FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

فہرست مضامین

کتاب: نماز کے مسائل

 

باب : اذان کی ابتداء۔

190: سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ  سے روایت ہے کہ مسلمان جب مدینہ میں آئے تو وقت کا اندازہ کر کے جمع ہو کر نماز پڑھ لیا کرتے تھے اور کوئی شخص ندا وغیرہ نہیں کرتا۔ ایک دن مسلمانوں نے مشورہ کیا کہ اطلاعِ نماز کے لئے عیسائیوں کی طرح ناقوس بجا لیا کریں یا یہودیوں کی طرح نرسنگا بجا لیا کریں تو سیدنا عمرؓ  نے مشورہ دیا کہ ایک آدمی کو مقرر کر دیا جائے جو لوگوں کو نماز کے لئے مطلع کر دیا کرے اس پر رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اے بلال! اٹھو اور نماز کے لئے اعلان کر دو۔

باب : اذان کا بیان۔

191: سیدنا ابو محذورہؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے انہیں اس طرح اذان سکھائی ہے : اللہ اکبر۔ اللہ اکبر۔ (باقی روایات میں اللہ اکبر چار مرتبہ ہے )۔ اشھد ان لا الٰہ الا الله۔ اشھد ان لا الٰہ الا الله۔ اشھد ان محمد رسول الله۔ اشھد ان محمد رسول الله۔ پھر دوبارہ کہے اشھد ان لا الٰہ الا الله۔ اشھد ان لا الٰہ الا الله۔ اشھد ان محمد رسول الله۔ اشھد ان محمد رسول الله۔ حی علی الصلٰوۃ۔ دو مرتبہ حی علی الفلاح۔ دو مرتبہ۔ اسحٰق کا بیان ہے کہ اس کے بعد اکبر الله اکبر۔ لا الٰہ الا الله۔ کہے۔

باب : اذان دوہری اور اقامت اکہری کہے۔

192: سیدنا انسؓ  کہتے ہیں کہ سیدنا بلالؓ  کو اذان کے الفاظ دو دو مرتبہ اور اقامت کے الفاظ ایک ایک مرتبہ کہنے کا حکم کیا گیا۔ اور یحییٰ نے ابن عُلیّہ سے یہ اضافہ کیا ہے کہ میں نے اسے سیدنا ایوب سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ اقامت میں صرف قَدْ قَامَتِ الصَّلٰوةُ کے الفاظ دو مرتبہ کہے جائیں۔

باب : دو مؤذن مقرر کرنا۔

193: سیدنا ابن عمرؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کے دو مؤذن تھے۔ ایک سیدنا بلالؓ  اور دوسرے سیدنا عبد اللہ بن اُمّ مکتوم ص، جو کہ نابینا تھے۔

باب : نابینا آدمی کو مؤذن مقرر کرنا۔

194: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ سیدنا ابن اُمّ مکتومؓ  رسول اللہﷺ کے لئے اذان دیا کرتے تھے اور وہ نابینا تھے۔

باب : اذان کی فضیلت۔

195: سیدنا انس بن مالکؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ صبح سویرے ہی دشمنوں پر حملہ کرتے تھے اور اذان کی آواز پر کان لگائے رکھتے تھے ، اگر (مخالفوں کے شہر سے ) آپﷺ کو اذان کی آواز سنائی دیتی، تو ان پر حملہ نہ کرتے تھے۔ ایک مرتبہ ایک شخص کو آپﷺ نے اللہ اکبر اللہ اکبر کہتے سنا تو فرمایا کہ یہ مسلمان ہے۔ اسکے بعد آپﷺ نے اسے اَشْہَدُ اَنْ لاَّ اِلٰہَ اِلاَّ اللهُ اَشْہَدُ اَنْ لاَّ اِلٰہَ اِلاَّ اللهُ کہتے سنا تو ارشاد فرمایا کہ اے شخص تو نے دوزخ سے نجات پائی۔ لوگوں نے دیکھا تو وہ بکریوں کا چرواہا تھا۔

196: سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جب اذان ہوتی ہے تو شیطان پیٹھ موڑ کے گوز (یعنی پاد) مارتا ہوا بھاگ جاتا ہے تاکہ اذان نہ سن سکے اور اذان کے بعد پھر لوٹ آتا ہے اور جب تکبیر (اقامت) کہی جاتی ہے تو پھر بھاگ کھڑا ہوتا ہے اور تکبیر (اقامت) کے بعد پھر واپس آ جاتا ہے اور آدمی کے دل میں وسوسے ڈالتا ہے اور اس کو وہ وہ باتیں یاد دلاتا ہے جو نماز سے پہلے اس شخص کے خیال میں بھی نہ تھیں۔ جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ نمازی کو یاد ہی نہیں رہتا کہ اس نے کتنی رکعات پڑھی ہیں۔

باب : اذان کہنے والوں کی فضیلت۔

197: عیسیٰ بن طلحہ کہتے ہیں کہ میں سیدنا معاویہ بن ابی سفیانؓ  کے پاس تھا کہ اتنے میں انہیں مؤذن نماز کے لئے بلانے آیا۔ جس پر سیدنا معاویہؓ  نے کہا کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ قیامت کے دن مؤذنوں کی گردن سب سے زیادہ لمبی ہو گی۔

باب : جیسے مؤذن کہے ویسے ہی کہنا۔

198: سیدنا عبد اللہ بن عمر و بن عاصؓ  سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جب تم مؤذن کی اذان سنو تو وہی کہو جو مؤذن کہتا ہے ، پھر مجھ پر درود پڑھو کیونکہ جو کوئی مجھ پر درود پڑھتا ہے ، اللہ تعالیٰ اس پر اپنی دس رحمتیں نازل فرماتا ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ سے میرے لئے وسیلہ مانگو۔ اور وسیلہ جنت میں ایک مقام ہے جو اللہ کے بندوں میں سے ایک بندہ کو دیا جائے گا اور مجھے امید ہے کہ وہ بندہ میں ہی ہوں گا۔ اور جو کوئی میرے لئے وسیلہ (مقامِ محمود یعنی جنت کا ایک محل) طلب کرے گا تو اس کے لئے میری شفاعت واجب ہو جائے گی۔

باب : اس شخص کی فضیلت جو مؤذن کی طرح کلماتِ (اذان) کہے۔

199: سیدنا عمر بن خطابؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جب مؤذن اللہ اکبر اللہ اکبر کہے تو سننے والا بھی یہی الفاظ دہرائے اور جب وہ اشہد ان لا الٰہ الا اللہ اور اشہد ان محمدًﷺ رسول اللہ کہے تو سننے والا بھی یہی الفاظ کہے اور جب مؤذن حیّ علی الصلوٰۃ کہے تو سننے والا لا حول ولا قوۃ الا باللہ کہے پھر جب مؤذن حیّ علی الفلاح کہے تو سننے والا بھی لا حول ولا قوۃ الا باللہ کہے اس کے بعد مؤذن جب اللہ اکبر اللہ اکبر اور لا الٰہ الا اللہ کہے تو سننے والے کو بھی یہی الفاظ دہرانا چاہئیے اور جب سننے والے نے اس طرح خلوص اور دل سے یقین رکھ کر کہا تو وہ جنت میں داخل ہوا (بشرطیکہ ارکانِ اسلام کا بھی پابند ہو)۔

200: فاتح ایران سیدنا سعد بن ابی وقاصؓ  نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: جس نے مؤذن کی اذان سن کر یہ کہا کہ میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی دوسرا معبود نہیں ہے ، اللہ تعالیٰ یکتا ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں اور محمدﷺ اللہ کے بندے اور رسول ہیں، میں اللہ کی ربوبیت اور محمدﷺ کی رسالت سے مسرور اور خوش ہوں اور میں نے مذہبِ اسلام کو قبول کر لیا ہے تو ایسے شخص کے گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں۔

باب : نماز کی فرضیت کا بیان۔

201: سیدنا انس بن مالکؓ  کہتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہﷺ سے کچھ پوچھنے کی ممانعت کر دی گئی تھی تو ہمیں اچھا معلوم ہوتا کہ دیہات میں رہنے والوں میں سے کوئی عقلمند شخص آئے اور آپﷺ سے پوچھے اور ہم سنیں، تو دیہات میں رہنے والوں میں سے ایک شخص آیا اور کہنے گا کہ اے محمدﷺ! آپ کا ایلچی ہمارے پاس آیا اور کہنے لگا کہ آپ کہتے ہیں کہ آپ کو اللہ نے بھیجا ہے ؟ آپﷺ نے فرمایا کہ اس ایلچی نے سچ کہا۔ وہ شخص بولا تو آسمان کس نے پیدا کیا؟ آپﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ، اس نے کہا کہ زمین کس نے پیدا کی؟ آپﷺ نے فرمایا کہ اللہ نے ، پھر اس نے کہا کہ پہاڑوں کو کس نے کھڑا کیا اور ان میں جو چیزیں ہیں وہ کس نے پیدا کیں؟ آپﷺ نے فرمایا اللہ نے ، تب اس شخص نے کہا کہ قسم ہے اس ذات کی جس نے آسمان کو پیدا کیا اور زمین بنائی اور پہاڑوں کو کھڑا کیا، کیا سچ مچ اللہ تعالیٰ نے ہی آپ کو بھیجا ہے ؟ آپﷺ نے فرمایا ہاں۔ پھر وہ شخص بولا کہ آپ کے ایلچی نے کہا کہ ہم پر ہر دن اور رات میں پانچ نمازیں فرض ہیں، آپ نے فرمایا کہ اس نے سچ کہا وہ شخص بولا کہ قسم ہے اس کی جس نے آپ کو بھیجا ہے کیا اللہ نے آپ کو ان نمازوں کا حکم دیا ہے ؟ آپ نے فرمایا ہاں پھر وہ شخص بولا کہ آپ کے ایلچی نے کہا کہ ہم پر ہمارے مالوں کی زکوٰۃ ہے ، آپ نے فرمایا کہ اس نے سچ کہا۔ وہ شخص بولا کہ قسم اس کی جس نے آپ کو بھیجا ہے ، کیا اللہ نے آپ کو زکوٰۃ کا حکم کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا ہاں۔ پھر وہ شخص بولا کہ آپ کے ایلچی نے کہا کہ ہم پر سال میں رمضان کے روزے فرض ہیں، آپ نے فرمایا کہ اس نے سچ کہا۔ وہ شخص بولا کہ قسم اس کی جس نے آپ کو بھیجا ہے کیا اللہ نے آپ کو ان روزوں کا حکم کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا ہاں۔ پھر وہ شخص بولا کہ آپ کے ایلچی نے کہا کہ ہم میں سے جو کوئی راہ چلنے کی طاقت رکھے (یعنی خرچ راہ اور سواری ہو اور راستہ میں امن ہو اس وقت) اس پر بیت اللہ کا حج فرض ہے ، آپﷺ نے فرمایا کہ اس نے سچ کہا۔ یہ سن کر وہ شخص پیٹھ موڑ کر چلا اور کہنے لگا کہ قسم ہے اس کی جس نے آپ کو سچا پیغمبر کر کے بھیجا ہے ، میں ان باتوں سے زیادہ کروں گا اور نہ ہی کم۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اگر یہ سچا ہے تو جنت میں جائے گا۔

باب : (ابتداء میں) دو دو رکعت نماز کی فرضیت کا بیان۔

202: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نماز حضر میں بھی اور سفر میں بھی دو دو رکعت فرض کی گئی تھی، پھر سفر کی نماز تو ویسی ہی رہی اور حضر کی نماز بڑھا دی گئی۔ زہری (راوی) نے کہا کہ میں نے عروہ سے پوچھا کہ اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سفر میں پوری نماز کیوں پڑھتی تھیں؟ (یعنی ان کے نزدیک تو دو ہی رکعت فرض تھیں) تب انہوں نے کہا کہ اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے وہی تاویل کی جو سیدنا عثمانؓ  نے کی تھی (یعنی سفر میں قصر کرنا رخصت ہے اور پوری پڑھنا جائز ہے )۔

باب : پانچ نمازیں درمیانی وقفے کے گناہوں کا کفارہ بنتی ہیں۔

203: سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: پانچوں نمازیں اور جمعہ، جمعہ تک بیچ کے گناہوں کا کفارہ ہیں جب تک کبیرہ گناہ نہ کرے اور ایک روایت میں ہے کہ رمضان، رمضان تک کفارہ ہے ان گناہوں کا جو اس کے بیچ میں ہوں، جب تک کبیرہ گناہ نہ کرے۔

باب : نماز چھوڑنا کفر ہے۔

204: سیدنا جابرؓ  کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ (مومن) آدمی اور کفر و شرک کے درمیان، نماز چھوڑنے کا فرق ہے۔

باب : اوقاتِ نماز کا جامع بیان۔

205: سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاصؓ سے روایت ہے رسول اللہﷺ نے فرمایا: ظہر کا وقت سورج ڈھلنے سے شروع ہوتا ہے اور آدمی کا سایہ اس کی لمبائی کے برابر ہونے تک، جب تک کہ عصر کا وقت نہ آئے رہتا ہے۔ اور عصر کا وقت تب تک رہتا ہے کہ آفتاب زرد نہ ہو اور وقت مغرب جب تک رہتا ہے کہ شفق غائب نہ ہو اور وقت عشاء کا جب تک رہتا ہے کہ بیچ کی آدھی رات نہ ہو اور وقت نمازِ فجر کا طلوعِ فجر سے جب تک ہے کہ آفتاب نہ نکلے۔ پھر جب آفتاب نکل آئے تو نماز سے رُکا رہے ، اس لئے کہ وہ شیطان کے دونوں سینگوں کے درمیان سے نکلتا ہے۔

206: سیدنا ابو موسیٰ اشعریؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ کی خدمت میں ایک سائل حاضر ہوا اور نماز کے اوقات پوچھنے لگا آپﷺ نے اس وقت کچھ جواب نہ دیا (اس لئے کہ آپﷺ کو کر کے بتانا منظور تھا) پھر (فجر کے وقت) بلال کو (اقامت کا) حکم دیا اور فجر طلوع ہونے کے ساتھ ہی نماز فجر ادا کی اور لوگ ایک دوسرے کو پہچانتے نہ تھے (یعنی اندھیرے کے سبب سے ) پھر حکم کیا اور ظہر ادا کی جب آفتاب ڈھل گیا اور کہنے والا کہتا تھا کہ دن کا آدھا حصہ گزر گیا ہے (یعنی ابھی تو دوپہر ہے ) اور رسول اللہﷺ سب سے بہتر جانتے تھے۔ پھر ان کو حکم کیا اور عصر کی نماز ادا کی اور سورج بلند تھا۔ پھر ان کو حکم کیا اور مغرب ادا کی جب سورج ڈوب گیا۔ پھر ان کو حکم کیا اور عشاء ادا کی جب شفق ڈوب گئی۔ پھر دوسرے دن فجر کا حکم کیا اور جب اس سے فارغ ہوئے تو کہنے والا کہتا تھا کہ سورج نکل آیا، یا نکلنے کو ہے۔ پھر ظہر میں تاخیر کی یہاں تک کہ کل کے عصر کے پڑھنے کا وقت قریب ہو گیا۔ پھر عصر میں تاخیر کی یہاں تک کہ جب فارغ ہوئے تو کہنے والا کہتا تھا کہ آفتاب سرخ ہو گیا۔ پھر مغرب میں تاخیر کی یہاں تک کہ شفق ڈوبنے کے قریب ہو گئی۔ پھر عشاء میں تاخیر کی یہاں تک کہ اوّل تہائی رات ہو گئی پھر صبح ہوئی اور سائل کو بلایا اور فرمایا کہ نماز کے وقت ان دونوں وقتوں کے بیچ میں ہیں۔

باب : صبح کی نماز اندھیرے میں پڑھنا۔

207: محمد بن عمرو کہتے ہیں کہ جب حجاج مدینہ میں آیا تو ہم نے سیدنا جابر بن عبد اللہؓ  سے (اوقاتِ نماز کے متعلق) پوچھا تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہﷺ ظہر کی نماز دوپہر کے وقت اور نہایت گرمی میں (یعنی بعد زوال کے ) پڑھا کرتے تھے اور عصر ایسے وقت میں پڑھا کرتے تھے کہ آفتاب صاف ہوتا اور مغرب جب آفتاب ڈوب جاتا، پھر پڑھتے اور عشاء میں کبھی تاخیر کرتے اور کبھی اوّل وقت پڑھتے۔ جب دیکھتے کہ لوگ جمع ہو گئے ہیں تو اوّل وقت پڑھتے اور جب دیکھتے کہ لوگوں نے آنے میں دیر کی ہے ، تو دیر کرتے اور صبح کی نماز اندھیرے میں ادا کرتے تھے۔

باب : فجر اور عصر کی نمازوں کی پابندی کرنا۔

208: ابو بکر بن عمارہ بن رؤیبہ اپنے والد سیدنا عمارہؓ  سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ وہ شخص کبھی دوزخ میں داخل نہ ہو گا جس نے طلوع آفتاب سے پہلے اور غروبِ آفتاب سے پہلے کی نماز ادا کی یعنی فجر اور عصر کی۔ بصرہ والوں میں سے ایک شخص نے کہا کہ تم نے اس کو رسول اللہﷺ سے سنا ہے ؟ انہوں نے کہا ہاں۔ اس نے کہا کہ میں بھی گواہی دیتا ہوں کہ میں نے بھی اسکو رسول اللہﷺ سے سنا ہے۔ اس (بات) کو میرے کانوں نے سنا اور میرے دل نے یاد رکھا ہے۔ (ظاہر ہے کہ جو یہ مشکل نمازیں پڑھتا ہے تو باقی نمازوں کو بھی ضرور پڑھے گا)۔

209: سیدنا ابو بکر بن ابو موسیٰ اشعری اپنے والد سیدنا ابو موسیٰ اشعریؓ  سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جو شخص دو ٹھنڈی نمازیں پڑھ لے گا، وہ جنت میں داخل ہو گا۔

باب : سورج طلوع ہوتے وقت اور غروب ہوتے وقت نماز پڑھنا منع ہے۔

210: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے عصر کے بعد کی دو رکعتیں کبھی نہیں چھوڑیں۔ راوی کہتا ہے کہ اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: خاص کر اپنی نمازوں کو طلوع اور غروب آفتاب کے وقت پڑھنے کی عادت مت کرو کہ ہمیشہ اسی وقت ادا کیا کرو۔ (یعنی فجر اور عصر تاخیر سے نہیں بلکہ اول وقت میں پڑھو)۔

باب : ظہر کی نماز اول وقت میں ادا کرنا۔

211: سیدنا خبابؓ  کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہﷺ کی خدمت میں آئے اور آپﷺ سے (جھلسا دینے والی) سخت گرمی کی، شکایت کی تو آپﷺ نے قبول نہ فرمائی۔ زہیر نے کہا کہ میں نے ابو اسحاق سے پوچھا کہ ظہر کی نماز کی شکایت کی تھی؟ انہوں نے کہا ہاں میں نے کہا کہ اوّل وقت نماز ادا کرنے کی؟ انہوں نے کہا ہاں۔ (یعنی کچھ تاخیر کرنے کا مطالبہ کیا تھا جو کہ ابتداء میں آپﷺ نے قبول نہ فرمایا اور بعد میں اس کی اجازت دے دی، جیسے اگلی حدیث میں ہے )۔

باب : سخت گرمی میں ظہر کی نماز کو ٹھنڈا کر کے پڑھنا۔

212: سیدنا ابو ذرؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ و سلم کے مؤذن نے ظہر کی اذان کہنے کا ارادہ کیا تو آپﷺ نے فرمایا کہ ذرا ٹھنڈا ہونے دو، ذرا ٹھنڈا ہونے دو یا فرمایا کہ ذرا انتظار کرو ذرا انتظار کرو۔ اور فرمایا کہ گرمی کی شدت جہنم کی بھاپ سے ہے۔ پھر جب گرمی شدت کی ہو تو نماز کو ٹھنڈے وقت ادا کرو۔ سیدنا ابو ذرؓ  کہتے ہیں کہ یہاں تک انتظار کیا کہ ہم نے ٹیلوں کے سائے دیکھ لئے۔

باب : نمازِ عصر کا اوّل وقت۔

213: سیدنا انس بن مالکؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم عصر کی نماز پڑھتے تھے اور سورج بلند ہوتا تھا اور اس میں گرمی ہوتی تھی۔ اور جانے والا اونچے کناروں تک جاتا تھا اور وہاں پہنچ جاتا تھا اور آفتاب (ابھی) بلند رہتا تھا۔

214: علاء بن عبدالرحمن سے روایت ہے کہ وہ سیدنا انس بن مالکؓ  کے ہاں بصرہ والے گھر ظہر پڑھ کر گئے اور سیدنا انسؓ  کا گھر مسجد کے پاس تھا۔ پھر جب ہم ان کے یہاں گئے تو انہوں نے کہا کہ تم عصر پڑھ چکے ؟ہم نے کہا کہ ہم تو ابھی ظہر پڑھ کر آئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عصر پڑھ لو۔ پھر ہم نے عصر پڑھی۔ جب عصر پڑھ چکے تو انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا ہے ، آپﷺ فرماتے تھے کہ یہ نماز منافق کی ہے کہ بیٹھا سورج کو دیکھتا ہے ، پھر جب وہ شیطان کے دونوں سینگوں میں ہو جاتا ہے تو اٹھ کر چار ٹھونگیں مارتا ہے اور اس میں اللہ کو یاد نہیں کرتا مگر تھوڑا۔

باب : نماز عصر کی محافظت اور عصر کے بعد نماز پڑھنے کی ممانعت۔

215: سیدنا ابو بصرہ غفاریؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ہمارے ساتھ عصر کی نماز (مقامِ) مخمص میں پڑھی اور فرمایا کہ یہ نماز تم سے پہلوں کے سامنے پیش کی گئی اور انہوں نے اس کو ضائع کیا۔ پھر جو اس کی حفاظت کرے ، اس کو دوگنا ثواب ہو گا اور اس کے بعد کوئی نماز نہیں جب تک کہ شاہد نہ نکلے۔ اور شاہد سے مراد ستارہ ہے (کہ ستارہ نکل آئے )۔

باب : اس شخص کے بارے میں سخت وعید کہ جس کی نمازِ عصر فوت ہو گئی۔

216: سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس شخص کی عصر کی نماز فوت ہو جائے ،گویا اس کا اہل اور مال ہلاک ہو گیا۔

باب : درمیانی نماز کے متعلق کیا آیا ہے ؟

217: سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو نمازِ عصر سے مشرکوں نے روک دیا، یہاں تک کہ سورج سرخ یا زرد ہو گیا پس آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ انہوں نے ہمیں نمازِ عصر، نمازِ وسطیٰ سے روک دیا ہے ، اللہ ان کے پیٹوں اور قبروں کو آگ سے بھر دے۔ (یا کہا: حَشَﷺ الله اجوافہم و قبورھم ناراً)

باب : عصر اور فجر کے بعد نماز پڑھنے کی ممانعت۔

218: سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے عصر کے بعد سورج غروب ہونے تک اور صبح کی نماز کے بعد سورج طلوع ہونے تک (نفل) نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے۔

باب : تین اوقات میں نہ نماز پڑھی جائے اور نہ میت کو دفنایا جائے۔

219: عُلیٰ بن رباح کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا عقبہ بن عامر جہنیؓ  کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ رسول اللہﷺ ہمیں تین اوقات میں نماز سے اور مُردوں کو دفن کرنے سے روکتے تھے۔ ایک تو جب سورج طلوع ہو رہا ہو، یہاں تک کہ بلند ہو جائے ، دوسرے جس وقت ٹھیک دوپہر ہو، جب تک کہ زوال نہ ہو جائے اور تیسرے جس وقت سورج ڈوبنے لگے ، جب تک پورا ڈوب نہ جائے۔

باب : عصر کے بعد دو رکعت پڑھنے کا بیان۔

220: ابو سلمہ نے اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے ان دو رکعتوں کے بارے میں پوچھا جو رسول اللہﷺ عصر کے بعد پڑھتے تھے ، تو انہوں نے کہا کہ آپﷺ عصر سے پہلے پڑھا کرتے تھے ، پھر ایک بار آپ کو کوئی کام ہو گیا یا بھول گئے تو عصر کے بعد پڑھیں پھر ہمیشہ پڑھتے رہے اور آپﷺ کی عادت تھی کہ جب کوئی نماز پڑھتے تو ہمیشہ پڑھا کرتے تھے اسمعیل بن جعفر نے کہا کہ ان کی مراد یہ تھی کہ آپﷺ نے اس پر ہمیشگی کی۔

باب : غروب آفتاب کے بعد عصر کی قضا کرنا۔

221: سیدنا جابر بن عبد اللہؓ  سے روایت ہے کہ سیدنا عمر بن خطابؓ  جنگ خندق کے دن آئے اور کفارِ قریش کو بُرا بھلا کہنے لگے اور عرض کیا کہ اے اللہ کے رسولﷺ! قسم ہے اللہ کی میں عصر کی نماز نہیں پڑھ سکا ہوں، یہاں تک کہ آفتاب غروب کے قریب ہو گیا ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ قسم ہے اللہ کی میں نے بھی نہیں پڑھی۔ پھر ہم ایک کنکریلی زمین کی طرف گئے اور رسول اللہﷺ نے وضو کیا اور ہم سب نے وضو کیا اور آپ صل اللہ علیہ و آلہ و سلم نے غروب آفتاب کے بعد عصر کی نماز پڑھی، پھر اس کے بعد مغرب کی نماز پڑھی۔

باب : غروب آفتاب کے بعد، نمازِ مغرب سے پہلے دو رکعتیں پڑھنا۔

222: مختار بن فلفل کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا انس بن مالکؓ  سے عصر کے بعد نفل پڑھنے کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ سیدنا عمرؓ  عصر کے بعد نماز پڑھنے والوں کے ہاتھوں پر مارتے تھے اور ہم رسول اللہﷺ کے دَور میں غروب آفتاب کے بعد نمازِ مغرب سے پہلے دو رکعت پڑھتے تھے۔ میں نے ان سے کہا کہ رسول اللہﷺ بھی یہ دو رکعتیں پڑھا کرتے تھے ؟ انہوں نے کہا کہ ہم کو پڑھتے ہوئے دیکھا کرتے تھے اور نہ اس کا حکم کرتے (یعنی بطریق وجوب کے )، اور نہ اس سے منع فرماتے تھے۔

باب : مغرب کا وقت اس وقت ہوتا ہے جب سورج غروب ہو جائے۔

223: سیدنا سلمہ بن اکوعؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ ہمیشہ مغرب کی نماز اس وقت پڑھا کرتے تھے جب آفتاب ڈوب جاتا اور پردہ میں چھپ جاتا تھا۔

باب : عشاء کا وقت اور اس میں تاخیر کرنے کا بیان۔

224: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ایک رات رسول اللہﷺ نے نمازِ عشاء میں دیر کی، یہاں تک کہ رات کا بڑا حصہ گزر گیا اور مسجد میں جو لوگ تھے سو گئے۔ پھر آپﷺ نکلے ، نماز پڑھی اور فرمایا کہ اگر مجھے یہ خیال نہ ہوتا کہ میں اپنی امت پر مشقت ڈال دوں گا، اس کا وقت یہی ہے۔

باب : نمازِ عشاء کے نام کے متعلق۔

225: سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: دیہاتی لوگ تم پر عشاء کی نماز کے نام پر غالب نہ آ جائیں، اس لئے کہ وہ اللہ کی کتاب میں عشاء ہے۔ اس لئے کہ وہ اونٹنیوں کے دوہنے میں دیر کرتے ہیں۔ (اس لئے وہ نماز عشاء کو عقمہ کہتے ہیں)۔

باب : نماز کو اس کے وقت سے لیٹ کرنا منع ہے۔

226: سیدنا ابو ذرؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے مجھ سے فرمایا کہ تم کیا کرو گے جب تمہارے اوپر ایسے امیر ہوں گے تو نماز آخر وقت ادا کریں گے یا فرمایا کہ نماز کو اس کے وقت سے مار ڈالیں گے ؟ میں نے عرض کیا کہ آپ مجھے کیا حکم فرماتے ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا کہ تم اپنے وقت پر ادا کر لینا، پھر ان کے ساتھ بھی اتفاق ہو تو پڑھ لینا کہ وہ تمہارے لئے نفل ہو جائے گی۔

باب : افضل عمل نماز کو وقت پر ادا کرنا ہے۔

227: سیدنا عبد اللہ بن مسعودؓ  کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے پوچھا کہ کونسا کام افضل ہے ؟ (یعنی ثواب میں سب سے بڑھ کر ہے ) آپ صل اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ نماز اپنے وقت پر پڑھنا۔ میں نے کہا کہ پھر کونسا؟ آپﷺ نے فرمایا کہ ماں باپ سے نیکی کرنا (یعنی ان کو خوش اور راضی رکھنا اور ان کے ساتھ احسان کرنا اور ان کے دوستوں کے ساتھ بھی اچھا سلوک کرنا) میں نے کہا کہ پھر کونسا؟ آپﷺ نے فرمایا کہ اللہ کی راہ میں جہاد کرنا۔ پھر میں نے آپﷺ کی رعایت کر کے زیادہ پوچھنا چھوڑ دیا (تاکہ آپﷺ پر بار نہ گزرے )۔

باب : جس نے نماز کی ایک رکعت پالی، تو اس نے نماز کو پا لیا۔

228: سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس نے کسی نماز کی ایک رکعت پا لی اس نے وہ نماز پا لی۔

باب : جو آدمی سو جائے یا نماز بھول جائے ، تو جب یاد آئے اسی وقت پڑھ لے۔

229: سیدنا ابو قتادہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ہمیں خطاب کرتے ہوئے فرمایا: تم آج زوال کے بعد اور اپنی ساری رات چلو اگر اللہ نے چاہا تو کل صبح پانی پر پہنچو گے۔ پس لوگ اس طرح چلے کہ کوئی کسی کی طرف متوجہ نہ ہوتا تھا۔ سیدنا ابو قتادہؓ  نے کہا کہ رسول اللہﷺ چلے جاتے تھے ، یہاں تک کہ آدھی رات ہو گئی اور میں آپﷺ کے پہلو کی طرف تھا اور آپﷺ اونگھنے لگے اور اپنی سواری پر سے جھکے (یعنی نیند کے غلبہ سے ) اور میں نے آ کر آپ کو ٹیکہ دیا (تاکہ گر نہ پڑیں) بغیر اس کے کہ میں آپﷺ کو جگاؤں، یہاں تک کہ آپﷺ پھر سیدھے ہو کر بیٹھ گئے۔ پھر چلے یہاں تک کہ جب بہت رات گزر گئی، پھر آپﷺ جھکے اور میں نے پھر ٹیکہ دیا بغیر اس کے کہ آپﷺ کو جگاؤں، یہاں تک کہ آپﷺ پھر سیدھے ہو کر بیٹھ گئے۔ پھر چلے یہاں تک کہ آخر سحر کا وقت ہو گیا، پھر ایک بار بہت جھکے کہ اگلے دو بار سے بھی زیادہ، قریب تھا کہ گر پڑیں۔ پھر میں آیا اور آپﷺ کو روک دیا۔ پھر آپﷺ نے سر اٹھایا اور فرمایا یہ کون ہے ؟ میں نے عرض کیا کہ ابو قتادہ۔ آپﷺ نے فرمایا کہ تم کب سے میرے ساتھ اس طرح چل رہے ہو؟میں نے عرض کیا کہ میں رات سے آپ کے ساتھ اسی طرح چل رہا ہوں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تمہاری حفاظت کرے جیسے تم نے اس کے نبی کی حفاظت کی ہے۔ پھر آپ نے فرمایا کہ تم ہمیں دیکھتے ہو کہ ہم لوگوں کی نظروں میں پوشیدہ ہیں؟ پھر آپﷺ نے فرمایا کہ تم کسی کو دیکھتے ہو؟ میں نے کہا کہ یہ ایک سوار ہے ، پھر میں نے کہا کہ یہ ایک اور سوار ہے ، یہاں تک کہ ہم سات سوار جمع ہو گئے۔ تب رسول اللہﷺ راہ سے ایک طرف الگ ہوئے اور اپنا سر زمین پر رکھا (یعنی سونے کو) اور فرمایا کہ تم لوگ ہماری نماز کا خیال رکھنا (یعنی نماز کے وقت جگا دینا)۔ پھر پہلے جو جاگے وہ رسول اللہﷺ ہی تھے اور دھوپ آپﷺ کی پیٹھ پر آ گئی تھی پھر ہم لوگ گھبرا کر اٹھے اور آپﷺ نے فرمایا کہ سوار ہو جاؤ تو ہم سوار ہوئے پھر چلے یہاں تک کہ جب دھوپ چڑھ گئی تو آپﷺ اترے اپنا وضو کا لوٹا منگوایا جو میرے پاس تھا اور اس میں تھوڑا سا پانی تھا، پھر آپ صل اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس سے وضو کیا (جو عام وضو سے کم تھا یعنی بہت قلیل پانی سے بہت جلد) اور اس میں تھوڑا سا پانی باقی رہ گیا۔ پھر ابو قتادہؓ  سے فرمایا کہ ہمارے لوٹے کو رکھ چھوڑو کہ اس کی ایک عجیب کیفیت ہو گی۔ پھر سیدنا بلالؓ  نے نماز کے لئے اذان کہی اور نبیﷺ نے دو رکعت نماز پڑھی، پھر صبح کی فرض نماز ادا کی اور ویسے ہی ادا کی جیسے ہر روز ادا کرتے تھے۔ اور آپﷺ بھی اور ہم بھی آپﷺ کے ساتھ سوار ہوئے ، پھر ہم میں سے بعض دوسرے سے چپکے چپکے کہتا تھا کہ آج ہمارے اس قصور کا کیا کفارہ ہو گا جو ہم نے نماز میں قصور کیا تب آپﷺ نے فرمایا کہ کیا میں تم لوگوں کے لئے اسوۂ نہیں ہوں؟ پھر فرمایا کہ سونے میں کیا قصور ہے ؟ قصور تو یہ ہے کہ ایک آدمی نماز نہ پڑھے ، یہاں تک کہ دوسری نماز کا وقت آ جائے (یعنی جاگنے میں قضا کرے ) پھر جو ایسا کرے (یعنی اس کی قضا ہو جائے تو) لازم ہے کہ جب ہوشیار ہو، ادا کرے۔ اور جب دوسرا دن آئے تو اپنی نماز اوقاتِ متعینہ پر ادا کرے (یعنی یہ نہیں کہ ایک بار قضا ہو جانے سے نماز کا وقت ہی بدل جائے )۔ پھر فرمایا کہ تم کیا خیال کرتے ہو کہ لوگوں نے کیا کیا ہو گا؟ پھر فرمایا کہ لوگوں نے جب صبح کی تو اپنے نبیﷺ کو نہ پایا۔ تب ابو بکر اور عمر (رضی اللہ عنہما) نے کہا کہ رسول اللہﷺ تمہارے پیچھے ہوں گے ، آپﷺ ایسے نہیں کہ تمہیں پیچھے چھوڑ جائیں اور دوسرے لوگوں نے کہا کہ رسول اللہﷺ تم سے آگے ہیں۔ پھر وہ لوگ اگر ابو بکر اور عمر (رضی اللہ عنہما) کی بات مانتے تو سیدھی راہ پاتے (یہ خبر آپﷺ نے معجزہ کے طور پر دی)۔ راوی نے کہا کہ پھر ہم لوگوں تک پہنچے ، یہاں تک کہ دن کافی چڑھ آیا تھا اور ہر چیز گرم ہو گئی تھی اور لوگ کہنے لگے کہ اے اللہ کے رسولﷺ! ہم تو مر گئے اور پیاسے ہو گئے۔ آپﷺ نے فرمایا نہیں تم نہیں مرے۔ پھر فرمایا کہ ہمارا چھوٹا پیالہ لاؤ اور وہ لوٹا منگوایا اور رسول اللہﷺ پانی ڈالنے لگے اور سیدنا ابو قتادہؓ  لوگوں کو پانی پلانے لگے۔ پھر جب لوگوں نے دیکھا کہ پانی ایک لوٹا بھر ہی ہے تو لوگ اس پر گرنے لگے (یعنی ہر شخص ڈرنے لگا کہ پانی تھوڑا ہے کہیں محروم نہ رہ جاؤں) تب آپﷺ نے فرمایا کہ اچھی طرح آہستگی سے لیتے رہو، تم سب سیراب ہو جاؤ گے۔ غرض کہ پھر لوگ اطمینان سے لینے لگے اور رسول اللہﷺ پانی ڈالتے تھے اور میں پلاتا تھا یہاں تک کہ میرے اور رسول اللہﷺ کے سوا کوئی باقی نہ رہا (راوی نے ) کہا کہ رسول اللہﷺ نے پھر ڈالا اور مجھ سے فرمایا کہ پیو! میں نے عرض کیا کہ میں نہ پیوں گا جب تک اللہ کے رسول آپﷺ نہ پئیں گے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ قوم کا پلانے والا سب کے آخر میں پیتا ہے۔ پھر میں نے پیا (راوی نے ) کہا کہ پھر لوگ پانی پر خوش خوش اور آسودہ پہنچے (راوی نے ) کہا کہ عبد اللہ بن رباح نے کہا کہ میں جامع مسجد میں لوگوں سے یہی حدیث بیان کرتا تھا کہ سیدنا عمران بن حصینؓ  نے کہا کہ اے جوان غور کرو کہ تم کیا کہتے ہو، اس لئے کہ میں اس رات کا ایک سوار تھا۔ کہتے ہیں کہ میں نے کہا پھر تو آپ اس حدیث سے خوب واقف ہوں گے انہوں نے کہا کہ تم کس قوم سے ہو؟ میں نے کہا میں انصار میں سے ہوں۔ انہوں نے کہا بیان کرو کہ تم تو اپنی حدیثوں کو خوب جانتے ہو۔ پھر میں نے لوگوں سے پوری روایت بیان کی۔ تب سیدنا عمرانؓ  نے کہا کہ میں بھی اس رات حاضر تھا مگر میں نہیں جانتا کہ جیسا تم نے یاد رکھا ایسا اور کسی نے یاد رکھا ہو۔

باب : ایک کپڑے میں نماز پڑھنا۔

230: سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہﷺ سے پوچھا کہ کیا ایک کپڑے میں نماز درست ہے ؟ تو آپﷺ نے فرمایا کہ کیا تم میں سے ہر شخص کے پاس دو دو کپڑے ہیں؟

231: سیدنا عمر بن ابی سلمہؓ  کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو دیکھا کہ آپﷺ اُمّ المؤمنین اُمّ سلمہ کے گھر ایک کپڑا لپیٹے ہوئے نماز پڑھ رہے تھے اور اس کے دونوں کنارے آپﷺ کے مونڈھوں پر تھے۔

باب : نقش و نگار والے کپڑے میں نماز پڑھنا۔

232: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ ایک نقش و نگار والی چادر اوڑھ کر نماز پڑھنے کے لئے کھڑے ہوئے تو آپﷺ اس کے نشانوں کی طرف دیکھنے لگے۔ جب نماز پڑھ چکے تو فرمایا کہ اس چادر کو ابو جہم بن حذیفہ کے پاس لے جاؤ اور ان کی چادر (جو کہ بغیر نقش و نگار کے تھی) مجھے لا دو کیونکہ اس چادر نے مجھے ابھی نماز میں غافل کر دیا۔

باب : چٹائی پر نماز پڑھنا۔

233: اسحاق بن عبد اللہ بن ابو طلحہ سیدنا انس بن مالکؓ  سے روایت کرتے ہیں کہ ان (سیدنا انس ص) کی دادی نے جن کا نام ملیکہ تھا ، رسول اللہﷺ کو ایک کھانے کے لئے بلایا جو انہوں نے پکایا تھا۔ پھر رسول اللہﷺ نے کھایا اور فرمایا: کھڑے ہو جاؤ کہ میں (تمہاری خیر و برکت کے لئے ) نماز پڑھوں سیدنا انسؓ  نے کہا کہ میں ایک (چٹائی) بوریا لے کر کھڑا ہوا جو بہت بچھانے سے سیاہ ہو گیا تھا (یعنی مستعمل تھا)، اس پر میں نے پانی چھڑکا اور رسول اللہﷺ اس پر کھڑے ہوئے اور میں نے اور ایک یتیم نے آپﷺ کے پیچھے صف باندھی اور بوڑھی بھی ہمارے پیچھے کھڑی ہوئیں، پھر آپﷺ نے دو رکعت نماز پڑھائی اور سلام پھیرا۔

باب : جوتے پہن کر نماز پڑھنا۔

234: سعید بن یزید کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا انس بن مالکؓ  سے کہا کہ کیا رسول اللہﷺ جوتے پہن کر نماز پڑھتے تھے ؟ انہوں نے کہا ہاں۔

 

 

کتاب: المساجد

 

باب : زمین پر بنائی جانے والی سب سے پہلی مسجد۔

235: سیدنا ابو ذرؓ  کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے عرض کیا کہ زمین پر سب سے پہلی مسجد کونسی بنائی گئی؟ تو آپﷺ نے فرمایا کہ مسجد الحرام(یعنی خانہ کعبہ)۔ میں نے عرض کیا کہ پھر کونسی؟ (مسجد بنائی گئی تو) آپﷺ نے فرمایا کہ مسجد الاقصیٰ (یعنی بیت المقدس)۔ میں نے پھر عرض کیا کہ ان دونوں کے درمیان کتنا فاصلہ تھا؟ آپﷺ نے فرمایا کہ چالیس برس کا اور تو جہاں بھی نماز کا وقت پالے ، وہیں نماز ادا کر لے پس وہ مسجد ہی ہے۔

باب : مسجد نبویﷺ کی تعمیر۔

236: سیدنا انس بن مالکؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ و سلم مدینہ میں تشریف لائے تو شہر کے بلند حصہ میں ایک محلہ میں اترے ، جس کو بنی عمرو بن عوف کا محلہ کہتے ہیں وہاں چودہ دن رہے ، پھر آپ صل اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بنی نجار کے لوگوں کو بلایا تو وہ اپنی تلواریں لٹکائے ہوئے آئے۔ سیدنا انسؓ  نے کہا کہ گویا میں اس وقت رسول اللہﷺ کو دیکھ رہا ہوں، آپﷺ اپنی اونٹنی پر تھے اور سیدنا ابو بکرؓ  آپﷺ کے پیچھے تھے اور بنو نجار کے لوگ آپﷺ کے ارد گرد تھے ، یہاں تک کہ آپﷺ سیدنا ابو ایوبؓ  کے مکان کے صحن میں اترے۔ رسول اللہﷺ کی عادت مبارکہ تھی کہ جہاں نماز کا وقت آ جاتا، وہاں نماز پڑھ لیتے اور بکریوں کے رہنے کی جگہ میں بھی نماز پڑھ لیتے۔ (کیونکہ بکریاں غریب ہوتی ہیں ان سے اندیشہ نہیں ہے کہ وہ ستائیں) اس کے بعد آپﷺ نے مسجد بنانے کا حکم کیا اور بنو نجار کے لوگوں کو بلایا۔ وہ آئے تو آپﷺ نے ان سے فرمایا کہ تم اپنا باغ میرے ہاتھ بیچ ڈالو۔ انہوں نے کہا اللہ کی قسم ہم تو اس باغ کی قیمت نہ لیں گے ہم اللہ ہی سے اس کا بدلہ چاہتے ہیں (یعنی آخر ت کا ثواب چاہتے ہیں ہمیں روپیہ درکار نہیں)۔ سیدنا انسؓ  نے کہا کہ اس باغ میں جو چیزیں تھیں، ان کو میں کہتا ہوں، اس میں کھجور کے درخت تھے اور مشرکوں کی قبریں تھیں اور کھنڈر تھے۔ آپﷺ نے حکم کیا تو درخت کاٹے گئے اور مشرکوں کی قبریں کھود کر پھینک دی گئیں اور کھنڈر برابر کئے گئے اور درختوں کی لکڑی قبلہ کی طرف رکھ دی گئی اور دروازہ کے دونوں طرف پتھر لگائے گئے۔ جب یہ کام شروع ہوا تو صحابہؓ رجز پڑھتے تھے اور رسول اللہﷺ بھی ان کے ساتھ تھے وہ لوگ یہ کہتے تھے کہ اے اللہ! بہتری اور بھلائی تو آخرت کی بہتری اور بھلائی ہے تو انصار اور مہاجرین کی مدد فرما۔

باب : اس مسجد کے متعلق جس کی بنیاد تقویٰ پر رکھی گئی۔

237: ابو سلمہ بن عبدالرحمن کہتے ہیں کہ سیدنا عبدالرحمن بن ابی سعیدؓ  گزرے تو میں نے ان سے کہا کہ آپ نے اپنے والد کو کیسے سنا کہ وہ بیان کرتے تھے کہ وہ کونسی مسجد ہے جس کی بنیاد تقویٰ پر رکھی گئی ہے ؟ تو انہوں نے کہا کہ میرے والد  نے کہا کہ میں رسول اللہﷺ کی خدمت میں، آپ کی بیویوں میں سے کسی ایک کے گھر میں حاضر ہوا اور میں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسولﷺ! وہ مسجد کونسی ہے جس کو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تقویٰ پر بنائی گئی ہے ؟ تو آپﷺ نے ایک مٹھی کنکر لے کر زمین پر مارے اور فرمایا کہ وہ یہی تمہاری مسجد ہے یعنی مدینہ کی مسجد۔ (ابو سلمہ بن عبد الرحمن راوی حدیث کہتے ہیں) میں نے کہا کہ میں بھی گواہی دیتا ہوں کہ میں نے بھی تمہارے والد سیدنا ابو سعید خدریؓ  سے سنا ہے کہ وہ اس مسجد کا ایسا ہی ذکر کیا کرتے تھے۔

باب : مکہ اور مدینہ کی مسجد میں نماز پڑھنے کی فضیلت۔

238: سیدنا ابن عباسؓ  سے روایت ہے کہ ایک عورت بیمار ہو گئی تو اس نے کہا کہ اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے شفا دی تو میں بیت المقدس میں جا کر نماز پڑھوں گی۔ پھر وہ اچھی ہو گئی تو اس نے جانے کی تیاری کی اور اُمّ المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا کے پاس حاضر ہو کر ان کو سلام کیا اور اپنے ارادہ کی خبر دی تو انہوں نے فرمایا کہ تم نے جو زادِ راہ تیار کیا ہے وہ کھاؤ اور رسول اللہﷺ کی مسجد میں نماز پڑھو، اس لئے کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا، آپ صل اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے کہ اس مسجد میں ایک نماز ادا کرنا اور مسجدوں میں ہزار نمازیں ادا کرنے سے افضل ہے سوائے مسجد حرام کے۔

باب : مسجد قبا میں جانا اور اس میں نماز ادا کرنا۔

239: سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ مسجد قبا کی طرف سوار اور پیدل تشریف لے جاتے تھے اور اس میں دو رکعت نماز ادا کرتے تھے۔

باب : اس شخص کی فضیلت جس نے اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے مسجد بنائی۔

240: سیدنا محمود بن لبیدؓ  سے روایت ہے کہ سیدنا عثمان بن عفانؓ  نے مسجد بنانے کا ارادہ کیا تو لوگوں نے اس بات کو بُرا سمجھا اور یہ چاہا کہ مسجد کو اپنے حال پر چھوڑ دیں (یعنی جیسے رسول اللہﷺ کے دَور میں تھی) تو عثمانؓ  نے کہا کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا ہے آپ فرماتے تھے کہ جو شخص اللہ کے لئے مسجد بنائے تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت میں ایک گھر ویسا ہی بنائے گا۔

باب : مساجد کی فضیلت۔

241: سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: شہروں میں سب سے پیاری جگہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک مسجدیں ہیں اور سب سے بُری جگہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک بازار ہیں۔

باب : مساجد کی طرف زیادہ قدم اٹھانے کی فضیلت۔

242: سیدنا ابی بن کعبؓ  کہتے ہیں کہ انصار میں سے ایک شخص تھے کہ ان کا گھر مدینہ کے سب گھروں سے مسجد سے دور تھا اور ان کی کوئی جماعت رسول اللہﷺ کے ساتھ جانے نہ پاتی تھی (یعنی ہر نماز میں پہنچتے تھے ) تو مجھے ان پر ترس آیا اور میں نے ان سے کہا کہ کاش تم ایک گدھا خرید لو کہ تمہیں گرمی سے اور راہ کے کیڑے مکوڑوں سے بچائے تو انہوں نے کہا کہ اللہ کی قسم! میں نہیں چاہتا کہ میرا گھر محمدﷺ کے گھر سے متصل ہو۔ مجھ پر اس کی یہ بات گراں گزری تو میں نبیﷺ کے پاس آیا اور آپ صل اللہ علیہ و آلہ و سلم کو خبر دی، آپﷺ نے ان کو بلایا۔ انہوں نے رسول اللہﷺ سے بھی وہی کہا جو مجھ سے کہا تھا اور کہا کہ میں اپنے قدموں کا اجر چاہتا ہوں۔ نبیﷺ نے فرمایا کہ بیشک تم کو اجر ہے جس کے تم امیدوار ہو۔

باب : نمازوں کی طرف چلنے سے گناہ معاف اور درجات بلند کئے جاتے ہیں۔

243: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جو آدمی اپنے گھر میں وضو کرے ، پھر اللہ کے کسی گھر میں جائے کہ اللہ کے فرضوں میں سے کسی فرض کو ادا کرے ، تو اس کے قدم ایسے ہوں گے کہ ایک سے تو برائی گرے گی اور دوسرے سے درجہ بلند ہو گا۔

باب : نماز کے لئے اطمینان سے آنا اور دوڑنے سے اجتناب کرنا۔

244: سیدنا ابو قتادہؓ  کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ نماز پڑھتے تھے کہ آپﷺ نے لوگوں کے قدموں کی آواز سنی تو فرمایا (یعنی نماز کے بعد) تمہارا کیا حال ہے ؟ انہوں نے کہا کہ ہم نے نماز کے لئے جلدی کی تھی تو آپﷺ نے فرمایا کہ ایسا نہ کرو۔ جب تم نماز کے لئے آؤ تو آرام سے آؤ پھر جو ملے (امام کے ساتھ) پڑھ لو اور جو تم سے آگے ہو چکی اسے پوری کر لو۔

باب : عورتوں کا مساجد میں (نماز وغیرہ کے لئے ) جانا۔

245: سیدہ زینب الثقفیہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جو عورت مسجد میں آنا چاہے تو وہ خوشبو کو ہاتھ تک نہ لگائے۔

باب : عورتوں کو (مسجد میں) جانے سے منع کرنا۔

246: سیدہ عمرہ بنتِ عبدالرحمن رضی اللہ عنہا نے اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے سنا، وہ کہتی تھیں کہ رسول اللہﷺاگر موجودہ دَور کی بناؤ سنگھار کرنے والی خواتین کو دیکھتے ، تو انہیں مسجد میں آنے سے روک دیتے ، جیسا کہ بنی اسرائیل کی عورتیں روک دی گئی تھیں۔ (راوی) یحییٰ بن سعید نے راویہ سیدہ عمرہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ اے عمرہ! کیا بنی اسرائیل کی عورتوں کو مسجد میں آنے سے روک دیا گیا تھا؟ انہوں نے کہا ہاں۔

باب : مسجد میں داخل ہوتے وقت کیا دعآپڑھیں؟۔

247: سیدنا ابو حمیدؓ (یا سیدنا ابو اسید)ؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جب کوئی مسجد میں آئے تو کہے کہ ”اے اللہ میرے لئے اپنی رحمت کے دروازے کھول دے “ اور جب نکلے تو کہے ”اے اللہ میں تجھ سے تیرا فضل یعنی رزق اور دنیا کی نعمتیں مانگتا ہوں“۔

باب : جب مسجد میں داخل ہو تو دو رکعت (نفل) پڑھے۔

248: سیدنا ابو قتادہؓ  کہتے ہیں کہ میں مسجد میں گیا اور رسول اللہﷺ لوگوں میں بیٹھے ہوئے تھے تو میں بھی بیٹھ گیا۔ آپﷺ نے فرمایا کہ تمہیں بیٹھنے سے پہلے دو رکعت پڑھنے سے کس نے روکا؟ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! میں نے آپﷺ کو اور لوگوں کو بیٹھے دیکھا (تو میں بیٹھ گیا)، آپﷺ نے فرمایا جب تم میں سے کوئی مسجد میں آئے ، تو جب تک دو رکعت نہ پڑھ لے نہ بیٹھے۔

باب : اذان کے بعد مسجد سے نکلنے کی ممانعت۔

249: ابو شعثاء کہتے ہیں کہ ہم مسجد میں سیدنا ابو ہریرہؓ  کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ مؤذن نے اذان دی اور ایک شخص مسجد سے اٹھا اور جانے لگا تو سیدنا ابو ہریرہؓ  اس کو دیکھتے رہے ، یہاں تک کہ وہ باہر چلا گیا۔ تب سیدنا ابو ہریرہؓ  نے کہا کہ اس شخص نے ابو القاسمﷺ کی نافرمانی کی۔

باب : مسجد میں تھوکنے کا کفارہ۔

250: سیدنا انس بن مالکؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: مسجد میں تھوکنا گناہ ہے اور اس کا کفارہ یہ ہے کہ (اگر تھوکے تو) مٹی میں دبا دے۔

باب : لہسن کھا کر مسجد میں آنے کی کراہت۔

251: سیدنا ابن عمرؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے خیبر کی جنگ میں فرمایا کہ جو شخص اس پودے یعنی لہسن کے پودے کو کھائے تو وہ مسجد میں نہ آئے۔

باب : (کچا) پیاز اور لہسن کھانے کے بعد مسجد سے الگ رہنے کا حکم(کُرَّاث پیاز اور لہسن کے مشابہ بدبو دار پودا ہے )۔

252: سیدنا جابر بن عبد اللہؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جو شخص پیاز یا لہسن کھائے تو وہ ہم سے جدا رہے یا فرمایا کہ ہماری مسجد سے جدا رہے اور اپنے گھر بیٹھے۔ ایک مرتبہ آپﷺ کے پاس ایک ہنڈیا لائی گئی جس میں ترکاریاں تھیں، آپﷺ نے اس میں بدبو پائی تو پوچھا کہ اس میں کیا ڈالا ہے ؟ جب آپﷺ کو معلوم ہوا تو آپﷺ نے فرمایا کہ اس کو فلاں صحابی کے پاس لے جاؤ۔ جب آپﷺ نے دیکھا کہ اس نے بھی اسکا کھانا بُرا سمجھا (اس وجہ سے کہ رسول اللہﷺ نے نہیں کھایا) تو آپﷺ نے فرمایا کہ تو کھا لے کیونکہ میں تو اس سے سرگوشی کرتا ہوں جس سے تو نہیں کرتا (یعنی فرشتوں سے )

باب : جس کے منہ سے پیاز یا لہسن کی بدبو آئے ، اس کو مسجد سے نکالنا۔

253: معدان بن ابی طلحہ سے روایت ہے کہ سیدنا عمر بن خطابؓ  نے جمعہ کے دن خطبہ پڑھا اور رسول اللہﷺ اور سیدنا ابو بکر صدیقؓ  کا ذکر کیا اور کہا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک مرغ نے مجھے تین ٹھونگیں ماریں، میں سمجھتا ہوں کہ اس کی تعبیر یہ ہے کہ میری موت اب نزدیک ہے۔ بعض لوگ مجھ سے یہ کہتے ہیں کہ تم اپنا جانشین اور خلیفہ کسی کو مقرر کر دو، اور یقیناً اللہ تعالیٰ اپنے دین کو برباد نہیں کرے گا اور نہ اپنی خلافت کو اور نہ اس چیز کو جو رسول اللہﷺ کو دے کر بھیجا تھا۔ اگر میری موت جلد ہو جائے تو خلافت مشورہ کرنے پر چھ آدمیوں کے اندر رہے گی جن سے رسول اللہﷺ وفات تک راضی رہے۔ اور میں جانتا ہوں کہ بعض لوگ طعن کرتے ہیں اس کام میں جن کو میں نے خود اپنے اس ہاتھ سے مارا ہے اسلام پر۔ پھر اگر انہوں نے ایسا کیا (یعنی اس طعن کو درست سمجھے ) تو وہ دشمن ہیں اللہ کے اور کافر گمراہ ہیں اور میں اپنے بعد کسی چیز کو اتنا مشکل نہیں چھوڑتا جتنا کہ کلالہ۔ میں نے رسول اللہﷺ سے کسی بات کو اتنی بار نہیں پوچھا جتنی بار کلالہ کے متعلق پوچھا۔ اور آپﷺ نے بھی مجھ پر کسی بات میں اتنی سختی نہیں کی جتنی اس میں کی یہاں تک کہ آپﷺ نے اپنی انگلی سے میرے سینہ میں ٹھونسا مارا اور فرمایا کہ اے عمر! کیا تجھے وہ آیت کافی نہیں جو گرمی کے موسم میں اتری سورۂ نساء کے آخر میں کہ ”یَسْتَفْتُوْنَکَ قُلِ اللهُ یُفْتِیْکُمْ فِی الْکَلٰلَةِ اِنِ امْرُؤٌ ھَلَکَ لَیْسَ لَہ وَلَدٌ وَّلَہٓ اُخْتٌ فَلَھَا نِصْفُ مَا تَرَکَ …“ (النساء:176) اور میں اگر زندہ رہا تو کلالہ میں ایسا فیصلہ کروں گا جس کے موافق ہر شخص حکم کرے خواہ قرآن پڑھا ہو۔ یا نہ پڑھا ہو پھر سیدنا عمرؓ  نے کہا کہ اے اللہ! میں تجھے گواہ کرتا ہوں ان لوگوں پر جن کو میں نے ملکوں کی حکومت دی ہے (یعنی نائبوں اور صوبہ داروں اور عالموں پر) میں نے ان کو اسی لئے بھیجا کہ وہ انصاف کریں اور لوگوں کو دین کی باتیں بتلائیں اور اپنے پیغمبرﷺ کا طریقہ سکھائیں اور جو مال فئ حاصل ہو لوگوں میں تقسیم کریں اور جس بات میں ان کو مشکل پیش آئے اس کو مجھ سے دریافت کریں۔ پھر اے لوگو! میں دیکھتا ہوں تم دو پودوں کو کھاتے ہو اور میں ان کو مکروہ سمجھتا ہوں وہ پیاز اور لہسن ہیں اور میں نے رسول اللہﷺ کو دیکھا کہ جب ان دونوں کی بو کسی شخص میں سے آتی تو آپﷺ کے حکم سے وہ مسجد سے بقیع کی طرف نکالا جاتا تھا۔ اب اگر کوئی ان کو کھائے تو خوب پکا کر (ان کی بو کو ختم کر لے )۔

باب : مسجد میں گمشدہ چیز کا اعلان کرنا منع ہے۔

254: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جو شخص کسی کو کوئی گمشدہ چیز کے متعلق مسجد میں پکارے سنے (یعنی وہ اپنی بلند آواز سے اپنی چیز کے لئے لوگوں کو پکارے ) تو کہے کہ اللہ کرے تیری چیز نہ ملے۔ اس لئے کہ مسجدیں اس واسطے نہیں بنائی گئیں۔

باب : قبروں کو سجدہ گاہ بنانے کی ممانعت۔

255: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ اور سیدنا عبد اللہ بن عباسؓ  نے کہا کہ جب رسول اللہﷺ کی وفات کا وقت قریب ہوا تو آپﷺ نے دھاری دار چادر اپنے منہ پر ڈالنا شروع کی۔ جب آپﷺ گھبرا جاتے تو چادر کو منہ پر سے ہٹا دیتے اس حال میں آپﷺ نے فرمایا کہ یہود و نصاریٰ پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو کہ انہوں نے اپنے پیغمبروں کی قبروں کو مسجد بنا لیا۔ آپﷺ ڈراتے تھے کہ کہیں اپنے لوگ بھی ایسا نہ کریں۔

باب : قبروں پر مساجد بنانے کی ممانعت۔

256: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ سیدہ اُمّ حبیبہ اور اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہما نے رسول اللہﷺ سے ایک گرجا کا ذکر کیا جس کو انہوں نے حبشہ میں دیکھا تھا، اس میں تصویریں لگی ہوئی تھیں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ ان لوگوں کا یہی حال تھا کہ جب ان میں کوئی نیک آدمی مر جاتا تو وہ اس کی قبر پر مسجد بناتے اور وہاں صورتیں بناتے۔ یہ لوگ قیامت کے دن اللہ کے سامنے سب سے بدتر ہوں گے۔

باب : میرے لئے ساری زمین کو پاک اور مسجد بنا دیا گیا۔

257: سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ مجھے چھ باتوں کی وجہ سے اور پیغمبروں پر فضیلت دی گئی ہے۔ 1۔ یہ کہ مجھے وہ کلام ملا جس میں لفظ تھوڑے اور معنی بہت زیادہ ہیں (یعنی کلام اللہ یا خود رسول اللہﷺ کے کلمات) 2۔ میں مدد دیا گیا رعب سے 3۔ میرے لئے غنیمت کے اموال حلال کئے گئے 4۔ میرے لئے ساری زمین پاک کرنے والی اور مسجد (نماز پڑھنے کی جگہ) بنائی گئی۔ 5۔ میں تمام مخلوقات کی طرف (خواہ جن ہوں یا عرب کے آدمی یا غیر عرب کے ) بھیجا گیا 6۔ میرے اوپر نبوت ختم کی گئی۔

باب : نمازی سترہ کتنی مقدار کا بنائے ؟

258: سیدنا ابو ذرؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی نماز پڑھنے کے لئے کھڑا ہو اور اس کے سامنے پالان کی پچھلی لکڑی کے برابر کوئی شے ہو، تو وہ آڑ کے لئے کافی ہے۔ اگر اتنی بڑی (یا اس سے اونچی) کوئی شے اس کے سامنے نہ ہو اور گدھا یا عورت یا سیاہ کتا سامنے سے گزر جائے تو اس کی نماز ٹوٹ جائے گی۔ میں نے کہا کہ اے ابو ذرؓ! یہ سیاہ کتے کی کیا خصوصیت ہے اگر لال کتا ہو یا زرد ہو؟ انہوں نے کہا کہ اے میرے بھتیجے ! میں نے بھی رسول اللہﷺ سے ایسے ہی پوچھا جیسے تو نے مجھ سے پوچھا تو آپﷺ نے فرمایا: سیاہ کتا شیطان ہوتا ہے۔

باب : (نمازی کا) ”سُترہ“ کے قریب کھڑا ہونا۔

259: سیدنا سہل بن سعد الساعدیؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ جس جگہ نماز کے لئے کھڑے ہوتے تھے ، اس میں اور قبلہ کی دیوار میں اتنی جگہ رہتی کہ ایک بکری نکل جائے۔

باب : نمازی کے آگے لیٹنا۔

260: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا (کے سامنے ذکر ہوا کہ کتے ، گدھے اور عورت نمازی کے آگے سے نکل جانے سے نماز ٹوٹ جاتی ہے ) تو انہوں نے کہا کہ تم نے ہمیں گدھوں اور کتوں کے برابر کر دیا۔ اللہ کی قسم میں نے خود دیکھا ہے کہ رسول اللہﷺ نماز پڑھتے تھے اور میں آپﷺ کے سامنے تخت پر قبلہ کی طرف لیٹی ہوتی تھی مجھے حاجت ہوتی تو آپ کے سامنے بیٹھنا اور آپ کو تکلیف دینا مجھے بُرا لگتا، اس لئے میں تخت کے پایوں کے پاس سے کھسک جاتی۔

باب : قبلہ کی طرف متوجہ ہونے کا حکم۔

261: سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے کہ ایک شخص نے مسجد میں داخل ہو کر نماز پڑھی اور رسول اللہﷺ مسجد کے ایک گوشہ میں تشریف فرما تھے۔ اس کے بعد پوری حدیث بیان کرتے ہوئے آخر میں فرمایا کہ جب تم نماز پڑھنے کے لئے کھڑے ہو تو اچھی طرح وضو کرو، پھر قبلہ رو کھڑے ہو اور اسکے بعد تکبیر کہو۔

باب : قبلہ کی شام سے کعبہ کی طرف تبدیلی کے متعلق۔

262: سیدنا براء بن عازبؓ  کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کے ساتھ بیت المقدس کی طرف سولہ مہینے تک نماز پڑھی، یہاں تک کہ سورۂ بقرہ میں یہ آیت اتری کہ ”تم جہاں پر ہو اپنا منہ کعبے کی طرف کرو“ (البقرۃ:144) تو یہ آیت اس وقت اتری جب رسول اللہﷺ نماز پڑھ چکے تھے۔ ایک شخص آپﷺ کے ساتھیوں میں سے یہ سن کر چلا، راستے میں انصار کے کچھ لوگوں کو (بیت المقدس کی طرف حسب معمول) نماز پڑھتے ہوئے پایا تو اس نے ان سے یہ حدیث بیان کی (کہ رسول اللہﷺ کو کعبے کی طرف منہ کرنے کا حکم ہوا ہے یہ سن کر) ان لوگوں نے (نماز ہی میں) اپنے آپ کو کعبے کی طرف پھیر لیا۔

باب : جب نماز کھڑی ہو جائے تو فرض نماز کے علاوہ کوئی نماز نہیں ہوتی۔

263: سیدنا ابو ہریرہؓ  نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: جب فرض نماز کی تکبیر ہو تو کوئی نماز نہیں ہوتی، سوائے اس فرض نماز کے۔

باب : جب اقامت کہی جائے تو لوگ کس وقت کھڑے ہوں؟۔

264: سیدنا ابو قتادہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جب نماز کی تکبیر ہو تو کھڑے نہ ہو جب تک مجھے دیکھ نہ لو۔ (امام کے آنے سے پہلے کھڑے نہ ہوں)۔

باب : نماز کے لئے اقامت اس وقت کہی جائے ، جب امام مسجد میں آ جائے۔

265: سیدنا جابر بن سمرہؓ  کہتے ہیں کہ سیدنا بلالؓ  جب زوال کا وقت ہوتا تو اذان دیتے اور اقامت نہ کہتے یہاں تک کہ رسول اللہﷺ تشریف لاتے۔ جب آپﷺ تشریف لاتے اور سیدنا بلالؓ  دیکھ لیتے ، تب تکبیر کہتے۔

باب : امام کا اقامت (کہے جانے ) کے بعد غسل کے لئے (مسجد سے ) نکلنا۔

266: سیدنا ابو سلمہ بن عبدالرحمن بن عوف سے روایت ہے کہ انہوں سیدنا ابو ہریرہؓ  کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ ایک دفعہ نماز کی تکبیر کہی گئی اور ہم نے رسول اللہﷺ کے نکلنے سے پہلے صفیں برابر کیں، پھر رسول اللہﷺ نکلے ، یہاں تک کہ جب اپنی جگہ پر کھڑے ہوئے اور ابھی تکبیر تحریمہ نہیں کہی تھی کہ آپﷺ کو یاد آگیا تو واپس پلٹے اور ہم سے فرمایا کہ اپنی اپنی جگہ کھڑے رہو۔ ہم سب آپﷺ کے آنے تک انتظار میں کھڑے رہے۔ آپﷺ غسل کر کے آئے تھے اور (غسل کی وجہ سے ) سر مبارک سے پانی ٹپک رہا تھا۔ پھر تکبیر کہی اور ہمیں نماز پڑھائی۔

باب : صفوں کو درست کرنے کے بیان میں۔

267: سیدنا ابو مسعودؓ  کہتے ہیں کہ نماز کے لئے رسول اللہﷺ ہمارے کندھوں پر ہاتھ پھیرتے اور فرماتے کہ برابر کھڑے رہو اور آگے پیچھے نہ ہٹو وگرنہ تمہارے دلوں میں پھوٹ پڑ جائے گی نیز میرے قریب وہ کھڑے ہوں جو کہ بہت سمجھدار اور عقلمند ہیں اور پھر جو ان سے قریب ہوں۔ اس کے بعد سیدنا ابو مسعودؓ  نے کہا کہ آج تم لوگوں میں بے انتہا اختلافات رونما ہو گئے ہیں۔

باب : پہلی صف کی فضیلت۔

268: سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اگر لوگوں کو اذان اور پہلی صف (میں کھڑے ہونے کا اجر و ثواب) معلوم ہو جائے تو پھر اور کوئی چارہ نہ رہے کہ وہ قرعہ اندازی کریں تو قرعہ اندازی بھی کریں۔اور اگر اوّل وقت نماز پڑھنے کی فضیلت سے لوگ واقف ہوتے تو ایک دوسرے پر سبقت کرتے اور اگر عشاء و فجر کی برتری جانتے تو ان دونوں کے لئے سرین کے بل رگڑتے ہوئے آتے۔

269: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: مَردوں کی صفوں میں سب سے بہتر پہلی صف ہے اور سب سے بُری آخری صف ہے اور خواتین کے لئے سب سے بُری پہلی صف ہے (جبکہ مردوں کی صفیں ان کے قریب ہوں) اور اچھی صف پچھلی صف ہے (جو کہ مردوں سے دُور ہو)۔

باب : ہر نماز کے وقت مسواک کرنا۔

270: سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اگر مسلمانوں پر شاق (یعنی مشکل) نہ ہوتا اور زہیر کی روایت میں یوں ہے کہ اگر میری امت پر مشکل نہ ہوتا تو میں ان کو حکم کرتا کہ ہر نماز کے وقت مسواک کیا کریں۔

باب : نماز میں داخل ہوتے وقت ذکر کی فضیلت۔

271: سیدنا انسؓ  سے روایت ہے کہ ایک شخص آیا اور نماز کی صف میں مل گیا اور اس کا سانس پھولا ہوا تھا تو اس نے کہا ”سب تعریف اللہ کے لئے ہے ، بہت تعریف اور پاک با برکت“ پھر جب رسول اللہﷺ نماز پڑھ چکے تو آپﷺ نے فرمایا: تم میں سے کون تھا جس نے یہ کلمات کہے ؟ پس ساری قوم کے لوگ چپ ہو رہے۔ پھر آپﷺ نے دوبارہ فرمایا کہ کس نے یہ کلمات کہے ؟ کیونکہ اس نے کوئی بُری بات نہیں کہی، تو اس شخص نے عرض کیا کہ میں آیا اور میرا سانس چڑھا ہوا تھا تو میں نے یہ کلمات کہے تھے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ میں نے بارہ فرشتوں کو دیکھا کہ ایک دوسرے سے جلدی کر رہے تھے کہ ان میں سے کون ان (کلمات) کو اوپر (یعنی اللہ عزوجل کے پاس) لے جائے۔

باب : نماز میں رفع الیدین کرنا۔

272: سیدنا ابن عمرؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ جب نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو اپنے دونوں ہاتھ اپنے دونوں کندھوں تک اٹھاتے پھر اللہ اکبر کہتے اور جب رکوع کا ارادہ فرماتے تب بھی ایسا ہی کرتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تب بھی ایسا ہی کرتے اور جب سجدہ سے سر اٹھاتے تو ایسا نہ کرتے ، یعنی رفع یدین (دونوں) سجدوں کے درمیان میں نہ کرتے تھے۔

باب : نماز کس لفظ سے شروع ہوتی ہے اور کس لفظ پر ختم ہوتی ہے۔

273: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نماز کو اللہ اکبر کہہ کر شروع کرتے اور قرأت ”الحمد للہ رب العالمین“ کے ساتھ شروع کرتے (یعنی بسم اللہ الرحمن الرحیم آہستہ سے کہتے ) اور جب رکوع کرتے تو سر کو نہ اونچا رکھتے نہ نیچا بلکہ (پیٹھ کے برابر رکھتے ) بیچ میں۔ اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو سجدہ نہ کرتے یہاں تک کہ سیدھے کھڑے ہو جاتے اور جب سجدہ سے سر اٹھاتے تو دوسرا سجدہ نہ کرتے ، یہاں تک کہ سیدھا بیٹھ جاتے اور ہر دو رکعت کے بعد (قعدے میں) التحیات پڑھتے اور بایاں پاؤں بچھا کر داہنا پاؤں کھڑا کرتے اور شیطان کی (طرح) بیٹھک سے منع کرتے تھے اور اس بات سے بھی منع کرتے تھے کہ آدمی اپنے دونوں ہاتھ زمین پر درندے کی طرح بچھائے اور نماز کو سلام پر ختم کرتے تھے۔

باب : نماز میں تکبیر (اللہ اکبر) کہنا۔

274: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ جب نماز پڑھنے کے لئے کھڑے ہوتے تو تکبیر کہتے اور پھر رکوع کے وقت تکبیر کہتے اور رکوع سے سر اٹھاتے ہوئے سمع الله لمن حمدہ کہتے اور پھر یونہی کھڑے کھڑے رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْدُ کہتے اور پھر جب سجدہ کرتے تو تکبیر کہتے اور سجدہ سے سر اٹھاتے وقت بھی تکبیر کہتے اور پھر ختم نماز تک اسی طرح (ہر نشست و برخاست) کے وقت تکبیر کہتے تھے اور دو رکعت کے بعد جب قیام کرتے تو پھر اللہ اکبر کہتے۔ پھر اس کے بعد سیدنا ابو ہریرہؓ  نے کہا کہ تم سب لوگوں کی بہ نسبت میں رسول اللہﷺ کی نماز کی طرح نماز پڑھتا ہوں۔

باب : تکبیر وغیرہ میں امام سے پہل کرنے کی ممانعت۔

275: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ ہمیں تعلیم دیتے اور فرماتے تھے کہ امام سے پہلے کوئی کام نہ کرنا، جب وہ تکبیر کہے ‘ اس وقت تکبیر کہنا اور جب وہ وَلاَ الضّآلِّیْنَ کہے تو تم بعد میں آمین کہو اور جب وہ رکوع کرے تو تم بعد میں رکوع کرو اور جب وہ ”سمع الله لمن حمدہ“ کہے تو تم اس کے بعد ”ربنا لک الحمد“ کہو۔

باب : مقتدی کو امام کی پیروی ضروری ہے۔

276: سیدنا انس بن مالکؓ  کہتے ہیں کہ گھوڑے پر سے گرنے کی وجہ سے رسول اللہﷺ کا دائیں جانب کا بدن چھل گیا تو ہم آپﷺ کی عیادت کے لئے گئے۔ چونکہ نماز کا وقت ہو گیا تھا اس لئے آپﷺ نے بیٹھے بیٹھے نماز پڑھائی اور ہم نے بھی آپﷺ کے پیچھے بیٹھ کر نماز پڑھی۔ جب ہم سب لوگ نماز پڑھ چکے تو ارشاد فرمایا کہ امام اسی لئے بنایا گیا ہے کہ اسکی پیروی کی جائے جب وہ تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو اور جب وہ سجدہ کرے تو تم بھی سجدہ کرو اور جب وہ سر اٹھائے تو تم بھی سر اٹھاؤ اور جب وہ تسمیع پڑھے تو تم تحمید پڑھو اور جب وہ بیٹھ کر نماز پڑھائے تو تم بھی بیٹھ کر ہی نماز ادا کرو۔ (یہ ابتدائی حکم ہے۔ بعد میں آپﷺ کی مرض الموت میں آپﷺ نے بیٹھ کر نماز پڑھائی۔ سیدنا ابو بکرؓ  نے آپﷺ کے ساتھ کھڑے ہو کر اور صحابہ نے پیچھے کھڑے ہو کر نماز پڑھی)

باب : نماز میں ہاتھوں کا ایک کو دوسرے پر رکھنا۔

277: سیدنا وائل بن حجرؓ  سے روایت ہے کہ انہوں نے نبیﷺ کو اس طور پر دیکھا کہ آپﷺ نے نماز شروع کرتے وقت اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے اور اللہ اکبر کہا۔ (اس حدیث کے راوی ہمام کا بیان ہے کہ رسول اللہﷺ نے اپنے دونوں ہاتھ کانوں تک اٹھائے ) پھر چادر اوڑھ لی اس کے بعد سیدھا ہاتھ الٹے ہاتھ پر رکھا۔ پھر جب رکوع کا ارادہ کیا تو آپﷺ نے دونوں ہاتھ چادر میں سے باہر نکال کر دونوں کانوں تک اٹھا کر تکبیر پڑھی، اور رکوع میں گئے اور جب بحالتِ قیام سمع الله لمن حمدہ کہا تو بھی رفع یدین کیا اور پھر آپﷺ نے دونوں ہتھیلیوں کے درمیان میں سجدہ کیا۔

باب : تکبیر (اللہ اکبر) اور قرأت کے درمیان کیا پڑھا جائے ؟

278: سیدنا علی بن ابی طالبؓ  نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ جب رسول اللہﷺ نماز میں کھڑے ہوتے تو فرماتے کہ ”میں نے اپنا منہ اس ذات کی طرف کیا جس نے آسمان و زمین بنایا،یک سُو ہو کر اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں۔ بیشک میری نماز، میری قربانی، میرا جینا اور مرنا اللہ رب العالمین کے لئے ہے جس کا کوئی شریک نہیں اور اس کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور مسلمانوں میں سے ہوں۔ یا اللہ تو بادشاہ ہے تیرے سوا کوئی معبود نہیں، تو میرا پالنے والا ہے اور میں تیرا غلام ہوں، میں نے اپنی جان پر ظلم کیا اور اپنے گناہوں کا اقرار کرتا ہوں، تو میرے سب گناہوں کو بخش دے ، اس لئے کہ گناہوں کو کوئی نہیں بخشتا مگر تو، اور سکھا دیجئے مجھے اچھی عادتیں کہ نہیں سکھاتا ان کو مگر تو اور مجھ سے بُری عادتیں دُور رکھ، اور نہیں دُور رکھ سکتا ان (بُری عادتوں) کو مگر تو، میں تیری خدمت کے لئے حاضر ہوں اور تیرا فرمانبردار ہوں اور ساری خوبی تیرے ہاتھوں میں ہے اور شر سے تیری طرف نزدیکی حاصل نہیں ہو سکتی (یا شر اکیلا تیری طرف منسوب نہیں ہوتا مثلا خالق القردۃ والخنازیر نہیں کہا جاتا یا رب الشر نہیں کہا جاتا یا شر تیری طرف نہیں چڑھتا جیسے کلمہ طیبہ اور عمل صالح تیری طرف چڑھتے ہیں یا کوئی مخلوق تیرے واسطے شر نہیں اگرچہ ہمارے لئے شر ہو کیونکہ ہم بشر ہیں اس لئے کہ ہر چیز کو تو نے حکمت کے ساتھ بنایا ہے ) میری توفیق تیری طرف سے ہے اور میری التجا تیری طرف ہے ، تو بڑی برکت والا اور تیری ذات بلند و بالا ہے میں تجھ سے مغفرت مانگتا ہوں اور تیری طرف رجوع کرتا ہوں“ اور جب رکوع کرتے تو فرماتے کہ ”اے اللہ! میں تیرے لئے جھکتا ہوں اور تجھ پر یقین رکھتا ہوں اور تیرا فرمانبردار ہوں، تیرے لئے میرے کان اور میری آنکھیں اور میرا مغز اور میری ہڈیاں اور میرے پٹھے ، سب جھک گئے “۔ اور جب (رکوع سے ) سر اٹھاتے تو فرماتے کہ ”اے اللہ! اے ہمارے پروردگار! تعریف تیرے ہی لئے ہے آسمانوں بھر اور زمین بھر اور ان کے درمیان بھر اور اس کے بعد جتنا تو چاہے اس کے بھرنے کے بقدر“۔ اور جب سجدہ کرتے تو فرماتے کہ ”اے اللہ! میں نے تیرے لئے ہی سجدہ کیا اور تجھ پر یقین لایا اور میں تیرا فرمانبردار ہوں، میرا منہ اس ذات کے لئے سجدہ ریز ہے جس نے اسے بنایا ہے اور تصویر کھینچی ہے اور اس کے کان اور آنکھوں کو چیرا، بڑی برکت والا ہے سب بنانے والوں سے اچھا“۔ پھر آخر میں تشہد اور سلام کے بیچ میں فرماتے کہ ”اے اللہ! بخش دے مجھ کو جو میں نے آگے کیا اور جو میں نے پیچھے کیا اور جو چھپایا اور جو ظاہر کیا اور جو حد سے زیادہ کیا اور جو تو جانتا ہے مجھ سے بڑھ کر، تو سب سے پہلے تھا اور سب کے بعد رہے گا، تیرے سوا کوئی معبود نہیں ہے “۔ ایک دوسری روایت میں یوں ہے کہ رسول اللہﷺ جب نماز شروع کرتے تو اللہ اکبر کہتے اور فرماتے کہ ”میں نے اپنا منہ اس کی طرف کیا جس نے …… آخر  تک“ پڑھتے۔

باب : نماز میں بسم اللہ الرحمن الرحیم بلند آواز سے نہ کہنا۔

279: سیدنا انسؓ  کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ اور سیدنا ابو بکر صدیق اور سیدنا عمر فاروق اور سیدنا عثمانؓ کے ساتھ نماز پڑھی، لیکن ان میں سے کسی ایک کو بھی نماز میں بسم اللہ الرحمن الرحیم (جہر سے ) پڑھتے ہوئے نہیں سنا۔

باب : بسم اللہ الرحمن الرحیم کے بارے میں۔

280: سیدنا انسؓ  کہتے ہیں کہ ایک دن ہم لوگ رسول اللہﷺ کی مجلس میں بیٹھے تھے کہ آپﷺ پر ایک اونگھ سی طاری ہوئی پھر مسکراتے ہوئے آپﷺ نے سر مبارک اٹھایا جس پر ہم نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! آپ کس چیز پر مسکرا رہے ہیں؟ ارشاد فرمایا کہ مجھ پر ابھی ابھی قرآن مجید کی ایک سورت نازل ہوئی ہے چنانچہ آپﷺ نے بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ کر ”(اے نبیﷺ!) بے شک ہم نے آپ کو کوثر عنایت فرمائی ہے ……“ پوری سورت تلاوت فرمائی اور فرمایا کہ تم لوگ جانتے ہو کہ کوثر کیا چیز ہے ؟ ہم نے کہا کہ اللہ اور اس کا رسول ہی زیادہ جانتے ہیں تو ارشاد فرمایا کہ کوثر ایک نہر ہے ، جس کا پروردگار نے مجھ سے وعدہ کیا ہے ، اس میں بہت سی خوبیاں ہیں اور بروزِ محشر میرے امتی اس حوض کا پانی پینے کے لئے آئیں گے اس حوض پر اتنے گلاس ہیں جتنے آسمان کے تارے۔ ایک شخص کو وہاں سے بھگا دیا جائے گا، جس پہ میں کہوں گا کہ اے اللہ! یہ شخص میرا امتی ہے ، اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ آپ نہیں جانتے کہ انہوں نے آپ کے بعد (دین میں) کیا کیا نئی باتیں ایجاد کیں۔

باب : نماز میں سورۂ فاتحہ پڑھنا فرض ہے۔

281: سیدنا ابو ہریرہؓ  نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: جس نے نماز میں سورۂ فاتحہ نہیں پڑھی تو اس کی نماز پوری نہیں ہوئی بلکہ اس کی نماز ناقص رہی۔ یہ جملہ آپﷺ نے تین بار ارشاد فرمایا۔ لوگوں نے پوچھا کہ اے ابو ہریرہؓ جب ہم امام کے پیچھے ہوں تو کیا کریں؟ سیدنا ابو ہریرہؓ  نے کہا کہ اس وقت تم لوگ آہستہ سورۂ فاتحہ پڑھ لیا کرو، کیونکہ میں نے رسول اللہﷺ کو اللہ عزوجل کا یہ قول فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میں نے نماز اپنے اور اپنے بندے کے درمیان آدھی آدھی تقسیم کر دی ہے اور میرا بندہ جو سوال کرتا ہے وہ پورا کیا جاتا ہے۔ جب بندہ الحمد لله ربّ العالمین کہتا ہے تو اللہ عزوجل فرماتا ہے کہ میرے بندے نے میری تعریف کی اور (نمازی) جب الرحمٰن الرّحیم کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے بندے نے میری توصیف کی اور (نمازی) جب مالکِ یومِ الدّین کہتا ہے تو اللہ عزوجل فرماتا ہے کہ میرے بندے نے میری بزرگی بیان کی اور یوں بھی کہتا ہے کہ میرے بندے نے اپنے سب کام میرے سپرد کر دئیے ہیں اور (نمازی) جب اِیّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ پڑھتا ہے تو اللہ عزوجل کہتا ہے کہ یہ میرے اور میرے بندے کا درمیانی معاملہ ہے اور میرا بندہ جو سوال کرے گا وہ اس کو ملے گا۔ پھر جب (نمازی) اپنی نماز میں اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمِ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَلاَ الضَّآلِّیْنَ پڑھتا ہے تو اللہ تعالیٰ جواب دیتا ہے کہ یہ سب میرے اس بندے کے لئے ہے اور یہ جو کچھ طلب کر رہ ہے وہ اسے دیا جائے گا۔

باب : قرآن کے اس حصہ کی قرأت کرنا جو آسان ہو۔

282: سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ مسجد میں تشریف لائے کہ اتنے میں ایک آدمی آیا، اس نے نماز پڑھنے کے بعد آپﷺ کو سلام کیا تو آپﷺ نے سلام کا جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ جاؤ نماز پڑھو، تم نے نماز نہیں پڑھی۔ اس نے واپس ہو کر پہلے کی طرح پھر نماز پڑھی اور لوٹ کر آپﷺ کو سلام کیا۔ آپﷺ نے وعلیکم السلام کہتے ہوئے فرمایا کہ جاؤ نماز پڑھو تم نے نماز ادا نہیں کی۔ حتی کہ تین دفع ایسے ہی کیا تو آدمی نے آپﷺ سے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! قسم ہے اس ذات کی جس نے آپﷺ کو رسولِ برحق بنایا ہے کہ میں اس طریقہ کے علاوہ مزید کسی چیز سے ناواقف ہوں، براہِ کرم آپﷺ ہی مجھے بتا کہو اور پھر جتنا قرآن تم بآسانی پڑھ سکتے ہو وہ پڑھو، اس کے بعد اطمینان سے رکوع کرو اور پھر با  آرام بالکل سیدھے کھڑے ہو جاؤ، اس کے بعد با اطمینان سجدہ کرواور پھر با اطمینان قعدہ میں بیٹھو اور اسی طرح اپنی پوری نماز میں کیا کرو۔ (اس حدیث سے یہ چیز معلوم ہوئی کہ نماز میں تعدیل ارکان بہت ضروری ہے ، اس کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔ اور جمہور علماء کے نزدیک تعدیل ارکان فرض ہے )۔

باب : امام کے پیچھے قرأت کرنا۔

283: سیدنا عمران بن حصینؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ہمیں ظہر یا عصر کی نماز پڑھائی۔ پس آپﷺ نے فرمایا کہ تم میں سے کس نے میرے پیچھے سبح اسم ربک الاعلٰی پڑھی تھی؟۔ ایک شخص نے کہا کہ میں نے یہ سورۃ پڑھی تھی اور میں نے اس کے پڑھنے سے بھلائی کا ارادہ کیا تھا۔ آپﷺ نے فرمایا کہ میں جانتا ہوں کہ تم میں سے کچھ آدمی مجھے الجھاتے ہیں۔

ﷺ اس روایت کے متعلق امام نووی رحمۃ اللہ نے لکھا ہے کہ آپﷺ نے قرأت سے منع نہیں کیا بلکہ بآوازِ بلند قرأت سے منع کیا تھا۔ اور حدیث میں یہ چیز ثابت ہے کہ صحابی نے بآوازِ بلند قرأت کی تھی تو آپﷺ نے بتایا : یہ فلاں سورت میرے پیچھے کس نے پڑھی؟)

باب : الحمد للہ پڑھنا اور آمین کہنا۔

284: سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: امام جب آمین کہے تو مقتدی بھی آمین کہیں اور جس کی آمین فرشتوں کی آمین کے برابر ہو جائے گی تو اس کے گزشتہ گناہ معاف کر دئیے جائیں گے۔ ابن شہاب رحمۃ اللہ کا بیان ہے کہ رسول اللہﷺ (وَلا الضَّآلِّیْنَ کے بعد) آمین کہا کرتے تھے۔

باب : نمازِ فجر میں قرأت کا بیان۔

285: سماک بن حرب کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا جابر بن سمرہؓ  سے نبیﷺ کی نماز کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ آپﷺ ہلکی نماز پڑھا کرتے تھے ، ان لوگوں کی طرح (بڑی بڑی سورتیں) نہیں پڑھتے تھے اور فجر کی نماز میں قٓ و القرآن المجید یا اس کے برابر کی سورتیں پڑھتے تھے۔

باب : ظہر اور عصر میں قرأت کرنے کا بیان۔

286: سیدنا ابو قتادہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ ظہر اور عصر کی پہلی دو رکعتوں میں سورہ فاتحہ اور ایک ایک سورت پڑھتے تھے اور کبھی ایک آدھ آیت ہمیں سنا دیتے تھے اور پچھلی دو رکعتوں میں صرف سورۂ فاتحہ پڑھتے تھے۔

287: سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبیﷺ ظہر کی پہلی دو رکعتوں میں ہر رکعت میں تیس آیتوں کے برابر قرأت کرتے تھے اور پچھلی دو رکعتوں میں پندرہ آیتوں کے برابر یا یوں کہا کہ اس کا آدھا۔ اور عصر کی پہلی دو رکعتوں میں ہر رکعت میں پندرہ آیتوں کے برابر اور پچھلی دو رکعتوں میں اس کا آدھا (قرأت کرتے تھے )۔

باب : مغرب کی نماز میں قرأت۔

288: سیدنا ابن عباسؓ  کہتے ہیں کہ (انکی والدہ) اُمّ فضل نے انہیں (ابن عباس کو) والمرسلات عرفاً پڑھتے سنا تو کہا کہ بیٹا تو نے یہ سورت پڑھ کر مجھے یاد دلا دیا کہ سب سے آخر میں نے رسول اللہﷺ سے یہ سورت سنی تھی کہ آپﷺ نے اسے مغرب کی نماز میں پڑھا تھا۔

باب : نمازِ عشاء میں قرأت۔

289: سیدنا جابرؓ  کہتے ہیں کہ سیدنا معاذ بن جبلؓ  نبیﷺ کے ساتھ نماز پڑھتے پھر اپنی قوم میں آ کر ان کی امامت کرتے۔ وہ ایک رات کو رسول اللہﷺ کے ساتھ عشاء کی نماز پڑھ کر آئے پھر اپنی قوم کی امامت کی اور سورۂ بقرہ شروع کر دی۔ ایک شخص نے منہ مو ڑ کر سلام پھیر دیا اور اکیلے نماز پڑھ کر چلا گیا۔ لوگوں نے کہا کہ کیا تو منافق ہو گیا ہے ؟۔ وہ بولا کہ اللہ کی قسم میں منافق نہیں ہوں، میں رسول اللہﷺ کے پاس جاؤں گا اور آپ سے کہوں گا۔ پھر وہ آپﷺ کے پاس آیا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ و سلم! ہم اونٹوں والے ہیں (دن بھر اونٹوں سے پانی نکالتے ہیں) اور سیدنا معاذؓ  آپﷺ کے ساتھ عشاء کی نماز پڑھ کر آئے اور سورۂ بقرہ شروع کر دی۔ یہ سن کر رسول اللہﷺ سیدنا معاذؓ  کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ اے معاذ! کیا تو فسادی ہے ؟ (جو لوگوں کو یہ یہ سورت پڑھا کر نفرت دلانا چاہتا ہے اور فتنہ کھڑا کرتا ہے )۔ فلاں فلاں سورت پڑھو۔ سفیان نے کہا کہ میں نے عمرو سے کہا کہ ابو زبیر نے سیدنا جابر سے بیان کیا کہ آپ نے فرمایا کہ والشمس وضحٰہا، والضُّحٰی، واللّیل اذا یغشٰی، سَبِّحِ اسم ربّکَ الاعلیٰ پڑھا کر۔ عمرو نے کہا کہ ان جیسی سورتیں پڑھا کر۔

باب : رکوع اور سجود میں امام سے پہل کرنے کی ممانعت۔

290: سیدنا انسؓ  کہتے ہیں کہ ایک دن ہمیں رسول اللہﷺ نے نماز پڑھائی، جب نماز سے فارغ ہوئے تو ہماری طرف متوجہ ہو کر فرمایا کہ اے لوگو! میں تمہارا امام ہوں اس لئے مجھ سے پہلے رکوع، سجدہ، قومہ اور سلام نہ پھیرو میں آگے اور پیچھے سے تم کو دیکھتا ہوں اور قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ جو چیزیں میں دیکھتا ہوں اگر تم انہیں دیکھ لو تو ہنسو کم اور روؤ زیادہ۔ لوگوں نے پوچھا یا رسول اللہﷺ! آپ نے کیا دیکھا ہے ؟ فرمایا کہ میں نے جنت اور دوزخ دیکھی ہے۔

باب : امام سے پہلے سر اٹھانے کی ممانعت۔

291: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ جو کوئی امام سے پہلے سجدہ سے اپنا سر اٹھاتا ہے ، اسے ڈرنا چاہئیے کہیں ایسا نہ ہو کہ اللہ تعالیٰ اس کی صورت پلٹ کر گدھے کی مانند کر دے۔

باب : رکوع میں تطبیق کرنا۔

292: اسود اور علقمہ سے روایت ہے کہ ہم دونوں سیدنا عبد اللہ بن مسعودؓ  کے پاس ان کے گھر میں آئے۔ انہوں نے پوچھا کہ کیا ان لوگوں (یعنی اس دَور کے نوابوؑ اور  امیروں) نے تمہارے پیچھے نماز پڑھ لی؟ ہم نے کہا نہیں۔ انہوں نے کہا کہ اٹھو نماز پڑھ لو، کیونکہ نماز کا وقت ہو گیا اور امیروں اور نوابوؑ کے انتظار میں اپنی نماز میں دیر کرنا ضروری نہیں۔ پھر ہمیں نہ اذان دینے کا حکم کیا اور نہ اقامت کا۔ ہم ان کے پیچھے کھڑے ہونے لگے تو ہمارے ہاتھ پکڑ کر ایک کو داہنی طرف کیا اور دوسرے کو بائیں جانب۔ جب رکوع کیا تو ہم نے ہاتھ گھٹنوں پر رکھے۔ انہوں نے ہمارے ہاتھوں پر مارا اور ہتھیلیوں کو جوڑ کر رانوں کے بیچ میں رکھا۔ جب نما ز پڑھ چکے تو کہا کہ اب تمہارے نواب اور امیر ایسے پیدا ہوں گے ، جو نماز میں اس کے وقت سے دیر کریں گے اور نماز کو تنگ کریں گے ، یہاں تک کہ آفتاب ڈوبنے کے قریب ہو گا (یعنی عصر کی نماز میں اتنی دیر کریں گے ) جب تم ان کو ایسا کرتے دیکھو تو اپنی نماز وقت پر پڑھ لو (یعنی افضل وقت پر) پھر ان کے ساتھ دوبارہ نفل کے طور پر پڑھ لو اور جب تم تین آدمی ہو تو سب مل کر نماز پڑھو (یعنی برابر کھڑے ہو اور امام بیچ میں رہے ) اور جب تین سے زیادہ ہوں تو ایک آدمی امام بنے اور وہ آگے کھڑا ہو اور جب رکوع کرے تو اپنے ہاتھوں کو رانوں پر رکھے اور جھکے اور دونوں ہتھیلیاں جوڑ کر رانوں میں رکھ لے گویا کہ میں اس وقت رسول اللہﷺ کی انگلیوں کے مختلف ہونے کو دیکھ رہا ہوں۔

(اس حدیث میں کچھ ایسی چیزیں ہیں جو جمہور کے نظریہ کے خلاف ہیں۔ کچھ تو ابتداء میں تھیں بعد میں منسوخ ہو گئیں اور انہیں نسخ والی حدیث ابن مسعودؓ  کو نہیں پہنچی جیسے رکوع میں دونوں ہاتھ جوڑ کر گھٹنوں میں کر لینا اور تین آدمیوں کی جماعت کی شکل میں امام کا درمیان میں کھڑا ہونا بھی ابن مسعودؓ  کا موقف تھا جبکہ باقی صحابہ کرام کا موقف یہ تھا کہ تین آدمیوں کی جماعت میں امام کو آگے کھڑا ہونا چاہیئے جیسے کہ آگے حدیث آ رہی ہے ۔ )

باب : دونوں ہاتھوں کا رکوع میں گھٹنوں پر رکھنا اور تطبیق کا منسوخ ہونا۔

293: مصعب بن سعد روایت کرتے ہیں کہ میں نے اپنے والد کے بازو میں نماز پڑھی اور اپنے ہاتھ دونوں گھٹنوں کے بیچ میں رکھے تو میرے والد مجھ سے کہا کہ اپنی دونوں ہتھیلیوں کو گھٹنوں پر رکھ۔ مصعب نے کہا کہ پھر میں نے دوبارہ ویسے ہی کیا تو انہوں نے میرے ہاتھ پر مارا اور کہا کہ ہمیں ایسا کرنے سے منع کیا گیا اور (رکوع میں) دونوں ہتھیلیوں کو گھٹنوں پر رکھنے کا حکم ہوا۔

باب : رکوع اور سجدہ میں کیا دعا کرنی چاہئیے ؟

294: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ اپنے رکوع اور سجدہ میں قرآن پر عمل کرتے ہوئے اکثر یہ دعا فرماتے تھے سُبْحَانَکَ اللّٰہُمَّ رَبَّنَا وَبِحَمْدِکَ اَللّٰہُمَّ اغْفِرْلِیْ۔

باب : رکوع و سجود میں قرأت کرنے کی ممانعت۔

295: سیدنا ابن عباسؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے (مرض الموت میں) پردہ اٹھایا اور لوگ سیدنا ابو بکر صدیقؓ  کے پیچھے صف باندھے کھڑے ہوئے تھے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ اے لوگو! اب نبوت کی خوشخبری دینے والی چیزوں میں کچھ نہیں رہا (کیونکہ مجھ پر نبوت کا خاتمہ ہو گیا) مگر نیک خواب جس کو مسلمان دیکھے یا اسے دکھایا جائے اور تمہیں معلوم رہے کہ مجھے رکوع اور سجدہ میں قرآن پڑھنے سے منع کیا گیا ہے رکوع میں تو اپنے رب کی بڑائی بیان کرو اور سجدہ کے اندر دعاء میں کوشش کرو، یہ زیادہ لائق اور ممکن ہے کہ تمہاری دعا قبول ہو گی۔۔

باب : جب کوئی رکوع سے سر اٹھائے تو کیا کہے ؟

296: سیدنا ابو سعید خدریؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ جب رکوع سے سر اٹھاتے تو فرماتے کہ ”اے ہمارے رب تمام تعریفیں تیرے ہی لئے خاص ہیں، آسمانوں بھر اور زمین بھر اور پھر جو چیز تو چاہے ، اس کے بعد (اس کی بھرائی کے برابر تعریف)، تو ہی بزرگی والا اور تعریف کے لائق ہے۔ بہت سچی بات جو بندے نے کہی اور ہم سب تیرے بندے ہیں (وہ بات یہ ہے کہ) اے ہمارے اللہ! جو تو دے ، اس کا کوئی روکنے والا نہیں اور جو تو روکے اس کا دینے والا کوئی نہیں، کوشش کرنے والے کی کوشش تیرے سامنے فائدہ نہیں دیتی (بلکہ جو تو چاہے وہی ہوتا ہے )۔

باب : سجدے کی فضیلت اور کثرتِ سجود کی ترغیب۔

297: معدان بن ابی طلحہ الیعمری کہتے ہیں کہ میں ثوبان صمولیٰ رسول اللہﷺ سے ملا اور میں نے کہا کہ مجھے ایسا کام بتلاؤ جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ مجھے جنت میں لے جائے ، یا یوں کہا کہ مجھے وہ کام بتاؤ جو سب کاموں سے زیادہ اللہ کو پسند ہو۔ یہ سن کر سیدنا ثوبانؓ  چپ ہو رہے پھر میں نے ان سے پوچھا تو چپ رہے۔ پھر تیسری بار پوچھا تو کہا کہ میں نے بھی یہ بات رسول اللہﷺ سے پوچھی تھی تو آپﷺ نے فرمایا تھا کہ تو سجدے بہت کیا کر، اس واسطے کہ ہر ایک سجدہ سے اللہ تعالیٰ تیرا ایک درجہ بلند کرے گا اور تیرا ایک گناہ معاف کرے گا۔ معدان نے کہا کہ پھر میں سیدنا ابو الدرداءؓ  سے ملا اور ان سے بھی یہ پوچھا تو انہوں نے بھی ایسا ہی کہا جیسا سیدنا ثوبانؓ  نے کہا تھا۔

باب : سجدوں میں دعا کرنا۔

298: سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: بندہ اپنے رب سے زیادہ قریب سجدہ کی حالت میں ہوتا ہے ، اس لئے سجدہ میں بہت دعا کیا کرو۔

باب : کتنے اعضاء پر سجدہ کرنا چاہیئے ؟۔

299: سیدنا ابن عباسؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: مجھے سات ہڈیوں پر سجدہ کرنے کا حکم ہوا ہے۔ پیشانی پر اور آپﷺ نے اپنے ہاتھ سے ناک کی طرف اشارہ کیا اور دونوں ہاتھوں پر اور دونوں گھٹنوں پر اور دونوں قدموں کی انگلیوں پر اور کپڑے اور بال نہ سمیٹنے کا حکم ہوا ہے۔

باب : سجدوں میں اعتدال اور کہنیاں اٹھا کر رکھنا۔

300: سیدنا انسؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: سجدہ میں اعضاء کو برابر رکھو اور کوئی تم میں سے اپنے بازو کتے کی طرح نہ بچھائے۔

باب : سجدہ میں بازوؤں کو پہلوؤں سے الگ رکھنا۔

301: سیدنا عبد اللہ بن مالک ابن بحینہؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ جب نماز پڑھتے تو دونوں ہاتھوں کو (پہلوؤں سے ) اتنا جدا رکھتے کہ میں آپﷺ کی بغلوں کی سفیدی دیکھ لیتا۔

باب : نماز میں بیٹھنے کی کیفیت کا بیان۔

302: سیدنا عبد اللہ بن زبیرؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ جب نماز میں بیٹھتے تو بائیں پاؤں کو ران اور پنڈلی کے بیچ میں کر لیتے اور داہنا پاؤں بچھاتے اور بایاں ہاتھ بائیں گھٹنے پر رکھتے اور داہنا ہاتھ اپنی داہنی ران پر رکھتے اور انگلی سے اشارہ کرتے۔

باب : دونوں قدموں پر ”اقعا“ کرنا۔

303: طاؤس کہتے ہیں کہ ہم نے سیدنا ابن عباسؓ  سے کہا کہ اقعاء کی بیٹھک کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ یہ سنت ہے۔ ہم نے کہا کہ ہم تو اس بیٹھک کو آدمی پر (یا پاؤں پر) ستم سمجھتے ہیں۔ انہوں نے کہا (نہیں) بلکہ وہ تو تمہارے نبیﷺ کی سنت ہے۔ (”اقعاء“ یہ ہے کہ دونوں پاؤں کھڑے کر کے ایڑیوں پر بیٹھنا)۔

باب : نماز میں تشہد کا بیان۔

304: حطان بن عبد اللہ الرقاشی کہتے ہیں کہ میں سیدنا ابو موسیٰ اشعریؓ  کے ساتھ نماز پڑھ رہا تھا۔ جب ہم لوگ تشہد میں بیٹھے تھے تو پیچھے سے کسی آدمی نے کہا کہ نماز نیکی اور زکوٰۃ کے ساتھ فرض کی گئی ہے۔ سیدنا ابو موسیٰؓ  نے نماز ختم ہونے کے بعد پوچھا کہ یہ بات تم میں سے کس نے کہی ہے ؟ سب لوگ خاموش ہو رہے تو آپؐ نے کہا کہ (تم لوگ سن رہے ہو)، بتاؤ یہ بات تم میں سے کس نے کہی ہے ؟ جب سب لوگ چپ رہے تو آپؐ نے مجھ سے کہا کہ اے حطان! شاید تم نے یہ کلمے کہے ہیں؟ میں نے کہا کہ نہیں، میں نے نہیں کہے ،مجھے تو خوف تھا کہ کہیں آپ خفا نہ ہو جائیں۔ اتنے میں ایک شخص نے کہا کہ یہ کلمات میں نے کہے ہیں اور اس میں میری نیت صرف بھلائی اور نیکی کی تھی۔ سیدنا ابو موسیٰؓ  نے جواب دیا کہ تم لوگ نہیں جانتے کہ تم کو اپنی نماز میں کیا پڑھنا چاہئیے۔ حالانکہ رسول اللہﷺ نے ہمیں دورانِ خطبہ تمام امور بتلائے اور نماز پڑھنا سکھائی ہے۔ وہ اسطرح کہ تم لوگ نماز پڑھنے سے پہلے صفیں سیدھی کر لو۔ پھر تم میں سے کوئی امام بنے اور جب وہ اللہ اکبر کہے تو تم بھی کہو اور جب وہ وَلاَ الضَّآلِّیْنَ کہہ چکے تو تم آمین کہو تاکہ اللہ تعالیٰ تم سے خوش رہے۔ امام کی تکبیر و رکوع کے ساتھ تم بھی تکبیر کہو اور رکوع کرو، امام کی تکبیر اور رکوع کے بعد تم تکبیر و رکوع ادا کرو۔ اور امام سے پہلے تکبیر و رکوع ادا نہ کرو کیونکہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے کہ تمہارا ایک لمحہ تاخیر کرنا امام کے رکوع و تکبیرات کے برابر ہی شمار کیا جاتا ہے پھر جب امام سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَہ کہے تو تم اَللّٰہُمَّ رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْدُ کہو اور اللہ تعالیٰ تمہاری دعاؤں کو سنتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کی زبانی کہا ہے کہ جو کوئی اللہ تعالیٰ کی تعریف و توصیف کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو سنتا ہے۔ امام جب تکبیر کہے اور سجدہ کرے تو تم بھی تکبیر اور سجدہ کرو کیونکہ تم سے ایک لمحہ پہلے امام تکبیر کہتا اور سجدہ و رفع کرتا ہے اور تم ایک لمحہ بعد یہ اعمال کرو تو تمﷺ سکے ساتھ رہو گے۔ اور امام جب تشہد میں بیٹھے تو تم میں سے ہر ایک یہ دعا پڑھے ”زبانی، بدنی اور مالی عبادتیں تمام کی تمام اللہ کے لئے ہیں۔ اے نبیﷺ آپ پر سلام اور اللہ کی رحمت ہو اور اس کی برکتیں ہوں، ہم پر بھی سلام ہو اور اللہ کے نیک بندوں پر بھی سلام ہو۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمدﷺ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں“۔

305: سیدنا ابن عباسؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ ہمیں تشہد اس طرح سکھایا کرتے تھے جس طرح قرآن کریم کی سورتیں سکھاتے تھے اور آپﷺ فرمایا کرتے تھے کہ ”زبانی عبادتیں جو برکت والی ہیں اور بدنی عبادتیں اور مالی عبادتیں تمام کی تمام اللہ کے لئے ہیں۔ اے نبیﷺ آپ پر سلام ہو اور اللہ کی رحمت ہو اور اس کی برکتیں ہوں ، ہم پر بھی سلام ہو اور اللہ کے نیک بندوں پر بھی سلام ہو۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمدﷺ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں“ﷺ۔ اور ابن رمح کی روایت میں ہے کہ آپﷺ (تشہد) قرآن کریم کی طرح سکھایا کرتے تھے۔

باب : نماز میں کن چیزوں سے پناہ حاصل کی جائے ؟

306: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبیﷺ نماز میں یہ دعا مانگتے کہ ”اے اللہ میں تیری پناہ مانگتا ہوں قبر کے عذاب سے اور میں تیری پناہ مانگتا ہوں دجال کے فتنے سے اور تیری پناہ مانگتا ہوں زندگی اور موت کے فتنے سے اور میں تیری پناہ مانگتا ہوں گناہ اور قرضداری سے۔ ایک شخص بولا کہ یا رسول اللہﷺ! آپ اکثر قرضداری سے کیوں پناہ مانگتے ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا کہ جب آدمی قرض دار ہوتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے اور وعدہ خلافی کرتا ہے۔

باب : نماز میں دعا مانگنے کا بیان۔

307: سیدنا ابو بکر صدیقؓ  سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہﷺ سے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! مجھے ایک دعا سکھلائیے جسے میں اپنی نماز میں پڑھا کروں تو آپﷺ نے فرمایا کہ یہ کہا کر کہ ”اے اللہ! میں نے اپنے نفس پر بڑا ظلم کیا ہے یا بہت ظلم کیا ہے اور گناہوں کو سوا تیرے کوئی نہیں بخشتا، پس تو بخش دے مجھے اپنے پاس کی بخشش سے اور مجھ پر رحم کر بیشک تو بخشنے والا مہربان ہے “۔

باب : نماز میں شیطان پر لعنت کرنا اور اس سے پناہ مانگنے کا بیان۔

308: سیدنا ابو الدرداءؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ (نماز کے لئے ) کھڑے ہوئے تو ہم نے سنا کہ آپﷺ کہتے تھے کہ ”میں تجھ سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں“ پھر فرمایا کہ ”میں تجھ پر لعنت کرتا ہوں جیسی اللہ نے تجھ پر لعنت کی“ (تین دفعہ فرمایا) اور اپنا ہاتھ یوں بڑھایا جیسے کوئی چیز لیتے ہیں۔ جب نماز سے فارغ ہوئے تو ہم نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! آج ہم نے نماز میں آپ کو وہ باتیں کرتے سنا جو پہلے کبھی نہیں سنی تھیں اور ہم نے یہ بھی دیکھا کہ آپ نے اپنا ہاتھ بڑھایا۔ آپﷺ نے فرمایا کہ اللہ کا دشمن ابلیس میرا منہ جلانے کے لئے انگارے کا ایک شعلہ لے کر آیا۔ میں نے تین بار کہا کہ میں تجھ سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں۔ پھر میں نے کہا کہ میں تجھ پر لعنت کرتا ہوں جیسی اللہ نے تجھ پر لعنت کی پوری لعنت۔ وہ تینوں بار پیچھے نہ ہٹا، آخر میں نے چاہا کہ اس کو پکڑ لوں۔ اللہ کی قسم اگر ہمارے بھائی سلیمان علیہ السلام کی دعا نہ ہوتی تو وہ صبح تک بندھا رہتا اور مدینے کے بچے اس سے کھیلتے۔

باب : نبی کریمﷺ پر درود پڑھنے کا بیان۔

309: سیدنا ابو مسعود انصاریؓ  کہتے ہیں کہ ہم لوگ سیدنا سعد بن عبادہؓ  کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ اتنے میں رسول اللہﷺ تشریف لائے۔ چنانچہ سیدنا بشیر بن سعدؓ  نے پوچھا کہ یا رسول اللہﷺ! اللہ نے ہمیں آپﷺ پر درود بھیجنے کا حکم دیا ہے ، اس لئے بتائیے کہ ہم آپ پر کس طرح درود بھیجیں؟ یہ سننے کے بعد آپﷺ بالکل خاموش رہے اور ہم نے تمنا کی کاش انہوں نے (سیدنا بشیرؓ  سے ) پوچھا ہوتا۔ پھر تھوڑی دیر بعد آپﷺ نے فرمایا کہ اس طرح درود پڑھا کرو ”اللھم صلی علی محمد وعلی آل محمد کما صلیت علی ابراہیم وعلی آل ابراہیم وبارک علی محمد و علی آل محمد کما بارکت علی ابراہیم و علی آل ابراہیم فی العالمین انک حمید مجید“ اور سلام بھیجنے کا طریقہ تمہیں معلوم ہی ہے۔

باب : نماز سے سلام پھیرنا۔

310: عامر بن سعد اپنے والد سیدنا سعدؓ  سے روایت ہے کہ میں رسول اللہﷺ کو دائیں اور بائیں طرف سلام پھیرتے دیکھا کرتا تھا یہاں تک کہ آپﷺ کے رخسار کی سفیدی مجھے دکھلائی دیتی۔

باب : جب نماز سے سلام پھیرے تو ہاتھ سے اشارہ کرنا مکروہ ہے۔

311: سیدنا جابر بن سمرہؓ  کہتے ہیں کہ جب ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ نماز پڑھتے تو نماز کے اختتام پر دائیں بائیں السلام علیکم و رحمتہ اللہ کہتے ہوئے ہاتھ سے اشارہ بھی کرتے تھے۔ تو (یہ دیکھ کر) رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ تم لوگ اپنے ہاتھ سے اس طرح اشارہ کرتے ہو جیسے شریر گھوڑوں کی دُمیں ہلتی ہیں، تمہیں یہی کافی ہے کہ تم قعدہ میں اپنی رانوں پر ہاتھ رکھے ہوئے دائیں اور بائیں منہ موڑ کر السلام علیکم و رحمۃ اللہ کہا کرو۔

باب : نماز سے سلام پھیرنے کے بعد کیا کہا جائے ؟

312: وَرّاد ، جو سیدنا مغیرہ بن شعبہؓ  کے مولیٰ تھے ، کہتے ہیں کہ سیدنا مغیرہؓ  نے سیدنا معاویہؓ  کو لکھ کر بھیجا کہ رسول اللہﷺ جب نماز پڑھ چکتے اور سلام پھیرتے تو کہتے ”کوئی سچا معبود نہیں سوائے اللہ کے ، وہ اکیلا ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں، سلطنت اسی کی ہے اور اسی کی تعریف ہے اور وہ سب کچھ کر سکتا ہے ، یا اللہ جو تو دے اُسے کوئی روک نہیں سکتا اور جو تو نہ دے اسے کوئی دے نہیں سکتا اور کسی کوشش کرنے والے کی کوشش تیرے آگے فائدہ نہیں دیتی۔

باب : نماز کے بعد اللہ اکبر کہنا۔

313: سیدنا ابن عباسؓ  کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہﷺ کی نماز کا اختتام پہچانتے تھے جب آپﷺ اللہ اکبر کہتے۔

باب : نماز کے بعد سبحان اللہ، الحمد للہ اور اللہ اکبر کا ورد کرنا۔

314: سیدنا ابو ہریرہؓ  نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: جو شخص ہر نماز کے بعد سبحان اللہ33 بار اور الحمد للہ 33 بار اور اللہ اکبر 33 بار کہے تو یہ ننانوے کلمے ہوں گے اور پورے 100 یوں کرے کہ ایک بار یوں پڑھے ”لا الٰہ الا الله وحدہ لا شریک لہ لہ الملک ولہ الحمد وھو علی کل شيءٍ قدیر“ یعنی ”اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، وہ اکیلا ہے ، اس کا کوئی شریک نہیں، اسی کی سلطنت ہے اور اسی کے لئے سب تعریف ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے “ تو اس کے گناہ بخشے جاتے ہیں اگرچہ دریا کے جھاگ کے برابر (یعنی بے حد) ہوں۔

باب : نماز کے بعد دائیں اور بائیں طرف پھرنا۔

315: سیدنا عبد اللہ بن مسعودؓ  کہتے ہیں کہ تم میں سے کوئی اپنی ذات میں سے شیطان کو حصہ نہ دے ، یہ نہ سمجھے کہ نماز کے بعد داہنی ہی طرف پھرنا مجھ پر واجب ہے۔میں نے اکثر دیکھا ہے کہ رسول اللہﷺ بائیں طرف بھی پھرتے تھے۔

باب : امامت کا حقدار کون ہے ؟

316: سیدنا ابو مسعود انصاریؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ قوم کی امامت وہ شخص کرے جو قرآن زیادہ جانتا ہو۔ اگر قرآن میں برابر ہوں تو جو سنت زیادہ جانتا ہو اگر سنت میں سب برابر ہوں تو جس نے پہلے ہجرت کی ہو۔ اگر ہجرت میں بھی سب برابر ہوں تو جو اسلام پہلے لایا ہو اور کسی کی حکومت کی جگہ میں جا کر اس کی امامت نہ کرے (یعنی مقرر شدہ امام کے ہوتے ہوئے اس کی اجازت کے بغیر امامت نہ کرائے ) اور نہ اس کے گھر میں اس کی مسند پر بیٹھے مگر اس کی اجازت سے۔

باب : امام کی اتباع کرنا اور ہر عمل امام کے بعد کرنا۔

317: سیدنا براءؓ  سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہﷺ کے ساتھ نماز پڑھتے تھے ، جب آپﷺ رکوع کرتے تو (صحابہ) بھی رکوع کرتے تھے اور جب آپﷺ رکوع سے سر اٹھاتے تو سمع اللہ لمن حمدہ کہتے اور ہم کھڑے رہتے یہاں تک کہ آپﷺ کو زمین پر پیشانی رکھتے دیکھتے اس وقت ہم بھی سجدہ میں جاتے۔

باب : اماموں کے نماز کو پورا اور ہلکا پڑھنے کا حکم۔

318: سیدنا ابو مسعود انصاریؓ  کہتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہﷺ کے پاس آیا اور عرض کیا کہ میں فلاں شخص کی وجہ سے صبح کی جماعت میں نہیں آتا کیونکہ وہ قرأت لمبی کرتا ہے تو میں نے آپﷺ کو نصیحت کرنے میں کبھی اتنے غصے میں نہیں دیکھا جتنا اس دن دیکھا۔ آپﷺ نے فرمایا کہ اے لوگو! تم میں سے بعض لوگ ایسے ہیں جو دین سے متنفر کرے۔ جو کوئی تم میں سے امامت کرے تو مختصر نماز پڑھے اس لئے کہ اس کے پیچھے بوڑھا اور کمزور اور کام والا ہوتا ہے۔

باب : نماز کے لئے امام کا اپنا جانشین مقرر کرنا اور اس کا لوگوں کو نماز پڑھانا۔

319: عبید اللہ بن عبد اللہ کہتے ہیں کہ میں اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ آپ مجھے رسول اللہﷺ کی بیماری کے واقعات بتائیے۔ انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہﷺ بیمار ہوئے تو پوچھا کہ کیا لوگ نماز پڑھ چکے ؟ ہم نے کہا کہ نہیں، بلکہ وہ آپﷺ کے منتظر ہیں۔ ارشاد فرمایا کہ ہمارے لئے برتن میں پانی رکھو۔ ہم نے پانی رکھا تو آپﷺ نے غسل فرمایا، اس کے بعد چلنا چاہا لیکن آپﷺ کو غش آگیا۔ اور جب افاقہ ہوا تو پھر پوچھا کہ کیا لوگ نماز پڑھ چکے ؟ ہم نے کہا کہ نہیں یا رسول اللہﷺ! بلکہ وہ آپ کے منتظر ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ ہمارے لئے طشت (تھال) میں پانی رکھو۔ چنانچہ ہم نے آپﷺ کے حکم کی تعمیل کی اور آپﷺ نے غسل کیا پھر آپ چلنے کے لئے تیار ہوئے لیکن آپﷺ کو دوبارہ غش آگیا۔ اور پھر ہوش میں آنے کے بعد پوچھا کہ کیا لوگ نماز پڑھ چکے ؟ ہم نے عرض کیا کہ نہیں یا رسول اللہﷺ! وہ سب لوگ آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔ اور ادھر لوگوں کی حالت یہ تھی کہ وہ سب نمازِ عشاء کے لئے رسالتِ مآبﷺ کی تشریف آوری کے مسجد میں منتظر تھے۔ آخر آپﷺ نے ایک آدمی کے ہاتھ سیدنا ابو بکر صدیقؓ  کو کہلا بھیجا کہ آپ نماز پڑھائیں۔ چنانچہ اس آدمی نے سیدنا ابو بکر صدیقؓ  کی خدمت میں حاضر ہو کر کہا کہ رحمتِ دو عالمﷺ نے حکم دیا ہے کہ آپ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ سیدنا ابو بکر صدیقؓ  نہایت نرم دل تھے (وہ جلد رونے لگتے تھے ) اس لئے انہوں نے سیدنا عمرؓ  سے کہا کہ اے عمر! تم نماز پڑھا دو۔ جس پر سیدنا عمرؓ  نے کہا کہ نہیں، آپ ہی امامت کے زیادہ مستحق ہیں اور آپ ہی کو نماز پڑھانے کے لئے حکم دیا گیا ہے۔ چنانچہ سیدنا ابو بکر صدیقؓ  نے کئی دن تک نماز پڑھائی۔ اسی دوران ایک دن رسول اکرمﷺ کی طبیعت ذرا ہلکی ہوئی تو آپ دو آدمیوں کا سہارا لے کر نمازِ ظہر کے لئے مسجد میں تشریف لے گئے۔ ان دو آدمیوں میں سے ایک سیدنا عباسؓ  تھے (جو آپﷺ کے چچا تھے ) غرضیکہ رسول اللہﷺ مسجد میں اس وقت پہنچے جب سیدنا ابو بکر صدیقؓ  بحیثیت امام نماز پڑھا رہے تھے۔ انہوں نے جب رسول اللہﷺ کو دیکھا تو پیچھے ہٹنا چاہا لیکن آپﷺ نے اشارہ سے فرمایا کہ پیچھے نہ ہٹو اور اپنے ساتھ والوں سے کہا کہ مجھے ابو بکرؓ کے برابر میں بٹھا دو۔ چنانچہ ان دونوں نے آپ کو سیدنا ابو بکر صدیقؓ  کے برابر بٹھا دیا۔ رسالتِ مآبﷺ بیٹھے بیٹھے نماز پڑھنے لگے اور سیدنا ابو بکر صدیقؓ  ویسے ہی کھڑے کھڑے رسول اللہﷺ کی نماز میں پیروی کرنے لگے گویا رسول اللہﷺ امام تھے اور سیدنا ابو بکر صدیقؓ  مقتدی اور تمام صحابہ کرامؓ حسبِ سابق اس فرض نماز ظہر میں سیدنا ابو بکر صدیقؓ  کی پیروی کر رہے تھے۔ عبید اللہ بن عبد اللہ کا بیان ہے کہ میں نے سیدنا عبد اللہ بن عباسؓ  کے پاس جا کر کہا کہ میں آپ کو وہ حدیث سناتا ہوں جو اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے مجھے سنائی ہے اور ان کی طلب پہ میں نے پوری حدیث ان سے کہہ سنائی جسے سننے کے بعد انہوں نے کہا کہ یہ پوری حدیث بالکل صحیح ہے۔ پھر پوچھا کہ دوسرے شخص جو رسول اللہﷺ کے ساتھ تھے کیا ان کا نام اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے نہیں بتایا؟ میں نے جواب دیا کہ جی نہیں تو انہوں نے کہا کہ دوسرے آدمی سیدنا علیؓ  تھے۔

باب : جب امام پیچھے رہ جائے تو اس کے علاوہ کسی دوسرے کو (امامت کے لئے ) آگے کر لیا جائے۔

320: سیدنا مغیرہ بن شعبہؓ  سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہﷺ کے ساتھ جنگ تبوک میں شرکت کی۔ ایک صبح قبل نمازِ فجر اسی مقامِ تبوک میں آپﷺ رفع حاجت کے لئے روانہ ہوئے اور میں پانی کا لوٹا لئے ہوئے آپﷺ کے ساتھ تھا۔ رفعِ حاجت کے بعد جب آپﷺ تشریف لائے تو میں نے آپﷺ کے ہاتھوں پر پانی ڈالا، آپﷺ نے پہلے تین مرتبہ ہاتھ دھوئے پھر منہ دھویا، جبہ کو بازوؤں پر چڑھانا چاہا لیکن اس کی آستینیں تنگ تھیں اس لئے آپﷺ نے جبہ کے نیچے سے اپنے دونوں ہاتھ نکال کر کہنیوں تک دھوئے اور اس کے بعد موزوں پر مسح کیا۔ پھر میں آپﷺ کے ساتھ روانہ ہوا، جب ہم وہاں پہنچے تو دیکھا کہ سیدنا عبدالرحمن بن عوفؓ  نماز پڑھا رہے ہیں۔ چنانچہ ان کے پیچھے رسول اللہﷺ نے ایک رکعت پڑھی۔ سیدنا عبدالرحمن بن عوفؓ  نے دونوں رکعتیں پڑھنے کے بعد سلام پھیر کے دیکھا تو رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز پوری کرنے کی خاطر دوسری رکعت کے لئے کھڑے ہو گئے تھے۔ مسلمان یہ دیکھ کر گھبرا گئے اور انہوں نے بکثرت تسبیح پڑھی۔ پھر رسول اللہﷺ نے بعد فراغتِ نماز فرمایا کہ تم لوگوں نے اچھا کیا۔ آپﷺ نے اس پر خوشی کا اظہار کیا کہ لوگوں نے وقت پر نماز ادا کی۔

باب : جو شخص اذان سنتا ہے اس پر مسجد میں آنا واجب ہے۔

321: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کے پاس ایک نابینا شخص آیا اور عرض کیا کہ اے اللہ کے رسولﷺ! مجھے کوئی پکڑ کر مسجد تک لانے والا نہیں اور اس نے آپﷺ سے گھر میں نماز پڑھنے کے لئے رخصت چاہی تو آپﷺ نے اسے اجازت دے دی۔ پھر جب لوٹ گیا تو آپﷺ نے بلا کر پوچھا کہ کیا تم اذان سنتے ہو؟ اس نے عرض کیا کہ ہاں۔ تو آپﷺ نے فرمایا کہ تم مسجد میں آیا کرو۔

باب : جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کی فضیلت۔

322: سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جماعت کی نماز اکیلے شخص کی نماز سے پچیس درجے بڑھ کر ہے۔

باب : جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا ، ہدایت کے طریقوں میں سے ہے۔

323: سیدنا عبد اللہ بن مسعودؓ  کہتے ہیں کہ ہم خیال کرتے تھے کہ (رسول اللہﷺ کے عہد میں) نمازِ با جماعت سے وہی منافق پیچھے رہتا تھا جس کا نفاق ظاہر ہو یا پھر بیمار آدمی۔ اور بیمار آدمی بھی دو آدمیوں کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر (آ سکتا) تو آتا اور نماز میں ملتا تھا۔ اور انہوں نے کہا کہ رسول اللہﷺ نے ہمیں دین اور ہدایت کی باتیں سکھائیں اور انہی ہدایت کی باتوں میں سے ہے کہ ایسی مسجد میں نماز پڑھنا جس میں اذان ہوتی ہو۔

باب : نماز کے انتظار اور جماعت کی فضیلت کا بیان۔

323 م: سیدنا ابو ہریرہؓ  بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: با جماعت نماز پڑھنا، گھر اور بازار میں نماز پڑھنے کی نسبت بیس سے زیادہ درجہ فضیلت رکھتا ہے کیونکہ جب تم میں سے کوئی شخص صرف نماز پڑھنے کے لئے اچھی طرح وضو کر کے مسجد میں جاتا ہے تو مسجد میں پہنچنے تک اس کے ہر قدم کے بدلہ میں ایک درجہ بلند کیا جاتا ہے اور ایک گناہ مٹا دیا جاتا ہے۔ مسجد میں داخل ہونے کے بعد وہ جتنی دیر نماز کے انتظار میں بیٹھا رہتا ہے اس کو نماز میں شمار کیا جاتا ہے اور فرشتے تمہارے لئے اس وقت تک دعا کرتے رہتے ہیں جب تک تم میں سے کوئی شخص نماز کی جگہ بیٹھا رہتا ہے ، جب تک وہ شخص (وضو توڑ کر) فرشتوں کو ایذا نہ دے ، فرشتے کہتے رہتے ہیں یا اللہ ! اس پر رحم فرما، یا اللہ! اس کو بخش دے ، یا اللہ! اس کی توبہ قبول فرما۔

باب : عشاء اور فجر کی جماعت کی فضیلت کا بیان۔

324: سیدنا عبدالرحمن بن ابی عمرہ کہتے ہیں کہ سیدنا عثمان بن عفانؓ  مغرب کے بعد مسجد میں آئے اور اکیلے بیٹھ گئے۔ میں ان کے پاس جا بیٹھا۔ انہوں نے کہا کہ اے میرے بھتیجے ! میں نے رسول اللہﷺ سے سنا ہے ، آپﷺ فرماتے تھے کہ جس نے عشاء کی نماز جماعت سے پڑھی تو گویا آدھی رات تک نفل پڑھتا رہا (یعنی ایسا ثواب پائے گا) اور جس نے صبح کی نماز جماعت سے پڑھی وہ گویا ساری رات نماز پڑھتا رہا۔

باب : عشاء اور فجر کی نماز جماعت کے ساتھ ادا نہ کرنے پر سخت وعید۔

325: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ نمازِ عشاء اور فجر منافقوں پر بہت بھاری ہیں اگر اس کا اجر جانتے تو گھٹنوں کے بل چل کر آتے۔ اور میں نے تو ارادہ کیا کہ نماز کا حکم دوں کہ (جماعت) نماز کھڑی کی جائے اور ایک شخص کو کہوں کہ لوگوں کو نماز پڑھائے اور چند لوگوں کے ساتھ ایک ڈھیر لکڑیوں کا لے کر ان لوگوں کے پاس جاؤں جو لوگ نماز میں نہیں آئے اور ان کے گھروں کو جلا دوں۔ اور ایک دوسری روایت میں اتنا زیادہ ہے کہ اگر کوئی شخص ایک ہڈی فربہ جانور کی پائے تو ضرور آئے (یعنی نماز کو)۔

326: سیدنا عبد اللہ بن مسعودؓ  سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا کہ جو لوگ جمعہ میں حاضر نہیں ہوتے ، ان کے حق میں ارادہ کرتا ہوں کہ حکم کروں ایک شخص کو جو لوگوں کو نماز پڑھائے پھر میں ان لوگوں کے گھروں کو جلا دوں جو جمعہ میں نہیں آئے۔

باب : عذر کی بناء پر جماعت سے رہ جانے کی رخصت۔

اس باب میں سیدنا عتبان بن مالک کی حدیث کتاب الایمان میں گزر چکی ہے (دیکھئے حدیث : 14)۔

باب : نماز کو اچھے (خوبصورت) طریقہ پر ادا کرنے کا حکم۔

327: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ایک دن نماز پڑھانے کے بعد فرمایا کہ اے فلاں! تم اپنی نماز اچھی طرح کیوں ادا نہیں کرتے ؟ کیا نمازی کو یہ دکھائی نہیں دیتا کہ وہ کس طرح نماز پڑھ رہا ہے ؟ حالانکہ وہ اپنے فائدے کے لئے نماز پڑھتا ہے۔ اور اللہ کی قسم میں پیچھے والوں کو بھی اسی طرح دیکھتا ہوں جس طرح اپنے آگے والوں کو دیکھتا ہوں۔

باب : نماز اعتدال کے ساتھ اور پوری طرح پڑھنے کا بیان۔

328: سیدنا براء بن عازبؓ  کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کی نماز کو جانچا تو معلوم ہوا کہ آپﷺ کا قیام پھر رکوع پھر رکوع سے کھڑا ہونا، پھر سجدہ اور دونوں سجدوں کے درمیان کا جلسہ پھر دوسرا سجدہ اور سجدے اور سلام کے بیچ کا جلسہ یہ سب تقریباً برابر تھے۔

329: سیدنا انسؓ  کہتے ہیں کہ بیشک میں تمہارے ساتھ اس طرح نماز پڑھنے میں کوتاہی نہیں کرتا جس طرح رسول اللہﷺ ہمارے ساتھ پڑھتے تھے۔ (ثابت نے )کہا کہ سیدنا انسؓ  ایک کام کرتے تھے میں تمہیں وہ کام کرتے ہوئے نہیں دیکھتا کہ جب وہ رکوع سے سر اٹھاتے تو سیدھے کھڑے ہوتے یہاں تک کہ کہنے والا کہتا کہ وہ بھول گئے۔ اور جب سجدہ سے سر اٹھاتے تو اتنا ٹھہرتے کہ کہنے والا کہتا کہ وہ بھول گئے۔ (یعنی دیر تک ٹھہرے رہتے )۔

باب : افضل نماز لمبے قیام والی ہے۔

330: سیدنا جابرؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے کہ نمازوں میں بہتر وہ نماز ہے جس میں دیر تک کھڑا رہنا ہو۔

باب : نماز میں سکون کا حکم۔

331: سیدنا جابر بن سمرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ میں تمہیں اس طرح ہاتھ اٹھاتے دیکھ رہا ہوں گویا وہ شریر گھوڑوں کی دُمیں ہیں تم لوگ نماز میں سکون سے رہا کرو۔ پھر ایک مرتبہ آپﷺ نے ہمیں حلقہ باندھے دیکھ کر فرمایا کہ تم لوگ الگ الگ کیوں ہو؟ پھر ایک مرتبہ فرمایا کہ تم لوگ اس طرح صف کیوں نہیں باندھتے جس طرح بارگاہِ الٰہی میں فرشتے صف باندھے ہیں؟ ہم نے عرض کیا یا رسول اللہﷺ فرشتے اپنے رب کے ہاں کس طرح صف باندھتے ہیں؟ تو آپﷺ نے فرمایا کہ وہ پہلی صفوں کو پورا کرتے ہیں اور صف میں مل کر کھڑے ہوتے ہیں۔

باب : نماز میں سلام کے جواب کے لئے اشارہ کرنا۔

332: سیدنا جابرؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے مجھے کسی کام کے لئے بھیجا ، پھر میں لوٹ کر آپﷺ کے پاس پہنچا، آپﷺ (سواری پر) چل رہے تھےﷺ قتیبہ نے کہا کہ (نفل) نماز پڑھ رہے تھے [ میں نے سلام کیا تو آپﷺ نے اشارے سے جواب دیا، جب نماز سے فارغ ہوئے تو مجھے بلایا اور فرمایا کہ تو نے ابھی مجھے سلام کیا تھا اور میں نماز پڑھ رہا تھا (اس لئے جواب نہ دے سکا) حالانکہ آپ کا منہ مشرق کی طرف تھا (اور قبلہ مشرق کی طرف نہ تھا تو معلوم ہوا کہ نفل نماز سواری پر پڑھتے وقت قبلہ کی طرف منہ ہونا ضروری نہیں)۔

باب : نماز میں گفتگو کرنے کا حکم منسوخ ہے۔

333: سیدنا معاویہ بن حکم سلمیؓ  کہتے ہیں کہ میں رسول اللہﷺ کے ساتھ نماز پڑھ رہا تھا کہ اتنے میں ہم میں سے ایک شخص چھینکا تو میں نے کہا کہ یرحمک الله۔ تو لوگوں نے مجھے گھورنا شروع کر دیا، میں نے کہا کہ کاش مجھ پر میری ماں رو چکی ہوتی (یعنی میں مر جاتا) تم کیوں مجھے گھورتے ہو؟ یہ سن کر وہ لوگ اپنے ہاتھ رانوں پر مارنے لگے۔ جب میں نے یہ دیکھا کہ وہ مجھے چپ کرانا چاہتے ہیں تو میں چپ ہو رہا۔ جب رسول اللہﷺ نماز پڑھ چکے تو قربان ہوں آپﷺ پر میرے ماں باپ کہ میں نے آپﷺ سے پہلے اور آپﷺ کے بعد کوئی آپ سے بہتر سکھانے والا نہیں دیکھا۔ اللہ کی قسم آپﷺ نے نہ مجھے مارا اور نہ مجھے گالی دی بلکہ یوں فرمایا کہ نماز میں دنیا کی باتیں کرنا درست نہیں، وہ تو تسبیح، تکبیر اور قرآن مجید کا پڑھنا ہے یا جیسا کہ آپﷺ نے فرمایا۔ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ میرا جاہلیت کا زمانہ ابھی گزرا ہے ، اب اللہ تعالیٰ نے اسلام نصیب کیا ہے ، ہم میں سے بعض لوگ کاہنوں (پنڈتوں، نجومیوں) کے پاس جاتے ہیں تو آپﷺ نے فرمایا کہ تو ان کے پاس مت جا۔ پھر میں نے کہا کہ ہم میں سے بعض برا شگون لیتے ہیں تو آپﷺ نے فرمایا کہ یہ ان کے دلوں کی بات ہے ، تو کسی کام سے ان کو نہ روکے یا تم کو نہ روکے۔ پھر میں نے کہا کہ ہم میں سے بعض لوگ لکیریں کھینچتے ہیں (یعنی کاغذ پر یا زمین پر، جیسے رمّال کیا کرتے ہیں) تو آپﷺ نے فرمایا کہ ایک پیغمبر لکیریں کھینچا کرتے تھے پھر جو ویسی ہی لکیر کرے تو وہ درست ہے۔ سیدنا معاویہؓ  نے کہا کہ میری ایک لونڈی تھی جو احد اور جوانیہ (ایک مقام کا نام ہے ) کی طرف بکریاں چرایا کرتی تھی، ایک دن میں جو وہاں آ نکلا تو دیکھا کہ بھیڑیا ایک بکری کو لے گیا ہے ، آخر میں بھی آدمی ہوں مجھے بھی غصہ آ جاتا ہے جیسے ان کو آتا ہے ، میں نے اس کو ایک طمانچہ مارا۔ پھر میں رسول اللہﷺ کے پاس آیا تو رسول اللہﷺ نے میرا یہ فعل بہت بڑا قرار دیا۔ میں نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ! کیا میں اس لونڈی کو آزاد نہ کر دوں؟ آپﷺ نے فرمایا کہ اس کو میرے پاس لے کر آ میں آپﷺ کے پاس لے کر گیا تو آپﷺ نے اس سے پوچھا کہ اللہ کہاں ہے ؟ اس نے کہا کہ آسمان پر پھر آپﷺ نے فرمایا کہ میں کون ہوں؟ اس نے کہا کہ آپﷺ اللہ کے رسول ہیں (یعنی اللہ نے آپﷺ کو بھیجا ہے ) تو رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ تو اس کو آزاد کر دے یہ مومنہ (یعنی ایماندار) ہے۔

334: سیدنا زید بن ارقمؓ  کہتے ہیں کہ ہم لوگ نماز میں باتیں کیا کرتے تھے ، ہر شخص اپنے پاس والے سے نماز پڑھتے پڑھتے بات کرتا تھا۔ یہاں تک کہ یہ آیت ”اللہ کے سامنے چپ چاپ (فرمانبردار ہو کر) کھڑے ہو“ نازل ہوئی تب سے ہمیں خاموش رہنے کا حکم ہوا اور بات کرنا منع ہو گیا۔

باب : نماز میں، ضرورت کے وقت سبحان اللہ کہنا۔

335: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ مردوں کو سبحان اللہ کہنا چاہئیے اور عورتوں کو تالی بجانی چاہئیے اور ایک روایت میں ہے کہ (ایسا) نماز میں (کرنا چاہئیے )۔

باب : نماز میں آسمان کی طرف نظر اٹھانے کی ممانعت۔

336: سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ یا تو لوگ نماز میں دعا کرتے وقت اپنی نگاہ کو آسمان کی طرف اٹھانے سے رک جائیں یا پھر ان کی نگاہیں چھین لی جائیں گی۔

باب : نما ز ی کے آ گے سے گزرنے پر سخت و عید۔

337: بسر بن سعید سے روایت ہے کہ سیدنا زید بن خالد جہنیؓ  نے ان کو ابو جہیم (عبد اللہ بن حارث بن صمہ انصاریؓ کے پاس یہ پوچھنے کے لئے بھیجا کہ رسول اللہﷺ نے اس شخص کے بارے میں کیا فرمایا ہے جو نمازی کے سامنے سے گزرے ؟ سیدنا ابو جہیمؓ  نے کہا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے کہ اگر نمازی کے سامنے سے گزرنے والا ، وہ وبال (جو اس کے گزرنے کی وجہ سے اس پر ہے ) جان لے تو چالیس تک کھڑا رہنا، سامنے سے گزرنے سے بہتر سمجھے۔ ابو النصر نے کہا کہ میں نہیں جانتا ہے کہ (ابو جہیمؓ نے ) کیا کہا چالیس دن یا مہینے یا چالیس سال۔

باب : نمازی کے آگے سے گزرنے والے کو منع کرنا۔

338: ابو صالح السمان کہتے ہیں کہ میں سیدنا ابو سعید خدریؓ  کے ساتھ تھا وہ جمعہ کے دن کسی چیز کی آڑ میں لوگوں سے الگ ہو کر نماز پڑھ رہے تھے۔ اتنے میں ابو معیط کی قوم کا ایک جوان آیا اور اس نے ان کے سامنے سے نکلنا چاہا۔ سیدنا ابو سعیدؓ  نے اس کے سینہ میں مارا۔ اس نے دیکھا تو اور طرف راستہ نہ پایا اور پھر دوبارہ ان کے سامنے سے نکلنا چاہا۔ سیدنا ابو سعیدؓ  نے اور زور سے ایک مار ماری۔ وہ سیدھا کھڑا ہو گیا اور سیدنا ابو سعیدؓ  سے لڑنے لگا۔ پھر لوگوں نے اس کو آ کر روکا، پھر وہ نکلا اور مروان (جو مدینہ کا حاکم تھا) کے پاس جا کر شکایت کی۔ (راوی نے ) کہا سیدنا ابو سعیدؓ  مروان کے پاس گئے تو مروان نے کہا کہ تو نے کیا کیا جو تیرے بھائی کا بیٹا شکایت کرتا ہے ؟ سیدنا ابو سعیدؓ  نے کہا کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا ہے کہ آپﷺ فرماتے تھے کہ جب کوئی تم میں سے کسی چیز کی آڑ میں نماز پڑھے اور کوئی شخص اس کے سامنے سے نکلنا چاہے تو اس کے سینہ پر مارے اگر وہ نہ مانے تو اس سے لڑے کیونکہ وہ شیطان ہے۔

باب : نمازی کس چیز کا سترہ بنائے۔

339: سیدنا طلحہ بن عبید اللہؓ  کہتے ہیں کہ ہم نماز پڑھتے تھے اور جانور ہمارے سامنے سے گزرا کرتے تھے تو ہم نے رسو ل اللہﷺ سے اس کا ذکر کیا۔ تو آپﷺ نے فرمایا کہ اگر پالان کی پچھلی لکڑی کے برابر کوئی چیز تمہارے سامنے ہو تو پھر سامنے سے کسی چیز کا گزر جانا نقصان نہیں کرتا۔

باب : برچھا کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنا۔

340: سیدنا ابن عمرؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ جب عید کے دن باہر نکلتے تو اپنے سامنے برچھا گاڑنے کا حکم دیتے۔ پھر اس کی آڑ میں نماز پڑھتے اور لوگ آپﷺ کے پیچھے ہوتے اور یہ کام سفر میں کرتے تھے ، اسی وجہ سے امیروں نے اس کو مقرر کر لیا ہے (کہ برچھا ساتھ رکھتے ہیں)۔

باب : سواری کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنا۔

341: سیدنا ابن عمرؓ  سے روایت ہے کہ نبیﷺ اپنی اونٹنی کو قبلہ کی طرف کر کے اس کی طرف نماز پڑھتے تھے۔

باب : نمازی کے سامنے سترہ کے آگے سے گزرنے کی اجازت۔

342: عون بن ابی حجیفہ سے روایت ہے کہ ان کے والد سیدنا ابو جحیفہؓ  نے رسول اللہﷺ کو چمڑے کے سرخ خیمے میں دیکھا اور میں نے سیدنا بلالؓ  کو دیکھا کہ انہوں نے رسول اللہﷺ کے وضو کا بچا ہوا پانی نکالا تو لوگ اس کو لینے کے لئے جھپٹنے لگے۔ پھر جس کو پانی مل گیا اس نے اپنے بدن پر مل لیا اور جس کو نہ ملا اس نے (اپنا ہاتھ) اپنے ساتھی کے ہاتھ سے تر کر لیا۔ پھر میں نے سیدنا بلالؓ  کو دیکھا کہ انہوں نے برچھا نکالا اور اس کو گاڑا اور رسول اللہﷺ سرخ جوڑا پہنے ہوئے اس کو (پنڈلیوں تک) اٹھائے ہوئے نکلے اور برچھے کی طرف کھڑے ہو کر لوگوں کودو رکعت نماز پڑھائی اور میں نے آدمیوں اور جانوروں کو دیکھا کہ وہ برچھے کے سامنے سے گزر رہے تھے۔

باب : نماز میں کمر پر ہاتھ رکھنے کی ممانعت۔

343: سیدنا ابو ہریرہؓ  نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے کمر پر ہاتھ رکھ کر نماز پڑھنے سے منع فرمایا۔

باب : نماز میں آدمی کو اپنے سامنے تھوکنے کی ممانعت ہے۔

344: سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے مسجد میں قبلے کی طرف تھوک دیکھا تو لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ تمہارا کیا حال ہے کہ تم میں سے کوئی اپنے پروردگار کی طرف منہ کر کے کھڑا ہوتا ہے ، پھر اپنے سامنے تھوکتا ہے ، کیا تم میں سے کوئی اس بات کو پسند کرتا ہے کہ کوئی اس کی طرف منہ کرے اور پھر اس کے سامنے تھوک دے ؟ جب تم میں سے کسی کو تھو آئے تو بائیں طرف قدم کے نیچے تھوکے اگر جگہ نہ ہو تو ایسا کرے (آپﷺ نے یہ عمل کر کے دکھایا)۔ قاسم نے (جو کہ اس حدیث کا راوی ہے ) یوں بیان کیا کہ اپنے کپڑے میں تھوکا پھر اسی کپڑے کو مل ڈالا۔

باب : نماز میں جمائی لینے اور اسے روکنے کے بارے میں۔

345: سیدنا ابو سعید خدریؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ جب تم میں سے کسی کو نماز میں جمائی آئے تو جہاں تک ہو سکے اس کو روکے۔ اس لئے کہ شیطان (دل میں وسوسہ ڈالنے اور نماز کو بھلانے کے لئے ) اندر گھستا ہے۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ (جمائی لیتے وقت) اپنا ہاتھ اپنے منہ پر رکھے۔ اس لئے کہ شیطان (مکھی یا کیڑے وغیرہ کی شکل میں بعض اوقات)اندر گھس جاتا ہے (یا درحقیقت شیطان گھستا ہے اور یہی صحیح ہے )۔

باب : نماز میں بچوں کو اٹھا لینے کی اجازت کا بیان۔

346: سیدنا ابو قتادہ انصاریؓ کہتے ہیں کہ میں نے نبیﷺ کو لوگوں کی امامت کرتے ہوئے دیکھا اور امامہ بنتِابو العاص ص، آپﷺ کی نواسی آپ کے کندھے پر تھیں (یہ آپﷺ کی صاحبزادی سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کی بیٹی تھیں)، جب آپﷺ رکوع کرتے تو ان کو بٹھا دیتے اور جب سجدہ سے کھڑے ہوتے تو پھر ان کو کندھے پر بٹھا لیتے۔

باب : نماز میں کنکریوں کو (سیدھا کرنے کے لئے ) چھونے کا بیان۔

347: سیدنا معیقبؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے سجدہ کی جگہ پر موجود کنکریوں کو برابر کرنے کے بارے میں فرمایا کہ اگر ضرورت پڑے تو ایک بار کرے۔

باب : تھوک کو جوتے کے ساتھ مسلنا۔

348: سیدنا عبد اللہ بن الشیخیرؓ  کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کے ساتھ نماز پڑھی، آپﷺ نے تھوکا، پھر زمین پر اپنی جوتے سے مسل ڈالا۔

باب : نماز میں سر کے بالوں کو باندھنا۔

349: سیدنا عبد اللہ بن عباسؓ  سے روایت ہے کہ انہوں نے سیدنا عبد اللہ بن حارث کو دیکھا کہ وہ جوڑا باندھے ہوئے نماز پڑھ رہے تھے تو سیدنا عبد اللہ بن عباسؓ  ان کے جوڑے کھولنے لگے۔ جب وہ نماز سے فارغ ہوئے تو پوچھا کہ تم نے میرا سر کیوں چھوا؟ سیدنا عبد اللہ بن عباسؓ  نے کہا کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا، آپﷺ فرماتے تھے کہ جو شخص بالوں کا جوڑا باندھ کر نماز پڑھے اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی ستر کھول کر نماز پڑھے۔

باب : کھانے کی موجودگی میں نماز پڑھنے کا بیان۔

350: سیدنا انس بن مالکؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جب نماز قریب آئے اور کھانا بھی سامنے آ جائے تو مغرب کی نماز سے پہلے کھانا کھا لو اور کھانا چھوڑ کر نماز کی طرف جلدی نہ کرو (اس لئے کہ کھانے کی طرف دل لگا رہے گا اور اس کے علاوہ اور بھی حکمتیں ہیں)۔

باب : نماز میں بھولنا اور اس میں سجدہ کرنے کا حکم۔

351: سیدنا ابو سعید خدریؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی اپنی نماز میں شک کرے (کہ کتنی رکعتیں پڑھی ہیں) اور معلوم نہ ہو سکے کہ تین پڑھی ہیں یا چار تو شک کو دور کرے اور جس قدر کا یقین ہو، اس کو قائم کرے۔پھر سلام سے پہلے دو سجدے کر لے اب اگر اس نے پانچ رکعتیں پڑھی ہیں تو یہ دو سجدے مل کر چھ رکعتیں ہو جائیں گی اور اگر پوری چار پڑھی ہیں تو ان دونوں سجدوں سے شیطان کے منہ میں خاک پڑ جائے گی۔

352: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ہمیں ظہر یا عصر کی نماز پڑھائی اور دو رکعتیں پڑھ کر سلام پھیر دیا۔ پھر ایک لکڑی کے پاس آئے جو مسجد میں قبلہ کی طرف لگی ہوئی تھی اور اس پر ٹیک لگا کر غصہ میں کھڑے ہو گئے اس وقت جماعت میں سیدنا ابو بکر صدیقؓ  اور سیدنا عمر فاروقؓ  بھی موجود تھے۔ وہ دونوں ڈر کی وجہ سے بات نہ کر سکے اور جلدی والے لوگ یہ کہتے ہوئے نکلے کہ نماز کم ہو گئی۔ پھر ایک شخص جس کو ذوالیدین (دو ہاتھ والا، اگرچہ سب کے دو ہاتھ ہوتے ہیں لیکن اُس کے ہاتھ لمبے تھے اس لئے یہ نام ہو گیا)کہتے تھے ، کھڑا ہوا اور کہا کہ یا رسول اللہﷺ کیا نماز گھٹ گئی یا آپ بھول گئے ؟ رسول اللہﷺ نے یہ سن کر دائیں اور بائیں دیکھا اور فرمایا کہ ذوالیدین کیا کہتا ہے ؟ لوگوں نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ وہ سچ کہتا ہے ، آپﷺ نے دو ہی رکعتیں پڑھی ہیں۔ یہ سن کر آپﷺ نے دو رکعتیں اور پڑھیں اور سلام پھیرا پھر تکبیر کہی اور سجدہ کیا، پھر تکبیر کہی اور سر اٹھایا ،پھر تکبیر کہی اور سجدہ کیا پھر تکبیر کہی اور سر اٹھایا۔ (محمد بن سیرین) نے کہا کہ مجھے عمران بن حصین نے یہ بیان کیا اور کہا کہ اور(آخر میں) سلام پھیرا۔

باب : قرآن مجید میں (تلاوت کے ) سجدوں کا بیان۔

353: سیدنا ابنِ عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ قرآن پڑھتے تھے تو جب وہ سورت پڑھتے جس میں سجدہ کی آیت ہوتی تو سجدہ کرتے اور آپﷺ کے ساتھ جو لوگ ہوتے وہ بھی سجدہ کرتے ، یہاں تک کہ ہم میں سے بعضوں کو اپنی پیشانی رکھنے کی جگہ نہ ملتی تھی۔

354: سیدنا ابو رافعؓ  کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابو ہریرہؓ  کے ساتھ عشاء کی نماز پڑھی اور اس میں ”اذا السماء انشقت“ (سورت) تلاوت کی اور اس میں سجدہ کیا۔ (نماز کے بعد) میں نے کہا کہ یہ سجدہ تم نے کیسا کیا؟ انہوں نے کہا کہ میں نے تو یہ سجدہ رسول اللہﷺ کے پیچھے کیا ہے اور میں اس کو کرتا رہوں گا یہاں تک کہ آپﷺ سے ملوں۔ (یعنی تا حیات کرتا رہوں گا)

باب : صبح کی نماز میں (دعائے ) قنوت پڑھنے کا بیان۔

355: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ و سلم جب نماز فجر کی قرأت سے فارغ ہو جاتے تو (دوسری رکعت میں) سر مبارک رکوع سے اٹھاتے اور فرماتے کہ ”سمع اللہ لمن حمدہ ، اے ہمارے رب! سب تعریف تیرے ہی لئے ہے “ پھر کھڑے ہی کھڑے کہتے کہ ”اے اللہ! ولید بن ولید، سلمہ بن ہشام کو اور عیاش بن ابی ربیعہؓ کو (یہ سب مسلمان کفار کے ہاتھوں میں تھے ) اور مومنوں میں سے ضعیف لوگوں (یعنی جو مکہ والوں کے ہاتھ میں دبے پڑے تھے ) کو نجات دے۔ یا اللہ (قبیلہ) مضر پر اپنی پکڑ سخت کر۔ اور ان پر یوسف علیہ السلام کے زمانہ کی طرح کا قحط ڈال دے (جیسے مصر میں سات برس واقع ہوا تھا) یا اللہ لعنت کر لحیان، رعِل، ذکوان اور عصیہ پر (جنہوں نے اللہ اور اس کے رسولﷺ کی نافرمانی کی)۔ پھر ہمیں خبر پہنچی کہ آپ صل اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ بددعا چھوڑ دی۔ جب یہ آیت اتری کہ ”اے نبی! تم کو اس کام میں کچھ اختیار نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ چاہے تو ان کی توبہ قبول کرے اور چاہے تو انہیں عذاب کرے ، کیونکہ وہ ظالم ہیں“۔

باب : نمازِ ظہر وغیرہ میں قنوت پڑھنے کا بیان۔

356: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے تھے کہ میں تمہیں رسول اللہﷺ کی نماز کے قریب نماز پڑھاؤں گا۔ پھر سیدنا ابو ہریرہؓ  ظہر، عشاء اور فجر میں قنوت پڑھتے تھے اور مومنوں کے لئے دعا کرتے تھے اور کافروں پر لعنت کرتے تھے۔

باب : نمازِ مغرب میں قنوت پڑھنے کا بیان۔

357: سیدنا براء بن عازبؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ صبح اور مغرب کی نماز میں قنوت پڑھتے تھے۔

باب : فجر کی دو رکعتیں (سنتِ فجر کا بیان)۔

358: اُمّ المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ جب فجر نکل آتی تو ہلکی ہلکی دو رکعتوں (یعنی سنت فجر) کے علاوہ کچھ نہ پڑھتے تھے۔

باب : فجر کی سنتوں کی فضیلت۔

359: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نبیﷺ سے روایت کرتی ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: فجر کی دو رکعتیں دنیا اور جو کچھ (اس) دنیا میں ہے (ان سب سے ) بہتر ہیں۔

باب : فجر کی سنتوں میں قرأت کی مقدار۔

360: سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے صبح کی سنتوں میں قل یا ایُّہا الکافِرون اور قل ہو الله احد پڑھی۔

باب : فجر کی سنتوں کے بعد لیٹنا۔

361: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب نبیﷺ فجر کی سنت پڑھ چکتے تو میں اگر جاگتی ہوتی تو مجھ سے باتیں کرتے ورنہ لیٹ جاتے۔

باب : نمازِ فجر کے بعد اپنی جگہ پر بیٹھے رہنا۔

362: سماک بن حرب کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا جابر بن سمرہؓ  سے کہا کہ کیا تم رسول اللہﷺ کے پاس بیٹھتے تھے ؟ انہوں نے کہا کہ ہاں بہت۔ پھر کہا کہ آپﷺ کی عادت مبارکہ تھی کہ اپنی نماز کی جگہ بیٹھے رہتے ، صبح کے بعد جب تک کہ آفتاب نہ نکلتا۔ پھر جب سورج نکلتا تو اٹھ کھڑے ہوتے۔ اور لوگ دورِ جاہلیت کا ذکر کیا کرتے تھے اور ہنستے تھے اور آپﷺ مسکراتے رہتے تھے۔

باب : چا شت کی نماز کا بیان۔

363: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو کبھی چاشت کی نماز پڑھتے نہیں دیکھا۔ اور میں پڑھا کرتی ہوں۔ اور رسول اللہﷺ بعض کام پسند کرتے تھے مگر اس خوف سے نہ کرتے تھے کہ اگر لوگ کرنے لگیں گے تو کہیں فرض نہ ہو جائے۔

باب : نمازِ چاشت دو رکعتیں۔

364: سیدنا ابو ذرؓ  نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: جب آدمی پر صبح ہوتی ہے تو اس کے ہر جوڑ پر ایک صدقہ واجب ہوتا ہے۔ پھر ایک مرتبہ سبحان اللہ کہنا صدقہ ہے ، ایک مرتبہ الحمد للہ کہنا صدقہ ہے اور ایک مرتبہ ”لا الٰہ الا اللہ“ پڑھنا صدقہ ہے اور ایک مرتبہ ”اللہ اکبر“ کہنا صدقہ ہے اور اچھی بات کا حکم کرنا صدقہ ہے اور بُری بات سے روکنا صدقہ ہے اور چاشت کی دو رکعت نماز پڑھ لینا ان تمام امور سے کفایت کر جاتا ہے۔

باب : چاشت کی چار رکعتیں۔

365: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ چاشت کی نماز کی چار رکعتیں پڑھا کرتے تھے اور جو اللہ چاہتا زیادہ بھی کر لیا کرتے تھے۔

باب : چاشت کی آٹھ رکعتیں۔

366: عبد اللہ بن حارث بن نوفل کہتے ہیں کہ میں آرزو رکھتا اور پوچھتا پھرتا تھا کہ کوئی مجھے بتائے کہ رسول اللہﷺ نے چاشت کی نماز پڑھی ہے تو میں نے کسی کو نہ پایا جو کہ مجھ سے یہ بیان کر ے سوائے ام ہانی رضی اللہ عنہا کے۔ اُمّ ہانی رضی اللہ عنہا جو ابو طالب کی بیٹی ہیں انہوں نے خبر دی کہ فتح مکہ کے دن رسول اللہﷺ دن چڑھے آئے۔ کپڑے کا ایک پردہ آپﷺ کے لئے ڈال دیا گیا تو آپﷺ نے غسل فرمایا۔ پھر کھڑے ہو کر آٹھ رکعت نماز پڑھی۔ میں نہیں جانتی تھی کہ آپﷺ کا قیام لمبا تھا یا رکوع یا سجدہ، (تقریباً)سب برابر برابر تھے۔ اور میں نے اس سے پہلے اور بعد آپﷺ کو چاشت پڑھتے نہیں دیکھا۔

باب : نماز چاشت کی وصیت۔

367: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ میرے دوست (محمد رسول اللہﷺ) نے مجھے تین چیزوں کی وصیت فرمائی۔ 1۔ ہر مہینہ میں تین روزوں کی۔ 2۔ چاشت کی دو رکعت کی۔ 3۔ اور سونے سے پہلے وتر پڑھ لینے کی۔

باب : نمازِ اوّابین کا بیان۔

368: قاسم شیبانی سے روایت ہے کہ سیدنا زید بن ارقمؓ  نے کچھ لوگوں کو دیکھا کہ وہ چاشت کے وقت میں نماز پڑھ رہے تھے تو فرمایا: یہ لوگ خوب جانتے ہیں کہ نماز اس وقت کے علاوہ دوسرے وقت میں افضل ہے۔ نبیﷺ نے فرمایا کہ ”نمازِ اوّابین“ اس وقت ہوتی ہے جب کہ اونٹنی کے بچوں کے پاؤں جلنے لگیں۔ (یعنی سورج بلند ہو کر گرمی پیدا کر دے )۔

باب : جس نے اللہ تعالیٰ کے لئے سجدہ کیا تو اس کے لئے جنت ہے۔

369: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ جب آدمی سجدہ کی آیت پڑھتا ہے اور پھر سجدہ کرتا ہے تو شیطان روتا ہوا ایک طرف چلا جاتا ہے اور کہتا ہے کہ خرابی ہو اس کی یا میری، آدمی کو سجدہ کا حکم ہوا اور اس نے سجدہ کیا۔ اب اس کو جنت ملے گی۔ اور مجھے سجدہ کا حکم ہوا اور میں نے انکار کیا۔ اب میرے لئے جہنم ہے۔

باب : اس شخص کی فضیلت جس نے (ایک) دن اور رات میں بارہ رکعت (سنتیں) پڑھیں۔

370: اُمّ المؤمنین اُمّ حبیبہ رضی اللہ عنہا نے نبیﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ کوئی مسلمان بندہ ایسا نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے واسطے ہر دن میں بارہ رکعت سنتیں خوشی سے پڑھے سوا فرض کے۔ مگر اللہ تعالیٰ اس کے واسطے ایک گھر جنت میں بناتا ہے یا یہ فرمایا کہ اس کے لئے ایک گھر جنت میں بنایا جاتا ہے۔ اُمّ المؤمنین اُمّ حبیبہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ میں اس دن سے ہمیشہ پڑھتی ہوں اور عمرو (یعنی ابن اوس) نے کہا کہ میں بھی اس دن سے ہمیشہ پڑھتا ہوں اور نعمان (یعنی ابن سالم) نے بھی ایسا ہی کہا۔ اور ایک روایت میں ہے کہ ”ایک دن اور رات میں بارہ رکعت“۔

باب : ہر دو اذانوں (یعنی اذان اور تکبیر) کے مابین نماز ہے۔

371: سیدنا عبد اللہ بن مغفل المزنیؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ہر دو اذانوں کے مابین نماز ہے۔ آپﷺ نے یہ بات تین مربہ ارشاد فرمائی۔ تیسری بار فرمایا جو چاہے پڑھ لے۔

باب : نماز سے پہلے اور بعد میں نوافل پڑھنا۔

372: سیدنا ابن عمرؓ  کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کے ساتھ ظہر سے پہلے دو رکعتیں اور ظہر کے بعد دو رکعت (سنت) پڑھیں اور مغرب کے بعد دو رکعتیں اور عشاء کے بعد دو رکعتیں اور جمعہ کے بعد دو رکعتیں پڑھیں۔ لیکن مغرب، عشاء اور جمعہ کی دو دو رکعتیں نبیﷺ کے ساتھ گھر میں پڑھیں۔

باب : رات اور دن میں نوافل پڑھنا۔

373: سیدنا عبد اللہ بن شفیقؓ  کہتے ہیں کہ میں نے اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے رسول اللہﷺ کی نفل نماز کا حال پوچھا تو انہوں نے فرمایا: آپﷺ میرے گھر میں ظہر سے پہلے چار رکعت نماز پڑھتے تھے ، پھر نکلتے اور لوگوں کے ساتھ فرض نماز پڑھتے ، پھر گھر میں آ کر دو رکعت پڑھتے۔ اور لوگوں کے ساتھ مغرب کی نماز پڑھتے ، پھر گھر میں آ کر دو رکعت پڑھتے۔ اور عشاء کی نماز لوگوں کے ساتھ پڑھتے اور گھر میں آ کر دو رکعت پڑھتے۔ اور رات کو نو رکعت پڑھتے کہ اسی میں وتر ہوتا۔ اور بڑی رات تک کھڑے ہو کر پڑھتے اور بڑی رات تک بیٹھ کر جب کھڑے ہو کر قرأت کرتے تو رکوع اور سجدہ بھی کھڑے ہو کر کرتے اور جب قرأت بیٹھ کر کرتے تو سجدہ اور رکوع بھی بیٹھ کر کرتے اور جب فجر نکلتی تو دو رکعت پڑھتے۔

باب : مسجد میں نفل نماز پڑھنا۔

374: سیدنا زید بن ثابتؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے کھجور کے پتوں وغیرہ کا یا  بورئیے کا ایک حجرہ بنایا اور آ کر اس میں نماز پڑھنے لگے۔ بہت سے صحابہ کرام آئے اور آپﷺ کی اقتداء میں نماز پڑھنے لگے۔ سیدنا زید بن ثابت کہتے ہیں: پھر ایک رات بہت سے صحابہ آئے اور آپﷺ نے دیر کی اور ان کی طرف نہ نکلے اور لوگوں نے آپﷺ کی طرف آوازیں بلند کیں اور دروازہ پر کنکریاں ماریں تو رسول اللہﷺ ان کی طرف غصہ سے نکلے اور ان سے فرمایا کہ تمہاری یہ حالت ایسی ہی رہتی تو مجھے گمان ہو گیا تھا کہ یہ نماز بھی تم پر فرض ہو جائے گی۔ تم اپنے گھروں میں نماز پڑھو اس لئے کہ سوائے فرض کے آدمی کی بہتر نماز وہی ہے جو گھر میں پڑھے۔ (کہ یہ ریا سے دور ہے )۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ نبیﷺ نے چٹائی سے مسجد میں ایک حجرہ بنایا۔

باب : نفل نماز گھروں میں پڑھنے کا بیان۔

375: سیدنا جابر بن عبد اللہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جب کوئی شخص اپنی مسجد میں نماز پڑھے تو کچھ حصہ اپنے گھر میں پڑھنے کے لئے بچا کر رکھے (یعنی سنت و نوافل) اس لئے کہ اللہ تعالیٰ اس کی نماز سے اس کے گھر میں بہتری کرے گا۔

باب : خوشی سے نوافل پڑھو۔ جب سست ہو جاؤ یا تھک جاؤ تو بیٹھ جاؤ۔

376: سیدنا انسؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ و سلم مسجد میں داخل ہوئے اور ایک رسی دو ستونوں کے درمیان لٹکی ہوئی دیکھی تو فرمایا کہ یہ کیا ہے ؟ لوگوں نے عرض کیا کہ یہ اُمّ المؤمنین زینب رضی اللہ عنہا کی رسی ہے اور وہ نماز پڑھتی رہتی ہیں۔ پھر جب سست ہو جاتی ہیں یا تھک جاتی ہیں تو اس کو پکڑ لیتی ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ اس کو کھول ڈالو، چاہئیے کہ تم میں سے ہر ایک اپنی خوشی کے موافق نماز پڑھے۔ پھر جب سست ہو جائے یا تھک جائے تو بیٹھ رہے۔

باب : اللہ کو وہ عمل پسند ہے جو ہمیشہ کیا جائے۔

377: علقمہ کہتے ہیں کہ میں نے اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ رسول اللہﷺ کی عبادت کا کیا حال تھا؟ آیا کسی دن کو عبادت کے لئے خاص فرماتے تھے ؟ انہوں نے کہا کہ نہیں بلکہ ان کی عبادت ہمیشہ تھی۔ اور تم میں سے کون آپﷺ کی سی عبادت کر سکتا ہے جو آپﷺ کر سکتے تھے ؟

باب : اسی قدر عمل اختیار کرو جتنی طاقت ہو۔

378: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ کی موجودگی میں حولاء بنت تویت ان کے پاس سے گزریں تو میں نے نبیﷺ سے عرض کیا کہ یہ حولاء بنت تویت ہیں، اور لوگ کہتے ہیں کہ یہ رات بھر نہیں سوتی (عبادت کرتی ہیں) آپﷺ نے فرمایا کہ اس قدر عمل اختیار کرو جس قدر تمہیں طاقت ہو۔ اور قسم ہے اللہ کی کہ تم تھک جاؤ گے اور اللہ (اجرو ثواب دے دیکر) نہیں تھکے گا۔

باب : نبی اکرمﷺ کی رات کی نماز اور آپﷺ کی دعائیں۔

379: سیدنا ابن عباسؓ  کہتے ہیں کہ ایک رات میں اپنی خالہ اُمّ المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا کے پاس رہا (اس لئے کہ نبیﷺ کی تہجد کی نماز دیکھیں) اور نبیﷺ رات کو اٹھے اور اپنی قضاء حاجت کو گئے ،پھر اپنا ہاتھ منہ دھویا اور پھر سو رہے پھر آپﷺ اٹھے اور مشک کے پاس آ کر اس کا بندھن کھولا پھر دو وضوؤں کے بیچ کا وضو کیا (یعنی نہ بہت مبالغہ کا نہ بہت ہلکا) اور زیادہ پانی نہیں گرایا اور پورا وضو کیا۔ پھر کھڑے ہو کر نماز پڑھنی شروع کی۔ اور میں بھی اٹھا اور انگڑائی لی کہ کہیں نبیﷺ یہ نہ سمجھیں کہ یہ ہمارا حال دیکھنے کے لئے ہوشیار تھا (اس سے یہ معلوم ہوا کہ صحابہ کو نبیﷺ کے ساتھ علم غیب کا عقیدہ نہ تھا جیسے اب جاہلوں کو انبیاء اور اولیاء کے ساتھ ہے ) اور میں نے وضو کیا اور آپﷺ کی بائیں طرف کھڑا ہو گیا۔ اور آپﷺ نے میرا ہاتھ پکڑا اور گھما کر اپنی داہنی طرف کھڑا کر لیا۔ (اس سے معلوم ہوا کہ ایک مقتدی ہو تو امام کی داہنی طرف کھڑا ہو) غرض کہ رسول اللہﷺ کی نماز رات کو تیرہ رکعت پوری ہوئی پھر آپﷺ لیٹ رہے اور سو گئے یہاں تک کہ خراٹے لینے لگے۔ اور آپﷺ کی عادت مبارکہ تھی کہ جب سو جاتے تھے تو خراٹے لیتے تھے۔ پھر سیدنا بلالؓ  آئے اور آپﷺ کو صبح کی نماز کے لئے آگاہ کیا تو آپﷺ اٹھے اور نماز (سنت فجر) ادا کی اور وضو نہیں کیا اور ان الفاظ سے دعا مانگی ”اے اللہ میرے دل میں نور پیدا کر دے اور آنکھ میں نور اور کان میں نور اور میرے دائیں نور اور میرے بائیں نور اور میرے اوپر نور اور میرے نیچے نور اور میرے آگے نور اور پیچھے نور اور بڑھا دے میرے لئے نور“ کریب (راوی حدیث) نے کہا کہ سات لفظ اور فرمائے تھے کہ وہ میرے دل میں ہیں (یعنی منہ پر نہیں آتے اس لئے کہ میں بھول گیا) پھر میں نے سیدنا ابن عباسؓ  کی بعض اولاد سے ملاقات کی تو انہوں نے مجھ سے بیان کیا کہ وہ الفاظ یہ ہیں ”میرا پٹھا اور میرا گوشت اور میرا لہو اور میرے بال اور میری کھال اور دو چیزیں اور ذکر کیں (یعنی ان سب میں نبیﷺ نے نور مانگا)۔

380: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ جب رات کو نماز شروع کرتے تو پہلے دو ہلکی سی رکعتیں پڑھ لیتے۔

باب : نبی رحمتﷺ کی دعا جب آپﷺ رات کو قیام فرماتے۔

381: سیدنا ابن عباسؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ جب رات کو نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو فرماتے کہ ”اے اللہ سب خوبیاں تیرے ہی لئے ہیں۔ تو آسمان اور زمین کی روشنی ہے اور تجھی کو تعریف ہے ، تو آسمان اور زمین کا تھامنے والا ہے۔ تجھی کو تعریف ہے ، تو آسمان و زمین اور جو ان میں ہیں سب کا پالنے والا ہے ، تو سچا ہے ، تیرا وعدہ سچا ہے تیری بات سچی ہے ، تیری ملاقات سچی ہے ، جنت سچ ہے ، دوزخ سچ ہے قیامت سچ ہے۔ یا اللہ میں تیری بات مانتا ہوں، تجھ پر ایمان لاتا ہوں، تجھ پر بھروسہ کرتا ہوں، تیری طرف جھکتا ہوں، تیرے ساتھ ہو کر اوروں سے جھگڑتا ہوں، اور تجھ ہی سے فیصلہ چاہتا ہوں۔ سو تو میرے اگلے پچھلے ، چھپے کھلے گناہوں کو بخش دے یا اللہ تو ہی میرا معبود ہے تیرے سوا کوئی معبود نہیں“۔

باب : رات کی نماز کی کیفیت اور رکعات کی تعداد۔

382: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ رات کو تیرہ رکعت پڑھتے۔ ان میں سے پانچ وتر ہوتیں اور صرف آخر میں بیٹھے (یعنی پانچ رکعات وتر ایک تشہد سے پڑھتے )۔

باب : رات کی نماز دو دو رکعت ہے اور وتر ایک رکعت ہے رات کے آخر میں۔

383: سیدنا ابن عمرؓ  سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہﷺ سے رات کی نماز کے بارے میں پوچھا تو آپﷺ نے فرمایا: رات کی نماز دو دو رکعت ہے۔ پھر جب خیال ہو کہ صبح ہو چلی تو ایک رکعت پڑھ لے کہ وہ (ایک رکعت) اس ساری نماز کو جو اُس نے پڑھی، وتر کر دے گی۔

باب : رات کی نماز کھڑے ہو کر اور بیٹھ کر پڑھنا۔

384: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو رات کی نماز میں بیٹھ کر قرأت کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ پھر جب بوڑھے ہو گئے تو بیٹھے بیٹھے قرأت کرتے ، یہاں تک کہ جب سورت کی تیس یا چالیس آیتیں رہ جاتیں تو کھڑے ہو کر پڑھتے ، پھر رکوع کرتے۔

باب : آدمی کا پوری رات سونے کی کراہیت کہ اس میں کوئی نماز نہ پڑھے۔

385: سیدنا عبد اللہ بن مسعودؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کے پاس ایک شخص کا ذکر کیا گیا کہ وہ صبح تک سوتا ہے (یعنی تہجد کو نہیں اٹھتا) تو آپﷺ نے فرمایا کہ اس کے کان میں یا دونوں کانوں میں شیطان پیشاب کر جاتا ہے۔

باب : جب نماز میں اونگھ آنے لگے تو سو جائے۔

386: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا کہ جب تم میں سے کسی کو نماز میں اونگھ آ جائے تو چاہئیے کہ سو رہے یہاں تک کہ اس کی نیند جاتی رہے۔ اس لئے کہ جب تم میں سے کوئی اونگھنے لگتا ہے تو گمان ہے کہ وہ مغفرت مانگنے کا ارادہ کرے اور اپنی جان کو گالیاں دینے لگے۔

باب : شیطان کی گرہ کیسے کھلتی ہے ؟

387: سیدنا ابو ہریرہؓ  نبیﷺ سے مرفوعاً بیان کرتے ہیں کہ تم میں سے (جب کوئی سو جاتا ہے ) تو شیطان ہر ایک کی گردن پر تین گرہیں لگاتا ہے۔ ہر گرہ پر پھونک دیتا ہے کہ ابھی رات بہت ہے۔ پھر جب کوئی جاگا اور اس نے اللہ کو یاد کیا تو ایک گرہ کھل گئی۔ اور جب وضو کیا تو دو گرہیں کھل گئیں۔ اور جب نماز پڑھی تو سب گرہیں کھل گئیں۔ پھر وہ صبح کو ہشاش بشا ش خوش مزاج اٹھتا ہے اور نہیں تو گندہ دل سست ہو کر اٹھتا ہے۔

باب : رات میں ایک گھڑی ایسی ہے جس میں دعا (ضرور) قبول ہوتی ہے۔

388: سیدنا جابرؓ  کہتے ہیں کہ میں نے نبیﷺ سے سنا آپﷺ فرماتے تھے : رات میں ایک گھڑی ایسی ہے کہ اس وقت جو مسلمان آدمی اللہ تعالیٰ سے دنیا و آخرت کی بھلائی مانگے ، اللہ تعالیٰ اس کو عطا کرتا ہے اور یہ (گھڑی) ہر رات میں ہوتی ہے۔

باب : رات کے آخری حصہ میں دعا اور ذکر کی ترغیب اور اس میں دعا کی قبولیت کا بیان۔

389: سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جب اوّل تہائی رات گزر جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ ہر رات کو آسمانِ دنیا کی طرف اترتا ہے اور فرماتا :”میں بادشاہ ہوں“ ”میں بادشاہ ہوں“ ، کون ہے جو مجھ سے دعا کرے کہ میں قبول کروں؟ کون ہے جو مجھ سے مانگے کہ میں اسے دوں؟ کون ہے جو مجھ سے مغفرت مانگے کہ میں اسے بخش دوں؟ غرض کہ صبح روشن ہونے تک ایسا ہی فرماتا رہتا ہے۔

باب : رات کی نماز کا جامع بیان اور جو شخص اس سے سو جائے یا بیمار ہو جائے۔

390: زرارہ سے روایت ہے کہ سیدنا سعد بن ہشام بن عامر نے چاہا کہ اللہ کی راہ میں جہاد کرے اور مدینہ کو آئے اور مدینہ میں اپنی زمین اور باغ وغیرہ فروخت کریں تاکہ اس سے ہتھیار اور گھوڑے خریدیں اور نصاریٰ سے مرتے دم تک لڑیں۔ پھر جب مدینہ آئے اور مدینہ والوں سے ملے تو انہوں نے ان کو منع کیا، (یعنی بالکل کاروبارِ دنیا اور ضروریاتِ بشریٰ چھوڑ کر ایسا نہ کرنا چاہئیے ) اور خبر دی کہ نبیﷺ کی زندگی میں چھ آدمیوں نے اس کا ارادہ کیا تھا تو آپﷺ نے انکو منع کیا اور فرمایا کہ کیا تمہارے لئے میری راہ اچھی نہیں؟ پھر جب لوگوں نے ان سے یہ کہا تو انہوں نے اپنی بیوی سے جس کو طلاق دے چکے تھے ، گواہوں کی موجودگی میں رجوع کر لیا۔ پھر وہ سیدنا ابن عباسؓ  کے پاس آئے اور ان سے رسول اللہﷺ کے وتر کا حال پوچھا تو انہوں نے کہا کہ میں تمہیں ایسا شخص نہ بتا دوں کہ جو ساری زمین کے لوگوں سے زیادہ رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ و سلم کے وتر کا حال بہتر جانتا ہے ؟ انہوں نے کہا کہ کون ہے ؟ سیدنا ابن عباسؓ  نے کہا کہ وہ اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ہیں، سو تم ان کے پاس جاؤ، ان سے پوچھو، اور پھر ان کے جواب سے مجھے بھی آ کر مطلع کر دینا۔ پھر میں (سعد بن ہشام) ان کے پاس سے چلا اور حکیم بن افلح کے پاس آیا اور ان سے چاہا کہ وہ مجھے اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے پاس لے چلیں۔ انہوں نے کہا کہ میںﷺ ن کے پاس نہیں جاتا اس لئے کہ میں نے انہیں ان دونوں گروہوں (یعنی صحابہؓ کی آپس کی لڑائیوں) میں بولنے سے منع کیا تھا مگر انہوں نے نہ مانا اور چلی گئیں۔ (سعد بن ہشام نے ) کہا کہ میں نے حکیم کو قسم دی تو وہ تیار ہو گئے ، اور ہم (دونوں) اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی طرف چلے اور انہیں اطلاع کی تو انہوں نے اجازت دے دی اور ہم ان کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ تب انہوں نے کہا کہ کیا یہ حکیم ہیں؟ انہوں نے کہا ہاں۔ غرض اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے انہیں پہچان لیا۔ (یعنی آواز وغیرہ سے پردہ کی آڑ سے ) پھر انہوں نے فرمایا کہ تمہارے ساتھ کون ہے ؟ سیدنا حکیم نے کہا کہ میرے ساتھ سعد بن ہشام ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہشام کون سے ؟ حکیم نے کہا کہ عامر کے بیٹے۔ تب ان پر رحمت کی دعا کی اور قتادہ نے کہا کہ وہ جنگ احد میں شہید ہوئے تھے۔ پھر میں نے عرض کیا کہ اے اُمّ المؤمنین! مجھے رسول اللہﷺ کے اخلاق کے بارے میں بتلائیے ؟ انہوں نے کہا کہ کیا تم نے قرآن نہیں پڑھا؟ میں (سعد) نے کہا کہ کیوں نہیں؟ انہوں نے کہا کہ رسول اللہﷺ کا اخلاق قرآن تھا۔ انہوں نے کہا کہ پھر میں نے چلنے کا ارادہ کیا اور چاہا کہ موت کے وقت تک اب کسی چیز کے بارے میں نہ پوچھوں۔ پھر مجھے خیال آیا تومیں نے عرض کیا کہ مجھے رسول اللہﷺ کے رات کے وقت اٹھنے (اور نماز پڑھنے ) کے بارے میں بتلائیے۔ تو اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ کیا تم نے یا ایُّہا المزمّل نہیں پڑھی؟ میں نے کہا کہ کیوں نہیں۔ انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے اس سورت کے شروع میں رات کو کھڑے ہو کر (نماز) پڑھنے کو فرض کیا۔ پھر نبیﷺ اور آپﷺ کے صحابہؓ رات کو نماز پڑھتے رہے اور اللہ تعالیٰ نے اس سورت کا خاتمہ (آخری آیتیں) بارہ مہینے تک آسمان پر روکے رکھا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اس سورت کا آخر اتارا اور اس میں تخفیف فرمائی۔ (یعنی تہجد کی فرضیت معاف کر دی اور مسنون ہونا باقی رہا) پھر رات کو نماز (تہجد) پڑھنا فرض ہونے کے بعد خوشی کا سودا ہو گیا (نفل ہو گیا)۔ پھر میں نے عرض کیا کہ اے اُمّ المؤمنین! مجھے رسول اللہﷺ کے وتر کے بارے میں بھی بتلائیے۔ تو انہوں نے کہا کہ ہم لوگ آپﷺ کے لئے مسواک اور وضو کا پانی تیار رکھتے تھے اور اللہ تعالیٰ آپﷺ کو رات کو جب چاہتا اٹھا دیتا تھا۔ پھر آپﷺ مسواک کرتے تھے اور وضو کرتے ، پھر نو رکعت پڑھتے تھے۔اس میں نہ بیٹھتے مگر آٹھویں رکعت میں بعد اور اللہ تعالیٰ کو یاد کرتے اور اس کی حمد و ثناء کرتے اور دعاء کرتے (یعنی تشہد پڑھتے ) پھر سلام نہ پھیرتے اور کھڑے ہو جاتے اور نویں رکعت پڑھتے ، پھر بیٹھتے اور اللہ کو یاد کرتے اور اس کی تعریف کرتے اور اس سے دعا کرتے اور اس طرح سلام پھیرتے کہ ہم کو سنا دیتے (تا کہ سوتے جاگ اٹھیں) پھر سلام کے بعد بیٹھے بیٹھے دو رکعت پڑھتے ، غرض یہ گیارہ رکعات ہوئیں۔ اے میرے بیٹے ! پھر جب آپﷺ کا سِن (عمر مبارک) زیادہ ہو گیا اور بدن میں گوشت آگیا تو سات رکعت وتر پڑھنے لگے اور رکعتیں ویسی ہی پڑھتے جیسی پہلے پڑھتے تھے۔ غرض یہ سب نو رکعتیں ہوئیں۔ اے میرے بیٹے (یعنی سات وتر اور تہجد اور دو رکعت وتر کے بعد) اور آپﷺ کی عادت تھی کہ جب کوئی نماز پڑھتے تو اس پر ہمیشگی کرتے اور جب آپﷺ پر نیند یا کسی درد کا غلبہ ہوتا جس کی وجہ سے رات کو نہ اٹھ سکتے تو دن کو بارہ رکعات ادا کرتے (یعنی وتر نہ پڑھتے اس سے ثابت ہوا کہ وتر کی قضا نہیں) اور میں نہیں جانتی کہ نبیﷺ نے کبھی سارا قرآن ایک رات میں پڑھ لیا ہو (اس سے ایک شب میں قرآن ختم کرنا بدعت ثابت ہوا) نہ یہ جانتی ہوں کہ ساری رات آپﷺ نے صبح تک نماز پڑھی (یعنی ذرا بھی نہ سوئے نہ آرام لیا ہو) اور نہ یہ کہ رمضان کے سوا (کوئی اور) سارا مہینہ روزہ رکھا ہو۔ پھر میں سیدنا ابن عباسؓ  کے پاس گیا اور ان سے یہ ساری حدیث بیان کی تو انہوں نے کہا کہ بیشک اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے سچ فرمایا۔ اور کہا کہ اگر میں ان کے پاس ہوتا یا ان کے پاس جاتا تو یہ حدیث بالمشافہ سنتا۔ سعد نے کہا کہ اگر مجھے یہ معلوم ہوتا کہ آپ ان کے پاس نہیں جاتے تو میں کبھی ان کی بات آپ سے نہ کہتا۔

باب : نمازِ وتر کے بارے میں۔

391: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے وتر اوّل رات میں اور درمیان میں اور آخر رات میں سب وقتوں میں ادا کئے ہیں، یہاں تک کہ فجر کے وقت تک۔

باب : وتر اور فجر کی دو سنتوں کے بارے میں۔

392: سیدنا انس بن سیرینؓ  کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابن عمرؓ  سے پوچھا کہ مجھے صبح کی نماز سے پہلے کی دو رکعتوں کے بارے میں بتلائیے ، کیا میں ان میں طویل قرأت کروں؟ سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ  نے کہا کہ رسول اللہﷺ رات کو دو دو رکعت پڑھا کرتے تھے اور وتر ایک رکعت پڑھتے تھے۔ (ابن سیرین)کہتے ہیں کہ میں نے کہا کہ میں یہ نہیں پوچھتا۔ سیدنا عبد اللہؓ نے کہا کہ تم موٹے آدمی ہو (یعنی موٹی عقل والے ہو کہ بات کے درمیان ہی میں بول اٹھے ) کیا تم مجھے (پوری) حدیث بیان کرنے کی فرصت نہیں دیتے ؟ رسول اللہﷺ رات کو دو دو رکعت پڑھتے تھے ، اور ایک وتر ادا کرتے تھے اور دو رکعت صبح کی فرض نماز سے پہلے ایسے وقت پڑھتے کہ تکبیر آپﷺ کے کان میں ہوتی (یعنی تکبیر کے وقت پڑھتے اور ظاہر ہے کہ اس وقت جو نماز ہو گی نہایت خفیف ہو گی)۔

باب : جس کو ڈر ہے کہ وہ آخر رات نہیں اٹھ سکے گا تو وہ وتر کو اول رات میں پڑھ لے۔

393: سیدنا جابرؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس کو اس بات کا خوف ہو کہ آخر شب میں نہ اٹھ سکے گا تو اوّل شب میں (عشاء کے بعد) وتر پڑھ لے۔ اور جس کو امید ہو کہ آخر شب میں اٹھے گا تو چاہئیے کہ وتر آخر شب میں پڑھے ، اس لئے کہ شب کی نماز ایسی ہے کہ اس میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں اور یہ افضل ہے۔

باب : صبح سے پہلے وتر پڑھ لیا کرو۔

394: سیدنا ابو سعید خدریؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: وتر صبح سے پہلے وتر پڑھ لیا کرو۔

باب : نماز میں قرآن مجید پڑھنے کی فضیلت۔

395: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ کیا تم میں سے کوئی یہ پسند کرتا ہے کہ جب وہ اپنے گھر کی طرف لوٹے تو اس میں تین موٹی حاملہ اونٹنیاں پائے ؟ ہم نے عرض کیا کہ جی ہاں۔ تو آپﷺ نے فرمایا ”تم میں سے کسی کا نماز میں تین آیات کا پڑھنا تین موٹی تازی حاملہ اونٹنیوں سے بہتر ہے۔

باب : ان ایک جیسی سورتوں کے متعلق جن میں سے دو سورتیں ایک رکعت میں پڑھے گا۔

396: سیدنا ابو وائلؓ  کہتے ہیں کہ ہم ایک دن فجر کی نماز پڑھ کر صبح صبح عبد اللہ بن مسعودؓ  کے گھر گئے۔پس ہم نے دروازے پر کھڑے ہو کر سلام کہا تو ہمیں اجازت دے دی گئی۔ ابو وائل کہتے ہیں کہ ہم تھوڑی دیر دروازے پر ٹھہرے رہے تو ایک بچی نکلی۔ کہنے لگی کہ آپﷺ ندر داخل کیوں نہیں ہوتے ؟ چنانچہ ہم اندر داخل ہو گئے تو دیکھا کہ عبد اللہ بن مسعودؓ  بیٹھے تسبیح پڑھ رہے تھے ، فرمانے لگے کہ جب تمہیں اجازت دے دی گئی تھی تو تمہیں اندر داخل ہونے سے کس چیز نے روکا؟ ہم نے کہا اور کچھ نہیں ہم نے خیال کیا کہ آپ کے بعض گھر والے سوئے ہوں گے۔ عبد اللہ بن مسعودؓ فرمانے لگے کہ تم نے ابن ام عبد کے اہل خانہ کو غافل خیال کیا ہے ؟ پھر وہ تسبیح میں مشغول ہو گئے یہاں تک کہ انہوں نے گمان کیا کہ سورج نکل آیا ہے۔ آپ نے بچی سے کہا دیکھو سورج نکل آیا ہے ؟ ابو وائل کہتے ہیں پس اس نے دیکھ کر کہا کہ نہیں ابھی سورج طلوع نہیں ہوا۔ وہ پھر تسبیح میں مشغول ہو گئے یہاں تک کہ انہوں نے گمان کیا کہ سورج نکل آیا ہے۔ آپ نے پھر بچی سے کہا ، دیکھو سورج نکل آیا ہے ؟ تو اس نے دیکھ کر کہا ، جی ہاں سورج طلوع ہو چکا ہے تو فرمانے لگے کہ تمام تعریف اللہ رب العالمین کے لئے ہے جس نے معاف کر دیا ہم کو ہمارے اس دن میں۔ مہدی کہتے ہیں، میرا خیال ہے کہ عبد اللہ بن مسعودؓ  نے کہا ”اور ہمیں ہمارے گناہوں کے سبب ہلاک نہیں کیا“۔ تو لوگوں میں سے ایک آدمی نے کہا کہ میں نے آج کی رات ساری کی ساری مفصل سورتیں پڑھی ہیں۔ تو عبد اللہ بن مسعودؓ  نے کہا ھذا کھذ الشعر تم نے ایسے پڑھا جیسا کوئی شعر پڑھتا ہے۔ ہم نے البتہ قرائن کو سنا ہے اور مجھے وہ قرائن یاد ہیں جنہیں نبی کریمﷺ پڑھا کرتے تھے۔ وہ اٹھارہ سورتیں مفصل کی اور دو سورتیں آل حم سے ہیں۔ (قِران سے وہ سورتیں مراد ہیں جنہیں نبیﷺ دو دو سورتیں ملا کر ایک رکعت میں پڑھا کرتے تھے )

باب : رمضان کی نماز کے بارے میں کیا آیا ہے ؟

397: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ (تقریباً) آدھی رات کو نکلے اور مسجدمیں نماز پڑھی اور چند لوگوں نے آپﷺ کے ساتھ نماز ادا کی۔ پھر صبح لوگ اس کا ذکر کرنے لگے اور دوسرے دن اس سے زیادہ لوگ جمع ہوئے۔ اور رسول اللہﷺ بھی نکلے ، پھر لوگوں نے آپﷺ کے ساتھ نماز ادا کی اور صبح کو لوگ اس کا ذکر کرنے لگے۔ پھر تیسری رات میں مسجد میں زیادہ لوگ جمع ہوئے اور رسول اللہﷺ نکلے اور آپﷺ کے ساتھ لوگوں نے نماز ادا کی۔ پھر جب چوتھی رات ہوئی اور لوگ اس قدر جمع ہوئے کہ مسجد تنگ پڑ گئی اور رسول اللہﷺ نہ نکلے تو لوگ ”نماز،نماز“ پکارنے لگے اور آپﷺ نہ نکلے یہاں تک کہ صبح کی نماز کو آئے پھر جب نماز پڑھ چکے تو لوگوں کی طرف منہ کیا اور شہادتین پڑھا اور حمد و صلوٰۃ کے بعد فرمایا کہ معلوم ہو کہ تمہارا آج کی رات کا حال مجھ پر کچھ پوشیدہ نہ تھا مگر میں نے خوف کیا کہ تم پر رات کی نماز (تراویح) فرض نہ ہو جائے اور تم اس کی ادائیگی سے عاجز ہو جاؤ۔ اور ایک روایت میں ہے کہ یہ رمضان کا واقعہ تھا۔

باب : قیام رمضان کا بیان اور اس میں ترغیب دلانا۔

398: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ رمضان میں تراویح پڑھنے کی ترغیب دیتے تھے تاکیداً حکم نہیں دیتے تھے اور فرماتے : جو رمضان میں ایمان کے ساتھ اور ثواب حاصل کرنے کے لئے نماز پڑھے تو اس کے اگلے گناہ بخشے جائیں گے پھر رسول اللہﷺ نے انتقال فرمایا اور معاملہ اسی طرح تھا پھر سیدنا ابو بکرؓ  کی خلافت میں بھی یہی طریقہ رہا۔ پھر سیدنا عمرؓ  کی شروع خلافت میں بھی یہی طریقہ رہا (یعنی جس کا دل چاہتا رات کو نماز پڑھتا)۔

 

 

کتاب: جمعہ کے مسائل

 

باب : جمعہ کے دن کے بارے (اللہ تعالیٰ کی طرف سے ) اس امت کی رہنمائی۔

399: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ہم سب سے پیچھے ہیں اور قیامت کے دن سب سے آگے ہو جانے والے ہیں۔ اور ہم جنت میں سب سے پہلے داخل ہوں گے۔ مگر البتہ اتنی بات ہے کہ ان لوگوں کو کتاب ہم سے پہلے ملی ہے اور ہمیں ان کے بعد ملی۔ اور انہوں نے سچی بات میں اختلاف کیا سو یہ جمعہ کا دن وہی ہے جس میں انہوں نے اختلاف کیا اور اللہ نے ہمیں ہدایت دی پھر یہ جمعہ کا دن تو ہمارے لئے اور دوسرا دن یہود کا (یعنی ہفتہ) اور تیسرا دن نصاریٰ کا (یعنی اتوار۔ جو انہوں نے اپنے لئے مقرر کئے )۔

باب : جمعہ کے دن کی فضیلت۔

400: سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: ان دنوں میں سے بہتر دن، جن میں سورج نکلتا ہے ، جمعہ کا دن ہے۔ اسی دن آدم علیہ السلام پیدا ہوئے اور اسی دن جنت میں داخل کئے گئے اور اسی دن وہاں سے نکالے گئے۔ اور قیامت بھی اسی جمعہ کے دن قائم ہو گئی۔

باب : جمعہ کے دن ایک خاص گھڑی (وقت) کا بیان۔

401: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ ابو القاسمﷺ نے فرمایا کہ جمعہ میں ایک ساعت ایسی ہے کہ جو مسلمان اس وقت کھڑا نماز پڑھتا ہو اور اللہ سے کوئی بھلائی کی چیز مانگے تو بیشک اللہ تعالیٰ اس کو عطا کرے گا۔ اور (راوی نے ) کہا کہ آپﷺ نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا کہ وہ بہت تھوڑی ہے اور اس کی رغبت دلاتے تھے۔

402: سیدنا ابو بردہ بن ابی موسیٰ اشعریؓ  نے کہا کہ مجھ سے سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ  نے کہا کہ تم نے اپنے والد سے جمعہ کی ساعت کے بارے میں کچھ سنا ہے جو وہ رسول اللہﷺ سے بیان کرتے ہوں؟ میں نے کہا کہ ہاں میں نے ان سے سنا ہے ، وہ کہتے تھے کہ میں نے رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا، آپﷺ فرماتے تھے کہ وہ گھڑی امام کے خطبہ کے لئے بیٹھنے سے نماز پڑھی جانے تک ہے۔

باب : جمعہ کے دن نمازِ فجر میں کیا پڑھا جائے ؟

403: سیدنا ابن عباسؓ  سے روایت ہے کہ نبیﷺ جمعہ کے دن فجر کی نماز میں آ لٓ مٓ  سجدۃ اور ہَلْ اَتٰی عَلَی الاِنْسَانِ حِیْنَ مِنَ الدَّھْرِ پڑھتے تھے اور نماز جمعہ میں سورۃ الجمعہ اور المنافقون پڑھا کرتے تھے۔

باب : جمعہ کے دن غسل کے بارے میں۔

404: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ سیدنا عمرؓ  ایک دن لوگوں کو جمعہ کا خطبہ دے رہے تھے کہ سیدنا عثمان بن عفانؓ  آئے اور سیدنا عمرؓ  نے ان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ کیا حال ہو گا ان لوگوں کا جو اذان کے بعد دیر لگاتے ہیں؟ تو سیدنا عثمانؓ  نے کہا کہ اے امیر المؤمنین! جب میں نے اذان سنی تو اور کچھ نہیں کیا سوا وضو کے ، کہ وضو کیا اور آیا۔ سیدنا عمر فاروقؓ  نے کہا کہ صرف وضو ہی کیا؟ کیا لوگوں نے نہیں سنا کہ رسول اللہﷺ فرماتے تھے کہ جب کوئی جمعہ کو آئے تو ضرور نہائے۔

باب : جمعہ کے دن خوشبو اور مسواک کا بیان۔

405: سیدنا ابو سعید خدریؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جمعہ کے دن نہانا اور مسواک کرنا ہر بالغ پر واجب ہے۔ اور خوشبو میسر ہو تو وہ بھی لگانی چاہیئے۔

باب : جمعہ کے دن اول وقت میں آنے والے کی فضیلت۔

406: سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جب جمعہ کا دن ہوتا ہے تو مسجد کے دروازوں میں سے ہر دروازہ پر فرشتے لکھتے ہیں کہ فلاں سب سے پہلے آیا، اس کے بعد وہ آیا، اس کے بعد وہ آیا، پھر جب امام منبر پر بیٹھ جاتا ہے تو سب فرشتے اعمال نامے لپیٹ دیتے ہیں اور آ کر خطبہ سننے لگتے ہیں۔ اور جو اوّل وقت آیا اس کے ثواب کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی ایک اونٹ کی قربانی کرے۔ اس کے بعد جو آیا وہ ایسا ہے جیسے کوئی ایک گائے قربان کرے۔اس کے بعد جو آئے وہ ایسے ہے جیسے مینڈھا قربان کرے۔ اس کے بعد جو آئے وہ ایسا ہے جیسے کوئی مرغی قربان کرے۔ اس کے بعد جو آئے وہ ایسا ہے جیسے کوئی ایک انڈا اللہ کی راہ میں قربان کرے۔

باب : جمعہ کی نماز کا وقت اس وقت ہے جب سورج ڈھل جائے۔

407: سیدنا سلمہ بن اکوعؓ  کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ جمعہ اس وقت پڑھتے تھے جب سورج ڈھل جاتا تھا۔ پھر سایہ ڈھونڈھتے ہوئے لوٹتے تھے (یعنی دیواروں کا سایہ نہ ہوتا تھا)۔

باب : رسول اللہﷺ کا منبر بنوانا اور نماز میں اس پر کھڑے ہونے کا بیان۔

408: سیدنا ابو حازم سے روایت ہے کہ کچھ لوگ سیدنا سہل بن سعدؓ  کے پاس آئے اور منبر کے بارے میں جھگڑنے لگے کہ وہ کس لکڑی کا تھا۔ انہوں نے کہا کہ میں جانتا ہوں وہ جس لکڑی کا تھا اور جس نے اسے بنایا۔ اور میں نے دیکھا جب پہلی بار رسول اللہﷺ اس پر بیٹھے۔ (ابو حازم کہتے ہیں) میں نے کہا کہ اے ابو عباس! ہم سے یہ سب حال بیان کیجئے۔ انہوں نے کہا کہ رسول اللہﷺ نے ایک عورت کو کہلا بھیجا (ابو حازم نے کہا کہ سیدنا سہل بن سعدؓ  اس دن اس عورت کا نام لے رہے تھے ) کہ تو اپنے غلام کو جو بڑھئی ہے اتنی فرصت دے کہ میرے لئے چند لکڑیاں یعنی منبر بنا دے کہ جس پر میں لوگوں سے بات کروں (یعنی وعظ و نصیحت کروں) تو اس غلام نے تین سیڑھیوں کا ایک منبر بنایا اور رسول اللہﷺ نے حکم کیا تو وہ مسجد میں اس مقام پر رکھا گیا۔ اس کی لکڑی غابہ کے جھاؤ کی تھی (غابہ مدینہ کی بلندی میں ایک مقام ہے ) اور میں نے دیکھا کہ رسول اللہﷺ اس پر کھڑے ہوئے اور تکبیر کہی۔ لوگوں نے بھی آپ صل اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پیچھے تکبیر کہی اور آپﷺ منبر پر تھے۔ پھر آپﷺ نے رکوع سے سر اٹھایا اور الٹے پاؤں پیچھے اترے یہاں تک کہ منبر کی جڑ میں سجدہ کیا۔ پھر منبر پر لوٹے یہاں تک کہ نماز سے فارغ ہوئے۔ اس کے بعد آپﷺ لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ اے لوگو! میں نے یہ اس لئے کیا کہ تم میری پیروی کرو اور میری طرح نماز پڑھنا سیکھو۔

باب : خطبہ میں کیا کہا جائے۔

409: سیدنا ابن عباسؓ  سے روایت ہے کہ ضماد (ایک شخص کا نام ہے ) مکہ میں آیا اور وہ قبیلہ ازد شنؤ ۃ میں سے تھا اور جنوں اور آسیب وغیرہ سے دم جھاڑ کرتا تھا۔ تو اس نے مکہ کے نادانوں سے سنا کہ محمدﷺ (معاذ اللہ) مجنون ہیں۔ تو اس نے کہا کہ میں اس شخص کو دیکھوں گا شاید اللہ تعالیٰ میرے ہاتھ سے انہیں اچھا کر دے۔ غرض آپ صل اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ملا اور کہا کہ اے محمدﷺ! میں جنوں وغیرہ کے اثر سے جھاڑ کرتا ہوں اور اللہ تعالیٰ میرے ہاتھ سے جسے چاہتا ہے شفا دیتا ہے ، تو کیا آپ کو خواہش ہے ؟ تو آپﷺ نے فرمایا کہ ”سب خوبیاں اللہ کے لئے ہیں، میں اس کی خوبیاں بیان کرتا ہوں اور اس سے مدد چاہتا ہوں جس کو اللہ راہ بتلائے اسے کون بہکا سکتا ہے اور جسے وہ بہکائے اسے کون راہ بتلا سکتا ہے ؟ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور محمدﷺ اس کے بندے اور بھیجے ہوئے (رسول) ہیں۔ اب حمد کے بعد جو (کہو کہوں)۔ ضماد نے کہا کہ ان کلمات کو پھر پڑھو۔ غرض کہ رسول اللہﷺ نے ان کلمات کو تین بار پڑھا۔ پھر ضماد نے کہا کہ میں نے کاہنوں کی باتیں سنیں، جادوگروں کے اقوال سنے ، شاعروں کے اشعار سنے مگر ان کلمات کے برابر میں نے کسی کو نہیں سنا، اور یہ تو دریائے بلاغت کی تہہ تک پہنچ گئے ہیں۔ پھر ضماد نے کہا کہ اپنا ہاتھ لائیے کہ میں اسلام کی بیعت کروں۔ غرض انہوں نے بیعت کی۔ اور رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ میں تم سے تمہاری قوم (کی طرف) سے بھی بیعت کر لوں؟ انہوں نے عرض کیا کہ ہاں، میں اپنی قوم کی طرف سے بھی بیعت کرتا ہوں۔ (راوی) کہتا ہے آخر رسول اللہﷺ نے ایک فوجی دستہ بھیجا اور وہ ان (ضماد) کی قوم پر سے گزرے تو اس لشکر کے سردار نے کہا کہ تم نے اس قوم سے تو کچھ نہیں لوٹا؟ تب ایک شخص نے کہا کہ ہاں میں نے ایک لوٹا ان سے لیا ہے۔ انہوں نے حکم دیا کہ جاؤ اسے واپس کر دو اس لئے کہ یہ ضماد کی قوم ہے (اور وہ ضماد کی بیعت کے سبب سےﷺ مان میں آ چکے ہیں)۔

باب : خطبہ میں آواز کا بلند کرنا اور اس میں خطیب کیا کہے ؟۔

410: سیدنا جابر بن عبد اللہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ جب خطبہ پڑھتے تو آپ صل اللہ علیہ و آلہ و سلم کی آنکھیں سرخ ہو جاتیں اور آواز بلند ہو جاتی اور غصہ زیادہ ہو جاتا۔ گویا وہ ایک ایسے لشکر سے ڈرانے والے تھے کہ صبح آیا یا شام آیا اور فرماتے تھے کہ میں اور قیامت یوں اکٹھے بھیجے گئے ہیں جیسے یہ دو انگلیاں، اور آپﷺ نے انگشت شہادت اور درمیانی انگلی ملا دکھاتے اور حمد و ثناء کے بعد فرماتے کہ جان لو کہ ہر بات سے بہتر اللہ کی کتا ب ہے اور سب سے بہتر محمدﷺ کا راستہ ہے۔ اور سب کاموں سے بُرے نئے کام ہیں اور عبادت کا ہر نیا طریقہ گمراہی ہے۔ پھر فرماتے کہ میں ہر مومن کا اس کی جان سے زیادہ دوست ہوں۔ تو جو مومن مر کر مال چھوڑ جائے وہ اس کے گھر والوں کا ہے۔ اور جو قرض یا بچے چھوڑے تو ان کی پرورش میری طرف ہے اور ان کا خرچ مجھ پر ہے۔

باب : خطبہ مختصر کرنا۔

411: سیدنا ابو وائلؓ  کہتے ہیں کہ سیدنا عمارؓ  نے ہم پر خطبہ پڑھا اور بہت مختصر پڑھا اور نہایت بلیغ۔ پھر جب وہ منبر سے اترے تو ہم نے کہا کہ اے ابو الیقظان! تم نے بہت بلیغ خطبہ پڑھا اور نہایت مختصر کہا۔ اگر آپ اس خطبہ کو ذرا طویل کرتے تو بہتر ہوتا۔ تب سیدنا عمارؓ  نے کہا کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا ہے آپﷺ فرماتے تھے ، کہ آدمی کا نماز کو لمبا کرنا اور خطبہ کو مختصر کرنا اس کے سمجھ دار ہونے کی نشانی ہے ، سو تم نماز کو لمبا کیا کرو اور خطبہ کو چھوٹا۔ اور بعض بیان جادو ہوتا ہے (یعنی تاثیر رکھتا ہے )

باب : خطبہ میں جس چیز کا چھوڑنا جائز نہیں۔

412: سیدنا عدی بن حاتمؓ  سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبیﷺ کے پاس خطبہ پڑھا اور اس نے کہا کہ ”جس نے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی اس نے راہ پائی، اور جس نے ان دونوں کی نافرمانی کی وہ گمراہ ہوا“ تو رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ تو کیا بُرا خطیب ہے۔ یوں کہو کہ ”جس نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی وہ گمراہ ہو گیا“۔

باب : خطبہ میں منبر پر قرآن مجید پڑھنا۔

413: سیدہ اُمّ ھشام بنت حارثہ بن نعمانؓ  کہتی ہیں کہ دو برس یا ایک برس اور کچھ ماہ تک ہمارا اور رسول اللہﷺ کا تنور ایک ہی تھا۔ اور میں نے سورۂ ”قٓ“ آپﷺ کی زبان مبارک سے سن کر یاد کر لی ہے کیونکہ آپﷺ جمعہ کے دن خطبہ ارشاد فرماتے وقت منبر پر اس کی تلاوت کیا کرتے تھے۔

باب : خطبہ میں انگلی سے اشارہ کرنا۔

414: حصین سے روایت ہے کہ عمارہ بن رؤیبہؓ  نے مروان کے بیٹے بشر کو مبنر پر دیکھا کہ وہ دونوں ہاتھ (خطبہ کے دوران اشارہ کے لئے ) اٹھائے ہوئے تھا۔ تو کہا کہ اللہ ان دونوں ہاتھوں کو خراب کرے ، میں نے تو رسول اللہﷺ کو دیکھا کہ اس سے زیادہ نہ کرتے تھے اور انگشت شہادت سے اشارہ کیا۔

باب : اللہ تعالیٰ کے فرمان ”وَاِذَا رَاَوْا تِجَارَةً اَوْ لَھْوًا … … کے بیان میں۔

415: سیدنا جابر بن عبد اللہؓ  سے روایت ہے کہ نبیﷺ جمعہ کے دن کھڑے ہو کر خطبہ ارشاد فرمایا کرتے تھے۔ سو ایک بار ملک شام سے (غلہ لے کر)ایک قافلہ آیا اور لوگ اس کے پاس دوڑ گئے ، صرف بارہ آدمی آپﷺ کے پاس رہ گئے۔ اس پر یہ آیت اتری جو سورۂ جمعہ میں ہے کہ ”جب کوئی تجارت یا کوئی کھیل کی چیز دیکھتے ہیں تو اس طرف دوڑ کر جاتے ہیں اور تجھے کھڑا ہوا چھوڑ جاتے ہیں…“ پوری آیت۔

باب : نمازِ جمعہ میں کیا پڑھے ؟

416: سیدنا نعمان بن بشیرؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ عیدین اور جمعہ میں ”سبح اسم ربک الاعلیٰ“ اور ”ھل اتاک حدیث الغاشیۃ“ پڑھا کرتے تھے۔ اور جب جمعہ اور عید دونوں ایک دن میں ہوتیں، تب بھی انہی دونوں سورتوں کو دونوں نمازوں میں پڑھتے تھے۔

باب : خطبہ میں علم کی باتوں کی تعلیم دینا۔

417: سیدنا ابو رفاعہؓ  کہتے ہیں کہ میں رسول اللہﷺ کے پاس آیا اور آپﷺ خطبہ ارشاد فرما رہے تھے۔ کہتے ہیں، میں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسولﷺ! ایک مرد غریب (مسافر) اپنا دین دریافت کرنے کو آیا ہے اور نہیں جانتا ہے کہ اس کا دین کیا ہے۔ پھر آپﷺ میری طرف متوجہ ہوئے اور اپنا خطبہ چھوڑ کر میرے پاس تک آ گئے اور ایک کرسی لائی گئی، میں سمجھتا ہوں کہ اس کے پائے لوہے کے تھے آپﷺ اس پر بیٹھ گئے (معلوم ہوا کہ کرسی پر بیٹھنا منع نہیں) اور مجھے سکھانے لگے جو اللہ نے آپﷺ کو سکھایا تھا۔ پھر آپﷺ نے آ کر خطبہ کو تمام کیا۔ (یہ کمال خلق تھا اور معلوم ہوا کہ ضروری بات خطبہ میں روا ہے )۔

باب : جمعہ کے خطبوں کے درمیان بیٹھنا۔

418: سیدنا جابر بن عبد اللہؓ  بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ خطبہ کھڑے ہو کر پڑھتے۔ پھر بیٹھ جاتے ، پھر کھڑے ہوتے اور کھڑے کھڑے پڑھتے۔ اور جس نے تم سے کہا کہ بیٹھ کر پڑھتے تھے ، اللہ کی قسم اس نے جھوٹ کہا۔ اور اللہ کی قسم میں نے تو آپﷺ کے ساتھ دو ہزار سے زیادہ نمازیں پڑھی ہیں۔

باب : نماز اور خطبہ میں تخفیف کرنا۔

419: سیدنا جابر بن سمرہؓ  کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کے ساتھ نماز میں پڑھی ہیں۔ آپﷺ کی نماز اور خطبہ (دونوں) درمیانے ہوتے تھے۔ (یعنی نہ بہت لمبا نہ چھوٹا)۔

باب : جب کوئی آدمی جمعہ کے دن اس حال میں مسجد میں داخل ہو کہ امام خطبہ دے رہا ہو تو وہ دو رکعت پڑھے۔

420: سیدنا جابر بن عبد اللہؓ  کہتے ہیں کہ سلیک غطفانیؓ جمعہ کے دن آئے اور رسول اللہﷺ منبر پر بیٹھے تھے۔ اور سلیکؓ  بغیر نماز پڑھے بیٹھ گئے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ تم نے دو رکعت پڑھی؟ انہوں نے کہا کہ نہیں ،تو آپﷺ نے فرمایا کہ اٹھو اور ان کو پڑھ لو۔

باب : خطبہ کے لئے دوسروں کو چپ کرانا۔

421: سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جب تو جمعہ کے دن اپنے ساتھی کو کہے کہ ”چپ رہ“ اور (اس وقت) امام خطبہ پڑھ رہا ہو، تو تو نے لغو بات کی۔

باب : کان لگا کر خاموشی سے خطبہ سننے کی فضیلت۔

422: سیدنا ابو ہریرہؓ  نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا کہ جس نے غسل کیا اور جمعہ میں آیا اور جتنی مقدر میں تھی نماز پڑھی، پھر خطبہ سے فارغ ہونے تک خاموش رہا، پھر امام کے ساتھ نماز پڑھی تو اس کے اس جمعہ سے گذشتہ جمعہ تک اور تین دن کے اور زیادہ گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں۔

باب : جمعہ کے بعد مسجد میں نماز پڑھنے کا بیان۔

423: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جب تم جمعہ پڑھ چکو تو چار رکعت پڑھ لو۔ ایک دوسری روایت میں یہ ہے کہ اگر تمہیں کچھ جلدی ہو تو دو رکعت مسجد میں اور دو رکعت گھر میں لوٹ کر پڑھ لو۔

باب : جمعہ کے بعد گھر میں نماز پڑھنا۔

424: سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ  سے روایت ہے کہ جب وہ (عبد اللہ ص) جمعہ پڑھ چکتے تھے تو گھر آ کر دو رکعت ادا کرتے اور کہتے کہ رسول اللہﷺ بھی اسی طرح کیا کرتے تھے۔

باب : جمعہ کے بعد کلام کرنے یا نکلے بغیر نماز نہ پڑھی جائے۔

425: عمر بن عطاء کہتے ہیں کہ سیدنا نافع بن جبیر نے انہیں سیدنا سائب بن اخت نمر کے پاس وہ چیز پوچھنے کے لئے بھیجا جو سیدنا معاویہؓ  نے ان کی نماز میں نوٹ کی تھی۔ (جب عمر بن عطاء نے جا کر پوچھا تو) سائب بن اخت نمر نے کہا کہ ہاں! میں نے ان (سیدنا معاویہ ص) کے ساتھ مقصوریٰ (جگہ کا نام) میں نماز جمعہ پڑھی تھی۔ جب امام نے نماز سے سلام پھیرا تو میں نے اپنی جگہ پر کھڑے ہو کر نماز شروع کر دی۔ سیدنا معاویہؓ  نے (گھر یا کسی کمرے وغیرہ) میں داخل ہونے کے بعد مجھے بلا بھیجا، اور کہا کہ آج جو کام تم نے کیا ہے آئندہ نہ کرنا۔ جب نماز جمعہ سے فارغ ہو جاؤ تو جب تک کوئی بات چیت نہ کر لو یا اس جگہ کو نہ چھوڑ دو، متصلاً نماز نہ پڑھو۔ کیونکہ رسول اکرمﷺ نے ہمیں اسی بات کا حکم دیا ہے۔ ( آپﷺ نے اس طرح فرمایا ہے ) کہ ہم ایک نماز کے بعد متصلاً دوسری نماز بات چیت کئے بغیر یا اس جگہ کو چھوڑے بغیر نہ پڑھیں۔

باب : جمعہ چھوڑنے پر سخت وعید۔

426: حکم بن میناء سے روایت ہے کہ سیدنا عبد اللہ بن عمر اور سیدنا ابو ہریرہؓ نے ان سے بیان کیا کہ انہوں نے رسول اللہﷺ سے سنا، آپﷺ اپنے منبر کی لکڑیوں پر فرما رہے تھے کہ ”لوگ جمعہ چھوڑ دینے سے باز آئیں نہیں تو اللہ تعالیٰ ان کے دلوں پر مہر لگا دے اور وہ غافلوں میں سے ہو جائیں گے۔

 

 

 

کتاب: عیدین کے مسائل

 

باب : عیدین میں اذان اور اقامت چھوڑنے کا بیان۔

427: سیدنا جابر بن سمرہؓ  کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کے ساتھ دونوں عیدوں کی نماز کئی بار بغیر اذان اور بغیر اقامت کے پڑھی۔

باب : عیدین کی نماز خطبہ سے پہلے پڑھنے کا بیان۔

428: سیدنا ابن عباسؓ  کہتے ہیں کہ میں نمازِ فطر کے لئے رسول اللہﷺ کے ساتھ اور سیدنا ابو بکر و عمر و عثمانؓ سب کے ساتھ گیا تو ان سب بزرگوں کا قاعدہ تھا کہ نماز خطبہ سے پہلے پڑھتے تھے اور اس کے بعد خطبہ پڑھتے تھے۔ پھر کہا آج بھی گویا میں وہ منظر دیکھ رہا ہوں کہ نبیﷺ آئے ، لوگوں کو اپنے ہاتھ سے بیٹھنے کا اشارہ کیا، پھر ان کی صفیں چیرتے ہوئے آپﷺ عورتوں کے پاس آئے اور آپﷺ کے ساتھ سیدنا بلالؓ  بھی تھے اور آپﷺ نے یہ آیت پڑھی ﴿یَا اَیُّھَا النبیُّ اِذَا جَاءَ کَ المُؤْمِنَاتُ یُبَایِعُنَکَ …﴾ (الممتحنہ:۱۲) یہاں تک کہ آپﷺ اس سے فارغ ہوئے۔ پھر فرمایا کہ تم نے ان سب کا اقرار کیا؟ ان میں سے ایک عورت نے کہا کہ ہاں اے اللہ کے نبیﷺ! راوی نے کہا کہ معلوم نہیں وہ کون تھی۔ آپﷺ نے فرمایا کہ صدقہ کرو۔ تب سیدنا بلالؓ  نے اپنا کپڑا پھیلایا اور کہا کہ لاؤ میرے ماں باپ تم پر فدا ہوں۔ اور وہ سب چھلے اور انگوٹھیاں اتار اتار کر سیدنا بلالؓ  کے کپڑے میں ڈالنے لگیں۔

باب : نماز عیدین میں کیا پڑھا جائے ؟

429: عبید اللہ بن عبد اللہ سے روایت ہے کہ سیدنا عمر بن خطابؓ نے سیدنا ابو واقد لیثیؓ  سے پوچھا کہ رسول اللہﷺ اضحی اور فطر میں کیا پڑھتے تھے ؟ انہوں نے کہا کہ آپﷺ ان میں ﴿ق ٓ والقُرْآنِ المَجِید﴾ اور ﴿اِقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وانْشَقَّ القَمَرَ﴾ پڑھا کرتے تھے۔

باب : عیدگاہ میں عید سے پہلے اور بعد کوئی نماز نہیں پڑھنی چاہیئے۔

430: سیدنا ابن عباسؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ عید الا ضحی یا عید الفطر میں نکلے اور دو رکعت پڑھی کہ نہ اس سے پہلے نماز پڑھی اور نہ بعد میں پھر عورتوں کے پاس گئے اور آپﷺ کے ساتھ سیدنا بلالؓ  تھے پھر عورتوں کو صدقہ کا حکم کیا پھر کوئی تو اپنے چھلے نکالنے لگی اور کوئی لونگوں کے ہار جو ان کے گلوں میں تھے۔

باب : عورتوں کا عیدین کے لئے نکلنا۔

431: سیدہ اُمّ عطیہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ہمیں رسول اللہﷺ نے حکم کیا کہ ہم عید الفطر اور عید الضحیٰ میں اپنی کنواری، جوان لڑکیوں، حیض والیوں اور پردہ والیوں کو لے جائیں۔ پس حیض والیاں نماز کی جگہ سے الگ رہیں اور اس کارِ نیک اور مسلمانوں کی دعا میں شامل ہوں میں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسولﷺ! ہم میں سے کسی کے پاس چادر نہیں ہوتی؟ تو آپﷺ نے فرمایا کہ اس کی بہن اسے اپنی چادر اڑھا دے۔

باب : بچیاں عید میں کیا کہیں؟

432: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ میرے تشریف فرما ہوئے اور میرے پاس دو (نابالغ) لڑکیاں بعاث کی لڑائی کے گیت گا رہی تھیں تو آپﷺ بچھونے پر لیٹ گئے اور اپنا منہ ان کی طرف سے پھیر لیا۔ پھر سیدنا ابو بکرؓ  آئے اور مجھے جھڑکا کہ شیطان کی تان رسول اللہﷺ کے پاس؟ اور رسول اللہﷺ نے ان کی طرف دیکھا اور فرمایا کہ ان کو چھوڑ دو (یعنی گانے دو) پھر جب وہ غافل ہو گئے تو میں نے ان دونوں کو اشارہ کیا تو وہ نکل گئیں۔ وہ عید کا دن تھا اور سودانی (حبشی) ڈھالوں اور نیزوں سے کھیلتے تھے ، سو مجھے یاد نہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے خواہش کی تھی یا انہوں نے خود فرمایا کہ کیا تم اسے دیکھنا چاہتی ہو؟ میں نے کہا کہ ہاں۔ پھر آپﷺ نے مجھے اپنے پیچھے کھڑا کر لیا اور میرا رخسار آپﷺ کے رخسار پر تھا، اور آپﷺ فرماتے تھے کہ اے اولادِ ارفدہ! تم اپنے کھیل میں مشغول رہو۔ یہاں تک کہ جب میں تھک گئی تو آپﷺ نے فرمایا کہ بس؟ میں نے عرض کیا کہ ہاں۔ آپﷺ نے فرمایا اچھا جاؤ۔

 

 

کتاب: مسافر کی نماز

 

باب : امن کی حالت میں بھی مسافر کی نماز میں قصر ہے۔

433: سیدنا یعلی بن امیہؓ  کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا عمر بن خطابؓ  سے کہا کہ اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ ”کچھ گناہ نہیں اگر تم قصر کرو نماز میں اگر تمہیں خوف ہو کہ کافر لوگ تمہیں ستائیں گے “ (النساء: ۱۰۱) اور اب تو لوگ امن میں ہو گئے (یعنی اب قصر جائز ہے یا نہیں؟) تو انہوں نے کہا کہ مجھے بھی یہی تعجب ہوا، جیسے تمہیں تعجب ہوا تو میں نے رسول اللہﷺ سے اس بات کو پوچھا۔ آپﷺ نے فرمایا کہ یہ اللہ نے تمہیں صدقہ دیا ہے تو اس کا صدقہ قبول کرو (یعنی بغیر خوف کے بھی سفر میں قصر کرو)۔

434: سیدنا ابن عباسؓ  کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے نبیﷺ کی زبان پر حضر میں چار رکعتیں مقرر کیں اور سفر میں دو اور خوف میں ایک رکعت۔

باب : کتنے سفر میں قصر کی جا سکتی ہے ؟

435: سیدنا انس بن مالکؓ  کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کے ساتھ مدینہ میں ظہر کی چار رکعتیں پڑھیں اور میں نے رسول اللہﷺ کے ساتھ ہی ذوالحلیفہ میں عصر کی دو رکعتیں پڑھیں۔

باب : حج میں نماز کا قصر کرنا۔

436: سیدنا انس بن مالکؓ  کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ مدینہ سے مکہ کو نکلے اور آپﷺ دو دو رکعت پڑھتے رہے یہاں تک کہ واپس لوٹے۔ میں نے پوچھا کہ مکہ میں کتنے دن قیام کیا؟ انہوں نے کہا کہ دس روز۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ ہم مدینہ سے حج کے لئے (مکہ کو) نکلے۔

باب : منیٰ میں نماز کا قصر کرنا۔

437: سیدنا ابن عمرؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے منیٰ میں مسافر کی نماز پڑھی اور سیدنا ابو بکرؓ و سیدنا عمرؓ نے بھی اور سیدنا عثمانؓ  نے بھی آٹھ برس تک (یا کہا کہ چھ برس تک) مسافر کی نماز ہی پڑھی۔ حفص (یعنی ابن عاصم) نے کہا کہ سیدنا ابن عمرؓ  منیٰ میں دو رکعتیں پڑھتے اور اپنے بچھونے پر آ جاتے تو میں نے کہا کہ اے میرے چچا! کاش آپ فرض کے بعد دو رکعت اور پڑھتے ؟ (یعنی سنت) تو انہوں نے کہا کہ اگر مجھے ایسا کرنا ہوتا تو میں اپنے فرض پورے کرتا۔

باب : سفر میں دو نمازیں اکٹھی پڑھنا۔

438: سیدنا انس بن مالکؓ  سے روایت ہے کہ جب نبیﷺ کو سفر میں جلدی ہوتی تو ظہر میں اتنی دیر کرتے کہ عصر کا اوّل وقت آ جاتا، پھر دونوں کو جمع کرتے۔ اور مغرب میں دیر کرتے یہاں تک کہ جب شفق ڈوب جاتی تو اس کو عشاء کے ساتھ جمع کرتے۔

باب : حضر میں دو نمازیں اکٹھی پڑھنا۔

439: سیدنا ابن عباسؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ظہر اور عصر کو اور مغرب اور عشاء کو مدینہ میں بغیر خوف اور بارش کے جمع کیا۔ وکیع کی روایت میں ہے کہ میں نے سیدنا ابن عباسؓ  سے کہا کہ آپﷺ نے یہ کیوں کیا؟ انہوں نے کہا کہ تاکہ آپ کی امت کو حرج نہ ہو۔ اور ابو معاویہ کی حدیث میں ہے کہ سیدنا ابن عباسؓ  سے کہا گیا کہ آپﷺ نے کس ارادہ سے یہ کیا تو انہوں نے کہا کہ اس ارادہ سے کیا کہ آپﷺ کی امت پر تکلیف نہ ہو۔

باب : بارش کی صورت میں گھروں میں نماز پڑھنا۔

440: سیدنا ابن عمرؓ  سے روایت ہے کہ انہوں نے نمازی سردی، آندھی اور بارش کی رات میں اذان دی اور پھر اذان کے آخر میں کہہ دیا کہ اپنے گھروں میں نماز پڑھ لو اپنے گھروں میں نماز پڑھ لو۔ پھر کہا کہ رسول اللہﷺ جب سفر میں سردی کی اور بارش کی رات ہو تو مؤذن کو یہ کہنے کا حکم دیتے کہ لوگوں میں پکار دے کہ اپنے خیموں میں نماز پڑھ لو۔

باب : سفر میں نفلی نماز (یعنی سنتیں) چھوڑ دینا۔

441: حفص بن عاصم نے کہا کہ میں مکہ کی راہ میں سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ  کے ساتھ تھا تو انہوں نے ہمیں ظہر کی دو رکعتیں پڑھائیں پھر آئے اور ہم بھی ان کے ساتھ آئے یہاں تک کہ اپنے اترنے کی جگہ پہنچے اور بیٹھ گئے اور ہم بھی ان کے ساتھ بیٹھ گئے۔ اچانک ان کی نگاہ اس طرف پڑی جہاں نماز پڑھی تھی، تو کچھ لوگوں کو کھڑے دیکھا تو پوچھا کہ یہ کیا کر رہے ہیں؟ میں نے کہا کہ سنتیں پڑھ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مجھے سنت پڑھنی ہوتی تو میں نماز ہی پوری پڑھتا (یعنی فرض پورے چار رکعت پڑھتا)۔ پھر کہا کہ اے بھتیجے ! میں سفر میں رسول اللہﷺ کی صحبت میں رہا تو آپﷺ نے تاحیات دو رکعت سے زیادہ نہیں پڑھیں۔ اور سیدنا ابو بکرؓ  کے ساتھ رہا تو انہوں نے بھی تاحیات دو رکعت سے زیادہ نہ پڑھیں۔ اور سیدنا عمرؓ  کے ساتھ رہا تو انہوں نے بھی تاحیات دو سے زیادہ نہ پڑھیں۔ اور سیدنا عثمانؓ  کے ساتھ رہا تو انہوں نے بھی تاحیات دو سے زیادہ نہ پڑھیں۔ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تمہارے لئے رسول اللہﷺ کی حیاتِ طیبہ اسوۂ حسنہ ہے۔

باب : سفر میں سواری پر نفلی نماز (تہجد) پڑھنا۔

442: سیدنا ابن عمرؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ سواری پر نفل پڑھا کرتے تھے خواہ اس کا منہ کسی طرف ہو (ابتداء میں سواری قبلہ رخ ہو تو مستحسن ہے )۔

باب : جب کوئی سفر سے واپس آئے تو مسجد میں دو رکعت نماز ادا کرے۔

443: سیدنا جابر بن عبد اللہؓ  کہتے ہیں کہ میں رسول اللہﷺ کے ساتھ ایک لڑائی میں گیا اور میرے اونٹ نے دیر لگائی اور تھک گیا تو رسول اللہﷺ مجھ سے پہلے آئے اور میں دوسرے دن مسجد میں پہنچا اور آپﷺ کو مسجد کے دروازے پر پایا۔ آپﷺ نے فرمایا کہ تم ابھی آئے ہو؟ میں نے کہا کہ جی ہاں تو آپﷺ نے فرمایا کہ اونٹ کو چھوڑ کر مسجد میں جاؤ اور دو رکعت ادا کرو۔ پھر میں گیا اور دو رکعت پڑھ کر آیا۔

باب : خوف کے وقت نماز کے بارے میں کیا (حکم) آیا ہے ؟

444: سیدنا جابر بن عبد اللہؓ  کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہﷺ کی رفاقت میں بنی جہینہ کی ایک قوم کے ساتھ جہاد کیا انھوں نے ہمارے ساتھ بہت سخت لڑائی کی۔ پھر جب ہم ظہر پڑھ چکے تو مشرکوں نے کہا کہ کاش ہم ان پر یک بارگی حملہ کرتے تو ان کو کاٹ ڈالتے۔ جبرئیل نے رسول اللہﷺ کو اس کی خبر دی اور رسول اللہﷺ نے ہم سے ذکر کیا۔ اور فرمایا کہ مشرکوں نے (یہ بھی) کہا کہ ان کی ایک اور نماز آرہی ہے کہ وہ ان کو اولاد سے بھی زیادہ عزیز ہے۔ پھر جب عصر کا وقت آیا تو ہم نے (آگے پیچھے ) دو صفیں باندھ لیں اور مشرک قبلہ کی طرف تھے۔ رسول اللہﷺ نے تکبیر تحریمہ کہی اور ہم سب نے بھی کہی، آپﷺ نے رکوع کیا تو ہم نے بھی رکوع کیا (یعنی دونوں صفیں رکوع تک شریک رہیں) اور سجدہ آپﷺ نے اور پہلی صف کے لوگوں نے کیا پھر جب آپﷺ اور پہلی صف کھڑی ہو گئی تو دوسری صف نے سجدہ کیا اور اگلی صف پیچھے اور پچھلی آگے ہو گئی۔ رسول اللہﷺ نے اللہ اکبر کہا اور ہم نے بھی کہا اور آپﷺ نے رکوع کیا تو ہم نے بھی رکوع کیا اور آپﷺ کے ساتھ صفِ اوّل کے لوگوں نے سجدہ کیا اور دوسری صف کے لوگ ویسے ہی کھڑے رہے۔ پھر جب دوسرے بھی سجدہ کر چکے تو سب بیٹھ گئے۔ اور رسول اللہﷺ کے ساتھ سب نے سلام پھیرا۔ ابو الزبیر نے کہا کہ سیدنا جابرؓ  نے ایک اور بات بھی کہی کہ جیسے آج کل یہ تمہارے حاکم نماز پڑھتے ہیں۔

باب : سورج گرہن کی نماز کا بیان۔

445: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ کے دَور میں سورج گرہن ہوا تو آپﷺ نماز میں کھڑے ہوئے اور بہت دیر تک قیام کیا۔ پھر رکوع کیا اور بہت لمبا رکوع کیا۔ پھر سر اٹھایا اور دیر تک کھڑے رہے اور بہت قیام کیا مگر پہلے قیام سے کم، پھر رکوع کیا اور لمبا رکوع کیا مگر پہلے رکوع سے کم، پھر سجدہ کیا (یہ ایک رکعت میں دو رکوع ہوئے اور امام شافعی  کا یہی مذہب ہے ) پھر کھڑے ہوئے اور دیر تک قیام کیا مگر پہلے قیام سے کم، پھر رکوع کیا اور لمبا رکوع کیا مگر پہلے رکوع سے کم، پھر سر اٹھایا اور دیر تک کھڑے رہے مگر پہلے قیام سے کم، پھر رکوع کیا اور لمبا رکوع کیا مگر پہلے رکوع سے کم (یہ بھی دو رکوع ہوئے ) پھر سجدہ کیا اور فارغ ہوئے اور آفتاب اتنے میں کھل گیا تھا۔ پھر لوگوں پر خطبہ پڑھا اور اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کی اور فرمایا کہ سورج اور چاند اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں اور انہیں گرہن کسی کی موت اور زندگی کی وجہ سے نہیں لگتا۔ پھر جب تم گرہن دیکھو تو اللہ کی بڑائی بیان کرو اور اس سے دعا کرو اور نماز پڑھو اور خیرات کرو۔ اے امتِ محمدﷺ! اللہ سے بڑھ کر کوئی غیرت والا نہیں اس بات میں کہ اس کا غلام یا باندی زنا کرے۔ اے امتِ محمدﷺ! اللہ کی قسم! جو میں جانتا ہوں اگر تم جانتے ہوتے تو بہت روتے اور تھوڑا ہنستے۔ سن لو! کیا میں نے اللہ کا حکم پہنچا نہیں دیا؟۔

446: سیدنا ابن عباسؓ  کہتے ہیں کہ جب سورج گرہن ہوا تو رسول اللہﷺ نے (دو رکعت نماز) آٹھ رکوع اور چار سجدوں کے ساتھ نماز پڑھی۔

باب : نماز استسقاء کے بارے میں۔

447: سیدنا عبد اللہ بن زید انصاریؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ عیدگاہ کی طرف نکلے اور پانی کے لئے دعا مانگی۔ اور جب ارادہ کیا کہ دعا کریں تو قبلہ کی طرف ہوئے اور اپنی چادر کو الٹا۔ اور ایک دوسری روایت میں ہے کہ پس (رسول اللہﷺ نے ) لوگوں کی طرف پیٹھ کی اور اللہ سے دعا کرنے لگے اور قبلہ کی طرف منہ کیا اور چادر الٹی پھر دو رکعت نماز پڑھی۔

باب : بارش کی برکت کا بیان۔

448: سیدنا انسؓ  کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ تھے کہ ہم پر بارش ہوئی تو آپﷺ نے اپنا کپڑا اتار دیا یہاں تک کہ آپﷺ پر بارش کا پانی پہنچا۔ ہم نے کہا کہ اے اللہ کے رسولﷺ! آپ نے ایسا کیوں کیا؟ آپ صل اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ اس لئے کہ یہ ابھی ابھی اپنے پروردگار کے پاس سے آئی ہے۔

 

باب : آندھی اور بادل کے وقت اللہ کی پناہ لینا اور بارش آنے پر خوش ہونا۔

449: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبیﷺ کی عادت مبارکہ تھی کہ جب تیز آندھی آتی تو رسول اللہﷺ یہ دعا پڑھتے ”اے اللہ میں اس ہوا کی بہتری اور جو اس کے اندر ہے ، اس کی بہتری اور جو اس میں بھیجا گیا ہے اس کی بہتری مانگتا ہوں۔ اور اس کی برائی سے اور جو اس کے اندر ہے ، اس کی برائی سے اور جو برائی اس کے ساتھ بھیجی گئی ہے ، برائی سے پناہ مانگتا ہوں“۔ اور اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب آسمان پر بادل اور بجلی کڑکتی تو (خوف سے ) آپﷺ کا رنگ بدل جاتا اور کبھی باہر نکلتے اور کبھی اندر آتے اور کبھی آگے آتے اور کبھی پیچھے جاتے۔ پھر اگر بارش برسنے لگتی تو آپﷺ کی گھبراہٹ جاتی رہتی۔ اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں اس بات کو آپﷺ کے چہرہ مبارک سے پہنچان لیا تو آپﷺ سے پوچھا، تو آپﷺ نے فرمایا: اے عائشہ! میں ڈرتا ہوں کہ کہیں ایسا نہ ہو جیسے عاد کی قوم نے دیکھا کہ ”ایک بادل کا ٹکرا ہے جو ان کے آگے آیا ہے کہنے لگے کہ یہ بادل ہم پر برسنے والا ہے “ (اور وہ ان پر آنے والا عذاب تھا)۔

باب : مشرق کی طرف کی ہوا (صبا) اور مغرب کی طرف کی ہوا (دبور) کے بارے میں۔

450: سیدنا ابن عباسؓ  سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا کہ مجھے (اللہ کے حکم سے ) بادِ صبا (مشرق کی طرف کی ہوا) سے مدد دی گئی اور (قوم) عاد دبور( یعنی مغرب کی طرف کی ہوا) سے ہلاک کی گئی تھی۔