FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

فہرست مضامین

زخمِ امید

 ترمیم شدہ

               جون ایلیا

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

 

اسی نام کی پرانی برقی کتاب میں اضافے کے بعد دو برقی کتب بنا دی گئی ہیں، دوسری کتاب ’سخن میرا اداسی ہے‘ کے نام سے۔

کام کی بات میں نے کی ہی نہیں

یہ میرا طورِ زندگی ہی نہیں

اے اُمید، اے اُمیدِ نو میداں

مجھ سے میّت تیری اُٹھی ہی نہیں

میں جو تھا اِس گلی کا مست خرام

اس گلی میں میری چلی ہی نہیں

یہ سنا ہے کہ میرے کوچ کے بعد

اُس کی خوشبو کہیں بسی ہی نہیں

تھی جو اِک فاختہ اُداس اُداس

صبح وہ شاخ سے اُڑی ہی نہیں

مجھ میں اب میرا جی نہیں لگتا

اور ستم یہ کے میرا جی ہی نہیں

وہ رہتی تھی جو دل محلے میں

وہ لڑکی مجھے ملی ہی نہیں

جائیے اور خاک اڑائیں آپ

اب وہ گھر کیا کے وہ گلی ہی نہیں

ہائے وہ شوق جو نہیں تھا کبھی

ہائے وہ زندگی جو تھی ہی نہیں

٭٭٭

سب چلے جاؤ مجھ میں تاب نہیں

نام کو بھی اب اِضطراب نہیں

خون کر دوں تیرے شباب کا میں

مجھ سا قاتل تیرا شباب نہیں

اِک کتابِ وجود ہے تو صحیح

شاید اُس میں دُعاء کا باب نہیں

تو جو پڑھتا ہے بو علی کی کتاب

کیا یہ عالم کوئی کتاب نہیں

ہم کتابی صدا کے ہیں لیکن

حسبِ منشا کوئی کتاب نہیں

بھول جانا نہیں گناہ اُسے

یاد کرنا اُسے ثواب نہیں

پڑھ لیا اُس کی یاد کا نسخہ

اُس میں شہرت کا کوئی باب نہیں

٭٭٭

 

اب کسی سے میرا حساب نہیں

میری آنکھوں میں کوئی خواب نہیں

خون کے گھونٹ پی رہا ہوں میں

یہ میرا خون ہے ، شراب نہیں

میں سرابی ہوں میری آس نا چھین

تو میری آس ہے سراب نہیں

نوچ پھینکے لبوں سے میں نے سوال

طاقتِ شوخیِ جواب نہیں

اب تو پنجاب بھی نہیں پنجاب

اور خود جیسا اب دو آب نہیں

غم ابد کا نہیں ہے اُن کا ہے

اور اس کا کوئی حساب نہیں

بودش اک رَو ہے ایک رَو یعنی

اس کی فطرت میں انقلاب نہیں

٭٭٭

 

عہد اُس کُوچۂ دل سے ہے سو اُس کوچہ میں

ہے کوئی اپنی جگہ ہم جسے برباد رکھیں

بے ستون اک نواہی میں ہے شہرِ دل کی

تیشہ انعام کریں اور کوئی فریاد کریں

آشیانہ کوئی اپنا نہیں پر شوق یہ ہے

اک قفس لائیں کہیں سے، کوئی صیاد رکھیں

٭٭٭

زخمِ امید بھر گیا کب کا

قیس تو اپنے گھر گیا کب کا

اب تو منہ اپنا مت دکھاؤ مجھے

ناصحو میں سدھر گیا کب کا

آپ اب پوچھنے کو آئے ہیں

دل مری جان مر گیا کب کا

آپ اک اور نیند لے لیجئے

قافلہ کوچ کر گیا کب کا

میرا فہرست سے نکال دو نام

میں تو خود سے مُکر گیا کب کا

٭٭٭

تیری قیمت گھٹائی جا رہی ہے

مجھے فُرقت سکھائی جا رہی ہے

یہ ہے تعمیرِ دنیا کا زمانہ

حویلی دل کی ڈھائی جا رہی ہے

وہ شے جو صرف ہندوستان کی تھی

وہ پاکستان لائی جا رہی ہے

کہاں کا دین۔۔کیسا دین۔۔کیا دین

یہ کیا گڑ بڑ مچائی جا رہی ہے

شعورِ آدمی کی سر زمیں تک

خدا کی اب دہائی دی جا رہی ہے

بہت سی صورتیں منظر میں لا کر

تمنا آزمائی جا رہی ہے

مجھے اب ہوش آتا جا رہا ہے

خدا تیری خدائی جا رہی ہے

نہیں معلوم کیا سازش ہے دل کی

کہ خود ہی مات کھائی جا رہی ہے

ہے ویرانی کی دھوپ اور اک آنگن

اور اُس پر لو چلائی جا رہی ہے

٭٭٭

 

نہ ہم رہے نہ وہ خوابوں کی زندگی ہی رہی

گُماں ،گُماں سی مہک خود کو ڈھونڈتی ہی رہی

عجب طرح رخِ آئندگی کا رنگ اُڑھا

دیارِ ذات میں از خود گزشتگی ہی رہی

حریم شوق کا عالم بتائیں کیا تم کو

حریمِ شوق میں بس شوق کی کمی رہی

پاسِ نگاہِ تغافل تھی اک نگاہ کہ رہی تھی

جو دل کے چہرۂ حسرت کی تازگی ہی رہی

بدل گیا سب ہی کچھ اس دیارِ بُودش میں

گلی تھی جو مری جان وہ تری گلی ہی رہی

تمام دل کے محلے اُجڑ چکے تھے مگر

بہت دنوں تو ہنسی ہی رہی، خوشی ہی رہی

وہ داستان تمھیں اب بھی یاد ہے کہ نہیں

جو خون تھوکنے والوں کی بے حسی ہی رہی

سناؤں میں کسے افسانۂ خیالِ ملال

تری کمی ہی رہی اور مری کمی ہی رہی

٭٭٭

ذکر بھی اس سے کیا خلاء میرا

اس سے رشتہ ہی کیا رہا میرا

آج مجھ کو بہت برا کہہ کر

آپ نے نام تو لیا میرا

آخری بات تم سے کہنا ہے

یاد یہ رکھنا تم کہا میرا

اب تو کچھ بھی نہیں ہوں ویسے میں

کبھی وہ بھی تھا مبتلا میرا

وہ بھی منزل تلک پہنچ جاتا

اس نے ڈھونڈھا نہیں پتا میرا

تجھ سے مجھ کو نجات مل جائے

تو دعاء کر کہ ہو بھلا میرا

کیا بتاؤں بچھڑ گیا یاراں

اک بلقیس سے صبا میرا

٭٭٭

وہ جو کیا کچھ نہ کرنے والے تھے

بس کوئی دم نہ بھرنے والے تھے

تھے گلے اور گرد باد کی شام

اور ہم سب بکھرنے والے تھے

وہ جو آتا تو اس کی خوشبو میں

آج ہم رنگ بھرنے والے تھے

صرف افسوس ہے یہ طنز نہیں

تم نہ سنورے ، سنورنے والے تھے

یوں تو مرنا ہے اک بار مگر

ہم کئی بار مرنے والے تھے

٭٭٭

 

تمھارا ہجر منا لوں اگر اجازت ہو

میں دل کسی سے لگا لوں اگر اجازت ہو

تمھارے بعد بھلا کیا ہے وعدہ و پیماں

بس اپنا وقت گنوا لوں اگر اجازت ہو

تمھارے ہجر کی شب ہائے تار میں جاناں

کوئی چراغ جلا لوں اگر اجازت ہو

جنوں وہی ہے، وہی میں، مگر ہے شہر نیا

یہاں بھی شور مچا لوں اگر اجازت ہو

کسے ہے خواہشِ مرہم گری مگر پھر بھی

میں اپنے زخم دکھا لوں اگر اجازت ہو

تمھاری یاد میں جینے کی آرزو ہے ابھی

کچھ اپنا حال سنبھال لوں اگر اجازت ہو

٭٭٭

تشنہ کامی کی سزا دو تو مزا آ جائے

تم ہمیں زہر پلا دو تو مزا آ جائے

میرِ محفل بنے بیٹھے ہیں بڑے ناز سے ہم

ہمیں محفل سے اُٹھا دو تو مزا آ جائے

تم نے اِحسان کیا تھا جو ہمیں چاہا تھا

اب وہ اِحسان جتا دو تو مزا آ جائے

اپنے یوسف کی زلیخا کی طرح تم بھی کبھی

کچھ حسینوں سے ملا دو تو مزا آ جائے

چین پڑتا ہی نہیں ہے تمھیں اب میرے بغیر

اب تمہی مجھ کو گنوا دو تو مزا آ جائے

٭٭٭

نئی خواہش رچائی جا رہی ہے

تیری فُرقت منائی جا رہی ہے

نبھائی تھی نہ ہم نے جانے کس سے

کہ اب سب سے نبھائی جا رہی ہے

ہمارے دل محلے کی گلی سے

ہماری لاش لائی جا رہی ہے

کہاں لذت وہ سوزِ جستجو کی

یہاں ہر چیز پائی جا رہی ہے

خوشا اِحوال اپنی زندگی کا

سلیقے سے گنوائی جا رہی ہے

دریچوں سے تھا اپنے بیر ہم کو

سو خود دیمک لگائی جا رہی ہے

٭٭٭

 

میں اور خود سے تجھ کو چھپاؤں گا ، یعنی میں

لے دیکھ لے میاں مرے اندر بھی کچھ نہیں

یہ شہرِ دارِ محتسب و مولوی ہی کیا

پیرِ مغان و رند و قلندر بھی کچھ نہیں

شیخِ حرم کو لقمے کی پروا ہے کیوں نہیں

مسجد بھی اس کی کچھ نہیں منبر بھی کچھ نہیں

مقدور اپنا کچھ بھی نہیں اس دیار میں

شاید وہ جبر ہے کہ مقدر بھی کچھ نہیں

جانی میں تیرے ناف پیالے پہ ہوں فدا

یہ اور بات ہے ترا پیکر بھی کچھ نہیں

بس اک غبارِ طور گماں کا بھی تہ با تہ

یعنی نظر بھی کچھ نہیں ، منظر بھی کچھ نہیں

ہے اب تو اک حالِ سکونِ ہمیشگی

پرواز کا تو ذکر ہی کیا ، پر بھی کچھ نہیں

پہلو میں ہے جو میرے کہیں اور ہے وہ شخص

یعنی وفائے عہد کا بستر بھی کچھ نہیں

گزرے گی جون شہر میں رشتوں کے کس طرح

دل میں بھی کچھ نہیں ہے، زباں پر بھی کچھ نہیں

٭٭٭

ایک گماں کا حال ہے اور فقط گماں میں ہے

کس نے عذابِ جاں سہا ، کون عذابِ جاں میں ہے

لمحہ بہ لمحہ ، دم بہ دم ، آن بہ آن ، رم بہ رم

میں بھی گزشتگاں میں ہوں تو بھی گزشتگاں میں ہے

آدم و ذاتِ کبریا کرب میں ہیں جدا جدا

کیا کہوں اُن کو معجزہ ، جو بھی ہے امتحاں میں ہے

کیسا حساب کیا حساب ، حالتِ حال ہے عذاب

زخم نفس نفس میں ہے ، زہر زماں زماں میں ہے

٭٭٭

 

اے کوئے یار تیرے زمانے گزر گئے

جو اپنے گھر سے آئے تھے وہ اپنے گھر گئے

اب کون زخم و زہر سے رکھے گا سلسلے

جینے کی اب ہوس ہے ہمیں ہم تو مر گئے

اب کیا کہوں کہ سارا محلہ ہے شرم سار

میں ہوں عذاب میں کہ میرے زخم بھر گئے

ہم نے بھی زندگی کو تماشہ بنا دیا

اس سے گزر گئے کبھی خود سے گزر گئے

٭٭٭

 

کسی سے کوئی خفا بھی نہیں رہا اب تو

گلہ کرو کہ گلہ بھی نہیں رہا اب تو

چنے ہوئے ہیں لبوں پر تیرے ہزار جواب

شکایتوں کا مزا بھی نہیں رہا اب تو

یقین کر جو تیری آرزو میں تھا پہلے

وہ لطف تیرے سوا بھی نہیں رہا اب تو

وہ سکھ وہاں کے خدا کی ہیں بخششیں کیا کیا

یہاں یہ دکھ کہ خدا بھی نہیں رہا اب تو

٭٭٭

اب کسی سے مرا حساب نہیں

میری آنکھوں میں کوئی خواب نہیں

خون کے گھونٹ پی رہا ہوں میں

یہ مرا خون ہے شراب نہیں

میں سرابی ہوں میری آس نہ چھین

تو مری آس ہے سراب نہیں

نوچ پھینکے لبوں سے میں نے سوال

طاقتِ شوخیِ جواب نہیں

اب تو پنجاب بھی نہیں پنجاب

اور خود جیسا اب دوآب نہیں

غم ابد کا نہیں ہے آن کا ہے

اور اس کا کوئی حساب نہیں

بودش اک رَو ہے ایک رَو یعنی

اس کی فطرت میں انقلاب نہیں

٭٭٭

 

فرقت میں وصلت برپا ہے۔۔اللہ ہُو کے باڑے میں

آشوبِ وحدت برپا ہے۔۔اللہ ہُو کے باڑے میں

روحِ کُل سے سب روحوں پر وصل کی حسرت طاری ہے

اک سرِّ حکمت برپا ہے۔۔اللہ ہُو کے باڑے میں

بے احوالی کی حالت ہے شاید یا شاید کہ نہیں

پُر احوالیت برپا ہے۔۔اللہ ہُو کے باڑے میں

مُختاری کے لب ٭سِلوانا٭ جبر عجب تر ٹھہرا ہے

ہیجانِ غیرت برپا ہے۔۔اللہ ہُو کے باڑے میں

بابا الف ارشاد کناں ہیں پیشِ عدم کے بارے میں

حیرتِ بے حیرت برپا ہے۔۔اللہ ہُو کے باڑے میں

معنی ہیں لفظوں سے برہم ٭قہر خموشیِ عالم٭ ہے

ایک عجب حجّت برپا ہے۔۔اللہ ہُو کے باڑے میں

موجودی سے انکاری ہے اپنی ضد میں نازِ وجود

حالت سی حالت برپا ہے۔۔اللہ ہُو کے باڑے میں

٭٭٭

 

کیا یقین اور کیا گماں چُپ رہ

شام کا وقت ہے میاں۔۔چپ رہ

ہو گیا قصۂ وجود تمام

ہے اب آغازِ داستاں۔۔چُپ رہ

میں تو پہلے ہی جا چکا ہوں کہیں

تُو بھی جاناں نہیں یہاں۔۔چُپ رہ

تُو جہاں تھا جہاں جہاں تھا کبھی

تُو بھی اب تو نہیں وہاں۔۔چپ رہ

ذکر چھیڑا خدا کا پھر تو نے

یاں ہے انساں بھی رائگاں۔۔چُپ رہ

سارا سودا نکال دے سر سے

اب نہیں کوئی آستاں۔۔چُپ رہ

اہرمن ہو۔۔خدا ہو۔۔یا آدم

ہو چکا سب کا امتحاں۔۔چُپ رہ

درمیانی ہی اب سبھی کچھ ہے

تُو نہیں اپنے درمیاں۔۔چُپ رہ

اب کوئی بات تیری بات نہیں

نہیں تیری۔۔تری زباں۔۔چُپ رہ

ہے یہاں ذکر حالِ موجوداں

تُو ہے اب از گزشتگاں۔۔چُپ رہ

ہجر کی جاں کنی تمام ہوئی

دل ہوا جونؔ بے اماں چُپ رہ

٭٭٭

کب اس کا وصال چاہیے تھا

بس ایک خیال چاہیے تھا

کب دل کو جواب سے غرض تھی

ہونٹوں کو سوال چاہیے تھا

شوق ایک نفس تھا اور وفا کو

پاسِ مہ و سال چاہیے تھا

اک چہرۂ سادہ تھا جو ہم کو

بے مثل و مثال چاہیے تھا

اک کرب میں ذات و زندگی ہیں

ممکن کو مُحال چاہیے تھا

میں کیا ہوں بس ملالِ ماضی

اُس شخص کو حال چاہیے تھا

ہم تم جو بچھڑ گئے ہیں ہم کو

کچھ دن تو ملال چاہیے تھا

وہ جسم۔۔جمال تھا سراپا

اور مجھ کو جمال چاہیے تھا

وہ شوخِ رمیدہ مجھ کو اپنی

بانہوں میں نڈھال چاہیے تھا

تھا وہ جو کمال۔۔شوقِ وصلت

خواہش کو زوال چاہیے تھا

جو لمحہ بہ لمحہ مل رہا ہے

وہ سال بہ سال چاہیے تھا

٭٭٭

 

اُس نے ہم کو گناہ میں رکھا

اور پھر کم ہی دھیان میں رکھا

کیا قیامت نمو تھی وہ جس نے

حشر اُس کی اٹھان میں رکھا

جوششِ خوں نے اپنے فن کا حساب

ایک چوب۔۔اک چٹان میں رکھا

لمحے لمحے کی اپنی تھی اِک شان

تُو نے ہی ایک شان میں رکھا

ہم نے پیہم قبول و رد کر کے

اُس کو اک امتحان میں رکھا

تم تو اس یاد کی امان میں ہو

اُس کو کِس کی امان میں رکھا

اپنا رشتہ زمیں سے ہی رکھو

کچھ نہیں آسمان میں رکھا

٭٭٭

اپنی منزل کا راستہ بھیجو

جان ہم کو وہاں بُلا بھیجو

کیا ہمارا نہیں رہا ساون

زُلف یاں بھی کوئی گھٹا بھیجو

نئی کلیاں جو اَب کھِلی ہیں وہاں

اُن کی خوشبو کو اک ذرا بھیجو

ہم نہ جیتے ہیں اور نہ مرتے ہیں

درد بھیجو نہ تم دوا بھیجو

دھُول اڑتی ہے جو اُس آنگن میں

اُس کو بھیجو۔۔صبا صبا بھیجو

اے فقیرو! گلی کے اُس گُل کی

تم ہمیں اپنی خاکِ پا بھیجو

شفقِ شامِ ہجر کے ہاتھوں

اپنی اُتری ہوئی قبا بھیجو

کچھ تو رشتہ ہے تم سے کم بختو

کچھ نہیں۔۔کوئی بَد دُعا بھیجو

٭٭٭

 

خود سے رشتے رہے کہاں اُن کے

غم تو جانے تھے رائیگاں اُن کے

مست اُن کو گماں میں رہنے دے

خانہ برباد ہیں گماں اُن کے

یار سُکھ نیند ہو نصیب اُن کو

دُکھ یہ ہے دُکھ ہیں بے اماں اُن کے

کتنی سر سبز تھی زمیں اُن کی

کتنے نیلے تھے آسماں اُن کے

نوحہ خوانی ہے کیا ضرور انہیں

ان کے نغمے ہیں نوحہ خواں اُن کے

٭٭٭

زخمِ اُمید بھر گیا کب کا

قیس تو اپنے گھر گیا کب کا

اب تو منہ اپنا مت دکھاؤ مجھے

ناصحو میں سُدھر گیا کب کا

آپ اب پوچھنے کو آئے ہیں

دل مری جان مر گیا کب کا

آپ اک اور نیند لے لیجئے

قافلہ کوچ کر گیا کب کا

میرا فہرست سے نکال دو نام

میں تو خود سے مُکر گیا کب کا

٭٭٭

 

مجھ کو تو گِر کے مرنا ہے

باقی کو کیا کرنا ہے

شہر ہے چہروں کی تمثیل

سب کا رنگ اترنا ہے

وقت ہے وہ ناٹک جس میں

سب کو ڈرا کر ڈرنا ہے

میرے نقشِ ثانی کو

مجھ میں ہی سے اُبھرنا ہے

کیسی تلافی کیا تدبیر

کرنا ہے اور بھرنا ہے

جو نہیں گزرا ہے اب تک

وہ لمحہ تو گزرنا ہے

اپنے گماں کا رنگ تھا میں

اب یہ رنگ بکھرنا ہے

ہم دو پائے ہیں سو ہمیں

میز پہ جا کر چرنا ہے

چاہے ہم کچھ بھی کر لیں

ہم ایسوں کو سُدھرنا ہے

ہم تم ہیں اک لمحہ کے

پھر بھی وعدہ کرنا ہے

٭٭٭

تشنگی نے سراب ہی لکھا

خواب دیکھا تھا خواب ہی لکھا

ہم نے لکھا نصابِ تیرہ شبی

اور بہ صد آب و تاب ہی لکھا

مُنشیانِ شہود نے تا حال

ذکرِ غیب و حجاب ہی لکھا

نہ رکھا ہم نے بیش و کم کا خیال

شوق کو بے حساب ہی لکھا

دوستو۔۔ہم نے اپنا حال اُسے

جب بھی لکھا خراب ہی لکھا

نہ لکھا اس نے کوئی بھی مکتوب

پھر بھی ہم نے جواب ہی لکھا

ہم نے اس شہرِ دین و دولت میں

مسخروں کو جناب ہی لکھا

٭٭٭

تم سے بھی اب تو جا چُکا ہوں میں

دُور ہا دُور آ چُکا ہوں میں

یہ بہت غم کی بات ہو شاید

اب تو غم بھی گنوا چُکا ہوں میں

اس گمانِ گماں کے عالم میں

آخرش کیا بھُلا چُکا ہوں میں

اب ببر شیر اشتہا ہے میری

شاعروں کو تو کھا چُکا ہوں میں

میں ہوں معمار پر یہ بتلا دوں

شہر کے شہر ڈھا چُکا ہوں میں

حال ہے اک عجب فراغت کا

اپنا ہر غم منا چُکا ہوں میں

لوگ کہتے ہیں میں نے جوگ لیا

اور دھونی رَما چُکا ہوں میں

نہیں اِملا دُرست غالب کا

شیفتہ کو بتا چُکا ہوں میں

٭٭٭

گزراں ہے گزرتے رہتے ہیں

ہم میاں جان مرتے رہتے ہیں

ہائے جاناں وہ ناف پیالہ ترا

دل میں بس گھونٹ اترتے رہتے ہیں

دل کا جلسہ بکھر گیا تو کیا

سارے جلسے بکھرتے رہتے ہیں

یعنی کیا کچھ بھُلا دیا ہم نے

اب تو ہم خود سے ڈرتے رہتے ہیں

ہم سے کیا کیا خدا مکرتا ہے

ہم خدا سے مکرتے رہتے ہیں

ہے عجب اس کا حالِ ہجر کہ ہم

گاہے گاہے سنورتے رہتے ہیں

دل کے سب زخم پیشہ ور ہیں میاں

آن ہا آن بھرتے رہتے ہیں

٭٭٭

شام تھی اور برگ و گُل شَل تھے مگر صبا بھی تھی

ایک عجیب سکوت تھا ایک عجب صدا بھی تھی

ایک ملال کا سا حال محو تھا اپنے حال میں

رقص و نوا تھے بے طرف محفلِ شب بپا بھی تھی

سامعۂ صدائے جاں بے سروکار تھا کہ تھا

ایک گماں کی داستاں بر لبِ نیم وا بھی تھی

کیا مہ و سالِ ماجرا۔۔ایک پلک تھی جو میاں

بات کی ابتدا بھی تھی بات کی انتہا بھی تھی

ایک سرودِ روشنی خیمۂ شب کا خواب تھا

ایک خموش تیرگی سانحہ آشنا بھی تھی

دل تیرا پیشۂ گلہ کام خراب کر گیا

ورنہ تو ایک رنج کی حالتِ بے گلہ بھی تھی

دل کے معاملے جو تھے ان میں سے ایک یہ بھی ہے

اک ہوس تھی دل میں جو دل سے گریز پا بھی تھی

بال و پرِ خیال کو اب نہیں سمت وسُو نصیب

پہلے تھی ایک عجب فضا اور جو پُر فضا بھی تھی

خشک ہے چشمۂ سارِ جاں زرد ہے سبزہ زارِ دل

اب تو یہ سوچیے کہ یاں پہلے کبھی ہوا بھی تھی

٭٭٭

عذابِ ہجر بڑھا لوں اگر اجازت ہو

اک اور زخم میں کھا لوں اگر اجازت ہو

تمہارے عارض و لب کی جدائی کے دن ہیں

میں جام منہ سے لگا لوں اگر اجازت ہو

تمہارا حسن۔۔تمہارے خیال کا چہرہ

شباہتوں میں چھُپا لوں اگر اجازت ہو

تمہیں سے ہے مرے ہر خوابِ شوق کا رشتہ

اک اور خواب کما لوں اگر اجازت ہو

تھکا دیا ہے تمہارے فراق نے مجھ کو

کہیں میں خود کو گِرا لوں اگر اجازت ہو

برائے نام بنامِ شبِ وصال یہاں

شبِ فراق منا لوں اگر اجازت ہو

٭٭٭

جُز گماں اور تھا ہی کیا میرا

فقط اک میرا نام تھا میرا

نکہتِ پیرہن سے اُس گُل کی

سلسلہ بے صبا رہا میرا

مجھ کو خواہش ہی ڈھونڈھنے کی نہ تھی

مجھ میں کھویا رہا خدا میرا

تھوک دے خون جان لے وہ اگر

عالمِ ترکِ مُدعا میرا

جب تجھے میری چاہ تھی جاناں!

بس وہی وقت تھا کڑا میرا

کوئی مجھ تک پہنچ نہیں پاتا

اتنا آسان ہے پتا میرا

آ چکا پیش وہ مروّت سے

اب چلو کام ہو چکا میرا

آج میں خود سے ہو گیا مایوس

آج اِک یار مر گیا میرا

٭٭٭

ذکر بھی اس سے کیا بَھلا میرا

اس سے رشتہ ہی کیا رہا میرا

آج مجھ کو بہت بُرا کہہ کر

آپ نے نام تو لیا میرا

آخری بات تم سے کہنا ہے

یاد رکھنا نہ تم کہا میرا

اب تو کچھ بھی نہیں ہوں میں ویسے

کبھی وہ بھی تھا مبتلا میرا

وہ بھی منزل تلک پہنچ جاتا

اس نے ڈھونڈا نہیں پتا میرا

تُجھ سے مُجھ کو نجات مِل جائے

تُو دُعا کر کہ ہو بَھلا میرا

کیا بتاؤں بچھڑ گیا یاراں

ایک بلقیس سے سَبا میرا

٭٭٭

حواس میں تو نہ تھے پھر بھی کیا نہ کر آئے

کہ دار پر گئے ہم اور پھر اُتر آئے

عجیب حال کے مجنوں تھے جو بہ عشوہ و ناز

بہ سوئے بادیہ محمل میں بیٹھ کر آئے

کبھی گئے تھے میاں جو خبر کو صحرا کی

وہ آئے بھی تو بگولوں کے ساتھ گھر آئے

کوئی جنوں نہیں سودائیانِ صحرا کو

کہ جو عذاب بھی آئے وہ شہر پر آئے

بتاؤ دام گرو چاہیے تمہیں اب کیا

پرندگانِ ہوا خاک پر اُتر آئے

عجب خلوص سے رخصت کیا گیا ہم کو

خیالِ خام کا تاوان تھا سو بھر آئے

٭٭٭

کوئے جاناں میں اور کیا مانگو

حالتِ حال یک صدا مانگو

ہر نفس تم یقینِ منعم سے

رزق اپنے گمان کا مانگو

ہے اگر وہ بہت ہی دل نزدیک

اس سے دُوری کا سلسلہ مانگو

درِ مطلب ہے کیا طلب انگیز

کچھ نہیں واں سو کچھ بھی جا مانگو

گوشہ گیرِ غبارِ ذات ہوں میں

مجھ میں ہو کر مرا پتا مانگو

مُنکرانِ خدائے بخشندہ

اس سے تو اور اک خدا مانگو

اُس شکمِ رقص گر کے سائل ہو

ناف پیالے کی تم عطا مانگو

لاکھ جنجال مانگنے میں ہیں

کچھ نہ مانگو فقط دُعا مانگو

٭٭٭

سرِ صحرا حباب بیچے ہیں

لَبِ دریا سراب بیچے ہیں

اور تو کیا تھا بیچنے کے لیے

اپنی آنکھوں کے خواب بیچے ہیں

خود سوال ان لبوں سے کر کے میاں

خود ہی ان کے جواب بیچے ہیں

زُلف کوچوں میں شانہ کش نے ترے

کتنے ہی پیچ و تاپ بیچے ہیں

شہر میں سب خراب حالوں نے

حال اپنے خراب بیچے ہیں

جانِ مَن تیری بے نقابی نے

آج کتنے نقاب بیچے ہیں

میری فریاد نے سکوت کے ساتھ

اپنے لب کے عذاب بیچے ہیں

٭٭٭

 

کیا یہ آفت نہیں عذاب نہیں

دل کی حالت بہت خراب نہیں

بُود پَل پَل کی بے حسابی ہے

کہ محاسب نہیں حساب نہیں

خوب گاؤ بجاؤ اور پیو

ان دنوں شہر میں جناب نہیں

سب بھٹکتے ہیں اپنی گلیوں میں

تا بہ خود کوئی باریاب نہیں

تُو ہی میرا سوال ازل سے ہے

اور ساجن تیرا جواب نہیں

حفظ ہے ٭شمسِ بازغہ٭ مجھکو

پر میسر وہ ماہتاب نہیں

تجھ کو دل درد کا نہیں احساس

سو میری پنڈلیوں کو داب نہیں

نہیں جُڑتا خیال کو بھی خیال

خواب میں بھی تو کوئی خواب نہیں

سطرِ مُو اس کی زیرِ ناف کی ہائے

جس کی چاقو زنوں کو تاب نہیں

٭٭٭

جب ہم کہیں نہ ہوں گے تب شہر بھر میں ہوں گے

پہنچے گی جو نہ اس تک ہم اس خبر میں ہوں گے

تھک کر گریں گے جس دم بانہوں میں تیری آ کر

اُس دَم بھی کون جانے ہم کس سفر میں ہوں گے

اے جانِ عہد و پیماں۔۔ہم گھر بسائیں گے ہاں

تُو اپنے گھر میں ہو گا۔۔ہم اپنے گھر میں ہوں گے

میں لے کے دل کے رشتے گھر سے نکل چکا ہوں

دیوار و دَر کے رشتے۔۔دیوار و دَر میں ہوں گے

تجھ عکس کے سوا بھی اے حُسن وقتِ رخصت

کچھ اور عکس بھی تو اس چشمِ تر میں ہوں گے

ایسے سراب تھے وہ ایسے تھے کچھ کہ اب بھی

میں آنکھ بند کر لوں تب بھی نظر میں ہوں گے

اس کے نقوشِ پا کو راہوں میں ڈھونڈنا کیا

جو اس کے زیر پا تھے وہ میرے سر میں ہوں گے

وہ بیشتر ہیں جن کو کل کا خیال کم ہے

تُو رُک سکے تو ہم بھی ان بیشتر میں ہوں گے

آنگن سے وہ جو پچھلے دالان تک بسے تھے

جانے وہ میرے سائے اب کِس کھنڈر میں ہوں گے

یہ تو کمر عجب ہے اِک سوچ ہے جو اَب ہے

اب جانے ہاتھ میرے کِس کمر میں ہوں گے

٭٭٭

سر پر اک سچ مچ کی تلوار آئے تو

کوئی قاتل برسرِ کار آئے تو

سرخ رو ہو جاؤں میں تو یار ابھی

دل سلیقے سے سرِ دار آئے تو

وقت سے اب اور کیا رشتہ کریں

جانِ جاناں ہم تجھے ہار آئے تو

سب ہیں حامی آسماں کے اے زمیں

کوئی تیرا بھی طرفدار آئے تو

اے عزا دارو! کرو مجلس بپا

آدمی۔۔انسان کو مار آئے تو

٭٭٭

 

ٹھہروں نہ گلی میں تری وحشت نے کہا تھا

میں حد سے گزر جاؤں محبت نے کہا تھا

دَر تک تیرے لائی تھی نسیمِ نفس انگیز

دَم بھر نہ رُکوں یہ تیری نکہت نے کہا تھا

احسان کسی سرو کے سائے کا نہ لوں میں

مجھ سے یہ ترے فتنۂ قامت نے کہا تھا

مارا ہوں مشیت کا نہیں کچھ مری مرضی

یہ بھی ترے قامت کی قیامت نے کہا تھا

دل شہر سے کر جاؤں سفر میں سوئے دنیا

مجھ سے تو یہی میری سہولت نے کہا تھا

٭٭٭

 

یاد اُسے انتہائی کرتے ہیں

سو ہم اس کی برائی کرتے ہیں

پسند آتا ہے دل سے یوسف کو

وہ جو یوسف کے بھائی کرتے ہیں

ہے بدن خوابِ وصل کا دنگل

آؤ زور آزمائی کرتے ہیں

اس کو اور غیر کو خبر ہی نہیں

ہم لگائی بجھائی کرتے ہیں

ہم عجب ہیں کہ اس کو بانہوں میں

شکوۂ نارسائی کرتے ہیں

حالتِ وصل میں بھی ہم دونوں

لمحہ لمحہ جدائی کرتے ہیں

آپ جو میری جاں ہیں۔۔میں دل ہوں

مجھ سے کیسے جدائی کرتے ہیں

با وفا ایک دوسرے سے میاں

ہر نفس بے وفائی کرتے ہیں

جو ہیں سرحد کے پار سے آئے

وہ بہت خود ستائی کرتے ہیں

پَل قیامت کے سود خوار ہیں جونؔ

یہ ابد کی کمائی کرتے ہیں

٭٭٭

میں نہ ٹھہروں نہ جان تُو ٹھہرے

کون لمحوں کے رُو برو ٹھہرے

نہ گزرنے پہ زندگی گزری

نہ ٹھہرنے پہ چار سُو ٹھہرے

ہے مری بزمِ بے دلی بھی عجیب

دلِ پُر خوں جہاں سبو ٹھہرے

میں یہاں مدتوں میں آیا ہوں

ایک ہنگامہ کُو بہ کُو ٹھہرے

محفلِ رخصتِ ہمیشہ ہے

آؤ اک حشر ہا و ہو ٹھہرے

اک توجہ عجب ہے سمتوں میں

کہ نہ بولوں تو گفتگو ٹھہرے

کج ادا تھی بہت اُمید مگر

ہم بھی جونؔ ایک حیلہ جو ٹھہرے

میں جو ہوں۔۔کیا نہیں ہوں میں خود بھی

خود سے بات آج دُو بدو ٹھہرے

باغِ جاں سے مِلا نہ کوئی ثمر

جونؔ ہم تو نمو نمو ٹھہرے

٭٭٭

خون تھوکے گی زندگی کب تک

یاد آئے گی اب تری کب تک

جانے والوں سے پوچھنا یہ صبا

رہے آباد دل گلی کب تک

ہو کبھی تو شرابِ وصل نصیب

پیے جاؤں میں خون ہی کب تک

دل نے جو عمر بھر کمائی ہے

وہ دُکھن دل سے جائے گی کب تک

جس میں تھا سوزِ آرزو اس کا

شبِ غم وہ ہوا چلی کب تک

بنی آدم کی زندگی ہے عذاب

یہ خدا کو رُلائے گی کب تک

حادثہ زندگی ہے آدم کی

ساتھ دے گی بَھلا خوشی کب تک

ہے جہنم جو یاد اب اس کی

وہ بہشتِ وجود تھی کب تک

وہ صبا اس کے بِن جو آئی تھی

وہ اُسے پوچھتی رہی کب تک

میر جونی! ذرا بتائیں تو

خود میں ٹھیریں گے آپ ہی کب تک

حالِ صحنِ وجود ٹھیرے گا

تیرا ہنگامِ رُخصتی کب تک

میں سہوں کربِ زندگی کب تک

رہے آخر تری کمی کب تک

کیا میں آنگن میں چھوڑ دوں سونا

جی جلائے گی چاندنی کب تک

اب فقط یاد رہ گئی ہے تری

اب فقط تری یاد بھی کب تک

میں بھلا اپنے ہوش میں کب تھا

مجھ کو دنیا پُکارتی کب تک

خیمہ گاہِ شمال میں۔۔۔آخر

اس کی خوشبو رچی بسی کب تک

اب تو بس آپ سے گلہ ہے یہی

یاد آئیں گے آپ ہی کب تک

مرنے والو ذرا بتاؤ تو

رہے گی یہ چلا چلی کب تک

جس کی ٹوٹی تھی سانس آخرِ شب

دفن وہ آرزو ہوئی کب تک

دوزخِ ذات باوجود ترے

شبِ فرقت نہیں جلی کب تک

اپنے چھوڑے ہوئے محلوں پر

رہا دورانِ جاں کنی کب تک

نہیں معلوم میرے آنے پر

اسکے کوچے میں لُو چلی کب تک

٭٭٭

دل سے ہے بہت گریز پا تو

تُو کون ہے اور ہے بھی کیا تو

کیوں مجھ میں گنوا رہا ہے خود کو

مجھ ایسے یہاں ہزار ہا تو

ہے تیری جدائی اور میں ہوں

ملتے ہی کہیں بچھڑ گیا تو

پوچھے جو تجھے کوئی ذرا بھی

جب میں نہ رہوں تو دیکھنا تو

اک سانس ہی بس لیا ہے میں نے

تو سانس نہ تھا سو کیا ہوا تو

ہے کون جو تیرا دھیان رکھے

باہر مرے بس کہیں نہ جا تو

٭٭٭

وہ خیالِ مُحال کِس کا تھا

آئینہ بے مثال کِس کا تھا

سفری اپنے آپ سے تھا میں

ہجر کِس کا۔۔وصال کِس کا تھا

میں تو خود میں کہیں نہ تھا موجود

میرے لب پر سوال کِس کا تھا

تھی مری ذات اک خیال آشوب

جانے میں ہم خیال کِس کا تھا

جب کہ میں ہر نفس تھا بے احوال

وہ جو تھا میرا حال کِس کا تھا

دوپہر! بادِ تُند! کوچۂ یار!

وہ غبارِ ملال کِس کا تھا

٭٭٭

حال خوش تذکرہ نگاروں کا

تھا تو اک شہر خاکساروں کا

پہلے رہتے تھے کوچۂ دل میں

اب پتہ کیا ہے دل فگاروں کا

کوئے جاناں کی ناکہ بندی ہے

بسترا اب کہاں ہے یاروں کا

چلتا جاتا ہے سانس کا لشکر

کون پُرساں ہے یادگاروں کا

اپنے اندر گھسٹ رہا ہوں میں

مجھ سے کیا ذکر رہ گزاروں کا

ان سے جو شہر میں ہیں بے دعویٰ

عیش مت پوچھ دعویداروں کا

کیسا یہ معرکہ ہے برپا جو

نہ پیادوں کا نہ سواروں کا

بات تشبیہہ کی نہ کیجیو تُو

دہر ہے صرف استعاروں کی

میں تو خیر اپنی جان ہی سے گیا

کیا ہوا جانے جانثاروں کا

کچھ نہیں اب سوائے خاکستر

ایک جلسہ تھا شعلہ خواروں کا

٭٭٭

شہر بہ شہر کر سفر زادِ سفر لیے بغیر

کوئی اثر کیے بغیر کوئی اثر لیے بغیر

کوہ و کمر میں ہم صفیر کچھ نہیں اب بجز ہوا

دیکھیو پلٹیو نہ آج شہر سے پَر لیے بغیر

وقت کے معرکے میں تھیں مجھ کو رعایتیں ہوس

میں سرِ معرکہ گیا اپنی سِپر لیے بغیر

کچھ بھی ہو قتل گاہ میں حُسنِ بدن کا ہے ضرر

ہم نہ کہیں سے آئیں گے دو پر سر لیے بغیر

قریۂ گریہ میں مرا گریہ ہنرورانہ ہے

یاں سے کہیں ٹلوں گا میں دادِ ہنر لیے بغیر

اُسکے بھی کچھ گِلے ہیں دل۔۔ان کا حساب تم رکھو

دید نے اس میں کی بسر اس کی خبر لیے بغیر

اُس کا سخن بھی جا سے ہے اور وہ یہ کہ جونؔ تم

شہرۂ شہر ہو تو کیا شہر میں گھر لیے بغیر

٭٭٭

گِلے سے باز آیا جا رہا ہے

سو پیہم گنگنایا جا رہا ہے

نہیں مطلب کسی پہ طنز کرنا

ہنسی میں مسکرایا جا رہا ہے

وہاں اب میں کہاں اب تو وہاں سے

مرا سامان لایا جا رہا ہے

عجب ہے ایک حالت سی ہوا میں

ہمیں جیسے گنوایا جا رہا ہے

اب اس کا نام بھی کب یاد ہو گا

جسے ہر دَم بھُلایا جا رہا ہے

چراغ اس طرح روشن کر رہا ہوں

کہ جیسے گھر جلایا جا رہا ہے

بَھلا تم کب چلے تھے یوں سنبھل کر

کہاں سے اُٹھ کے جایا جا رہا ہے

تو کیا اب نیند بھی آنے لگی ہے

تو بستر کیوں بِچھایا جا رہا ہے

٭٭٭

گماں کی اک پریشاں منظری ہے

بس اک دیوار ہے اور بے دری ہے

اگرچہ زہر ہے دنیا کی ہر بات

میں پی جاؤں اسی میں بہتری ہے

تُو اے بادِ خزاں اس گُل سے کہیو

کہ شاخ اُمید کی اب تک ہری ہے

گلی میں اس نگارِ ناشنو کی

فغاں کرنا ہماری نوکری ہے

کوئی لہکے خیابانِ صبا میں

یہاں تو آگ سینے میں بھری ہے

٭٭٭

دل تمنا سے ڈر گیا جانم

سارا نشہ اُتر گیا جانم

اک پلک بیچ رشتۂ جاں سے

ہر زمانہ گزر گیا جانم

تھا غضب فیصلے کا اِک لمحہ

کون پھر اپنے گھر گیا جانم

جانے کیسی ہوا چلی اک بار

دل کا دفتر بِکھر گیا جانم

اپنی خواب و خیال دنیا کو

کون برباد کر گیا جانم

تھی ستم ہجر کی مسیحائی

آخرش زخم بھر گیا جانم

اب بَھلا کیا رہا ہے کہنے کو

یعنی میں بے اثر گیا جانم

نہ رہا دل نہ داستاں دل کی

اب تو سب کچھ بسر گیا جانم

زہر تھا اپنے طور سے جینا

کوئی اِک تھا جو مر گیا جانم

٭٭٭

کون سے شوق کِس ہوس کا نہیں

دل میری جان تیرے بس کا نہیں

راہ تم کارواں کی لو کہ مجھے

شوق کچھ نغمۂ جرس کا نہیں

ہاں میرا وہ معاملہ ہے کہ اب

کام یارانِ نکتہ رَس کا نہیں

ہم کہاں سے چلے ہیں اور کہاں

کوئی اندازہ پیش و پس کا نہیں

ہو گئی اس گِلے میں عمر تمام

پاس شعلے کو خاروخس کا نہیں

مُجھ کو خود سے جُدا نہ ہونے دو

بات یہ ہے میں اپنے بس کا نہیں

کیا لڑائی بَھلا کہ ہم میں سے

کوئی بھی سینکڑوں برس کا نہیں

٭٭٭

کوئی گماں بھی نہیں درمیاں گماں ہے یہی

اسی گماں کو بچا لوں کہ درمیاں ہے یہی

یہ آدمی کے ہیں انفاس جس کے زہر فروش

اسے بٹھاؤ کہ میرا مزاج داں ہے یہی

کبھی کبھی جو نہ آؤ نظر تو سہہ لیں گے

نظر سے دُور نہ ہونا کہ امتحاں ہے یہی

میں آسماں کا عجب کچھ لحاظ رکھتا ہوں

جو اس زمین کو سہہ لے وہ آسماں ہے یہی

یہ ایک لمحہ جو دریافت کر لیا میں نے

وصالِ جاں ہے یہی اور فراقِ جاں ہے یہی

تم اُن میں سے ہو جو یاں فتح مند ٹھہرے ہیں

سنو کہ وجہِ غمِ دل شگستگاں ہے یہی

٭٭٭

بخشش ہوا یقین۔۔گماں بے لباس ہے

ہے آگ جامہ زیب۔۔دھواں بے لباس ہے

ہے یہ فضا ہزار لباسوں کا اک لباس

جو بے لباس ہے وہ کہاں بے لباس ہے

ملبوس تار تارِ نفس ہے زیانِ سود

سُودِ زیان یہ ہے کہ زیاں بے لباس ہے

محمل نشینِ رنگ! کوئی پوستینِ رنگ

ریگِ رواں ہوں۔۔ریگِ رواں بے لباس ہے

اب پارہ پارہ پوششِ گفتار بھی نہیں

ہیں سانس بے رفو سو زیاں بے لباس ہے

صد جامہ پوش جس کا ہے جسم برہنہ ابھی

خلوت سرائے جاں میں وہ جاں بے لباس ہے

ہے دل سے ہر نفس ہوسِ دید کا سوال

خلوت ہے وہ کہاں۔۔وہ جہاں بے لباس ہے

ہے بُود اور نبود میں پوشش نہ پیرہن

یاراں مکین کیا کہ مکاں بے لباس ہے

تُو خود ہی دیکھ رنگِ بدن اپنا جوش رنگ

تُو اپنے ہر لباس میں جاں بے لباس ہے

غم کی برہنگی کو کہاں سے جُڑے لباس

میں لب سیے ہوئے ہوں۔۔فغاں بے لباس ہے

٭٭٭

رہن سرشاریِ فضا کے ہیں

آج کے بعد ہم ہوا کے ہیں

ہم کو ہر گز نہیں خدا منظور

یعنی ہم بے طرح خدا کے ہیں

کائناتِ سکوت بس خاموش

ہم تو شوقِ سخن سرا کے ہیں

جتنے بھی اہلِ فن ہیں دنیا کے

ملتمس بابِ التجا کے ہیں

باز آ جایئے کہ سب فتنے

آپ کی کیوں کے اور کیا کے ہیں

اب کوئی گفتگو نہیں ہوگی

ہم فنا کے تھے ہم فنا کے ہیں

ہم کہ ہیں جونؔ حاصلِ ایجاد

کیا ستم ہے کہ ہم فنا کے ہیں

٭٭٭

 

یہاں تو کوئی مَن چلا ہی نہیں

کہ جیسے یہ شہرِ بَلا ہی نہیں

ترے حسرتی کے ہے دل پر یہ داغ

کوئی اب ترا مبتلا ہی نہیں

ہوئی اُس گلی میں فضیحت بہت

مگر میں وہاں سے ٹَلا ہی نہیں

نِکل چل کبھی آپ سے جانِ جاں

ترے دل میں تو ولولہ ہی نہیں

دمِ آخر جو بچھڑے تو بس

پتا بھی کسی کا چَلا ہی نہیں

قیامت تھی اُس کے شکم کی شکن

کوئی بس مرا پھر چلا ہی نہیں

اُسے خون سے اپنے سینچا مگر

تمنا کا پودا پَھلا ہی نہیں

کہاں جا کے دنیا کو ڈالوں بَھلا

ادھر تو کوئی مزبلہ ہی نہیں

اک انبوہِ خونیں دلاں ہے مگر

کسی میں کوئی حوصلہ ہی نہیں

٭٭٭

دل کی تکلیف کم نہیں کرتے

اب کوئی شکوہ ہم نہیں کرتے

جانِ جاں تجھ کو اب تری خاطر

یاد ہم کوئی دَم نہیں کرتے

دوسری ہار کی ہوس ہے سو ہم

سرِ تسلیم خم نہیں کرتے

وہ بھی پڑھتا نہیں ہے اب دل سے

ہم بھی نالے کو نم نہیں کرتے

جرم میں ہم کمی کریں بھی تو کیوں

تم سزا بھی تو کم نہیں کرتے

٭٭٭

شام تک میری بے کلی ہے شراب

شام کو میری سر خوشی ہے شراب

جہل واعظ کا اُس کو راس آئے

صاحبو! میری آگہی ہے شراب

رَنگ رَس ہے میری رگوں میں رواں

بخدا میری زندگی ہے شراب

ناز ہے اپنی دلبری پہ مجھے

میرا دل ، میری دلبری ہے شراب

ہے غنیمت جو ہوش میں نہیں میں

شیخ! میری بے حسی ہے شراب

حِس جو ہوتی تو جانے کیا کرتا

مفتیو! میری بےحسی ہے شراب

٭٭٭

دل کتنا آباد ہوا جب دید کے گھر برباد ہوئے

وہ بچھڑا اور دھیان میں اس کے سو موسم ایجاد ہوئے

ناموری کی بات دگر ہے ورنہ یارو سوچو تو

گلگوں اب تک کتنے تیشے بے خونِ فرہاد ہوئے

لائیں کہاں سے بول رسیلے ہونٹوں کی ناداری میں

سمجھو ایک زمانہ گزرا بوسوں کی امداد ہوئے

تم میری اک خود مستی ہو میں ہوں تمہاری خود بینی

رشتے میں اس عشق کے ہم تم دونوں بے بنیاد ہوئے

میرا کیا اک موجِ ہوا ہوں پر یوں ہے اے غنچہ دہن

تُو نے دل کا باغ جو چھوڑا غنچے بے استاد ہوئے

عشق محلے میں اب یارو کیا کوئی معشوق نہیں

کتنے قاتل موسم گزرے شور ہوئے فریاد ہوئے

ہم نے دل کو مار رکھا ہے اور جتاتے پھرتے ہیں

ہم دل زخمی مژگاں خونیں ہم نہ ہوئے جلاد ہوئے

برق کیا ہے عکسِ بدن نے تیرے ہمیں اے تنگ قبا

تیرے بدن پر جتنے تِل ہیں سارے ہم کو یاد ہوئے

تُو نے کبھی سوچا تو ہو گا۔۔سوچا بھی اے مست ادا

تیری ادا کی آبادی پر کتنے گھر برباد ہوئے

جو کچھ بھی رودادِ سخن تھی ہونٹوں کی دُوری سے تھی

جب ہونٹوں سے ہونٹ ملے تو یکدم بے رُوداد ہوئے

خاک نشینوں سے کوچے کے کیا کیا نخوت کرتے ہیں

جاناں جان! ترے درباں تو فرعون و شدّاد ہوئے

شہروں میں ہی خاک اُڑا لو شور مچا لو بے حالو

جن دَشتوں کی سوچ رہے ہو وہ کب کے برباد ہوئے

سمتوں میں بکھری وہ خلوت۔۔وہ دل کی رنگ آبادی

یعنی وہ جو بام و دَر تھے یکسر گرد و باد ہوئے

تُو نے رندوں کا حق مارا مے خانے میں رات گئے

شیخ!! کھرے سیّد ہیں ہم تو ہم نے سُنا ناشاد ہوئے

٭٭٭

جبر پُر اختیار ہے ، اماں ہاں

بیقراری قرار ہے ، اماں ہاں

ایزدِ یزداں ہے تیرا انداز

اہرمن دل فگار ہے ، اماں ہاں

میرے آغوش میں جو ہے اُس کا

دَم بہ دَم انتظار ہے ، اماں ہاں

ہے رقیب اُس کا دوسرا عاشق

وہی اِک اپنا یار ہے ، اماں ہاں

یار زردی ہے رنگ پر اپنے

سو خزاں تو بہار ہے ، اماں ہاں

لب و پستان و ناف اس کے نہ پوچھ

ایک آشوبِ کار ہے ، اماں ہاں

سنگ در کے ہوں یا ہوں دار کے لوگ

سب پہ شہوت سوار ہے ، اماں ہاں

اب تو انساں کے معجزے ہیں عام

اور انسان خوار ہے ، اماں ہاں

ایک ہی بار بار ہے ، اماں ہاں

اک عبث یہ شمار ہے ، اماں ہاں

ذرّہ ذرّہ ہے خود گریزانی

نظم ایک انتشار ہے ، اماں ہاں

ہو وہ یزداں کہ آدم و ابلیس

جو بھے خود شکار ہے ، اماں ہاں

وہ جو ہے جو کہیں نہیں اس کا

سب کے سینوں پہ بار ہے ، اماں ہاں

اپنی بے روزگاریِ جاوید

اک عجب روزگار ہے ، اماں ہاں

شب خرابات میں تھا حشر بپا

کہ سخن ہرزہ کار ہے ، اماں ہاں

کیا کہوں فاصلے کے بارے میں

رہگزر ، رہگزر ہے ، اماں ہاں

بھُولے بھُولے سے ہیں وہ عارض و لب

یاد اب یادگار ہے ، اماں ہاں

٭٭٭

بڑا احسان ہم فرما رہے ہیں

کہ اُن کے خط انہیں لوٹا رہے ہیں

نہیں ترکِ محبت پر وہ راضی

قیامت ہے کہ ہم سمجھا رہے ہیں

یقیں کا راستہ طے کرنے والے

بہت تیزی سے واپس آ رہے ہیں

یہ مت بھُولو کہ یہ لمحات ہم کو

بچھڑنے کے لیے ملوا رہے ہیں

تعجب ہے کہ عشق و عاشقی سے

ابھی کچھ لوگ دھوکا کھا رہے ہیں

تمہیں چاہیں گے جب چھِن جاؤ گی تو

ابھی ہم تم کو ارزاں پا رہے ہیں

کسی صورت انہیں نفرت ہو ہم سے

ہم اپنے عیب خود گِنوا رہے ہیں

وہ پاگل مست ہے اپنی وفا میں

مری آنکھوں میں آنسو آ رہے ہیں

دلیلوں سے اسے قائل کیا تھا

دلیلیں دے کے اب پچھتا رہے ہیں

تری بانہوں سے ہجرت کرنے والے

نئے ماحول میں گھبرا رہے ہیں

یہ جذبہ عشق ہے یا جذبۂ رحم

ترے آنسو مجھے رُلوا رہے ہیں

عجب کچھ ربط ہے تم سے تم کو

ہم اپنا جان کر ٹھکرا رہے ہیں

وفا کی یادگاریں تک نہ ہوں گی

مری جاں بس کوئی دن جا رہے ہیں

٭٭٭

خود مست ہوں خود سے آ ملا ہوں

اب میں لبِ زخمِ بے گِلہ ہوں

میں ہمسفروں کی گرد کے بیچ

اک خود سفری کا قافلہ ہوں

خوشبو کے بدن میں تیرا ملبوس

دم لے کہ ابھی نہیں سِلا ہوں میں

میں نشۂ ذات میں نہتا

احباب سے اپنے آ مِلا ہوں

میں صر صرِ لفظ میں ہوں معنی

پس اپنی جگہ سے کب ہِلا ہوں

٭٭٭

 

آ کہ جہانِ بے خبراں میں بے خبرانہ رقص کریں

خیرہ سرانہ شور مچائیں خیرہ سرانہ رقص کریں

فن تو حسابِ تنہائی شرط بَھلا کِس شے کی ہے

یعنی اُٹھیں اور بے خلخال و طبل و ترانہ رقص کریں

داد سے جب مطلب ہی نہیں تو عذر بَھلا کس بات کا ہے

ہم بھی بزمِ بے بصراں میں بے بصرانہ رقص کریں

ہم پہ ہنر کے قدر شناساں ناز کناں ہیں یعنی ہم

سازِ شکستِ دل کی صدا پر عشوہ گرانہ رقص کریں

تختۂ گُل ہو عذر انگیز آبلہ پائی اپنے لیے

ہاں سرِ نشتر ہا ز کرانہ تا بہ کرانہ رقص کریں

مرضیِ مولا از ہمہ اولیٰ شوق ہمارا مولا ہے

ہم وہ نہیں جو بزم طرب میں پیشہ ورانہ رقص کریں

بر سر شور و بر سرِ سورش بر سرِ شبخوں بر سرِ خوں

چل کہ حصارِ فتنہ گراں میں فتنہ گرانہ رقص کریں

کوئی نہیں جو آ ٹکرائے سب چوراہے خالی ہیں

چل کہ سرِ بازارِ تباہی بے خطرانہ رقص کریں

بعدِ ہنر آموزی ہم کو تھا پندِ استاد کہ ہم

با ہنرانہ رقص میں آئیں بے ہنرانہ رقص کریں

اپنے بدن پر اپنے خوں میں غیر کا خوں بھی شامل ہو

بارگہِ پرویز میں چل کر تیشہ ورانہ رقص کریں

٭٭٭

 

دل سے اب رسم و راہ کی جائے

لب سے کم ہی نباہ کی جائے

گفتگو میں ضرر ہے معنی کا

گفتگو گاہ گاہ کی جائے

ایک ہی تو ہوس رہی ہے ہمیں

اپنی حالت تباہ کی جائے

ہوس انگیز ہوں بدن جن کے

اُن میں سب سے نباہ کی جائے

اپنے دل کی پناہ میں آ کر

زندگی بے پناہ کی جائے

ذات اپنی گواہ کی جائے

بند آنکھوں نگاہ کی جائے

ہم تو بس اپنی چاہ میں ہیں مگن

کچھ تو اس کی بھی چاہ کی جائے

ایک ناٹک ہے زندگی جس میں

آہ کی جائے، واہ کی جائے

دل! ہے اس میں ترا بَھلا کہ تری

مملکت بے سپاہ کی جائے

ملکہ جو بھی اپنے دل کی نہ ہو

جونؔ ! وہ بے کلاہ کی جائے

٭٭٭

دل گماں تھا گمانیاں تھے ہم

ہاں میاں داستانیاں تھے ہم

ہم سُنے اور سُنائے جاتے تھے

رات بھرکی کہانیاں تھے ہم

جانے ہم کِس کی بُود کا تھے ثبوت

جانے کِس کی نشانیاں تھے ہم

چھوڑتے کیوں نہ ہم زمیں اپنی

آخرش آسمانیاں تھے ہم

ذرہ بھر بھی نہ تھی نمود اپنی

اور پھر بھی جہانیاں تھے ہم

ہم نہ تھے ایک آن کے بھی مگر

جاوداں، جاودانیاں تھے ہم

روز اِک رَن تھا تیر و ترکش بِن

تھے کمیں اور کمانیاں تھے ہم

ارغوانی تھا وہ پیالۂ ناف

ہم جو تھے ارغوانیاں تھے ہم

نار پستان تھی وہ قتّالہ

اور ہوس درمیانیاں تھے ہم

ناگہاں تھی اک آنِ آن کہ تھی

ہم جو تھے ناگہانیاں تھے ہم

٭٭٭

اک دل ہے جو جو ہر لمحہ جلانے کے لیے ہے

جو کچھ ہے یہاں آگ لگانے کے لیے ہے

اک بات ہی کہنی ہے مجھے تجھ سے، بس اک بات

اس شہر میں تُو صرف گنوانے کے لیے ہے

ہر شخص مری ذات سے جانے کے لیے تھا

تُو بھی تو مری ذات سے جانے کے لیے ہے

جو رنگ ہیں سہہ لے انہیں جو رنگ ہیں سہہ لے

یاں جو بھی ہنر ہے وہ کمانے کے لیے ہے

بودش جو ہے وہ ایک تماشہ ہے گماں کا

ہے جو بھی حقیقت وہ فسانے کے لیے ہے

ہنسنے سے کبھی خوش نہیں ہوتا ہے میرا دل

یاں مجھ کو ہنسانا بھی رُلانے کے لیے ہے

قاتل کو مرے مجھ سے نہیں ہے کوئی پَرخاش

قاتل تو مرا رنگ جمانے کے لیے ہے

٭٭٭

ٹائپنگ: مختلف فورموں کے ارکان

پروف ریڈنگ، ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید