FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

اسلام میں محنت اور مزدوری

               انبیا ء کرام  اور صحابہ کرام   کا محنت و مزدوری کرنا  اور مزدوروں کے حقوق و فرائض 

               طاہر ہ کوکب 

ایم اے/ایم فل
ممبر کراچی سٹی کونسل

محنت کے ذریعہ کما کر کھانا

            محنت کے ذریعہ کما کر کھانا انسانی حمیت و خود داری کا تقاضا ہے۔ اسلام جو دین فطرت ہے اس نے اس فطری صلاحیت کو جلا بخشنے کے لیے مزدور کی سماجی عزت اور مقام کو بلند کیا جبکہ مغربی دنیا نے مزدور کی معاش، مقام اور رتبہ کا استحصال کیا۔ جب ان میں شعور بیدار ہوا تو اس کے ازالہ کے لیے یکم مئی کو "یوم مزدور” منانے کا سلسلہ شروع کیا۔

            جاگیر داری نظام کی شکست و ریخت کے بعد جب جاگیر داروں نے یہ محسوس کیا کہ اب وہ زیادہ دنوں تک اپنے ملک کے غریب عوام کے کاندھوں  پر اپنی غلامی کے جوئے کو بر قرار نہیں رکھ سکیں گے تو انہوں نے چولا بدلا اور اونے پونے اپنی زمینیں فروخت کر کے سرمایہ اکٹھا کیا اور کارخانے قا ئم کرنا شروع کیے غرض کہ دنیا مشینی دور میں داخل ہو گئی وہی سرمایا دار جو پہلے جاگیردار تھا اب کارخانہ دار بن گیا اور وہ مزارع جو پہلے کھیتوں میں محنت و مشقت کر کے جاگیر دار کے حریصانہ جذبات کی تسکین کا سامان بہم پہنچایا کرتا تھا اب مل مزدور کے روپ میں کارخانوں میں تھا۔ وہ دیوا ستبداد جو پہلے زمینوں پر جاگیر دار کے روپ میں حکمرانی کر رہا تھا اب اپنی تمام طبعی خاصیتوں کے ساتھ کارخانوں کے ائیر کنڈیشنڈ دفاتر میں براجمان تھا۔ وہی استحصا ل، وہی معاشی جبر، وہی حق تلفی اور ظلم و جور پہلے اس کا نشانہ مزارع تھا اور اب مل مزدور بن گیا۔

اسلام اور محنت کی عزت افزائی

            انسان اپنی روزی کمانے کے لیے (دائرہ شریعت میں رہ کر ) جو اور جیسی بھی محنت کرے خواہ وہ محنت جسمانی ہو یا دماغی، اسلام اس کی اجازت دیتا ہے اور اجازت ہی نہیں دیتا ہے بلکہ محنت کر نے پر ابھارتا ہے اور جو لوگ اپنا پسینہ بہا کر اپنی روٹی حاصل کرتے ہیں ان کو عزت کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور ان لوگوں کو ناپسند کرتا ہے جو بغیر محنت کے دوسرو ں کے سہارے اپنا پیٹ پالتے ہیں، خصوصیت سے جسمانی اور معمولی محنت کے کام کرنے والوں کو جنہیں آج کی مہذب دنیا میں بھی معاشرہ میں وہ بلند مقام حاصل نہیں ہے جو دوسرے طبقوں کو حاصل ہے، اسلام ان کو وہی مقام عطا کرتا ہے جو مملکت کی بڑی سے بڑی شخصیت کو حاصل ہوتا ہے اور یہ حق ان کو محض نظری اور قانونی طور پر نہیں دیا گیا ہے بلکہ اسلام کے اصلی نمائندوں نے اپنے عمل اور اپنی سیرت سے اس کا ثبوت دیا ہے۔ انبیا ء کرام جو اپنے اخلاق و کردار اور عزت و شرافت کے اعتبار سے پوری انسانیت کا جو ہر ہیں انہوں نے خود محنت اور مزدوری کی ہے اور اپنے ہاتھوں سے اپنی روزی کمائی ہے، دوسروں کی بکریاں چرا کر اور گلہ بانی کر کے اپنی قوت لایموت کا سامان کیا ہے۔

            آج انبیاء کرام کے ماننے والے ہمیشہ محنت اور مزدوری کو ذلیل چیز شمار کرتے ہیں مگر ہمارے بنی کریم حضر ت محمدؐ کی سیرت میں یہ واقعہ بھی ملتا ہے کہ وہ مزدوری کرنے والوں کے ہاتھ کے گٹھے کو خوش ہو کر بوسہ دیتے ہیں، اتنا ضرور ہے کہ اسلام نے محنت کو بے لگام نہیں چھوڑ دیا وہ پسینہ، محنت اور مزدوری میں آزادی کا قائل ہے مگر اس کے ساتھ ایسی محنتوں پروہ پابندی بھی لگا تا ہے جو معاشی یا اخلاقی حیثیت سے معاشرہ کے لیے مضر ہوں۔

            دیکھا جائے تو اسلام انسان کو پائیدار اور مستقل اخلاقی قدریں دیتا ہے اور ان قدروں کی پامالی وہ کسی حالت میں پسند نہیں کرتا چونکہ وہ معاش کو بھی ان قدروں کا پابند بنانا چاہتا ہے اس لیے وہ نہ تو مغرب کی بے قید معیشت اور محنت کی اس بے قید تعریف کو تسلیم کرتا ہے کہ جس کام سے آدمی کو مادی یا غیر مادی معاوضہ حاصل ہو وہ محنت بار آور ہے۔ اور نہ اشتراکیت کی بے اخلاقی جبری محنت کو پسند کرتا ہے بلکہ اسلام صرف اس محنت کو بار آور محنت کہتا ہے جو اجرت و منفعت کے اعتبار سے آزاد ہو مگر اس کی آزادی اخلاقی حدود کے اندر ہو۔

            قرآن پاک میں مزدوروں کی حیثیت، ان کی محنت کی حد اور اجرت کا تعین اور ان کے ساتھ مالک کا طرز عمل کیا ہونا چاہئے اس کا ذکر کئی جگہ آیا ہے، خصوصیت سے سورۃ البقرہ اور قصص میں اجرت کی تعین کے بیان میں اس کی تفصیل موجود ہے         (اسلامی قانون محنت :مجیب اللہ ندوی، ص  ١٣٦)

محنت کی عظمت پر آنحضرتﷺ   کے ارشادات

            محنت کی عزت افزائی کے سلسلہ میں آنحضر تﷺ   کے ارشادات یہاں پیش خدمت ہیں۔

             اس سے بہتر کوئی کھانا نہیں ہے جو آدمی اپنے ہاتھوں سے کما کر کھاتا ہے۔ ( مشکٰوۃ ص٢٤)

            حضرت داؤد علیہ السلام اپنے ہاتھوں سے اپنی روزی کماتے تھے اسی طرح حضرت موسٰی علیہ الصلٰوۃ والسلام کی مزدوری کا قرآن پاک میں جو ذکر ہے اس کا ذکر کر کے آنحضرتﷺ   نے فرمایا  :

             انہوں نے آٹھ یادس برس تک اس طرح مزدوری کہ کہ اس پوری مدت میں وہ پاک دامن بھی رہے اور اپنی         مزدوری کو بھی پاک رکھا۔ (مشکٰوۃ ص ٢٥٢)

            یہ حدیث قرآن مجید کے دو لفظ القوی الامین کی گویا تفسیر ہے ا س سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ مزدور میں اخلاقی اوصاف کیا ہونے چاہئیں اس کی تفصیل آگے آئے گی۔ آپ نے ان چند انبیاء کرام ہی کااُسوہ پیش نہیں کیا بلکہ ایک حدیث میں فرمایا  :

             خدا نے جتنے انبیا ء بھیجے ہیں ان سب نے بکریاں چرائی ہیں۔

            صحابہ نے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ آپ نے بھی بکریاں چرائی ہیں۔

            فرمایا ہاں میں بھی چند قیرا طوں کے عوض اہل مکہ کی بکریاں چرایا کرتا تھا۔ (مشکٰوۃ ص ٢٥٨ باب الاجارہ)

            ایک صحابی نے آپﷺ  سے پوچھا کہ کون سی کمائی سب سے زیادہ پاکیزہ ہے آپﷺ   نے فرمایا اپنی محنت کی کمائی۔ (مشکٰوۃ ص ٢٤٢)

            حدیث میں ہے کہ ایک انصاری نے آنحضرتﷺ  کے سامنے دست سوال دراز کیا۔ آپﷺ   نے ان سے پوچھا تمہارے پاس کوئی سامان ہے ؟جواب دیا ایک کمبل اور ایک پانی پینے کا پیالہ ہے۔ فرمایا اسے لے آؤ وہ لے آئے۔ آپ ﷺ  نے صحابہ سے دریافت فرمایا کہ اس کو کون خریدتا ہے۔ ایک صحابی نے اس کی قیمت ایک درہم لگائی۔ آپ نے فرمایااس سے زیادہ میں کوئی قیمت دے سکتا ہے ؟ایک دوسرے صحابی دو درہم قیمت دینے پر تیار ہو گئے۔ آپ نے یہ چیزیں ان کے حوالہ کیں اور دو درہم ان سے لے کر انصاری کو دے دئیے کہ ایک درہم کی کلہاڑی لے کر آؤ اور ایک درہم کا غلہ خرید کر گھر میں رکھ دو۔ انہوں نے اس کی تعمیل کی جب وہ کلہاڑی لے کر آئے اور ایک درہم کا غلہ خرید کر گھر میں رکھ دیا تو حضو رﷺ  نے اپنے دست مبارک سے اس کلہاڑی میں دستہ لگایا اور ان کے ہاتھ میں دے کر فرمایا کہ جاؤ ا س سے لکڑی کاٹ کاٹ کر بیچو، پندرہ دن تک تم میرے پاس نہ آنا، پندرہ دن کے بعد جب وہ حاضر خدمت ہوئے تو پوچھا کیا حال ہے؟ عرض کیا ا س سے میں نے دس درہم کمائے ہیں، جن میں سے چند درہم کے کپڑے خرید ے اور چند درہم سے غلہ وغیرہ خریدا ہے۔ آپ نے فرمایا کیا بھیک مانگ کر قیامت کے دن ذلت اُٹھانے سے یہ بہتر نہیں ہے۔   (مشکٰوۃ ص ١٦٣)

            آنحضرتﷺ  نے ایک دفعہ خطبہ دیا جس میں فرمایا کہ لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ وہ ایسے کام سے الگ رہتے ہیں جس کو میں خود کرتا ہوں خدا کی قسم میں تم سے زیادہ خدا کا خوف رکھتا ہوں۔  (اسلام کے معاشی نظریے  ج ١  ص٢١٤)

            اس واقعہ میں ان مسلمانوں کے لیے سبق ہے جو اپنے ہاتھ سے کام کرنا عزت کے خلاف سمجھتے ہیں۔ فاروق اعظم  کے عہد خلافت میں ایک توانا تندرست نوجوان یہ کہتا ہوا مسجد نبوی میں داخل ہوا کہ جہاد کرنے میں کون میری مد د کرتا ہے۔ حضرت عمر فاروق   نے اس کو اپنے پاس بلایا اور اس کا ہاتھ پکڑ کر مجمع کو مخاطب کر کے فرمایا کہ اپنی زمین میں کام لینے کے لیے اس شخص کو کون مزدوری پر رکھتا ہے۔ ایک انصاری  بولے میں یا  امیر المؤمنین۔ آپ نے پوچھا تم اس کو ماہانہ کتنی اجرت دو گے انہوں نے اجرت بتائی، فرمایا اس کو لے جاؤ اور کام لو۔ چند مہینے بعد حضرت عمر نے انصاری سے پوچھا کہ مزدور کا کیا حال ہے؟ انہوں نے کہا ٹھیک ہے۔ آپ نے حکم دیا کہ اسے جمع شدہ اجرت کے ساتھ میرے پاس لاؤ۔ چنانچہ و ہ مزدور درہموں سے بھری ہوئی ایک تھیلی کے ساتھ آپ کے سامنے لایا گیا، آپ نے اس سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ لو یہ تھیلی اب جی چاہے جہاد کرو یا جی چاہے گھر بیٹھو۔                               (کنز العمال ج٢ ص ٢١٧)

            اسلام نے جو ذہنیت پیدا کی تھی اس کی وجہ سے اس زمانہ میں کوئی شخص بھی بے کار رہنا پسند نہیں کرتا تھا چنانچہ صحابہ میں بہت کم ایسے لوگ تھے جو کسی نہ کسی پیشہ سے وابسطہ نہ ہوں۔ آنحضرتﷺ نے صحابہ میں یہ عام جذبہ پیدا کر دیا تھا کہ وہ کسی پر اپنا معاشی بار ڈالنا پسند نہیں کرتے تھے۔ (اسلامی قانون محنت ص١٤٠)

صحابہ کرام  کا محنت و مزدوری کرنا

            بعض صحابہ کرام رزق حلال کے لیے ہر قسم کی محنت و مشقت کرتے تھے۔ مختلف پیشوں کے ذریعہ سے اپنی روزی کماتے مثلاً حضرت خباب بن ارت لوہار تھے، حضرت عبداللہ بن مسعود چرواہے تھے، حضرت سعدبن ابی وقاص  تیر سازتھے، حضرت زبیر بن عوام  درزی تھے، حضر ت بلا ل بن رباح   گھریلو نوکر تھے، حضر ت سلمان فارسی حجام تھے، حضرت عمر و بن العاص قصائی تھے، حضر ت علی کھیتوں میں مزدوری کرتے تھے، حضرت ابوبکر  کپڑا بیچتے تھے۔ خلیفہ بن جانے کے بعد بھی وہ کپڑوں کی گٹھڑی کمر پر لاد کر گھر سے نکلے تو راستہ میں حضرت عمر  اور ابو عبیدہ  ملے انہوں نے کہا اب آپ یہ کام کیسے کر سکتے ہیں آپ تو اب مسلمانوں کے معاملات کے والی ہیں۔ انہوں نے جواب دیا اپنے بال بچوں کو کہاں سے کھلاؤں ؟تو ان دونوں نے کہا ہم تمہارے لیے روزی (تنخواہ )مقرر کر دیتے ہیں۔ انہوں نے شورٰی میں ان کی تنخواہ کے متعلق فیصلہ کر دیا۔

صحابیات   کا محنت و مزدوری کرنا

            ازواج مطہرات  گھروں میں اُون کاتتی تھیں، کھالوں کی دباغت کرتی تھیں۔ حضرت زینب کھالوں کی دباغت کرتی تھیں۔ (اسلام کا نظام تعلیم ص٥٢)حضرت اسماء بنت ابی بکر  جانوروں کی خدمت اور جنگل سے لکڑیاں چن کر لا نے کا کام کرتی تھیں (صحیح البخاری ج٣ ص١٢١)کچھ خواتین کھانا پکا  کر فروخت کر نے کا م کرتی تھیں (صحیح البخاری کتاب الجمعہ باب فاذاقضیت الصلوۃ ج١ ص١٢٨) کچھ دودھ نکال کر فروخت کرتی تھیں۔ (ابن عبدالحکم کی سیرت عمر بن عبدالعزیز مترجم ص١٢۔ ١٣) کچھ دایہ کا کام کرتی تھیں (صحیح البخاری، کتاب الطلاق)جسے لمبی خدمات سے شامل کیا جا سکتا ہے۔  کچھ بچوں کا ختنہ کرتی تھیں (سلطان احمد کی اسلام کا نظریہ جنس ص٢٥١)، کچھ زراعت کرتی تھیں (بخاری ج١ ص ٥٥٤)، کچھ تجارت کرتی تھیں (بخاری ج١ ص٧٥٢)، کچھ خو شبو فروخت کرتیں تھیں کچھ کپڑا بنتی تھیں (بخاری ج١ ص٧٣٥)اور کچھ بڑھئی کا کام کرتی تھیں (بخاری ج ١ ص٧٣٦)۔ حضرت عائشہ  نے زینب بنت حجش  زوجہ رسولﷺ   کے بارے میں فرمایا۔ ” تعمل بید ھاوتصدق ” وہ اپنی محنت سے کماتیں اور للہ کی راہ میں صدقہ کرتیں تھیں (صحیح مسلم کتاب فضائل الصحابہ ج ٣  ص٥٥٤)۔

            ان احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ انبیاء کرام، صحابہ کرام اور صحابیات  بھی محنت کر کے ضروریات زندگی حاصل کرتے تھے۔ اسلام نے جہاں محنت کے فضائل بیان کئے وہاں مزدور کے حقوق و فرائض بھی بیان کئے ہیں اور اس توازن کو قائم رکھنے کی ذمہ داری حکومت کی ہے۔

مزدور کے حقوق و فرائض

            حکومت کی ذمہ داری اجیر و مستاجر کے حقوق و فرائض کی تعیین ہے۔ یوں تو اجیر و مستاجر کو اُجرت کے سلسلہ میں معاہدہ اُجرت کی پوری آزادی ہو گی مگر اجیر کو یہ حق ہو گا کہ وہ جو محنت اپنے لیے پسند کرے اختیار کرے اور جس شرط پر چاہے مستاجر سے معاہدہ کرے۔ اسی طرح مستاجر کو یہ حق ہو گا کہ وہ جس مزدور کو چاہے اپنے یہاں کام پر رکھے اور جو اُجرت چاہے مقرر کرے، مگر اس آزادی کے باوجود حکومت چند باتیں اُصولی طور پر طے کرے گی جن کی پابندی دونوں کو لازم ہو گی۔

            (١)  ان کو کم از کم اتنی اُجرت دی جائے کہ ان کی ضروریات آسانی کے ساتھ پوری ہوسکیں۔ ضروریات زندگی کی تفصیل اوپر گزر چکی ہے۔

            (٢)  ان کے کام کا وقت متعین ہو مگر اس وقت میں بھی ان سے اتنا کام اور ایسا کام نہ لیا جائے جو ان کی طاقت سے زیادہ ہو اور وہ کام عام حالات میں آدمیوں سے نہ لیا جاتا ہو یا جن کی وجہ سے ان کی صحت اور قوت کار پر جلد برا اثر پڑنے کا اندیشہ ہو۔

            (٣)  مدت ملازمت میں بیماری کی دیکھ بھال اور علاج کی ذمہ داری مستاجر پر ہو گی۔

            (٤)  مزدور سے اگر اچانک کوئی غلطی یا نقصان ہو جائے تو اس پر کوئی باز پرس نہیں کی جا سکتی لیکن اگر اس نے  قصداً کوئی نقصان کیا ہے تو مستاجرکو یہ حق ہو گا کہ وہ اس سے اس کا تاوان وصول کرے گا اگر وہ تاوان ادا نہ کر  سکے تو یہ حکومت کا فرض ہو گا کہ وہ مزدور کی طرف سے خود تاوان ادا کرے۔

            (٥)  اگر کام کے درمیان میں مزدور کو کوئی حادثہ پیش آ جائے تو اس کی تلافی مستاجر کو کرنی پڑے گی، اس کی کوئی متعین صورت نہیں بتائی جا سکتی۔ اس کی تعیین حالات اور حادثہ کی کیفیت و کمیت کے مطابق ہی متعین ہو گی۔

            (٦)  اگر مزدور کام میں سستی کرے یا دل نہ لگا ئے تو مستاجر کو اس کی اُجرت میں کمی کر دینے کا حق ہو گا اور اگر اس کا رکھنا اس کے لیے نقصان دہ ہو تو وہ علیحدہ بھی کر سکتا ہے مگر علیحدہ کرنے سے پہلے اس کو سمجھانے بجھانے اور کام کی رغبت پیدا کرنے کی تدبیریں اختیار کرنی ضروری ہوں گی اس لیے کہ ممکن ہے کہ یہ چیز کسی عذر یا بددلی کی وجہ سے ہو۔

            (٧)  محض نفع کی کمی یا معمولی نقصان کی بناء پر مزدور کو علیحدہ نہیں کیا جا سکتا اس کے لیے ضروری ہو گا کہ یا تو وہ مزدور کو خود اس پر راضی کرے یا مستاجر حکومت کے سامنے اس کو علیحدہ کرنے کی وجہ بیان کر کے اس کے لیے اجازت حاصل کرے۔          (اسلامی قانون محنت ص٤٦۔ ٤٧)

حکومت کی ذمہ داریاں

            یہ اصول طے کر دینے کے بعد حکومت کا کام ختم نہیں ہوتا بلکہ ان اصولوں پر عمل درآمد بھی ہو رہا ہے یا نہیں اس کی نگرانی کے لیے حکومت ایک "مزدور نگران "محکمہ قائم کرے گی جو ہر وقت اس بات کی نگرانی کرتا رہے گا کہ مزدوروں پر کوئی زیادتی تو نہیں ہو رہی ہے، مزدوروں اور مالکوں میں کوئی کشمکش تو نہیں پیدا ہو رہی ہے۔ اس محکمہ کے متعلق حسب  ذیل کا م ہوں گے۔

            (١) کوئی مستاجر اجیر پر زیادتی تو نہیں کر رہا ہے یہ زیادتی دو طرح کی ہو سکتی ہے ایک اجرت کی کمی کی دوسرے کام کی زیادتی کی۔ ان دونوں صورتوں میں محکمہ کے ذمہ داروں کا کام یہ ہو گا کہ وہ اس کا دفعیہ کریں۔ امام ابویعلی    محتسب کے فرائض کی تفصیل بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں  :

            و اذا تعدی مستاجر علی اجیر فی نقصان اجرا واستزاد عملہ کفہ عن تعدیہ                                                                                 (الاحکام السلطانیۃ ص٦٨٦)

            جب کو ئی مستاجر اجیر پر( کام کی )زیادتی یا اجرت کی کمی کے سلسلہ میں زیادتی کرے تو یہ زیادتی سے روکے۔

            اگر مستاجر اجیر کی شکایت کو غلط قرار دے دے یا اس سے انکار کرے تو اس کا انکار کرنا کافی نہیں بلکہ اس کا انکار اس وقت معتبر ہو گا جب مزدور کے حالات اور دوسرے ذرائع سے اس کا غلط ہونا ثابت ہو جائے۔ وکان الا نکار معتبر ابشواھد حالہ (بحوالہ سابق)مستاجر کا انکار مزدور کے حالات کے اندازے کے بعد معتبر ہو گا۔

            (٢)  اسی طرح اگر کوئی ا جیر کام میں کوتاہی کرے یا اجرت معاہدہ یا حکومت کے مقرر کردہ معیار سے زیادہ اُجرت مانگے تو اس کو وہ اس سے روکے گا اور اس کو تنبیہ کرے گا۔

            ولوقصرالاجیرفی حق المستاجرفنقصہ من العمل اواستزادہ فی الاجرمنعہ منہ    (ابو یعلیٰ الاحکام السطانیہ  ص  ٦٨٦)

            اجیر اگر مستاجر کے حق میں کوئی کوتاہی کرے یعنی کام کم کرے یا مقررہ معیار سے اُجرت زیادہ مانگے تو اس کو بھی اس سے روکا جائے گا۔ اگر اس محکمہ کے ذمہ داروں کی تنبیہ اور ہدایت کے بعد بھی وہ باز نہ آئیں یا آپس میں کشمکش کریں تو فوراً یہ معاملہ سول کورٹ کے سپرد کر دیا جائے اور وہ اس بارے میں اپنی صواب دید کے مطابق فیصلہ کرے گی۔

            خان اختلفوا و تنا کرواکان الحاکم بالنظر بینھما احق

             جب آپس میں اختلاف اور کشمکش زیادہ ہو تو یہ معاملہ حکومت کی عدالت کے سپرد ہو گا۔

            سول کورٹ فیصلہ کرنے میں اسلام کا یہ مسلمہ اصول پیش نظر رکھے گا۔

            لایظلمون ولا یظلمون

            نہ وہ خود ظلم کرتے ہیں اور نہ ان پر ظلم کیا جاتا ہے۔

            حدیث میں ہے  : لاضرر و لا ضرارنہ نقصان اٹھانا صحیح ہے اور نہ نقصان پہنچانا۔ اس کے پیش نظر فقہا ء نے یہ اُصول بنایا ہے   الضرر یزال تکلیف اور نقصان کو حتی الامکان دور کیا جائے گا۔ اسی طرح حکومت کے مذکورہ طے کردہ اُصولوں میں سے جس کسی اصول کی بھی مخالفت کوئی فریق کرے گا تو حکومت اس میں مداخلت کر کے اس کا منصفانہ تصفیہ کرے گی۔ وہ تماشائی بن کر دونوں کی کُشتی نہیں دیکھے گی۔

            اس محکمہ کے سپرد صرف انہیں مزدوروں کے حقوق کی نگرانی نہیں ہو گی جو کسی کارخانہ یا سرکاری محکمہ میں ملازم ہیں بلکہ ذاتی ملازموں، اہل پیشہ اجیروں، صناعوں، معلموں، طبیبوں اور محنت کش جانوروں کے حقوق کی حفاظت بھی اس کے دائرہ اختیار میں ہو گی۔             (اسلامی قانون محنت ص ٤٨)

            امام ابو یعلی   نجی ملازموں کے بارے میں لکھتے ہیں  :

            "اگر کوئی آقا اپنے ملازم یا خادم سے اتنا کام لے جس کو وہ ہمیشہ نہ کر سکے تو پھر مزدوروں کے نگراں کا فرض ہے کہ اس سے وہ آقا کو بطور نصیحت روکے۔ یہ تو اس صورت میں ہے کہ جب نگران خود محسوس کرے اور اگر ملازم خود شکایت کرے تو پھر سختی کے ساتھ ممانعت کرے۔ ”            (ابو یعلی الاحکام السطانیہ ص ٢٨٩)

            خلاصہ کلام یہ کہ محنت و مزدوری کے ذریعہ رزق حلال کمانا اور پیشہ بھی جائز اختیار کرنا دراصل بہت بڑی عبادت کا کام ہے جس طرح نماز عبادت ہے روزہ عبادت ہے اسی طرح یہ بھی عبادت ہے جیسا کہ میں ثابت کر چکی ہوں کہ انبیاء صلحاء سب نے محنت کے ذریعہ ضروریات زندگی حاصل کیں۔ جو لوگ دوسروں کی محنت کی کمائی پر اپنی زندگی گزارتے ہیں وہ خود اپنی نگاہ میں بھی گر جاتے ہیں اور لوگوں کی نگاہ میں بھی گر جاتے ہیں۔

٭٭٭

ماخذ:

انوارِ مدینہ، لاہور

تشکر:اسد جن کے توسط سے فائل کا حصول ہوا

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید