FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

ادبی گفتگو

 

 

 

اسلم عمادی

 

ڈاؤن لوڈ کریں

 

پی ڈی ایف فائل

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

 

کتاب کا نمونہ پڑھیں……

 

_____________مضامین

 

 

 

 

اردو شاعری میرا مرغوب موضوع رہا ہے۔

میری نگاہ میں شعر کی تنقید فن کی آمدِ مقتدی ہے۔  شعر سامع پر منحصر ہے اور تنقید شعر اور اس کے متعلقات کو سمجھنے کی کوشش ہے۔  شاعر سے یہ امید لگانا کہ وہ ناقد کی مقرر کی ہوئی حدوں اور متعین ابعاد کی پابندی کرے قطعاً نامناسب ہے۔

مستقل مضامین کا لکھنا، پھر ان کی اشاعت اس طرح کروانا کہ وہ زیادہ قارئین تک پہنچیں کہ اس طرح ردِّ عمل قیاس کیا جا سکے اردو ماحول میں ایک دشوار عمل ہے۔  معیاری رسائل اور جرائد ہیں ہی بہت کم (اور اس کمی کی بنا پر اور اردو کے تخلیق کاروں اور ادیبوں کی خاص تعداد کے وجود کی بناء پر بہت سی قابلِ مطالعہ تخلیقات اشاعت سے محروم رہ جاتی ہیں۔  پھر یہ رسائل عموماً ایک خاص حلقۂ احباب کے ترجمان بن جاتے ہیں۔  اس صورتِ حال نے ادیبوں اور شاعروں کی ہمت کو پست کر رکھا ہے۔

میں ان خوش نصیبوں میں سے ہوں جس کا ہر لکھا ہوا مضمون شائع ہوا اور لوگوں نے ان مضامین کو محسوس کیا اور ان پر تاثر بھی ظاہر کیا۔

انتخاب کے طور پر دو مضامین پیش ہیں۔

کیا ہی اچھا ہوتا کہ میرا ایک اور مضمون ’’نئی اردو شاعری کے ابعاد‘‘ بھی اس کتاب میں شریک ہوتا۔ جو اس وقت میری دسترس میں نہیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

جدید شاعری کے چند نئے موضوعات

 

جب ہم یہ کہتے ہیں کہ نئی شاعری پرانی شاعری سے مختلف ہے تو اختلاف کی وضاحت اور اس کے امتیاز کا اعلان ہو جاتا ہے۔  بہ طرزِ دیگر اس بات کا اعلان ہوتا ہے کہ نئی شاعری کے چند واضح اضلاع (Perimeters) پرانی شاعری سے مختلف ہیں۔  اب نئی شاعری نے کیا کیا تبدیلیاں پیش کیں اس کی توضیح ایک قسم کا تجزیاتی عمل ہے۔  نئی شاعری کی ابتداء کے بعد ایک وقفے تک تو اس کی نا مانوسیت، اجنبیت اور بغاوت کو نیم پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا گیا۔  لیکن ’’جو پتھر پہ پانی پڑے متصل‘‘ کے مصداق اب نئی شاعری کے علاوہ دوسری ہر شاعری ہماری نگاہ میں غیر دل چسپ اور اکتا دینے والی محسوس ہوتی ہے۔

نئی شاعری کو سمجھنے اور سمجھانے کے لیے جو کوششیں ہوئی ہیں ان میں اہم ترین کتاب وزیر آغا کی ’’اردو شاعری کا مزاج‘‘ ہے۔  کتاب کا مقصد (جیسا کہ عنوان ہے) نئی اردو شاعری کی تخلیق کرنے والے ذہن کا مطالعہ ہے۔  اس تعمیر میں کن کن سماجیاتی محاکاتی اور حیاتی عناصر کا حصہ ہے۔  گویا کہ یہ کتاب اردو نئی شاعری کے تحت شعور کا جائزہ لیتی ہے۔  اس کے بعد سب سے قابلِ ذکر مضامین افتخار جالب کے ہیں جن کا پسندیدہ موضوع ترسیل و ابلاغ کے مسائل ہیں اور اسی طرح شمس الرحمن فاروقی نے اپنے مضامین اور تبصروں میں اظہار و لفظیات کو موضوع کے مقابل میں زیادہ اہمیت دی ہے۔  نئی شاعری کے موضوعات کا ذکر یوں تو بارہا آیا ہے ان کو اہمیت کم ہی دی گئی ہے۔  یہ بات صحیح بھی ہے۔  عمیق حنفی، بشرنواز، شکیل الرحمن اور فضیل جعفری نے مختلف سمتوں میں نظریات و موضوعات ادب کو مطالعے کے لیے منتخب کیا۔  ان ادیبوں میں شکیل الرحمن کا نقطۂ نظر شاعری کے نفسیاتی رخ پر ہے اور میدان کافی تخلیقی ہے۔  عمیق حنفی کے مضامین اور تحریریں خصوصاً ’’شعلہ کی شناخت‘‘ ان کی عظیم شاعری ہی کی طرح انتہائی گہرے معنی خیز اور بسیط ہیں۔  انھوں نے حصارِ ذات، خالی پن کا احساس، سماجیاتی کشاکش کو تکرار کے ساتھ پیش کیا ہے۔  فضیل جعفری نے تنہائی کو اپنے مضامین میں خصوصی اہمیت دی ہے۔  میں ناموں کی فہرست بنانے کی بجائے نفسِ مضمون کی طرف لوٹتا ہوں۔

گرچہ ایک مدت سے یہ بات شدت سے کہی جا رہی ہے کہ نئی شاعری موضوعات کی نہیں بلکہ خالص شاعری ہے۔  اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ ذہنی یکسانیت اور کچھ حد تک تقلیدی شعور نے چند واضح موضوعات بنا ڈالے ہیں۔  ان کا ایک جائزہ پیشِ نظر ہے۔

ہر نسل جب دنیا میں وجود پاتی ہے تو اپنے آپ کو اپنے سے قبل کی نسل کے بنائے ہوئے اصولوں میں پھنسا ہوا پاتی ہے اور نئی نسل اپنے تحت الشعور میں اس نظام کو (جو موجودہے) اپنی بلاغت کے معیار پر ناپتی ہے۔  مثلاً ہم ترقی پسندوں کی شاعری کو اپنے طور پر پڑھتے ہیں تو ہم کو اس میں سیاست، ریا اور تبلیغ کا عنصر ملتا ہے اسی طرح جب کوئی ترقی پسند قدیم شاعری کو پڑھتا تھا تو اس میں لگاوٹ، بے کرداری اور بے معنویت کا رنگ پاتا تھا۔  لیکن ذرا ٹھہر کر ان صدیوں سے بھی طویل زنجیر کی طرف دیکھیے تو یہ صاف دکھائی دیتا ہے کہ تقلیدی اور مصنوعی لب و لہجہ جلد ہی رد کیا جاتا ہے۔  میں ایک ترقی پسند کی اس بات کو سچا سمجھتا ہوں کہ حسرت موہانی، بے خود دہلوی، عزیز لکھنوی، جگر مراد آبادی اور اسی قبیل کے دوسرے شاعر اپنے عصر کے ماحول میں قابلِ تردید تھے۔  اس لیے کہ وہ زمانے سے میلوں دور اپنی مستعار ذہنیت اور تہذیب کے زیرِ سایہ:

اگر نہ زہرہ جبینوں کے درمیاں گزرے

تو زندگی مری کیسے کٹے کہاں گزرے

جیسے اشعار کہہ رہے تھے، اسی طرح ترقی پسندوں کی نام نہاد آخری پود بھی بزرگوں کے مزاروں پر روشنی جلانے کا کام کر رہی تھی۔  ادب عبقریت، ندرت اور خلوص کا نام ہے مجاوری کا نہیں۔  ہماری نئی نسل اس دور میں زندہ ہوئی ہے۔  جس میں انسانی رشتوں کے نظام بے لوچ ہو چکے ہیں، انسان سب سے ہونق مشینی دور میں داخل ہو چکا ہے۔  مشینی دور سے مراد ہے ایک ایسا دور جس میں انسان ایک ضابطۂ عمل اور نظام الاوقات کا اسیر ہو گیا ہے۔  آپ ہی سوچیے کہ آپ کو اپنے دفتر جانا ہے وقت کم ہے اور ایسی صورت میں جب آپ ایک شخص کو زخمی ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں تو کیا آپ اس شخص کی مدد کے لیے اپنا دفتر چھوڑ سکتے ہیں؟ شاید نہیں! آپ پلٹ کر دیکھیں گے پھر آگے چلے جائیں گے اور اسے اس امید پر چھوڑ دیں گے کہ یہ کام (ہمدردی) دوسرے لوگ بھی کر سکتے ہیں۔  کیا آپ ظالم ہیں؟ قطعاً نہیں۔  آپ ایسا اس لیے نہیں کرتے کہ اس آدمی کی مدد کرنا آپ کے ضابطۂ عمل میں نہیں۔  ایسے لمحے میں:

آدمی ریل کی پٹریاں بن گئے

ریل کی پٹریاں آدمی بن سکیں گی کبھی

(عمیق حنفی)

یہ سطور آپ کو ذہنی فرحت بخش دیتی ہیں۔  آدمی مجبور بلکہ مقہور ہو کر رہ گیا ہے۔  تنہا اور بے یار و مددگار! تنہائی جدید شاعری کا اہم ترین نہ سہی عام ترین موضوع ہے۔  یوں تو ماضی میں بھی تنہائی غالبؔ و مومنؔ، یاسؔ اور یگانہؔ کے کلام میں عکس نما ہے۔  لیکن نئے شہر میں تنہائی کا جتنا گھنیرا سایہ ہے اس سے پہلے کبھی نہیں تھا۔  نئی شاعری کے تعین میں اکثر اس نقطے کا ذکر کیا گیا ہے بلکہ بیش تر دانش ور تنہائی کو نئی شاعری کا نقطۂ اشاعت سمجھتے ہیں۔

یہ تنہائی ذہنی، ذاتی، سماجی اور تہذیبی تنہائی ہے۔  ہر شخص بہ ذاتِ خود ایک سماج اور ایک تہذیب ہوتا ہے۔  اس کا ایک شخصی آئینہ اخلاق اور اصولِ زندگی ہوتا ہے۔  اس کے محسوسات اور جذبات اس کے اخلاق سے رنگ آمیزی کر کے اس کا ایک مختلف مقام بناتے ہیں۔  نیا شخص کھوکھلا ہے۔  اس کے اخلاق سے متاثر ہونے والا ’’دوئم‘‘ مفقود ہے۔  اس کے پوزیشن کو دوسرا شخص اتنی دلچسپی سے نہیں دیکھتا جس کا وہ خواہاں ہے۔  معاشی اور سماجی نا آسودگی، وقت اور وقت کی کم یابی، مادی انحراف اور روحانی ہیئت ہر فرد کو اپنے وجود میں تنہا کر دیتی ہیں۔  موجودہ زندگی ایک ایسی رزم گاہ ہے جس کا ہر سپاہی اپنی جان کی حفاظت کے لیے آپ لڑ رہا ہے، یہ ایک ایسا غیر منتظم مقابلہ ہے کہ اپنے خصوصیات کو واضح اور منفرد رکھنے کا امکان نایاب ہے۔

بہت سے لوگ عنوان کی روح تک تو پہنچتے نہیں لیکن اسی کو بہتر سمجھنے لگے کہ ہر غزل میں دو شعر تنہائی پر لکھ دیں۔  نظم میں تنہائی کا ذکر کر دیں۔  ظاہر ہے کہ نتیجے میں جو شاعری آئی وہ بے اصل ہے۔  اس عمل غیر صحیحہ میں ایک اچھی خاصی تعداد شریک ہے۔  تنہائی کا کرب، تنہائی کے اسمِ مبارک کو لینے سے نہیں ظاہر ہو سکتا۔  اہم بات نئے شاعروں میں نام لکھوانے کی نہیں بلکہ نئے طرز اور نئے اسلوب میں کچھ کہنے کی ہے۔  آپ رسائل میں چھپنے والے بیش تر شعرا کی تخلیقات کو بہ نظرِ جستجو پڑھیے۔  وہی باتیں، علامات اور پیکر صورت بدل بدل کر بہ تہذیب قافیہ یا بہ ترتیب ہیئت جمع ہو جاتے ہیں۔  زبان اور بیان سب معیار پر اترتے ہیں۔  لیکن ان کی حقیقت نئی شاعری میں صفر ہے۔  تنہائی کا صحرا، تنہائی کا جنگل، تنہائی کا زہر، تنہائی کا درخت، تنہائی کا گھر اور نہ جانے کیا کیا ہو گیا ہے۔  گویا تنہائی کا وہی مقام ہے جو پہلے کے شاعروں کے لیے محبوب کی جفا کا اور ترقی پسندوں کے دور میں حاکم کی جفا کا تھا۔  آپ اچھی مثالیں چاہتے ہیں لیجیے:

 

ابھی غیر دل چسپ ہو جائیں گے ہم

ابھی تم کہو گے کہ بے کار ہے گفتگو کا بہانہ

(بلراج کومل)

 

خود پہ بھی کیوں یقیں نہیں آتا

دن میں بھی خواب کے اثر میں ہوں

(ظفر غوری)

 

دیکھتے دیکھتے

نیلے پانی پہ لکھی ہوئی

چاند کے نرم ہاتھوں کی تحریر بھی مٹ گئی

تب نگاہیں جہاں تک مرے ساتھ تھیں

دوسرا کون تھا؟

کوئی بھی تو نہیں

……

……

کالے گنبد سے ٹکرا کے لوٹ آئی تو

خود مجھے اس کی صورت سے خوف آ گیا

میری بینائی گویا ئی سب مر گئی

اب فقط ایک حس ہوں سماعت ہوں میں

(بشر نواز)

 

تنہائی کا کرب فی الحقیقت مختلف جہات میں عیاں ہوتا ہے۔  کبھی یہ کرب انسان کی انفرادیت کے مسمار ہونے کا المیہ ہوتا ہے تو کبھی یہ اس کی خود فراموشی کا نغمہ ہوتا ہے۔  تنہائی چوں کہ ذہنی، سماجی اور فکری ہوتی ہے اس لیے اس کا بدنی یا جسمانی آلودگیوں سے رشتہ نہیں ہوتا ہے۔

انسان کے اندر بہ ذاتِ خود دو انسان ہوتے ہیں ایک تو اس کا مثالی شخص (Ideal person) ہوتا ہے۔  دوسرا اس کا حقیقی عکس (Real person) ہوتا ہے۔  میں اپنے لیے ذہن میں ایک خاص طرزِ وجود کو پسند کرتا ہوں۔  چاہتا ہوں کہ مجھے اس شکل میں چاہا اور پایا جائے لیکن میری چند قدرتی اور فطری خصوصیات (یا کم زوریاں) ہیں جن کا شاید مجھے پتہ بھی نہیں اور یہ کرب اس وقت مجھے اپنے پنجے میں لے لیتا ہے جب میں یہ دیکھتا ہوں کہ میرے ہم نفس مجھ سے (یعنی میرے مثالی شخص سے) دور دور رہنے کی کوشش کر رہے ہیں۔  گویا مجھے اس بات کا احتمال ہوتا ہے کہ میں بہ ذاتِ خود اپنے شخص سے دور ہوں اور میرا عکس جھوٹا ہے۔  یہ احساس فرد کو ایک طرح سے دو رخی شکل سے دوچار کر دیتا ہے پہلے رخ کی حفاظت اور دوسرے رخ کی تزئین کتنا دشوار کام ہے۔  انسان دوڑتا ہے اس گہرے سمندر کی جانب جہاں وہ اس جھوٹے چہرے کو غرق کر دے۔  وہ ایک غیر شخصی کیفیت میں ہے۔  وہ اپنے آپ کو فریب سمجھتا ہے اور سوچتا ہے کہ شاید اس کا ہر عمل ایک مسلسل اداکاری کا ایک چھوٹا سا گوشہ ہے۔  وہ غمگین ہے لیکن اس کے چہرے پر مسرت کا اشتہار چپکا ہوا ہے۔  وہ خوش ہے لیکن اس کی آنکھوں میں تعزیت کے آنسو چھلک رہے ہیں۔  وہ ماحول کا اسیر ہے۔  ایسا اسیر جو تپش اور دباؤ کے تحت اپنی حقیقی شکل کو بدل دیتا ہے اور اس گہرے Illusion کا شکار ہونے کے بعد وہ جب اپنے ’’مثالی کردا ر‘‘ کا سایہ دیکھتا ہے تو:

 

عجب سانحہ مجھ پر گزر گیا یارو

میں اپنے سائے سے کل رات ڈر گیا یارو

(شہریار)

 

یہ روحیں اس لیے چہروں سے خود کو ڈھانپے ہیں

ملے ضمیر تو الزام بے وفائی نہ دے

(وحید اختر)

 

اس سے ذرا ہٹ کر ایک ایسا لمحہ بھی آتا ہے کہ شاعر اپنی انفرادیت کو نہیں جانتا وہ دیکھتا ہے کہ تمام چہرے ایک سے ہیں۔  جذبات، تمام رنگ و روغن، تمام نظریات ٹھپ ہو گئے ہیں اور ایسے لمحے میں وہ چاہتا ہے کہ اس کو پہچانا جائے۔  انفرادیت کی شکست ذہن فرسا ہے اور تنہائی کے درد کو بڑھا دیتی ہے۔  انفرادیت کو قائم رکھنے والا ایک ایسا شخص ہے جو تیز دوڑتے ہوئے ایک بے ربط ہجوم میں بے تعلق کھڑا رہ سکے کتنا دشوار ہے اس کا تجربہ۔

زمین کا کینوس جتنا مختصر ہوتا جاتا ہے اتنا ہی انسان انفرادی تفریق کی سرحدوں کو بھولتا جاتا ہے یہاں تک کہ تمام شکلیں گڈمڈ ہو جاتی ہیں اور ان کی پہچانیں ایک دوسرے پر منطبق ہو جاتی ہیں۔  اینٹی ہیرو اور Absurd کردار اسی انتشار کی آئینہ دار ہیں۔  یہ کردار ایک نئی اور منفرد شکل کی تلاش کے لیے پیدا ہوا ہے۔  اس سیلِ رواں میں اُسے دادِ ہنر یا تمغۂ عظمت کی خواہش کی بجائے ہر شخص اپنے کو ایک جداگانہ انداز میں دیکھنا چاہتا ہے اور ایسے لمحے میں چیخ اٹھتی ہے:

 

یہ تمنا نہیں اب دادِ ہنر دے کوئی

آ کے مجھ کو مرے ہونے کی خبر دے کوئی

(خلیل الرحمن اعظمی)

 

روحوں کو دوام دینے والو

جسموں کی سبیل کچھ نکالو

شعلہ کوئی مستعار دے دو

یا لاش کو اب مزار دے دو

(عزیز قیسی)

 

آج کی زندگی میں رشتے جو کہ ٹوٹ گئے ہیں۔  لا یعنی ہیں اور اس لایعنی چیز کا ماتم وہی کر سکتا ہے جس کے سینے میں آزاد اور بے باک شعلہ ہو۔  سماجی جانور، رسوم و قیود کی چکی میں پس کر اپنے آپ کو انسانیت کا ایک بے معنی حصہ بنا چکے ہیں۔  سرمایہ داری کے خلاف احتجاج کرنے والے رہبروں نے اپنے فن کو سرمایے کے حوالے کر دیا اور سرمایہ دار بن گئے۔  یہ محض دعویٰ کرنے والے تھے۔  جدید شاعر پیغمبری کا دعویٰ نہیں کرتا وہ اپنے احتجاج کو غیر بیانیہ لیکن طاقت ور لہجے میں پیش کرتا ہے۔

یہ باتیں تو تنہائی کے بارے میں تھیں۔  دوسرا موضوع ہے ’’ذات‘‘۔  ذات کے بارے میں نئی شاعری میں مختلف تراکیب پیدا ہوئی ہیں۔  حصارِ ذات، غمِ ذات، شعلۂ ذات، صحرائے ذات وغیرہ۔  ذات ایک بہت قدیم اور فلسفیانہ عنوان ہے۔  اس کے سمجھنے کے لیے انسانی فطرت اس کی حقیقت اور اس کے اندر کی نفسیات، شکست و ریخت کا سمجھنا ضروری ہے۔  اس عنوان کی اشاعت میں عمیق حنفی نے گہرے Devotion کے ساتھ کام کیا ہے۔ یہ ایک بسیط موضوع ہے۔  اکثر مقلد چیخ چیخ کر گانے لگے کہ میں اپنی ذات سے جدا ہوں، میرے پاس ذات کا غم ہے، میں ذات کے حصار میں قید ہوں، وغیرہ وغیرہ۔  ان خرافات کا ادب سے کوئی رشتہ نہیں۔  ذات کا شعور انسان کا وہ شعور ہے جس کے ذریعے اپنے کو فنکار مرکز جان کر دائرے کھینچتا ہے۔ دائروں میں جو بھی شکلیں بنتی ہیں وہ کائنات کا نظام رکھتی ہیں۔

ذات ایک کائنات ہے جس میں تمام انبساط کی کیفیات اور غم کی نیرنگیاں پوشیدہ ہیں۔  اس کا قلندر یہ نہیں دیکھتا ہے کہ لا یا ما بات مجموعی طور پر کس جانب رکھی جا سکتی ہیں۔  منفی یا مثبت؟ وہ زندگی کی حقائق کا منکر نہیں ہوتا لیکن وہ مجازی کھلونوں سے زندگی کے حقائق کا تعلق قطع کر دیتا ہے، وہ ابدی موت کا قائل نہیں بلکہ حیات میں تزکیہ کا متلاشی ہے، وہ یہ نہیں سوچتا کہ ایک کردار اور دوسرے کردار میں کیا مکالمہ ہوتا ہے۔۔ ۔  وہ تو اس مکالمے میں اپنے رنگ کو ڈھونڈتا ہے۔

فلسفۂ ذات قطعاً نیا فلسفہ نہیں، بلکہ اس کا آفاقی فنون سے بنیادی رشتہ ہے۔  ذات کا طویل و بسیط سمندر اپنے اندر خاموش شاموں سے جاگتی ہوئی صبحوں تک چیختی ہوئی آنکھوں سے دھندلاتے ہوئے چہروں تک ہنستی ہوئی روشنی سے بے زبان اندھیروں تک ہر فاصلے کو پوشیدہ رکھتا ہے۔  انسان کو اگر ذات کا عرفان نصیب ہو تو وہ طاقت ور ترین اور دانش ور ترین ہو جاتا ہے۔

 

بیس صدیوں کا ہیولا ہو تم

آپ اپنے میں اترتی ہوں

۔۔ ۔  چپ چاپ گپھاؤں میں

۔۔ ۔  گھنے پیڑ تلے

کھوجتا رہتا ہوں، بتلاؤ کہاں کھو گئے تم۔۔۔؟

(قاضی سلیم ’’ورثہ‘‘)

 

آتا ہوں میں زمانے کی آنکھوں میں رات دن

لیکن خود اپنی نظروں سے اب تک نہاں ہوں میں

(عمیق حنفی)

 

ارتقاعِ ذات وہ مقام ہے کہ جب انسان کو خود گم شدگی میں سرور ملتا ہے وہ درد میں لذت لیتا ہے۔  اس کی زندگی میں ایسی جمالیاتی حِس داخل ہوتی ہے جو اسے سراب میں لذتِ سیرابی، خواب میں کمالِ تعبیر اور زخم میں ایقانِ زندگی عطا کرتی ہے۔  ذات کے شعلوں کی لپیٹ میں کائناتِ فکر و نظر آ جاتی ہے۔

 

دہکتے ہوئے گرم آکاش کا ایک ٹکڑا

مری انگلیوں پر مچلنے لگا ہے

ادھر گھومتے گھومتے

مرے پاؤں کے نیچے گویا زمیں رک گئی ہے

(حمید الماس ’’دوسری موت‘‘)

 

نئی شاعری کا ایک مقبولِ عام موضوع موجودہ زندگی کی بے معنویت ہے۔  موجودہ زندگی انسان کے Options یعنی پسند و ناپسند کو کوئی اہمیت نہیں دیتی اور وہ اس پر ایک نظام الاوقات نافذ کر دیتی ہے۔  یہ زندگی کا رویہ انسان پر عجیب سا دباؤ ڈالتا ہے۔

اس پابند اور منقسم زندگی کا ردِّ عمل فرد پر دو طرز سے ہوتا ہے۔  (۱) مشینیت (۲) غیر حقیقی حقائق کا احساس۔  مشینیت کا یہ عالم ہے کہ آپ کو اس بات کا یقین ہوتا ہے کہ چاہے موسم کل خوب صورت ہو یا خراب آپ کو فلاں وقت پر فلاں حالت پر رہنا ہے۔  میں نے اپنے ایک شعر میں اس بات کو یوں ادا کیا ہے:

 

کل بھی اس وقت بس یہی ہو گا

پہلے اتنا تھا اعتبار کہاں

 

دوسرا ردِّ عمل آپ پر اس وقت ہوتا ہے جب آپ کے پاس فرصت ہو اور آپ دوسروں کے سلوک اور ماحول میں بے انتہا سرد مہری محسوس کریں۔

ایک طرف تو ایسے روز و شب ہیں جن میں لوگ زندگی کو لمحہ لمحہ کر کے قتل کرتے ہیں۔  دوسری طرف ایسی زندگی ہے جو اتنی کم فرصت ہے کہ اپنے تمناؤں پر نظر کرنے کی مہلت نہیں دیتی اس بندھن میں اصلی انسان کہاں ہے؟ قدرت و فطرت سے بہرہ ور و لطف اندوز ہونے کا ذوق کس کام کا؟ ہندستان کی نئی نسل اپنے پُرکھوں کی طرف حیرت سے دیکھتی ہے کہ انھیں کتنی صاف ستھری اور غیر ژولیدہ زندگی نصیب ہوئی تھی۔  نئی زندگی ایک قید خانے میں تبدیل ہو گئی ہے۔  اختیاری اور موجود قید خانہ۔

 

بارشوں میں اس سے جا کے ملنے کی حسرت کہاں

کوکنے دو کوئلوں کو اب مجھے فرصت کہاں

(منیر نیازی)

 

پڑھتے ہیں لوگ ہجر کے لمحات میں کتاب

ہم بھی اچھالتے ہیں خرابات میں کتاب

(وقار خلیل)

 

شاید اک دن

مجھ کو دفنانے کی بھی

فرصت نہ ملے گی

میرے اپنے بیٹے کو

اور بھی غم ہیں زمانے میں

(حمید الماس)

 

نئی شاعری کا ایک اہم موضوع ’’موت‘‘ ہے۔  موت ہماری زندگی کے ان مسائل میں سے ہے جن کے خلاف ہماری ساری تاریخ جنگ کرتی رہی ہے۔  اس کو آج سے پہلے بھی اتنی ہی اہمیت تھی۔  ذوالقرنین آبِ حیات کی تلاش میں پھرتا رہا۔  بدھا نے موت کو ذریعۂ نجات قرار دیا۔  یہ موضوع اردو شاعری میں بھی اکثر زیرِ بحث رہا۔  دو عمدہ اشعار ہیں۔

 

مرگ اک ماندگی کا وقفہ ہے

یعنی آگے چلیں گے دم لے کر

میرؔ

 

زندگی کیا ہے عناصر میں ظہورِ ترتیب

موت کیا ہے ان ہی اجزا کا پریشان ہونا

چکبستؔ

 

لیکن قدیم طرزِ فکر میں سنجیدگی، اطمینان اور فلسفہ طرازی تھی۔  غالباً یہ اس معاشرے کی کامل پسندی اور غیر جذباتیت کا نتیجہ تھی۔  نیا شاعر جس ماحول میں ہے وہ جذباتیت کا خواہاں ہے۔  سکون و خموش گزاری موجودہ زندگی میں عنقا ہو گئے ہیں۔  موت کے موضوع نے گذشتہ ۲۵ برسوں میں عالمی ادب پر قبضہ کر لیا ہے غالباً اس کی وجہ سائنسی بغاوتوں، اصولی نظریات اور مذہبی آزادی کے مقابل موت کی فصیل سخت کی ثابت قدمی ہے۔  موت کے موضوع کے دو رخ ہیں۔

(۱)     موت سے خوف (۲)    موت سے عشق

موت سے خوف زدہ لوگ وہ ہیں جو زندگی کی علامات سے متنفر نہیں ہیں لیکن زندگی سے پیار بھی نہیں کرتے انھیں صرف اس بات کا خوف ہے کہ کہیں یہ رہی سہی علامات بھی ختم نہ ہو جائیں۔  دوسری جانب موت ہماری زندگی کا ایک عجیب و غریب لمحۂ انبساط ہے جب ہم دنیا و مافیہا کی نیاز مندیوں سے بے نیاز ہو جاتے ہیں۔  دنیا کی کشاکش، روز و شب کے فتنہ و فساد، معصومیت کی شکست ہمیں جس ذہنی کوفت اور سانسوں پر پڑے ہوئے جس بوجھ سے دوچار کرتی ہیں۔  ان سے ہم موت کے دامن میں چھپ کر فرار حاصل کر سکتے ہیں۔ ن۔ م۔  راشدؔ کی نظم ’’دریچے کے قریب‘‘ ہو یا عمیق حنفی کی ’’موت کے لیے ایک نظم‘‘ یا شمس الرحمن فاروقی کی ’’مناجات‘‘۔  ان سب کے پیچھے انسان کا بنیادی جذبہ حریت ہے۔ جو مریضانہ ذہنیت والوں کی نگاہ میں ’’فراریت‘‘ کے بد مزہ سے نام کے تحت پہچانا جاتا ہے۔  قدیم شاعری کے متصوفانہ سرمائے میں بھی موت ایک مرتکز نقطۂ انبساط ہے۔  فنائیت، عرفان، مکتی اور کثرت سے وحدت کی طرف رجوع غالباً موت ہی کے عشق کی علامتیں ہیں۔  جدید شاعر موت کو ایک بسیط معنی میں استعمال کرتا ہے۔  چند مثالیں لیجیے۔

 

زمستاں میں تمازت کے جزیرے میں بناؤں گا

اگر چہ اس حسیں لمحے میں بھی

چاروں طرف آواز ہو گی

موت کی آواز

لاکھوں صورتوں میں

اور ہم سب کو ڈرائے گی

ہمیں ہر روشنی سے جانبِ ظلمت بلائے گی

…… بلراج کومل (جزیرے)

 

میں عکسِ آرزو تھا ہوا لے گئی مجھے

زندانِ آب و گل سے چھڑا لے گئی مجھے

زیب غوری

کن حرفوں میں جان ہے میری

کن لفظوں پر دم نکلے گا

سوچ رہا ہوں

ابجد ساری یاد ہے مجھ کو

لیکن اس سے کیا ہوتا ہے

…… سلیمان اریب (آخری لفظ پہلی آواز)

 

موت کے بعد جدید شاعری کا ایک عام عنوان ’’مستعمل اقدار سے اختلاف‘‘ ہے۔  جدید شاعر زندگی کے کسی بنے ہوئے رسمی معیارِ زندگی سے اتفاق نہیں کرتا۔  یہ کہنا غلط ہے کہ اقدار ٹوٹ گئی ہیں یا رسوم ختم ہو گئی ہیں۔  ہاں وہ نئے ماحول میں اپنے آپ کو ایڈجسٹ کر رہی ہیں۔  مثلاً کل کی عیدیں آج چاہے کتنی ہی عجیب لگیں کل کے عوام کے لیے مسرت کا سرچشمہ تھیں۔  آج پھر ہم نے چند عیدیں بنالی ہیں اور اجتماعی مسرت کا حصول کرتے ہیں۔  اندازِ فکر اور Approach کی یہی یکسانیت شاعر کو منغض کر دیتی ہیں، جب ہم نئی دنیا بساتے ہیں تو اپنے آپ کو نئے اصول بنا کر دوبارہ کیوں مقید کر لیتے ہیں۔  نیا شاعر اس تنظیم Establishment کو شک و شبہ کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔  عموماً اس رجحان کو تشکیک پسندی کا عجیب و غریب نام دیا جاتا ہے۔  اس ضمن میں وہ دو رجحانات چل پڑے ہیں۔  ایک رجحان تشدد پسند ہے اور بنیادی اوامر سے بھی بے زار ہے۔  وہ دوسرا رجحان معتدل ردِّ عمل کی صورت میں ہے۔

یہاں یہ بات بھی دیکھنے کی ہے کہ یہ بغاوت صرف آئینہ پیش کرتی ہے یا عکس کے ہاتھ میں ہتھیار بھی دیتی ہے۔  میں نے محسوس کیا ہے کہ نیا شاعر Inert (خاموش) بغاوت کا عادی ہے۔  وہ بدترین مناظر کو پیش کرتا ہے، اس کے جسم پر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔  لیکن اس میں مشورہ دینے کی ہمت نہیں ہے۔

موجودہ معاشرہ ایک تعمیمی انتشار سے گزر رہا ہے۔  تعمیمی انتشار سے مراد موجودہ سماجی فلسفوں کی تعمیمی کیفیت کا انتشار ہے۔  ہوتا یہ ہے کہ سماجی فلسفی ایک خاص حل تلاش کرتا ہے۔  جس سے کہ عالم کا ارتقاء ہو۔  ظاہر ہے کہ یہ ایک معمولی یا غیر معمولی سی شخصی کوشش ہوتی ہے جس کو وہ منطق کی (جو صریح بھی ہو سکتی ہے غیر صریح بھی) مدد سے ہر مسئلے کا حل قرار دیتا ہے۔  مثلاً مارکس کی معاشی معاشرہ گاندھی کی روزانہ معاشرت اور رادھا کرشنن کی ویدک معاشرت۔

میرا تجزیہ یہ ہے کہ ایسے حل کسی کو خوش نہیں کر سکتے۔  نہ غریب خوش نہ امیر خوش۔  اسی طرح ہماری ذہنی تربیت ایک بد تہذیبی کی علامت ہے۔  ہم ایک ہی نگاہ میں دو مخالف طرزِ فکر کی تعریف کرتے ہیں۔  اس رویے کو نام نہاد روا داری کہا جاتا ہے۔  ایسی بد تہذیبی ہمارے نوجوان کو خلفشار سے دوچار کرتی ہے۔  وہ ہر اصول کو اپنے طور پر رد کرتا ہے۔  رد اس لیے کرتا ہے کہ وہ ساری زندگی تمنائی ہے۔  وہ اقدار کی الجھنوں سے ایک ایسے شخص کی طرح نکلتا ہے جو غرقابی سے نکل کر سانس لینے کی کوشش کرے نیا شاعر اس ماحول میں شریک ہو کر بھی Selective یعنی تخصیص پسند ہے۔  ان رجحانات کے پیشِ نظر دو طرزوں کی شاعری پیدا ہوئی۔  دونوں ہی قابلِ قدر ہیں۔

 

ہڈیاں گوشت کے خوب صورت غلافوں میں

پھر سے لپٹنے لگیں

زندہ رہنے کا ہر فلسفہ

نیند کی کھائی میں کھو گیا

…… حسن فرخ (کل برہنہ ملی تھی مجھے)

 

سلاسل بہ پا روحِ انسانیت ہے

اٹھاؤ یہ تابوت آداب و قدغن

جلا دو یہ اوراقِ فکرِ پریشاں

سعیر و سقر کی نمائندہ سوچیں

مرے درد کا کیا مداوا کریں گی

کہاں قدسیانِ خلوص و وفا ہیں

ازل تا ابد ہاویہ ہاویہ ہوں

ازل تا ابد ہاویہ ہاویہ ہوں

…… صہبا وحید (ہاویہ)

 

معبدوں کے چراغوں میں روغن نہیں

آج ایمان کا کوئی مسکن نہیں۔۔ ۔ !

…… عمیق حنفی

 

تجویز ہو رہی ہے دبا دیا جائے

مزاج کی رونقیں نفاست وسیلے قانون صاف ستھرا رکھیں کے

بنجر قدیم ذرے گلو و گفتار میلے کرتے رہے ہیں، فٹ پاتھ

منضبط شہری زندگی کے علامیے کنکریٹ روشن

…… افتخار جالب (نفیس لا مرکزیتِ اظہار)

 

ایک اور رجحان ہے جو ہماری زندگی سے قریب ترین ہے۔  وہ ہے انسانیت سے محبت۔  عجیب بات ہے کہ جدید شاعری میں جس خلوص کے ساتھ انسانی مسائل کو سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے وہ اس سے پہلے کبھی نہیں کی گئی تھی۔

ترقی پسند شاعری میں انسانی نفسیات، معصوم لمحوں کی گرفتاری اور سادگی کے بجائے مواد اور طرزِ اظہار کو اہمیت دی جاتی رہی۔  شاعری مصنوعی کرداروں کے سہارے چلتی اور شاعری کے سوچتے سمجھتے Steps پر قدم بہ قدم ختم ہوتی ہے۔  مزدور کے پسینے کی تعریف کے لیے کوہِ نور سے کوہِ طور تک کی ہر مثال شان و شوکت کے ساتھ روندی جاتی ہے۔  ظاہر ہے کہ پیشوا واعظ لفاظ زیادہ ہوتا ہے حساس کم۔

نیا شاعر جس کرب کو اپنے سینے میں اتار لیتا ہے۔  اسے اپنی ذات، اپنی نفسیات اور اپنے شعور کے محور میں ایک آزاد انداز سے رنگ دیتا ہے۔  وہ کینوس پر اپنا پسندیدہ رنگ لگاتا ہے۔  لیکن وہ رنگ کے لیے کسی Color Code رنگوں کے ضابطے کا اسیر نہیں بننا چاہتا۔

ستم زدگی، خوف زدگی، توہم اور ظلم سے انسان آزاد نہیں ہو سکتا۔  یہ ایک مفروضہ نہیں بلکہ حقیقت ہے۔  اسی لیے درجات، طبقات اور نا آسودگی کرب کو نئے ماحول میں کچھ زیادہ ہی خوف ناک صورت حاصل ہو گئی ہے۔  تباہ کاریاں، فسادات، قتل و غارت گری کے نئے حربے، سیاسی انتشار اور بڑھتی ہوئی لا مرکزیت انسان کو غیر فطری طور پر درندہ صفت بناتے جا رہے ہیں۔

نیا شاعر اس درندگی کو ذاتی شراکت سے محسوس کرتا ہے۔  وہ ایک پگھلتے ہوئے پتھر کی طرح ہے جو بے انتہا حرارت میں ڈال دیا گیا ہو۔  وہ انسان کی انسانیت سے مایوس نہیں، بلکہ انسان کی بدلتی ہوئی ہیئت سے پریشان ہے کہیں اس کے خون میں زہر تو نہیں سما گیا ہے۔  وہ چلتے ہوئے اندھے ہتھیار کی طرح تو نہیں ہے۔

وہ انسان کو ایک ویرانے میں اگے ہوئے پودے کی طرح پاتا ہے جس پر زندگی کے المیے گرم ریگستانی ہوا کی طرح گزرتے ہیں۔  اس کی آنکھوں میں ان بے گناہ قیدیوں کے لیے آنسو ہے جو سیاسی حکمرانوں کا شکار ہو گئے ہیں۔  اس کے ہونٹوں پر ان معصوم بچوں کے لیے آہ ہے جنھیں چیر کر کنوؤں میں پھینک دیا گیا۔  اس کا ما تھا ان کے بارے میں سوچ کر پسینے سے تر ہو جاتا ہے جن کو پیدا ہونے سے موت تک دھماکوں اور حملوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔  وہ ان غموں کو اپنے آپ میں حل کر لیتا ہے۔ پھر وہی کہتا ہے جو وہ اپنے آپ کو کردار بنا کر کہے۔  گویا اس کے تاثرات خالص بر خود انداز ہوتے ہیں۔  نئی شاعری گھناؤنے ماحول کے خلاف احتجاج کرتی ہے۔  وہ انسانوں کو مشین، آواز اور دھوئیں سے بھرے ہوئے معاشرہ، حیوانی کھردرے پن اور ذہنی ہیجان سے آزاد کرانے کے لیے متحرک رہتی ہے۔

غیر مستقیم طور پر انسانی کرب کچھ اور ہی رنگ لاتا ہے۔

 

تو اے نیک دل لڑکیو۔۔ ۔  الوداع!

یاد رکھنا، ہماری حقیقت سے گزرو تو آنسو بہا کر دعا مانگنا

قیدیوں، شاعروں اور محکوم آبادیوں کے لیے

اور بیمار بچوں کی ماں کے لیے

اور اس کے لیے جو تمھارے بدن کا مسافر ہے لیکن

ہمارے سفر کی شہادت ہے۔۔ ۔ !

…… عباس اطہر (نیک دل لڑکیو!)

 

جرب بھی سگرٹ نئی جلاتا ہوں

شہرِ مرحوم یاد آتا ہے۔۔ ۔ !

…… عادل منصوری (احمد آباد)

 

ہر ایک شاخ برہنہ ہے سر پہ سورج ہے

کبوتر اڑ کے بھی آیا تو کس پہ بیٹھے گا

…… فاروق شفق

 

اور ساقی فاروقی، اریب، عمیق حنفی، بشر نواز وغیرہ کی شاعری میں ایسی مثالیں فراواں ہیں۔

شاعری کے لیے یہ موضوعات نئے تو نہیں لگتے۔  ویسے ہمیں موضوعاتی شاعری کرنی بھی نہیں چاہیے۔  شاعری کے میدان میں مقابلہ اور موضوعات کو بہتر طور پر ادا کرنے کے لیے ہاتھ پاؤں مارنے کا سوال نہیں، طرحی مشاعرہ کا ماحول نہیں۔  لیکن کہیں ہمارے پاس بازگشت ہی تو نہیں رہ گئی، کہیں ہم تقلیدی ہی تو نہیں ہوتے جا رہے ہیں۔  کہیں ہمارے پاس انوکھا پن ہی باقی نہ رہا، شاید یہ ہمیں ایک بار پھر سوچنا پڑے گا؟

٭٭٭

 

 

 

 

 

فنِ شعر اور ترسیل

 

فنِ لطیف انسانی جذبات اور آرٹسٹک حسیت کے اظہار کا واسطہ ہے، اسی لیے اس کا تعلق جمالیات اور جذبات سے ہے۔  ہر فن کار کچھ نہ کچھ کہنا چاہتا ہے اور ہر کہنے والا اپنے سننے والے تک پہنچنا چاہتا ہے۔  اب یہ فن کار کا نجی فیصلہ ہے کہ وہ کس سے، کس طرح سے، کہنا چاہتا ہے اور اس فیصلے کا رشتہ اس کی ’’عبقریت‘‘ اور اس کے رجحان سے ہے۔  میں عبقریت کو پہلی اہمیت دوں گا کیوں کہ آپ فیض سے یہ امید نہیں کر سکتے کہ وہ راشد کے انداز کی شاعری کر سکیں اور نہ ہی افتخار جالب، احمد فراز کی طرح غزل کہہ سکتے ہیں۔  گویا یہ بات معتبر ہے کہ شعری صلاحیت چوں کہ آورد کی بجائے آمد سے متعلق ہے، اس لیے شاعر کے مکمل قابو میں نہیں آ سکتی اور ریاضِ سخن کچھ حد تک شعری پختگی تو پیدا کر سکتا ہے لیکن بنیادی صلاحیت کو نہیں بدل سکتا۔  میں نے دوسری اہمیت شاعر کے نظریے کو دی ہے کہ شاعر کس رجحان یا تحریک سے متاثر ہے؟ یہ بہت حد تک اس کی ترسیل کی زمین کا تعین کر سکتا ہے۔  مثلاً اقبال نے اپنے رویے کے تحت (بالخصوص دوسرے اور تیسرے ادوار میں) ارادتاً خطیبانہ لب و لہجہ اور مرعوب کن لفظیات کا انتخاب کیا۔  اقبال چاہتے تھے کہ ان کے اشعار کو سننے والا ان سے مرعوب ہو اور ان کے استدلال سے اخلاقی فوائد حاصل کرے۔

ان باتوں سے آپ یہ سمجھیں گے کہ میں واضح شعری رویے کی وکالت کر رہا ہوں۔  لیکن معاملہ کچھ اور ہے۔  شعری اظہار کے لیے یہ لازم ہے کہ جس بات کو جس ارتکاز سے پیش کرنا ہو اسی ارتکاز سے پیشِ نظر ہو۔  شعرا نے بلکہ فن کاروں نے اسی لیے اپنا اپنا ایک منفرد رویہ منتخب کیا جو شاعر موضوعات کی کمی بلکہ موضوعات کے محدود ہونے سے اپنے جذبات کو صاف طور سے بیان نہیں کر سکتا تھا اس نے فن کی جگہ ہنر کو اہمیت دی۔  شعر میں صنائع، بدائع، فصاحت، بلاغت، لفاظی اور ترتیب و ترکیب نے اہمیت حاصل کی۔  چند شعرا نے زبان کو محض ایک واسطے کی طرح استعمال کیا جو اس کے افکار کو بیّن طور سے منعطف کرے۔  یہ پہلا لب و لہجہ تھا۔  دوسرے تجربے میں اس واسطہ کو مختلف واسطوں میں یا ایک واسطہ میں (جس میں کئی سطحیں ہوں) تبدیل کیا گیا اور اس طرح زبان میں تراکیب، اصطلاحات اور تجربات کے Shades پیدا ہو گئے۔  اردو شاعری خوش قسمت ہے کہ اس کی ابتدا ان دونوں ادوار سے آگے ’’تشبیہہ و استعارہ‘‘ کے ماحول میں ہوئی۔  تشبیہہ اور استعارہ دونوں قابلِ شعر موضوعات میں تحدید کے سبب ان احساسات کی ترسیل میں، جو بطنِ شاعر سے اظہار کی جانب مائل ہوں، پیش کرنے کا مروجہ حل ہیں۔  گلزارِ نسیم میں استعارات کا استعمال اور اس طرح کہ سماجی طور پر مقبول لب و لہجے سے انحراف نہ ہو ایک کامیاب تجربے کی مثال ہے۔

ان تجربات اور کوششوں کی ترقی یافتہ شکلیں Abstract اور علامتی وسیلۂ اظہار، ارادی ابہام اور پنکچویشن سے معمور شاعری ہے۔

جب ہم ترسیل کی ہی بات کرتے ہیں تو پہلے یہ بات قابلِ غور ہے کہ فنِ شعر ترسیل میں کس حد تک کامیاب ہو سکتا ہے۔  یہ بات مانی ہوئی ہے کہ الفاظ افکار و جذبات کے اظہار کے لیے کمزور وسیلہ ہیں کیوں کہ بہ ذاتِ خود الفاظ کو سمجھنے والی دنیا مختصر ہوتی ہے۔  جذبات درونی کرب خلش اور نشاط جیسے احساسات سے متعلق ہوتے ہیں اور یہ احساسات مختلف حسی سطحوں پر مختلف ارتکاز میں ملتے ہیں۔  الفاظ سراسر حرفی تنظیم پر منحصر ہوتے ہیں اور کوئی بھی زبان اپنی لفظیات کے ذریعے ان احساسات اور ان کے تفاعل کو مکمل ارتکاز کی کیفیت میں پیش نہیں کر پاتی۔  اسی طرح رہ فن لطیف مصوری ہو، موسیقی ہو یا رقص اپنے طور پر محدود ہے۔  میں ان تمام فنون میں فنِ مصوری کو اظہار کا بہترین وسیلہ مانتا ہوں۔  مصور کی زبان Shades میں ہوتی ہے اور رنگوں کا تعلق قوتِ باصرہ سے ہوتا ہے۔  ہم پابلو پکاسو کی یا وینشی کی بنائی ہوئی تصاویر کو بلا کسی ترجمہ یا تفسیر کے سمجھ سکتے ہیں (اگر ہماری فنی بصیرت میں یہ صلاحیت ہو تو) اس کے برخلاف ہومر کی اوڈیسی کو سمجھنے کے لیے اس کی زبان کو اور اس کے پس منظر کو سمجھنا (وہ پس منظر جس میں اوڈیسی لکھی گئی ہے) سخت ضروری ہے۔  اس بات کو ذرا ہٹ کر یوں کہا جا سکتا ہے کہ غالب کے اشعار سے صحیح طور پر اسی وقت بصیرت افروز ہو سکتے ہیں جب ہم اپنے آپ میں غالب کی زبان کو سمجھنے کی صلاحیت رکھیں اور ہم میں وہ لفظی شناخت بھی ہو۔  اس کے علاوہ غالب نے کس شعر کو کس ماحول اور کیفیت میں نظم کیا، اگر یہ بھی ہماری نظر کے دائرے میں ہو، تو شعری ترسیل مکمل ہو جاتی ہے۔  اس کے برخلاف مصوری کا پس منظر رنگوں کے امتزاج میں ہوتا ہے۔  اگر ہم رنگوں کے امتزاج و انتخاب کی ترکیب کو سمجھ سکیں تو مصوری کی کہی ہوئی بات یا کیفیت واضح طور پر سمجھ سکتے ہیں۔  اس کا کرب و نشاط ایک ان کہے جذبے کی طرح ہمارے ذہن پر مرتب ہو سکتا ہے۔ افکار کا ٹکراؤ اور ان کے مختلف اجزا کا ترکیبی فیوژن اور انجذاب ذہن کے کسی نامعلوم گوشے میں نشاط و کرب کی کیفیات سے مرتب ہو کر شاعر یا فنکار کو اظہار کے لیے اکساتے ہیں۔  اظہار کے لیے لفظ بہت حد تک مقبولِ عام واسطہ ہے۔  الفاظ سے ہی اظہار کی سرحد شروع ہو جاتی ہے اور ایک عام کم تر حسیت والے شخص کے لیے الفاظ کی سراسر ترتیب ہی کافی ہے۔  اس سراسر ترتیب نے ایک زمانے میں کلام کے حسن کا درجہ حاصل کر لیا تھا۔  کیوں کہ اس سادہ لب ولہجے میں سہولت بھی تھی اور الفاظ کے ہلکے پھلکے الٹ پھیر کو مستحسن سمجھا جانے لگا تھا۔  اس لیے شاعری کا معیار کوئی ۵۰، ۶۰ برسوں تک اس ڈگر پر جا کر اٹک گیا تھا۔

اس کے باوجود قوی صلاحیت والے ادیب کے لیے الفاظ ابلاغ کے لیے ایک ترقی یافتہ آلہ ہیں اور اس لیے الفاظ کو محدود کرنا الفاظ کی ترتیب کے لیے سخت قواعد کا نافذ کرنا کچھ حد تک معیوب ہے، ہاں الفاظ کو جن مفروضوں پر تشکیل کیا گیا ہے، انھیں ایک اصول بنا کر پیشِ نظر رکھنا اور بات ہے۔

’’ہزارہا شجر سایہ دار راہ میں ہے‘‘

میں ’’ہے‘‘ اور ’’ہیں‘‘ کی بحث اسی کٹر قواعد پرستی کا نتیجہ ہے۔

جدید شاعر اعجاز احمد نے کسی امریکن شاعر کے کلام کے ترجمے و تعارف میں کہا ہے کہ امریکن شعر و سخن میں پنکچویشن کو ممتاز مقام حاصل ہے جب کہ اردو میں پنکچویشن ابھی نہ ہونے کے برابر ہیں۔  اس کا سبب وہی ہے کہ نہ زبان کی بنیادی نمی اس کی اجازت دیتی ہے، نہ اہلِ قواعد نے ہی جماہی لینے کے لیے منھ کھولنے کی اجازت دی، گنتی کے چند نام ہیں اور وہ بھی برائے نام۔

الفاظ سے دو قدم آگے لفظیات کا سلسلہ شروع ہوتا ہے، جہاں زیادہ محنت کیے بغیر الفاظ کو نت نئے طریقوں سے اور یہ طریقے بھی سراسر فن کارانہ ہوتے ہیں ترتیب دیتے ہیں یہ گویا الفاظ کو الفاظ سے کھنکا کر با آواز کرنے کی کوشش ہے۔

اردو کے بیش تر شاعروں نے مثلاً قدیم دور میں غالب وسطی دور میں اقبال اور جدید وسطی دور میں ن۔ م۔  راشد نے رہ رہ کر یوں محسوس کیا کہ اردو کی لغت ان کے جذبات اور افکار کے اظہار کے لیے ناکافی ہے۔ انھوں نے زبان کی سرحدوں کو پارکر کے غیر زبانوں سے الفاظ سے پرے ہے ان کی ترتیب اور ان کی تفاعلی شکلوں میں ’’پوشیدہ اور الجھی ہوئی کیفیت‘‘ کا ہم وزن بیان بنانے میں شعری عبقریت کا اظہار ہے۔  ایسا بیان یا شعری فن پارہ شعری حسیت کے مرتکز تر لمحہ میں شاعر خود کہہ اٹھتا ہے۔  غالبؔ نے کئی مواقع پر اس سرحد کو پار کیا ہے مثلاً:

 

ہو گئے ہیں جمع اجزائے نگاہِ آفتاب

ذرے اس کے گھر کی دیواروں کے روزن میں نہیں

 

ہر اک قطرہ کا دعویٰ ہے انا البحر

ہم اس کے ہیں ہمارا پوچھنا کیا

 

پرتوِ خور سے ہے شبنم کو فنا کی تعلیم

ہم بھی ہیں ایک عنایت کی نظر ہونے تک

 

مثال کے تینوں اشعار میں جداگانہ کیفیات کا اظہار ہے۔  لیکن شاعر نے ان اشعار میں کسی خاص قابلِ ذکر لفظ کا استعمال نہیں کیا ہے جو عام لغت میں انوکھا یا نوادر ہو، لیکن مستعملہ الفاظ سے شاعر لفظی نقوش اس طرح ابھار دیا ہے کہ ترسیل بہ حسنِ فن کاری منشرح ہوتی ہے اور یہ مت بھولیے کہ ترسیل کے لیے شرطِ اولین سخن فہمی ہے با ذوق سخن فہمی، اگر سخن فہمی کا (بلکہ ذوق کا) درجہ ہی کم تر ہو تو ساری بحث ہی بے کار ہے چوں کہ اس مضمون کا موضوع شاعری اور ترسیل سے متعلق ہے۔  اس لیے میں فرض کرتا ہوں کہ شاعری کا قاری / سامع با ذوق ہے اور اس میں کوئی فنی کھوٹ نہیں۔  اگر اس مفروضے کو پیشِ نظر نہ رکھا جائے تو با ذوق قاری / سامع کی خصوصیات و لازمات پر بحث ہو گی اور ایسی صورت میں شاعری اور ترسیل کو کامل فرض کرنا ہو گا۔  فی الوقت مفروضہ اول پیشِ نظر ہے۔

ترسیل اور شاعری کے عنوان پر بحث کرتے ہوئے آپ خود بہ خود اس مقام پر آ جاتے ہیں جہاں آپ کو ترسیل کے نقطہ نظر سے شعر کے مقصد کو سمجھنے کی ضرورت پڑتی ہے۔  یہ امتیاز بھی لازم ہے کہ آپ کے زیرِ بحث ترسیل کے نقطہ نظر سے بیان یا نثری گفتگو، فنی نثر نہیں بلکہ شعر ہے اور شعر بہ ذاتِ خود سراسر ترسیل کی بجائے ایک لفظی فن پارہ ہے۔  اس لیے شعر کی ترسیل کی کیفیت جدا ہے۔  اس کے لیے کسی اچھی شعری تخلیق کو مثال کے طور پر دماغ میں لائیے۔  مرسل بہ کی نظر میں وہی شعر مناسب ہوتا ہے جو اس کی ذہنی کیفیت سے قریب تر ہو۔  اس کے باوجود مرسل بہ کی خواہش ہوتی ہے کہ ایک نا آفریدہ فضا میں پہنچ جائے اور کچھ ایسے اس پر افکار کا انکشاف ہو کہ وہ کچھ لمحے کے لیے یا بلکہ بعض اوقات کچھ عرصہ تک اس جادو بیانی سے مسحور اور متاثر رہ سکے۔  لیکن یہ کیفیت اتنی مبالغہ آمیز، اضطراب کن اور مصنوعی نہ ہو کہ اس پر فحش، بے تکے اور جھوٹے ہونے کا گمان گذرے۔  ترسیلِ شعر کا مقصد خوابوں کی فصل بونا بھی نہیں ہے اور نہ ہی یہ صحافتی زبان کا تماشا ہے۔  زبان اور اندازِ ترسیل ایسے ہوں کہ شعر کے اندر چھپے ہوئے افکار کسی نادر انداز میں جھلکیں اور فن کاری کی رعنائی محسوس ہو۔

رعنائی کا لفظ آتے ہی یہ بتا دینا ضروری ہے کہ شیریں زبان جس میں گھسے پٹے، بلکہ چکنے الفاظ معروف تراکیب میں مشاطگی سے سنوار کر شاعری میں اگر جمع کر بھی دیے جائیں تو کوئی فنی حسن پیدا نہیں ہوتا۔  مرسل بہ کو صرف ایک چھوٹے سے پل کے لیے کچھ لذت ملے گی اور بس۔

شیریں لب و لہجہ جہاں کرافٹنگ کی پیداوار ہو سکتا ہے وہیں ایک خاص نیم رومانی یا رومانی مزاج کی پیداوار بھی ہو سکتا ہے۔ شیریں کرافٹنگ کے پیشِ نظر ایک نرگسی جذبۂ ترسیل ہوتا ہے اور یہ جذبۂ ترسیل محبوبیت کے حرص کی وجہ سے پروان پاتا ہے۔  اس لب و لہجے کا شائق شاعر بڑی افسانوی فضا پیدا کرتا ہے اور میٹھے زبان زد اور عجمیت زدہ عمومی الفاظ کو جوہری کی طرح جوڑتا ہے (پرانی ترکیب ہے ’’درسفتن و گہر سفتن‘‘) اور پھر ساحرانہ طور پر ایک نظم یا غزل یا شعر پیش کرتا ہے۔  جو ایک جڑاؤ زیور کی طرح چمک دار ہوتا ہے / ہوتی ہے۔  حاصل صرف ایک عیش پسندانہ فکر ہے۔  خوب صورت، خوش نما، سجاوٹ سے آراستہ اور دل فریب تراکیب عمدہ فکر، مرتکز اظہار و مناسب تناؤ کا بدل نہیں بلکہ غیر ضروری مصنوعیت اور لفاظی اصل کرب یا نشاط یا تصور کے ابلاغ میں حارج ہو جاتی ہے۔  دکھ بھری بات کا اظہار کچھ اس طرح ہو جاتا ہے کہ لفظی رعنائی درد کی چبھن کو محسوس نہیں ہونے دیتی۔  بعض اوقات شیریں تخلیقات مشاعراتی اور محفلی فضا میں ناموری کی سوغاتیں بھی حاصل کر لیتی ہیں۔  جی میں آتا ہے کہ ایسے شیریں اور ہنرمند لب و لہجہ کی دو تین مثالیں دے ہی دوں۔

 

گلوں میں رنگ بھرے بادِ نو بہار چلے

چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے

فیضؔ

 

ہم سے بھاگا نہ کرو دور غزالوں کی طرح

ہم نے چاہا ہے تمھیں چاہنے والوں کی طرح

جاں نثار اختر

 

پلکیں نیندوں کے چنور آنکھیں شبستاں کے چراغ

سخنِ نیم لبی مشک کے جھونکے جیسے!

شاذ تمکنت

 

شیریں لب و لہجے کی ضد کرخت اور نامانوس رویہ ہے، چند شاعر ندرت اور جدت کی تلاش میں اس رہ گذر پر گامزن ہو جاتے ہیں جتنی (کبھی) اَن دیکھی (کبھی) کرخت زبان استعمال میں آئے اتنا ہی شعری ترسیل میں انھیں رعنائی محسوس ہوتی ہے۔۔ ۔  گویا یہ رویہ بھی اضطراری اور وجدانی نہیں بلکہ ایک قسم کی کرافٹنگ ہے۔ اس لیے کہ مقصود انداز میں شاعر ایک غیر مروجہ طرزِ بیان کا انتخاب کرتا ہے اور کبھی کبھی ایک اجنبی فارم میں بھی کچھ کہتا ہے۔  یہ دونوں صورتیں یعنی مجہول بیان اور نا مانوس فارم ارادتی ہیں۔  ایک طرف تو یہ ’’اکھاڑے بازی‘‘ کا کھیل ہے تو دوسری طرف طرزِ نو قائم کرنے کی ہوس۔  مثالیں لیجیے۔

 

نالہ جب دل سے چلا سینے میں پھوڑا اٹکا

 

چلتی گاڑی میں دیا عشق نے روڑا اٹکا

ذوقؔ

اینٹوں کی سلطنت میں بلاتا اسے کہاں؟

 

آتا وہ اس طرف تو بٹھانا اسے کہاں؟

عتیق اللہ

بھینس دلدل میں اتر جائے تو تشبیہہ بنے

 

؟؟

 

مکھیاں اڑتی ہیں جذبات کا آہنگ لیے

 

مکھیاں اڑتی ہیں خوابوں کا نیار نگ لیے

عادل منصوری

نئے پن اور جدت کی تلاش میں کچھ شاعر ایک نئی دنیا کے ساحلوں پر پہنچے اور وہ یہ تھا کہ جس قدر شاعری میں معافی عنقا ہوں اتنی ہی کامیاب شعریت ہو گی گویا ترسیل کی ناکامی بھی ایک ہنر ہے۔  یہاں سوال ارادی اور وجدانی ترسیل کا بھی آ جاتا ہے۔  ترسیل چوں کہ آلۂ اظہار ہے اور جیسا کہ میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں اس کا نظام الفاظ، ڈکشن، انداز اور رویے وغیرہ پر مبنی ہے۔  اس لیے اس کی سراسر کامیابی جہاں اسے غیرفن کارانہ اور صحافتی بنا دیتی ہے وہیں اس کی سراسر ناکامی لغویت ہے گویا ابہام کی ایک مناسب شکل فن میں موجود ہی ہوتی ہے۔  لیکن ابہام کو ہنر سمجھ کر اس پر شاعری کو مرکوز کرنا کس قدر روا ہے؟ سوالیہ نشان ہے!

کسی نظم یا شعر کو محض لغو کہہ کر یا مہمل کہہ کر رد بھی نہیں کیا جا سکتا۔  اگر شاعر کے خلوصِ فن پر اعتماد ہو تو۔  اہمال کے مسئلے پر شمیم حنفی نے اپنے مضمون ’’اہمال کی منطق‘‘ میں خوب بحث کی ہے۔

ابہام اور اہمال کے درمیان اتنا نازک فرق ہے کہ کوئی قاری، سامع یا ناقد کسی بھی فن پارے کو سراسر طور پر جھٹلا نہیں سکتا۔  ہر عہد کے لحاظ سے ادبی حلقوں میں جس قسم کے شعری حصے لغو مانے گئے ان کی مثالیں کچھ یوں ہیں۔

 

عہدِ اول:

وارستگی بہانۂ بے گانگی نہیں

اپنے سے کر نہ غیر سے وحشت ہی کیوں نہ ہو

غالبؔ

 

عہدِ دوم:

اے مری ہم رقص مجھ کو تھام لے

رقص کی یہ گردشیں

ایک مبہم آسیا کے دور میں

کیسی سرگرمی ہے غم کو روندتا جاتا ہوں میں

جی میں کہتا ہوں کہ ہاں

رقص گہ میں زندگی کے جھانکنے سے پیشتر

کلفتوں کا سنگ ریزہ ایک بھی رہنے نہ پائے

……ن۔ م۔  راشد (’’رقص‘‘)

 

عہدِ سوم:

تجویز ہو رہی ہے دبا دیا جائے

مزاج کی رونقیں نفاست وسیلے قانون صاف ستھرا رکھیں گے

بنجر قدیم ذرے گلو و گفتار میلے کرتے رہے ہیں، فٹ پاتھ

منضبط شہری زندگی کے علامئے کنکریٹ روشن

…… افتخار جالب (نفیس لا مرکزیت اظہار)

 

عہدِ جدید تر:

مچھلی

خون میں لتھڑا ہوا سورج نگلتی

سورج کو پکڑنے دوڑتے

مچھلی کے ہاتھ

اڑتے ہاتھ

سورج کو پکڑنے دوڑتے

مچھلی، سورج اور ہاتھ

…… عادل منصوری (’’پیراجی ساگرا‘‘)

 

سورج کو لے کے چونچ میں مرغا کھڑا رہا

کھڑکی کے پردے کھینچ دیے رات ہو گئی

ندا فاضلی

 

رعنائی اور انفرادیت کی تلاش میں تین انتہا پسندانہ تجربوں شیریں، کرخت اور ابہام پسند کا تذکرہ اس بات کی جانب بھی اشارہ ہے کہ ترسیل مکمل وجدانی ہی نہیں بلکہ اس میں ارادی عنصر بھی موجود ہوتا ہے۔  مندرجۂ بالا مثالوں کو آج ہم قطعاً ابہام کے زمرے میں نہیں رکھ سکتے اس لیے کہ سخن فہمی کا دائرہ اس ضمن میں وسیع اور نکتہ بیں ہو چکا ہے۔  ارادی عنصر غالباً شعر کے نزول کا بھی حصہ ہے۔

ارادی شعری ترسیل قابلِ بحث موضوع ہے۔  بحث کی پہلی صورت تو یہ ہے کہ آپ کسی تخلیق کے ارادی یا وجدانی ہونے کے بارے میں کوئی حتمی فیصلہ دینے کی قوت نہیں رکھتے۔  ہاں اگر شاعر ہی اعترافِ گناہ کرے تو اور بات ہے۔ مثال کے طور پر فیض کی نظم ’’شیشوں کا مسیحا کوئی نہیں‘‘ مجھے مکمل طور پر وجدانی نظم نہیں لگتی لیکن مجھے یقین ہے کہ ایک ہی تخلیق کا کچھ حصہ وجدان کی دین ہے تو کچھ حصہ برائے حسنِ ترتیب ہے اسی طرح مجھے ایک قریب تر مثال مظہر امام کی نظم ’’اکھڑتے خیموں کا درد‘‘ کا آخری حصہ جو کچھ یوں ختم ہوتا ہے کہ ’’جو اپنی کشتی پہ بچ رہے گا یا وہی علیہ السلام ہو گا‘‘ سراسر وجدان کا کارنامہ لگتا ہے۔  غالبؔ کی غزلوں میں (خصوصاً وہ جو مسلسل / مسلسل جیسی یا واحد ذہنی کیفیت کی آئینہ دار ہیں)بلاشبہ عظیم شعری خلاقیت اور وجدان کی دین ہیں۔  لیکن آپ کسی تخلیق کو ارادی کہتے ہوئے ثابت قدم نہیں رہ سکتے۔  بیش تر خوب صورت نظمیں اور عمدہ غزلیں بھی وجدان کی بجائے ہنر مندی اور ارادی ترسیل کی تخلیق ہیں۔  مثلاً پیوستہ رہِ شجر سے امید بہار رکھ، ہمالہ، کیا گلبدنی، گلبدنی گلبدنی ہے وغیرہ۔

ارادی ترسیلی زبان پر بحث کی دوسری صورت ان تجربات کا جائزہ ہے جو حسبِ ذیل ممکنہ وجوہ کے سبب کیے ہوں گے۔

(۱) شاعر اپنا ایک منفرد لب و لہجہ بنانا چاہتا تھا اور اس کے لیے اس نے ہر راہ سے جدا ایک لسانی روش منتخب کی۔

(۲) شاعر کے جذبات الفاظ میں سما نہ پائے۔

(۳) نئے فارم کی تلاش (اگر مکمل فارم نیا نہیں تو زبان کی لفظی یا حرفی ترتیب سے ہی نیا پن پیدا کیا جائے۔

(۴) مناسب لفظی آہنگ تاکہ شاعر کی دردنی اور مقصود کیفیت کی ہم وزن ترسیل ہو۔

(۵) غیرملکی لسانی قواعد کے تجربے سے متاثر تجربہ۔

ارادی ترسیل کے تجربات میں اک تو تجربہ ہے زبان و بیان کا۔  شاعر عام شعری زبان اور شعری لسانیات سے ہٹ کر اپنے لیے ایک نئی زبان بناتا ہے تاکہ (غالباً) اس کی زبان سے ہی اس کی شناخت مترشح ہو۔  اس کا ایک جزوی کلیہ یہ ہوا کہ زبان جو مروجہ ہے وہ شاعر کے نزدیک مناسب نہیں یا بالخصوص اس کے اور اس کے مرسل بہ کے لیے ایک جدا شناختی زبان کی ضرورت ہے یا وہ ایسی زبان چاہتا ہے جو کہ اس کے اظہار کو ایک خاص ملبوس میں پیش کر سکے۔

لسانی تجربہ کوئی نئی شئے نہیں، یہ قدیم ادوار میں بھی تھا۔  مثلاً نظیرؔ اکبرآبادی، ناسخؔ اور غالبؔ کی زبانیں عام ہم عصر شعری لب لہجے سے واضح طور پر جدا تھیں۔  لسانی انحراف اور لسانی تجرباتیت کی مثالیں نئی شاعری میں بہت سی ہیں۔  مثال کے طور پر صلاح الدین محمود کی اکثر غزلوں میں فعل، فعلِ اضافی اور انسلاکی الفاظ سے مبرا ثابت الفاظ کا استعمال، عادل منصوری کی چند نظموں میں (مثلاً تان تغریب بر مچیدن) بے معنی زبان لیکن فنیقی آہنگ اور صوتیاتی ترسیل کا استعمال۔  ناصر شہزاد کا ہندی زدہ پنجابی لب و لہجہ ’’تجھے نوتن نویلی نار جانا‘‘ الفاظ کی تجرباتی طور پر حرفی شکست مثلاً مغنی تبسم کی نظم ’’الف میم را‘‘ صہبا وحید اور ان جیسے شعرا کا ادق لغاتی زبان کا استعمال وغیرہ۔

ایک اور کہنے کی بات یہ ہے کہ لسانی تجربہ ایک خاص ترسیلی کیفیت کے لیے ہو جاتا ہے جو ابتداءً ارادی انتخاب کے سبب پیدا ہوا لیکن ایک خاص مدت تک مشق و تکرار پر شاعر کا بنیادی لب و لہجہ بن جاتا ہے اور پھر وجدانی طور پر اس شاعر کے کلام کا خاص امتیاز بن جاتا ہے۔  گویا یہ تجربہ جو ابتداءً ارادی ہوتا ہے۔  رواج پانے پر کسی خاص شاعر کا اسلوب بن جاتا ہے۔  کچھ یہی کیفیت آہنگ کے تجربات کی بھی ہے۔  اگر گہری تنقیدی نگاہ سے مختلف شعرا کی نظموں میں مستعملہ آہنگ کے تجربات کی بھی ہے۔ اگر گہری تنقیدی نگاہ سے مختلف شعرا کی نظموں میں مستعملہ آہنگ کا مطالعہ کیا جائے تو ایک بات واضح ہو جائے گی کہ ہر شاعر کو کوئی ایک آہنگ یا ایک ہی انداز کے آہنگ مرغوب رہے ہیں۔  راشد کی نظموں میں ’’خود کشی سے، پیرو اور البتہ لیکن تک (بلکہ عموماً) تین مرغوب آہنگ ملتے ہیں۔  اسی طرح اختر الایمان، مجید امجد، جیلانی کامران، قاضی سلیم، وقار خلیل، علوی، صلاح الدین پرویز، کمار پاشی، بلراج کومل۔  کسی کا کلام لے کر اس کا حسابیاتی جائزہ لیا جائے تو اس دعوے کا ثبوت مل جائے گا۔  ان ناموں کو میں نے اس لیے لیا ہے کہ کسی بھی فرد کا شعری سرمایہ آپ تصور میں لائیں تاکہ بات کھلے۔  مثال کے طور پر میں نے اپنے بک شلف سے شمس الرحمن فاروقی کے مجموعہ ’’گنجِ سوختہ‘‘ کو یوں ہی نکال لیتا ہوں ان کی نظموں کے آہنگ کچھ یوں ہیں۔

 

صفحہ نمبر نظم کا نام آہنگ کی مثال (نظم کا ایک قصہ)
۱۳ مناجات اس سے پہلے کہ
سمندر لبِ افسوں کو بلا کر شبِ مہ تاب کے ٹکڑے کر دے
۔۔۔
اس سے پہلے
کہ یہ ہو۔۔ ۔  اس سے پہلے مجھے
مر جانے کی مہلت دے دو
۱۸ کہ پیش آمدم برپلیگے سوار اس طرح
میں بھی پاتال کی قوتیں اپنے اندر سمونے لگا
لذت و کرب و عرفاں کے دھارے کی
صورت امنڈنے لگا
۲۲ بیتِ عنکبوت مگر وہ فاحشہ زنجیر در کی نیند اڑائے جا رہی ہے
وہ آنکھیں خوب صورت ہو گئی ہیں
۲۴ شیشۂ ساعت کا غبار انار میں جو قید تھا جو ذرہ ذرہ قید تھا
وہ جن ابل پڑا
۲۵ ارتباطِ منسوخ کے مرثیہ خواں تیرے رنگِ سحر کو چھوتے ہی
انگلیوں میں بس آگ لگی
تیری راتوں کی اک جھلک پا کر
روزِ روشن کی آنچ ڈھلنے لگی
۳۰ گم شدہ نیش عقرب کا نوحہ کون تھا وہ جس کی صدا سن کے بھی
تم نے کہا
مت کہو ہم نے سنی، تم نے کہا
مت سنو ہم نے کہی
۴۱ تین شاموں کی ایک شام یہ تجھ سے کس نے کہہ دیا کہ دامنِ چمن
میں آفتاب کو
زمیں نے دفن کر دیا!
۵۰ سنگِ سوال یہ ہنستی کھیلتی لہریں
جو رک نہیں سکتیں
حقیقتاً وہ بھی میری ہی ایک صورت ہیں
۶۰ اجنبی کی موت رگِ گل سے نازک یہ دامن
یہاں کی ہوا کو پرکھنے سے مجبور ہے
اسے پارہ پارہ ہی ہونا پڑے گا
۶۹ اسراسر مگر یہ کیا ہوا
وہ کھیل کھیل میں ہی رو پڑی ہے کیوں
کون اسے رلا گیا
کون اسے ڈرا گیا
۸۶ خام سوزیم و نارسیدہ تمام نسیم خلد بولی۔۔ ۔  مرے تارِ نفس میں یوں
نہاں سفاک لالی ہے
۹۶ آرفیوس نشیبِ درد سے فراز درد سے گذر چکا
جو اب بھی تم نہ مل سکو تو زندگی سے فائدہ

 

فاروقی کے مجموعہ میں یہ بارہ نظمیں ہیں بیان کردہ نقطۂ نظر کے لیے میں ان گوشوں کو ثبوت کے طور پر آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔  آپ کا تجربہ یہ بتائے گا کہ فاروقی نے ایک خاص بنیادی لسانی رویے (بلکہ اسلوب) کو اپنی ہر نظم میں برتا ہے اور اسی طرح ان کا ایک مرغوب نظامِ آہنگ بھی ہے۔  تقریباً ہر شاعر میں خصوصیات پائی جاتی ہیں۔

اس طرح یہ بات واضح ہوتی ہے کہ شعری فن پارہ کی ترسیل کے لیے شاعر اپنے مخصوص لسانی اسلوب و آہنگ کا انتخاب کرتا ہے۔  اس کے معنی یہ ہوئے کہ اس انتخاب یا روِش کا سبب شاعر کی ذہنی تہذیب سے متعلق ہے اور بلاشبہ اس کے پیچھے شاعر کا کوئی شعوری مفروضہ کام کرتا ہے اور اس ’’شعوری مفروضے‘‘ کا تعلق اس کے ترسیل کے ارادے سے ہوتا ہے۔  یعنی اس کے پیشِ نظر ’’مرسل بہ‘‘ اندازِ ابلاغ اور ’’قدرِ ابلاغ‘‘ ہوتے ہیں۔

مضمون کی ابتدا میں واسطوں اور بین واسطہ سطحوں میں انعطاف کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔  بالواسطہ اظہار اور بالواسطہ کیفیت کا امکان وسیع تر ہے۔  اس لیے جب تک شعری زبان میں مائل اور منعطف سطحیں نہ آئیں وہ نثر سے قریب تر اور بیانیہ ہو جاتی ہے۔  تشبیہہ، استعارہ اور تمثیلات کا استعمال مبادی اور کچھ حد تک قدیم ہو گیا ہے۔  لیکن آج بھی استعارہ اپنے اندر بہترین غزلیہ زبان کا واسطہ ہے۔

عصری شاعری میں علامتی اور تجریدی طرزِ اظہار نے اہم ترین مقام حاصل کر لیا ہے۔  شاید اس کا سبب علامت اور تجریدی علامتی تجربہ کا مصوری سے قرب ہے۔  علامتی تجربے کی تشریح کچھ یوں ہو سکتی ہے کہ ایک مثال کے لیے منتخب علامت ایک سلگتی ہوئی بھٹی کی تصویر ہے۔ گویا یہ تصویر انجماد ہے اس بھٹی میں جلتے ہوئے ایندھن کا اس میں لپکتے ہوئے شعلوں کا اس میں در آتی ہوئی ہوا کا (جو سرد یا گرم ہے) بھٹی کی دیواروں پر روشنی اور آنچ کا اور اس طرح کی کئی ذیلی حسیاتی اشیا اور کیفیات کا۔

یہاں پر ایک اور غور کرنے کی بات کہی جا سکتی ہے کہ مصوری ابلاغ کا ترقی یافتہ آلہ ہے بھی اور نہیں بھی ہے۔  ترقی یافتہ آلہ اس لیے نہیں کہ غالباً انسان نے بات چیت کے اطوار پیدا ہونے سے ماقبل ہی مصوری سے گفتگو کی تھی۔  آج بھی ان نقوش اور تصاویر کو سمجھنے میں تاریخ داں کو کافی تحقیق کرنی پڑتی ہے۔  جو غالباً اظہار کے لیے مختلف جذبوں اور موقعوں پر خلق کیے گئے تھے۔  لیکن جہاں شاعری اور نثر دونوں کے پنکھ ٹوٹتے ہیں وہیں سے آج کے دور میں مصوری شروع ہوتی ہے جو Abstract انداز میں ایک عمل کو بہ الفاظِ دیگر افکار کے ایک مائل اظہار موضوع کو پیش کرنے میں بہتر حد تک کامیاب ہے۔  شاعری الفاظ کے واسطے میں مدھم ہو کر رہ جاتی ہے۔

جہاں شاعری الفاظ کے واسطے میں مدھم پڑنے لگتی ہے وہاں علامت الفاظ کو نئے ابعاد اور نئے سچویشن میں لا کھڑا کر دیتی ہے۔  سلگتی ہوئی بھٹی کی تصویر دیکھنے والے کو مختلف انداز میں متاثر کرتی ہے لیکن فن کار کو اس تصویر کے ذریعے ایک خاص فکری کلیہ کو پیش کرنے میں کامل سکون ملتا ہے۔  گویا یہ ترسیل ہے بھی اور چشمِ اعمیٰ کے لیے نہیں بھی۔  گویا شاعر یا فن کار اسے ’’مرسل بہ‘‘ سے مخاطب ہے جو اس تصویر کی جزویات کو سمجھ سکیں اور آنچ کو سرد ہوا کو گرد نہ سمجھے۔  کبھی کبھی ایک فن کار اپنی بنائی ہوئی تصویر میں کلیدی اشارے بھی دیتا ہے مگر اس پر بھی اگر مرسل بہ

’’مگر ان کا کہا یا آپ سمجھے یا خدا سمجھے‘‘

کا راگ الاپے تو فن کار مجبور ہے دعا مانگنے کے لیے کہ

’’دے اور دل ان کو جو نہ دے مجھ کو زبان اور‘‘

علامت، تجرید اور علامتی لفظیات کا موضوع خاص تفصیل طلب ہے۔  اس مضمون میں اشارتاً چند باتیں پیش ہیں۔  علامت کا دائرہ وسیع ہے اور ایک علامت کئی علامتوں کا مجموعہ ہو سکتی ہے بلکہ کسی علامت کے کینوس میں استعارہ، اشارہ اور علامت تینوں آ سکتے ہیں۔  اس طرح کہ بھٹی کی تصویر کھینچتے وقت فن کار کی مقصود یا صدر علامت ممکن ہے کہ جملہ کیفیت نہ ہو بلکہ آنچ آگ یا کوئی اور شئے جس پر روشنی پڑ رہی ہے ہو، اس صورت میں علامت در علامت کی کیفیت کھل کر آ جاتی ہے وہیں صدر علامت ایک خاص ابعادی مقام پر آ پہنچتی ہے۔  ممکن ہے کہ یہ ابعادی تعین شاعر کو منظور ہو۔  فی الوقت (اصطلاحاتی زبان سے ہٹ کر) ہم حسبِ ذیل علامتوں کی شناخت کر سکتے ہیں۔

(۱) تجریدی علامت (۲) مرکب علامت (۳) علامت در علامت (۴) عملی علامت (۵) بصری علامت (۶) تجریدی علامت (۷) منجمد کیفیاتی علامت۔

اکثر یوں ہوتا ہے کہ ایک ہی نظم میں ایک ہی علامت اپنے پہلو بدلتی رہتی ہے، کبھی وہ آگ کی علامت ہے تو کبھی آنچ کی علامت، کبھی وہ بھٹی کی علامت تو کبھی وہ روشنی کی علامت ہے۔  گویا علامت کے معانی و مطالب اور حدود بدلتے رہتے ہیں۔  ایک ہی رنگ، ایک ہی شاعر کی مختلف نظموں میں مختلف نسب نماؤں کی اضافت سے مختلف پیراہنوں میں جلوہ گر ہوتا ہے۔  یہ بھی کوئی مستقل اصول نہیں۔  ایسے بھی کچھ شعرا ہیں جنھوں نے مختلف علامتوں کو تشبیہات کی طرح منجمد کر دیا ہے اور وہ علامتیں ایک خاص مائل بہ اظہار کیفیت یا صورت کے لیے مخصوص ہیں۔

علامتی نظام اپنے اندر ایک پر اسراریت رکھتا ہے، اس نظام کا شاعر کی حسیات مثلاً باصرہ، فکری زاویے اور نفسیات سے فطری تعلق ہے۔  شاعر بعض اوقات ایک ’’پیچیدہ گفتہ بہ‘‘ کو نظم کرنے کے لیے ایک غیر حقیقی علامت کی تخلیق کرتا ہے۔  اس غیر حقیقی علامت کے حیطہ میں کئی آلائشیں، آرائشیں اور الوان (شیڈز) آتے ہیں تاکہ وہ مل کر اور کنفیوز ہو کر ’’گفتہ بہ‘‘ کا ایک ہم وزن عکس پیش کر سکیں۔  اگر اس تخلیق کردہ علامت میں لنگ یا جھول رہ جائے تو ترسیل کے بھٹک جانے کا اور علامت کے مضحک یا مہمل بن جانے کا اندیشہ ہوتا ہے۔

تجریدی علامت اور Abstract اظہار کا اردو شاعری میں خاطر خواہ تجربہ نہ ہو سکا۔  ممکن ہے کہ اردو شاعر ان تجربات کو اردو زبان کی بنیادی روح سے قریب تر نہ پاتے ہوں یا خود ان میں ایسی وجدانی کیفیت نہ طاری ہوتی ہو۔  تجریدی طرزِ اظہار میں علامت بصری اور فکری ہیئتوں سے ہوتے ہوئے سرِّی اور تحتِ شعور کی نادیدہ کیفیات سے مضاف و مرتب ہوتی ہے۔  یعنی تجریدی علامتیں اور تجریدی شکلیں ٹھوس لفظی اظہار کو مائصاتی سطح پر لا دیتی ہیں۔  جہاں ہر علامت اور اس کے اجزا و نکات پگھل پگھل کر مختلف روؤں میں بن کر آپس میں گڈمڈ ہو جاتے ہیں تاکہ ایک خاص مائیاتی اور رواں دھارا پیدا ہو جو بہ الفاظِ دیگر Abstract شکل ہے۔  گفتگو طویل ہوتی جا رہی ہے اس لیے علامتی اظہار کی چند مثالیں پیش کر کے آپ پر ترسیل کے اس تجربے کے حدود اور وسعت کو منشرح کرنا مناسب سمجھتا ہوں۔

 

وہ گول کنگری

کبھی نہ اپنے منھ میں آ سکی

لبوں سے یا زبان سے جب چھوا

لڑھک لڑھک گئی

وہ کھیل تھا یا مشغلہ؟

مگر ہمیں جو ضد سی آ گئی

تمام عمر

اپنے نام کی زمین پہ رینگتے رہے

…… مغنی تبسم

 

سانپ جب اوس کا بدن چاٹے

ریت کو ریت کی جلن چاٹے

…… بشیر بدر

 

کالے وحشی ہاتھیوں کا جنگل اگ آیا

ننھے منے بچے چیخے

زرد دریچے بند ہوئے

…… حامدی کاشمیری

 

ڈھونڈتا پھرتا ہوں وہ زنجیر جس میں

میرے اندر بھونکتا کتا بند ہے

…… عمیق حنفی

 

جلنے لگے فضا میں ہواؤں کے نقشِ پا

سورج کا ہاتھ شام کی گردن پہ جا پڑا

…… عادل منصوری

 

وہ بوڑھا۔۔ ۔  ندی کے کنارے

یہی سوچتا تھا

’’وہ کب آئے گی وہ کب آئے گی‘‘

…… مصحف اقبال توصیفی

 

ایک کامیاب فن پارہ ایک اچھی شعری صلاحیت کا نتیجہ ہے۔  ایک اچھی شعری صلاحیت ٹھوس اور کرخت واسطوں کو Opaque (غیر شفاف) کر دیتی ہے۔  غیر شاعرانہ الفاظ اور اسماء کچھ اس طرح کھنکنے اور چمکنے لگتے ہیں کہ ان ہی الفاظ کی معنویت اور ماہیت اپنے مردہ تنوں سے باہر نکل آتی ہے۔ جیسے گرتی ہوئی دیوار پر ایک خوش نما پھولوں کی بیل اُگ آئے۔  مجید امجد، جیلانی کامران، اختر الایمان اور نئے دور میں عمیق حنفی، صادق اور حسن فرخ کی شاعری میں ایسے نامانوس غیر شعری الفاظ و اسماء مل جائیں گے جو استعمال سے قبل بالکل کھوکھلے، بے ربط اور غیردل چسپ تھے۔  لیکن شاعر کے اندازِ اظہار نے ان ہی میں چمک اور صلاحیت پیدا کی اور وہی الفاظ کچھ اس طرح انوکھے لگنے لگے کہ سوچنا پڑا کہ اب تک ہم ان سے کنارہ کش کیوں تھے؟

ایک کامیاب فن پارہ اپنے ہر جزو کو اپنی اجتماعی کیفیت میں لے لیتا ہے جیسے ایک نئی نویلی دلہن کا ڈھب ہی اس کی جمالیاتی کیفیت کو واضح کر لے۔ جیسے مقدس بزرگ کا چہرہ اور لباس ہی اس کی ہستی کی پاکیزگی اور صاحبِ انوار ہونے کو منشرح کرے۔  اچھی شعری ترسیل کا رشتہ عبقریت سے ہے۔  محض نباضی اور تجزیہ کسی شاعر کو اچھا شاعر نہیں بنا سکتی ورنہ احتشام حسین، محمد حسن عسکری، مسعود حسین رضوی، عظیم شاعروں میں شمار کیے جاتے۔

جب شعر کا اکھوا پھوٹتا ہے تو اس کی پہلی رنگت ہی اس کی پہلی ادا ہی انوکھی ہوتی ہے اور اس وقت وہ مکمل تاثر (جو اصل طاقتِ اظہار ہے) کھل کر سامنے آتا ہے۔  ترسیل کے باب میں یہ بات تجربات اور تجزیے سے واضح ہو چکی ہے کہ فارم، ڈکشن، زبان، لہجہ، ہنر مندی اور تجربہ کوئی بھی اکیلے کسی فن پارہ کو کامیاب نہیں بنا سکتے۔  ضرورت ایک ’’مکمل تاثر‘‘ کی ہے جو فن پارہ کو فضول معمولی، بھونڈا اور مہمل ہونے کی بجائے نادر، رعنا اور قابلِ قدر بنائے۔  نہ ترسیل کے راستے میں پتھر رکھنے سے بات بنتی ہے نہ ترسیل کو دست بہ دست کرنے سے کچھ کام نکلتا ہے فن بلاشبہ فن کار کی ذہانت اور بصیرت کی دلیل ہے اور اس کی فکر کے جمیل ہونے کا شاہد بھی ہے۔

٭٭٭

 

ڈاؤن لوڈ کریں

 

پی ڈی ایف فائل

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل