پیاری کے وقت کی عورتوں کے دل کے پاس رہا ہوں اور وہ ایسے ہی جاگیردارانہ ماحول میں تھیں۔

لہذا دعوے کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ ان کے دماغ کی گہرائیوں میں اتر کر دیکھو، وہاں آج بھی ہزاروں خواب دفن ہیں۔ لاکھوں خواہشات مرجھا گئی ہیں۔  وہ گیت جو پھوٹ کر ہونٹوں تک آنے کے لئے بے قرار تھے، وہ ایک خوفناک نوحے میں بدل چکے ہیں۔  وہ ہنسی جو کھلے آسمان میں ہواؤں کے پروں پرسوار ہو کر دنیا کی سیر کرنے والی تھی، دماغ کے خشک ہو چکے تالاب کے پاس، اندھیری رات میں اتنی دبک کر بیٹھی ہے کہ اپنے سہارے کو ہی حملہ سمجھتی ہے۔  آپ کی محبت کو فریب ہی مانے گی، کیونکہ اس کے ساتھ صدیوں تک محبت کے نام پر فریب اور استحصال ہی ہوا ہے۔  تھوڑی دیر میں آپ گھبرا کربھاگ جائیں گے کہ یہ عورت میری محبت کو سمجھ نہیں رہی ہے۔  اتنی جلدی نہ کریں جناب۔  پہلے ایمان کو پکا کیجیے۔  بہت سال بھی لگ سکتے ہیں۔  ہر روز آپ کو ثابت کرنا پڑے گا کہ آپ مرد نہیں، انسان ہیں۔

یہاں تک تو رام پیاری جی رہی تھی، جسے دنیا خوشیوں بھری زندگی کہتی ہے اور میں بندشوں بھری۔  لیکن آگے کی مصیبتیں اور خوفناک ہو گئیں۔  اچانک نہیں ہوئیں، آہستہ آہستہ۔  پہلے ساس مری۔  گھر اور کھیت کا سارا بوجھ اس کے ذمے آ گیا۔  اکیلی تو ضرور ہوئی تھی، وہ اس وقت بھی، لیکن تنہائی کا احساس نہیں ہوا تھا۔  سسر سے تو بات کرنا تک گناہ سمجھا جاتا ہے۔  لیکن دل میں یہ تسلی تو تھی کہ ایک مرد ہے، جو اس کا شوہر ہے اور فوج میں رہتا ہے۔  اس کے ساتھ زندگی گزرے گی۔

حالانکہ اس کے شوہر نامی جوشخص، اس سے اتنی محبت تو کرتا ہی تھا، جتنا ہندوستان  کا ایک فوجی اپنی لُگائی سے کرنے کا دعوی کرتا ہے۔  ہر ماہ پیسے بھیجتا، وہ بات الگ ہے کہ پھر پائی پائی کا حساب بھی لیتا۔  کس کو کتنے سود پر دیئے، کس نے حساب پورا کر دیا ہے۔  سب بتانا پڑتا تھا۔  پیسے ہاتھ میں رہنے کی وجہ سے گاؤں کی عورتیں تو اسے سیٹھانی ہی کہتی تھیں۔  میں ہی اکیلا تھا جو اس کو بغیر تنخواہ کا منیم کہتا تھا، یعنی کہ اس کا شوہر اس سے سارے وہ کام کرواتا تھا، جو کروانے کیلئے کسی منیم کو رکھے تو وہ اچھی خاصی تنخواہ لے گا۔  کھانا اور باقی خود پر جو خرچ کرتی تھی، اس کے بدلے تو وہ کھیت اور گھر کا کام بھی کرتی تھی۔  اس وقت کیا، آج بھی عورت کی محنت کی ساری قیمت مرد ہی ہڑپتے ہیں اور اس نکتے سے کہا جائے تو ایک گھر میں ہی دو معاشی نظام ہیں۔  ایک عورت کا پرولتاری نظام ہے اور ایک مرد کا سرمایہ دارانہ طبقہ، جو گھریلو سرمائے کے مالک ہونے کی وجہ سے اُس کا استحصال کرتا ہے۔

گاؤں میں سیٹھانی ضرور کہتے تھے اس کو، لیکن کس کو پیسہ دینا ہے اور کس کو نہیں دینا ہے۔  کس سے کتنا سود لینا ہے اور کس کو کتنی رعایت دینی ہے۔  ان سب میں اس کی مرضی رتی بھر نہیں چلتی۔ اس کاہی سب کچھ طے کرتا تھا۔  مردوں نے عورتوں کے لیے ازدواجی بندھن میں خوش رہنے کے لئے ہزاروں بہانے ایجاد کر رکھے ہیں، تاکہ وہ ان بندھنوں کو توڑنے کے بارے میں نہ سوچیں۔  گہنوں میں خوش رہو۔  سنگھار میں خوش رہو۔  یہ ساری امانت تمہاری ہی ہے میری جان۔  سب کچھ تیرے لئے ہی کر رہا ہوں اور پھر میری اجازت کے بغیر تم نے کوڑی بھی خرچ کرنے کی سوچی کیسے۔ اپنے باپ کے گھر سے لائی تھیں۔

ساری مشکلات کا پہاڑ تو تب ٹوٹا، جب اس کا وہی شوہر ڈیوٹی پر مر گیا۔۔ ۔ اوہ۔۔ غلطی ہو گئی میاں۔۔ مطلب شہید ہو گیا۔  ہندوستان نامی ملک میں فوج میں شراب پی کر بھی کوئی مر جاتا ہے، تو اسے ملک کے نام پر ’’شہید‘‘ماننا پڑتا ہے اور یہاں پر اناج پیدا کرنے والے لاکھوں کسان خود کشیاں کر رہے ہیں، مگر انہیں کوئی حکومت اور نہ ہی معاشرہ۔۔  کسی قسم کا بھی شہید ماننے کو تیار ہی نہیں ہے۔  ایسی دوغلی شہادت پر کسی کو تو فخر ہوتا ہو گا، لیکن میرے اندر تو افسوس، ندامت اور غصے کے علاوہ کبھی کوئی دوسرا احساس پیدا نہیں ہوا۔  آپ کی نقلی شہادت مردہ باد!

اور اپنی رام پیاری کی بات کو آگے بڑھاتے ہیں۔  جیسے ہی اس کا شوہر مرا، ویسے ہی تین بڑے حادثات اس کی زندگی میں پیش آئے۔  پہلا حادثہ تو یہ تھا کہ اس کے دل بہلاوے کے سب سے پیارے ذریعے بناؤ سنگھار کو اس سے چھین لیا گیا۔  وہ جسم جو اس کا اپنا تھا، اسے بھی بدصورت رکھنے کے سماجی حکم سنا دیئے گئے۔  چوڑیاں جلا دی گئیں۔  مانگ بھرنا، کافر ہونا تھا۔ بندیا لگانا گناہ تھا اور اپنی پسند کا کپڑا پہننے کی اجازت نہیں تھی۔

دوسرا حادثہ یہ تھا کہ ایک شہید کی بیوی اوراب بیوہ، شادی نہیں کر سکتی۔ پورے معاشرے کا خیال تھا کہ جو ملک کیلئے مرا ہے، اس کی عورت کسی بھی دوسرے مرد کے ساتھ نہیں رہ سکتی۔  اسے تو ’’ ملک کے عظیم مفاد‘‘کیلئے اپنے جوانی کو قربان کر کے زندگی بھر مردوں کی زندگی جینا پڑے گی۔

اب تیسرے حادثے کا ذکر کر رہا ہوں، جو ان سب سے زیادہ خوفناک تھا۔  وہ یہ تھا کہ سرکاری قانون تو مانتے ہیں کہ ایک فوجی کے شہید ہونے پر اس کی سوشل سیکورٹی اور دیگر سرکاری امداد کی مکمل حقدار اس کی عورت ہوتی ہے۔  جبکہ اس دور کے معاشرے کے قوانین یہ مانتے ہیں کہ حکومت کی اس مدد کے اصل مستحق فوجی کے ماں باپ ہوتے ہیں۔  انہوں نے ہی تو بیٹے کو اتنا پالاپوسا اور اتنا بڑا کیا۔  تو مجموعی طور پر رام پیاری کے معاملے میں جمہوریت نے ٹیکے گھٹنے اور جاگیر دارانہ نظام چڑھا سر پر۔  بولیں تو سرکاری کاغذوں میں تو دستخط ہوئے رام پیاری کے اور ساری امداد ہاتھ میں آئی اس کے سسر کے۔

چونکہ فوجی اپنے باپ کی اکلوتی اولاد تھا اور اتنی کہانی میں آپ کو یہ تو پتہ چل ہی گیا ہو گا کہ کہیں بھی فوجی کے صاحبِ اولاد ہونے کا ذکر نہیں آیا ہے۔  ذکر آتا بھی کہاں سے جب کوئی اولاد ہوئی ہی نہیں تو۔  اب کیوں نہیں ہوئی، اس کے بارے میں مجھے زیادہ معلومات نہیں ہیں۔  آپ جب اس ملک کو جانتے ہیں تو یہ بھی جانتے ہوں گے کہ یہاں پر بغیر اولاد کی عورت اور وہ بھی اگر بیوہ ہو جائے تو کیا کیا نہیں ہوتا اس کے ساتھ۔

رام پیاری کے سسر نے اپنے بھائی کے بیٹے گوردھن کو گود لے لیا۔  ساری ملکیت اس کی۔  جو چاہتا گھر میں کرتا۔  چونکہ رام پیاری کی پنشن آتی تھی، تو پیسے کیلئے محتاج نہیں تھی اور گوردھن کی کئی ہوسوں کی مزاحمت کر دیتی تھی۔  گوردھن بھی مرد ہے بھائی اور آخر پٹیلوں کا چشم و چراغ ہے۔  یوں ہی بھلا ایک بیوہ سے ہار مان جائے گا، سوال ہی نہیں پیدا نہیں ہوتا۔  چاہے کچھ بھی کرنا پڑے، وہ اپنی مونچھ نیچی نہیں ہونے دے گا اور اسے بہت کچھ نہیں کرنا پڑا۔  اتنی سی زحمت اٹھانی پڑی کہ گاؤں کے ایک انگریزی جاننے والے لڑکے کو پٹایا اور اس سے فوج کو ایک خط لکھوا دیا۔  لکھوایا بس اتنا ہی تھا کہ رام پیاری وائف آف سریندر، بٹالین فلاں فلاں کی موت ہو گئی۔

اس ہندوستانی فوج نے اتنی سی زحمت نہیں اٹھائی کہ ان کے ایک شہید کی بیوی مر گئی، یہ بات صحیح بھی ہے یا نہیں۔  کہاں وقت ہوتا ہے فوجوں کے پاس کہ اپنے شہیدوں کی بیویوں کے سکھ دکھ پوچھیں۔  پنشن دے دیتے ہیں اور کسی نے گوردھن کی طرح جھوٹا خط لکھوا دیا تو پنشن بند کر دی۔  فوجیں ہتھیار خریدیں یا جنگ لڑیں یا شہیدوں کی بیواؤں کی خبر لیں۔  آخر کیا کیا کریں۔

اب کیا سوچ رہے ہیں، رام پیاری کی پنشن بند ہو گئی۔  سرکاری کاغذوں میں پہلے بیوہ ہوئی تھی، اب مر گئی۔  گوردھن اور زیادہ مضبوط ہوا اور اسے گھر سے نکال دیا۔  اب وہ گاؤں کی ایک طرف، کسی بنئے کی جانب سے منحوس مان کر چھوڑے گئے گھر میں رہتی ہے۔  اس گھر میں پورا گاؤں پاؤں رکھنا بھی منحوس مانتا ہے۔  کوئی بھی رام پیاری کے پاس نہیں جاتا۔  ہاں، کئی بار رات کو کچھ لفنگوں نے اندر جانے کی کوشش ضرور کی، مگر رام پیاری نے حفاظت کے نقطہ نظر سے لاٹھی پاس میں رکھ رکھی تھی تو فوری طور پرمارنے کو دوڑی۔

مرد دوہری حکمت عملی رکھتے ہیں۔  دن میں جگہوں سے لے کر عورتوں تک کو ناپاک اور منحوس وغیرہ کہتے ہیں اور رات کو موقع ملتے ہی ان کا استحصال کرنا چاہتے ہیں۔  اس کے بعد یہ بات اس طرح سے گاؤں میں پھیلی ہے کہ لفنگوں کی پھر ادھر جانے کی ہمت نہیں ہوئی۔  ہاں، دن میں بکری چرانے جب جاتی ہے تو جو بھی مرد ملتا ہے وہ اسے ’’بھابھی‘‘ کہتا ہے۔  چاہے کتنی ہی عمر کا ہو۔  پہلے پہل تو وہ سنتی رہی، لیکن ایک دن جب جیس راج نے جس کی عمر تقریباً اسّی کی ہو گی اور رام پیاری کی پینتیس ہے، ’’بھابھی‘‘ کہا تو اس کے صبر کے سارے بندھ ٹوٹ گئے۔  لے لیا جیس راج کو آڑے ہاتھوں۔  ایسی لعنت ملامت کری کہ محلے کے سارے مردوں کو تمیز آ گئی۔

اس کے بعد جب بھی سماجی مفاد کی بات آئی، جیسے بیوہ پنشن یا بی پی ایل میں کرنے کی بات۔  تب اسی گوردھن نے سرپنچ کو ایسے دھمکا رکھا ہے کہ بیٹا اس کا بی پی ایل بن گیا تو سیدھا جیل جائے گا، کیونکہ یہ تو مر چکی ہے کیونکہ فوج کے دستاویزات کہتے ہیں اور فوج سے بڑا ایماندار ہے کوئی دنیا میں۔  اتنا سنتے ہی پھٹ جاتی سرپنچ جی کی۔  میت کا کوئی بی پی ایل یا اے پی ایل تھوڑا ہی ہوتا ہے۔  اس سے بھی مزیدار بات تو یہ ہے کہ رام پیاری جمہوریت میں رہتی ہے، کھاتی ہے، کماتی ہے، روتی ہے، لیکن شہری نہیں۔  پولنگ شناختی مُردوں کے نہیں بنتے اسی لئے تو انہی دس بکریوں اور پچاس روپے مہینہ پر جیتی ہے۔

اکیلے میں بخار سے لڑنا بڑا مشکل ہوتا ہے۔  منہ بھی بخار کی وجہ تلخ ہوتا ہے اور دل بھی۔  جیسے تیسے یہ وقت کاٹا اور بالآخر ٹھیک ہوئی رام پیاری۔  کمزوری ایسی کہ ہوا کے ساتھ اڑ جائے۔  دیوار کے سہارے کچھ دن تک چلنے کی کوشش کی۔  روٹی بنانے کی ہمت نہیں تھی تو بکریوں کا دودھ ہی پی کر سو جاتی۔  لیکن ایسا کب تک چلتا! مجبوری میں اسے بکری چرانے کے لئے جانا پڑا۔

کئی دنوں سے علاقے میں چوروں کا بڑا خوف پھیلا ہوا ہے۔  ایسے شیطانی چور پہلے کبھی نہیں دیکھے گئے۔  نہ سونا چراتے ہیں اور نہ روپے چراتے ہیں۔  یہ بس جانوروں کو چراتے ہیں اور جانوروں میں بھی بکریوں اور بھیڑوں کی چوری میں مہارت رکھتے ہیں۔  ایسے چوروں سے امیروں سے زیادہ غریب پریشان تھے، کیونکہ بھیڑبکریاں تو وہ ہی رکھتے ہیں۔  سارے لوگ بیہڑ میں بھیڑ بکریوں کے ساتھ جاتے۔  دن بھر حفاظت کرتے۔  پھر بھی چور پتہ نہیں کیا جادو کرتے ہیں کہ خود بھیڑ بکریاں دور جا کر ان کی گاڑی میں بیٹھ جاتی ہیں۔  ایسے میں لاکھ جتن کر لو چور تو پکڑ میں آنے سے رہے۔

سارے گاؤں میں کہرام مچا تھا کہ چور جادو جانتے ہیں۔  ہر کوئی اپنے من میں جادو گڑ لیتا۔  کوئی کہتا کہ یہ چور ایک رسی میں جادو رکھتے ہیں اور وہ رسی جدھر بھی گھمائی جائے، ادھر کے سارے جانور آ کر ان کی گاڑی میں اپنے آپ بیٹھ جاتے ہیں۔  جمنالال پنڈت کا کہنا تھا کہ ہوا میں کچھ ایسا منتر بھرتے ہیں کہ وہ ہوا جس بھی سمت میں جاتی ہے، ادھر کے جانور آ کر گاڑی میں بیٹھ جاتے ہیں۔  لوگ بیہڑ میں خوب چوکس رہے، لیکن چوروں کو دیکھ نہ سکے۔

ایسی افراتفری مچی تھی گاؤں میں کہ کسی نے توجہ ہی نہیں دی کہ رام پیاری زندہ بھی ہے کہ مر گئی یاپھر گاؤں ہی چھوڑ کر چلی گئی۔  کسی کو کیا لینا دینا۔  جن لوگوں کی بکری چراتی تھی، وہ اب چوروں سے اتنے ڈرنے لگے کہ بکریوں کو گھروں میں ہی رکھتے ہیں۔  ویسے بھی وہ گھر میں دو چار بکریاں رکھنے والے لوگ ہیں، شوق کیلئے۔  بیہڑ میں نہ لے جائیں اور گھر میں ہی چارہ ڈال دیں، تب بھی کام تو چل ہی سکتا ہے۔

چوروں کا خوف اتنا بڑھ گیا تھا کہ آخرکار لوگوں نے جانوروں کو بیہڑ میں لے جانا ہی بند کر دیا۔  جب بیہڑ میں گوالے گوالن ہی نہیں جاتے تو وہ ویران ہو گیا۔  اس پیپل کے درخت کے نیچے اب کوئی نہیں بیٹھتا ہے۔  چبوترے پر رکھے دونوں گھڑے آندھیوں میں ٹوٹ گئے اور ان کی ٹھیکریاں اب اس طرح ایک ساتھ ادھر ادھر بکھر گئی ہیں کہ یہ پہچاننا مشکل ہو گیا ہے کہ کون سی ٹھیکریاں اعلی ذات کے گھڑے کی ہیں اور کون سی دلتوں کے گھڑے کی۔  سب برابر ہو گیا۔  چبوترہ جو تھا وہ بھی آہستہ آہستہ ٹوٹنے لگا تھا۔  اب وہاں پر انسانوں کی جگہ کتوں نے اپنا اڈہ جما لیا ہے۔  وہ تپتی دھوپ میں آرام کرتے ہیں۔  بس فرق یہ ہے کہ یہ کتے جو ہیں، انسانوں کی طرح نہ کسی کی نقل اتارتے ہیں اور نہ کسی کتیا کو بھابھی بھابھی کہہ کر اس کا دل دُکھاتے ہیں۔  لڑتے ضرور ہیں کئی بار لیکن صرف تھوڑی سی دیر کیلئے۔

اب چوروں نے اپنے جادو کی طاقت بڑھا دی ہے اور ایسا ہونے لگا ہے کہ رات کو دڑبے میں بند بھیڑبکریاں باہر نکل کر اپنے آپ چلتی جاتیں اور گاؤں کے باہر رکی ہوئی چوروں کی جیپ میں جا کر چڑھ جاتیں۔  ظاہر سی بات ہے کہ چور اتنے جانوروں کو گھر میں تو نہیں ڈال سکتا۔  بیچتے ہیں۔  جہاں یہ کاٹنے کے کام آتے ہیں۔  یعنی کہ بھیڑبکریاں رکھوالے کی آنکھوں میں دھول جھونک کر خود کو قصائی کے حوالے کر رہی تھیں۔

قصبے کے محلوں میں ویسے تو سب کی آزاد زندگی ہوتی ہے۔  جہاں رہو، جیسے رہو اور جس کے ساتھ مرضی ہو اس کے ساتھ رہو۔  لیکن ہندوستان کے چھوٹے قصبے جدیدیت اور روایت دونوں کاعجیب سا کاک ٹیل ہیں۔  یوں سمجھ لیجئے کہ اگر آپ کے باپ مر گئے اور آپ انہیں شمشان، قبرستان یا جہاں چاہیں سپردِ خاک کیلئے لے جانا چاہتے ہیں، تو قصبے کے لوگ یورپ سے ایڈوانس ہو جائیں گے۔  ایسے جتائیں گے کہ جیسے آپ سے کبھی ملاقات ہی نہیں ہوئی ہو۔ اور آپ کسی دوسرے ملک کے باشندے ہوں۔  وہ تو شاید آپ کی زبان ہی نہیں سمجھتے۔  ایسے حالات میں جو فیصلہ لینا ہو، وہ آپ زیادہ سے زیادہ اتنا ہی لے سکتے ہیں کہ کرائے کے کندھے لائیں۔

معاملہ اگر اس سے الٹا ہو تو نظارے اور قابلِ غور ہو جاتے ہیں ان قصبوں کے۔  وہ معاملہ یہ ہو کہ آپ کے ساتھ کوئی نوجوان لڑکی آپ کے گھر آ جائے۔  سب ایسے دیکھیں گے، جیسے کوئی آپ کے ناطے دار ہوں اور ہزار طرح کے سوال کہ جواب دیتے دیتے داڑھی سفید ہو جائے۔  اس وقت وہ آپ کے سامنے انجان بننے کی بجائے اتنے جانکار بنیں گے کہ آپ کے ابا کے بارے میں جو آپ بھی نہیں جانتے، وہ بھی بتا دیں گے۔  اگر ان کو یہ معلوم ہے کہ آپ شادی شدہ ہیں۔  پھر اس پر غور نہیں کریں گے کہ ساتھ میں آنے والی لڑکی آپ کی دوست بھی ہو سکتی ہے۔  ایسا نظارہ پیش کریں گے جیسے کہ آپ کی بیوی کے سگے بھائی ہوں۔  پرانے کی لید اور نئے کی بدبو، دونوں ہندوستانی قصبوں میں ایک ساتھ مل جائے گی۔

تو صاحب، جب گوتم اور سنجیو کے ساتھ ایک پینتس سال کی خوبصورت عورت کو لکشمن گڑھ کے محلے کے لوگوں نے دیکھا تو سرگوشیاں ہونے لگیں۔  مردوں اور عورتوں میں کئی طرح کے اندازے لگائے جانے لگے کہ یہ اٹھائی گیرے آخر عورت کہاں سے کباڑ لائے۔  یہاں جیسے گاڑی گھوڑا کو کباڑ کر لانا سمجھا جاتا ہے ویسے ہی عورت کو بھی کباڑنا ہی مانتے ہیں۔  ایک دوسرے سے پوچھنے لگے۔  کچھ دیکھے بغیر ہی اس کے حسن کے چرچے کرنے لگے۔  کسی نے تو یہاں تک کہہ ڈالا کہ لگتا ہے کشمیر سے لائیں ہیں۔  یہاں پر ہر خوبصورت چیز کشمیر سے لائی جاتی ہے۔  کسی کے گھر میں بچہ خوبصورت پیدا ہوتا ہے تو محلے کے لڑکے چڑاتے ہیں کہ بے تیری ماں، تیرے کو کشمیر سے لائی لگتی ہے۔  ہر کوئی اپنی مرضی سے اندازہ لگا رہا تھا۔  مہاویر کو تو شک ہوا اور وہ تو تھانے میں جا کر چپکے سے پولیس والوں کو پتہ چلے بغیر پوچھ گچھ کر آیا کہ صاحب کوئی خوبصورت عورت علاقے سے اغواہو گئی کیا؟

چونکہ تھانیداردن میں ہی بیئر پی کر گنگنا رہا تھا۔  بیہودہ سا منہ بنا کر بولا، ’’ ارے سن، بیس سال ہو گئے میرے کو یہاں کام کرتے ہوئے۔  آج تک تو ایک خوبصورت عورت دیکھی نہیں۔  توُکہتا ہے کہ اغوا ہو گئی! جب ہے ہی نہیں تو کہاں سے ہو گی اغوا۔  جا سونے دے۔۔ ۔‘‘

مہاویر کے ذہن میں ایک بار تو یہ آیا کہ ایس ایچ او کو جھاڑ دے کہ علاقہ تو سندر عورتوں سے بھرا پڑا ہے، لیکن آپ جب جاتے ہو تو سب گھروں میں چھپ جاتی ہیں۔  بھک مرے ہو نا۔۔  لیکن خالی پیلی بات بڑھ جانے کے خوف سے معاملے کو ٹال دیا۔  پھر یہ بحث کمزور پڑ گئی، کیونکہ وہ عورت صبح ہی گوتم اور سنجیو کے ساتھ پک اپ میں بیٹھ کر چلی جاتی۔  لوگوں کو یہ تو معلوم تھا کہ یہ دونوں کوئی دو نمبری کا کام کرتے ہیں، لیکن کام کیا تھا یہ کوئی نہیں جانتا تھا۔

صرف اسی گاؤں کی بکریاں چوری ہوتی ہیں، آس پاس کے گاؤں کی ایک بھی بکری چوری نہیں ہوئی۔  گاؤں والوں کو یہ تو اندازہ ہو گیا تھا کہ چور جو بھی ہے، ان کی بھیڑ بکریوں کو جانتا ہے۔  لیکن گاؤں والے یہ اندازہ نہیں لگا پائے کہ بھیڑبکریاں بھی چور کو جانتی ہوں۔

لوگوں نے بہت سے طریقے نکالے۔  پہلے تو رات بھر حفاظت کرناشروع کی، لیکن جس دن حفاظت کرتے، اس دن بھیڑ بکریوں کی چوری نہیں ہوتی۔  اب سال بھر توراتوں کو جاگ جاگ کر حفاظت کرنے سے تو رہے، کیونکہ رات کو اگر حفاظت کریں گے تو دن میں کام نہیں کر سکیں گے اور کام نہیں ہو گا تو روٹی کہاں سے آئے گی۔  انہیں خود تنگ آ کر اپنی ہی بھیڑبکریاں کھانی پڑیں گی۔  تو جس دن حفاظت نہیں کرتے اسی دن چوری کا فیصلہ۔

مگھ راج نے ایک نئی ترکیب نکالی۔  بھیڑ کی اون کابنا سفید کمبل اوڑھ کر رات کو بھیڑوں کے دڑبے میں ہی سو گیا۔  سارے گاؤں کو اس بات کی جانکاری تھی۔  وہ سب کے سب لٹھ لے کر تیار تھے۔  رات کے قریب ایک بجے اس دڑبے کے پاس کوئی عورت آئی اور دڑبے کو کھول کر بھیڑوں کو کچھ ایسا اشارہ کیا کہ سب اس کے پیچھے۔  مگھ راج بھی بھیڑ کی طرح سفید کمبل اوڑھے پاؤں کے بل کسی جانور کی طرح چلتا رہا پیچھے۔  گاؤں والوں کو پتہ تھا۔  وہ بھی تھوڑی دوری بنا کر چلتے رہے پیچھے۔  وہ عورت ایک پک اپ کے پاس گئی اور بھیڑوں کو اشارے سے اندر کرنے لگی۔  کچھ بھیڑوں کے ساتھ مگھ راج بھی اندر ہو گیا۔ اتنے میں گاؤں والوں نے کیا حملہ۔  ڈرائیور پک اپ کے اسٹیرنگ پر ہی بیٹھا تھا۔  چند پلوں میں ہی اسٹارٹ کر کے رفو چکر ہو گیا۔

رام پیاری تو رہ گئی گاؤں والوں کی گرفت میں اور مگھ راج چلے گئے بھیڑوں کے ساتھ پک اپ میں۔  شور شرابہ ہونے لگا۔  رات کو رام پیاری گاؤں کی عدالت میں پیش ہوئی اور ایمان کے ساتھ بتایا کہ ایک دن دو چور بیہڑ سے اس کی بکریاں پک اپ میں لے جا رہے تھے۔  اس نے دیکھ لیا لیکن اکیلی کیا کرتی۔  بہت سوچا اس نے، کوئی طریقہ نہ سُوجھا۔  بکریاں ہی اس کا واحد سہارا تھیں۔  سوچا، ان کے بغیر جئے گی کیسے۔  تو چوروں کی نظریں چرا کر پیچھے پک اپ میں چڑھ گئی۔  صبح دور کی ایک بکرا منڈی میں چوروں نے پک اپ کا دروازہ کھولا تو رام پیاری نکلی ساتھ۔  ایک بار تو گھبرا گئے۔  لیکن ہمت کر کے اس سے پوچھا تو اس نے ساری کہانی سنا دی۔  چور ایسے تھے کہ رام پیاری کو اکیلے چھوڑنے کے بجائے گھر لے آئے اور آگے آپ جانتے ہی ہوں گے۔۔ ۔

یہ کہانی اتنی ہی تھی۔  پھر کیا ہوا اس کے بارے میں الگ الگ آراء ہیں۔  کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ گاؤں والوں نے رام پیاری کو پیٹا اور مار دیا۔  لیکن سوال یہ اٹھا کہ مگھ راج چوروں کے قبضے میں تھا تو اسے مار نہیں سکتے۔  اب رام پیاری بھی بہادر ہو گئی تھی۔  بہت سے لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ پولیس میں مقدمہ کر دیا۔  لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ مردہ عورت پر مقدمہ کیسے ہو سکتا ہے؟ حکومت اور فوج تمام جھوٹے پڑ جائیں گے، جنہوں نے سالوں سے اس کی پنشن اور شہریت دبا رکھی ہے۔  گوردھن تو کسی بھی صورت میں مقدمہ کرنے نہیں آئے گا۔  ایک جناب کہہ رہے تھے کہ گاؤں والوں نے اپنے گناہ کا کفارہ کیا اور اس کی چوروں کے ساتھ شادی کر کے دھوم دھام سے رام پیاری کو رخصت کیا۔  سوال اٹھتا ہے کہ اتنے گاؤں والے اچانک اتنے شریف کیسے ہو سکتے ہیں؟ مجھے ایسا لگتا ہے کہ چوروں اور گاؤں والوں کے درمیان معاہدہ ہوا۔  مگھ راج کوگاؤں والوں نے وصول کیا اور رام پیاری کو لوٹادیا۔  آپ کو کیا لگتا ہے!

٭٭٭

٭٭٭

تشکر: مترجم جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

 

مکمل کتاب ڈاؤن لوڈ کریں

 

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل