FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

فہرست مضامین

صریر خامہ

 

۱۹۶۴ء ۱۹۶۵ء

 

 

مظفرؔ حنفی

 

ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

 

 

 

مختلف ہو گی، نئی ہو گی مظفر کی غزل

محترم نے بھی سنی ہو گی مظفر کی غزل

آج کل سنتے ہیں ان کا قافیہ بھی تنگ ہے

اب سمجھ میں آ رہی ہو گی مظفر کی غزل

ہر قدم ملتا ہوا ہے وقت کی رفتار سے

کتنی تیزی سے چلی ہو گی مظفر کی غزل

چونکہ ہے اپنے بنائے راستوں پر گامزن

انتہائے آگہی ہو گی مظفر کی غزل

کور بینوں کے لیے ظلمات کے بازار میں

روشنی ہی روشنی ہو گی مظفر کی غزل

چونک اٹھے ہیں وہ جو پہلے غور سے سنتے رہے

یہ سمجھ کر، عام سی ہو گی مظفر کی غزل

ہاں بہ ایں اسلوبِ نو، سو جدتوں کے باوجود

اندرونِ شاعری ہو گی مظفر کی غزل

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

ترچھی راہوں پر چلتا ہوں رہبر سے کتراتا ہوں

یعنی رہزن کی آنکھوں پر آئنہ چمکاتا ہوں

شاید اس بے نام خلش کا نام عیاں ہو سکتا ہے

ٹھہرو! میں پھولوں کے پردے میں اک چیز دکھاتا ہوں

محفل میں ہوں، مجھ پر بھی حرف آنے کا اندیشہ ہے

اوچھی باتیں تم کرتے ہو لیکن میں شرماتا ہوں

تھا اک دور کہ اپنی خاطر اپنے گھر میں رہتا تھا

اب تو مہمانوں کی خاطر گھر میں آتا جاتا ہوں

شیش محل سے آنے والی اینٹیں دعوت دیتی ہیں

اچھا، میں بھی شیش محل پر کچھ پتھر برساتا ہوں

چوٹیں کھا کر چپ رہ جانا سر تا سر نادانی ہے

میں ہر تیر انداز پہ چن کر اک مصرع چپکاتا ہوں

کھلتی ہے تو کھلتی ہو گی ان کو کانٹے دار غزل

کل ہو گا ارشاد، مظفرؔ حنفی کیوں کہلاتا ہوں

٭٭٭

 

اسے اگر لطیف و نرم گفتگو پسند ہے

تو جان لیجیے کہ وہ بہت غلو پسند ہے

کسی کی خلوتوں کے راز، راز رہ نہ پائیں گے

کہ عہد نو جبلتاً ہی جستجو پسند ہے

فریب سے خیالِ رنگ و بو تو ہے دماغ میں

اسی لیے مجھے فریبِ رنگ و بو پسند ہے

انھیں شریکِ بزم کر لیا ہے آپ نے، جنھیں

نہ آپ کا لحاظ ہے نہ آبرو پسند ہے

اگر تجھے ستم کے واسطے بہانہ چاہیے

تو یہ خطا بھی کم نہیں کہ مجھ کو تو پسند ہے

گلوں کی آستین سرخ، نوکِ خار سرخ تر

یقین کیجیے بہار کو لہو پسند ہے

٭٭٭

 

 

 

یوں زندگی میں ہم پہ ہزاروں ستم ہوئے

سرمایۂ نشاط مگر ان کے غم ہوئے

آزاد رہ کے ہم نے لٹائی ہے روشنی

شمعِ صنم کدہ نہ چراغِ حرم ہوئے

لَو دے رہی ہے وادیِ احساس آج بھی

مدت گزر چکی ہے نگاہِ کرم ہوئے

احباب لوٹتے رہے لیکن ہمارے پاس

سینے کے داغ آنکھ ٓانسو نہ کم ہوئے

تم نے تو حالِ دل کو فسانہ سمجھ لیا

تم سے تو حال کہہ کے پشیمان ہم ہوئے

کہتی ہے ڈائری کہ ابھی کل ملے تھے ہم

احساس مجھ کو یہ کہ ہزاروں جنم ہوئے

معلوم تھا ہمیں بھی مظفرؔ کہ جرم ہے

یہ جانتے ہوئے بھی حقیقت رقم ہوئے

٭٭٭

 

 

 

 

خیال کا جو تجھ سے ارتباط برقرار ہے

شراب کے بغیر بھی نشاط برقرار ہے

ابھی وہ یاد ہے مجھے، ذرا اسے خبر تو دو

کہ اختلاف میں بھی اختلاط برقرار ہے

ہزار مصلحین قوم چیختے رہے مگر

سماج میں جو تھا وہ انحطاط برقرار ہے

وہ چند فیصدی سہی، اگر خلوص ہے کہیں

تو آرزوئے کیف و انبساط برقرار ہے

مآلِ کار مات ہو گئی جہاں پناہ کو

ہر ایک فرد برسرِ بساط برقرار ہے

روا روی میں کہہ رہا ہوں داستانِ غم تو کیا

بیانِ واقعہ میں احتیاط برقرار ہے

مظفرؔ اس عجیب مقطعِ غزل سے بھی گزر

یہ راہ میں اک اور پل صراط برقرار ہے

٭٭٭

 

 

 

 

اک رنگ نئے دور کی تصویر میں کم ہے

شہ رگ مری بیتاب ہے گردن مری خم ہے

منظور نہیں مجھ کو لکیروں کی فقیری

صحرا یہ نہ جانے کوئی لغزیدہ قدم ہے

میں سینۂ باطل پہ قلم تیز کروں گا

دنیا مرے درپے ہے تو مجھ کو بھی قسم ہے

ٹوٹے ہوئے تاروں کا پتہ مجھ سے نہ پوچھو

کچھ دیر سے بے وجہ مری آنکھ بھی نم ہے

اب اپنی ہی پرچھائیں سے میں خوفزدہ ہوں

یاروں کی نوازش ہے عنایت ہے کرم ہے

شہکار کی تخلیق پہ اصرار بہت تھا

تکمیل پہ دیکھا تو مرا ہاتھ قلم ہے

لکھتا ہے مظفرؔ روشِ عام سے ہٹ کر

شہرت اسے درکار نہ رسوائی کا غم ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

پھولوں کے، عندلیب کے، میرے، کلی کے زخم

رِسنے لگے ہیں موسمِ گل میں سبھی کے زخم

غیروں سے مستعار اجالوں کو کیا کریں

آنکھوں میں پڑ نہ جائیں کہیں روشنی کے زخم

خود اپنے حال پر ہی توجہ نہ کر سکے

ہم نے کسی کے داغ گِنائے کسی کے زخم

یعنی مجھے حساب چکانا ہے عمر بھر

یہ دشمنی کے زخم ہیں یہ دوستی کے زخم

کوشاں رہے ہیں ہم کہ نیا دور دیکھ لے

آئنۂ غزل میں ہماری صدی کے زخم

ہاتھوں میں ہے ادب کے نمکدانِ بے رخی

صفحات پر پڑے ہیں مری آگہی کے زخم

وہ وقت آ لگا ہے مظفرؔ کے الحذر

اتنے کبھی حقیر نہ تھے آدمی کے زخم

٭٭٭

 

 

 

 

مستی کی جامِ جم سے توقع فضول ہے

چکنی غزل کی ہم سے توقع فضول ہے

آں محترم نے بات کا رخ ہی پلٹ دیا

سمجھا، کہ محترم سے توقع فضول ہے

خود آگہی کے زعم میں دھوکا نہ کھائیے

ہستی کے پیچ و خم سے توقع فضول ہے

لے آئے شام غم تری یادوں کو گھیر کر

حالانکہ شامِ غم سے توقع فضول ہے

اربابِ میکدہ ہی نہ بخشیں گے آپ کو

اب دیر یا حرم سے توقع فضول ہے

جو مجھ سے چاہتے ہیں خوشامد پسند لوگ

اس کی مرے قلم سے توقع فضول ہے

کرتے رہیں جنابِ مظفرؔ غزل میں طنز

اس مرمریں صنم سے توقع فضول ہے

٭٭٭

 

 

 

 

جب مرے ہاتھ میں ظالم کا گریباں ہو گا

اس کے چہرے سے مرا درد نمایاں ہو گا

باغ منہ موڑے ہوئے شاخ ہمیں چھوڑے ہوئے

زرد پتوں کا بگولہ ہی نگہباں ہو گا

پائے وحشت ہی مرا سست قدم ہے شاید

میرے گھر تک تو نہ محدود بیاباں ہو گا

ورقِ زیست پہ اک نقشِ پریشانی ہوں

دیکھ کر مجھ کو مصوّر مرا حیراں ہو گا

ہر گلِ زخم مہکتا ہے توجّہ سے تری

داغِ دل آج چراغِ تہہِ داماں ہو گا

آئنہ خانے میں محصور ہوا ہے جو شخص

کوئی تنہائی کا مارا ہوا انساں ہو گا

اے مظفرؔ وہ علاجِ دلِ مجروح کریں

ورنہ زخموں کی تواضع کو نمکداں ہو گا

٭٭٭

 

 

 

 

 

ترے خیال سے میں نے سوال بھی نہ کیا

ترا یہ حال کہ تو نے خیال بھی نہ کیا

بھڑاس دور کروں گا کھری کھری کہہ کر

خلش رہے گی کہ اظہارِ حال بھی نہ کیا

جو غم ملا تو خوشی سے لیا سر آنکھوں پر

خوشی ملی تو خوشی کا ملال بھی نہ کیا

بہت لحاظ کیا ہے یہ شہر یاروں نے

غریب شہر کا مرنا محال بھی نہ کیا

کچھ اس نہج سے مظفرؔ غزل پہ حاوی ہیں

غزل نے آپ کو شیریں مقال بھی نہ کیا

٭٭٭

 

 

 

 

فکر نہیں ورزش کرتا ہوں

ندرت کی کاوش کرتا ہوں

دنیا لاکھ جھنجھوڑے مجھ کو

ایسے کیا جنبش کرتا ہوں

جیب نہیں رکھتا کُرتے میں

لاکھوں کی بخشش کرتا ہوں

گردن تک دلدل میں رہ کر

تاروں کی خواہش کرتا ہوں

اپنے تن کا ہوش نہیں ہے

گھر کی آرایش کرتا ہوں

پانی کو ترسے کھیتوں پر

آنکھوں سے بارش کرتا ہوں

دن بھر چل کر گھر کا گھر میں

محور پر گردش کرتا ہوں

اکثر خود کو زک دینے کی

لوگوں سے سازش کرتا ہوں

رات نہیں کاٹے سے کٹتی

دن بھر تو کوشش کرتا ہوں

کہہ کر ایسے شعر مظفرؔ

میں نذرِ آتش کرتا ہوں

٭٭٭

 

 

 

 

آگ لگے تو ہمسائے بھی زد میں آتے ہیں

سمجھانے والوں کو پہلے ہم سمجھاتے ہیں

غالبؔ کا دیوان شہادت کو آ سکتا ہے

ہے کوئی فریادی، ہم تصویر بناتے ہیں

بادِ بہاری آن پھنسی ہے فرزانوں کے بیچ

گلشن کے چاروں جانب دیوار اٹھاتے ہیں

جھوٹوں کی گردن میں پھندا ڈھیلا پڑتا ہے

اچھا ٹھہرو، ہم ہی یہ زحمت فرماتے ہیں

ہنسنا ہو تو ہنس لو رونا چاہو تو رو لو

دیوانے دیوانوں پر پتھر برساتے ہیں

چونک پڑی ہے اپنی دھن میں کھوئی کھوئی شام

تند بگولے صحرا میں پتّے کھڑکاتے ہیں

شاد عارفی اور مظفر حنفی جیسے لوگ

دشمن سمجھے جائیں گے اشعار بتاتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

گلاب کی نمی نہ دور کیجیے چراغ سے

اسے نہ یاد کیجیے تپے ہوئے دماغ سے

گلہ نہ کر کہ بدگمانیاں شریکِ بزم ہیں

چلا ہے سلسلہ تری ہی آستیں کے داغ سے

یہ ابتدائے دوستی ہے انتہا کی خیر ہو

روایتاً ایاغ کو لڑا دیا ایاغ سے

عجیب کور مغز ہیں عوام اس دیار کے

کہ خواب میں بھی دیکھتے رہے ہیں سبز باغ سے

نہ دشتِ آرزو کی وسعتوں میں کچھ کمی ہوئی

نہ جستجو کی بات بن سکی ترے سراغ سے

تو جان لیجیے کہ رات کوئی گل کھلائے گی

بجا کہ ایک اور دن گزر گیا فراغ سے

جلی بھنی ہے ہر غزل مظفرؔ خراب کی

یہ آئنے سلگ رہے ہیں طنز کے چراغ سے

٭٭٭

 

 

 

ہر مجرم کو، جو اپنی کالی کرتوتیں ڈھانک رہا ہو

یوں لگتا ہے جیسے کوئی اس کے اندر جھانک رہا ہو

میرا منا پپّی لے کر اتنا آسودہ لگتا ہے

جیسے میری پیشانی پر چاند ستارے ٹانک رہا ہو

میں تو اس کی ذہنی قامت چتون سے ہی بھانپ چکا ہوں

شاید وہ میری با توں سے میری قیمت آنک رہا ہو

کچھ کا مکھّن چھن جانے سے ملکی خوشحالی کو نسبت؟

ہو سکتا ہے جَو کھانے والا اب مٹی پھانک رہا ہو

سچائی کی کھوج مظفرؔ وہ شاعر کیا کر سکتا ہے

جو ٹھرّے کے گھونٹ لگا کر الٹی سیدھی ہانک رہا ہو

٭٭٭

 

 

 

 

اگر کوئی سربلند ہے اور پھر بھی گردن بچی ہوئی ہے

تو ہاتھ لکھتا ہوں، ان کے ہاتھوں میں آج مہندی رچی ہوئی ہے

تو دوستو پھر حقیقتوں سے نظر بچا کر گزر نہ جانا

پتہ لگانا کہ مقتلوں میں یہ دھوم کیسی مچی ہوئی ہے

گلوں کے ہمراہ باغباں سبز باغ دکھلا کے جا چکے ہیں

مگر ندامت کے بار سے شاخِ گل ابھی تک لچی ہوئی ہے

حقیقتاً قول و فعل میں بعد مشرقین آپ کو دکھا دوں

جنابِ واعظ کی گفتگو تو نپی تلی ہے، جچی ہوئی ہے

سوال یہ ہے کہ کیا لکھوں میں، اگرچہ میرے خیال میں بھی

بدل کی بو، پیرہن کی رنگت، بسی ہوئی ہے، رچی ہوئی ہے

بتائیے رہنما کے وعدوں پہ کس طرح ہم یقین کر لیں

یہاں تو ہر شاہراہ پر لوٹ دن دہاڑے مچی ہوئی ہے

روایتوں سے غلط بغاوت کے دور میں حضرتِ مظفرؔ

بسا غنیمت ہے، فن کی عزت تمہارے دم سے بچی ہوئی ہے

٭٭٭

 

 

 

شعر کا لطف ہو گیا دونا

کچھ زیادہ ہے پان میں چونا

یعنی ملّا کی دوڑ مسجد تک

وہ کبھی بمبئی، کبھی پونا

یک بیک یاد آ گیا کوئی

جیسے مل جائے گنجِ مدفونہ

ورنہ جنگل بھرا بھرا سا تھا

میری موجودگی سے ہے سونا

آپ کو بھی بہ فیضِ برگِ حشیش

آ گیا آسمان کو چھونا

٭٭٭

 

 

 

 

زبان سے تو نظامِ ہستی کو بے قرینہ نہیں سمجھتا

مگر وہ ظالم غریب کے خون کو پسینہ نہیں سمجھتا

ہوا کا رخ یہ بتا رہا ہے کہ سنگ باری ضرور ہو گی

قصور یہ ہے کہ سنگریزے کو میں نگینہ نہیں سمجھتا

فضول ہو گا، کسی کی چشمِ خمار آگیں کو کیا کہیں ہم

ہماری تشنہ لبی کو برسات کا مہینہ نہیں سمجھتا

تمام امواجِ دل شکستہ قریب آ آ کے ٹوکتی ہیں

اگرچہ انجام سامنے ہے، مگر سفینہ نہیں سمجھتا

اساتذہ مجھ سے اے مظفرؔ فضول ناراض ہو رہے ہیں

کہ میں برائے سپہرِ شہرت غزل کو زینہ نہیں سمجھتا

٭٭٭

 

خوش ہیں اپنی خانہ بربادی سے ہم

سانس لے سکتے ہیں آزادی سے ہم

تیشہ و سر کے لیے پتھر نہیں

باز آئے ایسی فرہادی سے ہم

جا رہے ہیں خون میں ڈوبے ہوئے

رنگ و بو کی خوشنما وادی سے ہم

کہہ رہی ہیں مورتیں بھگوان کی

کم نہیں ہیں نقش فریادی سے ہم

قاتلوں سے بچ کے بھی مارے گئے

اپنے ہمدردوں کی جلّادی سے ہم

آج کل حد بھر مظفرؔ تنگ ہیں

پینترے بازوں کی استادی سے ہم

٭٭٭

 

 

وفا سا جرم کر بیٹھے ہیں یارو

تبھی تو آگ پر بیٹھے ہیں یارو

ہماری گمرہی سے فائدہ کیا

یہاں بھی راہبر بیٹھے ہیں یارو

متاعِ درد بھی بکنے لگی ہے

مسیحا در بدر بیٹھے ہیں یارو

وہاں جبریل کے پر جل چکے ہیں

ہم اہلِ دل جدھر بیٹھے ہیں یارو

ہمیں کیا واسطہ رنگِ حنا سے

لہو میں تر بتر بیٹھے ہیں یارو

خود اپنا حالِ دل کہنا پڑے گا

یہاں کیا نامہ بر بیٹھے ہیں یارو

کبھی سوچا کہ پر تولے ہوئے کیوں

شگوفے شاخ پر بیٹھے ہیں یارو

اٹھیں گے حشر بن کر، ہم اٹھے تو

غنیمت ہے اگر بیٹھے ہیں یارو

مظفرؔ کی غزل میں جان یوں ہے

وہ اک ظالم پہ مر بیٹھے ہیں یارو

٭٭٭

 

 

 

 

وہ چلی ناؤ دیکھتے کیا ہو

کود بھی جاؤ دیکھتے کیا ہو

سب کی پہچان لے چلا سورج

روشنی لاؤ دیکھتے کیا ہو

آ گیا پھر مجسمہ بن کر

پھول برساؤ دیکھتے کیا ہو

مرغ جیبوں سے اڑ گئے سارے

اب مجھے کھاؤ دیکھتے کیا ہو

ہے سروں کی کمی نہ شیشوں کی

یعنی پتھراؤ۔۔ ۔ دیکھتے کیا ہو

کھل گئے پاؤں تیز پانی میں

ساتھیو آؤ۔۔ ۔ دیکھتے کیا ہو

داڑھیاں چوٹیوں سے الجھی ہیں

مونچھ پر تاؤ۔۔ ۔ دیکھتے کیا ہو

اے مظفرؔ ردیف کہتی ہے

شوق فرماؤ دیکھتے کیا ہو

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

مبالغہ جو نہ ہو سنگِ در کی قیمت کیا

چکائیں گے وہ مرے زخمِ سر کی قیمت کیا

تری وفا پہ یہاں اعتبار کس کو ہے

مرے تئیں غمِ نا معتبر کی قیمت کیا

کھلی فضا میں تو انمول چیز ہیں لیکن

قفس نصیب! ترے بال و پر کی قیمت کیا

تو پھر فضول نہیں باغبانیِ صحرا

اگر سکون نہیں ہے تو گھر کی قیمت کیا

حسین ہیں تو بہر حال ان کی قیمت ہے

ہمارے پاس نظر ہے، نظر کی قیمت کیا

انھیں کی راہ میں موتی لٹائے ہیں میں نے

جو کہہ رہے ہیں مری چشمِ تر کی قیمت کیا

مظفرؔ اس کی تصنّع پسند محفل میں

کھری بھی ہو تو متاعِ ہنر کی قیمت کیا

٭٭٭

 

 

 

 

چوپاٹی، چورنگی دیکھی

چاروں جانب تنگی دیکھی

شیشے ٹوٹ گئے جھٹکے میں

ہر شے ننگی ننگی دیکھی

امن کا پیغمبر جب لوٹا

گھر میں خانہ جنگی دیکھی

کالے بادل چھٹ جانے پر

قوسِ قزح ست رنگی دیکھی

دعویٰ دنیا پر قبضے کا

ہاتھوں میں نارنگی دیکھی

کب سے بگڑی تھی جو صورت

دو گولی میں چنگی دیکھی

میں نے اپنی شخصیت بھی

سر تا پا بے ڈھنگی دیکھی

٭٭٭

 

 

 

 

خیر، چلیے اپنے ارمانوں کا میں قاتل سہی

نام تو لیلیٰ کا ہو گا، قیس در محمل سہی

پیروی سے مجھ کو نفرت، آپ ہیں رہبر صفت

اتفاقاً میری منزل آپ کی منزل سہی

منجمد ذہنوں میں اک طوفاں اٹھانا ہے مجھے

استعارے کے لیے کشتی سہی، ساحل سہی

میرے زخموں کا مرے چہرے سے اندازہ نہ کر

مسکراتی ہے بہر صورت کلی، بسمل سہی

خوابِ غفلت سے جگانا ہی مرا اسلوب ہے

ناقدینِ شعر میرے حال سے غافل سہی

عقل کو بھی سان پر رکھتی ہیں، یہ تو مانیے

کھردری غزلیں مری وجہِ شکستِ دل سہی

اے مظفرؔ انجمن کی بے حسی پر طنز کر

فرق کیا پڑتا ہے تو بھی بزم میں شامل سہی

٭٭٭

 

 

 

 

 

شاعری کم تھی کہ یہ لت پڑ گئی

مجھ کو سچ کہنے کی عادت پڑ گئی

اب ستاروں کو برسنا چاہیے

ریت کی دیوار پر چھت پڑ گئی

میں تو سمجھا تھا کہ نیچے جال ہے

تیری کس برتے پہ ہمّت پڑ گئی

بے نیازی نے اسے بہکا دیا

جب مجھے اس کی ضرورت پڑ گئی

آگہی نے چور کو ڈالا اسے

جس کسی کے سر یہ آفت پڑ گئی

دھر دبایا احتیاطوں نے تجھے

میرے پیچھے میری وحشت پڑ گئی

ہم روایت سے مظفرؔ کٹ گئے

ہم سے جدّت کی روایت پڑ گئی

٭٭٭

 

 

 

 

نہ جانے بے عمل کیوں اس طرح سرکار بیٹھے ہیں

ہزاروں لوگ اپنی جان سے بیزار بیٹھے ہیں

اگر پھولوں کو رسم چاک دامانی سے نفرت ہے

نسیمِ صبح سے کہنا کہ ہم تیار بیٹھے ہیں

چلکتی دھوپ کا احساس بھی ان کو نہیں ہوتا

بزعمِ خود وہ زیر سایۂ دیوار بیٹھے ہیں

لُٹے ہو اس لیے اے ساتھیو پہچان سکتے ہو

یہ رہزن ہیں کہ اپنے قافلہ سالار بیٹھے ہیں

اجازت ہو تو میں ہی تبصرے کرتا چلوں ان پر

تمہاری انجمن میں سیکڑوں بیکار بیٹھے ہیں

ملے موقع تو امواجِ بلا سے کان میں کہنا

بخیر و عافیت ہیں ناخدا، اس پار بیٹھے ہیں

مظفرؔ! آپ کی ترچھی اڑانیں کام آئیں گی

سنا ہے فن کے دروازے پہ پہرے دار بیٹھے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

چھوڑ گرجنا، سیکھ برسنا بادل او بادل

ساون میں اندھا ہے دریا بادل او بادل

سارے زخموں کی شادابی ان کے دم سے تھی

میرے آنسو بھی لیتا جا بادل او بادل

شبنم کے ہر قطرے سے جب لاوا پھوٹ پڑا

آتش خوردہ جنگل چیخا بادل او بادل

میرے پیچھے کیوں آتا ہے بستی پیاسی ہے

میں بنجارا ہوں، میرا کیا بادل او بادل

پیٹھ گھما لی اپنی کہہ کر نقارے کی چوٹ

میرا دکھڑا تو لمبا تھا بادل او بادل

کیا اتنی مشکل ہے سوکھے ہونٹوں کی پہچان

ایک سمندر تھا اک صحرا بادل او بادل

آج مظفرؔ کو لکھنی ہے اس پر ایک غزل

تجھ پر کس نے پانی پھینکا بادل او بادل

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

شبِ تاریک میں امید کی جوتیں جگاتے ہیں

ابھی کچھ دور افتادہ ستارے جھلملاتے ہیں

کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کچھ حسّاس پھولوں کو

ہوا کے سرد جھونکے خون کے آنسو رلاتے ہیں

تری قربت نے لاکھوں خامیاں ہم پر عیاں کر دیں

ہمیشہ آبگینے ہاتھ آ کر ٹوٹ جاتے ہیں

نہ رہبر ہے، نہ رہزن ہے نہ منزل ہے نہ جادہ ہے

یقیں کیجے ہم اپنی گمرہی سے حظ اٹھاتے ہیں

عقب میں آنے والے آبلہ پاؤں کی جانب سے

ہم اپنے نقشِ پا پر آج خود ہی سر جھکاتے ہیں

خلوص اس دور میں اک جرم ہے، تسلیم کرتا ہوں

مگر اس جرم پر یارو کہیں اتنا ستاتے ہیں

لکیروں کے فقیروں سے مظفرؔ کچھ نہیں ہو گا

نئی نسلوں کی خاطر ہم نئی راہیں بناتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

یہ مئے خانہ ہے مئے خانہ

ہوش میں رہیے گا مولانا

پنڈت جی! مصروف ہے وہ بت

اور کسی موقعے پر آنا

دنیا اس کو کیا سمجھائے

مار نہ بیٹھے گا دیوانہ

اک رنگین مقولہ ہو تم

میں افسانہ در افسانہ

کیا آندھی کو روک سکے گا

مکڑی کا یہ تانا بانا

اک توبہ کیا، بھاری ہو گا

سو پیمانوں پر پیمانہ

جو کج فہمی پر نازاں ہیں

ان کو مشکل ہے سمجھانا

ہمدردی سے جلتا ہوں میں

یہ زحمت پھر مت فرمانا

روشنیاں کیوں کانپ رہی ہیں

پروانہ ہو گا پروانہ

میری منزل پیہم حرکت

چلتے جانا چلتے جانا

سب سے اوپر اٹھ آیا ہوں

اب کعبہ ہو یا بت خانہ

میرے مصرعوں سے ظاہر ہے

تیرا چھپ کر تیر چلانا

لہجہ صاف مظفرؔ کا ہے

شاعر ہے جانا پہچانا

٭٭٭

 

 

 

 

 

بے پر و بال ہوئے نغمہ سرائی پہ معاف

’’کیجو غالبؔ مجھے اس تلخ نوائی پہ معاف‘‘

ہم بھی موجود تھے انصاف کی اس محفل میں

لغزش پا نہ ہوئی راہ نمائی پہ معاف

برف پگھلی نہ کھلے پھول نہ برسا بادل

یعنی ہر جرم ہے امسال خدائی پہ معاف

ہر کلی دامنِ آلودہ لیے بیٹھی ہے

خونِ احساس نہیں تنگ قبائی پہ معاف

ماہِ کنعاں نہ سہی پھر بھی تجھے خطرہ ہے

بھائی سے ڈر کہ ترا خون ہے بھائی پہ معاف

آندھیوں نے بھی نہ بخشا مجھے ویرانے میں

نہ سرابوں نے کیا آبلہ پائی پہ معاف

اے مظفرؔ ترے دامن میں قصیدے جو نہیں

کون کرتا ہے تجھے دل کی صفائی پہ معاف

٭٭٭

 

 

 

 

جاگتی آنکھوں سے دیکھے ہیں کسی نے سپنے

سانس لیتا ہے مرے دل میں کوئی رات گئے

میرے تپتے ہوئے احساس کے ہاتھ آ نہ سکے

وہ پگھلتے ہوئے لمحات بڑے نازک تھے

چار آنسو بھی نہیں ہیں کہ سجا لوں پلکیں

شام آتی ہے تری یاد کی بانہیں تھامے

دل کہ آئنہ ہے، کس دل کے مقابل رکھ دوں

خوف آتا ہے کہیں ٹوٹ نہ جائیں شیشے

بات ہی اور ہے معصوم سی اک لڑکی میں

یوں گزرتے ہیں نگاہوں سے ہزاروں چہرے

بادِ مسموم سے کام اپنا چلا لیتا ہوں

میری قسمت میں نہیں سرد ہوا کے جھونکے

طنز پر ختم نہیں طبعِ مظفرؔ حنفی

شعر ہر رنگ میں کہہ لیتا ہے گاہے گاہے

٭٭٭

 

 

 

 

سمجھتا نہیں وہ اشارے وغیرہ

اکارت گئے استعارے وغیرہ

سبب تھے یہی، ڈوب کر سوچتا ہوں

سفینے، جزیرے، کنارے وغیرہ

ترستی رہیں روشنی کو نگاہیں

چمکتے رہے چاند تارے وغیرہ

وہاں کامیابی کا خانہ نہ ہو گا

بنے ہیں جہاں گوشوارے وغیرہ

غلط ہے، چمن کی تباہی کا باعث

نہیں جگنوؤں کے شرارے وغیرہ

وہ تنکے ہوں یا نقشِ پا خضر کے ہوں

نہیں چاہئیں یہ سہارے وغیرہ

لبھاتے ہیں اوّل رلاتے ہیں آخر

نگاہوں میں بس کر نظارے وغیرہ

جہاں بھی کڑا وقت ان پر پڑا ہے

وثیقے وغیرہ، گزارے وغیرہ

حقیقت پسندوں کو اچھے لگیں گے

مظفر ترے طنز پارے وغیرہ

٭٭٭

 

 

 

 

آنچ اتنی تیز تھی ادراک میں

رفتہ رفتہ مل گئے ہم خاک میں

کھال کا پردہ ہٹا کر دیکھیے

بھیڑیا ہے بھیڑ کی پوشاک میں

ہر صدف پھیلا کے دامن رہ گیا

کچھ نہیں تھا قطرہ ہائے پاک میں

یوں تو بستی میں ہزاروں تھے مگر

آدمی کی بُو نہ آئی ناک میں

ہم نے اپنے حق میں کانٹے بو لیے

شعر کہہ کر لہجۂ بے باک میں

میرے اندر ہی کمیں گاہیں بنائے

کون بیٹھا ہے یہ میری تاک میں

اے مظفرؔ پھول تو ٹھنڈے ملے

آگ پنہاں تھی خس و خاشاک میں

٭٭٭

 

 

 

 

ڈھل گیا سورج تو کالی رات پر تکیہ کروں

سر پھرا ہے کیا جو ایسی بات پر تکیہ کروں

وقت کی رفتار تھمنے سے رہی، کیا فائدہ

سوچتا ہوں گردشِ حالات پر تکیہ کروں

چھیڑیے مجھ کو نہ مجھ سے یہ توقع کیجیے

روشنی کے واسطے ظلمات پر تکیہ کروں

یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے محرومیو

ہاتھ پھیلاؤں کہ اپنے ہات پر تکیہ کروں

زندگی تعبیر ہے جذبات کی تسخیر سے

کس طرح جذبات ہی جذبات پر تکیہ کروں

اور کب تک ان کے وعدوں سے بہلنا ہے مجھے

اور کب تک ان کے ارشادات پر تکیہ کروں

میر، غالب اور مومن سے سبق لیتا ہوں میں

اے مظفرؔ کیا بتوں کی ذات پر تکیہ کروں

٭٭٭

 

 

 

 

میں ہوں سربلندوں میں، وہ جہاں پناہوں میں

اس لیے کھٹکتا ہوں مستقل نگاہوں میں

راز پوچھیے مجھ سے ان کی بارگاہوں کے

لوگ سر جھکاتے ہیں جن کی بارگاہوں میں

آپ نے جو کہہ دی ہیں بربنائے مایوسی

درج ہیں وہی باتیں آپ کے گُناہوں میں

ہم غبار بن کر کیوں چھا نہ جائیں منزل پر

نقش پا کی صورت کیوں بیٹھ جائیں راہوں میں

وہ مجھے بھلانے کی کوشش نہ فرمائیں

بار بار آؤں گا حافظے کی بانہوں میں

کاش میں سمجھ سکتا، شاعری کہاں سے ہے

گرم گرم نالوں میں، سرد سرد آہوں میں

تبصروں کی ناکامی پوچھیے مظفرؔ سے

پھنس گئی غزل جس کی اس کے خیر خواہوں میں

٭٭٭

 

 

 

 

عکس میرا تھا مگر چہرہ نظر آیا غلط

سوچتا ہوں آئنے کا زاویہ ہو گا غلط

تم نے جو دیکھا، سنا، سمجھا، بزعمِ آگہی

سر بسر دیکھا غلط، سوچا غلط، سمجھا غلط

میری خاموشی کہ دزدیدہ نگاہی آپ کی

کون ثابت کر رہا ہے آپ کا دعویٰ غلط

وہ مرے منہ پر مری بابت غلط کہتے رہے

ظرف میرا دیکھیے، میں نے نہیں مانا غلط

ہم تماشہ بن کے چہرے پڑھ چکے ہیں بھیڑ کے

ایک دو کی بات کیا آوے کا آوا تھا غلط

اس کا دامن ہے سلامت، میری پلکیں خشک ہیں

راستہ چنتا ہے ہر ٹوٹا ہوا تارا غلط

اے مظفرؔ لوگ تو بدنام کرتے ہیں ہمیں

ہم پہ جو گزری وہ لکھتے ہیں اگر تو کیا غلط

٭٭٭

 

 

 

 

راہ میں گمرہی بھی آئے گی

اس طرح رہروی بھی آئے گی

آ لگی ہے قریب اگلی صدی

یہ تھا نالا، ندی بھی آئے گی

مڑ کے یوں دیکھتے ہیں اڑتے رنگ

جیسے خوشبو چلی بھی آئے گی

بیٹھنے کو تو بیٹھ جاتا ہوں

اس طرف روشنی بھی آئے گی

اتنی تہذیب کی توقع کیوں

آدمی ہوں ہنسی بھی آئے گی

آپ کی بزم میں مرے ہمراہ

میری خود آگہی بھی آئے گی

چڑھتے سورج سے کہیو بعد سلام

شام تو آپ کی بھی آئے گی

آسمانوں سے آئے ہیں پتھر

خیر میری گلی بھی آئے گی

اے مظفرؔ تجھے پرکھنے کو

اینٹی شاعری بھی آئے گی

٭٭٭

 

 

 

 

سنگریزے جب ستاروں کے برابر ہو گئے

ہم خود اپنی ہی نگاہوں میں سبک سر ہو گئے

نازکی تسلیم، لیکن گرمیِ حالات سے

دل کے نازک آئنے پگھلے تو پتھر ہو گئے

سربلندی بڑھ گئی گردن اترنے پر یہاں

اس طرف شمشیر کے ٹکڑے بھی خنجر ہو گئے

کچھ خبر بھی ہے تجھے اے رونقِ بزمِ طرب

لاکھ ہنگامے تری محفل سے باہر ہو گئے

اب وہی سنگِ ملامت پھینکنے والوں میں ہے

جس کی خاطر ہم یہاں مطعون حد بھر ہو گئے

خیر کانٹوں سے نکل آتا خراشوں کا جواز

پھول چننے میں لہو سے ہاتھ کیوں تر ہو گئے

اے مظفرؔ بات بھی کرنی نہ آتی تھی جنھیں

ان کی بابت بھی سنا یہ ہے سخنور ہو گئے

٭٭٭

 

 

 

 

عنایت آپ کی ہے پوچھنا کیا

ہمیں بیٹھے بٹھائے ہو گیا کیا

سبھی سمتوں سے لوٹ آئے مسافر

کہیں بھی راستہ کوئی نہ تھا کیا

حبابوں نے اٹھایا سر کہ ٹوٹے

ہماری ابتدا کیا، انتہا کیا

کسی دن موت آ لے گی ہمیں بھی

ملی ہے مہلتِ صبر آزما کیا

کھلا تھا باغ کی جانب دریچہ

مجھے فرصت نہیں تھی، دیکھتا کیا

کرن کی ڈور سے لٹکی ہے شبنم

مگر اس چاندنی کا آسرا کیا

کسی میں تابِ گویائی نہیں ہے

اب اس کے بعد کہنے کو رہا کیا

تمنّا ہے کہ ریگستان کوئی

لیے پھرتے ہیں ہم بھی کربلا کیا

نظر کے زاویوں کا فرق ہے سب

جزا کیا ہے خطا کیا ہے سزا کیا

قلم ٹوٹا ہوا، ویران آنکھیں

مظفرؔ پھوٹ کچھ منہ سے، ہوا کیا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

کہاں کے ہوش بالآخر پیام کس کا تھا

کسے خبر کہ لفافے پہ نام کس کا تھا

الجھ رہا تھا کوئی اور اس کے دامن سے

کلی کی جان گئی، انتقام کس کا تھا

یہ انتظام، کہ تختہ ملا نہ تخت ہمیں

ادھر تو آئے ذرا انتظام کس کا تھا

کہیں سکون کی صورت نظر نہیں آتی

مقابل آئنۂ صبح و شام کس کا تھا

بتا رہا ہے ہمیں سنگ آستاں کا لہو

کہ اس مکان میں پہلے قیام کس کا تھا

مرا یہ ظرف کہ انکار کر دیا میں نے

جب اس نے چوم کے پوچھا یہ جام کس کا تھا

غزل جنابِ مظفرؔ اسی کو کہتے ہیں

ہر ایک ہاتھ ہے دل پر، کلام کس کا تھا

٭٭٭

 

 

 

 

موجوں پہ خون کی جو اٹھائے ہوئے ہیں سر

جھکتا ہے سر حیات کا ان کے ہی نام پر

اب گرمیِ خیال تری کام آئے گی

ٹھنڈی ہوا نے چیر دیا نیند کا جگر

اس وسوسے میں پڑ کے دعا ہی نہ کی کبھی

ہویا نہ ہو دعا مری شرمندۂ اثر

کیا جانے کس کے ہاتھ پڑیں آپ کے خطوط

غالبؔ کی طرح ہم نہ لٹائیں گے اپنا گھر

پیش آیا واقعہ جو گلِ آرزو کے ساتھ

اس کی ہوا کے رُخ سے ہمیں مل گئی خبر

سوچا تھا خاک بن کے سہی، جائیں گے وہاں

اب خاک ہو گئے تو ہوا لے چلی کدھر

اپنی خودی ہی جس کی نظر میں نہ آ سکے

اس کی جبیں نہیں ہے سزاوارِ سنگِ در

٭٭٭

 

 

 

 

ہم کسی گنتی کسی فہرست میں شامل نہیں

صاف گوئی آج کے آئین میں داخل نہیں

کیا کریں، دھبے انھیں کی آستیں پر مل گئے

جن کی پیشانی پہ لکھا تھا کہ ہم قاتل نہیں

ہر سفینے پر کسی کا نام ہے، کیا کیجیے

شومیِ قسمت سے ہم پروردۂ ساحل نہیں

رہنمائی وصفِ کامل ہے مگر سب ہم سفر

محترم کے باب میں کہتے ہیں اس قابل نہیں

لوگ تو منہ سے نکلتے ہی اچک لیتے ہیں بات

آپ کی محفل بھی اب تو آپ کی محفل نہیں

راز کھل جائے گا زخموں پر نمک پاشی کے بعد

اس کے ہنسنے سے تو لگتا ہے کہ یہ بسمل نہیں

اے مظفرؔ ناقدینِ عہد ناخوش ہیں تو کیا

آزما دیکھیں، مرے اشعار بھی بزدل نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

اگر خود نہ آئے گا بسمل کے پاس

مرے شعر پہنچیں گے قاتل کے پاس

مجھے نت نئے راستے چاہئیں

مرے واسطے کیا ہے منزل کے پاس

چڑھایا ہوا رنگ اڑ جائے گا

اسے لائیے شمع محفل کے پاس

مگر توڑ سچ کا کسی میں نہیں

ہزاروں وسیلے ہیں باطل کے پاس

اسے چھوڑ دیجے قلم کے لیے

بچا ہے جو قدرے لہو دل کے پاس

سفینہ ڈبویا ہے جس موج نے

وہی سر پٹکتی ہے ساحل کے پاس

مظفرؔ کی غزلیں سنیں کس طرح

ترنم نہیں مردِ غافل کے پاس

٭٭٭

 

 

 

 

تری نگاہ کو بیکار کر دیا میں نے

خودی کو آج گنہ گار کر دیا میں

یہ کم نہیں ہے کہ حلقومِ ظلم کی خاطر

ہر ایک شعر کو تلوار کر دیا میں نے

ترا جمال فقط خوبصورتی میں نہ تھا

دعائیں دے کہ طرح دار کر دیا میں نے

غضب کیا ترے پندار کو برا کہہ کر

محل کو ریت کی دیوار کر دیا میں نے

یہ ایک رمز جنوں ہے کہ راہزن جو تھا

اسی کو قافلہ سالار کر دیا میں نے

برس پڑے ہیں ستارے مرے ہی دامن پر

فصیلِ شب کو جو مسمار کر دیا میں نے

غنودگی میں تھا صاحبقرانِ وقت مگر

قلم کی نوک سے بیدار کر دیا میں نے

٭٭٭

 

 

 

 

اسے جو ضد ہے مرا نام رکھ دیا جائے

تو ’’آفتاب لبِ بام‘‘ رکھ دیا جائے

تری جفا بھی ادا ہے، اگر اجازت ہو

تو اس ادا کا کوئی نام رکھ دیا جائے

جہاں بہار کی کوشش نہ بار آور ہو

وہاں خزاں کے سر الزام رکھ دیا جائے

بلا سے گھر میں اجالا نہ ہو، نمائش کو

چراغ در پہ سرِ شام رکھ دیا جائے

یہ ہے سیاستِ ساقی، نظر ملا کے اِدھر

نظر بچا کے اُدھر جام رکھ دیا جائے

مرا خیال ہے ہر شخص فائدے میں رہے

جو اک طرف دلِ ناکام رکھ دیا جائے

رہِ غزل میں مظفرؔ کی کوششیں یہ ہیں

کہ اک چراغ بہرِ گام رکھ دیا جائے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

میں نے تو حتی المقدور اسے سمجھایا لیکن وہ

میرے بس میں کیا ہے، جی کو سمجھا لوں گا لیکن وہ

مجھ میں یہ خامی ہے منہ پر سچ باتیں کہہ دیتا ہوں

اک مدت سے میرا گھر ہے سونا سونا، لیکن وہ

اس کا مجھ سے کوئی خاص تعلق ہو گا جب ہی تو

اس دنیا میں اور نہیں ہے میرے جیسا، لیکن وہ

کانٹے بونا، پھول کھلانا دونوں اس کے بس میں ہیں

میں ہوتا تو گلشن گلشن پھول کھلاتا، لیکن وہ

لوگ سمجھتے تھے وہ میری جانب سے لاپروا ہے

مجھ کو سب سے آنکھ چرا کر دیکھ رہا تھا لیکن وہ

مجبوراً غزلوں میں کڑوی تیکھی باتیں کہتا ہوں

پہلے اس سے کہہ کر دیکھا، لکھ کر بھیجا، لیکن وہ

آج مظفرؔ حنفی کا ہر شعر بہ باطن مقطع ہے

استادوں نے تو اس کو ناکارہ سمجھا، لیکن وہ

٭٭٭

 

 

 

 

اگر یہ فرض نہ کر لوں کہ آپ میرے ہیں

تو زندگی میں مری چار سو اندھیرے ہیں

تمازتِ غمِ دوراں شدید ہے، لیکن

کسی کی زلف کے سائے بہت گھنیرے ہیں

بڑھے چلو کہ ذرا دور اور چلنا ہے

فصیلِ شام کے اس پار ہی سویرے ہیں

رہِ حیات میں کانٹے سمیٹ کر میں نے

قدم قدم پہ گلِ آرزو بکھیرے ہیں

تصورات کی محفل سجائے بیٹھا ہوں

تجلیاں ہیں کہ چاروں طرف سے گھیرے ہیں

بڑھا رہے ہیں تری بد مزاجیاں ہنس کر

خطا معاف، عجب غمگسار تیرے ہیں

یہ جامِ خاص مظفرؔ کو یوں قبول نہیں

کہ آپ اس کی طرف سے نگاہ پھیرے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

دیکھو کوئی اٹھائے نہ سر میں نشے میں ہوں

یہ حشر کیوں بپا ہے اگر میں نشے میں ہوں

اے چشمِ میگسار ذرا دیکھ بھال کر

محفل کو ہو نہ جائے خبر میں نشے میں ہوں

تلخابۂ حیات اگر تیز ہے تو ہو

مجھ پر غلط ہوا ہے اثر میں نشے میں ہوں

اپنے قدم سنبھال غلط پڑ رہے ہیں وہ

میرا کوئی خیال نہ کر میں نشے میں ہوں

حالات کہہ رہے ہیں مرا ساتھ دیجیے

سونی پڑی ہے راہگزر میں نشے میں ہوں

کیوں تیز ہو رہے ہو ذرا سے قصور پر

تم تو نہیں نشے میں اگر میں نشے میں ہوں

یاد آ رہی ہے زلف کسی دلنواز کی

اے ہم سفر کہاں کا سفر، میں نشے میں ہوں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

گلشن میں جو بھی شاخ ہے گیسو بریدہ ہے

گل ہے تو جس جگہ ہے وہیں آبدیدہ ہے

تعریف کر رہا ہوں ستم گر کی اس طرح

جیسے ستم گری کوئی وصفِ حمیدہ ہے

گردن جھکا کے اس کی غلط بات مان لیں

لوگو ہمیں بتاؤ یہ کیسا عقیدہ ہے

اس نے ہر اک زبان پہ پہرے بٹھائے ہیں

پھر بھی ہر اک زباں پہ اسی کا قصیدہ ہے

بے پر کی اڑ رہی ہے بڑے زور شور سے

اس پر یقیں نہیں ہے جو دیدہ شنیدہ ہے

انداز ایک ہی ہے مگر فرق دیکھیے

وہ کج کلاہ ہے مری گردن خمیدہ ہے

لہجہ ہی اور کچھ ہے مظفرؔ کا شعر میں

حلیہ تو کہہ رہا تھا کہ آفت رسیدہ ہے

٭٭٭

 

ببول سے نہ الجھیے، مری پناہ میں ہے

’’ہزارہا شجرِ سایہ دار راہ میں ہے ‘‘

ہم اہلِ دل کا تری بزم میں گزر ہی نہیں

وفا کا نام بھی داخل جہاں گناہ میں ہے

مجھے بھی ضد ہے کہ ہر شاخ پر بناؤں گا

اگر مرا ہی نشیمن تری نگاہ میں ہے

تراش ہی نہیں سکتے جو ظلم کی شاخیں

یہیں سے بات بنائیں، اثر تو آہ میں ہے

اسے بلا کے تو دیکھو یہ کوئی شرط نہیں

کہ محوِ خواب بھی ہو گا جو خواب گاہ میں ہے

اگر عوام سے نزدیک ہوں مظفرؔ میں

تو اک خفیف سا کج بھی مری کلاہ میں ہے

٭٭٭

 

 

 

 

بھیدی تو یہیں گھر کے مکینوں میں ملے گا

طوفان بہر حال سفینوں میں ملے گا

سجدے جو چکائے ہیں غلط نقش قدم پر

اک داغ بھی تابندہ جبینوں میں ملے گا

اک نور کا سیلاب ہے ذرّات میں پنہاں

میں سوچ رہا تھا کہ نگینوں میں ملے گا

سنتا ہوں کہ قائل ہے مری طنز کا وہ بھی

ڈوبا ہوا ہر وقت پسینوں میں ملے گا

پہلے تو ہمیں آپ سے امید نہیں ہے

اک جام ملا بھی تو مہینوں میں ملے گا

تائید وفا بزمِ حسیناں میں نہیں ہے

ذکر اس کا شب و روز حسینوں میں ملے گا

چڑھتے ہوئے اس دور کا ہر نقش مظفرؔ

تم کو مرے اشعار کے زینوں میں ملے گا

٭٭٭

 

 

 

 

 

اگر نہیں چاہتے کہ دل کے غبار کو آشکار کیجے

تو دوستوں کو شمار کیجے، نہ دشمنوں کو شمار کیجے

سبھی تو ہیں مبتلائے غم اور کیوں انھیں سوگوار کیجے

صداقتوں کو جہاں بھی مل جائیں گھیر کر سنگسار کیجے

نئے زمانے کے خود پسندوں کو ساتھ چلنا سکھا رہا ہوں

نہیں ہے موقع سبک روی کا ابھی مرا انتظار کیجے

جناب کو باوجودِ قربت کسی طرح حق نہیں پہچانتا

خلوص کا نام لے کے میرے خلوص کو داغدار کیجے

کوئی ضروری نہیں کہ اپنا قرار کھونے پہ انتقاماً

کبھی اسے بیقرار کیجے کبھی اسے بیقرار کیجے

فرائضِ باغباں میں کب تھا کہ اہتمام بہار کرتا

فرائضِ عندلیب میں ہے کہ مدحِ فصلِ بہار کیجے

اگرچہ آتش نوائیوں پر بہت خفا ہیں وہ اے مظفرؔ

کبھی تو گھبرا کے بخش دیں گے، یہی خطا بار بار کیجے

٭٭٭

 

 

 

خدا نخواستہ کسی کی نیند میں خلل پڑے

یہ مشعلوں کے کارواں ادھر کہاں نکل پڑے

جو تمکنت کے ساتھ سن رہے تھے میری داستاں

پتے کی بات چھیڑنے کی دیر تھی، اچھل پڑے

ثبوت یہ ملا کہ ایک ناؤ پر سوار ہیں

جو اک چراغِ دل جلا کئی چراغ جل پڑے

جنابِ دل ضرور چوٹ کھائیں گے کہ ان دنوں

جہاں کوئی حسین شکل دیکھ لی، مچل پڑے

برا نہ تھا یہ مشورہ، قدم سنبھال کر چلو

مرا کہا نہ مان کر وہ تار سے پھسل پڑے

ضرور ساتھ آئیے کہ دو بھلے ہیں ایک سے

مگر یہ ٹھان لیجیے کہ چل پڑے تو چل پڑے

طویل و تلخ داستاں، مظفرؔ نحیف جاں

مگر نہ ہاتھ شل پڑے نہ ابروؤں پہ بل پڑے

٭٭٭

 

یہ جو کچھ لوگ ترے نام سے وابستہ ہیں

جانتا ہوں کہ کسی کام سے وابستہ ہیں

لوگ زحمت نہ کریں شہدِ لب و رخ کے لیے

ہم اگر تلخیِ ایّام سے وابستہ ہیں

ان روایات کا مفہوم بدلنا ہو گا

جو گل و خار و در و بام سے وابستہ ہیں

اس کی تشریح بھی فرمائیں اجالوں کے سفیر

ظلمتیں کیوں سحر و شام سے وابستہ ہیں

ڈھونڈتی ہے ہمیں منزل تو بھٹکتے ہیں قدم

ہم کہ آغاز میں انجام سے وابستہ ہیں

غالباً ان کو مظفرؔ سے نئی راہ ملے

جن کی غزلیں روشِ عام سے وابستہ ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

عجیب میکدہ ہے جس میں پوچھتا کوئی نہیں

تکلفاً ہی کہہ دیا نہیں کہ واقعی نہیں

مری متاعِ غم میں آج بھی کوئی کمی نہیں

اگرچہ اس نے لوٹنے میں احتیاط کی نہیں

سنا گیا ہے رہنما کی راہزن سے چل گئی

ذرا سا غور کیجیے تو یہ خبر بری نہیں

انھیں جو اعتماد ہے کہ ساحلِ مراد ہے

حقیقتاً سرشتِ ناخدا سے آگہی نہیں

اگر ترا خیال ہے بہار حسبِ حال ہے

تو اس گماں کا توڑ اب خزاں کے پاس بھی نہیں

نئی ہے راہ میرِ کارواں کے واسطے تو ہو

مرے لیے تو کوئی سنگِ میل اجنبی نہیں

چراغ آپ غیر کے چراغ سے جلائیں تو

مظفرؔ خراب کے لیے وہ روشنی نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

تسلیم ہے کہ اس میں تمہاری خطا نہیں

ہم نے ہی تم سے حالِ غم دل کہا نہیں

مجھ پر کرم نہ کر تو کسی پر ستم نہ کر

اس کے سوا کچھ اور مرا مدعا نہیں

میں نے سمجھ لیا ہے کشش ہے کشیدگی

وہ خوب جانتا ہے مگر مانتا نہیں

طوفان سے کہو کہ ذرا ہوش میں رہے

کشتی پہ آج میں ہوں کوئی ناخدا نہیں

کوئی کسر اٹھا تو نہ رکھی تھی آپ نے

ہم خود ہی سخت جاں ہیں قصور آپ کا نہیں

پر زور احتجاج کا موقع یہی تو ہے

اب ہر معاملے میں مروّت روا نہیں

آئی ہے فصلِ گل تو نمونے کے واسطے

سارے چمن میں ایک نشیمن رہا نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

ایک پژمردہ سا غنچہ آپ تک پہنچا جو ہے

باغباں کا محترم سے دور کا رشتہ جو ہے

اب مجھے کیا خاک اطمینان کی نیند آئے گی

مسکرا کر آپ نے میری طرف دیکھا جو ہے

کہہ نہیں سکتا، کدورت ہے کہ الفت آپ سے

خار سا دل میں کہیں محسوس کچھ ہوتا جو ہے

رنگ لائیں گی کسی دن آپ کی کج فہمیاں

وہ مرا مقصد نہیں تھا آپ نے سمجھا جو ہے

جانتا ہے عیب جوئی فعلِ مستحسن نہیں

حق پہنچتا ہے اسے، وہ میرا ہمسایا جو ہے

ایک ہی سنگِ حقیقت چُور کر دے گا اسے

خوشنمائی اندرونِ آئنہ خانہ جو ہے

اے مظفرؔ سر جھکانے کی ہمیں عادت نہیں

یہ سمجھتے ہیں، وہی دریا بھی ہے قطرہ جو ہے

٭٭٭

 

 

 

فرق نہیں پڑتا ہم دیوانوں کے گھر میں ہونے سے

ویرانی امڈی پڑتی ہے گھر کے کونے کونے سے

اپنی اس کم ظرفی کا احساس کہاں لے جاؤں میں

سن رکھا تھا الجھن کچھ کم ہو جاتی ہے رونے سے

بعد از وقت پشیماں ہو کر زخم نہیں بھر سکتے تم

دامن کے دھبّے البتہ مٹ سکتے ہیں دھونے سے

کانٹے بونے والے ! سچ مچ تو بھی کتنا بھولا ہے

جیسے راہی رک جائیں گے تیرے کانٹے بونے سے

میرے تیکھے شعر کی قیمت دُکھتی رگ پر کاری چوٹ

چکنی چپڑی غزلیں بیشک آپ خریدیں سونے سے

آنکھوں میں یہ رات کٹے تو ٹھیک مظفرؔ حنفی جی!

رہزن جھنجھلایا بیٹھا ہے اک منزل سر ہونے سے

٭٭٭

 

 

 

 

ان کی اتنی ہی عنایت کوئی کم ہے ہم کو

وہ سمجھتے ہیں کسی بات کا غم ہے ہم کو

اس جگہ داخلِ آداب ہے لغزش اپنی

بابِ مئے خانہ رہِ دیر و حرم ہے ہم کو

سرد پانی کے لیے لوگ ترستے ہوں گے

اس طرف تشنگیِ آتشِ نم ہے ہم کو

آپ ہی اپنے مصائب میں گرفتار ہیں ہم

اب کہاں فرصتِ تحسینِ صنم ہے ہم کو

ایک سجدے کی سزا بھوگ رہے ہیں اب تک

اب کہیں سر نہ جھکائیں گے قسم ہے ہم کو

غیر کے واسطے محرابِ حرم ہو شاید

آپ کا نقشِ قدم، نقشِ قدم ہے ہم کو

پرورش ایک مظفرؔ کی نہیں کر سکتے

دعویِ پرورشِ لوح و قلم ہے ہم کو

٭٭٭

 

 

 

 

حالانکہ محترم نے پکارا نہیں ہمیں

لغزش کریں جناب، گوارا نہیں ہمیں

دامن بچائیے گا کہ اٹھتے ہیں پی کے ہم

ایسے میں اور کوئی سہارا نہیں ہمیں

رسوائیوں کے خوف سے خاموش رہ سکیں

اتنا کسی کا نام بھی پیارا نہیں ہمیں

ہم سند باد ہیں تو سفر شرط ہو چکا

اس بحرِ بیکراں میں کنارا نہیں ہمیں

اب جا کے مانتا ہے کہ پیروں میں جان ہے

کس ہفت خواں سے اس نے گزارا نہیں ہمیں

ظالم کے اس لحاظ و مروّت کو کیا کہیں

تڑپا رہا ہے جان سے مارا نہیں ہمیں

٭٭٭

 

 

بدگماں تم ہی نہیں ہو بدگماں ہم بھی تو ہیں

اس طرف آؤ، حریف کہکشاں ہم بھی تو ہیں

سوچنے کی بات ہے ہر پھول پر قابض ہے وہ

ورنہ ناموسِ چمن کے پاسباں ہم بھی تو ہیں

آپ کیوں ہلکان ہوتے ہیں ہمارے واسطے

سنگدل ہو گا زمانہ، سخت جاں ہم بھی تو ہیں

اک جفا کے نام پر، اک صاف گوئی کے لیے

وہ جو ہے مشہور، بد نامِ جہاں ہم بھی تو ہیں

راستے کے پتھروں سے خوف آتا ہے مجھے

جانے کب کہہ دیں امیر کارواں ہم بھی تو ہیں

آپ کی غزلوں کے منہ سے پھول جھڑتے ہیں مگر

زعم یہ فرمائیں گے آتش بیاں ہم بھی تو ہیں

بیشتر میں اختلافاتِ نظر کے باوجود

چند با توں میں تمھارے ہم زباں ہم بھی تو ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

جو ہونٹوں پہ مہرِ خموشی لگا دی

تو مل کر نگاہوں نے تالی بجا دی

کسی کے لیے میں پریشاں نہیں ہوں

رقیبوں نے جانے کہاں کی اڑا دی

جنوں اپنی تقدیر سے کھیلتا ہے

مٹائی، بنا دی، بنائی، مٹا دی

ابھی نور و ظلمت میں چلتی رہے گی

نہ وہ اس کے عادی نہ میں اس کا عادی

خبر کارواں کی نہ ہو رہزنوں کو

یہی سوچ کر میں نے مشعل بجھا دی

گلوں نے جب الزام رکھا خزاں پر

تو وہ خار کو دیکھ کر مسکرا دی

توقع نہیں تھی مظفرؔ سے ان کو

کھری بات سن کر قیامت اٹھا دی

٭٭٭

 

 

 

 

جو بیت چکا وہ کل ہوں

یا آنے والا پل ہوں

ہنستا ہوں اپنے اوپر

میں بھی کتنا پاگل ہوں

میں تھم تھم کر برسوں گا

اک آوارہ بادل ہوں

تم ٹھنڈا، گھور اندھیرا

میں اک جلتی مشعل ہوں

چھینٹیں آئی ہیں تم پر

لیکن میں گنگا جل ہوں

پگڈنڈی سے کہہ دینا

میں بھی جنگل جنگل ہوں

آڑی ترچھی راہوں پر

محوِ تکمیلِ غزل ہوں

٭٭٭

 

 

 

 

وہ شب میں ہو گا ابھی ادھر رہزنوں کا پھیرا نہیں ہوا ہے

ابھی سے کیوں مشعلیں جلائیں ابھی اندھیرا نہیں ہوا ہے

ضمیر کا چور اپنی داڑھی پہ ہاتھ یوں پھیرتا ہے، دیکھا

اچھل پڑے وہ، ابھی مکمل سوال میرا نہیں ہوا ہے

مجھے ابھی گیسوؤں کے سائے پہ طنز کرنے کی چھوٹ دیجے

مرے لیے گیسوؤں کا سایہ کبھی گھنیرا نہیں ہوا ہے

تو پھر مجھے کون کہہ سکے گا کہ آبگینوں کو چھو رہا ہوں

تجھے یہی اعتراض ہے نا کہ ذکر تیرا نہیں ہوا ہے

غلط کہ مایوس اہلِ فن ہیں اگرچہ حالات دل شکن ہیں

مگر سویرا کبھی تو ہو گا، اگر سویرا نہیں ہوا ہے

خبر ملی ہے کہ سازشیں راہبر سے منزل کی ہو چکی ہیں

قیام کیجے وہاں جہاں راہبر کا ڈیرا نہیں ہوا ہے

زمانۂ حال سے بہر طور چل رہی ہے مری مظفرؔ

کبھی میں اس کا نہیں ہوا ہوں کبھی وہ میرا نہیں ہوا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

شادؔ صاحب کی ہدایت پہ سنبھلنا ہو گا

فن کو سو میل کی رفتار سے چلنا ہو گا

اب تمھیں بزم کا آئین بدلنا ہو گا

ورنہ خود اپنی ہی محفل سے نکلنا ہو گا

بعد از وقت پشیمان کہاں ہوتے ہو

پھول جب توڑ لیا ہے تو مسلنا ہو گا

کوئی فرہاد نہ تیشے کی طرف بڑھ جائے

ٹوٹنا چاہیں نہ پتھر تو پگھلنا ہو گا

لوگ حالات پہ یوں طنز کیے جاتے ہیں

جیسے سانچے میں کسی اور کو ڈھلنا ہو گا

اس طرح دور کھڑے ہو کے نظارہ نہ کریں

آپ نے آگ لگائی ہے تو جلنا ہو گا

میری غزلوں سے مظفرؔ جو خفا رہتے ہیں

ان بزرگوں کو مزاج اپنا بدلنا ہو گا

٭٭٭

 

 

 

 

مانجھی دھوئی پاک زباں پر تلخی بنیاد کہاں

اس جھانسے میں آ سکتے ہیں شاگردانِ شادؔ کہاں

بستی سے تو اُکتا کر صحرا کی جانب آیا ہے

صحرا سے بچ کر جائے گا او خانہ برباد کہاں

مصلحتاً تبدیلی کر لی جاتی ہے افسانوں میں

خسرو ہی تیشے سے کھیلا کرتا تھا، فرہاد کہاں

ہر چہرے کے پیچھے ہو گا ایک فرشتہ یا شیطان

ان با رونق چوراہوں پر اصلی آدم زاد کہاں

دھوپ سہی راہوں پر، لیکن چلتے رہنا بہتر ہے

سائے ہیں مخدوش، نہ جانے پڑ جائے افتاد کہاں

بستی بھر میں ایک تمہارا ہی کاشانہ اونچا ہے

سر اونچا رکھنے والوں کو پھانسی دے جلّاد کہاں

آج مظفرؔ اپنے حق کی خاطر لڑنا پڑتا ہے

خالی دامن پھیلانے سے ملتی ہے امداد کہاں

٭٭٭

 

 

 

 

یوں نہ پھولیں حباب کی مانند

سیکڑوں ہیں جناب کی مانند

ہم تو کانٹے لیے ہیں دامن میں

آپ ہوں گے گلاب کی مانند

ہر مسافر کے ساتھ چلتے ہیں

راہزن، ماہتاب کی مانند

عمر کٹ ہی گئی بہر صورت

لمحۂ اضطراب کی مانند

خاک اڑانے لگے بگولے بھی

تیرے خانہ خراب کی مانند

چونکہ جلتے ہوئے نشیمن ہیں

ٹوٹتے ہیں شہاب کی مانند

شعر کہنے لگا مظفرؔ بھی

شادؔ کے انتخاب کی مانند

٭٭٭

 

 

 

 

صحنِ گلشن کی دلآرائیاں کیا کہتی ہیں

بول اے غم تری پہنائیاں کیا کہتی ہیں

غور کیجے کہ پسِ دودِ چراغِ محفل

یہ لرزتی ہوئی پرچھائیاں کیا کہتی ہیں

قرض سے منع تو غالبؔ نے کیا ہے لیکن

سرمئی شام کی تنہائیاں کیا کہتی ہیں

آپ کہتے ہیں حجاباتِ نظر ہیں بیکار

اور بڑھتی ہوئی رسوائیاں کیا کہتی ہیں

وہ جو محرومِ سماعت ہیں انھیں کیا معلوم

دور بجتی ہوئی شہنائیاں کیا کہتی ہیں

صاف گو لوگ ہمیں یوں ہی کہا کرتے ہیں

آپ کی حاشیہ آرائیاں کیا کہتی ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

وہی پتھر جو تیرے آستاں کا کام دیتے ہیں

ہمیں مخدوش راہوں کے نشاں کا کام دیتے ہیں

نظر کیوں ہے زمانے کی مرے دو چار تنکوں پر

یہی دو چار تنکے آشیاں کا کام دیتے ہیں

نسیمِ صبح کو دامن سے خوشبو تک نہیں ملتی

شگوفے راز دانِ باغباں کا کام دیتے ہیں

وہیں پر ختم ہو جاتی ہے آ کر داستاں میری

جہاں دو چار آنسو داستاں کا کام دیتے ہیں

ہمیں پر بند ہو جائے گا اک دن بابِ میخانہ

اگر ہم آپ کو پیرِ مغاں کا کام دیتے ہیں

یہ دشتِ غم یہ سناٹا، مگر تنہا نہیں ہیں ہم

کچھ احساسات بھی تو کارواں کا کام دیتے ہیں

مظفرؔ طنز ہے یہ بھی بہارِ کینہ پرور پر

مرے زخمِ جگر بھی گلستاں کا کام دیتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

دل کو محبوس تقاضے بھی تو ڈستے ہوں گے

بات کرنے کو جہاں لوگ ترستے ہوں گے

ہم سے کچھ لوگ تو شاداب ہیں صحراؤں میں

بیشتر زلف کے سائے میں جھلستے ہوں گے

چند کھیتوں کے مقدر میں نہیں ہے پانی

ورنہ بادل تو بہر حال برستے ہوں گے

ایسے آنسو کہ جو آنکھوں کو نہیں نم کرتے

خون دے کر بھی خریدو گے تو سستے ہوں گے

کس قدر ناز ہے آشفتہ سری پر مجھ کو

جیسے بستی میں خرد مند نہ بستے ہوں گے

طنز آلود سہی، زخم ہیں جن کے دل پر

میرے اشعار پہ جی کھول کے ہنستے ہوں گے

شاہراہوں پہ تو مجمع ہے مظفرؔ صاحب

شعر کہنے کے کئی اور بھی رستے ہوں گے

٭٭٭

 

 

 

 

جگہ نہیں ہے وہاں مدحِ گلبدن کے لیے

بھٹک رہا ہوں جہاں ربطِ جان و تن کے لیے

خوشا کہ راہِ سفر پیچ دار ہے یارو

کوئی اداس نہ ہو زلفِ پر شکن کے لیے

چراغِ خانہ کی فکروں میں انجمن گم ہے

کسی کو فکر نہیں شمعِ انجمن کے لیے

مرا اصول یہی ہے، اگرچہ واقف ہوں

کہ ہر قدم پہ سلاسل ہیں بانکپن کے لیے

ابھی خبر بھی نہیں ہے غریب کانٹوں کو

کہ پھول بک چکے آرائشِ چمن کے لیے

تبھی تو جان ہتھیلی پہ لے کے پھرتے ہیں

ہماری جیب میں کوڑی نہیں کفن کے لیے

دبا سکے نہ مظفرؔ کو ناقدین غلط

تو انتقام تغافل شعار بن کے لیے

٭٭٭

 

 

 

 

بہت اچھے ہیں کاغذ پر جو منصوبے بنائے ہیں

حقیقت سے مشابہ ہوں مگر سائے تو سائے ہیں

نگاہیں کہہ رہی ہیں آسماں کو ہم اٹھائے ہیں

تری محفل میں اس انداز سے ہم سر جھکائے ہیں

ذرا سی چشم پوشی پاسبانِ فکر نے کی ہے

تو وہ بیساختہ بزم تصور میں در آئے ہیں

تکلف برطرف، مہنگا پڑے گا تجربہ ان کو

اگر آں محترم نے مجھ پہ حربے آزمائے ہیں

اثر تو خیر کیا ہو گا ہمارے قلب مضطر پر

مگر یہ خوشنما جملے تمھیں کس نے سکھائے ہیں

بعید از فہم کتنے تجربے لاحق ہیں نظموں کو

غزل گو لغویت سے پھر بھی کچھ دامن بچائے ہیں

مظفرؔ باوجودِ تنگدستی مطمئن ہیں ہم

کہ ان کو بھی ہماری طنز نے چرکے لگائے ہیں

٭٭٭

 

میکدے میں باعث صد حادثات

شیخ کی پابندی صوم و صلوٰت

لیجیے مشعل بجھا دیتا ہوں میں

اب ذرا پہچانیے دن ہے کہ رات

سیکڑوں نے گھور کر دیکھا ہمیں

اُف وہ تیری اک نگاہِ التفات

دوستوں سے خوف آتا ہے ہمیں

یاد ہیں بیتے ہوئے کچھ سانحات

روشنی حد سے زیادہ بڑھ گئی

جل رہی ہو گی کسی کی کائنات

کچھ تو لازم ہے مظفر مصلحت

کون مانے گا تری دو ٹوک بات

٭٭٭

 

 

 

 

گھور کر میں نے اسے دیکھ لیا، کافی ہے

ایک حساس کو اتنی ہی سزا کافی ہے

کیا ضروری ہے کہ اب اس پہ عمل پیرا ہو

آپ نے حکم دیا، اس نے سنا، کافی ہے

آپ کانٹوں کو جلانے کی ہدایت فرمائیں

نرم پھولوں کے لیے دستِ صبا کافی ہے

لوگ بیکار پریشاں ہیں چمن کی خاطر

فصلِ گل نام کی ایک آدھ بلا کافی ہے

مخبری میری وہ طوفاں سے نہ کر پائیں گے

ناخداؤں سے کہو مجھ کو خدا کافی ہے

مطمئن ہوں کہ کوئی جاگ رہا ہے اوپر

گھپ اندھیرے میں ستاروں کی ضیا کافی ہے

اے مظفرؔ یہ غلط سوچ رہے ہیں شاعر

شعر میں کچھ بھی نہ ہو، رنگ نیا کافی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

شاید وہ دیکھے گھبرا کر

پیتا ہوں لہرا لہرا کر

یوں نہ اٹھا الزام لگا کر

پہلے لوگوں کو برتا کر

جس پتھر سے آپ خفا ہیں

آگے پہنچا ٹھوکر کھا کر

یارو! آج تکلّف کیسا

ہنستے ہو شرما شرما کر

خیر منا اپنے دامن کی

ہم کانٹوں سے مت الجھا کر

وہ کانٹوں پر طنز کریں گے

پھولوں کو زیور پہنا کر

اب وہ شبنم بن بیٹھے ہیں

گلشن گلشن آگ لگا کر

یہ تیکھے اشعار مظفرؔ

کہتا ہوں سو چوٹیں کھا کر

٭٭٭

 

 

 

 

خوش نظری نے لاکھ منایا پھر بھی کچھ باقی تو رہا ہوں

مذہب سے بیگانہ ہو کر حنَفی سے حنْفی تو رہا ہوں

اکثر پینے والے پی کر قدموں پر آ جاتے ہوں گے

مجھ سے یہ امید نہ رکھیے، جی رکھنے کو پی تو رہا ہوں

ترکِ تعلق پر خود اپنی جان گنوانا ٹھیک نہ جانا

خوش فہمی ہو یا کج فہمی، جیسے تیسے جی تو رہا ہوں

ہنسنے ہی کے خمیازے میں چاک ہوا تھا گل کا دامن

ہنسنے والو! ہنس لو مجھ پر، پھول کا دامن سی تو رہا ہوں

خود داری پر ٹھیس لگا کر، اپنی محفل سے اٹھوا کر

اب اس نے پھر یاد کیا ہے جیسے میں آ ہی تو رہا ہوں

قصرِ مسرت بن چکنے پر مجھ سے آنکھ چراتے کیوں ہو

بنیادیں رکھنے والوں میں اے لوگو میں بھی تو رہا ہوں

اب وہ میرے نام پہ چاہے خاموشی کا پردہ کر لے

لیکن کچھ دن میں بھی اس کے گالوں کی سرخی تو رہا ہوں

٭٭٭

 

 

 

 

جان دینے میں یہی سوچ کے عجلت کی ہے

اس نے محسوس ہماری بھی ضرورت کی ہے

ایک تو آگ لگا دی ہے چمن میں اس نے

پھر یہ الزام کہ پھولوں نے بغاوت کی ہے

میں غلط بات کی تائید نہیں کر سکتا

محترم آپ نے بیکار یہ زحمت کی ہے

کون کہتا ہے کہ آزاد نہیں ہیں ہم لوگ

ہیں تو آزاد مگر شرط اجازت کی ہے

چار کانٹے تو الجھنے کے لیے چھوڑ دیے

آپ کے ساتھ خزاں نے یہ مروّت کی ہے

چونکہ ہر گام پہ دیکھی ہے قیامت میں نے

میری تحریر میں گرمی بھی قیامت کی ہے

آبگینوں کو بڑی ٹھیس لگائی اس نے

صاف گوئی کی مظفرؔ نے جسارت کی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

کسی کو احساس برتری کا کسی کو احساس کمتری کا

ابھی سے کیوں ذکر چھیڑتے ہو یہاں مساوات و ہمسری کا

ہمیں زمانے نے ظلم پر احتجاج کرنا سکھا دیا ہے

اسے بھی لازم ہے سیکھ آئے نیا طریقہ ستمگری کا

مجھے یقیں ہے کہ مختلف راستوں میں دونوں ہی راہزن ہیں

اِسے بھی دعویٰ ہے رہبری کا اُسے بھی دعویٰ ہے رہبری کا

گلے میں آ کر پڑی ہے دونوں کی سرفرازی عذاب ہو کر

ہمیں گِلہ اس کی خود سری کا اسے ہماری سبک سری کا

روایتوں سے بغاوتوں پر جوان تیار ہو رہے ہیں

بہت دنوں پِٹ چکا ہے ڈنکا اساتذہ کی سخنوری کا

ہمیں تو فرعونِ وقت پر طنز کر گزرنے کی آرزو ہے

نہ آگ لانے کا ہے ارادہ نہ حوصلہ ہے پیمبری کا

پٹی پٹائی ڈگر سے ہٹ کر کدھر چلے حضرتِ مظفرؔ

وہ قافیہ باندھنے چلے ہیں نہیں ہے جو اس برادری کا

٭٭٭

 

 

 

 

غیر کے سہارے پر منزلوں سے کیا پایا

بس یہی کہ اک سکہ راہ میں پڑا پایا

میں جو اس کی چلمن سے اجتناب کرتا ہوں

آج میں نے اس کو بھی جھانکتا ہوا پایا

اک ذرا سی عزت تھی ہاتھ سے گئی وہ بھی

اور بزم میں ہم تک جام بھی نہ آ پایا

تجربات شاہد ہیں، ہم نے اس ستم گر کو

پیکر حیا سمجھا، پیکر ریا پایا

تازہ پھول سا چہرہ کیوں دھواں دھواں سا ہے

آشیاں جلانے کا آپ نے مزا پایا

مجھ کو غم گساروں نے اپنے غم سنائے ہیں

میں کہاں انھیں اپنی داستاں سنا پایا

آپ کے زمانے نے آپ کے مظفرؔ کو

اس طرح ستایا ہے جس طرح ستا پایا

٭٭٭

 

چونکہ داخل ہوں کج کلاہوں میں

میں کھٹکنے لگا نگاہوں میں

سر جھکانا مجھے قبول نہیں

یہ بھی شامل ہوا گناہوں میں

طنز کیوں اختیار کرتا ہوں ؟

تم جو حائل ہو میری راہوں میں

اب جہاں میں انھیں پناہ نہیں

کل یہی تھے جہاں پناہوں میں

ایک دن دھول اڑ رہی ہو گی

تیری ذی شان بارگاہوں میں

اے مظفرؔ سبھی پریشاں ہیں

خیریت ہے تو خانقاہوں میں

٭٭٭

 

 

 

 

 ’’پھرتے ہیں میرؔ خوار کوئی پوچھتا نہیں ‘‘

ہیں داغ بے شمار کوئی پوچھتا نہیں

جیسے کوئی کشش ہی نہیں ہو بہار میں

کب آئے گی بہار کوئی پوچھتا نہیں

ہر طائرِ غیورِ نشیمن کو چھوڑ کر

کیوں ہو گیا فرار کوئی پوچھتا نہیں

مظلوم کے حقوق سبھی پوچھنے لگے

ظالم کا اختیار کوئی پوچھتا نہیں

اک بات بار بار سنانے کی ہے مگر

وہ بات ایک بار کوئی پوچھتا نہیں

اب رہگزارِ یار بہت عام ہو گئی

اب رہگزارِ یار کوئی پوچھتا نہیں

چلتے رہے ہیں دور مظفرؔ کے نام پر

پینے کو مئے گسار کوئی پوچھتا نہیں

٭٭٭

 

 

 

مشہور دُزدِ گل کہیں چاروں طرف نہ ہو

سمجھائیے بہار کو، ہم سے اَلف نہ ہو

کس کی سخاوتوں پہ کروں اعتبار میں

جب میرے روبرو کوئی ساغر بہ کف نہ ہو

منزل کی سمت میں نے اشارے کیے تو ہیں

میرے نصیب میں جو نہیں یہ شرف نہ ہو

بیکار ہی نہ جائیں کہیں سجدہ ہائے شوق

پھر دیکھ لیجیے کہ غریبوں کی صف نہ ہو

حق بات پر مظفرؔ ناداں یہ مصلحت

اے گوہرِ خیال اسیرِ صدف نہ ہو

٭٭٭

 

 

پھر آج مطلع بتا رہا ہے کہ رحمتوں کا نزول ہو گا

پہن لیا جائے گا گلے میں جہاں بھی جیسا بھی پھول ہو گا

جواب یہ ہے، مرا زمانے کے ساتھ چلنا فضول ہو گا

یہ مشورہ زید یا بکر کو قبول ہے تو قبول ہو گا

چمن میں آں محترم نے جو گل کھلائے ہیں آنچ دے رہے ہیں

نہ بھولیے گا کہ اصل مع سود محترم سے وصول ہو گا

حماقتوں کو ہوا نہ دیں حفظِ ماتقدم کے طور پر وہ

خبر اڑا کر کہ آندھیوں میں دیے جلانا فضول ہو گا

ہمیں مظفرؔ سے تلخ لہجے کے باوجود انس ہو گیا ہے

غزل کے تیور یہ کہہ رہے ہیں کہ آدمی با اصول ہو گا

٭٭٭

 

 

 

 

حالانکہ محتسب سے سبھی پی نہ جائے گی

لیکن کسی کو مئے کی ہوا دی نہ جائے گی

جی چاہتا ہے اس کو لگاتار دیکھیے

پھر بار بار تو یہ خطا کی نہ جائے گی

غنچے جو ہنس رہے ہیں، چنے جائیں گے ابھی

بلبل چہک رہی ہے تو بخشی نہ جائے گی

دنیا کو آپ میری نظر سے نہ دیکھیے

میں عرض کر چکا ہوں کہ دیکھی نہ جائے گی

اس بار اور ہی ہے ارادہ بہار کا

یعنی چمن میں اس کی بلا بھی نہ جائے گی

صیاد و باغباں کی کہانی نہ پوچھیے

یہ داستاں چھڑی تو سمیٹی نہ جائے گی

تم نے ہر ایک پھول پہ پہرے بٹھا دیے

لیکن نسیمِ صبح تو باندھی نہ جائے گی

٭٭٭

 

 

 

 

الفت ہی کسی کو جو نہ راس آئے تمھیں کیا

مرتا ہے اگر کوئی تو مر جائے، تمھیں کیا

کانٹے سے سنو رازِ دروں پردۂ گلشن

گل خود ہی ملوث ہے وہ سمجھائے تمھیں کیا

رونے کا سبب بھول کے پوچھا نہیں تم نے

جی کھول کے ہنس لوں مرے ہمسائے تمھیں کیا

تشویش بتاتی ہے کہ معصوم نہیں ہو

تاثیر نہ لائے گی مری ہائے، تمھیں کیا

تکرار جب اس سے ہے تو اے بیچ کے لوگو

لازم ہے کہ زحمت وہی فرمائے، تمھیں کیا

کچھ شیشہ گروں کا ہے تو پھر شیش محل پر

پتھر کوئی برسائے نہ برسائے تمھیں کیا

توصیف کے قابل جو مظفرؔ ہے تو ہو گا

تنقیص کے حق میں ہے مری رائے، تمھیں کیا

٭٭٭

 

 

 

 

غبار سے جو رہِ پُر خطر نہیں چھپتی

تو پھر کشیدگی ہم سفر نہیں چھپتی

عجیب چیز ہے نفرت و جو مشک و عشق نہیں

اسے ہزار چھپاؤ مگر نہیں چھپتی

ہر آئنے کا کوئی ایک رخ ہی روشن ہے

کدورتِ دِل آئنہ گر نہیں چھپتی

ترے کلام کا لہجہ ہزار تلخ سہی

مگر اضافت پیغامبر نہیں چھپتی

انھیں ہزار نظر سے گرائیے لیکن

بلند ظرفیِ اہلِ نظر نہیں چھپتی

ابھر کے آ گئی سینے پہ داغ کی صورت

کہاں چھپاؤں، متاع ہنر نہیں چھپتی

خطا معاف، مری لن ترانیاں جا ہیں

کہ روشنی بھی وہاں طور پر نہیں چھپتی

٭٭٭

 

 

 

 

ترس رہے ہیں یہاں بوند بوند کو اشجار

برس رہا ہے کہیں اور ابر گوہر بار

اگر جناب کو مجھ پر یقین ہو، تو یہاں

قدم قدم پہ ملیں گے ضمیر کے غدار

ہر اک قدم پہ ٹھٹکنے سے شک یہ ہوتا ہے

کہ رہنما کے لبادے میں ہے کوئی عیار

حضور چھین جھپٹ اس جگہ یقینی ہے

جہاں مریض ہزاروں ہوں اور ایک انار

صلائے عام ہے رہزن عبث جھجکتے ہیں

ابھی تو چین سے سوتا ہے قافلہ سالار

اگر خلوص کی بو سونگھنے میں آتی ہے

جناب مجھ کو نہ فرمائیں مخلصوں میں شمار

جنابِ شادؔ کے لہجے کی سان پر چڑھ کر

غزل ہوئی ہے مظفرؔ کی تیغِ جوہر دار

٭٭٭

 

 

 

 

چونکہ میں منجملۂ خاصانِ میخانہ نہیں

اس لیے پہچان کر بھی اس نے پہچانا نہیں

آدمی اونچی اڑانیں لے رہا ہے آج کل

آدمیت ناپنے کا کوئی پیمانہ نہیں

مسکرا کر جب شگوفوں نے کہا خوش آمدید

ہاتھ کانٹوں نے ہلائے اس طرف آنا نہیں

بد ظنی پھیلا رہا ہے میرے اس کے دل کا چور

وہ بھی دیوانہ نہیں ہے میں بھی دیوانہ نہیں

بزم میں پروانہ ہائے راہداری شرط ہیں

شمع اس غم میں سلگتی ہے کہ پروانہ نہیں

مجھ کو یہ اصرار پھولوں کی جھلک دکھلائیے

آپ کو ضد ہے کہ گلشن ہے یہ ویرانہ نہیں

اے مظفرؔ طنزیہ غزلوں کے دشمن ہیں بہت

اور میرا ریشمیں غزلوں سے یارانہ نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

تہمتوں کا بار کیوں رہزنوں کے سر گیا

میرِ کارواں بتا، کارواں کدھر گیا

اس غریبِ شہر کی زندگی بھی موت تھی

لوگ کیوں اداس ہیں، مر گیا تو مر گیا

عہدِ نو میں غالباً مطمئن نہیں کوئی

دیکھتا ہوں جام جم، آنسوؤں سے بھر گیا

تیرے در سے کیا ملا سجدۂ خلوص کو

سر کی آبرو گئی، آہ کا اثر گیا

قطرہ قطرہ ڈھل کے ہم آنسوؤں میں بہہ گئے

رفتہ رفتہ دردِ دل اپنا کام کر گیا

اب فضول ہیں تری لغزشیں نمائشی

لڑکھڑا رہا ہے تو نشہ جب اُتر گیا

انتہائے حسن وہ، میں نظر نظر تمام

وہ نکھر نکھر گیا، میں بکھر بکھر گیا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

نتیجہ یہ نکالا ہے خرد نے رقصِ بسمل سے

رگِ جاں کو تمنا رہ گئی بازوئے قاتل سے

اگر پینے سے پہلے آپ کا منہ دیکھنا ہو گا

تو پھر توبہ بھلی اس قسم کے آدابِ محفل سے

ذرا سی چوٹ پڑتی ہے تو شیشے چیخ اٹھتے ہیں

دعائے خیر ہی نکلی مرے ٹوٹے ہوئے دل سے

جنابِ ناخدا ساحل کی جانب دیکھتے کیا ہیں

ڈبونے کا اشارہ مل چکا اربابِ ساحل سے

ذرا سی دیر کو آرام کرنا چاہتا تھا میں

ہزاروں بجلیاں گزریں نشیمن کے مقابل سے

رہِ پر خار سے کس طرح میں واپس چلا جاؤں

بگولے خیر مقدم کے لیے آتے ہیں منزل سے

مظفرؔ آج کے ناقد بھی جانب دار ہوتے ہیں

ہمارا نام ان کے ذہن میں آئے گا مشکل سے

٭٭٭

 

وہ خوش ہے الزام لگا کر

تیرا میرا نام لگا کر

دن بھی چین نہیں پائیں گے

میرے پلّے شام لگا کر

سادہ لوحی آتی ہو گی

بیٹھے رہیے دام لگا کر

ہونٹوں کو زخمی کرنا ہے

ٹوٹا پھوٹا جام لگا کر

پچھتائے، رہبر کے ذمّے

اک چھوٹا سا کام لگا کر

یارو! شرمندہ مت ہونا

میرے فن کے دام لگا کر

٭٭٭

 

 

 

 

نمائش کو گھٹا کر جب حسابِ دوستاں ہو گا

مجھے یہ فکر لاحق ہے کہ اس دن تو کہاں ہو گا

روایت اور جدت کی کشاکش کے نتیجے میں

زمیں زیر قدم ہو گی نہ سر پر آسماں ہو گا

اگر وہ نام ہی سن کر کئی پہلو بدلتے ہیں

تو میرا تذکرہ بھی داستاں در داستاں ہو گا

اُجالا جب نہ ہو گا، لوٹنے والوں کا ہمراہی

مری پیشین گوئی ہے، امیرِ کارواں ہو گا

بزعم سجدہ ہائے بیکسی، مت بھول اے ظالم

کہ اک دن وقت کی ٹھوکر پہ تیرا آستاں ہو گا

مگر فطرت کو کیا کیجے، بخوبی جانتا ہوں میں

مرے حق میں مرا سچ بولنا مضرت رساں ہو گا

ہر اک مصرع پہ دل پر تیر سے چلتے ہیں، لکھ لیجے

یہ لہجہ ہے مظفرؔ کا، وہی آتش بیاں ہو گا

٭٭٭

 

 

(قافیہ بہ اعتبار صوت)

یہ مت سوچو ہم کو فن کی عظمت کا احساس نہیں

لیکن فن بھی قانونی استادوں کی میراث نہیں

حل کی بابت بھی سوچیں گے پہلے یہ تو صاف کرو

ہم ہی بالکل بے حس ہیں یا پھولوں میں بو باس نہیں

مبہم تحریروں سے دکھ کا انت نہیں کر سکتے آپ

کوئی ٹھوس عنایت کیجے، تجریدی اخلاص نہیں

نزدیکی لوگوں کی خامی البتہ لکھ لیتا ہوں

میں سب کا نبّاض نہیں ہوں میں سب کا عکّاس نہیں

ناجائز فنّی پابندی خود کے توڑے ٹوٹے گی

بلّی کے بھاگوں یہ چھینکا ٹوٹے، ایسی آس نہیں

غزلوں کے مجموعے ناشر چھاپیں تو کس برتے پر

اور مظفرؔ چکنی چپڑی چیز ہمارے پاس نہیں

٭٭٭

 

 

 

(قافیہ بہ اعتبار صوت)

 

’’کند ہم جنس باہم جنس پرواز‘‘

رہے پھر ذال سے کیوں ظوئے ناراض

مرے نزدیک تو ہم قافیہ ہیں

سبھی ہم صوت و ہم آہنگ الفاظ

جنہیں دلکش ادائیں سیکھنی ہیں

وہ سیکھیں گے مری غزلوں کے انداز

مرے اشعار بر نبضِ زمانہ

زمانہ ہے جو سب کے فن کا نبّاض

جہاں بھی راہِ حق پر کارواں ہے

عبث رہزن کی ہر ترچھی تگ و تاز

مظفرؔ قافیہ اک ذال میں بھی

مگر تم سے بگڑ جائیں گے استاذ

٭٭٭

 

 

 

 

مرے خیال میں بہتر ہے آگ بھڑکا دو

دھواں دھواں سی فضاؤں میں کیوں سلگتے ہو

اگر سکون سے جینے کی بات کرتے ہو

تو دشمنوں کو نہیں، دوستوں کو پہچانو

بجا کہ ہم نے تمھیں رہنما بنایا تھا

مگر قیام کہیں طے نہ تھا، ذرا سوچو

کسی کا دل کبھی جیتا ہے انکسار کے ساتھ

تمھیں یہ حق بھی پہنچتا ہے، ناز فرماؤ

بہت کریہہ ہیں اوپر سے دلربا چہرے

براہِ راست اگر دل میں جھانک کر دیکھو

بہ ایں وجوہ کھری بات کہہ رہا ہوں میں

وہ دیکھتے ہی رہے گھور گھور کر مجھ کو

دکھاؤ کہہ کے غزل ایک ہی مظفرؔ سی

تمہارے بس کی ہے قانون باز استادو!

٭٭٭

 

 

 

 

 

رہنما کرتا ہے ہر منزل پہ تقریریں بہت

ہم جو اپنی راہ پر چل دیں تو زنجیریں بہت

صاف کہیے ہم ہی بدقسمت ہیں اس کی کیا خطا

خود ہی بن بن کر بگڑ جاتی ہیں تقدیریں بہت

محترم کی بزدلی چہرے سے ظاہر ہو گئی

تیغ لے کر ہاتھ میں کھنچوائیں تصویریں بہت

ہاں میں ہاں کا گر جواز بر ہو تو لاکھوں غم گسار

صاف کہہ کر دیکھیے گردن کو شمشیریں بہت

تلخ تھیں، ان سب کو پی جانا ذرا دشوار تھا

ہو نہ ہو روکی ہیں نامہ بر نے تحریریں بہت

ہے کوئی جو دشت ظلمت میں ہمارا ساتھ دے

بچ نکلنے کی تو بتلاتے ہیں تدبیریں بہت

اے مظفرؔ شعر ہیں افکار کی قوسِ قزح

ایک اچھے شعر کی ہوتی ہیں تفسیریں بہت

٭٭٭

 

 

 

 

ہمدردیاں فضول کہ حاجت نہیں رہی

یارو! ہمیں کسی سے محبت نہیں رہی

خود سوچ لیجیے کہ گزاری ہے کس طرح

بس کہہ دیا کہ بات کی طاقت نہیں رہی

اوّل تو پھول رنگ سے عاری ہیں بیشتر

دو ایک میں ہے رنگ تو نکہت نہیں رہی

اب نظمِ انجمن پہ قصیدے لکھیں گے کیا

ہم، جن کو بولنے کی اجازت نہیں رہی

بوٹے سجا دئیے ہیں دلِ داغ داغ نے

قاتل کی آستیں سے ندامت نہیں رہی

غالبؔ کی طرح ہم نے بھی کب اختیار کی

جب شاعری ذریعۂ عزت نہیں رہی

آسان تر ہے آؤ مظفرؔ غزل کہیں

مفہوم کی بھی خیر سے علّت نہیں رہی

٭٭٭

 

 

 

 

غلط نہیں ہم اسے اگر پست ہمتی پر دلیل سمجھے

کہ ہم سفر راستے کے روڑوں کو راہ کا سنگ میل سمجھے

تو لکھ لیا جائے اکثریّت کے تجربے معتبر نہیں ہیں

جو اکثریت شمار کر کے اقلیت کو قلیل سمجھے

یہی سبب ہے کہ آج میں بات بات پر طنز کر رہا ہوں

اشارتاً بات کی جو میں نے وہ داستاں کو طویل سمجھے

ہزار بحثوں میں طے ہوا یہ کہ دو بدو گفتگو نہ ہو گی

تمھیں ہمارا وکیل سمجھے، ہمیں تمہارا وکیل سمجھے

عجب لطیفہ ہوا، اسے راز دار میں نے بنا لیا تھا

کنایۃً جو نہ بات سمجھے، نہ تذکرہ برسبیل سمجھے

خزاں نے یہ پول کھول دی ہے، سیاست باغباں میں پڑ کر

بہار پابند ہے کہ گُل چیں کو گلستاں کا کفیل سمجھے

بہت ہے دریا دلی کا شہرہ مگر سمجھ لیجیے کہ ساقی

کسی طرف سے سخی نہ ہو گا جسے مظفرؔ بخیل سمجھے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

 

ہے توصیف کی طالب مجھ سے، ہنستا ہوں دنیا کی مت پر

چڑیاں کیسے بیٹھ سکیں گی تپتی ہوئی ٹین کی چھت پر

دست و گریباں ہو جانے میں کور کسر کیا رہ جاتی ہے

اس کو شک میری ہمت پر، مجھ کو شک اس کی ہمت پر

اکثر مجھ کو اپنی حالت کچھ بہتر محسوس ہوئی ہے

جب جب اس نے طنز کیا ہے میری پسماندہ حالت پر

عقل بھلا کیا اڑ کر لگنے والی بیماری ہے کوئی

فقرہ اس کی ذات پہ ہو گا، حملہ محفل کی عزت پر

نام بڑے ہوں درشن چھوٹے، کام بہر صورت چلتا ہے

کتبہ لگوانے والا ہوں غالبؔ کا اپنی تربت پر

فن میں دور کی کوڑی لے کر در آئے ندرت کے حامی

دو سو سال پرانی باتیں، غور اگر کیجے ندرت پر

اپنے لہجے پر کر لیں گے غور مظفرؔ صاحب جس دن

دہشت غالب آ جائے گی ان کے اندر کی وحشت پر

٭٭٭

 

 

 

 

ہم اپنا اسلوب مظفرؔ دانستہ رکھتے ہیں یوں

مشکل ہو لیکن سب جانیں ہم بھی کہہ سکتے ہیں یوں

رندوں کے سینے کو اکثر چھلنی کرتے رہتے ہیں

واعظِ سادہ کو سمجھاؤ کفر نہیں بکتے ہیں یوں

ہر نخلستاں، ہر سائے میں بیٹھ رہے سستانے کو

تم کیا منزل تک پہنچو گے پاؤں اگر تھکتے ہیں یوں

وہ اپنی بیداد کے قصے سن کر میری غزلوں میں

جیسے معصومی کا پیکر، میرا منہ تکتے ہیں یوں

مثلاً ایسے مثلاً ویسے کہہ کر اس نے مارے ہاتھ

پکّے پھل ایسے گرتے ہیں، کچّے پھل پکتے ہیں یوں

اپنی کالی کرتوتوں کا خمیازہ تو بھگتو گے

میٹھی میٹھی باتیں چھوڑو، پاپ کہیں ڈھکتے ہیں یوں

وہ مدماتی رنگیں آنکھیں چھلکی چھلکی پڑتی ہیں

اے ہونٹوں سے چکھنے والو آنکھوں سے چکھتے ہیں یوں

٭٭٭

 

 

 

 

شباب میں بہشت بر زمین ہیں تو آپ ہیں

خود اپنی ہی نگاہ میں حسین ہیں تو آپ ہیں

برے نہیں یہ مشورے اگر قبول کیجیے

مگر کہاں، بزعمِ خود ذہین ہیں تو آپ ہیں

غلو کی سب حدوں کو پار کیجیے تو مرحبا

تمام شاعروں میں بہترین ہیں تو آپ ہیں

جنابِ باغباں نہیں چنیں گے، اعتبار کیا

گلوں کے ساتھ باغ میں مکین ہیں تو آپ ہیں

اسی بنا پہ اعتبار آپ پر کیا گیا

شریف ہوں نہ ہوں مگر متین ہیں تو آپ ہیں

کسی طرح ملے، ہمیں سکون تو ملے کہیں

گمان ہیں تو آپ ہیں، یقین ہیں تو آپ ہیں

مظفرؔ خراب کے قریب اور کون ہے

مرے لیے جو مارِ آستین ہیں تو آپ ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

(قافیہ بہ اعتبار صوت)

 

ہو گی اور یقیناً ہو گی

صلح مگر مصلحتاً ہو گی

ان کی با توں میں سچائی

دو فیصد تخمیناً ہو گی

ہم پر لطف و کرم کی بارش

کَے دن میں اندازاً ہو گی

میری غزلوں میں رنگینی

ہو لیکن تشبیہاً ہو گی

کھل کر کہنے میں خطرہ ہے

تقریباً تقریباً ہو گی

نت دن ایک حماقت ان سے

دانستہ یا سہواً ہو گی

ہم سے اور مظفرؔ صاحب

ان کی مدحت جبراً ہو گی؟

٭٭٭

 

 

 

 

چکنے چپڑے فقروں پر رنگین مقولوں پر

فنکاری کا زعم ہے ان کمزور اصولوں پر

اپنا کیا ہے انگاروں پر بھی سو سکتے ہیں

لیکن تم کو چین نہ لینے دیں گے پھولوں پر

ہم کانٹوں کو اپنی نیچی شاخ پہ رہنے دیں

پیلے پتّے شوق سے اوپر جائیں بگولوں پر

مرنے پر بھی سو دُرّے لگوا سکتا تھا وہ

یہ تو اک احسان ہے قاتل کا مقتولوں پر

گھٹ گھٹ کر مر جانا ان کی قسمت ہی میں تھا

روتے کیوں ہو، لعنت بھیجو نا معقولوں پر!

دیمک خوردہ مستولوں کو آگ دکھاؤ نا

اب کیا بادبان ٹھہریں گے ان مستولوں پر

ورنہ کل تک سر پر ہو گی آگ مظفرؔ جی

آج توجّہ دینی ہو گی ان مرغولوں پر

٭٭٭

 

 

 

 

قوم کا غم جو زیادہ ہو گا

رہنمائی کا ارادہ ہو گا

آستیں سرخ انھیں کی ہو گی

ریشمی جن کا لبادہ ہو گا

شان میں تیری قصیدہ لکھ دوں

ورقِ گل ابھی سادہ ہو گا

طے شدہ ہے کہ سفر میں آخر

تیری منزل مرا جادہ ہو گا

رند اٹھ جائیں تو میخانے میں

مغبچے ہوں گے نہ بادہ ہو گا

کیا کریں بے عملی کا شکوہ

پھر سے وعدوں کا اعادہ ہو گا

طنزیہ شعر کہیں بکتے ہیں

کیا مظفرؔ کو افادہ ہو گا

٭٭٭

 

 

 

 

دو ایک پل کا ساتھ بوقتِ نماز ہے

محمود آسماں پہ، زمیں پر ایاز ہے

جینے میں کیا کشش ہے، مگر دیکھتے ہیں ہم

کتنی تمہارے ظلم کی رسّی دراز ہے

مانا کہ التفات کے عادی نہیں ہو تم

لیکن برائے مشقِ ستم کیا جواز ہے

اس انجمن میں بات نہیں بن سکی مگر

اللہ کو سنا ہے، بڑا کارساز ہے

اپنی کہو ہماری سنو، مشورہ کرو

اب کیا غمِ زمانہ محبت کا راز ہے

اپنی غلط وفا کی تلافی کروں گا میں

وہ اور ہوں گے جن کو وفاؤں پہ ناز ہے

دلکش بنا رہا ہے مظفرؔ کا خاص رنگ

حالانکہ داستان بڑی جاں گداز ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

ماورائے قفس رہی ہے گھٹا

حسب منشا برس رہی ہے گھٹا

اس کی زلفوں میں بس رہی ہے گھٹا

میرے دل پر برس رہی ہے گھٹا

اس طرح گھِر گئی ہے اپنے میں

روشنی کو ترس رہی ہے گھٹا

گنگناتی ہوئی فضاؤں میں

مینہہ کے تار کس رہی ہے گھٹا

آپ گیسو سنوار لیں اپنے

ورنہ سورج کو ڈس رہی ہے گھٹا

میری تشنہ لبی پہ روئی ہے

ہاں مری ہم نفس رہی ہے گھٹا

اور پہرے لگاؤ گلشن پر

طیش میں ہے جھلس رہی ہے گھٹا

کیوں چمکتی ہیں بجلیاں پیہم

کیا اجالوں پہ ہنس رہی ہے گھٹا

اس کی آنکھوں کے میکدے بتلائیں

اس جگہ کَے برس رہی ہے گھٹا

دھوپ نکلی ہے اب تو آ جاؤ

باعثِ پیش و پس رہی ہے گھٹا

مضطرب، خشک، منتظر آنکھو

آج کھل کر برس رہی ہے گھٹا

اے مظفرؔ سنا ہے رونے کو

سال بھر سے ترس رہی ہے گھٹا

٭٭٭

 

 

 

 

بتائیے، وہ دوا کیا کرے گا دنیا کی

وہاں تو ضیق میں ہے جان خود مسیحا کی

مرے رقیب مری زندگی کے ضامن ہیں

بطورِ خاص تری آرزو کی سفّاکی

نظر نظر میں ہزار التفات کا عالم

خطا ہوئی کہ ترے درد کی تمنا کی

یہی جواز نکلتا ہے باغباں کے لیے

کہیں بہار کی معصومیت نہ ہو شاکی

غضب کہ خون بہاتی ہے آبلوں کی طرح

کسی نے آنکھ بھی دیکھی ہے آبلہ پا کی

خطا معاف ذرا آستین دیکھوں گا

مسلّمات میں ہے محترم کی چالاکی

کہیں جناب پشیماں نہ ہوں سخاوت پر

یہی روش جو رہی التفاتِ بیجا کی

٭٭٭

 

 

 

 

جو میں اٹھ کر چلا آیا نہ ہوتا

تری محفل کا یہ نقشہ نہ ہوتا

لگی لپٹی تو کہہ سکتے تھے ہم بھی

ترے حق میں مگر اچھا نہ ہوتا

صریحاً مصلحت بینی ہے، ورنہ

حقیقت پر کوئی پروا نہ ہوتا

بہر صورت خزاں کے دور میں بھی

جگر میں پھول کے کانٹا نہ ہوتا

خبر کیا تھی کہ وہ ناراض ہو گا

محبت سے اسے دیکھا نہ ہوتا

مری غزلیں نہ اتنی تلخ ہوتیں

زمانہ ہی اگر ایسا نہ ہوتا

اگر خوش حال ہوتا ہر طرف سے

مظفرؔ بھی ترا دیوانہ ہوتا

٭٭٭

 

 

 

 

تجرباتِ نو کی دھن میں بک رہے ہیں گالیاں

دیکھنا اک دن پٹیں گی محترم پر تالیاں

فن جنم لے گا علامت کے انوکھے بطن سے

خیر سے جب ٹوٹ جائیں گی غزل کی ڈالیاں

قید کرنا عندلیبوں کا روا ہے آج کل

اب وہ لوہے کا قفس ہو یا سنہری جالیاں

خوشنما چہروں کو دکھلاؤ حقیقی آئنے

مختلف ہیں شاہراہوں سے یہ گندی نالیاں

پھوٹ بہنے کو ہے لاوا، اور تھوڑی دیر ہے

رنگ لائیں گی بالآخر تیری بد اعمالیاں

آپ کے حق سے زیادہ کس قدر ہے جام میں

راز افشا کر نہ دیں رخسار کی یہ لالیاں

اے مظفرؔ خوش گلو فن کار بزمِ شعر میں

نغمہ زن ہیں جیسے چورا ہے پہ گانے والیاں

٭٭٭

 

 

 

 

وہ نگاہِ کرم ایک فیصد پہ ہے

یعنی دریا دلی آخری حد پہ ہے

برہمن جام سے شغل کرتے رہیں

شیخ صاحب کا الزام سیّد پہ ہے

خیر سے وہ روایت شکن بن گئے

جن کا پہلا قدم فن کی ابجد پہ ہے

بات کیجے تو گردن سلامت نہیں

اور طبعِ رواں ہے کہ آمد پہ ہے

ایک مصرع میں تعریف ہے آپ کی

دوسرا آپ کی فطرتِ بد پہ ہے

اس کی جانب سے فی الحال خدشہ نہیں

آج کل وہ مری طنز کی زد پہ ہے

اے مظفرؔ سنا کھردری سی غزل

ایک ناقد صدارت کی مسند پہ ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 ’’کیا بتاؤں کس قدر زنجیرِ پا ثابت ہوئے ‘‘

ہم سفر سمجھا تھا جن کو رہنما ثابت ہوئے

اب مناسب ہے کہ مجھ کو طنز کرنے دیجیے

آپ کے نالے تو صحرا کی صدا ثابت ہوئے

بولنے کے جرم میں معتوب ہوں تو کیا ہوا

لوگ تو چپ رہ کے مستحقِ سزا ثابت ہوئے

اب چراغاں کیجیے تربت پہ اس مقتول کی

قتل فرمانے پہ جس کو بے خطا ثابت ہوئے

جب کبھی ہم نے تھکن محسوس کی ہے راہ میں

آپ کے گیسو ہمیشہ نارسا ثابت ہوئے

اوّلیں تنقید اس پر ہم نے کی تھی بعد ازاں

سب ہی محفل میں ہمارے ہم نوا ثابت ہوئے

اے مظفر شاعروں کے نام پر حرف آئے گا

اہلِ دولت کے اگر مدحت سرا ثابت ہوئے

٭٭٭

 

 

 

 

دو گھڑی تو بوئے گل سے جی کو بہلا لیجیے

اور پھر جھلسے ہوئے غنچوں کو اپنا لیجیے

تجربے کے بعد پھر کر لیجیے گا فیصلہ

محترم سمجھ اچکے ہوں اب تو رستا لیجیے

دیکھ لیں گے کس قدر ہے ظلم کی رسّی دراز

اور کچھ دن بیکسوں پر ظلم فرما لیجیے

چلچلاتی دوپہر میں پاؤں تھمتے کس طرح

عنبریں زلفوں کا سایہ ہو تو سستا لیجیے

خیر اس ترکِ تعلق میں خطا میری سہی

آپ سے کس نے کہا تھا یہ قسم کھا لیجیے

ناخدا نے خوشنما وعدے کیے ہوں گے کبھی

اب میں کہتا ہوں کہ تنکوں کا سہارا لیجیے

اے مظفرؔ شاعروں میں نام تو آ جائے گا

تجربے کی آڑ میں لوگوں کو چونکا لیجیے

٭٭٭

 

 

 

 

تشنگی ٹپکتی ہے ’’مدھ بھرے غزالوں ‘‘ سے

اک دھواں دھواں چہرہ جھانکتا ہے بالوں سے

آپ کے تصور سے تنگ آ چکا ہوں میں

بار بار ملتا ہے مختلف حوالوں سے

بیش و کم یہی ہو گا جاگ کر گزاریں گے

تیرگی ہی بہتر ہے مشتبہ اجالوں سے

اس نشے کے چڑھنے پر ہوش پھر نہیں آتے

دور دور رہتا ہوں اختیار والوں سے

تجرباتِ رہزن سے فائدہ اٹھاتا ہوں

روشناس ہونا ہے رہ بر کی چالوں سے

شاعرانِ رجعت کے پاؤں ڈگمگاتے ہیں

یہ جو موڑ آیا ہے فن میں چند سالوں سے

آپ کیوں مظفرؔ سے بدگمان ہوتے ہیں

سب کی بات کرتا ہے آپ کی مثالوں سے

٭٭٭

 

 

 

 

 

اب تو اس نظمِ کہن پر فاتحہ پڑھ لیجیے

ورنہ اہلِ انجمن پر فاتحہ پڑھ لیجیے

ہم نہ کہتے تھے، وفا احباب کا شیوہ نہیں

آج اپنے حسنِ ظن پر فاتحہ پڑھ لیجیے

ہر کس و ناکس جو نازاں ہے سزا پانے کے بعد

عظمتِ دار و رسن پر فاتحہ پڑھ لیجیے

پھول جب باہر سے آتے ہیں چڑھاوے کے لیے

اس سے بہتر ہے چمن پر فاتحہ پڑھ لیجیے

خوشنما وعدے تو لاکھوں ہیں مگر المختصر

رہنمایانِ وطن پر فاتحہ پڑھ لیجیے

اُس کی محفل میں اگر جانا ہی لازم ہے تو پھر

احتیاطاً بانکپن پر فاتحہ پڑھ لیجیے

چونکہ چونکانے کا فن حد سے مظفرؔ بڑھ گیا

آبروئے فکر و فن پر فاتحہ پڑھ لیجیے

٭٭٭

 

 

 

 

دشمن ہے جھوٹی قسموں کا

گوشہ تیرے سرخ لبوں کا

ہے کانٹوں کی قسمت میں بھی

کوئی سرد ہوا کا جھونکا

تازہ کونپل پھوٹ رہی ہے

سوگ نہ کر سوکھے پتوں کا

مطلب گم ہے رنگینی میں

کیا کہنا تیری با توں کا

دل میں کچھ ہے لیکن لہجہ

ہمدردانہ ہے یاروں کا

اس کی چتون بتلاتی ہے

ساتھ رہا ہے دل والوں کا

ہر کانٹے پر، ہر پتھر پر

نام لکھا ہے دیوانوں کا

سن کر یہ اشعار مظفرؔ

ما تھا ٹھنکے گا بہتوں کا

٭٭٭

 

 

 

 

باغبانوں کو اجازت ہے کہ من مانی کریں

آئیے نظمِ چمن پر فاتحہ خوانی کریں

اک نہ اک دن حسب مرضی ہم تراشیں گے اسے

آپ ہی اس بت پہ مر مٹنے کی نادانی کریں

دل تو بے حس ہو گیا ہے کثرتِ آلام سے

وہ شرر باری کریں یا شبنم افشانی کریں

ہم انھیں سمجھا رہے ہیں، حق پہنچتا ہے جنھیں

جان کر سب کچھ اگر چاہیں تو انجانی کریں

خود لٹا دیتے ہیں اپنا گھر کہ خدشہ تو مٹے

تا کجا احباب کی خاطر نگہبانی کریں

رہنمایانِ وطن بھی واقعی مجبور ہیں

سوچیے تو دور کس کس کی پریشانی کریں

اے مظفرؔ کان ہی دھرتا نہیں وہ سنگدل

ورنہ یہ اشعار تو پتھر کو بھی پانی کریں

٭٭٭

 

 

 

 

 

اٹھنے دو شرابی آنکھوں کو، کھل جائیں گے مئے خواروں کی طرح

فی الحال تو سب آتے ہیں نظر محفل میں طرح داروں کی طرح

آدابِ محبت کیا شے ہیں اس دَور کے عاشق کیا جانیں

جلتے ہیں تو نم لکڑی کی طرح، بجھتے ہیں تو انگاروں کی طرح

یارانِ طریقت نے شاید جی بھر کے انھیں بہکایا ہے

دیکھا ہے تو بے پروا ہو کر، بولے ہیں تو بیزاروں کی طرح

دو جام چڑھا لینے سے کہیں رِندوں میں جگہ مل سکتی ہے

قدموں کو بہکنا لازم ہے، پیتے ہو گنہ گاروں کی طرح

اچھا ہے مظفرؔ نرگس کو بے نوری میں تسکین تو ہے

کچھ فیصد ہوں تو خیر، یہاں ہر پھول ہے بیماروں کی طرح

٭٭٭

 

 

 

 

ہم غریبوں پہ کرم کیجیے گا

اپنی پلکوں کو نہ نم کیجیے گا

پہلے گھر کی تو خبر لیجیے، پھر

چاند کو زیر قدم کیجیے گا

پوچھنے والا نہیں ہے کوئی

خوب جی بھر کے ستم کیجیے گا

ظلم جب حد سے گزر جائے تو

شعر پڑھ کر مرے دم کیجیے گا

میرے ہاتھوں میں قلم ہے جب تک

سر کسی کا نہ قلم کیجیے گا

سنگدل ہے تو بھگتیے جا کر

اور پتھر کو صنم کیجیے گا

انگلیاں خون اگلتی ہوں گی

جب حقیقت کو رقم کیجیے گا

صاف کہتا ہے مظفرؔ حنفی

اس کی تعریف بھی کم کیجیے گا

٭٭٭

 

 

 

 

برا مت مانیے ہم آپ کو اوچھا سمجھتے ہیں

کہ اپنے آپ کو حضرت نہ جانے کیا سمجھتے ہیں

وہ گر کر نسبتاً ہم سے زیادہ چوٹ کھائیں گے

مقام اپنا جو محفل میں بہت اونچا سمجھتے ہیں

چلو تسلیم، اس کی رائے صائب ہے مگر ایسی

کہ وہ قطرہ جسے کہہ دے اسے دریا سمجھتے ہیں

کسی کے باب میں وہ بات کھل کر کہہ نہیں سکتے

کبھی بدنام کرتے ہیں، کبھی اچھا سمجھتے ہیں

بلا سے چھوڑ دیں وہ ہوش میں تہذیب کا دامن

مگر ہم باوجودِ بے خودی اتنا سمجھتے ہیں

جو اُٹھ آئے ہیں محفل سے تو واپس جا نہیں سکتے

غلط سمجھے ہیں وہ ہم کو اگر ایسا سمجھتے ہیں

مظفرؔ کی زباں سے عاشقانہ شعر سنیے گا

اسے بھی آپ کی اچکنی غزل والا سمجھتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

میرا ہر طنز اسے بار گزرتا ہو گا

گالیاں دے کے سہی، یاد تو کرتا ہو گا

جب ہمیں ظلم کا احساس نہیں ہوتا ہو

ایک لمحہ بھی تو ایسا نہ گزرتا ہو گا

زرد کانٹا نہیں شبنم کا رہینِ منت

پھول کے باب میں کہیے کہ نکھرتا ہو گا

کیا ضروری ہے کہ تم خاک اڑاؤ سر پر

چاند اونچائی سے نیچے بھی اترتا ہو گا

خود شناسی اسے اوقات میں رکھتی لیکن

آئنہ سامنے رکھ کر نہ سنورتا ہو گا

آج مہتاب کے چہرے پہ سیاہی کیوں ہے

کوئی ذرّہ کسی کونے سے ابھرتا ہو گا

اے مظفرؔ جو مرے نام سے جل جاتا ہے

وہ یقیناً مرے اشعار سے ڈرتا ہو گا

٭٭٭

 

 

 

 

مت پوچھیے کہ تجربۂ رہنما ہے کیا

انسان ہے غریب، کوئی دیوتا ہے کیا

اے برق بے اماں یہ اثاثہ قبول کر

گلشن میں خار و خس کے سوا بچ رہا ہے کیا

سوچا کہ ہم سفر کا کہیں دل نہ ٹوٹ جائے

ورنہ مری نظر میں ترا نقش پا ہے کیا

طوفان مدتوں سے اٹھایا نہیں کوئی

اے بیکراں سکوت، بتا ماجرا ہے کیا

سیلابِ غم شدید سہی، دیکھ لیں گے ہم

لیں تیرا آسرا تو ترا آسرا ہے کیا

ہم آئے ہیں تو سر کو جھکا احترام سے

اے ناشناسِ شعر و ادب دیکھتا ہے کیا

آواز مختلف ہے نئی ہے دلیر ہے

سننا ذرا، مظفرؔ آتش نوا ہے کیا

٭٭٭

 

راہ نماؤں سے رہزن کا رشتہ ٹوٹا جاتا ہے

ہم سفرو! کیا ہم سفروں کو ایسے لوٹا جاتا ہے

اے آنکھو کچھ تھم تھم برسو، اے دل یوں بیتاب نہ ہو

میرے ہاتھوں سے یادوں کا دامن چھوٹا جاتا ہے

دیکھا تو اک بھیڑ لگی تھی ظالم کے مداحوں کی

ہم سمجھے تھے چورا ہے پر بھانڈا پھوٹا جاتا ہے

گلشن کے پہرے داروں کی گُل چیں نے تعریف یہ کی

ان کے دامن ہیں اب جن میں ہر گل بوٹا جاتا ہے

ماضی سے ناجائز رشتہ توڑ سکو تو بہتر ہے

ورنہ پھر مستقبل ہی سے ناتا ٹوٹا جاتا ہے

خیر مظفرؔ صاحب کی ہے دیوانہ بن جانے میں

منزل ونزل سب سے ان کا پیچھا چھوٹا جاتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

کوشش کر کے لانا ہو گا آنکھوں میں کچھ گیلا پن

ورنہ کوئی لطف نہ دے گا تصویروں کا پیلا پن

سیدھے پن کے ہاتھوں میں اس موڑ پہ زخمی بیٹھا ہوں

جس پر یاروں کے کام آیا فطرت کا لچکیلا پن

لوحِ طلسمِ چرخ ہمارے ہاتھوں میں ہے، دیکھیں گے

اور ذرا کچھ بڑھ جانے دو حدِّ نظر کا نیلا پن

میری یہ دندان شکن تحریریں بھگتے بیٹھی ہیں

بیشک ان کے دانتوں میں ہے سانپوں کا زہریلا پن

چاروں جانب بڑھنے والے ہاتھوں پر الزام غلط

گُل چینی پر اکساتا ہے پھولوں کا شرمیلا پن

تخلیقی کاموں سے عاجز ہاتھوں میں تو کسکے گی

اُگنے والے بیج سے پوچھو مٹی کا ریتیلا پن

طنز مظفرؔ، فکر و فن کی عظمت کا پیمانہ ہے

جیسے مئے کا پیمانہ ہے کڑوا اور کسیلا پن

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

آپ نے غیروں سے سب کچھ کہہ دیا میرے لیے

میں پریشاں ہوں کہ باقی کیا رہا میرے لیے

واقعہ یہ ہے کہ جب ہمدردیاں کیں آپ نے

مرحلہ کچھ اور مشکل ہو گیا میرے لیے

بعد از ایفائے وعدہ وہ سہارا بھی نہیں

تھا جو ان کی یاد کا اک آسرا میرے لیے

دورِ استبداد ہے اور صاف گوئی فن مرا

اک مصیبت ہے مری طرزِ ادا میرے لیے

میں جلا وطنی میں ہوں لیکن وہاں ہر پھول کے

ٹوٹتے ہیں آج بھی بند قبا میرے لیے

آپ نے آواز دی لیکن ذرا تاخیر سے

یعنی بڑھ کر لوٹنا ممکن نہ تھا میرے لیے

اے مظفرؔ ریشمی غزلوں سے میں الجھا نہیں

ورنہ بن جاتیں وہ پیرِ تسمہ پا میرے لیے

٭٭٭

 

 

 

 

قتل فرماؤ کم نصیبوں کو

پوچھتا کون ہے غریبوں کو

بوئے گل پر جو بس نہیں چلتا

قید کرتے ہیں عندلیبوں کو

انگلیاں اٹھ رہی ہیں محفل پر

اور بلوائیے رقیبوں کو

کیا بنا آپ کے نقیبوں سے

اب ملا لیجیے خطیبوں کو

جن کے ہاتھوں میں جان ہوتی ہے

وہ نہیں کوستے نصیبوں کو

ہے تقاضہ یہ سر بلندی کا

اور بالا کرو صلیبوں کو

کیا اضافہ کیا مظفرؔ نے

سوچنا چاہیے ادیبوں کو

٭٭٭

 

 

 

 

آنکھوں میں ویرانی سی ہے پلکیں بھیگی، بال کھلے

تو بے وقت پشیماں کیوں ہے، ہم پر بھی کچھ حال کھلے

ترکِ وفا پر سوچا تھا حافظؔ صاحب سے بات کروں

اب ڈرتا ہوں جانے کیسی الٹی سیدھی فال کھلے

لاکھوں کا حق مار چکے ہو چین کہاں سے پاؤ گے

پیدل آگے سرکاؤ تو فرزیں کی بھی چال کھلے

با توں سے تو ناصح کو ہم سیدھا سادہ سمجھے تھے

وہ تو اک دن میخانے میں حضرت کے احوال کھلے

فریادوں نے اور بڑھا دی مدت بدعنوانی کی

بازو پھیلانے سے شاید بندھن ٹوٹیں، جال کھلے

ہستی کی اس بھول بھلیّاں میں جب تھم کر سوچا تو

اک پیچیدہ لمحے میں صد بابِ ماہ و سال کھلے

آپ مظفرؔ حنفی سے مل کر شاید مایوس نہ ہوں

دل کے صاف، بصیرت گہری، ذہن رسا، اعمال کھلے

٭٭٭

 

 

 

 

سر جھکانا مرا اصول نہیں

مشورہ قابل قبول نہیں

آپ کیا راستہ دکھائیں گے

پاؤں میں خار سر پہ دھول نہیں

اپنی فکروں میں غرق ہے دنیا

آپ کے واسطے ملول نہیں

اینٹ کا اک جواب ہے پتھر

صاف، دو ٹوک جس میں طول نہیں

کیا کریں ان سپاٹ راہوں کا

نام کو ایک بھی ببول نہیں

واقعہ ہے کہ لوگ بے حس ہیں

طنز کرنا مرا فضول نہیں

اس جگہ ڈھونڈیے مظفرؔ کو

رحمتوں کا جہاں نزول نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

وہ مجھے جرمِ وفا کی جب سزا دینے لگے

ان کے حامی ضبط غم کا مشورہ دینے لگے

شکوۂ جور و جفا پر اس نے فقرہ کس دیا

لیجیے ٹوٹے ہوئے دل بھی صدا دینے لگے

اہمیت کا جب اسے احساس حد سے بڑھ گیا

بلبلے بھی ناخدا کو آئنہ دینے لگے

جانتا ہوں آپ کی فطرت سے ناواقف ہے وہ

بوکھلا کر جو حوالہ آپ کا دینے لگے

خوب دیوانوں کو آتا ہے شگوفے چھوڑنا

باغباں کو پھول اک سوکھا ہوا دینے لگے

ہم تو لکھوانے چلے تھے رہزنوں کے خال و خط

گالیاں ہم کو ہمارے رہنما دینے لگے

اے مظفرؔ آبلہ پائی کی اس منزل میں ہوں

داد کانٹوں کو جہاں ہر آبلہ دینے لگے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

سوالات پر غور کر لیجیے گا

ہمیں آپ کیا مطمئن کیجیے گا

اگر آپ کے ہاتھ میں جام جم ہے

تو پھر خون کے گھونٹ بھی پیجیے گا

بلانے کی عزت جو بخشی گئی ہے

اٹھانے کی تکلیف کب کیجیے گا

مجھے بولنے پر نہ مجبور کیجے

کہ پھر بولنے کی سزا دیجیے گا

اگر خیر اس بزم کی چاہتے ہیں

خدارا مرا نام مت لیجیے گا

بہت سن چکے آپ کی لن ترانی

سحر ہو گئی اب تو بس کیجیے گا

وہی تلخ باتیں جنابِ مظفرؔ

کبھی چین سے بیٹھنے دیجیے گا

٭٭٭

 

 

 

 

غزل کی بات نہ پوچھو پھڑک رہی ہے غزل

شبِ فراق میں پیہم سسک رہی ہے غزل

نظر میں آئیں برہنہ حقیقتیں کیسے

کہ بزمِ عیش میں ننگی تھرک رہی ہے غزل

ادھر سے قافلۂ زندگی نہیں گزرا

نظر بچھائے جہاں راہ تک رہی ہے غزل

اگر دماغ میں آنے کی بات کرتا ہوں

تو یہ کہ مرکزِ دل سے سرک رہی ہے غزل

جمالیات کے شاعر برا تو مانیں گے

مگر یہ عرض کروں گا کہ تھک رہی ہے غزل

اسے عوام کے نزدیک لائیے اب تو

بجا کہ ملکۂ فن آج تک رہی ہے غزل

یہ کیا غضب ہے مظفرؔ کچھ احتیاط کرو

کہ تجربات کے ڈر سے بِدک رہی ہے غزل

٭٭٭

 

 

 

 

خلوت ہو یا ان کی محفل

اچٹا اچٹا رہتا ہے دل

سچ کہنا جو سیکھ چکا ہوں

قہر نہ ہوتا کب تک نازل

ایک مثلث ہے دھوکے کا

راہنما، رہزن اور منزل

غرقابی کے حیلے ہیں سب

کشتی وشتی، ساحل واحل

مرنا بھی آسان ہوا ہے

مشکل جیسی ہے یہ مشکل

میرے تیور بتلاتے ہیں

کتنا روشن ہے مستقبل

اندھیارے میں آس کے جگنو

مدھم مدھم، جھلمل جھلمل

کچھ باتیں ایسی ہوتی ہیں

جن کو دہرانا لاحاصل

طنز مظفرؔ شادؔ کا ورثہ

ورنہ ہم تھے ہی کس قابل

٭٭٭

 

 

 

 

کچھ آساں نہ تھا شادؔ و ناشاد ہونا

بالآخر مظفرؔ کے استاد ہونا

اگر زخم سر کی ضرورت نہیں تھی

تو کوئی ضروری تھا فرہاد ہونا

مری طنز گوئی کا باعث نہ پوچھو

مقدر میں لکھا تھا برباد ہونا

تو پھر میں قفس ہی کو ترجیح دوں گا

مبارک تمھیں نیم آزاد ہونا

ستاتے ہو لیکن مٹاتے نہیں ہو

پرانے زمانے کے صیّاد ہونا

یہاں چونکہ انصاف اندھا رہا ہے

اشاروں کو لازم ہے فریاد ہونا

مظفرؔ ہمیں تجربہ ہو چکا ہے

کہ آساں ہے شاعر سے نقّاد ہونا

٭٭٭

 

 

 

 

یوں امتحان لے نہ ہمارا بزعم خود

انجام کو نہ بھول خدارا بزعم خود

ہر مرحلے پہ یاد اسے آ رہے ہیں ہم

ہم سے وہ کر چکا ہے کنارا بزعم خود

عالم یہ ہے کہ آج کوئی جانتا نہیں

اقبال پر تھا جن کا ستارا بزعم خود

وہ سوچتا ہے وقت بہر طور کٹ گیا

یوں مطمئن ہوں میں کہ گزارا بزعم خود

کٹ کر وہ قافلے سے بہت دور جا پڑا

رہبر بنا ہوا تھا بچارا بزعم خود

وہ بھی کہ جن کا نام بڑے بیکسوں میں ہے

بنتے ہیں بے کسوں کا سہارا بزعم خود

فیضانِ انتخاب مظفرؔ سے پوچھیے

کچھ دن رہا ہے راج دلارا بزعم خود

٭٭٭

 

 

 

 

تڑپتا ہے کسی کے سایۂ دیوار کی خاطر

ذرا سی روشنی دو رات کے بیمار کی خاطر

مری دو ٹوک با توں نے مجھے مقتل دکھایا ہے

وہ بچ نکلا ہے اپنی دو رخی گفتار کی خاطر

نہ بستی اس کو بھائی ہے نہ ویرانہ پسند آیا

بھٹکتا ہی رہا ہوں میں دلِ بے زار کی خاطر

یقیں کیجے، اگر مل جائے جینے کی ضمانت بھی

زمانہ سر جھکا دے آپ کی تلوار کی خاطر

مجھے تو نے ہمیشہ ترش لفظوں سے نوازا ہے

غزل کہہ دوں ترے لب ہائے گوہر بار کی خاطر

مگر کیا چشم غفلت ظلمتوں کو چیر سکتی ہے

سویرا منتظر ہے دیدۂ بیدار کی خاطر

ہمارے تلخ لہجے پر مظفرؔ کیوں بگڑتے ہو

یہ دنیا ابتدا سے تلخ ہے فنکار کی خاطر

٭٭٭

 

 

 

 

ہر محبت کا بدل ہو جیسے

وہ کوئی تاج محل ہو جیسے

یوں جھجکتا ہے ہر اک بات پہ وہ

اس کی نیت میں خلل ہو جیسے

لوگ مرنے کی دعا کرتے ہیں

موت ہی زیست کا حل ہو جیسے

اس طرح پاک بنا پھرتا ہے

تو بہ باطن بھی کنول ہو جیسے

یوں ہی سرکار کا وعدہ ہو گا

وصلِ محبوب کا کَل ہو جیسے

روز احکام دئیے جاتے ہیں

کوئی پابندِ عمل ہو جیسے

تلخ ہو کر بھی بہت دلکش ہے

وہ مظفرؔ کی غزل ہو جیسے

٭٭٭

 

 

 

 

وصفِ پری جمال نہ فرمائیے گا آپ

مصروف ہوں خیال نہ فرمائیے گا آپ

زخموں کی پرورش کے لیے جی رہا ہوں میں

اب سعیِ اندمال نہ فرمائیے گا آپ

اس دور اضطراب میں مضطر سبھی تو ہیں

تکلیفِ عرضِ حال نہ فرمائیے گا آپ

شکوہ رہے گا تلخ کلامی کا آپ کو

مجھ سے کوئی سوال نہ فرمائیے گا آپ

غنچے نہیں کہ دزدِ چمن توڑ لے جنھیں

کانٹوں کی دیکھ بھال نہ فرمائیے گا آپ

حالانکہ ٹوکتے ہیں مگر جانتے ہیں ہم

اندیشۂ مآل نہ فرمائیے گا آپ

سچ پر ہی انحصار مظفرؔ نے کر لیا

اس کا کوئی ملال نہ فرمائیے گا آپ

٭٭٭

 

 

 

 

گل کے لیے بہار کو پیکِ اجل کہوں

کہیے تو اس نہج سے چمن پر غزل کہوں

ہونٹوں پہ رام رام چھری در بغل کہوں

جو تجھ کو راس آئے وہ ضرب المثل کہوں

قسمت کے سر پہ تھوپ دوں الزامِ رنج و غم

یا اس کے التفات کا ردِ عمل کہوں

حالاتِ حاضرہ کا تقاضہ ہے صاف بات

پابندیاں اٹھاؤ تو میں برمحل کہوں

مجھ سے نہ ہو سکے گا کسی کے لحاظ سے

اپنی وفا کو ظلم کا نعم البدل کہوں

آں محترم حدودِ ادب سے گزر گئے

میری خطا معاف اگر میں غزل کہوں

بے موقع و محل ہے مظفرؔ اگر یہ طنز

تیری سمجھ کا پھیر، نظر کا خلل کہوں

٭٭٭

 

 

 

 

جو خواہش ہو کہ ہر پودا جھلس جائے

تو بہتر ہے، گھٹا کھل کر برس جائے

مرے گھر سے تاثر لے کے جائے وہ

اگر روتے نہیں بنتا تو ہنس جائے

مجھے محرومیوں پر ناز ہے ورنہ

یہی احساس تیرے دل کو ڈس جائے

سنا سکتا ہوں میں بھی طنزیہ غزلیں

وہ آ کر سازِ دل کے تار کَس جائے

خرد مندوں کی ہر بستی میں پتھر ہیں

یہ دیوانہ کسی بستی میں بس جائے

المیہ اور کیا اس سے بڑا ہو گا

خلوص اخلاق کے نرغے میں پھنس جائے

تری محفل کی یہ سازش قیامت ہے

مظفرؔ بات کرنے کو ترس جائے

٭٭٭

 

 

 

 

کب تک ملائے جاؤں نظر برقِ طور سے

میں تنگ آ چکا ہوں دلِ ناصبور سے

وہ زندگی کے ساتھ قدم کس طرح ملائیں

جو زندگی کا لطف اٹھاتے ہیں دور سے

شاید نظر میں آئیں مری سربلندیاں

منسوب کر رہا ہوں تمہارے غرور سے

ہمت بڑھا رہی ہے یہ انکار کی ادا

اقرار کچھ بعید نہیں ہے حضور سے

ثابت ہوئیں فضول پشیمانیاں تری

اپنی جفا کو ناپ ہمارے قصور سے

تیرا گماں غلط ہے، شعوری عمل ہے یہ

ابھرا نہیں ہے طنز مرے لاشعور سے

پنہاں نہیں جنابِ مظفرؔ سے اصلیت

وہ لغزشوں کو لاکھ چھپائیں سرور سے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

یوں نہ بن بن کر شکایت کیجیے

کون کہتا ہے محبت کیجیے

غالباً پہچان لوں گا آپ کو

سامنے آنے کی زحمت کیجیے

ورنہ گل ہی کی خلش بڑھ جائے گی

خار و گل دونوں کی عزت کیجیے

شیخ جی! اسرارِ میخانہ ہیں یہ

جائیے جا کر امامت کیجیے

کیوں لٹاتا ہوں زمانے میں خلوص

لوٹ کر مجھ کو، نصیحت کیجیے

قتل فرما دیجیے گا شوق سے

میں اگر کہہ دوں مروّت کیجیے

سر نہ چڑھ جائے مظفرؔ یہ سماج

طنز اس پر حسبِ عادت کیجیے

٭٭٭

 

 

 

 ’’ایسا برسا ٹوٹ کے بادل ڈوب چلا میخانہ بھی‘‘

یعنی کوئی رنگ نہ لایا اقدام رندانہ بھی

میں اپنے دل کے دروازے تجھ پر بند کروں تو کیا

میری خاطر بند رہا ہے تیرا دولت خانہ بھی

اس کو خوش فہمی ہوتی ہے لوگوں کی دلچسپی سے

اس کے قصے میں شامل ہے کچھ میرا افسانہ بھی

مجھ کو انسانوں سے نفرت کرنے پر مجبور نہ کر

میں تجھ کو مانے لیتا ہوں کعبہ بھی بت خانہ بھی

مجھ سے اک استاد، مظفرؔ خوش بھی ہیں ناخوش بھی ہیں

حسبِ ضرورت کہہ لیتے ہیں عاقل بھی دیوانہ بھی

٭٭٭

 

 

 

دشتِ پر خار کا احسان لیے جاتے ہیں

کیوں بچا کر وہ گریبان لیے جاتے ہیں

محفلِ غیر میں الزام لگا کر ہم پر

راز داری کے بھی پیمان لیے جاتے ہیں

لیلیِ فن سے تعارف کا بہانہ نکلا

حضرتِ شادؔ کا دیوان لیے جاتے ہیں

باوجودِ غم دل آج بھی سر آنکھوں پر

زندگی ہم ترا فرمان لیے جاتے ہیں

اپنے اشعار کے لہجے سے مظفرؔ صاحب

بھیڑ میں دُور سے پہچان لیے جاتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

سوچ نئی ہے لہجہ تیکھا لفظ کھرے آواز جدا

دانستہ رکھتا ہوں اپنے شعروں کا انداز جدا

بھیڑ بلندی پر پہنچی تو کھو دے گی اپنی پہچان

اونچا اڑنے سے بہتر ہے ترچھی سی پرواز جدا

کان کھلے رکھّو تو چورا ہے پر بھی سن سکتے ہو

آوازوں کے اس جنگل میں تنہائی کا ساز جدا

پرکھوں کی اینٹوں پر اینٹیں رکھنے والے کیا جانیں

جذبے کی تاثیر جدا ہے لفظوں کا اعجاز جدا

سانسیں لیتی چلتی پھرتی لاشوں کو احساس کہاں

مرنے کے آداب الگ ہیں جینے کا ہے راز جدا

٭٭٭

 

 

 

 

یوں تو کھل کر جذبِ پنہاں رائیگاں ہو جائے گا

اس بہانے دوستوں کا امتحاں ہو جائے گا

سربلندی کی جبلّت سر کے آڑے آ گئی

لوگ سمجھے تھے کہ وقفِ آستاں ہو جائے گا

زخمِ دل کے باب میں خاموش رہنے دیجیے

ورنہ ساری بزم کا چہرہ دھواں ہو جائے گا

دھول سر پر لے کے آئے گاز میں کی گود میں

کیا بگولہ سر اٹھا کر آسماں ہو جائے گا

آگہی کی منزلوں کے پاس آنے دیجیے

ہر عقیدہ ٹوٹ کر وہم و گماں ہو جائے گا

انقلابِ وقت بھی رکھتا ہے شاہانہ مزاج

کیا پتہ کس وقت کس پر مہرباں ہو جائے گا

اے مظفرؔ حاشیہ آرا مرا کوئی نہیں

پھر بھی میرا حال شعروں سے عیاں ہو جائے گا

٭٭٭

 

 

 

 

وہاں سے روشنی لے کر یہاں تقسیم کرتا ہوں

اندھیری رات میں جگنو اجالے میں پتنگا ہوں

صدف میں بند رہ کر قطرۂ بے فیض ہوں لیکن

نکل آؤں اگر اس کوزۂ تن سے تو دریا ہوں

مری بے دست و پائی پر نہ جانا دیکھنے والو

قلم ہو ہاتھ میں تو میں عصائے دستِ موسیٰٰ ہوں

کروں بھی کیا مرا قابو نہیں ہے پائے وحشت پر

بہت پیچھے کہیں میں اپنی منزل چھوڑ آیا ہوں

حباب آسا ابھرتا ہوں اگر موجیں دباتی ہیں

بگولے سر چڑھاتے ہیں مجھے تو بیٹھ جاتا ہوں

تمہاری آنکھ میں دو بوند غم روکے نہیں رُکتا

مجھے دیکھو سمندر پی چکا ہوں اور پیاسا ہوں

مظفرؔ روشنی طبع کا فانوس ہے یہ فن

غزل آئنۂ ایام ہے میں عکسِ فردا ہوں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

شہد کی بوندوں سا کچھ اندر ہی اندر چھن گیا

آئنہ وہ تھا مگر میں نقشِ حیرت بن گیا

سربلندوں کا زمانے میں یہی انجام ہے

میرؔ کی دستار غائب، میرا پیراہن گیا

خوف نے زنجیر در کھڑکائی کچھ اتنے زور سے

جسم کا ہر قطرۂ خوں تیر جیسا تن گیا

دیکھتا رہتا ہے قیدی آسماں کو رات دن

ہے یہی عالم تو پھر دیوار سے روزن گیا

چونکہ میں یوسف نہیں، ملتے کہاں گلہائے لمس

شہر کی ہر اک زلیخا تک مرا دامن گیا

کشمکش میں ہاتھ ملتا رہ گیا ننگا خیال

سیکڑوں الفاظ میں اک معرکہ سا ٹھن گیا

ورنہ پھر تنقید کی نیت میں کوئی کھوٹ ہے

یا مظفرؔ کی غزل سے اس کا تیکھا پن گیا

٭٭٭

 

 

 

 

آنکھ میں کچھ اور، سر میں اور کچھ

گرد ہوتی ہے سفر میں اور کچھ

آدمی بھی ہے تضادوں کی خلیج

گھر سے باہر کچھ ہے گھر میں اور کچھ

ان کی نظروں میں کھٹکتا کون ہے

پھول ہیں میری نظر میں اور کچھ

اب تو خوش ہو جائیے۔۔ ۔ تسلیم شد

فرق ہے دیوار و در میں، اور کچھ

دفعتہً فولاد پیلا پڑ گیا

مل گیا سنگ و شرر میں اور کچھ

آ پڑا ہوں پتھروں کے شہر میں

تھا نگاہِ شیشہ گر میں اور کچھ

ہم کہ ہیں زخمی پرندے کی طرح

لگ رہے تھے بال و پر میں اور کچھ

٭٭٭

 

 

 

 

پارساؤں میں نہیں ہوں، مجھے پینی بھی نہیں

اس لیے میں نے کسی ہاتھ سے چھینی بھی نہیں

فیصلہ رنجِ شش و پنج سے اچھا ہو گا

جو یقینی بھی نہیں غیر یقینی بھی نہیں

دل میں کھٹکا سا بنا ہے کہ بناوٹ ہو گی

اس کے اخلاص کو دیکھو تو مشینی بھی نہیں

مجھ پہ ٹوٹی ہے جو آفت مری پروردہ ہے

آسمانی بھی نہیں اور زمینی بھی نہیں

گرم تھا دن تو ہر اک زخم نمایاں بھی تھا

رات رانی کی یہ خوشبو ہے کہ بھینی بھی نہیں

میں کسی گوشے میں آرام نہیں لینے کا

میری قسمت میں اگر تخت نشینی بھی نہیں

آستینوں میں کوئی چیز نظر آتی ہے

ورنہ پھولوں کی قبائیں مجھے سینی بھی نہیں

٭٭٭

تشکر: شاعر اور ان کے صاحبزادے پرویز مظفر جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل