FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

 

او غزہ کے بچو

 

 

 

               سلمی اعوان

 

 

 

 

 

جمعہ کا دن تھا۔ جگہ شہر دمشق کی قدیم ترین دمشق سٹیڈیل تھی۔ جہاں اُموی خلیفہ ولید بن عبدالمالک کا شاہکار اُمیّہ مسجد ہے۔ عین سامنے جس کے وہ ساحتہ المسکیہ کا میدان قدامت کی فسوں خیزی لیے قلب و نظر کو حیرت زدہ کرتا ہے۔ آج تیسرا دن تھا۔ میں ہر روز دمشق کے محلوں،عجائب گھر اور اُس کے کوچہ و بازار میں گھومتی پھرتی یہاں آ جاتی۔

 

پہلے دن ہی اس کی سحر انگیزی نے مجھے جکڑ لیا تھا۔ کینا کے درخت تلے بیٹھی خوشگوار ہواؤں سے لُطف اندوز ہوتی کبھی اپنے دائیں ہاتھ نوادرات کی دوکان کے چوبارے کی آبنوسی کھڑکیوں کو دیکھتی جن کی چوبی کندہ کاری ایسی خوبصورت تھی کہ نگاہیں اُن میں پھنس پھنس جاتیں۔ سامنے دمشق کے مشہور حمیدیہ بازار کے اختتامیہ حصّے پر بنے حداد ٹمپل کے کالم ٹوٹ پھوٹ اور خستگی کا شکار ہونے کے باوجود نظروں کو لُبھاتے تھے۔ پُشت پر اُمیّہ مسجد کا پندرہ سولہ فٹ اونچا دروازہ، بلند و بالا دیواریں اور اس کے ۳مختلف سٹائل کے بنے منار اس کی عظمت کی گواہی دے رہے تھے۔

 

اس جمعہ کے دن میری نگاہیں پتھر کے فرش سے پھسلتی کھُجور کے صدیوں پرانے درخت کی جھالروں سے آنکھ مٹّکا کرتی، پھڑپھڑاتے کبوتروں کی اڑان میں اُلجھتی، اُس لڑکی سے جا ٹکرائی تھیں جو خوبصورت تو ضرور تھی پر ایسی نہیں جیسا شامی حُسن ہوتا ہے کہ بندے کو جکڑ لیتا ہے۔ سادے سے سفید سُوتی سکارف سے ڈھانپے سَر کے نیچے چہرہ دھوپ میں تمتما سا رہا تھا۔ لونگ سکرٹ ٹخنوں کو چھُوتا تھا۔ جس لڑکے کا ہاتھ پکڑے اُسے گھسیٹ سی رہی تھی وہ سوفیصد یورپی نظر آتا تھا۔

 

جمعہ کی پہلی اذان ہو چکی تھی۔ چبوترے سے اُتر کر میں میدان میں مسجد کے دروازے کی سمت رواں تھی جب اُس نے مجھ سے انگریزی میں پوچھا۔ ’’مَردوں کے لیے مسجد جانے کا کون سا راستہ ہے؟‘‘ ’’یہی جو تمھارے سامنے ہے۔ ‘‘ جب وہ دونوں بابِ بُرید سے گزر رہے تھے میں ان کے پیچھے تھی۔ لڑکا مردانے حصّے کی طرف بڑھنے لگاتولڑکی نے انگریزی میں اُس سے کہا تھا۔ ”نماز کے بعد ایک دو گھنٹے آرام کر لینا۔ ”

 

اب وہ وضو کیلئے کدھر جانا ہے؟جیسا سوال کرتی میرے ساتھ ہولی۔ برآمدے میں سے گزرتے ہوئے میری نظروں کا بھٹکاؤ تو بس لمحوں کا ہی تھا۔ میرے لیے یہ کیسے ممکن تھا کہ اپنے بائیں ہاتھ کی بلند و بالا دیواروں پر آرٹ کے فطرت سے متعلق صدیوں قدیمی شاہکاروں پر نظریں ڈالے بغیر آگے بڑھ جاتی۔ دار الخزانہ جیسے شاہکار سے آنکھیں چُرا کر اپنا راستہ ناپتی۔ سچی بات ہے یہ تو سَراسَراُس کی توہین تھی اور صحن میں بنا چوکور منار بھی ہرگز دیکھے بغیر گزر جانے والا نہ تھا۔ میں خود پر لگنے والے اِس اعتراض کو سُننے کے لیے تیار نہیں تھی کہ گزشتہ ۳دنوں سے ہر روز ان کے نظاروں سے محظوظ تو ہو رہی تھیں۔ اب کیا انہیں گھول کر پی جانا تھا۔

 

بھئی سچی بات ہے میں بھی اپنی بھُوک اور حریصانہ نظروں کے ہاتھوں مجبور ہوں جو اِس آنکھ مٹکّے سے باز رہ ہی نہیں سکتیں۔ جب گردن سیدھی کی لڑکی غائب تھی۔ ’’ارے … ‘‘ بھونچکی سی ہو کر میں نے دائیں بائیں دیکھا۔ چکر کھا کر پُشت اور سامنے نگاہ کی۔ لڑکی تو کہیں نہیں تھی۔ آنکھوں کو ٹمٹماتے میں نے تاسف سے پھر اردگرد کا یوں جائزہ لیا کہ جیسے وہ لڑکی تو نہیں سُوئی تھی۔ یوں لگتا تھا جیسے ہاتھ میں پہنی بیش قیمت ہیرے کی انگوٹھی گِر گئی ہے۔ لڑکی کہانی تھی۔ جس لڑکے کا ہاتھ پکڑے راستہ پوچھتی تھی وہ ۱۰۰فیصد یورپین تھا۔ جھلّاتے ہوئے میں نے خود سے کہا تھا۔

 

’’کیسی بے حِس لڑکی تھی۔ پہلی بار اِس نادر تاریخی ورثے میں داخل ہوئی اور پَل بھر کیلئے رُک کر کِسی چیز پر نظر نہیں ڈالی۔ کچھ سوچا بھی نہیں کہ جہاں سجدہ کرنے آئی ہے وہ زمانوں قرنوں سے جائے عبادت تھی آرمینیوں، رومیوں، عیسائیوں اور اب مسلمانوں کی۔ یہ تاریخ کے کتنے بے شمار باب کھولتی ہے۔ اُس نے کِسی کو بھی کھولنے یا پڑھنے کی کوشش نہیں کی۔ بپتمسہ کا حوض تو ابھی بھی سامنے موجود تھا۔

 

اب افسوس اور جھلاہٹ کا فائدہ۔ کہانی تومٹھی میں پکڑی ریت کی طرح ہاتھوں سے پھسل گئی تھی۔ سُست قدموں سے وضو والے کمرے میں داخل ہوئی تو وہاں بھی دھیان وضو میں کم اور لڑکی میں زیادہ رہا۔ ابھی تو خطبہ جاری تھا۔ سامنے والے حصّے کی طرف بڑھنے لگی کہ چلو وہاں سجدہ بھی ہو گا اور نظارہ بھی۔ مسجد کا وسیع و عریض پختہ صحن تنور بنا پڑا تھا۔ چھاؤں والے حصّوں میں عورتیں پھسکڑے مارے بیٹھی تھیں۔ ذرا اُن سے بچتے دھیان سے آگے بڑھتی تھی کہ کِسی کا ہاتھ کِسی کی انگلی پاؤں کے نیچے آ گئی تو سیاپا پڑ جائے گا۔ تبھی کِسی نے عبا کھینچی۔ پلٹ کر دیکھا تو بند دروازے کے آگے بنے پوڈے پر لڑکی بیٹھی تھی۔

 

خوشی سے نہال ہو جانے والا معاملہ ہوا تھا۔ میں نے اس کے پاس بیٹھتے ہی اُسے اپنی کیفیات سے آگاہ کیا۔ ’’سوری،دراصل ایک خاتون پر مجھے سلفیٹ  فلسطین میں اپنی ہمسائی کا گمان گزرا تھا۔ بھاگی تھی کہ اُسے پکڑلوں کہیں ہجوم میں اِدھر اُدھر نہ ہو جائے۔ پر وائے حسرت وہ تو کوئی لبنانی نکلی۔ تو وہ فلسطین سے ہے۔ اور وہ لڑکا کون تھا۔ اندیشے سَرسَرکرتے لہجے میں دوڑتے چلے آئے تھے۔ لڑکی تو بڑی میٹھی اور بڑی بیبی سی دِکھتی ہے۔ ہائے اللہ کوئی رولے غولے والا چکر تو نہیں۔

 

’’بس کر۔ و ڈی مولون۔ ‘‘ ایسی پھٹکار کے باوجود پوچھ ہی لیا۔ لڑکا کون تھا؟ ’’میرا شوہر ہے۔ ‘‘چلو اطمینان تو ہوا۔ پر سوال پھر ہو گیا کہ وہ تو یورپین لگتا ہے۔ ’’ہاں نا۔ برٹش ہے۔ سلام قبول کیا ہے اُس نے۔ ‘‘ پُونی جیسے ہاتھ کو بے اختیار ہی تھام کر چُوم لیا۔ دھان پان سی لڑکی نے بڑا کارنامہ سر انجام دیا تھا۔ اوپر سے ترقی پسندی کی جتنی بھی ڈینگیں ماروں اندر سے مسلمانیت پھر بھی پلّہ مار جاتی ہے۔ نماز کیلئے عورتیں صف بندی میں مصروف ہوئیں تو میں اُس کا ہاتھ تھام کر باب جیرون میں داخل ہوئی۔ یہیں قریب ہی مشہد الحسین ہے۔ روایت ہے کہ امام عالی مقام حسینؓ کا سر مبارک یہاں دفن ہے۔

 

لڑکی نے چلتے چلتے رُک کر پوچھا تھا سُنا ہے حضرت یحییٰ علیہ السلام کا روضہ مبارک بھی یہیں ہے۔ ’’ہاں محراب کے پاس ہی ہے۔ پچی کاری کا بڑا خوبصورت کام ہے اُس پر۔ ‘‘ فرش خوبصورت دبیز قالینوں سے ڈھنپے ہوئے تھے۔ جن پر ساتھ ساتھ ہم کھڑے ہو گئے۔ کسری فرض پڑھ کر میں نے پُشت دیوار سے ٹکا کر اُسے دیکھا۔ اُس کی آنکھیں بند تھیں۔ دُعا کیلئے اُٹھے ہاتھوں کے ساتھ ساتھ اُس کا سارا وجود اُوپر والے کے قدموں میں کِسی طلب کیلئے گویا مجسم تھا۔ چہرہ جیسے حُزن و یاس کی بارش میں بھیگ رہا تھا۔

 

جب اُس نے آنکھیں کھولیں اور مجھے دیکھا۔ میرا دل تڑپ سا گیا۔ اِس دید میں اپنایت اور محبت تھی۔ میں نے اُسے بانہوں کے کلاوے میں بھر کر اُس کے ماتھے پر بوسہ دیا اور چاہا کہ وہ میرے سامنے کھُل جائے۔

 

پَرس کھول کر اُس نے ایک پوسٹ کارڈ نکالا۔ میرے سامنے کیا۔ میں نے دیکھا تھا۔ سفید اور سبز رنگوں میں چند لکیریں جن کی بظاہر صورت کِسی راکٹ جیسی، جو زمین کے سینے کو چھیدنے جا رہا ہو۔ ’’غور سے دیکھیے‘‘جیسی بات پر اوپر لکھا ہوا پڑھا تو معلوم ہوا فلسطین کا نقشہ ہے۔ ۱۹۴۶ء سے جب برطانیہ اور اس کے حواریوں نے اِس پورے علاقے کی بندر بانٹ کی۔ ۲۲ٹکڑوں میں تقسیم کیا۔ ان ٹکڑوں کو نئے مُلکوں کے نام دیے اور باقی بچنے والے اِس ٹوٹے کو اپنے پاس رکھا اور کا راگ الاپنے والوں کو یہ تحفہ دیا۔

 

۱۹۴۶ء میں فلسطینیوں کی اِس سرزمین میں بنی اسرائیل کی یہ ناہنجار اولاد محدود تھی۔ مغربی اور مشرقی کناروں کے تھوڑے سے حصّے پر چاولوں کے دانوں کی طرح بکھری ہوئی۔ آخری نقشہ۲۰۰۵ء کا تھا۔ فلسطین ایک المیہ۔ ایک گہرا دکھ۔ عربوں کے سینوں میں پلتا ہوا ایک ناسور۔ کارڈ میرے ہاتھوں میں تھا۔ یونہی اس کی پشت کو دیکھ بیٹھی۔ بڑی موہ لینے والی لکھائی تھی۔ انگریزی میں لکھے گئے یہ اشعار کیسے دل چیر گئے تھے۔ اُس نے سِرک کر میری طرح اپنی پُشت دیوار سے لگائی۔ ایک لمبی آہ بھری اور آنکھیں بند کر لیں۔

 

میرے دادا کا گھر حیفہ میں تھا۔ حجاز ریلوے اسٹیشن کے پاس۔ حیفہ بحیرہ روم کے شمالی کنارے پر صدیوں پرانا تاریخی شہر ہے۔ یہاں سے ٹرین ہمارے مقدس شہروں مکہ اور مدینہ کو براستہ دمشق جاتی تھی۔ زائرین کیلئے عثمانیوں کا بنایا ہوا ریلوے اسٹیشن۔ اب تو ظالموں نے اُس کا نام ہی بدل دیا ہے۔ حیفہ مشرقی اسٹیشن رکھ کر میوزیم بنا دیا ہے۔ میرے بچپن اور جوانی کی یادیں سلفیٹ شہر کی قصباتی جگہ حارث کے گلی کوچوں سے وابستہ ہیں۔ ہمارے والد ڈاکٹر ابو موسیٰ بزازبیروت کی امریکن یونیورسٹی کے تعلیم یافتہ جن کا بچپن اور جوانی حیفہ میں گزری تھی۔ یہ وہ دن تھے جب غریب فلسطینیوں سے بنجر زمین خریدی جاتی یا ان کے شکستہ حال گھروں کا مہنگے داموں سودا کیا جاتا۔

 

غریب لوگ پیسے زیادہ مِلنے پر خوش ہوتے۔ اس کے پیچھے جو مقاصد کام کر رہے تھے اُس کا تو انہیں شعور اور ادراک ہی نہیں تھا۔ کہیں کہیں زور زبردستی ہوتی۔ یوں بڑی بڑی خوبصورت کالونیاں بنتی جاتیں اور باہر سے یہودیوں کو لا کر بسایا جاتا۔ باہر کی دُنیا اِس صیہونی پروپیگنڈے کے شور و غل سے متاثر تھی کہ فلسطین کی سر زمین ایک بے آب و گیاہ صحرا ہے جو وہاں جتنی زمین چاہے خریدے۔ رہے عرب جاہل،اُجڈ اور بے شعوری قوم۔ میرے والد کی کلاس فیلو یائل یہودی ہونے کے باوجود ان باتوں پر بہت جلتی کڑھتی تھی۔ یائل جرمن نژاد تھی۔ وہ اپنے والدین کے ساتھ حیفہ کی جرمن کالونی میں رہتی تھی۔

 

دھیرے دھیرے شہر بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ شہروں کو غریب فلسطینیوں سے پاک کرنے کا عمل زور پکڑ گیا۔ مہاجروں کے کیمپوں میں روز افزوں اضافہ،اُن کی زمینوں پر شاندار پلازے، کوٹھیاں اور صنعتی یونٹ تعمیر ہوتے گئے۔ فلسطینیوں کی جھونپڑیوں میں خوفناک پھیلاؤ آگیا تھا۔ پھر وہ وقت بھی آیا جب میرے والد کو حیفہ چھوڑ کر حارث آنا پڑا۔ پر کہیں ایک دُکھ کی لہر ان کے اندر سے اُٹھتی تھی۔ انہیں اپنا باغ یاد آتا۔ اُس میں اُگے سنگتروں کے پیڑ یاد آتے۔

 

بحیرہ روم کا ساحل، اپنا گھر، اس کی گلیاں بہت وقت وہ مضطرب رہے۔ میری دادی کیلئے حیفہ چھوڑ ناگویا موت کو گلے لگانے جیسا تجربہ تھا۔ کبھی ہجرت کا زہر بھرا گھونٹ بھرا ہے؟اُس نے سِسکاری بھری۔ میں نے دہل کر اُسے دیکھا۔ میں خود تو اس تجربے سے نہیں گزری تھی کہ تقسیم ہند پر بہت کم سَن تھی۔ مگر آنے والے بہت سالوں اِس عملی مشاہدے سے گزری کہ میری دادی ہمہ وقت تیار ہی بیٹھی رہتی تھی کہ بس دیس واپس جانا ہے۔ کمروں کو اُس نے تالے کب لگائے تھے۔ وہ تو بہ امر مجبوری لوگوں کے اصرار پر باہر نکلی تھی۔

 

’’پھوٹ، لوگ تو باؤلے ہو گئے ہیں۔ کوئی اپنا گھر بھی یوں چھوڑتا ہے۔ چلو دو چار دن بعد آ جائیں گے۔ ‘‘ میری ماں چولہے کے پاس بیٹھی راکھ پھرولتے ہوئے مدتوں دیس اور اس کی گلیوں کو یاد کرتی اور دیس کے ناسٹلجیا سے باہر نکلنے کا نام نہیں لیتی تھی۔ سابق مشرقی پاکستان میں شمالی ہند سے ہجرت کر کے آنے والی میری بہت سی دوستوں کے والدین اور خود وہ ۱۹۷۱ء کے المناک حادثے کے بعد جس ٹوٹ پھوٹ کا ذہنی شکار ہوئیں اُن کی تو میں خود چشم دید گواہ تھی۔

 

تو مجھے اُس کی دادی کے جذبات سمجھ آتے تھے۔ اُس کے گھر کا آنگن بہت کُشادہ تھا۔ دمشق،حلب اور فلسطین کے معززین کے گھروں جیساجن کی دیواروں پر چڑھی انگور کی بیلوں پر ٹنوں پھل لگتا تھا۔ سنگترے کے بوٹے جب منوں وزنی بوجھ سے جھُک جھُک پڑتے تو اُس کی آنکھیں انہیں دیکھ دیکھ کر ہیروں کی طرح جگمگ جگمگ کرتیں۔ صحن کے عین درمیان کنواں تھا۔ بڑے بھاری شہتیروں والے کمرے تھے جن شہتیروں پر اُس نے میرے دادا سے ضِد کر کے گل کاری کروائی تھی اور جو بہت خوبصورت لگتے تھے۔ وہ باؤلی سی آنکھوں میں آنسوؤں کے کٹورے بھرے ایک کمرے سے دوسرے میں جاتی تھی۔ لمبی لمبی محرابی جھروکوں والی بالکونیاں دیکھتی تھی۔

 

’’دیکھو تو اِس کمرے میں میرا چچا مفتیٔ فلسطین امین الحسینی ٹھہرتا ہے۔ یہ کمرہ تو اُس کے لیے مخصوص ہے۔ ‘‘ اُسے اپنی زمین پر زیتون کے باغوں کی فکر تھی۔ وہ بھیڑ بکریوں کیلئے ہلکان ہو ہو جاتی تھی۔ وہ پڑھی لکھی عورت نہیں تھی پر اپنے چچا کے گھر آنے پر معززین حیفہ کے ساتھ بیٹھک میں ان کی جو نشستیں جمتیں اور وہ شوق و محبت سے کھانے اور قہوے کی سروس خود بھاگ بھاگ کر کرتی تو ایسے میں اُن کی باتیں سُنتے سُنتے وہ بہت بالغ ہو گئی تھی۔

 

تُرکوں کے فضیحتے کرتی۔ مسلمان تھے پر کیسے مسلمان؟ ہمیں اپنی محکوم رعایا بنا کر رکھا اور ہمیشہ نظرانداز کیا۔ آخری عثمانی سلطان کے لتّے لیتی کہ جس نے اُس مردُود بارن ایڈمنڈ رتھس چائیلڈ کو فلسطین میں ایک یہودی آبادی کی آباد کاری کی اجازت دی تھی۔ سارا معاملہ تو یہیں گڑبڑ ہو گیا تھا۔ تم مجھے سَر اندر کرنے دو۔ بیٹھنے اور لیٹنے کی جگہ میں خود بنالوں گا۔ وہ اُونٹ اور خیمے کی کہانی سُنانا شروع ہو جاتی۔ تب دھیرے سے میرے والد انہیں سمجھانے کی کوشش کرتے کہ یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے۔ ہجرت کا عمل صدیوں قرنوں سے ہے۔ ایک مسلک ایک عقیدے کے لوگ پَرائی جگہوں پر اپنی آبادیاں بھی بنا لیتے ہیں۔ ہاں البتہ یہ غلط ہے کہ آپ اِس حد تک چلے جائیں کہ مالکوں کو نکال باہر پھینکیں۔ پھر ان کی زمینیں چھین لیں اور انہیں اپنی ہی سرزمین پر قیدی بنا دیں۔

 

تب لعن طعن کے گولے برطانیہ اور اس کے حواریوں پر برسنے لگتے۔ شریف مکہ پر طوفانی یلغار ہوتی۔ ارے وہ پاسبان حرم تھا کہ ڈاکو۔ ہماری قیمت وصول کی۔ ہمیں سِکّوں کے عوض بیچ ڈالا۔ میرے والد چُپ چاپ اُن کی باتیں سُنتے رہتے۔ وہ اُن کے جذبات سمجھتے تھے پر اُنہیں مزید دُکھ سے بچانے کیلئے ہونٹوں کو سیئے رکھتے۔ یہ اور بات تھی کہ اُن کے دل کی ہر دھڑکن نظار قبانی کے شعروں کے ساتھ دھڑکتی اور ان کے خون کی گردش تیز اور تیز تر ہوتی جاتی۔ میں دہشت گردی کا حامی ہوں

اگر یہ مجھے روس،رومانیہ،پولینڈ اور ہنگری لے آئے مہاجروں سے بچا سکے

یہ مہاجر فلسطین میں آ بسے

انہوں نے القدس کے مینار اقصیٰ کے دروازے اور محرابیں چُرالیں

میں دہشت گردی کا حامی ہوں

جب تک نیو ورلڈ آرڈر میرے بچوں کا خون کرتا رہے گا

اُن کے ٹکڑے کتّوں کے آگے ڈالتا رہے گا

میں دہشتگردی کا حامی ہوں

تب ان کی آنکھیں بھر آتیں۔ دائیں ہاتھ کی پوروں سے انہیں صاف کرتے ہوئے وہ وہاں سے اُٹھ جاتے۔

اور گزرتے دنوں کے ساتھ ساتھ حیفہ کی زمین پر بس فلسطینیوں کا خال خال کوئی گھر رہ گیا اور یہی وہ دن تھے جب میرا باپ حیفہ چھوڑنے کو کہتا تھا اور میری دادی کو ہول اُٹھتے تھے۔

 

’’آپ سمجھتی کیوں نہیں ؟بشیت اور پینی میں آپ کے کتنے رشتے دار اور دوسرے لوگ تھے۔ کیا ہوا ؟سارا علاقہ مسمار کر دیا گیا۔ عالیشان گھر بنے اور یورپ کے مُلکوں سے اسرائیلی آئے اور قابض ہو گئے۔ مہربانی کریں ابھی گھر کے دام مِل رہے ہیں۔ یہ نہ ہو کہ اِس سے بھی جائیں۔ ‘‘ وہ چھم چھم روتی تھی۔ اُس کا کلیجہ منہ کو آتا تھا اور رُندھے گلے سے کہتی تھی۔ کہاں جانا ہے؟اچھا تو چلو نظارت میں جا بستے ہیں۔ اُن کی ایک بیٹی نظارت کے پرانے شہر میں العبید مسجد کے پاس مارکیٹ والے علاقے میں رہتی تھی۔ میرے والد چُپ تھے۔ فیصلہ کرنے میں بہت سوچ بچار کے بعد قدم اٹھانے والے، حالات کی نزاکت کے پیش نظریہ سمجھتے تھے کہ گِر جاؤں، منا سڑیوں اور شینی گاگوں سے سجا یہ قدیم شہر آنے والے وقتوں میں اسرائیل کی ظالمانہ گرفت میں ہو گا۔

 

تو پھر عکا چلتے ہیں۔ میری دادی نے آہ بھری تھی۔ عکا کیلئے میرے والد رضامند تھے۔ پانچ ہزار سال کے تہذیبی ورثے کا مالک بہت خوبصورت عکا۔ مغرب اور مشرق کا ایسا امتزاج شاید ہی کِسی شہر میں دیکھنے کو مِلے جیسا یہاں تھا۔ آرٹ اور مذہب کے امتزاج سے گُندھا ہوا۔ دُنیا کی بہت ساری تہذیبوں اور ثقافتوں کی باقیات کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے۔ قلعوں،گرجاؤں،مسجدوں،مندروں سے بھرا ہوا شہر جو اپنے قدیم جنگجوؤں،اپنے معماروں اور اپنی گزشتہ شان و شوکت کی کہانیاں سُناتا ہے۔ مگرپتا نہیں کیوں انہوں نے سلفیٹ کو ترجیح دی۔ وہ ڈاکٹر تھے۔ ہمدرد اور غم گسار سے۔ نہ یہ دیکھتے کہ ان کا مریض عیسائی ہے، یہودی ہے یا مسلمان۔

 

نئی جگہ بسنے کا وا ویلا تو اپنی جگہ تھا۔ پر وہ حادثہ تو جیسے اُن کی جان پر گزر گیا۔ جُون کے تپتے دنوں کا حادثہ۔ جائے نماز پر ہی بیٹھے بیٹھے آنسوؤں کی مالا پروتی جاتیں۔ کبھی شدید غصّے سے لرزتی آواز اور کبھی غم میں ڈوبے لہجے میں میرے والد کو آواز دیتے ہوئے کہتی چلی جاتیں۔ ’’سُنتے ہو ابو موسیٰ اِن مصریوں کو چوڑیاں کیوں نہیں دے آتے۔ ارے ایسے بزدل۔ انہوں نے بٹّہ لگا دیا عربوں کی روایات کو۔ بھاگنے میں گھوڑوں کو بھی مات دے دی۔ نہر سویز تک سارا سینائی دے دیا۔ کِس آرام سے اُن کی جھولی میں ڈال دیا۔ شام اور اِس اُردن کو بھی ڈوب مرنا چاہیے۔ آج گولان کی پہاڑیاں چھینی ہیں کل دمشق پر ہاتھ ڈالیں گے۔ یروشلم تو گیا۔ مسلمانوں اور عیسائیوں کے مقدس مقامات کے رکھوالے بھی وہ ہوئے۔ ارے ابھی پتا نہیں کیا کیا دیکھنا ہے؟”

 

پھر آہ و زاری بڑھ جاتی۔ جائے نماز پر بیٹھے بیٹھے کہیں آنسوؤں کے دھاروں میں بہتی آوازیں دیتیں۔ ’’ابو موسیٰ کہاں ہو؟ارے جاؤ نکلو۔ دیکھو تو جنھیں دیس نکالا دیا ہے وہ کِس حال میں ہیں ؟جیتے ہیں یا مر گئے ہیں۔ اِن ظالموں نے بڑی گولہ باری کی ہو گی۔ توپ بندوقوں نے ان کے کلیجے چھلنی کر دیے ہوں گے۔ ارے ڈاکٹر ہو تم۔ جاؤ ان کے زخموں پر مرہم رکھو۔ ارے ابو موسیٰ اب اللہ کی مصلحتوں کو میں کیا نام دوں۔ تجھے اِن دو لڑکیوں کی جگہ دو بیٹے دے دیتا تو کیا تھا میں ان کے ہاتھوں میں بندوقیں نہ سہی پتھر پکڑا دیتی۔ ارے ایک دو کے ہی سر پھوڑ دیتے۔ ” ہماری والدہ اُس وقت ان کے قریب ہی کہیں موجود ہوتیں۔ میری بڑی دونوں بہنیں چھوٹی چھوٹی سی، ان کے جائے نماز پر آگے پیچھے دادی کی باتوں کی کاٹ سے بے نیاز چکر کاٹتی رہتیں۔

 

ایسے دُکھ بھرے بہت سے لمحوں میں اُنہیں قطعی یاد نہ رہتا کہ اُن کا بڑا سعادت مند بیٹا انہیں بتا کر ہی اُردن کے کیمپوں میں گیا ہے۔ تاریخ کا کتنا بڑا جبر۔ ہزاروں فلسطینی بے گھر ہو گئے۔ اُن کی بڑی تعداد شام اور اُردن کے مہاجر کیمپوں میں ڈیرے ڈالے بیٹھی تھی۔ اب فلسطین کا ہر گھر ماتم کدہ ہے۔ ہوا کرے۔ عرب اور مغربی دُنیا کو اس سے کیا۔ اور ایسے ہی دنوں میں میرے بڑے ماموں ہمارے گھر آئے اور ہماری دادی کے پاس بیٹھ کر انہوں نے نظار قبانی کی وہ نظم انہیں سُنائی تھی جو شاعر کے ہونٹوں سے نکلتے ہی تند و تیز ہواؤں کے جھکڑوں کی طرح عرب دنیا میں پھیل گئی تھی۔ میری بہنیں مجھے بتایا کرتی تھیں کہ وہ نظم دادی کے ساتھ ساتھ انہیں بھی زبانی یاد ہو گئی تھی۔

 

کوئی ایک بار تھوڑی، میری دادی بار بار ان اشعار کا وِرد مقدس آیات کی طرح کرتیں۔

 

جان کی امان پا سکتا تو سلطان سے کہتا۔ سلطان آپ دو جنگیں ہار چکے ہیں۔ آپ نسل نو سے کَٹ چکے ہیں۔ دشمن ہمارے خون سے ہولی کھیل گیا۔ عرب بچو!مستقبل کو بتا دو تم ہماری زنجیریں توڑ دو گے۔ عرب بچو! ساون کے قطرو! تم ہی وہ نسل ہو جو شکست پر غالب آئے گی۔ غزہ کے بچو اپنی جنگ جاری رکھو۔ ہم مُردہ اور بے گور ہیں۔ اِن اطفال سنگ نے ہماری عباؤں پر سیاہی انڈیل دی ہے۔ او غزہ کے دیوانو۔ وہ جب یہ اشعار پڑھتیں تو میری بہنوں کی طرف دیکھتیں۔ ’کاش یہ لڑکے ہوتے۔ ‘‘

 

میرے والد مہینوں بعد آئے کمزور، نڈھال، شکستہ، ٹوٹے پھوٹے سے۔ کیمپوں کی حالت زار۔ ہسپتالوں میں نیپام بموں سے جھُلسے ہوئے بے کس و لاچار فلسطینی۔ متاثرین تک پہنچنے کی راہوں میں حائل رکاوٹیں۔ بہت سے ڈاکٹروں کا اغوا اور اُن کا اور عام لوگوں کا قتل عام۔ فلسطینوں کو اپنی یہ لڑائی خود لڑنی ہے۔ کوئی عرب ملک اُن کی امید نہیں۔ کوئی اُن کے لیے کچھ نہیں کرے گا۔ سب اپنے اپنے مفادات کیلئے بِکے ہوئے ہیں۔ بستر مرگ پر بھی میری دادی فلسطین کیلئے معجزوں کی منتظر رہی۔ کِسی صلاح الدین ایوبی کے اُٹھ کھڑے ہونے کی دعائیں کرتی کرتی قبر میں اُتر گئی۔

 

بیٹا تو میرے باپ کے شاید مقدر میں نہ تھا۔ تیسری لڑکی میری صورت میں گھر اور آگئی۔ گھر تین لڑکیوں سے بھر گیا۔ جب ہوش سنبھالامیری بڑی بہنیں قاہرہ پڑھنے جا چکی تھیں۔ بیروت تو آتش فشاں بنا ہوا تھا۔ اپنی بہنوں کے ساتھ میں دیر بعد شامل ہوئی تھی۔ وقت کے ساتھ ہتھکنڈے کِن حربوں پر اُتر رہے تھے۔ ہمیں اس کا احساس ہر پھیرے پر ہوتا تھا۔ ہم تینوں بہنیں جب بھی گھر آتیں۔ جگہ جگہ ہماری گاڑی روکی جاتی۔ جا بجا چیک پوسٹوں پر ہمارے کاغذات چیک ہوتے۔ میری بڑی بہنیں جزبز ہوتیں۔ اُن کی چتونوں پر پڑے بَل آج سمجھ آتے ہیں۔ فوجیوں کی نگاہوں کا گُرِسنہ انداز کا مفہوم تب نہیں آج میرا خون کھولاتا ہے۔

 

مار دھاڑ،بے دخلی اور ہماری زندگی اجیرن کرنے کا ہر حربہ اپنایا جا رہا تھا۔ کنکریٹ کی دیواریں،برقی باڑھیں، آبزرویشن ٹاور،خندقیں،سُرنگیں اور پرمٹ سسٹم کیا کیا نہیں ہمارے لیے کیا گیا۔ وہ باغ وہ زمینیں جو کبھی فلسطینوں کی تھیں اب اُن پر وہ قابض تھے۔ بیچارے فلسطینی پھل اُن سے خریدتے اور سڑکوں کے کناروں پر کھڑے ہو کر انہیں بیچتے۔ اُن کی پر دہاڑی دار مزدور بن کر کام کرتے۔ مشرقی یروشلم اور مغربی کنارے پر جانے کیلئے سویرے سویرے لائنوں میں کھڑے ہو جاتے۔ پرمٹ سسٹم جیسے تکلیف دہ مرحلوں سے گزرتے۔

 

وہ دن بھی میں اپنی یادداشتوں سے کبھی نہیں نکال سکتی۔ میں اپنے باپ کے کمرے میں داخل ہوئی اور میں نے دیکھا تھا۔ وہ کُرسی پر بیٹھے تھے اور ان کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ غزہ کے جنوب مشرقی علاقے ’’زیتون‘‘ میں رہنے والی اُن کی بے حد پیاری پھوپھی کی بیٹی اسرائیلی بمباری سے شہید ہو گئی تھی۔ اسرائیلی طیاروں نے بمباری کی تھی۔ میزائل ان کے گھر گِرا تھا۔ ان کے دو کمسِن پوتے اور وہ خود شہید ہو گئی تھیں۔ تعزیت کیلئے بھی بہت دنوں بعد جا سکے کہ محاصرہ طول پکڑ گیا تھا۔

ڈاکٹر ابو موسیٰ بزاز دو بیٹیوں کی شادیوں سے فارغ ہو چکا تھا۔ سب سے بڑی ڈاکٹر لائیلا انگلینڈ تھی،نمبر۲یُسرا میری پھوپھی کے گھر نظارت میں، تیسری میں یعنی آرینا اب اِس مرحلے سے گزر رہی تھی۔ میری زندگی میں ڈاکٹر یشارالبشر کا آنا بھی کِسی معجزے سے کم نہ تھا۔ ڈاکٹر یشارالبشرفلسطینی تھا مگر پرائمری کے بعد آئرلینڈ اپنے چچا کے پاس چلا گیا تھا۔ وہیں اُس نے میڈیکل کیا۔

 

گو وہ باہر رہا مگر فلسطین اُس کے وجود کی رگوں میں خون کی طرح دوڑتا تھا۔ وہ جب بھی آتا حالات کے تیور دیکھ کر کُڑھتا،پیچ و تاب کھاتا اور اپنا خون جلاتا اور پھر دُور نزدیک جگہ جگہ پھرتا۔ لوگوں کو دیکھتا، انہیں چیک کرتا، دوائیاں دیتا۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ اپنے اِس اُجڑے پُجڑے محکوم و مجبور وطن آگیا۔ مسیحائی کا تحفہ اُسے قدرت نے انعام کی صورت دیا تھا۔ عجیب سی بات تھی وہ قرونِ وسطیٰ کے طبیبوں کی طرح مریض کو لٹا کر اُس کا سَر سے پاؤں تک معائنہ کرتا۔ اور یہ کیسی حیران کُن ناقابل یقین بات تھی کہ جونہی اس کے ہاتھوں کی مخروطی انگلیاں بیمار کے اعضاء چیک کرتے کرتے اس کے پاؤں کی انگلیوں تک پہنچتیں، مرض ہاتھ جوڑے اُس کے سامنے مجسم ہو جاتا۔ نہ ایکسرے، نہ رپورٹ اور نہ کوئی ٹیسٹ۔ اُس کی اِس عجیب و غریب سی خوبی نے اُسے قرب و جوار میں خاصا مشہور کر دیا تھا۔

 

ایک دن عجیب سی بات ہوئی۔

 

میں سو کر اُٹھی۔ میرے سر اور گردن میں ایسا شدید درد تھا کہ چیخیں نکلتی تھیں۔ نہ صرف میرے والد بلکہ چند دوسرے ڈاکٹروں نے بھی چیک کیا۔ ابھی ٹیسٹوں کا مرحلہ جاری تھا جب اتفاق سے یشار البشر حارث میرے والد سے ملنے آ گئے۔ انہوں نے صرف پانچ سے چھ منٹ کے معائنے میں بتا دیا کہ اِسے میننجائٹس ہو گیا ہے۔ فوری تشخیص اور علاج نے مجھے نئی زندگی دی تھی اور میں ڈاکٹر کی عاشق ہو گئی تھی۔ میری اِس وابستگی کا اظہار میرے والد کی زبان سے ہوا اور یشار کی عنایت کہ اُس نے اِسے پذیرائی دی۔ گھر کی آخری اور بے حد لاڈلی بیٹی کی شادی جس انداز میں ہوئی وہ داستان بھی دل ہلانے والی تھی۔

 

یشار کا بڑا بھائی اور اُس کے ۳  بیٹے بھی اسی چکر میں دھر لیے گئے۔ وہ شادی میں شرکت کیلئے تیاریوں میں تھے جب یہ قیامت ٹوٹی۔ نابلوس میں کرفیو لگ گیا تھا۔ بارات کیسے آتی۔ آنسو میرے گالوں پر بہتے تھے اور میں اپنی بہنوں سے کہتی تھی۔ میری شادی پر ہی یہ سب ہونا تھا۔ ابا کے اسرائیلی دوستوں سے رابطے، بھاگ دوڑ، فلسطینی مئیر اور سب سے بڑھ کر انکل یوری ایونری سابق ممبر اسرائیلی پارلیمنٹ کی کاوشیں رنگ لائیں۔ انکل یوری ایونری اسرائیل میں رہتے ہوئے،سیاست دان ہوتے ہوئے، حق سچ کا علم اٹھائے رکھتے ہیں۔ ظلم و جبر پر بولتے اور لکھتے رہتے ہیں اور فلسطینیوں کے حقوق اور اُن کی آزاد ریاست کے قیام کی حمایت میں ہمیشہ آواز بلند کرتے رہتے ہیں۔ لڑکے بارات میں پھر بھی شامل نہ ہو سکے کہ وہ تو زیر حراست تھے۔ بیچاروں کے کہیں فنگر پرنٹ،کہیں ڈی این اے ٹیسٹ ہو رہے تھے۔

 

یہ شادی نہیں تھی فرض کی ادائی تھی۔ میں نے میک اپ نہیں کیا۔ کپڑے نہیں پہنے۔ بس اُسی حالت میں گاڑی میں بیٹھ گئی تھی۔ مہینوں میں اِس دُکھ سے باہر نہیں نکل سکی تھی۔ یشار مجھے سمجھا تا اور دلداری کرتا نہ تھکتا تھا اور میں کہتی تھی۔ ’’کمزور ہونا کتنا بڑا جُرم ہے۔ ‘‘ یشار نابلوس کے رفیدیہ ہسپتال سے منسلک تھا۔ ایک دن کوئی ۲بجے گھر آیا۔ میرے ہاں دوسرا بچہ متوقع تھا۔ کھانا تیار نہیں تھا۔ کچھ کھانے کو ہے؟ اس کے انداز میں دھیما پن تھا۔ میں نے ذرا سے تامل ذرا سے تاسف سے اپنی خرابیٔ طبیعت کا بتایا۔ چلو چھوڑو۔ زاطر تو ہے نا۔ اُسے ہی لے آؤ۔

 

میں نے میز پر خبض،زیتون اور زاطر سجا دیا۔ زاطر ہمارے مڈل ایسٹ میں بہت کھایا جاتا ہے۔ ہربل اور تلوں کا آمیزہ جسے زیتون سے مِلا کر روٹی کے ساتھ کھاتے ہیں۔ ابھی اُس نے نوالے کو زیتون میں ڈبو کر اُسے زاطر میں لتھیڑنے کیلئے نکالا ہی تھا کہ باہر کِسی جیپ کے رُکنے اور پھر بیل بجنے کی آواز آئی۔ میں دوسرے کمرے میں چلی آئی۔ خادمہ نے مجھے بتایا کہ اسرائیلی فوجی ہیں۔ میرا دل دھک سے ہوا۔ اُسی سے پتا چلا کہ ڈرائنگ روم کا دروازہ بند ہو گیا ہے۔ اندر کیا ہو رہا تھا؟میرا دل سینے میں پھڑپھڑاتا تھا۔ دیر بعد دروازہ کھلا۔ آنے والے جیپ میں بیٹھے اور چلے گئے۔ یشار اندر آیا۔ مجھے فق بیٹھے دیکھا۔ سینے سے لگایا اور بولا۔

 

’’حد ہو گئی ہے۔ نارمل ہو جاؤ۔ لگتا ہے تمہارا دل جیسے ابھی اندر توڑ کر باہر آ جائے گا۔ اور جب میں نے کچھ جاننے کی کوشش کی اُس نے رسان سے کہا۔ ’’میں ڈاکٹر ہوں۔ ‘‘ میرا اصرار حد سے بڑھا۔ اُس نے کہا۔  ’’مریض اگر اپنی بیماری کو راز میں رکھنے کا متمنی ہے تو ڈاکٹر کو اختیار نہیں کہ وہ اس کا پردہ فاش کرے۔ ‘‘ پر میری حد سے بڑھی ضِد پر بالا اخر اُسے بتانا پڑا۔ آنے والوں میں سے ایک اسرائیلی فضائیہ کا پائلٹ مسٹر پیری یاتم تھا۔ دوسرا اُس کا دوست۔ اُس پائلٹ کے ساتھ ایک گھمبیر مسئلہ ہو گیا۔ جونہی وہ کِسی مشن پر جانے کیلئے جہاز اُڑا کر فضا میں لاتا اُس کے سَر میں شدید درد شروع ہو جاتا۔ وہ اپنی بیماری ملٹری ہسپتال کے کسی ڈاکٹر سے ڈِسکَس نہیں کرنا چاہتا تھا۔ میڈیکل گراؤنڈ پر فوراً ایکشن ہو کر سارا کیرئیر داؤ پر لگ جانا تھا۔ یشار کے بارے میں سُنا تھا۔ علاج کیلئے آیا تھا۔

 

اس کی پریشان کُن بیماری نے صحت یاب ہونے میں زیادہ وقت بھی نہیں لیا تھا۔ یشار کا معتقد ہو گیا۔ اسرائیلی افسروں میں اُس کی مسیحائی کا اچھا خاصا پرچار ہوا۔ یشار بے باک تھا۔ سچی بات کہنے سے اس کے منہ کو کوئی مصلحت روک نہیں سکتی تھی۔ ایک بار نہیں کئی بار وہ اسرائیلیوں اور لیبر پارٹی کے ارکان سے اُلجھا تھا کہ وہ پرشیائی بن گئے ہیں۔ کل جو اُن کے ساتھ ہوا تھا وہی وہ فلسطینیوں کو لوٹا رہے ہیں۔ اس کا انجام جانتے ہو بہت خوفناک ہو گا۔ مت بھُولو یہ سب جو بظاہر نظر آتا ہے اور جو تمہارے غلبے اور اقتدار کا شو آف ہے ایک دن تمھیں پاتال میں پھینک دے گا۔

 

ابھی بھی وقت ہے۔ کیا یہاں ایسی ۲فلسطینی ریاستیں نہیں بن سکتی ہیں جو امن اور آشتی سے رہ سکیں۔ کچھ لوگ اگر اُس کی ایسی باتوں پر خار کھاتے تھے تو وہیں چند ایسے بھی تھے جوسمجھتے تھے کہ وہ ٹھیک کہتا ہے۔ مگر یہ ٹھیک سمجھنے والے تو آٹے میں نمک برابر تھے اور جو اُس سے نفرت کرتے تھے بالا اخر وہ اُسے زمین کا رزق بنانے میں کامیاب ہو گئے۔ یہ تو ذرا بھی مشکل کام نہیں تھا۔ کِسی معقول بہانے کی بھی ضرورت نہیں تھی۔ دوسرے بچے کی پیدائش پر میں کمرے میں تھی۔ یشار چھت پر تھا۔

موسم میں کچھ تلخی تھی۔ پتا نہیں میرا دل کیوں گھبرایا۔ میں نے ٹی وی کھولا۔ فلسطین کی بہت سُریلی گلو کارہ خاتم السحر محمود درویش کی امر ہو جانے والی نظم گا رہی تھی۔

 

جیل بہت خوبصورت ہیں باہر کی دنیا کے باغوں سے

ہم سے ہمارا وطن ہے اور وطن سے ہم ہیں

ہماری جنم بھومی،ہمارے اجداد کی،

ہمارے بچوں کی، ہماری جنت

آؤ کہ ہم اپنے دشمنوں کو کبوتر کی غٹرغوں سنائیں

اگر وہ سُننا چاہیں

آؤ کہ انہیں سپاہیوں کے ہیلمٹوں پر پھول اُگانا سکھائیں

اگر وہ سیکھنا چاہیں

 

میری آنکھوں سے آنسو بہنے لگے تھے۔ روتے روتے جانے کب سو گئی۔ بس شور و غوغا سے آنکھ کھُل گئی تھی۔ ساتھ کی چھت پر سوتا سارا خاندان ان کی وحشت کی بھینٹ چڑھ گیا تھا۔ یشار خون میں نہایا ہوا تھا۔ اسرائیلی فوجیوں کا کہنا تھا کہ چند شر پسندوں نے اُن پر گولیاں چلائی تھیں۔ ان کے تعاقب اور فائرنگ پر جوابی کاروائی میں یہ سب ہو گیا۔ اور جب وہ پائلٹ تعزیت کیلئے آیا میں نے کہا تھا۔

 

’’مجھے بتاؤ میرے بچے بڑے ہو کر تم لوگوں سے انتقام نہیں لیں گے۔ ان کی پور پور میں جس نفرت کے بیج آج تم لوگ بو رہے ہو یہ کل فصل کی صورت میں پروان چڑھیں گے۔ یا تم نے شرمندگی سے لبریز آنکھیں اٹھائیں۔ میری طرف دیکھا اور بولا۔ شاید آپ نہیں جانتیں۔ میں اسرائیلی ہوتے ہوئے بھی دوسرے درجے کا شہری ہوں کیونکہ میرا تعلق  سے ہے جو اگرچہ عبرانی جانتے ہیں مگر ہسپانوی النسل ہیں، جو کیتھولک عیسائیوں کے سپین پر قبضے کے بعد اُن کے ظلم و ستم اور اپنا مذہب نہ تبدیل کرنے کے جُرم میں ہجرتوں کے مسافر بنا د یے گئے۔ جائے پناہ ملی تو کہاں ؟ مغرب میں مراکش سے لے کر مشرق میں عراق تک اور بلغاریہ سے لے کر جنوب میں سوڈان تک۔ مسلم دنیا ہمارا ٹھکانہ بنی۔

 

اُس کے اندر سے دُکھ اور یاس میں لپٹی بڑی لمبی آہ نکلی تھی۔ ان کا تکبر،ان کا غرور اور ان کا ظلم انہیں ایک دن لے ڈوبے گا۔ اُس نے سَر جھُکا لیا تھا۔ نظارت میں رہنے والی اپنی بہن کی جھولی میں اپنے دونوں بیٹے ڈالتے ہوئے میں نے کہا تھا۔ ’’اپنے بیٹوں کے ساتھ انہیں بھی پال لینا۔ میں باہر جاتی ہوں تاکہ ان کے لیے بندوقوں اور پستولوں کا بندوبست کر سکوں ‘‘ ’’دیکھو یاد رکھنا اگر بندوقیں نہ مِلیں تو پتھر اور ڈنڈے ضرور پکڑا دینا۔ مزاحمت کی تاریخ تو ضرور مرتب ہو گی۔ ‘‘

 

رہا یہ ٹونی کلف (اب ابراہیم) یہ تو یونہی پیچھے پڑ گیا تھا۔ محبت کرنے لگ گیا تھا۔ میرے پاس کیا تھا؟اسلام سے متاثر تھا۔ میرے پیار میں اُلجھا تو سَر تا پا اِس چلن میں ڈوب گیا۔ شادی کے لیے جب اصرار بڑھا میں نے شرط رکھ دی کہ اگر تم سے میرے لڑکے ہوئے تو میں انہیں فلسطین بھیج دوں گی۔ اُسے تو کوئی اعتراض نہ تھا۔ ۲بیٹے ہیں۔ ابھی بہت چھوٹے ہیں۔ وہ رُک گئی تھی۔ چند لمحوں تک خلا میں دیکھتی رہی پھر میری طرف دیکھا۔ آنکھوں میں جذبات کا طوفان اُمنڈا ہوا تھا۔ ’’ابھی تھوڑی دیر قبل میں صلاح الدین ایوبی کے مزار پر تھی۔ ‘‘

 

دنیا کے تہذیبی تصادم کے بھی کتنے جبر ہیں جو تاریخ کے سینے میں درج ہیں۔ ایک اُس ہوچھے فرانسیسی جرنیل ہنری گورو کا ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے پر مال غنیمت کے طور پرفرانس کو ملنے والے مُلک شام کے ایڈمنسٹریٹر کی حیثیت سے دمشق میں داخلے پر سب سے پہلا کام اُس کا یہاں صلاح الدین کے مزار پر آنے،قبر پر کھڑے ہونے اور اپنی آواز کی پوری شدت سے چِلّا کر کہنے کا تھا۔ ’’صلاح الدین سُنتے ہو۔ ہم فاتح بن کر لوٹ آئے ہیں۔ دیکھو۔ ہم نے سبز ہلالی پرچم کو سرنگوں کر دیا ہے۔ صلیب ایک بار پھر اپنے عروج پر ہے۔ ‘‘ آنسو بہاتے ہوئے میں نے پوچھا تھا۔ ’’تم نے یہ سب سُنا اور چُپ رہے۔ صلاح الدین! بہت آرام کر لیا ہے تم نے۔ اب اُٹھ جاؤ۔ صدی بیت گئی ہے۔ فلسطین کے بیٹے اور بیٹیاں بہت بے آبرو ہو گئی ہیں۔ ‘‘

٭٭٭

ماخذ:

http://www.urdudigest.pk/

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید