FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

فہرست مضامین

سخن ظریفی

 

 

ہے بات حکیمانہ، ظریفانہ سخن میں

لکھیں نہ فقط ہنسنے ہنسانے کے لئے ہم

 

 

                ڈاکٹر سید مظہرؔ عباس رضوی

 

 

 

اِنتساب

 

سیدہ ناصرہ بانو

اور

ہنستے مُسکراتے

سید احمد عباس رضوی

کے نام

جنہوں نے اپنے قیمتی وقت میں سے مجھے شاعری کے لئے فرصت فراہم کی

 

 

 

 

تعارف

 

نام             ڈاکٹر سید مظہر عبّاس رضوی

ولدیت        سیداظہار عبّاس رضوی

تعلیم

بی۔ ایس۔ سی                          پنجاب یونیورسٹی

ایم۔ بی۔ بی۔ ایس                       راولپنڈی میڈیکل کالج راولپنڈی

ایم۔ سی۔ پی۔ ایس                      کالج آف فزیشنز اینڈ سرجنز کراچی

ڈی۔ سی۔ ایچ                          پوسٹ گریجویٹ میڈیکل کالج لاہور

ایم ایس سی نیوٹریشن(گولڈ میڈلسٹ)      علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد

 

شعبہ

ماہرِامراضِ بچگان سربراہ شعبۂ اطفال        قومی ادارہ برائے معذوراں اسلام آباد

 

دیگر تصانیف

ہوئے ڈاکٹری میں رسوا   مزاحیہ شاعری                 اشاعت۱۹۹۹ء

دوا بیچتے ہیں                     مزاحیہ شاعری                 اشاعت۲۰۰۳ء

گڑبڑ گھٹالہ                    مزاحیہ شاعری                 اشاعت۲۰۰۵ء

ہنسپتالی شاعری         مزاحیہ شاعری                 اشاعت ۲۰۱۰ء

صحیفۂ غم                      حمد و نعت، مرثیہ، سلام           اشاعت۲۰۱۳ء

 

زیرِ طبع کتابیں

نعمتیں کیا کیا            بچّوں کے لئے نیشنل بُک فاونڈیشن سے انعام یافتہ

پانی میں چھپ چھپ ۔۔  بچّوں کے لئے نظمیں

 

ای۔ میل :drmazhar_poet@yahoo.com

ویب سائیٹ:drmazharabbas.wordpress.com

 

 

 

دیباچہ

 

                ڈاکٹر توصیف تبسم

 

ڈاکٹر سید مظہر عباس رضوی، ڈاکٹر بھی ہیں اور ایک ممتاز مزاحیہ شاعر بھی۔ مگر مجھے تو وہ ایک فزیشن سے زیادہ ایک سرجن دکھائی دیتے ہیں۔ اُن کے ہاتھ میں قلم نہیں بلکہ نشتر ہے جس سے وہ بیمار معاشرے کی خرابیوں کو دور کرنے اور اس کو صحت مند بنانا چاہتے ہیں۔ ہر چند انسان کا امتیازی وصف جو اس کو دوسری مخلوقات سے ممتاز کرتا ہے، ہنسنا ہنسانا ہے مگر جب وہ خود پر ہنسنے کا ہنر سیکھ جاتا ہے تو طنزیہ ادب معرضِ وجود میں آتا ہے۔ محض طنز کوئی پسندیدہ چیز نہیں بلکہ وہ تو ایک طرح کی گالی ہے، جب تک اس کو مزاح سے آمیز نہ کیا جائے وہ گوارا نہیں ہوتا۔ مظہر عباس اس نکتے کو بخوبی سمجھتے ہیں۔ اُن کی منظومات اس کڑی شرط پر پوری اترتی ہیں۔

یہ نظمیں بیانیہ شاعری کا اعلیٰ نمونہ ہیں، اس لئے ان میں پڑھنے اور سننے والے کو کہانی جیسی دلچسپی محسوس ہوتی ہے۔ اُن کے تخلیق کردہ کردار اُن کے اپنے ہیں اور اُن کی تخلیقی صلاحیتوں کے آئینہ دار، ڈاکٹر مظہرعباس نے جس طرح اپنے ڈاکٹری کے پیشے اور اس کے متعلقات کو جزو شعر بنایا ہے، اس کی نظیر اس سے پہلے کہیں اور نظر نہیں آتی۔ اُن کا تازہ شعری مجموعہ’’سخن ظریفی‘‘ مجھے یقین ہے اُن کے دوسرے کلام کی طرح ذوق شوق سے پڑھا جائے گا۔

۶ مئی ۲۰۱۵

اسلام آباد

 

مزاح اسپیشلسٹ

 

                سرفراز شاہد

 

صاحبو ! ہمارے دوست سید مظہر عباس رضوی ایک ڈاکٹر ہی نہیں معروف فکاہیہ شاعر بھی ہیں۔ اُن کی مزاحیہ شاعری کی چار کتابیں،’’ ہوئے ڈاکٹری میں رسوا‘‘،’’دوا بیچتے ہیں ‘‘،’’گڑبڑ گھٹالہ‘‘  اور’’ ہنسپتالی شاعری‘‘ شائع ہو کر ادب کے قارئین سے داد و تحسین وصول پاچکی ہیں۔ سخن ظریفی اُن کا تازہ ترین مجموعہ کلام ہے۔ پچھلی چاروں کتابوں میں ان کی شاعری زیادہ تر ہسپتال، ڈاکٹر اور نرسوں کے گرد گھومتی نظر آتی ہے لیکن زیرِ نظر مجموعۂ کلام میں اُن کی شاعری کا کینوس وسیع ہو گیا ہے اور بحیثیتِ چارہ گر انہیں پوری قوم ہی مختلف عوارض میں مبتلا نظر آتی ہے۔ چنانچہ اب اُن کے موضوعات میں خاصا تنوع پایا جاتا ہے۔ میٹروبس، سیاستدان، عیدی، روٹی کپڑا اور مکان، فیس بُک، بنام امریکہ، بینگن، رمضان نامہ، بیگم کی یاد میں، الیکشن، مچھر نامہ، جوتا پذیرائی جیسے مضامین بھی ان کی ضرب ظرافت سے نہیں بچ سکے۔ ڈاکٹر رضوی معاشرتی امراض کے ہیومر تھراپسٹ ہیں جو ظرافت کی گولیوں یا مکسچروں سے پاکستانی قوم کے عوارض کا تیر بہ ہدف علاج کرنے میں کوشاں رہتے ہیں۔ اسی لئے تو اُن کی شاعری  دردمندی اور شگفتگی کا ایک حسین امتزاج ہے۔

میری دانست میں ایک اچھا مزاحیہ شعر وہ ہے جس میں حسن خیال بھی ہو، حُسنِ بیان بھی ہو، اور حُسنِ تبسّم بھی۔ جو قاری کے چہرے پر مسکان بھی لائے اور اسے دعوتِ فکر بھی دے۔ ڈاکٹر رضوی کے بیشتر اشعار مزاحیہ شاعری کی اس کسوٹی پر پورا اترتے ہیں۔ انور مسعود نے بھی کیا خوب کہا ہے کہ’’ ڈاکٹر صاحب نے جا بجا اپنے اشعار کو مزاح کا انجکشن لگایا ہے ‘‘۔ اب ذرا چند اشعار ملاحظہ ہوں

 

اب کلیجی، پھیپڑے، دل، بیچنا آسان ہے

آ کے انٹر نیٹ پہ جو چاہے وہ سوغات ڈال

******

میسیجینگ کرتے ہیں ای میل پہ موبائل پر

کھول کر بیٹھے ہیں اشعار کی بُک عید کے دن

*****

اگر جیت جائے تو یہ اس کی قسمت

مگر دھاندلی ہے جو ہارے الیکشن

*****

مار کھا کھا کے سبق اب تو یہی سیکھا ہے

بیچ جھگڑے میں کسی کے نہ سمجھدار پڑے

*****

ہنہناتے ہیں اسمبلی میں نئے انداز سے

گیت گھوڑے گا رہے ہیں راگ درباری کے ساتھ

*****

دنیا میں ہو رہا ہے وہی کامیاب اب

جو جتنا بد صفات ہے، حیرت کی بات ہے

*****

لینے گئے تھے دردِ جگر کے لئے دوا

لوٹے ہیں ہسپتال سے دردِ کمر کے ساتھ

 

یہ کتاب دلچسپ شاعری کی وجہ سے قاری کو ہر دم اپنی طرف متوجہ رکھتی ہے۔ چنانچہ میں نے بھی ایک ہی نشست میں پوری کتاب کا مطالعہ کر لیا اور حاصلِ مطالعہ یہ ہے کہ یہ مجموعۂ کلام متبسم نظموں، نمکین غزلوں اور کھٹ مٹھے قطعات پر مشتمل ہے۔ ڈاکٹر رضوی ایک کامیاب مزاح گو تو تھے ہی لیکن اپنی تازہ شاعری کے حوالے سے اب وہ ہمیں مزاح اسپیشلسٹ نظر آتے ہیں۔ ذرا اس قطعہ کی کاٹ دیکھئے

 

جہاں دو وقت کی روٹی ہو مشکل

وہاں کیا سیب، کیسی ناشپاتی

ہمیں مارا ہے مہنگائی نے ایسے

چپت پڑتے ہیں جب مانگو چپاتی

 

الغرض یہ کتاب ایک زعفران زار ہے جس میں ڈاکٹر مظہر عبّاس رضوی کا بیشتر کلام محفوظ ہو گیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے کلام میں بناوٹ نہیں سجاوٹ ہے۔ وہ کسی کی دل آزاری نہیں کرتے لیکن جہاں جہاں طنز ناگزیر ہو وہاں اینیستھیزیا کے استعمال کے بغیر ہی ہلکی پھلکی سرجری بھی کر دیتے ہیں لیکن دورانِ آپریشن بھی انہیں مریض کے درد کا احساس رہتا ہے۔ وہ صاحبِ درد بھی ہیں اور ہمدرد بھی۔ اُن کی مسکراہٹ میں آنسو اور آنسووں میں مسکراہٹ پائی جاتی ہے اور یہی عمدہ مزاحیہ شاعری کی پہچان ہے۔

۳۰ مارچ ۲۰۱۵

اسلام آباد

 

 

 

 

ڈاکٹر سید مظہر عباس رضوی کے ظرافتی انجیکشن

 

                خالدؔعرفان

 

 

کسی بھی انسان کی ذہانت کا معیار مقرر کرنے کے لئے یہ طے کیا جانا ضروری ہے کہ وہ کس بات پر ہنستا ہے۔ اسی معیار کو طنزو مزاح کی کسوٹی پر جانچا جائے تو ہر ظرافت نگار اپنے اپنے انداز کی ذہانت آمیزی کا مظاہرہ کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ کوئی کیلے کے چھلکے پرپھسلنے کے چٹکلے سے ہنسانے کی کوشش کرتا ہے تو کوئی حکومتی مشینری کے پرزوں کی زنگ آلودگی پر طنز کر کے سامعین کے ہونٹوں پر مسکراہٹیں بکھیر دیتا ہے۔

ہر زبان کی طرح اردو کا دامن بھی طنزو مزاح کے موتیوں سے مالا مال ہے۔ جس طرح ادب زندگی کا احاطہ کرتا ہے، اسی طرح طنزیہ و مزاحیہ شاعری بھی عوام کے دلوں پر حکومت کرتی ہے۔ شاعری، نثر، ڈرامہ، کالم اور دیگر فکاہیہ تحریریں اپنے جلو میں ظرافتی چٹکلوں کی وجہ سے قارئین کے دلوں کو نہ صرف چھو لیتی ہیں بلکہ قہقہہ لگانے پر مجبور بھی کر دیتی ہیں۔

قیامِ پاکستان کے بعد تین دہائیوں تک سید محمد جعفری، مجید لاہوری، ظریف جبل پوری، راجہ مہدی علی خان،  شوکت تھانوی، مسٹر دہلوی، بلبل کاشمیری، سید ضمیر جعفری اور دلاور فگار آسمانِ ظرافت پر چمکتے رہے اور طنزیہ و مزاحیہ شاعری کا دامن مزاح کے ادبی شاہ پاروں سے مالامال کرتے رہے ہیں۔ اس کے بعد کے عہد میں انور مسعود، سرفراز شاہد، عنایت علی خان، اطہر شاہ خان جیدی، سعید آغا، انعام الحق جاوید، زاہد فخری، حیدرحسنین جلیسی، حکیم ناصف، م ش عالم، اور ڈاکٹر سید مظہر عباس رضوی میدانِ ظرافت کے شہسواروں میں شامل ہوئے اور مزاحیہ ادب کی ترجمانی کر رہے ہیں جبکہ امیرالاسلام ہاشمی، گستاخ گیاوی، شاہد الوری، عطا اللہ بخاری، ہر فن لکھنوی، ضیاء الحق قاسمی، نیاز سواتی، ضیا الحق ہنگامہ جیسے مزاح نگار گزشتہ دو دہائیوں کے دوران اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے۔ آج سے چالیس پچاس سال بعد وقت کا ظالم مورخ کتنے مزاح نگاروں کی سانسوں کو بحال رکھتا ہے، اس کا فیصلہ آنے والا وقت کرے گا۔

برادرم ڈاکٹر سید مظہر عباس رضوی کی شاعری اپنے معاشرے کے دکھوں کا ایسا پکوان ہے جس پر انہوں نے مزاح کا تڑکا لگا کر مزہ دوبالا کر دیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب اپنے اطراف نظر آنے والی معاشرتی بیماریوں کا تجزیہ کر کے اپنے مخصوص الفاظ کی سرجری اور انجیکشن سے اس کا علاج کر کے شفا یاب کرنے میں سرگرمِ عمل ہیں۔ ان کے خیالات دلچسپ، اندازِ بیان تیکھا اور دل میں اتر جانے والا ہے۔ ملاحظہ فرمائیے۔

کہا کسی نے کہ بے شک ہمارے یہ لیڈر

ہیں فخرِ قوم مگر سب بغیر ’ف ‘کے ہیں

*****

کٹی ہے داد میں ہی زندگی سخنور کی

اُسے تو موت نہ آئے مشاعرے کے بغیر

*****

سکون آئے گا دُنیا میں دیکھنا کتنا

اگر یہ بیویاں ساری ہوں نرخرے کے بغیر

اُن کی شاعری اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ جس تیزی سے مزاح تخلیق کرتے ہیں، اتنی ہی ذمہ داری سے اس کے معیار پر توجہ بھی دیتے ہیں۔ حالاتِ حاضرہ پر ان کی گرفت مضبوط ہے۔ ان کے پیش کردہ مضامین میں رنگا رنگی پائی جاتی ہے۔ میں نے انہیں کبھی کوئی مشاعرہ پڑھتے ہوئے نہیں سنا لیکن ان کی شاعری پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ وہ جہاں جاتے ہوں گے وہاں مشاعرہ لوٹ لیتے ہوں گے۔ امید ہے ان کا تازہ مجموعۂ شاعری’’سخن ظریفی‘‘ بیمارانِ ظرافت کے لئے شفاء یابی کا باعث ہو گا۔

 

۲۷۔ مارچ ۲۰۱۳ء

نیو یارک۔ امریکہ

 

 

 

 

سخن ظریفی سے ستم ظریفی تک

 

                نسیمِ سحرؔ

 

معروف مزاح گو شاعر ڈاکٹر مظہر عباس رضوی نے جب اپنی کتاب’’سخن ظریفی‘‘ کا مسودہ مجھے کچھ لکھنے کے لئے دیا تو میں نے فوراً ان کی ’ سخن ظریفی ‘کی حدود کو’ ستم ظریفی ‘کی حدود میں داخل ہوتے دیکھا۔ کہاں وہ ایک ہمہ وقتی مزاح گو شاعر اور کہاں مَیں جزوقتی مزاحیہ شاعری کرنے والا۔ وہ ہسپتال میں بطور ڈاکٹر تقریباً روزانہ موجود، مَیں کبھی ہسپتال جاؤں بھی تو تھوڑی دیر کے لئے بطور مریض !اُن کے پاس تعلیمی اور پیشہ ورانہ ڈگریاں اتنی کہ الف سےی تک (بلکہ A to Z) تک تمام حروفِ ابجد اُن کی ڈگریوں میں موجود، اور میرے پاس لے دے کے ایک ہی ڈگری (شکر ہے وہ تعلیمی ہی ہے، عدالتی نہیں !)۔ حیران ہوں کہ لکھوں تو کیا لکھوں !مگر روزانہ ایک سیب کھانے کے باوجود چونکہ کبھی نہ کبھی میرا واسطہ ڈاکٹر سے پڑ ہی سکتا ہے، اور وہ ڈاکٹر، ڈاکٹر مظہر عباس رضوی بھی ہو سکتے ہیں، اس لئے مَیں کڑوی دواؤں اور موٹی سوئی والے انجکشنوں سے بچنے کی خاطر یہ چند سطریں لکھ رہا ہوں۔ حالانکہ یہ دیباچہ لکھتے ہوئے مَیں یہ رِسک بھی لے رہا ہوں کہ اگر انہیں یہ پسند نہ آیا تو پھر وہی کڑوی دوائیں اور  موٹی سوئی والے انجکشن !

ڈاکٹر صاحب سے میری اب تک کی ملاقاتیں بس اتنی ہیں کہ ایک ہاتھ کی انگلیوں پر گِنی جا سکیں۔ ایک دو مزاحیہ مشاعروں میں ہمیں ایک ساتھ سفر کرنے کا اتّفاق بھی ہوا، اور جہاں مشاعرے لُوٹنے میں وہ ’’ڈاکو‘‘ ثابت ہوئے، مشاعروں سے پہلے اور بعد میں وہ ایک نہایت ہی نستعلیق اور شریف آدمی ثابت ہوئے۔ اُن کی ڈاکٹری اور اُن کی مزاحیہ شاعری نے کسی لمحے بھی ان کی شخصیت پر پگڑی کے شملے یا مرغے کی کلغی کی طرح اپنی عظمت کا پھریرا نہیں لہرایا۔ مزاح اُن کی شاعری میں تو ہے، چہرے پر نہیں، دیکھو تو لگتا ہی نہیں کہ یہ مزاح لکھتے ہوں گے، بلکہ عموماً اُن کے چہرے پر ایک عجیب سی’’مظلومیت‘‘ دکھائی دیتی ہے جس کے’’ماخذات‘‘ کی تحقیق کی یہاں گنجائش نہیں۔ تاہم جب اُن کے ساتھ کچھ وقت گزارا جائے تو اُن کی شخصیت کے اندر کا مزاح آپ کو بڑے غیر محسوس طریقے سے  اپنے گھیرے میں لینے لگتا ہے۔

اُن کی مزاحیہ شاعری کا آغازڈاکٹری اور ہسپتالی شاعری سے ہؤا جس کے نتیجے میں’’ ہوئے ڈاکٹری میں رسوا‘‘،’’دوا بیچتے ہیں ‘‘ اور’’ہسپتالی شاعری‘‘ جیسے عمدہ مزاحیہ شاعری کے مجموعے شائع ہوئے، گویا انہوں نے انہیں موضوعات پر قلم اٹھایا جو ان کی براہِ راست نگاہ میں تھے۔ اپنے حلقۂ فکر اور دائرۂ عمل سے جڑی ہوئی اِس شاعری نے اپنی تخلیقی انفرادیت کے ساتھ ادبی حلقوں اور عوام میں بھی مقبولیت حاصل کی، ساتھ ساتھ ڈاکٹر صاحب بھی’’کچھ اَور چاہئے وسعت مِرے بیاں کے لئے ‘‘ پر کاربند ہوتے گئے، اُن کا تخلیقی اور فکری کینوس وسیع ہوتا گیا، اور وطنِ عزیز کی سیاسی، معاشرتی اور معاشی خرابیوں پر ان کی نظر گہری ہوتی چلی گئی، چنانچہ انہوں نے بطور ڈاکٹر اور بطور مزاح گو شاعر اِن بیماریوں کے علاج کے لئے’’ منظوم نسخے ‘‘ لکھنے شروع کر دئیے۔ یہی منظوم نسخے ان کی مزاحیہ شاعری ہے جو اب  ان کے پانچویں مجموعے’’سخن ظریفی‘‘ کی صورت میں سامنے آ رہی ہے !

ڈاکٹر صاحب غزل اور نظم دونوں میں اپنا اظہار پورے تخلیقی وفور کے ساتھ کرتے ہیں۔ مزاحیہ غزلوں کو اُنہوں نے ’غزلیں ‘ کہا تو مجھے خوشی ہوئی کیونکہ مجھے ایسی زندہ دِل غزلوں کے لئے ہزل کا لفظ کبھی اچھا نہیں لگا۔ غزل تو در اصل ایک شعری صنف کا نام ہے، اس میں شاعر آپ کو رُلائے یا ہنسائے، یہ بعد کی بات ہے۔ اور ڈاکٹر صاحب کی مزاحیہ شاعری تو ایسی ہے کہ اسے محض ہنسنے ہنسانے کی چیز ہر گز نہیں کہا جا سکتا، یہ پہلے آپ کو ہنساتی ہے، پھر بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتی ہے، اور پھر ہمارے سیاسی، معاشرتی اور معاشی المیوں کی سنگینی اور حکمران طبقے کی بے حِسی بلکہ لوٹ مار پر رُلاتی بھی ہے۔ انہوں نے کسی ایک سیاسی پارٹی کو اِس صورتِ حال کا ذمّہ دار نہیں ٹھیرایا بلکہ ہر عہدِ حکومت میں جاری نا انصافیوں، کرپشن، اقربا نوازی پر قلم اٹھایا ہے، جہاں وہ میٹرو بَس منصوبے میں راولپنڈی اسلام آباد کے شہر اور شہریوں کی بننے والی درگت کو یوں موضوعِ سخن بناتے ہیں :

اُس طرف ہے گر مریضِ جاں بہ لب

ڈاکٹر کا دوسری جانب مطب

ڈرائیور کہتے ہیں کیسے جائیں اب

ہم کرایہ لیں گے دگنا اِس سبب

شہر کی سڑکیں لگیں سرکس ہمیں

تیری بس نے کر دیا بے بس ہمیں

وہیں وہ ذیل کے اشعار میں جس دردمندی کے ساتھ دوسرے ذمہ داران کا ذکر کرتے ہیں وہ بھی قابلِ غور ہے :

ہم کو مشکل ہو گئی روٹی بھی ترکاری کے ساتھ

کھاتے ہیں زر دار زردہ برق رفتاری کے ساتھ

ہنہناتے ہیں اسیمبلی میں نئے انداز سے

گیت گھوڑے گا رہے ہیں راگ درباری کے ساتھ

وہ جو’’ ٹن پرسنٹ‘‘ تھے اب’’ سینٹ پرسینٹ ‘‘ہو گئے

سر ہمارا جھُک نہ جائے ان کی سرداری کے ساتھ

دیگ ہے حلوے کی اور ہے’’ فضلِ رحمانی‘‘ بہت

مولوی کھائیں نہ کیوں ہوکے کی بیماری کے ساتھ

ہے زمیں اپنے وطن کی ساری اپنی ملکیت

’’خاکیوں ‘‘ کی نبھ رہی ہے خوب پٹواری کے ساتھ

کیا بنے گا اس کا جس کے رہنما ہوں راہزن

ہاتھ سارے کر گئے اس قوم بیچاری کے ساتھ

نظموں، غزلوں اور قطعات میں ایک جیسی تخلیقی زرخیزی کا اظہار کرنے کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر صاحب نے اپنی شاعری میں بہت اچھوتے اور عمدہ فنّی اور لسانی تجربے بھی کئے ہیں جو اُن کے ارتقائی سفر کا واضح اشاریہ ہیں :

رات بھر تُو جاگتا رہ، دن چڑھے تو سو لیو

ظلم پر چُپ سادھ لے، اور اپنے لب مت کھولیو

بڑھ چکی ہے بات اب جامہ تلاشی سے میاں

یہ ہوائی مستقر ہے مت کسی سے بولیو

صنعتِ تقلیب کی یہ جادو بیانی دیکھئے :

مظہرؔ نے الٹ پھیر قوافی کی مچائی

نادان نے یوں محفلِ اشعار کو الٹا

بیگم نے جو منگوائی تھی یاد آئی ہمیں تب

قصاب کی جب ’’شاپ‘‘ پہ اُس نار کو الٹا

مظہرؔ کو ہے الفاظ الٹنے کا مرض کیوں

اے مردِ محقق ذرا آ، زار کو الٹا

اِن اشعار کا صحیح لطف لینے کے لئے دوسرے شعر میں ’’تار‘‘، تیسرے میں ’’نار‘‘ اور مقطع میں ’’زار‘‘ کو اُلٹا پڑھ کر دیکھئے، اور اگر ہنس ہنس کے اُلٹے ہو جائیں تو اِس کی داد ڈاکٹر مظہر عباس رضوی کو دل کھول کر دیجئے گا۔

ڈاکٹر صاحب کی شاعری سے ان کی فنی دسترس، موضوعات کی وسعت کے ساتھ ساتھ قومی زوال کی دردمندی پر دِل جلانے اور قہقہوں کی صورت میں اُن کی اشکباری کی مزید بہت سی مثالیں دی جا سکتی ہیں، مگر ظاہر ہے جو قاری بہت سے اچھے اچھے دیباچوں کے ساتھ میرا یہ دیباچہ بھی برداشت کر رہا ہے، ان کی بہت سی شاعری انہی دیباچوں میں پڑھ چکا ہو گا، اس لئے ڈرتا ہوں کہ کہیں ان کی پوری کتاب ہی ان دیباچوں کی نذر نہ ہو جائے، اس لئے مَیں مزید مثالیں دینے کی بجائے انہی کے ایک شعر کو اُن کی نذر کرنا چاہتا ہوں :

اس حبس زدہ جسم میں یہ روح نہ رہتی

مظہرؔ جو ظرافت کے ہوا دان نہ ہوتے

بلاشبہ ہمارا پُورا معاشرہ اور ہمارے شب و روز ایک حبس زدہ جسم کی صورت اختیار کر چکے ہیں اور ایسے میں ڈاکٹر مظہر عباس رضوی ظرافت کے ہَوا دان بن کر ہمارے لئے زندہ رہنے کا سامان لے کر آئے ہیں۔

۲۴؍ مئی ۲۰۱۵ء

راولپنڈی

 

 

 

 

نظمیں

 

 

ککڑوں کوں

(احمد فراز سے معذرت کے ساتھ)

 

مُرغ کہنے لگا مرغی سے بصَد رنج و ملال

’’اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی قابوں میں ملیں ‘‘

کیا پتا گردشِ ایّام کہاں لے جائے

جانے ہم دونوں کہاں، کون سے’’کھابوں ‘‘ میں ملیں

غوطہ زن،’’قلزمِ یخنی‘‘ میں بھی ہو سکتے ہیں

یہ بھی ہو سکتا ہے کل دونوں کبابوں میں ملیں

قورمہ میرا بنے، زینتِ بریانی ہو تُو

اے خدا ہم نہ کبھی ایسے عذابوں میں ملیں

عین ممکن ہے کہ ہو فاتحہ خوانی ہم پر

خاتمہ ’’ختم‘‘ پہ ہو اور ثوابوں میں ملیں

یا کہیں مولوی صاحب کے شکم میں اِک دن

ہم کو ہو حکم کہ اب دونوں حجابوں میں ملیں

اِس سے پہلے کہ جدائی کا یہ موسم آئے

جانِ جاں آ، اِسی دنیا کے خرابوں میں ملیں

 

 

 

سب شانتی ہے

 

برس بیس شادی کے اُن کے کڑے ہیں

کوئی دن نہ گزرا، نہ جب وہ لڑے ہیں

اسمبلی کے گویا مخالف دھڑے ہیں

ہمیشہ اُلَٹ سمت دونوں کھڑے ہیں

اِدھر یہ اڑَی ہیں اُدھر وہ اڑَے ہیں

مگر پھر بھی دس بچے اُن کو پڑے ہیں

نہ یہ مانتے ہیں نہ وہ مانتی ہے

مگر لوگ کہتے ہیں، سب شانتی ہے

 

اگرچہ ہے’’ لائیف‘‘ بہت اِن کی سادہ

نہ بادی غذا اِن کی، ساغر، نہ بادہ

لڑائی میں پڑ جائیں یوں وہ مبادا

وہ باہر ہی رہتے ہیں گھر سے زیادہ

اچانک ہی ہوتا ہے ان میں’’فسادہ‘‘

وہ لڑتے نہیں ہیں کبھی با ارادہ

اِسے یہ، نہ وہ اُس کو گردانتی ہے

مگر لوگ کہتے ہیں سب شانتی ہے

 

کبھی دیر سے گھر میں آنے پہ جھگڑا

کبھی بینگنوں کے پکانے پہ جھگڑا

کبھی اتنا تھوڑا کمانے پہ جھگڑا

کبھی بے سرے گیت گانے پہ جھگڑا

غزل پر، کبھی ہے فسانے پہ جھگڑا

یونہی بے سبب جی جلانے پہ جھگڑا

وہ ’’مردان‘‘ کا ہے یہ ’’پانی پتی‘‘ ہے

مگر لوگ کہتے ہیں، سب شانتی ہے

 

یہ پوچھا کسی نے ہے کب سے لڑائی

وہ بولے نہیں کوئی اب سے لڑائی

لڑیں جب سے آنکھیں ہے تب سے لڑائی

ہوئی جب سے شادی ہے سب سے لڑائی

عجم سے لڑائی، عرب سے لڑائی

ہے لوٹے سے چمٹے سے ٹب سے لڑائی

یہ چلِّاتے ہیں اور وہ ڈانٹتی ہے

مگر لوگ کہتے ہیں سب، شانتی ہے

 

چلے کیسے اب زندگانی کی لاری

پھنسی اِن کے انجن کی ہے ہر گراری

نہ رکھتے ہیں آپس کی کچھ پردہ داری

ہر اِک رازداں ہے، یہ ہے رازداری

انہیں کاٹے نا اتفاقی کی آری

ہیں دونوں ہی صید اور دونوں شکاری

سرہانے پہ یہ ہیں تو وہ پائینتی ہے

مگر لوگ کہتے ہیں سب شانتی ہے

 

دلارے یہ گھر کے تو وہ ہیں دلاری

یہ ابا کے پیارے وہ اماں کی پیاری

نبھاتے ہیں آپس کی یوں رشتہ داری

مہینے میں ملتے ہیں دو چار باری

نتیجہ تھا یہ بعد رائے شماری

نہ یہ بازی ہارے نہ وہ بازی ہاری

وہ للکارتا ہے یہ پھنکارتی ہے

مگر لوگ کہتے ہیں سب شانتی ہے

 

 

 

 

 میٹرو بس

 

(راولپنڈی، اسلام آباد میں میٹرو بس منصوبے کے دوران سڑکوں کی حالتِ زار، ٹریفک کے اژدحام اور شہرِ گلاب و یاسمن کو شہرِ گرد و غبار میں تبدیل ہوتے ہوئے دیکھ کر)

 

ہاں شکنجے میں ذرا اب کَس ہمیں

سانپ جمہوری ہے، آ جا ڈس ہمیں

کچھ نہیں ہے اس میں پیش و پس ہمیں

اِک کلومیٹر ہے، اِک سو دس ہمیں

اب چمن لگتا ہے خاروخس ہمیں

تیری بس نے کر دیا بے بس ہمیں

 

ہر طرف اُڑنے لگا گرد و غبار

اب کہاں دیکھیں گے ساون کی بہار

گاڑیاں ہیں یوں قطار اندر قطار

جیسے پریاں دھوپ میں تڑپیں ہزار

کیوں نظر آتا نہیں بھُرکس ہمیں

تیری بس نے کر دیا بے بس ہمیں

 

اُس طرف ہے گر مریضِ جاں بہ لب

ڈاکٹر کا دوسری جانب مطب

ڈرائیور کہتے ہیں کیسے جائیں اب

ہم کرایہ لیں گے دگنا اِس سبب

شہر کی سڑکیں لگیں سرکس ہمیں

تیری بس نے کر دیا بے بس ہمیں

 

ایک دولہا رو رہا تھا زار زار

سامنے اس کے تھی کاروں کی قطار

کھو گئے تھے راستے میں رشتے دار

ہال میں دلہن تھی محوِ انتظار

کہتی تھی دے دے کوئی ڈھارس ہمیں

تیری بس نے کر دیا بے بس ہمیں

 

مرغ کا رستے میں قیمہ بن گیا

دال کا بالکل ہی دلیہ بن گیا

سُرمئی جسموں کا سُرمہ بن گیا

لوگ کہتے ہیں کہ سستا بن گیا

کیا بنا ڈالا ہے ’’میٹرو بس‘‘ ہمیں

تیری بس نے کر دیا بے بس ہمیں

 

ٹھپ دکانیں ساری، کاروبار بند

پھرتے ہیں عاشق، تو اُن کے یار بند

ایمبولینسوں میں ہیں سب بیمار بند

ٹیکسی، ویگن، رکشہ، موٹر کار، بند

کون کر سکتا ہے ٹس سے مس ہمیں

تیری بس نے کر دیا بے بس ہمیں

 

وقت کا ہرگز ہمارے ہو نہLoss

دیر سے آنے پہ ڈانٹے پھر نہ Boss

گرد سے کم ہو نہ چہرے کا Gloss

چوک سارے اُڑ کے ہم کر لیں Cross

تو بنا دے بگلہ یا سارس ہمیں

تیری بس نے کر دیا بے بس ہمیں

 

کہتے ہیں ملتان بھی جائیں گے وہ

سڑکیں دوبارہ سے کھدوائیں گے وہ

جھولے دے کے سب کو بہلائیں گے وہ

اِس طرح خوش حالیاں لائیں گے وہ

سنگ سے بنوائیں گے پارس ہمیں

تیری بس نے کر دیا بے بس ہمیں

 

کہہ رہے ہیں ناخدا اب’’ بیلٹ‘‘ کس

تیز رفتاری سے دوڑے گا فرس

چل پڑے گا کاروانِ بے جرس

اگلا دھوکا دیں گے وہ اگلے برس

چین سے لے جائیں گے فارس ہمیں

 

 

 

 فیس بُک

 

جو بھی کرنی ہو پڑوسن سے وہ ہر اِک بات ڈال

فیس بُک پر اب محّلے بھر کے تُو حالات ڈال

ہو کہیں ختنے، عقیقے، عقد یا مہندی کی رسم

بے جھجھک اب ساری تصویریں بہ عنوانات ڈال

اس گلوبل گاؤں میں ڈالے گا تجھ پر کون ہاتھ

بیچ جھگڑے میں کسی کے تُو بھی اپنی لات ڈال

داد لینی ہو تو دے ہر ایک کو اچھے’’ کمنٹس‘‘

اور اس کے بعد اپنی ساری تخلیقات ڈال

اب کلیجی، پھیپھڑے، دِل، بیچنا آسان ہے

آ کے انٹر نیٹ پہ جو چاہے وہ سوغات ڈال

دوستی آسان ہے بے چہرگی کی آڑ میں

بن کے تُو اس کی سہیلی اپنے سب جذبات ڈال

چھینکنے اور کھانسنے تک ہر خبر اب نیٹ پہ ہے

گھر پہ اے اخبار والے اب نہ اخبارات ڈال

کون لے گا تجھ سے مظہرؔ اتنی کڑوی ادویات

ان میں کچھ کُشتے حکیمی، کچھ مُربّہ جات ڈال

 

 

 

 

اے غمِ دل کیا کروں

 

(اسرار الحق مجاز کے مصرع پہ تضمین)

 

 (Pharmevoفارماسیوٹیکل کمپنی کے موضوعاتی کلینڈر کے اجرا کی تقریب کے موقع پر دسمبر ۲۰۱۴ میں لکھی گئی)

 

ایک وزنی سی پڑی سینے پہ ہے سِل کیا کروں ؟

ناؤ ہے منجدھار میں اور دور ساحل کیا کروں ؟

کس طرح پہنچوں میں، کیسے پاؤں منزل کیا کروں ؟

دُوں کہاں دھرنا، جلاؤں میں کہاں بِل کیا کروں ؟

ارضِ پاکستان میں ہے روز کِلکِل کیا کروں ؟

اے غمِ دل کیا کروں، اے وحشتِ دل کیا کروں ؟

 

درسِ قائد تھا کہ باہم قوم میں ہو اتحاد

ڈاکوؤں نے مل کے چوروں سے کیا قائم فساد

مولوی صاحب نے فرمایا جو از خود اجتہاد

کر لیا قائم ہر اک نے اپنا مفہومِ جہاد

کس کو چھوڑوں کس کے لشکر میں ہوں شامل کیا کروں ؟

اے غمِ دل کیا کروں، اے وحشتِ دل کیا کروں ؟

 

کیا سناؤں تم کو قِصّہ میں دلِ ویران کا

کچھ سمجھ آتا نہیں ہے درد کے درمان کا

خونچکاں ہے آج ذرّہ ذرّہ پاکستان کا

دیتے ہیں نذرانہ بچے اب تو اپنی جان کا

ہے زباں کیا یہ مذمت کے ہی قابل !کیا کروں ؟

اے غمِ دل کیا کروں، اے وحشتِ دل کیا کروں ؟

 

گرد ماضی پر جمی ہے، حال سے آتا ہے ہول

طاقِ نسیاں پر رکھے ہیں قائدِاعظم کے قول

لیڈروں کو دیکھئے سب بک رہے ہیں اول فول

سُن کے تقریریں یہ ساری اب تو خوں اٹھتا ہے کھول

ڈاکٹر کہتے ہیں بس ٹینشن کی لوں’’pill ‘‘کیا کروں ؟

اے غمِ دل کیا کروں، اے وحشتِ دل کیا کروں ؟

 

زندگی ہم نے گزاری ہے نہایت شان سے

’’فیم‘‘ امریکا سے لی ہے میم انگلستان سے

کچھ محبت کم نہیں ہے دین سے ایمان سے

لے کے رشوت عمرہ کرنے جائیں پاکستان سے

مفت میں ہو جائے نیکی گر یہ حاصل کیا کروں ؟

اے غمِ دل کیا کروں، اے وحشتِ دل کیا کروں ؟

 

دیسی چیزیں گُم ہوئیں، چھائی دُکاں انگریز کی

کرتی گِٹ پِٹ آ گئی گھر میں زباں انگریز کی

کوچۂ دل میں محبت ہے نہاں انگریز کی

ہر طرف بکھری ہوئی ہے داستاں انگریز کی

ننھا اور ننھی بنے ہیں ’’جیک اینڈ جل‘‘ کیا کروں ؟

اے غمِ دل کیا کروں، اے وحشتِ دل کیا کروں ؟

 

دل میں آباء کی تھی قدر و منزلت گم ہو گئی

ہو گئی تعلیم آساں، تربیت گم ہو گئی

عقل سائنسی ہوئی اور معرفت گم ہو گئی

یوں ملمع چڑھ گیا کہ اصلیت گم ہو گئی

ڈگریاں ہیں پاس پھر بھی میں ہوں جاہل کیا کروں ؟

اے غمِ دل کیا کروں، اے وحشتِ دل کیا کروں ؟

 

حکمراں تو مال و دولت لُوٹ کر کرتے ہیں عیش

دے دیئے’’ چینل فری ‘‘سب کو، کریں اظہارِ طیش

محل کی زینت بڑھے سڑکوں پہ ہو باہم ’’کلیش‘‘

کوئی کر لے ’’لینڈ ‘‘ پر قبضہ کوئی لے جائے’’کیش‘‘

میری کوٹھی ہے نہ میری ہے کوئی ’’مِل‘‘ کیا کروں ؟

اے غمِ دل کیا کروں، اے وحشتِ دل کیا کروں ؟

 

جال ہیں ہر سو ہوس کے، بچ کے جاؤں کس طرح

لُوٹ ماری کی فضا سے باہر آؤں کس طرح

فکر ہے ہر ایک کو میں چیَن پاؤں کس طرح

سیم و زر کا کیا کروں، کھاؤں چباؤں کس طرح

معدہ بھی کمبخت ہے، ہوتا نہیں’’ فِل ‘‘کیا کروں ؟

اے غمِ دل کیا کروں، اے وحشتِ دل کیا کروں ؟

 

فارمیوؔ کی وساطت سے دیا مظہرؔ پیام

مصرعِ اسرارؔ پر تضمین ہے یہ لاکلام

ڈر رہا ہوں اب نہ بن جائے کہیں میرا قوام

اے قلم رک جا ذرا، رخشِ سخن کو دے لگام

خامشی دشوار ہے، بولوں تو مشکل، کیا کروں ؟

اے غمِ دل کیا کروں، اے وحشتِ دل کیا کروں ؟

 

 

 

رمضان نامہ

 

 

نہ کوئی آؤ بھگت ہے نہ دعوتِ افطار

ہے شاعروں کے لئے صرف دعوتِ افکار

 

نہ روزہ ٹوٹا ہمارا نہ کچھ گناہ ہوا

کہ ہم نے خواب میں لے لی تھی سگرٹ اور نسوار

 

بھرا ہے پیٹ بھی اُس کا، پلیٹ بھی’’ فُل‘‘ ہے

غریبِ شہر کے روزہ زدہ ہیں لیل و نہار

 

نہ آنکھ کا، نہ زباں کا، نہ کان کا روزہ

شکم کو تالا لگایا ہے تا دمِ افطار

 

ہوا ہے مار کٹائی میں صبح سے مصروف

وہ جس کو نفس سے ہونا تھا برسرِ پیکار

 

نہال ہو گئے پی پی کے قطرے پولیو کے

ہے ان کے واسطے کیا خوب تحفۂ افطار

 

دکاں پہ دیکھا پکوڑوں کی، جنگ کا منظر

گریباں چاک یہ عاشق نہیں، ہیں روزہ دار

 

یہ ساہوکارِ غذا دُور سے نظر آئیں

ہیں جن کی میز پہ کھانوں کے ہر طرف انبار

 

بریک فیل ہوئے ہیں جو آج وقتِ طعام

غذا نگلنے کی پھر ہو گئی ڈبل رفتار

 

سنی یہ نظم تو سب روزہ دار بول اُٹھے

لگے گی پیاس، دکھا اب نہ گرمیِ گفتار

 

 

 

 

ہماری عید

 

عید ملنے کے لئے اتنا نہ جھُک عید کے دن

کیا کرے گا جو تجھے پڑ گئی چُک عید کے دن

 

بولیں بیگم کہ ذرا آج بناؤ روٹی

یا مجھے لادو کہیں سے کوئی کُک عید کے دن

 

لے اُڑے عیدی کی مَد میں وہ مری ساری رقم

جیب اپنی ہوئی ہے اتنی سُبک عید کے دن

 

کار بے قابو ہوئی اور تو آیا قابو

سنتری بولا’’ ذرا ٹھیک سے’’ مُک‘‘ عید کے دن‘‘

 

پسلیاں توڑ دیں ظالم نے بغلگیری میں

اُس کو کہہ بھی نہیں سکتا ہوں میں’’ رُک‘‘! عید کے دن

 

شیروانی ہمیں درزی سے ملی عید کی شب

ٹوٹ کر اُس کے گرے سارے ہی ہُک عید کے دن

 

’’میسجنگ‘‘ کرتے ہیں ای میل پہ، موبائل پہ

کھول کر بیٹھے ہیں اشعار کی بُک عید کے دن

 

دل کے خوش رکھنے کو مظہرؔ نے غزل یہ لکھی

بے تکی شاعری میں ڈھونڈ نہ تُک عید کے دن

 

 

 

 

ای کتاب

 

محترم نوید ظفر کیانی کے’’E ‘‘رسالے ارمغان ابتسام کے لئے بطور خاص لکھی گئی

 

جیسے بغیر چابی کے تالہ نہ کھُل سکے

بجلی بغیر یہ’’ ای۔ رسالہ ‘‘ نہ کھُل سکے

جھنجھٹ نہ پبلشر کا، پریس کا، نہ اِنک کا

کرتے ہیں انتظار فقط اس کے لِنک کا

اینڈرائڈ، آئٔی۔ پیڈ پہ ہے، لیپ ٹاپ پر

لیکن نہ مل سکے گا کسی کو یہ شاپ پر

بُک شیلف اس کو ڈھونڈ رہا ہے کدھر گیا

نیٹ پر رسالہ نیل سے تا کاشغر گیا

کہتا ہے اس کو کون ادھوری کتاب ہے

کاغذ نہیں ہے پھر بھی یہ پوری کتاب ہے

کوئی پٹخ سکے گا نہ غصے میں ای کتاب

کوئی نہ کہہ سکے گا پھٹی ہے تو سی کتاب

پُڑیاں بنائے گا نہ کوئی ای کتاب کی

زینت نہ بن سکے گی یہ چپلی کباب کی

علم و ادب کی شان بڑھائیں گے اہلِ ذوق

لے کر پکوڑے اس میں نہ کھائیں گے اہلِ ذوق

کوئی نہ اس کتاب کو ایسے ستائے گا

اس پر حساب دھوبی کا لکھا نہ جائے گا

ڈالے گا اس پہ خنجرِ پینسل نہ اب خراش

اُڑ اُڑ کے اب نہ جائے گی گلیوں میں اس کی لاش

کوئی شکن نہ ڈالے گا اس کے لباس پر

بچے نہ گولے ماریں گے صفحات پھاڑ کر

محفوظ ہے لکیروں سے بچوں کی، یہ کتاب

اس پر گرا سکے گا نہ کوئی کبھی خضاب

کاغذ ہی جب نہیں ہے تو پھاڑے گا اس کو کون

جب جِلد ہی نہیں ہے تو جھاڑے گا اس کو کون

کہتا ہے اب جو پڑھنے کو دیجئے ہمیں کتاب

ہم اس کو بھیج دیتے ہیں بس لنک اک شتاب

ملتا رہے گا ویب پہ جو چاہیں حوالے کو

چوہے کتر سکیں گے نہ اس ای رسالے کو

ای پبلشنگ میں اس کی ہے سارا ظفرؔ کا ہاتھ

اس پہ لگا نہیں ہے کسی پبلشر کا ہاتھ

مظہرؔ جدید دور کا تحفہ نرالا ہے

ای میل سے ملا یہ ہمیں ای رسالہ ہے

 

 

 

 

ففٹی ففٹی

 

چائلڈ اسپیشلسٹ رائے محمد اصغر کی نذر، جو راولپنڈی میڈیکل کالج کے پروفیسر آف پیڈیاٹرکس ہیں اور بہ یک وقت دو ٹیچنگ ہسپتالوں میں وزیٹنگ پروفیسر کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں

 

دو ہسپتالوں میں ہے سر، آدھا اِدھر، آدھا اُدھر

بچوں کا ہوں میں ڈاکٹر، آدھا اِدھر، آدھا اُدھر

 

آتا مزہ ہے کام میں، تھکتا ہوں میں آرام میں

مصروف ہوں شام و سحر، آدھا اِدھر، آدھا اُدھر

 

ہے انگبیں دو آتشہ، دو کُرسیوں کا یہ نشہ

چڑھتا ہے جب دھُنتا ہوں سر، آدھا اِدھر، آدھا اُدھر

 

ہے’’ہسٹری ٹیکنگ ‘‘ یہاں،’’ ایگزامینیشن ‘‘ہے وہاں

دیکھو علاجِ چارہ گر، آدھا اِدھر، آدھا اُدھر

 

بچوں کا ہے اِک جمگھٹا، جس نے گھُما کر رکھ دیا

دیکھا ہر اِک نورِ نظر، آدھا اِدھر، آدھا اُدھر

 

حاضر کہیں غائب کہیں، غائب کہیں حاضر کہیں

آؤں گا میں تُم کو نظر، آدھا اِدھر، آدھا اُدھر

 

جاؤں چلا کر کار میں، پنڈی کے دونوں پار میں

کرتا ہوں روزانہ سفر، آدھا اِدھر، آدھا اُدھر

 

یکتا ہوں اپنے کام میں، پھنستے ہیں سارے دام میں

ہے اس قدر میرا اثر، آدھا اِدھر، آدھا اُدھر

 

پوچھیں اِدھر تو کہہ اُدھر، ڈھونڈیں اُدھر تو کہہ اِدھر

چکر چلا شام و سحر، آدھا اِدھر، آدھا اُدھر

 

دن کو ہے میری’’ او۔ پی۔ ڈی‘‘، اور شام کو’’ پریکٹس ‘‘مری

کھاتا ہوں محنت کا ثمر، آدھا اِدھر، آدھا اُدھر

 

جب اوکھلی میں دوں گا سر، پھر موصلوں سے کیوں ہو ڈر

رہتا ہوں بے خوف و خطر، آدھا اِدھر، آدھا اُدھر

 

مت کرنا مجھ پر تُم’’ کمنٹ‘‘، ہوں ’’ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ‘‘

رائے ؔ ہوں خود المختصر، آدھا اِدھر، آدھا اُدھر

 

 

 

بیگم کی یاد میں

 

 

خود ہی انڈہ پکا لیا بیگم

جیسا پکّا تھا کھا لیا بیگم

 

کتھا، چونا نہ چھالیہ بیگم

پان کچا چبا لیا بیگم

 

جب زیادہ تمہاری یاد آئی

اک پراٹھا جلا لیا بیگم

 

اب تو کچھ بھی سمجھ میں آتا نہیں

تُم نے بھیجہ ہی کھا لیا بیگم

ایسی زنجیر ڈالی بچوں کی

خوب ہم کو پھنسا لیا بیگم

 

اب ہے شوقِ وصال ناممکن

میں ہوں پنڈی میں،’’پھالیہ‘‘* بیگم

۔۔۔۔۔

*’’پھالیہ‘‘ ضلع گجرات کا ایک مقام

 

 

 

 

 

میٹھی عید

 

ریڈیو ایف ایم پاور ۹۹ کے لئے عید کے موقع پہ لکھّی گئی

 

 

آئے ہیں مہمانِ با تمکین میٹھی عید پر

لوڈ شیڈنگ اب نہ کر غمگین میٹھی عید پر

بقعۂ انوار ہو گھر کب ہے یہ خواہش مری

ایک پنکھے ہی سے ہو تسکین میٹھی عید پر

مجھ کو سحری پر اٹھا کر اُس نے کی بخشش طلب

اِک مہینے تک بجا کر ٹین میٹھی عید پر

کانپتا تھا میں گرانی کے اثر سے پر مجھے

ڈاکٹر صاحب نے دی ’’کونیِن‘‘ میٹھی عید پر

گیس عنقا ہو گئی پٹرول بھی مہنگا ہوا

بیٹھئے گھوڑے پہ کس کر زِین میٹھی عید پر

جیب خالی ہو گئی ہے دے دلا کے عیدیاں

مجھ سے بڑھ کر کون ہے مسکین میٹھی عید پر

ہو گئی ہیں پھر اِکھٹّی ساس بیگم اور نند

پانی پت کے ’’ری۔ پلے ‘‘ ہیں’’سین ‘‘میٹھی عید پر

برق کی مانند موٹر سائکل پر ہے سوار

آج کل اقبالؔ کا شاہین میٹھی عید پر

ریڈیو کے واسطے لکھّی یہ جب نمکیں غزل

ہو گیا منہ اور بھی نمکین میٹھی عید پر

اے خدا اس ملک کا ہر دن ہو گویا یومِ عید

آؤ مظہرؔ سب کہیں آمین !، میٹھی عید پر

 

 

 

 

مچھر نامہ

 

تپ چڑھی ہے سر چکرایا ہے

قے آئی دل متلایا ہے

سردی سے کانپے جسم بہت

گرمی میں سرما آیا ہے

ہر کوئی یہ چلایا ہے

اک مچھر نے چکرایا ہے

 

اوڑھو اب کمبل جلدی سے

ورنہ کانپو گے سردی سے

خلئے جب خون کے ٹوٹیں گے

ہو جاؤ گے تم ہلدی سے

بولو گے دل گھبرایا ہے

اک مچھر نے چکرایا ہے

 

آئی تھی اِک شب ’’اینو فیلیس‘‘

جب کاٹا اُس نے اُٹھی ٹیس

دس پندرہ دن تو کچھ نہ ہوا

پھر دانت بجے پورے بتیس

ہر انگ نے شور مچایا ہے

اک مچھر نے چکرایا ہے

 

سب دنیا جب سو جائے ہے

پھر مچھر سُر بکھرائے ہے

جب کرتا ہے یہ بھِن بھِن بھِن

ہر شخص بہت بھنّائے ہے

ہر سو اِس نے دوڑایا ہے

اک مچھر نے چکرایا ہے

 

کاٹا ہے کس بے دردی سے

باز آیا دشت نوردی سے

اے میرے خدا تو مجھ کو بچا

مچھر کی دہشت گردی سے

دن رات مجھے تڑپایا ہے

اک مچھر نے چکرایا ہے

 

اک مچھر گال پہ جا بیٹھا

گھنٹوں سے جس کی تاک میں تھا

مارا جو طمانچہ لہرا کر

صد حیف نشانہ چُوک گیا

خود اپنا منہ سہلایا ہے

اک مچھر نے چکرایا ہے

 

یہ بازی مشکل بازی ہے

ہر مچھر جرمن نازی ہے

رُخ بدل بدل کر وار کرے

کیا اس کی حیلہ سازی ہے

بجلی بن کر لہرایا ہے

اک مچھر نے چکرایا ہے

 

کیا بتلائیں کیا حال بنا

ملتان بھی خانے وال بنا

تالی پر تالی بجتی تھی

یوں مولانا قوال بنا

کیا سُر اور تال ملایا ہے

اک مچھر نے چکرایا ہے

 

جب ’’ڈی۔ ڈی۔ ٹی‘‘ ہر سو چھڑکی

مچھر صاحب کی جاں نکلی

نمرود کو جس نے مارا تھا

اب خود اس کی موت آئی تھی

جو کیا تھا وہ ہی پایا ہے

اک مچھر نے چکرایا ہے

 

’’کونیِن، کونیِن‘‘ کا شور مچا

آئی پھر شامتِ ’’پروٹوزووا‘‘

جو بیماری کا باعث ہیں

اُن میں سے نہ اک جرثومہ بچا

یوں سب کا دل دہلایا ہے

اک مچھر نے چکرایا ہے

 

’’بیکار میں مجھ سے جنگ نہ کر

اے مچھر مجھ کو تنگ نہ کر‘‘

جب میں چیخا، مچھر بولا

’’تقریر تو شوخ و شنگ نہ کر

اب مچھر ڈینگی لایا ہے ‘‘

اک مچھر نے چکرایا ہے

 

کیا کہئے کیا فنکاری ہے

مچھر پہ تہمت ساری ہے

انساں انساں کا دشمن ہے

اک مارا ماری جاری ہے

خود کتنا خون بہایا ہے

اک مچھر نے چکرایا ہے

 

 

 

 

جوتا پذیرائی

 

۱۵ دسمبر ۲۰۰۸ کو عراق میں امریکی صدر جارج بُش کی ایک صحافی منتظر الزیدی نے پریس کانفرنس کے دوران ’’جوتا پذیرائی ‘‘ کی۔ یہ نظم اس صحافی کے جذبات کی آئنہ دار ہے۔

 

زینتِ پا، زیبائشِ پا

اِس سے سَوا پایا جوتا

کیا کیا رُخ دکھلاتا ہے

ایک صحافی کا جوتا

ایک نہتی قوم کے پاس

کچھ بھی نہ تھا، پر تھا جوتا

ایٹم بم سے مہلک تھا

گرچہ تھا سستا جوتا

خوب کھُلی قسمت اُس کی

بُش پر خوب چلا جوتا

ایک طرف تھی کثرتِ ظلم

ایک طرف تنہا جوتا

دس نمبری بُش صاحب ہیں

دس نمبر کا تھا جوتا

سودا کچھ مہنگا تو نہیں

تیل کے بدلے کھا جوتا

یاد کرے گا امریکہ

زیدیؔ نے مارا جوتا

 

 

 

 

بینگن

 

 

وہ کریں گر طعام بینگن کا

جیب سے دوں گا دام بینگن کا

تاج ہر ایک پر نہیں سجتا

دیکھ لو تم مقام بینگن کا

پہلے لوٹوں سے تنگ آئے تھے

کیا کریں اب عوام بینگن کا

گر بھگانا ہو تم نے مہماں کو

کر لو بس اہتمام بینگن کا

درج تھانے میں اس کی بابت ہے

رنگ اس کا تمام بینگن کا

آگ معدے میں ہے لگائی ہوئی

خوب ہے انتقام بینگن کا

بھرتہ ہو یا بگھارا ہوا یا بھنا

ایک ہے اختتام بینگن کا

 

 

 

سیاست دان بکرا

 

یہ نظم۲۰۰۸ میں لکھّی گئی جب قومی الیکشن اور عیدِ قربان ساتھ ساتھ آئے تھے

 

مرے ہم جلیسو مرے یار بکرو

ہے سر پر کھڑی عیدِ قربان سنبھلو

ترانے مسرت کے تم گا رہے ہو

خبر بھی ہے کچھ تم کہاں جا رہے ہو

نہ سمجھو کہ تم کو یہ ٹہلا رہے ہیں

یہ قربان کرنے کو لے جا رہے ہیں

منائیں گے خوشیاں تمہیں ذبح کر کے

تمہیں روئیں گے عمر بھر بیوی بچے

ہیں دو دانت جن کے کریں فکر اپنی

جو بکرے ہیں پورے کریں فکر اپنی

ہے دُم جن کی سالم، وہ اب دُم کٹا لیں

کسی کار کو اپنے اوپر چڑھا لیں

وہ تُڑوا لیں اِک، گر ہوں دو دانت اُن کے

کریں زخمی گر اُن کے ہیں سینگ پورے

پھنسے گا جو ٹھہرا حسینوں میں یکتا

بچے گا وہی تم میں جو ہو گا نکٹا

جو لنگڑوں پہ کرتے تھے پہلے ملامت

سمجھ لیں بس اب اُن کی آئی ہے شامت

قصائی سبھی تکّہ بوٹی کریں گے

مُحَلّوں میں کل یہ جگر دل بٹیں گے

ہراساں ہوئے بکرے تقریر سن کر

لگے بھاگنے اپنی تقدیر سن کر

کسی کا کٹا کان، زخمی کوئی تھا

ہوا تھا ہر اک میں کوئی نقص پیدا

نہ بکرا کوئی آج سالم رہا تھا

بس اُن میں وہی ایک لیڈر بچا تھا

کہا میں نے اس سے پھنسے گا بس اب تُو

خراش اِک نہ آئی تجھے او سیہ رو

وہ بولا کہ اتنا نہیں ہوں میں ناداں

مروں خود کُشی سے نہیں مرا ایماں

میں راہ خدا میں جو قربان ہوں گا

مقام ان سے اعلیٰ و ارفع ہی لوں گا

کٹا بیٹھے یہ کان تقریر سن کر

گنوائی عبث جان تقریر سن کر

الیکشن کے دن ہیں الیکشن کی راتیں

بناتا تھا ان سے یونہی میں تو باتیں

جو سمجھے ہے تقریر کو سچ، ہے سادہ

نہیں کوئی بھی اس سے احمق زیادہ

 

 

 

 

جیوں تو کیسے جیوں

 

 کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کی صورتِ حال سے متاثر ہو کر لکھی گئی

 

 

میں آنسوؤں کو ہنسی میں ملا کے کیسے پیوں

کوئی بتائے خدارا جیوں تو کیسے جیوں

 

جو پہنوں کرتا پجامہ تو ڈر یہ لگتا ہے

مجھے ہر ایک مہاجر یہاں سمجھتا ہے

جو خان دیکھ لے مجھ کو تو گولی مارتا ہے

میں پان کھاؤں تو پھر پیک کو کہاں تھوکوں

کوئی بتائے خدارا جیوں تو کیسے جیوں

 

میں زیب تن کروں شلوار اور قمیص اگر

کہیں پٹھان سمجھ کر نہ مار دیں خنجر

نہ اسلحہ ہو مرے پاس اور نہ ہو پوڈر

بغیر جُرم و خطا پھر بتاؤ کیوں میں مروں

کوئی بتائے خدارا جیوں تو کیسے جیوں

 

پھروں پہن کے جو میں پینٹ، شرٹ اور بنیان

سمجھ نہ لیں مجھے وہ یادگارِ انگلستان

نہ طالبانؔ کہیں مار دیں مجھے ہے گمان

بتائے کوئی مجھے اب کہ اور کیا پہنوں

کوئی بتائے خدارا جیوں تو کیسے جیوں

 

پہن کے گھر سے میں نکلوں اگر کہیں دھوتی

یقیں ہے مجھ کو وہ سمجھیں گے میں ہوں پنجابی

اچھالی جائے گی میری ہر اک طرف پگڑی

پہن کے پاؤں میں کھُسّے کہیں میں اب نہ پھروں

کوئی بتائے خدارا جیوں تو کیسے جیوں

 

یہ ایک دن مجھے سوجھا پہن لوں گر بوری

تو کر سکے گا نہ ہر گز کوئی شناخت مری

بس ایک خوف ہے آئے نہ پھر کہیں ایدھیؔ

سمجھ لے وہ مجھے میت تو دفن کیسے ہوں

کوئی بتائے خدارا جیوں تو کیسے جیوں

 

ہیں خطرے کپڑوں میں اتنے تو کیوں انہیں پہنوں

یہ کہہ رہا ہے مرا دل کہ ایسے ہی میں پھروں

مگر یہ ڈر ہے سمجھ لیں نہ وہ مجھے مجنوں

اُٹھا کے بند نہ کر دیں وہ پاگلوں میں یوں

کوئی بتائے خدارا جیوں تو کیسے جیوں

 

 

 

 

رشتوں کے کُشتے

 

(ڈبل رشتوں کے حامل افراد کے لئے ایک نئی لغت)

 

بنی چھوٹی بہن یوں دیورانی

کہ دیور سے ہوا تھا اس کا رشتہ

نئے الفاظ رشتوں میں ڈھلے پھر

جو پہلے تھا ’نہیں‘، وہ اب تھا ’’نشتہ‘‘

وہ آپس میں سگی بہنیں تھیں پہلے

جٹھانی دیورانی بن گئیں اب

ادھر یکجا چچا خالو ہوئے یوں

’’چخالو‘‘ بن گئے ہیں دولہا صاحب

ہوئے تھے اس طرح کچھ مکس رشتے

وہ بھابھی بھی تھی، باجی بھی دلہن کی

تھی اب حیران و ششدر کیا کرے وہ

کہے کیا اپنی باجی کو وہ ’’بھاجی؟‘‘

وہ دو بہنیں ہیں یہ ہیں دونوں بھائی

سمجھنا تم نہ ان کو ایرے غیرے

یہ عقدِ باہمی نے گل کھلائے

کہ دونوں بھائی اب ’’ہم زُلف‘‘ ٹھیرے

ملے رشتوں نے آپس میں گلے یوں

کرشمہ ’’وٹے سٹے ‘‘کا یہ دیکھا

’’بھنسالا‘‘ بھا گیا میرے قلم کو

وہ بہنوئی بھی تھا سالا بھی میرا

ملی اولاد کی پھر اُن کو نعمت

مسرت سے کھلا ہر دل کا غنچہ

بھتیجہ تھا جو وہ تھا بھانجا بھی

کہ ہم دونوں کا وہ ٹھہرا ’’بھنتیجہ‘‘

’’بھنتیجے ‘‘ کو ادھر اصرار یہ ہے

کہ ہم ہیں اس کے ’’پھوما‘‘ اور’’ پھومانی‘‘

نئے لفظوں سے یہ رشتے بنائے

لغت یہ ہو گئی مظہرؔ پرانی

۔۔۔۔۔۔

پھوما : پھوپھا اور ماموں

پھمانی : پھوپھی اور ممانی

بھنتیجہ : بھانجا اور بھتیجا

چخالو : چچا اور خالو

بھنسالا: بہنوی اور سالا

بھاجی: بھابھی اور باجی

 

 

 

 

 عیدی

 

CNBC ٹی۔ وی کے منعقد کردہ ایک مشاعرے کے لئے لکھی

 

ہر ایک ہم سے مانگے ہے نذرانہ عید کا

مہنگائی میں تو مہنگا پڑا آنا عید کا

کرتی ہے جیب خالی وہ ’’شاپنگ‘‘ کے نام پر

بیگم نے بھی لگایا ہے جرمانہ عید کا

پولیس والا ہو کہ وہ درزی کہ نائی ہو

جس کو بھی دیکھو لیتا ہے ہرجانہ عید کا

سب دے دلا کے جیب جو خالی مری ہوئی

کہتے ہیں لوگ لیجئے فطرانہ عید کا

کم کم دکھائی دیتا ہے مثلِ ہلالِ عید

وہ ’’ریگولر‘‘ نمازی ہے سالانہ عید کا

سرحدؔ میں کہہ رہا تھا یہ مجھ سے ہلالِ عید

لاؤں گا جب کہو گے میں پروانہ عید کا

’’ جپھی ‘‘ لگا کے جیب کو وہ کر گیا ہے صاف

آیا نہ راس ہم کو تو یارانہ عید کا

سارے نمازی عید مبارک میں لگ گئے

خطبہ نہ پورا کر سکے مولانا عید کا

شاعر کے پاس نقد نہیں کچھ سو پیش ہے

تحفہ بشکلِ نظمِ ظریفانہ عید کا

’’ویلنگ‘‘ کرے ہے،’’ڈسکو‘‘ کرے ہے یہ نوجواں

مظہرؔ نہ چھیڑ اس کو، ہے مستانہ عید کا

 

 

 

روٹی کپڑا اور مکان

 

(ٹی۔ وی چینل ’’دن‘‘ کے موضوعاتی مشاعرے کے لئے لکھی گئی)

 

کیوں کرتے ہو جی ہلکان

ہو جائے گا یوں خفقان

نعرہ درد کا ہے درمان

نعرے میں ہے کیا نقصان

نعرہ مارو بھائی جان

روٹی کپڑا اور مکان

 

بھرتا ہے کچھ یوں فراٹا

آٹا بھی کرتا ہے ٹاٹا

مہنگائی نے سب کو چاٹا

لمبا ہو یا کوئی ناٹا

جس کو دیکھو ہے بے جان

روٹی کپڑا اور مکان

 

کپڑے کی کیا بات کریں

کیا عریاں حالات کریں

کس کس کو سوغات کریں

بس اس میں دن رات کریں

اِک کچھّا ہے، اِک بنیان

روٹی کپڑا اور مکان

 

اپنا ہو بس ایک مکان

کوئی نہیں اس کا امکان

اب فٹ پاتھ ہے گھر کا لان

کرتی ہے پولس چالان

بن جا سرکاری مہمان

روٹی کپڑا اور مکان

 

دستیاب نہ پانی ہے

کھیتوں میں ویرانی ہے

ہر سُو بے ایمانی ہے

جان کی بس ارزانی ہے

خود کُش حملہ ہے آسان

روٹی کپڑا اور مکان

 

بڑھتا جائے قرض کا بار

پھیلتا جائے پر دربار

سب ہیں کھانے کو تیار

کون ہے اس کا ذمہ دار

پوچھتا ہے یہ پاکستان

روٹی کپڑا اور مکان

 

 

 

 

سردی کا علاج

 

جنوری ۲۰۱۳ کے موسمِ سرما میں اسلام آباد میں ڈاکٹر طاہر القادری کے دھرنے کے دوران لکھی گئی۔ اور سچ ٹی وی کے مارننگ شو میں پڑھی۔

 

جلتا ہے نہ بجلی کا، نہ اب گیس کا ہیٹر

سردی ہے بہت، لا دو رضائی تو کہیں سے

سُن کر مری فریاد و فغاں بولے یہ لیڈر

’’گرماؤ غریبوں کا لہو سوزِ یقیں سے ‘‘

سردی کو جو کم کرنا ہو تو عشق کرو تم

مل جائے گی حدت فقط اک وصلِ حسیں سے

اشیائے ضرورت جو لو بازار سے جا کر

پونچھو گے تم اس ٹھنڈ میں خود عرق جبیں سے

یہ تبصرے ٹی۔ وی پہ جو چلتے ہیں سیاسی

دیکھو تو بھڑک اُٹھیں گے جذبات اِنہیں سے

لگ جائے گی پھر دیکھنا اک آگ بدن میں

نعرہ تو لگاؤ ذرا تم قلبِ حزیں سے

سردی ہے تو کیا ؟ گرم سیاست کا ہے موسم

دھرنا جو اگر دو تو اٹھیں شعلے زمیں سے

پٹرول نہ ہو گا تو لہو کھول اُٹھّے گا

بچ جاؤ گے سردی سے یہ کہتے ہیں یقیں سے ‘‘

 

 

 

 

 

بنیں گے اور ستارے اب آسماں کے لئے

 

( بزمِ سائنسی ادب کراچی کے طرحی مشاعرے کے لئے لکھی گئی)

 

کھنڈر ہے چاند، ستارے ہیں آگ کے گولے

نظامِ شمس و قمر ہے بھلا کہاں ساکن

کہا یہ عشق کے مارے نے کیا کروں اب میں

ستارے توڑ کے لانا نہیں رہا ممکن

لغت بناؤ نئی اور جانِ جاں کے لئے

 

’’ٹرانسپلانٹ‘‘کے سرجن کو کیوں دعائیں نہ دوں

جہانِ زر میں کیا جس نے میرا نام بلند

مرے عزیزو نہ سمجھو مجھے حقیر فقیر

جو بیچو گے مرے اعضاء تو ہو گے دولت مند

جگر فلاں کے لئے گردہ ہے فلاں کے لئے

 

’’مٹن‘‘ تو دُور تھا پہلے ہی ہم سے لاکھوں میل

پر اب’’چکن‘‘سے بھی اپنی نہیں علیک سلیک

ہے معدہ کھیت بنا اتنی سبزیاں کھا کر

کیا ہے ’’برڈ فلو وائیرس‘‘ نے جب سے’’اٹیک‘‘

یہ مرغ رہ گیا ہے اب فقط اذاں کے لئے

 

ہوئی ہے سہل جو پیغام کی رسانی اب

کہیں پہ فون کہیں نیٹ کہیں پہ موبائیل

بموں کو باندھ کے پھرتے ہیں امن کے دشمن

پیامِ موت لئے وہ بنے ہیں عزرائیل

تلاشی لینا بھی مشکل ہے پاسباں کے لئے

 

جگر ہے زخمی تو سینہ ہے چاک چاک مرا

فراقِ یار سے اب دل میں درد رہتا ہے

بتائیں ہم جو کبھی اپنے درد کا اُس کو

دوائیں دے کے ہمیں ڈاکٹر یہ کہتا ہے

ہے ایک ٹیکہ بہت سوزشِ نہاں کے لئے

 

نیا جہاں ہے، مضامینِ نو کے ہیں انبار

نئی پہننی پڑے گی ہمیں قبائے سخن

ادب میں لائیں گے سائنس کا نکھار جو ہم

تو روشنی سے دمکنے لگے گا نیل گگن

’’بنیں گے اور ستارے اب آسماں کے لئے ‘‘

 

 

 

بقرہ عید

 

بیل بھاگا برسرِ بازار بقرہ عید پر

ہو گئے ہم تو ذلیل و خوار بقرہ عید پر

جس کو پالا تھا بڑے چاؤ سے ہم نے سال بھر

پڑ گیا بکرا وہی بیمار بقرہ عید پر

آ گیا’’ ڈینٹسٹ ‘‘ کو وہ لے کے دوندا دیکھنے

ہو گیا گاہک بڑا ہشیار بقرہ عید پر

اب تو مرغی پر بھی اپنی پڑ گئی ڈھیلی گرفت

بکرا کیسے ہاتھ آئے یار بقرہ عید پر

کاٹنے والے زیادہ بانٹنے والے تھے کم

ایک بکرا تھا، قصائی چار ! بقرہ عید پر

بیگم اور بکری میں ہے اِک یہ بھی قدرِ مشترک

دونوں ’’میں۔ میں ‘‘ کی کریں تکرار بقرہ عید پر

تھی گرانی اس سے پہلے بھی اگرچہ تیز گام

ہو گئی اس کی ڈبل رفتار بقرہ عید پر

اپنی اپنی پڑھ نمازیں اپنا اپنا چاند دیکھ

تو ہے اب آزاد خود مختار بقرہ عید پر

کھال دیں کس کو، بچائیں کس سے اپنی کھال ہم

مسئلہ ٹیڑھا ہوا ہر بار بقرہ عید پر

قوم کی یخنی نکالی ہر سیاست دان نے

ہڈیاں ہی رہ گئیں سرکار بقرہ عید پر

اپنے ہوں یا غیر سب نے تکّے بوٹی کر دیا

ہو گیا قیمہ مرا تیار بقرہ عید پر

عقل موٹی، علم تھوڑا اور دل ہیں بے ضمیر

طنز کی چھریاں ہوئیں بیکار بقرہ عید پر

حکمرانوں نے چڑھایا سیخ پر مہنگائی کی

ہم ہوئے اپنے سے بھی بیزار بقرہ عید پر

بیل، بکرے، گائے، دنبے تھے بہت، لیکن تھا کم

جذبۂ قربانی و ایثار بقرہ عید پر

 

نیک عمل

 

 

آنکھ کو کچھ بھی نہ دیتا تھا دکھائی ہر طرف

ایک وحشت ناک تاریکی تھی چھائی ہر طرف

تختِ خورشیدِ منور، تاخت و تاراج تھا

جس طرف دیکھو ادھر تاریکیوں کا راج تھا

خامشی تھی اور سناٹا تھا کچھ یوں رات کا

چپکے چپکے پھیلتا جاتا تھا افسوں رات کا

ہاتھ کو بھی ہاتھ دکھلائی نہ دیتا تھا کوئی

آسماں بے نور تھا، حد ہے نہ تھا تارا کوئی

ایسی تاریکی میں اک منظر عجب آیا نظر

بقعۂ انوار تھا اتنے گھروں میں ایک گھر

پھوٹتے تھے نور کے چشمے درو دیوار سے

پردہ اٹھتا تھا نہ لیکن آج کچھ اسرار سے

روشنی ڈالے ہوئے تھی اِن پہ ڈیرے کس لئے

ساری بستی کے گھروں پہ تھے اندھیرے کس لئے

یا الٰہی کون ہے یہ جس کا روشن ہے مکاں

جس کے آنگن میں فلک سے آج اتری کہکشاں

میرے استفسار پہ بولے بزرگِ ہوشمند

آپ کیوں حیران ہیں اے نوجوانِ ارجمند

فلسفہ اس میں نہیں کچھ، ہے بہت آسان guess

لوڈ شیڈنگ میں لگائے ہیں انہوں نے U.P.S

 

 

 

 

بنام امریکہ

 

(۲۰۱۱ کے عالمی سیاسی تناظر میں لکھی گئی۔ تاہم یہ مسائل آج پہلے سے زیادہ شدت اختیار کرگئے ہیں )

 

’’جہاں تیرا نقشِ قدم دیکھتے ہیں ‘‘

وہاں پر اودھم ہی اودھم دیکھتے ہیں

عرب، شام، بحرین اور لیبیا میں

ہر اک جا پہ تیرے ستم دیکھتے ہیں

قیامت سے پہلے قیامت کے منظر

بہ فیضانِ’’ خود کش‘‘ صنم دیکھتے ہیں

یہ تیری محبت کے ہیں شاخسانے

جو ہر سوDrone اور بم دیکھتے ہیں

تری دوستی بھی بُری، دشمنی بھی

کہ دونوں ہی راہوں میں خم دیکھتے ہیں

نہیں بے سبب ڈالروں کی عنایت

ہے کچھ تو، جو تیرا کرم دیکھتے ہیں

ہے ہاتھوں میں کشکول، پوشاک شاہی

ہمارا وہ جاہ و حشم دیکھتے ہیں

ہیں چِیں بر جبیں، چِین سے دوستی پر

وہ کب چَین سے دل بہم دیکھتے ہیں

فلک نے بھی ایسے کہاں دیکھے ہوں گے

یہ امریکی شیطاں جو ہم دیکھتے ہیں

کہا ہم نے چھوڑو بھی دامن تو بولے

چھُڑا لو یہ قرضے کی ’گم gum‘ دیکھتے ہیں !

 

 

 

الیکشن

 

ہے جمہوریت بیقرارِ الیکشن

کہ اب اس کے گیسو سنوارے الیکشن

ہرے لال اور نیلے پیلے ہیں جھنڈے

ہے چھائی ہر اک سو بہارِ الیکشن

ہوئی مارکیٹوں میں پھر گہما گہمی

وطن میں چلا کاروبارِ الیکشن

گلی بند ہے آگے جلسہ ہے حضرت!

بڑی سخت ہے رہگزارِ الیکشن

کہیں گولیاں ہیں، کہیں بم دھماکے

مہکتا ہے یوں لالہ زارِ الیکشن

نظر آئے جب سامنے خفیہ خفیہ

کرے کون پھر اعتبارِ الیکشن

کہا ڈاکٹر نے نہیں ٹائیفایڈ

تجھے تو چڑھا ہے بخارِ الیکشن

اگر جیت جائے تو یہ اس کی قسمت

مگر دھاندلی ہے جو ہارے الیکشن

لگائیں وہ جب فارم میں گوشوارے

دکھائے انہیں دن میں تارے الیکشن

بنے گی جو کابینہ جائیں گے آفس

ابھی تو چڑھا ہے خمارِ الیکشن

 

 

 

 

ریٹائیرڈ افسر

 

ہوا بیٹھ کر غرق بیڑا کمر کا

تو رہنے لگا مستقل درد سر کا

بالآخر لگا اُن کو چشمہ نظر کا

اچانک کھُلا پھر قفس آفیسر کا

تھا یہ فیصلہ اہلِ نقد و نظر کا

ریٹائیرڈ افسر نہ دفتر نہ گھر کا

 

نہ آفس رہا ہے نہ سیکریٹری کوئی

نہ دروازہ کھولے کوئی دفتری ہی

ہوئی چپ جو بجتی تھی ہر روز گھنٹی

نہ صاحب سلامت کی آواز اب تھی

ہوا اختتام ایک لمبے سفر کا

ریٹائیرڈ افسر نہ دفتر نہ گھر کا

 

جو جاری تھی عرصے سے’’روٹین‘‘ بدلی

’’فلائیٹ ‘‘تھی امریکہ کی، چین بدلی

حیاتین بدلے،’’پروٹین‘‘ بدلی

غرض زندگی جو تھی رنگین بدلی

بہاریں گئیں آیا سیزن’’سمر‘‘ کا

ریٹائیرڈ افسر نہ دفتر نہ گھر کا

 

وہ افسر کی ہر بات پر سر ہلانا

بلاوجہ سیکریٹری کو بلانا

وہ شوخی، شرارت، وہ ہنسنا، ہنسانا

کہاں گُم ہوا ہائے پچھلا زمانہ

کھُلا آج بھاؤ ہے دال اور مٹر کا

ریٹائیرڈ افسر نہ دفتر نہ گھر کا

 

خزاں میں بدلنے لگی ہیں بہاریں

نہ چھیڑو کہ نازک ہوئیں دل کی تاریں

ہے دردِ کمر، ڈاکٹر کو پکاریں

ہے کوہان نکلا، کٹی ہیں مہاریں

جو دیکھو تو لگتا ہے حلیہ شتر کا

ریٹائیرڈ افسر نہ دفتر نہ گھر کا

 

کرے کوئی کیا اب ’’کوٹیشن ‘‘کی باتیں

گئیں اب وہ فائل پہ’’ سینکشن‘‘ کی باتیں

وہ’’ اسپیک‘‘ کی’’ ٹیک ایکشن ‘‘کی باتیں

فقط رہ گئیں اب تو ’’پینشن ‘‘کی باتیں

گیا اسپ کا دور، آیا ہے خر کا

ریٹائیرڈ افسر نہ دفتر نہ گھر کا

 

سنیں گھر میں روزانہ بیگم کی چخ چخ

کبھی ایک پخ ہے کبھی دوسری پخ

ہوائے ستم گرم ہے اور کبھی یخ

ہے سنسان سڑکوں پہ تانگے کی ٹخ ٹخ

یہ افسانہ ہے زندگی کے سفر کا

ریٹائیرڈ افسر نہ آفس نہ گھر کا

 

 

 

بجٹ

 

بچتی نظر آتی نہیں اب کھال بجٹ میں

جکڑیں گے مرا آج وہ ہر بال بجٹ میں

مہنگی ہوئی بیگم کی اگر شال بجٹ میں

آئے گی مری شامتِ اعمال بجٹ میں

حیران ہوں میں اس سے نکل پاؤں گا کیونکر

بُنتے ہیں مرے گرد جو وہ جال بجٹ میں

ہندسوں کا اُلٹ پھیر ہے کیا کہئے اسے اور

کرتے ہیں ادھر کا وہ اُدھر مال بجٹ میں

کہتے ہیں دفاتر میں یہ’’ فینانس‘‘ کے مُنشی

جو بھی ہو خسارہ اسے تو ڈال بجٹ میں

وعدے تو بہت کرتے ہیں پہلے وہ بجٹ سے

اور پھر وہ مکر جاتے ہیں ہر سال بجٹ میں

تقریر منسٹر کی سنیں، تالیاں پیٹیں

ممبر ہیں اسمبلی کے یا قوال بجٹ میں

باتیں ہی کرے صرف چکن اور مٹن کی

گلتی نہ ہو مظہرؔؔ کی جہاں دال بجٹ میں

 

 

 

 

غزلیں

 

آبا ترے گر دورے پہ جاپان نہ ہوتے

پھر تجھ سے ملاقات کے اِمکان نہ ہوتے

اِک فلسفی بیٹھا ہوا یہ سوچ رہا تھا

عینک میں کہاں رکھتا اگر کان نہ ہوتے

پھر ماہرِ دنداں کی پریکٹس بھی نہ چلتی

بتیس اگر منہ میں یہ دندان نہ ہوتے

یہ دیکھئے کیا خوب ہے مردوں کی لپ اسٹک

لب سرخ نہ ہوتے مرے، گر پان نہ ہوتے

آ جاتی نظر آپ کو درگت جو ہماری

شادی کے لئے اتنا پریشان نہ ہوتے

اک زوجہ گزیدہ نے کہا خوب گزرتی

بیگم نہ زباں رکھتی، مرے کان نہ ہوتے

چائے جو پِلا دیتے انہیں چاہ سے اک دن

ہر روز سڑک پر مرے چالان نہ ہوتے

مسجد میں بھی ہو جاتے ہیں ہر روز دھماکے

اے کاش یہاں لوگ مسلمان نہ ہوتے

اس حبس زدہ جسم میں یہ روح نہ رہتی

مظہرؔ جو ظرافت کے ہوا دان نہ ہوتے

٭٭٭

 

 

 

 

پہلے کوچے میں ترے والدِ خونخوار پڑے

بعد میں کُتّے گلی کے بھی ہمیں چار پڑے

ڈاکٹر چل دیا آرام سے اُس نرس کے ساتھ

رہ گئے ہم وہیں بیمار کے بیمار پڑے

زُلف لہراتی ہوئی اچھّی تو لگتی ہو مگر

دیکھو سالن میں نہ ہوں گیسوئے خمدار پڑے

وہ بھی چھ بچّوں کی ماں بن گئی اس مدت میں

توڑے چھ ہم نے بھی بستر وہاں بیکار پڑے

مار کھا کھا کے یہی اب تو سبق سیکھا ہے

بیچ جھگڑے میں کسی کے نہ سمجھدار پڑے

بھاگ جانے کا بھی رستہ نہ جہاں ملتا ہو

ایسے کوچے میں خدایا نہ کبھی مار پڑے

ہم نے خوش ہو کے کہا منہ میں ترے گھی شکّر

خان بولا کہ ترے منہ میں بھی نسَوار پڑے

واہ اِنجن کو چلاتے ہیں فقط پانی سے

کیسے کیسے ہیں مرے مُلک میں فنکار پڑے

ڈگریاں جعلی، دوا نقلی، غذا دو نمبر

بچ کے جائیں گے کہاں آپ جو بیمار پڑے

لُطفِ نظّارہ تھا فیشن کی بدولت مظہرؔ

آدھی تنخواہ میں وہ عارض و رخسار پڑے

٭٭٭

 

 

 

 

سوچا تھا ملے گی ہمیں سسرال کہیں اور

لے آئی مگر شامتِ اعمال کہیں اور

جوتے کہاں چٹخائے، گھسے پاؤں کہاں پر

اس باب میں تفصیل سے احوال کہیں اور

بیگم کو جو کالر پہ ملیں چپکے ہوئے بال

پھر ہڈیاں ہوتی ہیں کہیں کھال کہیں اور

یہ طور شریفوں کے نہیں مان بھی جاؤ

کھاتے ہو کہیں، بانٹتے ہو مال کہیں اور

ہوتا ہے بڑے زور سے دھرنے میں دھمادھم

تالی ہے یہاں، اِس کے ہیں سر تال کہیں اور

سنبھلا نہ پرانا تو بناؤ گے نیا کیا

قائدؔ کہیں روتے ہیں تو اقبالؔ کہیں اور

ڈفلی ہے الگ، راگ الگ مُلک میں سب کا

’’سنگر ‘‘کہیں’’ ڈسکو‘‘ کے ہیں قوال کہیں اور

ہیں ساز ولایت کے تو آواز مقامی

ہیں ان کے’’ کنکیشن‘‘ تو بہر حال کہیں اور

کھیتوں میں سیاست کے یہ ہیں فصلی بٹیرے

آئیں گے نظر آپ کو ہر سال کہیں اور

لکھا کہیں جاتا ہے یہ تفصیل سے مظہرؔ

کھُلتا ہے مرا نامۂ اعمال کہیں اور

٭٭٭

 

 

 

 

کون کہتا ہے کہ اُس کا حوصلہ کم پڑ گیا

عاشقِ صادق کو سینڈل کا تلا کم پڑ گیا

دس پراٹھے، بیس انڈے اور دو حلوے کے تھال

مولوی صاحب کو پھر بھی ناشتہ کم پڑ گیا

جب نہائے ختم پانی سارے گھر کا کر دیا

پونچھنے بیٹھے تو اُن کو تولیہ کم پڑ گیا

ہم نے عرضی دی پر ہم کو باس نے چھٹی نہ دی

لمبی رخصت کے لئے اک عارضہ کم پڑ گیا

کوئی سنتا ہی نہ تھا حرص و ہوس کے شور میں

ہم بہت چیخے مگر اک نرخرہ کم پڑ گیا

پھر وہی دورِ طرب ہے پھر وہی عیش و نشاط

ہم کو عبرت کے لئے اک زلزلہ کم پڑ گیا

’’درسِ ویلینٹائینی‘‘ سے مانگ اُس کی بڑھ گئی

عاشقوں کے واسطے کچّا گھڑا کم پڑ گیا

بغضِ افرنگی اُدھر اور جاہلیت اِس طرف

آ گئی ’’داعش‘‘ کہ جب ’’القاعدہ‘‘ کم پڑ گیا

طنز کی چٹنی بِنا ہوتے نہ مظہرؔ شعر ہضم

ہاں ظرافت کی کمی سے ذائقہ کم پڑ گیا

٭٭٭

 

 

 

 

آتا نظر ہے یارِ طرح دار خواب میں

بے خوف اُس کا کرتے ہیں دیدار خواب میں

اقرار خواب میں کبھی انکار خواب میں

محبوب ہم کو کرتا ہے اب خوار خواب میں

ابا کا اس کے خوف نہ اماں کا ڈر ہمیں

آتے ہیں اب پھلانگ کے دیوار خواب میں

آ کر چلا نہ جائے کہیں یارِ دلربا

ہم ساری رات رہتے ہیں بیدار خواب میں

کہتا تھا ڈاکٹر نہ اُٹھاؤ ابھی ہمیں

دو سَو کھڑے مطب میں ہیں بیمار خواب میں

چالان کوئی کر نہیں سکتا ہمارا اب

پولیس کیسے ناپے گی رفتار خواب میں

ماری ہے لات ہم نے بھی حاتم کی قبر پر

بانٹے ہیں ہم نے درہم و دینار خواب میں

جھگڑا بھی خوب ہو گیا، عزت بھی رہ گئی

ہم نے اٹھائی لذتِ تکرار خواب میں

پیتے رہے مزے سے مئے ناب صبح تک

پکڑا نہ جا سکا کوئی میخوار خواب میں

دادِ سخن سمیٹ رہا تھا کہ جاگ اٹھا

مظہرؔ نہ سارے پڑھ سکا اشعار خواب میں

٭٭٭

 

 

 

محفل میں تری، جی کے جلانے کے لئے ہم

آنے کے لئے وہ ہیں تو جانے کے لئے ہم

کھانے تو رقیبوں نے سرِ بزم اُڑائے

اور رہ گئے ہیں گالیاں کھانے کے لئے ہم

الطاف و عنایات کسی اور پہ اُن کی

بازار میں شاپنگ کرانے کے لئے ہم

دہکیں ترے عارض کے گلاب اور، چنانچہ

آئے ہیں ترے پاس تپانے کے لئے ہم

خود ہاتھوں سے دنیا کو بنایا ہے جہنم

بھاگیں کہاں محفوظ ٹھکانے کے لئے ہم

اس قوم کی ہر دم وہ کریں ایسی کی تیسی

تعظیم میں خم قومی ترانے کے لئے ہم

لیڈر نے کہا ملئَے نہ ہر گز کفِ افسوس

خوش رہئے کہ ہیں بینڈ بجانے کے لئے ہم

باراتیوں نے شوق سے جی بھر کے ہے کھایا

بس دیگ میں ہیں چمچے چلانے کے لئے ہم

دولہا تو گیا کار میں دلہن کو بٹھا کر

اب جائیں کہاں ٹسوئے بہانے کے لئے ہم

شوہر ہیں، مگر اتنے بھی بے بس نہیں ہم لوگ

آزاد تو ہیں دُم کو ہلانے کے لئے ہم

زینے پہ ترقی کے تمہیں چڑھنے نہ دیں گے

بیٹھے ہیں یہاں ٹانگ اڑَانے کے لئے ہم

لکھنے کا صلہ کچھ نہیں، بیچو تو ملیں دام

وہ چوسنے کو، آم گھُلانے کے لئے ہم

ناموں سے عیاں صاف ہیں سب شجرے ہمارے

آسانی سے ہیں سب کے نشانے کے لئے ہم

ہے بات حکیمانہ، ظریفانہ سخن میں

لکھیں نہ فقط ہنسنے ہنسانے کے لئے ہم

وہ چاہیں جہاں آگ سہولت سے لگائیں

مظہرؔ کسے بلوائیں بجھانے کے لئے ہم

٭٭٭

 

 

 رات بھر تُو جاگتا رہ، دن چڑھے تو سو لیو

ظلم پر چُپ سادھ لے، اور اپنے لب مت کھولیو

سبز پرچم کے بجائے ’’کارڈ‘‘ تُو لے لے’’ گرین‘‘

جس طرف کی ہو ہَوا، اُس سمت فوراً ہولیو

بڑھ چکی ہے بات اب جامہ تلاشی سے میاں

یہ ہوائی مستقر ہے مت کسی سے بولیو

ملک کے اندر ہو یا باہر مزے سے عیش کر

کھیل پولو، کھا پلاؤ، پی دو قطرے پولیو

زندگانی کی حقیقت ہے یہی، بولا مریض

میٹھا شربت پی کے ہنس، ٹیکہ لگے تو رولیو

بجھ نہ سکتی ہو جہاں پر’’ کولڈ اسٹوریج‘‘ کی آگ

کیا کہیں تُم کو وطن کے اے مرے ’’بڑ بولیو‘‘

٭٭٭

 

 

 

 

سادگی میں وہ اب کمال کہاں

بات سیدھی کرو تو مال کہاں

تہہ بہ تہہ منہ پہ سُرخی و غازہ

بوسۂ حُسن میں وصال کہاں

بچّے اتنے کہ کچھ بچا ہی نہیں

بال ہوں گھر تو سر پہ بال کہاں

دانت سارے ہیں میرے مصنوعی

ڈاکٹر میں کروں خلال کہاں

گوشمالی کہا تو وہ بولے

جائیں کس جا پہ، ہے شمال کہاں ؟

مرزا غالبؔ کی میں زمیں میں لکھوں

مجھ سے شاعر کی یہ مجال کہاں

٭٭٭

 

 

 

 

جب قوم ہی ساری ہو امداد کے چکّر میں

شاعر نہ بھلا کیوں ہو پھر داد کے چکّر میں

امریکہ سے منگوا کر مٹّی میں جونہی ڈالی

گندم بھی نکل آئی پھر کھاد کے چّکر میں

تعمیر میں مضمر ہیں تخریب کے بھی پہلو

’’میٹرو‘‘ کے ہیں منصوبے فولاد کے چکّر میں

پھٹکار پڑی سب سے، بیداد ملی گھر سے

شاعر نے بھی کیا پایا اک داد کے چکّر میں

تعلیمی مقاصد سے اونچے ہیں بہت مقصد

دلدار ہے کالج میں دلشاد کے چکّر میں

اب دونوں پریشاں ہیں کیا کیجئے ان سب کا

اِک ٹیم بنا ڈالی اولاد کے چکّر میں

ڈگری ہے یہاں ڈگری اصلی ہو کہ نقلی ہو

اور آپ ابھی تک ہیں اسناد کے چکّر میں

گم ہو گیا ماضی میں وہ دورِ الف لیلیٰ

اب صرف دھماکے ہیں بغداد کے چکّر میں

آساں نہ سمجھنا تم مشکل ہیں بہت راہیں

مظہرؔ کئی چکّر ہیں داماد کے چکّر میں

٭٭٭

 

 

 

 

کرتا ہے شبِ ہجر میں دل تنگ ہمیشہ

سوجاتا ہوں میں پی کے جبھی بھنگ ہمیشہ

ہمسائی کے سائے سے بھی بچ ورنہ ترے گھر

بجتا ہی رہے گا طبلِ جنگ ہمیشہ

وہ پھولے سماتے نہیں ہیں دیکھ کے اُس کو

جامہ وہ پہنتا ہے ذرا تنگ ہمیشہ

میں خوابِ شبِ وصل جو دیکھوں بھی تو کیسے

سوؤں تو اٹھا دیتی ہے یہ’’ کھنگ ‘‘ہمیشہ

شادی سے ذرا پہلے چہکتا تھا بہت جو

اب دیکھتے ہیں اس کو بہت تنگ ہمیشہ

پتلون کسی کی ہے قمیص اور کسی کی

ہیں اہلِ سیاست کے یہی ڈھنگ ہمیشہ

وہ تو درِ جاناں پہ پھسل کر میں گرا تھا

کب تھا مرے پاؤں میں کوئی لنگ ہمیشہ

یہ عمرِ رواں قافیہ پیمائی میں گزری

پر اپنا رہا قافیہ ہی تنگ ہمیشہ

مظہرؔ یہ دعا ہے کہ مرے طرزِ سخن میں

موجود ظرافت کا رہے رنگ ہمیشہ

٭٭٭

 

 

 

 

دے رہے ہیں ہم کو جو’’ لارے ‘‘ پہ’’ لارے ‘‘ ہجر میں

جی رہے ہیں ہم فقط اُن کے سہارے ہجر میں

پیار کے’’ سبجیکٹ ‘‘ میں بھی گھس گیا ظالم حساب

کیا خبر تھی گننے پڑ جائیں گے تارے ہجر میں

سیتا رہتا ہے گریباں اور دامن بار بار

ہو گئے درزی کے سب وارے نیارے ہجر میں

فون کے ہوں، بینک کے ہوں یا’’ کریڈٹ کارڈ‘‘ کے

ختم اب تو ہو گئے’’بیلینس‘‘ سارے ہجر میں

بے دھیانی میں جو اکثر گال سہلاتا ہوں میں

یاد آتے ہیں ترے تھپڑ کرارے ہجر میں

اُن کی فرقت نے ہمیں یہ دن دکھائے دوستو

ہم نے کیا کیا مکھیاں مچھر نہ مارے ہجر میں

دردِ دل، دردِ کمر دردِ جگر اور دردِ سر

لوٹ آئے ہیں ہمارے درد سارے ہجر میں

پاس اپنے اب تو موبائل بھی ہے اور نیٹ بھی ہے

کون جیتا ہے اب اِک خط کے سہارے ہجر میں

جب سے وہ میکے گئی ہے، لگ رہا ہے اس طرح

ہو گئے ہوں جیسے ہم بالکل کنوارے ہجر میں

اشک بہہ بہہ کر ہوا ہے ختم پانی آنکھ کا

لکھ رہے ہیں اب غزل مظہرؔ تمھارے ہجر میں

٭٭٭

 

 

 

میں کھانا چاہوں تو یک بار کھینچ لیتا ہے

پڑوسی شاخِ ثمر دار کھینچ لیتا ہے

ہماری بات مکمل بھی ہو نہیں پاتی

ستم ظریف کوئی تار کھینچ لیتا ہے

وہ شوخ مجھ کو کریلے کھلا کے، سامنے سے

تمام کھانے مزیدار کھینچ لیتا ہے

بٹھا کے ہم کو تسلّی سے راہبر اپنا

ہمارے نیچے سے رہوار کھینچ لیتا ہے

کہ اب تو جینے بھی دیتا نہیں گرانی کا جن

نوالہ منہ سے وہ ہر بار کھینچ لیتا ہے

مشاعرے سے جو پہلے مری غزل سن لے

رقیب چار چھ اشعار کھینچ لیتا ہے

مطب جو بند کروں ایک دن فقط مظہرؔ

حریف سارے ہی بیمار کھینچ لیتا ہے

٭٭٭

 

ہم یہاں پر لیڈروں کو آزماتے رہ گئے

اور ہمیں وہ ناچ تگنی کا نچاتے رہ گئے

استفادہ بیوی اور بچوں نے دولت سے کیا

اور ابّا جان بس ڈالر کماتے رہ گئے

شیخ نے اس شوخ سے شیخی بگھاری ایک دن

شیخنی سے بعد میں لڑتے لڑاتے رہ گئے

دل تو دیوانہ تھا اس کا کیا بتائیں کیا ہوا

اپنے گھٹنے اس گلی میں آتے جاتے رہ گئے

کھا کے سارا مال وہ گم فربہی میں ہو گئے

ہم بہی کھاتے فقط لکھتے لکھاتے رہ گئے

مست سارے ہو گئے’’ انگور کی بیٹی ‘‘کے ساتھ

ہم کو دیکھو بزم میں انگور کھاتے رہ گئے

میرؔ صاحب بزم سے روتے رلاتے اُٹھ گئے

اور مظہرؔ ہم یہاں ہنستے ہنساتے رہ گئے

٭٭٭

 

 

محفل ہو کوئی یا کہ ہو گھر بولتے رہو

سوچو نہ سمجھو کچھ بھی مگر بولتے رہو

اب گفتگو میں کس کو تلفظ کا ہے خیال

دنیا ہو ساری زیر و زبر بولتے رہو

اک چپ ہرائے سو کو غلط ہے محاورہ

اب جیت ہے تمہاری اگر بولتے رہو

ٹی وی ہو ٹیلیفون ہو نیٹ ہو کہ آئی پیڈ

بس بے تکان شام و سحر بولتے رہو

سنگل زبان اور ڈبل کان کیوں دیے

سمجھو تو یوں نہ شام و سحر بولتے رہو

٭٭٭

 

 

 

 

جھوٹی خبروں سے مزین ہو گئے اخبار بند

چور نے کل کر دیا پھر ایک تھانیدار بند

کان کے آلے کا ہے اتنا کم از کم فائدہ

اک سوئچ سے کیجئے بیگم کی ہر للکار بند

ہم تو بیٹھے کے ہی بیٹھے رہ گئے بہرِ سخن

وہ سنا کر بھاگ اُٹھّا اپنے اک سو چار بند

ہر نئے چینل پہ حاضر ہے نیا سامانِ دید

مولوی صاحب کریں تو کیسے استغفار بند

ٹی۔ وی، گوگل اور کیبل، ہوں اگر حاضر یہاں

فائدہ ہو گا نہ کر کے حُسن کے بازار بند

کاربند اپنے اصولوں پرجو رہتے ہیں سدا

راستے میں ان کی ہو جاتی ہے اکثر کار، بند

قبض تھا گو ایک ہفتہ سے مگر بشاش تھا

مضمحل شاعر ہے لیکن جب سے ہیں اشعار بند

حقّہ پانی بند ہونے سے وہ گھبراتا نہیں

خان ہوتا ہے مگر برہم جو ہو نسوار بند

ایک دن اپنی ہی بیگم سے جو’’ چیٹنگ ‘‘ ہو گئی

تب سے مظہرؔ ہے حسینوں سے مری’’ پی۔ آر‘‘ بند

٭٭٭

 

 

 

 

(صنعتِ تقلیب میں )

 

مظہرؔ نے الٹ پھیر قوافی کی مچائی

نادان نے یوں محفلِ اشعار کو الٹا

لمحاتِ شبِ وصل رہیں راز لہذا

وہ بولا کہ کل آؤں گا تو ’’تار‘‘ کو الٹا

منزل کے لئے جیت سے رستہ نہ ملا جب

ہم نے کیا پھر اس کے لئے ’’ہار‘‘ کو الٹا

دی جاتی ہے جاں جس پہ ہر اک شیش محل میں

تو اس کو سمجھنے کے لئے ’’جار‘‘ کو الٹا

اس شوخ کی خاطر کیا کیا کچھ نہیں ہم نے

قابو میں مگر آئی نہ گو ’’مار‘‘ کو الٹا

بیگم نے جو منگوائی تھی یاد آئی ہمیں تب

قصاب کی جب ’’شاپ‘‘ پہ اُس’’نار‘‘ کو الٹا

 

نقاد بھلا کہتے ہیں کیا الٹی غزل کو

معلوم یہ کرنے کے لئے ’’یار‘‘ کو الٹا

مظہرؔ کو ہے الفاظ الٹنے کا مرض کیوں

اے مردِ محقق ذرا آ،’’زار‘‘ کو الٹا

٭٭٭

 

 

 

محفلِ شعر میں کیسی سخن آرائی ہے

’’تک دھنا دھن ‘‘کی صدا کان سے ٹکرائی ہے

تیز ناخن ہیں تو سینڈل کی بھی ہے’’ ہیل ‘‘ دراز

کوچۂ یار میں رسوائی ہی رسوائی ہے

عقل نے دیکھئے اب کتنی ترقی کر لی

دل کا کیا کیجئے سودائی تھا، سودائی ہے

یہ الگ بات کہ جوتوں میں بٹھایا اُس نے

بزمِ دلدار میں ہم نے بھی جگہ پائی ہے

گھر ہیں اس دور کے زندان کی صورت مظہرؔ

نہ کہیں صحن، نہ دالان، نہ انگنائی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

پہنچیں نہ کہیں ہاتھ گریبان کے نزدیک

یوں جاتا نہیں اب میں پہلوان کے نزدیک

مجنوں سے محبت نہیں، مجبوری ہے یہ تو

سستے ہیں مکاں صرف بیابان کے نزدیک

پھٹ جائے نہ وہ، رکھتے ہیں یوں فاصلہ ہم بھی

اب دیکھ کے جاتے ہیں مسلمان کے نزدیک

آدم نے کیا ماہ کو تسخیر اگرچہ

انسان نہ آیا کوئی انسان کے نزدیک

سہہ غزلہ سنائی ہے اسے جب سے کسی نے

آتا نہیں اب صاحبِ دیوان کے نزدیک

افسر سے بڑھانے سے مراسم ہے یہ بہتر

مظہرؔ ذرا ہو جائیے دربان کے نزدیک

٭٭٭

 

 

 

 

گرانی کی جو ہو ٹینشن تو کیا کیا جائے

ہو صرف ہاتھ میں پنشن تو کیا کیا جائے

بچے نہ کچھ پسِ مُردن تو کیا کیا جائے

ملے جو مرغ کی گردن تو کیا کیا جائے

رقیب بوٹیاں ساری اُچک کے لے جائے

فقط ہمیں ملے سالن تو کیا کیا جائے

ہماری جھاڑ کا اُن پہ اثر نہ ہو کوئی

اٹھا کہ چل دیں وہ جھاڑن تو کیا کیا جائے

کریں پڑوسی کے مرغے کو ذبح چپکے سے

اچانک آئے پڑوسن تو کیا کیا جائے

گلا تو عرضِ تمنا کا گھونٹنا ہی پڑے

حکیم دیں ہمیں چورن تو کیا کیا جائے

٭٭٭

 

 

 

 

ہم کو مشکل ہو گئی روٹی بھی ترکاری کے ساتھی

کھاتے ہیں زردار زردہ برق رفتاری کے ساتھ

ہنہناتے ہیں اسیمبلی میں نئے انداز سے

گیت گھوڑے گا رہے ہیں راگ درباری کے ساتھ

وہ جو’’ ٹن پرسنٹ‘‘ تھے اب’’ سینٹ پرسینٹ ‘‘ہو گئے

سر ہمارا جھُک نہ جائے ان کی سرداری کے ساتھ

دل ہوا جذبوں سے عاری، ہاتھ پیسوں سے تہی

کاٹتے ہیں جیب وہ مہنگائی کی آری کے ساتھ

حاکم و محکوم بس دو ہی تو طبقے ہیں یہاں

ایک میخواری کے ساتھ، اک مستقل خواری کے ساتھ

یک نکاتی لوٹنے کا لائے ایجینڈا ہیں سب

غنڈہ گردی عام ہے اب چور بازاری کے ساتھ

دیگ ہے حلوے کی اور ہے’’ فضلِ رحمانی‘‘ بہت

مولوی کھائیں نہ کیوں ہوکے کی بیماری کے ساتھ

ہے زمیں اپنے وطن کی ساری اپنی ملکیت

’’خاکیوں ‘‘ کی نبھ رہی ہے خوب پٹواری کے ساتھ

کیا بنے گا اس کا جس کے رہنما ہوں راہزن

ہاتھ سارے کر گئے اس قوم بیچاری کے ساتھ

ہو گیا پٹرول مہنگا اب تو پیدل ہی نکل

کار گھر پر ہی کھڑی رہنے دے بیکاری کے ساتھ

گارڈ آف آنر تو مل سکتا نہیں تنگ دست کو

دفن ہی کر دیجئے اعزازِ سرکاری کے ساتھ

ہم تو مظہرؔ ڈاکٹر شاعر تمہیں سمجھے تھے پر

ڈال دی تم نے سیاست اس میں فنکاری کے ساتھ

٭٭٭

 

 

 

 

بازار میں ہے لاش ہماری کفن سمیت

سب کچھ ہی اب تو بیچ دیا ہے وطن سمیت

قرضہ جو لینا چاہیں تو ڈالر میں لیجئے

بندوق بھی ملے گی مگر ’’ڈھذ ڈھزن‘‘ سمیت

آواز فاختہ کی دبی بم کی گونج میں

کوئل بھی چیختی رہی زاغ و زغن سمیت

کیا بے کسی بیان کریں ایسی قوم کی

حاکم نقب لگائیں جہاں راہزن سمیت

لالچ کی انتہا ہے، ہوس ہے جنوں مثال

وہ چاہتے ہیں دودھ پیئیں سارا، تھن سمیت

کیسے کرے گا کوئی حفاظت جناب کی

گن مین بھاگ جائیں گے سب اپنی گن سمیت

ق

مانگا تھا دل اکیلا، وہ آیا دلہن سمیت

اک پاؤ چیز ہم کو ملی چار من سمیت

کیسا تھا وصل جس میں whistle بھی نہ بج سکی

مجھ سے وہ ملنے آئی تو، لیکن کزن سمیت

پھر جیل خانے میں ہوا برپا مشاعرہ

شاعر جو بند ہو گئے شعر و سخن سمیت

لائے ہیں باڈی گارڈ بھی ہمراہ آج وہ

اُن کا شکار کون کرے ٹارزن سمیت

نوکر کی بھوک ہم پہ کھلی نیم شب کے بعد

ہم نے کچن میں پکڑا جو اس کو چکن سمیت

مظہرؔ نہ آج جامے سے باہر نکل سکا

اچکن میں بند ہو کے وہ آیا بٹن سمیت

٭٭٭

 

 

 

جو دل دیا تو ملا کچھ نہ دل لگی کے سوا

ہمارے ہاتھ نہ آیا تھڑی تھڑی کے سوا

گھماؤ گے اسے اتنا تو سوچ لو مسٹر

تمھاری بھینس نہیں دے گی کچھ دہی کے سوا

کہا بہ ناز و ادا ہم سے ایک میڈم نے

پکارو لے کے کوئی نام آنٹی کے سوا

ہوئے ہیں ساٹھ برس دیس کی سیاست کے

ہمیں تو کچھ نہ ملا اس میں’’ گڑبڑی‘‘ کے سوا

پرانی ہو گئیں میکے کی دھمکیاں بیگم

کبھی تو دو ہمیں کچھ اور بھی ’’تڑی ‘‘کے سوا

ہمارے دور میں کچھ شاعرِ مزاح ہیں جو

سمجھتے کچھ بھی نہیں اس کو’’ مسخری‘‘ کے سوا

دوائی لینے وہ آتے نہیں ہیں یہ کہہ کر

کچھ آتا ہی نہیں مظہرؔ کو شاعری کے سوا

٭٭٭

 

 

محبت میں جو دل کا تار کھسکا

تو پٹری سے ہمارا یار کھسکا

پڑے ہیں اوڑھ کر دنیا کی خبریں

ہمارے منہ سے مت اخبار کھسکا

ہمیں’’ لارے ‘‘ دیئے سارے سفر میں

جو منزل آئی تو سالار کھسکا

کہا مجنوں نے اب ہمت نہیں ہے

ذرا آ سایۂ دیوار کھسکا

بہانے نرس سے ملنے تھا آیا

جو پہنچا ڈاکٹر، بیمار کھسکا

زمانے کی ہوا کے رخ کو دیکھا

جو بدھو تھا رُکا، ہشیار کھسکا

عجب منظر ہمیں آیا نظر وہ

جو ان کا جبہ و دستار کھسکا

پڑا چھاپہ تو بس ہم ہی پھنسے تھے

چھُپا ساقی، ہر اِک مے خوار کھسکا

مجھے کھانے کی دعوت دے کے یارو

سرِ بازار میرا یار کھسکا

کہیں پہچان لے اُس کو نہ مظہرؔ

جو آیا چور، تھانیدار کھسکا

٭٭٭

 

 

 

 

(ضیا الحق قاسمی صاحب کی دعوت پر ان کے رسالے سہ ماہی ظرافت کے لئے پروین شاکر کی غزل پر تضمین )

 

 

لے کے رشوت کی رقم حوصلہ افزائی کی

’’اس نے خوشبو کی طرح میری پذیرائی کی‘‘

چُک پڑی ہائے دکھائی جو ادائے الفت

فیس سرجن نے بٹوری مری انگڑائی کی

شام سے صبح تلک کام کریں شفٹوں میں

بھول بیٹھے ہیں وہ لذت شبِ تنہائی کی

ان کے ناخن بھی نکیلے ہیں تو سینڈل میں بھی نوک

بے سبب عشق سے ہم نے تو نہ پسپائی کی

کون کہتا ہے نہیں ہیں وہ اسیرِ افرنگ

ڈالے زنجیر گلے میں ہیں جو’’ نک ٹائی ‘‘ کی

رشوتیں لے کے گرانی کا اثر کم کر لو

کیا ضروری ہے کہ باتیں کرو مہنگائی کی

کوئی قدغن نہ لگاتی مری بیوی ہرگز

اچھی صورت جو نہ ہوتی مری ہمسائی کی

لکھی مظہرؔ یہ غزل ہم نے ’’ظرافت‘‘ کے لئے

دعوتِ قاسمیؔ تھی، قافیہ پیمائی کی

٭٭٭

 

 

 

 

مُکّا ہے اور لات ہے حیرت کی بات ہے

افسر یہ نیک ذات ہے حیرت کی بات ہے

قیمت سنی جو سونے کی نیند اپنی اڑ گئی

سونا بس ایک دھات ہے حیرت کی بات ہے

اس قوم کا قوام بناتے ہیں’’ لیڈران‘‘

اور قوم کو ثبات ہے حیرت کی بات ہے

حالاتِ حاضرہ سے ہیں برگشتہ اسلئے

حالات میں بھی لات ہے حیرت کی بات

ایسے صنم تراشے ہیں ذات و صفات کے

کیا لات کیا منات ہے حیرت کی بات ہے

کرتے ہیں شہر بھر میں دھماکے وہ اس طرح

جیسے شبِ برات ہے حیرت کی بات ہے

ہے مولوی کا تبصرہ ہر اک ڈرامے پر

وہ بھی جو واہیات ہے حیرت کی بات ہے

وہ پائیداری ڈھوندتے ہیں اس میں ہر جگہ

دنیا جو بے ثبات ہے حیرت کی بات ہے

منہ پر وہ جھوٹ بول کے کہتے ہیں ہم سے یہ

یہ تو سیاسیات ہے حیرت کی بات ہے

دنیا میں ہو رہا ہے وہی کامیاب اب

جو جتنا بد صفات ہے حیرت کی بات ہے

٭٭٭

 

 

 

 

بغیر گیس کے چولھا جلائے جاتا ہوں

پلاؤ یونہی خیالی پکائے جاتا ہوں

جو آزمائے اُنہیں آزمائے جاتا ہوں

خود اپنے آپ کو اُلّو بنائے جاتا ہوں

’’کھپے کھپے نہ کھپے ‘‘ مجھکو کیا غرض اِس سے

فقط عوام کو میں تو کھپائے جاتا ہوں

شمار میرا بھی دانشوروں میں کرد یجے

سمجھ میں آئے نہ کچھ، سر ہلائے جاتا ہوں

کرشمے ہیں یہ فقط میرے قلبِ سوزاں کے

پراٹھے شعر و سخن کے لگائے جاتا ہوں

’’میں سنگ و خشت سے کرتا ہوں یوں جہاں پیدا‘‘

کہ کھیت کھیت پلازے اُگائے جاتا ہوں

سنا ہے بڑھ گئے گھوڑوں کے ریٹ اسمبلی میں

اسی لئے تو میں اب ہنہنائے جاتا ہوں

نہ گھر میں گیس نہ بجلی نہ پانی آتا ہے

بس ان کے آتے ہیں بل، بلبلائے جاتا ہوں

بس اب تو حسرتِدیدارِآب ہی نہ رہی

میں خالی ٹب میں مزے سے نہائے جاتا ہوں

سناؤں شعر جو گھٹیا تو پھینکنا انڈے

جو مارے تھے وہ ٹماٹر میں کھائے جاتا ہوں

توا پرات جہاں دیکھتا ہوں میں مظہرؔ

وہیں پہ رات میں اپنی بِتائے جاتا ہوں

٭٭٭

 

 

 

گزرے گی عمر اب تری خوف و خطر کے ساتھ

کر لی ہے تو نے دوستی اک ڈاکٹر کے ساتھ

لینے گئے تھے دردِ جگر کے لئے دوا

لَوٹے ہیں ہسپتال سے دردِ کمر کے ساتھ

اُن کو زُکام ہو گیا، اتنی سی بات تھی

’چینل ‘تمام چیخے ’’بریکنگ‘‘ خبر کے ساتھ

میں تو کرایہ اپنا بچاتا ہوں اس طرح

’’چلتا ہوں تھوڑی دور ہر اک راہبر کے ساتھ‘‘

لکھی ہے خون دل سے یہ تحریر، بے خبر!

کیسے مٹاؤ گے اسے اب تم’’ ربر ‘‘کے ساتھ

لیلیٰ ضرور آئے گی اس کو یقین ہے

مجنوں نے گھر خریدا ہے اب’’ پارلر‘‘ کے ساتھ

مظہرؔ یہی تو شعر و سخن کی کلید ہے

اشعار ہوں مزاحیہ لیکن اثر کے ساتھ

٭٭٭

 

 

عشق میں کر نہ اپنی جان خراب

اس سے ہوتی ہے ساری شان خراب

ہجر میں اتنی کروٹیں نہ بدل

چارپائی کا ہو گا بان خراب

نبھ رہی ہے مزے میں بیگم سے

کیونکہ اپنے ہیں دونوں کان خراب

آٹھ گھنٹے ’’پلین‘‘ پہنچا ’’لیٹ‘‘

اور سب ہو گئے ’’پلان‘‘ خراب

گالیاں کھا کے وہ مزے میں رہے

صرف اپنی ہوئی زبان خراب

لڑکے لڑکی کی’’ کورٹ میرج ‘‘ سے

ہو گئے دونوں خاندان خراب

٭٭٭

 

 

 

 

نہ یہ باز آئیں پنگے سے نہ وہ باز آئیں دنگے سے

خدا محفوظ رکھے یہ محلہ ہر لفنگے سے

مرا کیا ہے، مزہ تو یہ ہے وہ بھی ساتھ گرتا ہے

لگاتا جب ہے وہ ظالم مری رہ میں اڑنگے سے

سنی اُن کی تڑی تو خوف سے دل کانپ کانپ اٹھا

جو دیکھا غور سے اُن کو تو وہ نکلے پتنگے سے

رہے گی دولتِ امن و سکوں سے یہ زمیں خالی

نہ باز آئیں گے امریکی اگر دُنیا میں پنگے سے

نہ کچھ ہم کہہ سکے اس کو کہا جب غیر ملکی نے

یہ لیڈر آپ کے لگتے ہیں ہم کو بھیک منگے سے

یہ نخلستان ہے صحرا میں اِک گنج گراں مایہ

غنیمت ہے بچے ہیں آپ روزانہ کے کنگھے سے

وہ اب ’’ای میل ‘‘پر کرتے ہیں، ہر’’ فی میل ‘‘سے باتیں

جنابِ شیخ صاحب ہو گئے ہیں’’ شوخ شنگے ‘‘ سے

ہوئی زائل طبیعت سے مری ایسے کسل مندی

اٹھایا جب قلم آئے قوافی یاد ’’چنگے ‘‘ سے

ہمارے مولوی بھی ہو گئے ہیں فیشنی مظہرؔ

پہنتے ہیں وہ کپڑے آج کل کافی اٹنگے سے

٭٭٭

 

 

 

 

چلی کبھی نہ سیاست مظاہرے کے بغیر

نہ مولوی کبھی بیٹھے مناظرے کے بغیر

عجیب طور ہیں اس زرپرست دنیا کے

مشاعرے نہیں ہوتے مشاہرے کے بغیر

ضرور اس کو تکلم میں ہے کوئی تکلیف

کہ بیوی بات نہیں کرتی ہائے رے کے بغیر

کٹی ہے داد میں ہی زندگی سخنور کی

اسے تو موت نہ آئے مشاعرے کے بغیر

کہا یہ مجھ سے ہے جمہوریت نے اٹھلا کر

سنے گا کوئی نہ تیری مظاہرے کے بغیر

سکون آئے گا دنیا میں دیکھنا کتنا

اگر یہ بیویاں ساری ہوں نرخرے کے بغیر

٭٭٭

 

 

 

کیا مُلّا نے یوں ایمان پُختہ

کہ سالم کھا گیا ہے ران پختہ

جو اس کے ہجر میں پیلے پڑے ہم

جگر میں ہو گیا یرقان، پختہ

کمر ٹوٹے گی اب تو عاشقوں کی

کہ اس کے گھر کی ہے ڈھلوان پُختہ

کہاں سے آئے وہ سوندھی سی خوشبو

ہوئے ہیں گھر کے سب دالان پختہ

طمانچہ منہ پہ مارا ہے ہمارے

حسینہ نے کیا چالان پختہ

کھلا بھی دے مجھے دمپخت دنبہ

کوئی تو ڈش ہو دلبر جان پختہ

کھلیں اُلفت کے کیسے پھول مظہرؔ

ہیں اِس ظالم کے دل کے لان پختہ

٭٭٭

 

 

اُن کی طلب میں دَشت میں چٹخائیں جوتیاں

بے شک ہمارے کام بہت آئیں جوتیاں

مدہوش اُن کے عشق میں تھے ہم، رقیب نے

مرگی بتا کے غیر سے سنگھوائیں جوتیاں

دنیا کو جس نے رکھا ہے جوتے کی نوک پر

اس نے کبھی کسی سے نہ پھر کھائیں جوتیاں

پھر پا برہنہ چلنا پڑا کوئے یار میں

جب سالیوں نے ہم سے اُتروائیں جوتیاں

تہذیب دیکھئے تو ذرا لیڈروں کی آپ

غصّہ جو آیا زور سے لہرائیں جوتیاں

ہم جوتا خور ہو گئے مشہور شہر میں

کیا کیا نہ تیرے عشق نے کھِلوائیں جوتیاں

٭٭٭

 

 

 

 

یہ بتانے کے لئے ہیں نہیں بیکار کے سینگ

عیدِ قربان پہ بکرا بھی گیا مار کے سینگ

دام بکرے کے بتائے جو بکروال اسے

یوں لگے جیسے کہ سر پر ہوں خریدار کے سینگ

لائے تھے آپ حکومت میں انہیں چاؤ سے

کھائیے مل کے اب آرام سے سرکار کے سینگ

عیدِ قرباں کا نتیجہ ہے یہ بیماری نہیں

دیکھ کر شاخوں کو کہتے ہیں وہ اشجار کے سینگ

کتنے سادہ ہیں جو یہ بات سمجھتے ہی نہیں

تاجِ جمہوری کے اندر ہیں اُس عیار کے سینگ

سب محبت کی فسوں کاری میں چھُپ جاتا ہے

عقد کے بعد نظر آتے ہیں دلدار کے سینگ

مارتا اب ہے ہمیں وہ جو کبھی چپ چپ تھا

ٹی وی کی شکل میں اُگ آئے ہیں اخبار کے سینگ

پارلیمنٹ کی بلڈنگ بھی نہ چھوڑے گی انہیں

گر نکل آئے کہیں واں درو دیوار کے سینگ

ہو نہ جائے کہیں لاچار نہ کر چار کی بات

کیسے کھائے گا لگے تجھ کو اگر چار کے سینگ

بات میٹھی انہیں اپنوں کی بری لگتی ہے

اور نظر آتے نہیں ہیں کبھی اغیار کے سینگ

جانور مل نہ سکا کوئی بھی قربانی کا

کھا کے لوٹے ہیں ابھی بیلِ طرح دار کے سینگ

٭٭٭

 

 

 

 

اقوال ہیں قائدؔ کے فرامین سے آگے

کوّئے ہوئے اقبالؔ کے شاہین سے آگے

قانون تو موجود، عمل اس پہ ہے مفقود

افراد یہاں پر ہیں قوانین سے آگے

عاشق تھا تو بھاگے تھا خواتین کے پیچھے

شادی شدہ ہے بھاگے خواتین سے آگے

بیگم نے کہا دادِ سخن سے نہ بھرے پیٹ

کچھ اور بھی لا، داد سے، تحسین سے، آگے

سوتے ہیں بڑے چین سے کب فکر ہے کوئی

ہے عزم مگر جائیں گے ہم چین سے آگے

گردن کی اکڑ دیکھو تو جاتی ہی نہیں ہے

کنگلے ہیں، مگر چال سلاطین سے آگے

گر طرح کا مصرع ہو تو ہو فکر طرحدار

ہے شاعری کچھ اور بھی تضمین سے آگے

’’ریموٹ ‘‘کی تیزی کا بٹن تیز کریں وہ

بے چین ہیں کیا آئے گا اس سین سے آگے

تیار ہوئے دولہا بھی اب پارلروں میں

اس دوڑ میں کل ہوں گے خواتین سے آگے

چھ میل کی تحریر سے بہتر ہیں یہ دس گز

لکھے کوئی پطرسؔ کے مضامین سے آگے

آسان نہیں طنز و ظرافت کی یہ راہیں

کچھ لوگ نکل جاتے ہیں چرکین ؔسے آگے

شاید کہ اسی طرح پہنچ جائیں وہ پہلے

مظہرؔ بھی ہیں گھوڑے پہ تنے زین سے آگے

 

 

 

 

 

                قطعات

 

 

 

 

حّوا+لات

 

صبح کا ناشتہ اک کڑوی کسیلی چائے

سارا دن ڈانٹ ڈپٹ بیوی سے سنتے جائیں

قید محدود کہیں پر ہے، کہیں لا محدود

گھر کے حالات، حوالات سے ملتے جائیں

 

 

کراچی میں ٹریفک جام

 

جو پہنچے ہم کراچی تو عجب رنگینیاں دیکھیں

بلندی آسماں جیسی زمیں سی پستیاں دیکھیں

بتائیں شہر کے کیا کوچہ و بازار کے منظر

ٹریفک جام اتنا تھا فقط چورنگیاں دیکھیں

 

 ڈسکو انقلاب

(اگست ۲۰۱۴ کے سیاسی پس منظر میں )

 

خواب اک دیکھا تھا جس نے وہ بھی ہے اب شرمسار

اب کسی شاعر کو مظہرؔ کوئی خواب آتا نہیں

کون سمجھائے تمہیں ’’کنٹینروں ‘‘ کے ساکنو !

ناچنے گانے سے ہر گز انقلاب آتا نہیں

 

 

 

کیا کرے کوئی

 

نہ کرے یوں خدا کرے کوئی

اب نہ خود پر جفا کرے کوئی

بیویاں چار کرنا آساں ہے

چار ساسوں کا کیا کرے کوئی

 

 Bill، Bull

 

بجلی نصف ہی دن آتی ہے

بِل پر کُل کا کُل آتا ہے

نرخ بڑھے بجلی کے جب سے

Bill نہیں آتا، Bull آتا ہے

 

 

 

 نذرِ ڈینگی

 

ڈینگیں ساری نذرِ ڈینگی ہو گئیں

کیا بتائیں اُن کے کیا تیور رہے

وصل کی شب واقعی ایسا ہوا

دولہا بھائی مارتے مچھر رہے

 

دعا

 

اک ایم۔ اے پاس، فارغ نوجواں، کل

دعا کرتا تھا یہ افطاری کھا کر

جنہیں تو نے دیئے ہیں تیس روزے

الٰہی اُن کو روزی بھی عطا کر

 

 

 

قربانی کا بکرا

 

بڑھاؤ ٹیکس، مہنگائی کرو بے فکر ہو کر تم

کہ اربابِ سیاست کا سدا سے یہ وتیرہ ہے

کرے کیا عیدِ قرباں پر بھلا قربان وہ مظہرؔ

کہ سرکاری ملازم خود ہی قربانی کا بکرا ہے

 

 قومی پالیسی

 

ہے وطن میرا گرچہ جمہوری

بات اس میں نہیں ہے کچھ ایسی

اک طرح کی ہے اس کی پالیسی

یا تو آمر کی یا پھر امریکی

 

 

 

لوڈ شیڈنگ میں

 

اِسی کو کہتے ہیں یارو ترقیِ معکوس

بجھے ہیں بلب، جلاؤ چراغ آج کی شب

اندھیرا ایسا ہے کچھ بھی سجھائی دیتا نہیں

چرانا ہے تو چراؤ، چراغ آج کی شب

 

نعمت غیر مترقبہ

 

بیوی مجھ پر چیختی ہے تم تو کچھ سنتے نہیں

میں ہوں بہرا یا فقط بیوی کا یہ الزام ہے

ڈاکٹر سن کر یہ بولے کیجئے شکُرِ خدا

آپ پر اللہ کا یہ تو بڑا انعام ہے

 

 

 

 انصاف

 

کتنے کھانے پکتے ہیں روزانہ ان ایوانوں میں

Ten ڈش دعوت ہو جاتی ہے تھر کے ریگستانوں میں

کون یہاں پر کہتا ہے کہ ملک میں کچھ انصاف نہیں

Two ڈش ہو تو دولہا کو بلوا لیتے ہیں تھانوں میں

 

جدید شناسائی

 

آپ کا چہرہ شناسا ہے بہت کیا بات ہے

لگ رہا ہے مجھ کو ہم اِک کمپنی کے’’ برینڈ ‘‘ہیں

دھوتی پھڑکاتے ہوئے بولا یہ مجھ سے خاکروب

خوب پہچانا کہ ہم تو فیس بُک کے’’ فرینڈ‘‘ ہیں

 

 

 

نٹ کھیلیاں

 

لکھی ای۔ میل اک زوجہ نے یوں مصروف شوہر کو

بچھا کے راہ میں آنکھیں پئے دیدار بیٹھی ہوں

یہ انٹر نیٹ نہیں ہے اصل میں یہ ہے مری سوکن

تجھے’’ نٹ کھیلیاں ‘‘ سوجھی ہیں، میں بیزار بیٹھی ہوں

 

شکوۂ اقبالؔ

 

حضرتِ اقبالؔ نے شکوہ کیا یوں عرش سے

نوجوانو! لو تمہیں چھوڑا تمہارے حال پر

میری خواہش تھی کہ تُم ڈالو ستاروں پر کمند

اور ادھر بیٹھے ہو تُم تاروں پہ کُنڈے ڈال کر

 

 

 

برات میں شبِ بارات

 

بہار آئی تھی شادی کے گھر میں یوں مظہرؔ

کوئی تھا پھول تو تھی ادھ کھلی کلی کوئی

برات میں شبِ بارات کا سماں دیکھا

کوئی انار کی صورت تھی، پھلجھڑی کوئی

 

طبعِ ظرافت

 

اقلیمِ سخن طبع ظرافت سے ہو روشن

دھوتے ہیں کثافت کی تہیں قلبِ حزیں سے

اشعار کو رکھتے ہیں شرافت کی حدوں میں

ہم بھانڈ ہیں ہرگز، نہ مراثی ہیں کہیں کے

 

 

 

رشوت

 

بجھتی نہیں اب حرفِ تشکر سے کوئی پیاس

’’ساقی نے بنائی روش لطف و کرم اور‘‘

رشوت میں رعائت کے وہ ہرگز نہیں قائل

کہتے ہیں کہ ہر کام کی ہے بھائی رقم اور

 

در حقیقت

 

حقیقت کی حقیقت کھولنا دشوار ہے کافی

ملمع کاریوں کا آج کل مظہرؔ زمانہ ہے

بوقتِ عقد جو دلہن کو مرسیڈیز پر لایا

سویرے سائکل پر جانبِ دفتر روانہ ہے

 

 

چائے +نوشی

 

چھوڑیے یہ چائے نوشی، ہے بہت نقصان دہ

یہ حقیقت ہے اٹل، آراء کچھ اس پہ دو نہیں

بولے اس پر عاشقِ صادق نہیں ہر گز نہیں

چائے کو تو چھوڑ سکتا ہوں میں، نوشیؔ کو نہیں

 

فتویٰ

 

مظہرؔ قمیص میں تری فُل آستین ہو

ٹخنوں سے نیچے نیچے کا تو پائینچہ سِلا

میں حکمِ طالبان سمجھتا رہا جسے

نکلا وہ فتویٰ حضرتِ مولانا ڈینگی کا

 

 

 

شادی کے بعد

 

بتائیں کیا کہ شادی کی خوشی بس دو گھڑی کی تھی

کہ بعدِ عقد ساری خوش نمائی کا نقاب اترا

وہ دونوں اجنبی اِک بار پھر سے اجنبی ٹھہرے

دلہن کا منہ دھلا، اور دولہا بھائی کا خضاب اترا

 

آٹا۔۔۔۔ ٹا ٹا

 

کہا عاشق سے محبوبہ نے جانم

نہیں درکار تارے آسماں کے

اگر مجھ سے محبت ہے تو پیارے

فقط لا دو کلو آٹا دُکاں سے

 

 

 

ف۔ خر قوم

 

نہ اعتبارِ تعلق نہ پاسِ عز و خلوص

نہیں وہ یار کسی کے فقط روپے کے ہیں

کہا کسی نے کہ بے شک ہمارے یہ لیڈر

ہیں فخرِ قوم مگر سب بغیر ف کے ہیں

 

حیرت ہے ؟

 

ہے طعام و نوش پر قدغن فقط

روزے رکھتے ہیں سبھی اہلِ یقیں

کھا کے رشوت اور چغلی سارا دن

ٹوٹتا ان کا مگر روزہ نہیں

 

 

 

کار بے کار

(نئی ماڈل کی نازک اندام کاروں پر)

 

خاموش طبع رکھتی ہے گو گرمیِ رفتار

یہ’’ برینڈ نیو ‘‘ہے نہیں اس سے ہمیں انکار

پر کھانسنا اور چھینکنا ممنوع ہے مسٹر

لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کار

 

قلم گھسیٹ

(زود گو شاعر کا اقبال جرم)

 

میں آزماؤں زورِ قلم روز اس لئے

پھنس پھنس گیا ہوں صاحبو روزی کے جال میں

یہ عقل کا ہی صرف کرشمہ نہیں کہ اب

’’آتے ہیں پیٹ سے یہ مضامیں خیال میں ‘‘

 

ترکیب استعمال

 

ڈاکٹر صاحب یہ بولے مشورہ سن لیجئے

جب بھی لیں شربت اسے پہلے ہلا کر پیجئے

خان بولے خو چہ گِر جاتی ہے سب ایسے دوا

جب ہلائیں چمچے میں بھر کر دوا، کیا کیجئے ؟

 

جواب

 

سرزنش کر کے ہم نے اس سے کہا

گندہ پانی ہمیں پلاتا ہے ؟

وہ یہ بولا کہ ’’تم بھی جاہل ہو

صاف پانی پہ ڈینگی آتا ہے ‘‘

 

 

 

چپت چپاتی

 

جہاں دو وقت کی روٹی ہو مشکل

وہاں کیا سیب، کیسی ناشپاتی

ہمیں مارا ہے مہنگائی نے ایسے

چپت پڑتے ہیں جب مانگو چپاتی

 

ہیئر اسٹائیل

 

(نوجوانوں میں مقبول جدید بالوں کے اسٹایئل اسپائیک spike پر)

 

پہنچے ہیئر سیلون جو فیشن کے شوق میں

حجام سے کہا کہ دکھا کچھ کمالِ فن

گھر آئے جب تو چیخ کے اماں نے یہ کہا

نوچے ہیں بال کس نے تمہارے یہ جانِ من

 

آستین کا سانپ

 

دامان تر نہ ہو، سو کیا ہے یہ اہتمام

دامن کو چاک کر دیا خوف و ہراس میں

پلنے لگیں نہ سانپ کہیں آستین میں

اس ڈر سے آستین نہیں اب لباس میں

 

عید مبارک

 

عید کا موقع تھا، ہر سو غُل مبارک باد کا

اسقدر تھی بھیڑ ہم گرتے سنبھلتے رہ گئے

کی صفائی جیب کی اتنی صفائی سے کہ ہم

عید مِلتے رہ گئے اور ہاتھ مَلتے رہ گئے

 

 

 

شریفانہ فعل

(پہلے پرویز مشرف اور اب مولانا طاہر القادری کے جہاز کی لینڈنگ بدلنے پر )

 

حیلہ سازوں کے رُخ بدلتے ہیں

سب محاذوں کے رُخ بدلتے ہیں

بدلے آباء نے تو ہواؤں کے رُخ

ہم جہازوں کے رُخ بدلتے ہیں

 

لوڈشیڈنگ

وفاقی وزیرِ بجلی و پانی نے قوم سے بارش کے لئے دعا کی اپیل کی ہے (خبر)

 

کر رہے ہیں یہ وزیرِ پانی و بجلی اپیل

چاہئے معبود کو بھی کچھ سفارش کے لئے

ہم کو مت کہنا بڑھے گر لوڈشیڈنگ مُلک میں

کیوں دعا کرتی نہیں ہے قوم بارش کے لئے

 

الٹ پلٹ

 

ساس اور داماد کا، رشتہ ہے تین اور پانچ کا

حرف گِن لیں آپ تو معلوم یہ ہو جائے گا

ایک خوبی اور ہے دونوں میں یکساں دیکھئے

اُلٹا سیدھا کیجئے اِن پہ نہ کچھ فرق آئے گا

 

ایک مچھر کافی ہے

 

ڈھانپنا پورا جسم لازمی ہے

اِس کی ہرگز نہیں معافی ہے

وعظ کی کیا بھلا ضرورت ہے

ایک مچھر ہی اب تو کافی ہے

 

 

 

روزہ دار

 

قمر ستاروں سے یہ کہہ رہا تھا عید کی شب

ہلال و بدر کئی مجھ پہ رنگ آئے ہیں

نہیں ہے اِن کو غرض آب و تاب سے میری

یہ روزہ دار تو روزوں سے تنگ آئے ہیں

 

سرجن قصاب

 

اب کہاں پہلے کے وہ رسم و رواج

ہو گیا رخصت آداب آداب ہے

پیشگی لی جس نے ہم سے فیس آج

وہ کوئی سرجن نہیں قصاب ہے

 

 

 

اقبال اور واپڈا

 

’’اقبالؔ و واپڈا‘‘ میں یہ کیسا ربط پایا

مظہرؔ کو بیٹھے بیٹھے اِک دن خیال آیا

یہ فلسفہ سمجھنا ہرگز نہیں ہے مشکل

دونوں نے سوئی ملت کو بارہا جگایا

 

نان اسٹاپ

 

ہر سمے محو آہ و زاری ہے

بال بچوں کا بوجھ بھاری ہے

ساٹھ سالوں سے پہلے سٹھیایا

عشق لیکن ہنوز جاری ہے

 

 

 

ساس

 

آمد و رفت میں تعطل پر

کیا کریں ہم جو ہوں نہ جذباتی

سانس آتی ہے، سانس جاتی ہے

ساس آتی ہے پر نہیں جاتی

 

گرین کارڈ

 

مہندی کا ہو کہ شادی کا ہو یا ولیمے کا

کوئی بھی ہم کو لگتا نہیں اب حسین کارڈ

رنگوں میں خوش جمال لگے اب تو ایک رنگ

دل باغ باغ ہو جو وہ دے دیں ’’گرین کارڈ‘‘

 

 

 

 اہلِ سیاہ ست

 

انگوٹھا لگا کر بیلٹ پر لائے انگوٹھا چھاپوں کو

اب ان کی مرضی ایواں میں جیسے وہ نچائیں انگوٹھا

یہ اہلِ سیاہ ست ہیں دیکھو، ہر چال کو تم ان کی سمجھو

حیران نہ ہونا کل مظہرؔ جب تم کو دکھائیں انگوٹھا

 

 

 

ڈبل تضمین

 

(ایک شعر کے دونوں مصرعوں پہ تضمین )

 

لاکھ سمجھایا تمہیں لیکن سمجھتے ہی نہیں

گھِس گئی میری زباں لیکن رہے تم بے خبر

اپنا’’ شُو ‘‘ بیگم نے غصّے سے دِکھا کر یہ کہا

’’مردِ ناداں پر کلامِ نرم و نازک بے اثر‘‘

 

دال میں کنکر، ثمر بے رس، دوائیں بے اثر

شر ہی شر ہے ہر طرف جائے کہاں بندہ بشر

ہر غذا میں ہے ملاوٹ توبہ توبہ اِس قدر

’’چائے کی پتّی سے کٹ سکتا ہے بندے کا جگر ‘‘

 

 

 

 

اظہارِ خیال

 

مصنف کی مختلف کتب پر تبصرے

 

                پروفیسر انور مسعود

 

ڈاکٹری ایک ہمہ وقتی پیشہ ہے۔ شاعری بھی بذاتِ خود ایک ہمہ وقتی مصروفیت ہے۔ نسخہ نویسی کے ساتھ شعر گوئی کا شغل نبھانا بہت دشوار ہے۔ اس کے باوجود ڈاکٹر مظہر نے نظم، غزل اور قطعہ کی ہیئت میں جو کچھ لکھا ہے بہت عمدہ ہے۔ انہوں نے جا بجا اپنے اشعار کو مزاح کا انجکشن بھی لگایا ہے۔ مریضوں کی گفتگو کے حوالے سے انہوں نے اردو میں پنجابی اور پوٹھواری کا دلچسپ پیوند بھی لگایا ہے۔ ان کا مجموعہ طب و شعرو ظرافت کا خوبصورت مرقع ہے۔ میری دعا ہے کہ وہ شاعری کو کماحقہ‘ وقت دے  سکیں اور خوب سے خوب تر کی طرف اپنا سفر جاری رکھیں۔

 

                ڈاکٹر انعام الحق جاوید

 

’’دوا بیچتے ہیں ‘‘، اِس سے بہتر نام اور کیا ہو سکتا تھا، ڈاکٹر سید مظہر عباس رضوی کے ’’ایک ایسے ‘‘ شعری مجموعے کا جو’’ایسے ‘‘ کلام پر مبنی ہے جو’’ایسے ‘‘ ہی نہیں کہا جا سکتا بلکہ’’ویسے ‘‘ بھی نہیں کہا جا سکتا اور ’’ایسے ویسے شاعر سے تو بالکل بھی نہیں کہا جا سکتا، اِس کے لکھنے کے لئے پہلے بندے کا ڈاکٹر ہونا ضروری ہے اور پھر سید۔ ڈاکٹر اِس لئے کے اسے نشتر چلانا آتا ہے اور سید اِس لئے کہ اس کا باطن صاف ہوتا ہے چنانچہ یہ شاعری جہاں مظہر عباس کی باطنی پاکیزگی کی مظہر ہے وہیں ظاہری نشتر زنی کی بھی آئینہ دار ہے۔

مظہر عباس رضوی دبے پاؤں مزاح میں داخل ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے اس کا قد شدومد کے ساتھ سرو آسا ہو گیا۔ اگر اسے طنز کا خاموش مجاہد کہہ لیا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ پہلی کتاب میں اُس نے زیادہ تر اپنے پیشے کے حوالے سے ہی نظمیں کہی تھیں مگر اب تو یہ خود پیشہ ور شاعر نظر آ نے لگا ہے۔

مزاحیہ مشاعرے پڑھنے والے شعراء شُکر کریں کہ ڈاکٹر مظہر عباس کے پاس وقت نہیں ہوتا اور وہ مشاعروں میں جانے سے معذرت کر لیتا ہے۔ ورنہ اچھے اچھے شعراء کے چھکے چھوٹ جاتے اور اس وقت مظہر عباس نہ صرف مشاعرے لوٹ رہا ہوتا بلکہ مشاعرہ گاہوں میں دندناتا پھر رہا ہوتا۔

 

                ضیاء الحق قاسمی

 

ابن انشاء نے کہا تھا’’ ہم عہدِیوسفی میں زندہ ہیں ‘‘ یہ واقعی عہدِ یوسفی ہے اور طنز و مزاح کا عہدِ زریں بھی، اس دور میں مزاح لکھنے والوں کی تعداد کئی صدیوں پر بھاری ہے۔ نئے نئے لکھنے والے اپنی شگفتہ تحریروں سے قارئین کو چونکا رہے ہیں۔ ڈاکٹر مظہر عباس کا شمار بھی اچھے مزاح نگاروں میں ہونے لگا ہے۔ اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ

 

                ڈاکٹر ایس۔ ایم۔ معین قریشی

 

اردو میں شاعر ڈاکٹروں یا ڈاکٹر شاعروں کی ایک طویل فہرست ہے۔ جس کی کم از کم مجھے

؎ نہ ابتدا کی خبر ہے نہ انتہا معلوم۔

البتہ میرے علم کے مطابق پہلے مزاح گو ڈاکٹر، کراچی کے مرحوم انعام احسن حریف تھے جو ۱۹۶۰ کے عشرے میں پاکستان میں ہونے والے مشاعروں کی ایک ناگزیر ضرورت تھے۔ گزشتہ دنوں اسلام آباد کے ماہرِ امراضِ اطفال ڈاکٹر مظہر عباس کی کتاب’’ہنسپتالی شاعری‘‘ پڑھی تو بغل میں بیاض دبائے اور گلے میں اسٹیتھواسکوپ سجائے کئی ڈاکٹر شاعروں کی ایک کہکشاں ذہن میں جگمگانے لگی۔ یہ مظہر عباس کی چوتھی کتاب ہے جس میں انہوں نے علاج معالجے کے ہر شعبے پہ ظریفانہ نظر ڈالی ہے اور اسے طنز و تمسخر کا نشانہ بنایا ہے۔ یہ بڑے دل گردے کی بات ہے۔ ڈاکٹر مظہر عباس کی اعلیٰ ظرفی ہے کہ انہوں نے اپنی کتاب کو مریضوں کے نقطۂ نظر سے ڈاکٹروں کے خلاف منظوم استغاثہ بنا دیا ہے۔

 

                شاہد بخاری

 

ڈاکٹر سید مظہر عباس کی سماجی بصیرت نے ان کے فن کو جلا بخشی ہے۔ وہ اپنے آس پاس کی اشیاء و معاملات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ ہر موقع و محل کے لئے ان کا ایک خاص نظریہ ہوتا ہے جس کا اظہار وہ اپنی شاعری میں کر دیتے ہیں وہ ایسے کسی موضوع کو ہاتھ سے نہیں جانے دیتے جس میں مزاح کی گنجائش ہو۔ ہم لاہور والے میٹرو بس کو بھگت چکے ہیں۔ اسلام آباد میں ابھی اس کے کام کا آغاز ہے۔

ڈاکٹر مظہر نے کمالِ ہنر مندی اور مہارت سے میٹرو بس کے مسائل کی جس طرح مرقع کشی کی ہے۔ وہ اُن کا ہی حصہ ہے۔ جیسا دھیما پن اُن کے مزاج میں ہے ویسا ہی دھیما پن ان کی شاعری میں بھی ہے۔ سماجی موضوعات پر مزاحیہ تخلیقات اگرچہ بہت آسان لگتی ہیں مگر ان کو نظم کرنا کارِ دشوار ہے جسے بڑی سہولت سے ڈاکٹر رضوی سرانجام دے رہے ہیں۔ انہوں نے  مزاح کے حوالے سے کیا عمدہ شعر کہا ہے۔

اس حبس زدہ جسم میں یہ روح نہ رہتی

مظہرؔ جو ظرافت کے ہوادان نہ ہوتے

 

                ڈاکٹر عمران ظفر

 

ڈاکٹر سیدمظہر عباس رضوی گزشتہ تقریباًبیس سالوں سے مزاحیہ شاعری کر ہے ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ ان کی شاعری کا کینوس وسیع تر ہوتا چلا گیا ہے اور اب اس میں اتنے رنگ پائے جاتے ہیں جتنے کہ زندگی کے رنگ۔ ان کی شاعری میں ایک حساس انسان بھی موجود ہے اور شگفتہ مزاج شخص بھی، وہ انسانی حماقتوں پر خندہ زن بھی ہیں اور معاشرے کی بے ضابطگیوں پر نوحہ کناں بھی۔ ادب، سائنس، مذہبی تہوار، فیس بک، انٹر نیٹ، حالاتِ حاضرہ، سیاست، الیکشن، سماجی مسائل، ازدواجی زندگی غرض ہر پہلو اُن کے قلم کی زد میں آیا ہے۔ ان کا تصور شعر بڑا واضح ہے

مظہرؔ یہی تو شعر و سخن کی کلید ہے

اشعار ہوں مزاحیہ لیکن اثر کے ساتھ

 

                اسلام نشتر

 

ہم اگر ڈاکٹر مظہر عباس رضوی کی مزاحیہ سائنسی شاعری دیکھیں تو اردو کے جدید ترین زبان ہونے میں کوئی شک نہیں رہتا میڈیکل کی اصطلاحات کو تضمین، رعایت لفظی اور دیگر شعری محاسن کے علاوہ اکابر کے مصرعوں میں بھی نہ صرف سمونا بلکہ نئے قافیے ردیفیں ایجاد کرنا فاضل شاعر کی ہر دو علمی میدانوں میں دستگاہ کا پتا دیتا ہے۔ ان کی اس شاعری سے نہ صرف مزاح کا میدان وسیع ہوا ہے بلکہ میڈیکل کے شعبے کو اپنی زبان میں عام آدمی بھی نہایت دلچسپی سے جان سکتا ہے۔ ہنسپتالی شاعری میں مزاح پیدا کرنے کے لئے شاعر نے اردو اور انگریزی کے مابین لسانی پُل تعمیر کرنے کی بھی کوشش کی ہے۔ جسے اردو کی آئندہ وسعت کے لئے مثبت طور پہ بہ آسانی استعمال کیا جا سکتا ہے۔

 

                پروفیسر آفاق صدیقی

 

یہ شعری مجموعہ ایک مسیحا نفس ڈاکٹر کا ہے جو عالمِ شباب میں شعرو شاعری کے ایسے دلدادہ ہوئے کہ اس کتاب سے پہلے ایک شعری تصنیف ’’ہوئے ڈاکٹری میں رسوا‘‘ منظر عام پر لائے اور موضوع سخن شعبۂ طب کو بنایا۔ جو شگفتہ بیانی، بذلہ سنجی اور معاملہ فہمی ڈاکٹر مظہر عباس کی طنزیہ و مزاحیہ شاعری میں ہے وہی ان کی نثری تحریر میں بھی نمایاں ہے۔ موضوعاتی تنوع کے ساتھ ساتھ فنی رموز و نکات کے لحاظ سے بھی یہ شعری مجموعہ ادبی حلقوں میں مقبول ہونے کے محاسن رکھتا ہے

 

                پروفیسر حسن سجاد

 

مظہر عباس کی شاعری میں اگرچہ بعض سیاسی اور سماجی مسائل کی طرف بھی اشارے ملتے ہیں۔ لیکن زیادہ تر ان کا موضوع سخن ہسپتال اور اس کے متعلقات ہی ہیں۔ اردو کے مزاحیہ ادب کے اعتبار سے یہ ایک نئی چیز ہے۔ مظہر عباس نے اس محدود دائرے میں رہ کر بھی جس شگفتگی اور بے ساختگی کے ساتھ اپنے پیشے کے مضحک پہلوؤں کو ابھارا ہے وہ ان کی جودتِ طبع کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

 

                ڈاکٹر طاہر مسعود

 

طنز و مزاح لکھنا مشکل ترین کام ہے اس کے لئے طبیعت کی موزونیت اور اک ذرا سی ترچھی نگاہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ ڈاکٹر مظہر عباس میں یہ دونوں صلاحیتیں بہ درجہ اتم پائی جاتی ہیں۔ اس کتاب کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ ڈاکٹر مظہر عباس میں شعر گوئی اور بالخصوص طنز و مزاح کے  حوالے سے بہت سی امیدیں وابستہ کی جا سکتی ہیں

 

                 محمد یعقوب آسی

 

خالص مزاحیہ شاعری میں ڈاکٹر مظہر عباس ایک خوبصورت اضافہ ہیں۔ ۱۹۹۹ سے اب تک ان کی متعدد کتابیں آ چکی ہیں، جن میں ہوئے ڈاکٹری میں رسوا، دوا بیچتے ہیں، گڑبڑ گھٹالہ شامل ہیں’’۔ نعمتیں کیا کیا ‘‘نیشنل بُک فاؤنڈیشن سے انعام یافتہ ہے۔ تازہ ترین کتاب ہنسپتالی شاعری شائقین ادب و طنز و مزاح کے لئے ایک خوبصورت تحفہ ہے۔ فی زمانہ نفسیات سے گریز اور لسانی عروض و پابندیوں سے فرار کا جو رویہ نکل چلا ہے اس کے ہوتے ہوئے ڈاکٹر مظہر رضوی نے پابندِ بحور رہتے ہوئے اپنا مافی الضمیر بیان کیا ہے، اور بہ حسن و خوبی اس ذمہ داری سے عہدہ برا ہوئے ہیں۔ دعا ہے کہ وہ اسی طرح لکھتے رہیں اور معاشرے کو گدگداتے رہیں۔

 

                افشاں عباسی

 

مظہر عباس صاحب کو اگر درویش شاعر کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا انہوں نے اپنی شاعری کو دکان داری نہیں بنایا نہ ہی تعریف و توصیف کے تعاقب میں رہے بلکہ یہ کہنا بے جانا نہ ہو گا کہ انہوں نے اپنی شاعری کو چاردیواری میں رکھا حالانکہ ان کے اشعار پڑھ کر جب ہم دیگر نامور مزاح نگار شعرا کے کلام سے ان کا موازنہ کریں تو شعری اور موضوعاتی اعتبار سے ڈاکٹر مظہر عباس کا کلام کئی  قدم آگے ہے۔

ڈاکٹر مظہر عباس کو زبان پر دسترس ہے اور انہیں بات کہنے کا سلیقہ ہے اور یہ سلیقہ ان کے اشعار میں نمایاں ہے ان کی شاعری ہر لحاظ سے منفرد مزاحیہ شاعری ہے جو پڑھنے والے کے لبوں پر مسکراہٹ بکھیرنے کے ساتھ ساتھ اسے بہت کچھ سوچنے پر بھی مجبور کرتی ہے۔

 

                نسیم انجم

 

ڈاکٹر مظہر عباس کا شمار ان طبیب شعراء میں ہوتا ہے جو پیشے اور قلم کی بدولت انسانیت کی خدمت کر رہے ہیں اور مریضوں اور ادب شناس حلقوں کو ہر طرح سے خوش رکھنے میں مصروف ہیں

 

                 ڈاکٹر اختر ہاشمی

 

معیاری طنزیہ اور مزاحیہ ادب تخلیق کرنا آسان کام نہیں بلکہ کارِ مشکل اور دشوار ہے۔ ڈاکٹر مظہر عباس کی شگفتہ مزاجی کی طرح ان کی شاعری میں بھی پھکڑ پن ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتا بلکہ ان کی شاعری غمزدہ چہروں پر مسکراہٹ بکھیرنے کا مجرب عمل اور زود اثر نسخۂ علاج ہے۔

 

                ڈاکٹر شیر شاہ سید

 

طب کے شعبہ سے وابستہ افراد جب کسی دوسرے شعبے میں طبع آزمائی کرتے ہیں تو وہ اس میں بھی خوب رنگ جماتے ہیں۔ ڈاکٹر مظہر عباس نے بھی مزاحیہ شاعری میں خوب رنگ جمایا ہے۔ مزاح لکھنا آسان نہیں۔ لیکن اس مشکل کام کو ڈاکٹر مظہر نے اپنی جودت طبع کی بدولت بہت آسان بنا دیا ہے۔ ان کی شاعری بے ساختہ ہے اور وہ سادہ طریقے سے سیدھی سادی باتیں کرنے کے عادی ہیں۔ ڈاکٹر، ہسپتال اور مریضوں سے متعلق تقریباً ہر موضوع پر انہوں نے لکھا ہے اور مزاح کے ایسے ایسے پہلو سامنے لائے ہیں جن سے عام طور پر درگزر کیا جاتا ہے۔

ڈاکٹر مظہر کا مطالعہ وسیع ہے اور مختلف شعراء کے رنگ میں انہوں نے اَن کہی باتوں کو خوب کہا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے ایک پوری کتاب’’ہنسپتالی شاعری‘‘ کے عنوان سے لکھی ہے جس میں ہسپتال اور طب کے ہر پیشے کو تختہ مشق بنایا ہے اور اس طرح سے بنایا ہے کہ پڑھنے والا مسکرائے بغیر نہیں رہ سکتا ہے۔ انہوں نے مزاحیہ شاعری کے ذریعے مسائل میں گھرے عوام کو جینے کا حوصلہ دیا اور اپنے زورِ قلم کے ذریعے عوامی مسائل کو جس طرح طنز و مزاح کے  پیرائے میں بیان کیا ہے وہ ان ہی کا خاصہ ہے۔

 

                انجم خلیق

 

گڑبڑ گھٹالہ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے، مزاحیہ شاعری اس کتاب کا موضوع ہے اورسنجیدگی سے کہنا پڑ رہ ہے کہ اس کے شاعر ڈاکٹر مظہر عباس نے واقعی مزاحیہ شاعری کا حق ادا کر دیا ہے۔ اور پہلی دفعہ نہیں، گڑبڑ گھٹالہ ان کا تیسرا شعری مجموعہ ہے۔ گڑبڑ گھٹالہ میں ڈاکٹر صاحب نے مطب کی دنیا سے باہر نکل کر دیکھا ہے اور کڑوی کسیلی گولیوں اور ٹنکچر آئیوڈین کی بُو سے ادھر کی دنیا کی ذرا مختلف قسم کی کڑواہٹ اور اعصاب شکن بو کے ماحول پر اپنے ہنستے مسکراتے بلکہ کھلکھلاتے گدگداتے شعروں کی میٹھی اور مہکتی ایسی پچکاریاں چھوڑی ہیں جنہوں نے ماحول کو خوشگوار بنا دیا ہے

 

                شہاب ظفر

 

ایک ایسے مُلک میں جہاں ہر چوتھا آدمی بزعمِ خود شاعر ہو، مزاحیہ شاعری کو سہل سمجھ لیا گیا ہے۔ فکاہیہ شاعری کی بات کریں تو آج چند اساتذانِ فن کے علاوہ زیادہ تر شعراء اپنی طرزِ ادائیگی، ترنم اور اپنی حرکات و سکنات کے پردے میں اپنے کلام کی تکنیکی خامیوں کو پنہاں رکھنے کے لئے کوشاں نظر آتے ہیں، ڈاکٹر مظہر عبّاس رضوی کے ہاں یہ کوشش نظر آتی ہے کہ کلام ہر طرح کے ابہام اور فنّی موشگافیوں سے مُبّرا ہو اور فن اور عروض کے اعلیٰ پیمانوں پر پورا اترتا ہو۔

میں ایک عرصے سے ڈاکٹر مظہر عباس کی زود نویسی کی صلاحیت کا نہ صرف یہ کہ معترف ہوں بلکہ اُن کو رشک کی نگا ہوں سے بھی دیکھتا ہوں۔ یہ بھی قدرت کی عطا فرمودہ ایسی صلاحیت ہے، جو یقینی طور پر ہر ایک کو میسر نہیں۔ زیرِ نظر کتاب مجموعی طور پر ان کا آٹھواں مجموعۂ کلام ہے۔

مجھے بعض دفعہ یہ شبہ ہونے لگتا ہے کہ ڈاکٹر مظہر شاعری میں سوچتے، شاعری میں بولتے اور شاعری میں سوتے جاگتے ہیں۔ کچھ عجب نہیں کہ اپنے مریضوں کو نسخہ لکھتے وقت بھی وہ ردیف و قوافی کی حدود و قیود کا لحاظ رکھتے ہوں !!! چونکہ ڈاکٹر مظہر عباس اسکول کے زمانے میں میرے ہم جماعت بھی رہے ہیں اور اس کے بعد بھی ہمارے رابطے استوار رہے، اس لحاظ سے میں خود کو اُن کی شاعری کے ارتقا کا عینی شاہد بھی سمجھتا ہوں۔

اُن کے ہاں الفاظ کا چناؤ کسی حد تک ثقیل کے زُمرے میں آتا ہے، اور کئی دفعہ ان سے اس بات کا برملا اظہار بھی کر چکا ہوں، اور جس سے ڈاکٹر صاحب نے ہمیشہ اختلاف ہی کیا ہے، مگر میں ان کی مزاحیہ شاعری کے اس’’ عیب ‘‘کو ان کی اردو ادب سے قریبی وابستگی، الفاظ اور تراکیب کے درست استعمال اور زبان و بیان پر کماحقہ عبور پر محمول کرتا ہوں۔ میں ڈاکٹر صاحب کی اُن غزلوں اور نظموں کا بے چینی سے منتظر ہوں جو انہوں نے ابھی نہیں لکھی ہیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

 اختتامیہ

 

ڈاکٹری کی مصروفیت میں شاعری کی مشغولیت اکثر لوگوں کو غیر معقولیت پر مبنی دکھائی دیتی ہے۔ لیکن کیا کیجئے کہ ہمارا پہلا عشق شاعری تھا اور نکاح میں ڈاکٹری بیگم ملیں۔ ہرچند کہ اس رشتہ زوجیت میں آنے کے بعد معشوق سے لاتعلقی کا اظہار انتہائی ضروری تھا جو ہم نے کیا، اور فرسٹ پروفیشنل سے پہلے ادبی میدان کو چھوڑ کر میڈیکل کے ہو رہے۔ مگر سسرائیلی حملوں نے معشوق کی محبت پھر سے جگا دی۔ پہلے تو شاعری منکوحہ کے گرد گھومتی رہی جس کے تعلق سے’’ ہوئے ڈاکٹری میں رسوا ‘‘،’’دوا بیچتے ہیں ‘‘ اور’’ہنسپتالی شاعری ‘‘نے جنم لیا مگر پھر طبیعت نے دوسری شادی کی طرف یوں مائل کیا کہ غیر ڈاکٹرانہ ظریفانہ شاعری سے فرزند’’ گڑبڑ گھٹالہ ‘‘کے بعد اب دختر’’ سخن ظریفی ‘‘ متولد ہو چکی ہیں۔

پہلی بیوی گاہے بگاہے چٹکیاں لیتی رہتی ہے اور کبھی کبھار ڈاکٹری کے شعبہ پہ اب بھی لکھ لیتا ہوں مگر اب دوسری بیوی نے رنگ دکھانے شروع کر دیئے ہیں اب جب کہ آپ میری کتاب پڑھ چکے ہیں میں صرف آپ کا شکریہ ادا کر سکتا ہوں۔ بقول پطرسؔ اگر آپ نے یہ کتاب خرید کر پڑھی ہے تو مجھے آپ سے دلی ہمدردی ہے ۔

 

ڈاکٹر مظہر عباس رضوی

ماہرِ امراضِ اطفال قومی ادار برائے معذوراں اسلام آباد

مکان نمبر 178 اسٹریٹ33 سیکٹر I-8/2 اسلام آباد

موبائیل :03005218485

ای۔ میل :drmazhar_poet@yahoo.com

ویب سائیٹ:drmazharabbas.wordpress.com

٭٭٭

تشکر: شاعر  جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی،  تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید