FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

فہرست مضامین

تحقیق الکلام فی بیان السبب لوجوب الاحکام

 

                رشید احمد فریدی

 

مدرسہ مفتاح العلوم، تراج، سورت

 

 

 

الحمد للّٰہ الذی ہدانا الی الصراط المستقیم والصلاۃ والسلام علی من اختص بالخلق العظیم وعلی آلہ وصحبہ الذین قاموا بنصرۃ الدین القویم۔ اما بعد!

شریعت پانچ قسم کے احکام کا مجموعہ ہے، عقائد، عبادات، معاملات، معاشرت اور اخلاقیات۔ عبادات کی تین قسمیں ہیں: (۱) بدنی جیسے نماز، روزہ، اعتکاف وغیرہ۔ (۲) مالی جیسے زکوٰۃ، صدقہ، قربانی وغیرہ (۳) مشترک جیسے حج اور عمرہ۔ ان میں سے ہر عبادت اپنی امتیازی خصوصیات کی وجہ سے دوسری عبادت سے مستقل اور ممتاز ہے اور بعض اعتبارات سے ایک دوسری کے مشابہ و مماثل ہے اور یہ آپس میں اس قدر مربوط ہیں کہ شارعِ مطلق کی قدرت علی الاطلاق پر شاہد ہیں۔

 

                ہر انسان صاحبِ ذمہ پیدا ہوتا ہے

 

ہر انسان عہد اَلَسْت کی بناء پر دنیا میں صاحب ذمہ پیدا ہوتا ہے اور پیدائش سے قبل دوسرے انسان یعنی ماں کا جزء ہونے کی وجہ سے صاحب ذمہ ہونا پورے طور پر ظاہر نہیں ہوتا اور پیدا ہوتے ہی اہل ذمہ بن گیا مگر یہ ذمہ ناقص اور کمزور ہوتا ہے اس لیے منافع کا حقدار تو بن جاتا ہے مضار کا مستوجب نہیں ہوتا چنانچہ صبی اُن چیزوں کا مالک ہو جاتا ہے جن میں منفعت خالصہ ہے۔ جیسے ہدیہ وغیرہ اور جن میں مضرتِ خالصہ ہے بچہ اس کا ذمہ دار نہیں ہوتا۔ پھر عقل میں عمر کے ساتھ ساتھ جب پختگی آنے لگتی ہے یہاں تک کہ وہ عرف میں عاقل سمجھا جانے لگتا ہے اگرچہ ابھی کامل نہ ہو شریعت کی نظر میں ایسے صبیٴ عاقل کا ایمان معتبر سمجھا گیا ہے اس لیے کہ ایمان احکامِ نظریہ میں سے ہے جس کے لیے عقل ضروری ہے اور وہ معتد بہ مقدار میں موجود ہے مگر ابھی خام ہونے کی وجہ سے ایمان کا وجوب متوجہ نہیں ہوا بخلاف کافر (بالغ) کے کہ اس کی طرف ایمان کا وجوبِ اداء متوجہ ہے البتہ ثوابِ آخرت کا اہل نہ ہونے کی وجہ سے شرائع کا وجوب ہی نہیں ہوتا ہاں عقوبات کا لزوم اس پر زجراً ہے۔ پس نفس ایمان کا وجوب عقل سے اور وجوبِ اداء یعنی ایمان لانے کا مطالبہ کمالِ عقل یعنی بلوغ کے بعد ہوتا ہے۔ لہٰذا ادائے ایمان کے لیے نفسِ وجوب کافی ہے اور وجوبِ اداء کے لیے عقل و بلوغ دونوں شرط ہیں۔

 

                اہلیت کی تفصیل

 

الاہلیۃ نوعان اہلیۃ الوجوب واہلیۃ الاداء اما اہلیۃ الوجوب فبناء علی قیام الذمۃ فان الآدمی یولد ولہ ذمۃ صالحۃ للوجوب لہ وعلیہ باجماع الفقہاء وقبل الانفصال ہو جزء من وجہ فلم یکن لہ ذمۃ مطلقۃ حتی صلح یجب لہ الحق ولم یجب علیہ واذا انفصل وظہرت لہ ذمۃ مطلقۃ کان اہلا للوجوب لہ وعلیہ غیر ان الوجوب غیر مقصود بنفسہ فجاز ان یبطل لعدم حکمہ وغرضہ کما ینعدم لعدم محلہ ولہذا لم یجب علی الکافر شئے من الشرائع التی ہی الطاعات لما لم یکن اہلا لثواب الآخرۃ ولزمہ الایمان کان اہلا لاداۂ ووجوب حکمہ ولم یجب علی الصبی الایمان قبل ان یعقل لعدم اہلیۃ الاداء واذا عقل واحتمل الاداء قلنا بوجوب اہل الایمان علیہ دون اصل الایمان حتی صح الاداء من غیر تکلیف وکان فرضا کالمسافر یؤدِّی الجمعۃ۔

واما اہلیۃ الاداء فنوعان قاصر وکامل اما القاصر فیثبت بقدرۃ البدن اذا کانت قاصرۃ قبل البلوغ وکذلک بعد البلوغ فیمن کان معتوہا لانہ بمنزلۃ الصبی لانہ عاقل لم یعتدل عقلہ وتبتنی علی الاہلیۃ القاصرۃ صحۃ الاداء وعلی الاہلیۃ الکاملۃ وجوبُ الاداء۔ (حسامی:۱۳۳)

یہیں سے اصولی طور پر تین چیزیں معلوم ہوئیں: اوّل اہلیت وجوب، دوم وجوبِ اداء، سوم صحۃ اداء۔

 

                وجوب کی قسمیں

 

اہلیتِ وجوب اور وجوب اداء دونوں الگ الگ ہیں۔ اور وجوبِ اداء اصل وجوب یعنی اہلیتِ وجوب سے منفک اور مؤخر ہوتا ہے۔ واما علی اصطلاح الحنفیۃ فالوجوب ینفک عن وجوب الاداء۔ (تقریر وتحبیر:۲/۱۵۴)

مالی عبادت میں ان دونوں وجوب کا انفکاک یعنی علیحدگی جیسے ملک نصاب کی وجہ سے اصلِ وجوب کا ثبوت اور بعد میں اپنے اپنے وقت خاص پر وجوبِ اداء کا تحقق بالکل واضح ہے اور عرفاً بھی سمجھا اور بولا جاتا ہے بخلاف بدنی عبادت کے کہ اس میں بدن (جو کہ محل وجوب اور محل اداء ہے) انسان پیدائش سے ہی لے کر آتا ہے اور مطلق وقت یعنی زمان سے کوئی بے نیاز نہیں ہے اس لیے بالغ ہوتے ہی نماز، روزہ کا اصل وجوب (جو ایک اعتباری شئے اور غیر مقصود بالذات ہے وہ) ثابت ہو جاتا ہے البتہ مالی عبادت کے نفس وجوب کی طرح محسوس و نمایاں نہیں ہوتا اور جو معلوم و ظاہر ہے وہ وقت خاص میں اداء کا فرض یا واجب ہونا ہے اور یہی مقصودِ شرعی ہے عرفِ شریعت اور اہل اسلام کے عرف میں اسی کو فرضیت سے جانتے ہیں اور فقہاء اسی سے بحث کرتے ہیں لیکن اصطلاحاً یہ وجوبِ اداء ہے جو خطابِ شارع پر موقوف ہے اور یہ اصل وجوب جو شرعی لطیف امر ہے اور مشائخ احناف جس کے قائل ہیں وہ اہل ایمان پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے خاص فضل و عنایت ہے کہ فرائض کے مطالبہ سے قبل ایسے امور مقرر کئے گئے جس کے پائے جانے پر مشیت الٰہی سے بندہ (جبراً) فرائض و واجبات کے وجوب (اور ان کی اداء) کا اہل بن جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ بالغ کی نفل عبادت نابالغ کی نفل نماز وغیرہ سے کامل، اعلیٰ اور واجب الاتمام ہوا کرتی ہے۔

 

                اصل وجوب اور وجوب اداء کا مطلب

 

الوجوب نوعان احدہما اصل الوجوب وہو اشتغال الذمۃ بالواجب وانہ ثبت بالاسباب لا بالخطاب ولاتشترط القدرۃ لثبوتہ بل ثبت جبرا من اللّٰہ تعالٰی شاء العبد او ابی۔ والثانی وجوب الاداء وہو اسقاط مافی الذمۃ وتفریغہا من الواجب وانہ ثبت بالخطاب وتشترط لہ القدرۃ علی فہم الخطاب وعلی اداء ماتناولہ الخطاب۔ (بدائع:۲/۸۸)

وجوب کی دو قسمیں ہیں ایک اصل وجوب یعنی ذمہ کا مشغول بالواجب ہونا اور یہ اسباب سے ہوتا ہے نہ کہ خطاب سے اور اس کے ثبوت کے لیے قدرت شرط نہیں ہے بلکہ من جانب اللہ جبراً ثابت ہو جاتا ہے بندہ چاہے یا نہ چاہے۔ دوسری وجوب اداء ہے ذمہ کے فریضہ کو ساقط کرنا یعنی واجب سے سبکدوش ہونا یہ خطاب سے ہوتا ہے اور اس کے لیے قدرت علی فہم الخطاب اور قدرت علی الاداء دونوں شرط ہے۔

تنبیہ: ثبت بالاسباب لابالخطاب میں اسباب سے مراد وہ امور ہیں جو درحقیقت مکلف کی صفات ہیں جنہیں شرائطِ وجوب سے تعبیر کرتے ہیں ان صفات میں بعض علت، بعض شرط اور بعض سبب ہے چونکہ سبب کا مفہوم وسیع و عام ہے اس لیے توسعاً صفات کے لیے اسباب کا لفظ استعمال کیا گیا ہے اس لفظ ’’سبب‘‘ سے محض وہ شئی مراد نہیں ہے جسے تعدد و تکرار کے لیے شرعاً سبب قرار دیا گیا ہے۔ کما ستقف بعد ان شاء اللّٰہ۔

 

                اصل وجوب کا مدار اور اس کا محل

 

اہلیت وجوب یا اصل وجوب جو وجوبِ اداء سے منفک اور مقدم ہوتا ہے اس کا مدار جن اشیاء پر ہے وہ سب صفاتِ مکلف ہیں خواہ صفت دائمی و مستقل ہو یا وقتی و عارضی۔ اور خواہ وہ وصف اختیاری ہو کہ غیر اختیاری جیسے عقل، بلوغ، اسلام، حریت، ملکیت، استطاعت وغیرہ۔ ان صفات کے تحقق پر من جانب اللہ بندہ کا ذمہ مشغول بالواجب ہو جاتا ہے یہ وجوب غیر اختیاری ہے بندہ کی خواہش پر موقوف نہیں ہے۔ اس اصل وجوب کا محل بلا تردد ذمۃ المکلّف ہے۔

ایک وجوب اختیاری ہے جو بندہ کے ارادے اور عمل سے وابستہ ہے یعنی کسی قربت کی نذر خواہ فعل منذور قربت بدنی ہو یا مالی۔ اور شروع فی العبادۃ اس سے بھی عبادت کی ادائیگی ذمہ میں لازم ہو جاتی ہے۔ اور نذر سے ناذر کا ذمہ مشغول بالواجب ہو جاتا ہے۔

اور اصل وجوب (غیر اختیاری) میں تمام مومنین عالم مُستوِی الاقدام ہیں یعنی دنیا کے کسی بھی خطہ میں رہتے ہوں شمسی تغیرات یعنی طلوع، زوال، غروب وغیرہ فی نفسہ۔ اس کے لیے حاجز و مانع نہیں ہے۔

 

                وجوب اداء اور اسکا محل

 

وجوبِ اداء میں وجوب اصالۃ فعل (بمعنی المصدر) یعنی اداء کی صفت ہے اور بواسطہ فعل ذات یعنی محل فعل سے تعلق ہوتا ہے پس اداء کا جو محل ہو گا وجوب کا تعلق محل اداء سے بھی ہو گا چنانچہ صلوٰۃ (ارکان مخصوصہ) اور صوم یعنی امساکِ مخصوص دونوں کا مصدر و محل بدن و ذاتِ مکلف ہے اس لیے مکلف ہی محل واجب ہے۔ اور زکوٰۃ میں مویشی میں مخصوص جانور اور دراہم و دنانیر میں فی نصاب ربع عشر کی ادائیگی کا وجوب ہوتا ہے اور یہ غیر مکلف ہے پس اداء کا محل مال ہے تو وجوبِ اداء کا متعلق بھی مال ہے۔ اور صدقۃ الفطر میں درحقیقت ’’اغناء‘‘ کا وجوب ہوتا ہے جس کا تعلق ذمہ مکلف سے ہے اس لیے صدقۃ الفطر میں روزہ نماز کی طرح وجوبِ اداء کا محل مکلف کی ذات ہے۔ اور قربانی میں جوکہ مالی عبادت ہے اصلاً تصدق بالمال واجب ہونا چاہئے مگرایام مخصوصہ میں خاص مصلحتوں کے پیش نظر بطور بدل اراقۃ الدم کو واجب قرار دیا گیا اور اراقۃ کا محل جانور ہے پس وجوب کا تعلق بواسطہ (اراقہ) مال یعنی جانور سے ہوا۔ لہٰذا یہ وجوب بواسطۂ اراقۃ جانور کی صفت ہو گی جیسے صحت اداء میں صحت صفت ہے اداء کی نہ کہ مکلف کی البتہ اراقۃ الدم (نحر، ذبح) کا صدور کسی فاعل سے ہو گا جو مکلف یعنی من علیہ الاضحیہ ہوتا ہے یا اس کا وکیل و نائب۔

لان الوجوب فی صفات الفعل (بنایہ:۱۱/۴) لان الوجوب تتعلق بالاراقۃ (بدائع:۵/۶۶) (فتجب التضحیۃ) اسناد الوجوب الی الفعل اولٰی من اسنادہ الی العین کالاضحیۃ (شامی:۹/۴۵۴)

 

                اصل وجوب اور اداء کے محل میں اتحاد و افتراق

 

اصل وجوب کا محل جیسا کہ گذرا ذمۃ المکلف ہے۔ بعدہ فعل واجب جس کی اداء اوقات مخصوصہ میں واجب ہوتی ہے اس کا صدور اور وقوع اگر مکلف کی ذات سے ہے یعنی ذاتِ مکلف ہی محل فعل بھی ہے تو اب محل وجوب اور محل اداء دونوں متحد ہو گئے جیسے نماز اور روزہ میں اور اگر فعل واجب کا محل مال ہے تو دونوں کا محل الگ ہو گیا۔ نفس وجوب کا محل ذمۃ المکلف اور اداء کا محل غیر مکلف جیسے زکوٰۃ اور قربانی میں۔ اسے ایک مثال سے سمجھئے: ناذر پر نذر کی وجہ سے جو وجوب آ رہا ہے اس کا محل ذاتِ مکلف یعنی خود ناذر ہے اب اگر فعل منذور نماز، روزہ یا اعتکاف ہے تو اِن افعال کا محل بھی وہی ناذر ہے اور اگر صدقہ یا قربانی یا اس کے قبیل سے کوئی فعل ہے تواس کا محل غیرمکلف یعنی مال ہے۔ پہلی صورت میں محل اداء خود ناذر ہے اس لیے محل وجوب اور محل اداء ایک ہو گیا اور دوسری صورت میں محل اداء مال ہے پس دونوں علیحدہ ہو گئے۔

وقت کا اعتبار اداء کے لحاظ سے ہے کیونکہ فعل (حدوث) کے لیے زمان ضروری ہے والزمان جزء من مفہوم الفعل (مختصر المعانی) پس اوقاتِ معینہ میں جو وجوب متحقق ہو رہا ہے اس کا تعلق اداء اور محل اداء سے ہے لہٰذا اداء اور محل اداء کے حق میں وقت کا اعتبار کیا جائے گا۔

واجباتِ مطلقہ وموقّتہ کی توضیح

وجوب سے مقصود اداء ہے اور ادائے واجبات کے لیے عقلاً وقت کا ہونا ضروری ہے کمامر۔ پس باعتبارِ اداء فی الوقت واجبات کی دو قسمیں ہیں:

(۱) بعض واجبات کی ادائیگی وقت وجوب کے ساتھ مقید نہیں ہے یعنی شارع کی طرف سے وجوبِ اداء کے بعد ادائے واجب کسی وقت کے ساتھ اس طرح خاص نہیں کیا گیا ہے کہ اس وقت کے فوت ہونے سے مامور بہ کی ادائیگی قضاء کہلائے بلکہ موت سے قبل جب بھی مامور بہ کو انجام دیا جائے وہ ادا کہلائے گا قضاء نہیں۔ ایسے واجبات کو (اور وہ قرباتِ معقولہ ہیں) واجبات مطلقہ کہتے ہیں۔

لان الزکوٰۃ لایتعلق وجوبہا بوقت مخصوص بل جمیع العمر وقتہا فکان جمیع الاوقات وقتا لاداۂا وکذلک صدقۃ الفطر لانہا تجب وجوبا موسّعا کالزکوٰۃ۔ (بدائع:۵/۶۳)

الامر نوعان مطلق عن الوقت ای احدہما امر مطلق غیرمقید بوقت یفوت بفوتہ کالزکوٰۃ وصدقۃ الفطر فانہا بعد وجود السبب ای ملک المال والرأس والشرط ای حولان الحول ویوم الفطر لایتقیدانِ بوقت یفوتان بفوتہ بل کلّما ادّی یکون اداءً لاقضاءً۔۔۔ ومقید بہ ای الثانی امر مقید بالوقت۔ (نورالانوار:۵۶) (قولہ بالوقت ای بوقت محدود بحیث لوفات الوقت فات الاداء۔ حاشیۂ نور الانوار)

(۲) اور بعض واجبات جو کہ غیر معقولہ ہیں شارع نے اس کی اداء کو وجوبِ اداء کے ساتھ وقت محدود میں (جس کی ابتداء وانتہاء متعین ہے) مقید کیا ہے یعنی وقت مخصوص میں ہی اس کی ادائیگی اداء کہلائے گی وقت گذر جانے کے بعد مامور بہ کی ادائیگی قضاء کہلاتی ہے ان کو واجباتِ موقتہ کہتے ہیں۔ اصولیین نے پھر اس کی چارا نواع بیان کی ہیں جن میں سے دو میں وقت سبب وجوب بھی ہے اور دو یعنی قضاء رمضان اور حج میں وقت سبب نہیں ہے۔

الواجب قسمان احدہما مطلق وہو الذی لم یقید طلب ایقاعہ بوقت محدود من العمر بحیث لایجوز قبلہ ویفوت بفواتہ وان کان واقعا فی وقتٍ لامحالۃ کالنذر المطلقۃ والکفارات والزکوٰۃ والعشر والخراج وادرج الحنفیۃ صدقۃ الفطر۔

ثانیہما مقیّد بہ ای بوقت محدود یفوت الواجب بہ وہو ای الوقت المقید بہ الواجب بالاستقراء اقسام اربعۃ الاول یفضل الوقت عن الاداء ویسمّی عند الحنفیۃ ظرفاً اصطلاحا کوقت الصلاۃ المکتوبۃ بہا فانہ سبب محض علامۃ علی الوجوب۔ (تقریر وتحبیر:۲/۱۵۵)

 

                ایقاظ

 

کتب اصولِ فقہ میں اس موقع پر واجبات موقتہ میں چار ہی انواع کو شمار کیا ہے۔ قربانی کو نہ واجباتِ مطلقہ میں اور نہ ہی موقتہ میں ذکر کیا ہے جبکہ قربانی بالیقین قربۂ موقتہ ہے غالباً اس کی وجہ یہ ہے جیساکہ صاحب بدائع وغیرہ نے بیان کیا ہے کہ قربانی اصلاً مالی عبادت ہے جس میں تصدق واجب ہوتا ہے اور تصدق مقید بالوقت نہیں ہے لیکن ایام نحر میں اسکی امتیازی خصوصیات کے تحت اراقۃ الدم کو بطور بدل واجب قرار دیا گیا ہے اور اراقۃ قربت غیر معقولہ ہے اس لیے اس کی اداء مقید بالوقت ہو گئی۔

 

                وجوبِ اداء وقتِ معین کے ساتھ خاص ہے

 

جن واجبات میں تکرار ہے یعنی نماز، روزہ، زکوٰۃ، صدقۃ الفطر اور قربانی۔ ان سب میں وجوبِ اداء کو شارع نے وقت خاص کے ساتھ مربوط کیا ہے یعنی خطاب الٰہی (جو وجوبِ اداء کا سبب حقیقی ہے) بندوں کی طرف اوقاتِ مخصوصہ ہی میں متوجہ ہوتا ہے خواہ وقت ممتد ہو یا غیر ممتد۔ اور اہل اصول نے بیان کیا ہے کہ نفس وجوب میں طلب فعل نہیں ہوتا بخلافِ وجوبِ اداء کے کہ اس میں اداء یعنی فعل کا مطالبہ ہوتا ہے جس کے لیے قدرت شرط ہے اور قدرت عقل و بلوغ سے ہے جو وجوبِ اداء کے شرائط میں سے ہے اور اہل علم یہ بھی جانتے ہیں کہ طلب فعل وقت ہی میں ہوتا ہے اس سے قبل نہیں اُسی کو عرف میں فرض یا واجب ہونا بولتے ہیں پس معلوم ہوا کہ وقت میں ہونے والا یہ وجوب اصطلاحاً وجوبِ اداء ہے لہٰذا وقت وجوب سے مراد کتب فقہ میں وجوبِ اداء کا وقت ہے چاہے اسے شرط سے تعبیر کیا ہو یا سبب سے یعنی جہاں وقت خاص کو سبب کہا گیا ہے تو اس سے وجوب اداء کا سبب مراد ہے۔

 فالقدرۃ شرط لوجوب الاداء لالنفس الوجوب لان التکلیف ہو طلب ایقاع الفعل من العبد ونفس الوجوب لاطلب فیہ۔ (فتح الغفار،ص:۷۳)

 

                فقہی عبارات سے استشہاد

 

زکوٰۃ: فرضت علی حر مسلم مکلف مالک النصاب۔۔۔ وشرط وجوب اداۂا (نورالایضاح:۱۵۳) وشرط کمال النصاب وسائمۃ فی طرفی الحول فی الابتداء للانعقاد وفی الانتہاء للوجوب۔ (ہدایہ)

ونصاب الزکوٰۃ قبل مضی الحول فانہ علۃ اسما لانہ وضع لوجوب الزکوٰۃ ویضاف الیہ الوجوب بلا واسطۃ ومعنیً لانہ مؤثر فی وجوب الزکوٰۃ اذا الغنا یوجب الاحسان وہو یحصل بالنصاب لاحکما لتأخر الوجوب الی حولان الحول۔ (نور الانوار:۱۲۲)

واما وجوب الاداء الموقوف علی مطالبۃ الشارع فہو یتحقق بعد حولان الحول (عمدۃ الرعایہ:۱/۲۴۸)

صدقۃ الفطر: تجب علی حر مسلم مالک النصاب او قیمتہ وان لم یحل علیہ الحول عند طلوع فجر یوم الفطر (نورالایضاح) قولہ عند طلوع: بیان لوقت وجوب الاداء (حاشیۂ نورالایضاح:۱۶۱)

باب صدقۃ الفطر من اضافۃ الحکم لِشرط (درمختار) المراد بالحکم وجوب الصدقۃ لانہ الحکم الشرعی والمراد بالوجوب: وجوب الاداء (شامی) ووجوب الفطرۃ یتعلق بطلوع الفجر الثانی من یوم الفطر (قدوری:۵۱)۔

روزہ: وشرط وجوب اداۂ وہی ثلاثۃ الصحۃ والاقامۃ والخلو عن الحیض والنفاس فشہود جزء منہ سبب لکلہ ثم کل یوم سبب وجوب اداۂ (شامی:۳/۳۳۳)

نماز: وقد یجامع الشرط السبب مع اختلاف النسبۃ کوقت الصلاۃ فانہ شرط بالنسبۃ الی الاداء وسبب بالنسبۃ الی وجوب الاداء (تقریر و تحبیر:۲/۱۰۲)

قربانی: لان الوقت کما ہو شرط الوجوب فہو شرط جواز اقامۃ الواجب کوقت الصلاۃ (بدائع:۵/۷۳)

۔۔۔ ان الوجوب عند الاداء او فی آخر الوقت فاذا مات قبل الاداء مات قبل ان تجب علیہ کمن مات فی وقت الصلاۃ قبل ان یصلیہا انہ مات ولا صلاۃ علیہ۔ (بدائع:۵/۶۵)

قربانی کے اوقاتِ معینہ کو ظرفیت اصطلاحی (یعنی مامور بہ اداء کرنے کے بعد وقت کے فاضل بچ رہنے) میں نماز کے اوقات سے مشابہت ہے اسی وجہ سے وقت اضحیہ کی تشبیہ وقت صلاۃ سے مذکور ہے اور نماز کا وقت فرضیت اداء کے لیے سبب اور صحت اداء کے لیے شرط ہے کما مر۔

(۲)  اصولی صریح عبارت سے استدلال

تقریر و تحبیر کی عبارت ابھی اوپر نماز کے تحت مذکور ہوئی۔ اصول الشاشی کی عبارت ملاحظہ فرمائیے:

فسبب وجوب الصلاۃ الوقت بدلیل ان الخطاب باداء الصلاۃ لایتوجہ قبل دخول الوقت وانما یتوجہ بعد دخول الوقت والخطاب مثبت لوجوب الاداء ومعرف للعبد سبب الوجوب قبلہ الخ (صفحہ۹۹)

اور تکملہ فتح القدیر کی عبارت (۹/۵۰۷) بھی دیکھئے:

ووجہ ذلک ما تقرر فی علم الاصول من ان وجوب الاداء فی الموقّتات التی یفضل الوقت عن اداۂا کالصلاۃ ونحوہا انما یثبت آخر الوقت اذہنا یتوجہ الخطاب حقیقۃ لان فی ذلک الآن یأثم بالترک لاقبلہ حتی اذا مات فی الوقت لاشئے علیہ والاضحیۃ من ہاتیک الموقتات فتسقط بہلاک المال قبل مضی وقتہا ولاتسقط بہلاکہ بعد مضی وقتہا لتقرر سبب وجوب اداۂا۔

یعنی وہ قربت موقتہ جسے اس کے وقت مخصوص میں اداء کرنے کے بعد وقت بچ رہتا ہے جیسے نماز اس کا وجوبِ اداء وقت معینہ کے جزء آخر میں ثابت ہوتا ہے یعنی شرائط وجوب کے پائے جانے سے ذمہ مشغول ہونے کے باوجود وقت وجوب کی ابتداء میں واجب اداء نہ کرنے سے ابھی گنہگار نہیں ہو گا کیونکہ خطاب الٰہی جو وجوبِ اداء کا حقیقی سبب ہے وہ اداء سے متصل ہوتا ہے پس اگر وقت میں اداء سے قبل مرگیا تو اس کے ذمہ کچھ نہیں کیونکہ وجوبِ اداء حقیقتاً نہیں پایا گیا مگر جب وقت کا جزء آخر آ گیا اور اداء نہیں کیا تو اب بہرحال خطاب متوجہ ہو جائے گا اور واجب اس کے ذمہ دَین بن جائے گا۔

یہی حال قربانی کے وقت کا ہے کہ وقت گذرنے سے قبل اگر مال ہلاک ہو گیا تو چونکہ غنا شرطِ وجوب (فی معنی العلۃ) ہے کما ستعلم۔ اس لیے فقر لاحق ہونے سے اصل وجوب ہی ختم ہو گیا فکیف یتوجہ الخطاب الیہ اور اگر وقت گذر گیا درانحالیکہ وہ غنی تھا اور قربانی نہیں کی تو اخیر وقت میں خطاب متوجہ ہو جانے سے اس کا وجوب مؤکد ہو گیا اور اب فقر لاحق ہونے کے باوجود ذمہ ساقط نہ ہو گا۔

(۳) قولِ محققین ماوراء النہر سے استدلال

شروع میں گذرچ کا کہ اصل وجوب یا اہلیت وجوب بذات خود مقصود نہیں ہے ان الوجوب غیر مقصود بنفسہ۔ بلکہ واجب کی ادائیگی مقصود اصلی ہے اس لیے وجوب اداء ہی مطلوب ہے شاید اسی لیے عام مشائخ کے مقابلہ میں محققین وجوب کی ایک ہی نوع یعنی وجوبِ اداء کے قائل ہیں۔ مگر وجوبِ اداء کا اہل ان کے نزدیک وہی ہو گا جس میں اداء کی اہلیت پائی جائے (اور اہلیت اداء کے لیے اُن تمام امور کا مجتمع ہونا ضروری ہے جس کو عام فقہاء شرائط وجوب سے تعبیر کرتے ہیں)

قال اہل التحقیق من مشائخنا بماوراء النہر ان الوجوب فی الحقیقۃ نوع واحد وہو وجوب الاداء فکل من کان اہل الاداء کان من اہل الوجوب ومن لا فلا وہو اختیار استاذی الشیخ الاجل الزاہد علاؤالدین رئیس اہل السنۃ محمد بن احمد السمرقندی لان الوجوب المعقول ہووجوب الفعل کوجوب الصوم والصلاۃ وسائر العبادات۔ (بدائع:۲/۸۸)

اور وجوبِ اداء کا سبب حقیقی خطاب الٰہی ہے اور خطاب اوقات مخصوصہ میں متوجہ ہوتا ہے کما سیأتی مستوفی پس وقت کو سبب وجوب کہے جانے سے فقہاء کے کلام میں وجوب اداء کی ہی سببیت کو بیان کرنا ہے۔

(۴) انتقالِ سببیت سے استدلال

فقہاء کہتے ہیں کہ وقت سببِ وجوب ہے پھر معاً یہ بھی کہتے ہیں کہ وجوب کا اول وقت میں ہونا ضروری نہیں اور ابتداءً پورے وقت کو بھی سبب قرار نہیں دیتے کیونکہ وقت کے جزء اول کو بالتعیین سبب کہیں تو واجب کی ادائیگی کو جزء آخر میں اداء کہنا مشکل ہو گا اور اگر پورے وقت کو سبب کہا جائے تو پھر فریضہ کی ادائیگی وقت کے بعد قضاء کہلائے گی۔ نیز صلاۃ الفجر کا طلوعِ شمس سے فاسد ہو جانا اور عصر الیوم کا غروب کے وقت بھی جائز ہو جانا دلیل ہے کہ فجر کی نماز کا وجوب کامل تھا اور نمازِ عصر کا وجوب تغیرشمس کے بعد ناقص ہوتا ہے اس لیے ائمہ فقہ نے فیصلہ کیا کہ سبب وجوب درحقیقت وقت مخصوص کا وہ جزء سابق ہو گا جو اداء سے متصل ہے اگرچہ سببیت کی صلاحیت پورے وقت میں ہے تاکہ وقت کے کسی بھی حصہ میں مامور بہ کی ادائیگی اداء کہلائے اور اداء فی الوقت نہ ہونے کی صورت میں پورے وقت کو قضاء کے حق میں سبب قرار دیا گیا۔

وقد تقدم ان سبب الصلاۃ اوقاتہا لکن لایمکن ان یکون کل الوقت سببا لانہ لوکان کلّہ سببا لوقع الاداء بعدہ لوجوب تقدم السبب بجمیع اجزاۂ علی المسبب فلا یکون اداءً ولیس دلیل یدل علی قدر معیّن منہ کالربع والخمس او غیرہما فوجب ان یجعل بعض منہ سببا واقل ما یصلح لذلک الجزء الذی لایتجزیٰ والجزء السابق لعدم ما یزاحمہ اولی فان اتصل بہ الاداء تعین لحصول المقصود وہو الاداء وان لم یتصل الی الجزء الذی یلیہ ثم وثم الی ان یضیق الوقت ولم یتقرر علی الجزء الماضی لانہ لوتقرر کانت الصلاۃ فی آخر الوقت قضاء ولیس کذلک لما سنذکر فکان الجزء الذی یلی الاداء ہو السبب او الجزء المضیّق اوکل الوقت ان لم یقع الاداء فیہ لان الانتقال من الکل الی الجزء کان لضرورۃ وقوع الاداء خارج الوقت علی تقدیر سببیّۃ الکل وقد زالت فیعود کل الوقت سبباً ثم الجزء الذی یتعین سببا تعتبر صفتہ من الصحۃ والفساد فان کان صحیحا بان لایکون موصوفا بالکراہۃ ولا منسوبا الی الشیطان کالظہر وجب المسبب کاملا فلا یتادّی ناقصاً وان کان فاسدا ای ناقصا بان یکون منسوبا الی الشیطان کالعصر یستأنف وقت الاحمرار وجب الفرض فیہ ناقصا فیجوز ان یتادّی ناقصا لانہ ادّاہ کما وجب بخلاف غیرہا من الصلوات الواجبۃ باسباب کاملۃ فانہا لاتقضیٰ فی ہذہ الاوقات لان ماوجب کاملا لایتأدّی ناقصا وقد ذکرنا ذلک فی الانوار والتقریر مستوفیٰ بعون اللّٰہ وتائیدہ۔ (عنایہ شرح ہدایہ فی ہامش فتح القدیر:۱/۲۳۴)

والاصل فی ہذا ۔۔۔ ثم کذلک ینتقل الی ان یتضیّق الوقت عند زفر والی آخر جزء من اجزاء الوقت عندنا فتعین السببیۃ فیہ لما یلی الشرع فی الاداء اذ لم یبق بعدہ مایحتمل انتقال السببیۃ الیہ فیعتبر حالہ فی الاسلام والبلوغ والعقل والجنون والسفر والاقامۃ والحیض والطہر عند ذلک الجزء ویعتبر صفۃ ذلک الجزء فان کان ذلک الجزء صحیحا کما فی الفجر وجب کاملا۔۔۔ وان کان ذلک الجزء فاسدا کما فی العصر۔۔۔ وجب ناقصاً فیتادّی بصفۃ النقصان واما اذا خلا الوقت عن الاداء فالوجوب یضاف الی کل الوقت الخ (حسامی:۳۳ وکذا فی الطحطاوی:۱۷۴)

پس وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ سببیت میں انتقال اور انتقالِ سبب کی وجہ سے وقت کی صفت عارضی کا اثر وجوب میں ظاہر ہونا یعنی وقت صحیح ہو تو وجوب کامل اور وقت فاسد ہو  تو وجوب ناقص۔ نیز مکلف کی حالتِ سفر وحضر کا بھی وجوب پر اثر انداز ہونا یہ سب واضح ثبوت ہے کہ وقت وجوب اداء کا سبب ہے کیونکہ اصل وجوب مطلق ہے اس میں اتمام، قصر اور کامل و ناقص کا فرق نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ نفس وجوب متحقق ہونے کے باوجود مثلاً اوّل وقت میں کوئی کافر مسلمان ہوا تو عقل و بلوغ اور اسلام کی وجہ سے اب وہ نماز، روزہ کا مکلف ہو گیا یعنی اس کا ذمہ مشغول بالواجب ہو گیا مگر بالتعیین سبب وجوب فقہاء کہتے ہیں کہ وہی وقت ہو گا جو اداء سے متصل ہے۔

ایام نحر جو قربانی کا سبب وجوب ہے اسکا بھی یہی حال ہے یعنی اس میں بھی انتقالِ سببیت ہے۔

والاصل ان ما وجب فی جزء من الوقت غیر عین یتعین الجزء الذی ادی فیہ الوجوب او آخر الوقت کما فی الصلاۃ وہو الصحیح من الاقاویل علی ما عرف فی اصول الفقہ۔ (بدائع:۵/۶۵ کتاب الاضحیۃ)

(۵)  مسئلۂ بلغاریہ سے استدلال

اہل بلغاریہ کے سلسلہ میں ایک طرف فقہاء کا یہ قول ہے:

ومن لم یجد وقتہما ای العشاء والوتر لم یجبا علیہ بان کان فی بلد بلغار وباقصیٰ المشرق یطلع فیہا الفجر قبل مغیب الشفق فی اقصر لیالی السنۃ لعدم السبب الوقت۔ (مراقی:۱۷۸)

دوسری جانب فقہاء یہ بھی فرماتے ہیں۔

وفاقد وقتیہما (کبلغار فان فیہا یطلع الفجر قبل غروب الشفق) مکلف بہما۔ (درمختار)

اس تعارض کو دفع کرتے ہوئے علامہ شامی نے یہ لکھا ہے۔

اذا علمت ذلک ظہر لک ان من قال بالوجوب یقول بہ علی سبیل القضاء لا الاداء۔۔۔ فیتعین ان یحمل کلام البرہان الکبیر علی وجوب القضاء کما یقول بہ الحلوانی۔

یعنی جو لوگ وجوب کے قائل ہیں وہ وجوب قضاء ہے نہ کہ وجوب اداء۔ کیونکہ سبب وجوب یعنی وقت کے نہ ہونے سے مطلق وقت کا عدم نہیں بلکہ وقت خاص کا فقدان ہے اور اداء وقت خاص ہی کا فریضہ ہے اور اداء پر جب قدرت نہیں تو وجوب اداء بھی نہ ہو گا کیونکہ وجوب اداء کے لیے قدرت علی الاداء شرط ہے یہی وجہ ہے کہ اداء (کے وجوب) کا کوئی قائل نہیں ہے۔

ثم انہ لا ینوی القضاء فی الصحیح لفقد وقت الاداء وفیہ نظر لان الوجوب بدون السبب لایعقل وکذا اذا لم ینو القضاء یکون اداء ضرورۃ وہو (ای الاداء) فرض الوقت ولم یقل بہ احد اذ لم یبق وقت العشاء بعد طلوع الفجر اجماعاً۔ (تبیین الحقائق للزیلعی:۱/۲۲۰)

پس یقین کے ساتھ معلوم ہوا کہ وقت خاص جس کو وجوب کا سبب کہا گیا ہے وہ وجوب اداء کا سبب ہے ورنہ اصلاً نماز ساقط ہو جاتی وجوب قضاء کا بھی کوئی قائل نہ رہتا۔ فافہم (یہاں یہ بحث الگ ہے کہ اہل بلغاریہ عشاء اور وتر پڑھتے وقت کیا نیت کریں گے یہ ہمارے موضوع سے خارج ہے)

(۶)  تکرارِ سبب سے استدلال

سبب کے تکرار سے حکم یعنی مسبب کا تکرار اور اس کے عدم سے حکم کا عدم تکرار ایک اصولی قاعدہ ہے۔ ولا یلزم تکرار المشروط بتکرر الشرط لان وجود الشرط لایقتضی وجود المشروط بخلاف السبب فانہ یقتضی وجود المسبب۔ (تلویح:۴۲۲) وقد علم ان السبب اذا لم یتکرر لاتکرر المسبب (بنایہ:۴/۶)

پس جب نماز، روزہ اور قربانی کے لیے وقت کو سبب قرار دیا گیا ہے تو لامحالہ وقت کے تکرار سے فرائض میں تکرار و تجدد ہوتا رہتا ہے یہاں تک تو مسلّم ہے مگر اِس سبب وجوب کے لفظ سے نئے موقِف کے قائلین نفس وجوب (اصل وجوب) مراد لے رہے ہیں اور بندہ کہتا ہے کہ اس سے مراد وجوب اداء ہے جیساکہ اب تک کے دلائل سے معلوم ہوا۔ چنانچہ علامہ ابن نجیم مصری کی صریح عبارت دیکھئے۔

ان تکرار وجوب الاداء لایکون الا بتکرار السبب (فتح الغفار بشرح المنار:۴۶)

ان سب دلائل سے واضح ہو گیا کہ وقت سبب وجوب اداء ہے۔ لہٰذا کتب فقہ میں جہاں کہیں وقت سے قبل وجوب کی نفی مذکور ہے وہ وجوبِ اداء کی نفی ہے۔ فافہم

وقت کی سببیت سے مراد وجوب اداء کا سبب ہے یہ اظہر من الشمس ہو جائے اس کے لیے احکام کے تعدد و تکرار کی بحث بھی نہایت ہی اہم ہے اس سے پہلے احکام وضعیہ کے متعلق کچھ وضاحتی جملے پیش کئے جاتے ہیں۔

حکم تکلیفی و حکم وضعی کا فرق

خطابِ شارع کے ذریعہ بندوں سے فعل یا ترک (کف) کا جو مطالبہ فرض وسنت، حرمت و کراہت،اور اباحت کے درجہ میں کیا جاتا ہے یہ حکم تکلیفی کہلاتا ہے اور خطاب کو خطابِ تکلیف کہتے ہیں اور اُسی خطاب کے ذریعہ شارع نے حکم شرعی کو کسی وصف یا ظرف کے ساتھ وجوب، تحقق یا منع کی حیثیت سے مربوط کیا ہے یہ حکم وضعی کہلاتا ہے اور خطاب کو خطاب وضع کہتے ہیں۔

بالفاظ دیگر انسان کے افعال و اعمال پر شارع کی طرف سے فرض، حرام، مسنون، مکروہ اور مباح کا جو حکم لگایا گیا ہے یہ حکم شرعی تکلیفی ہے اور اسی حکم تکلیفی کو جن اسباب و شروط یا موانع کے ساتھ وابستہ کیا ہے اِس ربط بین الامرین کو وضع کہتے ہیں اور امورِ متعلقہ کو احکامِ وضعیہ کہتے ہیں۔

شیخ محمد ابوزہرہ مصری سبب کے ماتحت لکھتے ہیں:

السبب عند جمہور الفقہاء ہو الامر الظاہر المضبوط الذی جعلہ الشارع امارۃ لوجود الحکم وبمقتضیٰ ہذا التعریف تثبت حقیقتان۔

احدیٰہما ان السبب لاینعقد سببا الا بجعل الشارع لہ سببا وذلک ان الاحکام التکلیفیۃ ہی تکلیف من اللّٰہ تعالیٰ والمکلِّف ہو اللّٰہ تعالیٰ واذا کان المکلِّف ہو الشارع فہو الذی یجعل الاسباب التی ترتبط بہا الاحکام اسبابا۔۔۔ الحقیقۃ الثانیۃ ہی ان الاسباب لیست مؤثرۃ فی وجود الاحکام التکلیفیۃ بل ہی امارۃ بظہو رہا ووجودہا۔ (دیکھئے اصول الفقہ لمحمد ابی زہرہ:۵۵)

 

                احکام وضعیہ کی مختصر تعریف

 

السبب: ہو المفضی الی الحکم من غیر تاثیر۔ (بحر) حکم کی طرف پہنچانے والے امر کو سبب کہتے ہیں وہ حکم میں نہ مؤثر ہوتا ہے اور نہ حکم اس پر موقوف ہوتا ہے اگر حکم اس پر موقوف ہو تو وہ سبب فی معنی الشرط ہے اور اگر حکم کا مقتضی اور مؤثر ہو تو وہ سبب فی معنی العلۃ ہے۔

العلۃ: ما یضاف الیہ وجوب الحکم ابتداءً۔ یعنی علّت وہ امر ہے جس کی طرف وجوبِ حکم کی نسبت بلاواسطہ ہوتی ہے یعنی وہ وصف جو حکم میں مؤثر اور اس کا موجب ہوتا ہے۔ نیز علّت کی متعدد قسمیں ہیں۔

الشرط: ہو الامر الذی یتوقف علیہ وجود الحکم۔ یعنی وہ امر جس پر حکم کا وجود اور تحقق موقوف ہوتا ہے۔ اس کی بھی چند قسمیں ہیں۔

العلامۃ: ہی ما یعرف بہ الوجود من غیر ان یتعلق بہ وجوب ولا وجود۔

یعنی وہ شئے جس کے ذریعہ حکم کے وجود کی معرفت اور پہچان حاصل ہو فقط۔

حاصل یہ کہ علّت موجب ہے۔ شرط موجد ہے۔ اور سبب مفضی ہوتا ہے۔

(۱)    فائدہ: چونکہ وجوب ہی وجودِ حکم کی طرف پہنچاتا ہے اس لیے علّت کو سبب سے تعبیر کرنا قابل اشکال نہیں ہے والوجوب ہو المفضی الی الوجود ظاہرًا (ہدایہ)

(۲)   فائدہ: وجودِ حکم کی نسبت سبب اور شرط کی طرف بھی ہوتی ہے۔

وجوبِ حکم کی اضافت سبب اور علّت کی طرف بھی ہوا کرتی ہے۔

ان السبب والشرط قد اشترکا فی ان کل منہما یضاف الیہ الوجود لاعلی وجہ التاثیر فخرج العلۃ ویتمیز السبب عن الشرط باضافۃ الوجوب الیہ ایضاً دون الشرط کما عرف فی الاصول (بحر:۲/۲۰۳)

(۳)   فائدہ: شرط کے تکرار سے مشروط کا تکرار لازم نہیں ہے بخلاف سبب کے کہ اس کے تکرار سے حکم کا تکرار اور عدم تکرار سے حکم کا عدم تکرار ضروری ہے و قد علم ان السبب اذا لم یتکرر لایتکررالمسبب (بنایہ:۴/۶)

ولایلزم تکرر المشروط بتکرر الشرط لان وجود الشرط لایقتضی وجود المشروط بخلاف السبب فانہ یقتضی وجود المسبب (تلویح:۴۲۲)

 

                تعدد و تکرار کی بحث

 

احناف کے نزدیک یہ اصول طے شدہ ہے ان الامر لایقتضی التکرار ولا یحتملہ کہ امر بالذات نہ مقتضیِ تکرار ہے اور نہ محتمل تکرار۔ دوسری طرف خطاب الٰہی جس پر صیغۂ امر دال ہے وہ موجود علی الدوام ہے اور بندوں کے احساس سے غائب و پوشیدہ ہے پس ضروری ہوا کہ عبادت بدنی و مالی کی ادائیگی کو کسی ایسے امر کے ساتھ مربوط کیا جائے جس میں تکرار پایا جاتا ہو تاکہ اس کے تکرار سے یہ سمجھا جائے کہ خطاب الٰہی گویا از سر نو بندوں کی طرف متوجہ ہو رہا ہے۔

وما تکرر من العبادات فباسبابہا لابالاوامر جواب سوال یرد علینا وہو ان الامر اذا لم یقتض التکرار ولم یحتملہ فبای وجہ تتکرر العبادات مثل الصلاۃ والصیام وغیر ذلک فیقول ان ما تکرر من العبادات لیس بالاوامر بل بالاسباب لان تکرار السبب یدل علی تکرار المسبب (نورالانوار:۳۵)

قولہ لیس بالاوامر والا لاستغرقت العبادات الاوقات کلہا لدوام الامر(حاشیہ)

چنانچہ شارعِ حکیم کے کلامِ اضافی سے استدلال کرتے ہوئے ائمۂ مجتہدین نے ملک نصاب کو وجوب زکوٰۃ کے لیے اور رأس موصوف بالولایۃ والمؤنۃ کو وجوبِ صدقہ کے لیے سبب قرار دیا کیونکہ ملکیت میں باعتبار نصاب کے اور مؤنت وولایت میں باعتبار رأس کے تعدد و تکرار پایا جاتا ہے اور جب ملک نصاب اور رأس یمونہ ویلی علیہ کو سبب قرار دیدیا تو وقت وجوبِ اداء کو شرط کہا گیا (اگرچہ وقت کے تکرار سے حکم میں تکرار بھی مسلّم ہے مگر دو چیزوں کا ایک نام تجویز کرنا غیرمناسب معلوم ہوا) اور نماز، روزہ اور قربانی میں اوقات و ایام مخصوصہ کو سبب قرار دیا کہ وقت میں تکرار کا ہونا مشاہد و یقینی ہے اور سبب وجوب کے تکرار سے وجوب اداء کا تکرار سابق مضمون میں مدلل کیا جا چکا ہے۔

اور حج زندگی میں فقط ایک مرتبہ ہے اس لیے حج کی اضافت بیت اللہ کی طرف کی گئی جو غیر متکرر ہے اور استطاعت (قدرت علی الزاد والراحلہ) کو باوجودیکہ وجوبِ حج اس پر موقوف ہے یعنی نفس وجوب کی شرط ہے اور وجوب ہی چونکہ مفضی الی الاداء ہوتا ہے اس لیے استطاعت کو سبب کہا جاسکتا ہے مگر چونکہ اس میں تکرار کا بھی تحقق ہوتا ہے اس لیے سبب (بالمعنی الاصطلاحی) قرار نہیں دیا گیا۔

وفی الذخیرۃ وقد رتب اللّٰہ سبحانہ وتعالیٰ وجوب الحج علی الاستطاعۃ وترتیب الحکم علی الوصف یشعر بسببیّۃ ذلک الوصف لذلک الحکم کقولنا زنی فرجم، وسہا فسجد، وسرق فقطع، فتکون الاستطاعۃ سببا لوجوبہ۔ (حاشیہ چلپی علی التبیین:۲/۲۳۶)

غرض جس شئے کو سبب قرار دیا جا رہا ہے اس میں تعدد و تکرار کا خاص معنی ملحوظ ہے اسی وجہ سے واجبات کی نسبت اسباب کی طرف ہوا کرتی ہے فالواجبات تضاف الی اسبابہا (مبسوط:۲/۴) قطع نظر اس سے کہ وہ سبب فی معنی العلۃ ہے یا سبب فی معنی الشرط اب فقہاء کا کلام ملاحظہ فرمائیے۔

(۱) اعلم ان الصلاۃ فرضت لاوقاتہا قال اللّٰہ تعالیٰ اقم الصلوٰۃ لدلوک الشمس ولہذا تکرر وجوبہا بتکرار الوقت وتودّی فی مواقیتہا (مبسوط:۱/۱۴۱)

(۲) وسبب الاول الشہر ولہذا یضاف الیہ ویتکرر بتکررہ (ہدایہ: ۱/۲۱۱ کتاب الصوم)

(۳) فشہود جزء منہ سبب لکلہ ثم کل یوم سبب وجوب اداۂ غایۃ الامر انہ تکرر سبب وجوب صوم الیوم باعتبار خصوصہ کما فی الفتح (شامی:۳/۳۳۳)

(۴) ولان سببہ البیت وانہ لایتعدد فلا یتکرر الوجوب (ہدایہ:۲۳۲)

(۵) وقد علم ان السبب اذا لم یتکرر لایتکرر المسبب وانما کان سببہ البیت لاضافتہ الیہ یقال حج البیت والاضافۃ دلیل السببیۃ (بنایہ:۴/۶)

(۶) وسبب وجوب الحج ما اشار الیہ اللّٰہ تعالیٰ فی قولہ وللّٰہ علی الناس حج البیت فالواجبات تضاف الی اسبابہا ولہذا لایجب فی العمر الا مرۃ واحدۃ لان سببہ وہو البیت غیر متکرر والاصل فیہ حدیث الاقرع بن حابس۔۔۔۔ والوقت فیہ شرط الاداء ولیس بسبب ولہذا لایتکرر بتکرر الوقت (مبسوط:۲/۴)

(۷) الاضافۃ ای اضافۃ الصدقۃ الی الفطر باعتبار انہ وقتہ ای وقت الوجوب فکانت اضافتہ مجازیۃ وہذا یتعدد بتعدد الرأس مع اتحاد الیوم ای لاجل تعدد الصدقۃ یتعدد الرأس ان لم یتعدد الفطر فعلم ان الرأس ہو السبب فی الیوم (بنایہ:۳/۵۷۲)

(۸)۔۔۔ ولانہ یتضاعف بتضاعف الرؤس فعلم ان السبب ہو الرأس وانما یعمل فی وقت مخصوص وہو وقت الفطر ولہذا یضاف الیہ فیقال صدقۃ الفطر والاضافۃ فی الاصل وان کان الی السبب فقد یضاف الی الشرط مجازا فان الاضافۃ تحتمل الاستعارۃ فاما التضاعف بتضاعف الرؤس لایحتمل الاستعارۃ (مبسوط:۲/۱۰۱)

(۹) النصاب انما یکون سببا باعتبار صفۃ النماء فان الواجب جزء من فضل المال قال اللّٰہ تعالیٰ یسئلونک ماذا ینفقون قل العفو ای الفضل فصار السبب النصاب النامی ولہذا یضاف الی النصاب والی السائمۃ یقال زکوٰۃ السائمۃ وزکوٰۃ التجارۃ والدلیل علیہ ان الواجب یتضاعف بتضاعف النصاب فان قیل الزکوٰۃ تتکرر فی النصاب الواحد بتکرر الحول ثم الحول شرط ولیس بسبب الخ۔ (دیکھئے مبسوط:۲/۱۵۰)

پس اگر نصاب اور رأس کے بجائے وقت کو سبب قرار دیا جاتا تو تکرارِ وقت سے وجوب ضرور مکرر ہوتا لیکن متعدد وجوب نہ ہوتا۔ اور اگر ایامِ حج سے وجوبِ اداء کا تعلق ہوتا تو ہر سال حج کرنا ضروری ہو جاتا جیسے قربانی۔

اما حدیث الاقرع بن حابس رضی اللہ تعالی عنہ فہو ما روی ابوہریرۃ رضی اللہ تعالی عنہ ۔۔۔ فقال الاقرع بن حابس رضی اللہ تعالی عنہ أکلّ عام یا رسول اللّٰہ فسکت حتی قالہا ثلثا فقال لوقلتُ نعم لتقرر الوجوب کل عام علی ماہو المستفاد من الامر قلنا لابل معناہ لصار الوقت سببا لانہ علیہ الصلاۃ والسلام کان صاحب الشرع والیہ نصب الشرع (تلویح:۴۲۱) اور جب وقت کو سبب وجوب قرار دیا جاتا تو وجوب اداء مختص بالوقت ہو کر متکرر ہوتا۔

قربانی کے سبب وجوب کے بارے میں فقہاء کا اختلاف اور بالآخر وقت کی سببیت پر سب کا متفق ہونا سببیت کے خاص معنی کے لحاظ سے ہے۔ اور اِس معنی کے اعتبار سے وجوبِ اضحیہ کا سبب نہ غنا ویسار ہے اور نہ ہی رأس یمونہ ویلی علیہ ہے۔ ورنہ متعدد قربانی واجب ہوتی جیسے زکوٰۃ و صدقۃالفطر۔ البتہ ایام نحر کی آمد سے وجوب مکرر ہوتا رہتا ہے اس لیے وجوب اداء یعنی وجوب اضحیہ کا سبب وقت کو قرار دیا گیا ہے۔

ان سبب وجوب الاضحیۃ الوقت وہو ایام النحر والغنیٰ شرط الوجوب۔۔۔ الا یری انہ لایقال اضحیۃ المال ولا مال الاضحیۃ فلا یکون المال سببا (تکلمۃ فتح القدیر)

ولان سبب الوجوب ہناک رأس یمونہ ویلی علیہ وقد وجد فی الولد الصغیر ولیس السبب الرأس ہہنا الا یری انہ یجب بدونہ وکذا لایجب بسبب العبد (بدائع:۵/۶۵ کتاب الاضحیۃ)

واعلم ان عبارۃ البعض تفید ترجیح کون السبب ہو الرأس کصاحب الکافی حیث قال وسببہا الرأس کما فی صدقۃ الفطر وقیل الیوم وعبارۃ الدر تفید عکس ذلک۔ ومنہم من جزم بان السبب ہو الیوم قال للاضافۃ لقولہم یوم الاضحیٰ ولتکررہا بتکررہ (فتح المعین علی شرح الکنز لملا مسکین:۳/۳۷۶)

(۱۰) ثم ہہنا تکرر وجوب الاضحیۃ بتکرر الوقت ظاہر (تکلمہ فتح القدیر:۹/۵۰۶)

یہی وجہ ہے کہ مولانا عبدالحئی لکھنوی رحمۃ اللہ علیہ نے وجوب صدقۃ الفطر میں رأس کے لیے سبب کا لفظ استعمال کیا اور قربانی میں مال کے لیے نہیں کیا۔

قلنا سبب وجوب الفطرۃ رأس ای نفس یمونہ ای یتولیہ ویکفلہ فیجب الصدقۃ علی الرأس۔۔۔ ولکن الاضحیۃ علی المال فان لم یکن لہ مال لایجب علیہ فافہم (عمدۃ الرعایہ:۴/۳۸)

لیکن قربانی کے وجوب فی الذمہ کی علّت بہرحال غنا ویسار ہے اس میں فقہاء کا کوئی اختلاف نہیں ہے (کما ستعلم ان شاء اللّٰہ) اس لحاظ سے اگر کسی فقیہ کے کلام میں بسبب الغنا کا لفظ آیا ہے تو وہ سبب فی معنی العلۃ ہے۔ (دیکھئے: تبیین الحقائق:۶/۴۷۸)

الحاصل وقت کو سبب قرار دینا تکرارِ وجوبِ اداء کے لیے ہے۔

 

                رفع الارتیاب من سببیّۃ الوقت للموقّتات

 

سابق تحریر سے یہ تین چیزیں بالکل محقق اور مدلل ہو گئیں: (۱) وجوبِ اداء مختص ہے اوقات معینہ کے ساتھ (۲) سبب کے تکرار و تعدد سے وجوب مکرر ہوتا ہے (۳) اور اصل وجوب صفات پر موقوف ہے نہ کہ اوقات پر۔

اور جب فقہاء کے نزدیک یہ امور مسلّم ہیں تو پھر قربانی کے سلسلہ میں کراچی، مراد آباد وغیرہ کے فتاویٰ ائمہ فقہ کے نقل کے خلاف کیونکر ہو گئے۔ بات دراصل یہ ہے کہ ایک طرف نفس وجوب میں مکلف کو دیکھا جائے گا اور نفس وجوب کے بعد محل اداء کا اعتبار ہوتا ہے یہ دونوں چیزیں مسلم ہیں دوسری طرف فقہاء نے وقت کو سبب وجوب قرار دیا ہے اور نفس وجوب سے وقت وجوب میں بحث کی ہے اور زکوٰۃ میں سبب وجوب سے ہی نفس وجوب متحقق ہوتا ہے پس نئے موقف کے قائلین کی نظر فقہاء کے کلام میں وقت کے لیے سبب اور سبب وجوب کے لفظ پر مرکوز ہو گئی اور وجوب سے نفس وجوب کی مراد ذہن نشیں کر لی گئی اور نفس وجوب کا مطلب اشتغال الذمہ بالواجب مشائخ نے بیان کیا ہے پس وقت کو مؤثر فی الوجوب تسلیم کر لیا گیا۔ اس مفروضہ پر یہ نتیجہ نکل آیا کہ وقت سے قبل ذمہ مشغول بالواجب ہو گا ہی نہیں لیکن ان مقدمات میں اگر غور کر لیا جاتا کہ وقت کی سببیت سبب محض ہے یا سبب فی معنی العلۃ یا سبب فی معنی الشرط۔ اور وجوب سے وجوب اداء مراد ہے یا صرف نفس وجوب۔اور نفس وجوب کا مطلب آیا بس وہی ہے جو عام مشائخ نے بیان کیا ہے؟ اور اگر یہی ہے تو مطلق وقت مراد ہے یا وقتِ خاص تو لغزش اور خطاء واقع نہ ہوتی مگر ماشاء اللّٰہ کان ومالم یشا لم یکن۔

اس لیے راقم نے موضوع کے ما لہ و ما علیہ کی تحقیق کی اور اس سلسلہ میں فقہاء کے مختلف کلام یکجا کرنے سے ایک قسم کا تعارض ظاہر ہوا جسے دفع کیا گیا تاکہ حقیقت آشکارا ہو جائے اور فقہاء کا نظریہ مبرہن ہو کر سامنے آ جائے۔

 

                وجوبِ اداء کا سبب حقیقی خطابِ الٰہی ہے

 

یہ امر یقینی ہے کہ وجوب اداء کا سبب حقیقی خطاب الٰہی ہے یعنی طلب ایقاعِ فعل خطاب الٰہی کے ذریعہ ہوتا ہے اسی کو خطابِ تکلیف کہتے ہیں یہ اقتضاءِ فعل یا طلبِ ایقاع اوقات مخصوصہ میں ہوتا ہے یعنی وقت مخصوص کی آمد پر ہی خطاب بندوں کی طرف متوجہ ہو گا اس سے قبل نہیں اب اگر وقت مخصوص ممتد ہے جیسے قرباتِ موقتہ میں تو اس کا جزء آخر توجہ خطاب کے لیے متعین ہے اور صیغۂ امر اسی پر دلالت کرتا ہے۔

وسببہا الاصلی خطاب اللّٰہ تعالیٰ ای سبب وجوب اداۂا (مراقی)

ویخرج حین تزول الشمس لان الخطاب یتوجہ بعدہ (ہدایہ، باب الاعتکاف،ص:۲۳۰)

واسبابہا اوقاتہا وتجب ای یفترض فعلہا باول الوقت وجوبا موسّعا فلا حرج حتی یضیق عن الاداء ویتوجہ الخطاب حتما (مراقی)

وسبب لزوم اداۂا ہذا ہو السبب الحقیقی توجہ الخطاب ای الخطاب المتوجہ الی المکلفین بالامر بالاداء یعنی قولہ تعالیٰ واٰتوا الزکوٰۃ وشرط افتراضہا حولان الحول (در مع الرد: ۳/۱۸۵)

ووجہ ما تقرر فی علم الاصول من ان وجوب الاداء فی الموقتات التی یفضل الوقت عن اداۂا کالصلاۃ ونحوہا انما یثبت آخر الوقت اذ ہنا یتوجہ الخطاب حقیقۃ الخ کما مر (تکملہ فتح القدیر:۹/۵۰۸)

اور اسی خطاب الٰہی کو جو بندوں کے ادراک سے غائب اور مکلفین کو اس کا متوجہ ہونا معلوم نہیں ہے شارعِ حکیم کا وقت کے ساتھ مربوط کرنا یہ خطابِ وضع کہلاتا ہے پس وقت مخصوص کی آمد مُعرِّف اور علامت ہے خطاب الٰہی کے متوجہ ہونے کی لہٰذا وقت سبب محض ہے یعنی فقط مفضی الی الحکم ہے مؤثر فی الوجوب نہیں ہے۔ الاحکام الشرعیۃ تتعلق باسبابہا وذلک لان الوجوب غیب عنّا فلا بد من علامۃ یعرف العبد بہا وجوب الحکم وبہذا الاعتبار اضیف الاحکام الی الاسباب فسبب وجوب الصلاۃ الوقت بدلیل ان الخطاب باداء الصلاۃ لایتوجہ قبل دخول الوقت وانما یتوجہ بعد دخول الوقت والخطاب مُثْبِت لوجوب الاداء ومعرّف للعبد سبب الوجوب قبلہ (اصول الشاشی:۹۹)

وسببہ الجعلی الذی جعل علامۃ علی الوجوب الخفی الثابت فی نفس الامر (فتح القدیر:۱/۲۲۴)

السبب عند جمہور الفقہاء ہو الامر الظاہر المضبوط الذی جعلہ الشارع امارۃ لوجود الحکم۔

الحقیقۃ الثانیۃ: ہی ان الاسباب لیست مؤثرۃ فی وجود الاحکام التکلیفیۃ بل ہی امارۃ لظہو رہا ووجودہا (اصول الفقہ:۵۵)

 

                نفس وجوب کا سبب حقیقی کیا ہے؟

 

نور الانوار وغیرہ کتبِ اصول میں ایک عبارت جو جدید موقِف کیلئے بظاہر مضبوط صریح دلیل بن سکتی ہے جیساکہ دارالعلوم کراچی کے طویل فتویٰ میں نئے موقِف کو موجَّہ کرنے کے لیے بطورِ دلیل پیش کی گئی ہے اس کی حقیقت کشائی ضروری ہے تاکہ اس پر اعتماد کا حال واضح ہو جائے۔

ان الوقت سبب لنفس الوجوب والامر ہو سبب لوجوب الاداء (نورالانوار)

وقت نفس وجوب کا سبب یعنی سبب ظاہری ہے اور اس کا سبب حقیقی ایجابِ قدیم ہے جیساکہ نور الانوار ہی کی دوسری عبارت یہ ہے:

ثم ہہنا شیئان نفس الوجوب ووجوب الاداء فنفس الوجوب سببہ الحقیقی ہو الایجاب القدیم وسببہ الظاہری الوقت اقیم مقامہ (نورالانوار)

فقہاء کی مختلف عبارتوں کی وجہ سے یہاں ایک سوال ہوتا ہے کہ کیا ایجابِ قدیم نفس وجوب کا سبب حقیقی ہے یا وجوبِ اداء کا۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ نفس وجوب کا سبب حقیقی آیا ایجابِ قدیم ہے جیسا کہ نور الانوار وغیرہ بعض کتب فقہ میں مصرح ہے یا سبب حقیقی تتابع و  تواردِ نِعَم علی العباد ہے جیسے حاشیہ حسامی میں ہے۔

ثم ہہنا امران نفس الوجوب ووجوب الاداء فنفس الوجوب سببہ الحقیقی ہو تتابع النعم علی العباد من اللّٰہ تعالیٰ وسببہ الظاہری ہو الوقت اقیم مقامہ لتوارد النعم فیہ (حاشیۂ حسامی:۱/۷۲)

یا سبب حقیقی اُن دونوں کے علاوہ کوئی اور شئی ہے جیساکہ صاحب بدائع نے اشارہ کیا ہے۔ کما سیجیٴ۔

بہرحال اگر ایجابِ قدیم حقیقی سبب ہے تو وہ ازلی ہے اور تتابع نعم علی العباد ہے تو وہ غیر ازلی ہے اور خواہ کچھ بھی ہو مذکورہ عبارتوں سے معلوم ہوا کہ وقت سبب ظاہری ہے نفس وجوب کا۔

اب ایک طرف وقت کا نفس وجوب کا سبب ہونا مصرح۔ دوسری طرف وقت کا وجوبِ اداء کا سبب ہونا بھی یقینی اور قطعی ہے جس سے انکار کی گنجائش ہی نہیں۔ غرض یہ عقدہ ہے جس کا حل پیش کرنا ضروری ہے۔

پہلے سوالوں کا جواب یہ ہے کہ ایجابِ قدیم نفس وجوب کا نہیں بلکہ وجوبِ اداء کا ہی سبب حقیقی ہے کیونکہ ایجابِ قدیم اور خطابِ الٰہی درحقیقت دو الگ الگ شئی نہیں ہیں اس لیے کہ خطاب بواسطۂ کلام ہو گا اور کلام اللہ کی صفت ذاتی ہے لہٰذا خطاب بھی قدیم ہوا اور خطاب الٰہی وجوبِ اداء کا سبب حقیقی ہے (کما حققنا) پس وقت کو ایجابِ قدیم کا سبب ظاہری قرار دینا دراصل وجوبِ اداء کا ہی سبب بتانا ہے۔

قولہ الایجاب القدیم ہکذا فی التلویح والحق خلاف ذلک فان الایجاب القدیم وہو خطاب اللّٰہ تعالیٰ المتعلق بافعال المکلفین وہو معنی تعلق الطلب بالفعل فہو سبب لوجوب الاداء لالنفس الوجوب فالسبب الحقیقی لنفس الوجوب اما النعم التی منحہا اللّٰہ تعالیٰ علی عبادہ کما قال البعض (حاشیۂ نورالانوار:۵۷)

والظاہر ان السبب الحقیقی للوجوب النعم فی الوقت کما صرحوا بہ اما الایجاب القدیم فہو سبب وجوب الاداء وہو خطاب اللّٰہ تعالیٰ المتعلق بفعل المکلف وہو معنی تعلق الطلب بالفعل (فتح الغفّار بشرح المنار:۸۱)

اور اب عقدہ کا حل ملاحظہ فرمائیے:

(پہلا حل) نفس وجوب اور وجوبِ اداء دو الگ الگ چیز نہیں بلکہ مامور بہ کے دو اعتبارات ہیں ایک اعتبار سے نفس وجوب اور دوسرے اعتبار سے وجوبِ اداء۔ کیونکہ لفظ ’’اداء‘‘ جو وجوبِ اداء میں مضاف الیہ ہے وہ تین معنوں میں مستعمل ہوتا ہے (۱) اداء بمعنی المصدر ای الاتیان بالشیء یعنی ایقاعہ (۲) حاصل بالمصدر ای الحالۃ المخصوصۃ او الفعل المخصوص (۳) اداء ای ما یقابل القضاء۔ (فتح الغفار)

پس وجوب اداء کہئے یا وجوبِ صلاۃ لفظ کا فرق ہے مصداق ایک ہے اس لیے کہ صوم و صلاۃ ہی وہ فعل مخصوص ہے جس کا مطالبہ وقت میں خطاب الٰہی کے ذریعہ ہوتا ہے جیسا کہ مشائخ ماوراء النہر کا قول صاحب بدائع نے نقل کیا ہے۔

لان الوجوب المعقول ہو وجوب الفعل کوجوب الصوم والصلاۃ وسائر العبادات (بدائع)

لہٰذا نفس وجوب سے عین وجوب مراد ہے۔

والحاصل ان الحالۃ المخصوصۃ تتصف بنفس الوجوب نظرا الی لزوم وقوعہا وتتصف ایضاً بوجوب الاداء نظرا الی

لزوم ایقاعہا فالموصوف بہما واحد بالاعتبارین۔ (فتح الغفار:۴۹)

 

                نفس وجوب کا سبب ظاہری مطلق وقت ہے

 

(دوسرا حل) چونکہ عام مشائخ کے نزدیک نفس وجوب وجوبِ اداء سے منفک ایک قسم ہے اور وجوبِ اداء سے زماناً و رتبۃً مقدم ہوتا ہے اس لیے عقدہ کا حل اب دوسرا ہے۔اور یہ متعین ہے ان شاء اللہ۔ کہ نفس وجوب کا سبب ظاہری مطلق وقت ہے اور وجوبِ اداء کا سبب وقت خاص ہے اس کے متعدد دلائل ہیں۔

کیونکہ ایجابِ قدیم کو اگر نفس وجوب کاسبب حقیقی کہیں تو یہ ایجاب فقط نماز کے لیے تو نہیں ہے کہ وقت کو اس کا سبب ظاہری قرار دے دیں بلکہ تمام عبادتوں کے لیے ہے اس لیے کہ وہ ازلی ہے اس میں بدنی ومالی، یومی، شہری اور سنوی عبادتوں کا کوئی فرق نہیں ہے۔ نیز اس میں تقدیم و تاخیر بھی نہیں ہے یہ سب فرق حادث اور غیر ازلی ہے۔

اور اگر تتابع و تواردِ نعم علی العباد کو نفس وجوب کا سبب حقیقی مانیں اور یہی راجح بھی ہے تو یہ تتابع و توارد اگرچہ غیر ازلی ہے مگر ہر لمحہ من جانب اللہ بندوں پر مبذول ہے۔ شمسی تغیرات مانع نہیں ہے اور سبب حقیقی جب بلا امتیاز تمام بندوں کے حق میں عام ہے تو حکمت کا تقاضہ ہے کہ سبب ظاہری بھی عام ہو اس لیے کہ اقالیم دنیا میں بعض ایسے بھی علاقے ہیں جہاں وقت خاص للعشاء ہوتا ہی نہیں اور کہیں چھ ماہ دن ہے تو چھ ماہ رات ہے۔ بہرحال تمام مکلفین عالم اس نفس وجوب (جبری وجوب) میں مستوی الاقدام ہیں پس جب بھی شرائط تکلیف یعنی شرائط اہلیت پائی جائیں گی ذمہ مشغول بالواجب ہو جائے گا۔

اور وجوبِ اداء جس کا سبب حقیقی خطاب الٰہی ہے اور وہ موجود علی الدوام ہے اس کا مقتضی یہ تھا کہ بندہ ہمہ وقت اس کی بندگی میں مشغول رہتا کوئی لمحہ اس سے فارغ نہ رہتا ظاہر ہے اس سے نظامِ عالَم مختل وفاسد اور بندہ حرج بیّن میں مبتلا ہو جاتا جو لایکلف اللّٰہ نفساً الا وسعہا وغیرہ آیات کے خلاف ہے اس لیے تیسیراً علی الناس وفضلاً من اللّٰہ ورحمۃ علی العباد اوقاتِ مخصوصہ میں (جس میں فیضانِ الٰہی و عنایت ربّانی متوجہ ہوتی ہے) واجب کی ادائیگی کو کافی سمجھ لیا گیا اور شارع نے ان ہی اوقات کو توجہ خطاب کا معرِّف وسبب مقرر فرمایا ہے۔

(پہلا استدلال) والمراد بالسبب ان لہذا الوقت تاثیراً للمأمور بہ وان کان المؤثر الحقیقی فی کل شئے ہو اللّٰہ تعالیٰ لکن یضاف الوجوب فی الظاہر الی الوقت لان فی کل لمحۃ وصول نعمۃ من اللّٰہ تعالیٰ الی جانب العبد وہو یقتضی الشکر فی کل ساعۃ وانما خص ہذہ الاوقات المعینۃ بالعبادات لعظمتہا وتجدد النعم فیہا ولئلا یفضی الی الحرج فی تحصیل المعاش ان استغرق الوقت العبادۃ۔۔۔ کوقت الصلاۃ الخ (نور الانوار:۳۵)

لان وجوبہا فی الوقت اما لحق العبودیۃ او لحق الشکر اولتکفیر الخطایا لان العبادات والقربات انما تجب لہذہ المعانی وہذا لایوجب الاختصاص بوقت دون وقت فکان الاصل فیہا ان تکون واجبۃ فی جمیع الاوقات وعلی الدوام بالقدر الممکن الا ان الاداء فی السنۃ مرۃ واحدۃ فی وقت مخصوص اقیم مقام الاداء فی جمیع السنۃ تیسیرا علی العباد وفضلا من اللّٰہ عز وجل ورحمۃ کما اقیم شہر فی السنۃ مقام جمیع السنۃ واقیم خمس صلوات فی یوم ولیلۃ مقام الصلاۃ آناء اللیل وآناء النہار (بدائع:۵/۶۷)

پس جہاں وقت کو نفس وجوب کاسبب ظاہری کہا گیا ہے اس سے مراد مطلق وقت ہے لہٰذا شرائط وجوب جب بھی متحقق ہو اصل وجوب ثابت یعنی ذمہ مشغول بالواجب ہو جائے اور اہلیت وجوب آ جائے گی مگر اس میں طلب ایقاع نہیں ہے یہ تو وجوب اداء میں ہے جس کا سبب حقیقی خطاب الٰہی ہے۔ لہٰذا نفس وجوب اُس خطاب سے جس پر صیغۂ امر دال ہے بے نیاز نہیں ہوسکتا فلیس الوقت الذی ہو سبب لنفس الوجوب مغنیا عن الامر الذی ہو سبب لوجوب الاداء بل لابدمنہ (نورالانوار:۳۵) یعنی باوجود اصل وجوب (نفس وجوب) پائے جانے کے اگر وقت مخصوص للاداء نہیں ہے تو اداء درست نہیں ہے کیونکہ من جانب اللہ مطالبہ نہ ہونے کی وجہ سے ابھی فعل واجب الاداء نہیں ہے۔

اور اگر کسی کو اصرار ہے کہ فقہاء نے نفس وجوب سے بھی وقت خاص میں کلام کیا ہے لہٰذا اشتغالِ ذمہ بھی وقت خاص میں ہو گا تو اوّلاً یہ عرض ہے کہ سبب وجوب کے لفظ سے نفس وجوب مراد لینا ہی محل نظر ہے (کما سبق) ثانیاً مقصود وجوب اداء ہے اور وہ مختص بالوقت ہے البتہ وجوب اداء سے قبل نفس وجوب کا ہونا ضروری ہے اور نفس وجوب بغیر شرائط کے نہیں ہوسکتا اس لیے فقہاء وقت میں شرائط کے تحقق سے بحث کرتے ہیں تاکہ وجوب اداء کو بیان کرسکیں۔ پس نفس وجوب شرائط سے ہے نہ کہ وقت خاص سے ہاں وجوب اداء وقت خاص سے قبل نہیں ہے اس طرح وقت میں دونوں وجوب مجتمع ہو جاتے ہیں اُسے ایک نظیر سے سمجھ سکتے ہیں۔

حالت احرام میں شکار کرنے سے جزاء واجب ہوتی ہے یہ جزائے فعل ہے لہٰذا ایک ہی شکار کو چند محرموں نے ملکر شکار کیا تو ہر ایک پر مستقل مکمل جزاء واجب ہو گی کیونکہ ہر محرم کا فعل مستقل موجب ہے اور حرم کے جانور کا شکار کرنے سے ضمان واجب ہوتا ہے یہ جزائے محل ہے لہٰذا چند حلال نے مل کر ایک جانور کو قتل کیا تو اُس ایک جانور کی قیمت بطور ضمان سب پر تقسیم کی جائیگی۔

غور کیا جائے جزائے صید جزائے فعل ہے یہ حرم کے ساتھ خاص نہیں اس کا مدار فعل اصطیاد بحالت احرام پر ہے اور ضمان حرم کے ساتھ خاص ہے پس اگر محرم نے حرم کے صید کو قتل کیا حلال شخص کے ساتھ مل کر تو محرم پر دو جرمانہ واجب ہو گا ایک فعل اصطیاد کی وجہ سے جو مکمل جزاء ہے اور دوسرا جرمانہ ضمانِ محل ہے جس میں محرم اور حلال دونوں شریک ہیں لہٰذا محرم دو جرمانوں کا حامل ہوا دو اعتبارات سے اور حلال پر فقط ایک ہی ضمان واجب ہے۔

اسی طرح سمجھئے کہ شرائط وجوب اگر وقت خاص میں متحقق ہو رہی ہیں تو اہلیت وجوب ثابت ہوئی شرائط کی وجہ سے اور خطاب الٰہی متوجہ ہونے سے اداء بھی واجب ہو گی اور اگر وقت خاص نہیں ہے تو شرائط کی وجہ سے اصل وجوب بہرحال ثابت ہو گا۔ غرض نفس وجوب کے لیے وقت متعین نہیں ہے وجوب اداء کے لیے وقت کا ہونا ضروری ہے پس فقہاء کا وقت کو نفس وجوب کا سبب کہنا مذکورہ تقریر سے صحیح اور درست ہے مگر یہ مطلق زمان، عام وقت ہے اور جہاں وقت کو سبب وجوب اداء کہا گیا یہ وقت خاص ہے اور خاص میں عام ضرور پایا جاتا ہے ولا عکس۔ فافہم وتدبر

(دوسرا استشہاد) جمع بین الصلاتین حقیقتاً کی اجازت: امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک فقط مغرب و عشاء میں، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک سفر طویل میں چند شرطوں کے ساتھ اور امام احمد بن حنبل  رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک مرض کی وجہ سے مطلقاً جمع بین الصلاتین کی  اجازت ہونا (مسلم شریف مع شرحہ للنووی:۱/۲۴۵) دلیل ہے کہ نمازوں کا نفس وجوب مکلف کو قبل از وقت حاصل ہے جب ہی تو جمع تاخیراً کی طرح جمع تقدیماً بھی درست ہے ورنہ نفس وجوب سے قبل نماز کا کوئی اعتبار نہیں جیسے قبل البلوغ نفس وجوب ہے ہی نہیں۔

(تیسرا استشہاد) حجاج کے لیے میدانِ عرفہ میں وقوف کی خاطر چند شرطوں کے ساتھ جمع تقدیم کی اجازت ایک قوی دلیل ہے کہ مکلف کا ذمہ پہلے سے مشغول بالواجب ہے اگر شروط موجود ہوں تو اداء میں جمع تقدیم عند الاحناف جائز ہے اور شرط فوت ہو جانے پر دونوں نمازوں کو اپنے اپنے وقت میں ادا کرنا ضروری ہے اور یہ پہلے معلوم ہو چکا ہے کہ وجوبِ اداء مختص بالوقت ہے پس صرف حجاج کے لیے یومِ عرفہ کو وقوف کی غرض سے عصر کا وجوبِ اداء اس کے وقت سے قبل مانا گیا ہے اس لیے جمع تقدیم جائز ہے اور وجوب اداء سے پہلے نفس وجوب (اصل وجوب) کا ثبوت ضروری ہے اگر نفس وجوب ہی وقت خاص سے قبل نہ ہوتا تو جمع تقدیم کی اجازت ہرگز نہ ہوتی کیونکہ اصل وجوب کے بغیر اداء کا مطالبہ نہیں کیا جاتا جیسے اسلام سے قبل احکام کا اصل وجوب نہیں ہے۔

(چوتھا استشہاد) جنون کے طاری ہونے سے اگر وہ ممتد ہے تو وجوب ساقط ہو جاتا ہے یعنی عقل نہ رہنے کی وجہ سے مجنون خطاب الٰہی کا اہل نہیں رہتا اس لیے مطالبہ فعل یعنی وجوب اداء نہیں پایا جاتا۔ پھر اگر یوم و لیلۃ کے پورا ہونے سے پہلے افاقہ ہو گیا تو شرائط کے ساتھ مطلق وقت پا لیا اس لیے اہلیت باقی ہے پس اداء نہ کرنے کی وجہ سے فوت شدہ نمازوں کی قضا واجب ہو گی اور اگر جنون یوم و لیلۃ سے متجاوز ہو گیا تو قضا بھی نہیں آئے گی اس لیے کہ بحالت عقل مطلق زمان بھی نہیں پایا۔

وسبب الصلاۃ الوقت ولا یحصل منہ وجوب الاداء۔۔۔ وکذلک وجوب الاداء یتعلق بالامر بعد کون الشئے واجباً بسببیّۃ السابق علیہ ودلالۃ ای دلیل ہذا الاصل وہو ان نفس الوجوب بالاسباب ووجوب الاداء بالامر اجماعہم علی وجوب الصلاۃ علی النائم والمجنون والمغمیٰ علیہ اذلم یزد الجنون والاغماء علی یوم ولیلۃ (حاشیۂ حسامی:۱۱۹)

اورنفس وجوب کو  وقت خاص سے ماننے کا نتیجہ یہ ہو گا کہ مثلاً ایک شخص کو قبیل الزوال جنون لاحق ہوا یہاں تک کہ دوسرے دن طلوعِ آفتاب کے وقت افاقہ ہوا تو نئے موقف کے قائلین کے نزدیک قضاء بھی واجب نہ ہونی چاہئے کیونکہ نفس وجوب کسی نماز کا نہیں پایا اس لیے کہ بغیر شرائط کے وقت سبب وجوب بھی نہیں بنتا۔ اور فقہاء رحمہم اللہ کے کہنے کے مطابق کہ جنون یوم و لیلۃ سے زائد نہیں رہا قضاء واجب ہو گی۔

(پانچواں استشہاد) اہل بلغاریہ کا مسئلہ بھی ایک مستحکم دلیل ہے۔

بلغاریہ میں عشاء کا وقت مخصوص پایا ہی نہیں جاتا یعنی شفق غائب ہونے سے قبل صبح صادق ہو جاتی ہے ان کی عشاء کے بارے میں فقہاء کا اختلاف ہو گیا اس کا حاصل جو علامہ شامی نے نقل کیا ہے وہ عین مرادِ شریعت ہے یعنی قضاء واجب ہو گی اداء واجب نہیں ہو گی کیونکہ اداء فرض الوقت ہے اور جب اداء یعنی تسلیم عین الواجب کا وقت ہی نہیں تو اس کا وجوب بھی نہیں ہو گا پس عشاء کا واجب القضاء ہونا سبب وجوب نہ پائے جانے کے باوجود حجت ہے کہ نفس وجوب موجود ہے اس لیے کہ مطلق وقت بہرحال ہے اور وقت خاص نہ ہونے کی وجہ سے وجوبِ اداء نہیں ہے۔ لیکن اگر وقت معینہ کو نفس وجوب کا سبب مؤثر مانا جائے تو لازم آئے گا کہ اہل بلغاریہ پر عشاء کی نہ اداء ہو اور نہ ہی قضاء۔ وہو خلاف المنقول عن الفقہاء۔

(چھٹا استشہاد) دنیا کا وہ خطہ جہاں چھ ماہ دن اور چھ ماہ رات ہوتی ہے ظاہر ہے کہ جب دن ہوتا ہے تو غروب سے طلوع آفتاب تک تین نمازوں مغرب، عشاء اور فجر کا وقت اور جب رات رہتی ہے تو دو نمازیں ظہر و عصر کا وقت بالکل نہیں ہوتا۔ سوال یہ ہے کہ ایسے علاقہ میں بسنے والے مسلمان کیا چھ مہینہ تک مسلسل صرف تین نمازیں اور دوسرے چھ ماہ میں فقط دو نمازیں اداء کریں گے کیونکہ اوقاتِ مخصوصہ ہی کو نفس وجوب (اصل وجوب) کا سبب ماننے کا لازمی نتیجہ یہی ہو گا غالباً کوئی بھی اسکا قائل نہ ہو۔ اس لیے کہ جب ایجاب قدیم کو یا توارد نعم علی العباد کو نفس وجوب کا سبب حقیقی قرار دیا تو چونکہ یہ دونوں شمسی امتیازات سے آزاد ہیں اس میں زمان و مکان کا تفاوت نہیں ہے تو سبب ظاہری بھی عام ہونا چاہئے تاکہ صلوات خمسہ کا نفس وجوب جو شرائط کے وجود پر من جانب اللہ ثابت ہوتا ہے اس میں تمام مسلمانان عالم خواہ دنیا کے کسی بھی خطہ میں رہتے ہوں یکساں شامل ہوں البتہ بندوں سے اداء کا مطالبہ یعنی فرضیت اداء دفع حرج کے پیش نظر یرید اللّٰہ بکم الیسر ولایرید بکم العسر اور لایکلف اللّٰہ نفساً الا وسعہا کے تحت اوقات مخصوصہ میں کی گئی ہے۔

 

                تمییز الطرقات لتحقق الشرائط للقربات

 

شروط کی تین قسمیں ہیں: (۱) شرطِ اہلیت (اصل وجوب) (۲) شرط وجوب اداء (۳) شرط صحۃ اداء۔

شرائطِ وجوب: شرائط اہلیت کا وجوب اداء کے لیے بھی ہونا شرط ہے کیونکہ اہلیت کے بغیر وجوب اداء ثابت نہیں ہو گا۔ وبدون الاہلیۃ لایثبت وجوب الاداء (بنایہ:۳/۳۴۵)

پس شرائط وجوب اداء میں شرائط اہلیت بھی شامل ہیں اسی لیے فقہاء کے کلام میں شرط اہلیت کو شرط وجوب اداء سے علیحدہ نہیں کیا جاتا۔ یعنی شرائط وجوب کے تحت دونوں طرح کی شرطیں مذکور ہوتی ہیں۔

شرائط اہلیت: (۱) بلوغ: نابالغ پر کوئی وجوب نہیں۔ والولد لاوجوب علیہ اصلاً (ہدایہ:۲۲۲)

والعبادات باسرہا موضوعۃ عن الصبیان (بنایہ:۴/۹)

(۲) اسلام: کافر پر بجزاسلام کے کسی حکم شرعی کا وجوب نہیں ہے اور ارتداد سے بھی وجوب ساقط ہو جاتا ہے۔ ولم یجب علی الکافر شئے من الشرائع التی ہی الطاعات لما لم یکن اہلا لثواب الآخرۃ (حسامی:۱۳۳)

ولو ارتد بعد وجوبہا سقطت (طحطاوی:۷۱۴)

(۳) عقل: اس کے نفس وجوب کی شرط ہونے میں اختلاف ہے۔ اما العقل فہل ہو من شرائط الوجوب وکذا الافاقۃ والیقظۃ قال عامۃ مشائخنا انہا لیست من شرائط الوجوب ویجب صوم رمضان علی المجنون والمغمی علیہ لکن اصل الوجوب لاوجوب الاداء الخ (بدائع:۲/۸۸)

لیکن جنون اگرمطبق ہو تو اصل وجوب بھی ساقط ہو جاتا ہے اس اعتبار سے عقل شرطِ نفس وجوب ہے۔ واذا امتد فصار لزوم الاداء یؤدی الی الحرج فیبطل القول بالاداء وینعدم الوجوب ایضاً لانعدامہ ای الاداء والحاصل انہ اذا کثر الجنون بان امتد فلا وجوب للاداء علیہ لانہ یفضی الی الحرج ولانفس الوجوب علیہ ایضاً لان الغرض من نفس الوجوب الاداء فاذا سقط الاداء بطل نفس الوجوب ایضاً لفوات الغرض (حاشیہ حسامی:۱۳۸)

شرائطِ وجوب اداء کی تشریح: چونکہ وجوب اداء کے لیے قدرت علی فہم الخطاب اور قدرت علی اداء المامور بہ شرط ہے اس لیے کہ خطاب عاجز کی طرف متوجہ نہیں ہوتا اور مجنون فہم خطاب اور ادائے مامور بہ سے عاجز ہے اس لیے عقل اور بلوغ وجوبِ اداء کے لیے بھی بہرحال شرط ہے۔ فالقدرۃ شرط لوجوب الاداء لالنفس الوجوب لان التکلیف ہو طلب ایقاع الفعل من العبد وانفس الوجوب لاطلب فیہ بدلیل ان صوم المریض والمسافر واجب ولا تکلیف علیہما (فتح الغفار،ص:۷۳)

حاصل یہ کہ مذکورہ تینوں اوصاف شرائط تکلیف کہلاتے ہیں جو تمام عبادتوں کے وجوب کے لیے شرط ہیں۔

یشترط لفرضیتہا ای لتکلیف الشخص بہا ثلثۃ اشیاء الاسلام لانہ شرط للخطاب لفروع الشریعۃ والبلوغ اذلاخطاب علی الصغیر والعقل لانعدام التکلیف دونہ (مراقی:۱۷۳)

ہی فرض عین علی کل مکلف ۔۔۔ ثم المکلف ہو المسلم البالغ العاقل ولو انثی او عبد (رد المختار:۲/۴)

وہو ای صوم رمضان فرض عین اداءً وقضاءً علی من اجتمع فیہ اربعۃ اشیاء ہی شروط لافتراضہ والخطاب بہ وتسمّی شروط وجوب احدہا الاسلام الخ (مراقی:۶۳۴)

اما شروطہ فثلثۃ شرط وجوبہ الاسلام والعقل والبلوغ وشرط وجوب الاداء الصحۃ والاقامۃ وشرط صحۃ الاداء النیۃ والطہارۃ عن الحیض والنفاس کذا فی الکافی والنہایۃ (عالمگیری:۱/۱۹۵ کتاب الصوم)

لہٰذا اوصافِ تکلیف نماز، روزہ دونوں میں اصل وجوب اور وجوبِ اداء دونوں کی شرط ہے اور طہارۃ عن الحیض والنفاس عورت کے حق میں مزید شرطِ وجوبِ اداء اور شرطِ صحت اداء ہے اور صحت (تندرستی) و اقامت صرف روزہ کے وجوبِ اداء کیلئے شرط ہے۔

ویشترط لوجوب اداۂ الذی ہو عبارۃ عن تفریغ الذمۃ فی وقتہ الصحۃ من مرض والخلو عن الحیض والنفاس (مراقی:۶۳۴) وشروط وجوب اداۂ وہی ثلثۃ الصحۃ والاقامۃ والخلو عن الحیض والنفاس۔ (شامی:۳/۳۳۱)

ویشترط لصحۃ اداۂ ای فعلہ لیکون اعم من الاداء والقضاء ثلثۃ (قولہ عن الحیض والنفاس فالخلو عنہما من شروط الوجوب ای وجوب الاداء وشرط الصحۃ (مراقی:۶۲۵)

والطہارۃ عن الحیض والنفاس شرط لتحقق الاداء فی حق النساء (ہدایہ:۲۱۶)

قولہ لتحقق الاداء فلا یجوز اداۂ للحائض والنفساء نعم یجب القضاء لثبوت اصل الوجوب۔ (حاشیۂ ہدایہ)

پس حیض و نفاس کی وجہ سے نفس وجوب یعنی اہلیت زائل نہیں ہوتی مگر اداء متحقق نہ ہونے کی وجہ سے کہ طہارت شرطِ اداء ہے اور وجوب اداء متصل بالاداء ہوتا ہے اس لیے وجوب اداء کا بھی تحقق نہ ہو گا لیکن اصل وجوب پائے جانے سے جس طرح روزہ بالکلیہ ساقط نہیں ہوا ہے قیاس کا تقاضہ تھا کہ نماز بھی ساقط نہ ہو مگر دفع حرج کے لیے اصل صلاۃ کاسقوط ہوا ہے۔ حاصل یہ کہ شرط وجوب اداء کے فوت ہونے سے اصل وجوب ختم نہیں ہو جاتا ہے۔

اما الحیض والنفاس فانہما لا یُعدمان اہلیۃ بوجہ مّا لکن الطہارۃ شرط لجواز اداء الصوم والصلاۃ فیفوت الاداء بہما وفی قضاء الصلاۃ حَرَج لتضاعفہا فسقط بہما اصل الصلاۃ ولا حرج فی قضاء الصوم فلم یسقط اصلہ (حسامی:۱۵۰)

قولہ بوجہ مّا ای لا اہلیۃ الوجوب ولا اہلیۃ الاداء لانہما لایُخلاّن بالذمۃ ولا بالعقل وقدرۃ البدن فکان ینبغی ان لایسقط بہما الصلاۃ کما لا یسقط بہ الصوم لکن الطہارۃ لما کان لجواز اداء الصوم والصلاۃ شرط فیفوت الاداء۔ وفی قضاء الصلاۃ حرج فسقط بہما اصل الصلاۃ ای نفس الوجوب ولا حرج فی قضاء الصوم فلم یسقط اصلہ ولذا یقضی الصوم دون الصلاۃ فافہم۔ (حاشیۂ حسامی:۱۵۰)

اور طہارت عن الحیض جس طرح شرطِ اداء ہے اسی طرح وقت خاص بھی شرط اداء ہے۔ ثم دخول الوقت شرط لصحۃ اداء الصلاۃ (کبیری:۲۲۴)

پس اگر اوصاف ثلثہ کے ساتھ وقت خاص کو بھی اصل وجوب کے تحقق کے لیے شرط قرار دیں تو وقت گذر جانے پر نفس وجوب ہی ساقط ہو جائے گا کہ اذا فات الشرط فات المشروط ۔

اور وجوبِ حج کی شرائط میں اسلام، عقل، بلوغ اور حریت شرائط وجوب یعنی اہلیت وجوب ہیں اور استطاعت بھی بالاتفاق شرط وجوب ہے مگر چونکہ حجاج کی اکثریت آفاقی ہے اس لیے وصول الی مواضع الاداء کے لیے شرط ہے اہل مکہ و من حولہم کے حق میں شرطِ وجوب نہیں ہے۔ نیز یہ شرط محض ہے شرط فی معنی العلۃ نہیں یعنی ادائے ارکان کے لیے مال کا باقی رہنا شرط نہیں ہے اسی لیے وجوبِ حج کے بعد اگر مال ہلاک ہو گیا تو حج ذمہ سے ساقط نہیں ہو گا اگرچہ جب بھی اداء کرے گا اداء کہلائے گا قضاء نہیں۔اور بقیہ شرائط کے شرط وجوب اور شرط اداء ہونے میں اختلاف ہے۔

(۱) شرائط وجوبہ فمنہا الاسلام ومنہا العقل ومنہا البلوغ ومنہا الحرّیۃ ومنہا القدرۃ علی الزاد والراحلۃ ثم تکلموا ان امن الطریق وسلامۃ البدن علی قول ابی حنیفۃ ووجود المحرم للمرأۃ شرط وجوب الحج ام للاداء بعضہم جعلوہا شرطا للوجوب وبعضہم شرطا للاداء وہو الصحیح (عالمگیری:۲۱۸)

واعلم ان القدرۃ علی الزاد والراحلۃ شرط الوجوب لانعلم عن احد خلافہ وقالوا لو تحمل العاجز عنہما فحج ماشیا یسقط عنہ الفرض حتی لو استغنی لایجب علیہ ان یحج (فتح القدیر:۲/۴۱۹)

والمال لیس بسبب فیہ ولکنہ معتبر لیتیسر بہ الوصول الی مواضع اداء ارکانہ (مبسوط)

بخلاف صدقۃ الفطر والحج فان المال ہناک شرط الوجوب لاشرط الاداء فاذا تقرر الوجوب فی ذمتہ لم یسقط بہلاک مالہ (مبسوط:۲/۱۷۵)

عبادت مالی میں اوصاف تکلیف کے علاوہ قدرت علی المال یعنی ایک معتد بہ مقدارِ مال کا مالک ہونا بھی ضروری ہے اس مقدار کی تفصیل میں ائمہ مجتہدین کا اختلاف ہے اور ملک تام بغیر حریت کے ثابت نہیں ہوتی ہے پس زکوٰۃ، صدقۃ الفطر، اور قربانی تینوں میں مکلف کے لیے پانچ شرائط کا ہونا ضروری ہے اور یہ شرائط جو مکلف کے اوصاف ہیں مکلف کی ذات سے متعلق ہیں۔اور یہ پانچوں شرطیں اصل وجوب کی شرائط ہیں۔ البتہ غنائے شرعی کی حیثیت اِن تینوں عبادتوں میں جداگانہ ہے۔

پھر زکوٰۃ میں مال کا نامی ہونا اور حولان حول یہ وجوب اداء کے لیے شرط ہیں اور مال سے متعلق۔ اور قربانی میں مکلف کا ایام نحر میں مقیم ہونا دفعاً للحرج وجوب اداء کی شرط ہے۔

وشرط الاقامۃ لان المسافر یلحقہ مشقۃ فی اداۂا (بنایہ:۱۱/۴)

غیر ان الاداء یختص باسباب یشق المسافر استحضارہا ویفوت بمضی الوقت فلا تجب علیہ بمنزلۃ الجمعۃ (ہدایہ، بنایہ:۱۱/۹)

 

                وقت وجوب میں شرائط کا اعتبار

 

پہلے گذر چکا ہے کہ وجوب اداء وقت کے ساتھ خاص ہے اس لیے شرائط کا وقت وجوب میں پایا جانا ضروری ہے اور شریعت میں اس کا ہی اعتبار کیا گیا ہے یعنی اگر وقت وجوب سے قبل شرائط نہ پائے گئے تو کوئی مضائقہ نہیں لیکن وقت وجوب میں شرائط موجود ہیں تو وجوبِ اداء متحقق ہو گا یعنی فرضیت ثابت ہو جائے گی یہ نہیں کہ شرائط موجود ہوں پھر بھی ذمہ مشغول بالواجب نہ ہو چنانچہ حولان حول کے وقت وجوب زکوٰۃ کے لیے اور صبح یوم الفطر کے وقت صدقۃ الفطر کے وجوب کے لیے شرائط کا موجود ہونا ضروری ہے۔

اور واجباتِ موقتہ (نماز، روزہ اور قربانی) میں چونکہ وقت ممتد ہے اس لیے وجوب اداء کے لیے شرائط کا وقت کے جزء آخر میں پایا جانا معتبر ہے از اوّل تا آخر پورے وقت میں رہنا ضروری نہیں ہے یعنی اگر ابتدائے وقت میں شرائط نہ ہوں (خواہ شرط اہلیت ہی نہ ہو یا فقط شرطِ وجوبِ اداء نہ ہو) تو کوئی حرج نہیں اخیر وقت میں بھی تمام شرائط کا تحقق ہو گیا اس طرح پر کہ شروع فی اداء الواجب ممکن ہے تو وجوب اداء متحقق ہو جائے گا اور اگر اول وقت میں شرائط پائے گئے مگر واجب اداء نہ کیا یہاں تک کہ آخر وقت میں کوئی شرط فوت ہو گئی یا موت واقع ہو گئی تو اداء واجب نہیں ہوئی پس ترکِ فرض لازم نہیں آئے گا۔

والمعتبر ہذہ الشرائط آخر الوقت وان لم تکن فی اولہ (شامی:۴۵۳)

الوجوب یتعلق عندنا بآخر الوقت بمقدار التحریمۃ حتی ان الکافر اذا اسلم والصبی اذا بلغ والمجنون اذا افاق والحائض اذا طہرت ان بقی مقدار التحریمۃ یجب علیہ الصلاۃ عندنا کما فی المضمرات واذا اعترضت ہذہ العوارض فی آخر الوقت سقط الفرض بالاجماع کذا فی مختار الفتاویٰ (عالمگیری:۱/۵۱)

اور روزہ شروع ہوتا ہے صبح صادق سے اس لیے اس سے قبل شرائط ہوں تو وجوبِ اداء ہو گا۔

واذا بلغ الصبی او اسلم الکافر فی رمضان امسکا بقیۃ یومہما ولو افطرا فیہ لاقضاء علیہما وصاما بعدہ لتحقق السبب والاہلیۃ ولم یقضیا یومہما ولا ما مضی لعدم الخطاب وہذا بخلاف الصلاۃ لان السبب فیہا الجزء المتصل بالاداء فوجدت الاہلیۃ عندہ وفی الصوم الجزء الاول والاہلیۃ منعدمۃ عندہ (ہدایہ:۲۲۳)

شرائط کا آخر وقت میں معتبر ہونے کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ اوّل وقت میں شرائط کا وجود ہی غیر معتبر ہے یعنی اہلیت پیدا ہی نہیں ہو گی اور ذمہ مشغول بالواجب نہیں ہو گا پس اگر وقت کے حصہ اوّل میں شرائط موجود ہیں تو اہلیت بہرحال ثابت ہو گئی اور گو پورے وقت میں وجوب اداء کا سبب بننے کی صلاحیت ہے مگر حقیقت میں سبب وہی جزء کہلائے گا جو اداء سے متصل ہے نہ کہ بالتعیین جزء اول۔ ٹھیک اسی طرح اگر شرائط وجوب وقت مخصوص سے قبل متحقق ہوئے تو اہلیت (اصل وجوب) بہرحال قائم ہو گی لیکن وجوب اداء وقت کی آمد کے بعد ہی ہو گا اس سے پہلے نہیں۔

اور وجود شرائط کے سلسلہ میں قربانی کا حال بھی نماز کی شرطوں کی طرح ہے۔

وہذہ قربۃ موقتۃ فیعتبر الغنا فی وقتہا ولا تشترط ان یکون غنیا فی جمیع الوقت حتی لو کان فقیرا فی اوّل الوقت ثم ایسر فی آخرہ یجب علیہ لما ذکرنا (بدائع:۵/۶۴)

الفقر والغنا والولادۃ والموت انما یعتبر فی حق الاضحیۃ آخر ایام النحرفلو کان غنیا فی اوّل الیوم فقیرا فی آخرہ لاتجب علیہ وعلی العکس تجب (شرح کنز لملاّ مسکین:۳۷۹)

 

                شرائط صحۃ اداء

 

شرائطِ اہلیت کا جس طرح وجوب اداء کے لیے ہونا ضروری ہے اسی طرح ادائے واجب کی صحت کے لیے بھی شرط ہے کیونکہ شرطِ وجوب فوت ہونے سے اگر اہلیت ہی ختم ہو گئی تو وجوب اداء کا تحقق نہ ہو گا اور اداء وجوب پر متفرع ہے۔ ولو ارتد بعد وجوبہا سقطت (طحطاوی:۷۱۴) اور اگر شرطِ وجوبِ اداء شرطِ صحۃ بھی ہے جیسے طہارۃ عن الحیض (مثلاً عورت رمضان میں حائضہ ہو گئی) تو روزہ کا وجوبِ اداء نہ ہو گا مگر اصل وجوب باقی رہے گا اور اگر صرف شرطِ صحت فوت ہو تو نفس وجوب برقرار رہے گا اور وجوب اداء بھی متحقق ہو گا جیسے طہارۃ عن الجنابۃ۔

بخلاف الجنب والمحدث لان اہلیتہما غیرمعدومۃ بسبب الجنابۃ والحدث لانہما مباحان لکن الطہارۃ لہما شرط صحۃ الاداء وبعدم الشرط لاتعدم الاہلیۃ (البنایہ:۳/۳۴۵)

بہرحال شرائط وجوب کے علاوہ صحت ادائے واجب کے لیے بھی شرطیں ہوتی ہیں خواہ اداء ہو کہ قضاء مثلاً نیت، طہارتِ بدن، ثوب اور مکان، ستر عورت، استقبالِ قبلہ اور اداء (مقابل قضاء) کے لیے وقت کا ہونا۔

اور حج کے لیے مثلاً احرام، زمان و مکان اور وہ تمام شرطیں جن کے بارے میں شرطِ وجوب شرطِ اداء میں اختلاف ہے اور شرط ادا ہونا راجح ہے۔

اور قربانی کے لیے مثلاً جانور کا مخصوص عمر والا ہونا، عیوب سے خالی ہونا، وقت کا ہونا اور اہل شہر کے حق میں قربانی کے لیے نماز عید سے فارغ ہو جانا۔

 

                شرطِ وجود و شرطِ بقاء

 

مالی عبادات کی شرائط میں ملک نصاب (غنا) مرکزی شرط ہے۔ شرط بایں معنی کہ حکم کا وجود اس پر موقوف ہے جیساکہ صاحب کنز وغیرہ نے شرط سے تعبیر کیا ہے اور شرعاً تعددِ واجب کی معرفت کے لیے سبب قرار دیا گیا ہے۔ کما فی جمیع کتب الفقہ۔ اور حقیقت میں یہ غنا وجوبِ زکوٰۃ کے لیے علّت ہے۔

 فعلمنا ان ملک النصاب علۃ (قولہ علۃ ای سبب لافتراض الزکوٰۃ واما سبب لزوم اداۂا فتوجہ الخطاب۔ (نورالانوار:۹۶)

اور ادائے زکوٰۃ موقّت نہیں ہے اس لیے وجوب فی الذمہ کے بعد علی الاطلاق ادائے واجب تک شرط کا باقی رہنا ضروری ہے یعنی دوامِ واجب کے لیے بقاءِ شرط بھی لازم ہے بخلاف صدقۃ الفطر کہ غنا اس کے حق میں شرطِ محض ہے مؤثر فی الوجوب نہیں ہے اس لیے وقت وجوب میں شرط کے پائے جانے سے وجوبِ اداء متحقق ہو جائے گا بعدہ شرط فوت ہو جانے سے واجب ذمہ سے ساقط نہیں ہو گا۔

ثم القدرۃ الممکنۃ لما کانت شرطا للتمکن من الفعل واحداثہ کانت شرطا محضا لیس فیہ معنی العلۃ فلم یشترط بقاۂا لبقاء الواجب اذ البقاء غیر الوجود وشرط الوجود لایلزم ان یکون شرط البقاء کالشہود فی النکاح شرط للانعقاد دون البقاء بخلاف المیسرۃ فانہا شرط فیہ معنی العلۃ (شامی:۳/۳۱۴)

دوام ہذہ القدرۃ شرط لدوام الواجب ای دوام المیسرۃ شرط لدوام ما وجب بہا لانہا شرط فیہ معنی العلۃ (فتح الغفار:۷۵)

(فلا تشترط بقاۂا) ای بقاء ہذہ القدرۃ وہی النصاب حتی لوہلک بعد فجر یوم الفطر لاتسقط لانہا شرط محض ای لیس فیہ معنی العلۃ الموثرۃ بخلاف القدرۃ المیسرۃ (در مختار:۳/۳۱۳)

اور غالباً حج کی شرطِ استطاعت بھی صدقۃ الفطر کی شرطِ غنا کی طرح ہے۔

بخلاف صدقۃ الفطر والحج فان المال ہناک شرط الوجوب لاشرط الاداء فاذا تقرر الوجوب فی ذمتہ لم یسقط بہلاک مالہ۔ (مبسوط:۲/۱۷۵)

اور یہی ملک نصاب زکوٰۃ کی طرح قربانی کے وجوب فی الذمہ کے لیے بھی علت ہے اور اداء کا محل بھی مال ہے۔ اور ایام نحر ادائے واجب کے لیے وقت نماز کی طرح شرطِ اداء ہے۔ غالباً اسی مشابہت کی وجہ سے علت وجوب کے تحقق کے بعد وقت اداء میں اداء نہ کرنے کی صورت میں وقت گذرنے سے قبل اگر فقر لاحق ہو گیا یا مرگیا تو اضحیہ ساقط ہو جائے گا بلکہ حقیقت میں اضحیہ کا وجوب ہی نہیں ہوا جیسے زکوٰۃ واجب ہونے کے بعد مطلقاً یعنی کبھی بھی مال ہلاک ہو جانے سے ساقط ہو جاتی ہے اس لیے کہ پوری عمر ادائے زکوٰۃ کا وقت ہے۔

وہذہ لانہا تشبہ الزکوٰۃ من حیث انہا تسقط بہلاک المال قبل مضی ایام النحر کالزکوٰۃ بہلاک النصاب (ہدایہ آخرین:۴۴۶)

لانہا تسقط بالہلاک قبل مضی ایام النحر کالزکوٰۃ تسقط بہلاک النصاب (شرح نقایہ:۲/۲۶۹)

اور بغیر اداء کے وقت گذر گیا تو وجوب مؤکد ہو کر واجب اس کے ذمہ دَین بن گیا اب فقر لاحق ہونے سے حکم ساقط نہ ہو گا۔

ولو کان موسرا فی جمیع الوقت فلم یضحّ حتی مضی الوقت ثم صار فقیراً صار قیمۃ شاۃ صالحۃ للاضحیۃ دَینا فی ذمتہ یتصدق بہا متی وجدہا لان الوجوب قد تأکد علیہ بآخر الوقت فلا یسقط بفقرہ بعد ذلک کالمقیم اذا مضی علیہ وقت الصلاۃ ولم یصل حتی سافر لایسقط عنہ شطر الصلاۃ وکالمرأۃ اذا مضی علیہا وقت الصلاۃ وہی طاہرۃ ثم حاضت لایسقط عنہا فرض الوقت حتی یجب علیہا القضاء اذا طہرت عن حیضہا کذا ہہنا ۔ ولو مات الموسر فی ایام النحر قبل ان یضحّی سقطت عنہ الاضحیۃ وفی الحقیقۃ لم تجب لما ذکرنا ان الوجوب عند الاداء او فی آخر الوقت فاذا مات قبل الاداء مات قبل ان تجب علیہ کمن مات فی وقت الصلاۃ قبل ان یصلیہا انہ مات ولا صلاۃ علیہ کذا ہہنا (بدائع:۵/۶۵، کتاب الاضحیۃ)

نور السَنیٰ لمن یجب علیہ الاضحیۃ بالغنی

 

                قربانی بالاتفاق مالی عبادت ہے

 

قربانی امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک واجب ہے ائمہ ثلثہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ، امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک سنت مؤکدہ ہے اور یہ بالاتفاق مالی عبادت ہے چنانچہ قدرۃ علی المال تمام ائمہ کے نزدیک شرط ہے پس عاجز پر بالاجماع قربانی واجب نہیں ہے البتہ قدرت کی حد میں تفصیل ہے۔

تنقسم شروط الاضحیۃ الی قسمین شروط سنّیّتہا وشروط صحتہا۔۔۔ فاما سنّیّتہا فلا تسن للعاجز عنہا وفی حد القدرۃ تفصیل المذاہب۔

الحنفیۃ قالوا : القادر علیہا ہو الذی یملک مائتی درہم

الحنابلۃ قالوا : القادر علیہا ہو الذی یمکنہ الحصول علی ثمنہا ولو بالدَّین اذا کان یقدر علی وفاء دَینہ․

المالکیۃ قالوا: القادر علیہا ہو الذی لایحتاج الی ثمنہا لامر ضروری فی عامہ فاذا احتاج الی ثمنہا فی عامۃ فلا تسن

الشافعیۃ قالوا: القادر علیہا ہو الذی یملک ثمنہا زائدًا عن حاجتہ وحاجۃ من یعول یوم العید وایام التشریق (الفقہ علی مذاہب الاربعہ)

اور قربۃ مالیہ کی ادائیگی کی دو جہتیں ہیں قربانی دونوں کو جامع ہے۔

اعلم ان القُرَب المالیۃ نوعان نوع بطریق التملیک کالصدقات ونوع بطریق الاتلاف کالعتق ویجتمع فی الاضحیۃ معنیان فانہ تقرب باراقۃ الدم وہو الاتلاف ثم بالتصدق باللحم وہو تملیک (مبسوط:۱۱/۸)

یہی وجہ ہے کہ اس کی ادائیگی میں نیابت بھی جائز ہے۔

 لانہا قربۃ تتعلق بالمال فتجری فیہا النیابۃ کاداء الزکوٰۃ والصدقۃ (بدائع:۵/۶۷)

اور عبادتِ مالیہ کا وجوب مال پر موقوف ہے اور وہ شرعاً مقدارِ نصاب کا مالک ہونا ہے۔

اذ الغنا یوجب الاحسان وہو یحصل بالنصاب (نورالانوار:۲۷۴)

لان العبادۃ المالیۃ متوقفۃ علی المال (عمدۃ الرعایۃ ۴/۳۸)

 

                قربانی کا وجوب فی الذمہ غنا سے ہے

 

قربانی کا وجوب بھی غنا ویسار (ملک (نصاب) سے ثابت ہوتا ہے اور یہی وجوب فی الذمہ ہے جو منجانب اللہ ہے اور وہ وقت پر موقوف نہیں ہے۔

ہی واجبۃ وانما تجب علی حر مسلم مقیم موسر (ملتقی الابحر:۴/۱۶۶)

قولہ (موسر) لان العبادۃ لاتجب الاعلی القادر وہو الغنی دون الفقیر (مجمع الانہر:۴/۱۶۶)

واما شرائط الوجوب منہا الاسلام ۔۔۔ ومنہا الحریۃ ۔۔۔ ومنہا الاقامۃ ۔۔۔ ومنہا الغنا۔ والغنا شرط الوجوب فی ہذا النوع لانہ حق مالی متعلق بملک المال (بدائع:۵/۶۳)

ولان الموسر تجب علیہ الاضحیۃ فی ذمتہ (بدائع)

وجوب فی الذمہ کا حکم مُوسِر پر لگانا یہ دلیل ہے کہ یسار حکم کی علّت ہے۔

لان ترتیب الحکم علی المشتقّ نص علی علّیّۃ مبدأ الاشتقاق (فتح الغفار:۶۰)

اور یہی حقیقت ہے اس میں کسی کا اختلاف نہیں ہے۔ وشرط الیسار لقولہ صلی اللہ علیہ وسلم من وجد سعۃ ولم یضح فلا یقربن مصلانا یدل علی ان الوجوب بالسعۃ ولا سعۃ للفقیر (بنایہ:۱۱/۴)

اذ لانزاع لاحد ان علّہ وجوب الاضحیۃ علی الموسر ہی القدرۃ علی النصاب (تکلمۃ فتح القدیر:۹/۵۰۷)

۔۔۔ لان علۃ الوجوب فی المعسر ہی الاشتراء بنیۃ الاضحیۃ کما صرحوا بہ لا القدرۃ وعلتہ فی الموسر ہی القدرۃ لا الاشتراء بنیۃ الاضحیۃ کما صرحوا بہ ایضاً فبعد ان تقرر ان علّتہ فی الموسر ہی القدرۃ لاغیر الخ (تکملہ فتح القدیر:۹/۵۰۷)

 

                وجوب فی الذمہ قبل یوم النحر اور ایجاب کی تین قسمیں

 

وجوب فی الذمہ کی دو صورتیں ہیں اوّل بایجاب اللہ تعالیٰ جس کے لیے غنا شرط (یعنی علّت) ہے اور یہ وجوب غیر اختیاری ہے، دوم بایجاب العبد جس کا سبب نذر ہے اور یہ وجوب اختیاری ہے خواہ ناذر غنی ہو کہ فقیر۔

والوجوب بسبب النذر یستوی فیہ الفقیر والغنی وان کان الواجب یتعلق بالمال (بدائع:۵/۶۱)

یہی وجہ ہے کہ غنیِ ناذر پر دو قربانی واجب ہو گی اور فقیر نے نذر مانی تو فقط ایک ہی۔ چاہے ایام نحر سے پہلے نذر مانے یا ایام نحر میں۔

ولو قال ذلک (ای نذر ان یضحّی بشاۃ وہو موسر) قبل ایام النحر یلزمہ التضحیۃ بشاتین بلا خلاف۔۔۔ ولو قال ذلک وہو معسر ثم ایسر فی ایام النحر فعلیہ ان یضحی بشاتین (بدائع:۵/۶۳)

یعنی ایام نحر سے پہلے غنی نے نذر مانی تو اس کے ذمہ دو بکری کی قربانی لازم ہو گی۔اور اگر تنگدست نے نذر مانی تو ایک قربانی لازم ہو گی پھر اگر ایام نحر میں وہ مالک نصاب بھی بن گیا تو دوسری لازم ہو گی ورنہ نہیں۔

دیکھئے غنا اور نذر دونوں وجوب فی الذمہ کا ذریعہ ہیں اور آدمی جب بھی نذر مانے اس کا ذمہ مشغول بالواجب ہوتا ہے تواسی طرح غنا کا جب تحقق ہو گا من جانب اللہ ذمہ مشغول بالواجب ہو جائے گا۔ ان دونوں کے مابین کوئی فصل نہیں ہے۔

علامہ زیلعی تبیین الحقائق میں ایام نحر گذر جانے اور قربانی نہ کرنے کی صورت میں فقیر و غنی کے درمیان فرق کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔

بخلاف الغنی لان الاضحیۃ واجبۃ فی ذمتہ فیجریہ التصدق بالشاۃ عنہ او بقیمتہا ولا یجب علیہ اکثر من ذلک الا اذا التزم التضحیۃ بالنذر وعنی بہ غیر الواجب فی ذمتہ فحینئذٍ یجب علیہ ان یتصدق بالمنذور کما بینا فی حق الفقیر مع الواجب الذی فی ذمتہ وہی الشاۃ التی وجبت بسبب الیسار وکذا اذا اطلق النذر ولم یُرِد بہ الواجب فی ذمتہ یجب علیہ غیرہ معہ وان اراد بہ الواجب بسبب الیسار لایلزمہ غیرہ (تبیین الحقائق:۶/۴۷۸)

غنا وجوب فی الذمہ میں مؤثر ہے اس عبارت میں سبب کا لفظ لغوی معنی میں ہے شرعی مفہوم میں نہیں ہے۔ حاصل یہ کہ وجوب فی الذمہ یعنی نفس وجوب موقت نہیں ہے اس لیے کہ اس کے اسباب مختص بالوقت نہیں ہیں۔

ایجاب کی تیسری قسم بھی ہے اور وہ فقیر کا بنیۃ تضحیہ جانور خریدنا ہے۔

وان الشراء للاضحیۃ ممن لا اضحیۃ علیہ یجری مجری الایجاب وہو النذر بالتضحیۃ عرفا بخلاف الغنی لان الاضحیۃ علیہ بایجاب الشرع ابتداء فلا یکون شراۂ للاضحیۃ ایجابا بل یکون قصدا الی تفریغ ما فی ذمتہ (بدائع:۵/۶۲)

۔۔۔ لان علۃ الوجوب فی المعسر ہی الاشتراء بنیۃ الاضحیۃ کما صرحوا بہ لا القدرۃ (تکلمہ فتح القدیر:۹/۵۰۷)

اور ذیل کی عبارت میں ان تینوں ایجاب کو یکجا ملاحظہ کیجئے۔

ولو اشتری رجل اضحیۃ وہی سمینۃ فعجفت عندہ حتی صارت بحیث لو اشتراہا علی ہذہ الحالۃ لم تجزہ ان کان موسرا۔ وان کان معسراً اجزأتہ لان الموسر تجب علیہ الاضحیۃ فی ذمتہ وانما اقام ما اشتری لہا مقام مافی الذمۃ فاذا نقصت لاتصلح ان تقام مقام مافی الذمہ فبقی مافی ذمتہ بحالہ واما الفقیر فلا اضحیۃ فی ذمتہ فاذا اشتراہا للاضحیۃ فقد تعیّنت الشاۃ المشتراۃ للقربۃ فکان نقصانہا کہلاکہا حتی لوکان الفقیر اوجب علی نفسہ اضحیۃ لا تجوز ہذہ لانہا وجبت علیہ بایجابہ فصار کالغنی الذی وجبت علیہ بایجاب اللّٰہ عز شانہ (بدائع:۵/۷۶)

خلاصہ یہ کہ جس طرح نذر مُوجِب ہے اسی طرح شراء بنیۃ التضحیۃ مُوجِب ہے البتہ نذر کا وجوب ذمہ میں ہوتا ہے اور شراء کا اضحیۃ میں اور نذر کا مُوجِب ہونا ایام نحر کے ساتھ خاص نہیں ہے تو پھر غنا کا ایجاب منجاب اللہ تعالیٰ کیسے ایام و اوقات کے ساتھ خاص ہو جائے گا۔

 

                واجباتِ مالیہ اور حرمتِ صدقہ کا ثبوت غِنیٰ سے ہے

 

یہی وجہ ہے کہ شرعاً غنی ہوتے ہی وہ شخص مستحق صدقہ نہیں رہتا ہے یہ عدم استحقاق یعنی حرمۃ اخذ صدقہ ظاہر ہے کہ ایام نحر کے ساتھ مختص نہیں ہے۔

ویتعلق بہذا الیسار احکام ثلثۃ حرمۃ اخذ الصدقۃ، ووجوب زکوٰۃ الفطر والاضحیۃ (مبسوط:۳/۱۰۲)

ویتعلق بہذا النصاب حرمان الصدقۃ ووجوب الاضحیۃ والفطر (ہدایہ:۲۰۸)

وہی واجبۃ علی الحر المسلم المالک لمقدار النصاب فاضلاً عن حوائجہ الاصلیۃ کذا فی الاختیار شرح المختار ولا یعتبر فیہ وصف النماء ویتعلق بہذا النصاب وجوب الاضحیۃ ووجوب نفقۃ الاقارب ہکذا فی فتاوی قاضیخان (عالمگیری:۱/۱۹۱)

اعلم ان النصب ثلثۃ (۱) نصاب یشترط فیہ النمو ویتعلق بہ الزکوٰۃ وسائر الاحکام المتعلقۃ بالمال النامی۔ (۲) ونصاب تجب بہ احکام اربعۃ حرمۃ الصدقۃ، ووجوب الاضحیۃ، وصدقۃ الفطر ونفقۃ الاقارب ولا یشترط فیہ النمو بالتجارۃ ولاحولان الحول۔ (۳) ونصاب یثبت بہ حرمۃ السوال وہو ما اذا کان عندہ قوت یومہ عند البعض وقال بعضہم ہو ان یملک خمسین درہما (طحطاوی:۷۳۳ وکذا فی العنایۃ)

پس اگر کوئی شخص مثلاً یکم رجب کو نصاب کا مالک بنا تو شرعاً اس کے ذمہ کئی حقوق عائد ہوتے ہیں نفقہ اقارب اس کے ذمہ لازم ہو گیا، صدقہ لینا حرام ہو گیا، اور صدقۃ الفطر اور قربانی کا وجوب (اصل وجوب) بھی آ گیا اور اگر نصاب نامی ہے تو ان سارے حقوق کے ساتھ زکوٰۃ و عشر وغیرہ کا وجوب بھی متحقق ہو گیا۔ لہٰذا

(۱) مالک نصاب کا ذمہ مشغول بالواجب ہو گیا ہے جب ہی تو اخذ صدقہ حرام ہے کیونکہ حرمۃ صدقہ کے لیے کسی کا فقط مالک نصابِ فاضل ہونا کافی ہے قطع نظر اس سے کہ ملک نصاب اس کے حق میں شرط ہے یا علّت یا پھر سبب۔

(۲) غنی ہونے کی وجہ سے اگر زکوٰۃ کی اہلیت پیدا ہو گئی تو پھر وجوب اضحیۃ کی اہلیت بھی یقیناً آئے گی کہ دونوں میں ملک نصاب علّت ہے۔

(۳) اور اگر صدقۃ الفطر کا نفس وجوب متحقق ہو گیا تو قربانی کا اصل وجوب کیونکر نہ ہو گا جبکہ دونوں میں ایک ہی طرح کا غنا شرط ہے بلکہ صدقہ میں شرط محض ہے اور قربانی میں شرط مؤثر فی الوجوب ہے البتہ وجوبِ اداء ابھی نہ صدقۃ الفطر میں وارد ہوا ہے اور نہ ہی زکوٰۃ میں۔ اسی طرح قربانی کا وجوبِ اداء بھی صبح یوم النحر سے قبل نہیں ہے۔ ہاں فرق اس قدر ہے کہ زکوٰۃ میں ملک نصاب ہی کو اور صدقہ میں رأس یمونۃ ویلی علیہ کو اور قربانی میں ایام نحر کو سبب قرار دیا گیا ہے۔

بہر حال قربانی مالی عبادت ہے جیسے کہ زکوٰۃ اور قدرت علی النصاب دونوں میں علّتِ مؤثرہ ہے لہٰذا حق مالی ہونے کی وجہ سے اصل وظیفہ تصدق بالمال ہونا چاہئے تھا اور وہ مقید بالوقت بھی نہ ہوتا مگر وقت مخصوص میں اللہ تعالیٰ کی خاص مصلحت کے تحت اراقۃ الدم کو جو کہ اتلافِ نفس ہے تصدق کے قائم مقام کر دیا گیا اور اراقۃ قربۃ غیر معقولہ ہے اس لیے موقت اور مقید بالوقت ہو گیا۔

لان الاصل فی الاموال التقرب بالتصدق بہا لا بالاتلاف وہو الاراقۃ الا انہ نقل الی الاراقۃ مقیدًا فی وقت مخصوص حتی یحل تناول لحمہ للمالک والا جنبی والغنی والفقیر لکون الناس اضیاف اللّٰہ عز شانہ فی ہذا الوقت فاذا مضی الوقت عاد الحکم الی الاصل وہو التصدق بعین الشاۃ سواء کان معسرا او موسرا (بدائع:۵/۶۸)

ولا نوجب التصدق بالشاۃ او بالقیمۃ باعتبار قیامہ مقام التضحیۃ بل باعتبار احتمال قیام التضحیۃ مقام التصدق اصلاً اذ ہو المشروع فی باب المال ولہذا لم یعد الی المثل بعود الوقت (حسامی:۴۰)

 

                وجوب فی الذمہ قبل صبح النحر کا عقلی ثبوت

 

قربانی کا وجوب فی الذمہ صبح یوم النحر سے پہلے عقلاً بھی ثابت ہوتا ہے کیونکہ وقت (ایام نحر) شرطِ اداء ہے اور اداء کا وجوب اداء سے بالکل متصل رہتا ہے پس اگرکسی غنی مقیم نے دیہات میں صبح یوم النحر ہوتے ہی بلا تاخیر جانور ذبح کیا اور یہ قربانی بالاتفاق صحیح ہے تو لامحالہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ وقت سے پہلے اس کا ذمہ مشغول بالواجب رہا ہو کیونکہ وجوب اداء جو وقت ہی میں خطابِ الٰہی سے ہوتا ہے اس سے پہلے نفس وجوب کا ہونا لازم ہے اور اصل وجوب منفک اور مقدم ہوتا ہے وجوبِ اداء سے۔ فثبت ان اصل الوجوب قد وجد بالغنا قبل صبح یوم النحر۔ فافہم

 

                وجوب فی الذمہ قبل یوم النحر کی تائیدات

 

مذکورہ بالا دلائل سے یہ حقیقت آشکارا ہو جاتی ہے کہ قربانی کا وجوب فی الذمہ غنا سے ہے وقت پر ہرگز موقوف نہیں ہے۔ مزید تائید کے لیے اضحیہ کے مستحبات پر مشتمل صاحبِ بدائع کا کلام پیش کیا جاتا ہے۔

(فصل) اما الذی ہو یستحب قبل التضحیۃ فیستحب (۱) ان یربط الاضحیۃ قبل ایام النحر بایام لمافیہ من الاستعداد للقربۃ واظہار الرغبۃ فیہا فیکون لہ فیہ اجر وثواب (۲) وان یقلدہا (۳) ویجلّلہا اعتبارًا بالہدایا والجامع ان ذلک یشعر بتعظیمہا قال اللّٰہ ومن یعظم شعائر اللّٰہ فانہا من تقوی القلوب (۴) وان یسوقہا الی المنسک سوقا جمیلا لاعنیفا (۵) ولا یجرّ برجلہا الی المذبح کما ذکرنا فی کتاب الذبائح ولو اشتری شاۃ للاضحیۃ فیکرہ (۶) ان یحلبہا (۷) او یجزّ صوفہا فینتفع بہ لانہ عیّنہا للقربۃ فلا یحل لہ الانتفاع بجزء من اجزاۂا قبل اقامۃ القربۃ فیہا کما لا یحل لہ الانتفاع بلحمہا اذا ذبحہا قبل وقتہا ولان الحلب والجزّ یوجب نقصا فیہا وہو ممنوع عن ادخال النقص فی الاضحیۃ… ویکرہ (۸) بیعہا لما قلنا… ویکرہ (۹) لہ رکوب الاضحیۃ (۱۰) واستعمالہا (۱۱) والحمل علیہا (بدائع:۵/۷۸)

یہ مستحبات خاص کر ایام نحر سے چند دن قبل جانور کا خریدنا کیونکہ غنی کا اضحیہ خریدنا ایجاب من نفسہ نہیں بلکہ ذمہ فارغ کرنے کے لیے ہے۔ بخلاف الغنی لان الاضحیۃ علیہ بایجاب الشرع ابتداء فلا یکون شراؤہ للاضحیۃ ایجابا بل یکون قصدًا الی تفریغ ما فی ذمتہ (کما مرّ) اور مکروہات دلالت کرتے ہیں کہ غنی پر اصل وجوب وقت سے پہلے سے موجود ہے۔ اور عموماً ایساہی ہوتا ہے کہ دِنوں، ہفتوں اور بعض مرتبہ مہینوں پہلے جانور خرید کر اس کے ساتھ رغبت و محبت کا رشتہ قائم کرتے ہیں اور تعظیم و احترام کا معاملہ کیا جاتا ہے۔ امتِ مسلمہ کا یہ معمول اپنے اپنے علاقہ میں بخوبی دیکھا جاسکتا ہے۔

 

                قربانی قربۃ موقتہ ہے

 

قربانی کی دوسری حیثیت یہ ہے کہ وہ بالاتفاق قربۃ موقتہ ہے یعنی اس کی اداء مخصوص ایام و اوقات کے ساتھ خاص ہے اس اعتبار سے قربانی دیگر واجباتِ موقتہ نماز، روزہ اور جمعہ کے مشابہ ہے اور موقتات میں وقت بالاجماع شرطِ اداء ہے۔

وکل موقّت فالوقت شرط لاداۂ لانہ لایتحقق بدونہ (تقریر و تحبیر:۲/۱۷۵)

الوقت شرط لاداۂا علی ما عرف فی اصول الفقہ (فتح القدیر:۹/۵۰۷، کتاب الاضحیہ)

 

                وقت ’’شرطِ اداء‘‘ کی تفصیل

 

اور یہ صرف احناف ہی نہیں بلکہ دیگر ائمہ کے نزدیک بھی جن کے یہاں قربانی سنت مؤکدہ ہے بلکہ نفل قربانی کے لیے بھی وقت شرط اداء ہے۔ البتہ اس کی ابتداء و انتہاء میں تفصیل ہے۔

واما شروط صحتہا فمنہا السلامۃ من العیوب ۔۔۔ ومنہا الوقت المخصوص فلا تصح اذا فعلت قبلہ او بعدہ وفی بیانہ تفصیل المذاہب۔

الحنیفۃ قالو: یدخل وقت الاضحیۃ عند طلوع فجر یوم النحر وہو یوم العید ویستمر الی قبیل غروب الیوم الثالث وہذا لایختلف فی ذاتہ بالنسبۃ لمن یضحی فی المصر او یضحی فی القریۃ ولکن یشترط فی صحتہا للمصری ان یکون الذبح بعد صلاۃ العید۔

المالکیۃ قالو: یبتدیٴ وقت الاضحیۃ لغیر الامام فی الیوم الاول بعد تمام ذبح الامام ویبتدیٴ وقتہا للامام بعد الفراغ من خطبتہ بعد صلاۃ العید او مضی زمن قدر ذبح الامام اضحیتہ ان لم یذبح الامام ویستمر وقتہا لآخر الیوم الثالث لیوم العید ویفوت بغروبہ۔

الحنابلۃ قالوا: یبتدیٴ وقت ذبح الاضحیۃ من یوم العید بعد صلاۃ العید فیصح الذبح بعد الصلاۃ وقبل الخطبۃ ولکن الافضل ان یکون بعد الصلاۃ والخطبۃ۔۔۔ واذا کان فی جہۃ لایصلی فیہا العید کالبادیۃ واہل الخیام ممن لاعید علیہم فان وقت الاضحیۃ یبتدیٴ فیہا بمضی زمن قدر صلاۃ العید۔۔۔ وآخر وقت ذبح الاضحیۃ الیوم الثانی من ایام التشریق فایام النحر عندہم ثلثۃ یوم العید ویومان بعدہ۔

الشافعیۃ قالوا: یدخل وقت ذبح الاضحیۃ بعد مضی قدر رکعتین وخطبتین بعد طلوع الشمس یوم عید النحر وان لم ترتفع الشمس قدر رمح ولکن الافضل تاخیرہ الی مضی ذلک من ارتفاعہا ویستمر الی آخر ایام التشریق الثلثۃ۔ (الفقہ علی مذاہب الاربعۃ:۱/۷۲۱)

بجز امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے سب کے نزدیک منتہائے وقت ۱۲ویں کا غروب ہے اور ابتدائے وقت سوائے امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ  کے سب کے نزدیک تقریباً نمازِ عید الاضحی کے بعد شروع ہوتا ہے اس میں شہری و دیہاتی کا کوئی معتد بہ فرق نہیں ہے اور امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک اصل وقت جمیع مکلفین کے حق میں صبح صادق سے ہی شروع ہو جاتا ہے البتہ ذبح فی المصر کے لیے فراغ من صلاۃ العید مزید شرط ہے۔

 

                صلاۃ عید ذبح فی المصر کی شرطِ مزید ہے

 

ثم یختص جواز الاداء بایام النحر وہی ثلثۃ ایام عندنا قال علیہ الصلاۃ والسلام ایام النحر ثلثۃ افضلہا اولہا فاذا غربت الشمس من الیوم الثالث لم تجز الاضحیۃ بعد ذلک۔ (مبسوط:۱۲/۹)

ثم اول وقت التضحیۃ عند طلوع الفجر الثانی من یوم النحر الا ان فی حق الامصار یشترط تقدیم الصلاۃ علی الاضحیۃ فمن ضحّی قبل الصلاۃ فی المصر لاتجزیہ لعدم الشرط لا لعدم الوقت ولہذا جازت التضحیۃ فی القری بعد انشقاق الفجر ودخول الوقت لایختلف فی حق اہل الامصار والقری وانما یختلفون فی وجوب الصلاۃ فلیس علی اہل القری صلاۃ العید۔ (مبسوط:۱۲/۱۰)

فلا یجوز لاحد ان یضحّی قبل طلوع الفجر الثانی من الیوم الاول من ایام النحر ویجوز بعد طلوعہ سواء کان من اہل المصر او من اہل القری غیر ان للجواز فی حق المصر شرطاً زائدا وہو ان یکون بعد صلاۃ العید لایجوز تقدیمہا علیہ عندنا۔ (بدائع:۵/۷۳)

شہر میں قربانی صحیح ہونے کے لیے صلاۃ عید کی ادائیگی دوسری اہم شرط ہے حتی کہ نماز سے قبل ذبیحہ اضحیہ نہیں کہلائے گا۔ ان اول نسکنا فی ہذا الیوم الصلاۃ ثم الاضحیۃ فمن ذبح قبل الصلاۃ فلیُعد ذبیحتہ ومن ذبح بعد الصلاۃ تم نسکہ واصاب المسلمین۔ (مبسوط:۱۲/۱۴)

گویا شہر میں نماز عید کے بعد وقت شروع ہوتا ہے لہٰذا نماز سے قبل ذبح کرنا ایساہے جیسے صبح صادق سے پہلے ذبح کرنا ۔

غالباً اسی وجہ سے بعض فقہاء کے کلام میں عبارت اس طرح ہے۔

اول وقتہا بعد الصلاۃ ان ذبح فی المصر ای بعد صلاۃ العید یوم النحر وبعد طلوع فجر یوم النحر ان ذبح فی غیرہ۔ (شرح وقایہ:۴/۳۹)

 

                وقت شرط اور سبب دونوں کا جامع ہے

 

بہرحال ائمہ اربعہ کے نزدیک ایام نحر مطلق قربانی کے لیے شرط اداء ہے۔ اور واجب قربانی کے لیے واجبات موقتہ میں سے حج اور جمعہ کو چھوڑ کر یعنی نماز، روزہ کے وقت کی طرح بعینہ اسی وقت کو شرط اداء کے ساتھ وجوب اداء کا سبب بھی قرار دیا گیا ہے، لہٰذا وقت دو حیثیتوں کا جامع ہوا۔

لاتجوز قبل دخول الوقت لان الوقت کما ہو شرط الوجوب فہو شرط جواز اقامۃ الواجب۔ (بدائع:۵/۷۳)

ولا نزاع فی سببیّۃ ذلک ومما یدل علی سببیۃ الوقت امتناع التقدیم علیہ کامتناع الصلاۃ۔ (بنایہ:۱۱/۳)

فان قلت جعلت الوقت سببًا فکیف یکون شرطاً قلتُ ہو سبب للوجوب وشرط للاداء (عنایہ علی ہامش الفتح:۱/۲۱۶)

وقد یجامع الشرط السبب مع اختلاف النسبۃ کوقت الصلاۃ فانہ شرط بالنسبۃ الی الاداء وسبب بالنسبۃ الی وجوب الاداء۔ (تقریر:۲/۱۰۲)

اور موقتات کی اداء جس طرح قبل الوقت صحیح نہیں ہے اسی طرح وقت کے بعد بھی صحیح نہیں ہے بلکہ قضاء لازم ہوتی ہے۔

ولم یقل احد بصحۃ اداء الموقتات بعد مضی وقتہا۔۔۔ فان التضحیۃ اراقۃ الدم وہی انما تقبل فی وقت الاداء لابعدہ وانما الذی یلزم بعدہ قضاء ہا (فتح القدیر:۹/۵۰۷)

اما بعد مضی ایام النحر فقد سقط معنی التقرب باراقۃ الدم لانہا لاتکون قربۃ الا فی مکان مخصوص وہو الحرم او فی زمان مخصوص وہو ایام النحر۔(مبسوط:۱۲/۱۴)

۔۔۔ ویفوت بمضی الوقت فلا تجب علیہ بمنزلۃ الجمعۃ (ہدایہ آخرین:۲۴۴)

 

                قربانی کی قضاء اور جمعہ سے مشابہت

 

صاحب ہدایہ کے بمنزلۃ الجمعہ کہنے سے چند امور کی طرف اشارہ ہوا:

(۱) ایک یہی جو اوپر مذکور ہوا یعنی وقتِ جمعہ ادائے جمعہ کے لیے شرط ہے اور جمعہ کے وجوب کے شرائط دوسرے ہیں اسی طرح صحۃ اضحیہ کے لیے وقت شرط اداء ہے اور وجوب فی الذمہ کے شرائط دیگر ہیں۔

(۲) وقت کے اعتبار سے اصل فریضہ ظہر ہے مگر سیدالایام کی خاص شان واہمیت کے پیش نظر بجائے ظہر کے صلاۃ جمعہ کے ذریعہ فریضہ کی ادائیگی کافی سمجھی گئی ان اصل الفرض ہو الظہر فی حق الکافۃ۔۔۔ الا انہ مامور باسقاطہ باداء الجمعۃ (ہدایہ:۱/۱۷۰) اسی طرح قربانی حق مالی ہونے کی وجہ سے اصل وظیفہ تصدق ہونا چاہئے تھا مگر ایام اضحیہ کی خاص شان کہ اس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے مومنین کی ضیافت ہوتی ہے بجائے تصدق کے اراقۃ الدم کو قائم مقام کر دیا گیا۔ کما مرّ (بدائع، حسامی)

(۳) وقت گذر جانے پر ادائے جمعہ فوت ہو گئی اب جمعہ اداء نہیں ہوسکتی اسی طرح ایام نحر گذر جانے سے اراقۃ الدم سے قربت اداء نہ ہو گی ولا سبیل الی التقرب بالاراقۃ بعد خروج الوقت (بدائع:۵/۶۸، مبسوط: ۱۲/۱۴)

(۴) وقت گزر جانے کے بعد قضاء نہ بمثل معقول ہے جیسے نماز پنج گانہ میں اور نہ بمثل غیر معقول ہے جیسے روزہ کی قضاء فدیہ سے بلکہ وقت کا جو اصل فریضہ تھا یعنی ظہر اس کی قضاء کی جاتی ہے۔ اسی طرح ایام نحر گذر جانے کے بعد قضاء نہ بمثل معقول ہے اور نہ (علی الاطلاق) بمثل غیر معقول ہے بلکہ غنا کی وجہ سے اصلاً جو حکم عائد ہوتا ہے یعنی تصدق وہی حکم ذمہ میں باقی رہتا ہے۔

 وقد تقرر ان القضاء قد یکون بمثل معقول کالصلاۃ للصلاۃ وقد یکون بمثل غیر معقول کالفدیۃ للصوم وثواب النفقۃ للحج وعدّوا الاضحیۃ من القسم الثانی وقالوا ان اداء ہا فی وقتہا باراقۃ الدم وقضاء ہا بعد مضی وقتہا بالتصدق بعینہا وبقیمتہا (تکملہ فتح:۹/۵۰۷)

لاتقضی بالاراقۃ لان الاراقۃ لاتعقل قربۃ وانما جُعِلتْ قربۃ بالشرع فی وقت مخصوص فاقتصر کونہا قربۃ علی الوقت المخصوص فلا تقضی بعد خروج الوقت ثم قضاء ہا قد یکون بالتصدق بعین الشاۃ حیۃ وقد یکون بالتصدق بقیمۃ الشاۃ (بدائع:۵/۶۸)

 

                قبل از وقت قربانی صحیح نہ ہونے کی وجوہات

 

(۱) مذکورہ تفصیل سے بخوبی معلوم ہو گیا کہ غنی شخص ایام نحر سے قبل قربانی اس لیے نہیں کرسکتا کہ وقت شرطِ اداء ہے اور تقدم المشروط علی شرط الصحۃ جائز نہیں ہے۔

(۲) قربانی قربۃ معقولہ ہے اس لیے اس کی ادائیگی وقت کے ساتھ مقید ہے نہ قبل از وقت جائز ہے اور نہ وقت کے بعد۔ کما مر۔

(۳) وقت سبب وجوبِ اداء بھی ہے اور مسبب سبب پر مقدم نہیں ہوتا پس قربانی وقت وجوبِ اداء سے پہلے جائز نہیں اور یہی قیاس کا تقاضہ بھی ہے۔ غالباً اسی وجہ سے حسن بن زیاد رحمۃ اللہ علیہ اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ صدقۃ الفطر اور زکوۃ میں وقتِ وجوب اداء یعنی صبح یوم الفطر اور حولانِ حول سے قبل اداء کو جائز نہیں کہتے ہیں مگر چونکہ خلاف قیاس نص سے اخذ زکوٰۃ قبل حولان الحول اور صبح یوم الفطر سے پہلے ادائے صدقہ ثابت ہے اس لیے ائمہ ثلثہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ جوازِ تقدیم کے قائل ہیں۔ (بنایہ:۳/۵۹۵)

وقت سے پہلے قربانی صحیح نہ ہونے کی وجہ غنی کے حق میں بھی وہی ہے جو اوپر مذکور ہوئی نہ یہ کہ غنی کا ذمہ ابھی مشغول بالواجب ہی نہیں ہوا ہے۔

 

                تعقب الفرید علی تخصیص الوجوب بصبح العید

 

مذکورہ تفصیلات سے یہ چند امور محقق ہوئے: (۱) اصلِ وجوب (نفسِ وجوب) کا ثبوت مکلف کی صفات پر موقوف ہے (۲) وجوبِ اداء (یعنی فرضیت و وجوب) خطابِ الٰہی کے ذریعہ مختص ہے اوقاتِ معینہ کے ساتھ (۳) سبب کے تکرار و تعدد سے وجوب مکرر ہوتا ہے (۴) قربانی مالی عبادت ہے اور اس کے نفس وجوب کی علت بالاتفاق غنی (یعنی ملکِ نصاب ہے) (۵) قربانی کے وجوب اداء کا تعلق اضحیہ (جانور) سے ہے نہ کہ مکلف سے (۶) اور اداء کے لیے وقت کا اعتبار محلِ اداء کے لحاظ سے ہے جیساکہ آئندہ مفصل آ رہا ہے۔

اب اس کے بعد جدید موقف پر دیے گئے فتاویٰ ملاحظہ فرمائیں۔

 

                دارالعلوم کراچی کا فتویٰ

 

۱۵/شعبان ۱۴۲۰ھ میں دارالافتاء کراچی (پاکستان) سے قربانی سے متعلق ایک فتویٰ دیا گیا جس پر ارباب افتاء کے دستخط بھی ہیں یہ فتویٰ رسالہ ’’البلاغ‘‘ کراچی فروری ۲۰۰۰/ میں شائع ہوا۔

متنِ فتوی کی عبارت یہ ہے:

الجواب حامدا ومصلیًا قربانی کے نفس وجوب کا سبب وقت ہے جو کہ یوم النحر کے طلوع صبح صادق سے شروع ہو کر بارہویں تاریخ کے غرب آفتاب تک ہے اور ’’غنی‘‘ یعنی مالک نصاب ہونا یہ شرط وجوب ہے اور مثلاً شہری کے حق میں قربانی کا نمازِ عید کے بعد انجام دینا یہ شرط اداء ہے اس کا مطلب یہ ہوا کہ یوم النحر کے طلوع صبح صادق سے پہلے قربانی کا سرے سے وجوب ہی نہیں ہوتا جیسا کہ نماز ہے کہ وقتِ نماز داخل ہونے سے پہلے نماز فرض ہی نہیں ہوتی لہٰذا اگر کسی نے وقت داخل ہونے سے پہلے نماز اداء کی تو فرض ادا نہیں ہو گا اسی طرح اگر کسی نے یوم نحر سے پہلے قربانی کی یا کرائی تو وہ بھی شرعاً معتبر نہیں ہو گی۔۔۔ لیکن یاد رکھنا چاہئے کہ ’’اداء‘‘ کا اعتبار اس وقت ہو گا جب اس عمل کا پہلے مکلف کے ذمہ نفس وجوب ہو چکا ہو جیسا کہ شروع میں مذکور ہوا کیونکہ وجوب سے قبل اداء کا اعتبار نہیں اور نفس وجوب کا تعلق ذمہ مکلف سے ہوتا ہے اور ذمہ کا محل مکلف ہے مال نہیں لہٰذا نفس وجوب میں مکلف (فاعل) کے محل کا اعتبار ہو گا اور نفس وجوب کا سبب یوم نحر ہے جیساکہ گذشتہ صفحہ میں مذکور ہوا لہٰذا نفس وجوب میں یہ دیکھا جائے گا کہ جہاں مضحّی (قربانی کرنے/ کرانے والا) رہ رہا ہے وہاں یوم نحر ہو چکا ہے یا نہیں اگر یوم نحر ہو چکا ہے تو نفس وجوب ہو گیا اب دیگر شرائط کے پائے جانے کی صورت میں خود قربانی یا اس کی اجازت سے دوسرا کوئی آدمی کرے دونوں صورتوں میں یہ قربانی شرعاً ادا ہو جائے گی لیکن مضحی جہاں رہ رہا ہے وہاں یوم نحر اگر نہیں ہوا ہے تو جس طرح اِس وقت یہ خود قربانی نہیں کرسکتا اسی طرح اس کی طرف سے کوئی اور بھی نہیں کرسکتا اگرچہ وکیل (دوسرا شخص) کے شہر یا ملک میں یومِ نحر شروع ہو چکا ہو۔ (البلاغ:۴۷،۴۸)

جناب مفتی صاحب نے متعدد کتب فقہ سے عبارت نقل کی ہے کہ غنا شرط وجوب ہے اور وقت ’’سبب وجوب‘‘ ہے۔ یہ بات بالکل مسلم ہے، مگر سبب وجوب کا مطلب مراد لینے میں اصولی طور پر لغزشیں واقع ہوئی ہیں: (۱) وجوب سے نفس وجوب ہی مراد لیا گیا۔ (۲) نفس وجوب کو سبب کے لفظ کے ساتھ خاص کر دیا گیا۔ (۳) سبب کو سبب فی معنی العلۃ لیا گیا۔ مگر یہ استدلال مخدوش ہے۔ کیونکہ

(۱) وجوب کی دو قسمیں ہیں وجوب اداء اور نفس وجوب اور وجوب اداء مطلوب ہے اس لئے کہ اداء مقصود ہے اور اداء مقید بالوقت ہے پس وقت خاص کے ساتھ جو وجوب متعین ہے وہ وجوب اداء ہے جیساکہ گذشتہ اور اق میں ثابت کیا جا چکا لہٰذا فقہاء کے نزدیک سبب وجوب سے مراد سبب وجوب اداء ہے۔

(۲) نفس وجوب کچھ صفات کے ساتھ مختص اور اس پر مبنی ہے خواہ اسے سبب بھی کہا گیا ہو یا شرط جیسے ملک نصاب وجوب زکوٰۃ کے لیے سبب ہے اور صدقۃ الفطر کے حق میں شرط ہے اور گو وجوبِ صدقہ کی ضافت رأس یمونہ کی طرف ہے مگر ملک نصاب (غنا) کے بغیر ذمہ مشغول بالواجب ہوتا ہی نہیں۔ پس جب صفات کا تحقق ہو گا نفس وجوب ہو جائے گا اور اگر وقت خاص للاداء میں تحقق ہو رہا ہے تو ذمہ کی مشغولیت ان صفات کی وجہ سے ہوتی ہے نہ کہ وقت کی وجہ سے البتہ وقت خاص خطاب الٰہی کی معرفت کا ذریعہ ہے جو وجوب اداء کا حقیقی سبب ہے۔ پس وقتِ خاص ہی کو نفس وجوب کا سبب سمجھنا اصول کے خلاف ہے۔

(۳) سبب کی کئی قسمیں ہیں ایک سبب فی معنی العلۃ ہوتا ہے جیسے ملک نصاب وجوب زکوٰۃ کے حق میں علّت ہے۔ ایک سبب محض بھی ہوتا ہے جو فقط مُفْضِی الی الحکم ہے نہ کہ مؤثر فی الوجوب جیسے اوقات مخصوصہ موقتات کے لیے پس قربانی کے سبب وجوب کو زکوٰۃ کے سبب وجوب پر قیاس کر کے قربانی کے سبب یعنی وقت کو مؤثر فی الوجوب ماننا قیاس مع الفارق ہے۔

(۴) غنا کو شرط وجوب کہا گیا ہے کما فی کتب الفقہ و ہو الصحیح۔ مگر جناب مفتی صاحب اسے اہلیت وجوب یعنی اصل وجوب کی شرط کے بجائے فقط شرط وجوب اداء سمجھ رہے ہیں جیساکہ ان کی عبارت دلالت کر رہی ہے ’’لہٰذا نفس وجوب میں یہ دیکھا جائے گا کہ جہاں مضحی (قربانی کرنے/ کرانے والا) رہ رہا ہے وہاں یوم النحر ہو چکا ہے یا نہیں اگر یوم النحر ہو چکا ہے تو نفس وجوب ہو گیا اب دیگر شرائط کے پائے جانے کی صورت میں خود قربانی کرے یا اس کی اجازت سے دوسرا کوئی آدمی کرے دونوں صورتوں میں یہ قربانی شرعاً اداء ہو جائے گی الخ‘‘ حالانکہ جمیع فقہاء کے نزدیک وجوب اضحیہ کی علّت قدرۃ علی النصاب ہے۔ پس غنا اصلِ وجوب کی شرط ہے یعنی غنا ہی کی وجہ سے مکلف کا ذمہ مشغول بالواجب کہلائے گا کیونکہ اصل وجوب کا محل بہرحال ذمہ المکلّف ہے اِس اصل وجوب کے بعد ہی وقت مخصوص میں وجوب اداء متحقق ہو گا ورنہ نہیں۔

(۵) قربانی کا وقت نماز، روزہ کے اوقات کی طرح سبب وجوب (اداء) ہے پھر بھی دونوں میں فرق ہے کہ نماز، روزہ میں وجوبِ اداء کا محل خود مکلف ہی کی ذات ہے کیونکہ وجوب جس اداء کی صفت ہے اس کا محل قیام ذاتِ مکلف ہے پس وقت کی آمد پر نماز، روزہ کا وجوب مکلف کے ذمہ ہی ہو گا یعنی وقت میں ذمہ مشغول بالواجب ہو رہا ہے اور اسی کو عرف میں فرضیت سے تعبیر کرتے ہیں مگر حقیقت میں یہ بلحاظِ اصطلاح وجوبِ اداء ہے جس میں وجوب متصل بالاداء رہتا ہے باقی وہ نفس وجوب جو وجوب اداء کا مقابل اور اس سے منفک و مقدم ہوتا ہے اس کا مبنیٰ صفاتِ مکلف ہے نہ کہ وقت۔ لہٰذا نماز، روزہ میں تو وقت کی آمد پر یہ کہنا صحیح ہے کہ وجوب فی الذمہ بسبب الوقت ہے مگراس پر قیاس کرتے ہوئے قربانی کے بارے میں یہ کہنا کہ وقت کی آمد پر ہی وجوب ذمہ میں آئے گا درست نہیں ہے کیونکہ یہاں وجوبِ اداء کا محل جانور ہے اور ذمہ کا مشغول بالواجب ہونا غنا سے ہے جو وجوبِ اضحیہ کی علت ہے۔

 

                مفتی عمر فاروق لندن کے فتویٰ کی تائید

 

کراچی کے مذکورہ فتویٰ کے چند سال بعد لندن میں مولانا عمر فاروق صاحب زید مجدہ نے اُنہی سابقہ بنیادوں پر ذی قعدہ ۱۴۲۴ھ کو فتویٰ دیا اور مزید براں مفتی صاحب نے حضرت مفتی سید عبدالرحیم صاحب لاجپوری نور اللہ مرقدہ کے اس نوع کے فتویٰ کو مبنی بر تسامح بتایا۔ اور پھر مولانا اسمٰعیل گنگات صاحب مدظلہ کے توسط سے حضرت اقدس مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب ادام اللّٰہ ظلالہ علینا سے یہ لکھ کر استصواب کیا۔

۔۔۔’’بندہ کہتا ہے کہ فتاویٰ رحیمیہ کا فتویٰ مبنی برتسامح ہے اور ہدایہ آخرین/۴۳۰ اور الدرالمختار ورد المختار جلد۵/۲۷۸ کی جن عبارات کو حضرت مفتی سید عبدالرحیم صاحب لاجپوری قدس سرہ (مفتی اعظم گجرات، انڈیا) نے بطورِ دلیل ذکر فرمایا ہے ان کا تعلق نفسِ وجوب آ جانے کے بعد سے ہے کہ نفسِ وجوب آ جانے کے بعد قربانی کا جانور جس جگہ ہو اُس جگہ کا اعتبار ہوتا ہے قربانی کرانے والے کی جگہ کا اعتبار نہیں ہوتا۔‘‘ حضرتِ والا سے مؤدبانہ درخواست ہے کہ اگر بندہ کے جواب میں سقم اور غلطی ہو تو اصلاح فرما دیں اور اگر بندہ کا جواب صحیح ہو تو تائید فرما دیں۔

حضرت مولانا مفتی تقی صاحب عثمانی مدظلہ العالی نے ان الفاظ میں تائید فرمائی:

بسم اللہ الرحمن الرحیم

مکرمی مولانا اسماعیل گنگات صاحب زید مجدکم

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

قربانی کے بارے میں مولانا مفتی فاروق ڈیسائی صاحب کا فتویٰ موصول ہوا۔ بندے کو اس سے اتفاق ہے اور ان کے دلائل قوی ہیں اور فتاویٰ رحیمیہ میں تسامح ہے کیونکہ جو عبارت نقل کی ہے اس میں قربانی بعد الوجوب ہے جبکہ زیربحث مسئلہ میں قربانی قبل سبب الوجوب واقع ہو رہی ہے نیز احتیاط اس میں ہے کہ جب قربانی کسی ملک میں کی جائے تو جس شخص کی طرف سے قربانی کی جا رہی ہے اس کے ملک میں بھی ایام اضحیہ ختم نہ ہوئے ہوں۔            واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم

بندہ محمد تقی عثمانی عفی عنہ

دارالافتاء دارالعلوم کراچی ۷۷

۱۶/۱۱/۱۴۲۵ھ

نوٹ: حضرت مفتی سید عبدالرحیم صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا فتویٰ شروع رسالہ

’’نگاہ  اولین‘‘ میں درج کیا گیا ہے۔

تائید صحیح نہیں ہے

تائید سے حضرت کی مراد غالباً یہی ہے کہ کتب فقہ کی وہ عبارتیں جن کو حضرت مفتی سید عبدالرحیم صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے نقل کی ہیں اس کا تعلق بعد نفس الوجوب ہے جبکہ زیر بحث مسئلہ میں قربانی قبل سبب نفس الوجوب واقع ہو رہی ہے،اس لیے کہ نفس وجوب وقت سے ہوتا ہے (کما فہمہ ارباب الفتاویٰ من لفظ ’’سبب الوجوب‘‘)

بندہ عرض کرتا ہے کہ حضرت کی یہ تائید مبنی بر خطأ ہے اس لیے کہ فقہاء کی عبارت کا تعلق جب بعد الوجوب سے ہے تو نفس وجوب یعنی ذمہ کے مشغول بالواجب ہونے کی بنیاد اور علّت غنا ویسار ہے نہ کہ وقتِ اضحیہ۔اور سبب وجوب سے مراد وقتِ وجوب اداء ہے اور اِسی سبب میں انتقال پایا جاتا ہے کما سبق مفصلا لہٰذا غنی کی قربانی دوسرے مقام پر وہاں کے ایام اضحیہ میں جب بھی کی جائے گی قبل سبب الوجوب نہیں بلکہ بعد سبب الوجوب ہی ہو گی۔

لہٰذا حضرت مفتی سید عبدالرحیم صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا فتویٰ فقہ و اصول فقہ کی روشنی میں صحیح اور درست ہے اس میں قطعی طور پر کوئی تسامح اور لغزش نہیں ہے۔ فللّٰہ درالفقیہ۔

 

                شاہی مراد آباد کا فتویٰ

 

شاہی مرادآباد کے حضرت مفتی شبیر احمد صاحب زید فضلہ نے ۲۳/صفر ۱۴۲۵ھ کو فتویٰ لکھا جو بقول مفتی محمد سلمان منصور پوری زید مجدہ دارالعلوم کراچی اور حضرت مفتی سیدعبدالرحیم صاحب لاجپوری رحمۃ اللہ علیہ کے فتویٰ کے مابین ایک محاکمہ ہے یہ فتویٰ ندائے شاہی کے شمارہ جنوری ۲۰۰۵/ میں شائع ہوا۔

حضرت مفتی صاحب نے اصول کے اُن ہی مفاہیم کے پیش نظر فتویٰ تحریر کیا ہے جن کو کراچی کے فتویٰ میں بنیادی حیثیت حاصل ہے اس لیے سابقہ خطائیں یہاں بھی موجود ہیں بلکہ مزید واقع ہوئی ہیں۔

الجواب وباللّٰہ التوفیق۔ ۔ ۔ حامدا و مصلیا ومسلّما

اس مسئلہ میں تین چیزوں کو الگ الگ سمجھنا لازم ہے (۱) سبب وجوب یعنی قربانی واجب ہونے کا سبب یہ قربانی کا وقت ہے جویوم النحر کے طلوع صبح صادق سے شروع ہو کر بارہویں تاریخ کے غروب آفتاب تک رہتا ہے (۲) شرطِ وجوب یعنی قربانی واجب ہونے کی شرط آزاد مسلمان کا مالک نصاب ہونا (۳) شرط اداء یعنی مالک نصاب پر قربانی کے ایام اور وقت داخل ہونے کی وجہ سے قربانی واجب ہو جاتی ہے پھراسکے قربانی اداء کرنے کے لیے ایک مزید شرط ہے وہ یہ ہے کہ شہری آدمی کیلئے نماز عید الاضحی کی ادائیگی لازم ہے یہی شہری کے لیے ادائیگی کی شرط ہے مگر یہ شرط دیہاتی پر لاگو نہیں ہوتی اور شرط اداء میں مکان اضحیہ کا اعتبار ہے مکان مضحّی کا اعتبار نہیں لہٰذا جہاں جانور ہو گا وہاں کا اعتبار ہو گا اور جہاں مالک ہو وہاں کا اعتبار نہیں یہ مسئلہ صرف تیسری شرط کے اعتبار سے ہے اور پہلی اور دوسری شرط کے وجوب کے بغیر تیسری شرط کا تصور ہی نہیں ہوسکتا، لہٰذا سب سے پہلے اول شرط یعنی دونوں جگہ قربانی کے زمانہ کا آنا لازم ہے پھر شرطِ ثانی یعنی زمانۂ قربانی میں مسلمان کا مالکِ نصاب ہونا ان دونوں شرطوں کے ایک ساتھ پائے جانے کے بعد تیسری کا مسئلہ سامنے آتا ہے اور تیسری شرط ایک خصوصی اور جزوی شرط ہے عمومی اور کلی نہیں صرف شہری کے ساتھ یہ شرط لگی ہوئی ہے۔ دیہاتی کے ساتھ نہیں لہٰذا شہری اور دیہاتی کے اعتبار سے مکان اضحیہ کا اعتبار ہو گا مکانِ مضحِّی کا اعتبار نہیں۔ فتویٰ رحیمیہ اور مسائل قربانی میں مسامحت ہو گئی ہے کہ اس میں تیسری شرط کو سببِ وجوب یعنی پہلی شرط کے درجہ میں لے جا کر لکھا گیا ہے جو درست نہیں ہے اور ساتھ میں ہدایہ، در مختار اور شامی کے تین جزئیہ بھی نقل کیے ہیں ان تینوں جزئیات کا تعلق تیسری شرط کے ساتھ ہے پہلی شرط کے ساتھ نہیں ہے ان جزئیات کو اس مسئلہ سے متعلق سمجھنے میں مسامحت ہو گئی ہے۔ الخ (ندائے شاہی شمارہ جنوری ۲۰۰۵/)

(۶) اول: یہاں حضرت مفتی صاحب سے مزید ایک خطا یہ ہوئی بلکہ یہ خطا بھی کراچی کے فتویٰ میں موجود ہے کہ شرط اداء سے فقط نماز عیدالاضحی کی ادائیگی مراد لی ہے جو کہ شہری کے ساتھ خاص ہے حالانکہ وقت (ایام نحر) خود شرط اداء ہے جو واجب اور نفل دونوں قربانیوں کے لیے ہے خواہ شہر میں ہو یا دیہات میں اور فقہاء شرط اداء سے اوّلاً یہی وقت مراد لیتے ہیں الوقت شرط لاداۂا علی ما عرف فی اصول الفقہ (فتح القدیر) کیونکہ واجب کی طرح نفل قربانی بھی موقت ہے بخلاف نفل نماز، روزہ کے اور یہ شرط اداء ہر ایک کے حق میں ہے البتہ صلاۃ العید کی ادائیگی یہ مزید شرط ہے شہر میں قربانی کے لیے۔

 فلا یجوز لاحد ان یضحی قبل طلوع الفجر الثانی من الیوم الاول من ایام النحر ویجوز بعد طلوعہ سواء کان من اہل المصر او من اہل القری غیر ان للجواز فی حق اہل المصر شرط زائد وہو ان یکون بعد صلاۃ العید لایجوز تقدیمہا علیہ عندنا۔ (بدائع:۵/۷۳)

(۷) دوم: اسی پر دوسری خطأ مرتب ہوئی کہ مکان اضحیہ کا اعتبار جس کاتعلق دراصل شرطِ اداء یعنی وقت (ایام نحر) سے ہے اور اہل مصر وقریہ دونوں کے حق میں عام اور کلی ہے۔ مفتی صاحب نے اسے شرط زائد کے ساتھ جوڑ کر اعتبار مکان اضحیہ کے ضابطہ کو جزوی بنا دیا دیکھئے مسئلہ ۔ ۔ ۔ نمبر(۳) میں شرط اداء سے نماز عید الاضحی مراد لی ہے پھر لکھتے ہیں ’’شرط اداء میں مکان اضحیہ کا اعتبار ہے‘‘  اور آگے لکھتے ہیں ’’تیسری شرط خصوصی اور جزوی ہے‘‘۔

(۸) سوم: مفتی صاحب نے اپنے فتویٰ میں مکان اضحیہ ومکان من علیہ الاضحیہ دونوں کے حق میں وقتِ وجوب کو ضروری قرار دیتے ہوئے یوم النحر سے پہلے (باوجود غنا کے) نفس وجوب نہ ہونے پر ایک خاص جزئی (مثال) پیش کی ہے۔

’’اگر ہندوستان کا آدمی سعودی عرب قربانی کا پیسہ بھیج دیتا ہے اور وہاں ہندوستان سے ایک دن پہلے قربانی کا دن شروع ہو جاتا ہے ہندوستان میں ابھی قربانی کا زمانہ شروع ہی نہیں ہوا اب اگر مالکِ قربانی ہندوستان میں اسی دن مر جاتا ہے تو اس پر قربانی واجب ہی نہیں ہوئی حالانکہ مکان اضحیہ میں جہاں قربانی ہونی ہے وہاں پر وقت ہو چکا تھا۔ لہٰذا مکانِ اضحیہ اور مکان مالک دونوں جگہ قربانی کاسبب وجوب یعنی دسویں ذی الحجہ کی صبح صادق کا ہونا شرط ہے۔‘‘

یہ استشہاد دو وجہ سے صحیح نہیں ہے۔

(۱) ایک یہ کہ اکنافِ عالَم سے حرم میں قربانی کے لیے ہدی بھیجنے کا شریعت کی روشنی میں قدیم دستور رہا ہے حالانکہ ہدی بھیجنے والے اور ذبح فی یوم النحر کے درمیان اوقات کا بیّن فرق بلکہ اکثر قمری تاریخ کا بھی اختلاف ہوتا رہتا ہے کما ستطلع علیہ۔

(۲) دوسری یہ کہ مالکِ اضحیہ کا یوم النحرسے پہلے مر جانے پرکیا انحصار ہے مالک اضحیہ کے اعتبار سے وقت آ جانے کے بعد بھی اگر اضحیہ ایام نحر میں ذبح نہیں کیا گیا ہے اور مالک مرگیا تو بھی وجوب نہیں ہوا ۔

ولو مات الموسر فی ایام النحر قبل ان یضحی سقطت عنہ الاضحیۃ وفی الحقیقۃ لم تجب لما ذکرنا اَنّ الوجوب عند الاداء او فی آخر الوقت فاذا مات قبل الاداء مات قبل ان تجب علیہ کمن مات فی وقت الصلاۃ قبل ان یصلیہا انہ مات ولا صلاۃ علیہ کذا ہہنا (بدائع:۵/۶۵)

یہی نہیں بلکہ ایام نحر میں اداء سے قبل فقر لاحق ہو گیا تب بھی وجوب ساقط ہو جائے گا۔ معلوم ہوا کہ وجوب فی الذمہ کا مُوجِب وقت نہیں ہے بلکہ غنا ویسار ہے۔

موسر اشتری شاۃ للاضحیۃ فی اول ایام النحر فلم یضح حتی افتقر قبل مضی ایام النحر او انفق حتی انتقص النصاب سقطت عنہ الاضحیۃ وان افتقر بعد ما مضت ایام النحر کان علیہ ان یتصدق بعینہا او بقیمتہا ولا یسقط عنہ الاضحیۃ (فتاویٰ قاضیخان بہامش العالمگیری:۳/۳۴۶)

 

                فتاویٰ رحیمیہ کی تصحیح اور اس میں تسامح کی تردید

 

مفتی صاحب نے اپنے اُنہی بنیادی امور کے پیشِ نظر جس پر فتویٰ کا مدار ہے فتاویٰ رحیمیہ کے فتویٰ میں مسامحت کی تعیین کی ہے۔ مگر بنیاد جب خود ہی مخدوش اور نقل کے خلاف ہے تو حضرت مفتی سید عبدالرحیم صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے فتویٰ کو مبنی برتسامح کہنا کیسے صحیح ہوسکتا ہے۔

لان الظاہر من الفتوی ان السوال عن المسلم الحر الغنی المقیم فالاضحیۃ وجبت علیہ ای فی ذمتہ بوجود الغنٰی الشرعی الذی ہو علّۃ لنفس الوجوب ای لما ہو مقابل لوجوب الاداء وہو الشرط الاول فالغنا شرط فی المرتبۃ الاولی والوقت بعد ذلک شرطٌ للاداء ای لذبح الاضحیۃ سواء کان الذابح فی المصر او فی مکان لایصلی فیہ العید وعینُ ذلک الوقت سبب لوجوب الاداء ہذا ہو الشرط الثانی ولافرق بین شرطیّۃ الوقت وسببیّتہ لانہ جامع لہما باعتبارین (کمامر) ثم بعد ذلک ای بعد مجیٴ الوقت ینتظر لصحۃ ذبح الاضحیۃ الانصراف عن صلاۃ العید ان تذبح فی المصر وہذا الشرط خاص للمصر فقط وہو الشرط الثالث فاعتبار الوقت لمکان ذبح الاضحیۃ متعلق بشرط الاداء العام الشامل للمصری والقروی لاللشرط الثالث۔

واذا علمت ہذا فاستمع ان الشیخ المؤقر المفتی السید عبدالرحیم اللاجفوری نور اللّٰہ ضریحہ قد ا جاب السائل المقیم فی حیدرآباد عن اخیہ عبدالرشید الساکن فی بلدۃ مدراس فنفس الوجوب قد تحقق اذا ماصار ذا غنیً وبعد الوجوب یلاحظ وجوب الاداء المختص بالوقت وہو الشرط للاداء فالعبارات الفقیۃ المندرجۃ فی الجواب من الہدایۃ والدر المختار ورد المُحتار) لاعتبار مکان الاضحیۃ کلہا متعلقۃ لہذا الشرط فلم یقع تقدیم و تاخیر من صاحب السمو الشیخ الفقیہ اللاجفوری علی ما یزعم المفتی شبیر احمد المراد آبادی بل الامر اختلط علیہ۔

واذا کان کذلک فالسائل اذا ذبح فی مقامہ فی یوم النحر اضحیۃ اخیہ الساکن فی مدراس کان الذبح بعد سبب الوجوب ای سبب وجوب الاداء لان السبب ہو الجزء السابق المتصل بالاداء کما قررہ الفقہاء فلا یقع الذبح قبل سبب الوجوب علی ماقیل فالفتوی صحیح وصواب بالتحقیق لاتسامح فیہ مطابق لما صرح بہ ائمۃ الفقہ فی کتبہم۔

 

                جامعہ اسلامیہ ڈابھیل کا فتویٰ

 

جدید موقِف کی حمایت میں مذکورہ فتاویٰ کے بعد جامعہ اسلامیہ ڈابھیل گجرات سے بھی اک طویل فتویٰ صادر ہوا جس میں مسئلۂ ہذا مختلف فیہا کو دوسرے طرز سے سمجھایا گیا ہے۔مگر خاکم بدہن بنیادی تسامحات یہاں بھی درآمد ہو گئی ہیں تجاوز اللّٰہ عن عثراتہم۔

پس ادب کے ساتھ عرض ہے کہ سببِ وجوبِ اضحیہ کو سبب وجوب للزکوٰۃ پر قیاس کر کے (کہ دونوں مالی عبادت ہیں اور دونوں جگہ سبب کا لفظ موجود ہے) اضحیہ کے سبب کو مؤثر فی الوجوب تسلیم کیا گیا۔ یہ پہلا مقدمہ ہوا اور چونکہ سبب وجوب اضحیہ کو فقہ میں سبب وجوب للصلاۃ سے تشبیہ دی گئی ہے (کہ دونوں قربت موقتہ ہیں) اور نماز میں وجوب میں مکلف کے وقت کا اعتبار ہے۔ یہ ہوا دوسرا مقدمہ پس قربانی کے متعلق کہا گیا کہ جب تک وقت خاص نہ آ جائے غنی کا ذمہ مشغول بالواجب ہو گا ہی نہیں لہٰذا من علیہ الاضحیہ کے حق میں وقت کا اعتبار ضروری ٹھہرا۔ مگر مقدمۂ اولیٰ میں زکوٰۃ کا سبب وجوب ملک نصاب ہے جو کہ صفتِ مکلف اور علّت ہے اور قربانی کا سبب وجوب یعنی وقت اداء کا ظرف اور سبب محض ہے۔ اور مقدمہ ثانیہ میں قربانی کے وجوب کا محل جانور ہے اور نماز میں وجوب کا محل خود مکلف کی ذات ہے اور دونوں جگہ وجوب سے وجوبِ اداء مراد ہے ہذا ہو الفرق فیما بین المقدمتین۔

اور حیلۃ المصری اذا اراد التعجیل الخ کے متعلق فتویٴ ہذا میں جو کچھ مرقوم ہے رسالہ کے اخیر میں ’’المعتبر مکان الاضحیہ‘‘ پر جو کلام کیا گیا ہے اس سے حقیقت آشکارہ ہو جائے گی۔

 

                جدید موقِف کی فاحش خطاء

 

(۹) اس سلسلہ کے فتاویٰ میں وقت ہی کو مؤثر فی الوجوب مان کر ابتداء وقت کے بارے میں یہ کہا گیا کہ من علیہ الاضحیہ کے اعتبار سے جب تک صبح صادق نہ ہو جائے اس کی قربانی دوسرے علاقہ میں کرنا جائز نہیں ہے اگرچہ وکیل ذابح کے یہاں وقت ہو چکا ہو ورنہ قربانی نہیں ہو گی۔ اس حکم کے ساتھ اگر یہ بھی کہا جاتا کہ من علیہ الاضحیہ کے یہاں وقت ختم ہو جانے پر بھی دوسرے مقام میں نیابۃ اس کی قربانی جائز نہ ہو گی چاہے مکان اضحیہ میں وقت موجود ہو تو ان کے اصول مفروضہ کے مطابق صحیح ہوتا مگر یہاں انتہائے وقت میں یوں کہا جا رہا ہے ’’دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ کسی شخص کے ذمہ قربانی واجب ہو جانے کے بعد اس کی ادائیگی جائز اور صحیح ہونے کے لیے جس جگہ میں قربانی کا جانور ہو وہاں قربانی کا وقت شروع ہو جانے کے بعد باقی رہنا ضروری ہے چاہے اصل مالک (مؤکل) کے مقام پر قربانی کا وقت ختم ہو گیا ہو‘‘ (ترجمۂ فتویٰ بزبان گجراتی از مفتی عمر فاروق لندن)

حالانکہ وقت کو جب مؤثر فی الوجوب (یعنی سبب وجوب فی معنی العلۃ) تسلیم کر کے من علیہ الاضحیہ کے حق میں اول وقت کا اعتبار ضروری قرار دیا گیا ہے تو لامحالہ آخر وقت میں بھی اسکا اعتبار ہو گا کیونکہ نیابۃ قربانی کے دوسرے مقام پر صحیح ہونے کے لیے جب یہ کہا جا رہا ہے کہ پہلے مؤکل کا ذمہ مشغول بالواجب ہونا چاہیے اس لیے کہ اداء بغیر وجوب کے صحیح نہیں (اور ذمہ مشغول بالواجب ہوتا ہے وقت کی آمد پر نہ کہ اس سے پہلے۔ کما فی البلاغ والنداء وغیرہما) تو پھر بندہ بھی کہتا ہے کہ نیابۃ قربانی کے صحیح ہونے کے لیے مؤکل (من علیہ الاضحیہ کے اصل وجوب کا باقی رہنا بھی ضروری ہے پس جب مؤکل کے اعتبار سے وقت ختم ہو گیا تو نفس وجوب ہی ختم ہو گیا تو پھر اداء کے صحیح ہونے کا کیا معنی۔ جیسے وجوبِ زکوٰۃ کے لیے ملک نصاب کو سبب وجوب کہا گیا ہے تو بقائے زکوٰۃ کے لیے نصاب کا باقی رہنا شرط ہے اگر اداء سے پہلے نصاب ہلاک ہو گیا تو زکوٰۃ ساقط ہو جائے گی کیونکہ ملک نصاب سے اصل وجوب ثابت ہوتا ہے لہٰذا سبب وجوب ختم تو نفس وجوب بھی ختم۔ غالباً اسی وجہ سے حضرت مولانا مفتی محمد تقی صاحب عثمانی مدظلہ العالی نے تائیدی خط میں یہ جملہ لکھا ہے ’’نیز احتیاط اس میں ہے کہ جب قربانی کسی ملک میں کی جائے تو جس شخص کی طرف سے قربانی کی جا رہی ہے اس کے ملک میں بھی ایام اضحیہ ختم نہ ہوئے ہوں۔‘‘

مگر ’’احتیاط‘‘ کا لفظ پھر بھی تسامح سے خالی نہیں کیونکہ من علیہ الاضحیہ کے اعتبار سے وقت ختم ہو جانے کے بعد مکان اضحیہ میں قربانی جائز ہوتی تو احتیاط تھا کہ ان کے وقت ختم ہونے سے پہلے کر لی جائے۔ یہاں تو اصول مفروضہ کے مطابق قربانی بعد از وقت درست ہے ہی نہیں۔

اس طرح کا مسئلہ مفتی اسماعیل صاحب بھڑکودروی دامت برکاتہم کے شائع کردہ فتویٰ میں بھی ہے۔

مسئلہ نمبر ۴: سعودی اور یو۔ کے جیسے ملک میں عید عموماً یہاں (ہندوستان) سے ایک دن پہلے ہوتی ہے اس لیے وہاں کے باشندے کی قربانی یہاں کی دسویں،گیارہویں اور بارہویں ذی الحجہ کے غروب آفتاب تک کرنی جائز ہے البتہ احتیاطاً ان کی قربانی پہلے دو دن (یعنی دسویں، گیارہویں) میں کر لینی چاہئے تاکہ وہاں کے ایام قربانی پورا ہونے سے پہلے ان کی قربانی ادا ہو جائے۔(ترجمہ از فتویٰ بزبان گجراتی مجلس الفقہ الاسلامی گجرات)

پس فتاویٰ کا یہ دوسرا طرف خود ان کے اپنے مفروضہ کے بھی خلاف ہے اس لیے کہ ابتدائے وقت میں من علیہ الاضحیہ کا اعتبار اور انتہاء میں مکان اضحیہ کا اعتبار کیا گیا ولم یقل احد بصحۃ اداء الموقتات بعد مضی وقتہا۔ ۔ ۔ فان التضحیۃ اراقۃ الدم وہی انما تقبل فی وقت الاداء لا بعدہ وانما الذی یلزم بعدہ قضاء ہا (فتح القدیر:۹/۵۰۷)

واما بعد مضی ایام النحر فقد سقط معنی التقرب باراقۃ الدم لانہا لاتکون قربۃ الا فی مکان مخصوص وہو الحرم او فی زمان مخصوص وہو ایام النحر ولکن یلزم التصدق بقیمۃ الاضحیۃ اذا کان ممن تجب علیہ الاضحیۃ لان تقربہ فی ایام النحرکان باعتبار المالیۃ فیبقی بعد مضیہا والتقرب بالمال فی غیر ایام النحر یکون بالتصدق (مبسوط:۱۲/۱۴)

 

                جدید موقِف کا مفسَدۂ عظیم

 

(۱) وقتِ خاص ’’سببِ وجوب اداء‘‘ ہے اور اداء کا جو محل ہو گا وقت کا اعتبار اس کے حق میں کیا جائے گا جو مسئلہ زیر بحث میں اضحیہ ہے اس ضابطہ کے رُو سے عمل میں امت کے لیے یسروسہولت ہے۔ اس کے برخلاف ’’سبب وجوب‘‘ کے لفظ سے وقت کو ذمہ کے مشغول بالواجب ہونے کا مؤثر سبب ماننے کے نتیجہ میں جو علمی خطائیں واقع ہوئی ہیں ان میں سے اکثر پر آپ گذشتہ صفحات میں مطلع ہو چکے ہیں اور اب اخیر میں اس جدید موقف کے عملی پہلو میں امت کس قدر حرج و تنگی اور پریشانی میں مبتلا ہو جائے گی اسے بھی ایک نظر دیکھ لیجئے۔ کیونکہ ایک طرف یہ مسئلہ فقط مغربی ممالک کی قربانیاں مشرقی ملکوں میں انجام دینے کا نہیں ہے بلکہ دنیا کے تمام شہروں اور دیہاتوں میں نیز ایک جگہ کی قربانی دوسری جگہ کرنے سے متعلق ہے۔ اور دوسری طرف شمسی اوقات کے اعتبار سے ملک کے صوبوں اور صوبہ کے ضلعوں میں صبح صادق اور غروب آفتاب وغیرہ کے اوقات میں تفاوت (تقدم و تأخر) ہونا بالکل مسلّم اور قطعی ہے مثلاً امسال ۱۴۲۶ھ کی دسویں ذی الحجہ (یوم النحر) ۱۱/جنوری ۲۰۰۶/ کو پڑ رہی ہے اس دن کے صبح صادق کے اوقات میں علاقوں کافرق بطور نمونہ ملاحظہ فرمائیے۔

نوٹ : یہ مضمون اسی سال عید الاضحی سے قبل لکھا گیا ہے۔

صوبۂ گجرات

علاقہ                                 ۱۱/جنوری                      صبح صادق

علاقہ                                 ۱۱/جنوری                      صبح صادق

واپی دمن                                                              ۵۷-۵

سورت                                                                ۰۰-۶

احمد آباد                                    ۰۳-۶

پٹن                                           ۰۶-۶

بھوج                                       ۱۵-۶

اوکھا                                                                               ۱۶-۶

 

اسی طرح دیگر صوبوں کے مختلف حصوں کے اوقاتِ صبح صادق معلوم کیے جائیں تو تفاوت ضرور ظاہر ہو گا اور شریعت نے قربانی صحیح ہونے کے لیے دسویں کی صبح صادق سے لے کر ۱۲ویں کے غروب آفتاب تک وقت کی تحدید کی ہے نہ صبح صادق سے قبل جائز اور نہ غروب آفتاب کے بعد جائز۔

لاتجوز التضحیۃ فی اللیلۃ العاشرۃ من ذی الحجۃ لانہا تضحیۃ قبل الوقت (قاضیخان علی ہامش العالمگیری:۳/۳۴۵)

ولم یقل احد بصحۃ اداء الموقتات بعد مضی وقتہا۔ الخ (فتح القدیر) اور ایک جگہ کی قربانی دوسری جگہ شرعاً وفقہاً دونوں اعتبار سے درست ہے پس اگر پٹن یا بھوج کے کسی غنی نے واپی یاسورت کے کسی دیہات مثلاً اٹالوہ یا تراج میں کہ یہاں شرعاً نماز عید نہیں ہے قربانی کرائی اور وکیل نے صبح صادق کے فوراً بعد ذبح کیا تو ائمہ فقہ کی تصریح کے مطابق یہ قربانی شرعاً صحیح کہلائے گی اور جدید موقف کے اعتبار سے قربانی نہیں ہوئی کیونکہ من علیہ الاضحیہ مقیم پٹن وبھوج پر ۰۶-۶ اور ۱۵-۶ سے پہلے وجوب ہی نہیں ہوا، لہٰذا ذبح قبل الوقت ہوا۔

ہندوستان

علاقہ                              ۱۱/جنوری                      صبح صادق

دہلی (دارالسلطنت)                   ۵۲-۵

کلکتہ (مغربی بنگال)                   ۵۹-۴

بمبئی (مہاراشٹر)                       ۵۶-۵

ڈوبروگڑھ (آسام)                      ۳۹-۴

سری نگر (کشمیر)                        ۰۸-۶

پٹنہ (بہار)                                ۱۶-۵

بیکانیر (راجستھان)                      ۱۱-۶

مدراس (تامل ناڈو)                     ۱۹-۵

لدھیانہ (پنجاب)                      ۰۰-۶

کٹک         (اڑیسہ)                          ۰۵-۵

احمد آباد (گجرات)                      ۰۳-۶

لکھنؤ         (یوپی)                    ۳۵-۵

(یہ سب ٹائم ٹیبل ’’اوقات الصلوٰۃ‘‘ برائے ہندوستان مرتبہ محمد انس سے ماخوذ ہے ایک دو منٹ کا فرق ممکن ہے)

پس دہلی والوں کی قربانی مثلاً اطراف کلکتہ کے کسی دیہات میں یا بمبئی والوں کی قربانی مدراس کے دیہات میں بلکہ اہل گجرات کی قربانی بہار، بنگال اور آسام کے دیہاتوں میں طلوع صبح صادق کے فوراً بعد فقہاء کے بیان کے مطابق بالکل درست ہے اور نئے فتاویٰ کے رُو سے قطعاً جائز نہیں ہے۔

یہ منقسم ہندوستان کا حال ہے پاکستان و بنگلہ دیش ہی نہیں بلکہ ہر ملک کے اندرونی علاقوں میں قرب و بعد مسافت کی وجہ سے شمسی اوقات میں فرق یقینی ہے۔

اب ملکوں کا بھی اندازہ لگا لیجئے۔

افریقہ، امریکہ، برطانیہ، وغیرہ اور ممالک عربیہ کے مالداروں کی قربانیوں کا سلسلہ ہندو پاک اور بنگال وغیرہ ایشیائی وغیر ایشیائی ملکوں میں حضرت مفتی سیدعبدالرحیم صاحب رحمہ اللہ کے فتویٰ کے بعد سے نہیں بلکہ ایک زمانۂ قدیم سے جاری اور لوگوں میں رائج ہے پس اہل مغرب کی طرف سے مشرقی ملک کے کسی دیہات میں بلکہ شہر میں رہنے والا غریب یا مالدار، شناسا یا غیرشناسا، براہ راست یا بالواسطہ جو قربانی کا وکیل ہوتا ہے اوّلاً تو اسے یہی نہیں معلوم کہ جس کی طرف سے قربانی ہے وہ کون اور کہاں رہتا ہے؟ اگر اجمالاً معلوم ہو تواسے یہ علم نہیں ہوتا ہے کہ من علیہ الاضحیہ سے میں (وکیل ذابح) جہاں رہتا ہوں دونوں مقامات میں دن یا گھنٹوں کا کتنا فرق ہے اور اگر ملکی پیمانہ پر فرق (یعنی معیاری وقت) معلوم بھی ہوتب بھی مقامی وقت (شمسی رفتار) کے لحاظ سے من علیہ الاضحیہ کے یہاں صبح صادق وغیرہ اوقات کا واقعی علم نہیں ہوتا ایسی صورت میں وکیل ذابح کے لیے وقت کا صحیح اندازہ لگانا اور پھر اس کی رعایت کرنا کہ من علیہ الاضحیہ کے یہاں صبح صادق ہو چکی ہے یا نہیں یقیناً دشوار اور مشکل ہے۔

وکیل اگر شہر میں ہے تو وہ اتنا جانتا ہے کہ نماز عید کے بعد قربانی درست ہے اس سے قبل نہیں اور اگر دیہات میں ہے تو صبح صادق کے بعد قربانی کرسکتے ہیں۔ عامۃ المسلمین جتنا جان رہے ہیں بس یہی شرعاً ثابت ہے اور اگر من علیہ الاضحیہ کے اعتبار سے وقت کی رعایت کرنا ضروری ہو جیسا کہ جدید موقف کا تقاضہ ہے تو اتنا ہی نہیں کہ شہری کی قربانی دیہات میں صبح صادق کے بعد بلکہ ایک شہری کی قربانی دوسرے شہر میں نماز عید کے بعد بھی جائز نہ ہو مثلاً ایک مکی شخص نے اپنی قربانی سورت میں کرائی وکیل شہر میں نماز عید کے فوراً بعد ذبح کرتا ہے تو رؤیت ہلال کی بنیاد پر عرب اور ہند کی تاریخ ایک ہو جانے کے باوجود قربانی صحیح نہیں ہوسکتی اس لیے کہ شمسی وقت کے لحاظ سے مکی شخص (من علیہ الاضحیہ) کے یہاں ابھی صبح صادق نہیں ہوئی ہے اور یہاں سورت میں لوگ نماز عید سے فارغ ہو کر جانور ذبح کر رہے ہیں۔

غرضیکہ دنیا کے مختلف خطوں میں اور ملک کے مختلف حصوں میں لوگ وکالت و نیابت میں دوسروں کی قربانی کرتے ہیں ان کے لیے من علیہ الاضحیہ کے اعتبار سے صبح صادق کا لحاظ رکھنے میں کھلم کھلاّ حرج ہے اور یہ مفسدۂ عظیم جدید موقف کا نتیجہ کہلائے گا۔

 

                موقِفِ حادث سے ایک متواتر عمل کا بُطلان

 

جدید موقف کا دوسرا نتیجہ جیسا کہ مفتی شبیر احمد صاحب نے نئے ضابطہ کی تفہیم کے لیے بطورِ مثال ذکر کیا اور مفتی اسماعیل صاحب بھڑکودروی نے مسئلہ کے طور پر ذکر کیا ہے۔

’’مسئلہ ۶ یہاں ہندوستان میں رہنے والے بھائیوں کی قربانی سعودی اور یو،کے میں وہاں کی دسویں ذی الحجہ کو جائز نہیں اس لیے کہ یہاں کے باشندہ پر نویں ذی الحجہ ہونے کی وجہ سے ابھی قربانی واجب نہیں ہوئی ہے۔‘‘ (ترجمۂ فتویٰ از مفتی اسماعیل بھڑکودروی مجلس الفقہ الاسلامی گجرات) اور باقی حضرات بھی التزاماً اسی کے قائل ہیں۔

مگر حقیقت میں یہ اُس جدید موقِف کا دوسرا مفسدہ ہے کہ اس سے اطرافِ عالم سے ہدی یا رقم بھیج کر حرم میں کی جانے والی قربانیوں کا ایک سلسلہ جو خیرالقرون سے عملاً چلا آ رہا ہے جبکہ قربانی کرانے والے وہ لوگ بھی ہیں جو دنیا کے مختلف خطوں میں مقیم رہتے ہیں اُن کے اور حرم میں ذبح کے وقت میں کثیر تفاوت پایا جاتا ہے اور عموماً تاریخ کا بھی فرق رہتا ہے تو امت کے اس قدر مشترک متواتر عمل کا باطل ہونا لازم آ رہا ہے جبکہ اصول شرع کی روشنی میں امت کا یہ عمل بالکل برحق ہے اور اس کے صحیح اور منقول ہونے پر کتبِ فقہ و تاریخ کی شہادت کافی ہے جیساکہ آخری رسالہ میں آ پ مطلع ہوں گے۔

پس اس نئے موقِف کا اصولِ فقہ کے خلاف بلکہ خود اپنے مفروضہ کے خلاف ہونے، امتِ مسلمہ کا حرجِ بیّن میں مبتلا ہونے اور ایک متواتر عمل کے باطل ہونے کی وجہوں سے جدید موقف کا غلط ہونا بالکل عیاں ہو جاتا ہے۔ فتفکروا۔

کشف الغطاء عن اعتبار الوقت لمحل الاداء

 

                ایامِ قمری اور اوقاتِ شمسی

 

عبادتوں کی ادائیگی کے لیے ایام کی تعیین اور اوقات کی تحدید بھی کی گئی ہے تاریخ کی تعیین شریعتِ مطہرہ میں قمری اعتبار سے ہے اور اوقات کی تحدید و تقدیر شمسی اعتبار سے ہے ماہ قمری کے ثبوت کا دارومدار رویتِ ہلال پر ہے اور حسبِ اختلاف یعنی خواہ مطلع متحد ہو یا مختلف چاند دیکھنے والوں کے حق میں مطلع صاف ہونے نہ ہونے کی وجہ سے بعض ممالک اور بعض شہروں میں رُویتِ ہلال کا تحقق ہوتا ہے اور دیگر بعض مقامات پر اس کا شرعی ثبوت نہ بہم پہنچے اسلئے تاریخ میں ایک یوم کا فرق آ جانا ممکن بلکہ واقع اور مسلّم ہے۔

مقامی وقت یعنی آفتاب کی ذاتی طبعی رفتار سے صبح صادق، طلوع، زوال، غروب وغیرہ کے ذریعہ وقت میں امتیازات قائم ہونے سے مخصوص اوقات کا تحقق ہوتا ہے اور آبادیوں میں ان کے جائے وقوع کے طول البلد و عرض البلد کے اختلاف سے اوقات مخصوصہ میں تفاوت بدیہی و یقینی ہے اسی کا نتیجہ ہے کہ دنیا کے مختلف خطوں میں ایک دن میں گھنٹوں کا فرق بلکہ لیل و نہار کا بھی اختلاف رہا کرتا ہے۔

 

                موقتات میں ایام و اوقات کا اعتبار

 

لہٰذا اگر ہفت اقلیم میں اتحاد مطلع کی بنیاد پر قمری تاریخ یکساں ہو، تب بھی اوقات مخصوصہ میں تقدم وتأخر امرِ لابدی ہے اسی لیے فرضیتِ احکام میں دونوں امورِ قطعی کا اعتبار کیا گیا اور شرع نے عبادتوں کی ادائیگی کا مکلف کرنے میں حسبِ وعدۂ خداوندی یرید اللّٰہ بکم الیسر ولا یرید بکم العسر اور لا یکلف اللّٰہ نفسا الا وسعہا۔ بندوں کی قدرت علی الاداء کی بھی رعایت کی ہے یعنی شارع کا بندوں سے اداء کا مطالبہ ان کے اعتبار سے اوقاتِ مخصوصہ میں ہوا کرتا ہے۔ دیکھئے قرآن پاک کی آیت ان الصلوٰۃ کانت علی المومنین کتابا موقوتاً۔

اس آیت کے تحت امام رازی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں واعلم انہ تعالیٰ بیّن فی ہذہ الآیۃ ان وجوب الصلاۃ مقدر باوقات مخصوصۃ الّا انہ تعالٰی اجمل ذکر الاوقات ہہنا وبیّنہا فی سائر الآیات (تفسیر کبیر:۱۱/۲۸) امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں ۔ ۔ ۔ وقال زید بن اسلم رحمۃ اللہ علیہ موقوتاً منجّمًا ای تؤدّونہا فی انجمہا والمعنی عند اہل اللغۃ مفروض لوقت بعینہ (تفسیر قرطبی:۵/۳۷۴) اور قاضی بیضاوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں ای فُرِضَ محدود الاوقات لایجوز اخراجہا عن اوقاتہا فی شیء من الاحوال (تفسیر بیضاوی:۳/۴۰۲)

ان سب کا حاصل حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی جامع تفسیر ’’بیان القرآن‘‘ کے ترجمہ و تفسیر کے مختصر دو جملوں سے ملاحظہ فرمائیے ’’یقیناً نماز مسلمانوں پر فرض ہے اور وقت کے ساتھ محدود ہے (پس فرض ہونے کی وجہ سے ادا کرنا ضرور اور موقت ہونے کی وجہ سے وقت ہی پر ادا کرنا ضرور۔‘‘ (بیان القرآن:۱۵۳)

پہلے جملہ میں ’’ادا کرنا‘‘ اداء و قضا دونوں کو شامل ہے اور دوسرے جملہ میں ’’ادا کرنا‘‘ سے مراد ادا یعنی قضا کا مقابل ہے۔

الغرض واجباتِ موقتہ بلکہ قربۃ غیر واجبہ بھی اگر شریعت نے اس کی اداء کو موقت قرار دیا ہے تو اداء یعنی فعل (واجب، نفل) کا جو محل ہو گا اس کے حق میں وقت کا اعتبار کیا جائے گا اور محلِ اداء جہاں ہو گا وہاں کا وقت ملحوظ ہو گا۔

(۱) نماز، روزہ یعنی ارکان مخصوصہ اور امساکِ مخصوص کا محل مکلف کی ذات ہے یعنی فعل کا صدور اور قیام مکلف کی ذات سے ہے اور چونکہ ان افعال سے اِتعابِ نفس مطلوب ہے اسی لیے یہاں نیابت بھی جائز نہیں لہٰذا فاعل یعنی مکلف ہی کے حق میں وقتِ وجوب کا اعتبار ہو گا۔ پس اگر کوئی ہندی مثلاً بلغاریہ پہنچ جائے تو اس کے ذمہ عشاء اور وتر کی اداء کا وجوب نہ ہو گا اور کوئی بلغاری شخص مثلاً عرب چلا جائے تو یہ دونوں نمازیں بھی واجب الاداء ہوں گی۔ کیونکہ بلغاریہ میں عشاء کا وقتِ ممتاز نہیں پایا جاتا ہے۔ اہلیتِ وجوب کے بعد ہی اوقات مخصوصہ میں متوجہ ہونے والے خطابِ شارع سے جس پر صیغۂ امر دال ہے اداء کا وجوب بھی مکلف کے ہی ذمہ آتا ہے پس وقت کی وجہ سے ذمہ مشغول بالواجب ہوا لہٰذا فقہاء کا ’’سببہا اوقاتہا‘‘ کہنا بالکل صحیح ہے۔

وسبب وجوبہا اوقاتہا والامر طلب لاداء ماوجب فی الذمۃ بسبب الوقت وقد ذکرنا وجہ ذلک فی التقریر۔ ۔ ۔ فان قلت جعلت الوقت سببًا فکیف یکون شرطا قلتُ ہو سبب للوجوب وشرطٌ للاداء۔ (عنایہ علی ہامش الفتح:۱/۲۱۶)

مگر یہ وجوب باعتبارِ محلِ اداء کے ہے اور اصل وجوب مکلف کے ذمہ باعتبار صفات کے ہے۔ فافہم فانہ لطیف وانہ مزلۃ الفہم۔

(۲) اور زکوٰۃ میں جزءٌ من النصاب کی ادائیگی کا وجوب ہوتا ہے (جو کہ مال ہے) پس اداء کا محل مال ہے لہٰذا وجوبِ اداء کا تعلق مال سے ہوا اور مال من حیث الجنس محلِ اداء ہے نہ کہ بحیثیتِ نوع اور چونکہ مقصود تصدق سے سَدّ خلّۃ المحتاج ہے اسی وجہ سے نیابت فی الاداء جائز ہے، لہٰذا ادائے زکوٰۃ محلِ مال کا لحاظ ہو گا چنانچہ جہاں مال ہو وہاں کے فقراء کو مقدم رکھا جاتا ہے اگرچہ زکوٰۃ کی ادائیگی موقت نہیں ہے مگر مکانِ محل اداء کی رعایت پائی جاتی ہے۔

(۳) اور صدقۃ الفطر میں جس فعل کا وجوب صبح یوم الفطر کو ہوتا ہے وہ درحقیقت ’’اغناء‘‘ ہے اور اغناء کا تعلق ذمہ مکلف سے ہے پس نماز، روزہ کی طرح مکانِ مودِّی کے حق میں وقت کا اعتبار کیا جائے گا۔

(۴) اور قربانی میں اوقات مخصوصہ میں واجب ہونے والا فعل اراقۃ الدم ہے جس کا محل جانور ہے اس لئے ذبح اضحیہ کے حق میں وقت کا اعتبار کیا جائے گا یعنی جانور جہاں ہو گا وہاں کا وقت ملحوظ ہو گا خواہ ذابح خود من علیہ الاضحیہ ہو یا اس کی طرف سے وکیل و نائب۔ اور خواہ قربانی نفل ہو کہ واجب اور وجوب بشرط الغنا (من جانب اللہ) ہو یا بسبب النذر (من جانب العبد) ہو یا پھر شراءِ فقیر بنیۃ الاضحیہ ہو۔ کیونکہ وقت مطلق قربانی کے لیے شرط اداء ہے۔

یہ سب امور ائمۂ فقہ کے نزدیک بالکل مسلّم ہیں اور اس میں نقلاً کوئی اختلاف نہیں ہے۔

(۱) القربات الموقتۃ یعتبر وقتہا فی حق فاعلہا لا فی حق المفعول عنہ (بدائع:۵/۷۳)

(۲) المعتبر فی الزکوٰۃ فقراء مکان المال وفی الوصیۃ مکان الموصی وفی الفطرۃ مکان المودّی عند محمد وہو الاصح لان رؤسہم تبع لرأسہ (طحطاوی:۷۲۲)

(۳) وصدقۃ الفطر بعد ماوجبت لاتسقط بموت المودّیٰ عنہ بخلاف الزکوٰۃ فان الواجب ہناک جزء من المال وبہلاکہ یفوت محل الواجب وہنا الصدقۃ تجب فی ذمہ المودّی فبموت المودَّی عنہ لایفوت محل الواجب فلہذا لا یسقط۔ (مبسوط:۳/۱۰۸، ہدایہ:۱۹۴)

(۴) فیعتبر فی الاداء مکان المحل وہو المال لامکان الفاعل (ای من علیہ الاضحیۃ) اعتباراً بہا بخلاف صدقۃ الفطر حیث یعتبر فیہا مکان الفاعل لانہا تتعلق فی الذمۃ والمال لیس بمحل لہا (مبسوط:۶/۴۷۷)

ویعتبر مکان المذبوح لامکان المالک وفی صدقۃ الفطر یعتبر مکان المولیٰ لامکان العبید (قاضی خان)

فیعتبر فی الصرف ای فی الاراقۃ مکان المحل ای المال لامکان الفاعل اعتبارًا بالزکوٰۃ بخلاف صدقۃ الفطر (فتح القدیر)

 

                المعتبر مکان الاضحیۃ کا ضابطۂ عام

 

مسئلۂ قربانی میں مکانِ ذبح اضحیہ کے حق میں وقت کا اعتبار صاحب بدائع نے خوب وضاحت و صراحت کے ساتھ مدلل لکھا ہے

وانما یعتبر مکان الشاۃ لامکان من علیہ ہکذا ذکر محمد فی النوادر قال انما انظر الی محل الذبح ولا انظر الی موضع المذبوح عنہ وہکذا روی الحسن عن ابی یوسف انہ یعتبر مکان الذی یکون فیہ الذبح ولا یعتبر المکان الذی یکون فیہ المذبوح عنہ وانما کان کذلک لان الذبح ہو القربۃ فیعتبر مکان فعلہا لامکان المفعول عنہ (بدائع:۵/۷۴)

القربات الموقتۃ یعتبر وقتہا فی حق فاعلہا لا فی حق المفعول عنہ ایک شرعی قائدۂ کلیہ ہے بلکہ الموقتۃ کے عموم میں واجباتِ موقتہ اور موقتاتِ غیر واجبہ دونوں شامل ہیں چنانچہ حج جس پر فرض ہے جب وہ بنفس نفیس حج اداء کرے گا تو اسی کے حق میں ایام واوقات کا اعتبار ہو گا اور اگر معذور ہونے کی وجہ سے دوسرے کو بھیجا تو اس حاج عن الغیر کے حق میں اوقات کا لحاظ ہوتا ہے خواہ محجوج عنہ کے یہاں یوم عرفہ اور وقت وقوف شروع ہو گیا ہو یا نہیں (البتہ محجوج عنہ پر حج فرض ہونا ضروری ہے اور اس کی فرضیت استطاعت پر متحقق ہو جاتی ہے) یہی حال نفل حج کا ہے اس لیے کہ شرعاً وہ بھی موقت ہے۔ ٹھیک اسی طرح قربانی ہے واجب ہو کہ نفل اس کی اداء مقید بالوقت ہے (رہا وجوب فی الذمہ سو وہ غنا ویسار سے ہے) اور نماز، روزہ میں مکلف ہی فاعل قربۃ ہے اس لیے اس کے حق میں اوقات ملحوظ ہوتے ہیں۔

لہٰذا مکانِ ذبحِ اضحیہ کا اعتبار جمیع مکلفین کے حق میں شہری ہوں یا دیہاتی مسلم الثبوت ضابطہ ہے جہاں عید کی نماز شرعاً ہو وہاں نمازِ عید کے بعد اور وہ تمام جگہیں جہاں شرعاً نماز عید نہیں ہے صبح صادق کے فوراً بعد احناف کے نزدیک قربانی جائز ہے خواہ ذبح کرنے والا من علیہ الاضحیہ بذات خود ہو یا اس کا وکیل و نائب۔

المعتبر فی ذلک مکان الاضحیۃ حتی لو کانت فی السواد والمضحی (ای من علیہ الاضحیۃ) فی المصر یجوز وقت الفجر ولو کانت فی المصر والمضحّی فی السواد لایجوز الا بعد الصلاۃ لانہا تسقط بالہلاک قبل مضی ایام النحر کالزکوٰۃ تسقط بہلاک النصاب فیعتبر فیہا مکان المحل وہو المال لامکان الفاعل (من علیہ الواجب) کالزکوۃ بخلاف صدقۃ الفطر حیث یعتبر فیہا مکان (المودّی) لانہا تتعلق بہ فی الذمۃ (شرح نقایہ:۲/۲۶۹)

 

                تنبیہ (حیلۃ المصری) پر

 

پس کتب فقہیہ میں ’’حیلۃ المصری اذا اراد التعجیل الخ‘‘ جیسی عبارت مذکورہ بالا قاعدۂ شرعیہ (المعتبر مکان الاضحیۃ) پر متفرع ایک جزئی ہے یعنی اہل شہر کے لیے قربانی کا گوشت جلد حاصل کرنے کی ایک تدبیر ہے جو ان کے اپنے شہر ہی سے قریب کے دیہات اور قریہ میں ممکن ہے۔ اس سے یہ نتیجہ نکالنا تو صحیح ہے کہ دونوں جگہ میں اضحیہ کا وقت شروع ہو چکا ہے لیکن اس سے یہ سمجھنا کہ اہل شہر کے حق میں صبح صادق کے بعد نماز عید سے پہلے قربانی کے جواز کی بس یہی صورت ہے جو شہر سے قریب دیہات میں متحقق ہوسکتی ہے، ہرگز صحیح نہیں ہے کیونکہ وقت جواز ’’شرط اداء‘‘ میں دنیا کے تمام اہل شہر اور اہل قریہ یکساں شامل ہیں اور نمازِ عید سے فراغت کی شرطِ زائد صحتِ قربانی کے لیے مطلق شہر کے حق میں ہے جس میں عالم کے تمام شہر داخل ہیں اور صبح صادق کے فوراً بعد دیہات میں قربانی کے صحیح ہونے کے لیے دیہات کا شہر سے قریب ہونا شرط نہیں ہے۔ و دخول الوقت لایختلف فی حق اہل الامصار والقریٰ وانما یختلفون فی وجوب الصلاۃ فلیس علی اہل القریٰ صلاۃ العید الخ۔ کما مرّ (مبسوط:۱۲/۱۰) الحنفیۃ قالوا: یدخل وقت الاضحیہ عند طلوع فجر یوم النحر۔ ۔ ۔ وہذا لایختلف فی ذاتہ بالنسبۃ لمن یضحی فی المصر او یضحی فی القریۃ لکن یشترط فی صحتہا للمصری ان یکون الذبح بعد صلاۃ العید (الفقہ علی مذاہب الاربعۃ)

 

                مکانِ اضحی ومن علیہ الاضحیہ کا اتحاد و اختلاف

 

مکان اضحیہ اور من علیہ الاضحیہ کے اتحاد و اختلاف کی عقلاً پانچ اور حاصل تین صورتیں ہیں جسے فقہاء عموماً بیان کرتے ہیں:

(۱) دونوں کا مکان متحد ہو جس کی دو شکلیں ہیں ایک دونوں شہر میں ہیں تو چونکہ مکانِ ذبح شہر ہے نماز عید سے پہلے قربانی جائز نہیں۔ دوسری اور اگر دونوں دیہات میں ہیں تو بعد الصبح فوراً قربانی درست ہو گی خواہ ذابح خود مَن علیہ الاضحیۃ ہو یا شخص دیگر۔

اور اگر دونوں کا مکان مختلف ہے تو جوازِ تضحیہ کے لیے مکان اضحیہ کا اعتبار ہے نہ کہ من علیہ یامن مِنہ الاضحیہ کا پس اتحاد کی صورت میں چونکہ کوئی اشکال نہیں ہے اس لئے المعتبر مکان الاضحیۃ کا ضابطہ پیش کرنے کی حاجت نہیں آئی اور اختلاف کی صورتوں میں اشکال متوجہ ہو گا اس لیے ضابطہ بیان کرنے کی ضرورت لاحق ہوئی چنانچہ

(۲) من علیہ الاضحیہ اگر شہر میں ہو اور اس کا جانور دیہات میں تو وکیل ذابح کے لیے صبح صادق کے بعد قربانی بالکل درست ہے خواہ اضحیہ واجب ہوکہ نافلہ اور من علیہ الاضحیہ یامَن مِنہ الاضحیۃ کسی بھی شہر میں ہو۔

(۳) دوسری کے برعکس اضحیہ شہر میں ہے اور من علیہ الاضحیہ دیہات میں تو نماز عید سے قبل جائز نہیں۔ اختلافِ مکان کی صورتوں میں وکیل ذابح اور اصیل مذبوح عنہ کے درمیان قرب و بُعد مسافت سے جواز پر کوئی اثر واقع نہیں ہوتا ہے۔

اعلم ہذا اذا کان من علیہ الاضحیہ فی المصر والشاۃ فی المصر (یہ پہلی صورت ہوئی) فان کان ہو فی المصر والشاۃ فی الرستاق او فی موضع لایصلی فیہ (یہ دوسری صورت ہوئی) وقد امر ان یضحوا عنہ فضحّوا بہا بعد طلوع الفجر قبل صلاۃ العید فانہا تجزیہ وعلی عکسہ لوکان ہو فی الرستاق والشاۃ فی المصر (یہ تیسری صورت ہوئی) وقد امر ان یضحی عنہ فضحّوا بہا قبل صلاۃ العید فانہا لاتجزیہ وانما یعتبر فی ہذا مکان الشاۃ لامکان من علیہ الخ (بدائع)

(۴) من علیہ الاضحیہ ایک قریہ میں ہو اور اسکا اضحیہ دوسرے قریہ میں (اس کا حکم نمبر ۲ سے ظاہر ہے)

(۵) ایک شہر والے کی قربانی دوسرے شہر میں علی عکس الرابع اس کا حکم نمبر ۳ سے معلوم ہو چکا ہے۔

اس آخری صورت میں حسن بن زیاد رحمۃ اللہ علیہ کا معمولی سا اختلاف اَولویت کا ہے اور وہ بھی ذبح فی المصرکی شرط زائد ’’فراغ عن الصلاۃ‘‘ کے حق میں نہ کہ اصل شرط میں۔

صاحب بدائع آگے لکھتے ہیں :

 وان الرجل فی مصر واہلہ فی مصر آخر فکتب الیہم ان یضحوا عنہ روی عن ابی یوسف انہ اعتبر مکان الذبیحۃ فقال ینبغی لہم ان لا یضحوا عنہ حتی یصلی الامام الذی فیہ اہلہ وان ضحوا عنہ قبل ان یصلی لم یجز وہو قول محمد وقال حسن بن زیاد انتظرت الصلاتین جمیعًا وان شکوا فی وقت صلاۃ المصر الآخر لم یذبحوا حتی تزول الشمس فاذا زالت ذبحوا عنہ۔ وجہ قول الحسن ان فیما قلنا اعتبار الحالین حال الذبح وحال المذبوح عنہ فکان اولٰی۔ ولابی یوسف ومحمد ان القربۃ ہو الذبح والقربات الموقتۃ یعتبر وقتہا فی حق فاعلہا لا فی حق المفعول عنہ (بدائع:۵/۷۳)

یعنی حسن بن زیاد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ مذبوح عنہ کے یہاں بھی نماز عید ہو چکی ہو اس کا لحاظ کر لیا جائے تواولیٰ ہے کیونکہ اس میں دونوں کے حال کی رعایت ہے۔ گویا ابن زیاد رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک اس صورت خاص میں بھی مکان اضحیہ کے اعتبار سے قربانی بعد نماز عید جائز اور درست ہے جس کا مطلب یہ ہوا کہ ادائے قربت کے لیے اعتبارِ وقت کا ضابطہ سب کے نزدیک مسلّم اور متفق علیہ ہے مگر حسن بن زیاد رحمۃ اللہ علیہ اس ضابطہ پر درجۂ اولویّت میں مکانِ مذبوح عنہ کے اعتبار کا اضافہ کر رہے ہیں اس کے بالمقابل صاحبین رحمہما اللہ نے اصول پر کوئی اضافہ کسی درجہ میں نہیں کیا اور اسی میں امت کے لیے سہولت ہے۔ چنانچہ امت کا عمل بھی صاحبین کے قول کے مطابق ہے اور یہی مفتیٰ بہ ہے۔

الغرض مذکورہ تمام صورتوں میں غور فرمائیے المعتبر مکان الاضحیۃ کا ضابطہ کارفرما ہے حالانکہ اختلاف کی صورتوں میں یہ عین ممکن ہے کہ مکان اضحیہ اور من علیہ الاضحیہ کے درمیان بُعدِ مسافت کی وجہ سے طلوع صبح صادق اور غروب آفتاب کے اوقات میں بیّن فرق ہو کیونکہ یہ نظام شمسی کے تحت ایک مسلّم حقیقت ہے پھر بھی صحت تضحیہ کے لیے ابتداء و انتہاءِ وقت میں مکان اضحیہ کا ہی اعتبار کیا گیا ہے لان الذبح ہو القربۃ فیعتبر مکان فعلہا لامکان المفعول عنہ۔

اسی ضابطہ کے ماتحت وہ جزئیہ ہے جو ’’حیلۃ المصری الخ‘‘ کے عنوان سے کتب فقہ میں مذکور ہے جس کی وضاحت گذر گئی۔

 

                اراقۃ الدم کی انواعِ اربعہ

 

شریعت میں اراقۃ الدم کے ذریعہ قربت انجام دینے کی جتنی صورتیں ہیں ان کی زمان و مکان کے ساتھ اختصاص کے اعتبار سے چار قسمیں ہیں:

(۱) زمان و مکان دونوں کے ساتھ خاص ہو جیسے دمِ قران، ودمِ تمتع اور دمِ نفل اگر مفرد بالحج کرنا چاہے یعنی دمِ شکر ایامِ نحر اور حرم کے ساتھ مختص ہے۔

(۲) مکان یعنی حرم کے ساتھ خاص ہو زمان یعنی یوم النحر کے ساتھ خاص نہ ہو جیسے دمِ جنایات، دمِ احصار، دمِ کفارہ۔

(۳) ایام نحر کے ساتھ خاص ہو، مکان متعین نہ ہو جیسے اضحیہ خواہ واجب ہو کہ نفل۔

(۴) زمان و مکان دونوں کے ساتھ خاص نہ ہو جیسے دمِ نذر۔

ثم اعلم ان الدماء علی اربعۃ اوجہ منہ ما یختص بالزمان والمکان وہو دم المتعۃ والقران ودم التطوع فی روایۃ القدوری ودم الاحصار عندہما (۲) ومنہ ما یختص بالمکان دون الزمان وہو دم الجنایات ودم الاحصار عندہ والتطوع فی روایۃ الاصل (۳) ومنہ ما یختص بالزمان دون المکان وہو الاضحیۃ (۴) ومنہ مالا یختص بالزمان ولا بالمکان وہو دم النذور عندہما وعند ابی یوسف دم النذور یتعین بالمکان۔ (تبیین الحقائق:۲/۴۳۴)

اس سے معلوم ہوا کہ دم قران وتمتع اور اضحیہ ایام نحر کے ساتھ خاص ہے اور دم شکر ہو کہ دم جنایت حرم کے ساتھ موقت ہے اور دم تطوع اور دمِ نذور مختلف فیہ ہے۔

(وخص ذبح ہدی المتعۃ والقران بیوم النحر فقط والکل بالحرم لابفقیرہ) بیان لکون الہدی موقتا بالمکان سواء کان دم شکر او جنایۃ لما تقدم انہ اسم لما یُہدی من النعم الی الحرم واما توقیتہ بالزمان فمخصوص بہدی المتعۃ والقران الخ (بحرالرائق:۳/۷۲)

دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ ان تمام اراقۃ میں ذبیحہ کے حق میں زمان یا مکان کا اعتبار کیا گیا ہے نہ کہ مذبوح عنہ کے زمان ومکان کا۔ پس اگر مذبوح عنہ کے اعتبار سے زمان و مکان کی رعایت ضروری ہوتی تو فقہاء رحمہم اللہ تعالیٰ اتنی اہم شرط کو نظر انداز نہ فرماتے۔

تیسری بات غور فرمائیے اِن قُربات میں جو اراقہ واجب ہے اس کے وجوب فی الذمہ کا سبب وہ صفت ہے جس سے مکلف وقتی و عارضی طور پر متصف ہوا ہے یعنی قِران، تمتع، احصار، قتل صید، جنایت، نذر اور غنا ویسار۔ اراقۃ الدم کے وجوب کی علّت کہیں بھی وقت خاص نہیں ہے۔

 

                ابل اور بقر میں سات آدمیوں کی شرکت

 

اس قربت کی ادائیگی کے لیے محل اراقہ اگر بڑا جانور ہے تو اس میں سات آدمیوں کی شرکت جائز اور درست ہے خواہ قربت کی جہت مختلف ہو البتہ قربت کی نیت ہونا سب میں شرط ہے اگر کسی ایک نے بھی محض گوشت حاصل کرنے کا ارادہ کیا ہے تو کسی کی قربت ادا نہ ہو گی۔

سن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم البدنۃ عن سبعۃ والبقرۃ عن سبعۃ۔ (بدایۃ المجتہد ۴/۸۴)

والابل والبقر تجزی عن سبعۃ والمعز والغنم لایجزیان الا عن احد وان کان بعض السبعۃ اہل المتعۃ وبعضہم اہل القِران وبعضہم اہل الجزاء وبعضہم اہل الاضحیۃ وبعضہم اہل التطوع اجزأت عنہم ولو کان بعضہم یرید نصیبہ من اللحم فانہ لایجوز ولا عن احد (النُتَف فی الفتاویٰ لابی الحسن علی السُغدی متوفی ۴۶۱ھ)

ولو ارادوا القربۃ الاضحیۃ او غیرہا من القرب اجزأہم سواء کانت القربۃ واجبۃ او تطوعا او وجبت علی البعض دون البعض سواء اتفقت جہات القربۃ او اختلفت بان اراد بعضہم الاضحیۃ وبعضہم جزاء الصید وبعضہم ہدی الاحصار وبعضہم کفارۃ شیء اصابہ فی احرامہ وبعضہم ہدی التطوع وبعضہم دم المتعۃ والقران۔ ۔ ۔ وہذا قول اصحابنا الثلثۃ (بدائع: ۵/۷۱)

 

                ذبح فی الحرم کے لیے ہدی یا رقم بھیجنے کا قدیم دستور

 

سوق الہدی معہ افضل لانہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ساق الہدایا مع نفسہ۔ (ہدایہ)

رسولِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا حجۃ الوداع میں مدینہ منورہ سے اپنے ساتھ سو (۱۰۰) یاترسٹھ (۶۳) ہدی (اونٹ) کالے چلنا اور یمن سے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ہدی لے کر آنا اور دیگر صحابہ کرام کا بھی اپنے اپنے علاقہ سے ہدی ساتھ لے جانا کتب حدیث میں موجود ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور بعض صحابہ قارن اور بہت سے صحابہ نے تمتع کا احرام باندھا تھا۔اور اسی بنیاد پر متمتع (اور قارن) کے لیے ہدی کا ساتھ لے جانا افضل ہے (حجۃ الوداع للشیخ الکاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ وسلم) اور قران و تمتع آفاقی شخص ہی کے لیے خاص ہے جو دنیا کے ہر دور دراز علاقہ سے آتے ہیں (قرآن مجید) نیز قافلۂ حجاج عازمین بیت اللہ کی معرفت قربانی کا جانور یا اس کی رقم بھیجنے کا دستور بھی خیر القرون سے چلا آ رہا ہے چونکہ آفاق سے ہدی بھیجنے والے اشخاص دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں اس لیے ناموں کی تعیین کے ساتھ ان کے واقعات پیش کرنا چنداں آسان نہیں ہے اور یہ موضوع تاریخ کا ہے رجالِ حدیث علماء اسلام اور افرادِ امت کی سوانحِ زندگی کا بالتفصیل مطالعہ کیا جائے اور کم از کم حجاج کی حالاتِ زندگی اور ان کے سفرناموں کو پڑھ لیا جائے تو ضرور اس طرح کے جزوی بہت سے واقعات دستیاب ہو جائیں گے اور قدرِ مشترک امت کا یہ معمول بھی بخوبی معلوم ہو جائے گا اور اگر مکہ مکرمہ کے قدیم ادارے جہاں آفاق سے آئے ہوئے بہت سے حجاج ان اداروں کے توسط سے قربانی وغیرہ کراتے ہیں ان اداروں نے اِس نوع کا کوئی دستاویز محفوظ رکھا ہو تو اِس قدیم دستور کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ من شاء فلیراجع۔

یہاں اشارہ کے طور پر اعیان الحجاج سے دو واقعہ پیش کرتے ہیں۔ محدثِ کبیر حضرت مولانا حبیب الرحمن اعظمی رحمۃ اللہ علیہ کے الفاظ میں:

اوّل: ’’حضرت علقمہ‘‘ نے متعدد حج کیے ہیں ایک بار وہ حج کو جانے لگے تو حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنی ہدی کے جانور ان کے ساتھ کر دیے اور فرمایا کہ ذبح کے بعد گوشت کے تین حصے کرنا ایک حصہ تم اور تمہارے ساتھی کھالیں اور ایک حصہ خیرات کر دینا اور ایک حصہ میرے بھائی عتبہ کے پاس بھجوا دینا۔ حضرت سفیان رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا یہ نفل قربانی تھی‘‘ (اعیان الحجاج: ۱/۸۳، عن مجمع الزوائد للہیثمی)

دوم: ’’شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ نے گلستاں میں ایک جگہ لکھا ہے ہمارے ساتھ حجاز جانے والے قافلہ میں ایک خرقہ پوش بزرگ بھی تھے ان کو عرب کے ایک امیر نے منیٰ میں قربانی کرنے کے لیے دو سو دینار دیے تھے جاتے جاتے ایک مقام پر قبیلہ بنوخفاجہ کے چوروں نے ہم پر چھاپہ مارا اور جتنا کچھ تھا سب لوٹ لے گئے۔‘‘ (اعیان:۲/۱۰۰)

 

                نتائج تحقیق

 

(۱) مذکورہ تحقیق و تنقیح سے معلوم ہوا کہ خیر القرون سے اب تک سلف و خلف، متقدمین ومتأخرین، علماء وصالحین اور امت کے بے شمار عامۃ المسلمین نے جتنی قربانیاں کی ہیں یا کرائی ہیں یہ سب اصول شرع کے بالکل مطابق ہیں۔

(۲) اطرافِ عالم کے مختلف خطوں سے اللہ کے کچھ بندے حرم و اہل حرم کی عظمت و محبت میں توسع علی اہل الحرم کے جذبہ سے حجاج کی معرفت قربانی کا جانور یا اس کی رقم بھیج دیتے ہیں تاکہ ان کی طرف سے یوم النحر کو قربانی کی جائے ایسی تمام قربانیاں اصول شرعیہ کے ماتحت بالکل صحیح ہیں۔

(۳) قارن یا متمتع جو اپنے ساتھ دم قران و تمتع کے لیے بَدَنہ (اونٹ یا گائے) لے کر چلا اس آفاقی نے اپنے جانور میں اوروں کو بھی شریک کر لیا ان شرکاء میں بعض صاحب اضحیہ ہے، بعض صاحبِ احصار وغیرہ اور دم احصار اگرچہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ وسلم کے نزدیک دمِ شکر کی طرح ایامِ نحر کے ساتھ خاص نہیں ہے لیکن یہ تو طے ہے کہ آفاقی کو احصار کہیں بھی پیش آسکتا ہے، پس اگر قارن یا متمتع نے اپنا مشترک جانور یوم النحر کو ذبح کیا تو اصول اور فقہ کی روشنی میں یہ ذبح عند الشرع درست ہے شرکاء اپنے اپنے واجب فی الذمہ سے سبکدوش ہو جائیں گے۔ محصر کا اپنے احرام سے نکلنا صحیح کہلائے گا۔ کیونکہ محصر کا احصار جو وجوبِ دم کا سبب ہے وہ کسی وقت خاص کے ساتھ موقت نہیں ہے۔ اسی طرح ملکِ نصاب کی وجہ سے ذمہ کا مشغول بالواجب ہونا مقید بیوم النحر نہیں ہے۔

پس اگر باوجود غنا کے غنی کا ذمہ مشغول بالواجب نہیں ہوا بلکہ وقت آنے پر ہی صاحب ذمہ بنے گا تو اتنی صدیوں میں بہت سی واجب قربانیاں جدید موقِف کے مطابق جو من علیہ الاضحیہ کے اعتبار سے قبل از وقت یا بعد از وقت بھی کی گئی ہوں گی وہ سب رائیگاں ٹھہریں اور اشتراک والی صورت میں نہ دم احصار اداء ہوا اور نہ ہی دم جنایت اور نہ ہی تمتع و قران کا واجب دم صحیح کہلایا کیونکہ اراقہ فعل واحد ہے۔ ایک شریک کا بھی دم اگر ادا نہیں ہوا تو کسی کی طرف سے بھی اراقۃ الدم صحیح نہیں کہلائے گا لہٰذا وقت ہی سے اصل وجوب ماننے کا نظریہ مفاسد کثیرہ کو مستلزم ہے۔

 

                خلاصۃ الکلام اور فتویٰ

 

سابقہ بحث و نظر اور تحقیق کا خلاصہ یہی ہے کہ ذبح اضحیہ کے سلسلہ میں خیرالقرون سے چلا آ رہا معمول عین شرع کے مطابق ہے یعنی المعتبر مکان الاضحیہ جہاں جانور ذبح کیا جاتا ہے وہاں ایام نحر کا ہونا ضروری ہے اور جن کی طرف سے قربانی ہے چاہے واجب یا نفل ان کے یہاں بھی وقت شروع ہوچکا ہو اس کی رعایت کرنا ائمہ مجتہدین سے منقول نہیں ہے اور من علیہ الاضحیہ پر قربانی مالک نصاب ہونے کی وجہ سے واجب ہو جاتی ہے یہی ہے حقیقت میں نفس وجوب جو غنا ویسار پر موقوف ہے۔ پس افریقہ، برطانیہ اور امریکہ وغیرہ ممالک مغربیہ کے باشندوں کی قربانی مشرقی ملکوں میں یہاں کے وقت کے اعتبار سے یا برصغیر کے باشندوں کی قربانی حرمین وغیرہ عرب ملکوں میں وہاں کے اوقات کے اعتبار سے شرع کے موافق اور تصریحات فقہیہ کے بالکل مطابق ہے

وہذا ہوالمرام۔ وما علینا الا البلاغ واللّٰہ الموفق لما یحب ویرضی والصلاۃ والسلام علی حبیبہ المصطفیٰ۔

٭٭٭

ماخذ:

ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ 10-11 ، جلد : 92 ذیقعدہ 1429 ھ مطابق اکتوبر – نومبر 2008ء

ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ 01-12 ، جلد: 92-93 ذی الحجۃ 1429 ھ – محرم 1430 ھ مطابق دسمبر 2008ء – جنوری 2009ء

http://darululoom-deoband۔com/urdu/articles/tmp/1416809877%2007-Tahqiqul%20Kalam_MDU_12-01%20Dec%2008%20&%20Jan%2009۔htm

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید