FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

فہرست مضامین

انتخاب کلامِ رازؔ

 

 

 

               راز چاند پوری

               مرتبہ:سرور عالم راز سرورؔ

کتاب ’باقیاتِ راز‘ کا ایک حصہ

 

 

سراپا سوز ہوں میں ، ہم نوائے سازِ فطرت ہوں

تعجب ہے مری آواز پہچانی نہیں جاتی

(راز)

 


 

غزلیات

 

O

 

رِندوں کو اس قدر تری رحمت پہ ناز تھا

توبہ نہ کی اگرچہ درِ توبہ باز تھا

بیخود تمام عمر رہا بے پئے ہوئے

مستِ نگاہِ ناز بڑا پاکباز تھا

اب کیا بتاؤں لذّتِ دیدارِ ہم نشیں

اتنی خبر ہے بس، کہ وہ جلوہ طراز تھا

سچ پوچھئے تو دن تھے وہی حاصلِ حیات

جب دل رہینِ لذّتِ سوز و گداز تھا

اچھا ہوا کہ کوئی نہ مطلب سمجھ سکا

رازؔ غریب محوِ نوا ہائے راز تھا

 

 

O

 

دہر میں اہلِ نظر کو چین کب حاصل ہوا

برق اُدھر چمکی، اِدھر بیتاب میرا دل ہوا

اوّل اوّل عشق میں اک بیخودی طاری رہی

رفتہ رفتہ پھر قیامت خیز سازِ دل ہوا

وہ مری آہ و بُکا تھی خام کاری کی دلیل

ہو گیا خاموش ذوقِ عشق جب کامل ہوا

بحرِ ہستی بھی تھا شاید اک سرابِ آرزو

جتنا میں آگے بڑھا، دور اُتنا ہی ساحل ہوا

راز جب افکارِ دنیا سے ذرا فرصت ملی

طائرِ تخئیل سوئے لامکاں مائل ہوا

 

 

 

O

 

سُنے گا دردِ دل کی داستاں کیا

بنے گا کوئی میرا راز داں کیا

کرے گا دشمنی اب آسماں کیا

مٹائے گا مجھے دورِ زماں کیا

لگی ہے آگ دل میں ، تشنہ لب ہوں

علاج اس کا ہے اے پیرِ مغاں کیا

حقیقت کھل گئی ہے آرزو کی

میں اب ہوں گا کسی سے بدگماں کیا

زمانہ کم نظر ہے، عیب بیں ہے

نظر والا نہیں کوئی یہاں کیا

یہ عالم اور یہ غفلت، خدارا

نئے سر سے تو ہو گا پھر جواں کیا

میں پروانہ ہوں شمعِ لامکاں کا

بنوں گا گرمیِ بزمِ جہاں کیا

میں نغمہ سنجِ حسنِ زندگی ہوں

کوئی ہے رازؔ میرا ہم زباں کیا؟

 

O

نظر نواز ہر اک سمت حسن یار ہوا

نگاہِ شوق پہ اب مجھ کو اعتبار ہوا

ضیائے حسن نے روشن کیا نگاہوں کو

میں آج شاہدِ معنی سے ہمکنار ہوا

بہارِ گلشنِ ہستی تھی دید کے قابل

مری نگاہ کو لیکن نہ اعتبار ہوا

اب اپنے حسنِ نظر کا کرے نہ کیوں ماتم

وہ کم نگاہ جو شرمندۂ بہار ہوا

یہ رازِ حسن و محبت ہے کیا کہوں اے رازؔ

حریفِ دردِ جدائی خیالِ یار ہوا

 

 

O

 

سبب نہ پوچھئے دنیا سے بے نیازی کا

نیاز مند ہوں فطرت کی دل نوازی کا

غلط، غلط، کہ میں اتنا تو کم نگاہ نہیں

کہ دیکھوں حسن، رُخِ شاہدِ مجازی کا

ابھی تو ذوقِ ہوس بھی ہے تشنۂ تکمیل

بڑی ہے بات، نہ لے نام عشق بازی کا

جمالِ روئے حقیقت نظر نواز ہوا

کمال دیکھئے ذوقِ نظارہ بازی کا

زمانہ کہتا ہے بے باک، کیا کروں اے رازؔ

سبق پڑھا نہیں میں نے زمانہ سازی کا

 

 

 

 

O

 

کچھ ایسے لحن سے مطرب نوا فروش ہوا

کہ سازِ قلب کا ہر تار نغمہ کوش ہوا

نگاہِ ساقئ· میکش نواز ، کیا کہنا

کہ ایک جام میں ٹھنڈا خودی کا جوش ہوا

فرازِ عرش سے آوازِ مرحبا آئی

جب آستانِ محبت پہ سجدہ کوش ہوا

کمالِ بادہ پرستی اسی کو کہتے ہیں

کہ جرعہ نوشِ محبت بھی مے فروش ہوا

خمارِ بادۂ ہستی ، ارے معاذ اللہ

خدا کا شکر کہ اب رازؔ حق نیوش ہوا

 

 

O

طریقِ عشق میں جو خستہ و خراب ہوا

وہ اپنے مقصدِ ہستی میں کامیاب ہوا

نگاہِ شوق کو جب حد کا اضطراب ہوا

جمالِ شاہدِ مقصود بے نقاب ہوا

ضیائے شمعِ حقیقت، کمالِ جلوہ گری

کہ بزمِ دہر کا ہر جلوہ آفتاب ہوا

گناہگارِ محبت، گناہگارِ وفا

گناہ کر کے نہ شرمندۂ حساب ہوا

ہمیشہ حدِّ ادب کو نگاہ میں رکھا

رہِ طلب میں نہ میں خستہ و خراب ہوا

حریفِ راہِ محبت پہ رحمتیں ہوں مدام

غریب، پہلی ہی منزل میں کامیاب ہوا

ہٹا نہ راز کبھی مرکزِ محبت سے

ہزار بار زمانہ میں اِنقلاب ہوا

 

 

O

 

وہ حیراں نہ ہو گا، پریشاں نہ ہو گا

جو ممنونِ الطافِ یاراں نہ ہو گا

یہ فطرت ہے، مغرور کافر کی فطرت

مسلمان ہو کر بھی انساں نہ ہو گا

ہوس سے امیدِ محبت ہے بے جا

کہ شعلہ کبھی برقِ جولاں نہ ہو گا

یہ فصلِ بہار اور خوش کیف منظر

تو کیا آج توبہ پہ احساں نہ ہو گا

غنیمت ہے ، یہ دَورِ رنگیں غنیمت

نہ ہو گا، کبھی پھر یہ ساماں نہ ہو گا

حریفانِ خوش خواں ہیں محوِ ترنّم

تو کیا رازِ حق گو غزل خواں نہ ہو گا

 

 

 

O

 

بڑا کرم، ترے قرباں ، نگاہِ ناز کیا

نیاز مند کو دنیا سے بے نیاز کیا

یہ احترام حقیقت، یہ پاسِ اہلِ نظر

کہ کم نگاہ کو سرگشتۂ مجاز کیا

خرد، کہ حسنِ تخیل پر اپنے نازاں تھی

جنابِ عشق نے منّت کشِ نیاز کیا

ہمیشہ شاہدِ تسلیم کی پرستش کی

کبھی نہ دامنِ امید کو دراز کیا

نگاہِ ساقیِ رعنا کا لطفِ خاص اے رازؔ

کہ اہلِ ذوق کو ہمرازِ سوز و ساز کیا

 

 

O

حسن کیا چیز ہے ، محبت کیا

خواب ہے ، خواب کی حقیقت کیا

منقلب  ہو رہا ہے نظمِ جہاں

اور بھی ہو گی اب قیامت کیا

خود پرستی ہے ، خود نوازی ہے

اُٹھ گئی رسمِ مہر و اُلفت کیا

اک فریبِ خیال ہیں دونوں

حسنِ اخلاق کیا ، مروّت کیا

ہے نظر میں جمالِ صبحِ وطن

روح پرور ہو شامِ غُربت کیا

اہلِ دل ہیں یہاں نہ اہلِ نظر

نکتہ سنجی کی ہے ضرورت کیا

راز سب سے ہوا ہے بیگانہ

کھل گئی دہر کی حقیقت کیا

 

 

O

 

کس نے  برباد کیا ، کون تھا دشمن میرا

آہ وہ مایۂ امید ، وہ گلشن میرا

کس نے گل چیں کو دیا میرے گلستاں کا پتہ

ہم صفیروں میں نہ تھا کوئی بھی دشمن میرا

خارِ حسرت ہی سہی ، برگِ تمنّا نہ سہی

شکر، صد شکر، کہ خالی نہیں دامن میرا

اس کی ویرانی کا باعث ہے مری پابندی

میں ہوں آزاد تو آباد ہو گلشن میرا

بادۂ عشق سے ناپاک ہے تو رہنے دو

گردِ دنیا سے مگر پاک ہے دامن میرا

میری تقدیر میں تھا فائزِ منزل ہونا

اپنی تدبیر کو رویا کرے رہزن میرا

 

اپنے کردار پہ پڑتی نہیں ظالم کی نظر

شیخ کہتا ہے کہ دشمن ہے برہمن میرا

فطرتِ اہلِ جہاں کو ہے سمجھنا مشکل

دوست، دشمن ہے مرا-دوست ہے دشمن میرا

حیف یہ اہلِ چمن اور یہ اغماض اے رازؔ

کیا کہوں ، کون ہوں ، کس جا تھا نشیمن میرا

 

 

O

 

تماشہ تھا مری نظروں کا تا حدّ نظر جانا

قیامت بن گیا، حدّ نظر سے پھر گزر جانا

قیامت اور کیا ہو گی، قیامت ہے یہی شاید

بہ یک گردش نظامِ بزمِ عالم کا بکھر جانا

نقوشِ کاروانِ زندگی معدوم ہیں یکسر

عجب اک سانحہ ہے بے جرس اس کا گزر جانا

زمانہ بے دلیلِ راہ آگے بڑھ نہیں سکتا

خلافِ مصلحت ہے خضر منزل کا ٹھہر جانا

خودی و بیخودی میں صرف اتنا سا تفاوت ہے

یہاں پر با خبر رہنا، یہاں سے بے خبر جانا

یہ مانا میں نے ،ذوقِ دید سے مجبور ہے لیکن

نگاہِ شوق کا اچھا نہیں حد سے گزر جانا

مری تدبیر بے معنی، مرا حسنِ عمل توبہ

مشیت ہی کو تھا منظور قسمت کا سنور جانا

کرشمہ ہے فقط اہلِ وطن کی خوش نگاہی کا

پرستارِ وطن کا دشتِ غربت میں ٹھہر جانا

ضرورت ہے، ضرورت سے ہر اک مجبور ہوتا ہے

خلافِ مصلحت ہے گو خلافِ راہبر جانا

مری خوددار فطرت کو گوارا ہو نہیں سکتا

حریفِ بے ہنر ہونا، حضورِ کم نظر جانا

بہت گستاخ ہوں بےباک ہوں ، اے رازؔ میں لیکن

ادب آموزِ محفل ہے، مرا حد سے گزر جانا

 

 

 

 

O

 

کیا کہا بے نیاز ہے شاید

حسن سرگرم ناز ہے شاید

دل بھی خرّم ہے، روح بھی شاداں

سوزِ پنہاں میں ساز ہے شاید

اور کیا ہو گی وجہِ خاموشی

خوفِ افشائے راز ہے شاید

ایک مدّت سے جادہ پیما ہوں

راہِ الفت دراز ہے شاید

عشق کہتی ہے جس کو ایک دنیا

بادۂ دل گداز ہے شاید

حسن خود بیں ہے، عشق ہے خوددار

یہ بھی ناز و نیاز ہے شاید

پاسِ انفاس اور اس کا خیال

بس یہی تو نماز ہے شاید

شکوۂ جورِ حسن، اے توبہ

مدعی عشق باز ہے شاید

واعظِ شہر اور حق گوئی

اس میں تو کوئی راز ہے شاید

مفتئ· خوش مذاق کا فتویٰ

مے کشی کا جواز ہے شاید

بادۂ عشق اور یہ پرہیز

سخت بد کیش رازؔ ہے شاید

 

 

 

 

 

O

نامرادی و پُرسشِ احباب

زندگی ہو گئی ہے اک عذاب

ہو گیا سازِ قلب پھر گویا

شکر، صد شکر، اے نگاہِ عتاب

وحدہٗ  لا شریک لہ گویم

میں نہیں جانتا حساب و کتاب

منصفی ، اے نگاہِ نکتہ چیں

دیکھ پہلے خود اپنے عیب و صواب

کوئی کہہ دے یہ رازؔ میکش سے

دَور میں آ گیا ہے پھر مہتاب

 

 

 

O

 

کامیابی کی کیجئے تدبیر

بس یہی ہے نوشتۂ تقدیر

کیا نرالا ہے دہر کا دستور

مجرمِ عشق، لائقِ تعزیر

با وفا ہوں ، یہ ہے قصور مرا

بے خطا ہوں ، یہ ہے مری تقصیر

کیا یہ کوئی ہے آئنہ خانہ

بزمِ ہستی ہے عالمِ تصویر

کوئی پہچانتا ہے کیا اس کو

غالباً ہے یہ رازؔ کی تصویر

 

 

 

O

 

بظاہر راہرو بن کر، بباطن رہنما ہو کر

رہا میں ساتھ دنیا کے حقیقت آشنا ہو کر

یہ جلوہ، جلوۂ رنگیں ! یہ صورت، صورتِ زیبا

کوئی دنیا کو کیا دیکھے گا تجھ سے آشنا ہو کر

یہ مانا اہلِ عالم کی ریاکاری مسلّم ہے

مگر کیا تم بھی ملتے ہو کسی سے بے ریا ہو کر

نہ وہ دنیا نظر میں ہے، نہ وہ دنیا کی رنگینی

خدا معلوم کس عالم میں ہوں تجھ سے جدا ہو کر

یہ طرزِ شعر خوانی، رحم کر اربابِ محفل پر

تجھے کیا ہو گیا اے رازؔ آخر خوشنوا ہو کر

 

 

 

O

 

 

بہار اور یہ رنگینیِ ادائے بہار!

کسی کے حسن کا آئینہ ہے فضائے بہار

بہت لطیف ہے، پُر کیف ہے فضائے بہار

نگاہِ نرگسِ بد بیں میں خاکِ پائے بہار

خبر ہے کچھ تجھے اس کی بھی اے خدائے بہار

کہ اک غریب ہے منّت کشِ جفائے بہار

یہ حسنِ سروسمن، یہ شبابِ لالہ و گل

الٰہی خیر، کہ سرمست ہے ہوائے بہار

فریب خوردۂ رنگِ چمن کوئی ہو گا

مری نگاہ میں ہے جلوۂ خدائے بہار

گلہ فضول ہے گل چیں کی کم نگاہی کا

کہ باغباں ہی نہیں رمزِ آشنائے بہار

بنامِ نرگسِ شہلا، بجانِ تشنہ لبی

ادھر بھی اک نگہِ لطف اے خدائے بہار

خموش رازؔ! یہ اندازِ گفتگو ، توبہ

کہاں ہے ساقئ· رعنا و خو شنوائے بہار؟

 

 

 

O

تعزیرِ جنوں ممکن، تعزیر سے کیا حاصل

آزادِ دو عالم ہوں ، زنجیر سے کیا حاصل

انجامِ تمنّا کی تفسیر سے کیا حاصل

اک خوابِ پریشاں کی تعبیر سے کیا حاصل

دیوانہ سہی لیکن دیوانۂ اُلفت ہوں

پابندِ محبت ہوں ، زنجیر سے کیا حاصل

بیکار ہے ہر شورش، بیکار ہے ہر کاوش

ہونا ہے جو کچھ ہو گا، تدبیر سے کیا حاصل

ناکامئ· قسمت کا اے رازؔ ہے کیوں شکوہ

دلداریِ فطرت کی تشہیر سے کیا حاصل

 

 

 

 

O

 

لاکھ ہوں وقفِ بیخودی میکدۂ مجاز میں

روح مری ہے جبّہ سا بارگہِ نیاز میں

میرے مرض کا تھا علاج اس کی نگاہِ ناز میں

لکھی ہوئی تھیں گردشیں قسمتِ چارہ ساز میں

کون یہ مٹ کے رہ گیا کون یہ خوش نصیب تھا

نقشِ قدم کسی کے ہیں رہ گزرِ نیاز میں

میری نگاہِ شوق بھی کتنی ادا شناس ہے

لیتی ہے درسِ زندگی مدرسۂ مجاز میں

کہتا ہوں آج برملا، رازؔ میں قصّۂ وفا

ہے کوئی درد آشنا محفلِ سوز و ساز میں

 

 

 

O

 

عبث ہے فکرِ یکسوئی جہاں میں

زمانہ مبتلا ہے این و آں میں

ازل میں تفرقہ ایسا پڑا تھا

ابھی تک ہوں تلاشِ کارواں میں

سُنیں ، جو اہلِ دل ہوں سُننے والے

بیاں کرتا ہوں کچھ اپنی زباں میں

فریبندہ ہیں ، جتنے ہیں مناظر

لگا دو آگ اب بزمِ جہاں میں

سُنائے جاؤ  رازؔ اپنی کہانی

کوئی خوش گو نہیں اب کارواں میں

 

 

O

فریب خوردۂ امیدِ ناروا ہوں میں

تخیّلات کی دنیا میں کھو گیا ہوں میں

میں کیا بتاؤں کہ ہوں کون اور کیا ہوں میں

کمالِ حسنِ خود آرا کا آئنا ہوں میں

تلاش میں ہوں کسی کی ازل سے سرگرداں

کوئی بتائے مجھے، کس کو ڈھونڈتا ہوں میں

حریفِ اہلِ نظر ہوں ، نگاہ والا ہوں

تری نگاہ سرِ بزم دیکھتا ہوں میں

حسین کوئی نہیں اس نگار خانے میں

مری نگاہ یہ کہتی ہے حسن زا ہوں میں

حریفِ راہِ محبت کو مژدۂ منزل

کہ راہ و رسمِ منازل سے آشنا ہوں میں

مرے کلام میں مضمر ہے زندگی اے رازؔ

رموزِ حسن و محبت سے آشنا ہوں میں

 

O

 

کنجِ عزلت سے زیادہ کہیں آرام نہیں

یہ وہ دنیا ہے جہاں صبح نہیں شام نہیں

میری تقدیر، اسیرِ غمِ ایام ہوں میں

اس میں کچھ شا ئبۂ گردشِ ایام نہیں

آرزوؤں نے پریشان بنا رکّھا ہے

جسم آرام میں ہے، روح کو آرام نہیں

میری ناکامیِ تدبیر پہ ہنسنے والے

اور تو کیا کہوں ، ناکام ہوں ، خود کام نہیں

کیا حسیں اور نہیں کوئی زمانہ بھر میں

لیکن اے دوست مرا حسنِ نظر عام نہیں

دیکھ لیتا ہوں جہاں بھی تو نظر آتا ہے

شکر، صد شکر، کہ سرگشتۂ اوہام نہیں

راز کیا یاد نہیں تجھ کو وہ پیمانِ ازل

حیف! عشّاق کے دفتر میں ترا نام نہیں

 

 

O

 

سوزِ پنہاں میں رنگِ ساز نہیں

بے خبر تو نگاہِ ناز نہیں ؟

رنگِ بزمِ جہاں ، معاذ اللہ

کوئی حق بین و حق نواز نہیں

جس کو کہتے ہیں شاہدِ عالم

اس سے حاصل مجھے نیاز نہیں

آشنائے جمالِ معنی ہوں

خوش نگاہی پہ مجھ کو ناز نہیں

راز دنیا سے بے نیاز توہے

اہلِ دل سے وہ بے نیاز نہیں

 

 

 

 

O

 

کیا تماشا ہے، کسی بات کا مقدور نہیں

اور پھر یہ بھی سمجھتا ہوں کہ مجبور نہیں

خود لگا رکھی ہے یہ قیدِ تعیّن تو نے

ورنہ وہ کعبہ و بتخانہ میں محصور نہیں

وقتِ ہمّت ہے یہی، اے قدمِ شوق سنبھل

دیکھ وہ منزلِ مقصود ہے، کچھ دور نہیں

چل تو ہی حوصلہ کر، رسمِ کہن کر تازہ

ارنی گو کوئی اے رازؔ سرِ طور نہیں

 

 

 

O

 

لذّتِ درد و کیفِ آہ نہیں

اب مجھے زندگی کی چاہ نہیں

جادہ پیمائے عرصۂ ہستی

دور بیں کیوں تری نگاہ نہیں

جو نہ جاتی ہو کوئے جاناں تک

مجھ کو معلوم ایسی راہ نہیں

ایک خواجہ کے سب ہیں حلقہ بدوش

ہم فقیروں میں کوئی شاہ نہیں

مسجدیں تو بہت ہیں دنیا میں

لیکن اے رازؔ خانقاہ نہیں

 

 

 

O

 

خواہشِ عیش نہیں ، فکرِ کم و بیش نہیں

مطمئن ہوں کہ کوئی مرحلہ درپیش نہیں

مے پرستانِ محبت ہیں ہوس کے بندے

کفر آبادِ جہاں میں کوئی حق کیش نہیں

نشۂ بادۂ ہستی سے ہے مخمور جہاں

میگسارانِ ازل عاقبت اندیش نہیں

کیف افزائے سکوں ہے مئے تسلیم و رضا

اب میں سرگشتۂ افکارِ کم و بیش نہیں

اہلِ دل ہیں نہ یہاں اہلِ نظر ہیں اے رازؔ

حیف! اس بزم میں اپنا کوئی ہم کیش نہیں

 

 

 

O

 

چشمِ میکش نواز کے قرباں

نرگسِ سحر ساز کے قرباں

کھل گئی، کھل گئی گرہ دل کی

بادۂ جاں نواز کے قرباں

ناز بردار اب ہے نازِ حسن

اپنے حسنِ نیاز کے قرباں

قلبِ خوابیدہ ہو گیا بیدار

مطربِ سحر ساز کے قرباں

جس نے دنیا سے بے نیاز کیا

راز اس دلنواز کے قرباں

 

 

O

 

کافرِ الفتِ ساقی کوئی میخوار نہیں

حیف! ان بادہ پرستوں پہ کہ دیں دار نہیں

اہلِ محشر میں جو پرسش کا سزاوار نہیں

ایک میں تو ہوں ، کوئی اور گنہگار نہیں

جتنے میکش ہیں ، مئے ہوش کے متوالے ہیں

کیا خراباتِ جہاں میں کوئی ہشیار نہیں

آج بھی برقِ تجلّی ہے سرِ طور ، مگر

حوصلہ مند کوئی طالبِ دیدار نہیں

تو جو دشوار سمجھتا ہے رہِ الفت کو

تجھ کو دشوار ہے لیکن مجھے دشوار نہیں

قابلِ رحم ہے احباب کی حالت اے رازؔ

مدعی سب ہیں مگر ایک بھی غمخوار نہیں

 

 

 

O

 

شریکِ دَورِ مئے ناب و خوشگوار ہوں میں

مُریدِ پیرِ خراباتِ روزگار ہوں میں

ہنوز منظرِ بزمِ ازل ہے پیشِ نظر

ہنوز شاہدِ معنی سے ہم کنار ہوں میں

ضیائے حسن سے معمور ہے فضائے جہاں

ہر ایک جلوہ یہ کہتا ہے شاہکار ہوں میں

شریکِ بزمِ محبت ہوں ایک مدّت سے

کسی امید پہ مصروفِ انتظار ہوں میں

اٹھا نقاب، دکھا اب جمالِ جاں پرور

فریب خوردۂ صد حسنِ رہ گزار ہوں میں

امینِ رازِ طلسمِ حیات ہوں اے رازؔ

حریفِ شیوۂ اربابِ روزگار ہوں میں

 

 

 

O

 

وہ ایک لمحہ جو گزرا ہے بظاہر مے پرستی میں

وہی ہے حاصلِ عمرِ دو روزہ بزمِ ہستی میں

میں کافر ہوں ، بہت اچھا، مگر اے زاہدِ حق بیں

کسی کی دید ہوتی ہے مجھے تو خود پرستی میں

محبت اک متاعِ بیش قیمت ہے، یقیناً ہے

کوئی گاہک نہیں اس کا مگر بازارِ ہستی میں

خدا کا نام لیتا ہے زمانہ، رسمِ دنیا ہے

مگر یادِ خدا آتی ہے اکثر تنگدستی میں

یہ شیخ و برہمن، یہ رہبرانِ کوئے خود بینی

کہاں سے آ گئے آخر یہ کافر بزمِ ہستی ہیں

جوازِ میکشی اچھا ملا، اے رازؔ کیا کہنا

کہ خود پیرِ شریعت بھی ہے شامل مے پرستی میں

 

 

 

O

 

جب آہِ بے اثر کی تاثیر دیکھتا ہوں

تدبیرِ خود نما کی تقدیر دیکھتا ہوں

بُت خانۂ جہاں کی تقدیر، اللہ اللہ

تخریب دیکھتا ہوں ، تعمیر دیکھتا ہوں

حسنِ نظر کا شاید کوئی فریب ہو گا

اُس کی نظر میں اپنی توقیر دیکھتا ہوں

پڑھتا ہوں جب کبھی میں افسانۂ محبت

قرآنِ زندگی کی تفسیر دیکھتا ہوں

یہ بزمِ شعر و حکمت، یہ مسندِ فضیلت !

میں رازؔ بے ہنر کی تقدیر دیکھتا ہوں

 

 

 

 

O

 

فکرِ دنیا اور عقبیٰ کی پریشانی کے ساتھ

کون جائے سوئے کعبہ کُفرسامانی کے ساتھ

چشمِ ظاہر بیں سمجھ سکتی نہیں اس راز کو

میکشی ہے جُزوِ ایماں ذوقِ روحانی کے ساتھ

خیر، جو کچھ بھی ہو، لیکن اے حریفِ کامیاب

مجھ کو ہمدردی ہے تیری اس پریشانی کے ساتھ

راز یہ طرزِ تکلّم اور یہ بزمِ سخن!

کوئی نسبت بھی ہے یاروں کی غزل خوانی کے ساتھ

 

 

 

 

O

 

پردہ جو خودی کا اٹھ گیا ہے

ذرّہ ذرّہ اک آئینا ہے

کیوں دل سے نکل کے آئے لب پر

وہ راز کہ جانِ مدّعا ہے

تدبیر نہ بن سکی تقدیر

معلوم ہوا کوئی خدا ہے

خاموش زباں نہ ہلنے پائے

ہونے دے جو کچھ بھی ہو رہا ہے

اے رازؔ! کوئی غزل خدارا

محفل پہ جمود چھا رہا ہے

 

 

O

 

دُنیا سے مجھے مطلب، دُنیا تو ہے دیوانی

سُنتا ہوں میں دنیا کی، کرتا ہوں غزل خوانی

اے بے خودیِ اُلفت، اعجاز ہے یہ تیرا

مطلق نہیں اب مجھ کو احساسِ گراں جانی

اک عالمِ حیرت ہے، صورت کدۂ عالم

دیکھو گے اسے جتنا، بڑھ جائے گی حیرانی

اشعار کے پردہ میں اسرارِ حقیقت ہیں

اے رازؔ یہ خوش گوئی، یہ طرزِ غزل خوانی

 

 

 

O

 

اب کیا بتاؤں تم کو میں رازِ عشق بازی

دیکھی بھی ہے کسی نے فطرت کی دلنوازی

او چشمِ مستِ ساقی، یہ تیری مے فروشی

آلودہ ہو نہ جائے، دامانِ پاکبازی

عرفانِ حق و باطل جتنا ہوا ہے مجھ کو

اُتنی ہی ہو گئی ہے دنیا سے بے نیازی

ناکامیوں سے آخر اے رازؔ کیوں ہو بد دل

دیکھی ہے میں نے اکثر قسمت کی چارہ سازی

 

 

 

O

 

جلوہ نما یہ کون سرِ بزمِ ناز ہے

تجھ کو بھی کچھ خبر نگہِ امتیاز ہے؟

ممکن نہیں کہ ہو تجھے حاصل سکونِ دل

اے بے خبر ابھی تو گرفتار آز ہے

جاتا کدھر ہے راہروِ عرصۂ حیات

ایمان و کفر میں بھی تجھے امتیاز ہے؟

بس تو پہنچ چکا درِ رفعت مآب تک

تیری نظر اسیرِ نشیب و فراز ہے

یہ نغمہ ہائے روح فزا، رازؔ، مرحبا

ہر شعر میں نہاں اثرِ جاں نواز ہے

 

 

 

 

O

 

اس بزمِ تماشا میں کیا طرفہ تماشا ہے

حیرت زدۂ جلوہ، ہر دیدۂ بینا ہے

سرگشتۂ دنیا کیوں تقدیر کا شکوا ہے

سوچا ہے کبھی تو نے، کیا تیری تمنّا ہے

جینے کا مزا تجھ کو حاصل ہو تو کیوں کر ہو

صہبائے محبت سے خالی تری مینا ہے

روشن ترے جلووں سے ہے کعبۂ و بُتخانہ

اے شمعِ حرم تجھ سے دُنیا میں اُجالا ہے

اے رازؔ سکونِ دل کیوں کر ہو تجھے حاصل

آباد ترے دل میں امّید کی دُنیا ہے

 

 

 

O

 

کیا کہوں تیری نظر محدود ہے

ورنہ وہ تو ہر جگہ موجود ہے

ناز ہے حسنِ تعلق پر مجھے

میں ہوں ساجد اور وہ مسجود ہے

سعیِ لا حاصل سے آخر فائدہ

کیوں تجھے فکرِ زیان و سود ہے

میر و غالب، آتش و ناسخ کہاں

راز البتّہ ابھی موجود ہے

 

 

 

 

O

 

چشمِ حیرت خیز سے اہلِ نظر دیکھا کیے

دید کے قابل نہ تھی دُنیا، مگر دیکھا کیے

کس طرف جاتی ہے، کیا کرتی ہے آہِ نارسا

شام سے تا صبح، تا حدِ نظر دیکھا کیے

نور و ظلمت حاجبِ نظارۂ باطن رہے

اہلِ ظاہر جلوۂ شام و سحر دیکھا کیے

خوش نظر جتنے تھے پہنچے منزلِ مقصود پر

کم نظر لیکن نگاہِ راہبر دیکھا کیا کیے

عرصۂ ہستی سے گزرا رازؔ میں کچھ اس طرح

میری ہمّت، میری جرأت، ہمسفر دیکھا کیے

 

 

 

 

O

 

اللہ اللہ، کیا نظر کا حسنِ عالمگیر ہے

دیکھتا ہوں جس طرف تنویر ہی تنویر ہے

عقلِ دور اندیش اب واماندۂ تدبیر ہے

کیا اسے تقدیر کہتے ہیں ، یہی تقدیر ہے

ہو چکا جمعیتِ خاطر کا ساماں ہو چکا

عرصۂ ہستی میں برپا شورِ دار و گیر ہے

یاد آتا ہے وطن، لیکن میں جا سکتا نہیں

راز خاکِ کانپور کچھ ایسی دامن گیر ہے

 

 

 

O

 

احساسِ زیست ہے دلِ مضطر لیے ہوئے

آئینۂ خیال ہے جوہر لیے ہوئے

بیٹھا ہوا ہوں گوشۂ عزلت میں مطمئن

رودادِ حسن و عشق کا دفتر لیے ہوئے

آتا نہیں نظر کہیں منزل کا کچھ نشاں

کس سمت جا رہا ہے مقدّر لیے ہوئے

سرمایۂ حیات ہے یہ داغِ آرزو

کیا چیز ہے مرا دلِ مضطر لیے ہوئے

اے رازؔ عرفِ عام میں کہلاتی ہے غزل

تصویرِ زندگی ہے سخنور لیے ہوئے

 

 

O

 

فائدہ کیا ہے خود نمائی سے

لیجئے کام بے ریائی سے

پارسا اور میں ، ارے توبہ!

رند کو کام پارسائی سے؟

ایک عالم میں ہو گیا رُسوا

اپنی فطرت کی بے ریائی سے

آرزو اب یہی ہے دل میں رازؔ

کاش ملتا کبھی فضائی٭سے

 

 

 

O

 

پی کر شرابِ عشق جو سرشار ہو گئے

بارِ غمِ جہاں سے سبک سار ہو گئے

لب آشنا جو خواہشِ دیدار ہو گئی

پہلے سے بھی زیادہ وہ خوددار ہو گئے

راہِ طلب میں حدِ ادب سدّ راہ تھی

آگے قدم بڑھانے سے ناچار ہو گئے

دُنیا ہمارے حال کی جُویا ہے کس لئے

عُزلت گزیں ہوئے کہ گنہگار ہو گئے

پابندیوں کی حد ہی میں آزاد ہم ہیں رازؔ

آگے قدم بڑھا کہ گرفتار ہو گئے

 

 

 

O

حسنِ فطرت ہے یہاں جلوہ نما میرے لئے

ذرّہ ذرّہ دہر کا ہے آئنا میرے لئے

اک ترا جلوہ ہے جس کی دید میں مصروف ہوں

ورنہ بزمِ دہر میں ہے اور کیا میرے لئے

ایک جلوہ اور اتنی صورتیں ، شانِ خدا

منظرِ بُت خانہ ہے حیرت فزا میرے لئے

بندۂ اہلِ محبت ہوں ، صداقت کیش ہوں

ایک ہیں ناآشنا و آشنا میرے لئے

بندۂ حلقہ بگوشِ کاتبِ تقدیر ہوں

شکوۂ تقدیر ہے ننگِ رضا میرے لئے

مرحبا، اے دیدۂ بینا، ترا حسنِ نظر

شمعِ بتخانہ بھی ہے قبلہ نما میرے لئے

نکتہ سنجِ بزمِ معنی ہوں ازل سے رازؔ میں

نغمۂ سازِ سخن ہے جاں فزا میرے لئے

 

 

 

O

 

مایۂ زیست و جانِ راحت ہے

ہائے کیا چیز یہ محبّت ہے

دوست دشمن ہیں یا ہیں دشمن دوست

کیا زمانہ ہے، کیا قیامت ہے

جلوۂ بزمِ دہر، اے توبہ

میری نظروں میں حسنِ فطرت ہے

راز دارِ حریمِ جانانہ….!

مثلِ تصویر محوِ حیرت ہے

راز یہ ذوقِ شعر گوئی بھی

برسبیلِ اصولِ فطرت ہے

 

 

 

O

 

کیوں پوچھتے ہو کہ حال کیا ہے

اچّھا ہوں یہ قیل و قال کیا ہے

کیا کام خودی و خودسری سے

بندہ ہوں ، مری مجال کیا ہے

کیوں کر کہوں راز کی ہے یہ بات

میں کون ہوں اور حال کیا ہے

اے رازؔ یہی ہے بے کمالی

ورنہ مجھ میں کمال کیا ہے

 

 

O

 

شکایت اور پھر نازِ نگاہِ روح پرور کی

یقیناً رحم کے قابل ہے حالت قلبِ مضطر کی

طوافِ کوچۂ دل کر رہا ہوں ایک مدّت سے

نظر آ جائے وہ تو ختم ہو گردش مقدّر کی

تو ہے مختارِ کُل میں ہوں قناعت کیش اے ساقی!

مگر کچھ کہہ رہی ہے تشنہ کامی میرے ساغر کی

مجھے دعوائے خوش گوئی نہیں اے رازؔ محفل میں

کہ خوش آیندہ ہے طرزِ تکلّم ہر سخنور کی

 

 

 

O

 

خود نمائی ہے، خود پرستی ہے

واہ کیا رنگِ بزمِ ہستی ہے

کیا کہا ایک بار پھر کہنا

خود پرستی بھی حق پرستی ہے

اک فریبِ نظر ہے سر تا سر

ہے بلندی کہیں نہ پستی ہے

صرف امّید پر ہے یہ قائم

قصرِ دنیا کی کوئی ہستی ہے

سر بسجدہ ہے بتکدے میں رازؔ

بس یہی حدِ حق پرستی ہے

 

 

O

 

کون کہتا ہے  کہ دُنیا راز ہے

یہ تو اس کی جلوہ گاہِ ناز ہے

کیا بتاؤں تجھ کو وجہِ میکشی

بات کہنے کی نہیں ، اک راز ہے

جان دینی بھی نہیں مشکل مجھے

کتنا دلکش عشق کا آغاز ہے

خودغرض ہے برہمن بھی شیخ بھی

ایک دنیا، ایک عقبیٰ ساز ہے

’’ہست چیزے ماورائے شاعری‘‘

نغمہ پردازِ حقیقت راز ہے

 

O

یہ شانِ خود نمائی، یہ جوشِ خود پرستی

دیوانہ ہو گیا ہے او ننگِ بزمِ ہستی؟

سُنتا ہوں آج کل ہے صہبائے عشق سستی

صہبائے عشق؟ توبہ توبہ، ہوس پرستی

کیا بات کہہ رہا ہے، تو کس سے کہہ رہا ہے

دنیا سے اٹھ چکی ہے اے رازؔ حق پرستی

O

کیا پوچھتے ہو نماز کیا ہے

واقف نہیں تم نیاز کیا ہے؟

رندی ہے اساسِ پاکبازی

پینے سے پھر احتراز کیا ہے

کچھ پاسِ ادب ہے، ورنہ واللہ

یہ چرخ، یہ فتنہ ساز کیا ہے

تو اور حریفِ پارسائی

اے رازؔ بتا یہ راز کیا ہے

 

O

 

دَورِ فلک نہیں ہے یہ دَورِ بہار ہے

حق کیش و حق نیوش ہر اک بادہ خوار ہے

تمہیدِ داستانِ محبت نہ پوچھئے

تکمیلِ آرزو کا ابھی انتظار ہے

اچّھا فریب کار سہی حسنِ خود نما

اپنی نگاہ پر تو مجھے اعتبار ہے

الزامِ اختیار کی تردید کیا کروں

وہ جانتا ہے جتنا مجھے اختیار ہے

بے شک وہ تلخ گو ہے، مگر بد زباں نہیں

اے خوش کلام، رازؔ صداقت شعار ہے

 

 

O

 

بے آب و رنگِ مطلق دنیائے رنگ و بو ہے

ساقی کہاں ہے لانا وہ گُل جو شعلہ رو ہے

اہلِ نگاہِ گلشن کب سے ہیں گُل بدامن

صد حیف! تو ابھی تک پابندِ رنگ و بو ہے

میں اور فکرِ دُنیا ، میں اور فکرِ عقبیٰ

محدود کیا اسی تک دنیائے آرزو ہے

پیشِ نظر ہیں ہر سو صد جلوہ ہائے معنی

لیکن نظر ابھی تک سرگرمِ جستجو ہے

اربابِ پاک باطن اے رازؔ کیا سُنیں گے

بے لطف ہے یہ نغمہ، حق ہے نہ اس میں ہو ہے

 

 

 

 

O

یہی ضد ہے تو اچھا اب سُنو تم داستاں میری

مگر کیا اہلِ محفل بھی سمجھتے ہیں زباں میری

مرے آتے ہی ٹھنڈی پڑ گئی کیوں گرمیِ محفل

حریفِ خوش بیاں کیا کہہ رہا تھا داستاں میری

خدا کا خوف، اے توبہ، معاذ اللہ، معاذ اللہ

محبت کیش ہوں میں ، زندگی ہے جاوداں میری

نوائے راز اور یوں انجمن آرائے غربت ہو

خلیق(١) و عبقری  (٢) شاید سمجھتے ہیں زباں میری

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

١۔فیض آبادی     ٢۔بریلوی

 

 

 

 

O

 

فریب آگیں نگارِ دہر کی جلوہ طرازی ہے

بظاہر اک حقیقت ہے، حقیقت میں مجازی ہے

نہ ہو برہم، ترے قرباں ، نگاہِ ساقیِ رعنا

ابھی تو تشنۂ تکمیل ذوقِ پاکبازی ہے

بظاہر کارِ رنداں ہے، مگر اب کیا کہوں تم سے

محبت جس کو کہتے ہیں ، وہ حسنِ پاکبازی ہے

کہاں میں اور کہاں حسنِ تکلّم، رازؔ کیا کہئے

نگاہِ آفتابِ عشق کی ذرّہ نوازی ہے

 

 

 

O

 

فرصت ملی جو دَورِ مہ و آفتاب سے

پوچھوں گا رازِ دہر فضیلت مآب سے

حلقہ بگوشِ حسنِ محبت نواز ہوں

آزاد ہوں قیودِ جہانِ خراب سے

وہ بے نقاب جلوہ گرِ بزمِ ناز ہے

اب آنکھ تو ملائے کوئی آفتاب سے

اسرارِ بیخودی و خودی مجھ سے پوچھئے

واقف ہو میں رموزِ مہ و آفتاب سے

کیا واقعی نیاز منش ہیں جنابِ رازؔ

اچھا کبھی ملیں گے فضیلت مآب سے

 

 

 

 

O

 

ہنوز بادۂ دوشیں کا ہے خمار مجھے

نویدِ کیف نہ دے ساقیِ بہار مجھے

کرشمہ سازیِ چشمِ کرم کو کیا کہئے

نہ پوچھ، کس نے بنایا ہے میگسار مجھے

حریفِ جبر کہوں یا شریکِ قدر اس کو

بہ لطفِ خاص دیا ہے جو اختیار مجھے

ہنوز روئے حقیقت پہ ہے نقابِ مجاز

ہنوز چشمِ کرم کا ہے انتظار مجھے

مقیمِ دشتِ جبل پور ہوں ، مگر اے رازؔ

پیامِ اہلِ وطن کا ہے انتظار مجھے

 

O

ساقی مجھے پینے سے تو پرہیز نہیں ہے

گلشن کی ہوا آج طرب خیز نہیں ہے

میخانۂ الفت ہے کہ فردوسِ مجسم

اس بزم میں زاہد کو بھی پرہیز نہیں ہے

کیا اور بھی ہے اور کوئی ساغرِ خوش کیف

اے رازؔ یہ گل رنگ تو کچھ تیز نہیں ہے

O

کیا یہ دَورِ نرگسِ مستانہ ہے

محتسب کے ہاتھ میں پیمانہ ہے

کچھ نہیں ، کچھ بھی نہیں رازِ حیات

صرف حسن و عشق کا افسانہ ہے

سوز در دل، آہ بر لب، خستہ حال

دیکھنا تو، کون یہ دیوانہ ہے

کم نظر ہے رازؔ، اے قرباں شوم

کس قدر دلچسپ یہ افسانہ ہے

 

O

 

عشق میں جو خراب ہوتا ہے

بس وہی کامیاب ہوتا ہے

اک ادا ہے ادائے دلداری

دوستوں پر عتاب ہوتا ہے

زندگی ہے تغیّرات کا نام

روز اک انقلاب ہوتا ہے

بے غرض جو کبھی کیا جائے

بس وہ کارِ ثواب ہوتا ہے

کم نظر میری میکشی پہ نہ جا

عیب میں بھی صواب ہوتا ہے

کیا کہوں تجھ سے ناصحِ مشفق

کیا کوئی خود خراب ہوتا ہے

راز ہشیار، ہوشیار اے رازؔ

دورِ صہبائے ناب ہوتا ہے

 

 

O

 

کسی کو غیر سمجھے وہ کسی کو راز داں سمجھے

محبت کی حقیقت کو کہاں اہلِ جہاں سمجھے

یہ وہ منزل ہے جس میں خودفراموشی کی حاجت ہے

خودی کی حد سے جو نکلے، وہی رازِ جہاں سمجھے

بہت سمجھے تو بس اتنا کہ کافر کہہ دیا مجھ کو

مذاقِ حق پرستی کو کہاں اہلِ جہاں سمجھے

نگاہِ ناز کی افسانہ سازی، اے معاذ اللہ

کوئی حسنِ ادا دیکھے، کوئی طرزِ بیاں سمجھے

زبانِ شعر میں اے رازؔ دل کی بات کہتا ہوں

کوئی اب بے ہنر سمجھے مجھے یا نکتہ داں سمجھے

 

 

 

 

O

 

نہ احساسِ گراں جانی، نہ فکرِ شادمانی ہے

خدارا ہم نشیں ، یہ زندگی کیا زندگانی ہے

اگر حسنِ عمل کا نام اصلِ زندگانی ہے

تو میری نامرادی بھی حریفِ کامرانی ہے

ابھی واقف نہیں دنیا محبت کی حقیقت سے

حقیقت میں محبت ہی تو حسنِ زندگانی ہے

خموش اے رازؔ، یہ بزمِ سخن، یہ محفلِ رنگیں

عجب بے کیف ظالم، تیری طرزِ شعر خوانی ہے

 

 

 

 

 

O

 

عجب رنگ لائی مری بے گناہی

نگاہوں میں ہے جلوۂ عذر خواہی

گناہِ محبت ہے فطرت میں داخل

گناہِ محبت کی کیا عذرخواہی

زمانہ سے کرتا ہوں قطعِ تعلق

جہاں تک بنی، رسمِ دنیا نباہی

تصرف میں میرے نظامِ جہاں ہے

فقیری کہو اس کو یا بادشاہی

پسند آئے گی رازؔ دُنیا کو کیوں کر

تری صاف گوئی، تری خوش نگاہی

 

 

O

 

کیفِ شرابِ عشق سے جب بیخودی نہ تھی

کہنے کو زندگی تھی، مگر زندگی نہ تھی

میخانۂ جہاں میں کبھی میں نے پی نہ تھی

ممنونِ آبِ تلخ مری بیخودی نہ تھی

شاید گناہِ عشق بھی کوئی گناہ ہو

مجھ کو تو اس گناہ پہ شرمندگی نہ تھی

شکرِ خدا و پرسشِ کافر کا شکریہ

اتنی تو خوش نصیب مری بیکسی نہ تھی

الزام ہے یہ رازؔ حقیقت نواز پر

خوددار وہ ضرور تھا لیکن خودی نہ تھی

 

 

 

 

O

 

جفائے باغباں رکھ دی، بلائے آسماں رکھ دی

مرے حصہ میں فطرت نے بہارِ جاوداں رکھ دی

سُناؤں کیا کسی کو عشرتِ رفتہ کا افسانہ

بیاضِ داستانِ دل، خدا جانے کہاں رکھ دی

خبر کرد ے کوئی آوارگانِ دشتِ غربت کو

کہ میں نے پھر گلستاں میں بِنائے آشیاں رکھ دی

خمارِ دوش و فکر دین و دنیا، کیا قیامت ہے

خدارا، اے مرے ساقی، مئے باقی کہاں رکھ دی

محبت اور یہ سوزِ محبت رازؔ کیا کہنا

خدا نے میرے دل میں دولتِ کون و مکاں رکھ دی

 

 

 

 

O

 

انیسِ سوز ہوتی ہے، حریفِ ساز ہوتی ہے

ہر اک پردہ میں نغمہ زن تری آواز ہوتی ہے

کہاں ہے تو، کہیں بھی ہو، مگر یہ جانتا ہوں میں

کہ جو دل سے نکلتی ہے تری آواز ہوتی ہے

اسیرانِ قفس کو کاش یہ احساس ہو جائے

شکستہ بازوؤں میں قوتِ پرواز ہوتی ہے

بہت دشوار ہے اسرارِ فطرت کو سمجھ لینا

صدائے سازِ دل اکثر سراپا راز ہوتی ہے

بظاہر نغمہ زن ہوتا ہے رازؔ بے نوا لیکن

حقیقت یہ ہے خود فطرت نوا پرداز ہوتی ہے

 

 

O

 

سکونِ دل نہیں ملتا، پریشانی نہیں جاتی

اُمید و آرزو کی فتنہ سامانی نہیں جاتی

حقیقت اور دنیا کی حقیقت کیا فسانہ ہے

مگر اہلِ نظر کی بات ہی مانی نہیں جاتی

یہ مانا کامیابِ آرزو ہونا نہیں مشکل

مگر پیرِ طریقت کی تن آسانی نہیں جاتی

کوئی مومن بتاتا ہے، کوئی کافر سمجھتا ہے

مگر جو کچھ حقیقت ہے وہ پہچانی نہیں جاتی

سراپا سوز ہوں ، میں ہمنوائے سازِ فطرت ہوں

تعجب ہے مری آواز پہچانی نہیں جاتی

نہ وہ شانِ نوا باقی، نہ وہ حسنِ ادا باقی

مگر اک رازؔ کی طرزِ غزل خوانی نہیں جاتی

 


منظومات

 

 

 

               الحمد للّٰہ

 

 

سحر کو مطلعِ مشرق سے جب سورج نکلتا ہے

اُفق سے نورِ بے پایاں کا اک چشمہ ابلتا ہے

چمن میں سبزۂ خوابیدہ بھی کروٹ بدلتا ہے

ہر اک غنچہ چٹکنے کے لئے پیہم مچلتا ہے

تری رحمت سے دَورِ بادۂ گلرنگ چلتا ہے

جمالِ شام جب رنگِ شفق بن کر نکھرتا ہے

نئے انداز سے ہر منظرِ فطرت سنورتا ہے

قمر سطحِ فلک پر ناز سے پھر رقص کر تا ہے

ستارہ ڈوبتا ہے کوئی، تو کوئی ابھرتا ہے

ترا میکش بھی تیرے نام کا اک جام بھرتا ہے

ترے انوار سے معمور ہے ہستی کا ویرانہ

تری الفت نے دنیا کو بنا رکھا ہے دیوانہ

بحمد اللہ میں بھی ہوں شریکِ دورِ میخانہ

مئے توحید سے لبریز ہے میرا بھی پیمانہ

کہ تیری یاد ہے دل میں ، زباں پر تیرا افسانہ

 

 

 

               محبت

 

 

پلا اے ساقیِ بزمِ محبت

فسردہ ہو چلا اب جوشِ الفت

دگرگوں ہو گیا اب رنگِ محفل

شکستہ ہو نہ جائے ساغرِ دل

خُمارِ دوش ہے اب روح فرسا

مکدّر ہے فضائے بزمِ دُنیا

کوئی ساغر بنامِ حق پرستی

وہ ساغر جو بڑھا دے کیفِ ہستی

وہ جامِ آتشیں جانِ محبت

جو چمکاتا ہے حسنِ روئے فطرت

بدل دیتا ہے نظمِ بزمِ ہستی

سکھاتا ہے خودی کو حق پرستی

دکھاتا ہے جمالِ آئنہ ساز

بتاتا ہے حریمِ ناز کے راز

منور ہوتے ہیں جس سے دل و جاں

بنا دیتا ہے جو انساں کو انساں

وہ ساغر ہاں وہی ساغر خدارا

محبت خیز ہے جس کا نظارا

شرابِ عشق سے مخمور کر دے

خیالِ ماسوا کو دور کر دے

بیاں کرنی ہے رودادِ محبت

دکھانی ہے مجھے اس کی حقیقت

محبت شمعِ بزمِ انس و جاں ہے

محبت حسنِ فطرت بے گماں ہے

محبت ہے بِنائے بزمِ امکاں

محبت ہے مدارِ چرخِ گرداں

محبت نغمۂ سازِ جہاں ہے

محبت پردۂ رازِ جہاں ہے

محبت پرتوِ نورِ ازل ہے

محبت شعلۂ طورِ ازل ہے

محبت شاہدِ اہلِ نظر ہے

محبت حق نما و حق نگر ہے

محبت خضرِ راہِ اہلِ دل ہے

محبت سجدہ گاہِ اہلِ دل ہے

محبت قبلۂ امن و اماں ہے

محبت کعبۂ پیر و جواں ہے

محبت حسنِ دل کا آئنا ہے

محبت جلوۂ معنی نما ہے

محبت کی حقیقت ہے شریعت

محبت کی شریعت ہے حقیقت

اگر ناخوش نہ ہو پیرِ طریقت

تو کہہ دوں برملا رازِ محبت

ذرا سی بات طرفہ ماجرا ہے

محبت در حقیقت خود خدا ہے

 

 

 

               قلبِ شاعر

 

 

اللہ اللہ، یہ دلِ درد آشنا و بیقرار

کافرِ بدکیش بھی ہے، مومنِ دیوانہ بھی

بندۂ سوزِ محبت، عاشقِ حسن و جمال

شمعِ بزمِ عشق بھی ہے ،حسن کا پروانہ بھی

خوگرِ ذوقِ تمنّا، بے نیازِ آرزو

کعبۂ امّید بھی ہے، یاس کا بُت خانہ بھی

مشرقِ مہرِ مسرّت، مصدرِ رنج و الم

روکشِ بزمِ طرب ہے، غیرتِ غم خانہ بھی

واقفِ رازِ جہاں ، بیگانۂ رازِ حیات

مطلعِ انوارِ فطرت بھی ہے، ظلمت خانہ بھی

محشرِ آہ و فغاں ، گہوارۂ صبر و سکوں

انجمن کی انجمن ہے، اور خلوت خانہ بھی

میگسارِ حبِّ دنیا، میکشِ فکرِ مآل

غافل و دیوانہ بھی ہے، عاقل و فرزانہ بھی

حق پرست و حق نواز و خودپرست و خود نما

میکشِ خوش نوش بھی ہے، دُرد کا دیوانہ بھی

ماہتابِ دلربائی، آفتابِ زندگی

جلوہ گاہِ حسن بھی ہے، عشق کا کاشانہ بھی

با ہمہ و بے ہمہ ہے، با نیاز و بے نیاز

آشنائے ناز بھی ہے، ناز سے بیگانہ بھی

الغرض سب کچھ ہے ظالم اور پھر کچھ بھی نہیں

کیا نرالی چیز ہے میرا دلِ دیوانہ بھی

 

 

               ترکِ تعلق

 

 

نہ پوچھ مجھ سے فسانہ غمِ محبت کا

کہ یہ فسانہ کسی کو سُنا نہیں سکتا

لگی ہے آگ مرے دل میں جل رہا ہوں میں

یہ آگ وہ ہے کہ جس کو بُجھا نہیں سکتا

نہ چھیڑ مجھ کو، مرے ہمدم و رفیق، نہ چھیڑ

کسی کو رازِ محبت بتا نہیں سکتا

خداہے عالم و دانا، مگر خدا کی قسم

خدا کو بھی میں دل اپنا دِکھا نہیں سکتا

نہ پوچھ مجھ سے سبب میری کم نگاہی کا

حریمِ راز کا پردہ اُٹھا نہیں سکتا

زمانے بھر میں ہے مشہور میری کم ظرفی

کہ سوزِ غم کو میں دل میں چھپا نہیں سکتا

قصوروار ہوں بیشک ، سزا کے لائق ہوں

جبیں سے داغِ محبت مٹا نہیں سکتا

نہ دیکھ تو مری جانب، نہ دیکھ اے ہمدم!

تری نگاہ کی میں تاب لا نہیں سکتا

یہ جانتا ہوں کہ میں تیرے بارِ احساں سے

تمام عمر کبھی سر اُٹھا نہیں سکتا

تری نگاہِ کرم کا ہوں بندۂ بے دام

مگر جو دل میں ہے، وہ لب پہ لا نہیں سکتا

مری نگاہ میں اب جلوۂ حقیقت ہے

فریبِ حسنِ محبت میں کھا نہیں سکتا

سلام اُن کو، ہزاروں سلام ہوں اُن پر

کہ جن کا نام زباں پر میں لا نہیں سکتا

سلام اہلِ وفا کو، سلام دنیا کو

کہ اب کسی کو میں اپنا بنا نہیں سکتا

 

 

               راز و نیاز

 

تمہید

 

الٰہی! خیر، یہ کیا ماجرا ہے

دگرگوں رنگِ محفل ہو گیا ہے

وہ محفل، محفلِ حسن و محبت

جہاں تھی جلوہ گستر شمعِ اُلفت

وہ شمعِ سوز آگیں ، مہر پرور

ضیابارِ حقیقت تھی جو یکسر

منور جس کے جلوے سے تھی محفل

جوابِ طور تھا کاشانۂ دل

ہوئی ہے اس کو اب خلوت سے نفرت

بنی ہے رونقِ بازارِ اُلفت

کچھ اس انداز سے جلوہ نما ہے

نظر بیگانۂ حسنِ حیا ہے

تکلم میں ہے شانِ خود فروشی

تکلف ہے سراسر گرم جوشی

وفاداری بہ رنگِ مغربی ہے

جفا کیشی کی شاہد خودسری ہے

بڑھا ہے ایسا شوقِ ہرزہ کاری

وبالِ جاں ہوئی ہے خانہ داری

نظام زندگی برہم ہوا ہے

سکونِ دل کا اب حافظ خُدا ہے

رفیقِ زندگی کیوں سرگراں ہے

ترا قصّہ نہیں ، یہ داستاں ہے

فسانہ ہے یہ اربابِ جہاں کا

تجھے دھوکا ہے سرّ دلبراں کا

مجھے معلوم ہے رازِ حقیقت

مسلّم ہے ترا صدقِ محبت

مروّت کیش ہے تو، باوفا ہے

خلوص آمیز تیری ہر ادا ہے

مگر اک بات، اچھا پھرکہوں گا

قصیدہ تیری سیرت کا پڑھوں گا

 

تقریر

 

رفیقِ زندگی! اللہ اکبر

قیامت خیز ہے دُنیا کا منظر

عجب اک انقلاب آیا ہوا ہے

جسے دیکھو وہ گھبرایا ہوا ہے

کوئی مستِ شرابِ خودسری ہے

ہوائے ’’ہم چو مَن‘‘ سر میں بھری ہے

کوئی خود بیں ہے، کوئی خود نما ہے

برائے نام کچھ ذکرِ خدا ہے

محبت دہر سے عنقا ہوئی ہے

مروت اک تماشا بن گئی ہے

وفاداری ہے افسانوں میں پنہاں

جفا کاری کا دلدادہ ہے انساں

کہاں باقی ہے اب وہ صدقِ الفت

ریاکاری پہ قائم ہے محبت

فریب آمیز ہے حسنِ تکلّم

شرر آلود ہے برقِ تبسّم

تکلف ہے سراسر خوش بیانی

تصنّع ہے فقط شیریں بیانی

غرض دُنیا ہے اور مطلب پرستی

یہی ہے کائناتِ بزمِ ہستی!

غلط ہے کیا کہا؟ میری شکایت

بہت ہی بے مزا ہے یہ حکایت

مگر یہ بات سچّی اور کھری ہے

کہ دنیا مبتلائے خودسری ہے

مثالاً آج کل عورت کی حالت

نہیں کیا موجبِ افسوس و حیرت؟

وہ عورت ، وہ شریکِ زندگانی

مجسّم پیکرِ حسنِ معانی

انیس و غم گسار و نیک سیرت

رفیقِ یاس و حرمان و مصیبت

وفا خو تھی، صداقت آشنا تھی

محب کیش تھی وہ، بے ریا تھی

وہ عورت اب وبالِ جاں ہوئی ہے

سراسر رہزنِ ایماں ہوئی ہے

نظر آوارۂ کوئے خودی ہے

جبیں آئینۂ روئے خودی ہے

ہوئی ہے مبتلائے خود پرستی

تزلزل میں ہے اب ایوانِ ہستی

کرشمہ ہے ہوائے مغربی کا

خدا حافظ ہے شمعِ مشرقی کا

زباں کو روکئے اپنی خدارا!

انہیں باتوں سے دل ہے پارہ پارا

خدا سمجھے، یہ کوئی شاعری ہے

حلاوت کے عوض تلخی بھری ہے

پڑیں پتّھر اس اندازِ بیاں پر

یہ حملے اور پھر اک بے زباں پر

کہاں تک اس طرح طعنے سہوں گی

بڑھے گی بات اگر میں کچھ کہوں گی

کسی سے کیا کہوں رازِ حقیقت

یہ باتیں اور دعوائے محبت!

 

ناظرہ

 

کبھی آتا ہے غصّہ آسماں پر

کبھی پیشِ نظر ہے محفلِ دوش

کبھی ہیں فکرِ فردا سے ہم آغوش

عجب اک عالمِ بیم و رجا ہے

خدا کے فضل کا بس آسرا ہے

نہ گھر میں چین ملتا ہے نہ باہر

ٹھکانا ہی نہیں گویا کہیں پر

فضائے بزمِ راحت ہے نظرسوز

صدائے سازِ الفت ہے غم آموز

مکاں ویراں ہے، بے پروا مکیں ہے

حریفِ آسماں گھر کی زمیں ہے

در و دیوار ہیں خاموش یکسر

قیامت ہے یہ وحشت خیز منظر

حریمِ ناز میں ظلمت نہاں ہے

چراغِ خانۂ الفت کہاں ہے؟

اسی کا نام ہے شاید ترقی

کہ خانم کو نہیں کچھ فکر گھر کی

خیالِ بیش و کم سے وہ بَری ہے

نمائش کی ہوا سر میں بھری ہے

یقیناً اگلے وقتوں کی ہے یہ بات

محافظ تھی وہ اپنے گھر کی دن رات

مگر یہ دَورِ تہذیب و ترقی

اجازت ہی نہیں دیتا ہے اس کی

کہ اپنے گھر کی بھی اُس کو خبر ہو

نظامِ زندگی پر بھی نظر ہو

اُسے مطلب نہیں کچھ این و آں سے

اُسے فرصت کہاں سیرِ جہاں سے

یقیناً اس کا حق ہے سیرِ گلشن

اگر جلتا ہے، جل جائے نشیمن

یقیناً اس کا حق ہے دیدِ عالم

کسی کے درد و غم کا اس کو کیا غم

اُسے پروائے ننگ و نام کیا ہے

اُسے عہدِ وفا سے کام کیا ہے

بہت اچھا، میں اتنی کم نظر ہوں

بہت بہتر، میں ایسی بے ہُنر ہوں

بڑی خودبیں ، بڑی خود کام ہوں میں

زمانے میں بہت بدنام ہوں میں

بڑی کم ظرف ہوں میں ، خود نما ہوں

بہت کج خلق ہوں میں ، بے وفا ہوں

مجسّم عیب، سرتاپا خطا ہوں

خودی و خودسری کا آئنا ہوں

مگر تم، اے مرے سرتاج، تم بھی

کبھی کرتے ہو دلداری کسی کی؟

 

شکر رنجی

 

رفیقِ زندگی! سرمایۂ جاں

انیسِ خاطرِ رازِ پریشاں

بڑی خوش فہم ہے تو خوش نظر ہے

رموزِ این و آں سے با خبر ہے

میں قائل ہوں تری فہمِ رسا کا

تری فہمِ رسا، عقدہ کشا کا

تو واقف ہے مری فکر و نظر سے

صدائے سازِ دل، سوزِ جگر ہے

جہاں میں تو ہی میری راز داں ہے

مرا ہر رازِ دل تجھ پر عیاں ہے

محبت کیش ہوں یا بیوفا ہوں

نیاز آگیں ہوں یا میں خود نما ہوں

سراپا سوز ہوں یا ساز یکسر

مجسّم آئنہ یا راز یکسر

الٰہی خیر! آخر راز کیا ہے

جفا ہے، کیا کوئی طرزِ وفا ہے

یہ تمہید اور یہ شانِ تکلّم

یہ اندازِ سخن، جانِ تکلّم

بتاؤ تو سہی کچھ، بات کیا ہے

مری تعریف کا دفتر کھلا ہے

میں اس تعریف کے لائق نہیں ہوں

میں اس توصیف کی شائق نہیں ہوں

یقیناً کچھ نہ کچھ ہے راز اس میں

شمار اب تک کیا ہے مجھ کو کس میں

معمّا ہے، پہیلی ہے، یہ کیا ہے

ہوئی سرزد کوئی مجھ سے خطا ہے؟

نہیں ایسا نہیں ، ہرگز نہیں ہے

مرا دل آج کچھ اندوہگیں ہے

سمجھ میں کچھ نہیں آتا کہ کیا ہے

حقیقت یا فریبِ ناروا ہے

عجب بے رنگ سا ہے رنگِ محفل

سمجھنا ہو گیا ہے اُس کا مشکل

خودی ہے یا مجسّم حق پرستی

معمّا سی ہے کچھ عورت کی ہستی

کبھی اک پیکرِ مہر و وفا ہے

سراپا انکسار و التجا ہے

کبھی تصویر ہے جور و جفا کی

کبھی تفسیر ہے قہرِ خدا کی

کبھی خنداں ہے مثلِ لالۂ و گل

کبھی نالہ سرا ہے مثلِ بلبل

کبھی خاموش مثلِ بے زباں ہے

کبھی ہنگامہ آرائے جہاں ہے

میں ا ب سمجھی ،میں اب سمجھی حقیقت

جزاک اللہ، یہ لطف و عنایت

بڑے تم نکتہ رس ہو، خوش نظر ہو

نہایت دور بیں ہو، حق نگر ہو

مگر افسوس، یہ نغمہ سرائی

خودی ہے یا سراپا خودستائی

مری کمزوریوں پر تو نظر ہے

مگر اپنی بھی کچھ تم کو خبر ہے؟

بصیرت ہو تو کھل جائے حقیقت

معمّا مرد ہوتا ہے کہ عورت!

 

 

ملاپ

 

رفیقِ زندگی دلگیر کیوں ہے؟

سراپا سوز کی تصویر کیوں ہے؟

غضب آلود چشمِ سرمگیں ہے

شرر افشاں ہر اک چینِ جبیں ہے

جمالِ دلنشیں ، آتش بجاں ہے

نگاہِ مہر میں برقِ تپاں ہے

ادائے دلبری ہے قہر ساماں

نیازِ ناز ہے شعلہ بداماں

پریشاں گیسوئے عنبر فشاں ہے

لبِ گل رنگ پر دودِ فغاں ہے

تکلّم مظہرِ شانِ جلالی

تبسّم بے نیازِ خوش جمالی

نظر بیگانۂ مہر و محبت

ستم پرور، جفا آگیں ، قیامت

ذرا سی بات پر یہ برہمی ہے

مگر اس برہمی میں دلکشی ہے

میں قرباں ، یہ ادائے بے نیازی

میں صدقے، یہ طریقِ دلنوازی

خدارا اک نگاہِ قہر آگیں

شرابِ تلخ بھی ہوتی ہے شیریں

وہ آئی، اب ہنسی آئی کسی کو

کوئی روکے تو دیکھوں اس ہنسی کو

چلو، جاؤ، ہٹو، مجھ سے غرض کیا

معمّا ہوں معمّا میں سراپا!

مگر یہ عقدہ یوں تو حل نہ ہو گا

بتاتی ہوں ابھی میں راز اس کا

بہت بیباک ہوں ، بیباک ہوں میں

بڑی چالاک ہوں ، چالاک ہوں میں

مری فطرت مرے رُخ سے عیاں ہے

مری طینت حریفِ آسماں ہے

خودی ہوں ، بیخودی ہوں ، خود سری ہوں

جفا جُو ہوں ، وفا سے میں بَری ہوں

بڑی مکّار ہوں ، عیّار ہوں میں

بڑی خود کام ہوں ، خودکار ہوں میں

ستم گاری سے ہے مجھ کو محبت

ریاکاری ہے گویا میری فطرت

بڑی بے رحم ہوں ،جلّاد ہوں میں

بڑی بے درد ہوں ، فولاد ہوں میں

ڈرو مجھ سے، مری برقِ نظر سے

مری چشمِ غضب، جادو اثر سے

کہیں ایسا نہ ہو مسحور ہو کر

کرو سجدے کسی کے آستاں پر

بڑی خوددار ہوں ، خوش کار ہوں میں

بڑی فرزانہ و ہشیار ہوں میں

میں واقف ہوں کسی کے رازِ دل سے

نگاہِ شوق و سوز و سازِ دل سے

حقیقت ہے، نہیں یہ خود فروشی

’’جوابِ جاہلاں باشد خموشی‘‘

نہ مانو گے، نہ مانو گے مگر تم

بتاؤں کس قدر ہو خوش نظر تم؟

سنو گے اور کچھ میری زباں سے

زبانِ نکتہ دان و خوش بیاں سے

دکھاؤں میں اگر شانِ جلالی

مٹا دوں سب کسی کی خوش جمالی

نظامِ دہر پر قبضہ ہے میرا

بدل سکتی ہوں میں دُنیا کا نقشا

دکھا سکتی ہوں شانِ کبریائی

مٹا سکتی ہوں مردوں کی خدائی

بنا سکتی ہوں اک تازہ جہاں میں

جہانِ تازہ و رشکِ جناں میں

کھلا سکتی ہوں گل ہائے معانی

دکھا سکتی ہوں حسنِ خوش بیانی

سکھا سکتی ہوں آدابِ محبت

بتا سکتی ہوں اسرارِ حقیقت

مری فطرت میں وہ سوزِ نہاں ہے

کہ جس کے ساز پر رقصاں جہاں ہے

نہ مانو گے، نہ مانو ، خیر، اچھا

انہیں باتوں سے دل ہوتا ہے کھٹّا

بڑے آئے کہیں کے ناز بردار

پڑے اس ناز برداری پہ پھٹکار

ستانے سے مجھے حاصل ہوا کیا

جلانے سے مجھے تم کو ملا کیا؟

نیاز و ناز، توبہ، یہ معمّا

ہوا ہے حل کبھی مجھ سے، نہ ہو گا

جمالِ دلنشیں کہتے ہیں کس کو

نگاہِ سرمگیں کہتے ہیں کس کو

ادا کیا، ناز کیا، انداز کیا ہے

یہ عشوہ اور غمزہ کیا بلا ہے

مجسّم شعر ہوں ، نغمہ ہوں ، لَے ہوں

کوئی سازِ طرب ہوں میں کہ نَے ہوں ؟

قصیدہ ہوں ، غزل ہوں ، یا رباعی

تو گویا صنف ہوں اک شاعری کی

تمہیں حاصل اگر حسنِ بیاں ہے

تو میرے منہ میں بھی گویا زباں ہے

بس اب خاموش ہو جاؤ خدارا !

کہیں پھر ہو نہ کوئی بات پیدا

 

 

               مشرقی خاتون سے

 

 

اے کہ تجھ پر منحصر جمعیتِ بزمِ حیات

پیکرِہستی میں تو روحِ پریشانی نہ بن

مشرقی و مغربی تعلیم حاصل کر، مگر

بن کے علّامہ،وبالِ جہل ونادانی نہ بن

اپنے گھر کے آئنہ خانہ میں دیکھ اپنا جمال

محفلِ اغیار میں تصویرِ حیرانی نہ بن

جامۂ تہذیبِ مشرق سے ہے تیری آبرو

مغربی تقلید میں تو ننگِ عریانی نہ بن

اپنے گھر کو دیکھ اور لے اپنے بچوں کی خبر

بس اسی میں خیر ہے، اپنوں سے بیگانی نہ بن

اپنے گھر میں رہ کے اس کو ر و کشِ جنت بنا

غیر کے گلشن میں رشکِ سروِ بُستانی نہ بن

اے عروسِ شرق، مشرق ہے ترا خلوت کدہ

مغربی محفل میں تو شمعِ شبستانی نہ بن

یوسفستانِ محبت ہے بہت تیرے لئے

مصر کے بازار میں جنسِ فراوانی نہ بن

مصلحت یہ ہے کہ رکھ فرقِ مراتب کا خیال

اے مری بلقیس، جویائے سلیمانی نہ بن

مدّعا یہ ہے کہ اپنی حد سے تو آگے نہ بڑھ

مختصر یہ ہے کہ اپنی دشمنِ جانی نہ بن

یاد رکھ، پچھتائے گی، یہ بیخودی اچھی نہیں

ہوش میں آ، دیکھ میں کہتا ہوں دیوانی نہ بن

 

 

               ہندی عورت سے

 

 

اے ہوش مند و با خبر

کیوں بن رہی ہے کم نظر

مصرِ محبت چھوڑ کر

تو جا رہی ہے اب کدھر

کنعاں کا یہ رستا نہیں

یوسف یہاں بستا نہیں

راہِ وفا کو چھوڑنا

اخلاص سے منہ موڑنا

اپنوں سے رشتہ توڑنا

غیروں سے ناتا جوڑنا

ہرگز تجھے زیبا نہیں

زیبا نہیں ، اچھا نہیں

ہندی ہے تو، طوسی نہ بن

امریکن و روسی نہ بن

دیوی ہے تو جوسی نہ بن

بیگم ہے تو لوسی نہ بن

تقلید غیروں کی نہ کر

قائم رہ اپنی وضع پر

لکھ پڑھ، مگر انسان بن

صدق و وفا کی کان بن

مہر و وفا کی شان بن

جسمِ حیا کی جان بن

تو کون ہے ، کچھ غور کر

رُتبے پہ اپنے رکھ نظر

دنیا میں ہے تیری وفا

ضرب المثل اے با صفا

آئینۂ عصمت نما

ہے تیرا ہی حسنِ حیا

اس حسن کی پردہ دری

لاریب ذلّت ہے تری

مانا کہ تو ہے دیدہ ور

عالم پہ ہے تیری نظر

دنیا کی ہے تجھ کو خبر

اتنا کہوں گا میں مگر

تیری نگاہِ دور بیں

انجام پر پڑتی نہیں

مغرب کا حسنِ خود نما

عبرت کا ہے اک آئنہ

کیوں تیری چشمِ سرمہ سا

لیتی نہیں درسِ حیا

حسنِ نظر سے کام لے

غافل نہ ہو انجام سے

 

 

 

 

               خاتونِ مسلم سے

 

وہ عورت جو کبھی تھی مظہرِ اوصافِ انسانی

وہ عورت منحصر تھا جس پہ نظمِ بزمِ امکانی

وہ عورت فخر تھا مشرق کو جس کی با وفائی پر

وہ عورت جس کی ہستی تھی زمانے بھر میں لاثانی

وہ عورت جس کا دل پروانۂ شمعِ محبت تھا

وہ عورت جس کے دم سے محفلِ اُلفت تھی نورانی

وہ عورت جو سراپا پیکرِ حلم و مروّت تھی

وہ عورت جس کی صورت سے عیاں تھی شانِ انسانی

وہ عورت جس سے خلوت خانۂ مشرق کی رونق تھی

وہ عورت اصل میں جو مشرقی محلوں کی تھی رانی

وہ عورت، ہاں وہی عورت ہے، جو اب بزمِ عالم میں

تماشا بن گئی ہے صورتِ شمعِ شبستانی

کچھ ایسا مغربی تہذیب پر آیا ہے دل اس کا

کہ مشرق کے تمدّن سے ہوئی جاتی ہے بیگانی

نہ وہ ملبوسِ پاکیزہ، نہ وہ طرزِ پسندیدہ

کہ اب اس کا لباسِ فاخرہ ہے ننگِ عریانی

نہ وہ اخلاق و عادت ہے، نہ وہ شانِ محبت ہے

نہ وہ حسنِ تبسّم ہے، نہ وہ طرزِ گل افشانی

حریمِ ناز میں رہنا، دلوں پر حکمراں ہونا

پسند آتا نہیں اس کو کہ ہے ضبطِ سلیمانی

غرض اک شورِ محشر عالمِ مشرق میں برپا ہے

جدھر دیکھو، نظر آتی ہے بربادی و ویرانی

سُن اے خاتونِ مسلم سُن! کہ میں تجھ سے ہی کہتا ہوں

کہاں تو اور کہاں یہ شورشِ پیدا و پنہانی

تجھے تقلیدِ مغرب کی ضرورت ہی نہیں کوئی

کہ تیرے واسطے موجود ہیں احکامِ ربّانی

سنبھل، ہاں اب بھی موقع ہے، سنبھلنا تو اگر چاہے

خرد سے کام لے کچھ، کیوں ہوئی جاتی ہے دیوانی

غنیمت ہے کہ ا ب بھی تو سمجھ لے اس حقیقت کو

’’چرا کارے کند عاقل کہ باز آید پشیمانی‘‘

 

 

 

               تبریک

(اعلانِ آزادی کے بعد)

 

مژدہ باد، اے مرکزِ دَورِ جہاں

اے مرے ہندوستاں ، جنت نشاں

آ گیا اب وقتِ آزادی قریب

ہو گیا بیدار، خوابیدہ نصیب

مطلعِ مشرق سے نکلا آفتاب

دید کے قابل ہے رنگِ انقلاب

قسمتِ برگشتہ آئی راہ پر

جگمگا اُٹھے وہ تیرے بام و در

وہ بہار آئی، گیا دورِ خزاں

دیدنی ہے آج رنگِ گلستاں

صحنِ گلشن روکشِ میخانہ ہے

محوِ حیرت نرگسِ مستانہ ہے

ہو مبارک تجھ کو یہ روزِ سعید

میکشوں کے لب پہ ہے ہل من مزید

خوابِ آزادی کی یہ تعبیر ہے

اے میں قرباں ! واہ کیا تقدیر ہے

لیکن اے ہندوستاں ، میرے وطن !

کم نظر ہیں تیرے شیخ و برہمن

خود پرست و خود نما و خود ستا

اپنی اپنی  دھُن میں ہیں نغمہ سرا

تلخیِ افکار کا رازِ نہاں

ہو رہا ہے اب زمانے پر عیاں

شیخ سادہ دل، برہمن ہوشیار

خودغرض، آشفتہ سر، آشفتہ کار

بے مروّت، بیوفا، ناآشنا

اپنی اپنی فکر میں ہیں مبتلا

یہ ترے فرزند، یہ تیرے سپوت

یہ ترے دلبند،یہ تیرے سپوت

غالباً واقف نہیں اس راز سے

زندگی بنتی ہے سوز و ساز سے

جانفزا ہے نعرۂ سوزِ وطن

سازِ الفت بھی اگر ہو نغمہ زن

ورنہ دورِ جامِ آزادی ہے کیا

ایک دھوکا، اک فریبِ ناروا

ہے حقیقت ایک سحرِ سامری

ساحرِ خوش کار کی افسوں گری

میری حق گوئی سے تو رنجور ہے

لوگ کہتے ہیں کہ ’’دلّی دور ہے‘‘

 

 

               جامِ اوّلیں

 

 

مدّتوں سے تھی طلب جس چیز کی

آ گئی وہ ہاتھ آخر آ گئی

دورِ آزادی کا جامِ اولیں

مستِ سازِ کم نگاہ و پاک بیں

ضو فشاں مثلِ چراغِ آرزو

کیف آموزِ دماغِ آرزو

شمعِ بزمِ بے خودی و آگہی

رونقِ کاشانۂ فرماں دہی

مشعلِ راہِ نمود و بے نمود

روشنیِ دیدۂ بود و نبود

ماہتاب آسمانِ زندگی

آفتابِ ضو  فشانِ زندگی

آ گیا جب دور میں مستانہ وار

سر بسجدہ ہو گئے بادہ گسار

میکدے پر بے خودی طاری ہوئی

جوئے آبِ تلخ پھر جاری ہوئی

میکشانِ تشنہ کام و خام کار

بندگانِ خود پرستی و خمار

کم نگاہ و خود نما و خود فروش

مستِ صہبائے خودی و دُرد نوش

ناشناسِ رنگ و بوئے زندگی

بے نیازِ حسنِ روئے زندگی

تلخ کام و بد زبان و خیرہ سر

راہ و رسمِ آشتی سے بے خبر

ہو گئے بد مست پی کر تلخ جام

بن گئے پھر بے نیازِ ننگ و نام

صف بہ صف، خنجر بکف، آشفتہ سر

میکدے سے نکلے با صد شور و شر

قتل و غارت کا کیا طوفاں بپا

امتیازِ حق و باطل اٹھ گیا

کر دیا برہم نظامِ زندگی

انتہا ہے جورِ بے بنیاد کی

توڑ ڈالیں سب روایاتِ کہن

ہو گیا بدنام اب نامِ وطن

کیا کہوں میں ، دل شکن روداد ہے

مادرِ ہندوستاں ، فریاد ہے

 

 

 

 

               آزادی کے بعد

 

 

ذکرِ آزادی نہ چھیڑ اے ہم نشیں

دردِ دل حد سے نہ بڑھ جائے کہیں

مل گئی ہم کو غلامی سے نجات

میں نے دیکھے ہیں مگر وہ واقعات

روح فرسا، جانگداز و دل خراش

ہو گیا جن سے کلیجہ پاش پاش

خیر جو ہونا تھا وہ تو ہو چکا

آج کل ہے شورِ محشر کیوں بپا

ہے پریشانی کا آخر کیا سبب

بڑھ گئی حد سے زیادہ کیا طلب

کیوں دلوں میں قدرِ آزادی نہیں

آسماں اپنا ہے، اپنی ہے زمیں

بات کہنے کی نہیں ، اک راز ہے

سوز سے لبریز دل کا ساز ہے

خودغرض ہے، خود نما ہے آدمی

بندۂ حرص و ہوا ہے آدمی

رنگِ میخانہ دگرگوں ہے مگر

دور بیں ہے اپنے ’’ساقی‘‘ کی نظر

سحر ہے اس کی نگاہِ ناز میں

نغمۂ تسکیں ہے اس کے ساز میں

شورشِ بے جا کا وہ قائل نہیں

جبر و استبداد پر مائل نہیں

صبر سے کچھ کام لینا چاہئے

تلخ و شیریں جام لینا چاہئے

چند روزہ ہے فقط دَورِ خمار

دُور ہو جائے گا اک دن انتشار

 

 

ساقیِ میخانۂ ہندوستاں

اپنے رندوں پر ہے کتنا مہرباں

ہیں نظر میں اس کی شیخ و برہمن

لیجئے اب ساغرِ حبِ وطن

دیجئے دادِ عمل اب دیجئے

خدمتِ قوم و وطن اب کیجئے

نغمہ زن ہے مادرِ ہندوستاں

گوش بر آواز ہے سارا جہاں

ہوش میں اب ہم کو آنا چاہئے

گیت آزادی کا گانا چاہئے

 

 

 

               ہنگامہ زار

 

 

ساقیِ میخانۂ راز و نیاز

سوزِ دل ہے آج کچھ ہنگامہ ساز

رنگ لایا ہے نیا دورِ زماں

دیدنی ہے منظرِ بزمِ جہاں

کیا قیامت خیز ہے یہ انقلاب

کھا رہا ہے ایک عالم پیچ و تاب

فکرِ دنیا ہے حریفِ زندگی

شوقِ عصیاں ہے، نہ ذوقِ بندگی

اُٹھ گئی ہے دہر سے رسمِ جفا

اب نہیں کوئی کسی کا آشنا

بے اثر ہے نغمۂ حبّ وطن

اپنے مطلب کے ہیں شیخ و برہمن

وحدتِ افکار سے خالی ہیں دل

جذبۂ ایثار سے خالی ہیں دل

ہم نفس ہے اب نہ کوئی غم گسار

گو بظاہر ہیں ہزاروں جاں نثار

وہ محبت، وہ مروّت اب کہاں

وہ شریعت، وہ طریقت اب کہاں

اس طرف بھی اک نگاہِ التفات

ہو چلا برہم نظامِ کائنات

کیا کہا، یہ سچ نہیں ، یوں ہی سہی

رنگِ عالم ہے مگر اب دیدنی

دیدنی ہے رنگِ ’’بزمِ انتخاب‘‘

بج رہے ہیں ہر طرف چنگ و رباب

میکشانِ کہنہ و نو، صد ہزار

پھر رہے ہیں چار سو دیوانہ وار

نعرہ زن ہیں ’’خاکسارانِ جہاں ‘‘

گونج اُٹھے ہیں زمین و آسماں

ہوشیار، اے قومِ خفتہ، ہوشیار!

آ گئے میداں میں اب ’’مردانِ کار‘‘

خود نمائی سے انہیں الفت نہیں

خود فروشی سے انہیں رغبت نہیں

کارنامے ان کے ہیں مشہورِ عام

ان کے قبضہ میں ہے دورِ صبح و شام

یہ محبت کیش ہیں ، حق کوش ہیں

بے نیازِ فکرِ نیش و نوش ہیں

نشۂ خدمت سے یہ سرشار ہیں

سروری کے بس یہی حقدار ہیں

یہ تو سچ ہے، واقعی سچ ہے، مگر

خیر دیکھا جائے گا اب وقت پر

 

 

               رازِ شعر گوئی

 

 

جلوۂ نورِ ازل ہے شمعِ بزمِ کائنات

حسنِ معنی ہے بِنائے نغمۂ سازِ حیات

دیکھنے کی چیز ہے رنگِ فضائے آسماں

یہ ستاروں کا چمکنا، یہ بہارِ گل فشاں

انجمستاں میں ہے کوئی ماہ وش محوِ خرام

میکدہ میں چل رہا ہے رو کشِ خورشیدِ جام

کیف آگیں ، روح پرور، جاں فروز و دلنواز

قلبِ شاعر ہو رہا ہے خود بخود نغمہ طراز

قصرِ خاور میں ضیا گستر ہے مہرِ صبح تاب

شاہدِ فطرت نے گویا رُخ سے اُلٹی ہے نقاب

طائرانِ خوش نوا ہیں نغمہ سازِ زندگی

اہلِ دل کو دے رہے ہیں درسِ رازِ زندگی

روح افزا ہے فضائے گلستانِ رنگ و بو

موجزن ہے ناز سے صحنِ چمن میں آبجو

چشمِ شاعر محوِ نظارہ ہے اس انداز سے

جیسے واقف ہو کوئی میکش جہاں کے راز سے

یہ محیطِ بیکران و کوہسارِ خود نما

آبجوئے خوش خرام و سبزہ زارِ جانفزا

ابرِ باراں ، رعدِ نالاں ، برقِ جولان و شرار

یہ فضائے دلفریب و یہ ہوائے خوشگوار

میگسارِ پاک بین و آشنائے سوز و ساز

مے فروشِ زندگی و غم گسارِ اہلِ راز

نغمہ زن ہے شاعرِ رنگیں بیان و خوش نظر

بے تکلف کھُل رہے ہیں راز ہائے خیر و شر

 

 

 

 

               اضطراب و سکوں

 

 

میں کہ تھا سرگشتۂ صد اضطرابِ آرزو

عمر بھر منت پذیرِ کاوشِ بے جا رہا

زندگی بھر جستجوئے مدّعائے دل رہی

مدّعائے دل مرا پھر بھی مگر عنقا رہا

نامرادِ آرزو رہ کر گزاری زندگی

کامیابِ آرزو ہونے کا بس سودا رہا

ایک مدّت تک رہا میں ناز بردارِ خرد

اک زمانہ تک مجھے تقدیر کا شکوا رہا

لاکھ تدبیروں پہ بھی حاصل سکونِ دل نہ تھا

فکرِ لاحاصل میں جانِ ناتواں کھوتا رہا

دل شکن ناکامیاں تھیں ، جاں گسل مایوسیاں

سخت جانی کی عنایت تھی کہ میں زندا رہا

عمر بھر یوں ہی رہا واماندۂ مقصود میں

ہر قدم پر اک فریبِ آرزو کھاتا رہا

کھُل گیا آخر فریبِ آرزوئے خود نما

اے خوشا قسمت! کہ اب حاصل سکونِ دل ہوا

موجِ حرماں سر سے جب گزری تو بیڑا پار تھا

ڈوب کر ابھرا تو میں آسودۂ ساحل ہوا

اب نہیں دل میں وفورِ شوق کی نیرنگیاں

آنکھ کھلتے ہی طلسمِ آرزو باطل ہوا

اب نہیں جوشِ تمنّا، باعثِ سرگشتگی

اب مجھے لطفِ سکونِ زندگی حاصل ہوا

 

 

 

               رفیقۂ حیات

 

 

اے رفیقِ زندگی، اے غم گسار و با وفا

باعث تسکینِ دل ہے، راحتِ پہلو ہے تو

ہمدم و دمساز ہے، ہمدرد ہے، ہمراز ہے

محفلِ امکاں میں تنہا، شاہدِ دل جو ہے تو

چپّہ چپّہ، ذرّہ ذرّہ، خاکدانِ دہر کا

تیرے حسنِ دلربا کا ہے فقط آئینہ دار

اے گلِ خوش رنگ و خوش بو، زینت افروزِ چمن

تیرے دم سے گلشنِ ہستی میں ہے رنگِ بہار

ڈھونڈتی رہتی ہیں آنکھیں ہر طرف جلوہ ترا

اہلِ بینش کی نظر میں تو سراپا نور ہے

اے نگارِ شعلہ رو، یہ نور افشانی تری!

وادیِ ایمن ہے دنیا، تو چراغِ طور ہے

تو وہ لیلیٰ ہے کہ اک عالم ہے تیرا قصّہ خواں

مومن و کافر کے لب پر ہے بس افسانہ ترا

نجد ہے صحرائے ہستی، قیس ہر برنا و پیر

جس کو دیکھو، وہ نظر آتا ہے دیوانہ ترا

تیرا سنگِ آستاں ہے اور دنیا کی جبیں

عام ہے سب کے لئے تیری پرستش کا جنوں

شاہ ہو یا ہو گدا، یا رند یا مردِ خدا

حسن کی دیوی! ترے در پر ہر اک ہے سرنگوں

ملکۂ نازک ادا، اے پیکرِ حلم و حیا !

عالمِ امکاں میں تو ہے ناظمِ بزمِ حیات

تو نہ ہو تو ہو پراگندہ کتابِ زندگی

ہے تجھی سے منضبط شیرازۂ نظمِ حیات

فارغ البالی میں تو ہے دلربا و دلنواز

بیکسی میں ہے شریکِ بیکسی و غم گسار

تندرستی کے زمانہ میں انیس و دردمند

اور بیماری کی حالت میں ہے اک تیمار دار

الغرض، ہر حال میں ہے تو شریکِ زندگی

زینتِ غربت کدہ بھی، رونقِ کاشانہ بھی

خلوت و جلوت میں یکساں ہے رفیقِ با وفا

گُل بھی ہے تو شمع بھی، بلبل بھی ہے، پروانہ بھی

 

 

 

               درویش سے

 

 

کنجِ عزلت میں ہے کیوں بیٹھا ہوا اندوہگیں

کس لئے تاریک حُجرے میں ہوا ہے جاگزیں

لطفِ جلوت، گوشۂ خلوت میں مل سکتا نہیں

انجمن آرائیاں بھی دیکھ اے پردہ نشیں

لطفِ خلوت تا بہ کے اے حق شناس و حق نگر

فطرتِ خوش کار کے جلووں پہ بھی اب اک نظر

یہ فضائے نیلگوں ، یہ محفلِ نجم و قمر

دعوتِ نظّارہ تجھ کو دے رہے ہیں بے خبر

دید کے قابل ہے جلوہ حسنِ صبح و شام کا

کتنا دلکش شعبدہ ہے چرخِ نیلی فام کا

عبرت آگیں ہے کرشمہ گردشِ ایّام کا

میکدہ میں جام خالی ہے تو تیرے نام کا

ملک پر آئی ہوئی ہے اک مصیبت آج کل

سخت خطرہ میں گھری ہے قوم و ملّت آج کل

امتحاں میں پڑ گئی ہے اس کی عزّت آج کل

حوصلہ افزائیوں کی ہے ضرورت آج کل

عرصۂ ہستی میں اک شورِ قیامت ہے بپا

فکرِ آزادی میں اربابِ وطن ہیں مبتلا

گوشۂ خلوت میں تنہا کیوں ہے تو بیٹھا ہوا

سر بکف میداں میں آ، اب حوصلہ ان کا بڑھا

کام کا یہ وقت ہے، کچھ کام کرنا چاہئے

کارزارِ زندگی میں نام کر نا چاہئے

بادۂ مہر و وفا کو عام کرنا چاہئے

انتظامِ دورِ خوش انجام کرنا چاہئے

وجد میں لا اہلِ دل کو اپنے سوز و ساز سے

آشنا کر دے ہر اک کو زندگی کے راز سے

گونج اُٹھے عالمِ امکاں تری آواز سے

کام لے اپنی دُعائے لا مکاں پرواز سے

وقتِ خاموشی نہیں ، واللہ اے مردِ خدا !

کیا نہیں احساس کچھ بھی تجھ کو اپنے فرض کا

 

 

 

               بیادِ یاراں

 

 

دیارِ حسن سے گزرا ہوں میں اس شان سے اکثر

سرودِ زندگی بر لب، شرابِ عاشقی در سر

جواں ہمت، جواں فطرت، جواں دولت، جواں قسمت

نگاہِ شوق حق آگیں ، مجازِ راہ جاں پرور

جمالِ شاہدِ معنی نقابِ رُخ برافگندہ

جلالِ عشق سے پیدا کمالِ قدرتِ آذر

نگاہِ حسنِ خود آرا کرشمہ سازِ رنگ و بو

بہارِ گلشنِ فطرت قبائے دلبری در بر

فضائے میکدہ خنداں ، سوادِ میکدہ روشن

نگاہِ ساقیِ رعنا شریکِ گردشِ ساغر

زبانِ میکشاں گویا بصد اندازِ خوش گوئی

بہ ہر صورت، بہ ہر عنواں ، طرب انگیز و رقص آور

جفائے حسن پر قرباں ، وفائے عشق پر نازاں

غزل خوانِ حقیقت داں ، نوا پرداز جادوگر

بساطِ محفلِ رنداں ، حریفِ شامِ بت خانہ

ہجومِ ماہ و پرویں بے نیازِ پرسشِ محشر

نیاز و ناز و سوز و ساز و دلبازی و دلداری

نہ ذکرِ گردشِ دوراں ، نہ فکرِ جورِ نیلوفر

یکایک گرد بادِ انقلاب آیا بہ ایں شورش

پریشاں ہو گیا دم بھر میں نظمِ زندگی یکسر

نہ وہ محفل، نہ وہ ہمدم، نہ وہ منظر، نہ وہ عالم

خیال و خواب کی دُنیا بگڑ جاتی ہے بن بن کر

یہ تاریکی، یہ سنّاٹا، یہ تنہائی، یہ ویرانہ

نہ کوئی خوش نظر رہرو، نہ کوئی حق نما رہبر

نہ توشہ ہے، نہ گوشہ ہے، بیاباں در بیاباں ہے

سرابِ آرزو کب تک رہے گا یوں نظر پرور

تلاشِ منزلِ مقصود میں پھرتے ہیں آوارہ

قلمکارانِ خوش آئیں ، ہنر مندانِ دانشور

تڑپ اٹھتا ہے دل اے رازؔ جب وہ یاد آتے ہیں

خدا جانے کہاں ہوں گے حریفانِ زباں آور

 

 

               مشاعرۂ عالم

 

 

’’ایں طرفہ حکایت است بنگر‘‘

اربابِ سخن ہیں شعلہ در سر

شاید ہے بہار کا زمانہ

دنیا کی فضا ہے شاعرانہ

وہ عالمِ کیف و کم ہے طاری

اب عام ہوئی ہے میگساری

ساغر در دست ہیں سخنور

آزاد ترانہ اب ہے لب پر

پیتے ہیں دو آتشہ شب و روز

بنتے ہیں زمانہ بھر کے دل سوز

ہے بادۂ تلخ ناگوارا….!

حق بات سے کرتے ہیں کنارا

کامل ہے ہر ایک اپنے فن میں

رونق ہے انہیں سے انجمن میں

کہتا ہے ہر ایک اپنی اپنی

سُنتا نہیں کوئی بھی کسی کی

اکتارہ کوئی بجا رہا ہے

دو تارے پہ کوئی گا رہا ہے

بھولے ہیں اصولِ نغمہ سنجی

پروا نہیں ان کو زیر و بم کی

اب راگ نیا ہے، سُر نئے ہیں

اپنی دھُن میں وہ کھو گئے ہیں

کیا چیز غزل ہے، کیا ترانہ

ٹھمری کا ہے آج کل زمانہ

باقی ہے ابھی قصیدہ خوانی

یعنی مطلب کی ترجمانی

ہے عام مگر فسانہ سازی

شاید ہے یہی زمانہ سازی

چھائی ہوئی ہر طرف ہے ظلمت

مستور ہے جلوۂ حقیقت

دنیا ہے اسیرِ خود پرستی

بے رنگ ہے رنگِ بزمِ ہستی

یہ دورِ بہار کیا خزاں ہے

نخلِ آتش شرر فشاں ہے

وہ بادِ سموم چل رہی ہے

ہر شاخِ گلاب جل رہی ہے

خطرے میں ہر ایک آشیاں ہے

سکتے میں نگاہِ باغباں ہے

اہلِ گلشن کی ہے یہ حالت

گویا آنے کو ہے قیامت

لیکن شعرا ہیں مستِ بادہ

فطرت ان کی ہے کتنی سادہ

افکارِ جہاں سے بے خبر ہیں

ناواقفِ رازِ خیر و شر ہیں

الحق کہ تلخ ہے یہ حقیقت

دم توڑ رہی ہے آدمیت

دیپک کا نہیں ہے یہ زمانہ

گائیں اب میگھ کا ترانہ

ساکن ہے ابھی رگِ محبت

دنیا کو ’’غزل‘‘ کی ہے ضرورت

یہ وقت ہے معجزہ دکھائیں

کافر کو حق آشنا بنائیں

 

 

 

 

 

               سامانِ حیات

 

 

دل میں آتا ہے کسی سے عہدِ الفت باندھ کر

اس خراب آباد میں رہنے کا ساماں کیجئے

لیجئے درسِ محبت، زُہد و تقویٰ چھوڑ کر

بن کے کافر عشق میں ، تجدیدِ ایماں کیجئے

چھیڑیے سازِ الم، ہو جائیے وقفِ غِنا

نالہائے غم سے برہم بزمِ امکاں کیجئے

دیجئے جوشِ جنونِ فتنہ ساماں کو نوید

چاک دامن کیجئے، ٹکڑے گریباں کیجئے

کیجئے قطعِ تعلق دہر و اہلِ دہر سے

چھوڑ کر آبادیاں ، سیرِ بیاباں کیجئے

کھینچئے آزارِ الفت، دیجئے دادِ ستم

ہو سکے تو عشق میں کارِ نمایاں کیجئے

لیجئے دل بیچ کر دردِ محبت کے مزے

اور ممکن ہو تو نرخِ درد ارزاں کیجئے

کیجئے روشن سیہ خانے کو نورِ عشق سے

دل کے ہر ذرّہ کو رشکِ مہرِ تاباں کیجئے

اس طرح ہو جائیے وقفِ خیالِ دلربا

آرزوئے ماسِوا کو اس پہ قرباں کیجئے

موت سے بدتر ہے یہ دل کا جمود و بے حسی

راز اب تو اس کو نذرِ سوزِ پنہاں کیجئے

 

 

 

 

               جوانی کی کہانی

 

کوئی درد آشنا ہے کہ سُنے مری کہانی

کبھی میں بھی اک جواں تھا، کبھی تھی مری جوانی

مرا شغل میکشی تھا، مجھے ذوقِ بیخودی تھا

کبھی بھول کر بھی مجھ کو نہ ہوئی تھی سرگرانی

مرا مشغلہ تھا پیہم شب و روز نغمہ سنجی

کہ پسند آ گئی تھی انہیں میری خوش بیانی

شب و روز موجزن تھا مرے دل میں بحرِ اُلفت

مری دسترس سے باہر نہ تھی موجِ کامرانی

تھے اگرچہ گوش شنوا، تھی اگرچہ عقل دانا

نہ سُنی مگر کسی کی، نہ کسی کی بات مانی

یوں ہی بیخودی میں ساری کٹی رات زندگی کی

کھُلی آنکھ جب، تو دیکھا کہ تھا خواب اک جوانی

ہوا نذرِ کسلِ دائم، ہوئی صرفِ رنجِ پیہم

وہ سُرورِ روح پرور، وہ نشاطِ کامرانی

نہیں جوش اب وہ دل میں ، نہیں کیف اب وہ سر میں

ہوئی اب خبر یہ مجھ کو کہ شراب تھی جوانی

نہیں نشّۂ شبینہ ، ہے وبال اب تو جینا

کہ بنی ہے صبحِ پیری، سحرِ شبِ جوانی

کروں کس سے میں شکایت، ہے فضول یہ حکایت

کہ ازل سے دشمنِ جاں ہے یہ دَورِ آسمانی

نہ پتا ملا کچھ اس کا، نہ خبر ملی کچھ اس کی

گئی ایسی پھر نہ آئی، کبھی لوٹ کر جوانی

ہے قریب صبحِ محشر، چلو رازؔ سو رہو اب

کہ رہی ہے رات تھوڑی، ہے طویل یہ کہانی

 

 

 

               سرمایۂ نشاط

 

 

میں کیا سُناؤں عہدِ محبت کی سرگزشت

یادش بخیر! دل میں قیامت کا جوش تھا

رہتا تھا مست بادۂ الفت سے روز و شب

اپنی خبر تھی مجھ کو نہ دنیا کا ہوش تھا

سوزِ نہاں سے قلب و جگر داغ داغ تھے

پہلو نہ تھا کوئی سَبَدِ گل فروش تھا

جوشِ جنونِ عشق سے چکّر میں تھا دماغ

گویا میں اپنے گھر ہی میں خانہ بدوش تھا

حد سے بڑھا ہوا تھا مرا جوشِ بے خودی

اغیار کا خیال ، نہ اپنوں کا ہوش تھا

ناصح کا تھا لحاظ ، نہ کچھ محتسب کا ڈر

میں ہر نوائے تلخ سے پُنبہ بگوش تھا

المختصر وہ عہد بھی تھا کچھ عجیب چیز

پہلو میں دل تھا، دل میں محبت کا جوش تھا

وہ حال تھا کبھی، مگر اب تو یہ حال ہے

وقفِ جمودِ قلب کا جوش و خروش ہے

چھائی ہوئی ہے ایک اُداسی سی ہر طرف

دل کیا خموش ہے کہ زمانہ خموش ہے

احساسِ زندگی میں بھی لذّت نہیں رہی

فردا کی ہے امید نہ اب رنجِ دوش ہے

دل بجھ گیا، سُرورِ محبت بھی مٹ گیا

وا حسرتا ! کہ سرد تمنّا کا جوش ہے

نالہ بھی کوئی لب پہ نہیں اب شرر فشاں

صد حیف ! شمعِ سوزِ جگر بھی خموش ہے

اک بے کسی ہے حاصلِ سرمایۂ نشاط

بیچارگی میں نیش کی تلخی بھی نوش ہے


 

رباعیات

 

               تمہید

 

O

ہر سازِ سخن ہے پردہ دارِ صد راز

ہر پردۂ ساز میں ہے تیری آواز

اے مطربِ خوش نوائے بزمِ معنی

پردہ پردہ میں تو ہے نغمہ پرداز

 

O

وہ جامِ مئے سخن دیا ہے تو نے

اپنا بندہ بنا لیا ہے تو نے

کیا مجھ سے ادا ہو شکرِ نعمت ساقی

احسان بہت بڑا کیا ہے تو نے

 

O

 

کعبہ دیکھا، شرار خانہ دیکھا

دنیا کا ہر ایک کارخانہ دیکھا

ہر ایک مکاں میں تیرے جلوے دیکھے

ہر ایک ترا نگار خانہ دیکھا

 

O

 

تشریقِ جمال صبحِ عشرت دیکھی

تنویرِ سوادِ شامِ راحت دیکھی

اک روز میں دو کرشمہ ہائے دلکش

اے شاہدِ کُل، تیری کرامت دیکھی

 

 

O

 

تمہیدِ نشاطِ کار دیکھی میں نے

تکمیل بھی خوشگوار دیکھی میں نے

ممنونِ کرم ہوں ، باغبانِ فطرت

جی بھر کے ہر اک بہار دیکھی میں نے

 

 

               رموز و نکات

 

O

یہ شام کہ جس کو جانِ راحت کہئے

ہم رنگِ سوادِ صبحِ جنّت کہئے

ساقی سرمست و انجمن ہے سرخوش

اے رازؔ فسانۂ محبت کہئے

 

O

 

یہ وقتِ نماز،ِ شام، اللہ اللہ!

یہ دَورِ مہِ تمام، اللہ اللہ!

سرخوش ہے فضائے بزمِ امکاں اے رازؔ

لے تو بھی خدا کا نام، اللہ اللہ!

 

 

O

 

تمہیدِ کتابِ زندگانی ہوں میں

تمّت بالخیرِ دہرِ فانی ہوں میں

آغاز ہے دل پذیر، دلکش انجام

افسانۂ رازؔ کُن فیکانی ہوں میں

 

 

O

 

شمعِ تابانِ بزمِ فطرت ہوں میں

خورشیدِ سپہرِ مہر و رافت ہوں میں

افسانۂ سوز و سازِ دنیا کیا ہے

افسانۂ دہر کی حقیقت ہوں میں

 

O

 

مخمورِ شرابِ کامرانی تو ہے

مسحورِ طلسمِ زندگانی تو ہے

معلوم بھی ہے مگر یہ تجھ کو اے رازؔ

اک واقعہ یا کوئی کہانی تو ہے

 

 

O

 

یہ باغ، جہاں ، یہ لالہ زارِ کثرت

یہ محفلِ نازِ شاہدانِ فطرت

ظاہر میں تو اک جہانِ رنگ و بو ہے

باطن میں مگر ہے بوستانِ وحدت

 

O

 

اے صاحبِ عقل و ہوش حیراں کیوں ہے

بے وجہ ، بلا سبب پریشاں کیوں ہے

آ راز کی بات بتاؤں میں تجھ کو

سرگشتہ مثالِ چرخِ گرداں کیوں ہے

 

 

O

 

یہ منظرِ سحرکارِ بزمِ فطرت

نظارے سے جس کے ہے جہاں کو حیرت

حسنِ قدرت کی ہے کرشمہ سازی

اتنا ہی سمجھنے کی ہے تجھ کو حاجت

 

O

 

وہ حسن جو بے نقاب ہو جائے گا

مہتاب ہے، آفتاب ہو جائے گا

اچّھا ہے حجابِ رُخ نہ اٹّھے، ورنہ

آنکھوں کے لئے عذاب ہو جائے گا

 

 

O

 

اب ذکرِ نشاطِ جوانی کیوں ہے

شرمندۂ فکر، زندگانی کیوں ہے

پیری میں خمارِ خواب آور کیسا

جب پی ہی نہیں تو سرگرانی کیوں ہے

 

O

 

دنیا پہ تو اپنا دل نہ شیدا کرنا

بے جا خواہش نہ دل میں پیدا کرنا

زنہار! اگر ہے پاسِ ایماں تجھ کو

بُت خانۂ دہر میں نہ سجدا کرنا

 

 

O

 

دنیائے دنی سے ہے محبت تجھ کو

افکار سے کس طرح ہو فرصت تجھ کو

بیکار ہے جستجوئے راحت اے رازؔ

دوزخ میں کہاں ملے گی جنّت تجھ کو

 

O

 

ہنگامۂ سوز و ساز برپا کر دے

نذرِ آتش، خیالِ بے جا کر دے

دنیا میں اگر ہے جستجوئے راحت

وقفِ غمِ عشق، فکرِ دنیا کر دے

 

 

O

 

شیدائے خودی و خودپرستی کیوں ہے

پابندِ طریقِ بزمِ ہستی کیوں ہے

اُٹھ، توڑ یہ قید و بندِ لایعنی تو

انساں ہو کر اسیرِ پستی کیوں ہے

 

O

 

جب سرد یہ جوشِ آز ہو جائے گا

وَا، دیدۂ امتیاز ہو جائے گا

آئے گا نظر جمالِ معنی ہر سو

دنیا سے تو بے نیاز ہو جائے گا

 

 

O

 

جب حسنِ نظر سے ساز ہو جائے گا

آئینۂ حق، مجاز ہو جائے گا

اُٹھ جائے گا پردۂ دوئی آنکھوں سے

حاصل اس سے نیاز ہو جائے گا

 

O

 

تدبیر وفا شعار ہو جاتی ہے

تقدیر سے ہم کنار ہو جاتی ہے

آتا ہے جو وقتِ کامیابی اے رازؔ

فطرت بھی شریکِ کار ہو جاتی ہے

 

 

O

 

واعظ شیریں مقال ہو جاتا ہے

زاہد بھی خوش خیال ہو جاتا ہے

پڑتی ہے نگاہِ مستِ ساقی جس پر

وہ صاحبِ حال و قال ہو جاتا ہے

 

O

 

بگڑی ہوئی اپنی خود بنانا اچّھا

احساں ہے کسی کا کب اُٹھانا اچّھا

احسان سے جو ملے حیاتِ جاوید

اس زیست سے موت کا ہے آنا اچّھا

 

 

O

 

بیدادِ فلک کی داد دیتا ہوں میں

ہمّت کے سبق ہزار لیتا ہوں میں

منّت کشِ ناخدا نہیں ہوں اے رازؔ

اپنی کشتی کو آپ کھیتا ہوں میں

 

O

 

تکلیفِ سفر میں ایک راحت بھی ہے

دوزخ میں سوادِ صبحِ جنّت بھی ہے

میں وادیِ غربت میں نہیں ہوں تنہا

فطرت بھی ساتھ، حسنِ فطرت بھی ہے

 

 

O

 

دنیا یہ سمجھتی ہے کہ مغرور ہوں میں

میخانۂ ہستی سے بہت دور ہوں میں

اب کون بتائے راز اس کافر کو

صہبائے خدا ساز سے مخمور ہوں میں

 

O

 

دعوائے سخنوری نہیں ہے مجھ کو

بیماریِ خود سری نہیں ہے مجھ کو

کہتا ہوں غزل بمقتضائے فطرت

سودائے پیمبری نہیں ہے مجھ کو

 

 

O

 

آزادِ قیودِ بزمِ ہستی ہوں میں

پابندِ اصولِ حق پرستی ہوں میں

ظاہر میں شکستہ حال و دل ہوں ، لیکن

جو رشکِ عروج ہے وہ پستی ہوں میں

 

O

 

تردیدِ خیالِ خام و بیجا کر دے

تصدیقِ اصولِ دین و دنیا کر دے

آخر اے رازؔ یہ خموشی کب تک

اسرارِ جہاں کو آشکارا کر دے

 

 

O

 

مشرق کی بھلائی کو بُرا کہتا ہے

مغرب کی بُرائی کو بھلا کہتا ہے

کج بیں تو نہیں تیری نگاہِ حق بین

بندے کو تو اے رازؔ خدا کہتا ہے

 

O

 

بیکار ہر اک قیاس ہو جائے گا

مجروح ہر التباس ہو جائے گا

اٹھے گا نظر سے جب حجابِ باطل

اے رازؔ تو حق شناس ہو جائے گا

 

 

 

               راز و نیاز

O

 

رودادِ بہارِ زندگانی کہئے….!

افسانۂ عہدِ کامرانی کہئے

کس طرح کٹے گی رات ورنہ اے رازؔ

بہتر ہے یہی، کوئی کہانی کہئے

 

O

 

میں اور جامِ عام، تیرے قرباں

کیا اس سے بنے گا کام، تیرے قرباں

صد شکرِ کرم، تیرے کرم کے صدقے

وہ خاص، وہ لالہ فام تیرے قرباں

 

 

O

 

اک جرعہ بنامِ مہر و رافت دے دے

اک جام بحقِ حسنِ خدمت دے دے

یہ بھی نہ سہی، تو پھر خدارا ساقی

اک ساغرِ بادۂ محبت دے دے

 

O

 

میخانے کو وقفِ اہلِ دوراں کر دے

سامانِ حیات کو فراواں کر دے

امروز کی فکر اب ہے واجب ساقی

دیروز کو نذرِ طاقِ نسیاں کر دے

 

 

O

 

دیوانۂ حسنِ یار کر دے مجھ کو

بیگانۂ روزگار کر دے مجھ کو

بیکار ہے بحثِ کفر و ایماں ساقی

مخمورِ مئے بہار کر دے مجھ کو

 

O

 

اب دُور ہر اختلاف کر دے ساقی

رندوں کی خطا معاف کر دے ساقی

اُٹھ اور گلے لگا کے سب کو للّٰہ

سینہ کینے سے صاف کر دے ساقی

 

 

O

 

کچھ حد سے بڑھی ہوئی غم اندوزی ہے

واللہ یہی تو وقتِ دل سوزی ہے

اُٹھ اور دکھا جمالِ مہرِ راحت

لا اور پلا کہ صبحِ نو روزی ہے

 

O

 

وَا عقدۂ بود و ہست کر دے ساقی

دنیا کو خدا پرست کر دے ساقی

صوفی، میکش، فقیر، مومن، کافر

سب کو، ہاں سب کو مست کر دے ساقی

 

 

O

 

اک بات تھی بے نقاب کر دی تو نے

برباد سب آب و تاب کر دی تو نے

افسوس! کہ اس میں رنگِ غربت بھر کر

تصویرِ جہاں خراب کر دی تو نے

 

O

 

تدبیر کی زور آزمائی دیکھی

تاثیرِ دُعا کی خود نمائی دیکھی

تقدیرِ رسا کی نارسائی توبہ !

دیکھی، دیکھی، تری خدائی دیکھی

 

 

O

 

یہ بزم، یہ سوز و ساز کیا کہنا ہے

یہ دَورِ نیاز و ناز کیا کہنا ہے

جس بزم کی رونق ہوں حریفانِ ازل

اُس بزمِ سخن کا اے رازؔ کیا کہنا ہے

 

O

 

ہر نقش کو بے نقاب کر دیتا ہے

مستور کو بے حجاب کر دیتا ہے

کیا چیز ہے مہرِ ارتباط و اخلاص

جو ذرّہ کو آفتاب کر دیتا ہے

 

 

O

 

ساقی! یہ سکوت، یہ خموشی کب تک

یہ طرزِ کرم، یہ ناز کوشی کب تک

آخر کوئی حدِ بے نیازی بھی ہے

پیاسی رہے روحِ حق نیوشی کب تک

 

 

 

 

 

 

 

               مشاہدات

 

O

 

دلداریِ دوست کا فسانہ کہئے

یا قصّۂ شوخیِ زمانہ کہئے

جو کچھ کہئے اس انجمن میں اے رازؔ

با طرزِ لطیف و شاعرانہ کہئے

 

O

 

ساقی سے اگر سلام ہو جاتا ہے

نظارۂ حسنِ عام ہو جاتا ہے

وہ عالمِ کیف و نور، اللہ اللہ

آئینہ ہر ایک جام ہو جاتا ہے

 

 

O

 

مخمورِ مئے بہار ہو جاتا ہوں

خوش وقت و کامگار ہو جاتا ہوں

واللہ، بیک نگاہِ مستِ ساقی سے

فطرت سے ہمکنار ہو جاتا ہوں

 

O

 

جب عشق سے ساز باز ہو جاتا ہے

انساں دنیائے راز ہو جاتا ہے

بیگانۂ فکرِ دین و دنیا ہو کر

دلدادۂ سوز و ساز ہو جاتا ہے

 

 

O

 

جب عشق سخن طراز ہو جاتا ہے

وَا، بابِ نیاز و ناز ہو جاتا ہے

آخر ہوتی ہے ختم بحثِ من و تو

محمود نما ایاز ہو جاتا ہے

 

 

 

O

 

جب راہِ طلب میں رازؔ کھو جاتا ہوں

منزل سے بہت قریب ہو جاتا ہوں

تھک جاتے ہیں پاؤں جبکہ چلتے چلتے

تو یاد میں رہنما کی سو جاتا ہوں

 

O

 

جب سارا جہانِ رازؔ سو جاتا ہے

اک عالمِ بیخودی میں کھو جاتا ہے

ہوتا ہے نیاز اس سے حاصل مجھ کو

بیدار مرا نصیب ہو جاتا ہے

 

 

O

 

کچھ حسن کی تنویر نظر آتی ہے

کچھ عشق کی تاثیر نظر آتی ہے

دنیا ہے کہ بتخانۂ آذر اے رازؔ

جو چیز ہے تصویر نظر آتی ہے

 

O

 

بلبل کی نوا میں خود ستائی دیکھی

طوطی کی صدا میں ژاژ خائی دیکھی

ہم مشرب و ہم نوا ہیں دونوں ، لیکن

ہر اک کی الگ الگ خدائی دیکھی

 

O

 

گل ہائے نظر نواز خنداں دیکھے

فطرت کے ہزار راز عریاں دیکھے

فردوسِ جہاں کی ہر روش پر میں نے

محمود نما ایاز حیراں دیکھے

 

O

 

اربابِ جہاں کی مے پرستی دیکھی

وہ کیفِ نظر، وہ شانِ مستی دیکھی

خود کام و خدا فروش پایا سب کو

دیکھی، اے رازؔ بزمِ ہستی دیکھی

 

 

O

 

ہر رند کے غمگسار ہو جاتے ہیں

بے وجہ گناہ گار ہو جاتے ہیں

اربابِ جہاں کا ظرفِ عالی، توبہ

اک جام میں ہوشیار ہو جاتے ہیں

 

 

 

               داد و فریاد

O

 

تصدیقِ خیالِ خام ہو جائے گی

تخئیل کی روک تھام ہو جائے گی

اک جُرعۂ تلخ کی ہے حاجت اے رازؔ

دنیا شیریں کلام ہو جائے گی

 

O

 

یہ واعظِ خوش کلام، اللہ اللہ

شرمندۂ ذوقِ عام، اللہ اللہ

افسانہ تراش اور حق گو، توبہ!

دیں اس کو بھی جام، اللہ اللہ

 

 

O

 

لاریب کہ رہنمائے دوراں تو ہے

گم کردۂ راہ کا نگہباں تو ہے

قربان اس ادّعائے خوش فہمی کے

دنیا کافر ہے بس مسلماں تو ہے

 

O

 

بُرہانِ جوازِ خود نمائی کیا ہے

خوددار ہے تو، یہ خودستائی کیا ہے

صد شکر، حریفِ پاک باطن، صد شکر

میں جانتا ہوں کہ پارسائی کیا ہے

 

 

O

 

 

ہر گل ہے فریب کار، توبہ توبہ

عیّار و ستم شعار، توبہ توبہ

کیوں باغِ جہاں سے ہو نہ دل کو وحشت

ہے رشکِ خزاں بہار، توبہ توبہ

 

O

 

دلبر ہے ستم شعار، اللہ اللہ

اس حسن کا اعتبار، اللہ اللہ

آئے گی خزاں کبھی نہ اس میں گویا

یہ باغِ سدا بہار، اللہ اللہ

 

 

O

 

میں اور سوالِ خود نمائی، توبہ

میں اور وبالِ خودستائی، توبہ

اک رندِ بلا نوشِ ازل ہوں اے رازؔ

میں اور خیالِ پارسائی، توبہ

 

O

 

دنیا کہتی ہے یہ کہ تو ہے مجھ سے

واللہ عجیب گفتگو ہے مجھ سے

معلوم نہیں ہے رازؔ اس کو شاید

گلزارِ جہاں میں رنگ و بو ہے مجھ سے

٭٭٭

مصنف کی اجازت اور تشکر کے ساتھ

ان پیج سے تبدیلی، عملِ لفظی اور تدوین:اعجاز عبید

ای بک: اعجاز عبید