FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

فہرست مضامین

کتاب: جہنم کے متعلق۔

 

باب : دوزخ کی باگوں کے بیان میں۔

1975: سیدنا عبد اللہ بن مسعودؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اس دن جہنم لائی جائے گی، اس کی ستر ہزار باگیں ہوں گی، اور ایک باگ کو ستر ہزار فرشتے ہوں گے جو اس کو کھینچ رہے ہوں گے (تو کل فرشتے جو جہنم کو کھینچ کر لائیں گے چار ارب نوے کروڑ ہوئے )۔

باب : گرمی جہنم کی شدت کے بیان میں۔

1976: سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: یہ تمہاری آگ جس کو آدمی روشن کرتا ہے ، جہنم کی آگ کے ستر حصوں میں سے ایک حصہ ہے۔ لوگوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! اللہ کی قسم! یہی آگ (جلانے کو) کافی تھی۔ آپﷺ نے فرمایا کہ وہ تو اس سے انہتر حصے زیادہ گرم ہے اور ہر حصہ میں اتنی ہی گرمی ہے۔

باب : جہنم کی گہرائی کی دوری کے بیان میں۔

1977: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہﷺ کے پاس بیٹھے تھے ایک دھماکے کی آواز آئی۔ آپﷺ نے فرمایا کہ تم جانتے ہو کہ یہ کیا ہے ؟ ہم نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کا رسولﷺ خوب جانتے ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ یہ ایک پتھر ہے ، جو جہنم میں ستر برس پہلے پھینکا گیا تھا۔ وہ جا رہا تھا، اب اس کی تہہ میں پہنچا ہے (معاذ اللہ جہنم اتنی گہری ہے کہ اس کی چوٹی سے تہہ تک ستر برس کی راہ ہے اور وہ بھی اس تیز حرکت سے جیسے پتھر اوپر سے نیچے کو گرتا ہے )۔

باب : اہل دوزخ میں سے ہلکے سے ہلکا عذاب جس کو ہو گا، اس کا بیان۔

1978: سیدنا نعمان بن بشیرؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: سب سے ہلکا عذاب اس کو ہو گا (جس سے ) جو دو جوتیاں اور دو تسمے آگ کے پہنے ہو گا اس کا بھیجا اس طرح ابلے گا جس طرح ہنڈیا ابلتی ہے۔ وہ سمجھے گا کہ اس سے زیادہ سخت عذاب کسی کو نہیں ہوا حالانکہ اس کو سب سے ہلکا عذاب ہو گا۔

باب : عذاب والوں کو کہاں کہاں تک آگ پہنچے گی؟

1979: سیدنا سمرہ بن جندبؓ  سے روایت ہے کہ اللہ کے نبیﷺ نے فرمایا: بعض کو جہنم کی آگ ٹخنوں تک پکڑے گی اور بعض کو گھٹنوں تک اور بعض کو کمر بند تک اور بعض کو گردن کے نچلے حصے تک۔

باب : آگ میں متکبرین داخل ہوں گے اور جنت میں کمزور لوگ۔

1980: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جنت اور دوزخ نے بحث کی۔ دوزخ نے کہا کہ مجھ میں وہ لوگ آئیں گے جو متکبر اور زور والے ہیں اور جنت نے کہا کہ مجھے کیا ہوا کہ مجھ میں وہی لوگ آئیں گے جو لوگوں میں ناتواں ہیں اور ان میں (دنیا کے لحاظ) سے گرے پڑے ہیں اور عاجز ہیں (یعنی اکثر یہی لوگ ہوں گے )، تب اللہ تعالیٰ نے جنت سے فرمایا کہ تو میری رحمت ہے ، میں تیرے ساتھ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہوں گا رحمت کروں گا اور دوزخ سے فرمایا کہ تو میرا عذاب ہے ، میں تیرے ساتھ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہوں گا عذاب کروں گا اور تم دونوں بھری جاؤ گی۔ پس دوزخ اس وقت نہ بھرے گی (اور سیر نہ ہو گی) جب تک اللہ تعالیٰ اس میں اپنا پاؤں رکھ دے گا۔ وہ کہے گی کہ بس بس، تب بھر جائے گی اور بعض حصے بعض سے سمٹ جائیں گے۔ پس اللہ تعالیٰ اپنی مخلوقات میں سے کسی پر ظلم نہ کرے گا اور جنت کے لئے دوسری مخلوق پیدا کرے گا۔

باب : جہنم میں اس شخص کا عذاب، جس نے غیر اللہ کے نام پر اونٹنیوں کو چھوڑ دیا (نہ دودھ دوہتے ہیں اور نہ سواری کرتے ہیں)۔

1981: ابن شہاب کہتے ہیں کہ میں نے سعید بن مسیب سے سنا، وہ کہتے تھے کہ بحیرہ وہ جانور ہے جسکا دودھ دوہنا بتوں کے لئے موقوف کیا جاتا کہ کوئی آدمی اس جانور کا دودھ نہ دوہ سکتا تھا، اور سائبہ وہ ہے جس کو اپنے معبودوں کے نام پر چھوڑ دیتے تھے کہ اس پر کوئی بوجھ نہ لادتے تھے۔ اور ابن مسیب نے کہا کہ سیدنا ابو ہریرہؓ  نے کہا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: میں نے عمرو بن عامر خزاعی کو دیکھا کہ وہ اپنی آنتیں جہنم میں کھینچ رہا تھا اور سب سے پہلے سائبہ اسی نے نکالا تھا

باب : جہنم میں کافر کی ڈاڑھ کی بڑائی کا بیان۔

1982: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: کافر کا دانت یا اس کی کچلی احد پہاڑ کے برابر ہو گی اور اس کی کھال کی موٹائی تین دن کی مسافت ہو گی (یعنی تین دن تک چلنے کی مسافت پر اس کی کھال کی بدبو پہنچے یا اس کی موٹائی اتنی ہو گی جتنا تین دن میں سفر کیا جائے )۔

1983: سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: کافر کے دونوں کندھوں کے بیچ میں تیز رو سوار کے تین دن کی مسافت ہو گی۔

باب : ان لوگوں کی تکلیف کا بیان جو لوگوں کو تکلیف دیتے تھے۔

1984: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: دوزخیوں کی دو قسمیں ہیں جن کو میں نے نہیں دیکھا۔ ایک تو وہ لوگ جن کے پاس بیلوں کی دُموں کی طرح کے کوڑے ہیں، وہ لوگوں کو اس سے مارتے ہیں دوسرے وہ عورتیں جو پہنتی ہیں مگر ننگی ہیں (یعنی ستر کے لائق لباس نہیں ہیں)، سیدھی راہ سے بہکانے والی، خود بہکنے والی اور ان کے سر بختی (اونٹ کی ایک قسم ہے ) اونٹ کی کوہان کی طرح ایک طرف جھکے ہوئے وہ جنت میں نہ جائیں گی بلکہ اس کی خوشبو بھی ان کو نہ ملے گی حالانکہ جنت کی خوشبو اتنی دُور سے آ رہی ہو گی۔

1985: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ  سے سنا، آپﷺ فرماتے تھے کہ قریب ہے اگر تو دیر تک جیا تو ایسے لوگوں کو دیکھے گا اور وہ اللہ تعالیٰ کے غصے میں صبح کریں گے اور اللہ کے قہر میں شام کریں گے اور ان کے ہاتھوں میں بیل کی دُم کی طرح کے (کوڑے ) ہوں گے۔ (شاید پولیس والے مراد ہوں)۔

باب : دنیا کے سب سے زیادہ خوشحال کو جہنم میں اور دنیا کے سب سے زیادہ تنگی والے کو جنت کا غوطہ دینا۔

1986: سیدنا انس بن مالکؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: قیامت کے دن اہلِ دوزخ میں سے اس شخص کو لایا جائے گا جو دنیا میں سب سے زیادہ آسودہ تر اور خوشحال تھا، پس دوزخ میں ایک بار غوطہ دیا جائے گا، پھر اس سے پوچھا جائے گا کہ اے آدم کے بیٹے ! کیا تو نے دنیا میں کبھی آرام دیکھا تھا؟ کیا تجھ پر کبھی چین بھی گزرا تھا؟ وہ کہے گا کہ اللہ کی قسم! اے میرے رب!کبھی نہیں اور اہل جنت میں سے ایک ایسا شخص لایا جائے گا جو دنیا میں سب لوگوں سے سخت تر تکلیف میں رہا تھا، جنت میں ایک بار غوطہ دیا جائے گا، پھر اس سے پوچھا جائے گا کہ اے آدم کے بیٹے ! تو نے کبھی تکلیف بھی دیکھی ہے ؟ کیا تجھ پر شدت اور رنج بھی گزرا تھا؟ وہ کہے گا کہ اللہ کی قسم! مجھ پر تو کبھی تکلیف نہیں گزری اور میں نے تو کبھی شدت اور سختی نہیں دیکھی۔

 

 

 

کتاب: فتنوں کا بیان

 

باب : فتنوں کے قریب ہونے اور ہلاکت کے بیان میں جب کہ برائی زیادہ ہو جائے۔

1987: اُمّ المؤمنین زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نیند سے اس حال میں بیدار ہوئے کہ آپ فرما رہے تھے لا الٰہ الا اللہ، خرابی ہے عرب کی اس آفت سے جو نزدیک ہے آج یاجوج اور ماجوج کی آڑ اتنی کھل گئی اور (راوئ حدیث) سفیان نے دس کا ہندسہ بنایا (یعنی انگوٹھے اور کلمہ کی انگلی سے حلقہ بنایا) میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! کیا ہم اس حال میں بھی تبا ہو جائیں گے جبکہ ہم میں نیک لوگ موجود ہوں گے ؟ آپﷺ نے فرمایا کہ ہاں! جب بُرائی زیادہ ہو گی (یعنی فسق و فجور یا زنا یا اولاد زنا یا معاصی)۔

1988: سیدنا ابو ہریرہؓ  نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: آج یاجوج اور ماجوج کی آڑ کی دیوار میں سے اتنا کھل گیا (یعنی اس میں اتنا سوراخ ہو گیا) اور (راوئ حدیث) وہیب نے اس کو انگلیوں سے نوے کا ہندسہ بنا کر بیان کیا (شاید یہ حدیث پہلے کی ہو اور اُمّ المؤمنین زینب رضی اللہ عنہا کے بعد کی اور شاید مقصود تمثیل ہو نہ کہ حد بیان کی گئی ہو)۔

باب : بارش کے قطروں کی طرح نازل ہونے والے فتنوں کے بیان میں۔

1989: سیدنا اسامہ بن زیدؓ  سے روایت ہے کہ نبیﷺ مدینہ کے محلوں میں سے ایک محل (یا قلعہ) پر چڑھے پھر فرمایا: کیا جو کچھ میں دیکھ رہا ہوں، تم بھی دیکھ رہے ہو؟ بیشک میں تمہارے گھروں میں فتنوں کی جگہیں اس طرح دیکھتا ہوں جیسے بارش کے گرنے کی جگہوں کو (یعنی بوندوں کی طرح بہت ہوں گے مراد جمل اور صفین اور فتنہ عثمان اور شہادت حسین رضی اللہ عنہما اور ان کے سوا بہت سے فساد جو مسلمانوں میں ہوئے )۔

باب : دلوں پر فتنوں کا پیش کیا جانا اور فتنوں کا دلوں میں داغ پیدا کر دینا۔

1990: سیدنا حذیفہؓ  کہتے ہیں کہ ہم سیدنا عمرؓ  کے نزدیک بیٹھے ہوئے تھے کہ انہوں نے کہا: تم میں سے کس نے رسول اللہﷺ کو فتنوں کا ذکر کرتے ہوئے سنا ہے ؟ بعض لوگوں نے کہا کہ ہاں! ہم نے سنا ہے۔ سیدنا عمرؓ  نے کہا کہ شاید تم فتنوں سے وہ فتنے سمجھے ہو جو آدمی کو اس کے گھر بار اور مال اور ہمسائے میں ہوتے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ ہاں۔ سیدنا عمرؓ  نے کہا کہ ان فتنوں کا کفارہ تو نماز، روزے اور زکوٰۃ سے ہو جاتا ہے ، لیکن تم میں سے ان فتنوں کے بارے میں رسول اللہﷺ سے کس نے سنا ہے جو دریا کی موجوں کی طرح امنڈ کر آئیں گے ؟ سیدنا حذیفہؓ  نے کہا کہ لوگ خاموش ہو گئے میں نے کہا کہ میں نے سنا ہے۔ سیدنا عمرؓ  نے کہا کہ تو نے سنا ہے تیرا باپ بہت اچھا تھا۔ (یہ ایک دعائیہ کلمہ ہے جو عرب لوگ استعمال کرتے ہیں) سیدنا حذیفہؓ  نے کہا کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا ہے ، آپﷺ فرماتے تھے کہ فتنے دلوں پر ایک کے بعد ایک، ایک کے بعد ایک ایسے آئیں گے جیسے بورئیے کی تیلیاں ایک کے بعد ایک ہوتی ہیں۔ پھر جس دل میں فتنہ رچ جائے گا، اس میں ایک کالا داغ پیدا ہو گا اور جو دل اس کو نہ مانے گا تو اس میں ایک سفید نورانی دھبہ ہو گا، یہاں تک کہ اسی طرح کالے اور سفید دھبے ہوتے ہوتے دو قسم کے دل ہو جائیں گے۔ ایک تو خالص سفید دل چکنے پتھر کی طرح کہ آسمان و زمین کے قائم رہنے تک اُسے کوئی فتنہ نقصان نہ پہنچائے گا۔ دوسرے کالا سفیدی مائل یا الٹے کوزے کی طرح جو نہ کسی اچھی بات کو اچھی سمجھے گا نہ بُری بات کو بُری، مگر وہی جو اس کے دل میں بیٹھ جائے۔ سیدنا حذیفہؓ  نے کہا کہ پھر میں نے سیدنا عمرؓ  سے حدیث بیان کی کہ تمہارے اور اس فتنے کے درمیان میں ایک بند دروازہ ہے ، مگر نزدیک ہے کہ وہ ٹوٹ جائے۔ سیدنا عمرؓ  نے کہا کہ تیرا باپ نہ ہو (یہ بھی ایک کلمہ ہے جسے عرب عام طور پر کسی کام پر متنبہ کرنے یا مستعد کرنے کو کہتے ہیں)، کیا وہ ٹوٹ جائے گا؟ کھل جاتا تو شاید پھر بند ہو جاتا۔ میں نے کہا کہ نہیں ٹوٹ جائے گا اور میں نے ان سے حدیث بیان کی کہ یہ دروازہ ایک شخص ہے ، جو مارا جائے گا یا مر جائے گا۔ پھر یہ حدیث کوئی غلط (دل سے بنائی ہوئی بات) نہ تھی۔ ابو خالد نے کہا کہ میں نے سعید بن طارق سے پوچھا کہ ”اسود مربادا“ سے کیا مراد ہے ؟ انہوں نے کہا کہ سیاہی میں سفیدی کی شدت۔ میں نے کہا کہ ”کالکوز مجخیا“ سے کیا مراد ہے ؟ انہوں نے کہا کہ اوندھا کیا ہوا کوزا۔

باب : لوگوں کو فتنے میں ڈالنے کے لئے شیطان کا اپنے لشکروں کو بھیجنا۔

1991: سیدنا جابرؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ابلیس اپنا تخت پانی پر رکھتا ہے ، پھر اپنے لشکروں کو دنیا میں فساد کرنے کو بھیجتا ہے۔ پس سب سے بڑا فتنہ باز اس کا سب سے زیادہ قریبی ہوتا ہے۔ کوئی شیطان ان میں سے آ کر کہتا ہے کہ میں نے فلاں فلاں کام کیا (یعنی فلاں سے چوری کرائی، فلاں کو شراب پلوائی وغیرہ) تو شیطان کہتا ہے کہ تو نے کچھ بھی نہیں کیا۔ پھر کوئی آ کر کہتا ہے کہ میں نے فلاں کو نہ چھوڑا، یہاں تک کہ اس میں اور اس کی بیوی میں جدائی کرا دی۔ تو اس کو اپنے قریب کر لیتا ہے اور کہتا ہے کہ ہاں تو نے بڑا کام کیا ہے۔ اعمش نے کہا، میرا خیال ہے کہ اس کو اپنے ساتھ چمٹا لیتا ہے۔

باب : فتنے اور ان کی کیفیات کے متعلق۔

1992: ابو ادریس خولانی کہتے ہیں کہ سیدنا حذیفہ بن یمانؓ  نے کہا کہ اللہ کی قسم میں سب لوگوں سے زیادہ ہر فتنہ کو جانتا ہوں جو میرے درمیان اور قیامت کے درمیان ہونے والا ہے۔ اور یہ بات نہیں ہے کہ رسول اللہﷺ نے چھپا کر کوئی بات خاص مجھ سے بیان کی ہو جو اَوروں سے نہ کی ہو، لیکن رسول اللہﷺ نے ایک مجلس میں فتنوں کا بیان کیا جس میں مَیں بھی تھا۔ تو آپﷺ نے ان فتنوں کا شمار کرتے ہوئے فرمایا: تین ان میں سے ایسے ہیں جو قریب قریب کچھ نہ چھوڑیں گے اور ان میں سے بعض گرمی کی آندھیوں کی طرح ہیں، بعض ان میں چھوٹے ہیں اور بعض بڑے ہیں۔ سیدنا حذیفہؓ  نے کہا کہ (اب) میرے سوا اس مجلس کے سب لوگ فوت ہو چکے ہیں۔ ایک میں باقی ہوں (اس وجہ سے اب مجھ سے زیادہ کوئی فتنوں کا جاننے والا باقی نہ رہا)۔

1993: سیدنا حذیفہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہ ہم میں (وعظ سنانے کو) کھڑے ہوئے تو کوئی بات نہ چھوڑی جو اس وقت سے لے کر قیامت تک ہونے والی تھی مگر اس کو بیان کر دیا۔ پھر یاد رکھا جس نے رکھا اور بھول گیا جو بھول گیا۔ میرے ساتھی اس کو جانتے ہیں اور بعض بات ہوتی ہے جس کو میں بھول گیا تھا، پھر جب میں اس کو دیکھتا ہوں تو یاد آ جاتی ہے جیسے آدمی دوسرے آدمی کی عدم موجودگی میں اس کا چہرہ یاد رکھتا ہے ، پھر جب اس کو دیکھے تو پہچان لیتا ہے۔

1994: سیدنا حذیفہؓ  سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ مجھے رسول اللہﷺ نے ہر ایک بات بتا دی جو قیامت تک ہونے والی تھی اور کوئی بات ایسی نہ رہی جس کو میں نے آپﷺ سے نہ پوچھا ہو، البتہ میں نے یہ نہ پوچھا کہ مدینہ والوں کو مدینہ سے کونسی چیز نکالے گی۔

1995: سیدنا ابو زید (یعنی عمرو بن اخطب)ؓ  کہتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہﷺ نے فجر کی نماز پڑھائی اور منبر پر چڑھ کر ہمیں وعظ سنایا، یہاں تک کہ ظہر کا وقت آگیا۔ پھر آپﷺ اترے اور نماز پڑھی۔ پھر منبر پر چڑھے اور ہمیں وعظ سنایا، یہاں تک کہ عصر کا وقت آگیا۔ پھر اترے اور نماز پڑھی۔ پھر منبر پر چڑھے اور ہمیں وعظ سنایا، یہاں تک کہ سورج ڈوب گیا۔پس جو کچھ ہو چکا ہے اور جو کچھ ہونے والا تھا، سب کی ہمیں خبر دے دی۔ اور ہم میں سب سے زیادہ وہ عالم ہے جس نے سب سے زیادہ ان باتوں کو یاد رکھا ہو۔

باب : فتنوں کے بیان میں اور جو ان سے محفوظ رہے گا یا جوان فتنوں کو یاد رکھے گا۔

1996: محمد (ابن سیرین) کہتے ہیں کہ جندب نے کہا کہ میں نے یوم الجرعہ (یعنی جس دن جرعہ میں فساد ہونے والا تھا، (اور جرعہ کوفہ میں ایک مقام ہے جہاں کوفہ والے سعید بن عاص سے لڑنے کے لئے جمع ہوئے تھے جب سیدنا عثمانؓ  نے ان کو کوفہ کا حاکم بنا کر بھیجا تھا) کو ایک شخص کو بیٹھے ہوئے دیکھا تو کہا کہ آج تو یہاں کئی خون ہوں گے۔ وہ شخص بولا کہ ہر گز نہیں، اللہ کی قسم! خون نہ ہوں گے۔ میں نے کہا کہ اللہ کی قسم! خون ضرور ہوں گے وہ بولا کہ اللہ کی قسم! ہرگز خون نہ ہوں گے۔ میں نے کہا اللہ کی قسم! ضرور قتل ہوں گے۔ اس نے کہا اللہ کی قسم! ہرگز قتل نہ ہوں گے ، اور میں نے اس بارے میں رسول اللہﷺ سے ایک حدیث سنی ہے جو آپﷺ نے مجھ سے فرمائی تھی۔ میں نے کہا کہ تو آج میرا بُرا ساتھی ہے ، اس لئے کہ تو سنتا ہے میں تیرا خلاف کر رہا ہوں اور تو نے رسول اللہﷺ سے ایک حدیث سنی ہے اور مجھے منع نہیں کرتا۔ پھر میں نے کہا کہ اس غصے سے کیا فائدہ؟ اور میں اس شخص کی طرف متوجہ ہوا اور پوچھا تو معلوم ہوا کہ وہ سیدنا حذیفہؓ  صحابی رسولﷺ ہیں۔

باب : فتنے مشرق کی طرف سے ہوں گے۔

1997: سیدنا سالم بن عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے وہ کہتے تھے کہ اے عراق والو! میں تم سے چھوٹے گناہ نہیں پوچھتا نہ اس کو پوچھتا ہوں جو کبیرہ گناہ کرتا ہو میں نے اپنے والد سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ  سے سنا، وہ کہتے تھے کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا آپﷺ فرماتے تھے کہ فتنہ ادھر سے آئے گا اور آپﷺ نے اپنے ہاتھ سے مشرق کی طرف اشارہ کیا، جہاں شیطان کے دونوں سینگ نکلتے ہیں۔ اور تم ایک دوسرے کی گردن مارتے ہو (حالانکہ مومن کی گردن مارنا کتنا بڑا گناہ ہے ) اور موسیٰؑ فرعون کی قوم کا ایک شخص غلطی سے مار بیٹھے تھے (نہ بہ نیت قتل کیونکہ گھونسے سے آدمی نہیں مرتا)، تو اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ”تو نے ایک خون کیا، پھر ہم نے تجھے غم سے نجات دی اور تجھ کو آزمایا جیسا آزمایا تھا“۔(طہٰ: 40)۔

باب : البتہ کسریٰ اور قیصر کے خزانے ضرور اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کئے جائیں گے۔

1998: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جب کسریٰ (ایران کا بادشاہ) مر گیا، تو اب اس کے بعد کوئی کسریٰ نہ ہو گا اور جب قیصر (روم کا بادشاہ) مر جائے گا، تو اس کے بعد کوئی قیصر نہ ہو گا (اور یہ دونوں ملک مسلمان فتح کر لیں گے )۔ قسم اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ، ان دونوں کے خزانے اللہ کی راہ میں خرچ کئے جائیں گے۔

1999: سیدنا جابر بن سمرہؓ  کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا آپﷺ فرماتے تھے کہ البتہ مسلمانوں یا مومنوں کی (شک راوی) ایک جماعت کسریٰ کے خزانہ کو کھولے گی جو سفید محل میں ہے۔ قتیبہ کی روایت میں مسلمانوں کی ہے شک کے بغیر۔

باب : اس امت کی تباہی بعض کی بعض سے ہو گی۔

2000: سیدنا ثوبانؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے میرے لئے زمین کو لپیٹ دیا (یعنی سب زمین کو لپیٹ کر میرے سامنے کر دیا) تو میں نے اس کا مشرق و مغرب دیکھا اور میری امت کی حکومت وہاں تک پہنچے گی جہاں تک زمین مجھے دکھلائی گئی اور مجھے سرخ اور سفید دو خزانے دیئے گئے (یعنی سونا اور چاندی یا قیصر و کسریٰ کے خزانے )۔ اور میں نے اپنے رب سے دعا کی کہ میری امت کو عام قحط سے ہلاک نہ کرنا اور ان پر کوئی غیر دشمن ایسا غالب نہ کرنا کہ ان کا جتھا ٹوٹ جائے اور ان کی جڑ کٹ جائے (یعنی بالکل نیست و نابو د نابو د ہو جائیں)۔ میرے پروردگار نے فرمایا کہ اے محمد! جب میں کوئی فیصلہ کر دیتا ہوں پھر وہ نہیں پلٹتا اور میں نے تیری یہ دعائیں قبول کیں اور تیری امت کو عام قحط سے ہلاک نہ کروں گا نہ ان پر کوئی غیر دشمن جو ان میں سے نہ ہو، ایسا غالب کروں گا کہ جو ان کی جڑ کاٹ دے ، اگرچہ زمین کے تمام لوگ (مسلمانوں کو تباہ کرنے کے لئے ) اکٹھے ہو جائیں (مگر ان کو تباہ نہ کر سکیں گے ) یہاں تک کہ خود مسلمان ایک دوسرے کو ہلاک کریں گے اور ایک دوسرے کو قید کریں گے۔

2001: سیدنا عامر بن سعد اپنے والد سعدؓ  سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ ایک دن عالیہ (عالیہ وہ گاؤں ہیں جو مدینہ سے باہر ہیں) سے آئے حتی کہ بنی معاویہ کی مسجد پر سے گزرے۔ اس میں گئے اور دو رکعتیں پڑھیں اور ہم نے بھی آپﷺ کے ساتھ نماز پڑھی اور اپنے رب سے بہت طویل دعا کی۔ پھر ہمارے پاس آئے اور فرمایا کہ میں نے اپنے رب سے تین دعائیں مانگیں لیکن اس نے دو دعائیں قبول کر لیں اور ایک قبول نہیں کی۔ میں نے اپنے رب سے یہ دعا کی کہ میری امت کو قحط سے ہلاک نہ کرے (یعنی ساری امت کو قحط سے ) تو اللہ تعالیٰ نے یہ دعا قبول کی اور میں نے یہ دعا کی کہ میری (ساری) امت کو پانی میں ڈبو کر ہلاک نہ کرے ، تو اللہ تعالیٰ نے یہ دعا بھی قبول کی اور میں نے یہ دعا کی کہ مسلمان آپس میں ایک دوسرے سے نہ لڑیں، تو اسکو قبول نہیں کیا

باب : البتہ تم اگلی امتوں کی راہوں پر چلو گی۔

2002: سیدنا ابو سعید خدریؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: البتہ تم اگلی امتوں کی راہوں (یعنی گناہوں میں اور دین کی مخالفت میں نہ یہ کہ کفر اختیار کرو گے ) پر بالشت برابر بالشت اور ہاتھ برابر ہاتھ چلو گے ، یہاں تک کہ اگر وہ گوہ کے سوراخ میں گھسے تھے تو تم بھی گھسو گے۔ ہم نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! اگلی امتوں سے مراد یہودی اور نصاریٰ ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا کہ (اگر یہ نہیں تو) اور کون ہیں؟۔

باب : میری امت کو قریش (کا خاندان) تباہ کرے گا اور حکم ان سے دُور رہنے کا۔

2003: سیدنا ابو ہریرہؓ  نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: لوگوں کو قریش میں سے یہ خاندان ہلاک کرے گا۔ صحابہؓ نے کہا کہ پھر آپﷺ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا کہ اگر لوگ ان سے الگ رہیں تو بہتر ہے۔

باب : (ایسے ) فتنے ہوں گے کہ ان میں بیٹھنے والا کھڑے ہونے والے سے بہتر ہو گا (یعنی جتنا کسی کا فتنے میں حصہ کم ہو گا اتنا زیادہ بہتر ہو گا)۔

2004: سیدنا ابو بکرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: بیشک کئی فتنے ہوں گے۔ خبردار رہو! کئی فتنے ہوں گے۔ ان میں بیٹھنے والا چلنے والے (لوگوں) سے بہتر ہو گا اور بھاگنے والے (لوگوں) سے چلنے والا بہتر ہو گا۔ خبردار رہو! جب فتنہ اور فساد اترے یا واقع ہو تو جس کے اونٹ ہوں وہ اپنے اونٹوں میں جا ملے اور جس کی بکریاں ہوں وہ اپنی بکریوں میں جا ملے اور جس کی (کھیتی کی) زمین ہو، وہ اپنی زمین میں جا رہے۔ ایک شخص نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ! جس کے نہ اونٹ ہوں اور نہ بکریاں اور نہ زمین ہو، وہ کیا کرے ؟ آپﷺ نے فرمایا کہ وہ اپنی تلوار اٹھائے اور پتھر سے اس کی باڑھ کو کوٹ ڈالے (یعنی لڑنے کی کوئی چیز باقی نہ رکھے جو لڑائی کا حوصلہ ہو)، پھر اپنی استطاعت کے مطابق بچاؤ اور نجات کا راستہ اختیار کرے۔ الٰہی کیا میں نے تیرا حکم پہنچا دیا، الٰہی کیا میں نے تیرا حکم پہنچا دیا، الٰہی کیا میں نے تیرا حکم پہنچا دیا۔ ایک شخص بولا کہ یا رسول اللہﷺ! بتلائیے کہ اگر مجھ پر زبردستی کی جائے یہاں تک کہ مجھے دو صفوں میں سے یا دو گروہوں میں سے ایک لے جائیں، پھر وہاں کوئی مجھے تلوار مارے یا تیر آئے اور مجھے قتل کر دے ؟ آپﷺ نے فرمایا کہ وہ اپنا اور تیرا گناہ سمیٹ لے گا اور دوزخ میں جائے گا۔

باب : جب دو مسلمان اپنی اپنی تلوار لے کر آمنے سامنے آ جائیں تو قاتل و مقتول (دونوں) جہنمی ہیں۔

2005: احنف بن قیس کہتے ہیں کہ میں اس ارادہ سے نکلا کہ اس شخص کا شریک ہوں گا (یعنی سیدنا علیؓ  کا سیدنا معاویہؓ  کے مقابلے میں شریک ہوں گا)۔ راہ میں مجھ سے سیدنا ابو بکرہؓ  ملے اور کہنے لگے کہ اے احنف تم کہاں جاتے ہو؟ میں نے کہا کہ میں رسول اللہﷺ کے چچازاد بھائی کی مدد کرنا چاہتا ہوں۔ سیدنا ابو بکرہؓ  نے کہا کہ اے احنف! تم لوٹ جاؤ، کیونکہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا آپﷺ فرماتے تھے کہ جب دو مسلمان اپنی تلوار لے کر لڑیں تو مارنے والا اور مارا جانے والا دونوں جہنمی ہیں۔ میں نے عرض کیا کہ یا کسی اور نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ! قاتل تو جہنم میں جائے گا، لیکن مقتول کیوں جائے گا؟ آپﷺ نے فرمایا کہ وہ بھی تو اپنے ساتھی کے قتل کا ارادہ رکھتا تھا۔

باب : عمارؓ کو باغی گروہ قتل کرے گا۔

2006: اُمّ المؤمنین اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: عمارؓ کو ایک باغی گروہ قتل کرے گا۔

باب : جب تک (مسلمانوں کے ) دو عظیم گروہ جن کا دعویٰ ایک ہی ہو گا، لڑائی نہ کریں قیامت قائم نہیں ہو گی۔

2007: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: قیامت قائم نہ ہو گی یہاں تک کہ (مسلمانوں کے ) دو بڑے بڑے گروہ لڑیں گے اور ان میں بڑی سخت لڑائی ہو گی اور دونوں کا دعویٰ ایک ہو گا (یعنی دونوں کا دین ایک ہو گا اور دونوں یہ دعویٰ کریں گے کہ ہم اللہ کے دین کے لئے لڑتے ہیں)۔

باب : قیامت نہ آئے گی یہاں تک کہ آدمی قبر پر گزرے گا اور کہے گا کہ کاش میں اس قبر والا ہوتا۔

2008: سیدنا ابوہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! دنیا فنا نہ ہو گی یہاں تک کہ آدمی قبر پر گزرے گا، پھر اس پر لیٹے گا اور کہے گا کہ کاش! میں اس قبر والا ہوتا اور دین اس کے لئے آزمائش بن جائے گا۔

باب : قیامت قائم نہ ہو گی، یہاں تک کہ ہرج (قتل) بہت ہو گا۔

2009: سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: قیامت قائم نہ ہو گی، یہاں تک کہ حرج بہت ہو گا۔ لوگوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! حرج کیا ہے ؟آپﷺ نے فرمایا کہ قتل قتل (یعنی خون بہت ہوں گے )۔

باب : قیامت قائم نہ ہو گی، یہاں تک کہ وہ وقت آئے گا کہ قاتل کو معلوم نہیں ہو گا کہ وہ کیوں قتل کر رہا ہے۔

2010: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! دنیا اس وقت تک ختم نہ ہو گی جب تک کہ لوگوں پر ایسا وقت نہ آ جائے کہ جس میں قاتل کو یہ تک معلوم نہ ہو گا کہ وہ قتل کیوں کر رہا ہے ؟ اور مقتول کو بھی نہ معلوم ہو گا کہ وہ کیوں قتل کیا جا رہا ہے ؟ لوگوں نے کہا کہ یہ کیسے ہو گا؟ آپﷺ نے فرمایا کہ کشت و خون ہو گا۔ قاتل اور مقتول دونوں جہنمی ہیں۔

باب : قیامت قائم نہ ہو گی یہاں تک کہ آگ حجاز کی زمین سے نکلے گی۔

2011: سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: قیامت قائم نہ ہو گی یہاں تک کہ ایک آگ حجاز کے ملک سے نکلے گی اور وہ بُصریٰ کے اونٹوں کی گردنوں کو روشن کر دے گی (یعنی اس کی روشنی ایسی تیز ہو گی کہ عرب سے شام تک پہنچے گی۔ حجاز مکہ اور مدینہ کا ملک اور بصریٰ شہر کا نام ہے )

باب : قیامت قائم نہ ہو گی یہاں تک کہ دوس کا قبیلہ ذی الخلصہ (بت) کی عبادت نہ کرے گا۔

2012: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: قیامت قائم نہ ہو گی یہاں تک کہ دوس کی عورتوں کی سرینیں ذی الخلصہ کے گرد ہلیں گی (یعنی وہ اس کا طواف کریں گی) اور ذوالخلصہ ایک بت تھا جس کو دوس جاہلیت کے زمانہ میں تبالہ (یمن کی ایک جگہ) میں پوجا کرتے تھے۔

باب : قیامت قائم نہ ہو گی یہاں تک کہ لات و عزیٰ کی عبادت کی جائے گی

2013: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا، آپﷺ نے فرمایا کہ رات اور دن اس وقت تک ختم نہ ہوں گے جب تک لات اور عزیٰ (جاہلیت کے بُت) پھر نہ پوجے جائیں گے۔ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! میں تو سمجھتی تھی کہ جب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری ”اللہ وہ ہے جس نے اپنے رسولﷺ کو ہدایت اور سچا دین دیکر بھیجا تاکہ اس کو سب دینوں پر غالب کرے اگرچہ مشرک لوگ بُرا مانیں“ کہ یہ وعدہ پورا ہونے والا ہے (اور اسلام کے سوا اور کوئی دین غالب نہ رہے گا)۔ آپﷺ نے فرمایا کہ جب تک اللہ تعالیٰ کو منظور ہو گا، ایسا ہی ہو گا۔ پھر اللہ تعالیٰ ایک پاکیزہ ہوا بھیجے گا کہ جس سے ہر مومن مر جائے گا، یہاں تک کہ ہر وہ شخص بھی جس کے دل میں دانے کے برابر بھی ایمان ہے اور وہ لوگ باقی رہ جائیں گے جن میں بھلائی نہیں ہو گی۔ پھر وہ لوگ اپنے (مشرک) باپ دادا کے دین پر لوٹ جائیں گے۔

باب : قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک کہ اس شہر میں نہ لڑائی ہو جس کی ایک طرف سمند رمیں اور دوسری خشکی میں ہے۔

2014: سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: کیا تم نے ایسے شہر کے متعلق سنا ہے جس کے ایک جانب خشکی اور ایک جانب سمندر ہے ؟ صحابہؓ نے کہا کہ ہاں یا رسول اللہﷺ! ہم نے سنا ہے (یعنی قسطنطنیہ ہے )۔ آپﷺ نے فرمایا کہ قیامت قائم نہ ہو گی یہاں تک کہ اس شہر سے اسحاقؑ کی اولاد میں سے ستر ہزار لوگ لڑیں گے۔ پس جب اس شہر کے پاس آئیں گے تو اتر پڑیں گے۔ بس ہتھیار سے لڑیں گے نہ تیر ماریں گے ، بلکہ ”لا الٰہ الا اللہ واللہ اکبر“ کہیں گے تو اس کی دریا والی طرف گر پڑے گی۔ پھر دوسری بار ”لا الٰہ الا اللہ واللہ اکبر“ کہیں گے تو اس کی دوسری طرف گر پڑے گی۔ پھر تیسری بار ”لا الٰہ الا اللہ واللہ اکبر“ کہیں گے تو ہر طرف سے کھل جائے گا۔ پس وہ اس شہر میں گھس پڑیں گے اور مال غنیمت لوٹیں گے۔ جب وہ مالِ غنیمت کو بانٹ رہے ہوں گے کہ اچانک ایک پکارنے والا آ کر پکارے گا کہ دجال نکل آیا ہے تو وہ ہر چیز کوچھوڑ کر (دجال کی طرف) لوٹ آئیں گے۔

باب : قیامت قائم نہ ہو گی حتیٰ کہ دریائے فرات سے سونے کا پہاڑ ظاہر نہ ہو۔

2015: سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: قیامت قائم نہ ہو گی، یہاں تک کہ فرات میں سونے کا ایک پہاڑ نکلے گا اور لوگ اس کے لئے لڑیں گے۔ تو ہر سینکڑے میں سے ننانوے ماریں جائیں گے اور ہر شخص (اپنے دل میں) یہ کہے گا کہ شاید میں بچ جاؤں (اور اس سونے کو حاصل کروں۔ معاذ اللہ دنیا ایسی ہی خراب شے ہے لوگ اس کے پیچھے اپنی جان، آبرو اور عزت گنواتے ہیں پھر بھی وہ حاصل نہیں ہوتی۔ عاقل وہی ہے جو پہلے سے ہی اس بیکار چیز کا پیچھا نہ کرے )۔

2016: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: قریب ہے کہ فرات میں سے سونے کا ایک خزانہ نکلے ، سو جو کوئی وہاں موجود ہو، تو وہ اس میں سے کچھ نہ لے۔

باب : قیامت قائم نہ ہو گی، یہاں تک کہ تم ایک ایسی قوم سے لڑو گے جن کے چہرے گویا ڈھالیں ہیں۔

2017: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: تم لوگ قیامت کے قریب ایسے لوگوں سے لڑو گے جن کے جوتے بالوں کے ہوں گے اور انکے منہ گویا چوڑی ڈھالیں ہیں۔ ان کے چہرے سرخ اور آنکھیں چھوٹی ہیں

باب : قیامت قائم نہ ہو گی، یہاں تک کہ قحطان سے ایک آدمی نکلے گا۔

2018: سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: قیامت قائم نہ ہو گی یہاں تک کہ (قبیلہ قحطان کا) ایک شخص نکلے گا جو لوگوں کو اپنی لکڑی سے ہانکے گا۔

باب : قیامت قائم نہ ہو گی، یہاں تک کہ ایک شخص بادشاہ ہو گا جس کو جہجاہ کہیں گے۔

2019: سیدنا ابو ہریرہؓ  نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: دن اور رات ختم نہ ہوں گے یہاں تک کہ ایک شخص بادشاہ ہو گا جس کو جہجاہ کہیں گے۔

باب : قیامت قائم نہ ہو گی، یہاں تک کہ زمین میں اللہ اللہ کہنے والا کوئی نہ ہو گا۔

2020: سیدنا انسؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی، یہاں تک کہ زمین پر کوئی اللہ کا نام لینے والا باقی نہ رہے گا۔

باب : یمن سے ہوا چلے گی (جس کی وجہ سے ) ہر وہ آدمی مر جائے گا جس کے دل میں ایمان ہے۔

2021: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ ریشم سے زیادہ نرم ہوا یمن سے بھیجے گا جو کسی ایسے آدمی کو نہ چھوڑے گی جس میں ذرہ برابر ایمان ہو گا مگر اس کا موت آ جائے گی۔

باب : قیامت صرف شریر لوگوں پر قائم ہو گی۔

2022: سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: قیامت بدترین لوگوں پر قائم ہو گی۔

باب : قیامت قائم نہ ہو گی، یہاں تک کہ دجال کذاب لوگ نکلیں گے۔

2023: سیدنا ابو ہریرہؓ  نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: قیامت قائم نہ ہو گی یہاں تک کہ تیس کے قریب جھوٹے دجال پیدا نہ ہوں (دجال یعنی مکار فریبی ہیں) اور ہر ایک یہ کہے گا کہ میں اللہ کا رسول ہوں۔

2024: سیدنا جابر بن سمرہؓ  کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا آپﷺ فرماتے تھے کہ قیامت سے پہلے جھوٹے پیدا ہوں گے۔ایک روایت میں ہے کہ سیدنا جابرؓ  نے یہ بھی کہا کہ پس ان سے ڈرو۔

باب : یہودیوں سے مسلمانوں کی لڑائی کے متعلق۔

2025: سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: قیامت قائم نہ ہو گی، یہاں تک کہ مسلمان یہود سے لڑیں گے ، پھر مسلمان ان کو قتل کریں گے۔ حتی کہ یہودی کسی پتھر یا درخت کی آڑ میں چھپے گا تو وہ پتھر یا درخت بولے گا کہ اے مسلمان! اے اللہ کے بندے ! یہ میرے پیچھے ایک یہودی ہے ، ادھر آ اور اس کو قتل کر دے مگر غرقد کا درخت نہ بولے گا (وہ ایک کانٹے دار درخت ہے جو بیت المقدس کی طرف بہت زیادہ ہوتا ہے ) وہ یہود کا درخت ہے۔

باب : (جب) قیامت قائم ہو گی (قیامت قریب ہو گی) تو تمام لوگوں سے زیادہ رومی (عیسائی) ہوں گے۔

2026: موسیٰ بن عُلی اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ مستورد  قرشیؓ  نے سیدنا عمرو بن عاصؓ  کے سامنے کہا کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا، آپﷺ فرماتے تھے کہ قیامت اس وقت قائم ہو گی جب نصاریٰ سب لوگوں سے زیادہ ہوں گے (یعنی ہندو اور مسلمانوں سے )۔ سیدنا عمروؓ  نے کہا کہ دیکھ تو کیا کہتا ہے ؟ مستوردؓ  نے کہا کہ میں تو وہی کہتا ہوں جو رسول اللہﷺ سے سنا ہے۔ سیدنا عمروؓ  نے کہا کہ اگر تو کہتا ہے (تو سچ ہے ) تو یہ اس لئے ہے کہ نصاریٰ میں چار خصلتیں ہیں۔ وہ مصیبت کے وقت نہایت حوصلہ والے ہیں، مصیبت کے بعد سب سے جلدی ہوشیار ہوتے ہیں، بھاگنے کے بعد سب سے پہلے پھر حملہ کرتے ہیں اور سب لوگوں میں مسکین یتیم اور ضعیف کے لئے بہتر ہیں اور ایک پانچویں خصلت بھی ہے جو نہایت عمدہ ہے کہ وہ بادشاہوں کے ظلم کو زیادہ روکنے والے ہیں۔

باب : روم کی جنگ اور دجال کے نکلنے سے پہلے قتل ہونے کے متعلق۔

2027: سیدنا یسیر بن جابر سے روایت ہے کہ ایک بار کوفہ میں سرخ آندھی آئی تو ایک شخص آیا جس کا تکیہ کلام ہی یہ تھا کہ اے عبد اللہ بن مسعود! قیامت آئی۔ یہ سن کر سیدنا عبد اللہ بن مسعودؓ  بیٹھ گئے اور پہلے وہ تکیہ لگائے ہوئے تھے اور کہا کہ قیامت قائم نہ ہو گی، یہاں تک کہ ترکہ نہ بٹے گا اور مال غنیمت سے خوشی نہ ہو گی (کیونکہ جب کوئی وارث ہی نہ رہے گا تو ترکہ کون بانٹے گا اور جب کوئی لڑائی سے زندہ نہ بچے گا تو مال غنیمت کی کیا خوشی ہو گی)۔ پھر اپنے ہاتھ سے شام کے ملک کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ دشمن (نصاریٰ) مسلمانوں سے لڑنے کے لئے جمع ہوں گے اور مسلمان بھی ان سے لڑنے کے لئے جمع ہوں گے۔ میں نے کہا کہ دشمن سے تمہاری مراد نصاریٰ ہیں؟ انہوں نے کہا کہ ہاں۔ اور اس وقت سخت لڑائی شروع ہو گی۔ مسلمان ایک لشکر کو آگے بھیجیں گے جو مرنے کے لئے آگے بڑھے گا اور بغیر غلبہ کے نہ لوٹے گا (یعنی اس قصد سے جائے گا کہ یا لڑ کر مر جائیں گے یا فتح کر کے آئیں گے ) پھر دونوں فرقے لڑیں گے ، یہاں تک کہ (لڑائی میں) رات حائل ہو جائے گی۔ پس دونوں طرف کی فوجیں لوٹ جائیں گی اور کسی کو غلبہ نہ ہو گا۔ اور لڑائی کے لئے بڑھنے والا لشکر بالکل فنا ہو جائے گا (یعنی اس کے سب لوگ قتل ہو جائیں گے ) دوسرے دن پھر مسلمان ایک لشکر آگے بڑھائیں گے جو مرنے کے لئے یا غالب ہونے کے لئے جائے گا اور لڑائی رہے گی، یہاں تک کہ رات حائل ہو جائے گی۔ پھر دونوں طرف کی فوجیں لوٹ جائیں گی اور کسی کو غلبہ نہ ہو گا اور آگے بڑھنے والا لشکر بالکل فنا ہو جائے گا۔ پھر تیسرے دن مسلمان ایک لشکر مرنے یا غالب ہونے کی نیت سے آگے بڑھائیں گے اور شام تک لڑائی رہے گی، پھر دونوں طرف کی فوجیں لوٹ جائیں گی کسی کو غلبہ نہ ہو گا اور وہ لشکر فنا ہو جائے گا۔ جب چوتھا دن ہو گا تو جتنے مسلمان باقی رہ گئے ہوں گے ، وہ سب آگے بڑھیں گے اور اس دن اللہ تعالیٰ کافروں کو شکست دے گا اور ایسی لڑائی ہو گی کہ ویسی کوئی نہ دیکھے گا یا ویسی لڑائی کسی نے نہیں دیکھی ہو گی، یہاں تک کہ پرندہ ان کے اوپر یا ان کے بدن پر اُڑے گا، پھر آگے نہیں بڑھے گا کہ وہ مردہ ہو کر گر جائیں گا۔ ایک جدی لوگ جو گنتی میں سو ہوں گے ان میں سے ایک شخص بچے گا (یعنی ننانوے فیصد آدمی مارے جائیں گے اور ایک باقی رہ جائے گا) ایسی حالت میں مالِ غنیمت کی کونسی خوشی حاصل ہو گی اور کونسا ترکہ بانٹا جائے گا؟ پھر مسلمان اسی حالت میں ہوں گے کہ ایک اور بڑی آفت کی خبر سنیں گے۔ ایک پکار ان کو آئے گی کہ ان کے پیچھے ان کے بال بچوں میں (کانا) دجال آ چکا ہے۔ یہ سنتے ہی جو کچھ ان کے ہاتھوں میں ہو گا اس کو چھوڑ کر روانہ ہوں گے اور دس سواروں کو جاسوسی کے طور پر روانہ کریں گے (دجال کی خبر لانے کے لئے )۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ میں ان سواروں اور ان کے باپوں کے نام تک جانتا ہوں اور ان کے گھوڑوں کے رنگ بھی جانتا ہوں اور وہ اس دن ساری زمین کے بہتر سوار ہوں گے یا اس دن بہتر سواروں میں سے ہوں گے۔

باب : دجال سے پہلے جو مسلمانوں کو فتوحات ملیں گی۔

2028: سیدنا جابر بن سمرةؓ  سیدنا نافع بن عتبہؓ  سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا ہم ایک جہاد میں رسول اللہﷺ کے ساتھ تھے تو آپﷺ کے پاس کچھ لوگ مغرب کی طرف سے آئے جو اون کے کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ وہ رسول اللہﷺ سے ایک ٹیلے کے پاس آ کر ملے۔ وہ لوگ کھڑے تھے اور آپﷺ بیٹھے ہوئے تھے۔ میرے دل نے کہا کہ تو چل اور ان لوگوں اور آپﷺ کے درمیان میں جا کر کھڑا ہو، ایسا نہ ہو کہ یہ لوگ فریب سے آپﷺ کو مار ڈالیں۔ پھر میرے دل نے کہا کہ شاید آپﷺ چپکے سے کچھ باتیں ان سے کرتے ہوں (اور میرا جانا آپﷺ کو ناگوار گزرے )۔ پھر میں گیا اور ان لوگوں کے اور آپﷺ کے درمیان میں کھڑا ہو گیا۔ پس میں نے اس وقت آپﷺ سے چار باتیں یاد کیں، جن کو میں اپنے ہاتھ پر گنتا ہوں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ تم پہلے تو عرب کے جزیرہ میں (کافروں سے ) جہاد کرو گے ، اللہ تعالیٰ اس کو فتح کر دے گا۔ پھر فارس (ایران) سے جہاد کرو گے ، اللہ تعالیٰ اس پر بھی فتح کر دے گا پھر نصاریٰ سے لڑو گے روم والوں سے ، اللہ تعالیٰ روم کو بھی فتح کر دے گا۔ پھر دجال سے لڑو گے اور اللہ تعالیٰ اس کو بھی فتح کر دے گا (یہ حدیث آپﷺ کا بڑا معجزہ ہے )۔ نافع نے کہا کہ اے جابر بن سمرہ! ہم سمجھتے ہیں کہ دجال روم فتح ہونے کے بعد ہی نکلے گا۔

باب : قسطنطنیہ کی فتح کے متعلق۔

2029: سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: قیامت قائم نہ ہو گی، یہاں تک کہ روم کے نصاریٰ کا لشکر اعماق میں یا دابق میں اترے گا (یہ دونوں مقام شام میں ہیں حلب کے قریب)۔ پھر مدینہ سے ایک لشکر ان کی طرف نکلے گا، جو ان دنوں تمام زمین والوں میں بہتر ہو گا۔ جب دونوں لشکر صف باندھیں گے تو نصاریٰ کہیں گے کہ تم ان لوگوں (یعنی مسلمانوں) سے الگ ہو جاؤ جنہوں نے ہماری بیویاں اور لڑکے پکڑے اور لونڈی غلام بنائے ہیں ہم ان سے لڑیں گے۔ مسلمان کہیں گے کہ نہیں اللہ کی قسم! ہم کبھی اپنے بھائیوں سے نہ الگ ہوں گے۔پھر لڑائی ہو گی تو مسلمانوں کا ایک تہائی لشکر بھاگ نکلے گا۔ ان کی توبہ اللہ تعالیٰ کبھی قبول نہ کرے گا اور تہائی لشکر مارا جائے گا، وہ اللہ کے پاس سب شہیدوں میں افضل ہوں گے اور تہائی لشکر کی فتح ہو گی، وہ عمر بھر کبھی فتنے اور بلا میں نہ پڑیں گے۔ پھر وہ قسطنطنیہ (استنبول) کو فتح کریں گے (جو نصاریٰ کے قبضہ میں آگیا ہو گا۔ اب تک یہ شہر مسلمانوں کے قبضہ میں ہے ) وہ اپنی تلواریں زیتون کے درختوں سے لٹکا کر مالِ غنیمت بانٹ رہے ہوں گے کہ شیطان یہ پکار لگائے گا کہ تمہارے پیچھے تمہارے گھروں میں دجال کا ظہور ہو چکا ہے۔ پس مسلمان وہاں سے نکلیں گے حالانکہ یہ خبر جھوٹ ہو گی۔ جب شام کے ملک میں پہنچیں گے تو تب دجال نکلے گا۔ پس جس وقت مسلمان لڑائی کے لئے مستعد ہو کر صفیں باندھتے ہوں گے کہ نماز کا وقت ہو گا اسی وقت سیدنا عیسیٰ بن مریم علیہما الصلوٰۃ و السلام اتریں گے اور امام بن کر نماز پڑھائیں گے۔ پھر جب اللہ تعالیٰ کا دشمن دجال سیدنا عیسیٰؑ کو دیکھے گا تو اس طرح ڈر سے گھل جائے گا جیسے نمک پانی میں گھل جاتا ہے اور جو عیسیٰؑ اس کو یونہی چھوڑ دیں تب بھی وہ خود بخود گھل کر ہلاک ہو جائے لیکن اللہ تعالیٰ اس کو سیدنا عیسیٰؑ کے ہاتھوں سے قتل کرائے گا اور لوگوں کو اس کا خون عیسیٰؑ کی برچھی میں دکھلائے گا۔

باب : بیت اللہ کا قصد کر کے آنے والے لشکر کے زمین میں دھنس جانے کے متعلق۔

2030: عبید اللہ بن قبطیہ سے روایت ہے کہ حارث بن ربیعہ اور عبد اللہ بن صفوان دونوں اُمّ المؤمنین اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے۔ میں بھی ان کے ساتھ تھا۔ انہوں نے اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہا سے اس لشکر کے بارے میں پوچھا جو دھنس جائے گا اور یہ اس زمانہ کا ذکر ہے جب سیدنا عبد اللہ بن زبیرؓ  مکہ کے حاکم تھے۔ انہوں نے کہا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ایک پناہ لینے والا خانہ کعبہ کی پناہ لے گا(مراد مہدیؑ ہیں) تو اس کی طرف لشکر بھیجا جائے گا۔ وہ جب ایک میدان میں پہنچ جائیں گے تو دھنس جائیں گے۔ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! جو شخص زبردستی اس لشکر کے ساتھ ہو (دل میں بُرا جان کر)، آپﷺ نے فرمایا کہ وہ بھی ان کے ساتھ دھنس جائے گا لیکن قیامت کے دن اپنی نیت پر اٹھے گا۔ ابو جعفر نے کہا کہ مراد مدینہ کا میدان ہے۔

باب : قیامت سے پہلے مدینہ کے گھر اور آبادی کے متعلق۔

2031: سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: (قیامت کے قریب مدینہ کے گھر) اہاب یا یہاب تک پہنچ جائیں گے۔ زہیر نے کہا کہ میں نے سہیل سے کہا کہ اہاب مدینہ سے کتنے فاصلے پر ہے ؟ انہوں نے کہا کہ اتنے میل پر (یعنی کافی میل دور ہے )۔

باب : کعبہ کو حبشہ کا پتلی پنڈلیوں والا بادشاہ ویران کرے گا۔

2032: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: کعبہ کو حبشہ کا چھوٹی چھوٹی پنڈلیوں والا ایک شخص خراب کرے گا (مراد ابی سینیا کے کافر ہیں جو نصاریٰ ہیں یا وسط حبش کے بت پرست آخر زمانہ میں ان کا غلبہ ہو گا اور جب مسلمان دنیا سے اٹھ جائیں گے ، تو یہ مردود حبشی ایسا کام کرے گا)۔

باب : عراق کے اپنے درہم روک لینے کے متعلق۔

2033: سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: عراق کا ملک اپنے درہم اور قفیز کو روکے گا، شام کا ملک اپنے مدی اور دینار کو روکے گا اور مصر کا ملک اپنے اردب اور دینار کو روکے گا اور تم ایسے ہو جاؤ گے جیسے پہلے تھے اور تم ایسے ہو جاؤ گے جیسے پہلے تھے ، اور تم ایسے ہو جاؤ گے جیسے پہلے تھے۔ پھر سیدنا ابو ہریرہؓ  نے کہا کہ اس حدیث پر ابو ہریرہؓ کا گوشت اور خون گواہی دیتا ہے (یعنی اس میں کچھ شک نہیں)۔

2034: سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: قحط یہ نہیں ہے کہ بارش نہ برسے ، بلکہ قحط یہ ہے کہ بارش برسے اور خوب برسے لیکن زمین سے کچھ نہ اُگے۔

باب : امانت اور ایمان کے دلوں سے اٹھا لئے جانے کے متعلق۔

2035: سیدنا حذیفہؓ  کہتے ہیں کہ ہم سے رسول اللہﷺ نے (امانت کے باب میں) دو حدیثیں بیان کیں۔ ایک کو تو میں دیکھ چکا اور دوسری (کے پورا ہونے ) کا منتظر ہوں۔ (پہلی حدیث یہ ہے کہ) آپﷺ نے ہم سے بیان کیا کہ امانت لوگوں کے دلوں کی جڑ پر اتری۔ پھر قرآن نازل ہوا، پس انہوں نے قرآن کو حاصل کیا اور حدیث کو حاصل کیا۔ پھر آپﷺ نے ہم سے (دوسری) حدیث بیان فرمائی کہ امانت اٹھ جائے گی۔ تو فرمایا کہ ایک شخص تھوڑی دیر سوئے گا، پھر اس کے دل سے امانت اٹھا لی جائے گی اور اس کا نشان ایک پھیکے رنگ کی طرح رہ جائے گا۔ پھر ایک نیند کرے گا تو امانت دل سے اٹھ جائے گی اور اس کا نشان ایک چھالے کی طرح رہ جائے گا جیسے تو ایک انگارہ اپنے پاؤں پر لڑھکا دے ، پھر کھال پھول کر ایک چھالہ (آبلہ) نکل آئے کہ تم اس کو بلند ابھرا ہوا دیکھتے ہو مگر اس میں کچھ نہیں۔ پھر آپ نے ایک کنکری لے کر اپنے پاؤں پر لڑھکائی اور فرمایا کہ لوگ خرید و فروخت کریں گے اور ان میں سے کوئی ایسا نہ ہو گا جو امانت کو ادا کرے ، یہاں تک کہ لوگ کہیں گے کہ فلاں قوم میں ایک شخص امانت دار ہے اور یہاں تک کہ ایک شخص کو کہیں گے وہ کیسا ہوشیار ، خوش مزاج اور عقلمند ہے (یعنی اس کی تعریف کریں گے ) اور اس کے دل میں رائی کے دانے برابر بھی ایمان نہ ہو گا۔ پھر سیدنا حذیفہؓ  نے کہا کہ میرے اوپر ایک دور گزر چکا ہے جب میں بغیر کسی ڈر کے ہر ایک سے معاملہ (یعنی لین دین) کرتا تھا، اس لئے کہ اگر وہ مسلمان ہوتا تو اس کا دین اس کو بے ایمانی سے باز رکھتا اور جو نصرانی یا یہودی ہوتا تو حاکم اس کو بے ایمانی سے باز رکھتا تھا لیکن آج کے دن تو میں تم لوگوں سے کبھی معاملہ نہ کروں گا، البتہ فلاں اور فلاں شخص سے (معاملہ) کروں گا

باب : آخر زمانہ میں خلیفہ (مہدی) آئے گا، جو مال کی لپیں بھر بھر کر دے گا۔

2036: سیدنا ابو نضرہ سے روایت ہے کہ ہم سیدنا جابر بن عبد اللہؓ  کے پاس تھے کہ انہوں نے کہا کہ قریب ہے کہ عراق والوں کے قفیز اور درہم نہیں آئیں گے۔ ہم نے کہا کہ کس سبب سے ؟ انہوں نے کہا کہ عجم کے لوگ اس کو روک لیں گے۔ پھر کہا کہ قریب ہے کہ شام والوں کے پاس دینار اور مدی نہ آئیں (مدی ایک پیمانہ ہے اسی طرح قفیز) ہم نے کہا کہ کس سبب سے ؟ انہوں نے کہا کہ روم والے لوگ روک لیں گے۔ پھر تھوڑی دیر چپ رہے ، اس کے بعد کہا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ میری اخیر امت میں ایک خلیفہ ہو گا، جو لپیں بھر بھر کر مال دے گا (یعنی روپیہ اور اشرفیاں لوگوں کو) اور اس کو شمار نہ کرے گا۔ جریر نے کہا کہ میں نے ابو نضرہ اور ابو علاء سے پوچھا کہ کیا تم سمجھتے ہو کہ یہ خلیفہ عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ ہیں؟ انہوں نے کہا کہ نہیں۔ (یہ مہدی ہیں جو امت کے اخیر زمانہ میں پیدا ہوں گے۔ عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ تو شروع میں تھے )۔

باب : (قیامت کی) وہ نشانیاں جو قیامت سے پہلے آئیں گی۔

2037: سیدنا حذیفہ بن اسید  غفاریؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ ہمارے پاس آئے اور ہم باتیں کر رہے تھے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ تم کیا باتیں کر رہے ہو؟ ہم نے کہا کہ قیامت کا ذکر کرتے تھے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ قیامت قائم نہ ہو گی جب تک کہ دس نشانیاں اس سے پہلے نہیں دیکھ لو گے۔ پھر ذکر کیا دھوئیں کا، دجال کا، زمین کے جانور کا، سورج کے مغرب سے نکلنے کا، عیسیٰؑ کے اترنے کا، یاجوج ماجوج کے نکلنے کا، تین جگہ خسف کا یعنی زمین کا دھنسنا ایک مشرق میں، دوسرے مغرب میں، تیسرے جزیرۂ عرب میں۔ اور ان سب نشانیوں کے بعد ایک آگ پیدا ہو گی جو یمن سے نکلے گی اور لوگوں کو ہانکتی ہوئی محشر کی طرف لے جائے گی (محشر شام کی زمین ہے )۔

باب : اندھیری رات کی طرح (سخت) فتنوں سے پہلے ، (نیک) اعمال میں جلدی کرو۔

2038: سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جلدی جلدی نیک کام کر لو، ان فتنوں سے پہلے جو اندھیری رات کے حصوں کی طرح ہوں گے۔ صبح کو آدمی ایماندار ہو گا اور شام کو کافر۔ یا شام کو ایمان دار ہو گا اور صبح کو کافر ہو گا اور اپنے دین کو دنیا کے مال کے بدلے بیچ ڈالے گا۔

باب : چھ چیزوں سے پہلے (نیک) اعمال میں جلدی کرو۔

2039: سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: نیک اعمال کے کرنے میں چھ چیزوں سے پہلے جلدی کرو۔ ایک دجال، دوسرے دھواں، تیسرے زمین کا جانور، چوتھے سورج کا مغرب سے نکلنا، پانچویں قیامت اور چھٹے موت۔ (یعنی جب یہ باتیں آ جائیں گی تو نیک اعمال کا قابو جاتا رہے گا)۔

باب : خونریزی کے دَور میں عبادت کرنا۔

2040: سیدنا معقل بن یسارؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: فساد اور فتنے کے وقت عبادت کرنے کا اتنا ثواب ہے جیسے میرے پاس ہجرت کرنے کا۔

باب : ابن صیاد کے قصہ کے بارے میں۔

2041: سیدنا ابو سعیدخدریؓ  سے روایت ہے کہ ہم حج یا عمرہ کو نکلے اور ہمارے ساتھ ابن صائد بھی تھا۔ ایک منزل میں ہم اترے ، لوگ ادھر ادھر چلے گئے اور میں اور ابن صائد دونوں رہ گئے۔ مجھے اس وجہ سے اس سے سخت وحشت ہوئی کہ لوگ اس کے بارے میں جو کہا کرتے تھے (کہ دجال ہے ) ابن صائد اپنا اسباب لے کر آیا اور میرے اسباب کے ساتھ رکھ دیا (مجھے اور زیادہ وحشت ہوئی) میں نے کہا کہ گرمی بہت ہے اگر تو اپنا اسباب اس درخت کے نیچے رکھے تو بہتر ہے۔ اس نے ایسا ہی کیا۔ پھر ہمیں بکریاں دکھلائی دیں۔ ابن صائد گیا اور دودھ لے کر آیا اور کہنے لگا کہ ابو سعید! دودھ پی۔ میں نے کہا کہ گرمی بہت ہے اور دودھ گرم ہے اور دودھ نہ پینے کی اس کے سوا کوئی وجہ نہ تھی کہ مجھے اس کے ہاتھ سے پینا بُرا معلوم ہوا۔ ابن صائد نے کہا کہ اے ابو سعید! میں نے قصد کیا ہے کہ ایک رسی لوں اور درخت میں لٹکا کر اپنے آپ کو پھانسی دے لوں ان باتوں کی وجہ سے جو لوگ میرے حق میں کہتے ہیں۔ اے ابو سعید! رسول اللہﷺ کی حدیث اتنی کس سے پوشیدہ ہے جتنی تم انصار کے لوگوں سے پوشیدہ ہے۔ کیا تم سب لوگوں سے زیادہ رسول اللہﷺ کی حدیث کو نہیں جانتے ؟ کیا آپﷺ نے نہیں فرمایا کہ دجال کافر ہو گا اور میں تو مسلمان ہوں۔ آپﷺ نے یہ نہیں فرمایا کہ دجال لا ولد ہو گا اور میری اولاد مدینہ میں موجود ہے۔ کیا آپﷺ نے یہ نہیں فرمایا کہ دجال مدینہ میں اور مکہ میں نہ جائے گا اور میں مدینہ سے آ رہا ہوں اور مکہ کو جا رہا ہوں؟ سیدنا ابو سعیدؓ  نے کہا کہ (اس کی ایسی باتوں کی وجہ سے ) قریب تھا کہ میں اس کا طرفدار بن جاؤں (اور لوگوں کا اس کے بارے میں کہنا غلط سمجھوں) کہ پھر کہنے لگا البتہ اللہ کی قسم! میں دجال کو پہچانتا ہوں اور اس کے پیدائش کا مقام جانتا ہوں اور یہ بھی جانتا ہوں کہ اب وہ کہاں ہے۔ میں نے اس سے کہا کہ خرابی ہو تیری سارا دن (یعنی یہ تو نے کیا کہا کہ پھر مجھے تیری نسبت شبہ ہو گیا)۔

2042: سیدنا ابو سعید خدریؓ  سے روایت ہے کہ ابن صیاد نے رسول اللہﷺ سے پوچھا کہ جنت کی مٹی کیسی ہے ؟ آپﷺ نے فرمایا کہ سفید خالص، مشک کی طرح خوشبودار۔

2043: محمد بن منکدر سے روایت ہے کہ میں نے سیدنا جابر بن عبد اللہؓ  کو (اس پر) قسم کھاتے ہوئے دیکھا کہ ابن صائد دجال ہے۔ میں نے کہا کہ تم اللہ کی قسم کھاتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ میں نے سیدنا عمرؓ  کو دیکھا کہ وہ اس بات پر رسول اللہﷺ کے سامنے قسم کھاتے ہوئے سنا اور آپﷺ نے اس کا انکار نہ کیا۔

2044: سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ  سے روایت ہے کہ سیدنا عمرؓ  رسول اللہﷺ کے ساتھ چند لوگوں میں ابن صیاد کے پاس گئے حتی کہ اسے بنی مغالہ کے قلعے کے پاس لڑکوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے دیکھا ان دنوں ابن صیاد جوانی کے قریب تھا۔ اس کو خبر نہ ہوئی یہاں تک کہ رسول اللہﷺ نے اس کی پیٹھ پر اپنا ہاتھ مارا۔ پھر آپﷺ نے اس سے پوچھا کہ کیا تو اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں؟ ابن صیاد نے آپﷺ کی طرف دیکھا اور کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ تم اُمییّن کے رسول ہو (اُمّی کہتے ہیں ان پڑھ اور بے تعلیم کو)۔ پھر ابن صیاد نے رسول اللہﷺ سے کہا کہ تم اس بات کی گواہی دیتے ہو کہ میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں؟ رسول اللہﷺ نے اس بات کا کچھ جواب نہ دیا؟ (اور اس سے مسلمان ہونے کی درخواست نہ کی کیونکہ آپﷺ اس کے مسلمان ہونے سے مایوس ہو گئے اور ایک روایت میں صاد مہملہ سے یعنی آپﷺ نے اس کو لات سے مارا) اور فرمایا کہ میں اللہ پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لایا۔ پھر رسول اللہﷺ نے اس سے پوچھا کہ تجھے کیا دکھائی دیتا ہے ؟ وہ بولا کہ میرے پاس کبھی سچا آتا ہے اور کبھی جھوٹا۔             رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ تیرا کام گڑبڑ ہو گیا (یعنی مخلوط حق و باطل دونوں سے ) پھر آپﷺ نے فرمایا کہ میں نے تجھ سے پوچھنے کے لئے ایک بات دل میں چھپائی ہے۔ ابن صیاد نے کہا کہ وہ دُخ (دھواں) ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ ذلیل ہو، تو اپنی قدر سے کہاں بڑھ سکتا ہے ؟ سیدنا عمرؓ  نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ! مجھے چھوڑئیے میں اس کی گردن مارتا ہوں۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اگر یہ وہی (یعنی دجال) ہے تو تو اس کو مار نہ سکے گا اور اگر یہ وہ (دجال) نہیں ہے تو تجھے اس کا مارنا بہتر نہیں ہے۔ سیدنا سالم بن عبد اللہؓ  نے کہا کہ میں نے سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ  سے سنا کہ اس کے بعد رسول اللہﷺ اور سیدنا ابن ابی بن کعبؓ  اس باغ میں گئے جہاں ابن صیاد رہتا تھا۔ جب آپﷺ باغ میں گھسے تو کھجور کے درختوں کی آڑ میں چھپنے لگے تاکہ آپﷺ ابن صیاد کو دھوکہ دے کر اور اس کی کچھ باتیں سن سکیں۔ اس سے پہلے کہ ابن صیاد آپﷺ کو دیکھے ، رسول اللہﷺ نے ابن صیاد کو دیکھا کہ وہ ایک بچھونے پر لیٹا ہوا تھا اور کچھ نافہم باتیں گنگنا رہا تھا۔آپﷺ کھجور کے درختوں میں چھپ رہے تھے کہ اس کی ماں نے آپﷺ کو دیکھ کر اسے پکارا کہ اے صاف! (اور صاف ابن صیاد کا نام تھا)۔ یہ محمدﷺ آن پہنچے۔ یہ سنتے ہی ابن صیاد اٹھ کھڑا ہوا۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اگر وہ اس کو ایسا ہی رہنے دیتی تو اس کا معاملہ واضح ہو جاتا (تو ہم اس کی باتیں سنتے تو معلوم کرتے کہ وہ کاہن ہے یا ساحر)۔ سالم نے کہا کہ سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ  نے کہا کہ پھر رسول اللہﷺ لوگوں کے درمیان کھڑے ہوئے اور اللہ تعالیٰ کی تعریف کی جیسے اس کو لائق ہے ، پھر دجال کا ذکر کیا اور فرمایا کہ میں تمہیں اس سے ڈراتا ہوں اور کوئی نبی ایسا نہیں گزرا جس نے اپنی قوم کو دجال سے نہ ڈرایا ہو، یہاں تک کہ نوحؑ نے بھی (جن کا دَور بہت پہلے تھا) اپنی قوم کو اس سے ڈرایا۔ لیکن میں تم کو ایسی بات بتلائے دیتا ہوں جو کسی نبی نے اپنی قوم کو نہیں بتلائی، تم جان لو کہ وہ کانا ہو گا اور تمہارا اللہ برکت والا بلند، کانا نہیں ہے۔ (معاذ اللہ کانا پن ایک عیب ہے اور اللہ تعالیٰ ہر ایک عیب سے پاک ہے ) ابن شہاب نے کہا کہ مجھ سے عمر بن ثابت انصاری نے بیان کیا اور ان سے رسول اللہﷺ کے بعض اصحابؓ نے بیان کیا کہ جس روز رسول اللہﷺ نے لوگوں کو دجال سے ڈرایا تھا، یہ بھی فرمایا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان میں کافر لکھا ہو گا (یعنی حقیقتاً کا۔ ف۔ر۔ یہ حروف لکھے ہوں گے یا اس کے چہرے سے کفر اور شرارت نمایاں ہو گی) جس کو ہر وہ شخص پڑھ لے گا جو اس کے کاموں کو بُرا جانے گا یا اس کو ہر ایک مومن پڑھ لے گا اور آپﷺ نے فرمایا کہ تم یہ جان رکھو کہ تم میں سے کوئی بھی اپنے رب کو مرنے سے پہلے ہرگز نہیں دیکھ سکتا۔

2045: نافع سے روایت ہے کہ سیدنا ابن عمرؓ  کہتے تھے کہ میں ابن صیاد سے دو بار ملا ہوں۔ ایک بار ملا تو میں نے لوگوں سے کہا کہ تم کہتے تھے کہ ابن صیاد دجال ہے ؟۔ انہوں نے کہا کہ نہیں اللہ کی قسم۔ میں نے کہا کہ اللہ کی قسم! تم نے مجھے جھوٹا کیا۔ تم میں سے بعض لوگوں نے مجھ سے بیان کیا کہ وہ نہیں مرے گا، یہاں تک کہ تم سب میں زیادہ مالدار اور صاحبِ اولاد ہو گا، تو وہ آج کے دن ایسا ہی ہے۔ وہ کہتے ہیں پھر ابن صیاد نے ہم سے باتیں کیں۔ پھر میں ابن صیاد سے جدا ہوا۔ کہتے ہیں کہ جب دوبارہ ملا تو اس کی آنکھ پھولی ہوئی تھی۔ میں نے کہا کہ یہ تیری آنکھ کب سے ایسے ہے جو میں دیکھ رہا ہوں؟ وہ بولا کہ مجھے معلوم نہیں۔ میں نے کہا کہ آنکھ تیرے سر میں ہے اور تجھے معلوم نہیں؟ وہ بولا کہ اگر اللہ چاہے تو تیری اس لکڑی میں آنکھ پیدا کر دے۔ پھر ایسی آواز نکالی جیسے گدھا زور سے کرتا ہے۔ نافع نے کہا کہ سیدنا عبد اللہ بن عمر اُمّ المؤمنین (حفصہ رضی اللہ عنہا) کے پاس گئے اور ان سے یہ حال بیان کیا تو انہوں نے کہا کہ ابن صیاد سے تیرا کیا کام تھا؟ کیا تو نہیں جانتا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اوّل چیز جو دجال کو لوگوں پر بھیجے گی، وہ اس کا غصہ ہے (یعنی غصہ اس کو نکالے گا)۔

2046: سیدنا حذیفہؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: میں خوب جانتا ہوں کہ دجال کے ساتھ کیا ہو گا؟ اس کے ساتھ بہتی ہوئی دو نہریں ہوں گی، ایک تو دیکھنے میں سفید پانی معلوم ہو گی اور دوسری دیکھنے میں بھڑکتی ہوئی آگ معلوم ہو گی۔پھر جو کوئی یہ موقع پائے ، وہ اس نہر میں چلا جائے جو دیکھنے میں آگ معلوم ہوتی ہے اور اپنی آنکھ بند کر لے اور سر جھکا کر اس میں سے پئے ، وہ ٹھنڈا پانی ہو گا اور دجال کی ایک آنکھ بالکل چٹ ہو گی اس پر ایک موٹی پھُلی ہو گی اور اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان میں کافر لکھا ہو گا جس کو ہر مومن پڑھ لے گا خواہ وہ لکھنا جانتا ہو یا نہ جانتا ہو۔

2047: سیدنا حذیفہؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: دجال بائیں آنکھ کا کانا ہو گا، گھنے بالوں والا ہو گا۔ اس کے ساتھ باغ ہو گا اور آگ ہو گی۔ پس اس کی آگ تو باغ ہے اور اس کا باغ آگ ہے۔ (علماء نے کہا کہ یہ بھی اللہ تعالیٰ کی اپنے بندوں کے لئے ایک آزمائش ہے تاکہ حق کو حق کر دے اور جھوٹ کو جھوٹ پھر اس کو رسوا کرے اور لوگوں میں اس کی عاجزی ظاہر کرے )۔

2048: نواس بن سمعانؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ایک صبح کو دجال کا ذکر کیا تو کبھی اس کو گھٹایا اور کبھی بڑھایا (یعنی کبھی اس کی تحقیر کی اور کبھی اس کے فتنہ کو بڑا کہا یا کبھی بلند آواز سے گفتگو کی اور کبھی پست آواز سے )، یہاں تک کہ ہم نے گمان کیا کہ دجال کھجور کے درختوں کے جھنڈ میں ہے۔ پھر جب شام کے وقت ہم آپﷺ کے پاس گئے تو آپﷺ نے ہمارے چہروں پر اس کا اثر معلوم کیا (یعنی ڈر اور خوف)۔ آپﷺ نے فرمایا کہ تمہارا کیا حال ہے ؟ ہم نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ ! آپ نے دجال کا ذکر کیا اور اس کو گھٹایا اور بڑھایا، یہاں تک کہ ہمیں گمان ہو گیا کہ دجال ان کھجور کے درختوں میں موجود ہے (یعنی اس کا آنا بہت قریب ہے )۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ مجھے دجال کے سوا اور باتوں کا تم پر خوف زیادہ ہے (یعنی فتنوں کا اور آپس کی لڑائیوں کا)، اگر دجال نکلا اور میں تم لوگوں میں موجود ہوا تو تم سے پہلے میں اس کا مقابل ہوں گا (اس سے لڑائی کروں گا) اور تمہیں اسکے شر سے بچاؤں گا اور اگر وہ نکلا اور میں تم لوگوں میں موجود نہ ہوا تو ہر مردِ (مسلمان) اپنی طرف سے اس سے مقابلہ کرے گا اور اللہ تعالیٰ ہر مسلمان پر میرا خلیفہ اور نگہبان ہو گا۔ البتہ دجال تو جوان، گھونگھریالے بالوں والا ہے ، اس کی آنکھ ابھری ہوئی ہے گویا کہ میں اس کی مشابہت عبدالعزیٰ بن قطن کے ساتھ دیتا ہوں۔ پس تم میں سے جو شخص دجال کو پائے ، اس کو چاہئیے کہ سورۂ کہف کی شروع کی آیتیں اس پر پڑھے۔ یقیناً وہ شام اور عراق کے درمیان کی راہ سے نکلے گا تو اپنے دائیں اور بائیں ہاتھ فساد پھیلائے گا۔ اے اللہ کے بندو! ایمان پر قائم رہنا۔ صحابہؓ بولے کہ یا رسول اللہﷺ! وہ زمین پر کتنی مدت رہے گا؟ آپﷺ نے فرمایا کہ چالیس دن تک، ان میں سے ایک دن ایک سال کے برابر ہو گا، ایک دن ایک مہینے کے برابر، ایک دن ایک ہفتہ کے برابر اور باقی دن جیسے یہ تمہارے دن ہیں (تو ہمارے دنوں کے حساب سے دجال ایک برس دو مہینے اور چودہ دن تک رہے گا)۔ صحابہؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! جو دن سال بھر کے برابر ہو گا، اس دن ہمیں ایک ہی دن کی نمازیں کفایت کرے گی؟ آپﷺ نے فرمایا کہ نہیں، تم اس دن میں (سال کی نمازوں کا) (اب تو گھڑیاں بھی موجود ہیں ان سے وقت کا اندازہ بخوبی ہو سکتا ہے۔ نووی رحمۃاللہ علیہ نے کہا کہ اگر آپﷺ یوں صاف نہ فرماتے تو قیاس یہ تھا کہ اس دن صرف پانچ نمازیں پڑھنا کافی ہوتیں، کیونکہ ہر دن رات میں خواہ وہ کتنا ہی بڑا ہو، اللہ تعالیٰ نے پانچ نمازیں فرض کی ہیں مگر یہ قیاس نص سے ترک کیا گیا ہے۔ مترجم کہتا ہے کہ عرض تسعین میں، جو کہ خطِ استوا سے نوے درجہ پر واقع ہے اور جہاں کا افق معدل النہار ہے ، چھے مہینے کا دن اور چھے مہینے کی رات ہوتی ہے تو ایک دن رات سال بھر کا ہوتا ہے ، پس اگر بالفرض انسان وہاں پہنچ جائے اور زندہ رہے تو سال میں پانچ نمازیں پڑھنا ہوں گی)۔ صحابہؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! اس کی چال زمین میں کیسی ہو گی؟ آپﷺ نے فرمایا کہ اس بادل کی طرح جس کو ہوا پیچھے سے اڑاتی ہے۔ پس وہ ایک قوم کے پاس آئے گا اور ان کو دعوت دے گا،وہ اس پر ایمان لائیں گے اور اس کی بات مانیں گے۔پس وہ آسمان کو حکم کرے گا تو وہ پانی برسائے گا اور زمین کو حکم کرے گا تو وہ گھاس اور اناج اگا دے گی۔ شام کو ان کے جانور آئیں گے تو ان کے کوہان پہلے سے زیادہ لمبے ہوں گے ، تھن کشادہ ہوں گے اور کوکھیں تنی ہوئی (یعنی خوب موٹی ہو کر)۔ پھر دجال دوسری قوم کے پاس آئے گا۔ ان کو بھی دعوت دے گا، لیکن وہ اس کی بات کو نہ مانیں گے۔ تو ان کی طرف سے ہٹ جائے گا اور ان پر قحط سالی اور خشکی ہو گی۔ ان کے ہاتھوں میں ان کے مالوں سے کچھ نہ رہے گا۔ اور دجال ویران زمین پر نکلے گا تو اس سے کہے گا کہ اے زمین! اپنے خزانے نکال، تو وہاں کے مال اور خزانے نکل کر اس کے پاس ایسے جمع ہو جائیں گے جیسے شہد کی مکھیاں سردار مکھی کے گرد ہجوم کرتی ہیں۔ پھر دجال ایک جوان مرد کو بلائے گا اور اس کو تلوار مار کر دو ٹکڑے کر ڈالے گا جیسے نشانہ دو ٹوک ہو جاتا ہے ، پھر اس کو زندہ کر کے پکارے گا، پس وہ جوان دمکتے ہوئے چہرے کے ساتھ ہنستا ہوا سامنے آئے گا۔ سو دجال اسی حال میں ہو گا کہ اچانک اللہ تعالیٰ سیدنا عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کو بھیجے گا۔ عیسیٰؑ دمشق کے شہر میں مشرق کی طرف سفید مینار کے پاس اتریں گے ، وہ زرد رنگ کا جوڑا پہنے ہوئے ہوں گے اور اپنے دونوں ہاتھ دو فرشتوں کے بازوؤں پر رکھے ہوئے ہوں گے۔ جب عیسیٰؑ اپنا سر جھکائیں گے تو پسینہ ٹپکے گا اور جب اپنا سر اٹھائیں گے تو موتی کی طرح بوندیں بہیں گی۔ جس کافر تک عیسیٰؑ کے دم کی خوشبو پہنچے گی، وہ مر جائے گا اور ان کے دَم کا اثر وہاں تک پہنچے گا جہاں تک ان کی نظر پہنچے گی۔ پھر عیسیٰؑ دجال کو تلاش کریں گے یہاں تک کہ اس کو بابِ لُد (نامی پہاڑ جو کہ شام میں ہے ) پر موجود پا کر اس کو قتل کر دیں گے۔ پھر عیسیٰؑ کے پاس وہ لوگ آئیں گے جن کو اللہ تعالیٰ نے دجال کے شر سے بچایا ہو گا۔ پس وہ شفقت سے ان کے چہروں کو سہلائیں گے اور ان کو ان درجوں کی خبر دیں گے جو جنت میں ان کے رکھے ہیں۔ وہ اسی حال میں ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ عیسیٰؑ پر وحی بھیجے گا کہ میں نے اپنے ایسے بندے نکالے ہیں کہ کسی کو ان سے لڑنے کی طاقت نہیں، تم میرے مسلمان بندوں کو طُور (پہاڑ) کی طرف پناہ میں لے جاؤ اور اللہ تعالیٰ یاجوج اور ماجوج کو بھیجے گا اور وہ ہر ایک اونچان سے نکل پڑیں گے۔ ان کے پہلے لوگ طبرستان کے دریا پر گزریں گے اور اس کا سارا پانی پی لیں گے۔ پھر ان میں سے پچھلے لوگ جب وہاں آئیں گے تو کہیں گے کہ کبھی اس دریا میں پانی بھی تھا۔ (پھر چلیں گے یہاں تک کہ اس پہاڑ تک پہنچیں گے جہاں درختوں کی کثرت ہے یعنی بیت المقدس کا پہاڑ تو وہ کہیں گے کہ البتہ ہم زمین والوں کو تو قتل کر چکے ، اب آؤ آسمان والوں کو قتل کریں تو اپنے تیر آسمان کی طرف چلائیں گے۔ اللہ تعالیٰ ان تیروں کو خون میں بھر کر لوٹا دے گا، وہ یہ سمجھیں گے کہ آسمان کے لوگ بھی مارے گئے یہ مضمون اس روایت میں نہیں ہے بلکہ اس کے بعد کی روایت سے لیا گیا ہے ) اور اللہ تعالیٰ کے پیغمبر عیسیٰؑ اور ان کے اصحاب بند رہیں گے یہاں تک کہ ان کے نزدیک بیل کا سر تمہاری آج کی سو اشرفی سے افضل ہو گا (یعنی کھانے کی نہایت تنگی ہو گی)۔ پھر اللہ کے پیغمبر عیسیٰؑ اور ان کے ساتھی دعا کریں گے ، پس اللہ تعالیٰ یاجوج اور ماجوج کے لوگوں پر عذاب بھیجے گا تو ان کی گردنوں میں کیڑا پیدا ہو گا تو صبح تک سب مر جائیں گے جیسے ایک آدمی مرتا ہے۔ پھر اللہ کے رسول عیسیٰؑ اور ان کے ساتھی زمین پر اتریں گے تو زمین میں ایک بالشت برابر جگہ ان کی سڑاند اور گندگی سے خالی نہ پائیں گے (یعنی تمام زمین پر ان کی سڑی ہوئی لاشیں پڑی ہوں گی)پھر اللہ کے رسول عیسیٰؑ اور ان کے ساتھی اللہ سے دعا کریں گے تو اللہ تعالیٰ بڑے اونٹوں کی گردن کے برابر پرندے بھیجے گا، وہ ان کو اٹھا لے جائیں گے اور وہاں پھینک دیں گے جہاں اللہ کا حکم ہو گا، پھر اللہ تعالیٰ ایسا پانی برسائے گا کہ پھر زمین کو حکم ہو گا کہ اپنے پھل جما اور اپنی برکت کو پھیر دے اور اس دن ایک انار کو ایک گروہ کھائے گا اور اس کے چھلکے کو بنگلہ سا بنا کر اس کے سایہ میں بیٹھیں گے اور دودھ میں برکت ہو گی، یہاں تک کہ دودھ والی اونٹنی آدمیوں کے بڑے گروہ کو کفایت کرے گی اور دودھ والی گائے ایک برادری کے لوگوں کو کفایت کرے گی اور دودھ والی بکری ایک پورے خاندان کو کفایت کرے گی۔ پس لوگ اسی حالت میں ہوں گے کہ یکایک اللہ تعالیٰ ایک پاک ہوا بھیجے گا، وہ ان کی بغلوں کے نیچے لگے گی اور اثر کر جائے گی تو ہر مومن اور مسلم کی روح کو قبض کرے گی اور بُرے بد ذات لوگ باقی رہ جائیں گے ، گدھوں کی طرح سر عام عورتوں سے جماع کریں گے اور ان پر قیامت قائم ہو گی۔

2049: سیدنا ابو سعید خدریؓ  سے روایت ہے کہ ہم سے رسول اللہﷺ نے دجال کے ذکر میں ایک لمبی حدیث بیان کی اور اس میں یہ بھی بیان کیا کہ اس پر مدینہ کی گھاٹی میں گھسنا حرام ہو گا اور وہ مدینہ کے قریب ایک پتھریلی زمین پر آئے گا۔ پھر اس کے پاس ایک شخص جائے گا جو سب لوگوں میں بہتر ہو گا، وہ کہے گا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ تو وہی دجال ہے جس کا ذکر جناب رسول اللہﷺ نے اپنی حدیث میں کیا ہے۔ دجال لوگوں سے کہے گا کہ بھلا اگر میں اس کو مار ڈالوں، پھر زندہ کر دوں تو کیا تمہیں اس بارے میں کچھ شک رہے گا؟ وہ کہیں گے کہ نہیں۔ دجال اس شخص کو قتل کرے گا اور پھر اس کو زندہ کر دے گا۔ پس جب وہ اس کو زندہ کرے گا تو کہے گا کہ اللہ کی قسم! مجھے پہلے تیرے بارے میں اتنا یقین نہ تھا جتنا اب ہے۔ (یعنی اب تو یقین ہو گیا کہ تو دجال ہے ) پھر دجال اس کو قتل کرنا چاہے گا لیکن قتل نہ کر سکے گا۔ راوی ابو اسحٰق نے کہا کہ یہ آدمی خضرؑ ہیں۔ (لیکن یہ ثابت نہیں ہے بلکہ دلائل اس پر شاہد ہیں کہ خضرؑ وفات پا چکے ہیں)۔

2050: سیدنا ابو سعید خدریؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: دجال نکلے گا اور مسلمانوں میں سے ایک شخص اس کی طرف چلے گا تو راستے میں اس کو دجال کے ہتھیار بند لوگ ملیں گے۔ وہ اس سے پوچھیں گے کہ تو کہاں جاتا ہے ؟ وہ بولے گا کہ میں اسی شخص کے پاس جاتا ہوں جو نکلا ہے۔ وہ کہیں گے کہ تو کیا ہمارے مالک پر ایمان نہیں لایا؟ وہ کہے گا کہ ہمارا مالک چھپا نہیں ہے۔ دجال کے لوگ کہیں گے کہ اس کو مار ڈالو۔ پھر آپس میں کہیں گے کہ ہمارے مالک نے تو کسی کو مارنے سے منع کیا ہے جب تک اس کے سامنے نہ لے جائیں، پھر اس کو دجال کے پاس لے جائیں گے۔ جب وہ دجال کو دیکھے گا تو کہے گا جہ اے لوگو! یہ وہی دجال ہے جس کی خبر رسول اللہﷺ نے دی تھی۔ دجال اپنے لوگوں کو حکم دے گا تو اس کے سر اور پیٹھ اور پیٹ پر مارا جائے گا۔ پھر وہ کہے گا کہ اس کو پکڑو اور اس کا سر پھوڑ دو۔ پھر دجال اس سے پوچھے گا کہ تو میرے اوپر (یعنی میری خدائی پر) یقین نہیں کرتا؟ وہ کہے گا کہ تو جھوٹا مسیح ہے۔ پھر دجال حکم دے گا تو وہ آرے سے سر سے لے کر دونوں پاؤں تک چیرا جائے گا، یہاں تک کہ دو ٹکڑے ہو جائے گا۔ پھر دجال ان دونوں ٹکڑوں کے بیچ میں جائے گا اور کہے گا کہ اٹھ کھڑا ہو۔ وہ شخص (زندہ ہو کر سیدھا) اٹھ کر کھڑا ہو جائے گا۔ پھر اس سے پوچھے گا کہ اب تو میرے اوپر ایمان لایا؟ وہ کہے گا کہ مجھے تو اور زیادہ یقین ہوا کہ تو دجال ہے۔ پھر لوگوں سے کہے گا کہ اے لوگو! اب دجال میرے سوا کسی اور سے یہ کام نہ کر سکے گا (یعنی اب کسی کو جِلا نہیں سکتا)۔ پھر دجال اس کو ذبح کرنے کے لئے پکڑے گا تو اس کے گلے سے لے کر ہنسلی تک تانبے کا بَن جائے گا اور وہ اسے ذبح نہ کر سکے گا، پھر اس کے ہاتھ پاؤں پکڑ کر پھینک دے گا۔ لوگ سمجھیں گے کہ اس کو آگ میں پھینک دیا حالانکہ وہ جنت میں ڈالا جائے گا۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ یہ شخص سب لوگوں میں اللہ رب العالمین کے نزدیک بڑا شہید ہے۔

2051: سیدنا مغیرہ بن شعبہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ سے کسی نے دجال کے بارے میں اتنا نہیں پوچھا جتنا میں نے پوچھا۔ حتی کہ آپﷺ نے فرمایا کہ تو کیوں فکر کرتا ہے ؟ دجال تجھے نقصان نہ پہنچائے گا۔ میں نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ! لوگ کہتے ہیں کہ اس کے ساتھ کھانا ہو گا اور نہریں ہوں گی؟ آپﷺ نے فرمایا کہ ہو گا، لیکن اللہ تعالیٰ پر تو اس سے زیادہ آسان ہے (اللہ تعالیٰ اس کو اس سے بھی زیادہ اختیار دے سکتا ہے اس پر کیا مشکل ہے ، یعنی جو اس کے پاس ہو گا وہ اس سے مومنوں کو گمراہ نہ کر سکے گا)۔

2052: سیدنا نعمان بن سالم کہتے ہیں کہ میں نے یعقوب بن عاصم بن عروہ بن مسعود ثقفی سے سنا وہ کہتے تھے کہ میں نے عبد اللہ بن عمروؓ سے سنا، اور ان کے پاس ایک آدمی آیا اور کہنے لگا کہ یہ حدیث کیا ہے جو تم بیان کرتے ہو کہ قیامت اتنی مدت میں ہو گی۔ انہوں نے (تعجب سے ) کہا کہ سبحان اللّٰہ یا لا الٰہ الا اللّٰہ یا اسی طرح کا کوئی اور کلمہ کہا اور پھر کہنے لگے کہ میرا خیال ہے کہ اب میں کسی سے کوئی حدیث بیان نہ کروں (کیونکہ لوگ کچھ کہتے ہیں اور مجھے بدنام کرتے ہیں)۔ میں نے تو یہ کہا تھا کہ تم تھوڑے دنوں کے بعد ایک بڑا حادثہ دیکھو گے جو گھر کو جلائے گا اور وہ ضرور ہو گا۔ پھر کہا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ میری امت میں دجال نکلے گا اور چالیس تک رہے گا۔ میں نہیں جانتا کہ چالیس دن فرمایا یا چالیس مہینے یا چالیس برس۔ پھر اللہ تعالیٰ عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کو بھیجے گا اور ان کی شکل و صورت عروہ بن مسعود کی سی ہے۔ وہ دجال کو ڈھونڈھیں گے اور اس کو قتل کریں گے پھر سات برس تک لوگ ایسے رہیں گے کہ دو آدمیوں میں کوئی دشمنی نہ ہو گی۔ پھر اللہ تعالیٰ شام کی طرف سے ایک ٹھنڈی ہوا بھیجے گا تو زمین پر کوئی ایسا نہ رہے گا جس کے دل میں رتی برابر ایمان یا بھلائی ہو مگر یہ ہوا اس کی جان نکال لے گی، یہاں تک کہ اگر کوئی تم میں سے پہاڑ کے کلیجہ میں گھس جائے تو وہاں بھی یہ ہوا پہنچ کر اس کی جان نکال لے گی۔ سیدنا عبد اللہؓ  نے کہا کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا، آپﷺ فرماتے تھے کہ پھر بُرے لوگ دنیا میں رہ جائیں گے ، چڑیوں کی طرح جلد باز یا بے عقل اور درندوں کی طرح ان کے اخلاق ہوں گے۔ نہ وہ اچھی بات کو اچھا سمجھیں گے اور نہ بُری بات کو بُرا۔ پھر شیطان ایک صورت بنا کر ان کے پاس آئے گا اور کہے گا کہ کیا تم میری بات کو قبول نہیں کرتے ؟ وہ کہیں گے کہ پھر تو ہمیں کیا حکم دیتا ہے ؟ شیطان کہے گا کہ بت پرستی کرو۔ وہ بت پوجیں گے اور اس کے باوجود ان کی روزی کشادہ ہو گی اور مزے سے زندگی گزاریں گے۔ پھر صُور پھونکا جائے گا اور اس کو کوئی نہ سنے گا مگر ایک طرف سے گردن جھکائے گا اور دوسری طرف سے اٹھے گا (یعنی بیہوش ہو کر گر پڑے گا) اور سب سے پہلے صُور کو وہ سنے گا جو اپنے اونٹوں کے حوض کو لیپ رہا ہو گا۔ وہ بیہوش ہو جائے گا اور دوسرے لوگ بھی بیہوش ہو جائیں گے۔ پھر اللہ تعالیٰ پانی برسائے گا جو نطفہ کی طرح ہو گا، اس سے لوگوں کے بدن اُگ آئیں گے۔ پھر صُور پھونکا جائے گا تو سب لوگ کھڑے ہوئے دیکھ رہے ہوں گے۔ پھر پکارا جائے گا کہ اے لوگو! اپنے مالک کے پاس آؤ ”اور ان کو کھڑا کرو، بیشک ان سے سوال ہو گا“ (الصافات: 24)۔ پھر کہا جائے گا کہ ایک لشکر کو دوزخ کے لئے نکال لو۔ پوچھا جائے گا کہ کتنے لوگ؟ حکم ہو گا کہ ہر ہزار میں سے نو سو ننانوے (اور ہر ہزار میں سے ایک جنتی ہو گا) آپﷺ نے فرمایا کہ یہی وہ دن ہے جو بچوں کو (ہیبت اور مصیبت سے یا درازی سے ) بوڑھا کر دے گا اور یہی وہ دن ہے جب پنڈلی کھلے گی (یعنی سختی ہو گی یا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اپنی پنڈلی ظاہر کرے گا جس سے مومن سجدے میں گر جائیں گے )۔

باب : (قیامت کی) نشانیوں میں سے پہلی یہ ہے کہ سورج مغرب کی طرف سے طلوع ہو گا۔

2053: سیدنا عبد اللہ بن عمروؓ  کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے ایک حدیث یاد رکھی ہے جس کو میں کبھی نہیں بھولا۔ میں نے سنا، آپﷺ فرماتے تھے کہ قیامت کی پہلی نشانیوں میں سے سورج کا مغرب کی طرف سے نکلنا ہے اور چاشت کے وقت لوگوں پر زمین کے جانور کا نکلنا ہے اور جو نشانی ان دونوں میں پہلے ہو گی تو دوسری بھی اس کے بعد جلد ہی ظاہر ہو گی۔

باب : دجال کی صفت، اس کے (دنیا میں) نکلنے اور جساسہ کی حدیث کے متعلق۔

2054: سیدنا عامر بن شراحیل شعبی (شعب ہمدان) سے روایت ہے ، انہوں نے فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا سے جو کہ سیدنا ضحاک بن قیسؓ  کی بہن تھیں اور ان عورتوں میں سے تھیں جنہوں نے پہلے ہجرت کی تھی، کہا کہ مجھ سے ایک ایسی حدیث بیان کرو جو تم نے رسول اللہﷺ  سے بلاواسطہ سنی ہو۔ وہ بولیں کہ اچھا، اگر تم یہ چاہتے ہو تو میں بیان کروں گی۔ انہوں نے کہا کہ ہاں بیان کرو۔ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ میں نے ابن مغیرہ سے نکاح کیا اور وہ ان دنوں قریش کے عمدہ جوانوں میں سے تھے ، پھر وہ رسول اللہﷺ کے ساتھ پہلے ہی جہاد میں شہید ہو گئے۔ جب میں بیوہ ہو گئی تو مجھے عبدالرحمن بن عوفؓ  نے رسول اللہﷺ کے صحابہ میں سے چند کے ساتھ آ کر نکاح کا پیغام دیا۔ اور رسول اللہﷺ نے اپنے مولیٰ اسامہ بن زیدؓ  کے لئے پیغام بھیجا۔ اور میں رسول اللہﷺ یہ حدیث سن چکی تھی کہ جو شخص مجھ سے محبت رکھے ، اس کو چاہئیے کہ اسامہؓ  سے بھی محبت رکھے۔ جب رسول اللہﷺ نے مجھ سے اس بارے میں گفتگو کی تو میں نے کہا کہ میرے کام کا اختیار آپﷺ کو ہے ، آپﷺ جس سے چاہیں نکاح کر دیجئے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ تم اُمّ شریک کے گھر چلی جاؤ اور اُمّ شریک انصار میں ایک مالدار عورت تھی اور اللہ کی راہ میں بہت زیادہ خرچ کرتی تھیں، اس کے پاس مہمان اترتے تھے۔ میں نے عرض کیا کہ بہت اچھا، میں اُمّ شریک کے پاس چلی جاؤں گی۔ پھر آپﷺ نے فرمایا کہ اُمّ شریک کے پاس مت جا اس کے پاس مہمان بہت آتے ہیں اور مجھے بُرا معلوم ہوتا ہے کہ کہیں تیری اوڑھنی گر جائے یا تیری پنڈلیوں پر سے کپڑا ہٹ جائے اور لوگ تیرے بدن میں سے وہ دیکھیں جو تجھے بُرا لگے گا۔ تم اپنے چچا کے بیٹے عبد اللہ بن عمرو ابن اُمّ مکتوم کے پاس چلی جاؤ اور وہ بنی فہر میں سے ایک شخص تھا اور فہر قریش کی ایک شاخ ہے اور وہ اس قبیلہ میں سے تھا جس میں سے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا بھی تھیں۔پھر سیدہ فاطمہ نے کہا کہ میں ان کے گھر میں چلی گئی۔ جب میری عدت گزر گئی تو میں نے پکارنے والے کی آواز سنی اور وہ پکارنے والا رسول اللہﷺ کا منادی تھا، وہ پکار رہا تھا کہ نماز کے لئے جمع ہو جاؤ۔ میں بھی مسجد کی طرف نکلی اور میں نے رسول اللہﷺ کے ساتھ نماز پڑھی۔ میں اس صف میں تھی جس میں عورتیں لوگوں کے پیچھے تھیں۔ جب آپﷺ نے نماز پڑھ لی تو منبر پر بیٹھے اور آپﷺ ہنس رہے تھے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ ہر ایک آدمی اپنی نماز کی جگہ پر رہے۔ پھر فرمایا کہ تم جانتے ہو کہ میں نے تمہیں کیوں اکٹھا کیا ہے ؟ صحابہ بولے کہ اللہ اور اس کا رسولﷺ خوب جانتے ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ اللہ کی قسم میں نے تمہیں رغبت دلانے یا ڈرانے کے لئے جمع نہیں کیا، بلکہ اس لئے جمع کیا کہ تمیم داری ایک نصرانی تھا، وہ آیا اور اس نے بیعت کی اور مسلمان ہوا اور مجھ سے ایک حدیث بیان کی جو اس حدیث کے موافق ہے جو میں تم سے دجال کے بارے میں بیان کیا کرتا تھا۔ اس نے بیان کیا کہ وہ یعنی تمیم سمندر کے جہاز میں تیس آدمیوں کے ساتھ سوار ہوا جو لخم اور جذام کی قوم میں سے تھے ، پس ان سے ایک مہینہ بھر سمندر کی لہریں کھیلتی رہیں۔ پھر وہ لوگ سمندر میں ڈوبتے سورج کی طرف ایک جزیرے کے کنارے جا لگے۔ پس وہ جہاز سے پلوار (یعنی چھوٹی کشتی) میں بیٹھے اور جزیرے میں داخل ہو گئے وہاں ان کو ایک جانور ملا جو کہ بھاری دُم، بہت بالوں والا کہ اس کا اگلا چھلا حصہ بالوں کے ہجوم سے معلوم نہ ہوتا تھا۔ لوگوں نے اس سے کہا کہ اے کمبخت تو کیا چیز ہے ؟ اس نے کہا کہ میں جاسوس ہوں۔ لوگوں نے کہا کہ جاسوس کیا؟ اس نے کہا کہ اس مرد کے پاس چلو جو دیر میں ہے ، کہ وہ تمہاری خبر کا بہت مشتاق ہے۔ تمیمؓ  نے کہا کہ جب اس نے مرد کا نام لیا تو ہم اس جانور سے ڈرے کہ کہیں شیطان نہ ہو۔ تمیم نے کہا کہ پھر ہم دوڑتے ہوئے (یعنی جلدی) دیر میں داخل ہوئے۔ دیکھا تو وہاں ایک بڑے قد کا آدمی ہے کہ ہم نے اتنا بڑا آدمی اور ویسا سخت جکڑا ہوا کبھی نہیں دیکھا۔ اس کے دونوں ہاتھ گردن کے ساتھ بندھے ہوئے تھے اور دونوں زانوں سے ٹخنوں تک لوہے سے جکڑا ہوا تھا۔ ہم نے کہا کہ اے کمبخت! تو کیا چیز ہ        ے ؟ اس نے کہا تم میری خبر پر قابو پا گئے ہو (یعنی میرا حال تو تم کو اب معلوم ہو جائے گا)، تم اپنا حال بتاؤ کہ تم کون ہو؟ لوگوں نے کہا کہ ہم عرب لوگ ہیں، سمندر میں جہاز میں سوار ہوئے تھے ، لیکن جب ہم سوار ہوئے تو سمندر کو جوش میں پایا پھر ایک مہینے کی مدت تک لہر ہم سے کھیلتی رہی، پھر ہم اس جزیرے میں آ لگے تو چھوٹی کشتی میں بیٹھ کر جزیرے میں داخل ہوئے ، پس ہمیں ایک بھاری دُم کا اور بہت بالوں والا جانور ملا، ہم اس کے بالوں کی کثرت کی وجہ سے اس کا اگلا پچھلا حصہ نہ پہچانتے تھے۔ ہم نے اس سے کہا کہ اے کمبخت! تو کیا چیز ہے ؟ اس نے کہا کہ میں جاسوس ہوں۔ ہم نے کہا کہ جاسوس کیا؟ اس نے کہا کہ اس مرد کے پاس چلو جو دیر میں ہے اور وہ تمہاری خبر کا بہت مشتاق ہے۔ پس ہم تیری طرف دوڑتے ہوئے آئے اور ہم اس سے ڈرے کہ کہیں بھوت پریت نہ ہو۔ پھر اس مرد نے کہا کہ مجھے بیسان کے نخلستان کی خبر دو۔ ہم نے کہا کہ تو اس کا کونسا حال پوچھتا ہے ؟ اس نے کہا کہ میں اس کے نخلستان کے بارے میں پوچھتا ہوں کہ پھلتا ہے ؟ ہم نے اس سے کہا کہ ہاں پھلتا ہے۔ اس نے کہا کہ خبردار رہو عنقریب وہ نہ پھلے گا۔ اس نے کہا کہ مجھے طبرستان کے دریا کے بارے میں بتلاؤ۔ ہم نے کہا کہ تو اس دریا کا کونسا حال پوچھتا ہے ؟ وہ بولا کہ اس میں پانی ہے ؟ لوگوں نے کہا کہ اس میں بہت پانی ہے۔ اس نے کہا کہ البتہ اس کا پانی عنقریب ختم ہو جائے گا۔ پھر اس نے کہا کہ مجھے زغر کے چشمے کے بارے میں خبر دو۔ لوگوں نے کہا کہ اس کا کیا حال پوچھتا ہے ؟ اس نے کہا کہ اس چشمہ میں پانی ہے اور وہاں کے لوگ اس پانی سے کھیتی کرتے ہیں؟ ہم نے اس سے کہا کہ ہاں! اس میں بہت پانی ہے اور وہاں کے لوگ اس کے پانی سے کھیتی کرتے ہیں۔ اس نے کہا کہ مجھے امییّن کے پیغمبر کے بارے میں خبر دو کہ وہ کیا رہے ؟ لوگوں نے کہا کہ وہ مکہ سے نکلے ہیں اور مدینہ میں گئے ہیں۔ اس نے کہا کہ کیا عرب کے لوگ ان سے لڑے ؟ ہم نے کہا کہ ہاں۔ اس نے کہا کہ انہوں نے عربوں کے ساتھ کیا کیا؟ ہم نے کہا کہ وہ اپنے گردو پیش کے عربوں پر غالب ہوئے اور انہوں نے ان کی اطاعت کی۔ اس نے کہا کہ یہ بات ہو چکی؟ ہم نے کہا کہ ہاں۔ اس نے کہا کہ خبردار رہو یہ بات ان کے حق میں بہتر ہے کہ پیغمبر کے تابعدار ہوں۔ اور البتہ میں تم سے اپنا حال کہتا ہوں کہ میں مسیح (دجال) ہوں۔ اور البتہ وہ زمانہ قریب ہے کہ جب مجھے نکلنے کی اجازت ہو گی۔ پس میں نکلوں گا اور سیر کروں گا اور کسی بستی کو نہ چھوڑوں گا جہاں چالیس رات کے اندر نہ جاؤں، سوائے مکہ اور طیبہ کے ، کہ وہاں جانا مجھ پر حرام ہے یعنی منع ہے۔ جب میں ان دونوں بستیوں میں سے کسی کے اندر جانا چاہوں گا تو میرے آگے ایک فرشتہ بڑھ آئے گا اور اسکے ہاتھ میں ننگی تلوار ہو گی، وہ مجھے وہاں جانے سے روک دے گا اور البتہ اس کے ہرایک ناکہ پر فرشتے ہوں گے جو اس کی چوکیداری کریں گے۔ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ پھر نبیﷺ نے اپنی چھڑی منبر پر مار کر فرمایا کہ طیبہ یہی ہے ، طیبہ یہی ہے ، طیبہ یہی ہے۔ یعنی طیبہ سے مراد مدینہ منورہ ہے۔ خبردار رہو! بھلا میں تم کو اس حال کی خبر دے نہیں چکا ہوں؟ تو  اصحابؓ نے کہا کہ ہاں۔ نبیﷺ نے فرمایا کہ مجھے تمیمؓ  کی بات اچھی لگی جو اس چیز کے موافق ہوئی جو میں نے تم لوگوں سے دجال اور مدینہ اور مکہ کے حال سے فرما دیا تھا۔ خبردار ہو کہ وہ شام یا یمن کے سمندر میں ہے ؟ نہیں بلکہ وہ مشرق کی طرف ہے ، وہ مشرق کی طرف ہے ، وہ مشرق کی طرف ہے (مشرق کی طرف بحر ہند ہے شاید دجال بحر ہند کے کسی جزیرہ میں ہو)اور آپﷺ نے مشرق کی طرف اشارہ کیا۔ سیدہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا نے کہا کہ یہ حدیث میں نے رسول اللہﷺ سے یاد رکھی ہے۔

2055: سیدنا انس بن مالکؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: کوئی شہر ایسا نہیں ہے جس میں دجال نہ آئے سوائے مکہ اور مدینہ کے اور کوئی راستہ نہیں ہو گا مگر فرشتے ان کے ہر راستے پر صف باندھے کھڑے ہوں گے اور چوکیداری کریں گے۔ پھر دجال (مدینہ کے قریب) سبخۃ مقام پر اترے گا اور مدینہ تین بار کانپے گا (یعنی تین بار اس میں زلزلہ ہو گا) اور جو اس میں کافر یا منافق ہو گا،وہ نکل کر دجال کے پاس چلا جائے گا۔

باب : اصبہان شہر کے ستر ہزار یہودی دجال کی پیروی کریں گے۔

2056: سیدنا انس بن مالکؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اصفہان کے ستر ہزار یہودی سیاہ چادریں اوڑھے ہوئے دجال کی پیروی کریں گے۔

باب : لوگوں کا دجال سے بھاگ کر پہاڑوں میں چلے جانے کے متعلق۔

2057: سیدہ اُمّ شریک رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے نبیﷺ سے سنا، آپﷺ فرماتے تھے کہ لوگ دجال سے (بچنے کے لئے ) پہاڑوں میں بھاگ جائیں گے۔ اُمّ شریک رضی اللہ عنہا نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ! عرب کے لوگ اس دن کہاں ہوں گے ؟ (یعنی وہ دجال سے مقابلہ کیوں نہ کریں گے ؟) آپﷺ نے فرمایا کہ عرب ان دنوں تھوڑے ہوں گے (اور دجال کے ساتھی کروڑوں)۔

باب : آدمؑ کی پیدائش سے قیامت تک دجال سے (شر و فساد کے لحاظ سے ) بڑی کوئی مخلوق نہیں ہے۔

2058: حمید بن ھلال ایک گروہ سے جن میں ابو الدہما اور ابو قتادہ بھی شامل تھے ، سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ ہم سیدنا ہشام بن عامرؓ  کے سامنے سیدنا عمران بن حصینؓ  کے پاس جایا کرتے تھے۔ ایک دن سیدنا ہشامؓ  نے کہا کہ تم آگے بڑھ کر ایسے لوگوں کے پاس جاتے ہو جو مجھ سے زیادہ رسول اللہﷺ کے پاس حاضر نہیں رہتے تھے اور نہ آپﷺ کی حدیث کو مجھ سے زیادہ جانتے ہیں۔ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا آپﷺ فرماتے تھے کہ آدمؑ کے وقت سے لیکر قیامت تک کوئی مخلوق (شر و فساد میں) دجال سے بڑی نہیں ہے (سب سے زیادہ مفسد اور شریر دجال ہے )۔

باب : عیسیٰؑ کا نازل ہونا اور صلیب کا توڑنا اور خنزیر کا قتل کرنا۔

2059: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ”اللہ کی قسم! مریم علیہا السلام کے بیٹے (آسمان سے ) اتریں گے اور وہ حاکم ہوں گے ، عدل کریں گے ، صلیب کو توڑ ڈالیں گے اور خنزیر کو مار ڈالیں گے اور جزیہ لینا موقوف کر دیں گے۔ اور جوان اونٹ کو چھوڑ دیا جائے گا، پھر کوئی اس پر محنت نہ کرے گا۔ اور لوگوں کے دلوں میں سے بخل، دشمنی اور حسد جاتے رہیں گے اور وہ لوگوں کو مال دینے کے لئے بلائیں گے لیکن کوئی قبول نہ کرے گا۔ (اس وجہ سے کہ حاجت نہ ہو گی اور مال کثرت سے ہر ایک کے پاس ہو گا)۔

2060: سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: تمہارا کیا حال ہو گا جب مریم علیہا السلام کے بیٹے (آسمان سے ) اتریں گے ، پھر تم لوگوں میں سے ہی تمہارے لوگ امامت کریں گے۔ (راوی ولید بن مسلم نے کہا) میں نے ابن ابی ذئب سے کہا مجھ سے اوزاعی نے حدیث بیان کی زہری سے ، انہوں نے نافع سے اور انہوں نے ابو ہریرہؓ  سے ، اس میں یہ ہے کہ تمہارا امام تم ہی میں سے ہو گا۔ ابن ابی ذئب نے کہا تو جانتا ہے کہ اس کا مطلب کیا ہے کہ تمہاری امامت تمہی لوگوں میں سے کریں گے ؟۔ میں نے کہا کہ آپ ہی بتلائیے تو انہوں نے کہا عیسیٰؑ تمہارے پروردگار کی کتاب (یعنی قرآن مجید) اور تمہارے پیغمبر کی سنت سے تمہاری امامت کریں گے۔

2061: سیدنا جابر بن عبد اللہؓ  کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا، آپﷺ فرماتے تھے کہ قیامت تک میری امت میں سے ایک گروہ (کافروں اور مخالفوں سے ) ہمیشہ حق (بات) پر لڑتا رہے گا، وہ (گروہ) غالب رہے گا۔ پھر عیسیٰ بن مریم علیہما السلام اتریں گے اور اس گروہ کا امام (عیسیٰؑ سے ) کہے گا کہ آئیے نماز پڑھائیے۔ وہ کہیں گے نہیں، تم میں سے ایک دوسروں پر حاکم رہیں۔ یہ وہ بزرگی ہے جو اللہ تعالیٰ اس امت کو عنایت فرمائے گا۔

باب : میں قیامت کے ساتھ اس طرح بھیجا گیا ہوں۔

2062: سیدنا سہل بن سعدؓ  کہتے ہیں کہ میں نے نبیﷺ سے سنا، آپﷺ اپنی اس انگلی سے اشارہ کرتے تھے جو انگوٹھے اور درمیان کی انگلی سے نزدیک ہے اور فرماتے تھے کہ میں اور قیامت اس طرح ساتھ ساتھ بھیجے گئے ہیں

باب : قیامت برپا ہونے کا قریب ہونا۔

2063: سیدنا انس بن مالکؓ  سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے نبیﷺ سے سوال کیا کہ قیامت کب ہو گی؟ آپﷺ تھوڑی دیر خاموش رہے ، پھر آپﷺ نے اس بچے کی طرف جو از دشنوء ۃ میں سے آپﷺ کے سامنے بیٹھا ہوا تھا، دیکھ کر فرمایا کہ اگر اس بچہ کی عمر لمبی ہوئی تو یہ بوڑھا نہ ہو گا، یہاں تک کہ تیری قیامت قائم ہو جائے گی۔ سیدنا انسؓ  نے کہا کہ یہ لڑکا اس دن میرا ہم عمر تھا۔

2064: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ ؓ کہتی ہیں کہ دیہاتی جب رسول اللہﷺ کے پاس آتے تو قیامت کے بارے میں پوچھتے کہ وہ کب ہو گی؟ آپﷺ ان میں سے کم عمر کو دیکھتے اور فرماتے کہ اگر یہ جئے گا تو بوڑھا نہ ہو گا، یہاں تک کہ تمہاری قیامت قائم ہو جائے گی (کیونکہ تمہاری قیامت یہی ہے کہ تم مر جاؤ۔ مراد قیامتِ صغریٰ ہے اور وہ موت ہے )۔

باب : آدمی دودھ دوہتا ہو گا کہ قیامت قائم ہو گی اور ابھی دودھ اس کے منہ تک نہ پہنچا ہو گا کہ قیامت قائم ہو جائے گی۔

2065: سیدنا ابو ہریرہؓ  نبیﷺ سے بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ قیامت قائم ہو جائے گی اور مرد اونٹنی دوہتا ہو گا، پس برتن اس کے منہ تک نہ پہنچا ہو گا کہ قیامت آ جائے گی اور دو مرد کپڑے کی خرید و فروخت کرتے ہوں گے ، خرید و فروخت نہ کر پائیں گے کہ قیامت آ جائے گی اور کوئی مرد اپنا حوض درست کر رہا ہو گا، پس اس کو درست کر کے نہ پھرا ہو گا کہ قیامت آ جائے گی۔

باب : صور کے دو پھونکوں کے درمیان چالیس کا فاصلہ ہو گا اور ریڑھ کی ہڈی کے سوا انسان کا سارا جسم گل جائے گا۔

2066: سیدنا ابوہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: صُور کے دونوں پھونکوں کے درمیان میں چالیس کا فاصلہ ہو گا۔ لوگوں نے کہا کہ اے ابو ہریرہ ص! چالیس دن کا؟ انہوں نے کہا کہ میں نہیں کہتا۔ پھر لوگوں نے کہا کہ چالیس مہینے کا؟ انہوں نے کہا کہ میں نہیں کہتا۔ پھر لوگوں نے کہا کہ چالیس برس کا؟ انہوں نے کہا کہ میں نہیں کہتا۔ (یعنی مجھے اس کا تعین معلوم نہیں ہے ) پھر آسمان سے ایک پانی برسے گا، اس سے لوگ ایسے اُگ آئیں گے جیسے سبزہ اُگ آتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آدمی کے بدن میں کوئی چیز ایسی نہیں جو گل نہ جائے ، مگر ایک ہڈی اور وہ ریڑھ کی ہڈی ہے۔ اسی ہڈی سے قیامت کے دن لوگ پیدا ہوں گے۔ (نووی رحمۃ اللہ نے کہا کہ اس میں سے پیغمبر مستثنیٰ ہیں کہ ان کے جسموں کو اللہ تعالیٰ نے زمین پر حرام کر دیا ہے )۔

باب : مَردوں کو زیادہ نقصان دینے والا فتنہ عورتیں ہیں۔

2067: سیدنا اسامہ بن زید بن حارثہ اور سیدنا سعید بن زید بن عمرو بن نفیلؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہﷺ  سے روایت کرتے ہوئے کہا کہ آپﷺ نے فرمایا: میں نے اپنے بعد مَردوں کو نقصان پہنچانے والا عورتوں سے زیادہ کوئی فتنہ نہیں چھوڑا (یہ اکثر خلافِ شرع کام کراتی ہیں اور جو مرد زن مرید ہوتے ہیں ان کو مجبور کر دیتی ہیں)۔

باب : عورتوں کے فتنے سے ڈرانا۔

2068: سیدنا ابوسعید خدریؓ  نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: دنیا (ظاہر میں) میٹھی اور سرسبز ہے (جیسے تازہ میوہ) اور اللہ تعالیٰ تمہیں دنیا میں حاکم کرنے والا ہے ، پھر دیکھے گا کہ تم کیسے عمل کرتے ہو۔ سو دنیا سے بچو (یعنی ایسی دنیا سے جو اللہ تعالیٰ سے غافل کر دے ) اور عورتوں سے بچو، اس لئے کہ اوّل فتنہ بنی اسرائیل کا عورتوں سے شروع ہوا۔

 

2068: سیدنا ابوسعید خدریؓ  نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: دنیا (ظاہر میں) میٹھی اور سرسبز ہے (جیسے تازہ میوہ) اور اللہ تعالیٰ تمہیں دنیا میں حاکم کرنے والا ہے ، پھر دیکھے گا کہ تم کیسے عمل کرتے ہو۔ سو دنیا سے بچو (یعنی ایسی دنیا سے جو اللہ تعالیٰ سے غافل کر دے ) اور عورتوں سے بچو، اس لئے کہ اوّل فتنہ بنی اسرائیل کا عورتوں سے شروع ہوا۔

کتاب: دنیا سے بے رغبتی اور دل کو نرم کرنے والی باتوں کے بارے میں

باب : اے اللہ! محمدﷺ کی آل کی روزی ضرورت کے مطابق بنانا۔

2069: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے دعا کی کہ اے اللہ! محمدﷺ کی آل کی روزی ضرورت کے موافق رکھنا۔

باب : نبیﷺ اور ان کی آل کی گزران میں تنگی۔

2070: سیدنا عروہ اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ وہ کہا کرتی تھیں کہ اللہ کی قسم اے میرے بھانجے ! ہم ایک چاند دیکھتے ، دوسرا دیکھتے ، تیسرا دیکھتے ، دو مہینے میں تین چاند دیکھتے اور رسول اللہﷺ کے گھروں میں اس دوران آگ نہ جلتی تھی۔ میں نے کہا کہ اے خالہ! پھر آپ کی زندگی کس پر تھی؟ انہوں نے کہا کہ کھجور اور پانی۔ البتہ رسول اللہﷺ کے انصار میں سے کچھ ہمسائے تھے جن کے دودھ والے جانور تھے ، وہ رسول اللہﷺ کے لئے دودھ بھیجتے تو آپﷺ وہ دودھ ہمیں بھی پلا دیتے تھے۔

2071: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ کی وفات ہو گئی اور آپﷺ روٹی اور زیتون کے تیل سے ایک دن میں دو بار سیر نہیں ہوئے (یعنی صبح اور شام دونوں وقت سیر ہو کر نہیں کھایا)۔

2072: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ محمدﷺ کی آل دو دن تک گندم کی روٹی سے سیر نہیں ہوئی مگر ایک دن صرف کھجور ملی۔

2073: سیدنا ابو حازم کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابو ہریرہؓ  کو دیکھا کہ وہ اپنی دونوں انگلیوں سے بار بار اشارہ کرتے تھے اور کہتے کہ قسم اس کی جس کے ہاتھ میں ابو ہریرہ کی جان ہے ! رسول اللہﷺ اور آپﷺ کے گھر والے کبھی تین دن پے در پے گندم کی روٹی سے سیر نہیں ہوئے ، یہاں تک کہ آپﷺ دنیا سے تشریف لے گئے۔

2074: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے وفات پائی اور میرے دانوں کے برتن میں تھوڑے سے جَو تھے۔ اسی میں سے کھایا کرتی تھی۔ یہاں تک کہ بہت دن گزر گئے۔ (پھر) میں نے ان کو ماپا تو وہ ختم ہو گئے (معلوم ہوا کہ مجہول اور مبہم شے میں برکت زیادہ ہوتی ہے )۔

باب : (بعض اوقات) آپﷺ ردی کھجور بھی نہ پاتے کہ اس سے اپنا پیٹ بھر لیں۔

2075: سیدنا سماک بن حرب کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا نعمان بن بشیرؓ  کو خطبہ پڑھتے ہوئے سنا، وہ کہہ رہے تھے کہ سیدنا عمرؓ  نے اس (مال و دولت) کا ذکر کیا جو لوگ حاصل کر رہے تھے اور پھر کہ میں نے رسول اللہﷺ کو دیکھا، آپﷺ سارا دن بھوک سے بیقرار رہتے اور آپﷺ کو ناقص کھجور بھی نہ ملتی جس سے اپنا پیٹ بھر لیں۔

باب : فقراء مہاجرین غنی لوگوں سے پہلے جنت میں جائیں گے۔

2076: سیدنا ابو عبدالرحمن حبلی کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاصؓ  سے سنا اور ان سے ایک شخص نے پوچھا کہ کیا ہم فقیر مہاجرین میں سے نہیں ہیں؟ سیدنا عبد اللہؓ  نے کہا کہ تیری بیوی ہے جس کے پاس تو رہتا ہے ؟ وہ بولا کہ ہاں ہے۔ سیدنا عبد اللہؓ  نے کہا کہ تیرا گھر ہے جس میں تو رہتا ہے ؟ وہ بولا کہ ہاں ہے۔ سیدنا عبد اللہؓ  نے کہا کہ تو امیروں میں سے ہے۔ وہ بولا کہ میرے پاس ایک خادم بھی ہے۔ سیدنا عبد اللہؓ  نے کہا کہ پھر تو تو بادشاہوں میں سے ہے۔

ابو عبدالرحمن نے کہا کہ تین آدمی سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاصؓ  کے پاس آئے اور میں ان کے پاس موجود تھا۔ وہ کہنے لگے کہ اے محمد! اللہ کی قسم! ہمیں کوئی چیز میسر نہیں، نہ خرچ، نہ سواری اور نہ اسباب۔ سیدنا عبد اللہؓ  نے کہا کہ تم جو چاہو میں کروں۔ اگر چاہتے ہو تو ہمارے پاس چلے آؤ، ہم تمہیں وہ دیں گے جو اللہ نے تمہاری تقدیر میں لکھا ہے اور اگر کہو تو ہم تمہارا ذکر بادشاہ سے کریں اور اگر چاہو تو صبر کرو، اس لئے کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا، آپﷺ فرماتے تھے کہ محتاج مہاجرین مالداروں سے چالیس برس پہلے (جنت میں) جائیں گے۔ وہ بولے کہ ہم صبر کرتے ہیں اور کچھ نہیں مانگتے۔

باب : جنت کی اکثریت غریب لوگ ہوں گے۔

2077: سیدنا اسامہ بن زیدؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: میں جنت کے دروازے پر کھڑا ہوا، وہاں دیکھا تو اس کے اندر اکثر وہ لوگ ہیں جو (دنیا میں) مسکین ہیں اور امیر مالدار لوگ (حساب و کتاب کے لئے ) روکے گئے ہیں (جبکہ فقر کی زندگی گزارنے والے مومن تو بغیر حساب و کتاب جنت میں جا چکے ہوں گے ) اور جو دوزخی ہیں، ان کو تو دوزخ میں جانے کا حکم ہو چکا۔ اور میں نے دوزخ کے دروازے پر کھڑا ہو کر دیکھا تو وہاں عورتیں زیادہ ہیں۔

باب : دنیا میں شوق نہ کرنے اور اس دنیا کی اللہ تعالیٰ کے ہاں وقعت نہ ہونے کے متعلق۔

2078: سیدنا جابر بن عبد اللہؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ بازار میں سے گزرے اور آپﷺ کسی عالیہ کی طرف سے مدینہ میں آ رہے تھے اور لوگ آپﷺ کے ایک طرف یا دونوں طرف تھے۔ آپﷺ نے ایک چھوٹے کانوں والا یا کٹے ہوئے کانوں والا بھیڑ کا بچہ دیکھا جو کہ مرا ہوا تھا۔ آپ نے اس کا کان پکڑا، پھر فرمایا کہ تم میں سے یہ ایک درہم میں کون لیتا ہے ؟ لوگوں نے کہا کہ ہم ایک درہم میں بھی اس کو لینا نہیں چاہتے (یعنی کسی چیز کے بدلے ) اور ہم اس کو کیا کریں گے ؟ آپﷺ نے فرمایا کہ تم چاہتے ہو کہ یہ تمہیں مل جائی؟ لوگوں نے کہا کہ اللہ کی قسم! اگر یہ زندہ ہوتا، تب بھی اس میں عیب تھا کہ اس کے کان بہت چھوٹے ہیں، پھر یہ تو مُردہ ہے ، اس کو کون لے گا؟ آپﷺ نے فرمایا کہ اللہ کی قسم! دنیا اللہ کے نزدیک اس سے بھی زیادہ ذلیل ہے جیسے یہ تمہارے نزدیک ہے۔

2079: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: دنیا مومن کے لئے قید خانہ ہے اور کافر کی جنت ہے۔

باب : دنیا (کے مال) کی فراوانی اور اس میں شوق کرنے کا خوف۔

2080: سیدنا عمرو بن عوفؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے سیدنا ابو عبیدہ بن الجراحؓ  کو بحرین کی طرف وہاں کا جزیہ لینے کو بھیجا اور آپﷺ نے بحرین والوں سے صلح کر لی تھی اور ان پر سیدنا علاء بن حضرمیؓ  کو حاکم مقرر کیا تھا۔ پھر سیدنا ابو عبیدہؓ  وہ مال بحرین سے لے کر آئے۔ یہ خبر انصار کو پہنچی تو انہوں نے فجر کی نماز رسو ل اللہﷺ کے ساتھ پڑھی۔ جب آپﷺ نماز سے فارغ ہو کر پھرے تو انصار آپﷺ کے سامنے آ گئے آپﷺ نے ان کو دیکھ کر تبسم فرمایا اور فرمایا کہ میں سمجھتا ہوں کہ تم نے سنا کہ ابو عبیدہ کے بحرین سے کچھ مال لے کر آنے کا سن لیا ہے ؟ (اور تم اسی خیال سے آج جمع ہوئے کہ مال ملے گا) انہوں نے کہا کہ بیشک یا رسول اللہﷺ! آپﷺ نے فرمایا کہ خوش ہو جاؤ اور اس بات کی امید رکھو جس سے تم خوش ہوتے ہو۔ پس اللہ کی قسم! مجھے تم پر فقیری کا ڈر نہیں، لیکن مجھے اس کا ڈر ہے کہ دنیا تم پر کشادہ ہو جائے گی جیسے تم سے پہلے لوگوں پر کشادہ ہوئی تھی، پھر ایک دوسرے سے زیادہ شوق کرنے لگو جیسے اگلے لوگوں نے شوق کیا تھا اور وہ (شوق یا وہ دنیا) تمہیں ہلاک کر دے جیسے اس نے ان لوگوں کو ہلاک کیا تھا۔

باب : دنیا (کے مال) فتح ہونے کے وقت آپس میں حسد اور مال میں شوق کرنے کا خوف۔

2081: سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاصؓ  رسول اللہﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جب فارس اور روم فتح ہو جائیں گے تو تم کیا ہو گے ؟ سیدنا عبدالرحمن بن عوفؓ  نے کہا کہ ہم وہی کہیں گے جو اللہ نے ہمیں حکم کیا (یعنی اس کا شکر ادا کریں گے )۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اور کچھ نہیں کہتے ، رشک کرو گے ، پھر حسد کرو گے ، پھر دوستوں سے بگاڑو گے ، پھر دشمنی کرو گے یا ایسا ہی کچھ فرمایا۔ پھر مسکین مہاجرین کے پاس جاؤ گے اور ایک کو دوسروں کا حاکم بناؤ گے۔

باب : دنیا (کی اہمیت) آخرت کے مقابلہ میں اتنی ہی ہے جیسے انگلی دریا میں ڈبوئی جائے۔

2082: سیدنا مستور اخی بنی فہر کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اللہ کی قسم دنیا آخرت کے سامنے ایسے ہے جیسے تم میں سے کوئی یہ انگلی دریا میں ڈالے (اور یحییٰ نے اپنی شہادت کی انگلی سے اشارہ کیا)، پھر دیکھے کہ کتنی تری دریا میں سے لاتا ہے (تو جتنا پانی انگلی میں لگا رہتا ہے وہ گویا دنیا ہے اور وہ دریا آخرت ہے۔ یہ نسبت دنیا کو آخرت سے ہے اور چونکہ دنیا فانی ہے اور آخرت دائمی باقی ہے ، اس واسطے اس سے بھی کم ہے )۔

باب : دنیا (کے مال) کے ذریعہ آزمائش کے متعلق اور (انسان) کیسے عمل کرے ؟

2083: سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے کہ انہوں نے نبیﷺ سے سنا، آپﷺ فرماتے تھے کہ بنی اسرائیل کے لوگوں میں تین آدمی تھے ، ایک کوڑھی سفید داغ والا، دوسرا گنجا اور تیسرا اندھا۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان کو آزمانا چاہا کہ تو ان کے پاس فرشتہ بھیجا۔ پس وہ سفید داغ والے کے پاس آیا اور اس نے کہا کہ تجھے کون سی چیز بہت پیاری ہے ؟ اس نے کہا کہ اچھا رنگ اچھی کھال اور مجھ سے یہ بیماری دُور ہو جائے جس کے سبب سے لوگ مجھ سے نفرت کرتے ہیں۔ نبیﷺ نے فرمایا کہ فرشتے نے اس پر ہاتھ پھیرا۔ پس اس کی بدصورتی دُور ہو گئی اور اس کو اچھا رنگ اور اچھی کھال دی گئی۔ فرشتے نے کہا کہ تجھے کون سا مال بہت پسند ہے ؟ اس نے کہا کہ اونٹ یا گائے۔ (راوئ حدیث اسحاق بن عبد اللہ کو شک ہے کہ اس نے اونٹ مانگا یا گائے لیکن سفید داغ والے یا گنجے نے ان میں سے ایک نے اونٹ کہا اور دوسرے نے گائے )۔ پس اس کو دس مہینے کی گابھن اونٹنی دی اور کہا کہ اللہ تعالیٰ تیرے واسطے اس میں برکت دے۔ نبیﷺ نے فرمایا کہ پھر فرشتہ گنجے کے پاس آیا پس کہا کہ تجھے کون سی چیز بہت پسند ہے ؟ اس نے کہا کہ اچھے بال اور یہ بیماری جاتی رہے جس کے سبب سے لوگ مجھ سے نفرت کرتے ہیں۔ پھر اس نے اس پر ہاتھ پھیرا تو اس کی بیماری دُور ہو گئی اور اس کو اچھے بال ملے۔ فرشتے نے کہا کہ تجھے کونسا مال بہت پسند ہے ؟ اس نے کہا کہ گائے۔ پس اس کو گابھن گائے دے دی گئی۔ فرشتے نے کہا کہ اللہ تعالیٰ تیرے مال میں برکت دے۔ نبیﷺ نے فرمایا کہ پھر فرشتہ اندھے کے پاس آیا اور کہا کہ تجھے کونسی چیز بہت پسند ہے ؟ اس نے کہا کہ اللہ تعالیٰ آنکھ میں بینائی کر دے تو میں اس کے سبب سے لوگوں کو دیکھوں۔ نبیﷺ نے فرمایا کہ پھر فرشتے نے اس پر ہاتھ پھیرا تو اللہ نے اس کو بینائی دے دی۔ فرشتے نے کہا کہ تجھے کونسا مال بہت پسند ہے ؟ اس نے کہا کہ بھیڑ بکری۔ تو اس کو گابھن بکری ملی۔ پھر ان دونوں (اونٹنی اور گائے ) اور اس (بکری) نے بچے دئیے۔ پھر ہوتے ہوتے سفید داغ والے کے جنگل بھر اونٹ ہو گئے اور گنجے کے جنگل بھر گائے بیل ہو گئے اور اندھے کے جنگل بھر بکریاں ہو گئیں۔ نبیﷺ نے فرمایا کہ مدت کے بعد وہی فرشتہ سفید داغ والے کے پاس اس کی پہلی صورت اور شکل میں آیا، اور کہا کہ میں محتاج آدمی ہوں، سفر میں میرے تمام اسباب کٹ گئے (یعنی تدبیریں جاتی رہیں اور مال اور اسباب نہ رہا)، پس آج میرے لئے اللہ کی مدد کے سوا اور اس کے بعد تیری مدد کے بغیر منزل پر پہنچنا ممکن نہیں ہے ، میں تجھ سے اس کے نام پر جس نے تجھے ستھرا رنگ اور ستھری کھال دی اور مال اونٹ دئیے ، ایک اونٹ مانگتا ہوں جو میرے سفر میں کام آئے۔ اس نے کہا کہ مجھ پر لوگوں کے بہت حق ہیں (یعنی قرضدار ہوں یا گھربار کے خرچ سے زیادہ مال نہیں جو تجھے دوں)۔ پھر فرشتہ نے کہا کہ البتہ میں تجھے پہچانتا ہوں بھلا کیا تو محتاج کوڑھی نہ تھا؟ کہ لوگ تجھ سے نفرت کرتے تھے ، پھر اللہ نے اپنے فضل سے تجھے یہ مال دیا۔ اس نے جواب دیا کہ میں نے تو یہ مال اپنے باپ دادا سے پایا ہے جو کئی پشت سے نقل ہو کر آیا ہے۔ فرشتے نے کہا کہ اگر تو جھوٹا ہو تو اللہ تجھے ویسا ہی کر ڈالے جیسا تو پہلے تھا۔ نبیﷺ نے فرمایا کہ پھر فرشتہ گنجے کے پاس اس کی پہلی صورت اور شکل میں آیا اور اس سے ویسا ہی کہا جیسا سفید داغ والے سے کہا تھا اور اس نے بھی وہی جواب دیا جو سفید داغ والے نے دیا تھا۔ فرشتے نے کہا کہ اگر تو جھوٹا ہو تو اللہ تجھے ویسا ہی کر ڈالے جیسا تو تھا۔ نبیﷺ نے فرمایا کہ پھر فرشتہ اندھے کے پاس اس کی پہلی شکل و صورت میں گیا، اور کہا کہ میں محتاج آدمی ہوں اور مسافر ہوں، میرے سفر میں میرے سب وسیلے اور تدبیریں کٹ گئیں، پس مجھے آج منزل پر اللہ کی مدد اور اس کے بعد تیری مدد کے بغیر پہنچنا مشکل ہے۔ پس میں تجھ سے اس اللہ کے نام پر، جس نے تجھے بینائی دی، ایک بکری مانگتا ہوں تاکہ وہ میرے سفر میں کام آئے۔ اس نے کہا کہ بیشک میں اندھا تھا تو اللہ نے مجھے (بینائی والی) آنکھ دی، تو ان بکریوں میں سے جتنی چاہو لے جاؤ اور جتنی چاہو چھوڑ جاؤ۔ اللہ کی قسم! آج جو چیز تو اللہ کی راہ میں لے گا، میں تجھے مشکل میں نہ ڈالوں گا (یعنی تیرا ہاتھ نہ پکڑوں گا)۔ پس فرشتے نے کہا کہ اپنا مال اپنے پاس رکھو، تم تینوں آدمی صرف آزمائے گئے تھے۔ پس تجھ سے تو اللہ تعالیٰ راضی ہوا اور تیرے دونوں ساتھیوں سے ناخوش ہوا۔

باب : دنیا (کے مال) کی کمی، اس پر صبر کرنے اور درختوں کے پتے کھانے کے متعلق۔

2084: سیدنا سعد بن ابی وقاصؓ  کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم! میں وہ پہلا شخص ہوں جس نے اللہ کی راہ میں تیر مارا اور ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ جہاد کرتے تھے اور ہمارے پاس کھانے کو کچھ نہ ہوتامگر جلے ہوئے پتے اور ببول (یہ دونوں جنگلی درخت ہیں)، یہاں تک کہ ہم میں سے کوئی ایسا پاخانہ کرتا جیسے بکری کرتی ہے۔ پھر آج بنو اسد کے لوگ (یعنی سیدنا زبیرؓ  کی اولاد) مجھے دین کے لئے تنبیہ کرتے ہیں یا سزا دینا چاہتے ہیں، ایسا ہو تومیں بالکل خسارے میں پڑا اور میری محنت ضائع ہو گئی۔

2085: سیدنا خالد بن عمیر عدوی کہتے ہیں کہ (امیرِ بصرہ) عتبہ بن غزوانؓ  نے ہمیں خطبہ دیا تو اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء کے بعد کہا کہ بعد حمدو صلوٰۃ کے معلوم ہو کہ دنیا نے ختم ہونے کی خبر دی؟ اور دنیا میں سے کچھ باقی نہ رہا مگر جیسے برتن میں کچھ بچا ہوا پانی رہ جاتا ہے جس کو اس کا صاحب پیتا ہے۔ اور تم دنیا سے ایسے گھر کو جانے والے ہو جس کو زوال نہیں، پس اپنی زندگی میں نیک عمل کر کے جاؤ، اس لئے کہ ہم سے بیان کیا گیا کہ پتھر جہنم کے اوپر کے کنارے سے ڈالا جائے گا اور ستر برس تک اس میں اترتا جائے گا اور اس کی تہہ کو نہ پہنچے گا۔ اللہ کی قسم! جہنم بھری جائے گی۔ کیا تم تعجب کرتے ہو؟ اور ہم سے بیان کیا گیا کہ جنت کے دروازے کی ایک طرف سے لے کر دوسری طرف کنارے تک چالیس برس کی راہ ہے اور ایک دن ایسا آئے گا کہ دروازہ لوگوں کے ہجوم سے بھرا ہوا ہو گا اور میں اپنے آپ کو دیکھ رہا ہوں کہ میں سات شخصوں میں سے ساتواں شخص تھا جو رسول اللہﷺ کے ساتھ تھے اور ہمارا کھانا درخت کے پتوں کے سوا کچھ نہ تھا یہاں تک کہ ہماری باچھیں زخمی ہو گئیں (بوجہ پتوں کی حرارت اور سختی کے )۔ میں نے ایک چادر پائی اور اس کو پھاڑ کر دو ٹکڑے کئے ، ایک ٹکڑے کا میں نے تہبند بنایا اور دوسرے ٹکڑے کا سعد بن مالک نے۔ اب آج کے روز کوئی ہم میں سے ایسا نہیں ہے کہ کسی شہر کا حاکم نہ ہو اور میں اس بات سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں کہ میں اپنے آپ کو بڑا سمجھوں، لیکن اللہ کے نزدیک چھوٹا ہوں اور بیشک کسی پیغمبر کی نبوت (دنیا میں) ہمیشہ نہیں رہی بلکہ نبوت کا اثر (تھوڑی مدت میں) جاتا رہا؟ یہاں تک کہ اس کا آخری انجام یہ ہوا کہ وہ سلطنت ہو گئی۔ پس عنقریب تم ہمارے بعد آنے والے امراء کو دیکھو گے اور تجربہ کرو گے ان امیروں کا جو ہمارے بعد آئیں گے (کہ ان میں دین کی باتیں جو نبوت کا اثر ہے ، نہ رہیں گی اور وہ بالکل دنیا دار ہو جائیں گے )۔

باب : میت (کے پاس) سے اس کے اہل و عیال اور مال واپس آ جاتے ہیں اور اس کا عمل اس کے پاس رہ جاتا ہی۔

2086: سیدنا انس بن مالکؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: مُردے کے ساتھ تین چیزیں (قبرستان میں) جاتی ہیں۔ پھر دو لوٹ آتی ہیں اور ایک رہ جاتی ہے۔ اس کے ساتھ اس کے گھر والے اور مال اور عمل جاتے ہیں، سو گھر والے اور مال تو لوٹ آتے ہیں اور عمل اس کے ساتھ رہ جاتا ہے (پس عمل پوری رفاقت کرتا ہے اسی کے لئے انسان کو کوشش کرنی چاہئیے۔ بال بچے مال دولت یہ سب جینے تک کے ساتھ ہیں مرنے کے بعد کچھ کام کے نہیں اور ان میں دل لگانا بے عقلی ہے )۔

باب : اس کی طرف دیکھو جو تم سے (دنیاوی مال و اسباب میں) کم ہو۔

2087: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اس شخص کو دیکھو جو تم سے (مال اور دولت میں اور حسن و جمال میں اور بال بچوں میں) کم ہے اور اس کو مت دیکھو جو (ان چیزوں میں) تم سے زیادہ ہے۔ اگر ایسا کرو گے تو اللہ تعالیٰ کی نعمت کو اپنے اوپر حقیر نہ سمجھو گے۔

باب : اللہ تعالیٰ اس بندے کو پسند کرتا ہے جو پرہیزگار، دولت مند اور ایک کونہ میں رہنے والا ہو۔

2088: سیدنا عامر بن سعد کہتے ہیں کہ سیدنا سعد بن ابی وقاصؓ  اپنے اونٹوں میں تھے کہ ان کا بیٹا عمر آیا (یہ عمر بن سعد وہی ہے جو سیدنا حسینؓ  سے لڑا اور جس نے دنیا کے لئے اپنی آخرت برباد کی) جب سیدنا سعدؓ  نے اس کو دیکھا تو کہا کہ میں اس سوار کے شر سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتا ہوں۔ پھر وہ اترا اور بولا کہ تم اپنے اونٹوں اور بکریوں میں اترے ہو اور لوگوں کو چھوڑ دیا وہ سلطنت کے لئے لڑ رہے ہیں؟ (یعنی خلافت اور حکومت کے لئے ) سیدنا سعدؓ  نے اس کے سینہ پر مارا اور کہا کہ چپ رہ۔ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا، آپﷺ فرماتے تھے کہ اللہ اس بندے کو دوست رکھتا ہے جو پرہیز گار ہے ، مالدار ہے اور (فتنے فساد کے وقت) ایک کونے میں چھپا بیٹھا ہے۔(اوراپنا ایمان نہیں بگاڑتا۔ افسوس ہے کہ عمر بن سعد نے اپنے باپ کی نصیحت کو فراموش کیا)۔

باب : جس نے اپنے عمل میں اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کو شریک کر لیا۔

2089: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں اور شریکوں کی نسبت شرک سے بہت زیادہ بے پروا ہوں۔ جس نے کوئی ایسا عمل کیا جس میں میرے ساتھ میرے غیر کو بھی ملایا اور ساجھی کیا تو میں اس کو اور اس کے ساجھی کے کام کو چھوڑ دیتا ہوں۔ (یعنی جو عبادت اور عمل دکھانے اور شہرت کے واسطے ہو وہ اللہ کے نزدیک مقبول نہیں مردود ہے۔ اللہ اسی عبادت اور عمل کو قبول کرتا ہے جو اللہ ہی کے واسطے خالص ہو دوسرے کا اس میں کچھ حصہ نہ ہو)۔

باب : جو (اپنا نیک عمل لوگوں کو) سنائے اور اپنے عمل میں ریاکاری کرے

2090: سیدنا ابن عباسؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جو شخص لوگوں کو سنانے کے لئے نیک کام کرے گا، اللہ تعالیٰ بھی قیامت کے دن اس کی ذلت لوگوں کو سنائے گا اور جو شخص ریاکاری کرے گا اللہ تعالیٰ بھی اسکو (صرف ثواب) دکھلائے گا (مگر دے گا نہیں تاکہ اسے صرف حسرت ہی حسرت ہو)۔

باب : ایک کلمہ (کفر) کہہ دینا جہنم میں اتر جانے کا سبب بن جاتا ہے۔

2091: سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: بندہ ایسی بات کہہ بیٹھتا ہے جس کی بڑائی کا اسے اندازہ نہیں ہوتا اور اس کی وجہ سے آگ میں اتنا اتر جاتا ہے جیسے مشرق سے مغرب تک (جیسے کسی مسلمان کی شکایت یا مخبری حکمرانوں کے سامنے یا تہمت یا گالی یا کفر کا کلمہ یا رسول اللہﷺ یا قرآن یا شریعت کے ساتھ مذاق، پس انسان کو چاہئیے کہ زبان کو قابو میں رکھے اور بغیر ضرورت بات نہ کرے )۔

باب : مومن کے ہر معاملے میں بھلائی ہوتی ہے۔

2092: سیدنا صہیبؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: مومن کا بھی عجب حال ہے ، اس کے ہر معاملے میں بھلائی ہی بھلائی ہے۔ اور یہ بات سوائے مومن کے کسی کو حاصل نہیں ہے۔ اگر اس کو خوشی حاصل ہوئی اور اس نے شکر ادا کیا تو اس میں بھی ثواب ہے اور جو اس کو نقصان پہنچا اور اس پر صبر کیا، تو اس میں بھی ثواب ہے۔

باب : دینی معاملات میں آزمائش پر صبر کرنے اور اصحاب الاخدود کے قصہ کے متعلق۔

2093: سیدنا صہیبؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: تم سے پہلے لوگوں میں ایک بادشاہ تھا اور اس کا ایک جادوگر تھا۔ جب وہ جادوگر بوڑھا ہو گیا تو بادشاہ سے بولا کہ میں بوڑھا ہو گیا ہوں، میرے پاس کوئی لڑکا بھیج کہ میں اس کو جادو سکھلاؤں۔ بادشاہ نے اس کے پاس ایک لڑکا بھیجا، وہ اس کو جادو سکھلاتا تھا۔ اس لڑکے کی آمدورفت کی راہ میں ایک راہب تھا (عیسائی درویش یعنی پادری تارک الدنیا)، وہ لڑکا اس کے پاس بیٹھا اور اسکا کلام سنا تو اسے اس کی باتیں اچھی لگیں۔ اب جادوگر کے پاس جاتا تو راہب کی طرف سے ہو کر نکلتا اور اسکے پاس بیٹھتا، پھر جب جادوگر کے پاس جاتا تو جادوگر اس کو (دیر سے آنے کی وجہ سے ) مارتا۔ آخر لڑکے نے جادوگر کے مارنے کا راہب سے گلہ کیا تو راہب نے کہا کہ جب تو جادوگر سے ڈرے ، تو یہ کہہ دیا کر کہ میرے گھر والوں نے مجھ کو روک رکھا تھا اور جب تو اپنے گھر والوں سے ڈرے ، تو کہہ دیا کر کہ جادوگر نے مجھے روک رکھا تھا۔ اسی حالت میں وہ لڑکا رہا کہ اچانک ایک بڑے درندے پر گزرا کہ جس نے لوگوں کو آمد و رفت سے روک رکھا تھا۔ لڑکے نے کہا کہ آج میں معلوم کرتا ہوں کہ جادوگر افضل ہے یا راہب افضل ہے۔ اس نے ایک پتھر لیا اور کہا کہ الٰہی اگر راہب کا طریقہ تجھے جادوگر کے طریقے سے زیادہ پسند ہو، تو اس جانور کو قتل کر تاکہ لوگ گزر جائیں۔ پھر اس کو پتھر سے مارا تو وہ جانور مر گیا اور لوگ گزرنے لگے۔ پھر وہ لڑکا راہب کے پاس آیا اس سے یہ حال کہا تو وہ بولا کہ بیٹا تو مجھ سے بڑھ گیا ہے ، یقیناً تیرا رتبہ یہاں تک پہنچا جو میں دیکھتا ہوں اور تو عنقریب آزمایا جائے گا۔ پھر اگر تو آزمایا جائے تو میرا نام نہ بتلانا۔ اس لڑکے کا یہ حال تھا کہ اندھے اور کوڑھی کو اچھا کرتا اور ہر قسم کی بیماری کا علاج کرتا تھا۔ یہ حال جب بادشاہ کے مصاحب جو کہ اندھا ہو گیا تھا سنا تو اس لڑکے کے پاس بہت سے تحفے لایا اور کہنے لگا کہ یہ سب مال تیرا ہے اگر تو مجھے اچھا کر دے۔ لڑکے نے کہا کہ میں کسی کو اچھا نہیں کرتا، اچھا کرنا تو اللہ تعالیٰ کا کام ہے ، اگر تو اللہ پر ایمان لائے تو میں اللہ سے دعا کروں گا تو وہ تجھے اچھا کر دے گا۔ وہ وزیر اللہ پر ایمان لایا تو اللہ نے اس کو اچھا کر دیا۔ وہ بادشاہ کے پاس گیا اور اس کے پاس بیٹھا جیسا کہ بیٹھا کرتا تھا۔ بادشاہ نے کہا کہ تیری آنکھ کس نے روشن کی؟ وزیر بولا کہ میرے مالک نے۔ بادشاہ نے کہا کہ میرے سوا تیرا مالک کون ہے ؟ وزیر نے کہا کہ میرا اور تیرا مالک اللہ ہے۔ بادشاہ نے اس کو پکڑا اور عذاب شروع کیا، یہاں تک کہ اس نے لڑکے کا نام لے لیا۔ وہ لڑکا بلایا گیا۔ بادشاہ نے اس سے کہا کہ اے بیٹا تو جادو میں اس درجہ پر پہنچا کہ اندھے اور کوڑھی کو اچھا کرتا ہے اور بڑے بڑے کام کرتا ہے ؟ وہ بولا کہ میں تو کسی کو اچھا نہیں کرتا بلکہ اللہ اچھا کرتا ہے۔ بادشاہ نے اس کو پکڑا اور اور مارتا رہا، یہاں تک کہ اس نے راہب کا نام بتلایا۔ راہب پکڑ لیا گیا۔ اس سے کہا گیا کہ اپنے دین سے پھر جا۔ اس کے نہ ماننے پر بادشاہ نے ایک آرہ منگوایا اور راہب کی مانگ پر رکھ کر اس کو چیر ڈالا، یہاں تک کہ دو ٹکڑے ہو کر گر پڑا۔ پھر وہ وزیر بلایا گیا، اس سے کہا گیا کہ تو اپنے دین سے پھر جا، اس نے بھی نہ مانا اس کی مانگ پر بھی آرہ رکھا گیا اور چیر ڈالا یہاں تک کہ دو ٹکڑے ہو کر گر پڑا۔ پھر وہ لڑکا بلایا گیا، اس سے کہا کہ اپنے دین سے پلٹ جا، اس نے بھی نہ انکار کیا۔ نے اس کو اپنے چند ساتھیوں کے حوالے کیا اور کہا کہ اس کو فلاں پہاڑ پر لے جا کر چوٹی پر چڑھاؤ، جب تم چوٹی پر پہنچو تو اس لڑکے سے پوچھو، اگر وہ اپنے دین سے پھر جائے تو خیر، نہیں تو اس کو دھکیل دو۔وہ اس کو لے گئے اور پہاڑ پر چڑھایا۔ لڑکے نے دعا کی کہ الٰہی جس طرح تو چاہے مجھے ان کے شر سے بچا۔ پہاڑ ہلا اور وہ لوگ گر پڑے۔ وہ لڑکا بادشاہ کے پاس چلا آیا۔ بادشاہ نے پوچھا کہ تیرے ساتھی کہاں گئے ؟ اس نے کہا کہ اللہ نے مجھے ان کے شر سے بچا لیا۔ پھر بادشاہ نے اس کو اپنے چند ساتھیوں کے حوالے کیا اور کہا کہ اس کو ایک کشتی میں دریا کے اندر لے جاؤ، اگر اپنے دین سے پھر جائے تو خیر، ورنہ اسکو دریا میں دھکیل دینا۔ وہ لوگ اس کو لے گئے۔ لڑکے نے کہا کہ الٰہی! تو مجھے جس طرح چاہے ان کے شر سے بچا لے۔وہ کشتی اوندھی ہو گئی اور لڑکے کے سوا سب ساتھی ڈوب گئے اور لڑکا زندہ بچ کر بادشاہ کے پاس آگیا۔ بادشاہ نے اس سے پوچھا کہ تیرے ساتھی کہاں گئے ؟ وہ بولا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے ان کے شر سے بچا لیا۔ پھر لڑکے نے بادشاہ سے کہا کہ تو مجھے اس وقت تک نہ مار سکے گا، جب تک کہ جو طریقہ میں بتلاؤں وہ نہ کرے۔ بادشاہ نے کہا کہ وہ کیا؟ اس نے کہا کہ تو سب لوگوں کو ایک میدان میں جمع کر کے مجھے ایک لکڑی پر سولی دے ، پھر میرے ترکش سے ایک تیر لے کر کمان کے اندر رکھ، پھر کہہ کہ اس اللہ کے نام سے مارتا ہوں جو اس لڑکا کا مالک ہے۔ پھر تیر مار۔ اگر تو ایسا کرے گا تو مجھے قتل کرے گا۔ بادشاہ نے سب لوگوں کو ایک میدان میں جمع کیا، اس لڑکے کو درخت کے تنے پر لٹکایا، پھر اس کے ترکش میں سے ایک تیر لیا اور تیرکو کمان کے اندر رکھ کر یہ کہتے ہوئے مارا کہ اللہ کے نام سے مارتا ہوں جو اس لڑکے کا مالک ہے۔ وہ تیر لڑکے کی کنپٹی پر لگا۔ اس نے اپنا ہاتھ تیر کے مقام پر رکھا اور مر گیا۔ لوگوں نے یہ حال دیکھ کر کہا کہ ہم تو اس لڑکے کے مالک پر ایمان لائے ، ہم اس لڑکے کے مالک پر ایمان لائے ، ہم اس لڑکے کے مالک پر ایمان لائے۔ کسی نے بادشاہ سے کہا کہ اللہ کی قسم! جس سے تو ڈرتا تھا وہی ہوا یعنی لوگ ایمان لے آئے۔ بادشاہ نے راستوں کے نالوں پر خندقیں کھودنے کا حکم دیا۔ پھر خندقیں کھودی گئیں اور ان میں خوب آگ بھڑکائی گئی اور کہا کہ جو شخص اس دین سے (یعنی لڑکے کے دین سے ) نہ پھرے ، اسے ان خندقوں میں دھکیل دو، یا اس سے کہا جائے کہ ان خندقوں میں گرے۔ لوگوں نے ایسا ہی کیا، یہاں تک کہ ایک عورت آئی جس کے ساتھ اس کا بچہ بھی تھا، وہ عورت آگ میں گرنے سے جھجھکی (پیچھے ہٹی) تو بچے نے کہا کہ اے ماں! صبر کر تو سچے دین پر ہے (مرنے کے بعد پھر چین ہی چین ہے ، پھر تو دنیا کی مصیبت سے کیوں ڈرتی ہے ؟ نووی رحمۃ اللہ نے کہا کہ اس حدیث سے اولیاء کی کرامات ثابت ہوتی ہیں اور یہ بھی نکلتا ہے کہ ضرورت کے وقت جھوٹ بولنا درست ہے اور اسی طرح مصلحت کے لئے )۔

 

 

کتاب: قرآن مجید کے فضائل

 

باب : سورۂ فاتحہ کے بارے میں۔

 

2094: سیدنا ابن عباسؓ  کہتے ہیں کہ ایک دن جبرئیل علیہ السلام رسول اللہﷺ  کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ دروازہ کھلنے کی ایک بڑے زور کی آواز سنی تو اپنا سر اٹھا یا اور جبرئیل علیہ السلام نے کہا کہ یہ آسمان کا ایک دروازہ ہے جو آج کھلا ہے ، آج سے پہلے اور کبھی نہیں کھلا تھا۔ پس اس سے ایک فرشتہ اترا۔ اور جبرئیل علیہ السلام نے کہا کہ یہ فرشتہ جو زمین پر اترا ہے آج کے دن کے علاوہ کبھی نہیں اترا اور اس نے سلام کیا اور کہا کہ آپ کو دو نوروں کی خوشخبری ہو جو کہ آپ کو عنایت ہوئے ہیں، وہ آپ کے سوا کسی نبی کو نہیں ملے۔ ایک سورۂ فاتحہ ہے اور دوسرے سورۂ بقرہ کی آیات۔ تم اس میں سے کوئی حرف نہ پڑھو گے کہ اس کی مانگی ہوئی چیز تمہیں نہ ملے۔

باب : قرآن اور (خصوصاً) سورۂ بقرہ اور آلِ عمران پڑھنے کے بارے میں۔

2095: سیدنا ابو امامہ باہلیؓ  کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ  سے سنا، آپﷺ فرماتے تھے کہ قرآن پڑھو، اس لئے کہ وہ قیامت کے دن اپنے پڑھنے والوں کا سفارشی ہو کر آئے گا۔ اور چمکتی ہوئی دو سورتیں پڑھو جو کہ سورۂ بقرہ اور سورۃ آلِ عمران ہیں، اس لئے کہ وہ قیامت کے دن آئیں گی گویا کہ دو بادل ہیں یا دو سائبان یا دو ٹولیاں ہیں پرندوں کی اور اپنے لوگوں کی طرف سے حجت کرتی ہوئی آئیں گی۔ اور سورۂ بقرہ پڑھنے کہ اس کا لینا برکت ہے اور اسکا چھوڑنا حسرت ہے اور جادوگر لوگ اس کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔

معاویہ نے کہا کہ حدیث میں جو بَطَلَةٌ کا لفظ ہے ، اس کا معنی جادوگر ہے۔

باب : آیۃ الکرسی کی فضیلت۔

2096: سیدنا ابی بن کعبؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اے ابو المنذر! اللہ کی کتاب میں تمہارے پاس کونسی آیت سب سے بڑی ہے ؟ میں نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کا رسول ﷺ خوب جانتے ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ اے ابو المنذر! کونسی آیت اللہ کی کتاب میں تمہارے پاس سب سے بڑی ہے ؟ میں نے عرض کیا کہ ”الله لا الٰہ الا ہو الحی  القیوم“ (یعنی آیت الکرسی) تو رسول اللہﷺ  نے میرے سینہ پر (خوش ہو کر) ہاتھ مارا اور فرمایا کہ اے ابو المنذر! تجھے علم مبارک ہو۔

باب : سورۃ بقرہ کی آخری آیات کے متعلق۔

2097: سیدنا ابو مسعودؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جو سورۂ بقرہ کی آخر کی دو آیتیں پڑھے ، اس کو رات بھر کفایت کریں گی۔

باب : سورۃ کہف کی فضیلت۔

2098: سیدنا ابو الدرداءؓ  سے روایت ہے کہ اللہ کے نبیﷺ نے فرمایا: جو شخص سورۂ کہف کی ابتدائی دس آیتیں یاد کرے ، وہ دجال کے فتنہ سے بچے گا۔ ایک روایت میں ہے کہ سورۃ کہف کی آخری آیات (یاد کرنے سے دجال سے پناہ ملے گی)۔

باب : سورۃ اخلاص کی تلاوت کرنے کی فضیلت۔

2099: سیدنا ابو الدرداءؓ  نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: کیا تم میں سے کوئی اس بات سے عاجز ہے کہ ہر رات ایک تہائی قرآن پڑھ لے ؟ صحابہؓ نے عرض کیا کہ کوئی تہائی قرآن کیسے پڑھ سکتا ہے ؟ آپﷺ نے فرمایا کہ ”قل ھو الله احد“ تہائی قرآن کے برابر ہے۔

2100: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ  نے ایک شخص کو ایک فوج پر سردار کر کے بھیجا اور وہ اپنی فوج کی نماز میں قرآن پڑھتے اور قرأت کو ہمیشہ ”قُلْ ہُوَ اللهُ اَحَدٌ“ پر ختم کرتے۔ پھر جب فوج لوٹ کر آئی تو لوگوں نے رسول اللہﷺ  سے اس بات کا ذکر کیا تو آپﷺ نے فرمایا کہ ان سے پوچھو کہ وہ کیوں ایسا کرتے تھے ؟ پس صحابہ کرام نے ان سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ یہ رحمن کی صفت ہے اور میں بات پسند کرتا ہوں کہ اس کو پڑھا کروں آپﷺ نے فرمایا کہ ان سے کہہ دو کہ اللہ تعالیٰ تم سے محبت رکھتا ہے۔

باب : معوذتین (قُلْ أَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ اور قُلْ أَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ) کی قرأت کی فضیلت۔

2101: سیدنا عقبہ بن عامرؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: تم نہیں دیکھتے کہ آج کی رات ایسی آیتیں اتریں ہیں کہ ان جیسی (سورتیں) کبھی نہیں دیکھی گئیں اور وہ ”قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ“ اور ”قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ“ ہیں۔

باب : جو شخص قرآن کی وجہ سے بلند مقام دیا جاتا ہے۔

2102: عامر بن واثلہ سے روایت ہے کہ نافع بن عبدالحارث نے سیدنا عمرؓ  سے (مقامِ) عسفان میں ملاقات کی اور سیدنا عمرؓ  نے ان کو مکہ پر عامل/ تحصیلدار بنا ہوا تھا۔ سیدنا عمرؓ  نے پوچھا کہ تم نے جنگل والوں پر کس کو عامل بنایا؟ انہوں نے کہا کہ ابن ابزیٰ کو۔ سیدنا عمرؓ  نے کہا کہ ابن ابزیٰ کون ہے ؟ انہوں نے کہا کہ ہمارے آزاد کردہ غلاموں میں سے ایک غلام ہے۔ سیدنا عمرؓ  نے کہا کہ تم نے غلام کو ان پر عامل کر دیا؟ انہوں نے کہا کہ وہ کتاب اللہ کے قاری ہیں اور علم الفرائض (یعنی قوانین وراثت جسے نبیﷺ نے نصف العلم قرار دیا ہے ) خوب جانتے ہیں۔ سیدنا عمرؓ  نے کہا کہ سنو تمہارے نبیﷺ نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کتاب کے سبب سے کچھ لوگوں کو بلند کرے گا اور کچھ لوگوں کو گرا دے گا۔

باب : قرآن سیکھنے کی فضیلت۔

2103: سیدنا عقبہ بن عامرؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نکلے اور ہم لوگ صفہ میں تھے۔ پس آپﷺ نے فرمایا کہ تم میں سے کون چاہتا ہے کہ روز صبح کو بطحان یا عقیق کو جائے (یہ دونوں مدینہ کے بازار تھے ) اور وہاں سے بڑے بڑے کوہان کی دو اونٹنیاں بغیر کسی گناہ کی اور بغیر اس کے کہ کسی رشتہ دار کی حق تلفی کرے ، لائے تو ہم نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ  ! ہم سب اس کو چاہتے ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ پھر تم میں سے ہر ایک مسجد کو کیوں نہیں جاتا اور کیوں نہیں سیکھتا یا پڑھتا اللہ کی کتاب کی دو آیتیں، جو اس کے لئے دو اونٹنیوں سے بہتر ہیں اور تین بہتر ہیں تین اونٹنیوں سے اور چار بہتر ہیں چار اونٹنیوں سے اور اسی طرح جتنی آیتیں ہوں، اتنی اونٹنیوں سے بہتر ہیں۔

باب : ان کی مثال جو قرآن پڑھتا ہے اور جو نہیں پڑھتا۔

2104: سیدنا ابو موسیٰ اشعریؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ  نے فرمایا: قرآن پڑھنے والے مومن کی مثال ترنج کی سی ہے کہ اس کی خوشبو بھی عمدہ ہے اور اس کا مزا بھی اچھا ہے اور قرآن نہ پڑھنے والے مومن کی مثال کھجور کی سی ہے کہ اس میں بُو نہیں مگر مزا میٹھا ہے اور قرآن پڑھنے والے منافق کی مثال پھول کے مانند ہے کہ اس کی بُو اچھی ہے لیکن اس کا مزا کڑوا ہے۔ اور قرآن نہ پڑھنے والے منافق کی مثال اندرائن (کوڑ تنبہ) کی سی ہے کہ اس میں خوشبو بھی نہیں اور مزا بھی کڑوا ہے۔

باب : قرآن کا ماہر اور اس شخص کے متعلق جس پر قرآن پڑھنا مشکل ہو۔

2105: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ  نے فرمایا: قرآن کا مشاق (اس سے حافظ مراد ہو سکتا ہے جو کہ عامل ہو) ان بزرگ فرشتوں کے ساتھ ہے جو لوحِ محفوظ کے پاس لکھتے رہتے ہیں اور جو قرآن پڑھتا ہے اور اس میں اٹکتا ہے اور وہ اس کے لئے مشقت کا باعث ہے تو اس کے لئے دو گنا ثواب ہے۔

باب : قرآن پڑھنے سے (اللہ کی طرف سے ) سکون نازل ہوتا ہے۔

2106: سیدنا براءؓ  کہتے ہیں کہ ایک شخص سورۂ کہف پڑھ رہا تھا اور اس کے پس دو لمبی رسیوں میں ایک گھوڑا بندا ہوا تھا۔ پس اس پر ایک بدلی چھا گئی جو گھومنے اور قریب آنے لگی اور اسے دیکھ کر اسکا گھوڑا بدکنے لگا۔ پھر جب صبح ہوئی تو وہ شخص نبیﷺ کے پاس آیا اور (رات کے واقعہ) کا ذکر کیا۔ آپﷺ نے فرمایا کہ یہ تو سکینت (تسکین) تھی جو قرآن کی برکت سے نازل ہوئی تھی۔

2107: سیدنا ابو سعید خدریؓ  سے روایت ہے کہ سیدنا اسید بن حضیرؓ  اپنی کھجوریں خشک کرنے کی جگہ میں ایک رات قرآن پڑھ رہے تھے کہ ان کا گھوڑا کودنے لگا اور وہ پڑھتے تھے تو گھوڑا کودتا تھا۔ پھر وہ پڑھنے لگے ، پھر وہ کودنے لگا۔ انہوں نے کہا کہ میں ڈرا کہ کہیں (میرے بیٹے ) یحییٰ کو کچل نہ ڈالے ، پس میں اس کے پاس جا کھڑا ہوا۔ اور کیا دیکھتا ہوں کہ ایک سائبان سا میرے سر پر ہے کہ اس میں چراغ سے روشن ہیں اور وہ اوپر کو چڑھ گیا، یہاں تک کہ حد نظر سے دور چلا گیا۔ پھر نہ دیکھا پھر میں رسول اللہﷺ  کی خدمت میں صبح کو حاضر ہوا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ  ! رات کو میں اپنے کھریاں میں قرآن پڑھتا تھا کہ اچانک میرا گھوڑا کودنے لگا۔ رسول اللہﷺ  نے فرمایا کہ پڑھے جا اے ابن حضیر! انہوں نے کہا کہ میں پڑھے گیا، گھوڑا پھر کودنے لگا۔ پھر آپﷺ نے فرمایا کہ اے ابن حضیر پڑھے جا۔ انہوں نے کہا کہ میں پڑھتا گیا تو گھوڑا ویسے ہی کودنے لگا پھر آپﷺ نے فرمایا کہ پڑھے جا اے ابن حضیر! انہوں نے کہا کہ جب میں فارغ ہوا اور یحییٰ گھوڑے کے پاس تھا تو مجھے خوف ہوا کہ کہیں یحییٰ کو نہ کچل ڈالے ، تومیں نے ایک سائبان سا دیکھا کہ اس میں چراغ سے روشن تھے اور وہ اوپر کو چڑھ گیا یہاں تک کہ حد نظر سے اوپر ہو گیا تب رسول اللہﷺ  نے فرمایا کہ یہ فرشتے تھے جو تمہاری قرأت سن رہے تھے اور اگر تم پڑھتے رہتے تو اسی طرح صبح ہوتی کہ لوگ ان (فرشتوں) کو دیکھتے اور وہ ان کی نظر سے پوشیدہ نہ رہتے۔

باب : دو چیزوں کے علاوہ کسی چیز میں رشک (جائز) نہیں ہے۔

2108: سیدنا سالم اپنے والد سیدنا عبد اللہؓ  سے روایت کرتے ہیں اور وہ نبیﷺ سے کہ آپﷺ نے فرمایا: دو مَردوں کے سوا اور کسی پر رشک جائز نہیں ہے۔ ایک تو وہ جس کو اللہ تعالیٰ نے قرآن عنایت کیا ہو اور وہ اس دن رات پڑھتا ہو (اور اس پر عمل کرتا ہو) دوسرے وہ جسے اللہ تعالیٰ نے مال دیا ہو اور وہ دن رات اسے (اللہ کی راہ میں) خرچ کرتا ہو۔

باب : قرآن کو زیادہ تلاوت کے ذریعے یاد رکھنے کا حکم۔

2109: سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہﷺ  نے ارشاد فرمایا کہ قرآن یاد کرنے والے کی مثال ایسی ہے جیسے ایک پیر بندھے ہوئے اونٹ کی کہ اگر اس کے مالک نے اس کا خیال رکھا تو (اونٹ موجود) رہا اور اگر چھوڑ دیا تو (اونٹ بھی کہیں) چل دیا۔

2110: سیدنا عبد اللہ بن مسعودؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ  نے فرمایا: تم میں سے بہت بُرا ہے وہ شخص جو یہ کہے کہ میں فلاں فلاں آیت بھول گیا ہوں بلکہ یوں کہنا چاہئیے کہ بھلا دیا گیا ہوں اور قرآن کا خیال اور یادداشت رکھو کہ وہ لوگوں کے سینوں سے ان جانوروں سے زیادہ بھاگنے والا ہے جن کی ایک ٹانگ بندھی ہو۔

باب : قرآن کی تلاوت کرتے وقت آواز کو خوبصورت بنانا۔

2111: سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے کہ انہوں نے نبیﷺ سے سنا، آپﷺ فرماتے تھے کہ اللہ تعالیٰ اس طرح کسی چیز کو نہیں سنتا جس طرح خوش آواز نبی کی آواز سنتا ہے جو بلند ترنم سے قرآن پڑھتا ہو۔

2112: ابو بردہ سیدنا ابو موسیٰؓ  سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے کہا کہ رسول اللہﷺ  نے فرمایا: اگر تم مجھے دیکھتے جب میں کل رات تمہاری قرأت سن رہا تھا (تو بہت خوش ہوتے )۔ بیشک تمہیں آلِ داؤد کی آوازوں میں سے ایک آواز دی گئی ہے۔

باب : قرآن کی قرأت میں ترجیع کرنا (سُر لگانا وغیرہ)۔

2113: سیدنا معاویہ بن قرۃکہتے ہیں کہ میں نے عبد اللہ بن مغفلؓ  سے سنا، وہ کہتے تھے کہ جس سال مکہ فتح ہوا، اس سال نبیﷺ نے راستے میں سورۂ فتح اپنی سواری پر پڑھی اور اپنی قرأت میں آواز میں سُر لگاتے تھے۔ سیدنا معاویہؓ  نے کہا کہ اگر مجھے اس بات کا خوف نہ ہوتا کہ لوگ مجھے گھیر لیں گے تو میں تمہیں آپﷺ کی قرأت سناتا۔

باب : رات کو اونچی آواز سے قرأت کرنا اور اس کو توجہ سے سننا۔

2114: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے ایک شخص کو رات کو قرآن پڑھتے ہوئے سنا تو فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اس پر رحمت کرے ، اس نے مجھے فلاں آیت یاد دلا دی جس کو میں فلاں سورۃ سے چھوڑ دیتا تھا۔

باب : قرآن سات حرفوں (قرأتوں) پر نازل ہوا۔

2115: سیدنا عمر بن خطابؓ  کہتے ہیں کہ میں نے ہشام بن حکیم بن حزامؓ  سے سنا کہ وہ سورۂ فرقان اس طریقہ کے علاوہ پڑھ رہے تھے جس طریقہ پر مجھے رسول اللہﷺ  نے پڑھائی پس میں قریب تھا کہ ان کو جلد پکڑ لوں مگر میں نے انہیں مہلت دی، یہاں تک کہ وہ پڑھ چکے۔ پھر میں ان کی چادر ان کے گلے میں ڈال کر کھینچتے ہوئے اور رسول اللہﷺ  تک لایا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ  ! میں نے انہیں سورۂ فرقان سنی اس طریقے کے خلاف جیسے کہ آپﷺ نے مجھے پڑھائی ہے۔ رسول اللہﷺ  نے فرمایا کہ اچھا ان کو چھوڑ دو اور ان سے کہا کہ پڑھو۔ انہوں نے ویسا ہی پڑھا جیسا میں نے ان سے پہلے سنا تھا اور رسول اللہﷺ  نے فرمایا کہ یہ سورۃ ایسے ہی اتری ہے۔ پھر مجھ سے کہا کہ پڑھو۔ میں نے بھی پڑھی (یعنی جیسے رسول اللہﷺ  نے مجھے پڑھائی تھی)، تب بھی آپﷺ نے فرمایا کہ یہ ایسے ہی اتری ہے اور فرمایا کہ قرآن سات حرفوں پر اترا ہے ، اس میں سے جو تمہیں آسان ہو اس طرح پڑھو۔

باب : نبیﷺ کا کسی دوسرے پر قرآن پڑھنا۔

2116: سیدنا انس بن مالکؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ  نے سیدنا ابی بن کعبؓ  سے فرمایا کہ (اور یہ سب قاریوں کے سردار ہیں) اللہ عزت والے اور بزرگی والے نے مجھے حکم کیا کہ میں تمہارے آگے سورۃ ” لَمْ یَکُنِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا …“ پڑھوں۔ انہوں نے عرض کیا کہ کیا اللہ جل جلالہ نے میرا نام لیا ہے ؟ آپﷺ نے فرمایا کہ ہاں (اللہ تعالیٰ نے میرے آگے تمہارا نام لیا ہے ) توسیدنا ابی بن کعبؓ  (خوشی سے ) رونے لگے۔

باب : نبیﷺ کا جنوں پر قرآن پڑھنا۔

2117: عامر الشعبی کہتے ہیں کہ میں نے علقمہ سے پوچھا کہ کیا لیلۃالجن میں سیدنا ابن مسعودؓ  رسول اللہﷺ  کے ساتھ تھے ؟ انہوں نے کہا کہ میں نے سیدنا ابن مسعودؓ  سے پوچھا تھا کیا لیلۃالجن میں تم میں سے کوئی رسول اللہﷺ  کے ساتھ تھا؟ (یعنی جس رات آپﷺ نے جنوں سے ملاقات فرمائی) انہوں نے کہا کہ نہیں، لیکن ایک روز ہم رسول اللہﷺ  کے ساتھ تھے کہ آپﷺ گم پایا۔ پس ہم نے آپﷺ کو پہاڑ کی وادیوں اور گھاٹیوں میں تلاش کیا، لیکن آپﷺ نہ ملے۔ ہم سمجھے کہ آپﷺ کو جن اڑا لے گئے یا کسی نے چپکے سے مار ڈالا اور رات ہم نے نہایت بُرے طور سے بسر کی۔ جب صبح ہوئی تو دیکھا کہ آپﷺ حراء (جبل نور پہاڑ ہے جو مکہ اور منیٰ کے درمیان میں ہے ) کی طرف سے آ رہے ہیں۔ ہم نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ  ! رات کو ہم نے آپﷺ کو گم پایا اور جب تلاش کے باوجود بھی آپ نہ ملے تو آخر ہم نے (آپ کے بغیر) بہت بُرے طور سے رات گزاری۔ آپﷺ نے فرمایا کہ مجھے جنوں کی طرف سے ایک بلانے والا آیا تو میں اس کے ساتھ چلا گیا اور جنوں کو قرآن سنایا۔ پھر آپ ہمیں اپنے ساتھ لے گئے اور ان کے نشان اور ان کے انگاروں کے نشان بتلائے۔ جنوں نے آپﷺ سے زادِ راہ چاہا تو آپﷺ نے فرمایا کہ اس جانور کی ہر ہڈی جو اللہ کے نام پر کاٹا جائے ، وہ تمہاری خوراک ہے۔ تمہارے ہاتھ میں پڑتے ہی وہ گوشت سے پُر ہو جائے گی اور ہر ایک اونٹ کی مینگنی تمہارے جانوروں کی خوراک ہے۔ رسول اللہﷺ  نے فرمایا کہ ہڈی اور مینگنی سے استنجا مت کرو، کیونکہ وہ تمہارے بھائی جنوں (اور ان کے جانوروں) کی خوراک ہے۔

2118: معن کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد سے سنا، انہوں نے کہا کہ میں نے مسروق سے پوچھا کہ جس رات جنوں نے آ کر قرآن سنا تو رسول اللہﷺ  کو اس بات کی خبر کس نے دی؟ انہوں نے کہا کہ مجھ سے تمہارے باپ (یعنی سیدنا عبد اللہ بن مسعود ص) نے بیان کیا کہ آپﷺ کو جنوں کے آنے کی خبر درخت نے دی تھی۔

باب : نبیﷺ کا اپنے علاوہ کسی سے قرآن سننا۔

2119: سیدنا عبد اللہ بن مسعودؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ  نے مجھ سے فرمایا کہ تم میرے سامنے قرآن پڑھو۔ میں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ا! میں آپﷺ کے آگے قرآن پڑھوں؟ حالانکہ آپﷺ ہی پر تو اترا ہے ؟ آپﷺ نے فرمایا کہ میرا جی چاہتا ہے کہ میں اور سے سنوں۔ پھر میں نے سورۂ نساء پڑھی، یہاں تک کہ جب میں اس آیت پر پہنچا ”فکیف اذا جئنا“ (النسآء:41) تو میں نے سر اٹھایا یا مجھے کسی نے چٹکی لی تو میں نے سر اٹھایا اور دیکھا کہ آپﷺ کے آنسو بہہ رہے تھے۔

2120: سیدنا عبد اللہ بن مسعودؓ  کہتے ہیں کہ میں حمص میں تھا کہ لوگوں نے مجھ سے قرآن سنانے کو کہا۔ میں نے سورۂ یوسف پڑھی۔ ایک شخص نے کہا کہ اللہ کی قسم! ایسا نہیں اترا۔ میں نے کہا کہ تیری خرابی ہو، اللہ کی قسم! میں نے تو یہ سورت رسول اللہﷺ  کے آگے پڑھی تھی تو آپﷺ نے فرمایا کہ تم نے خوب پڑھا۔ غرض میں اس سے بات کر ہی رہا تھا کہ میں نے اس سے شراب کی بُو پائی۔ میں نے کہا کہ تو شراب پیتا ہے اور اللہ کی کتاب کو جھٹلاتا ہے ؟ تو جانے نہ پائے گا جب تک میں تجھے حد نہ مار لوں گا۔ پھر میں نے اسے (شراب کی حد کے ) کوڑے مارے۔

باب : قرآن کے بارے میں اختلاف کرنے سے سختی۔

2121: سیدنا عبد اللہ بن عمروؓ  کہتے ہیں کہ ایک دن میں صبح سویرے رسول اللہﷺ  کے پاس گیا۔ آپﷺ نے دو آدمیوں کی آواز سنی جو ایک آیت کے بارے میں جھگڑ رہے تھے تو آپﷺ باہر نکلے اور آپﷺ کے چہرے پر غصہ معلوم ہوتا تھا۔ آپﷺ نے فرمایا کہ تم سے پہلے لوگ اللہ تعالیٰ کی کتاب میں جھگڑا کرنے کی وجہ سے تباہ ہوئے (جو نفسانیت اور فساد کی نیت سے ہویا لوگوں کو بہکانے کیلئے۔ لیکن مطلب کی تحقیق کے لئے اور دین کے احکام نکالنے کے لئے درست ہے۔ نووی)۔

2122: سیدنا جندب بن عبد اللہ بجلیؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ  نے فرمایا: قرآن اس وقت تک پڑھو جب تک تمہارے دل تمہاری زبان سے موافقت کریں اور جب تمہارے دل اور زبان میں اختلاف پڑے ، تو اٹھ کھڑے ہو۔

بُو پائی۔ میں نے کہا کہ تو شراب پیتا ہے اور اللہ کی کتاب کو جھٹلاتا ہے ؟ تو جانے نہ پائے گا جب تک میں تجھے حد نہ مار لوں گا۔ پھر میں نے اسے (شراب کی حد کے ) کوڑے مارے۔

باب : قرآن کے بارے میں اختلاف کرنے سے سختی۔

2121: سیدنا عبد اللہ بن عمروؓ  کہتے ہیں کہ ایک دن میں صبح سویرے رسول اللہﷺ  کے پاس گیا۔ آپﷺ نے دو آدمیوں کی آواز سنی جو ایک آیت کے بارے میں جھگڑ رہے تھے تو آپﷺ باہر نکلے اور آپﷺ کے چہرے پر غصہ معلوم ہوتا تھا۔ آپﷺ نے فرمایا کہ تم سے پہلے لوگ اللہ تعالیٰ کی کتاب میں جھگڑا کرنے کی وجہ سے تباہ ہوئے (جو نفسانیت اور فساد کی نیت سے ہویا لوگوں کو بہکانے کیلئے۔ لیکن مطلب کی تحقیق کے لئے اور دین کے احکام نکالنے کے لئے درست ہے۔ نووی)۔

2122: سیدنا جندب بن عبد اللہ بجلیؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ  نے فرمایا: قرآن اس وقت تک پڑھو جب تک تمہارے دل تمہاری زبان سے موافقت کریں اور جب تمہارے دل اور زبان میں اختلاف پڑے ، تو اٹھ کھڑے ہو۔

 

 

 

کتاب: تفسیر (قرآن مجید)

 

سورۃ البقرة

باب : اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿وَادْخُلُوْا الْبَابَ سُجَّدًا …﴾ کے متعلق۔

2123: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ بنی اسرائیل سے کہا گیا تھا کہ تم (بیت المقدس کے ) دروازہ میں رکوع کرتے ہوئے جاؤ اور کہو گُناہوں کی بخشش (چاہتے ہیں) تمہارے گناہ بخش دیئے جائیں گے “ لیکن بنی اسرائیل نے حکم کے خلاف کیا اور وہ دروازہ میں سرین کے بل گھسٹتے ہوئے آئے اور کہنے لگے کہ ”بالی میں دانہ“ (یعنی ہمیں گندم چاہئیے )۔

باب : اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿وَلَیْسَ الْبِرَّ …﴾ کے بارے میں۔

2124: ابو اسحاق کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا براءؓ  سے سنا، وہ کہتے تھے کہ انصار جب حج کر کے لوٹ کر آتے تو گھر میں (دروازے سے ) نہ آتے بلکہ پیچھے سے (دیوار پر چڑھ کر) آتے۔ ایک انصاری آیا اور دروازے سے داخل ہوا تو لوگوں نے اس کے بارے میں اس سے گفتگو کی، تب یہ آیت اتری کہ ”یہ نیکی نہیں ہے کہ تم گھروں میں پیچھے سے آؤ، بلکہ نیکی یہ ہے کہ پرہیزگاری کرو اور گھروں میں دروازے سے آؤ“۔

باب : اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿رَبِّ اَرِنِیْ …﴾ کے متعلق۔

اس باب میں سیدنا ابو ہریرہؓ  کی حدیث کتاب الفضائل میں گزر چکی ہے (دیکھئے حدیث: 1608)۔

باب : اللہ تعالی کے فرمان ﴿وَاِنْ تُبْدُوْا مَا فِی…﴾ اللہ تعالیٰ کے فرمان کے متعلق۔

2125: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ جب رسول اللہﷺ  پر یہ آیت: نازل ہوئی ﴿ِللهِ مَا فِی السَّمٰوَاتِ وَمَا فِی الْاَرْض …﴾ یعنی ”جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے ، سب اللہ تعالیٰ کے لئے ہے۔ تم اس بات کو ظاہر کرو جو تمہارے دلوں میں ہے یا چھپائے رکھو، اللہ تعالیٰ تم سے حساب لے لے گا، پھر جس کو چاہے گا معاف کر دے گا اور جس کو چاہے گا عذاب دے گا اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے “ نازل ہوئی تو یہ آیت صحابہ کرامؓ پر بہت ہی سخت گزری۔ وہ نبیﷺ کے پاس آئے اور گھٹنوں کے بل بیٹھ گئے۔ پھر کہنے لگے کہ یا رسول اللہﷺ  (پہلے تو ) ہم نماز، روزہ، جہاد اور صدقہ وغیرہ ایسے اعمال کے مکلف بنائے گئے تھے (جن پر طاقت رکھتے تھے )، اور اب آپ پر یہ آیت نازل ہوئی ہے ، اس کی تو ہم طاقت ہی نہیں رکھتے۔ نبیﷺ نے فرمایا کیا تم ویسی ہی بات کہنا چاہتے ہو جیسی تم سے پہلے دو کتابوں والوں (یہود و نصاریٰ) نے کہی تھی (یعنی انہوں نے کہا) ”سمعنا و عصینا“ کہ ہم نے (اللہ اور رسول کی بات کو) سن تو لیا ہے لیکن مانتے نہیں ہیں، بلکہ آپ لوگوں کو یوں کہنا چاہیئے کہ ہم نے (اللہ کی اور رسول کی بات کو) سن لیا اور مان لیا۔ اے ہمارے رب ہم تیری بخشش چاہتے ہیں اور ہماری واپسی تیری طرف ہے۔ تو صحابہ کرامؓ نے یہی کہا کہ ہم نے سن لیا اور مان لیا ہم اپنے گناہوں کی معافی چاہتے ہیں اے ہمارے رب! اور تیری ہی طرف واپسی ہے۔ جب صحابہ کرامؓ نے اس کو پڑھنا شروع کیا تو اس کے پڑھنے سے ان کی زبانوں کو سہولت ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل کیں ﴿اٰمَنَ الرَّسُولُ بِمَا اُنْزِلَ اِلَیْہِ …﴾ یعنی ”رسول اللہﷺ  اس (شریعت) کے ساتھ ایمان لائے جو ان کے رب کی طرف سے ان پر نازل کی گئی اور مومن لوگ بھی ایمان لائے اور سب کے سب ایمان لائے اللہ تعالیٰ کے ساتھ اور اس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں کے ساتھ (سب کے سب کہتے ہیں) کہ ہم اللہ کے رسولوں کے درمیان فرق نہیں کرتے (سب رسولوں کو مانتے ہیں یہ نہیں کہ کسی رسول کو مانیں اور کسی کو نہ مانیں) اور انہوں نے کہا کہ ہم نے سنا اور مان لیا، اے ہمارے رب! ہم تیری بخشش چاہتے ہیں اور تیری ہی طرف واپسی ہے “۔

جب صحابہ کرامؓ نے یہ کیا (یعنی ان آیات کو پڑھا اور سچے دل سے پڑھا) تو اللہ تعالی نے آیت ﴿وَاِنْ تُبْدُوْا مَا فِیْ اَنْفُسُکُمْ …﴾ آیت کو منسوخ کر دیا اور آیت ﴿لَا یُکَلِّفُ الله نَفْسًا… ﴾ اتار دی یعنی ”اللہ تعالیٰ کسی نفس کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف میں نہیں ڈالتا، اس (نفس) کے لئے وہ ہے جو اس نے کمایا اور اس کے خلاف بھی وہی کچھ ہو گا جو اس نے کمایا، اے ہمارے رب! ہم پر ویسا بوجھ نہ رکھنا جیسا کہ ہم سے پہلے والوں پر رکھا تھا تو اللہ نے فرمایا ”ہاں“۔ اے ہمارے رب! ہم سے وہ بوجھ نہ اٹھوانا جس کی ہم میں اٹھانے کی طاقت نہ ہو تو اللہ نے فرمایا ”ہاں“۔ اور ہمیں معاف کر دے ، ہمیں بخش دے ، ہم پر رحم کر تو ہمارا دوست یا مالک ہے ، پس تو کافر قوم پر ہماری مدد فرما تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ”ہاں“۔

سورۃ آل عمران

باب : اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿ھُوَ الَّذِیْ اَنْزَلَ عَلَیْکَ …﴾ کے متعلق۔

2126: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ  نے یہ آیت پڑھی کہ ”اللہ تعالیٰ وہ ہے جس نے تجھ پر کتاب اتاری، اس میں بعض آیتیں مضبوط (محکم) ہیں، وہ تو کتاب کی جڑ ہیں اور بعض متشابہ (یعنی گول مول یا چھپے مطلب کی)۔ پھر جن لوگوں کے دل میں گمراہی ہے ، وہ متشابہ آیتوں کا کھوج کرتے ہیں اور فساد چاہتے ہیں اور اس کا مطلب چاہتے ہیں حالانکہ اس کا مطلب اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا اور جو پکے علم والے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ہم اس پر ایمان لائے سب آیتیں ہمارے رب کے پاس سے آئی ہیں اور نصیحت وہی سنتے ہیں جو عقل رکھتے ہیں“ اُمّ المؤمنین کہتی ہیں کہ (تلاوت کے بعد) رسول اللہﷺ  نے فرمایا کہ جب تم ان لوگوں کو دیکھو جو متشابہ آیات کا کھوج کرتے ہیں تو ان سے بچو کہ وہی لوگ ہیں جن کا اللہ تعالیٰ نے (قرآن میں) نام لیا ہے۔ (یعنی ان کے دلوں میں کجی ہے اس لئے ایمان والوں کو ایسے لوگوں سے بچنا چاہیئے )

باب : اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ …﴾ کے متعلق۔

2127: سیدنا ابو سعید خدریؓ  سے روایت ہے کہ کچھ منافق رسول اللہﷺ  کے عہد مبارک میں ایسے تھے کہ جب آپﷺ لڑائی پر جاتے تو وہ پیچھے رہ جاتے اور نبیﷺ کے پیچھے گھر میں بیٹھنے سے خوش ہوتے۔ پھر جب آپﷺ لوٹ کر آتے تو آپﷺ سے عذر کرتے اور قسم کھاتے اور چاہتے کہ لوگ ان کی ان کاموں پر تعریف کریں جو انہوں نے نہیں کئے۔ تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری کہ ”مت گمان کرو ان لوگوں کو جو اپنے کئے سے خوش ہوتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ان کی ایسے کاموں پر تعریف کی جائے جو انہوں نے نہیں کئے ، پس ان کے بارہ میں یہ گمان ہرگز نہ کرو کہ یہ عذاب سے چھٹکارا پائیں گے ان کو دُکھ کی مار ہے “۔

2128: حمید بن عبدالرحمن بن عوف سے روایت ہے کہ مروان نے اپنے دربان رافع سے کہا کہ ابن عباسؓ  کے پاس جا اور کہہ کہ اگر ہم میں سے ہر اس آدمی کو عذاب ہو جو اپنے کئے پر خوش ہوتا ہے اور چاہتا ہے کہ لوگ اس کی اس بات پر تعریف کریں جو اس نے نہیں کی، پھر تو ہم سب کو عذاب ہو گا (کیونکہ ہم سب میں یہ عیب موجود ہے ) تو سیدنا ابن عباسؓ  نے کہا کہ تمہیں اس آیت سے کیا تعلق ہے ؟ یہ آیت تو اہل کتاب کے حق میں اتری ہے۔ پھر سیدنا ابن عباسؓ  نے یہ آیت ﴿وَاِذْ اَخَذَ اللهُ …﴾ آخر تک پڑھی اور پھر ﴿لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ …﴾ آیت پڑھی۔ سیدنا ابن عباسؓ  نے کہا کہ رسول اللہﷺ  نے اہل کتاب سے کوئی بات پوچھی تو انہوں نے اس کو چھپایا اور اس کے بدلے دوسری بات بتائی۔ پھر اس حال میں نکلے کہ آپﷺ کو یہ سمجھایا کہ ہم نے آپﷺ کو وہ بات بتا دی جو آپﷺ نے پوچھی تھی اور آپﷺ سے اپنی تعریف کے طلبگار ہوئے اور دل میں اپنے کئے پر خوش ہوئے (یعنی اپنی اصل بات کے چھپانے پر جو آپﷺ نے ان سے پوچھی تھی تواللہ تعالیٰ انہیں کو فرماتا ہے کہ ان کو عذاب ہو گا اور مراد وہی اہلِ کتاب ہیں)۔

سورۃ النساء

باب : اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿وَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا …﴾ اور ﴿وَیَسْتَفْتُوْنَکَ فِی النِّسَآءِ …﴾ کے متعلق۔

2129: سیدنا عروہ بن زبیرؓ  سے روایت ہے کہ انہوں نے اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے اللہ سبحانہ  و تعالیٰ کے اس فرمان ”اگر تم ڈرو کہ یتیم لڑکیوں میں انصاف نہ کر سکو گے تو ان عورتوں سے نکاح کرو جو تمہیں پسند آئیں دو دو سے اور تین تین سے اور چار چار سے “ کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ اے میرے بھانجے ! اس آیت سے مراد وہ یتیم لڑکی ہے جو اپنے ولی کی گود میں ہو (یعنی پرورش میں جیسے چچا کی لڑکی بھتیجے کے پاس ہو) اور اس کے مال میں شریک ہو (مثلاً چچا کے مال میں)، پھر اس ولی کو اس کا مال اور حسن و جمال پسند آئے اور وہ اس سے نکاح کرنا چاہے لیکن اس کے مہر میں انصاف نہ کرے اور اتنا مہر نہ دے جو اور لوگ دینے کو مستعد ہوں، تو اللہ تعالیٰ نے ایسی لڑکیوں کے ساتھ نکاح کرنے سے منع کیا ہے مگر اس صورت میں (نکاح کرنا جائز ہے ) جب وہ انصاف کریں اور مہر پورا دینے پر راضی ہوں اور ان کو حکم کیا کہ (ان کے علاوہ) دوسری عورتوں سے نکاح کریں جو ان کو پسند آئیں۔ اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ لوگوں نے یہ آیت اُترنے کے بعد پھر رسول اللہﷺ  سے ان لڑکیوں کے بار ے میں پوچھا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری کہ ”تجھ سے عورتوں کے بارے میں پوچھتے ہیں، تو تم کہو کہ اللہ تعالیٰ تمہیں ان کے بارے میں حکم دیتا ہے ، اور جو کتاب میں ان یتیم عورتوں کے حق کے بارے میں پڑھا جاتا ہے جن کا مہر مقرر تم نہیں دیتے اور ان سے نکاح کرنا چاہتے ہو“ اُم المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ یہ جو اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا تھا کہ ”اگر تمہیں اس بات کا خدشہ ہو کہ یتیموں کے بارے میں انصاف نہیں کر سکو گے ، تو (ان کے علاوہ) جو عورتیں تمہیں پسند ہوں، ان سے نکاح کر لو۔ اور اُمّ المؤمنین رضی اللہ عنہا نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کے فرمان دوسری آیت میں ”اور تم رغبت رکھتے ہو ان سے نکاح کی“ سے مراد تم میں سے کسی ایک کا اس یتیم لڑکی سے جو کہ تمہاری زیر پرورش ہو اور مال اور حسن و جمال میں کم ہو، نکاح نہ کرنے کا ارادہ مراد ہے۔ پس انہیں اس یتیم عورت سے جو کہ مال والی اور حسن و جمال والی ہو، نکاح کرنے سے منع کر دیا گیا مگر اس صورت میں کہ جب انصاف کریں (یعنی ان کا حق مہر ان اور ان کا مال وغیرہ ان کو پورا دیں)۔ (اس کا مفہوم یہ ہے کہ شروع میں چونکہ لوگ ایسا کرتے تھے کہ وہ اس یتیم لڑکی سے جو ان کے زیر پرورش ہوتی تھی اور مالدار اور حسین و جمیل ہوتی تھی تو خود ہی ان سے نکاح کر لیتے لیکن ان کے مال میں خیانت کرتے اور مہر بھی پورا نہ دیتے۔ اس صورت میں سورت کے شروع والی آیت میں انہیں ان سے نکاح کرنے سے منع کر دیا لیکن جب صحابہ کرام نے ان کے ساتھ خود نکاح کرنے میں ان کے لئے بہتری کی صورت میں ان سے نکاح کرنے کے بارہ میں پوچھا تو اللہ تعالیٰ نے سورۃ النساء کی دوسری آیت نمبر 127 نازل فرمائی کہ انصاف کے ساتھ نکاح کرنا چاہو تو جائز اور احسن اقدام ہے )۔

باب : اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿وَمَنْ کَانَ فَقِیْرًا …﴾ کے متعلق۔

2130: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے اس آیت ”جو شخص مالدار ہو وہ بچا رہے (اور جو محتاج ہو وہ اپنی ضرورت کے موافق کھائے )“ کے بارہ میں مروی ہے کہ یہ آیت اس شخص کے بارے میں اتری ہے جو یتیم کے مال کا متولی ہو اور اس کو درست کرے اور سنوارے۔ تو اگر وہ محتاج ہو تو دستور کے موافق کھائے (اور جو مالدار ہو تو کچھ نہ کھائے )۔

باب : اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿فَمَا لَکُمْ فِیْ الْمُنَافِقِیْنَ …﴾ کے متعلق۔

2131: سیدنا زید بن ثابتؓ  سے روایت ہے کہ نبیﷺ جنگ اُحد کے لئے نکلے اور جو لوگ آپﷺ کے ساتھ تھے ان میں سے کچھ آدمی لوٹ آئے (وہ منافق تھے اور وہ تین سو کے قریب تھے ) رسول اللہﷺ  کے اصحاب ان کے مقدمہ میں دو فرقے ہو گئے۔ بعض کہنے لگے کہ ہم ان کو قتل کریں گے اور بعض نے کہا کہ نہیں! قتل نہیں کریں گے۔ تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری کہ ”تمہارا کیا حال ہے کہ تم منافقوں کے بارے میں دو فرقے ہو گئے ہو“۔

باب : اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿وَمَنْ یُقْتَلْ مُؤْمِنًا …﴾ کے متعلق۔

2132: سیدنا سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابن عباسؓ  سے کہا کہ جو کوئی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے ، اس کی توبہ ہو سکتی ہے ؟ سیدنا ابن عباسؓ  نے کہا کہ نہیں۔ میں نے ان کو یہ آیت سنائی جو سورۂ فرقان میں ہے کہ ”وَ لِلَّذِیْنَ لاَ یَدْعُوْنَ …“ آخر تک جس کے بعد یہ ہے کہ ”إِلاَّ مَنْ تَابَ …“ (کیونکہ اس سے یہ نکلتا ہے کہ ناحق خون کے بعد توبہ کر سکتا ہے )“ سیدنا ابن عباسؓ  نے کہا کہ یہ آیت مکی ہے اور اس کو اس آیت نے منسوخ کر دیا ہے جو مدینہ میں اتری کہ ”جو کوئی مومن کو عمدًا قتل کرے اس کا بدلہ جہنم ہے اور وہ ہمیشہ اس میں رہے گا“۔ (لیکن ابن عباس سے ایک دوسری روایت میں قاتل کے لئے توبہ کی قبولیت کا ذکر ہے اور وہی صحیح ہے )۔

باب : اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿وَلَا تَقُوْلُوْا …﴾ کے متعلق۔

2133: سیدنا ابن عباسؓ  کہتے ہیں کہ مسلمانوں کے کچھ لوگوں نے ایک شخص کو تھوڑی بکریوں میں دیکھا۔ وہ بولا کہ السلام علیکم۔ مسلمانوں نے اس کو پکڑا اور قتل کر کے وہ بکریاں لے لیں۔ تب یہ آیت اتری کہ ”مت کہو اس کو جو تمہیں سلام کرے کہ تو مسلمان نہیں ہے (بلکہ اپنی جان بچانے کے لئے سلام کرتا ہے )“ سیدنا ابن عباسؓ  نے اس آیت میں سلام پڑھا ہے اور بعض نے سلم پڑھا ہے (تو معنی یہ ہوں گے جو تم سے صلح سے پیش آئے )۔

باب : اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿وَاِنْ امْرَاَةٌ خافَتْ …﴾ کے متعلق۔

2134: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے اس آیت کے بارے میں ”اور اگر کسی عورت کو اپنے خاوند کی طرف سے بدسلوکی یا بے رخی کا خطرہ ہو (تو ان دونوں پر کوئی حرج نہیں کہ وہ آپس میں }کوئی بات طے کر کے { صلح کر لیں …) کہا کہ یہ آیت اس عورت کے بارے میں اتری جو ایک شخص کے پاس ہو اب وہ زیادہ اس کو اپنے پاس نہ رکھنا چاہے ، لیکن اس عورت کی اولاد ہو اور صبحت ہو اپنے خاوند سے اور وہ اپنے خاوند کو چھوڑنا بُرا جانے ، تو اس کو اپنے بارے میں اجازت دے۔ (یعنی اپنا حق زوجیت چھوڑ دے )۔

سورۃ المائدة

باب : اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ …﴾ کے متعلق۔

2135: طارق بن شہاب کہتے ہیں کہ ایک یہودی سیدنا عمرؓ  کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ اے امیرالمؤمنین! تمہاری کتاب میں ایک آیت ہے جس کو تم پڑھتے ہو، اگر وہ ہم یہودیوں پر اترتی تو ہم اس دن کو عید کر لیتے۔ سیدنا عمرؓ  نے کہا کہ کونسی آیت؟ وہ یہودی بولا کہ ”آج کے دن میں نے تمہارے لئے تمہارے دین کو مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمہارے لئے اسلام کو (بطور) دین پسند کر لیا ہے “ سیدنا عمرؓ  نے کہا کہ میں اس دن کو جانتا ہوں جس دن یہ آیت اتری اور اس مقام کو بھی جانتا ہوں جس مقام پر یہ آیت اتری، یہ آیت رسول اللہﷺ  پر مقام عرفات میں جمعہ کے دن اتری (اور وہ دن مسلمانوں کے لئے دو عیدوں کا مجموعہ تھا ایک تو جمعہ کا دن اور دوسرا عرفہ کا دن)۔

سورۃ الانعام

باب : اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿اَلَّذِیْنَ آمَنُوْا وَلَمْ یَلْبِسُوْا …﴾ کے متعلق۔

2136: سیدنا عبد اللہ بن مسعودؓ  کہتے ہیں کہ جب یہ آیت ”جو لوگ ایمان لائے ، پھر انہوں نے اپنے ایمان کے ساتھ ظلم نہیں کیا (یعنی گناہ میں نہ پھنسے )، ان کو امن ہے اور وہی راہ پانے والے ہیں“ اتری تو رسول اللہﷺ  کے صحابہ کرام پر بہت مشکل گزری۔ انہوں نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ  ! ہم میں سے کونسا ایسا ہے جو اپنے نفس پر ظلم (یعنی گناہ) نہیں کرتا؟ چنانچہ رسول اللہﷺ  نے فرمایا کہ اس آیت کا یہ مطلب نہیں جیسا تم خیال کرتے ہو۔ بلکہ ظلم سے مراد وہ ہے جو لقمان علیہ السلام نے اپنے بیٹے سے کہا تھا کہ ”اے میرے بیٹے ! اللہ کے ساتھ شرک مت کر، بیشک شرک بڑا ظلم ہے “ (لقمان: 13)۔

باب : اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿لَایَنْفَعُ نَفْسًا اِیْمَانُھَا …﴾ کے متعلق۔

2137: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ  نے فرمایا: تین باتیں جب ظاہر ہو جائیں تو ”اس وقت کسی کو ایمان لانے سے فائدہ نہ ہو گا، جو پہلے سے ایمان نہ لایا ہو یا نیک کام نہ کیا ہو“ ایک تو سورج کا اس طرف سے نکلنا جس طرف غروب ہوتا ہے ، دوسرے دجال کا نکلنا اور تیسرے زمین کے جانور کا نکلنا۔

2138: سیدنا ابو ذرؓ  سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے ایک دن اپنے صحابہؓ سے فرمایا: تم جانتے ہو کہ یہ سورج کہاں جاتا ہے ؟ انہوں نے کہا کہ اللہ اور اس کا رسولﷺ خوب جانتے ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ یہ چلتا رہتا ہے یہاں تک کہ اپنے ٹھہرنے کی جگہ پر عرش کے نیچے آتا ہے ، وہاں سجدہ میں گر جاتا ہے (اس سجدہ کا مفہوم اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے ) پھر اسی حال میں رہتا ہے یہاں تک کہ اس کو حکم ہوتا ہے کہ اونچا ہو جا اور جا جہاں سے آیا ہے ، تو وہ لوٹ آتا ہے اور اپنے نکلنے کی جگہ سے نکلتا ہے۔ پھر چلتا رہتا ہے یہاں تک کہ اپنے ٹھہرنے کی جگہ پر عرش کے نیچے آتا ہے اور سجدہ کرتا ہے۔ پھر اسی حال میں رہتا ہے یہاں تک کہ اس سے کہا جاتا ہے کہ اونچا ہو جا اور لوٹ جا جہاں سے آیا ہے۔ وہ پھر اپنے نکلنے کی جگہ سے نکلتا ہے۔ اور پھر اسی طرح چلتا ہے۔ ایک بار اسی طرح چلے گا اور لوگوں کو اس کی چال میں کوئی فرق محسوس نہ ہو گا یہاں تک کہ اپنے ٹھہرنے کی جگہ پر عرش کے نیچے آئے گا۔ اس وقت اس سے کہا جائے گا کہ اونچا ہو جا اور مغرب کی طرف سے نکل جدھر تو غروب ہوتا ہے ، تو وہ مغرب کی طرف سے نکلے گا۔ پھر رسول اللہﷺ  نے فرمایا کہ تم جانتے ہو کہ یہ کب ہو گا؟ (یعنی سورج کا مغرب کی طرف سے نکلنا) یہ اس وقت ہو گا ”جب کسی کو ایمان لانا فائدہ نہ دے گاجو پہلے سے ایمان نہ لایا ہو یا اس نے اپنے ایمان میں نیک کام نہ کئے ہوں“۔

سورۃ الاعراف

باب : اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿خُذُوْا زِیْنَتَکُمْ عِنْدَ …﴾ کے متعلق۔

2139: سیدنا ابن عباسؓ  کہتے ہیں کہ عورت (جاہلیت کے زمانہ میں) خانہ کعبہ کا طواف ننگی ہو کر کرتی اور کہتی کہ کون مجھے ایک کپڑا دیتا ہے کہ وہ اسے اپنی شرمگاہ پر ڈال لے ؟ اور کہتی کہ آج کھل جائے گا سب یا بعض پھر جو کھل جائے گا اس کو کبھی حلال نہ کروں گی (یعنی وہ ہمیشہ کے لئے حرام ہو گیا۔ یہ بے ہودہ رسم اسلام نے ختم کر دی) تب یہ آیت اتری کہ ”ہر مسجد کے پاس اپنے کپڑے پہن کر جاؤ“

باب : اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿وَنُوْدُوْا اَنْ تِلْکُمْ الْجَنَّةُ …﴾کے متعلق۔

2140: سیدنا ابو سعید خدریؓ  اور سیدنا ابو ہریرہؓ  نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: ایک پکارنے والا (جنت کے لوگوں کو)پکارے گا کہ تمہارے واسطے یہ ٹھہر چکا کہ تم تندرست رہو گے ، کبھی بیمار نہ ہو گے اور یقیناً تم زندہ رہو گے ، کبھی نہ مرو گے اور یقیناً تم جوان رہو گے ، کبھی بوڑھے نہ ہو گے اور یقیناً تم عیش اور چین میں رہو گے ، کبھی رنج نہ ہو گا۔ اور یہی مطلب ہے اللہ تعالیٰ کے اس قول کا کہ ”جنت والے آواز دئیے جائیں گے کہ یہ تمہاری جنت ہے جس کے تم وارث ہوئے اس وجہ سے کہ تم نیک اعمال کرتے تھے “۔

سورۃ الانفال

باب : اللہ تعالی کے فرمان ﴿وَمَا کَانَ اللهُ لِیُعَذَّبَھُمْ …﴾ کے متعلق۔

2141: سیدنا انس بن مالکؓ  کہتے ہیں کہ ابو جہل لعین نے کہا کہ ”اے اللہ! اگر یہ قرآن سچ ہے اور تیری طرف سے ہے ، تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا، یا دُکھ کا عذاب بھیج“ اس وقت یہ آیت اتری کہ ”اللہ تعالیٰ ان کو عذاب کرنے والا نہیں ہے جب تک (اے نبی) تو ان میں موجود ہے اور اللہ تعالیٰ ان کو عذاب کرنے والا نہیں ہے جب تک وہ استغفار کرتے ہیں۔ اور کیا ہوا جو اللہ عذاب نہ کرے ان کو حالانکہ وہ مسجد حرام میں آنے سے روکتے ہیں ……“ آخر تک۔

سورۃ التوبہ

باب : اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿وَلَا تُصَلِّ عَلٰی اَحَدٍ …﴾ کے متعلق۔

اس باب میں سیدنا ابن عمرؓ  کی حدیث کتاب الفضائل میں، سیدنا عمرؓ  کی فضیلت کے باب میں گزر چکی ہے (دیکھئے حدیث: 1636)۔

باب : سورۃ ”توبہ“، ”انفال“ اور ”حشر“ کے متعلق۔

2142: سیدنا سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابن عباسؓ  سے کہا کہ سورۃ التوبہ؟ انہوں نے کہا کہ سورۃ توبہ؟ اور کہا کہ بلکہ وہ سورت تو ذلیل کرنے والی ہے اور فضیحت کرنے والی ہے (کافروں اور منافقوں کی)۔ اس سورت میں برابر اترتا رہا کہ ”اور ان میں سے “ ”اور ان میں سے “ یہاں تک کہ منافق لوگ سمجھے کہ کوئی باقی نہ رہے گا جس کا ذکر اس سورت میں نہ کیا جائے گا۔ میں نے کہا کہ سورۃ الانفال؟ انہوں نے کہا کہ وہ سورت تو بدر کی لڑائی کے بارے میں ہے (اس میں مالِ غنیمت کے احکام مذکور ہیں)۔ میں نے کہا کہ سورۃ الحشر؟ انہوں نے کہا کہ وہ بنی نضیر کے بارے میں اتری۔

سورۃ ھود

باب : اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿اِنَّ الْحَسَنَاتِ یُذْھِبْنَ …﴾کے متعلق۔

2143: سیدنا عبد اللہ بن مسعودؓ  کہتے ہیں کہ ایک آدمی رسول اللہﷺ  کے پاس آیا اور کہا کہ یا رسول اللہﷺ  ! میں نے مدینہ کے کنارے میں ایک عورت سے مزہ اٹھایا اور میں نے سب باتیں کیں سوائے جماع کے۔ اب میں حاضر ہوں جو چاہے میرے بارے میں حکم دیجئے۔ سیدنا عمرؓ  نے کہا کہ اللہ نے تیرے گناہ پر پردہ ڈال رکھا تھا، تو بھی اگر پردہ ڈالے رکھتا تو بہتر ہوتا۔ رسول اللہﷺ  نے اسے کچھ جواب نہ دیا۔ تب وہ شخص کھڑا ہوا اور چل پڑا۔ آپﷺ نے اس کے پیچھے ایک شخص کو بھیجا اور بلا کر یہ آیت پڑھی: اِنَّ الْحَسَنَاتِ یُذْھِبْنَ … ایک شخص بولا کہ یا رسول اللہﷺ  ! یہ حکم خاص اسی کے لئے ہے ؟آپﷺ نے فرمایا کہ نہیں بلکہ سب کے لئے ہے۔

سورۃ الاسراء (بنی اسرائیل)

باب : اللہ کے فرمان ﴿وَیَسْألُوْنَکَ عَنِ الرُّوْحِ … ﴾ کے متعلق۔

2144: سیدنا عبد اللہ بن مسعودؓ  کہتے ہیں کہ میں رسول اللہﷺ  کے ساتھ ایک کھیت میں جا رہا تھا اور آپﷺ ایک لکڑی پر ٹیکا دئیے ہوئے تھے کہ آپﷺ یہود کے ایک گروہ کے پاس سے گزرے۔ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا کہ ان سے روح کے بارے میں پوچھو۔ دوسرے نے کہا کہ تمہیں کیا شبہ ہے جو پوچھتے ہو؟ ایسا نہ ہو کہ وہ کوئی ایسی بات کہیں جو تمہیں بُری معلوم ہو۔ پھر انہوں نے کہا کہ پوچھو۔ آخر ان میں سے کچھ لوگ اٹھے اور آپﷺ کی طرف آئے اور روح کے بارے میں پوچھا تو آپﷺ خاموش ہو رہے اور کچھ جواب نہ دیا۔ میں سمجھا کہ آپﷺ پر وحی آ رہی ہے۔ کہتے ہیں کہ میں اسی جگہ کھڑا رہا۔ جب وحی اتر چکی تو آپﷺ نے یہ آیت پڑھی کہ ”تجھ سے روح کے بارے میں پوچھتے ہیں تو کہہ دو کہ روح میرے رب کا ایک حکم ہے اور تم علم نہیں دئیے گئے مگر تھوڑا“۔

باب : اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿اُوْلٰئِکَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ …﴾ کے متعلق۔

2145: سیدنا عبد اللہ بن مسعودؓ  سے اس آیت ”جن کو یہ لوگ پکارتے ہیں، وہ تو اپنے مالک کے پاس وسیلہ ڈھونڈھتے ہیں“ کے متعلق روایت ہے کہ بعض آدمی چند جنوں کی پوجا کرتے تھے ، وہ جن مسلمان ہو گئے (اور ان کے پوجنے والوں کو خبر نہ ہوئی)۔ اور وہ لوگ ان کو ہی پوجتے رہے ، تب یہ آیت اتری کہ ”وہ جن کی یہ لوگ پوجا کرتے ہیں، وہ تو اپنے مالک کے پاس وسیلہ ڈھونڈھتے ہیں“۔

باب : اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿وَلَا تَجْھَرْ بِصَلَاتِکَ…﴾ کے متعلق۔

2146: سیدنا ابن عباسؓ  اس آیت ”تم اپنی نماز کو نہ زیادہ اونچی آواز میں پڑھو اور نہ بالکل ہی آہستہ، بلکہ متوسط طریقہ اختیار کرو“ کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ مکہ مکرمہ میں اس وقت نازل ہوئی جب کہ رسول اللہﷺ  خوف کی وجہ سے ایک گھر میں پوشیدہ تھے۔ واقعہ یہ ہے جب آپﷺ صحابہ کو نماز پڑھاتے تو قرآن بآوازِ بلند پڑھتے۔ پس جب کہ مشرک قرآن کریم کی آواز سنتے تو قرآن کریم، اس کو نازل کرنے والے (یعنی اللہ تعالیٰ) اور جس پر نازل ہوا (یعنی رسول اللہﷺ  ) کو گالیاں دیتے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیﷺ سے فرمایا کہ”آپﷺ تنے زور سے نماز (میں قرآن)نہ پڑھیں“ کہ جسے مشرک سن سکیں ”اور اتنے آہستہ بھی نہ (قرآن) پڑھیں“ کہ آپ کے اصحاب بھی نہ سن سکیں ”بلکہ درمیانی آواز میں (قرآن) پڑھئے “ آہستہ اور اونچی آواز کے درمیان درمیان۔

2147: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اللہ تعالیٰ کے اس فرمان ”وَلَا تَجْھَرْ بِصَلَاتِکَ… کے متعلق کہتی ہیں کہ یہ دعا کے بارے نازل ہوئی (یعنی دعا نہ بہت زور سے مانگو اور نہ بہت آہستہ آواز میں)۔

سورۃ الکہف

باب : اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿فَلَا نُقِیْمُ لَہُمْ یَوْمَ الْقِیَامَةِ وَزْنَا …﴾ کے متعلق۔

2148: سیدنا ابو ہریرہؓ  رسول اللہﷺ  سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: قیامت کے دن بڑا موٹا آدمی آئے گا جو اللہ کے نزدیک مچھر کے ایک پر کے برابر بھی نہ ہو گا۔ یہ آیت پڑھو کہ ”ہم قیامت کے دن ان کے لئے کوئی وزن نہ رکھیں گے “ (یعنی دنیا کا موٹاپا اور مال اور دولت قیامت میں کام نہیں آئیگا وہاں تو عمل درکار ہے ، اس حدیث سے موٹاپے کی مذمت ثابت ہوئی)

سورۂ مریم

باب : اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿وَاَنْذِرْھُمْ یَوْمَ الْحَسَرَةِ﴾ کے متعلق۔

2149: سیدنا ابو سعید خدریؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ  نے فرمایا: قیامت کے دن موت ایک سفید مینڈھے کی شکل میں لائی جائے گی اور اس کو دوزخ اور جنت کے درمیان میں ٹھہرا دیا جائے گا۔ پھر کہا جائے گا کہ اے جنت والو! کیا تم اس کو پہچانتے ہو؟ وہ اپنا سر اٹھا کر کہیں گے اور اس کو دیکھیں گے اور کہیں گے کہ ہاں! ہم پہچانتے ہیں، یہ موت ہے۔ پھر کہا جائے گا کہ اے دوزخ والو! کیا تم اس کو پہچانتے ہو؟ وہ بھی سر اٹھا کر اس کو دیکھیں گے اور کہیں گے کہ ہاں! ہم اس کو پہچانتے ہیں، یہ موت ہے۔ پھر حکم ہو گا تو وہ مینڈھا ذبح کیا جائے گا، پھر کہا جائے گا کہ اے جنت والو! تمہیں ہمیشہ رہنا ہے اور کبھی موت نہیں ہے اور اے دوزخ والو! تمہیں بھی ہمیشہ زندہ رہنا ہے اور تمہارے لئے بھی کبھی موت نہیں ہے۔ پھر رسول اللہﷺ  نے یہ آیت پڑھی ”اور ان کو حسرت کے دن سے ڈراؤ جب فیصلہ ہو جائے گا اور وہ غفلت میں ہیں اور یقین نہیں کرتے “ آپﷺ نے اپنے ہاتھ سے دنیا کی طرف اشارہ کیا (یعنی دنیا میں ایسے مشغول ہیں کہ قیامت کا ڈر نہیں ہے )۔

باب : اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿اَفَرَاَیْتَ الَّذِیْ کَفَرَ …﴾ کے متعلق۔

2150: سیدنا خبابؓ  کہتے ہیں کہ عاص بن وائل پر میرا قرض تھا، میں اس سے لینے کو گیا تو وہ بولا کہ میں کبھی نہ دوں گا جب تک تو محمد ا(کے دین) سے پھر نہ جائے گا۔ میں نے کہا کہ میں تو محمد (ا) سے اس وقت بھی نہ پھروں گا کہ تو مر کر جی اٹھے۔ وہ بولا کہ میں مرنے کے بعد پھر اٹھوں گا تو تیرا قرض ادا کروں گا۔ تب یہ آیت اتری ”تو نے اس شخص کو دیکھا جس نے ہماری آیتوں کا انکار کیا اور کہنے لگا کہ مجھے مال اور اولاد ملے گی۔ کیا وہ غیب کی بات کو جانتا ہے یا اس نے اللہ تعالیٰ سے کوئی اقرار کیا ہے ؟ ……“ آخر تک۔

سورۃ الانبیاء

باب : اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿کَمَا بَدَاَنَا اَوَّلَ خَلْق …﴾کے متعلق۔

2151: سیدنا ابن عباسؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ  ہمارے درمیان خطبہ پڑھنے کو کھڑے ہوئے تو فرمایا کہ اے لوگو! تم اللہ کی طرف ننگے پاؤں بن ختنہ کئے اکٹھے کئے جاؤ گے ”جیسے ہم نے اوّل بار پیدا کیا، ویسا ہی دوبارہ پیدا کریں گے۔ یہ ہمارا وعدہ ہے جس کو ہم کرنے والے ہیں“ (104) خبردار رہو! تمام مخلوقات میں سب سے پہلے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو قیامت کے دن کپڑے پہنائے جائیں گے ، اور آگاہ رہو کہ میری امت کے کچھ لوگ لائے جائیں گے پھر ان کو بائیں (کافروں کی) طرف ہٹا دیا جائے گا۔ میں کہوں گا کہ اے میرے مالک! یہ تو میرے ماننے والے ہیں۔ جواب میں کہا جائے گا کہ تم نہیں جانتے کہ انہوں نے تمہارے بعد کیا نئے کام کئے۔ پس میں وہی کہوں گاجو نیک بندے (عیسیٰ علیہ السلام) نے کہا کہ ”میں تو ان لوگوں پر اس وقت تک گواہ تھا جب تک ان میں موجود تھا۔ پھر جب تو نے مجھے اٹھا لیا تو تو ان پر نگہبان تھا (اور مجھے ان کا علم نہ رہا) اور تو ہر چیز پر گواہ ہے (یعنی تیرا علم سب جگہ ہے )۔ اگر تو ان کو عذاب کرے تو وہ تیرے بندے ہیں اور اگر تو ان کو بخش دے تو تو غالب حکمت والا ہے “ (المائدہ: 117-118) پھر مجھ سے کہا جائے گا کہ تمہارے جدا ہونے کے بعد یہ لوگ مرتد ہو گئے یعنی دین سے پھر گئے۔

سورۂ حج

باب : اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿ھَذَانِ خَصْمَان اخْتَصَمُوْا …﴾ کے متعلق۔

2152: سیدنا قیس بن عباد کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابو ذرؓ  سے سنا، وہ (سورہ حج کی اس آیت کے متعلق) قسم کھاتے تھے کہ ”یعنی یہ دونوں گروہ ایک دوسرے کے دشمن ہیں، جو اپنے رب کے بارے میں لڑتے ہیں“ بیشک یہ ان لوگوں کے حق میں اتری ہے جو بدر کے دن مسلمانوں کی طرف سے (صف سے ) لڑنے کے لئے باہر نکلے تھے۔ سیدالشہداء سیدنا حمزہ، سیدنا علی مرتضی اور عبیدہ بن حارثؓ اور کافروں کی طرف سے عتبہ اور شیبہ دونوں ربیعہ کے بیٹے اور ولید بن عتبہ۔

سورۃ النور

باب : اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿اِ نَّ الَّذِیْنَ جَاؤوْکَ بِالْاِفْکِ …﴾کے متعلق۔

2153: زہری کہتے ہیں کہ مجھ سے سعید بن مسیب، عروہ بن زبیر، علقمہ بن وقاص اور عبید اللہ بن عبد اللہ بن عتبہ بن مسعود نے اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی یہ حدیث روایت کی، جب ان پر تہمت لگانے والوں نے تہمت لگائی اور کہا جو کہا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو ان کی تہمت سے پاک کیا۔ زہری نے کہا کہ ان سب لوگوں نے مجھ سے اس حدیث کا ایک ایک ٹکڑا روایت کیا اور ان میں سے بعض دوسروں سے اس حدیث کو زیادہ یاد رکھنے والے تھے اور زیادہ حافظ اور عمدہ بیان کرنے والے تھے اور میں نے ہر ایک سے جو اس نے روایت کی یاد رکھا اور بعض کی حدیث بعض کی تصدیق کرتی ہے۔

ان لوگوں نے بیان کیا کہ اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ رسول اللہﷺ  جب سفر کا ارادہ کرتے تو اپنی ازواجِ مطہرات کے درمیان قرعہ ڈالتے اور جس عورت کے نام پر قرعہ نکلتا اس کو سفر میں ساتھ لے جاتے تھے۔ اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ رسول اللہﷺ  نے جہاد کے ایک سفر میں قرعہ ڈالا تو اس میں میرا نام نکلا، میں رسول اللہﷺ  کے ساتھ گئی اور یہ اس وقت کا ذکر ہے جب پردہ کا حکم اتر چکا تھا۔ میں اپنے ہودج میں سوار ہوتی اور راہ میں جب پڑاؤ ہوتا تو میرا ہودج اتار لیا جاتا۔

جب رسول اللہﷺ  جہاد سے فارغ ہو کر لوٹے اور مدینہ سے قریب ہو گئے تو ایک بار آپﷺ نے رات کو کوچ کا حکم دیا؟ جب لوگوں نے کوچ کی خبر کر دی تو میں کھڑی ہوئی اور چلی یہاں تک کہ لشکر سے ایک طرف چلی گئی۔ جب میں اپنی ضرورت سے فارغ ہوئی تو اپنے ہودج کی طرف آئی اور سینہ کو چھوا تو معلوم ہوا کہ میرا ظفار کے نگینوں کا ہار گم ہو گیا ہے (ظفار یمن میں ایک گاؤں کا نام ہے ) میں لوٹی اور اس ہار کو ڈھونڈھنے لگی، اس کے ڈھونڈھنے میں مجھے دیر لگی اور وہ لوگ آ پہنچے جو میرا ہودہ اٹھاتے تھے ، انہوں نے ہودہ اٹھایا اور اس اونٹ پر رکھ دیا جس پر میں سوار ہوتی تھی اور وہ یہ سمجھے کہ میں اسی ہودے میں ہوں۔

اس وقت عورتیں ہلکی (دبلی) ہوتی تھیں کیونکہ تھوڑا کھانا کھاتی تھیں۔ اس لئے جب انہوں نے ہودج اٹھا کر اونٹ پر رکھا تو انہیں اس کا وزن ہلکا محسوس نہ ہوا میں ویسے بھی ایک کم سن لڑکی تھی۔ آخر لوگوں نے اونٹ کو اٹھایا اور چل دئیے۔ میں نے اپنا ہار اس وقت پایا جب سارا لشکر چل دیا تھا اور میں جو ان کے ٹھکانے پر آئی تو وہاں نہ کسی کی آواز تھی اور نہ کوئی آواز سننے والا تھا۔ میں نے یہ ارادہ کیا کہ جہاں بیٹھی تھی وہیں بیٹھ جاؤں اور میں سمجھی کہ لوگ جب مجھے نہ پائیں گے تو یہیں لوٹ کر آئیں گے۔ تو میں اسی ٹھکانے پر بیٹھی تھی کہ میری آنکھ لگ گئی اور میں سو رہی۔

اور صفوان بن معطل سلمی ذکوانیؓ  ایک آدمی جو کہ آرام کے لئے آخر رات میں لشکر کے پیچھے ٹھہرے تھے جب وہ روانہ ہوئے تو صبح کو میرے ٹھکانے پر پہنچے۔ ان کو ایک آدمی کا جسم معلوم ہوا جو سو رہا ہو، وہ میرے پاس آیا اور مجھے دیکھتے ہی پہچان لیا کیونکہ پردہ کا حکم اترنے سے پہلے اس نے مجھے دیکھا تھا۔ میں ان کی آواز سن کر جاگ اٹھی جب اس نے مجھے پہچان کر ”انا للہ وانا الیہ راجعون“ پڑھا پس میں نے اپنی اوڑھنی سے اپنا منہ ڈھانپ لیا۔ اللہ کی قسم! اس نے مجھ سے کوئی بات نہیں کی اور نہ میں نے اس کی کوئی بات سوائے ”انا للہ وانا الیہ راجعون“ کہنے کے سنی۔ پھر اس نے اپنا اونٹ بٹھایا اور اونٹ کے گھٹنے پر اپنا پاؤں میرے سوار ہونے کے لئے رکھا۔ میں اونٹ پر سوار ہو گئی اور وہ اونٹ کو کھینچتا ہوا پیدل چلا، یہاں تک کہ ہم لشکر میں پہنچے اور لشکر کے لوگ دوپہر کی سخت گرمی میں اتر چکے تھے۔ سو میرے اس معاملہ میں بدگمانی کی وجہ سے ہلاک ہوئے جو ہوئے ، اور قرآن میں جس کے متعلق ”تولّٰی کِبْرَہ“ آیا ہے ، یعنی اس تہمت کا بانی مبانی، وہ عبد اللہ بن ابی ابن سلول (منافقوں کا سردار) تھا۔

آخر ہم مدینہ میں آئے اور جب میں مدینہ میں پہنچی تو بیمار ہو گئی۔ ایک مہینہ تک بیمار رہی اور لوگوں کا یہ حال تھا کہ بہتان لگانے والوں کی باتوں میں غور کرتے تھے اور مجھے ان کی کسی بات کی کوئی خبر نہ تھی۔ صرف مجھے اس بات سے شک ہوا کہ میں نے اپنی بیماری میں رسول اللہﷺ  کی وہ شفقت نہ دیکھی جو پہلے میری بیماری کی حالت میں ہوتی تھی۔اس دوران آپﷺ صرف اندر آتے ، سلام کرتے اور پھر فرماتے کہ تمہارا کیا حال ہے ؟ پس اس بات سے مجھے شک ہوتا لیکن مجھے اس خرابی کی خبر نہ تھی، یہاں تک کہ جب میں بیماری کے جانے کے بعد دبلی ہو گئی تو میں مناصع کی طرف نکلی اور میرے ساتھ اُمّ مسطح بھی نکلی (مناصع مدینہ کے باہر جگہ تھی) لوگوں کے (پائخانے بننے سے پہلے ) پائخانے تھے۔ پھر دوسری رات کو جاتے تھے۔ یہ ذکر اس وقت کا ہے جب ہمارے گھروں میں پائخانے نہیں بنے تھے اور ہم لوگ اگلے عربوں کی طرح (پائخانے کے لئے ) جنگل میں جایا کرتے تھے اور گھر کے پاس پائخانے بنانے سے نفرت رکھتے تھے۔ تو میں چلی اور اُمّ مسطح بھی میرے ساتھ تھی اور وہ ابی رہم بن مطلب بن عبد مناف کی بیٹی تھی اور اس کی ماں صخر بن عامر کی بیٹی تھی جو سیدنا ابو بکر صدیقؓ  کی خالہ تھی (اس کا نام سلمیٰ تھا)۔ اس کے بیٹے کا نام مسطح بن اثاثہ بن عباد بن مطلب تھا۔ غرض میں اور اُمّ مسطح دونوں جب قضائے حاجت سے فارغ ہو چکیں تو واپسی پر اپنے گھرکی طرف آ رہی تھیں کہ اُمّ مسطح کا پاؤں اپنی چادر میں الجھا تو وہ بولی کہ مسطح ہلاک ہو۔ میں نے کہا کہ تو نے بُری بات کہی۔ تو اس شخص کو بُرا کہتی ہے جو بدر کی لڑائی میں شریک تھا؟ وہ بولی کہ اے نادان! تو نے کچھ نہیں سنا کہ مسطح نے کیا کہا؟ میں نے کہا کہ اس نے کیا کہا؟ اس نے مجھ سے بیان کیا جو بہتان والوں نے کہا تھا۔ یہ سن کر میری بیماری زیادہ ہو گئی۔ میں جب اپنے گھر پہنچی تو رسول اللہﷺ  اندر تشریف لائے اور سلام کیا اور فرمایا کہ تمہارا کیا حال ہے ؟ میں نے کہا کہ آپ مجھے اپنے ماں باپ کے پاس جانے کی اجازت دیتے ہیں؟ اور میرا اس وقت یہ ارادہ تھا کہ میں اپنے ماں باپ کے پاس جا کر اس خبر کی تصدیق کروں گی۔ آخر رسول اللہﷺ  نے مجھے اجازت دی اور میں اپنے ماں باپ کے پاس آئی۔ میں نے اپنی ماں سے کہا کہ امی جان! یہ لوگ کیا بک رہے ہیں؟ وہ بولی کہ بیٹا تو اس کا خیال نہ کر اور اس کو بڑی بات مت سمجھ، اللہ کی قسم! ایسا بہت کم ہوا ہے کہ کسی مرد کے پاس ایک خوبصورت عورت ہو جو اس کو چاہتا ہو اور اس کی سوکنیں بھی ہوں اور سوکنیں اس کے عیب نہ نکالیں۔ میں نے کہا کہ سبحان اللہ! لوگوں نے تو یہ کہنا شروع کر دیا۔ میں ساری رات روتی رہی، صبح تک میرے آنسو نہ ٹھہرے اور نہ نیند آئی، صبح کو بھی میں رو رہی تھی۔

رسول اللہﷺ  نے علی بن ابی طالب اور اسامہ بن زید ث کو بلایا کیونکہ وحی نہیں اتری تھی اور ان دونوں سے مجھے جدا کرنے (یعنی طلاق دینے ) کا مشورہ لیا اور اسامہ بن زیدؓ  نے تو وہی رائے دی جو وہ رسول اللہﷺ  کی بیوی کے حال کو جانتے تھے اور اس کی عصمت کو اور آپﷺ کی اس کے ساتھ محبت کو انہوں نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ  عائشہ (رضی اللہ عنہا) آپﷺ کی بیوی ہیں اور ہم تو ان کی سوائے بہتری کے اور کوئی بات نہیں جانتے۔ علیؓ  بن ابی طالب نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے آپﷺ پر تنگی نہیں کی اور عائشہ رضی اللہ عنہا کے سوا عورتیں بہت ہیں اور اگر آپﷺ لونڈی سے پوچھیں تو وہ آپﷺ سے سچ کہہ دے گی (لونڈی سے مراد بریرہ رضی اللہ عنہا ہے جو عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس رہتی تھی) اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ رسول اللہﷺ  نے بریرہ کو بلایا اور فرمایا کہ اے بریرہ! تو نے کبھی عائشہ سے ایسی بات دیکھی ہے جس سے تجھے اس کی پاکدامنی پر شک پڑے ؟ بریرہ نے کہا کہ قسم اس کی جس نے آپﷺ کو سچا پیغمبر کر کے بھیجا ہے ، اگر میں ان کا کوئی کام دیکھتی تو میں عیب بیان کرتی، اس سے زیادہ کوئی عیب نہیں ہے کہ عائشہ کم عمر لڑکی ہے ، گھر کا آٹا چھوڑ کر سو جاتی ہے ، پھر بکری آتی ہے اور اس کو کھا لیتی ہے (مطلب یہ ہے کہ ان میں کوئی عیب نہیں جس کو تم پوچھتے ہو نہ اس کے سوا کوئی عیب ہے ، جو عیب ہے وہ یہی ہے کہ بھولی بھالی لڑکی ہے اور کم عمری کی وجہ سے گھرکا بندوبست نہیں کر سکتی)۔

اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ پھر رسول اللہﷺ  منبر پر کھڑے ہوئے اور عبد اللہ بن ابی ابن سلول سے جواب طلب کیا۔ آپﷺ نے منبر پر فرمایا کہ اے مسلمان لوگو! اس شخص سے مجھے کون انصاف دلائے گا جس کی ایذا دینے والی سخت بات میرے گھر والوں کی نسبت مجھ تک پہنچی، اللہ کی قسم! میں تو اپنی گھر والی (یعنی عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا) کو نیک سمجھتا ہوں اور جس شخص پر یہ تہمت لگاتے ہیں (یعنی صفوان بن معطل) اس کو بھی میں نیک سمجھتا ہوں اور وہ کبھی میرے گھر نہیں گیا مگر میرے ساتھ۔ یہ سن کر سیدنا سعد بن معاذ انصاریؓ  (جو قبیلہ اوس کے سردار تھے ) کھڑے ہوئے اور کہنے لگے کہ یا رسول اللہﷺ  میں آپﷺ کا بدلہ لیتا ہوں اگر تہمت کرنے والا ہماری قوم اوس میں سے ہو تو ہم اس کی گردن مارتے ہیں اور جو ہمارے خزرج بھائیوں میں سے ہو تو آپﷺ حکم کیجئے ہم آپﷺ کے حکم کی تعمیل کریں گے (یعنی اس کی گردن ماریں گے )۔ یہ سن کر سیدنا سعد بن عبادہؓ  کھڑے ہوئے اور وہ قبیلہ خزرج کے سردار تھے اور نیک آدمی تھے۔ لیکن اس وقت ان کو اپنی قوم کی غیرت آ گئی اور کہنے لگے کہ اے سعد بن معاذ! اللہ کے بقا کی قسم! تو نے جھوٹ بولا ہے ، تو ہماری قوم کے شخص کو قتل نہ کر سکے گا (یہ سن کر) سیدنا اسید بن حضیر جو سیدنا سعد بن معاذؓ  کے چچازاد بھائی تھے ، کھڑے ہوئے اور سیدنا سعد بن عبادہؓ  سے کہنے لگے کہ تو نے غلط کہا، اللہ کے بقا کی قسم! ہم اسکو قتل کریں گے اور تو منافق ہے جبھی تو منافقوں کی طرف سے لڑتا ہے۔ غرض کہ دونوں قبیلے اوس اور خزج کے لوگ اٹھ کھڑے ہوئے اور قریب تھا کہ خونریزی شروع ہو جاتی کہ رسول اللہﷺ  منبر پر کھڑے ان کو سمجھا رہے تھے اور ان کا غصہ ٹھنڈا کر رہے تھے ، یہاں تک کہ وہ خاموش ہو گئے اور آپﷺ بھی خاموش ہو رہے۔

اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ میں اس دن بھی سارا دن روتی رہی، میرے آنسو نہیں تھمتے تھے اور نہ نیند آتی تھی اور میرے باپ نے یہ گمان کیا کہ روتے روتے میرا کلیجہ پھٹ جائے گا۔ میرے ماں باپ میرے پاس بیٹھے تھے اور میں رو رہی تھی۔

اتنے میں انصار کی ایک عورت نے اجازت مانگی۔ میں نے اس کو اجازت دی وہ بھی آ کر رونے لگی۔ پھر ہم اسی حال میں تھے کہ رسول اللہﷺ  تشریف لائے اور سلام کر کے بیٹھ گئے اور جس روز سے مجھ پر تہمت ہوئی تھی، اس روز سے آج تک آپﷺ میرے پاس نہیں بیٹھے تھے اور ایک مہینہ یونہی گزر چکا تھا کہ میرے مقدمہ میں کوئی وحی نہیں اتری تھی۔ اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ پھر رسول اللہﷺ  نے بیٹھتے ہی تشہد پڑھا اور فرمایا کہ اما بعد! اے عائشہ مجھے تمہاری طرف سے ایسی ایسی خبر پہنچی ہے ، پھر اگر تم پاکدامن ہو تو عنقریب اللہ تعالیٰ تمہاری پاکدامنی بیان کر دے گا اور اگر تو نے گناہ کیا ہے تو توبہ کر اور اللہ تعالیٰ سے بخشش مانگ، اس واسطے کہ بندہ جب گناہ کا اقرار کرتا ہے اور توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو بخش دیتا ہے۔ اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ جب رسول اللہﷺ  اپنی بات مکمل کر چکے تو میرے آنسو بالکل بند ہو گئے ، یہاں تک کہ ایک قطرہ بھی نہ رہا۔ میں نے اپنے والد سے کہا کہ آپ میری طرف سے رسول اللہﷺ  کو جواب دیں۔ وہ بولے کہ اللہ کی قسم! میں نہیں جانتا کہ میں رسول اللہﷺ  کو کیا جواب دوں (سبحان اللہ ان کے والد تو رسول اللہﷺ  کے محبوب تھے گو ان کی بیٹی کا مقدمہ تھا، لیکن رسول اللہﷺ  کے سامنے دم نہ مارا۔ باوجودت زمن آواز نیامد کہ منم) میں نے اپنی والدہ سے کہا کہ تم میری طرف سے رسول اللہﷺ  کو جواب دو تو وہ بولی کہ اللہ کی قسم! میں نہیں جانتی کہ میں رسول اللہﷺ  کو کیا جواب دوں۔ آخر میں نے خود ہی کہا اور میں کمسن لڑکی تھی، میں قرآن زیادہ نہیں پڑھی تھی، اللہ کی قسم!مجھے یہ معلوم ہے کہ تم لوگوں نے اس بات کو یہاں تک سنا ہے کہ تمہارے دل میں جم گئی ہے اور تم نے اس کو سچ سمجھ لیا ہے (اور یہ اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے غصہ سے فرمایا ورنہ سچ کسی نے نہیں سمجھا تھا سوائے تہمت کرنے والوں کے )، پھر اگر تم سے کہوں کہ میں بے گناہ ہوں اور اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ میں بے گناہ ہوں، تو بھی تم مجھے سچا نہیں سمجھو گے اور اگر میں اس گناہ کا اعتراف کر لوں حالانکہ اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ میں اس سے پاک ہوں، تو تم مجھے سچا سمجھو گے اور میں اپنی اور تمہاری مثال سوا اس کے اور کوئی نہیں پاتی جو یوسف علیہ السلام کے والد (یعقوب علیہ السلام) کی تھی (عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو رنج میں ان کا نام یاد نہ آیا تو یوسف علیہ السلام کے والد کہا) جب انہوں نے کہا کہ ”اب صبر ہی بہتر ہے اور تمہاری اس گفتگو پر اللہ ہی کی مدد کی ضرورت ہے “(سورۂ یوسف) پھر میں نے کروٹ موڑ لی اور میں اپنے بچھونے پر لیٹ رہی۔ اور اللہ کی قسم! میں اس وقت جانتی تھی کہ میں پاک ہوں اللہ تعالیٰ ضرور میری برأت ظاہر کرے گا لیکن اللہ کی قسم! مجھے یہ گمان نہ تھا کہ میری شان میں قرآن اترے گا جو (قیامت تک) پڑھا جائے گا، کیونکہ میری شان خود میرے گمان میں اس لائق نہ تھی کہ اللہ جل جلالہ عزت اور بزرگی والا میرے مقدمہ میں کلام کرے گا اور کلام بھی ایسا کہ جو پڑھا جائے ، البتہ مجھے یہ امید تھی کہ رسول اللہﷺ  خواب میں کوئی ایسا مضمون دیکھیں گے جس سے اللہ تعالیٰ میری پاکیزگی ظاہر کر دے گا۔

اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ اللہ کی قسم! رسول اللہﷺ  اپنی جگہ سے نہیں اٹھے تھے اور نہ گھر والوں میں سے کوئی باہر گیا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبرﷺ پر وحی بھیجی اور قرآن اتارا۔ آپﷺ کو وحی کی سختی معلوم ہونے لگی، یہاں تک کہ سردی کے دنوں میں آپﷺ کے جسم مبارک پر سے اس کلام کی سختی کی وجہ سے جو آپﷺ پر اترا، موتی کی طرح پسینے کے قطرے ٹپکنے لگے (اس لئے کہ بڑے شہنشاہ کا کلام تھا)۔ جب آپﷺ کی یہ حالت جاتی رہی (یعنی وحی ختم ہو چکی) تو آپﷺ ہنسنے لگے اور اوّل آپﷺ نے منہ سے یہ کلمہ نکالا اور فرمایا کہ اے عائشہ! خوش ہو جا، اللہ تعالیٰ نے تجھے بے گناہ اور پاک فرمایا ہے۔ میری والدہ نے کہا کہ اٹھ اور نبیﷺ کی تعریف کر (اور شکر کر)۔ میں نے کہا کہ اللہ کی قسم! میں تو نبیﷺ کی طرف نہ اٹھوں گی اور نہ کسی کی تعریف کروں گی سوا اللہ تعالیٰ کے کہ اسی نے میری پاکدامنی اتاری۔ اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے اتارا کہ ”بیشک جو لوگ بہتان گھڑ لائے ہیں، وہ تم ہی میں سے ایک گروہ ہیں، اس (واقعے ) کو اپنے لئے شر (بُرا) نہ سمجھو بلکہ تمہارے لئے خیر (اچھا) ہی ہے “ آخر تک دس آیتوں کو اللہ تعالیٰ نے میری پاکدامنی کے لئے اتارا۔

سیدنا ابو بکر صدیقؓ  نے جو مسطح کی قریبی رشتہ داری، غربت کی وجہ سے اس پر خرچ کیا کرتے تھے ، کہا کہ اللہ کی قسم!جب اس نے عائشہ (رضی اللہ عنہا) کی نسبت ایسا کہا تو اب میں اس کو کچھ نہ دوں گا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری کہ ”تم میں سے جو لوگ فضل اور مقدرت والے ہیں، وہ اس بات کی قسم نہ کھا بیٹھیں کہ وہ کچھ (نہ) دیں گے ، اپنے رشتہ داروں اور مساکین اور اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کو۔ کیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں معاف کرے اور اللہ تعالیٰ غفور رحیم ہے “۔

حبان بن موسیٰ نے کہا کہ عبد اللہ بن مبارک نے کہا کہ یہ آیت اللہ کی کتاب میں بڑی امید کی ہے (کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ نے رشتہ داروں کے ساتھ سلوک کرنے میں بخشش کا وعدہ کیا ہے ) سیدنا ابو بکرؓ  نے کہا کہ اللہ کی قسم! میں یہ چاہتا ہوں کہ اللہ مجھے بخشے۔ پھر مسطح کو جو کچھ دیا کرتے تھے وہ جاری کر دیا اور کہا کہ میں کبھی بند نہ کروں گا۔ اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ رسول اللہﷺ  نے اُمّ المؤمنین زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا سے بھی میرے بارے میں پوچھا کہ وہ کیا جانتی ہیں؟ یا انہوں نے کیا دیکھا ہے ؟ تو انہوں نے کہا (حالانکہ وہ سوکن تھیں) کہ یا رسول اللہﷺ  ! میں اپنے کان اور آنکھ کی احتیاط رکھتی ہوں (یعنی بن سنے کوئی بات نہیں کہتی اور نہ بن دیکھے کو دیکھی ہوئی کہتی ہوں)، میں تو عائشہ کو نیک ہی سمجھتی ہوں۔ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ زینب رضی اللہ عنہا ہی ایک بیوی تھیں جو نبیﷺ کی ازواج میں سے میرے مقابل کی تھیں اور اللہ تعالیٰ نے ان کو ان کی پرہیزگاری کی وجہ سے اس تہمت سے بچایا اور ان کی بہن حمنہ بنت جحش نے بہن کے لئے تعصب کیا اور ان کے لئے لڑیں تو جو لوگ  تباہ ہوئے ان میں وہ بھی تھیں (یعنی تہمت میں شریک تھیں)۔ زہری نے کہا کہ تو ان لوگوں کا یہ آخر حال ہے جو ہم تک پہنچا۔

2154: سیدنا انسؓ  سے روایت ہے کہ لوگ ایک آدمی پر آپﷺ کی حرم سے (یعنی رسول اللہﷺ  کی اُمّ ولد لونڈی) کو تہمت لگاتے تھے۔ آپﷺ نے سیدنا علیؓ  سے فرمایا کہ جا اور اس شخص کی گردن مار (شاید وہ منافق ہو گا یا کسی  اور وجہ سے قتل کے لائق ہو گا)۔ سیدنا علیؓ  اس کے پاس گئے ، دیکھا تو وہ ٹھنڈک کے لئے ایک کنوئیں میں غسل کر رہا ہے۔ سیدنا علیؓ  نے اس سے کہا کہ نکل۔ اس نے اپنا ہاتھ سیدنا علیؓ  کے ہاتھ میں دیا۔ انہوں نے اس کو باہر نکالا تو دیکھا کہ اس کا عضو تناسل کٹا ہوا ہے۔ سیدنا علیؓ  نے اس کو قتل نہ کیا اور رسول اللہﷺ  کے پاس آ کر عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ  وہ تو مجبوب ہے (یعنی ذکر کٹا ہوا)۔ اس کا ذکر ہی نہیں۔ (تو سیدنا علیؓ  یہی سمجھے کہ آپﷺ نے زنا کے خیال سے اس کے قتل کا حکم دیا ہے ، اس واسطے انہوں نے قتل نہ کیا اور شاید آپﷺ کو وحی سے معلوم ہو گیا ہو گا کہ وہ قتل نہ کیا جائے گا۔ لیکن آپﷺ نے قتل کا حکم دیا تاکہ اس کا حال ظاہر ہو جائے اور لوگ اپنی تہمت پر نادم ہوں اور ان کا جھوٹ کھل جائے )۔

باب : اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿وَلَا تُکْرِھُوْا فَتَیَاتِکُمْ …﴾ کے متعلق۔

2155: سیدنا جابرؓ  سے روایت ہے کہ عبد اللہ بن ابی ابن سلول کی مسیکہ اور امیمہ نامی دو لونڈیاں تھیں۔ وہ دونوں کو زنآپر مجبور کرتا تھا۔ انہوں نے اس کی شکایت رسول اللہﷺ  سے کی، تب یہ آیت اتری کہ ”اور اپنی لونڈیوں کو زنا کاری پر مجبور نہ کرو اگر وہ خود پاکدامن رہنا چاہتی ہوں … بیشک اللہ تعالیٰ غفور رحیم ہے “ تک۔

سورۃ الفرقان

باب : اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿وَالَّذِیْنَ لَا یَدْعُوْنَ …﴾ کے متعلق۔

2156: سیدنا ابن عباسؓ  سے روایت ہے کہ مشرکوں میں سے چند لوگوں نے (شرک کی حالت میں) بہت خون کئے تھے اور بہت زنا کیا تھا۔ پھر وہ رسول اللہﷺ  کے پاس آئے اور عرض کیا کہ آپﷺ جو فرماتے ہیں اور جس راہ کی طرف بلاتے ہیں، وہ اچھی ہے اور آپﷺ ہمیں بتلائیں کہ کیا وہ ہمارے گزشتہ گناہوں کا کفارہ ہے ؟ (اگر کفارہ ہے تو ہم اسلام لائیں گے ) تب یہ آیت اتری کہ ”جو لوگ اللہ کے ساتھ دوسرے معبودوں کو نہیں پکارتے اور جس جان کا مارنا اللہ تعالیٰ نے حرام کیا ہے اس کو نہیں مارتے ، مگر کسی حق کے بدلے اور زنا نہیں کرتے اور جو کوئی ان کاموں کو (یعنی خون اور زنا اور شرک) کرے تو وہ بدلہ پائے گا اور اس کو قیامت کے دن دردناک عذاب ہو گا اور وہ ہمیشہ اسی عذاب میں ذلت سے رہے گا۔ لیکن جو کوئی ایمان لایا اور اس نے توبہ کی اور نیک کام کئے تو اس کی بُرائیاں مٹ کر نیکیاں ہو جائیں گی اور اللہ تعالیٰ مہربان ہے اور بخشنے والا ہے “ (اور اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو بتلا دیا کہ تم اسلام لاؤ تمہارے اگلے سب گناہ شر ک کے زمانے کے معاف ہو جائیں گے ) اور یہ آیت اتری کہ ”اے میرے بندو! جنہوں نے گناہ کئے ہیں اللہ کی رحمت سے نا امید مت ہو……“ پوری آیت۔

سورۂ سجدہ

باب : اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَا اُخْفِیَ …﴾ کے متعلق۔

2157: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ  نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے اپنے نیک بندوں کے لئے وہ تیار کیا ہے جو کسی آنکھ نے نہیں دیکھا اور نہ کسی کان نے سنا ہے اور کسی آدمی کے دل پر اس کا خیال بھی نہیں گزرا۔ یہ سب نعمتیں میں نے بنا رکھی ہیں۔ ان کو چھوڑو جو اللہ نے تمہیں بتلایا (یعنی جو نعمتیں اور لذتیں معلوم ہیں وہ کیسی عمدہ ہیں اور بھلی ہیں تو جنت کی نعمت اور لذت جس کا علم اللہ تعالیٰ نے نہیں دیا وہ کیسی ہوں گی)۔ پھر آپ نے یہ آیت پڑھی کہ ”کوئی نہیں جانتا جو ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک کے لئے چھپایا گیا ہے “ (جنت میں)۔

باب : اللہ کے فرمان ﴿وَلَنُذِیْقَنَّھُمْ مِنَ الْعَذَابِ …﴾ کے متعلق۔

2158: سیدنا ابی بن کعبؓ  اللہ تعالیٰ کے اس قول ”ہم ان کو چھوٹا عذاب دیں گے …“ کے بارے میں کہتے ہیں کہ اس سے مراد دنیا کی تکالیف ہیں اور روم اور بطشہ ( یا دخان)۔ اور شعبہ کو شک ہے کہ بطشہ کہا یا کہ دخان کہا۔

سورۃ الاحزاب

باب : اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿اِذْ جَاؤُوْکُمْ مِنْ فَوْقِکُمْ …﴾ کے متعلق۔

2159: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اللہ تعالیٰ کے قول ”جب وہ تم پر آئے تمہارے اوپر سے نیچے سے اور جب آنکھیں پھر گئیں اور دل حلق تک آ گئے “ کے بارے میں کہتی ہیں کہ یہ غزوۂ خندق کے متعلق اتری (اس دن مسلمانوں پر نہایت سختی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے اس دن کافروں پر ایک لشکر بھیجا جن کو تم نے نہیں دیکھا اور تیز ہوا )۔

سورۂ یٰسٓ

باب : اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿وَالشَمْسُ تَجْرِیْ لِمُسْتَقَرٍّ لَھَا﴾ کے متعلق۔

2160: سیدنا ابو ذرؓ  کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ  سے اللہ تعالیٰ کے قول ”سورج اپنے ٹھہرنے کی جگہ پر چلا جا رہا ہے “ کے بارے میں پوچھا تو آپﷺ نے فرمایا کہ اس کے ٹھہرنے کی جگہ عرش کے نیچے ہے۔

سورۃ الزمر

باب : اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿وَمَا قَدَرُوْا الله …﴾ کے متعلق۔

2161: سیدنا عبد اللہ بن مسعودؓ  کہتے ہیں کہ ایک یہودی عالم رسول اللہﷺ  کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ اے محمد ا! یا اے ابو القاسم (ا)! اللہ تعالیٰ قیامت کے دن آسمانوں کو ایک انگلی پر اٹھا لے گا اور زمینوں کو ایک انگلی پر اور پہاڑوں اور درختوں کو ایک انگلی پر اور پانی اور نمناک زمین کو ایک انگلی پر اور تمام مخلوق کو ایک انگلی پر، پھر ان کو ہلائے گا اور کہے گا کہ میں بادشاہ ہوں، میں بادشاہ ہوں۔یہ سن کر رسول اللہﷺ  تعجب سے ہنسے اور آپﷺ نے اس عالم کے کلام کی تصدیق کی، پھر یہ آیت پڑھی ”انہوں نے اللہ کی قدر نہیں کی جیسے اس کی قدر کرنی چاہئیے تھی اور قیامت کے دن اس کی ساری زمین اس کی ایک مٹھی میں ہو گی اور اس کے دائیں ہاتھ میں آسمان لپٹے ہونگے ، وہ پاک ہے اور مشرکوں کے شرک سے بلندہے “۔

سورۂ حم السجدہ

باب : اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿وَمَا کُنْتُمْ تَسْتَتِرُوْنَ …﴾ کے متعلق۔

2162: سیدنا ابن مسعودؓ  کہتے ہیں کہ بیت اللہ کے پاس تین آدمی اکٹھے ہوئے جن میں سے دو قریش کے تھے اور ایک ثقیف کا یا دو ثقیف کے تھے اور ایک قریش کا تھا۔ ان کے دلوں میں سمجھ کم تھی اور ان کے پیٹوں میں چربی بہت تھی (اس سے معلوم ہوا کہ موٹاپے کے ساتھ دانائی کم ہوتی ہے )۔ ان میں سے ایک شخص بولا کہ تم  کیا سمجھتے ہو، جو ہم کہتے ہیں کیا اللہ تعالیٰ سنتا ہے ؟ دوسرا بولا کہ اگر ہم بآوازِ بلند پکاریں گے تو سنے گا اور چپکے سے بولیں گے تو نہیں سنے گا۔ تیسرا بولا کہ اگر بآوازِ بلند پکارنے پر سنتا ہے تو آہستہ بولنے پر بھی سنے گا۔ تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری ”تم اس لئے نہیں چھپاتے تھے کہ تمہارے کان، آنکھیں اور تمہاری کھالیں تم پر گواہی دیں گی …“ پوری آیت (لیکن تم نے یہ خیال کیا کہ بہت سے کام جو تم کرتے ہو اللہ نہیں جانتا)۔

سورۃ الدخان

باب : اللہ کے فرمان ﴿فَارْتَقِبْ یَوْمَ تَأتِیْ …﴾ کے متعلق۔

2163: مسروق کہتے ہیں کہ ہم سیدنا عبد اللہؓ  کے پاس بیٹھے تھے اور وہ ہمارے درمیان لیٹے ہوئے تھے کہ ایک شخص آیا اور بولا کہ اے ابو عبدالرحمن! ایک قصہ کو کندہ کے دروازوں پر بیان کرتا ہے اور کہتا ہے کہ قرآن میں جو دھوئیں کی آیت ہے ، یہ دھواں آنے والا ہے اور کافروں کا سانس روک دے گا اور مسلمانوں کو اس سے زکام کی کیفیت پیدا ہو جائے گی۔ یہ سن کر سیدنا عبد اللہ بن مسعودؓ  غصے میں بیٹھ گئے اور کہا کہ اے لوگو! اللہ سے ڈرو۔ تم میں سے جو کوئی بات جانتا ہے اس کو کہے اور جو نہیں جانتا تو یوں کہے کہ اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے۔ کیونکہ علم کی بات یہی ہے کہ جو بات تم میں سے کوئی نہ جانتا ہو، اس کے لئے ”اللہ اعلم“ کہے۔ اللہ جل جلالہ نے اپنے نبیﷺ سے فرمایا کہ ”تو اے محمد ا! کہہ کہ میں کچھ مزدوری نہیں مانگتا اور نہ میں تکلف کرتا ہوں“ (صٓ: 76) رسول اللہﷺ  نے جب لوگوں کی کیفیت دیکھی کہ وہ سمجھانے سے نہیں مانتے تو فرمایا کہ اے اللہ! ان پر سات برس کا قحط بھیج جیسے یوسف علیہ السلام کے دَور میں سات برس تک قحط ہوا تھا۔ آخر قریش پر قحط پڑا جو ہر چیز کو کھا گیا، یہاں تک کہ انہوں نے بھوک کے مارے کھالوں اور مردار کو بھی کھا لیا اور ان میں سے ایک شخص آسمان کو دیکھتا تو دھوئیں کی طرح معلوم ہوتا۔ پھر ابو سفیانؓ  رسول اللہﷺ  کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ اے محمد (ا)! تم تو اللہ تعالیٰ کی اطاعت کا حکم کرتے ہو اور ناتا جوڑنے کا حکم کرتے ہو اور تمہاری قوم تو تباہ ہو گئی۔ ان کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعا کرو۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ”اس دن کا انتظار کر جب آسمان سے کھلم کھلا دھواں اٹھے گا جو لوگوں کو ڈھانک لے گا یہ دکھ کا عذاب ہے …… یہاں تک کہ فرمایا کہ ہم عذاب کو موقوف کرنے والے ہیں تحقیق تم پھر کفر کرنے والے ہو“ اگر اس آیت میں آخرت کا عذاب مراد ہے تو وہ کہیں موقوف ہوتا ہے ؟ پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ”جس دن ہم بڑی پکڑ پکڑیں گے ، ہم بدلہ لیں گے “ تو اس پکڑ سے مراد بدر کی پکڑ ہے اور یہ نشانیاں یعنی دھواں اور پکڑ اور لزام اور روم کی نشانیاں تو گزر چکیں ہیں۔

2164: سیدنا عبد اللہ بن مسعودؓ  کہتے ہیں کہ پانچ نشانیاں تو گزر چکیں ہیں اور وہ دخان، لزام، روم، بطشہ اور قمر (یعنی شق القمر) ہیں۔

سورۃ الفتح

باب : اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿وَھُوَ الَّذِیْ کَفَّ اَیْدِیْھِمْ …﴾ کے متعلق۔

2165: سیدنا انس بن مالکؓ  سے روایت ہے کہ مکہ کے اسی مسلح آدمی رسول اللہﷺ  پر تنعیم کے پہاڑ سے اترے ، وہ دھوکہ اور آپﷺ کی غفلت کی حالت میں آپﷺ اور صحابہ کرام پر (حملہ کرنا چاہتے تھے )۔ پھر آپﷺ نے ان کو پکڑ لیا لیکن قتل نہیں کیا۔ تب اللہ تعالیٰ نے اس آیت کو اتارا کہ ”یعنی وہ اللہ ہے جس نے ان کے ہاتھوں کو تم سے روکا (اور ان کا فریب کچھ نہ چلا) اور تمہارے ہاتھوں سے ان کو روکا (یعنی تم نے ان کو قتل نہ کیا)۔ مکہ کی سرحد میں ان پر فتح ہو جانے کے بعد۔

سورۃ الحجرات

باب : اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿لَا تَرْفَعُوْا اَصْوَاتَکُمْ …﴾کے متعلق۔

2166: سیدنا انس بن مالکؓ  سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ جب یہ آیت ”اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی (ا) کی آواز سے بلند مت کرو …… آخر تک“ نازل ہوئی تو سیدنا ثابت بن قیس بن شماسؓ  اپنے گھر میں بیٹھ رہے اور کہنے لگے کہ میں تو جہنمی ہوں (کیونکہ ان کی آواز بہت بلند تھی اور وہ انصار کے خطیب تھے ، اس لئے وہ ڈر گئے ) اور رسول اللہﷺ  کے پاس آنا چھوڑ دیا آپﷺ نے سیدنا سعد بن معاذؓ  سے پوچھا کہ اے ابو عمرو! ثابت کا کیا حال ہے کیا بیمار ہو گیا ہے ؟ سیدنا سعدؓ  نے کہا کہ وہ میرا ہمسایہ ہے ، میں نہیں جانتا کہ وہ بیمار ہے۔ پھر سیدنا ؓ  سعد سیدنا ثابتؓ  کے پاس آئے اور ان سے بیان کیا کہ جو رسول اللہﷺ  نے فرمایا تھا تو سیدنا ثابتؓ  نے کہا کہ یہ آیت اتری اور تم جانتے ہو کہ میری آواز رسول اللہﷺ  پر اونچی ہے ، (اس لئے ) میں تو جہنمی ہوں۔ پھر سیدنا سعدؓ  نے رسول اللہﷺ  سے یہ بیان کیا تو آپﷺ نے فرمایا کہ نہیں، بلکہ وہ جنتی ہے۔

سورۂ ”ق“

باب : اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿یَوْمَ نَقُوْلُ لِجَحَنَّمَ …﴾ کے متعلق۔

2167: عبدالوہاب بن عطا ء اللہ تعالی کے فرمان ”یَوْمَ نَقُوْلُ لِجَحَنَّمَ …“ الآیۃ کے متعلق سعید سے وہ قتادہ سے اور وہ سیدنا انس بن مالکؓ  سے اور وہ نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: برابر جہنم میں لوگ ڈالے جاتے رہیں گے اور وہ یہی کہے گی کہ ”کچھ اور ہے “؟ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ عزت والا اپنا قدم اس میں رکھ دے گا۔ تب اس کا بعض حصہ بعض میں سمٹ جائے گا اور کہنے لگے گی کہ بس بس تیری عزت اور کرم کی قسم۔ اور برابر جنت میں جگہ خالی رہے گی، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس کے لئے ایک مخلوق کو پیدا کرے گا اور اس کو اس جگہ میں رکھے گا۔

سورۃ القمر

باب : اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿فَھَلْ مِنْ مُّدَّکِرِ﴾ کے متعلق۔

2168: ابو اسحاق کہتے ہیں کہ میں نے ایک آدمی کو دیکھا کہ اس نے اسود بن یزید سے پوچھا اور وہ مسجد میں قرآن پڑھایا کرتے تھے کہ تم ﴿مُّدَّکِرِ﴾ میں دال پڑھتے ہو یا ذال؟انہوں نے کہا کہ میں نے سیدنا عبد اللہ بن مسعودؓ  کو سنا، وہ کہہ رہے تھے کہ میں نے رسول اللہﷺ  کو ﴿فَھَلْ مِنْ مُّدَّکِرِ﴾ دال سے پڑھتے ہوئے سنا ہے۔ (یعنی جس میں نقطہ نہیں ہوتا)۔

سورۃ الرحمن

باب : اللہ تعالیٰ تعالیٰ کے فرمان ﴿وَخَلَقَ الْجَآنَّ مِنْ مَّارِجٍ …﴾ کے متعلق۔

2169: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ  نے فرمایا: فرشتے نور سے بنائے گئے ، جن آگ کی لُو سے اور سیدنا آدم علیہ السلام اس سے جو قرآن میں بیان ہوا ہے (یعنی مٹی سے )۔

سورۃ الحدید

باب : اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿اَلَمْ یَأنِ لِلَّذِیْنَ آمَنُوْا …﴾ کے متعلق۔

2170: سیدنا ابن مسعودؓ  کہتے ہیں کہ جب سے ہم مسلمان ہوئے اس وقت سے لے کر اس آیت ”کیا وہ وقت نہیں آیا جب مسلمانوں کے دل اللہ کے ذکر کے لئے لرز جائیں“ کے اترنے کے وقت تک، جس میں اللہ تعالیٰ نے ہم پر عتاب کیا ہو، چار برس کا عرصہ گزرا۔

سورۃ الحشر

باب : اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿وَالَّذِیْنَ جَاؤُوْا مِنْ بَعْدِھِمْ …﴾ کے متعلق۔

2171: سیدنا عروہ کہتے ہیں کہ مجھ سے اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ اے میرے بھانجے ! لوگوں کو حکم ہوا تھا کہ وہ صحابہ کے لئے بخشش مانگیں لیکن انہوں نے ان کو بُرا کہا۔

سورۂ جن

باب : اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿قُلْ اُوْحِیَ اِلَیَّ …﴾ کے متعلق۔

2172: سیدنا ابن عباسؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ  نے جنات کو قرآن نہیں سنایا اور ان کو دیکھا بھی نہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ رسول اللہﷺ  اپنے اصحاب کے ساتھ اس زمانہ میں عکاظ کے بازار گئے جب کہ شیطانوں پر آسمانی دروازے بند ہو گئے تھے اور ان پر آگ کے شعلے برسائے جا رہے تھے۔ چنانچہ شیطانوں کے ایک گروہ نے اپنے لوگوں میں جا کر کہا کہ ہمارا آسمان پر جانا بند ہو گیا اور ہم پر آگ کے شعلے برسنے لگے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس کا سبب ضرور کوئی نیا امر ہے ، تو مشرق و مغرب کی طرف پھر کر خبر لو اور دیکھو کہ کیا وجہ ہے جو آسمان کی خبریں آنا بند ہو گئیں۔ وہ زمین میں مشرق و مغرب کی طرف پھرنے لگے۔ ان میں سے کچھ لوگ تہامہ (ملک حجاز) کی طرف عکاظ کے بازار کو جانے کے لئے آئے اور آپﷺ اس وقت (مقامِ) نخل میں اپنے اصحابؓ کو فجر کی نماز پڑھا رہے تھے۔ جب انہوں نے قرآن سنا تو ادھر کان لگا دیئے اور کہنے لگے کہ آسمان کی خبریں موقوف ہونے کا یہی سبب ہے۔ پھر وہ اپنی قوم کے پاس لوٹ کر گئے اور کہنے لگے کہ اے ہماری قوم کے لوگو! ”ہم نے ایک عجب قرآن سنا ہے جو سچی راہ کی طرف لے جاتا ہے ، پس ہم اس پر ایمان لائے اور ہم کبھی اللہ کے ساتھ شریک نہ کریں گے “ تب اللہ تعالیٰ نے سورۂ جن اپنے پیغمبر آپر اتاری کہ ”اے محمد (ا) کہہ دو کہ میری طرف وحی کی گئی کہ جنوں کی ایک جماعت نے قرآن سنا“۔

سورۃ القیامة

باب : اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿لَا تُحَرِّکْ بِہِ لِسَانِکَ …﴾ کے متعلق۔

2173: سیدنا ابن عباسؓ  اللہ تعالیٰ کے قول ’اپنی زبان کو جلدی کے ساتھ یاد کرنے کے لئے نہ ہلائیے “ کے بارے میں کہتے ہیں کہ اس کا واقعہ یہ ہے کہ نزولِ قرآن کریم کے وقت رسول اللہﷺ  تنگی محسوس کرتے تھے ، اس لئے اپنے ہونٹوں کو حرکت دیتے تھے۔ سعید نے کہا کہ سیدنا ابن عباسؓ  نے مجھ سے کہا کہ میں تمہارے لئے ہونٹ ہلاتاہوں جیسے رسول اللہﷺ  ہونٹ ہلاتے تھے پس سعید نے کہا کہ جس طرح سیدنا ابن عباس اپنے ہونٹ ہلا رہے تھے میں بھی اسی طرح اپنے ہونٹ ہلاتا ہوں تب اللہ تعالیٰ نے یہ حکم نازل فرمایا کہ ”آپ (ا) جلدی سے یاد کرنے کے لئے اپنی زبان نہ ہلائیے ، بلکہ تحقیق اس کا اکٹھا کرنا اور پڑھانا ہمارے ذمہ ہے “ یعنی آپﷺ کے سینہ میں جمع کرنا کہ پھر آپﷺ اس کو پڑھیں۔ (یعنی نزولِ وحی کے وقت) آپ خاموشی اور غور سے سنیں، پھر اسے پڑھانا ہمارے ذمہ ہے۔ اس حکمِ الٰہی کے بعد جب جبرئیل وحی لاتے تو آپﷺ ان کے الفاظ بہ خاموشی سنتے رہتے اور ان کی روانگی کے بعد آپﷺ وہی الفاظ دہرا دیتے جو جبرائیل علیہ السلام کہہ جاتے تھے۔

سورہ مطففین

باب : اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿یَوْمَ یَقُوْمُ النَّاسُ …﴾ کے متعلق۔

2174: سیدنا ابن عمرؓ نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے اس آیت ”جس دن لوگ پروردگار عالم کے سامنے کھڑے ہوں گے “کی تفسیر میں فرمایا کہ بعض لوگ اپنے پسینے میں ڈوبے کھڑے ہوں گے جو دونوں کانوں کے نصف تک ہو گا۔

سورۃ الانشقاق

باب : اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿فَسَوْفَ یُحَاسَبُ …﴾ کے متعلق۔

2175: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ  نے فرمایا: جس شخص سے قیامت کے دن حساب ہو گا، اس کو عذاب ہو گا۔ میں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے ”پھر عنقریب حساب کیا جائے گا آسانی سے اور وہ اپنے گھر والوں میں خوش ہو کر لوٹ جائے گا“ تو آپﷺ نے فرمایا کہ یہ حساب و کتاب نہیں ہے ، یہ تو صرف اعمال کی پیشی ہے۔ جس سے قیامت کے دن حساب میں تفتیش کی گئی اس کو عذاب ہو گا۔

سورۂ اللیل

باب : اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿وَالذَّکَرِ وَالاُنْثٰی …﴾ کے متعلق۔

2176: سیدنا علقمہؓ  کہتے ہیں کہ ہم شام کو گئے تو سیدنا ابو الدرداءؓ  ہمارے پاس آئے اور کہا کہ تم میں کوئی سیدنا عبد اللہؓ  کی قرأت پڑھنے والا ہے ؟ میں نے کہا کہ ہاں! میں ہوں۔ انہوں نے کہا کہ تم اس آیت ”واللیل اذا یغشٰی“ کو کیسے پڑھتے ہو؟ میں نے کہا کہ سیدنا عبد اللہؓ  اس طرح پڑھتے تھے ”واللیل اذا یغشٰی والذکر والانثٰی“ انہوں نے کہا کہ اللہ کی قسم! میں نے بھی رسول اللہﷺ  کو یونہی پڑھتے سنا ہے اور یہاں کے لوگ چاہتے ہیں کہ میں پڑھوں کہ ”وما خلق الذکر والانثٰی “ تو میں ان کی نہیں مانتا۔

سورۃ الضحیٰ

باب : اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿مَا وَدَّعَکَ رَبُّک…﴾ کے متعلق۔

2177: اسود بن قیس کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا جندب بن ابی سفیانؓ  سے سنا، وہ کہتے تھے کہ رسول اللہﷺ  بیمار ہو گئے تو دو تین رات تک نہیں اٹھے پھر ایک عورت (عوراء بنت حرب، ابو سفیان کی بہن ابو لہب کی بیوی حمالۃالحطب) آئی اور کہنے لگی کہ اے محمد! میں سمجھتی ہوں کہ تمہارے شیطان نے تمہیں چھوڑ دیا ہے (یہ اس شیطاننی نے ہنسی سے کہا) کیونکہ میں دیکھتی ہوں کہ دو تین رات سے تمہارے پاس نہیں آیا۔ تب اللہ تعالیٰ نے یہ سورت اتاری ”قسم ہے روزِ روشن کی اور رات کی جب کہ وہ سکون کے ساتھ چھا جائے ، تمہارے رب نے نہ تمہیں چھوڑا ہے اور نہ وہ ناراض ہوا ہے “۔

سورۃ التکاثر

باب : اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿اَلْھَاکُمُ التَّکَاثُرُ﴾ کے متعلق۔

2178: سیدنا عبد اللہ بن شخیرؓ  کہتے ہیں کہ میں نبیﷺ کے پاس آیا اور آپﷺ یہ پڑھ رہے تھے کہ ”ہلاکت میں ڈال دیا تمہیں زیادہ سے زیادہ (مال) حاصل کرنے (کی خواہش) نے “۔ آپﷺ نے فرمایا کہ آدمی کہتا ہے کہ میرا مال، میرا مال، اور اے آدمی! تیرا مال کیا ہے ؟ تیرا مال وہی ہے جو تو نے کھایا اور فنا کیا، یا پہنا اور پرانا کیا یا صدقہ دیا اور جاری کیا (قیامت کے لئے روانہ کیا)۔

سورۃ الفتح

باب : اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿اِذَا جَاءَ نَصْرُ الله …﴾کے متعلق۔

2179: سیدنا عبید اللہ بن عتبہؓ  کہتے ہیں کہ مجھ سے سیدنا ابن عباسؓ  نے کہا کہ تو جانتا ہے کہ قرآن کی یکبارگی مکمل نازل ہونے والی آخری سورت کونسی ہے ؟ میں نے کہا کہ ہاں! وہ یہ سورت ”جب اللہ تعالیٰ کی مدد آ جائے اور فتح آ جائے “ ہے انہوں نے کہا کہ تو نے سچ کہا۔

 

***

ان پیج سے اردو تحریر میں تبدیلی اور مزید ٹائپنگ اور تدوین : مہوش علی

تدوین و عملِ لفظی: اعجاز عبید

اردو لائبریری ڈاٹ آرگ ، بزم اردو لائبریری اور کتب ڈاٹ 250 فری ڈاٹ کام کی مشترکہ پیشکش