FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

فہرست مضامین

تفہیمِ عرفان

پہلا حصہ

 

                نقد و نظر

 

ماخذ:عرفان صدیقی: حیات، خدمات اور شعری کائنات

                مرتّبین: عزیز نبیلؔ ۔ آصف اعظمی

 

نوٹ

 

اصل کتاب سے  یادِ عرفان (یادیں، خاکے)، شاعری کا انتخاب، اور تفہیم عرفان (عرفان صدیقی پر تنقیدی مقالے، دو حصوں میں) الگ ای بکس کے طور پر شائع کئے جا رہے ہیں۔

 

 

 

 

 

سجا کے آئنۂ حرف پیشِ آئینہ

ہم اک کرن سے ہزار آفتاب ڈھالتے ہیں

 

 

 

 

 

سات سمٰوات

 

                ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شمس الرحمن فاروقی(الٰہ آباد)

 

کبھی کبھی کوئی کتاب ایسی بھی بازار میں آ جاتی ہے جسے اپنے زمانے کی کتاب تسلیم کرنا مشکل معلوم ہوتا ہے۔ کیوں کہ وہ آج کے شعر سے زیادہ مستقبل کا پتہ دیتی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔ اور ساتھ ہی ساتھ کسی دور دراز منزل کی بھی آوازیں اس کے لہجے کی تہ میں صاف سنائی دیتی ہیں۔ ’’سات سمٰوات‘‘ ایسی ہی ایک کتاب ہے۔ آج جب کہ دو مصرعے موزوں کر کے بازارِ سخن میں یوسف غزل کی خریداری کا دعویٰ کرنے والے بہت سے ہیں اور آج جب کہ غزل کے نام نہاد انتشار خیال کے شاکی بھی کچھ کم نہیں، اور کوئی ہائیکو، کوئی ماہیا، کوئی ترائلے (خدا جانے یہ کس چیز کا نام ہے ؟) کو بغل میں دبائے توتلی زبان میں شہنشاہ سخن ہونے کا دعویٰ کر رہا ہے تو کوئی جدیدیت سے ہٹ کر اپنی راہ نکالنے کے فریب میں مبتلا ہے، عرفان صدیقی کی غزل ہی ایسی غزل ہے جو جدیدیت کی راہ میں اگلا قدم کہی جا سکتی ہے۔

تنقید کی ایک بیماری یہ بھی ہے کہ وہ فن کار کو چند جملوں (اور ہو سکے تو ایک جملے بلکہ ایک فقرے ) میں محصور کر دینا چاہتی ہے۔ یہ چلن مشاعرے کی نظامت کرنے والے نیم خواندہ اساتذہ اور متشاعروں نے اور بھی عام کیا ہے۔ ’’فلاں کے یہاں رنگ و آہنگ کا امتزاج ہے۔ ‘‘، ’’فلاں کے یہاں فکر کے ساتھ فن کو بھی ملحوظ رکھا گیا ہے۔ ‘‘، ’’فلاں کے یہاں کلاسیکی اقدار کی پاسداری اور جدید لہجے کا التزام نظر آتا ہے۔ ‘‘ اس بات سے قطع نظر کہ یہ سب فقرے مہمل ہیں، یہ اصول ہی غلط ہے کہ کسی شاعر، اور خاص کر اچھے شاعر کو چند فقروں میں چلتا کر دیا جائے۔ تبصروں اور مختصر تعارفی مضامین، رسم اجرا کے موقعے پر پڑھے جانے والے توصیف ناموں اور تنقیدی شعور کی ناکامی کے باعث، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ تنقید کے پاس اچھی شاعری کو بیان کرنے کے لیے مناسب اصطلاحوں کی کمی کے باعث، آج سب سے زیادہ ستم عرفان صدیقی جیسے شعراء پر ہو رہا ہے، جن کی شاعری تفصیلی اور باریک بین مطالعے کا تقاضا کرتی ہے۔ یہ شاعری اصرار کرتی ہے کہ معاصر ادبی منظر میں، اور گذشتہ غزل کے پس منظر میں اس کا مقام متعین کیا جائے۔

یہ کہنا ضروری نہیں کہ بعض علامتیں اور پیکر جن کا تعلق اسلامی تاریخ، خاص کر معرکۂ کربلا سے ہے۔ اور بعض تصوراتِ تہذیب و کائنات، جن کو جہد، مقاومت اور اپنے خون سے اپنی داستان لکھنے سے تعبیر کیا جا سکتا ہے، جدید شاعری میں عرفان صدیقی کے یہاں سب سے پہلے اور سب سے زیادہ استعاراتی قوت کے ساتھ استعمال ہوئے ہیں۔ لیکن یہ بات کہہ اس لیے رہا ہوں کہ یہ طرز اب اس قدر مقبول ہو گیا ہے کہ بہت سے لوگ اس کی ’’ایجاد‘‘ کے دعوے دار ہو گئے ہیں۔ عرفان صدیقی کی غزل میں ایک المیاتی وقار اور جہد رائگاں کی تلخی ہے۔ لیکن اس تلخی کا اظہار شور شیون کے ذریعے نہیں بلکہ ذہنی اور جذباتی برتری کے اظہار اور دنیا پر ایک سرد اور تحقیری نگاہ کے ذریعہ ہوا ہے۔ بعض اوقات محسوس ہوتا ہے کہ شاعر نے جذبۂ رائیگانیت کو ذرا اور شدت سے بیان کیا تو وہ انفعالی اور غیر توانا اور اشک ریزی برائے اشک ریزی کی دنیا میں داخل ہو جائے گا۔ یہاں جو چیز عرفان صدیقی کو ایسے انجام سے محفوظ رکھتی ہے وہ ان کا المیاتی احساس اور خود پر بھی ہنس لینے، خود سے بھی فریب شکستہDisillusionہونے کی صلاحیت ہے ورنہ جس شاعر کو اپنے درد ،اپنے الم، اپنے تجربے کے بارے میں یہ خوش گمانی ہو کہ جیسی مجھ پر گذری ہے کسی اور پر گذر ہی نہیں سکتی، وہ خود فریبی اور اپنے بارے میں حد سے زیادہ سنجیدہ ہو جانے کی علت میں گرفتار ہو جاتا ہے۔ سلیم احمد کی آخری زمانے کی غزلیں عرفان صدیقی کے لیے اور ہم سب کے لیے مینارۂ نور عمل کرتی ہیں۔ اپنے بارے میں خود اپنی غلط فہمیوں کا ازالہ یوں بھی ہو سکتا ہے کہ شاعر خود کائنات کا مرکز اور ہادی اور مہدی نہ سمجھے، بلکہ کائنات کی درد مندی، محزونی کو اپنے اندر سمولے، اس طرح کہ خود اس کا وجود اس محزونی کا چھوٹا سا حصّہ بن جائے۔ سلیم احمد اور بانی دونوں کے یہاں آخری زمانے میں یہ بات ملتی ہے کہ وہ اپنی ہستی سے باخبر ہیں، بیزار نہیں ہیں، لیکن اس کے پرستار بھی نہیں ہیں، بلکہ اس کو بعض کائناتی عوامل کا پابند سمجھتے ہیں۔ ظفر اقبال اور زیب غوری کی طرح وہ کائنات سے نبرد آزما ہو کر اپنی ہستی کو سب پر حاوی نہیں کرتے بلکہ اسے دوسری ہستیوں سے ملا دینے کو اپنے وجود کا ثبوت قرار دیتے ہیں۔ یہ شاعری جتنی خود آگاہ ہے اتنی ماحول آگاہ بھی ہے بلکہ اس سے کچھ زیادہ ہی۔ اور اس آگاہی کو نئے نئے پیکروں میں زمانۂ حال کے نئے نئے تجربات کے بیان پر قدرت بھی ہے۔ عرفان صدیقی ؂

ہوائے درد کا رخ ہے مرے ہی گھر کی طرف

صدائے گریۂ ہمسایگاں کہاں جائے

اس کی آنکھیں ہیں کہ اک ڈوبنے والا انسان

دوسرے ڈوبنے والے کو پکارے جیسے

دست رفو نے سینے کے سب زخم سی دیئے

اندر کا حال ناز ہنر نے کہا نہیں

ہو گا یہاں نہ دست و گریباں کا فیصلہ

اس کے لیے تو حشر کا میدان چاہیے

عرفان صدیقی کے یہاں فارسی کا رنگ غیر معمولی چمک دمک کا رنگ ہے۔ زمینیں اکثر نئی ہیں، لیکن یہ نیا پن چونکاتا نہیں۔ دھیرے دھیرے اثر کرتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اس شاعری میں پیکر کی جدت، مضمون کی ندرت، ماحول کے احساس میں برہمی، محزونی اور تنہا درد جھیلنے کی کیفیت اس قدر ہے کہ بعض سامنے کی چیزوں پر آنکھ یا کان فوراً ٹھہرتے نہیں ؂

در روحانیاں کی چاکری بھی کام ہے اپنا

بتوں کی مملکت میں کار سیلانی بھی کرتے ہیں

وہ ساری بستیاں وہ سارے چہرے خاک سے نکلے

یہ ساری دنیا پھر سے ہو زیر و زبر ایسا نہیں ہو گا

بہت ہے یہ بھی کہ موجوں کے روبرو کچھ دیر

رہا ہے ریگ رواں پر نشاں ہمارا بھی

پاؤں میں خاک کی زنجیر بھلی لگنے لگی

پھر مری قید کی میعاد بڑھا دی گئی کیا

میں کار عشق سے ترک وفا سے باز آیا

سب اس کے ہاتھ میں ہے میرے بس میں کچھ بھی نہیں

تیغ سہی زنجیر سہی پر ہوٗئے بیاباں کہتی ہے

اور بھی کچھ وحشت کے علاوہ شاید پائے غزال میں تھا

بانوے ناقہ نشیں دیکھ کے چہرہ ترا

بندۂ خاک نشاں کس کی طرف دیکھتا ہے

دل سکّۂ زر تھا کہیں مقتل میں ہوا گم

اک کاسۂ سر نذر شہنشاہ میں آیا

فتح کے نشے میں یہ بات نہ بھولو کہ وہ لوگ

پھر پلٹ آئے تو یلغار بھی کر سکتے ہیں

یہ مشکل زمینیں ہیں، لیکن شعروں میں اتنا کچھ ہو رہا ہے (خاص کر انسان کا المیہ، کبھی کبھی اس المیے پر دیوانوں والی ہنسی، کبھی کبھی درویشی پر طنطنہ، کبھی دنیا کی فتح مندی کا گلہ) اور مشکل زمیں کو غیر معمولی روانی اس خوبی سے پانی کر رہی ہے کہ یہ خیال بہت دیر میں آتا ہے کہ یہاں بڑی چالاک فن کاری بھی ہے۔

گذشتہ تین ادوار غزل پر سخت گزرے تھے۔ سب سے بڑی بات یہ تھی کہ غزل میں ’’جدت نگاری‘‘ پر اس قدر زور دیا جانے لگا تھا کہ غزل بطور فن کا گلا گھونٹ کر رہ گیا تھا۔ جدید غزل گویوں نے فن کی اہمیت پھر سے قائم کی۔ عرفان صدیقی کی غزل میں فن کی اہمیت، بلکہ فن کی حرمت پوری طرح جلوہ گر ہے۔ ان کے مصرعے انتہائی مربوط ہوتے ہیں اور ایک مصرع دوسرے کی پشت پناہی کرتا ہے۔ بات آگے بڑھاتا ہے اور دونوں برابر مل کر مضمون قائم کرتے ہیں۔ یہ ایسا فن ہے جو آج بھی بہ مشکل ہی لوگوں کے قابو میں آ سکا ہے۔

عرفان صدیقی کی غزل میں استعارے سے زیادہ پیکر اور براہ راست جذبات سے زیادہ مضمون کی تازگی نظر آتی ہے۔ ان کے یہاں نئے الفاظ اور نئے فقرے کثرت سے ہیں۔ کہیں کہیں ان پر انگریزی کا بھی ہلکا سا اثر ہے۔ فارسیت اور جدت کے امتزاج سے ان کی غزل کی فضا نہایت خوشگوار اور شائستہ ہے۔ جو چیز ان کی آواز کو مزید انفرادیت عطا کرتی ہے وہ اس کا ٹھہراؤ اور لہجے کی روانی ہے۔ ہسٹریائی وفور جذبات سے انکار اور بات کو بڑھا کر کہنے کی جگہ ذرا روک کر کہنے کی ادا ان کا خاصہ ہے۔ انھوں نے سنسکرت سے منظوم تراجم کے ذریعہ اپنی شخصیت کو بہت پہلے منوا لیا تھا، لیکن ’’شب درمیاں ‘‘ کی غزلوں سے پہلی بار یہ محسوس ہوا کہ نئی غزل اب اور ہی وادی میں ہے اور ہی منزل میں ہے کا مصداق ہو رہی ہے۔ ’’سات سمٰوات‘‘ ان کا تیسرا ہی مجموعہ ہے۔ یہ قافلۂ سخت جاں تو بہت دور تک جائے گا۔

٭٭٭

 

 

 

 

عرفان صدیقی: مجاز اور حقیقت کا سنگم

 

                ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مظہر امام(دہلی)

 

اب پرانے بادہ کش ہی نہیں، نئے بادہ کش بھی اٹھتے جا رہے ہیں۔ ویسے عرفان صدیقی کچھ ایسے نئے نہیں تھے۔ انتقال کے وقت ان کی عمر ۶۵ سال کے آس پاس تھی۔ انھیں درجۂ اعتبار بہت بعد میں حاصل ہوا۔ عرفان صدیقی مزاجاً گوشہ نشیں اور کم آمیز تھے۔ ہر کس و ناکس کو شعر سنانے کا شوق نہ تھا۔ شعری محفلوں سے احتراز کرتے تھے۔ اپنے آپ میں مگن، اپنے شعری امکانات کو جلا دیتے ہوئے۔ ستائش اور صلے کی تمنا سے بالکل بے نیاز نہ سہی۔ مگر اس کے حصول کے لیے کسی طرح کی تگ و دو سے یکسر بے تعلق۔ عزتِ نفس کا سودا کرنا کسی طرح منظور نہ تھا۔ اس لیے ادبی دنیا میں ان کی شناخت اور شہرت کی عمر بیس سال سے زیادہ نہیں ہے۔ وہ صرف اور صرف اپنے کلام کی خصوصیات سے، اپنی غزل سے پہچانے گئے۔ چالیس پینتالیس سال کی عمر تک ملک گیر سطح پر انھیں وہ مرتبہ نصیب نہیں ہوا جو ان کا مقدر تھا اور جو آنے والے برسوں میں انھیں حاصل ہوا۔ حکومت ہند کی انفارمیشن سروس سے وابستہ ہونے کے باعث ان کی پوسٹنگ کئی قسطوں میں دہلی میں بھی اچھے خاصے عرصے تک رہی، لیکن وہ یہاں کے ادبی حلقوں سے دور دور ہی رہے۔ ہر چند دہلی میں ان کے قیام کا زمانہ اس وقت کی نئی نسل یعنی جدیدیت سے وابستہ یا متاثر نسل کے عروج اور ہماہمی کا زمانہ بھی تھا۔ یہ اردو مجلس، اردو سروس اور کافی ہاؤس کے جمگھٹوں کا زمانہ تھا۔ رفعت سروش، بلراج کومل، عمیق حنفی، کمار پاشی، بانی، زبیر رضوی، مخمور سعیدی، راج نرائن راز، محمود ہاشمی، کرشن موہن، بلراج میں را، سریندر پرکاش وغیرہ دہلی کے ادبی اُفق پر جگمگا رہے تھے، مگر عرفان صدیقی نے اس افق پر جھلملانے کی کوشش بھی نہیں کی۔ ان کا پہلا مجموعۂ کلام ’’کینوس‘‘ ۱۹۷۸ء میں شائع ہوا تھا۔ لیکن نہیں معلوم کس کس تک پہنچا اور کس کس نے اس کی پذیرائی کی۔ شاید لکھنؤ اور آس پاس کے علاقوں تک پہنچا ہو۔ سنا ہے فرحت احساس نے اس مجموعے پر ایک مضمون نما تبصرہ علی گڑھ کے ایک پندرہ روزہ میں لکھا تھا۔ عرفان صدیقی کا دوسرا مجموعہ ’’شب درمیاں ‘‘ ۱۹۸۴ء میں منظر عام پر آیا اور یہیں سے ان کی باقاعدہ شناخت قائم ہوتی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ یہ مجموعہ ان کے پہلے مجموعے کے مقابلے میں ان کی شعری شخصیت کے بلوغ کو ظاہر کرتا ہے۔

نیر مسعود اور شمس الرحمن فاروقی سے عرفان صدیقی کی دوستی ایک افسانہ نگار، ایک نقاد اور ایک شاعر کی دوستی رہی ہے۔ یہ ایک طرح کی تثلیث تھی جس کا مظاہرہ میرؔ ، غالبؔ وغیرہ پر لکھنؤ ریڈیو اسٹیشن سے نشر کیے گئے ان مذا کروں سے ہوا جنھیں پروگرام ایگزیکٹیو انوار احمد خاں نے پیش کیا تھا۔ مذاکروں کو صحیح سمت لے جانے میں عرفان صدیقی پیش پیش تھے۔ ’’سوغات‘‘ کے دور سوم کے پہلے شمارے پر گفتگو بھی اسی تثلیث نے کی تھی، جو اس جریدے کے دوسرے شمارے میں چھپی۔

’’سوغات‘‘ کے دور سوم (یعنی آخری دور) کے پہلے شمارے (۱۹۹۱ء) میں عرفان صدیقی کی غزلیں محمود ایاز نے اہتمام سے چھاپیں۔ مدیر ’’سوغات‘‘ کے نام ۱۵ اکتوبر ۱۹۹۱ء کو لکھے ہوئے اپنے خط میں شمس الرحمن فاروقی نے ان غزلوں کی داد ان الفاظ میں دی: ’’عرفان صدیقی ان دنوں بہت اچھی غزل کہہ رہے ہیں۔ یہاں بھی ان کی غزلیں سب پر بھاری نکلیں ‘‘۔

محمود ایاز ’’سوغات‘‘ کے مالک، مختار اور ایڈیٹر ہی نہ تھے۔ ان کے ادبی ذوق اور ان کی ادب فہمی کی قسم کھائی جا سکتی ہے۔ ’’سوغات‘‘ کے دوسرے شمارے میں ان کے یہ جملے (تحریر : یکم مارچ ۱۹۹۲ء) ذہن و دل کو دور تک اور دیر تک متاثر کرتے ہیں :

’’تقریباً نصف صدی سے اردو ادب کا قاری ہوں۔ کوئی اچھا افسانہ، اچھا مضمون، اچھا شعر، اچھی کتاب مل جائے تو دنوں ہفتوں اس کا لطف اٹھاتا ہوں۔ ۔ ۔ کوئی نیا لکھنے والا ’’باصلاحیت‘‘ نظر آ جائے تو اس کی تحریریں ڈھونڈ ڈھونڈ کر پڑھتا ہوں۔ ۔ ۔ کچھ لوگ دو چار چیزیں غضب کی لکھ دیتے ہیں، پھر دنیا کے کسی نہ کسی چکر میں پڑ کر الگ ہی طرف نکل جاتے ہیں۔ ۔ ۔ اور اب تو یہ عالم ہے کہ برسوں میں کوئی نئی آواز ایسی سنائی نہیں دیتی، کوئی نئی تحریر ایسی سامنے نہیں آتی کہ ذہن و احساس کو اپنی گرفت میں لے، متاثر کرے، فکر پر مائل کرے۔ نیر مسعود کی ’’سیمیا‘‘ اور عرفان صدیقی کی غزل نے چونکایا۔ اس کے بعد پھر وہی ہوٗکاسماں ‘‘۔

عرفان صدیقی کا تیسرا مجموعہ ’’سات سماوات‘‘ ۱۹۹۲ء میں شائع ہوا تھا۔ اس کی ایک کاپی انھوں نے مجھے بھی بھجوائی تھی جس پر ۱۵ جون ۱۹۹۳ء کی تاریخ درج ہے۔ عرفان صدیقی کی شاعری اپنی شان کے ساتھ قارئین اور ناقدین کے ایک بڑے حلقے تک اسی زمانے میں پہنچی، ہر چند اس سے کم و بیش دس سال پہلے سے وہ ایک غزل گو کی حیثیت سے اپنے وجود کا احساس دلا چکے تھے۔ اپنے کلام کی اشاعت کے سلسلے میں بھی انھوں نے اپنے آپ کو ارزاں نہیں کیا۔ ’’شب خون‘‘ میں وہ باقاعدگی سے لکھتے تھے۔ بے قاعدگی سے وہ بعض دوسرے جریدوں مثلاً ’’ذہنِ جدید‘‘ اور ’’نیا ورق‘‘ میں بھی نظر آ جاتے۔ محمود ایاز کے وہ محبوب شاعر تھے اور عرفان صدیقی کو نمایاں کرنے میں محمود ایاز کا بڑا ہاتھ ہے۔ ’’سوغات ‘‘ میں عرفان صدیقی کی غزلوں کے علاوہ نعت، منقبت اور سلام کی اشاعت بھی ہوتی رہی۔ ۱۹۹۶ء کے شمارہ نمبر ۱۰میں ان کی بارہ ’’عشقیہ غزلیں ‘‘ شائع ہوئیں جن کی داد آصف فرخی نے ان الفاظ میں دی: ’’عرفان صدیقی نے کیسے کیسے نازک مقامات سر کر لیے ہیں ‘‘۔

یہ غزلیں ان کے ذاتی واردات کا اظہار ہیں۔ انھوں نے یہ کہہ کر اسے چھپانا چاہا:

ع بھلا یہ عمر کوئی کاروبارِ شوق کی ہے

واقعہ یہ ہے کہ کاروبارِ شوق کی کوئی عمر نہیں ہوتی۔ ان کے قریبی دوست اس سے واقف تھے۔ محمود ایاز نے ’’سوغات‘‘ میں اس کی طرف اشارہ بھی کیا تھا ’’عشق نامہ‘‘ میں یہ شعر بھی ملتا ہے :

آخر شب ہوئی آغاز کہانی اپنی

ہم نے پایا بھی تو اک عمر گنوا کر اس کو

زوالِ عمر کی محبت بہت شدید ہوتی ہے۔ عرفان صدیقی نے اس کا حق ادا کیا اور ایک سے ایک عمدہ غزلیں کہیں۔ ان کے عشق کی کامیابیوں یا ناکامیوں کے بارے میں تو ان کے قریبی احباب ہی بتا سکتے ہیں، لیکن اپنی جگہ یہ حقیقت ہے کہ ان کی اس دور کی غزلوں نے کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیے۔ ان میں سے بیشتر غزلیں ’’سوغات‘‘ اور ’’شب خون‘‘ میں نمایاں طور پر چھپیں، اور موضوعِ گفتگو اور مرکزِ توجہ بنیں۔ یہی وہ زمانہ تھا جب عرفان صدیقی کی شہرت اور مقبولیت اپنے عروج کو پہنچی اور ان کے اثرات نئے شاعروں پر ہی نہیں بلکہ ان کے ہم عصروں پر بھی پڑے۔ یہ غزلیں ان کے چوتھے مجموعۂ کلام ’’عشق نامہ‘‘ میں شامل ہیں، جسے عام طور پر ان کا سب سے اچھا مجموعہ سمجھا جاتا ہے۔ اس کی ایک کاپی بھی انھوں نے مجھے بھجوائی تھی۔ اس پر دستخط کرتے ہوئے انھوں نے تاریخ ۲ مئی ۱۹۹۸ء لکھی ہے۔ مجموعے پر سنہ اشاعت ۱۹۹۷ء درج ہے۔ اس کا انتساب ہے ’’خدا کے خزانوں کے نام‘‘ میرا خیال ہے عرفان صدیقی نے عورت کے حسن و جمال کی مختلف جہتوں کو خدا کے خزانوں سے تعبیر کیا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ انھوں نے ان میں پیڑ، دریا، ہوا، روشنی اور خوشبو کو بھی شامل کر لیا ہے :

تیرے تن کے بہت رنگ ہیں جانِ من اور نہاں دل کے نیرنگ خانوں میں ہیں

لامسہ، شامہ، ذائقہ، سامعہ، باصرہ سب مرے راز دانوں میں ہیں

اور کچھ دامنِ دل کشادہ کرو، دوستو! شکر نعمت زیادہ کرو

پیڑ، دریا، ہوا، روشنی، عورتیں، خوشبوئیں سب خدا کے خزانوں میں ہیں

اک ستارہ ادا نے یہ کیا کر دیا، میری مٹی سے مجھ کو جدا کر دیا

ان دنوں پاؤں میرے زمیں پر نہیں اب مری منزلیں آسمانوں میں ہیں

لپٹ سی داغ کہن کی طرف سے آتی ہے

جب اک ہوا ترے تن کی طرف سے آتی ہے

میں تیری منزلِ جاں تک پہنچ تو سکتا ہوں

مگر یہ راہ بدن کی طرف سے آتی ہے

ذاتی واردات اور تجربے کے بغیر ایسی شاعری معرضِ وجود میں نہیں آ سکتی۔ ان اشعار میں ’’بدن‘‘ کا بار بار ذکر اور ایک سرشاری کی کیفیت بلا وجہ نہیں ہے۔ یہ اشعار بھی دیکھیے :

مگر گرفت میں آتا نہیں بدن اس کا

خیال ڈھونڈتا رہتا ہے استعارہ کوئی

کہاں سے آتے ہیں یہ گھر اجالتے ہوئے لفظ

چھپا ہے کیا مری مٹی میں ماہ پارہ کوئی

عرفان صدیقی کی نازک خیالی، ان کے ڈکشن کی نفاست، ان کے شعور حیات کی رعنائی اور ان کے تصورِ عشق کی تہذیب ان کے اشعار سے چھلکی پڑتی ہے۔ ’’عشق نامہ‘‘ سے کتنے اشعار پیش کیے جائیں۔ دو ایک شعر اور :

اس کو رہتا ہے ہمیشہ مری وحشت کا خیال

میرے گم گشتہ غزالوں کا پتا چاہتی ہے

میں نے اتنا اسے چاہا ہے کہ وہ جانِ مراد

خود کو زنجیر محبت سے رہا چاہتی ہے

’’گم گشتہ غزالوں کا پتہ‘‘ عرفان صدیقی کے یہاں ایک اور شعر میں بھی آیا ہے :

میرے گم گشتہ غزالوں کا پتہ پوچھتا ہے

فکر رکھتا ہے مسیحا مری بیماری کی

جو لوگ معاملات محبت سے آشنا ہیں، انھیں تجربہ ہو گا کہ ’’تازہ‘‘ محبوبہ، عاشق کی ’’سابقہ‘‘ محبوباؤں ’’(گم گشتہ غزالوں )‘‘ کے بارے میں کسی نہ کسی حیلے سے واقف ہونا چاہتی ہے۔

عرفان صدیقی سے میرا ملنا جلنا بہت کم ہوا ہے۔ دہلی کے بعض مشاعروں میں رسمی ملاقاتیں رہی ہیں۔ تھوڑی بہت خط و کتابت بھی ہوئی ہے۔ البتہ اس محفل کی یاد ذہن سے محو نہیں ہوتی جو دہلی میں عرفان صدیقی کی آمد کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کے اعزاز میں معروف شاعر ڈاکٹر سجاد سید نے اپنی رہائش گاہ پر منعقد کی تھی۔ اس بزم کے شرکاء میں رفعت سروش، شہپر رسول، نسیم مخموری، محمد علی موج، احمد محفوظ، افسانہ نگار انجم عثمانی، مزاح نگار اسد رضا اور اردو اکادمی، دہلی کے سابق سکریٹری منصور احمد عثمانی کے چہرے یاد آ رہے ہیں۔ عرفان صدیقی کو رسمی طور پر متعارف کرانے کی خدمت میرے سپرد کی گئی تھی۔ میں نے ان کے کلام کی خوش آہنگی، ان کی تازہ کار تراکیب کی جمال افروزی پر خاص زور دیا تھا۔ میں نے یہ بھی کہا تھا کہ ان کی غزلیں ایک خاص نوع کی اہتزازی کیفیت سے آشنا کرتی ہیں۔ ان کے طرزِ اظہار کی نفاست اور دل آسائی فوری طور پر متوجہ اور متاثر کرتی ہے۔ میں نے یہ بھی کہا تھا کہ ان کی تازہ غزلیں عشق، وصال اور ہجر کو نئی معنویت عطا کرتی ہیں۔ ان کی یہ شاعری رنگ عام کی عشقیہ شاعری نہیں ہے۔ انھوں نے عشق کو ایک مابعد الطبیعاتی جہت دی ہے۔ عشق نے انھیں ایک نئی سرشاری بخشی ہے۔ ان کا تخلیقی ابال اسی جذبے کا عطیہ ہے۔ مثال کے طور پر میں نے ان کا یہ شعر پیش کیا تھا:

کر گیا روشن ہمیں پھر سے کوئی بدرِ منیر

ہم تو سمجھے تھے کہ سورج کو گہن لگنے لگا

’’پھر سے ‘‘ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ پہلے بھی کوئی ’’بدرِ منیر‘‘ شاعر کو روشن کر چکا ہے۔ میں نے اس محفل میں اپنی پسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے خود عرفان صدیقی کا پسندیدہ یہ شعر بھی پڑھا تھا:

رات کو جیت تو سکتا نہیں لیکن یہ چراغ

کم سے کم رات کا نقصان بہت کرتا ہے

اس شعر میں عرفان صدیقی کا وہ منفرد اسلوب، وہ لہجہ، وہ آواز نہیں ہے جو ان سے منسوب ہے۔ یہ ایک سیدھے سادے نثری اسلوب میں کہا ہوا شعر ہے اور بیان بھی نثری ہے، لیکن اس کے باوجود میں اسے ایک نہایت کامیاب شعر سمجھتا ہوں۔ خیر، یہ مسئلہ میرا نہیں، نقادوں کا ہے۔

عرفان صدیقی کے چار مجموعوں کا میں نے ذکر کیا ہے۔ ان چاروں کو یکجا کر کے ایک مجموعہ ان کے بھائی نے اسلام آباد سے ’’دریا‘‘ کے نام سے شائع کیا تھا۔ عرفان صدیقی کو پاکستان میں ایسی مقبولیت اور محبوبیت حاصل تھی کہ بہت سے لوگ انھیں وہیں کا شاعر سمجھتے تھے۔ پاکستان کے ایسے انتخابات میں جو صرف اور صرف وہیں کے لکھنے والوں کی نگارشات پر مشتمل ہوتے تھے، میں نے عرفان صدیقی کا کلام دیکھا ہے۔ صرف یہی نہیں، وہاں ایک دفعہ ایک کلینڈر میں بارہ مہینوں کے لیے بارہ پاکستانی شاعروں کی تصویریں شائع کی گئیں، ان میں سے ایک تصویر عرفان صدیقی کی تھی۔ میں نے سجاد سید کی آراستہ کی ہوئی محفل میں اس کا ذکر بھی کیا تھا۔ عرفان صدیقی نے کہا کہ میں نے بھی سنا ہے، لیکن دیکھا نہیں۔ ان کا آخری مجموعہ ’’ہوائے دشت ماریہ ‘‘جو نعت، منقبت، سلام، رباعیات وغیرہ پر مشتمل ہے، پاکستان میں چھپا ہے۔

عرفان صدیقی کی ابتدائی شاعری میں کربلا کا حوالہ بطور استعارہ یا علامت اکثر آتا رہا ہے، بلکہ ان کی شاعری کی پہچان کچھ لوگوں نے اسی تناظر میں کی ہے۔ ’’سات سماوات‘‘ کی ایک غزل کے یہ اشعار دیکھیے :

رستہ بدل کے معرکۂ صبر و جور میں

کس نے بدل دیا ہے مقدر لکھا ہوا

پانی پہ کس کے دست بریدہ کی مہر ہے

کس کے لیے ہے چشمۂ کوثر لکھا ہوا

ہے خاک پر یہ کون ستارہ بدن شہید

جیسے ورق پہ حرفِ منور لکھا ہوا

اس مجموعے کی ایک اور غزل کے یہ دو شعر بھی:

یہ کس نے دست بریدہ کی فصل بوئی تھی

تمام شہر میں نخلِ دعا نکل آئے

خدا کرے صفِ سردادگاں نہ ہو خالی

جو میں گروں تو کوئی دوسرا نکل آئے

افتخار عارف کے یہاں بھی واقعۂ کربلا کا استعاراتی اور علامتی استعمال کافی ہوا ہے۔ بر سبیل تذکرہ میں علی گڑھ کے ایک گوشہ نشیں شاعر غوث محمد غوثی کا نام لینا چا ہوں گا۔ میں نے ان کی شاعری پر چند سطریں لکھتے ہوئے کہا تھا: ’’غوث محمد غوثی کربلا کا تخلیقی، استعاراتی اور خلاقانہ استعمال کرنے والے اولین شعراء میں ہیں، یعنی افتخار عارف اور عرفان صدیقی سے پہلے ہی انھوں نے یہ شعر کہا تھا:

لب فرات عجب شان سرفرازی تھی

گماں تھا دشت میں نیزوں کے سر نکل آئے ‘‘

کہا جاتا ہے کہ کلاسیکی شعرا تعقید کو عیب نہیں مانتے تھے۔ میر اور غالب کے یہاں بھی تعقید کی بہت سی مثالیں مل جائیں گی، بلکہ میرؔ کے کئی اشعار میں یہ عیب اس قدر نمایاں ہے کہ طبیعت منغض ہو جاتی ہے۔ اساتذہ کا جو رویہ بھی رہا ہو، میں تعقید کو عیب مانتا ہوں۔

شتر گربہ کا عیب شاعر کو قابلِ قبول بننے سے بھی محروم کر دیتا ہے۔ پھر بھی آج کی شاعری میں یہ عیب اکثر مل جاتا ہے کیوں کہ اب شعرا پیدائشی ’’فارغ التحصیل‘‘ ہوتے ہیں۔ احمد فراز کے مشہور شعر:

کس کس کو بتائیں گے جدائی کا سبب ہم

تو مجھ سے خفا ہے تو زمانے کے لیے آ

میں ’’ہم‘‘ اور ’’میں ‘‘ کے استعمال سے شتر گربہ کا التباس ہوتا ہے اور اس پر اعتراض بھی کیا گیا ہے۔ لیکن یہ اعتراض درست نہیں۔ پہلے مصرعے میں ’’ہم‘‘ عاشق اور محبوب دونوں کے لیے استعمال ہوا ہے (یعنی ہم دونوں کس کس کو جدائی کا سبب بتائیں گے ) اور دوسرے مصرعے میں ’’میں ‘‘ صرف عاشق کے لیے۔

’’حشو‘‘ کی کئی سطحیں ہیں، اور ان میں سے کسی کے لیے بھی جواز پیش کرنا درست نہیں۔ لیکن بلاوجہ اب، بھی، وہ، یہ، تو وغیرہ کا استعمال فوری طور پر ذہن و ذوق کو گراں گزرتا ہے۔ یہ عیب آج کے شعرا کے یہاں ہی نہیں، اساتذہ کے یہاں بھی ملتا ہے۔

بہر حال، ہر غلطی کو عیب کے زمرے میں شامل کرنا مناسب نہیں۔ مثلاً اقبال کے مصرعے :

اشارہ پاتے ہی صوفی نے توڑ دی پرہیز

پر آج سے نہیں، ستر اسی سال پہلے سے اعتراض وارد ہوتا رہا ہے، کہ ’’پرہیز‘‘ تذکیر ہے۔ ظاہر ہے اقبالؔ کو بھی اس کا علم ہو گا مگر ’’پرہیز‘‘ کو یہاں کسی اور طرح باندھنا ممکن نہ تھا، ورنہ ’’بال جبریل‘‘ کی اشاعت کے وقت اقبالؔ اسے ضرور درست کر دیتے۔ واقعہ یہ ہے کہ اگر ’’عیب جوئی‘‘ مقصد اور پہلے سے طے شدہ نہ ہو تو یہ شعر پڑھتے وقت ایک لمحے کو بھی احساس نہیں ہوتا کہ اس میں کوئی غلطی یا عیب ہے۔ یہ اقبال کے لفظی درو بست اور اس سے پیدا کردہ روانی اور خوش آہنگی کا کمال ہے کہ یہ غلطی بھی حسن بن گئی ہے۔

یہ بہ ظاہر بے تعلق باتیں بلا سبب نہیں ہیں۔ عرفان صدیقی کی غزل کا مطالعہ ظاہر کرتا ہے کہ ان کے یہاں اس طرح کے عیوب یا غلطیاں نہیں ہیں۔ کم از کم مجھے نہیں ملیں۔ لیکن اس سے یہ نہ سمجھا جائے کہ میں انھیں استاد فن کا درجہ دینے کی کوشش کر رہا ہوں۔ کچھ نے کہا ہے ( منسوب رشید احمد صدیقی سے ہے ) کہ اساتذہ کی خوبی یہ ہوتی ہے کہ ان کے یہاں کوئی عیب نہیں ہوتا اور عیب یہ ہوتا ہے کہ ان کے یہاں کوئی خوبی نہیں ہوتی۔ لہٰذا عرفان صدیقی کو ’’اساتذہ‘‘ میں شمار کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ وہ اول تا آخر ایک خوش گو شاعر ہیں، جنھیں آداب فنّی سے پوری آگہی ہے اور انھیں برتنے پر پوری قدرت ہے۔

لیکن یہاں میں یہ بھی عرض کرنا چاہتا ہوں کہ عرفان صدیقی نے اپنی بہت سی غزلوں کی ردیفوں میں ایک ایسی ’’بے تکلفی‘‘ برتی ہے جس سے مجھے ہمیشہ الجھن ہوئی ہے، ہر چند اسے فنی عیب قرار نہیں دیا جا سکتا۔ مثلاً ’’عشق نامہ‘‘ کی پہلی ہی غزل کو لیجیے جس کا وزن فاعلاتن فعلاتن، فعلاتن فَعِلُن‘‘ ہے :

خانۂ درد ترے خاک بسر آ گئے ہیں

اب تو پہچان کہ ہم شام کو گھر آ گئے ہیں

’’گئے ہیں ‘‘ بر وزن ’’فاعلن‘‘ استعمال ہوا ہے۔ اسے بر وزن ’’فعولن‘‘ ہونا چاہیے۔ اسی بحر میں دوسری غزل:

ہم سے وہ جان سخن ربط نوا چاہتی ہے

یہاں بھی ’ہتی ہے ‘‘ کا استعمال اسی طرح ہوا ہے۔ اسے بھی بر وزن ’’فعولن‘‘ ہونا چاہیے۔ ایک دوسرے وزن ’’مفاعلن فعلاتن مفاعلن فعلن‘‘ میں لکھی ہوئی دو غزلوں کے یہ پہلے مصرعے دیکھیے :

ذرا سا وقت کہیں بے سبب گزارتے ہیں

عجیب نشہ ہے، ہشیار رہنا چاہتا ہوں

’’رتے ہیں ‘‘ اور ہتا ہوں ‘‘ بر وزن ’’فعلن‘‘ استعمال ہوئے ہیں۔ انھیں بھی بر وزن ’’فعولن‘‘ ہونا چاہیے۔ دوسرے مصرعے میں یوں بھی دو عیب ہیں ’’رہنا‘‘ اور ’’چاہتا‘‘ دونوں میں الف بری طرح دبتی ہے۔ یہ روانی اور خوش آہنگی دونوں کو متاثر کرتی ہے اور ان صفات کے لیے عرفان صدیقی کو داد دی جاتی رہی ہے۔ یہ فنی عیب نہ سہی، فنی کمزوری تو ہے ہی۔ جیسا کہ میں کہہ چکا ہوں، عرفان صدیقی کے یہاں ایسی غزلیں خاصی تعداد میں ہیں۔ مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے یہ ایک طرح ان کا Forteبن گیا تھا۔ کیوں کہ اس طرح کی غزلیں مجھے ناصر کاظمی، خلیل الرحمن اعظمی، شکیب جلالی، احمد مشتاق، شاذ تمکنت، بانی وغیرہ کے یہاں نہیں ملیں۔ اصغر، حسرت، فانی، جگر، فراق کے یہاں تو ہیں ہی نہیں۔ عرفان صدیقی کی تقلید میں اسعد بدایونی کی کئی غزلیں آئیں، پھر سلطان اختر کی بھی۔ میں نے اسعد بدایونی اور سلطان اختر سے الگ الگ موقعوں پر اس کا ذکر کیا تھا۔ اسعد خاموش رہے۔ سلطان اختر نے کہا کہ اب وہ اس طرح کی غزلیں کہنے سے احتراز کریں گے۔

عرفان صدیقی پر یہ اعتراض بھی ہوا ہے کہ ان کے موضوعات محدود ہیں اور زندگی کے مختلف النوع مظاہر اور جہات پر ان کی نظر نہیں ہے۔ مگر ان کے یہاں شعر کہنے کا جو سلیقہ ہے وہ ان کی دوسری کمیوں کی تلافی کر دیتا ہے۔ جس طرح کوئی نرم خو ندی آہستہ خرامی کے ساتھ دائیں بائیں دیکھے بغیر بہتی جاتی ہے، مجھے احساس ہوتا ہے کہ عرفان صدیقی کی غزل بھی اسی نرم رفتاری کے ساتھ آگے بڑھتی جاتی ہے اور مطلق فکر مند نہیں ہوتی کہ کوئی اس کی رفتار کے بانکپن کو دیکھ رہا ہے یا نہیں۔

ساہتیہ اکیڈمی انعام کے سلسلے میں عرفان صدیقی کا نام کئی بار سننے میں آیا، لیکن نظرِ انتخاب ان پر نہیں پڑی۔ البتہ ان کی علالت کے دنوں میں ۲۰۰۳ء کے اواخر میں غالب انسٹی ٹیوٹ نے انھیں شاعری کا ’’غالب ایوارڈ‘‘ دینے کا فیصلہ کیا جس سے ادبی حلقوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ اتفاق سے ان کے ساتھ ہی نیر مسعود کو بھی تحقیق و تنقید کے ’’غالب ایوارڈ‘‘ کے لیے منتخب کیا گیا۔ باقاعدہ اعلان سے پہلے ہی میں نے دونوں کو مبارک باد کا خط لکھا اور توقع ظاہر کی کہ تقسیم انعامات کے جلسے میں ان سے ملاقات ہو گی۔ عرفان صدیقی کے دماغ کے ٹیومر (Tumour)کا آپریشن ہوا تھا، اور وہ اسپتال سے گھر واپس آ گئے تھے۔ نیر مسعود نے اپنی صحت کی خرابی کے باعث جلسے میں شرکت سے معذوری ظاہر کی تھی اور لکھا تھا کہ عرفان صدیقی اب بہتر ہیں اور وہ شریک ہوں گے۔ عرفان صدیقی سے میری اور سجاد سید کی فون پر گفتگو بھی ہوئی۔ وہ جلسۂ تقسیم انعامات میں شرکت کے لئے تیار نظر آئے، مگر عین وقت پر ڈاکٹروں نے یہ اجازت نہ دی۔ وہ ایک بار پھر سجاد سید کے یہاں یا میرے یہاں مل بیٹھنے کے لیے رضا مند ہو گئے تھے۔ اس کے بعد ہی ان کی صحت تیزی سے گرتی گئی۔ کینسر کے مرض کو وہ آخر وقت تک ہمت اور حوصلے سے جھیلتے رہے۔

عرفان صدیقی نے عمر انیات میں ایم۔ اے کرنے کے علاوہ دہلی کے انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ماس کمیونی کیشن سے صحافت میں ڈپلومہ بھی حاصل کیا تھا۔ ’’رابطۂ عامہ‘‘ اور ’’عوامی ترسیل‘‘ نامی کتابیں بھی تالیف کی تھیں۔ ریٹائر منٹ کے بعد انھوں نے لکھنؤ کے روزانہ ’’صحافت‘‘ کی ادارت قبول کر لی تھی اور وہ اس کے لیے اداریے لکھا کرتے تھے۔ ’’صحافت ‘‘ سے وابستگی نے انھیں سیاست کے زوال اور اس کی ریشہ دوانیوں اور معاشرے کی بے ضمیری پر غور کرنے اور ان کا تجزیہ کرنے کا موقع فراہم کیا، لیکن ان کے دل و دماغ پر اس کے منفی اثرات پڑنے لگے۔ گجرات کے سانحے نے ان کی روح کو زخم زخم کر ڈالا اور ایسے میں ان کی ایک غزل ’’شب خون‘‘ میں شائع ہوئی جس نے پوری ادبی شعور کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ گجرات فسادات اور انسانیت کشی کے پس منظر میں عرفان صدیقی کی اس غزل سے بہتر کوئی ایسی تخلیق سامنے نہیں آئی جو نشتر کی طرح رگ و پے میں اترتی چلی جائے۔ یہ غزل اقبالؔ کے ’’شکوہ‘‘ کی یاد دلاتی ہے اور اسی کی طرح پر تاثیر ہے۔ عرفان صدیقی کی شاعری کا کوئی حوالہ اس غزل کے بغیر مکمل نہیں ہے۔ میں سمجھتا ہوں دس اشعار کی یہ غزل عرفان صدیقی کی تخلیقی بصیرت اور فنی توانائی کا نقطۂ عروج ہے۔ چند شعر:

حق فتح یاب میرے خدا کیوں نہیں ہوا

تو نے کہا تھا تیرا کہا کیوں نہیں ہوا

جب حشر اسی زمیں پہ اٹھائے گئے تو پھر

برپا یہیں پہ روزِ جزا کیوں نہیں ہوا

وہ شعلہ ساز بھی اسی بستی کے لوگ تھے

ان کی گلی میں رقص ہوا کیوں نہیں ہوا

کیا جذب عشق مجھ سے زیادہ تھا غیر میں

اس کا حبیب اس سے جدا کیوں نہیں ہوا

کرتا رہا میں تیرے لیے دوستوں سے جنگ

تو میرے دشمنوں سے خفا کیوں نہیں ہوا

جو کچھ ہوا وہ کیسے ہوا جانتا ہوں میں

جو کچھ نہیں ہوا وہ بتا کیوں نہیں ہوا

٭٭٭

 

 

 

 

عرفان صدیقی کی غزلیں

 

                ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اسعد بدایونی (علی گڑھ)

 

ہمارا عہد کاذب آوازوں اور پُر فریب لفظوں کا عہد ہے اور جملہ شعبہ ہائے زندگی ان جھوٹی اور پر فریب صداؤں کی لپیٹ میں ہیں۔ ادبی منظر نامے پر بھی کئی صادق آوازوں کا وجود گہری تاریک رات میں چمکنے والے جگنوؤں کی طرح ہے جو کچھ لحظہ کے لئے روشنی تو پھیلاتے ہیں اور آنکھوں کو بھلے بھی لگتے ہیں مگر تاریکی میں کمی کا باعث نہیں ہوتے۔ ادھر کچھ عرصہ سے شہرِ ادب مستقل سیاہ را توں کی زد میں ہے اور کساد بازاری کا جو عالم ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ طلوع کی نوید نہ جانے کب حاصل ہو گی۔ خیر یہ تو جملۂ معترضہ تھا۔ بات در اصل عرفان صدیقی کی غزلیہ شاعری کی ہے اور یہ شاعری سردسیاہ رات میں چمکنے والے جگنو کی طرح ہے۔ ادبی منظر نامے پر جلتے بجھتے صادق ناموں میں سے ایک نام ہے عرفان صدیقی۔

شاعری احساسات کے اظہار کا دوسرا نام ہے اور ان احساسات کا منبع کائنات ہے۔ موسموں کے تغیر، انسانی رشتوں کی رنگا رنگی نفرت و محبت کی قدریں اور بنیادی جبلتیں، ان تمام عوامل و عناصر کی ترکیب و تہذیب سے شاعری وجود میں آتی ہے اور جہاں کہیں یہ عناصر اپنی پوری قوت کے ساتھ متشکل ہوتے ہیں کسی توجہ طلب فنکار کا ظہو ر ہوتا ہے۔ عرفان صدیقی ایسے ہی فنکاروں میں سے ایک ہیں جنھوں نے فطرت کی جملہ نیرنگیوں کو مس کیا ہے اور حیرتوں کے بے شمار چراغ جلائے ہیں۔ عرفان صدیقی کی غزل اپنے زمانے کا سچا اور کھرا اعلامیہ بن کر ابھرتی ہے۔ اس میں وہ تمام اعمال و افعال موجود ہیں جنھیں عرف عام میں ’’عصری حسیت‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

عرفان صدیقی کی شعری کائنات کا احاطہ اگر صرف چند لفظوں میں کرنے کی کوشش کی جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ وہ گم شدہ تہذیب و ثقافت کی باز آفرینی اور حال سے مثبت رابطے کی کوشش کے شاعر ہیں، مگر ان چند الفاظ سے ان کی شاعری کو پوری طرح سمجھا نہیں جا سکتا کہ یہ صرف گم شدگی اور رابطوں کی کہانی نہیں ہے۔ اس میں جو زیریں لہجہ ہے وہ ایک حساس فنکار کے ذہن کا مواج سمندر ہے اور اس سمندر کی لہریں غضب ناکی و طرب ناکی کا مجموعہ ہیں۔

گرتی دیواروں کے نیچے سائے جیسے آدمی

تنگ گلیوں میں فقط عکسِ ہوا جیسے ہوا

آدمیوں کی یہ پرچھائیاں اور ہوا کے بجائے عکسِ ہوا کا احتمال عرفان صدیقی کی غزل پر شاید ہماری گرفت مضبوط کر سکے اور ہم ان کے بنائے ہوئے طلسم میں داخل ہونے کا کوئی راستہ نکال سکیں۔

عرفان صدیقی کی غزل کا لہجہ دعاؤں کے گداز سے تشکیل پاتا ہے۔ یہاں احتجاج کی لے اتنی تیز نہیں کہ چیخ و پکار بن جائے۔ بلکہ یہ احتجاج نرم گرم سسکیوں سے عبارت ہے اس احتجاج کا سفر ذات سے شروع ہوتا ہے اور بیکراں کائنات تک پھیل جاتا ہے سو ہم اسے خالص داخلی شاعری کا نام بھی نہیں دے سکتے اور اپنی آسانی کے لئے اسے خارجی مسائل و مناظر کا شاعرانہ اظہار بھی نہیں کہہ سکتے۔ یہاں خارجی اور داخلی کیفیتیں اپنی جملہ نیرنگیوں کے ساتھ اس طور ظہور کرتی ہیں کہ ان دونوں تنقیدی اصطلاحوں کو ایک کر کے دیکھے بغیر چارہ نہیں یعنی خارج و داخل حسب ضرورت یہاں ایک دوسرے سے ہمکنار ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں اور اس ہمکناری سے جو شعری پیکر وجود میں آتے ہیں وہ عرفان صدیقی کی غزل کا امتیاز ہیں۔

اگلے دن کیا ہونے والا تھا اب تک یاد ہے

انتظارِ صبح میں وہ سارے گھر کا جاگنا

اِک ذرا خم ہوکے میں پیشِ ستم گر بچ گیا

میری پگڑی گر گئی لیکن مرا سر بچ گیا

عجب حریف تھا میرے ہی ساتھ ڈوب گیا

مرے سفینے کو غرقاب دیکھنے کے لئے

عرفان صدیقی کو تباہی و تاراجی کے مہیب منظر سے مثبت نتیجے نکالنے پر دسترس حاصل ہے۔ شاید اسی لئے میں انہیں گم شدہ ماضی اور حال کے اثبات کا شاعر کہہ رہا ہوں۔ ان کا ایک شعر ہے۔

کم سے کم اب کسی شب خون کا خطرہ تو نہیں

کر دیا جلتے ہوئے خیموں نے صحرا روشن

خیموں کی خرابی کے ساتھ ساتھ صحرا کے روشن ہونے اور اس روشنی سے کسی مزید بڑے خطرے سے محفوظ ہو جانے کا اطمینان اپنے اندر جو جذباتی تشنج رکھتا ہے اسے محسوس کرنا ہی بڑا جان لیوا عمل ہے چہ جائیکہ اس کا شاعرانہ اظہار اور ہمارا شاعر یہاں سے سرخرو گزرتا ہے سرنگوں نہیں۔

نا امید فضاؤں اور ملال کے منظروں میں معجزوں کا منتظر ہمارا شاعر آنے والے دنوں سے مایوس نہیں۔ وہ یقین رکھتا ہے کہ پیک سحر اس کے فصیل شہر کے اندر بھی آئے گا اور پردہ افلاک پر کوئی ستارۂ غیب چمکے گا۔ دریاؤں کی طغیانی اور راستوں کی عدم موجودگی کے باوجود وہ جب یہ کہتا ہے۔

عجب نہیں کہ یہ دریا نظر کا دھوکا ہو

عجب نہیں کہ کوئی راستہ نکل آئے

تو احساس ہوتا ہے کہ وہ آج بھی رفتہ و گزشتہ ادوار کو زندہ کرنے کے عمل میں مبتلا ہے۔ نہ صرف خود مبتلا ہیں بلکہ چاہتا ہے کہ دوسرے بھی اس سوچ میں شریک ہوں۔

خدا کرے صفِ سردادگاں نہ ہو خالی

جو میں گروں تو کوئی دوسرا نکل آئے

لیکن جب اسے اپنا کوئی ہم سفر نظر نہیں آتا تو وہ صدا لگاتا ہے :

ہے کوئی شخص مرے دشتِ زیاں کا سفری

ہے کوئی شخص جو اس دھوپ کو بادل کر دے

کھوئے ہوؤں کی جستجو میں اتنی شدت کے باوجود بھی وہ حال سے غافل نہیں۔ اسے اپنے سارے فیصلوں کے لئے جو جگہ درکار ہے وہ یہی دنیا ہے۔

میں چاہتا ہوں یہیں سارے فیصلے ہو جائیں

کہ اس کے بعد یہ دنیا کہاں سے لاؤں گا میں

اُسے احساس ہے کہ وحشتِ جاں کا علاقہ بڑھائے بغیر، نئے دشت تسخیر کئے بغیر آزادی فضول ہے اور یہ سوچ ایک مثبت ذہن اور کھلی آنکھوں کے شاعر کی سوچ ہے۔

اگر وسعت نہ دیجے وحشتِ جاں کے علاقے کو

تو پھر آزادیِ زنجیرِ پا سے کچھ نہیں ہوتا

عرفان صدیقی کی غزل میں تلمیحات کا استعمال بڑے خوبصورت اور پر تاثیر انداز میں ہوا ہے۔ انہوں نے کربلا کے استعارے کو اپنے عہد کے حوالے سے سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ واقعہ کربلا کی استعاراتی معنویت کے سبب یہ اردو شعر و ادب کا ایک مضبوط اور رائج استعارہ ہے۔ مگر عرفان صدیقی نے اس استعارے میں اپنی سوچ کے اتنے رنگ بھر دیے ہیں کہ یہ ان کا غزلیہ شاعری کا ایک مخصوص حوالہ بن گیا ہے۔ اس رنگ کے چند اشعار دیکھیے۔

ہوائے کوفۂ نا مہرباں کو حیرت ہے

کہ لوگ خیمۂ صبر و رضا میں زندہ ہیں

ایک پیمانِ وفا خاک بسر ہے سر شام

خیمہ خالی ہوا تنہائی عزا کرتی ہے

دولتِ سر ہوں سو ہر جیتنے والا لشکر

طشت میں رکھتا ہے نیزے پہ سجاتا ہے مجھے

سر اگر سر ہے تو نیزوں سے شکایت کیسی

دل اگر دل ہے تو دریا سے بڑا ہونا ہے

کہ جیسے میں سرِ دریا گھرا ہوں نیزوں میں

کہ جیسے خیمۂ صحرا سے تو پکارتا ہے

اس کے علاوہ ان کی لفظیات میں قدیم آلاتِ جنگ اور طریقۂ جنگ سے متعلق بھی بہت سے الفاظ شامل ہیں جنھیں ہم واقعۂ کربلا ہی کا ایک حصہ سمجھ سکتے ہیں۔

میں گر چکا تھا کہ نصرت کا راہوار لئے

مجھے مصاف سے کوئی نکالنے آیا

میں کہاں گلاب شجر کروں، میں کشادہ سینہ کدھر کروں

کوئی نیزہ میرے یمین میں، کوئی تیغ میرے یسار میں

جو گرتا نہیں ہے اسے کوئی پامال کرتا نہیں !

سو وہ سربریدہ بھی پشتِ فرس سے اترا نہیں

پرند جھیلوں پہ آتے ہیں لوٹنے کے لئے

سبھی رُکے ہوئے لشکر رکاب کرتے ہیں

اُنہیں کیا خبر کہ دلاوری کوئی شرط فتح و ظفر نہیں

کہ بکھرتی صف کے پیادگاں نہ شمار میں نہ قطار میں

عرفان صدیقی کی غزل میں عورت کے روپ بڑے دلکش اور پر تاثیر انداز میں آئے ہیں مگر عورت ان کی غزل کا حوالہ اس طور سے نہیں بنتی جس طرح وہ ہمارے دوسرے غزل گو شاعروں کے یہاں نظر آتی ہے۔ یہ بات نئی بھی ہے اور انوکھی بھی، ممکن ہے کہ انہوں نے شعوری طور پر عورت کو اپنی غزل میں داخلے کی اجازت بہت کم دی ہو۔ ان کی غزل میں عورت زیادہ تر ماں کے روپ میں نظر آتی ہے۔ میں صرف ایسے اشعار پیش کر رہا ہوں جن میں عورت کے دوسرے روپ نظر آتے ہیں۔

جسم کا شیشہ کاجل کرتی کالی رات خرابی کی

آنکھوں کی محراب میں روشن چہرہ اک سیدانی کا

تجھ سے ملے تو ہم نے یہ جانا کہ آج کل

آہو شکاریوں کو گرفتار کرتے ہیں

عجب گداز پرندے بدن میں اڑتے ہوئے

اُسے گلے سے لگائے زمانہ ہوتا ہوا

سپردگی میں بھی انداز دسترس کا ہے

یہ کاروبارِ محبت اسی کے بس کا ہے

اجلی لڑکی، دنیا میں بڑی کالک ہے پر ایسا ہو

مانگ میں تیری جگنو چمکیں لونگ تری لشکارا دے

عرفان صدیقی تجربات و حادثات کے بیکراں طلسم زار میں اپنی کھوئی ہوئی لوح کے متلاشی ہیں۔ وہ لوح جو انہیں خطرات سے محفوظ کرتی اور مقابلے کی قوت بخشتی تھی۔ ہمیں یقین ہے کہ بہت جلد وہ اس لوح کو ضرور تلاش کر لیں گے اور ’’تصویرِ ہنر‘‘ میں جو رنگ ہلکا رہ گیا ہے وہ گہرا اور بہت گہرا ہو جائے گا۔

میں اپنی کھوئی ہوئی لوح کی تلاش میں ہوں

کوئی طلسم مجھے چار سو پکارتا ہے

(1987)

٭٭٭

 

 

 

 

عرفان صدیقی

 

                ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وارث کرمانی (رامپور )

 

عرفان صدیقی کے بارے میں اتنا وثوق کے ساتھ کہا جا سکتا ہے یا کم از کم میرا اپنا تاثر یہی ہے کہ ان کی غزل اپنے زمانے کی منفرد چیز ہے۔ اس کی اپنی ایک ادا اور آب و تاب ہے جیسے آسمان پر صبح کے وقت زہر استارہ تیز روشن اور اکیلا سا نظر آتا ہے، یہی حال عرفان صدیقی کی غزل کا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ غزل کا میدان بالکل صاف ہے اور عرفان یکہ تاز عرصہ سخنوری ہیں۔ بر صغیر میں اور بھی بہت سے اعلیٰ درجہ کی غزل کہنے والے ہیں جو عرفان صدیقی سے زیادہ سینئر اور مشہور و ممتاز ہیں، ان کی غزلیں نیا رنگ و آہنگ بھی رکھتی ہیں اور مجموعی طور سے جدید دور کی نمائندگی کرتی ہیں لیکن ان میں اب فرسودگی کا احساس ہونے لگا ہے یا اگر فرسودگی نہ بھی کہیے تو یہ کہہ سکتے ہیں کہ قاری کو ان سے اچھی خاصی شناسائی ہو گئی ہے۔ یہ شناسائی آگے چل کر خطرناک ہو سکتی ہے۔ آپ نے انگریزی کی یہ مثل سنی ہو گی Familiarity breeds contempt، میں اسی انسانی فطرت کی بنا پر خطرناک کا لفظ استعمال کر رہا ہوں۔ مثال کے طور پر ظفر اقبالؔ کی غزل کے آڑے ترچھے شعروں سے ہم عرصے سے واقف ہیں اور ان کے فنی کمال اور قدرت کلام سے ہم ان سے اس سے زیادہ وقیع اور بہتر شاعری کی توقع رکھتے ہیں۔ کبھی کبھی جب وہ نثر لکھتے ہیں تو مختصر خطوں اور مضامین کی شکل ہی میں کیوں نہ ہو نہایت بلیغ، سادہ اور جاذب ہوتی ہے۔ شاعری میں بھی ہم ایسی ہی دزدیدہ و پوشیدہ کارفرمائی کی امید رکھتے ہیں لیکن اب ان کی عادت جیسی پڑ چکی ہے اس سے وہ مجبور ہیں۔ منیر نیازی سے بھی ہم خاص قسم کی توقعات رکھنے میں حق بجانب ہوں گے۔ ہمیں ان کی ڈگر معلوم ہے اور ان کا عرصۂ خیال انہیں کا دریافت کردہ سہی لیکن اس کا حدود اربعہ ہماری دانست میں ہے۔ احمد مشتاق البتہ جدید رجحان میں سو فیصد بند نہیں کئے جا سکتے۔ ان کے لئے انتظار حسین کا یہ جملہ کہ ’’میں احمد مشتاق کے شعر کب سے پڑھ رہا ہوں مگر عجب شاعری ہے اپنا نام نہیں بتاتی ‘‘ ان کی شاعری کا پورا تشخص کر دیتی ہے۔ ایک سادہ اور مختصر جملہ ایک طرف اور بیسیوں صفحات کا تنقیدی مقالہ ایک طرف۔

ان معروضات کے بعد عرفان صدیقی کے بارے میں جو بات میں کہنا چاہتا ہوں وہ قابل فہم ہو جائے گی۔ وہ بات یہ ہے کہ ان کی غزل پر سکّہ بند جدیدیت کی کہیں چھینٹ بھی نہیں پڑی ہے۔ وہ کسی اور سرزمیں کے سیاح معلوم ہوتے ہیں۔ اس سر زمیں کا ہمیں اندازہ نہیں ہو پاتا اور جس مال کے وہ سوداگر ہیں وہ نایاب نہیں تو کمیاب ضرور ہے۔ ان کی غزل کی خوبی یہ ہے کہ وہ کسی تنقیدی خانے میں فٹ نہیں ہوتی۔ کلاسیکی، نوکلاسیکی، حالی والی جدیدیت، ترقی پسند اور رومانیت، موجود جدیدیت یا مابعد جدیدیت (Post-Modernism)کوئی بھی لیبل، اس پر چسپاں نہیں ہوتا مگر ہر لیبل کی خوشبو اس میں مل جاتی ہے۔ حد یہ ہے کہ ان کے یہاں ایسے اشعار بھی مل جائیں گے جو اردو غزل کے تقریباً پانسو برس کے میدان کے اس پار جست لگا کر سعدیؔ اور منو چہریؔ کے وجدان کی یاد دلاتے ہیں۔ اس شعر پر غور کیجئے۔

ناقۂ حسن کی ہمرکابی کہاں خیمۂ ناز میں باریابی کہاں

ہم تو اے بانوے کشور دلبری پاسداروں میں ہیں ساربانوں میں ہیں

سب لوگ آج کل فارسی تو نہیں جانتے پھر بھی شیخ سعدیؔ کا یہ شعر اتنا سادہ ہے کہ اردو والے بھی اس میں اور عرفان کے شعر میں جو ربط ہے اسے محسوس کر لیں گے۔

اے سارباں آئینہ راں کا رام جانم می رود

واں دل کہ باخود  داشتم با دلستانم می رود

یہ بات ماننا پڑے گی کہ ہر اچھے شاعر کی طرح عرفان صدیقی کی غزل میں بھی فنکاری کا عنصر بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ ان کے لب و لہجہ کی تازگی لفظوں کا انتخاب اور استعاروں اور بندشوں کی تراش ان کے شعروں میں وہ معنویت پیدا کر دیتی ہے جس پر عالم رویا میں ان کی نظر پڑتی ہے۔ لیکن یہ عالم رویا کون سا ہے اور اس کے اظہار و ابلاغ کے لئے جو تخاطب یا ٹونToneوہ لاتے ہیں وہ کیسے وجود میں آتا ہے اسے وہ خود نہیں بتاسکتے، ناقد کیا خاک بتائے گا۔ کسی غزل کا تجزیہ کرنا، شعر کی تحلیل نفسی کرنا اور ان عناصر کا پتہ لگانا جن کی بنا پر اس کی غزل جیسی ہے ویسی کیوں ہے بڑا مشکل کام ہے، بلکہ میں ذاتی طور سے اس قسم کے پوسٹ مارٹم کو ایک شوق فضول سے زیادہ اہمیت نہیں دیتا کیوں کہ اس میں پوسٹ (Post)میں کچھ نہیں ملتا بس Mortemرہ جاتا ہے۔ وہ ناقدین جو مغربی مفکرین کی آیتوں اور روایتوں کے حوالے دے کر کسی شاعر کی شناخت اور اس کے اجزائے ترکیبی سے قارئین کو با خبر کرتے رہتے ہیں وہ یہ بھول جاتے ہیں یا انہوں نے پورے طور سے ہمارے نظریہ ساز نقادوں کی عملی تنقید کو پڑھا ہی نہیں ہے جن میں مثال کے طور پر گوپی چند نارنگ اور شمس الرحمن فاروقی سر فہرست نظر آتے ہیں کہ وہ خود آخر میں اپنے ہتھیار ڈال دیتے ہیں اور شعر کے نہاں خانے کے انکشاف کو انسانی وسائل سے بالاتر سمجھتے ہیں۔ میں نے ابھی حال میں نارنگ کی کتاب اسلوبیات میرؔ پر تبصرہ کرتے ہوئے ان کی موجودگی میں خود انہیں کے الفاظ کا اقتباس دے کر اپنی بات کی تصدیق کرالی تھی اور بہت سے دوسرے مستند ناقدین جو شریک محفل تھے سب نے خاموشی سے میری بات سنی تھی اور کسی نے تردید میرے پوچھنے کے باوجود نہیں کی۔ اس لئے میرا خیال ہے بلکہ مجھے یقین ہے کہ نظریات کی مدد سے شعر کی تفہیم میں ماشہ بھر بھی فرق نہیں پڑتا۔ حاشیہ آرائی ضرور ہوتی رہتی ہے مرکز نہیں ٹوٹتا sanctum sanctorumیا حصن حصین اسی طرح نا قابل تسخیر رہتا ہے بلکہ بڑے شاعر کے کلام پر تو اس کا اثر الٹا ہی پڑتا ہے۔ جبھی تو مرزا صائبؔ اصفہانی نے برہم ہو کر کہا تھا ’’شعر مرا مدرسہ کہ برد‘‘ یعنی میرے شعر کو مدرسہ کس نے پہنچا دیا۔ اب یاد نہیں شعر کون سا تھا ممکن ہے مشکل ہو یا مبہم ہو تو غالبؔ کا ایک بالکل عام فہم اردو شعر لے لیجئے

تھی وہ اک شخص کے تصور سے

اب وہ رعنائی خیال کہاں

اس شعر میں جو کیفیت یا لطف بیان ہمیں ملتا ہے اس کی تفسیر یا تعبیر کر کے ایک نقاد کیا اضافہ کر سکتا ہے وہ تو اسے چھوتے ہی نیچے لے آئے گا۔ میتھیو آرنلڈ نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ میں یہ تو نہیں بتا سکتا کہ عظیم شاعری کیا ہوتی ہے لیکن یہ بتا سکتا ہوں کہ عظیم شاعری کہاں ہے اس کے بعد وہ وڈزورتھ کے شعروں سے مثالیں دے کر بتاتا ہے کہ عظیم شاعری یہاں موجود ہے۔

عرفان صدیقی کی غزل پڑھ کو جو لذت ہمیں ملتی ہے اس پر جب بھی میں غور کرتا ہوں تو یہی مجبوری لاحق ہوتی ہے۔ یہ کہنا کہ ان پر عجمی روایت کا اثر ہے یا وہ کلاسیکیت کا دامن پکڑے ہوئے ہیں کافی نہیں معلوم ہوتا ہے کیونکہ جگرؔ ، اصغرؔ ، حسرتؔ وغیرہ اور لکھنؤ دہلی کے قریب العصر اساتذہ کے یہاں بھی عجمی روایت اور کلاسیکیت کے اثرات عرفان صدیقی سے زیادہ پائے جاتے ہیں۔ لیکن عرفان ان کے جانشیں یا مشابہ نہیں معلوم ہوتے، جس طرح ابھی حال میں جذبیؔ اور مجروحؔ وغیرہ اپنی انفرادیت اور تازہ کاری کے باوجود ان استادوں سے وابستہ معلوم ہوتے ہیں۔ تو کیا عرفان کو جدید شاعروں کی صف میں کھڑا کیا جائے جو پچھلے متغزلین استادوں کے رنگ سخن سے کٹ کر بلکہ اکھڑ کر اور ان کی صدیوں کی شاہراہ خیال سے علیحدہ ہو کر نئے ہموار راستوں پر چل پڑے تھے، جن کی غزلیں پچھلے تیس چالیس برسوں سے رسالوں میں چھپ رہی ہیں۔ عرفان کی غزل یہاں بھی علیحدہ نظر آتی ہے۔ ان کے محسوسات و مشاہدات کسی ایک فرد واحد کی ملکیت معلوم ہوتے ہیں اور ان کے لئے جو استعارے اور اسلوب بیان استعمال کیا گیا ہے وہ بھی ایسی پوشاک کی طرح ہے جو اسی فکری پیکر کے لئے قطع کر کے تیاری کی گئی ہے، لیکن محض اس خصوصیت کی بنا پر ان کا امتیاز قائم نہیں ہوتا۔ ان کے شعروں کی انوکھی صفت یہ ہے کہ ان کے الفاظ کی چھوٹ یعنی side effectsبہت تیز ہوتے ہیں اور ان کی چمک دمک دماغ کے گوشوں میں ادھر ادھر روشنی پھینکتی ہے۔ ناسخؔ لکھنوی کے ایک شعر سے میری بات زیادہ واضح ہو جائے گی۔

کی جو خیاط ازل نے تری پوشاک درست

بچ گئے قطع میں یہ شمس و قمر دو ٹکڑے

مگر اس تمام تعارف کے بعد قاری کو یہ پوچھنے کا حق حاصل ہے کہ آپ نقاد بن کر صرف یہ کہنے آئے ہیں کہ عرفان یہ نہیں ہیں وہ نہیں ہیں، اردو شاعری میں یہاں سے وہاں تک کہیں وہ آپ کو نظر ہی نہیں آتے، کسی تحریک کسی شاعر سے ان کا رشتہ ہی نہیں ہے اور اگر ایسا ہے تو آپ نے یہ سب بکواس کیوں کی ہے اور خود آپ کے پسندیدہ شاعر نے اپنا سر کہاں پھوڑا ہے ؟ کوئی فلسفہ نہ سہی زندگی کی کوئی معنویت تو کہیں ہو گی جسے آپ اپنی نا اہلی سے بتا نہیں پا رہے ہیں۔ ان تمام با توں کا جواب در اصل پوچھنے والے یا پڑھنے والے کے ظرف اور بصیرت پر منحصر ہے یعنی جواب کی آدھی ذمہ داری خود اس پر بھی ہے۔ میں یعنی ناقد اکیلا کچھ نہیں کر سکتا۔ میں ایک کان جواہر کا پتہ دوں گا تو وہ معدنیات کے دوسرے میدان میں گشت لگاتے نظر آئیں گے۔ غالبؔ کا ایک مشہور شعر آپ نے سنا ہو گا۔

دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا

میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے

عرفان صدیقی غالبؔ کے معشوق کے برعکس ہیں۔ ان کی تقریر میں لذت تو ہے لیکن ہمیشہ وہ آپ کے دل کی بات نہیں ہوتی بلکہ کوئی اور بات ہوتی ہے جس سے مانوسیت کے بجائے استعجاب پیدا ہوتا ہے۔ ان کی شناخت اور ان کی انفرادیت اس بات میں ہے کہ وہ اپنے اور اپنے قاری کے درمیان فاصلہ رکھتے ہیں اور اس شناسائی سے گریز کرتے ہیں جو بعد میں آسودگی اور اکتاہٹ کی شکل اختیار کر لے جس کی طرف اس مضمون کے شروع میں اشارہ کیا جا چکا ہے۔ ان کی شاعری کا سوتا بھی سربستہ اور پوشیدہ ہے۔ کم از کم پچھلے ایک ہزار سال کے اردو فارسی شاعروں میں کسی سے ان کی راہ ورسم نہیں معلوم ہوتی تو کیا ان کی شاعری کا مخزن بقول حافظؔ بحر ظلمات میں ہے۔

کہ آب چشمہ حیواں درون تار یک است

عرفان صدیقی کے بارے میں ایک مفروضہ قاری سے جو سوالات اوپر کی سطروں میں اٹھائے گئے ہیں جن کا جواب دینے سے میں نے انکار کیا تھا اس سلسلے میں بہت سی معلومات ایک مضمون سے حاصل کی جا سکتی ہے۔ جو ’عرفان صدیقی سے ایک گفتگو‘ کے عنوان سے شب خون کے شمارہ نمبر 289میں چھپا ہے اور گفتگو پہلے کسی وقت نیر مسعود اور محمد مسعود نے کی تھی۔ گفتگو خاصی طویل اور مفصل ہے اور عرفان کی شاعری کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کر لیتی ہے اس سے مفروضہ قارئین کو شاعر کو سمجھے میں خوب مدد مل سکتی ہے کیونکہ عرفان صدیقی جیسے کم سخن اور محتاط و محترز شاعر کو دو ماہرین ادب نے اپنے گھیرے میں لے کر زبردستی نہیں تو کم از کم دراز دستی کر کے بہت سے انکشافات کراحرا تھا کہ نصرت کا را  کے الفاظالیے ہیں جس سے ادب دوستوں کو بہت فائدہ ہو گا۔ لیکن خود عرفان شاعر کا بڑا نقصان ہوا ہے اور اسے شاید اس کا احساس بھی تھا ایسا لگتا ہے کہ اس نے اپنے عزیز دوست نیر مسعود کی مروت میں آ کر ان کے سارے سوالوں کے جواب دے ڈالے ہیں۔ نیر مسعود صاحب نے اپنی نرم گفتاری سے انہیں بہلا بہلا کر بہت سی محرمانہ با توں کا اقرار کرا  لیا ہے۔ ان کے اس ’بار خاطر‘ کے بجائے ’یار شاطر‘ جانے پر حیرت ہوتی ہے۔ رہی بات عرفان صدیقی کی تو وہ اب دسترس کے باہر جا چکے ہیں ان سے کیا کہا جائے۔ اب خدائے سخن میرؔ ہی ان سے کہہ سکتے ہیں۔

تجھ سے آہوئے رم خوردہ کی وحشت کوئی مشکل تھی

سحر کیا اعجاز کیا جن لوگوں نے تجھ کو رام کیا

اچھے شاعر کو زیادہ نہ بولنا چاہیے اس سے اس کی وقعت کم ہو جاتی ہے بس شعر سنا کر چپ ہو جانا چاہیے اس مختصر مضمون میں وہ کام میں کیے دیتا ہوں چند شعر جو حافظہ سے میں پڑے رہ گئے ہیں انہیں لکھ رہا ہوں ضروری نہیں کہ عرفان کے بہترین شعر ہوں۔

قبا سے کیا ہوا ہنگامۂ شوق تماشا میں

ہم آنکھیں بند کر لیں گے تو عریانی سے کیا ہو گا

کب سے پتھر ہوں بیابان فراموشی میں

میرے ساحر مجھے چھولے کہ بدن ہو جاؤں

مری شاعری مری عاشقی ہے سمندروں کی شناوری

وہی ہمکنار اسے چاہنا وہی بیکراں اسے دیکھنا

کیسے ممکن ہے کسی تنگ قبا کی تجرید

جو مجسم ہے خیالی کبھی ہوتا ہی نہیں

کیا تعلّی ہے میر انیسؔ سے شانہ بشانہ ہو رہے ہیں۔ انیسؔ کا شعر تو مشہور ہے لیکن لکھے دے رہا ہوں۔

لگا رہا ہوں مضامین نو کے پھر انبار

خبر کرو مرے خرمن کے خوشہ چینوں کو

شہنشاہ قلمرو لکھنؤ کی فصاحت کا کیا ٹھکانہ۔ عرفان نے کان پکڑ کر اپنا شعر پیش کیا ہو گا مگر خوب کہا ہے۔

لوٹ لے جاؤ سر و برگ نوا ہم سخنو

یہ خزانہ مرا خالی کبھی ہوتا ہی نہیں

اور کچھ دامن دل کشادہ کرو مومنو شکر نعمت زیادہ کرو

پیڑ دریا ہوا روشنی عورتیں خوشبوئیں سب خدا کے خزانوں میں ہیں

وہی سچ ہے جو آنکھوں سے ہو یدا ہوتا رہتا ہے

اگر ہونٹوں سے پوچھو گے تو وہ انکار کر دیں گے

تیرا سراپا میرا تماشا کوئی تو برج زوال میں تھا

رات چراغ ساعت ہجراں روشن طاق وصال میں تھا

ناچیز بھی خوباں سے ملاقات میں گم ہے

مجذوب ذرا سیر مقامات میں گم ہے

اس خرابے میں بھی ہو جائے گی دنیا آباد

ایک معمورہ پس سیل بلا چلتا ہے

ورنہ ہم ابدال بھلا کب ترک قناعت کرتے ہیں

ایک تقاضا رنج سفر کا خواہش مال و منال میں تھا

اب دو شعر جو علمائے ادب کے معتوب و مردود ہو سکتے ہیں کیا کروں عاشقانہ مزاج رکھتا ہوں بغیر لکھے رہا نہیں جاتا۔

کیا تنگ لباسی ہے کہ وہ پیکر نازک

قاتل ہے کسی خنجر عریاں سے زیادہ

دیکھو میں کوئی یوسف ثانی تو نہیں ہوں

الجھو نہ مرے پیرہن جاں سے زیادہ

اور وہ پوری غزل جو اس قطع سے شروع ہوتی ہے اور ہر درد مند دل پر بجلی بن کر گرتی ہے۔

حق فتحیاب میرے خدا کیوں نہیں ہوا

تو نے کہا تھا تیرا کہا کیوں نہیں ہوا

(2005)

٭٭٭

 

 

 

عرفان صدیقی: حدیث خلوتیاں کا شاعر

 

                ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مجاور حسین رضوی(الٰہ آباد)

 

برہنہ حرف نہ گفتن کمال گویا می ایست

حدیثِ خلوتیاں جز بہ رمز ایما نیست

مشاہدات اور تجربات انسانی جذبے اور احساس کو فکر و شعور عطا کرتے ہیں اور یہ وہ منزل ہوتی ہے جہاں پہونچ کر فکر جذبے کی آنچ سے پگھل کے شعر میں ڈھل جاتی ہے شاعر اپنے موضوعات کے انتخاب میں اپنی ہی دنیا میں مگن رہتا ہے۔ وہ اپنے تخیل سے اب جو پیکر تراشتا ہے وہ منفرد ہوتے ہیں ان میں روایت سے انحراف تو نہیں ہوتا لیکن شعری صداقتوں کو نیا لب و لہجہ دینا ایک طرح کی نئی روایت سازی بن جاتی ہے۔

عرفان صدیقی روایت ساز شاعر تھے انھوں نے کہنہ روایات کو ایک جگہ نگینہ سے استعارہ کیا ہے لیکن اسی کے ساتھ انھیں یہ بھی احساس ہے کہ روایات کا لباس شکستہ ہو چکا ہے اور ابھی نئی روایات تخلیقی کرب میں مبتلا ہیں اس لئے ان کے یہاں روایت سازی کا عمل جب رموز و علائم سے کام لیتا ہے۔ ایک شعری فضا کی تخلیق کرتا ہے تو کہیں کہیں یہ احساس ہونے لگتا ہے جیسے یہ باتیں ہمارے عہد کی نہیں بلکہ غالبؔ کی زبان میں کسی عندلیب گلشن نا آفریدہ کی نوائے مضطرب ہیں۔ شمس الرحمان فاروقی نے صحیح لکھا ہے کہ ’’وہ آج کے شعر سے زیادہ مستقبل کا پتہ دیتی ہوئی معلوم ہوتی ہیں ساتھ ہی ساتھ کسی دور دراز لہجہ کی آوازیں اس کی تہہ میں صاف سنائی دیتی ہیں۔ ۱؂ اسی وجہ سے اکثر رنگ ایمائیت ابہام کی سرحدوں میں داخل ہو جاتی ہے اور شاعر اپنی تخلیق کردہ دنیا کو اپنے قاری کے حوالے کر دیتا ہے اب یہ قاری کا کام ہے کہ وہ جس طرح چاہے شعر کی تہہ داری سے معنی کے موتی نکالے۔ ہو سکتا ہے کہ کسی کے ہاتھ کچھ نہ لگے، کسی کو عقیق دیا قوت ملے تو کسی کو لو لو و مرجان۔

عرفان صدیقی نے بھی یہی کیا ہے۔ انھیں اس سے سروکار ہیں کہ ان کے اشعار کے بارے میں کیا سوچا جائے گا، کیا کہا جائے گا، ان کے اوپر کتنی تہمتیں آئیں گی، اس سے کوئی غرض نہیں۔ وہ اپنے الفاظ کے پیکر اپنے قاری کے حوالے کر دیتے ہیں، اپنی تمام تر تہہ داریوں کے ساتھ۔ ان کے بارے میں مرزا شفیق حسین شفق ؔ لکھتے ہیں : ’’عرفان صدیقی کی شاعری کا یہ بھی پہلو قابلِ ذکر ہے کہ وہ کبھی کوئی بات کھل کر نہیں کہتے جو بات بھی کہنی ہوتی ہے آدھی کہتے ہیں اور آدھی ہمارے وجدان اور ذوق شاعری کے لئے رکھ چھوڑتے ہیں۔ وہ تفصیل کے تئیں اجمال کے شاعر ہیں۔ ان کے شعروں میں وہ اشارتی انداز اور کہی ان کہی کے درمیانی کیفیت ہوتی ہے جیسے لفظ سرگوشی کر رہے ہوں۔ وہ خوبصورت استعاروں، نئی ترکیبوں اور لفظوں کی تکرار سے ایک معنوی فضا تیار کرتے ہیں جسے محسوس کیا جاتا ہے بیان نہیں کیا جا سکتا۔ ‘‘ ۲؂

اس اجمال اور ابہام کا سبب یہ ہوتا ہے کہ جو علامات منتخب کی جاتی ہیں۔ ان کی جڑیں اگر اسی زبان کی تہذیبی روایات میں پیوست ہوتی ہیں تو پھر وہ اجمال، وقت، پسندی میں بدل جاتا ہے اس کی شرح آسان ہوتی ہے یا مشکل لیکن ممکن ہوتی ہے۔ مگر گذرے ہوئے وقت کے ساتھ بہت سارے لفظ اتنے بوڑھے ہو جاتے ہیں کہ وہ جن علامتوں کی طرف متوجہ کرتے ہیں وہ اپنی ضعیفی کے سبب سے نا قابل فہم ہو جاتی ہیں۔ علامت کے لئے یہ ضروری ہے کہ اس کے پس منظر میں ہماری کہنہ روایات کے نگینے ہوں یہ اور بات ہے کہ ان نگینوں کے جڑنے میں شاعری کی مرصع سازی اور اس کا فن سامنے آ جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ ۱۹۶۰ء کے فوراً بعد کی جو شاعری ہے اس میں محمد علوی، عادل منصوری، افتخار جالب اور اسی طرح کے بہت سے شعراء کے یہاں ایسی علامتیں ملتی ہیں جن کے لئے ذہنی ورزش کے ساتھ قاموسی علم بھی کافی نہیں ہوتا۔ عرفان صدیقی کے یہاں مقام شکر ہے کہ عمیر ابو نضیر کے علاوہ ایسی کوئی علامت نہیں ملتی۔ جہاں تک ’’کاوہ ۳؂ ‘‘ کا سوال ہے۔ کم سے کم شاہنامہ فردوسی پڑھ کے اور درفش کا ویرانی کا تذکرہ دیکھ کے اس نظم کا مطلب نکالا جا سکتا ہے مگر ان تمام با توں کے باوجود ان کا اجمال، ابہام اور رمز و ایمان کی سرحدیں اتنی متصل ہیں کہ قاری کی ذراسی ذہنی لغزش اسے ابہام کے اندھیروں میں ڈھکیل سکتی ہے۔ اسی لئے یہ کہا جا سکتا کہ ان کے اشعار خواص پسند ہیں اور وہ بلند ذہنی سطح کے خواص کے شاعر ہیں۔ ان کے یہاں علامتیں، استعارے، ترکیبیں، لہجہ، اسلوب تخیل اور فکر نئی ہے۔ وہ جو بھی کہتے ہیں اس میں ملک کی عصری تاریخ اور روایات کے تابندہ موتی باہم پیوست نظر آتے ہیں۔ وہ شاعری کو یا تخلیقی اظہار کو زمان و مکان کا پابند نہیں سمجھتے وقت کا سیل رواں تو صرف نام دیتا رہتا ہے جو آج ہے وہ گذرے ہوئے کل کا مستقبل تھا اور جو وقت آنے والا ہے وہ کسی لمحہ حال بن جائے گا۔ کہتے ہیں۔

اتنی امید نہ آتے ہوئے برسوں سے لگا

حال بھی تو کسی ماضی کا ہی مستقبل ہے

اس سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ ان کی نظر میں تعین زمانی صرف انسانی تخیل کا کرشمہ سازی ہے۔ نہ حال ہے اور نہ مستقبل جو لوگ انھیں مستقبل کا شاعر کہتے ہیں وہ فراموش کر دیتے ہیں کہ ان کے پاس مستقبل کی کوئی فکر ہی نہیں۔ ہر چیز، ہر شے وقت کے سیلاب میں ہی جا رہی ہے ان میں اور اقبالؔ میں یہی فرق ہے۔ اقبالؔ عشق کی اصطلاح کے ذریعہ وقت کے سیل رواں کو روک دیتے ہیں۔

تند و سبک سیر ہے گرچہ زمانہ کی رد

عشق خود اک سیل ہے سیل کو لیتا ہے تھام

عرفان کے پاس عشق کا کوئی تصور نہیں وہ وقت کو روکنا نہیں جانتے بلکہ ان کے خیال میں وقت کے ساتھ جو شے زندہ رہ جائے گی وہ روایت تشنہ لبی ہے اس لئے ان کے استعاروں میں یہ رمز چھپا ہوا ہے کہ بے شک کل من علیہا فان ۴؂ لیکن اسی کے ساتھ قرآن حکیم میں یبسقی وجہ ربک ذو الجلال والا کرام ۵؂ بھی ہے یعنی جلال و کرم والے کا چہرہ باقی رہ جائے گا۔ ظاہر ہے پروردگار کے پاس کوئی چہرہ نہیں ہے لیکن وہ کرم کرنے والا ہے جس چہرے پر اللہ کا کرم ہے وہ باقی رہ جائے گا۔ اسی لئے اسلامی تاریخ ایک شخص کو کرم اللہ وجہہ کہتی ہے۔ رضی اللہ بہت ہیں کرم اللہ وجہ ایک ہے عرفان کی نظر میں وہی فنا کی دست برد سے محفوظ ہے۔

اس طرح رمزیت اور ایمائیت سمجھنے کے لئے منزل قدس کا خلوتی ہونا ضروری ہے میرؔ ۶؂ صاحب نے خلوتی منزل قدس کی ترکیب وضع کر کے یہ بتادیا کہ خلوتی راز نہاں ہے اگر حدیث خلوتیاں بیان کر دے گا تو عالم شور نشور سے تہہ و بالا ہو جائے گا۔ چنانچہ جو عرفان صدیقی کے یہاں حدیث خلوتیاں ہے وہی اقبالؔ ۷؂ کے یہاں حرف راز ہے۔ عرفان صدیقی کے پاس نفسِ جبریل نہیں ہے مگر ان کو اس کی تمنا بھی نہیں ہے اس لئے کہ وہ صرف عرفان نہیں ہیں صاحب عرفان ہیں اور انھیں ان روایت مقدسہ کا عرفان حاصل ہے جو حدیث خلوتیاں سنانے والے تھے چنانچہ ان کے استعارے، ان کی علامتیں، ان کی رمزیت، ان کی ایمائیت بالکل ہی نئی دنیا کی تخلیق کرتی ہے ان کے یہاں محبوب پر زور نہیں ہے محبوبیت پر زور ہے وہ جفا جو، ستمگر اور قاتل کی تلاش میں نہیں نکلتے بلکہ جفا کا محرک کیا ہے۔ قاتلِ کسے قتل کر رہا ہے اور کیوں کر رہا ہے نیزہ ہے مگر اس کا کام صرف چبھنا نہیں ہے سینے سے کھنچا جانا بھی نہیں ہے اسے تو سر بلند کرنا ہے۔ سر فراز کرنا ہے۔ کون سر بلند ہوا۔ کون سرفرز ہوا کس کے حلق بریدہ نے تقریر کی۔ وہ نام نہیں لیتے ہوائے دشت ماریہ تک آپ کو نام نہیں ملے گا اس لئے کہ انھیں اپنے قاری پر بھروسہ ہے۔ اس قاری پر جو کل تھا جو آج ہے جو کل رہے گا جو ایسا قاری ہے جس کی وجہ سے ہر آنے والا زمانہ باقی رہے گا اگر انسان اس کے حق میں تکلم نہ کرے گا تو پرندوں کے ترنم سے صدائے گریہ بلند ہو گی۔ عرفان کے یہاں صرف اشارے ہیں اور وہ تفصیل و تشریح کو ایسا ہی سمجھتے ہیں جیسے کوئی شاداب گلاب سے پنکھڑیاں نوچ کر یہ بتانا شروع کرے کہ اس میں بہتر(۷۳) پنکھڑیاں ہیں۔

ان کی رمزیت اور ایمائیت کہیں بھی کسی بھی دور میں کسی طرح کے حالات پر صادق آ سکتی ہے مثلاً تقسیم کا المیہ اس کی پوری تاریخ ہے عرفان سمجھتے ہیں کہ وہ مورخ نہیں ہیں لیکن انھیں یہ بھی احساس ہے کہ واقعات میں نہ جانے کتنے خنجر چبھوئے ہیں کنبہ کا بٹوارہ کیا ہے۔ خاندانوں کو تقسیم کیا ہے تہذیبوں کے ٹکڑے کر دیے ہیں بہت غور و فکر کے بعد انھیں عربی کا ایک لفظ اچھا لگا یا اخی، اے بھائی صرف یہ شعر پڑھ لیجیے۔

تم ایک دن دشت میں چھوڑ کر چل دئے تھے تمہیں کیا خبر یا اَخی

کتے موسم لگے ہیں ہمارے بدن پر نکلتے ہیں یہ بال و پر یا اخی

یہ بھی اچھا ہوا تم اس آشوب میں اپنے سر سبز باز و بچالے گئے

یوں ہی کوئے زیاں میں لگانا ہی تھا ہم کو اپنے لہو کا شجر یا اخی

یہ صدا برلن والے نے بھی لگائی ہو گی۔ کوریا والا بھی لگاتا ہو گا کنیڈا سے بھی یہ آواز آتی ہو گی۔ ہندوستان و پاکستان سے تو مسلسل صدائیں آتی رہتی ہیں۔

وہ اہل سیاست کو اپنے اسی رمزیت کے ساتھ ایک نفسیاتی نکتہ سے با خبر کرتے ہیں۔ یہ بات عاشق و معشوق کی بھی ہو سکتی ہے یہ سماج میں فرقوں کی بھی ہو سکتی ہے اور یہ بات ہندوستان و پاکستان کے درمیان بھی ہو سکتی ہے۔

شوق دونوں کو ہے ملنے کا مگر رستے میں

ایک پندار کی دیوار گراں حائل ہے

یہ کلیت ہے جو ان کی علامت نگاری کو ان کی رمزیت کو ابہام کی گرد سے بچا لے جاتی ہے۔

انھوں نے نئی ترکیبیں وضع کی ہیں۔ آپ دیکھیے تو لفظوں کے اندھیرے میں استعارے کے تارے چمکتے ہوئے نظر آئیں گے ان کے معنی متعین نہیں ہوتے بلکہ ان کے امکانات کی طرف اشارے ملتے ہیں۔ ان کے یہاں الفاظ کی اپنی زمیں اور اپنا آسمان ہے۔ یہ سارے الفاظ اردو میں شعراء کے یہاں بکھرے پڑے ہیں مگر عرفان نے انھیں نئی معنویت عطا کی ہے۔ مرزا شفیق حسین شفقؔ نے اپنے تحقیقی مقالے میں ایسے بہت سے الفاظ کی نشاندہی کی ہے۔ ’’عرفان صدیقی کے اسلوب کا خاص وصف یہ ہے کہ ان کی ایمائیت معنی کی مختلف جہات کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔ البتہ ان کا وہ کلام جو داخلی طور پر ان کے عمیق اور تہہ دار تجربات کا استعاراتی باز آفرینی کرتا ہے مشکل ضرور ہے اور قاری کے لئے تفہیم کی دشواری پیدا کرتا ہے ‘‘۔ ۸؂

لیکن ان کی آخری سطر سے یقیناً اختلاف کی گنجائش ہے کسی کے بھی داخلی تجربات کی تفہیم اسی وقت ہو سکتی ہے جب تفہیم کرنے والا خود بھی مشاہدات اور احساسات کو جذبے کی آنچ میں پگھلانے کا شعور رکھتا ہو۔ عرفان اپنے اشعار پیش کر دیتے ہیں جس قاری کا جیسا ظرف ہو ویسا شعری تجربہ ان کے یہاں سے لے جائے۔ ان کے اشعار کا بہت بڑا حصہ ایسا ہے جو اردو کے بہت سارے حرف شناسوں کی فہم و ادراک سے اس لئے بالا تر ہے کہ وہ اردو کے استعاراتی مزاج اور تاریخیت کے ساتھ وابستہ واقعات سے با خبر ہونا ہی نہیں چاہتے مثلاً عرفان صدیقی کا مرکزی استعارہ کربلا ہے کربلا کے ساتھ جو الفاظ کی ایک دنیا ہے اور جو احساس کی شاہراہوں کی طرف متوجہ کرتی ہے وہ بہت قارئین کی تفہیم کے لئے دشواریاں پیدا کر سکتی ہیں۔ عرفان نے اردو شاعری کی روایات کی پاسداری ضرور کی لیکن انھیں یہ بھی احساس رہا ہے کہ۔

ہمارے داغ چھپاتیں روایتیں کب تک لباس بھی تو پرانا تھا پھٹ گیا آخر

یہ محسوس ہوتا ہے کہ روایات کی شکست و ریخت پر انھیں صدمہ تو ہے مگر ہلکی سی کسک کی شکل میں انھوں نے اپنی شاعری میں اردو سمجھنے کی روایتی استادی کی مثالیں بھی پیش کی ہیں مثلاً ایک مسلسل غزل جو اردو کی قدیم فنی و شعری روایت کی آئینہ دار ہے ان کے یہاں کہیں کہیں دوسرے شعراء سے استفادہ کی مثالیں بھی ملتی ہیں مثلاً فانی کا یہ شعر ملاحظہ ہو۔

اپنے دیوانے پر اتمام کرم کر یا رب

در و دیوار دئے اب بھی انھیں ویرانی دے

عرفان کہتے ہیں۔

اے خدا سبزۂ صحرا کو بھی تنہا مت رکھ

اس کو شبنم نہیں دیتا ہے تو پامالی دے

بعض جگہ ایسی ترکیبیں ملتی ہیں جن سے اردو کلاس کی مزاج یاد آنے لگتا ہے مثلاً ان کے ایک مجموعہ کا نام ہے ’’ہوائے دشت ماریہ‘‘ ہوائے دشت کی ترکیب اقبال کی مجبوب ترکیب ہے۔ انھیں ہوائے دشت سے بوئے رفاقت آتی تھی۔ اس طرح بے شمار ترکیبیں ہیں جو اساتذہ کی یاد دلاتی ہیں مگر انھیں عرفان نے اپنے انداز میں پیش کیا ہے اور جس کی معنویت قاری کے ذوق سلیم پر ہے پھر بھی دو چار ترکیبیں ایسی ہیں جو شاید اپنے محبوب مطالعہ کی وجہ سے دور حاضر کے شعراء کے یہاں اس انداز سے نہیں ملتی جیسے زہر فکر، پانی کا مزاج، بام انجمی، آگ کے جسم پر خوابوں کی ردا، چاند رتھ، پیاس کی نہر، نیند کی اجلی پریاں اور نہ جانے کتنی ترکیبیں ہوں گی جن پر شعریات کی تحقیق کرنے والے نظر ڈالیں گے۔ در اصل ان کی شاعری کے لئے بہت سے عنوانات ایسے ہیں جن پر دانش گاوں میں تحقیق کی جا سکتی ہے۔ پروفیسر نیر مسعود نے جب ان کا تحریری تعارف اس خاکسار سے کرایا تھا تو ان کی شاعری میں جو مختلف جہات سے سطحیں اور تہہ داری تھی اس کی طرف متوجہ کیا تھا اور یہ سب مقالے کا مطالبہ کرتے ہیں۔

ان پر یہ ساری باتیں لکھنے کے بعد اگر یہ نہ لکھا جائے کہا ان کی فکر کربلاپر مرتکز ہے تو شاید یہ ایسی فرو گذاشت ہو گی کہ عالم ارواح میں ان کا نورانی پیکر ہمیں معاف نہ کر سکے گا۔ ان کی شاعری کا بیشتر حصہ جو استعارات کا قصر تیار کرتا ہے وہاں سرخی ہی سرخی ہے۔ خون کی شادابی ہے وہ ایک ایسی فضا کی تخلیق کرتے ہیں کہ پانی شرمندہ نظر آتا ہے۔ انھوں نے اپنی کلیات کا نام ہی دریا رکھا ہے اور اس پر پہلا شعر یہ ہے۔

یا مراد ہم ہے یہ نغمۂ موجِ گزراں

یا کوئی نہر ہے اس کوہِ گراں کے پیچھے

اب اس شعر کی تشریح کی ضرورت نہیں۔ اگر کربلا کے استعارے سے باخبری ہے، پیاس کی سرخ روہے، نیزوں کو فخر ہے کہ ان پر سر بلند ہے۔ جو باتیں رمز و ایمان اور استعارات میں تھیں جو ان کی تشبیہات میں دوشیزگی تھی استعارات میں طرفگی تھی وہ کھل کر ہوائے دشت ماریہ میں نظر آنے لگتی ہے۔ اس مجموعہ کو چھوڑ کر ان کی صدائے گریہ سسکیوں میں بھی سنائی نہیں دیتی بلکہ ان کا پورا وجود آنسوؤں کی ایسی بوند ہے جس سے خورشید شرمندہ نظر آتا ہے۔ کچھ شعر لکھے جا رہے ہیں ان میں سے ہر شعر پر کتابیں لکھی جا سکتی ہیں۔ ان کی تشریح کے لئے ایسے قلم کی ضرورت ہے جو خون دل میں ڈوبا ہوا ہو، جنوں کی حکایت خوں چکاں لکھنے کے لئے ہاتھ قلم کرتے رہیں۔ اپنے پاس وہ ظرف کہاں کہ اس کی تشریح کر سکیں کچھ شعر لکھے جا رہے ہیں۔

گلوئے خشک میں سوکھی پڑی ہے پیاس کی نہر

خبر نہیں کہ ہے پانی کا ذائقہ کیسا

ایک ہی چیز کو رہنا ہے سلامت پیارے

اب جو سر شانوں پہ رکھا ہے تو دیوار نہ رکھ

کچھ ایسی تیز نہ تھی اس کے انتظار کی آنچ

یہ زندگی ہی مری برف تھی پگھلتی رہی

سروں کے پھول سر نوک نیزہ ہنستے رہے

یہ فصل سوکھی ہوئی ٹہنیوں پہ پھلتی رہی

تو وہ شب بھر کی رونق چند خیموں کی بدولت تھی

اب اس میدان میں سنسان ٹیلوں کے سوا کیا تھا

 

ان کی یہ نظم بھی ملاحظہ ہو۔

نقشِ ظفر تھا لوحِ ازل پر لکھا ہوا

تلوار کاٹ سکتی تھی کیوں کر لکھا ہوا

صحرا کو شاد کام کیا اس کی موج نے

تھا سر نوشت میں جو سمندر لکھا ہوا

تابندہ ہے دلوں میں لہو روشنائی سے

دنیا کے نام نامۂ سرور لکھا ہوا

مجرائیوں کے قدموں سے لپٹی ہوئی زمیں

پیشانیوں پہ بختِ سکندر لکھا ہوا

رستہ بدل کے معرکۂ صبر و جور میں

کس نے بدل دیا ہے مقدر لکھا ہوا

پانی پہ کس کے دستِ بریدہ کی مہر ہے

کس کے لئے ہے چشمۂ کوثر لکھا ہوا

ہے خاک پر یہ کون ستارہ بدن شہید

جیسے ورق پہ حرفِ منور لکھا ہوا

نیزے سے ہے بلند صدائے کلامِ حق

کیا اوج پر ہے مصحفِ اطہر لکھا ہوا

روشن ہے ایک چہرہ بیاض خیال پر

لو دے رہا ہے بیت ثنا گر لکھا ہوا

سرمہ ہے جب سے خاک درِ بو تراب کی

آنکھوں میں ہے قبالۂ منظر لکھا ہوا

فہرست چاکراں میں سلاطیں کے ساتھ ساتھ

میرا بھی نام ہے سرِ دفتر لکھا ہوا

ان اشعار میں رثائیت نہیں ہے۔ نہ انیسؔ و دبیر کا درد و کرب ہے، نہ اقبالؔ و  جوشؔ کا پیغام ہے، نہ آلِ رضا، جمیل مظہری، امید فاضلی اور وحید اختر کی فلسفۂ شہادت کے اسرار و رموز سے گہری واقفیت کا ادراک لیکن ان سب کے باوجود ان اشعار میں ایک کسک ہے وہی جسے حدیثِ خلوتیاں کہا گیا۔ آج کا انسان جب ان واقعات کو پڑھتا ہے اور خلوتیاں منزل قدس کو دیکھتا ہے تو اس کے دل میں بھی ایک تمنا جاگ اٹھتی ہے کاش ہم اس منظر کا ایک حصہ بن سکتے۔ وہی تمنا عرفان صدیقی کے یہاں بھی ہے، کہتے ہیں۔

زندہ ہم سب نوحہ گر بس یہ خبر سننے کو ہیں

لٹ گئے رہزن، گروہِ اشقیا مارا گیا

 

حواشی

۱؂      دریا۔ ڈاکٹر توصیف تبسم ص ۱۸

۲؂      عرفان صدیقی شخص اور شاعر۔ مرزا شفیق حسین شفق ص ۱۱۴

۳؂      شب درمیان ص ۱۸۱

۴؂      سورہ رحمن

۵؂      سورہ رحمن

۶؂      عشق یہ ہے کہ جو تھے خلوتیِ منزل قدس

وہ بھی رسوائے سر کو چہ و بازار ہوئے

۷؂     وہ حرف راز کہ مجھ کو سکھا گیا ہے جنوں

خدا مجھے نفسِ جبریل دے تو کہوں

۸؂      عرفان صدیقی: شخص اور شاعر۔ مرزا شفیق حسین شفقؔ ص ۱۳۳

(2010)

٭٭٭

 

 

 

 

عرفان صدیقی: بے نوا شہر میں بارِ دگر آنے کو نہیں

 

                ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سید عبد الباری

 

اردو غزل کو ایک صدمۂ جان کاہ لاحق ہوا اور ہمارے عہد کا ایک ممتاز و معتبر شاعر دنیا سے رخصت ہو گیا۔ یہ وہ فن کار تھا جو جدید لب و لہجہ کے ساتھ پروفیسر شمیم حنفی کے الفاظ میں ایک بہت بیدار اور طاقتور تہذیبی یادداشت رکھتا تھا۔ اسے اپنی اقدار و روایات سے بے پناہ عشق تھا۔ غزل کے کلاسیکی رموز و علائم کو اس نے اس طرح برتا گویا وہ اس عہد کی حسیات کے لیے مناسب ترین وسیلۂ اظہار ہوں۔ وہ جب غزل سرا ہوتا تو محسوس ہوتا کہ ولیؔ دکنی، میر تقی میرؔ ، مومن خاں مومنؔ ان کے سر میں سر ملائے ہوئے کھڑے ہیں۔ مگر وہ گوشہ گیر انسان تھے۔ بقول شمیم حنفی ان سے ملنے پر ان کی اضطرار آمیز ذہانت و زندہ دلی کے ساتھ ان کی عجیب پر اسرار جلد بازی اور کم فرصتی کا گمان ہوتا تھا۔ چنانچہ اسی انداز میں وہ اچانک دنیا سے رخصت ہو گئے۔ مجھے ان سے پہلی بار اس وقت رو برو ہونے کا موقع ملا جب میرے مرحوم دوست ابن فرید صدیقی نے جو عرفان صدیقی کے بڑے قدر شناس تھے لکھنؤ جا کر ان سے ملنے اور مزاج پرسی کرنے نیز رسالہ ’’پیش رفت‘‘ کے لیے ان کا کلام حاصل کرنے کا مجھے مشورہ دیا۔ میں بارود خانہ میں ان کے دولت کدہ پر حاضر ہوا اور اس سراپا مہر و محبت اور پیکر ذکاوت و ذہانت فنکار سے مل کر بے حد مسرور ہوا کہ ابھی ایسے لوگ ہماری تہذیب و فن کے سانچے میں ڈھلے ہوئے موجود ہیں جن میں اس قدر ذکاوت کے ساتھ فروتنی، انکسار، خود داری، تخلیقی جودت و بیکرانی پائی جاتی ہے۔ عرفان صاحب اس بے حد وحساب ہنگامہ و آشوب سے لبریز وقت کے سمندر میں محسوس ہوا کہ ایک ایسا جزیرہ ہیں جہاں قدیم و جدید کا ایک نرالا اتصال پایا جاتا ہے۔ ان کی غزلوں کی زبان بے حد مترنم سجل اور دلکش تھی جہاں ہمارا لسانی و فنی ورثہ اپنی تمام تر تخلیقی رعنائیوں کے ساتھ ظہور میں آیا ہے اور جہاں ہماری دلربا تلمیحات، اساطیری علائم، استعارے اور علامتیں اپنے تاریخی تناظر اور معنویت و دلکشی کے ساتھ موجود ہیں۔ ان کی تراکیب ہمیں علامہ اقبالؔ کی یاد دلاتی ہیں۔ا یسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم اپنے زندہ و تابدار اور زندگی کی حرارت سے بھر پور ماضی میں سانس لے رہے ہیں مگر خوبی یہ ہے کہ حال کے تقاضوں سے بے خبر نہیں۔

بیسویں صدی کی آخری دہائی میں غزل کے مزاج شناس فنکار انگلیوں پر شمار کیے جا سکتے تھے۔ ان میں خال خال ہمارے رموز و علائم کو ان کی بھرپور معنویت کے ساتھ برتنے کا سلیقہ رکھتے تھے۔ عرفان صدیقی نے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ ہمارے عظیم کلاسیکی فنکاروں کے حسنِ بیان کا جو ہر کشید کر لیا ہے۔ وہ اس عہد پر آشوب میں جب کہ میکانکی تمدن کی گرانباری نے انسان سے اس کا ذوقِ لطیف سلب کر لیا ہے وہ ہمیں ایک ایسی فضا میں پہنچا دیتے تھے جہاں بیابانوں میں خیمے نصب ہیں، شمعیں فروزاں ہیں، دلداری و دلجوئی کی ٹھنڈی ہوائیں چل رہی ہیں، کہیں آ ہوئے تتاری رم کر رہا ہے، کہیں مسیحا اپنے بیماروں کی طرف متوجہ ہے، ہم کبھی ہجر کی برگ ریزی اور کبھی وصال کی گرمجوشی سے ہمکنار ہوتے ہیں۔ عرفان صدیقی کی چھ پسندیدہ علامتیں ان کی غزلوں میں بڑے دلکش معنوی پیرہن میں سامنے آتی ہیں اور فنکار کی چابکدستی سے نئی نئی معنوی جہتوں کے ساتھ ہمیں متوجہ کرتی ہیں۔ مثلاً ’’لب ‘‘ کی علامت کی لطیف معنویت ملاحظہ کریں :

 

ذرا سا وقت کہیں بے سبب گزارتے ہیں

چلو یہ شام سرِ جوئے لب گزارتے ہیں

جنبشِ لب ہو تو نقد دل و جاں دیتے ہیں

ہم نئے باج گزاروں میں ہیں سلطانہ لب

وہ تو یہ کہیے کہ اک نام سخن میں آیا

پھول کھلتے ہی کہاں تھے سرِ ویرانہ لب

اسی طرح وہ بدن کے استعارہ سے خوب کام لیتے ہیں اور مجاز سے حقیقت تک کا سفر بحسن و خوبی طے کرتے ہیں۔ مسوقیت اور لذت پرستی کی کوئی بھی پرچھائیں نہیں پڑتی۔ انسانی پیکر بہر حال خدا کی نفاست تخلیق کا مظہر ہے اس لیے ہر عہد میں مرکز توجہ رہا ہے۔ عرفان صدیقی کی نگاہ سطحی نہیں بلکہ وہ گہرائیوں میں اترتی ہے اور اس طرح کے اشعار سامنے آتے ہیں :

میں تیری منزلِ جاں تک پہنچ تو سکتا ہوں

مگر یہ راہ بدن کی طرف سے آتی ہے

روح کو روح سے ملنے نہیں دیتا ہے بدن

خیریہ بیچ کی دیوار گرا چاہتی ہے

ہے مری خاک بدن آئینہ گر تیرا کمال

تو نے کس چیز کو آئینہ بنا رکھا ہے

اپنے لہو کے شور سے تنگ آ چکا ہوں میں

کس نے اسے بدن میں نظر بند کر دیا

مگر گرفت میں آتا نہیں بدن اس کا

خیال ڈھونڈتا رہتا ہے استعارہ کوئی

عرفان صدیقی استعاروں اور علامتوں کا بڑا دلکش ذخیرہ رکھتے ہیں۔ ان کے مرقعوں میں ایک طرف خیمے نصب ہیں۔ شمعیں فروزاں ہیں تو ناقہ سوار اور زقند بھرتے ہرن، روشن ستارے و ماہتاب سے ایک عجیب انجمن آراستہ کر دی گئی ہے۔ کبھی وہ تاریخ کے جھروکوں سے جھانک کر بے حد دلگداز واقعات کی یاد تازہ کرتے ہیں :

شمع خیمہ کوئی زنجیر نہیں ہم سفر اب

جس کو جانا ہے چلا جائے اجازت کیسی

وہ ملا تھا نخل مراد سا ابھی مجھ کو نجدِ خیال میں

تو ذرا غبار شمال میں مرے سارباں اسے دیکھنا

شہروں سے نکل کر ترے دیوانے کہاں جائیں

کم پڑنے لگے دشت غزالاں کے لیے بھی

پس غبار مسافت چراغ جلتے ہیں

خدا رکھے یہ پر اسرار بستیاں آباد

ایک چہکار نے سناٹے کا توڑا پندار

ایک نو برگ ہنسا دشت کی ویرانی پر

عرفان صدیقی کی انجمن شعر و سخن، پرانی یادداشتوں کے حیات بخش دریچے کھول دیتی ہے۔ درخشاں ماضی کے دلکش چہرے سامنے آتے ہیں جو ہمارے اعلیٰ و ارفع تصورات کی قندیلیں روشن کر دیتے ہیں۔ ہم محسوس کرتے ہیں کہ کسی درویش کی خانقاہ میں آ گئے ہیں جہاں بسیط انسان دوستی کی روشنی سے ذرہ ذرہ چمک رہا ہے اور ہماری برگزیدہ اقدار کے نئے نئے پہلو ہمارے سامنے روشن ہو رہے ہیں۔ انسانی درد مندی سے فضا معطر ہے۔ انتقالِ ذہنی کے اس عمل سے ہمیں کچھ دیر کے لیے اس ماحول سے چھٹکارا مل جاتا ہے جہاں ہماری رگوں کا ہر قطرہ خون نچوڑ لینے کی مسابقت جاری ہے۔ یہاں کس کے پاس فرصت ہے کہ وہ دوسروں کا غم غلط کر سکے۔ اس آشوب اختلال میں عرفان صدیقی کے اشعار ہمارے زخموں کے لیے مرہم جاں بن جاتے ہیں اور محسوس ہوتا ہے کہ ہماری گردن میں ایسے بازو حمائل ہو گئے ہیں جو غمگساری سے سرشار ہیں :

فقیر ہوں دل تکیہ نشیں ملا ہے مجھے

میاں کا صدقہ تاج و نگیں ملا ہے مجھے

زباں کو خوش نہیں آتا کسی کا آب و نمک

عجب تبرک نان جویں ملا ہے مجھے

فقیر جاتے ہیں پھیرا لگا کے ڈیرے کو

مدام دولت دولت سرائے یار زیاد

بس اپنے دل کی صدا پر نکل چلیں اِس بار

کہ سب کو غیب سے آتا نہیں اشارہ کوئی

پھر بار فقیروں کا اُٹھانا مرے داتا

پہلے تو یہ کشکول فقیرانہ اٹھا لے

مولا پھر مرے صحرا سے بن بر سے بادل لوٹ گئے

خیر شکایت کوئی نہیں ہے اگلے برس برسا دینا

گماں نہ کر کہ ہوا ختم کارِ دل زدگاں

عجب نہیں کہ ہو اس خاک میں شرارہ کوئی

عرفان صدیقی کا تغزل ان کے دلکش اسلوب اظہار اور غزل کے کلاسیکی آہنگ کی پاسداری ہی سے نہیں بلکہ ان کی فکر رسا سے نکھرتا ہے جو انھیں تہذیبی ورثہ کے طور پر ملا ہے۔ ان کے کلام سے اس حقیقت کی بار بار تصدیق ہوتی ہے کہ اعلیٰ فکر ہی اعلیٰ درجہ اسلوب تک رسائی کے قابل ہوتی ہے۔ بلندی فکر سے محروم لوگ محض الفاظ کے سامری ہوتے ہیں جن کی کاوشیں عارضی طور پر شعبدے دکھا کر تہہ نشین ہو جاتی ہیں۔ عرفان صاحب کی اس بلند فکر کا راز ان کے عقائد و اقدار کے سرمایہ میں پوشیدہ ہے جسے انھوں نے عالی مرتبت اسلاف سے حاصل کیا ہے اور جس پر وہ جدید آبرو باختہ فنکاروں کی طرح نگاہ حقارت نہیں ڈالتے بلکہ فکر و خیال کی ہر وادی میں اسے چراغ راہگزر کے طور پر ساتھ رکھتے ہیں۔ چنانچہ ان کے کلام میں ایسے ایسے اشعار ملتے ہیں جن میں اسلوب کی ندرت کے ساتھ خیالات کی رفعت انھیں جواہر پارہ بنا دیتی ہے جن کی قدر و قیمت ہمیشہ برقرار رہے گی۔ بعض اشعار ہمارے ذہن و ضمیر کو جھنجھوڑتے اور ہمارے اذعان و ایقان کی دھار تیز کر دیتے ہیں۔ بعض اشعار میں مغرب کی فتنہ جو تہذیب پر چوٹ کی گئی ہے جو انسان کو حیوان بنانے پر مصر ہے :

گر گئی قیمت شمشاد قداں آنکھوں میں

شہر کو مصر کا بازار کیا ہے اس نے

اب سحر تک میں جلوں گا کوئی آئے کہ نہ آئے

مجھ کو روشن سر دیوار کیا ہے اس نے

عجیب لوگ تھے مجھ کو جلا کے چھوڑ گئے

عجب دیا ہوں طلوع سحر پہ راضی ہوں

ایک ہی رنگ ترے اسم دل آویز کا رنگ

اور میرے ورق سادہ میں کیا رکھا ہے

بے دلاں کار نظر ختم کہاں ہوتا ہے

رک بھی جائیں تو سفر ختم کہاں ہوتا ہے

چراغ گنبد و محراب بجھ گئے ہیں تمام

تو اک ستارۂ داغ جبیں ملا ہے مجھے

دل طرف دار حرم جسم گرفتار فرنگ

ہم نے کیا وضع نکالی ہے میاں دیکھیے گا

سخن میں رنگ تمہارے خیال ہی کے تو ہیں

یہ سب کرشمے ہوائے وصال ہی کے تو ہیں

ابھی پیکر ہی جلا ہے تو یہ عالم ہے میاں

آگ یہ روح میں لگ جائے تو کامل ہو جاؤں

میں ہوں یا موجِ فنا اور یہاں کوئی نہیں

تم اگر ہو تو ذرا راہ میں حائل ہو جاؤ

رات دن سوچتے رہتے ہیں ترے خاک بسر

اس نے چاہا ہے تو دیوار میں در آ گئے ہیں

بعض اشعار میں عرفان صاحب لسان الغیب بن جاتے ہیں، کبھی کبھی حضور ا کرمؐ کے فرمودات کو شعر کا جامہ پہناتے ہیں :

اور کچھ دامن دل کشادہ کرو دوستو شکر نعمت زیادہ کرو

پیڑ دریا ہوا روشنی عورتیں خوشبوئیں سب خدا کے خزانوں میں ہیں

کبھی کبھی عشق و عاشقی کے باب میں وہ میرؔ کی بلندیوں پر کھڑے نظر آتے ہیں، وہی لوچ و گداز، وہی بانکپن وہی تیور۔ شاید عشق و جنوں کے ان مضامین سے کسی بڑے فنکار کو مفر نہیں جو ہمارے عالی مرتبت اساتذہ نے ہمارے حوالہ کیا ہے :

کوئی آ کے ہمیں زنجیر کرے

ہم رقصِ جنوں فرمانے کو ہیں

جس شہر سے اس نے کوچ کیا

ہم کون و ہاں رہ جانے کو ہیں

خانۂ درد ترے خاک بسر آ گئے ہیں

اب تو پہچان کہ ہم شام کو گھر آ گئے ہیں

لپٹ سی داغ کہن کی طرف سے آتی ہے

جب اک ہوا ترے تن کی طرف سے آتی ہے

انھیں دیوار جاں ہی سے الجھنے دو کہ وحشی ہیں

اگر چھیڑا تو دیوار جہاں مسمار کر دیں گے

جان و تن عشق میں جل جائیں گے جل جانے دو

ہم اسی آگ سے گھر اپنا اجالے ہوئے ہیں

اجنبی جان کے کیا نام و نشاں پوچھتے ہو

بھائی ہم بھی اسی بستی کے نکالے ہوئے ہیں

ہم تو زنجیر سفر شوق میں ڈالے ہوئے ہیں

ورنہ یہ انفس و آفاق کھنگالے ہوئے ہیں

مگر اس اعلیٰ سنجیدگی اور رفعت جذبات کے ساتھ ہی ساتھ وہ زمیں پر بھی پیر رکھ دیتے ہیں اور نظیرؔ اکبر آبادی کے لب و لہجہ میں ہمکلام ہوتے ہیں۔ محسوس ہوتا ہے کہ آگرہ کا دو سو سال پرانا شاعر پھر اپنی درویشانہ وضع کے ساتھ تاریخ کے پردے سے باہر آ گیا ہے :

کوئی چٹھی لکھو رنگ بھری کوئی مٹھی کھولو پھاگ بھری

کبھی دن بیتیں بیر اگ بھرے کبھی رت آئے انور اگ بھری

جہاں خاک بچھونا رات ملے مجھے چاندسی صورت ساتھ ملے

وہی دکھیارن وہی بنجارن وہی روپ متی وہی بھاگ بھری

سنو اپنا اپنا کام کریں سُر تال پہ کیوں الزام دھریں

میاں اپنی اپنی بانسر یا کوئی راگ بھری کوئی آگ بھری

کبھی کبھی عرفان صدیقی غالبؔ کا تعقل پسندانہ اور فلسفیانہ طرز اختیار کرتے ہیں اور اس عالم ہست و بود پر بلندیوں سے نگاہ کرتے ہیں :

ہمارے کنج ابد عافیت میں کچھ بھی نہیں

یہ کار گاہِ عناصر یہ عالمِ ایجاد

دل اگر دل ہے تو دریا سے بڑا ہونا ہے

سر اگر سر ہے تو نیزوں سے شکایت کیسی

یہاں وہ حشر بپا تھا کہ میں بھی آخر کار

اگر چہ نقش تھا دیوار سے نکل آیا

حاصل نہ ہوا مجھ کو وہ مہتاب تو معبود

کیا فرق ترے ثابت و سیار میں آیا

ہمیں عطیہ ترک و طلب قبول نہیں

تو ہم تو اس کی عنایت پہ خاک ڈال آئے

کبھی کبھی عرفان صدیقی اس زمیں کا حق بھی ادا کرتے ہیں جہاں وہ مدتوں مقیم رہے اور قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھے گئے اور فکر سخن کے لیے سازگار ماحول عطا کیا۔ چنانچہ لکھنؤ کی خاص الخاص رعنائی اظہار کی ایک جھلک دیکھیے :

سمٹتی دھوپ ترے روپ کی سہیلی تھی

پنہا گئی ترے کانوں میں گوشوارۂ شام

عاشقوں کے سر تسلیم کو تسلیم سے کام

اب یہ ابرو ہے کہ تلوار ہے میں کیا جانوں

اک ستارہ ادا نے یہ کیا کر دیا میری مٹی سے مجھ کو جدا کر دیا

ان دنوں پاؤں میرے زمیں پر نہیں اب مری منزلیں آسمانوں میں ہیں

کبھی کبھی عرفان صدیقی کے یہاں داغؔ کا تیور اور شاد عارفی کا بے تکلف اور کھرا لہجہ نظر آتا ہے جو ہماری جدید شاعری کی شناخت ہے۔ ان اشعار میں بھی تہہ داری اور عالمِ اسفل سے بلندیوں تک لے جانے کی صلاحیت موجود ہے :

گرفت ثابت و سیار سے نکل آیا

میں اک کرن تھا شب تار سے نکل آیا

اور ہم ڈھونڈھتے رہ جائیں گے خوشبو کا سراغ

ابھی لے جائے گی اک موج اڑا کر اس کو

کہا تھا تم نے کہ لاتا ہے کون عشق کی تاب

سو ہم جواب تمہارے سوال ہی کے تو ہیں

کوئے قاتل کی روایت ہی بدل دی میں نے

ورنہ دستور یہاں لوٹ کر آنے کا نہیں

عشق میں کہتے ہیں فرہاد نے کاٹا تھا پہاڑ

ہم نے دن کاٹ دیے یہ بھی ہنر ہے سائیں

عرفان صدیقی اس عہد کے غزل کے ایک ممتاز فنکار ہیں۔ ان کی بلندی کا راز یہ ہے کہ وہ اپنی جڑوں سے الگ نہیں ہوتے۔ وہ اپنی نواسنجی کا سر چشمہ اپنے خالق کی ذات کو قرار دیتے ہیں جس کی نوازش سے ان کا ساز سخن نغمہ ریز ہے۔ وہ اپنی شاعری کو اقبال کی طرح خون جگر کا کرشمہ سمجھتے ہیں اور یہ علامت ہے ان کے بے گراں خلوص اور لازوال یقین کی جس نے ان کے دل کی دھڑکنوں کو کائنات کی دھڑکنوں سے ہم آہنگ کر دیا ہے :

عزیزو! تم سے راز خوش نوائی کیا چھپانا ہے

میں دل کے چند ٹکڑے اپنے سازینے میں رکھتا ہوں

مرا رنگِ ہنر تو ایک تصویر خیالی ہے

میں اک سادہ سا چہرہ دل کے آئینے میں رکھتا ہوں

شاعری کون کرامت ہے مگر کیا کیجیے

درد ہے دل میں سولفظوں میں اثر ہے سائیں

کہاں سے آتے ہیں یہ گھر اجالتے ہوئے لفظ

چھپا ہے کیا مری مٹی میں استعارہ کوئی

ہم لفظ سے مضمون اٹھا لاتے ہیں جیسے

مٹی سے کوئی گوہر یک دانہ اٹھا لے

میں کوئی جگنو نہ تارہ میں کوئی سورج نہ چاند

اور تو دیکھے تو ہے معنی کے اندر روشنی

یہ آئینہ گفتار کوئی اور ہے مجھ میں

سوچا بھی نہ تھا میں نے جو اظہار میں آیا

عرفان صدیقی اگر محض فنکار ہوتے اور فن برائے فن کے علمبردار ہوتے تو شاید وہ اتنے دلوں میں اپنی یادوں کے چراغ روشن نہ کر جاتے۔ ہم ان کی درد مندی و انسان دوستی، اخلاص و ہمدردی سے اس قدر متاثر ہوتے ہیں کہ انھیں بار بار یاد کرتے ہیں :

میرے مولا ہجر کی تاریک را توں کے طفیل

زندگی بھر چاہتیں اور زندگی بھر روشنی

جس کو ہونا ہے وہ فریاد میں شامل ہو جائے

بے نوا شہر میں بارِ دگر آنے کو نہیں

پاؤں کی فکر نہ کر بار کم و بیش اتار

اصل زنجیر تو سامانِ سفر ہے سائیں

یہ جہاں کیا ہے بس اک صفحہ بے نقش و نگار

اور جو کچھ ہے ترا حسنِ نظر ہے ساقی

غبار راہگزر کا یہ حوصلہ بھی تو دیکھ

ہوائے تازہ ترے ساتھ چل رہا ہوں میں

کیسے اس شخص کی تعبیر پہ اصرار کریں

وہ کوئی خواب دکھانا بھی نہیں چاہتا ہے

تو مجھے اس کی خم و پیچ بتاتا کیا ہے

کوئے قاتل تو مری راہگزر ہے سائیں

ایک میں ہوں کہ اس آشوب نوا میں چپ ہوں

ورنہ دنیا مرے زخموں کی زباں بولتی ہے

ہو کا عالم ہے گرفتاروں کی آبادی میں

ہم تو سنتے تھے کہ زنجیرِ گراں بولتی ہے

عرفان صدیقی بیسویں صدی کے آخری عشروں میں اردو غزل کے ان بیدار مغز فنکاروں میں تھے جنھوں نے غزل کو لطیفہ گوئی، فقرہ بازی، لا یعنی لفاظی اور لچر پن سے محفوظ رکھا۔ نظریہ کی توانائی سے شاعری کو محروم کرنے والوں کو بے اثر بنا دیا۔ ان کے کلام سے ہماری موجودہ نسلوں کو لاسمتی و فکری خلا سے نجات ملی۔ صحت مند و حیات بخش اقدار کی قدر و منزلت بحال ہوئی۔ ان ذہین و طباع فنکاروں نے غزل کے فنی لوازم کے ساتھ ایسی حکیمانہ باتیں کیں کہ ہمارے کلاسیکی فنکاروں کی یاد تازہ ہو گئی۔ عرفان صدیقی کے ہمعصر سہیل احمد زیدی نے بھی انھیں کی طرح سچائیوں سے آنکھیں چار کرنے اور حقائق کو بلا جھجک گرفت میں لینے کی کوشش کی۔ بہت زیادہ علم کی شیخی بگھارنا اور فن کرنا انسان کے لیے مشاہدہ حق کی راہ میں حجاب اکبر بن جاتا ہے۔ کچھ فنکار اپنے فکری کھوکھلے پن اور محرومی اخلاص و گداز پر دہ ڈالنے کی کوششوں میں غزل کو تختہ مشق بناتے رہے ہیں لیکن عرفان صدیقی اس بازار میں کھرے مال کے تاجر ہیں جس میں کوئی کھوٹ نہیں۔ وہ اس عہد کی عقلی لاچاری اور احساسات کی بے مائے گی کا ذکر بڑے دلکش پیرایے میں کرتے ہیں :

ہم بڑے اہلِ خرد بنتے تھے یہ کیا ہو گیا

عقل کا ہر مشورہ دیوانہ پن لگنے لگا

ہم کہاں کے یوسف ثانی تھے لیکن اس کا ہاتھ

ایک شب ہم کو بلائے پیرہن لگنے لگا

بتان شہر سے یہ دل تو زندہ ہو نہیں سکتا

بہت ہو گا تو میری خواہشیں بیدار کر دیں گے

یہ موجِ تازہ مری تشنگی کا وہم سہی

میں اس کی سراب میں سرشار رہنا چاہتا ہوں

فیصلہ کر کم و بیش تہہ دریا کی نہ سوچ

مسئلہ ڈوبنے کا ہے ابھر آنے کا نہیں

عرفان صدیقی اچانک ہم سے جدا ہو گئے۔ شاید یہ عہد بے بصر ان کی قدردانی کا حق ادا نہ کر سکا۔ وہ خود بھی قلندروں کی طرح گوشہ گیر رہے۔ اپنے فن کی نمائش اور بازار میں اس کی قیمت وصول کرنا گناہ سمجھتے رہے اور بالآخر یہ کہہ کر رخصت ہو گئے :

جہاں گم شدگاں کے سفر پہ راضی ہوں

میں تیرے فیصلۂ معتبر پہ راضی ہوں

لیکن اس خاموش اور راضی برضائے یار فنکار کو ہمارے جدید ادب کی تاریخ فراموش نہ کر سکے گی۔

٭٭٭

 

 

 

 

کنارِ دریا

(کلیات ’دریا‘ کا دیباچہ)

 

                ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ توصیف تبسم (اسلام آباد)

 

اچھی شاعری ذہن و نفس انسانی کی آبیاری کا وسیلہ ہے تاکہ یہ زندگی ہم سب کے لیے زیادہ خوبصورت، با معنی اور امن و سکون کا گہوارہ بن سکے۔ شعر و ادب نسلِ انسانی کی مشترکہ میراث ہے کیوں کہ اسی آئینے میں عہد بہ عہد آدمی کے خواب تعبیر کی شکل اختیار کرتے رہتے ہیں۔

عرفان صدیقی بھارت کے مردم خیز شہر بدایوں میں جنوری ۱۹۳۹ء میں پیدا ہوئے۔ ایم، اے تک تعلیم حاصل کر کے ۱۹۶۲ء میں انڈین انفارمیشن سروسز میں شامل ہو گئے۔ ۱۹۹۷ء میں اس ملازمت سے سبکدوش ہوئے۔ ملازمت کے سلسلہ میں وہ دہلی اور لکھنؤ میں رہے، اب وہ لکھنؤ میں مستقل رہائش پذیر ہیں اور صحافت کے شعبہ سے منسلک ہیں۔ ان کے خاندان میں شعر گوئی کی ایک مستحکم روایت قدیم زمانے سے موجود رہی ہے۔ ان کے والد سلمان احمد ہلالی کا شمار اپنے زمانے کے خوش گو شعراء میں ہوتا تھا۔ موجودہ زمانہ میں محشر بدایونی، دلاور فگار اور نیاز بدایونی، عرفان کے انتہائی قریبی عزیز ہیں۔

عرفان نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز ۱۹۵۵ء کے لگ بھگ کیا۔ اب تک ان کے چار شعری مجموعے ’’کینوس‘‘ (۱۹۷۸ء)، ’’شب درمیاں ‘‘ (۱۹۸۴ء)، ’’سات سمادات‘‘ (۱۹۹۲ء) اور ’’عشق نامہ‘‘ (۱۹۹۷ء) شائع ہو چکے ہیں۔ ان کے علاوہ انہوں نے کالی داس کی طویل نظم ’’رت سنگھار‘‘ اور کالی داس ہی کے ڈرامہ ’’مالویکا اگنی متر‘‘ کا ترجمہ براہ راست سنسکرت سے اردو میں کیا۔ مراکش کے ادیب محمد شکری کے خودسوانحی ناول کا ترجمہ بھی ان کے تراجم میں شامل ہے۔ یہ کتابیں چھپ چکی ہیں۔ ابلاغیات پر تین کتابیں لکھیں جو مکتبہ جامعہ اور نیشنل بک ٹرسٹ نئی دہلی نے شائع کیں۔ اردو ادب کا ایک جامع انتخاب (۱۱۰۰ء۔ ۱۸۵۰ ء) بھی کیا جو ساہتیہ اکاڈیمی کی طرف سے شائع ہوا۔ ادب، کلچر اور لوک ادب پر ان کے متعدد مضامین ان تصانیف و تراجم کے علاوہ ہیں۔ اتر پردیش کی حکومت نے ان کی مجموعی ادبی خدمات پر ۱۹۹۸ء میں میر اکادمی کے اعزاز سے نوازا۔

عرفان کا شمار بر صغیر کے ممتاز اور معروف غزل گو شعراء میں ہوتا ہے۔ ان کے مجموعہ ہائے کلام چونکہ ہمارے یہاں با آسانی دستیاب نہیں، اس لیے ’’دریا‘‘ کی اشاعت کا مقصد جہاں اچھی شاعری کو عام کرنا ہے، وہیں ان اصحاب کی ذوق کی تسکین کا سامان فراہم کرنا بھی ہے جو ایسی شاعری کو پڑھنا چاہتے ہیں۔ ’’دریا‘‘ میں صرف چار مجموعے شامل ہیں۔ عرفان کی ادبی شناخت چونکہ ان کی غزل ہی کے حوالے سے ہے، اس لیے ہم نے خود کو ان کی شاعری کے ان مجموعوں ہی تک محدود رکھا ہے۔

عرفان صدیقی کی غزل پر کسی تفصیلی اظہار خیال کا یہاں نہ موقع ہے اور نہ ضرورت، پھر بھی اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے کہ قیام پاکستان کے بعد جس ذہنی و جذباتی فضا میں برصغیر کے مسلمان سانس لے رہے تھے، عرفان نے اس کو کمال ہنر مندی کے ساتھ اپنی غزل کا موضوع بنایا ہے۔

تم ہمیں ایک دن دشت میں چھوڑ کر چل دیئے تھے، تمہیں کیا خبر یا اخی

کتنے موسم لگے ہیں ہمارے بدن پر نکلتے ہیں یہ بال و پر یا اخی

یہ بھی اچھا ہوا تم اس آشوب سے اپنے سر سبز بازو بچا لے گئے

یوں بھی کوئے زیاں میں لگانا ہی تھا ہم کو اپنے لہو کا شجر یا اخی

ہم اپنے ذہن کی آب و ہوا میں زندہ ہیں

عجب درخت ہیں دشتِ بلا میں زندہ ہیں

خدا کا شکر ابھی میرے خواب ہیں آزاد

مرے سفر مری زنجیر پا میں زندہ ہیں

عرفان کا خواب امن و آشتی کا خواب ہے۔ ان آنے والے دنوں کا خواب جب نفرت اور مغائرت کی دیواریں گر جائیں گی اور یہ دنیا اس جنت موعودہ میں بدل جائے گی جس کی آرزو ابتداء ہی سے آدمی کے دل میں آنکھیں جھپکاتی رہی ہے۔

سرحدیں اچھی کہ سرحد پر نہ رکنا اچھا

سوچئے آدمی اچھا کہ پرندہ اچھا

آج کا انسان جس کربلائے عصر میں کھڑا ہے وہ تخلیقی سطح پر اپنا اظہار چاہتی ہے۔ غالباً اسی لیے عرفان نے سانحۂ کربلا کو بطور ایک زندہ استعارہ اور علامت کے استعمال کیا ہے۔

جو گرتا نہیں ہے اسے کوئی پامال کرتا نہیں

سو وہ سر بریدہ بھی پشت فرس سے اترتا نہیں

ہوائے کوفۂ نا مہرباں کو حیرت ہے

کہ لوگ خیمۂ صبر و رضا میں زندہ ہیں

عرفان ماضی پرست نہیں بلکہ وہ ماضی کے زندہ اور بہترین عناصر کو اپنی غزل کا حصہ بنا کر آنے والی نسلوں کے سپرد کرنا چاہتا ہے۔

مجھے الجھا دیا دانش کدوں نے صرف خوابوں میں

کوئی تعبیر رکھ دو میرے بچوں کی کتابوں میں

گھر میں خوابیدہ نکلتے ہوئے سورج کی نوید

میز پر کاپیاں، بستر پہ کھلونا روشن

ماضی سے حال اور حال سے مستقبل کا سفر، در اصل تہذیب انسانی ہی کے تسلسل کا دوسرا نام ہے۔ عرفان اسی تسلسل حیات کا شاعر ہے، اس کے یہاں زندگی ایک مسلسل بہاؤ کی صورت میں موجود ہے۔ عرفان کی اس خصوصیت کے بارے میں، نامور نقاد شمس الرحمن فاروقی لکھتے ہیں : ’’کبھی کبھی کوئی ایسی کتاب بھی بازار میں آ جاتی ہے جسے اپنے زمانے کی کتاب تسلیم کرنا مشکل معلوم ہوتا ہے، کیوں کہ وہ آج کے شعر سے زیادہ مستقبل کا پتہ دیتی ہوئی معلوم ہوتی ہے اور ساتھ ہی ساتھ کسی دور دراز گزشتہ منزل کی بھی آوازیں اس کے لہجے کی تہہ میں صاف سنائی دیتی ہیں۔ ‘‘

آئیے اس مہذب اور شائستہ لہجہ کی شاعری کا استقبال کریں جس میں ہم سب کی آواز بھی شامل ہے۔

(1999)

٭٭٭

 

 

 

عرفان صدیقی کی پیکر تراشی

 

                ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شہپر رسول(دہلی)

 

عرفان صدیقی کی غزلوں میں حال کی نا آسودگیوں سے پیدا ہونے والا کرب و ملال، ماضی کی پراسرار جہانوں کی کشش اور مستقبل کے فلک پر ستارۂ غیب کے طلوع ہونے کی توقع نیز دشت زیست میں اچانک ظہور پذیر ہونے والے امکانات ایک ایسا منظرنامہ مرتب کرتے ہیں جو ان کی شعری فکر کی تجسیم کرتا ہے۔ وہ جب اپنے داخلی تاثر کو کائنات کی خارجی وسعتوں سے ہمکنار کرتے ہیں تو ان کے لہجے کا گداز اور کھردرا پن مدھم مدھم احتجاج کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ یہ شعری احتجاج انسانی مسائل کی درد مندانہ پیش کش، طنز کی زیریں لہروں اور حال و ماضی کے مثبت اختلاط سے عبارت ہے۔ یہی شعری احتجاج ان کی سوچ کو قوت بخشتا ہے اور ایسے کثیر العناصر شعری پیکروں کی بنیاد بنتا ہے جو ہجر و وصال، کمال و زوال، جلال و جمال، محبت و نفرت، خلوص و منافقت، رنج و راحت، ماضی کے ایوان، حال کے بحران اور مستقبل کے امکان، گویا ایک دنیا پر کمند شعر ڈالتے ہیں۔ ان کی غزلوں میں چراغ، شہر اور مہتاب کے الفاظ نہ صرف کثرت کے ساتھ استعمال ہوئے ہیں بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ عرفان صدیقی نے ان کلیدی الفاظ کے حوالے سے شعری اظہار میں اپنے بیشتر حواس کی شرکت و شمولیت کا سراغ دیا ہے۔ گویا مذکورہ کلیدی الفاظ نے عرفان صدیقی کے بہترین پیکروں کی صورت اختیار کر لی ہے۔

چراغ کے پیکر کی معنوی نیز تخلیقی سرحدوں پر نظر کی جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ یہ کبھی حال کے گھپ اندھیروں میں زندگی کرنے کے عزم کو روشن کرتا ہے، کبھی اگلے زمانے کے بزرگوں کے ساتھ گم ہو جانے والی تہذیب کا نشان بن جاتا ہے اور کبھی آنے والی ساعتوں کے انتظار کا منظر پیش کرتا ہے۔ ذیل کے اشعار سے چراغ کی لو میں گردش کرنے والے مختلف رنگوں کا اندازہ کیا جا سکتا ہے :

 

یہی رہے گا تماشا مرے چراغوں کا

ہوا بجھاتی رہے گی جلائے جاؤں گا میں

بڑی گھٹن ہے چراغوں کا کیا خیال کروں

اب اس طرف کوئی موجِ ہوا نکل آئے

تیرا سراپا میرا تماشا کوئی تو برجِ زوال میں تھا

رات چراغِ ساعتِ ہجراں روشن طاقِ وصال میں تھا

کون بجھتے ہوئے منظر میں جلاتا ہے چراغ

سرمئی شام، یہ تحریرِ حنا کس کی ہے

وہ تیز روشنیوں کا دیار ہے ورنہ

چراغ تو کسی تاریک گھر کا میں بھی ہوں

رات بھر رہتا ہے زخموں سے چراغاں دل میں

رفتگاں تم نے لگا رکھا ہے میلہ اچھا

لے گئے سارے دیے اگلے زمانوں کے بزرگ

خیر ہم لوگوں نے طاقوں میں سجا لی دنیا

تمام جلنا جلانا فسانہ ہوتا ہوا

چراغ لمبے سفر پر روانہ ہوتا ہوا

ہوا سے لڑتا ہوا چراغ، حبس میں جلتے ہوئے بے فیض چراغ، طاق وصال میں روشن ساعت ہجراں کا چراغ، بجھتے ہوئے منظر کو اجالتا ہوا چراغ، تاریک گھر کا چراغ، رفتگاں کی یاد میں جلتے ہوئے زخموں کے چراغ، اگلے زمانے کے بزرگوں کے ساتھ چلے جانے والے چراغ اور تمام جلنے جلانے کو فسانہ کر کے لمبے سفر پر روانہ ہوتا ہوا چراغ وغیرہ ایک ایسے منظر نامے کے تشکیلی اجزا ہیں جو شاعر کی فکری انفرادیت، معنوی ندرت اور تجربات کے تنوع کو ظاہر کرتے ہیں۔ عرفان صدیقی نے عصر رواں کی پیچیدگیوں، رفتگاں کی عظمت اور ان سے عقیدت نیز ہجر و وصال کے جمالیاتی اظہار کے لیے چراغ کے پیکر کا معنی خیز استعمال کیا ہے۔ یہ پیکر قاری کے کئی حواس کو متحرک کرنے کے علاوہ شاعر کے تصور و تخیل کی کثیر الجہتی کو روشن کرتا ہے۔ اس کی تعمیر و تشکیل میں دیگر فنی و فکری امور کے ساتھ ساتھ بصری اور حرکی عناصر نے بھی خصوصی طور پر حصہ لیا ہے۔

عرفان صدیقی کا خلق کردہ دوسرا پیکر ’’شہر‘‘ ہے۔ انھوں نے شہر کے پیکر کو اس پناہ گاہ کی شکل میں پیش کیا ہے جو فرد کو کائنات کے درد سر سے محفوظ رکھتی ہے، گھٹن کے احساس کے پیش نظر شہر کو جنگل کر دینے کی دعا بھی مانگی ہے، دن بھر کی تھکن کے باعث شہر کی شب کے ہر دروازے کی زنجیر بن جانے کا اظہار بھی کیا ہے، آسیب صدا کی موجودگی کے با وصف شہر کے ویران وادیِ ہو بننے سے بچ جانے کا طنز بھی کیا ہے، شہر کی نسبت سے حق تلفی اور بے سائبانی کا شکوہ بھی کیا ہے اور کسی کے چلے جانے کے سبب شہر کے بے رونق ہو جانے کے تعلق سے اپنے قریۂ جاں کی ویرانی کو بھی مجسم کیا ہے :

یہ شہر ذات بہت ہے اگر بنایا جائے

تو کائنات کو کیوں دردِسر بنایا جائے

در و دیوار میں کچھ تازہ ہوا حل کر دے

کوئی رات آئے اور اس شہر کو جنگل کر دے

دروازوں پر دن بھر کی تھکن تحریر ہوئی

مرے شہر کی شب ہر چوکھٹ کی زنجیر ہوئی

اب بھی سنیے تو اک آسیب صدا باقی ہے

شہر ویران نہیں وادیِ ہو کی صورت

شہر کے ایوان اپنی مٹھیاں کھولیں ذرا

اس زمیں پر ایک ٹکڑا آسماں میرا بھی ہے

لکھ رہی ہیں سلگتی ہوئی انگلیاں

دھوپ کے شہر میں سائبانوں کے نام

تو یہاں تھا تو بہت کچھ تھا اسی شہر کے پاس

اب تو جو کچھ ہے مرے قریۂ جاں جیسا ہے

ان اشعار میں شہر کا پیکر اپنے بصری، سماعی اور تخییلی عناصر کے حوالے سے زیست کی متعدد پیدا و پنہاں حقیقتوں اور مختلف سطحوں کی معنی خیز تعبیر میں اس طرح معاون ہوتا ہے کہ شاعر کی فکری اپج اور فنی و لسانی دسترس کو آئینہ کر دیتا ہے۔

عرفان صدیقی الفاظ کے راست اور مجازی استعمال پر قادر ہیں اور تخلیقی امکانات کی شناخت بھی رکھتے ہیں۔ بعض اوقات احساس کی گہرائی اور خیال کی پیچیدگی پر الفاظ کی گرفت چست نہیں ہو پاتی، عرفان صدیقی ایسے موقع پر زبان کے مجازی اور تخلیقی استعمال کے ذریعے لسانی اور فنی خوش سلیقگی کا مظاہرہ کرتے ہیں جس کی مثال حال کی سفاکی اور زبوں حالی کی شعری صورت گری کے ضمن میں واقعات کربلا کے استعارات اور تلمیحات کا تخلیقی استعمال ہے جس کی بنیاد پر انھوں نے پر تاثر، خیال انگیز اور معنی آفریں نقش گری کی ہے :

کسی لشکر سے کہیں بہتا پانی رکتا ہے

کہیں جوئے رواں کسی ظالم کی جاگیر ہوئی

دیکھیے کس صبح نصرت کی خبر سنتا ہوں میں

لشکروں کی آہٹیں تو رات بھر سنتا ہوں میں

کہ جیسے میں سر دریا گھرا ہوں نیزوں میں

کہ جیسے خیمۂ صحرا سے تو پکارتا ہے

دولت سر ہوں تو ہر جیتنے والا لشکر

طشت میں رکھتا ہے نیزے پہ سجاتا ہے مجھے

ادھر تیر چلنے کو تھے بیقرار

اُدھر سارے مشکیزے بھرنے کو تھے

ہوائے کوفۂ نامہرباں کو حیرت ہے

کہ لوگ خیمۂ صبر و رضا میں زندہ ہیں

ان اشعار میں لشکر، خیمہ، کوفہ اور مشکیزہ اساسی الفاظ کے طور پر استعمال ہوئے ہیں اور جوئے رواں، ظالم، آہٹیں، رات، سر دریا، نیزہ، صحرا، طشت، تیر، سر، صبح نصرت، کوفۂ نا مہرباں، صبر و رضا اور دولت سر وغیرہ تراکیب و الفاظ اساسی الفاظ کے منسلکات کے طور پر برتے گئے ہیں۔ شاعر کی داخلی کیفیات اور خارجی معاملات کی مربوط اور متحد شعری پیش کش میں مذکورہ اساسی الفاظ اور ان کے منسلکات اس طور رو بہ عمل ہوتے ہیں کہ معنوی جہات قاری کے پردۂ ذہن پر بھرپور تاثر کے ساتھ مرتسم ہو جاتی ہیں۔ اس طرح یہ تلمیحی پیکر شعر کی ترسیل کے بہترین وسائل بھی ثابت ہوتے ہیں اور کلام میں حسن و آراستگی کا سامان بھی بہم پہنچاتے ہیں۔ ان پیکروں کی وساطت سے عرفان صدیقی نے کربلا کے تاریخی واقعات اور اقدار کو موجودہ معاشرتی صورتِ حال سے اس طرح مربوط کر دیا ہے کہ تاریخی حقائق کی بازیافت کے ساتھ ساتھ ایک نئی معنوی جہت سامنے آ گئی ہے۔ ان پیکروں کی بنیاد پر ان کے بصری، سماعی، حرکی اور محسوساتی شعری تصویری عناصر کی سحرکاری کا اندازہ بخوبی کیا جا سکتا ہے۔

عرفان صدیقی تجربات و تصورات کی نقش گری میں تفکر و تخیل کو متعدد سطحوں پر برتنے کا ہنر جانتے ہیں اور پیکر تراشی کے عمل میں اپنے بیشتر حواس کو بروئے کار لانے پر قادر ہیں۔ چراغ، شہر اور کربلا سے متعلق شعری استعاروں نیز تلمیحات کی بنیاد پر تشکیل پانے والے شعری پیکر ان کی غزل میں کلیدی حیثیت کے حامل ہیں علاوہ ازیں کچھ ذیلی پیکر بھی نمودار ہوتے ہیں جو کلیدی پیکروں کی قوت و معنویت میں اضافہ کرتے ہیں اور ان کی جملہ خصوصیات کو نمایاں کرتے ہیں۔ اس طرح شاعر کی تخلیقی انفرادیت اور اس کی تخلیقات کے حسن، معنویت نیز زندگی سے اس کے فنکارانہ ربط کے نقوش روشن ہوتے ہیں۔

(2015)

٭٭٭

 

 

 

 

 

عرفانؔ صدیقی اور روایت کی پاسداری

 

                ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ توقیر عالم توقیرؔ (پٹنہ)

 

انسانی زندگی کا تجربہ یہ ہے کہ ہر آدمی کسی نہ کسی شخصیت سے متاثر ہوتا ہے، اس سے اثرات قبول کرتا ہے اوراس کے نقش قدم پر چلنے کو باعث افتخار جانتا ہے۔ ایک باپ کا عکس اگر بیٹے میں نظر آئے تو اس کی توضیح یہی ہو سکتی ہے کہ وہ اپنے باپ کی شخصیت سے متاثر ہے۔ کہنے کا مطلب یہ کہ انسانی فکر پر لازمی طور پر کسی نہ کسی شخصیت کا پرتو ہوتا ہے۔ بعض خصوصیات میں انسان کا ایک دوسرے سے مماثل ہونے کا ایک سبب یہ بھی ہے۔ ہم ذہنی اور تخیلی ہم آہنگی کو انسان کی اپنی پسند کی شخصیت سے اثر پذیر ہونے کی اہم وجہ قرار دے سکتے ہیں۔ آدمی کو پرکھنے کا ایک طریقہ یہ بھی مانا جاتا ہے کہ وہ کن چیزوں کو پسند کرتا ہے اور کن ہستیوں سے متاثر ہے۔ اگر کوئی ہٹلر کو پسند کرے تواس کا مطلب یہ ہوا کہ اس کے اندر جارحیت اور جبر ہے۔ انسان اپنی سوچ کے مطابق ہی اپنا قبلہ و کعبہ متعین کرتا ہے۔ شاعر اور فن کار بھی انسان ہوتا ہے، اس لئے بعید از قیاس ہے کہ وہ کسی سے متاثر نہ ہو اور اس کے فن یا کلام پر دوسرے کے اثرات نہ پائے جائیں۔ علامہ اقبالؔ کی فکر اور شخصیت پر جہاں مولانا جلال الدین رومیؒ کی صوفیت اور مثبت سوچ کا اثر نمایاں ہے (جس کی بنا پر اقبالؔ نے علانیہ رومیؔ کو اپنا روحانی مرشد تسلیم کیا)وہیں اسد اللہ خاں غالب ؔ ، مرزا عبدالقادر بیدلؔ کو بے حد پسند کرتے تھے۔ ایسے میں کسی کی شخصیت سے متاثر ہونا اوراس کے کلام پر کسی کے اثرات کا پایا جانا معیوب تصور نہیں کیا جا سکتا۔ ہاں !شعر و ادب میں ایک فنکار کے لیے یہ بات اس وقت معیوب بن جاتی ہے جب وہ اثرات اس انداز سے قبول کرے کہ اس پر سرقہ کا دھوکہ ہو یا تتبع اس نوعیت کا ہو کہ اس میں فن کاری نہ پائی جائے۔

کسی فنکار پر اثرات مرتب ہونے کی دو صورتیں ہو سکتی ہیں۔ ایک یہ کہ فنکار اپنے پسندیدہ فنکار کا تتبع کرے۔ دوسرے یہ کہ خیال کی ہم آہنگی کے سبب توارد کی صورت پیدا ہو جائے۔ موخرالذکر کیفیت اس وقت پیدا ہوتی ہے یا تسلیم کی جاتی ہے جب دو فنکاروں کا تعلق ایک ہی عہد سے ہو، ورنہ یہ سمجھا جاتا ہے کہ اس نے اپنے پیش رو کا تتبع کیا ہے۔ بہ الفاظ دیگر وہ اپنے پیش رو سے متاثر ہے۔ لیکن فطری فنکار اتباع کے باوجود اپنے قاری کو اس بات کا احساس کم ہی ہونے دیتا ہے کہ اس کے فن پر اس کی پسندیدہ شخصیت کا پرتو بھی ہے اور اپنے فن کی تعمیر میں اس نے کسی سے استفادہ کیا ہے۔ عرفانؔ صدیقی ایک ایسے ہی فنکار کا نام ہے، جس نے اپنے پیش رو شعراء سے اثرات قبول کرتے ہوئے اس بات کا خیال رکھا ہے کہ اس کا فن کسی پیش رو فنکار کا تتبع نہ بن جائے۔ عرفانؔ کے کلام میں پیش رو شعرا سے اثرات قبول کرنے کی کئی صورتیں ہمیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔

عصر حاضر میں بعض ناقدین اس خیال کا بار بار اظہار کرتے رہے ہیں کہ جتنی باتیں کہی جانی تھیں وہ کہی جا چکیں۔ اس عہد کا شاعر، اُن کہی ہوئی با توں کو دہرا رہا ہے۔ یہ بات بہت حد تک درست ہے لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ آج کوئی نیا خیال اور نئی بات پید انہیں ہو رہی ہے۔ آج کی شاعری میں معنوی طور پر کوئی جدت نہیں ہے، ایسا کہنا حقیقت کو جھٹلانے کے مترادف ہو گا۔ البتہ یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ اردو شاعری پر آج ایک ایسادور رواں ہے کہ جدت اور ندرتِ خیال کی کمی نظر آتی ہے۔ سارا معاملہ غور و فکر کا ہے۔ گوہرِ نایاب کے جویا آج بھی غواصی کرتے ہیں تو کوئی نہ کوئی قیمتی موتی ان کے ہاتھ لگ ہی جاتا ہے۔ عرفان کے یہاں اثرات قبول کرنے کی سب سے بہتر صورت یہی ہے کہ انہوں نے بعض پیش روؤں کے خیالات سے نئی بات پیدا کی ہے۔ عرفان کی فنکاری یہ ہے کہ وہ آغاز تو اسی نقطے سے کرتے ہیں جہاں سے کسی فنکارنے پہلے کیا تھا مگر اس کے ساتھ چلتے نہیں بلکہ اپنا رخ کسی اور جانب موڑ لیتے ہیں۔ یعنی مرکز یا نقطۂ آغاز ایک ہوتا ہے لیکن سمت اور منزلیں جدا ہو جاتی ہیں۔ گویا بات سے بات اور نکتے سے نکتہ پیدا کرنے کا عمل آج بھی جاری ہے اور حقیقی فنکار کے یہاں اس کی مثالیں دیکھی جا سکتی ہیں۔ عرفانؔ صدیقی کے یہاں اس کا خاص التزام ملتا ہے۔ عرفانؔ صدیقی کا ایک ایساہی شعر دیکھیں جس کے آغاز میں یک ذرا گمان تو گذرتا ہے کہ انہوں نے کسی کا تتبع کیا ہے لیکن جیسے ہی شعر مکمل ہوتا ہے، قاری اپنے ذہن میں لئے ہوئے خیال سے جدا ہو کر دوسری دنیا میں چلا جاتا ہے۔ لیکن پہلے اردو غزل کے سب سے بڑے شاعر مرزا اسداللہ خاں غالب کی یہ گوہر افشانی دیکھیں ؂

ان کے دیکھے سے جو آ جاتی ہے منھ پر رونق

وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہے

عرفانؔ صدیقی نے غالبؔ سے اس طور پر استفادہ کیا ہے ؂

اس نے کیا دیکھا کہ ہر صحرا چمن لگنے لگا

کتنا اچھا اپنا من اپنا بدن لگنے لگا

غالبؔ عشق میں اپنے سوا کسی کو نہیں گردانتے ؂

کون ہوتا ہے حریف مے مردافگن عشق

ہے مکر ر لب ساقی پہ صلا میرے بعد

عرفانؔ صدیقی نے اس خیال کو اس انداز سے پیش کیا ہے کہ قاری محسوس نہیں کر پاتا کہ اس شعر میں کسی کا اتباع کیا گیا ہے۔ عرفانؔ کاشعر دیکھیں، معنی وہی ہے جو غالب کے مذکورہ شعر کا ہے لیکن عرفان نے ایک نئی دنیا آباد کر دی ہے۔ یعنی اسی خیال میں انہوں نے تصوف کا رنگ بھر دیا ہے۔ شعر ملاحظہ ہو ؂

کوئی سلطان نہیں میرے سوا میرا شریک

مسندِ خاک پر بیٹھا ہوں برابر اپنے

آتشؔ نے اسی’ سلطانی‘ کو عشق سے جوڑ کر اس طور پر اپنا سکہ جمایا ہے ؂

زمیں پر بوریا اور بوریے پر مرگ چھالا ہے

فقیر عشق بھی سہ منزلہ کا رہنے والا ہے

غالبؔ نے ایک شعر میں بے پروائی، بے نیازی اور لاتعلقی کا اظہار کیا ہے۔ غالبؔ کی بے نیازی میں قدرے مایوسی ہے اور لہجہ سنجیدہ ہے۔ اسی مضمون کو عرفانؔ صدیقی نے ایک شعر میں باندھا ہے جس میں بے نیازی نے تصوف کا رنگ اختیار کر لیا ہے۔ اس میں جلال بھی ہے جس کی بدولت عرفانؔ کی بے نیازی اختیاری معلوم ہونے لگتی ہے۔ عرفان کا جلال تو اس قدر بڑھا ہوا ہے کہ اس نے دستِدادار کی ملامت بھی کر ڈالی ہے۔ غالبؔ نے ’’جام و سبو‘‘ اور ’’بادۂ گلفام‘‘ جیسی ترکیبوں کا استعمال کر کے اپنا ما فی الضمیر ادا کیا جبکہ عرفانؔ نے کاسہ، دست دادار اور درہم و دینار جیسے لفظوں کا انتخاب کر کے اپنا رنگ قائم کر دیا ہے۔ غالبؔ اور عرفانؔ کے یہ اشعار ملاحظہ ہوں ؂

توڑ بیٹھے جب کہ ہم جام و سبو پھر ہم کو کیا

آسماں سے بادۂ گل فام گر برسا کرے غالبؔ

ہم نے مدت سے الٹ رکھا ہے کاسہ اپنا

دستِ دادار ترے درہم و دینار پہ خاک عرفانؔ         غالبؔ کے لہجے کی بے نیازی پر مایوسی کا سایہ ہے جبکہ عرفاؔ ن کے لہجے میں طنطنہ ہے لیکن مدعا دونوں کا ایک ہے یعنی بے نیازی۔ مگر اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اس بے نیازی کے اظہار میں دونوں کے یہاں ’طلب ‘کا پہلو کہیں نہ کہیں پوشیدہ ہے۔ یہ طلب دست دادار پر غصے کے اظہار کی صورت میں ہو یا بادۂ گلفام برسانے والے آسمان سے روٹھ جانے کی شکل میں ہو۔ ان دونوں شعروں میں جو سب سے اہم فرق ہے وہ یہ ہے کہ غالبؔ نے جام و سبو توڑ ڈالے ہیں اور عرفان ؔ نے کاسہ توڑا نہیں ہے بلکہ الٹ دیا ہے۔ عمل کے اسی فرق سے دونوں کے لہجے میں امتیاز پیدا ہوا ہے۔ اسی طرح غالبؔ کا یہ شعر ؂

ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یارب

ہم نے دشت امکاں کو ایک نقش پا پایا

لاجواب ہے۔ بعض ناقدین کے مطابق اس میں واقعۂ معراج کی طرف اشارہ ہے۔ میرے نزدیک دوسرا مفہوم یہ ہے کہ انسانی زندگی آرزوؤں اور خواہشوں کا ایک لامتناہی سلسلہ ہے۔ اتمامِ خواہش کبھی نہیں ہوتا اور ایسے میں ’دشت امکاں ‘ بھی ایک ’نقش پا‘ معلوم ہوتا ہے۔ خواہشوں کے اسی انبوہ کی جانب غالبؔ نے ایک اور شعر میں اشارہ کیا ہے ؂

ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے

بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے

بہر کیف عرفانؔ نے غالبؔ کے ’’دشتِ امکاں ‘‘ سے متاثر ہو کر ’’دشتِ افلاک‘‘ کی ترکیب نکالی ہے اور ’خیال‘ کو تمناؤں کے ہجوم سے نکال کر ’’وحشت جاں ‘‘ کا پیراہن عطا کیا ہے۔ شعر ملاحظہ ہو ؂

وادیِ ہو، میں پہنچتا ہوں بیک جستِ خیال

دشتِ افلاک مری وحشت جاں سے کم ہے

غالب کا استفہامیہ اور استفساریہ انداز بھی عرفان کے یہاں پایا جاتا ہے۔ عرفان کی ایک غزل کا مطلع ہے ؂

وہ جو اک شرط تھی وحشت کی اٹھا دی گئی کیا

میری بستی کسی صحرا میں بسا دی گئی کیا

غالب کی ایک نہایت معروف غزل کا انداز بھی استفہامی ہے۔ اس غزل میں بعض اشعار تصوف کے ہیں۔ غالب کہتے ہیں ؂

جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود

پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے

عرفانؔ نے غالبؔ کی طرح استفہامیہ انداز اختیار کیا ہے لیکن غالب نے کائنات کے حوالے سے ذاتِ خداوندی کو تلاش کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ وحدت الشہود کا نظریہ ہے، لیکن عرفان نے کائنات کے حوالے سے ذات کے اثبات و وجود کا درک پید ا کیا ہے۔ شعر دیکھیں ؂

دکھا رہا ہے کسے وقت ان گنت منظر

اگر میں کچھ بھی نہیں ہوں تو پھر یہ سب کیا ہے

اسے ہم عرفان صدیقی کی، کائنات کے حوالے سے ذات کو سمجھنے کی کوشش بھی کی قرار دے سکتے ہیں اور اپنے وجود کے حوالے سے خالق کو دریافت کرنے کی سعی بھی۔ یہ نظریۂ وحدت الوجود کی تردید بھی ہے۔ اسے اس باطل نظریے کا جواب بھی کہا جا سکتا ہے، جس کی بدولت انسان نے اپنے وجود سے انکار کر دیا تھا۔ انسان اور کائنات کے وجود کے حوالے سے انسان ہمیشہ سے متجسس رہا ہے۔ یہ نظریہ اب بھی قائم ہے کہ آیا انسان اور کائنات کا وجود ہے یا نہیں۔ ایک زمانے میں یونان میں اسے محض فریب نظر سمجھا گیا تھا۔ اس فلسفہ سے ایک دنیا متاثر ہوئی لیکن ڈیکارڈ نے اس خود فریبی کا پردہ چاک کرتے ہوئے کہا : ’’ دنیا کے متعلق تو خیر سوچاجا سکتا ہے کہ ہے یا نہیں ہے لیکن مجھے اپنے وجود پر شبہ نہیں ہو سکتا۔ ‘‘ (اقبال سب کے لئے۔ فرمان فتح پوری۔ ص۔ ۶۵۔ ۶۴، بحوالہ فکر اقبال۔ مرتبہ غلام دستگیر رشید۔ ص۔ ۱۳۲)

بعد میں اقبالؔ نے اسی خیال کی توثیق کرتے ہوئے کہا: ’’میں یہ مان سکتا ہوں کہ اس جہاں میں رنگ و بو اور زمیں و آسمان کا کوئی وجود نہیں ہے، یہ بھی فرض کر لیتا ہوں کہ یہ کائنات محض خواب و افسانہ اور حقیقت پر ایک طرح کا پردہ ہے، یہ بھی تسلیم کہ جو کچھ دیکھ اور سن رہا ہوں وہ چشم و گوش کا فریب اور میرے ہوش وحواس کا فتور ہے۔ ‘‘لیکن اس بات کو میں کس طرح مان لوں کہ میں نہیں ہوں اگر یہ سمجھوں کہ میرا وجود محض وہم و گمان ہے تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ میرے اندر وہ کون ہے جو مجھے اپنے وجود کے انکار کا احساس دلا رہا ہے۔ یہ احساس اس امر کا بدیہی ثبوت ہے کہ میں موجود ہوں اور میری روح یا میری انا یا میری خودی ساری کائنات سے زیادہ یقینی اور قطعی ہے۔ ‘‘ (گلشن راز جدید۔ بحوالہ اقبال سب کے لئے۔ ص۔ ۶۵۔ ۶۶)

اقبال کے یہ اشعار ملاحظہ فرمائیں :

اگر گوئی کہ من وہم و گماں است

نمودش چوں نمود این و آں است

بگو بامن کہ دارائے گماں کیست

یکے در خود نگر آں بے نشاں کیست

عرفان نے اسی فلسفے کو شعری جامہ پہنایا ہے اور کائنات کو ذات کی اور ذات کو کائنات کی دلیل بنا دیا ہے۔ یہ شعر ایک بار پھر دیکھیں ؂

دکھا رہا ہے کسے وقت ان گنت منظر

اگر میں کچھ بھی نہیں ہوں تو پھر یہ سب کیا ہے

عرفان صدیقی فلسفۂ زماں سے متعلق وہی نظریہ رکھتے تھے جو اقبال کا ہے۔ ایک انٹرویو میں وقت کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے عرفان نے کہا تھا: ’’۔ ۔ ۔ وقت جو ہے، وہ جیسا کہ ہم سب واقف ہیں وقت سے زیادہ mysterious اور پر اسرار اور سمجھ میں نہ آنے والی چیز کوئی نہیں ہے۔ لیکن اس کے باوجود یہ انسانی ذہن کی گویا مجبوری ہے کہ ہمیشہ انسان نے اس کے بارے میں سوچاہے کسی نہ کسی شکل میں، کسی نہ کسی نہج پر۔ میرے یہاں بھی صاحب وقت کا تصور کچھ اس طرح سے ہے کہ ایک تو وہ زمان کا معاملہ ہے کہ جس کے حصے آپ کر سکتے ہیں کہ جو صاحب، کہ ایسا زمان جو پہلے مستقبل تھا، پھر حال ہوا اور آگے ماضی ہو جائے گا۔ اور پھر زمان مستقل ہے جس میں نہ ماضی ہے نہ حال ہے کچھ نہیں ہے۔ یہ دونوں پہلو مجھے بے حد mysteriousلگتے ہیں۔ اور ان میں آدمی کہاں کھڑا ہوا ہے یہ موضوع ایسا ہے جس پر میں نے کچھ سوچابھی ہے اور جو کچھ اندر اس سلسلے میں وارد ہوا اس کے اظہار کی کوشش بھی کی۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

اسی انٹرویو میں وہ آگے اپنا ایک شعر یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں :

’’ ذرا سوچو تو اس دنیا میں شاید کچھ نہیں بدلا

وہی کانٹے ببولوں میں وہی خوشبو گلابوں میں

تو ایک زمان یہ ہے۔ بعض چیزیں ایسی ہیں جو قائم رہتی ہیں۔ یعنی خارج میں بھی ان کا وجود قائم رہتا ہے۔ حالانکہ زمان اس سے بھی آگے کی چیز ہے۔ یہ تو صرف خارجی علامات ہیں ورنہ زمان کو تو کوئی سمجھ ہی نہیں سکتا۔ تو وقت مجھے انسانی زندگی میں سب سے زیادہ پراسرار چیز لگتی ہے۔ میں طرح طرح سے اس پر غور کرتا ہوں۔ سمجھ میں کچھ نہیں آتا لیکن سمجھنے کی کوشش کرتا ہوں۔ ‘‘

زمانے کے خارجی اور داخلی پہلو پر اقبالؔ نے نہایت موثر اور واضح انداز میں روشنی ڈالی ہے۔ ان کی مشہور نظم ’’مسجدقرطبہ‘‘ کا آغاز ہی اسی فلسفۂ زماں سے ہوتا ہے ؂

سلسلۂ روز و شب، نقش گر حادثات

سلسلۂ روز و شب، اصل حیات و ممات

سلسلۂ روز و شب، تارِ حریر دو رنگ

جس سے بناتی ہے ذات اپنی قبائے صفات

سلسلۂ روز و شب، ساز ازل کی فغاں

جس سے دکھاتی ہے ذات زیر و بم ممکنات

تجھ کو پرکھتا ہے یہ مجھ کو پرکھتا ہے یہ

سلسلۂ روز و شب، صیرفیِ کائنات

تو ہو اگر کم عیار، میں ہوں اگر کم عیار

موت ہے تیری برات، موت ہے میری برات

تیرے شب و روز کی اور حقیقت ہے کیا

ایک زمانے کی رو جس میں نہ دن ہے نہ رات

اسی نظم کے اگلے بند میں اقبال نے زمانے کی رو کو تند وسبک سیر کہا ہے۔ اور ’’ساقی نامہ‘‘ میں زندگی اور موت کا فلسفہ بیان کرتے ہوئے زندگی کو ’’ رمِ یک نفس‘‘ قرار دیا ہے جو ازل سے ابد تک جولاں ہے اور آخر میں اقبال نے اس ’’رمِ یک نفس‘‘ کو زمانہ سے ہمکنار کر دیا ہے ؂

سمجھتے ہیں ناداں اسے بے ثبات

ابھرتا ہے مٹ مٹ کے نقش حیات

بڑی تیز جولاں، بڑی زود رس

ازل سے ابد تک رم یک نفس

زمانہ کہ زنجیرِ ایام ہے

دموں کے الٹ پھیر کا نام ہے

اقبال نے اپنی نظم ’’زمانہ‘‘ میں زمانے کے اسی خارجی پہلو کا اظہار اس انداز میں کیا ہے ؂

جو تھا نہیں ہے، جو ہے نہ ہو گا، یہی ہے اک حرف محرمانہ

قریب تر ہے نمود جس کی اسی کا مشتاق ہے زمانہ

عرفان صدیقی کہتے ہیں ؂

اس خرابے میں بھی ہو جائے گی دنیا آباد

ایک معمورہ پس سیل بلا چلتا ہے

’’مسجد قرطبہ‘‘ کا ایک شعر جو اوپر درج ہوا اسے یاد کریں یعنی ؂

تیرے شب و روز کی اور حقیقت ہے کیا

ایک زمانے کی رو جس میں نہ دن ہے نہ رات

اور قرآن کہتا ہے : ’’کیا انسانوں پر ایسا زمانہ نہیں تھا کہ قابل ذکر کوئی شے نہیں تھی؟‘‘

( سورۃ الدہر)

قرآن کا یہ استفہامی انداز استفہامی نہیں بلکہ خبریہ ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو آگاہ کر رہا ہے کہ انسانوں پر ایک ایسا زمانہ بھی تھا کہ ذکر کے قابل کوئی شے ہی نہیں تھی اور ہم نے اسے قابل ذکر بنایا۔

تو زمانہ ایک رو ہے جس میں نہ دن ہے نہ رات ہے لیکن ہم اپنی آنکھوں سے لیل و نہار کو آتے جاتے دیکھتے ہیں۔ یہی زمانے کا خارج ہے۔ ماضی، حال اورمستقبل اسی خارج سے متشکل ہوتے ہیں۔ اسی کو اقبال نے ’’دموں کے الٹ پھیر ‘‘ سے تعبیر کیا ہے۔ دوسری طرف اقبال نے مذکورہ آیت کے مفہوم کو عشق کے ساتھ مربوط کر دیا ہے لیکن اشارہ اسی جانب ہے ؂

عشق کی تقویم میں عصر رواں کے سوا

اور زمانے بھی ہیں جن کا نہیں کوئی نام

گویا زمانہ عشق کا ملزوم ہے۔ زمانہ بھی سیل ہے عشق بھی سیل ہے۔ بہ الفاظ دیگر عشق ہی زمانہ ہے۔ جب عشق نے داخل سے خارج میں ظہور کیا تو زمانہ بھی خارج میں آ گیا۔

عرفان صدیقی کے یہاں ’’زنجیر‘‘ اور ’’سفر‘‘ جیسے الفاظ علامت کی صورت اختیار کر گئے ہیں اوراسی سفرِ مسلسل کے سہارے بعض مقامات پر عرفان صدیقی فلسفۂ زماں کی گتھیاں بھی سلجھاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ مذکورہ بالا آیت کے مفہوم کو گردش پیہم کے ساتھ وابستہ کر کے عرفان نے جو شعر نکالا ہے وہ اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ اس شعر کو پڑھنے کے بعد آنکھوں کے سامنے زمانہ چلتا ہوا اور عرفانؔ اس کے ساتھ دوڑ لگاتا ہوا نظر آئے گا۔ شعر ملاحظہ فرمائیں ؂

وقت کے ساتھ طے کئے ہم نے عجیب مرحلے

کچھ مہ وسال کے بہ فیض، کچھ مہ وسال کے بغیر

یعنی کچھ ایسے زمانے بھی گزرے ہیں جن میں مہ وسال کی قید نہ تھی، جس کا واضح اشارہ قرآن کی مذکورہ آیت میں ہے۔ اقبالؔ نے اسی آیت سے استفادہ کیا اور پھر عرفان کے پیش نظر بھی یہی بات رہی۔ اسی مفہوم کو پیش کر کے ایک شاعر نے اس انداز میں اپنی مطلب بر آری کی ہے ؂

کب سے ہوں مبتلائے غم عشق یہ نہ پوچھ

تخلیق کائنات سے پہلے کی بات ہے

زمانہ کے سلسلے میں ایک واضح حدیث بھی ہے۔ یہ حدیث اقبال نے ایک ملاقات میں برگساں کوسنائی تھی اور وہ اچھل پڑا تھا۔ یعنی لاتسبو الدہر۔ ۔ ۔ الخ۔ (زمانے کو برا نہ کہو کیونکہ زمانہ خود خدا ہے۔ )اس سے زمانے کی اہمیت کو سمجھا جا سکتا ہے۔ خدا ازل سے ہے اور ابد تک رہے گا۔ گویا زمانہ، خدا سے ہے تو زمانہ بھی ازل سے ہے اور ابد تک رہے گا۔ ایسے میں سلسلۂ روز و شب کی حقیقت خارجیِ محض ہے۔ اور زمانِ حقیقی ایک سبک سیر رو یا سیل ہے۔ ( واللہ اعلم )

بہر کیف عرفان صدیقی نے اپنے پیش روؤں سے بے دریغ اثرات قبول کئے ہیں۔ ان میں شاہ نصیر، ذوق، مصحفی، میر اور بلکہ پوری کلاسیکی شاعری شامل ہے۔ اس کا اعتراف عرفان صدیقی نے خود کیا ہے کہ وہ چھوٹا سا پتھر کا ٹکڑا بھی کہیں پڑا ہوا دیکھتے ہیں تو لے لیتے ہیں۔ اسے انہوں نے اپنا حق جانا ہے۔ میرؔ اور غالبؔ سے اثرات قبول کرنے کے تعلق سے وہ کہتے ہیں : ’’۔ ۔ ۔ سمجھ میں اب تک نہیں آتا کہ میں، اگر گروہ ہو سکتے ہیں شاعری میں تو میں میرؔ کے گروہ کا شاعر ہوں یا غالبؔ کے۔ میں سمجھتا ہوں کہ میں ان دونوں کے گروہوں میں آدھا آدھا بٹا ہوا ہوں۔ اس لئے کہ بہت زیادہ فیصلہ نہ کر سکنے کے باوجود یہ طے ہے کہ غالب کی شاعری مجموعی طور پر میرؔ سے مختلف ہے۔ یہ تو ضرور طے ہے، تو پھر یہ بھی طے ہے کہ یہ دونوں شاعر الگ الگ طرح کے ہیں۔ میرا معاملہ یہ ہے کہ مجھے دونوں ہی اس قدر پراسرار اور اتنے اپنی طرف کھینچ لینے والے اور اپنے میں جذب کر لینے والے لگتے ہیں کہ میں کبھی اس طرف جاتا ہوں کبھی اس طرف جاتا ہوں۔ بلکہ ایک ہی وقت میں دونوں طرف بٹا ہوا رہتا ہوں۔ ایک ہی وقت میں ایک ہی شعر میں۔ یہ عجیب و غریب معاملہ ہے اور یہ مجھے بہت اچھا لگتا ہے۔ لیکن دل میرا میرؔ کی طرف بہت کھنچتا ہے۔ ‘‘ ( شب خون۔ نمبر ۲۸۹)   عرفان نے یہ اعتراف تو کر لیا لیکن ان شعرا سے براہ راست طور پر استفادہ کم ہی کیا ہے۔ بات سے بات پیدا کرنے کی کوشش زیادہ کی ہے۔ زیادہ تفصیل کی گنجائش نہیں۔ ان دونوں شعراء کے چند اشعار دیکھیں ؂

رات دن گردش میں ہیں سات آسماں

ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا غالبؔ ؔ

زیر افلاک ستاروں کا سفر جاری ہے

اب کے نکلیں گے ہم اے شام زوال اور کہیں عرفانؔ

عشق نے غالب نکما کر دیا

ورنہ ہم بھی آدمی تھے کام کے غالب

میں تجھ سے بچ کے بھی کیا دوسروں کے کام آیا

تو اب ملے گا تو بن جاؤں گا نشانۂ لب عرفان

اور میرؔ نے کہا ہے ؂

ہو گا کسی دیوار کے سائے کے تلے میرؔ

کیا کام محبت سے اس آرام طلب کو

عرفان کے یہاں میرؔ کا رنگ دیکھیں ؂

ہم کو تو دلبر خوب ملا خیر اپنی اپنی قسمت ہے

پھر بھی جو کوئی رنج اٹھانا چاہے عشق ضرور کرے

میرؔ کا ایک مشہور شعر ہے ؂

ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی

چاہے ہیں سو آپ کریں ہیں ہم کو عبث بدنام کیا

عرفان کہتے ہیں ؂

میں کارِ عشق سے ترکِ وفا سے باز آیا

سب اس کے ہاتھ میں ہے میرے بس میں کچھ بھی نہیں

چند اشعار اور دیکھیں ؂

کیا حال پوچھتے ہو اے پورب کے ساکنو

ہم کو غریب جان کے ہنس ہنس پکار کے میرؔ

اجنبی جان کے کیا نام و نشاں پوچھتے ہو

بھائی ہم بھی اسی بستی کے نکالے ہوئے ہیں عرفانؔ

یہاں لفظ ’بستی‘ جنت کا استعارہ بھی ہو سکتا ہے۔

جیسا کہ عرفان صدیقی نے کہا تھا کہ میرؔ سے تو فیض یاب ہونا مجبوری ہے۔ اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ عرفان صدیقی بعض مرحلوں پر میرؔ کے اثرات کو پوشیدہ نہیں رکھ پائے ہیں۔ یہاں ان کی فنکاری جیسے لاجواب ہو گئی ہو۔ وہ کوئی نکتہ پیدا نہیں کر سکے۔ اس نوع کے ایک دو اشعار اوپر درج کئے گئے۔ لیکن دوسرے مقام پر وہ اپنے لب و لہجے میں نظر آتے ہیں۔ میرؔ کا ایک بڑا مشہور اور عمدہ شعر ہے ؂

کچھ موج ہوا پیچاں اے میرؔ نظر آئی

شاید کہ بہار آئی زنجیر نظر آئی

عرفانؔ صدیقی کا اسی سے ملتاجلتا ایک شعر ہے لیکن کیفیت اور ہے ؂

پاؤں میں خاک کی زنجیر بھلی لگنے لگی

پھر مری قید کی میعاد بڑھا دی گئی کیا

یہاں جگرؔ مراد آبادی مجھے یاد آ رہے ہیں۔ زمانے کی روش پر ان کا یہ پیارا شعر ؂

کیا حال پوچھتے ہو میرے کاروبار کا

آئینہ بیچتا ہوں میں اندھوں کے شہر میں

عرفان صدیقی کو بھی زمانے سے یہی شکوہ ہے ؂

بہت ہے آئینے جن قیمتوں پہ بک جائیں

یہ پتھروں کا زمانہ ہے شیشہ گر میرے

ایک اور شعر دیکھیں۔ اس میں شاعر نے جو کچھ ملا ہے وہی لوٹانے کی بات کہی ہے۔ عرفان صدیقی اس لینے اور لوٹانے کے عمل کو ایک دوسرے تناظر میں معیوب اور گناہ قرار دیتے ہیں کیونکہ انہیں اندیشہ ہے کہ اس رویے سے رسم وفا گناہ بن کر رہ جائے گی۔ کسی کا عمدہ اور زبان زد شعر ہے لیکن اس کی مقبولیت نے شاعر کا نام ذہن سے محو کر دیا ہے ؂

دنیا نے تجربات و حوادث کی شکل میں

جو کچھ مجھے دیا ہے وہ لوٹا رہا ہوں میں

اور عرفان صدیقی کہتے ہیں ؂

ہمیں دنیا جو دے گی ہم وہی لوٹائیں گے اس کو

گنہ بن جائے گی رسم وفا آہستہ آہستہ عرفانؔ

عرفان صدیقی کا اردو شعر و ادب کا مطالعہ جہاں وسیع تھا وہیں ہم عصر شعرا کے فکر و فن کو بھی انہوں نے بغور دیکھا تھا۔ اگر اس بات کا تعین کیا جا سکے کہ انہوں نے اپنے معاصرین سے بھی استفادہ کیا ہے تو بجا طور پر ظفر اقبالؔ اور نداؔ فاضلی وغیرہ کے اثرات ان کے یہاں دیکھے جا سکتے ہیں۔ لیکن ہم عصر ہونے کے ناطے یہ بات وثوق سے نہیں کہی جا سکتی کہ کس نے کس کا تتبع کیا ہے ؟ یا یہ توارد ہے ؟یہ تحقیق طلب ہے۔ بہرحال نداؔ فاضلی اور عرفان ؔ صدیقی کا ایک ایک شعر ملاحظہ ہو ؂

زنجیر کی لمبائی تک آزاد ہے قیدی

صحرا میں پھرے یا کوئی گھر بار بسالے نداؔ فاضلی

بحدّ وسعت زنجیر گردش کرتا رہتا ہوں

کوئی وحشی گرفتارِ سفر ایسا نہیں ہو گا عرفانؔ

عرفان صدیقی کا ایک اور شعر ہے ؂

اور اک جست میں دیوار سے ٹکرائے گا سر

قید پھر قید ہے زنجیر کی وسعت پہ نہ جاؤ

اسی طرح ظفر اقبالؔ اور عرفانؔ صدیقی ایک مقام پر مماثل نظر آتے ہیں۔ زمیں ایک ہے آہنگ ایک ہے۔ ردیف میں ’’ہے ‘‘اور ’’ہیں ‘‘ کا فرق ہے۔ اور عرفان کے یہاں ’’کے ‘‘کا استعمال اضافی ہے۔ البتہ قافیے جدا ہیں۔ تاہم ایک کو بڑھنے کے بعد دوسرا خود بخود ذہن میں گردش کرنے لگتا ہے ؂

نوا کے زیر و زبر نوحۂ نوا ہی تو ہے

خلا کے جس بھی طرف دیکھئے خلا ہی تو ہے ظفر اقبالؔ

سخن میں رنگ تمہارے خیال ہی کے تو ہیں

یہ سب کرشمے ہوائے وصال ہی کے تو ہیں عرفانؔ

’’ہی توہے ‘‘کا بطور ردیف استعمال عرفان نے ’’سات سماوات‘‘ کی دوسری غزل میں کیا ہے۔ یہ غزل در اصل رسولﷺ کے حضور میں نذرانۂ عقیدت ہے۔ غزل کا مطلع ہے ؂

نبض عالم میں رواں تیری حرارت ہی تو ہے

کہ یہ عالم ترے ہونے کی بدولت ہی توہے

بڑی نا انصافی ہو گی اگر افتخار عارف کا ذکر نہ کیا جائے۔ کیوں کہ عرفان صدیقی اور افتخار عارف میں لہجے کی، لفظیات کی جو مماثلتیں ہیں وہ ایک دوسرے کی بار بار یاد دلاتی ہیں۔ حتیٰ کہ بعض اوقات ان کی نشاندہی مشکل ہو جاتی ہے۔ خصوصاً واقعۂ کربلا کا علامتی اور استعاراتی استعمال ان دونوں کو بہت قریب کر دیتا ہے۔ خوفِ طوالت کے سبب صرف ایک دو اشعار پر اکتفا کرنا ہو گا۔ افتخار عارف کا ایک نعتیہ شعر ملاحظہ ہو ؂

اپنے آقا کے مدینے کی طرف دیکھتے ہیں

دل الجھتا ہے تو سینے کی طرف دیکھتے ہیں

اور عرفان صدیقی کا یہ مطلع ؂

اے مرے طائر جاں کس کی طرف دیکھتا ہے

ناوک کور کماں کس کی طرف دیکھتا ہے

راس آنے لگی دنیا تو کہا دل نے کہ جا!

اب تجھے درد کی دولت نہیں ملنے والی افتخار عارفؔ

جاؤ اب دشت ہی تعزیر تمہارے لیے ہے

پھر نہ کہنا کوئی زنجیر تمہارے لیے ہے عرفان صدیقی

بین سنتا ہے نہ فریاد و فغاں دیکھتا ہے

ظلم انصاف کے معیار کہاں دیکھتا ہے افتخار عارف

ازل سے کچھ خرابی ہے کمانوں کی سماعت میں

پرندو! شوخیِ صوت و صدا سے کچھ نہیں ہوتا عرفان صدیقی

میثاق اعتبار میں تھی اک وفا کی شرط

اک شرط ہی تو تھی جو اٹھا دی گئی تو کیا افتخار عارف

وہ جو اک شرط تھی وحشت کی اٹھا دی گئی کیا

میری بستی کسی صحرا میں بسادی گئی کیا عرفان صدیقی

برسبیل تذکرہ عرفانؔ کی اسی غزل کا ایک نہایت عمدہ شعر ہے دیکھتے چلیں ؂

دیر سے پہنچے ہیں ہم دور سے آئے ہوئے لوگ

شہر خاموش ہے سب خاک اڑا دی گئی کیا

عرفان صدیقی نے خیالات و مضامین ہی نہیں اردو کے شعری سرمایے سے اپنے لئے لفظوں کا انتخاب بھی کیا ہے اور یہاں بھی وہ خصوصیت کے ساتھ میرؔ اور غالبؔ وغیرہ سے زیادہ متاثر نظر آتے ہیں۔ عرفان نے زنجیر، وحشت، بوریا، خاک، قاتل، مقتل، شجر وغیرہ جیسے الفاظ بار بار استعمال کئے ہیں۔ اور جہاں بہت سی ترکیبیں وضع کی ہیں وہیں قدیم شاعری سے کچھ لینے میں کوئی تامل نہیں کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جدید اردو شاعری میں اپنے قدیم شعری سرمایے سے استفادے کا ایک نمایاں رجحان پایا جاتا ہے۔ یہ عرفان سے ہی مخصوص نہیں ہے دوسرے شعرا نے بھی اس جانب توجہ دی ہے۔ قاضی افضال حسین کہتے ہیں : ’’ نیا شاعر اپنے ذوق اور ضرورت کے مطابق اپنے ماضی سے استفادہ کی جہتیں خود تشکیل دیتا ہے۔ چنانچہ بعض معاصر شعرا نے اپنی روایت سے متن سازی کے بعض اصول اپنے لئے کچھ منتخب کئے اور کچھ نے کلاسیکی متن سے ابھرنے والے بعض مخصوص کردار کو اپنا غالب محرک قرار دیا ہے۔ ہمارے سینئر معاصرین میں ناصر کاظمی اور منیر نیازی کے بعد شہریار اور عرفان صدیقی نے تجدید پر محسوس کو اور استعارے کے فکری حوالوں پر اس کی حسی دلالتوں کو فوقیت دی۔ ان مشترکہ صفات کے علاوہ ان سب کے یہاں signifiersکا کردار اور ان کے باہم ارتباط کا طریقہ ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ ‘‘ ( بحوالہ: آزادی کے بعد اردو شاعری مقالات و مباحث)

مجموعی طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ عرفان صدیقی نے جہاں نیا آہنگ و لہجہ پیدا کیا، نئی ترکیبیں اور لفظیات وضع کیں جو ان کی انفرادیت کے ثبوت میں پیش کئے جا سکتے ہیں وہیں انہوں نے اردو شاعری کی روایت سے استفادہ بھی کیا ہے اور بیشتر مقامات پر قدیم خیالات و لفظیات کو اپنی ہنر مندی سے نئی صورت بھی عطا کی ہے۔ لیکن یہ بھی ذہن نشیں رہے کہ یہ عرفان صدیقی کی شناخت اور پہچان نہیں ہے بلکہ ان کی شاعری کا ایک قلیل جز ہے۔ عرفان کا امتیاز ان کے لہجہ، آہنگ اور ان کے مخصوص لفظیات، استعاراتی نظام اور ان کی ہنر مندی سے قائم ہوتا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

مسند خاک کا شاعر:عرفان صدیقی

 

                ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ابرار رحمانی(دہلی)

 

۱۳ اپریل کوحسب معمول لنچ کے بعد ہم یارانِ بے تکلف پارلیمنٹ اسٹریٹ کی پی ٹی آئی بلڈنگ کے ٹی اسٹال پر حالات حاضرہ پر گفتگو کر رہے تھے۔ گفتگو اپنے شباب پر تھی اور ایسا محسوس ہوتا تھا کہ سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے۔ ایسے سنجیدہ اور سیریس ماحول میں اچانک ہمارے دوست خورشید اکرم نے برجستہ ایک شعر پڑھا:

ہمیں سچ مچ کوئی آزار ہے ایسا نہیں لگتا

کہ ہم دفتر بھی جاتے ہیں غزل خوانی بھی کرتے ہیں

شعر سن کر ہم بے ساختہ پھڑک اٹھے۔ معلوم ہوا کہ شعر عرفان صدیقی کا ہے اور کسی زمانے میں پارلیمنٹ اسٹریٹ پر یارانِ بے تکلف کے ساتھ گزارے لمحات کا عرفان صدیقی کا خود کا اپنا تجربہ ہے (واضح ہو کہ عرفان صدیقی نے دوردرشن، پریس انفارمیشن بیورو اور ڈیفنس میں پبلک ریلیشنز افسر کی حیثیت سے کام کرتے ہوئے اپنی زندگی کے قیمتی لمحات دہلی کے اس پارلیمنٹ اسٹریٹ پر بھی گزارے )۔ اور پھر ہماری گفتگو کا رخ عرفان صدیقی کی شاعری کی طرف مڑ گیا۔ دیر تک گفتگو کا موضوع عرفان صدیقی کی شاعری رہا۔ کسے معلوم تھا کہ ادھر دہلی میں ان کے چاہنے والے ان کے اور ان کی شاعری کے حوالے سے گفتگو کر رہے ہیں اور اُدھر لکھنؤ میں عرفان صدیقی آخری سانسیں گن رہے ہیں۔ شاید intuitionاسی کو کہتے ہیں۔ غالباً ہم ان کی زندگی میں ہی ان کی تعزیت کر رہے تھے۔ ۱۵!اپریل کو عرفان صدیقی ہم سے بچھڑ گئے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ اس گفتگو میں خورشید اکرم اور ناچیز کے علاوہ جنابا کرام خاور بھی شامل تھے ، جنہوں نے عرفان صدیقی کے مصرعہ’ مسندِ خاک پر بیٹھا ہوں برابر اپنے ‘سے متاثر ہو کر اپنی نظموں کے مجموعے کا نام ’مسندِ خاک ‘رکھا ہے۔

عرفان صدیقی بنیادی طور پر غزل کے شاعر تھے۔ شاعری میں دیر سے وارد ہوئے لیکن بہت جلد انہوں نے اپنی الگ شناخت قائم کر لی۔ ادھر دو دہے سے اردو شاعری کے منظر نامے پر چھائے رہے تھے۔ غزل گوئی میں اپنا الگ اسلوب وضع کیا تھا اور اپنے اسی منفرداسلوب کے سبب وہ سب سے الگ اور ممتاز نظر آتے ہیں۔ خواہ لفظیات ہوں یا ڈکشن سب میں انہوں نے الگ پہچان بنائی تھی۔ اُردو میں ہر دور میں شعراء کی تعداد سب سے زیادہ رہی ہے اور ان شعراء میں غزل گویوں کی تعداد ہی سب سے زیادہ رہی ہے۔ ایسے میں شاعری کرنا اور بات ہے اور شاعری کرتے ہوئے اپنی پہچان بنا لینا دیگر بات ہے۔ وہ اس دور کے اہم ترین غزل گو شاعر تھے۔ کینوس ، شب درمیاں ،سات سماوات اور عشق نامہ(چاروں مجموعہ غزلیات )اور ہوائے دشتِ ماریہ ( مجموعۂ منقبت )کے نام سے ان کے پانچ شعری مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔

پاکستان میں ان کے پہلے چار مجموعوں کو ایک ساتھ بطور کلیات عرفان صدیقی ’دریا‘ کے نام سے شائع کیا گیا، جو کام ہندوستان میں ہندوستان کے اربابِ ادب کو کرنا تھا، وہ کام غیروں نے اور پڑوسیوں نے کر ڈالا۔ برا ہو ادبی سیاست کا کہ ہندوستان کے سب سے بڑے ادبی ادارے نے انہیں اب تک نظر انداز کیا جب کہ اسی ادارے نے ان سے کمتر درجے کے شعراء کو بھی نوازا ہے۔ عرفان صدیقی اس ادبی سیاست اور توڑ جوڑسے ہمیشہ دور ہی رہے۔ اور صرف اپنے فن سے ہی مطلب رکھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے فن میں کھرا پن اور تجربات و مشاہدات کی سچائی صاف طور پر نظر آتی ہے۔ آئیے ان کے چند اشعار سے ہم آپ بھی محظوظ ہوتے ہیں :

دو جگہ رہتے ہیں ہم ، ایک تو یہ شہرِ ملال

اور اک وہ  کہ جو خوابوں میں بسایا ہوا ہے

خدا کرے صفِ سردادگاں نہ ہو خالی

جو میں گروں تو کوئی دوسرا نکل آئے

یہ درد ہی مرا چارہ ہے تم کو کیا معلوم

ہٹاؤ ہاتھ میں بیمار رہنا چاہتا ہوں

ریت پر تھک کے گرا ہوں تو ہوا پوچھتی ہے

آپ کیوں آئے تھے اس دشت میں وحشت کے بغیر

وہ مرحلہ ہے کہ اب سیلِ خوں پہ راضی ہیں

ہم اس زمیں کو شاداب دیکھنے کے لیے

اک ذرا خم ہو کے میں پیشِ ستمگر بچ گیا

میری پگڑی گر گئی لیکن میرا سر بچ گیا

چاہتی ہے کہ کہیں مجھ کو بہا کر لے جائے

تم سے بڑھ کر تو مجھے موجِ فنا چاہتی ہے

کھنچی ہوئی ہے فضا میں دھوئیں کی ایک لکیر

چراغ کوئی سفر پر روانہ ہو گیا ہے

میں چاہتا ہوں کہ سب معرکے یہیں پہ ہو جائیں

کہ اس کے بعد یہ دنیا کہاں سے لاؤں گا میں

ہم کسے اپنے سوا عشق میں گردانتے ہیں

ہم نے لکھا بھی تو لکھیں گے قصیدہ اپنا

کوئی سلطان نہیں میرے سوا میرا شریک

مسندِ خاک پر بیٹھا ہوں برابر اپنے

پہلے شعر میں تجربے کی شدت محسوس کی جا سکتی ہے۔ یقیناً ہر انسان دوہری زندگی جینے پر مجبور ہے۔ ایک تو وہ حقیقی زندگی جسے شاعر نے ’شہر ملال‘ سے تعبیر کیا ہے اور دوسرے وہ جو ہر انسان کے خوابوں میں بسی ہوتی ہے جسے جمیل مظہری نے ’ فریب پیہم‘ سے تعبیر کیا ہے۔ جمیل مظہری نے کہا ہے :

بقدر پیمانۂ تخیل سرور ہر دل میں ہے خودی کا

اگر نہ ہو یہ فریب پیہم تو دم نکل جائے آدمی کا

ہم میں سے اکثر لوگ اک شہر جو خوابوں میں بسایا ہوا ہے ، جو فریب پیہم بھی ہے ، اسی میں جیتے رہتے ہیں۔ اب چاہے یہ سراب ہو ، چاہے دھوکہ ہی ہو لیکن ایک سہارا تو ہے۔

ہر شعر پر گفتگو نہ کرتے ہوئے آئیے ہم سیدھے ان کے اس شعر پہ غور کرتے ہیں :

کوئی سلطان نہیں میرے سوا میرا شریک

مسندِ خاک پر بیٹھا ہوں برابر اپنے

کہنے کو یہ تعلّی کا شعر ہے لیکن یہاں اس تعلّی میں بھی وہی شاعرانہ خودی نظر آتی ہے جو جمیل مظہری کے یہاں بھی ہے ، اقبال کے یہاں بھی اور غالب کے یہاں بھی بلکہ کسی نہ کسی شکل میں تقریباً سبھی شعراء کے یہاں موجود ہے۔ یہ عرفان صدیقی کا استغنا،بے نیازی اور حد درجہ خودی ہی ہے کہ وہ کسی سلطان کو بھی خاطر میں لانا پسند نہیں کرتے۔ حالانکہ شاعر کا مسند کوئی تختِ طاؤس بھی نہیں بلکہ ’مسند خاک‘ ہے۔ مسندِخاک کا استعمال اس شعر کو عرش پر پہنچاتا ہے اور شاعر فی الحقیقت عبدالغنی یعنی بے پروا اور بے نیاز نظر آتا ہے۔

مسند خاک کے اس شاعر کے بیشتر اشعار ہمیں زندہ احساسات و جذبات سے ہمکنار کرتے ہیں کہ یہ اشعار تجربات و مشاہدات کی بھٹی میں تپ کر نکلے ہیں۔ عرفان صدیقی کے بقیہ مندرجہ اشعار بھی محض تفریح طبع کے لیے نہیں بلکہ ان میں سے ہر شعر اپنے اندر جہان معنیٰ لیے ہوئے ہے اور ہر شعر ایک نئی دنیا سے متعارف کراتا ہے۔ عرفان صدیقی در اصل دنیا کے تمام تر معاملات دنیا کے تمام تر معرکے یہیں کر لینے کے قائل تھے :

میں چاہتا ہوں کہ سب معرکے یہیں پہ ہو جائیں

کہ اس کے بعد یہ دنیا کہاں سے لاؤں گا میں

لیکن کچھ ایسا بھی ہے کہ یہ معرکے کچھ اس انداز سے کئے گئے کہ کسی بات سے نہ وہ کبھی جھنجھلائے ، نہ کبھی جھلائے ، نہ کبھی اُلجھے ، نہ ستائش کی تمنا کی، نہ صلے کی پروا۔ انہوں نے اس معاملے میں بڑی حد تک خود فریبی سے ہی کام لیا اور کبھی کسی کی قصیدہ خوانی نہیں کی:

ہم کسے اپنے سوا عشق میں گردانتے ہیں

ہم نے لکھا بھی تو لکھیں گے قصیدہ اپنا

ادب میں افراط و تفریط ، اقرباء پروری ، گروپ بندی کے اس دور میں عرفان صدیقی کا یہ شعر ہمیں بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔

(2015)

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

عرفان صدیقی ایک مطالعہ

 

                ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آفاق عالم صدیقی (شموگہ)

 

غزل ہماری تخلیقی قوت مندی اور تہذیبی ثروت مندی کے اظہار کا ایسا آبگینہ ہے جس میں خارجی اور باطنی دونوں زندگی کا عکس دیکھا جا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ غزل اپنی ابتدا سے لے کر آج تک لوگوں کے دلوں کی دھڑکن بنی ہوئی ہے۔ یہ ایسی صنف شاعری ہے جس میں فکر و نظر کے نت نئے چراغ روشن کیے جاتے ہیں تو احساسات و جذبات اور تجربات و مشاہدات کے مرقعے بھی خلق کیے جاتے ہیں، میر تقی میر سے لے کر غالب تک اور غالب سے لے کر اقبال اور پھر اقبال سے لے کر فراق و عرفان صدیقی تک غزلیہ شاعری کی ایسی مربوط و مضبوط اور زرخیز و دلپذیر روایت قائم ہو چکی ہے جو یقیناً آنے والی نسل کی رہنمائی کرتی رہے گی۔

اگر یہ کہا جائے کہ خواجہ الطاف حسین حالی نے جس جدید شاعری کی بنیاد ڈالی تھی وہ شاد و حسرت، اصغر و جگر اور اقبال و فانی سے ہوتی ہوئی ناصر کاظمی، منیر نیازی، شکیب جلالی، ظفر اقبال، عادل منصوری، احمد مشتاق، شہریار، اور عرفان صدیقی تک پہنچ کر کمال کو پہنچی تو بے جا نہ ہو گا۔

اردو زبان و ادب میں کئی بار ایسا ہوا کہ کسی نہ کسی تحریک اور رجحان نے غزل کے مزاج و منہاج اور آہنگ کو بدلنے کی کوشش ضرور کی مگر غزل اپنی حدود میں رہ کر نئے پن کے احساس کے ساتھ اپنا وجود قائم رکھنے میں کامیاب رہی اور تحریک و رجحان کے بادسموم کے گزرتے ہی نئے برگ و بار کے ساتھ اپنے وجود کے استحکام کا احساس دلا دیا۔

ترقی پسندوں نے اپنے مقصد کی تکمیل کے لیے سب سے زیادہ توجہ افسانے اور نظم پر دی تو جدیدیت نے غزل کو اپنی توجہ کا مرکز بنایا اور نظمیہ شاعری کے میدان میں نت نئے تجربے کیے جو مقبول بھی ہوئے۔ لیکن ایک وقت ایسا بھی آیا کہ جدید فضا میں غزل کا دم گھٹنے لگا اور اس میں بہت کچھ یکسانیت و یک رنگی پیدا ہو گئی۔ مگر یہ کیفیت زیادہ دنوں تک برقرار نہیں رہی۔ ۱۹۷۔ ء کے آس پاس بشمول غزل کے تمام اصناف ادب میں تبدیلی واقع ہونا شروع ہو گئی (جو ۱۹۸۔ ء کے بعد والی تخلیقی صورتحال کی شکل میں پہچانی گئی) اس تبدیلی کے تحت غزل میں کلاس کی سرمائے اور تاریخی و تہذیبی ورثے سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی جانے لگی۔ اس نئی تخلیقی صورتحال میں جن شاعروں نے غزل کا مثبت ارتفاع کیا اور اپنی پہچان بنائی ان میں عرفان صدیقی کا نام بہت نمایاں ہے۔

عرفان صدیقی ایک ایسے شاعر کا نام ہے جو اپنی خوبیوں کی وجہ سے پوری اردو دنیا میں احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے، ان کی شاعری بمشکل تمام تیس سالوں پر محیط ہے لیکن یہ ان کی شاعری کی ظاہری عمر ہے، معنوی طور پر ان کی شاعری صدیوں پرانے انسانی احساسات و جذبات اور تہذیب کے بکھراؤ اور اس سے پیدا ہونے والے مسائل، کشمکش اور دکھ کی امین ہے، ان کا لہجہ، ان کا اسلوب، ان کا طرز تخاطب، ان کی فکر، ان کا شعور، اور ان کا تخیل صرف ہمعصروں ہی میں نہیں پیش روؤں میں بھی سب سے انوکھا اور دلپذیر ہے۔ ان کا پہلا مجموعہ کلام ’’کینواس‘‘ ۱۹۷۸ء میں شائع ہوا مگر اس کی خاطر خواہ پذیرائی نہیں ہوئی۔ ایسا شاید اس لیے ہوا کہ اس وقت تک ادب پر جدیدیت کے خاص موضوعات کی پکڑ مضبوط تھی اور ان کے ہمعصر بلراج کومل، عمیق حنفی، کمار پاشی، بانی، اور زبیر رضوی وغیرہ پوری طرح سرگرم عمل تھے، جب کہ ’’کینواس‘‘ کی شاعری بہت حد تک اپنے ہمعصروں کے پسندیدہ موضوعات سے صرف نظر کر رہی تھی، اس کا فکری نظام کھلے طور پر تہذیبی روایت کی طرف مراجعت کرتا محسوس ہو رہا تھا، گویا عرفان صدیقی بھیڑ میں اپنی راہ آپ تلاش کر رہے تھے۔

مظہر امام صاحب نے لکھا ہے کہ: ’’عرفان صدیقی مزاجاً گوشہ نشیں اور کم آمیز تھے، ہرکس و ناکس کو شعر سنانے کا شوق نہ تھا، شعری محفلوں سے احتراز کرتے تھے۔ ‘‘ (تنقید نما)

ظاہر ہے کہ جو شاعر بھیڑ میں گم ہونا یا بھیڑ کا حصہ بننا گوارہ نہیں کرتا ہے اور عام مذاق سے ہٹ کر کچھ کہنا چاہتا ہے اسے آسانی سے شہرت اور مقبولیت نہیں ملتی ہے۔ ایسا ہی کچھ عرفان صدیقی کے ساتھ بھی ہوا۔

ان کا دوسرا مجموعہ کلام ’’شب درمیاں ‘‘ ۱۹۸۴ء میں منظر عام پر آیا۔ مگر یہ مجموعہ کلام بھی زیادہ مقبول نہیں ہو سکا، البتہ شاعر کی شخصیت کا احساس دلانے میں کامیاب رہا، اور سنجیدہ حلقے میں ایک اچھے شاعر کی آمد کے امکان پر ہلکی پھلکی گفتگو کا آغاز ہو گیا، لیکن جب ان کا تیسرا مجموعہ کلام ’’سات سماوات‘ ۱۹۹۲ء میں افق ادب پر نمودار ہوا تو اس نے اپنی تابناکی سے قارئین کو چونکا دیا اور تخلیقی سچائیوں کے پارکھ اور غواص معانی کے خوگر فنکار و ناقد نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا۔

بعض لوگوں کا خیال ہے کہ عرفان صدیقی کو نمایاں کرنے میں شمس الرحمن فاروقی اور محمود ایاز صاحبان کا بڑا ہاتھ ہے، عرفان صدیقی فاروقی صاحب کے حلقہ احباب میں شامل تھے تو محمود ایاز صاحب انہیں اپنا محبوب شاعر بتاتے تھے، میں سمجھتا ہوں کہ اگر فی الواقع ایسا ہی تھا تو کہنا چاہیے کہ عرفان صدیقی کی شاعری اس وقت بھی بہرحال اس پایہ کی تھی کہ اپنے وقت کا بڑا ناقد اس سے متاثر ہوتا اور اپنے وقت کے سب سے اہم رسالے کا فاضل مدیر اسے اپنا محبوب شاعر گردانتا، گویا عرفان صدیقی کی شاعری میں ابتدا ہی سے وہ خوبی پائی جاتی تھی جس نے بعد میں ان کی شخصیت کو استحکام بخشا۔ مگر عام لوگوں پر ان کی شاعری کی خوبی ’’عشق نامہ‘‘ کی اشاعت کے بعد کھلی۔

عرفان صدیقی کی تخلیقی سنجیدگی اور انہماک کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انہوں نے زمانے کے فیشن کے مطابق نہ تو غزل کے ساتھ کھلواڑکیا اور نہ سستی شہرت کی طرف توجہ دی، مظہر امام صاحب نے لکھا ہے کہ ’’حکومت ہند کی انفارمیشن سروس سے وابستہ ہونے کے باعث ان کی پوسٹنگ کئی قسطوں میں دہلی میں بھی اچھے خاصے عرصے تک رہی، لیکن وہ یہاں کے ادبی حلقوں سے دور ہی رہے، ہرچند دہلی میں ان کے قیام کا زمانہ اس وقت کی نئی نسل یعنی جدیدیت سے وابستہ یا متاثر نسل کے عروج اور ہماہمی کا زمانہ بھی تھا۔ ‘‘

اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ عرفان صدیقی تخلیقی قوّت پر بھروسہ رکھنے والے ایک خود آگاہ شاعر تھے، انہیں یہ گوارہ نہیں تھا کہ وہ کسی طرح کی ہنگامہ آرائی کے ساتھ اپنی پہچان پر اصرار کریں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ وہ رسالوں میں شائع ہونے کے معاملے میں بھی دوسرے شاعروں کی طرح افراط و تفریط کے شکار نہیں ہوئے۔ تخلیقی خوداعتمادی اور شعور کی پختگی کی یہی وہ طاقت تھی جس نے ان سے ایسا شعر کہلوایا۔

ہم کسے اپنے سوا عشق میں گردانتے ہیں

ہم نے لکھا بھی تو لکھیں گے قصیدہ اپنا

عرفان صدیقی کے یہاں جدیدیت کی بہترین صفتیں تو ضرور پائی جاتی ہیں مگر وہ بعض شدت پسند جدید شاعروں کی طرح محض، تشکیک، تنہائی، وجودیت، فردیت، اوردوسرے ٹریڈ مارک موضوعات تک محدود ہو کر نہیں رہ جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی غزلوں کے اشعار کسی ایسے وجدانی تجربے کا حصہ معلوم ہوتے ہیں جن میں اقدار کے حوالہ سے ماضی کی طرف مراجعت اور روحانی رشتوں کی بازیافت کی کوشش نمایاں نظر آتی ہے۔

سفر طویل ہے اگلا قدم اٹھاتا ہوں

میں پھر سے گم شدگاں کے علم اٹھاتا ہوں

میں اپنی کھوئی ہوئی لوح کی تلاش میں ہوں

کوئی طلسم مجھے چار سو پکارتا ہے

غزل گوئی کی پوری روایت کے پس منظر میں ماضی کی طرف مراجعت اور روحانی سہارے کی اس ضرورت کو ایک طرح کے صوفیانہ رویہ سے بھی تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ ماضی اور روحانیت کی بازیافت کے اس صوفیانہ رویے کی تشکیل میں تاریخ کے وسیلے سے تلمیحات اور مذہبی واقعات کی مدد سے قدروں کی باز آفرینی نے بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ عرفان صدیقی نے متذکرہ عوامل سے فائدہ اٹھانے کے علاوہ اسلوب و انداز کے ساتھ ساتھ الفاظ و تراکیب اوراستعارہ سازی میں بھی اپنی انفرادیت کو قائم رکھا ہے۔ کربلا کا سانحہ ہماری شاعری میں طرح طرح کے استعاراتی معنیٰ و مفاہیم کا شروع ہی سے مخرج رہا ہے۔ اس سانحہ کو بہتیرے فنکاروں نے اپنی صلاحیت کے مطابق استعارہ اور علامت کے طور پر استعمال کیا ہے۔ لیکن عرفان صدیقی نے جس خوبی اور کمال فنکاری کے ساتھ اس سانحہ کو اپنی شاعری میں بطور استعارہ کے استعمال کیا ہے اس کی نظیر نہیں ملتی۔ انہوں نے کربلائی صورتحال کو پس منظر کے طور پر استعمال کر کے کربلا کے سانحہ کو جس خوبصورتی سے ہزار معنیٰ استعارہ بنا کر اپنی شاعری کے پیکر میں روح کی طرح حل کر دیا ہے۔ وہ بس انہیں کا خا صّہ ہے۔

اے لہو میں تجھے مقتل سے کہاں لے جاؤں

اپنے منظر ہی میں ہر رنگ بھلا لگتا ہے

وہ مرحلے ہیں کہ اب سیل خوں پہ راضی ہیں

ہم اس زمیں کو شاداب دیکھنے کے لیے

میں چاہتا ہوں کہ سب معرکے یہیں سرہو جائیں

کہ اس کے بعد یہ دنیا کہاں سے لاؤں گا میں

دیکھئے کس صبح نصرت کی خبر سنتا ہوں میں

لشکروں کی آہٹیں تو رات بھر سنتا ہوں میں

دولت سر ہوں سو ہر جیتنے والا لشکر

طشت میں رکھتا ہے نیزوں پہ سجاتا ہے مجھے

ہوائے کوفۂ نامہرباں کو حیرت ہے

کہ لوگ خیمۂ صبر و رضا میں زندہ ہیں

ان تمام اشعار میں معنویت کا ایک جہان سانس لے رہا ہے۔ علامت واستعارے نے معنویت کا ایک سیل رواں کر دیا ہے اور لطف کی بات یہ ہے کہ معنیات کا یہ جہان نو سانحہ کربلا کی لفظیات و تلازمات سے خلق ہوا ہے۔ کربلا سے متعلق الفاظ و تراکیب اور تلازمات ہر شعر کو معنویت کا اپنا تناظر فراہم کرتا ہے۔ لہو، مقتل، سیل خوں، معرکے، نصرت، لشکر، دولت سر، طشت، نیزہ، کوفہ، خیمہ صبر و رضا، یہ تمام الفاظ و تراکیب کربلا کے استعاراتی تناظر میں زندگی کی سچائیوں سے متعلق معنویت کا ایک سمند آسا جہان خلق کر دیتے ہیں۔ ابوالکلام قاسمی صاحب نے بالکل درست کہا ہے کہ واقعات کربلا کے گرد پسندیدہ طور پر استعارہ سازی کرنے والے شاعر عرفان صدیقی نے وقت کے ساتھ ساتھ حق و باطل کی کشمکش، جذبہ قربانی، اقدار پر اصرار، آزمائشی لمحات کی باز یافت اور مقصد اور عقیدے سے ماخوذ جنون کی حدوں کو چھوتی ہوئی سرشاری جیسے تہذیبی، اختلافی اور انسانی قدروں کو ان کے لوازم کے ساتھ پیش کرنے کی طرف زیادہ توجہ کرنا شروع کر دیا ہے۔

جدید غزل کے تناظر میں عرفان صدیقی کا نام ایک انفرادی پہچان رکھتا ہے انہوں نے غزلیہ شاعری کو اس کی صحت مند تہذیبی روایت کے دائرے میں رکھ کر ہمعصر زندگی کے تمام تر مسائل کو کربلا کے استعاراتی تناظر میں اس طرح سمیٹ لیا ہے کہ غزل کا محسوساتی نظام ابدیت کی رمزیت کا حامل بن گیا ہے۔ کربلا کے استعارہ کو استعمال کرنے والے فنکاروں میں عرفان صدیقی کا نام سب سے معتبر اس لیے ہے کہ انہوں نے دوسرے فنکاروں کی بنسبت خود کو کربلائی صورتحال اور کربلا کے تہذیبی انسلاکات سے زیادہ قریب محسوس کیا ہے۔ اگر کربلا کے استعارہ کو عرفان صدیقی کی شاعری سے خارج کر دیا جائے تو یقیناً ان کی شاعری انفرادیت اور تنوع سے بہت حد تک محروم ہو جائے گی۔ گویا ان کا پورا تخلیقی اور تفکیری نظام کربلا کے ہزار معنیٰ استعارہ پر قائم ہے۔ یہ ان کا ہی کمال ہے کہ انہوں نے زندگی کے تمام مسائل، واقعات، حادثات، سانحات اور جذبات کو اس ایک استعارہ سے اس طرح روشن کر دیا ہے کہ اکتاہٹ کے بجائے ایک طرح کی دلپذیری پیدا ہو گئی ہے۔

یہ کم حیرت کی بات نہیں ہے کہ انہوں نے اپنی شاعری کی پوری عمارت ایک استعارہ پر تعمیر کر لی ہے۔ وہ بھی اس خوبی اور خوبصورتی کے ساتھ کہ یکسانیت اور گھٹن کا احساس تک نہیں ہوتا ہے۔

نوکِ سناں نے بیعت جاں کا کیا سوال

سر نے کہا قبول نظر نے کہا نہیں

خدا کرے صف سرداد گاں نہ ہو خالی

جو میں گروں تو کوئی دوسرا نکل آئے

تری تیغ تو میری ہی فتح مندی کا اعلان ہے

یہ بازو کٹتے اگر میرا مشکیزہ بھرتا نہیں

ایک رنگ آخری منظر کے دھنک میں کم ہے

موج خوں اٹھ کے عرصہ شمشیر میں آ

عرفان صدیقی نے نقل مکانی اور ہجرت کے کرب کو بھی بڑی شدّت سے محسوس کیا ہے۔ ہجرت کے اس کرب کو ان کے یہاں کربلا سے بھی جوڑ کر دیکھا جا سکتا ہے اور ہند و پاک کے تقسیم کے تناظر میں بھی اس ہجرت کے کرب کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔ اس سے بھی اہم بات یہ کہ اگر کوئی چاہے تو فرقہ وارانہ فسادات کے نتیجہ میں بے گھر ہونے کے کرب اور روزی روٹی کی تلاش میں وطن سے بے وطن ہو جانے کے درد کو بھی اس تناظر میں محسوس کر سکتا ہے۔

میں اپنی کھوئی ہوئی بستیوں کو پہچانوں

اگر نصیب ہو سیر جہانِ گم شدگاں

دو جگہ رہتے ہیں ہم، ایک تو یہ شہر ملال

اور اک وہ جو خوابوں میں بسایا ہوا ہے

سفر طویل ہے اگلا قدم اٹھاتا ہوں

میں پھر سے گم شدگاں کے علم اٹھاتا ہوں

یا پھر ان کا شعر

نہر اس شہر کی بھی بہت مہربان ہے مگر اپنا رہوار مت روکنا

ہجرتوں کے مقدر میں باقی نہیں اب کوئی قریہ معتبر یا اخی

عرفان صدیقی کی غزلوں میں صوفیانہ روایت کے حامل اشعار بھی مل جاتے ہیں۔ جب روشن خیالی کی فکر میں ہمارے بیشتر فنکار مغرب سے روشن خیالی کشید کر رہے تھے۔ اور اسی کشید کی گئی روشن خیالی کے زعم میں تہذیبی ورثے سے دور ہوتے جا رہے تھے۔ عرفان صدیقی اپنے تہذیبی سرچشمے سے رشتہ بنائے ہوئے تھے۔ اور اپنی روحانی سرشاری کے لیے اپنے ہی سرمایہ سے سیرابی حاصل کرنے میں طمانیت محسوس کر رہے تھے۔

ورنہ ہم ابدال بھلا کب ترک قناعت کرتے ہیں

اک تقاضا رنج سفر کا خواہش مال و منال میں تھا

یہ درد ہی میرا چارہ ہے تجھے کیا معلوم

ہٹاؤ ہاتھ میں بیمار رہنا چاہتا ہوں

عرفان صدیقی کی شاعری میں روحانی اور وجدانی تجربے کا جو رجحان پایا جاتا ہے اس میں مذہبی تقدیس کی بحالی، ہجرت کا دکھ، اور کربلا کا سانحہ مثلّث بن کر ابھرتا ہے اور عرفان صدیقی کی تخلیقی ثروت مندی کو اعتبار بخش جاتا ہے۔

میں اپنی کھوئی ہوئی لوح کی تلاش میں ہوں

کوئی طلسم مجھے چار سو پکارتا ہے

ماضی اور تاریخ کی اس باز گشت کو صرف ماضی کی بازگشت کا نام نہیں دیا جا سکتا ہے۔ حدتو یہ ہے کہ موجودہ صورتحال سے فرار کے تناظر میں بھی اس بازگشت کو نہیں دیکھا اور سمجھا جا سکتا ہے۔ اسے نہ منفعلانہ رویہ سے تعبیر کیا جا سکتا ہے نہ نا سٹلجیا کا نام دیا جا سکتا ہے اور نہ اسے قنوطیت ہی سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ ماضی اور تاریخ کے اس سیاق وسباق میں آج کے اس انسان کی روح کا نوحہ گونج رہا ہے جو نقلی دانشوری کا شکار ہو کر اپنے محور سے کٹ چکا ہے۔ وہ اس دور شتر بے مہار میں اپنی شخصیت کی تعمیر سے محروم ہو چکا ہے، اس کا وجود کثافت کی نذر ہو کر اپنی پہچان کھو چکا ہے۔ آج کے دور کا انسان حد سے بڑھی مادیت پرستی کے جال میں پھنس کر ہشت پا مکڑیوں کا نوالہ بنتا جا رہا ہے۔ وہ مادیت کے چکر ویو میں اس طرح پھنس کر رہ گیا ہے کہ اس کے پاس روحانی طمانیت حاصل کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں بچا ہے۔ اخلاقی بحران کا ایسا منظر نامہ خلق ہو چکا ہے کہ تمام قدریں بے معنیٰ ہو کر رہ گئی ہیں۔

اگر وسعت نہ دیجئے وحشت جاں کے علاقے کو

تو پھر آزادی زنجیر پا سے کچھ نہیں ہوتا

عرفان صدیقی کی غزلیں شعری کائنات کو تازگی، شگفتگی اور تطہیری فکری نظام سے آشنا کرنے میں پوری طرح کامیاب ہے۔ ان کی شاعری میں عقیدے کے استحکام کی سعی پیہم کے ساتھ ساتھ عابد و معبود کے رشتوں کی تقدیسی بحالی کے احساسات کانور جگہ جگہ لشکارے مارتا نظر آتا ہے۔

یہ کس نے دست بریدہ کی فصل بوئی تھی

تمام شہر میں دست دعا نکل آئے

حمد و ثنا، دعا و التجا، فقر و غنا، اور صبر و رضا میں یقیناً وہ قوت پنہاں ہے۔ جو عقیدے اور ایقان کے سرے کو مضبوطی سے تھامے رہنے کا حوصلہ دیتا ہے۔ اس شعر میں مذہبی استعاروں کی مدد سے جو روحانی اور وجدانی فضا پیدا کی گئی ہے وہ انسانی تمدن کی مایہ ناز قدروں کی باز یافت کی سعی ہے۔ یہ روحانیت اور تطہیر ذات کا وہی عقیدت مندانہ احساس ہے جس کی عدم موجودگی نے جدید اور ترقی پسند غزل کو مادی رشتوں کی کثافت کا ایسا دیار بنا دیا تھا جہاں روح کی سناٹگی اور اکتاہٹ کے سوا کچھ بھی نہیں بچ گیا تھا۔ اس طرح یہ بات پوری طرح ثابت ہو جاتی ہے کہ عرفان صدیقی نے ہماری غزلیہ شاعری کو ایک نیا تناظر فراہم کیا۔ سوچنے سمجھنے کا نیا انداز دیا۔ استعارہ سازی کے لیے اپنے سابقہ سرمایوں کی طرف متوجہ ہونے کا حوصلہ دیا۔ قدیم استعاروں کو جدید مسائل کے تناظر میں ہزار معنیٰ کی خوبیوں سے آگاہ کیا۔ اور سب سے بڑی بات یہ کہ غزل کو اس کے تہذیبی لباس میں رکھ کر تمام تر چیلنج کا سامنا کرنے کے قابل بنایا۔

تم جو کچھ چا ہو وہ تاریخ میں تحریر کرو

یہ تو نیزہ ہی سمجھتا ہے کہ سر میں کیا تھا

عرفان صدیقی کو بیشتر لوگوں نے ’’عشق نامہ‘‘ کے بعد ہی پہچانا اور اسی شاعری کے حوالے سے یاد کیا، یہ بات درست ہے کہ ’’عشق نامہ‘‘ کی شاعری غزلیہ شاعری کے موضوع کا ارتفاع کرتی ہے اور سچے جذبے کی تطہیر کا بہت کچھ حق ادا کر دیتی ہے۔ مگر دیکھنے کی بات یہ بھی ہے کہ کیا محض عشقیہ جذبے ہی کے اظہار اور عشق کے ہزار رنگ پہلوؤں کے انعکاس سے ہی غزل عبارت ہے ؟ اب تک کی گفتگو سے اندازہ ہو گیا ہو گا کہ عرفان صدیقی اپنی ’’عشق نامہ‘‘ کی شاعری کی عدم موجودگی میں بھی ایک انفرادی مقام کا استحقاق رکھتے ہیں۔ ویسے انہوں نے ’’عشق نامہ‘‘ میں اپنا جو کلام پیش کیا ہے وہ بھی غزل کی روایتی شاعری کا ارتفاع کرتی ہے اور جذبات انسانی کے ان گوشوں کو اجاگر کرتی ہے جہاں تک کوئی تربیت یافتہ صاحب دل ہی پہنچ سکتا ہے۔

یہ عرفان صدیقی کا بڑا کمال ہے کہ انہوں نے عشق کی وارفتگی کے باوجود اظہار کے سلیقے کی ندرت کو برقرار رکھا ہے۔ یہ چند اشعار دیکھئے جو اپنے وقت میں بے حد مشہور ہوئے تھے اور آج بھی اسی وارفتگی سے پڑھے جاتے ہیں۔

تیرے تن کے بہت رنگ ہیں جان من اور نہاں دل کے نیرنگ خانوں میں ہیں

لامسہ، شامہ، ذائقہ، سامعہ، باصرہ، سب مرے راز دانوں میں ہیں

اور کچھ دامن دل کشادہ کر و دوستو! شکر نعمت زیادہ کرو

پیڑ، دریا، ہوا، روشنی، عورتیں، خوشبوئیں سب خدا کے خزانوں میں ہیں

مگر گرفت میں آتا نہیں بدن اس کا

خیال ڈھونڈتا رہتا ہے استعارہ کوئی

لپٹ سی داغ کہن کی طرف سے آتی ہے

جب اک ہوا ترے تن کی طرف سے آتی ہے

کر گیا روشن ہمیں پھر سے کوئی بدر منبر

ہم تو سمجھے تھے کہ سورج کو گہن لگنے لگا

بعض لوگوں کا خیال ہے کہ عرفان صدیقی کو آخری عمر میں عشق ہو گیا تھا، اسی عشق کی آگ نے ان کی شاعری کو جلا بخشی اور وہ اس مقام پر پہنچ سکے۔ مگر خورشید اکرم صاحب اس خیال سے اتفاق نہیں رکھتے ہیں۔ ویسے اس بات کی ایسی کوئی خاص اہمیت ہے بھی نہیں کہ انہیں فی الواقع کسی سے عشق ہوا تھا کہ نہیں۔ دیکھنے کی چیز یہ ہے کہ ان کی شاعری میں جو تازگی اور توانائی ہے وہ آنے والی نسل کے لیے مشعل راہ ہو سکتی ہے یا نہیں۔

عرفان صدیقی کے یہاں شاعری کا جو جوہر پایا جاتا ہے وہ داخلی آگ سے روشن تو ہے ہی، مگر اس میں خارجی حالات کا آتش سیال بھی شامل ہے۔

انہیں خوب معلوم تھا کہ شاعری زندگی کا رخ نہیں موڑسکتی ہے مگر زندگی کے بارے میں سوچنے کا جذبہ ضرور پیدا کر سکتی ہے۔ وہ کہتے ہیں :

رات کو جیت تو سکتا نہیں لیکن یہ چراغ

کم سے کم رات کا نقصان بہت کرتا ہے

فنکار نہ صرف یہ کہ اپنے عہد کی تبدیلی کا ادراک رکھتا ہے بلکہ وقت اور حالات کی ستم ظریفی سے بھی واقف ہوتا ہے۔ در اصل یہی وہ چیز ہوتی ہے جو کسی بھی فنکار کے فن کو اعتبار بخشتی ہے۔ عرفان صدیقی کی شاعری صرف زبان و بیان کی جدت و ندرت ہی کی وجہ سے نہیں۔ بلکہ موضوع کے نئے پن کے احساس کی وجہ سے بھی قابل توجہ ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کی شاعری کا کھلے ذہن کے ساتھ مطالعہ کیا جائے اور ان کے یہاں تخلیقی قوت مندی کا جو احساس پایا جاتا ہے اسے نمایاں کیا جائے۔ کیوں کہ تخلیقی قوت مندی کا یہی احساس انہیں اپنے ہمعصروں میں اور اس سے زیادہ اپنے پیش روؤں میں ممتاز بناتا ہے۔

٭٭٭

تشکر:

عزیز نبیل، جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید