FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

فہرست مضامین

اسلامی اور مغربی تمدن اور حیاتِ محمدؐ

 

 

 

                محمد حسین ہیکل

حیات محمدﷺ از محمد ہیکل کے حصہ دوم کے آخری باب

 

 

 

اسلامی تمدن … قرآنی نقطہ نظر سے

 

 

ختم الرسل صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے بعد ایسا عظیم تمدن چھوڑا جس نے صدیوں سے عالم کو منور کر رکھا ہے جس کی صلاحیت اس قدر ہے کہ جب تک دنیا قائم ہے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا متروکہ تمدن اس کے آخری لمحے تک ضیا پاشی کر رہے گا۔ تاریخ کے صفحات گواہ ہیں کہ قرون ماضیہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اس میراث کا حقیقی ثمرہ اور ا س  کے نتائج سے درجہ بہرہ یاب ہوئے۔ یہ بجائے خود اس امر کی دلیل ہے کہ اس میں مستقب کو فیض یاب کرنے کی صلاحیت اور بھی زیادہ ہے اس لیے کہ ختم المرسلین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایسے دین قیم کی بنیاد رکھی جو کائنات کی تمام خوبیوں کا حامل اور ضامن ہے۔

 

اسلامی تمدن اور مغرب تہذیب کا امتزاج

اس کے مزاج میں ایک خوبی یہ ہے کہ اگر اسے علم صحیح اور عقل سلیم کی آمیزش اور استقامت کے ساتھ مربوط کیا جائے جس کے ساتھ تہذیب و تمدن کی ان اشیاء سے کا بھی لیا جائے جو اس تمدن (مغربی) کے جزو لا ینفک کی حیثیت اختیار کرچکی ہیں اور اپنی افادیت میں بنی نوع انسان کے لیے ضروری ہیں تو قرآن کی تعلیم کے مطابق اسلامی تمدن اور مغربی تہذیب کا یہ امتزاج خود اسلام کی تقویت کا سبب ہو گا۔ اسلام کی فطرت اور اس قسم کے غور و فکر اور ایسے قوانین دانش و عقل کے درمیان ایسا رابطہ پیدا کر دیتی ہے جس سے مسلمانوں کی ان دونوں (اسلامی اور مغربی تمدن) کے درمیان مناسب رابطہ پیدا کرنے کی کوشش کرنا چاہیے لیکن یہ رابطہ کس طرح پیدا کیا جائے؟

حقیقت یہ ہے کہ اسلام ایک خاص وضع کے مطابق تمدن کی تعریف اور شرح کرتا ہے اور اسی تمدن کی تعریف و تشریح مغرب دوسرے انداز سے کرتا ہے اس لیے دونوں کے تمدن کا اصل جوہر مختلف ہے۔

 

مغربی تمدن کا خطرناک پہلو انسانی فکر اور حقیقت صحیحہ کے درمیان تفریق ہے

مغربی تمدن کے نتائج میں سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ اس سے انسانی فکر اور حقیقت صحیحہ کے درمیان تفریق ایسی خلیج حائل ہو گئی ہے جس کا پر کرنا بظاہر ممکن نظر آتا ہے اور اس غلطی کا سبب اقتصادی نظام کو اساس قرار دینا ہے جو اہل مغرب کے ہر سیاسی کاروبار میں اولیت اور اولیت کا درجہ رکھتا ہے۔ ان دونوں کا یہ اختلاف ان کے تاریخی اسباب کا نتیجہ ہے جیسا کہ ہم اس کتاب کے مقدمہ طبع اول و مقدمہ ثانی (در طبع ثانی) میں قدرے بسط کے ساتھ بیان کرتے ہیں۔

ہو ا یہ کہ جب مغرب میں ریاست اور کینسہ دونوں کے درمیان فرق رونما ہوا تو یہ اختلاف اس آخری نقطہ پر جا کر رکا جہاں حکومت اور کینہ دو مختلف گدیاں قرار پائیں کیونکہ مغرب کی فکر اور نتائج کی سمتیں بھی متضاد اور مختلف ہی تھیں۔ ادھر کلیسا کی یہ تمکنت کہ وہ سلطنت پر حاوی ہے اور ادھر ریاست کو یہ اصرار کہ پوپ اور حکومت دونوں کے درمیان کوئی مذہبی رابطہ نہیں۔ دونوں کی یہ کشمکش مغرب کی سیاست کے ہر جزو و کل میں پائی جاتی ہے۔ مغرب کے ان مفکرین کے نتائج کا یک مقدمہ بھی ہے کہ عقل محض عقل مجرد اور عقل عملی( مادیات) دونوں کے درمیان بعد بعید واقع ہے اور اہل مغرب کے نزدیک ان کا موجودہ تمدن عقل عملی مادیات ہی کے صدقے میں اس بام عروج تک پہنچ سکا ہے۔

مغرب میں اسی مغالطہ کی بنا پر متعدد مفکرین نے تسلیم کر لیا ہے کہ نظام عالم بھی اقتصادیات ہی کے کھونٹے سے بندھا ہوا ہے حتیٰ کہ مغرب کے ان مفکرین میں ایسے افراد بھی پائے جاتے ہیں جو مذہب صنعت و حرفت اور فلسفہ و منطق میں سے ایک ایک شعبہ کو اقتصادی نظام سیمربوط کرنے کے درپے ہیں۔ تاریخ عالم کے گزرے ہوئے واقعات اور قوموں کے موجودہ تصادم کے نتائج فتح و شکست کو بھی اس دور کے اقتصادی حالات کا کرشمہ تصور کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے نزدیک نہ صرف تاریخی حوادث معاشی نظام کی برتری و نکبت کا ثمرہ ہیں بلکہ قوموں کے اخلاق کا انحصار بھی ان کے معاشی نظام کے خوبی و  بد نمائی پر ہے۔ ان فلاسفہ مغرب نے معاشیات کی اس حد تک ہمہ گیری کو تخلیقی تحقیق کا درجہ دے رکھا ہے۔

 

اہل مغرب کے نزدیک روحانیت صرف انفرادی درجہ تک قابل قبول ہے

مغربی فلاسفہ کے نزدیک روحانی علو(جسے دل کی پاکیزگی اور صفات کی برتری سے تعبیر کیجیے) کو اجتماعیت سے کوئی واسطہ نہیں۔ وہ اسے محض انفرادی مسئلہ سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک اس کے انفرادی ہونے کی وجہ سے ریاست کو افراد کے اس پہلو سے کوئی واسطہ نہیں۔ مغرب نے اس معاملہ میں یہاں تک آزادی اختیار کر رکھی ہے کہ اوردوسروں کی اس آس آزادی میں ان کی پاسداری اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ وہ اپنے اصول کو بھی عقیدہ کی آزادی دینے پر محمول کرتے ہیں اور افراد کو ان کے اختیار پر چھوڑے رکھنا ریاست کے فرائض میں سمجھتے ہیں۔ اس پر طرہ یہ کہ وہ فلاسفہ اس انفرادی مختاریت کو بھی قوم کی اقتصادی برتری ہی کا جز شمار کرتے ہیں۔

 

جو تمدن دوسروں کا حق چھیننے کا حریص ہو ا اس کا انجام معلوم

لیکن میرے (مولف علام کے) عقیدہ کے مطابق جس تمدن کی بنیاد صرف معاشی اصلاح و بہبود اور ترقی پر قائم ہو اس طرح کہ وہ اخلاقیات کو اجتماعیت معاشی سود و منافع ہی کا ثمرہ سمجھے اس کے ساتھ ہی اخلاقیات کو اجتماعی کا جزو لازم قرار دینے کی بجائے اسے انفرادی درجہ سے علیحدہ متصور کرنے کا دعوے دار ہونا ناممکن ہے کہ ایسا تمدن انسان کو سعادت اور کامیابی کی حقیقی راہ دکھا سکے۔ بلکہ ایسے تمدن کا حصول بالآخر قوم کو مصیبت اور تباہی میں متلا کر دے گا جیسا کہ اہل یورپ کی روز مرہ زندگی میں نظر آ رہا ہے۔ جب تک ان کا یہ شعار رہے گا ان کی جنگوں سے دست برداری اور باہمی صلح و صفائی کا وعظ کوئی ثمرہ نہیں لا سکتا، کیونکہ ان میں اصل مسئلہ روٹی کا ہے اور وہ بھی ان میں ہر ایک قوم کی اپنی منشا کے مطابق حل ہونے کا مقتضی۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی اقوام میں سے ہر ایک ملک نے جنگی قوت بھی روٹی ہی کے نام سے بڑھا رکھی ہے لیکن اصل غرض اپنے لیے روٹی نہیں بلکہ دوسروں کے ہاتھ کا لقمہ جھپٹ لینا ہے۔ ان میں سے ہر ایک طاقت اپنے مقابل کی حکومت کو دشمنی کے سوا کسی اور نظر سے دیکھ ہی نہیں سکتی جیسے باہم انسانیت کا کوئی رشتہ ہی نہیں ہم گویا انسان بننے کے باوجود حیوانوں کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ کہہ میں سے ہر ایک قوت کو صرف ذاتی منافع کا احسا س باقی رہ گیا ہے اور وہ اخلاقی مبادیات جن پر ایک دوسرے کی مودت و محبت کا انحصار ہے مفقود ہے۔

 

اشتراکیت اور آمریت دونوں ایک چہرہ کے مختلف روپ ہیں

یورپ میں جو حوادث رونما ہو رہے ہیں وہ ہماری اس توجیہ اور دعویٰ کا ثبوت ہیں۔ اقوام مغرب کی موجودہ رقابت اور مبارزت اسی اقتصادی نظام کی غلط روی کا نتیجہ ہیں حتیٰ کہ ان کے تمدن کا ماحصل ایک دوسرے سے جنگ اور دشمنی کے سوا اور ہے ہی نہیں۔ یہ وبا یورپ کے اس طبقہ میں اسی طرح پائی جاتی ہے جو خود کو جدید اشتراکی نظریہ کا حامل بتاتے ہیں اور اس گرو ہ میں بھی جو اشتراکیت کے دشمن ہیں یعنی اجارہ داری ان آمریت جیسا کہ یورپ کی یہ دونوں قسمیں (اشتراکیت اور ان کے مخالف گروہ) ایک دوسرے کے ساتھ کی روٹی کی تاک میں اس طرح لگے ہوئے ہیں جیسے گدھ مردار کی تاک میں ہو، کہ تمدن کے یہ دعویدار ایک دوسرے کی دولت چھیننے کے لیے ہمہ وقت فکر مند لطف یہ ہے کہ دونوں گروہ انسانی حقوق کا محافظ اور اپنے کردار کو ان حقوق کے تحفظ کا پاسبان بتانے میں نہیں شرماتے۔ کاش ان قوموں کا یہ رشک و رقابت زندگی کی حفاظت کے لیے ہوتا تو ہم ان کے زر مبارزہ میں رقابت کو بھی طبعی کہتے۔

اسی طرح مختلف اقوام و ملل کا باہمی اختلاف تب اس دلیل کے لیے طبعی اور قابل قبول ہو سکتا ہے جب وہ اپنے مال کی حفاظت کے لیے ہو۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو آمریت و اشتراکیت دونوں عقیدوں کے مطابق جنگ کرنا بھی طبعی قرار دیا جا سکتا ہے۔ اب یہ سوال حل طلب ہے کہ قوموں کی باہمی صلح قائم رکھنے اور ان کا جنگوں سے اجتناب دونوں حالتیں کیونکر دائمی اور مستحکم ہو سکتی ہیں۔

موجودہ صدی(بیسویں ) کے ثلث اول (از ۱۹۰۱ تا ۱۹۳۹) میں یورپ کی باہمی جنگوں میں جو حوادث رونما ہوئے واضح طور پر ثابت ہے کہ جن کی زندگی کا منبیٰ محض قومیت ہی رہ گیا ہو ان قوموں میں دائمی صلح اور پائیدار دوستی کا استحکام خیالی اور ایسی آرزو ہے جس کا تصور بغایت شیریں مگر نتیجہ نہایت تلخ ہو یا محض سراب جو دور سے ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر دکھائی دے رہا ہو لیکن حقیقت میں چمک دار ریتلے ذروں کا لامتناہی سلسلہ ہے۔

 

اسلامی تمدن کی بنیاد

مغربی تمدن کے خلاف اسلامی تمدن میں معنوی حسن زیبائی بدرجہ اتم موجود ہے جو انسان کو ایک دوسرے کے ساتھ رابطہ ادراک پر آمادہ کرتا ہے اور اس پر توجہ متوجہ رکھتی ہے کہ وہ خود کو بھی اپنی نظر سے اوجھل نہ ہونے دے۔ اس کا یہی ادراک جب ایمان باللہ کی حدود تک جا پہنچتا ہے تب وہ انسان اپنی روحانیت کو شائستہ اور قلب کو مزکی کرنے کا سبب صرف اس جذبہ کو بنا لیتا ہے یہی ادراک اس کے لیے عقل و شعور کی ابتدائی غذا مہیا کرتا ہے جس میں فرد خود اخلاقی طور پر سربند ہو کر اپنے آپ کو انسانی برادری کے ساتھ منسلک اور محبت و احسان و پرہیز گاری کا منبع سمجھنے لگتا ہے جس کے بعد اپنی زندگی کے اقتصادی معاملات کو اسی محبت و احسان اور پرہیز گاری کے مطابق درجہ کمال تک پہنچانے کی کوشش کرتا ہے۔ اسلام میں اس امر کی اجازت نہیں کہ اخلاقی اقدار کو راہ سے ہٹا کر نظام اقتصادی کے لیے راستہ ہموار کیا جائے۔

 

اسلامی تمدن کا تصور

اسلام تمدن کا یہ تصور اس قدر جاذب و مفید ہے کہ تمام انسانی کمالات و اوصاف کا کفیل ہو سکتا ہے۔ اگر اسلام کا تمدن دلوں میں بس جائے اور ا س کی تنفیذ و اجراء کے لیے بھی وہی ذرائع کام میں لائے جائیں جو مغربی نظام تمدن کی ترویج و اشاعت میں استعمال کیے جا رہے ہیں تو انسانیت کے خدوخال کا نکھار کچھ اور ہی ہو۔ تمدن کی بنیاد اس انداز سے مستحکم ہو جائے کہ جس سے تمام عالم موجود بحران سے نجات حاصل کر سکتا ہے جو اسے ہر سمت سے گھیرے ہوئے ہے (موجودہ حالات میں ) مشرق و مغرب اس بحران کے استیصال پر ہمہ تن متوجہ ہیں لیکن طریق کار سے بے خبر اور نہ صرف غیر مسلم ہی بلکہ خود مسلمان بھی ان کے نقش قد پر گام زن اور ان کے جوش اتباع میں منزل کے صحیح رخ سے بے خبر ہیں۔

میں برملا کہتا ہوں کہ دنیا کے اس بحران کا حل صرف اسلام کے پاس ہے۔ جس کے لیے اہل مغرب اور مشرق کے رہنے والے ہر طرف نظر دوڑا رہے ہیں لیکن انہیں اتنا قریب دیکھنے کا موقعہ نہیں ملتا کہ ان کا یہ بحران جو باہمی قتال کا موجب بن رہا ہے نتیجہ ان کی عبادۃ المال کا اس پر طرف یہ کہ جب وہ اس بحران کو اپنے موجودہ مذہب عیسویت کا نتیجہ سمجھ کر کسی دوسرے دین کی تلاش میں نظر دوڑاتے ہیں تو ان کی نگاہ ہندومت سے ادھر کہیں نہیں رکتی۔ اسلام کہ جغرافیائی حیثیت سے ہندو مت کے گہوارہ (ہندوستان) سے ا ن (اہل مغرب) کے قریب تر مشرق اقصیٰ میں پھیلا ہوا ہے۔ اہل یورپ اس دین پر توجہ ہ نہیں کرتے جس کے پاس ان کے موجودہ سیاسی و معاشی بحران کا پورا حل بصورت قرآن موجود ہے مع اس شرح کے جو حامل قرآن ہے رسول عربی کی زندگی کے ہر ہر صفحہ سے ان کی مشکلات میں ان کی رہبر ہو سکتی ہے( یعنی سنت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم …م)

دوستو! اس مقام پر اسلامی تہذیب و تمدن کی وضاحت مطلوب نہیں۔ یہ مضمون بجائے خود اس طویل بحث کا متقاضی ہے کہ اگر اس پر قلم اٹھایا جائے تو زیر تسوید کتاب (حیات محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے برابر بلکہ اس سے بھی ضخیم دفتر اس کے لیے درکار ہے یہاں اس نظام اسلامی کے مجمل سی وضاحت کی جا سکتی ہے۔ ممکن ہے کہ اس ضمن میں دعوت محمدیہ کا وہ انداز بھی معرض ذکر میں آ جائے جس میں ایسے مباحث کا آنا ممکن ہے۔ اگر ایسا ہو سکا تو اس سے مزید استفادہ کا مقصد حاصل ہونا ممکن ہے۔

 

اسلامی نظام تمدن کی مختصر توضیح

اسلامی تاریخ میں کوئی دور ایسا نہیں گزرا جس میں مسیحی مغرب کی طرح کینسہ اور سلطنت دو مختلف و متضاد طاقتیں تسلیم کی گئی ہوں۔ جانشینان پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم (خلیفہ ابوبکرؓ سے لے کر آخری خلیفہ راشد تک) نے بھی دینی حیثیت سے کوئی ایسا ضابطہ نافذ نہیں کیا جس سے خود کو مستثنیٰ قرار دیا ہو۔ منصب کی وجہ سے خدا کے نزدیک کسی مسلمان کو دوسرے سلمان پر ترجیح نہیں۔ یہاں تقویٰ و پرہیز گاری قربت کا ذریعہ ہے اور نہ کسی ایسی ولی کی اطاعت ایسے امور میں کسی مسلمان پر واجب جس امر سے خداوند عالم کی معصیت کا کوئی پہلو نکلتا ہو، جیسا کہ مسلمانوں کے خلیفہ اول ابوبکرؓ نے عنان خلافت اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے( اپنے پہلے خطبہ میں )فرمایا۔

اطیعونی ما اطعت اللہ و رسولہ فان عصیت اللہ و رسولہ فلا طاعۃ لی علیکم

’’(اے مسلمانو!) جس امر میں اللہ اور ا س کے رسول کی اطاعت کا حکم دوں اس میں تم پر میری اطاعت واجب ہے جس امر میں خدا اور اس کے رسول کی نافرمانی کی دعوت دوں اس امر میں تم لوگوں پر میری اطاعت واجب نہیں ‘‘۔

مگر جب خلافت کی باگ جابر حکمرانوں کے ہاتھ میں آ گئی تو گوناگوں فتنے اٹھ کھڑے ہوئے۔ لیکن مسلمانوں کی قوت و فکر و عمل پر اس کا کوئی اثر نہ ہو سکا، کیونکہ وہ مسلمان آزادی فکر اور قوت عقل کو ہر چیز حتیٰ کہ دین و ایمان میں بھی نظر انداز نہیں ہونے دیتے، جس کا واضح ثبوت مامون الرشید (عباسی) دور سے ملتا ہے، جب ایسے حکمرانوں نے خلیفۃ الرسول کی بجائے خود کو خدا کا نائب ظاہر کرتے ہوئے مسلمانوں کی گردنوں کا مالک بنایا۔

مامون الرشید کے دور میں عقیدہ خلق قرآن کی مہم کا تصور کیجیے جس کے خلاف اس نے ہر قسم کے جبر و تشدد کو فرض سمجھ لیا۔ مگر مسلمانوں نے پورے استقلال و جرات کے ساتھ مامون کے اس بدعی اور جبری قانون کی مخالفت کی اور اس راہ میں گونا گوں سختیاں برداشت کرنے سے نہ گھبرائے۔

 

اسلام نے عقل کو ہر معاملہ میں حاکم قرار دیا ہے

خدا تعالیٰ نے دین و ایمان دونوں میں عقل و شعور کو حاکمیت کے مقام پر رکھا ہے قرآن مجید فرماتا ہے۔

ومثل الذین کفروا کمثل الذی ینعق بما لا یسمع الا دعاء ونداء صم بکم عمی فھم لا یعقلون

’’اور حقیقت یہ ہے کہ جن لوگوں نے کفر کی راہ اختیار کی ہے ان کی مثال ایسی ہے(یعنی انہیں کورانہ تقلید کی جگہ عقل کی ہدایت کی دعوت دینا ایسا ہے) جیسے ایک چرواہا چارپائیوں کے آگے چیختا چلاتا ہے کہ چارپائے کچھ سنتے ہی نہیں مگر صرف بلانے اور پکارنے کی صدائیں وہ بہرے اور گونگے اندھے ہو کر رہ گئے ہیں پس کبھی سوچنے سمجھنے والے نہیں ‘‘۔

 

عقل کی حاکمیت کے بارے میں شیخ محمد عبدہ کی رائے

آیت متذکرہ بالا کی تفسیر میں شیخ محمد عبدہ فرماتے ہیں کہ قرآن مجید کی اس آیت کے مطابق سمجھ بوجھ کے بغیر دوسروں کی پیروی کرنا کافروں کا شیوہ ہے۔ اس لیے جو شخص حقیقت اور صحت دونوں امور کو نہیں سمجھ سکتا ایسا شخص مومن نہیں ہو سکتا۔ ایمان سے یہ مقصود نہیں کہ انسان بھی حیوانوں کی مانند نیکی کی متابعت پر مائل ہو جائے انسانیت کا نتیجہ تو یہ ہے کہ عقل و شعور دونوں کی یک جہتی کے ساتھ علم کی راہ سے ترقی حاصل کر لے اور اس تصور کے ساتھ کہ جس کام کو بہتر سمجھ کر کیا جا رہا ہے وہ کام خدا کی رضا کا ذریعہ بھی ہے۔ اسی طرح اسے ہر اس کام سے نفرت اور اجتناب ہو جس کے بد انجام ہونے کا اسے یقین ہے۔

شیخ نے اس آیت کی تفسیر میں جو کچھ لکھا ہے قرآن مجید نے اسے بے شمار آیتوں میں واضح طور پر ارشاد فرمایا ہے۔

 

قرآن میں مظاہر قدرت پر غور کرنے کی ہدایت

(۱)  ان فی خلق السموات والارض واختلاف الیل والنھار والفلک التی تجری فی البحر بما ینفع الناس وما انزل اللہ من السماء من ماء فاحیا بہ الارض بعد موتھا و بث فیھا من کل دابۃ و تصریف الریاح و السحاب المسخرین اسلماء والارض لا یت لقوم یعقلون (۲:۱۶۴)

’’بلا شبہ آسمان اور زمین پیدا کرنے میں اور دن اور رات کے بعد ایک آتے رہنے میں اور جہاز میں جو انسان کی کاربرآریوں کے لیے سمندر میں چلتا ہے اوربرسات میں جسے اللہ آسمان سے برساتا ہے اور اس کی آب پاشی سے زمین مرنے کے بعد پھر جی اٹھتی ہے اور اس بات پر کہ ہر قسم کے جانور زمین کے پھیلاؤ میں پھیلے ہوئے ہیں اور ہواؤں کے مختلف رخ پھرنے میں اور بادلوں می جو آسمان اور زمین کے درمیان (اپنی مقرر ہ جگہ کے اندر) بندھے ہوئے ہیں۔ ان لوگوں کے لیے جو عقل رکھنے والے ہیں اللہ کی ہستی اور اس کے قوانین رحمت کی بڑی نشانیاں ہیں ‘‘۔

(۲)  وایۃ لھم الارض المیتہ احینھا واخرجنا نھا حبا فملہ یاکلون وجعلنا فیھا جنت من لخیل وا عناب وفجرنا فیھا من العیون لیاکلوا من ثمرہ وما عملتہ ایدیھم افلا یشکرون سبحان الذی خلق الازواج کلھا مما تنبت الارض ومن انفسھم ومما لا یعلمون (۳۶:۳۳تا۳۶)

’’اور ان (لوگوں کے) سمجھنے کے لیے ہماری (قدرت کی) ایک نشانی مری ہوئی (یعنی پڑی ہوئی) زمین ہے کہ ہم نے اس کو پانی برسا کر جلا اٹھایا اور ا س سے اناج نکالا کہ اسی میں سے (یہ لوگ اپنی قسمت کا) کھاتے ہیں اور زمین میں ہم نے کھجوروں اور  انگوروں کے باغ لگائے اور ان میں پانی کے چشمے بہائے تاکہ باغ کے پھلوں میں سے یہ لوگ (اپنی اپنی قسمت کا) کھائیں اور یہ معلوم ہے کہ یہ پھل ان کے ہاتھوں کے بنائے ہوئے نہیں تو کیا(یہ لوگ اس نعمت کا) شکر نہیں کرتے؟ پاک ہے وہ ذات جس نے زمین کی روئیدگی کی قسم میں سے اور ان (مخلوقات) کی قسم میں سے جن کو یہ نہیں جانتے ہر قسم کی چیزیں پیدا کی ہیں ‘‘۔

(۳)(  وایٹہپ لھم الل نسلخ منہ النھار فاذا ھم مظلمون (۳۶:۳۷)

’’اور ان کے (سمجھنے ) کے لیے ہماری قدرت کی ایک نشانی رات ہے کہ ہم اس میں سے دن کو کھینچ کر نکالتے ہیں تو بس یہ لوگ اندھیرے میں رہ جاتے ہیں ‘‘۔

(۴)  والشمس تجری لمستقرھا ذلاک تقدیر العزیز العلیم( ۳۶:۳۸)

’’اور آفتاب (ہے)کہ اپنی ایک ٹھکانے کی طرف کو چلا جا رہا ہے یہ اندازہ خدا کا باندھا ہوا ہے جو زبردست اور ہر چیز سے آگاہ ہے)

(۵)  والقمر قدرنہ منازل حتیٰ عاد کالعرجون القدیم(۳۶:۳۹)

’’اور چاند ہے کہ اس کے لیے ہم نے منزلیں ٹھہرا دیں یہاں تک کہ آخر ماہ میں گھٹتے گھٹتے پھر (ایسا ٹیڑھا اور پتلا) رہ جاتا ہے جیسے (کھجور کی ) پرانی ٹہنی) ‘‘

(۶)  لا الشمس ینبغی لھا ان تدرک القمر ولا الیل سابق النھار وکل فی فلک یسبحون (۳۶:۴۰)

’’نہ تو آفتاب ہی سے بن پڑتا ہے کہ چاند کو جا لے اور نہ رات ہی دن سے پہلے آ سکتی ہے (اور کیا چاند اور کیا سورج سب (اپنے ) اپنے مدار(یعنی گھیرے) میں تیر رہے ہیں ‘‘۔

(۷)  وایۃ لھم انا حملنا ذریتھم فی الفلک المشحون وخلقنا لھم من مثلہ ما یرکبون وان لشانعرقھم فلا صریح لھم ولا ہم ینقذون الا رحمہ منا و متاعا الی حین( ۳۶:۴۱تا ۴۴)

’’اور ان (لوگوں سے) سمجھنے کے لیے ہمارے قد رت کی ایک نشانی یہ ہے کہ ہم ان (آدمیوں ) کی نسل کو بھری ہوئی کشتیوں میں اٹھائے پھرتے ہیں اور کشتی کی طرح ہم نے ان کے لیے اور چیزیں از قسم ڈونگی وغیرہ بھی پیدا کی ہیں جن پر وہ سوار رہتی ہیں اور ہم چاہیں تو ان کو ڈبو دیں۔ پھر نہ تو کوئی ان کا فریاد رس ہو اور نہ یہ کسی طرح ڈوبنے کی مصیبت سے چھڑائے جا سکیں گے مگر (یہ) ہماری مہربانی ہے کہ اور ایک وقت (خاص) تک (ان کو دنیاوی )فائدے پہنچانے منظور ہیں ‘‘۔

قرآن مجید نے یہ مفہوم کئی سورتوں میں ارشاد فرمایا ہے جو انسان کو مظاہر قدرت پر غور کرنے کی دعوت دیتا ہے، جن کے مطالعہ سے اس پر گونا گوں حقائق منکشف ہو سکتے ہیں اور جو (حقائق) بالآخر خالق کائنات پر ایمان لانے کا ذریعہ ثابت ہوتے ہیں۔ خداوند عالم اس (انسان) کی قوت عاقلہ کی فکر و تدبیر کے لیے پکار رہا ہے تاکہ (وہ ) عقل و دلیل کو اپنا رہبر تسلیم کرے نہ کہ اپنے باپ دادا کی رسومات پارینہ کو پیشوا بنائے رکھے۔

 

قوت ایمان کا ثمرہ

ایمان کی یہ قسم ان اسلامی تعبیرات کا ماحصل ہے جو پیر زال کے ایمان سے بالکل مختلف ہے۔ ایسا ایمان (اول  الذکر) اس مرد عاقل کا سا ایمان ہے جو رو ز روشن میں رکھا گیا ہے۔ جس کے جانچنے والے نے اس کا ایک ایک پہلو غور سے دیکھ کر اس کے کھرے ہونے کا یقین کر لیا ہو ناممکن ہے کہ جو شخص اسیے غور و تعمق کے بعد ایمان کو تسلیم کرے وہ اس کے اپنانے می لمحہ بھر کی تاخیر بھی گوارا نہ کر سکے!

 

حقائق کائنات پر غور کرنے کا نتیجہ خدا پر ایمان لانا ہے

جوں جوں انسان زمان و مکان کے اس لامتناہی سلسلہ پر غور کرتا ہے اس کا تصور اس بے تابی کے ساتھ بیدار ہوتا ہے کہ اسے خود بھی سلسلہ کائنات کا ایک جزو تسلیم کرنے کے بغیر چارہ نہیں۔ جس کی وجہ سے اس پر ایک مربوط ترتیب کے ساتھ منکشف ہو جاتا ہے کہ اگر وہ کائنات کے ان حقائق کے باوجود ایک ایسی ہستی پر جو حس و عقل سے مافوق الفوق ہے یقین نہ کرے اور ان حقائق کے ساتھ اپنا رشتہ منسلک کرنے سے دور پڑا رہے تو وہ اصل مقصد سے ہٹ کر سراسر نقصان میں گھر جائے گا اور یہی ادراک وہ قوت ہے جسے ایمان سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔

 

اور سرور ایمان کا درجہ

ایمان ایسا وجدان ہے کہ انسان اپنی ذات کو کائنات کے ساتھ اس طرح مربوط سمجھ سکے کہ عالم کے لامتناہی دائرہ میں خود کو نہ صرف محصور بلکہ کائنات کے اپنی ذات میں منعکس ہونے کا شعور پیدا کر لے جس کی رسم معین کے مطابق وہ اس کائنات کے ساتھ خود کو بھی مصروف گردش محسوس کرنے لگے۔ پھر اگر وہ اپنے اور کائنات دونوں کے کرد گار کی عملی مدح و ثنا کو وظیفہ زندگی بھی بنا لے تو ایمان کا یہ درجہ اس کے دل کو سرور و انبساط کا خزینہ بنا لیتا ہے۔

 

کنہ واجب الوجود کی تفتیش

رہا یہ سوال کہ خداوند متعال دنیا میں جلوہ فرما ہے اور اگر ایسا ہی ہے تو موجودات میں جاری و ساری ہے یا ان سے مننفصل؟ اس مسئلہ پر بحث و تمحیص ایسا جدل ہے جس کا نقصان بیش از بیش اور منفعت کا شائبہ تک نہیں اور نتیجہ گمراہی! ایسا مبحث جس پر جتنی گفتگو کی جائے جہالت میں اور اضافہ ہو۔ اس تفتیش می اہل علم اور فلاسفہ نے بے حد کوششیں کیں آخر تھک کر بیٹھ گئے کہ الوہیت کا مقام ان کے ادراک سے بالا تر ہے۔ اور اس راہ میں ناکامی میں ان کی عقل کی کوتاہی حائل ہے۔

لیکن عقل و فرہنگ کی یہی کوتاہی خدائے متعال پر ایمان اور زیادہ استوار کر دیتی ہے۔ جب قلب میں یہ تیقن پوری طرح جاگزیں ہو جائے کہ ذات صمدیت جلوہ فرما ہے اور اس کا علم ہر شے پر حاوی ہے اور تخلیق کائنات اسی کی نگہ میں کرم کا صدقہ ہے۔ کائنات کی ہر شے کو بالآخر اسی کی طرف لوٹنا ہے۔ یعنی پہلی حالت میں اور پہلی حالت ہے لم یکن شیئا  مذکور ا(۷۶:۱۔ ۔ م) تب ازدیاد ایمان کے ساتھ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ ہم اس کی کنہ ذات سے محض نابلد ہیں کیونکہ آج کے دور مین ذات باری کے ادراک سے ماورا کوئی ایسی چیزی ہمارے سامنے موجود ہیں جن کا احاطہ کرنے سے ہم محض قاصر ہیں مثلاً  کہربا (Electricity)اور ایثر(Ether)جن دونوں کا وجود ظاہر میں دیکھ رہے ہیں اور یہ بھی محسوس ہو رہا ہے کہ آواز اور روشنی دونوں اس کہربا (Electricity)اور ایثر کی موجوں کے دو ش بدوش پر ادھر سے ادھر منتقل ہو رہے ہیں جو ثبوت ان دونوں کہربا و ایثر کے وجود اور ان کی قوت کا لیکن جب ہم ان کی ماہیت دریافت کرنے پر متوجہ ہوتے ہیں تو ہماری بے مائیگی ہمیں پیچھے دھکیل دیتی ہے اسی طرح ہر لمحہ ہم خدا کی صنعت کے گونا گوں شواہد دیکھتے ہیں لیکن اگر انہی صنعتوں کو ان کی کنہ ذات کی تحقیق میں آلہ کے طور پر استعمال کرنے کا تہیہ کر لیں تو ظاہر ہے کہ یہ کاوش خود ہماری بے فہمی پر منتج ہو گی۔ اس لیے کہ ذات واجب الوجود ہماری حد ادراک و تعیین سے بالا تر ہے اور اس کی کنہ ذات میں منہمک وہی لوگ ہیں جو انسانیت کے حدود و فرائض متعین کرنے سے اپنا دامن سمیٹ کر واجب الوجود کی تحقیق ماہیت ان آلات و ادویات سے کرنے بیٹھ جاتے ہیں جو ذرائع (آلات و ادوات) ہماری ہی عقل محدود نے تجویز فرمائے ہیں ۔

دوسرا گروہ

واجب الوجود کی کنہ حقیقت کا متلاشی دوسرا گروہ وہ ہے جس کی تجسس و ادراک کے ذریعے پہلے گروہ کے آلات و ادوات تحقیق سے مختلف ہیں۔ جب یہ طبقہ اس مسئلہ پر متوجہ ہوتا ہے تو قرآن کی آیت۔

ویسئلونک عن الروح قل الروح من امر ربی وما اوتیتم من العلم الا قلیلا (۱۷:۸۵)

’’(اے پیغمبر ؐ) لوگ تم سے روح کی حقیقت دریافت کرتے ہیں تو ان سے کہہ دو کہ روح (بھی ) میرے پروردگار کا حکم ہے! اور تم لوگوں کو (اسرار الٰہی میں سے) بس تھوڑا سا علم دیا گیا ہے‘‘۔

پر پہنچ کر مطمئن ہو جاتا ہے اور خالق روح پر ایمان رکھنے کی بدولت ان کے دل سرور و انبساط سیمعمور ہو جاتے ہیں کیونکہ یہ لوگ بے جا قیل و قال سے اپنا دامن بچا کر ایک طرف ہو جاتے ہیں۔

 

مسلمان اور مومن کا فرق

قرآن مجید مسلمان اور مومن دونوں میں ایک قسم کی تفریق کا مبین ہے۔

قالت الاعراب امنا قل لم تومنا ا ولکن قولوا اسلمنا ولما یدخل الایمان فی قلوبکم (۴۹:۱۴)

’’عر ب کے دیہاتی کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے۔ (اے پیغمبران سے) کہہ دو کہ کہ تم ایمان نہیں لائے ہاں یوں کہو کہ ہم مسلمان ہو گئے اور ایمان کا تو ہنوز تمہارے لیے گزر تک نہیں ہوا‘‘۔

اس (آیت) سے ثابت ہوا کہ اس قسم کا اسلام یا تو خوف و امید کا کرشمہ ہے یا مسلمان کے گھر میں جنم لینے کی وجہ سے ا س شخص نے اسلام کو خود پر لازم رکھا  یا محض اس کی تقدیس کے خیال سے اسے قبول کر لیا گیا ہے ، گر نہ تو اس کے دل میں اسے جگہ لی نہ ایسے شخص نے اس کی حقیقت کو سمجھا نہ اس کے معاملہ میں یقین کے درجہ تک پہنچ سکا۔ قرآن مجید ایسے مسلمانوں کے معلق فرماتا ہے:

یخدعون اللہ والذین امنوا وما یخدعون الا انفسھم وما یشعرون فی قلوبھم مرض فزادھم اللہ مرضا (۲:۹،۱۰)

’’وہ ایمان کا دعویٰ کر کے اللہ کو اور ایمان والوں کو دھوکا دیتے ہیں حالانکہ وہ خود ہی دھوکے میں پڑے ہیں اگرچہ جہل و سرکشی سے اس کا شعور نہیں رکھتے ان کے دلوں میں انکار کا روگ ہے پس اللہ نے (دعوت حق کامیاب کر کے) انہیں اور زیادہ روگی کر دیا‘‘۔

ایسے لوگ مسلمان تو ہیں مومن نہیں ان کی روح سد اضعیف عقیدہ ہمیشہ متزلزل اور قلوب ہر لمحہ غیروں کی اطاعت فرماں برداری پر مائل رہتے ہیں۔

مگر جو لوگ سمجھ کر ایمان لائے ان کے دل انہیں ایمان صادق پر قائم رکھتے ہیں اور خدا کے سوا کسی کے حکم پر نہیں جھکتے نہ کسی پر اپنے مسلمان ہونے کا احسان ظاہر کرتے ہیں۔

بل اللہ یمن علیکم ان ھدکم للایمان ان کنتم صادقین (۴۹:۱۷)

’’بلکہ اللہ تم پر احسان رکھتا ہے کہ اس نے تم کو احسان کا راستہ دکھایا بشرطیکہ تم (دعویٰ اسلام میں ) سچے ہو‘‘۔

ایسے شخص کا اسلام قابل قدر ہے جو صرف اللہ کی رضا طلبی کی خاطر اسے اختیار کرے۔ وہی شخص مومن ہے جسے عاقبت کے روز حزن و ملال سے سابقہ نہ ہو گا اور یہی لوگ ہیں جنہیں دنیا میں محتاجی اور ذلت سے سابقہ نہیں پڑتا کیونکہ ایمان باللہ کا صلہ عزت نفس اور استغنا ہر دو صورت میں حاصل ہوتا ہے ظاہر ہے کہ اللہ اور اس پر ایمان انے والوں کے لیے سدا عزت ہے اور سعید روحی ایسے ہی ایمان کی کوشش کرتی ہیں تاکہ خود کواسرار کائنات کے قریب لے جا کر تقرب خداوندی سے بہرہ مند ہوں۔

 

اسرار کائنات پر آگہی کا ذریعہ

مخلوق خداوندی کا مطالعہ ایسی وقت نظر سے کیجیے جس کی دعوت علمی طور پر قرآن نے پیش فرمائی ہے صدر اول کے مسلمانوں کی مانند جن کے طریق تحقیق سے مقصد وہ نہ تھا جو موجودہ یورپ کے پیش نظر ہے۔ اسلام چاہتا ہیکہ خود کو اس نظم کے تابع کر کے زندگی کی نعمتوں سے بہرہ مند ہو۔ چہ جائیکہ یورپ کا مقصد قد رت کے انہی حقائق کے انکشاف سے محض دنیوی مفاد کی پرورش ہے۔ مگر اسلام ہر وسیلہ و ذریعہ کو صرف خدا شناسی کے لیے استعمال کرتا ہے اس لیے کہ انسان کو معرفت میں جس قدر وسعت حاصل ہو گی اس کے ایمان و اذعان میں اسی قدر اضافہ ہو گا۔ بالآخر اسی عرفان کی بدولت اسے جماعت کے سود وبہبود کا احساس ہو گا کہ یورپ کی مانند صرف منفعت کا سودا۔

خیال رہے کہ روحانی کمالات کے وسعت انفرادی مصالح کو اپنے دامن میں جگہ نہیں دے سکتی۔ وہ تو مشرق و مغرب حتیٰ کہ چاروں سمتوں کو اپنے احاطہ میں ؒیے ہوئے ہے۔ ا س لیے مادی کو روحانی کمالات پر نثار کر دینا از بس نفع رساں اور ایسے کمالات کے حصو ل میں ہر جدوجہد مفید ہے۔

مگر ایسی کراں بہا متاع حاصل کرنے کے لیے محض زبانی قیل و قال کافی نہیں بلکہ علم کے ستھ قلب اذھان کو اس عالی مقصد کے حصول پر متوجہ رکھنا ضروری ہے۔ اور یہ نعمت حضور خداوندی میں استمداد اور قلب و روح دونوں کو پروردگار عالم کے لطف و عنایات کا دست نگر کیے بغیر حاصل ہونا ممکن نہیں کیونکہ صرف وہی ذات عبادت کی سزاوار ہے اور اسی کی توجہ سے کائنات کے سربستہ راز منکشف ہونے اور زندگی کے طریقے معلوم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ یہی (ذریعہ ہے تقرب خداوندی کا جسؤے ہم اس کی نعمتوں پر اظہار تشکر کے ساتھ حاصل کرنے کے خواہش مند اور اس کے لطف و کرم کے امیدوار ہیں کہ وہ اس منزل پر فائز المرا ہونے میں ہماری دست گیری فرمائے جس منزل سے ہم دور پڑے ہوئے ہیں۔

 

بحکم قرآن۔ دعا و استعانت

واذا سالک عبادی عنی فانی قریب اجیب دعوۃ الداع اذا دعان فلیستجیبوا لی ولیو منوا بی لعلھم یرشدون (۲:۱۸۶)

’’اور (اے پیغمبر ؐ) جب میرا کوئی بندہ میری نسبت تم سے دریافت کرے (کہ کیونکر مجھ تک پہنچ سکتا ہے) تو تم اسے بتلا دو کہ میں تو اس کے پاس ہوں۔ وہ جب پکارتا ہے تو اس می اس کی پکار سنتا ہے اور اسے قبول کرتا ہوں پس (اگر وہ واقعی میری طلب رکھتے ہیں تو) چاہیے کہ میری پکار کا جواب دیں اور مجھ پر ایمان لائیں تاکہ حصول مقصد میں کامیاب ہوں ‘‘۔

و ایضاً

واستعینوا بالصبر والصلوۃ وانھا لکبیرۃ الا علی الخاشعین الذین یظنون انھم ملقوا ربھم وانھم الیہ راجعون( ۲:۴۵،۴۶)

’’اور (دیکھو) صبر اور نماز (کی قوتوں ) سے (اپنی اصلاح کر لو) مدد لو لیکن نماز ایک ایسا فعل ہے (جو انسان کی راحت طلب طبیعت پر) بہت ہی کٹھن گزرتا ہے البتہ جن لوگوں کے دل اللہ کے حضور جھکے ہوئے ہیں اور جو سمجھتے ہیں کہ انہیں اپنے پروردگار سے ملنا اور بالآخر اس کے حضور لوٹنا ہے تو اس پر یہ عمل کٹھن نہیں ‘‘۔

نماز

نما ز جو تعلق باللہ کا دوسرا نام ہے اور مدد و نصرت کی طلب و جستجو سے تعبیر ہے خالی رکوع و سجود اور تلاوت و تکبیر کو نہیں کہتے۔ بلکہ اس کیفیت کو کہتے ہیں کہ جس سے دل میں ایمان ابھرے تقدیس و احترام کے جذبات پیدا ہوں اور عقل و خرد کو اس کی طرف پرواز کے مواقع میسر ہوں۔

لیس البر ن تولو وجوھکم قبل المشرق والمغرب ولکن البر من امن باللہ والیوم الاخر والملئکۃ والکتاب والنبین واتی المال علی حبہ ذوی القربی والیتامیٰ والمساکین وابن السبیل والسائلین وفی الرقاب واقام الصلوۃ واتی الذکوۃ والموفون بعھدھم اذ ا عاھدوا والصابرین فی الباساء والضراء وحین الباس اولئک الذین صدقوا و اولئک ھم المتقون (۲:۱۷۷)

’’نیکی اور بھلائی کی یہ را ہ نہیں کہ تم نے (عبادت کے وقت) اپنا منہ پورب کی طرف پھیر لیا یا پچھم کی طرف کر لیا یا سی طرح کی کوئی دوسری بات رسم ریت کر لی۔ نیکی کی راہ تو ان لوگوں کی راہ ہے جو اللہ پر آخر ت کے دن پر فرشتوں پر آسمانی کتا ب پر اور خدا کے تمام نبیوں پر ایمان لاتے ہیں۔ خدا کی محبت کی راہ میں اپنا مال رشتہ داروں یتیموں ، مسکینوں مسافروں اور سائلوں کو دیتے ہیں اور غلاموں کو آزاد کرنے کے لیے خرچ کرتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اپنی بات کے پکے ہوتے ہیں جب قول و اقرار کر لیتے ہیں تو اسے پورا کرتے رہتے ہیں تنگی و مصیبت کی گھڑ ی ہو یا خوف و ہراس کا وقت ہر حال میں صبر کرنے والے (اور اپنی) راہ میں ثابت قدم ہوتے ہیں تو بلاشبہ ایسے ہی لوگ ہیں جو نیکی کی راہ میں سچے ہوتے ہیں اور یہی ہیں جو برائیوں سے بچنے والے مسلمان ہیں ‘‘۔

 

صادق الایمان مومن

وہ ہے جو حضور قلب کے ساتھ نماز ادا کرے اور خدا کو اپنے تقویٰ پر گواہ سمجھتے ہوئے وظائف زندگی ادا کرنے کے لیے اس کی اعانت کا طلب گار ہو۔ اسی ذات سے ہدایت کی استعمداد اور خود کے اسرار کائنات پر مطلع ہونے کی التجا کرے اور خدائے برتر پر اس کا ایمان اس درجہ ہو کہ ادائے صلوۃ کے دوران میں خود کو خدائے برتر و اعلیٰ کے سامنے حقیر محض سمجھے۔

جب مومن کا قلب اس درجہ تک پاک ہو جائے تو نہ صرف نماز بلکہ زندگی کے ہر وظیفہ میں خود کو ذات ذوالجلال کے سامنے حقیر و لا شے سمجھے۔ مثلاً ہم طیارہ میں پرواز کرتے کرتے فضا میں بلند ترین منطقہ میں جا پہنچے اور جب نیچے کی طر ف نگاہ دوڑائی تو سربلند پہاڑوں سینکڑوں میل میں پھیلے ہوئے دریاؤں اور بڑے بڑے شہروں پر سے گزرے نقشہ پر چھوٹے چھوٹے نشان اور مدھم سے خط کھنچے ہوئے ہیں۔ سربفلک پہاڑوں کی بلندی ایک نقطہ کی طرف بڑھتی ہوئی نہریں اور دو خط کے سوا کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ کرہ ارض کا نشیب و فراز ایک ہو کر رہ گئے نقطہ نظر آتا ہے یا ذرا سی لکیر پھر جوں جوں طیارہ بلندی کی طرف بڑھتا جاتا ہے وہ نقطہ اور یہ خط اور بھی چھوٹے ہوتے جا رہے ہیں۔ زمین جو ہزاروں لاکھوں افلاک اور ستاروں کی گود میں پڑی ہے وہ بھی ایک موہوم نقطہ کی صورت دکھائی دینے لگی۔

ان مثالوں کے بعد حضرت انسان کو خود اپنی طر ف دیکھنا چاہیے جو ان پر شکوہ کروں ، دریاؤں اور پہاڑوں کے مقابلہ میں ذرہ برابر سے بھی کم درے پر ہے۔ خالق کائنات و مدبر ہستی جس کی عظمت و برتری اس (انسان) کے حدود خرد سے بالا تر ہے ایسی ذات گرامی کے سامنے یہ (انسان) کس قدر کم درجہ پر ہے۔ پس حضرت انسان جیسی بے مایہ شے کے لیے سزاوار ہے کہ جب وہ خدا کے حضور وظیفہ نماز کے لیے حاضر ہو تو اپنی قوت و ہدایت کے لیے اس بالا و برتر ذات سے امداد کا طلب گار رہے۔

انسان کو یہ نکتہ کبھی فراموش نہ کرنا چاہیے کہ وہ خدائے عز و ج کے سامنے حقیر محض ہے اور اس تصغیر کی تلافی نہ تو مال و زذر سے ہو سکتی ہے اور نہ اس کا منصب و جاہ یہ کمی پوری کر سکتے ہیں۔ البتہ ایمان خالص اور خضوع الی اللہ جن کے یمین ویسار میں نیکی و تقویٰ دونوں ہوں۔ ایسا ایمان انسان کی طبعی بے چارگی اور بے مائیگی کامداوا کر سکتا ہے۔

یورپ کا قانون جو گزشتہ آخری صدیوں میں منضبط ہو مساوات اسلامی کے مقابلہ میں کس درجہ گھٹیا قانون ہے حتیٰ کہ آج کا یورپ بھی انسانوں میں اصل مساوات ماننے سے انکار پر مائل ہے اور وہاں بعض اشخاص کو ابھی تک خاص مراعات دی جاتی ہیں۔

ازروئے اسلام نماز کی حالت میں جو مساوات ظاہر طور پر نظر آتی ہے اسلام میں عقیدہ کی آزادی کا مگر یورپ میں انسانی مساوات کا یہ قحط ایک دوسرے کا مال فریب اور منافقت کے ساتھ پوری دیدہ دلیری سے ہتھیا لیا جاتا ہے اور قانون ہی کی رعایت سے ایسے ذلیل انسان کو بچا لینا روا سمجھاجاتا ہے۔ اسلامی اور مغربی قانون مساوات میں یہی فرق ہے۔

 

نماز میں مساوات کا سبق

خدا کے حضور میں یہ مساوات انسانوں کو برادری کی دعوت دے کر انہیں یہ نکتہ سمجھاتی ہے کہ وہ ایک دوسرے کے بھائی اور خالق کی عبادت میں شریک ہیں۔ جانتے ہیں کہ پرستش صرف خدائے واحد کے لیے ہے۔ یہ برادری کی ایک قسم ہے جسے قران نے  یہ دستور تلقین فرمایا ہے اور قرآن کی بدولت انہیں فکر و تدبر کی لازوال نعمت عطا ہوئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ فکر و عمل میں اسلام سے بہتر آزادی باہمی اخوت ومساوات کوئی اور قوم پیش کر سکتی ہے۔ جس کے ماننے والے ایک ہی صف میں بارگاہ ایزدی میں صف بستہ کھڑے ہوں۔ بیک وقت خشوع و خضوع میں سرشار تکبیر و رکوع اور سجدہ میں اس طرح متوجہ کہ ایک کو دوسرے پر نہ کسی قسم کی ترجیح حاصل ہے نہ کوئی امتیاز بلکہ ان میں سے ہر ایک توبہ و استغفار سے طلب اعانت کا خواستگار خدا کے سامنے نیکی اور تقویٰ کے ماسوا جن کا کوئی وسیلہ نہیں ! ظاہر ہے کہ جب کوئی برادری اس مرحلہ پر گامزن ہو جاتی ہے تو اس کی عبادت اس کی روح و قلب کو مادی آلائشوں سے پاک کر کے ایسے لوگوں کی قسمت میں چار چاند لگا دیتی ہے۔ جس کی روشنی میں ان پر کائنات کے سربستہ را ز منکشف ہو جاتے ہیں۔

 

روزہ کا فلسفہ

تقویٰ کے اعتبار سے تمام انسان احکام خداوندی بجا لانے میں یکساں نہیں ہو سکتے کہ ہمارے جسم مادیت کی وجہ سے ہماری روحوں پر بھاری رہے آتے ہیں۔ اگر ہم نماز میں رکوع و سجدہ اور قرات پر اکتفا کر کے دلوں کو خدا کی طرف  متوجہ نہ کریں تو یہ مادی اجسام روح کر پژمردہ رکھتے ہیں اور بہیمیت انسان پر غالب آ جاتی ہے جس کے لیے ایسے اعمال ضروری ہی جو روح کو جسم پر غالب اور انسانیت کو بہیمیت پر مستولی کر سکیں۔ اسلام نے یہ صفت بیدار کرنے کے لیے ہمیں روزہ کی تلقین فرما کر اسے ہمارے مدارج میں ترقی و تقویٰ میں قوت کا سبب قرار دیا۔

یا ایھا الذین امنوا کتب علیکم الصیام کما کتب علی الذین من قبلکم لعلکم تتقون (۲:۱۸۳)

’’مسلمانو! جس طرح ان لوگوں پر جو تم سے پہلے گزر چکے ہی روزہ فرض کیا گیا تھا اسی طرح تم پر بھی فرض کر دیا گیا ہے تاکہ تم میں پرہیزگاری پیدا ہو‘‘۔

 

نیکی اور تقویٰ توام ہیں

اور نیک وہی شخص ہے جو تقویٰ کی نعمت سے بہرہ مند ہے اور خدا پر روز قیامت پر فرشتوں پر آسمانی کتابوں پر اور پیغمبروں پر جس کا ایمان ہے جو آیہ سابق الذکر کے مطابق حرف بحرف گام زن ہے۔

 

روزہ شب میں پر خوری سے روکتا ہے

اگر روزہ سے یہ مقصود ہے کہ جسمم روح پر بدستور مسلط رہ کر اس کی بہیمیت کر اور مہمیز دیتا رہے جیسا کہ طلوع فجر سے لے کر غروب آفتاب تک حوائج نفسانی سے دست کش رہنا مگر آغاز شب کے ساتھ ہی شکم سیری اور دوسری لذتوں کی بے تحاشا پرورش میں انہماک! حاشا اللہ روزہ کا یہ مقصد نہیں۔ چہ جائے کہ روزہ کے بغیر بھی ان لذتوں کی افراد فساد بد ن کا موجب ہے۔ الٰہی! یہ کیسا روزہ ہے جو انسان دن بھر کھانے پینے سے ہاتھ کھینچے ہوئے تھا جونہی آفتاب غروب ہوا ایک دن ان چیزوں پر جھپٹ پڑا جو دن میں اس نے خود پر حرام کر دکھی تھیں۔ یہ تو اپنے خلاف خدا کو گواہ بنانے کے  مترادف ہے کہ اس نے تزکیہ نفس اور انسانیت کو سربلند کرنے کے لیے خود پر کھانا پینا حرام نہیں کیا اور ایمان کو مد نظر رکھ کر روزہ دار رہنے کی بجائے ایسا فریضہ ادا کیا کہ عقل جس کی اجازت دینے سے انکار کرتی ہے۔ اس نے دن بھر ناحق خود پر پابندی رکھی کہ دن کا نور زائل ہوتے ہی اپنی آزادی کا استعمال اس بے جگری سے شروع کر دیا کہ غروب آفتاب تک جن نعمتوں سے محروم تھا رات کا وقت آتے ہی ان چیزوں کا مسرقانہ استعمال ہونے لگا۔ ایسے شخص کی مثال  اس چور کی سی ہے جو سرقہ کرنے سے اس لیے خود کو دور رکھتا ہے کہ یہ (فعل) انسانیت کے منافی ہے بلکہ قانون کی گرفت سے بچنے کے لیے چور ی کا ارتکاب نہیں کرتا!

 

روزہ کی حقیقت

روزہ کی حقیقت پر اس جہت سے نظر کرنا کہ یہ صرف چند قسم کی لذتوں سے محرومی کا نام ہے سراسر غلط ہے اور بالکل بے معنی ہے۔ ایساروزہ جو محض بے سود ہے۔ بلکہ وہ تزکیہ نفس کا ایسا ذریعہ ہے کہ جسے عقل واجب سمجھتی ہے۔ روزہ دار اپنے اختیار سے خود پر لازم کر لیتا ہے کہ نفس کو ان مادی لذتوں سے دور رکھے جو اس کے قبضہ قدرت میں ہیں اور اس وسیلہ سے خود کو بلند ترین منزلت پر پہنچا سکے۔ فرضیت روزہ سے یہی باری تعالیٰ کے مد نظر ہے جیسا کہ مذکورہ الصدر آیت (۲:۱۸۳) کے ساتھ ہی (دوسری آیت)میں فرمایا:

ایا ما معدودات فمن کان منکم ریضا او علیٰ سفر فعدۃ من ایام اخر وعلی الذین یطیقونہ فدیۃ طعام مسکین فمن تطوع خیر ا فھوا خیرلہ وان تصومواخیر لکم ان کنتم تعلمون (۲:۱۸۴)

’’(یہ روزے کے ) چند گنے ہوئے دن ہیں (کوئی بڑی مدت نہیں ) پھر جو کوئی تم میں بیمار ہو یا سفر میں ہے تو اس کے لیے اجازت ہے کہ دوسرے دنوں میں روزے رکھ کر روزے کی گنتی پوری کر لے اور جو لوگ ایسے ہوں کہ ان کے لیے روزہ رکھنا ناقابل برداشت ہو جیسے نہایت بوڑھا آدمی کہ نہ تو وہ روزہ رکھنے کی طاقت رکھتا ہے اور ہ یہ توقع رکھتا ہے کہ آگے چل کر قضا کر سکے گا) تو اس کے لیے روزے کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلا دینا ہے۔ پھر اگر کوئی اپنی خوشی سے کچھ زیادہ کر لے (یعنی زیادہ مسکینوں کو کھلائے) تو یہ اس کے لیے مزید اجر کا موجب ہو گا لیکن اگر تم سمجھ بوجھ رکھتے ہو تو سجھ لو کہ روزہ رکھنا تمہارے لیے (ہر حال) میں بہتر ہے‘‘۔

 

روزہ کے اخلاقی فوائد

ہم روزہ کی قوت سے آخری عزم اور حریت فکر بیش از بیش حاصل کر کے اپنی روحانی زندگی بہتر بنا سکتے ہیں مگر ہمارا یہ قول غیروں کے سامنے اس لیے عجیب سا معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنے ہاں سے روحانیت کی بنیادیں کھود کر ایک طرف پھینک دی ہیں اور مادیت قصر کے کنگرے اپنی فوجی قوت کی امداد سے آسما ن پر پہنچا رکھے ہیں۔ انسان فکر نو کے مطابق دوسروں کے مال اور نفس پر تصرف کا مستحق ہے۔ صرف اپنی ذات پر اسے اختیار ہے اگرچہ اس کا اختیار عقل اور قانون کے خلاف کیوں نہ استعما ل ہو لیکن حقیقت ایسے قانون کے خلاف رہبری کرتی ہے۔

 

عادت غیر متبدل شے ہے

مثلاً انسان جو عادت کا بندہ بھی ہے جس (عادت) کے مطابق وہ صبح چاشت اور شام تین وقتوں میں تناول کا خوگر ہے اب اگر اس سے یہ تقاضا کیا جائے کہ صبح کا ناشتا ترک کر کے صرف چاشت اور شام پر اکتفا کر لے تو اتنا اختصار بھی وہ اپنی عادت پر پابندی عائد کرنا سمجھ بیٹھے گا۔

اسی طرح جن لوگوں کی عادت میں تمباکو نوشی اس طرح مزمن ہو چکی ہے کہ اس کے بغیر وہ ایک لمحہ بھی ضبط نہیں کر سکتے ، اب اگر ایسے لوگوں کو صرف دن میں تمباکو نوشی سے روکا جائے تو ظاہر ہے کہ وہ اسے اپنی آزادی پر بے محل محاسبہ تصور کر یں گے۔

اسی طرح جو لوگ مقررہ اوقات میں قہوہ اور چائے یا کسی خاص قسم کے مشروب کے عادی ہو چکے ہیں اگر ایسے حضرات سے محض اوقات میں تبدیلی کا تقاضا کیا جائے تو وہ اسے اپنی آزادی پر ضرب سمجھ کر چلا اٹھیں گے۔ چہ جائے کہ محض وقتوں کی تبدیلی ان کی آزادی پر ضرب نہیں ہو سکتی، مگر وہ اسے بھی سلب حقوق کے بغیر کسی اور چیز سے تعبیر نہیں کر سکتے۔

ظاہر ہے کہ ہر مزمن کی عادت فکر کی سلامتی کے لیے خطرہ سے مبرا نہیں ہو سکتی اسی لیے ایسے حضرات بھی ہفتہ یا مہینہ میں ایک نہ ایک روز اپنی ایسی عادت میں اعتدال پیدا کرنے کی کوشش جاری رکھتے ہیں۔ ان کی یہ احتیاط بھی تو ایک قسم کی روزہ داری ہی ہے مگر ا س کے مقابلہ میں اسلام کا روزہ؟

 

معین اوقات میں روزہ کی مصلحت

خداوند عالم نے مسلمانوں پر آسانی رکھنے کی غرض سے سال بھر میں مقررہ دنوں کے روزے عائد فرما دیے ہیں جن کی پابندی غریب و امیر دونوں پر لازم ہے اور ان پر قضا کے عوض ناتواں پر فدیہ مگر مسافر اور مریض کے ذمے قیام و صحت کی حالت میں قضا واجب ہے۔

صرف متعین دنوں میں روزہ کی پابندی بدنی ریاضت سے قطع نظر باہمی اخوت کا بھی ذریعہ ہے۔ جس میں ہرادنیٰ و اعلیٰ مساویانہ حیثیت سے روحانی ریاضت کے ساتھ خداوند عالم کے حضور پیش ہوتا ہے اس صورت میں ان کے اندر باہمی مساوات میں اسی قسم کا اکمال پیدا ہو جائے گا جیسا کہ روزہ داری سے قبل ایک دوسرے کے فرق مراتب میں تفاوت نظر آتا تھا مگر اب وہ تفریق کالعدم ہو جائے گی نماز جماعت کی مانند۔

 

روزہ زندگی کی مشکلات میں دلیل راہ ہے

اسی طرح جب ہم اپنے اختیار سے روزہ رکھتے ہیں تو یہ امر منکشف ہو جاتا ہے کہ عقل اگر اسرار زندگی کے صحیح معنی سمجھ لے تو خدا کے حکم سے روزہ رکھنا بعید از فہم نہیں اور نہ ایسا روزہ عادت یہ پر ضرب ہے۔ بلکہ وہ عادت کی پابندی سے آزادی دلا کر نہ صرف ہمارے اندر عزم واستقلال اور آزادی کی قوت عطا فرماتا ہے بلکہ اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ اگر انسان روحانی کمالات حاصل کرنے کی غرض سے اپنے اختیار کو اپنی کسی عادت کے خلاف استعمال کرے تو اس سے اس کی قوت فکر میں ایسی استقامت پیدا ہو جاتی ہے کہ جس سے ایمان کی طویل منزلیں آسانی سے طے کر سکتا ہے۔

 

تقلیدی روزہ بے معنی ہے

اور جیسا کہ محض تقلیدی ایمان کافی نہیں ہے ایسے ایمان سے بہرہ مندی اس شخص کے مسلمان ہونے کے لیے تو کافی ہے مگر یہ شخص مومن کے درجہ تک نہیں پہنچ سکتا۔ یہی صورت ہے تقلیدی روزہ کی ہے جس کا رکھنے والا یہ گرہ لگائے بیٹھا ہے کہ روزہ اس کے اکل و شرب کی آزادی پر پہرہ ہے۔ ایسا روزہ دار اس کیف و سرور سے محروم ہے کہ روزہ تو انسان کو عادت کی قید سے آزاد کر کے اس کی روح کو قوی اور طاقت وربنا دیتا ہے۔

 

اور زکوٰۃ و صدقہ

جب انسان روحانی قوت کی وجہ سے اسرار کائنات کے قریب پہنچ جاتا ہے تو اس پر بنی نوع انسان کی منزلت واضح ہو جاتی ہے۔ کہ ہم سب ایک ہی وجود کے مختلف مظاہرات ہیں۔ تب وہ دوسرے انسان کے ساتھ محبت کرنے کے لیے بے تاب ہو جاتا ہے اور اس کے دل میں احساس ابھر آتا ہے کہ ہم میں سے ہر شخص کو اپنے بھائی کے ساتھ نیکی اور حسن سلوک سے پیش آنا چاہیے۔ طاقتور کو ناتواں پر رحم اور تونگر کو نادار کی مالی اعانت کرنا چاہیے۔ پس یہ امداد اگر مقررہ حد (نصاب) تک ہے تو زکوٰۃ اور اگر اس حد سے زیاد ہ ہے تو صدقہ ہے۔

 

نماز کی طرح زکوٰۃ بھی عبادت میں داخل ہے

قرآن مجید میں کئی مقامات پر یکجا زکوٰۃ و نماز کا تذکرہ فرمایا ہے جیسا کہ قارئین آیہ ذیل کا مطالعہ فرما چکے ہیں :

لیس البر ان تولواوجوھکم قبل المشرق والمغرب ولکن البر من امن باللہ والیوم الاخر والملئکتہ والکتاب والنبین واتی المال علی جبہ ذوی القربی والیتامی والمسکین وابن السبیل والسائلین وفی الرکاب واقام الصلوۃ واتی الذکوۃ (۲:۱۷۷)

’’نیکی اور بھلائی (کی راہ ) یہ نہیں کہ تم نے (عبادت کے وقت) اپنا منہ پورب کی طرف پھیر لیا یا پچھم کی طرف کر لیا (یا اسی طرح کی کوئی دوسری بات رسم ریت کر لی ) نیکی کی راہ تو ان لوگوں کی راہ ہے جو اللہ پر آخرت کے دن پر ،فرشتوں پر، آسمانی کتابوں پر، اور خدا کے تمام نبیوں پر ایمان لاتے ہیں خدا کی محبت کی راہ میں اپنا مال رشتہ داروں یتیموں ، مسکینوں ، مسافروں اور سائلوں کو دیتے ہیں اور غلاموں کو آزاد کرانے کے لیے خرچ کرتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں ‘‘۔

ایضاً

واقیمو الصلوۃ واتوالزکوٰۃ وارکعوا مع الرکعین (۴۳۲)

’’اور نماز ادا کرو(جس کی حقیقت تم نے کھو دی) زکوٰۃ ادا کرو(جس کا تم میں اخلاص باقی نہ رہا) اور جب اللہ کے حضور جھکنے والے جھکیں تو ان کیساتھ تم بھی سر نیاز جھکا دو‘‘۔

و ایضاً

قد افلح المومنون الذین ھم فی صلاتھم خاشعون والذین ھم عن اللغو معرضون والذین ھم للزکوٰۃ فاعلون (۲۳:۱تا۴)

’’ایمان والے (اپنی) مراد کو پہنچ گئے اور وہ لوگ ہیں جو اپنی نماز میں عاجزی کرتے اور وہ نکمی باتوں کی طرف رخ نہیں کرتے اور جو زکوٰۃ دیا کرتے ہیں ‘‘۔

 

صدقہ ایمان کا ہم پلہ ہے

قرآن مجید ان دونوں (زکوٰۃ و صدقہ) کا حکم بار بار ارشاد فرماتا ہے جس میں کہیں صدقہ کو نیک اور مفید امور میں ثواب کامل کاوسیلہ قرار دیا ہے اور کہیں اسے ایما ن کا ہم پلہ ٹھہرایا ہے مثلاًَ:

خذوہ فغلوہ ثم الجحیم صلوۃ ثم فی سلسلۃ ذرعھا سبعون ذراعا فاسلکوہ انہ کان لا یومن باللہ العظیم ولا یحض علی طعام المسکین (۶۹:۳۰…۳۴)

’’پھر ہم اس کی نسبت حکم دیں گے کہ اس کو پکڑو اوراس کے گلے میں طوق ڈالو پھر (کشاں کشاں لے جا کر) اس کو جہنم میں دھکیل دو۔ پھر زنجیر سے جس کی ناپ گزوں میں ستر گز ہو گی اس کو خوب جکڑو(کیونکہ) یہ خدائے بزرگ پر ایمان نہیں لایا تھا اور (آپ کھانا تو درکنار اوروں کو بھی) مسکینوں کے کھانا کھلانے کی ترغیب نہیں دیتا تھا‘‘۔

ایک اور مقام میں :

وبشر المخبتین الذین اذا ذکر اللہ وجلت قلوبھم والصابرین علی ما اصابھم والمقیمی الصلوۃ و مما رزقنا ھم ینفقون (۲۲:۳۴۔ ۔ ۳۵)

’’اے پیغمبر! عاجزی کرنے والے بندوں کو (جنت کی) خوشخبری سنا دو( جوایسے نیک ہیں ) کہ جب خدا کانام لیا جاتا ہے تو ان کے دل لرز اٹھتے ہیں اور جو مصیبت ان پر آ پڑے اس پر صبر کرتے ہیں اور نمازیں پڑھتے ہیں۔ اور جو ہم نے ان کو دے رکھا ہے ان میں سے (راہ خدا میں ) خرچ کرتے ہیں ‘‘۔

اور تیسری جگہ:

صدقہ ہر عقیدہ و عمل سے برتر ہے

الذین ینفقون اموالھم بالیل والنھار سرا و علانیۃ فلھم اجرھم عند ربھم ولا خوف علیھم ولا ھم یحزنون( ۲:۲۷۴)

’’جو لوگ دن اور رات چھپے اور ظاہر اپنے مال( اللہ کی راہ میں ) خرچ کرتے ہیں تو ان کو دیے کا ثواب ان کے پروردگار کے ہاں سے ملے گا اور (قیامت میں ) ان پر نہ (تو کسی قسم کا) خوف (طاری) ہو ا اور نہ وہ کسی طرح آزردہ خاطر ہوں گے‘‘۔

اور قرآن مجید نے صدقہ کا تذکرہ محض ایمان باللہ یا صرف نماز کے اجر و ثواب کا ہم پلہ ہی قرار نہیں دیا بکلہ اس صدقہ کی مدح میں ایسا عجیب پیرایہ اختیار فرمایا کہ گویا صدقہ اور عمل سے برتر و اعلیٰ ہے۔

ان تبدوا الصدقات فنعما ھی وان تخفوھا وتوتوھا الفقراء فھوا خیر لکم (۲:۲۷۱)

’’ اگر خیرات ظاہر میں دو تو وہ بھی اچھا ہے کہ ا س سے خیرات کے علاوہ دوسروں کو بھی ترغیب ہوتی ہے اوراگر اس کو چھپاؤ اور حاجت مندوں کو دو تو یہ تمہارے حق میں زیادہ بہتر ہے (کہ اس میں نام و نمود کا دخل نہیں ہونے پاتا)‘‘۔

اور یہ کہ

قول معروف ومغفرۃ خیر من صدقۃ یتبعھا اذی واللہ غنی حلیم (۲:۲۶۳)

’’نرمی سے جواب دے دینا اور (سائل کے اصرار سے) درگزر کرنا اس خیرات سے بہت بہتر ہے جس کے دیے پیچھے سائل کو کسی طرح کی ایذا ہو اور اللہ بے نیاز اور بردبار ہے‘‘۔

یا ایھا الذین آمنوا لا تبطلو ا صدقاتکم بالمن والاذی کالذی ینفق مالہ رئاہ الناس (۲:۲۶۴)

’’مسلمانو! اپنی خیرات کا احسان جتانے اور (سائل کو) ایذا دینے سے اس شخص کی طرح اکارت مت کرو جو اپنا مال لوگوں کے دکھاوے پر خرچ کرتا ہے‘‘۔

 

مستحقین صدقہ

انما الصدقات للفقراء والمساکین والعلمین علیھا والمو لفۃ قلوبھم وفی الرقاب والغارمین وفی سبیل اللہ وابن السبیل فریضۃ من اللہ واللہ علیم حکیم (۹:۶۰)

’’خیرات (کا مال) تو بس فقیروں کا حق ہے اور محتاجوں کا اور ان کارکنوں کا جو مال خیرات (کے وصول کرنے) پر تعینات ہیں اور ان لوگوں کا جن کے دلو ں کا پرچانا منظور ہے۔ ان مصارف میں مال خیرات یعنی زکوٰۃ کو خر چ کیا جائے اور نیز قید غلامی سے غلاموں کی گردنوں کے چھڑانے میں اور قرض داروں کے قرضے میں ! نیز خدا کی راہ یعنی مجاہدین کے ساز و سامان میں اور مسافروں کے زاد راہ میں۔ یہ حقوق اللہ کے ٹھہرائے ہوئے ہیں اوراللہ جاننے والا اور صاحب تدبیر ہے‘‘۔

زکوٰۃ اور صدقہ فرائض اسلام میں سے ایک فریضہ اور دین کا رکن ہے یہ سوال کہ وہ اجزائے عبادت میں سے ہے یا محض اخلاق و تہذیب کا مظاہرہ حاشاء اللہ زکوٰۃ و صدقہ بھی عبادات ہیں اور اس لیے عبادت ہیں کہ تمام مومن ایک دوسرے کے بھائی ہیں اور مومن کا ایمان اس وقت کامل ہوتا ہے کہ جب اسے دوسرے بھائی کے لیے بھی وہی گوارا ہو جسے اپنے لیے پسند کرتا ہے کیونکہ مون اللہ کے نور کی روشنی میں اپنے بھائی کے ساتھ محبت کا دیوانہ ے اور فریضہ صدقہ و زکوٰۃ اس اخوت کو اور قریب کرن کا وہ ذریعہ ہے جو صرف اخلاق اور معاملہ بندی سے مربوط نہیں رہ سکتا اور ایمان کا اس عمل سے کامل ہو سکتا ہے جو باہمی اخوت کو مستحکم کرے اور جو ایمان باللہ کی تکمیل کا باعث ہو وہ عبادت ہے۔ یہی عمل ہے جس کی بنا پر زکوٰۃ کو اسلام کے پانچ ارکان میں سے ایک رکن قرار دیا گیا ہے۔

 

خلیفہ رسول حضرت ابوبکرؓ  نے زکوٰۃ کو ایمان کا جزو قرار دیا

اور یہی سبب ہے کہ خلیفہ رسول جناب ابوبکرؓ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت کے بعد مسلمانوں سے زکوٰۃ کا مطالبہ فرمایا تو بعض لوگوں نے انکار پر خلیفہ محمد ؐ نے اس انکار کو ان کے ضعف ایمان پر محمول کرتے ہوئے سمجھا کہ یہ جو لوگ مال کو ایمان پر ترجیح دے کر اس بغاوت کے مرتکب ہو رہے ہیں جو قرآن کے روحانی نظام سے ارتداد ہے۔ اور حضرت ابوبکرؓ نے ایسے لوگوں کو مرتد قرار دے کر ان کے ساتھ جنگیں کیں جو حروب الردہ کے نام سے مشہور ہیں اور خلیفہ رسول ؐ اپنے اس کردار کی بدولت اسلام کی وحدت کو از سر نو مربوط کرنے میں کامیاب ہو گئے۔

 

صدقہ کی اہمیت

اسلام نے سدقہ اور زکوٰۃ کو جس جلی عنوان کے ساتھ ایمان کا جزو قرار دیا ہے وہ اپنی ذات میں یہ صلاحیت لیے ہوئے ہے کہ اگر متمدن اقوام اس پر عمل پیرا ہوں تو بنی نوع بشر کے بہبود کا ایک فریضہ خوش اسلوبی سے ادا کرسکتی ہیں۔ بخلاف اس کے مال و زر کو خزانوں میں جمع رکھنے اور دوسروں پر فوقیت حاصل کرنے کی تگ و دو می لگے رہنے کاثمرہ نہ صرف عوام کی مذلت بلکہ خونریز لڑائیوں کا منبع ہے۔ جو مادہ پرستی کی نحوست کے سوا اورکوئی نتیجہ نہیں رکھتا۔ اسی کی بدولت اخوت جیسی نعمت بیکراں سے منہ موڑ کر دوسرے بھائی کی دشمنی پر کمر باندھ لی جاتی ہے۔ اگر مادہ پرست اغور کریں تو انہٰں اخوت انسای کے سامنے مادیت سے دستبردار ہونے کے بغیر چارہ نہیں رہ سکتا۔ وہ اس مقام پر فائز ہو کر محتاجوں کی دست گیری سے خالق و مخلو ق دونوں کی نظر میں ایسے محبوب بن سکتے ہیں جن کے سامے دولت کے انبار حقیر معلوم ہوں گے کاش! اہل دول خدا پر ایمان لا کر انسانی برادری کا طبعی حق ادا کرسکیں جس کا اولین مظاہرہ محتاجوں کوافلاس سے بچا کر اور مظلوم کی چیرہ دستیوں کی زد سے ہٹا کر اس کی حرمت بحال کرنا ہے جیسا کہ دور حاضر ہ میں خیراتی شفا خانے اور امدادی ادارے کام کر رہے ہیں جن سے انسانی زندگی کا تحفظ اور مفلوک الحال طبقہ کی اعانت مقصود ہے۔ یہی کام اگر برادری اور تشکر نعمت کی صورت میں کیے جائیں تو انسان کو گونہ سکون حاصل ہو وار اس کا یہ فعل کہیں بلند اور اونچا سمجھا جائے جیسا کہ قرآن میں ارشاد ہے۔

وابتغ فیما اتاک اللہ الدار الاخرۃ والا تنس نصیبک من الدنیا واحسن کما احسن اللہ الیک ولا تبغ الفساد فی الارض ان اللہ لا یحب المفسدین (۲۸:۷۷)

’’اور یہ جو( ساز و سامان دینا) تجھ کو خدا نے دے رکھا ہے اس میں (سے کچھ آخرت) کے گھر کا بھی فکر کرتا رہ اور دنیا سے جو تیرا حصہ ہے اسے فراموش نہ کر اور جس طرح اللہ نے تیرے ساتھ احسان کیا ہے تو بھی اوروں کے ساتھ احسان کر اور ملک میں فساد کا خواہاں نہ ہو(کیونکہ اللہ مفسدوں کو پسند نہیں کرتا)‘‘۔

 

حج

اسی قسم کی برادری بنی آدم میں محبت کا رشتہ مربوط کر سکتی ہے۔ خیال رہے کہ اسلام نے برادری کو مستحکم اور برقرار رکھنے کے لیے نہ تو وطنیت کو در خود اعتنا سمجھا اور نہ محبت و اخوت کے تقاضوں کو کسی ملک یا کسی قطعہ زمین میں منحصر جانا۔ اسلام میں محبت حدود نا آشنا ہے۔ چنانچہ اسلامی تعلیم کے مطابق محبت کا دائرہ تمام ربع مسکوں کو اپنے حصار میں لیے ہوئے ہے تاکہ خدا کی رضا جوئی کے جذبہ میں ہر شخص دوسرے کی طرف محبت کا ہاتھ بڑھائے۔ ایسی محبت ایمان باللہ میں ازدیاد کا ذریعہ ہے اور یہی محبت انسانوں کو دور دراز سے کھینچ کر ایک ایسے میدان میں جمع کرنے پر قادر ہے جو اجتماع کے لیے بے مثل مقام ہے اور جس میں محبت باہمی کا فوارہ ابل رہا ہے۔ یہ بیت اللہ ہے مکہ معظمہ میں اور مومنوں کا یہ اجتماع حج سے موسوم ہے جس حج کے لیے ہر مومن کی زندگی میں ایک مرتبہ شدر الرحال واجب ہے۔ اس لیے کہ شعائر حج ادا کرنے سے ایمان باللہ میں مزید استقامت پیدا ہو کر انسانی برادری کی قدر و منزلت میں ترقی ہوتی ہے۔

الحج اشھر معلومات فمن عرض فیھن الحج فلا رفث ولا فسوق ولا جدال فی الحج وما تفعلوا من خیر یعلمہ اللہ و تزودو افان خیر الزاد التقویٰ وتقون یا ولی الالباب (۲:۱۹۷)

’’حج (کی تیاری) کے مہینے میں عام طور پر معلوم ہیں۔ پس جس کسی نے ان مہینوں میں حج ادا کرنا اپنے اوپر لازم کر لیا تو وہ حج کی حالت میں ہو گیا اور حج کی حالت میں نہ تو عورتوں کی طرف رغبت کرنا ہے نہ گناہ کی کوئی بات کرنا ہے اور نہ لڑائی جھگڑا اور (یاد رکھو) تم نیک عملی کی باتوں میں سے جو کچھ بھی کرتے ہو اللہ کے علم سے پوشیدہ نہیں رہتا۔ پس(حج کرو تو اس کے )سروسامان کی تیاری بھی کرو اور سب سے بہتر سروسامان (دل کا سروساما ن ہے اور وہ) تقویٰ ہے‘‘۔

 

حج سے برادری کا رشتہ استوار ہوتا ہے

یہاں مومنین حج کے لیے جمع ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کے تعارف سے برادری اور مواخات کا رشتہ اور استوار ہوتا ہے۔ ایمان میں مزید استقامت حاصل ہو کر فرق مراتب ختم ہو جاتا ہے (اور یوں بھی مومنین میں یہ فرق نہیں ) اس سرزمین میں پہنچ کر یہ احساس اور شدت سے بیدار ہو جاتا ہے کہ خدا کے سامنے ہر ایک مومن کا درجہ یکساں ہے اور یہ کہ انہیں خدا کی دعوت کو صدق دل سے قبول کرنا چاہیے اور یہ ایمان! کہ اس کی وحدانیت پر اور زیادہ متوجہ رہیں اور یہ کہ اس کی نعمتوں پر شکر مزید ادا کریں ، جن میں سب سے بڑی نعمت ایمان ہے جو تمام نیکیوں اور نعمتوں کا مصدر ہے جس کی روشنی میں تمام اوہام شکست خوردہ ہو کر چھٹ جاتے ہیں جس ایمان کے سامنے مال اولاد اور جاہ و منصب زوال پذیر تصورات کی مانند نظر آتے ہیں کیونکہ ایمان ہی کی روشنی میں حقیقت ، نیکی اور جمال کا صحیح ادراک ہو سکتا ہے اور کائنات کے غیر متبدل اسرار کے پرتو سے مجلی نظر آنے لگتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سرزمین مکہ میں حج کے موقعہ پر مومنین کے دل میں اخوت کا وقار اور زیادہ ہو جاتا ہے۔

اسلام کے یہ اصول و فرائض حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر وحی کی صورت میں نازل ہوئے۔ یہی اصول ایمان کے ارکان ہیں جن کا تذکرہ مذکورہ الصدر آیتوں میں گزر چکا ہے۔ اور یہی اصول اسلامی زندگی کی اساس ہیں جن کے بعد ان اخلاقی قوانین کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے جن کی بنیاد ایمان ہی ہے جو (اخلاق) ایمان کے شجر میں پھل اور پھول کی شکل میں نمودار ہوئے اور جن کا رنگ و بو دنیا کے کسی متمدن قوم کے ہاں دیکھنے میں نہیں آیا۔

قرآن نے اخلاقی رواداری کا جو خاکہ پیش کیا ہے اس پر عمل پیرا ہونے سے انسانیت کا اعلیٰ ترین درجہ حاصل ہو سکتا ہے۔ یہ اصول قرآن کی ایک ہی سورۃ میں نہیں بلکہ متعدد حصوں میں ہیں۔ آپ دنیا کی متمدن سے متمدن قوم کے ہاں اس کا بدل نہ پا سکیں گے۔ بشرطیکہ آپ کے مد نظر یہ ہو کہ جو کردار ایمان باللہ اور تزکیہ نفس و تعقل کی بدولت حاصل ہو اورجس (اخلاق) سے مادی منفعت مقصود نہ ہو وہ اخلاق انسان کو کس بلندی پر پہنچا سکتا ہے۔

 

قرآنی اخلاق

اہل قلم نے مختلف زمانوں میں انسانی اخلاق کا نمونہ تحریر کیا یہ اور شعراء و فلاسفہ نے عہد قدیم کے انسان کامل کی تصویر کھینچی ہے۔ ان کی یہ مشق صفحہ قرطاس پر مسلسل جاری ہے مگر ایسی غیر منقطع مشق کے باوجود کسی قوم کا ایسانمونہ پیش نہیں کیا گیا جو اپنے خدوخال کی رعنائی میں اس قدر جاذب ہو جیسا کہ قرآن کی سورۃ اسراء (بنی اسرائیل) میں مذکور ہے یہ نمونہ اس حکمت بالغہ کا کرشمہ ہے جو خدا نے وحی کے ذریعے اپنے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر اتاری اور جو کسی گزرے ہوئے دور میں انسان کامل کی حکایت نہیں بلکہ بنی آدم کو اس کے وظیفہ سے آگاہ کرنا مقصود ہے۔ (فرمایا)

(۱)  وقضی ربک الا تعبدو ا الا ایاہ (۱۷:۲۳)

’’اور تمہارے پروردگار نے قطعی حکم دے دیا ہے کہ (لوگو!) اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرنا‘‘۔

(۲)  وبالوالدین احسانا اما یبلغن عندک الکبر احدھما اوکلھما فلا تقل لھما اف ولا تنھرھما وقل لھما قولا کریما واخفض لھما جناح الذل من الرحمۃ وقل رب ارحمھما کما ربنی صغیرا ربکم اعلم بما فی نفوسکم ان تکونوا صالحین فانہ کان للاوابین غفورا (۱۷:۲۳۔ ۲۵)

’’اور والدین کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنا۔ (اے مخاطب) اگر والدین میں کا ایک یا دونوں تیرے سامنے بڑھاپے کو پہنچیں تو ان کے سامنے انگلی (بہ تصرف مترجم) نہ اٹھانا اور نہ ان کو جھڑکنا اور ان سے (کچھ) کہنا(سننا) ہو تو ادب کے ساتھ کہنا (سننا) اور محبت سے خاکساری کا پہلو ان کے آگے جھکائے رکھنا اور (ان کے حق میں )دعا کرتے رہنا کہ اے میرے پروردگار ! جس طرح انہوں نے مجھے چھوٹے سے کو پالا ہے (اور میرے حال پر رح کرتے رہے ہیں )اسی طرح تو بھی ان پر (اپنا ) رحم کیجیو (لوگو!) تمہارے دل کی بات کو تمہارا پروردگار خوب جانتا ہے۔ اگر تم (حقیقت میں )سعادت مند ہو (اور تم سے ماں باپ کے حق میں بھولے سے بھی کوئی فروگزاشت ہو گئی ہو ) تو وہ تم کو معاف کر دے گا چونکہ وہ توبہ کرنے والوں کی خطاؤں کو بخشنے والا ہے‘‘۔

(۳)  وات ذالقربی حقہ والمسکین وابن السبیل (۱۷:۲۶)

’’اور رشتہ دار اور غریب اور مسافر (ہر ایک ) کو اس کا حق پہنچاتے رہو‘‘۔

(۴)  ولا تبذر تبذیرا ان المبذرین کانوا اخوان الشیاطین وکان الشیطان لربہ کفورا واما تعرضن عنھم ابتغاء رحمتہ من ربک ترجوھا فقل لھم قولا میسورا( ۱۷:۲۶تا ۲۸)

’’اور(دولت کو ) بے جا مت اڑاؤ(کیونکہ) دولت کے بے جا اڑانے والے شیطان کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے پروردگار کا بڑا ہی ناشکرا ہے اور اگر تم کو اپنے پروردگار کے فضل کے انتظار میں جس کی تم کو توقع ہو (بہ مجبوری) ان (غربا) سے منہ پھیرنا پڑے تو نرمی سے ا ن کو سمجھا دو‘‘۔

())۵)  ولا تجعل یدک مغلولۃ الی عنقک ولا تبسطھا کل البسط فتقعد ملوما محسورا ان ربک یبسط الرزق لمن یشاء ویقدر انہ کان بعبادہ خبیرا بصیرا (۱۷: ۲۹۔ ۳۰)

’’ اور اپنا ہاتھ نہ تو اتنا سکیڑو کہ (گویا) گردن میں بندھا ہے اور نہ اس کو بالکل ہی پھیلا دو (ایسا کرو گے ) تو تم ایسے ہی بیٹھے رہ جاؤ گے اور لوگ تم کو ملامت کریں گے (اور ) تم تہی دست ہو گے۔ (اے پیغمبرؐ) تمہارا پروردگار جس کی روزی چاہتا ہے فراخ کر دیتا ہے اور جس کی روزی چاہتا ہے نپی تلی کر دیتا ہے (اور) وہ اپنے بندوں (کے حال) سے باخبر (اور ان کی ضرورتو ں کا ) دیکھنے والا ہے‘‘۔

(۶)  ولا تقتلوا اولادکم خشیۃ املاق نحن نرزقھم  و ایاکم ان قتلھم کان خطا کبیرا (۱۷:۳۱)

’’اور (لوگو!) افلاس کے ڈر سے اپنی اولاد کو قتل نہ کرو۔ ان کو اور تم کو ہم ہی روزی دیتے ہیں۔ اولادکا جان سے مارنا بڑا بھاری گناہ ہے‘‘۔

(۷)  ولا تقربوا الزنیٰ انہ کان فاحشۃ وساء سبیلا (۱۷:۳۲)

’’اور زنا کے پاس ( ہو کر بھی ) نہ پھٹکنا کیونکہ وہ بے حیائی ہے اور بہت ہی برا چلن ہے‘‘۔

(۸)  ولا تقتلو النفس التی حرم اللہ الا بالحق ومن قتل مظلوما فقد جعلنا لولیہ سلطانا فلا یسرف فی القتل انہ کان منصورا (۱۷:۳۳)

’’اور کسی کی جان کو جس کا مارنا اللہ نے حرام کر دیا ہے ناحق قتل نہ کرنا ور جو شخص ظلم سے مارا جائے تو ہم نے اس کے والی (وارث) کو(قاتل سے) قصاص لینے کا اختیار دیا ہے تواس کو چاہیے کہ خون (کا بدلہ لینے میں زیادتی نہ کرے) کیونکہ (واجبی بدلہ لینے میں بھی) اس کی جیت ہے‘‘۔

(۹) ولاتقربوا مال الیتیم الا بالتی ھی احسن حتی یبلغ اشدہ (۱۷:۳۴)

’’اور جب تک یتیم اپنی جوانی کو نہ پہنچ لے اس کے مال کے پاس بھی نہ جانا مگر ایسی طرح پر کہ (یتیم کے حق میں بہتر ہو) ‘‘۔

(۱۰)  واوفو ا بالعھد ان العھد کان مسؤلا (۱۷:۳۴)

’’اور عہد پورا کیا کرو کیونکہ قیامت میں عہد کی باز پرس ہو گی‘‘۔

(۱۱)  واوفوا الکیل اذا کلتم وزنوا بالاسطاس المستقیم ذالک خیر وا حسن تاویلا (۱۷:۳۵)

’’ اور جب ناپ کر د و تو پیمانے کو پورا بھر دیا کرو اور (تول سے دینا ہو تو) ڈنڈی سیدھی رکھ کر تولا کرو۔ (معاملے کا ) یہ بہتر (طریق ) ہے اور اس کا انجام بھی اچھا ہے‘‘۔

(۱۲)  ولا ققف ما لیس لک بہ علم ان السمع والبصر و الفواد کل اولائک کان عنہ مسؤلا (۱۷:۳۵)

’’اور (اے مخاطب) جس بات کا تجھے علم (یقینی) نہیں (اٹکل پچو) اس کے پیچھے نہ ہو لیا کر کیونکہ کان اور آنکھ اور دل ان سب سے قیامت کے دن پوچھ گچھ ہو تی ہے‘‘۔

(۱۳)  ولا تمش فی الارض مرحا انک لن تخرق الارض ولن تبلغ الجبال طولا کل ذالک کان سیئہ عند بک مکروھا (۱۷:۳۷۔ ۳۸)

’’اور زمین پر اکڑ کر نہ چلا کر کیوں کہ اس دھماکے کے ساتھ چلنے سے تو زمین کو پھاڑ نہیں سکے گا۔ اور نہ (تن کر چلنے سے )پہاڑوں کی لمبائی کو پہنچ سکے گا۔ ان سب باتوں میں جو بری ہیں سب ہی تو تمہارے پروردگار کے نزدیک ناپسند ہیں ‘‘۔

 

حسنات کی تلقین و فصاحت بیان

کیا انسان کے لیے اس سے بہتر ارتقاء و کمال اور تزکیہ نفس کا درس ممکن ہے؟ ان آیتوں میں شوکت الفاظ و فصاحت بیان و غوامض معانی اور اعجاز تعبیر سب کے سب کس قدر مربوط ہیں کہ پڑھنے والے ان کی تقدیس و تعظیم کے لیے بے اختیار لبیک پکار اٹھیں ! بلکہ قرآن نے روحانی اور اخلاقی تربیت کے لے جو اشارہ فرمایا ہے اگر اس کے ایک کرشمہ کی توضیح بھی کی جائے تو حکایت طویل ہو جائے گی اور کتاب (زیر تسوید) کا خاتمہ جس نہج پر لکھا جا رہا ہے ہاتھ سے نکل جائے گا۔ اسی قدر کافی ہے کہ قرآن کے سوا کوئی اور کتاب انسان کو ایسی نیکی اور شرافت کی ترغیب دیتی ہے اور نہ کوئی دوسرا صحیفہ انسان کے لیے دوسروں کے ساتھ ساتھ حسن سلوک رحم و کرم مواخات و مودت باہمی تعاون و رفاقت صدقہ و خیرات وفا کیشی و ادائے امانت خلوص دل اور صدق لہجہ عدل و عفو، صبو و استقامت، تواضع و انکسار، ہمدردی اور شفقت باہم، امر معروف و نہی عن المنکر کی تلقین اس پیرایہ و اعجاز کے ساتھ بیان کرتا ہے۔

 

سیئات سے تنبیہ

اور اسی طرح نہ کوئی اور صحیفہ اسے (انسان کو) جبن و نامردی، خوف و حسد، بغض و ظلم، ایک دوسرے پر ظلم و ستم، کذب و چغلی، اسراف و بخل، بہتان و غیبت، بدامنی و فساد، بے وفائی و خیانت، الغرض ہر قسم کے اخلاق ذمیمہ و منکرات سے قرآن کی مانند ہی کرتا ہے پھر انداز بیان کی یہ ندرت!

یہ اس وحی الٰہی کا صدقہ ہے جو نبی عربی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر نازل ہوئی۔ قرآن میں سے کسی سورۃ کا مطالعہ کیجیے نیکی اور امر بالمعروف کی تلقین اور نہی منکرات پر مختلف پیرایوں میں تنبیہ اور کمالات کی جانب ترغیب دیکھنے میں آئے گی جن سے روح از خود کمال و رفعت کی طرف پرواز کرے گی مثلاً آیہ ذیل میں

برائی کے عوض بھلائی

ادفع بالتی ھی احسن السیئۃ نحن اعلم بما یصفون (۲۳:۹۶)

’’اے پیغمبر ؐ (اگر کوئی تمہارے ساتھ بدی کرے تو) بدی کا دفعیہ ایسے برتاؤ سے کرو کہ وہ دیکھنے میں بہت ہی اچھا ہو‘‘۔

ولا تستوی الحسنۃ ولا السیئۃ ادفع بالتی ھی احسن فاذالذی بینک و بینہ عداوۃ کانہ ولی خمیم (۴۱:۳۴)

’’اورا (اے پیغمبرؐ) نیکی اور بدی کے برابر نہیں ہو سکتی۔ برائی کا  دفیعہ ایسے برتاؤ سے کرو کہ وہ دیکھنے والوں کی نظر میں بہت ہی اچھا ہو اگر ایسا کرو گے تو (تم دیکھ لو گے کہ) تم میں اور جس شخص میں عداوت تھی تو اب ایک دم سے وہ تمہارا گویا دل سوز دوست ہے‘‘۔

یہ بھی فراموش نہ کیجیے کہ قرآن کی طرف سے جس عفو کی تلقین ہو رہی ہے وہ (عفو) کسی ضعف و کمزوری کا نتیجہ نہیں بلکہ احسان و مروت کی وجہ سے انسان کو دنائت سے بچانے کے لیے ہدایت فرمائی جا رہی ہے۔

(۱)  واذا حییتم بتحیۃ باحسن منھا اوردوھا (۴:۸۶)

’’اور (مسلمانو! ) جب تم کو کسی طرح پر سلام کیا جائے تو (اس کے جواب میں ) اس سے بہتر (طور پر ) سلام دیا کرو یا (کم سے کم) ویساہی جواب دو‘‘۔

(۲)  وان عاقبتم فعاقبوا بمثل ماعوقبتم بہ ولئن صربتم لھو خیر للصابرین (۱۶:۱۲۶)

’’اور مسلمانو ! دین کی بحث میں مخالفین کے ساتھ سختی بھی کرو تو ویسی ہی کرو کہ جیسی تمہارے ساتھ کی گئی ہو اور اگر (لوگوں کو ایذاؤں پر) صبر کرو تو بہرحال صبر کے حق میں صبر بہتر ہے‘‘۔

ان آیتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اس طرح ایک دوسرے کے مظالم و چیرہ دستی سے چشم پوشی کر لینا جبن یا نارسائی کی وجہ سے نہیں بلکہ انسان کو اس کے اس علو کی طرف متوجہ کرنا مقصود ہے جس فطرت نے اس کے خمیر میں سودیا تھا۔ قرآن نے جس شرف و بزرگی کی تلقین فرمائی اس کی اصل اسلام کے اس پیش کردہ تمدن سے مربوط ہے جو مسلمانوں کو ایک برادری کے رشتہ میں منسلک کرنا چاہتی ہے۔ اور جس رشتہ نے مشرق اور مغرب دونوں کو مربوط کر رکھا ہے۔ اخوت و برادری میں جو عدل و رحمت پر مبنی ہے جہاں ضعف و ناتوانی کے لیے کوئی گنجائش نہیں۔ اس برادری سے مقصد صداقت و بھلائی اور تفضیل میں مساوات کے سوا کوئی اور پہلو نظر نہیں آتا۔ اس اخوت کے سامنے مستعجل منافع ناقابل قبول ہیں۔ اس معاشرہ کے تمام منسلکین ممدوح ہیں۔

دوسروں کو خود پر ترجیح

آیہ یوثرون علی انفسھم ولو کان بھم خصاصۃ (۵۹:۹)

صرف خدا کا خوف

آیہ ویخشونہ ولا یخشون احدا الا اللہ (۳۳:۳۹)

ایفائے عہد

آیہ والموفون بعھدھم اذا عھدوا ؎۳ (۲:۱۷۷)

تکالیف میں ضبط

آیہ والصابرین فی الباساء والضراء و حین الباس ؎۴

آیہ الذین اذا اصابتھم مصیبۃ قالو انا للہ وانا الیہ راجعون ؎۵ (۲:۱۵۶)

۱؎  اپنے اوپر تنگی ہی کیوں نہ ہو (مہاجرین ) بھائیوں کو اپنے  سے مقدم رکھتے ہیں۔

۲؎  اور خوف خدا رکھتے تھے اور خدا کے سوا سے نہیں ڈرتے تھے۔

۳؎  اپنی بات کے پکے ہوتے ہیں۔ جب قول و اقرار کر لیتے ہیں تو اسے پورا کرتے رہتے ہیں۔

۴؎  تنگی و مصیبت کی گھڑی ہو یا خوف و ہراس کا وقت ہر حال میں صبر کرنے والے اور اپنی راہ میں ثابت قدم ہوتے ہیں۔

۵؎  یہ وہ لوگ ہیں کہ جب کبھی کوئی مصیبت ان پر آن پڑتی ہے تو ان کی زبان پر یہ صدا ہوتی ہے کہ انا للہ وانا الیہ راجعون (ہماری زندگی اور موت رنج و غم جو کچھ بھی ہے سب اللہ ہی کے لیے اور ہم سب کو بالآخر مرنا اور اسی کی طرف لوٹنا ہے)

گفتگو میں لہجہ کا انداز

جو آیہ ولا تصعر خدک للناس ؎۱

کو نظر انداز نہیں کرتے ہیں۔

بخل سے اجتناب

آیہ ومن یوق شح نفسہ فاولئک ہم المفلحون ؎۲ (۵۹:۹)

انہی کے حق میں وارد ہے۔

فحش باتوں سے پرہیز

جو یہ آیہ

ان الذین یحبون ان تشیع الفاحشۃ فی الذین امنوا لھم عذاب الیم فی الدنیا والاخرۃ (؎۳ الخ (۲۴:۱۹)

کے مطابق ایسے مومن ہیں کہ اس فاحش سے اپنے دامن کو آلودہ نہیں ہونے دیتے۔

کبائر سے اجتناب

اور آیہ

والذین یجتنبون کبرالاثم والفوا حش واذا ما غضبوا ھم یغفرون ؎۴(۴۲:۳۷)

کے مطابق نہ صرف فحش باتوں سے بلکہ دوسرے دوسرے کبائر سے بھی اپنا دامن بچائے رکھتے ہیں۔

عفو و ترحم

اور آیہ

والکاظمین الغیظ والعافین عن الناس (۳:۱۳۴)

نے انہیں اپنے سایہ عفو و رحمت میں لے رکھا ہے۔

ناحق بد ظنی

اور جو آیہ

اجتنبوا کثیرا من اظن ان بعض الظن اثم ولا تجسسوا ولا یغتب بعضکم بفصا ایحب احدکم ان یاکل لحم اخیہ میتا فکر ھتموہ ؎۵ (۴۹:۱۲)

کے مطابق نہ تو ایک دوسرے پر ناحق بدگمان ہوتے ہیں اورنہ ایک دوسرے مسلمان کے اندرون خانہ کی جستجو ان کا شیوہ ہے۔

۱؎  اور لوگوں سے بے رخی نہ کرو۔

۲؎  اور بخل تو سب ہی کی طبیعتوں میں ہوتا ہے مگر جو شخص اپنی طبیعت کے بخل سے محفوظ رکھا جائے تو ایسے ہی لوگ فلاح یاب ہوں گے۔

۳؎  جو لوگ چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں فحش باتوں کا چرچا ہو ان کے لیے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہے اور آخرت مں بھی اور ایسے لوگوں کو اللہ ہی جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔

۴؎  اور جو بڑے بڑے گناہوں سے بے حیائی کی باتوں سے کنارہ کش رہتے ہیں اور جب ان کو غصہ آتا ہے تو (لوگوں کی )خطاؤں سے درگزر کرتے ہیں۔

(۵)  (لوگوں کی نسبت) بہت شک کرنے سے بچتے رہو کیونکہ بعض شک(داخل) گناہ ہیں اور ایک دوسرے کی ٹٹول میں نہ رہا کرو اور نہ تم میں ایک ایک کو ایک پیٹھ پیچھے برا کہے۔ بھلا تم  میں سے کوئی (اس بات کو) گوارا کرے گا کہ اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھائے۔ یہ تو یقیناً تم کو گوارا نہیں تو غیبت کیوں گوارا ہو کہ یہ بھی ایک قسم کا مردار کھانا ہے۔

منع رشوت

اور جو آیہ

ولا تاکلوا اموالکم بینکم بالباطل وتدلو ابھا الی الحکام لتاکلوا فریقا من اموال الناس بالاثم ؎۱ (۲:۱۸۸)

کی ہدایت سے متاثر ہو کر مقدمہ بازی میں رشوت دہی سے اپنا حق حاصل کرنے کی سعی نہیں کرتے۔

ترک حسد

اور جو آیہ

ولا یغتب بعضکم بعضا ؎۲(۴۹:۱۲)

کی انہی سے متاثر ہو کر ایک دوسرے کا حسدکرنے سے یک طرف ہیں۔

ترک فریب

اور جو آیہ

ویل للمطففین الذین اذ  کتالوا علی الناس یستوفون واذا کالو ھم اووز نوھم یخسرون ؎۳(۸۳:۱تا ۳)

کے ایسے پابند جو کسی کے ساتھ مکر و فریب سے پیش نہیں آتے۔

یاوہ گوئی کی مذمت

اور جو آیہ

عن اللغو معرضون ؎۴(۲۳:۳)

کے منطوق! اور خود کو ہر قسم کی بے ہودہ گفتگو سے دور رکھتے ہیں۔

ہجو کرنے سے نہی

اور آیہ

یا ایھا الذین آمنوا لا یسخر قوم من قوم عسی ان یکونوا خیرا منھم ولا نساء من نساء عسی ان یکن خیرا منھن ولا تلمذو انفسکم ولاتنابزوا بالالقاب بئس الاسم الفسوق بعد الایمان ومن لم یتب فاولئک ھم الظالمون ؎۵ (۴۹:۱۱)

کی ہدایت فرمائی سے متاثر ہو کر کبھی مومن کی منفضت نہیں کرتے۔

۱؎  اور دیکھو! ایسا نہ کرو کہ آپس میں ایک دوسرے کا مال ناجائز طریقے سے کھاؤ اور نہ ایسا کرو کہ مال و دولت کو حاکموں کے دلوں تک پہچان کا (یعنی اپنی طرف مائل کر کے دوسروں کے مال کا کوئی حصہ ناحق حاصل کر لو)

۲؎   ایک دوسرے کی عیب جوئی نہ کرو۔

۳؎  کم دینے والے کی بڑی ہی تباہی ہے کہ لوگوں سے ما پ کر لیں تو پورا پورا لیں اور جب ان کو ماپ کر یا انکو تول کر دیں تو کم کر دیں۔

۴؎  اور جو لوگ نکمی باتوں کی طرف رخ نہیں کرتے۔

۵؎  مرد مردوں پر نہ ہنسیں۔ عجب نہیں کہ (جن پر ہنستے ہیں ) وہ ان سے بہتر ہوں اور آپس میں ایک دوسرے کو طعنے نہ دو۔ نہ ایک دوسرے کو نام دھرو ایمان لائے پیچھے بد تہذیبی کا نام ہی برا ہے اور جو(ان حرکات) سے باز  آئیں تو وہی خدا کے نزدیک ظالم ہیں۔

 

اسلامی اور تاجرانہ اخلاق میں تفریق

جیسا کہ ابھی ابھی ذکر کیا گیا ہے کہ وہ برگزیدہ صفات جن کا تعلق تہذیب نفس اور حسن کردار کے ساتھ ہے قرآن کے اخلاقی نظام نے ان میں سے ایک ایک صفت کو اپنے دامن میں لے رکھا ہے۔ اس نظام میں ایمان باللہ اساس ہے۔ کیونکہ اخلاق کی نمو و بقا ایمان باللہ کے بغیر نہیں ہو سکتی۔ اسی ایمان باللہ کے پرتو میں روح (انسانی) آلائشوں سے منزہ ہو کر از خود  نیکی کی طرف متوجہ ہوتی ہے بخلاف ازیں اگر انسان کے سامنے محض مادی منافع اور تبادلہ ہو تو ایسا شخص اخلاق کو بھی حسن معاملت کے ساتھ سودا بازی کے طور پر استعمال کرے گا اور جہاں اپنی منفعت میں خسارہ پائے گا دوسرے کے سات بھلائی کرنے سے اس کا ہاتھ خود بخود رک جائے گا۔ کیونکہ تاجرانہ اخلاق کی تہ میں جلب منفعت کے سوا کوئی اور مقصود نہیں ہوتا۔ یہی سبب ہے کہ ایسے افراد کے دل اور زبان ایک دوسرے سے متفق نہیں رہ سکتے۔ زبان پر حفظ امانت اور ادائے حقوق کے قصائد مگر دل میں مقابل کی جیب کتر لینے کے مسودے ! ہاتھ میں ایسی ترازو جس کی تول خریدار کے حق میں سراسر خسارہ مگر اپنا نفع ازل سے مد نظر!

اخلاق کا یہ انداز دور حاضرہ کے تمدن میں پور ی طرح گھل مل گیا ہے۔ بارہا سنا جا تا ہے کہ فلاں شہر میں خلفشار پیدا ہو رہا ہے۔ جب اسباب تلاش کیے جاتے ہیں تو تہ میں صرف مال و دولت اور جاہ و منصب کی کشمکش ہوتی ہے۔ ان فسادات کی ذمہ داری جن افراد کے سر پر ڈالی جاتی ہے بظاہر وہی لوگ معاشرہ میں ممتاز اور حسن اخلاق میں سند یافتہ سمجھے جات ہیں لیکن ان کا یہ رکھ رکھاؤ حقیقت میں محض نمائشی ہوتا ہے کہ جہاں سود و زیاں میں کشمکش دیکھی اخلا ق کا دامن جھٹک کر منافع کے انبار پر ڈھیر ہو گئے۔ ان میں بعض افراد ایسے چھپے رستم ہیں جو اعلانیہ خود کو رسوائی سے بچائے رکھتے ہیں مگر درپردہ برائی کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے اور بعض ایسے زود پشیمان کہ اپنی رسوائی کا چرچا عام ہو جانے کے خوف سے خود کشی کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ موجودہ دور تہذیب میں یہ کردار ہر متمدن قوم پر حاوی ہے۔ جس اخلاق کا پس منظر صرف حصول منفعت ہو جہاں نفع میں زوال دیکھا دولت اخلاق جواب دے گئی۔

 

اخلاق بربنائے ایمان

مگر جو اخلاق قرآنی ہدایت کے مطابق ایمان باللہ اور عقیدہ یعنی اخلاق برائے اخلاق پر مبنی ہو اس پر کسی قسم کے خسارے کا خوف موثر نہیں ہو سکتا۔ ایسے افراد کا پس منظر نیت ہے جو نفع و نقصان میں یکساں سمجھاجاتا ہے۔ اس لیے جو شخص لاٹری کا ٹکٹ اس نیت سے حاصل کرتا ہے کہ اس رقم میں سے ایک چیز خیراتی شفا خانہ کی نذر بھی کر دے گا تو ظاہر ہے کہ اس سودے میں خیرات واحسان پیش نظر نہیں بلکہ اپنی منفعت مقدم ہے۔ ضمناً اس کا ایک جزو شفا خانے کے لیے بھی سہی!

ایسے شخص کے مقابلہ میں ایک کریم النفس ہے ان لوگوں کی جستجو میں سرگرداں جنہیں دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلانے میں شرم دامن گیر ہے۔ مگر حالات کا تقاضا ان کے حال تباہ کی غماز ی کر رہا ہے یہ شخص ان کی دست گیری کے لیے اپنا ہاتھ بڑھا دیتا ہے۔ ایسے فرد کی خیرات کس قدر حسن نیت پر مبنی ہے!

اسی طرح وہ شخص جو قانون کی زد سے بچنے کے لیے عدالت کے سامنے جھوٹ بولنے سے گریز کرتا ہے مگر دوسرا فرد مصدق مقال کی عصمت قائم رکھنے کی خاطر سچی گواہی دیتا ہے ان دونوں کا فرق ظاہر ہے۔ اس لیے جس اخلاق کی نمائش  سود و زیاں کے انداز  میں ہو نہ کہ شرف انسانیت کی بقا قائم رکھنے کی غرض پر مبنی ہو تو ظاہر ہے کہ دوسری قسم ایمان باللہ کے بغیر مستحکم نہیں ہو سکتی۔

 

شراب اور جوئے کی مذمت

قرآن عقل کے صحیح استعمال کا محرک ہونے کی بنا پر ایسے امور سے بہ شدت منع کرتا ہے کہ جو عقل پر اثر انداز ہوتے ہیں اور قرآن ایسے امور سے از راہ ایمان و اعتقاد منع فرماتا ہے۔ ان کاموں میں شراب اور جوا دونوں ایسے موثرات ہیں جنہیں قرآن نے ناپاک اور شیطانی عمل سے تعبیر فرمایا ہے۔ بظاہر ان دونوں میں منفعت کی جھلک بھی پائی جاتی ہے لیکن ان کا گناہ ان کے نفع سے کہیں زیادہ ہے جس کی وجہ سے دونوں سے کلیۃ دور رہنے کا حکم دیا گیا ہے۔

جواری کا دھندا ملاحظہ ہو۔ ضیاع اوقات اور اخلاقی قدروں سے تجاوز اس کا نتیجہ ہیں۔ اور شرابی کا؟ ادھر نشہ سر پر سوار ہوا ادھرحواس الوداع۔ ہوش میں جن امور کو رذیل سمجھ کران کے قریب نہ پھٹکتا تھا وہی کام نشے میں مرغوب خاطر ہیں۔

 

شراب اور جوا مسلمان کے امۃ و سطا بننے میں مانع ہیں

قرآن نے جو اخلاقی نظام پیش فرمایا ہے اس میں انسان کے لیے دنیا کی نعمتوں سے کنارہ کشی نہیں۔ قرآن کا یہ مقصود نہیں کہ مسلمانوں کو رہبانیت کے چکر میں ڈال کر اسے اسرار کائنات پر ور و فکر کی نعمت سے محروم کر دے۔ مگر شراب اور جوا انسان کو خواہشوں کا ایساپرستار بنا دیتے ہیں کہ جس سے ایسے تصورات ان کی لوح و فکر سے حر ف غلط کی طرح مٹ جاتے ہیں۔ قرآن اعتدال کے ساتھ اخلاقی نظام کی دعوت پیش کر رہا ہے تاکہ انسان اپنا صحیح موقف حاصل کر سکے یعنی مسلمانکو امت وسطیٰ بننے کا جو موقع دیا گیا ہے اس کے لیے کوشش جاری رکھے جو شراب اور جوئے ایسے دھندوں میں ڈوبے رہنے سے نہیں مل سکتا۔

قرآن ہمیں کائنات اور مخلوق خدا میں غور و فکر کرنے کی یا بار تاکید فرماتا ہے۔ کبھی ہلال نو پر کبھی شمس قمر پر ، کہیں دن اور رات پر گاہے زمین اور اس کی پیداوار پر ، افلاک اور ان کی آرائش ستارگا ں کی طرف، دریاؤں اور ان یک سینے پر تیرنے والی کشتی اور جہازوں پر جو ہمارے سفر اور تجارت کا ذریعہ ہیں چوپایوں کی حکایت سے جن پر سواری اور ان میں ہماری شان و شوکت کا سامان ہے اور علوم و فنون میں۔ الغرض کائنات کی ان گنت نعمتوں کا بار بار اعادہ و تکرار تاکہ ان چیزوں پر غور کر کے ہم مادی منافع بھی حاصل کر سکیں۔

 

شراب اور جوا اور اقتصادی نظام

اور ان نعمتوں پر خالق ہر دوسرا کا شکریہ بھی ادا کر سکیں جن پر عقل کی رہنمائی کے بغیر دست رس ناممکن ہے اور بالآخر یہی غور و فکر اور تعقل ہمارے اقتصادی سود و بہبود پر منتج ہو سکتے ہیں۔

 

سود کی حرمت

اگر اقتصادی نظام کی اساس اخلاق و شرف پر قائم ہو تو وہ بنی نو ع بشر کی آسائش کا صحیح مبنی ہو گی اور انسان کی نحوست کا ستارہ خود بخود ماند پڑ جائے گا۔ قرآن کا یہ نظریہ انسان کو عقیدہ اور ایمان کی قوت سے فضائل اخلاق کی طرف مائل کرتا یہ تاکہ دنیا بدبختی اور شقاوت سے پاک ہو جائے۔ جو شخص اس نظریہ پر عمل پیرا ہو گا وہ سود جیسی بے برکت تجارت کو جس کے ہاتھ میں موجودہ اقتصادی نظام کی باگ ڈور ہے ایک لمحہ کے لیے گوارا نہ کرے گا۔ اسی وجہ سے قرآن نے رہا (جس نے ہر طرف شقاوت پھیلا رکھی ہے) کو قطعاً حرام قرار دیا ہے۔

 

سود خوری کا انجام

الذین یاکلون الربوا الا یقومون الا کما یقوم الذی یتخبطہ الشیطان من المس (۲:۲۷۵)

’’جو لوگ حاجت مندوں کی مدد کرنے کی جگہ(الٹا ان سے) سود لیتے اوراس سے اپنا پیٹ پالتے ہیں (یاد رکھیں کہ ان کے ظلم و ستم کا نتیجہ ان کے آگے آنے والا ہے) وہ کھڑے نہیں ہو سکیں گے مگر اس آدمی کا سا کھڑا ہونا جسے شیطان کی چھوت نے باولا کر دیا ہو (یعنی مرگی کا روگی ہو)‘‘۔

ایک اور آیت میں

سود اور زکوٰۃ

وما اتیتم من ربا لیربوا فی اموال الناس فلا یربو ا عند اللہ وما اتیتم من زکوٰۃ تریدون وجہ اللہ فاولئک ھم المضعفون (۳۰:۳۹)

’’اور (یہ ) جو تم لوگ سود دیتے ہو تاکہ لوگوں کے مال میں بڑھوتری ہو تو وہ (سود) خدا کے ہاں (پھولتا) پھلتا نہیں (یعنی اس میں برکت نہیں ہوتی) اور (وہ ) جو (محض) خدا کی رضا جوئی کے ارادے سے زکوٰۃ دیتے ہو جو لوگ ایسا کرتے ہیں وہی اپنے دیے کو خدا کے ہاں بڑھا رہے ہیں ‘‘۔

سود کی حرمت تمدن کا ایسا رکن ہے جس پر تمام عالم کی آسائش منحصر ہے مثلاً ً ربو کی ادنیٰ ترین صورت یہ ہے کہ صاحب مال خود کوئی مشقت کیے بغیر اپنے مدیون کی کمائی سے ایک معین رقم وصول کر لیتا ہے۔ اس لیے کہ اس نے غریب کو چند روپے قرض عنایت فرما دے۔ ظاہر ہے کہ اگر یہ دائن خود کاروبار کرنے کی صلاحیت سے معرا نہ ہوتا تو دوسرے کو اپنی رقم کیوں دیتا(وہ خود کام کر ہی نہیں سکتا) اور کام کی صلاحیت سے محروم ہونے کی وجہ سے اگر اپنا راس المال دوسرے کو سود پر نہ دیتا تو ایسے نکھٹو کی دولت رفتہ رفتہ تلف ہی تو ہو جاتی۔ بہتر صورت یہ تھی کہ سرمایہ دار متعین منافع مقرر کرنے کے بجائے ایسے محنت کش کے ساتھ سود و زیاں دونوں میں حصہ دار ہوتا۔ سود مدیون کے لیے ایس مصیبت ہے کہ کاروبار میں خسارہ کی صورت میں غریب کو اصل کے ساتھ سود خوار کی مقررہ شرح بھی ادا کرنا پڑتی ہے اور سود کے اس نقص کی وجہ سے شریعت نے اسے کلیتہً قرار دیا ہے۔

 

’’اجارہ ‘‘ اور سود میں تفریق

اگر معترض یہ کہے کہ روپیہ بھی زمین یا سواری کی طرح اجارہ پر دیا جا سکتا ہے اور مال دار اس پر جو منافع مقرر کر دے وہ اجارہ ہی ہے تو یہ اعتراض عقل کے خلاف ہے کہ روپیہ مال مثمر (یعنی اس کی محض ذات منفعت رساں نہیں اسے یا تو خرچ کیا جا سکتا ہے یا اندوختہ نہ کہ اراضی اور سواری کے جانور وغیرہ کی مانند اس کی ذات نفع رساں ہے روپیہ کی نسبت اس قسم کا حسن ظن بے وقوف یا مجنوں ہی رکھ سکتے ہیں جو اس کے استعمال سے ناواقف ہیں البتہ اسے مضاربت پر دیا جا سکتا ہے۔ جس میں نفع اور نقصان دونوں کا امکان ہے مگر روپیہ کے سوا دوسری چیزوں میں خسارہ بہت کم احتمال ہے اور یہ احتمال عام دستور کے مطابق مضاربت کا مانع نہیں اور جہاں اس قسم کی صورت رونما ہو ارباب قانون اس پر فریقین کے درمیان مناسب تصفیہ کر دیتے ہیں جس میں صاحب مال اور ستاجر دونوں کو زیر بار کیا جاتا ہے نہ صرف مستاجر کو۔

لیکن سود؟ مثلاً سات یا نو فی صدی یا ا س سے کم و بیش پر لین دین ہوا جس کے نتیجہ میں قرضدار ہی گھاٹے میں رہے گا جس میں یہ صورت اور بھی ہولناک ہے کہ خسارہ اصل رقم کو بھی اپنے ساتھ لے ڈوبا۔ مگر مقروض پر واجب ہے کہ مالدار کے حضور اصل رقم اور سود دونوں پیش کرے۔ اخلاقی طور پر یہ صورت کس قدر افسوس ناک ہے جس کا نتیجہ برادری اور باہمی محبت کی بجائے دشمنی اور کینہ جوئی کے سوا کچھ نہیں ہو سکتا اور اسی کی بدولت موجودہ دور نہایت مہلک بحران میں گرفتار ہے۔

جب سود کی معمولی نقصان دہ قسم کا یہ ہولناک نتیجہ ہو تو اس کی دوسری اقسام کا اثر کیا ہو گا؟ مثلاً ضرورت مند نے تجارت کے سوادوسرے اخراجات یا اہل و عیال کے نان و  نقفہ کے لیے سودی قرضہ لیا تو اس کی ادائیگی کہاں تک کر سکے گا ماسوائے ازیں کہ غیب سے کشائش کا امیدوار ہے کہ اگر کچھ ہاتھ لگ جائے تو ادا کر دے۔ قرآن نے قرض کی ادائیگی کو بھی فرض قرار دیا ہے۔ لیکن ایسے مقروض کو کیسی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا؟ اس قسم کایہ سود وحشیانہ تو نہیں ؟ سود مردم کشی کا مترادف تو نہیں ؟ اس قدر معیوب طریقہ کے مالدار سود کے نام سے لوگوں کے مال ہتھیا لینے کا جرم کرتے ہیں خداوندا ایسا قبیح سرقہ قانون پر لازم ہے کہ ایسے لوگوں کو چوری کی سزا دے بلکہ اس سے بھی زیادہ سزا۔

 

سود اور استعمار

موجودہ دور کی ہمہ گیر اور مشہور ترین گرفت استعمار سود ہی کا ثمرہ ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ سرمایہ دار ملک کسی غریب خطہ کو تاک لیتا ہے اور اپنے لگے بندھوں میں سے دو دو چار چار دولت مندوں کو اس خطہ میں چپ چاپ بھیج دیتا ہے جو وہیں کے نادار باشندوں کو سودی قرضہ دینا شروع کر دیتے ہیں اور رفتہ رفتہ ان کی آمدنی کے ذرائع پر قابض ہو جاتے ہیں جب مقروض طبقہ کروٹ لیتا ہے تو اپنی یہ حالت دیکھ کر حیران رہ جاتا ہے۔

جونہی لوگ ان پیران تسمہ پا سے نجات کے لیے ہاتھ پاؤں مارنا شروع کر تے ہیں ان کے بھیجنے والی حکومت اپنی رعایا کے تحفظ حقوق کا نعرہ لگا کر الٹا اس خطہ پر دوڑ پڑتی ہے اور بالآخر ان کا تسلط قائم ہو جاتا ہے۔ اب ا س سے خطہ کے باشندے اور قدیم حکمران ان بیاجیو ں کو بھیجنے والوں کی رعایا اور وہ ان کے بادشاہ ہو جاتے ہیں ، جس کے بعد ملک کے اصلی باشندوں کی غیرت بے حیائی سے بدل جاتی ہے اور ایمان غفلت کی نذر ہو کر برسوں کے لیے منہ ڈھانکے پڑا رہتا ہے۔ لیکن جو قومیں زوال و نکبت کے مآل کو سمجھتی ہیں وہ سودی قرضہ کا لین دین کرنے سے دور رہ کر اپنے ایمان اور مآل دونو ں پر خود ہی قابض اور مسلط رہتی ہیں۔

 

استعمار

جنگوں کا مصدر اور شقاوت کا ایسا بوجھ طومار ہے جس کے بوجھ تلے آج انسانیت سسک سسک کر دم توڑ رہی ہے یہ سود کا پروردہ ہے۔ سود اوری ہ دونوں جور و ظلم کی تیغ براں۔ جب تک دونوں میں سے ایک کا ہیولیٰ موجود ہے انسان محبت اور اخوت کا منہ نہیں دیکھ سکتا اوراس کا استیصال اس وقت تک ناممکن ہے جب تک معاشرہ قرآنی بنیادوں پر قائم نہ ہو۔ وہ قرآن جو وحی کی صورت میں نازل ہوا۔

 

اسلامی اشتراکیت

قرآن بجائے خود اشتراکیت کا حامی ہے مگر ا س کی اشتراکیت کے سائے میں نہ تو جنگوں کی ہماہمی ہے نہ ایٹم بم اور آکسیجن بموں کی غارت گری، نہ اس کے ہاں اجارہ داری(استعمار) میں جکڑنے کے داؤ پیچ ہیں جو مغربی اشتراکیت کا جزو لاینفک ہیں۔ قرآنی اشتراکیت ایسی اخلاقی سربلندی ہے جس کے سائے میں مختلف ملکوں کے رہنے والے ایک دوسرے کی اخوت و برادری سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔ ایک خطہ کے باشندے دوسرے وطن میں رہنے والے مسلمانوں کی کفالت کا اور دونوں باہم تعاون میں کس قدر پیش پیش رہتے ہیں اور کبھی ایک دوسرے کے ساتھ اس کی سرکشی اور معصیت میں اعانت کا ہاتھ نہیں بڑھا سکتے

تعاونوا علی البر والتقویٰ والا تعاونوا علی الاثم والعدوان (۵:۲)

قرآنی اشتراکیت کا ایک ایک حرف نظام صدقہ و زکوٰۃ کی شکل میں ہے جس زکوٰۃ کی ادائیگی اس قرآن کے ماننے والوں پر فرض ہے اور جس زکوٰۃ کا نتیجہ وہ اشتراکیت نہیں جس کے نام پر ایک جماعت ماتحت طبقہ کو اپنی قوت سے بے بس کر دے۔ قرآنی تمدن میں قوم یا فرد دونوں میں سے کسی جز کو دوسرے جز پر تفوق نہیں۔ یہاں باہم دگر ایسی برادرانہ مساوات کا درجہ حاصل ہے کہ تمدن حاضرہ کے دربار میں جس کی پذیرائی ناممکن ہے اس لیے کہ وہاں مغرب مین وقتی مصالح پر ایمان ہے جن کی پابندی کے بغیر ان مصالح کا استحکام محال ہے مگر یہاں ایمان کی متابعت ہے جس کا ثمرہ اخوت و برادری ہے الٰہی! دونوں کا پس منظر کس قدر مختلف ہے!

اور ایسا ایمان جس کی متابعت سے مومن اس قدر جریہ ہو جاتا ہے کہ اگر بس ہو تو ضرورت مند سائل اور سوال کرنے سے اپنا دامن سمیٹے رکھنے والے دونوں قسم کے محتاج کی ضروریات خوراک (م۔ جسے اشتراکیت کی بولی میں روٹی کہا جاتا ہے) لباس، رہائش معالجہ، تعلیم اور رکھ رکھاؤ یعنی تہذیب ہر ایک میں ان کی اعانت لازم اور بغیر تاخیر لازم ہے اور اپنے دل یا زبان سے کسی قسم کا احسان و کرم جتائے بغیر اس کی پابندی کرتا رہے کہ ایسی سبقت خدا کی دین پر اظہار تشکر ہے اور حقیقی عطا کنندہ کا شکریہ اخلاقاً واجب۔ یہ بھی قرآن کی ہی تعلیم ہے۔ بایں مقصد کہ جماعت کے پس ماندہ طبقہ کو اس سطح کے قریب تر لایا جا سکے جس پر زکوٰۃ عطا کرنے والا فائز ہے۔

 

قرآنی اشتراکیت میں حق تملیک

قرآنی اشتراکیت میں حق تملیک پر اس طرح کا قبضہ نہیں کرتی جو کچھ عرصہ تک مغربی اشتراکیت کا مایہ فخر رہا ہے۔ حتیٰ کہ روسی بالشویک کے اکابر کو بھی تسلیم کرنا پڑا کہ حق تملیک پر کلی تصرف غیر ممکن ہے البتہ املاک کے منافع و  پیداوار میں عوام کا اشتراک ضروری ہے مگر ریاست اس امر کی مجاز نہیں کہ عوام کے منافع کی غرض سے ایسا قانون جاری کرے جس کی رو سے حق تملیک کا کلیۃ سلب ہو جائے۔

 

اصحاب نبی ؐ میں اشتراکیت کا تصور

ان حضرات میں اس نقطہ خیال کے مطابق دو مختلف تصورات تھے۔

(الف) وہ عالی حضرات جو تملیک کے قطعاً خلاف اور نہ صرف پیداوار بلکہ پیداوار کے مصادر و منابع پر بھی عوام کے تصرف و دخل درآمد کے موید تھے۔

(ب)  اراضی پر بھی دوسرے (عروض) (خرید و فروخت دونوں کے قابل) کی طرح حق تملیک حاصل ہے۔

مگر یہ دونوں فریق اختلاف رائے کے باوجود یورپ کے موجودہ اشتراکی تقسیم اموال کے طریق پر اس انداز سے متفق تھے کہ:

(الف)  مشترکہ مفاد کے لیے اموال کا جمع کرنا ہر فرد کا ذمہ ہے۔

(ب)  مشترکہ خزائن میں سے معاشرہ کے ہر ضرورت مند کی کفالت نگر ان بیت المال کے ذمے ہے۔

اس لیے ہر مسلمان کو حق حاصل تھا کہ جب تک اپنا خو د تکفل نہیں کر سکتا اس کی ضروریات بیت المال سے پوری کرنا چاہئیں اور جو حضرات بیت المال کے منتظم تھے ان پر یہ ذمہ داری کہ ایسے خستہ حال افراد کی کفایت نظر انداز نہ ہونے دیں

قرآن کے جس دستور معاشرہ کا ہم نے تذکرہ کیا ہے عقل مند اس کی تکذیب نہیں کر سکتا۔ نہ یہ دعویٰ صحیح ہے کہ ایسا دستور مسلمانوں کے صدر اول میں تو واقعی مقبول و محمود ہو سکتا ہے۔ لیکن موجودہ دور میں س کی افادیت موثر نہیں ہو سکتی اور نہ ایسا ادعا تسلیم قابل ہے کہ کہ یہ دستور پورے معاشرہ کا احاطہ نہیں کر سکتا۔

ایسے معترض ذرا پیچھے مڑ کر دیکھیں کہ صدر اول میں مسلمانوں کے امیر ان کے حالات سے کس حد تک باخبر رہتے نہ کوئی ضرورت مند ان کی نظر سے اوجھل ہوتا ہے کہ وہ روسی اشتراکیت کی مانند تقسیم اموال کی سرحد پر پہنچ کر دم نہیں توڑ دیتی۔ اس (اسلامی) کی اشتراکیت کے ڈانڈے جو اخوت اور روحانی زندگی کی حدوں کو چھو رہے ہیں ان کی برکت و پذیرائی سے انسان اخلاقی اور اقتصادی بہبودی دونوں قدروں پر فائز ہو جاتا ہے مثلاً اسلامی دستور اشتراکیت کی یہ شق کہ

حدیث یحب لاخیہ میں اشتراکیت کی تعلیم

لا یومن احد کم حتی یحب لا خیہ ما یحب لنفسہ (الحدیث)

’’شرط ایمان یہ ہے کہ مومن وہی کچھ دوسرے مومن کے لیے پسند کرے جو اسے اپنے لیے پسند ہے‘‘۔

اس کے وہی معنی ہیں کہ اگر مومن اپنا شکم بھرے اور دوسرے بھائی کی روٹی کا خیال اسے نہ رہے تو ایسا شخص مومن نہیں رہا۔ اسلامی دستور اشتراکیت کے مطابق یہ شخص جو دوسروں کی روٹی کی فکر سے بے نیاز ہے قرآنی دستور اشتراکیت کے مطابق اس کے لیے یہ تہدید فرمائی گئی۔

آیہ ارایت الذی میں

ار ء یت الذی یکذب بالدین فذالک الذی یدع الیتیم ولا یحض علی طعام المسکین (۱۰۷:۱تا۳)

’’(اے پیغمبرؐ) بھلا تم نے ایسے شخص کے حال پر کبھی نظر کی جو (روز) جزا کو جھوٹ سمجھتا ہے اور (اسی سبب سے) یہ شخص ایسا سنگ دل ہو گیا ہے کہ یتیم کو دھکے دیتا ہے اور مسکین کو آ پ کھانا کھانا تو درکنار لوگوں کو بھی اس کے کھلانے کی ترغیب نہیں دیتا‘‘۔

اور قرآن نہ صرف تقسیم و عطائے ظاہری بلکہ در پردہ و علانیہ بحسب مصالح ہر دو صورت میں غریبوں کی روٹی کا خیال رکھتا ہے بہ مقصد آیات

ان تبدوا الصدقات فنعما ھی وان تخفوھا و توتو ھا الفقراء فھو خیر لکم (۲:۲۷۱)

’’اگر خیرات ظاہر میں دو تو وہ بھی اچھا ہے(ا س سے خیرات سے علاوہ دوسروں کو بھی ترغیب ہوتی ہے) اور اگر اس کو چھپا کر دو اور حاجت مندوں کو دو تو یہ تو تمہارے حق میں زیادہ بہتر ہے‘‘۔

الذین ینفقون اموالھم بالیل والنھر سرا و علانیہ فلھم اجرھم عند ربھم (۲:۲۷۴)

’’جو لوگ رات اور دن چھپے اور ظاہر میں اپنے مال ( اللہ کی راہ میں ) خرچ کرتے ہیں تو ان کے دیے کا ثواب ان کے پروردگار کے ہاں سے ان کو ملے گا‘‘۔

اس قسم کی اشتراکیت میں ایثار کی بدولت انسان کا ایمان اور زیادہ ہو جاتا ہے، جس کا ثمرہ اسے تقرب و رضائے پروردگار کی صورت میں حاصل ہوتا ہے اور قلب کے سکون و طمانیت سے اسے خود پر رشک آنے لگتا ہے۔

خداوند عالم نے انسان کی کسی حالت اور نعمت کے اعتبار سے ایک دوسرے کے ہم مثل نہیں بنایا۔ کسی امر میں ایک کو دوسرے پر فوقیت ہے اور اس دوسرے کو کسی وجہ سے پہلے پر تفوق۔

اللہ یبسط الرزق لمن یشاء ویقدر(۱۳:۲۶)

’’اللہ جس کی روزی چاہتا ہے فراخ کر دیتا ہے اور جس کی چاہتا ہے نپی تلی کر دیتا ہے‘‘۔

بایں سبب درجات میں برابری قائم رکھنے کی غرض سے اسلام نے پابندی عائد فرما دی کہ چھوٹے بڑے دونوں ایک دوسرے کی توقیر نظر انداز نہ ہونے دیں۔ بزرگ چھوٹوں پر شفقت فرمائیں اور توانگر مفلسوں کی دست گیری کے لیے ہاتھ پھیلائے رکھیں جو خدا کی عطا کردہ نعمتوں پر اظہار تشکر ہے نہ کہ ایک دوسرے پر احسان و کرم۔

 

قرآن میں ترکہ و وصیت و معاملات و تجارت کے فوائد

قرآن نے اقتصادی نظام کے مختلف پہلوؤں از قسم ترکہ و وصیت و معاملات اور تجارت پر جس انداز سے رہنمائی کی ہے اگر ان کے فقہی اور اقتصادی فوائد پر قلم اٹھایا جائے ئتو ایک مستقل کتاب ہو جائے گی۔ اتنا کافی ہے کہ ان معنوں میں دنیا کا کوئی قانون اس کے مقابلہ میں پورا نہیں اتر سکتا بلکہ اسلام کے تجارتی اصولوں سے قطع نظر اگر لین دین (قرضہ محض) کے انداز تحریر و تمسک و شہادت پر نظر کی جائے یا زوجہ و شوہر کے باہم اختلاف پیدا ہو جانے پر دونوں کے تجدید تعلقات کے لیے فریقین کے ایک ایک صاحب فراست کامل کا انہیں سجھانا تاکہ کسی غلط فہمی کی وجہ سے ان میں دائمی تفرقہ پیدا نہ ہو جائے ، یا مسلمانوں کے ایسے دو گروہوں کے درمیان جو ایک دوسرے پر تلواریں سونت کر امنڈ پڑنے کے قریب پہنچ چکے ہیں اور مصالحت کی بجائے قتال پر کمر بستہ ہو گئے ہیں صلح و آشتی کی سعی کرنا امن قائم کرنے کے لیے مظلوم فریق کی نصرت قرآن کے یہ اصول پڑھنے سے حیرت ہوتی ہے کہ اس آسمانی صحیفہ نے معاشرہ کے لیے کیسے کیسے مفید قوانین پیش فرمائے ہیں۔

پس اگر ہم اس کتاب سے سود خواری کی مذمت اور اسلامی اشتراکیت کی برتری پیش کرتے ہیں تو کون سا طرفہ ہے جس سے انکار کیا جا سکے۔ جب کہ قرآن میں ایسے قوانین مشرح اور مفصل طریق سے موجود ہی ہوں جن کی قوت و پذیرائی کی صلاحیت کی وجہ سے تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ قرآن میں انسانیت کے سود و منفعت کا کماحقہ احترام ملحوظ رکھا گیا ہے۔

 

قرآنی نظام تمدن اور مستشرقین

جیسا کہ ہم نے قرآنی نظام تمدن اور اس کی اساس کی وضاحت کی ہے مستشرقین میں سے بھی بعض اہل قلم اس کی افادیت کے معترف ہیں۔ اگرچہ بعض افراد اس پر اعتراض کرنے پر بھی پیش پیش مثلاً

قرآنی نظام تمدن اس قدر بہتر ہے کہ انسان اپنی فطری پستی کی وجہ سے اس کی پیروی کرنے سے قاصر ہے، اس لیے کہ اسے قبول کر لینے کے بعد اس کی زندگی دشوار ہو جائے گی کیونکہ وہ انسان امید و بیم اور حرص و ہوا دو گونہ عذاب میں مبتا ہے۔ آخر وہ حیوان ہی تو ہے۔ اس لیے اسلامی نظام حیات اس کی حیوانیت سے سراسر بار ہے۔ اگر اس میں شبہ کیا جائے تویہ تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں کہ انسان کو ہوس اور بے جا طمع سے دور رکھنا مقصود ہے تاکہ وہ انسان امید و بیم و حرص سے یک سو رہ کر اپنے لیے اقتصادی منافع حاصل کر سکے۔ جن کے عدم حصول کے نتیجہ کی وجہ سے ایسانظام قابل قبول نہیں ہو سکتا۔

اس کی ان حضرات کے سامنے یہ دلیل ہو کہ

اسلامی نظام (ہماری پیش کردہ وضاحت کے مطابق) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانہ اور صدر اول کے بعد خود مسلمانوں کے ہاں جاری نہ رہ سکا۔ اگر اس میں کماحقہ گہرائی اور پذیرائی ہوتی تو بعد کے ان مسلمانوں می بھی جاری رہتا جن کی حکومت دنیا کے تمام گوشوں میں قائم ہو گئی۔ لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔ بلکہ ان مسلمانوں نے اپنے اپنے ہاں جو نظام قائم کیے وہ قرآنی نظام اجتماعیت کے بالکل متضاد تھے۔ اس لیے کہ مسلمانوں کا یہ ادعا کہ قرآنی نظام حیات انسانیت کے لیے کماحقہ نفع رساں ہے خود ان کی تاریخ اس کی تغلیط کر رہی ہے۔

معترض کو تسلیم ہے کہ یہ نظام عہد رسالت اور زمانہ خلفاء میں کامیاب ثابت ہوا جو اس کے رفع اعتراض پر کافی ہے گویا اس (معترض) کے نزدیک جناب محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنی ذات میں انسانیت کی رہبری کا کامل نمونہ تھے اور خلفائے راشدین بھی آپ کی پیروی کی بدولت اس درجہ کمال تک پہنچے کہ عوام بھی ان سے مستفیض ہوئے۔ کہنا یہ کہ خلفائے راشدین کے بعد چاروں کی طرف سے حسد و کینہ اور عناد و دشمنی کے چشمے ابل پڑے۔ کہیں یہود کی ریشہ دوانیاں ابھر آئیں کہیں قبائلی عصبیت پھوٹ نکلی جس کی بدولت اس نظام کے اجراء میں رکاوٹ پیدا ہو گئی۔ رفتہ رفتہ مسلمانوں پر بھی مادیت نے اپنا تسلط قائم کر لیا اور مسلمان خود اسی حیوانی تغلب کے بوجھ سے دب کر اپنا  وقار کھو بیٹھے۔

جناب محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنی صفات کی وجہ سے جیسا کہ قرآن مجید میں فرماتا ہے تمدن و ارتقاء کے لیے بہترین رہنما تھے جیسا کہ اس کتاب میں مذکور ہو ا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مسلمانوں کی اخوت کی بناپر قائم کر کے انہیں اس راہ پر ڈال دیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مکی زندگی کے مصائب پر نظر ڈالیے جہاں آپ کے ساتھ تمام مسلمان مصائب میں مبتلا تھے اور ان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنے سب رفقاء سے زیادہ خوف و ہراس کا ملجا حتی کہ مدینہ میں ہجرت فرمائی جہاں مہاجرین اور  انصار کے درمیان اس انداز سے بھائی بندی کا رشتہ قائم فرمایا جس کی بدولت دونوں آپس  میں یک جان د و قالب ہو گئے اور اس تمدن کی بنیاد مستحکم ہونے کا وہ مفید ذریعہ جو قرآن نے اجتماعیت کے طریق پر پیش کیا تھا مسلمانوں میں جاری ہوا۔

مہاجرین و انصار کی مواخات میں ایمان کی قوت نے اور مہمیز دیا۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جو ایمانہ کلہ کا مظہر تام تھے غزوہ بدر میں پروردگار عالم کے حضور جو یہ استدعا پیش کی۔

یا اللہ! تو نے مومنین کی نصرت کا جو وعدہ فرمایا تھا اس کے پورا کرنے کا یہی دن ہے۔ اے پروردگار عالم! اگر آج وہ شکست کھا بیٹھے تو ان کے بعد تیرا نام کس کی زبان پر آئے گا!

’’بدر‘‘ میں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا یہ کردار تھا کہ خدا کی ذات کے ساتھ دائمی تعلق کر رہا ہے حتیٰ کہ آپ نے یہ تعلق کسی اور غزوہ میں بھی نظر انداز نہ ہونے دیا جو اس امر کا ثبوت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو وحی کے وقفے میں ذات خداوندی سے جس قدر قرب تھا، دوسرے دوسرے اوقات حتی کہ میدان کارزار میں بھی اس کیف و سرور سے محروم نہ رہتے۔ جس دل میں ایمان کا فراوانی ہو اس وجود گرامی پر موت تک ہیبت طاری نہیں ہو سکتی۔ ایسے مومنین ے لیے زندگی اور موت دونوں حالتیں یکساں ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ اک نہ اک روز دنیا چھوڑنا ہی ہے۔ ہر ذی روح نے موت کا مزہ چکھنا ہی ہے وار اگرچہ خود کو بچانے کے لیے کسی چونے گچ کے گنبد میں کیوں نہ بند ہو جائے۔

جناب محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے کمال ایمان کا صلہ ہی تو ہے کہ مسلمان حنین (غزوہ ) میں دشمن کی یلغار پر ادھر ادھر سہارا ڈھونڈ رہے تھے۔ جناب محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کوہ ہیکل کی مانند اپنی جگہ پر نہ صرف ثابت قدم تھے بلکہ دوسرے مسلمانوں کو بھی پکار رہے تھے ارے ! اس موت کے ڈر سے بھاگ رہے ہو جس سے ایک نہ ایک دن دوچار ہونا ہی ہے اور جناب محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چند ساتھی بھی ان کی مانند آپ کے ساتھ قدم جمائے کھڑے رہے جن کی کمک میں ان کی قوت ایمان کارفرما تھی۔ استدلال یہ ہے کہ معرکہ قتال کی وحشت ناکی میں یہ رسوخ قدم اسی نیروئے ایمان کا کرشمہ ہے کہ جس کی یاوری سے مرد مومن اپنی تنگ دستی کے عواقب نظر انداز کر کے مفلوک الحال انسان کی کفالت اپنا فریضہ سمجھ لیتا ہے۔

م… ویوثرون علی انفسھم ولو کان بھم خصاصۃ (۵۹:۹)

کی طرف اشارہ ہے۔ یہی ایمان لاوارث یتیم کے ساتھ حسن سلوک پر مال کرتا ہے۔ م…اشارہ آیت

واتی المال علی حبہ… والیتمی (۲:۱۷۷)

کی طرف یہی ایمان مرد مومن کو ایسے مسافوں کی آمد آمد پر چشم براہ بنائے رکھتا ہے جن کا زاد راہ انہیں جواب دے گیا ہو آیہ:

واتی المال علی حبہ… وابن السبیل (۲:۱۷۷)

کی طرف اشارہ ہے۔ یہی ایمان اسے ضرورت مند سائل اور سوال میں حسن طلب کے پابند ناداروں کی کفالت پر آمادہ کرتا ہے۔

وفی اموالھم حق للسائل والمحروم( ۵۱:۱۹)

کی طرف اشارہ۔ جن اعمال کی بدولت مومن کو کتاب اللہ کی بشارت کے مطابق ترقی کا اعلیٰ مرتبہ نصیب ہوتا ہےم … آیہ

ولا تنھو ا ولا تحزنو ا وانتم الا علون ان کنتم مومنین  (۳:۱۳۹)

کی طرف اشارہ۔ جن میں سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ایک ایک امر پر بے مثل عمل تھا اور جس ی متابعتمیں صدر اول کے مومنین نے حرف بہ حرف سبقت فرمائی۔ جس کی بدولت رسول اللہ  صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات کے کئی سال بعد تک اسلام کا پھریرا ان دور دراز ملکوں پر بھی لہراتا رہا جہاں کے باشندے صدیوں ؤسے ترک اخوت کی سزا پر ایک دوسرے سے نفاق و عداوت کا شکار ہو کر ضعف نامرادی کا ملجا بنے ہوئے تھے مگر جوں ہی انہوں نے قبول اسلام کے ساتھ ایمان کی روشنی میں اپنی قوت عمل اور مواخات کا رشتہ استوار کر لیا دنیا کی طاقتور قوموں میں شمار ہوئے کیونکہ اسلام کی رہنمائی انسان کو اسرار کائنات کے قریب لے آتی ہے۔ گزشتہ صدیوں کے ان مسلمانوں کا تمدن عہد حاضر کی ان قوموں کو شرما رہا ہے جو آج اپنے رفقاء کے غرور میں دوسری قوموں کو خاطر میں لانے کے روادار نہیں۔ حالانکہ انہوں نے یہ ارتقاء ایمان بیچ کر مادیت حاصل کرنے کے لیے حاصل کیا ہے جس کی بدولت انہیں بمشکل یہ عارضی فروغ بھی حاصل ہو سکا جس فروغ سے انسانیت ایسے بحران میں مبتلا ہے کہ مغرب کی یہ متمدن قومیں ہر وقت اپنے آپ کو خطرے میں گھر ا ہوا پاتی ہیں۔

 

علمائے سود کا تسلط

مصیبت یہ آن پڑی کہ تمدن اسلام پر ایک طرف سے خود داخلی عصبیت قبائلی اثر انداز ہوئی۔ باہر سے اسرائیلیات نے ہلہ بول دیا اور سب سے زیادہ بدنصیبی یہ کہ علمائے اسلام جو انبیاء علیہم السلام کے وارث تھ ذاتی وجاہت و مناصب کے شوق میں حق گوئی سے کنارہ کش ہو گئے جس میں دوسروں کو گمراہ کرنے کے بغیر (غلط مسائلل بتانے) کامیابی حاصل نہ ہو سکتی تھی۔

موجودہ دور میں اسی قسم کے مدعیان علم و ہوس پر علمائے اسلام کی وہ یادگاریں ہیں جن کی بدولت پورا معاشرہ ذلت و نکبت میں گھرا ہو ا ہے۔ ایسے علماء شیطان کے حواری ہیں جن سے روز قیامت دوسرے تمام عاصیوں سے زیادہ پرسش ہو گی۔ اس لیے ہر وہ شخص جو علوم دین پر حاوی ہے اسے سب سے پہلے انہی سے بغاوت کرنا چاہیے تاکہ اسلام ان کی ریشہ دوانیوں سے پاک ہو کر اپنے صحیح اصل پر آ جائے۔ اس قسم کے علماء سر زمین مغرب ہی کے لیے مبارک ہیں جہاں مذہب اور علم دونوں ایک دوسرے کے دست بگریباں ہیں نہ کہ اسلامی ممالک میں جہاں تمدن علوم، اور  مذہب سب کے سب ایک دوسرے سے غیر منفک رہنے چاہئیں کیونکہ علم مذہب کے بغیر اور مذہب علم سے دامن جھٹک کر کفران نعمت شمار ہوتا ہے۔

اسلامی تمدن جیسا کہ قرآن مجید میں فرمایا کہ ان بادشاہوں کے اثر سے بھی محفوظ نہر ہ سکا جو نام کے تو مسلمان تھے لیکن نہ انہیں اسلامی تمدن سے آگہی تھی نہ وہ اسے خود پر ہی لازم کر سکے۔ اگر ایسے مسلمان بادشاہ عوام کو ان قوانین کا پابند نہ کرتے جو اخوت اسلامی کے خلاف تھے اور رعایا کو اسلام کے بجائے اپنی سلطانی میں نہ جکڑ لیتے تو آج تک دنیا کا نقشہ کسی اور صورت پر ہوتا اور بے بس انسان جس کرب و ابتلا میں پڑا سسک رہا ہے اس سے دوچار نہ ہوتا۔

یقین ہے کہ موجودہ اہل قلم (مغربی) اگر تعصب سے یک طرف ہو جائیں  اور دنیا کے سامنے اسلامی تمدن کو اس کے صحیح نقوش کے مطابق پیش کریں تو ساری دنیا ہمارے آپ کے سامنے تمدن اسلام کو خود پر لازم کر لے جس کے اندر ذہن و قلب میں نفوذ پذیرہ کی پوری استعداد موجود ہے مگر اس مصیبت کو کیا کیجیے کہ جہاں کسی قوم نے اسلام پر توجہ کی یا ران طریقت مغربی اہل قلم نے انہیں ورغلانا شروع کر دیا تاہم جو اہل علم اسلامی تمدن کے دعوے دار ہیں۔ اگر ایمان کامل اور تزکیہ قلب سے منور ہو کر دوسروں کے سامنے خدا پرستی اور اپنے ایمان کی دعوت پیش کریں تو یقین کامل کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ دنیا عہد نبوت ہی کی طرح اسلام کی دعوت پر سرآنکھوں پر رکھنے کے لیے لبیک پکار اٹھے اور ہر شخص اسلامی اخوت کی نعمت سے مستفید ہو کر فائز المرام ہو۔

اورجیسا کہ مقدمہ کتاب میں لکھا گیا ہے کہ عہد نبوت اور صدر اول میں مسلمانوں کو جو عروج حاصل ہوا تھا بجائے خود اس امر کی دلیل ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ہدایت کے مطابق مسلمانوں نے خود کو جن اخلاقی قدروں سے مزین کر لیا اسی انداز کے مطابق اگر آ ج بھی ان کی تجدید کی جائے تو دنیا کا موجودہ اقتصادی بحران بلا شبہ اپنی اصلی حالت پر آ سکتا ہے۔

 

مغربی اہل قلم کی نیش زنی دربارہ مسئلہ تقدیر

جب بھی مستشرقین اسلامی تمدن کے مد و جذر پر خامہ فرسائی کرتے ہیں تو مبحث سے ہٹ کر کوئی نہ کویء ایسا شوشہ چھوڑ دیتے ہیں کہ جس سے خلط مبحث ہو کر موضوع کا رخ پلٹ جائے کہ

یحسبہ الظمان ماء (۲۴:۳۹۔ م)

اور پیاسا سراب کو پانی سمجھ کر اس کی طرف دوڑ اٹھے مثلاً یہ لوگ اسلامی تمدن کی ناہمواری کے لیے مسئلہ تقدیر کو لے بیٹھتے ہیں۔ جس سے ان کا مقصد یہ ہ کہ تمدن اسلا کی غیر مقبولیت کو تقدیر کے سر منڈھ دیا جائے۔ مسلمان جس تقدیر پر قانع رہ کر ترقی کے ذرائع سوچنے کی زحمت ہی نہیں کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ قوم دنیا  میں یوں ذلیل و خوار نظر آتی ہے (مسلہ تقدیر رپ ہم دوسری فصل میں بحث کریں گے۔ )

٭٭٭

 

 

 

 

اسلامی تمدن اور مستشرقین

 

 

واشنگٹن ارونگ Washington Irving

انیسویں صدی (ع) کے مشہور امریکی مستشرق واشنگٹن ارونگ ہیں جن کی ذات پر نہ صرف امریکہ بلکہ مسیحی اقوام کو بجا طور پر فخر ہے۔ موصوف نے سیرت رسول عربی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر جو کتاب لکھی ہے اس کا ایک رخ اگر ایسے انصاف کا پہلو لیے ہوئے ہے جس سے قلوب متاثر ہوئے  بغیر نہیں رہ سکتے تو اس کا دوسرا رخ ایسے مکروہ انداز کو پیش کرنے والا ہے کہ جس سے پہلی کیفیت سے بھی نفرت سیبدل جائے۔ کتمان حقیقت اور دروغ بافی کا کوئی پہلو قلم انداز نہیں ہونے دیا۔

 

مستشرقین کا اسلامی نظریہ تقدیر پر خود ساختہ تصور

مصنف مذکور نے اس کتاب کے خاتمہ میں جن مسائل کو بحث کا معمل بنایا ہے ان میں دین کے عقائد خمسہ ایمان باللہ اقرار ملائکہ تصدیق کتب سماویہ تسیم انبیائے مرسلین علیہ السلام اور یوم آخرت پر یقین کے ساتھ اسی نوع میں چھٹا عنصر ایمان بالقدر کو بھی رکھ دیا ہے واشنگٹن کہتا ہے:

مسلمانوں کے عقائد(اسلام) میں چھٹا عقیدہ تقدیر ہے جس پر جناب محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ا س حد تک اعتماد تھا کہ آپ کی جنگوں میں شرکت اور دلاوری کا محور یہی تقدیر تھی۔ انہیں پورا یقین تھا کہ انسانی زندگی میں ہر پیش آنے والا حادثہ پہلے سے خدا کے علم میں ہے اور آفرینش عالم سے قبل لوح محفوظ پر کندہ۔ انسان کے لیے جس ساعت میں مرنا مقدر ہے اس میں ایک لمحہ کا تقدم و تاخر ناممکن ہے۔ اس لیے انسان کو اپنی جان بچانے کے لیے سعی کرنا ہی نہ چاہیے۔ مسلمان اس عقیدہ کے فریب میں آ کر شعلہ بار جنگوں کی آگ میں کود پڑتے کہ اگر شہادت نصیب ہو گئی تو جنت کا لطف اٹھائیں گے اور زندگی مقدر میں ہے تو فتح و نصرت کے نقارے بجاتے ہوئے دنیا پر حکمرانی کریں گے۔

بعد میں یہ عقیدہ ایک نئی شکل میں منضبط ہوا اور  اس کے عمل پیرا ’’جبریہ‘‘ کہلائے۔ وہ کہتے (اور ا س پر عمل بھی کرتے ہیں ) کہ انسان اپنے اعمال میں مختار نہیں بلکہ مجبور ہے۔ ا س سے جو گناہ سرزد ہوتے ہیں اس کی ذات ان کی ذمہ دار نہیں کیونکہ خدا ہر شے پر قادر ہے اور وہی سب کچھ کراتا کرتا ہے۔ اس عقیدہ کو بعض مسلمانو ں نے خدا کے عدل اور اس کی رحمت کے منافی سمجھ کر اس کی تردید میں پوری قوت صرف کر دی مگر اہل سنت کے فرقوں میں ا ن کا شمار نہیں کیا جاتا۔

تقدیر پر قانع رہنے کی آیات جناب محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر بدو رسالت ہی سے نازل ہو رہی تھیں جن کی تجدید ہر اہم موقع پر وحی کے ذریعہ بار بار ہوتی جیسا کہ غزوہ احد میں جب مسلمانوں کی ہولناک تباہی رونما ہوئی جس میں بے شمار مسلمان لشکریوں کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے عم بزرگوار حمزہؓ کے شہید ہونے سے بقیتہ السیف مسلمانوں پر خوف و ہراس کے بادل چھا گئے تب جناب محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے انہیں خدائی قانون کے انداز میں فرمایا کہ موت کے لیے معرکہ کارزار اور بستر راحت دونوں برابر ہیں۔

ظاہر ہے کہ عواقب و نتائج سے بے خبر سپاہیوں کے لیے اس سے بہتر تلقین اور کیا ہو سکتی ہے کہ اگر جنگ کی لپیٹ میں آ گئے تو مر کر جنت کا لطف اٹھائیں گے اور اگر زندگی مقدر میں ہے تو اموال غنیمت سے بہرہ اندوز ہو کر مزے لوٹیں گے۔

مسلمانوں کے اس عقیدے نے انہیں یہاں تک جری کر دیا کہ ان کا قوی ہیکل دشمن بھی ان پر غلبہ حاصل نہ کر سکتا۔ دوسرا دور آیا۔ یہی تقدیر ی تصور کچھ عرصہ تک ان کے لیے زہر قاتل ثابت ہوا اور ان کی سطوت کا جنازہ نکل گیا۔ جب ان کے خلفاء نے اپنی تلوار میان میں کر لی اور مسلمان جنگ جوئی و جہاں بانی کا شیوہ ترک کر کے پاؤں توڑ کر بیٹھ گئے تو یہ عقیدہ تقدیر ہی کا کرشمہ تھا۔ بے کار بیٹھے رہنے کی وجہ سے استراحت کی طرف میلان ہوا۔ وہ جن نعمتوں سے لپٹ گئے قرآن نے بھی ان کی اباہت کی اجازت دے رکھی تھی جس (اباحت) میں مسیحیت کے قوانین قرآن سے مختلف ہیں جن کے مطابق دنیا کی نعمتوں سے اجتجاج کمال ایمان کا ذریعہ ہے۔

مسلمانوں نے خود کو تقدیر کے حوالے کر کے اس حد تک مصیبت میں ڈال لیا کہ ان کے نزدیک ذاتی جدوجہد تقدیر کے مقابلہ میں محض بے مایہ ہو گئی اگرمسلمان مشہور کلیہ اعن نفسک یعنک اللہ (اگر تم خود اپنی مدد کرو گے تو خدا بھی تمہاری مدد کرے گا) پر عمل رکھتے تو ان کی یہ درگت نہ بنتی کہ صلیب ہلال پر غالب آ سکتی بجز اس کے کہ اگر مسیحی یورپ بھی ابھی تک ہلال کا وجود نظر آ رہا ہے تو وہ بھی اس لیے کہ:

(الف)  یہ مسیحی دو ل یورپ کی مہربانی ہے۔

(ب)  یا مغرب کی باہمی پھوٹ کا نتیجہ ہے۔

(ج)  یا اس مشہور قاعدہ کی تصدیق کے طور پر کہ جو شخص زور شمشیر سے حاصل کر لے ششیر ہی کی قوت سے واپس لی جا سکتی ہے۔

جواب:  حیرت ہے کہ اگر واشنگٹن ارونگ جیسا مرد دانا یہ بات کہے کہ گویا وہ ایسا شخص ہے جسے اسلام کی روح اور اس کے تمدن سے کوئی آگاہ نہیں !

 

مسئلہ تقدیر میں خلط مبحث

مذکور الصدر مستشرق نے قضا و قدر اور موت کے آخری لمحے میں تعیین کو زیر بحث لا کرایسا نتیجہ اخذ کیا جس پر دانش سر پیٹ اٹھے یا ان کا مطالعہ ایسے دفاتر میں ہے جن میں تقدیر کی تعبیر یہی دی گئی ہو۔ لیکن قرآنی ہدایات کے مطابق خود اعتمادی اور اپنی جدوجہد کا وہ نتیجہ جس کی تہہ میں حسن نیت بھی ہو ایسے انداز میں ارشاد ہے جس کے سامنے معرض اعن نفسک یعنک اللہ سے قیاس کرنا کوئی وقعت نہیں رکھتا جو (قرآن فرماتا ہے کہ):

(۱) یا ایھا الناس قد جائکم الحق من ربکم فمن اھتدی فانما یھدی لنفسہ ومن ضل فانما یضل علیھا (۱۰:۱۸)

’’(اے پیغمبر ؐ) ان لوگوں سے کہہ دو کہ لوگوں جو حق بات )تھی وہ توتمہارے پروردگار کی طرف سے تمہارے پاس آ چکی ہے۔ پھر جس نے راہ راست اختیار کی وہ اپنے ہی فائدے کے لیے اس کو اختیار کرتا ہے اور جو بھٹکا تو وہ بھٹک کر کچھ اپنا ہی کھوتا ہے‘‘۔

(۲)  ولا تزروازرۃ وزرا اخری وما کنا معذبین حتی نبعث رسولا(۱۷:۱۵)

’’اور کوئی (متنفس کسی) دوسرے متفنس کے بار(گناہ) کو اپنے اوپر نہیں لے گا اور جب تک ہم رسول بھیج کر تمام حجت نہ کر لیں (کسی کو اس کے گناہ کی)سزا نہیں دیا کرتے‘‘۔

(۳)  من کان یرید حرث الاخرۃ نزدلہ فی حرثہ ومن کان یرید حرث الدنیا نوتہ منھا وما لہ فی الاخرۃ من نصیب (۴۲:۲۰)

’’جو کوئی آخرت کی کھیتی کا طالب ہو ہم اس کی کھیتی میں اس لیے برکت دیں گے کہ اور جو کوئی دنیا کی کھیتی کا طالب ہو تو ہم بقدر مناسب اس کو دنیا دیں گے (مگر) پھر آخر ت میں اس کا کچھ حصہ نہیں ‘‘۔

اور یہ کہ:

(۴)  ان اللہ لا یغیر ما بقوم حتی یغیروا ما بانفسھم (۱۳:۱۱)

’’جو نعمت کسی قوم کو (خدا کی طرف سے) حاصل ہو جب تک وہ (قوم) اپنی ذاتی صلاحیت کو نہ بدلے خدا اس (نعمت) میں کسی قسم کا تغیر و تبدل نہیں کرتا‘‘۔

 

قرآن میں ارادہ و عمل کی ترغیب

ایسی بے شمار آیات ہیں جن میں قرآن نے بصراحت اپنے پیروؤں کو ارادہ و عم کے ساتھ فلاح و کامیابی حاصل کرنے کی تلقین فرمائی ہے اور اسی طرح خدا نے متعدد آیتوں میں انسان کو جہاد فی سبیل اللہ کی تاکید بھی فرمائی ہے جیسا کہ قارئین انہی اوراق میں جا بجا مطالعہ فرما چکے ہیں کہ جن سے واشنگٹن ارونگ اور ان کے دوسرے یاران سرپل کے الزام کی تردید ہوتی ہے کہ اسلام پانے ماننے والوں کو ایسے توکل کی تلقین پر زور دیتا ہے کہ جس کے اثر سے ا نسان پر ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر فو ز و کامیابی کا انتظار کیا کرے اور اپنی سعی کو نفع و ضرر میں موثر نہ سمجھے کہ ارادہ و سعی کا تعلق بھی تو خدا کی مشیت ہی سے ہے جو مشیت مقدر میں نہیں تو ارادہ اور سعی بھی بار آور نہیں ہو سکتے۔ ہم کوشش کریں یا ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھے رہیں  تومقدر میں ناکامی ہے تو ہماری کوشش بے سود وار اگر تقدیر میں کامیاب ہونا ہے تو سعی کے بغیر بھی سب کچھ ہو سکتا ہے‘‘۔

لیکن قرآن ایسے الزامات کی تردید کرتا ہے جیسا کہ مذکور ہو چکا ہے۔ شاید جو مسلمان اپنی کاہلی کی وجہ سے آخری صدی میں ناکامی اور نا مرادی کی زندگی بسر کر رہے تھے یہ معترض انہیں مندرجہ ذیل آیتوں کا مورد نہ سجھتے ہوئے ان آیتوں کو اپنے استدلال کا مبنی قرار دیتے ہوں :

تقدیر پر پیش کردہ آیات

(۱)   و ما کان لنفس ان تموت الا باذن اللہ کتابا موجلا( ۳:۱۴۵)

’’اور یاد رکھو کہ خدا کے حکم کے بغیر کوئی جان نہیں مر سکتی ہر جان کے یے ایک خاص وقت ٹھہرا دیا گیا ہے( پھر موت کے ڈر سے کیوں تمہارے قدم پیچھے ہٹیں )۔ ‘‘

(۲)  ولکل امتہ اجل فاذاجاء اجلھم لایستاخرون ساعۃ ولا یستقدمون (۷:۳۴)

’’اور ہر ایک قوم کے مٹنے کا ایک وقت مقرر ہے پھر جب ان کا وقت آن پہنچتا ہے (تو اس سے) نہ ایک گھڑی پیچھے ہو سکتے ہیں اور نہ (ایک گھڑی) آگے بڑھ سکتے ہیں ‘‘۔

(۳)  ما اصاب من مصیبۃ فی الارض ولا فی انفسکم الا فی کتاب من قبل ان نبراھا ان ذالک علی اللہ یسیر (۵۷:۲۲)

’’لوگوں جتنی مصیبتیں روئے زمی پر نازل ہوتی ہیں اور جو خود تم پر نازل ہوتی ہیں (وہ سب) ان کے پیدا کرنے سے پہلے ہم نے کتاب میں لکھ رکھی ہیں ‘‘۔

(۴)   قل لن یصیبنا الا ما کتب اللہ لنا ہومولنا والی اللہ فلیتوکل المومنون (۹:۵۱)

’’(اے پیغمبرؐ) تم ان لوگوں سے کہہ دو کہ جو کچھ خدا نے ہمارے لیے لکھ دیا ہے اس کے سوا کوئی اور مصیبت تو ہم کو پہنچ سکتی نہیں۔ وہی ہمارا کارساز ہے اور مسلمانوں کو چاہیے کہ بس اللہ ہی پر بھروسا رکھیں ‘‘۔

 

قرآن اپنے پیروؤں کو جدوجہد کی تلقین کرتا ہے

اگر مستشرقن نے انہی آیات کو اپنے اعتراضات کا معمل بنا رکھا ہے تو ظاہر ہے کہ وہ ان کے مفہوم تک نہیں پہنچ سکے۔ یہ آیتیں خدا اور بندے کے درمیان کامل رابطہ کی شرح فرما رہی ہیں لیکن معترض یہ سمجھتا ہے کہ اسلام اپنے پیروؤں کو کاہلی کی تلقین فرما تا ہے چہ جائے کہ وہ اپنے تمدن کے لیے باہمی اخوت اور ایک دوسرے کے حال پر لطف و کرم کی ہدایت فرماتا ہے۔ اسی طرح اپنے پیروؤں کو جدوجہد جان نثاری اور شرف و مجد سے زندگی بسر کرنے کی تلقین کرتا ہے۔

یہ واقعہ ہے کہ قرآن کی جن آیات میں تقدیر کا ذکر ہے ان میں اس مسئلہ کے اس پہلو کی پوری پوری عکاسی کی گئی ہے جس پر تمام فلاسفہ مغرب کا اتفاق ہے اور جس کو کہ وہ اپنی اصطلاح میں جبریت سے تعبیر کرتے ہیں اس  فرق کے ساتھ کہ قرآن نے تو کائنات کے نظم و نسق کی استواریوں کو اللہ تعالیٰ اور اس کے طرف منسوب کیا ہے اور یہ لوگ اسے قانون فطرت یا زندگی کے تقاضوں کے سر منڈتے ہیں۔ اور یہ ایسا تصور ہے کہ جو اسلامی تصور جبریت سے کہیں زیادہ تنگ نظری اور سختی لیے ہوئے ہے۔

یہ علمی جبریت اس بات کی قائل ہے کہ انسان کو جو اختیار کیا جاتا ہے تو محض اضافی حیثیت سے ورنہ اس کی حدود اختیار بے حد سمٹی ہوئی ہیں۔ اتنا اختیار بھی یہ لوگ اس بنا پر تسلیم کرتے ہیں کہ اجتماعی ضرورتیں اس کا تقاضا کرتی ہیں اس بنا پر نہیں کہ یہ علمی و فلسفیانہ جبریت اس کی اجازت دیتی ہے۔ اور یہ  حقیقت ہے کہ اگر اختیار کی اس مقدار کو بھی انسان میں تسلیم نہ کیا جائے تو معاشرہ کے لیے قانون و تشریع کے نقشوں اور ضابطوں کو قائم رکھنا دشوار ہو جائے گا کسی شخص کو بھی اس کے اعمال پر باز پرس نہ کی جائے۔

یہ صحیح ہے کہ علماء و فقہاء میں سے بعض لوگ ایسے بھی ہیں جنہوں نے جزا و سزا کی بنیاد انسانی اختیار میں نہیں رکھی بلکہ اس پر رکھی ہے کہ کسی شخص کی وفات پر معاشرہ پر کیا اثر پڑتا ہے مگر اکثریت نے اختیار کی اہمیتوں کو مانا ہے ان کی یہ دلیل ہے کہ جو لوگ مسلوب الاختیار ہیں قانون ان سے بالکل مواخذہ نہیں کرتا۔ مثلاً چھوٹا بچہ مجنون یا سفیہ اپنے اعمال کے لیے کسی بھی قانون کی رو سے جواب دہ نہیں۔

لیکن جب ہم ان عملی تقاضوں کا خیال نہ کریں اور صرف مسئلہ علمی پہلوسے جائزہ لیں تو پھر ماننا پڑے گا کہ علمی اور فلسفیانہ جبر ہمیں ہر طرف سیگھیرے ہوئے ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو فرد جس زمانے میں پیدا ہوا ہے مجبوری کی وجہ سے پیدا ہوا کہ نہ تو مولود کو کسی اور وقت میں پیدا ہونے کا اختیار تھا نہ اسے اپنے جننے والی کے اس فعل تولید پر یہ قدرت کہ وہ اس زمانہ میں تقدیم و تاخیر کرا سکے۔ اسی طرح نہ کسی مولود کو اپن والدین کی حالت فقر و استغناء اور ان کے شرف و مذلت پر اختیار کہ وہ اپنی مرضی سے ان حالتوں میں تغیر و تبدل پر قادر ہو۔ مولود لڑکی ہے تو واہ واہ اور لڑکا ہے ت سبحا ن اللہ اور نہ اسے اپنے گرد و پیش (ماحول) میں دخل اندازی کی قدرت جو ہوا او ہو رہا ہے یا بعد میں جو ہو گا وہ اس میں ذرہ برابر تبدیلی کا مختار نہیں۔ اسی حقیقت کو فرانسیسی فلسفی ہیولیث ن یوں بیان کیا ہے کہ انسان اپنے ماحول کی پیداوار ہے۔ مزید برآں دوسرے فلاسفر بھی یہ مانتے ہیں کہ اگر ہم کوشش کریں تو فرد اور اقوام کے مستقبل پر اس حد تک حکم لگا سکتے ہیں جس حد تک اجرام فلکی کی آئندہ نقل و حرکت اور شمس و قمر میں گرہن کے اوقات قبل از وقت کی تعین پر ہمیں قدرت حاصل ہے۔ کہنا یہ ہے کہ اس کے باوجود مشرق اور مغرب دونوں سمتوں کے علماء میں سے کسی نے ان مسلمات کے باوجود یہ دعویٰ نہیں یا کہ جب فطرت ہی نے موجودات کے ہر فرد کو اپنے اثر میں جکڑ رکھا ہے تو پھر انسان پر یہ ذمہ داری کیوں عائد کی جاتی ہے کہ وہ اپنی فلاح و بہبود کے لیے سعی جاری رکھے نہ ان فلاسفہ میں سے کسی نے یہ کہا کہ جبر فطرت کے سامنے کسی قوم کو اپنا مستقل درخشندہ کرنے کے لیے جدوجہد کرنا مفید نہیں ہو سکتا ہے۔ لیکن یہی مستشرقین ہیں جو مسلمانوں کی تقدیر پر ایمان رکھنے کی وجہ سے ان کی زندگی میں جدوجہد کو ایک دوسرے (تقدیر و سعی) کے متضاد قرار دیتے ہیں۔

 

تقدیر بشرط سعی

ایک طرف علمائے مغرب کا یہ محبوب و مسلمہ اجباری قانون فطرت ہے اور دوسری طرف قرآن کا مسئلہ تقدیر بشرط سعی۔ خدا کی مشیت کچھ سہی لیکن تمہاری جدوجہد کا ثمرہ مترتب ہو کر رہے گا۔

وان لیس للانسان الا ما سعی وان سعیہ سوف یری (۵۳:۳۹۔ ۴۰)

’’انسان کو اتنا ہی ملے گا جتنی اس نے کوشش کی اور یہ کہ اس کی کوشش آگے چل کر (قیامت کے دن بھی ) دیکھی جائے گی‘‘۔

دیکھنا یہ ہے کہ قرآن کا فلسفہ تقدیر پر ان آیات کے پیش نظر زندگی کے لیے کارآمد ہے یا مستشرقین کا تسلیم کردہ اجباری قانون فطرت جس کی سطوت کی قہرمانی کے مقابلہ میں تقدیر کی وجاہت و مشفقانہ کرم گستری کا یہ عالم ہے کہ وہ انسان کو ہر ممکن جدوجہد سے بھلائی و وجاہت و شرف حاصل کرنے کی ترغیب دیتی ہے۔

بے شک فریقین (اہل مغرب اور مسلمان) اس حد تک متفق ہیں کہ کائنات پر ایک ایسا اٹل قانون مسلط ہے کہ جس کی سرتابی کی گنجائش نہیں اور انان بھی اسی قانون کی جکڑ میں کسا ہوا ہے لیکن دونوں اہل مغرب اورمسلمانوں میں بین فرق بھی ہے اہل مغرب کے تصورات کے مطابق انسان کا اپنے سود و بہبود کے لے ہاتھ پاؤں مارنا یا گم صم بیٹھے رہنا دونوں کے نتائج مساوی ہیں۔ لیکن قرآنی تصور تقدیر کے مطابق فرد کو عقل کی یاوری کے ساتھ ساتھ نیک ارادوں کی تکمیل پر توجہ دلانا ہوا ان سے کہتا ہے کہ محنت کا ثمرہ قطعی ہے۔ اگر تم محنت کرنے سے ہاتھ کھینچ لو گے تو تم دنیا میں بھی فائز المرام نہیں ہو سکتے۔

ان اللہ لا یغیر ما بقوم (۱۳:۱۱)

ان اللہ لا یغیر ما بقوم حتی یغیروا ما بانفسھم (۱۳:۱۱)

’’جو نعمت کسی قوم کو (خدا کی طرف سے )حاصل ہو جب تک وہ قوم اپنی ذاتی صلاحیت کو نہ بدلے خدا اس کی نعمت میں کسی قسم کا تغیر و تبدل نہیں کرتا‘‘۔

یہ کہ خدا نے انسان پر فکر و تدبر واجب کر دیا جیسا کہ آسامانی کتابوں اور مرسلین نے ہدایت فرمائی ہے کہ جس کے مطابق انہیں سنت اللہ اور اس کی مشیت پر دونوں پر غور کرنے کی دعوت دی گئی ہے۔ ا س لیے جو خدا تعالیٰ پر ایمان لانے کے بعد اس کے قوانین پر متوجہ ہو گا ا سے اس کی سعی کا ثمرہ حاصل ہو کر رہے گا۔ اگر اس کے لیے نیکی کی راہ میں جان دنیا  لکھا ہے تو اس میں خوف و ہراس کی کون سی بات ہے؟ یہ شخص اور اس کی راہ میں دوسرے سرفروش سب کے سب

احیاء عند ربھم یرزقون ؎۱ (۳:۱۲۹)

کے مصداق ہیں۔ اگر اسلام نے ایسی شہادت کو برتر زندگی قرار دیا ہے جو اللہ کی راہ میں حاصل ہو اور یہ دعوت پیش فرمائی ہے کہ تو سبقت اور تکمیل ارادہ کی اس سے بہتر کون سی راہ ہو سکتی ہے؟ آخر میں اس کاہلی اور نامرادی کی کون سی بات ہے ؟ جیساکہ واشنگٹن ارونگ اور ان کے ہم نواؤں کا بھی یہ مقولہ کہ خدا پر توکل کا نام کاہلی نہیں توکل کے یہ معنی نہیں کہ خود کو اس کے حکموں کجی تعمیل سے ہٹا کر گھر میں دبکا بیٹھا رہے بلکہ توکل ہے اس کے اشارہ پر سرفروشانہ جدوجہد! جیسا کہ آیہ:

عزم و ارادہ توکل کے منافی نہیں

فاذا عذمت فتوکل علی اللہ( ۳:۱۵۹)

’’پھر جب ایسا ہو کہ تم نے کسی بات کا عزم کر لیا تو چاہیے کہ خدا پر بھروسا کرو اور جو کچھ ٹھان لیا ہے اس پر کار بند ہو جاؤ‘‘۔

۱؎  وہ زندہ ہیں اور اپنے پروردگار کے حضور اپنی روزی پا رہے ہیں۔

کے مطابق اپنے کام کی تکمیل کر لیں اور نتیجہ میں خدا پر بھروسہ رکھیں تو کوئی وجہ نہیں کہ خدا وند تعالیٰ اپنے فضل و کرم کے صدقے میں کامیابی سے محروم رکھے۔ جس معاملہ میں خدا جوئی کے سوا کوئی اور مقصد نہ ہو اور اس کام میں ادھر ادھر کے خوف و ہراس کو بھی جگہ نہ دی جائے تو باقتضائے سنت اللہ جو ازل سے تا بہ ابد غیر متغیر ہے ایسے جفاکوش نسان کی دستگیری کے سامان خود بخود پیدا ہو جاتے ہیں۔ جس کے ساتھ ہ اس کا اپنی کوشش کے نتیجہ میں فائز المرام ہونا یا اس تگاپو میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھنا ہر دو حالتوں میں مقصد ہی کا حصول تو ہے کہ اگر نتیجہ اس کی منشا کے مطابق ہے تواس خدا کی مہربانی سمجھے اور اگر اس کی خواہش سے متغایر ہے تو اسے اپنی کسی لغزش کا مآل سجھے۔

اور اگر کسی شخص نے خدا کا آسرا چھوڑ کر دوسری قوتوں کو کامیابی کا ذریعہ متصور کر لیا تو اس راہ میں یہ سب سے بڑی لغزش ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر نیکی کی نسبت ذات کبریا کے ساتھ اور ہر برائی کا انتساب ابلیسی وسوسہ اور کار شیطانی سے کیا جاتا ہے۔

اور یہ جو کہا جاتا ہے کہ ہر حادثہ کے وقوع سے قبل اس کا علم خدا کو ہے۔

لا یغرب عنہ مثقال ذرہ فی السموت ولا فی الارض ولا اصغر من ذالک اکبر ا الا فی کتاب مبین( ۳۴:۳)

’’(جو عالم الغیب ہے اور ) ذرہ بھر(چیز) بھی آسمانوں اور زمینوں میں اس سے پوشیدہ نہیں اور ذرے سے چھوٹی اور ذرے سے بڑی جتنی چیزی ہیں سب اس کے ہاں کتاب واضح (یعنی لوح محفوظ ) میں صاف صاف لکھی ہوئی موجود ہیں ‘‘۔

تو اس میں کیا اشکال ہے؟ بے شک ایسا ہی ہے لیکن وہ قادر مطلق کسی کے ارادہ و اختیار کو تو انسان سے منفک نہیں کر لیتا جو اس پر طعن کیا جائے۔

علماء منافق الرائے ہیں کہ اگر علم کی وسعت میں ہو تاکہ وہ اسرار حیا ت اور اس کے طریقے بیا کر سکے تو وہ اس معاملہ میں کبھی سکونت اختیار نہ کرتا۔ وہ تمام افراد اور قوموں کی فرد عمل کا ایک ایک حرف دہرا دیتا جس طرح ماہر انجم اپنے علم کے زور سے چاند اور سورج میں آنے والے گرہن کی گرہیں کھول کر بتا یتا ہے۔ ایمان باللہ کے معنی یہی ہیں کہ ذات علام الغیوب پر ہم اس جہت سے بھی ایمان رکھتے ہیں  کہ وہ دنیا جہاں کے ہر آنے والے حادثہ کو اس کے وقوع سے قبل اسی انداز سے جانتا ہے جس طرح وہ ظہور میں آنے کو ہے۔ جس طرح ایک کامل مہندس کسی عمارت کا نقشہ متعین کرتا ہے تو یہ بھی بتا دیتا ہے کہ یہ محل کتنی مدت تک سلامت رہنے کے بعد خود بخو د ڈھے جائے گا اور جس طرح اقتصادیات کا ماہر آنے والے اقتصادی مد و جزر پر قبل از وقت اپنی رائے قائم کر دیتا ہے۔ خالق کائنات کے علم کو اپنی ہر چھوٹی بڑی مخلوق کے متعلق قاصر سمجھنا ایسی ہی بے انصافی ہے جس سے علم و فرہنگ دونوں بیزار ہیں۔ خدا کے علم میں یہ امر تقدیر کے منافی نہیں کہ انسان اپنے معاملات پر خود بھی غور و خوض کرتا رہے اور جہاں تک اس کی وسعت ہے اس راہ میں اپنی کوشش جاری رکھے اپنی وسعت کے مطابق صحیح راہ پر گام زن ہو اگرچہ خدا نے اپنی ذات کو

کتب ربکم علی نفسہ الرحمۃ ؎۱ (۶:۵۴)

رحمت کا مصدر بنا رکھا ہے۔

۱؎  اس نے (از خود لوگوں پر) مہربانی کرنے کو اپنے اوپر لازم کر لیا ہے۔

جو شخص اپنے گناہوں پر ندامت کا اظہار کرتا ہے

ہو الذی یقبل التوبۃ عن عبادہ ؎۱ (۴۲:۲۵)

اس کو توبہ قبو ل کر لیتا ہے اور اپنے بندوں کے بہت سے گناہ معاف فرما دیتا ہے۔

ویعفوا عن کثیر ؎۲(۴۲:۳۰)

انسان کا یہ فرض ہے کہ کائنات پر غور و تدبر نے غفلت نہ برتے اور اپنی نیک کے معاوضہ سے مایوس نہ ہو۔ افسوس ہے کہ ایسے شخص پر جو اپنی منزلت سے بے خبر رہ کر حقیقت کی تلاش میں اور ہدایات کے حصول سے کنارہ کش ہو رہے۔ ایسے لوگ خدا کی رحمت کو در خور اعتنا نہ سمجھ کراس کی ذات سے دشمنی کرتے ہیں۔ پھر اگر خدا نے ان کے دلوں پر ضلالت کی مہر

ختم اللہ علی قلوبھم ؎۳ (۲:۶)

لگا کر انہیں جہنم کا ایندھن بنا دیا ہے

ولھم عذاب عظیم ؎۴ (۲:۷)

تو اس میں کون سی بے انصافی ہو گئی!

الہی! یہ (مستشرقین) قرآن کے نظریہ وسعت و ہمہ گیری پر کیوں انصاف نہیں کرتے؟ قرآنی نظریہ تقدیر نہ تو کاہلی کا محرک ہے نہ انسان کو جدوجہد سے منع کرتا ہے اور نہ اسے خدا کی رحمت سے مایوس ہو کر گھر میں پاؤ ں توڑ کر بیٹھ رہنے ی طرف اشارہ کرتا ہے۔ بلکہ جو لوگ اپنی کسی لغزش سے نادم ہو کر خدا کی رحمت اور لطف کے خواستگار ہوں تقدیر ان کی یوں دست گیری کرتی ہے کہ ایسے لوگوں کے لیے خدا کی رحمت کا دروازہ بند ہو جاتا ہے لیکن مستشرقین ا یہ انصاف ہے کہ تقدیر کے اثر سے مسلمان نیک و بد کی فکرسے خالی الذہن ہو کر خود کو اس کے حوالے کر دیتا ہے جس کی وجہ سے وہ صدیوں سے ذلت سے دوچار ہے! مگر یہ افترا حقیقت سے دور ہے۔ قرآنی تقدیر انسان کو مسلسل کوشش اور خدا کی رضا طلبی دونوں پر متوجہ رہنے کی دعوت دیتی ہے کہ انسان خدا پر توکل رکھنے کے ساتھ ساتھ اپنے معاملات کی انجام دہی میں اس انداز سے جدوجہد کرے کہ جس مہم میں اسے آج ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ہے کہ اس کے لیے از سر نوسعی جاری کر دے۔ اگر اپنی کوشش سے ہاتھ نہ روکے گا تو خداوند عالم اس کی دست گیری فرما کر اس کے کام کی سر انجام دہی میں مدد فرمائے گا۔

جب اسلامی تقدیر کایہ تصور ہو تو سعی و جدوجہد کے ساتھ اس کی رضا و عفو کی امید رکھنا تقدیر کا وہ استعمال ہے کہ جو اسلام کے یہ مہربان متعین کرنا چاہتے ہیں ؟ آخر ہم اسی ذات کبریا کی عبادت اور اسی سے استعانت کرتے ہیں (م)

اشارہ آیہ:

ایاک نعبد وایاک نستعین (۱:۴)

کی طرف اور ہر شے کا وہی ماوی و ملجا ہے۔

اس کے ماسوا اور کون سی قوت ہو سکتی ہے کہ جو انسان کو ایسی برتری کی تعلیم دے! امید کا اس سے زیادہ روشن افق کون سا ہے کہ جو انسان کے سامنے اس طرح ہویدا ہو کہ اگر تم خدا کی رضا جوئی کے پیش نظر نیکی میں سبقت کرو گے تو اپنی محنت کا حسب خواہش ثمرہ پاؤ گے؟ اور اگر شیطان کے گھراؤ میں آ کر تمہاری سوجھ بوجھ پر حرص و آز کے پردے پڑ جائیں تو پھر صراط مستقیم پر آ جاؤ تو خداوند عالم تمہاری توبہ قبول فرما لے گا۔

۱؎  اور وہی تو ہے جو اپنے بندوں کی توبہ قبول فر ماتا ہے۔

۲؎  اور خدا (تمہارے ) دست سے بے قصوروں سے درگزر کرتا ہے۔

۳؎  خدا نے ان کے دلو ں پر اپنی دشمنی کی مہر لگا دی۔

۴ ؎  ان کے لیے سب سے بڑا عذاب ہے۔

اور صراط مستقیم خدا کا وہ قانون ہے جو کائنات پر جاری و ساری ہے مگر عقل و فرزانگی کے ساتھ اس پر دسترس ناممکن ہے۔ جو شخص ان حقائق کو نظر انداز کر کے کسی اور طاقت کو خدا کا شریک سمجھ لے تو یہ بھی شرک ہے۔ کہ انسان فنہ پردازی کو اپنی کامیابی تصور کر کے طغیان و سرکشی میں منہمک ہو جائے اور دوسروں سے برادری اور اخوت کا رشتہ پارہ پارہ کر کے صرف ذاتی بھلائی کی تکمیل میں لگ جائے۔ ایسا شخص خدا کا عدل اور رحمت دونوں پر مشتمل ہے کہ بد کرداروں کے لیے اس کی تعزیر کا تازیانہ ہر وقت حرکت میں ہے اور برے اعمال کی سزا ملنا ہی چاہیے ولیکن۔

۱۔  موت جو اس کی گھات میں لگ ی ہوئی ہے جوں ہی وہ گھڑی آ جائے ایک لمحہ کا تقدم و تاخر نہ ہونے پائے گا پھر زندگی کے لیے تک و دو کی کیا مجال ہے؟

۲۔  اور اسی طرح جب بد بختی اور سعادت ازل سے انسان پر مسلط ہو کہ سعید اور شقی دونوں کا نصیب ا لواح محفوظ میں مسطور ہے تو اس صورت میں بھی زندگی کے لیے جدوجہد بے سود؟ اس کا جواب!

 

اسلامی نظریہ تقدیر پر اعتراض

مسئلہ تقدیر پر مستشرقین کے یہ دو اعتراضات اور ہیں جن کا جواب پہلے بھی دیا جا چکا ہے جس کے بعد عمداً تکرار مد نظر ہے تاکہ موت کے اسلامی نقطہ نظر سے مقدر ہون کا تذکرہ بھی آ ہی جائے۔

حقیقت یہ ہے کہ غیر متبدل صرف ایک شے ہے اور یہ نظام کائنات کا وہ قانون ہے جو تخلیق عالم سے بھی پہلے مقرر تھا۔

کتب ربکم علی نفسہ الرحمۃ (۶:۵۴)

’’تمہارے پروردگار نے بندوں پر مہربانی کرنا(از خود) اپنے اوپر لازم کر لیا ہے‘‘۔

اور رحمت ذات باری تعالیٰ کی ایسی صفت ہے جو ایک حیثیت کے مطابق اس کے قانون ہی کی ایک شق ہے نہ یہ کہ خدا نے اسے (رحمت کو) واجب قرار دے دیا ہے ذات کبریا پر کسی امر کا وجوب لازم نہیں !

وما کنا معذبین حتی نبعث رسولا(۱۷:۱۵)

’’اور جب تک ہم رسول بھیج کر تمام حجت نہ کر لیں (کسی کو اس کے) گناہ کی سزا نہیں دیا کرتے‘‘۔

اس (آیت) کے یہ معنی ہیں کہ جس قوم کی طرف رسول نہ آئے وہ قو ضلالت ہی میں ڈوبی رہے۔ گو خدا کا قانون ہے کہ ایسی قوم کو ا س کی ضلالت کے عوض میں عذاب سے دوچار نہ ہونے دے۔ لیکن جو شخص خدائے ہر دو سرا کو مانتا اور  اسے ایک خالق ارض و سما تسلیم کرتا ہے کہ اسے یہ بھی اعتراف ہے کہ اس نے اپنی مخلوق پر اپنے قوانین عائد فرمائے ہیں اور وہ شخص ان (قوانین ) کے نتائج و عواقب سے بھی باخبر ہے۔ پس اس حیثیت کے مطابق خداوند عالم جب کسی قوم کی طرف اپنا رسول بھیجتا ہے تو اس کا قانون تخلیق اور مشیت تقاضا کرتے ہیں کہ جاب بھی جو شخص ضلالت کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑے وہ اپنے نفس پر خود ظلم کرتا ہے۔ تب وہ (خدا) ایسے شخص کو دوسروں کی عبرت کے لیے تماشا بنا دیتا ہے۔

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سلامی عقیدہ کے مطابق جو شخص جرم (گناہ) کرتا ہے اس نے اپنے اوپر خود ظلم کیا ہے اسے سزا دی جائے گی۔ لیکن دوسری طرف یہ قصور اس کی تقدیر میں بھی ہے۔ ایسا عقیدہ محض سادہ لوحی ہے ہم کہتے ہیں کہ یہ عقیدہ ہماری سادہ لوحی نہیں بلکہ صرف معترض کا ایسا تصور کر لینا ہے حقیقت سے چشم پوشی اور خدا کی نعمت پر نشکری ہے۔ اس لے کہ ادنیٰ ترین انصاف یہ ہے کہ مجرم خود ارتکاب میں قصور وار ہے اور خدا اس کی سزا دہی پر ظلم نہیں کرتا۔ اس کی مثال میں یہ کافی ہو گا کہ مثلاً باپ بچے کو آگ کے قریب لے جاتا ہے گر جونہی بچہ آگ کو پکڑنے کے لیے ہاتھ بڑھاتا ہے تو وہ اسے پیچھے کھینچ لیتا ہے۔ مبادا س کا ہاتھ جل جائے باپ کا مقصد بچے کے ذہن میں آگ کی مضرت پیدا کرنا ہے جس کے لیے وہ بار بار اسے آگ کے قریب ے جاتا ہے۔ اب اگر بچہ لپک کر انگارے پر ہاتھ ڈال بیٹھے تو یا باپ کی گود میں ہمک کر آگ میں کود پڑے تو باپ کو قصور وار نہیں گردانا جا سکتا۔ کہ اس نے اپنے لخت جگر کو آگ میں جھونک دیا یہ تو بیچ کا اپنا قصور ہے۔ یہی مثال ایسے باپ پر بھی دی جا سکتی ہے جو اپنے فرزند کو شراب و جوئے کے نقصانات سے متنبہ کرتا ہے۔ لیکن صاحبزادہ بالغ ہوتے ہی شراب نوشی اور جوئے میں لگ جائے تو باپ ملامت کاسزاوار نہیں۔ کیونکہ وہ تو اس فرزند کو جوئے اور شراب کے مضمرات سے ہمیشہ متنبہ کرتا رہا۔ ا ب اگر صاحبزادے اپنے کیفر کردار کر پہنچ رہے ہیں اور باپ ان کی مخلصی کے لیے کوشش نہیں کرتا تو اسے ظالم نہیں سمجھا جا سکتا۔ باوجودیکہ (وہ باپ) اسے (فرزند کو) نجات دلا سکتا ہے۔ خصوصاً جب کہ ایسے بد اطوار جواری و شرابی کی درگت اس کے دوسرے بھائیوں اور دیکھنے والوں کی عبرت کا سبب بن سکے بلکہ ایسے مجرم کی تعزیر کے وقت زیادہ سے زیادہ لوگوں کو جمع کیا جائے تاکہ ایسے اشخاص کو عبرت حاسل ہو جو بد بخت جواری کی طرح جوئے سیاپنا ہاتھ نہیں روکتے۔ اگر ہو سکے تو یہ وہ نیکی ہو گی جس کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ اس طرح تعزیر کے اس سادہ و عام طریقے سے دنیا و جہاں کے ان گنت افراد کی اصلاح میں کس قدر مدد حاصل ہو سکے گی البتہ وہ باپ جو اپنی اولاد کو یوں نظر انداز کر دے کہ مارا چہ ازیں قصہ جو ان کے مقدر میں ہے، کریں۔ اگر برائی کریں گے تو خود اپنی سزا بھگت لیں گے۔ ایسا باپ اپنی اولاد کے حق میں ظالم ہے اس لیے مثلاً ہم پسو کو اس کو اس کے کاٹنے سے قبل ختم کر دیتے ہیں یا کسی متعدی مرض کے پھیلاؤ سے پہلے اس کا انسداد ضروری سمجھے ہوئے ہیں مبادا یہ بنی آدم کی ہلاکت کا ذریعہ بن جائے یا ایسا پتھر جو شاہ راہ پر یا گھر کے آنگن میں پڑا ہوا ہے۔ ٹھوکر سے بچنے کے لیے اسے وہاں سے ہٹا دیتے ہیں یا ہمارے جسم کا ایک عضو اس حد تک ماؤف ہو چکا ہے کہ جس کی وجہ سے دوسرے اعضاء کے متاثر ہونے کا خطرہ ہے۔ تو اسے قطع کر کے پھنکوا ادیتے ہیں ان چیزوں کو اگر ہم ا ن کے حال پر چھوڑ دیں کہ ہمیں کیا ہماری تقدیر میں جو کچھ لکھا ہے وہ تو پیش آ کر ہی رہے گا۔ مگر ان کی وجہ سے کسی نہ کسی وقت ہمیں تکلیف گھیر سکتی ہے تو یہ ہماری بے سمجھی کا نتیجہ ہے کیونکہ ہمیں خدا ن ان چیزوں کے ضرر سے محفوظ رکھنے کے طریقے بتا رکھے ہیں۔ جس طرح اس نے گناہ گار کے لیے توبہ کا طریقہ واضح کر رکھا ہے۔ اگر بے مایہ شخص یہ گرہ لگائے بیٹھا رہے کہ تقدیر اس پر غالب ہے پھر وہ ان کے ضرر سے دوچار ہو جائے تو اس بے فہم منش کی حماقت مسلم ہے۔ وہ تقدیر کا استعمال غلط انداز سے سوچ رہا ہے۔ اس لیے کہ ہم پسو مارنے پتھر کو ایک طرف ہٹانے اور عضو فاسد کا القط کرنے کا عین عدل سمجھتے ہیں۔ قانون خداوندی ہمارا رہنما ہے کہ پسوکاٹنے سے باز نہیں رہ سکتے اور یہ کہ متعدی امراض انسان کی ہلاکت کا ذریعہ اور عضو فاسد تمام بدن کو متاثر کر کے رہتا ہے۔ لیکن اس کی کوئی وجہ نہیں کہ ہم تقدیر کے بھروسے پر خود کو مصیبت میں محصور کر لیں اور ان مضرات کے خلاف اپنی قوت مدافعت کو معطل رکھ کر نہ صرف گرد و پیش بلکہ دوسروں کی زحمت کا ذریعہ قرار پائیں۔ کیا یہ عقیدہ اور عمل ہماری سادہ لوحی اور تن پروری یا کوتاہ اندیشی پر مبنی ہے؟

کائنات کے مقابلہ میں پسو سنگ گراں حتیٰ کہ انسان کی بساط ہی کیا ہے بلکہ نفس انسانیت بھی اس (کائنات) کے سامنے کوئی حقیقت نہیں رکھتا جس کائنات کی پہنائی کی ابتدا اور انتہا دونوں کا پتا نہیں چلتا۔ ہمارا تصور جس میں ہم اسے محصور کرنا چاہتے ہیں اور اس کی دوڑ زمان سے لے کر مکان تک اور ازل سے لے کر ابد تک آ کر ختم ہو تی ہے کائنات کی تعریف میں ہمارے الفاظ گنگ اور تشبیہات بے مایہ ہو کر اپنا منہ چھپا لیتی ہیں۔ ہماری اس بے بسی کی دلیل ہمارے اس علم کی قلت ہے تاہم اس تقلیل علم کے باوجود ہماری عقل رہبری کرتی ہے کہ خدا کا وہ قانون جو کائنات پر جاری و ساری ہے۔ عین عدل ہے اس میں تغیر و تبدل کی گنجائش نہیں۔ اگر ہم خود کو اس قانون کے تابع رکھیں گے تو خدا نے ہماری چشم و گوش اور دل میں دیکھنے سننے اور سمجھنے کی جوجو خوبی ودیعت فرمائی ہے اس کے واسطے سے ہم کائنات کی صنعت اور اس کے اسرار کا احاطہ کر کے ذات صانع کو پہچان سکتے ہیں اور ا س کے حکموں کی تعمیل میں نیک کاموں کے لیے خو د کو آمادہ کر سکتے ہیں اور جب عمل نیک ایمان کی بنیادوں پر مبنی ہو تو (عمل) خرد مند کے نزدیک خدا کی عبادت کا بہترین مظہر ہے۔

 

موت

جو نام ہے زندگی کے ایک مرحلہ کے اختتام اور اسی کی دوسری منزل کے آغاز کا جس کے نام سے ا ن لوگوں کے بدن پر تھرتھری ابھر آتی ہے جن کے جیب و داماں حسن عمل سے خالی ہیں۔ یہ لوگ اپنی بداعمالیوں کے نتائج سے گھبرا کر موت سے ڈرتے ہیں۔ مومنین جنہوں نے سن کردارسے دنیا کی زینت میں چار چاند لگا دیے ہیں موت کا خندہ پیشانی سے استقبال کرتے ہیں خداوند عالم فرماتا ہے :

(۱)  الذی خلق الموت والحیاۃ لیبلوکم کم ایکم احسن عملا وھو العزیز الغفور (۶۷:۲)

’’جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تم لوگوں کو آزمائے کہ تم میں کون اچھے عمل کرتا ہے اور وہ زبردست اور بخشنے والا ہے‘‘۔

اور اپنے نبی سے مخاطب ہو کر فرمایا:

(۲)  وما جعلنا لبشرمن قبلک الخلد ا افائن مت فھم الخالدون کل نفس ذائقہ الموت ونبلوکم بالشر و الخیر فتنہ والینا ترجعون (۲۱:۳۴:۳۵)

’’اور (اے پیغمبرؐ) ہم نے تم سے پہلے کسی بشر کے لیے ہمیشگی نہیں رکھی پس اگر تم مر جاؤ گے تو کیا یہ لوگ ہمیشہ رہنے والے ہیں۔ ہر ایک جاندار (ایک نہ دن) موت (کا مزہ)چکھنے والا ہے اور (لوگو!) ہم تم کو بری اور بھلی حالتوں میں (رکھ کر )آزماتے ہیں اور(آخر کار) تم (سب) کو ہماری طرف لوٹ کر آنا ہے‘‘۔

(۳)   مثل الذین حملوا التوراۃ ثم لم یحملوھا کمثل الحمار یحمل اسفارا بئس مثل القوم الذین کذبوا بایت اللہ واللہ لا یھدی القوم الظالمین (۶۲:۵)

’’ جن لوگوں کے (سر) پر تورات (حکماً) لادی گئی۔ پھر انہوں نے اس کو انگیز نہ کیا (یعنی اس پر کاربند نہ ہوئے) ان کی مثال گدھے کی مثال ہے جس پر کتابیں لدی ہیں۔ جو لوگ خدا کی آیتوں کو جھٹلایا کرتے ہیں ان کی (بھی کیاہی) بری کہاوت ہے اور اللہ بے انصاف لوگوں کو ہدایت نہیں دیا کرتا‘‘۔

(۴)  قل یا یھا الذین ھادوا ان زعمتم انکم اولیاء للہ من دون الناس فتمنوا الموت ان کنتم صادقین ولا یتمنونہ ابدا بما قدمت ایدیھم واللہ علیم بالظالمین (۶۲:۶ تا ۷)

’’(اے پیغمبرؐ ان یہودیوں سے ) کہو کہ اے یہود! اگر تم کو اس بات کا گھمنڈ ہے کہ اور تمام آدمیوں کو چھوڑ کر تم ہی خدا کے چہیتے ہو (اور اپنے اس دعویٰ میں ) سچے (بھی) ہو تو موت کی تمنا کرو۔ مگر یہ لوگ ان (اعمال بد) کے ڈر سے جن کے مرتکب ہو چکے ہیں کبھی موت کی تمنا کرنے والے نہیں اور اللہ بے انصاف لوگوں کو خوب جانتا ہے‘‘۔

اور

(۵) وھو الذی یتوفاکم بالیل ویعلم ما جرحتم بالنھار ثم یبعثکم فیہ لیقضی اجل مسمی ثم الیہ مرجعکم ثم ینبئکم بما کنتم تعملون (۶:۶۰)

’’اور (لوگو) وہی (قادر مطلق )ٌ ہے جو رات کے وقت (نیند میں ایک طرح پر تمہاری روحیں قبض کر لیتا ہے اور کچھ تم نے دن میں کیا تھا (وہ اس کو بھی )جانتا ہے۔ پھر دن کے وقت تم کو اکٹھا کھڑا کرتا ہے تاکہ (رات دن کی آمد و شد سے وہ ) میعاد جو (حیات جو اس کے علم میں ) مقرر ہے (ایک دن ) پوری ہو۔ پھر (آخر کار) اسی کی طرف (سب) کو لوٹ کر جانا ہے پھر (اس وقت) جو کچھ ت (دنیا میں ) کرتے رہے ہو وہ تم کو (اس کا برا بھلا) بتا دے گا‘‘۔

متذکرہ الصدر آیات کس شدت کیساتھ تقدیر محض پر قانع رہ کر بے عمل زندگی سے روک رہی  ہیں ان ہر پانچ آیات میں سے پہلی آیت سے یہ مفہوم متبادر ہوتا ہے کہ موت و زیست دونوں کا خالق خدائے برتر ہے، جو زندگی کے اعمال پر بھی نگراں ہے، کہ دنیا میں رہ کے کس شخص نے نیکی کی راہ یں کیا قدم اٹھایا یعنی زندگی محبت و عمل ہے اور آخرت ان اعمال کے لیے یوم جزا ہے کہ اگر انسان نے زندگی میں کوئی بھلا کام کیا ہے تو جس میں بحکم آیہ

ھو الذی جعل لکم الارض ذلولا فامشوا فی منا کبھا وکلو من رزقہ والیہ النشور ؎۱ (۶۷:۱۵)

اس رزق میں جو خدا نے اس کے لیے چاروں طرف پھیلا رکھا ہے جس سے وہ مستفید ہے کیا اس نے دوسروں کی ضروریات کو بھی پوار کیا ہے بمصداق

ویوثرون علی انفسھم ولو کان بھم خصاصۃ ؎۲ (۵۹:۹)

۱؎  لوگو! وہی (خدا تو ہے) جس نے زمین کو تمہارے لیے نرم (ہموار ) کر دیا ہے تاکہ اس کے اطراف و جوانب میں جدھر چاہو چلو پھرو اور (نیز) خدا کی دی ہوئی روزی جو زمین سے پیدا ہوتی ہے مزے سے کھاؤ پیو اور (آخر کار) قیامت کے دن دوبارہ جی (اٹھ ) کر دوبارہ اسی کی طرف پھر چلنا ہے۔

۲؎  اور اپنے اوپر تنگی کیوں نہ ہو( مہاجری بھائیو ں کو) اپنے سے مقدم رکھتے ہیں۔

اگر اس  میں غفلت سے کام لیا ہے تو وہ خدا کے نزدیک مجرم ہے ، لیکن دوسرا شخص جس نے ہر نیک کام کے لیے سبقت لی اس کا یہ حسن عمل خدا کے نزدیک مقبول اور آخرت میں اس کی بہتر جزا اس کے لیے یقینی ہے خداوند عالم دنیا میں اپنے بندوں کے اعمال خیر و شر کی نگرانی کرتا ہے اس نے ہمیں نیکی اور بدی میں امتیاز کی قوت کے لیے عقل و دانش عنایت فرما دی ہے۔

فمن یعمل مثقال ذرۃ خیر ا یرہ ومن یعمل مثقال ذرہ شرایرہ ؎۱ (۹۹:۷::۸)

بے شک ہمارے مقدر سے زیادہ ہمیں کچھ نہیں مل سکتا۔ لیکن اس میں بجائے خود ہمارے لیے حسنات کی ترغیب ہے کہ اگر خدا ہمیں زندگی کی جدوجہد کے دورا ن میں دنیا سے اٹھا لے اور یہ حادثہ ہماری جوانی کے عالم میں رونما ہویا ہمیں ا س ارذل عمر تک زندہ رہنے دے جس میں سوجھ بوجھ اور قوت عمل اک ایک جواب دے کر یک طرف ہو جاتے ہیں۔ ہارے لیے دونوں حالتیں برابر ہیں۔ زندگی سال اور مہینوں سے تعبیر نہیں بلکہ زندگی عام ہے اعمال نیک اور باقیات صالحات کا! جو لوگ نیک اعمال کرتے ہوئے دنیا سے گزر جاتے ہیں جو خدا کے ہاں زندہ ہیں اور یہ اعمال دنیا میں بھی ان کے لیے حیات و جاوید کا وسیلہ بنے رہتی ہیں اور ان لوگوں کے نام جریدہ عالم پر ہمیشہ ثبت رہتے  ہیں۔ انہیں دنیا سے منہ موڑے صدیاں گزر گئیں۔ ان کے کارناموں کی وجہ سے ابھی تک ان کی یاد زندہ ہے۔

تفسیر آیہ

فاذا جاء اجلھم لا یستاخرون ساعۃ ولا یستقدمون ؎۲(۷:۳۴)

بے شک موت کی گھڑی لمحہ بھر کے لیے آگے یا پیچھے نہیں ہو سکتی جس کی موافقت میں نظام عالم بھی کہہ رہا ہے کہ دنیا میں ہر انسان کی اجل کا وقت مقرر ہے اور اس کے تسلیم کر لینے میں کوئی دشواری بھی نہیں آخر کسوف شمس و خسف ماہتاب کے لمحے بھی تو انسانی موت ہی کی مانند موقت سمجھے جاتے ہیں جن میں لمحہ بھر کا تقدم و تاخر ناممکن ہے۔

انسان کی اجل کے موقت ہوے اور اس سے وہ ساعت پوشیدہ رکھنے کا مقصد یہ ہے کہ انسان دنیا میں نیکی کے لیے زیادہ سے زیادہ کوشش کرسکے۔ کیونکہ اس گھڑی سے بے خبر جب موت کا فرشتہ اچانک آ کر اس کی روح پر قابض ہو جائے گا جس کے بعد اس کے لیے نیک اعمال کے سوا کوئی اور توشہ نہ ہو گا۔

ہم شب و روز موت کی ستم ظریفی دیکھ رہے ہیں۔ کسی کو وہ ایک لمحہ علالت کے بغیر دفعتہً جھپٹ لیتی ہے دوسرا دائم المرض ہے جو بیماری سے نجات حاصل کرنے کے لیے ہر وقت ہاتھ پیر مار رہا ہے اور بستر علالت ہی پر بڑھاپے کی منزل میں جا پہنچتا ہے اور موت اسے نچوڑ نچوڑ کر اپنا آخری رنگ دکھاتی ہے۔

 

موت کا جرثومہ جسم انسانی میں مضمر ہے

طبی تحقیقات سے انکشاف کیا ہے کہ انسان کی ولادت کے ساتھ ہی اس کے وجود میں موت کا جرثومہ بھی مادر رحم ہی سے توام پذیر ہوتا ہے جو ایک معین مدت پر پہنچ کر انسان کی زندگی ختم کرنے کا ذریعہ بن جاتا ہے(اگر کوشش کی جائے تو دوسرے جراثیم کی طرح ا س کی مزید دریافت بھی ممکن ہے اگرچہ آسان نہیں )۔

۱؎  جس نے ذرہ بھر نیکی کی ہو گی وہ اس (نیکی) کو بچشم خود دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ بھر برائی کی ہو گی وہ اس (برائی ) جو بچشم خود دیکھ لے گا۔

۲؎  اور پھر جب ان کا وقت آ پہنچتا ہے تو اس نے ایک گھڑی پیچھے رہ سکتے ہیں اورنہ ایک گھڑی آگے بڑھ سکتے ہیں۔

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ موت کا یہ جرثومہ یا تو مادی شکل میں انسان کے اعضائے رئیسہ یا بدن کے کسی اور عضو میں چھپا پڑا ہے۔ یا غیر مادی حالت میں دماغ کے کسی کونے میں لگا ہوا ہے اور جو دماغ کو انسان کی معینہ موت کے وقت سے پہلے اسے دوسروں پر حملہ یا خود پر حملہ کی مدافعت کے لیے مشتعل کر کے اس کی مو ت کا محرک بن جاتا ہے۔

تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ خداوند خدا جس کا علم ذرے ذرے کو اپنے احاطہ میں لیے ہوئے ہے اور جس کے مقرر کردہ نظام عالم میں کسی تغیر و تبدل کا امکان نہیں وہ ذات کبریا ہر انسان کی مو ت کے لمحوں سے بھی آگاہ ہے۔

پروردگار عالم کا کتنا احسان ہے کہ جب تک وہ کسی قوم کی طرف رسول نہ بھیجے جو انہیں نیکی اور ہدایت کی تلقین کرے اس وقت تک کسی قوم کو اس کے گناہوں پر عذاب سے دوچار نہیں کرتا اگر ایسا ہوتا تو نسان ہی کیا دنیا میں ہر ذی روح موجب سزا قرار پاتا۔

ولویوا خذ اللہ الناس بظلمھم ما ترک علیھا من دابۃ ولکن یوخرھم الی اجل مسمی فاذا جاء اجلھم لا یستاخرون ساعۃ ولا یستقدمون (۱۶:۶۱)

’’اور اگر خدا بندوں کو ان کی نافرمانیوں کی وجہ سے پکڑتا ہے تو روئے زمین پر کسی متنفس کو باقی نہ چھوڑتا مگر وہ ایک مقرر(یعنی موت) تک ان کو مہلت دیتا ہے پھر جب ان کا (وہ ) وقت آن پہنچتا ہے تو (اس سے) نہ ایک گھڑی پیچھے رہ سکتے ہیں اور نہ آگے بڑھ سکتے ہیں ‘‘۔

اور اس نے رسولوں سے بار بار تاکید فرمائی کہ اپنی امت کو سمجھا دیں۔

وذر الذین اتخذوا دینھم لعبا ولھوا و غرتھم الحیوۃ الدنیا وذکربہ (۶:۷۰)

’’اور جنہوں نے اپنے دین کو کھیل اور تماشا بنا لیا ہے اور دنیا کی زندگی نے انہیں دھوکا میں ڈال رکھا ہے تو ایسے لوگوں کا (انہی کے حال پر) چھوڑ دو اور (موقع پاکر) قرآن کے ذریعے سے (ان کو) سمجھاتے رہو‘‘۔

 

انبیائے کرام علیہم السلام اکا بر و دول کے خاندان میں پیدا نہیں ہوتے

نہ تو خدا نے کسی پیغمبر کو بادشاہ کے خاندان میں پیدا کیا نہ کسی دولت مند یا صاحب جاہ و منصب اور خانوادہ علم و فضل سے مبعوث فرمایا۔ ہر نبی طبقہ جمہور میں ظہور فرما ہوا۔ جناب ابراہیمؑ اور ان کے والد دونوں نجار تھے۔ حضرت عیسیٰؑ اپنے مولد ناصرہ کے نجار خاندان سے ظہور فرما ہوئے۔ کئی انبیاء بکریاں پالتے تھے۔ خاتم الرسل صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا بھی یہی معمول رہا۔

نبی کے جمہور میں سے مبعوث ہونے میں یہ مصلحت ہے کہ جمہور دوسرے اوصاف کی طرح حقیقت کو اس خوش نصیب کی ملکیت سمجھیں جو خود اسے خدا کی رضا طلبی کے لیے استعمال کرے اور دوسروں کے لیے بھی اسے یوں عام کر دے کہ انسان جو کچھ اپنے لیے پسند کرتا ہے وہی دوسروں کے لیے پسند کرے۔ (حدیث نبوی)

یحب لا خیہ ما یحب لنفسہ

اور سمجھ لیا جائے کہ اس کے بغیر ایمان کی تکمیل نہیں ہو سکتی۔ حقیقت کے دوسرے معنی یہ ہیں کہ انسان کا شرف و احترام اس کے حسب و نسب کی بجائے اعمال صالحہ کی بدولت ہے

ان اکرمکم عنداللہ اتقاکم (۴۹:۱۳)

کے مطابق۔

وقل اعملو افسیری اللہ عملکم (۹:۱۰۵)

’’اور اے پیغمبر (ا ن کو ) سمجھا دو کہ تم اپنی جگہ عمل کرتے رہو۔ سو ابھی تو اللہ تمہارے عملوں کو دیکھے گا‘‘۔

اور

قل تجزون الا بما کنتم تکسبون (۱۰:۵۲)

یہ جو تمہیں سزا دی جا رہی ہے تمہارے اپنے ہی کرتوت کا بدلہ ہے (اور بس)۔

خیال رہے کہ توحید باری تعالیٰ حقیقت کبریٰ کا ہی نام ہے۔

موت کا نام ہے زندگی کے ایک مرحلہ کے اختتام اور دوسرے کے آغاز کا

جیسا کہ اوپر بیان ہو چکا ہے کہ ’’موت نام ہے زندگی کے ایک مرحلہ کے اختتام اور اس کی دوسری منزل کے آغاز کا‘‘ بے شک ہم زندگی کے ایک دور سے گزر ے ہیں بایں ہمہ اس (زندگی) کے کاروبار سے اسی حد تک واقفیت ہے جہاں تک ہماری حس و عقل اور شعور ہماری رہنمائی کر سکتے ہیں۔

لیکن آخرت کی زندگی کا معاملہ اس (زندگی) سے کہیں مختلف ہے۔ اس کے متعلق خدا نے ہمیں جس قدر بتایا اس سے زیادہ نہیں جان سکتے کیونکہ اس جہاں کی کیفیت ہم سے نہاں اور خدائے برتر پر آشکار ہے۔ ہمارے لیے اتنا ہی کافی ہے جو اس نے اپنی کتاب میں فرمایا اور ہم اس کے مکلف کہ اس دنیا کے اعمال کی جزا وہاں ملے گی۔ ہمیں خدائے جل و علا پر توکل رکھتے ہوئے اس سے اپنے اعمال کی عادلانہ جزا کی امید پر نیکی میں سبقت کرنا چاہیے اور اس کے سوا دوسرے معاملات ذات کبریا پر چھوڑ دینا چاہئیں۔

 

مستشرقین اور کلیسا کے لیے باعث ندامت

امریکی مستشرق واشنگٹن اور اس کے دوسرے یاران طریقت عام اس سے کہ مسند استشراق  کے مہرے ہوں یا محض کلیسائی مجاور دونوں گروہوں کو اپنی اس غلطی پر نادم ہونا چاہیے کہ انہوں نے اسلامی نظریہ تقدیر کے سر پر کیا کیا منڈھ دیا ہے۔ ہم نے مسئلہ کے سلسلہ میں صرف قرآن ہی پیش کیا ہے س لیے کہ ہمارا مقصد نہ علمائے اسلام اور صوفیا کی توجیہات معرض بحث میں لانا منظور ہے نہ فلاسفہ اسلام کی تنقیحات پیش کرنا۔ واشنگٹن نے تقدیر کی آیات کو غزوہ احد اور حضرت حمزہؓ کی شہادت کو شان نزول بتانے میں کلیسائی مجاوروں کی تحقیق سے بھی زیادہ لغزش کا ارتکاب کیا ہے اس موضوع پر ہم نے جو آیات پیش کی ہیں ان میں سے بعض ہجرت سے قبل مکہ میں نازل ہوئیں جب کہ غزوات کا ذکر اذکار تک وجود میں نہ آیا تھا۔

واشنگٹن ارونگ اور ان کے ہمنوا مسیحی اہل قلم کی اس غلطی کا پس منظر یہ ہے کہ انہوں نے اسلامی نظریہ تقدیر پر تحقیق کی بجائے اسے مسیحی تصورات کے سانچے میں ڈھال لیا ہے تاکہ پڑھنے والوں کو بلا تکلف اپنا ہمنوا کر لیں۔ کاش یہ حضرات اسلامی نظریہ تحقیق کو قرآنی نقطہ نظر سے پرکھنے کی زحمت فرماتے۔ انہیں اندازہ ہو سکتا کہ وہ عقل و شعور کے ساتھ کس حد تک مطابقت رکھتے ہیں اور جس میں ہر زمانہ کے فلاسفہ نے اسی (اسلامی نظریہ تقدیر) کے مطابق اپنے اپنے دور کے لیے اسے قبول کیا ہے۔

اگر مستشرقین منصفانہ طریق پر اسلامی مسئلہ تقدیر کا تجزیہ کر لیں تو انہیں تسلیم کرنا پڑے گا کہ تقدیر اسلامی کا تصور اس قدر ارفع و اعلیٰ ہے کہ زندگی کے ان تمام تصورات کو اپنے دامن میں لیے ہوئے ہے جو مختلف دوروں کے فلاسفہ نے تقدیر کے متعلق قائم کیے اور ان میں ابتدا سے لے کر اب تک کے تمام تصورات کا بتدریج ارتقا ہوتا رہا۔

 

اسلامی نظریہ تقدیر اور اس کے علمی تجزیہ میں تطبیق

اگر مستشرقین اسلامی جبریت کے راز کو پا لیتے ہیں تو انہیں معلوم ہو جاتا کہ یہ مصدر کتنا اونچا ہے کتنا گہرا ہے اور کس درجہ زندگی کے ان تقاضوں کے عین مطابق ہے تقدیر کے اس تصور کو ان تمام فلسفی و عقلی کوششوں کا نچوڑ قرار دینا چاہے جو اس سلسلہ میں بروئے کار آتی ہیں۔ یہ تصور اپنی ہیئت و ترتیب کے اعتبار سے بالکل انوکھا ہی نہیں بلکہ دراصل اسے ایک طرح کا امتزاج کہنا چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ نہ تو ایجابیت پسندوں کی علمی جبریت سے متصادم ہے اور نہ شوپنہار کے اس نظریہ سے بر سر پیکار ہے کہ یہ عالم محض ارادوں کی کارفرمائیوں کا کرشمہ ہے اور نہ برگسان کے ارتقائے پیہم ہی سے اس کا تعلق مخاصمانہ ہے۔ اس کے برعکس ان تمام سچائیوں کو یہ اپنی وسعتوں میں لیے ہوئے ہے۔

اختصاراً چند امور بامید غور و توجہ پیش کرتا ہوں نہ اس لیے کہ مسیحانہ نظریہ تقدیر پر معارضہ مد نظر ہے۔ بارہا اعادہ کیا جا چکا ہے کہ اسلام حضرت مسیحؑ کے مبادی تعلیم کو بھی اسی طرح تسلیم کرتا ہے جس طرح دوسرے انبیائے سابقین علیہم السلام یعنی جناب ابراہیمؑ اور حضرت موسیٰ وغیرہ کی تعلیم کو جیسا کہ خود جناب مسیحؑ  نے انجیل میں فرمایا کہ یہ نہ سمجھو کہ تورات یا نبیوں کی کتابوں کو منسوخ کرنے آیا ہوں منسوخ کرنے نہیں آیا بلکہ پورا کرنے آیا ہوں۔

 

اسلام کا مقصد انبیائے سابقین علیہم السلام کی تعلیم کو مکمل کرنا ہے

اسلام کا مقصد انبیائے سابقین کی تعلیم کو مکمل کرنا ہے مگر ان کے شارحین کی تحریف میں صحیح کے ساتھ اس یے میں اس نظریہ کی جو تعبیر قرآن کی روشنی میں کرنے کو ہوں اس بارے میں پہلے اہل علم بھی میرے شریک ہیں۔ البتہ اسلوب بیان میں فرق ہو گا۔ پس اگر توفیق نے یاوری کی اور میں اس مقصد میں کامیاب ہو گیا تو یہ خداوند عالم کے لطف و کرم سے ہو گا۔ جن ارباب فکر و دانش کو علم کی نعمت عطا ہوئی ہے ان سے متوقع ہوں کہ لغزش پر میری دست گیری فرما کر اس کے عطا کردہ علم و فضل کا شکریہ ادا کریں گے۔

اس ضمن میں قرآن کے سامنے سب سے پہلے یہ نظریہ مسلم ہے کہ جہاں ایسا مربوط و منظم سلسلہ ہے۔ جس میں کسی تغیر و تبدل کی گنجائش نہیں اور جہاں صرف ا س زمین و آسمان یا ستاروں اور سیاروں ہی میں منحصر نہیں ہے جنہیں ہم نے اپنے گرد و پیش میں دیکھ رہے ہیں ان کے سوا بے شمار محسوسات اور بھی ہیں اور ان کے اسوا بے حساب ایسے غیر محسوس عوالم بھی ہیں جو ہماری حس ادراک سے بالاتر ہیں اور یہ سب کے سب ارض و فلک اور ستاروں کے ساتھ مل کر جہان کی تشکیل کا ذریعہ قرار پائے۔ اگر یہ صحیح ہے تو یہ بھی تسلیم کر لینا چاہیے کہ جہان کے متعلق ہماری معلومات بے حد محدود ہیں مثلاً ایتھر اور کہربائیہ کے بارے میں۔ اول الذکر ہمارے اور ستاروں کے درمیان حائل ہے اور کہربائیہ جس نے ایتھر اور زمین دونوں کے درمیان تلاطم پیدا کر رکھا ہے ان دونوں ایتھر اور کہربائیہ کی وجہ سے آفتاب اور دوسرے ستاروں سے ہمیں جس قدر بعد ہے اس کے باہمی فاصلہ کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا ذات خداوندی کے سوا سی کو اس پر احاطہ ممکن نہیں۔ لیکن ان (اجرام) کے درمیان اس قدر فاصلہ ہونے کے باوجود ہم اس جہان کی نیرنگیوں سے بہت کم آگاہ ہو پاتے ہیں۔ حتیٰ کہ جوں جوں ہماری ان معلومات میں ترقی ہوتی جائے گی ہم اصل حقیقت سے اور دور ہوتے جائیں گے البتہ ہماری معلومات میں ترقی ہوتی جائے گی۔ جس کے مقابلہ میں حقیقت ہمیں نہایت کم زور معلوم ہو گی۔ بایں ہمہ حقیقت کو ہم دوسری چیزوں سے غیر منفک تسلیم کرتے اور اسی کو اپنی ترقی کی بنیاد سمجھتے ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ اسی حقیقت کے پرتو میں ہم زندگی کے قوانین اور جہان کو بھی محسوب کیے ہوئے ہے۔ اگر ہم اس طرح تسلیم کرتے ہوئے اپنے تصور کو دور تک لے جائیں پھر اس پر گفتگو کرنا چاہیں توہ مارے یہ میدان اور بھی محدود ہو جائے گا پس ایک مثال پر اکتفا کیا جاتا ہے۔

 

مریخ میں آبادی کی مثال سے سبق

فرض کیا مریخ میں انسان آباد ہے اور اس کے قبضہ میں لاسلکی(تار برقی) بھی ہے جو اپنی آواز ایک سو ملین میل تک پھینک سکتی ہے جس کے ذریعے مریخ کے باشندے کرہ زمین پر رہنے والوں کو اپنے ہاں کے حوادث ٹیلی وژن کے ذریعے سناتے رہتے ہیں۔ کیا یہ بات ہمارے فہم میں آ سکتی ہے کہ حالانکہ مریخ ان ستاروں سے قریب تک ہے جو زمین سے لاکھوں میل اور دور واقع ہے۔ مجھے عرض کرنا ہے کہ جہان جس کے متعلق ہماری قلت علم کا یہ حال ہے کہ ا س کی مختصر سے مختصر اطلاعات پر بھی ہمیں احاطہ نہ ہو سکے۔ دوسری طرف اس (جہان) کی پنہائی و پذیرائی کا یہ عالم کہ اسی کے تاثرات ہماری زمین اور اس پر بسنے والی مخلوقات میں یوں جاری و ساری ہوں۔ پھر اگر اس جہان کا کوئی اور ایک کرہ ذرا سا پہلو بدل لے تو دنیا کا انجام کیا ہو! انسانی زندگی جو دوسرے دوسرے موجودات کے مقابہ میں ذرہ بے مقدار کے درجے پر ہے اپنی موجودہ صورت سے تحلیل ہو کر کس حالت میں متبدل ہو کر رہ جائے۔ چہ جائے کہ اگر اس زندگی پر کوئی بڑا حادثہ وارد ہو!

 

انسانی اطوار پر خارجی عوامل کے اثرات

ہماری زندگی اپنی اس بے مائیگی کے ساتھ ان خارجی اثرات سے کبھی نیکی کی طرف مائل ہو جاتی ہے اور گاہے نیکی سے دامن سمیٹ کر ایک طرف ہو جاتی ہے۔ ان دونوں حالتوں میں خارجی عوامل ہی موثر نہیں ہوتے بلکہ جس نفس پر یہ عوارض عوامل ہوتے ہیں اس (نفس) کی ذاتی استعداد اور ان تاثرات کا انداز وقوع بھی نیکی کی طرف سبقت یا اس سے دامن سمیٹ لینے دونوں می سے کسی ایک کا ذریعہ بن ہو جاتا ہے۔ بارہا ایسا ہوا کہ ایک حادثہ مختلف لوگوں پر مختلف اثرات ظہور پذیر ہونے کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ ایک فرد اس(حادثہ) کے اثر سے نیکی اور بدی دونوں کے درمیان آہنی فصیل کی شکل میں کھڑا ہو گیا مگر دوسرے اشخاص نے اس کی بجائے اور اثرات قبو کیے یہی وجہ ہے کہ خیر یا شر دونوں میں سے جو بھی رونما ہو نتیجہ ہے عوامل خارجی اور انسانی روح دونوں کی باہمی کیفیت کا امتزاج کے تاثرات کا اور اسی طرح نیکی اور بدی دونوں نتیجہ ہیں قوانین خلقت اور وجود کائنات کے خواص کاجیسا کہ مثبت اور منفی دنوں کہربائیہ کی ایک ہی گرہ میں اکٹھے بندھے پڑے ہیں جس طرح جسد انسانی کی بقا کے لیے جراثیم بھی اس کے بدن میں پل رہے ہیں۔

فی زمانہ کوئی شے نہ مضر ہے نہ مفید۔ اشیا کا نفع و ضرر ان کے استعمال سے مربوط ہے۔ جو چیز ایک موقع پر مہلک ہے وہی دوسرے وقت میں جاں بخش ہے جیسے برق پاش آلات حرب جو لڑائی میں لاکھوں انسانوں کا خون چاٹ کر ہنوز سرگرم ہلاکت ہے جن کی شعلہ آشامی سر بہ فلک محلوں کو چشم زدن میں پیوند خاک کر دیتی ہے۔ دیدہ زیب مناظر ایک جھپٹ سے بھیانک نظر آنے لگتے ہیں مگر یہ آلات حرب جنگ کے بغیر اپنی افادیت کا دامن یوں پھیلائے رکھتے ہیں کہ جن سے انسان دائمی راحت محسوس کرنے لگے۔ بارود اور اسی قسم کی دوسری آتش بار چیزیں نہ ہوتیں تو پہاڑوں کے جگر میں ریل کی پٹڑی کے لیے شگاف ممکن تھا؟ اسی (بارود) کی قوت زمین کے قلب میں سے سونے چاندی ے ذرے اگلوا لیتی ہے اسی کی بدولت کوہ پیکر چٹانیں ایک طرف ہٹا کر وہ گیسیں نکالی جاتی ہیں جو لڑائی کے دوران انسان پر انسانی خون کی پچکاریاں پھینک کر اسے بھسم کر دیتی ہے اور صلح و آشتی کے دور میں یہی گیسیں مفید امور میں معاون کوئی انسانی جان بچانے کے لیے اکثر اور کوئی بعض استعمالی پانی کو مہلک جراثیم سے پاک کرنے میں مددگار جہازوں کے مہلک جراثیم کی ہلاکت میں ہماری ممد، جن میں ایسے خطرناک چوہے بس جاتے ہیں کہ اگر گیس نہ ہوتی تو یہ چوہے جہازوں میں شگاف ڈال کر انہیں سمندر کی تہہ میں پہنچا دیتے۔ اسی طرح ان گیسوں کی بدولت ایک کئی قسم کے جراثیم تباہ کیے جاتے ہیں۔

 

حشرات الارض میں منافع کا پہلو

آج سے پہلے حشرات الارض اور چرند پرند کا وجود محض بے مصرف سمجھا جاتا تھا مگر جدید انکشافات نے جو ں ہی پردہ ہٹایا جن جانوروں کو ہم بے قصور کیے ہوئے تھے ان پر ہماری زندگی کی بقا دیکھنے میں آئی۔ ان جانوروں کے مسئلہ نے بعض ملکوں میں یہاں تک اہمیت حاصل کر لی ہے کہ ایسے جانوروں کی بقا کے لیے چڑی مار اور شکاریوں کو قانوناً پابند کر دیا ہے اور ماہرین حیوانات نے تسلیم کر لیا ہے کہ جب تک ایسے ذی روح انسان کے لیے خطرہ کا سبب نہ ہوں ان کی بقا و حفاظت کا انتظام ضروری ہے۔ ورنہ ایسے جانوروں کی ہلاکت اور بربادی خود انسان کی تباہی کا ذریعہ بن جائے گی۔

 

فعل کا موقع کی اہمیت سے علاقہ

کہنا یہ ہے کہ اس قسم کے ذی روح حیوانات کی مانند انسانی اعمال بھی فی ذاتہ نہ مفید ہیں نہ مضر بلکہ ان کی منفعت و مضرت کا حکم ان کے نتیجہ کے مطابق لگایا جاتا ہے مثلاً ً ازروئے قرآن قتل انسان معصیت بھی ہے اور فعل حرام بھی لیکن یہی قتل ہے جسے فی ذاتہ حق سے تعبیر کیا گیا فرمایا:

ولا تقتلوا النفس التی حرم اللہ الا بالحق (۶:۱۵۱)

’’اور کسی جان کو قتل نہ کرو جسے خدا نے حرام ٹھہرا دیا ہے ہاں یہ کہ کسی حق کی بناپر قتل کرنا پڑے جیسے قصاص میں ‘‘۔

اس سے ثابت ہوا کہ جب کوئی شخص اپنے کسی فعل کی وجہ سے مباح الدم ہو جائے تب اس کا قتل کر دینا حق ہے اسی طرح:

ولم فی القصاص حیوۃ یا ولی الالباب ( ۲:۱۷۹)

’’اور اے ارباب! دانش قصاص کے حکم میں (اگرچہ) بظاہر ایک جان کی ہلاکت کے بعد دوسری جان کی ہلاکت گوارا کر لی گئی ہے لیکن فی الحقیقت یہ ہلاکت نہیں ہے تمہارے لیے زندگی ہے‘‘۔

ہر قسم کا قاتل موقع کی اہمیت سے حق بجانب بھی ہو سکتا ہے

مثلاً جلاد ان ہر دو آیات سے ثابت ہوا کہ:

۱۔ وہ جلاد جو مجرم کو قتل کرتا ہے۔

۲۔  اور وہ شخص جو خود پر حملہ آور کی مدافعت میں اسے موت کے گھاٹ اتار دیتا ہے۔

۳۔  اور وہ سپاہی جو اپنے وطن کی حفاظت میں مقابل کی گردن بھٹے کی طرح اڑا کر پھینک دیتا ہے۔

۴۔  اور وہ مومن جو اپنے دین کی حفاظت کے لیے کفر کو فی النار کر کے خود بچ نکلتا ہے۔ کسی معصیت یا امر محرم نے مرتکب نہیں ہوئے بلکہ انہوں نے خدا کی طرف سے خود پر عائد کردہ حق ادا کیا ہے اور وہ گناہ کی بجائے محسن نیک کردار کے برابر اجر و ثواب کے مستحق قرار پائے ہیں۔

اسی طرح مثلاً ایک شخص اپنے وطن کو وبا سے بچانے کے لے مہلک جراثیم کی ہلاکت کا جوہر دریافت کرتا ہے جو اس وبا کا باعث ہون کو تھے۔ ظاہر ہے کہ ایسے شخص کا مقصد نیک ہے اسی طرح وہ تمام ارباب صنعت و حرفت جو ربع مسکون پر آباد ہیں اگر ان کی ایجاد و سعی مفید کاموں میں صرف ہو تو یہ ان کے اجر و ثواب کا ذریعہ ہو گا اور اگر بنی نوع بشر کی بلاوجہ تباہی کے لیے استعمال ہو تو نتیجہ کچھ اور ہو گا۔

 

قدرتی تقسیم کار

خداوند عالم کا ارادہ اور دنیا میں اس کا قانون(دونوں ) کارفرما ہیں۔ اس کی وجہ سے اس نے بنی نوع انسان پر مختلف قسم کی ذمہ داری تقسیم فرما رکھی ہے۔ جس میں ہر شخص کو اس کے سلیقہ کے مطابق کام کرنے کی استطاعت حاصل ہے ایک طبقہ تعمیرات سے دنیا کو آباد کر رہا ہے دوسرا کھیتی باڑی سے ان کی قوت کا سامان فراہم کرنے میں مشغول ہے۔ کچھ لوگ صنعت و حرفت کے ذریعے ربع مسکون کی رونق بڑھا رہے ہیں بعض حضرات علم و ہنر سے جمہور کی ذہنی تربیت میں مصروف ہیں لیکن جملہ علوم و فنون کے باوجود ان میں سے کوئی طبقہ قانون خداوندی کی تبیین نہیں کر سکتا۔ جس کے لیے اللہ ایک اور طبقہ کو خلعت نبو ت سے ممتاز فرما کر انہیں ابلاغ رسالت پر مامور فرما دیتا ہے۔ اسی طرح ایک گروہ کو علم و حکمت کی دولت حاصل ہونے سے انبیاء علیھم السلام کا ورثہ نصیب ہوتا ہے جو ہمیں کردنی و ناکردنی امور سے آگاہ کرتے ہیں پھر بشر کو فی ذاتہ عقل و تمیز عطا فرمائی گئی ہے۔ جس سے وہ انبیاء کرام اور وارثین علوم نبوت کی تعلیم کے مطابق خود کو ناکامی کی ڈگر سے بچا کر کامیابی کی راہ پر لے جا سکیں گے اور اپنے ساتھ دوسروں کو بھی چلنے کی دعوت دیں اور اس کے بعد جو شخص غیر مناسب امور کا مرتکب ہو کر گناہ سے باز نہ رہ سکا ریاست کا فرض ہے کہ اپنے مروجہ دستور کے مطابق اس پر تعزیر عائد کرنے میں غفلت سے کام نہ لے تاکہ جرائم کی رفتار میں اضافہ نہ ہو لیکن خدا کے حضور گناہ گاروں کے لیے توبہ کا دروازہ ہر وقت کھلا رہتا ہے۔ جو شخص غلطی سے برائی کرنے کے بعد کدا کے سامنے ندامت کا اظہار کرے اور اس کے بعد اپنے آپ کو گناہ سے پاک کرنے کا ارادہ کر لے اس کے لیے یہ گنجائش باقی ہے کہ خداوند عالم اس کا یہ گناہ معاف فرما دے۔ اسلامی نظریہ کے مطابق خدا کی یہ رحمت ہر اس شخص کے لیے ہے کہ جو سچے دل سے گناہ سے سرکشی کا تہیہ کر کے خدا کے سامنے توبہ کر لے تب وہ اس کا گناہ معاف فرما دے گا۔

انہ ہو التواب الرحیم (۲:۳۷)

قرآن کا یہ فلسفہ جسے اس کے بعض مخالف مسائل سے مختلف بتاتے ہیں درحقیقت زندگی کے عین مطابق ہے۔ وہ (فلسفہ قرآنی) ثابت کرتا ہے کہ اشیا کا وجود خداوند عالم کے ارادہ محض کا نتیجہ ہے۔

انما قولنا لشی اذا اردنہ ان نقول لہ کن فیکون (۱۶:۴۰)

’’جب ہم کسی چیز کا ارادہ کرتے ہیں تو بس ہمارا کہنا اس کے بار ے میں اتنا ہی ہوتا کہ ہم اس کو فرما دیتے ہیں اور کہ ہو اور وہ ہو جاتی ہے‘‘۔

ہمارے لیے یہ جہان محسوسات و غیر محسوسات دونوں کا سرچشمہ ہے۔ مگر ان کے قوانین غیر متغیر ہیں جن سے ادراک کے لیے ہم اپنی عقل کے مطابق خود مکلف ہیں اور اس کے اس ادراک و تعقل کی راہ میں پیش آمدہ مسائل کو عقل و فہم ہی کی قوت سے حل کرنے کے ذمہ دار ہیں جس سے بنفسہ ہمارے ادراک و تعقل میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔

(اس) جہان کا قوام خوبی (نیکی) ہے جس سے بدی ہمہ وقت برسر پیکار ہے۔ کبھی وہ نیکی غالب بھی ہو جاتی ہے اور لیکن جب نیکی بدی پر غالب ہو جاتی ہے تو انسان چشم زدن میں ترقی کئی منزلیں طے آگے نکل جاتا ہے جیسا کہ موجودہ زمانہ میں انسان کو بعض امور میں کمال حاصل ہو چکا ہے۔

 

عالم کون و مکاں کو چھ روز میں پیدا کرنا

ہم دیکھ رہے ہیں کہ اسلام کا فلسفیانہ مسلک دوسرے مسالک کے مقابلہ میں حصول مراتب کے لیے کہیں بہتر اور اکمل ہے جو اپنی شرح اس اندا  ز سے کر رہا ہے کہ جس کی تائید قرآن مجید ہی کے فلسفہ تخلیق ارض و فلک سے ہو رہی ہے جس کے مطابق کردگار ہر دوسرا نے زمین و آسمان کو چھ ؎۱ روز میں تخلیق فرمایا اور  اس کے بعد عرش بریں پر مستوی ہو گیا امگر ان دونوں کی مقدار ہماری دنیا کے دنوں سے کوئی نسبت نہیں رکھتی۔

۱؎  بمصداق آیہ ان ربکم اللہ الذی خلق السموات والارض فی ستتہ ایام ثم استوی علی العرش (۷:۵۴) (لوگو) بے شک تمہارا پروردگار وہی تو  ہے جس نے چھ دن میں زمین وا ٓسمان کو پیدا کیا پھر عرش پر جا براجا‘‘۔

وان یوما عند ربک کالف سنتہ مما تعدون (۲۲:۴۷)

’’اور کچھ شک نہیں کہ تمہارے پروردگار کے ہاں تم لوگوں کی گنتی کے مطابق ہزار برس کے برابر (اخیر فیصلے کا) ایک دن ٹھہرا ہوا ہے‘‘۔

مگر یہ بحث ہمارے موضوع سے خارج ہے لیکن نظریہ ارتقاء قرآن مجید کے اسی تخلیق عالم کے مطابق قرار پایا جاتا ہے اور اسی کے مطابق حامیان ارتقاء کو وسعت بھی ملتی ہے۔

 

آدم و حوا کی تخلیق

آخر اس کردگار حقیقی نے آدمؑ و حواؑ کو خلق فرمایا اور ملائکہ کو ان کی تعظیم کا حکم دیا جس کی تعمیل ابلیس کے سوا ہر ایک فرشتہ نے کی اگرچہ وہ (ابلیس) بھی آدمؑ کی فضیلت علمی اور تبحر کا انکار نہ کر سکا۔

ویادم اسکن انت و زوجک الجنۃ فکلا من حیث شعتما ولا تقربا ھذہ الشجرۃ فتکونا من الظلمین فوسوس لھما الشیطن لیبدی ھما ماوری عنھما من سواتھما وقال مانھا کما ربکما عن ھذہ الشجرۃ الا ان تکونا ملکین اوتکونا من الخالدین وقامسھما انی لکما من الناصحین قد لھما بغرور فلما ذاقا الشجرۃ بدت لھما سواتھما وطفقا یخصفان علیھما من ورق الجنۃ ونادھما ربھما الم انھکما عن تلکما الشجڑہ واقل لما ان الشیطان لکما عدو مبین قالاربنا ظلمنا انفسنا وان لم تغفرلنا و ترحمنا لنکونن من الخاسرین قال اھبطوا بعضکم لبعض عدو و لکم فی الارض مستقر ومتاع الی حین قال فیھا تحیون وفیھا تموتون ومنھا تخرجون (۷:۱۹۔ ۲۵)

یا بنی ادم قد انزلنا عیکم لباسا یواری سواتکم وریشا ولباس التقویٰ ذالک خیر ذالک من آیت اللہ لعلھم یذکرون یا بنی ادم لا یفتننکم الشیطان کما اخرج ابویکم من الجنۃ ینزع عنھما لباسھما لیریھما سواتھما انہ یرکم ہووقبیلہ من حیث لا تروؤنھم انا جعلنا الشیاطین اولیاء للذین لا یومنون

(۷:۲۶۔ ۲۷)

’’اور ہم نے آدم سے کہا کہ اے آدمؑ تم اور تمہاری بی بی حواؑ  بہشت میں رہو اور جہاں سے چاہو کھاؤ پیو مگر اس درخت کے پاس بھی نہ پھٹکنا۔ ایسا کرو گے تو تم آپ اپنا نقصان کرو گے پھر شیطان نے دونوں میاں بیوی کو بہکایا تا کہ ان کے پردہ کرنے کی چیزیں جو ان کی نظر سے مخفی تھیں (یعنی ان کا آگا پیچھا) انہیں کھول دکھائے اور ان دونوں سے لگا کہے کہ تمہارے پروردگار نے جو اس درخت سے پھل کانے کی تم کو مناہی کر دی ہے تو ہو نہ ہو کہ اس کا سبب یہی ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ تم دونوں فرشتے بن جاؤ یا دونوں ہمیشہ ہمیشہ و جیتے رہو اور ان سے قسمیں کھا کھا کر بیان کیا کہ بلا شبہ میں تمہارا خیر خواہ ہوں۔ غرض دھوکے سے ا کو درخت ممنوع کے پھل کھانے کی طر ف مائل کر لیا۔ تو جونہی انہوں نے درخت کے پھل کو کھا کر چکھا تو دونوں کو پردہ کرنے کی چیزیں دکھائی دینے لگیں اور لگے بہشت کے پتوں کو اپنے اوپر چپکانے اور ان کے پروردگار نے انہیں ڈانٹا کہ کیا ہم نے تم کو اس درخت کے کھانے سے مع ہی نہیں کی تھی اور کیا تم سے نہیں کہہ دیا تھا کہ شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے یہ دونوں کہنے لگے کہ اے ہمارے پروردگار ہم نے اپنے تئیں اپنے آپ کو تباہ کیا اور گر تو ہم کو معاف نہیں فرمائے گا اور ہم پر رحم نہیں کرے گا تو ہم بالکل برباد ہو جائیں گے۔ اس پر خدا نے فرمایا کہ تم میاں بیوی اور شیطان تینوں بہشت سے نیچے جاؤ۔ تم میں ایک کا دشمن ایک ہے اور تم بنی آدم کو ایک وقت خاص یعنی مرتے دم تک زمین پر رہنا (ہو گا) اور (تمہارا) سامان (زیست) بھی وہیں مہیا ہے۔ خدا نے یہ بھی فرمایا کہ زمین ہی میں زندگی بسر کرو گے تو اور اسی میں مرو گے اور اسی میں سے قیامت کے دن دوبارہ نکل کھڑے کیے جاؤ گے۔ اے بنی آدم ہم نے تمہارے لیے ایسا لباس اتارا ہے جو تمہارے پردے کی چیزوں کو چھپائے اور موجب زینت بھی ہو اور پیرہیز گاری کا باس یہ سب لباسوں سے بہتر ہے یہ یعنی لباس کا ہونا خدا کی قدرت کی نشانیوں میں سے ہے تاکہ لوگ اس بات پر غور کریں کہ اے بنی آدم کہیں شیطان تم کو (راہ خدا سے) بہکا نہ دے جس طرح کہ اس نے تمہارے والدین(آدم و حوا) کو بہشت سے نکلوایا کہ لگا ان کا بہشتی لباس ان  سے اتروانے تاکہ ان کے پردہ کرنے کی چیزیں ان پر ظاہر کر دے۔ غرض اغوائے شیطان سے بچتے رہو۔ (کیونکہ وہ اور اس کی ذریات تم کو ادھر سے) دیکھتے رہتے ہیں جدھر سے تم انہیں نہیں دیکھتے۔ ہم نے شیطانوں کو ان ہی لوگوں کا یار (ہمدم) بنایا ہے جو ایمان نہیں لاتے۔

 

ہابل و قابیل

آدم و حوا بہشت سے نکل آئے اور باہر ا ٓ کر ان اکی اولاد ایک دوسرے کی دشمن ہو گئی۔ البتہ وہاں سے نکل کر انہوں نے اپنی زندگی بہتر کرنے کے لیے کوئی کوشش اٹھا نہ رکھی۔ اسی طرح آدم کے اخلاف الاخلاف نے خداوند عالم نے ان کے متعلق بعضکم لبعض عدو (۷:۲۴) میں جو انداز بتایا تھا پورا ہو کر رہا۔ ان کے دنیا میں آ جانے پر سب سے پہلے ان کا قساوت و تعصب ہی رونما ہوا۔

واتل علیھم نبا انبی ادم بالحق اذا قربا قربانا فتقبل من احدھما ولم یتقبل من الاخر قال لا قتلنک قال انما یقتبل اللہ من المتقین لئن بسطت الی یدک لتقتلنی ما انا بباسط یدی الیک لا قتلک انی اخاف اللہ رب العلمین انی اریدان تبو باثمی و اثمک فتکون من اصحاب انار و ذالک جزوا الظالمین فطوعت لہ نفسہ قتل اخیہ فقتلہ فاصبح من الخاسرین فبعث اللہ غرابا یبحث فی الارض لیریہ کیف یواری سوء ۃ اخیہ قال یویلتی اعجزت ان اکون مثل ھذا الغراب فاواری سوء ۃ اخی فاصبح من النادمین من اجل ذلک کتبنا علی بنی اسرائیل انہ من قتل نفسا بغیر نفس اوفسادفی الارض فکانما قتل الناس جمیعا ومن احیاھا فکانما احیا الناس جمیعا ولقد جاء تھم رسلنا بالبینات ثم ان کثیرا مھم بعد ذالک فی الارض لمسرفون (۵:۲۷تا ۳۲)

’’اور (پیغمبر) ان لوگوں کو آدم کے دو بیٹوں (ہابیل اور قابیل) کے واقعی حالات پڑھ کر سناؤ کہ جب دونوں نے خدا کی جناب میں نیازیں چڑھائیں تو ان میں سے ایک یعنی ہابیل کی قبول ہوئی اوردوسرے یعنی قابیل کی قبول نہ ہوئی تو قابیل مارے حسد کے بھائی سے لگا کہنے کہ میں تجھے ضرور قتل کر کے رہوں گا۔ اس نے جواب دیا کہ اللہ تو صرف پرہیز گاروں کی نیازیں قبول کرتا ہے۔ اگر میرے قتل کرنے کے ارادے سے تو مجھ پر اپنا ہاتھ چلائے گا تو میں تجھے قتل کرنے کے لیے تجھ پر اپنا ہاتھ چلانے والا نہیں کیونکہ میں اللہ رب العلمین سے ڈرتا ہوں۔ میں تو یہ چاہتا ہوں کہ زیادتی تو تیری ہ طرف سے ہو وار تو میرا اور اپنا دونوں کا گناہ سمیٹے اور دوزخیوں میں جا شامل ہو اور ظالموں کے یہی سزا ہے۔ اس پر بھی اس کے یعنی قابیل کے نفس نے اس کو اپنے بھائی کے مار ڈالنے پر آمادہ کر لیا۔ چنانچہ آخر کار اس کو مار ڈالا اور آپ ہی گھاٹے میں آ گیا۔ اس کے بعد اللہ نے ایک کوا بھیجا۔ وہ زمین کریدنے لگا تاکہ اس کو (یعنی قابیل کو) دکھائے کہ اپنے بھائی کی فضیحت (یعنی اس کی لاش کو) کیونکر چھپانا چاہیے۔ چنانچہ وہ کوے کو زمین کریدتے دیکھ کر بول اٹھا ہائے میری شامت! کیا میں ایسا گیا گزرا ہوں کہ با سے اس کوے ہی جیسا(ہوشیار) ہوتا تو اپنے بھا ئی کی فضیحت (یعنی لاش) کو چھپا دیتا۔ الغرض وہ (اپنے کیے پر بہت ہی پشیمان ہوا ) اسی واقعے کی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل کو تحریری حکم دیا کہ جو کوئی جان کے بدلے ملک میں فساد پھیلانے کے طور پر نہیں (بلکہ ناحق) کسی کو مار ڈالے گا تو (اس کی نسبت ایسا سمجھا جائے گا کہ) گویا اس نے تمام آدمیوں کی جان لی اور جس نے اس کی جان بچا لی اس نے گویا سب کو بچا لیا بنی اسرائیل کے پاس ہمارے رسول کھلے کھلے معجزے لے کر بھی آ چکے ہیں۔ پھر اس کے بعد ( بھی ) ان میں سے بہتیرے (لوگ) ملک میں زیادتیاں کرتے پھرتے ہیں ‘‘۔

ایک بھائی نے دوسرے بھائی کو مار ہی ڈالا۔ یہ (قاتل) اپنے حقیقی بھائی کا حاسد شقی القلب اور کینہ توز تھا۔ دوسرا بھائی جس کا قلب خوف خداوندی سے معمور تھا جب حملہ آور بھائی ے اسے لا قتلنک (۵:۲۷) کہہ کر دھمکایا تو قتل ہونے والے نے متقی ہونے کے باوجود اپنے حملہ آور بھائی کے لیے مغفرت و عفو کی دعا کی اور اس کے گناہ کے ساتھ اپنے گناہ کا بوجھ بھی اسی کے سر ڈالنے کی طلب ظاہر کی۔

انی ارید ان تبو باثمی واثمک فتکون من اصحاب النار ؎۱ (۵:۲۹)

غور فرمائیے کہ انسانی کردار میں انتقام اور خشونت کا جذبہ عفو و بخشش پر کس قدر حاوی ہے۔

 

حضرت آدمؑ کے بعد انبیاء علیھم السلام کاسلسلہ جاری ہوا

حضرت آدم و حوا کی تخلیق کے بعد ان کی نسل بڑھتی گئی اور خدا نے انہیں راہ راست پر قائم رکھنے کے لیے انبیاء کا سللسہ جاری فرمایا جو اولاد آدمؑ کو ان کے کاموں پر فلاح و نجات کی بشارت اور بے کاموں پر بد انجامی سے ڈراتے لیکن وہ بنی آدم نیکی سے دور ہوتے گئے۔ ان کی روحانی زندگی میں خلا بڑھتا گیا ان کے دلوں پر حق کے خلاف پردے پڑ گئے حتیٰ کہ خدا نے حضرت نوحؑ  کو مبعوث فرمایا جنہوں نے اپنی قوم کو ان لفظوں میں ہدایت فرمائی۔

ان لا تعبدوا الا اللہ ان اخاف علیکم عذاب یوم الیم (۱۱:۲۶)

’’اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی کو نہ پوجو کیونکہ میں ڈرتا ہوں کہ تم کو تکلیف کے دن (قیامت) کا عذاب نہ ہو‘‘۔

۱؎  اور  تو میرا اور اپنا (دونوں کا) گناہ سمیٹے اور دوزخیوں میں جا شامل ہو۔

 

حضرت نوحؑ کی دعوت

لیکن حضرت نوحؑ کی دعوت معدودے چند مومنین نے قبول کی۔ ان (حضرت نوحؑ) کے بعد پے در پے یہ ظہور قائم رہا خدا کے رسول تشریف لائے اور ایک ایک خدا کی طرف رجوع کرنے کی دعوت فرماتا۔ مگر عوام پر جو جمود مسلط ہو چکا تھا اس کی وجہ سے ان کی عقلیں ادراک حقیقت سے بے بہرہ ہو چکی تھیں وہ خدائے وحدہٗ لا شرک کی بجائے محسوس بتوں کو خدا کے مرتبے پر گھسیٹ لاتے اور

افکلما جائکم رسول بما لا تھوی انفسکم استکبرتم ففریقا کذبتم و فریقا تقتلون (۲:۸۷)

جب کبھی کوئی رسول ا کے پاس ایسے احکام لے کر آیا جن کو ان کے دل نہیں چاہتے تھے تو کتنوں کو جھٹلایا اور کتنوں کو لگے قتل کرنے۔

 

رسولوں کی سعی رائیگاں نہیں جاتی

تاہم رسولوں کے پے بہ پے آتے رہنے سے آخر اس جمود میں قدرے کمی ہونے کو آئی۔ انبیائے کرامؑ  کا بویا ہو تخم دیر ہی سے پھل لاتا ہے لیکن رائیگاں نہیں جاتا۔ تاخیر سہی کلمۃ الحق کا بے اثر رہنا ناممکن ہے بے شک بعض اشخاص کا غرور اور خود پسندی انہیں قبول حق سے روکتی ہے اور وہ (لوگ) اصحاب دعوت پر تمسخر اڑانے سے باز نہیں رہتے لیکن یہی لوگ جب تنہائی میں اپنے دلوں کو ٹٹولتے ہیں تو حقیقت کو اپنی شہ رگ کے قریب پاتے ہیں۔ اس پر بھی بہت تھوڑے لوگ حقیقت کا تتبع کرتے اور بیشتر اشخاص بدستور عجیب و نخوت میں ڈوبے رہتے ہیں۔

 

حضرت موسیٰؑ کا فرعون سے مطالبہ

مصر کے یہ کاہن تو خود تو وحدانیت کے مقر تھے لیکن عوام کو دوسرے دوسرے خداؤں پر ایمان لانے کی تلقین کرتے۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ لوگوں کے دلوں میں کاہنوں کی جو عظمت راسخ ہو چکی ہے اس میں زوال نہ آنے پائے یہ دور اسی طرح کارفرما تھا کہ حضرت موسیٰؑ و ہارونؑ  کا ظہور ہوا۔ جنہوں نے فرعون کو توحید کی دعوت دی اور اس کے انکار پر اپنی قوم(بنی اسرائیل) کی حوالگی کا مطالبہ فرمایا جسے فرعون اور اس کے اسلاف نے صدیوں سے غلا حلقہ بگوش بنا رکھا تھا۔ فرعون اس مطالبہ پر الٹا حضرت موسیٰؑ کے خلاف فوج لے کر ان پر پل پڑا۔

قرآن مجید میں بیشتر ایسے انبیاء کا تذکرہ موجود ہے جو یکے بعد دیگرے بنی آدم کو ان کا مقام سمجھانے کے لیے  مبعوث ہوئے۔ یہ سلسلہ صدیوں تک قائم رہا لیک کسی دور میں بھی معدودے چند مومنین کے سوا عوام ان کے ہم نوا نہ بن سکے انبیاءؑ  کی یہ مہم اہل نظر کے لیے بے حد جاذب توجہ ہے۔ ان حضرات میں اس موقعہ پر صرف حضرت موسیٰؑ و عیسیٰؑ اور ختم الرسل حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے عہدوں پر نظر کافی ہے۔

 

انبیائے کرامؑ  اور معجزات

ان حضرات کی نبوت کا انکار و قبول دعوت میں صرف ایک نکتہ قابل توجہ ہے۔ جسے عقل صحیح اور معجزات و خوارق کے درمیان حد فاصل کا درجہ حاصل ہے۔ کردگار حقیقی نے ہر نبی کو گونا گوں معجزات عطا فرمائے تاکہ ان خوارق کی تائید عوام کے لیے ان کی دعوت پر میلان کا ذریعہ بن سکے۔ لیکن پھر بھی بہت ہی کم لوگ ان کی طرف متوجہ ہوئے۔ یہ لوگ تو خدائے برتر و بالا کی بجائے مجسم و محسوس بتوں کی خداوندی کے عادی ہو چکے تھے۔ ان کا یہ شعور اور عقل خدائے وحدہٗ لا شریک کی وحدانیت پر ایمان لانے میں کیوں کر رہبری کر سکتی تھی؟

حضرت موسیٰؑ کا پہلی مرتبہ مصر سے نکلنا اور مدین سے لوٹ کر پھر مصر

حضرت موسیٰؑ ہی کا واقعہ ہے خدا نے چاہا کہ سرزمین مصر میں انہیں دعوت توحید کے لیے مبعوث فرمائے جس کے اہتمام کی غرض سے پہلے جناب موسیٰؑ کو مصر سے نکلنا پڑا۔ سفر در سفر کرتے ہوئے قریہ مدین کے چشمہ پر تشریف لائے۔ آخر اسی مدین میں انہیں تزویج کا شرف حاصل ہوا۔ جس کے بعد پروردگار عالم نے حضرت موسیٰؑ  کو ان کے وطن(مصر) واپس تشریف لے جانے کا ارشاد فرمایا۔

فلما ا تھا نودی من شاطی ء الوواد الایمن فی البقعۃ المبارکۃ من الشجرۃ ان یموسیٰ انی انا اللہ رب العالمین وان الق عصاک فلما راھا تھتزکانھا جان ولی مدبر اولم یعقب یاموسی اقبل ولا تخف انک من الامنین اسلک یدک فی جبیبک تخرج بیضا من غیر سوء واضمم الیک جناحک من الرھب فذانک برہانان من ربک الی فرعون وملانہ انھم کانوا قوما فاسقین (۲۸:۳۰۔ ۳۲)

’’پھر جب موسیٰؑ آگ کے پاس پہنچے تو اس مبارک جگہ میں میدان کے داہنے کنارے ایک درخت تھا۔ س میں سے ا ن کو آواز آئی کہ موسیٰؑ  یہ تو ہم اللہ ہیں۔ سارے جہاں کے پروردگار۔ اور ساتھ ہی یہ آواز بھی آئی کہ تم اپنی لاٹھی زمین پر ڈال دو۔ تو جب موسیٰ نے لاٹھی کو ڈلا اور اس طرح چلتے دیکھا کہ گویا وہ زندہ سانپ ہے توپیٹھ پھیر کر بھاگے اور پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھا۔ ہم نے فرمایا موسیٰؑ آگے آؤ اور کسی بات کا خوف نہ کرو۔ تم ہر طرح سے امن میں ہو۔ اپنا ہاتھ اپنے گریبان کے اندر رکھو اور پھر نکالو۔ تووہ بغیر کسی روگ کے بھلا چنگا سفید نکلے گا اور رفع خوف کے لیے اپنے بازو اپنی طرف سکیڑ لو۔ غرض عصا اور ید بیضا یہ دونوں معجزے عطیہ ربانی ہیں جو تمہاری معرفت فرعون اور اس کے درباریوں کی طرف بھیجے جاتے ہیں کیونکہ وہ بڑے نافرمان لوگ ہیں ‘‘۔

 

حضرت موسیٰؑ فرعون مصر اور اس کے مداری

اور حضرت موسیٰؑ حصول نبوت کے بعد مصر تشریف لے آئے۔ جب تبلیغ فرمائی تو فرعون نے اپنے مداریوں کو ان کے معجزات کا مقابلہ کر نے پر آمادہ کر لیا۔ جلسہ منعقد ہوا جس میں فرعونی مداری اپنی تمام عیاریاں سمیٹ کر حضرت موسیٰؑ کو ناکام ثابت کرنے کے لیے مقابلہ پر آئے۔ انہیں علم  تھا کہ نبی اللہ کا عصا اژدھا بن کر شعلے برسانا شروع کر دیتا ہے۔ اس لیے مداری لاتعداد ٹوٹکے بنا لائے جن میں سانپ کی طرح رینگنے کی قوت بھر دی گئی تھی وار بیک لمحہ انہیں زمین پر بکھیر دیا گیا۔ جونہی حضرت موسیٰؑ نے اپنا معجزانہ عصا زمین پر رکھا تو وہ ہیبت ناک اژدھا بن کر مداریوں کے ان سنپولیوں کو نگل گیا جنہوں نے حضرت موسیٰؑ کو چاروں طرف سے گھیر رکھا تھا جادوگر یہ منظر دیکھ کر حقیقت کو پا گئے اور

امنا برب ہارون و موسی (۲۰:۷۰)

’’ہم ایمان لائے ہارون اور موسیٰؑ کے رب پر ‘‘ کہتے ہوئے خدائے یکتا کے حضور سجدے میں گر پڑے۔

سب کچھ ہوا لیکن بنی اسرائیل جو خدا کی ذات کے لیے بھی پیکر محسوس کے خوگر تھے کچھ عرصہ بعد ان کے شرک کے ناسور پھر پھوٹ نکلے اور انہوں نے خدا کے رسول سے برملا تقاضا کیا:

یاموسیٰ لن نومن لک حتی نری اللہ جھرۃ (۲:۵۵)

’’اے موسیٰ جب تک ہم خدا کو ظاہر میں نہ دیکھ لیں گے ہم تو کسی طرح تمہارا یقین کرنے والے نہیں ‘‘۔

 

حضرت موسیٰؑ کی وفات کے بعد

جب حضرت موسیٰؑ نے وفات پائی تو یہی بنی اسرائیل اپنے سابق تصور کے مطابق بچھڑے کی پوجا پر ٹوٹ پڑے اور جب حضرت موسیٰؑ کے بعد دوسرے انبیاء علیہم السلام ظہور فرما ہوئے تو انہوں نے کسی کو جھوٹا کہا اور کسی کو قتل کر دیا۔ ایک طویل عرصہ کے بعد ان بنی اسرائیل کی آنکھ کھلی تو ایک ایسے نبی کا انتظار کرنے بیٹھ گئے جس کی معیت میں اپنے دشمنوں سے لڑ کر ان سے ارض موعود واپس لیں ۱؎۔

 

حضرت مسیحؑ کا ظہور

تاریخ کے صفحات پر حضرت موسیٰ علیہ السلام و بنی اسرائیل اور ان کے کوائف و سوانح کا زمانہ اس قدر پرانا نہیں کہ امتداد مدت نے انہیں دھندلا دیا ہو۔ ابھی تک پچیس صدیاں ہی گزری ہیں۔ تاریخ میں اتنا وقفہ ایک لمحہ سے بھی کم شمار ہوتا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس دور میں عقل پر جس نے غلبہ حاصل کر رکھا تھا جس کی بدولت روحانیت اور معنوی تصورات پر مادی محسوسات و تصورات کو ترجیح حاصل تھی جیسا کہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے پانچ چھ سو سال قبل حضرت عیسیٰؑ ظہور فرمائے عالم ہوئے اور انہوں نے اپنی قوم کے سامنے توحید کی دعوت پیش کی جس میں روح القدس ان کے دست و بازو تھے مگر ان کی قوم نے نہ سنا۔

 

جناب مسیحؑ نے معجزانہ طورسے پینے پانے کے لیے پانی سے شراب بنا کر دکھائی

جناب مسیحؑ  نسلاً یہودی نژاد تھے۔ یہود ان کی دعوت سے آگاہ ہوئے تو انہوں نے نبی اللہ کو وہ رسول منتظر سمجھا جو انہیں مسیحان روم کی غلامی سے بچا کر پھر ارض موعود (فلسطین) پر غالب ہونے میں رہنمائی کرے گا۔ یہود نے یہ بھی محسوس کر لیا کہ نبی اللہؑ  صرف عقل ہی سے اپنی رسالت و دعوت اللہ کی ن؟ص پیش نہیں کرتے ان کے ساتھ کئی ایسے معجزات و خوارق بھی ہیں جو ان کے دعویٰ نبوت کا ثبوت ہیں مثلاًمسیحی روایات کے مطابق پہلا معجزہ مسیح کی برکت سے قانا ۲؎

۱؎  قرآن مجید میں یہ مضمون سورہ بقرہ آیت نمبر ۲۴۶ لفظ الم تر ال الملا من بنی اسرائیل سے لے کر آیت نمبر ۲۵۲ لفظ لمن المرسلین ت منقول ہے (م)

۲؎  گلیل قری کا نام ہے۔ پھر تیسرے دن قانائے گلیل میں ایک شادی ہوئی اور یسوعؑ  کی ماں وہاں تھی اور یسوعؑ اور ان کے شاگردوں کی بھی اس شادی میں دعوت تھی۔ اور جب مے ہو چکی تو یسوع کی ماں نے کہا کہ ان کے پاس مے نہیں رہی۔ یسوعؑ نے اس سے کہا اے عورت مجھے تجھ سیکیا کام ہے؟ ابھی میرا وقت نہیں آیا۔ اس کی ماں نے خادموں سے کہا کہ جو کچھ یہ تم سے کہے وہ کرو۔ وہاں یہودیوں کی طہارت کے دستور کے مطابق پتھر کے چھ مٹکے رکھے ہوئے تھے اور ان میں دو دو تین تین من کی گنجائش تھی۔ یسوعؑ نے ان سے کہا کہ مٹکوں میں پانی بھر دو۔ پس انہوں نے ان کو لبالب بھر دیا۔ پھر اس نے ان سے یہ کہا اب نکال کر میرمجلس کے پاس لے جاؤ۔ پس وہ لے گئے۔ جب میر مجلس نے وہ پانی چکھا تو وہ مے بن گیا تھا۔ اور جانتا نہ تھا کہ یہ کہاں سے آئی ہے مگر کا دم جنہوں نے پانی بھر ا تھا جانتے تھے تو میر مجلس نے دولھا کو بلا کر ا س سے کہا کہ ہر شخص پہلے اچھی مے پیش کرتا ہے اور ناقص اس وقت جب پی کر بہک جائیں مگر تو نے اچھی مے اب تک رکھ چھوڑی ہے۔ یہ پہلا معجزہ یسوعؑ نے قانائے گلیل میں دکھا کر اپنا جلال ظاہر کیا اور اس کے شاگرد اس پر ایمان لائے (یوحنا ب ۲ ۱ تا ۱۱ م)

گلیل کی ایک شادی میں پانی شراب میں متبدل ہو گیا جس کے بعد نان و ماہی کا معجزہ دکھایا لب گور کو حیات نو بخشی مردوں کو زندہ کر دکھایا۔ (حضرت مسیحؑ نے ) اسی طرح تعلیم و منطق کی بجائے تو بہ تو معجزوں سے دلوں کو مسخر کرنے کی داغ بیل ڈالی۔ اگرچہ سابقہ انبیائے کے مقابلہ میں جناب مسیحؑ کی تبلیغ جاذب تھی۔ وہ ایک دوسرے پر عفو و عطوفت اور محبت کی تلقین کرتے خدا کے ساتھ رغبت کی ہدایت فرماتے مگر اس تبلیغ کے ساتھ دلیل و منطق کی یاور ی نہ تھی۔ چنانچہ ایک مرتبہ جب لوگوں نے ان کی بات دعوت سننے سے انکار کر دیا تو ان کے معجزات کی بوقلمونی بڑھ گئی۔ وہ کوڑھ اور جنون کھونے لگے۔ مردوں کو زندہ کر دکھایا۔ خداوند عالم نے مسیحؑ  کو یہ معجزے لوگوں کے ان کی طرف میلان کی غرض سے عنایت فرمائے تھے کہ اور ایسا ہی ہوا مگر ایک طبقہ نے انہیں خدا کا بیٹا کہنا شروع کر دیا۔ اس سے بھی زیادہ یہ کہ ابن مریمؑ کو عین ذات تسلیم کر لیا گیا جو انسانی قالب میں خود پر مصائب برداشت کر کے نبی آدم کے گناہوں کا کفارہ ہونے کے لیے دنیا میں آ پہنچا ہے۔ جو ا س امر کی سب سے بڑی دلیل ہے کہ مسیح کے عہد تک منطق و عقل اس حد کمال تک نہ پہنچے تھے کہ حقائق کا واسطہ سے خالق ہر دو سرا کی وحدانیت کو تسیلم کیا جا سکے جو ابویت سے بیگانہ ابنیت سے بے نیاز اور اس کی برابری کا کسی کو یارا نہیں۔

اللہ الصمد لم یلد ولم یولد ولم یکن لہ کفوا احد (۱۱۲:۲تا۴)

 

فراعنہ مصر کے علوم و فنون سے یونان و روم میں تبدیلی

جن عہدوں میں حضرت موسیٰؑ اور حضرت مسیحؑ مبعوث ہوئے فراعنہ مصر کا فلسفہ اور دوسرے علوم و فنون وہاں سے یونان اور روم  منتقل ہو چکے تھے۔ جنہوں نے ان کو پوری طرح اپنا لیا۔ بعد میں یونان نے فلسفہ و ادب کے دریا بہا دیے جن سے منطق و حجیت کی آبپاشی مصر و فلسطین اور شام میں سب ملکوں سے زیادہ ہوئی۔ جغرافیائی طور پر مسیحیت کا منبع ان ملکوں سے بہت زیادہ قریب تھا ان تینوں ملکوں نے تصدیق نبوت کے لیے خوارق و معجزات کی بجائے دلیل و برہان کو مقدم سمجھا جیساکہ ہم اس کتاب کے شروع میں اشارہ کر چکے ہیں۔

 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی دعوت ازروئے منطق

بلاشبہ خداوند عالم نے دلیل و منطق کو انسان کے لیے تاج سروری کے طور پر ممتاز کر رکھا ہے لطیف و پر کیف منطق جو عقل و حجت اور روح تینوں کے امتزاج سے مرکب اور انسان کو ادراک حقائق کا ملکہ عطا فرما سکے۔ خداوند متعال نے بدو عالم یہ منطق پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مقدر میں ودیعت کر رکھی تھی کہ جب وہ نبی ظہور فرمائے گا تو عقل و محبت اور روح کے موالید ثلاثہ جو اس نبی کی پشتیبان ہیں لوگوں کو قبول دعوت پر بیش از بیش مائل کرنے میں ان کی مدد کریں گے۔ جس پر نازل زدہ دین کو خدائے برتر اپنے نوشتوں کے ذریعے لوگوں کے لیے کامل کر دے گا۔ اور تکمیل دین کی وجہ سے اس کی امت کے لیے تمام نعمت ہو گا اور رسالتوں کا (تشریعی و غیر تشریعی یعنی دونوں قسم کا) سلسلہ ختم ہو جائے گا۔ اسلام حقیقت توحید اور ایمان باللہ کو اساس قرار دے گا اور جس کسی کو اس پر یقین ہو جائے گا اسے دوسرے وظائف دن پر عمل کی ہدایت کرے گا۔

۱؎  اللہ ایک ہے اللہ بے نیاز ہے نہ اس سے کوئی پیدا ہوا نہ وہ کسی سے پیدا ہوا اور نہ کوئی اس کے برابر کا ہے۔

’’خاتمہ ‘‘ کے فصل اول میں اشارہ کیا جا چکا ہے کہ تکمیل ایمان منحصر ہے کشف و ادراک عالم پر جو لوگ نعمت کشف حقائق کی سعی کرتے ہیں انہیں دنیا میں ایمان نصیب ہوتا ہے۔ خدا کی یہی سنت ہے جو یوم حساب تک جاری رہے گی جب کہ خداوند عالم جملہ نبی نوع بشر کو دو بارہ زندہ کر کے یک جا کرے گا۔ صدر اول کے مسلمانوں کا یہی ایمان اور اسی پر عمل تھا۔ ان کے بعد ایک عرصہ تک مسلمان اسی پر عمل پیرا رہے یہاں تک کہ حوادث نے انہیں ایسے اہم ترین عمل و سعی سے دور ہٹایا۔

 

اسلام تقدیر پر قانع رکھنے کی بجائے سعی عمل کی دعوت فرماتا ہے

گزشتہ اوراق میں ہم نے جو دلائل پیش کیے ہیں وہ واضح طور پر نشان دیتے ہیں کہ مستشرقین نے تقدیر اسلامی پر قرآن مجید کی جن آیات کو قضا و قدرو نوشتہ لوح اور تعین ازلی و ابدی کے مفروضہ دلائل کے ثبوت میں پیش کیا ہے یہ ان (اہل قلم) کی جبلی و نسلی و فطری اور سماجی عادت ہے( کہ اسلام کے خلاف مفتریات وضع کرنے میں ان کے خلاف براہین کو سامنے نہیں آنے دیتے م)حالانکہ اسلام ہر شخص کو سعی و عمل کی ترغیب دیتا ہے۔ اور اسے اپنے اعمال کی سزا و جزا ل کر رہے گی خداوند عالم کسی پر ظلم کا روادار نہیں اور نہ جر کے بغیر سزا دینے پر مائل۔ جو اشخاص سعی اور جد و جہد چھوڑ کر کاہلی و نامرادی کو توکل سمجھ کر ایسے توکل سے رحمت کردگار کے متمنی ہیں خود پر ظلم کرتے ہیں۔

 

مال و اولاد اور نیکی میں امتیاز

گزشتہ اوراق میں ہم نے اپنا مقصود وضاحت سے ثابت کر دیا ہے۔ تاہم ایک ایسی دلیل سے مفر نہیں جو ان معنوں میں قطعیت کے درجہ پر ہے۔

المال والبنون زینۃ الحیاۃ الدنیا والباقیات الصالحات خیر عند ربک ثوابا و خیر املا (۱۸:۴۶)

’’مال اور بیٹے آرائش ہیں زندگانی دنیا کی اور باقی رہے والی نیکیاں بہتر ہیں پروردگار عالم کے نزدیک کے اعتبار سے بھی ہزار درجہ بہتر ہیں اور امید کے اعتبار سے بھی ہزار درجہ بہتر ہیں ‘‘۔

انسان کے لیے مال کی طلب اور کسب معاش سے محبوب کوئی مشغلہ نہیں جس میں اکثر و بیشتر اشخاص ہمہ وقت مصروف ہیں اور اپنی ہمت و بساط سے کہیں زیادہ محنت کرتے ہیں۔ سرسری نظر سے بھی دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ انسان کو اس محنت میں کیسی صعوبتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، کس عجلت کے ساتھ وہ اپنا عیش و آرام قربان کر بیٹھتا ہے اور اپنا سکھ تج کر کے دکھ کے پہاڑ سر پر رکھ لیتا ہے۔ ایک اور شخص ہے جو مال و دولت کی بجائے یہی قربانی اولاد کی خاطر گوارا کر لیتا ہے اور اس راہ میں جاں نثار کرنے میں بھی دریغ نہیں کرتا۔ دونوں کی جدوجہد یعنی جمع مال و زر اور اولاد پر جاں نثاری دنیا ہی کی زینت تو ہے جہاں نیکی کے مقابلہ میں کوئی وقعت نہیں نہ کوئی مال اندیش اسے نیکی کے مقابلے میں ترجیح دے سکتا ہے۔ یوں نادان اور کم فہم سے کیا کہیے جو نیکی سے بے بہرہ ہیں یا وہ عورتیں جو چند روزہ جوانی پر آپے سے باہر ہو اور اپنے حسن و جمال کی نمائش بڑھانے کے لیے مال و دولت کو ہر برائی کے عوض حاصل کرنے میں تامل نہیں کرتیں یا وہ سرمستان عہد شباب جو عقل و شرافت کوٹھکرا کر اپنے اردگرد خوشامدی مصاحبوں کو جمع کر لیتے ہیں کہ انہیں کھلا پلا کر اپنے اثر و نفوذ میں ان مصاحبوں سے آڑے وقت میں کام لیا جا سکے حالانکہ ان موسمی پروانوں کے دلوں میں ایسے آقاؤں کی عظمت پر کاہ کے برابر نہیں ہوتی۔ یہ سب قسمیں ایسے ہوش باختہ دیوانوں پر مشتمل ہیں جو نیکی سے بے خبر ہو کر متاع عقل و خرد کو ظاہر کے پلے باندھے بیٹھے ہیں فکر امروز میں فردا کے مال سے بے خبر!جو لوگ دنیاوی آسائشیں اور ایسے طریقو ں سے حاصل کرنے میں منہمک ہوں انہیں دیوانہ کہے تو پھر دنیا میں اور کون ہے جو دیوانہ ہے۔

مال و زر اور اولاد سے دنیا میں آسائش حاصل ہونے میں شبہ نہیں لیکن یہ حقیقت تو نہیں کہ انہیں اپنی کوششوں کا محسور بنائے رکھیے۔ حقیقت نام ہے نیکی اور حسن عمل کا جنہیں کبھی فنا نہیں۔ اس لیے حقیقت تک رسائی کے لیے مال و زور اور اولاد کی ترقی سے زیادہ جدوجہد کرنا چاہیے۔

 

اصل منفعت نیکی ہے

آیہ

المال والبنون زینۃ الحیاۃ الدنیا والباقیات الصالحات خیر عند ربک ثوابا و خیر املا (۱۸:۴۶)

مسلمانوں کے سامنے کس قدر مفید تعلیم کا نقشہ پیش فرما رہی ہے کہ جس طرح وہ دنیوی آسائش و استراحت و زینت و جمال کے لیے سر توڑ کوشش کرتے ہیں اس کے مقابلہ میں انہیں روح اور قلب کو حقیقت و نیکی کی راہ میں اس سے بھی زیاد ہ متوجہ رہنا چاہیے۔ دنیوی آسائش اگرچہ نیکی کا ذریعہ ہو سکتی ہے تاہ زندگی نیکی ہی کے لیے صرف کی جائے۔ مال و دولت ہے تو اس کا مصرف بھی اسی راہ میں ہو خدا نے اولاد عطا فرمائی ہے تو اس کی تربیت بھی اسی انداز سے کیجیے جس سے وہ اپنے لیے والدین اور عوام کی خاطر نیکی کی راہ میں نثار ہونے پر کمر بستہ ہیں۔ اسی لیے خدا کے سامنے نیکی کا اجر اور سرور دنیا میں مال و دولت اور اولاد زندگی کے لطف سے کہیں زیادہ ہے۔ لیکن مسلمانوں کی فکر کس حد تک ناکارہ ہو چکی ہے جو بدیہات اور اسے خوش آئند منافع سے منہ پھیر کر صرف

زینۃ الحیوۃ الدنیا یعنی المال والبنون

کو اپنی دلچسپیوں کا مرکز سمجھ رکھا ہے اور نیکی جیسی نعمت دوام سے یوں پیٹھ پھیر رکھی ہے جیسے دونوں کو ایک دوسرے سے کوئی سروکار ہی نہیں۔

 

زوال المسلمین پر شیخ محمد عبدہ مصری کی رائے

آخر مسلمانوں کی قوت ایسی واضح منطق سے ہٹ کر ان چیزوں کی طرف مائل ہو گئی جنہیں ان کے عقائد سے کوئی واسطہ نہ تھا۔ ہم نے فصل اول میں اس پر اشارہ کیا ہے کہ اس تغیر عقیدہ کا موجب وہ فاتحین ہیں جنہوں نے دور عباسیہ کے آخری ایام میں مسلمانوں کی بستیو ں کو تاخت و تاراج کیا اور یہ کہ صدر اول کے بعد نظام حکومت کے لیے شوری کی جگہ جابر بادشاہ نے لے لی جس میں نمایاں کردار اموی بادشاہوں کا ہے۔ اس کی قدر ے وضاحت شیخ الاسلام محمد عبدہ کی مصنفہ کتاب الاسلام والنصرانیہ سے نقل کی جاتی ہے۔

اسلام عرب سے نکلا اور یونانی علوم سے ملوث ہو کر دین عربی کی بجائے علم عربی سے موسوم ہونے لگا حتیٰ کہ عباسی خلیفہ سے سیاسی غلطی کا ارتکاب ہوا اور اس نے اسلامی ریاست کو اپنی خاندانی مملکت میں محصور رکھنے کی غرض سے یہ منصوبہ بنایا کہ مبادا عربی نژاد مسلمان سپاہی کسی وقت علوی خلفاء کی حمایت پر کود پڑیں۔ ان کی بجائے ترک و دیلم اور دوسرے ملکوں کے نوجوان فوج میں کیوں نہ بھرتی کیے جائیں جن میں علوی خاندان سے عقیدت کا وہم تک نہیں کیا جا سکتا۔ عجمی لشکری میرا کلمہ ہی پڑھیں گے اور میری سطوت سے لرزہ بر اندام رہیں گے، میں انہیں اپنے انعامات سے یوں بھی بس میں خر لوں گا اور یہ بادشاہت تابہ حشر میرے خاندان کا پانی بھرے گی۔

اسلامی احکام کے مطابق غیر ملکیوں کو فوج میں بھرتی کرنے کی اجازت پہلے سے موجود تھی۔ ایسا ہی ہوا۔ خلیفہ نے عجمی لشکر بنا لیا جس سے رفتہ رفتہ عربی دین میں عجمی بو باس سرایت کر گئی۔ عباسی خلیفہ نے اپنی سطوت اور اپنے خلاف کے لیے ملک لا یبلی (۲۰:۱۲۰) (ایسی سلطنت جو کبھی پرانی نہ ہو) کی بنیاد ڈالی جس سے امت محمدیہ میں خلفشار اور دین اسلام میں شگاف پڑ گیا۔ عجمی سپاہی اپنے محبوب خلیفہ کی امیدوں کا پامال کرتے ہوئے اس کی سلطنت پر اس طرح سے قابض ہو گئے کہ خلیفہ کو برائے بیت بادشاہت رہنے دیا مگر اختیارات اپنے ہاتھ میں لے لیے۔ ان سپاہیوں اور عجم نژاد عناصر کے عماغ اسلامی تصورات سے بیگانہ قلوب اسلام کی محبت سے خالی اور اپنے وطن سے خشونت و ظلم کا جو ترکہ وہ اپنے ہمراہ لائے تھے یہاں تک کہ پہیچ کر اس ترکہ میں انہوں نے اور اضافہ کر لیا اور ان (عجمیوں ) میں بے شمار ایسے سپاہی اور افسر تھے جو اپنے پیکری خداؤں کو گریبانوں میں ڈال کر سینے سے چپکائے ہوئے تھے۔ جونہی تخلیہ ملتا ان کے آرتی بجا لاتے۔ ان عجمی نژاد عناصر کے دخل درآمد کے بعد فتنہ تاتار سربلند ہوا۔ جس نے عباسیوں کو عدم آباد میں دھکیل دیا۔ شروع میں عباسی عہدیداروں میں سے جو اشخاص کلیدی آسامیوں پر قابض ہوئے ان لوگوں کو علم و دین دونوں سے خدا واسطے کی دشمنی تھی۔ یہ امیر ابتدا ہی سے علمائے حق کے خلاف تھے۔ کلیدی آسامیاں ملنے پراور بھی کھل کھیلے۔ علمائے حق کی تائید و نصرت سے ہاتھ روک لیے اور ان کی بجائے ایسے مدعیان علم و افتاد کو مسند علم پر جانشین مقرر کیا جن کے لبادے علمائے حق ہی کے سے تھے۔ ان ہی کی سی بول چال اور وہی لب و لہجہ لیکن اسلام کی بیخ کنی کا فریضہ ادا کرنے میں ہر لمحہ مصروف عمل۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ جس طرح بن سکے مسلمانوں کو صحیح اسلامی تصورات سے بے گانہ کر دیا جائے اور اس میں کامیاب ہوتے گئے۔ انہوں نے مسلمانوں کو طرح طرح کے فریب میں مبتلا کر دیا۔ کبھی دین کو ناقص ثابت کر کے خود کو کامیاب ہوتے گئے۔ انہوں نے مسلمانوں کو طرح طرح کے فریب میں مبتلا کر دیا۔ کبھی دین کو ناقص ثابت کر کے خود کو اس کا مکمل کرنے والا بتایا کبھی دین کی مریض بتا کر خود کو اس کا مسیحا ثابت کیا کبھی کہا کہ قصر اسلام کی بنیادیں کھوکھلی ہو ئگی ہیں۔ ہم انہیں از سر نو مرسوص کر رہے ہیں۔ یہ افراد اسی طرح کے بہانوں سے دی میں در پردہ نقب زنی کرتے رہے۔

عوام پہلے سے اس قسم کی تلقینات قبول کرنے کے لیے منفعل تھے۔ نصاریٰ ان کے قرب و جوار میں آباد تھے۔ جن کے مذہبی چلن سے یہ (مسلمان) بھی متاثر تھے۔ انہوں نے نصرانی عقائد کو اسلامی عقائد میں محلول کرنا شروع کر دیا از بس مفید سمجھ لیا۔ انہیں یہ خیال نہ آ سکا کہ غیر مذہبی عقیدہ کی تحلیل اسلام کے پاکیزہ تصورات میں مسیحیت کے ان ملوثات کو نہ سمو دے، جن کا بنی اصل دین مسیحی کے بجائے ا ن کے علماء و رہبان کی دعات ہیں نہ ان کو یہ خیال آیا کہ اس طرح مسلمانوں کے پہلے میں کیا رہ جائے گا نہ انہیں یہ سجھائی دے گا کہ نصرانیت کے ایسے تداخل سے مسلمان اپنے ولیوں اور عالموں کی پوجا کرے سے اپنی وحدت کو پارہ پارہ تو نہ کر دیں گے، نہ و ہ یہ سوچ سکے کہ ایک مرتبہ ایسی ضلالت میں گھر جانے کے بعد جب انہیں منع کیا گیا تو وہ برملا کہیں گے کہ بعد والوں کو پہلوں کے مسلمات میں رد و بدل کا کیا مجاز ہے آخر یہ بات ان کے عقیدہ میں داخل ہو گء اوران کی فرزاندگی پر جہالت کے پردے پڑ ہی گئے۔

یہاں تک اثر و نفوذ حاصل کر لینے کے عد ان متشبہین بالاسلام (برائے بیت مسلمان) نے اپنے  یاران ہمدم کو اسلامی ملکوں میں پھیلا دیا جن کی زبانوں سے مسلمانوں نے نئے نئے عقائد اور عجیب عجیب تصورات کے ذکر اذکار سن کر خود میں تبدیلی کی ضرورت محسوس کی حتی کہ عجمی تصورات کے ان داعیوں نے مسلمانوں کو متعدد ایسے عقائد پر مستحکم کر دیا مثلاً

(۱) کہ ازروئے شرع شریف مسلمانوں پر امور سلطنت کے بارے میں کوئی ذمہ داری نہیں بلکہ یہ بار صرف عمال حکومت کے سر ہے۔

(۲)  انسان کی خستہ حالی کا مداوا نہ اس کے اختیار میں ہے نہ ریاست اس کی ذمہ دار۔ اس لیے کسی تباہ حال مسلمان کا اپنی فلاح و بہبود کی سعی کرنا اور نہ کرنا دونوں یکساں ہیں۔

ان کے چالاک داعی مسلمانوں کواس تباہ حالی پر قناعت کرنے کے لیے بھی انہیں قرب قیامت کی ا ن روایات سے متاثر کرتے ہیں جن کا نتیجہ ان کے الفاظ میں بجز خستہ حالی کے اور کچھ نہیں ہو سکتا یا ایسی روایات پیش کرتے ہیں جن میں تشابہ کا امکان تھا۔ ان کی من مانی تاویلات سے مسلمانوں میں کاہلی اور سستی برقرار رکھنے کی تجویزیں کرتے رہتے۔ اس معاملہ میں وضعی روایات کی باگ ڈور ان ہی داعیوں کے ہاتھ میں تھی۔ جہاں جیسا موقعہ دیکھا ایسی ہی روایت کا جوڑ لگا کر انہیں ٹھنڈا کر دیا۔

ان داعیان علم و تبلیغ کی جعل سازی میں سب سے نمایاں عنوان مسئلہ قضا و قدر کو حاصل تھا۔ گویا یہ مسئلہ ان کی مٹھی میں تھا۔ جس کی تفصیل سن کر مسلمان یک قلم بے حس ہو کر رہ گئے جو مقدر میں ہے۔

مسلمانوں میں ایسے عقائد ان کی سادگی اور دینی حقائق سے بے خبری کی وجہ سے مقبول ہوتے گئے۔ ایسے نفوذ میں مسلم و غیر مسلم میں تمیز ہی کیا ہے؟ جو قوم حقائق سے تہی دامن ہو کر مضروضات سے جیب بھر لے اسی طرح ناکامی و نامرادی میں گھر جائے گی جیسا کہ مسلمانوں سے حقیقت نے منہ موڑ کر انہیں دور دھکیل دیا۔ ان پر دین ہی کے نام سے ایسے عقائد مسلط ہو گئے ہیں جو اسلامی تصورات سے متضاد ہونے کی بنا پر مسلمانوں کی بربادی کا ذریعہ بن گئے ہیں۔ ان نام نہاد مشتبہی بالاسلام کی یہ سیاست ان کی جہالت اور خود پرستی دو گونہ خصائل پر مبنی تھی جس (سیاست) نے اسلام میں ان عقائد کا الحاق کر دیا جن کے ساتھ دین کو دور کا واسطہ بھی نہ تھا۔ اور پیروان اسلام سے ایسی خوبیاں سلب کر لیں جن کے سہارے وہ افلاک تمدن کی سیر کر سکتے تھے۔ اب ان کی ہمتوں کو یاس و حرمان نے بے دست و پر کر دیا۔ اسلام ہی کے نام پر یہ رسمیں ان میں داخل ہو گئیں چہ جائیکہ ان پر اسلام کی مہر نہ تھی البتہ مسلمانوں کی نماز روزہ اور حج ان کی دستبرد سے بچ گئے یا چند اور اقوال جن میں صرف تحریف موثر نہ ہو سکی۔

کہاں تک بیان کیجیے اور کب تک سنییے گا۔ اس غلبہ نے مسلمانوں میں بدعات و خرافات کھڑے کر دیے اور اس عیاری کے ساتھ کہ اسلام کے ماننے والے ان بدعات کو اصل دینسمجھ کر ان پر عمل پیرا ہو تے گئے

نعوذ باللہ منھم وما یفترون علی اللہ ودینہ

انتہا یہ ہے کہ آج تک جو کچھ اسلام کے نام سے موسوم ہے وہ ابھی ان ہی افترا کنندوں کا ہے۱؎۔

متذکرہ الصدر سطور میں شیخ محمد عبدہ نے جو کچھ فرمایا ہے ظاہر ہے کہ دشمنان دین نے اسلام میں ایسے خرافات شامل کر دیے جنہیں بادی النظر میں خدا اور اس کے رسول کا حکم سمجھا گیا ہے سب سے بڑا افترا تقدیر کا تصور ہے جس (تصور) کے خلاف قرآن مجید میں بے شمار آیات موجود ہیں۔ اسلام کے ان مہربانوں نے تقدیر کی تاویلوں کی وجہ سے مسلمانوں کے اندر کاہلی و نامرادی کی تخم ریزی اس طرح کی کہ سعی و تدبیر کو کامیابی سے کوئی واسطہ نہیں۔ اسے سے واضح صداقت اور کہاں ملے گی؟ کامرانی و فوز کی نبض تقدیر کے ہاتھ میں ہے جس میں انسانی جدوجہد کو ذرہ بھر دخل نہیں۔

میں پھر اعادہ کرتا ہوں کہ اسلام میں تقدیر کا یہ تصور نہیں میں یہ بھی کہتا ہوں کہ مستشرقین نے ازراہ حسد و بغض اسے اسلام کے سر منڈھ دیا ہے۔

 

اسلام پر مادیات سے اجتناب کا افترا

مسیحی مہربانوں کے ہاتھوں تقدیر ہی کا گلہ نہیں۔ وہ تو یہ بھی کہتے ہیں کہ اسلامی نقطہ نظر کے مطابق مادیات سے انتفاع بھی رو ا نہیں جیسا کہ یونان کے رواقی فرقہ کا مسلک ہے جو عہد عباسیہ میں مشرق وسطیٰ پہنچا اور مسلمانوں کے ایک فرقہ نے اسے اپنا لیا۔ کچھ سہی لیکن قرآن مایدات سے انتفاع کی برملا ترغیب فرماتا ہے۔

قرآن مادیات سے انتفاع کی ترغیب دیتا ہے

ولا تنس نصیبک من الدنیا (۲۸:۷۷)

’’اور دنیاسے جو تیرا حصہ ہے اسے فراموش نہ کر‘‘۔

قرآن مسلمانوں کو ایسے اعتدال و میانہ روی کی تعلیم فر ماتا ہے جس میں نہ رواقیت کا سا ترک دنیا ہے اور نہ رندانہ حظ نفس میں استغراق و انہماک! لیکن ارونگ مستشرق یہ دونوں برائیں تقدیر کے کندھوں پر رکھ کر مسلمانوں کے گلے ڈال رہا ہے کہ مسلمانوں کو تقدیر اور ادھر عیش طلبی نے سعی و جدوجہد سے روک کر سدا کے لیے تلپٹ کر دیا جس سے وہ ابھی تک نہیں سنبھل سکے۔

اس مصنف پر جو اپنی مسیحیت کے دامن میں پاکیزگی و ایثار کے نقش دکھا کر اسلام کے جیب و گریبان کو ان دونوں صفتوں سے معرا ثابت کرنا چاہتا ہے کیا کیا جائے۔ ہمیں ہی گوارہ نہیں کہ علمی نصرانیت اور اسلام کا تقابل س حیثیت سے کیا جائے کہ اس لیے کہ اصل میں دونوں ایک ہیں۔ اگر ہم اس باب میں عملی مسیحیت کا رخ پیش کریں تو ایک حیثیت میں مشاجرہ کا دروازہ کھولنا ہے اور ہمیں یہ منظور نہیں۔ اس میں اسلام یا عیسویت دونوں میں سے کسی کے لیے منفعت نہیں۔ لیکن انجیل مقدس کی اس آیت کو کیا کیجیے گا جو حضرت مسیحؑ کو رواتی ثابت کرنے کی بجائے انہیں چہ جائے کہ جناب مسیحؑ کو فی الجملہ رواقی ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے انجیل کی اس آیت کا مفاد یہ ہے کہ:

۱؎  الاسلام و النصرانیۃ از شیخ محمد عبدہ ص ۱۲۲ تا ۱۲۵

حضرت مسیحؑ  کا سب سے پہلا معجزہ یہ ہے کہ قانائے گلیل کی ایک شادی میں شراب نہ تھی مگر مسیحؑ نے اپنے اعجاز سے پانی کو شراب میں تبدیل کر دیا طرفہ یہ ہے کہ جب یہ شراب ختم ہو گئی تو ان کے جو ساتھی اس نعمت سے پوری طرح شاد کام نہ ہوئے تھے انہیں فریسیوں کے دستر خوان پر لے پہنچے جہاں دوسری دوسری نعمتوں کے ساتھ شراب بھی موجود تھی۔ ثابت ہوا کہ نہ تو حضرت مسیحؑ دنیاوی نعمتوں سے اپنا دامن سمیٹا نہ اپنے دوستداروں کو یہ تلقین فرمائی البتہ انہوں نے دولت مندوں کو یہ تلقین ضرور فرمائی کہ وہ محتاجوں کی دست گیری کریں ان کے ساتھ محبت سے پیش آئیں اور انہیں اپنا احسان نہ جتائیں۔

جناب مسیحؑ کے خلاف حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے کردار میں ان معاملات کی رو سے کس قدر اعتدال نظر آتا ہے اس کی مدحت قرآن مجید نے بھی جا بجا فرمائی ہے جیسا کہ ہم گزشتہ اوراق می زکوٰۃ و صدقہ کے احکام پر چند آیات نقل کر چکے ہیں جن کا تکرار تحصیل حاصل ہے

مسیحی مفتری ارونگ(مستشرق) نے اسلام پر رواقیت کا جو افترا باندھا ہے۔ اس کی تردید کے لیے قرآنی تعلیم میں توسط و اعتدال کی تلقین کافی ہے۔

جو شخص تلوار کے زور سے کوئی چیز حاصل کرے وہ شے اس سے تلوار ہی کی قوت سے واپس لی جا سکتی ہے

ارونگ نے اسلام کے جسد میں جو تیز و نشتر پیوست  کیے ہیں ان میں سے ایک نشتر مسلمان ترکوں کی یورپ میں حکومت بھی ہے۔ اس  میں ارونگ کہتا ہے کہ اگر مسیحی یورپ میں ابھی تک ہلال ترکوں کا وجود نظر آ رہا ہے تو اس یے کہ الف یہ مسیحٰ دول یورپ کی مہربانی ہے (ب) یا مسیحی دول یورپ کی باہمی پھوٹ کا نتیجہ ہے(ج) یا ترکوں ہی کی ہمت کا نتیجہ ہے اس کلیہ کے مطابق کہ جو شخص زور شمشیر سے حاصل کرے شمشیر ہی کی قوت سے وہ چیز اس سے واپس لی جا سکتی ہے۔ مگر شمشیر اور واپسی (بمطابق ج) انجیل مقدس کا کلیہ ہے جسے ارونگ نے اسلام کے سر پر ڈال دیا ہے۔ بے چارہ ارونگ معذور بھی تو ہے کہ اس نے یہ کتاب انیسویں صدی میں لکھی جب تک یورپ کا استعمار یا بقول ارونگ …استعمار مسیحی موجودہ صدی کے مطابق حریص اور شمشیر پر بھروساکرنے والے نہ ہوں گے لیکن انیسویں صدی منقضی ہوتے ہی بیسویں صدی کے آغاز (۱۹۱۸) میں مسیحی یورپ کی شمشیر کی کاٹ دیکھیے کہ لارڈ ایلن بی اتحادی فوجوں کا ٹڈ ی دل ے کر بیت المقدس پر حملہ آور ہیں جہاں یورپ ہی کے ترک حکمران ہیں۔ جب ایلن بی اس منصوبے میں کامیاب ہو گئے تو سلیمانی ہیکل کے حضور کھڑے ہو کر فرمایا کہ صلیبی جنگیں آج ختم ہوئی ہیں بیت المقدس کے اس یسقوط پر پترسین ایم سمتھ نے اپنی تصنیف سیرت المسیحؑ میں لکھا ہے کہ سنہ …۱۹۱۸ ء میں اتحادیوں کا بیت المقدس پر قبضہ آٹھویں صلیبی جنگ تھی جسے مسیحیت اپنے مقصد میں کامیاب ہو سکی۔ اگرچہ بیت المقدس کا یہ سقوط تنہا مسیحی یورپ کی کوششوں کا ثمرہ نہیں۔ اتحادیوں نے اس مقصد کے لیے ان یہودیو ں کو آلہ کار بنایا جو صدیوں سے ارض موعود (بیت المقدس) میں قدم جمانے کے لیے کوششوں میں لگے ہوئے تھے جن کی آڑ میں مسیحی یورپ نے مسلمان ترکوں سے بیت المقدس چھین کر مظلوم مسیحؑ کے قاتلوں کی نذر کر دیا۔

حضرت مسیح علیہ السلام زمین پر آگ بھڑکانے آئے ۱؎

اس لیے انجیل کا کلیہ

میں زمین پر آگ بھڑکانے آیا ہوں اور اگر آگ لگ چکی ہوتی تو کیاہی خوش ہوتا لیکن مجھے بپتسمہ لینا ہے اور جب تک وہ نہ ہو لے میں بہت ہی تنگ رہوں گا کیا تم گمان کرتے ہو کہ میں زمین پر صلح کرانے آیا ہوں میں تم سے کہتا ہوں کہ نہیں ! بلکہ جدائی کرانے!

اسلام پر صادق نہیں آتا کہ اس نے کوئی ملک تلوار کے زور سے حاصل ہی نہیں کیا بلکہ یہ وصف ملت مسیحؑ کا خاصہ ہے جس نے گزشتہ صدیوں سے جہاں گیری و جہاں بانی کا اپنا شیوہ بنا لیا مگر آج اسے پیروان مسیحؑ اسلام کے سر پر ڈالنا چاہتے ہیں جب کہ آج کا یورپ ہوس استعمار میں سرشار ہو کر ان تاتاریوں کی پیروی کر رہا ہے جنہوں نے اسلام کا لبادہ اوڑھ کر ملک فتح کیے اور لیکن اسلامی تعلیم کا ان تاتاریوں پر شمہ بھر اثر نہ تھا۔ ان کے اس جرم کی سزا میں دوسرے مسلمان بھی خدائی گرفت میں جکڑے گئے۔

 

مسیحی یورپ نے بھی اپنے نبی کا اقتدا کیا

پھر دیکھیے یورپ نے جہاں استمعار کی طرح ڈالی ان ملکوں کے باشندے ان کی نیتوں سے جلدی آگاہ ہو گئے۔ بخلاف ان کے جو ملک مسلمانوں کے زیر نگیں ہوئے ان ملکوں کے غیر مسلم باشندے جوں جوں اسلام کی عظمت اور سادگی و خلوص سے آگاہ ہوئے از خود اسلام قبول کرتے چلے گئے۔ دونوں (یورپ اور مسلمان حکمرانوں ) میں مابہ الامتیاز پہلے کی ہوس استعمار اور ثانی الذکر کی اس ذو ق سے محرومی ہے یورپ کے پیچھے دینی قوت کا شائبہ تک نہیں جس کی بدولت مغرب کی عیسائیت ایسا بے ثمر پودا ہے جس کی قیمت یورپ میں بھی نہیں رہی۔ اسی بے عملی کی وجہ سے مسلمانوں میں ان کی تبلیغ بے اثر ہو کر رہ جاتی ہے مگر بخلاف عیسویت اور مغربی استعمار پسندوں کے اسلام کی عظمت اور سادگی عقل و ادراک میں وسعت پیدا کرتی ہے جس کی بنا  پر اس کے مقابلہ میں دوسرے مذاہب کی پذیرائی نہیں ہو سکتی۔

من اخذ بالسیف فبالسیف یوخذ

بلا شبہ مسلمہ ہے لیکن یہ کلیہ مندرجہ ذیل دو طبقوں پر صادق اتا ہے۔

(الف) ان مسلمان حکمرانوں پر جنہوں نے مدافعت یا اپنے عقیدہ کی حفاظت سے قطع نظر جہاں بانی کی ہوس میں ملک فتح کیے۔

(ب) مسیحی مستعمرین یورپ پر جو پس ماندہ اقوام کو اپنا غلام بنائے رکھنے کے لیے ان میں گھس جاتے ہیں۔

۱؎  لوقا ۱۲ آیت ۴۹ تا ۵۱

 

صدر اول کے مسلمانوں کی فتوحات کا نتیجہ استعمار نہ تھا

مگر صدر اول کے مسلمان کیا بزمانہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور کیا بعہد خلفائے راشدینؓ اور ان سے کچھ مدت بعد کے امرائے اسلا می سے کسینے کسی غیر قوم پر محض غلبہ یا ہوس استعمار کی غرض سے حملہ نہیں کیا۔ ان کی جنگوں کا مقصد دشمنوں سے مدافعت کرنا یا اپنے عقیدہ کا تحفظ تھا جیسا کہ جب قریش نے بعہد نبوت پناہ مسلمانوں کو ان کے عقیدہ سے لوٹانے کی کوشش کی اور ا س معاملہ میں پورا عرب قریش کے ساتھ ہو کر مسمانوں پر دوڑ پڑا تب مسلمانوں نے انہیں خود پر سے ہٹانے کے لیے جوابی جنگ ضرور کی۔ اسی طرح روم کے مسیحٰ دشمنان اسلام اور ایران کے مجوسی حاسدان دین حنیفی کا ماجرا ہے جب ان کی طرفسے مسلمانوں کے عقائد کی وجہ سیمداخلت و حملہ پر مسلمانوں نے انہیں سرکوبی کے لیے باڑھ پر رکھ لیا قریش و عرب اور روم و ایران کی جنگوں میں صداقت مسلمانوں کی طرف تھی اور جدھر صداقت ہو فتح ان کے لیے مقدر ہوتی ہے یہی ہوا کہنا یہ ہے کہ ان جنگوں میں مسلمانوں نے فاتح ہونے کے باوجود اپنے کسی مقابل کے عقیدہ میں مداخلت گوارا  نہ کی کہ اسلامی تصورات میں کسی کے دین میں مداخلت اکراہ ہے

لا اکراہ فی الدین ؎۱…البقرہ…م

ان فاتحین نے یورپ کے مستعمرین کی طرح اپنے مفتوحہ ممالک کو اپنے لیے استعمار کی منڈیاں نہیں بنایا۔ جیسا رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اندا ز سے ثابت ہے کہ ہر مفتوح قبیلہ میں سے اس کے سابق امیر کو اس کے منصب پر جوں کا توں برقرار رہنے دیا۔ مسلمانوں خو کسی مذہب و ملت کے عقیدہ میں مداخلت کا تحمل ہ نہیں لیکن ہی ان کے اختیار میں نہ تھا کہ ان کے عقیدہ کی استواری اور اہل عرب کی اہالیان عجم پر عدم ترجیح دیکھ کر مفتوحہ ممالک کے باشندے خود بخود اسلام قبول نہ کر لیں اورایسے مساواتی عقیدہ اور اس پر عمل سے آنکھیں بند کر کے کون گزر سکتا ہے؟

 

مسلمان فاتحین کا چلن اسلام کی تبلیغ تھی

جس عقیدہ میں خدائے مطلق کے سوا کسی انسان کو کسی انسان پر برتری نہیں۔ جب عرب سے باہر کے رہنے والوں نے ان فاتحین اسلام کے یہ چلن دیکھے تو قبول اسلام کے لیے سبقت کے بغیر چارہ نہ رہا۔

لیکن گزشتہ آخری صدیوں میں یہاں بھی ملوکیت نے ڈیرے ڈال لیے۔ مسلمان بادشاہوں نے جہاں گیری و جہاں بانی کے لیے جنگیں شروع کر دیں اور اس نوک شمشیر سے ملک فتح کیے کہ جس سے دوبارہ واپس لیے جاتے ہیں لیکن نہ تو اسلام زور شمشیر سے فتح کرنے کا حامی ہے نہ کسی کو اس کے مفتوحات میں بزور شمشیر ملک کا کوئی حصہ واپس لینے کی اجازت دیتا ہے۔

اس لیے اسلام ملکوں پر حکمرانی کی بجائے اذہان و قلوب پر قبضہ کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر غیر مسلم حکومت ان پر غالب آ گئی تو سہی لیکن انہیں اسلام سے برگشتہ کرنے میں غلبہ حاصل نہ کر سکی۔ آج جن مسلم ممالک پر عیسائیوں نے تلوار کے زور سے غلبہ حاصل کیا ہے ان پر انجیل کا مقولہ جو شخص زور شمشیر سے حاصل کرے وہ چیز شمشیر ہی کے زور سے واپس لی جاتی ہے (انجیل لوقا ب ۱۲ ۴۹ تا ۵۱)

۱؎  دین میں زبردستی (کا کچھ) نام نہیں۔

مذکورہ الصدر تحریر کے مطابق حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مفتوحہ قبائل کے سابق امرا و نوابین کو ان کے مناصب پر بدستور بحال رکھا۔ مسلمانوں کی طرف سے اپنے منصب میں عدم اکراہ دیکھ کر اہل عرب از خود وحدت اسلامی میں منسلک ہو گئے۔ اب تمام ملک میں کوئی راجا ہ تھا پرجا حتیٰ کہ قبائل عرب مکہ یا مدینہ میں بھی کسی کی ماتحتی کے بار سے سرنگوں نہ تھے۔ ان میں ایمان و عمل کی حیثیت مابہ الامتیاز تھی لیکن اس پر بھی سب مسلمان خدا کے سامنے مساوی درجہ پر تھے۔ ایک دوسرے پر برتری اور کمتری کا سوال ہی نہ تھا البتہ جب  غیروں میں کوئی ان کی جمعیت کو پراگندہ کرے یا ان کے عقیدہ و ایمان کی وجہ سے ان پر حمل یا حملہ کی تیار ی کر رہا ہوتا تو سب کے سب مل کر مدافعت کرتے کیونکہ ہر فرد مسلم ملت کا جزو ہے اور ان کا مرکز انکے خلیفہ کا دارالخلافت لیکن خلیفہ اور دارالخلافت دونوں میں سے کسی کو اقتدار و منزلت یا معنوی برتری میں جمہوری پر کوئی تفوق نہ تھا۔ اسلام  میں یہ برتری صرف احکام الٰہی کو حاصل ہے۔ اسی مساوات کے صدقہ میں مسلمانوں کا ہر بڑا شہر علم و فن اور صنعت و حرفت کا مرکز بنا ہوا تھا جہاں امن و آشتی کا دور دورہ ہوتا چاروں طرف سے ہن برستا اور صدیوں تک یہی عالم رہا۔

 

مسلمان اصول اسلام میں خود ہی تحریف کر کے تباہی میں مبتلا ہو گئے

اب ان کے برے دن ا ٓ گئے مسلمانوں نے اصول اسلام میں تحریف شروع کر دی جس کے وہ خود ہی شکار ہو ئے باہمی اخوت میں بے اعتنائی اور تسبیح کے دانوں کی طرح بکھر گئے۔ ایک دوسرے مسلمان کی ضرورتوں پر اپنے اپنے کاموں کو ترجیح دی اور غیروں کے محتاج بن گئے۔ ہر فرد پر خود پرستی غالب آ گئی۔ جس سے وقت نے اپنا رخ بدل لیا۔ دشمن کی تلوار میان سے نکل آئی۔ شمشیر کے قانون کا جز و اول نافذ ہو گیا اور مسیحی تلوار نے ان کی حکومت کے پرخچے اڑا دیے اب اس شمشیری قانون کے آخری جملہ کے پورے ہونے کا انتظار ہے کہ مسلمانوں کو مسیحی فاتحین سے شمشیر ہی کا قانون ان کا ملک واپس دلائے گا۔

 

فاتح ممالک میں مسیحی یورپ کا قانون تلوار ہے

ہوا یہ کہ پندرھویں صدی ع کے آغاز میں مسیحیت نے ایسی کروٹ بدلی کہ اگرآپس میں انکی پھوٹ نہ پڑتی تو ان کا وجود نیا کیلیے بھی مضر ثابت ہوتا۔ مسیحی یورپ کی شمشیر نے ان مسلمانوں کو اپنے نرغے میں لے لیا جو اصول اسلام ترک کر چکے تھے۔ لیکن عیسائیوں ے مسلمانوں پر کس طرح حکومت کی؟ فاتح و مفتوح کے درمیان تلوار رکھ دی گئی۔ اب یہ کہنا تحصیل حاصل ہے کہ جہاں شمشیر کے زور سے حکومت کی جائے تو ایسے فاتحین سے عقل و علم اور شرافت و محبت بلکہ ایمان اور انسانیت تک رخصت ہو جاتے ہیں۔

 

مسلمانوں میں باہم جنگ و جدال پر اسلامی قانون

دنیا کا موجودہ اخلاقی بحران زور شمشیر ہی کا تو نتیجہ ہے۔ یورپ کی جو بادشاہیاں زور شمشیر سے پس ماندہ ممالک پر حکمران ہیں آج سے بیس سال قبل یہی قومیں دنیا میں امن و آشتی پیدا کرنے کا احساس کر رہی تھیں لیکن ایسی صلح و محبت کا سبق صر ف اسلام کے پاس ہے کہ:

وان طاء فتن من المومنین اقتتلوا فاصلحوا بینھما فان بغت احدھما علی الاخری فقاتلوا التی تبغی حتی تفی ء الی امر اللہ فا ء ت فاصلحو بینھما بالعدل واقسطوا ان اللہ یحب المقسطین انما المومنون اخوۃ فاصلحوا اخویکم واتقو اللہ لعلکم ترحمون(۴۹:۹۔ ۱۰)

’’اور اگر (تم ) مسلمانوں کے دو فرقے آپس میں لڑ پڑیں تو ان میں صلح کرا دو۔ پھر اگر ان میں کا ایک (فرقہ) دوسرے پر زیادتی کرے تو جو فرقہ زیادتی کرتا ہے (تم بھی ) اس سے لڑو یہاں تک کہ وہ حکم خدا کی طرف رجوع لائے۔ پھر جب رجوع لے آئے تو فریقین میں برابری کے ساتھ صلح کرا دو اور انصاف کو ملحوظ رکھو۔ بے شک اللہ انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔ مسلمان تو بس (آپس میں ) بھائی بھائی ہیں۔ تو اپنے دو بھائیوں میں میل جول کرا لیا کرو اور خدا (کے غضب) سے ڈرتے رہو تاکہ (خدا کی طرف سے) تم پر رحم کیا جائے‘‘۔

 

مغربی تمدن استعمار پر مبنی ہے

بخلاف اس آیت کے مغربی حکمرانوں کی ایسی کوششیں ابھی تک ناکام ہیں جن کی نحوست کے اثر سے صلح و آشتی کا وجود دنیا کے کسی حصہ میں نہیں پایا جاتا اورکیسے پایا جا سکتا ہے جب کہ مغرب کے تمدن کی بنیاد ہی استعمار پر ہو اور استعمار زیر دستوں کو اپنی گرفت میں جکڑ رکھنے سے تعبیر ہو۔ پھر استعمار میں جکڑے ہوئے پس ماندہ اپنی نجات کے لیے ہاتھ پیر نہ بھی ہلائیں ، لیکن جب وہ حرکت کریں گے تو دنیا جنگ کے شعلوں سے کرہ نار بن کر فنا ہو جائے گی۔ آخرپس ماندہ اقوام ان ابلیسان سیاست کو اپنی گرفت میں لا کر دم لیں گے۔ ظاہر ہے کہ جب تک دنیا میں ایسا ایک ابلیس باقی رہے گا جسے ہوس استعمار نے پاگل کر رکھا ہو صلح و آشتی کا برقرار رہنا ناممکن ہے اگرچہ آئے دن معاہدے کیوں نہ ہوتے رہیں۔ باوجود اس کے نہ تو ان(معاہدین) میں سے کوئی خود کو دوسرے کے حملے سے محفوظ سمجھتا ہے اور نہ موقع ملنے پر خود دوسرے پر حملہ آور ہونے میں غافل ہے۔ غریب دنیا والے ان احوال و سوانح میں امن و راحت سے زندگی کیسے بسر کر سکتے ہیں ؟

صلح و آشتی کا دور دورہ صرف ایک صورت میں ہو سکتا ہے کہ ہر قوم اپنی برتری کا سودا سر سے نکال کر باہمی محبت و مساوا ت کی فکر میں گم ہو جائے۔ ہر قوم کا اساسی عقیدہ اسی پر مبنی ہو گا کہ جب کوئی ملک دوسرے پر حملہ آور ہو تو سب مل کر حملہ آور پر ٹوٹ پڑیں۔

لیکن یہ صورت اس وقت ممکن ہے جب کہ تمدن کی بنیاد استعمار پر نہ ہو اور دنیا پر واضح ہو جائے کہ اب سے طاقتور ملک پس ماندہ قوموں کی کمک پر کمربستہ ہو جائیں گے۔ حکمران اپنے ماتحتوں کے ساتھ شفقت و محبت کا برتاؤ کریں گے۔ علم دوست بے پڑھوں کی تربیت اپنا فرض سمجھیں گے۔ عقل و دانش کا علم سرفراز ہو گا۔ علم سے بے بہرہ قوموں کو سائنس و فنون کی جھلک سے رام نہ کیا جائے گا۔ بلکہ ہر حال میں انسانیت کی منزلت کو مقدم رکھا جائے گا۔

اگر تمدن کی بنیاد استعمار کی بجائے اسلامی نظریہ تہذیب پر قائم کی جائے تو امن و آشتی خود بخود پھیل جائے گی انسان دنیا کے ہر کونے کو اپنا وطن تصور کرے گا، ایک دوسرے کو بھائی سمجھ کر اپنی ضروریات اس کی احتیاج پر قربان کرنے لگیں گے، دلوں میں انسانی محبت کا سمندر ٹھاٹھیں مارنے پر آ جائے گا۔ جب برسراقتدار جماعتیں اپنے لب و لہجہ میں تبدیلی کر لیں گی ہر قوم دوسرے فریق کی حرمت خود پر واجب سمجھ لے گی۔ باہم دوستانہ مبادلات زندگی کا وظیفہ قرار پائیں گے اور یہ تمام اطوار و کردار صرف خدائے برتر کی خوشنودی کے لیے کیے جائیں گے پھر کوئی وجہ نہیں کہ صداقت کو فروغ حاصل نہ ہو سکون و امن کی حکومت قائم نہ ہونے پائے۔ خداوند عالم ایسے ہی دور میں اپنے بندوں پر خوش ہو سکتا ہے اور اس کے بندے اسی طرح اپنے خالق کو خوش رکھ سکتے ہیں۔

 

اسلام کی اساس عفو و مساوات پر ہے

ان الذین امنوا والذین ھادواوالنصری واصبئین من امن باللہ والیوم الاخر و عمل صالحا فلھم اجرھم عند ربھم ولا خوف علیھم ولا ھم یحزنون (۲:۶۲)

’’بیشک مسلمان اور یہودی اور عیسائی اور صابی ان میں سے جو لوگ اللہ پر اور روز آخرت پر ایمان لائے اور اچھے کام کرتے رہے تو ان (کے کیے) کا اجر ان کے پروردگار کے ہاں ملے گا اور ان پر نہ کسی قسم کا خوف طاری ہو گا اور نہ وہ کسی طرح آزردہ خاطر ہوں گے‘‘۔

اسلام کے سوا مساوات و باہمی عفو و کرم کی اس سے بہتر اور وسیع افق کون سے آسمان پر تلاش کیجیے گا۔ جس میں خدائے یکتا پر ایمان اور یوم الحساب پر یقین کے ساتھ ساتھ نیک کرداری پر اجر مقدر ہے، عام اس سے کہ یہ شخص مسلمان ہے یا اسلام کی دعوت نہ پہنچنے کی وجہ سے مرنے تک یہودیت پر قائم رہا، نصرانیت پر ا س کا خاتمہ ہوا یا صابیت کی گود میں بیٹھا ہوا قبر میں جا سویا۔

وان اھل الکتاب لمن یومن باللہ وما انزل الیکم وما انزل الیھم خاشعین للہ لا یشترون بایت اللہ ثمنا قلیلا اولئک لھم اجرھم عند ربھم ان اللہ سریع الحساب (۳:۱۹۹)

’’اور یقیناً اہل کتاب میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اللہ پر سچا ایمان رکھتے ہیں اور جو کچھ تم پر نازل ہوا ہے اور جو کچھ ان پر نازل ہو چکا ہے سب کے لیے ان کے دل میں یقین ہے۔ نیز ان کے دل اللہ کے آگے جھکے ہوئے ہیں۔ وہ ایسا نہیں کرتے کہ خدا کی آیتیں تھوڑے داموں پر فروخت کر ڈالیں۔ تو بلاشبہ ایسے لوگوں کے لیے کوئی کھٹکا نہیں۔ ایسے ہی لوگ ہیں جن کے لیے ان کے پروردگار کے حضور ان کا اجر ہے۔ یقیناً اللہ (کا قانون مکافات) اعمال کے حساب میں سست رفتار نہیں ‘‘۔

کیا قرآن مجید کی اس عفو و لطف عام کے مقابلہ میں مغرب کا وہ تمدن پیش کیا جا سکتا ہے جس کی بنا عصبیت پر اس کا اکمال دوسرے سے حسد و باہی جنگوں پر ہو؟

عفو و صلح کی جو تعلیم قرآن کی اس آیت (۳:۱۹۹) میں ہے اس کا پرچار دنیا کے کونے کونے میں کرنا ہمارا فرض ہے۔ تاکہ ہر انسان اپنا مرتبہ معلوم کر سکے اور یہی روح ہے کہ جو ختم المرسلین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر وحی الٰہی کے ذریعے نازل ہوئی۔ انسانی زندگی کے لیے جو لائحہ عمل مرتب کیجیے اس آیت کے پیش نظر کیجیے  جس سے روحانی و اخلاقی مسائل کے حل ہونے میں مدد مل سکتی ہے۔ جن کا تعلق ہماری روز مرہ زندگی سے ہے اور جس حل کے لیے اہل علم لوگوں سے سرگرداں ہیں۔

 

حیات محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عظمت

اس کتاب میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زندگی کے جو نقوش دکھائے گئے ہیں انہیں ایک ایسے انسان کی زندگی کا خاکہ کہیے جو مقام علو و برتری کے تمام درجات طے کر چکا ہو۔ اور جو لوگ زندگی کے لیے نمونہ و مثل کی جستجو میں ہیں ان کے لیے جناب محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زندگی ایک ایسا جامع و مانع درس ہے کہ جس کے ہوتے ہوئے کسی اور جگہ درس کا تلاش کرنا لا حاصل ہے۔ ایسے جاذب نقوش اور کہاں ملیں گے؟ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بعثت سے قبل بھی تو صداقت و شرافت میں ضرب المثل ہیں اور نبوت کے بعد آپ میں یہ کمالات پائے جاتے ہیں کہ زندگی کا ہر لمحہ قربانی کے لیے وقف ہے۔ جس کی بدولت بارہا موت کے قریب قریب پہنچ گئے۔ اس پر یہ امتیاز کہ اگر کس نے جاہ و مال کی جھلک دکھا کر آپ کو زندگی(کے ان کمالات) سے ہٹانا  چاہا تو آپ نے اس کی طر ف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھا۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم زندگی کے جس بلند و بالا مرتبہ پر فائز ہیں کسی اور انسان کی وہاں تک رسائی ممکن نہیں اور یہ کمالات زندگی کے کسی ایک شعبہ میں نہیں بلکہ حیات کے ہر زاویہ میں یہی تکمیل دیکھیے گا۔ بشر کے لیے اس سے زیادہ برتری کی گنجائش کیسے پیدا کیجیے گا۔ کہ ایک طرف یہ کمالات حاصل ہوں اور دوسری طرف خداوند برترسے بھی پورا واسطہ جس کا یہ اجر ہے کہ چودھویں صدی ختم ہونے کو آئی مگر

ہنوز آن بر رحمت درفشان ست

جناب محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی صداقت و نبوت کا سکہ ابھی تک جاری ہے چہ جائے کہ اس طویل عرصہ میں کئی ایسی بلند مرتبہ ہستیاں دنیا میں آئیں جو زندگی کے مناسب مقام پر فائز ہوئیں مگر ان میں کسی کو نبوت و رسالت من اللہ نصیب نہیں ہوئی۔ پھر یہی نبوت جناب خاتم النبیین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے پہلے اس قدر عام تھی کہ ہر قوم میں نبی مبعوث ہوتا جو اپنی قوم کو ہدایت کی تلقین کرتا۔ مگر ان بے شمار نبیوں میں سے نہ تو کسی نے خود کو تمام دنیا کے لیے پیش کیا نہ کوئی اپنی ختم المرسلینی کا حرف زبان پر لایا ماسوائے جناب محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے جنہوں نے اپنی رسالت کا دعویٰ تمام عالم میں اور رہتی دنیا تک کے لیے پیش کیا اور سنن والوں نے اس دعویٰ کی تصدیق کی۔ کیوں نہ ہوتا کہ نہ رسالت بدعی امر تھا نہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر نازل شدہ کتاب نیا معاملہ۔

ماکان حدیثا یفتری ولکن تصدیق الذی بین یدیہ و تفصیل کل شئی و ھدی  و رحمۃ لقوم یومنون (۱۲:۱۱۱)

’’یہ قرآن کوئی بنائی ہوئی بات تو ہے نہیں بلکہ جو (آسمانی کتابیں ) اس کے نزول سے پہلے (موجود ) ہیں ان کی تصدیق کرتا ہے اور اس میں ان لوگوں کے لیے جو ایمان والے ہیں ہر چیز کا تفصیلی بیان اور ہدایت اور رحمت ہے‘‘۔

٭٭٭

 

 

حرف آخر

 

 

خدا کے لطف و رحمت سے امید ہے کہ میں نے جس مقصد کے لیے قلم اٹھایا ہے جہاں تک میری وسعت تھی اس نے مجھے پوری کامیابی عنایت فرمائی اور

لا یکلف اللہ نفسا الا وسعھا لھا ماکسبت وعلیھا ما اکتسبت ربنا لا تواخذنا ان نسینا او اخطانا

’’اللہ کسی جان پر اس کی طاقت سے زیادہ ذمہ داری نہیں ڈالتا۔ ہر جان کے لیے وہی ہے جیسی کچھ اس کی کمائی ہے جو کچھ اسے پانا ہے وہ بھی اس کی کمائی سے ہے اور جس کے لیے اسے جواب دہ ہونا ہے وہ بھی اس کی کمائی۔ (پس ایمان والوں کے صدائے حال یہ ہوتی ہے کہ) خدایا! اگر ہم سے (سعی و عمل میں ) بھول چوک ہو جائے تو اس کے لیے نہ پکڑیو اور ہمیں بخش دیجیو‘‘۔

ربنا ولا تحمل علینا اصرا کما حملتہ علی الذین من قبلنا ربنا ولا تحملنا مالا طاقۃ لنا بہ

’’خدایا ! ہم پر بندھنوں اور گرفتاریوں کا بوجھ نہ ڈالیو جیسا کہ ان لوگوں پر ڈالا تھا جو ہم سے پہلے گزر چکے ہیں۔ خدایا! ایسا بوجھ ہم سے نہ اٹھوائیو جس کے اٹھانے کی ہم (ناتوانوں ) میں سکت نہ ہو‘‘۔

واعف عنا واغفرلنا وارحمنا انت مولنا فانصرنا علی القوم الکفرین (۲:۲۸۶)

’’خدایا ! ہم سے درگزر کر !خدایا ہم پر رحم کر  خدایا! تو ہی ہمارا مالک و آقا ہے۔ پس ان (ظالموں ) کے گروہ کے مقابلے میں ہماری مدد فرما‘‘۔

وتمت کلمات ربک صدقا وعدلا

٭٭٭

مآخذ

(جن کا تذکرہ مصنف نے متن میں کیا)

(الف)

الابطال… کارلیل

اسباب النزول… الواحدی

الاسلام … اب لامنس

الاسلام الصحیح… استاد محمد اسعاف انشاشیبی

الاسلام والنصرانیۃ… امام محمد عبدہ

(ب)

البحر الرئق… ابن نجیم

البدایۃ والنہایۃ… ابن کثیر

(ت)

تاریخ ابن کثیر … البدایۃ والنھایۃ

تاریخ ابی الفدائ… البدایۃ والنھایۃ

تاریخ الرسل والملوک… طبری

تفسیر الطبری (جامع البیان)

تفصیل آیات القرآن الحکیم

(ح)

حیات محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم … امیل در منجم

حیات محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم … ولیم مویر

(د)

دائرۃ المعارف البریطانیہ

دلائل النبوۃ… ابی نعیم اصبھانی

(ر)

رسالتہ فی تاریخ العرب کوسان دیر سفال

روح الاسلام … سید امیر علی

روح المعانی… آلوسی

(س)

سیرۃ ابن ہشام

(ش)

شرح مسلم … نووی

الشفاء … قاضی عیاض

(ص)

صحیح مسلم

(ط)

الطبری… تاریخ الرسل و الملوک

طبقات ابن سعد… ابن سعد

(ف)

فتح العرب لمعصر… دکتور بتلر

فجر الاسلام … استاد احمد امین

فی الادب الجاھلی …دکتور طہ حسین

(ق)

قصص الانبیائ… استاد عبدالوھاب النجار

(ک)

کتاب البخاری (الجامع الصحیح)

کتاب واشنطن از فنج

کلیات ابی البقاء

(م)

مجلۃ المستشرقین الالمانیہ

مجلۃ المنار

مغازی الواقدی

مفتاح کنوز السنۃ

موسوعۃ … اروس الفرنیسۃ

(ن)

الناسخ والمنسوخ… ابن سلامۃ

النھایۃ … ابن اثیر

(و)

الوحی المحمدی… رشید رضا

(ی)

الیھود فی بلاد العرب …اسرائیل و لفنسن

٭٭٭

http://www.iqbalcyberlibrary.net/txt/100045.txt:

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید