FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

 

ستارہ نظر

 

 

افضال احمد سید

جمع و ترتیب: سید تصنیف حیدر، اعجاز عبید، محمد عظیم الدین

غزلیں

 

 

ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

 

 

 

بہت نہ حوصلۂ عز و جاہ مجھ سے ہوا

فقط فراز نگین و نگاہ مجھ سے ہوا

 

چراغ شب نے مجھے اپنے خواب میں دیکھا

ستارۂ سحری خوش نگاہ مجھ سے ہوا

 

گرفت کوزہ سے اک خاک میری سمت بڑھی

صف سراب کوئی سد راہ مجھ سے ہوا

 

شب فسانہ و فرسنگ اس سے مل آیا

جو ماورائے سفید و سیاہ مجھ سے ہوا

 

سر گریز و گماں اس نے امتحان لیا

جو ہمکنار مرا کم نگاہ مجھ سے ہوا

 

کمان خانۂ افلاک کے مقابل بھی

میں اس سے اور وہ پھر کج کلاہ مجھ سے ہوا

 

جو سیل ہجرت گل تھا مرے قدم سے رکا

کمند لمحۂ صد اشتباہ مجھ سے ہوا

 

نیام زد نہ ہوئی مجھ سے تیغ حیرانی

شکست آئنۂ انتباہ مجھ سے ہوا

٭٭٭

 

 

 

 

دعا کی راکھ پہ مرمر کا عطر داں اس کا

گزیدگی کے لیے دست مہرباں اس کا

 

گہن کے روز وہ داغی ہوئی جبیں اس کی

شب شکست دہی جسم بے اماں اس کا

 

کمند غیر میں سب اسپ و گوسفند اس کے

نشیب خاک میں خفتہ ستارہ داں اس کا

 

تنورِ یخ میں ٹھٹھرتے ہیں خواب و خوں اس کے

لکھا ہے نام سر لوح رفتگاں اس کا

 

چنی ہوئی ہیں تہہ خشت انگلیاں اس کی

کھلا ہوا ہے پس ریگ بادباں اس کا

 

وہ اک چراغ ہے دیوار خستگی پہ رکا

ہوا ہو تیز تو ہر حال میں زیاں اس کا

 

اسی سے دھوپ ہے انبار دھند میں روپوش

گرفت خواب سے برسر ہے کارواں اس کا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

روشن وہ دل پہ میرے دل زار سے ہوا

اک معرکہ جو حیرت و زنگار سے ہوا

 

جب نخل آرزو پہ خزاں ابتلا ہوئی

میں دست زد ثوابت و سیار سے ہوا

 

اک شمع سرد تھی جو مجھے وا گداز تھی

اور اک شرف کہ خانۂ مسمار سے ہوا

 

بیعت تھی میرے دست بریدہ سے خشت و خاک

اس پہ سبک میں صاحب دیوار سے ہوا

 

پیوست تھے زمین سے افعی شجر سے تیر

جوں ہی جدا میں شام عزا دار سے ہوا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

ستم کی تیغ پہ یہ دست بے نیام رکھا

گل شکست سر شاخ انتقام رکھا

 

میں دل کو اس کی تغافل سرا سے لے آیا

اور اپنے خانۂ وحشت میں زیر دام آیا

 

نگار خانۂ تسلیم کیا بیاباں تھا

جہاں پہ سیل خرابی کو میں نے تھام رکھا

 

مژہ پہ خشک کیے اشک نامراد اس نے

پھر آئنے میں مرا عکس لالہ فام رکھا

 

اسی فسانۂ وحشت میں آخر شب کو

میں تیغ تیز رکھی اس نے نیم جام رکھا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

سحاب سبز نہ طاؤس نیلمیں لایا

وہ شخص لوٹ کے اک اور سرزمیں لایا

 

عطا اسی کی ہے یہ شہد و شور کی توفیق

وہی گلیم میں یہ نان بے جویں لایا

 

اسی کی چاپ ہے اکھڑے ہوئے کھڑنجے پر

وہ خشت و خواب کو بیرون ازمگیں لایا

 

وہ پیش برش شمشیر بھی گواہی میں

کف بلند میں اک شاخ یاسمیں لایا

 

کتاب خاک پڑھی زلزلے کی رات اس نے

شگفت گل کے زمانے میں وہ یقیں لایا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

گرا تو گر کے سر خاک ابتذال آیا

میں تیغ تیز تھا لیکن مجھے زوال آیا

 

عجب ہوا کہ ستارہ شناس سے مل کر

شکست انجم نوخیز کا خیال آیا

 

میں خاک سرد پہ سویا تو میرے پہلو میں

پھر ایک خواب شکست آئنہ مثال آیا

 

کمان شاخ سے گل کس ہدف کو جاتے ہیں

نشیب خاک میں جا کر مجھے خیال آیا

 

کوئی نہیں تھا مگر ساحل تمنا پر

ہوائے شام میں جب رنگ اندمال آیا

 

یہی ہے وصل دل کم معاملہ کے لیے

کہ آئنے میں وہ خورشید خد و خال آیا

٭٭٭

 

 

 

 

کبھی نہ خود کو بد اندیش دشت و در رکھا

اتر کے چاہ میں پاتال کا سفر رکھا

 

یہی بہت تھے مجھے نان و آب و شمع و گل

سفر نژاد تھا اسباب مختصر رکھا

 

ہوائے شام دلآزار کو اسیر کیا

اور اس کو دشت میں پن چکیوں کے گھر رکھا

 

وہ ایک ریگ گزیدہ سی نہر چلنے لگی

جو میں نے چوم کے پیکاں کمان پر رکھا

 

وہ آئی اور وہیں طاقچوں میں پھول رکھے

جو میں نے نذر کے پتھر پہ جانور رکھا

 

جبیں کے زخم پہ مشقال خاک رکھی اور

اک الوداع کا شگوں اس کے ہاتھ پر رکھا

 

گرفت تیز رکھی رخش عمر پر میں نے

بجائے جنبش مہمیز نیشتر رکھا

٭٭٭

 

 

 

 

کچھ اور رنگ میں ترتیب خشک و تر کرتا

زمیں بچھا کے ہوا اوڑھ کے بسر کرتا

 

گل و شگفت کو آپس میں دسترس دیتا

اور آئنے کے لیے آئنہ سپر کرتا

 

چراغ کہنہ ہٹاتا فصیل مردہ سے

گیاہ خام پہ شبنم دبیز تر کرتا

 

وہ نیم نان خنک آب اور سگ ہم نام

میں زیر سبز شجر اپنا مستقر کرتا

 

وہ جس سے شہر کی دیوار بے نوشتہ ہے

میں اس کی شاخ تہیہ کو بے ثمر کرتا

 

میں چومتا ہوا اک عہد نامۂ منسوخ

کسی قدیم سمندر میں رہ گزر کرتا

٭٭٭

 

 

 

کوئی نہ حرف نوید و خبر کہا اس نے

وہی فسانۂ آشفتہ تر کہا اس نے

 

شراکت خس و شعلہ ہے کاروبار جنوں

زیاں کدے میں کس انجام پر کہا اس نے

 

اسے بھی ناز غلط کردۂ تغافل تھا

کہ خواب و خیمہ فروشی کو گھر کہا اس نے

 

تمام لوگ جسے آسمان کہتے ہیں

اگر کہا تو اسے بال و پر کہا اس نے

 

اسے عجب تھا غرور شگفت رخساری

بہار گل کو بہت بے ہنر کہا اس نے

 

یہ گل ہیں اور یہ ستارے ہیں اور یہ میں ہوں

بس ایک دن مجھے تعلیم کر کہا اس نے

 

مری مثال تھی سفاکی تمنا میں

سپردگی میں مجھے قتل کر کہا اس نے

 

میں آفتاب قیامت تھا سو طلوع ہوا

ہزار مطلع ناساز تر کہا اس نے

٭٭٭

 

 

 

 

ہوا ہے قطع مرا دست معجزہ تجھ پہ

گیاہ زرد بہت ہے یہ سانحہ تجھ پہ

 

میں چاہتا ہوں مجھے مشعلوں کے ساتھ جلا

کشادہ تر ہے اگر خیمۂ ہوا تجھ پہ

 

میں اپنے کشتہ چراغوں کا پل بنا دیتا

کسی بھی شام مری نہر پیش پا تجھ پہ

 

یہ کوئی کم ہے کہ اے ریگ شیشۂ ساعت

اگا رہا ہوں میں اک نخل آئنہ تجھ پہ

 

کہ اجنبی ہوں بہت ساے ۂ شجر کے لیے

سو ریگ زرد میں ہوتا ہوں رونما تجھ پہ

 

پکارتی ہے مجھے خاک خشت پیوستہ

یہ نصب ہونے کا ہے ختم سلسلہ تجھ پہ

٭٭٭

 

 

 

 

یہ نہر آب بھی اس کی ہے ملک شام اس کا

جو حشر مجھ پہ بپا ہے وہ اہتمام اس کا

 

سپاہ تازہ بھی اس کی صف نگاہ سے ہے

صفائے سینۂ شمشیر پر ہے نام اس کا

 

امان خیمۂ رم خوردگاں میں باقی ہے

کہ ناتمام ہے اک شوق قتل عام اس کا

 

کتاب عمر سے سب حرف اڑ گئے میرے

کہ مجھ اسیر کو ہونا ہے ہم کلام اس کا

 

دل شکستہ کو لانا ہے رو بہ رو اس کے

جو مجھ سے نرم ہوا کوئی بند دام اس کا

 

میں اس کے ہاتھ سے کس زخم میں کمی رکھوں

شروع ناز بھی اس کا ہے اختتام اس کا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

جہانِ گم شدگاں کے سفر پہ راضی ہوں

میں تیرے فیصلۂ معتبر پہ راضی ہوں

 

ابھی مرا کوئی پیکر نہ کوئی میری نمود

میں خاک ہوں، ہنرِ کوزہ گر پہ راضی ہوں

 

یہی خیال مجھے جگمگائے رکھتا ہے

کہ میں رضائے ستارہ نظر پہ راضی ہوں

 

عجیب لوگ تھے مجھ کو جلا کے چھوڑ گئے

عجب دِیا ہوں، طلوعِ سحر پہ راضی ہوں

٭٭٭

http: //www.adbiduniya.com/2015/09/afzal-syed-ka-sheri-intikhaab.html

http: //asmani.pk/poet/65

اور دوسری ویب سائٹس

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

 

ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل