FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

اگر ہم گیت نہ گاتے

 

نظمیں

 

افضال احمد سید

جمع و ترتیب: سید تصنیف حیدر، اعجاز عبید، محمد عظیم الدین

نوٹ: اس میں وہ نظمیں شامل نہیں ہیں جو آگ خریدار ہے نامی برقی مجموعے میں شائع کی جا چکی ہیں۔

 

ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

 

 

 

 

جواہرات کی نمائش میں شاعر

 

 

جواہرات کی نمائش کھلے آسمان کے نیچے نہیں ہوتی

شہر کی سب سے خوب صورت لڑکی وہاں نہیں آئے گی

(وہ پھولوں کی نمائش میں گئی ہے)

لوگ ان قیمتی پتھروں اور نمائش کرنے والی لڑکیوں کو دیکھنے آئے ہیں

جنھیں شاہ زادی قط لگا ہے

ایک بڑے زمرد کو تین کم سِن لڑکیاں

(جنھیں شہر کے راستوں کا پتا نہیں)

ماہرانہ انداز سے دیکھ رہی ہیں

جو اورئنٹل روبی مجھے پسند آیا ہے

(تصور میں اسے بغیر آستینوں کے سیاہ لباس والی لڑکی کو پیش کرنے والا ہوں)

اس سے متصل ایک چھوٹی سی

”فروخت ہو چکا ہے” کی تختی پڑی ہے

’’پانچ قیراط کے پتھر کو اٹھارہ پہلوؤں میں تراشنا

اوپن ہارٹ سرجری سے زیادہ نازک ہے‘‘

ایک شخص غیر ضروری طور پر مجھے بتاتا ہوا گزر جاتا ہے

سب سے ادنیٰ موتی کے عوض

میں حساب لگاتا ہوں

آٹھ سو بتیس اعشاریہ تین تین روٹیاں مل سکتی ہیں

نمائش کے وسط میں

ایک فروش کار لڑکی کی مسکراہٹ مجھے روک لیتی ہے

’’ایک ڈائمنڈ ہمیشہ کے لیے ہے‘‘

اس نے دُہرایا

جیسے میری شاعری مٹ جانے والی چیز تھی

٭٭٭

 

 

 

 

آخری دلیل

 

تمہاری محبت

اب پہلے سے زیادہ انصاف چاہتی ہے

صبح بارش ہو رہی تھی

جو تمہیں اداس کر دیتی ہے

اس منظر کو لازوال بننے کا حق تھا

اس کھڑکی کو سبزے کی طرف کھولتے ہوئے

تمہیں ایک محاصرے میں آئے دل کی یاد نہیں آئی

ایک گم نام پل پر

تم نے اپنے آپ سے مضبوط لہجے میں کہا

مجھے اکیلے رہنا ہے

محبت کو تم نے

حیرت زدہ کر دینے والی خوش قسمتی نہیں سمجھا

میری قسمت جہاز رانی کے کارخانے میں نہیں بنی

پھر بھی میں نے سمندر کے فاصلے طے کیے

پر اسرار طور پر خود کو زندہ رکھا

اور بے رحمی سے شاعری کی

میرے پاس محبت کرنے والے کی

تمام خامیاں

اور آخری دلیل ہے

٭٭٭

 

 

 

 

اگر انہیں معلوم ہو جائے

 

 

وہ زندگی کو ڈراتے ہیں

موت کو رشوت دیتے ہیں

اور اس کی آنکھ پر پٹی باندھ دیتے ہیں

وہ ہمیں تحفے میں خنجر بھیجتے ہیں

اور امید رکھتے ہیں

ہم خود کو ہلاک کر لیں گے

وہ چڑیا گھر میں

شیر کے پنجرے کی جالی کو کمزور رکھتے ہیں

اور جب ہم وہاں سیر کرنے جاتے ہیں

اس دن وہ شیر کا راتب بند کر دیتے ہیں

جب چاند ٹوٹا پھوٹا نہیں ہوتا

وہ ہمیں ایک جزیرے کی سیر کو بلاتے ہیں

جہاں نہ مارے جانے کی ضمانت کا کاغذ

وہ کشتی میں ادھر ادھر کر دیتے ہیں

اگر انہیں معلوم ہو جائے

وہ اچھے قاتل نہیں

تو وہ کانپنے لگیں

اور ان کی نوکریاں چھن جائیں

وہ ہمارے مارے جانے کا خواب دیکھتے ہیں

اور تعبیر کی کتابوں کو جلا دیتے ہیں

وہ ہمارے نام کی قبر کھودتے ہیں

اور اس میں لوٹ کا مال چھپا دیتے ہیں

اگر انہیں معلوم بھی ہو جائے

کہ ہمیں کیسے مارا جا سکتا ہے

پھر بھی وہ ہمیں نہیں مارسکتے

٭٭٭

 

 

اگر تم تک میری آواز نہیں پہنچ رہی ہے

 

 

اگر تم تک میری آواز نہیں پہنچ رہی ہے

اس میں ایک بازگشت شامل کر لو

پرانی داستانوں کی بازگشت

 

اور اس میں

ایک شاہزادی

اور شاہزادی میں اپنی خوبصورتی

 

اور اپنی خوبصورتی میں

ایک چاہنے والے کا دل

 

اور چاہنے والے کے دل میں

ایک خنجر

٭٭٭

 

 

 

 

 

اگر ہم گیت نہ گاتے

 

 

ہمیں معنی معلوم ہیں

اس زندگی کے

جو ہم گزار رہے ہیں

 

ان پتھروں کا وزن معلوم ہے

جو ہماری بے پروائی سے

ان چیزوں میں تبدیل ہو گئے

جن کی خوبصورتی میں

ہماری زندگی نے کوئی اضافہ نہیں کیا

 

ہم نے اپنے دل کو

اس وقت

قربان گاہ پر رکھے جانے والے پھولوں میں

محسوس کیا

جب ہم

زخمی گھوڑوں کے جلوس کے پیچھے چل رہے تھے

 

شکست ہمارا خدا ہے

مرنے کے بعد ہم اسی کی پرستش کریں گے

ہم اس شخص کی موت مریں گے

جس نے تکلیفوں کے بعد دم توڑا

 

زندگی کبھی نہ جان سکتی

ہم اس سے کیا چاہتے تھے

اگر ہم گیت نہ گاتے

٭٭٭

 

 

 

 

 

ایک تلوار کی داستان

 

یہ آئینے کا سفر نامہ نہیں

کسی اور رنگ کی کشتی کی کہانی ہے

جس کے ایک ہزار پاؤں تھے

یہ کنویں کا ٹھنڈا پانی نہیں

کسی اور جگہ کے جنگلی چشمے کا بیان ہے

جس میں ایک ہزار مشعلچی

ایک دوسرے کو ڈھونڈ رہے ہوں گے

یہ جوتوں کی ایک نرم جوڑی کا معاملہ نہیں

جس کے تلووں میں ایک جانور کے نرم

اور اوپری حصے میں اس کی مادہ کی کھال ہم جفت ہو رہی ہے

یہ ایک اینٹ کا قصہ نہیں

آگ پانی اور مٹی کا فیصلہ ہے

جس کا دستہ ایک آدمی کا وفادار تھا

اور دھڑ ایک ہزار آدمیوں کے بدن میں اتر جاتا تھا

یہ بستر پر دھلی دھلائی ایڑیاں رگڑنے کا تذکرہ نہیں

ایک قتل عام کا حلفیہ ہے

جس میں ایک آدمی کی ایک ہزار بار جاں بخشی کی گئی

٭٭٭

 

 

 

 

 

ایک لڑکی

 

لذت کی انتہا پر

اس کی سسکیاں

دنیا کے تمام قومی ترانوں سے زیادہ

موسیقی رکھتی ہیں

جنسی عمل کے دوران

وہ کسی بھی ملکۂ حسن سے زیادہ

خوب قرار پا سکتی ہے

اس کے بلو پرنٹ کا کیسٹ

حاصل کرنے کے لیے

کسی بھی فسادزدہ علاقے تک جانے کا

خطرہ لیا جا سکتا ہے

صرف اس سے ملنا

نا ممکن ہے

‎٭٭٭

 

 

 

 

تم خوبصورت دائروں میں رہتی ہو

 

تم خوبصورت دائروں میں رہتی ہو

تمہارے بالوں کو

ایک مدور پن

فرض شناسی سے تھامے ہوئی ہے

ایک بیش قیمت زنجیر

تمہاری گردن کی اطاعت کر رہی ہے

 

کبھی غلط نہ چلنے والی گھڑی

تمہاری کلائی سے پیوست ہے

 

ایک نازک بلٹ

تمہاری کمر سے ہم آغوش ہے

 

تمہارے پیر

ان جوتوں کے تسموں سے گھرے ہیں

جن سے تم ہماری زمین پر چلتی ہو

 

میں ان چھپے ہوئے دائروں کا ذکر نہیں کروں گا

جو تمہیں تھامے ہوئے ہو سکتے ہیں

انہیں اتنا ہی خوب صورت رہنے دو

جتنے کہ وہ ہیں

 

میں نے تم پر کبھی

خیالوں میں کپڑے اتارنے کا کھیل نہیں کھیلا

تم خوبصورت دائروں میں رہتی ہو

اور میں مشکل لکیروں میں

میں تمہارے لیے کیا کر سکتا ہوں

سوائے

اپنے منہ میں اس گیند کو لے کر تمہارے پاس آنے کے

جسے تم نے ٹھوکر لگائی

٭٭٭

 

 

 

 

 

تم نیند میں بہت خوبصورت لگتی ہو

 

تم نیند میں بہت خوبصورت لگتی ہو

تمہیں سوتے میں چلنا چاہیے

تمہیں سوتے میں ڈوریوں پر چلنا چاہیے

کسی چھتری کے بغیر

کیونکہ کہیں بارش نہیں ہو رہی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

جس کا کوئی انتظار نہ کر رہا ہو

 

جس کا کوئی انتظار نہ کر رہا ہو

اسے نہیں جانا چاہیے

واپس

آخری دروازہ بند ہونے سے پہلے

 

جس کا کوئی انتظار نہ کر رہا ہو

اسے نہیں پھرنا چاہیے

بے قرار

ایک خوب صورت راہداری میں

جب تک وہ ویران نہ ہو جائے

 

جس کا کوئی انتظار نہ کر رہا ہو

اسے نہیں جدا کرنا چاہیے

خون آلود پاؤں سے

ایک پورا سفر

 

جس کا کوئی انتظار نہ کر رہا ہو

اسے نہیں معلوم کرنی چاہیے

پھولوں کے ایک دستے کی قیمت

یا دن تاریخ اور وقت

٭٭٭

 

 

 

 

جہاں تم یہ نظم ختم کرو گی

 

جہاں تم یہ نظم ختم کرو گی

وہاں ایک درخت اگ آئے گا

 

شکار کی ایک مہم میں

تم اس کے پیچھے ایک درندے کو ہلاک کرو گی

 

کشتی رانی کے دن

اس سے اپنی کشتی باندھ سکو گی

 

ایک انعام یافتہ تصویر میں

تم اس کے سامنے کھڑی نظر آؤ گی

پھر تم اسے

بہت سے درختوں میں گم کر دو گی

اور اس کا نام بھول جاؤ گی

اور یہ نظم

٭٭٭

 

 

 

 

دو زبانوں میں سزائے موت

 

ہمیشہ پرسکون رہنے والی

مالا زیبتبام

کمیپ گارڈ سے نکل گئی

اس کے ساتھ

ایڈورڈ بھی

جو اس پر عاشق تھا

 

مجھے ہاتھ مت لگاؤ

پھر سے گرفتار ہونے پر

اس نے کہا

ہاتھ گاڑی میں ڈال کر

اس کا جسم

دور تک لے جایا گیا

 

بچ نکلنے کے باوجود

ایڈورڈ

اس دن واپس آ گیا

 

اسے دو زبانوں میں

سزائے موت دی گئی

کیوں ؟

٭٭٭

 

 

 

 

زندگی ہمارے لیے کتنا آسان کر دی گئی ہے

 

زندگی ہمارے لیے کتنا آسان کر دی گئی ہے

ہم کسی بھی رعایتی فروخت میں

کتابیں

کپڑے جوتے

حاصل کر سکتے ہیں

جیسا کہ گندم ہمیں امدادی قیمت پر مہیا کی جاتی ہے

اگر ہم چاہیں

کسی بھی کارخانے کے دروازے سے

بچوں کے لیے

رد کردہ بسکٹ خرید سکتے ہیں

تمام طیاروں ریل گاڑیوں بسوں میں ہمارے لیے

سستی نشستیں رکھی جاتی ہیں

اگر ہم چاہیں

معمولی ضرورت کی قیمت پر

تھئیٹر میں آخری قطار میں بیٹھ سکتے ہیں

ہم کسی کو بھی یاد آ سکتے ہیں

جب اسے کوئی اور یاد نہ آ رہا ہو

٭٭٭

 

 

 

 

سمندر نے تم سے کیا کہا

 

سمندر نے تم سے کیا کہا

استغاثہ کے وکیل نے تم سے پوچھا

اور تم رونے لگیں

جناب عالی یہ سوال غیر ضروری ہے

صفائی کے وکیل نے تمہارے آنسو پونچھتے ہوئے کہا

عدالت نے تمہارے وکیل کا اعتراض

اور تمہارے آنسو مسترد کر دیے

آنسو ریکارڈ روم میں چلے گئے

اور تم اپنی کوٹھری میں

یہ شہر سطح سمندر سے نیچے آباد ہے

یہ عدالتیں شہر کی سطح سے بھی نیچے

اور زیر سماعت ملزموں کی کوٹھریاں

ان سے بھی نیچے

کوٹھری میں کوئی تمہیں ریشم کی ایک ڈور دے جاتا ہے

تم ہر پیشی تک ایک شال بن لیتی ہو

اور عدالت برخاست ہو جانے کے بعد

اسے ادھیڑ دیتی ہو

یہ ڈور تمہیں کہاں سے ملی

سپرنڈنٹ آف پریزنز تم سے پوچھتا ہے

یہ ڈور ایک شخص لایا تھا

اپنے پاؤں میں باندھ کر

ایک بلا کو ختم کرنے کے لیے

ایک پر پیچ راستے سے گزرنے کے لیے

وہ آدمی اب کہاں ہے

ٹھنڈے پانی میں تمہیں غوطہ دے کر پوچھا جاتا ہے

وہ آدمی راستہ کھو بیٹھا

سمندر نے تم سے یہی کہا تھا

٭٭٭

 

 

 

 

 

صرف غیر اہم شاعر

 

صرف غیر اہم شاعر

یاد رکھتے ہیں

بچپن کی غیر ضروری اور سفید پھولوں والی تام چینی کی پلیٹ

جس میں روٹی ملتی ہے

 

صرف غیر اہم شاعر

بے شرمی سے لکھ دیتے ہیں

اپنی نظموں میں

اپنی محبوبہ کا نام

 

صرف غیر اہم شاعر

یاد رکھتے ہیں

بدتمیزی سے تلاشی لیا ہوا کمرہ

باغ میں کھڑی ہوئی ایک لڑکی کی تصویر

جو پھر کبھی نہیں ملی

٭٭٭

 

 

 

 

 

فیصلہ

 

ریڈیو لوجسٹ ان ایکسروں کو پڑھ رہی ہے

جن پر میری گزشتہ نظم کی تاریخ پڑی ہے

ان لوگوں کے زخم

اتنی تاخیر

اتنی سفاکی سے پڑھے جا رہے ہیں

جو ابھی تک زندہ رہنے کا امتحان دینے میں مصروف ہیں

 

’’آدمی اپنی غلطی سے مرتا ہے ‘‘

یہ سرجن جنرل کا فیصلہ ہے

 

’’تم سے غلطی ہوئی ہے ‘‘

شام کو جب میں اسے بتاؤں گا

میں اس سے بہت محبت کرتا ہوں

تو وہ یہ کہے گی

٭٭٭

 

 

 

 

محبت

 

محبت کوئی نمایاں نشان نہیں

جس سے لاش کی شناخت میں آسانی ہو

 

جب تک تم محبت کو دریافت کر سکو

وہ وین روانہ ہو چکی ہو گی

جو ان لاشوں کو لے جاتی ہے

جن پر کسی کا دعویٰ نہیں

 

شاید وہ راستے میں

تمہاری سواری کے برابر سے گزری ہو

یا شاید تم اس راستے سے نہیں آئیں

جس سے

محبت میں مارے جانے والے لے جائے جاتے ہیں

 

شاید وہ وقت

جس میں محبت کو دریافت کیا جا سکتا

تم نے کسی جبری مشق کو دے دیا

 

پتھر کی سل پر لٹایا ہوا وقت

اور انتظار کی آخری حد تک کھینچی ہوئی

سفید چادر

تمہاری مشق ختم ہونے سے پہلے تبدیل ہو گئے

 

شاید تمہارے پاس

اتفاقیہ رخصت کے لیے کوئی دن

اور محبت کی شناخت کے لیے

کوئی خواب نہیں تھا

اس وقت تک جب تم

محبت کو اپنے ہاتھوں سے چھو کر دیکھ سکتیں

وہ وین روانہ ہو چکی ہو گی

جو ان خوابوں کو لے جاتی ہے

جن پر کسی کو دعویٰ نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

میں ڈرتا ہوں

 

 

میں ڈرتا ہوں

اپنے پاس کی چیزوں کو

چھو کر شاعری بنا دینے سے

روٹی کو میں نے چھوا

اور بھوک شاعری بن گئی

انگلی چاقو سے کٹ گئی

اور خون شاعری بن گیا

گلاس ہاتھ سے گر کر ٹوٹ گیا

اور بہت سی نظمیں بن گئیں

میں ڈرتا ہوں

اپنے سے تھوڑی دور کی چیزوں کو

دیکھ کر شاعری بنا دینے سے

درخت کو میں نے دیکھا

اور چھاؤں شاعری بن گئی

چھت سے میں نے جھانکا

اور سیڑھیاں شاعری بن گئیں

عبادت خانے پر میں نے نگاہ ڈالی

اور خدا شاعری بن گیا

میں ڈرتا ہوں

اپنے سے دور کی چیزوں کو

سوچ کر شاعری بنا دینے سے

میں ڈرتا ہوں

تمہیں سوچ کر

دیکھ کر

چھو کر

شاعری بنا دینے سے

٭٭٭

 

 

 

 

 

وقت ان کا دشمن ہے

 

وہ کسی گیلیلیو کا انتظار نہیں کر رہے ہیں

ایک بڑی گھڑی تیار کرنے کے لیے

جسے شہر کی ایک یادگاری دیوار میں نصب کیا جا سکے

اس خلا میں

ہماری تاریخ کی عکاسی کے علاوہ

خواتین کے عالمی دن پر

جھولا ڈالا جا سکتا ہے

چینی طائفہ

بانس سے اچھل کر اس میں سے گزر سکتا ہے

اس میں

ایک لاش کو مختصر کر کے لٹکایا جا سکتا ہے

اسے موہن جودڈو کی اینٹوں سے

چنا جا سکتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

وہ اپنے آنسو ایک نازک ہیئر ڈرائیر سے سکھاتی ہے

 

وہ اپنے آنسو

ایک نازک ہیر ڈرائیر سے سکھاتی ہے

جب اس کی مصنوعی پلکیں

اس کا بدن چھپانے میں ناکام ہو جاتی ہیں

دس ناخن تراش

اس کے ناخنوں کی دیکھ بھال کرتے ہیں

وہ بچوں کی طرح برتے جانے سے

تنگ آ چکی ہے

پرکشش بدن کو ملنے والے تمغوں کے درمیان سے

وہ مچھلی کی طرح

تیر کر نکل جاتی ہے

اپنے تلووں کے نیچے

وہ گہرائی اور ڈراما چاہتی ہے

اس کے بال

شیمپو کی شیشی پر لکھی ہوئی ہدایات پر

سختی سے عمل کرتے ہیں

ماحولیاتی آلودگی کا خیال کرتے ہوئے

وہ کوئی بوسہ نہیں دیتی

اس کا تکیہ

دنیا کے تمام عاشقوں کے آنسو

جذب کر سکتا ہے

٭٭٭

 

 

 

کون شاعر رہ سکتا ہے

 

لفظ اپنی جگہ سے آگے نکل جاتے ہیں

اور زندگی کا نظام توڑ دیتے ہیں

اپنے جیسے لفظوں کا گٹھ بنا لیتے ہیں

اور ٹوٹ جاتے ہیں

ان کے ٹوٹے ہوئے کناروں پر

نظمیں مرنے لگتی ہیں

لفظ اپنی شناخت اور تقدیر میں

کمزور ہو جاتے ہیں

معمولی شکست ان کو ختم کر دیتی ہے

ان میں

ٹوٹ کر جڑ جانے سے محبت نہیں رہ جاتی

ان لفظوں سے

بد صورت اور بے ترتیب نظمیں بننے لگتی ہیں

سفاکی سے کاٹ دیے جانے کے بعد

ان کی جگہ لینے کو

ایک اور کھیپ آ جاتی ہے

نظموں کو مر جانے سے بچانے کے لیے

ہر روز ان لفظوں کو جدا کرنا پڑتا ہے

اور ان جیسے لفظوں کے حملے سے پہلے

نئے لفظ پہچانے پڑتے ہیں

جو ایسا کر سکتا ہے

شاعر رہ سکتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

ہم کسی سے پوچھے بغیر زندہ رہتے ہیں

 

خنجر کے پھل پر

ایک طرف تمہارا نام لکھا ہے

اور دوسری طرف میرا

 

جنہیں پڑھنا آتا ہے

ہمیں بتاتے ہیں

ہمیں قتل کر دیا جائے گا

 

جو درخت اگاتا ہے

ہمیں ایک سیب دے دیتا ہے

ہم خنجر سے سیب کے

دو ٹکڑے کر دیتے ہیں

 

ہم کسی سے پوچھے بغیر زندہ رہتے ہیں

اور کسی بتائے بغیر

محبت کرتے ہیں

 

میں نے گنتی سیکھی

اور یاد رکھا

تم تک پہنچنے کے لیے مجھے

کتنی سیڑھیاں طے کرنی پڑتی ہیں

 

ایک دن تم یہ ساری سیڑھیاں

نظموں کی کتاب میں رکھ کر

مجھے دے دو گی

 

ایک دن میں تمہیں بتاؤں گا

سمندر وہاں سے شروع ہوتا ہے

جہاں سے خشکی نظر آنی ختم ہو جائے

 

پھر ہم جب چاہیں گے

نظموں کی کتاب سے

ایک ورق پھاڑ کر کشتی بنا لیں گے

اور

دوسرا ورق پھاڑ کر

سمندر

 

پھر ہم جب چاہیں گے

زمین کی گردش روک کر

رقص کرنے لگیں گے

ناچتے ہوئے آدمی کے دل کا نشانہ

مشکل سے لیا جا سکتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

ہمیں بھول جانا چاہیے

 

اس اینٹ کو بھول جانا چاہیے

جس کے نیچے ہمارے گھر کی چابی ہے

جو ایک خواب میں ٹوٹ گیا

 

ہمیں بھول جانا چاہیے

اس بوسے کو

جو مچھلی کے کانٹے کی طرح ہمارے گلے میں پھنس گیا

اور نہیں نکلتا

 

اس زرد رنگ کو بھول جانا چاہیے

جو سورج مکھی سے علیحدہ دیا گیا

جب ہم اپنی دوپہر کا بیان کر رہے تھے

 

ہمیں بھول جانا چاہیے

اس آدمی کو

جو اپنے فاقے پر

لوہے کی چادریں بچھاتا ہے

 

اس لڑکی کو بھول جانا چاہیے

جو وقت کو

دواؤں کی شیشوں میں بند کرتی ہے

 

ہمیں بھول جانا چاہیے

اس ملبے سے

جس کا نام دل ہے

کسی کو زندہ نکالا جا سکتا ہے

 

ہمیں کچھ لفظوں کو بالکل بھول جانا چاہیے

مثلاً

بنی نوع انسان

٭٭٭

http: //www.adbiduniya.com/2015/09/afzal-syed-ka-sheri-intikhaab.html

http: //asmani.pk/poet/65

اور دوسری ویب سائٹس

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

 

ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل