FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

مقدمۂ شعر و شاعری کی تاریخ اور تنقیدی اہمیت

               ڈاکٹر امتیاز احمد

 

               دیباچہ

ہمارامقصد اردو تنقید کی پہلی کتاب ’’مقدمۂ شعر و شاعری‘‘ سے آپ کو متعارف کرانا ہے۔

            یہ بتانا ہے کہ الطاف حسین حالیؔ کون تھے ؟ کس زمانے میں تھے ؟ اُن کے زمانے میں اردو کے لکھنے والوں میں اور کون کون لوگ اہم تھے ؟ اُس زمانے میں اردو تنقید کی ابتدا کیسے ہوئی؟ حالیؔ سے پہلے اردو میں تنقید کا وجود تھا یا نہیں ؟ اگر تھا تو اس کی نوعیت کیا تھی؟ حالیؔ کی اس کتاب نے اپنے زمانے کے ادبی رویّے میں کون کون سی تبدیلیاں کیں ؟ کوئی تبدیلی کی بھی یا نہیں ؟ اس کتاب کے اندراجات کیا تھے ؟ کن کن مسئلوں پر اس کتاب میں حالیؔ نے بحث کی ہے۔ مقدمۂ شعر و شاعری اور حالیؔ کی تنقید کے بارے میں بعد کے ناقدین کی کیا رائے ہے ؟

                 تمہید

            اُنیسویں صدی ہندوستانی تاریخ میں انقلاب کی صدی ہے۔ اس نے ایک طرف ہم ہندوستانیوں کو آزادی سے غلامی کی طرف ڈھکیلا تو دوسری طرف ذہنی اور فکری اعتبار سے ہمیں عہدِ وسطیٰ سے عہدِ جدید میں لانے کا ذریعہ بنی۔ ہم ایک نئی دنیا، نئے علوم و فنون، نئی تہذیب و معاشرت سے آشنا ہوئے۔ اس نئی دنیا کی روشنی میں ہم نے اپنے قدیم علوم و فنون کی اہمیت کو نئے سرے سے سمجھا۔ نئی دنیا کی نئی چیزوں سے چکا چوند نہیں ہوئے۔ ایک توازن کے ساتھ کچھ نئی چیزوں کو قبول اور کچھ کو رد کیا اور اپنی ایک نئی پہچان بنائی جسے آج ہم جدید ہندوستان، جدیدہندوستانی زبان اور جدیدہندوستانی ادبیات کے نام سے یاد کرتے ہیں۔

                 الطاف حسین حالیؔ کا تعارف

            الطاف حسین حالیؔ ۱۸۳۷ء میں پانی پت (ہریانہ) میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم پانی پت میں ہی حاصل کی۔ کم عمری میں ہی اُن کی شادی ہو گئی، لیکن اُن میں علم حاصل کرنے کا جوش اور جذبہ تھا۔ اس لیے وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر چپ چاپ دہلی آ گئے ، اور یہاں اپنی تعلیم کی کمی کو پورا کرنے لگے۔ اپنی ذاتی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے انھوں نے اردو کے مشہور شاعر اور جہاں گیر آباد (بلند شہر) کے رئیس نواب مصطفی خاں شیفتہؔ کے یہاں نوکری کر لی۔ شیفتہؔ بہت با ذوق آدمی تھے۔ شاعر کے ساتھ ساتھ تذکرہ نگار بھی تھے۔ اُن کے تذکرے کا نام ’’گلشن بے خار‘‘ ہے ، اور اردو شاعروں کے تذکروں میں بہت اہم مقام رکھتا ہے۔ ان کی صحبت نے حالیؔ کے شعری ذوق کو نکھارنے میں بہت اہم رول ادا کیا۔ شاعری میں انھوں نے غالبؔ سے اصلاح لینی شروع کی۔ یہ زمانہ 1854-55 تک اور دوسری مرتبہ 1862 سے 1869 تک کا تھا۔ اس کے بعد پنجاب گورنمنٹ بک ڈپو، لاہور میں مترجم کی جگہ پر اُن کا تقرر ہو گیا۔ یہاں وہ لگ بھگ چارسال رہے۔ یہاں کا ماحول اور فضا حالیؔ کو بالکل راس نہیں آئے۔ اُن کی صحت خراب رہنے لگی۔ اسی دوران انھیں اینگلو عربک اسکول دہلی میں عربی میں پڑھانے کا موقع ملا اور وہ عربی کے استاد کی حیثیت سے دہلی واپس آ گئے (1875)۔ جنوری 1887 میں حالیؔ کو ایچی سن کالج لاہور کے سربراہ کی طرف سے سپرنٹنڈنٹ کی جگہ کی پیش کش ہوئی۔ یہ پیش کش انھوں نے قبول کر لی، لیکن ایک بار پھر لاہور میں اُن کی صحت بگڑنے لگی اور چھ مہینے کے اندر ہی انھوں نے اس ملازمت سے استعفیٰ دے دیا۔ جون 1887 میں وہ اینگلو عربک اسکول دہلی میں اپنی پرانی ملازمت پر واپس آ گئے۔ 1888 میں ریاست حیدرآباد سے انھیں پچھتّر روپے ماہانہ وظیفہ ملنے لگا۔ اس لیے انھوں نے یہ ملازمت بھی ترک کر دی اور پانی پت واپس چلے گئے۔ تین سال بعد 1891 میں یہ وظیفہ سو روپے کر دیا گیا جو انھیں تا حیات ملتا رہا اور وہ انتہائی سکون و اطمینان سے اپنے وطن پانی پت میں علمی و ادبی خدمات انجام دیتے رہے۔

                  حالیؔ کی علمی و ادبی خدمات

            حالیؔ کی علمی اور ادبی خدمات کثیر الجہات ہیں۔ اس کی ابتدا اُن کی شاعری سے ہوتی ہے۔ ابتدا میں وہ خستہؔ تخلص کرتے اور غالبؔ کو اپنا کلام دکھاتے تھے۔ یہ غزلیں قدیم انداز کی تھیں۔ غالبؔ نے اس سلسلہ میں اُن کی ہمت افزائی بھی کی تھی۔ اُن کے اس طرح کے اشعار آج بھی شوق سے پڑھے جاتے ہیں :

اک عمر چاہیے کہ گوارا ہو نیش عشق

رکھی ہے آج لذت زخم جگر کہاں ؟

ہم جس پہ مر رہے ہیں وہ ہے بات ہی کچھ اور

عالم میں تجھ سے لاکھ سہی تو مگر کہاں ؟

ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں

اب دیکھیے ٹھہرتی ہے جا کر نظر کہاں ؟

………

اُس نے اچھا ہی کیا حال نہ پوچھا دل کا

بھڑک اُٹھتا تو یہ شعلہ نہ دبایا جاتا

………

کوئی ہمدم نہیں ملتا جہاں میں

مجھے کہنا ہے کچھ اپنی زباں میں

………

اُس کے جاتے ہی یہ کیا ہو گئی گھرکی صورت

نہ وہ دیوار کی صورت ہے نہ در کی صورت

            لیکن لاہور کے قیام کے زمانے میں کرنل ہالرائڈ اور محمدحسین آزاد کے زیر اثر انھوں نے نئے انداز کی نظمیں بھی کہیں۔ ان نظموں میں ’برکھا رُت‘، ’نشاطِ امید‘، ’مناظرہ رحم و انصاف‘، ’مناجاتِ بیوہ‘ اور ’حبِ وطن‘ خاص طورسے اہم ہیں ، لیکن ایک شاعر کی حیثیت سے انھیں ہمیشہ زندہ رکھنے والی اُن کی نظم ’مد ّو جزر اسلام‘ ہے جسے عام طورسے لوگ ’مسدس حالی‘ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ یہ نظم دراصل مسلمانوں کے عروج و زوال کی کہانی ہے جو پہلی بار جون 1879 میں شائع ہوئی۔ سرسید نے اس نظم کے بارے میں لکھا تھا کہ:

’’جب خدا پوچھے گا کہ تو کیا لایا؟ میں کہوں گا کہ حالیؔ سے مسدس لکھوا لایا ہوں اور کچھ نہیں۔ ‘‘

اس نظم میں علم کی فضیلت بیان کرتے ہوئے حالیؔ نے لکھا ہے :

تمدن کے ایواں کا معمار ہے یہ

ترقی کے لشکر کا سالار ہے یہ

کہیں دستکاروں کا اوزار ہے یہ

کہیں جنگ جویوں کا ہتھیار ہے یہ

دکھایا ہے نیچا دلیروں کو اس نے

بنایا ہے روباہ شیروں کو اس نے

اسی طرح علم کی طرف سے بے توجہی کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

جنھوں نے کہ تعلیم کی قدر و قیمت

نہ جانی مسلط ہوئی اُن پہ ذلت

ملوک اور سلاطیں نے کھوئی حکومت

گھرانوں پہ چھائی امیروں کے نکبت

رہے خاندانی نہ عزت کے قابل

ہوئے سارے دعوے شرافت کے باطل

            اس نظم کی سب سے بڑی خوبی اس کی سادگی اور درد و اثر ہے جس کی وجہ سے یہ بے اختیار پڑھنے والوں کے دل میں گھر کر جاتی ہے۔

            نثر میں حالیؔ کی ابتدائی کتابیں تین ہیں :

            ۱۔  تریاق سموم (یہ ایک پادری کے اسلام پر اعتراضات کا جواب ہے )

            ۲۔  مبادی علم ارضیات یا طبقات الارض (ایک عربی کتاب کا ترجمہ)

            ۳۔  مجالس النساء (اس میں عورتوں کی اصلاح اور بچوں کی عمدہ تربیت کے طریقے بتائے گئے ہیں )

            نثرنگاری میں حالیؔ کا مرتبہ اُن کی سوانح نگاری کی وجہ سے بہت بلند ہے۔ وہ اردو کے پہلے سوانح نگار ہیں۔ انھوں نے 1886 میں حیات سعدی، 1897 میں یادگارِ غالب اور 1901 میں حیاتِ جاوید لکھی جو اردو کی بہترین سوانح عمریوں میں شمار ہوتی ہے۔

                  تنقید نگاری

            حالیؔ کی مذکورہ بالا تمام حیثیتیں مسلّم ہیں لیکن ان سب سے اہم اور بلند حیثیت اُن کی ایک تنقید نگار کی ہے۔ وہ اردو تنقید کے باوا آدم ہیں۔ انھوں نے اردو میں تنقید نگاری کا آغاز کیا۔

                  مقدمۂ شعر و شاعری

            1893 میں انھوں نے اپنا مجموعۂ کلام ’دیوانِ حالی‘ کے نام سے شائع کیا۔ اس میں اُن کی کچھ غزلیں ابتدائی زمانہ کی تھیں اور کچھ بعد کے زمانے کی تھیں۔ ابتدائی زمانے کی غزلوں کے آگے ’ق‘ لکھا ہوا تھا جب کہ بعد کے زمانے کی غزلوں کے آگے ’ج‘ لکھا ہوا تھا۔ ’ق‘ قدیم رنگ کو ظاہر کرتا تھا اور ’ج‘ جدید رنگ کو ظاہر کرتا تھا۔ جدید اور قدیم کے اس فرق کو ظاہر کرنے اور شعر گوئی کے اپنے تصور کی وضاحت کے لیے انھوں نے اپنے دیوان کا ایک طویل مقدمہ لکھا۔ بعد میں یہی مقدمہ الگ سے کتابی شکل میں دیوان کے بغیر شائع ہوا، اور اس کا نام مقدمۂ شعر و شاعری رکھا گیا۔ آج تک یہ اسی نام سے شائع ہو رہا ہے۔

            مقدمۂ شعر و شاعری کو موٹے طور پر دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ پہلا حصہ شاعری کے نظریاتی مباحث سے متعلق ہے اور دوسرا حصہ عملی تنقید کا نمونہ پیش کرتا ہے۔

            پہلے حصہ میں جن مسائل سے بحث کی گئی ہے وہ شاعری کی تاثیر سے متعلق ہیں۔ پھر شاعری کو اخلاق کے ساتھ جو ربط و تعلق ہے اس سے بحث کی گئی ہے۔ اس سلسلہ میں حالیؔ کا یہ جملہ خاص طورسے قابلِ ذکر ہے کہ:

’’شعر اگرچہ براہ راست علم اخلاق کی طرح تلقین اور تربیت نہیں کرتا لیکن از روئے انصاف، اس کو علم اخلاق کا نائب مناب اور قائم مقام کہہ سکتے ہیں۔ ‘‘

            اس کے بعد حالیؔ نے ایک بہت اہم عنوان قائم کیا ہے یعنی ’شاعری سوسائٹی کے تابع ہے۔ ‘‘ یہ جملہ دراصل حالیؔ کی تنقید کے لیے کلیدی جملہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے انھوں نے دو مزید عنوانات قائم کیے ہیں :

            ۱۔  بُری شاعری سے سوسائٹی کو کیا نقصان پہنچتے ہیں۔

            ۲۔  بُری شاعری سے لٹریچر اور زبان کو کیا صدمہ پہنچتا ہے۔

ان دونوں موضوعات کے تحت بھی شاعری اور سماج کے رشتہ سے ہی بحث کی ہے اور یہ نتیجہ نکالا گیا ہے کہ:

’’شاعری جب بگڑ جاتی ہے تو اس کی زہریلی ہوا سوسائٹی کو بھی نہایت سخت نقصان پہنچاتی ہے۔ جب جھوٹی شاعری کا رواج تمام قوم میں ہو جاتا ہے تو جھوٹ اور مبالغے سے سب کے کان مانوس ہو جاتے ہیں۔ جس شعر میں زیادہ جھوٹ یا نہایت مبالغہ ہوتا ہے اس کی شاعر کو زیادہ داد ملتی ہے۔ وہ مبالغے میں اور غلو کرتا ہے تا کہ اور زیادہ داد ملے۔ اُدھر اس کی طبیعت راستی سے دور ہوتی جاتی ہے اور ادھر جھوٹی اور بے سروپا باتیں وزن و قافیہ کے دل کش پیرایہ میں سنتے سنتے سوسائٹی کے مذاق میں زہر گھلتا جاتا ہے … چپکے ہی چپکے مگر نہایت استحکام کے ساتھ اخلاق ذمیمہ سوسائٹی میں جڑ پکڑتے جاتے ہیں اور جب جھوٹ کے ساتھ ہزل و مسخریت بھی شاعری کے قوام میں داخل ہو جاتی ہے تو قومی اخلاق کو بالکل گھن لگ جاتا ہے۔ ‘‘

            آپ نے دیکھ ا کہ حالیؔ کو جھوٹ اور مبالغہ، مسخریت اور ہزل گوئی سے بالکل نفرت ہے۔ وہ کوئی ایسی چیز برداشت نہیں کر سکتے ہیں جو سماج کو خراب کرنے والی ہو۔ وہ سماج کو اپنی تنقید میں بنیادی اہمیت دیتے ہیں ، اور سماج کی اصلاح اور فلاح کے نقطۂ نظر سے ہی شعر و ادب کا مطالعہ کرتے ہیں۔ اسی لیے وہ شاعری کے لیے وزن کو ضروری قرار نہیں دیتے۔ وہ کہتے ہیں :

’’جس طرح راگ فی حد ذاتہٖ الفاظ کا محتاج نہیں اسی طرح نفس شعر وزن کا محتاج نہیں۔ ‘‘

            وہ لکھتے ہیں کہ وزن سے شعر کی خوبی اور تاثیر میں اضافہ ہو جاتا ہے لیکن وزن پر شعر کا انحصار نہیں ہے۔ اسی طرح حالیؔ قافیہ کو بھی شعر کے لیے غیر ضروری خیال کرتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں :

’’جس طرح صنائع لفظی کی پابندی معنی کا خون کر دیتی ہے اُسی طرح بلکہ اُس سے بہت زیادہ قافیے کی قید ادائے مطلب میں خلل انداز ہوتی ہے۔ شاعر کو بجائے اس کے کہ اوّل اپنے ذہن میں ایک خیال کو ترتیب دے کر اُس کے لیے الفاظ مہیا کرے ، سب سے پہلے قافیہ تجویز کرنا پڑتا ہے اور پھر اس کے مناسب کوئی خیال ترتیب دے کر اس کے ادا کرنے کے لیے الفاظ مہیا کیے جاتے ہیں جن کا سب سے اخیر جز قافیۂ مجوزہ قرار پا سکے … پس درحقیقت شاعر خود کوئی خیال نہیں باندھتا بلکہ قافیہ جس خیال کے باندھنے کی اُسے اجازت دیتا ہے ، اُس کو باندھ دیتا ہے۔ ‘‘

ظاہر ہے حالیؔ کے نزدیک یہ بات پسندیدہ نہیں ہے ، اس لیے وہ وزن کی طرح قافیہ کے بھی مخالف ہیں۔

                  شاعر کے لیے کیا کیا شرطیں ضروری ہیں

            شاعر کے لیے بنیادی شرطوں کا ذکر کرتے ہوئے حالیؔ تین چیزوں کو ضروری خیال کرتے ہیں :

            ۱۔  تخیل

            ۲۔  مطالعۂ کائنات

            ۳۔  تفحص الفاظ

                 تخیل

            تخیل کی قوت کو حالیؔ شاعر کے لیے انتہائی ضروری خیال کرتے ہیں۔ اُن کے خیال میں :

’’سب سے مقدم اور ضروری چیز جو کہ شاعر کو غیر شاعر سے تمیز دیتی ہے قوت متخیلہ یا تخیل ہے ، جس کو انگریزی میں امیجینیشن کہتے ہیں۔ ‘‘

            وہ اسے ایسی قوت بتاتے ہیں جسے محنت اور کوشش سے حاصل نہیں کیا جا سکتا، بلکہ یہ ایک فطری قوت ہے۔ اُن کے الفاظ میں :

’’یہ وہ ملکہ ہے جس کو شاعر ماں کے پیٹ سے اپنے ساتھ لے کر نکلتا ہے اور جو اکتساب سے حاصل نہیں ہوسکتا۔ اگر شاعر کی ذات میں یہ ملکہ موجود ہے اور باقی شرطوں میں جو کہ کمال شاعری کے لیے ضروری ہیں کچھ کمی ہے تو وہ اُسی کمی کا تدارک اس ملکے سے کر سکتا ہے ، لیکن اگر یہ ملکۂ فطری کسی میں موجود نہیں ہے تو اور ضروری شرطوں کا کتنا ہی بڑا مجموعہ اُس کے قبضے میں ہو وہ ہرگز شاعر کہلانے کا مستحق نہیں ہے۔ ‘‘

اس کی اہمیت کا ذکر کرتے ہوئے حالیؔ لکھتے ہیں :

’’یہ وہ طاقت ہے جو شاعر کو وقت اور زمانے کی قید سے آزاد کرتی ہے اور ماضی و استقبال کو اُس کے لیے زمانۂ حال میں کھینچ لاتی ہے۔ وہ آدم اور جنت کی سرگزشت اور حشرونشر کا بیان اس طرح کرتا ہے گویا اُس نے تمام واقعات اپنی آنکھ سے دیکھے ہیں اور ہر شخص اس سے ایسا ہی متاثر ہوتا ہے جیسا کہ ایک واقعی بیان سے ہونا چاہیے۔ اُس میں یہ طاقت ہوتی ہے کہ وہ جن اور پَری، عنقا اور آب حیواں جیسی فرضی اور معدوم چیزوں کو ایسے معقول اوصاف کے ساتھ متصِف کر سکتا ہے کہ اُن کی تصویر آنکھوں کے سامنے پھر جاتی ہے۔ ‘‘

اس کی تعریف کرتے ہوئے حالیؔ لکھتے ہیں :

’’وہ ایک ایسی قوت ہے کہ معلومات کا ذخیرہ جو تجربے یا مشاہدے کے ذریعے سے ذہن میں پہلے سے مہیا ہوتا ہے یہ اس کو مکرّر ترتیب دے کر ایک نئی صورت بخشتی ہے ، اور پھر اُس کو الفاظ کے ایسے دل کش پیرایے میں جلوہ گر کرتی ہے جو معمولی پیرایوں سے بالکل یا کسی قدر الگ ہوتا ہے۔ ‘‘

اپنی اس بات کی وضاحت کے لیے وہ غالبؔ کے اس شعر کی مثال دیتے ہیں :

اور بازار سے لے آئے اگر ٹوٹ گیا

جام جم سے یہ مرا جام سفال اچھا ہے

اس کی وضاحت کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں :

’’شاعر کے ذہن میں پہلے سے اپنی اپنی جگہ یہ باتیں ترتیب وار موجود تھیں کہ مٹی کا کوزہ ایک نہایت کم قیمت اور ارزاں چیز ہے جو بازار میں ہر وقت مل سکتی ہے ، اور جام جمشید ایک ایسی چیز تھی جس کا بدل دنیا میں موجود نہ تھا۔ اُس کو یہ بھی معلوم تھا کہ تمام عالم کے نزدیک جامِ سفال میں کوئی خوبی ایسی نہیں ہے جس کی وجہ سے وہ جام جم جیسی چیز سے فائق اور افضل سمجھا جائے۔ نیز یہ بھی معلوم تھا کہ جام جم میں شراب پی جاتی تھی اور مٹی کے کوزے میں بھی شراب پی جا سکتی ہے۔ اب قوت متخیلہ نے اس تمام معلومات کو ایک نئے ڈھنگ سے ترتیب دے کر ایسی صورت میں جلوہ گر کر دیا کہ جامِ سفال کے آگے جامِ جم کی کچھ حقیقت نہ رہی، اور پھر اُس صورت موجود فی الذہن کو بیان کا ایک دل فریب پیرایہ دے کر اس قابل کر دیا کہ زبان اُس کو پڑھ کر متلذِّذ اور کان اُس کو سن کر محظوظ، اور دل اس کو سمجھ کر متاثر ہوسکے۔ اس مثال میں وہ قوت جس نے شاعر کی معلومات سابقہ کو دوبارہ ترتیب دے کر ایک نئی صورت بخشی ہے۔ تخیل یا امیجینیشن ہے اور اس نئی صورتِ موجودہ فی الذہن نے جب الفاظ کا لباس پہن کر عالم محسوسات میں قدم رکھا ہے اُس کا نام شعر ہے۔ ‘‘

                 مطالعۂ کائنات

            شاعر کو غیر شاعر سے تمیز دینے کے لیے حالیؔ تخیل کے بعد مطالعۂ کائنات کو انتہائی ضروری خیال کرتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں :

’’اگرچہ قوت متخیلہ اُس حالت میں بھی جب کہ شاعر کی معلومات کا دائرہ نہایت تنگ اور محدود ہو اُسی معمولی ذخیرے سے کچھ نہ کچھ نتائج نکال سکتی ہے ، لیکن شاعری میں کمال حاصل کرنے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ نسخۂ کائنات اور اُس میں خاص کر نسخۂ فطرت انسانی کا مطالعہ نہایت غور سے کیا جائے۔ انسان کی مختلف حالتیں جو زندگی میں اس کو پیش آتی ہیں اُن کو تعمق کی نگاہ سے دیکھنا، جو امور مشاہدے میں آئیں اُن کے ترتیب دینے کی عادت ڈالنی، کائنات میں گہری نظر سے وہ خواص اور کیفیات مشاہدہ کرنے جو عام آنکھوں سے مخفی ہوں اور فکر میں مشق و مہارت سے یہ طاقت پیدا کرنی کہ وہ مختلف چیزوں سے متحد اور متحد چیزوں سے مختلف خاصیتیں فوراً اخذ کر سکے ، اور اس سرمائے کو اپنی یاد کے خزانے میں محفوظ رکھے۔ ‘‘

’’… غرض کہ یہ تمام باتیں جو اُوپر ذکر کی گئیں ایسی ضروری ہیں کہ کوئی شاعر اُن سے استغنا کا دعوا نہیں کر سکتا۔ کیوں کہ ان کے بغیر قوت متخیلہ کو اپنی اصلی غذا جس سے وہ نشوونما پاتی ہے نہیں پہنچتی۔ بلکہ اس کی طاقت آدھی سے بھی کم رہ جاتی ہے۔ ‘‘

اس کے بعد وہ لکھتے ہیں اور ایک بنیادی اصولی اور فلسفیانہ بات لکھتے ہیں :

’’قوت متخیلہ کوئی شے بغیر مادّے کے پیدا نہیں کر سکتی، بلکہ جو مسالا اُس کو خارج سے ملتا ہے اُس میں وہ اپنا تصرف کر کے ، ایک نئی شکل تراش لیتی ہے۔ جتنے بڑے بڑے نامور شاعر گزرے ہیں وہ کائنات یا فطرت انسانی کے مطالعے میں ضرور مستغرق رہے ہیں۔ جب رفتہ رفتہ اس مطالعے کی عادت ہو جاتی ہے تو ہر ایک چیز کو غور سے دیکھنے کا ملکہ ہو جاتا ہے ، اور مشاہدوں کے خزانے گنجینۂ خیال میں خود بخود جمع ہونے لگتے ہیں۔ ‘‘

            اپنی بات کی وضاحت کے لیے وہ سر والٹراسکاٹ کی مثال پیش کرتے ہیں کہ جب وہ روکبی کا قصہ لکھ رہے تھے تو اپنی نوٹ بک میں چھوٹے چھوٹے خود رو پھول پودوں اور میووں کی تفصیلات نوٹ کیا کرتے تھے۔ ایک شخص نے اُن سے اس کی وجہ پوچھی تو اُن کا جواب تھا کہ دنیا میں کوئی دو چیز ایک طرح کی نہیں ہے۔ حالیؔ اس سے یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ تخیل کی وسعت کا تعلق مطالعہ کی وسعت سے ہے۔ جس شخص کا مطالعہ جتنا وسیع ہو گا، اُس کا تخیل بھی اتنا ہی وسیع ہو گا۔

                 تَفَحُصِّ الفاظ

            تخیل اور مطالعۂ کائنات کے ساتھ ساتھ حالیؔ الفاظ کی تلاش و جستجو کو بھی شاعر کے لیے انتہائی ضروری خیال کرتے ہیں۔ اُن کے خیال میں :

’’ترتیب شعر کے وقت اوّل متناسب الفاظ کا استعمال کرنا اور پھر اُن کو ایسے طور پر ترتیب دینا کہ شعرسے معنی مقصود کے سمجھنے میں مخاطب کو کچھ تردّد باقی نہ رہے اور خیال کی تصویر ہو بہ ہو آنکھوں کے سامنے پھر جائے اور باوجود اس کے اُس ترتیب میں ایک جادو مخفی ہو جو مخاطب کو مسخر کر لے۔ اس مرحلے کا طے کرنا جس قدر دشوار ہے اُسی قدر ضروری بھی ہے ، کیوں کہ اگر شعر میں یہ بات نہیں ہے تو اس کے کہنے سے نہ کہنا بہتر ہے۔ ‘‘

’’اگر شاعر زبان کے ضروری حصے پر حاوی نہیں ہے اور ترتیب شعر کے وقت صبر و استقلال کے ساتھ الفاظ کا تتبع اور تفحص نہیں کرتا تو محض قوتِ متخیلہ کچھ کام نہیں آسکتی۔ ‘‘

’’ناقص شاعر تھوڑی سی جستجو کے بعد اُسی لفظ پر قناعت کر لیتا ہے اور کامل جب تک زبان کے تمام کنویں نہیں جھانک لیتا تب تک اُس لفظ پر قانع نہیں ہوتا۔ شاعر کو جب تک الفاظ پر کامل حکومت اور اُن کی تلاش و جستجو میں نہایت صبر و استقلال حاصل نہ ہو، ممکن نہیں کہ وہ جمہور کے دلوں پر بالاستقلال حکومت کر سکے۔ ‘‘

                 شعر میں کیا کیا خوبیاں ہونی چاہیے

            شاعر کے لیے ان تین ضروری خصوصیات کے بعد حالیؔ شاعری کے لیے تین ضروری صفات/ خصوصیات کا ذکر کرتے ہیں۔ ان کے خیال میں یہ خصوصیات مندرجہ ذیل ہیں۔

            ۱۔  سادگی           ۲۔  اصلیت        ۳۔  جوش

چنانچہ انگریزی شاعر ملٹن کے حوالے سے وہ لکھتے ہیں :

            ’’شعر کی خوبی یہ ہے کہ سادہ ہو، جوش سے بھرا ہوا ہو اور اصلیت پر مبنی ہو۔ ‘‘

                 سادگی

            سادگی کا ذکر کرتے ہوئے حالیؔ لکھتے ہیں :

’’ہمارے نزدیک ایسی سادگی پر جو سخافت و رکاکت کے درجے کو پہنچ جائے سادگی کا اطلاق کرنا گویا سادگی کا نام بدنام کرنا ہے۔ ایسے کلام کو سادہ نہیں بلکہ عامیانہ کلام کہا جائے گا، لیکن ایسا کلام جو اعلیٰ و اوسط درجے کے آدمیوں کے نزدیک سادہ اور سمپل ہو اور ادنیٰ درجے کے لوگ اس کی اصل خوبی سمجھنے سے قاصر ہوں ایسے کلام کو سادگی کی حد میں داخل رکھنا چاہیے۔ ‘‘

آگے چل کر وہ اس کی مزید وضاحت کرتے ہیں :

’’ہمارے نزدیک کلام کی سادگی کا معیار یہ ہونا چاہیے کہ خیال کیسا ہی بلند اور دقیق ہو مگر پیچیدہ اور ناہموار نہ ہو اور الفاظ جہاں تک ممکن ہو تحاور اور روزمرہ کی بول چال کے قریب قریب ہوں۔ جس قدر شعر کی ترکیب معمولی بول چال سے بعید ہو گی اُسی قدر سادگی کے زیور سے معطل سمجھی جائے گی۔ ‘‘

                 اصلیت

            شعر کی دوسری خوبی حالیؔ اصلیت کو قرار دیتے ہیں۔ ظاہر ہے اس کا تعلق اس سے قبل بیان کیے گئے مطالعۂ کائنات سے ہے۔ اس اصلیت کی حالیؔ نے پانچ صورتیں بیان کی ہیں :

                        ۱۔         جو بات شعر میں بیان کی گئی ہے وہ حقیقت میں ویسی ہی ہو۔

                        ۲۔        جو بات شعر میں بیان کی گئی ہے گو وہ حقیقت میں ویسی نہیں ہو لیکن عوام کے عقیدے میں وہ اس طرح ہو۔

                        ۳۔        جو بات شعر میں بیان کی گئی ہے باوجودیکہ وہ حقیقت میں اس طرح نہیں ہو لیکن شاعر اس کو اس طرح خیال کرتا ہو۔

                        ۴۔        چوتھی صورت یہ ہے کہ گو شاعر اس کو اس طرح خیال نہیں کرتا ہو لیکن پڑھنے والوں کو ایسا محسوس ہو کہ شاعر اسے اس طرح خیال کرتا ہے۔

                        ۵۔        پانچویں صورت یہ ہے کہ اصلیت پر شاعر نے کسی قدر اضافہ کر دیا ہو۔

                 جوش

            حالیؔ لکھتے ہیں :

’’جوش سے یہ مراد ہے کہ مضمون ایسے بے ساختہ الفاظ اور مؤثر پیرایہ میں بیان کیا جائے جس سے معلوم ہو کہ شاعر نے اپنے ارادے سے یہ مضمون نہیں باندھا بلکہ خود مضمون نے شاعر کو مجبور کر کے اپنے تئیں اسے بندھوایا ہے۔ ‘‘

            اُن کے خیال میں جوش کے معنی بالکل یہ نہیں ہیں صرف زوردار اور جوشیلے الفاظ اور فقرے استعمال کیے جائیں۔ بلکہ یہ ہے کہ کہنے والے کے دل میں جیسا جوش ہو ویسا ہی جوش اور جذبہ پڑھنے والے کے دل میں بھی پیدا ہو جائے۔

            ان چھ باتوں یعنی تخیل، مطالعۂ کائنات اور تفحص الفاظ کی خصوصیت جو شاعر کے اندر پائی جانی چاہیے اور سادگی، اصلیت اور جوش جو شاعری میں پائی جانی چاہیے کے علاوہ حالیؔ اپنی نظریاتی تنقید میں جن باتوں پر اصرار کرتے ہوئے نظر آتے ہیں وہ مندرجہ ذیل ہیں :

            ۱۔         تخیل کو قوت ممیزہ کے تابع ہونا چاہیے۔ اُسے کھلی چھوٹ دے کر بے لگام کبھی نہیں چھوڑنا چاہیے۔

            ۲۔        شاعری سوسائٹی کے تابع ہوتی ہے ، اور بُری شاعری سے سوسائٹی کو نقصان پہنچتا ہے اور اس کے برعکس بُری سوسائٹی سے شاعری کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔

            ۳۔        شاعری کو جھوٹ اور مبالغہ سے محفوظ رکھنا چاہیے۔

                 عملی تنقید

            یہی وہ بنیادیں ہیں جن پر حالیؔ نے اپنی عملی تنقید کی بنیاد رکھی ہے اور اپنی کتاب مقدمۂ شعرو شاعری میں اردو کی چاروں کلاسیکل اصناف کو جانچنے اور پرکھنے کی کوشش کی ہے۔ اس پوری کتاب میں حالیؔ کا نقطۂ نظر سماجی اور اخلاقی ہے۔ وہ سماجی اور اخلاقی نقطۂ نظر سے شعر و ادب کا مطالعہ کرتے اور اس کی خوبیوں اور خامیوں کو جانچتے اور پرکھتے ہیں۔

                 غزل

            اردو کی غزلیہ شاعری پر حالیؔ کے اعتراضات اور اُن کی تنقید سماجی اور اخلاقی نقطۂ نظر سے ہے۔ انھیں شکایت ہے کہ ہماری غزلیہ شاعری کا حقیقت سے کوئی تعلق باقی نہیں رہ گیا ہے۔ اس میں عموماً تین طرح کے مضامین باندھے جاتے ہیں :

۱۔         عشق مجازی کے مضامین

۲۔        خمریات یعنی شراب نوشی کے مضامین

۳۔        فقہا اور زہاد پر طنز و تعریض کے مضامین

            حالیؔ کا خیال ہے کہ مذکورہ تینوں صورتوں میں ہمارے شعرا حقیقت سے بہت دور جا پڑے ہیں۔ جہاں تک عشق مجازی کا تعلق ہے اس کی جو صورتیں ہماری غزلیہ شاعری میں ملتی ہیں وہ مندرجہ ذیل ہیں :

۱۔         کسی عفیفہ سے اپنے عشق کا بیان

۲۔        کسی زن بازاری سے عشق کا بیان

۳۔        کسی خوب صورت کم سن لڑکے سے عشق کا بیان

            حالیؔ کے نقطۂ نظر سے اگر واقعی شاعر کسی کے عشق میں مبتلا ہے تو اس کے بیان کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہے لیکن صرف اس وجہ سے اپنے اوپر عشق کی تہمت لگانا کہ یہ غزل کی روایت کا حصہ ہے مناسب نہیں۔ لیکن اس صورت میں بھی ہمارے یہاں عشقیہ مضامین جس طرح سے بیان ہوتے ہیں اور اُن میں کنگھی، چوٹی، مسّی اور موباف وغیرہ کا اور معشوق کی اداؤں کا جس طرح سے بیان ہوتا ہے وہ مناسب نہیں ہے۔ اُن کے الفاظ میں :

’’اگر معشوقہ کوئی منکوحہ یا مخطوبہ ہے تو اُس کے حُسن و جمال کی تعریف کرنی اور اس کے کرشمہ و نازو انداز کی تصویر کھینچنی گویا اپنے ننگ و ناموس کو اپنوں اور پرایوں سے انٹروڈیوس کرانا ہے۔ ‘‘

            دوسری صورت میں اگر معشوق کوئی زن بازاری ہے تو اس سے تعلق کا اظہار کرنا اپنی نالائقی اور بددیانتی کا ثبوت دینا ہے۔

            تیسری صورت مرد کا مطلوب مرد کو قرار دینا ہوسکتا ہے جو خلاف فطرت انسانی ہے۔ اس لیے بقول حالی:

’’یہ ایک ایسا قبیح اور نالائق دستور ہے جو قومی اخلاق کو داغ لگاتا ہے۔ لہٰذا اس کو جہاں تک جلد ممکن ہو ترک کرنا چاہیے۔ ‘‘

اس پوری بحث سے وہ یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ:

’’محبت کچھ ہوا و ہوس اور شاہد بازی و کام جوئی پر موقوف نہیں ہے۔ بندے کو خدا کے ساتھ، اولاد کو ماں باپ کے ساتھ، ماں باپ کو اولاد کے ساتھ، بھائی بہن کو بھائی بہن کے ساتھ، خاوند کو بی بی کے ساتھ، بی بی کو خاوند کے ساتھ، نوکر کو آقا کے ساتھ، رعیت کو بادشاہ کے ساتھ، دوستوں کو دوستوں کے ساتھ، آدمی کو جانور کے ساتھ، مکیں کو مکاں کے ساتھ، وطن کے ساتھ، ملک کے ساتھ، قوم کے ساتھ، خاندان کے ساتھ غرض کہ ہر چیز کے ساتھ لگاؤ اور دل بستگی ہوسکتی ہے۔ پس جب کہ عشق و محبت میں اس قدر احاطہ اور جامعیت ہے اور جب کہ عشق کا اعلان کم ظرفی اور معشوق اک پتہ بتانا بے غیرتی ہے تو کیا ضرور ہے کہ عشق کو محض ہوائے نفسانی اور خواہشِ حیوانی میں محدود کر دیا جائے۔ اور ایسے سرّمکتوم کو فاش کر کے اپنی تنگ ظرفی اور بے حوصلگی ظاہر کی جائے۔ ‘‘

اس لیے حالیؔ کی رائے یہ ہے کہ:

’’غزل میں جو عشقیہ مضامین باندھے جائیں وہ ایسے جامع الفاظ میں ادا کیے جائیں جو دوستی اور محبت کی تمام انواع و اقسام اور تمام جسمانی اور روحانی تعلقات پر حاوی ہوں۔ اور جہاں تک ہوسکے کوئی لفظ ایسا نہ آنے پائے جس سے کھلّم کھلّا مطلوب کا مرد یا عورت ہونا پایا جائے۔ ‘‘

            خمریات کے سلسلہ میں بھی حالیؔ کا نقطۂ نظر یہی ہے کہ اسے اصلیت پر مبنی ہونا چاہیے۔ صرف روایت کے اتباع میں یا فیشن پرستی میں یہ مضامین نہیں باندھنا چاہیے۔ چنانچہ لکھتے ہیں :

’’چوں کہ شاعری کا جزو اعظم یہ ہے کہ اس میں جو خیال باندھا جائے اس کی بنیاد اصلیت پر ہونی چاہیے اس لیے اصول شاعری کے موافق شراب و کباب کے مضمون باندھنا صرف اُن لوگوں کا حق ہونا چاہیے جو یا تو خود اس میدان کے مرد ہوں یا اپنے اصلی خیالات، خمریات کے پیرایے میں بطور مجاز و استعارے کے ادا کر سکتے ہوں۔ ‘‘

            فقہا اور اہلِ ظاہر پر طنز و تعریض کے سلسلہ میں بھی حالیؔ نے یہی رویہ اختیار کیا ہے۔ اُن کے خیال میں جن لوگوں کو واقعی اُن سے کوئی اختلاف ہو انھیں اس کا بیان کرنا چاہیے لیکن بغیر کسی اصولی اختلاف کے صرف روایت پرستی یا فیشن پرستی کے طور پر ایسا کرنا مناسب نہیں۔ حالیؔ کے الفاظ میں :

’’واعظ و زاہد وغیرہ کو لتاڑنا اور اُن پر نکتہ چینی کرنی، انہی لوگوں کو زیبا ہے جن کو فی الواقع اُن کے ساتھ کوئی وجہ مخالفت کی ہو۔ ہاں باوجود نہ ہونے کسی قسم کی مخالفت کے ، صرف ایک صورت سے واجبی طور پر ایسے مضامین باندھے جا سکتے ہیں۔ یعنی نکتہ چینی ایسے طریقے سے کی جائے جس سے معلوم ہو کہ محض ریا و مکر و سالوس کی برائی بیان کرنی مقصود ہے نہ کہ زُہّاد اور واعظین کی ذات پر حملہ کرنا۔ ‘‘

                 قصیدہ

            قصیدہ کے سلسلہ میں بھی حالیؔ اصلیت اور واقعیت پر ہی اصرار کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ وہ بار بار اس بات پر اصرار کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ:

’’زمانے کا اقتضا یہ ہے کہ جھوٹ، مبالغہ، بہتان، افترا، صریح خوشامد، ادعائے بے معنی، تعلی بے جا، الزام لایعنی، شکوۂ بے محل اور اور اسی قسم کی باتیں جو صدق و راستی کے منافی ہیں اور جو ہماری شاعری کے قوام میں داخل ہو گئی ہیں اُن سے جہاں تک ممکن ہوقاطبۃ احتراز کیا جائے۔ ‘‘

وہ قصیدہ گوئی کے فرائض کا ذکر کرتے ہوئے قرآن اور حدیث کے حوالہ سے لکھتے ہیں :

’’شاعر کا فرض یہ ہونا چاہیے کہ اچھوں کی خوبیوں کو چمکائے۔ ان کے ہنر اور فضائل عالم میں روشن کرے اور ان کے اخلاق کی خوشبو سے موجودہ اور آئندہ دونوں نسلوں کے دماغ معطر کرنے کا سامان مہیا کر جائے۔ اور نیز برائیوں اور عیبوں پر جہاں تک ممکن ہو گرفت کرے تا کہ حال اور استقبال دونوں زمانوں کے لوگ برائی کی سزا اور اس کے نتائج سے ہوشیار اور چوکنّے رہیں۔ یہ وتیرہ بالکل سنتِ الٰہی کے مطابق ہو گا کیوں کہ کلامِ الٰہی میں بھی ہمیشہ بروں کو برائی کے ساتھ اور بھلوں کو بھلائی کے ساتھ یاد کیا جاتا ہے۔ ‘‘

            اردو قصائد کی تشبیب کا ذکر کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں کہ ان تشبیبوں میں بھی کسی حقیقی واقعہ کا ذکر نہیں ہوتا۔ اکثر ایک فرضی موسم بہار کا ذکر ہوتا ہے جس کا اس دنیا کی بہار سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اگر زمانہ کی شکایت ہوتی ہے تو اپنے اصلی مصائب بیان نہیں کیے جاتے بلکہ جیسے مصائب پرانے شعرا نے بیان کیے ہیں انہی کی نقل کی جاتی ہے اور بس۔

            جہاں تک قصیدہ کے مدحیہ حصے کا تعلق ہے اس کے بارے میں بھی حالیؔ کا خیال ہے کہ اس میں ممدوح کی اصلی خوبیاں بیان نہیں کی جاتیں ، بلکہ اکثر وہ باتیں بیان کی جاتی ہیں جو اس کے اندر موجود نہیں ہوتی ہیں۔ حالیؔ کے الفاظ میں :

’’ممدوح کی طرف اکثر وہ خوبیاں منسوب کی جاتی ہیں جن کی اضداد اس کی ذات میں موجود ہیں مثلاً ایک جاہل کو علم و فضل کے ساتھ، ایک ظالم کو عدل و انصاف کے ساتھ، ایک احمق اور غافل کو دانش مندی اور بیدار مغزی کے ساتھ، ایک عاجز بے دست و پا کو قدرت و مکنت کے ساتھ، ایک ایسے شخص کو جس کی ران نے کبھی گھوڑے کی پیٹھ کو مَس نہیں کیا شہ سواری اور فروسیت کے ساتھ۔ غرض کوئی بات ایسی نہیں بیان کی جاتی جس پر ممدوح فخر کر سکے یا جس سے لوگوں کے دل میں اس کی عظمت اور محبت پیدا ہو اور اس کے محاسن و مآثر زمانہ میں یادگار رہیں۔‘‘

                 مرثیہ

            مرثیہ حالیؔ کی نظر میں ایک اخلاقی صنف ہے اس لیے وہ اسے پسندیدگی کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:

’’اس خاص طرز کے مرثیہ کو اگر اخلاق کے لحاظ سے دیکھا جائے تو بھی ہمارے نزدیک اردو شاعری میں اخلاقی نظم کہلانے کا مستحق صرف انھیں لوگوں کا کلام ٹھیر سکتا ہے۔ بلکہ جس اعلیٰ درجہ کے اخلاق ان لوگوں نے مرثیہ میں بیان کیے ہیں اُن کی نظیر فارسی بلکہ عربی شاعری میں بھی ذرا مشکل سے ملے گی۔ ‘‘

وہ میرانیسؔ کی شاعری کا ذکر کرتے ہوئے بجا طور پر یہ لکھتے ہیں کہ:

’’میرانیس کا کلام جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا بلاشبہ مبالغہ اور اغراق سے خالی نہیں مگر اس کے ساتھ ہی جہاں کہیں وہ واقعات کا نقشہ اُتارتے ہیں یا نیچرل کیفیات کی تصویر کھینچتے ہیں یا بیان میں تاثیر کا رنگ بھرتے ہیں وہاں اس بات کا کافی ثبوت ملتا ہے کہ مقتضائے وقت کے موافق جہاں تک کہ امکان تھا میرانیس نے اردو شاعری کو اعلیٰ درجہ پر پہنچا دیا ہے۔ ‘‘

وہ مزید لکھتے ہیں :

’’انھوں نے بیان کرنے کے نئے نئے اسلوب اردو شاعری میں کثرت سے پیدا کر دیے۔ ایک واقعہ کو سو سو طرح سے بیان کر کے قوتِ متخیلہ کی جولانیوں کے لیے ایک نیا میدان صاف کر دیا اور زبان کا ایک معتدبہ حصہ جس کو ہمارے شاعروں کی قلم نے مَس تک نہیں کیا تھا اور جو محض اہلِ زبانوں کی بول چال میں محدود تھا اُس کو شعرا سے روشناس کرا دیا۔ ‘‘

اس سلسلہ میں انھیں یہ اعتراض ضرور ہے کہ:

’’رزم بزم اور فخر و خود ستائی اور سراپا وغیرہ کو داخل کرنا، لمبی لمبی تمہیدیں اور توتیے باندھنے ، گھوڑے اور تلوار وغیرہ کی تعریف میں نازک خیالیاں اور بلند پروازیاں کرنی اور شاعرانہ ہنر دکھانے مرثیہ کے موضوع کے بالکل خلاف ہیں۔ ‘‘

            ایسے اخلاقی مضامین جو مرثیہ میں بیان ہوتے ہیں اور جن کی وجہ سے اُن کے نزدیک مرثیہ کی صنف خاص طورسے قابلِ قدر ہے وہ صبر، شکر، راضی بہ رضا الٰہی رہنا، استقامت، غیرت و حمیت، وفاداری وغیرہ ہیں۔

                 مثنوی

            اردو اور فارسی شاعری میں رائج تمام اصنافِ سخن میں مثنوی کی صنف کو حالیؔ سب سے زیادہ قابلِ قدر خیال کرتے ہیں۔ اُن کے خیال میں مسلسل مضامین کے بیان کے لیے اس صنف سے زیادہ کارآمد اور کوئی صنف نہیں ہوسکتی، اور اس خوبی کی وجہ اس کی ہیئت ہے جس میں ہر دو مصرعہ کے بعد قافیہ بدل جاتا ہے اور شاعر کو اپنے بیش قیمت خیالات اور مضامین قافیہ کی تلاش پر قربان نہیں کرنے پڑتے۔ اُن کے خیال میں :

’’یہی وہ صنف ہے جس کی وجہ سے فارسی شاعری کو عرب کی شاعری پر ترجیح دی جا سکتی ہے۔ عرب کی شاعری میں مثنوی کا رواج نہ ہونے یا نہ ہوسکنے کے سبب تاریخ یا قصہ یا اخلاق یا تصوف میں ظاہراً ایک کتاب بھی ایسی نہیں لکھی جا سکی جیسی فارسی میں سیکڑوں بلکہ ہزاروں لکھی گئی ہیں۔ اسی لیے عرب شاہنامہ کو قرآن العجم کہتے ہیں اور اسی لیے مثنوی معنوی کی نسبت ’’ہست قرآں در زبان پہلوی کہا گیا ہے۔ ‘‘

مثنوی کے لیے حالیؔ جن چیزوں کو سب سے ضروری خیال کرتے ہیں وہ مندرجہ ذیل ہیں :

            ۱۔         ربط کلام: حالی کے مطابق:

’’اس میں ہر بیت کو دوسری بیت سے ایسا تعلق ہونا چاہیے جیسے زنجیر کی کڑی کو دوسری کڑی سے ہوتا ہے۔ ‘‘

’’بیتوں اور مصرعوں کی ترتیب ایسی سنجیدہ ہو کہ ہر مصرعہ دوسرے مصرعے سے اور ہر بیت دوسری بیت سے چسپاں ہوتی چلی جائے ، اور دونوں کے بیچ کہیں کھانچا باقی نہ رہ جائے۔ ‘‘

            ۲۔        قصہ کی بنیاد ناممکن اور فوق العادت باتوں پر نہ ہو۔

            ۳۔        کلام اقتضائے حال کے موافق ہو۔

            ۴۔        مبالغہ حد سے بڑھا ہوا نہ ہو۔

            ۵۔        جو حالت کسی شخص یا کسی چیز کی بیان کی جائے وہ نیچر اور عادت کے مطابق ہونی چاہیے۔

            ۶۔        ایک بیان دوسرے بیان کی تردید نہ کرتا ہو یا اس کے خلاف نہ ہو۔

            ۷۔        کوئی بات ایسی بیان نہیں کرنی چاہیے جو تجربے اور مشاہدے کے خلاف ہو۔

            ۸۔        ضمنی باتوں کو رمزو کنایہ میں ہی بیان کرنا چاہیے۔

            مثنوی کی صنف کے سلسلہ میں ان اصولی باتوں کے بعد حالیؔ نے اردو کی چند مشہور مثنویوں کے بارے میں اپنی رائے ظاہر کی ہے۔ مثلاً یہ کہ:

’’اردو کی عشقیہ مثنویوں میں ہمارے نزدیک اکثر اعتبارات سے بدر منیر کے برابر آج تک کوئی مثنوی نہیں لکھی گئی۔ ‘‘

’’ان مثنویوں (مرزا شوق کی مثنویوں ) میں اکثر مقامات اس قدر اَن مورَل اور خلافِ تہذیب ہیں کہ ایک مدت سے ان تمام مثنویوں کا چھپنا حکماً بند کر دیا گیا ہے۔ ‘‘

خلاصہ

            مختصر طور پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ حالیؔ اردو کے پہلے باقاعدہ نقاد ہیں اور بقول آل احمدسرور:

            ’’مقدمۂ شعر و شاعری اردو تنقید کا پہلا منشور ہے۔ ‘‘

کلیم الدین احمد کے مطابق:

’’حالیؔ نے سب سے پہلے جزئیات سے قطعِ نظر کی، اور بنیادی اصولوں پر غور کیا۔ شعر و شاعری کی ماہیت پر روشنی ڈالی اور مغربی خیالات سے استفادہ کیا۔ اپنے زمانہ، اپنے ماحول، اپنی حدود میں حالیؔ نے جو کچھ کیا وہ تعریف کی بات ہے۔ وہ اردو تنقید کے بانی بھی ہیں اور اس وقت اردو کے بہترین نقاد بھی۔ ‘‘

’’وہ کام کی باتیں کام کی زبان میں کرتے ہیں … حالیؔ نے صاف اور سادہ طرز ایجاد کی، لیکن اُس طرز میں بے رنگی نہیں ، پھسپھساپن نہیں۔ اس میں ایک لطافت ہے ، ایک جاذبیت ہے ، ایک رنگینی بھی ہے اور پھر یہ تنقیدی مسئلوں پر بحث کے لیے موزوں بھی ہے۔ ‘‘

٭٭٭

               کتابیات

۱۔         مقدمۂ شعر و شاعری۔ از الطاف حسین حالیؔ۔ مرتبہ: وحید قریشی

۲۔        حالیؔ۔ از مالک رام۔ ترجمہ: ایم۔ حبیب خاں ، ساہتیہ اکیڈمی، نئی دہلی ۱۹۹۵ء

۳۔        حالیؔ، مقدمہ اور ہم۔ از وارث علوی

۴۔        سہ ماہی فکر و نظر، علی گڑھ، حالیؔ نمبر

٭٭٭

تشکر: مصنف جنہوں نے فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید