FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

فہرست مضامین

المعہد الإسلامی العربی:  تعارف – طریقۂ کار – مقاصد

محمد حماد کریمی ندوی

ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

عربی زبان حقیقت اسلام کا جزوِ لا ینفک ہے

’’یَعْتَقِدُ الْمُسْلِمُوْنَ بِحَقٍّ أَنَّ لُغَتھَمُ الْعَرَبِیَّۃَ جُزْئٌ لاَ یَنْفَکُّ مِنْ حَقِیْقَۃِ الاِسْلاَمِ، لِأَنّھَا کَانَتْ تَرْجُمَاناً لِوَحْیِ اللّٰہِ، وَلُغَۃً لِکِتَابِہِ، وَمُعْجِزَۃً لِرَسُوْلِہِ، وَلِسَاناً لِدَعْوَتِہِ، ثُمَّ ھَذَّبھَا النَّبِیُّ الْکَرِیْمُ بِحَدِیْثِہِ، وَنَشَرھَا الدِّیْنُ بِانْتِشَارِہِ، وَخَلَّدھَا الْقُرْآنُ بِخُلُوْدِہِ، فَالْقُرْآنُ لَا یُسَمَّی قُرْآناً إِلآَ مِنْھَا، وَالصَّلاَۃُ لاَ تَکُوْنُ صَلاَۃً إِلآَ بھِا‘‘۔

مسلمان بجا طور پر یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی عربی زبان حقیقت اسلام کا جزو لاینفک ہے، کیوں کہ عربی زبان وحیِ الٰہی کی ترجمان، کتابِ الٰہی کی زبان، رسولِ خدا صلی اللہ علیہ و سلم کا معجزہ، اور آپ کی دعوت کی شارح ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی شان گفتگو سے اس کو شائستگی بخشی، اسلام نے اس کو آفاقیت دی اور قرآن پاک نے اس کو اپنی پائندگی عطا کی، بغیر عربی زبان کے قرآن، قرآن نہیں، اور اس کے بغیر کوئی نماز، نماز نہیں۔

(مشہور اسلامی مصنف ومفکر استاذ انور الجندی مصری، بشکریہ:  حرف شیریں، از:  حضرت مولانا نور عالم خلیل امینی دامت برکاتہم)

مقدمہ

از:  حضرت مولانا نذر الحفیظ صاحب ندوی ازہری مد ظلہ العالی

سرپرست المعہد الاسلامی العربی وصدر شعبۂ عربی دار العلوم ندوۃ العلماء، لکھنؤ

رمضان المبارک سے دو ہفتہ قبل عزیز گرامی مولوی حماد کریمی ندوی سلمہ نے اپنے ادارہ جامعہ ربانیہ اشفاقیہ مظفرپور میں آنے کی دعوت دی، وقت نہ ہونے کے باوجود ان کی دعوت قبول کر کے جب وہاں حاضری ہوئی، تو یہ معلوم کر کے قلبی مسرت ہوئی کہ موصوف نے اپنے والد ماجد مولانا محمد شرف عالم قاسمی کے مشورہ سے عربی بولنے اور لکھنے کی مشق کے لئے ایک پروگرام مرتب کیا ہے، مزید یہ بھی معلوم ہوا کہ چار سال سے یہ پروگرام چل رہا ہے، اور بہت کم مدت میں اس نے بڑی مقبولیت حاصل کر لی ہے، اس میں شرکت کے لئے عربی مدارس کے طلبہ بڑی تعداد میں اور بڑے ذوق و شوق سے شریک ہو رہے ہیں، سال گذشتہ مظفرپور کے قریب بینی آباد میں یہ پروگرام منعقد کیا گیا، اورامسال ان شاء اللہ بھٹکل کے قریب مرڈیشور میں منعقد کیا جائے گا۔

ہم عربی مدارس کے اساتذہ اور طلبہ کاعام طور پر یہ حال ہے کہ وہ آٹھ دس سال عربی کتابیں پڑھنے کے باوجود عربی میں تحریر و تقریر کے ذریعہ ما فی الضمیر ادا نہیں کر سکتے، جب ندوۃ العلماء قائم ہوا تو سب سے پہلے اس کے جلسہ میں اس وقت کے طالب علم سید سلیمان ندوی نے علامہ رشید رضا مصری کے سامنے برجستہ عربی میں ایسی تقریر کی کہ علامہ شبلی نے اپنے کم سن شاگرد کو گلے لگا لیا، اس کے بعد سے علامہ شبلی ہی کی نگرانی میں بار بار ایسے مظاہرے ہوتے رہے، یہاں تک کہ پورے عالم عربی میں ندوی فضلاء کی تقریر و تحریر کی دھاک بیٹھ گئی، آخری دور میں مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی حسنی ندویؒ نے پوری عرب دنیا کو خصوصاً اپنی تقریر و تحریر سے متاثر کیا۔

ہمارے عزیز مولوی حماد کریمی ندوی (اللہ ان کو نظر بد سے بچائے ) خود ایک مثالی طالب علم رہے ہیں، جامعہ اسلامیہ بھٹکل کے اساتذہ اور مربیوں کی سرپرستی میں انہوں نے بڑے اہم علمی و تحقیقی موضوعات پر عربی اور اردو میں مقالے لکھے ہیں، جو ان کی طالب علمی ہی کے زمانے میں شائع ہو کر مقبول ہو گئے، مولانا عبد الباری ندویؒ کی سرپرستی اور حوصلہ افزائی نے عزیزی حماد کو اتنا آگے بڑھایا کہ انہوں نے ملک گیر پیمانے پر منعقد ہونے والے انعامی مقابلے میں دوسرا انعام حاصل کیا، ان کا یہ مقالہ مولانا قاسم نانوتویؒ پر عربی زبان میں مقبول ہوا۔

ہمیں ذاتی طور پر دلی مسرت ہے، اور دار العلوم ندوۃ العلماء کے اساتذہ بھی مسرور ہیں کہ وہ عربی زبان و ادب کو زندہ زبان ثابت کرنے کے لئے سرگرم عمل ہیں۔

اس سے بھی آگے بڑھ کر انہوں نے اپنے والد ماجد کی دعاؤں سے ’’النصیحۃ‘‘ نامی سہ ماہی عربی رسالہ نکالنا شروع کیا ہے، جو اپنی مقبولیت ونافعیت کو ثابت کر رہا ہے، اس رسالہ کے صرف چار شمارے نکلے ہیں، لیکن مبصرین کی نگاہوں میں اس نے اپنی انفرادیت اور امتیاز کو ثابت کر دیا ہے۔

اسی طرح عربی زبان میں گفتگو اور تحریر کی مشق کا پروگرام بھی اب مشہور ہو رہا ہے، کہ نہ صرف ان سے اپنے علاقوں میں مدارس کے ذمے دار ایسے پروگرام منعقد کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں، بلکہ اس کو نمونہ بنا کر اپنے علاقوں میں اس طرح کے نظام کو قائم کرنے کا عزم بھی ظاہر کیا ہے۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ عربی زبان و ادب کے فروغ کی یہ کوششیں نظر بد سے محفوظ رہیں۔

ایں دعا از من واز جملہ جہاں، آمین باد

نذر الحفیظ ندوی

تقدیم

از:  جناب مولانا شاہد علی قاسمی مد ظلہ العالی

معتمد تعلیم المعہد الاسلامی العربی، حیدرآباد             

الحمد للّٰہ وحدہ، والصلاۃ والسلام علی من لا نبی بعد ہ، أما بعد !

اس وقت ہندستان میں مدارس دینیہ قابل لحاظ تعداد میں موجود ہیں، اور یقیناً یہ سب اہم دینی ضرورتوں کی تکمیل کر رہے ہیں، تاہم اس میں شبہ نہیں کہ جہاں کمیت میں اضافہ ہوا ہے، وہیں کیفیت میں گراوٹ آئی ہے، فضلاء سالہا سال عربی کتابیں پڑھتے ہیں، مروجہ کورس کی تکمیل کرتے ہیں، لیکن عربی زبان پر بیشتر کو قدرت حاصل نہیں ہو پاتی، یہ ایک ایسا کمزور پہلو ہے جس کی طرف ارباب مدارس کو خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

نوجوان فاضل مولانا محمد حماد کریمی ندوی اور ان کے والد بزرگوار حضرت مولانا شرف عالم قاسمی کریمی زید مجدہ نے اس اہم پہلو کی طرف خصوصی توجہ دیتے ہوئے عربی زبان کو مقدور بھر عام کرنے کا بیڑہ اٹھایا ہے، اور اسی پس منظر میں المعہد الإسلامی العربی کی بنیاد رکھی ہے، جس کے تحت اس وقت چار جہتوں سے کام ہو رہا ہے:

ایک تو جامعہ ربانیہ کی دینی وتعلیمی سرگرمیاں ہیں، جو ضلع مظفرپور، بہار کے ایک گاؤں انکھولی، بیلپکونہ میں قائم ہے، جہاں عربی زبان و ادب کی طرف خصوصی توجہ کے ساتھ مروجہ تعلیم کا نظم ہے۔

دوسری جہت یک ماہی عربی بول چال کورس ہے، فضلاء دینی مدراس بڑی تعداد میں اس کورس میں شریک ہوتے ہیں، اور بڑا نفع محسوس کرتے ہیں۔

المعہد الإسلامی العربی کے کاموں کی تیسری جہت سہ ماہی عربی مجلہ ’’النصیحۃ‘‘ کی اشاعت ہے، مجلہ کے مطالعہ سے محسوس ہوا کہ جلیل القدر علماء کرام کے وقیع علمی مضامین کے اس میں شمولیت کی وجہ سے یہ مجلہ اپنی مثال آپ ہے۔

ادارہ کا چوتھا شعبہ ’’مجلس ثقافت و نشریات اسلام‘‘ ہے، جس کا مقصد اردو، عربی اور انگریزی زبانوں میں لکھی جانے والی اہم کتابوں کی اشاعت ہے، اور ماشاء اللہ اب تک ۲۵؍ سے زائد کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔

المعہد الإسلامی العربی کا قیام وقت کی اہم ترین ضرورت ہے، اور ماشاء اللہ یہ ادارہ نہایت وقیع خدمات انجام دے رہا ہے، اللہ تعالیٰ کی ذات سے امید رکھتا ہوں کہ یہ ادارہ اپنی خدمات جلیلہ کی وجہ سے بہت جلد علمی افق پر روشن ستارہ بن کر چمکے گا۔

دعا ہے کہ اللہ اس ادارہ کو اپنے مقاصد کی تکمیل میں خوب خوب کامیاب فرمائے، اور اسے امت کے لئے زیادہ سے زیادہ نفع بخش بنائے، آمین

شاہد علی قاسمی

معتمد تعلیم المعہد الاسلامی العربی، حیدرآباد

۳؍ محرم الحرام ۱۴۳۸ھ مطابق ۵؍ اکتوبر ۲۰۱۶ء

پیش لفظ

بقلم:  جناب مولانا محمد خالد ضیاء صدیقی ندوی

رفیق شعبۂ تحقیق وتصنیف، امام بخاری ریسرچ اکیڈمی، علی گڑھ، یوپی

الحمد للّٰہ ربّ العالمین، الذی شرّف اللّغۃ العربیۃ وفضّلھا علی أخوا تھا تفضیلاً، والصلاۃ والسلام علی رسولنا محمد صلی اللّٰہ علیہ و سلم، الذی نزّل علی قلبہ أشرف الکتب السماویۃ بأشرف اللغات فی العالم، فحبّبھا إلی الناس تحبیباً، وعلی آلہ وأصحابہ الذین نطقوا بالعربیۃ ونشروھا فی العالم، فکرّموھا تکریماً، وبعد!

اس میں کوئی شک نہیں کہ زبان ایک عظیم عطیۂ خداوندی ہے، اور انسان کے مشاہدے کے ساتھ ساتھ قرآن کا مطالعہ بتلاتا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی قدرت کی ایک بہت بڑی نشانی زبان کا اختلاف ہے، دنیا کے مختلف خطوں میں بسنے والے کروڑوں انسان ایسے ہیں جن کی زبانیں ایک دوسرے سے مختلف ہیں، اور ہر زبان اپنی جداگانہ خوبیاں رکھتی ہے، لیکن ان تمام زبانوں میں خدائے علیم وخبیر نے اپنی حکمت ومصلحت اور لطف و کرم سے عربی زبان کے دامن کو مختلف جہات سے مالا مال کر کے اسے ساری زبانوں پر برتری عطا فرمائی۔

عربی زبان کے سر کو فخر و عزت سے اونچا کرنے کے لئے یہی کافی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے حبیب محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر آخری وحی کے نزول کے لئے جس زبان کو منتخب فرمایا وہ یہی قابل رشک زبان ہے، اس طرح اس کے سر پر عزت و کرامت کا تاج رکھ کر قیامت تک کے لئے اس کی محفوظیت اور عز و شرف پر آخری مہر لگادی۔

لیکن یہ دنیا تو ایک عجائب خانہ ہے، یہاں ہر روز کچھ نہ کچھ تماشا ہوتا رہتا ہے، عربی زبان کے ساتھ بھی تماشا کچھ کم نہیں ہوا، دشمنان اسلام نے اس کی اصلیت و محفوظیت، اس کی رونق و شادابی، اس کی تازگی و دلکشی، اس کی شائستگی و شستگی، اس کی دل پذیری و دلآویزی، اس کی رعنائی و زیبائی، اس کی شوکت و عظمت، اس کی جزالت و فخامت، اس کی فصاحت و بلاغت، اس کی شیرینی و حلاوت، اس کی لطافت و شفافیت، اس کی صراحت و وضاحت، اس کی مالداری و بے نیازی، اس کی تاثیر و تعبیر، اس کا حسن و جمال، اس کا شکوہ و جلال، اور نہ جانے کتنے اوصاف وخصوصیات ہیں، جن کو صرف اور صرف قرآن دشمنی، اسلام دشمنی اور پیغمبر دشمنی کی وجہ سے میلا کرنے کی مذموم کوششیں کی، اور افسوس صد افسوس یہ کہ مغرب کی ان نامناسب کوششوں کو تقویت ان مشرقی عقیدت مندوں نے بخشی، عربی زبان جن کی میراث تھی، آزاد خیالی اور روشن خیالی کے زعم میں وہ سب کچھ اس خطے سے کر بیٹھے جو عربی زبان و ادب کا گہوارہ سمجھا جاتا رہا ہے، اس طرح ’’فصحی‘‘ کے خلاف غیروں نے جو زبردست تحریک چلائی اس کاحصہ بن کر قرآن و حدیث اور دین اسلام کے سارے لٹریچر کو ’’عامیہ‘‘ کی بھینٹ چڑھانے کی اپنی سی کوشش کرنے میں انہوں نے کوئی دریغ نہ کیا۔

یہ وہ المناک دور تھا جب عربی زبان نے اپنے غیور فرزندوں کو آواز دی، اس نے یہ صدا لگائی کہ مجھے بتلایا جائے کہ میرے ساتھ یہ سلوک کیوں ہو رہا ہے ؟ کیا میں بانجھ ہو چکی ہوں ؟ کیا دنیا کا ساتھ دینے کی مجھ میں صلاحیت نہیں رہی؟ کیا اس ’’دور ترقی‘‘ اور ’’عہد سعادت‘‘ کی راہ کا میں روڑا ہوں ؟۔۔ ۔  نہیں، ہرگز نہیں !! میں تو قرآن کی بے پناہ وسعتوں کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہوں، اس کے عجائبات سے میری دنیا آباد ہے، اس کے یواقیت و جواہر کا میں معدن ہوں، اس کے علوم و معارف کا میں امین ہوں، اس کے اسرار و حکم کا میں راز  دار ہوں، حدیث و سنت کا میں مخزن ہوں، پیارے حبیب صلی اللہ علیہ و سلم کی حیات طیبہ کے سارے گوشے کو اپنے وسیع حرم میں پا کر میں اپنی خوش قسمتی پہ نازاں ہوں، اسلامی علوم کے سوتے میرے ہی سرچشمے سے پھوٹتے ہیں، اور ابل ابل کر تمہیں سیراب کرنے کے لئے بے چین ہیں۔

میرے محافظو! کہاں ہو تم؟ میری عصمت و حرمت کی تقدس کا تمہیں کوئی پاس نہیں ؟ کیا تم اسلاف کے سچے جانشیں کہلا سکتے ہو؟ وہ اسلاف جنہوں نے میری حفاظت ہی نہیں ناز برداری کی۔۔ ۔۔  کہاں گئی تمہاری غیرت؟ کہاں گیا تمہارا جذباتی تعلق؟ کہاں ہے مجھ سے تمہارا ایمانی رشتہ؟ کیا عہدِ شباب ہی میں مجھے دفنایا جائے گا؟ تمام تر صلاحیتوں کے باوجود کیا مجھے بانجھ ہونے کا طعنہ دیا جائے گا؟؟؟

یہ وہ دلدوز صدا تھی جس نے غیور محبین زبان کو بے چین کر دیا، ادباء و شعراء کی نیندیں حرام ہو گئیں، صاحب طرز انشا پردازوں اور بلند پایہ مصنفین کی جماعت اس کی مدد کے لئے کمر بستہ ہو گئی، پھر کیا تھا؟ ایسے پر زور مقالات و مضامین، اور ایسے پرشور اشعار و قصائد سامنے آئے جنہوں نے دشمنوں کے سارے منصوبے خاک میں ملا دئیے، انہوں نے اس زبان کی حفاظت و مدافعت، اور اس کی عصمت و ناموس کے تحفظ میں جس طرح کے کارہائے نمایاں انجام دئیے، تاریخ ادب کے اوراق ان پر رشک کناں ہیں۔

عربی زبان سے مسلمانانِ عجم، بالخصوص مسلمانانِ ہند کو جو جذباتی اور ایمانی تعلق رہا ہے، اور اس کی جس درجہ خدمت کی ہے، زمانہ اس کا معترف ہے، بعض پہلوؤں سے برصغیر کے علماء و فضلاء کی خدمات اب تک بے نظیر ہیں ،۔۔ ۔۔  لیکن افسوس کہ اس زبان سے تعلق کا گراف نسبتاً گھٹتا جا رہا ہے، اس ’’زندہ زبان‘‘ کو ایک ’’بوسیدہ زبان‘‘ کے طور پر سیکھنے اور سکھانے کے طرز سے اوپر اُٹھنے میں اب تک خاطر خواہ کامیابی نہیں مل پائی ہے، ہمارے بیشتر دینی مدارس اور عصری دانش گاہیں اب تک ایسا ماحول پیدا کرنے سے قاصر ہیں جس سے عربی زبان پر ماہرانہ قدرت پیدا ہو سکے، اور اظہار ما فی الضمیر کے لئے بے تکلف اس کا استعمال اپنی روزمرہ کی زندگی میں کیا جا سکے، میں یہ تو نہیں کہ سکتا کہ زوال پورے طور پر آ چکا ہے، البتہ یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ ’’عربی زبان‘‘ کے مقابلے میں ’’انگریزی زبان‘‘ سیکھنے کی طرف رجحان بڑی تیزی سے بڑھ رہا ہے، وقت کی زبان کو سیکھنا کوئی شجر ممنوعہ نہیں، بلکہ ’’اشاعت دین‘‘ اور ’’تحفظ دین‘‘ کی خاطر اس کا حاصل کرنا دین ہی کا ایک حصہ ہے، لیکن ’’عربی زبان‘‘ کے استحصال کرنے کی ہمت افزائی بھی کون کر سکتا ہے ؟!!!

اسی افسوس ناک صورتحال کے پیش نظر عربی زبان کو زندہ اور عصری زبان کی حیثیت سے سیکھنے اور سکھانے کے لئے ایک مبارک اور خوش آئند کام کا آغاز کوئی پانچ سال قبل ’’بہار‘‘ کی سرزمین سے عربی زبان و ادب کے شیفتہ و فریفتہ، حضرت مولانا محمد شرف عالم صاحب کریمی قاسمی دامت برکاتہم کے ذریعہ ہوا تھا، جو آج ماشاء اللہ ملک اور بیرون ملک میں پذیرائی حاصل کر چکا ہے، ان کے اس مشن میں ان کے قابل فخر اور سعادت مند فرزند ارجمند مولانا محمد حماد کریمی ندوی ہمیشہ دست و بازو بن کر رہے ،۔۔ ۔  ماشاء اللہ عظیم باپ اور سعید بیٹے کی اس پیاری اور محبوب زبان سے مخلصانہ اور والہانہ محبت و جذبے کو اللہ تعالیٰ نے شرفِ قبولیت بخشا، اور چھوٹی سی محنت کو قلیل مدت میں وسیع پیمانے پر حسن قبول حاصل ہوا۔

عربی زبان و ادب کو فروغ دینے کے لئے ایک ادارہ بنام ’’المعہد الإسلامی العربی‘‘ کا قیام عمل میں آیا، جو سال میں ایک بار (شعبان اور رمضان کے مبارک مہینوں میں ) ملک کے مختلف خطوں میں ’’یک ماہی عربی بول چال کورس‘‘ کا عمدہ انتظام کرتا ہے، جس میں عربی زبان کو زندہ زبان کی حیثیت سے برتنے کا سلیقہ سکھایا جاتا ہے، اس سلسلے میں عربی زبان و ادب سے تعلق رکھنے والے اور اس کا پاکیزہ و صاف ستھرا ذوق رکھنے والے ماہرین کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں، جو اپنے ایک خاص منہج پر شریک ہونے والے طلباء کو کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ نافع بنانے کی ہنر مندانہ کوشش کرتے ہیں۔

معہد کے بعض پروگرام میں مجھے بھی شرکت کی عزت حاصل رہی ہے، میرا اندازہ ہے کہ معہد اپنے اس طرز خدمت میں ہندستان کا ایک منفرد ادارہ ہے، جو نہایت ہی خوبصورتی اور حد درجہ جفاکشی کے ساتھ، عربی زبان و ادب سے والہانہ تعلق آنے والے مہمان طلبہ کے دلوں میں پیدا کرتا ہے، اور انہیں ایک ماہ میں مستقل عربی کا ماحول دے کر اس لائق بنا دیتا ہے کہ وہ عربی زبان میں کچھ لکھنے اور بولنے پر بلا تکلف قادر ہو سکیں ،۔۔ ۔  اس کی نافعیت اور ثمر ریزی کا صحیح اندازہ وہی حضرات کر سکتے ہیں جنہوں نے اس کورس کو قریب سے دیکھا ہو، یا اس میں شریک ہونے والے طلباء کے تاثرات سے وہ واقف ہوں۔

جو لوگ اس نظام کو قریب سے نہیں دیکھ سکتے انہیں اس ادارے کے لائق و فائق ناظم محب گرامی مولانا محمد حماد کریمی ندوی زید فضلہ کا یہ رسالہ ضرور پڑھنا چاہئے۔

اس رسالہ میں تفصیل سے بتایا گیا ہے کہ عربی زبان کو عملاً کس طرح برتا جا سکتا ہے ؟ اس غیور زبان سے استفادے کی کیا شکلیں ہو سکتی ہیں ؟ اس زبان کو ہم زندہ زبان کے طور پر کس طرح حاصل کر سکتے ہیں ؟ اسے سیکھنے کی ضرورت ہمیں کیوں ہے ؟ معہد اس زبان سے بھرپور استفادے کے لئے کن ذرائع اور طریقوں کو اختیار کرتا ہے ؟ اس کا نصاب اور طریقۂ کار کیا ہے اور کیا ہونا چاہئے ؟

امید ہے کہ یہ رسالہ (جو بقامت کہتر، بقیمت بہتر کا حقیقی مصداق ہے) عربی زبان کے شائقین کے نزدیک حسن قبول حاصل کرے گا، اور ساتھ ہی اس رخ پر کام کرنے والوں کے لئے رہنما ’’گائڈ‘‘ ثابت ہو گا،۔۔ ۔  اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ معہد کو مزید ترقیات سے نوازے، غیب سے اس کے لئے اسباب فراہم فرمائے، اس کے بانی محترم مولانا شرف عالم صاحب قاسمی دامت برکاتہم کو مزید حوصلہ اور قوت عطا فرمائے، ان کے لئے اسے صدقہ جاریہ بنائے، اور اس کے ناظم گرامی اور رسالے کے فاضل مولانا حماد کریمی ندوی کو اپنے تمام رفقاء کے ساتھ مزید بہتر طور پر اس زبان کی خدمت کی توفیق ارزانی فرمائے، آمین

محمد خالد ضیاء صدیقی ندوی

رفیق شعبۂ تحقیق وتصنیف، امام بخاری ریسرچ اکیڈمی، علی گڑھ، یوپی

۱۰؍ ۳؍ ۱۴۳۸ھ = ۱۰؍ ۱۲؍ ۲۰۱۶ء

منظوم تاثرات

نتیجۂ فکر:  شاعر اسلام جناب مولانا ولی اللہ ولی بستوی قاسمی، استاذ مظاہر العلوم وقف، سہارنپور

انجمن میں چاند بن کے جگمگائے یہ کتاب

طالبوں کو خوب عربی فن سکھائے یہ کتاب

جس کی ضو سے پڑھنے والوں کے ہوئے روشن دماغ

درسگاہوں میں وہ شمعِ فن جلائے یہ کتاب

دیکھ کر جس کو مُیسَّر ہوتی ہے تسکین دل

وہ شگفتہ پھول بن کر مسکرائے یہ کتاب

بلبلوں کے ہاتھ میں آتی ہے یہ بن کر گلاب

میکشوں کو بادۂ علمی پلائے یہ کتاب

حضرت حمادؔ نے لکھ کر کیا احسان بہت

کہکشانِ علم بن کر چمچمائے یہ کتاب

ان کے فیضانِ قلم کا یہ نمایاں ہے اثر

علم و حکمت کے سنہرے گل لٹائے یہ کتاب

جس کو پڑھ کر پڑھنے والے ہو رہے ہیں کامیاب

وہ مہارت کے حسین جوہر دکھائے یہ کتاب

رہنمائے فن عربی کی رہی جن کو تلاش

ان کی آنکھوں میں نہیں پھولے سمائے یہ کتاب

شائقین فن عربی جو رہے، سچ ہے انہیں

آرزوؤں کا حسین گوہر دلائے یہ کتاب

علم و حکمت کی زمانے میں ہے جاری سلسبیل

رحمتِ باری کے ہے دریا بہائے یہ کتاب

ہے قواعد سے، ضوابط سے، اصولوں سے سجی

علم وفن کی بن کے کھیتی لہلہائے یہ کتاب

ہے مریدوں کے لئے یہ بے بہا علمی مراد

تشنہ لب کی تشنگی علمی بجھائے یہ کتاب

دیکھتے رہ جائیں گھنٹوں پھر بھی اُکتائے نہ دل

قاریوں کے خوب اچھے دن بتائے یہ کتاب

طالبین فن عربی کے لئے ہے رہنما

مبتدی کو خوب ہی آگے بڑھائے یہ کتاب

جو لئے سچی طلب دل میں چلے ہیں اے ولیؔ

ان سبھوں کو جانب منزل بلائے یہ کتاب

٭٭٭

تمہید

اس بات کا ہر ایک کو اعتراف ہے کہ ہماری دینی درسگاہوں میں عربی زبان و ادب کی نہایت وقیع اور معیاری کتابیں پڑھائی جاتی ہیں، نیز عربی زبان کے اہم ستون یعنی علم صرف و نحو میں مستند اور مفصل کتا بوں کی تدریس ہوتی ہے، اس کے علاوہ بلاغت و معانی کی کتابیں بھی پڑھا ئی جاتی ہیں۔

ان سب کے با وجود ہمارے دینی مدارس کے اکثر فضلا ء عربی زبان کے عملی استعمال یعنی اس میں گفتگو اور تحریر کی قدرت حا صل نہیں کر پا تے، اوران کو سخت ضرورت کے وقت معمولی عربی بول چال اور تحریرمیں بھی بڑی دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اہل زبان سے ملاقات کے وقت کما حقہ ان سے تبادلۂ خیال نہیں کر پاتے، اور عصر حاضر کے اخبارات و مجلات سے مکمل استفادہ نہیں کر پاتے، نیز اسلامی کام و احکام اور پیغام کو عربی زبان میں جس طرح پہچانا چاہئے نہیں پہنچا پاتے، جبکہ دنیا میں سب سے زیادہ جو زبانیں بولی اور سمجھی جاتی ہیں، ان میں سے ایک عربی زبان ہے۔

اس کی دیگر بہت سی وجوہات میں سے ایک اہم وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنا طویل تعلیمی عرصہ صرف عربی زبان کے قواعد اور اصو لوں، نیز اسماء و افعال کو یاد کرنے میں صرف کرتے ہیں، جس کی وجہ سے اکثر و بیشتر فارغین عربی بولنے اور لکھنے کی استعداد حاصل نہیں کر پاتے، حا لا نکہ ان کے لئے عربی زبان نہایت آسان ہے، اگر انہیں کچھ مشق و تربیت کرا دی جائے تو وہ اسے اچھی طرح لکھ اور بول سکتے ہیں۔

جامعہ ربانیہ اشفاقیہ کا قیام

اس بات کاپوری طرح احساس جناب مولانا محمد شرف عا لم صاحب کریمی قاسمی کو بڑی شدت سے اس وقت ہو ا، جب ان کواللہ تبارک و تعالیٰ نے پہلی بار سفر حج کا قابل شکر موقع عطا فرمایا، اس دوران بہت سے مواقع ایسے آئے کہ جس میں عربی میں بات کرنے کی ضرورت پڑی، لیکن مشق و عادت نہ ہونے کی بنا پر ایک عرصہ تک بڑی دقتوں کا سامنا کرنا پڑا، اسی وقت ان کے دل پر چوٹ لگی، اور یہ عزم کر لیا کہ اب انشاء اللہ پو ری کوششوں کا مرکز ومحور عربی زبان ہی ہو گی۔

اسی کے پیش نظر انہوں نے ۱۴۲۸ھ مطابق۲۰۰۷ء کو اپنے آبا ئی وطن انکھولی بیلپکونہ میں ایک دینی ادارہ جامعہ ربانیہ اشفاقیہ کی بنیاد رکھی، جس میں اس بات کا تجربہ کیا کہ جس طرح انگریزی اسکولوں میں پہلے ہی دن سے انگریزی بولنا سکھائی جاتی ہے، اسی طرح مدرسہ میں بھی روزِ اول سے عربی بول چال پر خصوصی توجہ دی جائے، یہ تجربہ بڑا کامیاب رہا، اور چہار جانب سے طلبہ جوق در جوق مدرسہ کی طرف رجوع کرنے لگے، اس دوران معائنہ کرنے والے کئی علماء نے اس نو خیز مدرسہ کی عربی زبان و ادب کے میدان میں کی جانے والی مساعی کو سراہتے ہوئے اس کو خوش آئند قرار دیا۔

ذیل میں دو اہم علماء کے تاثرات درج کئے جاتے ہیں:

تاثرات

(۱) آج مؤرخہ ۲؍محرم الحرام؍۱۴۳۰ھ کو اتفاقاً جامعہ ربانیہ، مقام انکھولی بیلپکونہ، تھانہ کٹرا، ضلع مظفرپور میں احباب کے ساتھ حاضری ہوئی، ایسے وقت میں مدرسہ پہنچا، جبکہ اساتذہ وطلبہ اپنے تعلیمی کاموں میں مشغول تھے، طلبہ وطالبات کی مجموعی تعداد تقریباً ڈھائی سو ہے اور مطبخ سے جن کو کھانا دیا جاتا ہے ان کی تعداد ستر پچھتر ہے، اساتذہ تعلیم و تربیت کے کاموں میں مشغول ہیں، جو سبھی صالح اور باصلاحیت ہیں، مدرسہ کے سامنے ایک عظیم الشان مسجد زیر تکمیل ہے، لبِ روڈ مسجد اور تعلیمی درسگاہ واقع ہے، طلبہ وطالبات کا بھی میں نے جائزہ لیا، صحتِ مخارج کا اہتمام اور چھوٹی چھوٹی بچیوں نے عربی کے مبادیات بھی سنائے، اسمائے حسنی کو معنی کے ساتھ یاد کرایا جانا انتہائی موجب برکت ہے، اس کے صدر اور ناظم سبھی معتمد حضرات ہیں، حق تعالیٰ اسے مقبو لیت عامہ وتامہ عطا فرمائے (آمین )، اہل خیر اور علم دوست حضرات سے اس کے لیے بھرپور تعاون کی اپیل ہے۔

محمد قاسم عفی عنہ

قاضی شریعت، امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

٭٭٭٭٭٭٭

(۲) بہار کے ضلع مظفر پورکے ایک چھوٹے سے قصبہ میں قائم الجامعۃالربانیۃ الأشفاقیۃ نامی مدرسہ میں اس کے بانی و ذمہ دار اور ایک متحرک وسرگرم شخصیت ہمارے مشفق ومحترم جناب مولانا شرف عالم صاحب قاسمی کریمی زیدمجدہ کی دعوت پر جانے، اس کا مختصر سا جائزہ لینے، اور دو دن اپنے کئی بھٹکلی رفقاء کے ساتھ قیام کرنے کا موقع ملا۔

مدرسہ بڑے عزم و حوصلے اور بلند ارادوں کے ساتھ قائم کیا گیا ہے، علوم شرعیہ وعصر یہ کے ساتھ عربی زبان پر توجہ کا زیادہ اہتمام یہاں کیا جاتا ہے، طلبہ و اساتذہ کی محنت اور زبان و ادب میں تفوق دیکھ کر بہت خوشی ہوئی۔

اللہ تعالیٰ اس مدرسہ کو ہر طرح کی ترقی سے نوازے۔  اس کے ذمہ داروں اور اساتذہ کو اخلاص کے ساتھ کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور یہاں کی ضروریات کا غیب سے تکفل فرمائے۔

یہاں طلبہ کے رہنے اور درجہ وغیرہ کے قیام کے لیے تعاون کی اشد ضرورت ہے۔

بندہ عبدالسلام الخطیب ندوی بھٹکلی

استاذحدیث و ادب دارالعلوم ندوۃالعلماء لکھنو

نیز بانی جامعہ جناب مولانا شرف عالم صاحب کے قلم سے تحریر کردہ جامعہ کے تعارف سے بھی اس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے:

٭٭٭

جامعہ ربانیہ اشفاقیہ کا مختصر تعارف

اللہ ہی کے احسانِ مزید و انعامِ جدید کے صدقہ ۱۴۲۸ھ مطابق ۲۰۰۷ء میں علمِ ربانی کا پاسبان، زبانِ قرآنی و شریعتِ محمدی کا ترجمان، جامعہ ربانیہ اشفاقیہ، انکھولی بیلپکونہ، ضلع مظفر پور، صوبہ بہار، انڈیا، وجود میں آیا، اور رشد و ہدایت، علم و قلم، خلوص و عمل، خصوصاً عربی زبان کی معیاری تعلیم، اور تقویٰ و طہارت کا مرکز بننے کا شرف پایا۔

الحمد للہ ثم الحمد للہ اس مختصر مدت میں جامعہ کو غیر معمولی عظمت و ترقی اور شہرت و بلندی ملی، گرانقدر دینی، علمی، تبلیغی، اصلاحی، قومی و ملّی خدمات انجام دینے کا قابلِ شکر و رشک موقع ملا، کیفیت و کمیت دونوں اعتبار سے بڑی خوبی و خوبصورتی اور تیزی و کامیابی کے ساتھ آگے بڑھا اور پھلا پھولا۔  ع

پھلا پھولا رہے یارب چمن میری امیدوں کا

قدم قدم پر تائیدِ الٰہی، نصرتِ غیبی اور خاص قسم کی نصرتِ ایزدی کا رہا ساتھ، جس سے بنتی رہی بات، اور بہتر سے بہتر ہوئے حالات۔

ابتدا ہی سے جامعہ کے قیام کا مقصد شاندار، ٹھوس، دلآویز، فکر انگیز و نتیجہ خیز معیاری تعلیم اور پاکیزہ و دلکش انسانی صفات و کمالات کی حامل تربیت کے ساتھ ساتھ خدا کے ابدی و سرمدی دین کی ترقی و سرفرازی ہے۔

مری زندگی کا مقصد، ترے دیں کی سرفرازی

میں اسی لئے مسلماں، میں اسی لئے نمازی

ماشاء اللہ جامعہ کی گوناگوں خدمات، ایثار و پیار، پاکیزہ و نیک جذبات، روشن و ہمہ گیر خیالات کے طفیل جامعہ طالبانِ علومِ نبوت سے کھچا کھچ بھرا ہوا ہے۔

اس وقت جامعہ میں مختلف اضلاع کے یتیم و غریب اور نادار طلبہ کی ایک بڑی تعداد زیر تعلیم ہے، جن کے قیام و طعام کا انتظام جامعہ ہی کرتا ہے، طلباء کی مجموعی تعداد ۴۰۰ ہے، جن کی علمی و دینی تعمیر و ترقی کی لگن میں گیارہ محنتی اساتذہ مگن ہیں۔

جامعہ کی کئی جزوی شاخیں اور ایک مکمل شاخ جامعہ خیر الوری دھبولی، تعلقہ کٹرا، ضلع مظفر پور ہے، جس کے تمام اخراجات جامعہ ہی برداشت کرتا ہے۔

طلباء کی زیادتی، جگہ کی کمی، ذمہ داروں کے لئے ہے باعثِ غمی، جس کی وجہ سے ہے آنکھوں میں نمی۔

اسی لئے تمام مسلمانوں سے، خصوصاً علم دوست و دین پسند حضرات سے نہایت ہی ہمدردانہ و دردمندانہ ہے گذارش، کہ جامعہ پر خوب کریں مالی نوازش، اور لطف و کرم کی بارش، تاکہ خوب ترقی کرے یہ مرکز علم و دانش، اللہ رکھے آپ کو تر و تازہ، خدا کا فضل و کرم ہو آپ پر زیادہ سے زیادہ، اور وہ رحم فرمائے آپ پر بے اندازہ۔

٭٭٭٭٭٭٭

باوجود ان تمام کوششوں کے اس سلسلہ میں وہ پیش رفت نہ ہو سکی جو مقصود تھی، جس کی دیگر وجوہات کے ساتھ دو بڑی وجہ یہ تھی:

(۱)ایسے اسا تذہ کی قلت جو عربی کے ذوق سے آشنا ہوں، اور بڑی آسانی سے طلبہ میں وہ ذوق منتقل کر سکتے ہوں۔

(۲)ایسی کتابوں کی قلت جو ابتدائی درجات کے طلبہ کے لئے مناسب ومفید ہو۔

مولانا شرف عالم صاحب نے ان دونوں مشکلات کے حل کی طرف توجہ دی۔

اسا تذہ اور عربی ذوق رکھنے والے افراد کی فراہمی کے لئے یک ماہی عربی بول چال کورس کا انعقاد کیا گیا، جس کی تفصیل ۱۴۳۶ھ مطا بق۲۰۱۵ء کو خانپور، مظفرپور، بہار میں منعقد کئے گئے چوتھے کورس کی اس رپو رٹ سے جانی جا سکتی ہے۔

مختصر رپوٹ

برائے یک ماہی عربی بول چال کورس

بسم اللّٰہ، والحمد للّٰہ، والصلوٰۃ والسلام وعلی رسول اللّٰہ، ومن والاہ، أمابعد!

تین سال قبل ۱۴۳۴ھ مطا بق ۲۰۱۳ء کو جامعہ ربانیہ اشفاقیہ کے زیر اہتمام اس کے بانی و ناظم عمومی جناب مولانا شرف عالم صا حب قاسمی، (مقیم مسقط) کے مالی تعاون اور علمی نگرانی میں مدا رس کی تعطیل کے موقع پر یک ماہی (۱۵؍شعبان تا ۱۵؍ رمضان )عربی بول چال کورس کا تجربہ کیا گیا، جو الحمد للہ توقع سے زیادہ کامیاب رہا۔

دوسرے سال مزید وسیع پیمانے پر مدرسہ قاسمیہ بینی آباد، مظفر پور میں اس کا انعقاد کیا گیا، جس میں مختلف مدارس کے پندرہ طلباء نے حصہ لیا۔

امسال یہ کورس صوبۂ بہار کے مشہور شہر مظفر پور کے ایک علمی قصبہ خانپور میں رکھا گیا، جس میں دار العلوم ندوۃ العلماء، دار العلوم دیو بند، مظاہر العلوم سہارنپور، مدرسہ قاسمیہ شاہی مراد آباد، مدرسہ اسلامیہ شکر پور اور ان کے ملحقہ مدارس کے پچیس طلباء نے حصہ لیا، جن میں سے اکثر کا تعلق بہار ہی کے مختلف اضلاع سے تھا، اس کے علاوہ کرناٹک کے دو، مہاراشٹرا کے ایک، آسام کے ایک اور نیپال کے دو طلباء نے بھی شرکت کی، اور اچھے تاثرات کا اظہار کیا۔

درس و تدریس کے لئے اس سال پانچ اسا تذہ کا انتخاب کیا گیا:  (۱) جناب مولانا محمد حماد کریمی ندوی، نائب ناظم جامعہ ربانیہ اشفاقیہ، و ناظم المعہد الاسلامی العربی (۲) مولانا اسامہ نظام الدین ندوی، مہتمم المعہد الاسلامی العربی، (۳) مولانا طلحہ نعمت ندوی، استاذ مدرسہ سید احمد شہید کٹولی، (۴) مولانا عبد القادر منکوی ندوی، (۵) اور مولانا عصمت اللہ ندوی۔

اس کے علاوہ عربی زبان و ادب میں مہارت رکھنے والے بعض اہم لوگوں کے محا ضرات بھی وقتاً فوقتاً رکھوائے گئے۔

کورس میں شرکت کے لئے مندرجہ ذیل شرائط کا پایا جانا ضروری اور لازمی قرار دیا گیا:

(۱)اس تربیتی کورس میں وہی طلبہ شریک ہونے کے مجاز ہوں گے جو عربی چہارم یا اس سے اوپر درجے میں زیر تعلیم ہوں۔

(۲)خوا ہشمند طلبہ کا نحو وصرف کے بنیادی قواعد سے واقف ہونا ضروری ہے۔

(۳)انہی طلبہ کی درخواستیں منظور کی جائیں گی جو عربی زبان سے کچھ نہ کچھ دلچسپی رکھتے ہوں، اور ساتھ ہی شوقِ مطالعہ، ذوقِ طلب اور لذتِ جستجو کی قیمتی دولت سے بھی بہر ور ہوں۔

(۴)ہر خواہشمند طالب علم کو انٹرویو کے مر حلہ سے بھی گذرنا پڑے گا۔

(۵)صرف پچیس طلبہ ہی کو منظوری دی جائے گی۔

مذکورہ شرائط کی تکمیل کے بعد جن طلباء نے اس میں شرکت کی ان کو مندرجہ ذیل سہولیات دی گئیں:

تمام طلباء کو:

(۱)قیام و طعام کی مکمل سہولت دی گئی۔

(۲)۱۰۰۰؍روپے بطور وظیفہ دیے گئے۔

(۳)شھادۃ مشا رکۃ سے نوازا گیا۔

(۴) اس کے علاوہ حسن کارکردگی پر گاہے بگاہے انعامات سے بھی نوازا گیا۔

امسال کورس کا آغاز ۱۵؍شعبان ۱۴۳۶ھ مطابق ۳؍جون ۲۰۱۵ء بروز بدھ ہو ا، پہلے دن طلباء کے انٹر ویو کے بعد دوسرے دن سے باقا عدہ تعلیم کا آغاز ہو ا۔

سب سے پہلی چیز جس کا طلباء کو پابند بنایا گیا، وہ اس دوران عربی بول چال کا التزام تھا، اس پر سختی سے عمل کیا گیا، اور کوتا ہی پر جرمانہ عائد کیا گیا، جس کے اچھے نتائج بر آمد ہوئے۔

دن بھر کا نظام کچھ اس طرح سے تھا:  سوا چار بجے نمازِ فجر کی ادائیگی، بعد نماز فجر دس تا پندرہ منٹ تلاوتِ قرآن، پونے پانچ سے پونے چھ تک باغات و جنگلات اورکھیتوں کی سیر، اس دوران متعین کردہ آسان موضوع پر پہلے آدھ گھنٹہ طلباء کے مابین تبادلۂ خیال، پھر آدھ گھنٹہ سب کے سامنے اس کا اظہار خیال، سات بجے ناشتہ، ناشتہ اور کھانے کے دوران متعلقہ الفاظ و معانی کا تذکرہ، اور اس کے استعمال کے طریقہ کی وضاحت، ساڑھے سات سے تعلیم کا آغاز، صبح تین گھنٹے، ہر گھنٹہ ساٹھ منٹ کا، پہلا گھنٹہ برائے عبارت خوانی مع فہم نصوص، خاص طور پر عرب ادباء کی کتابیں پڑھوانا اور ان کے اسلوب سے روشناس کرانا، دوسرا گھنٹہ برائے انشاء و تعبیر مع ترجمہ نگاری اور اس کے آداب، تیسرے گھنٹہ میں الفاظ معانی، امثال و حکم، تعبیرات و مصطلحات لکھوانا، سمجھانا، یاد کروانا، سننا اور استعمال کروانا، اس کے بعد وقفہ۔

ساڑھے بارہ بجے ظہرانہ، ڈیڑھ بجے نماز ظہر، دو بجے سے تعلیم، بعد نماز ظہر دو گھنٹے، پہلے گھنٹے میں محاضرات، جس میں زبان و عربی زبان، ادب و عربی ادب، پھر عربی زبان کے ادوار و مراحل اور معروف ادباء کے متعلق مختصر معلومات لکھوانا، دوسرے گھنٹہ میں موجودہ دور میں استعمال ہونے والے روز مرہ کے الفاظ و جملے لکھوانا، اور اس کے بولنے کی مشق کروانا، چار سے پانچ بجے تک وقفہ برائے تیاری دروس و حصص۔

بعد نماز عصر مختلف مساجد میں درس قرآن کا انتظام کیا گیا، جس میں اساتذہ و طلباء شریک ہوتے، کبھی کبھار درس قر آن آپس میں عربی میں بھی ہوتا تھا۔

بعد نماز مغرب عربی میں روزنامچہ لکھوانا، اور اس کی تصحیح کروانا، نیز عربی کتب کا مطالعہ کرنا، اور لغات کی مدد سے حل کرنا، ساڑھے آٹھ بجے رات کا کھانا، سوا نو بجے نماز عشا ء، بعد نماز عشاء دس تا گیارہ پہلے سے طے شدہ موضوع پر اساتذہ کی نگرانی میں خطابت کی مشق۔

اس کے علاوہ ہر نماز کے بعد دو تین طلباء کسی آیت یا حدیث کا انتخاب کر کے دو سے تین منٹ اس کی تفسیر و تشریح بیان کرتے تھے۔

اس دوران تمام اساتذہ و طلباء کا جامعہ ربانیہ اشفاقیہ جانا ہوا، جس میں طلباء کو سفر اور وسائل سفر سے متعلق الفاظ لکھوائے گئے، اور سفرنامہ لکھوا کر اس میں استعمال کروائے گئے۔

نیز پہلے عشرہ کے اختتام پر دس روزہ رپورٹ، اور دوسرے عشرہ کے اختتام پر تاثرات لکھوائے گئے، جس کو محفوظ رکھا گیا۔

کورس کے اختتام سے پانچ روز قبل مختصر مسابقات ہوئے، جس میں اول، دوم اور سوم آنے والوں کو انعامات سے نوازا گیا۔

آخری دن بعد نماز ظہر مدرسہ مفتاح العلوم، خانپور کے مہتمم جناب مولانا قمرالہدی صاحب کی زیر صدا رت ایک مختصر جلسہ رکھا گیا، جس میں قصبہ کے کچھ اہم لوگوں نے اور بعض طلباء کے سرپرستوں نے شرکت کی، تلاوت کے بعد کچھ تعلیمی مظاہرے ہوئے، پھر تمام طلباء میں وظائف تقسیم کئے گئے، نیز اساتذہ و ذمہ داران کی خدمت میں سپاس نامے پیش کئے گئے۔

اسی جلسہ میں بہار کے جید عالم دین، سابق صدر مسلم پرسنل لاء بورڈ، و بانی ملی کونسل، جناب مولانا قاضی مجاہد الاسلام صاحب کے نام پر ایک علمی و تحقیقی ادارہ بنام ’’قاضی مجا ہد الا سلام اکیڈمی ‘‘کا اعلان کیا گیا، جس کے تحت انشا ء اللہ آئندہ سال سے یک ماہی کورس برائے تحقیق و تخریج کا بھی انعقاد کیا جائے گا۔

کورس کے اختتام کے بعد طلباء و اساتذہ پر مشتمل نو افراد کے قافلہ کا پٹنہ (عظیم آباد) کا سفر ہو ا، جہاں مختلف اداروں کو دیکھنے کا موقع ملا، اور عربی زبان و ادب سے اشتغال رکھنے والے لوگوں سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا، جن میں خاص طور پر ندوہ کے فارغ، استاذ محترم جناب مولانا نذرالحفیظ صاحب کے ہم درس، عالم عرب میں ایک طویل عر صہ عربی زبان و ادب کے سیکھنے سکھانے میں گذ ارنے والے جناب مولانا تقی الدین فردوسی صا حب قابل ذکر ہیں، ان سے خصوصی استفا دہ کا موقع نصیب ہوا، اس طرح یہ کورس الحمد للہ بحسن و خوبی پایہ تکمیل کو پہنچا۔

اس سال کے اس پو رے نظام میں ایک لاکھ سے زیادہ کا صرفہ آیا، جو محض اللہ کے فضل سے پورا ہو ا، اللہ سے دعا ہے کہ اس چھوٹی سی کوشش اور حقیر کاوش کو شرف قبولیت سے نوازے، آمین۔

٭٭٭

مجلس ثقافت ونشریات اسلام کا قیام

دوسری اہم ضرورت نصابیات کی کتابوں کی فراہمی تھی، اس سلسلہ میں راقم نے ۱۴۳۴ھ مطابق ۲۰۱۳ء میں مجلس ثقا فت و نشریات اسلام کی بنیاد رکھی، جس کا تعارف حسب ذیل ہے:

مجلس ثقا فت و نشریات اسلام کا مختصر تعارف

’’اسلام کی تاریخ میں ارتداد کے متعدد واقعات پیش آئے ہیں، لیکن اب کچھ عرصے سے دنیائے اسلام کو ایک ایسے ارتداد سے سابقہ پیش آیا ہے، جو اپنی شدت و قوت اور وسعت وعمق میں اب تک کی تمام ارتدادی تحریکوں سے بازی لے گیا ہے، یہ ارتداد شر قِ اسلامی پر یورپ کے سیاسی اور تہذیبی حملہ کے پیچھے پیچھے آیا ہے، یہ سب سے عظیم ارتداد ہے، جو عہدِ رسالت سے لے کر آج تک کی اسلامی تاریخ میں رونما ہوا ہے۔

لیکن یاد رکھئے اس ارتداد کا علاج جنگ نہیں، یہ معاملہ عزم و حکمت اور صبر و تحمل چاہتا ہے، اور اس سے نپٹنے کے لئے غور و فکر اور گہرے مطالعہ کی ضرورت ہے۔

آج ایسے علمی ادارے عالمِ اسلام کی بڑی اہم ضرورت ہیں جو ایسا طاقتور اسلامی لٹریچر تیار کریں، جو ہمارے تعلیم یافتہ نوجوانوں کو دوبارہ کھینچ کر اسلام کی طرف لا سکے، جو انہیں مغرب کے ان فلسفوں کی ذہنی غلامی سے نجات دلا سکے، جنہیں ان میں سے کچھ نے سوچ سمجھ کر اور زیادہ تر نے محض وقت کی ہوا سے متاثر ہو کر حرزِ جاں بنا لیا ہے، ایسا لٹریچر جو ان کے دماغوں میں از سرِ نو اسلام کی بنیادیں اٹھائے، اور قلب و روح کی غذا بنے ‘‘۔  (مأخوذ باختصار:  تعارف مجلس تحقیقات و نشریات اسلام، لکھنؤ)

۱۴۲۸ھ مطابق۲۰۰۷ء میں اللجنۃ الربانیۃ کے تحت ایک نئے جذبہ اور ولولہ کے ساتھ جب جامعہ ربانیہ اشفاقیہ، انکھولی بیلپکونہ، بھروارہ، مظفر پور، بہار کی بنیاد رکھی گئی تو اس کےذ مہ داران کے پیش نظر اور بھی بہت سے مقاصد کے ساتھ ایک اہم مقصد اس طرح کے ادارے کا قیام بھی تھا۔

اب تک عارضی طور پر جامعہ ربانیہ اشفاقیہ کے تحت ’’مجلس صحا فت و نشریات ‘‘یا ’’شعبۂ نشر و اشاعت ‘‘ کے نام سے اس طرح کے کام انجام پاتے رہے، پھر۱۴۳۴ھ مطابق ۲۰۱۳ء کو ایک مستقل ادارہ کا قیام عمل میں آیا، اور اس کا نام ہلکی سی ترمیم کے ساتھ ’’مجلس ثقافت و نشریاتِ اسلام‘‘طے پایا۔

اس مختصر مدت میں محض اللہ کے فضل سے مختلف موضوعات پر اردو، عربی اور نوائطی میں پچیس کتابیں منظر عام پر آ چکی ہیں، اور کئی کتابیں زیرِ طبع و زیرِ تصنیف ہیں، جس کے لئے دعاؤں کے ساتھ علمی و مالی ہر طرح کے تعاون کی اشد ضرورت ہے۔

چونکہ اب تک یہ ادارہ انفرادی طور پر مقا می و علاقائی سطح پر کام کر رہا تھا، اب یہ فیصلہ کیا گیا کہ اس کے دائرہ کار کو مزید وسعت دیتے ہوئے اس کام کو انفرادی کے بجائے اجتماعی اور مقامی و علاقائی کے بجائے عالمی و آفاقی سطح پر کیا جائے، جس کے لئے مختلف زبانوں اور موضوعات کے اعتبار سے صحیح دینی فکر رکھنے والوں اور علمی ذوق رکھنے والوں کا بطور رکن و ممبر انتحاب کر کے ان کا بھی تعاون حاصل کیا جائے۔

٭٭٭

مجلس ثقافت سے جہاں غیر درسی کتا بوں کی نشر و اشا عت ہوئی، وہیں ’’إلی اللّغۃ العربیۃ لطلاب الصفوف الا بتدائیۃ ‘‘ کے نام سے نصابیات کی کتابوں کی بھی اشا عت کا سلسلہ شروع کیا گیا، جس کی تمہید میں کتاب کی ترتیب و پیشکش کا مقصد کچھ اس طرح بیان کیا گیا ہے:

بسم اللّٰہ، والحمد للّٰہ، والصلوٰ ۃ والسلام علی رسول اللّٰہ، ومن والاہ، أمّا بعد !

اللہ ہی کا فضل و احسان ہے کہ اس نے محض اپنی توفیق سے ابتدائی درجات کے طلباء کے لئے عربی کا نصاب تیار کرنے کی سعادت نصیب فرمائی، جس کا پہلا حصہ آپ کے ہاتھوں میں ہے۔

آج سے سات سال قبل جب ’’جامعہ ربانیہ اشفاقیہ‘‘ کی بنیاد رکھی گئی، تو اس کے بہت سے مقاصد میں سے ایک اہم مقصد یہ تھا کہ یہاں کے نظامِ تعلیم میں درجۂ اول ہی سے عربی زبان کی مادری زبان ہی کی طرح تعلیم دی جائے، اس کے لئے مختلف طریقے اختیار کئے گئے، شروع شروع میں یہ دا ئرہ کچھ الفاظ معانی کے یاد کرانے اور کچھ گنتیوں کو رٹا نے تک محدود تھا، پھر اس سلسلہ میں ماضی قریب میں ہندو بیرونِ ہند میں ترتیب دی گئی بعض کتابوں کو بھی داخلِ نصاب کرنے کا تجربہ کیا گیا، جو کافی حد تک مفید ثابت ہوا۔

لیکن چونکہ ان میں سے اکثر و بیشتر کتابیں اپنے اپنے ماحول کو پیشِ نظر رکھ کر ترتیب دی گئی تھیں، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کبھی تو کتابوں کی قیمت کی گرانی کی وجہ سے، تو کبھی بچوں کی نفسیات سے ہم آہنگ نہ ہونے کی وجہ سے، تو کبھی اس کو مرتب کئے ہوئے ایک عرصہ گذر جانے کی وجہ سے، طلبا ء کلی طور پر اس سے مستفید نہ ہو سکے، بلکہ بسا اوقات اس کو بوجھ سمجھنے لگے۔

ذمہ دارانِ جامعہ ایک عرصہ سے اس بات کی شدید ضرورت محسوس کر رہے تھے کہ اپنے ننھے منے بچوں کے لئے موجودہ زمانے کے لحاظ سے ان کے نفسیاتی و معاشی حالات کو سامنے رکھتے ہوئے آسان اسلوب اور دلکش انداز میں ایک جامع نصاب مرتب کیا جائے۔

اسی سلسلہ کا پہلا قدم محض اللہ کے فضل اور اساتذہ و ذمہ داران کی دعاؤں کے نتیجہ میں ’’إِلَی اللُّغَۃِ الْعَرَبِیَّۃِ لِطُلَّابِ الصُّفُوْفِ الابْتِدَائِیَۃِ ‘‘کے نام سے آپ کے مبارک ہاتھوں میں ہے، جس کا پہلا ایڈیشن تجرباتی ہو گا، پھر آپ حضرات کی قیمتی آراء کے سامنے آنے بعد اس کو ان شاء اللہ حتمی شکل دی جائے گی۔

اس کتاب میں جن باتوں کی طرف خصو صی توجہ دی گئی ہے، ان میں سے بعض مندرجہ ذیل ہیں:

(۱)کتاب کو بہت ہی مختصر رکھا گیا ہے، تاکہ قیمت بھی کم ہو اور طلبہ کے لئے وزن بھی ہلکا ہو۔

(۲)چونکہ یہ کتاب بالکل ہی چھوٹے بچوں کے لئے ترتیب دی گئی ہے، اس لئے حتی الامکان یہ کوشش کی گئی ہے کہ وہی الفاظ استعمال کئے جائیں، جو اردو میں بھی مستعمل ہوں یا معروف ہوں، مثال کے طور پر (ب) سے ’’بَاصٌ‘‘ (بس)، (د) سے ’’دَوَاءٌ‘‘ (دوا)، (م)سے ’’مَسْجِدٌ‘‘ (مسجد)، وغیرہ۔

(۳)عام طور پر اس طرح کی ترتیب شدہ کتابوں میں بچوں کی نفسیات کی طرف زیادہ توجہ کی باعث ذی روح تصاویر کا بے جا استعمال کر لیا جا تا ہے، جبکہ اس کا بدل موجود ہوتا ہے، اس سلسلہ میں ہم نے حتی الامکان احتیاط برتنے کی کوشش کی ہے، مثال کے طور پر عموماً (ج) سے ’’جَمَلٌ‘‘ (اونٹ)، (س) سے ’’سَمَکٌ‘ ‘(مچھلی)، اور (و) سے ’’وَلَدٌ‘‘ (لڑکا) پڑھایا جاتا ہے، اور اس کی تصویر دے دی جاتی ہے، جبکہ اس کی جگہ (ج)سے ’’جَنَّۃٌ ‘‘(جنت؍ باغ)، (س)سے ’’سِوَاکٌ‘‘(مسواک)، اور (و) سے ’’وَرَقٌ‘‘(ورق)طلباء کی فہم کے اعتبار سے زیادہ آسان اور شریعت کے اعتبارسے بھی زیادہ احسن ہے۔

اخیر میں اللہ سے دعا ہے کہ اس چھوٹے سے کام کو قبو لیت سے نوا زے اور آپ حضرات سے گذا رش ہے کہ اس اولین کاوش کو قدر کی نگاہ سے دیکھیں، اور مفید مشوروں سے نوازیں۔

٭٭٭

سہ ماہی عربی مجلہ النصیحۃ کی اشاعت

نیز عربی میں مضامین و مقالات لکھنے اور ہندستان میں عربی صحافت کو ایک نیا رخ دینے کے لئے اللہ کی توفیق سے سہ ماہی عربی مجلہ ’’ النصیحۃ‘‘ کی اشاعت بھی شروع کی گئی، جس کے الحمد للہ اب تک چار شمارے شائع ہو کر عرب و عجم میں اپنی اہمیت و افادیت ثابت کر چکے ہیں، پہلے شمارہ کی اشاعت پر اردو ادیب جناب مولانا عبد اللہ دامدابو بھٹکلی ندوی ایڈیٹر ماہنامہ ’’پھول‘‘ و استاذ مکتب جامعہ اسلامیہ بھٹکل نے کچھ اس طرح کے تاثرات کا اظہار فرمایا تھا:

تبصرہ بر مجلہ النصیحۃ

تاریخ کے مطالعہ سے یہ حقیقت واشگاف ہو جاتی ہے کہ رسائل ومجلات نے قوموں کی ترقی اورسوئی ہوئی انسانیت کو بیدار کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے، بلاشبہ خون جگر سے لکھی ہوئی تحریریں دلوں پر اثر کرتی ہیں، اور افراد سازی کا کام کرتی ہیں، پاکیزہ لٹریچر سے پاک و پاکیزہ معاشرہ وجود میں آتا ہے، پچھلی دو صدی میں رسائل واخبارات نے وہ کام کیا ہے، جو کام بڑی بڑی تحریکوں اور انجمنوں سے نہ ہو سکا۔

آج کے اس تیز رفتار اور تجدد پسند دور میں بھی قلم کی طاقت پائدار اور مسلم ہے، ہندستان میں مختلف زبانوں میں ہزاروں مجلات شائع ہوتے ہیں، رسائل واخبارات کی کوئی انتہا نہیں، لیکن عربی رسائل و جرائد انگلیوں پر گنے جانے کے قابل کہا جائے تو بالکل بجا ہو گا، اور وہ بھی علماء کرام نے ہندستان جیسے رنگا رنگ ملک میں عربی مجلات کو فروغ دیا، اور نہ صرف اس کو رسمی طور پر جاری رکھا، بلکہ اس کے ذریعہ عربوں کو بھی جھنجھوڑا، ان کی غلطیوں پر سرزنش کی، اور اسلام کی حقانیت کو بتانے میں ذرہ برابر بھی گریز نہ کیا، خصوصاً آج سے تقریباً نصف صدی قبل مولانا ابو الحسن علی ندویؒ اور مولانا محمد الحسنی ندویؒ کی لکھی تحریروں سے اس کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے، جنہوں نے قومیت عربیہ کے خلاف محاذ قائم کیا، اور قومیت کا نعرہ لگانے والوں کی بخیہ ادھیڑ دی۔

بڑی مسرت کی بات ہے کہ آج ’’النصیحۃ‘‘ نامی ایک عربی مجلہ منصۂ شہود پر جلوہ گر ہوا، جو دیدہ زیب سرورق، عمدہ ملٹی اوراق کے ساتھ ۸۰ صفحات پر مشتمل ہے، بڑی خوش نصیبی کی بات ہے کہ اس کے سرپرستوں اور اس کی مجلس مشاورت میں نابغۂ روزگار ہستیاں موجود ہیں۔

جناب مولانا نعمان الدین صاحب اس کے مدیر اعلیٰ ہیں، جن کو عرصۂ دراز سے اس کا تجربہ رہا ہے، اور وہ اس میدان کے شہسوار مانے جاتے ہیں، جن کی عربی زبان میں کئی ایک کتابیں بھی منظر عام پر آ کر مقبول خاص وعام ہو چکی ہیں، اس شمارے میں بھی ان کی تحریریں موجود ہیں، جو واقعی قابل تحسین ہیں، ان کے اشہب قلم سے نکلی ہوئی تحریر آب زر سے لکھنے کے قابل ہوتی ہیں۔

مجلہ ہذا کے مدیر ایک ابھرتے ہوئے نوجوان عالم دین جناب مولانا محمد حماد کریمی ندوی ہیں، جو پچھلے ۵/۶ سالوں سے قلم و قرطاس کے میدان میں ہیں، گاہے بگاہے ان کی کئی کتابیں منظر عام پر آ چکی ہیں، اہم بات یہ کہ مدیر صاحب کو جناب مولانا سید سلمان حسینی ندوی کی سرپرستی شروع ہی سے حاصل رہی ہے، اور آج بھی برابر ان ہی سے منسلک ہیں۔

مجمع الاسلام، مرڈیشور، بھٹکل، کرناٹک سے شائع ہوئے اس مجلہ میں کئی موضوعات کو چھیڑا گیا ہے، گویا قسم قسم کے پھولوں کا ایک حسین گلدستہ ہے، علاوہ ازیں ہند کے قلمکاروں کے بیرون ہند کے ادباء وفضلاء کے مضامین بھی اس مجلہ کو چار چاند لگائے ہوئے ہیں۔

قابل مبارکباد ہیں جناب مولانا شرف عالم صاحب قاسمی جنہوں نے تن من دھن سے اس کی نشر واشاعت میں حصہ لیا، آپ اس پرچہ کے بانی ومشرف بھی ہیں۔

الغرض اہل علم اور عربی ادب سے تعلق رکھنے والوں کے لئے یہ ایک گراں قدر تحفہ ہے، قارئین اس کے مطالعہ سے بخوبی اندازہ لگائیں گے، کیونکہ یہ بات طے شدہ ہے کہ:  ’’مشک آں کہ خود ببوید، نہ آنکہ عطار بگوید‘‘۔

اب ضرورت ہے قدردانوں کی، ورنہ دوسرے مجلات ورسائل کی طرح (خدا نہ کرے ) یہ بھی زمانے کی بے توجہی کی نذر ہو جائے، اور ناقدری اس کا مقدر بنے۔

٭٭٭

نیز پرچہ کے بانی وسرپرست جناب مولانا شرف عالم صاحب نے پہلے پرچہ کی مقبولیت کو کچھ اس طرح تحریر کیا تھا:

ایک عربی پرچہ، عالمی ادیبوں میں ہے جس کا چرچا

یہ دور ظاہری چمک دمک، لہک چہک، میڈیا، صحافت،  اور دل و دماغ کو بدل دینے والے جادو اثر، طاقت ور و دلکش ادب کا ہے، لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے مسلم نوجوانوں کو اس طرح کی طاقتوں و صلاحیتوں سے لیس کر کے مذکورہ صفات کا میدان دے کر بڑی ہی خوبی، خوبصورتی و خوش اسلوبی کے ساتھ ساری انسانیت کے لئے مفید، دونوں جہاں کی کامیابی و کامرانی، ترقی و بلندی دینے والے خدائی احکامات، نبوی فرمودات اور پاکیزہ اسلامی و الہامی تعلیمات کو ساری دنیا میں عام وتام کیا جائے، اور انسانیت کی ایثار و پیار کے ساتھ پکی سچی، ناصحانہ و اچھی خدمت کی جائے۔

الحمد للہ انہیں قابل قدر، مبارک و لائقِ شکر جذبات سے سرشار ہو کر اور انہیں عظیم، اہم و باعث صلاح و فلاح مقاصد کو زندہ و تابندہ کرنے اور نوجوانوں کو حق کا نمائندہ بنانے کے لئے، نیز عصر حاضر میں عرب ممالک میں جو قابل صد افسوسناک حالات ہیں، عربی زبان و ادب سے بے توجہی کی جو خطرناک بات ہے، اس کی طرف توجہ مبذول کرانے کے لئے خدا ہی کے فضل و کرم کے صدقہ وجود میں آیا ’’النصیحۃ‘‘ نامی سہ ماہی عربی پرچہ، ماشاء اللہ عالمی عربی ادیبوں میں ہے جس کا خوب چرچا، مخدومی حضرت مولانا رابع صاحب، مکرمی حضرت مولانا واضح صاحب، محترمی حضرت مولانا برہان الدین صاحب، سیدی حضرت مولانا سعید الرحمن صاحب اور استاذی حضرت مولانا نور عالم صاحب نے ’’النصیحۃ‘‘ کو ہر طرح کے حسن سے مالا مال اور فکر انگیز و دلآویز مضامین سے نہال قرار دیا ہے، جس پر خوشی و شکر سے دل و دماغ لبریز ہے، اور خدا کے حضور سجدہ ریز ہے۔

الحمد للہ کام و پیام کے ساتھ ساتھ پرچہ کا اتنا نرالا، معنی خیز، فکر انگیز اور نصیحت آمیز نام ہے کہ دل فرط مسرت سے جھوم جھوم جاتا ہے، پھولے نہ سماتا ہے، اور شکر الٰہی کے لئے بار بار سجدہ میں جاتا ہے، راقم آثم کی دلی دعا اور قلبی صدا ہے کہ کمزور و بے زور بندوں کی یہ حقیر سی علمی کاوش و قلمی نگارش قبول ہو جائے، سدا بہار پھول بن جائے، اور ’’النصیحۃ‘‘ اسم بامسمی ثابت ہو جائے، آمین یا رب العالمین۔

اللہ کے لطف و کرم کے صدقہ ’’النصیحۃ‘‘ کا پہلا شمارہ نہایت ہی آب و تاب (ملحوظ ہیں جس میں تمام اسلامی و صحافتی آداب) کے ساتھ آیا ہے، پہلے شمارہ میں ہندستان کے لائق و فائق و چوٹی کے عربی ادباء وفضلاء کے علاوہ ممتاز و مایہ ناز عربی اسکالرس کے مضامین نے پرچے کے حسن کو دو بالا کر دیا ہے، اس کی اہمیت و قیمت کو بے حد بڑھا دیا ہے، بڑے بزرگوں کے علاوہ نوجوانوں اور آتش جوانوں کی قلمی وعملی شرکت نے ہماری امیدوں کی کلی کھلا دی ہے، اور ’’النصیحۃ‘‘ کی ادبی و عملی تحریک کو شاہراہِ ترقی پر لگا دی ہے:

آبشاروں نے پہاڑوں کے جگر کاٹ ڈالے

حوصلہ چاہیے طوفانوں سے ٹکرانے کا

’’النصیحۃ‘‘ کے مدیر اعلی، نامور اسلامی ادیب، بہت ہی بلند پانے والے نصیب، اور فکر اسلامی کے نقیب، جناب مولانا نعمان الدین ندوی ابن حضرت مولانا برہان الدین سنبھلی قاسمی، بانی وناظم معھد التعلیم والتربیۃ لکھنؤ ہیں، جو عرصۂ دراز (اللہ اپنی خوشی و خوشنودی سے انھیں کرے سرفراز، یہی ہے ہماری دلی آواز) سے نہایت ہی نیک نامی و فائز المرامی کے ساتھ علمی و قلمی بیل بوٹے اگا رہے ہیں، اور اخلاقی و روحانی پھول کھلا رہے ہیں، ادبی خوشبو میں رچی بسی، علمی غنچوں و شگوفوں سے بھری ہوئی ان کی عربی کتابوں سے ایسی حلاوت و لذت ملتی ہے کہ انسان عش عش کرنے لگتا ہے، پڑھتا ہے تو پڑھتا ہی چلا جاتا ہے، پھر بس بس کرنے کا نام نہیں لیتا ہے، علماء و طلباء میں ان کی پُر اثر، طاقتور عربی تحریر کی دھوم ہے، ان کی دلنشیں و دلکش طرز تعبیر کی ہندستان کے علاوہ سعودیہ میں بھی گونج ہے، اور مصر میں بھی پہنچ ہے، اللہ کا ان پر خاص ہے کرم، کہ محترم امام حرم سماحۃ الشیخ حضرت عبد الرحمن السدیس حفظہ اللہ ان کی شستہ، شگفتہ و شائستہ عربی تحریر پر سر دھنتے ہیں، اور حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی، حضرت مولانا سید واضح رشید حسنی ندوی اور حضرت مولانا نور عالم خلیل امینی مزہ لے لے کر ان کی ادبی نگارش پڑھتے اور سر دھنتے ہیں، اور ان کو شاباشی دیتے ہیں

ع۔  یہ نصیب اللہ اکبر لوٹنے کی جا ہے

’’النصیحۃ‘‘کے مدیر محمد حماد کریمی ندوی ایک گم نام، بے نام، ناکارۂ انام، شرف برائے نام کے ہیں چشم و چراغ، اللہ کی طرف سے بخشے ہوئے ان کے عربی ذوق و ادبی شوق پر سب کے دل ہیں باغ باغ، ان کی شائع ہونے والی ایک اہم تصنیف کا نام ہے ’’روشن چراغ‘‘، جس میں صاحب فضل و کمال ہونے کا ہے سراغ، جس کے مطالعہ سے دور ہو گا دل کا داغ، اور صاف و قوی ہو گا دماغ، اس دعائیہ شعر کے ذریعہ ان کو مزید محنت کرنے اور آگے بڑھتے ہی رہنے کی دعا دی جاتی ہے:

ضمیر لالہ میں روشن چراغ آرزو کر دے

چمن کے ذرہ ذرہ کو شہید جستجو کر دے

الحمد للہ مدیر صاحب اس چھوٹی سی عمر میں پانچ اہم عربی کتابوں کے مولف ہیں، جن پر ان کو کئی وقیع و شاندار ایوارڈ دیئے گئے ہیں، اور دار العلوم وقف دیوبند، دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ، مدرسہ رحمانیہ منکی، مدرسہ تنویر الاسلام مرڈیشور، ہیومن ویلفئیر ٹرسٹ مرڈیشور، مدرسہ اسلامیہ شکرپور بھروارہ، جامعہ ربانیہ مظفرپور بہار اور ابناء تنویر دبیِ کی طرف سے ان کے اعزاز میں جلسے منعقد کئے گئے ہیں، اور ان کو انعامات دئیے گئے ہیں۔

میں مجلہ کی بہت ہی خوبصورت اشاعت و طباعت پر مدیر اعلیٰ و مدیر مسؤل کو دلی دعائیں دیتا ہوں، مبارکباد پیش کرتا ہوں، اور ہلکی سی ترمیم کے ساتھ یہ شعر پیش کرتا ہوں:

پھلا پھولا رہے یا رب چمن میری امیدوں کا

جگر کے خون دے دے کر یہ بوٹے انہوں نے پالے ہیں

٭٭٭

مذ کورہ تمام کاموں میں فائدہ و وسعت کے اعتبار سے المعھد الإسلامی العربی کے زیر اہتمام منعقد کئے جانے والے یک ماہی کورس کا تجربہ بڑا کامیاب رہا، گذشتہ سال یہ کورس اصلاً جامعہ فاطمہ للبنات، مظفرپور میں منعقد کیا جانا تھا لیکن ناگزیر وجوہات کی بنا پر عین موقعہ پر جگہ تبدیل کرنی پڑی اور معہد کے مہتمم جناب مولانا اسامہ صاحب ندوی مظفرپوری کی بے مثال و قابل مبارکباد کوششوں سے مدرسہ قاسمیہ بینی آباد منتقل کیا گیا۔

اس کا ایک افتتاحی جلسہ بھی منعقد کیا گیا جس کی رپورٹ حسب ذیل ہے:

مدرسہ قاسمیہ بینی آباد میں عربی بول چال کورس کے افتتاحی جلسہ کا انعقاد

ندوہ کے شعبۂ عربی کے سربراہ مولانا نذر الحفیظ صاحب کی شرکت

آئندہ سال ہندستان کے مختلف اداروں میں کورس کے انعقاد کا اعلان

بینی آباد/مظفر پور۔  آج بروز منگل صبح دس بجے چوتھے عربی بول چال کورس کے افتتاحی جلسہ کا انعقاد کیا گیا، جلسہ کی نظامت جامعہ ربانیہ کے استاذ جناب مولانا ضیاء الرحمن ندوی نے انجام دی، تلاوت کلام پاک ونعت کے بعد طلباء نے اپنے تقریری پروگرام پیش کئے۔

پھر مختلف مدارس سے تشریف لانے والے ذمہ داران و اساتذہ کرام خصوصاً جناب مولانا خالد ضیاء صدیقی، استاذ مدرسہ فیضان القرآن گجرات، جناب مولانا دبیر احمد قاسمی استاذ مدرسہ اسلامیہ شکرپور، جناب مولانا لطیف الرحمن قاسمی استاذ مدرسہ قاسمیہ بینی آباد نے اپنے تاثرات پیش کئے، اور اپنی نیک خواہشات کا اظہار کیا۔

تاثرات سے قبل معہد کے مہتمم جناب مولانا اسامہ نظام الدین ندوی نے معہد کی مختصر رپورٹ پیش کرتے ہوئے آئے ہوئے مہمانوں کی خدمت میں پرجوش استقبالیہ پیش کیا۔

استقبالیہ کے بعد معہد کے ناظم جناب مولانا محمد حماد کریمی ندوی نے معہد کے پس منظر اور ابتدا سے لے کر اب تک کے تمام مراحل کو مختصر بیان کرتے ہوئے مندرجہ ذیل اہم اعلانات کئے:

۱) آئندہ سال سے انشاء اللہ یہ کورس ہندستان کے مختلف علاقوں میں منعقد کیا جائے گا۔

۲) کورس میں شرکت کرنے والے طلباء کو اچھی کارکردگی پر مختلف انعامات سے نوازا جائے گا۔

۳) عربی زبان و ادب کی خدمت کرنے والوں کو مختلف ایوارڈ سے نوازا جائے گا۔

اس کے بعد صدر جلسہ حضرت مولانا نذر الحفیظ صاحب ندوی ازھری نے صدارتی خطاب فرمایا، جس میں مولانا نے معہد کی کاوشوں کو سراہتے ہوئے معہد کے صدر جناب مولانا شرف عالم صاحب قاسمی کو مبارکباد پیش کی، اور طلباء کو بھی عربی زبان و ادب سے متعلق اہم مشوروں سے نوازا۔

اخیر میں مولانا کی عربی زبان و ادب کی خدمات کے اعتراف میں معہد کے صدر جناب مولانا شرف عالم صاحب قاسمی کی طرف سے سماحۃ الشیخ العلامۃ محمد الرابع الحسنی الندوی ایوارڈ نقد رقم اور تمغہ کی شکل میں مدرسہ قاسمیہ کے صدر جناب نصر الاسلام صاحب کے ہاتھوں پیش کیا گیا۔

نیز معہد کے ناظم جناب مولانا محمد حماد کریمی ندوی کی خدمت میں جناب توفیق صاحب (مقیم مسقط) کی طرف سے مولانا نورعالم خلیل امینی ایوارڈ اور مولانا اسامہ صاحب کی خدمت میں معہد کے صدر جناب مولانا شرف عالم صاحب قاسمی کی طرف سے مولانا رحمت اللہ ندوی ایوارڈ پیش کیا گیا۔

ڈیڑھ بجے کے قریب مولانا کی دعا پر جلسہ کا اختتام ہوا۔

٭٭٭

سال گذشتہ تقریباً چالیس طلبہ نے اس میں شرکت کی، اہم بات یہ ہے کہ ان میں بہار کے علاوہ مختلف علاقوں کے ساتھ میوات کے دو اشخاص بھی شامل تھے، دونوں دادا اور پوتاتھے، باندہ میں زیر تعلیم ہیں، عربی زبان و ادب کے شوق میں یہاں تک آ گئے اور بڑی دلجمعی کے سا تھ مصروف تعلیم رہے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ جگہ جگہ اس طرح کے کورس کا انعقاد کیا جائے اور صرف عربی زبان ہی نہیں بلکہ ہندی، انگریزی اور دیگر مقامی زبانوں کے ساتھ کمپیو ٹر، طب، تخصص فی التفسیر والحدیث والفقہ والدعوۃ کا ایک ایک مہینہ کا نیز تین مہینے اور اگر ضرورت ہو تو ایک سال کے کورس کا ہندوستان کے مختلف علاقوں میں انعقاد کیا جائے۔

کورس کے انعقاد کا طریقۂ کار

ادھر ایک دو سال سے ہندستان کے مختلف علاقوں خصوصاً گجرات، نیپال، کرناٹک اور مہاراشٹرا سے مطالبات ہو رہے تھے کہ ان کے علاقے میں بھی اسی طرح کے کورس کا انعقاد کیا جائے۔

جس کے پیش نظر اس بات کی ضرورت محسوس ہوئی کہ گذشتہ چار سالہ تجربات کی روشنی میں اس کا ایک مکمل جامع خاکہ تیار کیا جائے، جو خود مرکز میں بھی اور دیگر علاقوں میں نافذ کیا جا سکے۔

سب سے پہلے کچھ افراد پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی جائے، جس میں چار مندرجہ ذیل اہم ذمہ دار ہوں گے:

(۱)مشرف (سرپرست)

(۲)رئیس(صدر)

(۳)الا مین العام (جنرل سکریٹری ؍ناظم)

(۴)مدیر(مہتمم)               ایسے شخص کا انتخاب کیا جائے جو مستقل وقت دے سکے۔

مندرجہ بالا عہدوں کے لئے حسب ضرورت نائبین کا بھی انتخاب کیا جا سکتا ہے، کمیٹی کی تشکیل کے بعد پہلا مسئلہ ہو گا جگہ کے انتخاب کا، بہتر ہے کہ جگہ کشادہ اور تمام سہولیات سے آراستہ ہو، طلبہ و اساتذہ کے لئے قیامگاہ کے ساتھ ایک وسیع ہال برائے جلسہ اور ایک ہال برائے طعام کم از کم ہو، نیز ایک کھلی جگہ ایسی بھی ہو جہاں بیک وقت تمام طلبہ و اساتذہ کی نشست ہو سکے، استنجا خانوں اور غسل خانوں کا معقول نظم ہو، آس پاس کوئی ایسی چیز نہ ہو جو دوران تعلیم مخل ہو، بہتر ہے کہ کسی ایسے مدرسہ کا انتخاب کیا جائے جو شہر سے کچھ فاصلہ پر ہو لیکن آمد و رفت کی سہولت میسر ہو۔

جگہ کے انتخاب کے بعد دوسرا مسئلہ وسائل کی فراہمی کا ہے، اس کی دو شکلیں ہو سکتی ہیں:

(۱)شریک ہونے والے طلبہ سے فیس لی جائے۔

(۲)مخیر حضرات کو متوجہ کیا جائے، بہتر ہے کہ زکوٰۃکی رقم استعمال نہ کی جائے۔

پہلی شکل زیادہ بہتر ہے، مگر اس کے لئے وقت اور محنت در کار ہے۔

جگہ کے انتخاب اور وسائل کی فراہمی سے متعلق مشورہ کے بعد حسب سہو لت طلبہ کی تعداد متعین کی جائے، جتنی گنجائش ہو۔

اس کے بعد اہم کام اعلان لگانے اور اس کو چسپاں کرنے کا ہے، جن مدارس کے طلبہ کا انتخاب کرنا ہے، پہلے وہاں کے ذمہ دار ان اور اسا تذہ کو تعارفی خط لکھیں، پہلے مرحلے میں یقیناً بے التفا تی کا سامنا کرنا پڑے گا، لیکن کچھ نہ کچھ لوگ ضرور آپ کی آواز پر کان دھریں گے، اس سلسلہ میں خصوصاً ً عربی زبان و ادب کے اسا تذہ سے مستقل رابطہ کی کوشش کی جائے اور ذہین طلبہ کے انتخاب اور ان کو آمادہ کرنے کی درخواست کریں، اعلان پر مکمل تفصیلات کے ساتھ اہم نمبرات ضرور دیا کریں جن پر رابطہ کیا جا سکے۔

جب یہ کام مکمل ہو جائے، تو جن طلبہ کے فون آئیں یا درخو استیں موصول ہوں، ان کی ذاتی تفصیلات طلب کریں:

نام ؍والد کا نام؍مکمل گھر کا پتہ ؍مدرسہ کا نام ؍ درجہ ؍ فون نمبر وغیرہ۔

اگر طلبہ کے نام متعینہ تعداد سے زیادہ آئیں، تو حسب سہولت ایک دن سب کو جمع کر کے مختصر انٹر ویو لیا جائے، پھر اس میں ذہین اور ذوق رکھنے والے طلباء کا انتخاب کیا جائے۔

ان تمام مراحل کی تکمیل کے بعد اہم مسئلہ اساتذہ کے انتخاب کا ہے، اس سلسلہ میں ایسے اساتذہ کا انتخاب کیا جائے، جو طلبہ کے ساتھ مل جل کر رہ سکیں، عربی کا ذوق بھی ہو اور طلبہ میں اس کو منتقل کرنا بھی جانتے ہوں، طلبہ کی تعداد کے مطابق اساتذہ کا انتخاب کیا جائے، کم سے کم تین اسا تذہ ضرور ہوں، جو مکمل وقت دیں، اساتذہ کو ان کی خدمات کے صلہ میں معقول معاوضہ دیا جائے۔

یہ تمام کام کو رس شروع ہونے سے پہلے کے تھے۔

ان تمام چیزوں کا خیال رکھتے ہوئے کورس کے انعقاد کی تاریخ متعین کریں، کوشش یہ ہو کہ پہلے دن ظہر یا عصر تک انٹر ویو سے فا رغ ہو کر تعلیم شروع ہو جائے، بہتر ہے کہ دو تین دن کے بعد ایک افتتاحی پروگرام منعقد کریں، جس میں مدرسہ اور گاؤں کے ذمہ داروں کے ساتھ عربی زبان و ادب کی کسی ماہر شخصیت کو مدعو کیا جائے، بہتر ہے کہ پروگرم عربی زبان میں ہو۔

تعلیم کا طریقہ کار:

تعلیم کا نظام الاوقات گزشتہ سال کی رپورٹ میں تفصیل سے بیان کر دیا گیا ہے، یک ماہی کورس کے لئے مقرر نظام کے ساتھ کئی اور کام کرائے جاتے ہیں، ترتیب وار ایک ایک کام کا تعارف کروائیں، اور اس کی مکمل مشق کرائی جائے، مثلاً:  تقدیم الخطب، تقدیم الانطباعات، الحوار، المناقشۃ، المحادثۃ، التعبیر و الانشاء، فن الترجمۃ، کتابۃ المذکرات، کتابۃ التقا ریر، المطا لعۃ، تلخیص الکتب، نثر النظم، المحا ضرات، المحفوظات، المفر دات، التعبیرات، الأمثال، الحکم، المصطلحات وغیرہ، روزانہ ایک ایک چیز حسب صلاحیت اختیار کریں، پہلے اس کا مختصر تعارف اور طریقہ پیش کریں، پھر اس کی عملی مشق کروائیں، اس دوران ہردس دن پر ایک مسابقہ کروائیں، جس میں تشجیعی انعامات سے بھی نوازیں، مثلاً ًپہلے دس دن کے بعد مسابقۃ الخطب، دوسرے دس دن کے بعد کتابۃ التقریر وغیرہ۔  (مذکورہ تمام چیزوں کا تفصیلی تعارف مع طریقۂ تدریس زیر ترتیب ہے )

اخیر میں تمام چیزوں کا عمومی امتحان لیا جائے، جس میں امتیا زی نمبرات سے کامیاب ہونے والوں کو انعامات دئیے جائیں، وقفہ وقفہ سے طلباء کی صلاحیتوں کا جائزہ بھی لیا جائے، اور اگر ان کو کوئی دقت ہو تو اس کو حل کرنے کی کوشش کریں۔

اس دوران کچھ اہم لوگوں کے محاضرات بھی رکھوائیں، نیز اگر ممکن ہو تو ایک سفر بھی کیا جائے، جس کے دوران سفر سے متعلق الفاظ لکھوا کر سفر نامہ لکھوائیں، اسی طرح ایک دن تمام طلبا ء کو مختلف کھا نے تیار کرنے کے لئے کہیں، ہر طالب علم سے متعلق ایک قسم کر دیں، دو تین دن کا وقت دیں، اس دوران وہ اس سے متعلق الفاظ جمع کر کے یاد کریں، پھر ممکن ہو تو عملی طور پر یا تمثیلی طور پر اس کا باقاعدہ پروگرام منعقد کیا جائے۔

معہد کا نصاب 

اب تک پورے یک ماہی کورس میں باقاعدہ کوئی کتاب نہیں پڑھائی جاتی، بلکہ حسب ضرورت اساتذہ طلباء کی صلاحیت کا خیال رکھتے ہوئے کتابوں کا انتخاب کرتے ہیں، کورس کا باقاعدہ مکمل نصاب ابھی زیر ترتیب ہے، امید ہے کہ ایک سے دو سال کی مدت میں انشاء اللہ ڈیڑھ ہزار صفحات پر مشتمل یہ مجموعہ عربی زبان و ادب کے تمام گوشوں کا اجمالی احاطہ کئے ہوئے منظر عام پر آئے گا، جو طلبہ اور عربی زبان و ادب کا ذوق رکھنے والوں کے لئے اگر اللہ نے چاہا توایک رہنما ثابت ہو گا، جس کے لئے مستقل محنت جاری ہے، نیز عربی زبان و ادب کے ماہرین سے مشورہ بھی لیا جا رہا ہے۔

مسابقات کا انعقاد 

یہ حقیقت ہے کہ ان تمام کوششوں کے باوجود ہماری کوششوں کا محور منتخب افراد ہی ہوتے ہیں، اور فی الوقت اس سے زیادہ گنجائش بھی نہیں ہے، لیکن کام زیادہ ہے، میدان وسیع ہے، اس لئے مختلف مدارس کے طلباء کو بھی اس ذوق سے آشنا کرنے کے لئے تقریری و تحریری مسابقات اور شعری مساجلات کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے، جس کو مزید مرتب کرنے اور وسعت دینے کی ضرورت ہے۔

حالات حاضرہ کے مطابق خطبات جمعہ کی تیاری

اسلام میں خطبۂ جمعہ کی بڑی اہمیت ہے، اس کی اہمیت وفضیلت سے متعلق متعدد احادیث وارد ہوئی ہیں، گویا امت مسلمہ کو قدرتی طور پر ہفتہ میں ایک دن ان کی اصلاح اور رہنمائی کے لئے نہایت زریں موقع دیا گیا ہے، جمعہ اور اس کے خطبہ کی اس اہمیت کے پیش نظر خطیب کی بھی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے، تاکہ اس ہفت روزہ پروگرام سے بھرپور فائدہ اٹھایا جا سکے، اور خطبات جمعہ تبرک یا وقت گزاری کے بجائے اصلاح اور دینی پیغام رسانی کا بہترین ذریعہ بن سکیں، لیکن عموماً دیکھا یہ گیا ہے کہ خطبائے کرام کی اکثریت اس سے مطلوبہ فائدہ نہیں اٹھا پاتی، خطیب کو اتنی فرصت نہیں ہوتی کہ حالات حاضرہ کے مطابق خطبات مرتب کر سکے، جس کی وجہ سے یہ زریں موقع ہاتھ سے نکل جاتا ہے۔

خطیب کو سنت کے مطابق حالات و ضروریات کا ادراک اور لحاظ کرتے ہوئے موضوع اختیار کرنا چاہئے، موضوع کی مناسبت سے قرآنی آیات اور صحیح احادیث کا انتخاب کرنا چاہیے، مستند کتابوں کا مطالعہ کرنا چاہیے، پھر حالات سے اس کی مطابقت ضروری ہے تا کہ لوگوں کی بروقت رہنمائی ہو سکے۔

اسی کے پیش نظر اس کام کا آغاز کیا گیا کہ مساجد میں حالات حاضرہ کے مطابق تیار کردہ خطبہ دیا جائے، جس میں کوئی پیغام ہو، اور امت کے لئے رہنمائی کا سامان ہو۔

نیز خطبات جمعہ اور عصر حاضر کے اہم خطباء سے متعلق کچھ کتابیں بھی زیر ترتیب ہیں، جو بہت جلد انشاء اللہ منظر عام پر آئیں گی، جس کے ذریعہ وہ حضرات جو خود سے خطبہ تیار نہیں کر سکتے، ان کے لئے آسانی ہو گی، نیز طلباء کے لئے اس موضوع پر ایک اچھا مواد فراہم ہو جائے گا، جس کی روشنی میں ان کے لئے خطبہ جمعہ کی تیاری آسان اور سہل ہو جائے گی۔

٭٭٭

حُبُّ الْعَرَبِیَۃِ مِنْ حُبِّ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہِﷺ

’’مَنْ أَحَبَّ اللّٰہَ تَعَالَی، أَحَبَّ رَسُوْلَہُ مُحَمَّداًﷺ، وَمَنْ أَحَبَّ الرَّسُوْلَ الْعَرَبِیَّ أَحَبَّ الْعَرَبَ، وَمَنْ أَحَبَّ الْعَرَبَ، أَحَبَّ الْعَرَبِیَۃَ، الَّتِیْ نَزَلَ بھَِا أَفْضَلُ الْکُتُبِ عَلیٰ أَفْضَلِ الْعَجَمِ وَالْعَرَبِ، وَمَنْ أَحَبَّ الْعَرَبِیَۃَ عُنِیَ بھَِا وَثَابَرَ عَلَیْھَا، وَصَرَفَ ھِمَّتَہُ إِلَیْھَا، وَمَنْ ھَداَہُ اللّٰہ لِلإِسْلاَمِ، وَشَرَحَ صَدْرَہُ لِلإِیْمَانِ، وَآتَاہُ حُسْنَ سَرِیْرَۃً فِیْہِ، اعْتَقَدَ أَنَّ مُحَمَّداًﷺ خَیْرُ الرُّسُلِ، وَالإِسْلَامُ خَیْرُ الْمِلَلِ، وَالْعَرَبُ خَیْرُ الْأُمَمِ، وَالْعَرَبِیَّۃُ خَیْرُ اللُّغَاتِ وَالْأَلْسِنَۃ، وَالإِقْبَالُ عَلیٰ تَفھَمھَِا مِنَ الدِّیَانَۃِ، إِِذْ ھِیَ أَدَاۃُ الْعِلْمِ، وَمِفْتَاحُ التَّفَقُّہِ فِیْ الدِّیْنِ، وَسَبَبُ إِصْلَاحِ الْمَعَاشِ وَالْمَعَادِ۔  ‘‘

(أبو منصور عبد الملک بن محمد بن إسمعیل الثعالبی)

(۳۵۰ھ؍۹۶۱ء = ۴۲۹ھ ؍ ۱۰۳۸ء)

یک ماہی عربی بول چال کورس میں شرکت کرنے والے بعض طلباء کے تاثرات

(۱) میں نے اس ایک ما ہی عربی کورس میں وہ چیز حا صل کی جو میں نے اس سے پہلے کسی بھی دوسری علمی درسگاہ میں حا صل نہیں کی، ایک ماہ میں وہ کچھ حاصل کیا جو سالوں کی محنت سے حا صل نہیں کیا جا سکتا، اس کورس کو کامیاب بنا نے میں ہمارے تمام مشفق و مربی اسا تذہ کا دخل ہے کہ انہوں نے اپنا پورا پورا قیمتی وقت ہم طلبہ میں صرف کیا اور ہر لمحہ عربی زبان بولنے پر زور دیا، ہم طلبہ نے تقریباً اکثر اہم موضوعات پر لب کشائی کی، ہم نے خوب خوب اس دورہ تدریبی سے فائدہ اٹھا یا اوراس علمی درسگاہ سے خوب خوب خوشہ چینی کی، اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہوں کہ اللہ تعالیٰ اس یک ماہی کورس کو قبول فرمائے اور مزید ترقی عطا فر مائے، آمین۔

محمد رضا ء الرحمن بن محمد مجیب الرحمن ( اسراہا، دربھنگہ)

٭٭٭٭٭٭٭

(۲) یہ عربی زبان اور اس کے آداب کا علمی اور تدریبی دورہ ہے، جس سے میں اندنوں گزر رہا ہوں، اس سے بہت فوائد حاصل ہوئے، جن کا شمار اس ناچیز سے نا ممکن ہے، البتہ اختصار میں کہنا چاہوں گا کہ اس سے پہلے میں اس لائق نہیں تھا کہ لوگوں کے سا منے کھڑے ہو کر عربی زبان میں کچھ کہوں، لیکن یہاں آ کر جب میں نے پروگراموں میں حصہ لینا شروع کیا، تو الحمد للہ اب کھڑے ہونے اور اپنے ما فی الضمیر ادا کرنے پر قادر ہو گیا، اسی طرح میں بہت بے چین رہتا تھا کہ کیسے کسی موضوع پر بولوں لیکن یہاں اسا تذہ نے ہم پر خوب محنت کی اور اب اس لائق بنا دیا کہ کسی بھی موضوع پر کچھ لب کشائی کر وں، اللہ ان اسا تذہ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔

محمد طیب بن محمد مجیب الرحمن( پورنیہ، بہار)

(۳) آج اللہ کا شکر ہے کہ یہ کورس اختتام کو پہنچ رہا ہے، دوران تعلیم اساتذۃ نے ہماری بڑی مدد کی ہے، ہمہ وقت یہ کوشش کرتے رہے کہ یہ ہمارے طلبہ عربی زبان میں کچھ عبور حا صل کر لیں، ہمیں یہاں آنے سے جتنا فائدہ ہوا ہے ہم اس کو شمار کرنے سے اس وقت قا صر ہیں، ہم اپنے لئے اور اپنے اسا تذہ کے لئے اور اس دورہ کے ذمہ دار کے لئے دعا گو ہیں کہ اللہ ان سب کو دن دوگنی رات چوگنی ترقی عطا فرمائے۔  آمین

محمد اوصاف الرحمن بن محمد انیس الرحمن( دوست پور، مدھوبنی، بہار)

٭٭٭٭٭٭٭

(۴) ایک روز میری نظر اعلان بورڈ پر پڑی جس میں اس دورہ کے انعقاد کی اطلاع دی گئی تھی، جسے پڑھ کر میری خوشی کا ٹھکانہ نہیں رہا، اور اس بات نے میری خوشی کو مزید دو بالا کر دیا کہ یہ دورہ ہمارے اپنے صوبہ بہار میں منعقد کیا جا رہا ہے، لہٰذا اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے یہاں اپنا داخلہ کرایا، یہاں میں نے اپنی امید سے بھی زیادہ چیزیں پائیں، اساتذہ کرام نے انتہائی خلوص اور محنت و مشقت کے ساتھ ہمیں عربی سکھانے کی کوشش کی، اور ہم نے بھی ان کا اپنی بساط بھر ساتھ دیا، یہی وجہ ہے کہ اس ایک مہینہ میں ہمیں وہ فائدہ نظر آیا جو کئی برسوں میں نہیں ہوا تھا، اس دورہ کا سب سے چھوٹا فائدہ یہ نظر آیا کہ ہمیں عربی زبان کے مطالعہ کا شوق پیدا ہوا، انسیت پیدا ہوئی اور بہت حد تک ہم اس زبان سے مانوس ہو گئے، جبکہ پہلے عربی دیکھ کر دہشت اور گھبراہٹ ہوتی تھی۔

محمد ظفیر اللہ بن محمد رحمت اللہ( دوست پور، مدھو بنی)

٭٭٭٭٭٭٭

(۵)حقیقت یہ ہے کہ عربی زبان کے لئے ایسے دوروں کا اہتمام اور انعقاد ہو نا چاہئے، تا کہ جو طلبہ عربی زبان سے شغف رکھتے ہیں اور اس کے حصول کے متمنی ہیں، اس سے استفادہ کر کے اپنے علم میں اضا فہ کر سکتے ہیں، چنانچہ میں بھی ان طلبہ میں سے تھا جو عربی سیکھنے کے خوا ہاں ہیں، تلاش بسیار کے بعد مجھ کو جامعہ ربا نیہ اشفا قیہ کے زیر اہتمام منعقد ہونے والے دورہ کا علم ہوا، تو میں نے اپنا نام اس دورہ میں شرکت کے لئے اندراج کرایا، اور ۱۶؍ ۶؍ ۲۰۱۴ ء کو اس دورہ میں شرکت کے لئے جونپور یوپی سے جامعہ قاسمیہ بینی آباد پہنچا، ٹائم ٹیبل اور نظام تعلیم کو دیکھ کر کا فی مسرت ہوئی اور مجھے یقین ہونے لگا کہ میرا یہ سفر رائیگاں ہر گز نہیں جائے گا۔

اس مختصر سی مدت میں اللہ کا شکر ہے کہ ہم اب عربی زبان میں گفتگو کرنے، عربی میں کچھ لکھنے اور عربی کتابیں بغیر دشواری کے پڑھنے کے لائق ہو گئے ہیں، یہ اسی دورہ کا نتیجہ ہے، ورنہ ہم اس سے پہلے ان سب چیزوں کے لئے پریشان رہا کر تے تھے، میں اپنے مطلوب و مقصود میں اپنے آپ کو کامیاب سمجھتا ہوں۔

محمد نثار بن محمد یا سین ( چوڑی بازار جونپور، یوپی)

٭٭٭٭٭٭٭

(۶) اس عربی زبان کے سیکھنے میں خواہ وہ لکھنے کی شکل میں ہو یا بات چیت کی شکل میں، یا مکالمہ کی صورت میں، ہمارے اسا تذہ نے ہماری بھر پور مدد کی، کہ ہم کسی طریقے سے عربی زبان لکھنے اور بولنے پر قا در ہو جائیں، الحمد للہ بہت حد تک اپنے مقصد میں وہ کامیاب بھی ہیں، اس دورہ سے ہمیں اتنا فائدہ ہو اجتنا بسا اوقات سالوں میں بھی نا ممکن ہوتا ہے، الحمد للہ آج ہم کسی سے بھی عربی زبان میں بات کر سکتے ہیں اور اپنے ما فی الضمیر کو ادا کر سکتے ہیں، چوں کہ ہم لوگوں نے اس مختصر سے ایام میں الفاظ و معانی، تعبیرات، امثال و حکم کا ذخیرہ اپنے ذہنوں میں محفوظ کر لیا، اور بہت سی مشکل ترکیبوں سے بھی سامنا ہوا اور ان کے حل بھی پیش کئے گئے، اس دورہ میں شرکت کے بعد ہمیں ایک نیا رخ ملا، میں ہدیہ تشکر و امتنان پیش کرتا ہوں اپنے تمام اساتذہ کو جنہوں نے ہما رے لئے اپنے اوقات کو فارغ کیا اور اس دورہ کے منتظمین کو، اللہ ان کے اس قدم اٹھا نے کو قبول فرمائے، آمین۔

محمد عصمت اللہ بن محمد رحمت حسین(کھر ہر، مدھوبنی، بہار)

٭٭٭٭٭٭٭

(۷) جب میں اس مدرسہ میں پہنچا اور میں نے یہاں کے نظام تعلیم کو جانا تو میں خوشی سے پھولے نہ سما سکا، کیو نکہ مجھے عربی زبان سے شغف تھا، جو میں نے یہاں پایا، عربی زبان میں بات کرنے کی مدت سے تمنا تھی جو یہاں آ کر مراد کو پہنچی اور میرے دل سے یہ دعا موتیوں کی لڑی کی طرح نکلنے لگی کہ خدا تعالیٰ اپنے امن وامان میں رکھے ان تمام نیک صالح طبیعت افراد کو جنہوں نے اس تعلیمی دورہ کے انتظام میں جا نی و مالی قربانی پیش کی، ہم التماس کر تے ہیں ان نیک صالح لوگوں سے کہ اس علمی تربیتی کورس کو اعلیٰ پیما نے پر چلائیں اور مظفر پور کے علاوہ دوسرے ضلعوں میں بھی آغاز فرمائیں۔

ثنا ءاللہ بن مولانا احمد حسین القاسمی(گرول، دربھنگہ، بہار)

٭٭٭٭٭٭٭

(۸)الحمد للہ جب میں اس عربی کورس میں شامل ہوا، تو مجھ کو بہت ہی فائدہ ہوا، جن کی مجھ کو امید بھی نہ تھی، اس ایک مہینہ میں کیا کر پاؤں گا، لیکن یہاں کے اساتذہ کی محنتیں رنگ لائیں، مثلاً حوار میں شرکت کرنا اور خطبات پر زور دینا، میں نے بھی پوری محنت و لگن کے ساتھ شرکت کی، جس کے نتیجہ میں مجھے بہت فائدہ ہوا، اب میری استطاعت اتنی ہو گئی کہ میں کسی بھی موضوع پر دو تین منٹ عربی میں تکلم کر سکتا ہوں۔

محمد شفیع عالم بھاگلپو ری ابن محمد عزیر احمد

(۹)یہ عربی اسپیکینگ کورس جو مولانا محمد حماد کریمی ندوی اور ان کے والد محترم جناب مولانا شرف عالم قاسمی صاحب نے شروع کیا ہے، یہ مدرسہ کے طالب علم کے لئے بہت مفید عربی اسپیکینگ کورس ہے، یہ کورس تو ایک مہینے کا ہے، لیکن اس کورس میں فائدہ سال بھر کا نظر آتا ہے۔

محمد عثمان غنی بن محبوب عالم (ار ریا)

٭٭٭٭٭٭٭

(۳) اہل علم اس بات کو جا نتے ہیں کہ قرآن و حدیث فہمی کے لئے علم نحو وصرف ولغت کلیدی حیثیت کے حامل ہیں، اس شعبہ نے ہمیں ان کم ایام میں وہ علم عطا کیا جو ہمیں اس سے قبل کہیں نہ مل سکا تھا، ساتھ ہی ساتھ اس شعبہ ادب میں آنے سے یہ فائدہ ہوا کہ ہما رے اندر جو کمزوریاں و کوتاہیاں تھیں وہ مکمل طریقے پر کھل کر سامنے آ گئیں، ساتھ ہی ان اسباب و وجوہات کا احساس ہوا جن کے ہوتے ہوئے یہ کمزوریاں نا گزیر تھیں، اللہ تعا لی جزائے خیر دے مولانا محمد حماد کریمی ندوی صا حب مدظلہ العالی کو جنہوں نے میری دیرینہ خواہش کی تکمیل کی ہے، اور عربی تدر ریس کا نہایت عمدہ مجرب طریقہ کار مرتب کیا ہے اور یہ طریقہ تجربہ کے مراحل سے گزر کر اپنی افادیت تسلیم کرا چکا ہے، اس شعبہ کے اندر ہمارے لئے جو طریقہ و اصول مرتب کیا گیا تھا ما شا ء اللہ وہ قابل مبارک باد ہے، جن سے ہمارے قلوب کے اندر روشنی، اعضا ء و جوا رح کے اندر نو رانیت پیدا ہو گئی ہے، ما شا ء اللہ اساتذہ کرام کی دی گئی اصطلاحات، چنندہ تعبیرات، صلات، الفاظ و معانی اور بہت سی ایسی چیزیں جن کو اس مختصر سے وقت میں شمار نہیں کیا جا سکتا ہے، اس سے اتنا فائدہ ہوا کہ سال بھر میں اس کی تکمیل نا ممکن تھی، بڑے وثوق کے ساتھ یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ اس طرز کا یہ منفرد ادارہ ہے، جس کی افادیت کواستفا دہ کے بعد ہی محسوس کیا جا سکتا ہے۔    محمد اسلم بن محمد ادریس صا حب( کریوت با زار، مدھو بنی)

٭٭٭

تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل