FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

فہرست مضامین

محبت کی نظمیں

 

(’میں عشق میں ہوں‘ مجموعے کی نظمیں) *    

 

 

 

               منصور آفاق

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

(*باقی غزلیں نصف ’میں عشق میں ہوں‘ اور نصف ’ مژہ پر سبز آنسو‘ عنوانوں کی ای بکس کے تحت جمع و ترتیب دی گئی ہیں)

 

 

 

 

 

گم شدہ دوست چاندنی کے نام

 

اک لڑکی کلی جیسی

چاندی کے ورق جیسی ، سونے کی ڈلی جیسی

اک لڑکی چنبلی سی

معشوق وہ رنگوں کی ، خوشبو کی سہیلی سی

اک لڑکی گلابوں سی

و ہ برف کے موسم میں ، ہنزہ کی شرابوں سی

وہ نام نزاکت کا

الھڑ سی جوانی پر ، جوبن تھا قیامت کا

موسم کی ادا جیسی

وہ سندھ کے ساحل پر چیتر کی ہوا جیسی

سورج کی کرن جیسی

ریشم سے ملائم وہ ، مخمل کے بدن جیسی

وہ دوست کتابوں کی

تھی دن کے اجالے میں ، وہ رات ثوابوں کی

کیا جانیے ہستی میں

اب چاندنی رہتی ہے ، کس چاند کی بستی میں

٭٭٭

 

 

 

اشتہار برائے ضرورت

 

مجھے اک خوبصورت دوست کی فوری ضرورت ہے

مرے گھر میں کسی خوش بخت کی فوری ضرورت ہے

صباحت خیز رنگت ہو ، صبا سی چال رکھتی ہو

بڑا شاداب چہرہ ہو، سنہرے بال رکھتی ہو

وہ کالی جھیل سی آنکھیں ، شفق سے گال رکھتی ہو

ادھوری شام رہتی ہو ، لب و رخسار میں اس کے

کوئی اقرار شامل ہو کہیں انکار میں اس کے

وہ چائے بھی بناتی ہو قرینے سے سلیقے سے

اسے شرمانا آتا ہو مگر اچھے طریقے سے

قلو پطرہ سے لب ہوں مسکراہٹ مونا لیزا سی

دوپٹے بھولتی پھرتی ہوئی الھڑ دوشیزہ سی

کوئی مستانی لڑکی ہو ، کوئی دیوانی لڑکی ہو

کئی کہسار و دریا ہوں کنارِ خواب تک اس کے

مسلسل چلتے رہنا ہو کنارِ خواب تک اس کے

بدن سے بات کرتی ہو ،نظر سے کیت کہتی ہو

میانوالی کے جیسی ہو ، میاں والی میں رہتی ہو

ملائم نرم و نازک ساتھ کی فوری ضرورت ہے

کسی تازہ حنائی ہاتھ کی فوری ضرورت ہے

کسی اخبار میں دیتا ہوں جا کر اشتہار اپنا

مجھے اک خوبصورت دوست کی فوری ضرورت ہے

مرے گھر میں کسی خوش بخت کی فوری ضرورت ہے

٭٭٭

 

 

 

 

مجھے تیری تمنا تنگ کرتی ہے

 

تجھے میں نے کہا نا

شبِ ہجراں

کہانا

تنگ کرتی ہے

مجھے تیری تمنا تنگ کرتی ہے

کتابوں اور خوابوں میں

کہیں کھونے نہیں دیتی

مجھے آرام سے شب کو

کبھی سونے نہیں دیتی

سرھانے کو دبوچے جا رہا ہوں میں

تجھے بستر پہ سوچے جا رہا ہوں میں

تجھے بستر پہ سوچے جا رہا ہوں میں

٭٭٭

 

 

 

 

جانِ جاں

 

تیرے غم سے فروزاں کوئی غم نہیں

ظلم کی ، جبر کی رات اپنی جگہ

بے بسی کے یہ ظلمات اپنی جگہ

یہ دھڑکتے ہوئے یہ لپکتے ہوئے

بھوک کے بدنما ہاتھ اپنی جگہ

نبضِ شہرِ نگاراں بھی مدھم نہیں

تیرے غم سے فروزاں کوئی غم نہیں

 

درد کی انجمن ہی سہی یہ وطن

کوئے دار و رسن ہی سہی یہ وطن

تند و تاریک گلیوں میں پھیلی ہوئی

اک مسلسل گھٹن ہی سہی یہ وطن

تیرے ہجراں کی شب بھی مگر کم نہیں

تیرے غم سے فروزاں کوئی غم نہیں

 

تیرا غم ہے زمانوں پہ پھیلا ہوا

زندگی کے جہانوں پہ پھیلا ہوا

خاک مٹھی میں اس کی ہے سمٹی ہوئی

عرش تک آسمانوں میں پھیلا ہوا

تیرے دکھ سے بلند اور پرچم نہیں

تیرے غم سے فروزاں کوئی غم نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

یاد

 

﴿اختر شیرانی کے نام ﴾

 

کیا اب بھی گھڑے بھرنے دریا پہ وہ آتی ہے

کیا اب بھی مری باتیں سکھیوں کو سناتی ہے

 

کیا اب بھی وہ ایڑی سے کرنوں کو اڑاتی ہے

کیا اب بھی ہواؤں سے زلفوں کو چھڑاتی ہے

 

کیا اب بھی وہ گزرے تو اک آگ سی لگ جائے

کیا اب بھی وہ بھیگے تو برسات سلگ جائے

 

کیا قوس قزح اب بھی پازیب ہے پاؤں کی

اے شام سنی تُو نے آواز ہواؤں کی

پھر مجھ کو بلاتی ہیں گلیاں مرے گاؤں کی

٭٭٭

 

 

 

لمس کے داغ

 

تجھ سے پہلے بھی کئی لوگ ملے تھے مجھ کو

تجھ سے پہلے بھی مری آنکھ میں رعنائی تھی

 

تجھ سے پہلے بھی کئی پھول کھلے تھے دل میں

تجھ سے پہلے بھی بیاباں میں بہار آئی تھی

 

اب کے برکھا نے دکھائے ہیں مگر باغ نئے

وصل کے زخم نئے،لمس کے کچھ داغ نئے

٭٭٭

 

 

 

یاد کے ویراں کدے سے

 

 

چوڑیوں کے ٹوٹے ٹکڑوں سے

گری تنہائیاں

روشنی اک بلب کی

چیزوں کی کچھ پر چھائیاں

رات کے کچھ ادھ جلے سگریٹ کے ٹکڑے فرش پر

خواب کچھ رکھے ہوئے

بیخواب بستر کے قریب

وصل کی کافی کے دو آدھے پیالے میز پر

کچھ کتابیں ، پینسلیں

اور کچھ رسالے میز پر

یاد کے ویراں کدے میں اور تو کچھ بھی نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

بارش

 

کھڑکیوں پہ ٹوٹتی

پاگل ہوائیں رات کی

چیختی روتی ہوئی

اونچی صدائیں رات کی

روح میں وحشت

نظر میں آنسوؤں کا رتجگا

تیز بارش

میرے اندر اور باہر

ہر جگہ

٭٭٭

 

 

 

 

لڑکیوں کیلئے ایک نظم

 

زرد پھولوں کی بہاریں

منظروں میں گھل گئیں

کٹ چکی سرسوں

خزائیں ہنس رہی تھیں کھیت پر

پھر اچانک حیرتوں میں ذہن میرا گم ہوا

ایک تنہا پھول ٹہنی پر لہکتا دیکھ کر

ایک تتلی بن گئی میرے تعجب کا جواب

طوفِ گل میں منہمک جس وقت وہ آئی نظر

میں نے سوچا کاٹنے والی کوئی لڑکی ہی تھی

کب ہے میرے شہر کے مردوں کو جذبوں کی خبر

﴿مغربی ادب سے ﴾

٭٭٭

 

 

 

 

مغنی

 

سردیوں کی ایک شب تھی اور آتش دان تھا

ہلکی نیلی روشنی میں منجمد تھا خواب گاہ

وقت رقصاں تھا کسی کی دکھ بھر ی آواز پر

کوئی افسردہ سا کیسٹ بج رہا تھا ٹیپ میں

کانچ کی کھڑکی پہ تھیں مرکوز نظریں دیر سے

چودھویں چاندنی اتری ہوئی تھی فرش پر

چپ صنوبر کا شجر تھا برف بستہ لان میں

اور اپنے گھونسلے میں کوئی اجڑی فاختہ

سوچتی تھی کرب میں ڈوبی ہوئی ہر تان پر

میرے زخموں کی خبر کیسے مغنی کو ہوئی

٭٭٭

 

 

 

 

زرد پتوں کو پہن لو

 

 

بہاروں سے بھری لڑکی

چلو اب زرد پتوں کو پہن لو

اپاہج موسموں کے درد

اپنی مانگ میں بھر لو

کسی کی یاد کی بیساکھیوں کو اب شریکِ زندگی کر لو

جو ہر رت میں مچلتے تھے

وہ پاؤں کٹ گئے شاخِ تمنا کے

بہاروں سے بھری لڑکی

چلو اب ٹوٹے خوابوں کی خزاں کو

اوڑھ کر ہی جی لیا جائے

جو پھولوں کی طرح کھلتے تھے لب

انہیں اب سی لیا جائے

ہر اک خواہش ، ہر اک آنسو ، ہر اک جذبہ

بدن کے بند کمرے میں کہیں رکھ کر

مقفل کر دیا جائے

٭٭٭

 

 

 

 

مرے گیت تُو کہاں ہے

 

 

مر ے گیت تُو کہاں ہے

مرے میت تُو کہاں ہے

کسی شامِ معتدل میں

تری پھول پھول کھلتی

ہوئی گفتگو کہاں ہے

لبِ مشکبو کہاں ہے

مرے یار تُو کہاں ہے

 

ترا ساتھ زندگی ہے

ترا ہاتھ زندگی ہے

تری خوشبوئے بدن میں

کوئی خوابناک جادو

ترے پیرہن کے پیچھے

گلِ سرخ رو کے نیچے

کوئی آگ جل رہی ہے

تری گرم مسکراہٹ

مری آنکھ کے ہرن کو

کسی دشتِ خوبرو میں

رکھے پہلوئے کرم میں

ترے عشوہ و ادا کی

جہاں آب جو بہی ہے

وہیں سبزۂ تبسم

وہیں لالۂ تکلم

تُو بہار ہے سراپا

مری آنکھ میں خزاں ہے

مرے میت تُو کہاں ہے

مرے گیت تُو کہاں ہے

 

تُو ہی میرا فن ہے لَے ہے

مرا حرف میری نَے ہے

تجھے گنگناؤں شب بھر

تجھے روز گاؤں شب بھر

بڑے لطف و ناز سے میں

مرے گیت تُو کہاں ہے

مرے میت تُو کہاں ہے

٭٭٭

 

 

 

 

وصل خانۂ حیات

 

ایک سپنا

خواب اپنا

خوبصورت زندگی

جس میں تم ہو

جس میں میں ہو

وصل گھر ہو

عمر بھر ہو

٭٭٭

 

 

 

اے مری سخی سرکار

 

میرے ساتھ گزارو گی

جو پیار بھرے دو پل تو

کیا نقصان کرو گی اپنا

تم میں کیا کم ہو جائے گا

میرے پاکیزہ ہاتھوں کے چھو لینے سے

میل نہیں لگ جائے گی

میرے شانوں پر آ گرنے سے

تیرے بالوں میں دھول نہیں پڑ جائے گی

الٹا اور بڑھے گی

رخساروں پر گرم لہو کی سرخی

اور بدن کھل جائے گا

کچھ اور حسین ہو جاؤ گی

٭٭٭

 

 

 

 

الجھن

 

 

کیا میرا چہرہ اتنا سادہ ہے

کیا میری باتیں اتنی بھولی بھالی ہیں

اتنے دن سے میری آنکھیں

تم سے کچھ بھی کہہ نہ سکیں

تم ہی مجھ سے پوچھ رہی ہے

’’تم بھی پیار سے جانت وانت رکھتے ہو

اپنے خواب خزانے میں

یادوں کی دلدار امانت رکھتے ہو‘‘

کیا میرا چہرہ اتنا سادہ ہے

کیا میری باتیں اتنی بھولی بھالی ہیں

یا پھر تم کچھ اور بھی جاننا چاہتی ہو

یا پھر تھوڑی دیر کی ساتھی ہو

٭٭٭

 

 

 

 

پہلی نظر

 

اِدھر بھی بے یقینی ہے

اُدھر بھی بے یقینی ہے

بھلا کیسے یہ ممکن ہے

کہ پہلی ہی نظر میں

کسی سے پیار ہو جائے

مگر پہلے کسی ایسی

میں کیفیت سے گزرا تو نہیں ہوں

محبت ہو گئی ہے ۔۔

ہاں محبت ہو گئی ہے

یقیناً مجھ کو تم سے

محبت ہو گئی ہے

یقیناًآسمانوں پر تعلق تھا ہمارے بیچ کوئی

یقیناً پچھلے جنموں کے کوئی بچھڑے ہوئے

ساتھی ہیں ہم دونوں

تمہیں کیسے یقین آئے گا لیکن

تمہاری بے یقینی کوئی ناجائز نہیں ہے

کہ ایسا صرف ہوتا ہے محبت کی کتابوں میں

خیالوں اور خوابوں میں

مگر اے دوست میں کیسے کہوں تم سے

کہ اب کی بار یہ سب کچھ حقیقت میں ہوا ہے

مجھے تم سے محبت ہو گئی ہے

مجھے تم سے محبت ہو گئی ہے

یہی پہلی نظر بس آخری ہے

٭٭٭

 

 

 

رقعہ

 

یہ دیارِجنس کے دن

دھوپ رت کے

یہ قیامت خیز راتیں

برف رت کی

یوں گزر سکتی نہیں

اے شریک جسم و جاں

تیری ضرورت ہے مجھے

٭٭٭

 

 

 

 

کسی کی نزاکت کو دیکھ کر

 

محبت اور پھر میری محبت

نہیں یہ بوجھ تجھ سے اٹھ نہیں سکتا

تُو نازک ہے بہت نازک

محبت میری وحشی ہے

محبت میری سرکش ہے

کوئی طوفانی بارش جنگلوں کو

جس طرح مصلوب کرتی جا رہی ہو

کوئی بے چین جھرنا جس طرح

’’نے‘‘ کے تعاقب میں

مسلسل ضابطوں سے قاعدوں سے مارو آ

مسلسل متحرک

اضطراب افزا

نہیں یہ بوجھ تجھ سے اٹھ نہیں سکتا

٭٭٭

 

 

 

 

معذرت

 

جن کو غیرت مند دل نے

خاکِ پا سمجھا نہ تھا

تُو نے ان کے سامنے بھی

مجھ کو رسوا کر دیا

مجھ کو لگتا ہے مری جاں

تیری محفل کے بھی میں قابل نہیں

جو اٹھائے ترے بے جا ناز

میرا دل نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

سوچناکہ کیوں میں سوچتا ہوں

 

 

میں اگر چاہوں

تواک حسنِ جہاں ہو آس پاس

خوبصورت موسموں کا گلستاں ہو آس پاس

میں اگر چاہوں

گزاروں لڑکیوں میں رات دن

ان لپکتی تھرتھراتی بجلیوں میں رات د ن

میں اگر چاہوں ۔۔

تو اشکوں سے ستارے ڈھال دوں

چاند کی گردن میں یہ بے چین باہیں ڈال دوں

میں اگر چاہوں

مگر کیوں ۔کس لئے چاہوں

٭٭٭

 

 

 

 

محبت جو تمہیں ہوتی

 

محبت جو تمہیں ہوتی

تو تم ایسے نہیں ہوتے

تمہارا کھردرا پن

تمہارے لہجے کی وحشت

تمہارے حکم نامے

تمہاری چال کی سختی

رعونت

کسی ایسے بدن میں ہو نہیں سکتے

جہاں دل ہو

محبت کرنے والا دل

محبت جو تمہیں ہوتی

تو تم ایسے نہیں ہوتے

٭٭٭

 

 

 

وئلنٹائن کے دنوں کی نظمیں

valentine’s day poems

 

 

 

آ مرے پاس آ

 

تم سمندر کی اٹھتی ہوئی لہر ہو

میں کنارے پہ بکھری ہوئی ریت ہوں

منتظر ہوں ترا ۔ہاتھ اپنا جواں ریت پر پھیر کر

اپنی پوروں سے ہموار کر دے مجھے

اپنے پانی کی پُر جوش نرمی سے بھر دے مجھے

اپنی پاگل روانی کی گرمی سے بھر دے مجھے

ولن ٹائن کے دن کہہ رہا ہوں تجھے

ولن ٹائن مری!

آ مرے پاس آ

اے ہواؤں میں اڑتی ہوئی لہر آ

بھربھری ریت کو اک سنہرے سے ساحل میں تبدیل کر

مجھ کو اپنے سمندر میں تحلیل کر

٭٭٭

 

 

 

 

زانوئے جاناں کیلئے نظم

 

تمہی جانِ تمنا ہو

بہت ہی خوبصورت ہو

ہماری زندگی کی ایک اعلیٰ تر ضرورت ہو

محبت کیلئے اپنی

کیا ہے انتخاب ہم نے تمہارا

تلاشِ حسن میں دونوں جہاں بھی

اگر ہم گھوم لیتے

تم ایسی چیز مل سکتی نہیں تھی

دل و جاں کی طلب گاہوں میں سندرتا

کوئی بھی اور کھل سکتی نہیں تھی

بدل کوئی تمہارا ہو نہیں سکتا

بجز جاناں ہمارے

تمہارے زانوئے آسودگاں پہ اور کوئی سو نہیں سکتا

ہمیں دھڑکن سنائی دے

محبت ایک دھڑکن ہے

حواسِ خمسہ کی دھڑکن

مقامِ روح میں پھیلے ہوئے احساس کی دھڑکن

بہت ہی پاس کی دھڑکن

محبت نور کے دریائے جاں میں ڈوب جانا ہے

محبت لمس کے آبِ رواں میں ڈوب جانا ہے

محبت ان نگاہوں سے اترتی ہے

جو دل میں دیکھ سکتی ہیں

تری میری وفا بھی

اسی زندہ محبت کی کہانی تھی

مجسم شادمانی تھی

مکمل زندگانی تھی

مگر اب جسم دو ٹکڑوں میں اپنا ہے

ادھوری ہو گئی تو بھی

ادھورا ہو گیا میں بھی

چلو اس ولن ٹائن ڈے پہ مل جائیں

بدن پھر ایک ہو جائے

مجھے تیری ، تجھے میری

سنائی پھر سے دھڑکن دے

یہی دھڑکن محبت ہے

یہی دھڑکن محبت ہے

٭٭٭

 

 

 

وئلنائن ڈے

 

کارڈ بھی بھیج چکا ہوں کتنے

اور تحائف بھی کئی سرخ ربن میں لپٹے

کچھ تو کہہ تُو بھی جواباً مجھ سے

دن محبت کا پھر آیا ہوا ہے

پھر ترے نام کے آسیب کا سایہ ہوا ہے

٭٭٭

 

 

 

تعبیر کی تلاش میں

 

 

عشق آباد کے کہساروں میں چاند نگر کی وادی تھی

شہزادی کا راج محل تھا خواب گلی کے نکڑ پر

آویزاں تھے دیواروں پر نقشِ محبت صدیوں کے

کچھ کچھ شام کی مخمل مخمل نرم شعاعیں باقی تھیں

ایک کھلی کھڑکی سے اس کا کومل کومل نصف بدن

جھانک رہا تھا باہر اپنی شوخ قیامت خیزی سے

کتنے برسوں سے یہ خواب یہیں رک جاتا ہے

کھل جاتی ہیں اپنی آنکھیں اس تاریک زمانے میں

لگتا ہے موجود ہے کوئی خوابوں کے ویرانے میں

٭٭٭

 

 

 

تلور کے لئے ایک نظم

 

بادلوں کے دامنوں میں اشک تک باقی نہ تھا

ڈوبتی تھیں ریت کے ذروں کی پیاسی دھڑکنیں

تھل کے ہونٹوں پر سمٹ آئیں بدن کی حسیات

اور کوئی خشک ’ٹوبھا‘ اپنی تہہ میں جھانک کر

سوچتا تھاچاند اس میں اب اتر سکتا نہیں

اتنا غمگیں دیکھ کر اس ریت کے تالاب کو

اک پرندہ رو پڑا بے آب رت کے کرب پر

اور’ تھل مارو‘ کے ٹوبھے آنسوؤں سے بھر گئے

 

﴿تلور۔۔ ایک پرندہ جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ خشک سالی کے موسم میں فریاد کرتا ہے اور بارش ہونے لگتی ہے ﴾

٭٭٭

 

 

 

وہم

 

یہ میں جس میں رہ رہا ہوں کہیں خواب ہی نہ ہو

کہیں ٹوٹ ہی نہ جائے یہ طلسمِ رنگ و نور

کہیں تم ہی یہ نہ کہہ دو ’’کہیں ہم ملے شاید‘‘

٭٭٭

 

 

 

 

مشورہ

 

 

مرا یہ مشورہ ہے

کسی بندھن سے پہلے

کچھ ملاقاتیں ضروری ہیں

تجھے بھی علم ہونا چاہئے

کچھ میرے بارے میں

مجھے بھی علم ہونا چاہئے

کچھ تیرے بارے میں

ابھی کتنا ہی ہم اک دوسرے کو جانتے ہیں

یہی دو لنچ ۔۔چائے سہ پہر کی

اک ڈنر اور وہ بھی آدھا سا

فقط کچھ گفتگوئیں فون پر ہوتی ہوئی

سارا اثاثہ ہیں

بقول قاسمی اپنی ’’ملاقاتیں ادھوری ہیں ‘‘

کسی بندھن سے پہلے

کچھ ملاقاتیں ضروری ہیں

٭٭٭

 

 

 

عشقِ مجاز کے چند لمحے

 

اب اس سولہ سالے۔۔

دلکش بھولے بھالے۔۔

نیلے نینوں والے

لڑکے سے درخواست کرو

’’شرنا‘ کی آواز پہ ناچے ۔۔ جیسے کتھک ناچ کیا تھا کل اس نے

نازک قوس کلائی کی۔۔

قوسِ قزح کے رنگ بکھیرے

نرم تھراہٹ پاؤں کی۔۔

جیسے پارہ ٹوٹتا جائے

تھر کاتا جائے اپنے بم

گھومے اپنی ایڑھی پر

اور تناسب نرم بدن کا

تھال کے تیز کناروں پر دکھلائے

او! رومی کے نغمے گانے والی۔۔۔

سرخ سفید رقاصہ

آج تمہاری محفل میں

میرے ہمرہ آئے ہوئے ہیں

حافظ ، خسرو، بلھے شاہ اور مادھو لال حسین

٭٭٭

 

 

 

محبت کیلئے تین نظمیں

 

               نئی سوچ

 

کتابوں میں رکھے ہوئے خوب

دیمک زدہ ہو گئے ہیں

زندگی کمپیوٹر کی چِپ میں کہیں کھو گئی ہے

اڑانوں کے نوچے ہوئے آسماں سے

چرائے ہوئے چاند تارے

مری خاک کی تجربہ گاہ میں

اب پڑے۔۔ ڈر رہے ہیں

زمیں اپنے جوتوں کی ایڑھی کے نیچے

انہیں نہ لگا دے کہیں

اجالوں کی رحمت بھری دھوپ چمگادڑوں کی

نظر میں ملا دی گئی ہے

عجائب گھروں میں پرانے زمانے کی مضبوط انگیا

اور ماضی سے وابستہ شہوت کی کھالیں

سجادی گئی ہیں

اک امرد پرستی کے بازار کے

بدنما پادری کے گلے کی صلیبیں

مسیحا کی چھاتی کی زینت بنا دی گئی ہیں

ازل سے گزرتے ہوئے وقت کے سنگ کی

ایک تحریر ۔۔ میرا بدن

میں صدیوں پرانا کوئی شخص ہوں

مجھے اپنی آنکھیں پرانی لحد میں چھپانی پڑی ہیں

مجھے اپنے کانوں میں سیسے کا سیال بھرنا پڑا ہے

مگر کچھ سوالوں بھری ۔۔زپ ہوئی ایک فائل۔۔آتے ہوئے وقت کے فولڈر میں

’’نئی سوچ ‘‘کے نام سے رکھ رہا ہوں ۔۔

اسے دیکھ لینا۔

٭٭

 

               ان زپ فائل

 

 

کتابوں میں رکھے ہوئے تتلیوں کے پروں کی شفق اب کہاں جائے گی

درختوں پہ لکھے ہوئے نام سے

یار کو بھیجنے والے رومال پر

سرخ ریشم کے ہوتے ہوئے کام سے

رنگ و خوشبو کے مہکے ہوئے بام سے

ہجر کی صبح سے ، وصل کی شام سے

گفتگو کرنے والا

مرے جیسا ٹوٹے ہوئے خواب شب بھر رفو کرنے والا کہاں جائے گا

٭٭

 

 

               رسپانس

 

تمہیں اپنے ہاتھوں کو آرے سے

کیوں کاٹنا پڑ گیا ہے

تمہیں اپنے پاؤں سے بھاری چٹانوں کو

کیوں باندھنا پڑ گیا ہے

کہو نور سے تیز رفتار اڑتے پرندوں پہ

بیٹھے ہوئے خاک رو۔۔کچھ کہو

کچھ کہو کمپیوٹر کی بڑھتی ہوئی دسترس کے

جہاں ساز ماحول نے

کس بلندی سے تجھ نوازا کہو۔

سوچنے پر میسر جہاں چیز ہو جاتی تھی۔۔۔

وہ بہشتِ حسیں

جس کا وعدہ تھا وہ سر خوشی خاک پر تم کو دے دی گئی

اپنے ہاتھوں سے نرماہٹوں کو چھوؤ،

اپنے کانوں کو رس گھولتی روشنی بخش دو

اپنی آنکھوں میں پھیلا دو بس حسن کو

اپنے پاؤں کو قالین کی نرم آغوش میں

لمس کے راستے پہ روانہ کرو۔

دوستی ۔۔۔رس بھری زندگانی سے بس دوستی۔

٭٭٭

 

 

 

مری جاں ! منتظر رہنا

 

آب جو کے ساتھ چلتی ایک پٹڑی اور میں

اپنے موٹر سائیکل کی تیز تر رفتار پر

سوچتا ہوں وقت سے آگے نکل آیا مگر

یہ کلائی پر بندھی راڈو کی روپہلی گھڑی

اپنی سوئی کی سبک اندام حرکت سے مجھے

پھر جکڑ دیتی ہے لمحوں کی کسی زنجیر میں

منتظر رہنا مری جاں ۔ساعتوں کی قید سے

بس نکل آؤں گا تھوڑی دیر میں ۔۔کچھ دیر میں

٭٭٭

 

 

 

 

لمحۂ وصال کھوجتی لکیر

 

نیم تاریک گلی ، رات کی پچھلی سانسیں

مرے قدموں سے نکلتے ہوئے لمبے سائے

ایک دروازے سے بہتی ہوئی روشن سی لکیر

میری بہکی ہوئی نظروں کی توجہ کیلئے

اپنی قامت میں بہت ردو بدل کرتی رہی

میں مگر ذات کے صحرا کہیں کھویا ہوا

خواب بنتی ہوئی بخ بستہ ہوا میں گم تھا

مجھ کو معلوم نہیں تھا کہ اجالے کی لکیر

اک سلگتے ہوئے جذبے کی خبر دیتی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

سالگرہ کا تحفہ

 

بائیس برس کی سالگرہ پر

بھیج مجھے پھر نظم کا تحفہ

نظم صبا کی ، نظم سحر کی

نظم تری دلدار نظر کی

نظم ترے پُر جوش سخن کی

نظم ترے گل پوش دہن کی

نظم ترے بھرپور بدن کی

بائیس برس کی سالگرہ پر

بھیج مجھے پھر نظم کا تحفہ

٭٭٭

 

 

 

 

سالگرہ کا خط

 

تجھے برتھ ڈے پہ اے جان جاں

کوئی تحفہ بھیج رہا ہوں میں

اسے اپنے ہاتھ سے کھولنا

اسے احتیاط سے کھولنا

تری دھڑکنوں سے بھرا ہوا

مرا دل ہے اس میں رکھا ہوا

تری روشنی سے بھری ہوئی

مری آنکھ اس میں رکھی ہوئی

ترے منظروں سے بھرے ہوئے

مرے خواب اس میں رکھے ہوئے

تری دید کے ، تری یاد کے

ہیں گلاب اس میں رکھے ہیں

مری ایک ہی شبِ وصل کا

ہے ثواب اس میں رکھا ہوا

ترے ہجر کے اسی سال کا

ہے حساب اس میں رکھا ہوا

اسے اپنے ہاتھ سے کھولنا۔اسے احتیاط سے کھولنا

٭٭٭

 

 

 

 

کہیں کچھ دیر بیٹھیں

 

تمہیں معلوم ہوں گی شہر بھر کی کھڑکیاں وہ بھی

جو میرے واسطے کھلتی ہیں

اکثر چاند راتوں میں

جو مجھ پر مہرباں ہیں

تم نے دیکھیں لڑکیاں وہ بھی

مری دلداریاں بھی تم سے پوشیدہ نہیں شاید

مجھے ہر ہر قدم پہ دعوتِ نظارہ ملتی ہے

جوانی کی لچک ہر گام پہ آوارہ ملتی ہے

مگر میں ہوں تمہارا چاہنے والا

تمہی سے گفتگو میری

تمہی ہو جستجو میری

چلو آؤ کہیں چل کر ذرا کچھ دیر بیٹھیں اور سوچیں

مراسم کے مسائل پر

محبت کے وسائل پر

٭٭٭

 

 

 

محبت سوچتی ہے

 

یونہی کیا بے سبب میں نے

تجھے دلدار ٹھہرایا

تری چشم کرم کو صبح کا شاہکار ٹھہرایا

ترے رخسارو لب کوحسن کا معیار ٹھہرایا

تہجد کی ہواؤں اور اشکوں کی دعاؤں میں

دھلی تازہ سحر جانا

تمہیں جانِ تمنا کہہ دیا خلدِ نظر جانا

یونہی کیا بے سبب میں نے؟

نہیں ایسا نہیں ۔۔ہرگز

بہت کچھ سوچ کر تجھ کو

ترے پاگل نے چاہا ہے

محبت کیا کر

یہ تیری شخصیت کے رنگ

پھولوں کی طرح شاداب ہو جائیں

محبت کو پہن لے اور مخمل کی طرح ہو جا

یہ بالوں کو بناتے کا سکھاتی ہے سلیقہ

یہ کپڑوں کو بدلنے کی بھی عادت ڈال دیتی ہے

کریزیں ٹھیک رکھتی ہے

یہ شکنوں سے بچاتی ہے قمیضوں کو

یہ جوتوں کی سیاہی کو چمک ہر روز دیتی ہے

محبت گفتگو کو نازکی دیتی ہے کلیوں کی

محبت زندگی کو ایک رونق بخش دیتی ہے

محبت خوبصورت تر بناتی ہے

بدن پر تتلیوں کے پر بناتی ہے

وفا کے ساحلوں پہ گھر بناتی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

نسبت کا پیوند

 

ماں نے کہا

’’رک جاؤ بیٹے ، رک جاؤ ۔۔ تم مر جاؤ گے

اور سپاہی بیٹا ۔ خستہ گھر کی ٹوٹی ہوئی دہلیز پہ رک کر

ماں کے پاؤں چھو کے بولا

’’ماں مت روک مجھے

دیکھ پکارا ہے اس خاکِ وطن نے

جو ہم سب کی دھرتی ماں ہے

ماں ! مت روک مجھے ۔۔۔ میں زندہ رہوں گا

زندہ ہے سقراط ابھی تک، عیسٰی دار پہ جی اٹھا تھا

ماں ! شبیر نہیں مر سکتا

سرمد اور منصور ابھی تک زندہ ہیں

پھر تیرا بیٹا کیسے مر سکتا ہے‘‘

ماں نے بیٹے کے ماتھے کو چوما اور کہا

’’تاریخ کے سینے پر تم ، دستِ تحقیق نہ رکھو

میرے چاند! تمہارا علم ادھورا ہے

تم مر جاؤ گے

تم جیسے بے نام مجاہد مرتے آئے ہیں

زندہ ہے سقراط اگر تو اس کے پس منظر میں

اس کا علم بھی ہے اور رتبہ بھی

وہ استاد تھا اپنے وقت کے فاتح کا

تجھ کوعیسیٰ یاد رہا ہے

لیکن اس کے پیچھے جو اعزازِ نبوت ہے وہ بھول گئے ہو

سرمداور منصور تو وقت کے ایسے حاکم تھے

علم رعایا تھا جن کی

شبیر نواسہ تھا سرکاردو عالم کا

اور تم صرف مرے بیٹے ہو

نسبت کا پیوند کہاں سے لاؤ گے

تم مر جاؤ گے ‘‘

٭٭٭

 

 

 

 

تیسرے کردار کی کہانی

 

مری جاں ہاں یہی ہوں گی

تمہارے دیس کی رسمیں

کہ کھاؤ ابتدائ میں پیار کی معصوم سی قسمیں

دلاؤ پھر وفاؤں کا یقین دل کو کرو بس میں

سمجھ لے جب کوئی ناداں

ہمیں الفت ہے آپس میں

نظر پھیرو تڑپنے کیلئے

تنہااسے چھوڑو

کسی نورادرِ الفت سے اپنا رابطہ جوڑو

مری جاں ہاں یہی ہوں گی تمہارے دیس کی رسمیں

مگر میری محبت کی کہانی اور ہے جاناں

کہ اس میں تیسرا کردار ہوتا ہی نہیں ہے

اگر ہو تو اسے پھر مرنا پڑتا ہے

٭٭٭

 

 

 

ناکام محبت کی ایک اور کہانی

 

 

دیکھتا تھامیں اس پھول کو آتے جاتے ہوئے

بیٹھ کر بالکونی میں اکثر مگر

ایک اتوار کی خوش ادا شام میں

اس کا انداز ہی اور تھا

کھل رہا تھا افق کی نکھرتی ہوئی شاخ پر

صبح کے موسموں کی طرح

میں نے رت دیکھ کر اک تبسم کا تحفہ لبوں پر رکھا

اس نے دیکھا مجھے اور شاداب تر ہو گیا

یہ گھڑی اس کہانی کا آغاز تھی

جو یونہی وقت لکھتا گیا

جس کو سوچا نہ تھا

جس کو سمجھا نہ تھا

یہ کہانی جو اشکوں کے پانی سے لکھی گئی ریت پر

یہ کہانی جو آہوں کے شعلوں نے تحریر کی

اس کی بنیاد میں اک تبسم کے لمحے کی تعمیر تھی

ایک کھلتی ہوئی شام کی دلربا سبز تصویر تھی

جو خزاں کے دسمبر میں تبدیل کر دی گئی

ایک تاریک منظر میں تبدیل کر دی گئی

اس کہانی کی تفصیل اتنی ہے بس

ہم ملے ، گل کھلے اور خزاں آگئی

تیسرے شخص کے روپ میں

تیسرا آدمی۔ایک آسیب تھا

بلا کی ذہانت بھری گفتگو، نرم لہجہ

خوش لباسی کا خوش زیب موسم

خوبصورت خدوخال جن کی وضاحت بھی ممکن نہیں

ایسے سندر سے آسیب نے

میرے اس پھول کے ذہن کو منجمد کر دیا

اپنے جادو بھرے رنگ سے بھر دیا

تیسرا شخص آسیب تھا

ایسا آسیب کہ تین سو سے زیادہ شبیں ہو گئیں

آج بھی اس کے کالر کی زینت مرا پھول ہے

٭٭٭

 

 

 

محبت کے انتظار میں ایک نظم

 

محبت معجزہ ہے زندگانی کی کہانی میں

محبت کی کشش ہے کائناتوں کی روانی میں

محبت گنگناتا باغ موسم کی جوانی میں

محبت کی نظر سے آگ لگ جاتی ہے پانی میں

محبت پر کسی کا سیر حاصل تبصرہ سن کر

کہا دل نے، چلو ہم بھی محبت کا ہنر سکھیں

جہاں منزل نہیں رستہ ملے بس وہ سفر سکھیں

کسی اسمِ تعلق سے طلسمِ چشمِ تر سکھیں

مگر خوابوں میں آتی ہی نہیں ہے ساحرہ کوئی

بدن کی قاہرہ کوئی ، ہوا کی شاعرہ کوئی

کرم کی مائرہ کوئی ، نظر کی طاہرہ کوئی

بزرگِ خاص سے تعویذ لینے کی ضرورت ہے

کوئی اسرار بستہ چیز لینے کی ضرورت ہے

٭٭٭

 

 

 

 

جدائی کے بعد پہلی نظم

 

یہ خوشبو سے بھرے پُر رنگ لمحے شام کے

یہ باغیچے میں کھلتے پھول تیرے نام کے

یہ تیرے بعد جانِ جاں مرے کس کام کے

٭٭٭

 

 

 

اجازت

 

 

مجھے اجازت جو یار دیتا میں اپنے غم پر کتاب لکھتا

لہو سے لکھتا کہ میں نے اس کے

ستم کی راتیں گزاری کیسے

فراق رت کی سیاہ چادر پہ کیسے ٹانکے

وفا کے تارے

برہنہ گلیوں پہ کیسے اوڑھے

سکوت کے چاند میں نے

رگوں کے وحشی سمندروں کو

سکون کی رات کیسے دی ہے

جدائیوں کی قیامتوں کو

گزارا کس درد میں ہے میں نے

مجھے اجازت جو یار دیتا

الم کی لکھتا وہ داستانیں

کہ پڑھنے والے بھی چیخ اٹھتے

دلوں کے کالے بھی چیخ اٹھتے

مجھے اجازت نہیں ہے لیکن

دلوں سے چاقو گزارنے کی

کنارِ چشمِ وفا سے آنسو گزارنے کی

٭٭٭

 

 

 

 

خوش گمانی

 

مرے آس پاس ہے بزم میں

کوئی روشنی سی وصال کی

کسی خوش ادا کے خرام سے

جلے دل میں تازہ چراغ سے

کئی قمقموں بھرے باغ سے

کئی جگمگائے ہیں داغ سے

مرے آس پاس ہے مشک سی

کسی خوش بدن کے جمال کی

مری آنکھ میں کوئی کہکشاں

کسی خوبرو کے خیال کی

مری جستجو پہ نزول سا

کسی خوش نگاہ کے ابر کا

یہی ہے صلہ مرے صبر کا

یہی ہے صلہ مرے صبر کا

٭٭٭

 

 

 

محبت ایک خوشبو ہے

 

محبت ایک خوشبو ہے

کہیں پھولوں سے اٹھتی ہے

کہیں کلیوں میں پھرتی ہے

کہیں ہو جائے تو اس کی خبر گلیوں میں پھرتی ہے

بدن پر رنگ کے شاور سے گرتی ہے

فضا رنگین کرتی ہے دھنک میں خواب بھرتی ہے

ہوا کو شوخیاں دیتی ہے جھونکوں کی

زمیں کو سبز کرتی ہے

فلک میں نیل بھرتی ہے

چلو تم بھی پہن لو یہ ردائے رنگ خوشبو کی

چلو میں پہن لوں یہ قبائے رنگ خوشبو کی

چلو گلیوں میں پھیلائیں یہ رعنائی محبت کی

بڑی ہی خوشنما ہوتی ہے رسوائی محبت کی

محبت ایک خوشبو ہے

٭٭٭

 

 

 

 

دل کا دریا بہنے دو

 

 

آنکھیں جو کچھ کہتی ہیں وہ کہنے دو

دل کا دریا بہنے دو

ہونٹوں پر شاداب تبسم رہنے دو

کتنی دیر چھپاؤ گی تم پیار مرا

کتنی دیر نگاہیں پھیرو گی

کتنی دیر محبت کی دلدار ہوائیں پھیرو گی

جانے دو جس سمت بھی زلفیں جاتی ہیں

جانے دو جس سمت بھی نظریں جاتی ہیں

بات کرو جو دل میں ہے

بیٹھ کے میرے ساتھ کہیں

ختم نہ ہو جائے یہ عمر کی سندر رات کہیں

آنکھیں جو کچھ کہتی ہیں وہ کہنے دو

دل کا دریا بہنے دو

ہونٹوں پر شاداب تبسم رہنے دو

٭٭٭

 

 

 

 

آ اے شبِ فراق

 

 

’’آ اے شبِ فراق تجھے گھر ہی لے چلوں ‘‘

کچھ دیر جا کے بیٹھیں گے بستر پہ یار کے

آتی ہے اس سے آج بھی اس کی مہک مجھے

کچھ دیر سرکو رکھیں گے تکیے پہ اس جگہ

اپنی بکھیرتی تھی وہ زلفوں کوجس جگہ

کچھ دیر تم بھی گھومنا کمروں میں یاد کے

ہولے سے اس کے کپڑوں کی الماری کھولنا

لٹکائے اس نے جیسے تھے ویسے ہیں آج بھی

شبنم بھرے گلاب کی کچھ پتیاں بھی ہیں

لائی تھی ایک شامِ وفا میں مرے لئے

شاخِ نظر پہ وہ ترو تازہ ہیں آج بھی

میری طرح سے تم بھی انہیں چھو کے دیکھنا

دیوار پر بڑا سا ہے فوٹو لگا ہوا

اس کی پرارتھنا بھی کریں گے نگاہ سے

آ اے شبِ فراق چلیں اس مقام پر

منظر پڑے ہیں جس جگہ صبحِ وصال کے

٭٭٭

 

 

 

 

اے میرے میانوالی

 

اے میرے میانوالی ،اے میرے میانوالی

ہجراں کی سیاہی میں مایوس نہ ہو جانا

تنہائی کی راتوں سے مانوس نہ ہو جانا

رت کوئی بھی چاہے ہو،پھولوں کو ہرا رکھنا

میں لوٹ کے آؤں گا ،دروازہ کھلا رکھنا

 

کچھی کے پہاڑوں میں کیکر کے کواڑوں میں ،

زخموں کے اجاڑوں میں ،امید کی باڑوں میں ،

کاٹنے مری یادوں کے ،آباد سدا رکھنا

میں لوٹ آؤں گا دروازہ کھلا رکھنا

 

آنکھوں کے مزاروں پر جلتے ہیں دئیے تیرے

پردیس میں بھی سپنے تعمیر کئے تیرے

اے میرے میانوالی اے میرے میانوالی

جا کے میاں ذکری کے دربارِمقدس پر

اسمائے محمد کی تحریر شدہ چادر

اک میری طرف سے بھی ہر پیر کو جا رکھنا

کچھ پھول چڑھا رکھنا دربار سجا رکھنا

ہاتھوں پہ دعا رکھنا

اے میرے میانوالی

اے میرے میانوالی

٭٭٭

ماخذ:

http://mansoorafaq.com

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید