FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

احساس کے دریچے

               نرگس جمال سحر

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

 

فہرست

پھول سا اُس کا چہرہ 4

کہا !چاند میں توڑ کے لاؤں گا 5

اپنے غریب بابا کی بیٹی ۔۔. 7

اپنا بس تجھ کو ہی بنانا ہے… 9

‘چلے آنا، چلے آنا، چل آنا 11

کس نے کیا پا لیا محبت میں… 13

ہیپی برتھ ڈے ٹو یو. 15

دیکھو ناں.. 17

اپنی خوشیاں تو خواب جیسی ہیں… 20

جاتے لمحے کو بھی بے کار نہیں کرنا ہے… 22

زندگی موت کی تماشائی ہے… 24

اِک روز کہا لیلیٰ نے… 26

دونوں جہان میں ہے تو ہی بس… 28

پھول سا اُس کا چہرہ

پھول سا  اُس کا چہرہ ،

غصے سے لال تھا!

معصوم سے ذہن میں،

بس اک سوال تھا!

 کوئی اور میری ماں کے قریب!

 آئے کیوں !

سینے سے میری ماں کو !

کوئی لگائے کیوں

بٹانے کو کسی سے بھی میں نہیں تیار!

پورا کا پورا چاہیے ”ماں”،

مجھ کو تیرا پیار  !

٭٭٭

 

کہا !چاند میں توڑ کے لاؤں گا

کہا اُس نے چاند میں توڑ کے لاؤں گا

ترے گھر میں اُس کو  سجاوں گا

جس گھر میں رہیں گے ہم دونوں

گھر ایسا ایک بناؤں گا

چھینوں گا ضیاء ستاروں سے

اُس گھر کو میں اجلاؤں گا

دھرتی پے دھرنے دوں نہ قدم

جب راہ چلو گی تم گوری

میں قدموں پھول بچھاؤں گا

اِس جگ کی پرواہ نہ کر تو

میں تیرے بھاگ جگاؤں گا

اس دنیا سے اُس دنیا تک

میں تیرا ساتھ نبھاؤں گا

گر تو نے چھوڑا ساتھ میرا

میں جان سے اپنی جاؤں گا

کھاتا ہوں قسم یہ آج سحر

تجھ سنگ گھر میں ہی سجاؤں گا

٭٭٭

 

اپنے غریب بابا کی بیٹی ۔۔

زندگی تمہاری ہے، ہر خوشی تُمہاری ہے!

یہ تو طے ہوا جاناں،

اپنے  غریب بابا کی،بیٹی  اب تمہاری ہے!

سر جھکا کے رکھوں گی ، دل ملاِ کے رکھوں گی

گھر سے آپکے اب تو، مر کے ہی میں نکلوں گی

  گھر تمہارا بھر دوں گی،

کچھ کمی جو رہ جائے، چاہے جو سزا دینا،

  اک ذرا یہ وعدہ کرو زندہ نہ جلا دینا!

سا س اور نندوں کا،حکم نہ میں ٹالوں گی

آپکی عزّت کا  بھی خیال رکھوں گی

 زبان میں بھی رکھتی ہوں ،

پر لب کبھی نہ کھولوں گی

آپکے آبا کی،

 پھر بھی یہ گذارش ہے،

 بابا کی بھی سفارش ہے

 میں تو عقلِ ناقص ہوں

سارے گُر سکھا دینا، تم مجھے بتا دینا

راہ کیسے چلنی ہے

 کس جگہ پے رکنا ہے، کیسے مسکرانا ہے،

  روناکس جگہ پے  ہے ، کس جگہ پے ہنسنا ہے

 سارے گُر سکھا دینا، تم مجھے بتا دینا،

 تم مجھے بتا دینا۔۔۔

٭٭٭

 

اپنا بس تجھ کو ہی بنانا ہے

آندھیوں میں دیا جلانا ہے

اپنی آنکھوں میں جھانک لینے دو

ذات کا اعتبار پانا ہے

کر کے احساس کے دریچے  وا

روح میں ہم کو اُتر جانا ہے

اِس حسیں رات کی خموشی نے

پھر سے ایک بار ٹوٹ جانا ہے

اس حسیں دلنشیں اندھیرے  میں

جُگنو چاہت کا ڈھونڈھ  لانا ہے

تیرے  بخشے حسیں رنگوں نے

تن بدن کو مرے سجانا ہے

٭٭٭

 

‘چلے آنا، چلے آنا، چل آنا

دِسمبر آئے جیسے ہی، چلے آنا

غم مسکرئے، جیسے ہی،

    چلے آنا

اندھیرے من میں، یاد کا جُگنو

سر اُٹھائے، جیسے ہی،

    چلے آنا

پیمانہ  ضبط کا چھلکے نہ چھلکے

آنکھ بھر آئے، جیسے ہی،

    چلے آنا

کسک  جب  جاگے سینے میں،

بے چینی جگائے، جیسے ہی،

    چلے آنا

ہیں آنکھیں  منتظر کس کی؟

سمجھ میں آئے،جیسے ہی؛

    چلے آنا، چلے آنا، چلے آنا

٭٭٭

 

کس نے کیا پا لیا محبت میں

دھوکہ خود کھا لیا  محبت میں

جب بھی دیکھی ہے بڑھتے بے چینی

دِل کو سمجھا لیا محبت میں

تجھ سے آگے نظر نہ کچھ آئے

حد تجھے بنا لیا، محبت میں

چین جب روح کا لاپتہ دیکھا

ڈوب کر پا لیا، محبت میں

تا قیامت ہوا نصیب نہ پھر

وصل جو پا لیا محبت میں

کیا بتاؤں جگر پے کیا گُذری

تیر تو کھا لیا محبت میں

وہ ولی ہو گیا زمانے کا

خود کو ِجس پا لیا محبت میں

رستہ ایمان کا کٹھن تھا کہاں

ہم نے اپنا لیا محبت میں

٭٭٭

 

ہیپی برتھ ڈے ٹو یو

جب ایک گھر میں رہتے ہیں،

 کچھ اِس طرح سے کرتے  ہیں!

پاس چلے آتے ہیں،

ما تھا چُوم لیتے ہیں

 اور پھر دُعا،  یوں دیتے ہیں

زندگی کی راہوں میں ،

         ہر خوشی تمہاری ہو

صحت اور عزت ہو،

اس جہان کی زمانے کی؛

دولتیں، نعمتیں،اور خوشیاں

 سب  کی سب تمہاری ہوں

تم نے جو کیا، میری جان

غیر ایسے کرتے ہیں

ٹیکسٹ یہ کر دیتے ہیں:

ہیپی برتھ ڈے ٹو یو ،

ہیپی برتھ ڈے ٹو یو!

٭٭٭

 

دیکھو ناں

وہ کہہ رہا تھا،دیکھو تو ۔ایسا لگتا ہے

کہ جیسے ان گہرے نیلے پانیوں میں

        کوئی راز دفن ہے!

 اور  وہ دیکھو،

نیلگوں سے آسماں پر،

اُودے، سیاہ اور سرمئی

 گلابی اور قُرمزی سے

بادلوں کو دیکھو

    وہ دیکھو،

 پرندوں کی قطاروں کو،

دیکھو اِن مست نظّاروں کو

وہ کہہ رہا تھا،

دیکھو تو کسقدر حسین اور دلنشیں

ہلکا اور گہرا ہرا  سبزہ پھیلا ہے یہاں وہاں!

ارے !  وہ دیکھو گھٹا گھنگور

وہ کہہ رہا تھا،

        وہ  دیکھو،

        یہ  دیکھو،

اس کے چہرے پے کتنے رنگ تھے

وہ جن سے بے خبر بیٹھا ہوا تھا

 اُس پہاڑی پے، جہاں!

 سنگ جینے  کی مرنے کی

 قسم کھائی  بھی جا سکتی تھی

جہاں ہر گھڑی محبت میں

بتائی بھی جا سکتی تھی

اُڑتی سی اُس کی زلف کو،

    پیشانی سے ہٹا کے

 مخموراُس کی نظروںسے نظر ملا کے

 کہاآہستہ سے  اس کا دِل دھڑکا کے

گہرے نیلے پانیوں کی گہرائی

ہے میری آنکھوں میں،

کتنی سُبک سی پُروائی،

ہے میری سانسوں میں

         دیکھو!

اِن سارے نظاروں کا عکس دیکھو؛

 میرے چہرے پر

        دیکھو،

کالی سیاہ گھٹائیں ہیں میری زلفوں میں

        اِدھر دیکھو،

        مجھے دیکھو  ناں!

            دیکھو ناں

٭٭٭

 

اپنی خوشیاں تو خواب جیسی ہیں

چار دن کے شباب جیسی ہیں

لبِ خاموش سے کُچھ کہہ نہ سکیں

کرنیں وہ  ماہتاب جیسی ہیں

جھوٹے سپنے دکھا  نہیں انکو

جن کی آنکھیں  کتاب جیسی ہیں

خاص ہے بات اُس کی آنکھوں میں

رتجگوں کے عذاب جیسی ہیں

لہجہ اُس کا ہے جسطرح خوشبو

باتیں اُس کی شراب جیسی ہیں

نارسائی کا کرب کیا جانیں

سانسیں جن کی گلاب جیسی ہیں

مانگنے سے جو ملا کرتی ہیں سحر

نعمتیں وہ حجاب جیسی ہیں

٭٭٭

 

جاتے لمحے کو بھی بے کار نہیں کرنا ہے

زیست کو اور بھی دشوار نہیں کرنا ہے

دِل اگر دے ہی دیا ہم نے بنا شرطوں کے

کُچھ بھی ہو جائے اُسے بار نہیں کرنا ہے

شکوہ اپنوں سے ہوا کرتا غیروں سے نہیں

بے وفا کبھی اظہار نہیں کرنا ہے

تم جو تھے دوست تو دشمن کی ضرورت کیا تھی

اب کسی کو ہمیں غم خوار نہیں کرنا ہے

تم سے وابستہ میرے دِل کا تعلق ٹوٹا

اب ہمیں پیار کا اقرار نہیں کرنا ہے

تم نے ہر جائی کو پلکوں پے بٹھایا کیوں سحر

پیار کو راہ کی دیوار نہیں کرنا ہے

٭٭٭

 

زندگی موت کی تماشائی ہے

آج پھر اس کو ملنے آئی ہے

سر سر ا تی  ہوئی یہ تنہائی

در و دیوار پے لہرائی ہے

ڈر مرے دِل میں چھپ کے رہتا ہے

جیسے برسوں کی شناسائی ہے

زندگی کے اُٹھاؤں ناز میں کیا

اِسکا شیوہ ہی بے وفائی ہے

چھُونے سے ہی بکھر گئیں پتیاں

کتنی مستانہ یہ پُروائی ہے

بال کھولے ہوئے شبِ ہجراں

آج پھر مجھ سے مِلنے آئی ہے

بے  وفائی ترا مقدر  ہے

شمعِ وفا  تو نے کیوں جلائی ہے

وہ نہیں آئے جن کی خاطر

بزم یاراں مگر سجائی ہے

رُخِ گُل کی رنگینیاں پا کر

مستی گلشن پے کیسی چھائی ہے

جانے کیسا تھا یہ وصالِ سحر

نہ وہ آئے نہ صورت ہمیں دکھائی ہے

٭٭٭

 

اِک روز کہا لیلیٰ نے

اک روز کہا لیلیٰ نے رستہ میرا تو چھوڑ دے

اے بے عمل عاشق پیچھا میرا تو چھوڑ دے

کوئی پتھر سے نہ مارے میرے دیوانے کو

گا گا کہ میں ہاری سمجھ آتی نہیں زمانے کو

کھاتا پھرتا ہے تو پتھر چوٹ لگتی ہے مجھے

حال پے میرے آتا نہیں ترس تُجھے

کس طرح کا حلیہ تو بنا کے پھرتا ہے

ہفتے مہینے میں کبھی شیو بندہ کرتا ہے

ہیں پھٹے کپڑے تیرے کیا یہ جھونٹ ہے

رہتا ہے صحرا میں تو کیا صحرائی اونٹ ہے

میرے کتے کو ہی تو ساتھ لئے پھرتا ہے

تیرے ساتھ رہ کے وہ معصوم بھوکا مرتا ہے

تُجھ سے کہنے آئی ہوں تو میرے سر کا درد ہے

بھوک اور پیاس سے چہرہ تک تیرا زرد ہے

کیسا سچا عشق ہے یہ کیسی تیری لائف ہے

نہ ہے کوئی محل تیرا تو مجھ کو کہتا وائف ہے

عشق کا دعویٰ ہے تو کر کے مجھے تو کچھ دکھا

ورنہ میں دوں گی تجھے سبق سکھا

شرم کر اب چھوڑ دے سستی تو سُدھر بھی جا

ڈھنگ سے جینا ہے تو جی ورنہ اب تو مر ہی جا

٭٭٭

دونوں جہان میں ہے تو ہی بس

دونوں جہان میں ہے تو ہی بس

ہے دِل کو مرے تیری جُستُجو ہی بس

چھُپ کے پردوں میں کب تو رہتا ہے

ہر تن لہو کے سنگ بہتا ہے

دِل میں سبھی کے تو دھڑکتا ہے

طُور پے شعلہ بن بھڑکتا ہے

جانے جو خود کو تُجھے پاتا ہے

رُوح بن کر تُو  ہی  سماتا ہے

رُوح کے بعد پھر بچا کیا ہے

جسم پانی کا بُلبُلہ سا ہے

زندگی میں بھی عیاں تو ہی ہے

٭٭٭

ماخذ:

http://www.alqamar.info/poetry/categories/%D8%B4%D8%B9%D8%B1%D8%A7%D8%A1-%DA%A9%DB%8C-%D9%81%DB%81%D8%B1%D8%B3%D8%AA-%D8%AD%D8%B1%D9%88%D9%81-%D8%AA%DB%81%D8%AC%DB%8C-%D8%B3%DB%92/%D9%86/%D9%86%D8%B1%DA%AF%D8%B3-%D8%AC%D9%85%D8%A7%D9%84-%D8%B3%D8%AD%D8%B1/

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید