FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

روزہ ’’اسوہ نبوی‘‘ کی روشنی میں

               علامہ حافظ ابن قیم

 

 روزے سے مقصود ضبطِ نفس ہے تاکہ وہ ناجائز خواہشات پوری کرنے سے رک جائے، پسندیدہ چیزوں کو ترک کرسکے، اور شہوانی قوتوں میں اعتدال پیدا ہو، انسان ابدی سعادت اور کامل انعامات حاصل کرسکے، اور اسے بارگاہِ الٰہی میں شرفِ قبولیت حاصل ہو۔ یہی طریقہ ہے تزکیہ نفس کا اور اسی میں ابدی زندگی کی کامیابیاں پوشیدہ ہیں۔ روزے کی حالت میں انسان دوسرے انسانوں کی بھوک و پیاس اور ان کی تکالیف کو بھی اچھی طرح محسوس کرسکتا ہے۔ اکل و شرب کی کمی سے شیطان کے راستے تنگ ہو جاتے ہیں، نیز دنیا و آخرت کے نقصانات سے بچنے کا سامان ہو جاتا ہے۔

روزہ جسم کے ہر عضو کو تسکین بخشتا ہے، اور ہر قوت کو بے راہ روی سے روکتا ہے۔ گویا روزہ اہلِ تقویٰ کی لگام، اپنے نفس سے جہاد کرنے والوں کی ڈھال، اور ابرار و مقرّبین کی ریاضت ہے۔ تمام اعمال میں روزہ ہی ایک ایسا عمل ہے جو صرف رب العالمین کے لیے ہے، کیونکہ روزے دار صرف اسی کی خاطر اپنا جائز کھانا پینا اور شہوت بھی چھوڑ دیتا ہے۔ وہ اپنی نفسانی خواہشات و مرغوبات اور دنیا کی لذتیں صرف اللہ کی محبت اور اس کی رضا جوئی کے لیے ترک کرتا ہے۔اس طرح روزہ بندے اور اس کے رب کے درمیان ایک راز ہے، اور اس راز کی کیفیت کو اس کا رب ہی جانتا ہے۔

روزے کی عبادت کا سب سے زیاد کامل طریقہ صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ ہے۔ آپ کے اسوہ کی پیروی کرنا ہر عام آدمی کے لیے آسان اور ممکن ہے اور یہ اسوہ ہی روزے کے مقصد تک پہنچنے کا راستہ ہے۔

روزہ کب فرض ہوا؟ کیونکہ مرغوبات و خواہشات سے بچنا سب سے زیادہ مشکل کام ہے، اس لیے روزے کا حکم عہدِ اسلام کے وسط تک موخر کیا گیا۔ جب عام لوگوں کے دلوں میں اللہ پر ایمان راسخ ہو گیا، وہ نماز کے پابند ہو گئے، اور قرآن کے دیگر احکام سے بھی مانوس ہو گئے، تو ہجرت کے بعد دوسرے سال روزہ فرض کیا گیا۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو آپ نو رمضانوں کے روزے رکھ چکے تھے۔

آپ رمضان میں کثرت سے عبادت فرماتے، اور کئی قسم کی عبادتوں میں مشغول رہا کرتے تھے۔ رمضان آتا تو آپ جبرئیل علیہ السلام کے ساتھ مل کر قرآن مجید کی منزلیں ان سے سنتے، اور ان کو سناتے تھے۔ جبرئیل سے ملاقات ہوتی تو آپ تیز آندھی سے بھی زیادہ شدت کے ساتھ سخاوت کیا کرتے۔ آپ عام دنوں میں بھی تمام لوگوں سے بہت زیادہ سخی تھے، لیکن رمضان میں تو آپ کے صدقہ و احسان، تلاوتِ قرآن مجید، نماز، ذکر اور اعتکاف کی کوئی حد نہ رہتی۔ بعض اوقات آپ صومِ وصال (مسلسل بغیر افطار کے روزہ) بھی رکھتے، تاکہ آپ ہر وقت اپنے رب کی عبادت میں مشغول رہیں۔

لیکن آپ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو صومِ وصال سے منع فرماتے تھے۔ وہ عرض کرتے، یارسول اللہ! آپ تو صومِ وصال رکھتے ہیں؟آپ فرماتے کہ میں تمھاری طرح نہیں ہوں۔ میں رات گزارتا ہوں، اور ایک روایت میں ہے کہ میں اپنے پروردگار کے پاس ہوتا ہوں، وہ مجھے کھلاتا اور پلاتا ہے۔ اس کھلانے پلانے کی تعبیر میں دو قول پائے جاتے ہیں: ایک یہ کہ یہ وہی کھانا پینا ہے جو منہ سے کھایا جاتا ہے۔ ان الفاظ کے ظاہری معنی یہی ہیں، اور کوئی دوسرے معنی تلاش کرنے کی چنداں ضرورت نہیں۔

دوسرا قول یہ ہے کہ اللہ کے کھلانے پلانے سے مراد روحانی غذا ہے، یعنی اللہ کے سامنے مناجات کی لذت، اس کا قرب جس میں آنکھوں کی ٹھنڈک ہے، اس کی محبت جس کا سچا فیض دل پر نازل ہوتا ہے، اس کے علاوہ اس قسم کے دیگر احوال جو غذائے قلبی، انعاماتِ روحانی، اور سکونِ نفس و روح کی حیثیت رکھتے ہیں۔ جسے کچھ بھی تجربہ ہے وہ جانتا ہے کہ قلبی اور روحانی غذا کے مقابلے میں جسم مادی غذا سے مستغنی ہو جایا کرتا ہے۔ جب آدمی اپنے مطلوب کو حاصل کر لے، اسی میں مگن ہو، محبوب کے نظارے سے آنکھیں ٹھنڈی کر رہا ہو، اس کا محبوب اس سے راضی ہو، محبوب کے لطف و کرم، ہدایا و احسانات ہر وقت اسے مل رہے ہوں، محبوب اس کے حال سے واقف ہو، اس کا از حد اعزاز و اکرام کرتا ہو، اس سے محبت کامل رکھتا ہو، تو کیا ایک محبت کرنے والے کے لیے یہ سب کچھ سب سے بڑی غذا نہیں۔ اگر دنیاوی محبت میں یہ کیفیت ہوسکتی ہے، تو سوچیے اس حبیب کی موت میں کیا کیفیت ہو گی، جس سے زیادہ بزرگ کوئی نہیں، جس سے زیادہ عظمت کسی کی نہیں، جس سے زیادہ جمیل اور کامل کوئی نہیں، اور جس سے زیادہ محسن کوئی نہیں۔ جب محبت کرنے والے کا دل اپنے حبیب کی محبت سے لبریز ہو گیا، جسم و جان پر اس کی محبت کا قبضہ ہو گیا، اس کی محبت سب سے زیادہ گہری اور سب سے بڑھ کر اثر انگیز ہو گئی، اور اپنے حبیب کی محبت میں اس کی حالت ہی دوسری ہو گئی، تو یہ کیسے نہ ہوتا کہ یہ محبت ہی اپنے حبیب کے ہاں سے دن رات کا کھانا پینا بن جاتی۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے فرمایا کہ میں اپنے رب کے پاس ہوتا ہوں، وہ مجھے کھلاتا اور پلاتا ہے۔

اگر یہ خورو نوش مادی ہوتا، تو صومِ وصال تو الگ رہا آپ سرے سے روزے دار ہی نہ ہوتے۔ اور اگر یہ کھانا پینا صرف رات کو ہوتا، تو پھر صومِ وصال نہ ہوتا۔ پھر آپ صحابہ کے سوال پر کہ آپ تو صومِ وصال رکھتے ہیں، یہ جواب دیتے کہ میں وصال نہیں کرتا، اور یہ نہ فرماتے کہ میں تمھاری طرح نہیں ہوں۔ آپ نے وصال کا اقرار کیا اور اس بات کی نفی فرما دی کہ آپ کی اور صحابہ کی حالت یکساں ہے (مسلم)

دراصل نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے امت پر رحمت کے پیشِ نظر صومِ وصال سے منع فرمایا، اور سحری کی تاکید کی۔ بخاری میں حضرت ابوسعید خدری سے مروی ہے کہ انھوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا کہ وصال مت کرو۔ جو وصال کرنا چاہے تو ایک سحری سے دوسری سحری تک وصال کرسکتا ہے۔ یہ روزے کے لیے سب سے زیادہ معتدل اور سہل وصال ہے۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت یہ تھی کہ جب رویتِ ہلال کی تحقیق ہو جاتی یا کوئی عینی گواہ مل جاتا، تو آپ روزے شروع فرما دیتے۔ آپ نے حضرت ابن عمر کی شہادت قبول کر کے روزہ رکھا، نیز ایک اعرابی کے کہنے پر بھی روزہ شروع کیا۔ آپ نے ان دونوں کی خبر پر اعتماد کیا اور انھیں لفظ شہادت کا پابند نہیں کیا۔ اگر رویت یا شہادت دونوں نہ ہوتیں تو آپ شعبان کے ۳۰دن پورے کرتے۔

آپ بادل کے دن کا روزہ بھی نہیں رکھتے تھے، نہ آپ نے اس کا حکم دیا بلکہ فرمایا کہ جب بادل ہو تو شعبان کے ۳۰ دن پورے کیے جائیں۔ یہی آپ کی سنت ہے، آپ کا حکم بھی یہی ہے۔ یہ روایت آپ کے اس فرمان کے منافی نہیں ہے کہ جب بادل چھائے ہوئے ہوں تو اندازہ کر لو۔ اندازے سے مراد حساب کے مطابق مہینے کا پورا کرنا ہے۔ جیساکہ بخاری میں مروی ہے کہ ’’شعبان کی مدت پوری کرو‘‘۔ فرمایا کہ جب تک چاند دیکھ نہ لو روزہ شروع نہ کرو، اور جب تک چاند دیکھ نہ لو روزہ ختم نہ کرو۔

آپ نے یہ بھی فرمایا کہ روزے رکھ کر رمضان کا استقبال نہ کرو۔ ایک روایت میں ہے کہ رمضان شروع ہونے سے ایک یا دو دن قبل روزے مت رکھو۔ ہاں، ایسا آدمی جو پہلے سے روزے رکھتا چلا آ رہا ہے، وہ روزہ رکھ سکتا ہے۔

یہ تمام روایات صحیح ہیں۔ بعض صحابہ کرام اور سلف سے ان روایات کے خلاف عمل بھی روایت کیا گیا ہے۔ مثلاً حضرت عائشہ اور حضرت ابن عمر نے اَبر کی وجہ سے چاند نہ دکھائی دینے کی صورت میں روزہ رکھا۔ اس کی بہترین تاویل یہ ہے کہ ان لوگوں نے یہ نہیں سمجھا کہ یہ روزہ رکھنا سرے سے جائز ہی نہیں۔ انھوں نے ۳۰ دن مکمل کرنے کی ہدایت کو وجوب نہیں، بلکہ جواز کہا۔ اس طرح جب انھوں نے ۳۰ ویں دن کا روزہ رکھا تو دو جائز کاموں میں سے احتیاطاً ایک جائز کام کیا۔

حضرت ابن عباس فرمایا کرتے تھے کہ مجھے اس شخص پر تعجب ہوتا ہے جو ایک یا دو دن پہلے سے روزہ رکھ کر رمضان کے مہینے کا استقبال کرتا ہے، حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ رمضان سے ایک یا دو دن پہلے روزہ نہ رکھو۔ گویا حضرت ابن عباس، حضرت ابن عمر کے عمل کا انکار کر رہے ہیں۔ یہ دونوں صحابہ ایسے تھے کہ ایک قدرے تشدد کی طرف مائل تھے، اور دوسرے رخصت کی طرف۔ یہی صورت حال دوسرے مسائل میں بھی سامنے آتی ہے۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمر اپنے تشدد کے باعث بعض ایسے امور کے بھی پابند تھے جن میں دیگر صحابہ ان کے موافق نہ تھے۔ آپ وضو میں آنکھوں کا اندرونی حصہ بھی دھوتے تھے، یہاں تک کہ اس کی وجہ سے نابینا بھی ہو گئے۔ جب آپ سر کا مسح کرتے تو کانوں کے لیے نیا پانی لیتے۔ آپ حمام میں جانے سے منع فرماتے، اور جب داخل ہوتے تو اس کے بعد غسل کرتے۔ دوسری طرف حضرت ابن عباس حمام میں جاتے۔ حضرت ابن عمر دو ضربات سے تیمم کرتے، ایک چہرے کے لیے اور ایک کہنیوں تک ہاتھوں کے لیے۔ حضرت ابن عباس اس کے خلاف کرتے اور کہا کرتے کہ تیمم میں چہرے اور ہتھیلیوں کے لیے ایک ہی ضرب کافی ہے۔ حضرت ابن عمر عورت کا بوسہ لینے پر وضو ضروری سمجھتے اور اس کا فتویٰ بھی دیتے، اور جب آپ اپنے بچوں کا بوسہ لیتے تو کلی کرتے اور پھر نماز پڑھتے۔ حضرت ابن عباس فرماتے کہ مجھے اس کی کوئی پروا نہیں کہ میں نے بوسہ لیا ہے یا میں نے خوشبو سونگھی ہے۔ ان کے نزدیک اس سے وضو نہ ٹوٹتا تھا۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتِ طیبہ یہ تھی کہ ایک مسلمان کی شہادت پر لوگوں کو روزہ رکھنے کا حکم دیتے، اور دو مسلمانوں کی گواہی پر روزے ختم کرنے کا حکم فرماتے۔ عید کا وقت گزرنے کے بعد بھی اگر دو گواہ چاند دیکھنے کی گواہی دیتے تو آپ افطار کر لیتے اور لوگوں کو بھی افطار کا حکم فرماتے، لیکن عید کی نماز اگلے روز اس کے وقت پر ادا کرتے۔ آپ افطار میں خود جلدی کرتے، جلدی کرنے کی ترغیب بھی دیتے، نیز سحری کھاتے، اور سحری کھانے کی بھی ترغیب دیتے۔ آپ سحری کھانے میں تاخیر بھی فرماتے، اور اس تاخیر کی بھی ترغیب دیتے۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نمازِ مغرب پڑھنے سے قبل افطار کیا کرتے تھے۔ اگر تر کھجوریں مل جاتیں تو ان سے افطار فرماتے، اگر نہ ملتیں تو خشک کھجوروں سے افطار کر لیتے، اگر وہ بھی نہ ملتیں تو پانی کے چند گھونٹوں ہی سے افطار کر لیا کرتے۔ آپ کھجور سے افطار کرنے کی ترغیب دیتے، اور اگر کھجور نہ ملے تو پانی سے۔ یہ امت پر کمال شفقت و خیرخواہی کے باعث تھا، کیونکہ خالی معدے میں طبیعت میٹھی چیز کو زیادہ قبول کرتی ہے اور اس سے فائدہ بھی ہوتا ہے۔ مدینے کی میٹھی کھجور ہی ان کی سب سے اچھی غذا تھی، اور خشک و تر کھجور ان کے ہاں پھل کی حیثیت بھی رکھتی تھی۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم افطار کے وقت یہ دعا پڑھا کرتے تھے:

’’اے اللہ! میں نے تیرے لیے روزہ رکھا، تیرے ہی رزق سے افطار کیا، پس اس روزے کو ہماری طرف سے قبول فرما، بے شک تو ہی سننے والا اور جاننے والا ہے۔‘‘

یہ بھی مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب افطار کر لیتے تو یہ دعا پڑھتے:

پیاس چلی گئی، رگیں تر ہو گئیں، اور اجر ثابت ہو گیا، اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا۔

حضرت ابن عمر سے روایت کی گئی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ روزے دار کی دعا افطار کے وقت مسترد نہیں ہوتی۔ روزے دار کو آپ گندی باتیں کرنے، سختی برتنے، گالی دینے، گالیوں کا جواب دینے سے منع فرماتے تھے۔ آپ نے حکم دیا ہے کہ جو گالی دے اس سے کہہ دو کہ میں روزے سے ہوں، میں گالی نہیں دے سکتا۔ اس کے بارے میں ایک قول یہ ہے کہ زبان سے کہے، ایک قول یہ ہے کہ دل میں کہے اور اپنے آپ کو یاد دلائے کہ میں روزے سے ہوں۔ اور ایک قول یہ ہے کہ فرض روزے میں زبان سے کہے اور نفلی روزہ ہو تو دل میں کہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان میں سفر کیا، تو حالتِ سفر میں کبھی روزہ رکھا اور کبھی نہ رکھا۔ صحابہ نے بھی ان دونوں طریقوں کو اختیار کیا۔

جب دشمن سے جنگ سر پر ہوتی تو آپ روزہ نہ رکھنے کا حکم فرماتے، تاکہ جنگ کرنے میں قوت بحال رہے۔ دشمن سے مقابلہ کرنے کے لیے قوت حاصل کرنے کی خاطر روزہ نہ رکھنا اور افطار کرنا جائز ہے۔ اگرچہ اس بارے میں دو قول ہیں، لیکن زیادہ صحیح قول یہی ہے کہ سفر کی حالت میں روزہ چھوڑنے کو مباح قرار دینا ہی اس بات کی دلیل ہے کہ حالتِ جنگ میں بھی روزہ چھوڑنا مباح ہے، بلکہ درحقیقت محض سفر کے لیے روزہ چھوڑنے کے مقابلے میں جہاد کے لیے روزہ چھوڑنا اولیٰ ہے۔ کیونکہ سفر میں روزہ چھوڑنے کا جواز صرف سفر کے لیے قوت کی خاطر ہے۔ لیکن جنگ میں جہاد کے لیے اور تمام مسلمانوں کی قوت کی خاطر ہے۔ جہاد کی مشقت سفر کی تکلیف سے زیادہ سخت ہے اور مسافر کے روزہ چھوڑنے کے مقابلے میں مجاہد کا روزہ چھوڑنا زیادہ مصالح اور فوائد کا حامل ہے۔ نیز اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ دشمنوں کے مقابلے میں جس قدر ممکن ہو قوت مہیا کرو، اور مجاہد کا روزہ نہ رکھنا بھی قوت کا باعث ہے۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عادتِ طیبہ یہ تھی کہ اگر آپ کو صبح کے وقت غسل کی حاجت ہوتی اور فجر کا وقت آ جاتا، تو فجر طلوع ہونے کے بعد غسل فرماتے اور روزہ بھی رکھ لیتے۔ رمضان میں روزے کی حالت میں تقبیل بھی کر لیتے۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عادتِ طیبہ یہ تھی کہ بھول کر کھانے پینے والے سے قضا ساقط کر دیتے۔ فرماتے کہ اسے خدا نے کھلایا پلایا ہے۔ گویا کہ یہ کھانا پینا اس کی طرف منسوب نہیں کیا جاسکتا کہ اس کا روزہ ٹوٹ جائے۔ بلکہ وہ مضطر قرار دیا جائے گا، اور یہ کھانا پینا نیند میں کھانے پینے کی طرح ہو گا۔ جس طرح سونے والے کے افعال پر کوئی مواخذہ نہیں ہوتا، بھول کر کھانے والے پر کوئی مواخذہ نہیں ہو گا۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح طور پر ثابت ہے کہ روزے دار کا کھانا، پینا، پچھنے لگوانا، قَے کرنا، روزے کو توڑ دیتا ہے۔ قرآن کی رو سے جماع کرنا بھی کھانے پینے کی طرح روزے کو فاسد کر دیتا ہے۔ سرمہ لگانے کے متعلق آپ سے کوئی صحیح حدیث مروی نہیں۔ صحیح روایت کے مطابق آپ روزے کی حالت میں مسواک کیا کرتے تھے۔ امام احمد نے نقل کیا ہے کہ آپ روزے کی حالت میں اپنے سر پر پانی ڈال لیا کرتے تھے، اور آپ کلی کرتے اور ناک میں پانی ڈالتے، حالانکہ آپ کا روزہ ہوتا۔ بعض دفعہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسلسل روزے رکھتے یہاں تک کہ کہا جاتا کہ اب آپ روزہ ترک نہ کریں گے، کبھی آپ مسلسل روزے نہ رکھتے، یہاں تک کہ کہا جاتا کہ اب آپ کبھی روزے نہ رکھیں گے۔

رمضان کے علاوہ آپ نے کبھی بھی مکمل مہینے کے روزے نہیں رکھے، اور شعبان کے مہینے سے زیادہ کسی مہینے میں روزے نہیں رکھے۔ رجب میں آپ بالکل روزے نہیں رکھتے تھے اور نہ اس کے روزے مستحب سمجھتے تھے، بلکہ ابن ماجہ میں آپ سے رجب کے روزوں کی نہی منقول ہے۔ آپ پیر اور جمعرات کو روزہ رکھنے کو پسند فرماتے۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ نبی اقدس سفر اور حضر میں ایامِ بیض (تیرھویں، چودھویں اور پندرھویں) کے روزے نہ چھوڑتے اور آپ ان روزوں کی ترغیب بھی دیا کرتے۔

ذوالحجہ کے پہلے عشرہ کے روزوں کے بارے میں اختلاف ہے۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ میں نے آپ کو ان دس دنوں میں کبھی روزہ رکھتے نہیں دیکھا (مسلم)۔ اور حضرت حفصہ فرماتی ہیں کہ چار چیزوں کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی ترک نہ فرمایا: (۱) یومِ عاشورہ (۲) دس دن، حج کے مہینے کے (۳) ہر ماہ کے تین دن (۴) فجر کی دو رکعتیں۔ شوال کے روزوں کے بارے میں صحیح روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا کہ رمضان کے فوراً بعد یہ روزے رکھنا ہمیشہ روزے رکھنے کے برابر ہے۔ عاشورہ کے روزہ کا تو آپ تمام ایام سے زیادہ اہتمام کرتے تھے۔ یہ حدیث مشکوک ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہفتے اور اتوار کا روزہ کثرت سے رکھتے تھے اور اس سے یہود و نصاریٰ کے طریقے کے مخالفت مقصود ہوتی تھی۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں تشریف لاتے اور دریافت فرماتے کہ تمھارے پاس کھانے کو کچھ ہے۔ اگر جواب انکار میں ملتا تو فرماتے پھر آج میرا روزہ ہے۔ چنانچہ دن کے وقت نفل روزے کی نیت کر لیتے۔ کبھی ایسا بھی ہوتا کہ آپ نفل روزے کی نیت کر لیتے، بعد میں حضرت عائشہ فرماتیں کہ فلاں چیز پکی ہے تو آپ افطار کر لیتے۔

پہلی روایت مسلم میں ہے، دوسری روایت نسائی میں ہے۔ حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ میں اور حفصہ روزے سے تھیں۔ ہمارے سامنے کھانا پیش کیا گیا، ہمارا جی چاہا، ہم نے اس میں سے کھا لیا۔ پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو حفصہ نے آپ کے پاس مجھ سے پہلے جا کر پوچھا، اے اللہ کے رسول! ہم دونوں روزے سے تھے۔ ہمارے سامنے کھانا پیش کیا گیا، ہمارا جی چاہا، ہم نے کھانا کھا لیا۔آپ نے فرمایا کہ اس کے بدلے میں کسی دن قضا کر لینا۔

٭٭٭

ماخذ:

 (زاد المعاد، جلد اول، ترجمہ: رئیس احمد جعفری)

http://www.karachiupdates.com/v3/islam/108-2009-10-13-02-44-57/5775-2010-08-12-08-07-26.html

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید