FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

حصہ دوم

               شائستہ فاخری

 

۱۲۔ سانسیں جیسے موج صبا

میری فکر نے/ صبر کی سیاہ راتوں میں / مایوسی کے گھور اندھیرے میں / جگنو کی طرح چمک کر/ میری آنکھوں کو روشن کیا۔ ۔ ۔

میرے خوابوں نے/ دل کی ویران فضا میں / یادوں کے بوسیدہ کھنڈر میں / دیپک کی طرح جل کر/ میری بینائی کو ضیا بخشا۔ ۔ ۔

میرے حوصلوں نے/ شجر سے ٹوٹتے پتے کی طرح/بکھرتے میرے وجود کو/ یکجا کر کے/ اس کے نام کی تختی ہٹا کر/ مجھے میرا نام دیا۔ ۔ ۔

اب میں۔ ۔ ۔

فکر، خواب اور حوصلوں سے/ اس کی یادوں کی ممی بنا کر/ اپنے خوش باغ علاقہ میں / چہل قدمی کر رہی ہوں / اور اپنے لئے ایک نیا جہاں بسا رہی ہوں۔ ۔ ۔

عورت کی آزادی کے معنی محض کسی تحریک سے ہی نہیں جڑے ہیں۔  جب تک خود عورت اپنی اس آزادی کو محسوس نہیں کرے گی تب تک نہ تو وہ اپنی زندگی اپنے طریقے سے جی سکے گی اور نہ مردوں کو اپنی اس آزادی کے معنی سمجھا سکے گی۔  آزادی بے سمت اڑان کا نام نہیں۔  بلکہ ذہنی جکڑنوں اور جسمانی زیادتیوں کے خلاف عورت کا احتجاج ہے۔ ۔ ۔

پوری طرح مسز کاشف بننے کے بعد میرے اندر کئی تبدیلیاں آ گئیں۔  چھوٹی چھوٹی باتیں مجھے خوف زدہ نہیں کرتی تھیں۔ میں نے دوسروں کی پرواہ کرنی بند کر دی تھی۔ میں وہی کرتی تھی جو میرا دل چاہتا تھا۔ بے وجہ اپنے اوپر باندھی پابندیوں کی زنجیروں کو  میں نے کھول دیا۔  ساری جکڑن سے خود کو آزاد کر لیا۔  اب میں اپنے لئے جیوں گی- یہ سوچ کر مجھے بہت سکون ملا۔  مگر اس سکون کا مطلب یہ بالکل نہیں تھا کہ میں ستارہ کو بھول جاؤں، بستی میں جانا بند کر دوں، یا پھر الزبیتھ سے رشتہ توڑ دوں۔  یہی وہ لوگ تھے جو میرے برے دن میں بھی میرے قریب رہے تھے۔  ستارہ قریب نہیں آئی تھی مگر اس کی قربت میں محسوس کر تی رہی۔  آج جب میں بستی گئی تھی تو ستارہ تیار ہو کر اپنے کام پر جا رہی تھی۔ جب وہ اپنی بچی کو چمپا کاکی کے پاس چھوڑنے آئی تو میں نے بیحد حیرانی سے اسے دیکھا، وہ کتنا بدل گئی تھی۔  پریس کی ہوئی چکنی ساڑی۔  بالوں کو نئے اسٹائل میں اٹھا کر باندھا گیا جوڑا۔ آنکھوں میں کاجل، پلکوں میں مسکارا، ہونٹوں پر لپسٹک اور پتلی بھوئیں کے بیچ بڑی سی سرخ بندی۔  اس کی سلونی رنگت اس میک اپ سے کھلی پڑ رہی تھی۔  میں بیحد حیران ہوئی۔  یہ کس ستارہ کو میں دیکھ رہی ہوں۔  اس کا بدلا ہوا رویہ میری سمجھ سے باہر تھا۔  اس نے میری طرف نگاہ اٹھا کر بھی نہیں دیکھا جیسے میں چمپا کاکی کی جھگی میں موجود ہی نہ ہوں۔  وہ بچی کا ایک ٹفن باندھ کر لائی تھی۔  اس نے بغیر کچھ کہے وہ کھانے کا ڈبہ کاکی کے ہاتھ میں پکڑا دیا اور نکل گئی۔

پہلی بار میں نے چمپا کاکی کے چہرے پر بیزار ی محسوس کی۔  بچی ستارہ کے جاتے ہی کھیلنے کے لئے جھگی سے باہر بھاگ گئی۔

’’کیا بات ہے کاکی؟‘‘ میرا یہ ایک ایسا سوال تھا جو اپنے اندر بہت سے سوال سمیٹے ہوئے تھا اور سننے والا جس ڈھنگ سے چاہے جواب دے سکتا تھا۔ چمپا کاکی نے منہ بچکائے اور چہرہ دوسری طرف گھماتی ہوئی بولیں ——’’پوچھو مت! بڑا برا وقت چل رہا ہے۔ ‘‘

جس ڈھنگ کا میرا سوال تھا، اسی ڈھنگ کا مجھے جواب ملا۔  اچانک مجھے تازہ ہوا کی شدت سے ضرورت محسوس ہوئی۔  جھگی میں میرا دم گھٹنے لگا۔ میں فوراً اٹھ کھڑی ہوئی اور کاکی سے کچھ کہے بغیر باہر نکل گئی۔  سامنے ہی ’ارشد پان بھنڈار‘ کی گمٹی تھی۔  میں سیدھے اپنے پرانے اڈے پر پہنچ گئی۔  دو بیڑے پان اپنی پسند کے مسالے کے ساتھ بنوائے اور دونوں گلوریاں ایک ساتھ دانتوں کے نیچے دبا لیں -’’کیا چل رہا ہے ارشد!‘‘

 ’’سب ٹھیک ہے میڈم۔ ‘‘ ارشد میرے آنے سے بہت خوش ہوتا تھا۔  میں اسے ہمیشہ دو چار روپئے بڑھا کر دیتی تھی۔

’’اور سنا میڈم آپ نے؟‘‘

’’کیا؟‘‘ میں سوالیہ نگاہوں سے اسے دیکھنے لگی۔

’’لاڈو آنے والی ہے، وہی کرینا۔  اس بار چار چھ مہینے بستی میں ہی رہے گی۔ ‘‘

’’اچھا!‘‘ میرے لئے یہ کوئی خاص خبر نہیں تھی۔

’’دیکھئے کیا گل کھلاتی ہے۔  سنا ہے اس بار مدراس سے چکر کاٹ کر آ رہی ہے۔  پچھلی بار کاشی سے لوٹی تھی۔  بڑی مانگ ہے اس کی۔ ‘‘

میں سمجھ رہی تھی کہ وہ چاہتا تھا کہ میں اس سے کچھ پوچھوں اور پھر وہ ڈھیر سارے قصے کرینا کے سنا ڈالے۔  مگر میں ستارہ میں ذہنی طور پر اتنی الجھی تھی کہ کرینا میں مجھے کوئی دلچسپی نہیں مل رہی تھی۔ پھانکی کے ذریعہ جو اڑتی اڑتی باتیں مجھے ستارہ کے متعلق معلوم ہوئی تھیں، وہ اچھی نہیں تھیں۔  کم سے کم مجھے وہ باتیں اچھی نہیں لگی تھیں۔ ستارہ کا شوہر مر گیا، بچہ اس دنیا سے چلا گیا—–جب آدھی دنیا اس کی لٹ گئی تو وہ پوری عورت بن کر جینے کی آرزو کر بیٹھی۔  اس کے سامنے ایسی کیا مجبوری تھی۔

پان کی گمٹی پر لٹکتے تمباکو کے دو پاؤچ میں نے خریدے اور وہیں سے سیدھے برگد کی چھاؤں میں آ کر بیٹھ گئی۔  میری بے چینی مجھے چین سے کھڑی نہیں ہونے دے رہی تھی۔  شام کے چار بج رہے تھے گھنے پتوں کے درمیان دھوپ چھاؤں کی لکا چھپی چل رہی تھی۔ چکنے گول بڑے سے مٹی کے چبوترے پر درخت کے تنے سے ٹیک لگا کر رحمو بابا بیٹھے تھے۔ وہ بیحد بوڑھے دکھائی دے رہے تھے جب سے اسپتال سے لوٹے تھے ان کی صحت سنبھل نہیں پائی تھی۔  پھانکی نے مجھے بتایا تھا کہ رحمو بابا مجھے بیحد یاد کر رہے ہیں جب میں بستی میں جا رہی تھی تب وہ بیٹھے بیٹھے ہی گہری نیند سو رہے تھے۔  میں نے جگانا مناسب نہیں سمجھا اور آگے بڑھ گئی۔  لوٹی تو وہ جاگ چکے تھے۔  سلام دعا کے بعد میں نے تمباکو کے دونوں پاؤچ ان کے ہاتھ میں رکھ دئے۔  جانتی تھی وہ تمباکو کھاتے ہیں۔

’’کیسی ہو بٹیا۔ ‘‘ رحمو بابا کی آواز بہت مہین ہو کر ناک سے نکل رہی تھی۔ شاید بڑھی ہوئی کمزوری کی وجہ سے ایسا ہو۔  ان کی آنکھوں میں مجھے زندگی کے آثار کم دکھ رہے تھے۔  اب انہوں نے جھاڑ پھونک بہت کم کر دیا تھا۔  کوئی بڑی بیماری انہیں نہیں تھی مگر نہ جانے کیوں وہ روز بہ روز کمزور ہوتے جا رہے تھے۔  اگر بابا کو کچھ ہو گیا تو مجھے بیحد دکھ ہو گا۔  مجھے نہ جانے کیوں ان سے بیحد لگاؤ تھا،  شاید ان کی محبت کی وجہ سے۔

’’بابا کچھ کھانے پینے کا دل چاہا کرے تو مجھے بتائیے گا۔  میں آپ کے لئے بنوا کر لے آؤں گی۔ ‘‘

’’نہیں بٹیا! بستی والے بھوکا نہیں سونے دیتے۔  رات کا کھانا تو ستارہ بٹیا کے گھر سے طے رہتا ہے۔ ‘‘

’’سنا ہے بڑے معرکے سے اس نے نوکری حاصل کر لی۔ ‘‘

’’بکنے والے تو کچھ نہ کچھ بکیں گے ہی۔  میری نگاہ میں ستارہ غلط نہیں ہے۔  باقی کام اللہ میاں ٰ جانے۔  جیسی اس کی رضا۔ ‘‘

میں نے ستارہ کو لے کر ایک دو سوال اور کئے مگر رحمو بابا کی خاموشی دیکھ کر میں بھی چپ رہی۔  تبھی ستارہ کی بیٹی کھیلتی کودتی آئی اور بابا کی گود میں آ کر بیٹھ گئی۔

’’ارے واہ!آج تو رانی بٹیا نے بڑی اچھی فراک پہنی ہے۔ ‘‘

میں نے اس کی فراک چھوتے ہوئے کہا۔  وہ خوشی سے چہک اٹھی-

’’انکل لائے ہیں چار فراک اور بھی ہیں۔ صندوق میں بند رکھی ہے۔ ‘‘

’’اچھا!‘‘ میں نے اس کے گال پر چپت لگائی۔ ’’کون انکل بیٹا؟‘‘  میں نے بس یوں ہی سوال کر لیا تھا۔

’’چل! چل! یہاں سے بھاگ بھاگ‘‘ رحمو بابا نے جلدی سے ستارہ کی لڑکی کو اپنی گود سے اتارا اور لگ بھگ دھکا دیتے ہوئے اسے ہمارے پاس سے بھگانے لگے کہ میں مزید کوئی سوال نہ کروں۔  مگر میں بھی ضدی ہو اٹھی۔  میں نے اتنی ہی تیزی سے اس لڑکی کو کھینچ کر اپنی گود میں بیٹھا لیا۔

غربت کی ماری ان بستیوں کی ایک ہی خوبی تھی جس نے مجھے کچھ حد تک متاثر کیا تھا۔  بغیر کسی کمٹمنٹ کے یہ سارے لوگ ایک دوسرے کے عیبوں کی پردہ داری میں مہارت رکھتے تھے۔  آپس میں چاہے جتنی مغلظات گالیاں بک لیں، لڑائی جھگڑوں میں ایک دوسرے کے جسموں پر چاہے جتنی لاٹھیاں توڑ دیں مگر کیا مجال کہ کسی باہر والے کے سامنے اپنی بستیوں کی کمینگی بے ہودگی اور عیاشیوں کو سر عام ظاہر کر دیں۔

رحمو بابا مجھے عزیز تھے کیونکہ وہ فطرتاً بستی کے تمام لوگوں سے جدا تھے۔  مگر ستارہ کے معاملے میں ان کا رویہ مجھے ان سے بد ظن کرتا تھا۔  بابا اس عورت کا بے جا ساتھ کیوں دیتے ہیں ؟ ستارہ میں ایسی کیا خوبی ہے جو سب اس کے میلے آنچل میں اٹک جاتے ہیں۔  ستارہ کی برباد زندگی کی داستانیں مجھے کبھی رنجیدہ نہیں کر سکیں۔  مگر میں اس کی بربادی پر خوش ہوتی ہوں ایسا بھی نہیں تھا۔  کیونکہ میں بھی ایک عورت تھی اور عورت کا درد سمجھتی تھی۔  میں اس وقت ستارہ کی لڑکی کے بالوں پر انگلیاں پھیر رہی تھی۔

’’بابا اتنے پیار سے وہ آ پ کی گود میں آ کر بیٹھی تھی اور آپ دھکے مار مار کر اسے بھگا رہے ہیں۔  بیچاری کی ماں کام پر گئی ہے اگر سب مل کر دیکھ بھال نہیں کرینگے  تو کیسے پلے گی یہ۔ ‘‘

بابا چپ رہے اور ایک پڑیا تمباکو کی کھول کر پھانکنے لگے۔

’’تم  اب کس کلاس میں جاؤ گی بٹیا؟‘‘

’’پہلے درجے میں !‘‘ اس نے میری دی ہوئی ٹافی کا ریپر کھولا اور پوری ٹافی منہ میں بھر لی۔

’’بٹیا آپ ا س کو چھوڑ دیجئے۔ ۔ ۔ جانے دیجئے اسے۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

رحمو بابا نے اس بچی پر آنکھیں تریریں تو خود بخود وہ میری گود سے اتر کر بھاگ گئی۔

ستارہ کی کہانی پر اتنی پردے داری کیوں ؟ یہاں جیسے ہر جھگی کی ہر چھوٹی بڑی کہانی، پردے کے پیچھے کی کہانی، سامنے کی کہانی سب کی زبانوں پر ہوتی ہے مگر ستارہ کا نام آتے ہی لوگ گونگے کیوں ہو جاتے ہیں۔  کم سے کم رحمو بابا کی طرف سے یہ امید نہیں تھی کیوں کہ وہ میری بہت عزّت کر تے تھے دوسرے لوگوں کی طرح لاگ لپیٹ میں ان کا یقین نہیں تھا۔  وہ سیدھی سچی کھری زبان بولتے تھے۔  آج ان کا یہ رویہ میرا دل رنجیدہ کر گیا یہ بات مجھے بہت بعد میں معلوم ہوئی کہ بستی والے یا رحمو باباستارہ کو نہیں بستی کو بچاتے تھے۔  اتنی پرانی بستی تھی۔  کتنے یہاں پیدا ہوئے، کتنے یہاں مر گئے، کتنوں کی شادیاں ہوئیں اور کتنے روزگار کی تلاش میں باہر نکل گئے۔  رحمو بابا کی اس بستی کی خاص بات یہ تھی کہ اس کی گنتی بدنام بستیوں میں نہیں ہوتی تھی اس لئے پولس کے ڈر سے یہاں کی بہو بیٹیاں اور مرد سبھی محفوظ تھے۔ برکت علی کی وجہ سے ہی یہاں ایک دو بار پولس ضرور آئی تھی پھر دوبارہ یہاں ایسی نوبت نہیں آئی۔

ستارہ کو نوکری مل گئی۔  سب نے راحت کی سانس لی تھی۔

اس دن چمپا کاکی کے ہاتھ میں نے سو کے بجائے پانچ سو کا نوٹ رکھا اور وہ کافی دیر تک اس نوٹ کو دیکھتی رہیں اور پھر بولیں ’’بٹیا کاہے اتنا خرچا کرتی ہو۔ اس بستی سے تم کو کیا ملے گا۔ ‘‘ میں چپ رہی۔ کاکی پھر آگے بولیں -’’جانتی ہو یہاں سب لوگ تمہیں پولیسیاجاسوس کہتے ہیں۔ ‘‘

’’اچھا‘‘ میں زور سے ہنس دی۔

’’لگتا ہے ستارہ سے تمہارا کوئی پچھلے جنم کا رشتہ ہے۔ ‘‘

میں خاموش مسکراتی رہی۔  پچھلے جنم کا تو نہیں اسی جنم کا ساتھ ہے۔  جب تک کشو میرے ساتھ ہے تب تک ستارہ کی کہانی میرے اندر زندہ رہے گی۔  یہ میں اچھی طرح جانتی تھی کہ لوگ کہتے ہیں پہلی محبت بھلائے نہیں بھولتی۔  میں کہتی ہوں پہلی بار کسی سے کی گئی شدید نفرت بھی فراموش نہیں ہوتی۔  میرے لب خاموش تھے مگر ذہن باغی ہو رہا تھا۔

٭

آج کا دن میرا ڈاکٹر رحمن کے ساتھ گذرا۔  میز پر پورا نقشہ پھیلائے وہ میرے ساتھ ما تھا پچی کر رہے تھے۔  کون چیز کہاں ہونی ہے کس جگہ پر کیا رکھا جائے گا کمرے کا لُک کیسا دکھنا چاہئے اور کون کون سی جدید سہولتیں ان کمروں میں مہیا کرائی جا سکتی ہیں۔  جن سے علاج آسانی سے ممکن ہو سکے۔

دراصل ڈاکٹر رحمن اپنا چھوٹا سا نرسنگ ہوم کھول رہے تھے۔  جس کے لئے انھوں نے زمین پہلے ہی خرید لی تھی۔  کفایتی فیس پر غریب بچوں کے علاج کا انتظام اس نرسنگ ہوم میں کئے جانے کا پلان ڈاکٹر رحمن نے بنایا اور اس پلان کو عملی جامہ پہنانے کے لئے کشو اپنی طرف سے ایک بڑی مالی امداد بھیجتا رہتا تھا۔  آج ہی میں نے پانچ لاکھ کا چیک ڈاکٹر رحمن کو پکڑایا تھا۔  چار پانچ کمروں کے اس نرسنگ ہوم میں باہر ایک بڑا سا سفید سنگ مرمر کا پتھر جڑا جانا تھا۔  جس پر لکھا ہو گا ’عالی جناب کاشف اصغر کے مالی تعاون سے غریب بچوں کو دیا گیا تحفہ۔ ‘

کشو کی بات ماننا ڈاکٹر رحمن کی مجبوری تھی کیونکہ پانی کی طرح جس کام کے لئے کشو اپنی دولت بہا رہا تھا اتنا کرنا ڈاکٹر رحمن جیسے ایک سرکار ی ڈاکٹر کے لئے ممکن ہی نہیں تھا۔  خواب ڈاکٹر رحمن کے تھے، تعبیر کاشف اصغر کی سوچی ہوئی۔  اتنا ہی نہیں نرسنگ ہوم کے اندر ایک چھوٹا سا پتھر اور جڑا جانا تھا جس پر لکھا ہو گا۔  ’بیگم کاشف اصغر کے سوجنیہ سے۔  ‘ حالانکہ مجھے یہ دوسرا پتھر پسند نہیں آیا کیونکہ محبت میں تجارت کی قائل نہیں تھی۔  مجھے کشو کی طرح جنت میں اپنے نام کی زمین خریدنے کا کوئی شوق نہیں تھا۔  خدا اعمال سہی رکھے جنت تو خود بخود مل جائے گی۔  اگر دولت سے جنت خریدی جانے لگے تو کشو جیسے سارے دولت مند جنت میں ہوں گے اور رحمو بابا جیسا غریب طبقہ جہنم میں۔  میں اس بات سے بھی انکار نہیں کر سکتی کہ صدقۂ جاریہ والے اس کام سے سماج میں کاشف اصغر کا قد کافی اونچا ہو گیا۔  میرا قد بھی خود بخود کھنچ کر اس کی بیگم ہونے کی وجہ سے اس کے برابر ہو رہا تھا۔

میں نے گھڑی پر نگاہ ڈالی رات کے آٹھ بج رہے تھے۔

’’بس ڈاکٹر رحمن آج کا کام اتنا ہی رکھئے۔ ‘‘

’’میڈم پانچ دس منٹ کا وقت میں اور لوں گا۔  کاشف صاحب کا حکم ہے کہ پندرہ اگست کے موقع پر اس نرسنگ ہوم کا ربن وہ چیف منسٹر سے کٹوائیں گے۔  تب تک مجھے یہ کام مکمل کر لینا ہے۔ ‘‘

’’ابھی تو پانچ مہینے بچے ہیں کر لیجے گا آرام سے۔  ‘‘

’’نہیں میڈم پلیز، آپ کو اندازہ نہیں کہ تعمیر کے کام میں کتنا وقت لگتا ہے۔

میں دن میں ڈاکٹر رحمن کے ساتھ جا کر لوکیشن پر معائنہ کر آئی تھی۔  بنیاد بھری جا چکی تھی۔  کمروں کی دیواریں تیزی سے کھڑی کی جا رہی تھیں۔  چاروں طرف لوہے کی بیم، سریا، گٹی، سیمنٹ، بالو اور نہ جانے کن کن چیزوں کا ڈھیر لگا ہوا تھا۔  دو تین ٹرک کھڑے تھے۔  ان پر لدے بالو کو زمین پر گرایا جا رہا تھا۔  ایک طرف عورتیں بالو چھان کر الگ کر رہی تھیں۔

چیف منسٹر سے ربن کٹوانے کی اصلیت میں جانتی تھی۔  کشو بہت دور کی پلاننگ رچ کر کام کرتا ہے۔  اس کا ارادہ انڈیا آ کر بسنے کا تھا۔  اور وہ اس کے لئے زمین تیار کر رہا تھا۔  میرے بہت منع کرنے پر بھی وہ بضد تھا کہ اسے سیاست کی دنیا میں ہی جانا ہے۔  وہ الیکشن لڑے گا اپنی امیج بنائے گا اور ایک دن پارلیمنٹ میں داخل ہو کر اپنا قد اتنا اونچا کر لے گا کہ باہر والوں کو اسے دیکھنے کے لئے گردن اتنی اونچی کرنی پڑے کہ سر پر رکھی ٹوپی کے گرنے کا خطرہ بن جائے۔  یہ کہتے ہوئے وہ کتنی دیر تک ہنستا رہا۔  اس کی آواز میری سماعت سے ٹکرا کر میرے دماغ میں گونج رہی تھی۔  میں سمجھ نہیں پاتی تھی کہ مجھے مسز کشو بننے کا فخر ہونا چاہئے یا پھر مجھے آنسو بہانا چاہئے ایسے شخص کی بیوی ہونے پر کہ جس کے جینے کا اصل مقصد لوگوں سے اپنی انا تسلیم کروانا تھا۔  اس کا بس چلتا تو کسی شخص کی گردن اپنے سامنے اٹھنے نہ دیتا۔  اس کی شخصیت میں اتنا کھوکھلا پن تھا جو مجھے بے حد زخمی کرتا۔ جہا ں وہ اپنے قد کو بلند سے بلند تر بنانے میں کوشاں تھا۔  وہیں میں بستی میں جا جا کر اپنے قد کو بونا بنانے میں کوئی کوشش ادھوری نہیں چھوڑ رہی تھی۔

ساڑھے آٹھ بجے میں گھر واپس آ گئی۔  گڈو بھی میرے ساتھ چلتے چلتے بہت تھک گیا تھا۔  میں نے اسے چھٹی دے دی۔  ’’گڈو اپنے کواٹر میں جا کر آرام کرو۔  چہرے سے تمھاری طبیعت ٹھیک نہیں لگ رہی ہے۔  میں ملازمہ سے تمھارا کھانا وہیں بھجوا دوں گی۔ ‘‘

’’جی۔ ‘‘گڈو مختصر جواب دے کر وہیں کھڑا رہا۔

’’کچھ کہنا چاہتے ہو۔  ‘‘

’’جی۔  باجی۔ ‘‘

’’کہو۔ ‘‘

’’میں دو تین دن کی چھٹی چاہتا ہوں۔  اماں کو جا کر دیکھ آؤ ں۔  ان کی صحت روز بروز گرتی جا رہی ہے۔ ‘‘

کوئی اور موقعہ ہوتا تو میں شاید چھٹی دے ہی دیتی مگر ان دنوں مجھے روز لوکیشن پر جا کر کام دیکھنا ہوتا۔  آخر اتنا پیسہ کشو لگا رہا ہے مجھے بھی تو کچھ ایمانداری اور وفاداری برتنا ہو گا۔  بیوی ہوں اس کی وہ چاہے جیسا بھی ہو میرا شوہر ہے۔

’’تم ابھی نہیں اگلے ہفتے چلے جانا۔ ‘‘

’’جی بہتر باجی۔ ‘‘

گڈو چلا گیا۔  میں نے ملازمہ کو آواز دے کر خود کے آنے کی اطلاع دی۔  اور اپنے کمرے میں چلی گئی۔  اور کچھ دیر بیٹھنے کے بعد نہا کر تر و تازہ ہوئی اور شب خوابی کے لباس میں آ گئی۔

ملازمہ نے ایک گلاس انرجی جوس لا کر میرے ہاتھ میں پکڑا دیا۔  میں اپنی پسندیدہ جھولتی ہوئی کرسی پر بیٹھی آہستہ آہستہ ٹھنڈا، میٹھا سنترے کا جوس گھونٹ گھونٹ پیتی رہی۔  اور نیوز چینل بدل بدل کر دیکھتی رہی۔  کشو کا یہ حکم تھا کہ مجھے خبروں پر اپنی تیز نگاہ رکھنی ہے۔  کیونکہ خبریں سیاست کا وہ آئینہ ہوتی ہیں جو عام آدمی کو پارلیمنٹ میں ہو رہے ایک ایک واقعہ کی خبر دیتی ہیں۔

اچانک موبائل گھنگھنا اٹھا، کشو کا فون تھا۔  وہ دن بھر کا حال، نرسنگ ہوم کے کام کی رفتار پوچھ رہا تھا۔  ’’ دیکھا جان تم نے میرا پلان۔  جب میں نے تمھیں بچوں کے ساتھ وقت گذارنے کے لئے بچوں کے سرکاری اسپتال بھیجا تھا تب تم سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ میری نگاہ کتنی دور تک دیکھ رہی ہے۔  میں کہاں پہنچنا چاہتا ہوں۔  ‘‘

میں ہنس پڑی۔  دن بھر کام سے تھکی ہوئی میں کچھ تفریح کی باتیں کرنا چاہتی تھی۔  انرجی کے لئے صرف جوس ہی کافی نہیں ہوتا۔

’’ڈیر مجھے سوٹزر لینڈ کب لے چلو گے۔ ‘‘

جب سے نیفو اور راشد مرزاسوٹزر لینڈ گئے تھے تب سے میرے اندر بھی یہ پیاس جاگ اٹھی تھی کہ میں بھی وہاں جا کر گھوموں۔  اس جگہ کو دیکھوں جہاں نئے جوڑے وقت گذارنے جاتے ہیں۔

’’کشو بولو نا۔ ‘‘

کشو کی خاموشی کو میں نے بہت ناز سے اٹھلا کر توڑنا چاہا۔  میں اپنی آواز میں ایسا لوچ لانے کی کوشش کر رہی تھی کہ کشو پگھل جائے۔

’’کشو مجھے اپنے پاس بلاؤ نا۔ ‘‘ میں نے اتراتے ہوئے نو عمر لڑکی کی طرح کہا۔  جو اپنے عاشق کو رجھانے کے لئے آواز کی گرمی سے جذبات ابھارتی ہے۔

’’لے جاؤں گا جان ! جلدی لے جاؤں گا۔  بس ابی کو ایک بار حج کروا لوں ! ابھی نرسنگ ہوم میں بھی کافی روپئے لگ رہے ہیں۔  مگر مجھے اپنی جان کو گھمانا ہے سوٹزر لینڈ ہی کیوں ؟ میں تمھیں تو ورلڈ ٹور کراؤں گا۔  تمھیں دنیا گھماؤں گا۔ ‘‘

بات چیت ہوتی رہی اور آدھے گھنٹے کے بعد خدا حافظ کہہ کر فون کاٹ دیا گیا۔  میں ورلڈ ٹور کا نام سن کر بے حد خوش تھی۔  یہ بات مجھے بعد میں معلوم ہوئی کہ کشو کسی اور کے ساتھ سوٹزر لینڈ گیا تھا۔ جانے والی کون تھی اس کا قیاس لگانا میرے لئے بہت مشکل نہیں تھا۔

٭

مجھے خبر ملی چکی تھی کہ کریناواپس بستی میں آ گئی ہے۔  مگر کئی دنوں سے میں نے ادھر کا رخ نہیں کیا تھا میری مصروفیت روز بروز بڑھتی جا رہی تھی۔  آج میں نے گڈو کو لوکیشن کی طرف روانہ کیا کیونکہ روپیہ پیسوں کے حساب کے علاوہ چل رہے کام کی دیکھ ریکھ کا ذمہ بھی میں نے اپنے ہاتھ میں لے رکھا تھا۔  کشو جلدی کسی پر بھروسہ نہیں کرتا تھا۔  گڈو کو بھیج کر میں نے گاڑی نکالی اور ایلیز بیٹھ کے گھر کی طرف روانہ ہوئی۔  یہ سچ ہے کہ اتنا مصروف رہنے کے باوجود لمحے بھر کے لئے بھی جب میں فرصت میں آتی، یا پھر رات میں بستر پر لیٹتی تو میرے حواس پر ستارہ چھا جاتی۔  شروعاتی دنوں میں میں آہستہ آہستہ اس کی طرف بڑھ رہی تھی۔  مگر اس اچانک بدلے رویے نے مجھے اپنی رفتار بڑھانے کے لئے مجبور کر دیا۔  میں نے کسی سے سنا تھا کہ عورت پیاز کے چھلکے کی طرح ہوتی ہے۔  اس وقت میں نے سرے سے اس قول کو نکار دیا تھا۔  مگر آج میرے لئے ستارہ پیاز کی پوٹی سے جدا نہیں تھی۔  اس کے اندر یکا یک جو طوفانی بدلاؤ نظر آنے لگے تھے۔  اس نے مجھے اس کی آخری پرت تک اتر جانے کے لئے مجبور کر دیا۔  ایک عورت دوسری عورت کو نہ سمجھ سکے تو لعنت ہے اس پر میں اپنے اوپر لعنت نہیں بھیجنا چاہتی تھی۔  گاڑی کی رفتار تیزی سے مختلف موڑوں کو کاٹتی ہوئی کرشچن کالونی کے گیٹ پر رکی۔  میں نے رجسٹر میں اپنی آمد درج کی۔  گاڑی اندر گیراج میں لے گئی۔  کچھ ہی دیر میں میری انگلی ڈور بیل پر تھی۔  چند منٹ میں دروازہ کھلا۔  سامنے وولکی کھڑا تھا۔

’’نمستے دی دی۔  ‘‘وہ سامنے سے ہٹتا ہوا بولا۔

’’آئیے آئیے، اندر آئیے‘‘

میں بہت فرصت سے آئی تھی۔  اور یہاں کافی وقت گذارنا چاہتی تھی۔  تاکہ الزبیتھ کی زبانی وہ ساری باتیں نکلوا سکوں جو وہ پرکاش اور ستارہ کے بارے میں جانتی تھیں۔

مگر مجھے بے حد افسوس ہوا جب مجھے وولکی نے بتایا کہ وہ کچھ دیر پہلے ہی ڈیوٹی کے لئے نکلی ہیں۔

 ’’مگر آج تو ان کا آف ڈے ہے نا۔ ‘‘

’’کبھی کبھی ایمرجنسی میں آف ڈے رد ہو جاتا ہے۔ ‘‘

وولکی کا جواب سن کر میرے اندر گہری مایوسی آ گئی کیونکہ آج بستی جانے کا موڈ نہیں تھا۔  لوکیشن پر میں گڈو کو بھیج چکی تھی۔  اب سارا دن بے مصرف گذرے گا۔

’’دیدی آپ آئی ہیں تو کافی پی کر جائیے۔ ‘‘مجھے اٹھتے دیکھ وولکی نے یہ کہہ کر جیسے ایک رسم پوری کی تھی۔  میں بیٹھ گئی۔

’’ٹھیک ہے۔  تم کہتے ہو توکافی پی کر ہی جاؤں گی۔ ‘‘  وولکی کافی بنانے چلا گیا اور میں آرام سے صوفے پر بیٹھ گئی۔  ستارہ نے یہ نوکری کیسے حاصل کی؟ یہ ایک معمولی سوال ہے۔  مگر نوکری کے بعد ایسا کیا ہوا جس نے اس کی پوری کی پوری شخصیت ہی بدل دی۔  یہ سوال میرے لئے خاص اہم تھا۔

کچن سے کافی پھینٹنے کی آواز آ رہی تھی ساتھ ہی اس کی مہک بھی مجھ تک پہنچ رہی تھی۔  اچانک میرے ذہن کو جھٹکا لگا اور میں صوفے پرسیدھی ہو کر  بیٹھ گئی۔  ستارہ اور پرکاش کے ساتھ وولکی نے ایک لمبا وقت گزارا تھا۔  وہ ستارہ کو اتنا ہی جانتا ہو گا جتنا الزبیتھ۔   تو کیوں نہ میں وولکی کو پکڑوں۔  میرا دماغ تیزی سے چل رہا تھا۔  بستی والے ہوں یا الزبیتھ یہ سب جو بھی باتیں کرتے ہیں پردے میں کرتے ہیں۔ اتنی ہی باتیں بتاتے ہیں جتنا ضروری ہوتا ہے مگر وولکی میرا خیال ہے ایسا نہیں کرے گا کیوں کہ وہ وہاں کی زندگی سے بہت الگ زندگی جی رہا ہے اور اب بستی میں اس کی دخل اندازی بالکل نہیں رہ گئی ہے۔  اس لئے کیا چھپانا ہے کیا بتانا ہے، اس کے چکر میں کم سے کم وولکی نہیں پڑ ے گا۔  میرا اندازہ بالکل صحیح نکلا اورجیسے ہی وہ کافی کی ٹرے لے کر آیا میں نے اسے بہت پیار سے جذباتی طور پر اپنی طرف موڑنے کی کوشش کی-

’’وولکی تم میرے چھوٹے بھائی جیسے ہو۔  دیدی کہتے ہو مگر کبھی دیدی کے گھر نہیں آئے۔ ‘‘

’’آؤں گا دیدی، ضرور آؤں گا۔ ‘‘

وولکی مجھے بہت سادہ طبیعت کا آدمی لگا۔  چہرے پر دوہری زندگی جینے کا کوئی فریب نہیں تھا۔  اچھا تھا یا برا سامنے تھا۔  اور اتنی اپنائیت سے باتیں  کرتا تھا کہ کوئی بھی اس کے قریب بہت جلدی آ سکتا تھا۔  مگر اس کی شخصیت میں کچھ ایسی باتیں تھیں جو مجھے چونکاتی تھیں اور مجموعی طور پر اس کے لئے رائے قائم کرنے سے مجھے روکتی تھیں۔  اس کی تعریف کرتے ہوئے میں نے کہا۔ ۔ ۔

’’کافی تو تم نے بہت اچھی بنائی ہے۔ ‘‘

’’کافی بنانا مجھے روزی نے سکھایا ہے ورنہ مما تو مجھے کچن میں جانے ہی نہیں دیتی تھیں۔ ‘‘

’’ہاں روزی–‘‘ اچانک میں نے ایسا ڈراما کیا جیسے میں جانتی نہ ہوں کہ روزی اسے چھوڑ کر مائیکے چلی گئی۔ ‘‘

’’کہاں ہے روزی اور تمہاری بٹیا کیسی ہے ؟‘‘

’’کیوں ؟‘‘مما نے بتایا نہیں ؟‘‘

’’نہیں ! نہیں ! بتا تو رہی تھیں کچھ مگر میں ان دنوں ایسی الجھن میں گرفتار تھی کہ—-‘‘

میں نے بات سنبھالتے ہوئے کہا اور بات ادھوری چھوڑ دی۔

’’اب بتائے دیدی۔  مما کا اس دنیا میں میرے سوا کون ہے۔  نینسی سسٹر بن کر اس گھر پریوار سے دور ہو گئی۔  ڈیڈ ہوتے تو میں روزی کی بات مان بھی لیتا مگر—-‘‘

’’دیکھو وقت کے ساتھ ساتھ سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔  تم جلد بازی مت کرنا۔  روزی سمجھ دار ہے۔  تھوڑی ضد کر بیٹھی ہے آہستہ آہستہ زندگی ڈھرے پر آ ہی جائے گی۔ ‘‘

میں جلد سے جلد روزی کے موضوع کو ختم کرنا چاہتی تھی۔  میرا مقصد تو کچھ اور تھا۔  صرف وولکی کو جذباتی طور پراپنے قریب کرنے کے لئے میں نے روزی کا ذکر چھیڑا تھا۔  میں بہت احتیاط سے کام لے رہی تھی اور نہیں چاہتی تھی کہ وولکی کا رویہ بھی میرے ساتھ ویسا ہی ہو جائے جیسے ستارہ کا نام لیتے ہی دوسرے لوگوں کا ہوتا ہے۔

’’تم اور پرکاش گہرے دوست تھے نا؟‘‘

میں نے دھیرے سے اس پر انگلی رکھی۔

’’جی بہت گہرے۔  سمجھ لیجئے ہم دونوں سگے بھائی کی طرح تھے۔ ‘‘

اس کے چہرے پر چمک آ گئی تھی۔  میں اپنے اصل موضوع پر آ گئی۔  ’’اچھا ہوا ستارہ کو نوکری مل گئی۔ ‘‘

’دیدی اگر میں بیچ میں نہ پڑتا تو ستارہ بھابھی کی قسمت یہاں بھی اسے دغا دیتی۔  کتنے مہینے لگے مجھے ان کا برین واش کرنے میں کہ آپ بھول جائیے پچھلی باتیں، بھول جائیے کہ آپ وہی ستارہ ہیں جو کبھی بستی والوں کا مقدر بدلنا چاہتی تھیں۔  بھو ل جائیے ان ساری باتوں کو جو آپ کو آپ کی نگاہ میں گریٹ بنا تی رہی ہیں۔ ‘

’’اچھا تم نے ستارہ کو اتنی ساری سیکھ دے ڈالی۔  مجھے وولکی تھوڑا باتونی مرد لگا جو میرے لئے فائدے مند تھا۔ ‘‘

وہ لگاتار بولتا جا رہا تھا۔ ۔ ۔

’’۔ ۔ ۔  اگر ہم لوگوں نے مدد نہ کی ہوتی تو ایک دن تو وہ بیٹی کے ساتھ ٹرین کے نیچے کٹ کر مرنے کے لئے تیار ہو گئی تھیں۔  وہ تو ان کی باتوں سے مجھے کچھ بھنک مل گئی اور ہم لوگوں کے سمجھانے بجھانے پر وہ دوبارہ سنبھل پائیں۔

’’اچھا!‘‘میں اس کی باتیں بڑے غور سے سن رہی تھی۔ اور ساری باتیں ذہن میں محفوظ کرتی جا رہی تھی۔

’’پھر کیا ہوا ؟‘‘میں نے بات آگے بڑھائی۔

’’پھر کیا!؟ وولکی کسی کو سمجھائے اور وہ سمجھے نہیں -ایسا ہو نہیں سکتا۔  میں نے ان سے کہا مرنے سے پہلے جی لیجیے ورنہ دوبارہ آپ کو یہ زندگی نہیں ملے گی۔  سب کچھ تو کھو چکی ہیں اب کس کے لئے اپنا آدرش بگھارنے بیٹھی ہیں۔  کیا ملے گا آپ کو شرافت سے۔  یا اب تک کیا ملا ہے شرافت سے۔  آ پ کا شوہر ایک بری موت مرگیا، کیا آپ کی شرافت کام آئی؟ آپ کا بیٹا اس دنیا سے چلا گیا، کیا آپ کی شرافت کام آئی۔ ۔ ۔ آپ چاہتے ہوئے بھی برکت علی کے خلاف کوئی قانونی لڑائی نہیں لڑ سکیں۔  کیونکہ آپ کے پاس اتنے روپئے نہیں تھے کہ اپنے حق کے لئے کھڑی ہو سکتیں۔ ۔ ۔ زندگی جینے کے لئے حوصلہ چاہئے اور کنگالی حوصلے کو توڑ دیتی ہے۔ ‘ ‘

’’تو کیا ستارہ نے تمہاری نصیحت مانی؟‘‘میں نے پوچھا۔

’’کہاں مانی۔  اتنی آسانی سے لوگ مان جائیں تو ا ن کی زندگی سدھر نہ جائے۔ ‘‘

’’پھر؟‘‘ میں سوالیہ نگاہوں سے وولکی کی طرف دیکھنے لگی۔

’’میں نے انھیں سمجھایا کہ اگر آپ سڑک پر چل رہی ہیں۔ ۔ ۔  گرد و غبار آ رہی ہے۔  کتنی ایسی گندگی ہے جو نظر نہیں آتی اور وہ آپ کے بدن اور کپڑوں سے چپک جاتی ہے۔  آپ گھر آتی ہیں نہاتی ہیں کپڑے واش کرتی ہیں پھر ساری گندگی دور ہو جاتی ہے۔ ۔ ۔ اور پھر نہیں بھولنا چاہئے کہ جو نوکری دیتا ہے اسے بھی کچھ چاہیے۔ ۔ ۔  کسی بھی شکل میں چاہئے۔ ۔ ۔  جو ہے دے دو۔ ۔ ۔  دینے سے چیز گھس نہیں جائے گی۔ ۔ ۔  میرا اشارہ وہ سمجھ رہی تھیں۔ ۔ ۔ ‘‘

’’ستارہ کا کیا جواب تھا وہ تمھاری بات سے اتفاق رکھتی تھی۔ ‘‘

’’نہیں !‘‘ اس کے چہرے پر سنجیدگی آ گئی—-‘‘ یہ سچ ہے دیدی کہ میں جو کہہ رہا تھا وہ غلط تھا۔  پرکاش بھائی کے ساتھ کی جا رہی یہ دغا بازی تھی مگر میری مجبوری بھی تو دیکھیئے میں اسے مرتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا تھا اور میری حیثیت اتنی بڑی نہیں ہے کہ میں بھابی کی مدد کر پاتا اس کے خرچ اٹھا پاتا۔  اگر انہیں زندہ رہنا ہے تو اپنے اصول ان کو چھوڑنے ہی پڑیں گے۔  میں نے ان سے کہا، ٹھیک ہے آپ مت مانیئے میری بات لیکن وہ وقت بھی دور نہیں جب آپ کے بدن کی سوکھی ہڈیوں کو خریدنے کے لیے کوئی خریدار نہیں ملے گا۔ لوگ ہڈی نہیں گوشت خریدتے ہیں —–۔ ‘‘

اچانک ڈور بیل بجی۔  ہم دونوں باتوں میں اس قدر ڈوبے تھے کہ پہلی بیل سن کر بھی توجہ نہیں دے پائے۔  دوسری بار ڈور بیل دیر تک بجتی رہی۔ ہم دونوں نے چونک کر ایک دوسرے کو دیکھا—

’’وولکی دروازہ مت کھولنا۔  پہلے ستارہ کی بات پوری کر لو۔ ‘‘

’’ڈور بیل تیسری بار بجی —-۔ ‘‘پلیز وولکی جلدی بولو پھر کیا ہوا؟

وولکی پس و پیش میں کبھی دروازے کی طرف اور کبھی مجھے دیکھ رہا تھا۔  اس بار جو بھی تھا باہر اس نے ڈور بیل پر جو انگلی رکھی تو ہٹا نا ہی بھول گیا۔ وولکی بھاگ کر گیا اور اس نے دروازہ کھول دیا— سامنے الزبیتھ کھڑی تھیں۔ وہ اندر آتے ہوئے بولیں۔

’’اتنی دیر سے میں بیل دے رہی ہوں اور تو سنتا ہی نہیں ؟‘‘

ان کی آواز میں جھلّاہٹ تھی مگر مجھے دیکھتے ہی وہ سنبھل گئیں —-’’ارے تم کب آئی! وولکی نے تمہیں چائے کافی پلائی یا نہیں۔ ‘‘

’’جی میں سب کھا پی چکی ہوں۔ ‘‘ میری آواز ڈوبی ہوئی تھی۔  میں کنارے پہنچ کر بھی منزل تک نہیں پہنچ پائی تھی۔  جانتی تھی کہ الزبیتھ کی موجودگی میں وولکی کچھ نہیں بولے گا۔  میں نے گھڑی پر نگاہ ڈالی یہاں بیٹھے بیٹھے مجھے دو گھنٹے ہو چکے تھے دماغی طور پر میں بہت تھکی ہوئی تھی۔  شاید یہ تھکان اس لئے تھی کہ ستارہ کی رفتار پکڑتی کہانی بیچ میں ہی رک گئی تھی۔ اب میرے لئے وہاں مزید بیٹھے رہنا بیکار تھا۔  میں الزبیتھ کو خدا حافظ کہتے ہوئے باہر نکل آئی۔  مگر نکلنے سے پہلے الزبیتھ لباس تبدیل کرنے اپنے کمرے میں گئیں، میں نے جلدی سے وولکی کا موبائل نمبر لے کر اپنے موبائل میں فیڈ کر لیا۔ میں بھی کتنی بے وقوف تھی کہ ستارہ کی کہانی کی جو سب سے اہم کڑی تھی اسے میں نظر انداز کئے ہوئے تھی۔

٭٭٭

 

۱۳۔ سفر کی شام سے پہلے

دن کے لمبے سفر کے بعد/ پڑاؤ کی شام آئی ہے/ سنتے ہیں وہ شام خوش گوار ہوتی ہے/ جو محبوب کے سائے تلے گذرتی ہے/ مگر شام ابھی ڈھلی کہاں / سورج کا عذاب باقی ہے/ عذاب/ جو خوابوں پہ کالی چادر اڑھاتا ہے/ حوصلوں کی ٹہنیاں سکھاتا ہے/ دل کی دہلیز پر کھڑی دھڑکنوں کو/ خوب خوب دہلاتا ہے/ سوکھے ہونٹ پیاسی روحوں کو/ انگاروں کی بھٹی میں سلگاتا ہے/ مگر پھر بھی/شام کو تو ڈھلنا ہے/ وقت کب رکا ہے/ وقت کو چلنا ہے/ایک سفر ختم ہونا ہے / اک سفر پہ نکلنا ہے/بوسیدہ لرزتے جسموں کو/ اک دوسرے سے ملنا ہے /اس پہر کو کیا کہئے /گرم اور خوشبو سے معطر /جس میں رقص ہے /موسیقی ہے /چاہتوں کی گرم جوشی ہے/ رات کے بعد صبح ہونی ہے/ ایک نئے سفر کی شروعات ہونی ہے۔ ۔ ۔

شام کا تصور عام طور سے فرصت کے لمحات اور محبوب کی قربت کی نشاندہی کرتا ہے۔  دن بھر کا تھکا ہوا جسم سورج کی ڈھلتی تپش اور ساتھی کا اطمینان بخش ساتھ۔  جس میں میں نہیں، تو نہیں، صرف ’ہم‘ ہوتے ہیں۔  اکثر عورتیں اس چھوٹے سے ’ہم ‘سے بھی محروم رہ جاتی ہیں۔  محرومیاں، مایوسیاں جب غالب ہوتی ہیں تو قدم اپنی جستجو میں دہلیز سے باہر نکلنا چاہتے ہیں۔  ایسے میں عورت مرد کی لعنت کی شکار ہو کر یا تو اپنے خول میں سمٹ جاتی ہے یا پرائے شانے پر جھول کر ’ہم‘ کو تلاش کرتی ہے۔ ۔ ۔

آج بستی میں پارٹی تھی۔  کرینا نے مجھے بھی بلایا تھا۔  سیدھے آمنے سامنے نہیں بلکہ پھانکی کے ذریعہ۔  جب پھانکی کا میرے پاس فون آیا کہ بستی میں پارٹی ہے اور کرینا نے مجھے دعوت دی ہے تو دل چاہا کہ پھانکی اگر میرے سامنے ہوتی تو میں اس کے گال پر بھر پور طمانچہ مارتی۔  اس میں اتنی ہمت کہ اب وہ لوگ مجھے دعوت دیں۔  میرا ذہن جھنجھنا اٹھا۔  بہت صبر سے کام لے کر میں نے صرف ’اچھا‘ کہا اور فون کاٹ دیا۔

دیکھ لیا چھوٹے لوگوں کے بیچ اٹھنے بیٹھنے کا نتیجہ۔  آج ان کی اتنی ہمت ہو گئی کہ مجھے دعوت دے بیٹھے۔  بہر حال جانا نہ جانا اپنے ہاتھ میں ہے۔ فون دو دن پہلے آیا تھا اور میں تب سے اٹھتے بیٹھے جاگتے سوتے وقت، کام کرتے ہوئے مسلسل یہ سوچ رہی تھی کہ مجھے جانا چاہیے یا نہیں۔  اگر یہی دعوت مجھے رحمو بابا، چمپا کاکی یا پھانکی خود اپنے گھر پر دیتے تو شاید مجھے اتنا برا نہ لگتا مگر کریناجیسی لڑکی جسے شریف گھرانے کے لو گ اپنے دروازے کے سامنے سے نہ گزرنے دیں آج مجھے پارٹی میں بلا رہی ہے۔  اور پارٹی بھی کیا، شامیانہ لگوا کر رنگ برنگی پنی کی جھالریں ڈلوا دو، ایک دو لاؤڈ اسپیکر پر تیز آواز میں پھوہڑ گانے بجا دو، بھدے لباس پھوہڑ میک اپ کے مظاہرے، اور پھر پوری کچوڑی سوکھی گیلی سبزی زیرے کے بگھارے ہوئے چاول، ایک میٹھا۔  کھاؤ، لکا چھپی سے شراب پیو، دوچار ہاتھ لڑائی اور پھر نشے میں آستین چڑھاتے گندی گندی گالیوں کی بوچھاریں کرتے تھک ہار کر سو جاؤ۔  ایسی ہی ہوتی ہے بستی کی پارٹی، صبح جب سو کر اٹھتے تو جیسے کچھ ہوا ہی نہیں وہ پھر سے روزمرہ کی زندگی میں لگ جاتے۔  میں نے پارٹی کی جو یہ تصویر اپنے ذہن میں بنائی ہے دراصل یہ انہیں لوگوں کی بتائی ہوئی ہے۔  میں ستارہ کی خاطر پارٹی میں جانا چاہتی تھی یہ مجھے بعد میں پتہ چلا کہ بلاوا کرینا کی طرف سے نہیں تھا بلکہ ستارہ نے کرینا کے ذریعہ مجھے بلایا تھا۔  اپنی بستی، اپنے ماحول اور اپنے برابر کے لوگوں کے بیچ مجھے کھینچ کر وہ کہیں نہ کہیں سے اپنی انا کی تسکین پاتی تھی۔ شاید وہ اپنے آپ کو اسی بات سے خوش کر لینا چاہتی تھی کہ ہم دونوں ایک ہی زمین کی دو عورتیں ہیں۔

کافی کشمکش کے بعد میں اپنے آپ کو پارٹی میں جانے کے لئے تیار کر سکی۔  اپنے کو ا ن سے الگ کرنے کے لئے میں نے ہلکے لائٹ پرپل شیڈ کی کاٹن کی ساڑی نکالی۔  ڈائمنڈ کا ہلکا سا ٹاپس پہنا، باقی وہی سب کچھ جو میں ہمیشہ پہنے رہتی تھی۔  میں ان کی بھیڑ سے خود کو الگ رکھنا چاہتی تھی۔  مجھے وہاں کی دعوت میں شرکت کرتے دیکھ کر کیا سوچے گا گڈو۔  اسی لئے میں نے گڈو کو اپنے ساتھ نہیں لیا اور خود ڈرائیو کر کے سات بجے کے قریب بستی پہنچ گئی۔ بلاوا چھ بجے ہی سے تھا۔  تا کہ میں ڈانس اور موسیقی کی پارٹی میں شامل ہو سکوں۔  ڈانس کے نام پر جو کچھ ہو گا اس کا مجھے اندازہ تھا۔  موسیقی تو کان کے پردے ہلانے والی ہو گی۔  میں نے ایک گھنٹے کی دیر اس لئے کی تھی کہ مجھے یہ سب دیکھنا اور سننا نہ پڑے۔  برگد کے چبوترے پر رحمو بابا بیڑی پی رہے تھے۔  میں نے وہاں پر گاڑی روک دی –

’’ارے بابا ! آپ دعوت میں نہیں گئے؟‘‘

’’بٹیا !اس کمبخت لڑکی کی دعوت میں میں کیوں جاؤں۔ ‘‘

مجھے لگا رحمو بابا نے میرے منہ پر ذلّت کا بھر پور طمانچہ مارا ہو۔  رحمو بابا جو خود بستی کے ایک فرد ہیں وہ کرینا کی دعوت لینے سے انکار کر رہے ہیں اور میں —

میں بجھے دل اور آہستہ قدموں سے آگے بڑھ گئی۔  رحمو بابا سے جیسے میں آنکھ چرا رہی تھی، اندر پہنچی تو شامیانے میں پارٹی اپنے شباب پر تھی۔  کان پھاڑو میوزک چل رہا تھا جو جہاں تھا جھوم رہا تھا۔  زیادہ تر مردوں نے شراب پی رکھی تھی، عورتوں نے بالوں کے طرح طرح کے اسٹائل بنا کر بڑے بڑے پلاسٹک کے پھول لگا رکھے تھے، ماتھے پر بندیا کانوں میں لٹکتے جھمکے ہاتھوں میں چوڑیاں کنگن آنکھوں کے کونوں سے جھانکتے ہوئے ڈنڈی دار کاجل، چہرے پر گلابی پاؤڈر کی تہیں، ہونٹوں پر گھس کر لگائی گئی لپسٹک، بے ترتیب مگر ناف کے نیچے کس کر باندھی گئی لال، نیلی، پیلی ساریاں۔ ۔ ۔  اف۔ ۔ ۔  جیسے پارٹی نہ ہوئی شادی ہوئی۔  دراصل کھانا پینا ہی ان کے یہاں اہم ہو تا ہے باقی تو کھانے پینے کی تیاری ہو تی ہے۔ سب خوش تھے میری نگاہیں کرینا کو ڈھونڈ رہی تھیں کیوں کہ راستے میں میں نے ایک بڑا سا بوکے خرید لیا تھا کچھ بھی ہو جب آ ہی گئی تھی تو رسم بھی نبھانی تھی۔  میں ایک طرح سے ابھی شامیانے میں داخل بھی نہیں ہوئی تھی بلکہ کنارے ہی کھڑے ہو کر جائزہ لے رہی تھی تبھی میری نگاہ ستارہ پر پڑی اس نے ہلکی گلابی شیفان کی ساڑی پہنی تھی۔  سانولی رنگت کھلی پڑ رہی تھی، شیمپو کئے بال پیٹھ پر لہرا رہے تھے۔  ایک سنہرا چھوٹا سا پن بالوں کے درمیان چمک رہا تھا۔

 میں ایک ٹک ستارہ کو دیکھتی جا رہی تھی۔ کلائیوں میں اس نے سفید پھولوں کے گجرے پہن رکھے تھے۔  کانوں میں جھولتی ہوئی بڑی بالی۔  اس کی بیٹی کسی بات پر ضد کر رہی تھی اور ستارہ جھک کر اسے کچھ سمجھا رہی تھی۔  سیاہ بالوں کی گھنگریالی لٹیں اس کے صاف ستھرے چہرے پر جھول گئیں تھیں جسے وہ بے رحمی سے کھینچ کر کانوں کے پیچھے کر رہی تھی اور جب آدھی جھک کر جھوٹا غصہ چہرے پر لیے اپنی بیٹی کو ڈانٹ رہی تھی تب بھی مجھے وہ اچھی لگ رہی تھی۔ وولکی نے مجھے ستارہ کے بارے میں جتنا بتایا تھا- اس سے میری نگاہ میں ستارہ کے لئے عزت تھوڑی بڑھ گئی تھی۔

’’نمستے دیدی‘‘ کسی نے میرے کندھے پر پیار سے ہاتھ رکھا۔ سامنے کرینا تھی۔  ’’ارے کرینا! میں تمہیں ہی تلاش رہی تھی یہ بکے تمہارے لیے ہے۔ ‘‘

’’دیدی ہماری اوقات نہیں تھی آ پ کو بلانے کی، آپ آ گئیں یہی ہمارے لئے خوش نصیبی کی بات ہے۔  ان پھولوں کی کیا ضرورت تھی۔ میں تو آ پ کے قدموں کو چومنا چاہتی ہوں۔ ‘‘

کرینا کی آواز میں جو مٹھا س اور التجا تھی اس کے لہجے کا انداز ایک پڑھی لکھی اور پر اخلاق عورت جیسا تھا اس نے مجھے حیرانی میں ڈال دیا۔  کیا کرینا جیسی عورتیں اتنا اچھا بولتی ہیں۔  اتنی تہذیب والی ہوتی ہیں کہ دل خود بخود ان کی طرف جھکتا ہی چلا جائے۔ لوگ سچ ہی کہتے ہیں طوائف بننے میں دماغی تربیت اور تہذیب کم سماجی ماحول اور برتاؤ زیادہ اثر انداز ہوتا ہے۔

کرینا بھاگ کر میرے لئے کرسی لے آئی اور ایک اچھی جگہ مجھے بٹھایا۔  فوراً لاؤڈاسپیکر کی آواز آہستہ کروائی اور جو مرد نشے میں بہکنے کے قریب تھے انہیں اس نے شامیانے سے باہر نکلوایا۔  کرینا کولے کر جو تصویر میں نے اپنے ذہن میں بنائی تھی آج کی کرینا اس سے بہت الگ تھی۔

کرینا جلدی جلدی میری ٹیبل پر کھانے پینے کی چیزیں سجا نے لگی اور میں آنکھوں کے کنارے سے اسے دیکھ رہی تھی۔  اس نے ستارہ کی طرح ہی شیفان کی ساڑی پہن رکھی تھی۔  فرق اتنا تھا کہ کرینا کی ساڑی کا رنگ دودھیا تھا اور اس کی سفید رنگ سے میچ کھا رہا تھا۔  کرینا نے بھی ستارہ کی طرح بالوں کو کھول رکھا تھا اور کلائیوں میں سفید جوہی کی کلیوں کا گجرا پہن رکھا تھا۔  اچانک میری نگاہ کرینا کے پیٹ پر آ کر ٹھہر گئی۔  پیٹ کا ابھار بتا رہا تھا کہ وہ حمل سے ہے۔  بیشک میں ماں نہیں بنی ہوں لیکن زندگی کا تجربہ تو رکھتی ہوں۔ مجھے پختہ یقین تھا کہ وہ کم سے کم تین مہینے کی حاملہ ہے۔

مجھے نیفو کی یاد آئی۔  جب میں ایلزبیتھ کو دکھا کر واپس لوٹی تھی تو نیفو کتنی مرجھائی ہوئی تھی۔  اس کے چہرے سے جیسے کسی جونک نے قطرہ قطرہ خون چوس لیا ہو۔  اس کے چہرے اور جسم کی ساری کشش کھو گئی تھی۔  جب تک راشد مرزا سے اس کا نکاح نہیں ہوا تھا آنکھیں کتنی نادم اور روئی روئی سی لگتی تھیں۔ وہ جھنجھٹوں سے آزاد ہونے کے بعد بھی گھر سے باہر نہیں نکلتی تھی۔  قاعدے سے پہننا اوڑھنا بھول گئی تھی۔  کسی کے سامنے جانے سے کتراتی تھی اور یہاں کرینا! جہاں لوگ آزادی سمجھتے ہیں دراصل آزادی وہاں نہیں، کہیں اور ہوتی ہے۔  ایسی جگہ جہاں ہماری نگاہیں نہیں پہنچتیں اور اگر پہنچتی بھی ہیں تو ہم انہیں نظر انداز کر جاتے ہیں۔ عصمت اور دوشیزگی ہمارے مڈل کلاس کا مسئلہ ہوتا ہے  ورنہ عام طور پر نچلے طبقوں میں لڑکی کا جنس سے آشنا ہونا ایک سے دوسرا، دوسرے سے تیسرا بغیر کسی خاص مقصد یا نقطہ ء نظر سے صرف بیکار وقت اور موجودہ موقع کا بہترین استعمال ہے۔  ایک طوائف کا قول کتنا سچ ہے کہ جو دروازہ ایک بار توڑ کر کھولا جاتا ہے اس کو پھر بند نہیں کیا جا سکتا۔

ظاہری طور پر آزادی کا ایک ہی مطلب سمجھ میں آتا ہے کھلے آسمان میں کھلے پروں سے کھلی پرواز کرنا۔  مگر سچائی یہ ہے کہ آزادی کے مختلف معنیٰ ہوتے ہیں۔  جو ہماری سمت کا تعین کر تے ہیں۔  آزادی کی اڑان میں سمت کی اہمیت ویسی ہی ہے جیسے اڑتے ہوئے ہوائی جہاز کی ہوتی ہے۔

سمت گڑبڑاتے ہی تباہی کا منظر سامنے ہوتا ہے۔  میرے سامنے بھی دو منظر تھے ایک کرینا کا، دوسرا نیفو کا، یہ دونوں آزادی کی کھوئی ہوئی سمتوں کا شکار ہوئی تھیں۔  کرینا اور نیفو کی زندگی آزادی کے کس معنی کو پور ا کر رہی ہے، یہ میرے سامنے ایک اہم سوال تھا۔  ظا ہر ہے میرا جھکاؤ اپنی بہن نیفو کی طرف ہی ہو گا۔

 میں نے آزادی کے پیچیدہ معنی کو پاؤں کے نیچے چبھتے ہوئے کنکر کی طرح اپنے سے دور پھینک دیا اور برائے نام کھانے سے منہ جوٹھا کر کے، کاکی اور پھانکی سے مل کر دبے پاؤں رحمو بابا کی نگاہوں سے بچتی ہوئی اپنی گاڑی کی طرف بڑھ گئی۔

٭

تعمیر کا کام تیزی سے چل رہا تھا۔  پانچ کمروں کی دیواریں اور چھت کے ڈھانچے تیار ہو گئے تھے۔  ہر کمرے سے اٹیچڈ  ٹوائلٹ اور باتھ روم تھے۔  کشو نے دو چیزوں پر خاص توجہ دی تھی اس کے مطابق نرسنگ ہوم کے کیمپس میں چھوٹا خوبصورت ہریالی بھرا لان ہونا چاہیے۔  جس میں ایک دو جھولے ہوں۔ جھولے کہاں لگنے ہیں۔ گملوں کی رو کیسے سجے گی۔  لان کا شیپ کیسا ہونا چاہیے۔  کشو نے اس کا پورا نقشہ بنا کر ای میل سے میرے اور ڈاکٹر رحمن کے کمپوٹر پر بھیج دیا تھا۔  میں کبھی کبھی بھول جاتی کہ نرسنگ ہوم ڈاکٹر رحمن کا بن رہا ہے یا کاشف اصغر کا۔ لیکن اس میں بھی دو رائے نہیں کہ کشو اپنی دولت نرسنگ ہوم پر پانی کی طرح بہا رہا تھا۔ نرسنگ ہوم بنوانا اس کے والدین کا خواب تھا یعنی میرے ساس سسر کا۔  ان کا ماننا تھا کہ ہمیں اپنی موت سے پہلے ہی موت کے بعد کی زندگی کا انتظام کرنا چاہیے۔  صدقۂ جاریہ میں کچھ نہ کچھ بنوا کر جانا چاہیے۔ کشو کے والد نے اپنی تجارت کے شروعاتی دور میں جتنے خسارے اٹھائے تھے اتنے ہی فائدے انھیں آگے چل کر ہوئے۔  کڑی محنت اور تجربوں کی آنچ نے ان کے کاروبار کو خوب فروغ دیا اور انھیں اپنے کام میں خوب شہرت ملی۔  ان کی بنائی زیوروں کی ڈیزائن لاجواب ہوتی۔  نگوں کے جڑاؤ سیٹ بنانے میں ان کو مہارت حاصل تھی۔  ان کے بنائے زیوروں میں قدیم اور جدید کا فیوزن لوگوں کے بیچ کافی مقبول تھا۔  اسپتال بنوانا ان کا خواب تھا جسے وہ اپنی زندگی میں پورا نہیں کر سکے تھے۔  چونکہ میری کوئی اولاد نہیں تھی اور کشو کو بچوں کی بڑی خواہش تھی اس لیے اس نے بچوں کے لیے ہی یہ نرسنگ ہوم بنوایا۔ اس سے اس کے والد کا خواب بھی سچ ہو رہا تھا اور اس کی خواہش بھی پوری ہو رہی تھی۔

 ڈاکٹر رحمن تیس سال کا ایک بے حد سیدھا سادہ سچا مسلمان مرد تھاجس کا تعلق گاؤں سے تھا۔  ماں باپ نے اپنے گاؤں کی زمین بیچ کر رحمن کے ڈاکٹر بننے کی پڑھائی کا خرچ اٹھا یا تھا۔  ڈاکٹر رحمن اور کشو نے کالج کی پڑھائی ایک ساتھ کی تھی۔  اس وقت کشو بھی اتنا ہی غریب تھا جتنا ڈاکٹر رحمن۔  دونوں میں گہری دوستی ہو گئی۔  یہ دوستی برے دنوں کی تھی اس لئے لمبے عرصے سے چلی آ رہی تھی۔  ڈاکٹر رحمن نے نرسنگ ہوم بنوانے کے لیے بینک سے لون لے کر زمین خریدی۔  بینک کی جو قسط رحمن نہیں دے پاتے وہ کشو بھیج دیتا۔  کبھی کبھی مجھے تعجب ہوتا کہ دونوں کے بیچ لین دین کا اتنا معاملہ ہوتے ہوئے بھی کبھی نفاق یا ٹکراؤ کی نوبت نہیں آئی۔  ڈاکٹر رحمن اور کشو دونوں نے جیسے یہ سمجھوتہ کر رکھا تھا بغیر کچھ بولے، بغیر کسی لکھا پڑھی کے کہ جب بھی ملیں گے انسانوں کی طرح ملیں گے۔

ڈاکٹر رحمن کے والدین فوت ہو چکے تھے۔  گاؤں میں اس کا اپنا کوئی تھا تو سوائے اس گھر کے جہاں اس نے اپنے والدین کے ساتھ اپنا بچپن گزارا تھا۔ ابھی تک رحمن نے شادی نہیں کی تھی۔  دن رات کام کرتے رہنے سے وہ ابھی سے کشو سے بڑا دکھتا تھا۔  کوئی لڑکی ابھی تک اس نے پسند نہیں کی اور ایسا کوئی سرپرست تھا بھی نہیں جو ڈاکٹر رحمن کی شادی بیچ میں پڑ کرکرا پاتا۔  اس نے یہ کام بھی کشو کو سونپا اور کشو نے یہ ذمہ داری مجھ پر ڈال دی۔  یہ بات ایک بار کہی گئی، آئی گئی ہو گئی۔  اپنی مصروفیت کی وجہ سے میرے ذہن سے یہ بالکل نکل چکی تھی۔

 میں نے ڈاکٹر رحمن کے ساتھ مل کر کئی کیٹلوگ دیکھے۔  ہم دونوں کئی دنوں سے مغز ماری کر رہے تھے کہ کمرے کا رنگ کیسا ہو، پنکھے، لائٹ، لیمپ کس طرح کے لگوائے جائیں۔  ٹائلس کی ڈیزائن کیسی ہونی چاہیے، وہ سفید اچھے لگیں گے یا کسی ہلکے رنگ کے۔  پردے کیسے ہونے چاہیے۔  کمرے میں کن کن سہولتوں کا انتظام کرانا چاہیے، میں نے اور ڈاکٹر رحمن نے مل کرپچیس پوائنٹ بنا رکھے تھے جن پر ہم لوگوں کو فیصلہ لینا تھا۔ بہت سی چیزیں بجٹ سے باہر ہو رہی تھیں اس لئے انھیں سمیٹنا بھی تھا۔  اسٹاف کتنے ہوں گے، کن کن ڈاکٹر کو رکھنا ہے، بچوں کی کن کن عام بیماریوں کے لیے کون کون سی میڈیکل سہولت دینی ہے۔  صبح آٹھ بجے سے اس وقت دن کے ڈھائی بج رہے تھے اور ہم دونوں کا کام جاری تھا۔  ڈاکٹر رحمن نے میرے دن کے کھانے کا انتظام کرا رکھا تھا۔  کھانا پینا ہوتے ہوتے ساڑھے تین بج گئے۔  میں نے گھر سے نکلنے سے پہلے وولکی کو فون کر کے اپنے یہاں شام کی چائے پر بلایا تھا۔  ستارہ کی کہانی کا جو سرا الزبیتھ کے گھر میں چھوٹ گیا تھا میں اس کہانی کو پورا سننا چاہتی تھی۔ میں نے اچھی طرح سے اپنے گھر کا لوکیشن وولکی کو سمجھا دیا تھا۔  میں نے جان بوجھ کرساتھ میں الزبیتھ کو نہیں بلایا تاکہ میں اور وولکی دونوں بے فکری سے باتیں کر سکیں۔  وولکی اپنی ماں کے سامنے ستارہ کی کوئی بات نہیں کر ے گا، یہ میں اچھی طرح جانتی تھی۔  میں چاہتی بھی نہیں تھی کہ الزبیتھ بیچ میں پڑے کیوں کہ ان کی موجودگی کا مطلب  پردہ داری۔  کچھ کہو، کچھ چھپاؤ۔  اتنا ہی بتاؤ جتنا سب بتاتے ہیں، سب جانتے ہیں۔

’’ڈاکٹر رحمن !اب میں اجازت چاہوں گی۔  آج شام میرے گھر پر ایک خاص گیسٹ آ رہے ہیں۔  مجھے وقت پر پہنچنا ہے۔ ‘‘

’’میڈم ابھی تو پونے چار ہو رہے ہیں، میرا خیال ہے کہ چھ بجے تک وہ آ سکتے ہیں۔ ‘‘

’’ بات تو آ پ کی ٹھیک ہے مگر مجھے راستے سے ناشتے چائے کا سامان لے کر جانا ہے۔ ‘‘

میں نے بہانا بنایا۔  گھر پر تو اس طرح کا سامان ہر مہینے آتا ہی ہے مگر میں وقت سے پہلے پہنچ کر تھوڑا آرام کر کے خود کو تر و تازہ کرنا چاہتی تھی۔  ڈاکٹر رحمن خدا حافظ کہنے کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے۔  میں بھی انہیں خدا حافظ کہہ کر اپنی گاڑی پر آ کر بیٹھ گئی۔

گھر پہنچتے پہنچتے چار بج چکے تھے۔ میں نے ایک گھنٹہ آرام کیا۔  نہا کر تازہ دم ہوئی۔  سادہ ساشلوار کرتا پہنا اور ڈھلتی شام میں باہر لان میں آ کر بیٹھ گئی۔  میں نے وولکی کے لئے بھی ایک چیر وہیں منگوا لی تھی۔  وقت گزارنے کے لیے میں رسالے کے ورق پلٹ رہی تھی تبھی ایک ٹیکسی گیٹ پر آ کر رکی۔  میں چہک کر اٹھ کھڑی ہوئی اس لئے نہیں کہ وولکی پہلی بار میرے گھر آیا تھا بلکہ اس لئے کہ پچھلے چار دنوں سے میں جس بے چینی اور پریشانی سے گزر رہی تھی وہ میں ہی جانتی ہوں۔  ستارہ کی کہانی اس جگہ پر آ کر رکی تھی جہاں سے بس اس کی زندگی کے سارے پردے وا ہونے والے تھے۔  میں اپنی مصروفیت کے باوجود ستارہ کو اپنے دماغ سے ایک لمحہ کے لئے بھی اتار نہیں پائی تھی۔ میں نے ڈائری کے ورق اتنی بار پڑھے تھے کہ ایک ایک صفحہ مجھے ازبر تھا۔  کس تاریخ اور مہینے کے کس دن میں نے کو ن سا واقعہ یا حادثہ درج کیا ہے یہ سب میری انگلیوں پر تھا۔

ٹیکسی کے دوبارہ اسٹارٹ ہونے کی آواز آئی اور میرے بنگلے کا گیٹ آہستہ سے کھلا۔ میں نے دو تین بار آنکھیں جھپکائیں اور پھر غور سے دیکھا۔ مسکراتی ہوئی الزبیتھ اور وولکی میری طرف آ رہے تھے۔  میں نے لپک کر ان کا خیر مقدم کیا۔  الزبیتھ کو گلے لگایا۔  بڑی بہن کی طرح وولکی کا ہاتھ پکڑ کر ڈرائینگ روم کی طرف بڑھ گئی۔ میری امید پر پانی پھر گیا۔ میری آس ٹوٹ گئی، میرا دل اچاٹ ہو گیا۔ ستارہ کی کہانی آج بھی بیچ میں اٹک گئی۔

’’آنٹی آ پ کو دیکھ کر مجھے اتنی خوشی ہو رہی ہے کہ بیان نہیں کر سکتی۔ ‘‘ میں نے خیر مقدمی رسم ادا کرتے ہوئے ان کے ہاتھ سے پھولوں کا وہ گلدستہ لیا جو میرے لئے لائی تھیں۔

’’وولکی نے مجھے بتایا کہ وہ تمھارے گھر جا رہا ہے تو میں نے کہا میں بھی بٹیا کے یہاں ضرور چلوں گی۔ ‘‘

آج اپنے گھر میں اپنے لیے بٹیا سن کر مجھے بہت اچھا لگا۔  دل سے گلے شکوے دور ہو گئے اور میں ویسے ہی چہکنے لگی جیسے کسی مہمان کے آنے پر خوش ہوا جاتا ہے۔ ملازمہ نے مختلف ناشتوں سے میز بھر دی۔ کئی چیزیں اس نے اپنے ہاتھوں سے بھی بنائی تھیں۔  میں وولکی کے آنے کا انتظار پچھلے دو چار دنوں سے کر رہی تھی۔  اس لئے ملازمہ بھی سمجھ گئی کہ یہ کوئی خاص مہمان ہیں اس لئے اس نے ویسا ہی خاص اہتمام بھی کیا۔

میں نے غور کیا کہ ہمیشہ کا باتونی وولکی اور زیادہ بولنے والی الزبیتھ کی آنکھوں میں کچھ حیرت تھی، کچھ خوف بھی، کچھ جھجھک تھی جس نے انہیں خاموش کر دیا تھا۔ میرے عالیشان ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر وہ اپنے آپ کو اجنبی محسوس کر رہے تھے شاید انہیں میری رئیسی کا اندازہ نہیں تھا۔  بستی میں میری آمدو رفت سے ا ن کا یہ قیاس رہا ہو گا کہ میں کوئی معمولی عورت ہوں۔ چک چک کرنے والی زبان چپ تھی جب کہ میں چاہتی تھی کہ وہ بولیں۔

بولتے وقت ان دونوں کا لہجہ آہستہ ہوتا۔  سنبھل سنبھل کر الفاظ ادا ہوتے اب میں اچانک تم سے آپ ہو گئی تھی۔ میں نہیں چاہتی تھی کہ یہ لوگ میرے گھر آئیں، میرا اسٹیٹس اور میرا ہائی لیونگ دیکھیں کیوں کہ پھر یہ مجھ سے ایک دوری سے ملنے لگیں گے۔ میں نے وولکی کو صرف اس لئے بلایا تھا کیوں کہ وہ ایک مرد تھا اور مرد اس طرح کی باتوں پر توجہ  کم دیتے ہیں۔  الزبیتھ کی آنکھیں حیرت سے پھیلی ہوئی تھیں۔  وہ چاروں طرف دیکھ رہی تھیں۔  جیسے انہیں یقین نہ آ رہا ہو کہ میں یہاں رہتی ہوں۔ میں اس گھر کی مالکن ہوں، وہ کبھی کبھی ایک نگاہ مجھ پر ڈال لیتیں جس میں اجنبیت تھی وہ اپنا پن نہیں تھا  جو میں اپنے لیے ان کے گھر میں محسوس کر تی تھی۔

’’آنٹی آپ تو کچھ کھا ہی نہیں رہی ہیں۔ لگتا ہے مجھے اپنے ہاتھ سے کھلانا پڑے گا۔ ‘‘

میں نے ا ن کی جھجھک مٹانے کے لئے اپنے ہاتھ سے ان کے منہ میں پیسٹری ڈالی اور وولکی کے منہ میں گرما گرم پیاز کے پکوڑے زبردستی ڈال دیے اس کی زبان جل سی گئی اور الزبیتھ دیر تک ہنستی رہیں۔  جان بوجھ کر کی گئی میری یہ حرکت صرف اس لئے تھی تاکہ ان کے اندر سے جھانکتی اجنبیت کو میں دور کر سکوں۔

ادھر ادھر کی باتیں ہوتی رہیں جن میں ستارہ کا بھی ذکر آیا۔  الزبیتھ جی بھر کے اس کی تعریف کرنے لگی۔  ان کا ماننا تھا اسی طرح کی لڑکیاں ہی اپنا مقدر آپ لکھ پاتی ہیں۔  ستارہ آج خوش حالی سے جی رہی ہے۔  اس مقام تک آنے کے لئے اس نے کڑی محنت کی اور اس کی محنت کا صلہ اوپر والے نے دیا بھی۔ وولکی سرجھکائے بیٹھا تھا۔  میں خاموش بیٹھی ان دونوں کا چہرہ دیکھ رہی تھی۔

٭

ابی جب کبھی مجھے فون کرتے، چاشت کی نماز پڑھنے کے بعد ہی کرتے۔  کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ میں چونکہ دیر سے سوتی ہوں اس لئے صبح جلدی نہیں اٹھتی۔ سوکر اٹھنے کے بعد دو تین گھنٹے میرے نجی ہوتے ہیں، اس درمیان میں چہل قدمی کرتی، جسمانی ورزش کرتی، اطمینان سے بیٹھ کر چائے پیتی، اخبار پڑھتی، پیڑ پودوں کو دیکھتی کہ مالی ٹھیک سے کام کر رہا ہے کہ نہیں اور ہاں مجھے ننھے پرندوں کو پالنے کا بھی شوق تھا، میرے پاس اتنا وقت تو نہیں رہتا تھا کہ میں ان پر توجہ دے پاتی، اس کے لیے گھر میں نوکر تھے۔ ڈرائینگ روم میں ایک بڑاسا ایکیوریم تھا جس کی رنگ برنگی مچھلیوں کی اٹکھیلیاں میرے دل بہلانے کا ذریعہ بنتی تھیں۔  اس بیچ میں نہاتی، ناشتہ کرتی تیار ہوتی پھر گھر سے نکلتی تو لوٹنے کا وقت طے نہیں ہوتا۔  مجھے میرے بے زبان ساتھی اتنے پیارے تھے کہ اگر ان کی دیکھ بھال میں ذرا بھی لا پرواہی ہو جاتی تو میں اپنے نوکروں کو بخشتی نہیں تھی۔ کئی کو میں باہر کا راستہ دکھا چکی تھی۔

ابی کو معلوم تھا کہ میں سوکر اٹھنے کے بعد دو تین گھنٹے گھر میں جم کر بیٹھوں گی اس لئے وہ جب بھی فون کر تے صبح دس بجے کرتے۔  آج صبح آئے فون پر میں ابی کی آواز سن کر خوش ہو گئی—–

’’کیسے ہیں ابی! آپ کی طبیعت کیسی چل رہی ہے؟‘‘

’’بیٹی طبیعت تو ٹھیک ہے مگر میں ایک اہم موضوع پر تم سے بات کرنا چاہتا ہوں۔  تمہارے پاس وقت ہے نا!‘‘

’’کیسی باتیں کرتے ہیں ابی! میں نوکری تو کرتی نہیں کہ وقت  کے ساتھ بندھی رہوں۔  میرے پاس آپ کے لئے چوبیسوں گھنٹے کا وقت ہے۔  کہیے! سب ٹھیک تو ہے نہ!‘‘

’’بیٹی فردوس نے نیلوفر کے لئے رشتہ دیا ہے تم جانتی ہو گھر میں جوان بیٹی کو بٹھانا کتنا مشکل کام ہوتا ہے۔  چھ مہینے ہو گئے اسے گھر میں بند بند۔  نہ کہیں نکلتی ہے نہ کہیں گھومتی ہے۔  میرے بعد اس کا کیا ہو گا۔ ‘‘

’’ابی آپ پریشان نہ ہوئیے۔  جو بھی ہو گا اسی میں اللہ کی رضا ہو گی۔  پہلے یہ بتائیے فردوس نے جو رشتہ دیا ہے وہ کیسا ہے۔  لڑکا کیا کرتا ہے۔ اس کا گھر بار کیسا ہے۔ فردوس اسے کتنا جانتی ہے۔ ابی دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک کر پیتا ہے۔  آپ نے پوری معلومات حاصل کر لی ہے نا!‘‘

ابی بے حد افسردگی سے بولے۔ ’’نیلوفر کی اتنی بدنامی ہماری برادری میں ہو چکی ہے کہ اب کسی قیمت پر کوئی کنوارا لڑکا نہیں مل سکتا۔ فردوس نے جو رشتہ دیا وہ لڑکا دہاجو ہے۔  پچھلے سال ہی اس کی بیوی کینسر سے مر گئی۔  دو لڑکیاں ہیں ایک نو سال کی دوسری بارہ سال کی۔ ‘‘

’’ابی فردوس کا دماغ اپنے ٹھکانے پر ہے یا نہیں۔  نیفو کی ابھی عمر ہی کیا ہے۔  مانا کہ ایک حادثے نے اس کا سب کچھ چھین لیا ہے مگر یہ بھی مت بھولیے کہ زمانے کی یادداشت بہت کمزور ہوتی ہے۔ ‘‘

’’بیٹی ہمیں اپنی مجبوری بھی تو دیکھنی ہے۔ ‘‘

’’آپ نے نیفو سے بات کی۔ ‘‘

’’بات کیا کرنی۔ ہم لوگ فیصلہ کریں گے اور اس کی اتنی جرأ ت نہیں کہ وہ ہمارے فیصلے پر کچھ بول سکے۔ ‘‘

’’ابی مجھے سوچنے کا موقع دیجیے۔ ‘‘

’’ٹھیک ہے۔ ‘‘

خدا حافظ کہہ کر میں نے فون کاٹ دیا تھوڑی دیر کے بعد میں نے نیفو کو فون ملایا۔ اس نے فوراً ہی رسیو کیا۔

’’نیفو تم کہا ں ہو؟‘‘

’’جی اپّی گھر میں ہوں۔ ‘‘

’’گھر کے کس کونے میں۔ ‘‘ میری آواز میں جھنجلاہٹ تھی۔

’’جی اپنے کمرے میں۔ ‘‘

’’اٹھو اور دروازہ بند کرو پھر مجھ سے اطمینان سے باتیں کرو۔ ‘‘ میری آواز میں حکم تھا۔  ایک بار پھر میں نہ چاہتے ہوئے بھی اپنی ننھی پری کی محبت میں اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔  حالانکہ میں اس سے ابھی تک ناراض تھی۔  ذرا سی غلطی سے اس کی بسی بسائی دنیا اجڑ گئی تھی اور میری گھریلو زندگی بھی خطر ے میں آ گئی تھی۔  میں آج بھی جب ان دنوں کو یاد کرتی ہوں جب میں رکشے سے سڑکوں کی خاک چھانا کرتی تھی تو میری رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔

نیفو دروازہ بند کر کے دوبارہ فون لائن پر آ چکی تھی۔  میں نے اطمینان سے باتیں کرنی شروع کی۔

’’تمہاری ابی سے کوئی بات ہوئی ہے؟‘‘

’’نہیں اپی! ابی بہت کم اور صرف ضرورت کی باتیں مجھ سے کرتے ہیں۔ ‘‘

’’کیا فردوس نے تم سے بات کی ہے؟‘‘

’’جی اپی۔ ‘‘

’’کیا بتایا ہے؟‘‘

’’وہ کوئی رشتہ لے کر آئی ہیں۔ ‘‘

’’تم نے رشتے کی تفصیل فردوس سے پوچھی تھی؟‘‘

’’نہیں اپی۔ ‘‘

’’کب تک کلہاڑی لے کر اپنی پیر کو کاٹتی رہو گی نیفو۔  کتنی بار اپنی زندگی برباد کرو گی۔  اپنے ذہن کی جکڑن کو کھولو، اپنے خول سے باہر آؤ۔  دنیا پہچانو اور اپنے فیصلے آپ کرو۔ ‘‘

’’اپی!‘‘ نیفو ننھی بچی کی طرح سسک اٹھی۔

’’نیفو تمہاری پڑھائی لکھائی سب بے معنی ہے اگر تم اپنی زندگی کے فیصلے خود نہیں لے سکتی۔  اس بار فردوس تمہارے پاس آئے تو دو ٹوک ہو کر کہہ دینا کہ نہیں ابھی مجھے شادی نہیں کرنی ہے۔ جب تک میں اپنے پیر پر کھڑی نہ ہو جاؤں گی قطعی شادی نہیں کروں گی۔ —‘‘

نیفو روتے ہوئے بولی-’’اپی یہ سب میں کیسے کہوں گی۔ ‘‘

’’اسی طرح جیسے تم راشد مرزا کی موجودگی میں مجھ سے بات کیا کرتی تھی۔ اپنے تمتمے اور رعب کے ساتھ۔  وہ تمتما اور رعب راشد مرزا کی دین نہیں تمہارے وجود، تمہارے مزاج اور تمہارے وقار کا ایک حصہ ہے۔  وہ ابھی بھی تمہارے اندر موجود ہے۔ تم ایک بار اٹھو تو—کھڑی تو ہوؤ—آنے والے مستقبل کے لئے خواب تو بنو۔  جب تک خواب نہیں ہوں گے تب تک خوابوں کی تکمیل کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔  تمہیں اس رشتے سے انکار کرنا ہے۔ ۔ ۔  سمجھیں۔ ۔ ۔ گر آمنے سامنے باتیں کرنے کی ہمّت نہ ہو تو فون سے فردوس کو انکار کر دو۔ ۔ ۔ ابھی۔ ۔ ۔ اسی وقت۔ ۔ ۔ ‘‘

’’اپّی ابی کیا سوچیں گے؟‘‘

’’یہ تم نے اس وقت نہیں سوچا جب کسی غیر مرد کا جسم تمہارے بدن پر حاوی تھا۔  اس وقت بھی نہیں سوچا جب میں راشد مرزا کی اصلیت تمہیں اشارے کنائے میں بتا کر تمہیں آگاہ کرنا چاہتی تھی، تمہیں وہ قوّت دینا چاہتی تھی کہ تم خطرے کو سونگھ سکو۔ ۔ ۔ تم نے ’ابّی کیا سوچیں گے‘ اس وقت بھی نہیں سوچا جب اپنے شوہر کے سامنے اپنے ناپاک کارناموں کا بکھان کر رہی تھیں تو پھر اب کیوں سوچتی ہو کہ ابّی کیا سوچیں گے۔  تم اپنا فیصلہ سناؤ پھر میں دیکھ لوں گی کہ کس کو کیا سوچنا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  سوچنا بھی ہے یا نہیں۔ ۔ ۔ ۔ میں تم سے بعد میں بات کروں گی اور میں تم سے وہی سنوں گی جو میں سننا چاہتی ہوں اور تم وہی کرو گی جو میں تم سے کروانا چاہتی ہوں۔ ۔ ۔ ۔  میں وہی کروانا چاہتی ہوں جو تمہارے حق میں ہے۔ ۔ ۔ ۔  تمہاری بہتری کے لئے ہے۔ فردوس جیسی بہنیں لٹیا ڈبونے کے لئے ہی ہوتی ہیں میں تمہیں اس بار نہیں ڈوبنے دوں گی۔ ۔ ۔ ۔ سمجھ گئیں نا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

میں نے غصہ میں فون کاٹ دیا۔ فردوس مجھے کبھی پسند نہیں رہی۔  بچپن سے ہی مجھے فردوس سے چڑ رہی ہے۔  فردوس کا نام مجھے یاد دلاتا ہے بچپن کی محرومیوں کو، بچپن کی کھائی ان ماروں کو جو بے وجہ مجھ پر پڑتی تھیں۔ فردوس ہی تھی جس نے ابّی کا پیار مجھ سے چھین لیا تھا۔ فردوس نے میرے ہاتھ سے کھلونے چھین لئے، تحفّظ کا احساس جوکسی بچی کو اپنے گھر میں ملتا ہے، فردوس نے وہ بھی پامال کر دیا۔  فردوس اور چھوٹی امّی نے مل کر میرے بچپن کو روند ڈالا۔ چھوٹی امّی کو میں نے معاف کر دیا لیکن فردوس کے لئے غصہ اب بھی میرے اندر موجود تھا۔ میں جانتی ہوں کہ نیلوفر کے حق میں یہی بہتر تھا کہ وہ فردوس کے لائے ہوئے رشتے کو ٹھکرا دے۔  میں انتظار میں تھی کہ کب مجھے نیلوفر کا انکار سننے کو ملے گا۔

٭

میں اور پھانکی تقریباً آدھے گھنٹے سے برگد کی چھاؤں میں بیٹھے دنیا جہان کی باتیں کر رہے تھے۔ میں جب یہاں آئی تو دیکھا رحمو بابا اپنی خاص جگہ پر نہیں ہیں اور وہاں پر پھانکی آرام سے بابا کی گدڑی سے ٹیک لگائے آنکھیں بند کیے لیٹی ہے۔  لگتا ہے آج یہ کام پر نہیں گئی ہے فرصت میں ہے‘ یہ سوچ کر میں نے گاڑی شرارتاً اس کے قریب لے جا کر روکی اور اتنی زور سے ہارن بجایا کہ وہ اچھل کر بیٹھ گئی۔  میں اسے ڈرانا چاہتی تھی اور وہ بری طرح ڈر بھی گئی۔  میں اپنی کامیابی پر کھل کھلا کر ہنس پڑی۔  مجھ ہنستا دیکھ کر وہ بھی ہنسنے لگی۔

میرا موڈ صبح سے ہی خوشگوار تھا۔  اب حالات میری مٹھی میں آتے جا رہے تھے۔  نیفو کا فون آیا کہ اس نے فردوس کے لائے رشتے کو نامنظور کر دیا ہے۔

یہ سن کر مجھے دلی راحت ملی۔

’’فردوس گھر آئی تھی یا تم نے فون کیا تھا۔ ‘‘

نیفو نے جواب دیا—’’نہیں اپّی! میں نے فون نہیں کیا تھا۔  فردوس لڑکے کا فوٹو لے کر آئی تھی۔ ‘‘

’’لڑکے کا نہیں، دو بچوں کے باپ کا فوٹو لائی تھی۔  سگی بہن ہے اور دشمن سے بدتر کام کرتی ہے۔ ‘‘

’’نہیں اپّی فدّو کی نیت خراب نہیں ہے۔ ‘‘

 فردوس نیفو کی سگی بہن تھی اس لئے اس کا پیروی کرنا بجا تھا۔  وہ فردوس کو پیار میں فدّو کہتی تھی۔

’’تمہارے انکار پر پھر اس نے کیا کہا۔ ‘‘

’’انہوں نے کہا، تمہارا مقدّر خراب ہے۔  اسی گھر میں جب ابّی کے بعد سڑوگی، روٹی روٹی کو محتاج ہوؤ گی تب تمہیں پتا چلے گا کہ زندگی کیا ہوتی ہے۔ ‘‘

میں یہ سن کر بھڑک اٹھی—’’تم نے کہا نہیں کہ میرے ابّی کے پاس اور میری اپّی کے پاس اتنی دولت ہے کہ انشاء اللہ یہ محتاجی کبھی نہیں آئے گی۔ ‘‘

’’نہیں اپّی! وہ بہت غصے میں تھیں کیوں کہ لڑکے والوں کو انہوں نے ابّی کی طرف سے ’ہاں ‘ کہہ دی تھی۔ ‘‘

’’کہاں کی ہاں، اور کہاں کی نا۔  میں غصے سے بے قابو ہو رہی تھی تمہیں فردوس کو اتنا سخت جواب دینا چاہیے تھا کہ اس کے ہوش ٹھکانے آ جاتے۔  اب دیکھنا، ایسے ہی اوٹ پٹانگ رشتے لائے گی۔  اگر تم نے مضبوطی نہیں دکھائی تو یاد رکھو ایک بار پھر سے تمہارا مقدر پھوٹ جائے گا اور اس بار بگڑا تو پھر نہیں سنبھلے گا۔  آئندہ فردوس گھر میں آئے تو تم اس کے سامنے مت جانا۔ ‘‘

’’اپّی مجھے فدّو سے نہیں ابّی سے ڈر لگتا ہے۔ ‘‘

’’کیوں ؟‘‘

 ’’ابّی کیا کہیں گے کہ میں بڑی بہن سے لڑتی ہوں۔ ‘‘

’’نیفو تم کب تک دوسروں کے بارے میں سوچ سوچ کر اپنی ذہنی زنجیروں کو موٹا کرتی رہو گی۔  میں یہ نہیں کہتی کہ تم ابّی سے بد تمیزی کرو۔ فردوس سے لڑائی جھگڑے کرو۔ مگر تمہیں اپنی بات کہنے کا حق ہے۔ اپنی مرضی سے جینے کا حق ہے۔ اپنے ڈھنگ سے سوچنے کا حق ہے۔ تم کسی کی غلام نہیں ہو تو پھر کیوں اپنی ذہنیت کو غلام بناتی ہو؟‘‘

’’جی اپّی!‘‘ نیفو نے اسی طرح فرمانبرداری سے ہاں میں ہاں ملایا۔ میں بولتی گئی اور وہ سنتی رہی۔

’’دیکھو نیفو تم نے خود کو جسمانی طور پر قیدی بنا لیا ہے پچھلے کئی ماہ سے اپنے آپ کو کمرے میں بند کر کے، اب خدارا اپنی سوچ کو بھی قید مت کرو۔  میں جیسے جیسے تمہیں بتاتی جاؤں ویسے ہی کرتی رہو۔ ‘‘

’’اپّی فدّو نے اسی وقت جا کر ابّی کو میرا رشتے سے انکار کرنا بتا دیا تھا۔ ‘‘

میں نے جلدی سے پوچھا—’’ابّی نے کیا کہا۔ ‘‘

’’ وہ غصہ میں آپے سے باہر ہو گئے تھے۔ بڑے جلال سے وہ میرے کمرے کے دروازے پر کھڑے ہو کراپنے دونوں ہاتھ دروازے کی دونوں پٹوں پر رکھے گرجتے ہوئے پوچھ رہے تھے۔ —’’کیا تم نے شادی سے انکار کیا ہے؟‘‘

میں نے جلدی سے پوچھا—’’پھر کیا ہوا۔ ‘‘

’’پھر ابّی کمرے سے باہر چلے گئے۔ دیر تک ا ن کے چیخنے چلّانے کی آوازیں آتی رہیں۔  فدّو مجھے بہت برا بھلا کہہ رہی تھی کہ میں نے سسرال میں اس کی ناک کٹوا دی۔ میری وجہ سے اسے وہاں ذلّت اٹھانی پڑی۔ ‘‘

’’دیکھ نیفو پچھلے مہینوں میں جو کچھ ہوا اور اب تک جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔  مگر جب ہو چکا ہے تو اس کو ہمیں سنبھالنا ہے۔  جب تک میں کچھ نہ کہوں تب تک تمہیں کوئی قدم نہیں اٹھانا ہے۔ سب سے پہلے تمہیں اپنی پڑھائی پوری کر کے نوکری کرنی ہے۔ تم بی ایڈ کا فارم بھرو۔  فیس کے لیے روپیوں کی ضرورت ہو تو بتاؤ، اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کر دوں۔ ‘‘

’’نہیں اپّی بہت روپیے اکاؤنٹ میں ہیں۔ ‘‘

’’ہاں غور سے سنو جو تمہاری سہیلی ناہید ہے اس کو بلوا لینا۔  اسی کے ذریعہ باہر کے سارے کام کروا لینا۔ اسے میں دیکھ چکی ہوں۔ تمہاری بے حد وفادار سہیلی ہے۔ ‘‘

اچانک کھل کھلاتی ہوئی ہنسی نے سوچ کے سمندر میں غوطہ لگاتے ہوئے میرے ذہن کو جھٹکا دیا-

’’ارے دیدی میں آپ کے لیے پان لے کر بھی آ گئی اور آپ جانے کہاں کھوئی ہوئی ہیں۔  ارشد آپ کو سلام کہہ رہا تھا۔ ‘‘

میں نے سنبھل کر بیٹھتے ہوئے کہا- ’’دراصل تم جب پان لینے چلی گئی تو میں اپنے پھیلائے ہوئے کام میں الجھ گئی۔  اب تم آ گئی ہو تو تم سے باتیں ہوں گی۔ ‘‘

پھانکی نے ہی مجھے بتایا تھا کہ آج کلّن بی کی برسی ہے، اور رحمو بابا ہر سال کی طرح اس بار بھی پانچ فقیروں کو ہوٹل سے کھانا کھلوا کر پھر قبرستان جا کر فاتحہ پڑھیں گے۔  آدھا، ایک گھنٹہ کلّن بی سے باتیں کریں گے۔  سال بھر کیا ہوا انہیں بتائیں گے۔  اپنی بیماری اور اکیلے پن کا رونا روئیں گے، پھر واپس آ جائیں گے۔ سال بھر کی جتنی جمع پونجی ہوتی ہے آدھے سے زیادہ آج وہ کلّن بی کے نام پر غریبوں کو لٹا دیتے ہیں۔  کلّن بی کتنی نصیب والی عورت تھیں کہ ان کے شوہر نے ان کی زندگی میں اور مرنے کے بعد بھی اپنی محبت اور وفاداری نہیں چھوڑی۔  ستارہ رحمو بابا کے ساتھ ہی گئی ہوئی ہے۔

’’پھانکی آج ستارہ کو تو چھٹی لینی پڑی ہو گی؟‘‘

’’ہاں، آج اس نے چھٹی لی ہے۔  ایک دن کا پیسہ اس کا کٹ جائے گا۔ ‘‘

پان کی پیک تھوکنے کے لیے میں چبوترے سے نیچے اتری اور کچّی زمین پر جھاڑی کے پیچھے تھوک آئی۔

’’ارے دیدی! یہاں چبوترے کے نیچے تھوک دیا ہوتا۔ ‘‘

میں نے پھانکی کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا-

’’مجھے ایک بات سمجھ میں نہیں آتی۔ جیسا کہ سب مجھے بتاتے ہیں اور تم نے بھی وہی بتایا ہے کہ برکت علی نے ستار ہ کی زندگی برباد کی۔ پھر وہ برکت کے باپ رحمت علی کا اتنا ساتھ کیوں نبھاتی ہے۔ ‘‘

’’دیدی! یہ مت بھولیے کہ ستارہ کی وجہ سے رحمت علی نے اپنے اکلوتے بیٹے کو عاق کر دیا۔  اور آج وہ لا وارثوں کی زندگی گزار رہے ہیں۔  ستارہ کا اتنا فرض تو بنتا ہی ہے کہ——‘‘پھانکی کی زبان رک گئی۔  سامنے سے ہی کرینا آ رہی تھی۔  میں بھی اپنی جگہ سنبھل کر بیٹھ گئی۔

اس نے قریب آ کر بیحد ادب سے مجھے سلام کیا۔  میں نے اسے سر سے پاؤں تک دیکھا کرینا بے حد با تہذیب یافتہ اور صاف ستھری نظر آ رہی تھی۔  آج وہ سادے شلوار کرتے میں تھی۔  بڑا سا کاٹن کا دوپٹّہ اپنے پیٹ پر پھیلائے تھی۔  اس کی صاف ستھری رنگت کو دیکھ کر کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ وہ کس طبقے کی لڑکی ہے۔  شاید ان کے دھندے کی مانگ یہی ہے، بولنے چالنے اٹھنے بیٹھنے کا سلیقہ چہرے اور بدن کی صفائی۔  تھوڑی بہت انگریزی آتی ہے تو پڑھی لکھی ہائی کلاس سوسائٹی ان کا انتظار کرتی ہے۔  کرینا کو بول چال کی ہلکی پھلکی انگریزی آتی ہے اس کا اندازہ مجھے ہو گیا تھا۔ اور یہی سب باتیں اس کے مارکیٹ ریٹ کو بڑھاتی بھی تھیں۔  عجیب بات یہ کہ ایسی لڑکیاں اور عورتیں اپنے پیشے کو گندہ یا قابل اعتراض نہیں سمجھتیں۔  دنیا میں جس طرح پیٹ پالنے کے مختلف دھندے ہیں ویسے ہی ایک دھندا یہ بھی ہے۔  زندگی جینے کے لئے یہ بھی ایک ذریعۂ معاش ہے۔  میں اکثر سوچا کرتی تھی کہ پیٹ کا ابھار ان کے کام میں رکاوٹ نہیں ڈالتا ہو گا۔ ۔ ۔  بچہ جننے کے بعد ان کے جسم میں ڈھیلا پن نہیں آ  جاتا ہو گا۔ ۔ ۔  ڈھیلا بدن ان کی مارکیٹ ویلیو کو کیا کم نہیں کرتا ہو گا۔ ۔ ۔  سب سے اہم سوال جو میرے ذہن میں آتا وہ یہ تھا کہ ایسی ماؤں کے بچے کہاں جاتے ہیں، کیا کرتے ہیں، کون ایسے بچوں کی دیکھ بھال کرتا ہے۔  اتنا تو ظاہر ہے کہ یہ بچوں کو لے کر اپنے ساتھ نہیں چل سکتیں۔

’’دیدی آپ کہاں رہتی ہیں ؟‘‘ یہ کرینا کا مجھ سے سوال تھا۔

’’بس اسی شہر میں رہتی ہوں جہاں تم رہتی ہو۔ ‘‘

میں نے ایسے کہا جیسے شہر نہ ہو ایک محلہ ہو گیا جہاں سب ایک دوسر ے کو جانتے ہیں۔  میں اپنے گھر کا پتہ ان میں سے کسی کو نہیں دیتی تھی۔  تبھی میرے موبائل پر رنگ ہوئی۔ ملازمہ کا فون تھا۔ ضرور وہ جاننا چاہتی ہو گی کہ کھانے میں کیا پکانا ہے۔ میں ایک ہی وقت کھانا کھاتی ہوں وہ بھی رات میں تاکہ میری فٹنس بنی رہے مگر رات کا کھانا پورے اہتمام سے کھاتی ہوں۔  تھوڑا تھوڑا مگر کئی قسموں سے چنا گیا دسترخوان ہونا چاہیے۔  میں کنارے ہو کر ملازمہ سے باتیں کر رہی تھی مگر میری ساری توجہ پھانکی اور کرینا کی کھسر پسر پر تھی۔  کرینا ستارہ کے بارے میں پوچھ رہی تھی اور وہ کہہ رہی تھی کہ اگر آج وہ یہاں ہوتی تو اسے بڑا فائدہ ملتا۔ ہوٹل میرینا سے ایک بہت بڑا آرڈر آیا ہے۔ آرڈر ہائی کلاس کا ہے اس لیے ایرا غیرا کوئی نہیں جا سکتا۔  کرینا کی اس وقت حالت ایسی نہیں تھی کہ وہ جا سکتی۔ ہاتھ ملتی کرینا کی آنکھوں میں اپنے نہ جانے کا بے حد افسوس تھا۔ میری اور ملازمہ کی باتیں ختم ہو چکی تھیں مگر میں موبائل کان سے لگائے ایسا دکھاوا کر رہی تھی کہ میں ابھی بھی باتوں میں مصروف ہوں مگر سچ یہ تھا کہ پھانکی اور کرینا کی باتیں جاری رہیں اس لئے میں ایسا ڈرامہ کر رہی تھی۔

کرینا نے چند باتیں مجھ سے بھی کیں۔ موسم کے بارے میں، بستی میں بڑھتے کتّوں کی تعداد کے بارے میں، چمپا کاکی کی گرتی صحت کے بارے میں، پھر سلام کر کے واپس چلی گئی۔ ابھی تک ستارہ اور رحمو بابا قبرستان سے نہیں لوٹے تھے۔  شام کا دھندلکا بڑھ رہا تھا اور مجھے فکر ہو رہی تھی، میں خود نہیں جانتی تھی کہ یہ فکر ستارہ کے لئے تھی یا رحمو بابا کے لئے۔

رحمو بابا میرے لیے بے حد خاص تھے۔  نہ صرف اپنے اعلیٰ مزاج اور اپنے پیار بھرے برتاؤ کی وجہ سے بلکہ ان کی نیک طبیعت بھی مجھے کافی متاثر کرتی تھی۔ قبرستان کہاں ہے اگر میں یہ جانتی تو اپنی گاڑی سے دونوں کو جا کر لے آتی۔  کم سے کم ستارہ سے باتیں تو ہو جاتیں۔  میری نظر میں ستارہ کی تصویر بدل رہی تھی۔  اب وہ خاموش رہنے والی، مظلوم، زمانے کی ستائی ہوئی عورت نہیں لگتی تھی۔  اب اس کے برتاؤ میں تیز طرّاری بھی آ رہی تھی۔  ہاں اگر اس سے میری بات چیت ہو رہی ہوتی تو بھی میں اب تک بہت کچھ جان چکی ہوتی مگر وہ تو مجھ سے کنارہ کشی کرتی تھی، مجھ سے بچتی تھی، مجھے نظر انداز کرتی تھی۔  میں تو اپنے آپ پر حیران ہوں کہ اتنے دنوں میں مجھے ستارہ کی آواز تک سننے کو نہیں ملی۔

پھانکی نے مجھے بتایا تھا کہ ستارہ کی جھگّی میں بھی ٹی وی فریج آ چکے ہیں۔  اس کے ہاتھ میں موبائل فون رہتا ہے۔  میں یہ سن کر سب سے زیادہ حیرت میں پڑی کہ ستارہ کے پاس اپنا لیپ ٹوپ ہے۔  لیپ ٹوپ یعنی بہت بڑا سرکل اس کے ساتھ جڑا ہے۔

باہر کے لوگ تصور نہیں کر سکتے کہ ان چھوٹی چھوٹی جھگّیوں میں رہنے والی عورتوں کے کتنے بڑے بڑے کارنامے ہوتے ہیں۔  کب وہ غریب بیچارے بے سہارے بن جائیں اور کب رئیسانہ ٹھاٹھ سے زندگی جینے لگ جائیں، کچھ کہا نہیں جا سکتا۔  ہاں، ایسی ہی بستیوں میں چمپا کاکی اور پھانکی جیسی عورتیں کیڑے کی زندگی جی رہی ہوتی ہیں۔  رحمو بابا جیسے لوگ سمجھوتے کی زندگی جی رہے ہوتے ہیں۔  ارشد اور راکیش جیسے لوگ اپنا مطلب نکالنے کے لیے ایسی زندگی جینے کا ڈھونگ کر رہے ہوتے ہیں کیوں کہ بستی سے باہر ان کی اپنی بھری پوری دنیا ہے۔  اپنا گھر بار ہے۔  بستی تو ان کے روزگار کو چلانے کا ایک ذریعہ ہوتی ہے۔

’’دیدی کرینا بہت اچھی لڑکی ہے۔ ‘‘

’’اچھا!‘‘ میں نے مختصر سا جواب دیا۔  شاید پھانکی نے میرے چہرے سے کچھ ایساتاثر پڑھ لیا تھا جس میں اس کے لیے میرے اندر ناگواری تھی۔

’’سچی دیدی! یہ بیچاری تو بے خطا ہے۔  جو اس کی ماں رنڈی گلابو تھی نا!سارا کیا دھرا اسی کا ہے۔ ‘‘

’’کیسے؟‘‘  نہ چاہتے ہوئے بھی میری زبان سے یہ لفظ نکل گیا میں اس موضوع کو آگے نہیں بڑھانا چاہتی تھی۔  ان عورتوں میں میری کوئی دلچسپی نہیں تھی۔  صرف ستارہ میرے ربط کا مرکز تھی۔ ستارہ سے میری دلچسپی کی وجہ بھی کم دلچسپ نہیں ہے۔  دوسروں کے لئے اگر یہ ایک چٹخارے دار خبر بن سکتی ہے تو میرے لئے یہ محض سیاہ روشنائی کا پھیلا وہ بدنما داغ ہے جس نے میری زندگی کے سارے رنگ نچوڑ لئے۔  میں نے کشو کے ساتھ اپنے نکاح نامے پر دستخط نہیں کئے بلکہ اپنی مستقبل کے زینے کو بند کواڑ کا حصہ بنا دیا۔ نہ ہوا، نہ تازگی، گھپ اندھیرا۔ ۔ ۔  خوابوں کی جمی ہوئی سیلن۔ ۔ ۔  میں۔ ۔ ۔  کشو۔ ۔ ۔ اور ستارہ محور ایک کڑیاں تین۔

پھانکی کی آواز نے مجھے میرے حال میں پھر کھینچ لیا۔

’’جانتی ہو دیدی صرف گیارہ سال کی عمر میں اس حرامی گلابو نے، اس کی قبر میں کیڑے پڑیں، اس کرینا کو بھٹّی میں جھونک دیا تھا۔ ‘‘

’’بھٹّی میں جھونک دیا ؟‘‘بات میری سمجھ میں نہیں آئی۔

’’ارے وہی، سمجھو نا۔ ۔ ۔ ۔ ۔  کام پر لگا دیا تھا؟‘‘ اس نے بات کو اشارے کنایے میں سمجھایا۔

’’گیارہ سال کی بچّی کے تو بدن بھی نہیں کھلتے۔ ‘‘

’’ارے دیدی!آپ مارکیٹ کو کیا جانیں ! وہاں کھلنے کا انتظار نہیں کیا جاتا۔  اگاڑا پچھاڑا جو کام آ جائے، کام نکال لو۔‘‘

’’لاحول ولاقوۃ‘‘ میرا جی خراب ہو گیا۔  ان کمبختوں پر تو کوڑے برسانا چاہیے۔  ارے پیٹ پالنا ہے تو محنت مزدوری کرو۔  کیا ایک ہی کام رہ گیا ہے۔

’’دیدی! اس کام میں محنت کم اور دام زیادہ ملتے ہیں مگر میں تو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

میں ہنسنے لگی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ’’ہاں تم کہاں جاؤ گی۔  اس سوکھی ہڈّی پر چونّی نہیں ملے گی۔ ‘‘

پھانکی کو میری بات بری لگ گئی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ’’ایسامت کہو دیدی۔  ہم عزت کی روٹی کے قائل ہیں ورنہ بتا دیتے کہ چونّی اٹھنّی کیا ہوتی ہے۔ ‘‘

میں نے پیار سے اسے جھڑکا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ’’اچھا اچھا چل۔  تو اچھی لڑکی ہے اسی لیے تو تیرے پاس بیٹھتی ہوں۔  چھوٹی چھوٹی باتوں پر ناک پر سپاری مت توڑا کر۔ ‘‘

میں نے دیکھا کہ پھانکی کی آنکھوں میں ڈھیر سارے آنسو بھر آئے تھے۔  مجھے چمپا کاکی نے بتایا تھا کہ اس کے شوہر نے پھانکی کو یہ کہہ کر چھوڑ دیا تھا کہ میں مرد ہوں مجھے گوشت چاہیے جب تک گوشت نہ چڑھے تب تک ماں کے گھر پر رہ۔  بیچاری پھانکی اپنی سوکھی دیہہ کے ساتھ ایک ہی رات میں واپس آ گئی مگر ایک رات کا گناہ اسے نو مہینے ڈھونا پڑھا۔ نو مہینے کے بعد جب بچہ ہوا تو مرا ہوا۔ پھانکی ایسا ٹوٹی کہ سوکھی دیہہ سوکھی ہی رہ گئی۔ نہ کبھی اس پر گوشت چڑھا، نہ وہ ماں کو چھوڑ کر شوہر کے گھر جا سکی۔ ہاں مہینے دو مہینے میں ایک بار شراب کے نشے میں ضرور وہ پھانکی کے پاس آ کر ہنگامہ کرتا، رات بھر سوتا پھر صبح نکل جاتا۔  ایسے میں کاکی اسے گالیاں بکتے ہوئے کلن بی کی جھگی کا سہارا لیتیں۔  ایک رات کی قیمت پھانکی کو نو مہینے کے پیٹ سے چکانے پڑتی۔  اس کے شوہر نے چند برس بعد میں دوسری شادی کر لی۔  اب دوسری بیوی سے اس کے شوہر کے تین چار بچے ہو چکے ہیں۔  رکشہ چلاتا ہے، کبھی کبھار سڑک پر دکھائی پڑ جاتا ہے تو پھانکی کو بغیر پیسے لئے بستی تک لا کر پہنچا دیتا ہے۔ پھانکی سب کے بیچ بیٹھ کر اس کی محبت کا دم بھرتی ہے۔  اس کے نام کا سیندور لگاتی ہے۔  کروا چوتھ کا برت رکھتی ہے۔  اور اپنے کو بیاہتا کہتی ہے۔  پھانکی کے اندر اپنے شوہر کے لئے اب کوئی ناراضگی نہیں بچی تھی۔ وہ سینہ ٹھوک کر اپنی سوت کے لئے کہتی ہے کہ اگر اس چڑیل نے اس کے شوہر پر کالا جادو کر کے اسے پھنسایا نہ ہوتا تو آج وہ اس کے ساتھ رہ رہا ہوتا۔ اس کے بچوں کا باپ ہوتا۔  نشہ خوری نے اس کے شوہر کو پوری طرح برباد کر دیا تھا۔  دن رات وہ کھانسا کرتا۔  اسے ٹی بی کا مرض تھا۔  پھانکی پوری طرح سے کمر کس کر کھڑی تھی کہ آخری وقت میں اگر اس چڑیل نے دغا کیا تو وہ اپنے شوہر کی خدمت کر کے سورگ میں جگہ پائے گی۔  کتنی سستی ہو گئی ہے یہ جنّت بھی۔  جو چاہے زمین خرید لے، جو چاہے جگہ بنا لے۔

٭٭٭

 

۱۴۔ کوئی موسم رہے جاناں

کوئی موسم رہے جاناں / مجھے اچھا نہیں لگتا/ بنا تیرے کہیں جانا / کسی سے بات کرنا/ اچھا نہیں لگتا/ ہراک جانب/ ہوائیں زہر اڑاتی ہیں / فضا میں درد دہراتی ہیں / یہ کیسا پیار ہے تیرا/ کہ میرے ہونٹ اب تک ناآشنا ہیں / تیرے ہونٹوں کی محبت خیز گرمی سے/ تیرے جذبات پر پہرے/ یہ کیسے ہیں / تیرے رستوں پر جتنی کرچیاں ہیں / ان کو پلکوں سے اٹھاؤں گی/ تیری دنیا بدل دوں گی/ تیری دنیا کو ایک اچھا نیا عنوان دینے کو/ تیرے رستے پہ کب سے میں کھڑی ہوں / اور کتنی دیر سے آنکھیں بچھائے ہوں / کہاں کھویا ہوا ہے تو/ یہ پورا جسم تیرا ہے فقط تیرا/ تیرا مسکن، ترا منظر/ دھڑکتے بولتے رنگوں کی دنیا میں / چلے آؤ، چلے آؤ/ کہ رستہ تکتے تکتے/ تھک چکی ہوں، تھک چکی ہوں میں۔ ۔ ۔

مرد عورت کے تئیں جب محبت کا اظہار کرتا ہے تو اس کی منشا یہ ہوتی ہے کہ وہ اتنا لمحہ اپنے لئے اور خالص اپنے لئے رنگین بنا سکے۔  جبکہ عورت محبت کے ان لمحات کو اپنی زندگی کا حاصل مان بیٹھتی ہے۔  اور پھر ایک تقاضے دار کی طرح مرد کے بند کواڑ پر دستک دیتی رہتی ہے۔  مرد اس دستک کی آواز سے اپنی انا کی تسکین پاتا ہے۔

میں کشو سے محبت کر کے اپنا سب کچھ ہار چکی تھی اور کشو میری محبت کو حاصل کر کے پوری خلق جیت لینا چاہتا تھا۔ رکتی چلتی ٹرین منزل کی طرف بڑھتی جا رہی تھی۔ ہر اسٹیشن پر لوگ چڑھتے اترتے۔  کچھ نئے چہرے میری برتھ پر بھی آ کر بیٹھ گئے۔  یہ سبھی لڑکے کسی امتحان سے فارغ ہو کر جا رہے تھے کیوں کہ ان میں پرچے میں کیا صحیح لکھا، کیا غلط لکھا کہ زور دار بحث چل رہی تھی۔  ہر تھوڑی دیر بعد ٹرین رک جاتی۔  معلوم ہوا یہ بغیر ٹکٹ چڑھے ہوئے طلبا ہیں جو بار بار چین کھینچ کر کود جاتے ہیں۔  بھیڑ سے زیادہ تکلیف دہ تھا سگریٹ کا دھواں۔ سگریٹ کے دھوئیں سے زیادہ بری لگ رہی تھی لوگوں کے جسموں سے آتی عجیب عجیب قسم کی بو۔  بھیڑ اتنی زیادہ تھی کہ لوگ کھڑے ہو کر اپنا سفر پورا کر رہے تھے۔ دو چار لوگ تو میرے سامنے بھی کھڑے تھے۔ غنیمت تھا کہ میں کھڑکی سے لگی بیٹھی تھی اس لئے دم گھٹنے لگتا تو کھڑکی کی طرف منہ کر کے گہری گہری سانسیں لے لیتی۔  لیکن باہر بھی ہوا نہیں تھی۔  جولائی کا مہینہ ہونے کی وجہ سے ماحول میں امس تھی۔  آسمان پر ہلکے بادل تو تھے مگر ہوا سے پتہ نہیں کھڑک رہا تھا۔  بات چیت اور لوگوں کی آواز سے مجھے انداز ہ ہوا کہ ٹرین کی چھت پر بھی کچھ لوگ موجود ہیں۔  زندگی خطرے میں پڑ سکتی تھی۔ کوئی حادثہ ہو سکتا تھا۔  اسی طرح جیسے اس وقت میں حادثے سے گزر رہی تھی۔  ہو سکتا ہے لوگ اسے حادثہ نہ کہیں مگر میرے لئے تو یہ ایک حادثہ ہی ہے۔  جس وقت سے فون آیا ہے میں باولی ہو اٹھی۔  نہ ناشتہ کیا، نہ دن کا کھانا کھایا اور اپنے کمرے میں چکّر کاٹتی جا رہی تھی، سوچتی جا رہی تھی، الجھتی جا رہی تھی۔  فرار کا کوئی راستہ نہیں تھا اور میں یہ جانتی تھی کہ میں یہ کام نہیں کر سکتی۔  ہر انسان کا اپنا ایک مزاج ہوتا ہے۔  جینے کا ایک رویہ ہوتا ہے اور اگر وہ اپنے مزاج اور رویے سے الگ جیتا ہے تو سلگتے سلگتے اسی طرح بجھ جاتا ہے جیسے دیوالی کا کوئی گیلا پٹاخہ۔  سب کی توجہ کا مرکز بن کر بھی صفر رہتا ہے۔  اور پھر پاؤں کی ٹھوکر سے اسے کنارے کر کے نیا پٹاخہ سلگا دیا جاتا ہے۔

 منظرِ عام پر آ کر سیاست کی جنگ میں کودنا اور پھر ہار کر کمرے میں چھپ جانا، میں اپنا مقدر نہیں بنانا چاہتی تھی اس لئے پھڑ پھڑا رہی تھی مگر جانتی تھی کہ شکاری اتنا ماہر ہے کہ اسے پتہ ہے کہ پھڑ پھڑاتے پروں کو کیسے انگلیوں کی گرفت میں لے کر پکڑا جاتا ہے اور پتلی سلاخوں سے بنے پنجڑے میں قید کر دیا جاتا ہے۔  میں سوچ سوچ کر تھک گئی اور تھکتے تھکتے ہار گئی۔ ہارا ہوا آدمی ایک ہی بات سوچتا ہے فرار۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  میں بھاگ جانا چاہتی تھی، کہیں دور بہت دور کہیں ایسی جگہ جہاں پہنچ کر کوئی جان نہ پائے، پہچان نہ پائے، مجھ پر دباؤ ڈال کر میری مرضی کے خلاف مجھے جینے کے لئے مجبور نہ کر سکے۔  کاش! میں نے کوئی شانہ ڈھونڈا ہوتا جہاں میں سہارا لے کر  اس کے شانے پر اپنا سر رکھ کر سسک پاتی، دل کا غبار نکال پاتی، اتنے آنسو بہا پاتی کہ بہنے کے لئے ایک قطرہ بھی باقی نہ رہتا۔  میں کہاں جاؤں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کس کی پناہ میں جاؤں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو لوگ بھی میرے ارد گرد تھے، جنہیں میں جانتی تھی، جن کے ساتھ میں اپنا وقت گزارتی تھی – ان میں سے کوئی بھی ایسا نہیں تھا جس کی گود میں سر رکھ کر  میں رو پاتی، روتے روتے تھک کر میں سو پاتی، جو میرے بالوں میں اپنی مضبوط انگلیوں کالمس دے کر مجھے تحفظ کا احساس دے پاتا اور کہتا۔  ڈرو نہیں وہی ہو گا جو تم چاہو گی۔

مگر فکر کے یہ سارے تانے بانے میری سوچ کا حصہ تھے۔  عملی زندگی میں ان کا سچ کہیں نہیں تھا۔  جب سے فون آیا تھا میں دہکتے انگاروں پر بیٹھ گئی تھی۔  یہ بھی کوئی بات ہوئی کہ جیسا آپ نے سوچا میں اپنے آپ کو ویسا ہی ڈھال لوں۔  خود کو ڈھالنے کی بھی ایک عمر ہوتی ہے اور اس کے بعد انسان ڈھلتا نہیں ٹوٹتا ہے۔  میں ٹوٹ رہی تھی، بکھر رہی تھی۔  مجھے سہارا چاہئے تھا مگر کس کا؟ کوئی اپنا سامنے نہیں تھا مگر ڈوبتے کو تنکے کا سہارا بہت ہوتا ہے۔  میں نے ابّی کے شہر کی طرف رخ کیا۔  کم سے کم یہ جگہ ایسی تھی جہاں میں پناہ لینے کے لئے جاؤں تو کوئی مجھے نکال نہیں سکتا تھا۔  دو چار دن گزاروں گی پھر اپنے سنہرے قفس میں واپس لوٹ جاؤں گی۔  ایسا نہیں تھا کہ میں پنجڑے میں قید تھی لیکن کبھی کبھی مجھے قیدی ہونے کا احساس کرایا جاتا تھا تاکہ میں وہی کروں، وہی سوچوں جس کی امید مجھ سے کی جا رہی ہو تی ہے۔

ایک ہفتے کا وقت مجھے سوچنے کے لئے دیا گیا ہے۔  آخر میں مجھے سوچنا وہی ہے جو وہ میرے لئے سوچ رہا ہے۔  مجھے ہر حال میں ہاں کہنی ہے مگر ہاں کہنے کے بعد جو قیمت مجھے ادا کرنی پڑے گی، اسی کے متعلق سوچ سوچ کر میں پریشان تھی۔  ریزرویشن کرانے کا وقت نہیں تھا۔  کشو کا آرڈر تھا کہ میں کبھی بھی رات کا سفر بائی روڈ نہ کروں، اس لئے اپنی کار سے جا نہیں سکتی تھی۔  لکھنؤ سے رامپور تک کا لمباسفر تھا، میں خود بھی ڈرتی تھی اس لئے میں نے فیصلہ کیا کہ ٹرین سے جنرل بوگی میں ہی جاؤں گی۔  اگر یہ قدم نہ اٹھاتی تو سوچتے سوچتے مجھے برین ہیمبریج ہو جاتا یا پھر ڈیپ ڈپریشن میں چلی جاتی۔  میرا فیصلہ بالکل صحیح تھا۔  مجھے اسی وقت اپنا گھر، اپنا شہر کچھ دنوں کے لئے چھوڑ دینا چاہیے۔  شدید تناؤ کا یہ لمحاتی دور نکل جائے تو پھر ٹھنڈے دماغ سے سوچوں گی کہ کیا کرنا ہے۔  حالانکہ یہ میری اپنی سوچ تھی کہ میں سوچوں گی، سچائی یہ تھی کہ مجھے وہی سوچنا تھا جو اس کمبخت نے  میرے لئے سوچ رکھا ہے۔

’’میں دو چار دن کے لئے ابّی کے پاس جا رہی ہوں ابھی اسی وقت۔ ‘‘

’’میرا یہ فیصلہ سن کر گڈو اور ملازمہ کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا کیوں کہ میں شہر سے باہر جانے سے پہلے نہ جانے کتنے کام اور بے شمار ہدایتیں دے کر نکلتی تھی تاکہ میری غیر موجودگی میں کوئی گڑبڑ نہ ہونے پائے۔ ‘‘

’’باجی! گاڑی کی سروسنگ ہونی ہے۔  ابھی یہ اس قابل نہیں ہے کہ لمبے سفر پر لے جائی جا سکے۔ ‘‘

’’کوئی بات نہیں ! تم کل صبح ہی اسے سروسنگ پر دے آنا۔ ‘‘

’’تو کیا آپ کے لئے کوئی ٹیکسی بک کر ا دوں۔ ‘‘

گڈو کی پریشانی میں نے بھانپ لی تھی۔  میرا چھوٹا سا جواب تھا۔  ’’نہیں۔ ‘‘

’’پھر آپ کیسے جائیں گی۔  اتنی جلدی میں تو ٹرین سے ریزرویشن بھی نہیں ملے گا۔ ‘‘

’’جانتی ہوں اس لئے تو جنرل بوگی میں جا رہی ہوں۔ ‘‘

گڈو کی الجھن اس کے چہرے سے جھلکنے لگی–’’باجی آپ جنرل بوگی میں سفر کیسے کریں گی۔  میں بھی آپ کے ساتھ چلوں۔ ‘‘

’’نہیں میں اکیلی ہی جاؤں گی۔ ‘‘ آواز کی پختگی نے کسی کو بولنے کی گنجائش نہیں دی۔  وقتِ مقررہ پر میں اسٹیشن پہنچ گئی۔  بھیڑ کے باوجود گڈو نے مجھے کھڑکی کے پاس بیٹھا دیا۔

 لگاتار چین پولنگ کی وجہ سے ٹرین دو ڈھائی گھنٹہ لیٹ ہو گئی اور میں اپنی منزل پر صبح دس بجے پہنچ سکی۔

٭

صدر دروازہ جو نقّاشی دار بھاری لوہے کا بنا ہوا تھا، میرے ڈھکیلنے پر کھل گیا۔  ابّی فجر کی نماز کے وقت صدر دروازہ جب کھولتے ہیں تو عشا ء کی نماز کے بعد ہی بند کرتے ہیں۔  صدر دروازے کے بعد ایک چوڑا سا برآمدہ تھا جہاں قطار سے ہرے بھرے گملے سجے تھے۔  دو پرانی وضع قطع کے تخت پڑے تھے۔  چھ سات کرسیاں ایک صف میں لگی تھیں۔ دادا جانی کی قد آدم تصویر جس میں وہ اپنے نوابی انداز میں کھڑے تھے بالکل سامنے کی دیوار میں جڑی تھی۔  برآمد ے کے درمیان میں ایک دروازہ، دروازے کے اندر داخل ہونے پر دس فٹ کی ایک لمبی گیلری پار کرنے پر زنان خانہ آتا تھا۔  برآمدہ اس گھر کا مردانہ حصہ تھا۔  حالانکہ اب کون یہاں آتا جاتا تھا سب پرانے وقتوں کی باتیں ہو چکی تھیں مگر جو اس گھر کی رسم و رواج چلی آ رہی تھی، وہ چلتی جا رہی تھی۔  میں گیلری میں جیسے ہی داخل ہوئی ابّی کے چیخنے چلّانے کی آوازیں آ رہی تھیں۔  وہ کسی بات پر بیحد ناراض تھے۔  میں بغیر کسی اطلاع کے پہنچی تھی اس لئے مجھے اسٹیشن پر نہ کوئی لینے آیا، نہ صدر دروازے پر میرے استقبال کے لئے نیفو کھڑی تھی۔

’’تمہاری ہمّت کیسے پڑی یہ سب کچھ کر ڈالنے کی۔ ‘‘ ابّی کی بھاری آواز پوری گیلری میں گونج رہی تھی۔  میں نے قدم تیزی سے آگے بڑھائے، یا خدا خیر کرنا! کون سی آفت ٹوٹی۔  ابّی کو اتنا غصہ کبھی نہیں آیا تھا کہ ان کی آواز دہلیز سے باہر جائے۔  میں لگ بھگ بھاگتی ہوئی، دالان پار کر کے صحن کی جانب دوڑی کیوں کہ آواز اسی طرف سے آ رہی تھی۔  مجھے دیکھتے ہی ابّی کی آواز جیسے غائب ہو گئی۔  اچانک مجھے دیکھ کر وہ چپ ہو گئے۔  سامنے ہی نیفو سر جھکائے کھڑی تھی۔  اتنا سب کچھ اچانک ہوا تھا کہ مجھے سلام کرنا بھی وہ بھول گئی ہو۔

’’اسلام علیکم ابّی۔  صبح بخیر!‘‘

فریدن بوا نے لپک کر میری چھوٹی سی اٹیچی ہاتھ میں لے لی اور میں آہستہ سے ابّی کے سینے سے لگ گئی۔  وہ بغیر کچھ بولے میرے سر پر محبت سے ہاتھ پھیرنے لگے۔  مجھے یہاں اس طرح دیکھ کر جیسے سب گونگے ہو گئے تھے۔

 گھرکے حالات دیکھ کر مجھے یہ اندازہ ہو گیا تھا کہ ابّی نیفو پر ناراض ہیں اس لئے میں نے کچھ بھی پوچھنا مناسب نہیں سمجھا اور آنکھ کے اشارے سے میں نے نیفو کو اپنے کمرے میں جانے کے لئے کہا۔  اس نے بھی اشارے سے مجھے سلام کیا اور بھیگی آنکھوں کے ساتھ آہستہ آہستہ اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔  ابّی مجھے شانے سے پکڑے ہوئے دالان کی طرف بڑھے جہاں ان کی عالیشان مسہری لگی ہوئی تھی اور اغل بغل دو چار تکیے رکھے ہوئے تھے۔  ہم دونوں مسہری پر بیٹھ گئے۔

’’بیٹی۔  اچانک کیسے آنا ہوا۔  نہ کوئی خبر نہ کوئی اطلاع۔  تمہیں دیکھ کر تو آنکھوں پر یقین نہیں آ رہا تھا۔ ‘‘

’’ابّی میں نے سوچا ہمیشہ بتا کر آتی ہوں اس بار بغیر بتائے چلوں۔  اگر بتا کر آتی تو اپنے ابّی کا غصہ کیسے دیکھتی۔  آپ کو یاد ہے نا وہ بات جب میں نے—‘‘

ابّی ہو ہو کر کے ہنسنے لگے۔  یہ بات میں نے صرف اس لئے چھیڑی تھی تاکہ ابّی کو ہنستا دیکھ سکوں۔

یہ ان دنوں کی بات ہے جب میرا شعور پوری طرح سے بالغ نہیں ہو ا تھا۔  میں اور فردوس اکّٹ دکّٹ کھیل رہے تھے۔  فردوس کے پیرکے پنجے کھینچی گئی لکیر پر پڑ گئے تھے اور وہ آؤٹ ہو گئی۔  اب میرا موقع تھا لیکن فردوس بہت ضدی تھی۔  اس نے ماننے سے انکار کر دیا تھا کہ وہ آوٹ ہو گئی ہے۔ تھوڑی لڑائی، جھگڑے کے بعد میں نے ہاتھ کی دونوں مٹّھیوں سے اس کے گھنگھریالے بالوں کو پکڑ لیا اور زور زور سے ہلانے لگی  جیسے اب ان بالوں کو اکھاڑ کر ہی دم لوں گی۔  فردوس پورا منہ کھول کر چیخ رہی تھی۔  چھوٹی امّی اپنے ساتھ فریدن بوا کو لے کر کہیں میلاد شریف میں گئی ہوئی تھیں۔  دو سال کی ننھی نیفو کو جانے کیا سوجھی کہ وہ تالیاں بجا بجا کر اچھلنے لگی۔  زور زور سے ہنس کر جیسے وہ میرا جوش بڑھا رہی تھی۔  میں پوری طاقت کے ساتھ مٹّھی میں جکڑے اس کے بال کھینچ رہی تھی تبھی ابّی آ گئے۔  وہ تیزی سے ہم لوگوں کی طرف بڑھے۔  میں بال چھوڑ کر بھاگنا چاہتی تھی مگر میری انگلیوں میں فردوس کے بال الجھ گئے۔  لمبے برآمدے کو پار کرتے ہوئے ابّی کے بھاری بھاری قدموں کو اپنی طرف آتا دیکھ کر میں بھی ڈر سے چیخ کر رونے لگی۔  نیفو نے بغیر کسی وجہ کے چیخنا شروع کر دیا۔  ایک کہرام سا مچ گیا۔  ابّی بدحواس ہو گئے تھے۔  انہیں اپنے اتنے قریب دیکھ کر میں خوف سے کانپنے لگی تھی۔  ابّی نے ایک باپ کی طرح اکڑو ں بیٹھ کر ہم تینوں کو اپنے سینے سے لگا لیا۔  اچانک وہ بلبلا کر اٹھ کھڑے ہوئے اور اپنی ناک پر رومال رکھ کر ہم تینوں کے پچھلے حصوں کو دیکھنے لگے۔  ابّی کے ڈر سے میں نے اپنی شلوار گیلی پیلی کر دی تھی۔ مجھے بڑی نالی کے کنارے کھڑا کر دیا گیا جب تک فریدن بوا لوٹ کر نہیں آئیں تب تک مجھ اسی طرح کھڑے رہنا تھا۔

میں نے اشارے میں ابّی کو وہ واقعہ یاد دلا کر ہنسا دیا اور ان کا غصہ کافی حد تک ٹھنڈا پڑ گیا۔  چہرے کا تناؤ کم ہو گیا تھا۔  جب تک میں نہا کر لباس تبدیل کر کے آتی تب تک فریدن بوا نے پراٹھے آملیٹ اور دو تین قسم کی سبزیوں کے ساتھ گرم گرم شامی کباب بھی میز پر چن دئے تھے۔ میں واقعی بہت بھوکی تھی۔ بھر پیٹ ناشتہ کیا اور وہیں ابّی کی مسہر ی پر لیٹ گئی۔  پھر مجھے ہوش نہیں رہا کہ میں کتنی دیر تک سوتی رہی۔

اٹھی تو خود کو کافی حد تک ہلکا پھلکا محسوس کر رہی تھی۔ جو ذہنی تناؤ مجھے میرے گھر پر تھا وہ ختم ہو چکا تھا۔ ماحول بدلا، لوگ بدلے تو سوچ بھی بدل گئی۔ شاید ان ہی وقتوں میں اپنوں کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔  ابّی میری بغل میں ہی بیٹھے کوئی حدیث شریف پڑھ رہے تھے۔

’’اٹھ گئیں بیٹی!‘‘

’’جی ابّی!‘‘

’’بہت تھکی ہوئی لگ رہی تھی۔ لیٹتے ہی سوگئی۔ ‘‘

’’جی ابّی!‘‘

’’سب ٹھیک ہے نا!‘‘ ان کی گہری نگاہیں میرے چہرے پر ٹکی تھیں۔

’’ہاں ابّی سب ٹھیک ہیں ! آپ کی یاد آ رہی تھی اس لئے ملنے آ گئی۔ ‘‘

’’بہت اچھا کیا آ گئیں۔  نیفو نے بیحد پریشان کر رکھا ہے۔ ‘‘

’’کیا ہوا ابّی۔ ‘‘

’’پتہ نہیں تمہیں معلوم ہے کہ نہیں، اس لڑکی نے فردوس کے لائے ہوئے رشتے کو ٹھکرا دیا۔  میں چپ رہا کہ چلو بھئی جسے زندگی گزارنی ہے جب وہ رضامند نہیں تو زبردستی کس لئے!یہاں تک تو ٹھیک ہے مگر اس نے جس بیباکی سے اگلا قدم اٹھایا، وہ مجھے بے حد ناگوار گزرا۔  ایک بار اس کی بیباکی کیا گل کھلا چکی ہے یہ تم جانتی ہی ہو۔  اس بار پھر—–‘‘

’’اس بار کیا ہوا ابّی۔ ‘‘ سب کچھ جانتے ہوئے بھی میں نے پوچھا—’’اس بار اس نے مجھے بغیر خبر دئے بی ایڈ کا فارم بھر دیا۔  ناہید کے ذریعہ فیس بھی بھروا دی، کتابیں منگوا لیں اور میرے علم میں کچھ نہیں —–اگلے ہفتے سے اس کا امتحان شروع ہو رہا ہے۔ وہ تو کہو ایڈمٹ کارڈ میرے ہاتھ لگ گیا تو مجھے پتہ چل گیا ورنہ یہ کب چپکے سے نکل کر امتحان دے آتی مجھے معلوم ہی نہیں ہو پاتا۔  دن دن بھر تو اپنے کمرے میں پڑی رہتی ہے۔  کب کمرے میں ہے، نہیں ہے مجھے کیا پتا چلتا۔  اب نوبت یہ آ گئی ہے کہ میرے گھر میں کیا ہو رہا ہے مجھے ہی جانکاری نہیں۔  آج صبح میں اسی لئے ناراض ہو رہا تھا۔ ‘‘

’’ابّی بی ایڈ کا امتحان دینے کے لئے میں نے ہی کہا تھا۔ ‘‘

ابّی پوری آنکھیں کھول کر مجھے دیکھ رہے تھے۔  ان کی آنکھوں میں حیرانی بھی تھی، غصہ بھی تھا اور میرے لئے بے اعتمادی بھی۔  ’’کیوں ‘‘ ان کی آواز بھاری ہو گئی۔

’’کیوں کہ میں چاہتی ہوں کہ وہ اپنے پیروں پر کھڑی ہو جائے۔ ‘‘

’’وہ نوکری کرے گی؟‘‘

’’جی! اس میں برا کیا ہے‘‘

’’اب اس گھر کی بیٹیوں کے لئے بس یہی کام رہ گیا تھا کہ وہ مردوں میں جا کر روٹی کمائیں۔  واہ بیٹی واہ! بھول گئیں کہ تمہاری وجہ سے ہی میں نے اسے کالج میں لڑکوں کے ساتھ پڑھنے کی چھوٹ دی۔  نتیجہ کیا ہوا، تمہارے سامنے ہے۔  اور پھر جس کا باپ محتاج ہوتا ہے اس کی بیٹیاں باہر روٹیاں کمانے نکلتی ہیں۔ ‘‘

ان کی آواز میں بے پناہ غصہ اورتاسف تھا۔  وہ آہستہ بول رہے تھے مگر ان کے الفاظ برچھی کی طرح دل میں اتر رہے تھے۔

’’ابّی سڑک پر چلنے سے اگر ایک بار حادثہ ہو جائے تو اس کا مطلب یہ قطعی نہیں ہوتا کے ہم ہر بار جب بھی قدم اٹھائیں، ، حادثے کا شکار ہو جائیں۔  یہ گزرے وقت کی سوچ ہے کہ محتاجی لڑکی کو گھر سے باہر لے جاتی ہے اب لڑکیاں معاشی اور ذہنی طور پر خود مختار ہو رہی ہیں۔ ‘‘

’’لگتا ہے تم نے زیادہ پڑھ لکھ لیا ہے۔ ‘‘

’’نہیں ابّی! آپ نے تو میر شادی انٹر میڈیٹ کے بعد ہی کر دی تھی۔ ‘‘ میں نے چھوٹی بچی کی طرح معصومیت سے کہا۔  میں ابّی کا موڈ خوشگوار کرنا چاہتی تھی مگر وہ چپ رہے۔  ان کا سر جھکا تھا۔ ان کی ہلتی ہوئی داڑھی بتا رہی تھی کہ وہ اندر ہی اندر سسک رہے ہیں۔

میں اپنی بانہیں ان کے گلے میں ڈال کر ننھی بچی کی طرح جھول گئی۔

’’ابّی اس بار جب آپ حج کرنے جائیں تو میرے لئے وہاں کا کوئی خاص تحفہ لے کر آئیے گا۔ ‘‘

ابّی چپ رہے۔ میں ان کو پچھلے حج کی بہت سی باتیں جو انہوں نے مجھے بتائی تھیں، یا د کرا کرا کر ان کو بہلاتی رہی۔  انہیں میں کسی بچے کی طرح پھسلا رہی تھی اور تھوڑی دیر میں وہ ہمارے پرانے ابّی ہو گئے۔  ان کا غصہ تقریباً ختم ہو گیا تھا۔  میں نے فریدن بوا کو بھیج کر نیفو کو بلوایا اور آنکھ کا اشارہ کر کے اسے بناوٹی غصے سے بہت ڈانٹا–’’تم نے ابّی کو کیوں نہیں بتایا کہ تم بی ایڈ کرنا چاہتی ہو۔  کیا ابّی نا کہہ دیتے؟ ہمارے ابّی ایسے نہیں ہیں وہ لڑکیوں کی تعلیم اور نوکری کے خلاف نہیں ہیں بشرطیکہ لڑکیاں اپنی حد، اپنی تہذیب میں رہ کر اپنے دائرے میں ہی تعلیم حاصل کریں، نوکری کر کے اپنے پیروں پر کھڑا ہونا اچھی بات ہے۔  کم سے کم زندگی سے جنگ کرنے کا جذبہ تو بنا رہتا ہے۔  کیوں ابّی بتائیے کیا آپ لڑکیوں کی تعلیم اور نوکری کے خلاف ہیں۔ ابّی نے بے بسی سے نہ میں گردن ہلا دی مگر زبان سے کچھ نہیں بولے۔

 چلو ابّی کے قدموں میں اپنی پیشانی رکھ کر معافی مانگو کہ آئندہ کبھی کوئی غلط حرکت نہیں کرو گی، ابّی سے کچھ چھپاؤ گی نہیں، خاندان کی عزت کا خیال تمہیں ہمیشہ رکھنا ہے۔ تم وہی کرو گی جس میں تمہاری بھی بہتری ہو گی اور ہم سب کی بھی۔

میں نے آنکھ سے اشارے سے اسے ابّی کے قدموں پر گر کر معافی مانگنے کے لئے کہا۔  اس نے جھک کر دونوں ہاتھ سے ان کے دونوں پیروں کو پکڑ لیا۔  اب میں انتظار کرنے لگی کہ اب وہ کچھ بولیں۔ لمحے خاموشی سے گزرنے لگے میں نے دل ہی دل میں کہا کمبخت معافی کیوں نہیں مانگتی جلدی کر، مگر وہ جھکی رہی، چپ رہی، اور آہستہ آہستہ اس کا جسم جنبش کرتا رہا۔ اچانک وہ پھوٹ پڑی۔  آنسوؤں کا سیلاب سا بہہ نکلا۔  اس کے ہونٹوں سے بے ساختہ چیخیں نکلنے لگیں۔  وہ جھکے جھکے ہی ابّی کے قدموں میں ڈہہ سی گئی۔  ابّی ابّی کہتے ہوئے وہ اتنی ہچکیاں لے کر رو رہی تھی کہ میں خود بدحواس ہو گئی، سوچ میں پڑ گئی۔  ڈرامہ کر رہی ہے یا سچ مچ رو رہی ہے۔ ابّی کا جسم کانپ رہا تھا۔  آنسوؤں سے ان کی داڑھی تر ہو رہی تھی وہ اسے اٹھا کرا پنے سینے سے لگانا چاہتے تھے کہ اچانک اس کا رونا بند ہو گیا۔  بالکل خاموشی چھا گئی نیفو  کو اٹھانے کے لئے میں جھکی تو اس کا جسم مسہری پر ایک طرف لڑھک سا گیا۔  وہ بے ہوش ہو چکی تھی۔

ایک ڈرامائی سین اپنے اختتام پر پہنچا مگر اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ابّی کا دل نیفو کی طرف سے بالکل صاف ہو گیا۔ نیفو کو امتحان دینے کی اجازت مل گئی۔ مجھے یقین تھا کہ جب نوکری کی بات آئے گی تو اس کے لئے بھی رضا مندی مل جائے گی۔

ابّی کے گھر میں گزرا ہوا میرا پہلا دن طوفانی ہونے کے باوجود بھی خوشگوار رہا۔  کئی مشکلیں آسانی سے حل ہو گئیں تھیں۔

میں اپنے گھر سے جو انتشار لے کر نکلی تھی۔  اس کا ذہنی دباؤ کافی حد تک مجھ سے دور ہو گیا تھا۔  میں خود کو ہلکا پھلکا محسوس لر رہی تھی۔ اگر تن اور من دونوں درست رہیں تو بہت سی لڑائیاں ہم بغیر لڑے اپنے دماغ سے جیت سکتے ہیں۔  اپنی فکر اور اپنے بنائے ہوئے راستے پر چل کر۔

شام کو ہم دونوں بہنیں شاپنگ کرنے کے بہانے گھومنے پھرنے نکل گئیں۔

٭

ابّی کے گھر میں سب کچھ ویسا ہی ہوا جیسا میں چاہتی تھی۔  اپنے گھر کا مورچہ مجھے کیسے سنبھالنا ہے؟ یہ سوال ابھی میں اپنے ذہن میں نہیں لانا چاہتی تھی کیوں کہ دوچار دن سب کچھ بھول کر میں زندگی جینا چاہتی تھی تاکہ آگے کی لڑائی کے لئے میں کمان سنبھال سکوں۔  میرے ترکش میں تیروں کی کمی نہیں تھی مگر اس کا استعمال کب اور کیسے کرنا ہے، یہ مجھے سوچنا تھا اور سوچنے کے لئے ابھی وقت تھا۔

مجھے یہاں آ کر معلوم ہوا کہ فردوس کی ساس کا انتقال ہو چکا ہے اور میرے آنے کے دوسرے دن یعنی آج ان کا دسویں کا فاتحہ ہے۔ یوں تو ابّی اور نیفو وہاں تعزیت میں جا چکے تھے آج بھی انہیں جانا تھا، کیوں کہ فردوس کو میری آمد کی خبر مل گئی تھی اس لئے میرا جانا بھی لازمی ہو گیا تھا۔  میں اندر ہی اندر بہت کڑھ رہی تھی اور فردوس کے سسرال جانا نہیں چاہتی تھی مگر اس غمی کے موقع پر جانے سے انکار کرنا میرا بڑ پن نہیں ہوتا۔  مجھے اس کے گھر گئے ہوئے ایک طویل عرصہ ہو گیا تھا۔  غالباً میں صرف اس کی شادی میں گئی تھی اور ولیمے کی دعوت کھا کر نکلی تو کبھی پلٹ کر نہیں گئی۔

 سب کے ساتھ میں فاتحہ میں شامل ہو گئی۔  آٹھ نو کمروں کا ایک بڑا سا روایتی انداز کا بنا ہوا پرانا گھر۔  چچا، بابا، دیور، جیٹھ سبھی ایک ساتھ رہتے تھے۔  سب میں کتنا آپسی میل جول تھا یہ تو میں نہیں بتا سکتی مگر جو دکھائی دے رہا تھا اس میں ساری کی ساری جوان بہوئیں بڑی بڑی دیگیں پکانے میں مشغول تھیں۔  میں دیکھ کر حیران ہوئی کہ وہاں کوئی باورچی یا ملازم کام پر نہیں تھے جب کہ ان کے گھر میں پیسوں کی کمی نہیں تھی۔  سبھی مرد مل کر تانبے کے برتن کی تجارت کرتے تھے۔  برتنوں پر ان کی بنوائی ہوئی نقّاشی دور دور تک مشہور تھی۔

میں قرآن پڑھ رہی تھی بیچ بیچ میں نگاہیں اٹھا کر فردوس کو بھی تلاش کر لیتی۔  بھیڑ بہت تھی۔  میں نیفو کے ساتھ کنارے بچھی قالین پر بیٹھی تھی۔ ابی مردانے میں تھے۔  اچانک میرے نگاہ صحن کے ایک کونے پر گئی۔  اور میں آنکھیں پھاڑ کر اسی منظر کو دیکھتی رہی۔  فردوس کسی مشین کی طرح جٹی ہوئی تھی۔  ایک بڑے سے سل پر ڈھیر ساری دھنیا رکھے وہ جھوم جھوم کر ایسے پیس رہی تھی جیسے کوئی موسیقی کی مستی میں جھوما کرتا ہے۔  اس نے بڑے سے پتھر کے بٹّے کے دونوں کناروں کو مٹھّیوں سے پکڑ رکھا تھا اور کندھے کو جھلاتی ہوئی گھسر گھسر کی آوازیں کرتی دھنیا کو پیس رہی تھی۔ ا چانک دوسال کا اس کا بچہ روتے ہوئے اس کے قریب آیا۔  اس نے دائیں بائیں دیکھا، دو پٹے کو پھیلایا اور بچے کا منہ اپنے سینے سے لگا لیا۔  روتا ہوا بچہ ماں کا دودھ پا  کر چپ ہو گیا اور وہ پھر سے دھنیا پیسنے لگی۔  اگر میرا اور اس کا موازنہ کیا جائے تو کہیں سے بھی وہ دولت میں مجھ سے کم نہیں تھی۔  انٹر تک کی پڑھائی اس نے بھی کی تھی مگر کہیں سے بھی اسے پڑھی لکھی نہیں کہا جا سکتا تھا۔  کتنی جلدی عورتیں سمجھوتا کر لیتی ہیں۔  شوہر کے گھر میں جیسا پہلے سے چل رہا ہوتا ہے اسی میں اپنے کو ڈھال لیتی ہیں۔  میں جانتی ہوں ابّی نے اسے مکسی دی تھی مگر اب مکسی کہاں ہے کس حال میں پڑی ہے یہ فردوس ہی جانتی ہو گی۔  اگر وہ اپنے شوہر سے مکسی لانے کو کہتی تو کیا وہ انکار دیتا۔  مگر فردوس جیسی عورتیں یہی سوچتی ہیں کہ جو جیسا ہے سب ٹھیک ہے۔  جیسا مرد چلا رہے ہیں منہ سلے ویسے ہی چلتے رہو۔  نہ اپنی سوچو، نہ اپنی کہو۔

فاتحہ شروع ہو چکا تھا، میں نے جتنی سورۃ پڑھی تھی نوٹ کروا دی۔  اس بیچ فردوس میرے پاس آ کر سلام کر کے جا چکی تھی۔  ایک دو بار پانی کے لئے بھی پوچھ چکی تھی۔

طے شدہ وقت پر کھانا کھایا گیا اور سب اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہو گئے۔  میں بھی فردوس اور اس کے شوہر سے مل کر تسلی کے کلمات ادا کر کے واپس آ گئی۔  ابّی کے چہرے پر گہری سنجیدگی تھی۔   چہرے پر غمی کے ماحول سے لوٹنے کے اثرات تھے۔  نیفو اپنے کمرے میں چلی گئی اور میں ابّی کی دلجوئی کے لئے ان کے پاس ہی بیٹھ گئی۔

’’تو بیٹی! تمہارا کل جانا طے ہے۔ ‘‘

’’جی ابّی! میرے لئے کل لوٹ جانا ہی مناسب ہو گا۔ مجھے یاد تھا کہ پرسوں وہ مدّت ختم ہو رہی ہے اور پرسوں کے بعد کسی دن بھی، کسی وقت بھی، کشو کا فون آئے گا۔  چاہے میں جتنا سوچ لوں جتنی فراری لے لوں مجھے اس سے بات تو کرنی ہی پڑے گی اور ہاں میں جواب بھی دینا ہو گا۔  نہ کہہ کر میں اپنے آپ کو نئے عذاب میں گرفتار نہیں کرنا چاہتی تھی۔

  میرا، ابّی کے گھر آنے کا مقصد صرف اتنا تھا کہ میں ذہنی اور جسمانی طور پر تر و تازہ ہو کر اس دباؤسے اپنے آپ کو بچا سکوں جو مجھے بیمار کر سکتا تھا۔  جو بھی ہو گا جیسا بھی ہو گا دیکھا جائے گا۔  میں کوئی پھول سونگھی نازک جان تو ہوں نہیں کہ ذمہ داریاں نہ سنبھال پاؤں اور نہ اتنی چھوئی موئی ہوں کہ مجمعے اور مردوں کی بھیڑ کی نفسیات کو سمجھ کر کیا کرنا ہے، اتنا بھی نہ جان سکوں۔

بہت دیکھی ہے میں نے دنیا کی اونچ نیچ۔ چلو، ایک نیا تجربہ اور صحیح۔  جیت گئی تو واہ واہ ہار گئی تو اس کے لئے خود کشو ذمہ دار ہو گا کیوں کہ پہلی ہی بار میں میں نے اسے نا کہہ دیا تھا۔  اچھا نتیجہ نکلے گا تو اپنے حق میں لوں گی۔  برا ہو گا تو کشو کی جھولی میں ڈال دوں گی اور وہ اسے سمیٹنے سے انکار نہیں کر سکتا۔  اب جلد ہی مجھے اپنی زندگی کا ایک نیا مورچہ کھولنا تھا۔

’’کیا بات ہے بیٹی!تم ہمارے پاس بیٹھ کر بھی یہاں موجود نہیں ہو۔ کوئی پریشانی ہے؟ سب ٹھیک تو ہے نا!اس بار تم بہت دبلی لگ رہی ہو بیٹی۔  اپنی صحت کا خیال رکھا کرو۔ ‘‘

میں ابّی کو کیسے بتاتی کی صحت کی خرابی کے دن اب شروع ہوں گے جب مجھے کڑی محنت سے آگے بڑھنا پڑے گا۔  نہ کھانے پینے کا وقت ملے گا اور نہ سونے جاگنے کا۔ جب فرصت مل جایا کرے گی کھا لوں گی سو جاؤں گی۔  اگلے پل کب جاگنا پڑے معلوم نہیں۔

اچانک فون کی گھنٹی نے ہم دونوں کو چونکا دیا۔  شاید ہم دونوں ہی اپنی اپنی سوچ میں ڈوبے تھے۔

’’ہیلو‘‘ میں نے فون ریسیو کیا۔

’’ہیلو! السلام علیکم بھابی صاحبہ۔ ‘‘ لائن پر دوسری طرف ڈاکٹر رحمن کی آواز مجھے سنائی دی۔

’’وعلیکم السلام کام ٹھیک چل رہا ہے نا! بس اسی مہینے سب مکمل کروانا ہے۔ کشو سے آپ کی بات ہوئی یا نہیں۔ ‘‘

’’بھائی سے بات تو نہیں ہوئی ہے مگر میں ایک مشکل میں پڑ گیا ہوں۔ ‘‘

’’کیا ہوا؟‘‘ میں اس سے زیادہ پریشان ہو اٹھی۔

’’کل مزدوروں کے کام کو دیکھنے لوکیشن پر گیا تھا۔ انجانے میں میرا پیر غلط طریقے سے ایک پتھر پر پڑ گیا۔  میرے داہنے پیر میں موچ آ گئی ہے۔  میں اپنے کمرے میں تنہا پڑا ہوا ہوں۔ ‘‘

’’یہ تو بیحد افسوس کی بات ہے۔ میں کل پہنچ کر کام تو سنبھال لو ں گی مگر ابھی آپ کا کام کیسے چل رہا ہے۔  کھانا پینا سب کیسے ہو رہا ہے۔ ‘‘

میں جانتی تھی کہ وہ گھر میں خود کھانا بنا کر کھاتے ہیں اچانک مجھے ڈاکٹر رحمن کے اکیلے پن کا احساس ہوا۔  کشو نے مجھ سے کہا تھا کہ رحمن کے لئے کوئی اچھی لڑکی ڈھونڈ لو میرے ذہن سے یہ بات نکل گئی اور دوبارہ نہ کشو نے یاد دلایا، نہ ڈاکٹر رحمن نے۔

’’ہیلو!‘‘

’’جی بھابھی صاحبہ!‘‘

’’میں گھر پر فون کر دیتی ہوں جب تک آپ ٹھیک نہ ہوں آپ کو ہماری ملازمہ کے ہاتھ کا کھانا کھانا پڑے گا۔ ‘‘

’’ارے بھابھی! کیوں تکلیف کر رہی ہیں۔ ‘‘

’’تکلیف کیسی!گڈو آپ کو کھانا پہنچا دے گا۔  اور ہاں ! اب مجھے جلد ہی آپ کے لئے دلہنیا بھی ڈھونڈنی ہے۔ ‘‘

ڈاکٹر رحمن کی سریلی ہنسی میرے کانوں سے ٹکرائی۔  لگتا ہے دلہنیا کا نام سن کر ہی ان کے پاؤں کا درد دور بھاگ گیا۔  مجھے بھی ہنسی آ گئی۔  بیچارے مرد۔  کتنے بیوقوف ہوتے ہیں۔

’’کس کی دلہنیا تلاشی جا رہی ہے۔ ‘‘

ابّی مجھ سے پوچھ رہے تھے۔ میں نے ڈاکٹر رحمن کی پوری کہانی ان کو سنا ڈالی۔ رات کا ایک بج رہا تھا اور ابّی کو ئی نہ کوئی سوال پوچھ کر ڈاکٹر رحمن کے ذکر کو آگے بڑھاتے جا رہے تھے۔  آخر میں مجھ سے بولے-

’’بیٹی! جب سارا معاملہ تمہارے ہاتھ میں ہے تو کیوں نہ تم نیلوفر سے ڈاکٹر رحمن کی شادی کروا دو۔ ‘‘

میں اپنی جگہ سے اچھل پڑی۔  ارے یہ بات میرے دماغ میں پہلے سے کیوں نہیں آئی۔  میں سوچنے لگی۔ شاید اس لئے کہ ڈاکٹر رحمن کا تعلق گاؤں سے تھا اور ہمارے خاندان میں کوئی بھی گاؤں سے جڑا ہوا نہیں تھا۔  دوسرا ڈاکٹر رحمن کا رنگ تھوڑا دبا ہوا تھا۔ ایسے میں دودھیا رنگ والی نیفو کے لئے ڈاکٹر رحمن کا خیال میرے اندر کیسے جاگ سکتا تھا۔

’’ بیٹی! میں نے ایک ذکر چھیڑا ہے سوچنا تم۔ ‘‘

’’ابّی مجھے تھوڑا وقت دیجئے۔ ‘‘

’’بالکل، بالکل۔ ‘‘

ابّی اپنے بستر پر جانے کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے۔ ان کا کمرہ گیلری کی داہنی طرف تھا۔ میں خود کو ذہنی طور پر تیار کرنے لگی تاکہ پہلے میری آنکھیں تو ان دونوں کو جوڑے کی شکل میں قبول کریں۔ ایسا نہ ہو کہ ایک بر پھر سے مس میچ ہو جائے۔ ڈاکٹر رحمن کی طرف سے تو مجھے اطمینان تھا۔  دیکھا بھالا جانا سمجھا مرد تھا لیکن نیفو کی عقل تھوڑی کچّی تھی۔  اسے پہلے بہت سمجھاناہو گا، زبان پر لگام کیسے دی جاتی ہے یہ سکھاناہو گا۔ مردوں کو کیسے برتا جاتا ہے، یہ داؤ بھی اسے سکھانا ہے تاکہ اس کی آنے والی زندگی کامیاب ہو سکے۔ کوئی ضروری نہیں کہ ہر ایک کے سامنے زندگی کی کتاب کھول کر رکھ دی جائے۔ کن صفحوں کو ظاہر کرنا ہے اور کن صفحوں کو اندھیرے میں پھاڑ کر پھینک دینا ہے، اسے یہ بتانا میرے لئے بہت ضروری ہے۔  جلد بازی میں کوئی قدم میں نہیں اٹھاؤں گی۔  ہاں یہ ضرور ہے کہ ابّی نے جاتے جاتے اندھیری گپھا میں ایک ننھا سا چراغ ضرور جلا کر رکھ دیا تھا۔  اب دیکھنا ہے، میں وہاں سورج اتار پاتی ہوں یا نہیں۔

بہر حال سب سے پہلے مجھے اس مرحلے کے لئے خود کو رضا مند کرنا تھا جہاں میں ’ہاں ‘ کہہ کر خود کو ایک نئے امتحان میں ڈالنے والی تھی۔

٭

اپنے شہر واپس آ کر میں پہلی فرصت میں ڈاکٹر رحمن کے پاس پہنچی۔  ایک تو مجھے خیریت معلوم کرنی تھی۔  دوسرے اب ڈاکٹر رحمن کو دیکھنے کا نظریہ میرا بدل گیا۔  مجھے باریکی سے اسے دیکھنا تھا۔  ان کی خوبی خامیوں کو پرکھنا جانچنا تھا۔  اکیلے رہنے والوں میں اکثر بہت سے عیب پیدا ہو جاتے ہیں مجھے یہ سب بھی پتہ لگا نا تھا کیوں کہ ابّی نے چلتے چلتے ایک ایساشگوفہ چھوڑا تھا جو میرے لئے کافی خوشگوار تھا۔ مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ پیروں میں زیادہ چوٹ نہیں آئی تھی اور وہ تھوڑا لنگڑا کر ہی سہی اپنا کام لر رہے تھے۔

میں انہیں دیکھ کر لوکیشن کی طرف جانا چاہتی تھی تاکہ کام کا معائنہ بھی کر سکوں مگر میرے منع کرنے کے باوجود بھی کہ ابھی وہ آرام کریں، ڈاکٹر رحمن میرے ساتھ میری گاڑی میں بیٹھ گئے۔  مجھے کام کے لئے ان کا یہ جذبہ دیکھ کر اچھا لگا۔

تعمیر کا کام کافی تیزی سے چل رہا تھا اور مجھے امید تھی کہ وقت پر یہ سب مکمل ہو جائے گا۔

پچھلے دو تین دنوں سے جب سے میں نے ایک نئی ذمہ داری اپنے سر لی تھی، تب سے میرے اندر بڑی تیزی سے بدلاؤ آ رہے تھے۔ یہ بدلاؤ ہی وقت کی مانگ تھے۔  کشو کی دی ہوئی انتظار کی مدت آج رات ختم ہو رہی تھی۔  مجھے کیا جواب دینا ہے اس کے لئے میں دماغی طور پر پوری طرح تیار تھی۔  ڈاکٹر رحمن لوکیشن پر ہی رک گئے۔  میں خود ڈرائیو کر کے آئی تھی اس لئے کار میں اکیلی تھی۔  میرا دل نہ بستی جانے کو کر رہا تھا، نہ اسپتال، نہ الزبیتھ کے پاس۔  ہاں وولکی سے میں ضرور ملنا چاہتی تھی۔  آنے والے دنوں میں میں دوسرے کاموں میں اتنی مصروف ہو جاؤں گی کہ شاید وولکی اور ستارہ پر اتنی توجہ نہ دے پاؤں۔  ایسا میر اندازہ تھا۔  میں بے مقصد بھیڑ سے الگ سنسان سڑکوں پر چکر کاٹ رہی تھی۔  کیوں نہ وولکی کو فون ٹرائی کیا جائے اگر ممکن ہوتا ہے تو اس کے ساتھ ہی آج کی شام گزاری جائے۔  میں نے وولکی کو فون ملایا۔ پوری رنگ ہوئی اور فون کٹ گیا۔ کمبخت نہ جانے کہاں مشغول رہتا ہے۔  پہلی رنگ پر تو اس نے کبھی ریسیو ہی نہیں کیا۔  تبھی میرا فون بج اٹھا۔  وولکی نے رنگ بیک کیا تھا۔

’’ہیلو!‘‘ میں نے فون ریسیو کیا۔

’’کہا ں ہو تم؟‘‘

’’بس! آ رہا ہوں۔ ‘‘

میں خوش ہو گئی کہ چلو میں مقصد میں کامیاب ہوئی۔

’’میں ٹی۔  وی۔  ٹاور کے پاس ہوں۔  یہیں تمہارا انتظار کر رہی ہوں۔  جلدی سے آ جاؤ۔  کچھ گپ شپ ہو جائے۔ ‘‘

’’دیدی میں ٹرین پر ہوں !‘‘ دوسری طرف سے وولکی کے ہنسنے کی آواز آئی۔  میں چڑ گئی۔

’’تم تو کہہ رہے تھے کہ بس آ رہا ہوں۔ ‘‘

’’آ رہا ہوں کا مطلب شہر واپس آ رہا ہوں۔  میں پچھلے ہفتے روزی کے پاس آیا تھا۔  بچیوں کی بہت یاد آ رہی تھی۔ مما نے اپنی پوتیوں کے لئے ڈھیرسارے سامان بھی اکٹھے کر رکھے تھے۔  وہ سب بھی دینا تھا۔ ‘‘

’’روزی کا موڈ کیسا تھا۔  واپس آنے کے لئے تیار ہوئی؟‘‘

’’موڈ تو اچھا تھا! میرے ساتھ خوب گھومی پھری۔  بہت اچھا ٹائم گزرا مگر وہ واپس نہیں آنا چاہتی۔ ‘‘

میں سمجھ گئی کہ روزی اتنی آسانی سے وولکی کو چھوڑے گی نہیں۔  وہ ان عورتوں میں سے ہے جو مردوں کو ڈور سے باندھ کر پتنگ کی طرح اڑاتی ہیں۔  وہ جانتی ہیں کہ ڈور میں کب ڈھیل دینی ہے، کب جھول مارکر ڈور کس دینی ہے۔  کب تان لینی ہے اور پتنگ میں خرابی آ جائے تو ڈور کاٹ دینی ہے۔  چلو اچھا ہی ہے، گرتے پڑتے ہی سہی وولکی کی گرہستی چلتی ہی رہے گی۔

’’وولکی!‘‘  میں فون پروولکی سے مخاطب تھی۔

’’تمہاری ٹرین یہاں کب پہنچے گی؟  ‘‘

’’اگر صحیح وقت پر چلتی رہی تو سمجھئے ایک گھنٹے میں۔ ‘‘

’’ٹھیک ہے! ابھی تو تم سفر سے لوٹ رہے ہو۔  آرام کرو گے مگر ا یک دو دن میں جلدی میرے لئے وقت نکالو۔ ‘‘

’’بالکل دیدی! بالکل۔  آ پ نے مجھے چھوٹا بھائی کہا ہے۔  مجھ پر آپ کا بڑی بہن سا حق ہے۔ ‘‘

میں نے ہنستے ہوئے کہا—–’’میرے باتونی بھائی اب خدا حافظ۔ ‘‘

فون کاٹ کر گھڑی پر نگاہ ڈالی۔  کافی وقت گزر گیا تھا۔ شام ڈھلنے کو تھی۔  اب گھر واپس چلنا چاہیے۔  میں نے اپنی گاڑی یہ سوچ کر ابھی داہنے موڑ سے کاٹی ہی تھی کہ ایک کالے رنگ کی مرسڈیزجو سامنے سے تیز رفتار سے آ رہی تھی، ٹکراتے ٹکراتے بچی۔ میں نے زور سے بریک لگائی۔ دوسری گاڑی بھی بریک کے جھٹکے سے چیخ اٹھی تھی۔  ذرا سی چوک دونوں گاڑیوں کا بھرتا بنا دیتی۔ سڑک اور پہیوں کی رگڑ سے اتنی خوفناک آواز اٹھی تھی کہ لمحہ بھر میں وہاں بھیڑ لگ گئی۔ ایک بڑا حادثہ ہونے سے بچ گیا تھا، یہ دیکھ کر جتنی تیزی سے بھیڑ اکٹھی ہوئی تھی اتنی ہی تیزی سے کائی کی طرح پھٹ بھی گئی۔

میں نے گھورتی ہوئی نگاہوں سے سامنے کے شیشے سے کار کے اندر جھانکا کیوں کہ میں صحیح روٹ پر تھی اور سامنے والی گاڑی رفتار کے ساتھ غلط موڑ کاٹ رہی تھی۔  میری گھورتی ہوئی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔  میرے منہ سے آواز تک نہیں نکلی، جیسے میں گونگی ہو گئی ہوں۔ میری آنکھیں جو کچھ دیکھ رہی تھیں، اس پر یقین کرنا میرے لئے مشکل ہو رہا تھا۔  کاش میں بے مقصد سڑکوں کا چکر نہ لگاتی تو کم سے کم یہ منظر تو دیکھنے کو نہ ملتا۔  دوسری گاڑی کے شیشے سے جھانکتی ہوئی دو جوڑی آنکھیں مجھے بھی گھور رہی تھیں۔ اچانک گاڑی نے اپنا پچھلا گیر لیا دو چار قدم گاڑی پیچھے رینگی اور پھر بیک ہو کر تیزی سے سامنے کی سڑک پر دوڑنے لگی۔ دوڑی نہیں بلکہ بھگائی جانے لگی۔  بغیر کچھ سوچے میں نے اپنی بھی گاڑی کو پوری رفتار سے اس گاڑی کے پیچھے لگا دیا۔  آگے ایک دو کلو میٹر ہی میں نے گاڑی دوڑائی ہو گی کہ اچانک اپنے ہی عمل سے میں چونک اٹھی میں گاڑی کیوں بھگا رہی ہوں۔ ؟ اس کا پیچھا کیوں کر رہی ہوں ؟ کسی کی نجی زندگی کے ذاتی لمحوں کو اگر میں جان بھی گئی تو کیا حاصل۔  میں نے گاڑی روک دی اور کچھ ہی دیر میں میں اپنے گھر کے راستے پر تھی۔  بیحد الجھی اور پریشان سی۔  کیوں دیکھا میں نے وہ سب کچھ جو مجھے نہیں دیکھنا چاہیے تھا۔  اس گاڑی کے چاروں طرف بلیک شیشے چڑھے تھے۔ بس سامنے کا ہی شیشہ سفید تھا، جہاں سے میں نے جھانکا تھا۔  گڈو نے گیٹ کھول دیا۔  میں اندر داخل ہوئی اور سیدھے اپنے کمرے میں پہنچ کر بستر پر لیٹ گئی۔  یہ میرا معمول ہے کہ باہر سے آنے کے بعد سب سے پہلے اپنی جوتی اتار کر گھر کی سلیپر پہنتی ہوں۔  لباس تبدیل کرتی ہوں ہاتھ منہ دھوتی ہوں۔  سب کا حال چال لیتی ہوں پھر آرا م کرتی ہوں۔  اس درمیان ملازمہ میرے لئے تازہ پھلوں کا جوس لے کر آ جاتی ہے۔  دل چاہا تو کبھی کافی یا چائے کے لئے بول دیا آدھے ایک گھنٹے آرام کر کے پھر میں باہر برآمدے میں یا پھر موسم کے حساب سے لان میں بیٹھتی ہوں۔  ملازمہ سیب جوس لئے سامنے کھڑی تھی۔  میں نے ہاتھ بڑھا کر ٹرے سے گلاس اٹھا لیا۔

’’صاحب کا فون آیا تھا، آپ کو پوچھ رہے تھے۔  تھوڑی دیر میں پھر آئے گا۔  انہوں نے لینڈ لائن پر کیا تھا کہہ رہے تھے آپ کا موبائل انگیج جا رہا ہے۔ ‘‘

’صاحب‘ کا نام سنتے ہی گلاس میرے ہاتھ سے چھوٹتے چھوٹتے بچا۔  شاید جب میں وولکی سے باتیں کر رہی ہوں گی تبھی فون آیا ہو گا۔

’’ٹھیک ہے تم جاؤ۔ ‘‘ بظاہر بے حد اطمینان سے میں نے ملازمہ کو باہر بھیجا اور گلاس کا جوس ختم کرنے لگی۔

میری قسمت بھی کیا ہے، کچھ پل سکون کے نہیں مل پاتے۔  ایک مٹھی دہکتے انگارے کے ساتھ وقت میرے انتظار میں رہتا ہے کہ کب میں ان لمحوں کے قریب سے گزروں اور کب وہ انگارے مجھ پر اچھال دے۔  جب سے ہوش سنبھالا ہے تب سے آج تک میں اپنی مرضی سے، اپنے سکون کے ساتھ اطمینان کے لمحے گزار ہی نہیں پاتی۔  اگر وقت کچھ لمحے راحت کے دیتا بھی ہے تو میں دوسروں کے لئے ان لمحوں کی پرسکون گھڑیوں کو کھو دیتی ہوں۔  بند زبان سے میں نے اپنے مقدر سے شکوہ کیا اور پھر میں بستر پر لیٹ کر کشو کے فون کا انتظار کر نے لگی۔ انتظار میں فون کا کر رہی تھی مگر آنکھوں کے سامنے بار بار وہی منظر آ رہا تھا۔ ایک لڑکی گہرے نیلے رنگ کی شیفان کی ساڑی میں سامنے کی سیٹ پر بیٹھی تھی۔  اس کا سر بغل میں بیٹھے مرد کے شانے سے ٹکا تھا۔  جذبات کی لذت سے اس کی پتلیاں اپنی آنکھوں کے کٹوروں میں تیر رہی تھیں۔  گہری سانسوں کے دباؤ نے اس کے ہونٹ کھول دئے تھے۔  اس کے دونوں شانے برہنہ تھے۔  اور مرد تہذیب کی ساری حدیں گرا کر اس کے جسم سے کھیل رہا تھا۔  یہ سب میں نے ایک نظر میں دیکھا تھا۔  نیلی ساڑی میں ملبوس لڑکی ستارہ تھی۔

٭٭٭

 

۱۵۔ وصل کے انتظار میں

وصل کے انتظار میں / بہار آئی/ اور آ کر گذر گئی/ شب کی کروٹیں / جسم پر آبلے بچھا گئیں / کھلی آنکھوں میں / کانٹے چبھو گئیں / بے چین ساعتوں کو /گمراہ کر گئیں / رو کے پیرہن کو/ تار تار کر گئیں / غفلتوں کے غار میں / سپنے سلا گئیں / پت جھڑ کی ایک شام پھر/ زرد زرد آندھیاں چلیں / ایک بہکے سائیکلون کی طرح/ تم آئے/ اور آ کر چلے گئے/ میری گمشدہ سانسوں کا/ پتہ ساتھ لے گئے/ دل میں کسک اور روح میں / افسردگی بھر گئے/ زندگی کی راگ کا / عنواں بدل گئے۔ ۔ ۔ ۔

خواب دیکھنا ایک فطری عمل ہے۔  عورت جس میں جمالیات اور حسیات اپنی انتہا پر ہوتی ہے اس کے یہاں یہ عمل شدت سے ملتا ہے۔  وہ ایسے خواب دیکھنے کی عادی ہو جاتی ہے جن کی تعبیر کو مردہ خور اپنے پنجوں سے گوشت کی طرح نوچ لے جاتے ہیں۔  یہ مردہ خور اور کوئی نہیں وہ ہیں جو اس کے مالک کہلاتے ہیں۔ ۔ ۔

میری آنکھیں اب انھیں خوابوں کو سجاتیں جو کشو جیسا مرد میری آنکھوں میں دیکھنا چاہتا تھا۔  وہ میرا مالک تھا۔  اور اس کی بات ماننا میری مجبوری تھی۔ ۔ ۔ رنگ ہوئی، اسکرین پر کشو کا نام چمکا اور میں نے فون ریسیو کر لیا۔  سلام کے بعد وہ اپنے اصلی مقصد پر آ گیا-’’ہاں تو جان تم نے کیا سوچا۔ ‘‘

کشو کا لہجہ پیار کے رس میں ڈوبا تھا۔  میں نے بھی گلے میں شہد کی مٹھاس گھولی-’’وہی جو تم نے چاہا۔ ‘‘

’’ویری گڈ‘‘ کشو خوشی سے چہک اٹھا۔

’’پکّانا‘ وہ یہ کہہ کر میرے ارادے کی مضبوطی جاننا چاہتا تھا۔

’’بالکل پکا تمہاری جان کی قسم۔ ‘‘

یہ کہتی ہوئی میں اپنے سارے خوف اور ساری الجھنوں پر قابو پا چکی تھی۔  میں وہی کہہ رہی تھی جو وہ سننا چاہ رہا تھا۔  سب سے لمبے وقت تک کھیلے جانے والا یہ میری اداکاری کا ایک نیا سوانگ تھا۔

’’یار ایک بار اپنا دم خم دکھا دو پھر تو اپنے وارے نیارے ہو جائیں گے۔ ‘‘

’’بے فکر رہو۔  میرا دم ابھی تم نے جانا کہاں ہے؟‘‘

میری آواز کا طنزیہ لہجہ اس کی سمجھ سے باہر تھا، وہ ہنستا رہا۔

’’ہاں تو بولو، اس ’ہاں ‘ کے بدلے کیا لو گی۔  قریب ہوتا تو تمہارے پیر زمین پر نہ پڑنے دیتا۔ تمہیں کندھے پر اٹھائے پورے گھر میں ناچتا۔  ایسا جشن مناتا کہ سب دیکھتے رہ جاتے۔ ‘‘

’’تم ہمیشہ دوسروں کو دکھانے کی بات کیوں کہتے ہو۔ ‘‘

’’ہاں ٹھیک ہے۔ نہیں کہوں گا——-‘‘کشو نے جلدی سے میری بات کاٹی تاکہ کہیں میں ناراض نہ ہو جاؤں۔

’’ہاں تو بولو کیا لو گی؟‘‘ وہ مجھے خوش کرنا چاہتا تھا۔

مرد یہ کیوں نہیں سمجھتے کہ عورتیں اگر فاحشہ نہیں ہیں تو تحفے تحائف سے نہیں بلکہ مرد کی دلجوئی سے خوش ہوتی ہیں۔  پیار محبت کی باتوں سے خوش ہوتی ہیں۔ ناز نخرے اٹھوا کر خود کو عظمت کی بلندیوں پر بیٹھی محسوس کرتی ہیں۔ صدیوں سے مرد عورت کو برتتا چلا آ رہا ہے اور عورت کی اتنی سی نفسیات نہیں سمجھ پایا۔ کیوں کہ وہ جانتا ہے جب وہ چاہے گا پیروں تلے روند دے گا اور عورت ایک مسلے ہوئے کیڑے کی طرح دبک جائے گی اور جب وہ چاہے گا اسے پلکوں پر سجالے گا اور عورت اپنی خوش نصیبی پر رشک کرتے ہوئے پچھلا سب کچھ بھول جائے گی۔  عورت مرد کے رشتے کے داؤ پیج کی کتنی قلابازیاں ہیں کتنی پیچیدگیاں ہیں اس کا اندازہ لگانا بھی مشکل ہے۔

’’ہاں جان تم کہاں گم ہو گئی ہو؟‘‘

کشو نے پیار سے مجھے جھڑکا اگر اور کوئی موقع ہوتا اور میں اس سے بات کرتی ہوئی اپنے کسی خیال میں ڈوب گئی ہوتی تو دو چار گالیوں کے ساتھ کچھ ایسی باتیں سننے کو ملتیں کہ میں پسینہ پسینہ ہو جاتی کہ کہیں کوئی دوسرا نہ سن رہا ہو۔

میں ناز سے اٹھلائی ’’میں سوچ رہی تھی کہ تم سے کیا مانگوں۔ ‘‘

’’ہاں ہاں بولو۔ تمہارے اس ’ہاں ‘پر تو میں ساری دنیا نچھاور کر دوں گا۔ ‘‘

’’دنیا نہیں مجھے ایک ڈائمنڈ سیٹ چاہیے گردن سے لے کر ناف تک کا۔  جب میں جیت کا جشن منا کر گھر لوٹوں گی تو اس بیش قیمتی تحفے کو پہنوں گی۔ ‘‘

’’یار یہ سیٹ تو تمہاری ’ہاں ‘کے لئے ہے۔  جیت پر تو میں تمہیں سر سے پاؤں تک ہیرے جواہرات سے تول دوں گا۔  تمہیں دیوی بنا کر پلکوں سے چوموں گا۔  تمہارے قدموں میں سر رکھ سجدہ کروں گا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

’نعوذ باللہ۔ ‘—–میری زبان سے بے ساختہ نکلا کمبخت پورا کا پورا کافر ہو رہا ہے۔

’’تم وہاں سے جتنے زیادہ روپئے بھیجو گے، میری جیت اتنی ہی پکی ہوتی جائے گی۔ ہاں پیسوں کے ساتھ ساتھ مجھے ایماندار اور محنتی لوگوں کی ایک ٹیم چاہئے۔ یہ ٹیم تمہیں بنانی ہے۔  میں جانتی ہوں کہ تم وہاں سے ہی سب کچھ کر سکتے ہو۔ ‘‘

میرے بولنے کا انداز بدل چکا تھا۔ میرے اندر جیسے جیت کی خوشی کی لہر دوڑتی جا رہی تھی جس نے میرے لہجے میں پختگی بھر دی تھی۔

’’کیسی باتیں کہتی ہو جان! تم نے ہاں کہہ دی تمہارا کام ختم، اب میرا کام شروع۔ دیکھتی جاؤ تمہارے اس کشو کو لوگوں نے جانا کہاں ہے کہ کاشف اصغر کتنی اونچی چیز ہے۔ ‘‘

’’ٹھیک ہے، اب بولو کم اور کمر کس کر کام میں لگ جاؤ، میں اپنے طریقے سے کام شروع کرتی ہوں۔ ‘‘

میں پوری طرح سے بدل چکی تھی۔  اس وقت نہ میں مہ جبیں بانو کی بیٹی نازنین بانو تھی، نہ کاشف اصغر کی بیوی مسز کاشف اور نہ وہ عورت جسے لوگ ’دیدی‘ کے نام سے جانتے تھے۔  اب مجھے اپنا لباس، اپنے جینے کا انداز، اور اپنے دیگر شوق کچھ دنوں کے لئے بدلنے پڑیں گے۔ اپنا ایک نیا وارڈ روب لگوانا پڑے گا۔   چپلوں کی ڈیزائین بدلنی ہو گی، میں جو چلتی پھرتی جویلری شاپ بنی رہتی ہوں۔  یہ ساری چیزیں، سارے زیور بند کر کے کنارے رکھنے پڑیں گے۔ میری زندگی کی نئی شروعات مجھے دستک دے رہی تھی اور میں سر سے پیر تک اپنے کو تبدیل کرنے کے لئے تیار تھی۔

کشو فون پر میری محبت کے نغمے گائے جا رہا تھا۔  مجھے پچکار رہا تھا، فلائنگ کس دے رہا تھا، وہ سارے میٹھے لفظ بول رہا تھا جسے کبھی میں پسند کر تی تھی۔ مگر اب میں وہ نہیں تھی جسے لوگ جانتے تھے، یا کشو خود جانتا تھا۔  کشو مجھے سیڑھی بنا رہا تھا مگر میں یہ بھی جانتی تھی کہ اسی سیڑھی پر پہنچ کر آسمان چھونے والے ہاتھ تو آخر میرے ہوں گے۔  اور کشو سیڑھی کا نچلا پائدان پکڑ کر گردن اوپر اٹھائے مجھے دیکھتا رہ جائے گا۔  اپنی کھلی آنکھوں سے یہ تصویر بنا کر میں کس قدر خوش ہوئی اس کا اندازہ شاید کشو کو بھی نہیں ہو گا اور ہونا بھی نہیں چاہیے ورنہ میرے سوانگ کا پردہ کھلتا چلا جائے گا۔

کشو نے اس وعدے کے ساتھ فون رکھ دیا کہ وہ جلدی ہی روپیے بھیجے گا ساتھ ہی اسی ہفتہ کام کرنے والوں کی ایک ٹیم میرے ساتھ لگ جائے گی۔ اس کام میں بستی والے بھی میرے ساتھ ہاتھ بٹائیں گے، اس کا مجھے علم تھا۔

٭

رات کا کھانا کھا کر میں لان میں چہل قدمی کر رہی تھی۔  آسمان پر بادل گھنیرے ہو رہے تھے۔  ہلکی پھلکی بجلی چمک رہی تھی کسی وقت بھی بارش ہو سکتی تھی۔  مجھے یقین تھا کہ پندرہ اگست تک نرسنگ ہوم بن جائے گا۔  اگر کچھ کمی رہ بھی گئی تو آگے پیچھے وہ پوری کر لی جائے گی۔ چیف منسٹر سے ربن ہی تو کٹوانا ہے۔  وہ کون زیادہ گہرائی میں جائیں گے۔  اوپر اوپر سے معائنہ ہو گا۔  میڈیا اکٹھی ہو گی دوسرے دن ہر چینل اور ہر اخبار میں نرسنگ ہوم کے افتتاح کی خبریں ہوں گی۔  میرا نام ہو گا اور کشو  کا بھی۔  اس موقع پر کشو آئے گا، ورنہ میں اتنا سب کچھ کیسے کر پاؤں گی۔  اف میں نے یہ تو اس سے پوچھا ہی نہیں۔  موبائل میرے ہاتھ میں تھا۔  عام طور سے میں فون نہیں کرتی تھی فرصت ہونے پر کشو ہی مجھے فون کرتا تھا، یہ اس کا میرے لئے حکم تھا۔  مگر اب زندگی کا رخ بدلنے والا تھا تو میں کیوں نہ بدلتی۔  میں نے فون ملایا اور پوری خوداعتمادی سے بولی-’’ کشو تم پندرہ اگست کو نرسنگ ہوم کے افتتاحی  جلسے میں آ رہے ہو نا!‘‘

’’ڈیر اگر میں ابھی آ گیا تو آگے جب تمہیں میری ضرورت ہو گی اس وقت آنا مشکل ہو جائے گا۔  روپیے کمانے ہیں تو محنت بھی تو زیادہ کرنی ہو گی۔ ‘‘

’’چیف منسٹر آ رہے ہوں گے ایسے میں میں سارا انتظام کیسے سنبھالوں گی۔ ‘‘

’’ابھی بھی تم اپنے شوہر کو پوری طرح نہیں جان پائیں۔ تمہیں کچھ نہیں کرنا ہے صرف اپنے قدم آگے بڑھانے ہیں اپنے وقت پر سارا کام ہو جائے گا، بس تم اپنا مورچہ سنبھالو۔ ‘‘

’’ٹھیک ہے خدا حافظ۔ ‘‘ میں نے فون رکھ دیا۔

اس رات سونے کے لئے ضرور میں بستر پر لیٹی مگر میں ساری رات یہ سوچتی رہ گئی کہ مجھے کیا کرنا ہے اور کیسے کرنا ہے۔ کشو کا شیطانی دماغ دور تک چل رہا تھا۔   وہ خود الیکشن میں کھڑا نہیں ہو رہا تھا بلکہ مجھے کھڑا کر رہا تھا۔ ایک تو میں عورت تھی دوسرا ایسے گھر سے تعلق رکھتی تھی جس کی اونچی دیواروں کے اندر جھانکنے کے لئے عام طور لوگ بے چین رہتے ہیں۔  میرے الیکشن لڑنے سے دوہرا فائدہ ہو گا۔  عورت کے نام پر خاص طور سے مسلمان اور شریف گھر سے وابستہ عورت کے نام پر ٹکٹ آسانی سے ملے گا۔  دوسرا خوبصورت اور دیکھنے میں جوان عورت اگر چناؤ لڑتی ہے تو بھیڑ ویسے ہی اکٹھا ہو جاتی ہے جیسے شہد پر بھنبھناتی مکھیاں۔  عورت ہوشیار ہوئی، یقیناً میں اپنے آپ کو ہوشیار سمجھتی ہوں تو ووٹ بینک بنانے میں اسے کوئی پریشانی نہیں ہو گی۔  سب سے اہم بات یہ تھی کہ کشو یہ سمجھتا تھا کہ اگر میں جیت جاتی ہوں تو کرسی میرے ہاتھ آئے گی، پاور اس کے پاس جائے گا۔  زبان میری ہو گی کلام اس کا ہو گا، دستخط میری ہو گی اور کاغذ کی تحریر وہ خود لکھے گا۔  اس کے لئے ہندوستان لوٹنا، دونوں ہاتھوں میں لڈو لینے جیسا تھا۔  ساری رات یہ سب کچھ سوچتی رہی، کروٹیں بدلتی رہی، نیند روٹھی رہی اور رات گزر گئی۔

٭

نرسنگ ہوم کی تعمیر کا کام ختم ہو گیا تھا۔  ہر جگہ دھلائی ہو رہی تھی۔  درزی ان پردوں کی سلائی تیزی سے کر رہا تھا جو میں نے ڈاکٹر رحمن کے ساتھ مل کر خریدے تھے۔  مالی اپنے کام میں مشغول تھا۔ ڈاکٹر رحمن اسٹاف  کے انتظام میں لگے تھے اور اپنے ساتھی ڈاکٹروں سے بات کر رہے تھے کہ بچوں کا کون کون ڈاکٹر اس نرسنگ ہوم سے جڑ سکتا ہے۔ میں ڈاکٹر رحمن کے کندھے سے کندھا ملا کر کھڑی ہر کام کو اپنی دیکھ ریکھ میں انجام دلوا رہی تھی۔  تبھی وولکی کا فون آیا وہ مجھ سے ملنا چاہتا تھا۔  مجھ سے ٹائم اور کس جگہ ملنا ہے یہ پوچھ رہا تھا۔  شاید اسے بھی احساس ہو گیا تھا کہ اب بہت چوہے بلی کا کھیل ہو چکا اب اسے سب کچھ سچ سچ بتا دینا چاہیے۔  میں نے شام کی چائے کے لئے اسے بلا  لیامگر گھر پر نہیں، کریزی ریسٹورنٹ میں۔  کھل کر میں نے اس سے کہہ دیا کہ آنا ہے تو اکیلے آنا۔  میں تم سے تنہائی میں بات کرنا چاہتی ہوں۔ وولکی نے اپنی رضامندی دے دی۔ شام کے چھ بجے ہم دونوں کو کریزی ریسٹورنٹ پہنچنا تھا۔

میں ٹھیک وقت پر پہنچ گئی۔  کاؤنٹر پر دو کپ کافی، پنیر پکوڑے، چیز بٹر سینڈوچ کا آرڈر دے کر اپنے پسندیدہ کارنر ٹیبل پر آ گئی۔  یہاں میں کئی بار کشو کے ساتھ بھی آ چکی تھی۔

آرڈر دیتے وقت میں کہہ کر آئی تھی کہ جب تک میرے گیسٹ ٹیبل پر نہ آ جائیں تب تک وہ ناشتہ اور کافی ٹیبل پر نہ لائیں۔  پیمینٹ بھی میں نے اسی وقت کر دیا تھا تاکہ وولکی ہاں ہاں نا نا نہ کرے۔

میں وولکی کا بیٹھی انتظار کر رہی تھی اور میری آنکھوں کے سامنے وہی منظر گھوم رہا تھا جو میں نے گاڑی میں دیکھا تھا۔  وہ مرد شراب کے نشے میں بے انتہا دھت تھا کیوں کہ اس کا سر بار بار ستارہ کے کاندھے پر ڈھلک جاتا تھا۔  اس کے ہاتھ کی انگلیاں بہت بے شرمی سے ستارہ کے سینے پر سانپ کی طرح بل کھا رہی تھیں۔  اس کی انگلی تھوڑی تھوڑی دیر پر ستارہ کے جھکتے ہوئے سر کو ٹھوڑی سے پکڑ کر اٹھا دیتی۔  یہ بات بالکل طے ہے کہ اگر میں نے مہارت سے گاڑی سائڈکر کے بریک نہ لگائی ہوتی تو ہم تینوں کی جانیں جا سکتی تھیں یا پھر بچتے بھی تو کئی ہڈیاں ٹوٹ پھوٹ جاتیں۔  یہ سوچ کر ہی رونگٹے کھڑے ہو گئے۔  اس وقت حادثہ سے بچ جانے کی وجہ سے بہت ہی سنجیدگی سے ایکسیڈنٹ کی باتیں دماغ میں نہیں آئیں تھیں مگر اب سوچتی ہوں تو کانپ کانپ اٹھتی ہوں۔  نشے میں دھت آدمی کے ساتھ کار میں بیٹھتے ہوئے کیا ستارہ خوف زدہ نہیں ہو رہی تھی؟ کیا اسے اپنی جا ن پیاری نہیں تھی؟یہ سچ ہے کہ اگر وہ نشہ خور مرد مر بھی جاتا تو ستارہ پر کوئی فرق نہیں پڑتا مگر اس کے ساتھ رہ کر ستارہ نے اپنی زندگی کو اتنا جوکھم میں ڈال رکھا تھا۔  اگر ستارہ مجھ سے باتیں کرتی ہوتی، اپنا دکھ درد میرے ساتھ بانٹ رہی ہوتی، میرے ساتھ غیریت نہ برت رہی ہوتی تو میں اسی وقت گاڑی سے اتر کر ستارہ کو اس کی گاڑی سے باہر کھینچ لاتی۔  اسے اپنے گھر لے جاتی اور اس کا آنچل نوٹوں کی گڈیوں سے بھر دیتی کہ اٹھا لو جتنی دولت اٹھانا چاہو مگر خدارا ایسے مردوں کے ساتھ اپنی زندگی کو برباد نہ کرو۔ اس خطرناک کھیل میں مت پڑو، یہاں تمہاری سانسوں کو خطرہ ہے، اپنا نہیں تو اپنی بچی کا خیال رکھو۔  اس دنیا میں تمہارے سوا اس کا کوئی نہیں ہے۔ آخر کرینا بھی تو اپنی زندگی جی رہی ہے۔  پھر تم موت کا کھیل کیوں کھیل رہی ہو۔  اپنے آپ سے کس بات کا انتقام لے رہی ہو، یہ انتقام اپنے لئے ہے یا ان کے لئے جو تمہارے ساتھ تم کو کھیل رہے ہیں۔

ستارہ میرے لئے صرف ایک بستی کی عورت ہی نہیں تھی اس کا میرے ساتھ ایک اور بھی رشتہ تھا جو اس سے مجھے نہ دور جانے دیتا نہ قریب آنے دیتا۔

’’نمستے دیدی!‘‘ اچانک وولکی کی آواز نے مجھے حواس میں لا دیا اور میں نے پلکیں جھپکا کر گاڑی کے اس منظر کو اپنی آنکھوں کے سامنے سے فیڈ آؤٹ کر دیا۔

’’کیسی ہیں دیدی؟‘‘ وہ چہکتے ہوئے بولا۔

’’بالکل ٹھیک! تم سناؤ؟بیوی سے مل کر آ رہے ہو، چہرہ تمہارا حال بیان کر رہا ہے۔ ‘‘

’’اچھا!‘‘وولکی ہنسنے لگا۔

عورت مرد کے کچھ رشتے ایسے ہوتے ہیں جہاں لذتوں کا دور تو مختصر ہوتا ہے مگراس مختصر دور کے اثرات انسان پر بہت دور تک دکھائی د ے رہے ہوتے ہیں۔

وولکی بالکل تر و تازہ لگ رہا تھا۔  داڑھی اس نے کٹوا لی تھی۔  مونچھ سلیقے سے تراشی ہوئی تھی۔  شیوسے چہرہ چکنا لگ رہا تھا۔  صاف ستھرا لباس، پرفیوم سے مہکتا بدن۔

’’بچیاں کیسی ہیں ؟‘‘

’’بہت اچھی ہیں ! مجھے دیکھ کر ایسی خوش ہوئیں کہ بیان نہیں کر سکتا چڑیوں کی طرح ادھر ادھر سارا دن پھدکتی رہتی ہیں۔  جب میں آ رہا تھا تو ٹانگیں پکڑ کر لوٹ گئیں کہ پاپا مت جائیے۔ ‘‘

’’ابھی بہت چھوٹی ہے نا؟‘‘

’’ہاں اس بار سوچتا ہوں بڑی والی بٹیا کا ایڈمیشن اسکول میں کروا دوں۔ ‘‘

’’ہو جائے گا، اپنے وقت پر سب ہو جائے گا۔ ‘‘

اس وقت وولکی خوشگوار موڈ میں تھا۔  کبھی بیوی کے متعلق کبھی بچیوں کے متعلق ڈھیر ساری باتیں مجھے بتا رہا تھا۔

میں ان رسمی باتوں کے بعد گفتگو کو ختم کر کے اصلی بات پر آنا چاہتی تھی۔

’’۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تم نے بستی میں جانا کیا بالکل چھوڑ دیا؟‘‘

’’ہاں دیدی! پرکاش کی موت کے بعد اب وہاں بچا ہی کیا ہے؟‘‘

وولکی میری باتوں پر کم توجہ دے رہا تھا اور میں صرف ستارہ کی زندگی کی الگ الگ تصویروں کو اکٹھا کرنے کی کوشش کر  رہی تھی۔ ادھر وولکی جلدی جلدی پلیٹیں صاف کر رہا تھا۔  دو پنیر پکوڑے اور ایک چیز بٹر سینڈوچ کھانے کے بعد میں نے ا پنا ہاتھ کھینچ لیا۔  میں خاموش بیٹھی تھی تاکہ وہ اچھی طرح کھا پی لے۔

’’کچھ اور منگواؤں وولکی۔ ‘‘

’’نہیں دیدی! پیٹ بھر گیا اب کچھ نہیں کھاؤں گا۔ ‘‘

وہ  مجھ سے معذرت کر کے تھوڑی دیر کے لئے ریسٹوراں کے باہر نکل گیا۔  میں سمجھ گئی کہ وہ اسموکنگ کی عادت سے مجبور ہے اس لئے باہر نکل کر سگریٹ پی رہا ہو گا۔  اندر آیا تو کافی اچھے موڈ میں تھا۔  مگر میں اندر سے تلخ ہو رہی تھی۔ ستارہ کے معاملے میں خود کو کافی تھکا ہوا محسوس کر رہی تھی۔  میں نے بات پھر آگے بڑھائی-

’’وولکی شاید تم نہیں جانتے ستارہ بہت کم عمری سے جسم فروشی کا دھندہ کر رہی ہے۔ ‘‘

میں نے چوہا بلی کے کھیل کو ختم کرتے ہوئے دو ٹوک انداز میں اپنی بات کہی۔

وولکی آنکھیں پھاڑ کر مجھے اس انداز میں دیکھنے لگا جیسے اچانک اس نے کسی عورت کی سڑی لاش پر بھنبھناتی ہوئی مکھیاں دیکھ لی ہوں۔ اس کی زبان تالو سے چپک گئی تھی۔

’’ تم کیا سمجھتے ہو میں دیوانی ہوں کہ ان عورتوں سے رابطہ رکھوں جو میری گنتی میں بھی دور دور تک اپنا دخل نہیں رکھتیں۔ ایسی بستیاں جو شہر کا بدنما داغ ہیں ان کے میں چکر لگاتی رہوں ؟‘‘

’’دیدی یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں میری سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا ہے۔ ‘‘ وولکی کی آواز کی گرمی ختم ہو چکی تھی۔

’’میں وہی کہہ رہی ہوں جو تم سن رہے ہو۔  اور یہ بھی تم جان لو کہ یہ ایک کڑوا سچ ہے کہ اس کے خلاف اٹھایا گیا میرا کوئی بھی قدم مجھے ہی ٹھوکر مارے گا۔ ‘‘

میں نے گھڑی پر ایک نگاہ ڈالی اور جانے کے لئے اٹھ کھڑی ہوئی۔

 انسان تو دکھ درد کا ایک پھپھولا ہے جب تک مواد اندر ہے زندگی ٹیستی رہتی ہے۔  پھپھولا پھٹ گیا مواد بہہ گیا تو سمجھو سب کچھ ختم۔  ایسی دنیا سے کیا محبت کرنا اور کیا خود کو سنبھالنا ایک محور پر آ کر سب کچھ صفر ہے۔  ستارہ نے بھی شاید خود کو صفر پر لا کر کھڑا کر دیا تھا۔

٭

آج پندرہ اگست ہے۔  آزادی کے جشن کے ساتھ ہمارے نرسنگ ہوم کا افتتاح بھی آج ہونا ہے۔  بڑی مشکل سے ایک دو اونچی رسائی والے نیتا کی مدد سے کشو نے پانچ منٹ کا وقت چیف منسٹر سے لے لیا تھا کیونکہ مجھے چیف منسٹر کی پارٹی بینر سے ہی الیکشن لڑنا تھا اس لئے بغیر کسی جھنجھٹ کے بہت آسانی سے انہوں نے اپنا وقت ہم لوگوں کو دے دیا تھا۔  تین گھنٹے سے نرسنگ ہوم کے سامنے لوگوں کی خاصی بھیڑ لگی تھی مگر وزیر اعلیٰ نہیں آئے۔  انہوں نے صبح دس بجے کا وقت دیا تھا اور اس وقت ایک بج رہا تھا۔  تھوڑی دیر پر خبر آ جاتی تھی کہ وزیر اعلیٰ فلاں جلسے میں ہیں، فلاں سڑک سے گزر رہے ہیں، فلا ں جگہ جھنڈا پھیرا رہے ہیں وغیرہ وغیرہ—– اللہ کا شکر تھا کہ سورج میں پوری طرح گرمی نہیں تھی۔  کبھی دھوپ کبھی چھاؤں آ جا رہی تھی۔  انتظام ہم لوگوں نے بہت اچھا کیا تھا۔  ٹھنڈا پانی  بسکٹ کولڈڈرکنس کے کئی ٹیبل لگے تھے۔

پورا نرسنگ ہوم دلہن کی طرح سجا ہوا تھا۔ مہکتے پھولوں کی لتریں ہر طرف جھول رہی تھیں۔  ہلکی آواز میں ملک کی آزادی کے نغمے گونج رہے تھے۔  جہاں سی۔ ایم۔  کی گاڑی رکنی تھی وہاں سے لے کر نرسنگ ہوم کے گیٹ تک جہاں انہیں ربن کاٹنا تھا، ریڈ کارپیٹ بچھا ہوا تھا۔  سرکاری سیکورٹی کی چوکسی دیکھنے لائق تھی۔  سچ مچ آج مجھے احساس ہو رہا تھا کہ کشو کے ہاتھ کتنے لمبے ہیں۔  اس نے ہزاروں میل کی دوری سے اتنا بڑا انتظام کس خوبی سے کروایا تھا۔ ڈاکٹر رحمن اپنے نئے چاکلیٹی سوٹ میں کسی دولہے سے کم نہیں لگ رہے تھے۔  میں بھی پوری تیاری سے آئی تھی۔  کشو کی یہ خاص تاکید بھی تھی۔  میں نے سفید کاٹن کی ساڑی پہنی تھی جس پر سفید ریشم کے بارڈر اور بوٹے بنے تھے۔ سفید بلاؤز۔  بالوں کو سمیٹ کر باندھا گیا گردن پر جوڑا۔  آنکھوں پر ڈارک براؤن گوگلز۔  سر پر آنچل ڈال کر میں بڑے با وقار ڈھنگ سے کھڑی تھی۔  میرے پیروں میں روایتی قسم کی سینڈل تھی۔  ناخنوں کی پالش میں نے صاف کر دی تھی۔  سر سے پیر تک میں سادگی اور وقار کی مورت لگ رہی تھی تبھی سیکورٹی سورس سے خبر آئی کہ وزیر اعلیٰ بس اب دو منٹ میں پہنچ رہے ہیں۔  ایک منٹ کے لئے ہلچل ہوئی اور پھر سب خاموش ہو گئے۔  میں پہلے سے طے شدہ اپنی جگہ پر کھڑی تھی۔  میرے داہنے طرف ڈاکٹر رحمن ہاتھ باند ھ کر اس طرح کھڑے تھے جیسے یہ نرسنگ ہوم ان کا نہیں میرا ہو۔  ڈیڑھ دو سو لوگوں کا مجمع صف بنائے میرے پیچھے کھڑا تھا۔  ہر طرف خاموشی تھی۔ ایسا منظر میں نے سینکڑوں بار ٹی وی پر دیکھا تھا مگر میں بھی کبھی اس کا کردا ر بن سکوں گی ایسا میں نے خواب میں بھی نہیں سوچا تھا۔  میرے ساتھ اتنے لوگ کھڑے تھے۔  کشو نے اتنا پکا انتظام کر رکھا تھا۔  پہلی بار مجھے اس کی بیوی ہونے پر فخر ہوا۔  آج میں یہاں جس رتبے اور شان سے کھڑی تھی جتنی عزت مجھے یہاں دی جا رہی تھی، اس کے لئے میں کشو کے سو خون معاف کر سکتی تھی۔

وی آئی پی گاڑی کے ہارن نے سب کو فوجی انداز میں ایلرٹ کر دیا۔ وزیر اعلیٰ کی گاڑی آ کر رکی۔  میں بیحد ڈرامائی انداز میں ہاتھ جوڑ کر تیزی سے آگے بڑھی۔  میری داہنی طرف ڈاکٹر رحمن اور چا ر پانچ بہت خاص لوگ جن کو میرے پیچھے چلنا تھا میرے ساتھ ہو لئے۔ وزیر اعلیٰ نے گاڑی سے نکل کر ہاتھ جوڑ کر نمسکار کیا۔  چھوٹا سا قافلہ نرسنگ ہوم کے گیٹ پر تھا اور چند منٹوں جھنڈا پھیرانے کے بعد ربن کاٹا گیا۔  تالیاں بجیں۔  ایک دوسرے کو مبارک باد دی گئی اور لڈو بانٹے گئے۔  میں نے اپنے ہاتھ سے کافی اور ناشتے کی ٹرے وزیر اعلیٰ کی طرف بڑھائی جسے انہوں نے میرے ہاتھ سے لے کر میز پر رکھ دیا اور نرسنگ ہوم کے اندر داخل ہوئے۔  ڈاکٹر رحمن جلدی جلدی انہیں اختصار سے نرسنگ ہوم کے متعلق ضروری باتیں بتاتے جا رہے تھے۔  وزیر اعلیٰ نے ایک ہاتھ سے شاباشی دینے کے انداز میں ڈاکٹر رحمن کی پیٹھ تھپ تھپائی اور پیچھے پلٹ کر گنر کی طرف دیکھا۔  گنر نے ایک افسر کے کان میں کچھ کہا۔  وہ افسر بھاگ کر وزیر اعلیٰ کے پاس آیا۔  آہستہ سے کچھ باتیں ہوئیں اور سبھی لوگوں کو باہر بھیج دیا گیا۔  میری سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا تو میں نے بھی ڈاکٹر رحمن کے پیچھے قدم بڑھا دئے۔

’’میڈم آپ یہیں رہیے۔  وزیر اعلیٰ صاحب آپ سے کچھ باتیں کرنا چاہتے ہیں۔ ‘‘

میں ٹھٹھک کر کھڑی ہو گئی۔  سچ مچ میرے گلے میں کانٹے پڑ گئے اور جسم پسینے سے بھیگ گیا۔  وہ مجھ سے کیا پوچھیں گے اور مجھے کیا جواب دینا ہے، کشو نے مجھے یہ تو کچھ نہیں بتایا تھا۔  مجھے گھبراہٹ ہونے لگی۔  ٹکٹ مجھے انہیں کی پارٹی سے لینا تھا۔  اس لئے ضروری تھا کہ میں انہیں اپنی شخصیت اور اپنی باتوں سے متاثر کر سکوں۔  سب لوگ پیچھے ہو گئے۔  وزیر اعلیٰ مجھے لے کر نرسنگ ہوم کے خالی کمرے میں چلے گئے۔ تھوڑی دیر بعد جب ہم باہر نکلے تو اس وقت میں بہت خو ش تھی اور یہ سوچ سوچ کر بہت خوش ہو رہی تھی کہ جب میں کشو کو یہ بات بتاؤں گی کہ وزیر اعلیٰ نے مجھ سے کہا ہے کہ میں اپنا ووٹ بینک سنبھالوں، جتنا خرچ آئے گا اس کا پچاس فی صد پارٹی ادا کرے گی۔  وزیر اعلیٰ چاہتے ہیں کہ اس سیٹ پر میں کسی بھی طرح جیت حاصل کروں کیوں کہ سیاسی پس منظر میں اس سیٹ کی کافی اہمیت ہے جس کی سفارش وزیر اعلیٰ کریں، اعلیٰ کمان اسے ٹکٹ نہ دے ایسا ممکن ہی نہیں۔

ایم۔ پی۔  کا ٹکٹ مجھے ہی ملنا تھا، اس لئے مجھے آج سے ہی اپنا کام شروع کر دینا چاہئے۔  انہیں میری جیت کا یقین تھا۔ سب جانتے تھے کہ میری شخصیت دلآویز ہے۔  مجھے اچھا بولنا آتا تھا۔ قدرت نے مجھے لوگوں کو اپنا ہم خیال بنانے کی قوت دی ہے اور سب سے بڑی بات کہ میں عورت ہوں، شاید وزیر اعلیٰ کو اسی بات کا بھروسہ تھا۔  جیسے لگ رہا تھا پل بھر میں میری دنیا ہی بدل گئی۔  وزیر اعلیٰ جا چکے تھے۔  میرے چاروں طرف لوگوں کی بھیڑ تھی۔  یہ سب اجنبی تھے اور میں ان کے بیچ اس طرح باتیں کر رہی تھی جیسے میں انہیں برسوں سے جانتی ہوں، یہی تو ہوتی ہے سیاست اور ایسے ہی بنتے ہیں ووٹ بینک۔  میں بغیر وقت برباد کئے اپنی پوری کوشش اور ایمانداری کے ساتھ کام پر جٹ جانا چاہتی تھی۔

گھر جانے کے لئے جب میں اپنی گاڑی کی طرف بڑھی تو یہ دیکھ کر مجھے جھٹکا لگا کہ میرے ساتھ دس پندرہ لوگ اور بھی ہیں جنہیں میرے ساتھ گھر چلنا ہے۔  ان سب کے پاس اپنی اپنی گاڑیاں تھیں۔  کشو نے ایک بڑی بھیڑ کے ساتھ چھوٹی ٹیم اور بنائی تھی۔ میری دن بھر کی مصروفیت کیا ہو گی، کہاں کہاں جانا ہے، کس سے ملنا ہے، یہ سب ٹیم طے کرے گی۔  بہر حال ابھی الیکشن ہونے میں وقت تھا اس لئے کچھ دن میں اپنی آزادی سے جی سکتی تھی۔

٭

ڈاکٹر رحمن کی رضامندی ملتے ہی میں جھوم اٹھی جلدی سے میں نے ابّی کو فون کر کے یہ خوشخبری سنادی۔

ابّی کا پہلا سوال-’’تم نے سب کچھ بتا دیا۔ ‘‘

’’جی ابّی! میں نے بتا دیا ہے مگر اتنا ہی جتنا ضروری ہے۔ ‘‘

’’خیر، تم جیسابہتر سمجھو مجھے اللہ کی ذات پر بھروسہ اور تم پر یقین ہے۔  آگے جیسا ہو بتانا۔ ‘‘

ابّی نے دعاؤں کے ساتھ فون کاٹ دیا۔  اور میں نے خود کو شاباشی دی۔

شہر میں الیکشن کی سیٹوں کو لے کر اٹکلیں شروع ہو چکی تھیں۔  وزیر اعلیٰ نے خود مجھ سے بات کی تھی، اس کا مطلب ہے کہ چناؤ کا ٹکٹ مجھے ملنا طے تھا۔ لوگوں کی مبارکبادی کے فون آنے لگے اور میں نے یہ کہہ کر بات ختم کی کہ ابھی تو کچھ فیصلہ نہیں ہوا ہے اگر معاملہ طے ہو جاتا ہے تو مجھے آپ کی ضرورت پڑے گی۔  لوگ لمبی ہنکاری کے ساتھ فون رکھ دیتے۔  ڈاکٹر رحمن بھی اتنا سمجھ چکے تھے کہ میرا گھر کچھ دنوں میں وی آئی پی گھر ہو جائے گا۔

ایک دن وہ مجھ سے کہنے لگے۔ ’’بھابی آپ کے دماغ میں کیسے آیا کہ آپ کو الیکشن لڑنا چاہیے۔ ‘‘

’’ڈاکٹر رحمن!بہت سی باتیں لوح قلم سے ماتھے پر لکھ دی جاتی ہیں۔ اللہ کی مرضی ہو گی تبھی یہ بات میں نے سوچی۔ اب دیکھئے نا !شادی بیاہ کا معاملہ بھی تقدیر کا ہوتا ہے میری بہن نیلوفر پڑھی لکھی ہے، خوبصورت، تہذیب یافتہ سلیقے مند ہنر والی لڑکی ہے مگرمس میچ ہونے کی وجہ سے میاں بیوی میں طلاق ہو گیا۔ ‘‘

’’ارے! ‘‘ ڈاکٹر رحمن کا چہرہ سنجیدہ ہو گیا۔

’’چند سال، چند مہینے، چند ہفتوں میں نہیں، چند دنوں میں ہی یہ حادثہ ہو گیا۔  دولہے صاحب تو پہلے سے ہی شادی شدہ تھے۔ یہ سب باتیں کہیں چھپتی ہیں، کھل گئیں۔  ہم لوگوں نے رائے مشورے کے بعد نیلوفر کو علاحدہ کروا دیا۔ ‘‘

’’بالکل ٹھیک کیا! ایسے مردوں کا کوئی بھروسہ نہیں ہوتا۔ ‘‘

’’ڈاکٹر رحمن ہم لوگ صرف تین بہنیں ہی ہیں۔  نیلوفر سب سے چھوٹی ہے۔  بھائی نہیں ہے۔  ابّی ضعیف ہو گئے ہیں۔  کشو انڈیا سے باہر رہتا ہے۔  ایسے میں میں لڑکا ڈھونڈنے کہاں جاؤں اگر آپ کی نظر میں ہو تو بتائیے گا۔ ‘‘

’’بالکل بتاؤں گا۔  یہ تو کار خیر ہے۔ ۔  بڑا ثواب ہے اس کا۔ ‘‘

میں جھٹ اندر گئی اور البم سے نیفو کی کئی خوبصورت تصویریں نکال کر ڈاکٹر رحمن کے ہاتھ پر لا کر رکھ دی-’’اسے آپ اپنے پاس رکھ لیجئے تاکہ کہیں بات بنے تو اسے آپ دکھا سکیں۔ ‘‘

ڈاکٹر رحمن شرما گئے-’’نہیں نہیں ضرورت ہو گی تو آپ سے مانگ لوں گا۔ ‘‘

میں نے وہ فوٹو زبردستی ڈاکٹر رحمن کی جیب میں ڈال دی۔  جانتی تھی۔  شریف مر د ہے۔  کنوارا ہے۔  ایک اچھی ساتھی کی ضرورت تو محسوس ہوتی ہو گی۔  خوبصورت لڑکی کی فوٹو جیب میں موجود ہو گی تو خود بخود ارادہ بنے گا۔

 میں کشو سے اس سلسلے میں بات کرنے سے پہلے ڈاکٹر رحمن کی طرف سے پوری طرح مطمئن ہو جانا چاہتی تھی۔  دوسرے دن ہی نتیجہ سامنے آ گیا۔  میں بھابی سے ’باجی‘ بن گئی۔  میرے گھر میں ان کی آمدو رفت بڑھ گئی۔

میں ان کے سامنے خود کو بیحد مصروف اور نیفو کے لئے فکر مند دکھاتی وہ بیچارہ میرے ذکر کرنے پر ہر بارسر جھکا لیتا جیسے وہ اس کے لیے خود ذمہ دار ہو۔  میں آہستہ آہستہ اس کی طرف بڑھ رہی تھی۔

نرسنگ ہوم بھی چل نکلا تھا۔  کشو اور میرے نام کے پتھر جڑے جا چکے تھے اوراس طرف سے میرا کام تقریباً ختم ہو چکا تھا۔ مجھے بستی گئے ہوئے بہت دن ہو گئے تھے۔ میں نے سوچا چلو ادھر کا بھی ایک چکر لگا آئیں ! جہاں میں پی آر بنانے کے لئے روزانہ سیکڑوں لوگوں سے مل رہی ہوں وہیں پرانے لوگوں کو بھی نہیں چھوڑنا چاہیے۔  اس سے پہلے کہ کشو کی بنائی ہوئی چھوٹی سی ٹیم میرے گھر پر دھاوا بولے میں گاڑی نکال کر چل پڑی۔  میں جانتی ہوں کہ ابھی میرے پاس وقت ہے اور میں ان لمحوں کو اپنی مرضی سے جی سکتی ہوں۔  گاڑی چلاتے وقت میری سوچ آوارہ پرندے کی طرح مختلف سمتوں میں بھٹک رہی تھی۔  کبھی ابّی کے بڑھاپے کا خیال آتا، کبھی نیفو کے روشن مستقبل کا تانا بانا بننے لگتی، کبھی سوچتی میں سوانگ کرتے کرتے کہیں اصل زندگی کا رول تو ادا نہیں کرنے لگی۔  پچھلی زندگی دیکھتے ہوئے مجھے کشو سے ناراض رہنا چاہیے یا موجودہ سچ کو تسلیم کر کے کشو کو معاف کر دینا چاہیے کیوں کہ اسی کی وجہ سے میں آج شہر کی ایک خاص ہستی بن چکی تھی۔  میں تو یہ دیکھ کر حیران ہوتی کہ ٹکٹ ابھی ملا نہیں اور لوگ اپنا دکھڑا لے کر میرے پاس آنے لگے کہ میں آگے کی زندگی میں اتنی مصروف ہو جاؤں گی کہ اصل ضرورت مندوں کے لئے وقت نہیں نکل پاؤں گی۔  وولکی اور الزبیتھ سے باتیں ہوتی رہتیں، ان کی بہو اپنے کچھ ذاتی شرطوں کے ساتھ واپس لوٹ آئی تھی اور وولکی بڑی ہوشمندی کے ساتھ ماں اور بیوی کے درمیان خوشگوار رشتہ بنانے میں کامیاب ہوتا جا رہا تھا۔  پھانکی تو ہمیشہ کی واہیات لڑکی رہی ہے۔  اتنے دنوں سے میں وہاں پہنچی نہیں۔ اس کا موبائل میں روپئے ڈلوائے نہیں، ریچارج ہوا نہیں اس لئے بند پڑا تھا۔  پھانکی بھی ان عورتوں کی طرح لگی جنہیں سوچنا کچھ نہیں۔ نہ آگے نہ پیچھے، بات چلے تو ہنس دو وقت پڑے تو رو دو۔  جو سامنے چل رہا ہے وہی مکمل ہے اور وہی زندگی ہے۔  چمپا کاکی گزرے وقت کا ٹپکا آنسو تھیں۔

میں اپنے ارد گرد پھیلے پرانے کر داروں کا تجزیہ کرتی چل رہی تھی۔  اب سوچنے کے لئے کم اور کرنے کے لئے بہت کام رہتا تھا۔  میں پرندوں کے ٹوٹے پروں جیسے بکھرے ان چہروں کو یاد کرتی جا رہی تھی اور اپنی گاڑی مختلف موڑوں سے کاٹتی بھیڑ کے بیچ سے نکالتی آگے بڑھاتی جا رہی تھی۔ ہاں کرینا کا کردار میرے لئے   بالکل نیا تھا۔  انہیں میں نے ناولوں میں پڑھا اور فلموں میں دیکھا ضرور تھا۔  روبرو سابقہ نہیں پڑھا تھا۔  رہی بات ستارہ کی تو میں کچھ نہیں بولوں گی —سوچ سوچ کر اپنا دماغ بھی نہیں خراب کروں گی کیونکہ وہ ابھی تک میرے صحیح، غلط، جائز ناجائز، مناسب نامناسب اور زندگی موت کی کگار پر بیٹھی ایسی  ذی روح بنی ہوئی تھی جس کے لئے میں کہہ ہی نہیں سکتی کہ اسے میں ادھر لاؤں یا ادھر لے جاؤں۔  بیچ میں بظاہر بہت باریک سی پھانک تھی مگر وہ پھانک جب میں سوچتی ہوں تو سمندر کی طرح گہری اور فاصلہ میں زمین آسمان جتنی دوری والی لگتی ہے۔  ستارہ تم کیا ہو ؟ میں تمہیں کس صف میں کھڑا کروں۔  میں تمہیں کیا سمجھوں گی جبکہ تمہاری آواز سننا بھی آندھی طوفان کے بیچ دیا جلائے رکھنا جیسا ہے۔  ایک جھٹکے سے میری گاڑی برگد کی چھاؤں میں اپنی جگہ آ کر رک گئی۔  چبوترا خالی تھا۔  مجھے وہاں رحمو بابا نظر نہیں آئے۔  ان کی گدڑی بھی وہاں نظر نہیں آئی۔  شاید وہ موسم کی بے ترتیبی کی وجہ سے اپنی جھگی میں چلے گئے ہوں گے۔  رحمو بابا کے لئے میرے دل میں بہت عزت ہے۔  واقعی وہ کیچڑ میں کھلے کنول کی طرح ہیں جنہیں اپنے چاروں طرف کی پھیلی گندگی سے کوئی مطلب نہیں۔  خود کو سدھار لو زمانہ خود سدھر جائے گا—وہ اس فلسفے کے قائل تھے۔  لوگ کہتے ہیں کہ دنیا چند لوگوں کی نیکیوں اور اچھائیوں کی وجہ سے قائم ہے اور چل رہی ہے۔  مجھے لگتا یہ بستی بھی رحموباباجیسے نیک انسان کی وجہ سے ابھی تک  قائم ہے ورنہ ان چھوٹی چھوٹی جھگیوں میں کیا کچھ نہیں ہوتا۔ روزانہ زندگی کو جیتے مرتے لوگ کیا گل کھلا ڈالتے ہیں اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔  مگر پھر بھی یہ لوگ رحم طلب ہیں۔  معاشرے کاناسور ہوتے ہوئے بھی معاشرے کا سچ ہے جسے قبول کرنا ہی پڑے گا۔ شہر سے کچھ دور بسی اس بستی کو نہ غلیظ بستی کہہ سکتے تھے، نہ شریفوں کی، پھر اسے کیا نام دوں۔  یہیں پر آ کر میں خاموش ہو جاتی۔  تیز تیز قدم بڑھاتی ہوئی میں بستی میں داخل ہوئی۔

 پہلے میں رحمو بابا کی جھگی میں جا کر ان کی خیریت معلوم کروں گی پھر چمپا کاکی، پھانکی، کرینا وغیرہ سے ملوں گی۔  مجھے دیکھ کر ارشد پان والے اور راکیش بھیا  یعنی راشن والے نے زور دار سلام کیا۔  یہ سلام مجھے چونکانے والا نہیں تھا کیوں کہ ان کا انداز ہی یہی تھا-بلند آواز میں بولنا۔  ایسے لوگ خود اپنے آپ کو اپنی آواز سے اپنے وجود کا احساس کراتے ہیں۔

 میں نے جھگی کے اندر جھانکا۔  جھگی خالی تھی۔  نہ ان کی گدڑی نہ ٹوٹے پھوٹے برتن اور نہ ٹین کا وہ بکسا تھا جس میں رحمو بابا اپنی پیاری بیوی کلن بی کے پہنے  ہوئے پرانے کپڑے، گھسی ہوئی سلور کی چوڑیاں جو انہوں نے پہلی رات میں کلن بی کو منہ دکھائی میں دی تھیں ا، ن کا ٹوٹا آئینہ اور چھوٹی موٹی چیز نشانی کے طور پر رکھتے تھے اسی طرح جیسے کوئی بچہ کسی کونے میں یا پھر کسی ٹوٹے بکسے میں، یا فالتو پڑے دفتی کے ڈبے میں اپنے پرانے کھلونے چھپا کر خوش ہو جاتا ہے کہ وہ اسے دوسروں کی نگاہ سے چھپا کر رکھتا ہے۔  میں حیران تھی کہ کلن بی کا بکس کون اٹھا لے گیا کہیں ان کے گھر میں چوری تو نہیں ہو گئی، کہاں گئے رحمو بابا ؟میں انہیں تلاشتی ہوئی آگے بڑھ رہی تھی کہ مجھے باہر سے بھاگتی ہوئی پھانکی آتی دکھائی دی۔

وہ دور سے چلائی-’’دیدی تم آ گئیں راکیش بھیا سے جب پتا چلا کہ تم آئی ہو تو میں بنگلے کے کام پر سے چھٹی لے کر آ گئی، دیدی تم کہاں تھیں ؟ دیدی تم نے دیر کر دی۔ ‘‘

پھانکی ساری دوریاں مٹا کر مجھ سے لپٹ کر سسک اٹھی۔  طرح طرح کے مسالحوں کی بو سے رچا بسا، پسینے سے بھیگا اور مہکتا اس کا جسم، وہ اپنا سارا بوجھ میرے کندھے پر دے کر جیسے میرے اندر اپنا تحفظ ڈھونڈ رہی ہو۔

میں نے اس کی پیٹھ تھپ تھپا کر اسے تسلی دی مجھے لگا چمپا کاکی دنیا چھوڑ گئیں یا اس کا شوہر کھانستے کھانستے مر گیا مگر جب اس نے بتایا کہ رحمو بابا نے دنیا چھوڑ دی تو لمحے بھر کے لئے ایسالگا جیسے میرے دل کی دھڑکن رک سی گئی ہو۔  میری آنکھوں سے آنسوؤں کا سیلاب بہہ نکلا۔  میں پھانکی کے کندھے پر سر رکھ کر سسک اٹھی۔  غم انسان سے انسان کا فرق مٹا دیتا ہے۔  دکھ درد زندگی کا ایسا پلیٹ فارم ہے جہاں نہ کوئی چھوٹا ہے، نہ بڑا، نہ اونچا ہے، نہ نیچا ہے، نہ امیر ہے، نہ غریب ہے۔  میں اور پھانکی ایک دوسرے سے لپٹ کر رو رہی تھیں۔  تبھی کسی نے بیحد ہمدردی سے میرے شانے پر ہاتھ رکھا۔  میں پیچھے پلٹی۔  بھیگی آنکھوں سے کرینا پیچھے کھڑی تھی۔  اس کا پیٹ کافی نکل آیا تھا۔  چہرے کا حسن مدھم پڑ گیا تھا اور اس کے ہاتھ پیر میں ہلکی سوجن بھی تھی۔  وقت بہت قریب آ گیا تھا اور کسی لمحے بھی بچے کی پیدائش ہو سکتی تھی۔ اس کا پیٹ نیچے جانگھوں کی طرف لٹکا ہوا تھا جو اس بات کا گواہ تھا کہ یقیناً نو مہینے گزر چکے ہیں۔

’’مت روئیے دیدی۔  ہونی کو کون ٹال سکتا ہے۔ ‘‘

کرینا میرے آنسو پوچھ رہی تھی۔  میرا کلیجہ دکھ سے پھٹا جا رہا تھا۔  میں پھوٹ پھوٹ کر رونا چاہتی تھی۔

’’یہ سب کب ہوا؟ کیسے ہوا؟‘‘

میں نے آواز پر قابو پاتے ہوئے کہا۔ پھانکی روتے ہوئے بولی-’’ ایک دن سورج نکل آیا اور بابا اٹھے ہی نہیں۔ صبح کی نماز پڑھی۔  آٹھ بجے ارشد پان والا  اپنی دکان کھولنے آیا۔  اسی نے چیخ کر بستی والوں کو جگایا۔  باہر برگد کے نیچے بابا پڑے تھے۔  انہوں نے دنیا چھوڑ دی تھی۔  پھانکی زور زور سے رونے لگی-’’کلن بی نے اپنے پاس ہی بلا لیا۔  انہوں نے ہم سب کو دغا دے دیا۔ ‘‘

پھانکی کی بین کرنے کی آواز اونچی ہوتی جا رہی تھی۔  بستی کے کئی لوگ ہمارے اردگرد اکٹھا ہو گئے تھے۔  جتنے منہ اتنی زبانیں لوگ جہاں ا ن کی خوبیوں کو یاد کر رہے تھے، رحمو بابا اور کلن کی محبت کا ذکر کر رہے تھے۔  رحمو بابا کی نیکیوں کی گنتی کر رہے تھے وہیں برکت علی کو بد دعائیں دینے میں بھی پیچھے نہیں تھے۔  باپ نے ایک بار غصے میں عاق کر کے گھر سے نکال دیا تو کمبخت دوبارہ جھانکے نہیں آیا۔  باپ بیٹے میں جھگڑے ہو ہی جاتے ہیں اس کا مطلب یہ تھوڑے ہی ہوتا ہے کہ خون کے رشتے  ختم ہو جائیں۔  رحمو بابا اپنی کم عمری میں تنہا بستی والوں کے بھروسے پر آئے تھے، یہیں پروان چڑھے، جوان ہوئے، محبت کی، اولاد ہوئی اور آخر انہیں بستی والوں کے بھروسے ہی ان کے کاندھے پر آخری سفر بھی پورا کرنا پڑا۔  جب وہ یہاں آئے تھے تودوسرے چہرے تھے، آج جب رخصت ہوئے تو مختلف لوگ تھے مگر کسی کے خلوص میں کمی نہیں آئی تھی۔  بستی والے سبھی پر مہربان رہتے تھے اور رحمو بابا پر بھی خاص مہربان تھے اسی لئے تو بستی میں کیا عورت کیا مرد سبھی جنازے میں شریک ہوئے تھے اور اپنے اپنے طریقے سے فاتحہ درود پڑھ رہے تھے۔ بستی میں آج ان کا تیجا تھا۔

میں نے بھیڑ پر نگاہ ڈالی۔ دور ایک کونے میں گھٹنوں پر سر رکھے ستارہ بیٹھی سسک رہی تھی۔

میں نے کرینا کی طرف دیکھا۔  وہ اپنا بے ڈول جسم لئے، سر جھکائے پیر کے انگوٹھے سے زمین کو کھودنے کی کوشش کر رہی تھی۔

رحمو بابا کے نہ رہنے سے میرا دل بستی سے اچاٹ ہو گیا۔ پوری آبادی بے نور دکھائی دے رہی تھی۔  بستی کی فضا نے اپنی کشش کھودی تھی۔  میں بجھے دل اور بھاری قدموں سے ویران پڑے برگد کی چھاؤں میں کھڑی اپنی گاڑی کی طرف بڑھ گئی۔

٭٭٭

 

۱۶۔ بے برگ و نوا کے موسم میں

مجھے نغمے کا نیا سر چاہئے/ نئی چاہتوں نئی لذتوں کا سر /جو دھان کے کھیت میں / روپائی کرتی ہوئی/ اور گٹیا توڑتی عورتوں کے / لبوں سے پھوٹتے ہیں / گھونگھٹ کی اوٹ سے / جھانکتی ہوئی آنکھوں سے / چپکے چپکے گنگنائے جاتے ہیں / زندگی کے ساز پر/ تھرکتے ہوئے، مچلتے ہوئے/ نئی تان، نئی لے پر /پھوٹتے رہتے ہیں / مجھے نغمے کا نیا سر چاہئے/جو ماں کی گود میں ہمکتے/ بچوں کے لبوں سے پھوٹتے ہیں / بہتے پانی میں گھروندے بناتی / بارش کی دھار کو جھولا بناتی / پینگیں بڑھاتی بچیوں کی/ دھڑکنوں میں گونجتے ہیں / کچی عمر کے/ کمسن خوابوں میں / کروٹیں بدلتے رہتے ہیں / مجھے نغمے کا وہ سرچاہیے/ جو بستر مرگ پر پڑے/ انساں کو جلا دے/ بے نور آنکھوں کو/ خوابوں سے سجادے/ سونے ہاتھوں کو /مہندی سے رچا دے/مجھے نغمے کا/ ایک نیا لب و لہجہ/ ایک نیا سر چاہئے/ اس بے برگ و نوا کے موسم میں۔ ۔ ۔

ہم عورتوں پر نیند اور غفلت کی ردا ڈالنے والے ہاتھ اگر ہٹ جائیں ان کے جبر اور ہمارے صبر کا آہنگ اگر ٹوٹ جائے تو عورت وہ نہیں رہے گی جیسا سب اسے دیکھنا چاہتے ہیں بلکہ وہ ہو گی، جیسی وہ خود ہے اور جسے وہ پوشیدہ رکھنا چاہتی ہے۔

رٹائرڈ مجسٹریٹ غیاث الدین احمد خان یعنی ابّی کا چھوٹا سا قافلہ میرے گھر آنے کے لئے روانہ ہو چکا تھا۔ اس قافلے میں نیفو، فریدن بوا، فردوس، اس کا شوہر، بچے اور چند اہم لوگ جن میں ابّی کے ایک دو دوست کے ساتھ ہمارے خاص رشتے دار بھی شامل تھے۔  اب تک یہ اہم معاملہ جس کی اجازت میں کشو سے لے چکی تھی صرف اس لئے رکا ہوا تھا کہ نیفو کا بی ایڈ کا امتحان ہو جائے تب کام آگے بڑھایا جائے تاکہ دوسری بار بھی اس کی پڑھائی میں خلل نہ آئے۔

کشو نے ڈاکٹر رحمن کا نام سنتے ہی ایک منٹ دیر نہیں کی اور ہاں کہہ دیا مگر اس ہاں کے ساتھ ایک ایسے نکتے کی طرف میری توجہ دلائی جس پر بعد میں میں گھنٹوں سوچتی رہی یہ بات میرے ذہن میں پہلے کیوں نہیں آئی۔  ہمیشہ میں دور اندیشی میں کشو سے ایک قدم پیچھے ہی چلتی تھی، ایسا مجھے لگتا تھا۔

کشو نے کہا کہ شادی کے بعد ڈاکٹر رحمن نیفو کے ساتھ ادھر ادھر نہ رہ کر ان کے بنگلے میں ہی آ کر رہیں گے۔ تھوڑی ہچکچاہٹ کے بعد ڈاکٹر رحمن نے اپنی رضامندی دے دی۔  میں خوش تھی کہ ا چھا ہو اب میری چھوٹی بہن میرے ساتھ میرے گھر پر رہے گی تو میری سرپرستی بھی رہے گی۔  اور نیفو اگر کوئی بیوقوفی کی حرکت کرتی ہے تو میری تیز نگاہوں کی تنبیہ اسے ہوشیار کرتی رہے گی مگر کشو کی سوچ الگ تھی۔  اس کا ماننا تھا کہ آئندہ کی زندگی میں چونکہ سیاسی سرگرمیوں میں بہت مصروف ہو جاؤں گی۔  لوگوں کا آنا جانا بھی بہت بڑھ جائے گا، پبلک فیگر بننے کے بعد میرے پاس گھر کے لئے وقت نکالنا مشکل ہو جائے گا۔  ایسے میں پرندوں، مچھلیوں، پیڑ پودوں کی دیکھ بھال، گھر کی دیکھ ریکھ کے لئے کسی گھر کے آدمی کا ہونا ضروری ہے اور نیفو سے بہتر کون ہو سکتا تھا۔  ہم دونوں اپنے اپنے ڈھنگ سے اس مسئلے پرسوچ رہے تھے۔

ابّی کا کہنا تھا کہ چونکہ ان کے شہر میں ایک بار نیفو کی اتنی بدنامی ہو چکی ہے اس لئے دوسری شادی کا اہتمام ان کے شہر میں نہ کر کے میرے شہر اور میرے گھر میں کیا جائے۔  اس سے زیادہ میرے لئے خوشی کی بات کیا ہو سکتی تھی۔  دوسرے یہ کہ لڑکا بھی، یعنی ڈاکٹر رحمن بھی میرے شہر میں تھے اور شادی کے بعد بھی انہیں یہیں رہنا تھا۔ کل نیفو کا مانجھا پڑے گا، پرسوں مہندی اور اس کے اگلے دن نکاح کا اہتمام تھا۔  ڈاکٹر رحمن کی طرف سے گاؤں کے ایک رشتے کے چاچا کا خاندان تھا دو چار دوست کل جمع بارات میں دس لوگ تھے۔

مقررہ وقت پر قاضی آئے، نکاح پڑھایا گیا، چینی چھوارے بانٹے گئے، نیفو مسز رحمن بن گئیں۔

چونکہ اگلے ہفتے ٹکٹ کے ملنے کی امید تھی اس لئے وقت کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے، اور کسی بھی آدمی پر بھروسہ کرنے کا مزاج نہ ہونے کی وجہ سے کشو پندرہ دن پہلے ہی آ گیا تھا۔  اور آنے کے اگلے دن ہی دلی چلا گیا تاکہ ٹکٹ ملنے میں کوئی دوسرا داؤ پیچ نہ کھیل دے۔  نیفو کی شادی میں بھی وہ صرف دو دن کے لئے آیا تھا۔  نکاح ا ور ولیمے میں شرکت کرنے کے لئے۔  پھر وہ واپس چلا گیا۔ دو چار دن میں شادی کا ہنگامہ ختم ہو گیا سبھی اپنے اپنے گھروں کو واپس ہو گئے اور میرے گھر میں ہونے والے الیکشن کی گہما گہمی بڑھ گئی۔

بجلی کی طرح یہ خبر پورے شہر میں پھیل گئی کہ اپنے شہر سے مجھے ایم پی کا ٹکٹ مل گیا ہے حالانکہ کشو نے مجھے فون کر کے ایک دن پہلے یہ خوشخبری سنا دی تھی مگر جب تک آفیشیلی اعلان نہیں ہو جاتا میرے لئے زبان کھولنا ممنوع تھا۔  کشو واپس آ گیا تھا، اس کا مقصد حل ہو چکا تھا، ڈاکٹر رحمن اور نیفو گھر میں رہنے کے لئے آ گئے۔  گھر کا بالائی حصہ نیفو کو دے دیا گیا تھا وہ بے حد خوش تھی۔  ڈاکٹر رحمن بھی کم خوش نہیں تھے۔  بقول ان کے نیفو جیسی لڑکیاں ہی ان کے خوابوں کی آئیڈیل گرل رہی ہیں۔  نیفو نے میرے گھر کی کمان اپنے ہاتھوں میں لے لی تھی۔  کیوں کہ میں واقعی صبح سے رات ایک دو بجے تک لوگوں کے پیچ بیحد مصروف رہتی تھی۔

کشو کی بنائی ہوئی چھوٹی سی ٹیم دیر رات تک میرے اگلے دن کی مصروفیت مقرر کرتی تھی۔  مجھے آج کن علاقوں کا دورہ کرنا ہے۔  کہاں کھلی جیپ میں بیٹھے بیٹھے محض ہاتھ ہلا کر آگے بڑھ جانا ہے اور کہاں پد یاترا کرتے ہوئے ڈور ٹو ڈور کنوینسنگ کرنی ہے۔  ساتھ ہی اس ٹیم نے میری طرف سے کچھ ایجنڈے بھی بنا رکھے تھے اور ان ایجنڈوں کے پمفلٹ ایک بار ہوائی جہاز کی گشت سے پورے شہر میں پھول کی بارش کی طرح برسا دئے گئے تھے۔  بیچ میں میرا چناؤ نشان آدھا چاند بنا ہوا تھا اس پر میری تصویر اور ایجنڈوں کے کچھ پوائنٹ تھے۔  خرچ بہت آیا تھا مگر فکر نہیں تھی کیوں کہ کشو کے دوستوں کی طرف سے کافی مالی مدد مل رہی تھی۔  مگر دوستی کے نام پر نہیں بلکہ انہیں مستقبل میں ملنے والا فائدہ نظر آ رہا تھا اس لئے وہ کشو کی طرف یعنی میری طرف جھک رہے تھے۔

میں گھر گھر جا کر عورتوں کو سمجھا رہی تھی کہ آدھا چاند یعنی عورتوں کی آدھی ادھوری زندگی جس میں وہ اپنے مکمل وجود کے ساتھ نہیں بلکہ ایک غلام کی طرح زندگی بسر کر رہی ہیں انہیں آزادی چاہیے تو انہیں مجھے ووٹ دے کر آدھے چاند کو پورے چاند میں بدلنا ہو گا تاکہ میں انہیں ان کے مکمل وجود کے ساتھ زندگی دے سکوں۔  انہیں روزگار دلا سکوں، ان کے دکھ درد اور ان کی پریشانیاں بانٹ کر انہیں انصاف دلوا سکوں۔  میری جیت ان تمام عورتوں کی جیت ہو گی جو اپنے وجود کی لڑائی لڑ رہی ہیں۔  مردوں کے بے جا ظلم اور گھریلو تشددسے بچنا چاہتی ہیں تو انہیں شریمتی کاشف اصغر کو جتانا ہو گا، آدھے چاند پر ٹھپا لگا کر پورا چاند اپنے دامن میں اتارنا ہو گا، اگرآسمان کی بلندی چھونا ہے، اپنے سوئے خوابوں کو جگانا ہے، عورتوں پر ہونے والے ظلم کے خلاف آواز اٹھانی ہے، مردوں کی دنیا میں اپنی پہچان بنانی ہے تو انہیں شریمتی کاشف اصغر کا ساتھ دینا ہو گا۔  ان کے مرد نشہ خوری کی زد سے بچ سکیں، ان کے بچے بھوکے پیٹ نہ سو پائیں، انہیں بھی جینے کا حق مل سکے۔  پیسوں کی محتاجی کے لئے انہیں اپنے مردوں کے آگے ہاتھ نہ پھیلا کر اپنی آمدنی خود کرنی ہے، اپنے پیروں پر چلنے کی خود مختاری حاصل کرنی ہے تو انہیں شریمتی کاشف اصغر سے ہاتھ ملانا ہی ہو گا۔

اسی طرح کی باتیں دن بھر میں سینکڑوں بار ہزاروں لوگوں کی بھیڑ میں بولتی۔  لوگوں کا کہنا تھا کہ اتنی بڑی تعداد میں عورتیں کبھی بھی سڑکوں پر نہیں نکلیں۔  ہر مذہب، ہر طبقے کی عورتیں ہمارے ساتھ ہو رہی تھیں۔  میری ٹیم مجھے بتاتی تھی کہ جب میں بولتی ہوں تو میری آواز میں اتنا درد رہتا ہے، اتنی سچائی رہتی ہے کہ کتنی عورتوں کی آنکھوں سے آنسو ٹپکنے لگتے ہیں۔ میڈیا ان آنسوؤں کا کلوز اپ لے کر ہر طرف ہائی لائٹ کر رہی تھی۔ میرے نام کا ڈنکا بج رہا تھا۔  آواز دلی تک پہنچ رہی تھی جیسے جیسے وقت قریب آ رہا تھا میری جیت کی امید پختہ ہو رہی تھی۔  میں نے اخباروں میں دیکھا کہ کتنی بوڑھی اور اپاہج عورتیں بھی جو میرے قافلے کے ساتھ نہیں چل سکتی تھیں اپنی اپنی جگہ پر آنچل پھیلا کر میری جیت کے لئے ہاتھ اٹھا کر دعائیں مانگ رہی تھیں۔  پورا شہر میری تصویروں سے میرے قد سے دوگنا تین گنا اونچے کٹ آؤٹ سے سجا ہوا تھا۔ بہت سی جگہوں پر عورتوں نے پنیوں سے محلوں کی سجاوٹ کر رکھی تھی جس پر میری تصویر، میرا چناؤ نشان چھپے تھے۔  میری رکارڈیڈ تقریر ان جگہوں پر کئی کئی لاؤڈاسپیکر  پر بج رہی ہوتیں جہاں میں پہنچ نہیں پاتی تھی۔ کشو کو لگا کہ مردوں کو بھی شامل ہونا چاہیے کیوں کہ بھیڑ میں عورتوں کے مقابلے مردوں کی تعداد کچھ کم ہے۔ دوسرے دن سے میں نے اپنی تقریر میں کچھ اور پوائنٹ جوڑ لئے۔  آپ خواتین اپنی لڑائی تب تک پوری طرح نہیں جیت سکتیں جب تک کہ آپ کے گھر کے مرد بھی آپ کے ساتھ ایک رائے نہ ہوں۔  آپ کی آواز میں اپنی آواز نہ ملا رہے ہوں، آپ کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر نہ چل رہے ہوں، آپ کے قدموں کے ساتھ اپنا قدم نہ بڑھا رہے  ہوں۔  کیوں کہ گھر گرہستی کی گاڑی ہمیشہ ایک پہیے سے نہیں دونوں پہیوں سے چلتی ہے، ایک پہیہ عورت کا اور دوسرا پہیہ مرد کا۔  اگر آپ خواتین اپنے بچوں کے مستقبل کو روشن کرنا چاہتی ہیں اپنے گھر کو سکھ چین اور خوشحالی کا باغیچہ بنانا چاہتی ہیں تو ایک ہاتھ اپنا اٹھائیے، دوسرا اپنے مرد کا۔  عورت اور مرد دونوں کے ہاتھ جب اوپر اٹھیں گے تبھی زندگی کامیاب ہو گی۔  پھر میں نے یہ معمول بنا لیا کہ جب ایک جگہ تقریر ختم ہوتی، میرا قافلہ دوسری طرف روانہ ہونے کی تیاری کر رہا ہوتا تو میں اپنے لاؤڈ اسپیکر پر اپنی بلند آواز میں نعرہ لگاتی، آدھے چاند کو چھونے کے لئے اٹھائیے اپنا ہاتھ اور ساتھ میں اپنے مرد کا ہاتھ بھی تاکہ میں جان سکوں کہ پورا چاند پانے کی خواہش کتنو ں  میں ہے۔  میں اپنی انگلی آسمان کی طرف اٹھاتی اور تقریباً چیختے ہوئے کہتی وہ دیکھئے نیلا آسمان آپ کو دیکھ رہا ہے، آپ کی آواز سن رہا ہے کیوں کہ وہ بھی پورے چاند کی خواہش رکھتا ہے، یہ خواہش اس کی ہی نہیں میری بھی ہے اور آپ سب کی ہے تو تیس اکتوبر کو ہونے والے چناؤ پر آدھے چاند پر مہر لگا کر شریمتی کاشف اصغر کو زیادہ سے زیادہ ووٹوں سے جتائیں۔

لوگ جذباتی ہو کر چیخنے لگتے، کتنی ہی عورتیں کود پھاند کر اسٹیج پر چڑھ جاتیں اور میرے قدموں میں لوٹ جاتیں میرے ہاتھوں کو چومنے لگتیں۔  ایسے میں دس بارہ عورتوں کی وہ ٹیم جسے کشو نے میری حفاظت کے لئے تیار کیا تھا، آگے بڑھتی اور نرمی سے انہیں پیچھے کر دیتیں۔

یہ ساری باتیں میں زبان سے نہیں، دل سے کہتی تھی اس لئے اثر بھی ہوتا تھا۔  عورتوں کے دکھ درد سن کر میری آنکھوں میں سچ مچ آنسو بہنے لگتے تھے اور تنہائی میں کشو میرے ان آنسوؤں کا مذاق اڑاتا تھا کہ میں پرس میں پیاز رکھ کر چلتی ہوں۔

میں نے دیکھا کہ میری تقریر کا یہ اثر ہوا کہ مردوں کی تعداد بھی بڑھنے لگی۔  اس دوران جو سب سے حیرت کی بات تھی وہ یہ کہ ایک دن میں نے عورتوں کے مجمع میں ستارہ کو دیکھا، وہ ہاتھ اٹھا اٹھا کر میرے نعرے کے ساتھ اپنی آواز ملا رہی تھی۔  کاش!میں اتنی دور سے، اتنی بھیڑ اور اتنے شور میں اس کی آواز سن پاتی۔

میری حیرت اس وقت اور بڑھ گئی جب میں اپنی ٹیم کی جمع کی ہوئی اخباروں کی کٹنگ دیکھ رہی تھی۔  میں جیپ پر کھڑی ہوئی تھی، چاروں طرف عورتوں اور مردوں کی بھیڑ تھی۔  میرے انداز سے لگ رہا تھا کہ میں بے حد جوش میں ہوں مجھے سننے والے لوگ میری طرف گردن اٹھائے مجھے دیکھ رہے تھے۔ میں نے دیکھا کہ میری رکی ہوئی جیپ کے پہیے پر ہاتھ رکھے ستارہ بھی قریب ہی کھڑی تھی۔  کاش! میں نے اسے اس وقت دیکھ لیا ہوتا تو کھینچ کر اپنی جیب  میں چڑھا لیتی مجھے یقین تھا وہ انکار نہ کرتی۔  پھانکی نے ان دنوں میرے گھر کے جوٹھے برتن صاف کرنے کا ذمہ سنبھال رکھا تھا۔

٭

میری دن بھر کی مصروفیت کو طے کرنے کے لئے کشو نے جو چھوٹی سی ٹیم بنائی تھی اب وہ ایک بہت بڑی ٹیم میں تبدیل ہو چکی تھی۔  خاص بات تو یہ تھی کہ وولکی بھی اس ٹیم میں شامل تھا۔  کیوں کہ وہ مجھے بہن مانتا تھا۔  اور بہن کو جتانے کے لئے ضروری تھا کہ وہ اپنے جیجا یعنی کشو کے قریب رہے۔ مجھے لگتا تھا کہ اس کی محنت اور ایمانداری نے اسے کشو کے بیحد نزدیک کر دیا تھا۔  میرا پورا گھر ایک دفتر میں تبدیل ہو چکا تھا۔  آج چناؤ پرچار کا آخری دن تھا۔ سورج نکلنے سے پہلے میں نے گھر چھوڑ دیا تھا۔  میرے ساتھ میرا لمبا چوڑا قافلہ چل رہا تھا۔  کشو ذہنی اور جسمانی طور پر تھکا ہوا لگ رہا تھا مجھے یہ دیکھ کر بیحد تعجب ہوا کہ ہمیشہ نفاست اور پرفیوم کے گھیرے میں رہنے والا میرا شوہر دھول گرد سے بھری قالین پر جو نہ جانے کتنے قدموں سے روندی گئی تھی، اس پر ایسے لیٹ گیا جیسے اس کے بیڈروم کا نرم بستر بچھا ہو۔ بیچارے غریب اسی طرح تھک کر پتھر پر بھی سو جاتے ہوں گے۔  میں نے وولکی کو اشارہ کیا وہ اپنے جیجا کی خدمت میں لگ گیا۔  انہیں اٹھا کر باتھ روم کی طرف لے گیا جہاں کا ٹھنڈا شاور اس کے انتظار میں تھا۔

شام تک میں بھی پست ہو گئی تھی۔  تھکان سے جسم چور چور تھا۔  میری آواز بولتے بولتے بیٹھ رہی تھی اور مجھے ایک پڑاؤ سے دوسرے پڑاؤ کی طرف جانے سے پہلے نیم گنگنے نمک والے پانی سے غرارا کرنا پڑتا تھا۔

تقریر کرتے ہوئے میں نے ایک طائرانہ نظر مجمع پر ڈالی۔  بھیڑ سے کنارے ہو کر کشو کھڑا تھا وہ کسی مرد سے باتیں کر رہا تھا جس کی پیٹھ میری طرف تھی میں نے توجہ نہیں دی اور رٹے رٹائے جملے تھوڑی ہیر پھیر سے بولتی رہی۔  اچانک اس مرد نے پلٹ کر مجھے دیکھا۔ ’ارے‘! میرے منہ سے بے ساختہ نکلا اور میں بھول گئی کہ مجھے کیا بولنا تھا۔  بات سنبھالنے کے لئے میں نے جلدی سے آسمان کی طرف انگلی اٹھا دی وہ دیکھئے نیلا آسمان جہاں آپ سب کو زندگی کی اڑان بھرنی ہے، اپنے لئے ایک نیا جہان بسانا ہے اپنے بچوں کے لئے خوشحالی چاہیے تو یاد رکھیے گا آدھا چاند آپ کے انتظار میں ہے۔  آپ مہر لگا کر اس چاند کو پورا کیجئے اور پورا چاند اپنے آنگن میں اتارئیے۔ ۔ ۔

میری زبان پر جو کچھ آتا جا رہا تھا، میں بولتی جا رہی تھی، مجھے کچھ یاد نہیں کہ میں کیا کہہ رہی تھی۔  میری نگاہ اس مرد پر ٹکی ہوئی تھی جسے میں نے ستارہ کے ساتھ سیاہ گاڑی میں فحش حرکتیں کرتے دیکھا تھا۔  کشو اسے کیسے جانتا ہے میرے ذہن میں سوال آیا۔ پھر سوچا الیکشن کا موقع ہے۔ سینکڑوں اچھے برے لوگ ساتھ ہیں اور پھر پاس میں ہی وولکی بھی تو موجود ہے، مجھے یقین تھا کہ وولکی کچھ غلط نہیں ہونے دے گا۔

آج کا آخری دن بھی ختم ہوا۔  پرچار روک دیا گیا۔ ڈور ٹو ڈور کنونسنگ شروع ہو گئی۔ پیر کے آبلے توڑتی ہوئی میں اس جنگ کو بھی پار کر گئی۔

٭

میرا گھر لوگوں کی بھیڑ سے کھچا کھچ بھرا تھا گھر سے باہر بھی مجمع لگا تھا۔  لوگ نتیجہ جاننے کے لئے ایسے کھڑے تھے جیسے بس ایک —دو —تین–چار دل کی دھڑکن بند۔  سیاست امکانات کے ہونے نہ ہونے کے درمیان کھیلا جانے والا شطرنج کا وہ کھیل ہے جو کبھی بھی پاسا پلٹ سکتا ہے۔ ہاری ہوئی بازی جیت میں اور جیتا ہوا کھیل ہار میں تبدیل ہو سکتا ہے۔  جب تک نتیجہ منظر عالم پر نہ آ جائے کچھ بھی کہنا دشوار تھا۔  اس سچ کو میں بھی جانتی تھی اور کشو بھی سمجھتا تھا۔  ووٹوں کی گنتی کے دوران زبردست تناؤ کے دور سے ہم لوگ گذر رہے تھے۔  کشو ٹہلتا ہوا لگاتار سگریٹ پھونک رہا تھا۔ ہال، کمرے میں کئی ٹی وی ساتھ لگے ہوئے تھے۔ الگ الگ چینلز پر خبریں دیکھی سنی جا رہی تھیں۔  بہت سی پارٹی بہت سے امیدوار ایک بار اناؤنس ہونے کے بعد دوسری بار کا رزلٹ جاننے کے لئے بہت دیر تک انتظار کرنا پڑتا تھا۔  اس بیچ کافی کا دور چلا۔  بے حساب دودھ، کافی کا پاؤڈر اور جوس، یوز اینڈ تھرو والے گلاس پورے باورچی خانہ میں پھیلے ہوئے تھے۔  نیفو کی دیکھ ریکھ میں پھانکی، فریدن بوا اور میری خاص ملازمہ نے مورچہ سنبھال رکھا تھا۔  باہر کافی کی مشین لگی ہوئی تھی جہاں سے کارندے اپنے گلا س میں کافی خود نکال رہے تھے۔

پورا دن گنتی چلتی رہی۔  ہر رزلٹ پر ایسا شور اٹھتا جیسے کرکٹ کے میدان میں کسی اعلیٰ کھلاڑی نے چھکے مارے ہوں۔  آخر کار وہ لمحہ آ گیا جب گھر کے اندر بھی اور گھر کے باہر بھی لوگ میرے نام کا نعرہ لگاتے جوش میں ایک دوسرے کو کندھے پر اچھالتے چیخیں بلند کر رہے تھے۔ آتش بازی کا شور اٹھ رہا تھا۔  میری پارٹی کی جے جے کار ہو رہی تھی۔  کوئی انہونی نہ ہونے پائے اس لئے کشو نے گیٹ پر پولیس فوج لگا دی تھی۔  کشو موبائل پر وزیر اعلیٰ سے باتیں کرنے میں مصروف تھا میرا موبائل لگاتار انگیج تھا کیوں کہ مبارکباد دینے والوں کا تانتا لگا ہو ا تھا۔ اچانک باہر سے وائرلیس ریسیور لے کر ایک اعلیٰ پولیس آفیسر بھاگتا ہوا میرے قریب آیا۔  لائن پر میری پارٹی کے ہائی کمان موجود تھے وہ مجھے مبارکباد دے رہے تھے اور انھوں نے جلد ہی دلی آنے کی دعوت بھی دے ڈالی۔  کشو کا خواب پور ا ہو گیا تھا۔  اس کے پیر زمیں پر نہیں پڑ رہے تھے۔  کسی طرح جب میں اس کے پاس پہنچی ایک بیوی کی حیثیت سے تاکہ میں اس کی داد لے سکوں کیوں کہ میرے لئے سب سے بڑی مبارکباد کشو کی خوشی تھی۔  کشو کے منہ سے آتی ہوئی تیز بو نے میرے قدم پیچھے کر دئے۔  لمحے بھر کے لئے نفرت کی ایک تیز لہر میرے جسم میں دوڑی کشو میری طرف لپکا۔  میں نے منہ گھما کر اپنا  رخ دوسری طرف کر لیا۔  آہستہ آہستہ آج کا جشن اپنے اختتام پر پہنچا۔ بڑھتی رات کے ساتھ بھیڑ بھی چھٹنے لگی۔

رات کا درمیانی حصہ گذر چکا تھا میں اپنے کمرے میں تھی۔  سوتے میں اچانک میری آنکھ کھلی میں نے دیکھا کشو بھی سارے لوگوں کو رخصت کر کے کمرے میں آ چکا ہے۔  وہ ادھر ادھر کچھ تلاش رہا تھا۔  پھر لڑکھڑاتے قدموں سے بستر کے قریب آیا۔  بیڈ کے پائے سے اسے ٹھوکر لگی۔  خود کو سنبھالنے سے لاچار وہ اپنے بھاری جسم کا بوجھ لئے میرے اوپر گر پڑا۔  بے خیالی میں میں نے دونوں ہاتھوں سے اسے دھکا دیا۔  یہ عمل میرا غیر ارادتاً تھا مگر اس جھٹکے کو کشو سنبھال نہیں پایا اور بیڈ کے نیچے گر گیا۔  شراب اور جیت کے نشے نے کشو کو غصے سے باولا بنا دیا تھا اور پھر۔ ۔ ۔  میں اپنے شوہر کی ذہنی کیفیت کو سمجھ رہی تھی۔  اس لئے چوٹ سہتی رہی۔ ۔ ۔  درد برداشت کرتی رہی۔ ۔ ۔  ہاتھ پیر چلاتے چلاتے جب وہ تھک گیا تو بستر پر ہی اس نے الٹی کر دی۔  مرغے اور مچھلی کے ٹکڑوں کے ساتھ ڈھیر سارا بدبو دار پانی چاروں طرف پھیل گیا۔ ۔ ۔  میں اپنے دکھتے بدن کا ڈھیر لئے لڑکھڑاتے قدموں کے ساتھ کمرے سے باہر نکل آئی۔  یہ دیکھے بغیر کہ کشو اسی الٹی پر ڈھلک کر سو گیا ہے۔

محبت اگر عورت کو کمزور بناتی ہے تو نفرت اسے فولادی بنا دیتی ہے۔  پہلی بار مجھے اپنی مٹی کے فولادی ہونے کا شدت سے احساس ہوا۔

٭

۱۰؍ نومبر کو اوتھ سیریمنی کے لئے مختلف پارٹیوں کے مختلف جیتے ہوئے امیدواروں کو دلی بلایا گیا تھا۔  میں اور کشو اس درمیان ایک بار دلی جا کر ہائی کمان کے دربار میں دس منٹ کی حاضری لگا کر آ چکے تھے۔ کشو پر ہائی کمان سے ملنے کا ایک نیا سرور بھی چڑھا ہوا تھا۔ ہم دونوں کی زندگی میں اچانک اتنی تیزی سے بدلاؤ آیا تھا کہ کشو ہی نہیں مجھے بھی کہیں کہیں ہلکے سے پیر لڑکھڑاتے سے لگتے۔ میں نے اپنی لگام سختی سے پکڑ رکھی تھی تاکہ غرور کی کوئی پرچھائیں میرے اوپر حاوی نہ ہونے پائے۔ آدھے چاند کو پورا کرنے اور آسمان چھونے کا جو وعدہ میں نے کیا تھا اس کے لئے میں پوری طرح ایماندار تھی اور اگلے الیکشن تک مجھے اپنے سارے وعدے نبھانے بھی تھے۔

٭

جہاں میری باہر کی دنیا بدل گئی، وہیں گھر کے اندر بھی بہت سی تبدیلیاں آ رہی تھیں۔  ڈاکٹر رحمن اپنا نرسنگ ہوم بخوبی چلا رہے تھے۔  صبح سے رات کے نو دس بجے تک ان کا وقت ادھر ہی گزرتا۔ نیفو نے میرے پورے گھر کی کمان اپنے ہاتھ میں لے رکھی تھیں۔  باورچی خانہ ہو، ایکیوریم ہو یا پھر اپنے پیڑ پودے پرندے وغیرہ۔  یہاں تک اسی نے وہ ساری بڑی بڑی پیکنگ بھی کھلوا کر میرے مشورے سے سبھی سامان اپنی اپنی جگہ رکھوا دئے تھے جو کشو دوسرے ملک سے لے کر آیا تھا۔

بستی والے مجھ سے بیحد خوش تھے کیوں کہ میں نے انہیں ضرورت سے زیادہ روپیے پیسوں اور سامانوں سے بھر دیا تھا۔ کاش !رحمو بابا زندہ ہوتے تومیں ان کے لئے بھی کچھ کر پاتی۔  پھانکی پر میری مہربانی اس لئے زیادہ ہو گئی تھی کیوں کہ اس نے میرے گھر میں کڑی محنت کی تھی۔ دن رات کام میں جٹی رہتی اور زبان سے اف تک نہ کرتی۔  یہاں تک کہ اس نے بستی والوں کے بھروسے اپنی ماں چمپا کو بھی چھوڑ دیا تھا۔  میں نے نہ صرف اسے کافی موٹی نوٹوں کی گڈی پکڑائی، ڈھیرو اپنے گھر کے پرانے سامان دئے بلکہ اسے پورا یقین دلایا کہ میں کہیں نہ کہیں چھوٹی موٹی نوکری دلوا دوں گی جس سے اس کو لوگوں کے گھر جوٹھے برتن نہ دھونے پڑیں۔

الزبیتھ سے میری ایک ہفتے میں ایک بار بات ہوہی جاتی تھی۔  میں ان کا فون اپنی مصروفیت کے باوجود اس لئے فوراً ریسیو کرتی تھی کیوں کہ انہوں نے بیحد برے وقت میں میرا ساتھ دیا تھا۔  ایک دو بار وہ میرے گھر بھی آئیں تھیں یہاں آ کر انہیں اس سچ کا علم ہو گیا تھا کہ نیفو میری سگی چھوٹی بہن ہے پھر بھی انہوں نے زبان پر اس مسئلہ میں مہر لگائے رکھی۔  وولکی پوری طرح سے کشو کے ساتھ لگ چکا تھا۔  ویسے تو وہ ایک اچھا انسان تھا مگر کچھ معاملوں میں میں اس سے متفق نہیں تھی۔  کہیں نہ کہیں سے مجھے لگتا  اس نے ستارہ کو اس سوکھے کوئیں میں جھانکنے کی ہمت دلائی ہے جس کا اندھیارا زندگی کو نگل جاتا ہے۔  وہ جان بوجھ کر ایسا نہیں کرتا مگر اس کی اپنی ذاتی سوچ عورت مرد کے رشتے میں عام لوگوں سے الگ تھی یہی بات مجھے وولکی سے کچھ قدم دور رکھتی تھی۔

 کوششوں کے باوجود بھی ستارہ سے میری ملاقات نہیں ہو سکی تھی۔ میں اس کا شکریہ ادا کرنا چاہتی تھی کہ اس نے الیکشن میں میرا ساتھ دیا۔  میری ہر آواز پر مٹھیاں تان کر ہاتھ اوپر اٹھایا۔ ان اخباروں کی کٹنگ میں نے حفاظت سے اپنے پاس رکھ لی تھی جس میں ستارہ کی فوٹو تھی۔ اب میں پہلے کی سی آزادی سے بستی تو جا نہیں سکتی تھی کیوں کہ میرے ساتھ میرا لشکر ہوتا۔  میں نے گڈو کو کئی بار بستی بھیجا کہ وہ میرا پیغام ستارہ تک پہنچا دے یا پھر ستارہ کو لے کر وہ میرے پاس آ جائے۔  مگر جب جب گڈو بستی گیا ستارہ وہاں موجود نہیں ہوتی تھی۔ لوگوں نے بتایا کہ نوکری کے ساتھ ساتھ اس نے دوسرے کام بھی شروع کر  دیے ہیں۔  بچی کو کسی گرلزہاسٹل میں ڈال دیا ہے۔  ننھی بچی ماں کی محبت اور شہر سے دور جا چکی تھی، سن کر افسوس ہوا۔  گڈو نے بتایا کہ ستارہ دیر رات سے بستی میں واپس آتی ہے اور صبح نو بجے ہی بستی چھوڑ دیتی ہے کیوں کہ ساڑھے نو بجے اسے اپنے دفتر میں حاضری لگانی پڑتی ہے۔  یقیناً بستی کے لوگوں نے ستارہ تک میرا پیغام پہنچا دیا ہو گا پھر بھی وہ مجھ سے ملنے نہیں آ رہی تھی، اس پر مجھ تھوڑا غصہ بھی آ رہا تھا۔ آخر کار تھک کر ایک دن فیصلہ کیا اور ایک پرچے پر اپنا پیغام لکھ کر میں نے دیر رات یعنی گیارہ بجے گڈو کو بستی روانہ کیا۔  اس پرچے میں میں نے لکھا۔ ’ستارہ میں تم سے ملنا چاہتی ہوں۔  میں تمہارے لئے دل سے شکر گزار ہوں کہ الیکشن میں تم نے میرا ساتھ دیا۔ تم نے جو احسان کیاہے اس کو میں اتارنا چاہتی ہوں۔ تمہارے انتظار میں تمہاری دیدی!‘

جواب کے انتظار میں بستر پر کروٹیں بدلتے بدلتے میں سو گئی اور گڈو صبح چار بجے خالی ہاتھ واپس آ گیا کیوں کہ ستارہ اس رات بستی میں آئی ہی نہیں۔

صبح جب میں سوکر اٹھی تو گڈو نے ساری باتیں مجھ سے بتائیں۔  جھنجھلاہٹ کے ساتھ مجھے غصہ بھی آیا-’’ گڈو !یہ پرچہ تم اپنے پاس رکھو۔  کہیں نہ کہیں تو آتے جاتے تم ستارہ کو دیکھو گے ضرور آخر رہتی تو اسی شہر میں ہے۔  جب دکھائی دے یہ پرچہ اس کے ہاتھ میں پکڑا دینا۔ ‘‘

بعد میں میں یہ جان کر کافی ہنسی کہ گڈو کسی جاسوسی کتے کی طرح گلی گلی سڑکو ں سڑکوں ستارہ کو ڈھونڈتا رہا اور اس نے بہت سی جانکاریاں حاصل کر لی تھیں۔  وہ مجھ پر حیران بھی ہوا کہ میں ستارہ جیسی عورت کے پیچھے کیوں پڑی ہوں۔  میں گڈو کو کیسے بتاتی کہ ستارہ کے پیچھے پڑنا میری کون سی مجبوری ہے۔

میں لان میں چہل قدمی لر رہی تھی تبھی نیفو بھاگتی ہوئی آئی—–’’اپّی آپ کا فون-! لائن پر ابّی ہیں۔ ‘‘

میں فون لے کر ابّی سے باتیں کرنے لگی۔ وہ اپنا تیسرا حج کر کے واپس لوٹ آئے تھے اور کشو کو ڈھیروں دعائیں دے رہے تھے۔

٭

کشو ان دنوں مجھے اپنی زندگی پر بہت بڑا عذاب لگ رہا تھا۔  اوتھ سیرمنی قریب آ رہی تھی۔  مجھے اور کشو کو دلی جانا تھا مگر کشو کے پاس تو مجھ سے باتیں کرنے کے لئے وقت ہی نہیں تھا۔  جیت کے جشن کی پہلی رات کے بعد تو جیسے اس کے جینے کے طور طریقے ہی بدل گئے تھے۔  وہ ہر رات نشے میں دھت ہو کر کمرے میں گھستا۔ —–پھر وہی سب کچھ ہوتا جو بند کمروں میں عورت مرد کے درمیان ہوتا ہے۔ عورت چاہے جتنی بلندی پر پہنچ جائے مگر بستر پر وہ مرد کی باندی ہی بنی رہے گی۔  مرد چاہتا ہے کہ عورت اپنے ہر رنگ اور ہر انداز میں اس  کے سامنے اپنی شکست مانے اور اس کے لفظ آنسو کی شکل میں ٹپکیں۔  وہ خود کو مرد کی ماتحت محسوس کرتی رہے۔  دوسری طرف وہ یہ بھی محسوس کرائے کہ وہ مرد کی صحبت میں بھرپور لطف اٹھا رہی ہے۔  میں بھی وہی کر رہی تھی جو کشو  جیسے مرد چاہتے ہیں مگر پھر بھی اکثر راتوں میں وہ غائب بھی رہنے لگا تھا۔ میں وولکی کو بہت ڈانٹتی کہ کشو کو رات کے دس گیارہ بجتے بجتے گھر واپس لایا کرو، وولکی کہتا—-’’دیدی میں تو تمہاری خاطر جیجا کے پیچھے پیچھے لگا رہتا ہوں۔  روزی کو مجھے کتنا سمجھانا پڑتا ہے کہ میں کیوں جیجا کے پیچھے پڑا رہتا ہوں مگر کچھ بھی ہو دیدی، جیجا کوئی چھوٹا بچہ نہیں ہیں کہ میں ڈانٹ پھٹکار کر انہیں گھر واپس لے آیا کروں۔  کتنے لوگوں سے ملنا جلنا، کتنے لوگوں میں اٹھنا بیٹھنا، طرح طرح کے لوگ، طرح طرح کی عادتیں۔  میں زیادہ بولوں گا تو وہ پھٹکار کر مجھے دور کر دیں گے۔ ‘‘

وولکی کی بات میں سچائی تھی اس لئے میں نے چپ ہو کر دوسرا راستہ اختیار کیا۔  ساڑھے گیارہ بجے کے بعد میں کشو کو فون کرنے لگتی کہ گھر واپس آؤ۔ اس نے موبائل سوئیچ آف رکھنا شروع کر دیا۔

اس بیچ گڈو کی ملاقات ستارہ سے ہو گئی۔  وہ ایک حکیم کے پاس بیٹھی تھی اور گڈو فریدن بوا کے لئے دوائیں لینے گیا تھا۔ نیفو کی شادی کے دوران جب فریدن بوا آئی ہوئی تھیں تو گڈو نے فریدن بوا کو ان کے پاس لے جا کر ان کی بیماری کا پورا حال سنایا تب سے اب تک فریدن بوا کا علاج وہی حکیم صاحب کر رہے تھے۔  گڈو ہر پندرہ دن پر دوائیں کورئیر سے ماں کو بھجوا دیتا۔

ستارہ کو دیکھتے ہی گڈو نے وہ پرچہ ستارہ کی طرف بڑھا دیا جو میں نے اسے لکھ کر پہلے دیا ہوا تھا۔  ستارہ نے اس پرچے کو پڑھا اور پرس میں رکھی اپنی پینسل سے دوسری طرف لکھا– ’’احسان اتارے نہیں جاتے صرف محسوس کئے جاتے ہیں۔  میں آپ سے جلد ملوں گی۔ ‘‘

پرچے پر لکھی تحریر پڑھ کر میرا غصہ اور بڑھ گیا–’’ستارہ تم اپنے آپ کو سمجھتی کیا ہو۔  ذرا اپنی اصلیت تو پہچانو۔  آئینے کے سامنے کھڑی ہو کر ذرا اپنا چہرا تو دیکھو۔  خون کی اتنی چھینٹیں تمہیں نظر آئیں گی کی تم خود اپنے آپ کو پہچان نہ پاؤ گی۔ ‘‘

٭٭٭

 

۱۷۔ زمین پرواز نہیں کرتی

میں خواب میں دیکھتی ہوں / میری سانسیں ہزاروں کی صف میں / قطار در قطار /کھڑی مجھ سے/میرے ساتھ بتائے ایک ایک پل کا/ حساب مانگ رہی ہیں / میں وقت کے دامن میں چھپائے/ زندگی کے کشکول سے/ چن چن کر ایک ایک لمحے کا / خود سے جواب مانگ رہی ہوں / سوال جواب کا سلسلہ /خواب اور حقیقت کے درمیان / چلتا رہا، اور پھر چلتا رہا/ زیست کی آخری شب میں /جب میں حساب کتاب کے لئے اٹھی/ تو میری سانسیں مجھ سے دغا کر کے/ دور نکل گئیں / اور میں اپنے خالی بدن کا ڈھیر لئے/ زمیں دوز ہو گئی۔ ۔ ۔

کم و بیش ہر تہذیب میں عورت کو مرد کی کھیتی کہا گیا ہے۔  کھیتی خلا میں نہیں زمین پر ہوتی ہے۔ یعنی قدیم وقت سے ہی عورت کی تشریح کے لئے ایسے استعاروں کا انتخاب کیا گیا جس میں پرواز کی کوئی گنجائش نہ ہو۔  کیونکہ وہی اڑان بھر سکتا ہے جس کے پر ہوں۔  عورت کو زمین سے جوڑ کر پرواز کے تصور کو اپنے شروعاتی دور میں ہی پامال کر دیا گیا۔

الیکشن جیتنے کے بعد میری ذمہ داریاں بہت بڑھ گئی تھیں۔  مجھ سے ملنے والے لوگوں کا تانتا لگا رہتا۔  بہت سے ضرورت مند بھی ہوتے، کچھ پرانے رشتہ دار تعلقات بڑھانے کی ہوڑ میں ہو تے تو کچھ ایسے بھی ہوتے جو صرف میری ہاں میں ہاں ملا رہے ہوتے۔  میں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ اوتھ سیریمنی کے بعد میں ملنے جلنے والوں کے لئے صبح کے دو گھنٹے کا وقت مقرر کر دوں گی تاکہ ہر وقت لوگ مجھے پریشان نہ کریں۔  سب سے بڑی پریشانی مجھے کشو سے ہو رہی تھی۔  اس کا رنگ ڈھنگ دیکھ کر میں حیران تھی۔  ہو سکتا ہے یہی رنگ ڈھنگ اس کا غیر ملکوں میں بھی رہتا ہو مگر اپنے ملک میں میرے لئے یہ نیا تھا۔

روز بروز بڑھتی ذمہ داریوں سے میں تھک گئی تھی۔  آرام چاہتی تھی مگر آرام حاصل نہیں ہو رہا تھا۔  تھکان کی وجہ سے مجھے اس رات بخار آ گیا۔ میرا پوراجسم اینٹھ رہا تھا، سرمیں شدید درد اٹھا تھا۔ کشو کو کئی بار فون ملایا مگر ہر بار سوئیچ آف رہا۔  میرے پاس درد کی گولی تھی اسے کھا کر سر پر کس کر دوپٹہ باندھ کر میں سونے کی کوشش کر تے کرتے نیند میں غافل ہو گئی۔ عادت کے مطابق صبح کے آٹھ بجے آنکھ کھلی تو بغل میں کشو سو رہا تھا۔ میں نے غور سے اس کا چہرہ دیکھا، مجھے اپنے شوہر سے اتنی گھن آئی کہ لگا ابھی الٹی ہو جائے گی۔  اس کے ہونٹوں کے کنارے سے رال کی موٹی لائن نکلتی ہوئی تکیہ تک پہنچ گئی تھی۔  منہ سے باسی مچھلی کی بو کے ساتھ شراب کی مہک سرانڈ سی پیدا کر رہی تھی۔  بال بکھرے ہوئے تھے۔  تن پر وہی پینٹ شرٹ تھی جو وہ صبح پہن کر نکلا تھا۔  آنکھوں کے پپوٹے سوجے ہوئے تھے۔  میں یہ دیکھ کر حیران ہوئی کہ پیروں میں ابھی تک جوتے موزے موجود تھے۔  باہر نکلی تو معلوم ہوا کہ وولکی اور گڈو لاد پھاند کر کمرے میں بیڈ تک لٹا آئے تھے۔  چونکہ میں وہیں سو رہی تھی اس لئے جلدی سے وہ کمرے سے باہر نکل گئے۔  نیفو نے بتایا کہ تین بجے وولکی کے ساتھ کشو گھر واپس لوٹا تھا۔

میں روز روز کی ان ذہنی اذیتوں سے اتنا تھک گئی تھی کہ اب کشو سے دو دو ہاتھ کرنے کے لئے تیار تھی۔  میری صحت بہت خراب ہو گئی تھی۔  میرا چڑچڑا پن بڑھ رہا تھا میں یہ سوچ سوچ کر اپنے کو رنجیدہ کر رہی تھی کہ یقیناً کشو کی یہی حرکتیں غیر ملکوں میں بھی ہوتی ہوں گی۔  وہ اسی طرح وہاں بھی رہتا ہو گا جس کی جانکاری مجھے نہیں ہوتی تھی۔

میں ڈاکٹر کو دکھا کر اپنے لئے دوائیں لے کر واپس آ گئی تھی۔  دن کے بارہ بج رہے تھے۔  مجھے اپنے کمرے سے آتی ہوئی کھٹر  پٹر کی آواز سے انداز ہوا کہ کشو جاگ گیا ہے۔  میں بیٹھی اخبار کے صفحے پلٹ رہی تھی کیوں کہ غالباً سبھی اہم اخبار میں نے لگا رکھے تھے اور کسی طالب علم کی طرح ہر دن اس کو پڑھتی تھی۔  ایک ساتھ سارے اخباروں کو پڑھ نہیں سکتی تھی اس لئے ٹکڑوں ٹکڑوں میں پڑھتی تھی۔ ۔  کشو نہا کر ناشتہ کے لئے میز پر آ گیا۔  ملازمہ نے چائے ناشتہ میز پر لگا دیا۔  میں نے ایک بار بھی اخبار سے نظریں اٹھا کر اسے ہمیشہ کی طرح صبح بخیر نہیں کہا۔

وہ بھی چپ رہا، میں بھی چپ رہی اور اس کے بولنے کا انتظار کر تی رہی۔  میرے اندر نفرت میں ڈوبے الفاظ کا جوالا مکھی ابال کھا رہا تھا۔  صبر کا پیمانہ چھلکنے کو تھا کہ کشو کی آواز نے جیسے دیا سلائی کا کام کیا۔  اس نے مجھے چھیڑنے کے انداز میں مذاق میں کہا-’’ کس یار کی یاد میں کھوئی ہوئی ہو۔ ‘‘ جوالا مکھی پھٹنے کے لئے اتنا ہی کافی تھا۔  میں اتنے جھٹکے سے کھڑی ہوئی کہ کرسی پیچھے پلٹ کر گر گئی۔  میر ی آنکھوں سے غصے کی چنگاریاں نکل رہی تھیں۔  میرے سر میں بھاری پن تھا، درد ابھی پورا ٹھیک نہیں ہوا تھا، کمزور ی سے پورے جسم میں کپکپی آ رہی تھی اور کشو کی بے ترتیب زندگی نے میرے اندر بے چینیاں پیدا کر دی تھیں۔  دلی جانے میں صرف چار دن بچے تھے۔  کشو کے پاس اتنا وقت نہیں تھا کہ وہ بیٹھ کر مجھ سے باتیں کرے۔  وہاں کیا بولنا ہے کیا نہیں، کن پوانٹس کو لوگوں کے درمیان کہنا ہے، ان باتوں پر تو غور کرنا ہی پڑے گا۔  دوسرے، کشو جس زندگی کی طرف بڑھ رہا تھا اس کے لئے کوئی بھی بیوی برداشت نہیں کر سکتی تھی۔  میں چیخ رہی تھی اور شدید غصہ کی حالت میں جو بھی زبان پر آ رہا تھا اسے بک رہی تھی، یہ سوچے بغیر کی گھر میں نوکر چاکر ہیں، نیفو ہے، ڈاکٹر رحمن ہیں۔  ڈاکٹر رحمن کو کچھ اپنے ذاتی کام تھے اس لئے وہ آج مقررہ وقت پر نرسنگ ہوم نہیں گئے تھے۔  سب جمع ہو گئے تھے۔  میری آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا رہا تھا مجھے کچھ نہیں دکھائی دے رہا تھا۔  مجھے لگ رہا تھا کہ جیسے میں گھپ اندھیری گپھا میں کھڑی ہوں اور اپنے بچاؤ کے لئے کشو کو آواز یں لگا رہی ہوں۔  اچانک ایک زور دار مردانہ تھپڑ میرے گال پر پڑا۔  اسی گھپ اندھیرے میں سرخ انگارے کوندے اور مجھے پھر کچھ ہوش نہیں رہا۔  میں لہرا کر گرنے والی تھی کہ کسی کی مضبوط بانہوں نے مجھے گرنے سے بچا لیا۔  بعد میں معلوم ہوا کہ وہ ڈاکٹر رحمن تھے۔

میں شاید ایک گھنٹہ بے ہوش رہی۔  ایسا نہیں تھا کہ یہ مار میرے لئے نئی تھی مگر اتنی مدّت کے بعد ایک بیمار رات گزارنے کی وجہ سے میرے جسم میں اتنی طاقت نہیں تھی کہ میں کشو کا ایک تھپڑ برداشت کر پاتی۔  ڈاکٹر رحمن کے ساتھ ایک ڈاکٹر اور بھی تھے جو میرا معائنہ کر رہے تھے۔  دوائیں لکھ کر وہ چلے گئے میں ایک بھی لفظ اپنی زبان سے ادا کئے بغیر آنکھیں بند کئے خاموش اپنے بستر پر پڑی رہی۔  میرے گالوں پر پڑے پانچ انگلیوں کے نیلے نشان پر میری خاص ملازمہ ہلدی چونا لگا رہی تھی۔

اس حادثے کے بعد جیسے کشو کو کھلی چھوٹ مل گئی ہو۔  جب پردے اٹھ جاتے ہیں تو ہر منظر ننگا ہو جاتا ہے۔  حجاب کا جو پردہ اٹھ گیا تھا اس نے کشو کو اور بھی بے شرم بنا دیا تھا۔  اب وہ کسی کا بھی لحاظ نہیں کرتا تھا۔  سب کے سامنے منھ پھٹ گالیاں بکتا۔  میں ٹھیک ہو کر پھر ایک بار اپنی ذمہ داریوں میں لگ گئی تھی۔  تھوڑی سی صحت بہتر ہوئی تو ستارہ کا خیال آیا۔  میں نے گڈو کو یہ کہہ کر بستی کی طرف روانہ کیا کہ کل مجھے دلی جانا ہے اور کسی بھی قیمت پر میں اس سے آج ملنا چاہتی ہوں۔  اس کا جواب آیا ’’میں بھی ملنا چاہتی ہوں جلد ہی۔ ۔ ۔ ۔ ْ‘‘

آدھا ادھورا جواب سن کر میں سلگ اٹھی۔  ٹھیک ہے ستارہ، ایک بار تم میرے چنگل میں کسی طرح پھنس جاؤ، پھر دیکھو میں تمہیں کیسے بے نقاب کرتی ہوں۔  دیوی بنی جو تم گھوما کر تی ہو، منہ دکھانے لائق نہیں رہو گی۔

الیکشن کے دوران اس کے کام کو دیکھ کر میرے دل میں جو اس کے لئے ہمدردی جاگ اٹھی تھی وہ آہستہ آہستہ اس کے ٹھنڈے رویے سے ختم ہوتی جا رہی تھی۔

 دلی جانے کے لئے میں نے اپنے اور کشو کے سامان کی پیکنگ کر لی تھی۔  میرے اور اس کے درمیان اب بات چیت بہت کم ہوتی تھی۔  میر ے اندر جہاں کڑھن بڑھ رہی تھی وہیں کشو اور بھی زیادہ لا پرواہ اور آزاد ہوتا جا رہا تھا۔  کل صبح ہم دونوں کو روانہ ہونا تھا اور ابھی تک اوتھ سیریمنی کو لے کر ہم دونوں کے بیچ کوئی بات نہیں ہوئی تھی۔  مانتی ہوں کہ وہاں صرف ایک رسم ادا کی جائے گی مگر میرے لئے یہ رسم بھی نئی اور غیر معمولی تھی۔  کم سے کم شوہر کی حیثیت سے کشو کو مجھے بڑھاوا دینا چاہیے تھا۔

٭

رات کے دس بج رہے تھے۔  کشو کا کوئی پتا نہیں تھا۔  میں نے وولکی کو فون کیا۔  شکر ہے اس کا موبائیل آن تھا۔  رنگ ہوتے ہی اس نے فون ریسیو کر لیا۔

’’ہیلو!‘‘مجھے اپنی بجھی بجھی آواز خود کو اجنبی لگی۔

’’ہیلو دیدی! اب بہت ہو چکا۔  جیجا کو سمجھاتے سمجھاتے میں تھک گیا۔  میرے بس میں اب کچھ نہیں۔  بعد میں تم مجھے غلط ثابت مت کرنا کہ میں نے بھائی ہونے کا فرض ادا نہیں کیا۔ ‘‘

میں گھبرا گئی—’’آخر بات کیا ہے؟ تمہاری آواز اتنی دھیمی اور پھنسی ہوئی کیوں ہے؟ تم کہاں ہو؟۔ ‘‘

’’دیدی تم جاننا چاہو گی کہ میں کہاں ہوں ؟‘‘

’’ہاں بالکل جاننا چاہوں گی۔ ‘‘ میں نے اسی طرح وولکی سے کہا جیسے ایک بڑی بہن اپنے چھوٹے بھائی کی بہتری کے لئے بولتی ہے۔

’’دیدی تم سادے کپڑے میں، اپنا وہی مسلمانوں والا کالا برقعہ پہن کر چوراہے پر آ جاؤ۔  خیال رہے کہ تمہیں کوئی پہچاننے نہ پائے۔  میں پانچ منٹ میں موٹر سائیکل لے کر آ رہا ہوں۔ ‘‘

’’مگر میرے پاس برقعہ نہیں ہے۔ ‘‘

وولکی کی بات سن کر میں چکرا رہی تھی۔

’’کوئی بات نہیں ملازمہ کا برقعہ پہن لو، اس کے پاس میں نے دیکھا ہے۔ ‘‘

’’ملازمہ کا!اور میں پہن لوں۔  قطعی نہیں۔ ‘‘

’’دیدی اگر تمہیں ستارہ سے ملنا ہے تو تمہیں برقعہ پہننا ہی پڑے گا۔ ‘‘

ستارہ کا نام سنتے ہی میں اچھل پری۔  برقعہ کیا ہے میں تو اس سے ملنے کے لئے کپڑوں کی سیاہ تھان بھی اپنے جسم سے لپیٹ سکتی ہوں۔  میرے اندر غضب کی پھرتی آ گئی۔  بغیر کسی کو کچھ بتائے چپکے سے ملازمہ کا برقعہ لے کر گیٹ کے پاس آئی۔  آڑ میں میں نے برقعہ پہنا اور چوراہے پر پہنچ گئی جہاں وولکی موٹر سائیکل اسٹارٹ کئے پہلے سے ہی موجود تھا۔  میں پیچھے بیٹھ گئی اور وولکی تیز رفتار میں موٹر سائیکل دوڑاتا انجانی سڑکوں سے گزرتا ہوا ایک ایسی جگہ رکا جو ویرا نے میں آباد تھی۔  اکا دکا گھر دور دور نظر آ رہے تھے۔ تعمیر کا کام کئی جگہ چل رہا تھا۔ شا ید یہاں کوئی نئی کالونی بن رہی تھی۔  میں جس گھر کے سامنے رکی اس کی پیلی مدھم روشنی بند دروازے سے باہر آ رہی تھی۔  میرے چہرے پر موٹی جالی کا نقاب تھا۔  عادت نہ ہونے کی وجہ سے مجھے باہر کی دنیا صاف نظر نہیں آ رہی تھی۔ وولکی نے بیل دیا۔ دروازہ کھلا۔  سامنے جو شخص کھڑا تھا اسے دیکھ کر میں حیرت میں پڑ گئی۔ یہ وہی مرد تھا جسے میں نے سیاہ گاڑی میں ستارہ کے ساتھ دیکھا تھا۔  چہرے پر نقاب ہونے کی وجہ سے وہ شخص مجھے پہچان نہیں سکا۔ وولکی اور وہ مرد جس طرح سے باتیں کر رہے تھے اس سے مجھے احساس ہوا کہ دونوں میں گہری دوستی ہے۔ وولکی نے اس کا ہاتھ تھاما اور گھر سے باہر کھینچ لایا۔ دونوں ٹہلتے ہوئے کچھ باتیں کرتے رہے پھر میرے قریب آئے۔  وولکی نے آہستہ سے مجھے کہا ’’دیدی اندر جاؤ۔ ‘‘

میں گھر کے اندر بڑھ گئی۔

دو کمرے، لیٹرین، باتھ روم، کچن۔  سب کچھ تھا مگر سب کچھ بے ترتیب۔  کہیں سے نہیں لگ رہا تھا کہ اس گھر میں کوئی رہتا بھی ہے۔  ستارہ کو تلاشتی نگاہیں ادھر ادھر بھٹک رہی تھیں۔  جلدی سے میں کچن کی طرف بڑھی۔  عورتوں کا زیادہ وقت یہیں تو گزرتا ہے مگر کچن خالی تھا۔  سامنے والا کمرہ کھلا ہوا تھا۔  میں نے اندر جھانکا۔ دو چار کرسیاں اور ایک تخت اور چھوٹا سا سینٹر ٹیبل رکھا تھا۔  ٹیبل پر تین گلاس اور شراب کی خالی بوتل رکھی تھی۔  ’کیا ستارہ شراب بھی پیتی ہے۔ ‘ ایک سوال ذہن میں اٹھا مگر فوراً ہی دماغ سے خارج بھی ہو گیا کیوں کہ لیٹرین باتھ روم میں جھانک آئی تھی اب صرف ایک کمرہ بچا تھا جو اندر سے بند تھا۔  میں نے اپنے چہر سے جالی کا نقاب ہٹا یا ہوا تھا کہ سب کچھ اچھی طرح دیکھ سکوں۔

میں نے دروازے پر آہستہ سے دستک دی۔  دروازہ نہیں کھلا۔  دوبارہ دستک دی۔  پھر بھی دروازے پر کوئی آہٹ نہیں ہوئی۔  تیسری بار زور سے لگاتار کچھ سیکنڈ تک میں دستک دیتی رہی۔  اچانک میرے ہاتھ رک گئے۔ مجھے لگا کوئی آہستہ آہستہ باتیں کر رہا ہے۔  اس سے پہلے کہ میں کچھ سمجھ پاتی دروازہ کھل گیا۔ سامنے ستارہ کھڑی تھی اور جس شرمناک حالت میں کھڑی تھی اس کا میں خواب میں بھی تصور نہیں کر سکتی تھی۔ اس نے ایک چھوٹی سی تولیا اپنے سینے پر پھیلا رکھی تھی۔ تولیا اتنی چھوٹی تھی کہ اس کے سینے کو ڈھکتی ہوئی اس کی شرم گاہ تک مشکل سے پہنچ پا رہی تھی۔  پورا جسم برہنہ تھا۔  میں دو قدم پیچھے ہٹ گئی۔ گھبرا کر جھٹ میں نے اپنا نقاب چہرے پر ڈال لیا۔

’’میڈم نقاب ڈالنے سے سچائیاں نہیں چھپتیں۔  بے نقاب آنکھوں سے حقیقت دیکھئے۔ ‘‘

میں نے پہلی بار اس کی آواز سنی تھی۔  ایک عجیب سے احساس سے میں دو چار ہوئی۔

ایک جھٹکے میں میں نے نقاب کی جالی اوپر اٹھا دی اور پھٹی پھٹی آنکھوں سے ستارہ کو دیکھنے لگی۔ ہر عورت بند کمروں میں ننگی ہو سکتی ہے مگر ستارہ تو کھلے دروازے میں برہنہ کھڑی تھی۔  کوئی بھی بڑھا ہاتھ اسے چھو سکتا تھا۔ جیسے شرم و حیا اور حجاب کا اس کے یہاں کوئی تصور ہی نہ ہو۔

’’آپ مجھ سے ملنا چاہتی تھیں نا، مجھ سے باتیں کرنا چاہتی تھیں نا! وولکی نے، گڈو نے، بستی والوں نے مجھے بتایا تھا، میں بھی ملنا چاہتی تھی مگر صحیح وقت پر۔ ‘‘

میری بولنے کی قوت جیسے سلب ہو گئی تھی۔ حواس پر جمود طاری ہو گیا۔  میں بس پھٹی پھٹی آنکھوں سے ستارہ کو دیکھے جا رہی تھی۔

’’میڈم آپ جیسے بڑے گھر کی عزت دار عورتیں ہم بے عزت عورتوں کے درد کو کیا سمجھیں گی۔  آپ کے گھروں کے مرد ہی ہمارے بدن میں بے حیائیاں اتارتے ہیں۔  ‘‘

ستارہ بولے جا رہی تھی اور گویا میری قوت گویائی ختم ہو گئی تھی۔

’’۔ ۔ ۔ آپ وہی سب کچھ میری زبان سے اگلوانا چاہتی تھیں نا، جس کا سچ آپ اچھی طرح سے جانتی ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ہاں مجھے کاشف اصغر نے اس پہلی رات ہی سب کچھ بتا دیا تھا۔  جب آپ اس کی زندگی میں داخل ہوئی تھیں۔  آپ کے سہاگ کی رات کے ابتدائی لمحوں میں کاشف میرے ساتھ تھا۔ اس سے میرا رشتہ آپ سے بھی پرانا ہے۔  میری دوشیزگی کی چادر پہلی بار آپ کے شوہر کے خنجر سے تار تار ہوئی۔  اس وقت میں پندرہ سال کی بچی تھی اور کاشف کے ہونٹوں کے اوپر ہلکی مونچھوں کا اثر دکھنے لگا تھا۔ ۔ ۔  مجھے بے حیائی کے گٹر میں ڈھکیلنے والا پہلا ہاتھ آپ کے شوہر کا تھا۔ ‘‘

ستارہ بولتے بولتے جیسے ہانپنے لگی ہو۔ اس کے چہرے پر پسینے کی بوندیں تھیں۔  اور میں ! میں تو زمین پر ہوتے ہوئے بھی معلق تھی۔  میں سب کچھ جانتی تھی۔  پہلی رات ہی مجھے میری چچیا ساس نے آگاہ کر دیا تھا۔  بستی کا پتہ اور ستارہ کا نام تک بتا دیا تھا۔  مگر ایک امید تھی کہ شاید ستارہ جھوٹ بول دے اور مجھے اس کے جھوٹ سے جینے کا سہارا مل جائے۔  سچ کا تعاقب کرنے کے بعد بھی میں یہی چاہتی تھی کہ نتیجہ جھوٹ پر مبنی ہو۔  مگر ایسا نہیں ہوا۔  ہمیشہ وہ نہیں ہوتا جو ہم چاہتے ہیں بلکہ وہ ہو جاتا ہے جو ہماری سوچ کے برعکس ہوتا ہے۔  کاش عورتوں کا شعور کبھی بالغ نہ ہو۔  اور اپنی کم علمی کا تحفہ لئے وہ مرد کے ساتھ اپنی زندگی خوشگواری سے کاٹ سکیں۔  میرے ساتھ ایسا نہیں ہوا میری ذہانت نے میری کشتی ڈبو دی۔  میری آنکھیں دھندلا رہی تھیں۔  جسم لرز رہا تھا۔  سب کچھ جانتے ہوئے بھی سب کچھ سن لینا میری برداشت کی حد سے باہر ہو رہا تھا۔

اس سے قبل کہ اپنی کمزور پڑتی طبیعت کا مظاہرہ ستارہ کے سامنے ہو میرے قدم واپسی کے لئے پلٹ پڑے۔

’’رکئے میڈم ابھی ہماری ملاقات ادھوری ہے۔ آئیے اندر آئیے۔ ‘‘ستارہ نے اپنے جسم سے پھسلتے تولئے کو ایک ہاتھ سے سنبھالا اور دوسرے ہاتھ سے مجھے کلائی سے کھینچ کر اندر کمرے میں گھسیٹ لیا۔  اندر کا منظر میرے لئے روز محشر سے کم نہ تھا۔  نشے کی حالت میں دھت کشو ستارہ کے بستر پر تھا۔  اس کے جسم پر ایک بھی کپڑا نہیں تھا۔  اس کے ننگے بدن کو دیکھ کر ایسا لگتا تھاجیسے کوئی ہوا نکلا غبارہ مرجھایا ہوا گرا پڑا ہو۔

’’ستارہ!‘‘ میں چیخ اٹھی۔

’’جی۔  میں نے نہیں اس نے میرا استعمال کیا ہے۔  میرا شوہر پرکاش آپ کے عزت دار شوہر سے زیادہ با وفا تھا۔  میں آپ سے زیادہ خوش نصیب ہوں کہ اس نے مجھے سچے دل سے چاہا۔  ہاں اسے ایڈس تھا اس کی موت ایڈس سے ہوئی ہے۔  مگر بستی گواہ ہے کہ بیماری لگنے کے بعد نہ وہ اپنی جھگی میں آیا اور نہ اس نے مجھے ہاتھ لگایا۔  مگر اب میں H. I. V. Positive ہو چکی ہوں اور میرے لئے کاشف اصغر ایک بے مصرف مرد بن چکے ہیں۔  اسے جو لینا تھا لے چکا، اور مجھے جو دینا تھا میں دے چکی۔ ۔ ۔  لے جائیے اپنے شوہر کو۔ ‘‘

ستارہ کی آنکھوں میں وحشت تھی اس کے جسم میں لرزہ تھا۔  وہ لڑکھڑاتے قدموں کے ساتھ اپنے ادھ کھلے بدن کا ڈھیر لئے باتھ روم کی طرف بڑھ گئی۔  میرا ذہن ماؤف ہو چکا تھا۔  سوچنے سمجھنے کی ساری صلاحیتیں ختم ہو چکی تھیں۔  اس نے خود کو ظاہر کیا تو ہر شے گم ہو گئی۔  پہچانیں ٹوٹ گئیں اور رشتے بیکار ہو گئے۔  یہ کیسا منظر میرے سامنے پھیل گیا کہ میں خوف کے طلسم میں ڈوب کر اپنے آپ کو اپنے اندر کے سمندر میں غرق کر دینا چاہتی تھی۔  اس کو پانے کی خواہش میں میں اپنی بینائی اور سماعت دونوں فراموش کر چکی تھی۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  میں خالی ہاتھ لوٹ آئی۔ میں اپنا دل اب ذمہ داری کے ساتھ رنجیدہ نہ کر کے اس کی قربت سے دور چلی جانا چاہتی تھی۔  اتنی دور جہاں اس کے نام کی تختی نہ ہو۔ ۔ ۔  اور پھر میں نے ڈائری کا ایک ایک صفحہ آتش کے حوالے کر کے خود کو آزاد کر لیا۔

٭٭٭

 

۱۸۔ صدائے عندلیب

میں نے سوچا بارہا اس قبائے جسم کو اتار دوں /اتار دوں شب و روز کے پیرہن/ سکھ دکھ کے لباس کو اتار دوں / اترائی پھروں آسماں کی وسعتوں میں / تتلی بنے خوابوں کو چن چن میں بھروں / یہ جہاں وہ جہاں سمیٹ لوں نگاہوں میں / خاموشی کے بے صدا نغمے سنوں اڑتی پھروں / چاند سورج کے حوالوں سے خیالوں کو بنوں / زندگی کا عکس بن کر میں بھلا کیونکر جیوں / ہم ہیں یہاں ہم ہیں وہاں پھر کہاں بکھرے ہوئے/ جگنوں بنوں تارا چنوں / رعنائیوں سے کیونکر ڈروں /تحریر حاشیے کی بنوں اور میٹ دوں / نیا رنگ، نیا ساز، نیا انداز پھر رچوں / میں نے سوچا بارہا اس قبائے جسم کو اتار دوں / اتار دوں شب و روز کے پیرہن/ سکھ دکھ کے لباس کو اتار دوں۔ ۔ ۔

عورت کی زندگی مرد کی مٹھی میں بند چند کچلے خوابوں کے مجموعے کا نام نہیں ہے۔  سب کچھ ختم ہونے کے اندیشے آتے ہی زندگی ایک نئی ابتدا کا آغاز کرتی ہے۔  مکمل جہاں عورت کے اندر رچتا بستا ہے۔  بیداری شرط ہے۔ ۔ ۔  پھر تو عورت صدائے انقلاب ہے۔

’مؤمنہ مرکز ‘ان دنوں پورے فوکس میں تھا۔  پرنٹ میڈیا ہو یا الیکٹرانک میڈیا۔  ہر طرف مومنہ مرکز پر تبصرے بات چیت انٹرویوز ہو رہے تھے۔  اگلا الیکشن آنے والا تھا اور میں اپنی کمر کس چکی تھی۔  سیاست کی چاشنی میری زبان پر لگ چکی تھی۔  اور اب میں ایک ماہر سیاست داں بن چکی تھی۔  ایسا میں نہیں میرے جاننے والے مجھ سے کہہ رہے تھے۔  مجھے اپنے اندر کوئی بدلاؤ محسوس نہیں ہوتا مگر لوگ کہتے ہیں کہ اب میں وہ نہیں رہی جیسی تھی۔  ہاں میں نے گذشتہ برسوں میں اتنا تو جان ہی لیا ہے کہ عورت ہونا اپنے آپ میں ایک ہتھیار ہے یہ ہتھیار عورت کب اور کیسے استعمال کرتی ہے یہ اس کی اپنی ذہانت پر مبنی ہوتا ہے۔  میرا کاریہ چھیترا لکھنؤ تھا۔ اور وہاں سے دو بار میں الیکشن جیت چکی تھی۔  مومنہ مرکز بھی میں نے لکھنؤ میں ہی تعمیر کروایا تھا۔  مگر میرا قیام دلی میں ہی رہتا تھا۔  میرے کام کی تعریف کی گئی اور دونوں بار ہی مجھے فیملی ویلفیر منسٹر بنایا گیا۔ پارٹی جانتی تھی کہ میرے پاس عورتوں کا ایک بہت بڑا ووٹ بینک ہے۔  ایسی تمام عورتوں کو میں جانتی ہوں جن کے مرد کسی دوسری پارٹی کو ووٹ دیتے اور عورتیں ووٹنگ بوتھ میں آ کر میرے نشان کے آگے ٹھپا لگاتی ہیں۔  کئی بار مختلف پارٹیوں نے ہنگامے بھی کئے۔  بوتھ کیپچرنگ کی کوشش بھی کی گئی۔  مگر ان کے اٹھائے ہر قدم میرے حق میں ہو جاتے۔  الیکشن میں اپنے طوفانی دوروں کے درمیان میں سمجھ سکی کہ عورت ہونا اپنے آپ میں کتنی بڑی طاقت ہے۔  بشرط اسے کام اور نام حاصل کرنے کے سلیقے آتے ہوں۔  تھوڑی ایمانداری، تھوڑی وفاداری اور کم کم سی شرافت کے ساتھ آگے بڑھتے جانے کا عمل عورتوں کو کتنی جلدی منزل پر پہنچا دیتا ہے یہ میں نے سیاسی دنیا میں قدم رکھنے کے بعد جانا۔

میں نے عوام سے جو وعدے کئے تھے، ان میں عورتوں کے بدتر حالات میں سدھار لانا، ان کی معاشی بدحالی دور کرنا، گھریلو تشدد کی شکار عورتوں کے لئے قانونی سہولتیں مہیا کرانا، ماں کے رحم میں ہی بچیوں کو ختم کروا دینے کے رجحان پر احتجاج کرنا وغیرہ شامل تھے۔  ان تمام وعدوں کو پورا کرنے کے لئے بنایا گیا تھا مومنہ مرکز۔

سب جانتے تھے کہ مومنہ مرکز میرا ہے۔  مگر میں پردے کے پیچھے تھی اور سامنے تھے ڈاکٹر رحمن اور نیفو۔  ہر شکست ایک نئی راہ کے لئے راستہ بناتی ہے۔  مصائب کی آندھیوں میں کھائی گئی ٹھوکریں اور تجربے عورت کی مٹی کو پکا کر کتنا تراش دیتے ہیں یہ سبق مجھے وقت نے دیا تھا۔

کاشف اصغر کی بیساکھی ایک جھٹکے میں توڑ کر میں اپنی پہلی اوتھ سیریمنی میں تنہا ہی آئی تھی۔  کئی جھٹکے کھائے، کئی ٹوٹ پھوٹ میرے اندر بھی ہوئی پچھلی تمام تربیتوں کو بھولنا پڑا، وقتی طور پر کئی سمجھوتے کرنے پڑے، اپنے آپ سے بھی اور دوسروں سے بھی۔  بالآخر برس گذرتے گذرتے اپنے لئے میں نے وہ زمین تیار کر لی جس پر آج میں کھڑی ہوں۔

ان ساری مصروفیت کے باوجود میں کاشف اصغر کو طلاق کا نوٹس بھیجنا نہیں بھولی تھی۔  میرا کیس فیملی کورٹ میں چل رہا تھا۔  ہر پیشی پر میں نیوز چینلز کی سرخیاں بنتی۔  کشو نے ان سارے حالات سے بچنے کے لئے پیش کش رکھی۔  آپسی سمجھوتے سے طلاق۔  میں نے فوراً ہاں کہہ دی۔

سیاست میں آنا میری زندگی کا سب سے روشن باب تھا۔

مومنہ مرکز کو سہارا بنا کر ایک بار پھر الیکشن جیتنے کی تیاری میں نے شروع کر دی تھی۔  بھیڑ کی نبض پر ہاتھ رکھ کر اس کی نفسیات سے کھیلنے کا ہنر مجھے آتا تھا۔  کشو نے یہ ہنر حاصل کرنے کے لئے باقاعدہ میری ذہنی تربیت کروائی تھی۔

سیاسی میدان میں ’بھائی‘ لوگوں کا بے حد اہم رول ہوتا ہے۔  ایک طرف یہ الیکشن کے دوران ووٹ بینک بڑھاتے ہیں دوسری طرف گھٹتے ہوئے بینک بیلنس کو بھی سنبھالتے ہیں۔  بدلے میں الیکشن جیتنے والوں کو ان کی سرپرستی کرنی ہوتی ہے۔  اکثر یہ سرپرستی کافی مہنگی بھی پڑ جاتی ہے۔  مگر میں نے چھوٹے چھوٹے ’بھائی لوگوں ‘ کے کئی گٹ تیار کئے تھے۔  ان گٹوں کو سنبھالنے کا کام میں نے شیخ شہاب الدین انکل کو سونپا تھا۔  جو ابی کے دوستوں میں تھے۔  اور صرف نیتاؤں کی چمچا گیری کرتے ہوئے ایک چھوٹے سے شہر رام پور سے اٹھ کر دلی جیسے شہر میں آبسے تھے۔  دلی آنے کے بعد سب سے پہلے میں نے ان سے ہی رابطہ کیا تھا۔  حالانکہ سچ یہ ہے کہ میری شہرت انھیں خود میرے دروازے تک کھینچ لائی تھی۔

ہمارے سیاسی خیمے کے سب سے اہم کردار تھے کالی پرساد بھیرو جی۔ ’ بھیرو‘ ان کا تخلص تھا کیونکہ وہ ہندی شاعری میں دخل رکھتے تھے۔  ان کی عمر پینسٹھ سے اوپر تھی۔  دو بار میئر بننے کا تمغہ ان کے نام کے ساتھ چلتا تھا۔ انھیں اپنی بساط پر کھینچنے کے لئے مجھے کوئی دقت نہیں اٹھانی پڑی۔  بھائی لوگوں کے مشورے پر میں رکشا بندھن کے دن مبارک باد دینے اور کلائی پر راکھی باندھنے سیدھے ان کے بنگلے پر پہنچ گئی۔  کوئی مسلم خاتون منسٹر ایک سابق میئر کو راکھی باندھنے جائے اس سے بڑی خبر اور کیا ہو سکتی تھی۔  میڈیا نے ایک بار پھر مجھے فوکس کیا۔  میرا مقصد کچھ اور تھا۔  اور میڈیا کی سرخیاں تھی کہ میں ہندو مسلم یکجہتی کے لئے کوشاں ہوں۔  میری تصویر ایک ایسی سیاسی مسلم خاتون کی بن رہی تھی جس نے عورتوں کے حق کے لئے اپنے گھر کی قربانی دے دی تھی۔  جس نے عورتوں کی فلاح کے لئے خود کا عیش و آرام چھوڑ دیا تھا۔

ایک دن صحیح موقع پر میں نے بھیرو جی کے سامنے اپنی منشا رکھ دی کہ مجھے مومنہ مرکز کے لئے لکھنؤ شہر میں ایک بڑی زمین چاہئے۔

 بھیرو جی گھاگھ نیتا کی طرح بولے۔ ۔ ۔ ’’ میری قیمت؟‘‘

’’آپ کی قیمت یہی ہو گی کہ آپ میرے قریبی سمجھے جائیں گے۔ ‘‘

’’کیا یہ قیمت بہت کم نہیں ؟‘‘

’’وقت اور کام کے ساتھ قیمت بڑھتی جائے گی۔ ‘‘ میں نے پر اعتماد لہجے میں کہا۔

’’آپ یہ مدد سرکار سے کیوں نہیں لیتیں ؟ آپ جو کچھ کر رہی ہیں وہ تو عورتوں کے حق میں ہے نا۔ ‘‘

’’مجھے سرکاری مدد نہیں لینی ہے۔  اسے میں چیریٹی کے ذریعے چلانا چاہتی ہوں۔ ‘‘

 میں نے مضبوط لہجے میں اپنا فیصلہ انھیں سنایا۔

تجربوں کے جس ہمالیہ پر میں اپنی پچھلی زندگی میں چڑھی تھی آخر کچھ تو فائدہ اس کا ہونا ہی تھی۔  لہجے کی توڑ موڑ، الفاظ کی بنت کاری کے ساتھ مجھے اچھی طرح معلوم تھا کہ کس سے ملتے وقت کتنی مسکراہٹ چہرے پر سجانی چاہئے، کب صرف تیوری چڑھانے سے ہی کام بن سکتا ہے، کب مجھے آنکھیں تریرنا یا ماتھے پر سلوٹیں بڑھانا ہے، کب ہلکے قہقہے کے ساتھ اپنے ہاتھوں سے بار بار شانے سے سرکتے ساڑی کے آنچل کو اوپر نیچے کرنا ہے۔  اور بلاؤز کی گہرائیوں کو کب چھپانا اور کب دکھانا ہے۔ کس کے سامنے شیرنی کی طرح غرا کر بات کرنی ہے اور کن ہستیوں کے آگے بھیگی بلی بن کر اپنے مسلم معاشرے کی شریف خاتون ہونے کی دہائی دینا ہے۔  میڈیا کی مجھے پرواہ نہیں تھی۔  کیونکہ پہلے ہی دن سے میڈیا نے مجھے پلکوں پر بیٹھا لیا تھا۔  میرا خاندانی پس منظر میری پشتینی حویلی، میری ذاتی زندگی کی بکھری بکھری تصویریں سب چھوٹی اسکرین کا حصہ بن چکے تھے۔  میں سلیبریٹی(Celebrity) کی حیثیت حاصل کر چکی تھی۔

میں اچھی طرح جانتی تھی کہ مومنہ مرکز کی تعمیر کے لئے اگر سرکار سے میں نے مالی تعاون لیا تو میرے ہاتھ سے ایک اہم پتہ سرک جائے گا۔  میں اپنے دم پر چیریٹی کے ذریعہ اس کام کو انجام دینا چاہتی تھی۔  بھیرو جی نے بھر پور مدد کی۔  شہر کے آؤٹر پر مجھے ایک بڑی زمین مل گئی۔  میں نے دلی میں بیٹھے بیٹھے ہی تعمیر کا کام شروع کروا دیا۔  کچھ روپئے میں نے لگوائے کچھ چیریٹی سے آئے، اور کچھ ’بھائیوں ‘ نے مدد کی۔  مومنہ مرکز میں کئی فلور تھے۔  گراؤنڈ فلور پر عورتوں کے لئے اسپتال بنایا گیا۔  جہاں زچہ بچہ کے لئے بھی الگ انتظام تھا۔  پہلے فلور پر خواتین کے لئے تکنیکی تعلیم کا الگ بندوبست کیا گیا جس کے ذریعے وہ روزگار حاصل کر سکیں۔  دوسرا فلور ان خواتین کے لئے تھا جو اپنے چھوٹے موٹے کام دھندوں سے گھر کی مالی حالت سنبھالنا چاہتی تھیں۔  اس فلور کے کئی شعبے تھے۔  کہیں اچار بنانے کا کام ہوتا، کہیں پاپڑ تیار کئے جاتے، کچھ عورتیں کمپیوٹر ٹائپنگ سیکھ کر گھر کے اندر رہ کر روپئے کمانا چاہتی تھیں۔  اور کچھ ایسی بھی تھیں جو میدان میں اتر کر مردوں کے بیچ رہ کر کام کرنا چاہتی تھیں۔  تیسرے سکھایا جاتا کہ مردوں کے بیچ کس طرح اور کن دائروں میں رہ کر کام کرنا چاہئے، باہر کی دنیا میں کیسے عورت خود کی عزت محفوظ رکھ سکتی ہے۔  عورتوں کی ہنسی ہنسی میں کہی معمولی باتوں کا مرد کتنا گہرا مطلب نکال کر جانور بن جاتا ہے، اس کے لئے عورت کو کیسے ہوشیار رہنا چاہئے۔  یہ ساری باتیں بتائی جاتی ساتھ ہی یہاں لڑکیوں کو جوڈو کراٹے سکھانے کے ٹرینر بھی موجود رہتے۔  بہت معمولی فیس کے ساتھ یہ کام شروع ہو چکا تھا۔

چوتھا فلور مومنہ مرکز کا سب سے اہم تلہ تھا۔ یہ فلور میں نے این۔  جی۔  او۔  کی خواتین کے لئے بنوایا تھا۔  تا کہ عورتوں کی فلاح چاہنے والے مختلف این۔  جی۔  او کے کارکن ایک پلیٹ فارم پر آ کر ایک نظام کے تحت کام کر سکیں۔  ساتھ ہی اگر کوئی نیا این۔  جی۔  او۔  کھولنا چاہتا ہے تو وہ بھی اس میں شامل ہو سکے۔

 الیکشن ہونے میں ابھی آٹھ، نو مہینے کا وقت تھا۔  اور مومنہ مرکز مکمل اور شاندار طریقے سے بن کر تیار ہو چکا تھا۔  میں بے حد خوش اور مطمئن تھی۔  الیکشن کی اگلی جیت کا مجھے پورا یقین ہوتا جا رہا تھا۔  اپنی کرسی پر بیٹھے بیٹھے ہی مومنہ مرکز کی جتنی پبلسٹی میں کروا سکتی تھی میں کروا رہی تھی۔  مجھے افتتاحی جلسے میں لکھنؤ جانا تھا۔  جہاں مجھے مومنہ مرکز کی شاندار عمارت کے سامنے سنگ مرمر پر جَڑے اپنے نام کی تختی کے اوپر سے پردہ ہٹانا تھا۔  ربن کاٹ کر باقاعدہ مومنہ مرکز کے مقاصد کا اعلان کرنا تھا۔  چونکہ ابھی پارلیمنٹ کا خصوصی اجلاس چل رہا تھا اس لئے میرا نکلنا ناممکن تھا۔

ایک دن میں اپنے آفس میں بیٹھی تھی، دربان نے آ کر کہا کوئی میڈم نادیہ علی آپ سے ملنا چاہتی ہیں۔  میں نے وزیٹنگ کارڈ مانگا تو دربان نے بتایا کہ اس وقت ان کے پاس کارڈ ختم ہو گئے ہیں۔  مجھے کچھ عجیب سا لگا مگر مسلم خاتون تھی اس لئے آنے کی اجازت دے دی۔

میں فائل پر جھکی کچھ لکھ رہی تھی۔  آہٹ ہوئی تو سر اوپر اٹھایا۔  کچھ لمحوں تک میں آنکھیں جھپکانا ہی بھول گئی۔  میرے لب حیرت سے کھل گئے۔ میرے سامنے کرینا کھڑی تھی۔

’’تم!‘‘ میں نے بے ساختہ کہا۔

’’جی! میں کرینا۔ ‘‘

’’مگر دربان نے بتایا کہ کوئی نادیہ علی ہیں ؟‘‘

’’کام کے اعتبار سے نام بدلنا ہم پیشہ کرنے والی عورتوں کی مجبوری ہوتی ہے۔ ‘‘

میں اسے بیٹھانا ہی بھول گئی اور ایک ٹک اسے دیکھے جا رہی تھی۔  اب وہ پہلے سے زیادہ معتبر اور سنجیدہ دکھ رہی تھی۔  اس نے آسمانی رنگ کی کاٹن کی ساڑی پہن رکھی تھی۔  جس پر لال رنگ سے پتلے باڈر پر باریک کام کیا گیا تھا۔  اس نے بڑا سا کالا چشمہ لگا رکھا تھا جو اس وقت اس کے سر کے درمیانی حصے پر ٹکا تھا۔  ناک میں پہنی ہوئی چھوٹی سی ہیرے کی کنی جھلملا رہی تھی۔  شانے تک کٹے ہوئے بالوں کی کچھ لٹیں اس کے آدھے چہرے کو ڈھکے ہوئے تھیں۔  ایک ہاتھ میں مینہ کاری کیا ہوا سونے کا نقاشی دار کڑا، اور دوسرے ہاتھ میں کالے پٹے اور سنہرے ڈائل کی گھڑی۔  داہنے ہاتھ کی بیچ کی انگلی میں چمکتے ہوئے فیروزے کی انگوٹھی۔  اسے دیکھ کر کوئی اس کے ماضی کو نہیں پڑھ سکتا تھا۔  مگر اس کے پیچھے کھڑے میرے ماضی نے جیسے مجھے کئی برس پیچھے کھینچ لیا۔  میرے ذہن میں یکایک بستی سے جڑی ساری یادیں تازہ ہو گئیں۔  ستارہ، پھانکی، چمپا کاکی، کلن بی، گلابو، رحمو بابا، برکت علی، پرکاش، وولکی، الزبیتھ۔ ۔ ۔ اف !لگا دماغ دباؤ سے پھٹ جائے گا۔  آنکھیں بھاری ہونے لگیں۔  میرے سامنے کھڑی تھی کرینا۔  کرینا کے پیچھے کھڑا تھا میرا ماضی اور ماضی کے ساتھ کشو کی تصویریں میری آنکھوں کو پانی سے لبریز کر دینا چاہتی تھیں۔  بڑی مشکل سے میں نے خود کو سنبھالا۔

’’بولو، مجھ سے کیا کام ہے۔ ‘‘

میری آواز میں جو ٹوٹن تھی، خود پر سے اٹھی جو بے اعتباری اور بے اعتمادی تھی، اس نے مجھے کرچیں، کرچیں کر دیا۔

کرینا کی بھرپور اعتماد میں ڈوبی آواز نے مجھے پھر جھکجھورا۔

’’مجھے آپ کی مدد چاہئے میں مومنہ مرکز سے جڑنا چاہتی ہوں۔ ‘‘

میں نے آواز میں وزن اور جملے کی ادائیگی میں ٹھہراؤ لاتے ہوئے کہا۔

’’مومنہ مرکز تم جیسی عورتوں کے لئے نہیں ہے۔ ‘‘

’’مگر مومنہ مرکز کا مقصد بے سہارا اور مجبور عورتوں کی مدد کرنا ہے!‘‘

لمحے بھر میں میں نے اپنے حواس یکجا کئے۔  الیکشن قریب آ رہا تھا۔  یہ عورتیں میری مخالف پارٹی کا مہرہ بن سکتی تھیں۔  یہ سوچ کر آواز میں نرمی برتتے ہوئے میں نے کہا۔  ’’کیا کر رہی ہو آج کل۔ ‘‘

مجھے اپنے ووٹ بینک کا بھی تو خیال رکھنا تھا۔

’’بس، یوں ہی کٹ رہی ہے۔ ‘‘

اس کا لہجہ تھوڑا رنجیدہ تھا۔  میں نے ڈور بیل دے کر دربان کو بلایا۔  اور دو ہاٹ کافی کا آرڈر دیا۔

 کرینا میرے سامنے کرسی پر بیٹھی تھی اور میں کاشف اصغر کے خیال میں ڈوبی تھی۔  اس کے ساتھ گذارے چند خوشگوار اور بیشتر اذیت دہ لمحوں کا تجزیہ کر رہی تھی۔  کافی آ چکی تھی۔  ہم دونوں آہستہ آہستہ کافی کے گھونٹ بھر رہے تھے۔  میں اپنی سوچ میں تھی اور وہ اس لمحے کے انتظار میں تھی کہ جب اپنی بات کھل کر کہہ سکے۔

’’کہو!‘‘ میری زبان سے بے ساختہ نکلا۔  ’’مجھ سے کیا مدد چاہتی ہو۔ ‘‘

’’میں اکیلی نہیں ہوں میرے ساتھ کئی عورتیں ہیں۔  مگر سب ابھی آپ کے سامنے نہیں آئی ہیں۔  ‘‘

’’اچھا! اپنا مقصد تو بتاؤ۔ ‘‘ میں نے گھڑی کی طرف نگاہ اٹھائی میرے جانے کا وقت ہو چکا تھا۔  اور میں بات چیت کو جلد ختم کرنا چاہتی تھی۔  اس وقت میں شدید ذہنی انتشار میں تھی۔

’’ہم عورتیں آپ کی مدد سے ایک ایسا این۔  جی۔  او۔  چلانا چاہتی ہیں جو ’سرو گیٹ مدر‘ (Surrogate Mother)کا کردار ادا کرے۔  ‘‘

’’کیا مطلب؟ ‘‘ میں اپنے کرسی سے اچھل پڑی۔

’’اپ پہلے میری بات تو سنیے۔ ہمارے معاشرے میں بانجھ عورتیں ہمیشہ سے رہی ہیں۔  مگر میٹرو سٹی میں اب ایسی عورتوں کی تعداد بھی بڑھ رہی جو اپنے بدن کے بے ڈول ہونے کے خوف سے یا پھر حد درجہ بڑھی مصروفیت کی وجہ سے بچہ پیدا نہیں کرنا چاہتیں۔  ان عورتوں اور ان کے گھر کے مردوں کو ’سرو گیٹ مدر‘ کی ضرورت پڑتی رہتی ہے۔  سوسائیٹی کے ویلفیئر کے لئے ہمارا گروپ اس ضرورت کو پورا کرنے کے لئے تیار ہے۔ ‘‘

’’مگر یہ کوئی شریفانہ کام نہیں ہے۔  میں کوئی مدد نہیں کر سکتی۔ ‘‘ میں نے جھلاتے ہوئے اس کی بات کاٹی۔

اس سے قبل کہ میں جانے کے لئے کھڑی ہوتی۔  کرینا عرف نادیہ علی ایک جھٹکے سے اٹھ کھڑی ہوئی اس نے دونوں ہاتھ جوڑ دئے۔  اس کی آنکھیں نم تھیں اور لہجہ غمناک تھا۔

’’اگر آپ ہماری بات نہیں سنیں گی تو کون ہم لوگوں کے درد کو سمجھے گا۔  ہم معاشرے کی فلاح کے لئے اپنی خدمت پیش کرنا چاہتے ہیں۔  آپ فیملی ویلفئیر منسٹر ہیں۔  مومنہ مرکز کے ساتھ ہم عورتیں جڑ جائیں گی تو ہمیں بھی عزت سے جینے کا حق مل جائے گا۔  ‘‘

میں نے ایک گہری سانس لی اور میز پر رکھے پانی کے گلاس سے ڈھکن ہٹایا اور ایک ہی سانس میں پورا گلاس خالی کر گئی۔

کرینا نے پھر بولنا شروع کر دیا۔ ’’آپ کو یاد ہو گا جب آپ بستی میں آیا کرتی تھیں اس وقت میں پورے پیٹ سے تھی۔  سروگیٹ مدر کی حیثیت سے وہ میرا پہلا کام تھا۔  اور میں نے اکیلے ہی اس کام کی شروعات کی تھی۔  آج میرے ساتھ تیرہ عورتیں جڑ چکی ہیں۔  پیٹ پالنے کے لئے ہم عورتیں چوری چھپے یہ کام انجام دیتی ہیں۔ ‘‘

میں نے ٹالتے ہوئے کہا۔  ’’اچھا !میں سوچوں گی۔ ‘‘

اس نے پھر مجھے اعتماد میں لینا چاہا۔ ’’دیکھئے ہمارے اس عمل سے اگر لوگوں کے سونے گھروں میں بچوں کی کلکاریاں گونج رہی ہیں۔  تو اس کام میں کیا برائی ہے۔  اگر ہم اپنے کام سے لوگوں کے گھروں میں خوشیاں لا سکتے ہیں تو کہاں سے ہم دوسروں کی لعنت کے شکار ہوئے۔  ‘‘

میری آنکھیں گہری فکر میں ڈوبی ہوئی تھیں۔  اور وہ میرے چہرے کا اتار چڑھاؤ پڑھ رہی تھی۔  پھر آہستہ سے بولی۔  ’’دیکھئے میں جانتی ہوں آپ کیا سوچ رہی ہیں۔  آپ اس معاملے میں بالکل پریشان مت ہوئیے۔  ہم لوگ اپنا اور دوسری پارٹی کا پورا میڈیکل چیک اپ کروانے کے بعد ہی کام آگے بڑھاتے ہیں۔  اگر ہم لوگوں کو آپ کی سرپرستی اور مومنہ مرکز کا بینر مل گیا تو جو کام ہم لوگ چوری چھپے گمنامی کے پردے میں رہ کر کر رہے ہیں وہ کام عزت کے ساتھ لوگوں کے سامنے آ کر بھی کرنے کا حق ہمیں حاصل ہو جائے گا۔ ‘‘

’’ مجھے سوچنے کا وقت دو۔ ‘‘

’’میڈم یہ فائل میں یہیں رکھ دیتی ہوں۔  اس میں ان تمام عورتوں کے نام پتے اور ٹیلی فون نمبر ہیں، جو اس کام کو باقاعدہ کرنا چاہتی ہیں۔  ساتھ ہی ان گھروں کے مردوں کے نام پتے اور موبائل نمبر ہیں جن گھروں کو ہماری خدمت نے آباد کیا ہے۔ ‘‘

’’ٹھیک ہے۔  ‘‘ میں نے چشمہ اتار کر کیس میں رکھا اور پرس کندھے پر ڈال کر اٹھ کھڑی ہوئی۔

کرینا عرف نادیہ علی جا چکی تھی۔  کاشف اصغر ابھی بھی میرے حواس پر چھایا ہوا تھا۔  بھولنا چاہ کر بھی عورت کا اپنی زندگی میں آئے پہلے مرد کو فراموش کرنا آسان نہیں ہوتا۔  میری گاڑی اپنے سرکاری گھر کی طرف روانہ ہو چکی تھی۔

٭٭٭

 

۱۹۔ شاخ شب

روشنی کی نیم روشن کرن /افق پر خود کو ظاہر کرنا/ چراغ کی بتی / اور دیے کی لو کے مانند/ جو روشن کرتی ہے/اپنے آپ کو اور اپنا ارد گرد/ اور اپنے ہونے کی خبر دیتی ہے/ اس کے اور میرے درمیان / ہر نشانیاں / لو میں دھوئیں کی مانند/ گم ہو جاتی ہیں / وہ جو وقت سے اوپر ہے /اور عشق سے پہچانتا ہے/ جس کی گواہی ازل کو ابد کے ساتھ ایک لمحے میں پرو دیتی ہے/ ہم جو اکیلے میں تنہا ہیں / عبارت لکھتے ہیں / اس کے نام کی/اور اسے پہچانتے ہوئے/ اس کی پہچان میں چھپ جاتے ہیں۔ ۔ ۔

اپنی رضا قضا کے سپرد کر کے زہر جیسی تلخ زندگی کو شکر کے مانند شیریں بنا کر زندگی ہمیں جئے جاتی ہے۔  اور ہم ہجر کی شب بیداری میں بھی وصل کے نغمے گا کر  زندگی کو جی لے جاتے ہیں۔

ماہ کی ۱۴تاریخ تھی۔  اور چاند اپنے پورے شباب پر تھا۔  کھلے آسمان پر خرگوش کے بچوں کی طرح دھما چوکڑی مچاتے ایک دوسرے سے آنکھ مچولی کھیلتے بادلوں کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے اس بات کی نشاندہی کر رہے تھے کہ کچھ گھنٹے قبل وہ اپنی ہلکی پھلکی پھوہاروں سے فضا کو معطر کر چکے ہیں۔  اکتوبر کے شروعاتی دن تھے۔  گلابی ٹھنڈک کی خنک دار ہوا میرے جسم میں سرگوشیاں کر رہی تھیں۔  مگر میں ان سرگوشیوں سے قطعی بے نیاز اپنے دونوں ہاتھ اوپر اٹھائے دو زانو ہو کر کچی زمین پر بیٹھی تھی۔  مٹی کی نمی بتاتی تھی کہ بادلوں کی ان پھوہاروں کو وہ اپنے میں جذب کر چکی ہے۔  میرے جسم میں ہلکا ہلکا لرزہ آ رہا تھا۔  دل سمندر کی گہرائیوں میں ڈوب رہا تھا۔  ذہن ماؤف اور فکر تنگ اندھیری غار کا سفر طے کر رہی تھی۔  آنکھیں بار بار بھیگ بھیگ جاتیں۔  جنھیں میں کرتے کے آستین سے رگڑ کر خشک کر لیتی۔  صبح ہونے میں ابھی دو تین گھنٹے باقی تھے اور میں اپنے چھوٹے سے قافلے کو گیٹ کے باہر چھوڑ کر تنہا اندر آئی تھی۔  میں نے کبھی بھی اپنے اوپر تنہائی کا عذاب نہیں اوڑھا۔  اس وقت تنہا ہوتے ہوئے بھی میں اکیلی نہیں تھی۔  میرے ساتھ میرے ابی تھے۔  میں ان کے سینے سے ننھی بچی کی طرح لپٹ جانا چاہتی تھی۔  ان کے دامن میں سمٹ جانا چاہتی تھی۔  ان کی محفوظ آغوش میں چھپ جانا چاہتی تھی۔  ان کے بازو میں جھول جانا چاہتی تھی۔  اور اپنی تمام غلطیوں اور نافرمانیوں کی معافی مانگ لینا چاہتی تھی۔  جب میں اپنی شرارتوں پر ابی سے پٹتی تھی اور پھر کسی صوفے، کرسی یا تخت کے نیچے چھپ کر ابی کے لئے بد دعائیں کیا کرتی تھی یا اللہ میرے ابی کو موت دے دے۔  میں سبک سبک کر آنسو اور ناک بہاتے ہوئے اللہ میاں سے شکوہ کرتی تھی کہ یا اللہ تو میرے ابی کو اٹھا لے۔  تاکہ یہ پھر میری پٹائی نہ کر سکیں۔  میں پٹنے سے بہت ڈرتی تھی۔  دوسرے بچوں کو پٹتا دیکھ کر خود ایسی آہ و بکا مچاتی جیسے میں خود ہی پٹ رہی ہوں۔  اس کے باوجود میں ہفتے میں ایک دو بار ضرور پٹ جاتی تھی۔  میری شرارتیں معصوم ہوتے ہوئے بھی ناقابل برداشت ہوتی تھیں۔  ابی کے نہانے کی بالٹی میں صاف ستھرا پانی بھرا ہوا ہوتا اور میں لیٹرین سے نکل کر اپنا گندا ہاتھ اس میں ڈال دیتی۔  ابی جب کہیں سے لوٹتے تو اپنے جوتے برآمدے کے باہر ہی اتار دیتے۔  میں ان جوتوں کو گھر کی باؤنڈری سے باہر پھینک دیتی تاکہ کتے اسے اٹھا لے جائیں۔  اور ابی ننگے پیر گھومیں۔  میں ان گرمی کی راتوں کو کیسے بھول سکتی تھی جب بڑے سے کچے صحن میں شام سے ہی پانی کا چھڑکاؤ شروع کر دیا جاتا تھا اور جب زمین ٹھنڈی ہو جاتی تو کئی تخت اور پلنگیں صحن میں بچھا دی جاتیں۔  ان دنوں جاڑے اور گرمی کے بستر الگ الگ ہوا کرتے تھے۔  جاڑے میں جہاں روئی کی موٹی موٹی توشکیں بچھائی جاتیں وہیں گرمی کی راتوں میں دری یا ہلکی کتھری پلنگوں پر ڈال کر سفید چادریں بچھا دی جاتی۔  ٹھنڈے پانی کی دو تین سراہی سرہانے کی طرف اسٹول پر رکھ دی جاتیں۔  صحن کے کنارے کنارے ہماری خود کی امی نے بیلے کے پھول کی کئی لتر خود اپنے ہاتھ سے لگائی تھیں جو ان دنوں کافی پھیل چکی تھی۔  گھر کی ملازمہ کا یہ سب سے آخری کام ہوتا تھا کہ وہ ان کھلے ہوئے بیلے کے پھولوں کو توڑ کر چھوٹی امی کے تکیے کے کنارے رکھ دے مجھے یہ سب کچھ اچھا نہیں لگتا۔  میں سب کی آنکھیں بچا کر ان پھولوں کو چھپا دیتی یا توڑ کر پھینک دیتی۔  یہ میری اپنی امی کے پھول تھے۔  ابی عشاء کی نماز ادا کر کے باہر سے آتے ہم سب ایک دستر خوان پر کھانا کھاتے۔  چھوٹی امی ابی کو لے کر چھت پر ٹہلنے چلی جاتیں۔  اور ہم بچیاں اپنے بستروں پر لیٹ کر ایک دوسرے سے چھیڑ چھاڑ کرتیں۔  ہنستی، شرارتیں کرتیں، پھر دونوں چھوٹی بہنیں مجھ سے پہلے سو جاتیں۔  میں زبردستی اپنی آنکھوں سے نیند کو دور بھگاتی۔  اور پھر۔ ۔ ۔ بہت سے ایسے منظر دیکھ لیتی جو مجھے نہیں دیکھنا چاہئے تھا۔  ایسے میں چھوٹی امی کی نگاہ مجھ پر پڑ جاتی تو وہ انگلی سے میری طرف اشارہ کر دیتیں۔  صبح ہوتی اور میری چھوٹی چھوٹی شرارتوں اور چھوٹی چھوٹی حرکتوں پر بے تحاشہ پٹائی ہوتی۔  رات کا ان کا غصہ مجھے صبح جھیلنا پڑتا۔  ہر پٹائی میں چھوٹی امی وجہ بنتی تھیں۔  ایسے میں ابی کے لئے بد دعائیں نہ کرتی تو کیا کرتی۔  مگر آج جب سرمئی اندھیرا صبح کی روشنی کا انتظار لر رہا تھا میں ابی کے سامنے دو زانوں ہو کر بیٹھی ان سے معافی مانگ رہی تھی۔  مگر ابی خاموش تھے۔  اپنی قیام گاہ میں ابدی نیند سوئے ہوئے تھے۔

دور کہیں سے اذان کی آواز آئی۔  دل غمگین تھا۔  جی چاہا وہی گیلی مٹی پر نماز فجر ادا کر لوں مگر قبرستان عبادت گاہ نہیں ہوا کرتے۔  میں اٹھ کھڑی ہوئی۔  آسمان پر ہلکی سفیدی پھیل چکی تھی۔  بادلوں کے ٹکڑے ایک دوسرے پر چڑھے بلی کے بچوں کی طرح سست رفتار ہو چکے تھے۔  چاند کا شباب چھٹ چکا تھا۔  زرد پتوں کا عذاب اوڑھے وہ اپنا نور کھو رہا تھا۔  کہیں دور افق میں آفتاب کی آمد کی نشانیاں دستک دینے لگیں تھیں۔  میں نے آخری نگاہ ابی کی قبر پر ڈالی اور سر پر اوڑھی سیاہ ردا سے آنسوؤں سے تر اپنے چہرے کو خشک کرنے لگی۔  لبوں میں جنبش ہوئی۔  ابی کو خدا حافظ کہا گیٹ کی طرف بڑھ گئی۔  میرے دلی آنے کے ایک برس بعد ہی ابی دنیائے فانی سے کوچ کر گئے تھے۔

تین گاڑیوں پر مشتمل میرا چھوٹا سا قافلہ اب نیفو کے گھر کی طرف روانہ ہو چکا تھا۔  آج کا دن میرے لئے بے حد مصروفیت بھرا تھا۔  جس کی تفصیل میرے دلی سے لکھنؤ آنے کے قبل ہی یہاں کے ڈی۔  ایم۔  کو دے دی گئی تھی۔  ہاں اس میں جن دو اہم جگہوں کا میں نے ذکر نہیں کیا تھا اس میں ایک قبرستان میں آ کر فاتحہ پڑھنا تھا۔  لال بتی کا جلوہ اب میرے لئے روز مرہ کی زندگی کا ایک حصہ بن چکا تھا۔  ایک خاص قسم کی سائرن کی آواز، بھیڑ کا تیزی کے ساتھ کنارے ہٹنا، پولیس والوں کی بے جا مصروفیت کا مظاہرہ، کچھ ایک میڈیا کے کیمرے اور بہت سے تام جھام کے بیچ میں نیفو کے گھر میں داخل ہوئی۔  کشو سے طلاق لینے کے بعد نیفو اور ڈاکٹر رحمن نے کشو کا گھر چھوڑ دیا تھا۔  ستارہ کو لے کر کشو کی بے انتہا بدنامی ہوئی کیونکہ لوگوں کے سامنے یہ بات کھل کر آ گئی کہ ستارہ  H. I. V. Positive  تھی اور کشو کا ستارہ کے ساتھ جسمانی رشتہ رہا ہے۔

مجھ سے علاحدگی کے بعد کشو نے شہر کی اپنی ساری پراپرٹی بیچ دی۔  وہ بنگلہ بھی بیچ دیا جس میں ہم دونوں رہا کرتے تھے۔  اڑتی اڑتی خبر ملی کہ وہ سب کچھ فروخت کر کے ہندوستان چھوڑ کر باہر چلا گیا ہے۔ کچھ کہانیاں پھیلی کہ وہ کسی اسپتال میں بھرتی ہے۔  اور اپنا علاج کرا رہا ہے۔  افواہیں بے پر کی پرواز کرتی ہیں۔  حقیقت تو کشو ہی جاننے والا تھا۔  کچھ نے کہا کشو پاگل ہو گیا ہے اور آتی جاتی عورتوں پر حملہ کرتا ہے اور اپنے دانتوں سے ان کی کلائیاں کاٹتا ہے کچھ نے کہا جیل میں ہے اور کچھ نے بات پھیلائی کہ اس کی موت ہو چکی ہے۔

سچ یہ تھا کہ کشو مجھ سے الگ ہو کر ٹوٹ چکا تھا۔  اس نے خود کو پوشیدہ کر لیا اب وہ بھی پرکاش کی طرح مر چکا ہے یا زندہ ہے، یہ جاننے میں مجھے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔

نیفو کے گھر میں ایک گھنٹہ قیام کرنے کے بعد مومنہ مرکز کے افتتاحی جلسے میں شامل ہونے کے لئے ایک لمبا چوڑا قافلہ ایک بار پھر سڑکوں پر رواں دواں تھا۔  اس میں نیفو، ڈاکٹر رحمن کے ساتھ میری پارٹی کے کارکن میڈیا اور پولیس کی گاڑی شامل تھی۔

ربن کاٹ کر میں نے وہیں پر دو رکعت نماز شکرانہ ادا کی۔  یہ بھی میرا سیاسی ڈرامہ تھا۔  جانتی تھی کہ میڈیا کا کیمرہ میرے اس مذہبی رجحان کو خوب نمایاں کرے گا جس میں مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ میرے ووٹ بینک میں شامل ہو جائے گا۔  کیونکہ میں تیسری بار بھی یہیں سے الیکشن لڑنے والی تھی۔  پچھلے دو بار یہاں کی عوام مجھے جتا چکی تھی۔

اب میں اپنے پورے علاقے کا دورہ کرنے جا رہی تھی۔  کئی اہم لوگوں سے بات چیت کر کے آگے کے پروگرام طے کرنے تھے۔  بھیڑ اگر الیکشن کی فضا بناتی ہے تو جگہ جگہ جا کر، نکڑوں پر ٹھہر کر لوگوں سے ملنا جلنا ووٹ کی تعداد بڑھاتی ہے۔  میری کوشش تھی کہ اگلے تین گھنٹوں میں اپنے علاقے کے تقریباًک ستر خوان پر کھانہ  سبھی خاص مقامات پر پہنچ کر اپنی آمد درج کرا دوں۔

تین بجے میری پریس کانفرنس تھی میں میڈیا سے کبھی خوف زدہ نہیں ہوئی۔  کیونکہ میں نے کبھی کچھ غلط نہیں کیا تھا۔  تھوڑ ا بہت زیر زبر تو سیاسی داؤں پیچ کا حصہ ہوتا ہے۔  میرے بائیں طرف ڈاکٹر رحمن بیٹھے تھے۔  اور داہنی طرف میرے میڈیا پروکتا۔

ایک کے بعد دوسرے، دوسرے کے بعد تیسرے سوالوں کے سلسلے شروع ہوئے۔

ایک کونے سے آواز آئی۔  ’’آپ کے آدھے چاند کا سچ کیا ہے۔ ‘‘

ہونٹوں پر ایک پرکشش مسکراہٹ سجا کر میں نے جواب دیا۔  ’’آدھے چاند کا سچ ہے مومنہ مرکز۔  یہ مرکز ہر ان عورتوں کے لئے باعث راحت ہو گا جو مرد اساس معاشرے میں ستائی ہوئی ہیں۔ ‘‘

اگلا سوال تھا۔  ’’مومنہ مرکز کی کوئی برانچ کیا آپ دلی میں بھی کھولیں گی۔ ‘‘

’’اگر وقت اور حالات نے ساتھ دیا تو ہر صوبے میں مومنہ مرکز کی ایک برانچ ہو گی۔ ‘‘

’’میڈم مخالف پارٹی مومنہ مرکز کو آپ کا سیاسی ہتھکنڈہ بتا رہی ہے۔  ‘‘

میں نے پر اعتماد لہجے میں کہا۔  ’’مومنہ مرکز عوام سے کئے میرے اپنے وعدوں کی تکمیل ہے۔  میرا اپنا خواب ہے۔  ایک عورت کے ذریعہ عورت کی فلاح کے لئے خالص عورت کے واسطے دیکھے گئے خواب کا سچ ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مومنہ مرکز۔ ‘‘

بھیڑ میں سے ایک ادھیڑ مرد کھڑا ہوا اور مائک ہاتھ میں پکڑ کر تیز آواز میں بولا۔  ’’میڈم اکثر آپ پر چھینٹا کشی کرنے والے لوگ کہتے ہیں جو اپنی زندگی سنوار نہیں پائی وہ دوسری عورت کو کیا سنوارے گی۔ ‘‘

ڈاکٹر رحمن نے میز پر رکھا پانی کا گلاس میری طرف سرکایا۔  اور میں نے وہ گلاس اپنے میڈیا پروکتا کی طرف بڑھاتے ہوئے جواب دیا۔ ۔ ۔ ’’اگر مرد کے ساتھ زندگی گذارنا ہی ایک عورت کے جینے کا مقصد ہے تو یقیناً میں اس مقصد میں ناکام رہی۔  میں سمجھ نہیں پاتی کہ عورت نام آتے ہی آپ لوگوں کی ذہنیت اتنے محدود دائرے میں کیوں سمٹ جاتی ہے۔  ظلم زیادتی عورتوں کے استحصال کے خلاف اگر کوئی عورت جنگ چھیڑتی ہے احتجاجی آواز اٹھاتی ہے اور اس کا یہ عمل آپ کی نگاہ میں غلط ہے تو اس میں آپ مردوں کے اپنے ذہن کی پستی ہے۔  اس میں میرا کوئی دخل نہیں ہے۔ ‘‘

سوال جواب کا سلسلہ جاری تھا بیس منٹ ہو چکے تھے۔  اور اس کانفرنس میں مجھے دس منٹ کا وقت اور دینا تھا۔  کیونکہ اس پروگرام کے لئے تیس منٹ مقرر کیا گیا تھا۔  اگلا سوال میرے سامنے پھر اچھالا گیا۔

’’گھریلو تشدد میں سب سے زیادہ عورت ہی عورت پر ظلم کرتی ہے۔  اس میں مرد کہاں سے آتے ہیں۔ ‘‘

میں نے ٹھہر ٹھہر کر جواب دیا۔ ’’عورت کی نفسیات کو پامال کرنے میں مرد کا کردار بہت اہم رہا ہے۔  وہ عورت کو ذہنی طور پر اس مقام پر پہنچا دیتے ہیں جہاں ایک ستائی گئی عورت دوسری عورت کی نہ تو خوشحالی دیکھ پاتی ہے اور نہ اس کی ازدواجی کامیابی۔ ‘‘

’’کیا آپ مردوں کے خلاف ہیں ؟‘‘ میری داہنی طرف سے سوال اٹھا۔

’’قطعی نہیں آپ نے میرا نعرہ سنا نہیں آدھا چاند تبھی مکمل ہو گا جب مرد عورت کے شانے سے شانہ ملا کر گھر اور باہر کی زندگی میں گامزن ہو گا۔ ‘‘

’آخری سوال‘، صف میں بیٹھے ہوئے بندے نے ہاتھ اٹھایا۔ ’’آپ نے اپنے شوہر کو طلاق کیوں دیا تھا؟‘‘

’’یہ میری مجبوری تھی اور یہ موضوع اب باسی ہو چکا ہے۔  میں اپنے کئی انٹرویوز میں اس کی وضاحت کر چکی ہوں۔‘‘

اس کے قبل کہ میں چشمہ اتارتی اٹھتے اٹھتے ایک اور سوال داغا گیا۔

’’اب کاشف اصغر کہاں ہیں ؟ خبر ہے کہ انھوں نے ایچ۔  آئی۔  وی۔  پازیٹیو عورت سے رشتہ جوڑا تھا۔ ‘‘

میں نے اپنا چشمہ اتارا اور بغل میں بیٹھے میڈیا پروکتا کے سامنے رکھ دیا۔ یہ میرا ایک اشارہ ہوتا تھا کہ اب کانفرنس بند کی جائے۔ بھیڑ میں میرے اپنے چند خاص لوگ بھی تھے۔  یہ اشارہ ان کے لئے بھی تھا۔  ایک کونے سے آواز آئی۔  میڈم جی زندہ باد۔  شور اٹھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔   زندہ باد، زندہ باد۔ ۔ ۔ ۔ ۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔  اور پھر ہال کمرے کے ایک طرف کا دروازہ کھلا بہترین مرغ ٹکا، پنیر ٹکا، پیاز کی پکوڑیاں، سینڈوچ، برگر، کولڈرنک، ہاٹ اور کولڈ کافی وغیرہ کی ٹرے لئے لوگ ایک کے بعد دیگر نمودار ہونے لگے۔  میڈیا کے لوگ ناشتے پر ٹوٹ پڑے۔  میں مسکراتی ہوئی کھڑی ہو گئی اور دوسری طرف کے دروازے سے باہر نکل گئی۔

گھڑی پر نگاہ ڈالی پونے چار بج گئے تھے۔  میں نے اپنے لوگوں کو ہدایت دے رکھی تھی کہ مجھے بہت پوشیدگی سے لال بتی کی گاڑی سے الگ سیاہ شیشے والی ایک پرانی ایمبسڈر سے گڈو کے ہمراہ ایک خاص جگہ جانا ہے۔  گڈو کے علاوہ کوئی دوسرا بندہ میرے ساتھ نہیں ہو گا۔  پانچ بجے نیفو کے گھر سے مجھے دلی کے لئے بائی روڈ نکلنا تھا۔  ابھی میں ضروری ہدایتیں دے ہی رہی تھی کہ تبھی ایک کارکن بھاگتا ہوا آیا کہ کوئی نادیہ علی نام کی خاتون اپنے گروپ کے ساتھ مجھ سے ملنا چاہتی ہیں۔

مجھے یاد آیا کہ کرینا نے مجھ سے ملنے کا وقت مانگا تھا۔  میں برآمدے سے واپس اپنے کمرے میں آ گئی اور سارے کارکن کو تب تک باہر رہنے کی تاکید کر دی جب تک میں ان عورتوں سے ملوں۔

تھوڑی دیر میں کرینا عرف نادیہ علی اپنے گروپ کی عورتوں کے ساتھ میرے سامنے بیٹھی تھی۔  سبھی عورتیں ایک جیسی ساڑی میں تھیں۔  کالے بارڈر کی کریم رنگ کی سوتی ساڑی۔  کرینا کو چھوڑ کر سب نے بالوں کا ہلکا جوڑا باندھ کر پلو سر پر رکھا ہوا تھا۔  سب کی عمر پچیس چھبیس سے تیس برس تک کی تھی۔  جلد چکنی اور صحت مند تھی۔  چہرے پر بہت ہلکے میک اپ کی تہیں اور ہونٹوں پر نیچرل شیپ کی لپسٹک، ہاتھوں کے ناخن قرینے سے تراشے ہوئے جن پر ہلکے گلابی رنگ کی نیل پالش تھی۔  جسم کا کساؤ بتاتا تھا کہ یہ سب اپنے اوپر خاصی تیاری کرتی ہیں۔  کہیں سے کوئی ڈھیلا پن نہیں، سبھی عورتیں کیل کانٹے سے درست۔  انھیں دیکھ کر اندازہ نہیں لگایا جا سکتا تھا کہ ان میں سے بیشتر جسم فروشی کا کام کرتی ہیں۔

ایک نظر ان پر ڈال کر گہری سنجیدگی سے میں نے کرینا سے سوال کیا۔

’’ہاں کہو مجھ سے کیا کہنا چاہتی ہو؟‘‘

 حالانکہ یہ سوال میں اس سے پہلے پوچھ چکی تھی مگر پھر بھی آگے کی جانے والی بات چیت کی زمین تو تیار کرنی تھی۔

کرینا نے بے حد سنجیدگی سے ٹھہر ٹھہر کر جواب دیا۔  ’’میڈم ہم لوگ اپنی تنظیم بنا کر ذاتی طور پر چوری چھپے کام کر رہے ہیں۔  ہمارے گروپ کی ہر عورت کم سے کم ایک بار تو سرو گیٹ مدر بن چکی ہے۔ ‘‘

’’تمھاری تنظیم یہ کام کرتی ہے، اس کا علم لوگوں کو کیسے ہوتا ہے۔ ‘‘

مجھے تجسس ہو رہا تھا اور میں ان کی گہرائی میں اتر کر سب کچھ جان لینا چاہتی تھی۔  کرینا کے بجائے اب دوسری عورت نے جواب دیا جس نے اپنا نام خوشبو بتایا۔

’’میڈم اس کام کے لئے ہم نے اپنا ویب سائٹ بنا رکھا ہے۔  اس میں ہماری تصویریں تو نہیں ہوتیں۔  مگر ہم سبھی عورتوں کے نام کے ساتھ ہماری لمبائی سینہ کمر اور کولھوں کی گولائیوں کے ناپ، وزن، عادتیں، کھان پان کے طریقے اور ساتھ ہی چہرہ، جسم اور آنکھوں کی رنگت درج ہوتی ہے۔

 کرینا نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔ ’’ہم اپنے شہروں سے زیادہ دوسرے شہروں خاص طور سے مہانگروں میں کال کئے جاتے ہیں۔  میٹرو سٹی میں تو ہمارا کام بہت اچھا چل رہا ہے۔ ‘‘

’’جب تمھارا کام اچھا چل رہا ہے تو تمھیں ہماری مدد کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی۔ ‘‘

میرے سوال پر کرینا نے اطمینان سے ایک گہری سانس لے کر جواب دیا۔  ’’اگر ہماری اس تنظیم کو آپ کے مومنہ مرکز کا بیئنر مل جائے گا تو ہم لوگ اپنا رجسٹریشن کروا کر این۔  جی۔  او۔  کے نظام کے تحت کھلے طور پراسے لا سکتے ہیں۔ ‘‘

’’اس سے کیا فائدہ ہو گا۔ ‘‘ میرا تجسس بڑھتا جا رہا تھا۔ خوشبو جو کرینا سے زیادہ تہذیب یافتہ اور پڑھی لکھی لگتی تھی۔  اس نے مجھے تفصیل سے بتایا۔

’’ہمارا کام روز بروز فروغ پا رہا ہے۔  جتنی مانگیں آتی ہیں اتنا ہم پورا نہیں کر پاتے۔  کیونکہ ایک کام آنے کے بعد وہ عورت برس بھر کچھ نہیں کر سکتی۔  اس عورت کو اس مرد کے گھر یا ہوٹل یا جہاں وہ ٹھہرائے وہاں رہنا پڑتا ہے۔  ایسے میں اگر آپ کے مومنہ مرکز کا ساتھ مل گیا تو اور بھی ضرورت مند عورتیں جڑ جائیں گی۔  ‘‘

میں اٹھتے ہوئے بولی۔ ’’ مجھے سوچنے سمجھنے کے لئے تھوڑا وقت اور چاہئے۔  مجھے موقع دو مگر اتنا جوکھم لینے کے بعد مجھے کیا ملے گا؟‘‘

خوشبو نے جلدی سے جواب دیا۔  ’’اس تنظیم سے جڑی ہر عورت آپ کو پچاس ووٹ دلوائے گی۔  ہم لوگ کل تیرہ عورتیں ہیں۔  چھ سو پچاس ووٹ ہماری طرف سے۔ ‘‘

’’مگر ہماری کوشش ہو گی کہ آپ کو ہماری طرف سے ایک ہزار ووٹوں کا تحفہ ملے۔ ‘‘

’’کہاں سے لاؤ گی اتنے ووٹرس ؟‘‘ میں نے کرینا کی بات سن کر اس سے سوال کیا۔

’’ہمارے رسوخ مردوں سے بھی ہیں۔  ہم سب مل کر ایک جٹ ہو کر جب کام کریں گے تو ووٹ بھی تو اچھے گریں گے۔ ‘‘

میری آنکھوں میں چمک آ گئی۔  میں نے اپنا پرس اٹھاتے ہوئے شگفتگی سے کہا۔  ’’ابھی مجھے ایک ضروری کام سے نکلنا ہے۔ اپنی فائل میری گاڑی میں رکھوا دو راستے میں دیکھ لوں گی۔  ویب سائٹ کی تفصیل بھی لکھ دینا۔ ‘‘

’’جی۔ ‘‘ کرینا اپنے گروپ کے ساتھ باہر جانے لگی تو میں نے اسے آواز دی۔  ’’کرینا ذرا ٹھہرنا!‘‘

سبھی عورتیں باہر نکل گئیں اور کرینا میرے پاس لوٹ آئی۔  میں نے اسے بلا تو لیا تھا مگر اب کشمکش میں تھی کہ پوچھوں یا نہ پوچھوں ؟ میرے چہرے کے الجھن کو کرینا نے پڑھ لیا۔  ’’جی۔  کہیے باجی!‘‘

اپنے لئے باجی لقب سن کر میرے چہرے پر مسکراہٹ آ گئی۔  جسے میں نے ہونٹوں کے درمیان ہی قید کر کے گہری سنجیدگی سے پوچھا۔  ’’ستارہ کا کیا حال ہے؟‘‘

کرینا کا چہرہ لٹھے کی طرح سفید پڑ گیا۔  آنکھوں میں غمناک سائے لہرائے پھر اس نے آہستہ سے کہا۔  ’’ستارہ مر گئی۔ ‘‘

میں دھپ سے کرسی پر بیٹھ گئی۔  میں جانتی تھی اسے مرنا تھا پھر بھی اس کی موت کی خبر نے مجھے بے حد رنجیدہ کر دیا۔  میں نے اشارے سے کرینا کو رخصت کیا اور کچھ دیر تک اپنی میز پر پیشانی ٹیک کر آنکھیں بند کئے بیٹھی رہی۔  بند آنکھوں میں چھپے پانی کی وجہ ستارہ تھی، یا کشو۔  میں خود نہیں جان پائی۔

میرا سر بھاری ہو رہا تھا اور ہلکا چکر سا محسوس ہو رہا تھا۔  میں نے ایک گلاس پانی پیا اور برآمدے میں باہر نکل آئی۔  گڈو امبیسڈر لئے تیار کھڑا تھا۔  آہستہ قدموں سے چلتی ہوئی کھلے ڈور سے میں گاڑی کے اندر بیٹھ گئی۔  ایک جھٹکے سے دروازہ بند ہوا اور گاڑی آگے بڑھ گئی۔

لال بتی کی گاڑی اپنے قافلے کے ساتھ نیفو کے گھر کی طرف روانہ ہوئی۔  لوگوں نے یہی سمجھا کہ میں اسی گاڑی میں ہوں۔  چند لوگوں نے مجھے امبیسڈر میں بیٹھتے دیکھا ضرور تھا مگر جانتی تھی کہ وہ میرے اپنے لوگ ہیں۔  اور زبان بند رکھیں گے۔

میں نے منزل کا پتا گڈو کو بتا دیا تھا۔  چند لمحے کے لئے اس کے چہرے پر الجھن آئی پھر وہ ہمیشہ کی طرح حکم کی تعمیل کرتا ہوا آڑی ترچھی سڑکوں پر گاڑی دوڑانے لگا۔  گاڑی اپنی منزل پر پہنچ کر ایک جھٹکے سے رک گئی۔  گڈو گاڑی سے اتر کر ادھر ادھر ٹہلنے لگا۔  میں نے گاڑی کا شیشہ نیچے کیا اور پورا سر نکال کر باہر جھانکنے لگی۔  نہ بستی تھی۔ ۔ ۔  نہ بستی کے لوگ۔  شہر سے دور بسی یہ بستی جیسے کسی زلزلے کا شکار ہو کر زمیں دوز ہو گئی ہو۔  میں گاڑی سے اتر کر باہر آ گئی۔

’’گڈو کیا ہم لوگ سہی جگہ پر آئے ہیں ؟‘‘

’’جی۔  بالکل سہی جگہ پر آئے ہیں ؟‘‘

’’کیسے؟‘‘ میں نے اس کی طرف سوالیہ نگاہوں سے دیکھا۔

’’وہ دیکھئے وہ برگد کا درخت، ساری نشانیاں مٹ گئیں مگر وہاں بنا چبوترا ابھی بھی ویسا ہی ہے۔  جس پر رحمو بابا بیٹھا کرتے تھے۔  ‘‘

میں برگد کے قریب گئی۔ ۔  وہی چبوترا۔ ۔  وہی درخت۔ ۔  وہی جھکی جھکی شاخیں۔ ۔  سب کچھ وہی تھا۔  ایک ایک لمحہ مجھے یاد آ رہا تھا۔  یہاں رحمو بابا بیٹھتے تھے۔ ۔  چبوترے کے اس کونے پر بیٹھ کر میں گھنٹوں ستارہ کے متعلق پھانکی سے باتیں کیا کرتی تھی۔ ۔  وہاں چمپا کاکی کی جھگی اور اس کے داہنی طرف کچھ قدم آگے جا کر کلن بی کے لئے جھگی تیار کی گئی تھی۔ ۔  کرینا اس سمت رہتی تھی۔ ۔  ساون کا میلہ آج بھی مجھے یاد ہے۔  مگر سب کہاں گئے۔

میں نے گڈو سے سوال کیا۔  جس پر میرے جیسی بدحواسی نہیں طاری تھی۔

اطمینان سے ہر ایک شے کا وہ جائزہ لے رہا تھا۔  اس نے انگلی سے ایک طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔  ’’باجی ادھر دیکھئے۔  یہاں ریلوے لائن بچھائی گئی ہے۔  یہاں سے ٹرینیں پاس ہوتی ہیں۔  اسی لئے ان کی بستی اجاڑ دی گئی۔  ‘‘

’’مگر وہ سب کہاں گئے؟‘‘

میری آواز میں گہرا رنج تھا۔  یہاں میں نے کافی وقت گذارا تھا۔  یہاں کے ایک ایک کردار میری آنکھوں کے سامنے سے سنیما کی ریل کی طرح گذر رہے تھے۔  گڈو ریل کی پٹریوں کے آس پاس ٹہل رہا تھا۔  اور میں اس لڑکی کی یادوں کو اپنے دل سے باہر نکالنے کی کوشش کر رہی تھی جس نے میری زندگی کا رخ ہی بدل دیا تھا۔  نازنین بانو اور کشو کی کہانی سو گئی۔  ستارہ اور کاشف اصغر کا افسانہ جگ ظاہر ہو گیا۔  میں بھاری قدموں سے گاڑی پر آ کر واپس بیٹھ گئی۔  اور ایک بار پھر گڈو سڑکوں پر گاڑی دوڑانے لگا۔

٭

دور تک پھیلی ہوئی تارکول کی سیاہ سڑک، راستے کے چمکتے ہوئے مائل اسٹون، گاڑیوں کے ہارن، جلتی بجھتی روشنی کی چکا چوندھ، اور ہمارا قافلہ جو آگے بڑھتا جا رہا تھا۔  رات کا اندھیرا مٹ رہا تھا۔  بھور کی سفیدی آسمان پر پھیلتی جا رہی تھی۔  چاند تنہا چمک رہا تھا۔  ستارے ڈوب رہے تھے۔  چاند کا ہالہ، ہالے میں اڑتے ہوئے دو پرندے۔ ۔ ۔  کھلے پروں کی پرواز مجھے اچھی لگ رہی تھی۔  رفتار تیز تھی اور میں گاڑی کے شیشے سے آتی جاتی پرچھائیوں کا رقص دیکھ رہی تھی ہم منزل کی جانب بڑھتے جا رہے تھے اور دلی قریب آتی جا رہی تھی۔ ۔ ۔

٭٭٭

مصنفہ کے تشکر کے ساتھ کہ انہوں نے اس کی فائل مہیا کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید