FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

حصہ اول

               شائستہ فاخری

 

 

انتساب

اپنی اور اپنے بعد کی تحریروں میں زندہ رہنے والی

 ان تمام خواتین کے نام

 جو احتجاج کی حامل رہی ہیں۔

 

 

بند کر چونچ بہت کر چکی نالے بلبل

ہائے سر پر نہ گلستاں کو اٹھا لے بلبل

میری فریاد کی تاثیر جو پالے بلبل

بخت خوابیدہ کو نالوں سے جگا لے بلبل

کیا بھلا کھینچے گی آگے میرے نالے بلبل

نالے کرنے کے لئے منہ تو بنا لے بلبل

پھر وہی فصل خزاں پھر وہی تنکے چننا

چار دن اور گلے گل کو لگا لے بلبل

ہائے چپ بھی ہو بہت رو چکی بس کر رونا

بھر گئے آنسوؤں سے باغ کے تھالے بلبل

                                                حضرت علامہ آسی

صدائے عندلیب بر شاخ شب

میں اپنے مکمل جہاں کی نامکمل تصویر ہوں میرے خالی بدن میں اپنی خواہشات کے تنکے بھر کر اس نے مجھے سی دیا اور اپنے زانوؤں پر لٹا کر تھپک تھپک کر مجھے سلا دیا۔  میری ساری پہچانیں اس کے جسم کا حصہ بن گئی۔  میں جاگ کر بھی اس کے سحر سے آزاد نہ ہو سکی۔

کاش! میں اس کی پہچان میں اپنی شناخت کر پاتی۔  حالات کے انتشار سے خود کو نکال پاتی، یادوں کے گرداب سے خود کو ابھار پاتی۔  میں، ہاں میں !اس کے قدموں میں لوٹ گئی۔ اسی طرح جیسے دیوتا کے قدموں میں بد دعاؤں کی ماری پجارن لوٹتی ہے۔  وہ سنگ تراش کے ہاتھوں تراشی گئی مورت کی طرح میرے سامنے کھڑا تھا۔  ایسے جیسے اس کی حس اپنی تمام تر حسیات سے گذر کر اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہو۔  اور اس کے بعد کچھ بھی باقی نہیں بچتا۔  اگر کچھ بچتا ہے تو ماندہ خوابوں کی خاک، یا پھر آنسوؤں کی ایسی خشک لکیریں جو اپنی تاثیر کھو چکی ہیں۔

ہاں ! میں نے پایا تو راستے کی لمبی تھکان، گرد و غبار کی ا تھاہ لہریں، جبر کا آہنگ اور صبر کا سلگتا سورج۔  وہی سورج جس نے میرا سب کچھ جلا کر خاک کر دیا اور اب میں اسی خاک سے اپنے ماضی کی باسی تحریروں کو پھر سے تازہ کرنے بیٹھی ہوں۔  اسی طرح جیسے شب کی شاخ پر بیٹھی بلبل اپنی صداؤں میں اپنے نالے تازہ کیا کرتی ہے۔

 

 

۱۔ زندگی مجھ کو جئے جاتی ہے

کبھی بھول سے مجھ کو اپنا شناسا سمجھ لو/ اے خواب مجھے اپنا سمجھ لو/ میری پتھرائی آنکھوں میں / آؤ کچھ سپنے جگاؤ/ سپنے جو برسوں سے روٹھے/ نہ جانے کن راہوں پر بھٹک رہے ہیں / میرا سفر تو خاک سے خاک تک ہے/ آؤ / میری خاموش تصویر میں کچھ رنگین لمحے سجا دو/ قمقمے جلا دو/ میں جینا چاہتی ہوں بہت / کھلی ہوا میں / اڑنا چاہتی ہوں بہت/ آؤ /میرے کترے ہوئے پروں پر/کچھ پیوند لگا دو/ بھولے سے سہی اپنا شناسا بنا لو/ اے خواب مجھ کو اپنا بنا لو/ آؤ کریں کچھ رفاقت کی باتیں / شرارت کی باتیں / عداوت کی باتیں / جینے کی باتیں مرنے کی باتیں / مٹھی سے سرکے لمحوں کی باتیں / راتوں میں الجھے خیالوں کی باتیں / پردے کی باتیں / وہ اجالوں کی باتیں / مجھے خوف اب نہیں زمانے کا کوئی / میرے قریب آؤ/ میرے لمحوں کو پکڑ لو/ اپنی انگلیوں میں جکڑ لو۔ ۔ ۔

عورت نامکمل خوابوں کی ایک گٹھری ہے۔  ایسے خواب جن کا تصور ہی حسن اور جمالیات کا دریا بہا دیتا ہے۔  زندگی کو سیراب کر دیتا ہے۔  خزاں میں بہار کا سماں باندھ دیتا ہے۔  اور اس جہاں کی مکمل تصویر کی تشکیل کرتا ہے۔

مگر پھر بھی۔ ۔ ۔

عورت!

اگر دنیا ایک تھیئیٹر ہے تو اس تھیٹر کی بیک اسٹیج عورت ہے۔

شاخ پر سوکھے کچھ خوابوں اور چند مقاصد کے ساتھ زندگی مجھے جئے جا رہی تھی۔  گذشتہ کئی مہینوں سے میں اس کا پیچھا کر رہی تھی۔  وہ صبح کس وقت بچوں کو اسکول چھوڑنے جاتی ہے،  کس گھڑی کام پر نکلتی ہے، کب وہ آرام کرنے اپنے گھر واپس آتی ہے، کب آرام کے لمحے بیچ میں ہی تج کر اپنے بچوں کو لینے کے لئے اسکول کے گیٹ پر کھڑی ہوتی ہے۔  اسپتال کے چکر کاٹتے ہوئے اس کا وقت کتنا گزرتا ہے، مہینے میں وہ کتنی بار قبرستان کا رخ کرتی ہے۔  یہ ساری معلومات میری ڈائری میں درج تھیں۔

میرا تعلق کسی خفیہ ایجنسی سے نہیں تھا۔  نہ ہی میں اتنی ناکارہ تھی کہ اپنا قیمتی وقت اس مریل سی بجھی بجھی طبیعت والی، بد حال پریشان عورت پر ضائع کرتی۔  مجھے کہیں سے حکم بھی نہیں ملا تھا کہ میں اس کا پیچھا کیا کروں۔  میری اس جاسوسی کے عوض نہ مجھے روپیے ملنے والے تھے، نہ مجھے کہیں سے شاباشی کی امید تھی پھر بھی میں گذشتہ کئی ماہ سے مسلسل سائے کی طرح اس کے پیچھے پیچھے گھوم رہی تھی۔ بے مقصد نہیں، اس کا بھی سبب تھا۔ پیچھا کرنے کے دوران وہ کئی بار پلٹی ا س نے مجھے دیکھا، گھورا، آنکھوں میں کئی سوال تھے مگر لبوں کو سختی سے بھینچے کبھی وہ مجھ سے ہم کلام نہیں ہوئی، میں اس سے خوف زدہ بھی نہیں تھی۔ اگر وہ مجھ سے باتیں کرتی تو میں بھی اس سے کھل کر بات چیت کرنے کے لئے تیار تھی۔  مگر وہ کسی سے باتیں کرنے کو قابل اعتنا نہیں سمجھتی تھی۔  وہ مجھ سے خوف زدہ تھی یا نہیں، مجھ سے باتیں کرنا چاہتی تھی یا نہیں، یہ ساری باتیں میں سمجھنے سے قاصر تھی۔  اس کی نقل و حرکت سے مجھے اس کی یگانگت کا اشارہ نہیں مل پا رہا تھا۔

 اس کا نام بہت آسانی سے مجھے معلوم ہو گیا تھا۔  لوگ اسے ستارہ کے نام سے جانتے تھے۔  وہ جس بستی میں رہتی تھی وہاں کسی کے آنے جانے پر کوئی پابندی نہیں تھی اس لئے مجھے دن بھر میں دسیوں بار جانا پڑے تب بھی مجھے کوفت نہیں ہوتی تھی۔  نکّڑ پر ایک پان کی دکان میرے کھڑے ہونے کا اڈّا تھی۔  بستی کی عورتیں پان کھا نے کے لئے اس دکان پر آیا جایا کرتی تھیں اور ان کے چپڑ چپڑ کے درمیان جو بات چیت ہوتی تھی اس سے میں نے ستارہ کے متعلق بہت سی معلومات اکٹھا کر لی تھیں۔  اس درمیان مجھے بھی پان کھانے کی عادت پڑ گئی۔  میں نے یہاں کتنوں کو بوا، کاکی، چاچی بنا رکھا تھا۔  ستارہ کو پان کھانے کا قطعی شوق نہیں تھا۔   وہ کبھی ہمارے اس اڈّے پر نہیں آئی۔  ہاں کبھی کبھی جب شاید گھر میں چائے بنا نے کا سامان نہیں رہتا تھا تو وہ چائے کے ایک گلاس کے لئے بغل کے ٹھیلے پر ضرور آتی تھی۔  خاموشی سے چائے پیتی۔  تین روپیہ اس کے پاس ہوا تو ادا کیا ورنہ رجسٹر میں اپنا نام درج کرا کر وہ واپس لوٹ جاتی۔

اس بستی کا عجیب چلن تھا۔  راشن کی دکان ہو، پان کی دکان ہو یا پھر چائے کی، زیادہ تر ادھار کھانے والی عورتوں کے بہی کھاتے یہاں کھلے ہوئے تھے۔  مہینہ پورا ہوتے ہوتے سبھی کو اپنا ادھار چکتا کرنا پڑتا تھا۔  اگر کوئی کوتاہی کرتا تھا تو، اس کا نام لکھ کر دکان یا ٹھیلے کے ڈنڈے پر ٹانگ دیا جاتا تھا۔  نام کی تختی لگنے کے فوراً بعد تمام دکاندار اسے ادھاری دینا بند کر دیتے تھے۔

ستارہ نے بھی اپنے بہی کھاتے کھلوا رکھے تھے مگر اس کی پہچان بے حد شریف اور ہمدرد عورت کی بنی ہوئی تھی۔  چمپا کاکی جنہیں میں نے اپنی خاص سہیلی بنا رکھا تھا،  ہفتہ دس دن کے بعد ا ن کی مٹھی میں سو ڈیڑھ سوروپیے کے نوٹ پکڑا دیتی۔  یہ روپیے ان کے لئے ایک ہزار روپئے کے برابر ہوتے۔ ان کے چہرے کی جھریاں نوٹ کی گرمی سے دیر تک مسکراتی رہتیں۔  عمر ا ن کی پچاس سے زیادہ نہیں ہو گی مگر لگتی وہ سترسال کی تھیں۔  غربت اور جینے کی جد و جہد کرتی یہ عورتیں بے چاری۔ ۔ ۔ ایسی بستیاں ان عورتوں کی جوانی جلدی نچوڑ لیتی ہیں۔  چمپا کاکی! اف۔ ۔ ۔  سچ بتاؤں تو مجھے چمپا کاکی سے تھوڑی گھن بھی آتی تھی۔  ان کی آنکھوں کے کنارے پر جھریوں کی تین چار لکیریں کھنچی رہتیں۔  اکثر ان میں ہیرے کی کنی کے برابر کیچ پھنسی رہتی۔  جب وہ کسی بات پر عادتاً زور سے قہقہہ لگا کر ہنستیں تو آنکھوں میں ڈھیر سارا پانی بھر جاتا۔  کبھی  یہ کیچ لکیروں سے بہہ کر گالو ں کے کسی گڑھے میں اٹک جاتی اور مجھے ابکائی سی آنے لگتی۔  اتنا ہی نہیں ان کے دہانے بھی جھریوں سے بھرے ہوئے تھے جن میں پان کی پیک لال لکیروں کی شکل میں ان کی پہچان بنی ہوئی تھی۔  انہیں کی زبانی مجھے علم ہوا کہ ا ن کے کئی د انت ا ن کے شوہر مرحوم کی بے رحمی کا شکار ہو کر منہ سے باہر آ کر شہید ہو چکے تھے۔  گھونسے لات کی چوٹ سے کچھ ہلتے دانتوں کو انہوں نے دھاگے کے زور دار جھٹکوں سے توڑ دیا تھا۔  بستی کے لوگ ڈاکٹروں کے پاس کم جاتے تھے۔ زیادہ تر گھریلو نسخوں سے علاج ہوتا تھا۔  ان کی ایک بیٹی بھی ہے پھانکی۔ عجیب نام تھا۔  میرے پوچھنے پر چمپا کاکی نے بتایا کہ جب پیدا ہوئی تھی تو بالکل پھانک کی طرح پتلی تھی اس لئے اس کا نا م پھانکی پڑ گیا۔

پھانکی بھی میرے لئے بے حد اہم تھی کیوں کہ وہ ستارہ کی خاص سہیلی تھی اور میں ان دنوں ستارہ کی پرچھائیں بن کر جینے کی کوشش کر رہی تھی۔

اس بستی میں جو خاص بات میں نے پائی، وہ یہ تھی کہ یہاں مردوں کی آبادی بہت کم تھی۔  مٹی، ٹن اور پوال سے بنی جھونپڑیوں میں بیشتر عورتیں اور بچے ہی رہتے تھے۔  پھانکی نے مجھے بتایا کہ زیادہ تر مرد کا م کی تلاش میں دہلی، بمبئی، کلکتہ جیسے شہروں میں زندگی ڈھو رہے ہیں۔  پھانکی کا میاں جو کلکتے میں رکشا اور ٹھیلا کھینچتا تھا وہ بھی شادی کے تیسرے مہینے  چلا گیا۔  اس وقت تک وہ حاملہ ہو چکی تھی اور جب وہ لوٹ کر آیا تو پھانکی کی گود میں ایک مہینے کی اس کی بیٹی آ چکی تھی۔  پندرہ بیس دن وہ پھانکی کے ساتھ رہا پھر رحم میں ایک نیا بیج ڈال کر کلکتہ واپس لوٹ گیا۔ اس نے بہت چاہا کہ اس کا شوہر اپنے شہر میں ہی رکشا چلائے مگر اس بستی میں مرد عورتوں کی باتوں کو تسلیم کرنا اپنی مردانگی کی توہین سمجھتے ہیں، ایسا مجھے چمپا کاکی نے ہی بتایا تھا۔ وہ بے حد خوشدلی سے اپنے خاص انداز میں قہقہہ لگا تے ہوئے کہنے لگیں  یہاں مرد وے کہتے ہیں کہ عورتوں کی ناک نہ ہو تو غلاظت کھالیں۔  اب بتاؤ عورت ذات غلاظت کھانے کے لئے پیدا ہوئی ہے؟ وہ دیر تک ہنستی رہیں اور میری نگاہیں ستارہ کا تعاقب کر رہی تھیں جو گیلے بالوں کو پیٹھ پر ڈالے اپنی جھونپڑی کے باہر نصب پتھر پر بیٹھی آسمان پر اڑتے پرندوں کو دیکھ رہی تھی۔  پرندے اپنی مخصوص آواز نکالتے ہوئے چکر کاٹ رہے تھے غالباً وہ بھی اپنا آب و دانہ اسی بستی سے لیتے ہوں گے۔  ستارہ گھر کے اندر گئی اور کچھ ہی لمحے میں پانی میں بھیگی سوکھی روٹی پیالے میں لئے ہوئے نکلی اور اچک کر اس نے ٹین کی چھت پر وہ مٹی کا پیالہ رکھ دیا۔  ایک پرندہ اس کی چھت پر اتر آیا۔  میں نے غور کیا وہ سرمئی رنگ کا ایک جنگلی کبوتر تھا جس کی گٹر گوں گٹر گوں پان کی دکان پر یعنی میرے اڈّے تک صاف سنائی دے رہی تھی مگر میری پوری توجہ ستارہ کی طرف تھی۔  وہ اپنے ارد گرد کے ماحول سے لا علم بالوں کے درمیان اٹکے پانی کے قطروں کو جھٹک رہی تھی اور مسلسل کبوتر کو دیکھے جا رہی تھی۔

کئی جوڑی پیاسی آنکھیں ستارہ کے بدن کی ناپ جوکھ میں لگی تھیں۔  سچ مچ بغیر مرد کے عورت خالی برتن میں کھنکتے کھوٹے سکے کی طرح ہوتی ہے جو لوگوں کی توجہ کا مرکز بھی رہتی ہے اور بے مصرف شے بھی۔  مرحلہ شادی کا ہو یا طوائفیت کا دونوں مورچوں پر عورت ہی خریدی اور بیچی جاتی ہے۔  شادی کے بعد جہاں عورت عمر بھر کے لئے پیٹ کی روٹی اور تن کے کپڑے کے لئے بے فکر ہو کر اپنے مرد کے گھر کی محفوظ چہار دیواری میں پناہ لیتی ہے وہیں ایک طوائف ایک رات کے لئے لین دین کا سودا کر کے مرد کی پناہ میں آتی ہے۔  اور صبح ہوتے ہی آزاد پرندے کی طرح نئے سرے سے آب و دانہ کی تلاش میں بھٹکنے لگتی ہے۔  اس وقت تک جب تک کہ دوسرے مرد کی عارضی پناہ نہ مل جائے۔

ستارہ جیسی عورت کو میں کہاں کھڑا کروں ؟چہار دیواری کے اندر، باہر یا  صرف دیوار کے سائے سے گزرتی ایک پرچھائیں کی صورت میں قبول کروں۔

 میں اپنی سوچ کی رو میں بہ چلی تھی تبھی پھانکی نے میرے کولہے پر چٹکی لی۔  ستارہ کے متعلق معلومات فراہم کرنے کے لئے میں نے بستی کی عورتوں کو اتنی چھوٹ دے رکھی تھی کہ وہ مجھے چھو سکتی تھیں، بے فکر ی سے باتیں کر سکتی تھیں، ضرورت پڑھنے پر ادھاری مانگ سکتی تھیں۔  دل چاہے تو میرے ساتھ چل کر سنیما بھی دیکھ سکتی تھیں۔ اتنی آزادی اور چھوٹ میں نے صرف اس لئے دے رکھی تھی تاکہ مجھے ستارہ سے متعلق ساری باتیں معلوم ہوتی رہیں۔

پھانکی کی زبانی ہی مجھے پتہ چلا تھا کہ ستارہ کے شوہر کو بھی پرندوں کو دانہ کھلانے کا بڑا شوق تھا۔  صبح شام دونوں وقت اس کی ٹن کی چھت پر جنگلی کبوتروں، طوطوں اور گھریلو چڑیوں کا شور رہتا۔  ستا رہ کے شوہر کا نام پرکاش تھا۔  چمپا کاکی بڑا رس لے لے کر پرکاش اور ستارہ کی محبت کے قصے سنایا کرتیں۔

حلوائی کی کڑھائی میں اگر چاشنی بھری ہو تو مکھیاں خود بہ خود آ کر بھنبھنا نے لگتی ہیں۔  اسی طرح محبت کے قصے بھی حلوائی کی چاشنی سے کم نہیں ہوتے۔  چمپا کاکی نے قصے سنانے شروع کئے نہیں کہ بستی کی عورتیں اپنے مرجھائے ہوئے چہروں پر مسکراہٹیں کھینچ کر اکٹھا ہونے لگتیں۔  مجھے بے حد کوفت ہوتی کیوں کہ میں سارے قصے اکیلی بیٹھ کر سننا چاہتی تھی مگر کیا کرتی ان کی بستی میں آنے جانے کا ٹیکس مجھے اسی شکل میں دینا پڑتا کہ میں ا ن کی گزرتی نجی زندگی میں بالکل دخل اندازی نہ کروں۔  جو کچھ ہو رہا ہے، جیسے ہو رہا ہے چلتا رہے اور مجھے یہاں آ کر جیسے چلتے رہنے کا مرض ہو گیا۔  میں ستارہ کے پیچھے پیچھے چلتی رہتی۔  اس نے کئی  بار مجھے چمپا کاکی اور پھانکی سے باتیں کرتے ہوئے دیکھا تھا۔  وہ چاہتی تو مجھ سے باتیں کر سکتی تھی مگر اس کے ہونٹوں پر خاموشی کے اتنے سخت پہرے لگے تھے جسے توڑ نا میرے لئے بے حد مشکل کام تھا۔

دیواروں سے آہستہ آہستہ دھوپ سرکتی جا رہی تھی۔  سورج ٹھنڈا پڑ رہا تھا۔  شام کے سائے گہر ے ہو رہے تھے۔ میرا دل بستی میں نہیں لگ رہا تھا۔  دل دماغ کہیں کھویا ہوا تھا۔  میرے اندر کی بے چینیاں، تنہائیاں اور دکھ جو اکثر رات کے اکیلے پن میں سر اٹھاتی ہیں۔  وہ  سر شام جاگ اٹھی تھیں۔  برسوں سے میں نے انہیں دل کی گہرائیوں میں دفن کر رکھا تھا اور وہ وقتاً فوقتاً سانپ کے پھن کی طرح پھنکارتیں اور پھر واپس اپنے خول میں سمٹ جاتیں۔ پھانکی نے کئی بار پان کے بیڑے کو پیش کرنا چاہا جسے میں نے مسکرا کر انکار کر دیا۔  شاید ا س نے بھی میرے چہرے کی بے چینیوں کو پڑھ لیا تھا۔  چمپا کاکی جھنگے کھٹولے پر دونوں ٹانگیں پھیلائے چت پڑی گہری نیند سو رہی تھی۔  پیڑوں سے چھن چھن کر آتی دھوپ چھاؤں نے انہیں چادر کی طرح ڈھانپ رکھا  تھا۔ ستارہ آدھا گھنٹہ پہلے بستی سے کہیں نکل گئی تھی۔  میرے قدموں نے آج اس کے پیچھے جانے سے انکار کر دیا۔  اکثر جب ہم اپنے اندر سمٹ کر اپنے وجود کی تخریب و تعمیر میں مشغول ہوتے ہیں تو باہری دنیا سے لا تعلق ہو جاتے ہیں۔  میں نے اس وقت بستی سے باہر نکل جانا ہی مناسب سمجھا۔

بستی کے باہر ایک بڑا سا برگد کا درخت تھا۔  یہاں کی عورتیں اس درخت کو اپنا دیوتا مانتی تھیں اور اس کے موٹے تنے پر رنگ برنگے دھاگے باندھ کر منتیں مانگا کرتی تھیں۔  اکثر پیڑ کی جڑ کے پاس میں نے ننھے ننھے دیے بھی جلتے دیکھے تھے۔  جن کی منتیں پوری ہو جاتیں وہ برگد کے ارد گرد بنے مٹی کے چوڑے چبوترے کو لیپ کر وہاں دیے جلاتیں اور بستی میں پرساد بانٹا کرتیں۔ اس وقت بھی ایک ننھا سا دیا جل رہا تھا۔  ایک بہت بوڑھا آدمی چبوترے پر اکڑوں بیٹھا اونگھ رہا تھا۔  میں نے اسے کئی بار یہاں بیٹھے دیکھا تھا غالباً اس نے خود کو یہاں کا رکھوالا سمجھ رکھا تھا۔  حالانکہ رکھوالی کرنے کے لئے وہاں کچھ بھی نہیں تھا مگراسی بہانے پرساد کے نام پر اسے اکثر کھانے پینے کی چیزیں زیادہ مل جاتی تھیں۔  اسے بستی کے لوگ رحمو بابا کے نام سے جانتے تھے۔  ان کا اصلی نام رحمت علی تھا۔  کسی زمانے میں رحمت علی بھی بستی کا بہت دلچسپ کردار رہے ہیں۔  عمر بھر چیونٹی بھی نہیں ماری، مگر ایسی ہانک لگایا کرتے تھے جیسے وہ اکیلے ہی ایسے شخص ہیں جو باہری حملوں، غنڈوں، موالیوں کی بیہودگیوں سے بستی کی عورتوں اور لڑکیوں کو بچاسکتے ہیں۔ ایک موٹا سا لٹھ ان کے ہاتھ میں ہوتا۔  روزانہ صبح تیل کی مالش سے لٹھ کو چمکایا جاتا اور پھر پورا دن یہاں وہاں، اس دکان سے اس دکان، اس گھر کے دروازے سے اس گھر کے دروازے تک ان کی چہل قدمیاں ہوتی رہتیں، بلند آواز میں وہ دوسروں کی خیریت پوچھا کرتے۔  بستی کے مرد اپنے گھروں کو چھوڑنے سے پہلے رحمو بابا کو تلقین کرنا نہیں بھولتے تھے۔  مجھے خبر ملی تھی کہ اکثر راتوں میں جب بستی اونگھتی ہوئی نیند کی آغوش میں جا رہی ہوتی ستارہ سر پر آنچل ڈال کر رحمو بابا کے پاس آ جاتی، گھنٹوں باتیں ہوتیں، ایسے میں اس کی آنکھوں سے آنسو ٹپکتے رہتے اور بابا اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر دعائیں دیتے، گنڈے پھونک کر اس کے گلے میں ڈالتے۔، کبھی کبھار کاغذ کے پرزے پر پنسل سے آڑی ترچھی لکیریں بنا کر ان میں کچھ ہندسے(نمبر)  ڈال کر ستارہ کو ہی نہیں بستی کی ہر مصیبت زدہ عورتوں کو پکڑا دیتے۔  تعویذ فائدہ پہنچاتی ہے  یا نہیں، اس سے رحمو بابا کو کوئی غرض نہ تھی۔  ان کا کہنا تھا کہ فائدہ پہنچا نے والی صرف ایک اللہ کی ذات ہے۔  ہم سب اس کے حقیر بندے ہیں۔

 رحمو بابا جب رحمت علی ہوا کرتے تھے اپنی اونچی قد کاٹھی اور گوری رنگت کی وجہ سے میاں بھائی کے نام سے بھی مشہور تھے۔  روزانہ غسل کرنا ان کے لئے ضروری نہیں تھا مگر پانچ وقت کی نماز بے حد ضروری تھی اور یہ نمازیں برگد کی جڑ کے گرد بنے مٹی کے چبوترے پر ہی ادا ہوتی تھیں۔ عبادت کی طرف ان کے اسی رجحان نے پوری بستی میں انہیں معتبر بنا رکھا تھا۔  ا ن کی شادی بستی کی ہی کلّن بی سے ہوئی تھی۔  کلّن بی پر اپنے نام کا پورا اثر تھا۔ گہر ی رنگت اور دہرے بدن والی کلّن بی نے نمازی پرہیزگار، سب کا خیال رکھنے والے رحمت علی کا دل کب چرا لیا، بستی والے اسے بھانپ ہی نہیں پائے۔  کلّن بی کی بوڑھی بیوہ ماں اس لمحے کو عمر بھر کی نیکی کا نتیجہ مان بیٹھی جب رحمت علی نے کلّن بی کو اپنے نکاح میں لینے کا پیغام دیا۔  ہاں میں جواب آتے ہی جھٹ پٹ رحمت علی نے جمع کی ہوئی کمائی سے ایک گوٹے لچکے سے سجا ہوا سرخ دوپٹہ خریدا، لال رنگ کی شلوار کرتی بنوائی، چائے ناشتے کا انتظام کیا اور پہلے سے طے شدہ قاضی کو لے کر آ گئے۔ کلّن بی کا نکاح ہو گیا۔ بستی میں خوب خوشیاں منائی گئیں۔ ہنسی ٹھٹھول ہوئی۔ گانا بجانا ہوا۔  کلّن بی نے رحمت علی کی جھونپڑی کو آباد کر دیا۔  رحمت علی کے والدین کا کوئی پتہ نہیں تھا کیوں کہ چودہ، پندرہ برس کی عمر میں ہی وہ اکیلے بستی میں داخل ہوئے تھے۔ اس معاملے میں بستی والوں کا دل بیحد وسیع تھا۔ وہ آنے والوں کا خیر مقدم پوری گرم جوشی سے کرتے تھے بشرطیکہ وہ ان کی بہو بیٹیوں پر بری نظر نہ ڈالے۔  نماز کی پابندی رحمت علی اس عمر میں بھی کرتے تھے، اس سے بستی والوں نے یہ اندازہ لگا لیا کہ لڑکاکسی شریف گھر سے بھاگا ہوا ہے۔  آدھے ادھورے ٹکڑے تو کسی نہ کسی گھر سے مل ہی جاتے تھے رحمت علی کو کبھی بھوکے پیٹ نہیں سونا پڑا۔  رفتہ رفتہ ان کی جھونپڑی بھی کھڑی ہو گئی۔

کچھ دن تک رحمت علی رکشا چلاتے رہے، اینٹ گارا ڈھونے کی مزدوری کرتے رہے، دہاڑی پر کام کر کے پیٹ پالتے رہے مگر یہ سب بہت دن نہیں چل پایا کیوں کہ ان کے قد کاٹھی کی نزاکت ان کاموں کا بوجھ اٹھا ہی نہیں سکتی تھی۔  کلّن بی آئیں تو انہوں نے پرانے اخباروں کی تھیلیاں بنا بنا کر راشن کی دکانوں میں بیچنا شروع کیا۔  رحمت علی ان کے اس کام میں پوری مدد کرتے۔ گھر کا خرچ ان کے آنے کے بعد سے آسانی سے چل نکلا۔  ان کی ایک ہی اولاد پیدا ہوئی۔  برکت علی جو ان دنوں ممبئی میں رہتا تھا اس نے وہیں کسی لڑکی سے شادی کر کے گھربسا لیا تھا۔  دو تین سال میں ایک بار آ کر ماں باپ کو دیکھ جاتا۔

برکت علی کو ممبئی روانہ کرنے میں پوری بستی کا ہاتھ تھا کیوں کہ اس لڑکے کا چال چلن ٹھیک نہیں تھا۔  وہ اس بستی کی سب سے پیاری سب کی چہیتی لڑکی ستارہ کے پیچھے پڑ گیا تھا۔  ستارہ برکت علی کی شکل سے نفرت کرتی تھی۔  اس نے شکایتیں کیں، بستی والوں کو غصہ چڑھا، مار پیٹ ہوئی، پولیس کی ایک دو لاٹھی جب رحمت علی کو بھی پڑی تو کلّن بی نے فیصلہ کر لیا کہ اب برکت علی کو کہیں اور بھیج دیا جائے۔

بستی کے ہی کئی مرد پہلے سے ممبئی میں چھوٹے موٹے دھندے سے لگے ہوئے تھے ان کا سہارا لے کر برکت علی کو ٹرین پر چڑھا دیا گیا۔  اس رات دونوں میاں بیوی عشاء سے فجر تک روتے رہے، اس کی سلامتی کی دعائیں مانگتے رہے کیوں کہ وہی ان کا اکلوتا چراغ تھا۔  کہتے ہیں بیٹے کے چلے جانے کے بعد سے رحمت علی پوری طرح سے ٹوٹ گئے۔  زیادہ تر وقت اسی چبوترے پر نماز پڑھتے، پریشان لوگوں کے لئے جھاڑ پھونک کرتے، گنڈے تعویذ بانٹتے گزرتا۔ دھیرے دھیرے ان کے اس کام کی شہرت بستی سے باہر پھیلنی لگی۔  مصائب و آلام کی ماری ہوئی لڑکیاں اور عورتیں رحمو بابا کے دربا ر میں یوں ڈیرا ڈالنے لگیں جیسے گڑ پر مکھیاں۔  وہ ایک ہی ملاقات میں اپنی عاشقی کے افسانے، شوہر کے ہاتھوں اپنی مظلومیت کی کہانیاں اور ان حالات میں پیدا ہونے والی نامرادیوں اور ناکامیوں کی کتھائیں بلا تکلف اور بلا جھجھک رحمو بابا کے سامنے بیان کر دیتیں۔

آہستہ آہستہ تھیلی بنانے اور بیچنے کا دھندا پیچھے ہوتا گیا۔  گنڈے تعویذ دینے سے اتنی آمدنی تو ہونے لگی تھی کہ گھر کا چولہا جل سکے۔  یوں بھی دو وقت کاچولہابستی میں بہت کم جلا کرتا تھا۔  رات میں اتنا کھانا بن جاتا تھا کہ صبح اسی بچے ہوئے کھانے سے آدھا ادھورا پیٹ بھرا جا سکے۔  پورے دن چائے پیتے، لوگوں سے گپ شپ کرتے، پان کھاتے یا پھر بستی کے باہر چھوٹے موٹے کام کرتے لوگوں کا وقت کٹ جاتا تھا۔ کئی عورتیں بڑے لوگوں کے بنگلوں میں کام کرنے بھی جایا کرتی تھیں۔ پچھلے سال جب سردی کا موسم اپنے شباب پر تھا۔ لو گ ٹھٹھرے ہوئے اپنی جھونپڑیوں میں دبکے پڑے تھے۔  ٹھنڈ اپڑاسورج آنکھ مچولی کھیل رہا تھا کہ رحمت علی کی چیخوں سے بستی گونج اٹھی۔  وہ دھارم دھار رو رہے تھے، مٹھیوں سے اپنے بالوں کو نوچ رہے تھے،  ہاتھ پیر زمین پر پھینکتے ہوئے لوٹ رہے تھے۔  پوری بستی جاگ اٹھی، کہرام مچ گیا۔  کلّن بی دنیا سے رخصت ہو چکی تھیں۔ اس صدمے کو برداشت کرنا رحمت علی کے لئے بہت مشکل ہو رہا تھا۔ انہوں نے ستارہ کے ذریعہ کئی خط بیٹے کے پاس بھجوائے تھے، پوری بستی میں صرف ستارہ ہی ایسی لڑکی تھی جس نے بارہویں درجہ تک پڑھائی کرنے کے بعد پرائیویٹ بی۔ اے کا فارم بھرا تھا۔  لوگوں کو اس سے امید تھی کہ ایک دن وہ کلکٹر بن کر پوری بستی کو محل بنا دے گی۔  غریب جب خواب دیکھتے ہیں تو ان کی پرواز اتنی اونچی ہوتی ہے کہ سورج کی گرمی سے پنکھ جل اٹھتے ہیں۔  ستارہ بھی اس سچائی کو جانتی تھی وہ اپنے وجود کی پہچان کے لئے تعلیم حاصل کر رہی ہے۔ اس کے لئے کلکٹر بننے کا خواب آسمان سے سورج پکڑ کر ہاتھ میں لینا تھا۔  ہاں اس نے یہ خواب ضرور دیکھا تھا کہ ایک دن پڑھ لکھ کر ٹیچر بنے گی اور اس بستی کی ساری لڑکیوں اور عورتوں کو پڑھا لکھا کر ان کی جہالت ختم کرے گی۔  ا نہیں زندہ رہنے کا مطلب سمجھائے گی۔  رحمت علی بہت پیار سے ستارہ کو نورِ نظر کہہ کر پکارا کرتے تھے۔

ماں کے پچھڑنے کا غم کہیں یا پھر ستارہ کے ہاتھوں بھیجے گئے خطوں کا  اثر کہ برکت علی دو دن کے لئے بستی چلا آیا۔  اس نے ایک ادھوری کوشش ضرور کی کہ وہ اپنے باپ کو اپنے ساتھ ممبئی لیتا جائے مگر رحمت علی نے سختی سے انکار کر دیا۔

ستارہ کے لئے برکت علی کے دل میں جو پر جوش جذبے بھرے تھے وہ پرانے نہیں پڑے تھے۔  اتنے سنجیدہ ماحول میں بھی جب ایک رات ستارہ رحمت علی کو دوائیں دینے گئی تھی، اور وہ گہری نیند سوئے ہوئے تھے کہ برکت علی نے موقع دیکھ کرستارہ کو اپنے سینے سے بھینچ لیا۔  ستارہ چیخنے چلانے لگی۔  برکت علی نے اس کے ہونٹوں ں پر اپنی سخت ہتھیلی رکھنی چاہی مگر اچانک رحمت علی کی آنکھ کھل گئی۔  بستی کے کئی لوگ جھونپڑی میں داخل ہو گئے۔ بیٹے کی اس ذ لت آمیز حرکت سے بوڑھے رحمت علی کا جسم کانپنے لگا۔  انہوں نے اٹھ کر ایک زور دار طمانچہ اس کے گال پر جڑ دیا۔  بھیڑ میں سے کس نے اچک کر اس کے منہ پر گھونسا جڑا یہ کوئی نہیں دیکھ سکا مگر خون کے فوارے اس کی ناک سے پھوٹ پڑے۔  گھونسہ مارنے والا ستارہ کی نگاہوں کی زد میں تھا۔  اس نے پیار اور احسان مند نظروں سے اسے نہارا۔  چپکے سے آنکھوں آنکھوں میں کچھ پیغام ہوئے۔ حالانکہ برکت علی نے بھی دیکھ لیا تھا کہ گھونسہ کس طرف سے اور کس کا  اس کی ناک پر پڑا تھا۔  اس نے چار آنکھوں کی نرمی کو بھی محسوس کر لیا تھا۔  اس کے دل میں ان دونوں کے لئے شدید نفرت کی آگ دھدھک اٹھی۔  اس نے خون کے ساتھ سنا ہوا ڈھیر سارا تھوک کچی زمین پر اگل دیا۔  برکت علی انتہائی فحش گالیاں بکتا ہوا بستی سے باہر نکل گیا۔ شاید اس نے ممبئی کی ٹرین پکڑ لی ہو گی کیوں کہ وہ دوبارہ بستی میں نظر نہیں آیا۔  رحمت علی وفادار بیوی کی جدائی کے غم اور بیٹے کی بدکاری سے ایسے ٹوٹے کہ اپنے آپ سے ہی بے نیاز ہو گئے۔  ستارہ نے بہت سنبھالنے کی کوشش کی مگر سب بے سود رہا۔ بڑھے بال، بڑھی داڑھی اور اپنے میں ڈوبے رہنے والے رحمت علی جلد ہی رحمو بابا کے نام سے مشہور ہو گئے۔ ان کی پھونک میں تاثیر آ گئی۔  کہتے ہیں درد انسان کو بلندیوں کی طرف لے جاتا ہے۔

میرا دل آج بہت بے چین تھا اس لئے میں وقت سے پہلے ہی بستی سے باہر نکل آئی۔ برگد کی پھیلی گھنی چھاؤں میں میری گاڑی کھڑی تھی۔  میں سیدھے اپنی گاڑی کی طرف بڑھی۔  گاڑی میں ڈرائیور موجود نہیں تھا۔  شاید وہ بھی بیٹھا بیٹھا پریشان ہو کر کہیں ادھر اُدھر ٹہلنے نکل گیا ہو گا۔  میری نگاہ  دوبارہ رحمو بابا کی طرف اٹھی وہ اسی طرح اکڑو ں بیٹھے اونگھ رہے تھے۔  ستارہ کا تار کہیں نہ کہیں سے رحمو بابا سے بھی جڑا ہوا تھا اس لئے میں کھنچی ہوئی اس چبوترے کی طرف بڑھ گئی جہاں وہ بیٹھے ہوئے تھے۔

میرے قدموں کی آہٹ پر ان کی آنکھ کھلی اور وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھے۔  میرے سلام کرنے سے قبل انہوں نے جلدی سے کہا۔ ’آپ!‘

’’جی بابا میں !‘‘

’’بٹیا آپ میرے پاس آ گئیں۔ ‘‘ بے پایاں حیرت سے ان کی آنکھیں پھیلی ہوئی تھیں۔  مجھے ہنسی آ گئی۔

’’کیوں، کیا میں آپ کے پاس نہیں آ سکتی؟‘‘

’’کیوں نہیں، کیوں نہیں مگر آپ کو بیٹھاؤں کہاں ؟‘‘

انہوں نے پریشان ہو کر کہا۔

’’یہیں، اسی مٹی کے چبوترے پر۔ ‘‘ میں بے حد لاپرواہی کے ساتھ آلتی پالتی مار کر رحمو بابا کے سامنے بیٹھ گئی۔  انہوں نے ایک گہری سانس لی جیسے بہت بڑی پریشانی سے انھیں نجات مل گئی ہو۔

’’کہئے، بٹیا میں آپ کی کیا خدمت کروں۔ ‘‘

’’آپ مجھے پڑھ کر پھونک دیجئے تا کہ میرے اندر کی بے چینی اور بے کلی ختم ہو جائے۔ ‘‘

’’کیا آپ لوگ بھی بے چین ہوتے ہیں ؟‘‘ انھوں نے پوری آنکھیں کھول کر میری طرف دیکھا۔

’’کیوں ہم لوگوں کے اندر ایسے کون سے سرخاب کے پر لگے ہیں کہ ہم لوگ بے چین نہیں ہو سکتے۔ ‘‘

رحمو بابا ہکلاتے ہوئے بولے’’۔ ۔ ۔ نہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نہیں۔ ۔ ۔ ایسی بات نہیں ہے مگر مجھے ابھی تک ایسا لگتا تھا کہ جو لوگ لمبی کاروں میں گھومتے ہیں اونچے عالیشان بنگلوں میں رہتے ہیں۔  تین وقت اچھا کھانا کھاتے ہیں اچھا پہنتے ہیں انھیں زندگی کا کوئی غم نہیں ہوتا۔ ‘‘

’’رحمو بابا! جب تک کوئی چیز حاصل نہیں ہوتی، دسترس سے دور ہوتی ہے۔  تبھی تک اس کی کشش اس کی چاہت کھینچتی ہے۔  اسے حاصل کرنے کے لئے تلاش و جستجو پر اکساتی رہتی ہے، مگر جیسے ہی وہ چیز حاصل ہو جاتی ہے۔  اپنی قیمت، اپناحسن، اپنی چمک اور کشش کھو دیتی ہے۔ جس دن یہ ساری چیزیں آپ کو مل جائیں گی اس دن آپ کو اپنی ہی سوچ، اپنی ہی باتیں بے معنی لگیں گی۔ ‘‘

رحمو بابا کی آنکھوں میں میری باتوں کے لئے بے اعتمادی تھی۔  میں بے حد افسردہ اور پریشان تھی۔  جلد ہی بابا کی پھونک سے اپنے اندر سکون حاصل کرنا چاہتی تھی۔  میں نہیں جانتی تھی کہ میر ی اس سوچ میں کتنی صداقت ہے مگر چمپا کاکی اور پھانکی کی باتوں پر یقین کر کے میں رحمو بابا کے پاس پھونک ڈلوانے آ ہی گئی کیوں کہ ان کا کہنا تھا کہ بابا کی پھونک میں ایسی تاثیر ہے کہ بے چینیاں اور بیماریاں دونوں دور ہو جاتی ہیں۔  ستارہ اپنے دونوں بچوں کے ساتھ جب تک بابا کی پھونک اپنے اور اپنے بچوں پر نہیں ڈلوا لیتی، وہ اپنی جھونپڑی میں رات میں سونے کے لئے نہیں جاتی تھی۔  ستارہ میرے لئے ایک پرچھائیں تھی اور اس پرچھائیں کا گزر جن جن راستوں سے ہو گا میں اس پر ضرور چلوں گی۔  آخر میں رحمو بابا کی پھونک اپنے اوپر ڈلوانے میں کامیاب ہو گئی۔  تب تک میرا ڈرائیور گڈو میرے قریب آ چکا تھا۔

٭٭٭

 

 

۲۔ جذبوں کی خلوت میں

میں ایک شجر کے نیچے /چپ بیٹھی تک رہی ہوں / اس تتلی کو / جس کے پروں کے بیچ/ میرے خواب سجے ہیں / یہ تتلی کہیں دور نہیں / بند ہے/ میری مٹھی میں / مٹھی کی گرمی میں / جھلستے میرے خواب/ اور جھڑتے ہوئے پر/ پروں اور خوابوں کے بیچ/ سلسلہ کیسا طویل ہے/ اور میں طویل سفر سے تھک کر/ شجر کے نیچے بیٹھی/ مٹھیا ں کھول رہی ہوں / تاکہ میرے خوابوں کی تتلی/ ایک نئے سفر پر / نئی اڑان بھر سکے…

خواب اور تتلی میں کتنی مناسبت ہے۔  دونوں ہی نرم اور ذرا سی گرمی سے مرجھا جانے والے ہیں۔  مگر مرجھانے اور بکھرنے کے ڈر سے آنکھیں خواب دیکھنا بند کر دیں یہ کیسے ممکن ہے۔  کیونکہ خواب زندگی کے سفر کو آگے بڑھانے کا ایک مقصد ہوتے ہیں۔  خوابوں کا مرکز میں تھی۔  اور مقصد میں تو وہ سارے ہی کردار شامل تھے جو میری زندگی کو جئے جانے کے لئے مجبور کرتے تھے…

میری گاڑی آڑی ترچھی سڑکوں پر تیزی سے دوڑ تی ہوئی بستی سے دور اور شہر سے قریب ہوتی جا رہی تھی۔  جیسے جیسے بستی سے دوری کے فاصلے بڑھ رہے تھے ویسے ویسے میرے ذہن سے ستارہ اور بستی کے تمام لوگوں کے چہرے دھندلے ہوتے جا رہے تھے اور مجھ پر میری زندگی اور میرے حالات حاوی ہوتے جا رہے تھے۔ رحمو بابا کی پھونک سے کسی حد تک قرار تو آیا تھا۔  ہو سکتا ہے یہ میری نفسیاتی سوچ ہو مگر یہ بھی سچ ہے کہ محض پھونک مارنے سے زندگی کے رنگ بدلا نہیں کرتے۔  حالات تبدیل نہیں ہوتے۔  میرے حالات اور میری زندگی کے مابین رسہ کشی تبھی سے شروع ہو گئی تھی جب میں گیارہ سال کی ایک معصوم بچی تھی۔  کمسنی اپنی پلکیں جھپکا رہی تھی اور زندگی مجھے سرخ آنکھوں سے اپنے تیور دکھا رہی تھی۔  اور میں جیسے دور کھڑی ڈوبتے ابھرتے لمحوں کے عروج و زوال کی کہانی پڑھنے کی کوشش کر رہی تھی۔

پندرہ دن ہو گئے تھے کشو کا فون نہیں آیا تھا۔  دل کی بے چینی روز بروز بڑھتی جا رہی تھی۔  میں اس سے موبائل پر بات کر سکتی تھی، خیریت پوچھ سکتی تھی مگر میں جانتی تھی کہ کشو اسے پسندنہیں کرے گا۔  وہ بے حد مصروف مرد ہے، فرصت کے لمحے جب ملتے ہیں تو وہ خود ہی فون کر لیتا ہے کیونکہ ایسا اس نے سختی سے مجھے سمجھایا تھا اور سمجھنا میری مجبوری تھی۔  میں اس سے بحث نہیں کر سکتی تھی۔  وہ کتنا مصروف رہتا ہے یا مجھ سے اپنا دامن بچانے کی لئے مصروف رہنے کا ڈھونگ کرتا ہے۔  میں یہ کیسے کہہ سکتی تھی کیوں کہ ہزاروں میل دور بیٹھے مرد کے لئے میں صرف قیاس آرائیاں کر سکتی ہوں، پورے یقین کے ساتھ کوئی رائے نہیں قائم کر سکتی۔  میں کشو کے بارے میں کوئی رائے قائم کرنا بھی نہیں چاہتی تھی ورنہ دل بہلا بہلا کر جینے کا میراسہارا ٹوٹ جاتا۔

مرد کا عشق مرد کے لئے زندگی میں ایک الگ چیز ہوتی ہے۔  جب کہ عورت کے لئے یہ پوری زندگی کا مسئلہ ہوتا ہے۔ عورت کے لئے عشق کا مطلب جسم اور روح کی مکمل سپردگی ہے۔  بغیر کسی شرط سب کچھ عشق کی بارگاہ میں قربان کر دینا عورت کا ایمان بن جاتا ہے۔ جبکہ مرد کے لئے عشق عورت کا عشق طلب کرنا ہے۔  میں نہیں جانتی کہ دنیا کے تمام مرد ایک جیسے ہوتے ہیں۔  یا صرف کشو نے مجھے اس طرح کی رائے قائم کرنے کے لئے مجبور کیا۔  جینے کا کوئی نہ کوئی مقصد بنا رہے، زندگی  اپنی روانی میں بہتی رہے اسی لئے تو میں نے ستارہ کو اپنا مرکز بنایا تھا۔

گاڑی چوراہے پر ریڈ لائٹ ملتے ہی رک گئی۔  مجھے یہ خیال ہی نہیں رہا کہ گڈو گاڑی کے بیک مر رسے لگاتار مجھے دیکھ رہا ہے۔  کہنے کو تو یہ میرا ڈرائیور ہے مگر میں اسے اپنے چھوٹے بھائی سے کم نہیں مانتی۔  اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ بھی مجھے جہیز میں ملا تھا،  نانی نے رخصتی کے وقت دس گیارہ سال کے اس لڑکے کو میری گاڑی پر چڑھا دیا تھا کہ جا! باجی کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ جا۔ دیکھ میری بچی کی ہر ضرورت کا خیال رکھنا۔  اسے پیاس بہت لگتی ہے اس لئے ہر گھنٹے ایک گلاس پانی اس کی طرف بڑھا دینا، نئے ماحول میں سہما سا گڈو میرے قدموں کے پاس آ کر دبک گیا۔  مجھے اس پر بیحد پیار آیا مگر میں دلہن کے لباس میں اپنی شرم و حیا میں سمٹی ہوئی تھی اس لئے اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر اسے پیار نہیں کر سکی۔  اس کی بڑی بڑی معصوم آنکھیں ہر تھوڑی دیر کے بعد مجھے اپنے بھاری گھونگھٹ کے اندر دکھائی دیتیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ باجی پانی پئیں گی؟ میں نہیں میں سر ہلا دیتی۔  اس کے چہرے پر گہرا سکون چھا جاتا جیسے ایک بہت بڑے کام کی ذمہ داری سے نپٹ گیا ہو۔  میں اپنی سسرال سڑک کے راستے جا رہی تھی۔  اس لئے بیچ میں ٹھہراؤ لیا گیا۔  سب کی گاڑیاں رک گئیں۔  ہنسی خوشی شور و غل کے ماحول میں لوگ چائے کافی وغیرہ پی رہے تھے جس کا انتظام میرے والد غیاث الدین احمد خان نے پہلے سے کر رکھا تھا۔  میرے لئے سنترے کا جوس آیا۔  میں سمٹی گٹھری بنی بیٹھی تھی۔  گلاس ہاتھ میں آتے ہی میں نے گڈو کو دیکھا۔  کسی کی نگاہ گڈو کی طرف نہیں گئی تھی۔  وہ ننھا بچہ میرے قدموں کے پاس میرے بھاری غرارے کی چنٹوں میں دبکا ہوا تھا۔  مجھے اس پر بہت رحم آیا۔  میں نے انگوٹھے کی ٹو سے اس کے پیروں کے پاس گدگدی کی۔  وہ اچھل پڑا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ’’باجی آپ کو پیاس لگی ہے؟ پانی دوں ؟‘‘۔ ۔ ۔ مجھے ہنسی آ گئی۔

کتنی ایمانداری سے وہ نانی کی کہی بات کو عمل میں لا رہا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔  میں نے دھیرے سے کہا۔ ’’جا گڈو تو بھی کچھ کھا پی لے۔ ‘‘

گڈو میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ بھیڑ میں جا کر کچھ کھا پی سکے۔  اس کی بے بس نگاہیں مجھے گھونگھٹ کے اندر محسوس ہو رہی تھیں۔  اس بیچارے میں اتنی طاقت بھی نہیں تھی کہ وہ میرے کہے کو نکار سکے۔ بڑے مریل انداز سے وہ گاڑی سے نیچے اترا اور بھیڑ میں جا کر ایک پیڑ کی اوٹ میں کھڑا ہو گیا۔  غریبوں کو گنتی میں لانا رئیس اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ غریب تو غریب ہوتے ہیں۔  ان کی آنکھیں ہمیشہ دوسروں کی طرف طلب گار انداز سے اٹھتی ہیں۔  میں اندر ہی اندر پریشان ہو رہی تھی۔  چپکے چپکے بھاری دوپٹے کی اوٹ سے گاڑی کے شیشے سے باہر جھانک رہی تھی۔ کسی کی توجہ گڈو کی طرف نہیں تھی۔  ڈھائی گھنٹے ہو چکے تھے گھر سے نکلے ہوئے اور ابھی ڈھائی گھنٹے کا سفر باقی تھا۔  بیچارہ بچہ بھوکا ہو گا۔  میں اپنی بے بس نظروں سے اسے دیکھتی رہی۔

گڈو فریدن بی کا بیٹا تھا۔  فریدن میری نانی کی ملازمہ ہیں۔  گڈو کی پیدائش سے پہلے ہی اس کا باپ ایک سڑک حادثے میں چل بسا تھا۔  رحم دل نانی نے فریدن بی کو نو مہینے کے پیٹ سے ہونے کے باوجود سہارا دیا۔  وقت پر گڈو پیدا ہوا۔ سارے اخراجات نانی نے اٹھائے۔  گڈو ہمارے چھوڑے ہوئے کھانے کے جوٹھن سے پلنے لگا اور قسمت کا مارا میری خدمت کے لئے میرے  قدموں میں بیٹھا دیا گیا۔

کشو نے جب تک وہ چھوٹا رہا، گھریلو کام میں لگائے رکھا جب وہ ہاتھ پیر نکالنے لگا اور اس نے اٹھارواں سال پورا کر لیا تو اسے ڈرائیونگ سکھا دی گئی۔  اب وہ ایک ماہر ڈرائیور بن چکا تھا۔ ننھا سا سہما بچہ آدھے ادھورے ٹکڑوں پر پل کر ایسا گبرو اور خوبصورت جوان نکلا کہ میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔  ہاں کبھی کبھی مجھے خیال آتا کہ اب اس کی شادی کر دینی چاہئے۔

مگر میری سوچ ہمیشہ سوچ ہی بنی رہتی کیوں کہ میں جانتی تھی کہ کشو میری اس بات کو پسند نہیں کرے گا۔  وہ بے حد خودغرض مرد ہے۔  اسے صرف اپنے کام سے مطلب ہے۔ میں یہ بھی جانتی تھی کہ وہ ایک جھٹکے میں گڈو کو دروازے سے باہر کا راستہ بھی دکھا سکتا ہے اس لئے میں اس لڑکے کے لئے ایک ڈھال بنی رہتی۔  اسے بھی مجھ سے ایک بڑی بہن جیسی ہی محبت تھی جس کا اظہار اس نے کبھی نہیں کیا تھا اور نہ کر سکتا تھا کیوں کہ مجھے معلوم تھا کہ اس کے اندر آج بھی وہی سہما ہوا بچہ بیٹھا ہے جو ہر بات پر گھبرا جاتا ہے، چھوٹی چھوٹی ڈانٹ پھٹکار پر آنکھوں میں آنسو بھر لیتا ہے۔  گھنٹوں بھوکا ر ہ لے گا مگر منہ کھول کر کچھ کھانے کو کبھی نہیں مانگے گا۔  نانی نے جیسے اس پر ایک بھاری قرض چڑھا دیا تھا اور اسے عمر بھر میری خدمت کی شکل میں اس قرض کو اتارتے رہنا تھا۔

’’باجی پچھلے کئی دنوں سے میں آپ کو پریشان دیکھ رہا ہوں۔ ‘‘ اس نے سڑک کا ایک ترچھا موڑ کاٹتے ہوئے کہا۔ ’’ہاں گڈو میں ذہنی الجھنوں میں ہوں !‘‘

’’باجی گستاخی معاف کریں تو ایک سوال پوچھوں ؟‘‘

’’ہاں کہو‘‘ میں گاڑی کی پچھلی سیٹ پر بیٹھی گردن پیچھے ٹکائے اپنی نگاہوں کواس کے چہرے پر مرکوز کئے تھی۔

’’آپ سارا سارا دن ان غریبوں کی بستی میں آ کر کیا کرتی رہتی ہیں ؟‘‘

’’ستارہ سے جڑی ہوئی معلومات حاصل کرتی رہتی ہوں۔ ‘‘

میں نے بے خیالی میں جملہ ادا کیا تھا کیوں کہ میں سوچ کچھ اور رہی تھی۔

’’گڈو اپنی سیٹ سے اچھل پڑا، ’’باجی آپ میری شادی بستی کی کسی لڑکی سے کروائیں گی؟‘‘

اس کے جملے اور چہرے کی گھبراہٹ نے جیسے مجھ پر ہنسی کا دورہ طاری کر دیا۔  اس معصوم کی بات پر میں کھلکھلا کر ہنس پڑی۔  اپنی ہنسی مجھے اچھی لگی۔  کچھ ہلکا پن محسوس ہوا۔  میں نے اپنی ہنسی کو بیچ میں روکا نہیں، بس ہنستی ہی چلی گئی اور اسی ہنسی میں گڈو کی جھینپی جھینپی ہنسی بھی شامل ہو گئی۔  ہم دونوں دیر تک ہنستے رہے۔ ہنسی نے شاید ہم دونوں کو ہی بہت ہلکا پھلکا کر دیا تھا۔  گاڑی کی پوری فضا جو کچھ دیر پہلے بوجھل تھی وہ اچانک خوشگوار ہو اٹھی۔  مجھے بھی مذاق سوجھا۔  میں نے چٹکی لی۔

’’دو بچوں کی ماں سے شادی کرو گے؟‘‘

’’ستارہ دو بچوں کی ماں ہے؟‘‘ اس کے گلے میں جیسے کانٹے پھنس گئے ہوں۔

’’کیوں، تم تو کہتے تھے کہ تمہیں بچوں سے پیار ہے۔ ‘‘ گڈو چپ رہا۔  میں اس ہٹے کٹے بدھو مگر معصوم مرد کی گھبرا ہٹ محسوس کر تی رہی اور خوش ہوتی رہی۔  یا پھر یوں کہئے کہ خوش ہونے کا ڈراما کر تی رہی۔  گھر قریب آ رہا تھا۔ گڈو نے ڈرائیونگ تھوڑی آہستہ کی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ’’باجی آپ کیوں پریشان ہیں ؟‘‘

’’کشو کا فون نہیں آیا۔ ‘‘ میں نے آہستہ سے کہا۔  کشو کا نام سننے کے بعد اس کے ہونٹ خود بہ خود آپس میں چپک گئے۔  میں جانتی تھی کہ وہ اب آگے کچھ نہیں پوچھے گا۔

کشو یعنی کاشف اصغر میرا شوہر اسے میں اپنی خوش نصیبی کہوں یا بدنصیبی میرا سسرال اور مائکہ ایک ہی تھا۔  کاشف میرے رشتے دار لگتے ہیں۔  نانی جن کی میں ذمہ داری تھی انہوں نے کاشف کے ساتھ مجھے باندھ کر انجانے میں میری زندگی کے آئندہ لمحوں کو قید کی بھاری زنجیروں میں جکڑ دیا تھا اس کا احسا س یا گمان تک نانی کو نہیں تھا۔  نانی کی غلطی کو اپنا مقدر مان کر  میں جئے جا رہی تھی۔

گاڑی ایک جھٹکے سے رکی۔  گڈو نے نیچے اتر کر بنگلے کا گیٹ کھولا اور گاڑی اندر داخل کی۔  شام کے سات بج رہے تھے، کافی وقت راستے کے ٹرافک نے ضائع کر دیا تھا نیم تاریکی چھائی ہوئی تھی۔  گڈو نے ہر طرف کی لائٹ جلائی اور کمروں کے تالے کھولے۔

’’باجی آپ بہت تھکی ہیں اور ملازمہ بھی نہیں آئی۔ کہئے تو باہر سے کھانا لیتا آؤں۔ ‘‘

’’نہیں مجھے بھوک نہیں ہے میں صرف چائے بریڈ کھالوں گی۔  تم باہر جا کر کھانا کھالو۔ ‘‘

گڈو کے چہرے پر پریشانیوں کے کئی عکس ابھر آئے۔ غربت زبان کی قوت کو بھی چھین لیتی ہے۔  اس کی آنکھوں سے صاف جھلک رہا تھا کہ وہ مجھ سے کہنا چاہتا ہے کہ باجی آپ کھانا کھا لیجئے، پریشان مت ہوئیے۔  بھوکے پیٹ سوناٹھیک نہیں، مگر جب زبان کھلی تو سعادت مند ملازم کی طرح اس نے آہستہ سے کہا۔ ۔ ۔ ۔ ’۔ جیسی آپ کی مرضی۔ ‘

 میں نے سو روپیے کا نوٹ اس کی ہتھیلی پر رکھ دیا۔ میں جانتی تھی کہ وہ اتنے روپیے میں بھی دس، بیس روپیے بچا لے گا۔

غریب لوگ اور ان کی غربت سے بے پناہ ہمدردی کے جذبے کا بیج شاید گڈو نے ہی اب سے پچیس سال قبل میرے وجود میں گہرائی سے بویا تھا اور اسی کا نتیجہ تھا کہ آج میں ستارہ کی طرف راغب ہوئی اور اس کی بستی کو اپنی بستی بنا کر اس میں جانے لگی۔  میں ہر رات سونے سے پہلے ایک ایک بات اپنی ڈائری میں درج کرتی۔  ستارہ میری ڈائری کی ایک اہم کردار تھی۔ ستارہ کی طرف جھکنے کا ایک سبب اور تھا۔  مجھے اس کی خاموشی کی دبیز چادر میں گیارہ سال کی ڈری سہمی بے سہارا ہوئی بچی بھی کہیں نہ کہیں سے دبکی ہوئی نظر آتی جس نے خاموشی کو اپنی زندگی کی ڈھال بنا لیا تھا اور وہ کشو جیسے مرد کا ہر وار اس ڈھال پر سہتے ہوئے جیے جا رہی تھی

٭

میں نے گھڑ ی کی طرف نگاہ اٹھائی۔  رات کے گیارہ بج رہے تھے۔  اُف اتنا وقت نکل گیا۔  میں اتنے گھنٹے سے مسلسل سوچ رہی ہوں، اور سوچے جا رہی ہوں۔  ماضی کے کتنے صفحے میں نے پلٹ ڈالے، احساس ہی نہیں ہوا، آنکھوں میں بھاری پن لگ رہا تھا۔  میں نے دونوں ہتھیلیاں اپنی آنکھوں پر رکھ دیں۔  میرے دونوں ہاتھ بھیگ گئے۔  انگلیاں چہرے پر سرسرانے لگیں۔  چہرا بھیگا ہوا تھا۔  تکیہ پر ہاتھ پڑا ا س کا بھی بیشتر حصہ بھیگ چکا تھا۔  اُف ! کیا میں پچھلے چار گھنٹوں سے مسلسل رو رہی ہوں ؟ شاید جب سے میں نے سوچنا شروع کیا تب سے لگاتار آنکھوں سے پانی بہتا رہا۔  میرے سر میں ہلکا ہلکا درد تھا۔  میں نے تکیے سے اچک کر کھڑ کی سے باہر جھانکا، ہر طرف اندھیرا تھا مگر برآمدہ کی سینٹر لائٹ جل رہی تھی۔  یعنی گڈو کھانا کھا کر واپس آ گیا ہے اور اب سونے بھی جا چکا ہے کیوں کہ سینٹر لائٹ تبھی جلتی تھی جب گھر کے فرد کمروں میں بند ہو جاتے اور گڈو سرونٹ کواٹر میں جانے والا ہوتا۔  اس کا یہ آخری کا م تھا۔  چائے پینے کی شدید خواہش جاگی کیوں کہ میں نے گڈو کو ٹالنے کے لئے کہا تھا کہ میں چائے بریڈ کھالوں گی مگر اس کے جاتے ہی اپنے بستر پر دراز ہو گئی۔  سوتے جاگتے وقت کتنی تیزی سے گزر گیا۔   چائے پینے کی خواہش کو اپنی تمام خواہشوں کی طرح دبا کر میں بستر میں چپ پڑی تھی۔  مجھے آج وہ ننھی سی گیارہ سال کی بچی بے تحاشہ یاد آ رہی تھی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ وہ صبح کا  وقت تھا، آسمان پر سورج کی سرخی پھیل رہی تھی۔ میں اپنے بستر پر گہری نیند سوئی ہوئی تھی۔  اچانک کسی نے مجھے جھنجھوڑ کر جگایا۔  میں ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھی اور نیند سے بوجھل اپنی دونوں آنکھوں کو رگڑتے ہوئے بولی۔ ۔ ۔ ’’کیا ہوا؟‘‘ مگر جگانے والی مجھ سے دور جا چکی تھی۔  میں نے پوری آنکھیں کھول کر اپنے گھر کو دیکھا۔  کئی جانے انجانے چہرے مجھے نظر آئے۔  گھبرائے ہوئے لوگ ادھر ادھر بھاگ رہے تھے۔  میری سمجھ میں کچھ نہیں آیا۔  اچانک میرے رشتے کی ایک پھوپھی آئیں اور انہوں نے میرے دونوں شانے پکڑ کر زور سے ہلا دیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ’’دعا مانگو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دعا مانگو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ وہ مجھے چھوڑ کر چلاتی ہوئی دوسرے کمرے میں چلی گئیں۔  ان کے رو نے چلانے سے صرف مجھے اتنی بات سمجھ میں آئی کہ دعا مانگنی چاہئے۔  میں نے دونوں ہاتھ دعا کے لئے اوپر اٹھا دیے۔  مگرا ب کیا دعا مانگوں۔ ۔ ۔ ۔ ۔  میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔  میں ہاتھ اٹھائے گھبرائی ہوئی آنکھوں سے چاروں طرف دیکھ رہی تھی تبھی بدحواس سی بھاگتی ہوئی نانی کی نگاہیں مجھ پر پڑیں۔  وہ چیل کی طرح میرے اوپر جھپٹی۔  نہ جانے نانی کی بوڑھی ہڈیوں میں اتنی طاقت کہاں سے آ گئی تھی انہوں نے ایک جھٹکے سے مجھے گود میں اٹھا لیا۔  نانی کہہ کر میں ان سے لپٹ گئی۔  مجھے کچھ سمجھ میں نہیں آیا تو میں نے چیخ چیخ کر رونا شروع کر دیا۔  نانی نے مجھے زور سے سینے سے چپکا لیا جیسے وہ مجھے تسلی دینا چاہتی ہوں۔  میرے آنسو پونچھے ’’نہ رو بٹیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نہ رو بٹیا سب ٹھیک ہو جائے گا۔ ‘‘ کچھ دیر وہ مجھے سینے سے چپکائے رہیں پھر جیسے انہیں کچھ یاد آیا ہو وہ جھٹکے سے مجھے نیچے اتار کر میری ایک کلائی سختی سے اپنے ہاتھوں کی گرفت میں لے کر لگ بھگ کھینچتی ہوئی واش بیسن کی طرف بڑھیں۔  میں رونا بھول کر ا ن کا یہ بدلا ہوا رویہ دیکھنے لگی۔  مگر کسے فرصت تھی جو اس ننھی بچی کی طرف توجہ دیتا۔  مجھے سامنے ابی نظر آئے۔  وہ بھی بیحد پریشان تھے۔  ان کی دونوں مٹھیاں پیٹھ پر کسی ہوئی تھیں۔  کیا ابی کو بھی کوئی چیز ڈرا سکتی ہے۔  میں تو جب سے آدھے کچے شعور میں آئی تھی تب سے میں نے سب کو ان سے ڈرتے ہوئے دیکھا تھا۔ ابی کے گھر واپس آنے سے پہلے سب مل کر گھر کی صاف صفائی کر دیتے تھے۔  امی بھی باورچی خانے سے نکل کر مسالے کی خوشبو سے مہکتے اپنے کپڑوں کو اتار کر ڈھنگ کا لباس پہن لیتی تھیں۔  ہاتھ پیروں میں کریم آنکھوں میں کاجل اور بدن پر ٹیلکم پاؤڈر چھڑک لیتی تھیں۔  ہاں کبھی کبھی جب خوش ہوتیں تو ہونٹوں پر ہلکی لپ سٹک بھی لگا لیتیں۔  حالانکہ ایسے لمحے دو چار مہینے میں ایک بار ہی آتے۔  جب ابی انہیں کہیں باہر گھمانے لے جاتے امی کے ساتھ ساتھ مجھے بھی تیار کر دیا جاتا۔  ہاتھ پیر دھلا کر اچھی سی فراک پہنا دی جاتی اور نانی مجھے سمجھا دیتیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ’’دیکھو ابی گھر آ رہے ہیں۔  زیادہ پٹر  پٹر مت کرنا اور سلام کر کے سیدھے کمرے میں چلی جانا۔  بستہ کھول کر کتاب نکال کر پڑھنے لگنا۔ ابی ساتھ لے جائیں تو چلی جانا، ورنہ چپ بیٹھی پڑھتی رہنا۔ ‘‘

اسی طرح کے سبق مجھے ہر دن سمجھائے جاتے اور روز عمل کرتے کرتے میں سیکھ بھی چکی تھی مگر پھر بھی نانی کو مجھ پر بھروسہ نہیں ہوتا اور وہ بار بار سمجھاتیں۔  نانی میرے ابی کے گھر میں ہی رہتی تھیں کیوں کہ وہ ابی کی رشتے سے خالہ بھی لگتی تھیں اور امی کے سوائے نانی کا اس دنیا میں کوئی نہیں تھا۔

نانی جلدی جلدی مجھے وضو کرا رہی تھیں حالانکہ مجھے وضو کرنا آتا تھا مگر آج جیسے وہ دوسری نانی سی مجھے لگ رہی تھیں۔  وضو کے بعد انہوں نے بڑا سا دوپٹہ میرے سر پر اڑھایا  اور پھر مجھے گود میں اٹھا کر نماز کی چوکی پر کھڑا کر دیا۔  میری دونوں ہتھیلیوں کو ملا کر جلدی سے دعا مانگنے کے لئے ہاتھ اٹھوایا اور روتے ہوئے بولیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ’’بٹیا اللہ تعالیٰ سے دعا مانگو تم معصوم بچی ہو اللہ تمہاری دعا ضرور پوری کر ے گا۔ ‘‘

نانی اپنے ہی قدموں سے الجھتیں لڑکھڑاتی سنبھلتی مجھ سے دور چلی گئیں۔  میں نماز کی چوکی پر دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے پریشان کھڑی رہی۔

’مجھے کیا دعا مانگنی ہے یہ تو کوئی بتاتا ہی نہیں۔ ‘

میں نے ہونٹوں سے بدبداتے ہوئے کہا۔ ۔ ۔ ۔ ’’ اے اللہ !میری دعا قبول کر لے۔ ‘‘ میں پریشان ہو رہی تھی کہ اللہ تعالیٰ کیسے سمجھیں گے کہ انھیں میری کون سی دعا قبول کرنی چاہئے۔  میری نگاہ سامنے چہل قدمی کرتے ہوئے ابی پر پڑی، میں دوڑ کر ان سے لپٹ گئی ’’ ابی مجھے کون سی دعا مانگنی ہے؟‘‘ میں نے سوال کیا۔  ابی کا ہاتھ میرے سر پر آ گیا۔  میں بار بار اپنی بات دہراتی رہی۔  جب کوئی جواب نہیں ملا تو میں نے سر اٹھایا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ابی رور ہے تھے۔  ان کا پورا چہرہ آنسوؤں سے تر تھا۔  میرے ابی رو رہے ہیں۔  یہ بات میرے لئے نا قابلِ یقین تھی۔  ایک بار پھر میں نے چیخ چیخ کر رونا شروع کر دیا اس بار میری چیخ کے ساتھ بیشمار چیخیں شامل ہو گئیں۔  ایسی چیخیں جو میں نے اپنے کانوں سے کبھی سنی ہی نہیں تھیں۔  سب کو چیختا دیکھ کر میں سہم کر چپ ہو گئی۔  ابی بھی چیخ رہے تھے۔  زور زور سے رو رہے تھے۔  اللہ تعالیٰ کو آواز دے رہے تھے۔  ایک کہرام سا برپا ہوا۔  آسمان کے پائے کو ہلاتی ہوئی نانی کی چیخ سنائی دی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ’’مہہ جبیں دغا کر گئی۔ ‘‘ نانی بے ہوش ہو چکی تھیں۔  کسی نے میری پیاری نانی کو زمین سے اٹھا کر پلنگ پر نہیں ڈالا۔  مہہ جبیں بانو میری ماں تھیں۔  ماں نے کیا دغا کیا کہ نانی بے ہوش ہو گئیں۔  میں نانی کو چھوڑ کر اپنی امی کے کمرے میں بھاگی۔  امی اپنی پلنگ پر چت لیٹی تھیں۔  ان کی آنکھیں بند تھیں۔  میں جھپٹ کر ان کی پلنگ پر چڑھ گئی اور زور زور سے چلانے لگی، ’’امی اٹھیے، نانی بے ہوش ہو گئیں۔ ‘‘

کئی ہاتھ بڑھے اور مجھے بے رحمی سے اوپر کھینچ لیا گیا۔  میں بڑھتی بھیڑ کے پیچھے چھوٹتی چلی گئی۔  کبھی کبھار بھیڑ کے بیچ سے مجھے اپنی امی دکھائی دے جاتیں۔  میں کمرے سے باہر کی طرف ڈھکیل دی گئی۔

مجھے سمجھا دیا گیا۔ ۔ ۔ ۔ ’’تمہاری امیّ چلی گئیں۔ ‘‘ کہاں چلی گئیں ؟ ’’میرے اس سوال پر ابی نے سمجھایا۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘  ’’ اللہ تعالیٰ نے انھیں یاد کر لیا۔ ‘‘ مجھے اتنی ڈھیر ساری باتیں سمجھ میں نہیں آ رہی تھیں اور بھیڑ کے شور نے میرے دماغ کو جیسے ماؤف کر دیا تھا۔  میں دوبارہ نانی کے پاس آئی۔  ان کی آنکھیں کھلی ہوئی تھیں اور وہ چھت کو گھور رہی تھیں۔  میں ان  کے سینے سے لگ کر لیٹ گئی۔

لیٹتے ہی مجھے نیند آ گئی۔  شاید میرا ننھا دماغ اتنا بوجھ برداشت نہیں کر سکا تھا۔

سوتے میں میرا شعور جاگ رہا تھا۔  مہ جبیں بانو دغا کر گئیں کہہ کر روتی چیختی نانی کی آوازیں میرے کان سے ٹکرا رہی تھیں۔  نیند میں ہوتے ہوئے بھی تھوڑی تھوڑی دیر میں اٹھتا ہوا کہرام مجھے اندر ہی اندر خوف کے گہرے سمندر میں غوطے لگوا رہا تھا۔ میں نے دیکھا کہ میں ایک بہت بڑے جنگل میں بھٹک رہی ہوں۔  شیر چیتے لنگور، بھیڑیے جتنے قسم کے جانور بچپنے میں میں جانتی تھی وہ سارے کے سارے جانور اپنے خونخوار دانت نکالتے ہوئے میرے ارد گر د گھوم رہے تھے۔  میں خود کو بچانے کے لئے امی امی کہہ کر آوازیں دیتی ہوئی ادھر ادھر بھاگ رہی ہوں۔  رو رہی ہوں، امی کو پکار رہی ہوں۔  تبھی ایک بڑی سی ندی مجھے دکھائی دی۔  ندی کے اس پار امی کھڑی تھیں، انھوں نے اپنی دونوں باہیں میری طرف پھیلا رکھی تھیں۔  جیسے مجھے گود میں اٹھانا چاہتی ہوں۔  اور میں نے بھی اپنی دونوں باہیں ان کی طرف پھیلائی ہوئی تھیں۔  روتے روتے میری ہچکیاں بندھی ہوئی تھیں۔  اور میں جلدی سے اپنی امی کی محفوظ گود میں آ جانا چاہتی تھی۔  مگر بیچ میں آئی ندی ہم دونوں کو ملنے نہیں دے رہی تھی۔  تبھی مجھے امی کی آواز سنائی دی۔  میری ننھی جان یہ ندی پانی کی نہیں تیرے بہائے آنسوؤں کی ہے۔  اگر تو نہ روتی تو یہ ندی ہم دونوں کے بیچ حائل نہ ہوتی۔  اپنے آنسو پونچھ لے میری بچی! تاکہ یہ ندی سوکھ جائے اور میں تجھے اپنی گود میں اٹھا کر اپنے سینے سے لگا سکوں۔  یہ سن کر میں نے جھٹ سے رونا بند کر دیا۔  اور اپنی فراک کے دامن سے رگڑ رگڑ کر آنسو پونچھنے لگی۔  آنکھیں اور چہرہ خشک کر کے میں نے اوپر دیکھا تو نہ امی تھیں نہ ندی تھی نہ جنگل تھا نہ وہ جانور، جو مجھے خوف زدہ کر رہے تھے۔  میری نظروں کے سامنے عورتوں کی بھیڑ تھی امی کا جنازہ تھا۔  روتے ہوئے ابو اور زمین پر بیہوش پڑی نانی تھیں۔

اس رات کے بعدجیسے مجھے رونے سے نفرت ہو گئی۔  اگر نہ روتی تو امی مل جاتیں۔  وقت کے ساتھ زخم بھرنے لگے۔  دل پر مرہم لگتا گیا۔  مگر پھر کبھی میری آنکھوں میں آنسو نہیں آئے اور اگر کبھی آئے بھی تو میں اسے گالوں پر بہنے سے پہلے اپنے رومال میں سمیٹ لیتی اور آنکھیں رگڑ رگڑ کر صاف کر لیتی۔ امی کے بغیر وہ دن اور اس کے بعد کے سارے دن میرے لئے بے نور ہو چکے تھے۔  ان بے نور لمحوں میں وہ لمحہ بھی مجھے یاد ہے جب میں اس دن سہم کر کسی کونے میں دبکی سو رہی تھی کہ اچانک  چیخ پکار نے مجھے گہری نیند سے بیدار کر دیا۔  ایک بڑا سا بکس جسے میں بعد میں سمجھ پائی تھی کہ یہ ایک گہوارہ تھا، اس میں میری امّی لیٹی ہوئی تھیں۔ سفید کپڑوں میں لپٹی۔  کبھی امی سفید شلوار جمپر  یا دوپٹہ پہن لیتی تھیں تو انہیں نانی کی کتنی پھٹکارسننی پڑتی تھی۔  آج نانی بالکل چپ تھیں۔ میں نے اندر جھانکا۔ میں نہیں جانتی کہ میرے دل پر کیا اثر ہوا، میں گہوارے کا پایا پکڑ کر سسکنے لگی۔  چپکے چپکے سسکنے کا جو سلسلہ شروع ہوا تو جیسے اس نے میری پوری زندگی کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اور میری زندگی ایک نئی ڈگر اور نئی سمت کی طرف چلنے کو تیار ہو گئی۔ وہ سمت وہ ڈگر ایسے راستوں سے ملتی تھی جہاں نا مرادیاں اور ناکامیاں میرا انتظار کر رہی تھیں۔  اذان کی آواز آئی اور جنازہ اٹھایا گیا۔

 الصلواۃ خیر اٌ من النوم (نیند سے بہتر نماز ہے) کی آواز میری سماعت سے ٹکرائی فجر کی اذان ہو رہی ہے۔  ساری رات گزر گئی مجھے ماضی کے صفحے پلٹتے ہوئے۔  اذیت مجھے کشو کی طرف سے ملی اور میں روئی اپنی ماں کی موت کو یا د کر کے۔

کلمہ پڑھتے ہوئے میں پلنگ سے اٹھ کر بیٹھ گئی۔  دونوں ہاتھوں سے میں نے اپنا سر تھام رکھا تھا۔  زور سے چکر آ رہا تھا۔ مگر مجھے نماز تو پڑھنی ہی تھی۔  نانی کی دی گئی ہدایتوں کو میں کیسے نظر انداز کر سکتی تھی۔ میں وضو کر نے کے لئے واش بیسن کی طرف بڑھ گئی۔

ایک ہفتہ بعد غسل صحت کے ساتھ بستر چھوڑ کر اٹھ کھڑی ہوئی۔ خود کو اندر سے کافی ہلکا پھلکا اور ترو تازہ محسوس کر رہی تھی۔  میرے جدید انداز میں کٹے بال شانے پر پھیلے ہوئے تھے۔  تولیہ کے کپڑے کا بنا گاؤن میرے جسم کے ساتھ ساتھ بالوں کی نمی بھی خشک کر رہا تھا۔  میں اپنے لان میں بیٹھی نومبر کے مہینے کی گلابی ٹھنڈ اور ہلکی دھوپ کا لطف اٹھا رہی تھی۔  میرے سامنے آج کے اخبار کا فلمی کالم پھیلا ہوا تھا۔  کس تھیٹر میں کون سی فلم لگی ہے میں ا س کا جائزہ لے رہی تھی۔ کیوں کہ یہ میری ہی لگائی ہوئی شرط تھی کہ جب میں مسلسل ہفتہ دس دن بستی نہیں پہنچ پاؤں گی تو جرمانے کی شکل میں مجھے پھانکی کو پکچر دکھانی ہو گی۔  میرا پھینکا ہوا یہ  ایک چارا تھا جس میں میں اپنے شکار کو پھنسا نا چاہتی تھی تاکہ وہاں کسی کو میرے آنے کا انتظار رہے۔  میں انہیں زندگی کے مزے دے کر ا ن کی زندگی کے اس سچ کو جاننا سمجھنا چاہتی تھی جو میٹھے پھل کے اندر کیڑے لگے گودے کی طرح تھا۔

 کبھی چکر آنے کا مرض لگ جاتا، کبھی کئی کئی دن تک سر درد سے تڑپتی رہتی کبھی کمر درد، کبھی اسپائنٹی لائٹس، کبھی کبھی تو لگتا کہ ڈائبٹیز نے بھی میرے جسم میں اپنا ڈیرا ڈال لیا ہے کیوں کہ ہر آدھے گھنٹے پر مجھے پیشاب کی حاجت ہوتی۔  میں نے کوئی ٹیسٹ نہیں کرایا مگر احتیاط برتنا شروع کر دیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔  یہ سارے مرض مجھے میری زندگی کے تناؤ اور اکیلے پن نے دیے  تھے۔  رفتہ رفتہ مجھے جیسے اکیلے ہی اس زندگی کو جینے کی عادت سی پڑ گئی تھی۔  کوئی ذہنی جسمانی تکلیف بر ی نہیں لگتی سب اپنے ہی جسم کا حصہ لگتے تھے۔ ہاں جب کبھی مجھے کوئی تکلیف نہیں ہوتی تو اس کی یاد آنے لگتی۔  بعد میں جب کشو نے زبردستی میرے سارے ٹیسٹ کروائے تو میڈیکل رپورٹ سے معلوم ہوا کہ مجھے کوئی بیماری نہیں ہے۔  میں ایک نفسیاتی مریض بن کر اپنے آپ کو کچلنا نہیں چاہتی تھی۔  اس لئے جینے کے لئے طرح طرح کے بہانے تلاشنے کی جستجو میں لگی رہتی۔

آج میں خود کو بے حد تر و تازہ محسوس کر رہی تھی۔ ایک تو اتنی صبح مجھے فون پر کشو کی آواز سننے کو مل گئی اور مجھے اس کی آواز کی گرم جوشی سے احساس ہو گیا کہ ابھی بھی ہمارے رشتے کی گرماہٹ قائم ہے۔  سارے گلے شکوے دور ہو گئے۔  قدرت نے عورت کی تخلیق میں کتنے قسم کے رنگ بھر دئے۔ ۔ ۔ ۔ وہ کتنی خاموشی سے سب کچھ سہتی رہتی ہے اور جب سہتے سہتے آتش فشاں کی طرح پھٹنے کے قریب ہوتی ہے تو مرد کے پھینکے ہوئے چلو بھر ترحم کے پانی سے اپنی پوری آگ بجھا لیتی ہے۔  ایسی آگ جس میں پوری کائنات کو  جھلسا دینے کی قوت ہوتی ہے وہ لمحے بھر میں ایسی ٹھنڈی ہو جاتی ہے جہاں چنگاری بھی نہیں سلگ سکتی۔

کشو نے مجھے اپنی حرکتوں اور اپنے رویوں سے جوالا مکھی بنا رکھا تھا مگر اس کے دو میٹھے لفظ نے میرا سارا غصہ کافور کر دیا۔  اس کی ہلکی سی مسکراہٹ، آواز کی بے حد نرم گر م جوشی مجھے کتنا سکون بخش دیتی تھی۔

بہر حال اس وقت مجھے جلدی جلدی تیار ہو کر بستی روانہ ہو نا تھا کیوں کہ میرے لئے دوسری خوشی یہ بھی تھی کہ پھانکی نے ستارہ کو بھی میرے ساتھ فلم دیکھنے کے لئے تیار کر لیا تھا۔ اس سے بڑی خوشی میرے لئے اور کیا ہو سکتی ہے کہ مجھے ستا رہ سے بات چیت کرنے کا موقع مل جائے۔  اس کے ساتھ میں کچھ گھنٹے گزار سکوں، اسے سمجھ سکوں، اسے جان سکوں۔  ایسا نہیں تھا کہ ستارہ بہت اعلیٰ صفت مخلوق تھی اور میں اس پر کوئی ریسرچ کر رہی تھی۔  نہ وہ حسین تھی نہ وہ بے حد پڑھی لکھی، نہ اس کا تعلق کسی اعلیٰ گھرانے سے تھا اور نہ اس نے کوئی ایسا معرکے کا کام کیا تھا جس کی بنا پر وہ سب کی توجہ کا مرکز بنتی۔  چمپا کاکی اور پھانکی تو اکثر حیران ہوتیں کہ میں ستارہ کے بارے میں اتنا کچھ کیوں جاننا چاہتی ہوں۔ مجھے اس بستی میں ستارہ کے بارے میں ہی جاننے کی للک کیوں ہے۔  مگر مجھے ستارہ اپنے آپ کو سونپی اپنی ہی ایک ذمہ داری لگتی یا پھر میں نے جینے کے لئے ستارہ کو ایک مقصد بنا لیا تھا۔

کبھی کبھی زندگی انسان کو ایسے مقام پر پہنچا دیتی ہے جب خود کو بہلانے کے لئے خود سے کھیلنا اس کی ایک مجبوری ہو جاتی ہے۔  ستارہ بھی میری مجبوری بن چکی تھی۔  اس مجبوری میں میرا تجسس میری نفرت کے ساتھ میری چاہت اور بہت کچھ بے نقاب کر دینے کی آرزو تھی۔  الزبیتھ جب آنکھیں چمکا چمکا کر ستارہ کے قصے سناتی تو کبھی میں ہنستی اور کبھی خاموش ہو جاتی اور کبھی آنکھیں بند کر کے سوچنے لگتی۔  آدھے سچ اور آدھے جھوٹ کی بنیاد پر گڑھے قصے۔  مجھے ہمیشہ نہ تو وہ آسمان سے اتری بہشتی مخلوق نظر آتی اور نہ ہی طوائفیت کا جامہ پہنے کوئی رسیا عورت۔

سہاگ کی پہلی رات سے ہی میرے اندر ستارہ کے متعلق سب کچھ جان لینے کا تجسس پیدا ہو گیا تھا۔  کشو کی وجہ سے مجھے اس سے نفرت تھی۔  میرے دل میں اس کے لئے چاہت بھی تھی کیونکہ بستی میں واحد اس کا کردار ایسا تھا جس کے لئے میرے دل میں ہمدردی تھی۔  میں اسے بے نقاب اس لئے کرنا چاہتی تھی کیونکہ میں جانتی تھی کہ وہ ویسی نہیں ہے جیسی دکھتی ہے۔  ایک عورت کے اندر اتنی دبیز تہہ داری ہوتی ہے کہ اسے ایک ہی بار میں نہیں کھولا جا سکتا۔

٭٭٭

 

 

۳۔ سوکھا دن اور گیلی راتیں

میں اپنے خوابوں کی کرچیاں چن رہی ہوں /اور تم اپنے بوٹوں سے / میری انگلیاں مسل رہے ہو/ میں ہوا کی سبک رفتاری سے/ اپنے تخیل کو پرواز دے رہی ہوں / اور تم اپنے جبر سے / پلکوں پر اٹکے موتیوں کو کچل رہے ہو/ میں اپنے خالی دامن کو/ پرندوں کی آوازوں سے بھر رہی ہوں / اور تم جمع کئے پرندوں کے پروں کو نوچتے پھر رہے ہو/ جذبہ تمھارا بھی ہے/ جذبہ ہمارا بھی ہے/ فرق اتنا ہے کہ تم/ محسوس کرنے کی قوت کھو چکے ہو/ اور میں قوت گویائی…

 ہم عورتیں اپنے شوہروں کو لے کر کتنی خوش فہمیوں کا شکار رہتی ہیں۔  اور ان خوش فہمیوں کے پنجڑے کو پہلی رات ہی شوہر اپنی بیوی کے لئے تیار کر دیتا ہے۔  اور پھر اپنے حصار میں لے کر اسے یہ سمجھا تا ہے کہ اس ایک مرد کے بغیر یہ ساری دنیا اس جیل خانے کی طرح ہے جہاں عورتوں کا صرف استحصال ہوتا ہے۔  شوہر کی دہلیز چھوڑا نہیں کہ باہر بیٹھے مردوں کی شکل میں گدھ اس کی بوٹیاں نوچ ڈالیں گے۔  خوف کے خمیر سے تیار کی گئیں عورتیں پھر چاہے کچھ بھی ہو جائے اپنے شوہر کی دہلیز نہیں چھوڑتیں۔  میں بھی نہیں چھوڑنا چاہتی تھی آخری دم تک۔  اس لئے میں کشو کے ساتھ محبت کا ڈراما کھیل رہی تھی۔ ۔ ۔  ایک طویل ڈرامہ۔ ۔ ۔

تقریباً ایک سال پہلے کی بات ہے۔  کشو لمبے عرصے کے بعد ہندوستان آیا تھا۔  میں خوشی سے باولی ہو رہی تھی۔  ان پندرہ دنوں میں زندگی کا سارا عرق پی جانا چاہتی تھی۔  ریگستان بنے اپنے جسم کو  اس کے پیار کے آبشار سے شرابور کر دینا چاہتی تھی۔  کیا کچھ نہیں سوچ رکھا تھا میں نے۔  سارے رشتے داروں سے ملوں گی کیوں کہ کشو کے بغیر شادی بیاہ پارٹیوں میں مجھے تنہا جانا اچھا نہیں لگتا تھا۔  اس کے بغیر اپنا وجود کسی سوکھے تنے کی ٹھونٹھ جیسا لگتا۔  جسے رنگ برنگی پنیوں سے سجا دیا گیا ہو۔  دوسرے لوگوں کے سوالات کا جواب دیتے دیتے میں تھکنے لگی تھی جیسے کاشف کو گئے تو بہت عرصہ ہو گیا؟ کاشف کتنے دن میں آئے گا، تمہاری بات چیت اس سے ہوتی ہے نا؟ بے چارہ وہاں مشینی زندگی جی رہا ہے۔ اگر یہاں آئے بھی تو کس بنا پر؟ ایک عمر کے بعد تو بچے ہی والدین کو جوڑے رکھتے ہیں مگر یہاں تو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟ ‘‘ یہ سارے سوالات ان لوگو ں کے ہوتے جو میری لمبی گاڑی، بھاری زیوروں، شاندار لباس، اور میک ا پ کی تہوں میں چھپے چمکتے چہرے کو دیکھ کر رشک و حسدکرتے تھے۔  میں یہ با ت اچھی طرح جانتی تھی کہ مہ جبیں بانو کی بیٹی نازنین بانو کو جاننے والے کم اور مسز کاشف کو جاننے والے بے شمار تھے۔ اور یہ سارے تیر وہی چلاتے تھے جن کی نگاہیں کبھی کشو کی دولت پر ٹکی تھیں۔

میں رشتہ داروں سے ان کی پارٹیوں جلسوں اور ہر اس موقعے سے بچنے لگی جہاں سب کے جمع ہونے کے امکانات ہوتے۔

کشو جب ہندوستان آیا تو میں نے طے کر لیا کہ ان پندرہ دنوں میں کشو کو لے کر میں ایک ایک گھر میں جاؤں گی اور دکھاؤں گی کہ دیکھو ہم میاں بیوی کتنے خوشحال ہیں۔  ہم بنا اولاد کے بھی جی سکتے ہیں، میری گود اولاد سے تو خالی ہے مگر شوہر کے بے تحاشہ پیار سے ہری بھری ہے۔  میں کشو کے دم پر ہوا بھرے بیلون کی طرح آسمان پر اڑ رہی تھی۔  ایک دو دن اس نے گھر پر دن رات آرام کیا اور میں کنیزوں کی طرح باورچی خانے سے بستر تک اس کی خدمت کر تی رہی۔  اتنے عرصے کے بعد آیا تھا تو بھوکے بھیڑیے کی طرح ٹھنڈے گرم ہر گوشت پر جھپٹ رہا تھا۔  ہڈیاں چوس رہا تھا۔ میرے جسم پر ہلکے گہرے داغوں کی نشانیاں دے رہا تھا۔ مگر مجھے برا نہیں لگا کہ چلو مرد ہے اتنے دن کے بعد آیا ہے، اس کا حق بنتا ہے گرم کھانا کھانے کا۔ میں نے ملازمہ کو چھٹی دے دی۔ گڈو کو روپیے کی گڈی پکڑا کر فریدن بوا کے پاس بھیج دیا کہ وہ ہفتہ دس دن اپنی ماں کے ساتھ رہ لے گا اور گھر کو پوری طرح خالی کر کے ہم دو اکیلے رہ گئے تاکہ کوئی پابندی، تہذیب کی کوئی بندش نہ رہے۔ شب و روز کا فرق مٹ جائے۔ اٹھنے جاگنے کا کوئی وقت مقرر نہ ہو۔

اپنے سینے پر ابھرے دانتوں کے نشانات دیکھ کر مجھے کئی بار ایسا لگا کہ کشو میرا شوہر نہیں بلکہ وہ قصائی ہے جو جانور کے گوشت کو تولتا اور کاٹتا رہتا ہے۔ میں اوبنے لگی تھی، تھکنے لگی تھی اور پھر چودہ برسوں کی ایک لمبی ازدواجی زندگی جی کر آئی تھی۔ برداشت کرنے کی کتنی قوت بچی رہتی ! کشو میرے مقابلے میں کافی جوان دکھائی دیتا۔ لیکن اس کا کیا جائے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  جنس میں برتری نہیں چلتی بلکہ برابری اور مساوات، جذباتی ہم آہنگی اور جذباتی عزت بنیادی جنسی لذت کا تلازمہ بنتے ہیں۔ بہت سے مرد سارا دن عورت کو ذلیل و خوار کر کے رات کو شلوار کھول دینے کی درخواست کو اس کی عزت افزائی سمجھتے ہیں۔ میں یہ جانتی ہوں کہ عورت کے لئے عشق کا مطلب جسم کی مکمل سپردگی ہے۔  عورت بلا  شرط اور بلا کم و کاست سب کچھ عشق کی بارگاہ میں قربان کر دینا اپنا ایمان سمجھتی ہے۔  لیکن۔ ۔ ۔ ۔  مرد ایک عورت سے چاہتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔  اس کے جسم کے روئیں روئیں کی گرمی۔ ۔ ۔ ۔  اس کے جسم کی حدت، اس کے جسم کی وہ زبان جو بالکل ننگے لفظوں  کے ساتھ باتیں کریں۔  ایک ایک اشارے پر کئی کئی زاویوں سے اس کے لئے دعوت تعیش پیش کرے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  اور مرد جی بھر کر لطف اٹھاتا ہے اور جب اس کا جی بھر جاتا ہے تو عورت اس کے لئے ایک بیکار شے ہو جاتی ہے اور پھر اس کی ساری جذباتی ہم آہنگی اور جذباتی رشتے برف بن جاتے ہیں۔ مرد کبھی بھی عورت کے سرد جسم کو قبول نہیں کرتا لیکن عورت۔ ۔ ۔ ۔ ۔  عورت مرد کو ہر صورت میں قبول کرتی ہے۔  اس پر قربان ہونے کے لئے ہمہ وقت تیار رہتی ہے۔

  کشو میراسارا دم خم نچوڑ چکا تھا۔ اب میں اس کے ساتھ ہم بسترہوتی ہوئی صرف اپنے جوان ہونے کا ڈھونگ کرتی تھی۔  اس رابطے میں اس نے اتنے انداز کہاں سے سیکھ لئے تھے۔ کئی بار ہم بستری کے دوران ہی جسمانی اذیتوں کی وجہ سے میری آنکھوں سے آنسو کے قطرے ٹپک پڑتے، اس نے کوئی پرواہ نہیں کی، ہاں جب جسم کا پانی سوکھنے لگتا تو وہ بھوکے درندے کی طرح مجھے نوچنے لگتا، کھسوٹنے لگتا، دانتوں سے کاٹنے لگتا اور صرف چھ دنوں میں میرا نشہ ہرن ہو گیا کہ میں کشو کو اپنے ساتھ لے کر رشتے داروں کے ایک ایک گھر میں جاؤں گی اور دکھاؤں گی کہ دیکھو میں کتنی خوشحال ہوں۔

٭

میں نے فون کر کے ملازمہ کو واپس بلایا۔  مجھ سے باورچی خانے اور بستر کی دوہری ذمہ داری ایک ساتھ نہیں سنبھالی جا رہی تھی۔  گڈو چھٹی سے واپس آ گیا۔  ان دنوں، کاشف رشتے داروں سے ملنے اکیلے ہی جاتا کیوں کہ بھرپور خوراک لینے کے بعد وہ کافی چست درست ہو گیا تھا۔  اس کا مردانہ حسن بڑھ گیا تھا، وہ اچھے لباس پہنتا، پرفیوم لگاتا، گاڑی میں لوگوں کے دئے جانے والے تحائف بھرتا اور نکل جاتا۔  دیر رات تک جب واپس لوٹتا تو میں روتے روتے تھک چکی ہوتی اور بستر پر اپنے جسم کا ڈھیر لئے اونگھ رہی ہوتی۔  اس کے آتے ہی ہم دونوں کے بیچ تکرار شروع ہو جاتی۔  تکرار اور جھگڑے اس وقت تک چلتے رہتے جب تک میرے گالوں پر دو چار تھپڑ اور کمر پر دو چار لات نہ پڑھ جاتی۔ کئی بار میرے ہونٹ بھی پھٹ گئے۔ خون کی باسی لکیریں میں صبح اپنے ہاتھوں سے رگڑ رگڑ کر چھڑاتی اور کوئی اینٹی سیپٹک کریم لگا کر اس طرح روزمرہ کے کاموں میں لگ جاتی جیسے کل رات کچھ ہوا ہی نہیں، میں نے محسوس کیا کہ میرے سامنے کا ایک دانت ہلکا ہلکا ہلنا شروع ہو گیا ہے۔  کہیں کسی شب وہ دانت کشو کے گھونسے سے زمین پر نہ آ جائے، اس خوف سے میں نے گھٹنے ٹیک دیے، میں اتنی جلدی بوڑھی نہیں ہونا چاہتی تھی۔ اس دنیا میں میری دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہیں تھا۔ نانی کا انتقال ہو چکا تھا۔  فریدن بوا ابی کی خدمت میں لگی رہتیں۔  گڈو میرے پاس تھا مگر تھا تو وہ ایک مرد ہی۔  میں اس کے قریب ایک حد تک ہی جا سکتی تھی۔

میں نے اپنی بھلائی اور صحت کے لئے چپ سادھ لیا۔  کشو جیسا کہتا جو کہتا میں مشینی ڈھنگ سے کرتی رہتی۔  ہوا کی طرح ایک مہینہ گزر گیا۔  صبح اسے اپنی فلائٹ پکڑنی تھی۔  میں نے پیکنگ کر دی تھی۔  وہ ان سامانوں کو چیک کر رہا تھا اور میں کچھ دور کرسی پر بیٹھی ایک ٹک اسے دیکھ رہی تھی۔  اپنی بے نور آنکھوں سے جہاں نہ کوئی خواب بچا تھے نہ جینے کا کوئی مقصد۔ میں پوری طرح سے کشو کے ر حم و کرم پر تھی۔  مجھے یہ بھی خوف تھا کہ یہ بے رحم انسان کسی دن کسی دوسری عورت کو لا کر مجھے باہر کا راستہ نہ دکھا دے۔  یہ بھی سچ تھا کہ رٹائرڈ مجسٹریٹ غیاث الدین احمد خان کے خوف سے وہ اتنا ہی کر سکتا تھا کہ بنگلے کے گیٹ سے باہر نہ کر کے سرونٹ کواٹر میں جہاں گڈو رہتا ہے وہاں مجھے رکھ سکتا تھا۔  یہ میری اپنی سوچ تھی اور اسی فکر نے بڑی آہستگی سے مکڑی کے جالے کی طرح خوف کی زنجیروں میں مجھے جکڑ لیا تھا۔  خوف جو ظلم کے خلاف انسان کی ذہنی اور روحانی تربیت کرتا ہے فرد کو اس کی لاچاری کمزوری اور ناتوانی کا احساس دلاتا ہے۔  اور ساتھ ہی کسی ایسے وسیلے کی تلاش پر آمادہ کرتا ہے جو اس کے تحفظ میں معاون ہو سکے۔

میرے جسم کے روئیں روئیں میں قسم قسم کے خوف پنہاں تھے۔  میں اپنے خوف سے خوف زدہ بھی نہیں کیونکہ نسل آدم  کے لئے خوف کا احساس کوئی نیا نہیں تھا۔  روئے زمین کی وسعتوں میں تنہائی کے خوف کا پہلا بیج بابا آدم نے اپنی مٹی میں بویا تھا۔

یہ بھی سچ ہے کہ اپنی بے پناہ نفرت  کے ساتھ میں اس وقت کشو سے خوف زدہ تھی۔  ذہن خلا میں بھٹکتا خوف کی تحریریں پڑھ رہا تھا اور جذبات سے عاری آنکھیں کشو پر ٹکی ہوئی تھیں۔  نگاہوں کی تپش کو کشو نے محسوس کیا اور پلٹ کر میری طرف دیکھا۔  آہستہ قدموں سے وہ میری طرف آنے لگا۔  میں اس بچی کی طرح اپنی کرسی سے سہم کر اٹھ کھڑی ہوئی جو اپنی کلاس میں پڑھائی میں بیحد کمزور ہوتی ہے اور پوچھے گئے سوالوں کا جواب نہ دینے پر آہستہ آہستہ اپنی طرف بڑھتے ہوئے ماسٹر کے قدموں کو گننے لگتی ہے۔

’’نازنین تم دل بہلانے کا کوئی ذریعہ تلاش کرو۔ ‘‘

کشو کی نرم آواز سنائی دی۔

میں حیران ہوئی۔  میں نے پوری آنکھیں کھول کر اسے دیکھا۔

’’تمہیں بچوں سے پیار ہے نا!‘‘

’’جی!‘‘ میں کانپ اٹھی کہ اب دیکھو آگے کیا کہتا ہے۔

’’تو بچوں کے پاس جاؤ نا۔ ‘‘

مجھے لگا کشو پاگل ہو گیا ہے، جب بچے ہیں نہیں تو بچوں کے پاس جاؤں کیسے۔ میں چپ رہی۔

اس نے اپنے پرس سے ایک کارڈ نکال کر مجھے دیا جس پر ڈاکٹر رحمن علی کا نام لکھا تھا ۔

’’یہ میرا بہت اچھا دوست ہے۔  بچوں کا جو سرکاری اسپتال ہے، اب اس کی پوسٹنگ اسی اسپتال میں ہو گئی ہے۔  میں نے بات کر لی ہے۔ کل سے تم اسپتال جانا۔ ‘‘

’’میں !۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں اسپتال میں کیا کروں گی۔ ‘‘

’’ارے بھئی، میں اتنے روپیے تمہیں بھیجتا ہوں۔  جا کر ان بچوں کی خدمت کرو، ان کی ضرورتیں پوری کرو، ا ن کے درمیان پھل دودھ کپڑے وغیرہ تقسیم کرو۔  پھر دیکھو کتنا اچھا لگے گا۔  مسز کاشف کے چرچے ہر طرف ہوں گے۔  کتنی واہ واہی ملے گی مجھے اور اپنی جگہ جنت میں بھی بن جائے گی۔  میں اندر ہی اندر سلگ اٹھی- خدمتِ خلق میں بھی خود غرضی، میں خاموش رہی۔ کشو نے گڈو کو بلا کر تاکید کر دی کہ مجھے مہینے میں ایک دو بار اسپتال لے جایا کرے اور بچوں میں تقسیم کی جانے والی اشیا پہلے سے خرید کر گاڑی میں بھر لیا کرے۔

٭٭٭

 

 

۴۔ میں اور میرا وجود

میں اور میرا وجود/ جو اکثر راتوں میں / جب بجلیاں کوندتی ہیں / ہوائیں طوفان کی زد میں ہوتی ہیں / سیاہی اندھیرے میں منھ چھپا کر/ پوچھتی ہے مجھ سے / میں کون ہوں / میرا وجود کس کا ہے/ شرم سے گردن جھک جاتی ہے/ نگاہیں شرمسار ہو جاتی ہیں / دل میں جھانکتی ہوں / بدن میں اترتی ہوں / اپنے کو ڈھونڈتی ہوں / وجود تلاشتی ہوں / تو حیران رہ جاتی ہوں /کیونکہ میرا وجود تو کسی اور کا ہے/ میں مخملی بورے میں لپٹی/ گمنام ہستی کی/ بے ربط گواہی کی / بے نور چادر میں لپٹی/ کسی اور کی پہچان ہوں / میں، میں نہیں / کسی اور کی پسلی کاٹ کر /جوڑی گئی مٹی کی گڑیا ہوں / ٹوٹتی ہوں / توڑی جاتی ہوں / اور پھر / جوڑ جوڑ کر / نئے سرے سے گوندھی جاتی ہوں / گھر کی زینت کے لئے/ گھر کی سجاوٹ کے لئے / اس کھلونے کی طرح/ جسے جب چاہو/ اٹھاؤ / کھیلو/ دل بہلاؤ/ اور پھر/ سجا دو شو کیس میں / باربی ڈول کی طرح۔

کائنات کا تصور ایک خیال ہے اور خیال کا سچ کن فیکون میں پوشیدہ ہے۔  اس نے اپنے راز مخفی کئے ہیں۔  پھر بھی عقل کی آنکھیں جھپکنے لگتی ہیں کہ جہاں خیال ہی مخلوق کی مکمل تکمیل کا باعث بنتا ہو وہاں مٹی کا ایسا کون سا قحط خلق میں  پڑ گیا تھا کہ عورت کی تخلیق کے لئے مرد کی بائیں پسلی کاٹنی پڑی۔  یعنی عورت کا پہلا ہی قدم مجروح اور شکست خوردہ۔ ۔ ۔ ۔

میں نے اپنی شکست کشو کے سامنے پہلی رات ہی تسلیم کر لی تھی۔  اور پہلے ہی دن میں نے اس کے آگے گھٹنے ٹیک دیے تھے۔ وہ اپنا فرض پورا کر کے، حق وصول کر کے اپنی دنیا میں واپس لوٹ گیا اور میں اپنی دنیا کی تنہائی دور کرنے کے لئے اسپتال پہنچ گئی جہاں میں نے ستارہ کو دیکھا۔  مجھے اس کی آنکھوں میں اپنی دنیا نظر آئی۔  میں کسی طلسماتی دھوئیں کی طرح اس کی آنکھوں کے راستے اس کی دنیا میں اتر گئی جہاں عورتوں کی مجروح زندگی کے مظلوم نوحے تھے اور کوفت بھرے لمحات کی تصویریں تھیں۔  وہاں مجھے ہرے زخموں سے رستی ایسی بے شمار کہانیاں دکھائی دے رہی تھیں جو بغیر کسی عنوان کے بند کتاب کا حصہ بنی گرد آلود ہو رہی تھیں اور میں اسی گرد کو جھاڑنے کے لئے اس کی آنکھوں سے ہو کر اپنی اور اس کی دنیا میں اتر رہی تھی۔  مجھے ستارہ اپنے سے جدا نہیں لگتی تھی۔  جدا تھے تو اپنے اپنے حالات، اپنی الگ الگ سرگرمیاں۔  مجھے لگتا تھا کہ تنہائی اور ذلتوں کے ساتھ اذیتوں کا سفر ہم دونوں ایک ساتھ طے کر رہی ہے ہیں۔ راستے الگ ہو سکتے ہیں مگر دونوں کی منزل ایک تھی، مقصد دونوں کا ایک تھا، زندگی کو جی لینے کا۔

’’باجی آج آپ تیاری میں کتنا وقت لیں گی۔ ‘‘

گڈو کی آواز میرے کانو ں میں آئی۔

’’پریشان مت ہو۔  میں نے فون پر ٹکٹ کی بکنگ کرالی ہے بس دو منٹ میں آتی ہوں۔ ‘‘

میں نے جلدی جلدی ستارہ کے بچوں کے لئے ڈھیر سارے چاکلیٹ اپنی پرس میں بھر لئے اور گاڑی کی پچھلی سیٹ پر آ کر بیٹھ گئی۔  گڈو نے ڈرائیونگ سیٹ سنبھال لی۔

’’باجی آپ نے اپنی دوائیں کھا لیں ؟‘‘

’’ہاں کھا لی ہیں۔ اب تمہارے صاحب سے بات چیت ہو گئی ان کی خیریت معلوم کر لی تو طبیعت کافی ہلکی لگ رہی ہے۔ ‘‘

’’پھانکی کو معلوم ہے کہ آپ اسے فلم دکھانے آ رہی ہیں ؟‘‘

’’ہاں بتا دیا ہے‘‘

بستی میں بہت سے کرداروں سے گڈو واقف ہو چکا تھا۔ میں نے ایک موبائل پھانکی کو دے رکھا تھا تا کہ ضرورت پڑنے پر اس سے باتیں کر سکوں۔  میں نے فون پر اپنی طبیعت کی خرابی کی بات بتا دی تھی۔  وہ میرے نہ آنے سے پریشان ہو رہی تھی۔  میں اس سچ کو بھی جانتی تھی کہ پریشانی میرے نہ آنے سے نہیں بلکہ میرے ذریعہ ملنے والے روپیے پیسے کے بند کئے جانے کی وجہ سے تھی۔  چمپا کاکی کا سارا چٹورا پن میرے دیے پیسے سے ہی پورا ہوتا تھا۔  میں چاہتی تھی کہ ستارہ کے قریب جاؤں، اس کی مدد کروں، اس کی آنکھوں میں پھیلے ویران سناٹے کو پڑھوں، اس کے بیمار بچے کا پرائیویٹ اسپتال میں علاج کراؤں، اس کی بیماری کی وجہ دریافت کروں —–مگر یہ سب ممکن ہی نہیں ہو پاتا کیوں کہ ستارہ نے اپنے چاروں طرف اتنی اونچی اونچی لوہے کی دیواریں اٹھا رکھی تھیں کہ میں انہیں پار ہی نہیں کر پا رہی تھی۔ اس دن اسپتال میں میں نے نرس الزبیتھ کے ہاتھ میں پانچ سو کا ایک نوٹ رکھ دیا تھا تاکہ وہ ستارہ کے بیٹے کے کھانے پینے میں کوئی کمی اور کسر نہ چھوڑے۔ اسی نرس نے مجھے بتایا تھا کہ بچے کو معمولی بخار آیا، صحیح علاج نہ ہونے کی وجہ سے بخار ٹائیفائڈ میں بدل گیا اور اب آنتوں میں چھالے آ گئے ہیں۔

’’ستارہ کی آمدنی کا ذریعہ کیا ہے؟‘‘ میں نے سوال کیا۔

’’ اس کا شوہر کسی پرائیوٹ دفتر میں سکیورٹی گارڈ کی نوکری کرتا تھا۔ ‘‘

’’مگر وہ تو مر چکا ہے۔ ‘‘ میں نے کہا۔

’’ہاں مرے ہوئے بھی دو سال ہو گئے۔ ‘‘

’’کیا ہوا تھا اسے۔ ‘‘

اس کے بعد الزبیتھ نے جو کچھ مجھے بتایا وہ میرے لئے ناقابلِ یقین تھا۔  ایسا کیسے ممکن ہے۔  ستارہ جیسی عورت کے ساتھ ایسا ظلم نہیں ہو سکتا۔  اور اگر ہوا ہے تو؟ میری ریڑھ کی ہڈیوں میں تھرتھری آ گئی۔  جسم پسینے میں ڈوب گیا۔  میری آنکھیں دھندلا گئیں۔ ۔ ۔ نہیں۔ ۔ ۔ ۔  نہیں ایسا نہیں ہو سکتا۔

میں بھول گئی کہ کشو نے  اپنے اعمال کے بدلے جنت میں زمین حاصل کر نے کے لئے میری تنہائی کا سودا کیا ہے۔  خدمتِ خلق بھی ہو، مسٹر اور مسز کاشف کا جھنڈا بھی اونچا رہے، سوسائٹی میں اعلیٰ مقام بھی بنا رہے۔  میں اسپتال جب بھی جاتی ڈاکٹر رحمن سے ضرور ملتی تاکہ میری حاضری سے وہ کشو کو با خبر کرتا رہے۔

گاڑی ایک جھٹکے کے ساتھ برگد کے درخت کی گھنی چھاؤں میں آ کر رک گئی۔  گاڑی کی آواز سے اونگھتے ہوئے رحمو بابا اٹھ کر بیٹھ گئے۔  مجھے دیکھتے ہی تپاک سے بولے۔  ’’کیسی ہو بٹیا! پھانکی بتا رہی تھی کہ آپ کی طبیعت خراب ہے۔ ‘‘ میں ان کے قریب پہنچی اور مٹی کے چبوترے پر بیٹھتے ہوئے میں نے انہیں سلام کیا اور ان کے آگے سر جھکا لیا تاکہ وہ دعائیہ کلمات کے ساتھ سر پر ہاتھ رکھ سکیں جیسا وہ ہمیشہ کرتے تھے۔  اچانک میری آنکھیں جھپک گئیں اور لگا جیسے کوئی میرے سر پر پھولوں کے ملائم ریشے پھیر رہا ہے۔  میں نے چونک کر آنکھیں کھول دیں۔  رحمو بابا کے ہاتھ میں مور پنکھی کا ایک مُٹھا تھا۔  وہ اپنا ہاتھ میرے سر پر رکھنے کے بجائے مور پنکھی کا مٹھا میرے بالوں پر پھیرا رہے تھے۔   ایک ہاتھ سے میں نے بال برابر کرتے ہوئے کہا-

’’یہ کیا رحمو بابا! یہ مور پنکھی کا مٹھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔  کہا ں سے آ گیا۔ ‘‘

’’یہ پھانکی دے گئی ہے۔  کہہ رہی تھی کہ اب دعا کے لئے سر پر ہاتھ رکھنا پرانے زمانے کی بات ہو گئی ہے۔  نئے زمانے میں جینا ہے تو سر پر مور پنکھی کا جھاڑو مارنا ہو گا۔ ‘‘

میں زور سے ہنس پڑی اور میں نے وہ جھاڑو بابا کے ہاتھ سے لے لیا-’’بابا آپ جیسے ہیں ویسے ہی رہیے۔  ابھی میں یہ جھاڑو اس پھانکی کے منہ پر جا کر مارتی ہوں۔ ‘‘

بے خیالی میں میری نگاہ اپنی گاڑی پر چلی گئی۔  گڈو کی مسکراہٹ شیشے میں سے مجھے صاف نظر آ رہی تھی۔  مجھے پہلی بار گڈو کے سامنے کچھ جھینپ سی آئی اور میں جھاڑو ہاتھ میں لئے ہوئے تیزی سے بستی کے اندر داخل ہو گئی۔  یہاں ایک دوسرے سے مذاق کرنا، الٹی سیدھی حرکتیں کر کے دیر تک ہنستے رہنا یا پھر بے تکے ڈھنگ سے سجنا سنورنا عام بات تھی۔  ضروریات زندگی کی کم یابی کو شاید بستی والے اسی طرح بھرا کرتے تھے۔

چمپا کاکی کے سامنے کچرے کی ایک چھوٹی سی ڈھیری لگی ہوئی تھی اور وہ اس میں سے بین بین کر دال الگ کر رہی تھیں۔

 راشن والا جب مہینے دو مہینے پر اپنی دکان صاف کرتا ہے تو سارا کچرا چمپا کاکی کے آگے مفت میں ڈال دیتا ہے اور وہ اس کچرے میں سے اناج کے دانے بِن بن کر نکال لیتی تھی جن سے دو چار وقت کی ہانڈی تیار ہو جاتی تھی۔  مجھے دیکھ کر وہ اٹھ کھڑی ہوئیں اور میرا حال چال پوچھنے لگیں۔  تبھی میری نگاہ سجی دھجی پھانکی پر پڑی جو ستارہ کو کچھ سمجھانے کی کوشش کر رہی تھی اور ستارہ لگاتار انکار میں اپنی گردن کو ہلا رہی تھی۔  میں سمجھ گئی ستارہ پکچر ہال جانے سے انکار کر رہی ہے۔  جھاڑو میں نے چمپا کاکی کے ہاتھ میں پکڑایا اور تیزی سے ستارہ کی طرف بڑھی۔  یہی موقع تھا جب میں ستارہ سے بات چیت کا سلسلہ شروع کر سکتی تھی۔  مجھے آتا دیکھ کر ستارہ نے اپنی کلائی پھانکی کے ہاتھ چھڑائی اور اپنی جھونپڑی میں چلی گئی۔  میری امیدوں کا ننھا سا دیا جلا بھی اور بجھ بھی گیا۔

’’کیا ہوا؟‘‘ میں نے پھانکی سے سوال کیا۔

’’پکچر جانے کے لئے ستارہ تیار نہیں ہے۔ ‘‘

’’کیوں ؟‘‘

’’آپ جانتی ہیں نا دیدی! کچھ غمی میں پیدا ہوتے ہیں، غمی میں جیتے ہیں، اور غمی میں مر جاتے ہیں، ستارہ بھی ان میں سے ایک ہے۔ ‘‘

’’میں سمجھی نہیں۔ ‘‘میں نے سب کچھ سمجھتے ہوئے بھی سوال کیا۔

’’ارے آج وہ اپنے پتی دیو سے ملنے جا رہی ہے اپنے بچوں کو بھی ساتھ لے کر۔ ‘‘

’’ اس کا شوہر تو مر چکا ہے۔ ‘‘ میں نے سپاٹ لہجے میں کہا۔  پھانکی نے ہنستے ہوئے لاپرواہی سے کہا- ’’ قبرستان میں لیٹا ہو ا اس مہارانی کا انتظار کر رہا ہے نا! جیے کی تو ایسی کی تیسی ہو رہی ہے مرے کو کون پوچھے۔  مگر بات ا س کی سمجھ میں آئے تب نا۔ ‘‘

 میں نے پھانکی کا کوئی جواب نہیں دیا۔  میرا منصوبہ ناکام ہو چکا تھا۔  میں نے ساری چاکلیٹ نکال کر پھانکی کے ہاتھ میں پکڑا دیں اور وہ بلی کی طرح آنکھیں چمکا چمکا کر لمبی لمبی زبان نکال کر چاکلیٹ چاٹنے لگی، اور اپنے بچوں کو آوازیں دینے لگی۔ چمپا کاکی بھی چاکلیٹ لینے کے لئے دوڑتی بھاگتی قریب آئی۔

پکچر دیکھنے کے لئے جانے کا موڈ میرا اکھڑ چکا تھا۔  پھانکی سے بات کئے بغیر میں نے فون کر کے اپنے ٹکٹ کینسل کرا دیے۔  مسز کاشف کو جاننے والوں کی کمی نہیں تھی۔  اس لئے میں فون پر ہی اپنے زیادہ تر کام انجام دیتی تھی۔

پھانکی اپنے بچوں کے ساتھ گڈو کے بغل میں آ کر بیٹھ گئی۔  اسے پکچر ہال پہنچنے کی جلدی تھی۔  میں پیچھے کی سیٹ پر آ کر بیٹھ گئی۔  ستارہ کے نہ چلنے سے میرا موڈ خراب ہو گیا۔  میں چپ تھی۔  گاڑی نے جب رفتار پکڑی تو میں گڈو کو بتانے لگی اور گڈو کی آنکھوں میں حیرانی اترنے لگی کیوں کہ یہ راستہ پکچر ہال کی طرف نہیں جاتا تھا۔  ایک ریسٹوراں کے سامنے میں نے گاڑی  رکوا لی۔

 گڈو کے ہاتھ پر میں نے پانچ پانچ سو کے دو نوٹ پکڑائے اور پھانکی سے بولی۔ ۔ ۔   ’’یہ لو، پھانکی! پکچر میں کسی اور دن دکھاؤں گی آج تم بچوں کے ساتھ روسٹیڈ مرغے کی دعوت اڑاؤ۔ ‘‘ بچوں کے ساتھ ساتھ اس کا چہرہ بھی خوشی سے کھل اٹھا۔

میرا طے شدہ پروگرام ذراسا تبدیل ہوا اور میرا موڈ پوری طرح خراب ہو گیا۔  مگر پھانکی کا پورا پروگرام ہی بغیر اس کو اطلاع دیے ہوئے میں نے بدل دیا۔ پھر بھی وہ کتنی خوش دکھائی دے رہی تھی۔

’’آپ نہیں چلیں گی؟‘‘ اس نے چہکتے ہوئے پوچھا۔

’’نہیں ! آج میرا ہاضمہ ٹھیک نہیں ہے! میں کار میں ہی بیٹھ کر کافی پیوں گی۔ ‘‘

وہ سب خوشی خوشی نیچے اتر گئے!انہیں ذرہ  برابر بھی احساس نہیں ہوا کہ میں کار میں اکیلی بیٹھوں گی! مگر گڈو کے چہرے پر الجھن تھی۔  اسے معلوم تھا کہ میری طبیعت بالکل ٹھیک ہے۔  میں نے اپنا پروگرام کیوں بدل دیا؟ میرا موڈ کیوں بگڑ گیا؟ اچانک مجھے یہ کیا ہو گیا۔ ؟ یہ سارے سوال گڈو کی آنکھوں سے جھانک رہے تھے۔  میں جانتی تھی کہ وہ اپنی زبان نہیں کھو لے گا۔  ہاں اسے کبھی دیر سویر موقع ملے گا تو گھما پھرا کر بات ضرور چھیڑ دے گا۔

تھوڑی دیر میں میرے ہاتھ میں کافی آ گئی۔  میں نے گڈو کو بھی کھانا کھانے کے لئے پیسے دے دئے اور خود کافی کے چھوٹے چھوٹے گھونٹ بھر نے لگی۔  میرا دماغ بالکل خالی تھا۔  نگاہیں خلا میں بھٹک رہی تھیں اور میں کسی قسم کی سوچ اور فکر سے اس وقت  اپنے آپ کو دور رکھنا چاہتی تھی۔

٭

انسان میں تماشہ دیکھنے کا شوق اور دلچسپی قدرت کی طرف سے ودیعت ہوئی ہے۔  اس کے اس شوق اور دلچسپی کا مظاہرہ روزمرہ کی زندگی میں عموماً ہوتا رہتا ہے۔  اس ملک کے ہر خطے میں الگ الگ نوعیت کے میلے ہوتے ہیں، ہر طبقے میں ایسا جشن اپنے انداز سے منایا جاتا ہے۔  بستی والوں کے میلے بھی کم دلچسپ نہیں ہوا کرتے تھے۔

اس دن میں اچانک بستی پہنچ گئی، پھانکی نے بتایا تھا کہ آج بستی میں ساون کا میلہ ہے۔  میں نے سوچا چلوں دیکھوں ذرا، وہاں کا جشن بھی جہاں ستارہ رہتی ہے، جہاں کرینا جیسی لڑکیوں کا قیام ہوتا ہے۔ جہاں چمپا کاکی جیسی زندگی کو بے مقصد اور بے مصرف بنا کر جینے والی عورتیں ہوتی ہیں۔ جہاں پھانکی جیسی لڑکیاں بھی جی رہی ہوتی ہیں۔ جن کی نہ اپنی ہاں ہوتی ہے نہ اپنی نا  ہوتی ہے۔  جن کی پیدائش ہی اس لئے ہوتی ہے کہ ان کو روندا جائے۔ اور وہ بغیر اف کئے ہر ظلم  و زیادتی کو اپنا مقدر مانتی  چلی جاتی ہیں۔ لاکھ وہ خود کو میری نگاہ سے چھپائے۔ مگر میں جانتی تھی کہ کرینا جس اونچی پائیدان پر کھڑی تھی اس کے سب سے نچلے پائیدان پر پھانکی بیٹھی تھی۔ بستی اب چند قدم کے فاصلے پر تھی۔ دور سے ہی مجھے رنگ برنگی روشنی کی جگمگاہٹ اور لاؤڈ اسپیکر کے چیختے نغمے سنائی دینے لگے۔  جانے انجانے چہروں کا مجمع لگا تھا۔ اتنی بھیڑ میں داخل نہ ہو کر میں رحمو بابا کے چبوترے پر چڑھ گئی۔  آج یہاں بابا کا دربار نہیں سجا تھا۔  وہ خود کہاں تھے یہ میں نہیں جانتی تھی۔  چمپا کاکی نے ہی بتایا تھا کہ ایسے موقعے پر وہ لا پتہ رہتے ہیں۔  میں نے پنجوں کے بل اچک کر دور سے میلے کا منظر دیکھا۔ سبھی نے اپنی اپنی بساط کے مطابق اچھے لباس پہن  رکھے تھے۔ جگہ جگہ کھونچے والے اور ٹھیلے والے کھانے پینے کی چیزیں بیچ رہے تھے۔  عورتوں کے سستے میک اپ دور سے چمک رہے تھے۔ برگد کے تنے کا سہارا لے کر میں نے اپنی گردن کو اور تانا تاکہ اس منظر کو ٹھیک سے دیکھ سکوں جس نے میری آنکھوں کو حیران کر دیا تھا۔ میں نے دانتوں تلے انگلی دبا لی۔  بھیڑ کے درمیان ایک بڑا سا لکڑی کا تخت بچھا تھا۔  غالباً اس کا استعمال اسٹیج کی طرح کیا جا رہا تھا۔  کرینا اس تخت پر چڑھی، اپنی بہترین اداکاری کے ساتھ رقص کر رہی تھی۔  اس کے تراشے ہوئے سیاہ بالوں  میں بڑی نزاکت کے ساتھ گلاب کی دو سرخ کلیاں ٹکی تھیں۔  ہونٹوں پر گلاب کے رنگ کی ہی چٹخ لپ اسٹک لگی تھی۔ جسم پر کسی ہوئی سیاہ شیفان کی ساڑی پہنے وہ پنجوں کے بل کسی ماہر کلب ڈانسر کی طرح لٹو کی مانند ناچ رہی تھی۔  بدن کے پیچ و خم کی ہر لکیریں اور ابھار دیکھنے والوں کو بے قابو کئے دے رہے تھے۔  رقص کرتے ہوئے کبھی وہ بھیڑ پر اپنا ہوائی بوسہ اچھالتی اور کبھی ایک آنکھ دبا کر خاص انداز سے ہونٹوں کو گول کرتی۔ جیسے وہ بس اپنے محبوب کو بوسہ دینے کے لئے آگے بڑھنے ہی والی ہے۔  لوگ دل و جان سے اس پر نچھاور ہوئے جا رہے  تھے۔ سفید مونگرے کی کلیوں کو گجرے کی طرح گوندھ کر اس نے کلائیوں پر باندھ رکھی تھی۔ آنکھوں میں پھیلا ہوا موٹا کاجل اور چہرے پر چڑھائی ہوئی گلابی پاؤڈر کی موٹی تہیں دور سے نظر آ رہی تھیں۔

تماشائیوں کی گلی سڑی آرزوئیں آنکھوں میں آ کر ٹھہر سی گئی تھیں۔ رقص کرتے ہوئے کبھی وہ جھکتی، کبھی انگڑائی لے کر تیر کی طرح سیدھی ہو جاتی اور کبھی اپنی بانہیں اوپر کھینچ کر یوں اچھلتی تھی جیسے اب آسمان پر اڑان بھرنے ہی والی ہے۔  گردن کو ایسے جھٹکے دیتی کہ کبھی لٹیں کھل کر چہرے پر آ جاتیں اور کبھی شانوں پر بکھر جاتیں۔ بیچ بیچ میں لوگ خوش ہو کر روپیوں کے نذرانے دے رہے تھے جنھیں وہ بڑے ناز سے اپنے سر کے اوپر سے نچا کر صدقہ دینے کے انداز میں بھیڑ کے اس طرف اچھال دیتی جہاں غربت کے مارے ہوئے بستی کے بچے کھڑے تھے۔  وہ کرینا کے اچھالے ہوئے روپیوں پر ٹوٹ پڑتے۔  بچوں کے بیچ روپیہ لوٹنے والوں میں مجھے چمپا کاکی کے ساتھ ایک دو خستہ حال عورتیں بھی نظر آئیں۔

اچانک کرینا نے ستارہ کو بھی تخت کے اوپر آنے کے لئے کھینچا جو قریب ہی کھڑی ہوئی تالیاں بجاتے ہوئے کرینا کے رقص کی حوصلہ افزائی کر رہی تھی۔ میں نے دور سے سے دیکھا کہ نانا کرتے ہوئے بھی ستارہ تخت پر چڑھ گئی اور پیروں سے لکڑی پر تھاپ دیتے ہوئے لچکتی شاخ کی طرح اپنے جسم کو خم دینے لگی۔

 قریب ہی کھڑے چند نوجوانوں کے جملے میری سماعت سے ٹکرائے۔  ایک نے آہستہ سے کہا۔ ’’ بڑی مغرور بنتی تھی سالی۔ کوئی جوانی سی جوانی نہیں، اس پر طرہ یہ ہے کہ سنیاسی بنی پھرتی ہے۔

دوسرے نوجوان نے لقمہ دیا۔ ’’حالات اوپر نیچے ہوتے ہی اس کا دماغ بھی خراب ہو گیا۔ سنیاسن نہ بنتی تو آزو بازو والے اس کا نام و نشان ہی مٹا دیتے۔ ‘‘

کنارے سے ایک اور فقرہ اچھلا۔ ’’ سنیاسن کے تو پو با رہ ہو گئے، نہ ہلدی  نہ چونا رنگ چوکھا۔ ‘‘

کرینا ستارہ کی کمر  میں ہاتھ ڈالے ناچتی رہی اور تماش بین باتیں کرتے رہے۔

  رات کالی تھی اور زبانیں بے لگام ہو رہی تھیں

جوانی کی تیکھی تیکھی لکیروں سے سجا سنورا ہوا بدن نغمے سے لبریز تھا۔  ستارہ نے جب سے اپنی جوانی کی کھنچی تنی ہوئی چند لکیریں تقسیم کرنی شروع کی تھیں اس کا بدن بھی بولنے لگا تھا۔  تبھی مجھے لگا کہ جیسے کرینا نے مجھے دور سے دیکھ لیا ہو۔  رقص کرتے ہوئے اس کی انگلیاں سلام کرنے کے لئے پیشانی تک اٹھ گئیں۔  جواب میں مجمع مچل مچل اٹھا۔  اور سلام کے جواب میں کئی آوازیں اٹھیں۔  میں شرمندہ سی ہو گئی مگر کرینا نے اٹھلا کر رقص میں اپنی انگڑائی کو طویل کر دیا۔  اور پنجوں کے بل کھڑے ہو کر بانہیں کچھ اور اوپر کھینچیں، انگڑائی کا سرور اور اس کے ساتھ غرور انگ انگ میں تیر گیا۔  تبھی ارشد کی آواز میرے کانوں سے ٹکرائی جو مجھ سے چند قدموں کے فاصلے پر تھا۔  ’’ واہ کرینا بائی! واہ قربان تجھ پر پان کی پوری گمٹی۔ ‘‘

زوردار قہقہہ اٹھا میں بھی ہنس دی۔  ارشد کو میں اچھی طرح جانتی تھی۔  کتنا مہذب بیوی بچوں والا انسان تھا۔  اس بستی میں وہ پان ضرور بیچتا تھا مگر یہاں اس کا آنا جانا صرف روزی روٹی کی حد تک تھا۔  اچانک بھیڑ سے مضحکہ خیز شور اٹھا۔  اور میری نگاہ ارشد سے ہٹ کر پھر اسٹیج کی طرف چلی گئی۔  اب وہاں دو نہیں تین بالائیں تھیں۔  پھانکی پرانی سوتی ساڑی، ناف کے نیچے کس کر باندھے ان دونوں رقاصاؤں کے بیچ بے ہنگم طریقے سے کمر ڈلا رہی تھی۔  لوگ ہنس رہے تھے اور وہ الٹے سیدھے ٹھمکے لگا کر لوگوں کو خوش کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔

کرینا اور ستارہ دونوں اسٹیج سے اتر گئیں۔  پھانکی کے قدم بہکے ہوئے تھے۔  میں جان گئی تھی کہ اس وقت اس نے جم کر کچی دارو چڑھا رکھی ہے۔  وہ ہنس رہی تھی۔  الٹے سیدھے بھدے اشارے کر رہی تھی اور خود کو کرینا کی مانند ماہر رقاصہ سمجھ رہی تھی۔  مجھے بے حد گھن آ رہی تھی۔  مجھے یہ بستی کا میلا نہیں، فاحشاؤں کا ڈیرا لگا۔  کاکی زور زورسے کھانستی جاتی اور پھانکی کا نام لے لے کر اسٹیج سے اترنے کے لئے آوازیں دیتی جاتی۔  ساتھ ہی ان کے منھ سے مغلظات گالیاں بھی نکل رہی تھیں کیونکہ جو پیسے اسٹیج پر کرینا اور ستارہ کی موجودگی میں پھینکے جا رہے تھے وہ اب بند ہو گئے تھے۔

یہاں میری آمد کا ایک خاص مقصد تھا۔  میں یہ چاہ لے کر آئی تھی کہ شاید ستارہ سے  بات چیت کے کچھ لمحے مل جائیں۔  میں اس کی آواز سن سکوں، اسے جان سکوں۔  کسی شخص کے کلمات اس کے اندرون میں جھانکنے کا پہلا ذریعہ ہوتے ہیں۔  ستارہ کی خاموشی اس کی آواز سے زیادہ وزنی تھی۔

میں شدید کشمکش سے گذر رہی تھی۔  اعصابی تناؤ لمحہ بہ لمحہ بڑھ رہا تھا۔  میں جتنا اس کے قریب جانے کی کوشش کرتی وہ مجھ سے اتنی ہی دور ہو رہی تھی۔  پھانکی کے بعد بستی کی دیگر لڑکیاں اور عورتیں اسٹیج پر باری باری سے چڑھنے لگیں، الٹے سیدھے، بہکے قدم، رقص کا بھونڈا مظاہرہ اور ہنسی ٹھٹھول۔ ۔ ۔  کچھ خستہ حال جسم والی عورتیں جن کے ہاتھ پیر میں اتنی سکت نہیں تھی کہ وہ رقص کے ٹھمکے دکھا پاتیں، وہ کچھ دور ہٹ کر اس حصے میں جا بیٹھی تھیں جہاں ارشد کی پان کی گمٹی اور راکیش کی راشن کی دکان تھی۔  وہاں قرینے سے کرسیاں رکھ دی گئی تھیں۔  پاس ہی حلوائی کی بھٹی جل رہی تھی۔  پوری کچوری چھن رہی تھی۔  رسدار آلو پنیر کی سبزی تیار ہو چکی تھی۔  اس تام جھام کے لئے پچھلے دو مہینے سے لوگوں سے چندہ لیا جا رہا تھا۔  میں نے بھی چندے میں ایک اچھی رقم برائے ہمدردی دی تھی۔

دری پر بوڑھی عورتیں بیٹھیں بے سرا گیت گا رہی تھیں۔  گیت کے بول شور اور ہنگامے کے بیچ کھو گئے تھے۔  ان عورتوں کو اس سے کوئی مطلب نہیں تھا۔  وہ آلتی پالتی مارے ایک دوسرے کا منھ تکتی، گردنیں ہلاتیں شانے جھلاتی ہوئی اپنی ہی دھن میں گا بجا رہی تھیں۔  ان سبھی عورتوں کے ہاتھ میں چلم تھی۔  گاہے بہ گاہے وہ کش بھی کھینچتی جاتیں۔

پھانکی نے مجھے بتایا تھا کہ بستی والے بھیرو کے بھگت ہیں اس لئے نشہ اور رقص ان کی عبادت ہے۔  وہ اپنے بھگوان کو خوش کرنے کے لئے ناچتے گاتے ہیں۔  اس نے اپنی دلیل دی تھی کہ بھگوان اپنے بھگت کو خوش دیکھنا چاہتا ہے اس لئے سال میں ایک دن جب ساون کے مہینے کا تیسرا سوموار آتا ہے تو وہ سب بھیرو کے نام پر میلے کا اہتمام کرتے ہیں۔

میں نے میلے کی بھیڑ پر ایک نگاہ ڈالی۔  کتنے ہی وضع دار شریفانہ شکل و صورت والے، جوان بوڑھے مجھے نظر آئے۔  یہ میں جانتی تھی اس میں کچھ کرینا کے مہمان ہوں گے اور کچھ ستارہ کے۔  ان کے بیٹھنے کھانے کا انتظام کرینا کی جھگی میں کیا گیا تھا۔  یہ جھگی کیا تھی اندر سے سارے عیش و آرام کی چیزوں سے لیس ایک چھوٹا سا خیمہ تھی جہاں مہمان نوازی کے نام پر پیٹ کی نہیں بدن کی خاطر داری کی جاتی تھی۔  ایسے اجنبی چہرے کچھ دیر تو میلے میں نظر آتے پھر وہ دھیرے سے کھسک کر بھیڑ میں گم ہو جاتے۔  مجھے معلوم تھا کہ اس وقت محفل کرینا کی جھگی میں جمی ہے۔  ان کے کھانے پینے کا انتظام الگ ہو رہا تھا۔  یقیناً ان لوگوں نے بھی میری طرح موٹی رقم کے چندے دیے ہوں گے۔  سب میلے کا حصہ تھے اور میں باہر کھڑی محض خاموش تماش بین تھی۔  میری نگاہیں ستارہ کو تلاشنے لگیں۔  مگر نہ ستاہ نظر آ رہی تھی نہ کرینا۔  لکڑی کے بڑے بڑے تخت لگا کر بنے اسٹیج پر اب بھی رقص جاری تھا۔  پوری بستی روشنی سے نہائی ہوئی تھی۔  خوشیاں تھیں، قہقہے تھے۔  مجھے یہاں کی سبھی لڑکیاں، عورتیں ایک ہی سانچے، ایک ہی ٹکسال سے ڈھلی لگ رہی تھیں۔  نمائشی کٹھ پتلیوں کی طرح۔  یہاں کسی عورت نے باقاعدہ کار و باری آداب نہیں سیکھے۔  خوف، ٹھوکریوں اور چند حادثوں نے انھیں سب کچھ سکھا دیا تھا۔  ستارہ میرے لئے جیتی جاگتی مثال تھی۔  اس کی مجبوریاں اسے اپنے نئے سانچے میں کتنی مہارت کے ساتھ ڈھالتی چلی جا رہی تھیں۔  یہاں کی ہر عورت میں ستارہ اور ستارہ میں ایک زخم خوردہ عورت چھپی سسک رہی تھی۔  اور میں اسی سسکتی عورت کی تلاش میں، شہر سے کچھ دور اس بستی کے چکر کاٹ رہی تھی۔

حالانکہ ہمواریاں اور ناہمواریاں سازگاریاں اور ناسازگاریاں کبھی ایک روپ میں نکھرتیں اور کبھی دوسرے۔  کہیں عورت مر جاتی اور کہیں ستارہ۔ ۔ ۔  اور کہیں دونوں ہی، ایک دوسرے کے پہلو بہ پہلو جیتی جاگتی رہتیں۔  مجھے ستارہ سے ہمدردی تھی مگر ستارہ کی بے رحمی پردہ  در پردہ کتنے رازوں کو اپنے اندر پوشیدہ کئے ہوئے تھی۔ میں ان دنوں اپنے اندرون کی بھٹکن سے بے زار ہو چکی تھی۔ ۔ ۔  تھک چکی تھی۔

میلہ اپنے شباب پر تھا۔  تماش بینوں کی نظریں رہ رہ کر کرینا اور ستارہ کو تلاشتیں۔  یہ نظریں ساون کے بادلوں کی طرح جذبات سے لبریز تھیں۔  جوں جوں رات بڑھتی گئی، میلے کی تازگی ختم ہوتی گئی۔  میں جانتی تھی کہ چند ہی گھنٹوں میں یہ جشن بوسیدہ جذبات کے شمشان گھاٹ میں بدل جائے گا۔

میرے لئے وہاں کھڑا رہنا دوبھر ہو گیا اور میں اپنی گاڑی کی طرف بڑھ ہی رہی تھی کہ پھانکی نے دور سے مجھے دیکھ کر رکنے کے لئے ہاتھ ہلایا۔  مگر میں اس ماحول سے اوب چکی تھی دراصل حسن دیکھنے والوں کی آنکھوں میں ہوتا ہے۔  جو منظر مجھے سخت ناگوار گذر رہا تھا بستی والے اس کے شیدائی نظر آ رہے تھے۔  ہم جیسے لوگ زندگی کو کتابوں میں تلاش کرتے ہیں جبکہ بستی والے زندگی کو اتنا مختصر نہیں سمجھتے کہ اسے چہار دیواری میں قید کر کے جیا جائے۔  وہ زندگی کو پہرہ داریوں سے باہر گذارتے ہیں۔

وہاں موجود لوگوں کے قسم قسم کے اشارے میری آنکھوں میں نشتر کی طرح چبھ رہے تھے۔  میں پھانکی کے اشارے کو نظر انداز کرتے ہوئے گاڑی کی اسٹیرنگ سنبھالتے آگے بڑھ گئی۔

’’ میلا کیا تھا؟ کم سن لڑکیوں اور پختہ عمر کی عورتوں کی  روندی گئی خواہشات کے ملبے میں دبی خستہ حالی کا اعلان تھا اور فحاش مردوں کی دل جوئی کا جشن۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

٭

 اڑتے پرندوں کے پروں سے برستے میگھ کے قطرے جس طرح جھڑتے ہوئے کہیں دور فضا میں گم ہو جاتے ہیں اسی طرح گزرا ہوا آٹھ ماہ کا مختصر سا عرصہ میرے ہاتھ سے چھوٹ کر صفحۂ ماضی کا حصہ بن گیا جس کی تحریر میرے آنسوؤں کی سیاہ روشنائی سے گہری تاریکی میں لکھی گئی تھی۔

کہنے کو تو یہ مدت بہت قلیل تھی مگر اس کے دیے زخم میرے پہلے سے ہی زخمی دل کو تار تار کر گئے۔

اس درمیان میرا بستی میں آنا جانا اسی طرح رہا۔  رحموباباسے دعائیں لینا، چمپا کاکی سے باتیں کرنا، گپیں مارنا، پھانکی کی بے سر پیر کی کہانیاں سننا، غریب بچوں میں چاکلیٹ بانٹنا، میں نے یہ سب جاری رکھا۔  ہاں ستارہ مجھ سے کچھ زیادہ ہی محتاط ہو گئی تھی اور میری نگاہوں کی زد میں آنے سے بچنے لگی تھی۔  ایک دو بار میں نے ستارہ کی بیٹی سے ضرور بات کی تھی چند سوالات کی شکل میں، جس کا اس نے ننھا ننھا جواب دیا۔  اس نے اپنا نام تانیہ بتایا۔ بھائی کہاں ہے؟بھائی اسپتال میں ہے۔ ممی کہاں ہیں ؟ممی کام پر گئیں ہیں۔  کیا تم میرے ساتھ گاڑی میں گھومو گی؟ اس ننھی بچی نے انکار میں سر ہلا دیا۔ نہیں، ’’ممی نے منع کیا ہے۔ ‘‘

میرے دل پر ہلکی سی چوٹ لگی۔

میں نے اپنے آپ سے سوال کیا، میں کیوں ستارہ کے پیچھے لگی ہوں۔  اس پیچھا کرنے کا کوئی نتیجہ مل بھی گیا تو کو ن سا مجھے بہت بڑا انعام مل جائے گا۔  میری کیا لگتی ہے ستارہ۔  خود کو سمجھانے کے لئے اپنے آ پ سے کہتی عورت کی عورت کے تئیں کی گئی ایک انسانی ہمدردی، ایسی ہمدردی جو ضمیر کو جلا بخشتی ہے۔  اپنی نگاہ میں اپنا قد بلند کر کے یہ احساس دلاتی ہے کہ میں نے زندگی کا قرض ادا کر دیا۔  دنیا میں خود کی آمد کا جواز ڈھونڈ لیا۔ یہ سب وہ باتیں تھیں جن سے میں اپنے آپ کو بہلایا کرتی۔  مگر سچ اس سے مختلف تھا۔

ستارہ میرے لئے روشنی کا مینا ر نہیں اندھیرے میں گم ہوئی منزل کا پتا تھی۔  یہ وہی منزل تھی جہاں عورتوں کی محرومیاں، مجروح ہوتی آرزوئیں، بے حس پڑی خواہشیں اور نادیدہ خوابوں کی قبریں تیار ہوا کرتی ہیں اور جہاں کی ہمیشہ تازہ بنی رہنے والی مٹی اپنی تربت پر سیاہ گلابوں کی خوشبو کی منتظر رہتی ہیں۔  بستی ہی نہیں اسپتال کے چکر کاٹنا میرے لئے لا زم تھا کیوں کہ ایک طرف میں کشو کو یہ احساس دلانا چاہتی تھی کہ میں تمہارے بتائے راستے پر چل پڑی ہوں تاکہ تمہاری بخشی اپنی نیکیوں سے جنت میں تمہارے نام کا ایک ٹکڑا لے سکوں اور دوسری طرف میں بستی میں ہونے والے خرچ کے ساتھ اس کی دی ہوئی دولت کا بہی کھاتا بھرنا چاہتی تھی۔  یہ دونوں کام ساتھ ساتھ چل رہے تھے۔

الزبیتھ سے ملنے کا سلسلہ بھی جاری تھا۔ الزبیتھ کا الگ الگ اسپتالوں میں تبادلہ ہوتا رہتا تھا۔ اس کے میڈیکل لائن کے تجربے بہت تھے۔  ستارہ کا شوہر اور الزبیتھ کا بیٹا کسی زمانے میں گہرے دوست تھے۔  بہت سی اہم جانکاری ٹکڑوں ٹکڑوں میں، میں الزبیتھ سے بھی حاصل کر رہی تھی کیوں کہ وہ ایک عمر رسیدہ خاتون تھیں۔ انہیں وقت کی کمی کی بیحد شکایت رہتی۔  ان کا بھاری جسم بہت زیادہ کام کرنے کے قابل نہیں تھا مگر ذمہ داریاں انہیں بیٹھنے نہیں دیتی تھیں۔  ایک بیٹا ایک بیٹی۔  بیٹی نے شادی نہیں کی اور نن بن گئی جس سے الزبیتھ کو گہرا دھکا لگا۔  ان کی بیٹی کا شروع سے ہی رجحان دین کی طرف تھا۔  نن بننے کے بعد وہ ایک مشنری اسکول میں سسٹر بن کر پڑھانے لگی اور اسی اسکول کے ہاسٹل میں رہنے بھی لگی۔

الزبیتھ نے بہت چاہا کہ ا ن کی بیٹی عام عورتوں کی زندگی جیے۔  اس کے بھی بیٹا بیٹی پیدا ہوں۔ انہیں بھی داماد کی خاطرداری کا موقع ملے مگر حقیقت کچھ اور ہوتی اور ہم سوچتے کچھ اور ہیں۔  ا ن کی بیٹی نینسی کو ماں کا بار بار ہاسٹل آنا اچھا نہیں لگتا تھا۔  وہ باہری دنیا سے کوئی رابطہ نہیں رکھنا چاہتی تھی مگر الزبیتھ ممتا کے ہاتھوں مجبور تھیں۔ بیٹی کی جھڑکیاں وہ مسکراتی ہوئی سہہ جاتیں مگر جب میں ان کی اس دکھتی رگ پر ہاتھ رکھتی تو ا ن کی آنکھیں کافی دیر تک بھیگتی رہتیں جسے وہ ٹیشو پیپر سے بار بار خشک کرتی رہتیں۔

ان کا بیٹا کافی فرمانبردار تھا مگر بہو نے ایسی گوٹیاں بچھائیں کہ بیٹے کو بہت مجبوری میں اپنی ماں کے سینے پر گھنٹو ں آنسو بہانے کے بعد ماں کا یہ فیصلہ ماننا پڑا کہ اسے اپنا گھر چلانے کے لئے الگ ہونا ہی پڑے گا۔ الزبیتھ نے خوشی خوشی اس کی اجازت دے دی۔  ستم یہ کہ بیٹے کی کم آمدنی کو وہ اپنی تنخواہ سے پورا کرتیں۔ اوور ٹائم کام کر کے زیادہ سے زیادہ روپیے کمانا چاہتیں تاکہ اپنی دونوں پوتیوں کی پرورش میں کہیں کوتاہی نہ ہو۔  مجھے الزبیتھ سے دلی ہمدردی تھی جو اپنے سارے غم چھپائے ہونٹوں پر مسکراہٹ سجائے اپنی ہر ڈیوٹی فوجی انداز میں پورا کرتیں۔  شوہر سے بنی نہیں اس لئے انہوں نے برسوں پہلے اس سے علیٰحدگی لے لی تھی اس کے باوجود ہر اتوار وہ  اس کی قبر پر پھول چڑھانا نہیں بھولتی تھیں۔  کتنے ٹکڑوں میں انہوں نے اپنے آپ کو تقسیم کر رکھا تھا۔  ستارہ نے جب کورٹ میرج کی تھی تو کئی دن تک وہ اپنے شوہر کے ساتھ الزبیتھ کے گھر ٹھہری تھی، نینسی کو اپنی ستارہ بھابھی سے بہت پیا ر تھا۔

ہو سکتا ہے ستارہ اب بھی نینسی سے ملتی جلتی ہو مگر مجھے اس کا علم نہیں تھا۔  میری پہنچ مشنری اسکول اور اس کے ہاسٹل تک نہیں تھی۔  میں جانتی تھی کہ نینسی مجھے اپنے قریب نہیں آنے دے گی اس لئے میں نے اس سے کبھی ملنے کی کوشش بھی نہیں کی۔  ہاں الزبیتھ کا اتنا بھروسہ ضرور حاصل کر لیا کہ کبھی کبھار ان کے گھر پہنچ کر ا ن کے ہاتھ کی بنائی ایک کپ کافی پی سکوں، اور ان کے ساتھ تھوڑا وقت گزار سکوں۔  وہ بے حد رحم دل عورت تھیں۔  بہت پیار سے میرے ساتھ پیش آتیں۔ مجھے ان کی محبت میں اکثر اپنی ماں کا عکس نظر آتا۔  انہیں بکھرے بال بیحد نا پسند ہوتے اور جب کبھی میرے بال بے ترتیب ہو رہے ہوتے تو وہ اپنے پرس سے چھوٹی سی کنگھی نکال کر میری ٹھوڑی کو اپنی انگلیوں سے پکڑ کر ہلکے ہاتھوں سے بال سنوارنے لگتیں۔  ایسے میں میں خود کو آٹھ نو سال کی چھوٹی بچی سمجھنے لگتی کیوں کہ میری امی کو بھی لڑکیوں کے بکھرے بال بہت نا پسند تھے۔

آہستہ آہستہ بستی، اسپتال اور الزبیتھ کا گھر میری زندگی کے وہ دائرے بن گئے جن کے ارد گرد میں گھوما کرتی۔  رشتے داروں کو الگ کر کے اکیلے اکیلے زندگی جیے جانے کا درد میں کچھ حد تک ان کے ساتھ بانٹ رہی تھی۔

٭٭٭

 

 

۵۔ ڈھیلی پڑتی طنابیں

یہ رشتے زندگی کو / عذاب جاں بناتے ہیں / مگر یہ بھی سچ ہے/ بغیر رشتوں کے زندگی/ اندھیری کوٹھری کا آسیب جیسے/ رشتوں کے ساتھ یہ زندگی/ ہر طرح کے پرندوں سے بھرا/ نیم کا پیڑ جیسے/ نیم کے گھونسلے/ آتی جاتی بہاروں کے / لٹکتے جھومروں جیسے/ ان جھومروں سے زندگی/ سجتی بھی ہے، اجڑتی بھی ہے/ عقل حیران ہے/ رشتوں کے ساتھ چلیں / یا رشتوں کے بغیر/ رشتے سانسوں کا دم گھونٹتے ہیں / ہاں، مگر رشتے زندگی کو رفتار دیتے ہیں / یہ انگار بھی ہیں / آبشار بھی۔ ۔ ۔ ۔

عورت کی زندگی میں رشتے ایک اہم اور پیچیدہ رول ادا کرتے ہیں۔  تار عنکبوت کی طرح وہ اول سے آخر تک اسے اپنے گھیرے میں باندھے رکھتے ہیں۔  رشتے مرد کی زندگی میں بھی یہاں سے وہاں تک پھیلے رہتے ہیں۔  مگر عورت کی زندگی میں رشتوں کی نوعیت اس سے مختلف ہوتی ہے۔  اگر تار کا سرا ایک عورت سے ہو کر دوسرے مرد تک جڑتا ہو اور رشتوں کے تقدس کی خاطر عورت ایمانداری، وفاداری اور مکمل سپردگی کا خیال رکھتی ہو تب تو وہ اپنے ہی ہاتھوں اپنی زندگی میں اپنی قبر گاہ تیار کر لیتی ہے۔ ۔ ۔

صبح سے بارش کی جھڑی لگی تھی۔  امنڈتے گھمڑتے بادلوں کے درمیان کوندتی بجلیوں کی کڑک نے عام زندگی کو منتشر کر دیا تھا۔  لوگ گھروں میں قید تھے۔  سرد ہوائیں چل رہی تھیں۔  میں بھی اپنے کمرے میں لیٹی کبھی ٹی وی، کبھی موبائل اور کبھی پرانی پڑھی ناولوں کے صفحے پلٹ رہی تھی۔ ملازمہ نہیں آئی تھی۔ میں نے ہی خود اپنے لئے اور گڈو کے لئے کھانا بنایا۔ گڈو اپنا کھانا پانی لے کرسرونٹ کواٹر چلا گیا تھا اور میں ادھر ادھر کر کے اپنا وقت گزار رہی تھی۔ وقت سے پہلے گھری ہوئی سرمئی شام نے اداسی کی چادر پھیلا رکھی تھی۔  وقفے وقفے سے بادل گرج رہے تھے۔  میں سوچ رہی تھی کہ آج کا دن بستی والوں کے لئے کتنا بھاری ہو گا۔ کتنو ں کی جھوپڑیاں ٹپک رہی ہوں گی، کتنے برگد کی گھنی پتیوں کے سائے میں رحمو بابا کے کولہے سے سٹے پرانے قصے سن رہے ہوں گے۔  سچی جھوٹی ڈرانے والے کہانیوں پر خوف زدہ ہونے کا ڈھونگ رچ رہے ہوں گے۔  دل بہلانے کے لئے یہی سب ان کے بہانے ہوتے تھے۔ رحمو بابا کی اپنی جھونپڑی تھی مگر انہیں اپنے اسی مسکن میں بیٹھے رہنے کا جو مزا مل گیا تھا تو جھونپڑی کے اکیلے پن میں وہ کیوں جانے لگے۔  اسی برگد نے تو رحمت علی کو بابا کی پہچان دی تھی۔

اس بارش نے چمپا کاکی کو بھی کافی پریشان کر رکھا ہو گا۔  انہوں نے مجھ سے کہا تھا کہ ان کی ٹین کافی پرانی ہو چکی ہے جگہ جگہ سوراخ ہو گئے ہیں، بارش آنے پر بہت مصیبتیں اٹھانی پڑتی ہیں۔ میں نے انہیں تسلی دی تھی کہ آپ کی ٹن کی چھت بارش آنے سے پہلے بدل جائے گی۔  مگر اس بن موسم برسات نے کاکی کی مصیبت واقعی بڑھا دی ہو گی۔

ایسا میں سوچ رہی تھی حالانکہ سچائی یہ تھی کہ چمپا کاکی کو کوئی بھی پریشانی، کوئی بھی الجھن اور بیماری پوری سنجیدگی سے پریشان نہیں کر پاتی تھی۔ وہ ہر حال میں خود کو تھپک کر سلا دینے والی عورت تھیں۔  ان  کے طبقے میں اس قسم کی عورتوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے کیونکہ بچپن سے ہی انھیں یہ سب کچھ سہتے رہنے کی عادت ہو جاتی ہے۔  ایک بار چمپا کاکی اپنے لئے میرے منھ سے ہمدردی کے بول سن کر طنزیہ لہجے میں کہنے لگیں۔ ’اے میڈم جی!ہمارے لئے کیا آگ، کیا پانی، کیا ہوا؟ ہم نصیب جلی عورتیں تو سب موسم میں ایک جیسی رہتی ہیں۔  یہ بجھا چولھا، یہ ٹھنڈے برتن، یہ پرانا اسٹوو، یہ ٹوٹی کھاٹ، سب کچھ ہمارے سامنے ویسے ہی ہے۔  جیسے ہمارے سوکھے ہاتھ اور لٹھے جیسے پیر۔ ہم پر کوئی چیز بھاری نہیں پڑتی۔  سب ایک جیسا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  بد رنگ۔ ۔ ۔  پرانا۔ ۔ ۔ ۔ ۔  بے مطلب سی فضول چیزیں۔ یہ جھگی آپ جیسے لوگوں کے لئے لعنت کی جگہ ہے۔ ‘‘

چمپا کاکی نے جو کچھ کہا اس میں مجھے پوری صداقت محسوس نہیں ہوئی کیونکہ اگر میں بستی والوں پر لعنت بھیجتی ہوتی تو ان کے درمیان آتی ہی کیوں ؟

میں پھانکی کو فون کر کے سب کی خیریت معلوم کرنا چاہتی تھی۔ جیسے ہی میں نے موبائل کی طرف ہاتھ بڑھایا، موبائل رنگ نے مجھے چونکا دیا۔

’’کس کا فون ہو سکتا ہے؟ میں نے خود سے سوال کرتے ہوئے بغیر اسکرین پر نمبر دیکھے موبائل کلک کر دیا۔

’’ہیلو اپی! سلام علیکم!‘‘

ایک جانی پہچانی آواز نے مجھے بہت خوش کر دیا۔  میری ننھی پری فون لائن پر تھی۔ حالانکہ وہ اب ننھی نہیں رہ گئی تھی۔  اکیس سال کی جوان خوبصورت لڑکی بن چکی تھی مگر میں کیسے اسے بڑا مان لوں جب کہ آج بھی مجھے یاد ہے کہ اسے گود میں اٹھائے اٹھائے میری کمر کتنی دکھنے لگتی تھی۔  اس کے باوجود میں اسے زمین پر نہیں اتارتی تھی۔  اپنے ہاتھوں شیشی سے اسے دودھ پلاتی، اس کے گندے کئے گئے گدے اپنے ہاتھوں سے دھوتی، میں نے ہی اسے چلنا سکھایا۔  روز اسے نہلانا، کپڑے بدلانا، آنکھوں میں کاجل ڈالنا، ننھے ننھے تلووں میں گرم تیل ملنا تاکہ اسے سردی نہ لگے-یہ سارے کام میرے حصے میں تھے جو میرے پیارے ابی نے مجھے سونپے تھے۔  اس ننھے پری کی پیدائش کے وقت میری چھوٹی امی بھی اس دنیا سے رخصت ہو گئی تھیں۔ حالانکہ چھوٹی امی کی دو بیٹیاں تھیں۔  ایک تین سال کی اور دوسری وہ جو نوزائیدہ تھی۔ میں سمجھدار تھی اس لئے ذمہ داری میرے اوپر آ گئی۔

’’ہیلو!‘‘ موبائل پر پھر سے آواز گونجی

’’ہاں نیفو !بولو‘‘ آواز نیلوفر کی تھی مگر میں اسے نیفو کہہ کر ہی بلاتی تھی۔

’’ اپی ! آپ کیسی ہیں ؟‘‘  نیفو کی آواز میں اجنبیت تھی کیوں کہ اس کے بولنے کے ڈھنگ میں کوئل کی کوک جیسی چہک ہوتی تھی، وہ ہنستی تھی تو لگتا پوری کائنات میں گھنگرو بج اٹھے ہوں، اس کی شوخی، اس کی ادائیں پتھر دل انسان کو بھی پگھلا دینے والی ہوتی تھیں۔  بھجی بجھی سی آواز نے مجھے تڑپا گیا۔

’’نیفو تیری طبیعت تو تھیک ہے نا!‘‘

’’اپی آپ یہاں آ سکتی ہیں۔ ابی کے پاس‘‘

’’کیوں ؟ کوئی خاص بات؟‘‘

’’نہیں بس یوں ہی!‘‘

’’نیفو! اتنی جلدی تو رزرویشن مل نہیں پائے گا۔  دوسرے تم جانتی ہو کشو کس مزاج کا آدمی ہے۔  اس کی اجازت کے بغیر میں اس شہر سے باہر بھی نہیں جا سکتی۔ ‘‘

’’تو آپ اجازت لے لیجیے۔ ‘‘

’’کوئی وجہ تو بتانی پڑے گی نا!‘‘

’’کہہ دیجئے گا ابی کہ طبیعت خراب ہے؟‘‘

میں ہنس دی۔ ’’پانچ منٹ کے اندر وہ رشتے داروں کے گھر پر فون کر کے سچائی معلوم کر لے گا اور ہمیشہ کے لئے میرے پیر باندھ دیے جائیں گے پھر میں کبھی بھی تم لوگوں سے ملنے نہیں آ پاؤں گی۔ ‘‘

میری بات پوری ختم بھی نہیں ہو پائی تھی کہ میرے کانوں میں سسکیوں کی آواز ٹکرائی۔  میں تڑپ اٹھی ’’نیفو !تم رو رہی ہو۔  تم جانتی ہو میں تمہاری بہن ہی نہیں تمہاری ماں بھی ہوں، میں نے تمہیں اپنی باہوں کے جھولے میں جھلایا ہے تمہارے آنسو میں برداشت نہیں کر سکتی۔ ‘‘

میں جیسے رو پڑنے کو تھی۔

’’نیفو !تم میرے پاس آ جاؤ۔ ‘‘

’’اپی آپ ابی کے مزاج کی سختی جانتی ہیں وہ کبھی مجھے بے وجہ گھومنے پھرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔  ہاں اگر آپ ان سے اجازت مانگے تو شاید۔ ۔ ۔ ‘‘

’’ٹھیک ہے تم اپنا سامان پیک کرنا شروع کرو میں ابی سے خود اجازت لے لوں گی۔ ‘‘

میں نے اسے تسلی دی۔  دو چار رسمی بات چیت کے بعد فون رکھ دیا۔  مگر میں پھر شام سے لے کر دوسرے دن صبح تک گھڑی کی سوئیاں دیکھتی ہوئی وقت گزارتی رہی۔  کب فجر ہو، کب سورج طلوع ہو، کب ابّی مسجد سے واپس آئیں اور میں ان سے بات کروں۔

ایسی کونسی بات تھی جس نے نیفو کو اتنا بے چین اور بے سہارا کر دیا تھا کہ وہ فوراً مجھ سے ملنا چاہتی تھی۔ ایسی کیا پریشانی ہو سکتی تھی جو وہ ابّی یا فردوس، چھوٹی امی کی بڑی بیٹی یعنی میری منجھلی بہن سے نہ کہہ کر صرف مجھ سے کہنا چاہتی تھی۔

فردوس کی شادی بھی خاندان میں ہی ہوئی تھی اور وہ ابّی کے گھر کے بہت قریب رہتی تھی۔  مجھے معلوم تھا کہ ہفتہ کی ہر چھٹی میں وہ ابّی سے ملنے جایا کرتی تھی۔

بہرحال بوجھل شام گزر گئی۔  انتظار کی وہ شب کسی قیامت سے کم نہ تھی۔

میرے سامنے سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ ابّی اگر اجازت دے بھی دیتے ہیں تو وہ کس کے ساتھ ٹرین کا سفر طے کر کے یہاں میرے پاس آئے گی۔  وہ اکیلے اسے ہرگز نہ آنے دیں گے۔  بہت سوچنے کے بعد ایک ہی راستہ مجھے سوجھا۔  گڈو جا کر نیفو کو لے آئے۔  گڈو نا محرم مرد ضرور تھا مگر گھر میں تو پلا بڑھا تھا۔  فریدن بوا کا بیٹا تھا اور فریدن بوا اب بھی زبان بند کئے ہمارے کنبے کے ساتھ نانی کی وفاداری کا صلہ ادا کئے جا رہی تھیں۔  ہونٹوں پر خاموشی کی مہر لگائے چپ چاپ دن رات کام میں لگی رہتیں۔  جب کام نہیں بھی رہتا تو ڈھونڈ ڈھونڈ کر نئے کام تلاش لیتیں اور خود کو مصروف رکھتیں۔

 میں نے اللہ کا نام لے کر ابّی کو فون ملایا اور دل میں اللہ پاک سے معافی مانگی کہ میں نیفو کو بلانے کے لئے ابّی سے اپنی بیماری کا جھوٹا بہانا کر رہی ہوں۔  انہوں نے ایک ہی بار میں اجازت دے دی۔  گڈو نے اپنا بیگ کندھے پر ٹانگا اور راستے کا خرچ، ٹکٹ کے روپیے لئے اور نیفو کو لینے کے لئے چل دیا۔

 میں اپنی الجھنوں میں گرفتار نیفو کے آنے کا انتظار کرنے لگی کہ کب وہ آئے اور کب میں  اس سے باتیں کر کے، خود کو تسلی دوں کہ سب ٹھیک ہے۔

اپنی آن بان شان کے لئے پہچانے جانے والے رٹائرڈ مجسٹریٹ غیاث الدین احمد خان کے لئے یہ مرحلہ بے حد ہتک آمیز تھا کہ وہ اپنی جوان بیٹی کو ملازمہ کے بیٹے کے ساتھ سفر کے لئے تنہا بھیجیں۔ چشمے کے پیچھے کئی بار ان کی آنکھیں دھندلا گئیں۔  جب تک دولت اور شہرت ان کے دروازے رہی، دہلیز پر آنے جانے والوں کی بھیڑ لگی رہتی، آج وقت یہ آن پڑا ہے کہ گھنٹوں ذہنی کشمکش کے بعد ایک بھی آدمی ان کی نگاہ میں نہیں آ رہا تھا جس کے حوالے کر کے وہ بیٹی کو اس کے ٹرین کے سفر کا ساتھی بنا پاتے۔  اکا دکا جو لوگ سمجھ میں آئے بھی ان کی اپنی مصروفیت رہی۔  بوڑھی ہڈیوں میں اتنا دم خم کہاں بچا تھا کہ وہ ٹرین کے جھٹکے برداشت کر پاتے۔  ان کی زندگی گھر اور مسجد تک سمٹ کر رہ گئی تھی۔  فریدن بوا ان کے بڑھاپے کی لاٹھی تھیں جو وقت پر ان کے ہر کام کو پورا کر دیتیں۔  ان کے چائے ناشتے، کھانے، نہانے، کپڑے دھونے، پریس کروانے سے لے کر دواؤں کی پابندی کا خیال بھی فریدن بوا کو ہی رکھنا پڑتا تھا۔  نیلوفر کی ذمہ داری بھی فریدن بوا پر تھی۔  اس وقت سب سے بڑی پریشانی یہ تھی کہ ایک جوان لڑکے کے ساتھ بیٹی کو بھیجنا غیاث الدین احمد خان کو بہت بھاری لگ رہا تھا۔  بہرحال نازنین بانو بھی تو ان کی بیٹی ہی تھی۔ طبیعت کی خرابی سن کران کا جی پریشان ہو اٹھا تھا۔  بن ماں کی بچیوں کی دیکھ بھال کرنا غیاث الدین احمد خان کے لئے معمولی کام نہیں تھا۔  ہم دونوں بہنوں کی ذمہ داری سے تو وہ کسی طرح سبک دوش ہو گئے مگر نیلوفر کی پرورش انہیں اپنی زندگی کا سب سے بڑا امتحان لگ رہا تھا۔  ایک لڑکی کے لئے ماں کی سرپرستی کتنی اہم ہوتی ہے اسے غیاث الدین احمد خان سے بہتر اور کون سمجھ سکتا تھا۔  اگر نازنین نے اتنی ضد نہ کی ہوتی تو شاید وہ کبھی بھی اعلیٰ تعلیم کے لئے نیلوفر کو لڑکوں کے ساتھ پڑھنے کی اجازت نہ دیتے۔  مگر حالات کو دیکھتے ہوئے بیٹی کی جوانی اور اپنے بڑھاپے کے مد نظر انہیں یہ ضروری لگا کہ بیٹی کو اتنی تعلیم تو دلوانا ہی چاہیے کہ جب وہ چاہے اپنے پیروں پر کھڑی ہو کر جی سکے۔  اسے عمر کے کسی حصے میں دوسروں کا محتاج نہ ہونا پڑے۔ زمانہ انھوں نے بھی دیکھا تھا اور آنے والے زمانے کا رخ پہچان رہے تھے۔

شروع شروع میں جب نیلوفر نے کالج جانا شروع کیا تو کتنی راتیں انہیں چین سے نیند نہیں آئی۔  انگلیاں تسبیح کے دانے پھیرتی رہیں اور دل خدا کی مدد مانگتا رہا کہ ان کی بیٹی ہر خطا اور گمراہی سے بچی رہے۔  انہیں نیلوفر پر بھروسہ تھا مگر وقت بے رحم ہوتا ہے ا س بات کا بھی انہیں احساس تھا۔  انہیں یہ خیال بار بار پریشان کرتا کہ نیلوفر کی پرورش قید و بند کے ماحول میں ہوئی ہے۔  اسے دنیا کی اونچ نیچ، مردوں کے مکر و فریب اور جھانسے سے واقفیت نہیں ہے۔  رنگین خوابوں کی بد رنگ حقیقت کیا ہوتی ہے یہ وہ نہیں جانتی ہے۔  ایک ضعیف باپ اپنی جوان بیٹی کو کس طرح سمجھائے کہ وہ بغیر کچھ کہے بھی سب کچھ سمجھ جائے۔  فردوس کہنے کو تو قریب میں ہی رہتی تھی مگر اس کا سسرالی کنبہ اتنا بڑا تھا کہ مائکے آ کر وہ اپنے ابّی کی پریشانی اور چھوٹی بہن کی الجھنیں دور نہیں کر سکتی تھی۔ نیلوفر کے چست لباس ان کی آنکھوں میں کانٹوں کی طرح چبھتے تھے۔  مگر رشتے کا لحاظ انہیں زبان بند کئے رہنے پر مجبور کرتا۔ فریدن بوا بہرحال ایک ملازمہ تھیں۔  ان کی غیرت گوارہ نہیں کرتی کہ وہ ملازمہ کے ذریعہ اپنی کوئی بات اپنی بیٹی تک پہنچائیں۔  ایک دو بار فردوس سے اشارے کنائے میں باتیں ضرور کیں کہ نیلوفر سے کہو کہ اتنے موٹے کاجل نہ لگایا کرے۔  بالوں میں تیل ڈال کر کس کر چوٹی کیا کرے۔  لمبے روکھے بال پیٹھ پر کھلے نہیں لہرانا چاہئے، اونچی ہیل لڑکیوں کی چال کو بگاڑ دیتی ہے اس لئے فلیٹ جوتیاں پہن کر باہر نکلا کرے۔  شریف گھروں کی لڑکیاں سر پر آنچل ڈال کر باہر نکلتی ہیں۔  چوڑی دار کی جگہ ڈھیلی شلوار پہننا چاہئے۔  فردوس یہ ساری باتیں سنتی اور اپنے ابّی کو مطمئن بھی کرتی کہ وہ سب سنبھال لے گی مگر کچھ بھی سنبھالنے کے لئے اس کے پاس وقت نہیں رہتا تھا۔

غیاث الدین احمد خان نے سب کچھ اللہ کو سونپ دیا اور خود نماز کی چوکی پکڑ کر بیٹھ گئے۔  جو خدا نے لکھا ہے وہ ہو کر رہے گا۔  ان کے چاہنے نہ چاہنے کا کوئی مطلب نہیں ہے۔

’’ابّی! ٹرین نے وسل دے دی ہے۔  آپ کھڑکی سے تھوڑا پیچھے ہٹ جائیے۔ ‘‘

غیاث الدین احمد خان نے بیٹی کی کلائی کو اپنی گرفت سے چھوڑ دیا اور پلیٹ فارم پر دو قدم پیچھے ہٹ گئے۔  ان کی آنکھیں لگاتار بھیگ رہی تھیں۔  انہیں اپنی اس ننھی سی بیٹی کے مرجھائے چہرے کو دیکھ کر بہت ترم آ رہا تھا۔  ان کی ننھی بچی دنیا کی نظر میں تو ایک جوان لڑکی تھی اور وہ ساری دنیا کی نظریں نہیں پھیر سکتے تھے کہ خدارا میری اس جوان، حسین اور معصوم بچی کی طرف کوئی اپنی بری نظر نہ ڈالے۔

ٹرین پلیٹ فارم پر رینگنے لگی۔  انہوں نے بے بسی سے گڈو کی طرف دیکھا جو ٹرین کے دروازے پر کھڑا خدا حافظ کہہ رہا تھا۔  یا اللہ میری بیٹی کی حفاظت کرنا۔  اس کا روز بروز کمھلاتا چہرہ مجھے اپنی بوڑھی آنکھوں سے دیکھا نہیں جاتا۔  نیلوفر کو کیا پریشانی ہے ؟ آخر بار بار پوچھنے پر بھی وہ کیوں نہیں بتاتی۔  زور دیتا ہوں تو میرے سینے پر سر رکھ کر سسکنے لگتی ہے۔  کہتی ہے امی کی یاد آ رہی ہے۔  مگر وہ جانتے تھے کہ امی کی یاد اس بچی کے ساتھ ہے ہی نہیں اس نے تو اپنی آنکھوں سے ماں کو دیکھا ہی نہیں۔ یادیں وابستہ نہ ہوں تو تصویر کے نقش بھی بے معنیٰ ہوتے ہیں۔

ایسی کون سی بات ہے جو نیلوفر ان سے چھپا رہی ہے اور کیوں چھپا رہی ہے۔ اچانک انہیں اپنے سینے میں ہلکا ہلکا سا درد محسوس ہوا۔  جلدی سے انہوں نے اپنی جیکٹ کی جیب سے دوا کی شیشی نکالی اور ایک گولی زبان کے نیچے دبا لی۔  ٹرین آہستہ آہستہ پلیٹ فارم چھوڑ رہی تھی۔  کھڑکی کی سلاخوں سے نیلوفر کا آدھا چہرہ نظر آ رہا تھا۔  دروازے پر ہاتھ ہلاتا گڈو کھڑا تھا۔ غیاث الدین احمد خان نے بھی جذبات پر قابو پاتے ہوئے اپنا ہاتھ اوپر اٹھا دیا۔  اس طرح جیسے وہ اپنے زندہ ہونے کا احساس دلا رہے ہوں۔

ٹرین جا چکی تھی۔ پلیٹ فارم کا شور و غل ٹھنڈا پڑ رہا تھا اور غیاث الدین احمد خان کے بوجھل قدم اپنی کار کی طرف بڑھ رہے تھے۔  قسمت نے ان کے حصے میں دو دو شریکِ حیات لکھی تھیں مگر افسوس صد افسوس دونوں ہی ان کی زندگی میں ان سے جدا ہو گئیں۔ اسی سال کا بوڑھا جسم اب اپنی ملازمہ فریدن بوا کے رحم و کرم پر جی رہا تھا۔  فریدن بوا بھی تو پچاس کے اوپر پہنچ چکی تھیں۔  بڑھاپے کی تکلیفیں انہیں بھی شروع ہو گئیں۔  پچھلے ہفتے ہی غیاث الدین احمد خان نے فریدن بوا کی آنکھ کے موتیا بند کا آپریشن کروایا تھا۔ دو چار دن جب وہ بستر پر پڑی تھیں توکتنی تکلیفیں انہیں اٹھانی پڑیں۔  اب اس غریب بے سہارا عورت کی ذمہ داری کو پورا کرنا بھی وہ اپنا فرض سمجھتے تھے آخر اس بوڑھی عورت کا جوان بیٹا انہیں کی بیٹی کے گھر میں تو تھا۔

گاڑی بنگلے کے اندر داخل ہوئی۔  کار کے دروازے لاک کر کے غیاث الدین احمد خان اپنے کمرے کی طرف بڑھے۔  فرید ن بوا ہاتھ میں پانی کا گلاس لئے ہمیشہ کی طرح ان کے پیچھے پیچھے چلی آ رہی تھیں۔

 ایک بے معنی سی مسکراہٹ کے ساتھ انہوں نے گلاس اپنے سوکھے لبوں تک پہنچایا اور اللہ کا شکر ادا کر کے بستر پر لیٹ گئے اور آنکھیں بند کر کے گہری گہری سانسیں لینے لگے اور نے فریدن بوا سے رات کے کھانے کے لئے منع کر دیا۔

٭

 میں نے نیفو کو جب اسٹیشن پر ٹرین سے اترتے دیکھا تو حیران ہو گئی نوک پلک سے درست رہنے والی، نازو ں نخروں کی پلی میری اس پری کو کس کی نظر لگ گئی کہ مجھے دیکھ کر بھی اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ نہیں آئی بلکہ بڑی بڑی خواب آلودہ آنکھیں آنسوؤں سے لبریز ہو گئیں۔  وہ دوڑ کر میرے سینے سے چمٹ گئی اور میں نے اپنی گردن کے پچھلے حصے پر گرم گرم آنسوؤں کی دو دہکتی ہوئی بوندوں کو صاف محسوس کیا۔  میں سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ یہ آنسو مجھ سے ملاقات کی خوشی میں تھے یا کسی ذہنی پریشانی کی وجہ سے تھے۔  بہرحال جب وہ کافی دیر تک میرے سینے سے چپکی رہی تو میں نے ہنستے ہوئے اسے اپنے سے بمشکل جد ا کیا-’ میری ننھی پری تو ایسے مل رہی ہے جیسے برسوں بعد میرے گلے لگی ہو۔ ‘

جواب میں وہ کچھ نہیں بولی اور آہستہ سے مجھ سے الگ ہو گئی۔  اس کی آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں۔  میرا یقین پختہ ہوتا جا رہا تھا کہ نیفو کسی بڑی ذہنی اذیت کی شکار ہے۔  گڈو اٹیچی گاڑی میں رکھ چکا تھا۔  میں اسے اپنی باہوں کے گھیرے میں لئے کار کی پچھلی سیٹ پر آ کر بیٹھ گئی۔  میری سانسیں تھم تھم کر چل رہی تھیں۔  یا الٰہی رحم کر!

کیا بات ہو سکتی ہے۔ ۔ ۔ ؟

میں نے گھر کے قریب گاڑی کو رکوایا اور گڈو کو روپیے دیتے ہوئے بولی کہ دودھ کے دو پیکیٹ، بریڈ اور نیفو کے لئے گرم گرم جلیبی لے لے۔

 نیفو کو بچپن سے جلیبی کھانے کا شوق رہا ہے۔ جلیبی کا نام آتے ہی وہ چہک اٹھتی تھی مگر اس وقت اپنے میں ہی گم سم خاموش بیٹھی رہی۔  اس نے کوئی رد عمل نہیں دکھایا۔

گاڑی پورٹیکو میں آ کر رک گئی۔ میں اور نیفو ڈرائینگ روم میں آ کر بیٹھ گئے تھوڑی دیر بعد سامان لے کر گڈو آ گیا۔  اس نے ملازمہ کو سامان پکڑاتے ہوئے ناشتہ تیار کرنے کی ہدایت دی اور اپنے کواٹر میں چلا گیا۔

’’اپّی میں بہت تھکی ہوئی ہوں، سونا چاہتی ہوں۔ ‘‘

’’سوجانا، پہلے نہا کر ناشتہ کر لو۔  تھوڑا اپنا حال چال بتا دو، گھر کی خیریت بتا دو پھر ہم دونوں ہی آرام کریں گے۔  میں نے اس سے پیار بھرے لہجے میں کہا۔

’’اپّی میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ میں نہاؤں گی نہیں۔ ‘‘

’’اچھا مت نہانا مگر ناشتہ تو کر لو۔ ‘‘

میں ناشتہ جلدی لگوانے کے لئے باورچی خانے میں چلی گئی۔  ملازمہ گیس پر دودھ چڑھائے، ٹرے میں جلیبی اور مکھن ٹوسٹ رکھ کر دھیمی آنچ پر چائے بننے کا انتظار کرتے ہوئے کھانے کی تیاری میں لگی تھی۔ دن میں میں نے نیفو کے پسند کا کھانا قورما اور بریانی بنانے کو کہا تھا۔  ناشتہ ہوا نہیں اور کھانے کی تیاری ہوتے دیکھ کر میں ناراض ہو گئی اور میں نے ملازمہ کو بری طرح سے ڈانٹا پھٹکارا اور خود جلدی جلدی چائے بنانے لگی۔  نوکروں کو ڈانٹنا پھٹکارنا میرے مزاج میں نہیں تھا مگر میں نیفو کی وجہ سے بہت الجھی ہوئی تھی۔ ملازمہ کے ہاتھ سے جب میں ناشتہ لے کر کمرے میں داخل ہوئی تو نیفو گہری نیند سو چکی تھی۔ میں نے اسے جگانا مناسب نہیں سمجھا۔  چائے ناشتہ میز پر پڑا رہا، نیفو سوتی رہی اور میں اپنے آپ سے الجھتی رہی۔ ایسی بھی کیا تھکن، دو گھنٹے ہو گئے اور نیند کی خماری اتر نہیں رہی ہے۔  لگتا ہے برسوں سے سوئی نہیں صبح ابّی سے میری بات ہوئی تھی۔ وہ بھی نیفو کے بدلے ہوئے رویوں سے بے حد فکر مند تھے۔ میری اور کشو کی خیریت پوچھ کر انہوں نے فون رکھ دیا۔

میرا صبر اب جواب دے رہا تھا۔  نیند میں خلل پہنچتا ہے تو پہنچے اب میں اور برداشت نہیں کر سکتی۔  میرا ہاتھ نیفو کو جگانے کیلئے اس کے شانے کی طرف بڑھ ہی رہے تھے کہ موبائل بج اٹھا۔

میں موبائل لے کر کمرے سے باہر نکل گئی۔  پھانکی کا فون تھا د و دن سے میں بستی نہیں گئی تھی۔

’’ہیلو؟‘‘ میں اپنی تھکی تھکی آواز سن کر خو د ہی چونک اٹھی۔

’’دیدی کیسی ہو؟‘‘ پھانکی کی چہکتی ہوئی آواز سنائی دی۔

’’آپ دو دن سے آئی نہیں۔  ہم سب آپ بہت یا د کر رہے ہیں۔  کرینا آئی ہوئی ہے۔ ‘‘

’’کرینا!کون کرینا؟‘‘  میں نے دماغ پر زور ڈالتے ہوئے کہا۔

’’ارے وہی اپنی بستی کی کرینا کپور۔ اما ں نے آپ کو نہیں بتایا کیا۔  ارے وہی گلابو کی بٹیا۔ ‘‘

’’گلابو کون؟‘‘ سچ مچ میرے لئے یہ سارے نام نئے تھے۔

’’آپ گلابو کو بھی نہیں جانتی۔ ارے دیدی، بستی میں آنا بے کار اگر آپ کرینا اور گلابو کو نہیں جانتیں۔  اما ں بھی اب سٹھیا گئی ہیں۔ ‘‘

 میں نے اپنی آواز کی جھنجھلاہٹ کو دباتے ہوئے کہا۔ ’’ چلو جب بستی آئیں گے تو دونوں سے مل لیں گے۔ ‘‘

چمپا کاکی، رحمو بابا، ستارہ، اور اپنے اٹھنے بیٹھنے کے سارے اڈے جیسے دماغ سے مٹ سے گئے تھے۔  جب خود پر یا اپنوں پر کوئی وقت بھاری آتا ہے تو خدمت خلق کا جذبہ کہیں  پیچھے چھوٹ جاتا ہے اور انسان خود کو اس بھنور سے نکالنے کی کوشش کرنے لگتا ہے۔  سچائی یہ تھی کہ اس وقت مجھے بستی کی باتوں میں کوئی دلچسپی نہیں لگ رہی تھی۔  تبھی میرے کانوں سے پھانکی کی تیز ہنسی ٹکرائی—

’’دیدی گلابو سے ملنے کے لئے تو آپ کو شمشان گھاٹ جانا پڑ ے گا وہیں پر اس کی بھوتہی آتما ٹہل رہی ہو گی۔ ‘‘

’’کیا مطلب؟‘‘ میں سخت بیزار ہو اٹھی۔ کسی طرح بات ختم کر کے نیفو کی طرف دھیان دینا چاہتی تھی۔

’’ ارے گلابو جان کو مرے ہوئے برسوں ہو گئے۔ جب لاڈو دس سال کی تھی تبھی۔ ‘‘

’’اب یہ لاڈو کون ہے؟‘‘ میری آوازسے جھنجھلاہٹ صاف ظاہر ہو رہی تھی۔

’’کرینا ہی تو لاڈو ہے۔  اس کے نام بدلتے رہتے ہیں، ہر بار جب وہ آتی ہے، اس کے نام بدل جاتے ہیں، اس بار آئی ہے تو اپنے کو کرینا کپور بتا رہی ہے مگر بستی والے تو اسے لاڈو ہی کہہ کر بلاتے ہیں۔  کتنا چڑھ جاتی ہے وہ، بلیوں کی طرح سب پر جھپٹتی ہے۔ ‘‘

پھانکی بولے جا رہی تھی اور میں نے موبائل بند کر دیا۔  مجھے اس وقت پھانکی کی کوئی بات اچھی نہیں لگ رہی تھی۔ سوئچ آف کر کے میں نیفو کی طرف پلٹی۔  شاید وہ میری آواز سے جاگ گئی تھی کیوں کہ بستر خالی تھا اور اٹیچ باتھ روم سے پانی گرنے کی آواز آ رہی تھی۔

میں ملازمہ کو آواز لگاتی باورچی خانے کی طرف بڑھی تاکہ ناشتہ دوبارہ گرم کروا سکوں۔

٭

میں نیفو کو اپنے ساتھ لے کر دن بھر گھومتی پھرتی رہی۔  اپنے شہر کے دوچار جو بڑے مال تھے وہاں لے جا کر اس کی شاپنگ کرائی، اس کی پسند کے کپڑے، جوتیاں اور ہلکی پھلکی جویلری دلا کر پی وی آر میں سینیما کا ایوننگ شو دکھایا اور پھر رات کا کھانا باہر سے ہی کھا کر ہم دونوں بہنیں واپس لوٹ آئیں۔  میں پورا دن انتظار کرتی رہی کہ کب نیفو اپنی زبان سے اپنی الجھنیں مجھے بتائے گی اور کب میری اور ابّی کی الجھن کو دور کرے گی۔ مگر اس نے دن بھر زبان نہیں کھولی میں اندر ہی اندر حیران ہو رہی تھی کیوں کہ اس کے مزاج سے واقف تھی۔  وہ کوئی بھی بات بہت دیر تک اپنے اندر نہیں رکھ پاتی تھی۔  بڑی سے بڑی بات کو بھی بہت معصومیت سے کہہ جاتی تھی اس کے لئے باتوں میں کوئی پردہ داری نہیں ہوتی تھی۔  بس بات اس کے دماغ میں آنا چاہئے۔  اب ایسا کیا ہو گیا جس نے نیفو جیسی باتونی لڑکی کو خاموش کر دیا۔  رات میں میں نے اسے الگ کمرے میں سونے سے منع کر دیا۔  میں اسے اپنے ساتھ لے کر اپنے بستر پرسلانا چاہتی تھی تاکہ جب بے حد اپنائیت بھرے لمحے گزر رہے ہوں تو میں جھٹ سے اس سے اس کی پریشانی پوچھ سکوں۔ ہلکے نیلے رنگ کا نائٹ بلب جلا کر ہم دونوں بستر پر آ گئے۔  کچھ دیر میں اس کے بولنے کا انتظار کرتی رہی میں نے دیکھا کہ وہ بڑی بے چینی سے کروٹیں بدل رہی ہے۔

’’کیا با ت ہے نیفو، نیند نہیں آ رہی ہے؟‘‘

’’نہیں اپّی! ساری ساری رات پلکوں پر کٹ جاتی ہے مگر نیند مجھ سے روٹھی رہتی ہے۔ ‘‘

اس سے پہلے کہ میں اس سے کچھ کہہ پاتی وہ بستر چھوڑ کر اٹھ کھڑی ہوئی اور بغیر تیز لائٹ جلائے ٹی وی آن کر کے کرسی پر بیٹھ گئی۔

میرا صبر جواب دے گیا تھا میں جھٹکے سے بستر سے اٹھ بیٹھی۔  بہت ہو چکا انتظار۔  اب آر پار کی بات کرنی ہے۔  میں نے لائٹ آن کر دی۔

’’اپّی رہنے دو، تیز روشنی آنکھوں کو چبھتی ہے۔ ‘‘

’’تمہیں روشنی کب سے بری لگنے لگی۔  تم تو سوتے وقت بھی کمرے کی تیز لائٹ جلا کر سوتی تھی۔ ‘‘

وہ چپ رہی۔ میں نے بیحد سنجیدہ لہجے میں کہا۔

’’نیفو!  اب مجھ سے میرے صبر کا امتحان مت لو۔ دو ٹوک بات کرو۔ آخر تمہیں پریشانی کیا ہے۔ تم اتنی بدلی بدلی سی کیوں ہو؟میری پرانی نیفو کہاں کھو گئی ہے۔ مجھے بتاؤ۔  تمہاری بہن ہی نہیں میں تمہاری ماں بھی ہوں میں نے تمہیں اپنی ننھی گودی میں اس وقت پالا ہے جب میں خود بچی تھی۔  میں ڈھنگ سے نہا کر اپنے بالوں کو صاف نہیں کر پاتی تھی مگر تمہیں نہلاتے وقت نہ جانے کہاں سے میری اندر اتنی سمجھداری آ جاتی تھی کہ میں نے تمہاری ناک میں کبھی بھی پانی نہیں چڑھنے دیا۔  فریدن بوا مجھے دیکھ کر حیران ہوتیں کہ میں نے کہاں سے نوزائیدہ بچے کو نہلانا سیکھا۔ فریدن بوا کے اوپر گھر کی اتنی بڑی ذمہ داری تھی کہ ان کے پاس وقت ہی نہیں رہتا تھا کہ وہ ننھی بچی کی دیکھ بھال کر پاتیں۔  تم واقعی میرے لئے ننھی پری تھیں اور آج بھی ہو۔  میں تمھیں کسی پریشانی میں گرفتار نہیں دیکھ سکتی۔  بولو نیفو! بولو، سچ بولو اور سب کچھ کہو تاکہ میں تمہاری الجھنوں کا کوئی حل نکال سکوں۔ ‘‘

میں اتنا کچھ کہہ کر اسے جذباتی طور پر بلیک میل کر رہی تھی۔  مگر اس کے ہونٹ کھلوانے کے لئے میرے سامنے کوئی راستہ نہیں تھا۔  میں نے نگاہ اس پر ٹکا دی اور غور سے دیکھنے لگی۔ اس کے چہرے سے جیسے خون کا ایک ایک قطرہ کسی نے نچوڑ لیا ہو۔  آنکھیں بالکل بجھی بجھی اور وہ خود اجڑی ہوئی لگ رہی تھیں۔ اچانک وہ ننھی پری مجھے ویرانے میں بھٹکتی اس پیکر کی طرح لگی جس کا جسم اس کی روح سے جدا ہو گیا ہو۔  میں نے اس کا چہرہ اپنی دونوں ہتھیلیوں کی گرفت میں لے لیا-

’’ بول ، میری رانی بول۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  اور پھر میرا وجود خلا میں تحلیل ہوتا جا رہا تھا۔  زمین آسمان گھوم رہے تھے۔  میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا رہا تھا۔  اس کی آواز مجھے کسی گھاٹی کی گہرائی سے آتی ہوئی محسو س ہو رہی تھی۔  میری آنکھیں جھپنے لگی تھیں۔ مجھ پر غشی سی طاری ہونے لگی۔

’’ اپی‘‘  ایک نسوانی چیخ میری سماعت سے ٹکرائی۔  لمحے بھر کے لئے میں ہوش میں آئی پھر مجھے لگا کہ سینکڑوں میل دور کوئی زور زور سے ماتم کر رہا ہے۔  چیخ چیخ کر رو رہا ہے۔  مجھے آوازیں دے رہا ہے اور پھر مجھے کچھ بھی یاد نہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں حواس کھو چکی تھی۔

پانی کی چھینٹوں سے جب مجھے ہوش آیا تو میں نے دیکھا کہ گڈو، ملازمہ، ایک ڈاکٹر اور روتی ہوئی نیفو میرے ارد گرد کھڑے تھے۔  سب کے چہرے پر گہری فکر تھی۔  ڈاکٹر میر ے قریب رکھی کرسی پر بیٹھا میری کلائی اپنے ہاتھ میں لئے نبض دیکھ رہا تھا۔  ایک ساتھ کئی آوازیں اٹھیں -’’ہوش میں آیئے، ہوش میں آیئے‘‘

میں نے گھڑی کی طرف نگاہ اٹھائی۔  رات کے ڈیڑھ بج رہے تھے۔  اف۔ ۔ ۔  کیا میں ایک گھنٹے سے زیادہ بے ہوش رہی۔  میں نے بستر سے اٹھنا چاہا مگر جیسے جسم میں جان ہی نہیں رہ گئی تھی۔ ملازمہ اور نیفو نے مجھے سہارا د ے کر اٹھا کر بیٹھایا۔  گڈو نے ایک گلاس پانی لا کر مجھے دیا۔ میں حیرانی سے اپنے چاروں طرف ایسے دیکھ رہی تھی جیسے میں کسی اجنبی ماحول میں آ گئی ہوں۔

ڈاکٹر نے ایک انجکشن میری بانہہ میں لگا یا۔  اس کا کہنا تھا کہ میں کسی بڑے صدمے کی شکار ہو کر اپنا ہوش کھو بیٹھی تھی۔  گڈو سامنے کے سنہرے فریم میں سجی کشو کی تصویر کو دیکھ رہا تھا۔  اس کی نگاہ میں کشو ہی میرے صدمے کی وجہ تھا۔ ملازمہ دن بھر کی تھکان کو میری بیہوشی کی وجہ سمجھ رہی تھی مگر دو آنکھیں ایسی بھی تھیں جو نادم تھیں۔  شرمندہ تھیں، بار بار بھیگتی ہوئی مجھ سے جیسے معافی مانگ رہی ہوں۔

میں چپ پڑی رہی۔ کسی سے بات نہیں کرنا چاہتی تھی۔ میں چپ چاپ لیٹنا چاہتی تھی۔ بغیر کچھ سوچے خلا میں بھٹکنا چاہتی تھی۔ میں اپنے آ پ کو، اپنے گھر کو، اپنے گھر کے اپنوں کو بھی ذہن سے جھٹک کر بند آنکھوں سے بستر پر پڑی رہنا چاہتی تھی۔

ملازمہ اور گڈو میری ایسی حالت کو دیکھ کر کمرے سے باہر نکل گئے مگر نیفو میرے قریب، میری بیڈ کے کونے پر سرجھکائے خاموش بیٹھی رہی۔

’’نیفو پلیز مجھے تنہا چھوڑ دو اور تم دوسرے کمرے میں جا کر لیٹ جاؤ۔ ‘‘

ہمیشہ اپنی بات منوانے والی نیفو سر جھکائے کمرے سے باہر نکل گئی۔  میں ہمت کر کے اٹھی۔ دروازے میں چٹخنی لگائی۔  لائٹ بند کی اور بستر پر گر کر ڈھیر ہو گئی۔ پھر مجھ پر جیسے رونے کا دورہ پڑ گیا۔  میں اپنی چیخوں کو تکیے میں دبا کر پھوٹ پھوٹ کر روتی رہی۔ مجھے چھوٹی امی بے تحاشہ یاد آ رہی تھیں۔ حالانکہ میں ان کی موت پربھی اتنا نہیں روئی تھی۔ مجھے وہ کبھی اچھی نہیں لگیں کیوں کہ انہوں نے ہمارے پیارے ابّی پر قبضہ جما لیا تھا۔ میں جو ہمیشہ ابّی کے ساتھ سوتی تھی، ابّی کے ساتھ کھاتی پیتی تھی، چھوٹی امی کے آتے ہی بڑی ہو گئی تھی۔  ایک سال میں فردوس بھی دنیا میں آ گئی اور رہی سہی کسر پوری ہو گئی۔ کسی کے پاس میرے لئے وقت نہیں ہوتا۔ ہر کھلونا میرے ہاتھ سے لے کر فردوس کو پکڑا دیا جاتا کیوں کہ وہ چھوٹی تھی اور چھوٹے بچے ضدی ہوتے ہیں۔ میں نے تو کبھی کسی چیز کے لئے ضد کی ہی نہیں، اس وقت بھی نہیں جب میں چھوٹی تھی، لاشعوری طور پر مجھے فردوس سے چڑ ہونے لگی، چھوٹی امّی مجھے اچھی لگتی نہیں تھیں۔ ابّی کا پیار اور توجہ دونوں فردوس نے مجھ سے چھین لیا تھا۔ میں نے سہم کر کمرے کے کنارے ہو کر ٹیبل چیئر کا ساتھ پکڑ لیا۔ کتابیں میری دوست بن گئیں۔  اس بہانے وقت بھی گزرتا رہا اور میں چھوٹی امّی کے سونپے ہوئے کاموں سے بھی بچی رہتی۔

٭

چھوٹی امّی ابّی سے کافی چھوٹی اور مجھ سے صرف پندرہ سال بڑی تھیں۔  غریب گھر کی اور رشتے داری میں تھیں۔  ابّی قد کاٹھی سے اچھے تھے۔  دولت تھی، رتبہ تھا، شان و شوکت اور کارِ خیر کرنے کا  جذبہ بھی۔ مگر چھوٹی امّی کی عقل کے آگے ابی بھی جیسے گھٹنے ٹیکے ہوئے تھے۔  گھر کا پتہ بھی ہلتا تو چھوٹی امّی کے حکم سے۔  ان کی مرضی کے بغیر ابّی ایک قدم آگے نہیں بڑھ سکتے تھے میری اپنی ماں مر چکی تھیں مگر چھوٹی امّی کے اندر ہمیشہ سوتیا ڈاہ بنی رہتی۔  میں ان کے پیٹ کی جنی نہیں تھی بلکہ ابّی کی سونپی وہ ذمہ داری تھی جسے انہوں نے پہلی رات کو ہی ان کے سپرد کر دیا تھا۔  یہی بات چھوٹی امّی کو ناگوار گزری کہ جب پہلی رات میا ں بیوی پیار محبت کی باتیں کرتے ہیں تب انھوں نے گیارہ سال کی ایک بچی کا ہاتھ ان کے حنائی ہاتھوں میں پکڑا دیا تھا کہ دیکھو میری اس ننھی کلی کا خیال رکھنا، یہ میرے دل کا ٹکڑا ہے۔  میری آنکھوں کا نو ر اور جی کا قرار ہے۔

میرے سامنے کتنی بار ابّی نے چھوٹی امّی سے اس بات کی معافی مانگی تھی کہ انہوں نے غلط موقع پر سب کچھ کہا۔  بہرحال، ابّی کو معافی مل گئی مگر مجھے معاف نہیں کیا گیا۔  میں ان کی نگاہ میں ہمیشہ قصوروار رہی۔ میں ان کے ساتھ اپنی اس غلطی کی سزا بھگت رہی تھی جسے میں نے نہیں کیا تھا۔  وقت گزرتا رہا اور میں شعوری طور پر بالغ ہو کر جوانی کی دہلیز پر دستک دینے لگی۔  چھوٹی امّی کے لئے میں بہت بڑ ا بوجھ تھی اور وہ جلد سے جلد اس ذمہ داری سے سبکدوش ہو جانا چاہتی تھیں۔ انہوں نے ابّی کو سمجھایا کہ جوان لڑکی کوئی اونچ نیچ کر بیٹھے، خاندان کی ناک کٹ جائے اس سے پہلے ہی اسے اپنے شوہر کے گھر رخصت کر دینا چاہئے۔

کاشف اصغر نانی کے بعد اب چھوٹی امّی کی بھی پسند بن چکے تھے۔  کیوں کہ کاشف  کے پاس بے انتہا دولت تھی اور اگر دولت ہے تو دنیا کا ہر سکھ خریدا جا سکتا ہے، ایسا چھوٹی امّی کا ماننا تھا شاید اسی لئے انھوں نے ابّی سے شادی کرنے کی حامی بھری تھی۔ آخر کار چھوٹی امّی کی مرضی کے آگے ابّی نے گھٹنے ٹیک دئے اور پھر ابی کو نانی کی پسند کا بھی خیال رکھنا تھا۔  حالانکہ اس وقت نانی نے کہا تھا کہ میری نواسی کے حق میں جو بہتر ہو وہ فیصلہ لیا جائے۔  سب نے کشو کی دولت دیکھی اور میری مرضی کے خلاف پڑھائی بیچ میں ہی چھڑوا دی گئی۔ کشو کے ساتھ پہلی رات ہی میں نے سمجھ لیا کہ دنیا میری فنا ہو چکی ہے۔  میں قربان گاہ پر چڑھائی جا چکی ہوں۔  پہلی رات ہی کشو کا وہ سچ میرے سامنے ظاہر ہو گیا تھا جسے میں کبھی قبول نہیں کر سکتی تھی۔ میرے سامنے دو راستے تھے کشو کے ساتھ بے زبان رہ کر زندگی گزارنا یا پھر اس جہاں کو چھوڑ کر پروا ز کر جانا۔  دوسرا قدم حرام تھا اس لئے پہلے قدم کو اپنایا۔  تب سے آج تک اپنی سانسوں کا ڈھیر لئے اپنے جسم کو کھینچے جا رہی ہوں۔ میرا دل چھوٹی امّی سے کبھی صاف نہ ہو سکا۔  ان کی موت کے بعد بھی نہیں۔  وہ میری شادی اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھ سکی تھیں۔  ان کی برسی کے بعد ہی میرا نکاح ہو پایا۔  میں نے دبی زبان میں اس شادی سے انکار بھی کرنا چاہا تاکہ میری تعلیم پوری ہو سکے۔  مگر ابّی کو چھوٹی امّی مرحومہ کی خواہش کا بھی خیال رکھنا تھا۔  مجھے یاد ہے نیلوفر کی پیدائش کے وقت نہ جانے کو ن سی بیماری انہیں لگی کہ ان کے رحم میں انگور کی طرح گوشت کے گچھے بننے لگے۔ لگاتار بلیڈنگ ہوتی رہتی۔  چھوٹی امّی بسترسے لگ گئیں تھیں انہیں کینسر ہو گیا تھا۔  مجھے ہی ننھی جان کو پالنا پڑا۔  فریدن بوا تو امّی کی خدمت میں لگی رہتیں۔  ابّی غیر ملک لے جا کر چھوٹی امّی کا علاج کرانا چاہتے تھے مگر وقت نے مہلت نہیں دی۔  چھوٹی امّی بھی ابّی کو چھوڑ کر دنیائے فانی سے رخصت ہو گئیں۔   ابّی ایک بار پھر تنہا ہو گئے۔  مگر میرے دل میں میرے اپنوں کے لئے کوئی جگہ باقی نہیں تھی کیوں کہ میں کشو جیسے مرد کے ساتھ ایسی زندگی جی رہی تھی جو کسی جہنم سے کم نہیں تھی، اور یہ زندگی مجھے میرے اپنوں نے سونپی تھی۔ میں نے جب سے ہوش سنبھالا مجھے یہی تعلیم اپنے سے بڑوں کی زبانی سننے کو ملی کہ انسان سے محبت سب پر فرض ہے۔  مجھے بھی مجبور کیا گیا کہ اسے پسند کروں جسے میں نے پہلی ہی رات ناپسند کر دیا تھا۔ کشو کو پسند کرنا اور اس سے محبت کرنا میری مجبوری تھی۔  اور مجبوری کا یہی خیال چھوٹے چھوٹے کیڑوں کی شکل اختیار کر کے میرے دماغ کو اپنی غذا بنائے ہوئے تھا۔ خاموشی اختیار کرنے پر بھی میرے دماغ میں سینکڑوں چیونٹیاں رینگتی کاٹتی سی محسوس ہوتیں۔  کشو کا وجود میرے لئے اذیت کا سبب تھا۔  پھر بھی اس سے کی گئی محبت کی لاش کو مجھے ڈھوتے رہنا تھا۔

آج چھوٹی امّی کو یاد کر کے میرے اتنے آنسو گرے تھے کہ اگر ان کی قبر پر گرتے تو شاید پوری مٹی نم ہو گئی ہوتی۔

 مر کر میں چھوٹی امّی کو کیا منہ دکھاؤں گی آخر تھیں تو وہ میری ابّی کی بیوی نا! کچھ بھی ہو میں انہیں امّی کہہ کر پکارتی تھی۔  اب مجھے اسی لفظ کی عزت رکھنی تھی۔  نیفو کو اپنے دامن میں پناہ دینی چاہئے۔  میرا دماغ تیزی سے سوچنے لگا۔  مجھے کیا کرنا چاہئے——کس طرح کرنا چاہئے——-اور کس کی مدد سے کرنی چاہئے————ارادے کی پختگی ہو تو کچھ بھی لاحاصل اور ناممکن نہیں ہوتا۔  راستہ مجھے صاف نظر آنے لگا تھا۔  بس صبح ہونے کا انتظار تھا۔

فجر کی نماز کے لئے جب میں بستر سے نیچے اتری تو ایک دوسری ہی نازنین بن چکی تھی۔ پختہ خود مختار خود اعتمادی سے بھری، راستے کیسے بھی ہوں مقصد حاصل ہونا چاہئے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ منزل ملنی چاہئے۔  مجھے کسی سے کوئی مشورہ نہیں لینا تھا۔  آگے بڑھنا تھا۔ ۔ ۔ ۔ اور صرف آگے۔

٭٭٭

 

 

۶۔ وفا کی بے وفائی

ورق ورق/ پلٹی زندگی میں / میں تمھیں تلاشتی ہوں / تمھارے نام کی/ پہچان کھوجتی ہوں / ہر ورق بھرا/ اور حاشیے سیاہ ہیں / کیونکہ ان پر/ تمھاری بیوفائی کی / داستانیں ہیں / ان داستانوں میں / لہو کی سیاہی سے / سرخ جوڑے کی/ بوسیدہ کہانیاں ہیں / جو اپنے پھیکے رنگوں سے/ تمھارے نام کی / پہچان کراتی ہیں / وفا کی قسمیں کھا کر/ بیوفائی کراتی ہیں۔ ۔ ۔

محبت کے سفر میں بہت کم ایسا ہوتا ہے جب دونوں ہی ایک راہ ایک منزل کے ہوتے ہیں بیشتر معاملوں میں جسم تو ایک ہو جاتے ہیں مگر ذہن اپنی منزل جدا جدا تلاشتا رہتا ہے۔  ایسے میں ایک کی وفا داری دوسرے کی بے وفائی کو نہ تو اپنے اندر جذب کر پاتی ہے اور نہ اسے جڑ سے اکھاڑ کر پھینک پاتی ہے۔  نتیجے میں ایک طویل رنج اور رشتوں سے بے اعتمادی کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔  یہاں پر عشق کی صداقت بے وفائی کے آگے مجروح ہو جاتی ہے۔

اس وقت میری گاڑی تیزی سے کرشچن کالونی کی طرف بڑھ رہی تھی۔ آج میں نے ڈرائیونگ سیٹ خود سنبھال رکھی تھی۔ گڈو کو گھر پر چھوڑ دیا تھا۔  میں نے خاص کر کے الزبیتھ کو فون سے اپنے آنے کی خبر نہیں دے دی تھی۔  جانتی تھی کہ وہ فوراً وقت کی کمی کا رونا روئیں گی۔ میں یہ سمجھ کر چل رہی تھی کہ اگر اپنے فلیٹ میں وہ نہیں بھی ملیں اور ڈیوٹی پر ہوئیں تو میں سیدھے اسپتال پہنچ جاؤں گی مجھے آج ہی ان سے ملنا تھا۔  کسی بھی صورت میں۔  صبح میں جب تیار ہونے لگی تو نیفو چپ چاپ مجھے دیکھتی رہی۔  اس نے ایک بار بھی مجھ سے نہیں پوچھا کہ میں کہاں جا رہی ہوں ؟  وقت انسان کو کتنا بدل دیتا ہے۔  میں گھر سے ناشتہ کئے بغیر نکلی تھی۔  میری بھوک پیاس سب ختم ہو چکی تھی۔  ہاں عادتاً ایک کپ چائے ضرور پی لی تھی۔  میں نے موبائل اٹھا کر گھر پر فون کیا۔  گڈو نے فون  ریسیوکیا۔

’’نیفو کہاں ہے؟‘‘ میں نے سوال کیا۔

’’جی لان میں بیٹھی ہیں۔ ‘‘

’’اسے موبائل دو۔ ‘‘

کچھ ہی لمحوں میں نیفو کی آواز سنائی دی۔

’’جی اپّی!‘‘

’’دیکھو، میں جلدی میں تم سے کہنا بھول گئی تھی کہ ناشتہ ضرور کر لینا۔  ملازمہ سے جو چیز پسند ہو بتا دینا، وہ تیار کر دے گی۔  گڈو کو بھی ناشتہ دلوا دینا۔ ‘‘

بات ختم کر کے میں نے موبائل سیٹ پر رکھا اور داہنا موڑ کاٹ کر کرشچن کالونی کے گیٹ پر گاڑی لا کر روک دی۔  گارڈ اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔  میں کئی بار آ چکی تھی اس لئے وہ مجھے پہچانتا تھا۔  ہلکا سا سیلوٹ مارکر اس نے رجسٹر اور پین میرے آگے کر دیا۔  میں نے فارمیلٹی ادا کی، رجسٹر کے کالم بھرے اور گاڑی گیٹ کے اندر داخل کر دی۔

 فرسٹ فلور کی سیڑھیاں چڑھنے کے بعد پہلا فلیٹ الزبیتھ کا ہی تھا۔  میں نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ دروازے پر تالا نہیں لگا تھا یعنی وہ اندر موجود تھیں۔  میں نے ڈور بیل بجائی۔  دوسری طرف خاموشی رہی۔

کچھ دیر انتظار کرنے کے بعد میری انگلی دوبارہ ڈور بیل پر گئی۔

تھوڑی ہلچل کے بعد مجھے الزبیتھ کی آواز سنائی دی-

’’کون؟‘‘

’’میں نازنین۔  دروازہ کھو لیئے۔ ‘‘

چند لمحوں میں دروازہ کھل گیا۔  نیند سے بوجھل آنکھیں، بکھرے بال، ڈھیلے ڈھالے شب خوابی کے لباس میں الزبیتھ کا  بھاری جسم عجیب بے ڈھنگ سا لگ رہا تھا۔

’’معاف کیجئے گا۔  میں نے غلط وقت پر آپ کو تکلیف دی۔ ‘‘

’’کوئی بات نہیں اندر آؤ۔  دراصل نائٹ ڈیوٹی کر کے میں صبح چھے بجے گھر لوٹی ہوں اس لئے گہری نیند میں تھی۔‘‘

’’اوہ! میں بہت شرمندہ ہوں۔  آپ کی نیند خراب ہو گئی۔ ‘‘

’’کوئی فرق نہیں پڑتا۔  آج میرا آف ڈے ہے اس لئے دن بھر پڑ کر سونا ہی ہے۔ ‘‘

’’میں آپ کے لئے کافی بنا دوں۔ ‘‘ میں نے اپنی شرمندگی مٹاتے ہوئے کہا۔ کبھی کبھار جب وہ تھکی ہوتی تھیں تو میں انہیں اپنے ہاتھ سے کافی بنا کر دیتی تھی۔ میرے لئے ان کا گھر اجنبی نہیں رہ گیا تھا۔ ۔

’’نہیں پہلے میں نہاؤں گی اس کے بعد کافی پیوں گی۔ ‘‘

الزبیتھ بڑا سا تولیہ کندھے پر ڈال کر باتھ روم میں چلی گئیں اور میں تقریباً ادھ لیٹی سی صوفے پر پڑ گئی۔  ساری رات کی میں بھی جاگی تھی۔ مجھے بھی بیحد تھکان ہو رہی تھی مگر کام بھی تو میرا تھا۔  میں نے آنکھیں بند کر لیں اور کچھ سکینڈ بس یوں ہی پڑی گہری گہری سانسیں لیتی رہی۔  میرا دماغ کچھ بھی سوچنے کے قابل نہیں رہ گیا تھا۔  ساری رات سوچتے سوچتے ہی کاٹی تھی۔ بے خیالی میں میں ادھ مندی آنکھوں سے کمرے کا جائزہ لینے لگی۔  سب چیزیں قرینے سے سیٹ تھیں۔  کمرے میں کم سامان تھا مگر جو بھی تھا وہ اپنی مالکن کی نفاست کو بیان کرتا تھا۔

سرسراتی ہوئی نگاہیں کارنر ٹیبل پر آ کر ٹھہر گئیں۔ وہاں ایک پرانی البم رکھی ہوئی تھی۔ محض وقت گزارنے کے لئے میں اس البم کو اٹھا کر دوباراہ اپنی جگہ آ کر بیٹھ گئی، یہ ان کی فیملی البم تھی۔  پہلے ورق پر ان کی اور ان کے شوہر کی شادی کی فوٹو تھی پھر دونوں کے گھومنے پھرنے کی تصویریں لگی تھیں۔ کچھ آگے جا کر مجھے ایک ننھی بچی کی تصویر ملی، ضرور یہ نینسی ہو گی۔ ایک تصویر پر آ کر میں رکی۔ الزبیتھ کی گود میں ایک بیٹا، ننھی نینسی اپنی ماں کی اسکرٹ پکڑے کھڑی تھی۔  اس تصویر میں ان کے شوہر نہیں تھے۔  شاید دوسرے بچے کی پیدائش کے بعد میاں بیوی میں علیحدگی ہو گئی تھی۔  میں پوری آنکھیں کھول کر ایک تصویر کو دیکھنے لگی۔  نینسی جوان ہو چکی تھی۔ ساتھ میں اس کا بھائی کھڑا تھا۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ کمسن ستارہ ایک نوعمر لڑکے کا ہاتھ تھامے مسکراتی ہوئی کھڑی تھی۔  میرے ذہن میں وہ الزبیتھ کا وہ جملہ گھوم گیا کہ ستارہ کا شوہر پرکاش ان کے بیٹے وولکی کا گہرا دوست تھا۔  میں پوری طرح سے سنبھل کر اپنی جگہ پر بیٹھ گئی۔  اب اس البم میں میری پوری دلچسپی جاگ اٹھی تھی۔  میں ان تصویروں میں وہ کہانیاں پڑھ رہی تھی جو مجھے چمپا کاکی اور پھانکی نہیں سنا سکتی تھیں۔  آگے ستارہ اور پرکاش کی تصویریں ان کی طرح طرح کی پوزوں سے بھری تھیں۔  کہیں ستارہ پرکاش کے کندھے پر سر رکھے تھی۔  کہیں دونوں ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر کسی لمبی سڑک پر دوڑتے دکھائی دے رہے تھے۔  کہیں دونوں کے ہاتھ میں آئیس کریم تھی اور دونوں اپنے حصے کی آئیس کریم ایک دوسرے کو کھلا رہے تھے۔  ستارہ خوبصورت تو نہیں کہی جا سکتی تھی مگر پرکشش ضرور تھی۔  میری حیرت اپنی انتہا پر پہنچ گئی جب میں نے بستی کے لوگوں کو بھی ان تصویروں میں دیکھا۔  تو کیا الزبیتھ بھی کبھی بستی کا حصہ رہی ہیں یا صرف آمد و رفت رہی ہے۔

چمپا کاکی کی جوانی کی تصویر اس میں تھی۔  فوٹو میں وہ کافی صحت مند اور خوش دکھائی دے رہی تھی۔ تیل لگے بالوں کی کس کر کی گئیں دو چوٹیاں جس کو سرخ رنگ کے ربن سے باندھا گیا تھا۔  آنکھوں میں کاجل، ماتھے پر بڑی سی بندیا، ہونٹوں پر گہری لالی۔  پھوہڑ فیشن کی وہ چلتی پھرتی دکان لگ رہی تھی۔  دوسری تصویر میں پھانکی اور ستارہ ایک دوسرے کے شانے پر ہاتھ رکھے نظر آئیں۔  ایک جگہ میں آ کر پھر رک گئی۔  یقیناً یہ رحمت علی تھے۔  سچ پوچھا جائے تو کافی رعب دار شخصیت کے مالک تھے، آج کے رحمو بابا سے بالکل الگ۔  صاف ستھری رنگت، لمبے قد کے، روشن آنکھیں، چوڑی پیشانی اور کاندھے پر سیاہ بالوں کے جھولتے لچھے۔  ان کے بغل میں ایک بھدی سی لڑکی سر پر آنچل ڈالے بے حد شرمائی شرمائی کھڑی تھی۔  یہی کلّن بھی ہوں گی۔  میں نے اندازہ لگایا کیوں کہ دونوں کے کھڑے ہونے کا ڈھنگ میاں بیوی جیسا ہی تھا۔ دونوں نے ایک دوسرے کے ہاتھ پکڑ رکھے تھے، دونوں کی آنکھوں سے ایک دوسرے  کے لئے محبت اور وفاداری جھلک رہی تھی۔ کلّن بی نے گہرے نیلے شلوار دوپٹے پر سفید جالی دار جمپر پہن رکھی تھی۔ ناک میں بڑی سی سفید موتی کی لونگ تھی۔ چوڑے ماتھے کو انھوں نے سر کے آنچل سے ڈھانک رکھا تھا۔

 واہ رے قدرت رحمت علی کا دل آیا بھی تو کس لڑکی پر۔  زیادہ تر تصویریں میں پہچانتی تھی۔  کچھ فوٹو میں مجھے ستارہ اور پرکاش اس ڈھنگ سے دکھائی دیے جس سے مجھے یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگی کہ اب ان دونوں کی شادی ہو چکی ہے۔  وہ کافی خوش نظر آ رہے تھے۔  پورے البم میں صرف ایک فوٹو ایسی تھی جن میں ستارہ اپنے دونوں بچوں کے ساتھ کھڑی تھی اور بجھا بجھا پرکاش بیحد بیماری کی حالت میں ستارہ کے کاندھے کا سہارا لے کر کھڑا تھا۔  یہ فوٹو دیکھ کر ستارہ کی زندگی پر افسوس ہوا۔  میرا خیال تھا یہ ان دنوں کی فوٹو ہو گی جب پرکاش اپنی زندگی کی آخری گھڑیاں گزار رہا ہو گا۔  اس کی کمر اور شانے کافی حد تک جھکے تھے۔  ستارہ پوری طرح ٹوٹی ہوئی نظر آ رہی تھی۔

میں البم کو اب جلدی جلدی پلٹنے لگی تاکہ الزبیتھ کے آنے سے پہلے میں اسے اسی مقام پر رکھ سکوں جہاں سے میں نے اسے اٹھایا تھا۔  باتھ روم سے آتی ہوئی پانی گرنے کی آواز بند ہو گئی تھی۔

البم بند کرتے کرتے آخری ورق پر میری نگاہ آ کر پھر ٹھہر گئی۔  اس میں زیادہ تر بستی کے لوگوں کی تصویریں تھیں۔ ان میں چمپا کاکی اور پھانکی کے علاوہ بہت سے جانے پہچانے چہرے تھے۔  اس تصویر میں ستارہ اور دونوں بچے تو موجود تھے مگر پرکاش نظر نہیں آ رہا تھا۔  ستارہ پوری طرح سے اجڑی ہوئی لگ رہی تھی۔  آنکھوں میں گہری اداسیاں تھیں، چہرہ مرجھایا ہوا۔  بے ترتیب بال کسی سادھوی کی جٹا کی طرح کندھے پر بکھرے ہوئے وہ حسرت و یاس اور غم کی مورت دکھ رہی تھی۔  میں سمجھ گئی کہ پرکاش مر چکا ہے ستارہ کے بغل میں ایک گوری چٹی لمبی چوڑی عورت کھڑی تھی جسے میں نہیں پہچانتی تھی۔  شاید وہ بستی چھوڑ چکی ہو گی۔  اس کا ہاتھ تھامے بغل میں ایک کمسن لڑکی بھی کھڑی تھی۔  کافی حد تک دونوں کی شکلیں ایک دوسرے سے مل رہی تھیں جس سے میں نے اندازہ لگایا کہ یہ ماں بیٹی ہوں گی۔ تصویر میں وہ دونوں کافی خوش حال نظر آ رہی تھیں۔

’’نینسی اور وولکی کو دیکھا تم نے؟‘‘  اچانک ایک آواز نے مجھے چونکا دیا۔  یہ الزبیتھ تھیں جو نہ جانے کب میرے پیچھے آ کر کھڑی ہو گئی تھیں۔  میں نے پلٹ کر دیکھا۔  ایک چھوٹے تولیے میں اپنے بوائے کٹ بال کو سمیٹے انہوں نے سر پر بڑا سا تولیا کا جوڑا باندھ رکھا تھا۔ گھٹنے تک جھولتے تولیے کے گاؤن کی ڈوری انہوں نے کس کر کمر پر باند رکھی تھی۔  آدھا بھیگا آدھا سوکھا ان کا تھلتھلا بدن، جسے وہ خشک کر رہی تھیں۔  ایک ہاتھ میں ٹیلکم پاؤڈر کا ڈبہ لئے وہ مسکراتی ہوئی مجھ سے اپنے بچوں کے بارے میں پوچھ رہی تھیں۔  میں الزبیتھ کو آنٹی کہہ کر مخاطب کر تی تھی۔ میں نے کہا-

’’جی آنٹی میں نے آپ کے دونوں بچوں کو دیکھ لیا۔  مگر آپ کی بہو نظر نہیں آئیں۔ ‘‘

’’بہو اپنی ساری فوٹو البم سے نکال لے گئی۔ ‘‘

 مجھے خیال آیا کہ البم میں کئی جگہ خالی تھی۔

’’مجھے فوٹو گرافری کا بہت شوق ہے نازنین۔  اگر میں نرس نہ بنتی تو کسی فوٹو اسٹوڈیو میں کھڑی ہو کر لوگوں کی تصویر کھینچ رہی ہوتی۔ تم نے ساری تصویریں دیکھ لی ہوں گی۔   دیکھا!پرکاش اور وولکی میں بہت گہری دوستی تھی۔  کرسمس اور نئے سال پر میں کیک اور مٹھائیاں وغیرہ بانٹنے کے لئے بستی جاتی تھی۔  بستی کے کئی لوگ میر ے گھر بھی آتے تھے۔ ‘‘

’’آنٹی پرکاش کو کیا ہو گیا تھا۔ ‘‘

’’بیٹی !پرکاش کو جیتے جی مار ڈالا برکت علی نے۔  وہی رحمت علی کا بیٹا۔  باپ جتنے نیک، شریف تھے اور بیٹا اتنا ہی نالائق اور گھٹیا۔  کلّن بی کے بیجا لاڈ پیار نے برکت علی کو بگاڑ دیا۔  رحمت علی بھی توجہ نہیں دے پائے نتیجہ کتنا خوفناک نکلا۔ ‘‘

میرا تجسس بڑھنے لگا——–’’ آخر دونوں کے درمیان ہوا کیا تھا۔ ‘‘

’’بہت معمولی بات کا بہت بڑا انتقام۔ ‘‘

’’یعنی؟‘‘ میں سیدھی ہو کر بیٹھ گئی۔

’’بہت پرانا قصہ ہے۔  تم بھی بستی آتی جاتی ہو۔  وہاں کے لوگوں کے بارے میں بہت کچھ جان چکی ہو گی۔ ایک بار برکت علی نے ستارہ کے ساتھ کچھ بدتمیزی کی۔  پرکاش نے اس کے منہ پرگھونسا جڑ دیا اور اس کی نکسیر پھوٹ گئی۔  تب ستارہ اور پرکاش کی شادی نہیں ہوئی تھی۔ ‘‘

میں پوری توجہ سے ان کی بات سن رہی تھی۔ الزبیتھ کے چہرے پر دکھ اور افسوس کے گہرے سائے ابھر آئے۔  انہوں نے ایک گہری سانس لی۔

’’کیا برکت علی نے پرکاش کا قتل کر دیا تھا؟‘‘ کافی دیر ایلیزبیتھ خاموش رہیں۔  آنکھیں کہیں دور خلا میں بھٹک رہی تھیں۔  ان کی خاموشی توڑنے کے لئے میں نے یہ بے تکا سا سوال کیا تھا۔ وہ جلدی سے بولیں۔

’’ اگر قتل کر دیتا تو بہت معمولی بات ہوتی۔  ٹھیک ہے دشمنی میں لوگ ایک دوسرے کا قتل کر دیتے ہیں۔  مگر کہتے ہیں نا کہ ایسا بدلہ لوں گا کہ پشتے یاد کریں گی۔  تو برکت علی نے وہی کیا۔ ‘‘

میں چپ بیٹھی ان کی بات سنتی رہی۔

’’ سب کچھ برباد ہو گیا۔  ہنستی کھیلتی لڑکی کی زندگی برباد ہو گئی۔  پرکاش کی موت کے بعد سے میں نے بستی میں جانا چھوڑ دیا۔  مجھے وہاں سب سے نفرت ہو گئی۔  ستارہ مجھے نینسی جیسی پیاری تھی۔ پرکاش کو بھی میں اپنے بیٹے سے کم نہیں سمجھتی تھی۔  محبت میں ناکامی انسان کو کتنے گہرے انتقام کی طرف بڑھا سکتی ہے اس کی جیتی جاگتی مثال ہے۔ ۔ ۔  برکت علی ‘‘

میں نے بیحد سنجیدہ لہجے میں کہا۔

’’برکت علی نے ایسا کیا کیا آنٹی کہ موت سے بھی گہرا انتقام لیا اور اب وہ کہاں ہے؟‘‘

’’نازنین! شیطان اتنی جلدی نہیں مرتا۔  برکت علی اب بھی بمبئی میں آٹو چلا رہا ہے۔ ‘‘

’’پرکاش کے ساتھ اس نے کیا کیا۔ ‘‘

’’چھوڑو! اس چھوٹے سے سوال کا بہت لمبا جواب ہے جب میں فرصت میں رہوں تب آنا، میں پوری کہانی سناؤں گی۔ ‘‘

اچانک مجھے خیال آیا کہ میں تو کسی دوسرے اہم مقصد سے یہاں آئی ہوں۔  میرے چونکنے پر الزبیتھ کو بھی کچھ احساس ہوا—–’’تم کسی کام سے میرے پاس آئی ہو۔ تھوڑی دیر اور بیٹھو، میں بریک فاسٹ لے کر آتی ہوں۔ ‘‘ الزبیتھ کچن میں چلی گئیں اور میں سوچنے لگی، بات کیسے شروع کی جائے۔

٭

 اس وقت میں اور الزبیتھ دونوں بریک فاسٹ کا لطف اٹھا رہے تھے۔  ہا ف بوائل انڈے، کڑک کافی، سنکے ہوئے مکھّن لگے ٹوسٹ اور کچھ مکس ڈرائی فروٹس ایلیزبیتھ کے جسم پر چھڑکے گئے ٹیلکم پاؤڈر کی تیز خوشبو پورے کمرے میں بسی ہوئی تھی۔  چھٹی کا پورا موڈ ان پر چھایا ہوا تھا۔  کھلے گاؤن سے ان کی موٹی جانگھیں صاف نظر آ رہی تھیں جنہیں ڈھکنے کی انہوں نے زحمت نہیں کی۔  گاؤن کی کسی ڈوری کے اوپر ان کی بھاری چھاتی پیٹ تک ڈھلکی ہوئی تھی۔  یقیناً اس وقت انہوں نے برا نہیں پہنی ہوئی تھی۔  وہ میرے ساتھ اتنی بے تکلف ہو چکی تھیں کہ اب انہیں ان باتوں کا خیال نہیں رہتا تھا۔  شرم و حیا دکھانے کی بھی ایک عمر ہوتی ہے اس کے بعد یہ چیزیں بے معنی ہو کر  اپنی کشش کھو دیتی ہیں۔

’’ہاں تو تم کیا کہہ رہی تھیں ؟‘‘ الزبیتھ نے مجھ سے سوال کیا۔  میں پہلو بدلتے ہوئے بولی——’’آنٹی میں ایک بہت ضروری کام سے آئی ہوں۔  میری ایک رشتے دار ہیں ان کی شادی ابھی دو چار مہینے پہلے ہوئی ہے۔  ان کے شوہر گھمانے کے لئے دوبئی لے جانا چاہتے ہیں کیوں کہ وہ جس فرم میں کام کرتے ہیں وہاں فیملی نہیں رکھ سکتے۔  مگر مجبوری یہ ہے کہ ان کی بیوی سے تھوڑی لاپرواہی ہو گئی۔  ان کے شوہر اس حالت میں انہیں لمبے سفر پر نہیں لے جا سکتے۔  اس بیچاری کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنے آپ کو اس وقت خالی کروا لے ورنہ شوہر کے ساتھ سفر نہیں کر پائے گی———۔ ‘‘

’’ا س میں دقت کیا ہے؟ کسی بھی لیڈی ڈاکٹر کے پاس چلی جاؤ! وہ کام کر دے گی۔ ‘‘

میں نے زور دیتے ہوئے کہا—–’’ میں یہ کام آپ سے کروانا چاہتی ہوں۔ ‘‘

’’ارے نہیں میرے پاس کہاں وقت ہے؟‘‘

’’آج تو آپ کی چھٹی ہے۔ ‘‘

’’ہاں ! مگر میں آرام کے موڈ میں ہوں۔ ‘‘

میں سرک کر ان کے قریب آ گئی۔

’’پلیز آنٹی۔ ‘‘

’’دیکھو، میں ایک لیڈی ڈاکٹر کا پتہ بتا دیتی ہوں تم وہاں جا کر میرا نام بتا دینا تمھارا کام ہو جائے گا۔ ‘‘

میں نے پرس کھول کر پانچ ہزار روپئے کی گڈی نکالی اور ان کے ہاتھ پر رکھتے ہوئے بولی-’’آنٹی مجھے آپ کے ہاتھوں پر بھروسہ ہے۔ ‘‘

الزبیتھ روپیوں کی موٹی گڈی دیکھ موم کی طرح پگھل گئیں۔  میں جانتی تھی کہ ان روپیوں کی گرمی میں انہیں اپنی پوتیوں کی خوشیاں نظر آ رہی ہوں گی۔  کرسمس آنے والا ہے بڑھا ہوا خرچ انہیں انکار نہیں کرنے دے گا۔  یہ ساری باتیں میں پہلے سے ہی سوچ کر آئی تھی اور ہوا بھی وہی-

’’کام کب کرنا ہے۔ ‘‘

’’آج ہی کر دیجئے۔ ‘‘ابھی!

وہ حیران ہوئیں -’’ابھی؟‘‘

میں نے ان کی ہتھیلی کو اپنی انگلیوں سے دبا دیا یعنی احساس کرایا کہ میں اجرت سے زیادہ روپیے دے رہی ہوں۔

انہوں نے کہا—–’’ٹھیک ہے، میں آدھے گھنٹے میں ’کامنا نرسنگ ہوم‘ پہنچ رہی ہوں تم اس لیڈی کو لے کر آ جاؤ۔ ‘‘

اتنا سننا تھا کہ جیسے مجھے پر لگ گئے۔  میں فوراً وہاں سے اٹھی اور تیز ڈرائیونگ کرتی ہوئی گھر پہنچی۔  نیفو میرے کمرے میں بیٹھی ٹی وی دیکھ رہی تھی۔  مجھے اتنی عجلت میں دیکھ کر وہ کچھ پریشان ہو گئی مگر بولی کچھ نہیں۔ میں نے جلدی سے اپنی الماری کھولی اور بھاری بھرکم سرخ رنگ کا شلوار کرتا نکالا اور نیفو کی طرف بڑھاتے ہوئے بولی—-’’لو جلدی پکڑو اور تیار ہو کر آؤ۔ ‘‘

’’باجی!‘‘ اس کی آواز تھرتھرائی اور تھرتھرا کر خاموش ہو گئی وہ جب کپڑے بدل کر آئی تو اس کا پورا جسم کانپ رہا تھا۔  اس کی آنکھوں میں ڈھیروں سوال کے ساتھ خوف کی گہری پرچھائی تھی۔  جسم پسینے سے بھیگتا جا رہا تھا۔  میں نے فُل اسپیڈ پر پنکھا چلا دیا تاکہ اس کا پسینا خشک ہو جائے۔  دسمبر کی ٹھنڈک میں وہ پنکھے کی ہوا سے تھر تھر کانپنے لگی۔

 مجھے اپنی بدحواسی کا احساس ہی نہیں تھا کہ میں کیا کرتی جا رہی ہوں۔  دماغ صرف ایک سمت سوچ رہا تھا بغیر وقت ضائع کئے چھٹکارا۔

میں نے جلدی جلدی اس کے چہرے پر ہلکا سا میک اپ کیا۔  اور اسے سر سے پیر تک نہارا۔  اب وہ بالکل نئی شادی شدہ لڑکی معلوم ہو رہی تھی۔ اس کی کلائی میں نے اپنی گرفت میں لیا اور تقریباً کھینچتے ہوئے پورٹکو میں کھڑی اپنی گاڑی کی طرف بڑھ گئی۔  میں نے اس بات پر بھی غور نہیں کیا کہ گڈو اور ملازمہ بیحد حیرانی سے مجھے اور نیفو کو دیکھ رہے ہیں۔  ان کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا اور میں انہیں کچھ سمجھانا نہیں چاہتی تھی۔  کسی کی اتنی ہمت نہیں کی کوئی مجھ سے پوچھ تاچھ یا سوال کر پاتا۔

آدھے گھنٹے کے اندر میری گاڑی کامنا نرسنگ ہوم میں داخل ہو گئی۔  سامنے الیزبیتھ چہرے پر مسکراہٹ لئے کھڑی تھیں۔

تقریباً تین ساڑھے تین گھنٹے بعد جب میں نیفو کو لے کر نکلی تو وہ کمزوری سے نڈھال ہو رہی تھی۔  اس کے قدموں میں لڑکھڑاہٹ تھی۔  چہرا پیلا پڑا ہوا تھا اور آنکھیں سفید کاغذ کی طرح بے نور ہو رہی تھیں، اس کے ہونٹوں پر پپڑیاں پڑی ہوئی تھیں۔  وہ میرا ہاتھ پکڑ کر آہستہ آہستہ گاڑی کی طرف بڑھ رہی تھی۔  الزبیتھ نے اسے کمر سے سہارا دیا ہوا تھا۔ ہم دونوں نے مل کر آہستہ سے  اسے گاڑی کی پچھلی سیٹ پر لٹا دیا۔  رسمی بات چیت کے بعد الزبیتھ کا شکریہ ادا کیا اور گاڑی اسٹارٹ کر دی۔

رات تک نیفو کچھ حد تک بہتر ہو چکی تھی۔  میں ہر ایک گھنٹے پر اسے طاقت دینے والی کچھ نہ کچھ غذا کی چیزیں کھلا رہی تھی۔ تھوڑی تھوڑی دیر پر اسے گلوکوز پانی بھی پلا رہی تھی۔

کھانا کھانے کے بعد جب وہ بستر پر لیٹ گئی تو میں کرسی کھینچ کر اس کے قریب آ گئی۔  آج مجھے وہ ننھی پری نہیں ایک عورت جیسی دکھ رہی تھی۔

نیفو آنکھیں بند کیئے چپ چاپ پڑی گہری سانسی لے رہی تھی۔ شاید وہ ایسا کر کے میرے سوالوں سے بچنا چاہتی تھی مگرمیں جیسے کل رات سے اپنے ہوش میں ہی نہیں تھی۔ کاش! چھوٹی امّی زندہ ہوتیں اور میں ان سے کہہ پاتی کہ آپ ٹھیک کہتی تھیں لڑکیوں کی شادی صحیح عمر پر ہو جانی چاہئے ورنہ خاندان کی عزت خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ ماں باپ کی ناک کٹ جاتی ہے۔ امّی آپ تجربہ کار تھیں اور میں نا تجربہ کار۔

’’اب کیسا محسوس کر رہی ہو نیفو؟‘‘

’’میرے پوچھنے پر نیفو نے مریل سی آواز میں کہا ’’جی ٹھیک ہوں ‘‘

’’میں امّید کرتی ہوں کہ تم مجھ سے جھوٹ نہیں بولو گی۔  یہ بتاؤ کی وہ ہماری مسلم برادری کا تھا یا نہیں۔ ‘‘

نیفو نے پھڑ پھڑا کر آنکھیں کھول دیں۔  آنکھیں آنسوؤں سے لبریز ہو کر سرخ ہو رہی تھیں۔  کنارے سے ایک ساتھ کئی قطرے بہہ کر تکیہ میں جذب ہو گئے۔  میں نے پھر یہ سوال نہیں پوچھا۔ کچھ سچ ایسے ہوتے ہیں جن پر پردے پڑے رہیں تو اچھا ہوتا ہے۔

’’تم نے اپنی یہ باتیں اسے بتائی تھیں یا نہیں۔ ‘‘

وہ آہستہ سے اٹھ کر بستر پر بیٹھ گئی اور مجھے اتنا خیال نہیں رہا کہ ابھی اسے بہت کمزوری ہو گی، اسے دوبارہ بستر پر لٹا دینا چاہئے’’ ہاں بولو تم نے بتایا تھا کہ نہیں۔ ‘‘

 اس نے سر جھکا کر آہستہ سے کہا—–’’جی ہاں ‘‘

’’کیا کہا اس نے؟‘‘ میری آواز میں غصہ جھلکنے لگا۔

نیفو نے آہستہ لہجے میں کہا ’’اس نے جو کہا تھا آپ نے وہی کیا ہے۔ ‘‘

اس کی بات سن کر میں سر جھکا کر کچھ سوچنے لگی۔ پھر آہستہ سے بولی—–’’مگر دونوں میں فرق ہے۔ ادھر فرار تھا، ادھر نجات ہے۔ فرار دھوکا ہے، نجات منزل ہے۔ ‘‘

اتنا کہہ کر نائٹ بلب جلا کر میں کمرے سے باہر نکل گئی۔  نیند میری آنکھوں میں نہیں تھی۔ میں برآمدے میں رکھی اپنی ایزی چیئر پر بیٹھ کر اسے آگے پیچھے ہلکے ہلکے ہلانے لگی۔ بے خیالی میں کیا گیا یہ میرا ایک بے معنیٰ عمل تھا۔

٭٭٭

 

 

۷۔  بے سمت سفر کا حاصل

بے رنگ سے موسم کا/ یہ کیسا پس منظر ہے/ رشتوں کی دراڑوں میں / چڑھتی ہوئی دیمک ہے/ بہکی ہوئی راگیں ہیں / سوئے ہوئے نغمے ہیں / میلی سی گھٹاؤں میں / روتے ہوئے جذبے ہیں / فطرت کی ہواؤں میں / کھوئے ہوئے نالے ہیں / آہوں کے جزیروں میں / الجھی ہوئی راہیں ہیں / کچلے ہوئے لمحوں میں / گھٹتی ہوئی سانسیں ہیں / پھیلی ہوئی راتوں میں / سہمی ہوئی چاہت ہے/ سیلاب کے گھیرے میں / ٹوٹی ہوئی سانسیں ہیں / بہتی ہوئی کشتی میں / بکھرے ہوئے پیکر ہیں۔ ۔ ۔ ۔

معاملہ زندگی کی رفتار کا ہو یا حوصلوں کی اڑان کا وقت سے سمت کا تعین کر لینا لازمی ہوتا ہے۔  کیونکہ پرواز میں سمت کی بے راہ روی موت کی علامت بن جاتی ہے ضروری نہیں کہ موت کے معنی جسم کا ابدی نیند میں چلے جانا ہو۔  اکثر ایسی موتیں بھی آتی ہیں جب جسم جاگتا رہتا ہے مگر فکر کے ہر گوشے غفلت میں ڈوب جاتے ہیں۔  ایسے لمحے عورت کی زندگی میں آنا بہت عام ہوتا ہے۔  عورت کے ذہنی تلاطم کو اس مقام تک پہنچانے میں مرد ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔

میری ننھی پری نیفو بھی ان دنوں سمت کی بے راہ روی کا شکار تھی۔  نیفو کو میرے پاس آئے ہوئے ایک ہفتہ سے زیادہ ہو چکا تھا۔  اس درمیان ہم سب کا حال چال لینے کے لئے دو بار ابّی کا فون آیا۔ ۔  نیفو کافی بہتر ہو چکی تھی۔  اس کے چہرے کی شادابی آہستہ آہستہ واپس لوٹ رہی تھی۔  آنکھوں میں چمک ابھی اتنی تو نہیں لوٹی تھی مگر اب وہ پہلے جیسی بے نور بھی نہیں رہ گئی تھی۔   میں اس کی ذہنی اور جسمانی صحت کا پورا خیال رکھ رہی تھی۔  نتیجہ بھی اچھا نکل رہا تھا۔  کشو کا فون آیا تھا۔  اس نے ایک بڑی رقم میرے نام بھیجی تھی۔  اسی کی جانکاری لے رہا تھا۔  میں نے اس سے نیفو کی بات چیت بھی کروا دی تھی۔  سالی جیجو میں کافی پٹتی بھی تھی۔  کشو کا میرے ساتھ رویہ جیسا بھی ہو مگر میرے گھر والوں کے ساتھ کوئی غلط برتاؤ نہیں کرتا تھا۔ چھوٹی امّی کی وجہ سے نیفو کے ساتھ اس کا برتاؤ کافی اچھا رہتا تھا اور وہ اپنے ملک آنے والوں کے ہاتھ اکثر تحفے تحائف بھی بھیجتا رہتا تھا۔

ہم دونوں بہنیں لان میں ٹہلتے ہوئے صبح کی نرم دھوپ کا لطف اٹھا رہے تھے تبھی اپنے کواٹر کی طرف سے گڈو آتا ہوا دکھائی دیا۔  وہ میرے قریب آ کر رک گیا۔  اس کے چہرے پر پریشانی کے آثار تھے۔  میں نے پوچھا—

’’کیا ہوا گڈو طبیعت تو ٹھیک ہے؟‘‘

’’باجی میری طبیعت تو ٹھیک ہے مگر امّا کو سردی بخار ہو گیا ہے۔  کھانسی بڑھ گئی ہے مجھ سے بات تک نہیں کر پا رہی تھیں۔ ‘‘

’’اوہ تب تو ابّی کو کھانے پینے کی بہت پریشانی ہو رہی ہو گی۔ ‘‘

بیساختہ میری زبان سے نکلا اور میں خود ہی شرمندہ ہو گئی۔  انسان اپنے غرض کے آگے کتنا اندھا ہو جاتا ہے۔

’’باجی میں دو تین دن کی چھٹی لینا چاہتا ہوں۔  امّا کو دیکھ آؤں۔ ‘‘

’’ہاں ہاں کیوں نہیں۔  ضرور جاؤ۔  بوڑھی ماں کو بیٹے کا ہی سہارا رہتا ہے۔ ‘‘ میں نے جلدی سے اپنی ہی کہی بات سنبھالی۔

نیفو کو واپس بھیجنے کا دل تو نہیں کر رہا تھا مگر حالات ایسے بن  گئے تھے کہ میرا بھیجنا ضروری تھا۔ میں جانتی تھی کہ فردوس میں اتنا بوتا نہیں کی وہ دو گھروں کی ذمہ داری سنبھال سکے۔

بڑا کنبہ، تین بچے، شوہر اور پھر کام میں وہ خود بھی تھوڑی کاہل تھی۔ ابّی کی طبیعت کو دیکھتے ہوئے ضروری تھا کہ میں گڈو کے ساتھ میں نیفو کو بھی بھیج دوں۔

میں نے دونوں کے رزرویشن کے روپئے گڈو کو پکڑائے  اور اوپری  خرچ کے لئے نوٹوں کی ایک گڈی الگ سے پکڑا دی۔  گڈو چلا گیا۔

دوسرے دن کا رزرویشن ملا۔  آج پورا دن نیفو کے ساتھ شاپنگ کرتے، اس کی پسند کی چیزیں اسے دلاتے، ابّی اور فریدن بوا کے لئے ان کی ضرورت کا سامان لیتے ہوئے گزر گیا۔ نیفو آتے وقت ایک اٹیچی لے آئی تھی اور واپسی میں دو اٹیچیاں اس کے ساتھ تھیں۔

دوسرے دن گاڑی پران دونوں کو بٹھا کر، رینگتی ٹرین کو دو ر ہوتے ہوئے دیکھتی رہی اور ہاتھ اٹھا کر خدا حافظ کہہ کر لوٹ آئی۔

واپس گھر آ کر جب لیٹی تو لگا کہ مہینوں کی تھکی ہوئی ہوں۔  میں لیٹی توسستانے کے لئے تھی مگر کب گہری نیند میں چلی گئی پتا ہی نہیں چلا۔  موبائل فون کی رنگ سے آنکھ کھلی۔ میں نے ہاتھ بڑھا کر بیڈ کے کونے میں جڑے چھوٹے سے اسٹول پر سے موبائل اٹھایا۔ ابّی کا فون تھا۔ میں جلدی سے اٹھ کر بیٹھ گئی۔

’’ہاں ابّی! السلام علیکم۔  کیسے ہیں آپ!‘‘

’’وعلیکم السلام  بیٹی! فریدن کے بیمار پڑنے سے تھوڑی دقت کھانے پینے میں اٹھانی پڑ رہی ہے۔ ‘‘

’’جی ابّی ! مجھے معلوم ہوا کہ بوا بیمار پڑ گئی ہیں۔  اب ان سے اتنا کام نہیں ہوتا۔ ‘‘

’’ہاں بیٹی! پوری جوانی تو اس عورت نے ہمارے کنبے کی خدمت کرتے ہوئے کاٹ دی۔ ‘‘

’’ابّی آپ پریشان مت ہوئیے۔  میں نے گڈو اور نیفو کو آج ٹرین پر بیٹھا دیا ہے۔  انشاء اللہ وقت پر خیریت سے پہنچ جائیں گے۔ ‘‘

’’ٹھیک ہے بیٹی جیتی رہو۔ ‘‘

’’ابّی آپ جب فرصت میں ہوں تو میں آپ سے ضروری بات کرنا چاہتی ہوں۔ ‘‘

’’اپنے پاس اب کرنے کے لئے رہتا ہی کیا ہے بیٹی! پھر بچوں کی لئے کیا فرصت نکالنا۔  ان کی ہر بات کے لئے ہر کام کے لئے میں فرصت میں ہوں۔ بولو کیا کہنا چاہتی ہو۔ ‘‘

میں سیدھے اپنے مدے پر آ گئی——’’ابّی! نیفو ہم سب کی آخری ذمہ داری ہے۔  میں چاہتی ہوں کہ اس کے فرض سے بھی جتنی جلدی ہو آپ سبکدوش ہو جائیں۔ ‘‘

’’بیٹی اس سے بڑی بات میرے لئے اور کیا ہو گی۔  میں بھی نیفو کے فرض سے بری ہو کر تیسرا حج کر کے اپنے پیارے نبی کا مہمان بننا چاہتا ہوں۔  یہ میری آخری آرزو  ہے جب اللہ پاک قبول کر لے۔ ‘‘

’’انشاء اللہ یہ دعا بھی آپ کی ضرور قبول ہو گی مگر یہ بتائیے نیفو کے لئے کیا آپ نے کوئی لڑکا دیکھا ہے۔ ‘‘

’’پچاسی سال کا بوڑھا میں لڑکا ڈھونڈنے کہاں جاؤں گا۔  خاندان میں کوئی لڑکا اس کی عمر کا بچا ہی نہیں۔  یہ ذمہ داری تمہیں اور کاشف کو ہی ادا کرنی ہے۔  فردوس سے میں امّید نہیں رکھتا۔  اس بیچاری پر تو پہلے سے ہی بہت بوجھ ہے۔ ‘‘

’’ٹھیک ہے ابّی۔  میں اس کام کو جلد سے جلد پورا کرنا چاہوں گی۔ ‘‘

چند بات چیت کے بعد فون کٹ گیا اور میں آگے کا پلان سوچنے لگی۔  کشو کی طرف سے مجھے کوئی پریشانی نہیں تھی۔  میں جانتی تھی وہ چھوٹی امّی سے بہت محبت کرتا تھا۔  ہمارا نانی ہال، دادی ہال ایک ہی تھا۔  رشتے داری کافی وسیع تھی۔  چھوٹی امی رشتے میں اس کی خالہ لگتی تھیں۔  نیفو کو وہ سالی سے زیادہ اپنی بہن سمجھتا تھا۔  نیفو کے لئے وہ دور رہ کر بھی بہتر رشتہ تلاش کر سکتا تھا۔  میں پوری طرح سے مطمئن ہو گئی کہ جیسے ہی کشو کا فون آئے گا، میں اس مسئلے پر اس سے بات کروں گی۔

میں بستر چھوڑ کر اٹھ گئی۔  میرا دماغ آگے کی پلاننگ کر رہا تھا۔  میں نے باورچی خانے کا رخ کیا۔  کھٹر  پٹر کی آواز بتا رہی تھی کی ملازمہ آ چکی ہے اور رات کے کھانے کی تیاری میں لگی ہے۔  کیا پکنا ہے یہ بتانے کے لئے میں باورچی خانے میں داخل ہوئی۔

٭

میں نے رسٹ واچ پر نظر ڈالی رات کے نو بج رہے تھے۔  میں رحمو بابا کے چبوترے سے اٹھ کھڑی ہوئی۔  یہاں تو میں پندرہ بیس منٹ پہلے ہی آئی تھی مگر بستی میں دوپہر کا کھانا کھا کر داخل ہوئی تھی۔  شاید اس وقت ڈھائی تین بجے کا وقت ہو گا۔  بستی کے قریب ہی مجھے پھانکی کہیں جاتی ہوئی نظر آئی۔  چہرا کچھ پریشان لگ رہا تھا اس لئے اس کے قریب میں نے گاڑی رکوا دی۔

’’کیا ہوا پھانکی؟ کہاں جا رہی ہو۔ ‘‘

اس نے مرجھائی مسکراہٹ سے ’نمستے دیدی‘ کہہ کر میرے سوال کا جواب دیا-

’’امّا کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔  اس کی دوائی لینے جا رہی ہوں۔ ‘‘

’’کیا ہوا چمپا کاکی کو۔ ‘‘

’’یہی جوڑی بخار جڑے رہتا ہے۔  دو تین دن سے گھٹنوں کے درد سے چل نہیں پا رہی تھیں۔  جھگی میں ہی پڑی ہیں۔ ‘‘

’’مگر یہاں کوئی میڈیکل شاپ تو ہے نہیں دوائیں کہاں سے لو گی۔ ‘‘

’’یہ اپنا راشن والا ہے نہ، بستی والوں کے لئے دوائیں رکھتا ہے۔ ‘‘

’’میں نے کچھ جھجھکتے ہوئے کہا—–’’راشن والا  ڈاکٹر تھوڑی ہے۔ ‘‘

’’مگر دیدی راکیش بھیا بستی والوں کی ساری بیماریاں جانتے ہیں کسے بار بار کھانسی ہوتی ہے، کسے گھٹنے میں درد رہتا ہے، کس کی چھاتی دکھتی رہتی ہے، کس کے پھیپڑے خراب ہیں —–‘‘

’’اچھا اچھا بس! راشن والا نہ ہوا کوئی نجومی، کوئی افلاطون ڈاکٹر بن گیا ہو؟‘‘ میری آواز میں جھنجلاہٹ تھی۔  مگر بستی والوں کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ انہیں اتنی حس نہیں ہوتی کی یہ سمجھ سکیں کی کون ان میں دلچسپی لے رہا ہے اور کون جلدی سے بات پوری کر کے آگے بڑھ جانا چاہتا ہے۔  وہ تو اپنی ٹر  ٹر تب تک کرتے رہیں گے جب تک آپ اپنی زبان کھول کر  انہیں ڈانٹ نہ دیں۔  پھانکی بھی بغیر میرے موڈ کو سمجھے بولتی ہی جا رہی تھی-’’ یہ اپنے راکیش بھیا سب کا حال لے کر پھر ڈاکٹر سے پوچھ پوچھ کر دوائیں خرید کر رکھتے ہیں، ہاں ایک دو روپئے وہ زیادہ لیتے ہیں مگر ہمیں بھاگ دوڑ بھی تو نہیں کرنی پڑتی اس لئے اکھرتا نہیں ہے۔  آگے پیچھے روپیہ چکتا کر دیتے ہیں۔  ابھی بھی دیکھئے نہ، میں خالی ہاتھ جا رہی ہوں۔ ‘‘

 اس نے دونوں ہتھیلیاں کھول کر میرے سامنے کر دیں۔ میں اس کی منشاء سمجھ گئی۔  وہ پیسے مانگ رہی تھی۔  میں نے سو کا نوٹ اس کی کھلی ہتھیلی پر رکھ دیا اور گاڑی آگے بڑھوا کر برگد کی چھاؤں میں رکوا دی۔ رحمو بابا تسبیح کے دانوں پر انگلیاں پھیر رہے تھے۔  میرے سلام کرنے سے پہلے ہی انہوں نے اپنا ایک ہاتھ آشیرواد ی انداز میں  اوپر اٹھا دیا۔  مجھے ہنسی آ گئی۔  بابا بھول جاتے ہیں کہ کس کے سر پر ہاتھ رکھ کر وہ دعائیں دیتے ہیں اور کس کو دیکھ کر وہ آشرواد کے لئے ہاتھ اوپر اٹھا دیتے ہیں۔  میں نے ہنسی ہونٹوں کے درمیان دبا لی اور گڈو کے ہاتھ سے سیب کا پیکیٹ لے کر رحمو بابا کے قریب رکھ دیا۔  رحمو بابا نے جھٹ اپنا ہاتھ میرے سر پر رکھ دیا اور آنکھیں بند کر کے پھونک مارنے لگے۔  پھونک کے ساتھ آتی بیڑی کی  باسی مہک مجھے بہت ناگوار گزری میں آہستہ سے سیدھی کھڑی ہو گئی اور آگے بڑھ گئی۔  سب سے پہلے مجھے چمپا کاکی کی خیریت معلوم کرنی چاہئے۔  میں سیدھے ان کی جھگی میں اپنے سر کو تھوڑا جھکا کر داخل ہونے لگی۔ کیوں کہ بستی کے کسی گھر میں آپ سر تان کر داخل نہیں ہو سکتے تھے۔ کہیں سر جھکانا پڑتا تھا کہیں پر پیٹھ۔  دروازے یا پھر جھگی کی اوٹ کی اونچائی اتنی کم ہوتی تھی کی وہاں تن کر نہیں چلا جا سکتا تھا اچانک میرے نتھنوں سے پاؤڈر اور سستے پرفیوم کی تیز مہک ٹکرائی۔  اس سے پہلے کہ میں کچھ سمجھ پاتی جھگی سے باہر آتی کوئی لڑکی مجھ سے ٹکرائی میں اس اچانک ہوئی ٹکراؤ کے لئے تیار نہیں تھی، اگر اس نے تیزی سے مجھے پکڑ نہ لیا ہوتا تو یقیناً میں گر جاتی۔ دل ہی دل میں میں نے اسے اس بیہودگی کے لئے ڈھیروں گالیاں دیں اور جلتی ہوئی نگاہیں اس کی طرف اٹھائیں انیس بیس سال کی ایک جوان لڑکی تھی۔  ٹائٹ چوڑی دار، کسی جمپر ناک میں چھوٹی سی جدید انداز کی نتھنی ڈالے، چہرے پر زلفوں کے کئی لچھے لٹکائے، کان میں بڑے جھمکے اور کاجل، لپسٹک، فیس پاؤڈر سے لیس وہ میری طرف جانی پہچانی نگاہوں سے دیکھ رہی تھی۔

’’نمستے میڈم۔ ‘‘ بستی میں سب مجھے دیدی کہتے ہیں یہ پہلی لڑکی نکلی جو مجھے میڈم کہہ رہی تھی۔ ’’دیکھ کر آہستہ چلا کرو۔ ‘‘

’’سوری میڈم۔  چمپا چاچی کے لئے کاڑھا لینے جا رہی تھی۔  تھوڑا جلدی میں تھی۔  معاف کیجئے۔ ‘‘

میں نے غور سے اس کے چہرے کی طرف دیکھا، سر سے پاؤں تک ایک گہری نگاہ ڈالی۔  چہرا کافی پہچانا سا لگ رہا تھا۔  کچھ دیر دماغ پر زور ڈالنے کے بعد یاد آ گیا کہ اسی طرح کا  ملتا جلتا چہرا میں نے الزبیتھ کے البم میں دیکھا تھا۔  یہ لڑکی مجھے بستی والوں سے جدا دکھائی دے رہی تھی۔ بولنے میں بھی اور رہن سہن میں بھی۔ کچھ حد تک پڑھی لکھی مگر مجموعی طور پر پھوہڑ دکھائی دے رہی تھی۔

’’کیا نام ہے تمہارا۔ ‘‘ میری آواز میں وہی چڑ تھی۔  ابھی میں اپنے لڑکھڑانے کی توہین بھولی نہیں تھی۔  بات چیت کے بعد بھی میرے دل میں اس کی طرف سے کوئی نرمی نہیں آئی تھی۔

’’جی میڈم! میرانام کرینا ہے۔ ‘‘

لمحے بھر میں میرے دماغ میں پھانکی کی کہی ہوئی باتیں کوند گئیں —-کرینا لوٹ آئی ہے۔  وہی اپنی بستی کی کرینا کپور یعنی لاڈو۔  گلابو کی بیٹی۔

’’اچھا تو تم کرینا ہو!‘‘ میں نے اس پر اوپر سے نیچے تک نگاہ دوڑائی۔  اس کی گردن تھوڑی فخر سے اونچی ہو گئی۔

’’جی میڈم مجھے لوگ کرینا کے نام سے جانتے ہیں۔ ‘‘

 ایک تیکھا جملہ میری زبان سے نکلتا نکلتا رہ گیا کہ سیار اگر نیلا ہو جائے تب بھی مور نہیں بن سکتا۔  اس لڑکی نے مجھے اتنی زور سے ٹکر ماری تھی کی ابھی بھی میرے شانے دکھ رہے تھے۔  میں سوچنے لگی—-کمبخت کیا کھاتی ہے کہ اس کے جسم میں گھوڑیوں جیسی طاقت ہے۔  ہاں کم عمری بھی اس کی طاقت کی وجہ ہو سکتی ہے۔

’’میڈم آپ کو اندر جانا ہے کیا، چاچی سے ملنے! مگر ابھی تو وہ سو رہی ہیں۔  ایک گھنٹہ گرم کڑوا تیل سے ان کی مالش کی ہے تو تھوڑا آرام ملا ہے۔  کہیں تو جگا دوں۔ ‘‘

’’نہیں، نہیں جگاؤ مت۔ ‘‘

میری زبان سے بے ساختہ نکلا۔

’’تو چلئے آپ میری جھگی میں چلئے۔ وہاں آپ کو کوئی تکلیف نہیں ہو گی۔  جگہ چھوٹی ہے مگر وہاں ٹی وی فریج، میز کرسی پنکھا سب کچھ لگا رکھا ہے۔ ‘‘

میں جانتی تھی کہ پوری بستی کٹیا مار کر لائٹ جلاتی ہے یہ لڑکی تمام لوگوں کے بیچ خود کو بہت اونچا سمجھ رہی تھی۔ یہ بھی کونسی تیس مار خاں ہے یہ بھی تو کٹیا مارتی ہو گی۔ ‘‘

کرینا ایک طرح سے سامان گنوا گنوا کر  مجھے یہ احساس دلانا چاہتی تھی کی میں بستی میں رہ کر بھی بستی والی نہیں ہوں۔  سچ بھی ہے یہ بستی اس لڑکی کے لئے ایک سرائے کی طرح تھی جب وہ کام دھندے سے تھک جاتی ہے یا پھر اوبنے لگتی تو کچھ دنو ں کے لئے بستی میں آ کر سستاتی ہے۔ صبح شام اپنے جسم پر مالش کرواتی، اچھا کھاتی، روز مرغا مچھلی اڑاتی، ایک کی جگہ چار خرچ کر کے بستی والوں سے اپنے کام نکلواتی اور پھر تازہ دم ہو کر یا پھر جسم کو تر و تازہ کر کے سال بھر کے لئے نکل جاتی۔ کس کی مجال کی اس کی غیر موجودگی میں اس کے گھر کا کوئی سامان اڑا  لے۔ پولیس داروغہ کرنے میں بھی پیچھے نہیں تھی۔ اس کا بڑا رسوخ تھا۔ اکثر لمبی لمبی گاڑیاں اسے اپنے ساتھ لے جانے کے لئے بستی میں بھی آتی رہتی تھیں۔  سال میں ایک بار پوری بستی کے لئے تحفے تحائف آتے تھے۔ ایک دو بار اسی بستی میں ہی وہ زوردار پارٹی کرتی جس میں مرغا دارو سب چلتا، ناچ گانا ہوتا، ڈسکو میوزک بجتا ہر طرف جشن کا ماحول ہو جاتا۔  اکا دکا باہری لوگ بھی شامل ہو جاتے ہیں۔

یہ ساری باتیں مجھے ٹکڑوں میں پان کی دکان، رحمو بابا، چمپا کاکی اور پھانکی سے معلوم ہوئی تھیں۔ نام تو مجھے ابھی حال میں ہی پتا چلا۔  کوئی اس کا نام نہیں لیتا بلکہ ہر کوئی اسے حرافہ بولتا۔  اس کے سامنے لوگ ہی ہی کرتے مگراس کے جاتے ہی سیکڑوں گالیاں بکتے۔

بڑی بوڑھیاں کوستیں کہ اس حرّافہ نے بستی کی جوان لڑکیوں کو برباد کر رکھا ہے۔  اس کے ٹھسکے دیکھ کر ان کے بھی دل مچلنے لگتے ہیں کہیں اس بستی کا نام بھی بدنام بستیوں کی فہرست میں نہ آ جائے اس بات کا خوف رحمو بابا کو بھی ستاتا رہتا تھا۔ رحمو بابا واحد ایسے شخص تھے جو کرینا کی دولت اور اس کی دی ہوئی خوشیوں سے متاثر نہیں ہوئے تھے۔  کہنے والے تو کہتے ہیں کہ رحمت علی کی ایک بار کرینا کی ماں سے زور دار لڑائی ہوئی تھی۔ لاٹھی ڈنڈے تک نکل آئے تھے۔  تب کلّن بی زندہ تھیں۔  رحمت علی اور کلّن بی بستی کو بہت صاف ستھرا رکھنا چاہتے تھے۔ بچوں کو ستارہ کے ذریعہ تھوڑی بہت تعلیم دلوا کر چھوٹے موٹے کام دھندوں میں لگوانا چاہتے تھے۔ بستی کی پوری فضا کو بدل دینا چاہتے تھے۔  مگر گلابو کی تیز طراری اور عیاشیوں کی وجہ سے میاں بیوی کی ناک میں دم رہتا۔  انہیں اپنی بستی اور بستی کی عزت بہت پیاری تھی۔ ’’غریب ہیں تو کیا ہوا، غلیظ تھوڑی ہیں۔ ‘‘ یہی نعرہ انہوں نے بستی والوں کے لئے دیا ہوا تھا۔ مگر گلابو کی دنیا دوسری تھی۔ وہ غریب اور اپاہج زندگی سے نفرت کرتی تھی۔ اس کے لئے روپئے پیسوں کے آگے سب کچھ ہیچ تھا۔ ایک رات کوئی پیسے والا مرد بستی میں آ گیا تھا۔ وہ ساری رات گلابو کی جھگی میں رہا۔ جھگیاں اس ڈھنگ کی تھیں کہ کوئی بھی کسی بھی وقت، کسی بھی جھگی میں جھانک سکتا تھا کیوں کہ عارضی دیواروں میں اتنے پول، اتنے چھید ہوتے تھے کہ اندر رہنے والا اسے ڈھک نہیں سکتا تھا۔  اس رات بہتوں نے گلابو کی جھگی کے اندر جھانکا اور دانتوں تلے انگلیاں دبا لیں۔  جوان لڑکے تو اندر جھانک جھانک کر مچل مچل گئے۔  لڑکیاں بھی کھی کھی کرتیں دور سے ہی اپنے دانتوں کو اندھیرے میں چمکا رہی تھیں۔  کلّن بی گلابو کو گالیاں بک رہی تھیں۔ اور چمپا کاکی کو لتاڑ رہی تھیں کہ اس نے اتنی بدکار عورت کو بستی میں کیوں بسایا۔ جہاں کی پاپ تھی وہیں جا کر مرتی۔ مگر چمپا کاکی رحم دل عورت تھیں۔  خاص کر غریبوں کے لئے تو ان کے اندر بے حد ہمدردی تھی۔ اس وقت چمپا کاکی جوان ہوا کرتی تھیں۔ ایک دن چھ مہینے کی پھانکی کو اپنی کمر سے چپکائے، کسی بنگلے سے کام کر کے لوٹ رہی تھیں کہ برگد کی چھاؤں میں ایک لمبی چھوڑی خوبصورت عورت کو روتے ہوئے دیکھا۔  وہ پورے پیٹ سے تھی۔ چمپا کاکی کا دل پگھل گیا۔ ان کی گود میں بھی بچی تھی اور وہ پیٹ ہی عورت کا درد جانتی تھیں۔  جھٹ انہوں نے پھانکی کو چبوترے پر لٹایا اور اپنی ساڑی کے پلو سے اس کے آنسو پونچھنے لگیں۔

’’کیا ہوا بہن۔  مرد حرامی نکل گیا نا!‘‘

گلابو نے جھٹ سے حامی بھر دی۔

’’کہاں گیا؟‘‘  چمپا کاکی کی پولیسیا  انکوائری شروع ہو گئی۔

’’بھاگ گیا‘‘ گلابو چھوٹے چھوٹے جواب دینے لگی۔

’’کہاں بھاگا؟‘‘

’’معلوم نہیں۔ ‘‘

’’یہاں تک کیسے آئی بہن؟‘‘

’’چھوڑ کر گیا ہے۔ ‘‘          گلابو سسکتے ہوئے بولی۔

’’لوٹ کر آئے گا۔ ‘‘

’’معلوم نہیں۔ ‘‘

’’اب تو کہاں جائے گی۔  کوئی ٹھکانہ ہے؟‘‘

’’نہیں ‘۔ ‘

 گلابو ساڑی کے پلو سے منہ چھپائے روئے جا رہی تھی۔  اب کاکی اسے اس حالت میں چھوڑ کر آگے تو بڑھ نہیں سکتی تھیں۔  اسے بستی میں لے کر آ گئیں۔  بستی والوں کا دامن ہر مصیبت زدہ کے کیلئے پھیلا رہتا ہے۔ کسی نے اپنا دکھڑا رویا نہیں کہ آ میرے کلیجے سے لگ جا۔

گلابو کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔  بستی کی دو چار عورتوں اور مردوں نے مل کر ایک جھگی تیار کر دی۔ ان میں کلّن بی اور چمپا کاکی پیش پیش تھیں۔  ہفتہ نہیں بیتا اور گلابو چمپا کاکی کی جھگی سے اپنی جھگی میں آ گئی وہیں اس نے لاڈو کو جنم دیا۔ بستی کی فضا میں لاڈو پروان چڑھنے لگی اور گلابو پھر سے اپنے کام دھندے پر جانے لگی۔

یہ بات بہت بعد میں پتہ چلی کہ گلابو کا اپنا کوئی مرد تھا ہی نہیں۔  وہ تو جس بنگلے پر کام کرتی تھی، اس کا پچاس سال کا ادھیڑ مالک گلابو پر بہت مہربان تھا اور کرینا اسی کی مہربانی کا نتیجہ ہے۔  گلابو اب تک اتنی مضبوط ہو چکی تھی کہ بستی والوں کی زبانیں گونگی ہو گئیں اور پھر بستی میں آ کر بسنا آسان ہوتا ہے۔  بسے ہوئے لوگوں کو اکھاڑ نا بے حد مشکل۔ کئی بار انہیں یہاں سے اجاڑنے کی ناکام کوشش کی جا چکی تھی۔  اور یہ کوشش الگ الگ طرح کے لوگوں نے کی تھی۔ کبھی پولیسیا بھیس میں، کبھی نگر نگم والوں کی طرف سے، کبھی غنڈے بدمعاشوں کی معرفت۔  ایسے میں پوری بستی ٹڈی دل کی طرح ان پر ٹوٹ پڑتی۔ ایسا کہرام مچاتی اتنا رونا پیٹنا کرتیں کہ آنے والا منہ لٹکائے واپس لوٹ جاتا۔

بستی کی تمام عورتیں بھروسے پر جیتی تھیں۔ ۔ ۔ ۔  امیدوں کا دامن تھام کر۔ ۔  اگر یہ امیدیں تکمیل کو پہنچ بھی جاتیں تو بھی ان کے مسئلے اور پریشانیاں پورے طور پر کبھی حل نہیں ہو پاتے۔  یہ عورتیں کھوٹے سکے کی طرح تھیں۔  بس جینا ہے اس لئے جیے جا رہے تھیں۔ اس رات جب وہ آدمی اپنی لمبی سیاہ گاڑی کو لے کر دھڑدھڑاتا ہوا بستی میں داخل ہوا تو سبھی لوگ آہٹ پا کر  بارہ سنگھے کی طرح تن کر اپنی اپنی جگہ اٹھ کھڑے ہوئے۔  رات کے دس بج رہے تھے اور ایک باہری آدمی اس طرح بے خوف اور ہٹ دھرمی سے اندر داخل ہو گیا تھا۔  وہ سیدھے گلابو کی جھگی میں گھس گیا۔  پھر رات بھر تاک جھانک کا سلسلہ چلتا رہا۔  فلموں کا نائٹ شو بھی ایسی لذت نہیں دے سکتا تھا جو گلابو کی جھگی جوان لڑکو ں کے لئے مہیا کر رہی تھی۔  کچھ مزے لے رہے تھے، کچھ گالیاں بک رہے تھے اور چمپا کاکی کے ساتھ کلّن بی انگلیاں توڑ توڑ کر کوسنے دے رہی تھیں۔ ستم یہ کہ شعور سے بالغ ہوتی لڑکی بھی ماں کے ساتھ تھی۔  کتنی آنکھوں نے دیکھا کہ وہ بے شرم مرد بیچ میں تھا۔  ایک طرف گلابو دوسری طرف گہری نیند میں سوئی بستی والوں کی لاڈو۔

 علی الصباح جیسے ہی اس مرد کی گاڑی بستی سے باہر نکلی۔ کلّن بی رحمت علی کی لاٹھی لے کر گلابو پر ٹوٹ پڑیں۔  پھر تو ایسی گھماسان ہوئی کہ دوپہر بعد تک چلتی رہی۔  گلابو کے ساتھ ساتھ کلّن بی کو بھی سرکاری اسپتال جا کر پٹی بندھوانی پڑی۔  بیچاری چمپا کاکی بیچ بچاؤ میں ہی کلائی کی ہڈی تڑوا بیٹھیں۔  جب تک پلاسٹر نہیں کٹا وہ ستارہ اور پھانکی کے رحم و کرم پر تھیں۔  اس وقت یہ دونوں لڑکیاں بارہ تیرہ سال کی تھیں۔

’’ اے بٹیا دروازے پر کھڑی کھڑی وقت بتا دو گی یا اندر بھی آؤ گی۔ ‘‘

چمپا کاکی کی نحیف، نقاہت بھری آواز میرے کانوں سے ٹکرائی۔ کل اور آج کے بیچ غوطہ لگاتی میں جیسے ہوش میں آ گئی۔

’’کب سے تمہیں دیکھ رہے ہیں بٹیا۔  کھڑی کھڑی سوچے جا رہی ہو۔  سب ٹھیک ہے نا۔ ‘‘

’’ہاں ہاں کاکی! سب ٹھیک ہے‘‘ میں نے اپنے چاروں طرف نگاہ دوڑائی۔  یہ کمبخت کرینا کب چلی گئی مجھے پتا ہی نہیں چلا۔  میں سر کو جھکا کر اندر داخل ہو ئی۔

’’کیسی ہو کاکی؟ پھانکی بتا رہی تھی کہ تمھاری طبیعت خراب ہے۔ ‘‘

’’ہاں بٹیا عمر بھی ہو گئی ہے۔  بوڑھی ہڈی دیکھو کب تک کھنچتی ہے۔ ‘‘

’’ہوا کیا ہے؟‘‘

’’ پچھوا ہوا جب چلتی ہے تو ساری پرانی چوٹیں درد دینے لگتی ہیں۔  کبھی ہاتھ دکھتا ہے، کبھی پیر، کبھی گھٹنا رلاتا ہے کبھی سر کا درد۔ ‘‘

 میں نے مذاق میں کہا۔ ’’کہاں سے لگائی اتنی چوٹیں !‘‘

’’ارے تو تم پھانکی کے باپ کو کم سمجھتی ہو بٹیا۔  مرے کی چرچا نہیں بھاتی مگر جب تک وہ مرد زندہ رہا۔  دارو چڑھا کر ہماری ہڈی کی ایسی تیسی نہ کر دے اس کو نیند نہیں آتی تھی۔ پانچ پانچ لڑکے کو جنم دیا۔  سب کے سب مر گئے۔  دو تین تو اسی مرد کی لات سے پیٹ میں ہی مر گئے۔ مگر لڑکی بڑی سخت جان ہو تی ہے۔ ان کے بھاگ میں اتنے دکھ لکھے ہوتے ہیں کہ جلدی مرتی نہیں۔  یہ پھانکی دو بار موت کے منھ میں جا جا کر واپس آئی ہے۔ ننھی سی جان تھی چیتھڑوں میں لپٹی ہوئی اور اس کے باپ نے اسے سر سے اونچا اٹھا کر پٹک دیا تھا مگر مری نہیں۔ ‘‘

چمپا کاکی نے کانپتے ہوئے اپنی بات جاری رکھی-’’لوگ جب بٹیا بیاہتے ہیں تو کہتے ہیں کی سسرال میں ڈولی جا رہی ہے وہیں سے ارتھی اٹھنی چاہئے۔ مگر جب ہم نے پھانکی کو بیاہا تو بدائی کے وقت اس کو یہی سمجھایا۔  دیکھ مرد کی زیادتی نہ سہنا۔  جب تک گاڑی چلے چلائے جانا، نہ چلے تو چوتڑ پر لات مار کر گھر سے بھاگ نکلنا۔  تیری اماں رہے نہ رہے، یہ بستی تو سلامت رہے گی۔ اسی میں آ کر بس رہنا۔  اور دیکھو بٹیا، ہماری پھانکی اب بغیر مرد کے کتنی خوشی خوشی جی رہی ہے۔  اپنی ستارہ بھی جیتی مگر—‘‘

کاکی اپنی بات کہہ کر خاموش ہو گئیں اور میں چپ بیٹھی سوچنے لگی کہ کب وہ بات آگے بڑھاتی ہیں۔

آخر کار لمبی خاموشی کو میں نے ہی توڑا۔ ’’ کاکی سب کو اپنے اپنے گناہوں کی سزا ملتی ہے۔ ‘‘

کاکی بھڑک اٹھی۔ ’’ کاہے کی سزا! کسی کے پاپ پر نفرت کرنا  بہت آسان ہوتا ہے بٹیا، کبھی سمے تم سے بھی پاپ کروا سکتا ہے، تو کیا تم اپنی دیہہ  سے وہ پاپ نوچ کر دور پھینک سکتی ہو؟ نہیں نا! گناہ مٹی میں چپکتا نہیں مگر گزرے سمئے کے ساتھ لپٹ کر چمکتا رہتا ہے۔  ‘‘کاکی بولتی رہیں اور میں چپ رہی۔

٭

چمپا کاکی کاغذ کے تھیلے سے سبزی پوری کے دونے نکال کر آہستہ آہستہ لقمے گلے کے نیچے اتار رہی تھیں۔  دواؤں کے ساتھ ایک چھوٹے سے لوٹے میں پانی بھر کر پھانکی ان کے پاس ہی رکھ کر چلی گئی تھی تاکہ وہ کھانے کے بعد دوا لے کر سو جائیں۔  آج میں نے ستارہ کو بہت قریب سے دیکھا۔ بے حد ماتمی چہرہ بنائے ہوئے تھی۔  پرانی ساڑی کو بے ترتیبی سے لپیٹے کسی چلتی پھرتی مورت کی طرح وہ مجھے دکھائی دی۔  اس کی آنکھوں میں دور دور تک ویرانی پھیلی ہوئی تھی۔ پھانکی ا س کی کلائی تھامے جب اندر داخل ہوئی تو میں لمحے بھر کے لئے خوش ہو گئی کہ چلو ستارہ سے بات کرنے کا موقع تو مل جائے گا مگر وہ جیسے اپنی گویائی پر پہرے بیٹھا چکی تھی۔  پھانکی ہی نے بتایا کے ستارہ کے بیٹے کی حالت اس وقت بہت نازک ہے۔ وہ بستی کچھ سامان لینے آئی تھی اور فوراً واپس جا رہی ہے اور اسی کے ساتھ پھانکی بھی جا رہی ہے۔  اس لئے پھانکی نے رات کا کھانا سر شام لا کر ماں کو دے دیا کیونکہ نہ جانے واپسی کب کتنی رات گئے ہو۔  میں چپ رہی اور ستارہ کے ساتھ پھانکی کو جاتے دیکھتی رہی۔  پھانکی اتنی جلدی میں اور گھبرائی ہوئی تھی کہ اس نے مجھے بھی نظر انداز کر دیا تھا۔  میں ان دونوں کی ذہنی الجھن سمجھ رہی تھی اس لئے میرا چپ رہنا ہی مناسب تھا۔ دونوں جا چکی تھیں۔  میں نے دوا کھا کر لیٹی ہوئی چمپا کاکی کو کریدا۔

’’کاکی یہ بتاؤ ستارہ کے بیٹے کو ہوا کیا ہے؟‘‘

’’ارے بچے گا نہیں، ہر سمے اس پر تاپ چڑھا رہتا ہے اور اب سکھنڈی ہو گیا ہے۔  ہڈی ٹیڑھی میڑھی ہو گئی۔  ڈاکٹر نے کہا ہے کُپوشن سے ہوا ہے۔  پندرہ دن سے سرکاری اسپتال میں بھرتی ہے۔ ‘‘

 میں سرک کر ان کے قریب آ گئی۔  حالانکہ مجھے قریب آتے گھن آتی تھی۔  عجیب عجیب قسم کی مہک میرے نتھنوں میں جلن سی پیدا کر دیتی تھی۔  مگر اب تو میں نے کچھ حد تک اپنے کو اس کا عادی بنا لیا تھا۔  میں نے آہستہ سے ان کے ہاتھ پر ہاتھ رکھا-

’’کاکی! ستارہ بولتی کیوں نہیں۔  اتنی چپ کیوں رہتی ہے۔ ‘‘

’’ابھاگن ہے۔ ‘‘

’’ابھاگن کیوں ؟ یہاں بستی میں تو بہت سی عورتوں کو شوہروں نے چھوڑ دیا ہے یا پھر موت کا وہ شکار بن چکے ہیں۔‘‘

’’ہاں ٹھیک ہے——مگر پرکاش——پرکاش ایسا وفادار ساتھی رہا جس کو بھولنا اتنا آسان نہیں۔  مرتے مر گیا مگر بیماری کے بعد نہ اپنی جھگی میں گھسا، نہ ستارہ کو کانی انگلی سے چھوا۔ ‘‘

’’کیا ہوا تھا پرکاش کو؟ وہ کیسے مر گیا ؟‘‘

کاکی نے پھر اپنا منھ بچکایا اور اپنی چھنگا پلنگ کے نیچے ڈھیرسارا تھوک دیا۔  مجھے اتنی گھن آئی اور ایسا لگا کہ آنتیں الٹ جائیں گی۔  گلے تک آئی الٹی کو میں نے کسی طرح سنبھالا اور پرس کھول کر ایک الائچی میں نے اپنے منہ میں رکھ لی۔  میں بستی میں آنے سے پہلے اپنے پرس میں لونگ، الائچی اور کچھ کھٹی میٹھی ٹافیاں رکھنا نہیں بھولتی تھی۔

’’لو کاکی یہ دوسو روپئے میں پھل دودھ کے لئے دے رہی ہوں۔  کھا پی کر جلدی سے چنگی ہو جاؤ۔ ‘‘

کاکی نے سو کے دو نوٹ کمر میں کھونستے ہوئے مجھے دعائیں دیں اور پھانکی کو گالی دیتی ہوئی بولیں –

’’ یہ حرامزادی دیکھ لے گی تو یہ روپیے بھی جھٹک لے گی۔  کہتی ہے ضرورتیں تو میں پوری کر رہی ہوں تمہیں روپیے پیسے کا کیا کام! لالچی اگھوڑن۔  بس چلے تو میری کھال بیچ کر روپیے کما لے۔ ‘‘

’’اتنی بری تو نہیں ہے پھانکی۔ ‘‘ میری بات سن کر چمپا کاکی چپ رہیں۔  میں نے پھر اپنی بات کا سرا پکڑا۔

’’پرکاش کو کیا ہوا تھا کاکی؟‘‘

’’پرکاش کی موت کا ذمہ دار برکت علی ہے۔ ‘‘

انہوں نے ایسی راز داری سے دھیرے سے میرے کان میں کہاجیسے وہ بہت بڑے راز سے پردہ اٹھا رہی ہوں۔

’’جانتی ہوں میں۔ ‘‘ بے ساختہ میرے منہ سے نکل گیا۔

’’جانتی ہو؟‘‘ کاکی اس طرح اچھل کر بیٹھ گئیں جیسے ان کے جسم میں بچھو نے نے ڈنک مار دیا ہو۔

’’تم کیسے جانتی ہو؟‘‘ ان کی آنکھوں میں خوف کے گہرے سائے تھے۔  میں الزبیتھ کا نام نہیں لینا چاہتی تھی۔ میں نے بات سنبھالتے ہوئے کہا—-’’ارے بھئی کوئی نہ کوئی وجہ تو کسی کی موت کے لئے ہوتی ہی ہے نا!‘‘

’’ہاں یہ بات تو ٹھیک ہے۔ ‘‘ کاکی دوبارہ لیٹ گئیں۔

’’ہاں برکت نے کیسے مارا اسے؟‘‘

’’سانپ کا زہر پلا کر۔ ‘‘ اس بار میرے اچھلنے کی باری تھی۔  میں حیرانی سے کاکی کا چہرہ دیکھنے لگی۔

’’کوئی آدمی کسی کو سانپ کا زہر کیسے پلا سکتا ہے؟‘‘

میرے لہجے میں بے یقینی تھی۔

’’ارے بٹیا! سچی مچی کے سانپ کا زہر تھوڑی۔  تم کیا سمجھتی ہو پسو صرف جانور کے جسم میں ہی رہتے ہیں۔  ارے عورت مرد کے بدن میں بھی پسو پلتے ہیں ؟‘‘

’’پسو پلتے ہیں ؟‘‘ میں نے کاکی کی کہی بات کو دہرا دیا۔

’’ہاں پسّو ! جانتی ہو کہاں۔  دونوں جانگھوں کے بیچ میں۔  جونک کی طرح چپکے خون چوستے رہتے ہیں۔ کھجلی کرتے رہتے ہیں۔ پھر نہ اچھا سوجھتا ہے نہ برا—

کاکی آنکھیں بند کئے بولتی جا رہی تھیں جیسے خواب میں جا کر ماضی کی پرتیں کھول رہی ہوں اور دفن مردوں کے پسّو نکال نکال کر پھینک رہی ہوں۔  میں بالکل خاموش تھی۔  میں بیچ میں بول کر ان کی زبان کی روانی میں حائل نہیں ہونا چاہتی تھی۔  وہ بولتی جا رہی تھیں ——–

’’۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کلّن بی کا نصیب اچھا تھا جو رحمت علی جیسا مرد پایا مگر ا س کی کوکھ اس کے چہرے کی طرح کا لکھ پتی تھی۔  نہ وہ برکت علی کو جنم دیتی، نہ پرکاش کے لئے موت کا سامان اکٹھا ہوتا، نہ ستارہ جیسی اچھی لڑکی کی قسمت اوندھی کڑھائی بنتی۔ آج ستارہ کو پوچھنے والا کون ہے۔ میں نے دیکھا ہے ستارہ کے اچھے دن۔  یہ ان دنوں کی بات ہے جب شروع شروع میں شہر سے کچھ دور یہ بستی بسنا شروع ہوئی تھی۔  اکا دکا شریف مگر غربت کے مارے لوگ بھی وقت کاٹنے کے لئے ادھر بڑھے۔  ان میں ستارہ کے ماں باپ بھی تھے۔  ستارہ کی ماں میری بہت اچھی سہیلی تھی۔  وہ درجہ چار تک پڑھی تھی مگر اس کا باپ ہائی اسکول فیل تھا لیکن لکھنا پڑھنا اسے خوب آتا تھا۔  ستارہ کو دودھ پلاتے ہوئے اس کی ماں کہتی تھی کہ میں اپنی بٹیا کو پڑھا لکھا کر بیرسٹر بناؤں گی۔  کلیکٹر بناؤں گی پھر دیکھنا یہ لڑکی اس بستی کا کتنا نام روشن کرے گی۔  وقت آنے پر ستارہ نے پڑھنا لکھنا بھی شروع کر دیا سب کو لگا کہ سچ مچ یہ لڑکی کوئی بڑا کام کرے گی۔  کتنے سپنے ہم سب نے دیکھ ڈالے تھے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

 بولتے بولتے اچانک چمپا کاکی کو کھانسی کا دورہ اٹھا اور پھر کھانستے کھانستے ڈھیر سارا بلغم  تھوک دیا۔  بلغم کے ساتھ نکلے خون کے قطرے مجھے صاف دکھائی دے رہے تھے۔  میں نے انہیں اٹھا کر پانی پلایا اور دوبارہ لٹا دیا۔  پرس کھول کر ایک الائچی منہ میں ڈال لی۔ انہوں نے بات آگے بڑھائی۔

’’پھر ان دنوں ستارہ بارہواں کر کے نکلی تھی۔  دیکھنے سننے میں اچھی تو تھی ہی، کہتی تھی وہ پڑھ لکھ کر ٹیچر بنے گی اور ساری بستی کو پڑھنا لکھنا سکھائے گی اور کوئی بچہ ا ن پڑھ نہیں رہے گا۔ ہماری بستی خوب صاف ستھری رہے گی۔  یہاں کے لوگ بھی خوب صاف ستھرے رہیں گے۔  محنت مزدوری کریں گے۔  ہل مل کر رہیں گے اور خوب خوشیاں بانٹیں گے۔  یہ پانی کا سرکاری نلکا اسی کی بھاگ دوڑ اکا نتیجہ ہے۔ مگر سارے سپنے سپنے ہی رہ گئے۔ پرکاش بھی پڑھ لکھ رہا تھا۔  اسی سال اس نے بھی بارہویں پاس کی تھی۔ وہ ہماری بستی میں نہیں رہتا تھا۔   شہر کی طرف جو صاحبوں کی کالونی ہے انہی کے سرونٹ کواٹر میں رہ کر پڑھتا تھا۔  صاحبوں کا کام کرتا تھا۔ جانے کس منحوس گھڑی میں  ستارہ اور پرکاش کی آنکھیں چار ہو گئیں، بس سمجھو تبھی سے پوری بستی کے ساتھ ستارہ کی قسمت بھی سو گئی۔ ‘‘

’’ایسا کیا ہو گیا چمپا کاکی۔ ‘‘ میں بے ساختہ بول اٹھی جس کا مجھے بہت پچھتاوا ہوا کیوں کہ کاکی بہت دیر تک آنکھیں بند کئے چپ پڑی رہیں۔  آنکھوں کے دونوں کناروں سے آنسوؤں کی لکیریں بہہ رہی تھیں۔ وہ اندر ہی اندر ماضی کا نوحہ پڑھ رہی تھیں۔  مجھے پہلی بار احساس ہوا کہ وہ پھانکی سے زیادہ ستارہ کو چاہتی ہیں۔  میں نے ہلکے سے ان کا ہاتھ دبایا کہ کہیں وہ سوچتے سوچتے یہ نہ بھول جائیں کہ انہیں بولنا بھی ہے۔  نتیجہ اچھا نکلا—-ان کی کہانی پھر سے آگے چل پڑی——-’’ہم بستی والوں کو پتہ نہیں چلا کہ کب ستارہ اور پرکاش نے جا کر مندر میں شادی کر لی۔ دونوں نے تیرہواں درجہ پاس کرنے کے لئے فارم بھرا ہوا تھا۔  وہ ستارہ کو پڑھانے آتا تھا اور پھر وہ آتے جاتے ستارہ کے ماں باپ کے ساتھ ہمیشہ کے لئے رہنے آ گیا۔ بستی والوں نے بہت سمجھایا مگرا س کے ماں باپ کی آنکھوں پر تو پٹی بندھی تھی۔ پرکاش کے علاوہ انہیں کچھ سوجھتا ہی نہیں تھا۔  سب نے چپ سادھ لی مگر رحمت علی کا بیٹا جو ان دونوں کی عمر کا ہی تھا، لٹھ لے کر اٹھ کھڑا ہوا، آئے دن بستی میں لڑائی جھگڑے ڈنڈے بازی شروع ہو گئی۔  برکت دل ہی دل میں ستارہ سے محبت کرتا تھا۔  اس نے کلّن بی کو اس بات کے لئے تیار بھی کر لیا تھا کہ وہ ستارہ کو اپنی بہو بنائیں گی۔  مگر یہ سب کچھ گپ چپ چل رہا تھا۔ ہم سب کو کانوں کان خبر نہیں ہوئی۔  ایک دن ستارہ کے ماں باپ نے پوری بستی میں اعلان کر دیا کہ ستارہ اور پرکاش مندر میں شادی کر چکے ہیں۔  دونوں پڑھے لکھے تھے اس لئے کورٹ میرج بھی کر لی تھی۔  ثبوت سامنے رکھ کر بستی والوں کو چائے پانی کرا دیا گیا۔  سب نے دونوں کو میاں بیوی کے طور پر قبول کر لیا۔  ان دونوں کی شادی کرانے اور بستی میں لا کر بسانے میں نرس الزبیتھ اور اس کے بیٹے وولکی کا بہت بڑا ہاتھ تھا ورنہ ستارہ کے ماں باپ میں اتنا دم خم کہا ں تھا۔ ‘‘

ابھی چمپا کاکی کی کہانی چل ہی رہی تھی کہ باہر کچھ ہل چل ہوئی۔  تیز تیز آوازیں آنے لگیں —کاکی نے کھانستے ہوئے تیز آواز میں پوچھا—‘‘

’’کون ہے بھیّا، کیا بات ہے؟‘‘

’’ستارہ کے بچے کی حالت بہت خراب ہے؟‘‘

باہر سے ایک مردانہ آواز آئی۔ تھوڑی دیر میں خاموشی چھا گئی۔ شاید بستی والے اسپتال بھاگ رہے تھے۔

 تبھی میں نے دیکھا کہ راشن والا راکیش بابو جسے سب راکیش بھیّا کہتے تھے جھگی کے اندر داخل ہوا۔ مجھے عجیب سا لگا۔  نہ دستک دینا، نہ آواز دینا نہ کھنکار کر اپنی موجودگی کا احساس دلانا بس جب جس کا من کیا کسی کی بھی جھگی میں داخل ہو گیا۔ مجھے بہت برا لگا۔  جی چاہا اٹھ کر چل دوں مگر میں آگے کی کہانی جاننے کے لئے بیٹھی رہی۔ راکیش نے مجھے نمستے کیا اور کنارے پڑے اسٹول پر بیٹھ گیا——’’ چمپا کاکی سنا ہے بچے کی حالت بہت خراب ہے۔‘‘

چمپا کاکی میری ہی نہیں پوری بستی کی کاکی تھیں۔

’’ہاں بیٹا سنا تو ہے۔  اپنی ٹانگ ٹھیک ہوتی تو ہم بھی جاتے اسپتال دیکھ آتے۔ ‘‘

’’ہمیں تو نہیں لگتا بچے گا۔ ‘‘ راکیش نے کہا۔

’’پرکاش کو کیا ہم لوگ بچا پائے کہ اب ا س کے بچے کو بچا لیں گے۔  باپ اپنی کرنی سے مرا، بیٹا اپنی بیماری سے مر رہا ہے۔ ‘‘

’’میں خاموش بیٹھی رہی لیکن باتونی ہونا اس بستی کی ہوا میں ہے۔ راکیش کب چپ بیٹھنے والا تھا۔  وہ پھر بولا-

’’برکت علی کال بن کر اس پریوار پر ٹوٹ پڑا۔ ‘‘

چمپا کاکی آنکھیں بند کئے چپ پڑی گہری گہری سانسیں لیتی رہی۔ پھر آہستہ سے بولی۔

’’اب چپ بھی رہو!جاؤ تمہیں کوئی کام دھندا نہیں ہے کیا۔  دیکھ نہیں رہے میڈم جی بیٹھی ہیں۔ ‘‘

کاکی میڈم جی لفظ کا استعمال تبھی کرتی تھیں جب انھیں کہیں پر میرے نام یا میری شخصیت کا رعب جمانا ہوتا تھا۔  میں آج تک نہیں سمجھ پائی کہ یہاں کے لوگ میڈم لفظ سے ڈرتے کیوں ہیں شاید بنگلوں میں رہنے والی مالکنوں کو یہ لوگ میڈم کہتے ہوں گے اور ان کا خوف لاشعوری طور پر ان کے اندر بیٹھا ہو۔  میں بھی چاہتی تھی کہ راکیش باہر نکل جائے تو میں چمپا کاکی کی رکی ہوئی کہانی کو آگے بڑھوا سکوں اور وہ سب کچھ جان سکوں جو میں آج تک ستارہ کا لگاتار پیچھا کرتے ہوئے بھی نہیں جان سکی تھی۔

میں نے پھر بات آگے بڑھائی۔  ’’کاکی بچے کو کسی اچھے ڈاکٹر کو کیوں نہیں دکھاتے؟‘‘

’’اتنا روپیہ کہاں سے آئے گا‘‘ کاکی کے چہرے پر مایوسی تھی۔

’’آپ کہیں تو میں روپئے اور ڈاکٹر دونوں کا بندوبست کر دوں، سہی علاج سے اسے بچایا بھی تو جا سکتا ہے۔ ‘‘

’’نہیں، ڈاکٹر جواب دے چکا ہے اب اس کے اندر کچھ نہیں بچا۔  سوکھ کر بِتّے بھر کا ہو رہا۔  ڈاکٹر تو علاج کرتا ہے جان تھوڑی پھونکتا ہے۔ ‘‘

ستارہ میری دوست نہیں تھی اور دشمن کہہ کر میں اس کا رتبہ بڑھانا بھی نہیں چاہتی تھی۔  مگر انسانیت کے ناطے میں واقعی بے حد غمگین ہو گئی۔  بہر حال وہ بچہ تھا اور میری گود بھی بچے سے خالی تھی۔  میں تو جانور اور پرندوں کے بچوں کو بھی رحم کی نگاہ سے دیکھتی تھی۔  پھر یہ تو ستارہ کا بیٹا تھا۔  ستارہ جو کچھ بھی نہ ہوتے ہوئے بھی میری زندگی کا اہم باب تھی۔  وہ میرے لئے ناسور کی طرح تھی۔  ’’آخر اچانک یہ اتنا شدید بیمار کیسے پڑ گیا۔ ‘‘ میں کاکی کو خاموش نہیں رکھنا چاہتی تھی اس لئے بے تکا سا سوال کیا۔

’’اچانک کہاں ہوا، جب وہ پھلیے پر تھا تو اس کے پیٹ میں کیچوے پلنے لگے تھے۔  سرکاری علاج چلتا رہا مگر فائدہ نہیں ہوا۔  کیچوے گروانے کے لئے ستارہ طرح طرح کی ڈاکٹر دوائیں کھلواتی رہی۔  جس نے جو بتایا اس نے کھلا دیا۔  تھا تو ننھا بچہ نا، کتنا جھیلتا۔  پیٹ پھول کر تنبہ ہو گیا۔  ہاتھ پیر سوکھنے لگے۔  بعد میں تو پوچھو نہیں کیا حال ہوا۔  سوکھنڈی نے رہی سہی کثر پوری کر دی۔  ‘‘

میں نے سنجیدہ لہجے میں کہا۔ ’’ستارہ نے نے پہلے کیوں نہیں توجہ دی۔  وقت سے سنبھال لیا جاتا تو بچہ بچ سکتا تھا۔ سوکھنڈی کوئی بہت بڑی بیماری نہیں ہے۔  ‘‘

’’جب سمیٔ الٹا چل رہا ہو تو انسان کی متی بھی الٹی الٹی چلتی ہیں۔  اب دیکھو نا بٹیا، جب بچے پر دھیان دینا تھا تو پرکاش کا ماتم منانے میں لگی تھی۔  لو اب جھیلو۔  پرکاش کو جانا تھا چلا گیا اب بچہ بھی جا رہا ہے۔  ‘‘

میری بے چینی بڑھنے لگی میں اٹھ کر کھڑی ہو گئی۔

’’ارے بیٹھو نا بٹیا، سب کا دیکھ دیکھ اپنا سمیٔ بھی الٹا آتا دکھ رہا ہے۔ ‘‘

میں برائے ہمدردی کچھ دیر تک ان کے پاس بیٹھی رہی۔

راکیش کافی دیر پہلے پانی پی کر جا چکا تھا۔  چمپا کاکی اسی طرح چپ پڑی تھی، ایک دو بار وہ مجھے جذبات سے عاری آنکھوں سے دیکھ چکی تھی۔ میں جانتی تھی وہ آنکھیں بند کر کے موت کی طرف بڑھتے ستارہ کے بچے کے بارے میں سوچ رہی تھیں اور اسی موقعے کا فائدہ اٹھا کر میں ستارہ سے جڑی ساری باتیں جان  لینا چاہتی تھی۔  اس بار میں نے ناک سیدھی طرف سے نہ پکڑ کر پیچھے سے پکڑی اور گھما پھرا کر میں نے بات آگے بڑھائی——

’’برکت علی آج کل کہاں ہے؟‘‘

’’وہیں بمبئی میں اور کہاں جائے گا۔  اس بستی میں تو گھس نہیں سکتا۔  یہاں کے لوگ اس کی ہڈی پسلی ایک کر دیں گے۔  اسی کا کیا دھرا توسب ہے۔ ‘‘

’’ستارہ نے جب پرکاش سے شادی کر لی تھی تو بہت غصہ ہوا ہو گا۔ ‘‘

 کاکی کو ادھوری بات کاسرا مل گیا—-

’’ارے وہ ناسگاڑہ غصہ کیا ہو گا۔  دانوَ بن گیا۔  راکچھس بن کر ٹوٹ پڑا ستارہ پر۔  کئی بار عزت لوٹنے کی کوشش کی، ہو ہلّا ہوا۔  بستی کی بدنامی ہوئی۔  سب سے خراب بات یہ ہوئی کہ یہ بستی بھی پولیس کی نظر میں چڑھ گئی۔  جھگڑے کے بعد پولیس آئی لاٹھی ڈنڈا چلا مگر برکت پر تو جنون سوار تھا، جانے پسّو کے کاٹے کا یا پھر ستارہ کی محبت کا—–ایک دن اس نے سب کے سامنے بھری دوپہریا شراب پی کر ستارہ کی درگت مچا دی۔  کپڑے پھاڑ ڈالے۔ سب بیچ بچاؤ کر رہے تھے۔ پرکاش کہیں باہر گیا ہوا تھا۔  وہ حرامی برکتوا اسے زمین پر لٹا کراس کی چھاتی پر چڑھ بیٹھا۔  لوگ اس کے بال نوچ رہے تھے اس کو دو ہتھڑ مار رہے تھے مگر اس پر شیطان سوار تھا۔  تب تک پرکاش آ گیا۔  ایسی لٹھ بازی ہوئی کہ بستی والوں نے ایسا منظر کبھی نہ دیکھا ہو گا۔ پھوٹ پھٹول ہو گئی۔  پولیس آئی۔  رپٹ لکھی گئی۔  برکت کو جیل ہو گئی۔  پرکاش پر بھی پولیس کی دوچار لاٹھی پڑی مگر و ہ جیل جانے سے بچ گیا۔  رحمت علی نے اسی وقت آ کر اپنے اکلوتے بیٹے کو عاق کر دیا۔  سارے رشتے ناتے توڑ لئے۔  کلّن بی کو ایک طرف بیٹے کا غم لگا اور دوسری طرف بے عزّتی ان سے سہن نہیں ہوئی۔  چھ مہینے کھاٹ پکڑے رہیں پھر سب کچھ چھوڑ کر دوسری دنیا کی ہو لیں۔  اکیلے پڑے رحمت علی کو برگد کی چھاؤں نے سہارا دیا اور وہ وہیں کے ہو کر رہ گئے——–۔  کہانی تو سمجھو یہیں سے شروع ہوتی ہے۔  برکت جیل سے چھوٹا، بستی میں اس کے لئے کوئی جگہ نہیں تھی۔  ایک ستارہ کی خاطر ماں باپ چھوٹ گئے۔ اس کا سب کچھ ختم ہو گیا۔  اس نے ستارہ سے دشمنی پال لی۔  بدلے کی آگ نے اسے دیوانہ بنا دیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کوئی جَن اس حد تک بھی گر سکتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

اچانک کاکی کو بے ہوشی کا دوبارہ دورا پڑا۔  میں ان کی باتوں میں اتنی ڈوبی تھی کی مجھے یہ بھی ہوش نہیں رہا کہ میں ان کو پانی پلا دیتی۔  تبھی کرینا چلاتی ہوئی جھگی میں داخل ہوئی—–’’کاکی ستارہ کا بیٹا مر گیا۔ ‘‘

میں کانپ اٹھی۔  حالانکہ مجھے ان لوگوں کی باتوں سے احساس ہو گیا تھا کہ بچہ اب بچے گا نہیں۔

چمپا کاکی اپنی جھنگا پلنگ پر بے ہوش پڑی رہیں۔

٭٭٭

 

 

۸۔ نئے شگوفوں کی خواہشیں

میری زندگی کی راہ میں / قمقمے نہیں / کہکشاں سجا دو/ تاروں کے جھرمٹ تلے/ تعبیر نہیں / خوابوں کو سجا دو/ کہ تعبیر کا سچ / پاؤں کی جکڑن بن / روکتا ہے/ ڈراتا ہے/ اور پھر / پیچھے مڑ کر/ ماضی کی قبر گاہ میں / گہری نیند سلاتا ہے/ مگر مجھے / سونے سے پہلے/ جاگتی آنکھوں سے/ جنگل کے پار اترنا ہے/ یہ جنگل/ خوبصورت ہے مگر/ گہرے اندھیرے میں ڈوبا ہے/ اور میں نے / وعدہ کیا ہے/ میلوں چلتے رہنے کا/ سونے سے پہلے / کمہار کے کچے گھڑے میں / خوابوں کا سچ بھر بھر کر/ سنگ ساتھ لے جانے کا/ جہاں ہم/ اپنے خوابوں سے/ اپنی تعبیر کا/ حساب مانگ سکیں / پھر ایک بڑی قبر گاہ میں / ساتھ ساتھ گہری نیند سو سکیں / ایک نئے سفر کی شروعات کے لئے۔ ۔ ۔

شادی عورت کی زندگی کی ایک نئی شروعات ہے جو اسے اپنے وجود کی تکمیل کا احساس دیتی ہے۔  یہ احساس عورت کو معاشرے میں عزت سے جینے کا ایک اختیار دیتا ہے۔  گھر کی چہار دیواری بچے اور شوہر۔ ۔ ۔  ان سے جڑے خواب اور خواب کی تعبیر کے لئے لمبی جدو جہد۔  عمر بڑھنے کے ساتھ جدو جہد کی نوعیت بدلتی رہتی ہے۔  مگر بدلتی ہوئی ان تصویروں میں کہیں بھی کوئی ایک عکس ایسا نہیں ابھرتا، جہاں عورت خالص اپنی ذات کے لئے جیے۔  اپنے سکو ن اپنی راحت کو افضلیت دے۔  کیونکہ اگر وہ ایسا کرتی ہے تو شوہر کی نگاہ میں ایک خود غرض عورت اور نافرمان بیوی بن جانے کے خوف میں مبتلا ہو جاتی ہے۔

 میرے دن بے حد مصروف گزر رہے تھے۔  صبح سے لے کر شام تک اور شام سے لے کر دیر رات تک میں چکر گھنی کی طرح گھوم رہی تھی۔  اپنے کھانے پینے کا ہوش نہیں تھا۔ اکثر چلتی گاڑی میں پچھلی سیٹ پر بیٹھی اونگھتی ہوئی میں سو جاتی تھی۔  گڈو کے باجی کہہ کر آواز دینے پر میں پھر سے جاگ کر گاڑی سے  نکل پڑتی۔  لسٹ کے مطابق اپنے کام کو انجام دینے میں جٹ جاتی۔  میرا بس نہیں چل رہا تھا کہ میں نیفو کے لئے پورا شہر خرید لوں۔ کشو نے ایک بڑی رقم میرے نام بھیجی تھی اس تاکید کے ساتھ کہ تیاری کے معاملے میں کوئی کمی نہیں ہونی چاہئے۔  چٹ پٹ اتنی جلدی سب کچھ طے ہوا تھا کہ مجھ سے  کام سنبھالے نہیں سنبھل رہا تھا۔  مجھے اپنے شہر میں کوئی ایسی خاتون سمجھ میں نہیں آ رہی تھی جنہیں میں اپنی مدد کے لئے بلا سکتی اور جو تھیں انہیں میں اس قابل نہیں سمجھتی تھی۔

ایک لڑکی کی شادی میں کتنے تام جھام ہوتے ہیں اسے میں آج سمجھ سکی۔ کپڑے خریدنا، درزی کو دینا، سلوانا، گوٹے لچکے ٹکوانا، کپڑوں کی ڈیزائن پر خاص توجہ دینا کیوں کہ نیفو تھوڑے اسٹائلش کپڑے پہنتی تھی۔ میچنگ دوپٹے چوڑی، سینڈل، پرس، جویلری، اسی شیڈ کی لپ سٹک رنگین کاجل، آئی شیڈو وغیرہ وغیرہ۔ ایک سوٹ سلوانے کے بعد مجھے اتنی چیزیں اور مہیا کرنی پڑتی تھیں۔ ابّی نے تو کہا تھا کہ صرف پچیس سوٹ دیں گے جن میں پندرہ شلوار سوٹ اور دس ساڑیاں ہوں گی۔ مگر کشو کی تاکید تھی کہ اکیاون جوڑے سے کم نہیں ہونا چاہئے۔  برادری میں جب اٹیچی کھلے تو لوگ عش عش کریں۔ یہاں بھی کشو اپنی کھوکھلی انا کی تسکین کرنا چاہتا تھا۔  یہ کشو اور ابّو کی بات تھی کہ اتنے کپڑے دینا ضروری ہے مگر ایک عورت ہونے کے ناطے میں ایک قدم اور آگے بڑھی ہوئی تھی۔  آخر انڈر گارمینٹس بھی تو ہونے چاہئیں، ایسے جو بھڑکاؤ ہوں نائٹی ایسی ہو جو ہلکی روشنی میں جسم کے ہر عضو کو نمایاں کرے۔  پینٹی اور برا کے کٹ جدید انداز کے ہوں۔  پہلی رات لڑکی کن کن مرحلوں سے مرد کے ساتھ ہم بستر ہوتی ہے یہ ایک بیاہتا عورت ہی سمجھ سکتی ہے۔  رات میں سونے سے پہلے میری ذمہ داری یہ بھی تھی کہ میں فون سے کشو اور ابّی کو دن بھر کی شاپنگ کی تفصیل دوں تاکہ وہ سمجھ سکیں کہ کام کہاں تک پہنچا۔  اب صرف دس دن ہی تو بچے تھے۔ دن بھر میں ایک بار نیفو کا بھی فون آتا اور  پھر بات سمیٹتے سمیٹتے بھی ایک گھنٹے سے کم وہ لڑکی نہیں لیتی تھی۔

’’باجی چوڑیاں بالکل میچ کر تی ہونی چاہئیں ؟ باجی آپ نے پرپل والا سوٹ ٹیلر سے لے لیا نا! باجی غرارہ میں نہیں پہنوں گی بہت بھاری ہوتا ہے آپ ابّی سے کہہ دیجئے کہ وہ مجھے شرارا پہننے دیں۔  باجی ایک سوٹ نگوں کے کام کا بھی لے لیجئے۔  اور ہاں آ پ نے حیدرآبادی چوڑیوں کے لئے آدمی بھیجے تھے، وہ واپس آئے یا نہیں۔  اف کتنا کچھ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مجھے لگتا کیسے ابّی نے اکیلے دم پر دو دو لڑکیوں کی شادی نپٹائی ہو گی اور کچھ پتہ نہیں چلا۔  میں شادی کی آدھی ادھوری ذمہ داری نبھانے میں ہی ٹوٹی جا رہی تھی۔  برتنوں کی ذمہ داری اور شادی سے جڑے دیگر انتظام کے لئے ایک چھوٹی سی ٹیم کشو نے ابّی کے ساتھ لگا رکھی تھی تاکہ کہیں سے لڑکے والوں کی عزّت میں کمی نہ آئے۔  آخر رشتہ بھی تو کشو کا لگایا ہوا تھا۔  ا س کے ایک خاص دوست کا چھوٹا بھائی جو کشو کے ساتھ  ہی غیر ملک میں رہتا تھا۔

ہوا کی طرح چار دن اور گزر گئے اب صرف شادی کو ایک ہفتہ بچا تھا اور کل صبح کی فلائٹ سے کشو آ رہا تھا۔ میرے خریدے ہوئے سامانوں کی بھاری بھاری چار اٹیچیاں تیار ہوئی تھیں اور ایک ایک میری اور کشو کی یعنی چھ اٹیچیاں۔  اتنا سامان لے کر کیسے جایا جائے گا، یہ سوچ سوچ کر میرے سر میں درد  ہو رہا تھا۔  میں جسمانی طور پر اتنا تھک گئی تھی کہ دل چاہتا تھا دو تین دن بستر پر پڑی سوتی رہوں۔  مگر جانتی تھی کشو کے آنے کے بعد مجھے اور کن کن ذمہ داریوں کو نبھانا ہو گا۔  اتنے دن کے بعد آ رہا ہے تو دو دن رکے گا۔  ان دو دنوں میں وہ میرے جسم سے بوند بوند لہو نچوڑ لے گا یہ سوچ کر ہی میرے جسم کی ایک ایک پور دکھنے لگتی۔  پڑھا لکھا مرد ہو، جاہل ہو، رکشے والا ہو، کروڑ پتی ہو، سب بستر پر ایک جیسی ذہنیت لے کر آتے ہیں۔  جسم کی زبان اور الفاظ کی ادائیگی اگ الگ ہو سکتی ہے گر منشا ایک ہوتی ہے، عورت سے عورت کی گونگی ہار تسلیم کروانا اور اپنی ٹھنڈک کے ساتھ اپنی انا کی تسکین پانا۔  ایسے میں جب وہ خود بھی لست ہو جاتا ہے تو چاہتا ہے کہ اب عورت اٹھے اور ویسی ہی خدمت کرنے میں جٹ جائے جیسی ایک وفادار بیوی اپنے شوہر کے لئے کرتی ہے۔  غسل خانے میں گرم پانی لگانا، تولیہ ٹانگنا، کپڑے نکالنا، چکی ہوئی طاقت کو دوبارہ حاصل کرنے کیلئے اچھی غذا فراہم کرنا۔  عورت بھی فحاشی کے تمام ہتھکنڈوں سے آزاد ہو کربستر سے اترتے ہی عبادت گزار بیوی بن جاتی ہے۔  لڑکھڑاتے قدموں کو سنبھالتی اپنے کاموں میں اس طرح لگ جاتی ہے، جیسے گذری شب کچھ ہوا ہی نہیں۔  اور اگر عورت کچھ اس سے زیادہ چاہنے کی گستاخی کرتی ہے تو باہر کا دروازہ دکھانے میں مرد کو دیر نہیں لگتی۔ لمحے بھر میں عورت ایک ناکارہ بیوی، بدکردار خاتون بن جاتی ہے عزت سے جینے کا لائسنس پل بھرمیں چھن جاتا ہے اور وہ باہری دنیا میں ویسے ہی جینے لگتی ہے جیسے پتوں سے جھڑے اور تنوں سے خالی زمین سے جڑا ایک ناٹا ٹھونٹ جسے کوئی بھی کلہاڑی مار سکتا ہے۔ اپنے غلیظ کپڑے اس پر پھینک سکتا ہے۔ تھوک سکتا ہے اور اگر ٹھونٹ چھوٹا ہوتا جا رہا ہے تو آتا جاتا کوئی بھی شخص اس پر اپنا چوتڑ رکھ کر بیٹھ سکتا ہے۔ میں ایک سوکھاناٹا ٹھونٹ بن کر کسی کے چوتڑ کے ساتھ حصہ داری نہیں کر سکتی تھی اس لئے کشو جیسے مرد کے ساتھ جئے جا رہی تھی۔ میرے اندر اس کے خلاف زہر پلتے تھے مگر میرے ہونٹوں سے اس کے لئے تعریفی بول ہی جھڑتے تھے۔  لوگ مجھے خوش نصیب سمجھتے کی میں ایک دولت مند مرد کی بیوی ہوں مگر میں دل سے یہی خواہش کرتی کہ کاش مجھے ایک بار پھر کوئی نئی زندگی مل جائے اور میں ایک ایسے مرد کے ساتھ زندگی گزار سکوں جہاں میں اپنے خود کے ہونے کے احساس کو ختم کئے بغیر برابر سے ہمبستری کا لطف اٹھا سکوں۔  اس کے ساتھ بھر پور زندگی جی سکوں جیسی زندگی میں نے اپنے خوابوں میں دیکھی تھی۔  ابّی، کشو، رحمت علی، پرکاش، وولکی، برکت علی۔ ۔ ۔ میں ایسے تمام مردوں سے الگ اپنا مرد چاہتی تھی جو عورت کو بستر تک دوڑ لگاتی چابی والی گڑیا جیسی نہ سمجھے۔

جسمانی عشق نہ بذات خود مکمل ہوتا ہے، نہ یہ عورت یا مرد کے زندہ رہنے کا مقصد ہے بلکہ یہ انسانی زندگی کا ایک باب ہے جو بہر حال بہت اہم ہے مگر میرے مقدر میں اس باب کے ہر صفحے سیاہ روشنائی سے لکھے گئے تھے۔  ایک بار کشو کا موڈ اچھا دیکھ کر میں نے اسے زندگی کے صحیح معنی سمجھانے کی کوشش کی تو اس نے بڑے پیار سے میرے دونوں شانوں کو اپنی انگلیوں کی گرفت میں لیتے ہوئے سمجھایا۔  ’’ میری جان! کون کہتا ہے کہ تم کتابی زندگی جیو، اصلی زندگی لفظوں میں نہیں کتاب کے باہر جی جاتی ہے۔  تم یہ کیوں سمجھتی ہو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تمھیں ایسی غلط فہمی کیوں ہے کہ میں کوزے میں بند رہ کر تمھارے ساتھ زندگی گزار دوں گا۔  بخدا ہر انسان کو یہ حق ہے کہ وہ زندگی کے سارے رنگ سارے روپ دیکھے، زندگی کو ہر رخ سے پرکھے۔  تلخ  و شیریں جو کچھ اس کے پاس ہے اسے چکھے۔  میرے جیسے مرد کی بیوی ہو کر بھی تم ہر زیر و بام پر چلنے سے گھبراتی ہو۔  زندگی میں وسعت ہے اس لئے اپنی ذات کو پھیلاؤ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

میں اس کی باتیں سنتی رہی اور اپنی زندگی میں آنے والے مردوں کے مزاج کا تجزیہ کرتی رہی ہر ایک اپنے فکری معیار کے حساب سے زندگی جیتا ہے۔ ان تمام مردوں میں مجھے اپنے ابّی اعلیٰ صفت انسان لگے۔

ابّی مجھے پسند تھے مگر چھوٹی امّی کی وجہ سے میں ان سے بھی خار کھائے رہتی تھی۔ میرا بچپن بہت خالی خالی گزرا تھا۔  سرپرستی ہوتے ہوئے بھی میں سب کے بیچ اپنے کو بہت اجنبی سمجھتی۔ فردوس کی وجہ سے کھائی وہ مار جس کی چوٹیں مجھے میرے جسم پر نہیں روح کی گہرائیوں میں اترتی محسوس ہوتی تھیں، وہ میں کیسے بھول سکتی تھی بچپن میں خاص کر کے فردوس کے کھلونے توڑ دیتی۔  پھر چھوٹی امّی سے خوب مار کھاتی۔ ایک بار تو میں نے کھسیا کر انھیں کمینی عورت کہہ دیا تھا۔ پورے گھر میں وبال ٹوٹ پڑا۔ میر ی زبان درازی اپنی ساری حدیں توڑ چکی تھی مگر میں کیا کرتی۔  میں بچاؤ میں دونوں ہاتھ اٹھائے تھی اور وہ ابّی کی بڑی سی چپل سے مجھے پیٹ رہی تھیں۔  میرے دونوں ہاتھ مار کی چوٹ سے لال ہو کر سن پڑ گئے تھے۔ مگر چھوٹی امیّ کا ہاتھ نہیں رک رہا تھا۔ میں نے بلبلا کر اپنے جسم کو جھول دے کر بھاگنا چاہا، اسی ہائے توبہ میں ایک بھر پور چپل میرے چہرے پر پڑی۔ دل میں جس گالی کو میں  نے دسیوں بار بکا تھا وہ بے ساختہ   میرے لبوں پر آ گئی تھی۔  ابّی کو فون کر کے ساری باتیں چھوٹی امّی نے بتائیں۔  میں  ڈر کے مارے اسٹور روم میں جا کر بڑی سی میز کے نیچے چھپ گئی اور پھر میں چھوٹی امّی کے ساتھ، ابّی کو، فردوس کو بد دعائیں دیتی رہی۔  روتی رہی۔  ڈرتی رہی اور آنے والے وقت کو سوچ کر پورے جسم کی تھر تھری سہتی رہی۔

جب نانی کبھی بہت دکھی ہوتیں تو کہتیں – یا اللہ کہیں کتے بلی کو موت آ رہی ہو تو مجھے آ جائے۔  اب مجھ سے سہا نہیں جاتا۔  امّی کی موت کے بعد وہ اپنے آپ کو بھرے گھر میں بالکل تنہا محسوس کرتیں۔  آج میں بھی میز کے نیچے دبکی نانی کی طرح ہی اپنے کو بددعا دے رہی تھی- یا اللہ کہیں کتے بلی کو موت آ رہی ہو تو مجھے آ جائے۔  میرا ننھا دماغ بھٹک گیا۔ کتے بلی کیوں ؟ شیرنی کی طرح کیوں نہیں۔ میں نے جلدی سے اپنی زبان سنبھالی-’’ اللہ میاں کہیں شیرنی کو موت آ رہی ہو تو مجھے آ جائے۔ ‘‘

شام کو ابّی آئے۔  ابّی کی آواز سن کر میں اور بھی دبک گئی۔  مگر دیر رات تک نہ میرے پاس ابّی آئے، نہ چھوٹی امّی۔  میں بغیر کھانا کھائے وہیں سو گئی۔  بیچ رات میں مجھے کوئی میز کے نیچے سے کھینچ رہا تھا۔  پسینے سے میرا جسم شرابور ہو رہا تھا۔ میری شلوار گیلی تھی۔ سوتے میں مجھ سے خطا ہو گئی تھی۔ چہرہ آنسوؤں سے چپچپا رہا تھا۔ پپوٹے سوجے ہوئے تھے۔  میں ڈر کے مارے کانپنے لگی۔  مار کا خوف مجھے رلانے لگا۔ تبھی فریدن بوا کی آواز کانوں سے ٹکرائی ’’بٹیا باہر آؤ‘‘ اور انھوں نے کھینچ کر مجھے باہر نکالا۔  میرا منہ دھلایا۔  کپڑے بدلوائے پھر باورچی خانے میں لے جا کر دال چاول گرم کر کے کھلایا اور تھپک تھپک کر اپنے ساتھ اپنی پلنگ پر سلا دیا۔  میں ان کی کمر سے لپٹ کر اسی طرح سو گئی جیسے اپنی امّی کے ساتھ سوتی تھی۔

اگر ابّی نے چھوٹی امّی سے شادی نہ کی ہوتی تو میں یہی دعا مانگتی کی  یا اللہ مجھے شوہر ابّی جیسا دینا اور میں بھی اپنے پیارے ابّی کو کشو کی صف میں کھڑا نہ کرتی۔

٭

صبح گھڑی کے الارم کے بعد میری نیند کھلی۔ دن بھر کی تھکن اور رات کی گہری سوچ نے مجھے ذہنی و جسمانی طور پر پوری طرح توڑ دیا تھا۔  جلدی جلدی نماز ادا کرنے کے بعد گرم چائے پی، اور نہا دھو کر کشو کی پسند کی ساڑی پہن کر گہرے میک اپ اور ہائی ہیل کے ساتھ ایئر پورٹ جانے کے لئے گڈو کو لے کر گھر سے نکل پڑی۔  لمبی چوڑی سیاہ سڑکوں کو پار کرتی ہوئی اس وقت میری گاڑی ہائی وے پر دوڑ رہی تھی۔

کشو آ رہا تھا، میں اس کے ساتھ گزارے پلوں کو یاد کر رہی تھی۔  ان خوش نما لمحوں کو بھی جو ہمارے نہیں تھے اور ان اذیت ناک راتوں کا کرب بھی یاد کر رہی تھی جس کا درد ہمارے زخموں سے نہیں بلکہ افشائے فطرت سے پھوٹتا ہے۔ گزرا ہوا کل ہماری آج کی یاد کے سوا اور کچھ نہیں اور آنے والا کل ہمارے آج کا خواب ہے۔ گاڑی ایک جھٹکے سے رک گئی اور اسی کے ساتھ میری سوچ کا تسلسل بھی ٹوٹ گیا۔

٭

بہت دھوم دھام سے نیفو کا نکاح راشد مرزا کے ساتھ ہو گیا۔  ہر طرف کشو کی واہ واہی تھی۔ مجھ سے جلن حسد کرنے والوں کی تعداد بڑھ گئی۔  ابّی نے کئی بار میرے ماتھے کو چوما، کشو کو دعائیں دیں۔  بن ماں کی بچی کی ذمہ داری سے سبک دوش ہو کر ابّی بیحد خوش تھے اور جلد سے جلد اپنا تیسرا حج کرنا چاہتے تھے۔  کشو نے پورا یقین دلایا تھا کہ وہ اس کام کو بھی انشاء اللہ انجام دے د ے گا۔

سب سے زیادہ لوگوں کو خوشی اس بات کی بھی ہو رہی تھی کہ کشو نے راشد مرزا اور نیفو کے ہنی مون کے لئے منہ دکھائی میں سوٹزر لینڈ کا ٹکٹ دیا تھا۔  وہاں وہ ایک ہفتہ رہ سکتے تھے۔ نیفو کے پیر زمین پر نہیں پڑ رہے تھے۔  راشد مرزا بھی کشو کی طرح پیسے والا تھا جوان اور وجیہہ۔  لوگ ابّی کو اتنا اچھا داماد ملنے پر کتنی مبارک باد دے رہے تھے۔  ابّی بہت خوش  تھے۔  ایک تو ان کی بیٹی کو اچھا شوہر ملا دوسرے نیفو غیر ملک پہلی بار گھومنے جا رہی تھی۔  لیکن سچائی کا مجھے علم تھا۔  راشد کے بھائی کے ساتھ تجارت کے سلسلے میں کشو کی ایک بہت بڑی ڈیل ہوئی تھی۔  وہ سوٹزر لینڈ کا ٹکٹ راشد کے ہاتھ میں رکھ کر کہیں نہ کہیں سے اپنے دوست کے سامنے اپنا قد اونچا کرنا چاہتا تھا۔ سوٹزر لینڈ کا ٹکٹ تیز رفتار گھوڑے پر لگایا اس کا ایک داؤ تھا۔  اسے پوری امّید تھی کہ اس ڈیل سے وہ مڈل ایسٹ میں ہندوستانی لباس اور زیوروں کے فروخت کی اپنی تجارت کافی پھیلا لے گا۔  اس کام کی شروعات غیر ملکوں میں اس کے والد نے کی تھی اور ان کے بعد کاشف اصغر نے یہ تجارت خود سنبھال لی تھی۔  نیفو کا مہر جہاں اکیاون ہزار طے ہوا تھا وہیں کشو نے راشد مرزا کے ہاتھ میں ایک لاکھ کا کیش منہ دکھائی میں پکڑا کر لوگوں کو حیران کر دیا تھا۔  سب کچھ بھلا لگ رہا تھا۔  میں بھی خوش اور مطمئن تھی کہ چلو ہماری بہن کے سہرے کی کلیاں تو کھلیں۔  کون دیکھتا ہے ماضی میں کیا ہوا۔  بڑی سے بڑی باتوں پر دھول پڑ جاتی ہے۔ لوگ گزرا کل بھول جاتے ہیں اور آنے والے کل کے خوشنما خوابوں سے اپنا آج سجا لیتے ہیں۔  میرے اور نیفو کے علاوہ کوئی اس سچ کو نہیں جانتا تھا کہ نیفو کے ماضی کا کونسا صفحہ ناگ پھنی کے کانٹوں سے بندھا ہوا ہے۔  میں اس حادثے کو بھول جانا چاہتی تھی اور مجھے یقین تھا کہ نیفو بھی بھول چکی ہو گی۔

’’اپّی پلیز میری پیکنگ کرا دیجئے۔  میر ی کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا ہے میں کیا لے جاؤں اور کیا چھوڑوں۔ ‘‘

نیفو کی چہکتی ہوئی آواز میرے کانوں سے ٹکرائی—–’’ تم پریشان مت ہو، میں تمہارے سفر کی ضرورتوں کے حساب سے پیکنگ کر دیتی ہوں۔ اس کے کمرے میں جا کر میں نے بیڈ پر وہ سارے سامان اکٹھے کرنے شروع کر دیئے جو مجھے سفر کے لئے ضروری لگتے تھے تبھی راشد مرزا کمرے میں داخل ہوئے—-’’یہ کیا کر رہی ہو اپّی؟‘‘ تیزی سے چلتے میرے ہاتھ رک گئے—-’’ وہ نیفو نے کہا تھا کہ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ کیا سامان لے جائے تو میں اس کی مدد کے لئے آ گئی۔ ‘‘

راشد مرزا نے ایک سرسری نظر بیڈ پر پھیلے کپڑوں پر ڈالی اور حیرانی سے بولا—-’’کیا نیفو سوٹزر لینڈ جا کر اس طرح کے کپڑے پہنے گی۔ ‘‘

میں نے غور سے ان کپڑوں پر نگاہ دوڑائی۔ میں نے کوشش کی تھی کہ کوئی بھی کپڑے بہت بھڑکیلے نہ ہوں۔  مگر نئی دلہن کے کپڑوں کو کتنا سادا کیا جا سکتا ہے۔  اس نے وہ سارے کپڑے اپنے دونوں ہاتھوں سے گودڑ کی طرح اٹھائے اور الماری کے پٹ کھول کر اس میں ٹھونس دیے۔  مجھے اس کا رویہ پسند نہیں آیا۔  کچھ بھی ہو میں دلہن کی بڑی بہن تھی۔  مجھے اپنی بے عزتی محسوس ہوئی۔  میں نے پلٹ کر نیفو کی طرف دیکھا۔  اس کے چہرے پر مسکراہٹ سجی ہوئی تھی جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔

میں کمرے سے باہر نکل کر جانا چاہتی تھی تبھی راشد مرزا کا ڈرائیور دو تین بڑے بڑے پیکیٹ لے کر آیا اور صوفے پر رکھ کر ہم سب کو سلام کر کے نکل گیا۔ باہر جاتے میرے قدم ٹھٹھک گئے ان پیکیٹس میں کیا ہے۔  نیفو نے بغیر سوچے سمجھے وہ سارے پیکیٹس اٹھا کر بیڈ پر پلٹ دئے۔  کئی زنانی جینس اور شرٹ اس کے اندر سے نکلے۔  کچھ امپورٹیڈ  نائیٹی اور انڈر گارمینٹس بھی تھے۔  جن کے فیتے کہاں جا کر کہاں بندھیں گے کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔

’’یہ جینس شرٹ کس کے لئے  ہیں ؟‘‘ میں نے پوچھا

’’یہ میری اس جان کے لئے ہیں۔ ‘‘

راشد مرزا نے آگے بڑھ کر میری موجودگی میں اس کے لبوں کو چوم لیا۔  میرا پورا جسم پسینے سے نہا گیا۔  میں تیر کی تیزی سے کمرے سے باہر بھاگی۔  میری سانس پھولنے لگی اور چہرے پر بدحواسی تھی۔  کیوں کہ میں نے نہ صرف راشد مرزا کے لبوں کو دیکھا تھا بلکہ نیفو کے جسم کے ابھار پر اس کی سرسراتی انگلیوں پر بھی غور کیا تھا۔  یہ سب کچھ اتنی تیزی سے اور کم وقت میں گھٹا تھا کہ میں کچھ سمجھ ہی نہیں سکی اور جب سمجھ میں آیا تو ہوش ہی نہیں رہا۔  میں بھاگتی ہوئی اس کمرے میں آئی جو شادی کے دوران مجھے رہنے کے لئے ملا تھا۔ کشو دروازے سے نکل رہا تھا میں اپنی پوری جھونک میں اس سے ٹکرائی۔ اس نے دونوں شانے اپنے ہاتھوں میں پکڑ لئے- کیا ہوا؟کیا ہوا؟ وہ بھی میری حالت دیکھ کر گھبرا گیا تھا۔ میں نے جب ساری باتیں اس کو بتائیں تو اس نے بری طرح سے مجھے پھٹکارا-

’’تمہیں میاں بیوی کے کمرے میں گھسنے کی کیا ضرورت تھی۔ دنیا دیکھے لڑکا ہے میری طرح نہیں کہ بوڑھی گھوڑی کو ڈھوتے ڈھوتے عمر کاٹ دو۔ ‘‘

’’کیا؟‘‘ تیر کی طرح وہ جملہ میرے اندر اتر گیا۔ میں بھڑک اٹھی-’’پہلی بات تو یہ ہے کہ میں اپنی مرضی سے اس کے کمرے میں نہیں گئی تھی۔  نیفو مجھے لے کر گئی تھی۔ دوسری میں اگر بوڑھی گھوڑی ہوں تو تم بھی جوان نہیں۔ ‘‘

’’اچھا تو تمہیں جوان مرد چاہئے؟‘‘ کشو نے اپنی جاہلانہ گفتگو شروع کر دی۔

’’ہٹو مجھے باہر جانے دو؟‘‘ میں اسے دھکا دے کر باہر نکلنا چاہتی تھی مگر اس نے جانے کا راستہ روک لیا-

’’میں دیکھ رہا ہوں کہ مائکے میں آ کر تم زیادہ شیرنی بن جاتی ہو۔  ابھی منٹ نہیں لگیں گے، تمہیں آسمان سے زمین پر اتار دوں گا۔ ‘‘

میں جانتی تھی کہ یہ صرف دھمکی ہی نہیں ہے۔  وہ کئی بار یہاں بھی میرے اوپر ہاتھ اٹھا چکا تھا۔ ایک بار میر ی طرف سے ا بّی نے اس سے معافی مانگی تھی۔  میں نہیں چاہتی کہ نئے داماد کے سامنے میری ذلت ہو۔  میں نے ہتھیار ڈال دئے-

’’دیکھو غلط مت سمجھو۔  میں تھوڑی گھبرائی ہوئی تھی۔  گھبراہٹ میں اوٹ پٹانگ ہی زبان سے نکلتا ہے۔ ‘‘

’’چلو! اپنا سامان باندھو اور واپس چلو۔ ‘‘

’’ٹھیک ہے!‘‘ میں چھوٹا سا جواب دیکر باہر آ گئی۔

کشو کو جھیلتے جھیلتے میں ا س کی عادی ہو چکی تھی۔  اس لئے اب اس کے برتاؤ، اس کی مار پیٹ اتنی بری نہیں لگتی تھی جتنی شرو ع کے دنوں میں۔  کشو جیسا بھی تھا میں نے قبول کر لیا تھا۔

مگر نیفو کیا راشد مرزا کو قبول کر پائے گی کیوں کہ یہ مرد مجھے تمام مردوں سے الگ مگر پیچیدہ لگا۔  وہ جیسا دکھتا ہے ویسا نہیں ہے اتنا مجھے اندازہ ہو گیا تھا یا میری چھٹی حس یہ بتا رہی تھی کہ وہ صحیح آدمی نہیں ہے۔  کیوں ؟ اس کا جواب میرے پا س نہیں تھا۔

اس کے اندر اپنی نئی آئی دولت کا غرور تھا۔ وہ خود کو ماڈرن شو کرنا چاہتا۔ وہ لوگوں کو یہ بتانا چاہتا کہ اس کا رہن سہن، اس کی زندگی، اس کی سوچ، اس کے نظریہ ان تمام لوگوں سے الگ ہیں جو ابّی کے گھر میں موجود ہیں۔

نیفو کو کنارے لے جا کر میں نے اسے سمجھانا چاہا۔  ’’دیکھو ہوشیار رہنا، اس مرد کو پہلے پڑھنا سمجھنا اس پر غور کرنا پھر اپنے آپ کو کھولنا۔  کھولنے کا مطلب یہ نہیں کی ان ساری باتوں کو بھی کھول دو جس پر ہم لوگ پردہ ڈال چکے ہیں۔  تمہاری زندگی راشد مرزا کے ساتھ جس دن سے شروع ہوتی ہے اسی دن سے سمجھو تمہیں راشد کو اپنی زندگی کا حساب کتاب دینا ہے۔  پچھلی زندگی کیسی تھی۔  تم نے کن دکھ سکھ کے لمحوں کو ابّی کے گھر میں گزارا ان کا کوئی ذکر راشد مرزا کے سامنے کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ‘‘

میں نے نیفو کو نصیحت دی۔  اس نے فوراً میری بات کاٹ دی۔  ’’اپّی آپ راشد کو سمجھیں نہیں۔  وہ بہت کھلے خیالوں کے انسان ہیں۔ ہم لوگ تو اپنی زندگی دقیانوسی طریقے سے گزارتے ہیں مگر راشد کھلے دماغ کا آدمی ہے۔  زندگی کو اپنے طریقے سے جیتا ہے۔ وہ کسی کی تنقید برداشت نہیں کرتا۔ ‘‘

میں جھنجھلا گئی-’’تم راشد مرزا کو کتنا سمجھ پائی ہو۔ جمعہ جمعہ آٹھ دن اور تم طرفداری کرنے لگی۔ ‘‘

’’اپّی یہ مت بھولئے کہ وہ میرے شوہر ہیں اور میں اپنے شوہر کے خلاف ایک لفظ نہیں سن سکتی۔  میری آخرت خراب ہو گی۔ ‘‘

’’ارے واہ تم تو ابّی کی زبان بولنے لگی۔  میں صرف اتنا کہنا چاہتی ہوں کہ ہوشیار رہنا۔  ایسا نہ ہو کہ تم راشد مرزا کے ہاتھ کا کھلونا بن جاؤ۔ ‘‘

’’میں پڑھی لکھی سمجھدار لڑکی ہوں۔  کوئی مجھے کھلونا کیسے بنا لے گا۔ ‘‘ وہ پیشانی پر بل دے کر مجھ سے دور چلی جانا چاہتی تھی مگر کچھ قدم چل کر ٹھٹھک گئی اور واپس میرے طرف پلٹ آئی۔ ’’اپّی میں آپ کے پاس ایک کام سے آئی تھی۔ ‘‘

’’ہاں بولو‘‘ میرا دل اس کا جواب سن کر ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا تھا مگر میں خود کو سنبھالے کھڑی رہی۔

’’راشد کہہ رہے ہیں کہ یہاں بڑی بھیڑ ہے۔  اس لئے کسی اچھے ہوٹل میں شفٹ ہونا چاہتے ہیں۔  ابھی تو سوٹزر لینڈ جانے میں دو دن بچے ہیں۔  وہ دو دن انجوئے کرنا چاہتے ہیں۔  نیفو کے چہرے پر حیا کی سرخی آ گئی تھی۔  میں چپ چاپ خاموش نگاہوں سے اسے دیکھتی رہی۔ کیا یہ وہی لڑکی ہے جسے میں اپنی ننھی پری کہا کرتی تھی۔  جو میرے سامنے زبان کھولنے کی ہمّت نہیں کرتی تھی۔  جس کی غلطیوں پر میں بچپن سے ہی پردہ ڈالا کرتی تھی۔  وہ ننھی سی پری چند دنوں میں ہی اتنا بد ل گئی، تہذیب و حیا سب بھول بیٹھی۔

’’اپّی پلیز۔  آپ ابّی سے بات کر لیجئے۔  مجھے جا کر راشد کو جواب دینا ہے۔ ‘‘

میں بھاری قدموں سے ابّی کے کمرے کی طرف بڑھی۔  اگر فردوس اپنے سسرال واپس نہیں چلی گئی ہوتی تو یہ کام میں اسی سے کرواتی۔  وہ تو سچ مچ کی بے زبان جانور ہے جس نے جو کہا اس کا کام کر نے کے لیے تیار۔ وہ بھی عجیب غلام فطرت کی تھی۔ میں ابّی کے کمرے میں داخل ہوئی، دسیوں باتیں ادھر ادھر کی کرنے کے بعد میں نے انہیں راشد مرزا کی منشا بتا دی۔ وہ بستر سے اٹھ کر بیٹھ گئے اور پھٹی پھٹی آنکھوں سے مجھے دیکھنے لگے۔  میں بری طرح سے گھبرا گئی-’’ ابّی یہ میں نہیں کہہ رہی ہوں۔ نیفو نے بتایا ہے کہ راشد مرزا کی یہ مرضی ہے۔ ‘‘

’’بیٹی!اس کا دماغ خراب ہے کیا۔  اتنا بڑا گھر پڑا ہے۔  مہمان بھی لگ بھگ سب ہی واپس جا چکے ہیں۔  ملازمہ خدمت کے لئے حاضر ہے۔  گھر کا ہر سکھ چین یہاں موجود ہے پھر ہوٹل کیوں ؟‘‘

’’یہی تو میں بھی پوچھ رہی ہوں۔ ‘‘

’’پوچھ رہی ہو کس سے پوچھ رہی ہو—–‘‘

میرے لفظ آپس میں ہی الجھ گئے۔  کشو ابّی کے کمرے میں داخل ہو رہے تھے۔  سلام دعا کے بعد وہ کرسی کھینچ کر ابّی کے پاس بیٹھ گئے-

’’اور ابّی کیسا رہا انتظام۔  سارے تام جھام نپٹ گئے! آپ کے گھر میں آپ کا داماد آ گیا۔ اپنی آخری ذمہ داری سے بھی آپ سبکدوش ہو گئے! خوش ہیں نا!‘‘

’’خوش !بہت خوش!’’ پھر ابّی نے ڈھیروں دعائیں کشو کو دے ڈالیں۔  کشو سنتا رہا اور مسکراتا رہا پھر آہستہ سے بولا-

’’ابّی راشد مرزا نئے زمانے کا لڑکا ہے۔  اپنے ڈھنگ سے اپنی مرضی سے جینے والے لوگ سب کے بیچ نہیں رہ پاتے اس لئے میں نے ایک ہوٹل میں دو دن کے لئے ایک کمرہ بک کرا دیا ہے۔  راشد مرزا نیلوفر وہیں رہیں گے۔  دو دن کے بعد تو وہ سوٹزر لینڈ چلے ہی جائیں گے۔ ‘‘

ابّی چپ رہے۔  کشو کبھی میرا چہرہ ا ور کبھی ابّی کا چہرہ دیکھتا رہا اور پھر بولا—-’’ابّی میں نے آپ کی طرف سے راشد کو رضا مندی دے دی ہے۔  وہ تھوڑے سے سامان لے کر ابھی جا رہے ہیں۔ ‘‘

’’جیسی تم سب کی مرضی! میں تو اپنی زندگی جی چکا ہوں۔  اب تم لوگوں کو جینا ہے۔ جیسی مرضی ویسے جیو۔ ‘‘

ابّی کے لہجے میں گہرا دکھ تھا۔  ان کی آنکھیں اس وقت بیحدسنجیدہ ہو رہی تھیں۔ میں جانتی تھی کہ ان کی روایت پسندی کے جذبے کو ٹھیس پہنچی ہے۔  یوں بھی شریف گھروں میں ایسا چلن ابھی نہیں آیا تھا۔ ابّی نے سر جھکا لیا۔  کشو کرسی پیچھے کھسکا کر جانے کے لئے کھڑا ہوا۔  میں بھی بجھی بجھی طبیعت کے ساتھ تھکے قدموں سے اس کے پیچھے چل دی۔

٭٭٭

 

 

۹۔ یہ ربط باہم

سمندر کے کنارے/ بچے/ ریت کے گھروندے بناتے ہیں / لہریں آتی ہیں / آ کر بہا لے جاتی ہیں / میں نے بھی/ ایک گھروندا بنایا/ لہریں نہیں تم آئے/ اور اپنے پیروں تلے/ روند کر چلے گئے/ بچے اور مجھ میں / فرق اتنا ہے کہ / ریت کا گھروندا بہا/ تو بچہ ہنس پڑا/ پھر سے/ ایک نیا گھروندا بنانے کے لئے/ تم نے میرا گھروندا توڑا/ تو میں رو پڑی/ کیونکہ میں حصار میں قید/ مرد کے توڑے گھر کو/ پھر سے بنانے کی /دیوارو چھت اٹھانے کی/ نیا چوکھٹ لگا کر/ اپنے نام کی/ سنہری تختی لگانے کی/ پھر سے نیا گھر بسانے کی/ چاہت پر عمل نہیں کر پائی/ کیونکہ بچہ معصوم ہے/ زندگی کی بے رحمی کو / ہنس کر ٹال دیتا ہے/ عورت مظلوم ہے/ زندگی کے درد کو / مقدر مان کر/ ہنس کر جیتی ہے/ اور جی جی کر مرتی ہے/ روئی میں لگی آگ کی طرح/ ایک اکیلی عورت/ شب و روز سلگتی رہتی ہے۔ ۔ ۔

گھر مرکز ہے ان خوشیوں کا جو اپنوں کے ذریعہ اپنوں کو دی گئی اپنے پن کے احساس کو جلا بخشتی ہیں۔  گھر کی محفوظ چہار دیواری کے اندر تہذیب اور تربیت کا درس دیا جاتا ہے۔  یہاں رشتوں کا تقدس بھی ہوتا ہے۔  مگر ضروری نہیں کہ ہر چہار دیواری کے اندر وہی فضا ہو جو لفظوں میں بیان کی جاتی ہے۔  اس سے مختلف صورت حال میں گھر کی دہلیز لانگھنے والی عورت اس بنجارن کی طرح ہو جاتی ہے جو یادوں کی گٹھری بغل میں دبائے ہر چہرے کو رحم طلب نگاہوں سے تاکا کرتی ہے۔  جبکہ مرد معاشرے میں ’بے چارہ‘ اور ’اکیلا‘ ہو کر لوگوں کی ہمدردی کا باعث بنتا ہے۔  اس کے لئے نئے راستے کھل جاتے ہیں۔

تقریباً ایک مہینے کے بعد میں بستی کی طرف جا رہی تھی۔  اس درمیان میں اتنی الجھنوں، جھنجھٹوں اور اتنے کام میں الجھی رہی کہ مجھے ایک بار بھی نہ ستارہ کی یاد آئی، نہ یہ خیال آیا کہ اس کے بچے کی موت ہو چکی ہے، اس کے دل پر کیا گز ر رہی ہو گی۔  رحمو بابا، چمپا کاکی، پھانکی، کرینا کی طرف میرا دھیان گیا ہی نہیں۔  میں جانتی تھی کہ کچھ مجھ سے منہ پھلائے ہوں گے۔  اس لئے نہیں کہ میں بستی کیوں نہیں آئی، بلکہ میرے نہ جانے سے ان کو ملنے والا خرچ رک گیا۔  چٹورے پن کی عادی ہو رہی ا ن کی زبان طرح طرح کے ملنے والے ذائقوں سے محروم ہو گئی۔

’’گڈو ذرا گاڑی روکنا‘‘ میں نے ایک چھوٹی سی مارکیٹ کے آگے گاڑی رکوائی اور اندر جا کر ڈھیروں کھانے پینے کی چیزیں خرید لیں۔  بچوں میں بانٹنے کے لئے کچھ سستے کھلونے بھی لے لئے۔  کئی ڈبے ٹافیاں خرید لیں۔  میرے پاس دیکھنے میں کھانے پینے کی چیزیں زیادہ ہو گئی تھیں مگر روپیے کم خرچ ہوئے تھے۔  ایسا نہیں کہ میرا بینک شادی میں خالی ہو گیا تھا مگر میں خود احتیاط سے کام لے رہی تھی۔

 اس بار کشو مجھ سے بہت چڑھا ہو ا تھا۔  میں نے اس کے جاتے جاتے اس کو کوئی بھی لڑائی کا موقع نہیں دیا مگر وہ مجھ پر  خراٹ بلے کی طرح  غراتا رہتا تھا۔  وجہ یہ تھی کہ اپنی جھوٹی شان اور کھوکھلی انا کی خاطر دکھاوے میں اس نے نیلوفر کی شادی میں ضرورت سے زیادہ پیسے خرچ کر دئے تھے۔  گھر لوٹ کر اس نے جب سارے حساب کتاب کئے تو معلوم ہوا کہ روپئے اس کے بجٹ اور اس کے اندازے سے چار گنا زیادہ خرچ ہوئے تھے۔  کارڈ کے ذریعہ وہ روپیے نکالتا گیا۔  وجہ بے وجہ خرچ کرتا رہا اور اب سارا الزام مجھ پر رکھ رہا تھا کہ تمہاری بہن کی شادی میں ہی اتنے خرچ ہوئے۔  اس کے جانے کی طے شدہ تاریخ قریب آ رہی تھی۔  میں صبر سے سب برداشت کر رہی تھی۔  خود کو سمجھا رہی تھی کہ مرد ہے، کمی بیشی میں اپنی عورت کو الٹے سیدھے آڑے ہاتھوں نہیں لے گا تو کہاں جائے گا۔  میں ذہنی طور پر اس کے سخت رویہ کے لئے تیار تھی اس لئے مجھے اس کی کوئی بات بری نہیں لگ رہی تھی۔  میں کشو کی دنیا کی ایک مرتعش ذرہ ہوں اس کی فرمانبرداری میری زندگی کا حاصل ہے۔  اگر میں محبت کرتی ہوں تو وہ محبت ہمارے لئے نہیں ہماری طرف سے ہو تی ہے۔ میں خوش ہوتی ہوں تو وہ خوشی ہماری ذات میں نہیں ہوتی بلکہ نفس حیات میں ہوتی ہے۔

 عام طور پر وہ بسترپر جانے کے بعد مجھے پہلے ذہنی اور جسمانی طور پر تیار کرتا پھر منہ مارتا مگر ان دنوں وہ اس کی بھی ضرورت محسوس نہیں کر رہا تھا۔  آیا، ادھ کچا کھانا گٹکا اور تھک کر سو گیا۔ میں بھی کسی کھیت میں کام کرتی مزدورنی کی طرح اٹھتی، ہاتھ منہ دھوتی، کلاّ کر تی ایک گلاس پانی پی کر دکھتے ہوئے اپنے بدن کو ڈھیر کی طرح بیڈ پر گرا دیتی اور گہری نیند سو جاتی۔  میں غور کر رہی تھی کہ میں بھی اس معاملہ میں کتنی بے حس ہوتی جا رہی ہوں۔ لذتیں اور مزے دور ہوتے جا رہے تھے۔ لطف اٹھانے کا جذبہ مر رہا تھا اور سب کچھ کسی روبوٹ کی طرح مشینی انداز میں ہوتا رہتا بغیر ایک دوسرے کا حال چال لئے چپ پڑ کر سو جاتے۔ اس دوران اکثر ایسا بھی ہوا ہے کہ کشو نے میرے اندر جنسی لذت کو ابھارنے کی کوشش بھی کی ہے تو صرف اس لئے کہ وہ اپنی لذت کو اور زیادہ ابھارنا چاہتا تھا۔

کشو ان مردوں میں سے تھا جو روپیوں کی گرمی میں ہی سانس لیتے ہیں اور جیتے ہیں۔  ایسا نہیں تھا کہ اس کے پاس پیسوں کی کمی ہو گئی تھی مگر میں یہ بھی جانتی تھی کی بنیادی طور پر وہ بیحد کنجوس آدمی ہے۔  شو بازی میں پیسے تو خرچ کر دیتا ہے مگر بعد میں جب ہنگامے ٹھنڈے پڑ جاتے ہیں تو اسے احساس ہو تا ہے کہ اس نے اتنا خرچ کر کے غلط کیا۔

راشد مرزا اور نیفو کو سوٹزر لینڈ گئے چار دن ہو چکے تھے۔  گھر اپنے معمول پر آ گیا تھا۔  وہاں اب ابّی اور فریدن بوا ہی بچے تھے۔  اب گھر میں تین فرد کی گنتی گھٹ کر دو پر آ گئی تھی۔  فریدن بوا کے ہاتھ میں جیسے پورے گھرکی چابی آ گئی تھیں اور وہ بے چاری پوری ایمانداری سے گھر کی وفادار ملازمہ کا حق ادا کر رہی تھیں۔  ابّی کی زندگی میں اب مکمل طریقے سے تنہائی اتر آئی تھی کیوں کہ ’ابھی تک ایک ذمہ داری بچی ہے‘ اس کا خیال انہیں بستر پر پڑنے سے روکتا تھا۔  ایک حج اور کرنے کی للک کے علاوہ اب ان کی زندگی میں کچھ بھی کرنے کو نہیں بچا تھا۔  وہ اپنے آخری داماد راشد مرزا سے کافی خوش تھے مگر میں بالکل خوش نہیں تھی۔  کچھ بھی ہو میں نے کشو کے ساتھ دنیا تو دیکھی تھی۔  مردوں کے طرح طرح کے مکھوٹے کو پہچانتی تھی۔  ہو سکتا ہے راشد اچھا آدمی ہو مگر ہم جس مسلم سوسائٹی سے وابستہ تھے وہاں راشد جیسے لوگوں کو غنڈہ بدتمیز کہہ کر جانا جاتا تھا۔  میں فردوس کو ہی ایک ڈھیلی ڈھالی بدھو لڑکی سمجھتی تھی مگر نیفو تو بڑی بہن سے زیادہ کم عقل نکلی۔  اگر کم عقل نہ ہوتی تو اپنی عصمت کو تار تار کیوں ہونے دیتی۔ مردوں کی مکّاری اور فریب کاری کو تھوڑا بہت سمجھ پاتی۔ کتنی آسانی سے ان کے پھینکے ہوئے جال میں پھنس جاتی ہے۔  چاہے راشد مرزا ہوں یا پہلے والا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  میں نے ہوشیاری نہ دکھائی ہوتی تو اب تک وہ ہمیشہ کے لئے ان خوشیوں سے محروم ہو جاتی جنہیں پانے کا خواب لڑکیاں دیکھا کرتی ہیں۔ اسے اپنا آشیانہ کبھی نہیں مل پاتا۔  وہ کنواری ماں بن کر باپ کی دہلیز کی عزّت نیلام کر چکی ہوتی، چھوٹی امّی کی دونوں لڑکیاں عقل سے پیدل تھیں۔  میں شاید حالات کی وجہ سے عمر سے زیادہ سمجھدار نکلی۔

میں اپنی سوچ میں ڈوبی ہوئی تھی اور موبائل پر ہوتی ہوئی رنگ مجھے سنائی نہیں دے رہی تھی۔  یوں بھی میں نے رنگ ٹون دھیمی کر رکھی تھی اور موبائل پرس میں تھا۔

گڈو نے گاڑی کنارے کر کے روک دی-’’کیا ہوا باجی؟‘‘

’’کچھ نہیں ! تم نے گاڑی کیوں روک دی؟‘‘

’’موبائل پر لگاتار کسی کا فون آ رہا ہے۔ آپ کا دھیان اس طرف نہیں جا رہا تھا اس لئے مجھے کار روکنی پڑی۔ ‘‘

’’اوہ!‘‘ میں نے جلدی سے پرس کی زپ کھولی اور موبائل باہر نکالا۔  نیفو کا فون تھا۔  تین مس کال اس میں پڑی تھیں۔  جلدی سے فون ریسیو کیا-’’ہاں !ہیلو! کہو نیفو کیسی ہو؟‘‘

’’السلام علیکم اپّی!‘‘

’’وعلیکم السلام جیتی رہو! خوش رہو؟‘‘

میں نے اسے دعائیں دیں۔  وہ کوئل کی طرح کوک رہی تھی۔  اس کی آواز میں پرندوں جیسی چہک تھی۔ میں نے دل ہی دل میں اسے دعائیں دیں۔

’’یا اللہ میری بہن کی خوشیوں کو بنائے رکھنا۔ ‘‘

’’اپّی آپ سب لوگ کیسے ہیں۔  میں نے ابّی کو فون کیا تھا مگر ریسیو نہیں ہوا۔ ‘‘

’’اچھا! سو رہے ہوں گے۔  اب ان کے آرام کا وقت بڑھ گیا ہے تم نے فریدن بوا کے موبائل پر کر لیا ہوتا۔ ‘‘

’’مجھے خیال نہیں آیا۔ ‘‘

’’خوب انجوائے کر رہی ہو، نا!‘‘

’’خوب خوب باجی خوب!‘‘ اچانک مجھے احساس ہو ا کہ وہ موبائل پر فلائنگ کِس دے رہی ہے۔  فون پر مجھے ایسی ہی آواز سنائی دی۔

’’کیا ہوا نیفو!‘‘ میں اس بات کی تصدیق کرنا چاہتی تھی۔ ‘‘

’’اپّی یہ سارے کس آپ کے گالوں کے لئے ہیں۔ ‘‘

پیچھے سے مجھے راشد مرزا کے زور سے قہقہہ لگا کر ہنسنے کی آواز سنائی دی۔ میں جھینپ گئی۔  مجھے لگا جیسے وہ میرے سامنے ہو۔

’’اچھا تو تم نے بہت کچھ سیکھ لیا ہے۔ ‘‘

’’اپّی یہ راشد بہت شرارتی ہیں۔  میں لوٹ کر آؤں گی تو آپ ان کی خوب خبر لیجئے گا۔ ‘‘

’’اچھا! اچھا,‘‘  میں نے بات ٹالنے کے لئے کہا۔  تبھی راشد مرزا نے اس کے ہاتھ سے موبائل چھین لیا اور سلام دعا کے بعد ہنستے ہوئے کہنے لگا -’’ اپّی آپ کی ننھی پری بھی کافی اونچی ہستی ہیں۔ ‘‘

’’کیا مطلب؟‘‘ میرا لہجہ سنجیدہ ہو گیا۔  میں نے اس کی آواز میں چھپے طنز کو پہچان لیا تھا۔  ا س نے ہنستے ہوئے کہا۔ ’’آپ تو ایسے بول رہی ہیں جیسے کچھ جانتی ہی نہیں۔ ‘‘

میری آنکھوں کے سامنے زمین آسمان گھوم گئے۔  اندھیرا چھا گیا اور اتنی زور سے چکر آیا کہ لگا زندگی ابھی ختم ہو جائے گی۔  میں نے جلدی سے گاڑی پھر سے کنارے رکوائی اور اشارے سے گڈو سے ایک گلاس پانی مانگا۔  میں اپنے ساتھ اپنے کھانے پینے کے ہلکے اسنیکس، کافی اور پانی کی بوتل لے کر بستی جاتی تھی کیوں کہ جانتی تھی کہ وہاں زیادہ وقت لگ سکتا ہے۔  میں اپنی سیٹ پر سنبھل کر بیٹھ گئی اور پھر گلا صاف کرتے ہوئے بولی–

’’ہاں ! راشد بولو کیا کہہ رہے تھے۔ ۔ ۔  ڈرائیونگ کر رہی ہوں اس لئے پوری توجہ سے سن نہیں پائی۔ ‘‘ میں نے خود کو سنبھالتے ہوئے بہانہ کیا۔

’’نہیں سن پائیں تو اچھا ہی ہوا۔ ‘‘راشد کی ہنستی ہوئی آواز سنائی دی۔

’’نہیں نہیں !بولو بولو!‘‘ میں جلد سے جلد بات کی اصلیت کو جاننا چاہتی تھی۔  تبھی مجھے لگا کہ نیفو راشد کے ہاتھ سے موبائل کو کھینچ رہی ہے کیوں کہ اسپیکر پر دونوں کی چھینا جھپٹی کی آواز سنائی دے رہی تھی۔ نیفو کسی بات کے لئے منع کر رہی تھی اور راشد اس کی بات ماننے کو تیار نہیں تھا۔  اس افرا تفری میں فون کٹ گیا یا کاٹ دیا گیا، معلوم نہیں۔

مجھے خطرے کی گھنٹی صاف سنائی دے گئی تھی۔  میں بات کی تہہ تک جانا چاہتی تھی۔  میں نے دوبارہ رنگ کیا۔  نیفو کا موبائل سوئچ آف تھا۔  میں نے راشد کے نمبر پر کلک کیا۔  گھنٹی بجتی رہی مگر ریسیو نہیں ہوا۔  میں نے بار بار فون کیا۔  میرا انداز ہ تھا کہ کم سے کم دس بار تو میں نے ضرور رنگ کیا ہو گا۔  یا تو اسنے سائلنس پر موبائل ڈال رکھا ہے یا پھر وہ جان بوجھ کر ریسیو نہیں کر رہا تھا۔  میں بہت بے چین ہو اٹھی۔  میں نے ابّی کو فون ملایا۔  صرف اس لئے کہ یہ جان سکوں کہ وہاں سب ٹھیک ٹھاک ہے نا! ابّی کی باتوں سے مجھے کوئی تناؤ والی بات نہیں لگی۔ پھر میں نے فوراً ہی فردوس کو بھی فون کیا۔  اس نے بھی رسمی بات چیت کی۔  سلام دعا خیریت اور پھر فون رکھ دیا گیا۔  یعنی ہر طرف سب ٹھیک ٹھاک تھا۔

راشد جیسے مردوں کے لئے نیفو صحیح جوڑا نہیں تھی۔  ہم لوگ دولت مند ہوتے ہوئے بھی پرانے رسم و رواج سے جڑے ہوئے لوگ تھے مگر مجھے راشد مرزا ان لوگوں کی طرح لگا جو اپنی زمین چھوڑ کر اڑتے ہیں۔  اتنا اوپر اڑتے ہیں کہ سورج کی گرمی سے پنکھ جل جاتے ہیں۔

کہیں کشو نے اپنی تجارت کی ڈیل میں نیفو کی زندگی کی قربانی تو نہیں دے دی۔  اس کی خوشیوں کا سودا تو نہیں کر دیا۔  میں چاہتی تھی کہ نیفو کی شادی ایک شریف کھاتے پیتے گھر میں ہو جائے اور عزّت سے اس کی زندگی کٹ جائے۔  مگر کشو کے آگے میری کب چلی تھی۔  مجھے یہ بھی معلوم تھا کہ اس کی مدد کے بغیر اس مرحلے کو میں اکیلی پار نہیں لگا سکتی۔

یا اللہ میری نیفو کو عقل دینا۔  جذبات میں بہنے سے روکنا۔  صحیح غلط کو سمجھ سکے، اس کی تمیز دینا۔  اے میرے پروردگار ابّی کی عزّت بچانا۔  تو ہی عزّت بخشنے والا ہے۔

’’کیا ہوا باجی؟‘‘ گڈو کی آواز نے مجھے چونکا دیا کیوں کہ یہ ساری باتیں میں بلند آواز میں کہہ رہی تھی۔

’’گڈو گاڑی واپس لے چلو۔ میں آج نہیں کل بستی جاؤں گی۔  میری طبیعت ٹھیک نہیں۔ ‘‘ گڈو نے گاڑی واپس موڑ لی اور میں اپنے بستر پر پڑی سارا دن ریت پر پڑی مچھلی کی طرح چھٹپٹاتی رہی دعائیں مانگتی رہی۔  مگر جو ہونا ہوتا ہے ہو کر رہتا ہے۔

٭

دو تین دن اور گزر گئے۔  میں بستی نہیں جا سکی کھانے پینے کے سارے پیکیٹس ایک پولیتھن میں بندھے کارنر ٹیبل پر رکھے رہے۔  مجھے راشد مرزا کی بات سے اتنی تکلیف پہنچی تھی کہ میں بیان نہیں کر سکتی۔  بظاہر بہت معمولی بات تھی مگر ان معمولی جملوں کے پیچھے آگ بھری بارود کی بو میں نے محسوس کر لی تھی۔  میری حس مجھے بتا رہی تھی کہ نیفو نے اپنے پیروں پر کلہاڑی مار لی ہے۔  مگر میں یقینی طور پر کوئی رائے قائم نہیں کر پا رہی تھی صرف اندازہ لگاتے ہوئے میں نے بسترپر پڑے پڑے دو دن گزار دیے۔  ملازمہ نے کئی بار آ کر پوچھا بھی مگر میں نے کہہ دیا سب ٹھیک ہے۔  گڈو ڈاکٹر کو لانے کی ضد کر تا رہا مگر میں نے اسے ٹال دیا۔  آخر کار گڈو کی ہی ایک ترکیب کام کر گئی-

’’باجی جب سے ستارہ کا بیٹا مرا ہے آپ حال چال لینے کے لئے ایک بار بھی بستی نہیں گئیں۔  کتنے دنوں سے اسپتال بھی تو نہیں گئیں ہیں۔  ڈاکٹر رحمن کا میرے موبائل پر فون آیا تھا وہ آپ کی خیریت پوچھ رہے تھے۔ ‘‘

’’کیوں ؟ رحمن نے میرے موبائل پر فون کیوں نہیں کیا۔ ‘‘

میں نے ترچھے ہو کر سوال کیا

’’آپ کا موبائل چارج نہیں تھا۔  اس کی بیٹری ختم ہو گئی تھی۔  میں نے چارجنگ  کے لئے لگا دیا ہے اور ہاں میں آپ کو بتانا بھول گیا تھا کہ دو بار پھانکی کا بھی فون آ چکا ہے۔ ‘‘

’’تمہارا نمبر پھانکی کو کیسے ملا؟‘‘

’’انہوں نے مجھ سے میرا نمبر مانگا تھا۔  میں نے دے دیا۔ ‘‘

’’کیا کہہ رہی تھی؟‘‘

’’آپ کو پوچھ رہی تھی۔  کہہ رہی تھی کہ اتنی خبریں ہیں کہ دن گزر جائے گا، خبریں ختم نہیں ہوں گی۔ ‘‘

’’کیا خبریں ہیں ؟‘‘ میں اٹھ کر بیٹھ گئی۔

’’معلوم نہیں۔  اس نے کچھ بتایا نہیں۔ ‘‘

میں جھٹ پٹ اٹھی۔  نہا کر تیار ہوئی، ناشتہ کیا اور پیکیٹ اٹھوا کر گاڑی میں آ کر بیٹھ گئی۔  میں پھر وہی مہ جبیں بانو کی بیٹی نازنین بانو بن چکی تھی جو دن دن بھر اسپتال اور بستی کا چکر کاٹتے ہوئے، ضرورت مند لوگوں کی مدد کرتے ہوئے، اپنے شوہر کے لئے، جنت میں جگہ بنانا چاہتی تھی۔  جنت میں جگہ بنانا کشو کی اپنی سوچ تھی مگر میرے لئے یہ سب کچھ خود کو مصروف رکھنے کا ایک بہانہ تھا۔  میں اپنی تنہائی اور اکیلے پن کے دکھ کو سارے لوگوں کے دکھ کے بیچ بانٹنا چاہتی تھی، خود کو یہ احساس دلانا چاہتی تھی کہ ہر ایک کی زندگی کا کوئی نہ کوئی صفحہ کالا اور ماتمی ہوتا ہے۔  اس ماتمی رنگ سے نکلنے کا ایک ہی راستہ میں جانتی تھی خود کو بھیڑ میں گم کر دینا، ایسی بھیڑ جس کی تلاش میں آپ کے اپنے نہ ہوں، ورنہ پھر سے وہ آپ کو کالے صفحوں کا حصہ بنا دیں گے۔  زیادہ تر تو نشتر اپنے ہی چلاتے ہیں۔  پرایوں کی دی ہوئی چوٹ کو اتنی اہمیت ہی کہاں دیتے ہیں اسے تو ہم کپڑوں پر پڑی دھول کی طرح جھاڑ دیتے ہیں۔ اپنوں کا دیا ہوا زخم اتنا گہرا اور کاری ہوتا ہے کہ ماتم کرتے کرتے عمر گزر جاتی ہے۔

میری نگاہ دور سے برگد کی چھاؤں میں بنے مٹی کے اس چبوترے پر گئی تھی جہاں رحمو بابا بیٹھے رہتے تھے۔  جو اب خالی تھا۔  میرا دل دھک سے ہو گیا۔  کہیں وہ بھی۔ ۔ ۔ ۔ ۔

’’گڈو! رحمو بابا کہاں گئے؟‘‘ یہ سوال بے خیالی میں کیا گیا تھا کیوں کہ میں جانتی تھی، میری طرح اسے بھی نہیں معلوم۔

’’پتہ نہیں باجی! ہو سکتا ہے گرم ہوا سے بچنے کے لئے اپنی جھگی میں چلے گئے ہوں۔ ‘‘

مجھے سب سے پہلے رحمو بابا کی خیریت معلوم کرنی ہے؟ یہ سوچ کر میں تیزی سے لمبے لمبے ڈگ بھرتی ہوئی چمپا کاکی کی جھگی کی طرف بڑھنے لگی۔  گڈو ہاتھ میں پیکیٹ لئے میرے پیچھے پیچھے تھا۔

کاکی زمین پر اوندھی پڑی تھیں تقریباً اد ھ ننگی سی ہو کر پھانکی سے اپنے بدن پر جوڑوں کے در د کا تیل ملوا رہی تھیں۔  میں نے گڈو کو جھگی کے باہر ہی روک دیا۔ پھانکی اور چمپا کاکی ہڑبڑا کر اٹھ کھڑی ہوئیں۔  سلام دعا خیریت کے بعد میں اپنے موضوع پر آ گئی۔

’’کاکی رحمو بابا کہاں ہیں ؟‘‘

’’رحمو بابا کو کالی کھانسی ہو گئی ہے۔  دن رات کھانستے کھانستے الٹی کر دیتے تھے۔  بہت گھریلو علاج بستی والوں نے کیا مگر کچھ فائدہ نہیں ہوا۔ ‘‘

کاکی کے بجائے پھانکی نے میر ی بات کا جواب دیا۔

’’اب کہاں ہیں ؟‘‘

’’یہیں پاس کے سرکاری اسپتال میں۔  راکیش بھیا نے لے جا کر وہیں پر انہیں بھرتی کر وا دیا ہے۔ ‘‘

’’کب سے؟‘‘

’’پچھلے تین دنوں سے۔ ‘‘

میں نے پھر پوچھا-’’کوئی ان کا حال چال لینے گیا یا نہیں۔ ‘‘

’’کون جاتا دیدی! سبھی تو یہاں اپنی اپنی مصیبت میں پڑے ہیں۔ ‘‘

’’رحمو بابا کا کھانا پینا کیسے ہو رہا ہے!‘‘

میں بے حد فکر مند ہو گئی تھی کیوں کہ ان کے لئے میرے دل میں بہت عزّت تھی۔  سیدھے سادے انسان تھے۔  بغیر کسی چھل کپٹ کے پوری زندگی کاٹ دی تھی۔  بستی والوں کی خاطر ہی انہوں نے اپنے جوان بیٹے  بر کت علی کو ہمیشہ کے لئے گھر سے نکال دیا تھا۔  اسی بستی میں وہ اپنی پیاری بیوی کلّن بی کو کھو چکے تھے۔  اتنا وقت گزارنے کے بعد وہ لا وارثوں کی طرح سرکاری اسپتال میں پڑے تھے۔  کوئی پوچھنے والا نہیں تھا۔  میں بے حد غمگین ہو گئی۔

پھانکی نے بتایا کہ راکیش نے ہی سرکاری کھانے پینے کا انتظام کر دیا ہے۔  یوں بھی وہ زیادہ کھاتے نہیں تھے۔  دن بھر میں دو تین روٹی ان کے پیٹ میں جاتی تھی۔

’’ستارہ کیسی ہے؟‘‘  میرے سوالوں کا رخ دوسری طرف تھا۔ پھانکی نے چہک کر بتایا۔

’’ستارہ کو نوکری مل گئی؟‘‘

’’نوکری؟‘‘ میں اپنی جگہ سے اچھل پڑی۔

’’اسے نوکری کیسے مل گئی؟‘‘

’’پرکاش جہاں کام کرتا تھا وہیں چپراسی کا کام اسے مل گیا‘‘

’’کیسے؟‘‘

’’وہاں کا مالک بہت اچھا تھا۔ ‘‘

’’ پھر؟‘‘ میں نے جلدی سے پوچھا۔

’’ستارہ بتا رہی تھی کہ جب اس کا بیٹا مر گیا تو سب کو اس سے بے حد ہمدردی ہو گئی اور اسے نوکری دے دی گئی۔ ‘‘

پھانکی کی یہ بات میری سمجھ میں نہیں آئی۔  ترس آنے پر اگر نوکریاں ملنے لگیں تو کوئی بے روزگار ہی نہ رہ جائے۔  میں نے غور سے پھانکی کا چہرہ دیکھا۔  اس کی آنکھوں میں بہت کچھ ایسا تھا جو وہ مجھ سے چھپانا چاہتی تھی۔  مجھے سرے سے یہ ساری باتیں جھوٹی لگ رہی تھیں۔  بے سر پیر کی، جن کا کوئی مطلب نہیں تھا۔  چمپا کاکی نے میری گہری نگاہوں کو تاڑ لیا۔ آخر تھیں تو وہ کافی تجربہ کار ہی۔ انہوں نے جھٹ میرا دھیان اپنی طرف کر لیا۔

’’اب بٹیا کھڑے کھڑے بات کرتی رہو گی یا بیٹھو گی بھی۔ اتنے دن بعد آئی ہو۔  پھانکی کرسی لاؤ۔ ‘‘

ایک ٹوٹی کرسی میرے سامنے آ گئی۔  اور میں آہستہ سے خود کو سنبھال کر بیٹھ گئی۔ گڈو کو میں نے آواز دیکر پیکٹ اندر ہی منگوا لیا۔  میرا جی اچاٹ ہو رہا تھا۔  میں نے پھانکی سے کہا-

’’پھانکی ان پیکیٹس میں کھانے پینے کے سامان ہیں تم لوگ بھی لے لو اور سب کو بانٹ دو۔ ہاں ! پان والے کو ضرو ر دے دینا۔  اسے مجھ سے بڑی شکایت رہتی ہے۔  اب میں اس کی گمٹی پر پان کھانے نہیں آتی۔  ابھی بھی مجھے دیکھتے ہی اس نے جھٹ سے سلام کیا تھا۔

میں بولتی جا رہی تھی اور پھانکی جلدی جلدی اپنی اور کاکی کی پسند کی چیزیں چھانٹ کر الگ کر رہی تھی۔  اچانک باہر سے بچوں کا شور اٹھا- ’بابا آ گئے بابا آ گئے‘ میں جھٹ بورے کا پردہ کھسکا کر جھگی سے باہر نکل آئی۔ دیکھا بابا اپنا جھولا جھگڑ لئے بیحد کمزوری اور نقاہت سے رکشے کا ڈنڈا پکڑ کر اتر رہے ہیں۔  میں نے لپک کر ان کا بازو پکڑا اور سہارا د ے کر نیچے اتارنے لگی۔ گڈو بھی بھاگ کر میری مدد کے لئے آ گیا۔  بابا نے آنکھ اور ہاتھ کی جنبش سے مجھے سلام کیا۔  میں نے پوچھا-’’بابا آپ کہاں چلیں گے-اپنی جھگی میں یا برگد والے اپنے چبوترے پر۔ ‘‘

انہوں نے برگد کے پیڑ کی طرف اشارہ کیا تب تک پھانکی بھی آ چکی تھی بولی- ’’ نہیں نہیں بابا برگد کے نیچے مت لیٹو۔  گرم ہوا مار گئی تو بچنا مشکل ہو جائے گا۔  میں نے تمہاری جھگی جھاڑ بہار دی ہے وہیں چلو۔ ‘‘

رحمو بابا نے کوئی اعتراض نہیں کیا۔  ایک چھوٹی سی بھیڑ بابا کے ساتھ چلتی ہوئی ان کی جھگی میں داخل ہوئی۔

٭٭٭

 

 

۱۰۔ بے تحریر کتبہ

ماضی کے ورق پلٹوں / اور خود سے کبھی الجھوں / خاموش رہوں لیکن/ اکثر یہی کرتی ہوں / ان ڈوبتے لمحوں کو /آنکھوں میں سموتی ہوں / ہونٹوں پہ ہے لرزہ / پھر بھی میں کسی صورت/ آوازیں لگاتی ہوں / کیسی ہیں یہ آوازیں / یکلخت پلٹ کر پھر/ مجھ تک وہ چلی آئیں / دہشت بھرے لمحوں میں / ققنس کی طرح مرتی/ ققنس کی طرح جیتی/ اپنے ہی مقدر کی/ تحریر میں پڑھتی ہوں / اپنا ہی نوحہ ہوں / میں اپنا ہی کتبہ ہوں / اس عالم ہستی میں / صدیوں سے میں زندہ ہوں۔ ۔ ۔

عورت وہ نہیں ہوتی جو دکھتی ہے۔  دکھتی وہ ہے جیسا اسے بنایا اور تیار کیا جاتا ہے۔  اور جو وہ خود ہوتی ہے اسے وہ ظاہر نہیں ہونے دیتی۔ ۔ ۔

یہ دنیا خاک کا ڈھیر اور اس ڈھیر پر ایک آتش فشاں جس کا نام عورت ہے۔ ۔ ۔ ۔

ستارہ بستی والوں کے لئے ممکن ہے دیوی کا درجہ رکھتی ہو مگر میرے لئے۔ ۔ ۔  میرے سینے میں ایک تیز خنجر اترتا چلا گیا۔  بے غیرت آنکھیں پھر سے پانی سے لبریز ہو اٹھیں۔  میں اپنی آنکھوں کو بے غیرت اس لئے کہتی ہوں کہ ان میں ذرا بھی شرم و حیا ہوتی تو نہ وہ میری پل پل بدلتی کیفیت کو بے حجاب کرتیں اور نہ خود بے باک ہو کر وہ سب کچھ دیکھ لیتیں جنھیں کاش انھوں نے نہ دیکھا ہوتا۔ ۔ ۔  میں کیسے کہوں اور کیونکر کہوں جنھیں میں اپنی تمام حسوں سے اوپر اٹھا چکی ہوں۔  خود کو دوسروں کے سامنے لاجواب بنائے رکھنے کا یہ طویل ڈرامہ میں کیسے چھوڑ سکتی ہوں۔

میں جانتی ہوں کہ اپنی خاموشی کی بساط پر ستارہ مجھ سے کھیل رہی ہے مگر وہ یہ نہیں جانتی تھی کہ میں اسی کی بچھائی بساط پر اسی کو مہرہ بنا کر اپنی چالیں چل رہی ہوں۔  بہر حال ستارہ کے لئے میری تفتیش جاری تھی۔  میں مکمل طور پر ستارہ کو نہیں سمجھ پا رہی تھی اور اس کی زندگی کے اس پیچ کو نہیں کھول پا رہی تھی جسے میں کھولنا چاہتی تھی، پڑھنا چاہتی تھی۔  کبھی کبھی مجھے اپنی اتنی بھاگ دوڑ بے جا لگتی کہ اگر کچھ حاصل ہو تو اتنی محنت بھی کی جائے مگر اکثرانسان کی ضد اس سے بڑے بڑے کام کروا ڈالتی ہے۔  ستارہ کو بے نقاب کرنا ایک چھوٹا کام ہے یا بڑا یہ تو میں نہیں جانتی مگر اتنا ضرور جانتی ہوں کہ وہ میری ضد بن چکی ہے اگر وہ معمولی عورت ہے تو ٹوٹتی کیوں نہیں اور اگر نہیں ٹوٹ رہی ہے تو مجھے اس کی وجہ تلاشنی ہے۔  وہ لاکھ اپنی اصلیت کو سات پردے میں چھپا کر رکھ لے لیکن میں اسے جان کر رہوں گی۔  بستی میں لوگ مجھے اتنے ٹکڑوں میں باتیں بتاتے ہیں اور اس میں بھی اتنی پردہ داری رہتی ہے کہ مجھے بہت سی باتیں اشاروں میں معلوم ہوتی ہیں۔  آنکھوں کے اشارے سے، ہونٹوں کے سکڑتے پھیلتے دائروں سے، پیشانی پر پڑتے بل سے، انگلیوں کو ایک خاص انداز میں نچا کر خلا میں چھوڑ دینے سے یا پھر ڈھیر سارا تھوک زمین پر تھوک دینے سے۔  اگر میں ڈائری بنا کر روزانہ ان ضروری باتوں کو نوٹ نہ کر رہی ہوتی تو شایدستارہ سے متعلق ایک سلسلے وار کڑی نہ جوڑ پاتی۔  ستارہ کو نوکری مل گئی یہ ایک خوشی کی بات تھی مگر پھانکی کے ہونٹوں کے ایک کنارے جس انداز سے ٹیڑھے ہو کر اوپر اٹھے تھے، اس انداز نے مجھے کچھ اور ہی سمجھایا جو نہیں سمجھ پائی اسے سمجھنے کے لئے آج میں الزبیتھ کی طرف جا رہی تھی۔  کتنا آسان ہوتا ہے کسی کی کمزوری کو سمجھ کر اس سے اپنا مطلب نکلوا لینا۔  میں نے ایک کلو کالے انگور کی بڑی سی پولتھن تھام رکھی تھی اور سیڑھیاں چڑھتی ہوئی ان کے گھر کے دروازے تک پہنچ گئی تھی۔  کل میں نے فون پر بات کرتے ہوئے ان کی آج کی ڈیوٹی جان لی تھی۔  وہ صبح کی ڈیوٹی پوری کر کے دن بھر آرام کرنے کے بعد اس وقت شام کی چائے پی رہی ہوں گی یا پینے والی ہوں گی۔  اسی لئے میں نے گرم گرم سموسے اور ہری دھنیے کی چٹنی کی تھیلی اپنے بائیں ہاتھ میں لٹکائی ہوئی تھی۔ ڈور بیل بجائی۔  سامنے الزبیتھ کھڑی تھیں۔  دونوں ہاتھوں میں لٹکتی تھیلیاں دیکھ کر ان کی باچھیں کھل گئیں۔  پیسے والوں کے لئے جہاں ان کا موڈ قدر و قیمت رکھتا ہے وہیں غریبوں کے لئے ان کا پیٹ۔  ان لوگوں کے بیچ آتے جاتے میں نے اتنے دنوں میں بہت ساری ایسی باتیں جان لی تھیں جو عام طور سے ہم جیسی عورتوں کے لئے کوئی خاص معنی نہیں رکھتیں مگر ان باتوں میں زندگی کی گہری سچائیاں چھپی ہوتی ہیں۔  کل کی نازنین اور آج کی نازنین میں زمین آسمان کا فرق آیا تھا۔  اب انہیں دیکھ کر مجھے گھن نہیں آتی تھی۔  ان کی دلداری اور ان کا چٹورا پن مجھے یہ کہنے پر مجبور نہیں کرتا تھا کہ یہ سب بے حس ہوتے ہیں بس کھانے کو ملتا رہے، یہ کتے کی طرح دم ہلاتے رہیں گے۔  یہ چھوٹے چھوٹے گھروں میں رہنے والے لوگ کتنے رحم طلب اور مجبور ہوتے ہیں یہ میں اب سمجھ پائی۔  یہ موت کا نوحہ گاتے گاتے زندگی کا پورا سفر طے کر ڈالتے ہیں مگر نہ زبان پر اف آتی ہے نہ کوئی گلہ شکوہ جاگتا ہے بس زندگی ملی ہے اس لئے جیئے جانا مجبوری ہے۔

الزبیتھ نے مجھے دیکھتے ہی سینے سے لگا لیا۔  بڑے محبت بھرے انداز سے بولیں۔ ’’میں کئی دنوں تک کرسمس کا کیک بنا کر تمہارا انتظار کرتی رہی اور تم اب آ رہی ہو جب پیڑوں سے پیلے پتے جھڑنے لگے ہیں۔  مجھے اپنا کہتی ہو مگر اپنا مانتی نہیں۔ ‘‘ میں نے دیر سے آنے کی معافی مانگی اور الزبیتھ میرے لئے چائے بنانے کچن میں چلی گئیں۔  اچانک مجھے دوسرے کمرے سے کچھ آہٹ سنائی دی۔ کون ہو سکتا ہے وہاں ؟ الزبیتھ تو بالکل اکیلی رہتی ہیں، اتنا میں جانتی تھی۔  بیڈ کی چرمراہٹ بتا رہی تھی کہ وہاں کوئی لیٹا ہے۔  میں نے اٹھ کر دیکھنا مناسب نہیں سمجھا اور پورے جسم کو کان بنائے آہٹ کو معنی پہنانے لگی۔  کہیں ستارہ تو نہیں آئی ہے۔  کیا نینسی ہو سکتی ہے۔ —نہیں وہ نہیں آ سکتی—— الزبیتھ نے بتایا تھا کہ وولکی نہیں آتا کیوں کہ اس کی بیوی نے اسے سختی سے یہاں آنے کے لئے منع کر رکھا ہے پھر کون ہو سکتا ہے؟ میں اس فکر میں اتنی کھوئی ہوئی تھی کہ مجھے احساس ہی نہیں ہوا کہ کب سے الزبیتھ ہاتھ  میں گرم سموسے اور چائے کی ٹرے پکڑے کھڑی ہوئی ہیں۔

 میں نے جھٹ سے کھڑے ہو کر ان کے ہاتھ سے ٹرے لے لی اور خود صوفے کے ایک کنارے ہو کر بیٹھ گئی تاکہ الزبیتھ بھی آرام سے میری بغل میں بیٹھ سکیں۔  ’’ہاں اب بتاؤ؟ کیسے آنا ہوا۔  تمہاری وہ رشتے دار ٹھیک ہیں ؟ اب تک تو چلی گئی ہو گی۔ ‘‘

’’جی وہ جا چکی ہیں، بہت دن ہو گئے تھے آپ سے ملے ہوئے، بس دل چاہا اور آپ کے پاس چلی آئی۔ ‘‘

 انہوں نے بہت محبت سے میرے سر پر ہاتھ پھیرا-’’نینسی کے جانے سے مجھے ایک بیٹی کی کمی بہت محسوس ہوتی تھی۔  تمہارے آنے سے وہ کمی پوری ہو جاتی ہے۔ ‘‘

مجھے نہیں معلوم کہ وہ دل سے کہہ رہی تھیں یا پھر منہ دیکھی بات تھی، بہرحال جب سے انہوں نے نیفو کا کام کیا تھا، میں اندر ہی اندر ان کی احسان مند تھی۔  یہ الگ بات ہے کہ میں نے کام کے بدلے دگنی قیمت دی تھی۔  اچانک میرے کانوں میں کسی مرد کے کھانسنے کی دھیمی آواز آئی۔  میرے کان کھڑے ہو گئے۔  تو پھر یہ ستارہ نہیں ہے۔  نینسی بھی نہیں —-وولکی آتا نہیں —-کون ہو سکتا ہے۔ دو جہاں دیدہ آنکھیں میرے چہرے پر ٹکی ہوئی تھیں۔  وہ میری الجھن میرے تجسس کو بھانپ رہی تھیں مگر جب الزبیتھ نے زبان نہیں کھولی تو مجھے پوچھنا مناسب نہیں لگا کہ ان کے گھر میں کون مرد ہے۔

 وہ خالی پیالی کچن میں رکھنے کے بہانے سے اٹھیں اور اس کمرے کا پردہ برابر کرتے ہوئے آہستہ سے دروازے کے دونوں پٹ کو بند کر دیا۔  میرا تجسس اور بڑھ گیا۔  میں کوئی جاسوس نہیں تھی اور نہ ہی مجھے الزبیتھ کی نجی زندگی میں کوئی دلچسپی تھی اس لئے میں نے یہ بات دل سے جھٹک دی۔  آدھا ایک گھنٹہ ادھر ادھر کی باتیں کرتے ہوئے گزر چکا تھا۔  میرا صبر جواب دے رہا تھا۔  میں اور زیادہ ان کو نہیں جھیل سکتی تھی اس لئے اپنے موضوع پر آ گئی۔  ’’آنٹی آپ نے سنا ستارہ کی نوکری لگ گئی ہے۔ ‘‘

’’ہوں ‘‘ انہوں نے ایک لمبی سی ہنکار بھری اس طرح جیسے وہ سب کچھ جانتی ہوں۔ میں نے انہیں کریدا- لگتا ہے آپ کو پہلے سے معلوم تھا۔  ’’ میں نے ہی تو اس کی ساری کاغذی کاروائی کی ہے۔ ‘‘

’’اچھا!‘‘ میں سیدھی ہو کر بیٹھ گئی۔  ایک اہم موضوع کا سرا میرے ہاتھ لگا تھا۔

’’تمہیں شاید پتہ نہیں، پرکاش ٹھیک ٹھاک نوکری کرتا تھا۔ اچھے سے گذارا چل رہا تھا۔ بعد میں تو وہ اپنی عادتوں کی وجہ سے بد حال ہو گیا۔   ‘‘

’’جی! معلوم ہے! مگر ستارہ کی نوکری لگنے میں بہت وقت لگا۔  میرا خیال ہے پرکاش کی موت کو بھی تین سال ہو گئے ہوں گے۔ ‘‘

’’بالکل ہو گئے ہوں گے۔  کسی طرح میں نے ستارہ کو یہ نوکری کرنے کے لئے تیار کیا تھا۔  پڑھی لکھی تھی گھر بیٹھ کر اپنے بدن میں دیمک لگوانے سے اچھا تھا کہ خود کام کرتی۔  اس بیچاری کو بھی بہت پاپڑ بیلنے پڑے۔  گاڈ برکت علی کو معاف نہیں کرے گا۔ ‘‘

’’برکت علی تو ممبئی چلا گیا تھا پھر پرکاش سے کیسے ٹکرا گیا۔ ‘‘

’’بیٹی! بڑے بڑوں کو دوستی یاری لے ڈوبتی ہے۔  ایک بار پرکاش ممبئی گھومنے گیا۔  پتہ نہیں کیسے اس کی ملاقات برکت سے ہو گئی۔  برکت اپنی پرانی رنجش بھلا کر اس سے دوستی کا دم بھرنے لگا۔  پرکاش بھی اس کے جھانسے میں آ گیا اور برکت روپئے پیسے خرچ کر کے اسے گھمانے پھرانے لگا۔  پرکاش نے وہاں ایک بڑی دنیا میں قدم رکھا تو اپنے آپ کو سنبھال نہیں پایا۔  بار بار چھٹیاں لیتا اور جاتا۔  کسی طرح دال روٹی چل رہی تھی۔ میں پرکاش کو بھی کم گنہ گار نہیں مانتی۔  اس نے ستارہ جیسی ڈائمنڈ لڑکی کو مٹی میں ملا دیا۔ ‘‘

’’آخر پرکاش نے کیا کیا، یہ تو بتائیے؟‘‘

’’پرکاش بھی برکت کی راہ پر چل پڑا۔  گناہوں میں اتنی لذّت ہوتی ہے کہ ایک بار ذائقہ منہ لگ جائے تو پھر نہیں چھوٹتا۔  جانے گوشت کے لوتھڑوں میں ایسی کون سی لذت ہے کہ بڑے بڑے رشی منی عورت کے آگے اوندھے منھ گر پڑتے ہیں۔ مگر سچائی یہ ہے کہ مرد عورت کو پھول کی طرح توڑتا ہے اور گھاس کی طرح روند ڈالتا ہے مگر نہیں جانتا کہ عورت کی مٹی میں ناگ پھنی کی لمبی قطار بھی ہوتی ہے۔  تم کیا جانوں ان بستیوں کے مرد کی فطرت کیا ہوتی ہے۔  جب یہ پہلی بار عورت کے جسم کی سرمستیوں کے دور سے گذر چکتے ہیں اور اپنے جذبے کو پوری طرح تسکین دے چکے ہوتے ہیں تو پھر دوبارہ وہ اس عورت کے جسم کی لذت میں وہ چاشنی نہیں پاتے جو ان کی زبان نے پہلی بار چکھی ہوتی ہے۔  یہی پیاس اسے ایک کے بعد دوسری، دوسری کے بعد تیسری جگہ منھ مارنے پر مجبور کرتی ہے۔  بے چارے کریں بھی تو کیا کریں۔  تفریح کا سب سے آسان اور سستا ذریعہ ان کے لئے عورت کا بدن ہی ہوتا ہے۔ ۔ ۔ ‘‘

الزبیتھ بولتی جا رہی تھیں اور میں سوچ رہی تھی کہ بستی کوئی بھی ہو کم و بیش مرد کی فطرت تو یہی رہے گی نا۔  ہاں تہذیب و تربیت کے تحت ان کے جنسی اظہار کے طریقے جد ا ہو سکتے ہیں۔ ایسے کتنے ہوتے ہیں جو ایک ہی عورت کے بدن میں سارے تقاضے پورے کر لیں۔

میں نے پھر اپنی توجہ الزبیتھ کی طرف مرکوز کر دی۔  وہ پرکاش کے متعلق بتا رہی تھیں۔

’’ پرکاش معصوم تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  نہیں سمجھ سکا۔ ۔ ۔ ۔ ۔  اور پھر بیٹی! ایک بات یاد رکھو جو شاطر کھلاڑی ہوتے ہیں وہ منہ مارنے سے پہلے بچنے کا راستہ ڈھونڈتے ہیں جو نئے کھلاڑی بنتے ہیں دراصل وہی پھنستے ہیں۔  شراب تو خیر پرکاش یہاں بھی پیتا تھا۔  وولکی اور پرکاش اکثر اس گھر میں محفل جماتے تھے مگر پرکاش کبھی بہکا نہیں۔  چار چھ گھونٹ لے کر اٹھ جاتا تھا۔  مگر برکت علی نے رنڈیوں کا ذائقہ پہلی بار ممبئی میں ہی پرکاش کے منہ لگایا۔  پرکاش جو ایک بار بہا تو بہتا ہی چلا گیا۔  ایسی لت چڑھی کہ ممبئی چھوڑ وہ اپنے شہر میں بھی بدنام بستیوں میں جانے لگا۔ ‘‘

’’کیا ستارہ نے اسے کبھی روکنے کی کوشش نہیں کی؟‘‘  میں نے اتاولے پن سے پوچھا۔  آج میں ایک ایک بات جان لینا چاہتی تھی۔

’’کوئی بیوی کیسے برداشت کر سکتی ہے؟ روز لڑائی جھگڑے ہوتے۔  مار پیٹ ہوتی، پرکاش ہفتوں گھر نہیں لوٹتا۔ مگر سدھارکی کوئی گنجائش نہیں تھی۔  تھک ہار کر ستارہ نے اسے اس کی راہ پر چھوڑ دیا۔ ‘‘

’’بس ستارہ نے یہی سب سے غلط کام کیا۔ ‘‘

میری بات سن کر الزبیتھ کی پیشانی پر بل پڑ گئے-’’تم عورت ہو کر ایک عورت کے لئے ایسا کہہ رہی ہو۔  عورت کتنی بے بس ہو جاتی ہے جب کوئی مرد اپنی کمینگی پر اتر آتا ہے۔  تم پیسے والی عورتیں غریب بستیوں میں زندگی ڈھونے والی عورتوں کے درد کو کیا سمجھوگی۔  ان بستیوں کے مرد یہی چاہتے ہیں کہ ہر روپ میں عورت گٹھنے ٹیکے اپنی شکست کو اس کے سامنے تسلیم کرتی رہے۔  مت بھولو کہ ستارہ اور پرکاش اسی بستی کی پیداوار تھے۔  ‘‘

الزبیتھ کو میری بات بہت بری لگی تھی اور ان کا تیور بدل گیا تھا۔  انہوں نے جگ سے ایک گلاس بھر کر پانی نکالا اور ایک ہی سانس میں پی گئیں۔  جیسے انہیں میں نے کوئی گالی دے دی ہو۔  میں نے خاموش رہنے میں ہی اپنی عافیت سمجھی۔  کیسے بتاتی کہ مرد صرف غریب کے ہی کمینے نہیں ہوتے، پیسے والوں کے یہاں بھی یہ کمبخت اپنی درندگی کی آپ مثال ہوتے ہیں۔  عورت بستی کی ہو یا بنگلے کی وہ مرد کی مٹھیوں میں کسا گولائیوں والا گر م گوشت ہی ہوتی ہے۔  ہاں اگر اس گوشت کا زیادہ استعمال کر لیا جائے تو ضرور وہ باسی ہو جاتا ہے جسے ہم عورتیں اپنے لباس اور اپنے سنگار سے اسے گرمائے رکھنے کا ناٹک کرتی رہتی ہیں۔ ‘‘

’’اگر آ پ کو میری بات بری لگی ہو تومیں معافی چاہتی ہوں۔ ‘‘

’’تمہیں بولنے سے پہلے سوچنا چاہئے نازنین۔  ہر لڑکی کرینا نہیں ہوتی، نہ ہر عورت کی فطرت گلابو جیسی ہوتی ہے۔ ‘‘

’’آ پ نے میری بات کا غلط مطلب نکالا آنٹی۔ ‘‘ میں روہانسی ہو گئی کیوں کہ میں کسی طرح آگے بڑھتی کہانی کو بیچ میں روکنا نہیں چاہتی تھی مگر افسوس کہانی رک گئی۔  الزبیتھ کا موڈ خراب ہو گیا تھا اور میرے لئے مناسب یہی تھا کہ میں پرس اٹھا کر چپ چاپ وہاں سے نکل چلوں۔

٭

ستارہ۔ ۔ ۔ ۔ ستارہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  ستارہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

گھر واپس آ کر میرا دل چاہا میں چیخ چیخ کر روؤں، دونوں ہاتھوں کی مٹھیوں سے اپنے بال نوچ ڈالوں، اپنا سر دیوار پر اس وقت تک مارتی رہوں جب تک کہ میرا ہوش، میرا شعور میرے جسم کا ہر ایک عضو بیہوشی جیسی گہری نیند میں نہ سو جائے۔ ۔ ۔ ۔ میں سب کچھ چھوڑ دوں۔  نہ میرے اندر ستارہ کولے کر کوئی فکر جاگے، نہ میں نیلوفر کے لئے سوچ سوچ کر تڑپوں، نہ کشو کا خوف رہے، نہ ابّی کی صحت کے لئے کوئی تناؤ۔ ۔ ۔ ۔ سب چھوڑ دوں۔ ۔ ۔ ۔ بھول جاؤں کہ میں مسز کاشف ہوں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مجھے کیا کرنا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا نہیں کرنا۔ ۔ ۔ ۔ ۔  ہر ایک چیز سے بے نیاز ہو جاؤں اور بھاگ جاؤں اس جزیرے پرجسے میں خواب میں اکثر دیکھا کر تی تھی۔ ۔ ۔ ۔  ایک ایسا جزیرہ جو بند پلکوں کے اندر مجھے ایک ایسا نظارہ دکھاتا ہے جس کو دیکھ کر میں خود کو ایک نئی دنیا کی مخلوق پاتی ہوں۔  ہری بھری مخملی گھانس کے بچھونے والا وہ جزیرہ جس کے چاروں طرف صاف شفاف پانی۔  آسمان پر چمکتے تاروں کے جھنڈ میں چمکیلا چاند تھا جس کی چاندنی اس جزیرے پر نور کی بارش کر رہی ہوتی۔  خوشبو سے معطر نرم سرد ہوائیں سبک رفتاری سے بہہ رہی ہوتیں، لچکتی شاخوں پر جھومتے پھولوں سے ٹپکتے شہد ہوتے ہر سمت دودھیا روشنی پھیل رہی ہوتی، پانی میں رنگ برنگی ننھی ننھی مچھلیاں اٹکھیلیاں کر رہی ہوتیں۔ اور جزیرے کے درمیانی حصے میں بہت سے عورت مرد لمبے سفید چوغوں میں رقص کر  رہے ہوتے محبت کے نغمے گا رہے ہوتے۔  آنکھیں بند ہوتیں، لبوں پر جنبش ہوتی، کھلے بال شانوں پر لہرا رہے ہوتے۔  دونوں ہاتھ فضا میں اٹھے ہوتے۔  اور ہر ایک کے پاؤں تھرک رہے ہوتے۔  ان تھرکتے ہوئے لوگوں میں میں بھی شامل ہوتی۔  کوئی چہرہ شناسا نہیں ہوتا پھر بھی سب اپنے سے لگتے۔  اس وقت میں نہ مسز کاشف ہوتی نہ نازنین بانو—– بس اللہ کی ایک نا چیز بندی ہوتی اور اللہ کے متوالے بندوں کے ساتھ جھوم رہی ہوتی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ گا رہی ہوتی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مرد، عورت کے فرق سے بے نیاز۔ میں میں نہ ہو کر ’ہم‘ میں شامل ہوتی اور اپنے مالک کی حمدو ثنا کر رہی ہوتی۔  میرا دسیوں بار کا دیکھا ہوا وہ خواب تھا جسے میں اپنے دکھ کے لمحوں میں کھلی آنکھوں سے دیکھ کر اپنا دل بہلایا کرتی تھی۔  یہ خواب مجھے کڑوی سچائیوں سے بہت دو رلے جاتا تھا۔

ابھی میں اس سرور میں اپنے کو پوری طرح تحلیل بھی نہیں کر پائی تھی کہ موبائل کی رنگ ٹون نے مجھے اس کیفیت میں جانے سے روک دیا۔  میں نے سختی سے آنکھیں بھینچ لیں، مٹھیاں کس لیں۔  میں سچائی کی دنیا میں واپس نہیں جانا چاہتی تھی مگر لگاتار بجتی ر نگ ٹو ن سے مجھے ڈر لگا کہ کہیں کشو کا فون نہ ہو۔  کشو کا خیال آتے ہی ہرا بھرا مخملی غالیچوں والا وہ جزیرہ دھو دھو کر تی آگ کی لپٹوں سے گھر گیا۔  میں نے اس آگ میں اپنے آپ کو جلتا ہوا محسوس کیا۔  یہ آگ جزیرے کی نہیں تھی بلکہ میرے اندر موجود نفرت، غصہ، دکھ اور مایوسی کی تھی۔ کیا میں کچھ لمحے خواب میں ہی سہی اپنی مرضی سے نہیں جی سکتی؟ دوسروں کی دی ہوئی غلامی کی زندگی جینے سے بہتر ہے کہ میں اپنی ہی آگ میں خود کو جلا کر راکھ کر دوں پھر ققنس کی طرح دبی راکھ میں اپنے آپ کو تلاشوں اور ایک نئی زندگی کی شروعات کروں۔

موبائل رنگ رک رک کر بجتی رہی۔ آخر کا ر میں نے اپنی آنکھیں کھول دیں۔  فون ریسیو کیا دوسری طرف ڈاکٹر رحمن کی آواز سنائی دی—–’’میڈم میں معافی چاہتا ہوں کہ آپ کو بے وقت تکلیف دی۔  اگر ایمرجنسی کیس نہ آتا تو ہر گز یہ گستاخی نہ کرتا۔ ‘‘

’’کیا ہوا ڈاکٹر صاحب کہئے۔ ‘‘

’’میڈم۔  اس مہینے آپ کی بھیجی رقم کا ڈرافٹ نہیں ملا۔  ایک ایمرجنسی کیس آیا ہوا ہے۔  پانچ سال کا بچہ ہے اسے ڈپتھیریا ہو گیا ہے اگر فوراً ٹریٹمنٹ نہیں کیا گیا تو بچے کو بچانا مشکل ہو جائے گا۔  بچے کے والدین گاؤں کے بیحد غریب کسان ہیں۔ ‘‘

’’ڈاکٹر صاحب! آپ ٹریٹمنٹ شروع کیجئے۔  جن ڈاکٹروں کی ضرورت ہو بلائیے۔  میں نقد روپیے لے کر آ رہی ہوں۔  شرمندہ ہوں کہ اس بار مصروفیت کی وجہ سے تاخیر ہو گئی۔ ‘‘

چند رسمی بات چیت کے بعد فون کٹ گیا۔  میرا خواب ریت کا ڈھیر بن چکا تھا۔  اور زندگی کی تلخ حقیقت منہ پھاڑے میرے سامنے کھڑی تھی۔  میں نے گڈو کو گاڑی نکالنے کے لئے آواز دی۔  جھٹ پٹ ایک سادہ سا شلوار کرتا پہنا۔  پرس میں بغیر گنے نوٹوں کی کئی گڈی ڈالی اور اپنے گیٹ سے باہر نکل گئی۔

ایک بچہ زندگی اور موت کے بیچ جھول رہا ہے اسے میری مدد کی ضرورت ہے۔  پہلی بار میں کشو کی شکر گزار ہوئی کہ اس نے ایسے نیک کام کرنے کی اجازت مجھے دی اور پابندی کے ساتھ ہر مہینے ایک اچھی رقم مجھے بھیجتا رہا۔  کشو چاہے میرے لئے جتنا برا آدمی ہو مگر دوسروں کی خدمت کرنے کا جذبہ اس کے اندر کوٹ کوٹ کر بھرا تھا۔  یہی وہ سرا تھا جو مجھے اس کے رشتے کے ساتھ مضبوطی سے جکڑے رہتا تھا۔

گاڑی اسپتال کے اندر داخل ہوئی۔  میں تیزی سے آپریشن تھیٹر کی طرف بڑھی۔  ڈاکٹر رحمن اندر تھے۔  بچے کا ٹریٹمنٹ چل رہا تھا۔  میں نے نرس کے ذریعہ اپنے آنے کی خبر دلوا دی۔  لمحے بھر کے لئے ڈاکٹر رحمن  باہر آئے۔  آنکھ اور ہاتھ کے اشارے سے مجھے شکریہ کہا اور اندر چلے گئے۔ لکڑی کی بنچ پر ایک آدمی اپنی عورت کا ہاتھ پکڑے پریشان حال بیٹھا تھا۔  میں نے ڈاکٹر کے ہاتھ میں جیسے ہی نوٹوں کی گڈی رکھی وہ دونوں تیزی سے میرے قریب آئے اور دونوں ہاتھوں سے میرے پیر پکڑ کے اپنا سر انہوں نے میرے قدموں پر رکھ دیا۔  میں نے جلدی سے ان دونوں کو اٹھایا۔  میرے پیر ان کے آنسوؤں سے گیلے ہو گئے تھے۔

’’ آپ لوگ بالکل پریشان مت ہوئیے۔  ڈاکٹر صاحب کے پاس میرا موبائل نمبر ہے۔  جس چیز کی ضرورت ہو فون کر دیجئے گا، وہ چیز آپ کے پاس پہنچ جائے گی۔ ‘‘

میں جلد سے جلد وہاں سے ہٹ جانا چاہتی تھی۔

میں نے کوئی احسان نہیں کیا تھا۔  یہ تو کشو کی سونپی ایک اہم ذمہ داری تھی جسے میں اپنی پوری ایمانداری کے ساتھ نبھا رہی تھی۔

٭٭٭

 

 

۱۱۔ سوکھے پتوں کی پگڈنڈیاں

جیون کی اس بھٹکن میں /کون ہوا ہے کس کا ساتھی/ کس کا جوگی/ کس کا بھوگی/رشتے ناتے دل کے بھونرے/ چھل پرپنچ کے کورے دھوکے/سکھ کے چھلیے دکھ کے ہریے/ آپ ہی ساتھی/ آپ ہی بیری/ مڑھ دوش کنارے ٹھاڑے/ پھینکے بھالے دور نہارے/ من کا سادھو سچا بولے/ تنہا تنہا راہ جو پاوے/ اپنی سدھ میں چھاؤں جو لاوے/ وہی پتھک ہے وہی سپھل ہے/ دور گگن کا وہی چھتج ہے۔

اکثر لاعلمی بھی عورت کی خوش بختی کی دلیل بن جاتی ہے۔  جب بھی ہم عورتیں مردوں کے معاملوں میں اپنی آنکھ اور اپنے کان کھلا چھوڑتی ہیں تو اپنے ہی ہاتھوں اپنی بد بختی کا شکار ہو جاتی ہیں۔ ۔ ۔

روزمرہ کی زندگی میں بہت سی باتیں بہت سے فتنے بہت سے تناؤ ہمارے اندر اپنے یادوں کی پگڈنڈیاں پھیلائے رہتے ہیں۔  اکثر یہ پگڈنڈیاں بنتے بگڑتے رشتوں کی شاخ سے ٹوٹے پیلے پتوں سے اٹ جاتی ہیں۔  میرے اندر بھی ان دنوں خزاں کا موسم چھایا ہوا تھا۔  پتے جھڑ رہے تھے۔  رشتوں سے یقین اٹھ رہا تھا۔  میں بھنور میں پھنستی جا رہی تھی۔  میرے خلاف ایک مہم شروع ہو گئی تھی۔  میں چاروں طرف سے مکڑ جال میں پھنس چکی تھی۔  پھیلتی بدنامی اور ذلّت کے منحوس دور سے میں گزر رہی تھی۔  ہر وقت مجھ پر خوف طاری رہتا۔  موبائل فون بجتا تو دل دہل دہل اٹھتا ’’یا خدا مجھے اب تیرا ہی آسرا ہے۔ ‘‘ میرے اپنے ہی میرے دشمن ہو رہے تھے۔  میرا کھانا پینا چھوٹ گیا تھا۔  دن رات میں کمرے میں آنسو بہاتی رہتی۔  اپنے رب کو یاد کرتی رہتی۔  اپنوں کے لئے نکلتی بد دعاؤں کو ہونٹوں کے درمیان ہی روک لیتی کہ غلط الفاظ نکالوں تو کس کے لئے؟ ان کے لئے جو میرے سگے کہلاتے ہیں، ان کے لئے جن کے ساتھ میں نے زندگی کا سفر طے کیا ہے، ان کے لئے جن کے دکھ سکھ ہمارے دکھ سکھ ہوا کرتے تھے۔  بیگانگی کے سیاہ بادل دن رات میرے سر پر منڈلایا کرتے۔  کوئی اپنا دوست نہیں، کوئی اپنا غم گسار نہیں۔  کتنی جلدی آنکھیں پھرتی ہیں اور دنیا پرائی ہو جاتی ہے۔  اس کا احساس مجھے اب ہو رہا تھا۔  ہم سب رشتوں کے جن بہلاوے میں اپنی زندگی بسر کر رہے ہوتے ہیں، ان کے مکھوٹے جب اترتے ہیں تو ہمارے اندر کی ساری دنیا میں زلزلے آ جاتے ہیں۔  ٹوٹ پھوٹ الٹ پلٹ ہو جاتی ہے اور ہمیں جینے کے لئے پھر ایک نئی دنیا بسانی پڑتی ہے۔  نئی دنیا بسانے کے لئے بھی بڑے صبر اور حوصلوں کی ضرورت ہوتی ہے۔  کیا میں یہ سب کر پاؤں گی؟ کیا کشو مجھے ٹوٹنے سے بچا پائے گا؟ کیا میرے اپنے مجھ سے ایک بار پھر جڑ جائیں گے۔  میں نازنین بانو، مہ جبیں بانو کی بیٹی کیا ایک بار پھر اپنے لئے نئی کائنات بسا پاؤں گی۔  سوچتے سوچتے میرا سر درد کی شدت سے پھٹنے لگتا۔  آنکھوں کے آنسو سوکھ چکے تھے اور میں پوری طرح سے نڈھال ہو کر بستر پر پڑ چکی تھی۔  اچانک مجھے اپنے بالوں پر انگلیوں کی سرسراہٹ محسوس ہوئی۔  تکیے پر سے منہ اٹھا کر سرہانے کی طرف دیکھا تو ملازمہ ہاتھ میں تیل کی شیشی پکڑے آہستہ ہاتھوں سے میرے بالوں کی جڑوں میں تیل کا مساج کر رہی تھی۔

’’بی بی تھوڑا باہر گھوم آئیے۔  تازی ہوا لگنے سے بڑا آرام ملے گا۔ ‘‘

’’نہیں !طبیعت ٹھیک نہیں ہے اس لئے لیٹی ہوں۔ ‘‘

ملازمہ نے کوئی جوا ب نہیں دیا اور میرے بالوں میں تیل کا مساج کرتی رہی۔  مجھے بیحد آرام مل رہا تھا۔  میں خاموش پڑی رہی۔  آدھے گھنٹے کے مساج کے بعد وہ پیروں کی طرف آئی اور تلووں میں بھی تیل کی مالش کرنے لگی۔  بستی میں آمدو رفت سے مجھے اس طبقے کی نفسیا ت کو سمجھنے میں بہت مدد ملتی تھی۔  یہ عورتیں دوسروں کا دکھ اسی طرح بانٹتی ہیں جیسے یہ غم دوسروں کا نہیں بلکہ ا ن کا اپنا ہو۔  یہ سکھ پرایا اور دکھوں پر اپنا اختیارسمجھتی ہیں اس لئے ہر دکھیارا ان کا اپنا ہوتا ہے۔  ابھی تک میری ملازمہ کی اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ مجھے چھو بھی سکے مگر میرے غمگین ہوتے ہی وہ کتنی آسانی سے میرے قریب آ گئی۔  تھوڑی دیر میں وہ نیم گرم پانی کی بالٹی لے کر میرے پاس آئی—–’’بی بی اس گنگنے پانی میں تھوڑی دیر پیر ڈال کر بیٹھ جائیے۔  بہت آرام ملے گا۔ ‘‘

   میں کسی فرماں بردار بچے کی طرح پانی میں پیروں کو ڈال کر بیٹھ گئی۔  واقعی مجھے آرام مل رہا تھا۔ مجھے ملازمہ اپنوں سے بڑھ کر لگ رہی تھی۔  تبھی گڈو کی باہر سے آواز آئی۔  وہ میری ملازمہ کو اس کا نام لے کر پکار رہا تھا۔

’’ہاں بولو گڈو بھائی۔  میں یہاں بی بی کی خدمت میں ہوں۔ ‘‘

’’میں نے گاڑی صاف کر کے نکال لی ہے۔ ‘‘

ٍ’’ٹھیک ہے۔ ‘‘ ملازمہ نے جواب دیا۔

’’گاڑی؟ گاڑی نکلوانے کے لئے کس نے کہا؟‘‘ میں نے حیرانی سے ملازمہ کی طرف دیکھا۔  وہ دونوں ہاتھ جوڑ کر کھڑی ہو گئی-

’’بی بی! ناراض مت ہونا۔  میں نے ہی گاڑی نکلوائی ہے۔  مجھ سے آپ کا دکھ دیکھا نہیں جاتا۔  میں آپ کے کپڑے بدلوا دیتی ہوں۔  شام کی ہوا خوری کے لئے آپ تھوڑی دیر گاڑی پر گھوم آئیے۔  ہفتہ بھر ہو گیا آپ کو ایسے پڑے پڑے۔ ‘‘

مجھے ہلکی سی ہنسی آ گئی۔ ’’ارے نہیں ! میں بیمار کہاں ہوں۔ اپنے آپ سے کپڑے بدل لوں گی۔ ‘‘ میں بھول گئی کہ میں نے کچھ دیر پہلے ملازمہ سے کہا تھا کہ میں بیمار ہوں۔  اس نے میری باتوں پر کوئی توجہ نہیں دی۔   وہ تو اتنا ہی چاہتی تھی کہ کسی طرح میں خوش ہو جاؤں۔  پہلے کی طرح روزمرہ کی زندگی میں داخل ہو جاؤں۔  مجھے ملازمہ کی وفاداری اپنوں کی وفاداری سے زیادہ قیمتی لگی۔  میں نے کپڑے بدلے اور گڈو کے ساتھ شام کی ہوا خوری کے لئے نکل گئی۔

’’گڈو فریدن بوا کا فون آیا تھا کہ نہیں ؟‘‘

’’جی میری تو روز بات ہوتی ہے۔ ‘‘

’’کیا کہہ رہی تھیں ؟‘‘

’’مالک اب اسپتال سے واپس آ گئے ہیں۔  بہت کمزور ہو گئے ہیں۔  بستر پر ہی نماز ادا کر لیتے ہیں۔  ان کی کمر میں اب بالکل دم نہیں رہ گیا۔  اماں سہارا دے کر اپنے ہاتھوں سے ان کا منہ ہاتھ دھلاتی ہیں۔ ‘‘

گڈو کی باتیں سن کر میری آنکھیں آنسوؤں سے چھلچھلا آئیں۔  مجھ پر ایسا بھاری وقت بھی آئے گا، ا س کا مجھے گمان بھی نہیں تھا۔  اتنا تو میں اپنی ماں کی موت پر بھی نہیں ٹوٹی تھی۔ پل بھر میں مجھے ابّی نے اتنا غیر سمجھ لیا-مجھے نیلوفر کی سوتیلی بہن کہہ دیا۔  میں نے اس سے سوتیلے پن کا انتقام لیا۔ میں نے ہی نیفو کی زندگی برباد کر دی۔  ابّی کو شکایت ہے کہ میں نے اتنا بڑا راز ان سے کیوں چھپایا۔  اتنا بھی وہ نہیں سمجھ پا رہے تھے کہ ایک باپ کو میں کیسے بتاتی کہ ان کی کنواری بیٹی ماں بننے والی ہے اور میں اس کے کنوارے پن کو بنائے رکھنے کے لئے اس کا کچا پیٹ گروا رہی ہوں۔  کاش ابّی نے معاملے کی نزاکت اور سنجیدگی پر بھی نگاہ ڈالی ہوتی۔  مجھے نہیں معلوم نیفو نے ابی کو یہ کہانی کس طرح سنائی۔ وہ تو تجربہ کار عقلمند اور ہوش مند انسان تھے۔  کہانی کی تہہ تک پہنچ سکتے تھے۔

نیفو بیحد کم عقل، نا تجربہ کار اورسطحی لڑکی ثابت ہوئی۔  راشد مرزا نے اپنی مردانگی، اپنی وجاہت اور اپنی شاندار شخصیت کے جھنڈے گاڑنے کے لئے ایک دو کالے چٹھے سوئٹزرلینڈ میں ہنسی ہنسی میں سنا ڈالے۔ ۔  اپنی خالص نکاحی بیوی کو پرکھنے کے لئے یہ بھی مردوں کی ایک چال ہوتی ہے۔  ایک دو اپنی سناؤ اور پھر قسمیں دلا کر اللہ رسول اور قرآن پاک کو بیچ میں ڈال کر اس کی ساری کی ساری سن لو۔  اور پھر ان قصوں سے اس کو زندگی بھر بلیک میل کر تے رہو یا پھر ہٹو، کنارے جاؤ- میرے انتظار میں کوئی دوسری موجود ہے، والا رویہ اپنا کر اسے اپنی زندگی سے الگ کر دو۔  نیفو نے بھی یہی غلطی کی اور راشد مرزا کے شکنجے میں گرفتار ہو گئی۔  سوئٹزر لینڈ سے آتے ہی نیفو اس کے لئے غیر ہو چکی تھی کیوں کہ اس کے جسم کے پاک پردے کو کسی اور کے خنجر نے پہلے ہی تار تار کر دیا تھا۔  جس عورت کی پاکیزگی پہلے ہی ختم ہو چکی ہو اسے شوہر کے ساتھ ہم بستری کرنے کا کوئی حق نہیں۔  وہ عورت اس کے بچے کی ماں کیسے بن سکتی ہے جس کا رحم پہلے سے ہی داغ داغ ہو وہ کسی مرد کے قابل کیسے ہو سکتی ہے۔  عورت کا بے عصمت ہونا مرد کے لئے بڑا قابل شرم امر ہوتا ہے۔ عورت کو بے عصمت کرنے والے  خود کو پارسا ثابت کرنے کے لئے تمام حدوں سے گزرنے کو تیار رہتے ہیں۔

ان سارے کھیل تماشوں میں مجھے ہی قصور وار ٹھہرایا گیا۔  میرا گناہ یہ تھا کہ میں نیفو کے گناہ میں حصہ دار بنی تھی۔  ایک بڑی بہن کا مجھے فرض ادا کرنا چاہئے تھا اور نیفو کے اس بچپنے پر پردہ نہ ڈال کر ابّی کو، کشو کو، سب کچھ بتا دینا چاہئے تھا۔  ان حالات میں کشو کسی غریب لڑکے کے سرا سے منڈ دیتا،  کشو  کا یہی کہنا تھا۔  میں سمجھاتے سمجھاتے تھک گئی کہ میں نے اس کے گناہ میں حصہ داری نہیں کی بلکہ پردہ داری کی ہے۔

کشو مجھ سے بہت زیادہ ناراض تھا۔  اس نے فون کرنا بند کر دیا تھا۔  ابّی مجھ سے بات کرنے کے لئے تیار نہیں تھے۔ ان کے دل کو اتنا شدید اور گہرا  دھچکا لگا تھا کہ انہیں اسپتال کا رخ کرنا پڑا۔  انہوں نے سختی سے میرے مائیکے آنے پر پابندی لگا رکھی تھی۔  وہ میری شکل نہیں دیکھنا چاہتے تھے۔  کشو کے گالی گلوج اور ڈانٹ پھٹکار سے میں اتنی غمزدہ تھی کہ مجھے لگتا تھا کہ راشد مرزا کی طرح وہ کبھی بھی مجھے طلاق دے سکتا ہے۔  ایسے میں میرا ٹھکانا کہاں ہو گا۔  میں کس کے پاس جاؤں گی۔  ابّی کے دروازے میرے لئے بند ہو چکے تھے۔  میں اپنے آپ کو تیار کر رہی تھی کہ مجھے اپنی پڑھائی کے سر  ٹیفکیٹ تلاش کر کے نکالنے ہوں گے۔  ذریعۂ معاش ڈھونڈنا ہو گا۔  میں نے دل ہی دل میں یہ بھی پکا ارادہ کر لیا تھا کہ کبھی اچانک یہ آفت مجھ پر ٹوٹتی ہے تو میں سیدھے الزبیتھ کے پاس جاؤں گی، کوئی راستہ نکا لوں گی۔ جس طرح تیز آندھی کا شکار ہو کر مکڑی کا جالا پھٹ کر آزاد ہو جاتا ہے اسی طرح کشو ، ابّی اور نیلوفر نے مل کر مخالف ہواؤ ں کا ایسا زور باندھا کہ میرا آشیانہ ان ہواؤں کی زد میں آ چکا تھا۔  میرے لئے رنجیدہ ہونے کے سواکچھ نہیں بچا۔ اور پھٹ کر آزاد ہوئے جالے کی طرح میں آوارہ پھرنے لگی۔ گیارہ سال کی عمر میں میں نے زندگی کی تلخ سچائیوں کو سمجھنا شروع کر دیا تھا۔  میں نے سمجھ لیا تھا کہ صبح کی نرم دھوپ اور خنک آمیز ہوائیں  میرے لئے نہیں ہیں، موتیوں کی لڑیوں کی طرح سے ٹپکتی بارش کی بوندیں میری نہیں ہیں۔ بہتے پانی میں کاغذ کی کشتی تیرانے کا حق میرا نہیں ہے۔  یہ پاؤں تتلیوں کے پیچھے بھاگنے کے لئے نہیں بنے۔  میرے ہاتھ سے میری امّی کی بنائی کپڑوں کی گڑیا چھین لی گئی۔  اور چھوٹی امّی کی جنی جیتی جاگتی گڑیا نیفو پکڑا دی گئی۔ ۔ ۔ ۔ ۔

خدا جانے نیفوکا کیا حال ہے۔  مجھ پر اتنی بڑی مصیبت خود آن پڑی ہے تو میں نیفو کا کیا حال چال لوں۔  کم سے کم اسے ابّی کی دہلیز پر ٹھکانا تو مل گیا۔  اس کا موبائل سوئچ آف رہتا تھا۔

اتنی مہنگی شادی، اتنے تام جھام اور پل میں سب کچھ خاک۔  یہ نیفو جیسی لڑکیاں ہی ہوتی ہیں جو مردوں کے پھیلائے جال میں سب سے پہلے پھنستی ہیں اور ساتھ ساتھ اپنے سے جڑے لوگوں کا بھی بیڑا غرق کر دیتی ہیں۔  ایک مرد کے ہاتھوں کھلونا بن کر بھی اس نے کوئی سبق نہیں سیکھا۔  دوسرا مرد بھی اس سے کھیل کر چلا گیا۔  میں جانتی ہوں کہ جب وہ باہر کی دنیا میں نکلے گی تو ہو سکتا ہے کہ اس کے ساتھ تیسرا اور پھر چوتھا پانچواں چھٹا کھیل بھی کھیلا جائے۔

’’باجی اب گھر چلوں۔ ‘‘

’’چلو!‘‘ میرے لہجے میں تھر تھراہٹ تھی۔  میں اپنے کو حالات سے لڑنے کے لئے تیار کر رہی تھی۔  بچپن سے ہی میری مٹی سخت تھی میں ٹوٹنے والی عورت نہیں تھی۔

٭

میں نے چھوٹی موٹی نوکری کے لئے درخواستیں دینا شروع کر دیا۔  ظاہر ہے کہ انٹر پاس لڑکی کو کوئی بڑی نوکری تو ملنے سے رہی۔  چھوٹی امّی کی خواہش کا احترام کرنا تھا اس لئے ابّی کو تعلیم کی نہیں اپنی ذمہ داری سے بری ہونے کی زیادہ فکر تھی۔  اب جو بھی ہو حالات کا سامنا تو کرنا ہی تھا۔  میں نے الزبیتھ کی طرف اپنا رجحان زیادہ بڑھا دیا آخر مجھے ان سے مدد جو لینی تھی۔  میں زیادہ وقت ان کے ساتھ اسپتال میں گزارتی تاکہ وہاں کے ماحول کو اپنا سکوں۔  برے سے برے وقت کے لئے میں خود کو تیار کر رہی تھی۔  میرے روئیں روئیں میں قسم قسم کے خوف پنہاں تھے۔ میں اپنے خوف سے خوف زدہ بھی نہیں ہوں کیونکہ نسل آدم کے لئے خوف کا احساس کوئی نیا نہیں ہے۔ ایک دن الزبیتھ کے ساتھ کچھ فرصت کے لمحے گزارنے کے لئے میں ان کے گھر پہنچ گئی۔  ڈور بیل بجانے ہی والی تھی کہ مجھے کسی مرد کے زور زور سے بولنے کی آواز سنائی دی۔ ۔ ۔ ۔ ’’کیا  میں واپس لوٹ جاؤں ؟ میرا اندر جانا ٹھیک ہو گا یا نہیں ؟ یہ مرد آخر کون ہے؟ اس کی اور الزبیتھ کی آوازیں آپس میں اتنا گتھم گتھا ہو رہی تھیں کہ میں خود بھی نہیں سمجھ پا رہی تھی کہ کیا کروں۔  ابھی میں کوئی فیصلہ کر بھی نہیں پائی تھی کہ دھڑام سے دروازہ کھلا اور ایک لمبا چوڑا مرد تیزی سے گھر کے اندر سے نکلا۔ وہ اتنی جلدی میں تھا کہ مجھ سے ٹکراتے ٹکراتے بچا’’ ساری دیدی‘‘ اس کے منہ سے اچانک نکلا۔  کیا یہ مجھے پہچانتا ہے۔  اگر پہچانتا ہے تو میں اسے کیوں نہیں جانتی۔  سیڑھی سے اترنے کی اس کی آہٹ مجھے سنائی دے رہی تھی اور میں پس و پیش میں دروازے پر ہی کھڑی سوچ رہی تھی کہ مجھے کیا کرنا چاہئے۔

’’ارے نازنین بیٹی آؤ۔ ‘‘

’’معاف کیجیے گا میں شاید غلط موقعے پر آ گئی۔ ‘‘

’’ارے نہیں اندر آؤ۔  تم غیر تھوڑی ہو۔ ‘‘

وہ میرا ہاتھ پکڑ کر کھینچتے ہوئے اندر لے گئیں۔  ان کی آنکھوں کے پپوٹے سوجے ہوئے تھے۔  لگتا تھا وہ دیر سے رو رہی تھیں۔

یا خدا ہر عورت کا مقدّر تو نے آنسوؤں سے کیوں لکھا۔  اس کی قسمت کی بیشتر تحریریں تو سیاہ روشنائی سے ہی کیوں لکھتا ہے۔

’’میں آج بے حد پریشان ہوں نازنین؟‘‘

’’کیوں آنٹی؟ ایسا کیا ہو گیا۔ ‘‘

’’ ارے تم نے اس سے میرا جھگڑا نہیں سنا ؟‘‘

’’ کس سے؟ یہ کون آدمی تھا؟‘‘

روہانسی ہو کر الزبیتھ ہنس دیں –

 ’’ تم پہچانی نہیں، یہ وولکی تھا، پہلے کلین شیو اور صاف ستھرا رہتا تھا۔  اب دو دو تین تین دن ہو جاتے ہیں نہاتا تک نہیں۔ ‘‘

’’ارے وولکی تھا۔ میں تو پہچان ہی نہیں پائی۔ ‘‘

’’پہچانتی کیسے اتنی بڑی بڑی داڑھی مونچھ اس نے جو رکھ لی ہیں۔ ‘‘

 مجھے فکر ہوئی-’’ وولکی ناراض کیوں تھا؟‘‘

’’ناراض کیا کہیں بیٹی، ہمارا نصیب ہی خراب ہے۔  نینسی نے سسٹر بن کر میرے سارے ارمان توڑ دئے۔  میں نے اسے کتنے ناز سے پالا تھا۔  جس دن وہ بالغ ہوئی اسی دن سے اس کی شادی کے خواب سجانے لگی تھی۔  پتہ نہیں کب کیسے اسے ایک ہندو لڑکے سے محبت ہو گئی۔  آخر وہ ایک عیسائی لڑکی سے شادی کیوں کرتا۔  بس یہی بات نینسی کے دل کو لگ گئی اور اس نے باہری دنیا سے ناطہ توڑ لیا۔ ۔  وولکی کی شادی کی۔  اسے الگ کر دیا کہ چلو بہو بیٹے کسی بہانے خوش رہیں۔  ان کا آدھا خرچ میں خود اٹھاتی تھی تم بھی جانتی ہو؟‘‘

الزبیتھ جب بولنے پر آتی تھیں تو لمبی بات چیت کرتی تھیں۔  میں بغیر وقت برباد کئے اصل حقیقت جان لینا چاہتی تھی۔  میں نے بیچ میں ہی بات کاٹی—-’’وولکی کے ساتھ کیا ہوا؟‘‘

’’ وولکی کی بیوی ناراض ہو کر مائیکے چلی گئی ہے اور میری دونوں پوتیوں کو بھی ساتھ لے گئی۔ ‘‘

’’کیوں ؟‘‘

’’وہ نہیں چاہتی تھی کہ وولکی مجھ سے ملے جلے مگر وولکی مجھے چھوڑنے کے لئے تیار نہیں۔  بس یہی جھگڑا ہے۔ ‘‘

’’ارے اتنی معمولی بات پر وہ مائیکے چلی گئی۔ ‘‘ میں حیران ہوئی۔  الزبیتھ نے بات آگے بڑھائی-

’’ ابھی میں اسے یہی تو سمجھا رہی تھی کہ مجھے بھول جائے اور اپنی زندگی سنوارے۔  میں تو کسی طرح کھا کما سکتی ہوں۔  آج میں ہوں کل میں نہیں رہوں گی۔  ان دونوں کی گھرگرہستی کی ابھی شروعات ہے۔  وہ کیوں میری خاطر اپنا گھر برباد کرے۔ ‘‘

میں سارا معاملہ سمجھ چکی تھی۔  مجھے ان کے گھریلو معاملے میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔  میں نے بات ختم کرتے ہوئے کہا-

’’آپ نے کچھ کھایا پیا کہ نہیں ؟‘‘

’’ابھی کہاں ؟ صبح سے تو جھگڑا مچا ہے۔ ‘‘

 میں کچن میں گئی اور سینڈوچ بنا کر لے آئی۔

وہ منہ ہاتھ دھو کر ناشتہ کرنے لگیں۔ ظاہر ہے لنچ ٹائم ہو رہا تھا۔  بھوکی ہوں گی۔  مگر میں کھانا بنانے کے موڈ میں نہیں تھی۔  انہوں نے میری طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔

’’ستارہ کا کوئی حال چال ملا۔  میں اپنی ہی جھنجھٹوں میں اتنی الجھی رہی کہ اس سے کوئی بات چیت نہیں ہو سکی۔  شاید ادھر وہ نینسی کے پاس ایک دو بار گئی تھی۔ ‘‘

’’آنٹی میں تو پندرہ دن سے اوپر ہو گیا، بستی گئی ہی نہیں۔  مجھے وہاں کا کوئی حال  معلوم ہی نہیں۔ ‘‘

’’سنا تھا گلابو کی لڑکی آئی تھی۔ ‘‘

’’وہ تو بہت پہلے آئی تھی۔ اسے تو واپس گئے ہوئے بھی عرصہ ہو گیا۔ ‘‘

آنٹی نے بات کو آگے بڑھایا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ’’میرا جی بستی سے بالکل اچاٹ ہو گیا۔  سب بے مصرف لوگ ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  فالتو کے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  کوڑے کے ڈھیر پر زندگی جیتے ہیں اور خوش رہتے ہیں۔  لعنت ہیں ان پر۔ ‘‘

میں خاموش رہی اور اپنی پلیٹ صاف کرتی رہی۔ ناشتے کے بعد میں واپس اپنے گھر آ گئی۔  جہاں کی تنہائیاں میرے انتظار میں پلکیں بچھائے بیٹھی تھیں۔  مجھے بھی جیسے ان کی چھاؤں میں بیٹھنے کی عادت پڑھ گئی تھی۔  کمرے کی فضا مجھے پہلے کی طرح ہی ماتمی لگ رہی تھی۔  شاید اینٹ گارے کی دیواریں بھی انسانوں کے ساتھ اسی طرح رشتہ بنا لیتی ہیں، اپنے مالک کی خوشی میں خوش، اس کے دکھ میں دکھی- میں بستر پر آ کر لیٹ گئی۔ تنہائی کے جنگل میں بھٹکنے کے لئے اب میں تھی اور میری سوچ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ زندگی میں بہت سے میدان ہیں جنھیں ہماری روحیں طے کرتی ہیں لیکن ہم انھیں مادی پیمانوں سے نہیں ناپ سکتے جن کی ایجاد انسانی فکر و نظر کی مرہون منت ہے۔

٭

نئے ڈھانچے میں خود کو ڈھالنے کی ایک طرف میری کوشش جاری تھی دوسری طرف میں خود کو کسی بھی وقت ملنے والے ذہنی جھٹکے کے لئے تیار کر رہی تھی۔  مجھے ابی یا نیفو سے بات کئے ہوئے تقریباً مہینہ ہو چکا تھا۔  کشو نے ایک طرح سے مجھ سے ناطہ توڑ رکھا تھا، ہاں اتنا ضرور تھا کہ اس کی طرف سے بھیجے جا رہے پیسے میں کمی نہیں آئی تھی ورنہ مجھے معاشی تنگ دستی سے بھی گزرنا پڑ سکتا تھا۔

صبح سے میں نکلی ہوئی تھی۔  ایک پرائیویٹ اسکول میں انٹرویو تھا۔  بہت بھیڑ تھی۔  یوں تو میں دس بجے وہاں پہنچ گئی تھی مگر میرا نمبر ڈھائی بجے آیا۔  انٹرویو دینے کے لئے اندر گئی۔  نہ اچھی تعلیم، نہ ٹریننگ، نہ کوئی ڈپلومہ- میرا انٹرویو لینے والی خاتون حیران ہوئیں کہ انٹر پاس لڑکی آٹھویں درجے کے بچوں کو کیسے پڑھا سکتی ہے۔  چند رسمی بات چیت کے بعد انہوں نے مجھے واپس بھیج دیا۔  ان کے چہرے کا رنگ دیکھ کر مجھے اندازہ ہو گیا کہ یہاں کوئی امید قائم کرنا بیکار ہے۔  یہ میرا پہلا اور آخری انٹرویو ثابت ہوا کیوں کہ اب میں نے اپنی توجہ نرس ٹریننگ حاصل کرنے پر مرکوز کر دی تھی۔

دن بھر کی بھاگ دوڑ سے تھکی ہاری میں چار بجے گھر لوٹ سکی۔  نہا دھو کر دن کا کھانا کھایا اور بے سدھ ہو کر بستر پر گر پڑی۔  اتنی گہری نیند آئی کہ نہ وقت عصر کا پتہ چلا نہ مغرب کی نماز ہوئی۔  رات کے آٹھ بج گئے۔  ملازمہ رات کا کھانا بنانے کے لئے آ چکی تھی۔ میرے کمرے میں اندھیرا تھا اور میں گہری نیند سوئی ہوئی تھی۔  اچانک ملازمہ نے میرے کندھے پکڑ کر زور زور سے ہلائے-’’ اٹھئے بی بی جی، اٹھیے—-آپ کا فون آیا ہے۔ ‘‘ میں نے نیند میں ہی جواب دیا—’’کہہ دو میں سو رہی ہوں۔ ‘‘

مجھے معلوم تھا ایسا کوئی فون نہ ہو گا جس کا مجھے انتظار ہے اور فالتو فون کے لئے میں اپنی نیند نہیں خراب کرنا چاہتی۔  ’’بی بی جی اٹھیے! صاحب لائن پر ہیں۔ ‘‘

’’صاحب—–کون صاحب—–۔ ‘‘ اب میں چونکی تھی اور میں نے پوری آنکھیں کھول کر ملازمہ کی طرف دیکھا۔

کچھ حد تک اسے میرے حالات کا پتہ تھا۔  اس کی آنکھو ں میں خوف اتر اہوا تھا وہ انگلی سے موبائل کی طر ف اشارہ کر رہی تھی اور سمجھانا چاہتی تھی کہ اس کے ریسیو کئے ہوئے فون کے دوسری طرف جو ہے وہ میری بات سن رہا ہے اس نے ہونٹ دباتے ہوئے موبائل میری طرف بڑھایا-’’لیجئے بات کیجئے! مالک لائن پر ہیں۔ ‘‘

’’ہیلو!‘‘ میں نے جھٹ سے فون ریسیو کیا۔

’’ہیلو جان! طبیعت تو ٹھیک ہے۔  بے وقت کیوں سو رہی ہو؟‘‘

 مجھے اپنے کان پر یقین نہیں آیا میں تیزی سے اٹھ کر بیٹھ گئی ملازمہ کمرے کی لائٹ جلا کر جا چکی تھی۔

تم کشو تم۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ارے۔ ۔ ۔ ۔ ۔  آپ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  آپ ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  السلام علیکم۔ ‘‘

’’وعلیکم السلام۔ ۔ ۔ ۔ کیا حال چال ہیں۔ ‘‘

’’آپ کیسے ہیں ؟‘‘ میری آواز رندھ چکی تھی اور گلا پھنس رہا تھا۔

’’ارے۔ ۔ ۔  ارے۔ ۔ ۔ ۔ ۔  یہ تمھاری آواز کو کیا ہو رہا ہے۔  گلا کیوں پھنس رہا ہے۔ ‘‘

میں برداشت نہیں کر سکی اور پھپھک کر رو اٹھی۔  اتنے دنوں میں میں نے اپنے کو سمیٹ کر جینے کی جو کوشش شروع کی تھی وہ بھر بھری مٹی کی طرح ڈھہ گئی۔  اگر کشو پاس ہوتا تو میں اس کے قدموں میں گڑگڑا کر اس سے معافی مانگتی۔  اس سے کہتی مجھے اپنے گھر کی داسی بنی رہنے دو۔  طلاق دیکر مجھے بے گھر مت کرو۔  میری زندگی کو چوراہے پر لا کر مت کھڑا کرو، میرے بدن کو سڑک کے کنارے کا سوکھا ناٹا ٹھوٹھ مت بناؤ کہ وہ ہر ایک کے لئے سُلبھ شوچالے بن جائے۔  بیتے دنو ں میں جو ذہنی تکلیفیں اٹھائیں تھیں، اس نے مجھے توڑ کر رکھ دیا تھا۔

لوگوں کی نگاہوں، لوگوں کی پھبتیوں، آڑے ترچھے اشارے۔ ۔ ۔ ۔  اف۔ ۔ ۔  ایک عورت کو مردوں کی دنیا میں قطرہ قطرہ کتنا زہر پینا پڑتا ہے۔  شو کی طرح وہ سارا زہر پیتی ہے مگر پی کر اپنے وجود کا حصہ نہیں بننے دیتی۔  زہر کے مادے کو اپنے اندر نہیں اتارتی۔ زہر پیتے پیتے نیل کنٹھ کی طرح آدھا حصہ نیلا پڑ جاتا ہے باقی آدھا حصہ وہ عورت اپنے مرد کے لئے بچا کر رکھتی ہے۔

ان دنوں میں نے گاڑی سے باہر نکلنا بند کر دیا تھا۔ دو چار سوتی سادے کپڑے سلوالئے تھے، ان کو ہی پہن کر باہر نکلتی۔ کان کے ٹاپس، ہار سونے کی انگوٹھیاں سب میں نے اتار کر رکھ دئے تھے۔  ناخن پر نیل پالش نہیں لگاتی، نہ آنکھوں میں کاجل، نہ ہونٹوں پر لپسٹک تاکہ لوگ مجھے ایک معمولی عورت ہی سمجھیں۔  ان سب کے باوجود میری چمکتی ہوئی جلد مردوں کو ویسے ہی لبھاتی جیسے قصائی کو بھرے گوشت والی بکریاں۔

میں سسک سسک کر رو رہی تھی اور دوسری طرف کشو بالکل خاموش رہ کر مری رلائی کو سن رہا تھا۔ میں بیتے دنوں میں اٹھائی ذلتوں کو یاد کر کے روتی جا رہی تھی اور بھول گئی کہ لائن پر کشو ہے۔

مجھے لگا، کہیں لائن کٹ تو نہیں گئی ہے کیوں کہ کشو نے اس درمیان مکمل خاموشی اختیار کر رکھی تھی۔

’’ہیلو؟‘‘ میں نے اپنے آپ کو سنبھالا۔

’’رو چکیں میری جان۔  خوب رو لو۔  پاس ہوتا تو اپنے شانے تمہاری طرف بڑھا دیتا کہ جتنا رونا ہے آج رو لو پھر کبھی میں تمہاری آنکھوں میں آنسو نہیں دیکھنا چاہتا۔ ‘‘

اچانک مجھے محسوس ہوا کمرے میں تیز روشنی پھیل گئی ہے۔ آسمان سے چاند تارے اتر کر میرے کمرے میں آ گئے ہیں کمرے کی اداسی دور ہو چکی ہے۔  لگتا تھا جیسے در و دیوار گن گنا رہے ہوں۔  پورا کمر مجھے خوشیوں میں جھومتا سا لگا۔

کشو مجھے طلاق نہیں د ے گا۔ وہ مجھ سے اپنی بیوی ہونے کا حق نہیں چھینے گا۔  مجھے چھوٹی موٹی نوکری کے لئے در در بھٹکنا نہیں پڑے گا۔  اسپتالوں کے چکر کاٹنے نہیں ہوں گے۔  الزبیتھ جیسی عورت کی چاپلوسی نہیں کرنی ہو گی۔  میری زبان سے بے ساختہ نکلا-

’’کشو تم ہمارے ہی رہو گے نا!‘‘

مجھے فون لائن پر کشو کا ایک زور دار قہقہہ سنائی دیا—’’پگلی! تو تو میری نکاحی بیوی ہے۔ ‘‘

’’تم مجھے نہیں چھوڑو گے نا!‘‘

’’نادان!‘‘کشو کی آواز آئی۔

’’تم نے مجھے معاف کر دیا نا۔ ‘‘

’’جانو معافی تم کیوں مانگتی ہو۔ معافی تو انہیں مانگنی چاہئے جنہوں نے گناہ کیا ہے، تم کیوں اپنے کو ہلکان کر رہی ہو۔ ‘‘

’’سچی!‘‘ میں بچوں کی طرح خوشی سے چہک اٹھی۔

’’ یار  دوسروں کی خاطر ہم لوگ کیوں اپنی گھریلو زندگی برباد کریں۔ ‘‘

’’ ٹھیک، بالکل ٹھیک‘‘ میں اس وقت ایک ننھی بچی کی طرح باتیں کر رہی تھی۔

اس کی آواز پھر سنائی دی—’’غلطی نیفو کی ہے تو نیفو بھگتے، ہم لوگ کیوں ؟ پہلے مجھے لگا تھا کہ ہمارے اور راشد کے بھائی شاہد مرزا کے بیچ جس تجارت کی ڈیل ہوئی تھی وہ خطرہ میں پڑ گئی ہے۔  کروڑوں روپوں کا نقصان ہو جاتا۔  مگر میرا دوست سمجھدار تھا۔ ہم دونوں نے مل کر باتیں کیں، بہت باتیں ہوئیں تجارت کی بھی اور گھریلو رشتوں پر بھی۔ میں تمہیں سب بتاؤں گا تم سنو گی تو حیران ہو جاؤ گی۔ ‘‘

’’تو بتائیے !‘‘میں مچل گئی۔

اس کی آواز پھر آئی-’’ تم ابھی سو کر اٹھی ہو۔  پہلے نہا لو۔ کھانا کھا کر تازی ہوا میں تھوڑی چہل قدمی کر لو پھر میں ہندوستانی وقت کے مطابق دس بجے فون کروں گا۔  تب تک تم اپنے سارے کاموں سے فارغ ہو جانا۔ ‘‘

’’ٹھیک ہے، ٹھیک ہے۔ ‘‘ میں نے چہکتے ہوئے کہا۔

اس نے فون لائن کاٹ دی اور میں جھٹ شکرانے کی نماز پڑھنے کے لئے نماز کی چوکی پر کھڑی ہو گئی۔

ملازمہ نے میرے بدلے ہوئے موڈ کو دیکھا تو وہ بھی خوش ہو گئی۔ اس نے جھٹ پٹ میری پسند کے کھانے بنانے شروع کر دئے۔  آٹھ بجے تک عشا کی نماز پڑھ کر میں نے کھانا کھا لیا۔  میری نگاہیں ہر تھوڑی دیر کے بعد گھڑی کی سوئیوں کی طرف اٹھتیں اور بار بار مجھے شک ہوتا کہ گھڑی بند ہو چکی ہے۔  ٹی وی چلاتی اور ٹائم چیک کرتی اور مطمئن ہو جاتی۔  ابھی دس بجنے میں ایک گھنٹہ باقی تھا۔ میں لان میں آ کر چہل قدمی کرنے لگی۔  ملازمہ جا چکی تھی اور گڈو بھی رات کا کھانا کھا کر اپنے کواٹر میں چلا گیا تھا۔

کشو کی محبت کی دیوانگی یا اپنی زندگی پھر سے سنور جانے کی خوشی تھی کہ میرا دل چہل قدمی کرنے میں نہیں لگا اور میں واپس اپنے کمرے میں آ گئی۔  میں کچھ کچھ سوچتی جا رہی تھی اور وقت گزارنے کیلئے کچھ کچھ کرتی جا رہی تھی۔ میں نے بیڈ کی چادر بدلی، تکیہ کا کور بدلا، ڈریسنگ ٹیبل کو پھر سے جھاڑ پونچھ کر اس پر ترتیب سے اپنی سنگارکی چیزیں رکھیں۔  جن میں کاجل، لپ سٹک، ٹیلکم پاؤڈر، آئی شیڈو، مختلف رنگوں کے نیل پالش، فیس پاؤڈر، مساج کریم، اسکرب، فیس واش اور باڈی کریم کے علاوہ نہ جانے کتنی اشیا تھیں جنہیں میں نے ڈریسنگ ٹیبل سے ہٹا کر کنارے رکھ دیا تھا۔ ڈریسنگ ٹیبل کے ایک کونے میں پرفیوم، ڈیوڈورینٹ کی بوتل بھی رکھی۔  روم فریشنر لے کر سارے کمرے میں اسپرے کیا۔  گلدان سے دو تین دن کے باسی پھول نکال کر ڈسٹ بن میں ڈالا اب رات میں تازے پھول تو توڑ نہیں سکتی تھی۔ خالی گلدان اچھا نہیں لگ رہا تھا میں نے اسے بیڈ کے نیچے ڈال دیا۔  پورے کمرے پر ایک گہری نظر ڈالی۔  بکھرے ہوئے اخبار کے ڈھیر میں نے کمرے سے باہر نکال دیا اب میرا کمر ہ پوری طرح سنورا ہوا لگ رہا تھا۔  کچھ گھنٹے پہلی کی بے ترتیبی کا کوئی نام و نشان نہیں تھا۔  مہکتا ہوا صاف ستھرا کمرا۔  میں نے گھڑ ی پر نگاہ ڈالی رات کے نو بج کر پینتالیس منٹ۔  پندرہ منٹ ابھی باقی ہیں۔  میں نے ڈریسنگ ٹیبل کے قریب جا کر اپنے اوپر نگاہ ڈالی۔  سوکھے پپڑی پڑے ہونٹ، کاجل سے خالی مگر چمکتی آنکھیں، بکھرے بال، بڑھی ہوئی بھوئیں، کریم کے بغیر بے رونق خشک چہرہ، سادہ سا شلوار کرتا۔  نہ کانوں میں ٹاپس، نہ گلے میں ڈھائی تولے کی چمکتی  ہوئی سونے کی زنجیر، ہاتھ کی انگلیا ں خالی تھیں جن میں ہمیشہ فیروزے کی ایک بڑی سی انگوٹھی سجی رہتی تھی۔  پکھراج اور نیلم میرے اسٹار کے حساب سے سوٹ کرنے والے نگ تھے، اس لئے میں ا ن دونوں کو بھی ہمیشہ پہنے رہتی تھی وہ بھی اب انگلیوں میں نہیں تھے۔ کشو کی انگیج مینٹ میں دی ہوئی ہیرے کی انگوٹھی بھی انگلیوں سے اتری ہوئی تھی۔  مجھے انگوٹھیوں کا شوق تھا۔  چھ سات انگوٹھی میں ہمیشہ پہنے رہتی تھی اگر کہیں جلسے وغیرہ میں جاتی تو انگشت پہننا نہیں بھولتی تھی۔ نورتنوں سے جڑا ہوا بڑا سا انگشت۔  اس وقت میں کتنی سونی سونی سی لگ رہی تھی۔  میں نے جھٹ جویلری باکس اٹھایا اور ایک ایک کر کے وہ سارے زیور پہن لئے جو میری شخصیت کی پہچان بنے ہوئے تھے۔  ڈھائی تولے کے ہار میں لٹکتا ہوا بڑاسا لاکیٹ جن پر ڈائمنڈ کی چھوٹی چھوٹی کنیاں سے کاشف لکھا ہوا تھا۔  یہ سارے وہ تحفے تھے جو کشو وقتاً فوقتاً مجھے دیتا رہتا تھا۔

میں نے گھڑی پر پھر نگاہ ڈالی۔ دس بجنے میں صرف دو منٹ بچے تھے۔  میں پھر سے آئینے کے سامنے آ کر کھڑی ہو گئی۔ ہلکی لپ سٹک، گہرا کاجل اور فیس پاؤڈر کے ہلکے سے پف کو میں نے اپنے چہرے پر گھمایا۔  بغیر کسی میچ کے ڈھیروں کانچ کی چوڑیاں اور بیچ بیچ میں گولڈ کے کڑے کلائی میں ڈالے جنہیں کچھ وقت پہلے میں نے بے رحمی سے نوچ کر اپنے سے الگ کر دیا تھا۔

اب میں پوری طرح مسز کاشف بن چکی تھی۔ یہی تو وہ چیزیں تھیں جنہیں دیکھ کر رشتے دار مجھ سے رشک کیا کرتے تھے اور میں اپنے لباس، اپنے میک اپ اور اپنے زیور سے کشو کے دیے زخموں کو بخوبی چھپانے میں کامیاب ہو جاتی تھی۔

مگر آج میں کشوکی عطا کی ہوئی بے پناہ خوشیوں کو حاصل کر کے اس کی ہی پہچانوں سے اپنا سنگار کر رہی تھی۔  مسز کاشف کا رتبہ حاصل کر رہی تھی۔ نازنین بانو جو کچھ دیر پہلے تک برقرار تھی، اب گہری نیند سو چکی تھی۔  مسز کاشف جاگ اٹھی تھی۔  میرے ہونٹوں پر فاتحانہ مسکراہٹ تھی۔  میں نے پھر گھڑی دیکھا، ٹھیک دس بج رہے تھے۔  موبائل ہاتھ میں پکڑ کر میں بیڈروم میں ہی چھت کے ایک کو نے سے لٹکتی جھولے والی کرسی پر بیٹھ گئی۔  مجھ سے دور گئے میرے خواب ایک بار پھر سے میرے سنگ سنگ ہلکی پینگیں لینے لگے۔

دس بج کر ایک منٹ، دو منٹ، تین منٹ اور پھر پورے کے پورے تیس منٹ گزر گئے۔ میری ذہنی کیفیت بگڑتی جا رہی تھی اور میں اپنی جھولے والی کرسی کو تیزی سے  ہلاتی جا رہی تھی۔  دس بج کر چالیس منٹ، پچاس منٹ وقت گزرتا رہا۔  میری انگلیاں نہ جانے کتنی بار کشو کے نمبر کو کلک کرتے کرتے رہ گئیں۔  کہیں کشو کا میرے ساتھ کھیلا ہوا یہ کوئی ڈرامہ تو نہیں۔ ‘‘

گھڑی کی ٹک ٹک اور میرے دل کی دھڑکنیں رفتار میں جیسے ہوڑ لگا کر بڑھ رہی تھی۔ مجھے لگا کہ جیسے میں کسی کھنڈر میں بھٹکتی پیاسی بد روح ہوں جو مرد کو اپنے سنگارسے رجھانے کے لئے طرح طرح کے سوانگ رچاتی ہے۔ کبھی کمرہ اجاڑتی ہے، کبھی سجا دیتی ہے۔ کبھی جسم بوسیدہ کر کے بدن کو مٹی کا ڈھیر بنا دیتی ہے اور کبھی نئی بیاہتا کی طرح سنگار کر کے ڈورے ڈالنے کے لئے تیار سیج پر بیٹھ جاتی ہے۔  میں شدید ذہنی انتشار میں تھی۔ اچانک مجھے چکر آنے لگا سر گھومنے لگا۔ زمین آسمان ناچنے لگے۔  ناچتی آنکھوں کے سامنے طرح طرح کے منظر جیسے رقص کرتے ہوئے باری باری سے آ جا رہے ہوں۔  میں گھبرا اٹھی۔  میں نے کس کر رسی کو مٹھیوں کی گرفت میں جکڑ لیا۔  یہ کیا ہو رہا ہے۔  سب کچھ چکر کیسے کاٹ رہا ہے۔ یہ پورا کمرہ اتنا طلسماتی کیسے ہو گیا- اچانک مجھے احساس ہوا کہ میں اپنی جھولے والی کرسی گول گول گھما رہی تھی اور گھماتے گھماتے میں اسے چکر دھنی والا جھولا بنا دیا تھا۔  کرسی کے اوپر کی موٹی بٹی ہوئی رسی ناچتے ناچتے آپس میں الجھ گئی تھی اور اب وہ رسی تیزی سے اینٹی کلاک وائز گھوم کر واپس ہونا چاہتی تھی۔ جیسے بچوں کے ہاتھوں نچایا لٹو تیزی سے گھومتا ہے ویسے ہی میر کرسی ناچ رہی تھی۔

پھر ایک محور پر آ کر گھومتی ہوئی کرسی آہستہ ہوتے ہوتے رک گئی۔  میں نے گھڑی کی طرف نگاہ اٹھائی۔  گیارہ بج کر پانچ منٹ، دس منٹ، بیس منٹ، سوئیاں بھاگتی جا رہی تھیں اور میرے ہاتھ سے امید کی ڈور چھوٹتی جا رہی تھی۔  میں نے خود کو تسلی دی کہ عمر بھر کا فیصلہ سننے کے لئے اگر ایک رات انتظار کرنا پڑے تو کوئی برا نہیں۔  کشو نے مجھے اپنے انتظار کی گھڑی کی سوئیوں پر لٹکایا ہوا تھا۔ گیارہ بج کر تیس منٹ پر، مٹھیوں میں جکڑا موبائل جھنجھنا کر چیخ اٹھا۔  میں اچھل کر کرسی سے نیچے کودی اور بیڈ پر لمحے بھر میں ایسے جا کر بیٹھ گئی جیسے موبائل پر کشو کا فون نہیں، بلکہ خو دوہ کمرے میں موجود ہو۔

’’ہیلو!‘‘ میں بیتابی سے چیخ اٹھی۔

’’معاف کرنا جان! کچھ تاخیر ہو گئی۔  اس کی آواز میں لڑکھڑاہٹ تھی۔

’’کہاں تھے تم؟‘‘ میرا بے خیالی میں کیا ایک نازیبا سوال تھا جو کبھی کشو کو پسند نہیں آتا تھا۔  میں نے زور سے اپنے دانتوں سے اپنی زبان کاٹ لی تاکہ میں جذبات میں بہہ کر کوئی ایسی بات نہ کہہ جاؤں جو کشو کو پھر سے ناگوار گزرے اور میری دنیا سنورتے سنورتے پھر سے اجڑ جائے۔  میں نے بات سنبھالی-

’’میں جانتی ہوں کشو تم بہت مصروف رہتے ہو! مگر میں تم سے بے پناہ محبت کرتی ہوں۔  پل پل تمہاری یاد میں جیتی مرتی ہوں۔  میں تمہاری جدائی کس طرح کاٹتی ہوں اس کا شاید تمہیں انداز نہیں۔ ‘‘

 یہ باتیں نازنین بانو نہیں بلکہ وقت کی جلی اور حالات کی چھلی تجربہ کار وہ عورت بول رہی تھی جو مردوں کی نس پکڑے بغیر اس کا حال بیان کر سکتی ہے۔  میں نے ایسے ایسے جملے ادا کئے جو عورت مرد کے جذبات کو گدگدانے کے لئے بغیر سوچے سمجھے بولتی ہے۔  ایسے رسیلے جملے جو مرد کی پیاس کو بڑھا دیں اور وہ للک کر ٹوٹتے تارے کی طرح عورت کے دامن میں آگرے۔  میری باتیں سن سن کر کشو جیسے پگھلتا جا رہا تھا، گھلتا جا رہا تھا۔ اگر وہ قریب ہوتا تو شاید وہ اب تک مجھے ڈھیر کر چکا ہوتا۔  وہ ایک سڑک چھاپ چھچھورے لڑکے کی طرح مجھ سے باتیں کر رہا تھا اور میں بھی وہی کلمات ادا کر رہی تھی جو ایک فاحشہ بسترپر جانے سے پہلے بولتی ہے۔ سچ مچ عورت کے لئے شادی نہ صرف ایک با عزت  بلکہ کم خطرے اور کم محنت آمیز پیشۂ زندگی ہے۔

میں ایک ایک  جملہ سوچ سوچ کر بول رہی تھی اور وہ جو کچھ بول رہا تھا محض بات کی روانی میں بول رہا تھا۔

جس عورت نے مرد کو سمجھ لیا، اس عورت کیلئے کتنا آسان ہو جاتا ہے اس مرد کو اپنی انگلی پر نچانا۔  میں بھی کتنی بیوقوف تھی۔  اپنی انا کی جھوٹی لڑائی لڑ رہی۔ ارے وجود تو باہر ثابت ہو گا مگر اس سے پہلے گھر کی چہار دیوار کی جدو جہد سے تو پار اتر لیں۔  بند کمرے میں کون دیکھ رہا ہے کہ باہر گرجنے برسنے والی با وقار عورت بستر پر کس فاحشہ کا کون سا سوانگ رچ رہی ہے۔ میں نے اب تک کوئی سوانگ نہیں کھیلا تھا اس لئے کشو جیسے مرد کے ہاتھ کا کھلونا بنی اپنی زندگی فٹ پاٹھ پر لا رہی تھی مگر اب نہیں۔ اب میں سوانگ کی ایک ماہر کھلاڑی بنوں گی اور میں نے آج اپنا پہلا داؤ کھیلا تھا۔

اس درمیان میں نے خاص طور سے غور کیا کہ کشو کی زبان لڑکھڑا رہی تھی۔  یعنی اس نے شراب پی رکھی ہے۔  میرے علم میں پہلی بار یہ ہوا تھا۔  میں نے اسے کبھی شراب پیتے نہیں دیکھا تھا۔  مجھے کوئی دکھ نہیں ہوا۔  پیتا ہے تو پئے کمبخت، اگر کبھی میرے ہاتھ سے پینا چاہے گا تو میں اپنے ایک نئے سوانگ کے ساتھ اسے ضرور پلاؤں گی اور پلا پلا کر اس کے سر پر ناچوں گی۔  مجھے لگا کہ نازنین بانو ہمیشہ کے لئے گہری نیند سونے کی تیاری کر رہی ہے۔ کوئی افسوس نہیں، مر تی ہے تو مر جائے مگر مسز کشو زندہ رہے گی اس وقت تک اپنے سوانگ سے اپنا رتبہ اپنی شان  بنائے رکھے گی جب تک اس کے جسم میں ایک بھی سانس باقی رہے گی۔ میں بہت ڈرامائی انداز میں پچکار رہی تھی، دلار رہی تھی، جنسی خواہش ابھار رہی تھی تاکہ اسے میری ضرورت کا بھی احساس ہو۔

’’یار اب چپ بھی ہو جاؤ ورنہ میں پاگل ہو کر کسی عورت کے بیڈروم میں گھس جاؤں گا۔ ‘‘

میں نے ایک زور دار قہقہہ لگایا ’’ گھسنے سے پہلے خدارا راشد مرزا کی تفصیل تو بتاتے جائیے جس نے ہم میاں بیوی کے رشتے میں زہر گھول دیا تھا۔

اس کے بعد کشو نے جو بتانا شروع کیا تو میرے ہوش اڑ گئے۔  کیا مردوں کی دنیا اتنی بری ہوتی ہے۔  مجھے یقین نہیں آ رہا تھا۔  کاش میں نیفو کو بھی کچھ سوانگ سکھا پاتی۔

٭

 اتنے عرصے کے بعد فون پر ابّی کی آواز سن کر میں یہ بھی نہیں کہہ سکتی کہ میں بے حد خوش تھی، نہ میرے اندر ان کے لئے کوئی ناراضگی بچی تھی، نہ غصہ، نہ نفرت۔  سارے جذبے جیسے محسوس کرنے کی قوت کو کھو چکے تھے۔  پھر بھی میں نے بیحد سعادت مندی سے ان کی آواز سن کر سلام کیا، خیریت پوچھی، طبیعت خرابی پر افسوس ظاہر کیا۔  انہوں نے سارے سوالوں کا جواب بھی دیا اور ڈھیر ساری دعائیں بھی۔  پہلے میں ابّی کی زبان سے دعائیں سن کر اس طرح خو ش ہو جاتی تھی کہ بس کچھ ہی دنوں میں ان دعاؤں کا صلہ ملنے والا ہے مگر آج میں نے اپنے اندر کوئی خوشی کوئی تبدیلی محسوس نہیں کی  جیسے پہلے کرتی تھی۔ ابّی سے بات کرتے وقت اور بات کرنے کے بعد ویسے ہی رہی۔  میرا یقین اپنوں پر سے اٹھ گیا تھا۔ اپنوں پر میرا اعتماد ٹوٹ چکا تھا۔  دنیا کے اتار چڑھاؤ نے سمجھا دیا تھا کہ یہاں اپنا کوئی نہیں ہوتا۔  اگر وقت آپ کے ساتھ ہے، آپ پر مہربان ہے تو سب آپ کے اپنے ہیں اور اگر وقت کی آنکھیں ترچھی ہو رہی ہیں تو اپنوں کی نگاہیں پھرنے میں وقت نہیں لگتا۔  میرے لئے ہر رشتے بے معنی ہو چکے تھے۔ جو آپ کے سامنے آپ سے مخاطب ہو وہ کچھ لمحوں کے لئے آپ کا اپنا ہے مگرجیسے ہی وہ آنکھ کے پیچھے گیا، نہ وہ اپنا، نہ غیر میرے تجربہ نے مجھے یہی سبق دیا تھا۔  سبق صحیح ہے یا غلط اس پر میں غور نہیں کرنا چاہتی تھی۔ نیفو نے بھی مجھ سے بات کی۔ اس کے لئے بھی میرے اندر کوئی گلہ شکوہ نہیں بچا تھا، مگر وہ اپنی تھی یہ ماننے کے لئے دل راضی نہیں تھا۔  دماغ نے سارے رشتوں سے بغاوت کی ہوئی تھی۔

میں جانتی تھی کہ ابّی کا رجحان میری طرف کیوں ہوا ہے۔  دراصل پرسوں رات جب میر ی اور کشو کی بات چیت شروع ہوئی تو کافی لمبی رہی۔  دو بجے تک ہم لوگ اوٹ پٹانگ باتیں کرتے رہے۔

باتوں کے درمیان ہی کشو نے کہا، ’’نازو، ابّی سے کہہ دینا، سفر کی تیاری شروع کر دیں۔  انشاء اللہ مجھے اسی سال انہیں مجھے حج کرنے کے لئے بھیجنا ہے۔ ‘‘

میں نے بیحد مایوسی سے کہا-’’کشو !ابّی مجھ سے سخت ناراض ہیں۔  وہ بات نہیں کر رہے ہیں۔ ‘‘

کشو کچھ دیر تک خاموش رہا پھر بولا-’’اب کریں گے۔ ‘‘

 اور واقعی ایک دن کے بعد ہی جب ابّی کا فون آ گیا  تو مجھے خوشی نہیں افسوس ہوا۔  مجھ سے بات کرنا ان کی محبت نہیں، ان کی مجبوری تھی کیوں کہ میرا شوہر ان سے کئے اپنے وعدے کو نبھا  رہا تھا۔

٭

اسی رات کشو نے راشد مرزا کی جو باتیں مجھے بتائیں اس نے میرے ساتھ ساتھ نیفو کو بھی کٹہرے سے باہر کر دیا۔  کشو کے دوست شاہد مرزا جنہیں لوگ مرزا بھائی کے نام سے جانتے تھے، راشد انہیں کا چھوٹا بھائی تھا۔  مرزا بھائی نے جو کچھ نیفو کی زندگی میں گزرا اس کے لئے کشو سے معافی مانگی اور راشد مرزا کے چال چلن سے خود کو انجان بتایا۔  کشو کی ہی زبانی مجھے معلوم ہوا کہ رئیس زادوں کے کردار کی ساری خوبیاں خامیاں راشد مرزا کے اندر موجود ہیں وہ اب تک کتنی شادیاں کر چکا ہے اور کہاں کہاں کی ہیں۔  اس کی بیویاں کن کن شہروں میں اور کن کن ملکوں میں رہتی ہیں اس کا کوئی حساب کتا ب نہیں ہے۔ راشد کا کوئی دوست تھا جس سے اس کا اب جھگڑا ہو چکا ہے۔  وہی دوست راشد کے کالے کارناموں کو ہر جگہ گاتا پھر رہا ہے۔  چند راتیں رنگین کرنے کے بعد اس نے کتنی لڑکیوں کے ہاتھ میں طلاق نامے پکڑا دئے، اس کی کسی کو جانکاری نہیں تھی۔

مگر میں اس بات کو پوری طرح تسلیم نہیں کر سکتی۔  گھر والوں کو تھوڑی بہت تو جانکاری ہو گی ہی۔  ایک شریف اور خوبصورت پڑھی لکھی لڑکی سے شادی کروانے کا ان کا یہی مقصد ہو گا کہ راشد مرزا سدھر جائے اور برادری کے سامنے قبول کی ہوئی اپنی نکاحی بیوی کے ساتھ رہے۔ مگر راشد مرزا کی بد نصیبی تھی کہ جو لڑکی ہاتھ آئی وہ پہلے سے ہی کسی اور ہاتھ سے گزر چکی تھی۔  بیوی ملے تو فرسٹ ہینڈیڈ مگر خود وہ کیا ہیں اور کتنے بستروں سے گزرے ہیں اس کا کوئی عذاب وہ اپنے اوپر نہیں اوڑھنا چاہتے۔  عذاب پانے کے لئے تو عورتیں پیدا ہوئی ہیں۔ غلطیاں صرف عورتوں سے ہوتی ہیں اس لئے سزا کی مستحق بھی عورتیں ہیں۔ باپ، بھائی اور شوہر کے اس معاشرے میں سب کچھ کرنے کے باوجود عورت ثانوی حیثیت سے رہتی ہے۔ مگر اب مرد کی حاکمیت کا سحر ٹوٹنا ہی چاہئے۔

کشو نے مجھ سے کہا کہ اچھا ہوا  نیفو راشد مرزا سے الگ ہو گئی ورنہ بچے وچے ہو جاتے، طلاق ہوتا تو بڑی مشکل اٹھانی پڑتی۔  ابھی تو یہ ہے کہ کوئی نہ کوئی دہاجو لڑکا نیفو کو مل ہی جائے گا۔

میرا خیال ہے کہ یہی بات اس نے ابّی کو بھی سمجھائی ہو گی۔  امید کا ایک اور چراغ روشن ہوا ہو گا اور اس کی روشنی میں انہوں نے اپنی بیٹی نازنین بانو کے گناہوں کو معاف کر دیا ہو گا۔  رہی بات نیفو کی تو وہ میرے لئے کوئی اہمیت نہیں رکھتی تھی۔ اپنے برے دن کی ذمہ دار مجھے وہی لڑکی لگتی تھی۔  میرا کوئی سگا نہیں۔  میرا کوئی اپنا نہیں یہ میں تسلیم کر چکی تھی۔

سب کو اپنی اپنی صلیب خود اٹھانی پڑتی ہے اور میں نے بھی اپنی صلیب اپنے شانے پر اٹھا لی تھی۔  نازنین بانوں کو تابوت میں سلا کر میں نے اسے اتنے گہرے میں دفنا دیا تھا کہ اس کے دو بارا جاگنے کی کوئی امید نہیں تھی۔  اور میں یہ چاہتی بھی نہیں تھی کہ وہ دوبارہ جاگے۔  مسز کاشف کے لئے نازنین بانو اسنو وھائٹ تھی۔  جس کے گلے میں بونے قد لوگوں نے اتنا زہر اتار دیا تھا کہ وہ گہری نیند سو چکی تھی۔  اب اسنو وھائٹ کے جاگنے کی امید بہت کم تھی کیوں کہ وہ بونوں کے ہتھے چڑھ چکی تھی اور ناٹے قد والے یہ انسان اب اسے جاگنے نہیں دیں گے۔  اچھائیاں کتنی معصوم ہوتی ہیں کہ ذرا سی ضرب لگی نہیں،  زہر ہلاہل لبوں تک آیا نہیں کہ چپ چاپ سو گئیں ویسے جیسے اسنو وھائٹ سو گئی——-ہماری نازنین سو گئی——ایک نئے دور کے انتظار میں۔

٭٭٭

٭٭٭

مصنفہ کے تشکر کے ساتھ کہ انہوں نے اس کی فائل مہیا کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید