FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

فہرست مضامین

مژہ پر سبز آنسو

 

 

(’میں عشق میں ہوں‘ مجموعے کی نصف غزلیں)*

 

               منصور آفاق

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

(*باقی نصف غزلیں ’میں عشق میں ہوں‘ اور نظمیں ’محبت کی نظمیں‘ عنوانوں کی ای بکس کے تحت جمع و ترتیب دی گئی ہیں)

 

 

 

 

 

 

 

ترے خال و خد بتا کر جو پتہ کسی سے پوچھیں

وہی ہم کوسمجھے پاگل ترا کیا کسی سے پوچھیں

 

کوئی شب جمال والی ،کوئی رت وصال والی

ہے نصیب میں کیا اپنے ذرا آکسی سے پوچھیں

 

ہمیں ہجر کی طوالت سے گلہ نہیں ہے لیکن

ابھی کاٹنی ہے کتنی یہ سزا کسی سے پوچھیں

 

ترے شہر کی طرف بھی کوئی راستہ تو جائے

جو ملائے دو دلوں کو وہ دعا کسی سے پوچھیں

 

جہاں ممکنات میں تھا وہاں تارے توڑ لائے

وہ جو رہ گئی ہو ہم سے وہ وفا کسی سے پوچھیں

 

یہ فراق کا جہنم جو عطا کیا گیا ہے

دیاکس عمل کا آخر یہ صلہ کسی سے پوچھیں

 

ہے طلسم زاد کوئی کہ ہیں لوگ پتھروں کے

جو سنا کہیں کسی کو ، جو کہا کسی سے پوچھیں

٭٭٭

 

 

 

 

اس سے ملتے تھے بے ارادہ کچھ

اور ملتے تھے ہم زیادہ کچھ

 

اِس گرفتارِ زلف کی خاطر

ہیں سپاہی اُدھر ستادہ کچھ

 

بھیجتے ہیں یہی سدا پیغام

یاد آیا ہے اپنا وعدہ کچھ

 

بے نقابی تھی دھوپ کی ہم پر

اس پہ پانی کا تھا لبادہ کچھ

 

پھر خزاں کی سیاہ راتوں سے

کہہ رہا ہے بہار زادہ کچھ

 

کیا ہوا کیوں چھلک رہے ہیں ہم

ظرف منصور تھا کشادہ کچھ

٭٭٭

 

 

 

 

آوارہ گردِ شب کے آداب کر قبول

اے دوست رتجگوں کے یہ خواب کر قبول

 

لایا ہوں رکھ کے سب کچھ طشتِ فراق میں

یہ میری زندگی کے اسباب کر قبول

 

اے چاند پیش خدمت آنکھیں ہیں آنسوؤں کی

دریا قبول کر لے، تالاب کر قبول

 

اپنے سمندروں کے آباد ساحلوں پر

یہ چودھویں کی شب کا مہتاب کر قبول

 

دوچار پھول کیا میں بھیجوں تری طرف

میری طرف سے باغِ شاداب کر قبول

 

موتی سجے ہوئے ہیں اس کی پلک پلک پر

منصور کی یہ چشمِ پُر آب کر قبول

٭٭٭

 

 

 

 

مجھے بھی غم ہے کسی کا، ملا تواس نے کہا

میں اس کے سامنے جب رو دیا تو اس نے کہا

 

اداس رہنے کی عادت ہے مجھ کو ویسے ہی

مری اداسی کا قصہ سنا تواس نے کہا

 

خیال رکھنا تجھے دل کا مرض لاحق ہے

وہ مجھ کو چھوڑ کے جانے لگا تو اس نے کہا

 

کوئی وصال کی تمثال اب ضروری ہے

فراقِ یار بہت ہو گیا تو اس نے کہا

 

اے میرے سہل طلب !آسماں نژاد ہوں میں

میں راستے میں کہیں گر پڑا تو اس نے کہا

 

طلوع صبح ہوئی تیری راکھ سے منصور

میں پچھلی رات کہیں جل بجھا تو اس نے کہا

٭٭٭

 

 

 

 

دیر سے ہی سہی ملے کوئی

آنکھ میں پھول تو کھلے کوئی

 

رکھ گیا ہاتھ کی لکیروں میں

راستوں کے یہ سلسلے کوئی

 

میرے دل کا بھی بوجھ ہلکا ہو

مجھ سے اس کے سنے گلے کوئی

 

اس کو آ جائے اب مری خوشبو

مجھ کو گلیوں میں ڈھونڈھ لے کوئی

 

ہجر میں بھیج کر نئی خوابیں

مجھ کو دیتا ہے حوصلے کوئی

 

دے گیا بس سفر اداسی کا

لے گیا دل کے ولولے کوئی

 

نت بلائے تمام شہروں سے

تیری یادوں کے قافلے کوئی

 

گرمیَ لمس کے مجھے منصور

بخش دے پھر سے آبلے کوئی

٭٭٭

 

 

 

اک تجھے ہمکلام کر لوں میں

پانیوں پر خرام کر لوں میں

 

کچھ فراغت اگر ہے آج تجھے

گھر میں کچھ اہتمام کر لوں میں

 

چاہتا ہوں کہ سایۂ گل میں

زندگانی تمام کر لوں میں

 

پھر کریں گے وصال کی باتیں

پہلے تھوڑا سا کام کر لوں میں

 

تیرے رخسار سے چرا کے شفق

سرخرو اپنی شام کر لوں میں

 

مجھ کو اتنی کہاں اجازت ہے

تیرے گھر میں قیام کر لوں میں

٭٭٭

 

 

 

خالی مکاں کے آخری منظر گواہ رہ

آیا تھا میں پلٹ کے یہاں پر گواہ رہ

 

میں جا رہا ہوں ایک زمانہ گزار کے

اے کوہِ انتظار کے پتھر گواہ رہ

 

سوئی نہیں ہے ایک بھی ساعت فراق کی

شب ہائے تار تار کے بستر گواہ رہ

 

جاڑے کی برف رت بھی اکیلے گزار دی

یورپ کے اے سفید دسمبر گواہ رہ

 

دولخت ہوتے ہوتے بھی آخر تلک تجھے

آباد رکھنا چاہا تھا اے گھر گواہ رہ

 

جب تجھ سے ملنے آیا محمد تو اس کے گھر

درہم نہ تھے اے والیِ محشر گواہ رہ

 

کرتا رہا ہے تیر کے منصور تجھ کو پار

اے آنسوؤں کے گرم سمندر گواہ رہ

٭٭٭

 

 

 

 

گزرتا ہے کوئی برسوں میں تارہ دیکھتے کیا ہو

محبت کا یہ کم آبادرستہ دیکھتے کیا ہو

 

مرے برج و ستارہ تم ہو خوش بختی تمہی سے ہے

لکیریں دیکھتے کیا ہو،ستارہ دیکھتے کیا ہو

 

محبت وہ نہیں ،حاصل جہاں لا حاصلی کا ہو

جو کھلتا ہی نہیں ہے وہ دریچہ دیکھتے کیا ہو

 

یہا ں کاغذ پہن کر صرف میرے خواب رہتے ہیں

یہ بے ترتیب سا نظموں کا کمرہ دیکھتے کیا ہو

 

ہے بندوبست لمس و ذائقہ کی پیاس کا منصور

نگاہوں سے کسی کا صرف چہرہ دیکھتے کیا ہو

٭٭٭

 

 

 

 

رات جن کاجلی آنکھوں سے لڑی آنکھیں ہیں

ننگی تلواریں ہیں دونوں ۔۔وہ کوئی آنکھیں ہیں

 

آنکھ جھپکوں تو نکل آتی ہیں دیواروں سے

میرے کمرے میں دو آسیب بھری آنکھیں ہیں

 

ہجر کی جھیل ترا غم بھی ہے معلوم مگر

یہ کوئی نہر نہیں ہے یہ مری آنکھیں ہیں

 

دیکھتے ہیں کہ یہ سیلاب اترتا کب ہے

دیر سے ایک ہی پانی میں کھڑی آنکھیں ہیں

 

جن کی پلکوں پہ گوارہ نہ تھا اک قطرہ تجھے

تیز بارش میں ترے در پہ وہی آنکھیں ہیں

 

کون بچھڑا ہے کہ دنیا میں مرے چاروں طرف

غم زدہ چہرے ہیں بس روتی ہوئی آنکھیں ہیں

 

نیم تاریک دکھائی مجھے دیتا ہے جہاں

آنکھ میں اس کی سیہ آدھی کھلی آنکھیں ہیں

 

انتظاروں کی انگیٹھی کو بجھایا ہی نہیں

اپنی دہلیز پہ برسوں سے دھری آنکھیں ہیں

 

اک ذرا ٹھہر شبِ غم کہ کئی سال کے بعد

بس ذرا دیر ہوئی ہے یہ لگی آنکھیں ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

مژہ پر لہلہاتے آنسوؤں کو سبز رکھتی ہے

ہوائے یار غم کے موسموں کو سبز رکھتی ہے

 

وہی خوشبوئیں بکھرا کر اداسی کے گلابوں کی

کنارِ آبِ ہجراں رتجگوں کو سبز رکھتی ہے

 

ملائم گھاس کے قالین بچھتے ہیں رہِ غم میں

وہی آہٹ وفا کے راستوں کو سبز رکھتی ہے

 

شبِ فرقت میں رکھتی ہے تر و تازہ مرا چہرہ

وہی شبنم کے اشکوں سے گلوں کو سبز رکھتی ہے

 

لگاتی ہے درختوں پر امیدوں کے ثمر منصور

وہی ہر شاخِ منظر پر رتوں کو سبز رکھتی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

مل گئے مجھ کو بھی جینے کے بہانے کیا کیا

رنگ بکھرا دئیے ہیں تازہ ہوا نے کیا کیا

 

کیا گلابوں نے غزل چھیڑی ہے رخساروں کی

زلف کے گیت کہے بادِ صبا نے کیا کیا

 

کیسی خوشبوئے بدن آتی ہے بسترسے مجھے

رنگ وہ چھوڑ گیا میرے سرھانے کیا کیا

 

میرے پہلو میں نئے پھول کھلے ہیں کتنے

مجھ کو شاداب کیا شامِ وفا نے کیا کیا

 

میں تجھے کیسے بتاؤں کہ تُو نازک دل ہے

مجھ پہ گزرے ہیں مصائب کے زمانے کیا کیا

 

اس کی زلفوں کو شبِ وصل اڑانیں دے کر

کہتی پھرتی ہیں ہوائیں بھی نجانے کیا کیا

 

یونہی بے وجہ تعلق ہے کسی سے لیکن

پھیلتے جاتے ہیں منصور فسانے کیا کیا

٭٭٭

 

 

 

 

آؤ ملتے ہیں ذرا چھوڑنے والوں سے یونہی

پھر ملاقات کریں کوئی، ملالوں سے یونہی

 

ہم کو بھی کتنے برس ایک ہی پہلو میں ہوئے

ایک کھونٹے سے بندھی تم بھی ہو سالوں سے یونہی

 

پیاس کا دشت ہی قسمت میں لکھا تھا اپنی

سلسلے ہم نے بڑھائے ہیں غزالوں سے یونہی

 

لوٹ آنا تھا یہیں شام کو پرواز کے بعد

باندھ رکھا ہے ہمیں یار نے بالوں سے یونہی

 

ہم نہیں چاہتے اس شخص کو دل سے منصور

رابطہ اس کا ہے خوابوں سے خیالوں سے یونہی

٭٭٭

 

 

 

 

پھیلی ہوئی ہے آنکھ میں آبِ رواں کی یاد

پھر مہرباں ہوئی کسی نا مہرباں کی یاد

 

آنکھوں میں کس کے عارض و لب ہیں کھلے ہوئے

پھرتی ہے یہ خیال میں آخر کہاں کی یاد

 

آنکھیں فراقِ تازہ کو روئیں گی بعد میں

پلکوں پہ چل رہی ہے ابھی رفتگاں کی یاد

 

پردیس میں ہوں لیکن رہتا ہوں دیس میں

کچھ ہے یہاں کا درد تو کچھ ہے وہاں کی یاد

 

کوئی بھی شے نہیں تھی جہاں وصل کے سوا

آتی ہے مجھ کو اب بھی اسی لا مکاں کی یاد

 

منصور ایک عمر سے چبھتی ہے ذہن میں

پیچھے سے وار کرتے ہوئے دوستاں کی یاد

٭٭٭

 

 

 

آب رواں میں پھر نئی شامت دکھائی دی

سندر سی ایک اور قیامت دکھائی دی

 

دیکھا نظر نے معجزہ پہلے جمال کا

پھر گفتگو میں ایک کرامت دکھائی دی

 

کرتی تھی ذکر وہ کسی بندھن کا وصل میں

اس کے لباس میں بھی قدامت دکھائی دی

 

دیکھاشبِ وصال کی وحشت میں آئینہ

بندِ قبا بدن پہ سلامت دکھائی دی

 

تقریبِ گل میں آئیں بہاریں بہت مگر

ہر سمت تیری رونقِ قامت دکھائی دی

 

منصور چپ کھڑی تھی کہیں شام کی کرن

چھیڑا تو روشنی کی علامت دکھائی دی

٭٭٭

 

 

 

 

آ کے پہلو میں کوئی تیر لگا

عشق کا نعرۂ دلگیر لگا

 

اِس اداسی کا کوئی توڑ نکال

صحن میں یار کی تصویر لگا

 

بیٹھ آرام سے آنکھوں پہ مگر

پہلے دروازے پہ زنجیر لگا

 

اس نے بوسہ دیا کاندھے پہ ترے

اب تو آوازۂ تسخیر لگا

 

یہ کوئی خواب نہیں ہے منصور

خود کو چاقو سے ذرا چیر لگا

٭٭٭

 

 

 

 

ڈوبتے ڈوبتے آوازہ لگانے والے

میرے پانی کا تھے اندازہ لگانے والے

 

مجھ میں موسم کئی ہوتے تھے ترے پہلو میں

شاخ پر پھول تر و تازہ لگانے والے

 

کھینچتے پھرتے ہیں دیواروں کے بے رحم حصار

دل میں امید کا دروازہ لگانے والے

 

رات کے گیسوئے تاریک پہ بھی بات کریں

عارضِ شام پہ یہ غازہ لگانے والے

 

مجھ سے بہتر یہ خریدارِ محبت منصور

غم میں اندازۂ خمیازہ لگانے والے

٭٭٭

 

 

 

 

اس بے محل کو کیسے کوئی بر محل کرے

جز اس کے کون دل کے مسائل کو حل کرے

 

ممکن ہے کوئی بات پہنچ جائے یار تک

یہ آس رات رات دکھوں کو غزل کرے

 

پہلے اسی نے ترکِ تعلق کیا سو میں

یہ چاہتا ہوں صلح میں بھی وہ پہل کرے

 

پچھلی گلی میں رات کے پچھلے پہر ہوں میں

اس سے کہو کہ وعدے پہ وہ بھی عمل کرے

 

مت پوچھ پائے یار کی معجز نمائیاں

شامِ ابد کو اک وہی صبحِ ازل کرے

٭٭٭

 

 

 

 

بس ایک ابرِ مسلسل کے گیت گائے کوئی

کہ جلترنگ کی رم جھم سے یاد آئے کوئی

 

بھرا ہوا ہے جو میرے بدن کی گرمی سے

تمام رات وہی مصرعہ گنگنائے کوئی

 

ترس رہا ہے یہ سینہ کسی کی دھڑکن کو

مجھے فراق کی رت میں گلے لگائے کوئی

 

ابھی تو دھوپ درختوں میں ہے محبت کی

کہ چل رہا ہے رہِ غم پہ سائے سائے کوئی

 

وہ زود رنج ہے جانِ فراز سامنصور

دلاؤں یاد اگر کچھ تو ، روٹھ جائے کوئی

٭٭٭

 

 

 

 

شب کہیں اور شب کے سائے کہیں

کوئی اپنے دئیے جلائے کہیں

 

کانچ سے بھی زیادہ نازک ہے

سنگدل ۔ دل تو آزمائے کہیں

 

ڈھل رہا ہوں غزل کے پیکر میں

پھر مجھے کوئی گنگنائے کہیں

 

ہجر کی شام اس پہ بھی گزرے

چاہتا ہوں وہ دل لگائے کہیں

 

فاصلے ختم دو دلوں کے ہوں

دو ستارے کوئی ملائے کہیں

 

شخصیت کا یہ خول رہنے دو

میری رائے بدل نہ جائے کہیں

 

ہے کہیں انتظارِ گاہِ حیات

اور ہے موت کی سرائے کہیں

 

بس اداسی ہے چارسو منصور

کوئی تو شخص مسکرائے کہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

اب وصل گاہِ یار کا کوئی پتہ نہ دو

صبحوں کو مہر اور شبوں کو دیا نہ دو

 

میں تھک چکا ہوں چھین لو مجھ سے مرا خلوص

مری وفا کی یا مجھے اتنی سزا نہ دو

 

اب حصہ بن گئی ہے اداسی مزاج کا

بہتر یہی ہے مجھ کو خوشی کی دعا نہ دو

 

کوئی خبر دو اس کی جسے چھوڑ آیا ہوں

منزل ہے ہمسفر مجھے اس کا پتہ نہ دو

 

غمہائے روزگار میں الجھا ہوا ہوں میں

اس دلنواز شخص پہ کوئی گلہ نہ دو

 

عادت نہیں ہے ایسی کسی بات کی مجھے

اچھا یہی ہے پیچھے سے مجھ کو صدا نہ دو

 

دریا گزار لینے دو صحرائے ہجرسے

رونے دو کھل کھلا کے ، مجھے حوصلہ نہ دو

 

ممکن نہیں طلوعِ وفاتو اے ہجر یار

شب کے مسافروں کو دئیے کا صلہ نہ دو

 

آئی نہیں ہوتیسرے دن سے مرے قریب

خوابوں کے بیچ اتنا تو اب فاصلہ نہ دو

٭٭٭

 

 

 

 

یہ دیکھنا ، ہے تیری ضرورت کہاں کہاں

پھر سوچنا کہ کرنی ہے الفت کہاں کہاں

 

کس کس کے دل پہ وار کرو گی بدن کے ساتھ

برپا کرو گی اور قیامت کہاں کہاں

 

ڈالی خود اپنی روح تھی جو بت تراش کے

ہونے لگی ہے اس کی عبادت کہاں کہاں

 

مجھ کو تو پھرتے رہنے کی عادت ہے نیند میں

اے خواب تم اٹھاؤ گے زحمت کہاں کہاں

 

اے دوست سرگزشت وفا کی بس اتنی ہے

آئی نہیں ہے مجھ پہ مصیبت کہاں کہاں

 

بھیجا ہے پھر کسی نے یہ تحفہ گلاب کا

منصور تم کرو گے محبت کہاں کہاں

٭٭٭

 

 

 

 

 

لا حاصلی کی بند گلی سے خلوص کا

رشتہ بنا رہا ہوں کسی سے خلوص کا

 

ممکن نہیں ہیں جس سے مراسم وجود کے

امیدوار ہوں میں اسی سے خلوص کا

 

اس نے کہا کہ سبز خزاں میں رہے کوئی

پوچھا گیا تھا ایک کلی سے خلوص کا

 

ہے ربط اس سے جیسے چٹانوں کا رابطہ

موجیں پٹختی تیز ندی سے خلوص کا

 

منصور مجھ کو دیکھ کے کچھ سوچتی ہے وہ

اک واسطہ ہے سنگ دلی سے خلوص کا

٭٭٭

 

 

 

 

بنا کر بال اچھے سے ، نئے کپڑے بدل کے رو

بہت بھر آیا ہے دل توکسی کے پاس چل کے رو

 

یہاں پر دل دھڑکتے ہی نہیں لفظوں کے پہلو میں

یہ محفل شاعروں کی ہے نہ ہمرہ تُو غزل کے رو

 

گرا کے آخری پتہ ، اڑا کے آخری پتہ

ہوا اب بین کر اس کے، شجر اب ہاتھ مل کے رو

 

کوئی تارہ کوئی جگنو نہیں ہے دور تک کوئی

اندھیرا ہے بہت دل میں چراغ شب میں ڈھل کے رو

 

تجھے دریا بہانے ہیں کسی کی یاد میں برسوں

ندی کے ساتھ بہہ کے رو، چٹانوں سے پھسل کے رو

 

ہوئی ہے موت جو مجھ میں اب اس کا کیسے ماتم ہو

یہی منصور بہتر ہے کہیں گھر سے نکل کے رو

٭٭٭

 

 

 

 

ہر زباں پر رواں محبت ہے

سوچتا ہوں کہاں محبت ہے

 

عمر بھر اور کچھ کیا ہی نہیں

عمر کی داستاں محبت ہے

 

شور ہے ہر طرف تعلق کا

کیسی یہ بے زباں محبت ہے

 

ہے خبر گرم چار آنکھوں میں

دو دلوں میں نہاں محبت ہے

 

کوئی رستہ جہاں نہیں جاتا

کیا کروں میں ، وہاں محبت ہے

 

رو نہ اتنا کسی کے غم میں تُو

مجھ کو بھی میری جاں محبت ہے

 

درد کی دوپہر کے صحرا میں

اپنا بس سائباں محبت ہے

 

دل رکھا ہے بساطِ غالب پر

میر کا آستاں محبت ہے

 

ننگے سر پھر رہی ہے بستی میں

کس قدر بے ا ماں محبت ہے

 

چار اطراف راستے منصور

شہر کے درمیاں محبت ہے

٭٭٭

 

 

 

 

پاس ہیں چند پل محبت کے

زندگی ساتھ چل محبت کے

 

نت نئے دائرے بناتے ہیں

پانیوں میں کنول محبت کے

 

کھل رہے ہیں گلاب کمرے میں

کیسے سندر عمل محبت کے

 

شاہ زادی کے انتظار میں ہیں

شہرِ دل میں محل محبت کے

 

رات ویراں کدہ ہوئی ،غم کی

چاند۔ باہر نکل، محبت کے

 

میرا خونِ جگر فروزاں ہے

ہاتھ میں ہے غزل محبت کے

 

کچھ بدلنے لگے ہیں دن منصور

رنگ تُو بھی بدل محبت کے

٭٭٭

 

 

 

 

کسی گلپوش بنگلے میں کھلے ہیں در محبت کے

دکھائی دے رہے ہیں پھر نئے منظر محبت کے

 

انگیٹھی پر سجا رکھا ہے جن کو شوق سے میں نے

کئے ہیں جمع برسوں میں یہی پتھر محبت کے

 

تمنا ایک چہرے کی مسلسل چلتی رہتی ہے

پڑے ہیں راہِ غم پر پاؤں میں چکر محبت کے

 

ابھی کچھ دیر سوچوں گا ابھی کچھ دیر دیکھوں گا

کئی ہیں راستے دکھ کے کئی ہیں گھر محبت کے

 

مجھے منصور پہلا تجربہ ہے تبصرہ کیا ہو

کئی حیرت بھرے موسم ملے اندر محبت کے

٭٭٭

 

 

 

 

 

امید کھو گئی ہے ترے غم کے شہر میں

کاغذ کی ایک کشتی ہے اشکوں کی نہر میں

 

میری کوئی نظر تجھے ڈس ہی نہ لے کہیں

آنکھیں بجھی ہوئی ہیں یہ سانپوں کے زہر میں

 

کیا کیا دکھایا ہے مجھے چشمِ فراق نے

دیکھی ہے میں نے آگ سمندر کی لہر میں

 

کچھ دیر اس کے ساتھ رہا ہوں بدن کے ساتھ

جنت تلاش کر لی ہے دوزخ کے قہر میں

 

اک دلنواز شخص کی امید کے بغیر

رہنا ہے زندہ کیسے ستم گاہِ دھر میں

 

منصور لکھ کے نام کسی کا قمیض پر

اعلان کر رہا ہوں محبت کا شہر میں

٭٭٭

 

 

 

 

پھرتی ہے دشت دشت شبِ غم میں زندگی

رہتی ہے ایک کوئے محرم میں زندگی

 

کیسے عجب ہیں اس کی اچٹتی نظر کے رنگ

کیسی بدل گئی ہے مری دم میں زندگی

 

ہر شام ایک مرثیہ ، ہر صبح ایک بین

اب بس گزار نوحۂ ماتم میں زندگی

 

شاید سرکتی ہے کوئی ٹوٹی ہوئی چٹان

ہوتی نہیں فراق کے موسم میں زندگی

 

منصور دو گھروں میں ہے آباد ایک جسم

تقسیم آدھی آدھی ہوئی ہم میں زندگی

٭٭٭

 

 

 

 

میں جا رہا تھا یاد کی کشتی پہ پچھلی رات

صحرا نکل کے آگیا پانی پہ پچھلی رات

 

میں نے گلی میں اس کو بلایا نہیں کبھی

نکلا تھا چاند اپنی ہی مرضی پہ پچھلی رات

 

یہ میرا واہمہ ہے کہ دورِ خزاں میں بھی

کھلتا ہوا گلاب تھا ٹہنی پہ پچھلی رات

 

اترا تھا مرے آگ بگولا بدن کا خواب

الہام کی طرح کسی لڑکی پہ پچھلی رات

 

شاید فراقِ یار میں جلنے کے شوق سے

خود آشیانہ گر پڑا بجلی پہ پچھلی رات

 

لکھتا رہا ہے میرے ملالوں کی داستاں

شبنم کا قطرہ پھول کی پتی پہ پچھلی رات

 

منصور پُر ثواب تعلق پہ خوش نہ ہو

وہ روپڑی تھی وصل کی غلطی پہ پچھلی رات

٭٭٭

 

 

 

 

رہتی ہے ہم کلام جو دن بھر کتاب سے

کہہ اس سے، دل دھڑکتے ہیں باہر کتاب سے

 

اچھا نہیں شگون کہ تصویر یار کی

پانی میں گر پڑی ہے نکل کر کتاب سے

 

گرد و نواح میں جھانک لیا کر کبھی کبھی

مانا کہ کوئی شے نہیں بہتر کتاب سے

 

چشمِ تصورات میں آسن وصال کے

کیا کیا نکال لائی وہ کافر کتاب سے

 

منصور اس کی ڈائری پڑھ لی تھی ایک رات

دیکھے ہیں میں نے یار کے منظر کتاب سے

٭٭٭

 

 

 

 

دھڑکن کی طرح یار کے سینے میں رہا کر

ہر وقت محبت کے مدینے میں رہا کر

 

جانا ہے تجھے قرب کی ہر آخری حد تک

خوشبو کی طرح اس کے پسینے میں رہا کر

 

تہذیب بھی ہوتی ہے محبت میں کوئی چیز

جب اس سے ملا کر تو قرینے میں رہا کر

 

چاہے کوئی موسم ہو کوئی رت ہو کوئی سال

تُو خانۂ ہجراں کے مہینے میں رہا کر

 

منصور بھروسہ ہی نہیں موجِ بدن کا

وہ شخص سمندر ہے سفینے میں رہا کر

٭٭٭

 

 

 

 

غم کا کاٹھ کباڑ لگا

سارا شہر اجاڑ لگا

 

پہلی بارحسین کوئی

مجھ کوایک پہاڑ لگا

 

آنسوکون شمار کرے

دل بھی آج کراڑ لگا

 

پوریں آگ لے آئی تھیں

سینہ جھاڑ جھنگاڑ لگا

 

دنیا ایک مثلث ہے

دل میں تین کواڑ لگا

 

ہے منصور پہاڑ کوئی

تُو بھی ایک دراڑ لگا

٭٭٭

 

 

 

 

غمِ حیات کا ساراحساب پیش کریں

چلو اسے دلِ خانہ خراب پیش کریں

 

طواف کوچۂ جاناں سے جو ملا ہے ہمیں

وہ سارے شہر کو حج کا ثواب پیش کریں

 

کھلے ہوئے ہیں کئی دن سے صحن میں لیکن

کہاں ہے وہ کہ جسے ہم گلاب پیش کریں

 

پتہ کرو کہ کہاں ان دنوں ہے وہ کہ اسے

یہ شاعری کی مقدس کتاب پیش کریں

 

کسی جمال کا پہلو کہیں ملے تو اسے

فراق کی یہ شبِ اضطراب پیش کریں

 

یہ آنکھیں مانگتی اتنی سی بس اجازت ہیں

کہ بارگاہِ محبت میں خواب پیش کریں

 

میں سوچتا ہوں بلا کر نہ کیوں اسے منصور

شبِ سیاہ کو ہم ماہتاب پیش کریں

٭٭٭

 

 

 

 

 

مجھے اچھی لگی ہے صبح دکھلائی ہوئی لڑکی

وہ کھڑکی سے سیہ پردے کو سرکاتی ہوئی لڑکی

 

اسے روکو،اسے آواز دو،جانے نہ دو اس کو

یہی ہے وہ ، مسلسل خواب میں آتی ہوئی لڑکی

 

یقینا ڈھونڈتی پھرتی ہے کوئی ہم سخن اپنا

یہ خوشبو کی طرح محفل میں چکراتی ہوئی لڑکی

 

جلا کر راکھ کر دے نہ دلِ پُر جوش کی بستی

یہ سورج کی حسین کرنوں کو سنولاتی ہوئی لڑکی

 

نجانے کیا بنانے کا ارادہ رکھتی ہے مجھ کو

یہ شیرازہ مری دنیا کا بکھراتی ہوئی لڑکی

 

جسے منصور پھولوں پر لٹایا تھا بہاروں میں

ابھی تک یاد ہے مجھ کو وہ شرماتی ہوئی لڑکی

٭٭٭

 

 

 

 

کہا جو ہوتا تو جاں سے گزر گئے ہوتے

ہمارا کیا تھا محبت میں مر گئے ہوتے

 

کسی شراب کدے سے نکل کے پچھلی رات

یہ چاہیے تھا ہمیں اپنے گھر گئے ہوتے

 

بدل بھی سکتے تھے کروٹ وفا کے بستر پر

جو اپنے دل کی طرح تجھ سے بھر گئے ہوتے

 

خرید لی ہیں وہ آنکھیں کہ ہم بھلا کیسے

تری پسند سے انکار کر گئے ہوتے

 

کسی کاچہرہ افق پر طلوع نہ ہوتا تو

تمام شہر کے چہرے اتر گئے ہوتے

 

ہمیں تو مدِ مخالف نے جوڑ رکھا ہے

سمیٹ لیتا کوئی تو بکھر گئے ہوتے

 

جو ایک بند ہو در تو ہزار کھلتے ہیں

نہ ملتی تیری گلی تو کدھر گئے ہوتے

 

اگر یہ خواب کی بستی نہ ہوتی تو منصور

ترے فراق کی راتوں سے ڈر گئے ہوتے

٭٭٭

 

 

 

 

دشت تقدیر کا اک شخص نے لایا مجھ میں

ابر کوئی نہ شجر کوئی نہ سایا مجھ میں

 

جانے کیا مانگتا پھرتا ہے یہ دل کہ اس نے

غیر معلوم امنگوں کو جگایا مجھ میں

 

قابلِ داد ہے وہ شخص کہ رہنے کیلئے

ایک شیشے کا محل اس نے بنایا مجھ میں

 

اپنے پہلو کی طلب اور بڑھانے کیلئے

اشتہار اس نے محبت کا لگایا مجھ میں

 

دوڑتا پھرتا ہے دن رات رگ و پے میں مرے

دل نے منصور یہ کیا شخص بسایا مجھ میں

٭٭٭

 

 

 

 

عجیب رنگ میں آئیں جوانیاں اس پر

نثار ہوتی پھریں زندگانیاں اس پر

 

میں اس کے کنجِ بدن سے کروں ہراک آغاز

کہ ختم ہوتی ہیں اپنی کہانیاں اس پر

 

مرے وجود نے رکھا حصار میں اس کو

مرے خیال نے کیں حکمرانیاں اس پر

 

وہ شاہکار لب و رخ کا بولتا ہے کمال

خدا نے کی ہیں بہت مہربانیاں اس پر

 

میں اس کے قرب میں رہتا ہوں اس لئے منصور

گلاب پھینکتی ہیں شادمانیاں اس پر

٭٭٭

 

 

 

 

محبت ہے بہت سیدھی بہت سادی محبت میں

لٹاتی ہے بدن کا زر ، یہ شہزادی محبت میں

 

اسے دیوارِ جاں پر کوئی آویزاں کرے کیسے

کہ ہے تصویر کا ہر نقش فریادی محبت میں

 

نظر میں وصل کی قوسِ قزح ہے، پاؤں میں بادل

سنورتی جاتی ہے پھولوں بھری وادی محبت میں

 

سنا ہے اپنے گھر کے بام و در تک پھونک ڈالے ہیں

جہاں تک مجھ سے ممکن تھا کی بربادی محبت میں

 

ترے بالوں میں میری انگلیوں کے ساز لرزاں ہوں

بس اتنی چاہیے منصور آزادی محبت میں

٭٭٭

 

 

 

تیرے پاکیزہ بدن کے خواب میں رہتا ہوں میں

اک ہجومِ ریشم و کمخواب میں رہتا ہوں میں

 

تجھ میں شادابی تو ہے اے اجنبی لڑکی مگر

رات بھر بس ہجر کے آداب میں رہتا ہوں میں

 

یہ نہیں کہ کچھ نہیں حاصل بجز تنہائی کے

جانِ جاں اک عالمِ اسباب میں رہتا ہوں میں

 

اور کوئی بھی نہیں ہے زخم بس اس کے سوا

تیرے دل کے قریۂ مہتاب میں رہتا ہوں میں

 

اک ترو تازہ نظر کے ساتھ کتنے سال سے

یاد کی د وشیزۂ شاداب میں رہتا ہوں میں

٭٭٭

 

 

 

 

 

یہ بے سبب ہوا احمق زمانہ تیری طرف

میں خود پرست یونہی تھا روانہ تیری طرف

 

میں آگیا ہوں سرِ شام تیرے کوچے میں

ہے آج رات کا پھر آب و دانہ تیری طرف

 

شکار گاہِ جہاں میں خیال رکھ کہ ہے آج

ہر ایک تیرِ نظر کا نشانہ تیری طرف

 

نہیں ابھی تجھے پہچان اپنے چہرے کی

بنا رہا ہوں میں آئینہ خانہ تیری طرف

 

خریدنا ہے مکاں اک ترے علاقے میں

ضروری ہے کوئی میرا ٹھکانہ تیری طرف

 

بس ایک بوسۂ سر گرم کی تمنا میں

رکھا ہمیشہ ہے منصور شانہ تیری طرف

٭٭٭

 

 

 

 

کوئی جگنو ، کوئی شب ، کوئی ہوا ، کوئی ستارہ

کوئی میرا نہیں اب تیرے سوا کوئی ستارہ

 

کتنے برسوں سے مرے دل میں اندھیرا ہے کسی کا

میرے چارہ گرو!ہے میری دوا کوئی ستارہ

 

پاؤں رکھا مرے بختوں میں زوالوں کی گھڑی نے

برج میں آ گیا ہے غیر روا کوئی ستارہ

 

تیری قسمت میں نہیں ہے کسی مہتاب کا چہرہ

کہہ رہا ہے یہ مجھے نرم نوا کوئی ستارہ

 

مل رہا ہوں میں کسی اور جہاں زاد سے منصور

ہو رہا ہے یہ مری آنکھ پہ وا کوئی ستارہ

٭٭٭

 

 

 

 

 

اس کے دماغ میں ہی سہی روبرو ہوں میں

مجھ کو یہی بہت ہے پسِ گفتگو ہوں میں

 

پھیلی ہوئی ہے لمس کی دونوں طرف بہار

دیکھو مجھے کہ آج کنارِ گلو ہوں میں

 

وحشت تمام اس میں ہے میرے وصال کی

ہم رقص کے پھڑکتے بدن کا لہو ہوں میں

 

اک دوسرے سے کہتے نہیں ، جانتے تو ہیں

تُو میرے چارسو ہے ، ترے چارسو ہوں میں

 

مجھ کو بھی گنگنا اے تہجد گزار دل

تیرے لئے تو نغمۂ اللہ ہو ہوں میں

 

منصور کیا کرے گا زمانے کا شور و غل

تُو میری آرزو ہے تری آرزو ہوں میں

٭٭٭

 

 

 

 

 

سلوک خود سے کیا غیر کی طرح میں نے

اسے بھی چھوڑ دیا شہر کی طرح میں نے

 

وہ چاند رات کی وحشت کے بعد ہفتوں تک

سکوت تان لیا بحر کی طرح میں نے

 

شبِ فراق کی تلخی بہت تھی سو تجھ کو

پیا شراب کسی زہر کی طرح میں نے

 

وہ چل رہی تھی سمندر کے نرم ساحل پر

اسے سمیٹ لیا لہر کی طرح میں نے

 

بدن سے اپنے گزرنے دیا سدا اس کو

مثالِ آب کسی نہر کی طرح میں نے

 

وہ حادثاتِ زمانہ کی پتلی تھی منصور

اسے گزار دیا خیر کی طرح میں نے

٭٭٭

 

 

 

 

 

چلا گیا ہے وہ اب شور اس کے بعد نہ کر

سکوتِ درد میں اے دل بہت فساد نہ کر

 

مرے مزاج کا حصہ ہے یہ اکیلا پن

کہا ہے تجھ سے جو اس پہ تُو اعتماد نہ کر

 

اداسیوں بھری تنہائی ہے بہت سندر

یہ خامشی کی غزل سُن کسی کو یاد نہ کر

 

ترے لئے ہے بنایا یہ دانۂ گندم

نفس نفس میں سلگتا ہوا جہاد نہ کر

 

سیاہی رہنے دے صحنِ حیات میں منصور

ملال خانۂ شب کو چراغ زاد نہ کر

٭٭٭

 

 

 

 

سوگئے ہیں ہار کر سب رات کے جاگے ہوئے

صبح کے روشن تصورات کے جاگے ہوئے

 

رات کی پچھلی گلی میں ایک میں اور ایک چاند

جاگتے پھرتے ہیں دو حالات کے جاگے ہوئے

 

رونے پہ پابندیاں ہیں ، قہقہے ممنوع ہیں

کیا کریں ہم ہجر کے صدمات کے جاگے ہوئے

 

اے شبِ گرم و ملائم رہ ابھی آغوش میں

تیرے پہلو میں ہیں تیرے ساتھ کے جاگے ہوئے

 

دیدۂ شب میں پہن کر بارشوں کے پیرہن

پھر رہے ہیں موسمِ برسات کے جاگے ہوئے

 

کھو گئے منصور آخر زردیوں کی نیند میں

موسمِ گل کی توقعات کے جاگے ہوئے

٭٭٭

 

 

 

 

وہ ساعتِ جدائی وہ ہجراں نگر وہ شام

اس دل میں حوصلہ تو بہت تھا مگر وہ شام

 

گرنی تو تھی افق میں گلابوں کی سرخ شاخ

لیکن گری کہیں بہ طریق دگر وہ شام

 

رکھے ہیں بام چشم پہ میں نے بھی کچھ چراغ

پھر آ رہی ہے رات پہن کر اگر وہ شام

 

شانوں پہ پھر فراق کی زلفیں بکھیر کر

افسردہ سی اداس سی آئی ہے گھر وہ شام

 

مژگاں کی نوک نوک پہ آویختہ کرے

منصور کاٹ کاٹ کے لختِ جگر وہ شام

٭٭٭

 

 

 

 

چیختی ہے بے زبانی شہر میں

درد کی ہے حکمرانی شہر میں

 

صرف دیوارِ وفا اونچی نہیں

ہر طرف ہے بد گمانی شہر میں

 

رو رہا ہے آسماں جانے کسے

پھیلتا جاتا ہے پانی شہر میں

 

جاتے جاتے ایک کردارِ وفا

لکھ گیا کیسی کہانی شہر میں

 

گاؤں والو دیکھتے کیا ہو مجھے

چھوڑآیا ہوں جوانی شہر میں

 

آرہے ہیں آسماں کے مالکان

بڑھ رہی ہے لا مکانی شہر میں

٭٭٭

 

 

 

 

 

دل سے ناراض تھااس زود فراموش سے میں

بولتا پھر بھی رہا چہرۂ خاموش سے میں

 

زندگی حسنِ صراحی کے علاوہ بھی ہے

کہہ رہا ہوں یہی اس چشمِ بلانوش سے میں

 

چاہتا ہوں کہ اٹھا لوں اے مری جانِ حیات

بوجھ بے رحم مسائل کا ترے دوش سے میں

 

تیری شادابی ٔ جاں میں ہے نزاکت کتنی

پوچھنا چاہتا ہوں بسترِ گل پوش سے میں

 

ہر طرف ایک جہنم تھا ستم کا منصور

جب نکالا گیا باہر تری آغوش سے میں

٭٭٭

 

 

 

 

 

شاید تمام ہونے کو ہے رات کی گھڑی

کچھ کہہ رہی ہے مجھ سے ترے ہاتھ کی گھڑی

 

باہر سے لوٹ جائے وہ امید کی کرن

اب ختم ہو چکی ہے ملاقات کی گھڑی

 

اچھی ہیں اس کی یہ متلون مزاجیاں

ممکن ہے پھر وہ آئے مدارات کی گھڑی

 

بہتا ہے میرے سامنے سرچشمۂ دعا

پتھرا گئی ہے مجھ میں مناجات کی گھڑی

 

منصور بہہ رہا ہے مرے وقت سے لہو

ٹھہری ہوئی زخم میں حالات کی گھڑی

٭٭٭

 

 

 

 

وہ جو تیری طرف نہیں ہوتے

گولیوں کے ہدف نہیں ہوتے

 

تارے ہوتے ہیں صرف پلکوں پر

ہر طرف صف بہ صف نہیں ہوتے

 

روح پر پھیر اپنی نرماہٹ

جسم اندر سے رف نہیں ہوتے

 

بات ہم تک پہنچ ہی جاتی ہے

سارے جملے حذف نہیں ہوتے

 

ہم شرابی نئی طرح کے ہیں

یونہی ساغربکف نہیں ہوتے

 

سب سمندر ہیں قطرۂ جاں میں

ہم صدف در صدف نہیں ہوتے

 

عشق کرنا خیال سے منصور

خوبرو با شرف نہیں ہوتے

٭٭٭

ماخذ:

http://mansoorafaq.com

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید