FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

فہرست مضامین

بابائے اردو مولوی عبدالحق۔۔فن اور شخصیت

 

فن اور شخصیت

 

حصہ دوم

 

               ڈاکٹر سید معراج نیئر

 

 

 

 

               تذکرہ ہندی

 

بابائے اردو مولوی عبدالحق نے غلام ہمدانی مصحفی کی تالیف ’’تذکرہ ہندی‘‘ کو 1933ء میں سلسلہ مطبوعات انجمن ترقی اردو دکن سے نمبر54 کے تحت شائع کیا تھا اور اس پر چودہ  صفحات کا مقدمہ بھی قلمبند کیا ہے جس میں مصحفی کے تذکرہ ’’ریاض الفصحا‘‘ کو بنیاد بنا کر مصحفی کے حالات زندگی، تعلیم و تربیت اور خاندانی پس منظر پر روشنی ڈالی ہے۔

مصحفی کا پہلا تذکرہ ’’عقد ثریا‘‘ ہے اس کی تکمیل ( 1199 ھ) کے بعد ’’تذکرہ ہندی‘‘ کی تالیف شروع ہوئی گارساں و تاسی نے اپنے 4دسمبر 1854ء کے خطبہ میں اس کا ذکر اس طرح کیا ہی:

’’مصحفی نے اپنا اردو شعراء کا تذکرہ میر مستحسن خلیق کی فرمائش سے لکھا جس میں محمد شاہ کے عہد سے لے کر اپنے وقت تک کے شعراء کا حال ہے جن کی تعداد تقریباً ایک سو پچاس ہے۔ مولف نے خاص کر اپنے ہم عصروں کے حالات بیان کرنے میں تفصیل سے کام لیا ہے۔‘‘

گارساں دتاسی کے بیان کا دوسرا حصہ درست نہیں اس کتاب میں تقریباً ایک سو پچاس نہیں بلکہ 193شعراء کا ذکر ملتا ہے جس میں خود مصفحی کی ذات اور پانچ شاعرات (دلہن بیگم، گنا بیگم، زینت، جینا بیگم اور موتی) بھی شامل ہیں۔

مصحفی نے اس تذکرے کی ترتیب میں حروف تہجی کا طریقہ اختیار کیا ہے البتہ شاعرات کا ذکر تذکرے کے آخر میں ’’تذکرہ شاعرات‘‘ کے عنوان سے کیا ہے۔ اس حصہ میں حروف تہجی کی ترتیب نہیں برتی گئی۔

مولوی عبدالحق کے بقول مصحفی کے تذکروں میں:

’’سب سے پہلا تذکرہ، فارسی گو شعراء کا ہے جس کا نام ’’عقد ثریا‘‘ ہے۔۔۔۔ دوسرا تذکرہ اردو شاعروں کا ہے تیسرے تذکرہ کا نام ’’ریاض الصفحا‘‘ ہے اس تذکرہ کی ضرورت یوں پیش آئی کہ جن لوگوں کے نام پہلے تذکرے میں لکھنے سے رہ گئے تھے ان کا ذکر اس میں کیا گیا ہے۔‘‘

ان تینوں میں تذکرہ نمبر2یعنی تذکرہ ہندی اصل ہے باقی کو اس کا تکملہ سمجھنا چاہئے۔

مصحفی نے ’’تذکرہ ہندی‘‘ کی تالیف کے آغاز کے سلسلے میں صرف یہ تحریر کیا ہے کہ ’’عقد ثریا‘‘ کی تکمیل کے بعد آغاز کیا ’’عقد ثریا‘‘ کی تکمیل 1199 ھ میں ہوئی تھی گویا یہ تذکرہ 1199 ھ میں یا اس کے بعد شروع کیا البتہ تذکرہ ہندی کے اختتام کی تاریخ قطعہ میں ’’جلد بے نظیر‘‘ سے 1209 ھ نکلتی ہے۔

مولوی عبدالحق نے مصحفی کے تذکرے کا یہ نسخہ مختلف نسخوں کی مدد سے مرتب کیا تھا ان کا بیان ہے:

’’ہندی گویاں کا پہلا تذکرہ ایشیا ٹک سوسائٹی بنگال کے نسخے پر مبنی ہے البتہ اس کا مقابلہ خدا بخش خان کے کتب خانے کے نسخے سے کیا گیا بعض مشتبہ مقامات کا مقابلہ کتب خانہ مدرسہ ندوۃ العلما سے بھی کیا گیا باقی دو تذکرے خدا بخش خاں کے کتب خانے کے نسخوں کی نقل ہیں۔ بعد ازاں تینوں تذکروں کے بیاضوں کا مقابلہ کتب خانہ ریاست رام پور کے نسخوں سے ہوا۔ افسوس ہے کہ کتب خانہ خدا بخش خان اور رام پور کے نسخے بہت غلط اور بد خط نکلے تاہم مقابلے سے بعض مقامات کی کچھ نہ کچھ تصحیح ہو گئی۔‘‘

مولوی عبدالحق نے ’’تذکرہ ہندی‘‘ کے مرتب کرنے میں جن جن نسخوں سے استفادہ کیا ہے ان کا حاشیوں میں اندراج کر دیا ہے۔

ڈاکٹر فرمان فتح پوری کا قول ہے:

’’اس تذکرے کے ذریعہ اس زمانے کے مذاق ادبی، انداز سخن گوئی، شعراء کے حالات زندگی اور طرز فکر کے بارے میں بہت سی نئی باتیں معلوم ہوتی ہیں‘‘

انجمن ترقی اردو (ہند) اورنگ آباد نے 1933ء میں جامع برقی پریس دہلی سے شائع کرایا تھا۔

عقد ثریا(تذکرہ فارسی گویاں)

’’عقد ثریا‘‘ غلام ہمدانی مصحفی کا ’’تذکرہ فارسی گویاں‘‘ ہے مجموعی اعتبار سے 85شعراء کے تذکرے پر مشتمل ہے یہ تذکرہ مصحفی نے فارسی زبان میں رقم کیا تھا جس میں تین قبیل کے شعراء کا ذکر ہے:

اول: وہ فارسی گو شعراء جنہوں نے کبھی بی سر زمین ہند پر قدم نہیں رکھا

دوم: وہ شعرائے ایران جو ہندوستان آئے

سوم: ہندوستانی فارسی گو شاعر

مصحفی نے تذکرے کی تمہید میں ’’زھے باغ باصفا‘‘ سے اس کی تاریخ اختتام 1199 ھ نکالی ہے۔

یہ نسخہ مولوی عبدالحق نے ’’عقد ثریا‘‘ کے تین مختلف نسخوں کی مدد و موازنہ سے جس میں دو نسخے کتب خانہ خدا بخش اور تیسرا ریاست رام پور کی ملکیت تھا، مرتب کر کے پہلی بار 1934ء میں شائع کیا۔

مولوی عبدالحق نے ’’تذکرہ‘‘ کر کے ابتدائی14 صفحات میں ایک مقدمہ بھی درج کیا ہے جس میں ’’عقد ثریا‘‘ کے موفل ہمدانی مصحفی کے حالت زندگی اور ان کے ادبی کارناموں کا جائزہ لیا ہے۔

مولف نے اس تذکرہ میں جن شعراء کا ذکر کیا ہے اس کی ترتیب زبانی اعتبار سے نہیں کی ہے بلکہ حروف تہجی کا طریقہ اختیار کیا ہے اور اپنا ذکر بھی ردیف ’’میم‘‘ میں کیا ہے۔

مولوی عبدالحق نے غلام ہمدانی مصحفی کے اس انداز کو بڑا سراہا ہے کہ مصحفی نے اپنے ہم عصر شعراء یہاں تک کہ ان لوگوں کے ذکر میں بھی بڑے حوصلے سے کام لیا ہے جن سے مصحفی کی آویزش اور چشمک رہتی تھی یہ کتاب 1934ء میں انجمن ترقی اردو نے شائع کی تھی۔

 

               ریاض الفصحا (تذکرہ ہندی گویاں)

 

انجمن ترقی اردو نے سلسلہ مطبوعات نمبر77کے تحت مصحفی کا تذکرہ ریاض الفصحا 1934ء جامع برقی پریس دہلی سے شائع کیا تھا جسے مولوی عبدالحق نے خدا بخش لائبریری پٹنہ کے اس قلمی نسخے سے مرتب کیا جسے رمضان بیگ طپاں نے 1237ء میں کتابت کیا تھا۔

ضخامت کے اعتبار سے مصحفی کا یہ تذکرہ اس کے مولفہ دونوں تذکروں (عقد ثریا اور تذکرہ ہندی) سے بڑا ہے مولوی عبدالحق نے تذکرہ ہندی میں اس کی وجہ تالیف اس طرح بیان کی ہے:

’’اس تذکرے کی ضرورت یوں پیش آئی کہ جن لوگوں کے نام پہلے تذکرے میں لکھنے سے رہ گئے تھے ان کا ذکر اس میں کیا گیا ہے۔‘‘

اس تذکرے میں321شعراء کا ذکر حروف تہجی کے اعتبار سے کیا گیا ہے مصحفی نے اس تذکرے میں اپنا ذکر بھی تفصیل سے کیا ہے ریاض الفصحا کی تصنیف کے وقت اپنی عمر80برس بتائی ہے۔

’’ریاض الفصحا‘‘ تذکرے کا تاریخی نام ہے اس سے اس کا سال تصنیف 1221 ھ نکلتا ہے۔۔۔ اس کا تمکلہ 1236 ھ میں ہوا۔

’’ریاض الفصحا‘‘ کا مقدمہ مولوی عبدالحق کا تحریر کردہ وہی مقدمہ ہے جو اس سے قبل ’’تذکرہ ہندی‘‘ اور ’’عقد ثریا‘‘ میں شامل تھا۔

 

               تذکرہ ریختہ گویاں

 

مولوی عبدالحق نے فتح علی گردیزی کی تالیف ’’تذکرہ ریختہ گویاں‘‘ کو تین مختلف قلمی نسخوں کی مدد سے مرتب کر کے ’’مطبوعات انجمن ترقی اردو نمبر76کے تحت اورنگ آباد (دکن) سے انجمن کے پریس سے 1934ء میں ٹائپ میں شائع کیا۔‘‘

تذکرے کے آغاز میں17 صفحات کا مقدمہ ہے مولوی عبدالحق کی فہرست کے مطابق 98شعراء کا ذکر ہے جب کہ فرمان فتح پوری صاحب لکھتے ہیں:

’’اس میں صرف97شاعروں کا ذکر بلحاظ حروف تہجی آیا ہے۔ مولوی صاحب کے مرتبہ نسخے میں98شعراء کی فہرست اور ترجمہ شامل ہے یہ درست نہیں ہے۔‘‘

ابتداء میں مولف کا ایک مختصر دیباچہ بھی ہے جس میں گردیزی نے اپنے تذکرے کی وجہ تالیف بیان کرتے ہوئے لکھا ہے۔

’’جن لوگوں نے اس سے قبل شعرائے ریختہ کے تذکرے لکھے ہیں، انہوں نے محض حسد سے ان پر نکتہ چینیاں کی ہیں، جس سے میں نے احتراز کیا ہے اور انصاف کو مد نظر رکھا ہے‘‘

یہ تذکرہ 5محرم الحرام 1166 ھ کو مکمل ہوا تھا اور شعبان 1172 ھ میں سید عبوالوالی صاحب عزلت کی فرمائش پر سید عبدالنبی ابن سید محمود نے نقل کیا تھا۔

مولوی عبدالحق نے اپنے مقدمہ میں مولف کے خاندانی پس منظر پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا ہے:

’’سید فتح علی حسینی اپنے وقت کے مشائخ اور صوفیا میں شمار کئے جاتے تھے اور جو شجرہ ان کا تحریر کیا ہوا مجھے ملا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ مخدوم میر جہاں (خلیفہ مخدوم شاہ عالم محمدی خلیفہ میر سید محمد کبیر خلیفہ شیخ عبداللہ الہ آبادی) سے بیعت اور ان کے خلفا میں سے تھے۔‘‘

مولوی عبدالحق نے اپنے مقدمہ میں سید فتح علی حسینی کی دیگر تصانیف(کشف الستارفی معرفتہ الاسرار، مراۃ العرفان، ابطال الباطل، نور ہدایت معرفتہ الفقر) پر بھی روشنی ڈالی ہے۔

 

               تنقیدات عبدالحق

 

1934ء میں محمد تراب علی خان باز نے ان 23تبصروں کو جو رسالہ ’’اردو‘‘ میں 1922ء سے 1933ء تک مولوی عبدالحق کے قلم سے نکلے تھے کتابی شکل میں ’’تنقیدات عبدالحق‘‘ کے عنوان سے شمس الاسلام پریس حیدر آباد دکن سے شائع کیا۔

مرتب نے سنت دیرینہ کے عنوان سے 2 صفحات کا دیباچہ تحریر کیا ہے غلطی سے انہوں نے اس مجموعہ میں تنقیدات کی تعداد 24 بتائی ہے جب کہ ان کی مجموعی تعداد 23 ہے جن کی تفصیل کچھ یوں ہے:

1 دیوان ولی  رسالہ ’’اردو‘‘ اورنگ آباد جنوری 1924ء

2 مکاتیب نواب محسن الملک و نواب وقار الملک اپریل 1924ء

3 سرگذشت الفاظ اپریل 1924ء

4 شرح دیوان غالب  اپریل 1924ء

5 تذکرہ اعجاز سخن اپریل 1924ء

6 تلخیص عروض و قافیہ اپریل 1924ء

7 زبان اردو پر سرسری نظر جولائی 1924ء

8 خطوط غالب جولائی 1924ء

9بانگ درا اکتوبر 1924ء

10مکاتیب امیر مینائی اکتوبر 1924ء

11 شعر الہند  جنوری 1926ء

12 رو ح تنقید اپریل 1926ء

13 اصلاح سخن اکتوبر 1926ء

14 اردو شہ پارے اکتوبر 1926ء

15 گنجینہ تحقیق اکتوبر 1926ء

16 ارباب نثر  جولائی 1930ء

17 اکبر الہ آبادی اکتوبر 1928ء

18 پنجاب میں اردو جولائی 1928ء

19  فیضان شوق جولائی 1929ء

20 اردو لٹریچر جولائی 1933ء

21 نور اللغات  اکتوبر 1923ء

22جامع الغات اپریل 1933ء

23مجموعہ نقد اکتوبر 1933ء

 

               معراج العاشقین

 

اخلاق و تصوف کے موضوع پر بابائے اردو مولوی عبدالحق صاحب نے 1934ء میں بندہ نواز خواجہ گیسو دراز کی ’’معراج العاشقین‘‘ تاج پریس حیدر آباد (دکن) سے طبع کرا کے انجمن ترقی اردو اورنگ آباد (دکن) سے اپنے مقدمہ کے ساتھ شائع کی تھی مولوی عبدالحق صاحب نے خواجہ صاحب کا تعارف کراتے ہوئے تحریر کیا تھا:

’’حضرت سید محمد حسینہ بندہ نواز گیسو دراز قدس سرہ، کا فیض زمین دکن پر عام ہے ان کا مزار مرجع خلائق ہے اور ان کی تصنیف اب تک لوگ تلاش کر کے شوق سے پڑھتے ہیں حضرت ان بزرگان دین میں ہیں جن کی تصانیف و تالیفات کثرت سے ہیں اور تقریباً سب کی سب فارسی میں ہیں لیکن تحقیق سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ آپ نے بعض رسالے ہندی یعنی دکنیا ردو میں بھی تصنیف فرمائے ہیں۔‘‘ (۸۱)

مولوی عبدالحق صاحب کو حضرت سید محمد حسینی بندہ نواز کی ’’معراج العاشقین‘‘ کا ایک نسخہ تصوف و اخلاق کے موضوع پر میسر آ چکا تھا لیکن وہ اس خدشہ سے کہ بعض دفعہ عقیدت مند اپنی بعض تصانیف و تالیفات اپنے مرشد کے نام منسوب کر دیتے ہیں اور کہیں یہ کتاب بھی اس قبیل کی نہ ہو، چپ سادھ لی۔ مولوی عبدالحق صاحب لکھتے ہیں:

’’مولوی غلام محمد صاحب انصاری وفا مدیر ’’تاج‘‘ نے ایک رسالے ’’معراج العاشقین‘‘ کا پتا ڈاکٹر قاسم صاحب کے کتب خانے سے لگایا اور جب انہوں نے مجھے یہ نسخہ دکھایا تو چند سطریں پڑھنے کے بعد ہی مجھے خیال آیا کہ اس کا ایک نسخہ میرے پاس بھی موجود ہے نکال کر دیکھا تو ایک ہی کتاب کی دو نقلیں تھیں۔‘‘

مولوی عبدالحق صاحب کو جب یہ یقین ہوا کہ یہ تصنیف سید محمد حسینی بندہ نواز کی ہے تو انہوں نے اسے مرتب کیا مولوی صاحب کو ان دونوں نسخوں کی مدد سے ایک نیا نسخہ مرتب کرنے میں بہت دقت ہوئی یوں کہ ان کے پیش نظر جو دو مختلف نسخے تھے وہ دونوں ہی بہت غلط، بد خط اور مسخ شدہ تھے۔ مولوی عبدالحق کا دل پھر نہیں ٹھکا ان کا خیال تھا:

’’اگر یہ حضرت کی نہیں تو ان کے کسی ہم عصر یا اس سے قریب کی تصنیف ضرور ہے۔‘‘

مولوی عبدالحق صاحب کا شک بعد کی تحقیق نے سچ ثابت کیا کہ یہ کتاب بندہ نواز گیسو دراز کے بجائے مخدوم شاہ حسینی بیجا پوری کی تصنیف ہے لیکن اس کے باوجود اس نسخہ کو مرتب کرنا مولوی عبدالحق صاحب کے کارناموں میں سے ایک بڑا کارنامہ ہے۔

 

               نکات الشعرا

 

مولوی عبدالحق نے میر تقی میر کی تالیف نکات الشعراء کو انجمن ترقی اردو کے سلسلہ مطبوعات کے نمبر26کے تحت 1935ء انجمن پریس سے ٹائپ میں طبع کرایا تھا۔

یہ تذکرہ103شعراء کے تذکرے پر مشتمل ہے جس میں میر تقی میر کی اپنی ذات بھی شامل ہے۔

میر نے اپنے اس تذکرے کے سن تالیف کا کوئی واضح ذکر نہیں کیا ہے صرف ضمناً رائے آنند رام مخلص کے ذکر سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ تذکرہ کی تالیف سے ایک سال قبل مخلص کا انتقال ہوا تھا۔

مخلص کی تاریخ وفات کے سلسلے میں مولوی عبدالحق نے خزانہ عامرہ مولفہ آزاد بلگرامی مطبوعہ نولکشور پریس کے صفحہ425کے حوالے سے مخلص کا سن وفات 1164 ھ تحریر کیا ہے۔

مشہور مستشرق موسیو گارساں دتاسی نے بھی اپنے 4دسمبر 1854ء کے خطبے میں کہا تھا:

’’مخلص کی وفات 1164 ھ( 1750 -51ء) میں ہوئی‘‘

مولوی عبدالحق نے تالیف کو اس قلمی نسخے کے مدد سے مرتب کیا جو سید عبدالولی عزلت کے لئے سید عبدالغنی ابن سید محمود نے 1172 ھ میں کتابت کیا تھا۔

مولوی عبدالحق نے اس تذکرے کے آغاز میں چار  صفحات پر مشتمل ایک مقدمہ بھی تحریر کیا ہے جس میں اس تذکرے کی تقدیم کے سلسلے میں تاریخی اور علمی شواہد پیش کئے ہیں اور اس کا ادبی مرتبہ قائم کرتے ہوئے تحریر کیا ہے:

’’اگرچہ یہ تذکرہ مختصر ہے لیکن اس میں عموماً اور اکثر شعراء کے کلام پر منصفانہ اور بے باکانہ تنقید پائی جاتی ہے یہ بات دوسرے تذکروں میں نظر نہیں آئے گی دوسرے ایجاز کے ساتھ اس کی عبارت میں شگفتگی اور پختگی بھی ہے۔۔۔۔۔۔۔ بعض باتیں پہلے پہل اس تذکرے سے معلوم ہوئیں مثلاً جو ریختہ شیخ سعدی شیرازی سے منسوب چلا آ رہا تھا سب سے پہلے اس کی تردید میر صاحب ہی نے کی اور یہ بتایا ہے کہ یہ شاعر سعدی دکنی تھا یا مرزا جان جاناں کا نام جو عام طور پر مشہور ہے وہ اصل میں جان جاں ہے اس طرح ولی کو سب سے پہلے اورنگ آبادی میر صاحب ہی نے لکھا۔‘‘

 

               دیوان تاباں

 

مولوی عبدالحق نے یہ نسخہ تین مختلف نسخوں کی مدد سے مرتب کیا تھا جس میں سے ایک پنڈت برج  موہن دتاتریہ کیفی دہلوی کا عطیہ، دوسرا ریسرچ انسٹی ٹیوٹ مدارس یونی ورسٹی کی ملکیت اور تیسرا انجمن ترقی اردو کی ملکیت تھا۔

مولوی عبدالحق نے میر عبدالحئی تاباں کا ان الفاظ میں تعارف کرایا ہے:

’’میر عبدالحئی تاباں شاہ جاں آباد کے رہنے والے اور دور محمد شاہی کے شعراء میں تھے عین عالم شباب میں کثرت مے نوشی کے باعث انتقال کیا۔‘‘

’’دیوان تاباں‘‘ میں غزلوں کے علاوہ دیگر اصناف شعر بھی موجود ہیں۔ جن میں ایک مثلث 6مخمس،2مسدس،1ترکیب بند، 1مستزاد، 1قصیدہ، در مدح بادشاہ،1مثنوی اپنے استاد حشمت نواب عمدۃ الملک کی مدح میں، چند تضمین حافظ اور مظہر جان جاں کے مصرعوں پر اور آخر میں چھ قطعات تاریخ شامل ہیں۔ یہ قطعات جن حضرات کی وفات پر لکھے گئے ہیں ان کے نام یہ ہیں:

سیدی احمد، شرف الدین، پیام، مضمون، روشن رائے، نواب امیر خان اور حشمت، آخری قطع تاریخ حشمت کا ہے جس سے حشمت کی تاریخ وفات 1161 ھ نکلتی ہے اور اسی سے مولوی عبدالحق نے یہ قیاس کیا ہے:

’’ان کا انتقال 1161 ھ اور 1165 ھ کے درمیان ہوا‘‘

کتاب ٹائپ میں 1935ء میں انجمن ترقی اردو اورنگ آباد نے انجمن پریس سے شائع کی۔

 

               میٹریکولیشن کا نصاب اردو

 

مولوی عبدالحق نے مجلس نصاب اردو جامعہ عثمانیہ کی ہدایت کے مطابق ’’میٹریکولیشن کا نصاب اردو‘‘ مرتب کیا تھا جو محمد صدیق حسن کے زیر اہتمام انجمن پریس اورنگ آباد سے 1935ء میں شائع ہوا۔

اس نصاب کے مشمولات درج ذیل ہیں:

سر سید احمد خان (امید کی خوشی، تعصب) مولانا الطاف حسین حالی(میرزا غالب کے اخلاق، سر سید کی طرز تحریر) شمس العلما مولوی محمد حسین آزاد(اورنگ زیب کی چڑھائی دکن پر، عبدالرحیم خان خاناں کی فیاضی و دریا دلی،سید انشا کا انجام اور ایران کا موسم) شمس العلماء مولانا نذیر احمد مرحوم (ایک ہندوستانی ڈپٹی کلکٹر کی ملاقات انگریز کلکٹر سے، کلیم کا باپ سے روٹھ کر مرزا ظاہر دار بیگ کے پاس جانا) مولانا عبدالحلیم شرر لکھنوی (ایثار نفس، ادبی تفریح) پنڈت رتن ناتھ سرشار (بچوں کو زیور پہنانے کے مضمرات، ایک فقیر کاجل) وحید الدین سلیم مرحوم(خطاب بہ طلبہ) مولوی محمد عنایت اللہ بی اے(مترجمہ: پیرک نیز کی مشہور تقریب تعزیت) ڈپٹی لال نگم (اخلاقی جرات)

 

               خطوط

 

 

سر سید احمد خان (بنام الطاف حسین حالی و مشتاق حسین) اسد اللہ خان غالب(بنام میر مہدی مجروح تین خطوط) میر مہدی مجروح (بنام اسد اللہ خاں غالب تین خطوط) الطاف حسین حالی (بنام مولوی عبدالحق، مولانا شبلی نعمانی (بنام ایم اے مہدی 3خطوط، شیروانی 3خطوط عطیہ بیگم فیضی 3خطوط)

 

               حصہ نظم

 

الطاف حسین حالی (انتخاب از مسدس) محمد اقبال (نیا شوالہ، ھمالہ، ایک پرندے کی فریاد، کنج عزلت) پنڈت برج نرائن چکبست (غزل1،رامائن کا سین) علی حیدر طباطبائی (گورستان) میر بیر علی انیس (مناجات، گھوڑا، گرمی کی شدت) انشا اللہ خان انشا (غزل) حضرت جوش ملیح آبادی(نغمہ سحری) مولانا ظفر علی خان (ندی کا راگ، شور محشر) احمد علی شوق قدوائی(بلبل کا ذوق آزادی) مولوی سید ہاشمی (کالی ناگن) سید اکبر حسین اکبر الہ آبادی (2غزلیں، نظم بہاریہ، ایک شعر) میر حسن (مثنوی سے دو انتخابات) میر تقی میر (3غزلیں) محمد رفیع سودا (قصیدہ، شہر آشوب، 1غزل) شیخ ابراہیم ذوق(3غزلیں) خواجہ حیدر علی آتش(3غزلیں) حسرت موہانی(5غزلیں) سرور جہاں آبادی (گنگا جی) اسمعیل میرٹھی(مثنوی آب زلال) ابو الاثر حفیظ جالندھری (فردوس ہمالیہ) نظیر اکبر آبادی (ہولی) اصغر گونڈوی(2غزلیں) فانی (2غزلیں) پنڈت برجموہن وتاتریہ صاحب کیفی (طلوع سحر، حسن) امجد حیدر آبادی ( 3 رباعیات)

 

               گل عجائب

 

مولوی عبدالحق نے اسد علی خان تمنا اورنگ آبادی کا تذکرہ شاعراں (گل عجائب) سلسلہ مطبوعات انجمن ترقی اردو نمبر86کے تحت انجمن کے پریس سے نستعلیق لیتھو میں اورنگ آباد سے 1936ء میں شائع کیا تھا۔

مولف نے تذکرہ کی تاریخ آغاز قطعہ تاریخ میں ’’آغاز صفحہ بگو‘‘ سے 1192 ھجری اور اختتام ’’شکر خدائے جہاں‘‘ سے 1194 ھجری نکالی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ تذکرہ 1192 ھ تا 1194 ھ کی درمیانی مدت میں تالیف کیا گیا۔

’’اس میں بارھویں صدی ہجری کے اواخر کے اکثر ان شعراء کا حال اور کلام ملتا ہے جو قلمرو آصفیہ میں تھے۔۔۔۔۔ اس تذکرے میں ایسے شاعروں کا حال ہے جو مولف کے ہم عصر تھے اور اکثر ان کے دوست اور ملاقاتی۔‘‘

مولوی عبدالحق نے یہ تذکرہ کتب خانہ آصفیہ کے نسخہ سے مرتب کیا ہے:

’’جس نسخہ سے یہ تذکرہ مرتب کیا گیا ہے اکثر جگہ سے بوسیدہ اور مسخ و مجروح ہے اس لئے اس کی ترتیب میں بہت دقت اٹھانی پڑی۔ اس کے بعض حصوں کا کاتب بہت غلط نویس ہے، اکثر املا کی غلطیاں موجود ہیں اور اشعار غلط نویسی کی وجہ سے وزن اور بحر سے خارج ہو گئے ہیں اور ان کو دوسرے تذکروں اور دیوانوں سے یا سیاق و سباق سے درست کرنا پڑا بعض اشعار جو بالکل مہمل ہو گئے تھے مجبوراً خارج کرنے پڑے۔‘‘

اس تذکرے میں51شعراء کا ذکر ہے تذکرے کا آغاز میں قطعہ تاریخ آغاز اور خاتمہ پر دو قطعات تاریخ اختتام کے درج ہیں یہ تینوں قطعات مولف کے اپنے کہے ہوئے ہیں۔

’’تراجم نہ بہت مختصر ہیں نہ طویل، منتخبات البتہ خاصے طویل ہیں تراجم یوں قابل اعتبار ہیں کہ اس تذکرے کے مذکورہ شعرا سے تمنا ذاتی ور پر واقف تھے۔‘‘

اسد علی تمنا کے حالات زندگی گوشہ گمنامی میں ہیں تاہم مولوی عبدالحق نے مختلف تذکروں اور شاعروں کے احوال سے جو کھوج لگایا ہے اس کے مطابق تمنا کا پورا نام اسد علی خان اور تخلص تمنا تھا، وطن اورنگ آباد تھا یہیں ان کی ابتدائی تعلیم ہوئی:

’’آزاد بلگرامی اورنگ آباد میں کئی سال مقیم رہے اور اکثر لوگوں نے ان کی صحبت سے فیض حاصل کیا۔ تمنا کو بھی شعر و سخن میں انہیں سے تلمذ تھا۔‘‘

تمنا صاحب دیوان تھے اور اپنے وقت میں استاد کا درجہ رکھتے تھے اورنگ آباد کے محمد علی شوق نے تمنا کا اس طرح ذکر کیا ہے:

ہوا شاعری کا جو مرغوب فن

کیا میں تمنا سے شوق سخن

تمنا اورنگ آبادی کا انتقال 1204 ہجری میں ہوا محمد علی شوق نے ’’وفات بہشتی کر اے دل رقم‘‘ سے تاریخ وفات نکالی۔

 

               دی اسٹینڈرڈ انگلش اردو ڈکشنری

 

مولوی عبدالحق صاحب کے تالیفی سرمایہ میں ’’دی اسٹینڈرڈ انگلش اردو ڈکشنری‘‘ بہت اہمیت رکھتی ہے اس تالیف کی مختلف منزلوں میں مولوی وحید الدین سلیم، مولوی غلام یزدانی صاحب، مولوی سید ہاشمی صاحب، ڈاکٹر یوسف حسین خان صاحب، ڈاکٹر عابد حسین صاحب اور شیخ چاند صاحب شریک کار رہے اور کئی سال کی لگاتار مشقت کے بعد یہ لغت پایہ تکمیل کو پہنچی۔

1937ء میں انجمن ترقی اردو اورنگ آباد نے مولوی عبدالحق صاحب کے دیباچہ کے ساتھ بائبل کاغذ پر شائع کی۔

اس ڈکشنری میں تخمیناً2لاکھ الفاظ اور محاورات کی تشریح کی گئی ہے اور ایسے الفاظ شامل کئے گئے ہیں جو انگریزی زبان میں نو وارد تھے۔ ادبی، مقامی اور بول چال کے الفاظ کے ان الفاظ کے معنی بھی شامل ہیں جن کا تعلق علوم و فنون کی اصطلاحات سے ہے۔ ہر لفظ کے مختلف معانی اور فرق الگ الگ لکھے گئے ہیں اور ان الفاظ کی وضاحت بھی کی گئی ہے جن کا مفہوم آسانی سے سمجھ میں نہیں آتا۔ اگر کوئی لفظ انگریزی کا مفہوم ادا کرنے سے قاصر ہو تو اس کے لئے مرکب اور مفرد الفاظ اور محاورات کی چھان بین میں تحقیق سے کام لیا گیا ہے اور ان متروکات کے بھی معنی دئیے ہیں جن کا خال خال استعمال ہوتا ہے۔ اس ڈکشنری کے اصول ترتیب میں کنسائزڈ آکسفورڈ کو نمونہ بنایا گیا ہے۔

مولوی عبدالحق صاحب نے اپنے دیباچہ میں جہاں اپنے رفقاء کار کی کاوشوں کا تذکرہ کیا ہے وہاں لغت نویسی کی تاریخ بیان کرتے ہوئے ان مستشرقین کو بھی خراج عقیدت پیش کیا ہے جنہوں نے انگریزی اردو لغت نویسی کی داغ بیل ڈالی۔

مولوی عبدالحق صاحب کی سرکردگی میں تالیف ہونے والی یہ لغت 1937ء کے بعد بالترتیب 1968ء ، 1981ء اور 1985ء میں بھی شائع ہوئی۔

 

               اسٹوڈنٹس انگلش اردو ڈکشنری

 

مولوی عبدالحق صاحب نے اسٹوڈنٹس اردو ڈکشنری 1938ء میں تالیف کر کے انجمن ترقی اردو (ہند) سے بسلسلہ مطبوعات 107اورنگ آباد (دکن) سے شائع کی تھی۔

یہ لغت ’’دی اسٹینڈرڈ انگلش اردو ڈکشنری‘‘ مطبوعہ 1937ء کی اختصاری شکل ہے۔ جس میں متروک اور غریب الفاظ، ایسی اصطلاحیں جو خاص فنون سے تعلق رکھتی ہیں اور اب ادب میں شاذو نادر استعمال ہوتی ہیں خارج کر دی گئی ہیں اس کے باوجود مولوی عبدالحق صاحب کے بقول:

’’بہمہ وجوہ مکمل اور جامع ہے۔۔۔۔۔۔ ایک اعتبار سے یہ لغت زیادہ صحیح اور مکمل ہے کیوں کہ یہ بڑی کتاب کے بعد تیار ہوئی اور اس میں جو کہیں کہیں خامیاں رہ گئیں اور بعض الفاظ کے خاص معنی جو بعد میں معلوم ہوئے وہ اضافہ کر دئیے گئے۔‘‘

اس کے بہت سے اڈیشن شائع ہو چکے تھے۔

 

               چند تنقیدات عبدالحق

 

’’چند تنقیدات عبدالحق‘‘ انجمن ترقی اردو (ہند) نے دلی سے اپنے سلسلہ مطبوعات118 کے تحت 1939ء میں شائع کی تھی کتاب پر کسی مرتب کا نام ہے نہ دیباچہ و مقدمہ، سر ورق پر کتاب کے نیچے یہ عبارت درج ہے:

’’یعنی اردو کے محسن اعظم مولانا عبدالحق پروفیسر اردو (ھند) کی چند اہم تنقیدات کا مجموعہ‘‘

یہ تنقیدات مجموعی اعتبار سے دس ہیں یہ وہ تبصرے ہیں جو 1924ء تا 1933ء رسالہ ’’اردو‘‘ اورنگ آباد میں مختلف کتابوں کے متعلق شائع ہوتے رہے جن کی فہرست درج ذیل ہے:

1 سرگزشت الفاظ مولوی احمد دین

رسالہ ’’اردو ‘‘ اورنگ آباد

اپریل 1924ء

2 زبان اردو پر سرسری نظر رشید احمد صدیقی

ایضاً

جولائی 1924ء

3 مکاتیب امیر مینائی مرتبہ مولوی احسن اللہ خان

ایضاً

جولائی 1924ء

4 اصلاح سخن عبدالعلی شوق

ایضاً

اکتوبر 1926ء

5 اردو شہ پارے سید محی الدین قادری

ایضاً

اکتوبر 1926ء

6 اکبر آلہ آبادی طالب آلہ آبادی

ایضاً

اکتوبر 1930ء

7 فیضان شوق منشی احمد علی شوق

ایضاً

جولائی 1930ء

8 اردو لٹریچر ڈاکٹر گراھم بیلی

ایضاً

جولائی 1933ء

9 نور اللغات نور الحسننیر

ایضاً

اکتوبر 1923

10 مجموعہ نغز تالیف میر قدرت اللہ قاسم مرتب حافظ محمود شیرانی

ایضاً

اکتوبر 1933ء

 

               قطب مشتری

 

مولوی عبدالحق نے عہد قطب شاہی کے ملک الشعراء ملا اسد اللہ وجہی کی تصنیف مثنوی ’’قطب مشتری‘‘ کو دو مختلف نسخوں سے مقابلہ کر کے مرتب کیا جس میں سے ایک برٹش میوزیم لائبریری کے نسخہ کا عکس اور دوسرا خود مولوی عبدالحق کے پاس تھا۔

یہ مثنوی ملا وجہی نے 1018 ھ میں تمام کی تھی۔ مثنوی کے آخر میں وجہی نے اس کا سن تالیف اس طرح دیا ہے:

’’تمام اس کیا دیس بارا میں نے

سنہ ایک ہزار ہور اٹھارہ بنے‘‘

یہ مثنوی روایتی عشقیہ انداز سے تحریر کی گئی ہے جس میں سلطان محمد قلی قطب شاہ بادشاہ گولکنڈہ کے عشق کا حال بیان کیا گیا ہے۔

’’معلوم ہوتا ہے کہ مشتری وہی ہے جو بھاگ متی کے نام سے مشہور تھی اور اپنے رقص و موسیقی اور حسن و جمال کی وجہ سے شہرت رکھتی تھی۔ محمد قلی زمانہ شہزادگی میں اس پر عاشق ہوا۔‘‘

 

               نصرتی

 

یہ کتاب ملک الشعراء ’’ملا نصرتی‘‘ کے حالات زندگی اور کلام پر مشتمل ہے جس کا تعلق دکن کے عادل شاہی عہد سے تھا جس نے عادل شاہی عہد کے تین حکمرانوں (محمد عادل شاہ، علی عادل شاہ اور سکندر عادل شاہ) کا زمانہ دیکھا اور اورنگ زیب عالم گیر کے فتح جے جا پور ( 1097 ھ مطابق 1686 -88ء) تک بقید حیات تھے۔

مولوی عبدالحق نے تذکرہ ’’ریاض حسنی‘‘ کے حوالے سے تحریر کیا ہے:

’’جب شاہ اورنگ زیب عالم گیر نے دکن فتح کیا تو وہاں کے شعراء کو حاضر کرنے کا حکم دیا ان میں نصرتی بھی تھے اور ان کے کلام کو سب سے افضل تسلیم کیا اور خطاب ملک الشعراء ہند سے سرفراز فرمایا۔‘‘

مولوی عبدالحق نے اس کتاب میں نصرتی کے حالات زندگی کا کھوج لگا کر بہت سے گمنام گوشوں سے پردہ اٹھایا ہے اور بہت سی غلط روایات کی بیج کنی کی ہے جو نصرتی کے حالات کو مسخ کر رہی تھیں۔

گارساں دتاسی نے تاریخ ادب ہندوستانی میں نصرتی کو برہمن تحریر کیا تھا چنانچہ گارساں دتاسی سے اس روایت نے آگے بڑھنا شروع کیا۔ مولوی عبدالحق نے دتاسی کی اس غلطی کی تردید میں نصرتی کے بہت سے ایسے اشعار پیش کئے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ نصرتی برہمن نہیں بلکہ مسلمان تھا، عبدالحق لکھتے ہیں۔

’’گارساں دتاسی نے گلشن عشق کے ایک قلمی نسخے کی سند پر اسے برہمن بتایا ہے سر چارلس نے انسائیکلوپیڈیا برٹینکا میں اپنے مضمون ہندوستانی میں اسے برہمن لکھا ہے یہ بالکل غلط ہے خود اس کے کلام سے تردید ہوتی ہے نیز میں نے ذاتی ور پر اس کے خاندانی حالات کی جو تحقیق کی ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ نسلاً بعد نسلاً مسلمان تھا۔‘‘

مولوی عبدالحق نے اس کتاب کے آغاز میں نصرتی کے حالات زندگی، عادل شاہی حکمرانوں کی علم پروری، نصرتی کے خاندان، اس کی ابتدائی تعلیم و تربیت اور دربار سے وابستگی کا ذکر کیا ہے۔ پھر اس کی تصانیف کا ذکر ہے جس میں گلشن عشق، علی نامہ اور تاریخ سکندری شامل ہیں۔

مولوی عبدالحق نے نصرتی کے قصائد، غزلیات اور کلام پر رائے دیتے ہوئے تحریر کیا ہے:

’’اس سے پہلے جو شاعر گذرے ہیں ان کی تقلید نہیں کی بلکہ فارسی شعراء کے رنگ میں بھی لکھا ہے اس کی زبان بھی ٹھیٹ دکھنی ہے لیکن دوسرے شعراء کے مقابلے میں مشکل ہے اس لئے کہ اس نے رزم و بزم کے دونوں میدانوں میں یکہ تازی کی ہے۔۔۔۔۔ نصرتی خود اپنے کلام کی قدر سمجھتا تھا اور اسے اس بات پر بجا فخر تھا کہ اس نے دکھنی زبان کو سنوارا ہے اور اس میں نیا رنگ پیدا کیا ہے اور وہ چیزیں لکھی ہیں جو اس سے پہلے ناپید تھیں دکھنی ایک بے مایہ اور بے حقیقت زبان تھی اس میں جان ڈالی اور سزا وار تحسین بنایا۔‘‘

مولوی عبدالحق نے نصرتی کے دکھنی اشعار کا اردو مفہوم اشعار کے نیچے ہی دے دیا تھا تاہم کتاب کے آخر میں تقریباً سوا چار سو دکھنی الفاظ کی اردو فرہنگ بھی دی ہے۔

یہ کتاب 1944ء میں انجمن ترقی اردو نے دہلی سے شائع کی۔

 

               بچوں کے خطوط

 

مولوی عبدالحق صاحب کو درس و تدریس سے بہت لگاؤ تھا اور عملی زندگی کے آغاز میں ان کا واسطہ بھی تعلیم کے شعبہ سے رہا تھا۔ مدرسہ وسطانیہ حیدر آباد دکن کے صدر مدرس، اورنگ آباد انٹر کالج کے پرنسپل اور نائب مہتمم و صدر مہتمم مدارس بھی رہے۔ اسی دوران انہیں نصابی معیار کی کمیابی کا احساس ہوا اور انہوں نے ذاتی دل چسپی سے نہ صرف نصابی کتب مرتب کرائیں بلکہ خود بھی نصابی کتب کی تدویب و تالیف کی ’’بچوں کے خطوط‘‘ بھی ان کے تعلیمی منصوبہ کی کڑی ہے جو وسطانیہ (مڈل) کے لئے تیار کی تھی۔ علی بشر حاتمی صاحب نے اس کتاب کی ضرورت اور اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے ’’چند باتیں‘‘ میں لکھا ہے:

’’ایک کمی جو ارتقائی دور میں شدت سے محسوس ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ ابھی تک بچوں کے املا اور انشاء کی طرف بہت کم توجہ دی گئی ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج بڑے بڑے طالب علموں کے خطوط میں بھی ایسی غلطیاں نظر آتی ہیں جو پڑھنے والے کو بہت ہی نا پسند ہوتی ہیں۔۔۔ ان خطوط کے متعلق صرف اس قدر لکھ دینا ہی کافی ہے کہ یہ خطوط میرے محترم بزرگ جناب مولوی عبدالحق صاحب سیکرٹری انجمن ترقی اردو (ہند) نے لکھے ہیں جن کا نام اس دور کے تاریخ ادب اردو میں سب سے زیادہ روشن نظر آتا ہے۔‘‘

مولوی عبدالحق صاحب نے کتاب کے آغاز میں تفصیل سے ’’خط لکھنے کے متعلق چند ضروری ہدایتیں ‘‘ تحریر کی ہیں اور اس کے بعد خطوط کے نمونے ہیں ان نمونوں میں چھوٹوں، بڑوں اور ہم رتبہ دوستوں کے نام خطوط، دعوت ناموں اور عرضیوں کے نمونے شامل ہیں۔ خطوط کے یہ مجموعے عبدالحق اکیڈمی حیدر آباد (دکن) 1944ء میں شائع کئے تھے۔

 

               انتخاب داغ

 

مولوی عبدالحق صاحب نے 1946ء میں انجمن اردو دہلی سے فصیح الملک نواب مرزا خان داغ دہلوی کے کلام کا انتخاب مرتب کر کے اپنے مقدمہ کے ساتھ شائع کیا۔

مولوی عبدالحق صاحب کا یہ مختصر سا مقدمہ دو حصوں میں منقسم ہے۔ پہلے حصہ میں داغ کے خاندان پس منظر اور سوانحی حالات کا ذکر کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ داغ کی زندگی عیش و عشرت میں بسر ہوئی اور فارغ البالی سے گزر اوقات ہوتی رہی۔ بالخصوص 1888ء حیدر آباد طلبی اور میر محبوب علی کی استادی کے شرف نے انہیں مالا مال کر دیا۔ مولوی عبدالحق صاحب تحریر کرتے ہیں:

’’ابتداء میں تنخواہ ساڑھے چار سو روپے ماہوار مقرر ہوئی اور اسی حساب سے تین برس کی امیدواری کی بھی پوری تنخواہ مل گئی تین برس بعد ایک ہزار ہو گئی اس ایک ہزار کا حساب بھی امیدواری کے زمانے سے کیا گیا اور چالیس اکتالیس ہزار روپے یک مشت ملے ۔۔۔ علاوہ تنخواہ اور خطابات کے جاگیر بھی مرحمت فرمائی۔ حیدر آباد کا زمانہ بڑی خوش حالی بے فکری اور فارغ البالی سے گذرا۔‘‘

مولوی عبدالحق صاحب نے مقدمہ کے دوسرے حصے میں داغ کے فن پر روشنی ڈالی ہے اور بتایا ہے کہ انہیں زبان پر قدرت حاصل تھی فصاحت، سادگی، شوخی اور ظرافت ان کے کلام کے جوہر تھے انہوں نے چار دیوان اور ایک مثنوی ’’فریاد داغ‘‘ یاد گار چھوڑی ہیں۔ مولوی عبدالحق صاحب لکھتے ہیں:

’’بہت سے ایسے محاورے اور روز مرہ کے جملے جو اب تک تحریر میں نہیں آئے تھے ان کے کلام کی وجہ سے محفوظ ہو گئے ہیں۔۔۔۔۔ ان کے کلام کی مقبولیت کی وجہ زبان کی صفائی اور سلاست بیان کا بانکپن اور بے ساختہ پن، ظرافت اور شوخی، بول چال کا لطف اور خاص انداز بیان ہے۔‘‘

 

               ادبی تبصرے

 

’’دانش محل‘‘ لکھنو نے88 صفحات پر مشتمل مولوی عبدالحق کے ان 15تبصروں کا مجموعہ 1947ء میں شائع کیا ہے جو 1921ء تا 1942ء رسالہ ’’اردو‘‘ اورنگ آباد/دلی میں شائع ہوئے تھے اس مجموعہ پر کسی مرتب کا نام نہیں ہے البتہ سر ورق پر ’’نوشتہ ڈاکٹر عبدالحق‘‘ تحریر ہے نہ ہی کوئی دیباچہ، تقریظ یا مقدمہ ہے ایک صفحہ کی فہرست اور پھر باقی  صفحات پر متن ہے۔ جن کی فہرست درج ذیل ہے:

1 روح ادب

ماخوذ: رسالہ ’’اردو ‘‘ اورنگ آباد

جولائی 1921ء

2 مرہٹی و ناکوش

ماخوذ: رسالہ ’’اردو ‘‘ اورنگ آباد

اکتوبر 1921ء

3 رسائل عماد الملک

ماخوذ: رسالہ ’’اردو ‘‘ اورنگ آباد

اپریل 1922ء

4 روح سیاست

ماخوذ: رسالہ ’’اردو ‘‘ اورنگ آباد

اپریل 1922ء

5 حزن اختر

ماخوذ: رسالہ ’’اردو ‘‘ اورنگ آباد

جولائی 1922ء

6 جواہرات حالی

ماخوذ: رسالہ ’’اردو ‘‘ اورنگ آباد

جنوری 1923ء

7 افادات مہدی

ماخوذ: رسالہ ’’اردو ‘‘ اورنگ آباد

جنوری 1923ء

8 انجام زندگی

ماخوذ: رسالہ ’’اردو ‘‘ اورنگ آباد

اپریل 1924ء

9 دیوان جان صاحب

ماخوذ: رسالہ ’’اردو ‘‘ اورنگ آباد

اپریل 1935ء

10 ناٹک ساگر

ماخوذ: رسالہ ’’اردو ‘‘ اورنگ آباد

جولائی 1929ء

11 ہندو عہد اورنگ زیب میں

ماخوذ: رسالہ ’’اردو ‘‘ اورنگ آباد

جنوری 1925ء

12 مکتوبات حالی (مقدمہ)

’’مکتوبات حالی‘‘ حالی پریس پانی پت

1925ء

13 الناظر کا انعامی مضمون

ماخوذ: رسالہ اردو دہلی

اپریل 1942ء

14 ماورا

ماخوذ: رسالہ اردو دہلی

اپریل 1942ء

15 آیات و نغمات

ماخوذ:رسالہ اردو دہلی

اپریل 1942ء

مولوی عبدالحق کے بعض ’’ادبی تبصرے‘‘ تنقیدات عبدالحق اور چند تنقیدات عبدالحق کے عنوان سے بالترتیب 1934ء اور 1939ء میں شائع ہو چکے ہیں لیکن بہت سے ادبی تبصرے ایسے ہیں جو مذکورہ بالا کتابوں میں شامل نہیں یہ تبصرے رسالہ ’’اردو‘‘ کے اورنگ آباد، دہلی اور کراچی کے ادوار میں مختلف شماروں میں شائع ہوئے تھے ان میں قابل ذکر مندرجہ ذیل ہیں۔

مولوی عبدالحق کی مرتبہ یہ کتاب خان عبداللطیف خان نے سلسلہ مطبوعات انجمن ترقی اردو نمبر110کے تحت 1939ء میں انجمن ترقی اردو کے لئے انجمن کے پریس سے چھاپی مقدمہ کے آغاز میں مولوی عبدالحق نے قصہ کا خلاصہ تحریر کیا پھر مختلف حوالوں سے ’’قطب مشتری‘‘ اور ملا وجہی کی شاعری کا جائزہ لیتے ہوئے تحریر کیا:

’’وجہی کا کلام بہت سلیس، صاف ستھرا ہے البتہ زبان قدیم ہے اور وہ اس کی اپنی اور اپنے زمانے کی زبان ہے اس لئے متروک اور قدیم الفاظ اور محاوروں کی وجہ سے مشکل معلوم ہوتی ہے۔ بعض بعض مقامات پر اس نے بعض خیالات بڑی خوبی سے بیان کئے ہیں۔‘‘

مثنوی میں بعض موقعوں پر غزلیں بھی دی گئی ہیں جو خود ملا وجہی کی لکھی ہوئی ہیں کتاب میں ایک باب ملا وجہی نے شعر کی خوبیوں پر ’’در شرح شعر‘‘ کے عنوان سے دیا ہے۔

اپنے مرتب کردہ اس نسخے کے آخر میں مولوی عبدالحق نے ایک ضمیمہ بھی دیا ہے جس میں وہ مختلف مواد ہے جو زیر موازنہ نسخوں سے حاصل ہوا ہے (یعنی انہوں نے اپنے نسخے کا اصل متن دو نسخوں کے ایک جیسے مواد کو قرار دیا ہے اور مختلف کلام کو ضمیمے میں ڈال دیا ہے)

مولوی عبدالحق نے حاشیے میں ان الفاظ کی بھی نشان دھی کی ہے جو نسخوں میں ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ کتاب کے آخر میں نامانوس اور غریب الفاظ بالخصوص ٹھیٹھ دکنی الفاظ کی فرہنگ بھی دی گئی ہے۔

یہ کتاب انجمن ترقی اردو نے انجمن کے مطبع دہلی سے 1939ء میں شائع کی۔

 

               خطبات عبدالحق

 

مولوی عبدالحق صاحب کی ساری زندگی اردو کے لئے جہاد میں گذری اس کے لئے انہوں نے اپنوں پرایوں سے لڑائیاں مول لیں۔ دور دراز کے سفر اختیار کئے اور جگہ جگہ اردو کی ترویج کے لئے خطبات دئیے۔ مولوی عبدالحق صاحب کے یہ خطبات پہلی مرتبہ انجمن ترقی اردو نے اپنے سلسلہ مطبوعات نمبر124کے تحت 1939ء میں لطیفی پریس دہلی سے خان صاحب عبداللطیف صاحب نے شائع کئے تھے۔ اس کتاب میں دسمبر 1933ء سے جولائی 1939ء کی درمیانی مدت کے خطبات شامل ہیں۔

’’خطبات عبدالحق‘‘ پر کسی مرتب کا نام درج نہیں ہے تاہم مرتب نے14اکتوبر 1939ء کو مختصر سا پیش لفظ تحریر کیا ہے اس میں انہوں نے لکھا ہے:

’’ڈاکٹر مولانا عبدالحق صاحب مدظلہٗ لائف آنریری سیکرٹری انجمن ترقی اردو (ہند) کے خطبات جو انہوں نے مختلف موقعوں پر دئیے، خاص اہمیت رکھتے ہیں ان میں سے بعض خطبات رسالہ ’’اردو‘‘ میں شائع ہو چکے ہیں اور کچھ دوسرے بلند پایہ رسائل میں لیکن بعض خطبے جو الگ شائع ہوئے ان کی مانگ اس قدر تھی کہ دفتر سے فرمائشوں کی تعمیل محال ہو گئی۔ ارباب شوق کا یہ اصرار دیکھ کر ہم نے فیصلہ کیا کہ جس قدر خطبات فی الوقت مل سکیں انہیں جمع کر کے کتابی شکل میں شائع کر دیا جائے۔‘‘

چنانچہ یہ مجموعہ پیش ہے ہمیں امید ہے کہ بہی خواہاں اردو کے لئے یہ خطبے مفید اور بصارت افروز ثابت ہوں گے اور تاریخ ادب اردو کے طلبہ خصوصیت کے ساتھ ان سے استفادہ کریں گے۔

1944ء میں اس ادارے کی جانب سے جلد دوم شائع ہوئی جس میں دس خطبات اور تین مضامین و مقالات کا اضافہ کیا گیا۔

1939ء کے مجموعہ ’’خطبات عبدالحق‘‘ میں مندرجہ ذیل خطبات شامل ہیں:

1 خطبہ صدارت اردو کانفرنس ناگپور بڑودہ دسمبر 1933ء

2 خطبہ صدارت شعبہ اردو ہندوستانی اکیڈمی الہ آباد 12جنوری 1936ء

3 خطبہ صدارت انجمن حمایت اسلام لاہور 12اپریل 1936ء

4 خطبہ صدارت انجمن ترقی پسند مصنفین لکھنو اپریل 1936ء

5 خطبہ صدارت بہار اردو کانفرنس  پٹنہ  1936ء

6 خطبہ صدارت آل انڈیا اردو کانفرنس علی گڑھ 28اپریل 1937ء

7 خطبہ صدارت سندھ پروانشل اردو کانفرنس کراچی 31دسمبر 1937

8 خطبہ صدارت اردو کانفرنس صوبہ متوسط ناگپور 223اکتوبر 1938ء ء

9 خطبہ صدارت مسلم یونیورسٹی علی گڑھ دسمبر 1938ء

10 تقریر ہندوستانی کیا ہے (ریڈیو اسٹیشن)  دہلی 21فروری 1939ء

 

جلد دوم 1944ء

1 خطبہ صدارت اردو کانفرنس ناگپور 4مارچ 1940ء

2 خطبہ صدارت شعبہ صحافت اورئینٹل کانفرنس تروپتی(جنوبی ہند) 28مارچ 1940ء

3 خطبہ صدارت اردو کانفرنس لاہور 8 دسمبر 1940ء

4 خطبہ صدارت اردو کانفرنس گوالیار 27جنوری 1941

5 خطبہ صدارت کل پنجاب اردو کانفرنس لائل پور (فیصل آباد) 23فروری 1941ء

6 خطبہ صدارت یوم اردو انجمن حمایت اسلام لاہور 2اپریل 1941ء

7 خطبہ صدارت شعبہ اردو آل انڈیا مسلم ایجوکیشن کانفرنس علی گڑھ 14فروری 1943ء

8 خطبہ صدارت شمالی بنگال اردو کانفرنس دیناج پور 7مارچ 1943ء

9 خطبہ صدارت اردو کانفرنس کالی کٹ 7نومبر 1943ء

10 مخلوط زبان(مقالہ) الہ آباد 21دسمبر 1941

11 ہندی اردو جھگڑا 16جولائی 1941ء

12 حامیان اردو (مضمون) دہلی 14اپریل 1944ء

13 تقریر سندھ پروانشل اردو کانفرنس  کراچی 8اپریل 1944ء

نوٹ: خطبات کی درج بالا ترتیب ’’خطبات عبدالحق‘‘ کی فہرست کے مطابق ہے

 

               نصاب اردو(انٹرمیڈیٹ کے لئے)

 

1940ء میں مولوی عبدالحق صاحب نے مدراس یونیورسٹی سے ملحق کالجوں کے لئے انٹرمیڈیٹ کی سطح کا نصاب مرتب کیا اور اسے انجمن ترقی اردو (ہند) دہلی نے 1940ء میں حیدر آباد پریس سے طبع کرا کے اپنے سلسلہ نمبر137 کے تحت شائع کیا اس ’’نصاب اردو‘‘ کی فہرست مضامین درج ذیل ہے:

 

حصہ نثر

 

1 امید کی خوشی : سر سید احمد خان

2 دنیا کی کل علم سے چلتی ہے یا عمل سے : مولانا الطاف حسین حالی مرحوم

3 اورنگ زیب کی چڑھائی دکن پر: مولوی محمد حسین آزاد دہلوی مرحوم

4 عبدالرحیم خان خاناں کی فیاضی اور دریا دلی : ایضاً

5 اچھی کتاب کا مطالعہ : مولوی عبدالحق صاحب بی اے علیگ

6 مرزا غالب کے اخلاق : شمس العلما مولوی الطاف حسین حالی

7 ایک ہندوستانی ڈپٹی کلکٹر کی ملاقات انگریز کلکٹر سے : شمس العلما نذیر احمد مرحوم

8 سر سید کی طرز تحریر : مولانا الطاف حسین حالی مرحوم

9 علماء کی صحبت : مولوی غلام یزدانی صاحب ایم اے

10 سید انشا کا انجام : شمس العلما مولوی محمد حسین آزاد مرحوم

11 ایران کے بہار نو روز: ایضاً

12 پشاور : از خالدہ ادیب خانم مترجم: مولوی سید حاشمی صاحب

13 تعصب : سر سید احمد خان مرحوم

14 کلیم کا باپ سے روٹھ کر مرزا ظاہر دار بیگ کے پاس جانا : شمس العلماء مولانا نذیر احمد

15 ایثار نفس : مولانا محمد عبدالحلیم شرر لکھنوی مرحوم

16 ادبی تفریح : ایضاً

17 بچوں کو زیور پہنانے کی مضرت : پنڈت رتن ناتھ سرشار

18 ایک فقیر کاجل : ایضاً

19 خطاب بہ طلبہ : مولانا وحید الدین سلیم مرحوم

20 پیرک لیذ کی مشہور تقریب تعزیت : مترجمہ مولوی محمد عنایت اللہ صاحب

21 اخلاقی جرات : ڈپٹی لال نگم

 

خطوط

 

22 خواجہ الطاف حسین حالی کے نام :سر سید احمد خاں

23 بنام مشتاق حسین صاحب  : سر سید احمد خان مرحوم

24 (1) نامہ غالب (بنام میر مہدی مجروح) : مرزا اسد اللہ خان غالب مرحوم

25 (2) جواب مجروح : میر مہدی مجروح

26(3) نامہ غالب (بنام میر مہدی مجروح) : مرزا اسد اللہ خان غالب مرحوم

27(4) جواب مجروح : میر مہدی مجروح

28(5) نامہ غالب : مرزا اسد اللہ خان غالب

29(6) جواب مجروح : میر مہدی مجروح

30(7) نامہ مجروح : ایضاً

31(8) جواب غالب : مرزا اسد اللہ خان غالب

32 بنام مولوی عبدالحق صاحب بی اے : پودینہ الطاف حسین حالی مرحوم

33 بنام ایم مہدی : مولانا شبلی مرحوم

34 بنام ایم مہدی : مولانا شبلی مرحوم

35 بنام ایم مہدی : مولانا شبلی مرحوم

36 بنام مولانا حبیب الرحمن خان شیروانی : مولانا شبلی مرحوم

37 بنام عطیہ بیگم فیضی : مولانا شبلی مرحوم

38 بنام عطیہ بیگم فیضی : مولانا شبلی مرحوم

 

حصہ نظم

 

1 انتخاب از مسدس حالی : مولانا حالی مرحوم

2 مرثیہ عارف : مرزا اسد اللہ خان غالب مرحوم

3 غزل : ایضاً

4 نیا شوالہ: ڈاکٹر سر محمد اقبال مرحوم

5 ہمالہ : ایضاً

6 ایک پرندے کی فریاد : ڈاکٹر سر محمد اقبال مرحوم

7 کنج عزلت : ایضاً

8 غزل : پنڈت برج نرائن چکبست

9 رامائن کا ایک سین : ایضاً

10 گور غریباں : مولوی علی حیدر نظم طباطبائی مرحوم

11 مناجات : میر ببر علی انیس

12 گھوڑا : ایضاً

13 گرمی کی شدت : ایضاً

14 غزل: انشا اللہ خان انشا

15 ندی کا راگ : مولانا ظفر علی خان

16 شور محشر : ایضاً

17 بلبل اسیر : احمد علی صاحب شوق قدوائی

18 ماتم بلبل : ایک مسلمان خاتون

19 بلبل کا ذوق آزادی : مولوی غلام علی بھیک صاحب نیرنگ

20 کالی ناگن : مولوی سید ہاشمی صاحب

21 غزل (1) : سید اکبر حسین الہ آبادی مرحوم

22 غزل بہاریہ (2) : ایضاً

23 رباعی (3) ایضاً

24 نظم بہاریہ (4): ایضاً

25 شعر(5): ایضاً

26 وزیر زادی کا جوگن بننا: میر حسن

27 شادی کے وقت بدر منیر کی سواری: ایضاً

28 غزلیات (1,2,3) : میر تقی میر

29 قصیدہ شہر آشوب : میرزا رفیع سودا

30 غزل : میرزا رفیع سودا

31 غزلیات (1,2,3): شیخ ابراہیم ذوق

32 غزلیات(1,2,3) : خواجہ حیدر علی آتش

33 غزلیات(1,2,3) : حضرت صفی لکھنوی

34 غزلیات(1,2,3,4): حسرت موہانی

35 گنگا جی : سرور جہاں آبادی

36  مثنوی آب زلال: اسمعیل میرٹھی

37 فردوس ہمالہ: ابو الاثر حفیظ جالندھری

38 ہولی: نظیر اکبر آبادی

39 غزلیات(1,2,3) : اصغر گونڈوی

غزلیات (1,2,3) : فانی

41 طلوع سحر : پنڈت برج  موہن دتاتریہ کیفی

42 حسن : ایضاً

43 رباعیات (1,2,3)، کہن: امجد حیدر آبادی

44 قطعہ: اکبر الہ آبادی

45 دل بے قرار سوجا: سرور جہاں آبادی

46نیم کے پتے: مولانا وحید الدین سلیم

 

               چند ہم عصر

 

مولوی عبدالحق صاحب نے 90سال سے زیادہ عمر پائی اور ہزاروں لوگوں کو دیکھا اور ملاقات کی ان میں سے بعض سے وہ متاثر بھی ہوئے اور ان کی یادوں کو قلمی خاکوں میں محفوظ بھی کر لیا۔ ان ہم عصروں میں ادیب، شاعر، سیاست دان اور مصلحین قوم سے لے کر معمولی سپاہی اور مالی تک شامل ہیں کیوں کہ مولوی عبدالحق کے خیال میں:

’’بڑے لوگوں ہی کے حالات لکھنے اور پڑھنے کے قابل نہیں ہوتے بلکہ غریبوں میں بھی بہت سے ایسے ہوتے ہیں کہ ان کی زندگی ہمارے لئے سبق آموز ہو سکتی ہے انسان کا بہترین مطالعہ انسان ہے۔‘‘

مولوی عبدالحق صاحب کے 1900ء سے 1937ء تک کی درمیانی مدت کے خاکے شیخ چاند صاحب نے مرتب کئے لیکن ان کی زندگی نے وفا نہ کی اور وہ مولوی عبدالحق صاحب کے لکھے ہوئے خاکوں کو اپنی زندگی میں طبع نہ کرا سکے شیخ چاند مرحوم کا دسمبر 1936ء میں انتقال ہو گیا۔ ان کے انتقال کے تین سال بعد یہ خاکے 1940ء میں انجمن ترقی اردو (ہند) کے سلسلہ اشاعت 192کے تحت زیور طباعت سے آراستہ ہوئے اس کے بعد بھی ’’چند ہم عصر‘‘ کے بہت سے ایڈیشن شائع ہوئے جن میں خاکوں کے اضافے بھی ہوئے اور چند حذف بھی کئے گئے۔

یہ خاکے دراصل مولوی عبدالحق صاحب کی بعض تقاریر ہیں جو تعزیتی مجلسوں میں کی گئیں، بعض خطوط ہیں بعض کتب پر تبصرے، مقدمات اور چند مضامین ہیں۔

’’چند ہم عصر‘‘ میں مندرجہ ذیل خاکے و مضامین شامل رہے ہیں۔

جن کی ترتیب فہرست کے مطابق ہے

پہلا ایڈیشن (مطبوعہ: انجمن ترقی اردو ہند، دہلی 1940ء)

1 منشی امیر احمد مینائی رسالہ ’’افسر‘‘ حیدر آباد دکن

1900ء

2 پروفیسر مرزا حیات مضمون رسالہ ’’افسر‘‘ حیدر آباد دکن  1900ء

3 سید محمود تقریر جلسہ تعزیت منعقدہ حیدر آباد دکن 1903ء

4 مولوی چراغ علی مقدمہ کتاب اعظم الکلام فی ارتقاء اسلام از مولوی چراغ علی  1911ء

5 مولوی محمد عزیز مرزا   1912ء

6 شمس العلماء ڈاکٹر مولوی سید علی بلگرامی مقدمہ کتاب ’’تمدن ہند‘‘ از ڈاکٹر بان مترجم مولوی سید علی بلگرامی  1913ء

7 خواجہ غلام الثقلین  1915ء

8 حکیم امتیاز الدین مکتوب بنام ہاشمی فرید آبادی محررہ اگست 1951ء

9 وحید الدین سلیم مضمون رسالہ ’’اردو‘‘ اورنگ آباد (دکن)  1929ء

10 گدڑی کا لال، نور خان  1930

11 محسن الملک مقدمہ تذکرہ محسن از محمد امین 1931ء

12 مولانا محمد علی مرحوم تبصرہ سیرت محمد علی رسالہ ’’اردو‘‘ اورنگ آباد (دکن)  1933ء

13 شیخ غلام قادر گرامی  تبصرہ سیرت دیوان گرامی رسالہ ’’اردو‘‘ اورنگ آباد (دکن) 1933ء

14 حالی مضمون مرحوم چاند کی فرمائش پر لکھا گیا  1937ء

 

چوتھا ایڈیشن (اضافے) مطبوعہ انجمن ترقی اردو کراچی

1 ڈاکٹر محمد اقبال مضمون  1953ء

2 مولانا حسرت موہانی مضمون روزنامہ ’’امروز‘‘  1953ء

3 آہ عبدالرحمان صدیقی مضمون ’’قومی زبان‘‘ کراچی  1953ء

4 درویش پروفیسری ہٹ سک مضمون رسالہ ’’افسر‘‘ حیدر آباد (دکن) 1901ء

5 ڈاکٹر عبدالرحمان بجنوری مضمون یادگار بجنوری 1951ء

 

پانچواں ایڈیشن(اضافے)

(مطبوعہ: انجمن ترقی اردو کراچی 1959ء ، اردو اکیڈمی سندھ سے پہلا ایڈیشن)

1 نواب عماد الملک حسین بلگرامی مضمون رسالہ ’’اردو‘‘ 1956ء

2 پروفیسر مرزا حیرت مضمون رسالہ ’’افسر‘‘ حیدر آباد (دکن) 1900ء

 

چھٹا ایڈیشن

(مطبوعہ: اردو اکیڈمی سندھ، کراچی سے دوسرا ایڈیشن 1961ء)

1 خالدہ ادیب خانم مضمون ہفت روزہ ’’لیل و نہار‘‘ لاہور 12 اپریل 1959ء  رسالہ ’’اردو اورنگ آباد‘‘

1 حیات تبسم رمضان تبسم جنوری 1921ء

2 نکات غالب نظام الدین حسین نظامی اکتوبر 1921ء

3 کلیات ولی مرتبہ محمد اسلم سیفی جنوری 1922ء

4 (1) مقالات زرین از جوش ملیح آبادی جنوری 1922ء

(2) اوراق سحر

(3)جذبات فطرت

(4) آواز حق  اپریل 1922ء

5(1) خوں نا بہ عشق  مترجم فیروز الدین اپریل 1922ء

(2) حکایت شرلک ھومز

6 جوہر منظوم (اردو ترجمہ رباعیات سرمد) جولائی 1922ء

7(1) صبح وطن از سدرشن اکتوبر 1922

(2) آنریری مجسٹریٹ

8 حشمت النساء سید حسین بلگرامی اکتوبر 1922ء

9 جان ظرافت نور الٰہی و محمد عمر

10 تہذیب کے تازیانے بنکم چندر چٹر جی

11 شہزادہ یوسف و حکیم بلوہر صفدر علی جنوری 1923ء

12 تذکرہ میر حسن دہلوی

13 داغ جگر از جگر مراد آبادی

14 مثنوی مشہور عالم از سلطانہ رضیہ بیگم

15 روح نظیر نظیر اکبر آبادی

16 اردو معلیٰ اسد اللہ خان غالب

17 مکاتیب اکبر اکبر حسین اکبر آبادی اپریل 1923ء

18 دیوان صدر صدر قصوری

19 مجموعہ کلام جوہر محمد علی جوہر

20 چندن (افسانے و ڈرامے) سدرشن

21 قزاق مترجمہ و مولفہ محمد عمرو نور الٰہی جولائی 1923ء

22 نیرنگ ایس آر کے اکتوبر 1923ء

23 رباعیات عمر خیام مترجمہ جلال الدین جنوری 1924ء

24(1) ظفر کی موت مولیر مترجمہ نور الٰہی و محمد عمر

(2) بگڑے دل

25 جولیس سیزر مترجمہ تفضل حسین اپریل 1924ء

26 حیات طیران مرزا یحیٰ دولت آبادی

27(1) قوم پرست مترجمہ سدرشن اپریل 1924ء

(2) کنج عافیت

28 محبت کا انتقام مترجمہ نور الٰہی و محمد عمر

29 انتخاب میر انور الرحمن جولائی 1924ء

30 دیوان حسرت (حصہ پنجم تا نہم) حسرت موہانی اکتوبر 1924ء

31 خمخانہ کیفی برج  موہن دتاتریہ کیفی جنوری 1924

32 تذکرہ شعراء اردو (موسوم بہ گل رعنا) سید عبدالحئی  جولائی 1925ء

33 دکن میں اردو مولوی نصیر الدین ہاشمی

34 اردو زبان پر انگریزی زبان کا اثر سید عبدالطیف جولائی 1925ء

35 فوائد رضیہ غلام محمد جنوری 1926ء

36 کلیات اقبال مرتبہ عبدالرزاق اپریل 1926ء

37 نشاط روح اصغر گونڈوی

38 شمیم فیاض علی

39 التحفہ اعجاز ریاض الدین بریلوی

40 ذیقہ امجد ابو الاعظم احمد حسین

41 پردہ غفلت عابد حسین

42 اردو قدیم شمس اللہ قادری جولائی 1926ء

43 نقش ار ژنگ جلال الدین اکبر

44 مجموعہ قصائد مومن مرتبہ ضیاء احمد

45 مطلع انوار امیر خسرو

46 عقوبت گناہ نظر حسین حسین فاروقی اکتوبر 1926ء

47 محاکمہ قطعات ابن یمنی و سعدی علی بشیر اکتوبر 1926ء

48 اقبال احمد دین

49 صبح وطن  برج برائن چکبست

50 بزم ایران محمد رضا طباطبائی جنوری 1927ء

51 مثنوی سحر اقبال ورما

52 یورپین شعراء اردو محمد سردار علی

53 یورپین شعراء اردو محمد سردار علی

54 غزال ایم اسلم

55 خم خانہ عشق مولانا بخش ہمدرد اپریل 1927ء

56 بیوہ کی کہانی بیوہ کی زبانی محمد شمس الدین

57 مضامین شرر (جلد ششم و ہفتم) عبدالحلیم شرر اپریل 1927ء

58 سبد گل اولاد حسین اپریل 1927ء

59 چار سہیلیاں ایم اسلم

60 حکایات و احتساسات مترجم سجاد حیدر  جولائی 1927ء

61 مرقع ادب صفدر مرزا پوری

62 شعراء اورنگ آباد محمد سردار علی

63 (1) خطوط محب مرتبہ افضل النساء

(2)افکار محب

64 عروس غربت ایم اسلم  اکتوبر 1927ء

65 شاما کشن پرشاد جنوری 1928ء

66 جمال ہم نشیں اکرام خاتون

67 پھول کی ڈالی محمد اسمعیل

68 چندن سدرشن

69 مصنوعی بیوی پول ایچ مترجمہ عباس حسین

70 میرے پھول (ہندی) بنسی دھر

71 شیریں خسرو (فارسی) امیر خسرو

72 قصائد حسان (شرح شادمانی) نقی شادماں جنوری 1928ء

73 انتخاب کلام سودا مرتبہ مطلب حسین

74 سیر گل احمد قدوائی

75 خیابان خیل شعراء ٹونک

76 طفل اشک مترجم محمد حسن اپریل 1928ء

77 مضامین فرحت فرحت اللہ بیگ

78 مثنوی گلزار نسیم (شرح) منظور علی

79 مثنوی میر حسن مرتبہ و مقدمہ حامد اللہ

80 حکیم قاآنی محمد حسن

81 پسند خاطر شیکسپئر مترجمہ ولایت حسین

82 پیغام درا برکت علی

83 تصویر افکار کیفی رضی مرتبہ سرفراز علی

84 درد دل ابو ظفر سیحی اپریل 1928ء

85(1) حسین ناصر نذیر فراق

(2) مے خانہ درد ناصر نذیر فراق

86 لمحات اختر احمد میاں اختر  اپریل 1926ء

87 سیلاب حوادث مترجم قمر احمد

88 ابن یمن عبدالسلام ندوی جولائی 1928ء

89  جذبات یاور محمد بہادر خیر آبادی

90 تذکرہ سلف(اسلامی قطعات) ضیا احمد

91 خیالات اورنگ واشنگٹن ارونگ مترجم محمد یحیٰ

92 یاد وطن اعجاز حسین علوی

93 مثنوی بحر المحبت شیخ مصحفی

94 پیکر وفا اکرام خاتون

95 جام صہبائی  عبدالسمیع صہبائی

96 اندر سبھا نور الٰہی و محمد عمر

97(1) دیوان شاہ حاتم مرتبہ حسرت موہانی اکتوبر 1928ء

(2)انتخاب دیوان مصحفی

(3) انتخاب سخن

98 پیغام سروش ایم اسلام

99 جواب شکوہ محب الحق

100(1) ڈالی کا جوگ حامد اللہ افسر اپریل 1929ء

(2) پیام روح

101 آنند مٹھ بنکم چندر چٹرجی

102 ماہ نو(مجموعہ نظم و نثر)  محمد اکبر منیر جولائی 1929ء

103 عناصر اربعہ (رباعی) مسعود علی

104 سادھو اور بیسوا کشن شاد کول

105 اردو معلیٰ حسرت موہانی

106 دنیائے افسانہ  عبدالقادر سروری جولائی 1929ء

107 پرتو خیال حمید الدین حمید

108 غالب اور اس کی شاعری احمد الدین

109 تاریخ ادبیات اردو سکسینہ مترجمہ مرزا محمد عسکری اکتوبر 1929ء

110(1) منتخب عود ہندی مرتبہ احسن مارہروی

(2) آل انڈیا مشاعرہ

111 ادبی خطوط غالب مرتبہ محمد عسکری

112 فغان درد عطا محمد درد درانی

113 سیر المصنفین (جلد دوم)  محمد یحیٰ تنہا

114 تابش خیال افسر صدیقی امروہوی جنوری 1930ء

115 کردار اور افسانے  عبدالقادر سروری

116 نوائے رضا سید آل رضا

117 کائنات ادب حمید ایم اے اپریل 1930ء

118 سلیس نظمیں محمد یوسف جولائی 1930ء

119 مضامین فرحت (حصہ دوم) فرحت اللہ بیگ

120 عالم حسیات نجی الحسن

121 تجلیات سخن نظام الدین نظامی مرتبہ احمد فرشوری

122 دیوان مرزا کامران مرزا ابن بابر مرتبہ محفوظ الحق

123 تذکرہ ریختی تمکین کاظمی

124 کلیات نظم حالی(جلد اول) حالی مرتبہ محمد اسمعیل

125 مراثی انیس(جلد سوم) مرتبہ حیدر یار جنگ جنوری 1931ء

126 پطرس کے مضامین اے ایس بخاری

127 سرگزشت وزیر خان مرتبہ عبدالقوی فانی

128 منتخبات کلام ہندی مرتبہ جعفر حسن

129(1) رباعیات کامل (حصہ دوم)  غلام علی کامل اپریل 1931ء

130 صبح مثالی مرزا دبیر مرتبہ سرفراز حسین

131 دو رنگی تحفہ محی الدین

132 ہدیہ نسواں امۃ الروف جولائی 1931ء

133 دختر فرعون (جلد اول) مترجم لطافت حسین

134 روح جذبات اکبر حیدری

135 اردو گلستان مترجمہ خلیل الرحمن اکتوبر 1931ء

136 ہنسانے فسانے ابوتمیم فرید آبادی

137 بہار گلشن کشمیر تذکرہ شعراء کشمیری پنڈت برج کشن کول بے خبر اپریل 1932ء

138 ہندی اردو مالا ہری ہر شاستری اپریل 1932

139 شیطان سبھا (پیراڈئس لوسٹ) کیٹس مترجمہ آ حنیف

140 رفیق تنہائی (افسانے) علی عباس حسینی جولائی 1932ء

141 دختر فرعون (جلد دوم) مترجمہ لطافت حسین

142 گلزار عثمانی عبدالقوی فانی

143 گنج معانی تلوک چند محروم جولائی 1932ء

144 شاعر کی راتیں جوش ملیح آبادی

145 نقش و نگار جلیل قدوائی

146 فاؤسٹ مترجمہ عابد حسین

147 دیوان شمس تبریز  مرتبہ عبدالمالک آروی

148 شمیم  فیاض علی اکتوبر 1932ء

149 نبرنگ  ایس آر کے  اکتوبر 1932ء

150 مفلح انوار   مہاراج بہادر برق

151 دیوان گرامی   غلام قادر گرامی جنوری 1933ء

152 غالب عبداللطیف مترجم: معین الدین چشتی

153 رباعیات حالی الطاف حسین حالی

154 انگریزی ترجمہ ٹیوٹ

155 مشاہیر اردو کے خطوط مرتبہ مہیش پرشاد

156 حقیقی شاعر (نظم) نصیر الدین نصیر

157 ورڈز ورتھ اور اس کی شاعری میر حسن

158 سرگزشت ادب ترکی ریاست علی ندوی جولائی 1933ء

159 طلسم زندگی بشیر احمد جولائی 1933ء

160 محشرستان محشر عابدی

161 مونا وانا ماترنگ مترجمہ جلیل احمد قدوائی جولائی 1933ء

162  حدیث ادب احسان بن دانش جولائی 1933ء

163 زخم اولین (کلام اخگر) مرتبہ محمد عبداللہ

164 بہار گلشن (جلد دوم)

165 پھول کماری موہن دتہ پیارے اکتوبر 1933ء

166 مجموعہ تاریخ (آئینہ جمال) محمد ہاشم مرتبہ مجتبیٰ حسین

167 نغمہ حیات (مضامین) ایم اسلم

168(1) بارہ پھلجھڑیاں ابو تمیم فریدی آبادی

(2) فلم ایکٹریس نرغے میں

169 خاقانی ہند (ذوق کی شاعری) محمد رفیق خاور جنوری 1934ء

170 روح ادب حیدر عباس

171 نقد الادب حامد اللہ افسر

172 نوادر محمد عسکری

173(1) میری نا تمام محبت (افسانے) حجاب اسمعیل اپریل 1934ء

(2) لاش (قصے)

174 افسانے نہائے عشق مترجم حامد علی

176 شریک اخلاص (مرثیہ محمد علی) احسان احمد

177 چراغ ایمن صیانت الزمان فکری

178 گلزار معنی دینا ناتھ مدن

179 اصغر کے سو شعر اصغر گونڈوی

180 گنج پنہاں(مرثیہ) میر انیس

181 نغمہ روح اختر انصاری  اکتوبر 1934ء

182 قربانی پنڈت کشن پرشاد کول جنوری 1935ء

183 اردو کا پہلا ناول نگار اویس احمد ادیب اپریل 1935ء

184 دیوان مومن(مع شرح) مرتبہ ضیاء احمد ضیاء

185 دیوان غالب اسد اللہ غالب اپریل 1935ء

186 نذیر احمد کی کہانی محمود خان

187 بال جبریل محمد اقبال

188 منشورات برج  موہن دتاتریہ کیفی

189 سرور زندگی اصغر گونڈوی اپریل 1935ء

190 تذکرہ محسن محمد امین زبیری جولائی 1935ء

191 دیوان معروف الٰہی بخش معروف مرتبہ عبدالحامد قادری ا کتوبر 1935ء

192 مختصر تاریخ اردو اعجاز اپریل 1936ء

193 مثنویات امیر احمد علوی

194 انتخاب کلام مظہر مرتبہ عبدالغفور احسن جولائی 1936ء

195 جوئے شیریں شاہ خان

196 مرثیہ اندلس  حفیظ نعیمی

197 مضامین فلک پیما عبدالعزیز

198 ضرب کلیم محمد اقبال اکتوبر 1936

199 غالب غلام رسول مہر

200 داغ (حیات و کلام) نور اللہ محمد نوری جنوری 1937ء

201 تسخیر یاس شرف الدین یاس

202 حمید کے سو شعر حمید الدین حمید

203 فلسفہ عجم محمد اقبال مترجم امیر حسن

204 پیلی یاس میلی ساند مترجم عثمانی جنوری 1937ء

205(1) گلدستہ اکبر) مرتبہ عبداللہ اپریل 1937ء

(2)ذوق کے سو شعر

206 نظام شبیر سید علی شبیر

207 طنزیات مانپوری مانپوری

208 سراج سخن سراج الدین

209 نورس (مضامین) حامد اللہ جولائی 1937ء

210 مرقع سخن (جلد اول و دوم) مرتبہ محی الدین

211 سخنوران ایران در عصر حاضر (جلد دوم) محمد اسحاق

212 انور (ناول) فیاض علی اکتوبر 1937

213 برہان معاصر مرتبہ مجلس مخطوطات فارسی دکن

214 حیدر علی محمد محمود خان جنوری 1938ء

215 کفر عشق (دیوان) امر ناتھ ساحر

216 محبت اور نفرت  اختر حسین

217 مضامین رشید رشید احمد صدیقی

218 حالی کی شاعری طاہر جمل جولائی 1938ء

219 مے خانہ الہام شاہ عظیم آبادی مرتبہ حمید عظیم آبادی جولائی 1938ء

220 آئی سی ایس میر محمودی بیدار مرتب محمد حسین محوی

221 محشر خیال مجاز لکھنوی اکتوبر 1938ء

222 اقبال اور اس کا پیغام تصدق حسین اکتوبر 1938ء

223 پھول والوں کی سیر فرحت اللہ بیگ رسالہ ’’اردو‘‘ دہلی

224 نغمہ عندلیب گوبند سنگھ جنوری 1940ء

225 معارف جمیل (مجموعہ کلام) حکیم آزاد انصاری

226 کلام رونق پیارے لال رونق

227 عصر نو محمد صادق ضیاء

228 افکار سلیم (مجموعہ کلام) وحید الدین سلیم

229 کلام مشتاق بہاری لال مشتاق

230 اندھی دنیا  اختر انصاری

231 نادر خطوط غالب اسد اللہ خان غالب

232 گل دستہ پتیمیہ (یتیمہ پر نظمیں) مرتبہ محمد امام

233 یاد چکبست آنند نرائن ملا اپریل 1940

234 کلام عاصی عاصی لال دہلوی

235 ہندو ادیب ناظر کاکوروی

236 نشا کشن پرشاد کول اکتوبر 1940ء

237 پنچھی کنار شرما

238 پیام کیف احسان احمد احسان اکتوبر 1940ء

239 میر کے بہتر نشر مرتبہ محمد فاضل

240 روپ اختر جگناتھ پرشاد

241(1)ساگیت نگینرو

(2) سمترا نندن پنت

242 تذکرہ بے نظیر (شعراء فارسی)عبد الوہاب افتخار جنوری 1941ء

243 نظم اردو ابو الکلام حکیم ناطق اپریل 1941ء

244 عشرت گیاوی کے سو شعر عشرت گیاوی جولائی 1941ء

245 متاع حرم تاجور عثمانی

246 کلام داغ مرتبہ احسن مارہروی اکتوبر 1941ء

247 اردو شاعری پر ایک نظر کلیم الدین

248 خم خانہ جاوید (جلد پنجم) سری رام جنوری 1942ء

249 واردات برج موہن دتاتریہ کیفی

250 صبح بہار اختر شیرانی اپریل 1942ء

251 نئے ادبی رجحان اعجاز حسین جولائی 1942ء

252 اردو تنقید پر ایک نظر کلیم الدین احمد

253 نقد و نظر حامد حسین اکتوبر 1942ء

254 تنقیدی اشارے آل احمد سرور

255 شمیم عشرت احمد علی عشرت مرتبہ حسن امام اپریل 1934ء

256 امیر مینائی ممتاز علی آہ

257 روداد مقدمہ مرزا غالب عظمت اللہ

258 مضامین عظمت عظمت اللہ

259 اسرار کائنات  ٹالسٹائی مترجم: خورشید جیلانی جولائی 1943ء

260 چراغ لالہ  محمد صادق عاصمی

261 جواہر العلوم طنطاروی بوہری مترجم عبدالرحیم

262 یادگار شعر مترجم طفیل احمد

263 شیش محل شوکت تھانوی جولائی 1943ء

264 اردو ہندی ادیب قاسم علی اپریل 1943ء

265 حرب و ضرب یزدانی رام پوری

266 دھوپ چھاؤں عبدالشکور جولائی 1943ء

267 رباعیات ابو سعید ابو سعید ابو الخیر

268 فن داستان گوئی کلیم الدین احمد اکتوبر 1943ء

269 نگارستاں (مجموعہ کلام)  ظفر علی

270 اردو فارسی کے یورپین اور انڈو یورپین شاعر

271 انتخاب غالب امتیاز علی عرشی

272  مسکراتے آنسو بھارت چند کھنہ جولائی 1945ء

273 نادرات شاہی شاہ عالم بادشاہ  اکتوبر 1945ء

274 حسرت موہانی (حالات و کلام) مرتبہ عبدالشکور جنوری 1946ء

275 کروٹ (ریڈیائی ڈرامے) سعادت حسن منٹو

276 موت و حیات شاطر حکیمی

277 اصغر (حیات و کلام) مرتبہ عبدالشکور جنوری 1946ء

278 محراب حرم آرزو اکبر آبادی جولائی 1946ء

279 گل چیں نور احمد

280 موت کے غار ایس اے وانگے اکتوبر 1946ء

281 نکہت گل محمود عالم فنا

282 مقالات یوم اقبال

283 معروضہ (اول، دوم) نعتیہ غزلیں الیاس برنی جنوری 1947ء

284 شیطانی قہقہے محمود فاروقی

285 رباعیات بابا طاہر ڈی سی ورتا

286 اقبال اور اس کی شاعری اکبر علی

287 دو شاعر بہنیں (1) مجموعہ کلام   عروس سخن رسول جہاں اپریل 1947ء

(2) مجموعہ کلام خون نابہ دل  نور جہاں

288 سجاد حیدر یلدرم سید مبارز الدین رفعت

289 سنگ ریزے افسانوں کا مجموعہ شاہ خلیل الرحمن

290 محبت کی ٹھوکریں نقش عالمی رسالہ ’’اردو‘‘ کراچی

291 سیر المصنفین مولوی محمد یحیٰ جنوری 1949ء

292 مراۃ الشعراء اکتوبر 1949ء

293 بہترین ادب 1947ء  چودھری برکت علی، میرزا ادیب اپریل 1950ء

294 چھان بین (تنقیدی مضامین) جعفر علی اثر لکھنوی جولائی 1950

295 مقالات یوم اقبال انٹر کالج رام پور

296 تحقیقی نوادر مرتبہ آمنہ خاتون

297 مرزا شوق لکھنوی خواجہ احمد فاروقی

298 جہنم کے دروازے پر اسعد گیلانی اکتوبر 1950ء

299 سرود جاوداں صائب عاصمہ

300 جرس احمد مجتبیٰ وامق

301 مسدس بے نظیر یار علی جان جنوری 1951ء

302 مراۃ الشعراء  مولوی محمد خورشید

303 ناول کیا ہے؟ محمد احسن اپریل 1951ء

304 انیس کی مرثیہ نگاری محمد احسن

305 میر حسن اور ان کے خاندان کے شعراء محمود فاروقی اپریل 1951ء

306 اٹک کے اس پار فارغ بخاری و رضا ہمدانی جنوری 1952ء

307 پشتو لوک گیت مرتبہ فارغ بخاری

308(1) بال جبریل (شرح) یوسف سلیم چشتی جولائی 1952ء

(2) ضرب کلیم (شرح)

(3) بانگ درا (شرح)

309 ترجمان اسرار عبدالرحمن

310 نوائے سینہ تاب جلیل قدوائی اپریل 1954ء

311 مشرقی بنگال میں اردو سید اقبال عظیم اکتوبر 1954ء

312 خضر راہ (انگریزی) اے کیو نیوز جنوری 1955ء

313 میر تقی میر (حیات و شاعری) احمد فاروقی اپریل 1955ء

314 دیر و حرم شنکر لال شنکر

315 یاد رفتگان سلیمان ندوی

316 رباعیات محروم (اصول رباعی) تلوک چند محروم

317 ادبیات سرحد فارغ بخاری جولائی 1955ء

318 اقبالیات کا تنقیدی جائزہ احمد میاں اختر

319 ذکر غالب مالک رام جولائی 1955ء

320 جزیروں کے گیتمترجم سید ضمیر جعفری اکتوبر 1955ء

321(1)اردو ادب کی تاریخ محمد حسن اکتوبر 1956ء

(2) اردو ادب میں رومانی تحریک

322 اردو زبان کا ارتقاء شوکت سبزواری اکتوبر 1957ء

323 ہمارا گاؤں (و دیگر افسانے) علی عباس حسینی

324 ارمغان امجد احمد حسین امجد

325 صید و ہدف (طنز و مزاح) غلام احمد فرقت اکتوبر 1957ء

326 ادب کا مقصد سید نور الحسن

327 روشنائی سجاد ظہیر

328 مرزا نوشہ عشرت رحمانی جولائی 1958ء

329 دکھنی ہندو اور اردو نصیر الدین ہاشمی  جولائی اکتوبر 1958ء

330 نمرود و خلیل صادق بخاری

331 دیوان غالب مرتبہ امتیاز علی عرشی جنوری اپریل 1958ء

332 باغ و بہار مرتبہ ممتاز حسن

333 ابو الظیت خلیل الرحمن اکتوبر 1958ء

 

مولوی عبدالحق کے مندرجہ بالا ادبی تبصروں سے ان کی وسعت علمی کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے بقول ڈاکٹر فرمان فتح پوری:

’’ان کے موضوعات و عنوانات پر نظر ڈالئے تو اندازہ ہو گا کہ یہ اردو ادبیات کی جملہ شاخوں اور صنفوں پر محیط ہیں اور ان کے مصنفین بھی معمولی درجے کے نہیں، نامور اہل قلم ہیں شاعری، تذکرہ نگاری، مکتوب نویسی، لسانیات اور لغت سے لے کر تاریخ، زبان، تاریخ ادب، تحقیق، تدوین، تنقید، علم بیاں و عروض، سوانح نگاری اور شرح و تبصرہ تک علم و ادب کے سارے پہلوان کتابوں میں زیر بحث آئے ہیں۔‘‘

مولوی صاحب موصوف نے نہ صرف ادبی کتب پر تبصرے کئے، دیباچے لکھے اور تعارف کرایا بلکہ مذہب، فلسفہ، نفسیات، بچوں کا ادب، معاشیات، سیاست، تجارت، فنون لطیفہ، سیاحت غرض کہ علوم و فنون کے ہر شعبہ پر کئے ہوئے تبصروں کی ایک طولانی فہرست ہے۔

 

               اردو زبان میں علمی اصطلاحات کا مسئلہ

 

مولوی عبدالحق نے اس کتابچہ میں اردو زبان میں علمی اصطلاحات کے مسئلہ کا تفصیلی جائزہ لیا ہے اور اس ضمن میں جو اقدامات کئے جاتے رہے اور جو تجاویز آئیں ان کا ذکر کیا ہے۔

انہوں نے بتایا ہے کہ ایک صدی قبل دہلی کالج میں تمام علوم اردو میں پڑھائے جاتے تھے اور کالج میں مجلس ترجمہ نے تخمیناً نہ صرف ڈیڑھ سو کتب کے تراجم کئے بلکہ اصطلاحات وضع کرنے کے اصول بھی تجویز کئے۔

جب نواب عماد الملک مولوی سید حسین بلگرامی نے اس مسئلہ کو چھیڑا، جس کے رد عمل میں بنگال کی حکومت نے طبی رسائل کی تالیف و ترجمہ کے لئے کمیٹی بنائی جس میں علم اللسان کے ماہر بابو راجندر لال متر، مولوی تمیز الدین خان بہادر، اور رائے سوہن لال کو شامل کیا گیا۔انہوں نے وضع اصطلاحات کے اصول پیش کئے اس کتابچہ میں مولوی عبدالحق نے سید حسین بلگرامی کی تجاویز کا تفصیلی جائزہ پیش کیا ہے۔

ڈاکٹر عبدالرحمان بجنوری کی تجاویز کا بھی ذکر کیا اور انجمن ترقی اردو کے وضع کردہ 18 اصولوں کا تذکرہ کیا ہے۔ مولوی عبدالحق کی تجویز ہے:

’’علمی اصلاحات کے لئے متفقہ اصول بنائے جائیں اور جو اصطلاحی الفاظ ہماری قدیم کتابوں میں آئے ہیں وہ تلاش کر کے جمع کئے جائیں نیز گذشتہ سو ڈیڑھ سو برس میں مختلف اداروں اور اشخاص نے جو کچھ کیا اسے بہ نظر غور دیکھا جائے اور ان میں جتنے الفاظ ملتے ہیں انہیں اختیار کیا جائے۔‘‘

انجمن ترقی اردو پاکستان نے اسے العرب پریس کراچی سے 1949ء میں شائع کرایا۔

 

               اردو کی فضیلت چند بنگالی اکابر کی نظر میں

 

پاکستان بنتے ہی 1948ء میں اردو اس وقت متنازعہ مسئلہ بن گئی جب ڈھاکہ یونی ورسٹی کے چند طلباء نے قومی زبان کے مسئلہ پر ہنگامے شروع کر دئیے۔ یہاں تک کہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح صاحب کو بذات خود مشرقی پاکستان جانا پڑا۔

ان ہنگاموں سے یہ تاثر دیا گیا کہ اکثریتی آبادی کا صوبہ بنگال (مشرقی پاکستان) اردو کو قومی زبان بنانے کے حق میں نہیں ہے۔

مولوی عبدالحق صاحب نے اس موضوع پر ’’اردو کی فضیلت چند بنگالی اکابر کی نظر میں‘‘ مرتب کر کے 1950ء میں انجمن ترقی اردو (پاکستان) سے اردو ٹائپ میں شائع کی کتاب کے سر ورق پر بطور مرتب ان کا کہیں نام نہیں ہے لیکن کتاب کے ’’تعارف‘‘ سے یہ شہادت ملتی ہے کہ اس کے مرتب مولوی صاحب ہیں تعارف میں وہ لکھتے ہیں:

’’میں اس موقع پر بنگلہ اردو کے مسئلہ پر کچھ نہیں کہنا چاہتا بلکہ آپ کی خدمت میں مشرقی پاکستان کے بعض اہل نظر اور صاحب بصیرت حضرات کے مضامین اور اقوال پیش کرتا ہوں جن کے ملاحظہ کے بعد آپ پر ظاہر ہو گا کہ مشرقی پاکستان کے مسلمانوں کو جو اردو دشمنی کا الزام دیا جاتا ہے وہ سرا سر غلط اور محض بہتان ہے وہاں کے ذی فہم اور دور اندیش اصحاب اردو کو پاکستان کی سرکاری زبان بنانے کے حق میں ہیں۔‘‘

کتاب کے آغاز میں مصنفین پر تعارفی نوٹ ہیں جس میں ان کے علمی، ادبی سماجی اور سیاسی خدمات کا تذکرہ اور بالخصوص مشرقی پاکستان کے معاشرے میں ان کی قدر و منزلت اور مرتبہ کا ذکر ہے۔ ان شخصیتوں میں خان بہادر بدر الدین احمد صاحب، ڈاکٹر ابو ظفر محمد طاہر صاحب، سید قمر الاحسن صاحب، حکیم سلامت اللہ صاحب، مولانا عبداللہ الکافی القریشی صاحب، کوی غلام مصطفیٰ صاحب اور شیر بنگال ابو القاسم فضل حق جیسی شخصیتیں شامل ہیں۔

مولوی عبدالحق صاحب کا خیال تھا کہ اردو کے مخالفین کی تعداد مختصر ہے شریف گھرانوں کے بنگالی اردو کے حامی ہیں اپنی بات کو وزنی بنانے کے لئے انہوں نے مشہور بنگالی سیاسی رہنما خواجہ ناظم الدین صاحب کا قول بھی دیا ہے جس میں انہوں نے فرمایا تھا:

’’مشرقی پاکستان کے شہروں کے تمام شریف خاندانوں کی زبان اردو ہے۔‘‘

اس کتاب کے مضامین کی فہرست درج ذیل ہے:

1 مشرقی پاکستان کو فوری خطرہ خان بہادر بدر الدین

2 یوم اقبال کا جواب  ڈاکٹر ابو ظفر محمد طاہر

3 سرکاری زبان قمر الاسلام

4 مراسلہ حکیم سلامت اللہ

5 مشرقی پاکستان کو دعوت فکر

6  سرکاری زبان ابو ظفر محمد طاہر

7 کیا بنگلہ زبان اردو زبان سے بہتر ہے

8 ایک لمحہ فکریہ الحاج مولانا محمد عبداللہ الکافی القریشی

9 پاکستان کی سرکاری زبان کوی غلام مصطفیٰ

10 سید قمر الاسلام

11 اردو کی اہمیت مولوی فضل حق

 

               اردو بحیثیت ذریعہ تعلیم سائنس

 

’’اردو بحیثیت ذریعہ تعلیم سائنس‘‘ کے موضوع پر مولوی عبدالحق نے ٹائپ کے 74 صفحات پر مشتمل کتابچے میں بتایا ہے کہ اردو بحیثیت ذریعہ تعلیم سائنس کی تدریس میں اہم فریضہ انجام دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

مولوی عبدالحق نے کتاب کے تعارف میں برصغیر میں انگریزی زبان بحیثیت ذریعہ تعلیم کے تسلط کا ذکر کرتے ہوئے بتایا ہے کہ جب انگریزی کا تسلط اپنے عروج پر تھا اس زمانے میں بھی جامعہ عثمانیہ اور دلی کالج میں اردو زبان میں تعلیم کا تجربہ کامیاب ہو چکا ہے انہوں نے ترکیہ اور مصری یونی ورسٹیوں میں ان کی مادری زبان میں تعلیم دینے کے کامیاب تجربات کا بھی ذکر کیا ہے۔

مولوی عبدالحق نے 14 ماہرین تعلیم 1 ڈاکٹر رضی الدین،2 ڈاکٹر رفعت حسین صدیقی ، 3 ڈاکٹر قاضی سعید الدین ،4 میجر آفتاب حسن،5 ڈاکٹر سید احمد فصیح،6 کپتان رشید الحق،7 کپتان اطہر علی، 8 ڈاکٹر رفیق احمد،9 کپتان نور محمد، 10 شریف احمد وارثی،11 مسعود حسین خان، 12 کپتان فضل حسین کا تعارف کرانے کے بعد ان کی جانب سے ان سوالات کے جواب تحریر کئے ہیں جن میں ان سے پوچھا گیا تھا:

1 کیا اردو ذریعہ تعلیم ہونی چاہئے؟ اور کیا اردو تمام مضامین میں خصوصاً سائنس میں اعلیٰ مدارج تک ذریعہ تعلیم ہو سکتی ہے؟

2 کیا مختلف مضامین میں مناسب کتابیں موجود ہیں؟ اگر نہیں، تو ان کے تیار کرنے اور مہیا کرنے کی کیا صورت ہو سکتی ہے؟

3 ذریعہ تعلیم کی تبدیلی کے سلسلے میں کن کن ابتدائی دشواریوں کا امکان ہے؟ کیا اساتذہ ذریعہ تعلیم کی تبدیلی کے لئے تیار ہیں؟ وہ کتنے عرصہ میں اس قابل ہو جائیں گے کہ اردو میں تعلیم دے سکیں؟

4 اس تبدیلی سے معیار تعلیم پر کیا اثر پڑے گا؟

کتاب کے آخر میں پاکستان کے سفیر متعینہ ترکیہ میاں بشیر احمد کا خط مورخہ12جون 1951ء کا اردو ترجمہ دیا گیا ہے جو انہوں نے مولوی عبدالحق کے مکتوب مرسلہ 6 مئی 1951ء کے جواب میں تحریر کیا تھا جس میں مولوی عبدالحق نے ’’جدید ترکی میں ذریعہ تعلیم اور نئی اصطلاحات‘‘ کے سلسلہ میں معلومات حاصل کرنے کے لئے تحریر کیا تھا۔ اس خط سے منسلک پانچ ضمیمہ جات بھی دئیے گئے ہیں۔

انجمن ترقی اردو (پاکستان) نے اس کتاب کو 1951ء میں انجمن پریس کراچی سے شائع کرایا تھا۔

 

               سر آغا خان کی اردو نوازی

 

اس صدی کے مسلم اکابرین میں سر آغا خان کا نام بڑی عزت و احترام کے ساتھ لیا جاتا ہے تحریک پاکستان میں یہ ہر اول دستہ میں شامل تھے لیکن 1950ء میں ان کی شخصیت اس وقت متنازعہ ہو گئی جب انہوں نے اردو کے خلاف عربی کو نہ صرف پاکستان کی قومی زبان بنانے کی تجویز پیش کی بلکہ اردو کو عہد زوال اور لشکریوں کی زبان قرار دیا۔

مولوی عبدالحق صاحب سر آغا خان کے ان خیالات سے متفق نہ تھے انہوں نے اپنے خیالات کا اظہار اور سر آغا خان کے تصورات کی رد میں بیس  صفحات پر مشتمل ایک کتابچہ سر آغا خان کی اردو نوازی کے عنوان سے 1951ء میں انجمن ترقی اردو پاکستان کے زیر اہتمام ادبی پریس کراچی سے شائع کرایا۔ اس کتابچہ میں سر آغا خان کے خیالات کے رد میں ٹھوس دلائل دئیے۔ مولوی عبدالحق صاحب نے بتایا:

’’اس وقت یورپ میں جتنی زبانیں مروج ہیں ان سب کی یہی کیفیت تھی۔ زبانیں عوام کی ہوتی ہیں انہیں بادشاہ یا امرا نہیں بناتے جن زبانوں کا تعلق عوام سے نہیں رہتا وہ مردہ ہو جاتی ہیں اور ان کی جگہ عوامی زبانیں لے لیتی ہیں۔‘‘

مولوی عبدالحق صاحب نے ثابت کیا ہے کہ اردو پاکستان کے ہر علاقے، طبقے اور گروہ میں بولی جاتی ہے اور اس میں قومی زبان ہونے کی پوری پوری صلاحیت موجود ہے اور اردو کی مقبولیت کا حلقہ پاکستان و بھارت ہی نہیں بلکہ دنیا کے دور دراز علاقوں تک پھیلا ہوا ہے۔

مولوی عبدالحق صاحب نے اس کتابچہ میں یہ بھی ثابت کیا ہے کہ اردو عہد زوال کی نہیں بلکہ مسلمانوں کے عروج کی زبان ہے اور اردو کا رواج چھٹی صدی ہجری سے ہو چکا تھا اور موجودہ زمانے میں اردو میں علم و ادب اور حکمت کے ہر شعبہ کی خدمت کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔

سر آغا خان کی تجویز چوں کہ ’’عربی‘‘ کو قومی زبان بنانے کی تھی اس ضمن میں مولوی عبدالحق صاحب کا خیال ہے کہ سر آغا خان نے یہ صرف شوشہ چھوڑا ہے کیونکہ عربی دان طبقہ پاکستان میں نہ ہونے کے برابر ہے اور سر آغا خان اس جذباتی نعرے کی آڑ میں در حقیقت انگریزی پرستی کی تبلیغ کرنا چاہتے تھے۔

 

               خطبات عبدالحق

 

مولوی عبدالحق کے 20خطبات اور تین مضامین کا مجموعہ بالترتیب 1939ء اور 1944ء میں شائع ہو چکا تھا اور اس طرح ہاتھوں ہاتھ ختم ہو گیا کہ اس کی اشاعت کی دوبارہ ضرورت محسوس ہوئی چنانچہ 1952ء میں ڈاکٹر عبادت بریلوی صاحب نے ’’خطبات عبدالحق‘‘ کی سر نو تدوین کی اور ان میں 1944ء کے بعد 1951ء تک کے بارہ خطبات کا بھی اضافہ کیا جسے انجمن ترقی اردو (پاکستان) کراچی نے شائع کیا۔

ڈاکٹر عبادت بریلوی صاحب نے ان خطبات پر اپنا ایک مقدمہ تحریر کیا جس میں مولوی عبدالحق صاحب کے خطبات کی ادبی و لسانی اہمیت پر روشنی ڈالی ہے ڈاکٹر عبادت بریلوی تحریر کرتے ہیں:

’’یہ خطبات معنوی و صوری دونوں اعتبار سے ان گنت خصوصیات کے حامل ہیں اور ان میں اہم ترین خصوصیت یہ ہے کہ یہ ہماری تہذیبی اور ثقافتی زندگی کی کش مکش کے آئینہ دار ہیں ہماری تہذیب و معاشرت کا قافلہ جن راہوں سے گزرا اس نے جو منزلیں بھی طے کی ہیں ان کا بیان کسی نہ کسی طرح ان خطبات میں ضرور ملتا ہے یہی وجہ ہے کہ اپنی قومی زندگی کے ارتقا اور تہذیبی و ثقافتی مدو جزر کو سمجھنے کے لئے ان کا مطالعہ ناگزیر ہے۔‘‘

ان خطبات کا دوسرا ایڈیشن 1964ء میں انجمن ترقی اردو (پاکستان) نے کراچی سے شائع کیا تھا جس میں مزید چار خطبات کا اضافہ ہوا اور اس کے آخری ایڈیشن میں دسمبر 1933ء سے 1959ء تک کے 38خطبات (جن میں بعض مضامین بھی ہیں) شامل ہیں۔

ڈاکٹر عبادت بریلوی صاحب کی مرتبہ اس کتاب کے بارے میں جمیل الدین عالی صاحب معتمد اعزازی انجمن ترقی اردو (پاکستان) نے ’’حرفے چند‘‘ میں لکھا ہے:

’’بابائے اردو مرحوم کے علمی کارناموں میں ان کے خطبات کو نمایاں مقام مل چکا ہے ان کا ہر خطبہ اپنے موضوع پر ایک مستقل مقالے کی حیثیت رکھتا ہے اور اردو زبان و ادب کے مختلف پہلوؤں کو سمجھنے والے ان خطبات کا مطالعہ ناگزیر سمجھتے ہیں۔۔۔۔۔ اس پر بابائے اردو کی زندگی کے تجربات کا نچوڑ اور ان کا انداز بیان مستزاد ۔‘‘

ڈاکٹر عبادت بریلوی صاحب نے ان مقدمات کی تدوین میں مندرجہ ذیل خطبات کا اضافہ کیا:

1 خطبہ صدارت اردو کانفرنس بمبئی  1945ء

2 خطبہ صدارت پنجاب یونیورسٹی اردو کانفرنس لاہور 26,27جولائی 1948ء

3 خطبہ صدارت کل گجرات اردو کانفرنس احمد آباد

3  اپریل 1948ء

4 خطبہ صدارت سالانہ جلسہ بلوچستان ٹیچرز ایسوسی ایشن کوئٹہ 26جولائی 1948ء

5 خطبہ صدارت مجلس ادب لاہور 1949ء

6 خطبہ صدارت خیر پور اردو کانفرنس خیر پور 4فروری 1951ء

7 خطبہ صدارت انجمن ترقی پسند مصنفین قومی زبان 12جولائی 1952ء

8  تقریر اردو کانفرنس کراچی مئی 1951ء

9 آسان اردو حیدر آباد (دکن)  1946ء

10 ملک کے لئے نئے دور میں اردو کا مقام اورنگ آباد (دکن) 1947ء

11 حالی اور انسانیت اشاعت 1964ء  کراچی  1951ء

 

اضافے اشاعت 1964ء

1 خطبہ صدارت اردو کانفرنس بنگلور 1947ء

2 خطبہ صدارت مغربی پاکستان اردو کانفرنس لاہور 22فروری 1959ء

3 خطبہ صدارت مرکز علم و ادب میر پور خاص 9دسمبر 1959ء

4 خطبہ صدارت پاکستان رائٹرز گلڈ کراچی 31جنوری 1959ء

 

               گلشن عشق

 

ملا نصرتی ملک الشعراء محمد عادل بے جا پور کے تھے انہوں نے عادل شاہی عہد کے محمد عادل، علی عادل شاہ اور سکندر عادل شاہ کا زمانہ دیکھا تھا ’’تسخیر دکن کے بعد اورنگ زیب عالمگیر نے انہیں ملک الشعراء ہند کے خطاب سے سرفراز کیا۔‘‘

نصرتی نے غزلیات، قصائد اور رباعیات کے علاوہ گلشن عشق، علی نامہ اور تاریخ سکندری جیسی تصانیف چھوڑی ہیں۔

’’گلشن عشق نصرتی کی سب سے پہلی تصنیف ہے اور ایک عشقیہ مثنوی ہے۔ اس مثنوی میں بھی اردو، فارسی کی اکثر مثنویوں کی طرح دیووں، پریوں اور سحر و طلسمات کا ذکر پایا جاتا ہے۔ اس سے قطع نظر کر لی جائے تو یہ مثنوی دکنی اردو میں خاص امتیاز رکھتی ہے اور حسن شاعری کی بہت سی خوبیاں پائی جاتی ہیں۔‘‘

نصرتی نے اس مثنوی کا آغاز حمد سے کیا ہے اس کے بعد مناجات کے اشعار ہیں مناجات ختم ہونے پر منقبت حضرت علی رقم کی ہے اس کے بعد حضرت بندہ نواز کی بڑی عقیدت سے تعریف کی ہے پھر علی عادل شاہ کی مدح کی ہے اور آخر میں اپنے پدر بزرگوار کی اپنے اوپر عنایت خاص، تربیت اور ان کے رتبے کا ذکر کیا ہے:

’’کہ تھا مجھ پدر سو شجاعت ماب

قدیم یک ملحدار جمع رکاب‘‘

اس مثنوی میں نصرتی نے عادل شاہ سے اپنے تعلق خاص کا بھی ذکر کیا ہے۔ قصے کا متن تشبیب سے شروع ہوتا ہے، باغ کا سماں، صبح کا منظر، چاندنی کی کیفیت اور قدرتی مناظر کا نقشہ بڑے دل کش انداز میں کھینچا ہے۔ ہجر اور فراق کا ذکر کرتے ہوئے انسانی جذبات کی ترجمانی کی ہے۔ نصرتی نے اس مثنوی میں منوہر و مد مالتی کا عشقیہ فسانہ بیان کیا ہے۔ مولوی عبدالحق کا خیال ہے:

’’تحقیق سے اتنا معلوم ہوتا ہے کہ یہ قصہ اس سے قبل بھی تحریر میں آ چکا تھا۔ یہ کتاب اب تک دستیاب نہیں ہوئی ہے۔ اس کا حوالہ ایک دوسری کتاب مسمی ’’کنور منوہر و مد مالتی‘‘ میں ملتا ہے یہ فارسی مثنوی ہے۔ مصنف کا نام معلوم نہیں ہوا البتہ سن تالیف 1059ء ہے۔ اس میں مصنف نے شیخ منجھن کی ہندی کتاب کا ذکر کیا ہے اور اپنے قصہ کی بنیاد اس پر رکھی ہے۔‘‘

نصرتی نے مثنوی کے آخر میں عادل شاہ کے لئے دعائیہ اشعار تحریر کئے ہیں اور پھر ’’در تعریف کتاب‘‘ اپنی تعلی کی ہے نصرتی نے ’’مبارک یو ہے ہدیہ نصرتی‘‘ سے اس کی تاریخ تصنیف نکالی ہے جو 1060 ھ بنتی ہے۔

مولوی عبدالحق نے اس مثنوی پر 12 صفحات کا مقدمہ تحریر کیا ہے جس میں نصرتی کے حالات زندگی اور اس کے تصنیفی کارنامے بیان کئے ہیں اور اس کی اس مثنوی کے بعض حصوں کا ’’گلزار نسیم‘‘ سے موازنہ کیا ہے کتاب کے آخر میں30 صفحات کی فرہنگ دی ہے۔ مثنوی کا اپنا متن 223  صفحات پر مشتمل ہے۔

 

               تنقیدات عبدالحق

 

’’تنقیدات عبدالحق‘‘ کے عنوان سے یہ کتاب ان 27تبصروں پر مشتمل ہے جو مولوی عبدالحق نے جولائی 1921ء سے جولائی 1942ء تک رسالہ ’’اردو‘‘ اورنگ آباد اور دلی میں لکھے تھے۔

ایم اے قاضی نے کتاب کے آغاز میں ایک مختصر ’’پیش لفظ‘‘ تحریر کیا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کتاب کو امتحانی ضرورت کے تحت مرتب کیا گیا تھا۔ وہ تحریر کرتے ہیں:

’’اس مجموعہ کی ترتیب کا ایک تو مقصد یہ ہے کہ ان منتشر اجزاء کو ایک جگہ جمع کر کے ایک ادبی خدمات انجام دی جائے۔ دوسرے ان طالب علموں اور اساتذہ کے لئے جو اردو کے مختلف امتحانات دیتے وقت ادبی تنقیدوں کا مطالعہ کرنے کی ضرورت محسوس کرتے ہیں ایسا مواد بہم پہنچا دیا جائے جس سے وہ خاطر خواہ فائدہ اٹھا کر فن تنقید کو اچھی طرح سمجھ سکیں اور مختلف ادیبوں، شاعروں اور مضمون نگاروں کے محاسن اور نقائص سے اچھی طرح واقف ہو سکیں۔‘‘

ان کی فہرست درج ذیل ہے:

1 سرگزشت الفاظ ماخوذ رسالہ ’’اردو‘‘ اورنگ آباد اپریل 1924ء

2 زبان اردو پر سرسری نظر جولائی 1924ء

3 اردو لٹریچر جولائی 1933ء

4 تذکرہ اعجاز سخن اپریل 1924ء

5 پنجاب میں اردو جولائی 1928ء

6 ارباب اردو اکتوبر 1928ء

7 اردو شہ پارے

8 دیوان ولی جنوری 1924ء

9 فیضان شوق جولائی 1929ء

10 مجموعہ نغز اکتوبر 1933ء

11 مکاتیب امیر مینائی اکتوبر 1924ء

12 دیوان جان صاحب اپریل 1935

13 شرح دیوان غالب اپریل 1924ء

14 خطوط سر سید جولائی 1924ء

15 جواہرات حالی جنوری 1923ء

16 مکتوبات حالی ماخوذ مقدمہ ’’مکتوبات حالی ‘‘ حالی پریس پانی پت 1955ء

17 افادات مہدی ماخوذ رسالہ ’’اردو‘‘ اورنگ آباد جنوری 1924ء

18 اکبر آلہ آبادی اکتوبر 1930ء

19 بانگ درا اکتوبر 1924ء

20 روح ادب جولائی 1921ء

21 آیات و نغمات دہلی اپریل 1942ء

22 الناظر کا انعامی مضمون اورنگ آباد اپریل 1926ء

23 ماورا دہلی اپریل 1942ء

24 روح تنقید اورنگ آباد اپریل 1926ء

25 نائک ساگر  جولائی 1929ء

26 نور اللغات اکتوبر 1923ء

27 شعر الہند جنوری 1926ء

 

               پاکستان میں اردو کا المیہ

 

مولوی عبدالحق صاحب نے اس کتاب میں پاکستان میں اردو کے بحیثیت قومی زبان اختیار ہونے میں ان مساعی کا ذکر کیا ہے جو تشکیل پاکستان کے فوراً بعد سے شروع ہو گئیں۔ مولوی صاحب موصوف نے بالخصوص پاکستان کے رہنماؤں کی بے حسی پر اظہار افسوس کیا ہے جو بظاہر اردو کے حامی ہونے کے باوجود قانون ساز اسمبلی میں اردو کے حق میں حامیان اردو کا عملی ساتھ دینے سے قاصر رہے۔

مولوی عبدالحق نے اس کتاب میں برصغیر میں ’’اردو زبان‘‘ کی تاریخ و تحریک پر روشنی ڈالی ہے ابتدائی حصہ میں اردو کو قومی زبان بنانے کے سلسلے میں قائد اعظم کے بیان سے قبل کے حالات و معمولات کی بپتا بتائی ہے اور تحریر کیا ہے:

’’ایسٹ انڈیا کمپنی کے زمانے میں جو اسے اردو سرکاری زبان قرار پائی اس وقت سے اغیار کی نظریں اس پر بے طرح پڑنے لگیں۔‘‘

دوسرے حصہ میں مولوی صاحب نے پاکستان میں ’’اردو بنگلہ‘‘ تنازعہ کی تفصیل اور جزئیات پر روشنی ڈالی ہے۔ بالخصوص ’’قومی اور قانون ساز اسمبلی‘‘ میں یہ مسئلہ ( 1953 -52) بڑے بھونڈے انداز سے پیش ہوا اور ممبران کی مصلحت کوشیوں کا شکار ہو گیا اور 6فروری 1956ء کو قانون ساز اسمبلی نے طے کیا۔

’’وفاق پاکستان کی سرکاری زبانیں اردو اور بنگلہ ہوں گی‘‘

مولوی عبدالحق صاحب ان سیاسی مشکلات اور مصلحت کوشیوں سے دل برداشتہ نہیں ہوئے بلکہ اس مسئلہ پر اور بھی ڈٹ گئے اور انہوں نے مایوسی کے بجائے اس عزم کا اظہار کیا:

’’اس قسم کی رکاوٹیں ہمارے کام میں تیزی پیدا کرتی ہیں۔ اردو نے مخالفتوں میں پرورش پائی ہے اس کا پایہ اس قدر مضبوط ہے کہ اس قسم کے طوفان و حوادث اسے اپنی جگہ سے نہیں ہلا سکتے۔ ہم اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے اور اب یہ کام خاص اصول اور منصوبے کے تحت انجام پائے گا۔ اعلیٰ ترین پایہ تک پہنچنے کے لئے ہمارے ادب میں جو کمی ہے اسے پورا کیا جائے گا جو خامیاں ہیں ان کی اصلاح کی جائے گی۔ دائرہ تحقیق وسیع تر کیا جائے گا۔‘‘

مولوی عبدالحق صاحب نے یہ کتاب انجمن ترقی اردو پاکستان کے زیر اہتمام 1956ء میں انجمن پریس سے شائع کرائی تھی۔

 

               پاپولر انگلش اردو ڈکشنری

 

یہ ڈکشنری انجمن کی اسٹوڈنٹس ڈکشنری کا خلاصہ ہے جسے مولوی عبدالحق صاحب نے 1957ء میں انجمن ترقی اردو کراچی سے شائع کیا تھا یہ ڈکشنری ہائی اسکول کے طلباء کے استفادہ کے لئے تالیف کی گئی تھی اس میں سے متروک الفاظ اور فنی اصطلاحات کو حذف کر دیا گیا ہے۔ سابق شریک معتمد عین الدین صاحب نے مختصر سا دیباچہ تحریر کیا ہے اس کے بھی بہت سے ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔

پاپولر انگلش ڈکشنری کو ہی 1971ء میں جیبی سائز پر شائع کیا گیا اور اس کا نام ’’انگلش اردو پاکٹ ڈکشنری‘‘ رکھا گیا۔ ڈکشنری کی ابتداء میں ’’پہلی اشاعت‘‘ کے عنوان سے معتمد اعزازی جمیل الدین عالی صاحب کا پیش لفظ ہے جب کہ آخری  صفحات میں اختصار کی فہرست اور دنیا کی تاریخ کے اہم سنین، اوزان اور پیمائش کے چارٹ دئیے گئے ہیں۔

 

               روز مرہ سائنس

 

1 پانی کی دنیا

2 بیماری سے جنگ

3 تعمیری کارنامے

4 سفر اور پیغام رسانی

مذکورہ بالا چار کتابوں کا سیٹ لاہور اکیڈمی لاہور نے روز مرہ سائنس اور معلومات عامہ کے موضوعات پر 1958ء میں شائع کیا تھا ہر کتاب112 صفحات پر مشتمل ہے کتابوں کے سر ورق پر بطور مرتب مولوی عبدالحق صاحب صدر انجمن ترقی اردو پاکستان کا نام دیا گیا ہے۔ اندرونی  صفحات پر یہ عبارت درج ہے:

’’یہ کتابیں حسب فرمائش یونسکو بابائے اردو ڈاکٹر مولوی عبدالحق صدر انجمن ترقی اردو پاکستان نے تیار کرائیں۔‘‘

ان کتابوں پر کسی مصنف کا نام نہیں دیا گیا ہے ’’پانی کی دنیا‘‘ میں پانی کی اقسام چشمے، دریا، سمندر، سمندروں کے جانوروں اور سمندری دولت کا ذکر ہے جب کہ ’’بیماری سے جنگ‘‘ میں بیماریوں کی تاریخ، ہندوستان، بابل چین، اسرائیل اور یونان کے قدیم طریقہ علاج سے دور جدید تک بیماری کے خلاف انسانی جدوجہد کی کہانیاں اور سائنسی تحقیقات کا جائزہ لیا گیا ہے۔

’’تعمیری کارناموں‘‘ میں رہائش کے قدیم طریقوں، گھر گھروندوں اور غاروں سے لے کر دور جدید کی فلک بوس عمارتوں ، پشتوں، بندوں اور پلوں کے حالات درج ہیں۔ اس طرح ’’سفر اور پیغام رسانی‘‘ میں ابتدا سے لے کر ریل کار، ٹیلی فون اور ریڈیو تک انسانی ایجادات کی کہانی رقم ہے۔

ان چاروں کتابوں پر مولوی عبدالحق صاحب کا لکھا ہوا ایک ہی نوٹ ہے:

’’کوئی چار سال پہلے کی بات ہے اقوام متحدہ کے تعلیمی سائنسی اور ثقافتی ادارے نے جو یونیسکو کے نام سے معروف ہے مجھے لکھا کہ ہمیں ایسے بالغوں کے لئے جنہوں نے قاعدہ اور ابتدائی کتابیں ختم کر لی ہوں ایسی کتابوں کی ضرورت ہے جن سے روز مرہ زندگی کی حقیقتوں اور سائنس کی ترقیوں کا حال ان پر کھل سکے، بالغ خواندگی کے لحاظ سے خواہ نو آموز ہی ہوں، بچوں سے ان کا ذہن مختلف ہوتا ہے۔ پختہ شعور ہونے کی وجہ سے ان کی خواہش ہوتی ہے کہ جو کچھ وہ تعلیم سے محروم رہنے کے باعث اب تک نہ سیکھ سکے ایک ہی ہلے میں سیکھ جائیں۔ اس وجہ سے ان کی کتابیں بھی نسبتاً سنجیدہ نقطہ نظر سے لکھی ہونی چاہئیں۔ جن میں متعلقہ مضمون کی جملہ معلومات کا سیر حاصل جائزہ آسان عبارت میں آ جائے۔‘‘

’’چار کتابوں کا یہ سیٹ جو میں نے اپنی نگرانی میں تیار کرایا ہے ان تقاضوں کو پورا کرنے کی ایک کوشش ہے امید ہے کہ یہ کوشش نا خواندہ لوگوں میں حصول علم کی پیاس پیدا کرے گی۔ انہیں پڑھ کر وہ اپنے کو با خبر محسوس کریں گے اور انہیں ان کتابوں کو پڑھنے اور سمجھنے میں چنداں دقت محسوس نہ ہو گی جو تعلیم یافتہ بڑوں کے لیے لکھی گئی ہیں اور جن کا خدا کے فضل سے ہماری زبان میں وافر ذخیرہ موجود ہے۔‘‘

15ستمبر 1958ء

 

               کل پاکستان انجمن ترقی اردو کا المیہ

 

مولوی عبدالحق صاحب کا انجمن ترقی اردو سے بہت قدیم تعلق تھا دسمبر 1911ء میں آل انڈیا مسلم ایجوکیشن نے لکھنو کے اجلاس میں مولوی عبدالحق صاحب کو انجمن ترقی اردو کا معتمد منتخب کیا اور انہیں وراثت میں رسمی سے بندھا ہوا ایک چوبی صندوق، کچھ غیر مرتب مسودات، ایک رجسٹر اور قلم و دوات نصیب ہوا لیکن ان تھک جدوجہد سے مولوی عبدالحق نے انجمن کو ایک فعال تحریک میں تبدیل کر دیا اور علمی و ادبی سرمایہ اور شہرت کی دولت سے مالا مال کیا۔ معتمد بننے کے بعد بقول سید ہاشمی فرید آبادی:

’’انجمن زندگی کی نئی دھن اور سب بڑا مقصد حیات بن گئی۔‘‘

1947ء میں تقسیم ہند کے پر آشوب زمانے میں ایک دفعہ سب کچھ تتر بتر ہو گیا لیکن مولوی عبدالحق صاحب نے ہمت نہ ہاری کراچی کو انجمن ترقی اردو کا مرکز بنا کر نئے دور کا آغاز کیا لیکن یہاں انجمن کو بڑے نشیب و فراز سے واسطہ پڑا۔ انتظامی امور میں انجمن کی مجلس نظماء اور مولوی عبدالحق میں ٹھن گئی۔

مولوی عبدالحق پر تنقید و الزامات کی بوچھاڑ شروع ہوئی اور بالآخر یہ سلسلہ چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر ایوب خان کی جانب سے 12اکتوبر 1959ء کے اس آرڈنینس نے ختم کر دیا جس کے تحت مولوی عبدالحق صاحب کو انجمن کا مستقل با اختیار صدر اور انجمن کو ٹرسٹ کی شکل دے دی گئی۔

مولوی عبدالحق صاحب کا یہ کتابچہ انجمن کے اس ہنگامہ پرور زمانے کے سلسلے میں ان کے موقف کی ترجمانی کرتا ہے اس کتابچہ کے آغاز میں انجمن کی مختصر تاریخ کا جائزہ ہے اور بقیہ حصہ میں ڈاکٹر محمود حسین صاحب معتمد انجمن کے استعفے کے جواب میں ان الزامات کا جواب ہے جو مولوی عبدالحق صاحب پر عائد ہوئے تھے۔

 

               سر سید احمد خان (حالات و افکار)

 

مولوی عبدالحق کو اس بات پر ناز تھا کہ انہوں نے ’’سر سید احمد خان کے ساتھ کام کیا ہے‘‘ اور ان کی تربیت میں سر سید کا اہم کردار ہے نیز ان کی تمنا تھی:

’’مولانا حالی کی تصنیف ’’حیات جاوید‘‘ کے نہج سے کسی قدر ہٹ کر سر سید احمد خان کی لائف نئی نسل کے ذہن کو پیش نظر رکھ کر لکھی جائے تاکہ نئی نسل بھی اس بزرگ قوم کی مثال کو سامنے رکھ کر اپنے فکر و عمل کر وہم آہنگ کرنے کے لئے سوچے اور کام کرے۔‘‘

لیکن مولوی عبدالحق کو ہجوم کار نے اس کی مہلت ہی نہ دی کہ وہ سر سید پر باقاعدہ کوئی تصنیف ضبط تحریر میں لا سکیں البتہ وقتاً فوقتاً انہوں نے مضامین لکھے اور تقاریر کیں۔ یہ کتاب ان کے چھ مضامین اور ایک ریڈیائی تقریر پر مشتمل ہے او کتاب کے مندرجات حسب ذیل ہیں:

1 سر سید احمد خان رسالہ ’’اردو‘‘ کراچی اپریل 1950ء

2 سر سید احمد خان مرحوم رسالہ ’’اردو‘‘ کراچی اورنگ آباد جنوری 1936ء

3 سائنٹفک سوسائٹی علی گڑھ رسالہ ’’اردو‘‘  جولائی 1935ء

4 ہماری باتیں ہیں سید کام کرتے تھے، تقریر نشریہ 27جولائی 1955ء ریڈیو پاکستان کراچی

5 سر سید احمد خان مرحوم کی مجوزہ اردو لغات کا نمونہ رسالہ ’’اردو‘‘ اورنگ آباد اکتوبر 1935ء

6 مصلح اعظم سر سید احمد خان

7 سر سید بحیثیت مفکر اعظم

انجمن ترقی اردو پاکستان نے ’’سر سید احمد خان حالات و افکار‘‘ کو 1959ء میں انجمن پریس کراچی سے شائع کیا تھا۔

 

                ’’اردو یونیورسٹی‘‘ وقت کا اہم تقاضہ

 

مولوی عبدالحق کا نوشتہ یہ کتابچہ ’’اردو یونی ورسٹی‘‘ کے حق میں فخر ماتری نے شائع کیا تھا۔ اس میں مولوی عبدالحق نے اردو یونیورسٹی کے قیام کی تجویز کے ضمن میں غیر مادری زبان میں تعلیم کے مضمرات بیان کئے تھے اور تحریر کیا تھا کہ ’’اردو یونیورسٹی‘‘ کا خیال سب سے پہلے سر سید احمد خان کو 1857ء میں آیا تھا جس کے لئے انہوں نے برٹش انڈیا ایسوسی ایشن کی جانب سے ایک یاد داشت حکومت ہند کو پیش کی تھی جس میں ایک ’’درنیکلر یونیورسٹی‘‘ کے قیام کی تجویز دی گئی تھی بعد ازاں دلی کالج اور جامعہ عثمانیہ کے تجربات کامیاب رہے۔

اس کتابچہ میں غیر مسلم ماہرین تعلیم مثلاً انگریز پروفیسر اے آر بیری، مسٹر فریڈرک مواٹ سیکرٹری کونسل آف ایجوکیشن بنگال، سردار دلیشر لال، سر رادھا کشن وائس چانسلر بنارس یونیورسٹی وائس صدر جمہوریہ ہند اور سی، راج گوپال آچاریہ سابق صدر ہند وغیرہ کی آراء بھی اردو یونیورسٹی کے حق میں پیش کی گئی ہیں۔

مولوی عبدالحق نے اس کتابچہ کے آخری حصہ میں مجوزہ یونی ورسٹی کا خاکہ دیا ہے۔ حدود و اختیارات اور دستور عمل کی مجالس کا ذکر کرتے ہوئے وہ تحریر کرتے ہیں:

’’کراچی میں اردو یونیورسٹی بن کر رہے گی یہ خود قضا اور قدر کا منشا ہے، سوال دیر سویر کا ہے۔ اگر آپ نے میری مدد کی اور یونیورسٹی کے قیام کے وسائل و اسباب مہیا کر دئیے تو جلد بن جائے گی اور میری زندگی میں بن جائے گی۔‘‘

مجوزہ یونیورسٹی کے لئے کم از کم پچاس لاکھ روپیہ کا تخمینہ لگایا تھا اور تحریر کیا تھا کہ اگر انہیں پانچ لاکھ روپیہ فراہم کر دیا جائے تو وہ اردو کالج کو ہی جامعہ اردو کی حیثیت دے سکتے ہیں۔

اس کتابچہ کو فخر ماتری سیکرٹری عارضی کمیٹی اردو یونیورسٹی نے 1960ء میں انجمن پریس کراچی سے شائع کیا تھا۔

 

               مکاتیب بابائے اردو (ڈاکٹر مولوی عبدالحق) بنام حکیم محمد امامی

 

حکیم محمد امامی نے جنوبی ہند میں اردو کی ترویج و ترقی کے لئے بڑی خدمات انجام دی ہیں۔ بابائے اردو کی خواہش تھی کہ جنوبی ہند میں بھی انجمن کی شاخیں قائم ہوں وہ اس مقصد کے لئے 12 مئی 1937ء کو بنگلور بھی گئے لیکن کچھ بن نہ پڑا۔ آخر حکیم محمد امام امامی کی کوششوں سے 26 فروری 1942ء کو ریاست میسور و بنگلور میں انجمن ترقی اردو کی شاخ قائم ہوئی امامی اس کے اعزازی معتمد نامزد ہوئے۔ مولوی عبدالحق نے ان کا ان الفاظ میں تعارف کرایا ہے:

’’انہوں نے نہایت مشکل حالات میں انجمن ترقی اردو کو قائم رکھا اس کی اشاعت میں کوشش کی اردو کا مدرسہ قائم کیا اور چلایا اردو کتب خانہ قائم کیا۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ اردو کے بے لوث خادم اور دھن کے پکے ہیں۔‘‘

حکیم محمد امام امامی کی مولوی عبدالحق سے انجمن کے مسائل، ریاست میسور میں اردو کی ترویج، مدراس اور کالی کٹ وغیرہ میں انجمن کی شاخوں مدرسوں کے قیام کتب و ریڈروں کی اشاعت، کانفرنسوں کے انعقاد، رسائل و جرائد کے اجرا اور انجمن کے مقامی معاملات پر خط و کتابت رہی ہے۔

مولوی عبدالحق نے ان مکاتیب میں حکیم محمد امام امامی کو مشورے بھی دئیے ہیں ہدایت بھی، اختیارات بھی تفویض کئے ہیں اور روک ٹوک بھی کی ہے۔ حکیم امامی نے ان کے 118 مکاتیب کو اس کتاب میں یکجا کیا ہے ابتداء کے 104مکاتیب امامی کے نام ہیں جب کہ بقیہ 14مکاتیب کے مخاطب عبدالحق کے معالج ڈاکٹر خان (بشیر حسن خان) ہیں ان مکاتیب میں مولوی عبدالحق نے اپنے معالج کو اپنا حال تحریر کیا ہے اور یہ سب کے سب خط اگست 1957ء میں تحریر کئے گئے ہیں۔

وہ مکاتیب جو امامی کے نام ہیں ان میں سے102مکاتیب 18دسمبر 1935ء سے 16 اپریل 1960ء تک کے تحریر کردہ ہیں، دو پر تاریخ درج نہیں ہے۔

اس کتاب کا پیش لفظ ڈاکٹر محمد احسن فاروقی نے تحریر کیا ہے اور ان ’’خطوط کی اہمیت‘‘ پر شاہد احمد دہلوی نے روشنی ڈالی ہے اور ایس اے نقوی نے ’’مشاہدہ حق‘‘ کے عنوان سے ان خطوط پر تبصرہ کیا ہے:

’’بابائے اردو کے ان مکاتیب میں اردو سے عقیدت کے علاوہ انکساری اور عجز، کہیں صبر و شکر، عزم و استقلال، خلوص و محبت، حوادث زمانہ اور توکل کی جھلکیاں نظر آتی ہیں۔ گویا یہ ان کی مختصر سی تاریخ ہے جس میں سب کچھ آپ کو دکھائی دے گا۔‘‘

مولوی عبدالحق صاحب کے خطوط کا یہ مجموعہ اردو اکیڈمی سندھ کراچی نے 1960ء میں آفسٹ پریس کراچی سے شائع کیا۔

 

               قدیم اردو

 

’’دکنی ادب‘‘ پر مولوی عبدالحق کے مضامین وقتاً فوقتاً رسالہ اردو میں شائع ہوتے رہے ہیں ان میں سے چند مضامین کا مجموعہ ’’قدیم اردو‘‘ کے نام سے سلسلہ مطبوعات انجمن ترقی اردو نے خط نسخ میں 1961ء میں کراچی سے شائع کیا۔ ان مضامین کی اشاعت کا آغاز اپریل 1927ء کے رسالہ ’’اردو‘‘ میں بیجا پور کے اولیاء اللہ کا ایک شاعر خاندان سے ہوا جب کہ اس کتاب میں شامل مضمون ’’مثنوی مثال خالق باری‘‘ جنوری 1952ء کے شمارے میں شائع ہوا گویا اس میں ان مضامین کا انتخاب ہے جو مولوی عبدالحق کے قلم سے جولائی 1927ء تا جنوری 1952ء ضبط تحریر میں آئے۔

کتاب12عنوانات میں تقسیم ہے جن کی فہرست درج ذیل ہے:

 

1 بیجا پور کے اولیا اللہ کا ایک خاندان

1 حضرت شاہ میراں شمس العاشقین رسالہ ’’اردو‘‘ اورنگ آباد اپریل 1927ء

2 حضرت شاہ برہان الدین جانم جولائی 1927ء

3 حضرت شاہ امین الدین اولا جنوری 1928ء

2 گجری یا گجراتی زبان

1 شاہ علی محمد گام دھنی رسالہ ’’اردو‘‘ اورنگ آبادجولائی 1928ء

2 میاں شیخ خوب محمد چشتی جنوری 1929ء

3 حسن شوقی جولائی 1929ء

4 قاضی محمد دریائی دہلی جولائی 1940ء

3 حیدر آباد کا ایک شاعر خاندان

1 ملا عشرتی اورنگ آباد جولائی 1931ء

2 سید احمد ہنر

3 علی احسان

4 پرانی اردو میں قرآن شریف کے ترجمے اور تفسیریں جنوری 1937ء

5 دکنی اردو میں شاہنامے کی داستانیں کراچی اکتوبر 1949ء

6 اردو زبان کا ایک قدیم کتبہ اورنگ آباد اپریل 1938ء

7 کلیات سلطان محمد قلی قطب شاہ جنوری 1922ء

8 مثال خالق باری (ایک قدیم ترین کتاب) کراچی جنوری 1952ء

9 شرح ہمدانی (اردو نثر کی ایک بہت قدیم کتاب) اورنگ آباد اپریل 1928ء

10 مثنوی وفات حضرت فاطمہ (شمالی ہند کی قدیم مثنوی) کراچی اپریل 1951ء

11 سب رس از ملا وجہی رسالہ ’’اردو‘‘ کراچی اپریل 1951ء

12 سب رس منظوم

1 وصال العاشقین مصنفہ سید شاہ حسین ذوقی  جولائی 1925ء

2 گلشن حسن و دل مصنفہ مجموعی

حواشی میں مولوی عبدالحق نے مشکل دکئی، گجری اور قدیم اردو کی جدید اردو میں لغت بھی دی ہے۔

 

               اردو مصفیٰ (ڈاکٹر مولوی عبدالحق بابائے اردو مدظلہم کے خطوط کا مجموعہ)

 

ڈاکٹر مولوی عبدالحق کی نوے سالہ جوبلی کے موقع پر جوبلی کمیٹی نے عبدالحق کے 368 مکاتیب کو یکجا کر کے ابوتمیم فرید آبادی کی زیر نگرانی لاہور سے 1961ء میں شائع کیا تھا۔ یہ مکاتیب 29شخصیات کے نام ہیں جس کے ذیلی حواشی جمیل قدوائی نے تحریر کئے ہیں۔

اس مجموعہ مکاتیب کا پیش لفظ سید ہاشمی فرید آبادی نے تحریر کیا ہے اور سید ابو تمیم فرید آبادی نے مولوی عبدالحق کے مختصر حالات زندگی رقم کئے ہیں۔

مکاتیب کی سب سے بڑی تعداد ڈاکٹر مختار احمد انصاری کے نام ہے، جو109ہے دیگر خطوط اس طرح ہیں۔

مولوی محمد امین زبیری کے نام 42 ڈاکٹر داؤد رہبر 67، مولوی سخاوت 24، میاں بشیر احمد23، بیگم حسن بانو قزلباش19، بشری کاظمی20، عزیز احمد9، سید ہاشمی فرید آبادی7، ڈاکٹر قطب النسا ہاشمی اور جمیل قدوائی پانچ پانچ، ضیا الدین برنی اور فخری تین تین، ڈاکٹر غلام مصطفیٰ، نصر اللہ خان، محمد حسین زبیری، شفیع ادبی دو دو اور سر سکندر حیات، گاندھی جی، مولانا ابو الکلام آزاد، سر تیج بہادر سپرد، مختار احمد صدیقی، ڈاکٹر عابد حسین، غلام احمد حسن، بیگم ارجمند قزلباش، مس آمنہ ممت، خان عارف برنی اور نور احمد قادری کے نام ایک ایک مکتوب۔

ان مکاتیب سے مولوی عبدالحق کی آپ بیتی اور انجمن ترقی اردو کی بپتا تیار کی جا سکتی ہے۔ ان میں مولوی عبدالحق کا وہ تاریخی خط بھی شامل ہے جو انہوں نے گاندھی جی کے نام اردو ہندی تنازعہ پر، ہندوستان میں مسلمانوں کی بے بسی ہندوؤں کے مظالم اور کانگریسی حکومت کے بے حسی کے متعلق تحریر کیا تھا۔ سر سکندر حیات اور مولانا ابو الکلام آزاد کے نام خطوط میں بھی ان ہی حالت پر روشنی ڈال گئی ہے۔

1947ء اور 1948ء میں جو خطوط لکھے گئے ان میں برصغیر کے المناک ہنگاموں، مسلمانوں کی حالت زار اور انجمن کے مسائل و مصائب کا تذکرہ ہے۔ پاکستان میں انجمن کے قیام کے بعد تحریر کردہ خطوط میں انجمن کی تنظیم نو، قومی زبان کے لئے جدوجہد اور ان الجھنوں کا ذکر ملتا ہے جس سے وہ عمر کے آخری حصے میں دو چار ہوئے ابتدائی زمانے کے خطوط میں اردو کتب کی اشاعت و تدوین وغیرہ کا تذکرہ ہے۔

 

               قاموس الکتب (جلد اول) ’’مذہبیات‘‘

 

قاموس الکتب (جلد اول) آخری کتاب ہے جس پر مولوی عبدالحق نے مقدمہ تحریر کیا، یہ مقدمہ اپنے سفر آخرت سے صرف تین ماہ اور چار دن قبل (یعنی22جون 1961ء) جناح ہسپتال کے کمرہ نمبر13میں تحریر کیا تھا۔

مولوی عبدالحق نے ’’قاموس الکتب‘‘ کے مقدمہ میں کتاب کی اہمیت، افادیت اور ضرورت پر روشنی ڈالتے ہوئے اس شخص کو ’’بنی نوع انسان کا بہت بڑا محسن‘‘ قرار دیا ہے جس نے تحریر کا فن ایجاد کیااور بتایا ہے کہ تحریر سے قبل صرف حافظے کے بل بوتے پر معلومات محفوظ کی جاتی تھیں۔ اس کے بعد مختلف وجوہ سے تباہی کے نقصانات کا تذکرہ کرتے ہوئے ’’قاموس الکتب‘‘ کی اہمیت بیان کی ہے اور تحریر کیا ہے:

’’سب سے اول اس کا خیال سر سید علیہ الرحمہ کے دماغ میں آیا۔۔۔ ایک مدت کے بعد جب 1902ء میں انجمن ترقی اردو کی بنیاد پڑی تو اس کے ابتدائی پروگرام میں ایک ایسی فہرست کی تھی۔ پروفیسر محمد سجاد مرزا بیگ دہلوی نے اس کا بیڑا اٹھایا اور بیس سال کی محنت کے بعد اس کی تکمیل کی سابق دولت آصفیہ نے جو علم و ہنر کی بڑی سرپرست تھی مرتب فہرست کو مالی امداد سے سرفراز کیا لیکن افسوس کہ یہ فہرست نہایت ناقص ہے۔‘‘

مذکورہ بالا ’’قاموس الکتب‘‘ کا آغاز انجمن ترقی اردو نے خود کیا اور اس کے لئے مفتی انتظام اللہ شہابی کو جزو وقتی ملازم مقرر کیا لیکن بعد میں جب وزارت تعلیم حکومت پاکستان نے اس مقصد کے لئے ایک لاکھ روپیہ کی مالی امداد دی تو انجمن نگرانی میں ’’قاموس الکتب‘‘ کی پہلی جلد مرتب کر لی جو اسلام اور دیگر مذاہب کے اردو مخطوطات و مطبوعات پر مشتمل ہے اس ’’قاموس الکتب‘‘ کے پروف خود مولوی عبدالحق نے پڑھے تھے۔

’’لیکن آخر میں جب ضعف بصارت کی وجہ سے (مجھے) پروف پڑھنے میں دقت محسوس ہونے لگی تو یہ کام انجمن کے بعض کارکنوں نے انجام دیا۔‘‘

اس ’’قاموس الکتب‘‘ میں 1176 7کتب کی فہرست ہے اور جن کتب خانوں، کتابوں، رسالوں، فہرستوں اور اداروں کے ذریعہ قاموس تیار کی گئی ہے اس کے حوالے دئیے ہیں۔

اسلام اور تعلیمات اسلامی کے حوالے سے اس میں 1092 2کتب کا ذکر ہے جسے119 ضمنی عنوانات میں تقسیم کیا گیا ہے اسلامی کتب کے بعد ’’دیگر مذاہب‘‘ سے تعلق رکھنے والی کتب کی فہرست ہے سب سے پہلے عیسائیت اور یہودیت پر کتابوں کا ذکر ہے جس کا آغاز تراجم توریت مقدس سے ہوتا ہے مسیحی مذہب کی کل 198کتابوں کا ذکر ہے اور یہودیت سے تعلق رکھنے والی صرف6کتابیں ہیں۔

عیسائیت کے علاوہ دیگر مذاہب پر کتابوں کی تعداد اس رح ہے ہندو مت444، آریہ مت72، سکھ مت38، برھمو سماج12، دیو سماوج2، رادھا سوامی4، جین مت37، جوتر10اور کبیر پنتھ6

قاموس الکتب کے متن کے بعد100 صفحات کا اشاریہ ہے جب کہ فہرست عنوانات 2اور مقدمہ 6 صفحات پر مشتمل ہے کتاب ٹائپ نستعلیق میں 1961ء میں انجمن ترقی اردو پاکستان کے لئے انجمن پریس سے شائع ہوئی۔

 

               افکار عبدالحق مرتبہ آمنہ صدیقی

 

محترمہ آمنہ صدیقی صاحبہ نے مولوی عبدالحق کی زندگی ہی میں ’’افکار عبدالحق‘‘ کا مسودہ تیار کر کے مولوی عبدالحق صاحب کی خدمت میں پیش کیا تھا اس سلسلہ میں آمنہ صدیقی صاحبہ لکھتی ہیں:

’’انہوں نے میری اس کوشش کو بہت سراہا اور یہ کہہ کر مسودہ اپنے پاس رکھ لیا کہ وہ انجمن ترقی اردو کی طرف سے اس کی طباعت کا انتظام فرما دیں گے۔ مجھے خوشی بھی ہے اور فخر بھی کہ بابا نے میرے کلام کو پسند فرمایا، لیکن افسوس کہ ان کی وفات کی وجہ سے یہ کتاب انجمن کی طرف سے شائع نہ ہو سکی۔ اب یہ کتاب اردو اکیڈمی سندھ کی طرف سے شائع کی جا رہی ہے۔‘‘

آمنہ صدیقی صاحبہ نے مولوی عبدالحق صاحب کے یہ افکار ان کی بکھری ہوئی مختلف کتابوں، مقالات، خطبات اور مضامین سے اخذ کئے ہیں اور مختلف ابواب کو مقالاتی شکل میں یکجا کیا ہے جو مندرجہ ذیل چھ حصوں میں تقسیم ہیں:

1 ادب و شعر

2 اسلوب

3 تنقید و تحقیق اور دیگر اسلوب

4 لسانیات

5 حیات و کائنات

6 مذہب و سائنس

کتاب کا آخری حصہ ’’مذہب و سائنس‘‘ مولوی عبدالحق صاحب کا وہ مقدمہ ہے جو انہوں نے ڈریپر کی کتاب ’’مذہب و سائنس‘‘ کے مولانا ظفر علی خان صاحب کے ترجمہ کے لئے لکھا تھا یہ مقدمہ جوں کا توں شامل کتاب کر لیا گیا ہے کتاب کی ابتداء میں آمنہ صدیقی صاحبہ کا مولوی عبدالحق پر 1959ء کا لکھا ہے وہ مضمون بطور مقدمہ شامل ہے جس پر موصوفہ کو انعامی مقابلہ میں اول انعام ملا تھا (یہ مضمون اردو کالج کراچی کے جریدے ’’برگ گل‘‘ کے بابائے اردو نمبر مطبوعہ 16اگست 1963ء کے شمارے میں بھی شامل ہے)

آمنہ صدیقی صاحبہ کے اس مضمون سے مولوی عبدالحق صاحب کے تمام تحریری پہلوؤں پر روشنی پڑتی ہے۔

کتاب کے گرد پوش پر ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خان صاحب ، پیر حسام الدین راشدی صاحب، ڈاکٹر عبدالستار صدیقی صاحب، پروفیسر رشید احمد صدیقی، مولانا غلام رسول مہر صاحب، ڈاکٹر رضی الدین صدیقی صاحب، پروفیسر نجیب اشرف ندوی صاحب اور ڈاکٹر گیان چند صاحب کی آراء ہیں جن میں ان مبصرین نے آمنہ صدیقی صاحبہ کی اس کاوش کا مقام و مرتبہ متعین کیا ہے۔

 

               1 مکتوبات عبدالحق

               2 مکاتیب عبدالحق

 

یہ خطوط جلیل احمد قدوائی کے مرتب کردہ ہیں 1963ء میں انجمن پریس سے شائع ہوئے تھے لیکن ان کی اشاعت میں ایک عجیب بات بھی ہے کہ یہ مکتوبات دو مختلف عنوانات اور دو مختلف ناشروں کے زیر اہتمام اشاعت پذیر ہوئے صرف نام کا فرق ہے ورنہ متن و ترتیب، تقطیع و تعداد صفحات، کتابت و طباعت ہر اعتبار سے ایک جیسے ہیں ایک کا نام ’’مکتوبات عبدالحق‘‘ ہے اور دوسرے کا ’’مکاتیب عبدالحق‘‘

’’مکتوبات عبدالحق‘‘ کا ناشر مکتبہ اسلوب کراچی ہے جس نے اپنے سلسلہ مطبوعات11کے تحت یہ کتاب شائع کی ہے سر ورق کی کتابت نستعلیق لیتھو میں ہے گرد پوش پر مولوی عبدالحق کا تصویری خاکہ ہے۔

’’مکاتیب عبدالحق‘‘ اردو اکیڈمی سندھ کراچی نے شائع کی ہے اس کا سر ورق ٹائپ میں ہے۔

دونوں کتب کے آغاز میں آرٹ پیپر پر مولوی عبدالحق کی تحریر کے دو عکس دئیے گئے ہیں جس میں سے ایک حکیم امامی اور دوسرا شبیر علی کاظمی کے نام خطوط کے عکس ہیں، دونوں کتب نیوز پرنٹ پر شائع ہوئی ہیں، مقدمہ مولوی عبدالحق کی زندگی میں لکھا تھا گیا البتہ ’’غرض مرتب‘‘ ان کے انتقال کے تقریباً ڈیڑھ سال بعد تحریر کی گئی ہے۔

اس مجموعہ میں کل 513خطوط ہیں جو52شخصیتوں کے نام تحریر کئے گئے ہیں ان میں مولوی عبدالحق کے رفقاء کار بھی ہیں اور مولوی عبدالحق اور ان کے مشن کے نکتہ چین بھی، بعض لوگ ایسے بھی ہیں جن کی مولوی عبدالحق سے معمولی شناسائی تھی ان خطوط میں363وہ خطوط ہیں جو ’’اردو مصفیٰ ‘‘ میں شامل تھے۔

اردو مصفیٰ میں ستاد صدیقی کے نام124خطوط تھے لیکن اس مجموعے میں ان کے نام مزید15 خطوط کا اضافہ ہے اسی طرح صدیق قدوائی کے نام مزید3اور گاندھی جی کے نام ایک اور خط کو شامل کیا گیا ہے جو کہ 23ستمبر 1946ء کا تحریر کردہ ہے۔

اردو مصفیٰ کے مخاطبین کے علاوہ اس مجموعے میں جن شخصیتوں کے نام خطوط ہیں ان میں ماجد دریا آبادی کے نام 37غلام رسول مہر27، شوکت سبزواری8، حکیم امامی17، رکن الدین قریشی8، غلام محی الدین زور1، مولوی عمر یافعی1، مفتون سنگھ1، عبدالعلیم نامی 1، کبیر احمد جائسی1، رحیم الدین کمال1، میاں عبدالحی1، سجاد مرزا1، اور منظور احمد1

20مئی 1961 کا لکھا ہوا ایک ایسا خط بھی ہے جو بیک وقت جانکی پرشاد، منظور احمد اور سجاد مرزا کے نام ہے دراصل یہ خط ’’ادارہ مجلس‘‘ کے زیر اہتمام نوے سالہ جشن میں شرکت سے معذرت نامہ ہے اس رح اس مجموعہ میں اردو مصفیٰ کے مکاتیب میں150کا اضافہ ہے۔

 

               مقدمات عبدالحق مرتبہ ڈاکٹر عبادت بریلوی

 

مولوی عبدالحق صاحب کے مقدمات 1931ء میں مرزا محمد بیگ صاحب مرتب کر کے شائع کر چکے تھے اور وہ اس طرح ہاتھوں ہاتھ لئے گئے تھے کہ جلد ہی اس کا ایڈیشن ختم ہو گیا۔ مقدمات کی اس مقبولیت کے پیش نظر ڈاکٹر عبادت بریلوی صاحب نے ان مقدمات کی سر نو ترمیم، تصحیح اور اضافے کے ساتھ شائع کرنے کی ضرورت محسوس کی۔

ڈاکٹر عبادت بریلوی صاحب نے اس ترتیب میں مرزا محمد بیگ صاحب کے مرتب کئے ہوئے تمام مقدمات کے علاوہ ان تمام مقدمات کو بھی جمع کیا جو اب تک کتابی شکل میں شائع نہیں ہوئے تھے مولوی عبدالحق صاحب نے ان سب مقدمات پر نظر ثانی ا ور ترمیم و اضافے کے بعد شائع کرنے کی اجازت دی۔

ڈاکٹر عبادت بریلوی صاحب نے نہ صرف اپنے مرتب کئے ہوئے مقدمات پر ایک دیباچہ اور مولوی عبدالحق صاحب کے ’’مقدمات‘‘ پر مقدمہ تحریر کیا بلکہ مرزا محمد بیگ اور مولانا حبیب الرحمان شیروانی صاحب کا اشاعت اول پر لکھا ہوا مقدمہ اور دیباچہ بھی شامل کر لیا اور اس طرح 1963ء میں اردو مرکز لاہور کے زیر اہتمام ’’مقدمات عبدالحق‘‘ شائع ہوئے۔ اس کتاب میں مجموعی اعتبار سے 49مقدمات شامل ہیں جن کی فہرست اور کتابیاتی کیفیت درج ذیل ہے:

 

تذکرے

 

1 نکات الشعراء مصنف: میر تقی میر مرتب: مولوی عبدالحق طابع: مطبع انجمن ترقی اردو اورنگ آباد(دکن) ناشر: انجمن ترقی اردو اورنگ آباد (دکن) سن اشاعت: 1935ء

2 تذکرہ ریختہ گویاں مولف: سید فتح علی حسینی گردیزی مرتبہ: مولوی عبدالحق طابع: مطبع انجمن ترقی اردو اورنگ آباد (دکن) ناشر: انجمن ترقی اردو اورنگ آباد (دکن) سن اشاعت 1934ء

3 مخزن نکات مولف: شیخ محمد قیام الدین قائم مرتبہ: مولوی عبدالحق طابع: مطبع انجمن ترقی اردو اورنگ آباد (دکن) ناشر:انجمن ترقی اردو اورنگ آباد (دکن) سن اشاعت 1929ء

4 چمنستان شعراء مولف: رائے لچھمن نرائن شفیق مرتبہ: مولوی عبدالحق طابع: مطبع انجمن ترقی اردو اورنگ آباد (دکن) ناشر:انجمن ترقی اردو اورنگ آباد (دکن) سن اشاعت: 1928ء

5 گلشن ہند مصنف: علی ابراہیم خان ترجمہ: میر علی لطف طابع: رفاہ عام اسٹیم پریس لاہور ناشر: عبداللہ کتب خانہ آصفیہ حیدر آباد (دکن) سن اشات 1906ء

6 تذکرہ ہندی مصنفہ: غلام ہمدانی مصحفی مرتبہ: مولوی عبدالحق طابع: جامع برقی پریس دہلی ناشر:انجمن ترقی اردو اورنگ آباد سن اشاعت 1933ء

7 گل عجائب مصنفہ: اسد علی خان تمنا اورنگ آباد مرتبہ: مولوی عبدالحق طابع: مطبع اردو، اورنگ آباد (دکن) ناشر: انجمن ترقی اردو ، اورنگ آباد سن اشاعت 1936ء

8 مخزن شعراء مصنفہ: نور الدین حسین فائق مرتبہ: مولوی عبدالحق طابع: مطبع اردو، اورنگ آباد (دکن) ناشر: انجمن ترقی اردو، اورنگ آباد (دکن) سن اشاعت 1933ء

 

منظومات

 

1 قطب مشتری مصنف:ملا وجہی مرتبہ: مولوی عبدالحق طابع: مطبع انجمن ترقی اردو کراچی ناشر: انجمن ترقی اردو دہلی سن اشاعت 1938ء

2 گلشن عشق مصنف: ملا نصرتی مرتبہ: مولوی عبدالحق طابع: انجمن پریس کراچی ناشر: انجمن ترقی اردو (پاکستان) کراچی سن اشاعت 1952ء

3 ذکر میر مصنفہ: میر تقی میر مرتبہ: مولوی عبدالحق طابع: انجمن اردو پریس اورنگ آباد (دکن)

ناشر: انجمن ترقی اردو، اورنگ آباد (دکن) سن اشاعت 1928ء

4 انتخاب کلام میر مرتبہ: مولوی عبدالحق طابع: دار الافادہ کاچی گوڑہ حیدر آباد (دکن) ناشر: انجمن ترقی اردو، اورنگ آباد (دکن) سن اشاعت 1921ء

5 دیوان اثر مصنف: خواجہ محمد اثر مرتبہ: مولوی عبدالحق طابع: مسلم یونی ورسٹی پریس علی گڑھ ناشر: انجمن ترقی اردو، اورنگ آباد(دکن) سن اشاعت 1930ء

6 مثنوی خواب و خیال مصنف: خواجہ محمد میر اثر مرتبہ: مولوی عبدالحق طابع:انجمن اردو پریس اورنگ آباد(دکن) ناشر: انجمن ترقی اردو، اورنگ آباد(دکن) سن اشاعت 1926ء

7 دیوان تاباں مصنف: میر عبدالحئی تاباں مرتبہ: مولوی عبدالحق طابع: مطبع انجمن ترقی اردو اورنگ آباد (دکن) ناشر: انجمن ترقی اردو، اورنگ آباد (دکن) سن اشاعت 1938ء

8 انتخاب داغ مصنف: نواب مرزا خان داغ مرتبہ: مولوی عبدالحق طابع: کورونیش پرنٹنگ ورکس دہلی

ناشر:انجمن ترقی اردو، دہلی سن اشاعت 1946ء

9 مسدس حالی مصنف: الطاف حسین حالی مرتبہ: مولوی عبدالحق طابع: نامی پریس کان پور ناشر: دار الاشاعت کان پور سن اشاعت 1929ء

10 مسدس حالی (صدی ایڈیشن) مصنفہ: الطاف حسین حالی مرتبہ: ڈاکٹر سید عابد حسین طابع: جامع پریس ،دہلی ناشر: دہلی، حالی سن اشاعت 1935ء

 

نثر

1 معراج العاشقین مصنفہ: سید محمد حسینی بندہ نواز گیسو دراز مرتبہ: مولوی عبدالحق طابع: تاج پریس حیدر آباد (دکن) ناشر: غلام محمد انصاری وفا مدیر تاج حیدر آباد (دکن) سن اشاعت 1343 – 1934ء

2 سب رس مصنفہ: ملا وجہی مرتبہ: مولوی عبدالحق طابع: مطبع انجمن ترقی اردو اورنگ آباد (دکن) ناشر: انجمن ترقی اردو، اورنگ آباد سن اشاعت 1932

3 رانی کیتکی کی کہانی مصنفہ: انشا اللہ خان انشاء مرتبہ: مولوی عبدالحق طابع: مطبع انجمن ترقی اردو اورنگ آباد (دکن) ناشر: انجمن ترقی اردو، اورنگ آباد سن اشاعت 1933

4 باغ و بہار مصنفہ: میری امن دہلوی مرتبہ: مولوی عبدالحق طابع: یونیورسٹی پبلشرز علی گڑھ ناشر: انجمن ترقی اردو(ہند) سن اشاعت 1944ء

5 حیات النذیر مصنفہ: افتخار عالم مارہروی طابع: شمسی پریس دہلی ناشر : شمسی پریس دہلی سن اشاعت 1912

6 مکتوب حالی مرتبہ : خواجہ سجاد حسین طابع: حالی پریس پانی پت ناشر: حالی پریس پانی پت

سن اشاعت 1925ء

7 ڈاکٹر بجنوری ( 1918ء) مولفہ: ڈاکٹر بجنوری مرتبہ: محمد فاتح فرخ طابع: سول اینڈ ملٹری پریس کراچی سن اشاعت 1961ء

8 سی پارہ دل مصنفہ: خواجہ حسن نظامی طابع: دلی پرنٹنگ ورکس دہلی ناشر: خواجہ بک ڈپو دہلی سن اشاعت جولائی 1921ء

9 تمدن ہند: مصنفہ ڈاکٹر لی بان مترجم: سید علی بلگرامی طابع: مطبع ہاشمی آگرہ ناشر:مطبع ہاشمی آگرہ سن اشاعت 1913ء

10 ماثر الکرام مولفہ: میر غلام علی آزاد بلگرامی طابع: مفید عام پریس آگرہ ناشر: عبداللہ خان، کتب خانہ آصفیہ، حیدر آباد(دکن) سن اشاعت 1910ء

11 خطوط عطیہ بیگم مرتبہ: محمد امین زبیری و سید محمد یوسف طابع: شمسی مشین پریس ، آگرہ  ناشر: ظل السلطان بک ایجنسی، بھوپال سن اشاعت ندارد

12 اردو تنقید کا ارتقاء مصنفہ: عبادت بریلوی طابع: ادبی پریس کراچی ناشر:انجمن ترقی اردو(پاکستان) کراچی سن اشاعت 1951ء

 

لسانیات

1 دریائے لطافت مولفہ: انشاء اللہ خان انشا (ر) مرزا قتیل طابع: الناظر پریس لکھنو ناشر: انجمن ترقی اردو، اورنگ آباد (دکن) سن اشاعت: 1916ء

2 قواعد اردو، مرتبہ مولوی عبدالحق طابع: الناظر پریس، لکھنو ناشر: دار الاشاعت انجمن ترقی اردو، لکھنو سن اشاعت 1914ء

3 فرہنگ اصطلاحات علمیہ مرتبہ: انجمن ترقی اردو اورنگ آباد طابع: انجمن ترقی اردو اورنگ آباد ناشر: انجمن پریس اورنگ آباد سن اشاعت: 1925ء

4 فرہنگ اصطلاحات پیشہ وراں تالیف: مولوی ظفر الرحمن دہلوی طابع: لطیفی پریس دہلی ناشر: انجمن ترقی اردو (ہند) دہلی سن اشاعت: 1939ء

5 مطبوعات سر رشتہ مرتبہ: سر رشتہ تعلیم و ترجمہ جامعہ عثمانیہ حیدر آباد طابع: دار المطابع جامعہ عثمانیہ سرکار عالی حیدر آباد دکن ناشر: سر رشتہ تعلیم و ترجمہ عثمانیہ حیدر آباد دکن سن اشاعت 1909ء

 

متفرقات

1 مبادی سائنس مترجم: معشوق حسین خان طابع: مطبع اختر حیدر آباد(دکن) ناشر: انجمن ترقی اردو، حیدر آباد(دکن) سن اشاعت: 1910ء

2 معرکہ مذہب و سائنس مصنفہ: ڈاکٹر جان ولیم ڈربیر مترجم: مولوی ظفر علی خان طابع: رفاہ عام پریس لاہور سن اشاعت: 1910ء

3 اعظم الکلام فی ارتقاء الاسلام مصنفہ: مولوی چراغ علی مترجم: مولوی عبدالحق طابع: رفاہ عام اسٹیم پریس لاہور ناشر: عبداللہ خان کتب خانہ آصفیہ، حیدر آباد سن اشاعت: 1911ء

4 تحقیق الجہاد مصنفہ: مولوی چراغ علی مترجم: مولوی غلام حسین طابع: رفاہ عام پریس لاہور ناشر: عبداللہ خان کتب خانہ آصفیہ حیدر آباد سن اشاعت: 1913ء

5 مشاہیر یونان و رومہ مصنفہ: پلوٹارک مترجم: ہاشمی فرید آبادی طابع: مفید عام پریس لاہور ناشر: انجمن ترقی ہند، دہلی سن اشاعت: 1943ء

6 جنگ روس و جاپان مصنف: مولانا ظفر علی خان طابع: مطبع اختر حیدر آباد دکن ناشر: مطبع اختر حیدر آباد دکن سن اشاعت 1905ء

7 جنگ نامہ عالم علی خان مولفہ:غضنفر حسین مرحوم مرتبہ: مولوی عبدالحق طابع: مطبع انجمن ترقی اردو اورنگ آباد (دکن) ناشر: انجمن ترقی اردو، اورنگ آباد (دکن) سن اشاعت: 1932ء

8 حیات امیر خسرو مصنفہ: خان بہادر تقی محمد خان طابع: ٹائمز پریس کراچی سن اشاعت: 1956ء

9 تجردو ازدواج مصنفہ: سید محمد تقی طابع: مطبع فیض عام علی گڑھ ناشر: مطبع فیض عام علی گڑھ سن اشاعت: 1907ء

10 فرہنگ اصطلاحات کیمیا مرتبہ: انجمن ترقی اردو (پاکستان) طابع: انجمن پریس کراچی ناشر: انجمن ترقی اردو(پاکستان) کراچی سن اشاعت: 1953ء

11 اسٹینڈرڈ انگریزی اردو ڈکشنری زیر نگرانی: مولوی عبدالحق طابع: انجمن اردو پریس اورنگ آباد (دکن)

ناشر: انجمن ترقی اردو، اورنگ آباد سن اشاعت: 1937ء

12 آرٹ ان اردو پوئٹری مصنفہ: شہاب الدین رحمت اللہ طابع: مونیو پریس ڈھاکہ  ناشر: دی پاکستان کو آپریٹو بک سوسائٹی لمیٹڈ ڈھاکہ سن اشاعت: 1954ء

13 چین و عرب تعلقات اور ان کے نتائج مصنفہ: مولوی بدر الدین حئی طابع: سول اینڈ ملٹری پریس کراچی ناشر: انجمن ترقی اردو (پاکستان) کراچی سن اشاعت: 1949ء

14 پر اسرار کائنات مصنفہ:سر جیمسن جینس مترجم: سید محمد تقی طابع: جاوید پریس لاہور ناشر: اکیڈمی آف ایجوکیشن ریسرچ کراچی سن اشاعت: 1958ء

15 وادی سندھ کی تہذیب مصنفہ: محمد ادریس صدیقی ناشر: محکمہ آثار قدیمہ مغربی پاکستان لاہور سن اشاعت: 1959ء

16 مضامین محفوظ علی مرتبہ: انجمن ترقی اردو (پاکستان) کراچی طابع: انجمن پریس لارنس روڈ کراچی ناشر: انجمن ترقی اردو(پاکستان) کراچی سن اشاعت: 1956ء

17 خطبات گارساں دتاسی مصنفہ: موسیو گارساں دتاسی طابع: انجمن ترقی اردو، اورنگ آباد دکن ناشر: انجمن ترقی اردو اورنگ آباد دکن سن اشاعت: 1935ء

18 ناقابل فراموش مصنفہ: سردار دیوان سنگھ مفتون ناشر: ریجنٹ نیوز ایجنسی، دہلی سن اشاعت: 1957ء

 

رسائل

1 رسالہ اردو جنوری 1921ء  انجمن ترقی اردو اورنگ آباد، انجمن پریس اورنگ آباد

2 رسالہ معاشیات اگست 1949ء  انجمن ترقی اردو کراچی، سول اینڈ ملٹری پریس لاہور

3 رسالہ سائنس جنوری 1928ء  انجمن ترقی اردو طابع: انجمن پریس اورنگ آباد

 

               کچھ اور مقدمات

 

’’مقدمات عبدالحق‘‘ میں شامل مذکورہ مقدمات کے علاوہ بھی مولوی عبدالحق نے بہت سے مقدمات اور دیباچے تحریر کئے تھے ان میں مندرجہ ذیل قابل ذکر ہیں:

1 مقدمہ ’’انتخاب مضامین رسالہ حسن‘‘  مرتبہ: مولوی عبدالحق مطبوعہ: حیدر آباد دکن، سن ندارد

2 التماس ’’کلیات ولی‘‘  مرتبہ :علی احسن، انجمن ترقی اردو 1927ء

3 دیباچہ ’’ترکوں کی اسلامی خدمات اور ان کی زبان و ادب پر تین لیکچر‘‘ مترجم: وہاج الدین مصنفہ جرمانس جولیس اورنگ آباد، انجمن ترقی اردو 1932ء

4 دیباچہ ’’تاریخ ادبیات ایران‘‘  مترجم: سید سجاد حسین اورنگ آباد، انجمن ترقی اردو 1932ء

5 مقدمہ ’’امہات الامہ‘‘ از ڈپٹی نذیر احمد دہلی، ادریس المطابع، 1935ء

6 مقدمہ ’’سودا‘‘ از شیخ چاند اورنگ آباد، انجمن ترقی اردو 1936ء

7 مقدمہ ’’جائزہ زبان اردو‘‘  مرتبہ: انجمن ترقی اردو دہلی انجمن ترقی اردو پریس اورنگ آباد 1940ء

8 پیش لفظ ’’معدنی دریافت‘‘  مصنفہ: امداد علی انجمن ترقی اردو دہلی 1940ء

9 پیش لفظ ’’مدنی دباغت‘‘ مصنفہ: امداد علی دہلی، انجمن ترقی اردو 1940ء

10 فرہنگ اصطلاحات بنکاری مرتبہ: مجلس اصطلاحات پاکستان اسٹیٹ بینک کراچی، انجمن ترقی اردو 1951ء

11 دیباچہ ’’مقالات حالی‘‘ مرتبہ: محمد اسماعیل (حصہ اول) (بار سوم) کراچی، انجمن ترقی اردو 1955ء

12 مقدمہ ’’قاموس الکتب اردو‘‘ (جلد اول) مقدمہ: مولوی عبدالحق کراچی، انجمن ترقی اردو 1961ء

13 مقدمہ ’’مسافر حجاز‘‘ مصنفہ: آغا بدر عالم درانی کراچی ’’قومی زبان‘‘ یکم مئی یا یکم جون 1926ء

14 مقدمہ ’’لغات کبیر اردو‘‘  مولفہ و مقدمہ: مولوی عبدالحق کراچی، انجمن ترقی اردو 1973ء

 

               مکتوبات بابائے اردو بنام پیر سید حسام الدین راشدی

 

پیر حسام الدین راشدی صاحب اردو کے سندھی نژاد محسن تھے۔ پیر صاحب نے اردو کی ترویج میں اہم کردار ادا کیا ۔ انجمن ترقی اردو کے پاکستانی دور میں پیر سید حسام الدین راشدی کی گراں قدر خدمات ہیں۔ وہ انجمن ترقی اردو پاکستان کی مجلس نظماء کے رکن تھے اور انجمن کی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ نیز انجمن ترقی اردو اور مولوی عبدالحق صاحب کو قیمتی مشورے دیتے تھے اور انجمن کے اشاعتی پروگراموں کے روح رواں تھے۔۔۔۔۔ پیر سید حسام الدین راشدی صاحب کی یہی اردو نوازی انہیں مولوی عبدالحق صاحب کے قریب لے آئی اور ان کا شمار مولوی عبدالحق صاحب کے پر اعتماد دوستوں میں ہونے لگا۔

بقول مشفق خواجہ صاحب:

’’پیر حسام الدین صاحب راشدی ان معدودے چند بزرگوں میں سے ہیں جنہیں بابائے اردو کی انجمن اور خلوت دونوں تک رسائی حاصل تھی۔ان دونوں بزرگوں کی عمروں میں اگرچہ تقریباً چالیس ال کا فرق تھا۔ لیکن مزاج اور ذوق کی ہم آہنگی کی وجہ سے یہ فرق مٹ گیا تھا اور دونوں ایک دوسرے کے ’’شریک رنج و راحت‘‘ قسم کے دوست بن کر رہ گئے تھے۔ اس تعلق خاطر کی مکمل روداد ابھی لکھی نہیں گئی۔ اس روداد کا ایک حصہ مولوی صاحب مرحوم کے خطوط کی صورت میں محفوظ ہے۔۔۔۔ ان خطوط کے مطالعے سے کاتب اور مکتوب الیہ دونو کے کردار کے بعض روشن پہلو سامنے آتے ہیں اس لیے جہاں یہ خطو ط مولوی صاحب مرحوم کی ذہنی آپ بیتی کی حیثیت رکھتے ہیں وہیں دوسری طرف پیر صاحب قبلہ کے اوصاف حمیدہ کا بھی آئینہ ہیں۔‘‘

یقیناً پیر حسام الدین راشدی کے نام ان مکاتیب کو مکمل نہیں کہا جا سکتا بہت سے ایسے خطوط بھی ہوں گے جو ضائع ہو گئے ہوں۔ یا ابھی اوراق پریشاں کی صورت گم نامی میں ہوں پھر بھی ان مکاتیب کی تعداد اچھی خاصی ہے۔ مجموعی اعتبار سے یہ 126مکاتیب ہیں یہ مکاتیب 1942ء سے لے کر 1954ء کی درمیانی مدت کے ہیں اور زیادہ مکاتیب کا موضوع انجمن اور اس کے مسائل ہیں۔ لیکن تمام مکاتیب سے مولوی عبدالحق صاحب کی پیر سید حسام الدین راشدی صاحب سے بے تکلفی ظاہر ہوتی ہے۔

مولوی عبدالحق صاحب کے یہ مکاتیب 1964ء میں منظر عام پر آئے تھے اور انہیں ’’قومی زبان‘‘ نے چھاپا تھا۔

 

               خطوط عبدالحق مرتبہ محمد اکبر الدین صدیقی

 

محمد اکبر الدین صدیقی صاحب نے مولوی عبدالحق صاحب کے 293خطوط کا یہ مجموعہ حیدر آباد (دکن) اردو اکیڈمی کے زیر اہتمام اعجز پرنٹنگ پریس چھتہ بازار حیدر آباد (دکن) سے 1966ء میں شائع کرایا تھا۔ ان خطوط میں260 خطوط اردو اور بقیہ 33انگریزی میں ہیں مولوی عبدالحق صاحب کے یہ وہ خطوط ہیں جو انہوں نے اپنے ان ماتحت حضرات کو لکھے تھے جو بلحاظ تنخواہ ایک اور بیس تا چالیس کا تناسب رکھتے تھے مرتب نے اپنے پیش لفظ میں ہر مکتوب الیہ کا تفصیلی تعارف کرایا ہے۔ جس میں مولوی عبدالحق صاحب سے ملاقات، ملازمت اور ان کی علمی و ادبی خدمات کا تذکرہ ہے۔ سب سے زیادہ خطوط ظفر الرحمن صاحب کے نام ہیں جو کتاب کے 110  صفحات میں پھیلے ہوئے ہیں ان خطوط کا موضوع ’’فرہنگ اصطلاحات پیشہ ورانہ‘‘ ہے جب کہ سید ساجد علی کے نام68خطوط لغت کی تدوین کے سلسلے میں ہیں سید ساجد علی کے نام یہ خطوط12جون 1920ء سے 1959ء کی درمیانی مدت میں لکھے گئے ہیں کچھ خطوط محمد علی صاحب اور غلام ربانی صاحب کے نام ہیں جو انجمن کے اور اپنے خانگی کاموں کے سلسلے میں لکھے گئے ہیں۔

مولوی عبدالحق صاحب اپنے آخری دور میں بذات خود خط نہیں لکھ پاتے تھے اس زمانے میں حکیم اسرار احمد کریوی صاحب اور حکیم امامی صاحب مکتوب نویسی کے فرائض انجام دیتے تھے۔ عبدالرحمان فینسی کے نام 7خطوط عمر بانی صاحب کے نام4، رضا نواز جنگ تعلقہ دار صوبہ دار اورنگ آباد کے نام2، یوسف الدین مہتمم کتب خانہ جامعہ عثمانیہ، سخاوت مرزا، اور سید اکرام علی عرف مطلوب شاہ قادری کے نام ایک ایک خط ہے جب کہ پنڈت ونشی دھر کے نام 31خطوط انگریزی زبان میں لکھے گئے ہیں۔ پنڈت ونشی دھر کے نام خطوط5جون 1929ء سے 27فروری 1946ء کی درمیانی مدت کے تحریر کئے ہوئے ہیں۔

خطوط کے اس مجموعہ میں مولوی عبدالحق صاحب کا لکھا ہوا ایک مختصر مضمون بھی شامل ہے۔

 

               عبدالحق کے خطوط عبدالحق کے نام

 

الحاج افضل العلماء ڈاکٹر محمد عبدالحق صاحب، مولوی عبدالحق صاحب کے پر اعتماد دوستوں میں تھے۔ الحاج افضل العلماء ڈاکٹر محمد عبدالحق صاحب کے انتقال پر اپنے تعزیت نامہ میں مولوی عبدالحق نے ان کا ذکر کرتے ہوئے تحریر کیا ہے۔

’’وہ حقیقی معنوں میں عالم اور علم دوست تھے عربی زبان اور اسلامی علوم پر ان کی گہری نظر تھی پہلے محمڈن کالج میں پروفیسر تھے پھر پرنسپل ہو گئے۔ مرحوم کی نگرانی اور سرپرستی میں اس کالج کا وقار بہت بڑھ گیا اور ان کا کالج مدراس کے ممتاز کالجوں میں شمار ہونے لگا اس کے بعد وہ مدراس کے قدیم اور مشہور کالج موسوم بہ پریسیڈنسی کے پرنسپل کے عہدے پر فائز ہو گئے کچھ عرصہ مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ میں رہ کر وائس چانسلری کی خدمت انجام دی وہ جس عہدے اور منصب پر رہے اس کے فرائض بڑی تندہی اور انہماک سے انجام دئیے اور اپنی فرض شناسی اور خدمات کے جذبہ کی وجہ سے ہر جگہ مقبول رہے ان کا اصلی ذوق تعلیم تھا۔۔۔۔ انہیں اردو زبان سے بڑی محبت تھی اور اس کی اشاعت اور ترقی کے لئے دامے قدمے ہر طرح حاضر تھے۔‘‘

ان ہی الحاج افضل العلماء ڈاکٹر محمد عبدالحق صاحب کے نام 57خطوط کا مجموعہ ’’عبدالحق کے خطوط عبدالحق کے نام‘‘ سے شائع ہوا ’’حرف اول‘‘ الحاج افضل العلماء ڈاکٹر محمد عبدالحق صاحب کے بیٹے محمد انواز الحق صاحب پرنسپل عثمانیہ کالج کرنول نے تحریر کیا جب کہ مقدمہ ڈاکٹر عبدالستار صدیقی نے لکھا ہے جس میں صدیقی صاحب نے مولوی عبدالحق صاحب کے اسلوب نگارش پر روشنی ڈالی ہے۔

یہ خطوط10اگست 1927ء سے 18جون 1954ء کی درمیانی مدت میں لکھے گئے ہیں جن میں سے اکثر کا تعلق مدراس میں اردو کی ترویج اور سرگرمیوں سے ہے۔ ایک خط میں الحاج افضل العلماء ڈاکٹر محمد عبدالحق صاحب کے اس خط کی نقل بھی شامل ہے جو انہوں نے مولوی عبدالحق صاحب کے خط کے جواب میں تحریر کیا تھا۔

خطوط کا یہ مجموعہ الحاج افضل العلماء ڈاکٹر محمد عبدالحق صاحب کے انتقال کے بعد شائع ہوا تاہم وہ اسے اپنی زندگی میں مرتب کر چکے تھے اور جگہ جگہ انہوں نے خود ہی وضاحتی حاشیے بھی تحریر کئے تھے۔

اقبال اور عبدالحق

ڈاکٹر ممتاز حسن نے یہ کتاب ’’مکتوبات اقبال کی روشنی میں‘‘ مرتب کی اور مجلس ترقی ادب لاہور نے علامہ اقبال کی ولادت کے جشن صد سالہ کی مناسبت سے زرین آرٹ پریس لاہور سے 1973ء میں شائع کی تھی۔

ممتاز حسن نے پیش لفظ اور مقدمہ خود تحریر کیا ہے کتاب میں مولوی عبدالحق کے نام علامہ اقبال کے آٹھ خطوط کے عکس دئیے گئے ہیں اور بعد میں یہی خط نسخ ٹائپ پر چھاپے گئے ہیں۔

بیشتر خطوط اردو اور انجمن ترقی اردو کے مسائل پر ہیں جب کہ ایک خط میں مولوی عبدالحق کو الہ آباد یونی ورسٹی سے ڈی لٹ کی اعزازی ڈگری عطا ہونے پر مبارکباد دی گئی ہے اور دوسرے خط میں سر راس مسعود کے انتقال پر اظہار افسوس کیا گیا ہے۔

کتاب کے حواشی بھی ممتاز حسن نے تحریر کئے ہیں کتاب میں آٹھ خطوط کے متن کے بعد نو ضمیمے ہیں جس کی تفصیل درج ذیل ہے۔

1 علامہ اقبال کی اپنی اور علامہ پر لکھی جانے والی کتب پر تبصرے از مولوی عبدالحق تبصرہ بر ’’بانگ درا‘‘ تبصرہ پر ’’اقبال‘‘ از احمد دین تبصرہ بر ’’کلیات اقبال‘‘

2 تقریر مولوی عبدالحق یوم اقبال 1950ء

3 تقریر مولوی عبدالحق یوم اقبال 1953ء

4 تصانیف مولوی عبدالحق

5 سہ ماہی ’’اردو‘‘ میں اقبال کے بارے میں شائع شدہ مضامین کی فہرست

6 سہ ماہی ’’اردو ‘‘ میں اقبال سے متعلق تصانیف پر شائع شدہ تبصروں کی فہرست

7 روداد آل انڈیا اردو کانفرنس 1936ء

8 عکس مکتوب قائد اعظم

9 نامہ سر تنج بہادر سپرو بنام مولوی عبدالحق

ضمیموں کے بعد کتابیات کی فہرست ہے اشخاص، مقامات، اداروں، کتب رسائل، اخبارات، مضامین اور نظموں کا اشاریہ احمد رضا نے مرتب کیا ہے۔

 

               لغت کبیر

 

مولوی عبدالحق صاحب کے تالیفی سرمایہ میں ’’لغت کبیر‘‘ کو بڑی اہمیت حاصل ہے اور اس لغت کی تالیف ان کی زندگی کی بڑی خواہشوں میں سے ایک تھی 1930ء میں مولوی عبدالحق صاحب اورنگ آباد کالج کی پرنسپلی سے سبکدوش ہونے کے بعد جامعہ عثمانیہ حیدر آباد (دکن) چلے آئے لیکن ان کے پیش نظر ایک جامعہ لغت کا منصوبہ رہا۔ اس زمانے میں انہوں نے بڑی مستعدی سے ’’لغت‘‘ کی تالیف کا آغاز کیا اور رفقاء کار کی ایسی ٹیم تیار کی جو ان کے اس منصوبہ میں ان کا ہاتھ بٹا سکے اس سلسلے میں سید ہاشمی فرید آبادی صاحب تحریر کرتے ہیں:

’’مولوی احتشام الدین حقی دہلوی مددگار مقرر ہوئے مرحوم اردو زبان کے ادیب ابن ادیب تھے اور ان سے بہتر اس کام میں مددگار ملنا مشکل تھا۔۔۔۔۔ نظر ثانی خود مولوی صاحب اور ایک کمیٹی کرتی رہی، جس میں ڈاکٹر عبدالستار صاحب صدیقی، جناب پنڈت کیفی اور راقم الحروف شریک تھے الفاظ کی اصل اور سرگزشت کا پتہ چلانے کے لئے سنسکرت اور ہندی زبانوں کے بعض ماہر (پنڈت ونشی دھر وغیرہ) مامور تھے۔ عربی الاصل الفاظ کے مادے عربی دان حضرات (ڈاکٹر صدیقی صاحب ی نگرانی میں) لکھ بھیجتے تھے۔‘‘

اس منصوبے پر بڑی تیزی سے کام ہوا بہت سا سرمایہ جمع ہو گیا تھا لیکن ابھی منصوبہ تکمیل پذیر نہیں ہو اتھا کہ 1947ء کے فرقہ وارانہ ہنگاموں نے سارے کرے دھرے پر پانی پھیر دیا۔ بڑی مشکل سے مولوی عبدالحق صاحب کچھ اثاثہ کراچی منتقل کرنے میں کامیاب ہو گئے جس میں اس ’’لغت‘‘ کے چند پلندے اور حوالے کے کارڈ بھی شامل تھے مولوی عبدالحق صاحب نے کراچی منتقل ہو کر بھی اس منصوبے کو ترک نہیں کیا اور اسے از سر نو مرتب کیا لیکن یہ منصوبہ مکمل نہیں ہوا تھا کہ مولوی عبدالحق صاحب کا انتقال ہو گیا مولوی عبدالحق صاحب کے انتقال کے بعد ان کے لکھے ہوئے مقدمہ کے ساتھ 1973ء میں انجمن ترقی اردو نے مولوی عبدالحق کی کاوش کو شائع کیا۔

ڈاکٹر شوکت سبزواری مدیر اول ترقی اردو بورڈ نے اس لغت کا تعارف کراتے ہوئے تحریر کیا تھا:

’’قارئین کو ان اوراق کے مطالعے سے اندازہ ہو گا کہ مولوی صاحب کی عمر بھر وفا کرتی اور وہ اردو کے اس ’’لغت کبیر‘‘ کو مکمل فرماتے تو کتنا عظیم کام ہوتا اور اس سے اردو کو کتنا فائدہ پہنچتا۔‘‘

لغت کے ابتداء میں جمیل الدین عالی صاحب معتمد اعزازی کا ’’حرفے چند‘‘ کے عنوان سے مختصر تاریخ اور ڈاکٹر شوکت سبزواری صاحب کا تعارف اور مولوی عبدالحق کا لکھا ہوا مقدمہ شامل ہے۔

مولوی عبدالحق صاحب نے اپنے مقدمہ میں لغت نویسی کا بھر پور جائزہ لیا ہے مستشرقین اور اہل زبان کے لکھے ہوئے لغات کا تحقیقی ذکر کیا ہے۔ مولوی عبدالحق نے ’’لغت کبیر‘‘ کی تالیف کے سلسلے میں لکھا ہے:

’’اس کی تالیف اور تکمیل میں پورے سترہ سال لگے اور لاکھوں روپیہ صرف ہوئے۔ مطالعہ کرنے والے 1300 اشخاص تھے۔ انہوں نے پانچ ہزار کتابوں میں سے 3500 000 اقتباسات انتخاب کئے۔ تنخواہ یاب کارکنوں کے علاوہ 30سب ایڈیٹروں اور ہزاروں مطالعہ کرنے والوں نے بلا معاوضہ کام کیا جن میں اکثر نے اس تندہی سے اپنا فرض ادا کیا تنخواہ یاب کیا کرے گا۔‘‘

اس ’’لغت‘‘ کی چند خصوصیات قابل ذکر ہیں:

1 اردو کے تمام مفرد اور مرکب الفاظ درج لغت ہیں۔

2 اعراب بڑی احتیاط اور کاوش سے لگائے گئے ہیں۔

3 ہر معنی کی شہادت کے لئے اردو ادب کو میزان بنایا گیا ہے۔

4 تمام الفاظ کے ماخذ بتائے گئے ہیں اور الفاظ کی معنی کے اعتبار سے قواعدی حیثیت واضح کی گئی ہے۔

’’لغت کبیر‘‘ کی جلد دوم 1977ء میں انجمن ترقی اردو سے شائع ہوئی۔

جلد دوم میں بھی مولوی عبدالحق صاحب کا مقدمہ جمیل الدین عالی صاحب ’’حرفے چند‘‘ اور ڈاکٹر شوکت سبزواری صاحب کا تعارف شامل ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس کی اشاعت میں ہاشمی فرید آبادی صاحب کا ’’تاریخ تدوین کا خلاصہ تاریخ‘‘ شامل ہے۔

 

               قاموس الکتب (جلد دوم) ’’تاریخیات‘‘

 

’’بابائے اردو نے مذہبیات پر قاموس الکتب کی پہلی اشاعت کے فوراً بعد تاریخ و سوانح کے موضوع پر کام شروع کر دیا تھا لیکن جلد ہی ان کی زندگی مستعار کی مہلت ختم ہو گئی اور کام تکمیل کو نہیں پہنچ سکا۔‘‘

بابائے اردو کے انتقال کے بعد انجمن ترقی اردو نے اس کی تکمیل کرائی اور نستعلیق آفسٹ پر اسے سلسلہ مطبوعات انجمن ترقی اردو نمبر361کے تحت 1975ء میں انجمن ترقی اردو پریس سے شائع کیا گیا ابتدا میں قاموس کی تدوین کے مراحل کا ذکر ہے اور بطور مقدمہ مولوی عبدالحق کا وہی مقدمہ شامل اشاعت ہے جو انہوں ’’قاموس الکتب‘‘ (حصہ اول) مذہبیات کے لئے تحریر کیا تھا۔

اس جلد میں 4110 کتب کا تعارف ہے جو موضوعات کے اعتبار سے فلسفہ تاریخ و نظریات، تاریخ تہذیب و تمدن، تعلیم و ثقافت، تاریخی مجموعے، جغرافیہ، آثار قدیمہ، سوانح، تاریخ اقوام یورپ و ایشیائ، افریقہ اور متفرقات میں منقسم ہیں۔ کتاب کے آخر میں دو اشاریے ہیں جن میں سے ایک مصنفین کے بارے میں اور دوسرا اشاریہ کتابوں کے بارے میں ہے۔

 

               افکار حالی

 

مولوی عبدالحق کا تعلق دبستان علی گڑھ سے تھا اور انہیں سر سید احمد خان اور ان کے رفقاء کار بالخصوص مولانا حالی سے بے انتہا لگاؤ تھا۔ جمیل الدین عالی صاحب لکھتے ہیں:

’’انہوں نے سر سید اور ان کے رفقائے کار کو نہ صرف دیکھا تھا بلکہ ان سے کسب فیض بھی کیا تھا تاہم ان کے خیالات اور طرز تحریر پر خواجہ الطاف حسین حالی کے اثرات بہت زیادہ ہیں۔‘‘

عبدالحق کی گوناں گوں مصروفیات نے اس بات کا موقع نہ دیا کہ وہ حالی پر کوئی باقاعدہ تالیف چھوڑتے لیکن انہوں نے اپنے اس پیشوا پر بہت سے مضامین لکھے، تقاریب کیں، تبصرے رقم کئے اور دیباچے تحریر کئے۔ جن سے مولانا حالی کی شخصیت اجاگر ہوتی ہے ان ہی میں سے انتخاب ’’افکار حالی‘‘ کے عنوان سے انجمن ترقی اردو پاکستان نے مولوی عبدالحق کے انتقال کے بعد نستعلیق آفسٹ پر شائع کیا۔ جس پر ادارہ کی جانب سے ’’حالی اور عبدالحق‘‘ کے عنوان سے مولوی عبدالحق کے حالی سے مراسم کا جائزہ لیا گیا۔ کتاب کے آغاز میں جمیل الدین عالی نے ’’حرفے چند‘‘ میں کتاب کا تعارف کرایا ہے۔ کتاب میں شامل مضامین کی فہرست درج ذیل ہیں:

1 حالی کی شخصیت ۔چند ہم عصر (شیخ چاند کی فرمائش پر مولانا حالی پر تو ایک مضمون لکھ دیا تحریر 1937ء

2 ایک مثالی کردار ریڈیائی تقریر مطبوعہ ’’قومی زبان‘‘ کراچی 16مئی 1950ء

3 حالی اور انسانیت۔ تقریر ’’یوم حالی‘‘ انجمن ترقی اردو پاکستان  1951ء

4 درد مند حالی۔ تقریر عثمانیہ کالج، اورنگ آباد 5نومبر 1934ء

5 حالی کا جشن صد سالہ

6 حالی کی شاعری ۔ خطبہ صدارت انجمن ترقی پسند مصنفین دکن 2مارچ 1954ء

7 حالی اور ادب ۔ اردو دائرہ معارف اسلامیہ لاہور زیر عنوان ’’اردو‘‘

8 حالی کی تنقید نگاری

9 ایک ہندی دوہے اور اردو شعر پر مولانا حالی کا محاکمہ سہ ماہی ’’اردو‘‘ اورنگ آباد

10 مسدس حالی جنوری 1936ء

11 مقالات حالی (مرتبہ محمد اسمعیل) دیباچہ ’’مقالات حالی‘‘ جامعہ پریس دہلی   1934ء

12 مکتوبات حالی مکتوبات حالی بنام مولوی عبدالحق

1 محررہ 23ستمبر 1903ء

ٍ            2 محررہ17 جنوری 1905ء

3 محررہ 6مارچ 1912ء اور

4 ایک غیر مکمل خط (ت ن) خطوط عبدالحق بنام ڈاکٹر عبداللہ چغتائی

ڈاکٹر عبادت بریلوی نے مولوی عبدالحق کے 77خطوط بنام ڈاکٹر عبداللہ چغتائی اپنے مقدمہ اور چغتائی کے ایک مضمون بعنوان ’’ڈاکٹر مولوی عبدالحق اور ان کے خطوط‘‘ کے ساتھ ترتیب دے کر شائع کئے ہیں۔

ان خطوط کا موضوع زبان اردو اور انجمن ہے۔ یہ خطوط 1933ء سے 1959ء کے درمیانی زمانے میں لکھے گئے ہیں۔ مولوی عبدالحق کے بعض خطوط عبداللہ چغتائی کے پاس محفوظ نہیں رہے۔ ان کی بابت خود چغتائی صاحب کا بیان ہے:

’’میرے اور مولوی صاحب کے تعلقات 1922ء سے لے کر ان کی وفات تک بد ستور نہایت خوشگوار رہے۔اس طویل عرصے میں ان سے جو خطوط کتابت برائے ترویج زبان اردو ہوتی رہی وہ بہت اہم اور دل چسپ ہے۔ اس سے تاریخ عہد پر بھی کافی روشنی پڑتی ہے۔ اگرچہ ان میں وہ ابتدائی خطوط نہیں جو بد قسمتی سے انتقال مکانی اور غفلت کے باعث ضائع ہو گئے۔‘‘

ڈاکٹر عبادت بریلوی نے اپنے مقدمہ میں مولوی عبدالحق کے خطوط کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے اسے شائع کرنا ’’قومی خدمت‘‘ قرار دیا ہے اور عبداللہ چغتائی سے مولوی عبدالحق کے گہرے مراسم کا ذکر کرتے ہوئے انہیں مولوی صاحب کا معتمد قرار دیا ہے۔

ڈاکٹر عبداللہ چغتائی نے اپنے مضمون میں مولوی عبدالحق کی زندگی کے اس اہم دور پر روشنی ڈالی ہے جب مولوی عبدالحق اردو کی ترویج کے لئے زبردست کوشش کر رہے تھے۔

مضمون کی ابتدا میں عبداللہ چغتائی نے پروفیسر حافظ محمود شیرانی کے توسط سے مولوی صاحب سے اپنے تعارف اور ابتدائی ملاقاتوں کا تذکرہ کیا ہے اور بتایا ہے کہ وہ کس طرح مولوی عبدالحق کے قریب ہوتے گئے۔ پھر مولوی عبدالحق کی میزبانی، پھلوں سے دل چسپی، ان کے انداز زندگی، علمی دوروں، اردو اسٹینڈرڈ ڈکشنری کی تدوین اور اشاعت، انجمن کے لئے پریس کے حصول اور اس کے لئے سفر کلکتہ، قیام دہلی، سر اکبر حیدری سے قریبی تعلقات، جائزہ زبان اردو کی مہم، جائزہ زبان کا طریقہ کار اور پاکستان میں ہجرت جیسے موضوعات کا احاطہ کیا ہے۔

مولوی عبدالحق نے بیشتر خطوط اورنگ آباد سے تحریر کئے ہیں انہوں نے 1934ء میں عبداللہ چغتائی کو ’’جائزہ زبان‘‘ کے لئے اپنا سفیر بنایا تھا اس لئے زیادہ تر خطوط ’’جائزہ زبان‘‘ کے موضوع پر ہیں جب کہ چند خطوط ’’اسٹینڈرڈ اردو ڈکشنری‘‘ چھاپے خانے اور اردو کانفرنسوں کے بارے میں ہیں۔

ان خطوط میں صرف سات خط انجمن ترقی اردو پاکستان کے قیام کے بعد تحریر کئے گئے ہیں۔ مختلف کتابوں کی اشاعت، استنبول کی اورینٹل کانفرنس اور لاہور اردو کانفرنس ان خطوں کے اہم موضوعات ہیں ایک خط ڈاکٹر عبداللہ چغتائی کی اہلیہ کے انتقال پر تعزیت کا بھی ہے۔

 

               فرمودات عبدالحق مرتبہ ڈاکٹر سید معین الرحمن

 

مولوی عبدالحق کے 681فرمودات پر مشتمل یہ کتاب ڈاکٹر سید معین الرحمن نے 1978ء میں مرتب کر کے نذر سنز لاہور سے شائع کرائی تھی، بقول فرمان فتح پوری:

’’ڈاکٹر سید معین الرحمن نے ’’فرمودات عبدالحق‘‘ میں بابائے اردو کے خطبات کی روح اور خوشبو اس عمدگی سے کشید کی ہے کہ باید و شاید اس کتاب کے مطالعہ سے مولوی عبدالحق کی شخصیت کی رنگا رنگی، ان کی زندگی کی باہمی، ان کی ہمہ گیر واقفیت، ان کی معاملہ فہمی، ان کی فکری استعداد، ان کی تبحر علمی، ان کے انداز بیان، ان کی جدت طبع اور ان کی بے باک اور بے جھپک رنگ طبیعت کا بھر پور انداز ہو جاتا ہے۔‘‘

ڈاکٹر سید معین الرحمن نے یہ ’’فرمودات‘‘ مولوی عبدالحق کے ان 38نگارشات سے اخذ کئے ہیں جو ’’خطبات عبدالحق‘‘ کی شکل میں ڈاکٹر عبادت بریلوی نے مرتب کئے تھے۔ اس کتاب میں موضوع کے اعتبار سے فرمودات کی ترتیب اس طرح ہے:

1 زبان و لسان پر  132

2 اردو قومی زبان  086

3 تعلیم و تعلیمات   042

4 شعر و ادب، ادبی ادارے تحریکیں  150

5 حیات و کائنات   271

کل     681

کتاب کے آخر میں زمانی و مکانی توضیحات اور ایک اشاریہ ہے جس میں موضوعات اسمائے الرجال، اسماء الکتب و رسائل، کانفرنسیں، جلسے، ادارے، انجمنیں، اماکن اور اسماء اللسان کی نشاندہی کی گئی ہے۔

کتاب کی ابتداء میں ’’حدیث رشید‘‘ کے عنوان سے پروفیسر ڈاکٹر رشید احمد صدیقی کی تحریر کی ہوئی تقریظ اور ڈاکٹر سید معین الرحمن کی جانب سے ’’عرض مرتب‘‘ ہے کتاب کے گرد پوش پر پروفیسر رشید احمد صدیقی صاحب، پروفیسر وقار عظیم اور ڈاکٹر فرمان فتح پوری صاحب کی وہ آراء ہیں جس میں ڈاکٹر سید معین الرحمن کی اس کاوش کو تحسین کی نظر سے دیکھا گیا ہے۔

یہ ’’فرمودات‘‘ ڈاکٹر سید معین الرحمن نے مولوی عبدالحق کے ان 38طویل خطبات سے اخذ کئے ہیں جو وہ برصغیر کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک 1933ء سے 1959ء کی درمیانی مدت اردو زبان و ادب کی ترویج کے لئے دیتے رہے ہیں۔

ڈاکٹر سید معین الرحمن صاحب نے ان فرمودات کی لڑی ایک خاص معنوی ربط سے پروئی ہے اور اس بات کا اہتمام قائم رکھا ہے کہ کسی بھی حاشیہ آرائی سے مولوی عبدالحق صاحب کی اپنی رائے پر کوئی دوسرا رنگ نہ چڑھ سکے۔ بقول ڈاکٹر سید معین الرحمن صاحب:

’’مقصد یہ تھا کہ اس سے ان کی سیرت، شخصیت، نقطہ نظر وسعت علم، اصابت فکر اور دوسری صفات کے مختلف پہلو سامنے آ جائیں اور اندازہ ہو جائے کہ اپنے خیالات، جذبات و افکار کے اظہار کے لئے انہوں نے جو زبان و لہجہ اور اسلوب اختیار کیا وہ موقع محل کے اعتبار سے کتنا حسب حال ہے۔ اس سے یہ بات بھی معلوم ہو جاتی ہے کہ اعلیٰ شخصیت اور اعلیٰ انشا پردازی کس طرح ایک دوسرے سے نشوونما اور ایک دوسرے کو جلا دیتے ہیں۔‘‘

 

               مکاتیب عبدالحق بنام محوی

 

مولانا محوی صدیقی مولوی عبدالحق کے رفقاء کار میں سے تھے جنہوں نے مولوی عبدالحق کے ساتھ مل کر اردو کی نشوونما اور ترویج میں حصہ لیا اور انجمن ترقی اردو کے شعبہ دار الاشاعت کے مہتمم بنائے گئے۔

اورنگ آباد میں جب انٹرمیڈیٹ قائم ہوا اور اس کے عملہ کے انتخاب کے اختیارات مولوی عبدالحق کو ملے تو انہوں نے محوی کو فارسی کا لیکچرار مقرر کیا۔ لغت کی تدوین میں ردیف ’’ن‘‘ تک محوی صدیقی مولوی عبدالحق کے معاون رہے لیکن 1930ء میں کالج اور انجمن سے علیحدہ ہو کر مدراس چلے گئے اور 1975ء میں ان کا بھوپال میں انتقال ہوا۔

مولوی عبدالحق سے ان کی اس زمانے سے خط و کتابت تھی جب مولانا محوی الناظر پریس اور الناظر رسالے سے منسلک تھے۔ پروفیسر عبدالقوی دسنوی نے مولوی عبدالحق کے 46خطوط کو اپنے پیش لفظ، مولانا محوی پر ایک خاکہ اور مولانا محوی اور عبدالحق کے حوالے سے ایک مضمون کے ساتھ شائع کئے ہیں۔

انجمن ترقی اردو پاکستان کے معتمد اعزازی جمیل الدین عالی نے ’’حرفے چند‘‘ کے عنوان سے کتاب کا تعارف کرایا ہے اور بابائے اردو کے غیر مطبوعہ 46خطوط کو جمع اور محفوظ کرنا ’’ایک قومی اور ادبی فریضہ ‘‘ قرار دیا ہے۔

مجموعے میں شامل یہ 46مکاتیب 23اپریل 1922ء سے 12 جنوری 1949ء تک کے لکھے ہوئے ہیں ان میں سے اکثر مکاتیب میں مولوی عبدالحق نے مولانا محوی کی توجہ کتابوں کی اشاعت تدوین و ترتیب کی جانب دلائی ہے اور بعض خطوط انجمن کے پریس کے لئے ٹائپ اور فونڈری کے انتظامی امور پر لکھے ہیں۔

عبدالقوی دسنوی لکھتے ہیں:

’’ان چار درجن خطوط کے مطالعہ سے ایک طرف جہاں ہمیں مولوی عبدالحق بابائے اردو کی خط نگاری اور ان کی شخصیت سے آگاہی ہوتی ہے وہاں محوی صدیقی سے ان کے گہرے تعلقات، بابا کی نگاہوں میں ان کی قدر و منزلت اور ان کی زندگی کی مختلف جھلکیاں ملتی ہیں۔ تمام خطوط میں بے تکلف اور پر خلوص دوستی کی فضا ہے۔‘‘

خطوط کا یہ مجموعہ انجمن ترقی اردو پاکستان نے 1980ء میں انجمن پریس کراچی سے شائع کیا۔

 

               مذہب اور سائنس

 

یہ کتاب موڈرن پبلشنگ ہاؤس دہلی نے ’’افکار عبدالحق‘‘ سیریز کے آخری حصہ کے طور پر 1983ء میں شائع کی اس کا متن67 صفحات پر مشتمل ہے لیکن اس کا آغاز صفحہ173سے ہوتا ہے جب کہ آخری صفحہ پر240درج ہے۔ کتاب کے آخر میں ’’مقدمات عبدالحق‘‘ کا حوالہ ص53 تا 156ہے۔

’’مذہب اور سائنس‘‘ دراصل مولوی عبدالحق کا وہ مقدمہ ہے جو انہوں نے ڈاکٹر جان ولیم ڈریبر کی کتاب ’’کانفلیکٹ بٹوین ریلجن اینڈ سائنس‘‘ کے اردو ترجمہ کے لئے تحریر کیا تھا اس کتاب کا ترجمہ مولانا ظفر علی خان نے 1910ء میں رفاہ عام پریس لاہور سے شائع کیا تھا۔

ڈاکٹر ڈربیر نے اپنے دلائل سائنس کے حق میں دئیے تھے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی تھی کہ مذہب، سائنس سے متصادم ہے لیکن مولوی عبدالحق نے اپنے مقدمہ میں مذہب اور سائنس کے اصولوں اور خدمات کا تذکرہ کرتے ہوئے یہ ثابت کیا ہے کہ مذہب اور سائنس میں کوئی تصادم نہیں ہے بلکہ دونوں کا مقصد انسانی فلاح و بہبود ہے۔

مولوی عبدالحق ڈربیر کی کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’جسے وہ (ڈربیر) مذہب کہتے ہیں وہ در حقیقت مذہب نہیں ہے بلکہ رومن ازم ہے اور جتنے حملے انہوں نے مذہب پر کئے ہیں وہ بلا شبہ رومن ازم پر ہیں۔۔۔ سائنس اور مذہب کا یہ اختلاف اور ان کی باہمی بد ظنی و بدگمانی ابھی مدتوں رہے گی اور اسے برداشت کرنا چاہیے لیکن ساتھ ہی اسے رفع کرنے کی کوشش کرنی چاہئے کیوں کہ اس کی بنیاد غلط فہمی اور ہٹ دھرمی پر ہے۔ اہل مذہب کو سائنس کی صداقت پر اور اہل سائنس کو مذہب کی صداقت پر ایمان لانا چاہئے۔‘‘

 

               خطوط عبدالحق بنام ڈاکٹر عبادت بریلوی

 

ڈاکٹر عبادت بریلوی نے مولوی عبدالحق کے 173خطوط فوٹو عکس کی مدد سے مرتب کر کے شائع کئے ہیں یہ تمام کے تمام خطوط ڈاکٹر عبادت بریلوی کے نام ہیں مکتوب الیہ نے ہی ان کا مختصر مقدمہ تحریر کیا ہے جس میں انہوں نے ان کی اشاعت کی ضرورت و اہمیت کو اس طرح واضح کیا ہے:

’’یہ صرف ذاتی خطوط نہیں ہیں ان کی نوعیت قومی اور ملی بھی ہے۔۔۔ اس حقیقت کے احساس نے میرے دل میں یہ خیال پیدا کیا کہ ان خطوط کو اس طرح شائع کر دیا جائے کہ بابائے اردو کی ان تحریروں کے عکس ایک البم کی صورت میں محفوظ ہو جائیں۔‘‘

یہ خطوط ڈاکٹر عبادت بریلوی کے ان خطوط کے جواب میں تحریر کئے گئے ہیں۔ جو وہ مولوی عبدالحق کو وقتاً فوقتاً تحریر کرتے رہے۔ ان میں ڈاکٹر صاحب موصوف کے لئے تعلیم کے میدان میں رہنمائی بھی ہے، حصول ملازمت کے لئے دل جوئی بھی، ادبی سرگرمیوں کے لئے حوصلہ افزائی بھی اور تحسین و تعریف بھی۔

کچھ خطوط 1947ء کے المناک حالات پر روشنی ڈالتے ہیں بعض خطوط میں پاکستان میں انجمن کی ابتدائی مشکلات اور مولوی عبدالحق صاحب کے عمر کے آخری حصے میں انجمن کی چشمک پر روشنی ڈالی ہے ان میں بلند حوصلگی کی باتیں بھی ملتی ہیں اور رنج و ملال کا احساس بھی۔

ان مکاتیب سے معاشرتی، سماجی، لسانی و سیاسی معاملات و واقعات پر روشنی پڑتی ہے عبادت بریلوی صاحب کا کہنا ہے:

’’اس اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ اسلامیان پاکستان وھند کا گراں قدر قومی اور ملی سرمایہ ہے۔‘‘

خطوط کا یہ مجموعہ مجلس اشاعت مخطوطات ادارہ ادب و تنقید لاہور نے 1984ء میں فالکن پریس لاہور سے شائع کیا ہے۔

مندرجہ بالا تصنیفی و تالیفی سرمایہ کے علاوہ، ممکن ہے مولوی عبدالحق کی کچھ اور ایسی تحریریں بھی موجود ہوں، جن تک راقم الحروف کی دسترس نہ ہو سکی ہو۔

٭٭٭٭٭

 

حواشی

 

1 بحوالہ ذکر عبدالحق از ڈاکٹر سید معین الرحمن لاہور 1985ء ص:32

2 خطوط عبدالحق بنام عبادت بریلوی ترتیب و مقدمہ: ڈاکٹر عبادت بریلوی 1984ء ص:126

3 جائزہ مخطوطات جلد اول از مشفق خواجہ لاہور، مرکزی اردو بورڈ 1979ء ص: 1080

4 ’’گلشن ہند‘‘ از میرزا علی لطف، لاہور، رفاہ عام اسٹیم پریس 1906ء ص:16

5 ’’انتخاب مضامین رسالہ ’’حسن‘‘ مرتبہ مولوی عبدالحق، حیدر آباد دکن ص:7‘‘

6 قومی زبان کراچی اگست 1963ء

7 بابائے اردو مری میں از حکیم اسرار احمد کریوی، ماہنامہ ’’قومی زبان‘‘ کراچی جولائی، 1961ء ص:7

8 اعظم الکلام فی ارتقاء الاسلام حصہ دوم، مترجم: مولوی عبدالحق لاہور، رفاہ عام پریس 1911ء ص:42

9 ایضاً،ص60

10 بابائے اردو مری از حکیم اسرار احمد کریوی، ماہنامہ قومی زبان، کراچی جولائی 1961 ص: 7

11 قواعد اردو از مولوی عبدالحق لکھنو دار الاشاعت انجمن ترقی اردو 1914ء ص 1718

12 مولوی عبدالحق حیات و علمی خدمات، از شہاب الدین ثاقب، کراچی، انجمن ترقی اردو پاکستان 1985ء ص58

13 دریائے لطافت، مولفہ سید انشاء اللہ انشائ، مرتبہ: مولوی عبدالحق ناشر انجمن ترقی اورنگ آباد 1916ء ص:75

14 دریائے لطافت از سید انشا اللہ خان انشا مرتبہ مولوی عبدالحق اورنگ آباد دکن انجمن ترقی اردو 1916 ص :ت

15 ایضاً ص (ض،ق)

16 انتخاب کلام میر مرتبہ: مولوی عبدالحق بی اے، معتمد انجمن ترقی اردو، حیدر آباد دکن، دائرہ الافادہ، کاچی گوڑہ، 1921ء ص:26

17 انتخاب کلام میر مرتبہ: مولوی عبدالحق بی اے، معتمد انجمن ترقی اردو، حیدر آباد دکن، دائرہ الافادہ، کاچی گوڑہ، 1921 ص26

18 تذکرہ طبقات الشعرا از قدرت اللہ شوق مرتبہ: نثار احمد فاروقی، ناشر: مجلس ترقی ادب لاہور، 1968ء ص249

19 تذکرہ گلشن ہند، مولفہ: مرزا علی لطف، لاہور، رفاہ عام اسٹیم پریس، 1906ء ص36

20 شیخ ضیاء الحق صاحب نامور صحافی تھے اور انہوں نے قید فرنگ کاٹی تھی 1936ء میں انتقال ہوا۔

21 خواب و خیال، مصنف: سید محمد میر اثر،ا ورنگ آباد، انجمن ترقی اردو، 1926ء ص (ل)

22 چمنستان شعرا از رائے لچھمن نرائن شفیق، مرتبہ مولوی عبدالحق اورنگ آباد، انجمن ترقی اردو، 1928 ، ص:4

23 چمنستان شعرا ا ز رائے لچھمن نرائن شفیق مرتبہ مولوی عبدالحق، اورنگ آباد، انجمن ترقی اردو، 1928ء ص:16

24 ذکر میر مرتبہ مولوی عبدالحق، اورنگ آباد (دکن) انجمن ترقی اردو، 1928 ص:د

25 ذکر میر مرتبہ مولوی عبدالحق، اورنگ آباد (دکن) انجمن ترقی اردو 1928ء ص:گ

26 ایضاً،ص:ن

27: ’’مخزن نکات‘‘ مرتبہ مولوی عبدالحق، اورنگ آباد (دکن) انجمن ترقی اردو، 1929ء ص 1

28 ’’اردو شعرا کے تذکرے اور تذکرہ نگاری‘‘ از ڈاکٹر فرمان فتح پوری، لاہور، مجلس ترقی اردو ادب 1972ء ص:7

29 ’’کلیات قائم‘‘ (جلد اول) مرتبہ پروفیسر ڈاکٹر اقتداء حسن، لاہور، مجلس ترقی ادب 1968 ص:7

30 ’’اردو شعرا کے تذکرے اور تذکرہ نگاری‘‘ از ڈاکٹر فرمان فتح پوری، لاہور، مجلس ترقی ادب 1972ء ص:7

31 ’’دیوان اثر‘‘ مرتبہ مولوی عبدالحق ، علی گڑھ، مسلم یونیورسٹی پریس، 1930 ص2

32 ’’باغ و بہار‘‘ از میرا من دہلوی لندن، ولیم وائس پریس، 1860ء ص258-259

33 ’’باغ و بہار‘‘ از میرامن دہلوی، لندن، ولیم وائس پریس 1860 ص الف

34 ’’باغ و بہار‘‘ از میر امن دہلوی، لندن ولیم وائس پریس 1860 ص:6-5

35 باغ و بہار مرتبہ مولوی عبدالحق دہلی، انجمن ترقی اردو (ہند) 1944ء ص2

36 ’’باغ و بہار‘‘ مرتبہ مولوی عبدالحق دہلی، انجمن ترقی اردو (ہند) 1944ء ص4

37 ’’باغ و بہار‘‘ مولفہ میر امن دلی والے، کلکتہ، ہندوستانی پریس 1803ء سر ورق

38 مقدمات عبدالحق (حصہ اول) مرتبہ مرزا محمد بیگ، حیدر آباد دکن مکتبہ ابراہیمیہ 1931 ص3

39 مقدمات عبدالحق (حصہ اول) مرتبہ مرزا محمد بیگ، حیدر آباد (دکن) مکتبہ ابراہیمیہ اسٹیشن روڈ 1931 ص15

40 تاریخ ادب اردو (جلد اول) از ڈاکٹر جمیل جالبی، لاہور، مجلس ترقی ادب 1984ء 210

41 یہ کتاب ڈاکٹر جان ولیم ڈریپر کی کتاب کن فلیکٹ بٹوین ریلیجن اینڈ سائنس کا ترجمہ ہے

42 ہاشمی فرید آبادی صاحب نے پلوٹارک کی اس انگریزی کتاب کا چار جلدوں پر مشتمل اردو میں ترجمہ کیا تھا پہلی جلد مولوی عبدالحق کے مقدمہ کے ساتھ 1943ء میں شائع ہوئی جب کہ دوسری جلد 1944ء تیسری 1945ء اور چوتھی 1946ء میں زیور طباعت سے آراستہ ہوئی۔

43 یہ مولوی عبدالحق کے قلم سے نکلا ہوا پہلا مقدمہ ہے اس کتاب کا دوسرا ایڈیشن 1914ء میں اسلامیہ اسٹیم پریس لاہور سے شائع ہوا تھا۔

44 سید میر غلام علی آزاد بلگرامی ( 1116 ھ تا 1200 ھ) کے اس تذکرے کے علاوہ سرور آزاد، ید بیضا، خزانہ عامرہ اور روضۃ الاولیا مشہور تذکرے ہیں۔ ماثر الکرام دو حصوں میں تقسیم ہے۔ فصل اول میں80مشاہیر صوفیائے کرام کے حالات ہیں جب کہ فصل دوم میں73علماء کے حالات درج ہیں یہ کتاب 1913ء میں دوبارہ عبداللہ خان کے تحشیہ و تصحیح کے ساتھ مولوی عبدالحق کے زیر اہتمام رفاہ عام پریس لاہور سے شائع ہوئی تھی۔

45 مولوی سید علی بلگرامی نے اسے فرانسیسی سے ترجمہ کیا تھا اور مولوی عبدالحق نے اس پر دو حصوں پر مشتمل مقدمہ لکھا پہلے حصے میں مترجم کے حالات زندگی اور دوسرے میں کتاب کے متن پر روشنی پڑتی ہے۔

46 ’’سی پارہ دل‘‘ خواجہ حسن نظامی کے 133مختصر مضامین کا مجموعہ ہے جسے انہوں نے 5 منزلوں میں تقسیم کیا ہے پہلی منزل عبد و معبود، دوسری ذوق و شوق، تیسری سر دلبراں، چوتھی دین و مسلک اور پانچویں معاشرت و تمدن سے تعلق رکھتی ہے۔

47: کتاب کا اصل نام ’’خطوط شبلی‘‘ ہے اور یہ مولانا شبلی کے ان مکاتیب کا مجموعہ ہے جو انہوں نے عطیہ فیضی اور زہرا بیگم کے نام17 فروری 1908ء تا 13جون 1914ء کی درمیانی مدت میں لکھے بقول امین زبیری ’’غالباً اردو اور فارسی میں ایسے خطوط کا یہ پہلا مجموعہ ہے جو ایک علامہ دوراں نے خواتین کے نام لکھے ہوں اور اس میں عورتوں کی مختلف خصوصیات کے متعلق ایسے گرانمایہ خیالات ہوں‘‘ خطوط عطیہ بیگم مرتبہ محمد امین زبیری بھوپال، ظل السلطان بک ایجنسی ص3

48 یہ کتاب 1242 ھ بمطابق 1802ء میں تصنیف ہوئی اس کے چھیالیس برس بعد مولوی مسیح الدین خان بہادر کاکوری نے اپنے مطبع آفتاب عالم تاب مرشد آباد سے بہ تصحیح و اہتمام مولوی احمد علی گوپا موئی سے طبع کرایا مگر اب یہ نسخہ کم یاب ہے اسی نسخے سے انجمن نے اس کتاب کو ترتیب دیا ہے (مقدمات عبدالحق مرتبہ ڈاکٹر عبادت بریلوی لاہور، اردو مرکز 1964ء ص487)

49 یہ کتاب شائع ہوتے ہی نایاب ہو گئی اور پاکستان کے کسی کتب خانے میں نہیں مل سکی خدا بخش اورینٹل کالج لائبریری پٹنہ (صوبہ بہار) بھارت سے اسسٹنٹ لائبریرین ابو ظفر عالم نے خدا بخش اورینٹل لائبریری پٹنہ میں اس کی موجودگی کی اطلاع دی اور مطلوبہ معلومات مہیا کی ہیں۔ قیصر ابن حسن (مقیم کراچی) نے مشفق خواجہ کے حوالہ سے بتایا ہے کہ اس کے مصنف کا تعلق حیدر آباد دکن سے تھا۔

الناظر بک ایجنسی لکھنو کے ایک اشتہار سے معلوم وہتا ہے کہ مولوی سید محمد تقی صاحب منصب دار اول تعلقدار آبکاری حیدر آباد دکن تھے ’’الناظر‘‘ لکھنو مارچ 1915ء

50 سہ ماہی رسالہ ’’اردو‘‘ اورنگ آباد (دکن) اکتوبر 1924ء ص1

51 ’’تاریخ ادب اردو‘‘ جلد اول، از ڈاکٹر جمیل جالبی، مجلس ترقی اردو لاہور، 1984ء ص384

52 ایضاً

53 ’’سب رس‘‘ از ملا وجہی، مرتبہ مولوی عبدالحق، انجمن ترقی اردو کراچی 1983ء ص41

54 ایضاً ص275

55 ایضاً

56 جنگ نامہ عالم علی خان، مرتبہ مولوی عبدالحق، انجمن ترقی اردو اورنگ آباد 1932ء ص4تا 6

57 ایضاً ص6

58 مرحوم دہلی کالج نوشتہ مولوی عبدالحق، اورنگ آباد انجمن ترقی اردو 1933ء ص17

59 ایضاً ص72

60 ایضاً ص77

61 ایضاً ص107

62 ’’مخزن شعرا‘‘ مولفہ: قاضی نور الدین حسین خان رضوی فائق، اورنگ آباد، انجمن ترقی اردو 1933ء ص119-120

63 اردو شعرا کے تذکرے و تذکرہ نویسی از فرمان فتح پوری، مجلس ترقی ادب لاہور 1972ء ص3

64 مخزن شعرا مولفہ قاضی نور الدین حسین خان رضوی فائق اورنگ آباد، انجمن ترقی اردو 1933ء ص4

65 مرہٹی زبان پر فارسی کا اثر از مولوی عبدالحق انجمن ترقی اردو اورنگ آباد 1933ء ص41

66 ایضاً ص18

67 ایضاً ص100-101

68 ایضاًص123

69 رسالہ اردو اپریل 1926ء اورنگ آباد ص267

70 ’’بابائے اردو مولوی عبدالحق، حیات و علمی خدمات‘‘ از شہاب الدین ثاقب، انجمن ترقی اردو کراچی 1985ء ص153

71 ’’خطبات گارساں دتاسی‘‘ مقدمہ: مولوی عبدالحق، انجمن ترقی اردو کراچی 1979ء ص94

72 تذکرہ ہندی تالیف، غلام ہمدانی مصحفی، مرتبہ : مولوی عبدالحق، جامعہ پریس دہلی 1933ء ص د

73 ایضاً ص:م

74 اردو شعرا کے تذکرے اور تذکرہ نگاری از ڈاکٹر فرمان فتح پوری، مجلس ترقی ادب لاہور ص199

75 تذکرہ ہندی مرتبہ: مولوی عبدالحق، جامع برقی پریس دہلی 1933ء ص ز

76 اردو شعرا کے تذکرے اور تذکرہ نویسی از ڈاکٹر فرمان فتح پوری، مجلس ترقی ادب لاہور 1972ء ص234

77 ایضاً ص116

78 ’’خطبات گارساں دتاسی‘‘ مقدمہ مولوی عبدالحق، انجمن ترقی اردو کراچی 1979ء ص86

79 تذکرہ ریختہ گویاں مولفہ سید فتح علی گردیزی انجمن ترقی اردو اورنگ آباد 1933ء ص167

80 ایضاً ص6

81 معراج العاشقین مرتبہ مولوی عبدالحق، حیدر آباد ’’تاج‘‘ جلد نمبر 2 نمبر 4.5.6 (1934ء)ص1

82 ایضاً ص6

83 ایضاً ص8

84 ’’خطبات گارساں دتاسی‘‘ مقدمہ: مولوی عبدالحق، انجمن ترقی اردو کراچی 1979ء ء ص116

85 نکات الشعراء مرتبہ مولوی عبدالحق انجمن ترقی اردو کراچی 1979ء ص6

86 دیوان تاباں مرتبہ: مولوی عبدالحق، انجمن ترقی اردو اورنگ آباد 1935ء ص الف

87 ایضاً ص:د

88 گل عجائب، تالیف: اسد علی تمنا اورنگ آبادی (دکن) انجمن ترقی اردو 1936 ص (و ز)

89 ایضاً ص: ح، ط

90 اردو شعرا کے تذکرے اور تذکرہ نگاری، از ڈاکٹر فرمان فتح پوری، مجلس ترقی ادب لاہور 1972 ص:172

91 گل عجائب مولفہ اسد علی تمنا اورنگ آبادی، انجمن ترقی اردو 1936ء ص ب

92 ایضاً

93 ایضاً ص:ح،ط

94 اسٹوڈنٹس انگلش اردو ڈکشنری دیباچہ، انجمن ترقی اردو اورنگ آباد 1938ء

95 یہ ترتیب چند تنقیدات عبدالحق کی فہرست کے مطابق ہے

96 ’’قطب مشتری‘‘ مرتبہ: مولوی عبدالحق، انجمن ترقی اردو دہلی 1939ء ص109

97 ’’تاریخ ادب اردو‘‘ (جلد اول) از ڈاکٹر جمیل جالبی لاہور، مجلس ترقی ادب 1984ء ص435

98 ’’قطب مشتری‘‘ مرتبہ: مولوی عبدالحق انجمن ترقی اردو دہلی 1939 ص6

99 پیش لفظ از مرتب ’’خطبات عبدالحق‘‘ انجمن ترقی اردو دہلی 1939

100 انجمن ترقی پسند مصنفین نے اپریل 1936 میں اپنی کانفرنس کی صدارت کے لئے مولوی عبدالحق صاحب کو دعوت دی تھی جس کے اجلاس کے لئے مولوی صاحب نے یہ خطبہ تیار کیا تھا لیکن کسی مجبور کی وجہ سے وہ خود نہ جا سکے اور یہ خطبہ اجلاس میں پڑھ کر سنایا گیا۔

101 یہ مقالہ انجمن روح ادب الہ آباد کے اجلاس منعقدہ 21 دسمبر 1941ء کے اجلاس میں پڑھا گیا۔

102 ایڈیٹر وشال بھارت، شری رام شرما کے مضمون کے جواب میں خود شرما صاحب کی فرمائش پر لکھا گیا اور رسالہ ہماری زبان دہلی میں 16جولائی سنہ 1941ء میں شائع ہوا۔

103 یہ مضمون ’’ہماری زبان‘‘ دہلی کے 14اپریل 1944ء کے شمارے میں شائع ہوا

104 ’’چند ہم عصر‘‘ از مولوی عبدالحق، کراچی، اردو اکیڈمی، سندھ 1961ء ص:124

105 مولوی عبدالحق کی ہدایت کے مطابق یہ مضمون 1959ء کے ایڈیشن سے خارج کر دیا گیا کیونکہ مولوی عبدالحق کا خیال تھا ’’یہ بہت سرسری مضمون ہے‘‘ (دیباچہ ’’چند ہم عصر‘‘ از مولوی عبدالحق 1959ء اردو اکیڈمی کراچی)

106 یہ مضمون مولوی عبدالحق کا لکھا ہوا نہیں ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے چند ہم عصر کے ایڈیشن مطبوعہ 1959ء میں تحریر کیا ہے ’’یہ مضمون میرا لکھا ہوا نہیں ہے میرے ایک ایرانی نژاد دوست مرزا حیرت کا بچا کھچا کلام لائے تھے‘‘ اور اس کے ساتھ یہ مضمون مجھے دیا۔ اس کا ترجمہ اور حیرت کا کلام دونوں رسالہ ’’افسر‘‘ میں شائع ہوئے شیخ چاند محروم نے یہ سمجھ کر کہ یہ میری تحریر ہے چند ہم عصر میں داخل کر دیا۔

دیباچہ چند ہم عصر

107 جب ’’چند ہم عصر‘‘ کا پہلا ایڈیشن انجمن ترقی اردو (ہند) سے 1940ء میں شائع ہوا تو التماس مینجر کے عنوان سے اس ضمن میں نوٹ تھا ’’مرحوم چاند کی ایک فرمائش مولوی عبدالحق سے یہ تھی کہ سر سید احمد خان نواب عماد الملک اور مولانا حالی پر بھی اس قسم کے مضامین لکھ دیں کیونکہ مولوی صاحب ان تینوں بزرگوں سے خاص تعلق رکھتے ہیں۔‘‘

108 مرزا حیرت پر دوسرا ایڈیشن میں مضمون خارج کر دیا تھا لیکن 1959ء کے ایڈیشن میں دوبارہ شامل کر دیا اس ایڈیشن میں شامل کرنے کے سلسلے میں مولوی عبدالحق رقم طراز ہیں ’’علاؤ الدین خالد صاحب کا اصرار تھا کہ پروفیسر حیرت والا مضمون اس دفعہ ضرور شریک کیا جائے کیونکہ یہ یونیورسٹی کے نصاب میں داخل ہے‘‘ (دیباچہ چند ہم عصر مطبوعہ اردو اکیڈمی سندھ 1959)

109 نصرتی مولفہ مولوی عبدالحق، کل پاکستان انجمن ترقی اردو کراچی 1961ء ص18-19

110 ’’گلشن عشق‘‘ مرتبہ: مولوی عبدالحق، انجمن ترقی اردو، پاکستان، کراچی 1952ء ص2

111 ’’گلشن عشق‘‘ مرتبہ مولوی عبدالحق، انجمن ترقی اردو کراچی 1952 ص326-327

112 ’’بچوں کے خطوط‘‘ مولوی عبدالحق، حیدر آباد دکن عبدالحق اکیڈمی 1944 :3-4

113 ’’انتخاب داغ‘‘ مرتبہ مولوی عبدالحق انجمن ترقی اردو دہلی 1946 ص:ب

114 ایضاً ص:ج

115 جب یہ کتاب طبع ہوئی اقبال کے اردو کلام کا کوئی مجموعہ شائع نہیں ہوا تھا احمد دین نے اپنی کتاب میں اقبال کا وہ تمام کلام شامل کر دیا جو مخزن اور بعض دوسرے رسائل نیز انجمن حمایت الاسلام کی رودادوں میں شائع ہوا تھا (اقبال از احمد دین، مرتبہ مشفق خواجہ، انجمن ترقی اردو کراچی 1979ء ص15)

116 اس کتاب میں سر سید احمد خان، مولانا الطاف حسین حالی، چراغ علی، ڈپٹی نذیر احمد، مولانا محمد حسین آزاد، مولانا شبلی نعمانی، سید علی بلگرامی، رتن ناتھ سرشار، عبدالحلیم شرر اور منشی نول کشور کے حالات زندگی اور ان کے علمی و ادبی کارناموں کا ذکر ہے۔

117 علامہ اقبال کو اس مقالہ پر 1908ء میں میونح یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری ملی۔

118 ’’بابائے اردو بحیثیت تبصرہ نگار‘‘ از ڈاکٹر قربان فتح پوری مطبوعہ ماہنامہ ’’قومی زبان‘‘ اگست 1982ء ص:26

119 ’’اردو زبان میں علمی اصطلاحات کا مسئلہ‘‘ از مولوی عبدالحق انجمن ترقی اردو کراچی 1949ء ص53-52

120 ’’اردو کی فضیلت چند بنگالی اکابر کی نظر میں‘‘ انجمن ترقی اردو کراچی 1950ء ص2

121 ایضاً ص1

122 شیر بنگال مولوی فضل حق کے خیالات، ان کے آل انڈیا مسلم ایجوکیشن (منعقدہ کلکتہ 1939) کے سالانہ اجلاس کے خطبہ صدارت سے ماخوذ ہیں۔

123 ’’سر آغا خان کی اردو نوازی‘‘ از مولوی عبدالحق، انجمن ترقی اردو کراچی 1951ء ص5

124 ’’خطبات عبدالحق‘‘ مرتبہ بابائے اردو از ڈاکٹر عبادت بریلوی، انجمن ترقی اردو کراچی 1964ء ص14-13

125 ایضاً حرفے چند

126 یہ نشری تقریر تھی جو 1964ء میں ریڈیو حیدر آباد (دکن) سے نشر ہوئی

127 یہ نشری تقریر تھی جو 1947ء میں ریڈیو اورنگ آباد (دکن) سے نشر ہوئی

128 یہ مضمون ’’یوم حالی‘‘ منعقدہ انجمن ترقی اردو کراچی 1951ء میں پڑھا گیا

129 ’’نصرتی‘‘ مولفہ ڈاکٹر عبدالحق انجمن ترقی اردو کراچی 1961ء ص19

130 ’’گلشن عشق‘‘ از ملا وجہی، انجمن ترقی اردو کراچی 1952ء ص4

131 ایضاً ص30

132 ایضاً ص10

133 ’’تنقیدات عبدالحق‘‘ مرتبہ ایم اے قاضی دہلی، مکتبہ چنگاری گلی قاسم جان خان 1956ء ص3

134 ’’پاکستان میں اردو کا المیہ‘‘ از مولوی عبدالحق انجمن ترقی اردو کراچی 1956 ص1

135 روزنامہ ’’امروز‘‘ لاہور7فروری 1956ء ص1

136 ’’پاکستان میں اردو کا المیہ ‘‘ از مولوی عبدالحق، انجمن ترقی اردو کراچی 1956ء ص1

137 ’’پنجاہ سالہ تاریخ انجمن ترقی اردو‘‘ مرتبہ سید ہاشمی فرید آبادی، انجمن ترقی اردو کراچی 1953ء ص28

138 ’’پاک جمہوریت‘‘ فیروز سنز پاکستان سن (ن م) ص4

139 ’’سر سید احمد خان‘‘ (حالات و افکار) انجمن ترقی اردو کراچی 1959ء ص4

140 ’’اردو یونیورسٹی وقت کا اہم تقاضا‘‘ از مولوی عبدالحق، کراچی فخر ماتری سیکرٹری عارضی کمیٹی اردو یونیورسٹی 1960 ص29

141 مکتوبات بابائے اردو ڈاکٹر مولوی عبدالحق بنام حکیم محمد امامی اردو اکیڈمی سندھ کراچی 1960ء ص207-208

142 ایضاً ص32

143 قاموس الکتب انجمن ترقی اردو کراچی 1961ء ص ج

144 ایضاً ص:د

145 ایضاً ص: د

146 ’’افکار عبدالحق‘‘ مرتبہ آمنہ صدیقی، کراچی، اردو اکیڈمی سندھ 1962ء ص: ب ج

147: کتاب کا اصل نام خطوط شبلی ہے

یہ خطوط بنام عطیہ بیگم اور زہرا بیگم ہیں جو مولانا شبلی نعمانی نے 1908ء سے 1911ء کی درمیانی مدت میں تحریر کئے تھے مولوی عبدالحق نے امین زبیری کی کتاب پر ایک خط تحریر کیا تھا جو انہوں نے بطور مقدمہ شامل کر لیا۔

148 ’’فرہنگ اصطلاحات علمیہ‘‘ آٹھ جلدوں پر مشتمل ہے جلد اول 1939ء میں مولوی عبدالحق کے مقدمہ کے ساتھ شائع ہوئی تھی باقی تمام جلدوں میں صرف مولف کے دیباچے ہیں آخری جلد 1944ء میں دیال پرنٹنگ پریس دہلی سے طبع ہوئی اس فرہنگ میں مجموعی اعتبار سے تقریباً دو سو پیشوں کی قریباً سولہ ہزار اصطلاحات دی گئی ہیں

149 فرہنگ اصطلاحات کیمیا کا پہلا ایڈیشن انجمن ترقی اردو دہلی نے 1939ء میں شائع کیا تھا لیکن اس ایڈیشن میں مقدمہ نہیں تھا بلکہ صرف ارکان مجلس کی فہرست دی گئی تھی جس میں ڈاکٹر مظفر الدین قریشی پروفیسر کیمیا، ڈاکٹر سید حسین پروفیسر طبیعات، محمد نصیر احمد عثمانی صاحب ریڈر طبیعات، محمود احمد خان ریڈر کیمیا، ڈاکٹر رضی الدین پروفیسر ریاضی، مولوی سید ہاشمی اسٹیٹ ہوم سیکرٹری اور مولوی عبدالحق سیکرٹری انجمن ترقی ہند کے نام شامل تھے۔

150 قیاس ہے کہ 1910ء سے پہلے شائع ہوا بحوالہ قومی زبان کراچی اگست 1963ء

151 ڈپٹی نذیر احمد نے یہ ہنگامہ پرور کتاب گڑ گاؤں کے پادری احمد شاہ شوق کی کتاب ’’امہات مومنین‘‘ کے جواب میں 1908ء میں تحریر کی تھی لیکن مولوی صاحب موصوف کے بعض خیالات سے عوام مشتعل ہو گئے مولوی صاحب کے خلاف سخت غم و غصہ پھیل گیا، کفر کے فتوے لگے اور یہ کتاب نذر آتش کر دی گئی مولوی عبدالحق نے اس کے دوسرے ایڈیشن پر مقدمہ تحریر کیا تھا اس کتاب کا دوسرا ایڈیشن (اور یہ بھی بے کم و کاست) شاہد احمد دہلوی کے زیر اہتمام 1935ء میں چھپا تھا۔ بعد میں ہنگامے کے خوف سے کتاب کے تمام نسخے مرزا عظیم بیگ چغتائی مرحوم کے پاس جودھ پور بھیج دئیے گئے۔ انہوں نے جرات رندانہ سے کام لے کر کتاب کے اشتہار چھپوائے لیکن مشتعل عوام کے ایک ہجوم نے ان کے مکان کو گھیر لیا اور ایک مرتبہ پھر امہات الامہ کے تمام نسخے نذر آتش کر دئیے۔۔۔۔۔ امہات الامہ کو یہ امتیاز ضرور حاصل ہے کہ یہ اردو کی سب سے زیادہ ہنگامہ آفریں کتاب اور اپنے عہد کے ایک کامیاب و مقبول مصنف کی سب سے زیادہ ناکام و مردود تصنیف ٹھہری ’’مولوی نذیر احمد احوال و آثار مولفہ ڈاکٹر افتخار صدیقی لاہور، مجلس ترقی ادب 1971ء ص307‘‘

152 یہ مولوی عبدالحق کی آخری تحریر ہے جو انہوں نے بستر مرگ پر 22جون 1961ء جناح ہسپتال کراچی کے کمرہ نمبر13میں رقم کی تھی۔

153 سر نامہ از مشفق خواجہ ’’قومی زبان‘‘ کراچی بابائے اردو نمبر6اگست 1964ء ص218

154 آخری کڑی از مولوی عبدالحق ماہانہ قومی زبان کراچی اگست 1970ء ص65

155 پنجاہ سالہ تاریخ انجمن ترقی اردو مولوی سید ہاشمی فرید آبادی، کراچی، انجمن ترقی اردو پاکستان 1953ء ص54

156 لغت کبیر جلد اول بابائے اردو مولوی عبدالحق کراچی، انجمن ترقی اردو پاکستان 1973ء ص7

157 لغت کبیر جلد اول مولف: بابائے اردو مولوی عبدالحق، کراچی، انجمن ترقی اردو پاکستان 1973ء ص56

158 قاموس الکتاب جلد دوم، مرتب انجمن ترقی اردو کراچی 1975ء

159 حرفے چند از جمیل الدین عالی افکار حالی، کراچی انجمن ترقی اردو پاکستان 1976ء ص4

160 چند ہم عصر دہلی انجمن ترقی اردو (ہند) 1942ء

161 یہ مولوی عبدالحق کی ایک غیر مکمل تحریر ہے

162 خطوط عبدالحق بنام ڈاکٹر عبداللہ چغتائی مرتب ڈاکٹر عبادت بریلوی ، لاہور، مجلس اشاعت مخطوطات اورینٹل کالج ص1

163 فرمودات عبدالحق ڈاکٹر سید معین الرحمن لاہور نذر سنز 378ء (گرد پوش)

164 فرمودات عبدالحق مرتب ڈاکٹر سید معین الرحمن لاہور نذر سنز 1978 ص16

165 مکاتیب عبدالحق بنام محوی مرتب عبدالقوی دسنوی کراچی انجمن ترقی اردو پاکستان 1980ء ص5

166 مکاتیب عبدالحق بنام محوی مرتب عبدالقوی دسنوی کراچی انجمن ترقی اردو پاکستان 1980ء ص3

167 مذہب اور سائنس از مولوی عبدالحق دہلی، ماڈرن پبلشنگ ہاؤس 1980ء ص233

168 خطوط عبدالحق بنام ڈاکٹر عبادت بریلوی ترتیب و مقدمہ ڈاکٹر عبادت بریلوی، لاہور مجلس اشاعت مخطوطات ادارہ ادب و تنقید 1984ء ص:3

169 ایضاً

٭٭٭

تشکر: القلم ریسرچ لائبریری

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید