FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

خوا نِ خلیل

حکیم الامت حضرت مولانا

               اشرف علی تھانوی

 

تمہید طبع خوا نِ خلیل

(   از حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب    )

بسم اللہ الرحمن الرحیم

نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم

اس ناکارہ کو ہمیشہ اپنے اکابر کے حالات کے سننے اور جمع کرنے کا، سوانح لکھوانے کا بہت ہی اشتیاق رہا تذکرۃ الخلیل میں جیسا کہ خود مولانا مرحوم نے بھی تحریر فرمایا اس ناکارہ کے اصرار کو بہت دخل تھا۔ اسی طرح حضرت رائیپوری نور اللہ مرقدہ چچا جان قدس سرہ،عزیز مولوی یوسف نور اللہ مرقدہ کی سوانحوں کی تالیف میں اس ناکارہ کا بہت دخل رہا مگر افسوس کہ تذکرۃ الرشید یعنی سوانح قطب العالم حضرت اقدس گنگوہی او ر تذکرۃ الخلیل جس میں میرے پانچ اکابر کے مختصر حالات ہیں حضرت مولانا عاشق الہی صاحب نور اللہ مرقدہ جوان دونوں کتابوں کے مصنف تھے ان کے انتقال کے بعد سے ا ن دونوں کتابوں کی طباعت کا سلسلہ بند ہو گیا۔ ہر چند میں نے مولانا مرحوم کے صاحبزادگان پر اصرار کیا اور تقاضے کیے کہ یہ جواہر پارے اسی طرح مولانا کی دیگر تصانیف علمی و دینی ذخیرے کے ساتھ ساتھ بہت ہی مقبول عام کتابیں ہیں مگر ان عزیزوں کودوسرے قصوں کی وجہ سے ان کی طرف توجہ نہ ہوئی بالآخر تذکرۃ الخلیل تو میں نے گزشتہ سال عزیزم مولوی حکیم محمد الیاس سلمہ  پر تقاضا کر کے طبع کرائی تھی اور اس سے پہلے جناب الحاج متین احمد صاحب سے بھی کئی سال سے تقاضا کر رہا تھا اور وہ اس کا اہتمام بھی کر رہے تھے مگر حالات کی ناسازگاری سے طبع نہ ہوسکی لیکن بحمد للہ گزشتہ سال وہ بھی طبع ہو کر شائع ہو چکی،لیکن ہندو پاک میں کتابوں کی آمدو رفت بند ہے اور حکیم الیاس صاحب کی مطبوعہ قریب الختم ہے اس لیے میں نے ان کو یہ مشورہ دیا تھا کہ اس کے ساتھ”خوانِ خلیل ” جو حضرت حکیم الامت مولانا شاہ اشرف علی صاحب قدس سرہ نے حضرت سہارنپوری کے وصال پر ایک مختصر سا رسالہ تالیف فرمایا تھا وہ بھی بطور ضمیمہ کے شائع کر دیا جائے لیکن میری حیرت کی انتہا نہ رہی جبکہ دو ہفتے مختلف احباب کو اس کے ڈھونڈنے کی تکلیف گوارا کرنی پڑی اور بڑی مشکل سے ملی اس کے سننے سے یہ معلوم ہوا کہ اس میں تو حضرت حکیم الامت نے کوزہ میں دریا کو بند کر رکھا ہے۔اور نہایت اختصار کے ساتھ جام میں اپنی دوسری تالیفات کا حوالہ فرما دیا۔اس لیے میں نے خوان خلیل کو سنتے وقت ان حوالہ جات کو بھی تلاش کرایا اور ان میں سے جو عام فہم اور محتاج الیہ تھے ان کو تو بطور ضمائم کے اس پر نقل کرا دیا اور جو بہت طویل مضمون تھے جیسا کہ ایک مضمون خواب کے سلسلہ میں مختصرطورسے تو یہاں بھی آیا اور اس کے متعلق مختصر مضمون ضمیمہ میں بھی لکھوایا لیکن اس کے متعلق مختلف علما ء کے فتاوٰی الامداد بابت ماہ شوال ذیقعدہ ١٣٣٦ ھ کے تریسٹھ صفحات پرتھا وہ تو گویا مستقل ایک کتاب تھی اسی طرح بعض علمی و فقہی مسائل تھے جو عام فہم نہ تھے اس لیے ان کا مفصل حوالہ لکھوا دیا۔ اس سب کے بعد دوستوں کا اصرار ہوا اور مجھے بھی اچھا معلوم ہوا کہ خوان خلیل کو مستقل بھی چھاپ دیا جائے اور تذکرۃ الخلیل کے ساتھ ضمیمہ کے طور پر بھی چھاپ دیا جائے اس لیے کہ میرے شیخ کے حالات اور حضر ت حکیم الامت نور اللہ مرقدہ کے قلم سے نور علی نور ہیں ،اس لیے آج ٢٢ذیقعدہ ٩١ھ کو اس کے ضمائم پورے ہونے کے بعد توکلاً علی اللہ طباعت کے لیے دے رہا ہوں ۔

وما توفیقی الا باللّٰہ علیہ توکلت والیہ انیب۔

 (حضرت شیخ الحدیث مولانا )محمد زکریا ( صاحب مدظلہ )

مدرسہ مظاہر علوم

سہارنپور (یو۔پی )

 

خوانِ خلیل

بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم

            بعد الحمد والصلٰوۃ حضرت مولانا عارف جامی نے مشتر یانِ یوسف علیہ السلام کے قصہ میں نقل فرمایا ہے

 چو  یوسف شد بخوبی گرم بازار         شد ندش مصر یاں یکسر خریدار

بہر چیز یکہ ہر کس دسترس داشت    دراں بازار بیع اوہو س داشت

شنیدم کز غمش زالے برآ شفت      تنیدہ ریسمانے چند و می گفت

ہمیں بس گرچہ من کاسد قماشم       کہ در سلک خریدار انش باشم

            اسی مخلص بڑھیا کی تقلید ان سطور کی تحریر میں احقر نے اختیار کی ہے کہ ایک حبر ہمام و بحر قمقام یعنی

الشیخ مولاناخلیل احمد               مکسوحلۃ خلۃ الرحمن

وسمی ابراہیم یوسف وقتہ               من وجھہ کا لقلب فی اللمعان

            المتوفی فی ربیع الثانی ١٣٤٦ھ  رحمہ  اللّٰہ تعالی رحمۃ وّاسعۃ

            وافاض من برکاتہ علی اہل الدیار القریبۃ والشاسعۃ کے دریائے کمالات میں سے چند رشحات و قطرات ناظرین مشتاقین کے قلوب و ابصار پر بصورت رسالہ پاشاں کرتا ہوں جو بمقابلہ اس دریا کے امواج کے (جن کو مولانا قدس سرہ کے حذاق عارفین معرفین عنقریب سطح اذہان عشاق معتقدین صادقین پر متلاطم و متراکم فرمائیں گے) وہی نسبت رکھتے ہیں جو اس بُڑھیا کا ریسماں خزائن عزیز سے نسبت رکھتا تھا جس کے پیش کرنے میں میری بھی وہی نیت ہے جو اُس بڑھیا   کی تھی یعنی

ہمیں بس گرچہ من کاسد قماشم       کہ درسلک خریدار انش باشم

            جیسا کہ اس کے قبل اسی نمونہ کی دو مختصر یادداشتیں ”یادِ یاراں ”و” ذکرِ محمود” پیش کر چکا ہوں اور یہ ماحضر نافع ہونے کی صورت میں چونکہ مولانا ہی کا فیض ہو گا۔اس لیے ممدوح کو حضرت خلیل اللہ علیہ الصلٰوۃ والسلام سے اور ان فیوض کی مبدایت کو آپ کی شان میزبانی سے تشبیہ دے کر ان فیوض کے مجموعہ کو خوان کے اور اس کے آحاد کو جامات اطعمہ و اشربہ کے مشابہ قرار دے کر اس مجموعۂ حالات کو خوان خلیل سے اور ہر جز کو جام سے ملقب کرتا ہوں او ر ان ہی مناسبات سے اس رسالہ کی لوح پراس شعر کے لکھنے کا مشورہ دیتا ہوں

گرشوی درد ین مہمان خلیل          جا مہانوشی ازیں خوانِ خلیل

            اب وہ جامات پیش کرتا ہوں۔

   واللّٰہ یطعم ویسقی وہو یشبع ویر وی۔

                                                                                    کتبہ اشرف علی عفی عنہ

                                                                                    اوائل رجب ١٣٤٦ھ

 

               جام نمبر ۱

یوں تو مولانا  سے اس احقر کو مدت دراز سے نیاز حاصل تھا لیکن زیادہ خصوصیت اس زمانہ سے ہوئی جب سے میں کانپور کا تعلق چھوڑ کر وطن میں مقیم ہوا اور سہارنپور کی آمد و رفت میں کثرت ہوئی جس میں مظاہر علوم کے سالانہ جلسہ کے موقع پر تو گویا بالالتزام حاضری ہوتی تھی اور متفرق طور پر بھی بکثرت آنا جانا رہتا تھا اور ہر حاضری میں طویل طویل اوقات مولانا کی صحبت میں مستفید رہتا تھا اور عجیب بات یہ ہے کہ باوجود یکہ میں ہر طرح چھوٹا تھا عمر میں بھی طبقہ میں بھی اور علم و عمل میں تو مجھ کو کوئی نسبت ہی نہ تھی،اس میں تو چھوٹے بڑے ہونے کی نسبت کا ذکر بھی ایک درجہ میں ادعا ء ہے علم و عمل کا مگر مولانا کا برتاؤ مساویانہ تو یقینی ہی تھا۔بعض اوقات ایسا برتاؤ فرماتے تھے کہ جیسے چھوٹے کرتے ہیں بڑوں کے ساتھ، ا س سے زیادہ کیا درجہ ہو گا تواضع کا یہ بناء تو یقینی تھی اور احتمالی یہ بھی ہے کہ شاید اس واقعہ کو بھی دخل ہو کہ مولانا بواسطہ حضرت گنگوہی قدس سرہ کے اعلی حضرت حاجی صاحب قدس سرہ سے منتسب تھے اور یہ احقر بلاواسطہ۔ اگر یہ بھی تھا تو اس حفظ مراتب کا جو کہ حکمت عملیہ کا اعلی شعبہ ہے کامل ثبوت ہوتا ہے۔ف  تواضع و حفظ حدود کا کمالات مقصودہ میں سے ہونا ظاہر ہے۔

٭٭

               جام نمبر ۲

مولانا نے اپنے ایک معتقد خاص سے فرمایا تھا کہ مجھ کو اشرف سے اس وقت سے محبت ہے جس وقت ا س کو خبر بھی نہ تھی۔ ف  اس واقعہ میں ایک خاص سنت کا اتباع ہے کہ حضور اقدسﷺ   کا ارشاد ہے کہ اگر کسی کو کسی سے محبت ہے تو اس کو خبر کر دے اور حکمت اس کی ظاہر ہے کہ اس میں تطییب ہے قلب مسلم کی نیز جلب ہے اس کی محبت کا اور باہمی تحابب و توادد کے ثمرات ظاہر ہیں ۔

               جام نمبر ۳

باوجود میرے کم مرتبہ ہونے کے گاہ گاہ مجھ کو ہدایا سے بھی مشرف فرمایا ہے۔ ف  اس میں علاوہ سنت تہادی کے کہ سبب ہے تحابب مطلوب کا تواضع بدرجۂ غایت بھی ہے کیونکہ تہادی بشانِ خاص تواضع ہی سے ناشی ہے۔

               جام نمبر ۴

احقر مولانا کے سامنے وعظ کہتا ہوا بے حد شرماتا تھا گو امتثال امر کے سبب عذر نہ کرسکتا تھا لیکن مولانا نہایت شوق و رغبت سے استماع فرماتے تھے۔ف  اس میں علاوہ تواضع کے اہتمام علم کے فضائل کی بھی تحصیل ہے جس پرسلف صالح عامل تھے۔

               جام نمبر ۵

ایک بار احقر کے مواعظ کے متعلق یہ ارشاد فرمایا کہ اس کے بیان میں کہیں انگلی رکھنے تک کی گنجائش نہیں ۔ ف   اس میں حسن ظن وسنت مدح لتا لیف القلب و تحضیض علی الخیر کا ثبوت ظاہر ہے۔

               جام نمبر ۶

گاہ گاہ غریب خانہ کو بھی اپنے اقدام سے مشرف فرماتے تھے۔مجھ کو یاد ہے کہ غالباً جب اول بار تشریف آوری ہوئی تو احقر نے جوش محبت میں کھانے میں کسی قدر تکلف بھی کیا اور اہل قصبہ میں سے بھی بعض عمائد کو مدعو کر دیا کہ عرفاً یہ بھی معزز ضیف کا اکرام ہے ( ان بعض عمائد نے میر ی اس خدمت کا یہ حق ادا کیا کہ بعد جلسہ دعوت کے مجھ کو بدنام کیا کہ طالب علم ہو کر اتنا تکلف کیا پانچ چھ کھانے والوں کے سامنے بہتر یا باسٹھ برتن تھے، میں عدد بھول گیا کہ کونسا فرمایا تھا اس روایت کے قبل مجھ کو تکلف کے مقدار کی طرف التفات بھی نہ ہوا تھا) مولانا نے مزاحاً فرمایا کہ یہ تکلف کیوں کیا گیا۔ میں نے عرض کیا کہ اس کا سبب خود حضرت ہی ہیں ،اگر بکثرت کرم فرماتے تو ہرگز تکلف نہ کرتا یہ تقلیل سبب ہے اس تکثیر کا اس کے بعد آمد کی تکثیر ہو گئی اور تکلف کی تقلیل۔ ف  اس سے بے تکلفی و سادگی و رعایت میز بان ظاہر ہے اور ان سب کا اخلاقِ فاضلہ سے ہونا ظاہر ہے۔

               جام نمبر ۷

باوجودیکہ اس احقر کے ساتھ مساویانہ بلکہ اس سے بھی زیادہ تر برتاؤ فرماتے تھے جیساکہ جام نمبر ١ میں مذکور ہوا لیکن اظہار حق کا اس قدر غلبہ تھا کہ اگر میں نے استفادۃً کوئی بات پوچھی تو اس کے جواب میں کبھی تکلف نہیں فرمایا اور کبھی از خود بھی متنبہ فرمایا چنانچہ اس وقت تین مسئلے اس قسم کے میرے ذہن میں حاضر ہیں ۔

            مسئلہ نمبر ١  :   میرا ایک دوست سے اس مسئلہ میں اختلاف ہوا کہ پشت کی طرف سے فوٹو لینے میں جس میں چہرہ نہ آوے گنجائش ہے یا نہیں ،جانبین سے مکاتبت کا سلسلہ چلتا رہا آ خر میں احقر نے اس دوست کو مولانا  کے فیصلہ پر راضی کر کے تحقیق مسئلہ کی درخواست کی،مولانا نے خوشی سے قبول فرما کر مسئلہ کا فیصلہ کر دیا۔چنانچہ ہم دونوں نے قبول کر لیا یہ محاکمہ تتمہ جلد رابع فتاوی امدادیہ کے آخر میں شائع ہو چکا ہے۔ اس محاکمہ کی تمہید میں مولانا  کی عبارت قابل دید ہے وہی ہذہ ”بندہ ناچیز باعتبار اپنے علم و فہم کے اس قابل نہیں کہ علماء اعلام کے اختلاف کا فیصلہ کرسکے مگر ہاں امتثالاً للا مرا لشریف اس مسئلہ میں جو کچھ خیال میں آیا عرض کرتا ہے الخ۔ ف  تواضع اور اظہار حق میں اس طرح جمع کرناجس درجہ کا کمال ہے ظاہر ہے

            مسئلہ نمبر ٢  :  مشتمل برسوالات متعددہ،جزاول بعض روایات میں ابن عباس سے وارد ہے اخطا الکاتب فی تستانسوا وانما ہو تستا ذنوا۔ میں نے مولانا  سے بذریعہ خط پوچھا جس کا جواب نہایت قریب و عجیب ارشاد فرمایا جو بیان القرآن کے حواشی عربیہ متعلقہ آیۃ یٰا یّھا الذین اٰمنوا لا تدخلوابیوتا غیر بیوتکم الا یۃ میں شائع ہوا ہے۔احقر نے اس خط کو مختصر اور معرب کر دیا ہے جس کا حاصل بر تقدیر ثبوت ایسی قرأ ت کا قرأ ت موجودہ سے منسوخ ہونا اور راوی کو نسخ کی خبر نہ پہنچنا ہے۔ جزو ثانی متعلق نبوت جز و ثالث متعلق رقوم مدرسہ جز و رابع متعلق عدت یہ سب اجزاء بعینہا فتاوی امدادیہ جلد چہارم کے آخر میں بعنوان بعضے از تحریرات الخ شائع ہوئے ہیں ۔

            مسئلہ نمبر ٣  :   پیر محمد والی مسجد کی سمت جنوب میں جو سہ دری مسجد سے ملی ہوئی ہے اس پرسائبان ڈالا گیا تو مولانا نے اسکے متعلق از خود کچھ تحریر فرمایا جس کا یہاں سے جواب عرض کیا گیا۔چند بار اس میں مکاتبت ہوئی جس میں کوئی اخیر فیصلہ نہیں ہوا۔اس مکاتبت کا نام مسائلۃ اہل الخلۃ فی مسئلۃ الظلۃ ہے جو ترجیح الراجح کے حصہ دوم کے اخیر کے قریب میں شائع ہو ا ہے۔ اس میں مکتوب سوم کے شروع میں ایک عجیب دلربا جملہ ہے وہی ہذہ گرامی نامہ موجب برکت ہوا،کئی روز تک تو یہ خیال رہا کہ مسئلہ کے متعلق کچھ عرض کروں یا نہ کروں ،مبادا تکرار موجب بار ہو،بالآخر یہ خیال ہوا کہ اپنا خیال ایک دفعہ اور عرض کر دوں الخ ملاحظہ فرمایا جاوے اس جملہ میں رعایت حق و رعایت خاطر دونوں کو کس طرح جمع فرمایا گیا ہے۔ اس کا اثر احقر پر یہ ہوا کہ اس پر جو عرض کیا گیا باوجود یکہ اس کا جواب نہیں آیا مگر مجھ کو ایک تببیہ میں اس لکھنے کی ضرورت ہوئی کہ اس جواب نہ آنے کو حجت نہ سمجھا جائے الی قولی اس باب میں اہل علم سے مزید تحقیق کر لی جاوے۔

               جام نمبر ۸

  ایک بار بعض عنایت فرماؤں نے بعض حکایات کی نسبت میری طرف خلاف واقع کردی جس کا چرچا اپنے مجمع میں پھیل گیا، میں اس وقت میرٹھ میں تھااور اس چرچے سے بالکل غافل مجھ کو خیر خواہ دلسوزنے یہ خبر پہنچائی مجھ کو بہت رنج ہوا اور سب سے زیادہ خیال مجھ کو مولانا  کے تکدر کا تھا۔ اس لیے میں نے اس واقعہ کی حقیقت مولانا کی خدمت میں لکھ بھیجی وہاں سے حسب ذیل جواب آیا معلوم نہیں لوگوں کو کیا مزا آتا ہے کہ غلط روایتیں پہنچا کر اہل خیر کے قلوب کو دکھاتے ہیں ۔مجھ ناچیز کو جو تعلق اور محبت پہلے تھا وہی عقیدت بحمد للہ مو جود ہے

آں نیست کہ حافظ رامہرت رودازخاطر        آں وعدۂ   پیشینش تا روز پسیں باشد

            جو قلبی محبت اور جس کو ذخیرۂ آخرت سمجھ رکھا ہو وہ انشاء اللہ تعالی بدل نہیں سکتی جو روایتیں پہنچیں ہیں ان میں مبالغہ سے بہت کام لیا گیا ہے انتہی ملخصاً بقدر الضرورۃ یہ واقعہ حکایات الشکایات حکایت نمبر ٤ کے آخر میں مذکور ہے۔بعد اختتام قصہ کے مولانا نے مجھ سے فرمایا کہ اس دلسوز خیر خواہ کے ذریعہ سے بدون اپنی طرف نسبت کرنے کے میں نے ہی یہ خبر پہنچائی تھی تاکہ تاخیر تدارک سے بات بڑھ نہ جائے۔ف  اس سے مولانا کی کتنی بڑی خیر خواہی ثابت ہوتی ہے کہ میری بے خبری کو صعوبت تدارک کی مصلحت سے گوارا نہیں فرمایا اور اپنی طرف منسوب نہ فرمانا ممکن ہے کہ اس لیے ہو کہ زیادہ رنج نہ ہو کیونکہ راوی جس قدر زیادہ ثقہ ہوتا ہے اسی قدر روایت کا زیادہ اثر ہوتا ہے۔واللہ اعلم بضمائر عبادہ۔

               جام نمبر ۹

ایک شخص نے اپنی ایک حالت کی جس کا کچھ حصہ نوم تھا اور کچھ تقیطہ مشابہ بنوم تھا اور اس حالت میں غیر اختیاری طور پر ایک غیر مشروع کلمہ کا زبان سے نکلنے کی اطلاع دے کر تحقیق چاہی تھی۔میں نے قواعد شریعت و طریقت سے اس کا جواب لکھ دیا جس کا حاصل سائل کا معذور ہونا تھا چونکہ طریقت اس وقت کا لمہجور ہو گئی ہے اس لیے اس جواب کی حقیقت نہ سمجھنے سے اکثر عوام اور بعض اہل علم میں بھی اس کے متعلق ایک شورش برپا ہو گئی کہ اس کو معذور کیوں قرار دیا جس کی تحقیق احقر نے حکایات الشکایات کی حکایتِ سوم میں لکھی ہے۔مولانا نے شفقت سے زبانی مشورہ دیا کہ اس سائل کے قابل تو بیخ ہونے کے متعلق کوئی تحریر شائع ہو جائے تو شورش کم ہو جائے اور عوام کا دین بھی محفوظ رہے اھ بمعناہ میں نے اس باب میں اپنا شرح صدر نہ ہونا عذر میں پیش کیا اور عرض کیا کہ آپ اور دوسرے علماء کچھ تحریر فرما دیں تو میں شائع کر دوں ۔اس کو منظور فرمایا چنانچہ میں نے سوال مرتب کر کے مختلف علماء سے رجوع کیا جس میں مولانا بھی تھے، سب نے اپنی اپنی رائے کے موافق جواب لکھا جو الامداد شوال ١٣٣٦ھ میں شائع ہوئے ہیں ۔ ف   اس میں بھی وہی خیر خواہی اور اس کے ساتھ دین کی حفاظت کا اہتمام ظاہر ہے۔

               جام نمبر ۱۰

اس قصۂ مذکورہ کا اثر عوام میں کسی قدر باقی تھا کہ اس اثنا ء میں مدرسہ مظاہر علوم سہارنپور کے جلسہ سالانہ کا موقع آ گیا حسبِ دستور میں بھی حاضر ہوا چونکہ اس جلسہ میں احقر کا معمول وعظ بیان کرنے کا تھا۔ مولانا  نے بمصلحتِ برأت عن التہمۃ مجھ سے فرمایا کہ اس وقت بڑا مجمع موجود ہے اگر اس واقعہ خواب کے متعلق کچھ بیان کر دیا جائے تو اچھا ہے تاکہ عوام کے شکوک رفع ہو جاویں ۔احقر نے عرض کیا کہ مجھ کو تو اس کے متعلق کچھ بیان کرنے سے شرم و عار آتی ہے کیونکہ اس کا تو یہ مطلب ہوا کہ میں اپنا تبریہ کروں اور انسان اپنا تبریہ ایسی بات سے کیا کرتا ہے جس کا کسی درجہ میں احتمال ہو پس تبریہ کرنااس کے احتمال کو تسلیم کر لینا ہے۔مولانا نے فرمایا کہ اچھا اگر تم اپنی زبان سے تبریہ نہیں کرتے تو ہم میں سے کوئی شخص اس کے متعلق بیان کر دے۔احقر نے عرض کیا کہ اگر ایسا ہو ا تو میں جلسہ سے اُ ٹھ جاؤں گا۔مولانا نے فرمایا نہیں نہیں تم کو گوارا نہیں تو پھر کوئی ضرورت نہیں ۔یہ سب مکالمہ وعظ مظاہر الاقوال کی تمہید میں مذکور ہے اس مشورہ میں بھی علاوہ خیر خواہی کے اتباع سنت یعنی تہمت کا رفع کرتا ہے جیسا حضرت صفیہ  کے واقعہ اعتکاف میں حضورﷺ   نے فرمایا مگر یہ مشورہ چونکہ محل اجتہاد تھا جس کی وجہ احقر کے جواب میں مذکور ہو چکی ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ یہ سنت اس امر میں ہے جو محلِ اشتباہ ہو جب یہ نہیں تو احتمالات غیر ناشی کا کہاں تک انسداد کیا جاوے یوں تو جواب دینے کے بعد بھی اس میں پھر شبہات پیدا کیے جا سکتے ہیں تو پھر اس کے لیے تو ایک محکمہ کی ضرورت ہو گی یہ توجیہ ہے میرے جواب کی۔ مگر میرے اس عذر کے قبول فرما لینے کے بعد جب بیان ہوا تو اتفاق سے حفظ لسان و مذمت بہتان کا چنانچہ اس وعظ کے ملاحظہ سے ظاہر ہو گا جس سے بلا اختیار مولانا اور بدون قصد احقر کے ایک کرامت مولانا کی ظاہر ہوئی کہ جس چیز کو مولانا کا جی چاہتا تھا اللہ تعالی نے اس کو واقع فرما دیا اسی کو عارف رومی فرماتے ہیں

تو چنیں خواہی خدا خواہد چنیں        می دہد یزداں مراد متقیں

               جام نمبر ۱۱

ایک تقریب غسل صحت ختنہ میں اتفاق سے یہاں سے احقر اورسہارنپورسے مولانا  اور دیو بند سے حضرت مولانا محمود حسن صاحب رحمۃ اللہ علیہ تعالی ایک قصبہ میں مجتمع ہو گئے مگر بعض اعوارض کے سبب میں تو بلا شرکت واپس آ گیا اور دیگر حضرات نے ان اعوارض کے طرف التفات نہیں فرمایا اور شرکت فرما لی اس کے بعد مولانا  سے کسی نے اس کی وجہ پوچھی،کیسا تواضع کا جواب ارشاد فرمایا کہ ہم نے فتوے پر عمل کیا اور فلاں شخص (یعنی احقر ) نے تقوے پر عمل کیا ف   اس جواب سے جس قدر تواضع اور اختلافی امر میں شق مقابل کے اختیار کرنے والے کے عمل کی حسن توجیہ مرعی ہے ظاہر ہے اور حضرت مولانا دیوبندی نے جو جواب عطا فرمایا وہ رسالہ ذکرِ محمود نمبر ٢٤ میں مع تفصیل قصہ مذکور ہے۔

               جام نمبر ۱۲

مولانا میں حضراتِ سلف کی سی تواضع تھی کہ مسائل و اشکالات علمیہ میں اپنے چھوٹوں سے بھی مشورہ فرماتے تھے او ر چھوٹوں کے معروضات کو شرح صدر کے بعد قبول فرما لیتے تھے چنانچہ بعض واقعات نمونہ کے طور پر معروض ہیں ۔

            واقعہ نمبر ١  :  ایک بار سفر بہاولپور میں اس احقر سے ارشاد فرمایا کہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ قبول ہدایا کے آداب میں سے یہ بھی ہے کہ پہلے سے اشراف نفس نہ ہو مگر سفر میں اکثر داعی کی عادت ہوتی ہے کہ مدعو کو کچھ ہدیہ دیتے ہیں ۔ اس عادت کے سبب اکثر خطور بھی ایسے ہدایا کا ذہن میں ہو جاتا ہے سو کیا خطور بھی اشرافِ نفس و انتظار میں داخل ہے جس کے بعد ہدیہ لینا خلاف سنت ہے۔ اس حقیر میں کیا قابلیت تھی کہ ایسے عظیم الشان عالم او ر عارف کے استفسار کا جواب دے سکوں لیکن چونکہ لہجہ استفسار امر بالجواب پر دال تھا اس لیے الامر فوق الادب کے بنا پر جواب عرض کرنا ضروری تھا چنانچہ میں نے عرض کیا کہ میرے خیال میں ا س میں تفصیل ہے وہ یہ کہ اس احتمال کے بعد دیکھا جاوے کہ اگر وہ احتمال واقع نہ ہو تو آیا نفس میں کچھ ناگواری پیدا ہوتی ہے یا نہیں اگر ناگواری ہو تو اس احتمال کا خطور اشرافِ نفس ہے۔او ر اگر ناگواری نہ ہو تو اشرافِ نفس نہیں ہے خالی خطرہ ہے جو احکام میں موثر نہیں ۔اس جواب کو بہت پسند فرمایا اور دعا دی ف اس واقعہ میں مولانا کے چند کمالات ثابت ہوتے ہیں ۔ایک تواضع جس کے سلسلہ میں یہ واقع ذکر کیا گیا ہے۔دوسرے دقیق تقوی کہ اشراف کے احتمال بعید تک نظر پہنچی اور اس پر عمل کا اہتمام ہوا۔تیسرے اتباعِ سنت جیسا کہ ظاہر ہے۔چوتھے اپنے معاملہ میں اپنے نفس کو متہم سمجھا کہ اپنی رائے پر وثوق نہیں فرمایا ورنہ جس کی نظر اتنی دقیق ہو کیا اس فیصلہ تک وہ نظر نہیں پہنچ سکتی تھی۔

            واقعہ نمبر ٢  :   ایک بار خود افادۃً فرمایا اور زیادہ یاد یہ پڑتا ہے کہ حضر ت مولانا گنگوہی سے نقل فرمایا تھا کہ قرآن مجید میں جو اوقاف لازمہ ہیں وہ ایسے ہی مواقع پر ہیں جہاں وصل کرنے سے ایہام خلافِ مقصود کا ہوتا ہے چنانچہ ظاہر ہے مگر اس آیت میں کفار کا قول منقول ہے  وقالوا اتخذ اللّٰہ ولدا سبحانہ اور ولدا پر وقف نہیں حالانکہ قاعدہ مذکورہ کا مقتضا یہاں پر لزوم وقف تھا کیونکہ وقف نہ ہونے سے ایہام ہوتا ہے کہ سبحانہ بھی ان ہی قائلین کا قول ہے حالانکہ یہ ان کے قول اتخذ اللّٰہ ولدا کا رد اور ابطال ہے سو اس میں نکتہ یہ ہے کہ تنزیہ میں جہاں تک ہو تعجیل کی جائے تالی یا سامع کو ناخین تنزیہ کے قول کے بعد ذرا بھی انتظار نہ ہو کہ اس قول کے متعلق کیا فیصلہ فرمایا گیا ہے۔انتہی بمعناہ باوجودیکہ خود یہ نکتہ ارشاد فرمایا مگر ایسے ہی ایک مقام کے متعلق (جس کی تعیین مجھ کو یاد نہیں رہی ) احقر سے فرمایا کہ یہاں دفع ایہام کے لیے وقف ہونا لازم تھا مگر أئمہ وقف نے یہاں وقف کا حکم نہیں فرمایا مجھ کو وہ نکتہ یاد آ گیا میں نے عرض کیا کہ ایک بار آپ نے یہ نکتہ فرمایا تھا یہاں بھی وہی نکتہ تعجیل ابطال باطل ہو سکتا ہے۔ف ١   علاوہ تواضع کے ا س احتیاط بلیغ کو ملاحظہ فرمایا جاوے کہ باوجودیکہ اس نکتہ پر نظر تھی مگر خصوصیت مقام کے سبب دوسرے سے مشورہ فرمایا کہ شاید یہاں کوئی دوسرا داعی ہو۔ علماء رسوم ایسی احتیاطیں کہاں کرتے ہیں ۔یہ اہل حقائق ہی کا حصہ ہے۔ ف٢   اس نکتۂ مذکورہ کے علاوہ احقر کے ذہن میں ایسے مقامات کے متعلق ایک اور حقیقت آئی ہے بنظر علماء کی نظر ثانی کے عرض کرتا ہوں کہ ایہام کے مواقع تتبع سے دو قسم کے معلوم ہوئے ہیں ایک وہ کہ اہل حق کی طرف انتساب باطل کا ایہام ہو،دوسرے وہ اہل باطل کی طرف انتسابِ حق کا ایہام ہو۔سوا ول قسم کے مواقع میں تو وقف لازمِ کلی ہے اور دوسرے قسم کے مواقع میں وقف لازم اکثری ہے۔ علماء وقف نے ایسے مواقع پر اس کا زیادہ اہتمام و التزام نہیں کیا جس کا مبنی یہ سمجھ میں آتا ہے کہ اہل حق سے تو صدور باطل کا منکر شرعی ہے تواس ایہام کا دفع زیادہ مہتم بالشان ہے اور اہل باطل سے صدور حق کا منکر شرعی نہیں لان الکذوب قد یصدق بلکہ یہ صدور خود قرآن میں منقول ہے جہاں منافقین کا ذکر ہے چنانچہ دوسرے قسم کے بعض مواقع کا ذکر کرتا ہوں جس سے میرا دعوی اکثریت کا ثابت ہو تا ہے۔سورۂ  منافقون کی آیت میں منافقون کا قول نشھد انک لرسول اللّٰہ منقول ہے اور یہاں علما ء نے وقف لازم کیا ہے تاکہ ا س کے بعد کا قول واللّٰہ یعلم الخ کی نسبت ان کی طرف متوہم نہ ہو تو یہاں تو ایہام کا اعتبار کیا گیا اور اسی سورۃ میں رکوع اول کے ختم کے قریب منافقین کا قول لا تنفقوا علی من عند رسول اللّٰہ حتی ینفضوا منقول ہے اور ا س کے متصل ہی اس کا رد وللّٰہ خز ائن السمٰوات الخ منقول ہے جو حق تعالی کا قول ہے مگر ینفضوا پر وقف لازم نہیں تو یہاں اس ایہام کا اعتبار نہیں کیا گیا۔اسی طرح اسی کے بعد ان کا دوسرا قول منقول ہے لئن رجعنا الی المدینۃ لیخرجن الا عزمنھا الاذل اور اس کے متصل ہی اس کا رد وللّٰہ العزۃ الخ منقول ہے جو حق تعالی کا قول ہے مگر الاذل پر وقف لازم نہیں تو یہاں بھی اس ایہام کا اعتبار نہیں کیا گیا، پس ثابت ہوا کہ ایہام ثانی کا اعتبار اکثری ہے کلی نہیں ، سو اسی بناء پر ولد ا  پر وقف لازم نہ ہونے کو بھی مبنی کرسکتے ہیں ،واللہ اعلم

            واقعہ نمبر ٣  :  ایک شخص نے مولانا  کے رو برو ایک حکایت بیان کی کہ ایک شخص مر گیا تھا تھوڑی دیر میں وہ تو زندہ ہو گیا اور اسی نام کا ایک دوسرا شخص اسی وقت مر گیا اور پہلے مرنے والے نے بیان کیا کہ مجھ کو ایک مقام پر لے گئے وہاں پیشی کے وقت کہا گیا کہ ا س شخص کو نہیں بلایا گیا بلکہ دوسرے شخص کو بلایا گیا ہے چنانچہ مجھ کو دنیا میں لوٹا دیا اور دوسرے کو دنیا سے بلا یا گیا۔یہ حکایت بیان کر کے پوچھا کہ کیا ایسا ممکن ہے؟بعض اوقات کسی دوسری طرف توجہ ہونے سے بعض پہلوؤں پر نظر نہیں جاتی کچھ نرم سا جواب فرمادیا۔میں نے ادب سے عرض کیا کہ یہ تو ممکن نہیں معلوم ہوتا، اگر ملک الموت کو ایسی غلطی ہو سکتی ہے تو ملک الوحی سے بھی ہو سکے گی پس کسی غالی کے اس قول کی صحت گنجائش نکل آوے گی ”جبریل غلط کردہ مقصود علی بود”اور اس میں حکایت کی توجیہ صحیح اور سہل یہ ہے کہ وہ مریض مبرسم یامسکوت تھا اور اس میں اس کا متخیلہ فاسد ہو گیا تھا۔ مولانا  یہ سن کر بہت خوش ہوئے اور نہایت انبساط کی ساتھ اس کی تصویب فرمائی۔ف ١   مولانا کا کمال حق پرستی جس قدر اس سے واضح ہے محتاج بیان نہیں ۔ف٢  اس کے قبل ایسا ہی واقعہ احقر کو حضرت مولانا محمد یعقوب صاحب قدس سرہ کے حضور میں پیش آیا۔مولانا کے جواب کے بعد یہی تقریر میں نے وہاں بھی کی تھی۔ مولانا قدس سرہ نے بھی اس کی تصویب فرمائی او ر اس کے قبل بھی ایسی ہی حکایت میں نے حضرت مولانا الشیخ محمد  سے وعظ میں سنی تھی،میں اس وقت بچہ تھا کیا عرض کرتا اور نہ مولانا کی تحقیق اس مجلس کی مجھ کو یاد رہی۔

               جام نمبر  ۱۳

تتمہ جام نمبر ١٢  :   ایک بار مجھ سے ارشاد فرمایا کہ حدیث میں ہے لن یغلب اثنا عشر الفا عن قلۃ اور اس میں کوئی قید مذکور نہیں تو کیا یہ مطلق ہے اور ہر صورت کو شامل ہے گو مقابلہ میں لاکھوں کا فر ہوں یا یہ کہ کسی اور دلیل سے مقید ہے اطلاق پر یہ اشکال ہے کہ بہت جگہ اس عددسے زیاد ہ ہونے کی صورت میں بھی مسلمان مغلوب ہو گئے ہیں ۔ میں نے عرض کیا کہ ظاہر حدیث کا تو اطلاق ہی ہے اور بدون دلیل قوی کے تقیید کی کوئی وجہ نہیں اور مسلمانوں کا کہیں مغلوب ہونا کوئی دلیل نہیں کیونکہ جہاں مسلمان مغلوب ہوئے ہیں سبب اس کا کوئی علت ہے نہ کہ قلت اور وہ علت خواہ کوئی امر ظاہر ہو جیسے نا اتفاقی،خواہ کوئی امرباطن ہو جیسے عجب ونظر الی الاسباب ونحو ہما جیسا غزوہ حنین میں مسلمان بارہ ہزار اور کفار چار ہزار (کما فی الجلالین ) مگر اول میں مسلمان مغلوب ہو گئے جس کا سبب عجب بالکثرت تھا (کما فی القران المجید اذا عجبتکم کثرتکم) پھر آخر میں وہی مغلوب غالب ہو گئے (کما قال تعالی ثم انزل اللّٰہ سکینتہ علی رسولہ وعلی المومنین و انزل جنودالم تروھا)اور یہ انزالِ سکینہ مشروط ہے زوال سبب مغلوبیت کے ساتھ کہ وہ عجب ہے اور یہ زوال تو بہ ہے اھ قولی بمعناہ مولانا مسرور ہوئے اور اس کو پسند فرمایا۔ف   اس سے مولانا کی تواضع او ر عدم استنکاف فی طلب الحق وسعی زیادت فی العلم ظاہر ہے جس میں امتشال ہے امر حق رب زدنی علما کا۔

               جام نمبر ۱۴

ایک سفر میں مولانا کی معیت میں ایک ہم وطن دوست کی طلب پر جودھپور جانا ہو ا اور لوگوں کی درخواست پر احقر کے متعدد بیانات ہوئے۔جن سے بفضلہ تعالی بہت نفع ہو ا اور اہل بدعت کے خیالات میں بھی ایک درجہ میں نرمی و حسن ظن پیدا ہو گیا۔ ہر بیان کے ختم پر آئندہ بیان کے لیے لوگوں کی درخواست پر وقت اور موقع کا اعلان کر دیا جاتا تھا۔ایک شب میں ختمِ وعظ پر ان دوست صاحب نے ایسے موقع کے لیے اعلان کر دیا جہاں وعظ کی درخواست نہ تھی اور وہ محلہ تمام تر اہل فساد اور اہل عناد کا تھا۔ اپنے نزدیک انھوں نے یہ مصلحت سمجھی کہ صبح کو جمعہ تھا اور اس محلہ کی مسجد میں جمعہ بھی ہوتا تھا تو ان کو خیال یہ ہوا کہ اس طرح سے اہل محلہ کے کان میں حق پہنچ جائے گا مگر اس میں خرابی یہ ہو گئی کہ او ل تو اس محلہ کے اکثر لوگ سخت مبتدع و متعصب تھے،پھر خصوصیت کے ساتھ ان کو ان دوست صاحب سے پہلے سے کچھ رنج بھی تھا جس کا سبب جس طرح اہل محلہ کی کج فہمی تھی کسی قدر ان دو ست صاحب کی تیز زبانی بھی تھی۔ان لوگوں کو یہ اعلان نہایت ناگوار ہوا اور وہ یوں سمجھے کہ انھوں نے ہم کو زک دینے کے لیے یہ کارروائی کی ہے اور تہیہ کر لیا کہ وعظ نہ ہونے دیں گے۔ان دوست صاحب کو بھی قرائن سے اس کا خطرہ ضرور تھا انھوں نے یہ انتظام کیا کہ مجسٹریٹ صاحب کو جو کہ گلاؤ ٹھی کے رہنے والے اور خوش عقیدہ شخص تھے ایک درخواست دے دی کہ عین موقع پر پولیس کا انتظام کر دیا جائے تاکہ کوئی فتنہ و فساد نہ ہو،چنانچہ درخواست منظور ہو کر ایک سب انسپکٹر مع چند جوانوں کے حاضر رہنے کے لیے مامور ہو گئے۔ہم لوگوں کو اس کی اطلاع عین اس وقت ہوئی جب کہ جمعہ میں جانے کی تیاری کر رہے تھے۔ میں نے اپنی طبیعت اور مذاق کے موافق یہ را ئے قائم کی کہ ایسی تشویش کی جگہ جانا نہ چاہیے اور تہیہ وعظ کا دل سے نکال دیا او ر اس رائے کو مجمع میں ظاہر کر دیا۔ان دوست صاحب نے تو یہ جواب دیا کہ سب لغو روایتیں ہیں اور یہ راوی جنھوں نے یہ حکایت کی تھی بزدل اور کم ہمت ہیں ۔یہ ہر جگہ یونہی ڈر جاتے ہیں ضرور چلنا چاہیے اور مولانا نے فرمایا کہ اگر ایسا ہو بھی تب بھی تبلیغ حق میں ایسے امور کی پروا نہ کرنا چاہیے۔ ان دوست کی رائے کی تو مجھ کو کچھ وقعت نہیں ہوئی کیونکہ اس کا منشا میرے خیال میں دنیا تھی مگر مولانا کے ارشاد پرمیں خاموش ہو گیا گو میری رائے اب بھی وہی تھی کہ جانا مناسب نہیں مگر دو وجہ سے موافقت کر لی۔ایک اس وجہ سے کہ منشا اس رائے کا دین ہے گو وہ امر اجتہادی ہے جس میں موافقت واجب نہیں مگر ناجائز بھی نہیں ، دوسرے اس وجہ سے جب مولانا جانے کو تیار ہیں تو میں کیا چیز ہوں کہ اپنی جان بچاؤں غرض سارا مجمع وہاں پہنچا مگر رنگ بدلا ہوا پایا نہ کسی نے سلام کیا نہ کلام کیا اور امامت کے لیے تو کیا پوچھتے نماز سے فراغت ہوئی ان دوست صاحب نے اعلان کیا کہ وعظ ہو گا فوراً محلہ کے ایک شخص نے نہایت تند آوا ز سے کہا کہ وعظ نہ ہو گا پھر کیا تھا دونوں طرف سے آویزش ہو گئی اور اس قدر شور و غل ہوا کہ خدا کی پنا ہ، جمعہ کی سنتیں بھی بھول گئے اوراس فرض میں مشغول ہو گئے۔میں اور مولانا ایک کنارہ پرسنتیں پڑھنے لگے مگر مولانا تو مطمئن اور میں متفکر کہ دیکھئے اس کا کیا انجام ہوتا ہے اور پولیس کا کہیں نام و نشان نہیں یہاں تک اختلاف کی نوبت پہنچی کہ ایک شخص جا کر منبر پر بیٹھ گیا یہ سمجھا کہ جب منبر پر میرا قبضہ ہو جاوے گا پھر وعظ کیسے ہو گا۔اس سے جہل کا اندازہ کر لیا جاوے۔ایک خان صاحب ہمارے محبین میں اس مزاج کے تھے وہ خنجر لے کر اس منبر نشین پر حملہ آور ہوئے،ایک خانصاحب ٹونک کے جو سنجیدہ مزاج تھے اس وقت موجود تھے انھوں نے حملہ آور صاحب کا پیچھے سے ہاتھ پکڑ لیا کہ یہ کیا کرتے ہو،ابھی سب پھنس جاویں گے وہ خفا ہو کر اس مجمع سے چلے گئے اور یہاں شور و غل کی وہی حالت۔جب میں سنتیں پڑھ چکا اور معلوم کر لیا کہ یہ سارا غیظ اس احتمال پر ہے کہ کہیں وعظ نہ ہونے لگے تو میں نے اس فتنہ کے سرغنہ کو اپنے پاس بلایا۔ غنیمت ہے کہ وہ آ بیٹھے اور نہایت غصے سے کہا کہئے میں نے کہا کہ کیا تم کو یہ شبہ ہے کہ وعظ ہو گا سو سن لو وہ واعظ میں ہوں اور میرا وعظ ایسا ارزاں نہیں ہے کہ کسی کے سر ہو کر کہوں میں تو بہت خوشامد کرا کر وعظ کہتا ہوں اور اس حالت میں تو میں کسی طرح کہہ ہی نہیں سکتا تم اطمینان رکھو میں ہر گز وعظ نہ کہوں گا بلکہ اب تو اگر تمام اہل محلہ بھی درخواست کریں تب بھی نہ کہوں تم لڑو مت اور یہ اعلان میرے مشورہ سے نہیں ہوا بلکہ خلاف مزاج ہوا،یہ سنتے ہی وہ شخص ٹھنڈا ہو گیا اور اس کے ٹھنڈے ہونے سے سب خاموش ہو گئے۔میں نے بواسطہ دوسرے شخص کے اس کے بعد یہ قول سنا ہے کہ وہ کہتا تھا کہ ان لوگوں کی کیا بات ہے ان کی تو جو تیاں ہم اپنے سرپر رکھ لیں یہ سارا فساد فلاں شخص کا ہے جس نے اپنی رائے سے اعلان کر دیا  اور یہ بھی مسموع ہوا کہ وہ لوگ کہتے تھے کہ ہم کو وعظ ہونا ناگوار نہ تھا بلکہ یہ متغلبانہ تصرف ناگوار ہوا، ہم کو خاص طور پر اطلاع کی جاتی ہم خود حاضر ہو کر وعظ کی درخواست کرتے پھر آنے والوں کے لیے خاص طور پر فرش کا،برف کا،شربت کا انتظام کرتے اس طرح سے ہماری سخت اہانت تھی جو ہم کو گوارا نہیں ہوا۔جب فضا میں سکون ہوا ہم لوگ مسجد سے واپس آرہے تھے کہ سب انسپکٹر صاحب مع گارڈ کے راستہ میں ملے،کہنے لگے کہ چلئے وعظ کہئے میں نے کہا سبحان اللہ کیا موقع پر پہنچے ہیں یہاں تو خون ہو جاتا آپ کا آنا کس مصرف کا ہوا اور اب وعظ نہیں ہوسکتا وعظ کیا ہوا کھیل ہوا،یہ وہی بات ہوئی ع ”پس ازاں کہ من نمانم بچہ کارخواہی آمد”اور و ہ بات ہوئی ع”ہماری جان گئی آپ کی ادا ٹھہری ”۔ اس وقت مولانا یہ فرما رہے تھے کہ راہ حق میں ایسی کلفت بھی کیسی لذت بخش ہے   ف  مقصود اس قصہ کے نقل کرنے سے مولانا کا یہ قول نقل کرنا تھا جس سے مولانا کا مذاق  و أمر بالمعروف وانہ عن المنکر واصبر علی ما اصابک کے اتباع کا کس قدر وضوح سے ثابت ہوتا ہے جس میں اپنی ہمت کو قاصر دیکھتا تھا۔آخر ضعیف و قوی اور ناقص و کامل میں فرق تو ہونا چاہیے ولنعم ما قیل فی مثل ہذا

نسازد عشق را کنج سلامت   خوشارسوائی کوئے ملامت

            وفی ذالک فلیتنافس المتنافسون۔

               جام نمبر ۱۵

ایک سفرمیں مولانا کی معیت میں بسواری ریل بہاولپورسے واپسی ہورہی تھی،اتفاق سے اس درجہ میں صرف میں اور مولانا ہی تھے اور فقا ء دوسرے درجہ میں تھے۔ظہر کا وقت تھا گرمی سخت تھی اور پسینہ کثرت سے نکل رہا تھا۔مولانا غایت تواضع اور بے تکلفی سے پنکھا ہاتھ میں لے کر مجھ کو ہوا کرنے لگے۔میں اس کا تحمل کب کر سکتا تھا پریشان ہو کر پنکھا پکڑ لیا فرمانے لگے کیا حرج ہے کوئی دیکھتا تھوڑا ہی ہے۔یہ اس لیے فرمایا تھا کہ اس وقت درجہ میں کوئی تیسرا نہ تھا۔ میں نے عرض کیا کہ دیکھتا توہے فرمایا کون دیکھتا ہے میں نے کہا کہ جس کے لیے میں آپ کا ادب کرتا ہوں وہ دیکھتا ہے۔ ہنسنے لگے اور پنکھا چھوڑ دیا   ف  کیا انتہا ہے اس بے نفسی کی اپنے چھوٹوں کے ساتھ یہ برتاؤ اور اس سے بڑھ کر یہ کمال ہے کہ ہے جب دیکھا کہ طبیعت پر گرانی ہے تو اپنے ارادہ پر اصرار نہیں فرمایا اور یہ کمال بڑھ کر اس لیے ہے کہ پہلے عمل میں تو اپنے رفیق کے جسم کی رعایت تھی اور دوسرے عمل میں قلب کی رعایت اور ثانی کا اول سے اکمل ہونا ظاہر ہے۔

               جام نمبر۱۶

مجھ کو متعدد سفروں میں مولانا کی معیت کا اتفاق رہا،میں بکثرت دیکھتا تھا کہ محنت مشقت کا کام کرنے میں بوجھ اُٹھانے میں نہ کسی رفیق کا انتظار فرماتے تھے اور نہ کسی اجیر کا،ہر کام اپنے ہاتھ سے کرنے کو آمادہ ہو جاتے تھے گو خدام اس کی تکمیل نہ ہونے دیتے تھے مگر بعض اوقات خدام سے سبقت فرما جاتے تھے۔ف   اپنا یا رفقا ء کا کام اپنے ہاتھ سے کرنا عین اتباعِ سنت ہے کہ حضور اقدسﷺ   اپنے ہمراہیوں سے ممتاز ہو کر نہ رہتے تھے خصوصاً سفرمیں اور اکثر کام اپنے ہاتھ سے کر لیتے تھے۔

               جام نمبر۱۷

ایک بار میں سہارنپور غالباً جلسۂ  مدرسہ میں حاضر ہوا، بعد جلسہ کے ایک گاؤں والوں نے (جس کا نام غالباً شیخوپورہ ہے ) مولانا کو مع دوسرے خدام اور احقر کے مدعو کیا اور اس سے دوسرے دن ایک تاجر چاول مقیم سہارنپور نے ہم سب کی مع بعض مہمانان مقیمین دعوت کی۔ مولانا نے وعدہ فرما لیا کہ گاؤں سے واپس آکر دوپہر کا کھانا تمہارے یہاں کھا لیں گے شام کو گاؤں گئے اور شب کو وہاں مقیم رہے پھر صبح کو عین ایسے وقت کہ خوب زور سے بارش ہو رہی تھی اسٹیشن ٹپری پرسوار ہوئے۔اہل موضع ایسے وقت کے سفر کو گوارا نہ کرتے تھے اور قیام پر مصر تھے لیکن چونکہ ان سوداگر صاحب سے وعدہ تھا اس لیے بھیگتے ہوئے ریل پر پہنچے اور سہارنپور اترے۔گاڑی میں بیٹھے ہوئے مدرسہ کو آرہے تھے کہ راستہ میں وہ سوداگر صاحب ملے،مولانا نے گاڑی ٹھہرا کر یا آہستہ کرا کر (یاد نہیں ) ان کو اپنی واپسی کی اطلاع کی کہ ہم لوگ اپنے وعدہ پر آ گئے ہیں تو آپ کیا مزہ کا جواب دیتے ہیں کہ مجھ کو امید واپسی کی نہ تھی اس لیے میں نے کچھ سامان نہیں کیا اب کل صبح دعوت ہے۔ اس وقت مولانا کا حلم او ر میرا غصہ دیکھنے کے قابل تھا مگر بوجہ ادب کے غصہ ظاہر نہ کر سکتا تھا اور مولانا نے منظور فرما لیا اور کھڑے چڑھے سب مہمانوں کے کھانے کا انتظام فرمانا پڑا اگلے دن کی دعوت سے میں نے عذر کر دیا جس کی اصل وجہ تو غصہ تھا مگر ظاہر ی عذر یہ کیا کہ سویرے بھوک نہیں لگتی اور دیر میں ریل نہ ملے گی اور مجھ کو کل وطن جانا ضروری ہے۔مولانا نے سفارش فرمائی کہ دعوت میں شریک ہو جانا اگر رغبت ہوئی کچھ کھا لینا ورنہ اصرار نہ ہو گا چنانچہ اگلے روز سب حضرات ان کے مکان پر پہنچے اور کھانا لایا گیا، میں بھی بیٹھا رہا مگر کھانے کی خواہش نہیں ہوئی کچھ تو غصہ کے سبب کچھ خلاف معمول ہونے کے سبب،تھوڑی دیر میں اجازت لے کر مکان سے باہر آیا اور صاحب دعوت کو بھی فرمائش کر کے ہمراہ لایا او ر باہر آ کر ان کی اس نامعقول حرکت پر اچھی طرح کان کھولے اور توبہ کرائی ف   اس سے مولانا کا حلم ظاہر ہے اور حلم بھی اتنے درجہ کا کہ میں اس میں ساتھ نہیں دے سکا۔

               جام نمبر۱۸

احقر کو بعض امور اجتہادیہ ذوقیہ متعلقہ معاشرت و انتظام میں رائے کا اختلاف تھا اور اس اختلاف کے ہوتے ہوئے میرا یہ خیال تھا کہ مجھ کو مولانا سے صرف اعتقاد عقلی ہو سکتا ہے انجذاب طبعی نہ ہو گا مگر کیفیت یہ تھی کہ حاضری تو حاضری تصور کرنے سے اس قدر انجذاب ہوتا تھا کہ میری سمجھ میں نہ آتا تھا اور غالباً اسی کا اثر ہو گا کہ خواب میں بھی اگر کبھی زیارت ہوتی تو اسی شان سے ہوتی یہ کھلی دلیل ہے محبوبیت کی کہ محب کو گمان بھی نہیں بلکہ احتمال عدم کا ہے مگر طبیعت ہے کہ کھنچی چلی جاتی ہے اور میں اس کو اللہ تعالی کا فضل اور رحمت اپنے اوپر سمجھتا ہوں کہ اس اختلاف کے ضرر سے مجھ کو محفوظ رکھا۔

               جام نمبر ۱۹

احقر نے جو عقدِ ثانی کیا اس کے دوران میں یا بعد میں (یاد نہیں رہا ) بعض ثقات سے معلوم ہوا کہ مولانا  کی نظر میں پہلے ہی سے اس کا استحسان تھا اور رائے بھی ظاہر فرمائی تھی مگر غالباً یہ خیال تھا کہ احقر منکوحہ اولی کے سبب اس کی ہمت نہ کرے جب اس کا وقوع ہو گیا بہت مسرت ظاہر فرمائی او ر میری اس درخواست کے جواب میں ”کہ اللہ تعالی سے دعا کیجیے کہ اس میں برکت فرما دے ”یہ فرمایا کہ ہم کو تو برکات کی توقع ہے۔(کما فی اصلاح الانقلاب ) ف  اس سے مولانا کا تعلق نیاز مندوں کی مصالح ظاہر ہ و باطنہ سے ظاہر ہے،یہ شان فیوض مقام نبوت سے ہے ورنہ مقام ولایت کے فیض کی شان دوسری ہوتی ہے کہ کسی مصلحت میں دخل نہ دیا جائے۔اور اول کا اکمل ہونا معروف ہے۔

               جام نمبر ۲۰

اور اس جام میں دوسرے نوع جام کی طرف بھی اشارہ ہے جو اس شعر میں مذکور ہے۔

ہر آنکہ زادبناچار بایدش نوشید         زجام دہرمۓ کل من علیھا فان

            یعنی اس میں وفات کے بعد برزخ کا ایک واقعہ مذکور ہے گو ظنی ہے لیکن مبشرات میں سے ہونے کے سبب قابل ذکر ہے اور یہ ایک ثقہ کا خواب ہے جن کا نام محمد عمر فاروق مقیم غازی پور زیر قلعہ کہنہ ہے۔ ان کا خط ١٣رجب ١٣٤٦ھ کو میرے پاس آیا جو بعینہ منقول ہے اور اسی پر اس عجالہ کو ختم کرتا ہوں ،وہوہذا حال میں حضر ت مولانا خلیل احمد صاحب قدس سرہ کی بھی زیارت سے شرف یاب ہوا ہوں ۔ مولانا مرحوم کو خواب میں بہت ہی خوش دیکھا۔احقر نے عرض کیا کہ آپ تو زندہ ہیں لوگوں نے ناحق وفات کی خبر اڑادی اس پر مولانا نے ہنس کر فرمایا میں تو زندہ ہوں پھر یہ دیکھا کہ مولانا کسی طالب علم کو مالا بدمنہ پڑھانا چاہتے ہیں انتہت الرؤیا۔ف  تعبیر ظاہر ہے کہ میں تو زندہ ہوں مصداق ہے اس قول کا

ہرگز نہ میر د آنکہ دلش زندہ شد بعشق         ثبت است برجریدۂ  عالم دوام ما

            اور مالا بدمنہ  پڑھانا اشا رہ ہے مولانا کے جامع بین الفقہ الظاہر و الفقہ الباطن کی طرف کیونکہ مالابدمنہ کے مصنف دونوں کے جامع ہیں ۔اس کے ساتھ ہی اشارہ ہے شان غلبۂ  فقہ ظاہر کی طرف چنانچہ مالا بدمنہ میں غالب حصہ یہی ہے۔

 واللہ اعلم وہذا آخرمااردت ایرادہ فی ہذا الحین نفع اللہ بہ الطالبین ورزقنا حبہ وحب نبیہ و حب الصالحین فقط

اوائل ذیقعدہ ١٣٤٦ھ

مقام تھانہ بھون۔

٭٭٭

ماخذ: انوار مدینہ کے شمارے

تشکر: اسد جن سے فائل کا حصول ہوا

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید