FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

آتش رفتہ کا سراغ

ناول

حصہ اول

 

  مشرف عالم ذوقی

 

میں کہ، مری غزل میں ہے آتشِ رفتہ کا سراغ

میری تمام سرگزشت کھوئے ہوؤں کی جستجو

                   —   علامہ اقبال

 

 

انتساب

ایک ناول دوستوں کے نام!

              ڈاکٹر انور پاشا

              ڈاکٹر خواجہ اکرام

              ڈاکٹر ابرار رحمانی

               کے نام

               اور

اُس عالمی سیاست کے نام بھی جہاں ہر مسلمان

ایک خوف کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے

 

آتشِ رفتہ کا سراغ:

کچھ اس ناول کے بارے میں

’میری تمام سرگزشت کھوئے ہوؤں کی جستجو‘

’لے سانس بھی آہستہ‘ کے فوراً بعد —  ’آتشِ رفتہ کا سراغ — ‘

قیصر و کسریٰ کو فتح کرنے والوں کے نام دہشت گردی کی مہر لگا دی گئی۔  سائنسی انقلابات نے ارتقا کے دروازے تو کھولے لیکن ڈی۔ ان۔  اے اور جینوم سے زیادہ شہرت اے کے ۴۷ اور اسلحوں کو ملی —  ایک زمانے میں جہاں علوم و فنون کے لیے برٹنڈرسل جیسے دانشور بھی مسلمان سائنسدانوں کی مثالیں دیا کرتے تھے، وہاں دیکھتے ہی دیکھتے مغرب نے جیش، لشکر طیبہ، ظواہری اور اسامہ بن لادن کے نام جپنے شروع کر دیئے —  انحطاط اور ذلّت کی حد یہ ہے کہ مسلسل مسلمانوں کو اپنی وفاداری اور حب الوطنی کی شہادت پیش کرنی پڑتی ہے۔

میں نے مسلمانوں کے مسائل پر پہلے بھی بہت کچھ لکھا —  مسلمان، بیان، ذبح —  سن ۲۰۱۱ تک آتے آتے اس پر تصادم دنیا کے درمیان مسلمانوں کی عام حالت کٹھ پتلی جیسی ہو چکی ہے۔  اس تحریر کے لکھے جانے تک مصر میں بغاوت کا پرچم لہرایا جا چکا ہے۔  چین اور اس کے جیسے سہمے ہوئے کئی ملکوں نے فیس بک اور گوگل پر پابندی عائد کر دی ہے —  ان واقعات کو بھی مسلمانوں کے اصل انحطاط اور محرومیوں و ناکامیوں سے جوڑ کر دیکھنا چاہیے —  ہندوستان کی بات کیجئے تو لبراہن کمیشن سے بابری مسجد فیصلے تک، جمہوریت کی ڈگ ڈگی بجا کر مسلمانوں کو خاموش رہنا سکھایا جاتا ہے۔  ہزاروں فرضی انکاؤنٹرز کی داستانیں سامنے آتی ہیں اور ایسا بھی ہوتا ہے کہ انکاؤنٹر کرنے والوں کو حکومتی اعزاز اور تمغے بھی مل جاتے ہیں۔

میں ایک بڑے ناول کی اسٹریٹجی تیار کرتے ہوئے مسلم نقطۂ نظر سے جدید دور کے تقاضوں پر اپنا موقف پیش کرنا چاہتا تھا۔  لیکن اس میں ایک خطرہ بھی تھا —  اور ایک چیلنج بھی —  عام نقاد ایسے ناولوں کو محض رپورٹنگ بتا کر قارئین کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔  شروع میں میرے ناول بیان کے ساتھ بھی یہی ہوا تھا —  یہ جاننا ضرور ی ہے کہ اس طرح کے ناول محض خلا میں تحریر نہیں کیے جا سکتے —  سماجی اور سیاسی شعور کے بغیر کوئی بڑا ناول قلم بند نہیں کیا جا سکتا —  ایک خطرہ اور بھی تھا، اگر اس ناول میں بابری مسجد کا نام آتا ہے تو کیا میں بابری مسجد کی جگہ کوئی اور فرضی نام استعمال کروں ؟ یا جیش محمد، لشکر طیبہ کی جگہ کوئی فرضی تحریک، یا پھر ۳۰۔ ۲۰ برسوں کی سیاست میں جو سیاسی رہنما ہمیں ’تحفے‘ میں ملے، کیا ان کے ناموں کو بھی تبدیل کر دیا جائے؟

میں کہہ سکتا ہوں، یہاں میں آزادی اظہار کا اعلان کرتے ہوئے ہر طرح کے تیر و کمان سے لیس تھا۔  میرے سامنے روسی ناول نگاروں کی مثالیں موجود تھیں، جنہوں نے اپنے عہد کی داستانوں کو قلم بند کرتے ہوئے، اس عہد کی سیاسیات اور سماجیات کو نئی معنویت کے ساتھ متعین کیا اور یہ سلسلہ اب تک چلا آ رہا ہے —  اس لیے مجھے ان ادبی فتووں کا ڈر نہیں کہ سیاسی شعور کو کچھ لوگ ابھی بھی رپورٹنگ کا درجہ دیتے ہیں۔

ناول کے آغاز سے قبل ایک مشکل اور بھی سامنے آ رہی تھی کہ اسے شروع کہاں سے کیا جائے — آج کے مسلمانوں کی سیاسی وسماجی زندگی کی عکاسی کے لیے بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر سے بہتر مثال میرے نزدیک کوئی دوسری نہیں تھی۔  یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر کو میں نے محض علامت کے طور پر استعمال کیا ہے۔  اصل بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر کا اس ناول سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہے۔  کچھ لوگ بے گناہ مارے جاتے ہیں۔  لباسوں پر انگلیاں اٹھتی ہیں  —  کچھ نوجوان خاموشی سے غائب ہو جاتے ہیں۔  مسلمانوں کو کرائے کے گھر نہیں ملتے۔  کال سینٹر سے لے کر ہر جگہ ایک مسلمان نام کا ہونا شک کی وجہ بن جاتا ہے —  پچھلے دس برسوں میں صرف انصاف کی موہوم سی امید کو لے کر مسلمانوں نے جینا تو جاری رکھا ہے مگر زندگی کے اس سفر میں شکوک، بندشیں نا انصافیوں اور محرومیوں کا ہی تحفہ ملا ہے —

اب کچھ بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر کے بارے میں  —  کہ اسی انکاؤنٹر سے۔  مجھے اس ناول کی تحریک ملی اور یہاں کسی حد تک میں نے اپنے معنی و مفہوم کو سامنے رکھنے کی حتی الامکان کوشش کی ہے۔

سرسری اس جہان سے گزرے

’’میرا خواب ہے کہ ایک دن

جارجیا کے پرانے غلاموں /

اور پرانے زمیں داروں کے بیٹے/

بھائی چارے کے ساتھ ایک جگہ رہیں /

میرا خواب ہے کہ میرے بیٹے ایسے امریکہ میں سانس لیں

جہاں انہیں رنگ و نسل کی بنیاد پر نہیں /

انہیں عملی نمونہ کے طور پر پرکھا جائے/‘‘

 —   مارٹن لوتھر کنگ

براک اوباما کے امریکی صدر بنتے ہی مارٹن لوتھر کنگ کا خواب تو پورا ہو گیا اور شاید دنیا کے لیے ایک نئے عہد کا آغاز بھی ہو گیا —  یہ بھی کہا گیا کہ اوباما لہر نے برلن سے بڑی دیوار توڑ دی —  نفرت اور عصبیت کی وہ دیوار جو سینکڑوں برسوں سے کروڑوں لوگوں کے دکھ درد کا سبب بنی ہوئی تھی —  لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ایسی ایک دیوار ہندوستان میں بھی ہے اور دور دور تک اس دیوار کے ٹوٹنے کے آثار نظر نہیں آتے۔  آج سے ۷ سال قبل (۱۳ مئی ۲۰۰۳) نیو یارک کے ریورسائڈ چرچ میں اروندھتی رائے نے ایک بیان دیتے ہوئے کہا تھا —  ’ہم ایسے بے رحم دور سے گزر رہے ہیں جہاں تیزی سے، ہم سے ہماری آزادی چھینی جا رہی ہے‘ —  جامعہ کے فرضی انکاؤنٹر سے ملک کی ۲۵ کروڑ مسلم آبادی (جسے ہندی انگریزی میڈیا صرف ۱۵ کروڑ ظاہر کرتی ہے اور اردو میڈیا ۲۵ کروڑ سے کم ماننے پر راضی نہیں۔  کیا یہ بھی ایک طرح کی فرقہ واریت ہے؟) ایک بار پھر یہ سوچنے اور سمجھنے پر مجبور ہوئی ہوں کہ وہ یہاں محفوظ نہیں ہیں۔

اس سوال کو خوف و ہراس اور بزدلی کا درجہ مت دیجئے۔  اس سوال کو برلن کی طرح مضبوط ہندوستان کی جمہوری دیوار کا راستہ مت دکھائیے۔  یہ سوال ہر بار بنا ہوا ہے۔  یہ سوال اکثر و بیشتر ایک تسلی، یقین یا امید کی کرن میں تبدیل ہو جاتا ہے۔  اور اچانک کسی غیر متوقع حادثہ کے احساس سے ایک بار پھر جاگ جاتا ہے —  سن ۴۷، بارودی ڈھیر پر ایک خوفناک آزادی ہمارا انتظار کر رہی تھی۔  جنہیں یہاں تحفظ نظر نہیں آیا۔  وہ پاکستان چلے گئے —  یہ مت بھولیے کہ پاکستان بننے کے پیچھے بھی شیخ عبد اللہ یا جناح جیسے قد آور رہنماؤں کی ایک منطق رہی تھی کہ جو قوم ان کے ہاتھ سے ایک گلاس پانی نہیں پی سکتی، کیا وہ موجودہ حالت میں انہیں ان کا رتبہ دے سکتی ہے؟ اگرچہ اس دلیل کو کاٹنے کی صلاحیت ہے ہم میں، کہ دو بھائیوں کی طرح ہم آزاد ہندستان میں پلے، بڑھے اور نوکریاں حاصل کرنے میں کامیاب رہے —  عمر گزری ہے اسی دشت کی سیاحی میں  —  اور وہ لوگ جو پاکستان چلے گئے، ان کے پاس بھی اپنے جواز تھے۔  چنانچہ اپنے لوگ — ، اپنی سرزمیں، اپنا پیارا ہندوستان —  آخر اپنی مٹی کا کچھ تو جواز ہوتا ہے۔  لیکن آزادی کے بعد کے ہندوستان میں مسلمانوں کا وہ سہما ہوا چہرہ بھی دیکھ لیجئے، جہاں ہر چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی کارروائی کے لیے ایک ساتھ ۲۵ کروڑ کی آبادی نشانے پر آ جاتی ہے۔  بہار شریف، بھاگلپور، جمشید پور، ملیانا میں ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات سے الگ کی بھی ایک کہانی ہے جو مجھے چونکاتی ہے۔

گاندھی جی کا قتل ہوتا ہے —  مسلمان اپنے اپنے گھروں میں بند ہو جاتے ہیں۔  (کیوں کیسا خوف ہے یہ؟۔  اگر کسی مسلمان نے قتل کیا ہے تو؟)

برسوں بعد اندرا گاندھی کا قتل ہوتا ہے۔  مسلمان ایک بار پھر اپنے اپنے گھروں میں بند  — (کیوں ؟)

راجیو گاندھی کا قتل ہوتا ہے، جب تک قاتلوں کی خبر نہیں آ جاتی، پورا مسلم معاشرہ دہشت اور خوف کے خیمے میں رہتا ہے کہ اب فسادشروع … (کیوں  — ؟)

ایک وقت ایسا لگ رہا تھا کہ ایودھیا تنازعہ یا ہندوتو کا ’ایشو‘ سیاسی گلیارے میں ہلچل پیدا کرنے میں ناکام ہیں۔  لیکن بعد کی واردات نے بتا دیا کہ ایسا سوچنے والے غلط تھے۔  در اصل ہندوستانی تہذیب میں مذہب کی جڑیں، اتنی گہری ہیں کہ ۱۱۰ کروڑ کے عوام سے لے کر سیاست اور سیاسی گلیارے تک ہمارے عہد کا تنہا فاتح یا ہیرو مذہب رہا ہے —  اور یہ بھی کھلا سچ ہے کہ نئے ہزارہ یا نئی صدی میں قدم رکھنے تک اسی مذہب کی آڑ لے کر ایک بار پھر سے اسلام کو پاکھنڈ، قرآن شریف کو غلط کتاب اور مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دینے کی کارروائی اپنے آخری مرحلوں میں پہنچ چکی ہے۔  شاید چہرے بدل بدل کر آزاد ہندوستان میں ایک ہی پارٹی اس ملک میں حکومت کرتی رہی ہے —  اور وہ ہے ’ہندوتو‘ —  کانگریس کا نرم ہندوتو اور بھاجپا کا گرم ہندوتو —  مگر بھاجپا کے مقابلے کانگریس کا نیا ہندوتو خطرناک ہے۔  ووٹ بینک یا ووٹ کی سیاست میں در اصل کانگریس دونوں ہاتھوں سے لڈو کھانے کی کوشش کرتی ہے۔  وہ ہندوتو کو بھی خوش رکھنا چاہتی ہے اس لیے ’سنگھ‘ اور پرگیہ معاملے میں اس کی چپّی خطرناک حد تک ملک کے لیے انتہاپسند لگتی ہے۔  وہیں وہ مسلمانوں کے ووٹ بینک پر قبضہ کرنے کے لیے اپنے چھٹ بھیے نیتاؤں کو بٹلہ ہاؤس بھیج کر مسلمانوں کے زخموں پر مرہم تو لگانا چاہتی ہے، مگر پورے معاملے پر انصاف اور جانچ کرانے کو تیار نہیں ہوتی کہ اس سے اکثریتی ووٹ کے کٹنے کا خطرہ اسے نظر آ جاتا ہے۔

بار بار جامعہ:

مودی کے سپہ سالار بنجارا اور اس کے انکاؤنٹرز کو لوگ بھولے نہیں ہیں  —  گجرات سے ممبئی تک میڈیا، انکاؤنٹرز کی خبروں کو ایسے اچھالتی تھی جیسے دیش کا ہر ایک مسلمان دہشت گرد ہے —  کیونکہ بار بار دہشت گردی کی ہر کارروائی میں نشانہ کسی ایک عاطف یاساجد پر نہیں ہوتا تھا، بلکہ میڈیا کے شور و غل میں ملک کے سارے مسلم نوجوان نشانے پر ہوتے تھے۔  ہر بار دہشت گرد کی جیب میں اردو میں لکھی ایک پرچی ہوتی تھی۔  (آج کی نوجوان مسلم نسل اردو نہیں جانتی) —  ہر بار کرتا، پاجامہ پہننے والا شخص، چشم دید گواہوں کے نشانے پر ہوتا تھا۔  (تاکہ جائے واردات پر وہ اپنے لباس کے ذریعہ آسانی سے پہچان لیا جائے) —  کیا آج کے مسلم نوجوان کرتا پائجامہ پہنتے ہیں  — ؟ کیا جینس کی پینٹ اور ٹی شرٹ پہنے ہوا شخص مسلمان نہیں ہو سکتا — ؟ اس کا جواب ہے، ہو سکتا ہے، لیکن پولیس انتظامیہ اور حکومت کی نظر میں جینس اور پینٹ شرٹ پہننے والا شخص ملک کے تمام مسلمانوں کی نمائندگی نہیں کر سکتا۔   میڈیا کو ایک فیکس یا میل حاصل ہو جاتا ہے —  ہر بار کسی انڈین مجاہدین کی جانب سے یہ اعتراف نامہ بھی آ جاتا ہے کہ بھیا، یہ تو ہم نے کیا ہے۔  کیا کبھی حکومت نے ان فرضی فیکس یا میل کی تحقیق کرنے یا جانچنے کی کوشش کی؟ ان باتوں کا ذکر اس لیے ضروری ہے کہ ایسی ہر کارروائی ہندوستان میں پیدا ہونے والے ایک ایک مسلمان کے رنج و غم کا سبب بن جاتی ہے۔

جامعہ یا بٹلہ ہاؤس میں جو کچھ ہوا، وہ اچھا نہیں ہوا۔  شاید بہت سے لوگوں نے انکاؤنٹر کے بعد کا وہ چہرہ نہیں دیکھا جو میں نے دیکھا ہے۔  رمضان کے مہینے میں ہونے والی اس واردات نے علاقے کے تمام مسلمانوں کو جیسے کسی لاش میں تبدیل کر دیا تھا۔  پولیس کسی بھی وقت کسی کے بھی گھر دھمک جاتی تھی۔  یہ کہنے پر کہ بھائی، ہم تو پڑے لکھے لوگ ہیں۔  پولیس کا جواب ہوتا تھا ’تم جیسے پڑھے لکھے لوگ ہی یہ کارروائی کرتے ہو۔ ‘‘ مالیگاؤں سے لے کر اعظم گڑھ تک کے تار دہشت گردوں سے جوڑ دیئے جاتے تھے۔  سب سے زیادہ نوجوان پریشان تھے۔  وہ گھر سے باہر نکل ہی نہیں سکتے تھے۔  یہ دہشت اور خوف کہ پولیس کی کتوں جیسی آنکھیں کب ان کا شکار کر لیں، کہا نہیں جا سکتا۔  اسی ماحول میں عید جیسا دن بھی آیا۔  عید جسے خوشی کا دن کہتے ہیں۔  لیکن مسجدیں سنسان رہیں  —  ایک اطلاع کے مطابق کئی مسلم نوجوان اس دن مارے ڈر کے مسجد نہیں گئے۔  اس تحریر سے پہلے میں جامعہ اور بٹلہ ہاؤس کے بہت سے لوگوں سے ملا۔  ایک تکلیف دہ بات اور بھی سامنے آئی۔  کچھ مسلم بچے جنہیں نئی نئی اپنی پرائیوٹ نوکری جوائن کرنے کا پیغام ملا تھا، انہیں نوکری پر آنے سے منع کر دیا گیا —  (شاید یہ بھیانک بات آپ کو معلوم ہو کہ آج بھی دلی سے ممبئی تک کسی بھی مسلمان کا اپنے لیے کرائے کا مکان تلاش کرنا ایک بے حد مشکل کام ہوتا ہے۔  عام طور پر مکان مالک کرایہ دار مسلمانوں کو اپنا گھر نہیں دینا چاہتے —  جاوید اختر جیسے لوگوں کو بھی ممبئی میں اپنا گھر خریدنے پر خبر بننا پڑتا ہے —  بھلے ہی ان باتوں کو فرقہ واریت سے جوڑا جائے لیکن یہی سچ ہے۔  جامعہ والی واردات کے بعد تو مسلمانوں کے لیے رہائشی مکانوں کی تلاش اور بھی مشکل کام ہو گیا ہے۔

اسی ملک میں وہ بھی ہوا، شاید جس کو کبھی خواب و خیال میں بھی نہیں لایا جا سکتا تھا —  جو شاید بابری مسجد گرانے اور گودھرا کی واردات سے زیادہ شرمناک تھا۔  بٹلہ ہاؤس فرضی انکاؤنٹرز کی واردات کے کچھ ہی روز بعد ایک پورے محلے پر پابندی لگا دی گئی —   ہماری گلوبل تہذیب کو کہیں نہ کہیں انٹرنیٹ یا فاسٹ فوڈ کلچر سے بھی جوڑا جاتا ہے۔  انکاؤنٹر کے بعد جو خبریں آئیں وہ دردناک تھیں۔  انٹر نیٹ ایجنسیوں نے نئے کنکشن دینے سے انکار کر دیا  —  یہاں تک کہ جنک فوڈ یا پزہ ڈلیور کرنے والوں نے کہا کہ ہم جامعہ میں ڈلیوری نہیں دیں گے۔  لیجئے نئی دنیا کے دروازے جامعہ کے لئے بند —  وہ بھی ایک ایسے فرضی انکاؤنٹر کے لیے، حکومت جس کی منصفانہ جانچ تک کرانا نہیں چاہتی تھی —

کیا ممبئی کے سینکڑوں انکاؤنٹرز فرضی نہیں پائے گئے؟ جس کے بارے میں میڈیا چیخ چیخ کر عام دنوں میں مسلمانوں کے لیے نفرت اور زہر بھرا کرتی تھی؟

کیا گجرات میں بنجا رہ کے ذریعہ ہونے والے انکاؤنٹرز فرضی نہیں تھے؟ یہ مت بھولیے کہ جب سہراب اور اس کی بیوی پر میڈیا دہشت گردی کے الزام طے کرتے ہوئے ۲۴۔ ۲۴ گھنٹے ہر ایک ہندوستانی کے دل میں مسلمانوں کی مسخ شدہ شبیہ پیش کر رہی تھی، ان واردات سے ملک کا ایک ایک مسلمان اپنے دامن پر ان داغوں کو لگا ہوا محسوس کر رہا تھا —  لیکن کیا ہوا؟ سچائی سامنے آئی اور بنجا رہ آج سلاخوں کے پیچھے ہے —  یہاں میں بڑی بڑی باتوں یا بڑے بڑے فلسفوں میں الجھنا نہیں چاہتا۔  بدلے بدلے سے ہندوستان کا یہ چہرہ بھی دیکھئے۔

(الف)  جہاں چھوٹے چھوٹے مسلم معصوم بچوں کو اسکول میں ان کے دوست اسامہ یا دہشت گرد کہہ دیتے ہیں اور ان کے پاس یہ جواب نہیں ہوتا ’کہ دہشت گرد کسی مذہب کے نہیں ہوتے۔ ‘

(ب)  میری نیٹ فرینڈ سومیا بنرجی جس سے میرے رشتے دو سال پرانے تھے، اس نے  یہ آف لائنس مجھے بھیج کر چونکا دیا، کہ تم مسلمان ہو، میں اب تم سے رشتہ نہیں رکھ سکتی۔

شاید تقسیم کے بعد سے ہم مسلسل ایسی صورت حال کا شکار ہو رہے ہیں جہاں ہر کارروائی یا واردات میں شک کی سوئی اچانک ہماری طرف تن جاتی ہے —  اور بار بار دوستووسکی کے ایڈیٹ کی طرح سامنے آ کر مسکراتے ہوئے ہمیں یہ جواب دینا پڑتا ہے —  کہ بھائی اسامہ ہم نہیں ہیں  —  پاکستان سے آزاد ہندوستان کے مسلمانوں کا کوئی لینا دینا نہیں ہے —  کہ بھائی دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا — کہ بھائی فلاں کارروائی ہم نے نہیں کی۔

سن ۲۰۰۳ء، جلتے ہوئے گجرات پر میری کتاب ’لیبارٹری‘ شایع ہوئی تھی —  جس کے اجرا میں نامور جی، راجندر یادو اور کملیشور جیسے بڑے نام بھی شامل تھے —  اجرا کے ٹھیک دوسرے دن رات کے گیارہ بجے میرے گھر دو پولیس والے آئے —  مجھ سے کہا گیا، مجھے لودھی روڈ تھانہ بلایا گیا ہے —  میرا سارا خاندان پریشان ہو گیا۔  میں نے اس کی اطلاع راجندر یادو جی کو بھی دی۔  انہوں نے کہا۔  جاؤ دیکھو —  گھبرانا مت —  ٹھیک گیارہ بجے دن میں لودھی روڈ تھانہ میں موجود تھا۔  وہاں اپنی اہلیہ کی موجودگی میں راجویر (انکاؤنٹر اسپیشلسٹ، جس کو دو سال پہلے قتل کر دیا گیا) سے جو پہلا جملہ میں نے کہا، وہ یہ تھا — ’اگر میں اس ملک کے لیے وفادار نہیں تو اس ملک کے لیے کوئی بھی وفادار نہیں ہو سکتا —  وہاں میری پوری فائل کھلی ہوئی تھی۔  مجھ سے بیہودہ اور اس طرح کے شرمناک سوال پوچھے گئے … جیسے ’کشمیر کے فلاں شخص کو میں جانتا ہوں ؟‘‘

’’پاکستان کا فلاں آدمی کبھی میرے گھر آیا؟‘‘

میں نے ان سوالوں کے جواب میں کہا —  ’’ہندوستان کی طرح میری کہانیاں پاکستانی رسائل میں بھی شایع ہوتی ہیں  —   پاکستان سے کبھی کبھار میرے قلم کار دوست ہندوستان آتے ہیں تو وہ مجھ سے بھی ملنا چاہتے ہیں  —  لیکن میں ان سے نہیں ملتا۔  میں اسی خوف کی وجہ سے ان سے نہیں ملتا کہ ایسے حالات پیدا نہ ہوں جو آج پیدا ہوئے ہیں۔ ‘‘ چار پانچ گھنٹے کی پوچھ تاچھ کے بعد مجھ سے کہا گیا کہ در اصل آپ کا نام دہشت گردوں کی ہٹ لسٹ میں ہے۔  ہم آپ کو سیکورٹی دینا چاہتے ہیں۔ ‘‘میرا سیدھا سا جواب تھا —  ’مجھے سیکورٹی نہیں چاہئے —  جاتے جاتے انہوں نے ایک توپ اور داغی —  ’آپ کہانیاں لکھئے —  مضامین مت لکھئے —  میں نے پوچھا ’کیا میں اسے دھمکی سمجھوں ؟ مسکراتے ہوئے جواب ملا —  ’دھمکی ہی سمجھئے —  مضمون لکھنے سے باز آ جائیے۔ ‘

فرقہ واریت کے ان چہروں کو دکھانا اس لیے بھی ضروری ہے کہ آپ اب بھی سمجھ جائیے کہ کوئی بھی حکومت آپ کی نہیں ہے —  ہم ایک بار پھر تقسیم کے دروازے پر کھڑے ہیں  — ؟ بھاجپا کے دور اقتدار میں ہندوستانی مسلمانوں کے دلوں میں نفرت پیدا کرنے کا جو کام میڈیا (منوج رگھو ونشی کے زہر بھرے پروگرام) اور حکومت نے شروع کیا تھا، کانگریس اسی کام کو بڑھاوا دے رہی ہے۔ فرقہ پرستی کی ایک نئی تہذیب چپکے چپکے اس آزاد بھارت میں پیدا ہو رہی ہے —  کیا کسی کو اس کا احساس ہے؟ ہندو مسلم بھائی بھائی کے نعرے کہاں گم ہو گئے؟ یہ کیسی تہذیب ہے جہاں مسلمانوں کو اپنی حفاظت کے لیے  ایک الگ پاکستان تلاش کرنا پڑتا ہے —   ایک ایسی بستی جہاں صرف مسلمان رہتے ہوں  —  (میں جس کالونی میں رہتا ہوں اس کا نام تاج انکلیو ہے —  یہاں 358 فلیٹ ہیں مسلمانوں کے۔  آزادی کے بعد کی فرقہ واریت، اڈوانی جی کی خطرناک رتھ یاتراؤں نے غیر محفوظ مسلمانوں کو اس کا احساس کرایا کہ انہیں ایک جگہ مل کر رہنا چاہئے۔  سوال یہ ہے کہ یہ احساس کس نے کرایا؟ کیا جامعہ جیسے فرضی انکاؤنٹرز کو دیکھتے ہوئے مسلمانوں کا ایسا سوچنا ناجائز ہے؟

ہندی رسالہ پاکھی، نومبر ۲۰۰۸ کے شمارے کے اداریہ میں، اپورو جوشی نے لکھا۔  ’’اگر اس ملک کے مسلمان ایک لمحہ میں اسلام کے نام پر دھندا کر رہے دھوکہ بازوں کو چاہے وہ راج نیتا ہوں یا مذہبی نیتا، سے باز آنے کے لیے کہیں تو یقیناً ہندوتو کے ٹھیکیداروں کی  زبان بھی بند ہو جائے گی —  پھر کوئی مودی ہزاروں معصوموں کی بلی لے کر بھی اقتدار میں نہیں بیٹھا رہ سکے گا۔ ‘‘

ہنس (نومبر 2008) میں آشوتوش نے ’جامعہ انکاؤنٹر اور مسلم شناخت‘ کے بہانے صلاح دیتے ہوئے تحریر کیا۔

’اگر مسلمان، مودودی، اسامہ اور ظواہری جیسی سوچ کا شکار ہو گئے تو اس مذہب کا کوئی مستقبل نہیں بچے گا —  جو امن اور شانتی کا سبق پڑھاتا ہے —  اس ماسٹر مائنڈ کی زبردست مخالفت کرنے کا وقت آ گیا ہے —  اگر اب ایسا نہیں ہو گا تو، ایم جے اکبر جیسے لوگ تاریخ میں ولین کی صورت میں دیکھے جائیں گے اور ہندو کٹّر پنتھی جیسی طاقتیں اس ملک پر راج کریں گی — ‘

ان سوالوں کا سیدھا سا جواب ہے، آخر کسی بھی دہشت گرد کارروائی کے لیے ملک میں پورے مسلمانوں کا سامنے آنا کیوں ضروری ہے؟ کیا پرگیہ معاملہ میں سارے ہندو آ کر یہ جواب دیں گے کہ اس کارروائی کے پیچھے وہ نہیں ہیں  —  یہاں یہ بات بھی غور طلب ہے کہ کسی بھی دہشت گردی کی حمایت میں ملک کا کوئی بھی مسلم نیتا کبھی سامنے نہیں آیا۔  چاہے وہ بخاری ہوں یا شہاب الدین۔  لیکن پرگیہ کے معاملے میں تو جیسے بھاجپا اور سنگھ پریوار کھل سامنے آ گیا تھا۔  اوما بھارتی تو پرگیہ کو اپنی پارٹی سے ٹکٹ تک دینا چاہتی تھیں۔  کیا اپنے گھر کو اپنا گھر کہنے کے لیے بار بار مسلمانوں کو اس ملک کے آگے اپنی صفائی دینی ہو گی؟ کیسے حالات ہیں کہ مسلمان اپنے لیے الگ کالونی یا انکلیو کی مانگ کرتے ہیں۔  کیا یہ افسوسناک صورت حالت نہیں۔

انتظامیہ، فوج وغیرہ سبھی جگہوں پر سنگھ کے بڑے افسر خاموشی سے اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں تو کیا عام میڈیا اس خبر سے آشنا نہیں  — ؟ کیا اس سے یہ نتیجہ نکالنا غلط ہے کہ اس طرح کی زیادہ تر دہشت گرد کارروائیوں کے پیچھے صرف سنگھ ماسٹر مائنڈ رہا ہے، جو اپنی اس گھناؤنی سازش میں کامیاب ہے کہ اتنے شکار کرو، کہ ہر ایک مسلمان پر دہشت گرد ہونے کا شبہ ہو۔

کیا سنگھ کی ان ناپاک سازشوں کا حالیہ سرکار کے پاس کوئی حل نہیں ؟ کیا واحد راستہ نوجوان مسلمانوں کے مستقبل کے آگے سوالیہ نشان لگانا ہی ہے —  کیا سنگھ کے معاملے میں اپنی زبان کھول کر کانگریس ہندو ووٹوں سے اپنے ہاتھ دھو بیٹھے گی —  ان سے بھی بڑا ایک سوال ہے —  میڈیا اس آتنک وادی بازار سے کب اپنا پیچھا چھڑائے گی —  جہاں ٹی آر پی بڑھانے کے چکر میں وہ مسلسل ملک کو ایک نئے خطرے کی جانب ڈھکیل رہی ہے۔

سو سال پہلے امریکی آزادی کے حلف نامے پر دستخط کرنے والوں نے ایک خواب دیکھا تھا —  کب ختم ہو گی نا انصافی؟ غلاموں کی زندگی میں کب آئے گی امید کی کرن  —  ۶۲ برسوں میں فرقہ وارانہ فسادات کی بڑھتی پھیلتی آگ بار بار ہندوستانی مسلمانوں کے حق میں شاید اسی سوال کو اٹھاتی رہی ہے —  کب ختم ہو گا، غیر محفوظ ہونے کا احساس — ؟ فی الحال تو راجستھان سے ممبئی اور عدلیہ کے حالیہ فیصلے کو دیکھتے ہوئے صرف اتنا کہا جا سکتا ہے کہ کسی نہ کسی کو تو آگے بڑھ کر ان نا انصافیوں کے خلاف آواز بلند کرنی ہو گی۔

آخر میں

میں نے ایک چھوٹی سی آواز بلند کرنے کی ہمت کی ہے —  اس میں تلاش ماضی کے بلیغ استعارے نہ سہی، اس میں آج کی آواز تو شامل ہے۔  میں نہیں جانتا، اردو دنیا میں اس ناول کا استقبال کیا جائے گا یا نہیں  —  مگر میں یہ ضرور جانتا ہوں کہ میں اپنی تخلیق میں کبھی بھی خود کو دہرانا پسند نہیں کرتا —  اس ناول میں بھی میں نے خود کو دہرانے کی کوشش نہیں کی ہے —  اب یہ ناول آپ کے سامنے ہے۔  اس یقین کے ساتھ کہ نئی دنیا کے اس ’بے رنگ اور بے رحم تحفے‘ کو آپ تک پہنچاتے ہوئے مجھے کوئی خوشی نہیں ہے۔  لیکن ایمانداری اور دیانت داری کے ساتھ میں نے اپنی بات آپ تک پہنچانے کی جرأت ضرور کی ہے۔

                             مشرف عالم ذوقی

                             ڈی۔ ۳۰۴، تاج انکلیو

                             گیتا کالونی، دلّی۔ ۱۱۰۰۳۱

 

 

حصہ اوّل

 

 

سراغ سے قبل۔  الف

(۲۰۰۸ء)

 

آگ بجھی ہوئی ادھر، ٹوٹی ہوئی طناب ادھر

کیا خبر اس مقام سے گزرے ہیں کتنے کارواں

                                           —  اقبال

 

 

 

(1)

وہ خوفناک رات

تب فیصلہ نہیں آیا تھا —  فیصلہ آنے والا تھا۔

اور ملک کے ایک سو دس کروڑ عوام کی طرح مجھے بھی اس فیصلہ کا احترام کرنا تھا۔

٭٭

’وہ سب سے اچھا وقت تھا/

وہ سب سے بُرا وقت تھا/

وہاں آستھائیں روشن تھیں /

وہاں اندھے یقین میں ڈوبے ہوئے لوگ تھے/

وہ موسم نور کی بارشوں کا تھا/

وہ موسم تاریک سناٹوں کا تھا/

وہاں امیدیں، بہار کے گیت اپنے ساتھ لائی تھیں

وہاں سرد راتوں میں ٹھٹھرتی ہوئی نا امیدی کا بسیرا تھا۔

ہمارے سامنے سب کچھ تھا

اور ہمارے سامنے کچھ بھی نہیں تھا —

ہم سب سیدھے جنت کی طرف جا رہے تھے

یا ہم سب کسی اور منزل کی طرف

 —   چارلس ڈکنس (اے ٹیل آف ٹوسیٹیز)

تب اسامہ کے چہرے پر ہلکی ہلکی داڑھی آنی شروع ہوئی تھی —  اور حق بات یہ ہے کہ میں اُس کے بدلے ہوئے طور طریقے سے خوفزدہ رہنے لگا تھا —  سر پر سفید سی دو پلّی ٹوپی اور کرتا پائجامہ —  سولہ سال کے اسامہ میں آنے والی ان تبدیلیوں سے میرا گھبرا جانا واجب تھا۔  مجھے یہ تسلیم کرنے میں کوئی پریشانی نہیں کہ مسلمان ہونے کے باوجود زندگی جینے کا میرا اپنا انداز تھا اور اس انداز میں مذہبی رنگ کبھی غالب نہیں رہا —  کبھی کبھی کوئی جمعہ یا عید، بقر عید کی نماز —  ایسا اس لیے بھی ہے کہ شعور کی آنکھیں کھولنے کے بعد اشتراکی نظریہ نے مجھے اپنی قید میں لے لیا تھا —  پاشاؤں کی کوٹھی تک وہ مذہب زندہ تھا۔

پاشاؤں کی کوٹھی —

یاد کروں تو آنکھوں کے پردے پر ایک خستہ حال عمارت کے نقوش ابھرتے ہوئے مجھے اپنی قید میں لے لیتے ہیں۔  کچھ آوازیں ہیں جو اچانک میرا راستہ روک لیتی ہیں  …

’ارشد … جمعہ کا دن ہے بیٹا —  آج تو نہا دھوکر جلدی تیار ہو جاؤ۔  نماز پڑھنے نہیں جاؤ گے کیا …؟‘

ابّا حضور تغلق پاشا کی آواز گونجتی اور ایک وقت کی مار کھائے ہوئے بوڑھے وجود میں، میں سسکتے ہوئے مذہب کو دیکھ کر ڈر جاتا تھا —  اور یہ وہ دور تھا جب ملک کے نقشہ پر سب سے بڑا ہیرو مذہب تھا —  (یہ کہانی آگے آئے گی۔ )

پاشاؤں کی کوٹھی کو زوال آ گیا —  بزرگ منوں مٹی کے نیچے سوگئے —  خاندان بکھر گیا —  انور پاشا ممبئی چلے گئے۔  راشدہ کی شادی ہو گئی اور وہ بنگلور چلی گئی۔  میں خوشی سے دلّی چلا آیا —  پھر جد و جہد کی ایک نئی کہانی شروع ہوئی —  بنجاروں کی طرح گھر بدلتے ہوئے بٹلہ ہاؤس کے دلکشا انکلیو میں دو کمرے کا ایک چھوٹا سا گھر میری زندگی بن گیا —

یہ علاقہ مجھے کبھی پسند نہیں رہا —  گھر سے باہر نکلتے ہی انسانوں کا ایک جم غفیر —  تنگ گلیاں  —  تنگ سڑکیں  —  دونوں طرف دکانیں اور عمارتیں ساتھ ساتھ —  کباب، بریانی اور گوشت کی خوشبو —  ٹوپی پہنے کرتا پائجامہ میں گھومتے معصوم بچوں، نوجوانوں سے بوڑھوں تک —  یہ علاقہ مجھے پاکستان کے تصور میں گم  کرتا تھا اور میری پریشانی یہ ہے کہ پاکستان کے تصور سے تقسیم اور دہشت پسندی کے کتنے ہی واقعات میری نظروں میں گھوم جایا کرتے تھے —  چھوٹے چھوٹے نکڑ پر لوگوں کا ہجوم —  گھیرا بند مسلم نوجوانوں کی ٹولی … کبھی کبھی اڑتی ہوئی گفتگو کے کچھ حصے مجھ تک بھی پہنچ جاتے تھے —  اور یقیناً مجھے اس گفتگو میں ایک خاص فرقہ کے لیے نفرت کے جراثیم محسوس ہوتے تھے۔  لیکن میں اب مفصل ان باتوں کا تجزیہ کر سکتا ہوں کہ اس ذہنیت کے پیچھے آزاد ہندستان کے ۶۲ برسوں میں کہیں نہ کہیں اُن حادثات و واقعات کا بھی ہاتھ رہا ہے، جس سے یہ قوم مسلسل زخمی ہوتی رہی ہے —  اور شاید اسی لیے سولہ برس کے اسامہ کو دیکھ کر میرا ڈر جانا واجب تھا …

میں رباب سے پوچھتا —

کہاں گیا ہے اسامہ …؟

مسجد …

لیکن یہ مسجد جانے کا کون سا وقت ہے …؟

’باہر سے جماعت آئی ہوئی ہے۔  اُس کے دوست آئے تھے۔  وہی اُس کو لے کر چلے گئے — ‘

’جماعت …؟ میں خوفزدہ لہجے میں پوچھتا —  ’جماعت سے اُس کا کیا کام …؟‘

میں جھلّائے ہوئے لہجے میں چیخ پڑتا۔  ’اُسے روکو رباب۔  سمجھاؤ اسے —  ہم ایک بُرے اور خوفناک نظام کا حصہ بن گئے ہیں۔  جہاں سروں پر پہنی گئی دو پلّی ٹوپیاں مجھے ڈراتی ہیں۔  کرتا پائجامہ مجھے خوفزدہ کرتا ہے —  پیشانی پر چمکتے ہوئے سیاہ داغ مجھے الجھن میں مبتلا کرتے ہیں۔  کہاں سے سیکھ رہا ہے وہ یہ سب —  یہ سب تو اس گھر میں کبھی نہیں رہا۔  وہ بدل رہا ہے رباب —  اور اُس کا بدلنا مجھے پاگل کر رہا ہے — ‘

’وہ میری بھی نہیں سنتا — ‘ رباب کی پیشانی پر بل پڑ گئے تھے — ’ تم نماز نہیں پڑھتے تو بیٹے کی نماز پر بھی پابندی لگا دو گے کیا — ؟ نماز ہی تو پڑھنے گیا ہے۔  کسی بری صحبت میں تو نہیں پڑ گیا نا —  کرتا پائجامہ پہننا گناہ ہے؟ ٹوپی پہننا جرم ہے — ؟ آپ مذہب سے پھر گئے ہیں  … وہ اچھے راستے پر چل رہا ہے تو اُسے چلنے دیجئے۔  روکتے کیوں ہیں آپ …؟‘

ہاں  —  میں روکتا کیوں ہوں ؟ شاید میں ڈر جاتا ہوں  —  ۴۸ سال کا یہ باپ اپنے سولہ سال کے بیٹے سے ڈر جاتا ہے … بیٹا، جو تاڑ کی طرح لمبا ہوا جا رہا ہے —  اور جس کے گندمی چہرے پر ہلکی ہلکی اُگتی ہوئی داڑھی کے نمودار ہونے سے میں اندر ہی اندر خوفزدہ ہو گیا ہوں  —  اور میں ہی کیا، بدلی بدلی سی اس خوفناک فضا میں آس پاس رہنے والوں کی بھی کیفیت یہی ہے۔  جن کے بچے جوان ہو رہے ہیں۔  یا جوان ہو چکے ہیں۔  یہ بچے اگر دیر سے گھر آتے ہیں تو ماں باپ ڈر جاتے ہیں  —  اور اس ڈر کی وجہ بہت صاف ہے  … اور شاید اس خوف کے پیچھے کے تار اعظم گڑھ سے لے کر ملک میں ہونے والے فرضی انکاؤنٹرزسے جڑے ہوئے ہیں  —  کیونکہ عام طور پر دہشت گردی میں ملوث جن نوجوانوں کو پولیس حراست میں لیتی ہے اُن کی عمر یہی کوئی پندرہ سے پچیس سال تک کی ہوتی ہے۔

٭٭

دیوار گھڑی رات کے دس بجا رہی تھی … کمرے میں گھنے سائے اکٹھے ہو گئے تھے … ارشد پاشا … تم ایک گہری دھند میں اتر چکے ہو … میں خود سے بڑبڑا رہا تھا … تیزی سے بدلتی ہوئی اس دنیا میں تم کہیں نہیں ہو —  تم کھو چکے ہو یا چن چن کے مارے جا رہے ہو۔  افغانستان سے عراق، فلسطین سے چیچنیا … اور اپنے ملک میں  —  اپنے ہی لوگوں کے درمیان دہشت گرد بنا دیئے گئے ہو …

میں اس آواز سے بچنا چاہتا ہوں  — کتنا بجا …؟ یہ بُری عادت ہے میری۔  گھڑی دیکھی اور عام طور پر وہیں اتار کر رکھ دی —  اب گھڑی کہاں کھوجوں  … رباب کبھی کبھی میری اس ادا پر مسکراتی ہے۔  نکاحی گھڑی سے اب تو پیچھا چھڑا لو —  نئی گھڑی لے آؤ۔  اب تو ان سولہ سترہ برسوں میں تمہاری بیوی بھی پرانی ہو چکی ہے …‘

’تو بیوی بھی نئی لے آؤں  …؟‘

’کیوں نہیں  —  رباب مسکراتی ہے —  لیکن نئی بیوی لانے کے لیے ہمت چاہیے … جو تمہارے پاس نہیں ہے …‘

قاتل اداؤں سے مجھے دیکھتی ہوئی رباب اپنے کمرے میں واپس لوٹ گئی ہے۔  لیکن مجھے یادوں کے ملبے میں تنہا چھوڑ گئی ہے … برسوں پیچھے چھوٹی ہوئی ایک آواز میرے تعاقب میں ہے …

’تم میں  … ہمت کی کمی ہے ارشد پاشا …‘

آنکھوں کے پردے پر دھندلاتی سی ایک تصویر ابھرتی ہے … صوفیہ …

سب کہاں کچھ لالۂ و گل میں نمایاں ہو گئیں

خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں

میں یادوں کے اس ملبے سے نکلنا چاہتا ہوں۔  دس بج گئے۔  اسامہ کہاں ہے — ؟ اب تک کیوں نہیں آیا۔  میں چلتا ہوا اسامہ کے کمرے تک آ گیا ہوں  —  بدلا بدلا سا کمرہ اسامہ میں آنے والی نئی تبدیلیوں کا گواہ بن گیا ہے۔  پہلے اس کمرے میں بڑے خطرناک پوسٹرزہوا کرتے تھے —  ٹی وی پر آنے والے اتنے سارے پروگرامز میں اسے بس wwf کے پروگرام پسند تھے —  اور انہی خطرناک آدمیوں کے پوسٹرز اُس نے اپنے کمرے میں لگا رکھے تھے … مگر اب یہ پوسٹر اُتر گئے تھے۔  کمرے میں کتابوں کی ایک میز تھی۔  دوسری میز پر ایک کمپیوٹر تھا —  مگر اب دیواروں پر مذہبی کلینڈر آویزاں تھے … کمپیوٹر والی میز پر ایک دو پلّی ٹوپی بھی پڑی تھی —  اس سے پہلے کہ میں اس کے کمرے کا جائزہ لیتا —  کال بیل کی گھنٹی کی آواز کمرے میں گونج چکی تھی۔  رباب نے آگے بڑھ کر دروازہ کھولا تو سہما ہوا اسامہ سامنے تھا۔

’تم اتنے گھبرائے ہوئے کیوں ہو …؟‘

رباب کی آواز سن کر میں کمرے سے باہر نکل آیا تھا —  اسامہ کے چہرے پر خوف ہی خوف تھا …

’کیا ہوا — ؟‘ میرے چہرے پر بھی خوف کے بادل روشن تھے …

’وہ راشد …؟‘

’راشد … کیا ہوا راشد کو …؟‘

’راشد، منیر، علوی اور میں عشا کی نماز کے بعد چہل قدمی کے لیے نکلے تھے …‘

پھر — ؟

’پلیا کے پاس پولیس چوکی بیٹھی ہے نا …‘

’ہاں  … پولیس چوکی تو یہاں ۲۴ گھنٹے رہتی ہے … مگر ہوا کیا — ؟‘ اس بار میں زور سے چیخا تھا —  اور شاید یہی میری غلطی تھی۔  میں بھول گیا تھا کہ اسامہ اب بچہ نہیں ہے۔  وہ جوان ہو رہا ہے۔  اس کے پنکھ نکل آئے ہیں۔  اُس میں تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں  —

مجھ سے کہیں زیادہ زور سے اسامہ چیخا تھا —

’اس ملک کو اپنا ملک کہتے ہوئے اب شرم محسوس ہوتی ہے۔ ‘

’پاگل ہو گئے ہو تم —  کچھ لوگ یہی چاہتے ہیں کہ اس ملک کو اپنا ملک کہتے ہوئے تم شرم محسوس کرو — ‘

’پوری دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے کیا اُس کے پیچھے مسلمان ہی ہیں  — ؟‘

وہ چیختا ہوا اب بھی میری طرف دیکھ رہا تھا —  ’ہر مسلمان میں ایک Terrorist دیکھتے ہیں یہ لوگ …‘

میری آواز بھی سرد تھی —  ’مسلمان ایسی کارروائی کر تے ہی کیوں ہیں  — ؟‘

’کیا سچ مچ جو کچھ ہو رہا ہے وہ مسلمان کر رہے ہیں ؟، اس کی آواز سرد تھی —  جسم میں اتر جانے والی اور یقیناً اس کی اس سرد آواز نے مجھے ڈرا دیا تھا۔  یہ وہ اسامہ نہیں تھا جس کی میں نے پرورش کی تھی … یہ تو وہ زبان بول رہا تھا جو شاید بدلی بدلی سی فضا نے اس کو عطا کی تھی —

وہ کرسی پر بیٹھ گیا۔  اس کی آنکھیں جل رہی تھیں  —  ’اب میرا یقین اور پختہ ہو گیا ہے کہ ہم غلط نہیں ہوتے بلکہ ہمارے صبر، ہمارے حوصلے کا امتحان لیا جاتا ہے — ‘

’کیا ہوا ہے۔  پہلے پوری بات بتاؤ — ‘ میں اس کے ٹھیک سامنے والی کرسی پر بیٹھ گیا تھا —  میرے پیچھے سہمی ہوئی رباب کھڑی تھی۔

’پلیا کے پاس دو پولیس والے تھے۔  ہم چاروں ہنستے ہوئے آگے بڑھے تو پیچھے سے آواز سنائی پڑی … آتنک وادی —  یہ چوکی پر بیٹھا ہوا ایک پولیس والا تھا، جو ہماری طرف دیکھ کر ہنس رہا تھا — ‘

’تو …؟‘

’تو …؟ وہ غصے سے میری طرف گھوما۔  کیا آپ اسے چھوٹی سی بات سمجھتے ہیں  — ‘

’ہاں  — ‘

’یعنی ہمیں آتنک وادی کہا جاتا ہے تو یہ چھوٹی بات ہے …؟‘

’ہاں  —  آتنک وادی کہنے سے آتنک وادی بن تو نہیں گئے — ؟‘

اسامہ چیخا تھا —  ’مجھے گھٹن ہوتی ہے ایسے ماحول سے — ‘

’لیکن اسی ماحول میں رہنا ہے اور ہوشیاری سے رہنا ہے۔ ‘

’ہوشیاری سے رہنے کی تعلیم صرف ہمیں ہی کیوں دی جاتی ہے۔  اس لیے کہ ہم مسلمان ہیں ؟‘‘

رباب سامنے آ گئی تھی۔  ’تم لوگ کیوں جھگڑ رہے ہو۔  اسامہ سے پوچھو۔  ہوا کیا تھا — ؟‘

اسامہ کی آنکھیں خوف سے پھیل گئی تھیں  —  ’ہم نے راشد کو سمجھایا تھا۔  پولیس والوں سے پنگا مت لے۔ ‘

’پھر — ؟‘

’راشد پولیس والے سے الجھ گیا۔  ہاں، ہم آتنک وادی ہیں۔  کیا کر لو گے۔  یہاں رہنے والے سارے آتنک وادی ہیں  — ‘

’راشد کو ایسا نہیں کہنا چاہیے تھا۔ ‘

’کیوں نہیں کہنا چاہیے تھا؟ کیا پولیس والے کو ہمیں آتنک وادی کہنے کا کوئی حق تھا؟‘

’پھر کیا ہوا — ‘ رباب کے خوفزدہ چہرے پر پسینے کی بوندیں جھل مل کر رہی تھیں  —

’راشد اور پولیس والے میں ہاتھا پائی ہو گئی۔  کافی لوگ جمع ہو گئے۔  پولیس والے نے راشد کو کافی مارا پیٹا —  کسی طرح ہم اسے چھڑانے میں کامیاب ہوئے — ‘

پولیس والے نے تم لوگوں سے تو کچھ نہیں پوچھا؟

’نہیں  — ‘

’تمہارے چہرے پہچانتے ہیں  — ؟‘

’نہیں بھی پہچانتے ہوں تو پہچان گئے ہوں گے …‘

میرے چہرے پر زلزلے کے آثار تھے۔  ‘کیا اس نے تم سے تمہارا نام بھی پوچھا — ؟

اسامہ ایک لمحے کے لیے ٹھہرا —  غور سے میرے لرزتے ہوئے چہرے کو دیکھا۔  پھر گردن جھٹک کر بولا —  نہیں۔  اس کی ضرورت پیش نہیں آئی — ‘

رباب عجیب سی نظروں سے میری طرف دیکھ رہی تھی‘ جیسے میرے چہرے کے تاثرات کو سمجھنے کی کوشش کر رہی ہو —

٭٭

مجھے یہ بتانے میں کوئی پریشانی نہیں ہے کہ میں اپنے کمرے میں لوٹنے تک خاصہ ڈرا ہوا تھا۔  لیکن میں کیوں ڈرا ہوا تھا؟ کیا اسامہ کے نام سے — ؟ پاشا تو ہمارا خاندانی نام تھا —  اور ابّا حضور نے میرے بیٹے کا نام اسامہ تجویز کرتے ہوئے سوچا بھی نہیں ہو گا کہ ایک دن اس نام سے خطرے کی بو آنے لگے گی۔  اسامہ صحابی تھے اور ابّا حضور کو اس طرح کے اسلامی نام پسند آتے تھے۔  مگر تب 9/11 کی واردات سامنے نہیں آئی تھی۔  تب اسامہ نام دہشت گردی کی علامت کے طور پر سامنے نہیں آیا تھا —  لیکن جیسے جیسے اسامہ پاشا بڑے ہوتے گئے، اُن میں  اس نام کا خوف بھی سمانے لگا تھا —  جیسے وہ اسکول سے واپسی کے بعد چیختا —

’ابّا، آپ کو کوئی اور نام نہیں ملا۔ ‘

’کیوں ؟‘

’بچے چڑاتے ہیں۔  پوچھتے ہیں تری داڑھی کہاں گئی؟‘

’چڑانے دو — ‘

رباب سہمے ہوئے چہرے کے ساتھ پوچھتی  —  ’کیا نام بدلا نہیں جا سکتا — ؟‘

میں غصے میں کہتا —  ’کیا ایک نام کے سارے لوگ دہشت گرد ہوتے ہیں۔ ؟‘

’نہیں  — ‘

لیکن اسامہ پاشا کی پریشانی تھی کہ اس کے ساتھ پڑھنے والے بچے اس کا نام لے کر پاگل کر دینے والے سوال پوچھتے تھے —  ورلڈ ٹریڈ ٹاور توڑنے کا خیال کیسے آیا؟ جارج بش تیرا دوست ہے یا دشمن؟ تیرا اے کے ۴۷ کہاں ہے؟ ضرور اسکولی بیگ میں چھپا کر رکھا ہو گا — ‘

میں اسامہ کو سمجھانے کی کوشش تو کرتا لیکن جیسے میرے سارے تیر خالی چلے جاتے۔

’تم اپنے دوستوں سے کہو، وہ تمہیں پاشا پکاریں  — ‘

’نہیں  —  اُنہیں اسامہ ہی پسند ہے — ‘

’پھر کیا علاج ہے۔  اسکول سے نام کاٹ کر کسی اور اسکول میں  …؟‘

میں اس کی آنکھوں میں جھانکتا تو وہاں وحشت کے گھنے بادلوں کے ٹکڑے … … نظر آ جاتے —

’کوئی فائدہ نہیں  —  نام تو یہی رہے گا۔  وہاں بھی سب مجھے اسی نام سے پکاریں گے — ‘

شکسپیئر نے کہا تھا، نام میں کیا رکھا ہے —  لیکن یہاں یہ نام میرے بیٹے کی پریشانیوں کا باعث بن گیا تھا۔  میری مجبوری یہ تھی کہ اب میں اس نام کی جگہ کوئی دوسرا نام نہیں رکھ سکتا تھا۔  لیکن مجھے کیا پتہ تھا کہ ایک دن یہ نام وقت کی زنبیل سے ایک نئے چہرے کو برآمد کر لے گا —  ایک ایسے نئے چہرے کو، جسے میں پہچان بھی نہیں پاؤں گا …

رباب میری گھڑی لے کر کمرے میں داخل ہوئی تھی —

’مل گئی —   بیسن کے پاس چھوڑ آئے تھے —  پہن لو، ورنہ پھر اسے تلاش کرتے رہو گے …‘

٭٭

(2)

 ستمبر، ۲۰۰۸

یہ وہی دور تھا جب دہشت گردوں کی کارروائیاں زوروں پر تھیں۔  اخبار اور میڈیا، سیمی اور انڈین مجاہدین کا نام زور زور سے اچھال رہے تھے —  سیمی کو اسپیشل ٹریبیونل سے راحت ملی تھی لیکن مرکزی سرکار نے ٹریبیونل کے اس فیصلے کو خارج کرنے کا حکم سنا دیا تھا۔  پولیس عام طور پر مسلم نوجوانوں کو ایسی نظروں سے دیکھتی تھی جیسے وہ سیمی کے ممبر ہوں  —  خاص کر ایسے بچے جن کے سروں پر ٹوپیاں ہوتی تھیں یا جو کرتا پائجامہ میں ہوتے تھے —  لیکن خدا کا شکر تھا کہ اس وقت تک یہ تبدیلیاں اسامہ میں نہیں آئی تھیں لیکن ان تبدیلیوں کے آنے کے امکانات ضرور روشن ہو گئے تھے۔

یہ اسی رات کا قصہ ہے جب اچانک کال بیل کی آواز سن کر ہم چونک گئے تھے —  اب کون آیا …؟

گیارہ بج گئے تھے۔  عام طور پر محلے والوں کے آنے کا سلسلہ بارہ بجے تک جاری رہتا تھا۔  اس علاقے میں عام طور پر دیر رات تک دکانیں کھلی ہوتیں۔  سڑکوں پر بھیڑ بھاڑ رہتی۔  رکشے والے، اسکوٹر اور گاڑیوں سے تنگ سڑکیں جام ہی رہتیں  —  لوگ دیر رات تک جاگنے کے عادی تھے —  مگر اسامہ کی خبر نے ہم سب کو اس قدر دہشت زدہ کر دیا تھا کہ کال بیل کی آواز بھی خطرے کا سائرن لگ رہی تھی۔

’کون ہو سکتا ہے …؟‘ یہ رباب تھی —

اسامہ کا کمرہ بند تھا —

رباب کے چہرے کی ہوائیاں اڑ رہی تھیں  … ’کہیں اُن لوگوں میں سے تو کوئی نہیں  …؟‘

’دیکھتے ہیں  …‘

آگے بڑھ کر میں نے دروازہ کھول دیا اور چونک گیا …

’تھاپڑ تم …؟‘

میں نے راحت کی سانس لی تھی —  یہ اجے سنگھ تھاپڑ تھا —  میرا دوست جو کاشی سے میری ہی طرح اب دلّی آ کر بس گیا تھا —  مگر اب وہ صحافت چھوڑ کر سیاست میں پناہ تلاش کر رہا تھا —  اُس کی اونچی پہنچ کا مجھے بھی اندازہ تھا —  مگر تھاپڑ کی معصومیت یہ تھی کہ وہ اب تک کرپٹ پولیٹیشین سے نفرت کرتا تھا۔  اس موضوع پر کتنی ہی بار میرا اس کا جھگڑا ہو چکاتھا —  مگر تھاپڑ کی دلیل تھی کہ وہائٹ کالرس بھی اسی زمین میں پیدا ہوتے تھے۔  چند سیاست دانوں کے گندہ ہونے سے سیاست گندی نہیں ہو جاتی —

تھاپڑ نے کھادی کا کرتہ پائجامہ پہن رکھا تھا۔  آگے کے بال اڑ گئے تھے —  کندھے سے جھولتا ہوا ایک جھولہ بھی تھا جس میں عام طور پر کتابیں اور میگزینس ہوتی تھیں  —

’تم اس وقت …؟‘

’کیوں مجھے نہیں آنا چاہیے تھا؟‘ وہ قہقہہ لگا کر ہنسا —  پھر غور سے ہمارے چہروں کا جائزہ لینے لگا —

’اتنی مردنی کیوں چھائی ہے …؟ اور وہاں  …، اس نے ہاتھ سے باہر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا —  کچھ ہوا ہے کیا؟ ہر طرف بھیڑ ہے … لوگ غصے میں ہیں  …‘

تھاپڑ صوفے پر بیٹھ گیا۔  رباب نے پانی کا گلاس اُس کے آگے رکھ دیا —  چائے کی فرمائش کرتے ہوئے اُس نے ایک بار پھر میرے چہرے کو دیکھا —

’یہ مسلمانوں کی طرح چہرہ کیوں بنا رکھا ہے …؟‘ اس بار بھی اس نے زور سے قہقہہ لگایا تھا۔

’مسلمان ہوں اس لیے  …‘

’کس نے کہا مسلمان ہو —  مسلمانوں جیسا کوئی کام تو کرتے نہیں۔ ‘

’بہادروں والا …؟‘

میرا اشارہ وہ سمجھ چکا تھا۔  نہیں مسلمانوں جیسا … اس بار وہ سنجیدہ تھا —  ’اس ملک میں رہتے ہوئے بھی جیسے وہ مین اسٹریم سے کاٹ دیئے گئے ہوں۔  ڈرے ہوئے ہوں۔  کیوں ہے ایسا — ؟ میں گارنٹی کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ جتنی پولیس تمہارے علاقے میں ہوتی ہے، اس سے آدھی پولیس بھی دوسرے علاقوں میں نہیں ہوتی —  اور کیوں ہوتی ہے پولیس — ؟ تمہیں تحفظ دینے کے لیے …؟ یا … تمہارا شکار کرنے کے لیے …؟‘

’پتہ نہیں  …‘

’سب پتہ ہے تمہیں  —  یہ بھی پتہ ہے کہ تمہارا شکار کیا جا رہا ہے۔  لیکن مجھے میڈیا پر ہنسی آتی ہے —  ایک طرف تمہیں اسامہ اور ظواہری جیسے دہشت گردوں سے جوڑ کر یہ پبلی سٹی کی جاتی ہے کہ تم ساری دنیا کے امن و چین کو غارت کر رہے ہو —  اور یہ ساری دنیا تم سے، تمہارے لباس سے خوف کھاتی ہے —  اور اسی کا دوسرا پہلو دیکھو ارشد پاشا —  اور ایک تم لوگ ہو۔  عام مسلمان —  تم ایک خوف کی عمارت میں قید ہو —  بے بس اور لاچار —  ہندوستان سے پاکستان اور بنگلہ دیش یا یوروپ اور امریکہ جیسے ممالک میں ان عام مسلمانوں کو تلاش کرلو۔  سب خوفزدہ ہیں۔  تمہارے نام، تمہارے لباس اور تمہارا مذہب ایک طرف لوگوں میں دہشت اور خوف پیدا کر رہا ہے اور دوسری طرف سب سے زیادہ ڈرے ہوئے تم ہو — ‘

تھاپڑ نے گہری سانس لی —  ’اور تم ذرا ذرا سی بات سے ڈر جاتے ہو۔  پھر مطمئن بھی کہ جمہوری نظام میں تمہارا ساتھ دینے والے بھی کم نہیں۔  لیکن اس جمہوری نظام میں خود سے زیادہ دوسروں پر بھروسہ کرتے ہی کیوں ہو؟ تمہیں میڈیا سے لے کر دوسروں کی ضرورت ہی کیوں پڑتی ہے ارشد پاشا —  ؟کیا یہ کافی نہیں کہ تم ہو اور تم بڑی تعداد میں ہو —  لیکن جب کبھی بھی دنگے ہوتے ہیں۔  دہشت کا ماحول تمہیں اپنے ہی گھر میں قید کر دیتا ہے۔  جب کبھی تمہارے وطن پرست ہونے پر شبہات کے بادل منڈلاتے ہیں، تم بے بسی اور لاچاری سے دوسروں کی طرف دیکھتے ہو۔  رحم تلاش کرتی آنکھوں سے —  لیکن کیوں دیکھتے ہو — ؟ یہ ملک تمہارا ہے تو تمہارا ہے —  کیا اتنا کہنے سے بات نہیں بنتی؟ تمہیں بار بار اپنے ہونے کی صفائیاں کیوں دینا پڑتی ہیں ؟ اپنے ملک میں رہنے کے باوجود بار بار تمہیں سوالوں کے کٹہرے میں کیوں کھڑا ہونا پڑتا ہے — ؟ کب نکلو گے اس نظام سے ارشد پاشا — ؟ نکلو —  وقت برا ہے —  ’اپنے لیے نہیں تو اپنے بچے کے لیے نکلو۔  نئی جنریشن کے لیے نکلو کہ آزادی کے ۶۲ برسوں میں جو زخم مسلسل تم کھاتے رہے، وہ کہانی تمہارے بچوں کے ساتھ نہ دہرائی جائے — ‘

’ یہ سب کہنا آسان ہے لیکن … ‘ ارشد پاشا بولتے بولتے رک گئے تھے۔ ‘ لفظ —  کبھی کبھی ہماری حمایت میں بولی جانے والی باتیں بھی تسلی دینے والے الفاظ سے زیادہ نہیں لگتیں  —  کبھی کبھی لگتا ہے باپ داداؤں نے تقسیم کا جو بوجھ اٹھایا تھا، ہمیں وراثت میں مل گیا —  اور یہی وراثت ہم اپنی نسلوں کو سونپ کر ایک دن اس دنیا سے چلے جائیں گے اور نسلیں اس خونی تقسیم کی وراثت کا بوجھ اٹھاتی ہوئیں پریشان ہوتی رہیں گی — ‘

’لیکن اب معاملہ صرف تقسیم کا نہیں ہے ارشد پاشا —  عالمی نقشے پر دہشت پسندی کی تصویریں روشن ہیں۔  ایک بڑی سیاست ہے تمہیں حاشیے پر ڈالنے اور گم کرنے کی —  تمہارے عرب ممالک لاچار امریکہ کے تلوے سہلانے میں مصروف ہیں اورتم امریکہ سے آسٹریلیا تک ایک بے جان کٹھ پتلی یا جوکر بنا دیئے گئے ہو — ‘

رباب چائے لے کر آ گئی تھی۔  وہ پاس والی کرسی پر بیٹھ گئی —  تھاپڑ نے ادھر اُدھر دیکھتے ہوئے پوچھا —

’یہ پاشا نمبر دو کہاں ہیں  — ؟‘

وہ اسامہ کو کبھی کبھی پاشا نمبر دو کہتا تھا —  وہ ہنستا تھا کہ یار اس نام کے آتے ہی امریکہ کا ایک پٹھو چہرہ نگاہوں میں روشن ہو جاتا ہے۔  وہ چہرہ جس نے امریکی آڑ میں تم سے نہ صرف جینے کی آزادی چھین لی ہے بلکہ تمہیں ساری دنیا میں ننگا کر دیا ہے۔  تھاپڑ کے سوال پر کانپتی آنکھوں سے رباب نے میری طرف دیکھا۔

’باہر فضا کچھ خراب ہے …؟‘ تھاپڑ اب باری باری سے ہم دونوں کی طرف دیکھ رہا تھا۔  ’جسولہ کسی سے ملنے آیا تھا۔  سوچا تم زیادہ دور نہیں ہو۔  تم لوگوں کی خیریت لیتا چلوں  —  معاملہ کیا ہے؟‘

اس کی بھنویں سکڑ گئی تھیں  —

’ایک چھوٹی سی واردات ہوئی ہے …‘

’واردات؟ وہ چونکا —  ہو سکتا ہے تمہیں چھوٹی لگ رہی ہو اور اتنی چھوٹی بھی نہ ہو۔  کھل کر بتاؤ کیا ہوا ہے۔ ‘

میں نے اسے راشد، علوی والی بات بتا دی مگر جان بوجھ کر اسامہ کی موجودگی پر پردہ ڈال دیا۔  ساری باتیں سننے کے بعد اس نے گہری سانس کھینچی —

’یہ کوئی چھوٹا موٹا واقعہ نہیں ہے دوست —  تم اس کے نتائج اور اثرات سے واقف نہیں۔  وہی تو کہوں کہ جہاں دیکھو، ہر جگہ لوگ غصے میں ہیں۔  کچھ تو ہوا ہے — ‘

تھاپڑ کے چہرے پر تشویش کے بادل چھا گئے تھے۔  ’ہونا تو یہی چاہیے تھا جو راشد نے کیا —  ایک پولیس والے کو ایک معصوم بچے کو دہشت گرد کہنے کا رائٹ ہی کیا تھا؟ بہت ممکن ہے اسے بھڑکانے کے لیے کہا گیا ہو —  اور مقصد ہو یہاں کی فضا کو خراب کرنا —  مگر راشد کو …‘

اس کے چہرے پر گہرا سناٹا طاری تھا —  ’وہ خطرے میں آ گیا ہے اور سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ وہ ایک مسلمان ہے —  ایک نوجوان مسلمان —  اور اس وقت برہمن طاقتیں سب سے زیادہ مسلم نوجوانوں کو کچلنا چاہتی ہیں  — ‘

رباب نے خوف سے میری طرف دیکھا —  میں اس سے پہلے کہ سنبھل پاتا۔  کال بیل کی آواز نے مجھے خوفزدہ کر دیا تھا۔

’اب کون آیا — ؟‘

’اب کون ہو سکتا ہے؟‘

رباب نے سہمی نظروں سے میری طرف دیکھا —

’جاؤ دروازہ کھول دو — ‘

تھاپڑ گہری آنکھوں سے اب بھی میری طرف دیکھ رہا تھا —  جیسے اسے شک ہو کہ میں کہیں کچھ چھپانے کی کوشش تو نہیں کر رہا ہوں  —  رباب دروازہ کھول کر ہٹ گئی تھی —

اور یہ زلزے کی پہلی دستک تھی —

میرے دروازے پر آس پاس اور محلے کے کئی افراد کھڑے تھے۔  ساڑھے گیارہ بج چکے تھے —

آئیے … اندر آئیے …

 باہر کم از کم ۱۲ سے پندرہ لوگ ہوں گے۔  کچھ سیڑھیوں پر کھڑے تھے —  دلکشا انکلیو میں کل آٹھ گھر بنے ہوئے تھے۔  جن میں دو گھر بند رہتے تھے —  یعنی ابھی آباد نہیں ہوئے تھے۔  کمرے کے اندر آنے والوں کو میں اچھی طرح پہچانتا تھا۔  ان میں راشد کے ابّا بھی تھے جن کا ایک چھوٹا سا بزنس تھا۔  ڈاکٹر اجمل، انجینئر صاحب، عبد المتین، زاہد صاحب، عمر شیخ صاحب۔  مسجدوالی گلی میں رہنے والے مجاہد صاحب —  دوا کی دکان والے ذاکر —  چھوٹی مسجد کے پیش امام —

’کیا بات ہے — ؟‘

میری طرح تھاپڑ بھی ان سب کے چہرے دیکھ رہا تھا۔

’بیٹھیے …‘

’نہیں ہم بیٹھنے نہیں آئے —  اور ویسے بھی اس ڈرائنگ روم میں زیادہ لوگوں کے بیٹھنے کی گنجائش نہیں ہے۔  کچھ اور لوگ بھی ہیں جو سیڑھیوں پر کھڑے ہیں  — ‘ یہ پیش امام صاحب تھے۔  عمر ۶۰ کے آس پاس —  گہری آنکھیں اور اس وقت ان آنکھوں میں نفرت کے غبار کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔

عمر شیخ آگے بڑھے —  ’آپ کو پتہ ہو گا … پلیا چوکی پر ایک پولیس والے نے راشد کو پیٹا ہے۔  جب کہ راشد کی کوئی غلطی نہیں تھی۔ ‘

’غلطی تھی کیسے نہیں۔ ‘ عمر شیخ بولے۔

’مجاہد غصے میں تھے۔ ‘ راشد مسلمان ہے۔  اس سے بڑی غلطی کیا ہو سکتی ہے — ‘

پیش امام آگے بڑھے —  ’لیکن راشد اور علوی اکیلے نہیں تھے۔  آپ کا بیٹا اسامہ بھی تھا — ‘

اس بار تھاپڑ نے پلٹ کر میری طرف دیکھا —  میرے چہرے پر لرزہ طاری تھا —

انجینئر صاحب آگے بڑھے —  ’ہم یہ ماننے کو قطعی طور پر تیار نہیں ہیں کہ پولیس والے نے انجانے طور پر راشد کو گالی دی تھی۔  آپ جانتے ہیں کہ اوکھلا، جامعہ، ذاکر نگر، بٹلہ ہاؤس … یہ تمام جگہیں غیر مسلموں کے نشانے پر ہیں۔  اور بار بار یہاں کی فضا بگاڑنے کی کوشش ہوتی رہی ہے۔  ہم بھولے نہیں ہیں کہ پچھلے سال بھی اسی طرح کا ایک واقعہ ہوا تھا —  وہ تو اچھا ہوا ہم ایم ایل سی صاحب کے پاس گئے اور انہوں نے اپنے سیاسی اثر و رسوخ کا استعمال کیا — ‘

عمر شیخ صاحب غصے میں تھے —  ’کب تک اس طرح دب دب کر جینا ہو گا ہمیں۔ ‘

مجاہد صاحب کی آنکھیں بھی آگ اُگل رہی تھیں  —  ’مخالف قوتیں ہمیں کمزور کرنا چاہتی ہیں۔ ‘

عبد المتین صاحب چلا کر بولے —  ’اور ہم ہمیشہ سے ان کا استعمال ہوتے رہے ہیں۔ ‘

امام صاحب نے اشارہ کیا —  ’چپ رہیے —  یہاں ہم مجمع لگانے یا بھیڑ لگانے نہیں آئے ہیں۔  لوگوں میں غم و غصہ ہے۔  لیکن آج کی صورتحال میں ہم اس سچ سے بھی بخوبی واقف ہیں کہ جو کچھ ہوا ہے وہ اچھا نہیں ہوا۔  یہ پولیس والے خاموش نہیں بیٹھیں گے۔  یہ اپنی کارروائی ضرور کریں گے۔ ‘

پردے کے پیچھے رباب سہمی ہوئی کھڑی تھی۔

امام صاحب نے بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا —  ’آپ کے پاس صرف ایک ہی مقصد سے ہم آئے ہیں۔  راشد میاں کے ساتھ آپ کا بیٹا بھی تھا —  یہ پولیس والے خاموش بیٹھ جائیں، ایسا لگتا نہیں ہے —  کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ آپ اپنے بیٹے کو کچھ دنوں کے لیے کہیں باہر بھیج دیں۔ ‘

رباب پردے سے نکل آئی تھی۔

’لیکن کہاں بھیجیں گے بھائی صاحب‘ اس کی آنکھوں میں آنسو رواں تھے۔  آواز کانپ رہی تھی —  ’وہ صرف ان بچوں کے ساتھ تھا —  اس نے تو کچھ بولا بھی نہیں  — ‘

امام صاحب نے بات سنبھالی —  ’بہن، بات اس کی نہیں کہ وہ شامل ہے یا نہیں اور ویسے بھی راشد میاں کا بھی کوئی قصور نہیں۔  سوا اس کے کہ وہ پولیس والے کی بات پر بھڑک گئے —  اور ان کی جگہ شاید میں بھی ہوتا تو مجھے بھی مشکل سے خود کو ضبط کرنے کا حوصلہ کرنا پڑتا —  ابھی سوال صرف یہ ہے کہ اگر پولیس ہمارے بچوں پر کوئی کارروائی کرتی ہے تو ہمیں کیا کرنا ہو گا — ‘

’پولیس کیا کارروائی کر سکتی ہے اور کیوں ؟‘ اس بار تھاپڑ نے اپنے غصہ کا اظہار کیا —

امام صاحب نے پلٹ کر تھاپڑ کی طرف دیکھا۔  ’آپ کی تعریف …؟‘

اس سے قبل کہ تھاپڑاپنے بارے میں کچھ بتاتا، میں نے جلدی سے کہا۔  ’یہ میرے دوست ہیں، سبحان علی — ‘

’سبحان علی — ‘

امام صاحب نے آگے بڑھ کر مصافحہ کیا۔  آگے کھڑے کچھ لوگوں نے بھی تھاپڑ سے ہاتھ ملایا۔  تھاپڑ ناراض نظروں سے میری طرف دیکھ رہا تھا —  میرے پاس اس کا کوئی جواب نہیں تھا کہ آخر ان لوگوں کے سامنے تھاپڑ کی اصلیت چھپانے کی وجہ کیا تھی۔

امام صاحب ٹھہر کر بولے —  سبحان صاحب، آپ شاید اس محلے کے یا علاقے کے نہیں ہیں۔  اس لیے اس علاقے کی پریشانیوں کا آپ کو علم نہیں  —

’علاقے کی پریشانی مت کہیے، مسلمانوں کی پریشانی کہیے — ‘ یہ دوا کی دکان والے ذاکر صاحب تھے —  سرپر چھوٹے چھوٹے سفید بال، کالی ٹوپی، سفید داڑھی، شلوار اور کرتے میں ملبوس —  ذاکر کے چہرے پر غصے کا طوفان آیا ہوا تھا —

’اس علاقے کو کچھ لوگ پاکستان کہتے ہیں۔  اس لیے کہ یہاں مسلمانوں کی آبادی زیادہ ہے —  جہاں بھی ہماری آبادی زیادہ ہو، وہیں ہمیں کاٹ دیا جاتا ہے — ‘

’یہ ان باتوں کا وقت نہیں ہے — ، امام صاحب نے سمجھانے والے انداز میں کہا —

’پھر کس چیز کا وقت ہے …؟‘

’اور ہم یہاں جمع کس لیے ہوئے ہیں ؟ یہ عمر شیخ تھے۔

’آئے دن اس علاقے میں اس طرح کی واردات عام بات ہو گئی ہے۔  ہم کسی بھی حکومت پر اب یقین نہیں کر سکتے — ‘

’یقین کرنے کو کہہ کون رہا ہے آپ کو …؟ یہ انجینئر صاحب تھے —  انہوں نے ہاتھ کے اشارے سے سمجھانے والے انداز میں کہا۔

’بہتر ہے کہ ہم امام صاحب کی سنیں  —  اس لیے کہ راشد سے آج رات جو بے وقوفی سرزد ہوئی ہے اس کی سزا راشد کو بھی مل سکتی ہے اور یہاں کے تمام مسلمانوں کو — ’

تھاپڑ کے لیے یہ سب برداشت سے باہر ہو رہا تھا۔  وہ ایک بار پھر اس میدان میں کود پڑا —

’آپ لوگ ایسا کیوں سوچتے ہیں کہ راشد کو بھی سزا ملے گی اور آپ لوگوں کو بھی …؟‘

’واہ —  اس معصومیت کا بھی جواب نہیں  — ‘ ذاکر دوبارہ سامنے آ گئے تھے۔  وہ شعر آپ نے نہیں سنا سبحان علی صاحب۔  برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر …‘

عمر شیخ بولے —  مسلمانوں کا قصور ہو یا نہ ہو، سزا مسلمانوں کو ہی ملتی ہے —  اور ہمیشہ سے ملتی رہی ہے — ‘

’ایسا نہیں ہے — ‘ میں نے درد بھری آواز میں اپنی بات رکھنے کی کوشش کی تھی۔  ’آخر اسی ملک میں مسلمان آگے بھی تو بڑھ رہے ہیں۔  سیاست سے میڈیکل اور آئی ٹی آئی تک۔  فلموں سے اسپورٹس تک —

امام صاحب درمیان میں آ گئے —  خدا کے واسطے ہم جس مقصد کے لیے آئے ہیں اسی پر گفتگو کریں  —  یہ آپس میں لڑنے جھگڑنے کا وقت نہیں ہے —  ہم ایک سنجیدہ معاملے پر صلاح و مشورہ کے لیے آئے ہیں  —  اور اس لیے آئے ہیں کہ جس وقت یہ چھوٹی سی واردات ہوئی، اس وقت آپ کا بیٹا بھی ان میں شامل تھا —  اور اگر پولیس والے کوئی خوفناک کارروائی کرتے ہیں تو آنچ آپ کے بیٹے پر بھی آ سکتی ہے۔

٭٭

میں اس وقت جاگا، جب کمرے میں سناٹا چھا چکا تھا اور رباب کی سسکیاں گونج رہی تھیں  —  بارہ بج گئے تھے۔  تھاپڑ غور سے میرے چہرے کا جائزہ لے رہا تھا —  میری آنکھیں بند تھیں  —  اندر دھماکے ہو رہے تھے —  اسامہ پاشا کی غلطی کیا تھی؟ صرف یہی نا … کہ عشا کی نماز کے بعد وہ اپنے دوستوں کے ساتھ چہل قدمی کے لیے نکلا تھا —  اور راشد کی بھی غلطی کیا تھی۔  کیا اس ملک میں مسلمانوں کے گھر پیدا ہو کر اس نے کوئی غلطی کی ہے؟ … ہزاروں واقعات … ہزاروں کہانیاں آنکھوں کے پردے پر روشن ہو گئی ہیں۔  بابری مسجد شہادت سے گودھرا … اور گودھرا کے بعد کے فرضی انکاؤنٹرزکی ہزاروں کہانیاں  —  کیا کاشی سے دلّی آ کر میں نے کوئی غلطی کی ہے؟ کاشی کی کم و بیش فضا بھی یہی تھی، جو اس علاقے کی ہے —  وہاں کون سے محفوظ تھے ہم —

اسامہ کے کمرے کا دروازہ اب بھی بند تھا —

تھاپڑ غور سے میرے چہرے کے اتار چڑھاؤ کا جائزہ لے رہا تھا …

ایک بات پوچھوں  — ؟

ہاں  —

’تم نے ان لوگو ں کے سامنے جھوٹ کیوں بولا۔  میرا نام سبحان علی کیوں بتایا — ؟‘

غلطی سے —

’غلطی سے نہیں  — ‘

’ہاں غلطی سے۔  دوسرے ہی لمحے مجھے احساس ہوا کہ صحیح نام بھی تو لے سکتا تھا۔

’غلطی سے نہیں  — ‘

’پھر کیا وجہ ہو سکتی ہے — ؟‘

’یہ وجہ تمہیں تلاش کرنی ہے اور یہ وجہ بھی کہیں نہ کہیں تمہاری اس واردات سے وابستہ ہے۔ ‘

’میں سمجھا نہیں  — ‘

’اتنے سارے لوگوں کے سامنے تم بھی ایک خوف کی علامت تھے ارشد پاشا — ‘

’یہ کیا بات ہوئی؟‘

تھاپڑ کی آنکھیں کہیں اور دیکھ رہی تھیں  —  ’تمہیں چھوٹی چھوٹی باتوں میں بہت کچھ خود سے چھپانا پڑتا ہے۔  بہت ممکن تھا کہ ایسے ماحول میں تم میرا اصل نام ان لوگوں کو بتاتے تو ان لوگوں کے لہجے کی ادائیگی میں فرق آ جاتا۔  لیکن بات صرف اتنی نہیں ہے —  خوف سے جڑی ہے یہ بات —  کیا اکثریتی فرقے کے کسی آدمی کو یہ پولیس والے آتنک وادی کہہ سکتے تھے؟

’نہیں  — ‘

’مان لو، کہہ دیتے —  اور وہ راشد کی طرح سینہ تانے ان کے سامنے آ جاتا —  کیا پولیس والے اس پر بھی ہاتھ اٹھاتے — ؟‘

نہیں  —

’پھر — ؟ تم بھی اکثریت میں ہو —  اس ملک میں تم مٹھی بھر نہیں ہو —  اس ملک میں تمہیں بھی اسی طرح جینے کا حق ہے، جس طرح دوسرے جی رہے ہیں۔ ‘

وہ میری آنکھوں میں جھانک رہا تھا —

تم نے بتایا نہیں کہ اسامہ بھی …؟

ہاں  …

’تم نے شاید اسے محض ایک چھوٹی سی بھول سمجھی ہو گی — ؟‘

تھاپڑ غور سے میری آنکھوں میں جھانک رہا تھا … ’میں یہ نہیں کہتا کہ اسامہ پریشانی میں آ گیا ہے مگر وہ —  پریشانی میں آ سکتا ہے …‘ وہ سوچ میں گم تھا۔ ‘

’ٹھہرو … میڈیا میں میرے کچھ دوست ہیں، انہیں فون لگاتا ہوں  … ان سے مشورہ کرتا ہوں  …‘

وہ صوفے سے اٹھ کھڑا ہوا تھا … رباب اور میں خاموشی سے اس کا چہرہ پڑھ رہے تھے۔

تھاپڑ کے چہرے کے تاثرات لگاتا ر بدل رہے تھے … شاید وہ کسی پر چیخ رہا تھا۔

’تمہارا نیوز چینل کیا کرتا ہے؟ اور تم لوگ کیا کرتے ہو؟ کیا جب پانی سر سے اونچا ہو جاتا ہے، تب ہی پہنچتے ہو —  خبریں کیش کرنے کے لیے۔  ایک چھوٹا سا واقعہ اور سہمے ہوئے لوگ —  کیا یہ واقعہ تمہارے لیے کوئی حادثہ کوئی کہانی نہیں ہے — ؟ کیا تمہیں اسٹوری کرنے کے لیے تبھی کہا جاتا ہے، جب دس پندرہ لاشیں گر چکی ہوتی ہیں  — ؟ اس جمہوری نظام کا یہ بھی ایک حادثہ ہے کہ پڑھے لکھے معصوم مسلمان نوجوانوں کو کچھ جاہل پولیس والے ٹیررسٹ کہہ دیتے ہیں۔  اور جب وہ اپنے آتنک وادی ہونے کی مخالفت کرتا ہے تو اسے لہولہان کر کے اس کے گھر بھیج دیتے ہیں۔  یہ سب کس کے اشارے پر ہو رہا ہے؟ کیا یہاں بھی اسلامی آتنک واد ہے یا تمہارا منو آتنک واد — ؟ مالیگاؤں میں ہوئے حادثوں نے تمہاری پول کھول دی ہے —  تم مسلمانوں کے کندھے پر رکھ کر گولیاں نہیں چلاتے۔  سیدھے ان کا شکار کرتے ہو … میں جانتا تھا تم میں سے کوئی نہیں آئے گا —  اور بس میں نے یہی جاننے کے لیے فون کیا تھا …‘

تھاپڑ نے فون بند کر دیا۔  غصہ سے اس کا چہرہ لال ہو رہا تھا۔  ’’یہ سارے PAID چینل ہیں۔  Paidنیوز کے سہارے اپنے چینل کے لیے کروڑوں، اربوں کا کاروبار کرنے والے —  یہ تمہیں بھی بیچتے ہیں اور تم سمجھتے ہو کہ یہ تمہاری حمایت میں کھڑے ہیں  —  دھوکے میں ہو تم —  یہ تمہارے بھروسے سے اپنا کاروبار چمکا رہے ہیں  —  تمہارے فتووں کو بیچتے ہیں۔  تمہارے اسامہ بن لادن سے ظواہری اور تمہارے نکاح اور طلاق کی کہانیاں بیچتے رہتے ہیں  —  اس غلط فہمی میں مت رہنا کہ تمہیں ان کا سہارا ملا ہوا ہے۔  یہ سہارا نہیں ہیں۔  ہو بھی نہیں سکتے —  ان میں سے ہر آدمی اپنی جیب گرم کر رہا ہے۔  اپنے چینل کھولنا چاہتا ہے اورسیاست میں آنے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہا ہے —  لوک سبھا نہ سہی، راج سبھا کے پچھلے دروازے سے — ‘

’ایک دن تم بھی ان میں شامل ہو جاؤ گے۔ ‘

’کہہ نہیں سکتا۔  مگر شاید نہیں  —  جب تک میں اپنے اصول اپنے ضمیر پر قائم ہوں ایسا نہیں ہو سکتا …‘

تھاپڑ اب میری آنکھوں میں جھانک رہا تھا۔  ’مگر سوچو —  سوچو ارشد پاشا۔  اسامہ پاشا کے بارے میں سوچو۔  آزادی کے بعد کے ایک ایسے ملک کے بارے میں سوچو، جسے سن ۲۰۵۰ کا سپر پاور کہا جا رہا ہے۔  اوراس سپر پاور دیش میں دلّی کے اس سپر ہائے وے پر تمہاری گاڑی کے ٹائر کی ہوا اس لیے نکل گئی ہے کہ تمہارا بیٹا اب جوان ہونے جا رہا ہے۔  اور اس سے بھی بری بات ہے کہ وہ ایک مسلمان ہے۔  ایک مسلم نوجوان  —  جسے تمہارا میڈیا، تمہاری پولیس شک کی نگاہوں سے دیکھتی ہے۔  مجھے دیر ہو رہی ہے۔  میں جا رہا ہوں۔  کبھی بھی میری ضرورت محسوس ہو تو مجھے فون کر لینا۔ ‘

جس آندھی اور طوفان کی طرح وہ آیا تھا، اسی آندھی اور طوفان کی طرح وہ چلا بھی گیا۔  لیکن کمرے میں ایک ایسا سناٹا چھوڑ گیا، جس میں آتش فشاں کے بارود موجود تھے … رباب سہمی ہوئی تھی … اور اسامہ کے کمرے کا دروازہ اب تک بند تھا —  یہ رات قیامت کی رات تھی۔  جیسے ایک بارودی سرنگ پر ہم سب بیٹھے تھے اور کسی وقت بھی کوئی دھماکہ ہو سکتا تھا —

’اس نے دروازہ اب تک بند کر رکھا ہے۔ ‘ یہ رباب تھی۔

’وہ اکثر ایسا کرتا ہے …‘

’مجھے ڈر لگ رہا ہے …‘

’وہ کتابیں پڑھ رہا ہو گا۔  یا نیٹ کر رہا ہو گا …‘

’نہیں  —  اس نے ایک بار بھی دروازہ نہیں کھولا … ؟اتنے سارے لوگ آئے۔  بھائی صاحب آئے۔  مگر وہ کسی سے ملنے نہیں آیا …‘

’وہ ایسا ہی ہے۔  آج کے بچے بدل گئے ہیں۔ ‘

’نہیں  —  وہ ایسا نہیں ہے۔  عام بچوں سے الگ ہے —  دروازہ تو کھٹکھٹاؤ۔  دیکھو تو وہ کیا کر رہا ہے …؟‘

’میں پھر کہہ رہا ہوں، تم بلا وجہ پریشان ہو رہی ہو …‘

’جب وہ آیا تھا، تم نے اس کی آنکھیں نہیں دیکھیں۔  اس کی آنکھوں میں خون اترا ہوا تھا۔  وحشت سوار تھی …‘

’ہاں  —  مجھے پتہ ہے۔  لیکن تم نے یہ بھی دیکھا ہو گا کہ وہ محض چہل قدمی کر کے گھر نہیں لوٹا تھا۔  ایک واردات ہو گئی تھی۔ ‘

رباب اپنی ضد پر قائم تھی —  ’مجھے اس سے ڈر لگ رہا ہے۔  اس کے اندر کچھ چل رہا ہے —  وہ بہت کم باتیں کرتا ہے۔ ‘

’ہاں، ممکن ہے اس کے اندر کچھ چل رہا ہو۔  لیکن جب تک وہ بتائے گا نہیں۔  ہم کیسے جان سکتے ہیں  …‘

’اسی لیے تو کہتی ہوں  —  دروازہ کھٹکھٹاؤ۔  اسے سمجھاؤ۔ ‘ اس کی آنکھوں میں آنسو تھے —  ہم دوبارہ کاشی نہیں جا سکتے — ؟‘

’نہیں  — ‘

’کیوں نہیں جا سکتے — ؟‘

’کیونکہ اگر ہم یہاں محفوظ نہیں ہیں توکہیں محفوظ نہیں ہیں  — ‘

’لیکن اسے سمجھاؤ —  ابھی بچہ ہے۔  ابھی سمجھانے اور بتانے کی ضرورت ہے۔ ‘

مجھے غصہ آ رہا تھا —  تم کیوں نہیں دورازہ کھٹکھٹاتیں  …‘

’مجھے اس سے ڈر لگتا ہے — ‘

’یہ کیا بات ہوئی — ‘

’مجھے اس کی آنکھوں کی طرف دیکھتے ہوئے ڈر لگتا ہے —  اب وہ ویسا نہیں ہے —  وہ … بدل رہا ہے … بدل گیا ہے …‘

رباب کی آواز برف کی طرح سرد ہو رہی تھی …

’ممکن ہے سو گیا ہو۔ ‘

’وہ اتنا سویرے نہیں سوتا۔  اُسے نیند نہیں آتی —  اور آج تو وہ کسی بھی قیمت پر نہیں سویا ہو گا …

’ٹھیک ہے …‘

میری آنکھوں میں پرچھائیاں تیر رہی تھیں  —  لیکن میں آج کی رات کے اس بے رحم سناٹے کا گواہ نہیں بننا چاہتا تھا۔  اور یہ بھی سچ ہے کہ ہزاروں پرچھائیاں میری آنکھوں کے آگے جمع ہو گئی تھیں۔

اور یہ بھی سچ ہے کہ یہ پرچھائیاں میرے اندر خوف ہی خوف پیدا کر رہی تھیں۔

 

(3)

وہ خوفناک رات

میں نے آگے بڑھ کر ڈرائنگ روم کی کھڑکی کھول دی۔  رباب نے میری طرف پلٹ کر دیکھا —

’تم بیٹے کے کمرے میں جا رہے ہو نا …؟‘

’ہاں  …‘ میں شاید زور سے چیخا تھا —  ۵ منٹ دیر ہو جائے گی تو طوفان نہیں آ جائے گا — ‘

مجھے یقین ہے باہر اب بھی چوک پر لوگ کھڑے ہوں گے۔  بھیڑ لگائے ہوئے —  سوتے کیوں نہیں ہیں یہ لوگ —  مسلمانوں کو تو نیند ہی نہیں آتی۔  کوئی کام خاموشی اور صبر سے نہیں کرتے۔  اسی لیے تو مارے جا رہے ہیں  —  ہوش کھو دیتے ہیں  —  لڑ جاتے ہیں  —  جہاں بھی دھماکے ہوں، وہاں ایک مسلمان نام موجود —  کوئی اسلامی تنظیم کسی چینل کو میل بھیج کر دھماکے کی ذمہ داری قبول کر لیتی ہے۔  کوئی لڑکا ہوتا ہے۔  اسامہ پاشا سے کچھ بڑا یا اُس کی عمر کا —  جیب میں اردو کی پرچیاں لیے — کم بختوں نے انگریزی سیکھی ہی نہیں۔  اردو سے کام چلاتے ہیں  —  مگر —  اسامہ تو اردو بھی نہیں جانتا۔  اٹک اٹک کر بارہویں سال میں کسی طرح قرآن شریف مکمل کرایا۔  کتنے مولوی بدلے —  مگر اردو —  اردو میں جی ہی نہیں لگا —  گھر میں اردو اخبار آتا ہے لیکن ایک سرخی بھی نہیں پڑھ سکتا —  اور وہ سارے بچے، سروں پر ٹوپیاں رکھ کر دھماکے کرنے نکلتے ہیں  … اور اپنے ہونے کی نشانیاں بھی چھوڑ آتے ہیں  —

مگر کچھ بدلا تھا —

تصویر اچانک بدل گئی تھی —

ستمبر کے مالیگاؤں دھماکے میں یہ تصویر بدلی تھی —  اور اس تصویر کی جگہ اب ایک نئی تصویر روشن ہوئی تھی۔  ایک ایسی تصویر، جس کے سامنے آنے کے بعد میڈیا کے بھی ہوش اڑ گئے تھے۔  اسلامی آتنک واد کی خبریں دینے والے چینلس کو پہلی بار ہندو آتنک واد کے ثبوت ملے تھے —  اور یہ ثبوت اتنے پختہ تھے کہ عالمی نظام کی جڑیں ہل گئی تھیں  —  سادھوی مرگیہ اور کرنل نروپت  کی گرفتاری کے بعد اب اس آتنک واد کے تار سابق فوجی اور بڑے بڑے دفاتر میں سنگھی کارروائی کے لیے بیٹھائے گئے آئی ایس افسران کی جانب موڑ دی گئی تھی  —  اور ملک میں پہلی بار سنگھ کا خوفناک منصوبہ سامنے آیا تھا —  یہ منصوبہ تھا، اسلامی آتنک واد کی آڑ میں اپنی روٹیاں سینکنا —  اور مسلم نوجوانوں کو بلی کا بکرا بنانا —  لیکن کیا سنگھ آسانی سے شکار ہو جاتا ہے؟

’تمہیں بیٹے سے ڈر لگ رہا ہے کیا؟ دروازہ کیوں نہیں کھٹکھٹاتے …‘ رباب سامنے آ کر میرے چہرے کو دیکھ رہی ہے۔  اس نے کچھ کھایا بھی نہیں ہے … ذرا دیکھو تو، وہ کیا کر رہا ہے …‘

اچھا ٹھہرو —

میں اسامہ کے دروازے پر ہوں۔  یہ ا سکا کمرہ ہے۔  پچھلے سال سے وہ اسی کمرے میں سوتا ہے —  لیکن کچھ دن پہلے تک اس دروازے پر کئی طرح کی تصویریں لگی رہتی تھیں اور پھر اُتر جاتی تھیں  —  یہ اس کے wwf کے سپر ہیرو ہوتے تھے —  مگر اب۔  اس دروازے پر قرآن شریف کی، لیمی نیشن کی گئی ایک آیت کو جگہ دی گئی ہے —  باہر رات سوگئی ہے۔  کتّے بھونک رہے ہیں۔

ایک  … دو …

تین چار …

لیکن میں کیوں ڈر رہا ہوں  …

اندر سے ایک آواز اب بھی مجھ پر حملہ کر رہی ہے —  تم خوف میں مبتلا ہو ارشد پاشا۔  لیکن کیوں ؟

کیا کیا ہے تمہارے بیٹے نے؟

ایک صحافی ہو تم۔  کاشی سے دلّی تک کی ایک تاریخ رہی ہے تمہاری، ایک نڈر اور بیباک صحافی —  لیکن تم سمجھتے ہو کہ تمہاری آواز ایک مسلمان صحافی کی آواز ہے —  اس لیے یہ آواز پہلے بھی دبائی جاتی رہی ہے۔  اور اس بار بھی یا کبھی بھی تم نے کوئی آواز بلند کرنے کی کوشش کی تو شاید اس کا حشر بُرا ہو گا —

’ہاں ‘

’لیکن کیوں ہے ایسا —  تم اپنی آواز کی مضبوطی بھی کھو چکے ہو۔  ارشد پاشا —  ایسا کیوں ہے …؟

’شی … شی۔ ‘ رباب میرے سامنے ہونٹوں پر انگلی رکھے کھڑی ہے —  کیا ہے …

وہ آواز سنو …

آواز …؟

ہاں  …؟

لیکن کیسی آواز …؟

سنو تو … اس نے دروازے کے باہر کی طرف اشارہ کیا ہے —  باہر سے کتّوں کے لڑنے اور بھونکنے کی آوازیں آ رہی ہیں۔  مگر یہ آواز … جیسے کوئی رینگ رہا ہو … کوئی ویمپائر …

کوئی ہے … نا …

ہاں  …

میں دیر سے سن رہی ہوں۔  کوئی ہے … جو سیڑھیوں سے اوپر آتا ہوا میرے دروازہ تک آ کر ٹھہر جاتا ہے۔  شی … اُس نے چپ رہنے کا اشارہ کیا —  غور سے سنو۔  ایک نہیں۔  دو ہیں  —  بلکہ تین۔

نہیں دو ہیں  …

ہو سکتا ہے … میں نے کچھ سوچتے ہوئے پوچھا —  لیکن اس وقت تک کیا مین  گیٹ بند نہیں ہوا — ؟

’بند تو ہو جاتا ہے۔  ہو جانا چاہیے —  مگر ہو سکتا ہے کہ  …

’اگر مین گیٹ بند ہے تو …؟‘

’وہی تو میں پوچھ رہی ہوں ؟ کون ہو سکتے ہیں یہ — ؟ شی۔  آواز دھیرے نکالو …

وہ مجھے لے کر دروازے کے پاس آ گئی —  آواز صاف تھی … جیسے کوئی رینگ رہا ہو —

’ٹھہرو میں دیکھتا ہوں  — ‘ اس ناگہانی آفت نے خیالوں کی دھند صاف کر دی تھی۔  مگر اب یہ نئی مصیبت سامنے تھی۔  کیا سچ مچ کوئی ہے —  یا یہ صرف ہمارا وہم ہے۔  لیکن اس وقت …؟

رباب کی آواز میں خوف ہی خوف پوشیدہ تھا۔  یہ اسامہ کے دوست تو ہو ہی نہیں سکتے …‘

’پھر —  وہ پولیس والے …؟‘

’ممکن ہے …‘

’پولیس والے کیوں آئیں گے؟ اُنہیں آ کر کوئی کارروائی کرنی ہو گی تو کل کا پورا دن ہے …‘

’مگر کوئی ہے …؟ رباب کے چہرے پر گہری لکیریں روشن تھیں۔  مگر اسے ہمارا دروازہ ہی کیوں ملا ہے — ؟‘

’کھولنے دو مجھے۔  دیکھتا ہوں۔ ‘

’نہیں آپ کو میری قسم — ‘ رباب سامنے آ گئی تھی —  مگر … ڈر لگ رہا ہے۔  ایک ہی رات میں جیسے دنیا بدل گئی —  اسامہ کو کیا ضرورت تھی باہر گھومنے کی …‘

’پھرکہو گی، جینے کی کیا ضرورت تھی — ‘

’جینا اور باہر گھومنا دو چیز ہے — ‘

’لیکن ان سب سے بڑی ہے۔  آزادی —  آزادی ہی کھو دی تو جینا کیسا؟‘

’سائے اتر رہے ہیں  — ‘ یہ رباب تھی۔

’’ممکن ہے اُنہیں احساس ہو گیا ہو کہ ہم اب بھی جاگ رہے ہیں ؟‘

’کیوں نہ رات بھر باہر کے بلب کو جلتے رہنے دیں  …‘

’ہاں  — ‘

رباب مطمئن تھی … مگر اس کی آنکھوں کے حلقے گہرے ہو گئے تھے …

’وہ پھر آ سکتے ہیں  …‘

’مگر کون …؟‘

’وہی —  ابھی جو باہر تھے۔  سیڑھیوں پر رینگتے ہوئے …‘

وہ میری آنکھوں میں جھانک رہی تھی … ’ڈر رہی ہوں میں۔  یہ سارا گھر مجھے ڈرا رہا ہے —  در، دروازے، کھڑکیاں  … سب کے سب ڈرا رہے ہیں مجھے —  اور اسامہ … اس کا بڑا ہونا ڈرا رہا ہے مجھے … شاید تم ٹھیک کہتے تھے۔  یہ کرتا پاپجامہ پہننا کیا ضروری ہے اور سر پر دو پلّی ٹوپی پہننا … ساری دنیا کو بتانا کہ میں مسلمان ہوں  … آخر نمائش کی کیا ضرورت ہے۔  اسی نمائش میں مسلمان مارے جا رہے ہیں  …‘

مجھے غصہ آ گیا تھا۔  کیا وہ ٹیکہ نہیں لگاتے —  مندروں میں نہیں جاتے۔  بھگوا لباس نہیں پہنتے؟‘‘

’مگر وہ مارے تو نہیں جا رہے …‘

اس کا لہجہ کانپ رہا تھا —  مارے تو ہم ہی جاتے ہیں ہر بار۔  ہمیشہ —  کچھ ہو گا تو نہیں نا …؟‘

’کچھ نہیں ہو گا — ‘

’تم دیکھو نا —  اسامہ کیا کر رہا ہے۔  اب تو بہت دیر ہو گئی۔ ‘

’ہاں  —  دیکھتا ہوں  — ‘

ایک لمحے کے لیے رک جاتا ہوں  —  دیوار پر تیزی سے رینگتی دو چھپکلیاں  —  باہر کتوں کے بھونکنے اور چلّانے کی آوازوں میں کمی آ گئی ہے —  گہرے سناٹے نے دور تک اپنا جال بن دیا ہے —  یہ پورا علاقہ جاگ رہا ہو گا —  جاگے مجھے کیا —  میں اسامہ کے دروازے پر کھڑا ہوں  …

اسامہ دروازہ کھولو …

دروازہ کھولو بیٹا …

کیا کر رہے ہو …؟

اسامہ —  پہلے کچھ کھا لو —  بغیر کھائے نہیں سوتے بیٹا —

رباب میری آنکھوں میں جھانک رہی ہے —

’بند دروازے سے مجھے وحشت ہو رہی ہے —  یہ بچے دروازہ اندر سے کیوں بند کر لیتے ہیں۔  بھول جاتے ہیں کہ ماں باپ اس حرکت سے کتنے پریشان ہو جاتے ہیں۔ ‘

اب دروازے پر ہتھیلیوں کی دستک جاری ہے۔

اسامہ …

بیٹے اسامہ … دروازہ کھولو …

دروازہ کیوں نہیں کھولتے ہو تم …؟

اندر خوف طاری ہے۔  کہیں اس برے موسم میں اس نے کوئی برا قدم تو نہیں اٹھا لیا۔  مثلاً … ہزاروں بچوں کی ننھی ننھی بے رحم نادانیوں کے قصے روشن تھے۔  جیسے اسکول میں نمبر کم آنا یا فیل ہو جانا —  کمزور بچے کوئی بھی قدم اٹھا سکتے ہیں۔  اس بار میرا لہجہ سخت تھا۔  مجھے اسامہ پر غصہ آ رہا تھا۔

’اسامہ دروازہ کھولو — ‘

’دروازہ کھولو …‘

اور یہ کیا۔  ایک جھٹکے میں دروازہ کھل گیا۔  سامنے اسامہ کھڑا تھا۔  نہیں، یہ کوئی اور تھا۔  نہیں اسامہ ہی تھا۔  لیکن اب بدلا ہوا ا سامہ … آنکھیں خوفناک حد تک ڈراؤنی اور سلگتی ہوئی۔  چہرے پر غم و غصہ کا طوفان —  بال الجھے ہوئے —  مٹھیاں کسی ہوئی —

وہ زور سے چلّایا تھا —

’اب کیا ناٹک ہے۔  آپ لوگ چین سے جینے بھی نہیں دیتے …‘

میں دو قدم پیچھے ہٹا —  اس بدلے بدلے سے اسامہ کو میں نے آج تک نہیں دیکھا تھا —

رباب نے گھبرائی ہوئی نظر سے اس کی طرف دیکھا …

’کھ … کھانا …‘

’مجھے نہیں کھانا …‘ اس کا لہجہ سخت تھا —  ’اور فی الحال مجھے پریشان کرنے کی کوشش نہ کی جائے۔  میں آرام کر رہا ہوں  — ‘

اسامہ نے دروازہ ایک جھٹکے سے بند کر دیا —

اور اس ایک خونخوار لمحے میں، میں نے مستقبل میں آنے والے زندگی کے جھٹکوں کی بے رحم سچائیوں کو محسوس کر لیا تھا —

 

 

(4)

کیا یہ وہی اسامہ ہے؟ آنکھوں کے آگے حلقے گہرے ہو گئے ہیں  —  باہر رات کا خوفناک سنگیت جسم میں لرزہ پیدا کر رہا ہے۔  نیند آنکھوں سے اچٹ گئی ہے۔

کیا ایک لمحے میں ساری زندگی بدل جاتی ہے؟

کمرے میں سسکیاں روشن ہیں۔  بستر پر لیٹی ہوئی رباب چادر میں منہ چھپائے خود سے لڑنے کی کوشش کر رہی ہے۔  اُسے اس بات کا احساس بھی ہو گا کہ کہیں یہ سسکیاں مجھ تک نہ پہنچ جائیں۔  لیکن یہ آوازیں مجھے ڈرا رہی ہیں۔

’کیا کچھ ہونے والا ہے …‘

’کیا کل سے سب کچھ تبدیل ہو جائے گا …؟‘

میں خوف کی رسی پر چل رہا ہوں  … اور اس رسّی پر چلتے ہوئے کتنے ہی چہرے نظروں کے آگے روشن ہیں۔  ابّا حضور تغلق پاشا، چھوٹا بھائی انور پاشا، بہن راشدہ —  انور پاشا میں غصہ کی وہی لہریں تھیں جو آج اسامہ پاشا کے وجود میں دیکھتا ہوں۔  ذرا ذرا سی بات پر غصہ ہو جانا …

’اب یہ ملک رہنے کا نہیں ہے۔ ‘

’تو کون سا ملک رہنے کا ہے …؟‘ ابا حضور تغلق پاشا پوچھتے —

’پاکستان …‘

’جہاں ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو دیکھنا نہیں چاہتا۔ ‘

انور پاشا کو غصہ آ جاتا —  ’یہ سب جھوٹی باتیں ہیں جو میڈیا آپ لوگوں تک پہنچاتا رہتا ہے۔ ‘

’جو سچ ہے وہ ہم بھی دیکھ رہے ہیں اور ان آنکھوں سے ہی دیکھ رہے ہیں۔ ‘

’تو دیکھیے نا … چاروں طرف تو دنگے بھڑک رہے ہیں یہاں۔  مارا کون جا رہا ہے —  مسلمان —  ہر جگہ نفرت کا شکار ہے مسلمان۔  غیر مسلموں کو اپنا نام بتاتے ہی لگتا ہے ایک توپ داغ دیا ہو میں نے۔  مسلمان … آتنک وادی۔  دہشت گرد — ‘

’ایسا نہیں ہے انور …‘

’ایسا ہے اور یہی ہو رہا ہے … جیسے دنیا کے ہر خون خرابے کے پیچھے مسلمان ہوں  —  یعنی ہم —  کسی سے آنکھیں ملاتے ہوئے بھی خوف کا احساس ہوتا ہے اور کبھی کبھی اپنے ہی حلیے سے ڈر جاتا ہوں  … ‘

تغلق پاشا گہری سوچ میں ڈوب گئے تھے …

منظر تبدیل ہو گیا تھا۔  انور پاشا کی جگہ اسامہ پاشا —  تصویر بدل گئی تھی۔  رنگ وہی تھا —

تب فیصلہ نہیں آیا تھا۔  لیکن ایک خوفناک کہانی دلکشا انکلیو میں شروع ہو چکی ہے —

٭٭

یہ سوچا جانا آسان تھا کہ پولیس والے چین سے نہیں بیٹھیں گے۔  وہ کوئی نہ کوئی کارروائی ضرور کریں گے … اسامہ پاشا نے دروازہ اندر سے بند کر رکھا تھا۔  میں دو بار یہ دیکھنے کے لیے گیا کہ وہ سویا ہے یا جاگ رہا ہے۔  مگر اس کے کمرے سے کسی بھی طرح کی کوئی آہٹ یا آواز سنائی نہیں پڑی تو میں اپنے کمرے میں لوٹ آیا —

رباب اٹھ کر بستر پر بیٹھ چکی تھی۔  اس کی آنکھوں میں ہزاروں سوالات جاگ گئے تھے …

’اسامہ کو … میرا مطلب ہے اسے کچھ ہو گا تو نہیں نا … ؟‘

’کچھ نہیں ہو گا — ‘

’وہ لوگ کہہ رہے تھے کہ …‘

’ہاں  … میرے علم میں ہے۔  وہ لوگ کہہ رہے تھے کہ …‘

’ہم اسامہ کو کہیں بھیج دیں  …‘

’مگر کہاں بھیج سکتے ہیں  …؟‘

’کسی جان پہچان والے کے پاس …؟‘

’نہیں  …‘

اور کوئی رشتہ دار بھی سمجھ میں نہیں آ رہا ہے — ؟ ’رباب الجھ گئی تھی —  لیکن جب اسامہ کی کوئی غلطی ہی نہیں ہے تو …‘

’غلطی تو راشد کی بھی نہیں تھی۔ ‘

’ہاں وہی تو …‘

’لیکن پولیس والے نے اسے مارا اور پیٹا …‘

’غلطی تو پولیس والوں نے کی … مارا اور پیٹا بھی …‘ رباب کی آنکھوں میں سوال ہی سوال تھے … ’پھر کیا برا ہو سکتا ہے — ؟‘ میں سوچ نہیں پا رہی ہوں۔  اگر بچوں کی غلطی نہیں ہے تو محلے والے اتنا گھبرائے ہوئے کیوں تھے؟ اور کیوں کہہ رہے تھے کہ ہم اسامہ کو کہیں باہر بھیج دیں۔  کچھ نہ کچھ تو ہے — ‘

’خدا جانے …‘

’نہیں کچھ نہ کچھ ضرور ہے۔  ورنہ محلے والے اتنے خوفزدہ نظر نہیں آتے۔ ‘

لیکن ہم اسامہ کو کہاں بھیجیں گے …؟

’وہی تو سمجھ نہیں پا رہی ہوں  …‘

’کوئی دوست … میری الجھنیں بڑھ گئی تھیں  —  اور اس وقت تھاپڑ کے علاوہ دوسرا کوئی نام مجھے سوجھ نہیں رہا تھا۔  لیکن اس سے بڑا ایک سوال تھا۔  کیا اسامہ پاشا، تھاپڑ کے گھر جانا قبول کریں گے؟‘

’وہ جو آپ کے دوست ہیں ؟ رباب نے میرے دل کی آواز سن لی تھی۔ ‘

’تھاپڑ — ؟‘

ہاں  —

’تھاپڑ بھائی صاحب کے یہاں کیوں نہ بھیج دیں ؟‘

’لیکن کیا اسامہ جانا پسند کرے گا؟‘

رباب کی آنکھوں کے حلقے گہرے ہو گئے تھے۔  اگر آپ خیال نہ کریں تو ایک بات پوچھوں  …؟

ہاں  …

’وہ جو راجیہ سبھا کی ممبر ہیں  …؟‘ اس نے پلٹ کر میری طرف دیکھا اور جیسے میرے جسم میں نگاڑے بجنے شروع ہو گئے۔  میں نے کمزور آواز میں کہا —  ’صوفیہ، صوفیہ احمد …؟‘

’ہاں  … آپ ان سے مشورہ کیوں نہیں کرتے — ؟‘

میرے جسم میں ایک لمحے کے لیے زلزلہ آ گیا تھا۔  جیسے ماضی زندہ ہو گیا تھا —  صوفیہ … اس ایک نام کو کتنے رنگوں میں دیکھا ہے میں نے … کتنے رنگوں میں محسوس کیا ہے میں نے … ہفتہ وار مجاہد —

سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں  … احمد صاحب وکیل … صوفیہ … بدر … کتنی ہی تصویریں آنکھوں کے پردے پر زندہ ہو گئیں  —  لیکن کیوں ملوں صوفیہ سے؟ کیا صوفیہ مجھے پہچانے گی — ؟ اور صوفیہ سے کہوں گا کیا — ؟ کیا جرم ہے رشید یا میرے بیٹے کا … اس دنیا میں کیسے کیسے جرم ہوتے ہیں۔  کیسے کیسے گناہ —  اور مجرم آرام سے گھومتے رہتے ہیں۔  قتل اور دنگے کی کیسی کیسی وارداتیں ہوتی ہیں  —  لیکن بڑا سے بڑا قاتل بھی چھوٹ جاتا ہے۔  اور یہاں  —  مجھے اس سسٹم پر غصہ آ رہا تھا —  آخر خوف کی مورت بنے کیوں بیٹھے ہیں ہم — ؟ کیا گناہ ہوا ہے ہم سے؟ کیا رات کو عشا کی نماز کے بعد ٹہلنا جرم ہے؟ اگر جرم ہے تو میرے بیٹے سے بس ایک یہی گناہ سرزد ہوا ہے … لیکن کیا اسامہ پاشا سے صرف یہی گناہ سرزد ہوا تھا؟ یا اس دور میں ایک مسلمان کے گھر پیدا ہونا ہی کسی جرم سے کم نہیں  —

مجھے احساس ہوا۔  رباب اٹھنے کی کوشش کر رہی ہے۔  شاید اسے بھی اس بات کا احساس تھا کہ مجھے نیند نہیں آ رہی ہے۔  وہ اٹھ کر بیٹھ گئی تھی۔

تم سوئے نہیں  …؟

ہاں  —

وہ میری آنکھوں میں جھانک رہی تھی۔  شاید میں ڈر گئی ہوں۔  ڈر کی کوئی ڈور الجھ گئی ہے مجھ سے —  وہ میری آنکھوں میں جھانک رہی تھی۔  کیا صرف اس لیے ڈروں کہ میں ایک جوان ہوتے بیٹے کی ماں ہوں، اور میرا بیٹا مسلمان ہے۔

’نہیں  — ‘

لیکن  … اس وقت سارے ملک میں ہو تو یہی رہا ہے —  تم بھی اس لیے نہیں سوئے کہ تم بھی ڈر گئے ہو —  کیا ڈر نا کوئی حل ہے؟

’نہیں  — ‘

تو پھر کیا کرنا چاہیے ہمیں  …

’بس یہی تو نہیں سوچ پا رہا — ‘

’بیٹے کو کہیں باہر بھیج دیتی ہوں۔  فرض کر لیتے ہیں۔  تو کیا وہ کہیں اور محفوظ ہے؟ اس کی گارنٹی کون لے گا …؟‘

’ہاں یہ بھی سچ ہے …‘

’تو جب اس کی گارنٹی کوئی نہیں لے سکتا تو پھر بیٹے کو کہیں اور بھیجوں ہی کیوں ؟‘

وہ دوبارہ بستر پر لیٹ گئی تھی —

شاید اتنی دیر سے رباب اسی سوچ میں الجھی تھی۔  اور مجھے خوشی تھی، ہمیشہ کی طرح وہ کسی ایک ٹھوس نتیجے پر پہنچنے میں کامیاب ہو گئی تھی اور وہ نتیجہ تھا کہ اس کا بیٹا کہیں نہیں جائے گا، اس کے پاس رہے گا۔

اپنی زندگی کے گزرے ہوئے ماہ و سال کے بارے میں سوچتا ہوں تو رباب پر فخر کرنے کو جی چاہتا ہے —  زندگی میں ایسے ہزاروں مواقع آئے ہوں گے جب رباب نے اپنے مضبوط فیصلوں سے کتنی ہی بار اس گھر کو برباد ہونے سے بچایا تھا —  گزری ہوئی کہانیوں میں کہیں صوفیہ کا چہرہ لہراتا ہے —

باہر سرد ہوائیں چل رہی ہیں  —  اٹھ کر باہر بالکونی تک جانا چاہتا ہوں۔  مگر پھر ٹھہر جاتا ہوں  —  سناٹے کے عفریت مجھے گھیر کر بیٹھ جاتے ہیں  —

یہاں آنے کا فیصلہ میرا تھا۔  یعنی اس دلکشا کالونی میں۔  رباب نے تب بھی مجھے سمجھانے کی کوشش کی تھی۔

’آخر تم کیوں سمجھتے ہو کہ مسلمانوں کے درمیان ہی ہم محفوظ رہیں گے؟‘

میرے پاس کوئی جواب نہیں تھا —  لیکن رباب کی آنکھیں پڑھ رہا تھا اور ان آنکھوں کو پڑھتے ہوئے میں شاید خود کو بہت چھوٹا محسوس کر رہا تھا —

رباب کے لہجے میں طنز تھا —  ’مسلمان کب سے ہو گئے …؟‘

میں گڑبڑا گیا تو وہ زور زور سے ہنس پڑی —

’جرنلسٹ ہو —  خود کو ترقی پسند کہتے ہو۔  مگر اندر ایک مسلمان چھپا بیٹھا ہے۔  مانو نہ مانو یہ ہمیشہ سے موجود تھا تمہارے اندر۔  جب تم سیاست یا انتظامیہ کے لیے گندے الفاظ کا استعمال کرتے تھے تب بھی —  یا جب بہت زور دے کر تم خود کو ترقی پسند ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہو تب بھی — ‘

رباب سوچ میں گم تھی —  میرے ایک ماموں تھے، وہ بھی تمہارے ہی جیسے تھے۔  ساری زندگی نماز نہیں پڑھی۔  مذہب کو گالیاں دیتے رہے —  لیکن جب آخر وقت آیا تو ایسے نمازی ہوئے کہ لوگ ان کی مثالیں دیا کرتے تھے۔  اس لیے تم جیسے ترقی پسندوں سے خوب واقف ہوں  — ‘

میں نے سر جھکا لیا تھا —

’ایسے حالات میں  …‘

رباب نے بات کاٹ دی تھی۔  ’مسلمانوں کے محلے سے بہتر جگہ کوئی نہیں  —  ہے نا ؟ کم سے کم بچے کے کانوں میں اذان کی آواز تو جائے گی —  اپنے مذہب، اپنی تہذیب کو جانے گا۔  ہے نا؟ کیوں سوچتے ہو ایسا؟ دنیا کافی آگے بڑھ گئی ہے —  اور تم چور دروازے سے اپنے بیٹے کو مذہبی بنانا چاہتے ہو …‘

شاید رباب نے سچ کہا تھا۔  شاید یہی وہ حقیقتیں تھیں، جس کی وجہ سے میں نے دلکشا کالونی میں بسنے کا فیصلہ کیا تھا —  اور اس فیصلے کے پیچھے ملک کی، آزادی کے بعد کی وہ خونی تاریخ بھی ذمہ دار تھی، جس نے قدم قدم پر میری فکر کو متاثر کیا تھا —  شاید ہم ہزار سیکولرزم اور جمہوریت کی دہائیاں دینے کے بعد بھی مذہب کی ایک تنگ سرنگ میں قید رہتے ہیں۔

رات آہستہ آہستہ گزر رہی تھی۔

رباب کو نیند آ گئی تھی۔  اب اس کے خراٹے گونج رہے تھے … لیکن میرے ذہن میں مسلسل چلنے والی آندھیوں نے خوفناک رخ اختیار کر لیا تھا۔

میں آنے والے کل کی صبح کے بارے میں سوچتے ہوئے فکر مند تھا۔  میں یہ بھی سوچ رہا تھا، کہ اس وقت اسامہ کے اندر کیسی کشمکش چل رہی ہو گی؟

اسامہ کے نظریے سے یہ دنیا

منیر، راشد اور علوی —  اسامہ نے ان تینوں سے موبائل پر بات کی تھی۔  سب سے پہلے اس نے علوی کو فون کیا تھا۔  علوی ڈرا ہوا تھا۔  اس نے بتایا کہ اس کے گھر کا برا حال ہے۔  امی بس روئے جا رہی ہیں۔  مگر ہمارا قصور کیا ہے اسامہ …؟‘

یہی بات منیر اور راشد نے بھی کہی تھی۔  ہمارا قصور کیا ہے؟

لیکن اس عمر میں آنے تک اسامہ یہ اچھی طرح جان گیا تھا کہ اس کا قصور کیا ہے؟

اُس کا قصور ہے —  مسلمان ہونا —

اُسے غصہ آ رہا تھا۔  جی چاہ رہا تھا کہ کمرے کی ساری چیزیں توڑ ڈالے۔  سالے، مسلمانوں کو دیکھنا نہیں چاہتے پھوٹی آنکھ —  اُسے اپنے باپ پر بھی غصہ آ رہا تھا —  وہ تو ایسے سہمے ہوئے ہیں جیسے اس نے کسی کا قتل کر دیا ہو —

منیر، راشد اور علوی کی سہمی گھبرائی آوازیں اس کا پیچھا کر رہی تھیں۔

ہمیں کچھ ہو گا تو نہیں نا …؟

کچھ نہیں ہو گا —

منیر نے کہا —  ابّا کہہ رہے تھے، یہ کوئی چھوٹی موٹی بات نہیں ہے۔  یہ لوگ ایسی چھوٹی موٹی باتوں کے پیچھے ہی تو رہتے ہیں۔

علوی کہہ رہا تھا —  امی کہہ رہی تھیں کہ مجھے اپنے چچا کے گھر بھیج دیں گے۔  اس پر ابی نے کہا، اس طرح چچا کے خاندان کو خطرے میں ڈالنا ہو گا —

راشد کہہ رہا تھا —  مجھے بار بار یہ ڈر ستا رہا ہے کہ یہ پولیس والے میرے گھر ضرور آئیں گے۔

’لیکن کیوں ؟‘

’خدا جانے — ‘

’پھر کیا کریں گے۔ ‘

’انکاؤنٹر بھی کر سکتے ہیں۔ ‘ راشد کی آواز سہمی ہوئی تھی۔

اسامہ کو اچانک سب کچھ دھندلا دھندلا سا نظر آنے لگا تھا۔  کیا راشد سچ کہہ رہا ہے۔  کیا یہ معمولی نظر آنے والا واقعہ اتنے بڑے حادثے میں تبدیل ہو سکتا ہے؟

کئی بار دروازہ کھول کر باہر نکلنے کی خواہش ہوئی مگر اسامہ کو ہر بار محسوس ہوا، جیسے اس کے قدم شل ہوں۔  اپنی جگہ سے وہ ہل بھی نہیں سکتا۔  راشد کی آواز نے اسے کسی بت میں تبدیل کر دیا ہے۔

تو کیا اس کا بھی انکاؤنٹر  …؟

لیکن کیوں  — ؟

اُسے غصہ آ رہا تھا۔  اسے ساری دنیا پر غصہ آ رہا تھا۔  ایک لمحے کو اسامہ کھڑا ہوا۔  ٹہلتا ہوا کھڑکی کے قریب گیا۔  پردہ ہٹایا —  سناٹے اور گہرے اندھیرے کا احساس ہوتے ہی اس نے پردہ برابر کیا —  اب اسے یہ کمرہ کاٹ کھانے کو دوڑ رہا تھا —  ایک لمحے کو خیال آیا، بستر پر لیٹ جائے۔  آنکھیں بند کر لے۔  مگر وہ جانتا تھا۔  نیند اس کی آنکھوں سے رخصت ہو چکی ہے۔

دماغ میں صرف دھماکے ہو رہے ہیں  —  اور ان دھماکوں میں وہ اپنی اب تک کی زندگی کا ایک مختصر سا کولاژ دیکھ سکتا تھا —

٭٭

بیحد پیار کرنے والے پاپا ممّی —  لیکن وہ بچپن سے سرکش اور ضدّی تھا۔  ممی بار بار پاپا سے کہتی تھیں۔

’تم اسے بگاڑ دو گے — ‘

اور پاپا ہر بار یہی جواب دیتے۔  میرا بچہ ہے۔  یہ بگڑ ہی نہیں سکتا۔

اسے سب یاد ہے۔  رات ہوتے ہی، پاپا کی بانہیں اس کا تکیہ بن جاتی تھیں۔  پاپا اسے سینے سے لگا کر سوتے تھے۔  لیکن آہستہ آہستہ اسے گھر کے اندھیروں سے وحشت ہونے لگی تھی —  وہ پانچ سال کا ہو گیا تو اسے پڑھانے کے لیے مولوی صاحب رکھے گئے —  مگر اسے مولوی صاحب کی صورت پسند نہیں تھی —

اس نے ممی سے کہا —  مولوی صاحب کے کپڑوں سے بدبو آتی ہے، وہ نہیں پڑھے گا۔

ممی ناراض ہو گئی تھیں  —

پاپا نے جب یہ بات سنی تو وہ دیر تک ہنستے رہے —

پاپا نے مولوی صاحب کی جگہ پاس والے مدرسے سے ایک دوسرے مولوی صاحب کو بلا لیا — اُسے اچھی طرح یاد ہے۔  چار پانچ مولوی صاحب اُسے اردو اور قرآن شریف پڑھانے کے لیے رکھے گئے —  مگر اُسے جیسے ضد ہو گئی تھی کہ وہ نہ اردو سیکھے گا۔  نہ قرآن شریف پڑھے گا —  ممی اسے سردیوں میں نہلایا کرتیں کہ مولوی صاحب کے آنے کا وقت ہو گیا ہے —  وہ نہاتے ہوئے چلایا کرتا تھا —  اُسے نہیں پڑھنا —

ممی سمجھاتیں  —  نہیں پڑھو گے تو پھر نماز کے طور طریقے کیسے جانو گے۔

’پاپا کو کیوں نہیں بولتیں کہ نماز پڑھیں  — ‘

اُس دن پہلی بار ممی نے پاپا سے شکایت کی۔  بیٹے کا کیا قصور —  گھر میں مذہب کا رنگ ہو گا تو بچہ بھی سیکھے گا۔  وہ کہتا ہے۔  پاپا تو نماز پڑھتے نہیں  — ‘

پاپا کو ہنسی آ گئی تھی۔  میں بھی اُسے کوئی مولوی نہیں بنانا چاہتا —  اور یہ بھی سچ ہے کہ میں اپنے بیٹے پر کوئی مذہبی رنگ نہیں دیکھنا چاہتا۔

’تو مولوی صاحب کو منع کر دو نا — ‘

’بات منع کرنے کی نہیں ہے۔  جو تعلیم مجھے دی گئی وہی بیٹے کو دے رہا ہوں۔  پانچ برس کی عمر میں مجھے بھی مولوی صاحب کے حوالے کر دیا گیا تھا — ‘

’لیکن اپنے جیسا تو اپنے بیٹے کو مت بناؤ — ‘

’میں کسی کے جیسا نہیں بنانا چاہتا۔  میں چاہتا ہوں، وہ بڑا ہو جائے تو اپنا مذہب خود جانے —  اپنی دنیا، اپنی آنکھوں سے دیکھے —  اور خود فیصلہ کرے کہ اُسے کیسا بننا ہے۔ ‘

شاید اسی لیے بچپن سے اپنے فیصلے وہ خود کرنے لگا تھا۔  جیسے آخر تک اُس نے اردو نہیں سیکھی —  قرآن شریف کے دو پارے بمشکل پڑھ پایا —  کاشی کے اس ماحول میں آہستہ آہستہ وہ نئی نئی باتیں سیکھ رہا تھا —  ہندو۔  مسلمان، شیعہ، سنی دنگے۔ فساد۔  مسلک  … کافر …

وہ ہر روز ہی نئے نئے لفظ سیکھ رہا تھا —

نئے نئے دوست بن رہے تھے —  ایسے دوست، جن کے والد کے پاس چمچماتی ہوئی کاریں ہوتی تھیں۔  جن کے پاس اُس سے کہیں زیادہ خوش رنگ اور مہنگے لباس ہوتے تھے —  جو اپنی چمچماتی گاڑیوں پر اسکول آتے جاتے تھے۔  اور اچانک بانہوں میں سلانے والے پاپا اُسے دور دور لگنے لگے تھے —  گھر کے اندھیرے سے اُسے وحشت ہونے لگی تھی۔  اس کی مانگیں بڑھنے لگی تھیں  —  اُس کی ضد کئی کئی بار ممّی پاپا کو پریشان کر دیتی تھی —

’مجھے کار پراسکول جانا ہے — ‘

’کہاں سے لاؤں  — ؟ پاپا بے چارگی سے ممی کو دیکھتے تھے۔

ممی کا جواب ہوتا —  میری طرف مت دیکھیے —  وہ وہی کر رہا ہے جو آپ نے اسے سکھایا — ‘

’کار نہیں تو اسکول نہیں جاؤں گا۔ ‘

اسامہ کو غصہ تھا کہ اُس کے پاپا جرنلسٹ ہیں  —  اور اتنے بڑے  جرنلسٹ بھی نہیں کہ وہ اس کے لیے ایک کار لا سکیں۔

ہنسنے ہنسانے والے پاپا اس کی فرمائشوں پر خاموش رہنے لگے تھے۔

گھاٹوں اور مندروں کے شہر میں وہ آہستہ آہستہ اپنی نئی پہچان حاصل کر رہا تھا —  یہ پہچان اس کے دوستوں کی پہچان سے مختلف تھی۔  وہ خاموش رہنے لگا تھا —  اور پاپا سے لڑتے جھگڑتے وہ یہ جان چکا تھا کہ پاپا اس کی بہت سی فرمائشیں  پوری کرنے سے قاصر ہیں۔  اس لیے اس کے ذہن میں آہستہ آہستہ صرف ایک ہی بات سر نکالنے لگی تھی۔

اُسے بڑا بننا ہے —

بہت بڑا بننا ہے —

اُس کے پاس اپنی کار ہو گی۔  کار بھی چھوٹی موٹی نہیں۔  بہت بڑی —  اُسے بہت پیسہ کمانا ہے —

’لیکن یہ سب ہو گا کیسے — ؟‘

’کیا بننا ہے اُسے؟‘

پاپا کی طرح ایک جرنلسٹ؟

’بالکل بھی نہیں  — ‘

وہ ایک ڈراؤنے گھر میں زندگی گزارنے سے بہتر مرنا پسند کرے گا —  وہ گھنٹوں گھنٹوں یہی بات سوچتا رہتا کہ اُسے کیا بننا ہے —  ڈاکٹر —  انجینئر —   ہر بار اسے لگتا، ان پیشوں میں بھی زیادہ پیسے نہیں ہیں۔  پھر —  ؟ کرکٹر، اسپورٹس مین، فلم میڈیا، ہیرو … بزنس مین —  ؟پڑھنے میں اس کا دل نہیں لگتا تھا —  کتابیں اُسے کاٹ کھانے کو دوڑتی تھیں  —  اور راتوں رات امیر بننے کا شوق اُسے پریشان کیے جا رہا تھا —

گھر میں اس کی باتیں اب عام ہو گئی تھیں۔

جیسے پاپا کہتے۔  وہ بدل رہا ہے —

ممی سر جھکا لیتیں۔  ہاں  —

’میں اب بھی اُسے ویسے ہی پیار کرنا چاہتا ہوں۔  مگر وہ —  گم ہو رہا ہے۔  ‘

’ہاں  — ‘

’وہ کھویا کھویا رہتا ہے — ‘

’میں اسی لیے ڈر جاتی ہوں۔ ‘

’مگر میں کیا کر سکتا ہوں  —  آسمان سے ہیرے توڑ کر اُس کے ہاتھوں میں تو نہیں ڈال سکتا۔ ‘

’ہم نے محبت میں تو کوئی کمی نہیں کی — ‘

وہ ان باتوں کو سن کو بور ہو جاتا تھا۔  محبت —  محبت —  یہ لوگ آخر کیوں نہیں سمجھتے کہ اُسے محبت سے زیادہ بھی کچھ چاہیے … اُسے بہت پیسہ چاہیے —  اور وہ سب کچھ جو امیر زادوں کے پاس ہوتا ہے —  اور اُس کے پاس نہیں ہے۔

اس لیے وہ چڑچڑا ہوتا جا رہا تھا —

گھر کا کھانا اُسے پسند نہیں تھا —  اُسے فاسٹ فوڈ پسند تھا۔  برگر، پزا، میگی یا پھر چکن، چکن روسٹ، فرائیڈ چکن۔  یوں عام طور پر اُس کی ان فرمائشوں کا خیال رکھا جاتا لیکن اگر کسی وقت، کسی وجہ سے یہ فرمائشیں پوری نہیں ہوپاتیں تو اس کا غصہ ساتویں آسمان پر ہوتا —

’مجھے نہیں کھانا یہ سب — ‘

’روز تمہارے لیے مرغ نہیں آ سکتا — ‘

ممی کی آواز پر وہ چیخ پڑتا —  تم لوگ اچھا کھانا بھی نہیں کھلا سکتے تو کیوں پیدا کیا — ؟

پاپا سر جھکا لیتے —  اور ممی کے صبر کا باندھ ٹوٹ جاتا۔

’تم کسی اچھے گھر کیوں نہیں پیدا ہو گئے —  یہاں کیوں پیدا ہوئے — ؟‘

اسامہ کو سب کچھ یاد آ رہا تھا۔  بچپن کی ایک ایک بات اُس کا راستہ روک رہی تھی۔  آہستہ آہستہ وہ عمر کے گھوڑے پر سوار ہو کر اڑنے کی کوشش کر رہا تھا۔  اُس کی آنکھیں کھل رہی تھیں۔  کبھی کبھی وہ شہر اور محلے کو خوف کے سائے میں دیکھتا۔  جیسے عام طور پر محرم کے، شیعہ سنی فسادات کے کیسے کیسے قصے سنتا ہوا وہ بڑا ہوا۔  دیکھتے ہی دیکھتے آپس کی محبت کہیں کھو جاتی —  اور ایک ہی کلمہ پڑھنے والے ایک دوسرے کے دشمن بن کر سامنے آ جاتے۔  لیکن اب یہ کہانیاں پرانی پڑ رہی تھیں  —  کیونکہ اب ملک کی فضا بدلی تھی۔  اس کے ذہن سے کتنے ہی الفاظ بار بار ٹکراتے تھے۔  اجودھیا … بابری مسجد … رام مندر … ہندو مسلم دنگے … پاپا بتایا کرتے تھے کہ وہ تب پیدا ہوا جب بابری مسجد …

بابری مسجد —  تب وہ اس نام سے صرف اس حد تک واقف تھا کہ بابر نام کے ایک بادشاہ نے یہ مسجد تعمیر کی تھی۔  شاید اس سے زیادہ وہ نہیں جانتا تھا۔  وہ یہ بھی نہیں جانتا تھا کہ رام مندر کیا ہے اور بابری مسجد کیوں توڑی گئی —  اور یہ بھی کہ اس کا اسامہ نام اس قدر خوفناک کیوں ہے — ؟

تب کافر اور جہاد کی باتیں تو زورو شور سے ہو رہی تھیں مگر اسامہ کا نام تب تک عالمی نقشہ پر سامنے نہیں آیا تھا۔  ممکن ہے کبھی بچپن میں اسے بھی اپنے نام سے عشق رہا ہو مگر عالمی دہشت گرد اسامہ کے سامنے آنے کے بعد اُسے اپنے نام سے بھی چڑ ہو گئی تھی —

بابری مسجد۔  رام جنم بھومی —  ہر سال اس موقع پر شہر میں تناؤ بڑھ جاتا۔  امی باہر نہیں جانے دیتیں۔  دروازہ بند کر دیتیں۔  اسکول کے دوستوں کے چہروں پر بھی اُسے تفریق کی لکیریں صاف نظر آ جاتیں  …

تم مسلمان ہونا …؟

ہاں  … کیوں  …؟

نہیں کچھ نہیں  —

’اس لیے کہ مسلمان گندے ہوتے ہیں ‘ وہ ایک موٹا سا لڑکا تھا —  ’گندے ہوتے ہیں ؟‘

’ٹوٹ گئی نا تیری بابری مسجد —  ہم تیری ساری مسجدیں کو توڑ دیں گے۔ ‘

’ایسے ہی توڑ دو گے …؟‘

اسامہ کو غصہ آ جاتا —

کبھی بچے اس سے لڑائی پر آمادہ ہو جاتے —  بچپن کے ان دوستوں نے ہی اُسے اس بات کا احساس کرا دیا تھا کہ بابری مسجد ایک بے حد خاص قسم کی مسجد تھی۔  جسے توڑ دیا گیا۔  پاپا نے سمجھایا تھا —  توڑی نہیں شہید کر دی گئی —

بچے اُسے میئن کہتے تھے —  میئن —  اس لفظ سے اُسے نفرت تھی —  وہ خون کا گھونٹ پی کر رہ جاتا —

پھر آہستہ آہستہ ایسے کئی لفظوں سے اس کی دوستی ہوتی چلی گئی۔  مسلمان ملیچ  ہیں  —

گندے ہیں  —

آتنک وادی ہیں  —

اور ان کی بابری مسجد توڑ دی گئی —  یعنی آتنک وادی ہو کر بھی مسلمان کچھ نہیں کر سکے اور ان کی بابری مسجد شہید کر دی گئی —

وہ پاپا سے اس بارے میں پوچھنے کی کوشش کرتا تو وہ منع کر دیتے —

’یہ باتیں سمجھنے کے لیے تمہاری عمر بہت کم ہے — ‘

’لیکن میں جاننا چاہتا ہوں  … مجھے میرے دوست چڑاتے ہیں  — ‘

ممی سمجھاتیں  —  بس، دوستوں کے پاس سے ہٹ جایا کرو۔  جواب مت دیا کرو۔  ناراضگی مت دکھاؤ —  اور سنو، ایسی باتوں پر اُن سے لڑنا بھی نہیں۔  فضا اچھی نہیں ہے —  بس سنو اور سن کر چپ ہو جاؤ — ‘

’ایسے کیسے چپ ہو جاؤں  — ‘

’کیونکہ اسی میں بہتری ہے — ‘

’بہتری نہیں  —  اس سے تو وہ مجھے کمزور سمجھیں گے — ‘

’کمزور سمجھنے سے کمزور تو نہیں ہو جاؤ گے — ‘

’میں اُن کی یہ باتیں برداشت نہیں کر سکتا۔ ‘

’لیکن اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے — ‘

’چارہ ہے۔  میں اُن کا سر توڑ دوں گا —  وہ کہتے ہیں۔  یہ میرا ملک نہیں ہے۔  ہم بابر کی اولادوں میں سے ہیں  — ‘

’بابر بس ایک بادشاہ تھا — ‘

’تو ہم اس کی اولاد کیسے ہو گئے؟‘

’وہ جھوٹ کہتے ہیں  — ؟‘

’تو اس جھوٹ کو ہمیں روکنا کیوں نہیں چاہیے۔ ‘؟

کیونکہ ہم اس جھوٹ کو روک نہیں سکتے —

’روک سکتے ہیں  —  اُن کی زبانیں کاٹ کر — ‘

’پاگل ہو — ‘ ممی کو غصہ آ جاتا —

’ہاں پاگل ہوں کیوں سنوں دوستوں کی باتیں۔  وہ کہتے ہیں یہ میرا ملک نہیں ہے۔  میرا گھر نہیں ہے۔ ‘

’یہ باتیں تمہیں آگے بھی سننے کو ملیں گی — ‘

’تو ابھی سے کیوں نہ ان باتوں کو روک دیں۔ ‘

’یہی باتیں دنگا پھیلاتی ہیں  — ‘

’دنگا وہ پھیلاتے ہیں جو ایسی باتیں کرتے ہیں۔  اُنہیں کیوں نہیں منع کیا جاتا —

ممی بے بس ہو جاتیں  —  خبردار —  اسکول میں تم اپنی زبان بند رکھو گے۔

’میں تو نہیں بند رکھوں گا —  میں تو صاف کہہ دوں گا —  میں بابر کی اولاد نہیں ہوں  —  اور کوئی مجھے گالی دے گا تو میں خاموش بھی نہیں رہوں گا — ‘

ممی کے سہمے ہوئے چہرے پر خوف کی ان گنت لکیریں نمودار ہو چکی ہوتیں  —

اسامہ کے لیے یہ سب نیا تھا —  خوف کی ان عبارتوں کو سمجھنے سے وہ قاصر تھا۔  مگر آہستہ آہستہ اس کی سمجھ میں سب کچھ آنے لگا تھا —  بچپن میں اسے دوسرے بچوں کی طرح کا مکس پڑھنا پسند تھا۔  اُسے کارٹون شو دیکھنا اچھا لگتا تھا۔  اسپائڈر مین  جیسی سیریز اُسے پسند تھی —  اور جنک فوڈ کا وہ دیوانہ تھا —  لیکن اب اُس میں تبدیلیاں آ رہی تھیں  —  کھلونوں میں ہمیشہ سے اُسے مشین گن یاپسٹل جیسے کھلونے پسند تھے —  کمپیوٹر پر عام طور پر وہ اپنے پسندیدہ فائٹر شو گیم جیسے خطرناک کھیلوں میں گم رہتا —  جہاں ایک قطار سے اُسے مانسٹر کو ختم کرتے ہوئے کم سے کم وقت میں اس چیلنج کو پورا کرنا ہوتا تھا —  اُسے w.w.f جیسے پروگرام میں مزہ آتا تھا۔  یہی اُس کا بچپن تھا۔  اور اس بچپن میں مذہب کہیں بھی شامل نہیں تھا۔  وہ پرانے بنارس کی تنگ اور پر پیچ گلیوں میں اُن بچوں کی طرح نہیں گھومتا تھا جو سروں پر دو پلّی ٹوپیاں چپکائے ہوتے۔  کرتا پائجامہ پہنے ادھر سے اُدھر آ جا رہے ہوتے —  شاید یہ مذہبی ماحول اس کے گھر میں ہی نہیں تھا۔  اس لیے کہ ڈیڈی کو اُس نے عید، بقر عید یا رمضان کے آخری جمعہ کے علاوہ کبھی نماز پڑھتے نہیں دیکھا تھا —  اور شاید اسی لیے مولوی صاحب کے رکھے جانے کے باوجود نہ قاعدہ پڑھ سکا۔  نہ دو پارے سے زیادہ قرآن شریف۔  بس کسی طرح ممی نے اُسے پہلا کلمہ، دوسرا کلمہ، تیسرا کلمہ اور نماز کا طریقہ سکھا دیا تھا۔  مگر نماز پڑھنے کے لیے جو اندر ایک قوتِ ارادی ہوتی ہے، وہ کافی دنوں تک اُس میں نہیں آپائی —  ممی اس بات سے ناراض رہتی تھیں  —  جبکہ پاپا کا خیال تھا کہ ایک وقت آتا ہے جب بچے اپنا راستہ خود بنا لیتے ہیں۔  اس لیے اسامہ کو لے کر پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے —

دنگے اور فساد کے ماحول میں کاشیکی ان گلیوں میں وہ خوف اور دہشت کے ملے جلے رنگوں کو دیکھتا ہوا بڑا ہو رہا تھا —  اور بڑا ہوتے ہوئے وہ ایسے ہر حادثے کو لے کر دیر تک منتھن کرتا —  شاید ایسا کرتے ہوئے وہ کسی نتیجہ پر پہنچنے کی کوشش کر رہا تھا —

اُس میں تبدیلیوں کے نئے رنگ پیدا ہو رہے تھے۔

وہ کسی پرندے کی طرح اڑنا چاہتا تھا —  مگر جیسے اُس کے پر کاٹ دیئے گئے تھے —  اُنہی دنوں اس نے مضبوط آواز میں کہنا شروع کیا تھا —

’پاپا میں یہاں نہیں رہوں گا۔  میں اس اسکول میں بھی نہیں پڑھوں گا — ‘

پاپا دیر تک کمرے میں ٹہلتے رہے۔  اچانک رُک گئے —  پھر کہاں جاؤ گے؟ کس اسکول میں پڑھو گے — ؟‘

’کہیں بھی — ‘

’لیکن سب جگہ یہی ماحول ہو گا۔  یہی لوگ ہوں گے۔  یہاں سے باہر جاؤ گے۔  دوسرے ملک میں تو وہاں، یہاں سے بھی بدتر سلوک ہو گا — ‘

رباب غصہ ہو گئی تھی —  ابھی سے یہ زہر بچے میں کیوں بھر رہے ہو؟

’کیوں کہ اس ماحول نے اس بچے میں زہر بھرنا شروع کر دیا ہے۔  اس کے سوالوں کا جواب دینا ضروری ہے۔ ‘

’کوئی ضروری نہیں  — ‘

’ضروری ہے —  اسے سمجھنا ہو گا کہ چند برے لوگوں کی موجودگی کے باوجود اگر ہم کہیں محفوظ ہیں تو اپنے ملک میں  —  پاکستان میں مسلمان، مسلمان کو مار رہے ہیں  —  دہشت گرد پیدا کیے جا رہے ہیں۔  ہزار طرح کی بندشیں اور پابندیاں ہیں۔  اور باہر کے ملکوں میں ہر داڑھی والے مسلمان کو شک کی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے۔  اس لیے اسامہ کو یہ سمجھنا ہو گا کہ اس ملک میں سارے لوگ برے نہیں ہیں۔  اور یہ اُس کے دوست جو زبان بولتے ہیں وہ آنے والے کل میں نہیں بولیں گے —  اس لیے کہ کوئی بھی تعلیم یافتہ انسان مذہب کے وجود کو تسلیم نہیں کرتا — ‘

’پاگل ہو —  یہ کیا کہہ رہے ہو —  یعنی کوئی مجرم ہے تو وہ مذہب ہے۔ ‘

’نہیں  —  میں یہ نہیں کہہ رہا — ‘

’شاید تم یہی کہہ رہے ہو — ‘

’مذہب میں نفرت کے جراثیم گھل جائیں تو مذہب زہر بن جاتا ہے — ‘

’رہنے دو —  کوئی مذہب جنگ نہیں سکھاتا — ‘

’لیکن لوگ مذہب کے نام پر ہی تو لڑ رہے ہیں۔  دنگے کر رہے ہیں۔  آتنک واد کی فیکٹریاں بن رہی ہیں  —  فدائین پیدا ہو رہے ہیں  —  جہاد کے نام پر معصوم انسانوں کے قتل ہو رہے ہیں  —  اور کس کے نام پر ہو رہا ہے یہ سب — ؟ مذہب کے نام پرنا … تو مذہب قصور وار ہوا نا …؟‘

ممی کو پہلی باراس نے بہت زیادہ غصے میں دیکھا تھا —

’یہی وجہ ہے کہ اس گھر میں فلاح نہیں ہے —  سکون نہیں ہے —  شانتی نہیں ہے —  کیونکہ یہاں مذہب نہیں ہے —  نماز نہیں پڑھنا تمہارے لیے صرف ایک اسکیپ ہے۔  کیونکہ تم شروع سے ہی کنفیوژن کا شکار رہے ہو —  اور کنفیوژن یہ ہے کہ تم مذہب مانتے ہو یا نہیں۔  مجھے لگتا ہے تمہارے اندر ہم سب سے کہیں زیادہ مذہب بستا ہے جسے در اصل تم چھپانے کی کوشش کرتے ہو —

اپنی آئیڈیالوجی میں  —  اپنے جرنلسٹ ہونے میں  —  کہ تم سیکولر اور جمہوری قدروں کو مانتے ہو۔  ممی نے گہری سانس لی —

’لیکن تم یہ سب مذہب میں رہ کر بھی کر سکتے ہو۔  سال میں دو تین بار ہی سہی، تم نماز تو پڑھتے ہو اور پورے اہتمام کے ساتھ —  تمہاری مشکل یہ ہے کہ اس عمر میں بھی آئیڈیا لوجی اور مذہب کو لے کر تم الجھے ہوئے ہو اور ابھی تک کسی نتیجے پر نہیں پہنچ پائے —

ممی نے ٹھنڈی سانس بھری تھی —  اس گھر سے سکون چھن گیا ہے۔  خدا کے لیے اپنے بیٹے کو اپنے جیسا مت بناؤ —  اُسے ایک کامیاب آدمی بننے دو — ‘

’تو گویا میں ناکام اس لیے ہوں کہ میں مذہب کو نہیں مانتا‘

’نہیں  —  اس لیے کہ تم ابھی بھی دوراہے پر ہو —  کنفیوژن کے شکار —  جبکہ تمہارے اندر بھی دوسروں کی طرح ایک مذہبی آدمی بستا ہے۔  اور اس آدمی کا مشاہدہ میں نے ہزاروں بارکیا ہے — ‘

اس بار ممی کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔

٭٭

اسامہ کے ننھے دماغ کے لیے یہ مکالمے بھلے ہی بے معنی ہوں لیکن آہستہ آہستہ ان مکالموں سے وہ آج کی دنیا کو سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا —  جیسے یہ کہ اس کے پاپا جرنلسٹ ہیں۔  مگر ایک بے حد کمزور جرنلسٹ —  شاید بے حد کمزور ہونے میں بھی پاپا کے مذہب کا ہاتھ تھا —  کاشی کے اُن بے حد دکھ بھرے دنوں میں پایا اردو اخبار سے وابستہ تھے —  لیکن آہستہ آہستہ انکا رجحان ہندی کے اخباروں کی طرف ہوتا جا رہا تھا —  اردو اخباروں کی ایک سمٹی ہوئی دنیا تھی —  پاپا سے ملنے  اردو اخباروں کے  صحافی جب گھر آیا کرتے تو اُسے ان دوستوں کی شکل و صورت سے نفرت محسوس ہوتی۔  نہ پہننے کا سلیقہ۔  نہ باتیں کرنے کا —  یہ وہ دور تھا جب نئے نئے چینلنز آ چکے تھے —  کتنے ہی جرنلسٹ سی لے بریٹی بن چکے تھے۔  اب وہ گھر گھر میں پہچانے جاتے تھے —  ممی بھی اب دبے لفظوں میں پاپا سے اس کا اظہار کرنے لگی تھیں  —

’آپ دوسرے اخباروں کی طرف کیوں نہیں دیکھتے۔ ‘

’نوکری ملنا آسان ہے کیا — ‘ یہ پاپا ہوتے۔

کوشش کرنے سے ساری دنیا مل جاتی ہے۔ ‘ ممی، پاپا کو سمجھانے کی کوشش کرتیں۔  دنیا آگے بڑھ رہی ہے اور اس حقیقت سے آپ بھی واقف ہیں کہ ان پیسوں میں اب گزارہ مشکل ہے۔  اسامہ بڑا ہو رہا ہے۔  کل اس کی ضرورتیں بڑھ جائیں گی۔  آخر تھاپڑ بھائی بھی تو ہیں۔  ٹی وی پر دیکھیے۔  یہاں بھی تو جرنلسٹ اور آپ جیسے لوگ ہی چھائے ہوئے ہیں۔

’اب عمر نکل گئی — ‘

’کس نے کہا عمر نکل گئی —  اور آپ کب سے عمر کو ماننے لگے۔  ماشاء اللہ آج بھی کون سی کمی ہے آپ میں  —  آپ ان صحافیوں سے کہیں زیادہ خوبصورت لگتے ہیں جو ٹی وی چینلوں پر نظر آتے ہیں۔  بس آپ نے کبھی خود کو پھیلانے کی کوشش نہیں کی۔  لیکن ابھی بھی کچھ نہیں بگڑا اور ہاں، ایک بات اور کہنا چاہتی ہوں  — ‘

ممی نے نظریں جھکا لی تھیں۔  آپ اجازت دیں تو میں بھی کچھ کر سکتی ہوں  —  آخر میں بھی پڑھی لکھی ہوں  — ‘

’لیکن اسامہ …‘

’اسامہ کی فکر مت کیجئے —  دو لوگ مل کر کام کریں گے تو گھر کی آمدنی میں بھی اضافہ ہو گا —  اور اسامہ کے لیے گھر میں کوئی آیا رکھ لیں گے۔  مگر آپ کی اجازت ضروری ہے — ‘

ممی کو اجازت نہیں ملی۔  پاپا کو ممی کا کام کرنا پسند نہیں تھا۔  بنارس میں ابھی بھی عورتوں کا گھر سے باہر نکلنا معیوب سمجھا جاتا تھا —  تھاپڑ انکل کاشی سے دلّی ہجرت کر گئے تھے۔  ممی سے اُن کی فون پر بات چیت ہوتی رہتی تھی —  اور انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ یہاں اخباروں میں ارشد کو آرام سے کام مل جائے گا —  اور اُسے کسی کی سفارش کی ضرورت نہیں ہو گی —

پھر تھاپڑ انکل نے پاپا کو دلّی بلا لیا —

اور ایک اچھے اردو اخبار میں پاپا کو ملازمت مل گئی —  پھر کچھ دنوں بعد پاپا نے ایک کرائے کا گھر بھی لے لیا۔  اور ہم لوگوں کو دلّی بلا لیا —

یہ وہی دور تھا جب عالمی نقشے پر دہشت گردی کے بادل مکمل طور پر چھا چکے تھے —  کبھی حاشیے پر نظر آنے والے مسلمان اب سرخیوں میں تھے —  وہ دہشت گرد تنظیموں سے وابستہ تھے۔  وہ طیارے اغوا کرتے تھے —  دھماکے کرتے تھے —  افغانستان سے عراق، پاکستان ہر جگہ ان کی بربادی کے قصے اب میڈیا کی سرخیوں کی زینت بن رہے تھے —  وہ دنیا جو پہلے ایک چھوٹی سی سیپی میں بند نظر آئی تھی اب اس نے شاہین کی طرح اپنے پر نکال لیے تھے —  اب اس دنیا کی، حقیقت پسندی کی گرہیں اُس کے سامنے کھلتی جا رہی تھیں  —  اور اب ایسے مسلمانوں کے لیے اس کے ذہن میں نفرت ہی نفرت تھی —

تب پاپا دلکشا انکلیو، بٹلہ ہاؤس میں نہیں آئے تھے —  پاپا نے کرائے کا جو فلیٹ لیا تھا، وہاں آس پاس مسلمان تھے ہی نہیں  —  اور یہ فلیٹ بھی بہت مشکل سے تھاپڑ انکل کی سفارش سے ملا تھا —  اور یہ بات بھی اُس کے ننھے سے دماغ میں بیٹھا دی گئی کہ آج کے اس ماحول میں مسلمانوں کو کوئی کرائے کا مکان بھی نہیں دیتا۔  کیا پتہ کون شریف آدمی ہے اور کون دنگائی —

اُسے اس وقت کا، پاپا کا چہرہ اب بھی یاد ہے۔

تھاپڑ انکل نے کہا تھا —  مبارک ہو —  مکان مل گیا۔  ایک مہینے کی ایڈوانس رقم دینی ہے —  بس —  گیارہ مہینے کا ایگریمنٹ ہے —  بچولیے ہوتے تو ایک مہینے کا ایڈوانس تو وہی لے جاتے —  ہاں، آس پاس کوئی مسجد نہیں ہے — ‘

پاپا گہری سوچ میں تھے —  ’تمہاری سفارش نہ ہوتی تو …‘

سفارش —  تھاپڑ انکل غصہ ہوئے تھے۔

پاپا کے لہجے میں بے چارگی تھی —  ہم دار السلطنت میں ہیں۔  لیکن تمہاری سفارش کے بغیر سانس بھی نہیں لے سکتے۔ ‘

’میری سفارش مطلب ہندو کی سفارش؟‘ تھاپڑ انکل چونک گئے تھے —  میں ہندو کب سے بن گیا تمہارے لیے —  اور تم مسلمان کب سے ہو گئے میرے لیے — ‘

’یہ میں نہیں جانتا …‘ پاپا کا لہجہ کمزور تھا —

’لیکن یہ بات آئی کہاں سے ارشد پاشا — ؟‘

پاپا کی آواز بھیگ گئی تھی —  ’ہر جگہ تمہارے سائے میں رہتے ہوئے لگتا ہے، یہ ملک کبھی ہمارا رہا ہی نہیں۔  یہ اور بات کہ صدیوں سے ہمارے باپ داداؤں کی ہڈیاں  یہاں دفن ہو رہی ہیں تھاپڑ —  صدیوں حکومت رہی ہماری —  لیکن جو غلطیاں حکومت کرنے والوں نے کیں، اُن غلطیوں کی سزائیں ہمیں کیوں دی جا رہی ہیں ؟ ملک کو آزاد ہوئے مدت ہو چکی ہے لیکن کہاں آزاد ہیں ہم؟ ہر قدم پر شک کرتی آنکھیں جیسے سیدھے ہماری آنکھوں میں اتر جاتی ہیں۔  ملک میں کوئی بھی بدنما واقعہ یا حادثہ ہوتا ہے تو سب سے پہلے گھر میں ہم قید ہوتے ہیں۔  چاہے کرنے والا کسی بھی مذہب کا ہو —  لیکن  ہم ڈر جاتے ہیں  —  اور ایسے میں جب تم سہارا بن کر سامنے آتے ہو تو ہم بہت کمزور لگتے ہیں  —  جیسے یہ ملک اپنا ہو بھی کر اپنا نہیں ہے —  جیسے اپنا مکان بھی اپنا نہیں  —  یہاں تمہاری سفارش کے بغیر سانسیں بھی نہیں لی جا سکتیں۔  ایک کرائے کا مکان ملنا بھی مشکل ہو جاتا ہے — ‘

تھاپڑ نے لمبی سانس لی —

پاپا نے بولنا جاری رکھا —  ’ٹی وی پر میڈیا جب ہماری حمایت میں بولتا ہے تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے لاش کو کندھا یا سہارا دے رہا ہو۔  ہم اپنے ہی ملک میں لاش بن گئے —  کبھی پاکستانی کبھی کینسر —  اپنی طرف حقارت سے اٹھنے والی آنکھیں اب دیکھی نہیں جاتیں  —  چہرے اور کپڑوں سے کہاں مسلمان لگتے ہیں ہم —  لیکن یہ نام —  یہ مسلمان نام انجانے میں ایک شک بن جاتا ہے ہمارے لیے …‘

تھاپڑ نے سر جھکا لیا تھا —  شاید تم سچ کہتے ہو —  ممکن ہے آنے والا کل اتنا کڑوا نہ ہو —  صورتحال بدل جائے — لیکن ابھی —  تم جو کچھ کہہ رہے ہو، اُس حقیقت سے انکار بھی نہیں کیا جا سکتا۔

٭٭

نام … اسامہ، پاپا کے بولے گئے جملے کی زد میں ہے —  یہ نام اچانک اُسے بھاری پڑنے لگا تھا … پہلے جو لوگ اس نام کی تعریف کرتے تھے، اچانک ہی یہ نام ان کے لیے خطرے کا سائرن بن گیا تھا۔  ۱۱؍۹ کے حادثے نے اچانک اسامہ بن لادن کو دہشت گردی کی علامت بنا کر پیش کیا تھا۔

اسامہ …

اسامہ …

اسامہ بن لادن …

اسامہ پاشا …

وہ خوف سے نہا گیا تھا۔  چاروں طرف خوف کی بارش ہو رہی تھی —  لوگ اُس کا نام لے کر چھیڑنے لگے تھے۔  ارے اسامہ تم … امریکہ سے کب لوٹے … ؟دوست پوچھتے —  ارے تو تو بڑا بہادر نکلا۔  امریکیوں کا ٹاور ہی گرا دیا۔  وہ بھی ورلڈ ٹریڈ ٹاور … ایک نام آتنک واد سے وابستہ تھا —  اور یہی نام اس کا دشمن بن گیا تھا۔  جلتے ہوئے  ورلڈ ٹریڈ ٹاور کی تصویر اس کی آنکھوں میں فریز ہو گئی تھی۔

اسامہ اس منظر سے باہر نکلنا چاہتا تھا۔  مگر ہر لمحہ وہ زیادہ سے زیادہ اس منظر کی زد میں خود کو محسوس کر رہا تھا —  وہ کیوٹ سا لگنے والا معصوم نام اب آگ اُگل رہا تھا —  اسامہ … پہلی بار اُس کا نام جاننے والا اچانک چونک کر ہنس دیتا تھا۔

اسامہ …؟

اسامہ بن لادن … تو آپ ہیں لادن؟ کیوں چھپتے پھر رہے تھے اب تک …؟ وہ اس خوفناک الزام یا مذاق کو سمجھنے سے قاصر تھا —

٭٭

بٹلہ ہاؤس کے دلکشا انکلیو میں فلیٹ لینے تک اس نام کے معنی بدل چکے تھے۔  جیسے اُس کے پڑوسی نے اس کا نام جان کر زور سے الحمد للہ کہا تھا —  پھر کہا —  ماشاء اللہ —  میاں نام لیا ہے تو اسامہ کی بہادری بھی لو —

یہاں آنے کے بعد اس کے نئے نئے دوست بننے لگے تھے۔  پرانا بنارس کہیں گم ہو گیا تھا۔  لیکن یہاں بہت کچھ پرانے بنارس  یا بنارس  کے گلی کوچوں کی طرح تھا۔  تنگ گلیاں، ہر طرح کی دکانیں، بھیڑ بھاڑ، گوشت کی دکانیں، کباب کی خوشبو —  لیکن یہ ماحول بنارس کے ماحول سے الگ تھا —  زیادہ تر لوگ ایسے تھے، جن کی نظر میں اسامہ جو کچھ کر سکا، وہ کوئی عام آدمی نہیں کر سکتاتھا۔  اُس نے امریکہ کو سبق سکھایا ہے — ‘

پھر اچانک اس میں تیزی سے تبدیلیاں آنے لگیں۔  شروع شروع میں تیزی سے آنے والی تبدیلیوں کو نہ گھر والے سمجھ سکے، نہ وہ سمجھ سکا —  لیکن یہ غیر معمولی تبدیلیاں اس کے اندر کے مسلم جذبات کو بیدار کر رہی تھیں  —

اس کے دوست اسے سمجھاتے۔  نماز پڑھا کرو —  وہ بھی تو پوجا کرتے ہیں۔  مندر جاتے ہیں۔  تو ہم کیوں پیچھے رہیں۔  ہمیں بھی اپنے مذہب کو ماننا چاہیے —  نماز فرض ہے۔  نماز پڑھنے سے مضبوطی ملتی ہے۔

یہ نیا ماحول اُسے راس آ رہا تھا — وہ خود نہیں جانتا کہ اُس نے اچانک اپنے اندر کے فیشن پرست اسامہ کا قتل کیسے کر دیا —  اب ایک مسلمان اُس کے وجود میں داخل ہو رہا تھا —  ممی، پاپا کو فخر سے بتایا کرتیں  —

تم نے سنا، وہ نماز پڑھنے گیا تھا —

اچھا —

ہاں، ماشاء اللہ، یہاں آنے کے بعد تو وہ بالکل ہی بدل گیا ہے —  اب ضد بھی نہیں کرتا —

اُسے یقین ہے، پاپا کی آنکھیں دیر تک شک سے اُسے دیکھا کرتی تھیں  —  اُس دن، اس نے پاپا کو ممی سے گفتگو کرتے ہوئے سن لیا تھا —

پاپا کہہ رہے تھے۔  نماز پڑھنا اچھی چیز ہے —  مگر اسامہ کے دوست؟‘

ممی نے بات کاٹ دی۔  سب اچھے گھروں کے ہیں۔

’نہیں یہ  بات نہیں ہے۔ ‘

پھر کیا بات ہے —  کیا اُس کے نماز پڑھنے کی بات سے ڈر گئے ہو — ‘

’نہیں  —  ہاں اُسے یوں کہہ سکتی ہو اچانک اُس میں آنے والی ان تبدیلیوں نے مجھے حیران کر دیا ہے۔  میں اس کی کچی اور نازک عمر سے ڈرتا ہوں رباب —  تمہیں یاد ہے، قرآن شریف پڑھانے کے لیے کتنے مولوی رکھے —  مگر اُس کو نہیں پڑھنا تھا، اُس نے نہیں پڑھا —  مگر اب —  یہاں تبلیغی جماعت اور جماعت اسلامی کے لوگ بھی ہیں  —  جو بہت خاموش طریقے سے ایسے بچوں کی عقل چرا لیتے ہیں۔ ‘

’عقل چرا لیتے ہیں ؟‘

پاپا کچھ سوچ میں ڈوبے تھے —  برین واش  —  مذہب کا خوف دکھا کر وہ ایسے معصوم بچوں کا برین واش کرتے ہیں۔  بس خدا کرے —  اسامہ صرف نماز سے ہی مطلب رکھے۔  ان کے چلائے راستوں پر نہ چلے — ‘

لیکن اسامہ پاشا اُسی راستے کی طرف چل پڑے تھے۔

٭٭

اب سارے منظر گم تھے۔  بدن میں چیونٹیاں سی رینگ رہی تھیں۔  اسامہ پاشا اندر ہی اندر خوف بھی محسوس کر رہے تھے۔  جیل کی سلاخوں سے پھانسی کے پھندے تک، سب کچھ نظروں کے سامنے تھا۔  مگر سب سے بڑا سوال تھا —  قصور؟ اس کا قصور کیا ہے؟

کتنی ہی بار اُسے محسوس ہوا، پاپا چلتے ہوئے اس کے دروازے تک آئے، پھر واپس لوٹ گئے —

سناٹا گہرا ہو گیا ہے —

رات آہستہ آہستہ گزر رہی ہے —  دل و دماغ میں چلنے والی آندھیاں ایک لمحہ کو رک گئی ہیں  —  وہ کچھ سوچ رہا ہے۔  کسی نتیجہ پر پہنچنے کی کوشش کر رہا ہے۔  اس سسٹم کے ساتھ وہ زیادہ دن تک نہیں چل سکتا۔  اس سسٹم میں وہ زیادہ دن تک خود کو قید نہیں دیکھ سکتا۔

پھر …؟

وہ اس سسٹم کو توڑ دے گا۔  یا اس سسٹم سے باہر نکل جائے گا … آنکھوں میں رقص کرتے ہوئے مناظر اب گم ہو گئے ہیں  —  یہ آدھا ادھورا فیصلہ ہے —

اور اس فیصلے میں ابھی بھی ہزاروں سوالات بھنور کی صورت اختیار کرتے جا رہے ہیں  —

لیکن وہ اس سسٹم سے نکلے گا کیسے؟

گھر چھوڑ دے گا —

’ممی اور پاپا — ؟‘

’کیا پولیس اُسے تلاش کرنے کی کوشش نہیں کرے گی؟‘

اور اگر خدا نخواستہ وہ پکڑ لیا جاتا ہے تو …؟

’تب تو یہ یقین اور بھی پختہ ہو جائے گا کہ وہ غلط ہے۔  کیا اُس کے پاس خود کو بچانے کے لیے کوئی اورراستہ ہے — ؟‘

وہ اٹھ کر ٹہلتا ہوا دوبارہ کھڑکی کی طرف بڑھا —  آسمان پر کانپتا ہوا چاند روشن تھا —  چاند کے ارد گرد بادلوں کی شکلیں بنی ہوئی تھیں  —  یہ شکلیں اُسے جانی پہچانی محسوس ہوئیں  —

وہ ایک ٹک بادلوں کے درمیان چھپن چھپائی کا کھیل کھیلتے چاند کا رقص دیکھتا رہا —

شہر سو گیا تھا —

مگر اُس کی نیند غائب تھی —

وہ دوبارہ بستر پر آ کر لیٹ گیا —  اب اُسے دونوں پولیس والوں کی یاد آ رہی تھی —

کیا وہ اب تک خاموش بیٹھے ہوں گے — ؟

یقیناً وہ کوئی نہ کوئی کارروائی ضرور کریں گے؟

لیکن وہ کس طرح کی کارروائی کریں گے، یہ سوچنے سے اس کا ذہن قاصر تھا —

٭٭٭

 

 

پولیس انسپکٹر ورما کے نظریے سے یہ دنیا

تھانے میں اس وقت خاموشی تھی۔  باہر کا دروازہ کھلا تھا —  کانسٹبل نرسمہا گیٹ کے باہر کھڑا بیڑی پھونک رہا تھا —  گیٹ کے پاس چاند کی روشنی میں دو تین اسکوٹر اور ایک ٹوٹا ہوا رکشہ نظر آ رہا تھا —  رات کے بارہ بج گئے تھے۔  انسپکٹر روی ورما گھر کے لیے نکلنے ہی والے تھے کہ نوین کے موبائل نے اُنہیں روک دیا تھا —  اُنہوں نے بس اتنا ہی پوچھا —

’اگر وال کہاں ہے؟‘

’وہ ڈیوٹی دے رہا ہے سر — ‘

’ٹھیک ہے تم آ جاؤ …‘

میز کی فائلوں کو کنارے کرتے ہوئے وہ کرسی سے اٹھ کھڑے ہوئے۔  کچھ دیر ٹہلتے رہے۔  پھر تھانے کے مین گیٹ پر آ گئے —  اس وقت ورما کا چہرہ ہر طرح کے جذبات سے عاری تھا۔  کچھ دیر نظر اٹھا کر وہ آسمان پر رقص کرتے چاند کا تماشہ دیکھتے رہے۔  پھر نرسمہا کو آواز دی —

’کتنی بار منع کیا —  بیڑی مت پیا کر —  مجھے اس کے دھویں سے پریشانی ہوتی ہے — ‘

’آپ جا رہے ہیں سر؟‘ نرسمہا نے جلدی سے بیڑی کے ٹکڑوں کو جوتے سے بجھانے کی کوشش کی —

’نہیں  —  کچھ پنگا ہوا ہے — ‘

’کہاں سر — ‘

’وہ —  بٹلہ ہاؤس میں  — ‘

’نوین اور اگروال تو ڈیوٹی پر ہوں گے — ؟‘

’نوین آ رہا ہے —  تو میرے لیے بھاگ کر دو پان  بنوا لے — ‘ ورما نے دس کا نوٹ نرسمہا کی طرف بڑھایا —

نرسمہا پان لینے کے لیے بھاگ کھڑا ہوا —  انسپکٹر ورما کا دماغ تیزی سے کام کر رہا تھا۔  بٹلہ ہاؤس اور آس پاس کے علاقے پر ایک مدت سے ان کی نظر تھی —  اور وہ اس بات کو اچھی طرح سے جانتے تھے کہ اس علاقے میں ہاتھ ڈالنا، شیر کے منہ میں ہاتھ ڈالنے جیسا ہے۔  سارے معاملے کو مسلمانوں سے جوڑ کر دیکھا جائے گا۔  پھر میڈیا سے حکومت تک اس گونج میں اُن کی اچھی خاصی نوکری بھی جا سکتی ہے —  مگر انسپکٹر ورما مطمئن تھے۔  اُنہیں یہاں ٹرانسفر کرا کر لانے والے ریٹائرڈ پولیس کمشنر ابھے کمار دوبے تھے۔  اب انہیں ریٹائرڈ ہوئے بھی دس سال گزر چکے تھے۔  وہ جب بھی پریشان ہوتا، دوبے جی کی چوکھٹ پر حاضر ہو جاتا —  دوبے جی پولیس میں رہتے ہوئے بھی سنت آدمی تھے۔  وہ ہمیشہ کہا کرتے —

’ورما —  بڑی سے بڑی مشکل میں بھی دماغ کا توازن مت کھونے دو۔  ٹھنڈے دماغ سے کام لو گے تو سب ٹھیک ہو جائے گا — ‘

وہ سنگھ کے پرانے آدمی تھے اور اُسے بھی سنگھ میں لانے والے وہی تھے —  وہ کہا کرتے تھے —

’سنگھ اب بدل رہا ہے ورما —  راجنیتی اور ستّہ کا سواد تو سیکھنا ہو گا —  پہلے ہم اُن باتوں سے الگ رہے مگر اب، ستّہ میں پوری بھاگیداری چاہیے —  تبھی ہم جس سوشاسن کی بات کرتے ہیں، وہ سپنا پورا ہو پائے گا — ‘

’بالکل سہی — ‘

’آخر سنگھ کو بھی بدلنے کا ادھیکار ہے نا؟ پوری دنیا بدل رہی ہے —  ہم اپنی نیتیوں سے ہارے —  اور ۸۳ ورشوں میں بھی وہی رہے —  اب یہاں بھی نیتیوں کو بدلنے پر غور کرا جا رہا ہے —  وچار دھارا کو نہیں  —  نیتیوں کو —  جانتے ہو۔  ۱۹۲۵ میں سنگھ کی بنیاد ڈالتے ہوئے ڈاکٹر ہیڈ گیوار نے کیا کہا تھا —  ہندو سماج کو ایکتا اور سنگٹھن سوٹر میں باندھنا ہی راشٹریہ کاریہ ہے۔  کیونکہ کیول ہندو تو ہی ہندوستان کی آتما ہے۔  ستیہ ہے —  اور ہندو تو کے اُتھان کے لیے کیا جانے والا کوئی بھی کاریہ راشٹریہ کاریہ ہے —  اور اس طرح —  ہم تم سب اس راشٹریہ کاریہ میں سہیوگ دے رہے ہیں۔  بس آنکھیں کھلی رکھو۔  لوگوں کی نظر میں مت آؤ —  خاموشی سے راشٹریہ کاریہ کو آگے بڑھاؤ۔ ‘

دوبے جی کی سرد آواز سیدھے ورما کے دل میں اُتر جاتی تھی —

نرسمہا پان لے کر آ گیا تھا۔  آسمان پر ابھی بھی چاند کا رقص جاری تھا —  ورما نے گھڑی دیکھی —

پھر گیٹ کے پاس والے برآمدے میں ٹہلنے لگے —  ابھے کمار دوبے جی کی محبت میں ہی اس نے پہلی بار سنگھ کے چہرے کو قریب سے جانا تھا —  ورنہ وہ تو یہی سمجھتا تھا کہ سنگھ کے لوگ مٹھی بھر ہیں  —  مگر دوبے جی نے ہی بتایا کہ وہ ساری جگہوں پر سیٹ کیے گئے ہیں  —  میڈیا میں بھی —   کتنے تو آئی ایس افسر ہیں  —  سی بی آئی اور ایف بی آئی میں بھی —  راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے لوگ ہر جگہ ہیں اور خاموشی سے اپنا کام کرنے پر وشواس رکھتے ہیں۔ ‘

انسپکٹر ورما کی آنکھیں پھیل گئی تھیں  —

نوین آ گیا تھا —  اُسے لے کر وہ اپنے کمرے میں آ گئے —  کرسی پر بیٹھ گئے۔

’ہاں اب پوری بات بتاؤ۔ ‘

نوین نے پوری بات بتا دی —  پھر سر جھکا کر بولا —

’آدیش — ؟‘

’تو وہ چار تھے — ؟‘

’ہاں جی — ‘

’نام جانتے ہو — ‘

’نہیں  — ‘

’چہرہ تو پہچانتے ہو گے — ؟‘

’ہاں جی — ‘

’تم نے اُکسایا …؟‘ ورما کے چہرے پر مسکراہٹ تھی —

’ہے … ہے … نوین شرما گیا —  اب آپ تو سب جانتے ہیں۔  آپ کا آدیش ہو تو …‘

’آدیش نہیں  — تم نے اُنہیں نہیں اُکسایا نوین —  اُن کی گتی ودھیاں آپتّی جنک تھیں  —  کئی دنوں سے تم اُن کو دیکھ رہے تھے — ‘

’رائٹ سر — ‘

انسپکٹر ورما کا دماغ تیزی سے کام کر رہا تھا … تو اُن میں سے ایک نے تمہارے سامنے آ کر کہا کہ ہاں وہ ٹیررسٹ ہے —  کیا کر لو گے — ؟

’ہاں جی — ‘

’اور تم نے اُسے پیٹ دیا — ‘

’ہاں جی — ‘

تم نے نہیں پیٹا —  سب سے پہلے اسی نے تم پر ہاتھ اٹھایا۔

’رائٹ سر — ‘

’وہاں کوئی گواہ …؟‘

’نہیں۔  سر —  ساری دکانیں اٹھ چکی تھیں  —  بس لوگ آ جا رہے تھے — ‘

’دو گواہ بنا لو —  کسی کو بنا سکتے ہو — ‘

وہ ہم پر چھوڑ دیجئے سر جی —  ایک تو ملّا ہے کپڑے بیچتا ہے —  اور دوسرا وہیں پر آئینہ کنگھی کا ٹھیلہ لگاتا ہے — ‘

’دونوں مسلمان ہیں ؟‘

’ہاں جی — ‘

’پکّا —  تم اُنہیں گواہ بنا لو گے — ؟‘

’میرے بائیں ہاتھ کا کام ہے یہ — ‘

’گھر جانتے ہو — ؟‘

ہاں جی —  ایک تو وہیں  —  پاس کے نالے کے پاس رہتا ہے۔  وہ ٹھیلے والا —  اُس سے ملّا کے گھر کا پتہ چل جائے گا — ‘

انسپکٹر ورما کسی گہری سوچ میں گم ہو گئے تھے —  دلّی بم وسفوٹ سے لے کر مالیگاؤں بم وسفوٹ تک کے ہزاروں واقعات ان کے دماغ میں ناچ گئے تھے۔

’پہلے اُن دو گواہوں کو لاؤ —  اور اپنی ایف آئی آر نوٹ کراؤ —  گھبراؤ نہیں۔  میں گھر فون کر دیتا ہوں کہ میں دیرسے آؤں گا —  رات میں ہی پولیس فورس اتارنی ہو گی —  میں سب مینیج کر لوں گا — ‘

’یس سر — ‘

ورما زور سے چیخے —  اب یہاں بیٹھا رہے  گا کیا۔  یس سر کیا کہہ رہا ہے —  گواہوں کو لاؤ —  اور جلدی —  باقی میں دیکھ لوں گا — ‘

’یس سر — ‘

نوین نے اس بار زور سے سیلوٹ کیا جیسے وہ کسی اہم مہم پر نکل رہا ہو —  سیلوٹ کرنے کے بعد وہ سرعت سے باہر نکل گیا۔  انسپکٹر ورما کچھ دیر تک خیالوں میں ڈوبے رہے —  اُنہیں دوبے جی کی بات یاد آ رہی تھی —

’ہمارے لیے دن اور رات سب ایک برابر ہیں۔  رات میں بھی بپتا آئے تو سیدھے میرے پاس چلے آنا —  نوین کے آنے میں وقت تھا —  وہ کچھ لمحے دوبے جی کے ساتھ گزارنا چاہتا تھا۔

انسپکٹر ورما باہر آئے اور نرسمہا کو گاڑی نکالنے کے لیے آواز دی —

٭٭

ابھے کمار دوبے ستّر سال عمر میں بھی کسی نوجوان سے کم نہیں تھے —  وہ لیپ ٹاپ پر تھے۔  کچھ دیر تک اِدھر اُدھر کچھ میسج بھیجتے رہے۔  دھوتی  ٹھیک کی۔  کرتے کو پاؤں پر پھیلایا —  پھر مسکرا کر انسپکٹر ورما کی طرف دیکھا —

’اچھا کیا چلے آئے۔  گھبراؤ مت —  یہ دنیا گھبرانے سے نہیں چلتی ورما —  ہمارا ٹارگٹ سیدھا  ہے لیکن ہمارے پاس صبر ہے —  دنیا چلانے کے لیے بھی صبر چاہیے۔  ورنہ ۷۰۰؍برسوں تک یہ مسلمان یہاں حکومت نہیں کرتے —  اورنگ زیب نے کیا کیا؟ اسلامی حکومت کے لیے اپنے ہی بھائیوں کو مار ڈالا —  مسلمانوں کی پوری تاریخ اٹھا کر دیکھ لو —  کچھ لوگ کہتے ہیں، سنگھ اپنے وشیوں، اپنے اصولوں میں بھٹک رہا ہے۔  نہیں  —  ہم اسے ایک مضبوطی دے رہے ہیں۔  ہندو سماج کو سنگھٹ کرنا، شکتی شالی بنانا ہی ہمارا ایک ماتر اُددیش ہے —  اب اس دشا میں ہم پہلے سے کہیں زیادہ سکریہ ہوئے ہیں۔  ہمارا مسلمانوں سے کوئی مت بھید نہیں  —  اس دیش کا ہر ناگرک، اس دیش کی سنسکرتی کا حصہ ہے۔  ان کے پروج بھی ہندو تھے۔  اور اس لیے سنگھ کے دروازے ان کے لیے بھی کھلے ہیں۔

دوبے کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی —  ’اس لیے۔  ہم چاروں اور پھیل رہے ہیں ورما —  کہیں بھوکمپ آئے یا باڑھ۔  ہمارے سیوک سنگٹھن کے لوگ پہنچ جاتے ہیں۔  ہم نے سویم سیکوں کو اب دیش کی مکھیہ دھارا سے جوڑ دیا ہے —  لوگوں کے بیچ جاؤ —  اپنے ہونے، اپنی اپستیتھی کو ہر جگہ سدھ کرو۔  آدی واسی چھیتروں میں دیکھو۔  وہاں بھی ہمارا سیوا کاریہ چل رہا ہے۔  چھاتر مز دور سنگھ، اکھل بھارتیہ ودھارتی پریشد سب ہمارے ہی تو پرمکھ سنگٹھن ہیں۔  تمام ورودھی سوروں کے بیچ ستیہ یہ ہے کہ ہم تیزی سے سب جگہ پہنچ رہے ہیں  —  پہلی بار …‘

دوبے کے چہرے پر ابھی بھی مسکراہٹ تھی، مالیگاؤں دھماکے نے ذرا سا کھیل بگاڑا ہمارا۔  ہمارے ہی لوگ ہمارے ہی دھرم کے ورودھ میں پرچار کرنے لگے … وہ آئی ٹی ایس ادھیکاری … لیکن جانے دو —  ایسا ہوتا ہے ورما —  یہ ہم بھی جان رہے تھے —  ایک دن ایسا کچھ ہو سکتا ہے۔  لیکن ہم یہ بھی جان رہے ہیں کہ سمسیاؤں کے اس دیش میں ان باتوں کو بھلانے میں بھلا کتنا وقت لگے گا —  لابھ ہمیں ہی ہو گا —  پہلے سے کہیں زیادہ ہم چاق و چوبند ہو جائیں گے — ‘

وہ ابھی بھی لیپ ٹاپ پر کام کر رہے تھے … کام کرتے کرتے بولتے بھی جا رہے تھے —  ورما کو پتہ تھا کہ دوبے اکارن لیپ ٹاپ پرنہیں بیٹھے ہیں۔  اس درمیان انہوں نے اس مدعے پر نہ جانے کتنے کاریہ کرتاؤں کو میسج بھیج دیا ہو گا۔  اب اُسے ہمیشہ کی طرح دوبے جی کے آدیشوں کا پالن کرنا ہو گا۔  اُس نے اپنا مسئلہ دوبے جی کے حوالے کر دیا تھا —  اور اب وہ مطمئن تھا —  اُسے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں تھی —

دوبے کسی سے باتیں کر رہے تھے۔  باتیں کرنے کے بعد وہ مطمئن تھے۔  مسکرا کر اس کی طرف دیکھا —

’سب سے بڑی مضبوطی ہیں یووا —  جانتے ہونا —  اُن کے یوواؤں کو کمزور کر دو کہ وہ سر بھی نہ اٹھا سکیں اور ہم اپنے یوواؤں کو مضبوط کریں  — کم کو زیادہ جانو بچے … آگے کے آدیش تم کو ملتے رہیں گے اور جب تک ضروری نہ ہو، فون مت کرنا — ‘

نوین کا فون آ گیا تھا —  دونوں گواہ مل گئے تھے۔

اب اُسے آگے کی کارروائی کو انجام دینا تھا —

٭٭

صبح پانچ بجے کے آس پاس ابھے کمار دوبے نے دوبارہ انسپکٹر ورما کو فون کیا —

’ابھی دو دن تک اس کارروائی کو ٹال دو — ‘

’لیکن سر …‘

’لیکن ویکن کچھ نہیں  —  اوپر سے یہی فیصلہ آیا ہے —  ابھی وہاں کے حالات پر ایک نظر ڈالو۔  جلد بازی سے بنا بنایا کھیل بگڑ سکتا ہے — ‘

’یس سر — ‘

’تیل اور تیل کی دھار پر نظر رکھو —  آگے کی اطلاع تمہیں دے دی جائے گی …

’یس سر — ‘

فون ڈس کنکٹ ہو گیا تھا —

انسپکٹرورما کے لیے موجودہ حالات پر نظر رکھنے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا —

٭٭٭

 

 

سراغ سے قبل۔ (ب)

یہاں خیریت بالکل نہیں ہے …

 

 

 (1)

بس ایک رات … اور ایک رات میں زندگی بدل گئی تھی —  یا یوں کہیں کہ ایک خوفناک رات نے ہماری قسمت پر اندھیرے کی مہر لگا دی تھی …

میں ایک بار پھر آپ کے سامنے ہوں۔  میں یعنی ارشد پاشا —  میں اس کہانی کا گواہ بھی ہوں  —  لیکن اس سے پہلے اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ مجھے لکھنے کا ہنر نہیں آتا —  میں کوئی کہانی کار یا ناول نگار نہیں کہ ہر واقعہ یا حادثہ کو مرچ مصالحہ لگا کر آپ کے سامنے پیش کر دوں۔  یوں تو میں ایک صحافی ہوں۔  پیشے سے صحافی، لیکن صحافت اور تخلیق کے درمیان ایک مضبوط دیوار ہمیشہ حائل رہی ہے۔

تخلیق کار ایک یوٹوپیا میں جیتا ہے۔  ایک خیالی دنیا آباد کرتا ہے اور مجھے اس یوٹوپیا میں رہنے کا ہنر نہیں آتا۔

میرے پاس حقیقت کے علاوہ کوئی خیالی دنیا نہیں ہے —  اس لیے پچھلے صفحوں میں آپ نے میرے اناڑی پن کا جائزہ لیا ہو گا  … جیسے ممکن ہے، آپ کے ذہن میں یہ خیال پیدا ہو کہ میں ابھے کمار دوبے یا انسپکٹر نوین کے اس منظر کا گواہ کیسے ہوں۔  یا اسامہ کے اندر کی الجھنیں اور اُس کے خیالات سے کیسے واقف ہوں  — ؟

یا ممکن ہے یہ واقعے اس طرح پیش نہیں آئے ہوں، جس طرح میں نے لکھنے کی ضرورت محسوس کی  —

لیکن یہاں آپ کی اس بات سے مجھے اتفاق نہیں ہے۔  ہم صحافی لوگوں کی اپنی دنیا ہے۔  کبھی کبھی حالات کی سرنگ میں داخل ہوتے ہوئے ہم کسی کسی واقعہ کو فرض بھی کر لیتے ہیں کہ ممکن ہے ایسا ہوا ہو —  جیسے ریپ، مرڈر یا کوئی سیاسی نوعیت کا سنگین واقعہ —  اس واقعہ سے خود کو وابستہ کرتے ہوئے ہم ذہن میں ایک مکمل تصویر بنا لیتے ہیں یا بسا لیتے ہیں  —  یا پھر کسی بھی سیاسی یا ہنگامی حالات  سے گزرتے ہوئے ہم سب سے زیادہ اُس کی سچائی کو سامنے رکھنے کے لیے پریشان ہوتے ہیں۔  جیسے ثبوت —  اے وی ڈینس —

اس لیے یہاں کوئی واقعہ بھی محض ’فرض کر لیا‘ کے اصولوں یا قانونوں پر قائم نہیں ہے —  اس کی شہادت یا ثبوت سے گزرتے ہوئے ہی میں نے ان واقعات کو قلم بند کرنے کی ضرورت محسوس کی ہے …

اس طویل تمہید کی ضرورت مجھے اس لیے محسوس ہوئی کہ آپ ان واقعات سے محض سرسری نہ گزر جائیں۔

اور اُف … ان سطور کو قلم بند کرتے ہوئے بھی میں کیسی اذیت سے گزر رہا ہوں، یہ میں ہی جانتا ہوں  —

ایک اور ضروری بات … کہ میں نے ان واقعات کو آپ تک پہنچانے کا فیصلہ کیوں کیا — ؟

اور یہ سب سے ضروری بات ہے …

اور اس کے لیے مجھے آزادی کے ۶۰؍ برسوں کے پر آشوب دور کا حوالہ دینے دیجئے کہ میں خود بھی، اپنی پیدائش کے بعد مسلسل اس آگ میں جلتا رہا ہوں  —

میں ارشد پاشا … میں ان سنگین لمحوں کا گواہ ہوں  … اور اس گواہی میں خدا کو حاضرو ناظر جانتے ہوئے میں آپ کو بھی شریک کرنے کا جوکھم اٹھا رہا ہوں  —  اس لیے آنے والے خوفزدہ واقعات سے، گزرنے سے پہلے اس سچ سے بھی گزرنا ہو گا، جس سچ کو بے حد قریب سے میں نے دیکھا ہے۔  محسوس کیا ہے —

اور اس سچ پر صرف میرے جذباتی ہونے کی مہر نہ لگائیے …

میں نے آنکھیں کھولیں تو آزادی کے پندرہ برس گزر چکے تھے۔  لیکن ملک مسلسل فساد کی آندھیوں سے گزر رہا تھا —  در اصل آر ایس ایس جیسی تنظیمیں شروع سے ہی میڈیا اور اینٹلی جینس کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کر رہی ہیں  —  اور ایک بڑا مقصد تھا۔  ۷۰۰؍ برس تک حکومت کرنے والے مسلمانوں کو اس ملک میں ڈرا اور دھمکا کر رکھا جائے —

اس لیے جو فسادات سامنے آ رہے تھے، یا جن کی باتیں سنتا ہوا میں بڑا ہو رہا تھا، ان واقعات یا حادثوں کی یورش میں کہیں نہ کہیں میرے اندر کی مضبوطی بھی متاثر ہو رہی تھی —  جیسے اپنے ہی ملک کو اپنا کہنے کے لیے بھی وہ مضبوطی میرے پاس نہیں تھی، جو دوسروں کے پاس تھی —  لیکن بڑا ہوتے ہوئے ملک سے بے پناہ محبت کے نشے میں، میں ان باتوں کو اپنے وجود سے کھرچنے کی کوشش کر رہا تھا —  لیکن آہستہ آہستہ مجھے اس بات کا بھی احساس ہو رہا تھا کہ فتح اور حکومت کے باوجود مسلمانوں کی تاریخ غداروں اور ملک کو بدنام کرنے والوں سے بھی بھری رہی ہے —  نادر شاہ، ابراہیم لودھی، میر جعفر اور میر صادق جیسوں کی بھی ایک دنیا ہے۔  اور ایک دنیا پاکستان بنانے کے جنون کی بھی ہے۔  ایک ایسی ڈراؤنی دنیا جس سے ہندستان کے مسلمان کبھی باہر نکل نہیں پائے۔  اس لیے ہندوستان کے عام مسلمانوں کی طرح میں بھی کبھی پاکستان سے محبت نہیں کر سکا —  پاکستان میرے لیے ہمیشہ ایک دشمن ملک رہا جس کے قیام نے ہماری صدیوں کی وفاداری پر بھی شکوک و شبہات کی چادر ڈال دی تھی —

بی اماں کی باتیں کانوں میں گونجتی ہیں  —

’نوج … یہ پاکستان کا زخم مسلمانوں کی کتنی نسلوں کو سہنا پڑے گا …؟‘

ابا حضور تغلق پاشا کی آواز بوجھل ہو جاتی —  ’مسلمان اس پاکستان کے زخم سے کبھی باہر نہیں نکل سکیں گے …‘

فساد اور دنگوں کے ماحول میں بی اماں روتے ہوئے بس ایک ہی بات دہراتیں  —

’نوج —  جناح کو بھی کیا ضرورت پڑی تھی، پاکستان بنانے کی۔  دیکھ لیا نا پاکستان بنانے کا حشر —  جو وہاں کے ہو رہے، وہ بھی مصیبت میں اور جو یہاں رہ گئے وہ اپنی وفاداری کے ثبوت کو ترس رہے ہیں  — ‘

’ثبوت؟ ثبوت کیوں لائیں ہم …؟‘ ابّا حضور ناراض ہوتے —

’کیا باپ داداؤں کی ہڈیاں کافی نہیں ‘ جو یہیں کی مٹی میں دفن ہیں  — ‘

’نوج —  انگریز تو چلے گئے —  لڑانے والے چلے گئے —  پھر بھی ہم آپس میں لڑے جا رہے ہیں  — ‘

٭٭

مسلم دہشت پسندی —  میں ارشد پاشا، میں پورے ہوش و حواس میں کنفیس کرتا ہوں کہ یہ لفظ شروع سے ہی مجھے پریشان کرتا آیا ہے —  مجھے اُن دہشت پسندوں پر غصہ آتا ہے جو حملہ کرتے ہیں، قتل کرتے ہیں پھر چینلوں کو ذمہ داری لیتے ہوئے میسج بھی بھیج دیتے ہیں  —  کوئی کوئی آتنک وادی مارا جاتا ہے تو کم بخت اپنی جیب میں اردو میں لکھا ہوا ایک پرچہ بھی چھوڑ جاتا ہے —  یہ کیسے دہشت پسند ہیں جو ہر جگہ اپنے ہونے کا ثبوت لیے پھرتے ہیں ؟ اور پھر جب میڈیا مسلمان … مسلمان … چلّاتا ہے تو ٹی وی سے کچھ فاصلے پر اُنہیں دیکھتا ہوا ایک عام مسلمان دہشت اور خوف کا شکار ہو جاتا ہے۔  آئی جی اور ان ٹیلی جینس کے پاس ساری خفیہ سوچنائیں صرف مسلمانوں سے وابستہ ہوتی ہیں  —  اور ان کے تار پاکستان سے افغانستان، ملا عمر سے اسامہ بن لادن تک جڑے ہوتے ہیں  —  صدی کے خاتمے تک دہشت پسندی کے ان ہزاروں واقعات نے دوسرے مسلمانوں کی طرح مجھے بھی جکڑ رکھا تھا —

آتنکی مدرسے —  مدرسوں میں بم بنائے جا رہے ہیں۔  ہندوستان کے خاص مندر  دہشت پسندوں کے نشانے پر —  القاعدہ ممبئی اور دلّی پر حملہ کر سکتا ہے —  نیو یارک ٹائمز کی ایک رپورٹ —  دلّی میں مسلم آتنک وادی گھوم رہے ہیں۔  مخصوص ایٹمی ٹھکانوں پر دہشت پسندانہ حملوں کا خوف —  لشکر طیبہ کا اگلا قدم —  ملک کے اہم لیڈران کو ختم کرنے کا پلان —  کرکٹ کھلاڑیوں پر حملوں کا اندیشہ۔  گجرات حادثے کے بعد تو اس طرح کی خبرو ں کی ایک قطار لگ گئی تھی —  القاعدہ کا ہندوستان کے خلاف جہاد کا اعلان —

حیدر آباد میں ہائی الرٹ —  دلّی میں  —  ممبئی میں ہائی الرٹ … لشکر کے چھ لوگ دلّی میں پکڑے گئے —  ڈی کمپنی میں لشکر کا حصہ —  جگن ناتھ مندر نشانے پر —  انڈین مجاہد نے ذمہ داری قبول کی —  سچن تندولکر کو جیش سے خطرہ —

جیش —  لشکر —  القاعدہ —  مسلمان —  مسلمان اور صرف مسلمان —  میڈیا لاکھ یہ بتانے کی کوشش کرتا کہ یہ نام مسلمانوں کے نہیں ہیں مگر یہ واقعات، مسلسل ہمیں موت کے اندھیرے کنویں میں ڈھکیلنے کے لیے کافی ہوتے —  اور مجھے یہ کہنے میں کوئی خوف نہیں کہ جہاد اور دہشت گردی کے یہ خلاصے ملک سے عام مسلمانوں کی طرح مجھے بھی کھوکھلا کر رہے تھے —  کہیں انسانی بم، کہیں لشکر، سر پر ٹوپی —  چہرے پر داڑھی۔  اسلامی لباس —  ایک مذہب دیکھتے ہی دیکھتے آتنک کی فیکٹری بن گیا تھا —  اور مجھے غصہ اس بات پر آتا کہ خود کو جہادی کہنے والے ان نوجوانوں کی عمر ۱۵سے۱۷ سال تک کی ہوتی —  قوم اور مذہب کو داغدار کرنے والوں سے مجھے نفرت تھی —  لیکن اس نفرت کے باوجود کچھ سوالوں کو سمجھنے سے میں ہمیشہ قاصر رہا —

جیسے یہ کہ لشکر، جیش اور القاعدہ کی تربیت پائے ہوئے یہ جہادی ہر جگہ اپنے ہونے کا ثبوت لے کر کیوں گھومتے پھرتے ہیں  — ؟

یا پھر یہ کہ کیا ان جہادی تنظیموں کو اس سے کوئی مطلب نہیں کہ ان کے کارناموں کی برق عام مسلمانوں پر گر سکتی ہے؟ کیا یہ عام انسانوں کو مارنے والے مجاہد عام زندگی میں، معصوم انسانوں کے قتل کے بعد نماز بھی پڑھتے ہوں گے؟ عبادت بھی کرتے ہوں گے؟

اگر کرتے ہوں گے تو کیوں ؟

کہ اللہ ان کارناموں سے بہت خوش ہو گا — ؟

اور شاید اسی لیے ایسے کارناموں کے فوراً بعد یہ جہادی تنظیمیں ایسے گناہوں کی ذمہ داری بھی قبول کر لیتی ہیں۔  چینلوں کو خفیہ پیغامات بھیج کر —  اور ایسے پیغام کا نتیجہ کیا نکلتا ہے …؟

کیا ہندوستان کا عام مسلمان بھی دہشت گرد ہے؟

عالمی نقشہ پر صرف اسلامی دہشت گردی رہ گئی ہے اور اسی سے وابستہ خبریں  —

اور اسی لیے بٹلہ ہاؤس، دلکشا انکلیو میں وہ رات میرے لیے زندگی کی سب سے خوفناک رات بن گئی تھی —

وہ قصے جسے سنتا ہوا میں عمر کی ۴۸ بہار اور خزاؤں سے گزر چکا تھا، اب اُن قصوں کی اصلیت میرے سامنے تھی —  ڈرا سہما ہوا میرا بیٹا اسامہ پاشا —

اور وہ رات —

صبح ہو گئی تھی۔  آس پاس کی مسجدوں سے اذان کی آوازیں آ رہی تھیں  —  مجھے یقین تھا، بٹلہ ہاؤس میں زندگی لوٹنے لگی ہو گی۔  دکانیں کھلنے لگی ہوں گی۔  لوگ نماز سے فارغ ہو کر دکانوں پر جمع ہونے لگے ہوں گے …

میں صبح کی سپیدی  کا انتظار کر رہا تھا —

کھڑکی سے، سڑک سے گزرنے والی گاڑیوں کے ہارن کے چیخنے کی آوازیں بھی اب سنائی دینے لگی تھیں  —

اس درمیان میں نے کرتا پائجامہ تبدیل کیا۔  رباب اٹھ گئی تھی —  دروازہ کھولتے ہوئے میں نے صرف اتنا کہا —

’میں باہر جا رہا ہوں  — ‘

سیڑھیوں سے اترتے ہوئے بھی ذہن میں مسلسل دھماکوں کی گونج تھی —

٭٭٭

 

 

(2)

پلیا کے پاس بیرک لگ گئے تھے —  اب یہاں ایک پولیس چوکی بن گئی تھی۔  کل تک جہاں صرف دو پولیس والے تھے، اب وہاں صبح ہوتے ہی کئی پولیس والے جمع تھے —

آس پاس کی دکانیں کھل گئی تھیں۔  چائے والے —  جنرل اسٹور —  آج کم ہی بچے اسکول جا رہے تھے —  سڑک پر کل والی وہ رونق نہیں تھی —

صبح کے چھ بج گئے تھے —  چائے کی دکانوں پر مسجد سے نماز کے بعد لوٹے ہوئے لوگ جمع تھے۔  رات کی واردات کا قصہ سب کی زبان پر تھا —  پولیس کو گالیاں دی جا رہی تھیں  —  چائے والا اک ایک کر کے سب کو چائے بڑھاتا جا رہا تھا —  گفتگو آہستہ آہستہ زہریلی ہونے لگی تھی —

’وہ چار بچے تھے — ‘

’ہاں  — ‘

’کیا پولیس کوئی کاروائی نہیں کرے گی؟‘

’کرے گی کیسے نہیں۔  آج ہی دیکھ لینا — ‘

’لیکن ان بچوں کی غلطی کیا تھی — ؟‘

’مسلمانوں کی غلطی کیا ہوتی ہے —  لیکن ہر جگہ مسلمان ہی تو نشانے پر ہیں  — ‘

’اگر وہ بچے قصوروار نہیں ہیں اور اگر فرض کر لیا ان بچوں پر کوئی مصیبت آتی ہے تو کیا ہم کچھ نہیں کر سکتے؟‘

’کل ہمارے بچوں کی بھی باری آ سکتی ہے — ‘

’لیکن یہ بھی سوال ہے کہ اگر پولیس والے خاموش نہیں بیٹھتے، تو پھر —  وہ ان بچوں کے خلاف کیا کارروائی کرتے ہیں ؟‘

’اور اس سے بھی بڑا سوال کہ جب ان بچوں نے کچھ کیا ہی نہیں تو پولیس کارروائی کی ضرورت ہی کیوں پیش آتی ہے؟‘

’سیدھا جواب ہے، پولیس مسلمانوں کو پریشان کرنا چاہتی ہے — ‘

’اور پریشان اس لیے کرتی ہے کہ باقی لوگ منہ سی کر اپنے اپنے گھروں میں دبک جاتے ہیں  — ‘

’یہ کانگریس، بی جے پی سے زیادہ خطرناک ہے — ‘

’لیکن اگر پولیس ان بچوں کے خلاف کوئی کارروائی کرتی ہے تو ہمیں کیا کرنا ہو گا — ؟

کچھ لوگ غصے میں تھے —  چائے کی دکان پر آنے والے لوگوں کی تعداد بڑھتی جا رہی تھی —  ان میں زیادہ تر لوگوں سے علیک سلیک تھی —  مگر ابھی گفتگو کا وقت نہیں تھا —

تنگ گلیوں سے گزرتا ہوا، سلام میڈیکل اسٹور سے قبرستان تک آنے میں مجھے نصف گھنٹہ سے زیادہ لگا تھا۔  اس درمیان چہل پہل بڑھ گئی تھی —

۹ بجے کے آس پاس زیادہ تر دکانیں کھلنی شروع ہو گئیں۔  رکشہ والے، سائیکل والے، گاڑی، ٹرک … اور فٹ پاتھ پر دکان سجانے والوں کا ہنگامہ شروع ہو گیا —  ٹوپیوں کی دکان، چھوارے اور ڈرائی فرٹس بیچنے والے، سستے داموں میں سلے سلائے کپڑے بیچنے والے —  چوڑیاں، کھلونے، پھل اور سبزیوں کے لیے آواز لگانے والے —  چوراہے پر ٹریفک کا بڑھنا شروع ہو گیا تھا —

حنیف چائے والے نے آواز دے کر مجھے روک دیا تھا —

’سلام بھائی — ‘

’وعلیکم السلام — ‘

’یہ کیا سننے میں آ رہا ہے؟‘ چاروں طرف دیکھتا ہوا اُس نے پھسپھساتے ہوئے میری طرف دیکھا — ‘

حنیف چائے والا ضرور تھا مگر ا س کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ اچھا شاعر بھی ہے —  مگر تقدیر کی مجبوری —

’کیا سننے میں آ رہا ہے؟‘

’آپ کو تو سب معلوم ہے …‘ حنیف نے آہ کھینچ  کر شعر پڑھا —

’مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے

وہ قرض چکائے ہیں کہ واجب بھی نہیں تھے‘

’اس کی تیوریاں چڑھ گئی تھیں  —  بس مسلمان چوڑیاں پہن کر بیٹھے رہیں۔  یہی چاہتی ہے نا حکومت —  اور یہ پولیس —  لیکن آپ گھبرائیے مت —  کسی کو کچھ نہیں ہو گا — ‘

میں نے وہاں ٹھہرنا مناسب نہیں سمجھا —  در اصل میں اس کی طرح باتوں یا افواہوں سے بچنا چاہتا تھا —  اب میں گھر واپس لوٹ رہا تھا —  مگر مجھے اس نئے دن  کی صبح میں وحشت اور دہشت کے گھنگھرو نظر آ گئے تھے —

اور یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ میرے اندر دھماکوں کی گونج اب تک کچھ زیادہ ہی بڑھ چکی تھی —

٭٭

صبح ناشتہ سے سارا گھر فارغ ہو چکا تھا —  کرتا پائجامہ پہن کر اسامہ کمرے سے باہر نکلا —

اس سے پہلے کئی فون آ چکے تھے —  راشد اور علوی کے پاپا کا فون —  سب کے لہجے میں تشویش کے بادل چھپے ہوئے تھے۔

راشد کے پاپا نے بتایا —

’راشد آج اسکول نہیں گیا — ‘

’اسامہ بھی نہیں  — ‘

’آپ کو کیا لگتا ہے؟‘

’میں کسی خوش فہمی میں نہیں ہوں۔  لیکن پھر بھی لگتا ہے، ماحول کچھ زیادہ بہتر نہیں ہے۔  دھماکے کبھی بھی ہو سکتے ہیں۔ ‘

علوی کے پاپا نے پوچھا تھا —

’کیا ہندو آتنک واد کا اگلا ٹارگٹ ہمارا یہ محلہ ہے؟‘

میں نے آہستہ سے کہا تھا —  ’آتنک واد کو مذہب سے جوڑنا ابھی مناسب نہیں۔  جو غلطیاں اس وقت پوری دنیا کر رہی ہے، کوئی ضروری نہیں وہ غلطیاں ہم بھی کریں  — ‘

علوی کے پاپا غصے میں تھے —  ’غلطیاں، مسلم آتنک واد اور اسلامی آتنک واد کا نعرہ بلند کرنے والوں کے لیے آپ محض غلطیوں جیسا لفظ استعمال کر رہے ہیں ؟ یہ ایک ناجائز سیاست ہے، جہاں مٹھی بھر یہودیوں نے پوری دنیا کے مسلمانوں کو آتنک کے ہتھیار سے جوڑ دیا ہے — ‘

میں نے فون  رکھ دیا —  اسامہ میری طرف دیکھ رہا تھا —

کیا آپ بھی مانتے ہیں کہ ہم نے کوئی غلطی کی؟‘

’نہیں  — ‘

عشا کی نماز پڑھنا جرم تھا — ؟

’نہیں  — ‘

’نماز کے بعد کیا اپنے ہی محلے میں گھومنا کوئی غلطی تھی؟‘

’نہیں  — ‘

’کیا ٹوپی پہننا، کرتا پائجامہ پہننا اس ملک کے سنو دھان کے خلاف ہے؟‘

’نہیں  — ‘

’پھر وہ کیا کر سکتے ہیں  — ؟ گالی اُس پولیس والے نے دی تھی۔  راشد نے صرف اپنا بچاؤ کیا تھا — ‘

’ہاں  — ‘

’کیا ہمیں وہ ٹارگٹ کر سکتے ہیں ؟‘

میں اچانک چونک گیا تھا —  ساری رات جاگنے کی وجہ سے اُس کی آنکھیں پھولی ہوئی تھیں  —

’اچھا، وہ کیا ٹارگٹ کر سکتے ہیں۔  انکاؤنٹر؟‘ وہ میری آنکھوں میں جھانک رہا تھا —  لیکن وجہ …؟

’کچھ کرنے کے لیے وہ وجہ بھی لے آتے ہیں اور ثبوت بھی — ‘

’جیسے ہمیں سیمی کا ممبر بتا دیں گے —  یا پھر کسی دوسرے اسلامک یوتھ آرگنائزیشن سے جوڑ دیں گے …‘ وہ آہستہ آہستہ بڑبڑا رہا تھا —  وہ ایسا کر سکتے ہیں  —  کیونکہ وہ ایسا کرتے رہے ہیں  — ‘

اسامہ اب میری آنکھوں میں جھانک رہا تھا —  ’لیکن اب میں نے فیصلہ کر لیا ہے —  میں کہیں نہیں جاؤں گا۔  جیسا کہ آپ سوچ رہے ہیں  —  میں یہیں اسی گھر میں رہوں گا —  میں نے ساری رات سوچنے کے بعد یہ فیصلہ کیا ہے۔  آخر کیوں ڈر ڈر کے زندگی گزاریں ہم؟ ہم مسلمان ہیں  —  آتنک وادی نہیں  —  سڑک پر دھول میں سنے کتّے اور مسلمانوں میں فرق ہے —  غلطی یہ ہوئی کہ میڈیا اور سیاست اسلامی آتنک واد، مسلم آتنک واد چیختی  رہی اور آپ سیکولرزم کا لباس پہن کر تماشہ دیکھتے رہے —  مسلم قیادت داغی ہوئی آتش بازی کی طرح ہے —  اس لیے ہر حکومت لالچ دے کر اُنہیں اپنے آئین اور منصوبوں میں اتارتی رہی ہے۔  میڈیا کا سچ ہم جان چکے ہیں  —  اور آپ یہ مت بھولیے کہ آپ اس ملک میں ۲۰ ؍کروڑ سے زیادہ ہیں  —  اس لیے کہیں نہ کہیں لڑنے کے لیے عام مسلم ذہن یا طاقت کو سامنے آنا پڑے گا — ‘

رباب اور میں سہمے ہوئے انداز سے اسامہ کا چہرہ پڑھ رہے تھے۔  اس ننھے سے اسامہ میں اپنے وقت کی سیاست زندہ ہو گئی تھی۔  ہم ان چھوٹے معصوم بچوں سے وہ سچ چھپانا چاہتے تھے اور یہ بچے انٹر نیٹ، کتابیں، اور میڈیا سے گزرتے ہوئے اس سچ کو کہیں بہتر طور پر ہم سے زیادہ جانتے تھے۔

’پلک جھپکتے بڑھاپے میں پاؤں رکھتے ہیں

ہمارے عہد کے بچے جواں نہیں ہوتے‘

اب تشویش اس بات کی تھی کہ کیا سچ مچ پولیس کی جانب سے کوئی کارروائی نہیں ہو گی — ؟

کیا پولیس والے کل رات کے واقعات کو بھول جائیں گے؟

ایسا لگتا نہیں تھا —

مجھے تھاپڑ کا انتظار تھا —  اُس نے آنے کا وعدہ کیا تھا —

٭٭٭

 

 

(3)

انسپکٹر ورما پوجا کمرے سے نکلے تو ڈائننگ ٹیبل پر ناشتہ لگ چکا تھا —  چپاتی، کٹہل کی سبزی، اچار —

’دہی کہاں ہے …؟‘ وہ چیخے —

’آج دہی کے بغیر بھی کھالو — ‘

ورما نے زور سے تھالی میز پر پٹخ دی —  سارا دن گھر میں رہتی ہو —  جانتی ہو دہی کے میں بغیر نہیں کھاتا — ‘

اٹھ کر اپنے کمرے میں آ گئے۔  آج ورما کو ہر بات پر غصہ آ رہا تھا —  کم بخت یہ نوکری ہی ایسی ہے کہ غصے کے بغیر گزارا نہیں  —  لیکن کل رات تک جس بات کو انہوں نے بہت آسانی سے لیا تھا، اب وہی باتیں اُنہیں پریشان کر رہی تھیں  —  اس محلے پر ہاتھ ڈالنا آسان نہیں۔  اُس محلے کی اپنی ایک سیاست ہے۔  دوبے بابا کا دماغ چل گیا ہے۔  آخر وہ بھی تو اتنے دنوں سے سنگھ کی سیاست میں ہیں۔  لیکن کیا ملا؟ ایک بڑے پروموشن کو وہ اب تک ترس رہے ہیں  —

ورما جانتے تھے کہ کوئی بھی غلط قدم اُن کے لیے بھاری پڑ سکتا ہے۔  اس لیے کہ ادھر کچھ عرصے میں سنگھ کے کئی لوگ بے نقاب ہو چکے تھے۔  خاص کر بھیونڈی بم بلاسٹ کے حادثے میں تو آر ایس ایس کے ایک بڑے پرچارک کا نام بھی سامنے آ چکا تھا —  اور ایسی ہر کارروائی کے بعد سنگھ ایک پرانا بیان جاری کر دیتا کہ سب کچھ حکومت کے اشارے پر —  یا ہندو سنگٹھنوں کو بدنام کرنے کی ایک اور سازش —  وہ گھر سے نکلنے کے لیے تیار تھے لیکن باہر سے بجنے والی گھنٹی کی آواز سن کر رُک گئے —

پتنی نے خبر دی —  ڈاکٹر متّل آئے ہیں  —

ورما ڈرائنگ روم میں آ گئے —  ڈاکٹر متل کے ساتھ آہو جہ بھی تھا۔  کپڑوں کے شو کئی روم تھے آہو جہ کے —  ڈاکٹر متل نے زور سے کہا —

’جے شری رام …‘

ورما مسکرائے —  ’دوبے سے مل کر آ رہے ہیں  — ؟‘

’ہاں  —  سوچا —  آپ سے بھی ملتا جاؤں۔  کیا خبر ہے —  ؟‘

متل اور آہو جہ صوفے پر بیٹھ چکے تھے۔  پتنی چائے اور نمکین لے کر آ گئی تھی —

’خبر تو آپ کو معلوم ہو گی — ‘

’ہاں  — ‘ آہوجہ نے ٹھنڈی سانس بھری —

ورما نے چائے کا گلاس اٹھا لیا —  ’دوبے جی سمجھتے ہیں کہ یہاں ہاتھ ڈالنا کوئی بچوں کا کھیل ہے۔ ‘

’بچے بھی ہتھیار سے کھیلتے ہیں آج — ‘ آہو جہ کا چہرہ سنجیدگی میں ڈر رہا تھا —  مسلم طاقتوں کو کمزور کرنے کے لیے جدو جہد تو جاری رکھنی ہو گی نا … انہیں چاروں طرف سے تو ڑنا ہے۔  اور اتنا توڑنا ہے کہ …‘

’جیسے آپ چکن کی ہڈیاں توڑتے ہیں  —  بلکہ چباتے ہیں  — ‘ ڈاکٹر متل نے قہقہہ لگایا —  پھر چپ ہو گئے —

’مجھے معلوم ہے، معاملہ اتنا آسان نہیں  —  مگر کرنا تو ہے —  بھیونڈی دھماکے میں اے ٹی ایس کی جانچ نے رخ ہماری طرف موڑ دیا ہے۔  ابھینو بھارت جیسے سنگٹھن بھی سامنے آ گئے ہیں۔  جنتا چپ ہے۔  مگر ایسا لگتا ہے جیسے وہ بھی ان آشنکاؤں سے پیڑت ہے کہ کہیں کیا سچ مچ مسلم آتنک واد کی آڑ میں ہندو آتنک واد تو کام نہیں کر رہا — ؟‘

’سب کہنے کی باتیں ہیں  — ‘ آہو جہ نے گلاس خالی کر دیا تھا۔

’آپ سنیے تو —  سب کہنے کی باتیں نہیں ہیں  — ‘ ورما نے سگریٹ سلگا لیا —  جان پر ہماری بنتی ہے۔  مورچہ ہم سنبھالتے ہیں۔ ‘

ڈاکٹر متل سنجیدہ تھے —  ’ہندو آتنک واد کی اس بحث میں آر ایس ایس کی بھومیکا کو لے کر اب سوال اٹھنے لگے ہیں۔  یہ مت بھولیے کہ پورا میڈیا آپ کا نہیں ہے —  اور میڈیا میں سب کو آپ نہیں توڑ سکتے۔  یہاں کانگریس بھی ہے۔  ہمارے لوگ بھی بک جاتے ہیں  —  اب پچھلے بم دھماکوں کی فائلیں بھی کھولی جا رہی ہیں  —  اور جیسے جیسے یہ فائلیں کھلیں گی، ہندو آتنک واد کا مدعا تو سامنے آئے گا ہی — ‘

’وہی تو —  اب راجستھان کے دھماکوں کو ہی لیجئے —  اینٹی ٹیررسٹ اسکواڈ کی جانچ میں ہندو نوجوان ہی سامنے آئے  —  اور شاید پہلی بار میڈیا میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ صرف آر ایس ایس یا سنگھ ہی نہیں، ہماری ہزاروں شاخیں ہیں جو اس وقت خاموشی سے پورے ملک میں کام کر رہی ہیں۔ ‘

آہوجہ کرسی پر اڑ گئے —  ’بی جے پی آ گئی تو میڈیا نئے سرے سے اپنا گنت چلائے گی —  لوگ بے وقوف ہوتے ہیں  —  جو خوراک دو وہی یاد رکھتے ہیں  — ‘

’لیکن تب تک دیر ہو چکی ہو گی — ‘ ورما نے متل کو غور سے دیکھا —  یہ مت بھولیے کہ ہماری جلد بازی کی کارروائیوں کی وجہ سے کئی لوگ ہمارے سنگٹھنوں سے پلّہ جھاڑ چکے ہیں۔  کئی ایسے معاملے ہیں جہاں ہم آج بھی ایک نہیں  —  خاص کر کشمیر کے معاملے کو لے کر تو ہمارے سنگٹھنوں میں الگ الگ رویے پائے جاتے ہیں  — ‘

’ابھی مخالفت کا وقت نہیں ہے —  دوبے جی آج کئی ادھیکاریوں سے مل رہے ہیں۔  شام تک آپ کو پوری رپورٹ مل جائے گی —  مگر ہاں ساودھانی شرط ہے — ‘

’ساودھانی کے باوجود میڈیا جینے کہاں دیتا ہے —  اور یہ مت بھولیے کہ اس میڈیا کے ساتھ ایک اور میڈیا بھی ہے — ‘

’ایک اور …؟‘

’اردو میڈیا — ‘

آہوجہ ہنسے —  ’اردو اخبار پڑھتا ہی کون ہے؟ بکتے ہی کتنے ہیں ؟ اور ان کے پاس اپنا کوئی چینل بھی نہیں  — ‘

’لیکن اُن کی آواز سیدھے سرکار تک پہنچتی ہے۔  آج یہی میڈیا سرکار بنواتی اور گراتی ہے — ‘

ڈاکٹر متل سنجیدہ تھے —  ’یاد ہے۔  پچھلے سال ناجائز مکانوں کو توڑنے کی بات چلی تھی —  بلڈوزر تک آ گئے تھے۔  لیکن کیا ہوا —  سرکار ہی پیچھے ہٹی —  کیونکہ معاملہ ایک بڑے ووٹ بینک کا تھا — ‘

ورما ہنسے —  ’اُس ایریا میں ایک مکھی بھی کسی کو کاٹتی ہے تو خبر بن جاتی ہے — ‘

مگر دلّی کو ہلانے کے لیے تو سیندھ اُسی ایریا میں لگانا ہے۔  سیمی کا نام پہلے بھی اُس علاقے سے جڑ چکا ہے — ‘

آہو جہ نے گھڑی دیکھی —

ڈاکٹر متل ابھی بھی سنجیدگی سے سوچ رہے تھے —  ’مسلمانوں کے کھاؤ پکاؤ نیتاؤں کو خاموش کرنا ہمارے لیے مشکل نہیں  —  یہ دو تین دن تک اپنی قوم کے لیے بھاشن بازی تو کریں گے پھر ہماری جیب میں آ جائیں گے —  یہ پتہ ہے —  مگر ساودھانی شرط ہے —  اس لیے  پھر کہوں گا —  اب کسی بھی صورت میں ہمارے سنگٹھن کا نام سامنے نہیں آنا چاہیے —  اور —  کوئی بھی کڑی کمزور نہیں ہونی چاہیے کہ شک کی سوئی ہماری طرف گھوم جائے —  اس لیے ہر قدم ناپ تول کر رکھنا ضروری ہے۔

ورما نے غصہ سے ڈاکٹر متل کو گھور کر دیکھا —  ’ہم میں سے کون ہے جو  قدم پھونک کر نہیں رکھتا —  اور مت بھولیے کہ چوک کبھی بھی کسی سے بھی ہو سکتی ہے — ‘

آہو جہ ہنسے —  ’اب تک سات گیلنٹری ایوارڈ لے چکے ہو —  تم تو غلط کی بات مت ہی کرو تو بہتر — ‘

پتنی چائے اٹھانے آ گئی تھی —  ورما زور سے چلّائے —

’ہر کام الٹا —  دیکھتی نہیں ہم بات کر رہے ہیں  — ‘

’ارے اپنا غصہ بھابھی پر کیوں نکالتے ہو — ‘

لیکن ورما کو ابھی بھی غصہ آ رہا تھا — ’گھر میں آنے کے بعد ایسی جاہل عورت سے واسطہ پڑا ہے کہ …‘

’میں تو سہی میں جاہل ہوں اور آپ —  پتنی سے کوئی ایسے بات کرتا ہے — ‘

’اب بھاگتی ہے یا نہیں  — ‘ ورما غصے میں چلائے —

’دیکھیے …‘ پتنی رو رہی تھی —  یہ ہمیشہ ایسے ہی بات کرتے ہیں۔  ساری اکڑ ہم کو ہی دکھاتے ہیں  — ‘

ورما اندر ہی اندر اُبل گئے تھے —  غصے میں اٹھے —  بیوی کو زور سے باہر کی طرف دھکّا دیا —  متل نے تھاما نہیں ہوتا وہ سامنے پڑی میز سے ٹکرا کر گر گئی ہوتی —

’اب جائیے بھابھی۔  میں اسے سنبھالتا ہوں  — ‘

متل نے دروازہ بند کیا —  ’تمہیں باہر کی عورتوں کی کچھ زیادہ ہی عادت پڑ گئی ہے ورما —  جس کسی کو بھی ایسی عادت پڑ جائے …‘

آہوجہ نے ہنس کر جملہ پورا کیا —  اُسے اپنے گھر کی دال پسند نہیں آتی — ‘

’اور بریانی بھی — ‘ متل نے زور کا قہقہہ لگایا —

باہر سے ابھی بھی ورما کی پتنی کے بولنے بکنے کی آواز آ رہی تھی —  مگر ورما —  وہ کچھ سوچنے میں مصروف تھا —  اُس نے پلٹ کر متل کی طرف دیکھا —

’ہاں  —  تم بتا رہے تھے کہ دوبے …‘

’آج وہ سنگھ کے لوگوں سے ملنے والے ہیں  …‘

٭٭٭

 

 

(4)

وہ ایک بڑا سا ہال تھا —  کئی صوفے لگے تھے۔  دیوار پر بڑی بڑی پینٹنگز اس بات کی گواہی دے رہی تھیں کہ صاحب خانہ کو مصوری سے عشق ہے۔  کیونکہ یہ پینٹنگز نہ صرف اوریجنل تھیں بلکہ ایسے مصوروں کی شاہکار تھیں، ایک دنیا جن سے واقف تھی —  ہال میں چار پانچ کمپیوٹر لگے تھے، جن پر ابھی بھی بیٹھے ہوئے لوگ کچھ سرچ کرنے میں مصروف تھے —  میز پر دنیا بھر کے اخبارات پڑے تھے —  ان لوگوں میں سپرویزن انڈسٹری کے مالک کانجی بھائی بھی تھے۔  زیادہ تر لوگ دھوتی میں تھے۔

چائے آ گئی تھی —  دھواں دھار بحث کے بعد یہ لوگ خاموشی سے چائے پینے لگے تھے —

ٹی راگھون پیشے سے وکیل تھے۔  نٹ راجن کا ایک چینل میں شیئر تھا —  ڈاکٹر راما مورتی کے کئی ٹرسٹ اور ہاسپٹل دلی سے ممبئی تک پھیلے ہوئے تھے —  کاشی بھائی ایک فلم کمپنی کے مالک تھے —  اشوک نمانی پیشے سے جرنلسٹ تھے —  ایک بڑے جرنلسٹ —  اور اس وقت یہ تمام لوگ اشوک نمانی کے ہی گھر میں اکھٹا ہوئے تھے —

’دوبے جی، آپ اتنا ڈرتے کیوں ہیں  — ؟‘ کانجی بھائی نے میز سے اپنی چائے اٹھاتے ہوئے کہا —

’آپ لوگ ساری ذمہ داری مجھ پر دے دیتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ کیوں گھبراتا ہوں  — ‘

’بھائی —  یہاں کسی ایک کی ذمہ داری تو ہے نہیں  —  آپ سب سے بزرگ ہیں اور تجربہ بھی سب سے زیادہ آپ کو ہے —  پھر سنگھ میں آپ کے مشورے نہ صرف چلتے ہیں بلکہ مانے بھی جاتے ہیں  — ‘

’لیکن میری کوئی سنتا کب ہے — ؟‘

’کون نہیں سنتا آپ کی؟ راگھون زور زور سے ہنسا —  ’ کس کی مجال؟‘

کاشی بھائی بولے —  ’آپ کے لیے سب سے اچھی بات یہ ہے کہ آپ ابھی تک میڈیا کی نظر میں نہیں آئے — ‘

’اور میں آنا بھی نہیں چاہتا — ‘ ابھے کمار دوبے نے شانت لہجے میں کہا — ‘

اشوک نمانی سنجیدہ تھے —  ’جتنا الجھائیں گے، الجھیں گے —  میڈیا چار دن شور کرتی ہے —  پانچویں دن لوگ بھول جاتے ہیں  —  اب سوچنا یہ ہے کہ چلیں کہاں سے — ‘ اشوک نمانی اٹھ کر سامنے والی کرسی پر آ گئے —

’آج سے چھ مہینے پہلے دلّی میں بم دھماکے ہوئے —  اب دیکھنا یہ ہے کہ اگر اس ایریا کے مسلمانوں کو … ٹارگٹ کیا جاتا ہے تو کیا ا س کا رخ دلّی دھماکوں سے جوڑا جا سکتا ہے …؟‘

ابھے کمار دوبے سوچ میں ڈوبے تھے —  ہاں ہو سکتا ہے —  اُس وقت کی پوری کیس اسٹڈی پھر سے دیکھنی ہو گی — ‘

’وہ مصطفی خان ایم ایل سی …‘

’وہاں کانگریس کے کئی دوسرے لیڈر بھی رہتے ہیں  — ‘

اشوک نمانی زور سے ہنسے —  ’جو ہوتا ہے اُسے ہونے دیجئے —  پچھلے ۶۰؍ برسوں سے ہم یہی تو کرتے آئے ہیں۔  خفیہ ایجنسیوں نے کبھی حکومت کو ہماری رپورٹ دی کہ ہم کیا کرتے رہے — ‘

’مگر اب تو مالیگاؤں اور بھیونڈی حادثے کے بعد ہماری سچائی سامنے آ گئی ہے — ‘

’اسے جنتا کے دماغ سے بھلا دینا دو سکنڈ کی چیز ہے — ‘ اشوک نمانی چٹکیاں بجاتے ہوئے بولے —  یہ جو پبلک ہے، سارے گناہ بھول جاتی ہے —  میڈیا کو چلانے دیجئے اور آپ اپنا کام کرتے جائیے — ‘

’ہم سب خاموشی سے ہی تو اپنا کام کر رہے ہیں  — ‘ یہ کانجی بھائی تھے۔

’پچھلی بار جو ہوا —  وہ سنگھ کے سمر تھک منیش بھائی سرخیوں میں آ گئے۔  سنگھ نے کیا کیا اُن کے لیے؟ راگھون نے پوچھا —

’سنگھ نے اخباری بیانات جاری کیے —  کیے کہ نہیں  — ‘ ابھے کمار دوبے نے گھوم کر دیکھا —  اور سنگھ اس کے علاوہ کیا کر سکتا تھا اور یہ مت بھولیے کہ …‘

وہ کہتے کہتے رک گئے —

’آگے بولیے —  زبان کیوں بند ہو گئی — ؟‘

’وہ ہم سے زیادہ موساد کا آدمی ہے —  ہم دونوں کا ایک ہی راستہ ہے لیکن میں پھر کہتا ہوں۔  ہمیں موساد والوں پر آنکھ موند کر بھروسہ نہیں کرنا چاہیے — ‘

’یہ کوئی نئی بات نہیں بتائی آپ نے —  ہم میں سے کئی لوگوں کا تعلق موساد سے ہے۔  آخر سنگھٹن کو پیسے بھی تو چاہئیں۔  دیش بھر میں چلنے والی ۴۵؍ ہزار شاخوں کو پیسہ ہماری جیب میں سے تو نہیں آئے گا نا …‘

’درست — ‘ کانجی بھائی بولے —

’اس لیے بے بنیاد باتوں کو بستے میں رکھیے —  اور مدعے پر آئیے — ‘

اشوک نمانی نے گھوم کر سب کی طرف دیکھا —  دلّی بم دھماکے کو ابھی زیادہ عرصہ نہیں ہوا ہے۔  لوگ بھولے نہیں ہیں۔  ہم ایک بار اس ایریا پر ہاتھ رکھ دیں گے تو اُنہیں جڑ سے اٹھنے میں دسیوں سال لگ جائیں گے — ‘

’پھر کوئی دوسرا دھماکہ کرا دیں گے — ‘ نٹ راجن نے ہنستے ہوئے خالی گلاس میز پر رکھ دیا —

’ہم اپنے مول برہموادی ایجنڈے سے نہیں ہٹ سکتے۔ ہمیں اکھنڈ بھارت بھی چاہیے —  اور ستّہ بھی —  راستہ کٹھن ہے۔  لیکن راستہ ان جیسی کوششوں سے ہی ہو کر گزرتا ہے‘

’آپ جو بھی نڑ نے لیں گے ہمیں منظور ہو گا —  اس بار بھی پوری گھٹنا کا ریموٹ کنٹرول آپ کے ہاتھ میں ہو گا — ‘

یہ اشوک نمانی تھے —

’تو پھر ہم پر بھروسہ رکھیے — ‘ ابھے دوبے نے سب کی طرف دیکھا —  ’جب تک ہمارے ہتھیار بھترے نہیں ہو جاتے ہم اُنہی پرانے ہتھیاروں سے کام لیں گے —  اور ہمارے ہتھیار اس بار بھی یہی ہوں گے —  خفیہ ایجنسیاں  —  جو مسلم دہشت گردی کی افواہیں پھیلائیں گی۔  فرضی انکاؤنٹرز اور مٹھ بھیڑ —  جہاں ہماری مدد کو یہ ایجنسیاں کھل کر ہمارے ساتھ آ جائیں گی —  اور ہمارا مسلم آتنک واد کو بڑھاوا دینے والا ایک ماتر نعرہ — ‘

’سواگتم — ‘ اشوک نمانی مسکرائے —  ہمیں امریکیوں اور یہودیوں سے بھی ابھی بہت کچھ سیکھنا ہے۔  وہ اپنے لوگوں کو مسلمان بنا کر اس مہم میں اتار رہے ہیں۔  انہیں عربی سکھائی جاتی ہے۔  اسلامی طور طریقے سکھائے جاتے ہیں۔  داڑھی بنانے اور نماز کی صحیح ادائیگی کے طریقے بتائے جاتے ہیں۔  پھر اُنہیں مہم میں اتار ا جاتا ہے — ‘

’ابھی یہاں اس کی ضرورت نہیں پڑے گی۔  ابھے کمار دوبے ہنسے —  یہاں کے لیے اتنے ہی ہتھیار کافی ہیں  —  اور یہ ہتھیار پچھلے ساٹھ برسوں سے ہمارا ساتھ دے رہے ہیں تو آگے بھی دیں گے — ‘

’اس کا مطلب آپ نے کچھ سوچ رکھا ہے — ‘

’ہاں  — ‘

’کر لیا — ؟‘

’ غور سے میری بات سنیے — ‘

ابھے کمار دوبے سوچ میں گم تھے۔  ’سب سے پہلے میڈیا کو دلّی بم وسفوٹ کے بھوت کو پھر سے باہر نکالنا ہو گا۔  یہ کام تم کرو گے اشوک نمانی۔  تم صحافی بھی ہو —  ورما کا بیان جائے گا کہ خفیہ ایجنسیوں سے خبر ملی ہے کہ دلّی بم وسفوٹ کے کچھ مفرور آتنک وادی اُس ایریا میں چھپے ہوئے ہیں۔  خفیہ ایجنسیوں کے لیے میں مہاویر سے بات کر لوں گا۔  سب سے پہلے میڈیا ہائی لائٹ —  اور آگے کی کارروائی کے لیے مجھے ورما سے ملنا ہے —  چمچہ گیری تو کرتا ہے لیکن اُسے ہینڈل کرنا مشکل نہیں ہے — ‘

ابھے کمار دوبے اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔  نمانی اور باقی لوگ ا نہیں چھوڑنے گیٹ تک آئے۔

گاڑیاں ایک ایک کر کے باہر نکل رہی تھیں۔

آسمان میں سورج غروب ہو رہا تھا —

٭٭

اشوک نمانی، ابھئے کمار دوبے کو اپنی سفاری میں چھوڑنے گئے تھے۔  راستے بھر زیادہ تر خاموشی ہی چھائی رہی۔  ذرا ٹھہر کر دوبے نے اسٹرنگ سنبھالے ہوئے نمانی کو دیکھا۔  پھر ہنس کر پوچھا —

’تمہارے جیسا آدمی سنگھ میں ہو تو پھر منزل آسمان ہو جاتی ہے — ‘

’آپ کا آشیرواد چاہئے — ‘ نمانی مسکرائے۔

’تم تو پہلے کمیونسٹ پارٹی میں تھے۔  اس اور کیسے نکل آئے؟‘

اشوک نمانی زور سے ہنسے —  جس پارٹی کے نظریے میں کھوٹ ہو، وہاں کتنے دنوں تک کھوٹ سے بندھا رہتا دوبے بابا …‘

’نظریے میں کھوٹ …؟‘

’روس اور چین کا کمیونزم بھی بدل گیا مگر نہیں بدلا تو ہمارے ملک کا کمیونزم —  یہاں سب بورژوا مخالفت کی کھیتی کرتے ہیں  —  سیکولرزم، سیکولرزم چلّاتے ہیں مگر دوبے بابا اندر سے سب ہمارے جیسے ہیں  —  بہت قریب سے دیکھا ہے ان چوسی ہوئی ہڈیوں کو — ‘ نمانی نے گیئر بدلتے ہوئے کہا —  پالیٹکس میں بھی تو آئے تھے — کیا اُکھاڑ کر گئے —  اب حاشیے پر ہیں  —  اور حاشیے پر رہیں گے — ‘

’ٹھیک کہتے ہو …‘ دوبے کی آنکھیں کہیں اور دیکھ رہی تھیں۔  بھارت ورش کی اکھنڈ زمین لچیلی ہے۔  یہاں ورشوں، شتابدیوں کی سبھیتا اور دھرم کا نواس ہے۔  یہ جڑیں اتنی گہری ہیں کہ اُنہیں نکالنے کا نظریہ کیول ایک مورکھتا ہے۔  اس لیے آج نہ کل ہم یہاں راجیہ بھوگیں گے ہی —  اور وہ سمئے دور نہیں  …‘

’تتھاستو …‘

’اور یہ سب کچھ تم شیگھر دیکھو گے۔  ہندو راشٹر۔  سپنوں کو سچ کرنے کے بیچ کہیں نہ کہیں بن آتی ہے نمانی۔  اسلام کو دیکھو۔  کوئی مانے یا نہ مانے لیکن شمشیر ہی ایک ستیہ تھا۔  مغلوں نے کیا کیا؟ ان کا پورا اتیت اٹھا کر دیکھ لو۔  صلاح الدین ایوبی سے لے کر اورنگ زیب تک —  راجیہ بھوگ کے لیے اشوک کا اداہرن لے لو —  آج کے سمے کے لیے نئی نیتیوں کی ضرورت ہے۔  یہ نیتی مہا بھارت کے کرشن وچن سے الگ ہو گی اور چانکیہ سے بھی — ‘

اشوک نمانی نے گھوم کر دوبے کو دیکھا —

’وہاں کورو اور پانڈو تھے لیکن تھے تو دونوں اپنے —  اور یہاں ودیشی لٹیرے ہیں۔  چانکیہ یاد ہے نا نمانی —  چھوٹا تھا تو پاؤں میں کانٹا چبھ گیا —  ضدی تھا —  کانٹے کی جڑ تک پہنچا —  اور زمین سے سارے کا نٹے نکال دیے —  اور ساری زندگی راجنیتی کے کانٹے ہی نکالتا رہا لیکن یہاں راج یوگ چاہیے —  کانٹے بھی نکالیں گے اور ستّہ سکھ بھی بھوگیں گے …‘

گھر آ گیا تھا —

نمانی دوبے کو چھوڑنے دروازے تک آئے۔

’میں ورما سے بات کر لوں گا —  وہ کسی وقت بھی آپ سے آ کر مل لے گا …‘

’ٹھیک ہے — ‘

’آپ اپنا دھیان رکھیے گا …‘

نمانی نے دوبارہ گاڑی اسٹارٹ کر دی تھی —

 

 

(5)

’ اسامہ … اسامہ …‘

رباب آواز لگاتی ہوئی اسامہ کے کمرے میں آئی تو اسامہ کمپیوٹر پر ویڈیو گیم سے دل بہلانے کی کوشش کر رہا تھا —

’آج کہیں باہر نہیں نکلے؟‘

’خواہش نہیں ہوئی۔ ‘

’چلو اچھی بات ہے — ‘

رباب کرسی کے پیچھے کھڑی ہو کر اسامہ کے بالوں کو سہلانے لگی …

’آج تم نے کہا … یہ تمہارا فیصلہ ہے … کہانا …؟‘

’ہاں  …‘

رباب مسکرا رہی تھی —  ’یہ فیصلہ لینے کی عمر تمہاری کب سے ہو گئی اسامہ — ؟‘

’جب سے میں بڑا ہوا …‘

رباب پاس والی کرسی پر آ کر بیٹھ گئی —

’تم ابھی اتنے بڑے نہیں ہوئے بیٹے کہ اپنے فیصلے خود لے سکو —  ہاں شادی ہو جائے تو پھر تم اپنی مرضی کے مالک ہو گے …‘

’مجھے شادی کرنی ہی نہیں  …‘

رباب زور سے ہنسی —  ’اس عمر میں سارے بچے یہی کہتے ہیں۔  لیکن شادی سب کرتے ہیں۔  تم بھی کرو گے۔  ہاں تم سے  کچھ کہنے آئی تھی۔  جب غصے میں تم اپنا کوئی فیصلہ سناتے ہونا … تو اپنے باپ کو بہت چھوٹا کر دیتے ہو۔  میں ارشد کا چہرہ دیکھتی ہوں  —  وہاں کچھ زیادہ نہ کر پانے کا ایک گلٹ ہوتا ہے۔  احساس کمتری۔  میں اس گلٹ کو وہاں دیکھنا نہیں چاہتی —  وہ جو کچھ کر سکتا تھا، اُس نے کیا ہے تمہارے لیے —  ہمارے لیے۔  کاشی سے دلّی کا سفر کوئی آسان سفر نہیں تھا۔  لیکن یہ سفر اُس نے ہمارے لیے منظور کیا —  اور …‘

رباب کی پلکیں نم تھیں  —  ’وہ اگر ناکام ہیں تو صرف اس لیے کہ وہ ایک ایماندار شخص ہیں۔  ایماندار آدمی جیتتا کم، ہارتا زیادہ ہے۔  ایماندار آدمی اندر سے شرمیلا ہوتا ہے — ‘

’یہ سب آپ مجھے کیوں سنا رہی ہیں  — ‘ اسامہ کے لہجے میں ناراضگی تھی —

’سنا نہیں رہی بیٹے۔  کبھی کبھی تمہاری بغاوت میں جانے کیوں ایک بڑی ڈیمانڈ نظر آتی ہے۔ ‘

’لیکن میں آپ لوگوں سے کچھ مانگنے تو نہیں جا رہا — ‘

’اسی لیے —  مانگنے آتے تو شاید تسلی ہو جاتی۔  ناراض ہوتی۔  بگڑ جاتی کہ تمہاری یہ ڈیمانڈ ہم پوری نہیں کر سکتے۔  لیکن جیسے جیسے تم بڑے ہو رہے ہو، یہ ڈیمانڈ خاموشی سے، ہم لوگوں سے کچھ مطالبہ کرنے لگی ہے۔ ‘

رباب نے اسامہ کے ہاتھوں کو تھام لیا تھا —  ’ارشد تمہارے ڈیڈی ہیں۔  اُن سے باتیں کرو۔  ہر طرح کی باتیں کرو۔  اُن سے اپنے دل کی بات کہو۔  فاصلہ مت پیدا کرو — ‘

اسامہ خاموش تھا —

رباب نے اسامہ کی طرف دیکھا — ’ ارشد بھی چاہتے ہیں اور میں بھی کہ ابھی کچھ دنوں تک …‘ وہ کہتے کہتے رُک گئی تھی …

’کیا  — ؟‘

’باہر نہ نکلو تو بہتر ہے …‘

’لیکن کیوں  …؟‘

’سوال نہیں  —  کچھ دن باہر نہیں نکلے، یا اسکول نہیں گئے تو پہاڑ نہیں ٹوٹ پڑے گا بیٹے — مجھے امید ہے تم ہماری باتوں کو سمجھنے کی کوشش کرو گے — ‘

’یہ مجھ سے نہیں ہو گا — ‘ اسامہ زور سے چیخا —

’کوشش کرو گے —  ہمارا درد سمجھو گے تو سب ہو جائے گا …‘

اسامہ نے کمپیوٹر بند کر دیا۔  غصے میں کھڑا ہو گیا —

’ابھی میں نے کچھ نہیں کیا تو اتنی بندشیں۔  خدا نخواستہ میں سچ مچ کسی کا قتل کر کے آ جاتا تو …؟ ‘

’اسامہ …‘ رباب اُس سے کہیں زیادہ زور سے چیخی —

’ہمیں کمزور مت بنائیے امی …‘ اسامہ رو رہا تھا۔  شاید کل رات سے وہ رونے کا بہانا تلاش کر رہا تھا —

’خود کو مضبوط بنانے والی ہر تسلی یہاں سوگئی ہے امی —  کیوں بزدل بنانا چاہتی ہیں اپنے بیٹے کو —  جب جب خود کو مضبوط کرنا چاہتا ہوں، آپ لوگ دبّو اور کمزور بنانے آ جاتے ہیں  —  بیٹا ہوں آپ کا، اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ آپ مجھے میری نظروں میں ہی گرا دیں۔  میں کمزور ہو کر نہیں جینا چاہتا  —  میں ویسے ہی جینا چاہتا ہوں جیسے ایک ملک کا کوئی بھی آزاد شہری جیتا ہے —  مجھے پابندیوں میں نہیں جینا امّی — ‘

’میرا بیٹا — ‘

سسکتے اسامہ کو رباب نے اپنی بانہوں میں بھر لیا تھا —

میری آنکھیں نم تھیں۔  کہیں خاموش سا میں بھی اس منظر کا گواہ بن گیا تھا —

٭٭٭

 

 

(6)

ابھے کمار دوبے کمرے میں تیز تیز ٹہل رہے تھے۔  اُن کا دماغ زور و شور سے کام کر رہا تھا —  اتنی دیر میں وہ سنگٹھن میں اوپر سے نیچے تک تمام سہیو گیوں سے مشورہ کر چکے تھے۔  ٹہلتے ہوئے وہ میز کے سامنے والی کرسی کھینچ کر بیٹھ گئے۔  لیپ ٹاپ پر انگلیاں فرّاٹے سے دوڑنے لگیں  —

کسی پر کبھی فرد جرم عائد کرنے سے پہلے تمام امور پر غور کرنا ضروری تھا —  وہ پچھلے تمام انکاؤنٹرز کے اتہاس سرچ کر چکے تھے —  ایسے حالات میں پولیس کن چیزوں کو سب سے پہلے بطور شہادت اپنے قبضے میں لیتی ہے؟ جیسے سم کارڈ، موبائل —  لیپ ٹاپ یا کمپیوٹر —  مجرم یا مقتول کے لیپ ٹاپ، کمپیوٹر سے اسی وقفے میں ضروری چھیڑ چھاڑ کے لیے بھی کسی تیز طرار، ذہین اور ماہر شخص کی ضرورت ہوتی ہے۔  پھر آپریشن سے پہلے میڈیا تک کسی بھی آتنک وادی آرگنائزیشن کی طرف سے ذمہ داری قبول کرنے کا میل  بھیجنا بھی اب کوئی مشکل نہیں رہ گیا تھا —  لیکن مشکل یہ تھی کہ پورا میڈیا ابھی بھی قبضے میں نہیں آیا تھا —  اگر پورا میڈیا قبضے میں ہوتا تو پھر شاید اتنی ماتھا پچی کی ضرورت پیش نہ آتی —  لیپ ٹاپ کنارے رکھ کر انہوں نے ورما کو فون لگایا —

’وہ دشینت ہے نا …؟‘

’دشینت پانڈے —  اسسٹنٹ سب انسپکٹر …‘

’ہاں  —  اُسے بھی ساتھ لے آنا — ‘

’مگر کیوں  …؟‘

’تم سوال بہت پوچھتے ہو ورما —  بس لے آنا۔  بہت دنوں سے اُسے دیکھا نہیں ہے۔ ‘

اس وقت ابھے کمار دوبے کا دماغ بجلی کی رفتار سے چل رہا تھا —  اس وقت وہ چانکیہ نیتی پر چلتے ہوئے مہروں  کی الٹ پھیر میں مصروف تھے —

’بساط ہی اُلٹ دو —  مہروں کو الجھا دو … لیکن ایسا کیسے ممکن ہے …؟‘

لیپ ٹاپ پر ایک بار پھر ان کی انگلیاں تیز تیز چل رہی تھیں  —  اب وہ مطمئن تھے —

شطرنج کی بازی پوری طرح اُن کے ہاتھ میں تھی —

٭٭

ایک گھنٹے بعد ورما دشینت کو لے کر آ گیا تھا۔  دشینت ۳۵ ؍سال کا ایک خاموش نوجوان تھا —  ابھی حال میں شادی ہوئی تھی —  ورما کی طرح زیادہ نہیں بولتا تھا۔  کم گو تھا —  اور اسی لیے ابھئے کمار دوبے کو زیادہ پسند تھا —

’کیسے ہو دُشینت — ‘

’سب آپ کی کرپا ہے سر …‘

انہوں نے ورما کو اشارہ کیا —

’بیٹھ جاؤ — ‘

ورما کے چہرے پر پھیلی ہوئی اُداسی سے دوبے کو اپنا کھیل بگڑتا ہوا نظر آیا —  مگر وہ ورما کے تجربوں سے واقف تھے —

’آج پھر بیوی سے لڑ کر آئے ہو کیا — ؟‘

’نہیں تو …‘

’پھر چہرہ اتنا لٹکا ہوا کیوں ہے؟‘

’چہرہ ہی ایسا ہے — ‘ ورما نے ہنسنے کی کوشش کی —

’کل چھوڑ دو۔  پرسوں کے بارے میں کیا خیال ہے — ؟‘

دوبے نے پلٹ کر ورما کو دیکھا —

’مطلب …؟‘

’آپریشن — ‘ دوبے سنجیدہ تھے۔  دشینت کو بھی ملا لو۔  سارا پروگرام تمہیں سمجھا دیا جائے گا — ‘

’اچھا۔  وہاں کی سچویشن کیا ہے …؟‘

وہ سالا خان …‘ ورما نے گندی گالی بکتے ہوئے کہا …

’ام۔  ال … سی؟‘

’ہاں  … آج اُس کی تقریر ہوئی تھی۔  سنتے ہیں مسلمان جوش میں ہیں۔ ‘

’۹ بجے کی بریکنگ نیوز سن لینا — ‘ دوبے ہنسے —  ’نمانی نے اپنا کام کر دیا —  اب سننا نیوز — ‘

’آپ ہی بتا دیجئے — ‘

برف جیسا سرد لہجہ —  یہ دشینت تھا —

’سب جان لو گے۔  ایسی بھی کیا جلد بازی ہے — ‘

’لیکن مجھے جلدی ہے …‘ ورما نے گھڑی دیکھتے ہوئے کہا۔

’ اتنے کنفیوژ کیوں رہتے ہو …‘ دوبے بولتے بولتے ٹھہر گئے … ورما نے پلٹ کر وار کیا —

’کنفیوز ہم رہتے ہیں یا آپ لوگ؟ ہندو تو سے کشمیر کے مدعے تک ہر جگہ کنفیوز —  کشمیر میں کیا کیا ؟ چاٹتے رہیے دفعہ ۳۷۰ —  سارے کشمیری پنڈتوں کو بھگا دیا اور بس اسٹیٹ منٹ پہ اسٹیٹ منٹ جاری کرتے جائیے۔  سال میں ایک بار لال چوک پر جھنڈہ لہرانے سے کیا ہوتا ہے —  اور ہندوتو —  ایک مندر نہیں بن سکا آپ لوگوں سے۔  رہے بی جے پی کے بھروسے —  اور بی جے پی راجنیتی کرتی رہی — ‘

دوبے اٹھے —  آگے بڑھ کر ورما کے کندھے کو سہلایا —  ’تم ابھی پریشان لگتے ہو پُتّر —  سب ہو گا ایک دن۔  گھبراتے کیوں ہو۔  صدیوں کا پھل ایک لمحے میں نہیں ملتا۔  اسی لیے تو تپسیا کرنی پڑی اتنی اور یہ بھی صدیوں کی تپسیا کا ہی ایک حصہ ہے —  جو ذمہ داری تمہیں سونپی جا رہی ہے۔  تم ابھی پریشان ہو۔  جاؤ —  گھر جاؤ۔  میں صبح خود آ کر تمہیں سمجھا دوں گا — ‘

ورما اٹھ کھڑے ہوئے —

’چل دشینت — ‘

’نہیں دشینت کو چھوڑ دو —  مجھے دشینت سے کچھ کام ہے۔  تم جاؤ — ‘

انسپکٹر ورما غور سے، کچھ شک سے دشنت کو دیکھتے ہوئے باہر نکل آئے —

دوبے آہستہ سے مسکرائے —

’تھوڑی بہت کامیابیوں نے اس کا دماغ خراب کر دیا ہے۔  ٹھہرو۔  تمہیں اچھا سا قہوہ پلاتا ہوں۔  پھر بات کریں گے — ‘

دوبے کو اپنا کام خود کرنا پسند تھا —  اور دشینت چند ملاقاتوں میں یہ راز جان چکا تھا —

وہ اخبار کے صفحے پلٹنے لگا —

دوبے واپس آ گئے تھے —

’دیکھا —  موسم خراب ہو گیا۔  بادل گرج رہے ہیں۔  بارش بھی ہو سکتی ہے۔  لو قہوہ پیو …‘

وہ گہری سوچ میں ڈوب گئے تھے —

باہر بادل گرجنے لگے تھے —  کچھ ہی دیر میں بارش کی رم جھم بھی شروع ہو گئی۔

٭٭٭

 

 

(7)

تھاپڑ کا انتظار کرتے کرتے سارا دن گزر گیا۔  شام کے چھ بجے وہ آیا۔  ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی۔

’بارش میں پھنس گیا تھا — ‘ اُس نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔  جانتے ہو کہاں سے آ رہا ہوں ؟

’نہیں  — ‘

’پریس کلب میں ایک کانفرنس تھی۔  اقلیت اور فساد —  بڑے بڑے لوگ آئے ہوئے تھے —  اور تمہاری وہ …‘ تھاپڑ شرارت سے مسکرایا … صوفیہ لارین … کتنی بدل گئی ہے —  لیکن وہی پٹی پٹائی تقریر، پرانی باتیں  … لیڈر بن جانے کے بعد اندر کا وہ پرانا آدمی کہاں کھو جاتا ہے؟ میں اُس میں برسوں پرانی صوفیہ کو تلاش کرنے کی کوشش کرتا رہا …‘

’ملی …؟‘

’نہیں ملی یار … ہاں تم لے آتے تو …‘

’تب وہ راجیہ سبھا کی ممبر نہیں ہوتی …‘

’لیکن اُس میں ایک اوریجنل صوفیہ موجود ہوتی —  اس کے گنہگار تم ہو —  تم سالے ہمیشہ سے دبّو تھے …‘

رباب چائے اور نمکین لے کر آ گئی تھی —

’ماحول کیسا ہے؟‘ تھاپڑ میری آنکھوں میں جھانک رہا تھا —

’کہہ نہیں سکتا —  تم تو ابھی اُسی راستے سے آئے ہو گے …‘

’ہاں  — ‘

’تم مجھ سے کہیں بہتر اس ماحول کا تجزیہ کر سکتے ہو — ‘

تھاپڑ کے چہرے کا رنگ اچانک بدلا تھا۔

’میری مانو تو مجھے کچھ گڑ بڑ لگ رہی ہے۔ ‘

’لیکن کیسے …؟‘

’سب کچھ شانت ہوتے ہوئے بھی سب کچھ شانت نہیں ہے ارشد پاشا یہ خاموشی مجھے آنے والے کسی طوفان کا پیش خیمہ لگتی ہے —  بات یہ نہیں ہے کہ یہاں کچھ نہیں ہوا۔  دراصل چھوٹی چھوٹی باتیں ہمیں زیادہ ڈراتی ہیں۔  سب سے بڑا خطرہ ہندو تو کی بڑھتی شاخوں سے ہے۔  ان کا ٹارگیٹ نوجوان مسلم لڑکے ہیں۔  اور کبھی یہ بڑی آسانی سے ان کے ٹارگیٹ میں آ جاتے ہیں  —  اور ان پر ہاتھ رکھنے کے لیے ایسے آرگنائزیشن کو ایک پوری اسٹریٹجی تیار کرنی ہوتی ہے —  جیسے مثال کے لیے۔  کسی وجہ سے بھی کسی مسلم بچے کا پولیس لسٹ میں آ جانا —  تو یہ سمجھ لو اس پر خطرے کے بادل کبھی بھی منڈرا سکتے ہیں۔ ‘

’میں جانتا ہوں  — ‘

’پولیس کبھی بھی ایسے نوجوانوں کو کسی بھی معاملے میں پھنسا سکتی ہے —  انکاؤنٹر کر سکتی ہے؟‘

تھاپڑ سوچ میں گم تھا —  ’کتنی عجیب حقیقت ہے ارشد پاشا —  محض ۱۵۔ ۱۴ برسوں میں اس ملک میں دو ہزار سے زیادہ انکاؤنٹر ہوتے ہیں اور ان میں ہر دوسرا انکاؤنٹر فرضی ہوتا ہے۔  پولیس انکاؤنٹر کے بعد پولیس کا پہلا کام ہوتا ہے، اس انکاؤنٹر کو صحیح ثابت کرنا۔  اور پولیس اپنے ذرائع اور جبر سے سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ بنانا اچھی طرح جانتی ہے۔  فرضی انکاؤنٹر کرنے والے پولیس والوں کو سزا اس لیے نہیں ملتی کہ ان کی جانچ کا کام بھی پولیس والوں کو سونپا جاتا ہے۔ ‘

تھاپڑنے ایک گندی سے گالی بکی —  یہ ہے ہمارے ملک کا کرپٹ سسٹم۔  گجرات کے ہتیاروں کو اسی ملک میں ترقی کے نام پر نائک بنایا جا رہا ہے۔  وہاب الدین فرضی انکاؤنٹر کا ہی معاملہ لو۔  شروع میں جب یہ انکاؤنٹر سامنے آیا تھا تو یہی میڈیا تھا جس نے وہاب الدین کو پورے ملک کا ہیرو بنا دیا تھا —  لیکن جانچ کے دائرے میں اعلیٰ پولیس افسران اور سرکاری مشنریاں بھی شامل تھیں  —  کچھ نہیں ہوتا اس ملک میں۔  اربوں کھربوں کے گھوٹالے تک چھپا دیے جاتے ہیں۔  چار دن آگ لگتی ہے پانچویں دن سب ٹھنڈے ہو جاتے ہیں۔  بس گرم ہے ایک چیز —  آتنک واد —  مسلم آتنک واد — ‘

تھاپڑ سلگ رہا تھا —  ’مسلمان نام آتے ہی جیسے ایک سپرڈان، کرمنل یا آتنک وادی سامنے آ جاتا ہے۔  مسلمان؟ جیسے اسلحے لے کر گھومتا ہوا آدمی۔  اور کس نے کیا ہے یہ سب؟ عالمی سیاست کے ساتھ یہ تمہارا میڈیا بھی ہے جس کے سہارے تم گجرات یا بابری مسجد کے زخموں کو سہلانے کی کوشش کرتے ہو اور یہ بھول جاتے ہو کہ تمہیں یہ زخم بھی اُسی میڈیا سے ملے ہیں۔  تم ٹوٹ جاتے ہو پھر اسی میڈیا کے رحم و کرم پر دوبارہ اٹھنے کی کوشش کرتے ہو …‘

رباب نے پہلو بدلا —  ’آپ سچ کہتے ہیں بھائی۔  مگر اس کے علاوہ ہمارے پاس چارہ بھی کیا ہے؟ ہمدردی کے دو بول ہمیں جہاں ملتے ہیں ‘ ہم وہیں آسرا تلاش کرنے لگ جاتے ہیں۔  جیسے اس وقت آپ کی باتیں نہ صرف ہمیں دلاسہ دے رہی ہیں بلکہ ہمارے زخموں کو بھی سہلا رہی ہیں  — ‘

تھاپڑ نے گھوم کر رباب کی طرف دیکھا —  اُس کا چہرہ اچانک سنجیدہ ہو گیا تھا —

’اسامہ کہاں ہے؟‘

’ڈسٹرب ہے — ‘

’میں سمجھ سکتا ہوں  — ‘

’آج کچھ نہیں ہوا —  اس کا مطلب یہ نہیں کہ کل بھی کچھ نہیں ہو گا —  ایک چھوٹی سی بات نے ہماری نیندیں چھین لیں۔  ہمارا سکون درہم برہم کر دیا۔  پھر سوچتا ہوں، کیا جو کچھ اُس رات ہوا، وہ سچ مچ کوئی چھوٹی سی بات تھی — ؟ اب لگتا ہے  —  شاید آج، اس اکیسویں صدی میں مسلمان ہونا ہی کسی دھماکے سے کم نہیں ہے۔  مسلمان؟ سامنے والے کی بھنویں تن جاتی ہیں۔  غیر ملکی دورے پر جاؤ تو ایرپورٹ پر چیکنگ کرنے والوں کی شامت آ جاتی ہے، جب وہ یہ سنتے ہیں کہ سامنے والا ایک مسلمان ہے —  اور اگر خدانخواستہ اُس وقت آپ کے چہرے پر داڑھی ہے، سر پر ٹوپی ہے، اور آپ کا لباس خان سوٹ یا کرتا پائجامہ ہے تو خوفناک سوالوں کے لیے تیار ہو جائیے کیونکہ جانچ کرنے والوں کے لیے آپ کسی اسامہ بن لادین سے کم نہیں ہیں  —  اور اپنے یہاں  —  اپنے ملک میں  — ؟ میڈیا مسلمانوں کا نام ایسے لیتی ہے جیسے آر ڈی ایکس یا کسی خطرناک ہتھیار کا نام لے رہی ہو —  تم پوچھتے ہونا، ہم چھوٹی چھوٹی باتوں سے کیوں ڈرتے ہیں ؟ اتنی بڑی آبادی ہو کر کیوں ڈرتے ہیں ؟ تو جواب یہی ہے کہ برسوں سے، شاید پیدا ہوتے ہی ہمیں خوف کے اتنے انجکشن مسلمان ہونے کے نام پر لگائے گئے کہ ہم ہر قدم ناپ تول کر رکھنے کے باوجود بس ڈرتے رہے ہیں  —  رات میں گھر سے نکلتے ہوئے وحشت ہوتی ہے۔  اسامہ کو گھر سے باہر بھیجتے ہوئے وحشت ہوتی ہے —  اور یہاں تک کہ اُس کے اس نام اسامہ سے بھی ڈر لگتا ہے کہ کس منحوس گھڑی میں ہم نے اس کا یہ نام تجویز کیا تھا — ‘

رباب نے اپنے ہونٹ کھولے۔  ’دہشت گردی آج بنیادی طور پر ایک نفسیاتی جنگ بن چکی ہے۔  ہم اس جنگ میں جسمانی طور پر بھی پس رہے ہیں۔  روحانی اور ذہنی طور پر بھی —  بھائی صاحب۔  یہ تین طرفہ حملہ ہے اور اس حملے نے ہمیں معذور اور مجبور کر دیا ہے —  جیسے پرسوں سے ہم صرف اس بات سے نہیں سو سکے کہ اسامہ کو کیا سزا ملے گی۔  کیا سزا صرف اس لیے ملے گی کہ وہ اُن لوگوں کے ساتھ تھا یا کرتا پائجامہ میں تھا اور اس کے سر پر ٹوپی بھی تھی؟ یا صرف اس لیے کہ وہ ایک مسلمان نوجوان ہے — ‘

رباب کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے —  ’میں ہی کہتی تھی کہ مسلمانوں کے محلے میں رہیں گے —  بچہ کم از کم اذان کی آواز تو سنے گا اور اب میں ہی کہتی ہوں۔  ایسا سوچنا میری سب سے بڑی غلطی تھی — ‘

چائے ختم ہو چکی تھی —  تھاپڑ باری باری سے ہم دونوں کے چہرے کو دیکھ رہا تھا —

’امریکہ اپنے تمام انفرا اسٹرکچر، اپنے وسائل اور اپنے لاجسٹک سپورٹ سے اس دہشت گردی کو بڑھاوا دے رہا ہے۔  افغانستان سے عراق اور پاکستان سے کشمیر تک —  باقی تہذیبوں کی جگہ اب صرف ایک تہذیب رہ گئی ہے۔  دہشت گرد تہذیب۔  نئی دنیا اسی تہذیب کے سائے میں پل رہی ہے —  بین الاقوامی طاقتیں اپنے اپنے انفرا اسٹرکچر سے اس تہذیب کو بڑھاوا دے رہی ہیں۔  جارج بش نے مسلمانوں کی طرف بندوق تان کر اس تہذیب کو بڑھاوا دینے کے لیے ایک غیر محفوظ امریکہ کو جنم دیا تھا —  اور آج نتیجہ سامنے ہے۔  عالمی سیاست اس وقت صرف ایک خوف کا بوجھ اٹھا رہی ہے — ‘

تھاپڑ نے لمبی سانس لی —  ’صرف تم ہی نہیں۔  سب ایک انجانے خوف کے سائے میں جی رہے ہیں۔ ‘

یہ وہی وقت تھا جب ڈرسے سہمے اسامہ نے کمرے میں قدم رکھا تھا —

’بریکنگ نیوز آ رہی ہے۔  میرے دوست کا فون تھا — ‘

رات کے ۱۱ بج گئے تھے —

رباب نے آگے بڑھ کر جلدی سے ٹی وی آن کیا —  انڈیا نیوز پر خبروں کا سلسلہ چل رہا تھا —  یہ اس وقت کی بڑی بریکنگ نیوز تھی —  اینکر چلاتا شور کرتا ہوا، بار بار ایک ہی بات کو دہرا رہا تھا —

’اس وقت کی سب سے بڑی بریکنگ نیوز —  دلّی بم دھماکے کے آتنک وادی آج بھی بے خوف گھوم رہے ہیں۔  خفیہ ایجنسیوں نے خبر دی ہے کہ ذاکر نگر، بٹلہ ہاؤس اور جامعہ کے علاقوں میں ایسے کچھ آتنک وادیوں کے رہائشی علاقے میں ہونے کی خبر ملی ہے جو آنے والے کچھ دنوں میں اس سے بھی بڑا حملہ کر سکتے ہیں  —  بریکنگ نیوز …‘

میں نے آگے بڑھ کر سوئچ آف کر دیا —

یہ کیا ہے …؟ رباب کے چہرے پر خوف کے سائے تھے۔

’ابھی کچھ کہنا مناسب نہیں ہے  — ‘ تھاپڑ سنجیدہ تھا —

’اس بریکنگ نیوز میں رہائشی علاقوں کا بھی ذکر ہے — ‘

’اس سے کیا فرق پڑتا ہے — ‘ تھاپڑ نے اسامہ کی طرف دیکھا —  لیکن بہتر یہ ہے کہ …‘

’کیا بہتر ہے …‘

’اسامہ میرے ساتھ چلے۔  میرے گھر …‘

’لیکن کیوں ؟‘ یہ اسامہ تھا —

’فضا ٹھیک ہو جائے گی تو واپس آ جانا …‘ تھاپڑ کا لہجہ برف جیسا سرد تھا — ‘

’کیا تمہیں کسی خطرے کی بو آ رہی ہے؟‘

’نہیں  — ‘ تھاپڑ نے میری طرف دیکھا —  لیکن ساودھانی برتنے میں حرج ہی کیا ہے — ؟‘

وہ پھر اسامہ کی طرف گھوما تھا —  آؤ —  یہاں بیٹھو —  مان لو —  وہ آتے ہیں  …

’وہ کون  …؟‘

پولیس والے … وہ آتے ہیں۔  اور تمہارا بیان لیتے ہیں۔  اس میں دیکھا جائے تو ایسا کوئی خطرہ نہیں ہے۔  مگر ایسا ہوتا ہے تو یہ معاملہ تم سے بہتر طور پر تمہارے ڈیڈی بھی سنبھال سکتے ہیں۔ ‘

’میں نہیں جاؤں گا — ‘ اسامہ غصے میں تھا۔  کیوں جاؤں میں۔  کیا کیا ہے میں نے ؟‘

’تم نے کچھ نہیں کیا —  یہ میں بھی جانتا ہوں اور تم بھی۔  لیکن تم اس وقت کے ماحول سے بھی واقف ہو اور یہ جانتے ہو کہ معصوم لوگ ہی ان کارروائیوں کی زد میں آتے ہیں۔  اس لیے بس دو ایک دن کی بات ہے۔  گھر میں ویڈیو گیم دیکھنا —  آنندی  سے باتیں کرنا۔  خوب کھانا پینا …‘

تھاپڑ نے مسکرانے کی کوشش کی —

میں نے پھر اُس کی طرف دیکھا —  کیا تمہیں سچ مچ ایسا لگتا ہے کہ کچھ ہونے والا ہے — ‘

’میرا جواب ابھی بھی وہی ہے۔  میں کچھ کہہ نہیں سکتا۔  مگر اس خبر کے پیچھے کی  سچائی کو سمجھنا ضروری ہے۔  اور سچائی یہ ہے کہ دو دن پہلے چار مسلم لڑکوں کی ایک پولیس سے جھڑپ ہوئی تھی۔  بغیر کسی بات کے ہونے والی یہ تکرار میرے نزدیک کوئی معمولی بات نہیں ہے۔  دس سال کی ہسٹری اٹھا کر دیکھ لو —  نانڈیر، پونے سے لے کر مالیگاؤں تک —  اس لیے ضروری ہے کہ اگر … کوئی حادثہ ہونے والا ہے … تو پہلے سے اس کے بچاؤ کی کوشش کر لی جائے۔  چلو اسامہ —  اپنے ساتھ کچھ کپڑے لے لو …‘

تھاپڑ اٹھ کھڑا ہوا تھا۔  اب وہ میری طرف دیکھ رہا تھا —  ’پریشان مت ہو۔  در اصل یہ پورا سماج بے حد کمزور لوگوں کا ہے —  یہاں وہ لوگ زیادہ کمزور ہیں جو ان کارروائیوں کو جنم دے رہے ہیں  — ‘

اسامہ اپنا بیگ لے کر آ گیا تھا —

٭٭٭

 

 

انسپکٹر ورما کی کہانی

(8)

رات ہو گئی تھی۔  بس اسی رات کے احساس سے ورما کو ڈر لگتا ہے۔  اس کے سارے بدن میں ہزاروں چیونٹیاں رینگ رہی ہیں۔  سات سات گیلینٹر ایوارڈ لینے والے ورما کو بس اس رات کے سناٹے سے ڈر لگتا ہے … بھاگو تی کیا کر  رہی ہو گی …؟

وہ رات کے سارے کاموں کو نپٹا چکی ہو گی۔  رسوئی میں کھٹ پٹ کی آوازیں اب خاموش ہیں۔  ابھی کچھ دیر پہلے بھاگوتی کے قدموں کی آہٹ گونجی تھی —  مگر یہ آہٹ دروازے تک جا کر پھر لوٹ گئی تھی —  شاید اُسے کچھ یاد آ گیا ہو گا …

باہر اپنے خونخوار ہونے اور مردانگی کا ڈھنڈورا پیٹنے والے ورما کی بس اس رات کے سناٹے میں ساری ہیکڑی نکل جاتی ہے … جب رات کے سناٹے میں نائیٹی پہنی ہوئی بھاگوتی اُس کے پہلو میں سونے آتی ہے … اور ایک بے جان احساس کے ساتھ وہ اس تاریکی میں ایک بے جان کیڑے  میں تبدیل ہو چکا ہوتا ہے …

’وہ آ رہی ہے …‘

بھاگوتی دوبارہ آ رہی ہے … یہ اُسی کے قدموں کی آہٹ ہے … اور اب وہ دروازہ بند کرے گی۔  دروازہ بند کرتے ہی اُس کی سانسوں کی آہٹ میں اسے کسی ایسے میزائل کے چھوٹنے کا احساس ہو گا، جس کا شکار وہ خود ہے …

وہ جل رہا ہے … سلگ رہا ہے …

لیکن وہ کیڑا خاموش ہے … ایک دم چپ —

بھاگوتی کے خرگوش سے سانپ بنتے ہاتھوں کو وہ خوب پہچانتا ہے۔  لیکن اب روز بروز وہ ان ہاتھوں کے وش سے بچنے کا کوئی نہ کوئی بہانا تلاش کرتا ہے …

یہاں اُس کی ساری افسری سو جاتی ہے —  اور بس … وہ حقیر سا کیڑا اس کے جسم میں انگڑائیاں لیتا ہوا ایک دم سے بے حس ہو جاتا ہے۔  وہ آواز سنتا ہے۔  بھاگوتی کے ہاتھ اس کے جسم پر آ گئے ہیں  …

اے جی …

’ہاں  …‘

’سوگئے کیا …؟‘

نہیں  …

’منہ اُس جانب کر کے کیوں سوئے ہیں  …‘

’مجھے نیند آ رہی ہے …‘

ورما کی خواہش ہوتی ہے۔  وہ خوب چیخے۔  لیکن دن کے اجالے میں پتنی پر زور زور سے چلانے اور نیچا دکھانے والے ورما کو رات کے اس لمحے بے چارگی اور بے بسی کے پل سے گزرنا ہوتا ہے —  پھر ایک بے لذت چیخ —

’کہہ دیا نا … مجھے آرام کرنے دو۔  سونے دو مجھے …‘

باہر سے کتوں کے بھوکنے کی آواز آ رہی ہے۔  بھاگوتی نے کروٹ بدل لی ہے۔  کتنے ہی چہرے آنکھوں کے پردے پر گھوم رہے ہیں۔  نرسمہا، نوین، ابھے کمار دوبے … سنگھ کی شاخیں  —  ابھے کمار دوبے نے آہستہ سے اُس کے ہاتھوں کو تھاما تھا۔

’تم نے اس سے قبل بھی بڑے بڑے کارنامے ہمارے لیے انجام دیئے ہیں۔  اور اس یقین کے ساتھ کہ …‘

چہرے اوجھل ہیں  …

رات کا سناٹا بڑھتا اور پھیلتا جا رہا ہے …

وہ ایک سوال کی زد میں ہے … جانے انجانے، خاموشی اور تنہائی میں، جگمگاتے جگنو یا سیپیوں کی طرح یہ سوال چپ چاپ اُسے گھیر لیتا ہے …

’ورما … تم نے کبھی کسی سے محبت کی ہے؟‘

’محبت کی ہوتی تو شاید اُن راستوں پر نہیں چلتے جن پر چلنا چاہتے ہو یا چل رہے ہو …‘

اندر سویا ہوا کیڑا دوبارہ جاگتا ہے … وہ کسی غلط راستے پر نہیں ہے … بچپن سے ہی وہ ان سنگھ  کی سبھاؤں میں جاتا رہا ہے —  یہ ملک کبھی اس کا نہیں رہا —

اندر کسی گھوڑے کے ہنہنانے کی آواز آتی ہے۔  ’تم نے کبھی محبت کی ہے ورما …؟ سچ بولنا … کبھی کی ہے … جسم کے خاموش حصہ میں اچانک جیسے کوئی آگ روشن ہو گئی ہے —

بھاگوتی سوگئی ہے —

بھاگوتی کے خرّاٹے تیز ہیں  …

کچھ پرانی یادیں اچانک اُسے اپنی گرفت میں لے لیتی ہیں۔

کتنا عرصہ گزر گیا۔

وقت کے ساتھ دھندلی ہوتی تصویریں  … لیکن وہ اک ایک چہرے کو جانتا ہے … بھوانی  … رتناگر، معصوم سی صبیحہ … ٹاڈا اور پوٹا کے بے رحم قانونوں سے گزرتے ہوئے  … ایک کولاژ تیار ہو رہا تھا …

ڈرم … ڈرم … ڈرم …

اندر نگاڑے بجنے شروع ہو گئے ہیں۔

تب اس کی پوسٹنگ کو زیادہ عرصہ نہیں ہوا تھا۔

٭٭

ورما —  ایک مسلم خاندان سے وابستہ ڈراؤنی یادیں

ورما کو یہ پوری دنیا ہی غلط نظر آتی تھی۔  ایسا نہیں ہے کہ ورما ہمیشہ سے غلط دیکھنے کا عادی رہا ہے مگر ایک تو اس کی بلوان بدّھی —  اور اس پر سے سب انسپکٹری کا نشہ۔  دن رات چور، اچکے، ڈاکوؤں کی صحبت میں اس کی مت بھی ماری گئی تھی۔  ورما کا خیال تھا کہ یہ پولیس کی ذات ہے جس نے دنیا کو سدھار کر رکھا ہوا ہے۔  ورنہ اگر پولیس نہ ہوتی تو سارے ہی چور اچکے ڈاکو ہوتے —  ورما کو پولیس کے ڈنڈے پر اتنا فخر تھا کہ جب اس کا پرموشن حولدار سے سب انسپکٹر کے لیے ہوا تو بے اختیار اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے —  لو، اب یہ خاص الخاص ڈنڈا ہاتھ سے گیا۔  حولداری میں تو یہ ڈنڈا ہر وقت کا ساتھی تھا۔  سب انسپکٹری میں ڈنڈے کا ایسا ساتھ کہاں  — ؟ وہ تو پرموشن اور پیسہ بڑھنے کا چکر نہ ہوتا تو کبھی وہ اس ڈنڈے کو ہاتھ سے جانے نہ دیتا۔  اور سب انسپکٹری کا عہدہ قبول ہی نہ کرتا مگر …

دنیاداری ہو یا، پولیٹکس —  ورما کے پاس ہر سوال کا جواب موجود ہوتا۔  تھانہ کلائیں چک کے، اس کے ساتھی بھی اس کے جنرل نالج سے خاصہ رعب کھاتے تھے۔  خاص کر اس وقت جب وہ دیش کی پالیٹکس کے بارے میں چیخ چیخ کر گفتگو کر رہا ہوتا … ’’سب سالے آتنک وادی ہو گئے ہیں۔  سالے اندر سے ہی آتنک وادی تھے تبھی تو انگریز آ گئے۔  دیش کو غلام بنا دیا۔  پھر سالی آزادی ملی بھی تو کیا —  وہی آتنک وادی بھتری چھری سے دیش کو لہو لہان کئے جا رہے ہیں  …‘‘

ورما  اپنے خیال سے مطمئن ہو کر مونچھوں کو تاؤ دیتا اور سوچتا۔  پولیس نہ ہوتی تو دیش کہاں جاتا —  نرک میں  —  اور کیا — ؟‘‘

٭٭

ورما اپنی نوکری سے مطمئن تھا۔  وہ پولیس کی نوکری کو اس قدر با وقار مانتا تھا کہ دوسری تمام نوکریوں پر پولیس کی نوکری کو ترجیح دیتا تھا۔  اس کے اختیار اور دائرے میں اگر کوئی اونچ نیچ ہو بھی جاتی تو وہ اسے صحیح گردانتا تھا۔  تھپڑ، مار پیٹ، گالی گلوج، رشوت … وہ ان سب چیزوں کو قانون اور ’پولیسیا رعب‘ کا ایک حصہ مانتا تھا۔  اس کا کہنا تھا۔  سالے، آتنک وادی۔  سمجھانے پر نہیں سمجھیں تو ہم کیا کریں۔  ان کا برا حشر کر کے دیکھو۔  تب دیکھو، کیسے باپ کے سامنے بھیگی بلی بن جاتے ہیں۔  چھوڑ اس لیے دیتا ہوں کہ سالوں پر رحم آتا ہے۔  پیسہ اس لیے لیتا ہوں کہ سالوں کو چھوڑتے ہو نفرت  ہوتی ہے … سالوں نے دیش کو چوپٹ کر رکھا ہے۔ ‘‘

٭٭

ورما یوں تو اپنی بیوی پر ہر بات میں بھاری پڑتا تھا مگر رات میں، سونے کا لمحہ واحد لمحہ ہوتا جب اس کے پسینے نکل آتے تھے۔  یوں جیل کی کال کوٹھریوں میں بڑی بڑی مار سے قیدیوں کی موت نکلتے دیکھ کر اس کے ماتھے پر پسینے نہیں چوتے تھے —  مگر ادھر کچھ برسوں سے وہ خود کو جسمانی کمزوری کا شکار محسوس کر رہا تھا۔  گو اس معاملے میں اس نے ساتھی سب انسپکٹر رتن لال اور دیگر معقول لوگوں سے مشورہ لینے، اور صلاح قبول کرنے میں بھی کوئی قباحت محسوس نہ کی۔ مگر رات کا مسئلہ دیوار پر رینگتی چھپکلی کی طرح اس کے وجود میں سرسراہٹ سی مچا دیتا۔  اندھیرے میں بتی گل ہوتے ہی جب کپڑوں کی سرسراہٹ اور سانسوں کے زیرو بم کی صدا اس کے کانوں میں پڑتی تو ورما کی دھڑکنیں تیز تیز چلنی شروع ہو جاتیں۔  دھرم پتنی کی حرکات و سکنات پر رات کے اندھیرے میں اس کی آنکھیں جیسے ’کان‘ بن جاتیں  … دھڑکتے دل کے ساتھ وہ کمزور لمحے کے داؤں پیچ میں خود کو اتنا شکست خوردہ محسوس کرتا کہ اس کی آواز تک بند ہو جاتی اور سارا پولیسیا رعب ہوا جاتا … وہ کسی کیڑے جیسا خوف کھاتا اور بچے جیسا گھبراتا۔  دھرم پتنی جب اپنی سلگتی  آگ کو سنبھالتے ہوئے اس کے سامنے کسی ننگی کمان کی طرح تن جاتی تو اس کی سانس غبارے کی طرح پھول رہی ہوتی … یہ وہ لمحہ ہوتا جب اس کی پتنی کا ہاتھ اس کے سینے پر آ جاتا۔  کیچوے کی طرح پھدک کر، اپنے ڈھکے سینے کو روشنی میں جگا کر ورماکی پھول رہی سانسوں میں اپنی سانسیں رکھ دیتی … نسوں میں ہیجان دوڑجاتا، اور برداشت نہیں ہوتا تو بے حیا لفظوں کی اگنی میں بھی کود پڑتی۔

’’یہ کیا ہو جاتا ہے۔  نامرد تو نہیں ہو گئے۔ ‘‘

ورما چیختے چیختے ہاتھ اٹھاتے اٹھاتے رہ جاتا —

’’ڈاکٹر کو کیوں نہیں دکھاتے۔  یا کوئی اور بات ہے — ؟‘

ورما کو، ہونٹوں کا لعاب سوکھتا محسوس ہوتا —  ’اور بات مطلب؟‘

’’پولیس والے ہو۔  تم پولیس والوں کا ایمان دھرم کیا۔  روج ہی کلچھرے اڑا کر آتے ہو گے؟‘

ورما  کو اس جملے پر اپنی مردانگی دوبارہ ملتی ہوئی محسوس ہوتی۔  پھولی ہوئی سانس کے زیرو بم میں کمی آتی۔  مسکراتا، جھڑکتا … تو تمہیں کیا؟

’’وہ بھی تو جاتا ہے۔  تمہارا دوست، رتن لال، کوٹھے پر …؟‘‘

’سب جاتے ہیں۔  ایک رتن لال ہی کیوں ؟‘

’اچھی نوکری ہے۔  ایک پتنی سے دل نہیں بھرتا۔ ‘

’کسی کا نہیں بھرتا۔  سب کرتے ہیں ایسا۔  اب زیادہ بک بک مت کر۔  سوجا۔  ورنہ اتنی زور کا تھپڑ دوں گا کہ زندگی بھر کو چندلی ہو جائے گی۔ ‘

٭٭

اس بار بیوی کچھ نہیں بولی۔  گنجے ہو جانے کے ڈر سے یا ورما سے مار کھانے کے خوف سے دبک کر، بھیگی بلّی بن کر اپنے پگھلتے ساون کو سنبھالے سوجاتی۔  ورما  دیر تک جاگتا رہا۔  ٹانگوں اور ٹانگوں کے درمیانی حصے میں اس کے ہاتھ دیر تک رینگتے رہتے۔  چھپکلی کی کٹی، بے حس و حرکت ہو گئی دم کی طرح اب وہاں کوئی حرکت نہیں تھی۔  ورما کو ایسے کئی قصے معلوم تھے، جو اس کے دوست احباب پولیس والوں کی نوکری سے متعلق سناتے آئے تھے۔  جیسے یہ کہ آخری وقت میں یہ سالے نامرد ہو جاتے ہیں۔  سب بھگوان کراتا ہے۔  پولیس والوں کا آخری وقت بہت دکھ میں گزرتا ہے اور ثبوت کے طور پر آس پاس کی کتنی ہی مثالیں گنا دی جاتیں۔  گو شروع میں ورما  ان باتوں کو نہیں مانتا تھا مگر اب ادھر چند برسوں سے اپنی جسمانی طاقت کو دیکھتے ہوئے وہ تھوڑا تھوڑا ڈرنے ضرور لگا تھا۔

٭٭

ورما پولیس کے ہر کرم کو جائز مانتا تھا۔  اس کا کہنا تھا کہ پولیس جو بھی کرتی ہے، ٹھیک ہی کرتی ہے اور اسے سب کچھ کرنے کا ادھیکار بھی ہے۔  ورما کی جیب ہمیشہ پھولی رہتی تھی اور وہ اپنی پھولی جیب سے بڑے بڑے افسران کو بھی خوش رکھتا تھا۔  اسی لیے اس کی پہنچ بڑے بڑے افسران تک تھی۔  یہاں تک کہ بھوانی سنگھ سپرنٹنڈنٹ آف پولیس بھی اس سے کچھ زیادہ ہی خوش رہتے تھے۔  خوش رہنے کی ایک وجہ تو یہ بھی تھی کہ ورما  ان کے چھوٹے بڑے گھریلو کام بھی خوش دلی سے قبول کر لیا کرتا تھا اور ان کے لیے چھوٹے موٹے پیسوں کی پرواہ نہیں کرتا تھا۔  بھوانی سنگھ اپنی سخت گیری کے لیے محکمے میں مشہور تھے اور پولیس کی ناک سمجھے جاتے تھے —  ان کے چنگل میں آ کر بڑا سے بڑا بدمعاش بھی پانی مانگتا تھا۔  ملزموں کو ٹارچر کرنے، سچ اگلوانے اور اقبالیہ بیان حاصل کرنے میں بھی بھوانی سنگھ کا جواب نہیں تھا۔  ملزم کی آدھی ہوا تو ان کی لمبی تگڑی شخصیت اور چہرے پر چھائے جلال کو دیکھتے ہی نکل جاتی … ہاں، کتنے ہی موقعوں پر یہ ناک کٹتے کٹتے بھی بچی تھی۔  اور بھوانی سنگھ کی مردانگی نے اس ناک کو دوبارہ بحال کیا تھا۔  کبھی کبھی کسی ملزم کو پکڑنے میں ورما سے بھول چوک ہو جاتی تو بھوانی سنگھ اسے تعزیرات، دفعہ، قانونی ہتھکنڈے اور وردی کی طاقت کے بارے میں چھوٹی چھوٹی باریکیاں سمجھایا کرتے۔  اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ورما  قانونی امور کے معاملے میں کچھ زیادہ ہی ہوشیار ہو گیا۔  اب جب سے ٹاڈا کا معاملہ شروع ہوا تھا، ورما  کے لیے اور آسانی ہو گئی تھی۔  وہ بلا روک ٹوک کسی پر بھی کوئی دفعہ آزما لیتا اور حراست میں لے لیتا۔  یا حراست کی دھمکی دے کر چھوٹی موٹی رقمیں اینٹھ لیتا۔  آرمس ایکٹ اور دسیوں ایکٹ کی وضاحت و وکالت وہ اس طرح کرتا کہ حراست میں لیا گیا آدمی گھبرا جاتا اور اس سے جو بھی بن پڑتا، ورما کو دے کر پیچھا چھڑانے کی کوشش کرتا۔

٭٭

پہلی پہلی بار جب ٹاڈا کی ہوا چلی تو اسے پتہ بھی نہیں تھا کہ ٹاڈا ہے کیا۔  لیکن اسے اتنا ضرور معلوم چل گیا تھا کہ ٹاڈا آ جانے کی وجہ سے اس کی حیثیت پہلے سے کہیں زیادہ اہم ہو گئی ہے۔  اسے یہ بھی معلوم تھا کہ اس کا صوبہ ان بیس صوبوں میں سے ایک ہے، جہاں ٹاڈا کی ناؤ تیر سکتی ہے۔  اور ورما تو اس ناؤ کو بہانے بلکہ اڑانے کا ارادہ رکھتا تھا۔

شروع شروع میں جب ٹاڈا اس کی سمجھ میں نہیں آیا تو وہ بھوانی بابو سے ملا۔

’ورما، تو بہت بھولا بھالا ہے، بھوانی بابو ہنسے … اب ایسے سمجھ لو جو گیند تیرے ہاتھ میں تھی وہ اب تیری جیب میں آ گئی ہے۔ ‘

’ہاں، آ گئی ہے۔  سرمگر میں اب بھی کچھ نہیں سمجھا۔ ‘

بھوانی سنگھ نے ٹھہاکا لگایا۔  ’گدھے کے بچے … رہے گا زندگی بھر سب انسپکٹر کا سب انسپکٹر۔  کچھ کام کر کے دکھا۔  یہی موقع ہے اوپر سے بھی حکم آیا ہے۔  ٹاڈا کے تحت زیادہ سے زیادہ لوگوں کو حراست میں لینا ہے۔ ‘

ورما کے چہرے پر چمک لہرائی۔  ’ذرا کھل کر بتائیے سر۔ ‘

’اب ایسے سمجھو کہ قانون تمہارے ہاتھ میں ہے۔  کوئی آدمی تمہاری مرضی کے خلاف کام کرے تو تم ٹاڈا میں اسے حوالات میں بند کرا سکتے ہو۔  کوئی تمہارا ’ٹھینگا‘ بھی نہیں بگاڑ سکتا۔ ‘

’وہ کیسے سر؟‘

’ٹاڈا کی خصوصی عدالت میں ملزم سے لیے گئے اقبالیہ بیان کو ہی بطور ثبوت تسلیم کیا جائے گا۔ ‘

ورما کا دماغ گھوم کر رہ گیا —  ’مطلب، اس کا کیا مطلب ہوا سر؟‘

بھوانی پھر بے مطلب ہنسے۔  ’اپنی من مانی اور آسان ڈھنگ سے کر سکتے ہو ورما۔  کسی کو بھی میرے جیسے سینئر پولیس افسر کے سامنے لے آؤ۔  ٹھکائی کر دو۔  پٹائی کر دو۔  سادہ کاغذ پر انگوٹھا لگوا دو۔  گواہ کی پہچان بھی ٹاڈا کے معاملے میں پوشیدہ رہے گی۔  یہ دونوں ہی شقیں ہمارے لیے خطرناک اوزار ہیں۔  کیوں ورما؟‘

اس کے بعد بھوانی بابو نے اٹھ کر دو پیگ تیار کئے۔  ایک اپنے لیے، ایک ورما  کے لیے۔  وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتے ہوئے ورما کے پاس آ کر ٹھہرے … لو پیو۔

’نہیں سر‘

’پیو‘ —  بھوانی سنگھ اس بار گرج کر بولے۔  ’پیو اس لیے پیو —  کہ تم چغد آدمی ہو۔  ابھی کمائی کا وقت ہے اور تم ہو کہ ٹاڈا کے بارے میں سوال پوچھ رہے ہو۔  جاؤ جا کر دوسرے تھانوں میں دیکھو۔ ‘

’جی سر‘

’اورسنو۔  آتنک واد سے نپٹنے کے لیے ہی پولیس پرشاسن کو قانون کا یہ ہتھیار دیا گیا ہے۔  اس کا استعمال کرو۔  دھر پکڑ کرو۔  گرفتاری کرو۔  تھانہ بھرو اور سنو ۱۷ تاریخ کو رتھ یاترا کلائیں چک سے گزرنے والی ہے۔  زیادہ خطرہ لچھی ٹولہ امام باڑہ سے ہے۔  سمجھے رہے ہونا … ہر حالت میں  … پیو … شرماؤ مت … کتے کی برادری میں سب چلتا ہے۔  کوئی چھوٹا بڑا نہیں ہوتا …

٭٭

لچھی ٹولہ کا امام باڑہ … سانولے چہرے والی صبیحہ اور وہ رشید حرام زادہ …

ورما کے چہرے پر تیزی سے کتنی ہی پرچھائیاں گزرگئیں۔  چڑیا کی طرح پھدک پھدک کر چلنے والی صبیحہ یاد آ گئی۔  ان دنوں کے ہر ایک لمحے پر جس کی دسترس تھی۔  جس کے چہرے کے نقوش ہر وقت آنکھوں میں تیرتے رہتے تھے۔  اور ورما  کبھی کبھی یہ بھی سوچتا تھا کہ وہ رشید کی طرح مسلمان کیوں نہیں ہے۔  کاپیوں پر اس کا نام لکھنا —  اس کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے گھنٹوں امام باڑہ کے پاس، چائے کی دکان پر بیٹھے رہنا —  امام باڑہ میں ہلچل محرم کے دنوں میں شروع ہوتی تھی۔  لچھی ٹولہ کا امام باڑہ در اصل مسلمانوں کا محلہ تھا اور اس محلے کے تعزیہ کی بہت دھوم تھی۔  رشید اور صبیحہ اسی محلے کے تھے اور کالج کے دنوں میں ورما کے ساتھی تھے۔  ہاں وہ بات تو پھٹک کو اس دن پتہ چلی جب …

٭٭

ڈماڈم … ڈماڈم … ڈماڈم … نا … نا … نہ … نہ

امام باڑے میں ہلچل تھی۔  نیاز فاتحہ ہو رہی تھی۔  ایک طرف محلے کے چھوکرے، بچے ہر … رے رہے اور یا علی، حسن حسین چیختے چلاتے آپس میں لکڑی بھالا کھیل رہے تھے۔  کچھ بڑے جوان لڑکے انہیں ہٹاتے ہوئے گھیرا بنا رہے تھے۔  امام باڑہ لچھی ٹولہ کا خلیفہ گلے میں موٹا سا پھولوں کا ہار ڈالے اپنی حد درجہ مصروفیت دکھاتا ہوا ادھر اُدھر گھوم رہا تھا۔  نگاڑہ بج رہا تھا … ڈھول ڈرم پیٹے جا رہے تھے۔  سروں پر دوپٹہ ڈالے عورتیں لڑکیاں ایک طرف بھیڑ کی صورت، ہنستی مسکراتی اس جم غفیر کو تک رہی تھیں۔  امام باڑہ کے ایک طرف لئی گوند اور رنگ برنگی چمکیاں لیے محلے کے لڑکے جالیاں جھالریں بناتے اور اسے تعزیہ میں سجانے کی تیاری کر رہے تھے۔  نگاڑے کی آواز پر گھیرے میں کھڑے لڑکوں نے ڈنڈا بھانجنا شروع کر دیا تھا۔

’ڈماڈم … ڈماڈم … نا … نا …نہ … نہ

لیکن پھٹک تو کچھ اور ہی دیکھ رہا تھا۔  نیاز والی رکابی لیے صبیحہ امام باڑے کے ایک طرف جانماز بچھائے، سر پر رومال رکھ کر فاتحہ کرتے ہوئے رشید کو کچھ زیادہ ہی انہماک سے دیکھ رہی تھی —  زمین ٹھہر گئی، آسمان خاموش ہو گیا … نگاڑے رک گئے … وقت کی ہلچل میں سکوت چھا گیا۔

ورما کے دماغ میں سائیں سائیں ہو رہا تھا …

صبیحہ کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی … فاتحہ کر دیجئے۔

رشید نے نظر اٹھائی۔  مسکرا کر صبیحہ کو دیکھا اور رکابی کا کپڑا اٹھا کر پھونک دیا۔

محرم کا نگاڑہ بج رہا تھا … ڈماڈم … ڈماڈم … نا … نا … نہ … نہ

٭٭

وہ رات آنکھوں میں گذر گئی۔  شدید بے چینی میں کروٹیں بدلتے ہوئے۔  صبح ہوتے ہی وہ ہنومان جی کے مندر نکل گیا۔  پرارتھنا کیا، تلک لگایا، پرساد کھایا، من میں اندھڑ چل رہے تھے۔  دو چار دن ایک دوسرے کو، آنکھوں آنکھوں میں دیکھتے ہوئے گزر گئے … ایک دن کالج میں گوشۂ تنہائی میں اس نے صبیحہ کا راستہ روک لیا۔  اس کے الفاظ سانسوں کی ہلچل میں کھو گئے تھے —  صبیحہ کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی۔  ویسی ہی، جیسے محرم کے دن نیاز والی رکابی لیے اس کے ہونٹوں پر تھی۔ ’’کیا ہے؟‘‘

ادھر اُدھر کی بات کے بعد اس نے دھڑاک سے پوچھ لیا — مجھ سے شادی کرو گی؟

’نہیں۔ ‘ مسکراہٹ میں شرارت سمٹ آتی تھی۔

’کیوں ؟‘

’’کیونکہ ابا نہیں چاہیں گے۔  تم ہندو ہو — ‘‘ وہ خطرناک مسکراہٹ کے ساتھ دیکھ رہی تھی اور وہ مسکراہٹ کی دھار سے کٹا جا رہا تھا۔

’بس اتنی سی بات پر۔ ‘

’ہاں۔  ابا بہت سخت ہیں ہمارے —  وہ تو لڑکیوں کی پڑھائی کے بھی خلاف تھے۔  لیکن تم مجھ سے شادی کیوں کرنا چاہتے ہو؟‘

وہی مسکراہٹ اور محرم کے نگاڑہ کی آواز … ڈماڈم … ڈماڈم … نا … نہ … ورماکو لگا، وہ بے جان ہو گیا ہے … اس کی حیثیت اس کچرے جیسی ہے جسے سمندر کی لہروں نے ساحل پر اچھال دیا ہے۔  وہ اس کے چہرے کو تکے جا رہا تھا جو بے حد ملائم، خوشنما اور تازگی لیے ہوا تھا۔

’اگر مان لو میں مسلمان ہوتا تو …؟‘

’تب تم اپنے ابا سے میرے یہاں رشتہ بھجواتے۔ ‘

’رشتہ بھجواتا … تب؟‘

’تب —  تب میں ہاں کر دیتی۔ ‘

صبیحہ چڑیا کی طرح پھدکی —  پھر ٹھہری نہیں۔  حیا جیسی سرخی اس کے چہرے پر دمک آئی تھی۔  اس کے بعد وہ رکی نہیں، قلانچیں بھرتی تیزی سے دوڑی … پھر ٹھہری۔  شرمائی۔ پلٹ کر اس کی طرف دیکھا اور ورما —  اب اس کے دل میں۔  اس جگہ پر جہاں دھڑکن کے گیت گونجتے تھے —  محرم کے نگاڑے بج رہے تھے … ڈما … ڈما … ڈما …

’تب میں ہاں کر دیتی … ساری رات صبیحہ کا یہ جملہ اس کے کانوں میں بجتا رہا۔  اس کا شرمانا، رکنا، پلٹ کر دیکھنا اور اپنی اداؤں کی سنہری دوڑ میں اسے کس لینا۔  ساری رات وہ انوکھے خمار میں ڈوبا رہا۔  جیسے وہ دن … وہ … لمحہ … وہ رات … سب کچھ اس کی زندگی کی کتاب میں کسی روشن روزن سے داخل ہو گیا تھا۔

دوسرے دن کالج میں پتہ چلا، رشید اور اس کے یار دوست اسے چاروں طرف پوچھتے چل رہے تھے۔  وہ اس کے محلے بھی گئے تھے۔  گھر جا کر بھی اس کے بارے میں پوچھ گچھ کی۔  اسے پتہ چلا —  کل رشید کے کسی دوست نے اسے صبیحہ کے ساتھ دیکھ لیا تھا۔  رشید اسے کالج کینٹین میں مل گیا۔  اس سے پہلے کہ وہ سنبھلتا، رشید اور اس کے ساتھیوں نے چائے کے گلاس ہوا میں اچھالے اور آناً فاناً ان کے ہاتھوں میں ہاکی کی اسٹک ناچنے لگی۔  معاملہ سمجھتے ہی اس نے بھاگنے کی کوشش کی۔  پھر اسے کچھ پتہ نہیں۔  کچھ خبر نہیں۔

وقت گزرا۔  اندر کہیں محرم کے نگاڑہ کی آواز بچی رہ گئی تھی … ڈماڈم … ڈماڈم … نا … نہ …

جیسے جیسے رتھ یاترا پہنچنے کا دن قریب آ رہا تھا، ورما کی ذمہ داریاں بڑھتی جا رہی تھیں۔  شہر میں تناؤ بڑھ گیا تھا۔  خاص کر مسلم اکثریتی علاقوں میں تناؤ سے بچنے کے لیے جلوس نکالنے، سبھائیں کرنے، مجمع اکٹھا کرنے اور مذہبی عبادت گاہوں سے ہونے والی تقریروں پر پابندی عائد کر دی گئی تھی —  ورما کو خبر ملی تھی، امام باڑہ کے پاس ایک جتھا یاترا کو روکنے اور بھنگ کرنے کی سازش رچ رہا ہے۔  اور اس جتھے کی نمائندگی کرنے والوں میں جو چند ناموں کی فہرست اس کے پاس تھی … اس میں ایک نام تھا … رشید انصاری۔

پھر ورما نے دیر نہیں کی۔  کسی ذمہ دار افسر کی طرح اس نے امام باڑہ کے پاس جیپ روکی —  چاروں طرف ناکہ بندی کی گئی۔  ایر سٹنگ ہوئی۔  کمانی چائے والے اور تھوتھا کباب والے کی دکان سے چار پانچ ملّا ٹائپ لوگوں کو پولیس نے دھر دبوچا۔  ان میں مؤذن بھی تھے، امام بھی۔  ان سب کو ٹاڈا کے تحت حراست میں لے لیا گیا۔

امام باڑہ میں سناٹا چھا گیا۔

ورما نے رشید انصاری کے بارے میں پتہ کیا۔  ایک چائے والے نے آگے گلی میں ایک مکان کی طرف اشارہ کر دیا۔  گلی اتنی پتلی تھی کہ جیپ کے اندر جانے کا سوال ہی نہیں اٹھتا تھا۔

ورما نے سپاہیوں کو باہر ہی روکا۔  پھر وہ خود ہی مکان کی طرف بڑھ گیا۔  یہ ایک منزلہ ٹوٹا پھوٹا سا مکان تھا۔  مکان کی سفیدی جھڑ چکی تھی۔  پلاسٹر بھی ادھڑ چکا تھا۔  دروازے والی سیڑھی ٹوٹی ہوئی تھی —  اور اس جگہ موٹی موٹی چار پانچ اینٹیں رکھ کر سیڑھی کی جگہ بنائی گئی تھی۔  جس وقت ورما گلی میں داخل ہوا، آس پاس کی کھڑکیاں دروازے کھل گئے۔  آنکھیں خوفزدہ تھیں اور پولیس کے قدم کو رشید کے مکان کی طرف بڑھتا دیکھ رہی تھیں  …

ورما اینٹے والی سیڑھی پر ہمت کر کے چڑھا۔  پھر دروازہ پیٹنا شروع کیا۔

اندر سے آواز آئی ’’ …کون؟‘‘

’پولیس۔  ورما نے جواب دیا۔ ‘

فوراً ہی دروازہ کھل گیا۔  دروازہ کھولنے والا ایک معمر بوڑھا آدمی تھا۔  اس نے میلی سی بنیان اور چار خانے کی لنگی پہن رکھی تھی۔  سر پر ایک گندی میلی سی ٹوپی چپکی تھی۔  ورما کی وردی کو دیکھتے ہی وہ آدمی سہم گیا۔

’رشید کہاں ہے؟‘

’جی … نا معلوم …‘

’آپ کون ہیں اس کے ؟‘

’سسر ہیں جی‘

’گھر میں اور کون ہے؟‘

’میری بیٹی یعنی رسید کی اہلیہ …ایک میری اہلیہ۔  ایک رشید کی لڑکی —  بوڑھے کے چہرہ کا رنگ فق تھا۔

’لیکن سرکار، آپ یہ سب کیوں پوچھ رہے ہیں۔  رسید نے کوئی جرم تو نہیں کیا سرکار۔ ‘

ورما گلے کو کھنکھار کر بلند آواز میں بولا —  ’رسید آ جائے تو کہنا کہ تھانہ میں ملے۔  کہہ دیناکہ انسپکٹر صاحب نے یاد کیا ہے۔  ضرور سے کہہ دینا۔ ‘‘

اس دن شہر میں پولیس کی پکڑ دھکڑ چلتی رہی۔  قریب 300 آدمیوں کو پولیس نے ٹاڈا کے تحت حراست میں لے لیا۔

٭٭

اس دن رشید انصاری تھانے میں حاضر نہیں ہوا۔

دوسرا دن، رتھ یاترا گزرنے کا دن تھا۔  صورت حال انتہائی نازک ہو چکی تھی۔  پولیس کی ڈیوٹی بانٹی جا چکی تھی۔  پولیس کی دھڑ پکڑ جاری تھی۔  امام باڑہ کے پاس سے ابھی بھی اچھی رپورٹ نہیں آئی تھی۔

رتھ یاترا ٹھیک بارہ بجے پہنچ گئی —  یاترا میں شامل لوگوں کو دونوں طرف سے رکچھا کوچ لیس پولیس نے اپنے حصار میں لے رکھا تھا۔  آواز کا شور اتنا تھا کہ کان کو کان سنائی نہیں دے رہا تھا۔  جے شری رام کے نعروں سے آسمان گونج رہا تھا۔  ایک بجے کے آس پاس اس یاترا کو امام باڑہ سے گزرنا تھا۔  جس وقت ورما آدمیوں کے جم غفیر سے گزرتا ہوا امام باڑہ کے پاس آیا، وہیں بھیڑ میں  —  اچانک، وہ ٹھٹھک کر کھڑا ہو گیا۔  باڑے میں اسی جگہ، جہاں محرم کے روز نیاز فاتحہ ہو جانے کے انتظار میں کھڑی صبیحہ کو دیکھا تھا۔  اسی جگہ، چبوترے کے اسی مقام پر بجلی کی طرح وہ چہرہ کوندا۔  دبلا پتلا —  لانبا، گھٹنے سے نیچے تک کا کرتا۔  پائجامہ اور ہوائی چپل۔  آنکھیں ذرا اندر کو دھنس گئی تھیں۔  گالوں کی ہڈیاں باہر نکل آئی تھیں۔  چہرے پر ہوائیاں اڑتی۔  لیکن اس کے باوجود ورما نے پہچاننے میں کوئی غلطی نہیں کی …

نگاڑہ بجا … ڈم … ڈما … ڈم …

یاترا دھیرے دھیرے آگے بڑھ رہی تھی۔  عورتیں، مرد، بچے، بوڑھوں کی بھیڑ امڈ آئی تھی۔  آس پاس کھڑکیوں، دروازے، چھتوں پر آدمیوں کے سیلاب کو دیکھا جا سکتا تھا۔  ورما جیسے سب کچھ بھول چکا تھا۔  وہ دھیرے دھیرے اس آدمی کی طرف بڑھ رہا تھا … کانوں میں برسوں پہلے گم ہوئی نگاڑے کی آواز گونج رہی تھی … ڈم … ڈما … ڈم … نا … نہ … برسوں پہلے کی اس آواز میں رتھ یاترا میں شامل ہجوم کی آواز مل گئی تھی … جے … ڈماڈم … شری … رام  … نا … نہ …

اچانک چبوترے پر کھڑے کسی آدمی نے زور سے نعرہ لگایا —  یا علی۔

اچانک بھگڈر مچ گئی … پولیس نے فائرنگ کی … آنسو گیس چھوڑے … اور نازک ماحول سے نپٹنے کی تیاریوں میں جٹ گئی …

٭٭

رتھ یاترا گزر گئی۔  لیکن طوفان نہیں تھما۔  اس دن لچھی ٹولہ امام باڑہ سے چن چن کر، گھروں سے مردوں کو نکالا گیا اور وین میں بھر بھر کر تھانے پہنچایا گیا۔

پولیس کے آدمی جس وقت رشید کے مکان کے دروازے پر پہنچے، ان میں سب سے آگے ورما تھا۔  ورما نے دروازہ کی کنڈی زور زور سے ہلائی۔  دروازے کھولنے والی ایک عورت تھی۔  آنچل ہٹا اور اس کا دہشت زدہ چہرہ باہر آ گیا۔  ورما چونک کر دو قدم پیچھے ہٹا۔

محرم کا نگاڑہ ایک بار پھر بج اٹھا۔  وہی امام باڑہ کے چبوترہ پر نیاز کرانے کی اپنی باری کا انتظار کرتی ہوئی صبیحہ … عورت تھر تھر کانپ رہی تھی۔  ورما کی سانسوں میں طوفان آ گیا۔  ہونٹوں کا لعاب سوکھ گیا۔  پھر اس نے خود کو بحال کیا۔  پولیسیا رعب میں واپس آ گیا۔

’رسید کہاں ہے؟‘

’جی۔  وہ تو گھر پر نا ہیں،  … عورت تھر تھر کانپ رہی تھی۔ ‘

تم صبیحہ ہو …!

وقت جیسے ٹھہر گیا تھا، ہونٹ لرز رہے تھے …

ورما کی آواز نرم پڑی۔  عورت نے نظر اٹھا کر دیکھا … پھر تھم کر رہ گئی …

’ورما … میں ورما ہوں ‘ … وردی میں وہ اپنی افسری کی گانٹھ باندھ رہا تھا … پہچانا؟

عورت کے بدن کی تھرتھراہٹ اب تک بند نہیں ہوئی تھی۔  اچانک پشت سے اس کے باپ کا چہرہ ابھرا۔  اس نے عورت کو جھٹکے سے پیچھے کھینچا … ’اندر جا۔  باہر زنانیوں کا کیا کام …‘‘

ورما پھر اسی ’پولیسیا رعب‘ میں واپس آ گیا۔  اس کے بدن سے تیز ہوا کا جھونکا ٹکرایا۔  سب کچھ بھول کر اس نے سپاہیوں کو آواز لگائی۔  لے سب کو حراست میں لے لے — ‘

پولیس کے سپاہی شاید اسی انتظار میں تھے۔  وہ دندناتے ہوئے اندر گھس آئے۔  اندر چارپائی پر رشید کی جوان لڑکی زبیدہ سو رہی تھی … سپاہیوں کی ہوسناک آنکھوں نے اسے گھورا۔  لڑکی نے خوفزدہ ہو کر چیخ ماری … ایک سپاہی نے انتہائی بدتمیزی سے اس کے سینے پر چکوٹی بھری۔  ورما نے تن تنا کر اس کا ہاتھ روک لیا … شاید وہ تذبذب کی حالت میں تھا کہ یہ سب کیسے ہو گیا … مگر جو ہونا تھا وہ ہو چکا تھا۔  جس وقت پولیس وین تھانے کو کوچ کر رہی تھی، وین سے رونے دہاڑنے کی آواز گونج رہی تھی۔  اس سے بے نیاز ورما اس عورت کو گھور رہا تھا، جس میں اس کے خوابوں کی، پہلی بارش کی پھواریں کھوئی ہوئی تھیں …

ٹاڈا قانون کے تحت جیل رکارڈ میں نام درج کراتے وقت صبیحہ کی بیٹی کو لے کر پریشانی ہو گئی۔  وہ 15 سال کی نابالغ لڑکی تھی۔  سپرنٹنڈنٹ بھوانی سنگھ نے یہ گتھی بھی سلجھا دی۔  جیل ریکارڈ میں اس کی عمر 18 سال درج کی گئی، اور اس پر بھی ٹاڈا کا مقدمہ بنا دیا گیا۔

ورما کے بدن میں ٹھنڈی لہر دوڑ گئی … ’لیکن سر … لڑکی تو ابھی نابالغ ہے …‘

بھوانی ہنسے۔  ’’ملزم کے لیے عمر کی کوئی سیما اس قانون میں طے نہیں۔  دودھ پیتے بچے سے لے کر ۹۸ سال تک کے بوڑھے کو اس کی زد میں لیا جا سکتا ہے … ہم نے تو بس اس پر ذرا سی مہربانی کی ہے …‘

ورما کو حیرانی تھی … ’لیکن جرم کیا لکھا جائے گا۔ ‘

’رشید آتنک وادی ہے۔  اس نے بھیڑ میں بھگڈر پیدا کرنے کی کوشش کی۔  تم سچ مچ چغد ہو۔  ورما۔  جب ہم ہی قانون ہیں تو پھر ثبوت کی ضرورت کیا ہے۔  جو چاہیں، دفعہ ٹھوک دیں گے۔  رشید آتنک وادی ہے تو اس کو ٹھکانہ دینے والے بھی آتنک وادی ہوئے۔  اب رشید کی ماں کو لو۔  آتنک وادی کے شریر میں جو خون دوڑ رہا ہے وہ ماں کا ہے۔  کیوں  —  تو ماں بھی آتنک وادی ہوئی نا؟‘

’لیکن سر۔  وہ بڑھیا تو رشید کی ساس ہے۔  رشید کی ماں تو ہے ہی نہیں۔ ‘

’پھر وہی مورکھ جیسی باتیں۔  ارے بھگڈر پھیلانے اور گڑبڑی پیدا کرنے میں یہ سب تھے۔  ٹاڈا کی تیس دھاراؤں میں سے کوئی بھی لگا دیں گے۔  آتنک وادی گتی ودھیوں میں لپت ہونا ایک دھارا ہوئی۔  بھیڑ یا بھگڈر سے ایک آدمی کے ہلاک ہونے کی خبر ملی۔  اس طرح رشید پر مرتیو دنڈ اور کم سے کم اس کو پانچ سال کی سزا سنائی جا سکتی ہے۔  اس کے گھر ہتھیار رکھوا دو —  اور اس پر آرمس ایکٹ کی دھارا لگوا دو۔ ‘

’لیکن سر، رشید تو ابھی فرار ہے۔ ‘

’دھارا ۸ کے مطابق بھگوڑے شخص کی سمپتی کی قرقی کی جا سکتی ہے۔  اس میں آگے یہ بھی جوڑا گیا ہے کہ جو شخص مفرور ہے اس کے خلاف مقدمہ کی سنوائی اس کی غیر موجودگی میں بھی ہو سکتی ہے۔  اور جرم ثابت ہو جانے پر اس کی غیر موجودگی میں بھی اسے سزا سنائی جا سکتی ہے۔

٭٭

ورما کے دماغ میں مسلسل نگاڑے بج رہے تھے … اس کے بعد اس نے کچھ نہیں پوچھا … اسے لگا، وہ کسی بلیک ہول میں پھنس گیا ہے —  اور دھیرے دھیرے ہوا میں تحلیل ہوتا جا رہا ہے … اسے لگا، آنکھوں سے پاؤں تک پورے بدن میں اندھیرا پسر گیا ہے … اسے پہلی بار لگا، اس سے کچھ غلط ہو گیا ہے۔  مگر اب دیر ہو چکی تھی …

اسی شام وہ لاک اپ میں رشید کے خاندان  والوں سے ملنے گیا۔  ان کے چہروں پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔  اس نے صبیحہ کی طرف دیکھا … آج اس کی آنکھوں میں محرم کے نگاڑے خاموش تھے … زبیدہ اسے دیکھ کر دو قدم پیچھے ہٹی —  جیسے سامنے والا آدمی اس کی عزت لوٹنے پر آمادہ ہو … اس کی سانس پھول رہی تھی … وہ تو یہ اطلاع دینے آیا تھا کہ بہت جلد ڈڑاگنٹڈ کورٹ میں ان پر مقدمہ چلایا جائے گا۔  اس بیچ رشید کا ملنا بہت ضروری ہے۔  وہ انہیں بتانے آیا تھا کہ تیر کمان سے چھوٹ چکا ہے … تمہارے خلاف خفیہ گواہ بھوانی سنگھ نے پیدا کر لیے ہیں  —  اور انہیں دکھانے یا بتانے کی ضرورت عدالت کو نہیں ہے … یعنی جو غلطی ہو چکی ہے اس کا خمیازہ بھگتنے کے لیے تیار ہو جانے کا وقت آ گیا ہے … اس قانون میں ہم کچھ نہیں کر سکتے۔  بڑے بڑے ہیرو لوگ بھی زیرو ہو جاتے ہیں  …

اچانک رونے کی آواز ابھری … لاک اپ میں کسی کی ہچکیاں گونج گئیں۔  ورما نے گھوم کر دیکھا۔

یہ صبیحہ تھی۔  اس کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے … برسوں پہلے کا ایک منظر ورما کی آنکھوں میں دوڑ گیا —  اگر میں مسلمان ہوتا تو  … پھر تم اپنا رشتہ بھجواتے …‘

’اور مان لو میں نے اپنا رشتہ بھی بجھوا دیا تو …، تو میں ہاں کر دیتی … ہاں کر …‘

ورما اندر تک ہل کر رہ گیا۔  پیٹ کے نیچے والے حصے میں ذرا سی ہلچل ہوئی … اس نے ناخن سے وہ حصہ کھجلایا … رات آسمان پر چھا رہی تھی۔  بیرکوں سے قیدیوں کے چیخنے چلانے اور رونے کی آوازیں آ رہی تھیں۔

اسی شام رشید نے حوالات میں خود آ کر اپنی گرفتاری دے دی۔  وہ بہت زیادہ ڈرا ہوا تھا … اب باقی تھا تو بس اقبالیہ بیان کی رسم اور ا س کے بعد ان سب کی قسمت پر قانون کی مہر لگ جانی تھی …

رات کے ٹھیک بارہ بجے بھوانی سنگھ کی کار باہر رکی —  اور ورما چونک کر اٹینشن کی مدرا میں آ گیا۔

٭٭

وہ رات اقبالیہ بیان لینے کی رات تھی …

یاتنا گرہ یا اذیت گھر کی دیواروں میں خوف حلول کر گیا تھا۔  جیسے سناٹے میں دور سے گھوڑے کی ٹاپ سنائی پڑتی ہے، ویسے ہی دور سے بھوانی سنگھ کے بوٹوں کی ٹاپ ابھری۔

ورما نے ٹھنڈی سانس بھر کر یاتنا گرہ کی کالی ہو رہی کوٹھری کو دیکھا۔  دیواروں پر جا بجا مکڑے کے جالے لٹک رہے تھے۔  کالی ہو رہی دیوار کا پلسٹر جھڑ چکا تھا۔  کمرے میں ایک کرسی تھی۔  ورما  کے پاس ہی کانسٹبل رتنا گر کھڑا تھا۔

 باہر کتے بھونک رہے تھے۔

بھوانی سنگھ اس سے پہلے بھی کتنے ہی اقبالیہ بیان لے چکے تھے —  اور ورما ان سب کا چشم دید گواہ رہا تھا۔  ورما جسے ساری دنیا ہی غلط نظر آ تی تھی —  اور جو ہر چیز کو غلط انداز سے دیکھنے کا عادی ہو چکا تھا، آج پہلی بار خود کو الجھنوں کا شکار محسوس کر رہا تھا۔  اس نے تھوک نگلا۔  پھر رشید کی طرف مڑا۔

’تم جانتے ہو۔  تم لوگوں کو یہاں کیوں بلایا گیا ہے؟‘

ہاں  —  رشید کی آنکھوں میں موت ناچ رہی تھی۔

’اقبالیہ بیان کے لیے۔ ‘

’اس کا مطلب جانتے ہو۔ ‘

رشید نے سانس درست کی — ’ ورما۔  میں جانتا ہوں تم یہ سب کیوں کر رہے ہو۔  کالج کی لڑائی کو تو عرصہ بیت گیا۔ ‘

’اب اس جرح کا وقت نہیں ہے۔  دیر ہو چکی ہے۔ ‘

رشید کی کمزور آواز ابھری۔  ’میں نے کوئی جرم نہیں کیا۔  نہ میرے خاندان والوں نے —  آخر تم ہم لوگوں کو کیوں پھنسوانا چاہتے ہو … دھیرے دھیرے اس کی آواز میں تلخی آتی جا رہی تھی … ’چن چن کر امام باڑہ سے مسلمانوں کو جیپ میں بھر بھر کر لے گئے تم لوگ۔  رتھ یاترا نکالنا گناہ نہیں تھا —  گناہ تھا بھیڑ میں کسی کا یا علی بول دینا … تمہاری حکومت ہے —  اس لیے جو چاہو کر سکتے ہو۔  اتنی جیلیں نہیں ہیں تمہارے پاس۔  کتنے مسلمانوں کو بھرو گے۔ ‘

’ان سوالوں کے لیے ابھی وقت نہیں ہے رشید۔ ‘ ورما الجھتی سانسوں کو درست کرتے ہوئے چلایا۔

’اقبالیہ بیان کا مطلب جانتے ہو …؟‘

٭٭

تبھی دروازہ بھڑاک کے ساتھ کھلا۔  ورما نے اڑی رنگت کے ساتھ دیکھا۔  دو بوٹ یاتنا گرہ کے دروازہ پر آ کر ٹھہر گئے۔  بھوانی سنگھ کے قدموں میں لڑکھڑاہٹ تھی۔  ہاتھ میں شراب کا ایک گلاس تھا۔  آنکھیں لال سرخ ہو رہی تھیں۔  بدن پر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس کی وردی تھی —  جس پر کئی ستارے چمک رہے تھے۔  ہاتھ میں ایک پلین پیپر تھا۔

زبیدہ نے ہلکی سی چیخ ماری اور اماں صبیحہ سے لپٹ گئی۔  علیم نے اپنی بوڑھی بیوی کی طرف دیکھا۔

بھوانی سنگھ ایک قدم آگے بڑھے۔  گلاس سے ایک گھونٹ لیا۔  پھر آگے بڑھ رشید کے گال پر ایک زناٹے دار تھپڑ مارا۔

’سالے، سور کی اولاد۔  یہاں سائن کر۔ ‘

رشید کی آنکھوں کے آگے جیسے پوری دنیا گھوم گئی۔ ‘

’سائن کر یہاں۔ ‘

رشید نے پلٹ کر دیکھا۔  ’نہیں کروں گا۔  تم ڈرا رہے ہو مجھے۔  آخر چاہتے کیا ہو تم لوگ؟‘

بھوانی نے زور کا ٹھہاکا لگایا۔  باقی شراب ایک سانس میں پی گئے۔  پھر لڑکھڑاتے ہوئے آگے بڑھے۔  کاغذ کانسٹبل رتناگر کی طرف بڑھایا۔  پھر رشید کی طرف تیزی سے گھومے۔  اس بار ان کا دایاں بوٹ والا پیر تیز سے گھوما۔  بوٹ رشید کی جانگھوں سے ٹکرایا۔  وہ تیز چیخ کے ساتھ زمین پر لوٹنے لگا … گلے سے بھیانک چیخ گونج اٹھی …

رشید پھر چیخا —  ’کچھ بھی کر لو۔  مگر سائن نہیں کروں گا میں  …‘

بھوانی غصے میں آگے بڑھے۔  وزنی بوٹ کی نوک اس کے سینے پر رکھی۔  پھر انگلی کے اشارہ سے زبیدہ کو اٹھنے کے لیے کہا۔

ورما نے آنکھیں بند کر لیں۔  اس کے سارے بدن میں سہرن پھیل گئی۔  اسے لگا رات ہو گئی ہے … پتنی کام دھام سے فارغ ہو کر اس کے کمرے میں آئی ہے۔

بھوانی نے کانسٹبل رتنا کو اشارہ کیا —  ’اس کے کپڑے کھولو!‘

کانسٹبل رتناگر نے ایسے زبان نکالی —  جیسے قانون اور قانون کے اصولوں کا پالن کرنا اس کا اولین فرض ہو۔

رات دھیرے دھیرے سرک رہی تھی۔  آسمانوں پر کہیں بادلوں کا ایک بڑا سا ٹکڑا لاش کی مانند دکھائی دے رہا تھا … بڑے ٹکڑے کو گھیرے کچھ چوکور تاریک ٹکڑے بھی تھے۔  ایسا لگ رہا تھا جیسے چوکور ٹکڑے ان سوگواروں میں شامل ہوں، جو لاش کندھوں پر اٹھائے آسمان کی نگریا میں بڑھتے جا رہے ہوں  … اکا دکا جو ستارے آسمان پر نظر آ رہے تھے وہ چپ تھے … اور بدلیوں میں چھپنے کے منتظر تھے …

ہوا یک بہ یک تیز ہو گئی۔

بھوانی سنگھ کرسی پر بیٹھ گیا —  اندر دبا ہوا غصہ رہ رہ کر چاول کی بھاپ کی طرح کھنکھنا رہا تھا … ’سالے پتہ نہیں قانون کو کیا سمجھتے ہیں یہ آتنک وادی … دیس کو کھلوناسمجھ رکھا ہے۔  جب مرضی آئی دنگے کروا دیئے۔  اب یہ ہندو استھان … اور ایک رتھ یاترا نہیں نکل سکتی۔  سالے پاکستان بنوا کر بھی کھس نہیں ہوئے۔  یہاں بھی اپنی کریں گے … انہیں تو بس تھوڑی سی جگہ دے کر دیکھو … سالے چار ملّا جمع ہو جائیں تو یہاں بھی اسلامستان بنا لیں گے … سالے جاہل کی اولاد … سارا کٹر واد نہیں بھلا دیا تو … کیوں رے رتناگر بھڑوے سالے۔  آج تیری مردانگی کو کیا ہو گیا ہے … دیکھتا کیا ہے سالا … جوان لڑکی ہے —  ترو تازہ ہے … ارے دیکھتا کیا ہے سالا بھڑوا …‘

آگے بڑھ کر اس نے رتناگر کو ایک ہاتھ دیا … ’یہ سب سالے آتنک وادی ہیں  … لوٹ رہے ہیں دیس کو اور تو ان پر رحم کھا رہا ہے۔  ان پر …‘ وہ علیم الدین، اس کی اہلیہ، صبیحہ، زبیدہ اور گھبرائے سے رشید کی طرف اشارہ کر رہا تھا۔

’یس سر …‘ رتناگر مار کھا کر کسی بھوکے شیر کی طرح زبیدہ پر جھپٹا۔

’شاباش!‘

بھوانی نے قہقہہ لگایا —  ایک لمحے کو وہ سوچ میں پڑ گیا۔  آج یہ کیسی زبان وہ استعمال کر رہا ہے … پھر اس نے اس خیال کو جھٹکا۔  پولیس کا وہ کتنا ہی بڑا افسر کیوں نہ ہو —  اسی زبان کو ماڈل بنانا چاہیے۔  اسی زبان سے پولیس کی کھوئی ہوئی ناک بنی رہ سکتی ہے۔

بھوانی سنگھ کو ملزموں کا اتّھان (بھلا) کرنے میں مزہ ملتا تھا۔  ان کی پتنی جوانی میں ہی مر گئی تھی۔  ایک لڑکا تھا جو پڑھ کر ولایت چلا گیا۔  وہیں کی ایک میم سے شادی کر لی اور وہیں کا ہو کر رہ گیا۔  بھوانی سنگھ لمبے تگڑے آدمی تھے۔  دوبارہ شادی نہیں کی۔  اور پولیس کی نوکری میں شادی نہ کرنے کا غم بھی نہیں ہوا۔  وہ ایسے سودا گر تھے کہ جس مال پر ہاتھ رکھ دیں، وہ مال ان کا ہوا۔  اور وہ شروع سے ہی اس پولیسیا رعب کا استعمال کرتے رہے تھے۔

٭٭

زبیدہ چلائی۔  اس کے چلانے سے حوالات کی دیواریں دہل گئیں۔  شلوار کا ناڑا ٹوٹ کر گرا تھا۔  اس کا دودھیا سڈول پاؤں جیسے اچانک انگاروں کی بارش کرنے لگا تھا۔  بھوانی سنگھ کی آنکھوں میں نشہ چھا گیا۔  ’سالے ہر کام نیچے سے شروع کرتا ہے۔  ٹھہر جا … رشید نے مدافعت کی کوشش کی  —  بوڑھے علیم الدین نے آنکھیں پھیر لیں۔  بھوانی کانسٹبل رتناگر پر  چیخے۔  ان سالوں پر چابک مارو —  اور جو ہو رہا ہے اسے دیکھنے پر مجبور کرو۔

بوڑھا علیم الدین روتا ہوا بھوانی کے پیروں پر گرا … ’صاحب یہ ظلم مت کرو … نادان بچی ہے۔  ابھی پوری عمر پڑی ہے … ابھی تو کچھ بھی دیکھا نہیں ہے اس نے  …‘

’تو ؟ ہم دکھلائیں گے —  ابھی دکھائیں گے۔  اسی وقت۔  کیوں ورما؟

بھوانی کو کافی دیر بعد ورما کا خیال آیا، جو گیٹ پر، دوسری طرف منہ کئے کھڑا تھا …

’ارے ورما  … سالے کی حال ہے  —  ابھی بھی تیرے پینٹ کا حال ٹھیک نہیں ہوا —  بھوانی مزے لے کر ہنسے۔

٭٭

کانسٹبل رتناگر نے چابک سنبھال لیا۔  چمڑے کا چابک۔  چابک ہوا میں لہرایا۔  ملی جلی کئی چیخ ایک ساتھ فضا میں بلند ہوئی … بھوانی کے ہاتھ آگے بڑھے۔   جسم کیا تھا … منجھے ہوئے کمہار کے چابک دست ہاتھوں کا کرشمہ … تراشے ہوئے عضو … دودھیا صندلی بدن … مخروطی انگلیاں  —  پھولے پھولے ہونٹوں سے ٹپکتا شہد … آنکھوں کی وحشت میں ہرنی سے بل … جیسے گورے انگ انگ میں شراب ہی شراب بھر دی گئی ہو …

زبیدہ اب چیخ بھول گئی تھی … وہ جیسے شدید ٹھنڈسے کانپ رہی تھی … جسم پر کپڑے کا ایک تار تک نہیں رہ گیا تھا … ہاتھ میں وہ قوت نہیں تھی کہ جسم اور جسم کے ابھاروں کو ڈھانپ سکتی … سینے کی حیرت ناک گداز گولائیاں اور دودھیا نورانی چمک نے بھوانی کے علاوہ کانسٹبل رتناگر کے دماغ کی نسوں کو بھی ہلا کر رکھ دیا تھا …

رشید نے پھٹی آنکھوں سے یہ منظر دیکھا —  یا اللہ کہہ کر رونے کی کوشش کی —  مگر آنسو تو کب کا آنکھوں سے پیچھا چھڑا چکے تھے … یہ اس کی بیٹی ہے … وہی زبیدہ … جو کتنی بار اس کی بانہوں میں ابا کہہ کر سمائی تھی … رشید بلّیاں لیتا تھا … پاگل۔  کیوں اتنا پیار کرتی ہے۔  ایک دن تو سسرال چھوڑ کر چلی جائے گی … میں تو نہ جاؤں گی۔  یہیں رہوں گی۔  تمہارے پاس۔  وہ جھوٹ موٹ روتے ہوئے اس کے بدن سے کسی چھوٹے بچے کی طرح چمٹ جاتی تھی۔

ایسے موقعوں پر آنکھوں کو دیکھنے کی تاب کہاں رہ جاتی ہے۔  آنکھیں دیکھ تو رہی ہوتی ہیں  —  مگر دیکھ کر بھی کچھ نہیں دیکھ رہی ہوتی ہیں  … ایسے پتھرا جاتی ہیں کہ اندر ہی اندر موت ہو گئی ہو آنکھوں کی۔  ایسے سو جاتی ہیں کہ تاریکی کے سوا کچھ بھی سجھائی دینے کی حد سے باہر نکل آتی ہیں  …

ورما کو لگا۔  کوئی چیونٹی سی سرسرا رہی ہے بدن میں  —  نہیں پیٹ کے نیچے والے حصے میں  … کچھ جنبش ہوئی ہے … نہیں  … وہ کمرے میں ہے … رات کا تھکا ہارا … پتنی نے اندھیرا کر دیا ہے بتی بجھا دی ہے … اور اب وہ دن بھر کی میلی کچیلی ساری پھینک کر نائیٹی بدل رہی ہے … اندر جیسے کچھ جھنجھنا رہا تھا … ٹوٹ رہا تھا …

رتناگر کے چابک پھر برسے اور اس نے پینٹ کے اندر اپنی ہتھیلیوں کو مضبوطی سے جانگھوں پر بھینچ لیا …

بھوانی کے ہاتھ اپنے پینٹ کی زپ تک آئے —  اور زبیدہ کے ننگے بدن نے ایک بھیانک چیخ کے ساتھ  خود کو دو مضبوط حیوانی بازوؤں میں سمٹا ہوا محسوس کیا … رشید پوری قوت سے گالی دیتا ہوا مارنے کو جھپٹا تو رتناگر کے چابک نے اسے دوبارہ زمین دکھا دی۔  وہ بھرائی سی تیز تیز سسکیاں لے رہا تھا۔  ایسی سسکیاں جو بڑھ جائیں تو جسم سے روح کا رشتہ منقطع کر دیتی ہیں  …

آسمان پر بادلوں کا بڑا سا گھنیرا ٹکڑا جو کسی لاش کی مانند دکھائی دے رہا تھا اب آسمان سے اوجھل ہو چکا تھا۔  اب وہاں سرمئی، سرخی مائل بدلیاں چھا گئی تھیں۔  اور پان کی پیک کی طرح بدلیوں میں لال لال چکتے اچھل پڑے تھے …

بھوانی نے لمبی لمبی سانس درست کی۔  ایک طرف نڈھال سی زبیدہ پھٹی پھٹی آنکھوں کے ساتھ، دیوار کے سہارے گھٹی گھٹی سانسیں چھوڑ رہی تھی … کمرے میں وہ سب تو تھے جنہیں چھتنار درخت کہتے ہیں  … اور جن کے سہارے اسے زندگی کی طویل و عریض کھائیاں عبور کرنی تھیں  … ماں باپ … نانا، نانی … اور ان سب کے سامنے اسے … اس نے خوف اور ہیبت سے پھر ایک تیز چیخ ماری … اندر دبی سسکیوں نے ندی کے باندھ کو توڑ دیا تھا اور وہ کسی ٹوٹی پھوٹی گڑیا کی طرح اپنا عریاں بدن سنبھالے پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی …

صبیحہ نے موت جیسی آنکھوں سے زبیدہ کو دیکھا … کچھ بول نہیں سکی … آواز اٹک کر رہ گئی۔

’آتنک وادیوں سے اقبالیہ بیان لکھوانا بھی کتنا مشکل کام ہوتا ہے … یہ سب بھی کرنا پڑتا ہے —  یہ ملیچھ۔ ‘

بھوانی نے للچائی آنکھوں سے تاک رہے رتناگر کو دیکھا … ’تو کیا سوچتا ہے۔  میری مت ماری گئی تھی —  جوان سی لڑکی سے۔  مگر یہ سالا کمبخت حرام کا جنا ایسے، بیان پر دستخط نہیں کرے گا اور تو ایسے للچائی آنکھوں سے کیا دیکھ رہا ہے … وہ تیرا شکار ہے … وہ  … اس نے صبیحہ کی طرف اشارہ کیا۔

صبیحہ دو قدم خوف سے پیچھے ہٹی۔  پھر دیوار سے ٹکرا گئی۔

ورما کے اندر محرم کے نگاڑے ایک بار پھر سے چیخے … دھم … دھڑم … ڈماڈم … اس کی پتنی نے نائیٹی پہن لی ہے … بستر پر لیٹ گئی ہے اور اب اس نے پلٹ کر اس کی طرف دیکھا ہے۔  ورما نے زیر ناف اپنے ہاتھوں کو جنبش دی ہے … کٹی ہوئی چھپکلی ایک دم شانت ہے —  سویا ہوا بے حس کیڑا۔  یہ کیڑا ہاتھ کی جنبش کے باوجود مردہ سا ہے۔  سویا ہوا۔

کانسٹبل رتناگر نے بانہہ کی آستین چڑھائی۔  پھر بندر کی طرح اچھلا۔  اگلے ہی لمحے اس نے صبیحہ کو ایسے دبوچ لیا جیسے کوئی چڑیا باز کے پنجوں میں آ گئی ہو … اچانک چر … ر … ر … کی آواز ہوئی۔  صبیحہ کے بلاؤز کا ایک بڑا حصہ رتناگر کے ہاتھ میں تھا۔

بوڑھے علیم الدین نے اپنا سر دیوار سے ٹکرایا۔  گڑگڑانے والے انداز میں بولا:

’میں ہاتھ جوڑتا ہوں تمہارے … بند کرو … بند کرو یہ سب۔ ‘

’بند کروں۔  مگر کیوں بھائی؟ بھوانی کرسی سے اچھلا۔  علیم الدین کی گردن تھامی اور اسے تیزی سے دیوار کی طرف دھکا دیا۔  ٹھیک اسی وقت پشت سے رشید نے پوری طاقت لگا کر اس پر حملہ کر دیا۔  لیکن حملہ کرنے میں زور سے زیادہ فرط جذبات کو دخل تھا۔  بدن کی بوٹی بوٹی کانپ رہی تھی۔  بھوانی نے ایک زور کی ٹھوکر اس کی زپ والی جگہ پر ماری۔  رشید ٹانگوں کے بیچ ہاتھ پھنسا کر بری طرح چیخا۔  اس کا پورا جسم جھنجھنا اٹھا تھا۔  چوٹ اتنی شدید تھی کہ وہ اپنا پیر پکڑ کر، بلبلا کر، زمین پر لوٹنے لگا —

بھوانی نے پینٹ کی گرد جھاڑی ’ … بند کر دوں  … آخر کیوں بھائی۔  اس لیے کہ تم اپنی من مانی کر سکو۔  کان کھول کر سن لو، اب تک جتنی من مانیاں تم لوگوں نے کی ہیں، ہم نے اس کی رائی برابر بھی زیادتی نہیں کی۔  آتنک وادی سالے … دیس کو لوٹنے چلے ہیں  …‘

اس نے اوندھی پڑی زبیدہ کو دیکھا۔  جس کا بدن دیوار سے اڑا ہوا تھا اور جو تھر تھر کانپ رہی تھی۔  سولہ سال کا معصوم بدن حوالات کے اندر کی گرمی سے مرجھائے ہوئے پھول کی طرح لگ رہا تھا … اس سے پہلے جس جسم سے جودودھیا چاندنی کی دھار پھوٹ رہی تھی، اب وہ چاندنی بجھی بجھی لگ رہی تھی …

’نہیں  —  مزہ نہیں آیا۔  ان آتنک وادیوں کو تو ایسا مزہ چکھانا چاہیے کہ آنے والی پیڑھیاں یاد رکھیں  —  رشید کے حملے سے بوکھلائے بھوانی کا چہرہ گرم پانی کی طرح کھول رہا تھا۔  اس نے زور سے آواز لگائی۔  ورما!

’یس سر‘

’رتناگر‘

’یس سر‘

رتناگرکی زپ کھل گئی تھی۔  اور وہ کسی دور سے دوڑتے آ رہے مسافر کی طرح تھکا ہوا معلوم دے رہا تھا۔  اور سانس ’ہنپنی‘ کی صورت اختیار کر گئی تھی۔

صبیحہ کی ساری کھلی پڑی تھی۔  بلاؤز ایک طرف پھیکا ہوا تھا۔  اور وہ ادھ مری سی ننگے جسم کے ساتھ حوالات کی میلی ہو رہی چھت کو گھور رہی تھی …

’رتناگر۔  ورما …‘ بھوانی پھر زور سے چلایا۔

’یس سر‘ … دونوں اٹینشن ہو گئے۔

’ان تینوں کو ننگا کر دو۔  چلو جلدی کرو۔ ‘ اس نے علیم الدین، اس کی اہلیہ اور رشید کی طرف اشارہ کیا۔

مدافعت میں اٹھے ہاتھ اور ماحول کی بھٹی میں جھلس گئے جسم میں اب طاقت ہی کہاں رہ گئی تھی —  کپڑے اتر گئے۔  آنکھوں میں موت سے زیادہ بے شرمی کا خوف تھا …

ہوا تیز ہو گئی تھی۔  حوالات کا مضبوط دروازہ تیز ہوا سے ڈولا۔  بھوانی کے قہقہے میں دروازہ ہلنے کی آواز دب گئی۔

ورما کے ہاتھ بوڑھی عورت کے بدن سے کپڑا اتارتے ہوئے لگاتار کانپ رہے تھے۔  انگلیاں لرز رہی تھیں  … مگر ڈر، عادت اور آفیسر کے حکم سے بندھے جسم میں کوئی حرکت نہیں تھی۔  اس کی آنکھوں میں اندھیرا چھایا ہوا تھا … بس وہی حرکت کرتی سی پر چھائیاں  … اس کی پتنی کا بدن نائیٹی میں سرسراتا ہے … بستر ذرا سا کسمسایا ہے … پتنی کے سرسراتے ہوئے ہاتھ اس کے کندھے تک آ کر ٹھہر گئے ہیں  …

بھوانی نے رشید کے ساکت  چہرے کو دیکھ کر ایک گندی سی گالی بکی —  اور چیخ کر کہا … ’چل سالے … بیٹی سے زنا کر … زنا سمجھتا ہے … سالے یہ تیری ہی زبان کا لفظ ہے … پاکستان میں تو کوڑے پڑتے ہیں اس لفظ پر … پھر اس نے رتناگر کو اشارہ کیا۔  سالا دیر کرے تو چابک سے چمڑی چھیل دینا۔ ‘

رشید کانپتا ہوا پاؤں پر گر پڑا —  ’ لاؤ میں سائن کر دیتا ہوں  … جہاں چاہتے ہو … جتنے کاغذ پر۔  جہاں جہاں اسٹیمپ لگوانا چاہتے ہو … سب لے آؤ … مگر اس وقت بخش دو۔  مجھے … زندگی بھر کے لیے جیل میں ٹھونس دو —  میرے خاندان والوں پر بھی رحم مت کرو … سب کو جیل میں ڈال دو۔  سڑا دو … عمر قید دے دو … پھانسی دے دو … اس سے بھی کوئی بڑی سزا ہو تو  … مگر یہ سب …‘

وہ لرز رہا تھا۔  پھوٹ پھوٹ کر رو رہا تھا۔

’میں مر چکا ہوں۔  یہ زندگی نہیں ہے۔  موت سے بدتر زندگی مر چکا ہوں۔  جو کچھ دیکھ لیا ہے، اس سے آگے دیکھنے، سننے اور جینے کو باقی ہی کیا رہ جاتا ہے۔  انسانیت کے واسطے … یہ بچی ہے میری۔  سمجھو صاحب … آپ کی بھی بچی ہو گی …‘

’نہیں ہے۔  میری کوئی بچی نہیں ہے —  بھوانی زور سے گرجے۔  رتناگر کے چابک نے برس برس کر رشید کو بیٹی کے پاس پہنچا دیا —  وہاں دیوار کے پاس —  ننگی زبیدہ کا سر بیہوشی کے عالم میں دیوار سے ٹک گیا تھا۔

’چل رے بوڑھے۔  تو بھی اٹھ۔  بڑی دیر سے دیوار میں سر مار رہا تھا —  بھوانی گرج کر بولے۔  ’چل  … چل اپنی بہو کے ساتھ شروع ہو جا —  سنتے ہیں سالے مسلمان کا کٹا ہوا جانور اصلی رنگ تو بڑھاپے میں دکھاتا ہے۔  اپنی بوڑھی عورت سے تجھے بھلا کیا ملتا ہو گا۔  چل شروع ہو جا۔  ورما …، بھوانی ورما سے مخاطب ہوئے … ذرا بوڑھے کو سمجھا۔  بتا کہ یہ سب قانون کے دائرے میں آتا ہے۔  چل لگا اسے ایک ڈنڈا —  کہ سالے آتنک وادی کا مزاج ٹھکانے آ جائے …‘

٭٭

آسمان پر چھائی سرخی مائل بدلیوں کی رنگت ایسے ہو گئی تھی جیسے آنسو گر رہے ہوں  … فطرت کی نقاشی بھی عجیب ہے … کبھی کبھی جب بھرپور گھٹا اور بدلیاں چھائی ہوں تو آسمان کو دیکھیے —  ایسی انوکھی اور زندہ تصویریں کہ رافیل اور لیوناڈونچی کے شاہکار بھی شرما جائیں  —  اب چاروں طرف آسمان پر خون پھیلا تھا۔  اور اس کے آنسو بدلیوں کے خفیف ٹکڑوں کے بیچ لٹکے ہوئے تھے۔

ورما کے قدموں میں جنبش ہوئی … اچانک وہ بھوانی سنگھ کی طرف مڑا اور گھٹی ہوئی آواز میں اپنا فیصلہ سنا دیا۔

’نہیں سرکار … مجھ سے یہ نہیں ہو گا۔ ‘

’کیوں ؟ بھوانی طیش میں مڑے۔  کیوں تیری کڑی ہے۔  تیری بیوی ہے … سالے پولیس میں نہیں رہنا ہے تو سنیاس کیوں نہیں لے لیتا …‘

’لیکن سر …، وہ اٹک اٹک کر بول رہا تھا … یہ  … یہ قانون کے دائرے میں نہیں آتا —  یہ قانون کے دائرے سے باہر ہے …‘

اس کا چہرہ سپاٹ ہو رہا تھا۔  اور برف کی طرح ٹھنڈا۔

’قانون —  بھوانی سنگھ ہونٹ بھینچ کر مڑے۔  ’بڑا قانون والا ہو گیا ہے آج ورما  … اس سے پہلے ایسے کتنے اقبالیہ بیان لے چکا ہے تو۔  میرے سامنے … میں گواہ ہوں۔ ‘

اس نے سر جھکا لیا۔

’قانون سکھاتا ہے تو —  بھوانی نے اس کے سینے پر ہاتھ رکھ کر ٹھیلا … اتنی سی وردی اور قانون سکھاتا ہے تو … بتاتا ہوں تجھے۔  آزادی کے دنگوں میں یہ ہی لوگ تھے۔  کٹی ہوئی ریلیں آتی تھیں ہندو شرنارتھیوں کی —  مردوں کے تو سر اتار لیتے تھے یہ سالے —  اور ہندو لڑکیوں کو یہ ملاّ داڑھی والے اپنے ناڑے کے اندر بند کر لیتے تھے …‘

’اس وقت یہی کچھ سب کے ساتھ ہو رہا تھا سر …‘ ورما، کی آواز لڑکھڑا گئی مگر وہ بول نہ سکا —  بھوانی کے دھکا دینے سے اس کے جسم کا توازن بگڑ گیا۔  وہ رتناگرکی طرف لڑھک پڑا۔  اچانک سنبھلا۔  اور دوسرے ہی لمحے سرعت کے ساتھ گھوما —  اور ہوا سے ہلتے دروازے سے باہر نکل گیا۔

ورما —  بھوانی زور لگا کر چیخے پھر بدبدائے … سالانا مرد کا بچہ۔

آسمان پر بدلیوں کا کھیل چلتا رہا۔  کتنے آنسو ٹپکے اور بادلوں کے کتنے ٹکڑے چکور ہو کر کندھے پر لاش اٹھائے سوگواروں میں بدل گئے۔  کس نے یہ منظر دیکھا … ہوا تیز چلتی رہی … آسمان کے منظر بدلتے رہے … بدلیاں گپ چپ نیلے آسمان اور خفیف اندھیرے میں چھپنے نکلنے کا کھیل کھیلتی رہیں۔

٭٭

انسپکٹر ورما اٹھ کر بیٹھ گیا ہے —  سانسیں تیز تیز چلنے لگی ہیں۔  جسم پسینے میں ڈوب گیا ہے۔

بھگوتی نے چونک کر پوچھا —

’کیا ہوا …؟‘

’کچھ نہیں۔  تم سوجاؤ …‘

سگریٹ سلگا کر وہ بالکونی پر چلا آیا ہے —  رات آہستہ آہستہ ڈوب رہی ہے۔

ایک ایک کر کے وہ سارے چہرے اوجھل ہوتے جا رہے ہیں۔  وہ بدل چکا ہے۔  اب وہ پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط ہو چکا ہے … اُسے بہادری کے تمغے ملے ہیں  …

اب نئے چہرے ہیں  —

اسے اپنی زمین تلاش کرنی ہے —

ایک نئی زمین —

ہوا تیز ہو گئی ہے —  اشوک نمانی، دوبے کتنی ہی چہرے اس کی نگاہوں میں جگہ گھیرتے ہیں۔

وہ اپنی تمام کمزوریوں کو جھٹک کر آگے بڑھنا چاہتا ہے۔  وقت کم ہے —  کل صبح سے ہی اُسے چاروں طرف اپنا جال بچھا دینا ہے —

ورما نے ایک بار پھر اپنی گھڑی دیکھی …

اُسے یقین تھا، دوبے اس وقت بھی اپنے کام میں لگا ہوا ہو گا —

٭٭٭

 

 

(9)

رات کے تین بج گئے تھے —

ابھے کمار دوبے کی آنکھوں میں ابھی بھی نیند کا نام و نشان نہیں تھا —  میز پر نقشہ اور کاغذات پھیلے ہوئے تھے —  اشوک نمانی بھی ڈنر کے بعد اُن کے گھر ہی آ گئے تھے —  وہ اپنے ساتھ کچھ اور کارسیوکوں کو بھی لے آئے تھے —  اور اس وقت یہ کارسیوک دوبے کے ساتھ لیپ ٹاپ میں الجھے ہوئے تھے —

’پریشانی یہ ہے کہ ہم ناکام کہاں ہوتے ہیں  …؟‘

’درست — ‘ اشوک نمانی نے صوفے پر خود کو گراتے ہوئے کہا۔

’اس لیے … کسی بھی مہم پر نکلتے ہوئے میں سب سے پہلے اپنی ناکامیوں کا سرا تلاش کرتا ہوں  …‘

دوبے کی آنکھیں کمپیوٹر میں الجھی ہوئی تھیں  —  ۱۹۹۲ء سیریل بم بلاسٹ —  ۱۹۹۸ء کوئمبٹورکا بم دھماکہ —  ۲۰۰۱ء کے بعد ایسے بم دھماکوں میں تیزی آئی تھی —  ناندیڑ بم دھماکہ ۲۰۰۶ئ، مالیگاؤں بم دھماکہ ۲۰۰۸ —  پہلی بار یہیں غلطیاں ہوئی تھیں  —  اور پہلی بار سنگھ کا نام سرخیوں میں آیا تھا —  لیپ ٹاپ کے اسکرین پر بجرنگ دل والوں کا ایک ٹریننگ کیمپ ابھرتا ہے۔  دوبے، نمانی کی طرف مڑتے ہیں۔

’تم بھی تو تھے ہمارے ساتھ نمانی۔  کیوں ؟‘

’کہاں تھا میں ؟‘

دوبے ہنسے —  ’ارے تمہیں تو نیند آنے لگی۔ ارے کوئی ہے —  نمانی کو چائے پلاؤ۔  دیکھو ہم میں سے کوئی بھی نہیں سویا نمانی۔  تمہیں نیند کیسے آنے لگی۔  تم تو جرنلسٹ ہو بھائی —  تم ہی سوجاؤ گے تو …‘

ایک کارسیوک سب کے لیے چائے بنا کر لے آیا تھا —  نمانی نے چائے کا گلاس اٹھا کر پوچھا —

’ہاں، اب بتائیے، آپ کچھ پوچھ رہے تھے …‘

’ارے وہ ناگور شیور کی بات کر رہا تھا — ‘

’وہاں  —  ہمارے ساتھ فوج کے کچھ سابق ادھیکاری بھی تھے۔ ‘

’یہ ادھیکاری ہی، کہیں نہ کہیں مورکھتا کر بیٹھتے ہیں۔ ‘

’مورکھتا نہیں  —  اسے میں بھاگیہ سے لیتا ہوں دوبے جی۔  کبھی کبھی لاکھوں گھٹناؤں میں ایک جگہ بھاگیہ ہمارا ساتھ نہیں دیتا — ‘

’اس لیے میں اس پکچھ میں ہوں کہ سب کچھ بھاگیہ پر نہ چھوڑا جائے۔  کیوں نمانی …‘

دوبے زور سے ہنسے —  غلطی کاریہ کرتا کرتے ہیں۔  اور دوش بھاگیہ کو —  ابھی حال میں ہی تھانے کے پیتھے لاجک لیب پر چھاپہ مارا گیا —  بم اور وسفوٹھک سامگریوں کے ساتھ سنگھ کے لوگ بھی پکڑے گئے۔  بھاگیہ تھا یہ ؟‘

’وہ تو …‘

’بارا بنکی، پن ویل، ازارا ضلع کو لہا پور، فیض آباد سے گجرات تک —  ہر جگہ واردات کے ثبوت چھوڑ آتے ہیں ہمارے کاریہ کرتا … سب بھاگیہ ہے نا؟ اسی لیے میں بھاگیہ کو نہیں مانتا۔  بھاگیہ پر بھروسہ نہیں کرتا۔  بھاگیہ کے ہی تو بھروسے رہے اب تک اور لٹیرے دیش  پرشاسن کرتے چلے گئے۔  اب بھاگیہ کے چکرویوہ کو توڑو نمانی — ‘

دوبے ٹھہرے —

’دشینت سے ملے تھے نا؟‘

’ہاں  — ‘

’اچھا بچہ ہے — ‘

میرا بھی یہی خیال ہے — ‘

’میں نے اسے کچھ ذمہ داریاں دی ہیں۔  تمہیں بتاؤں گا۔  ورما کو لگاتار ذمہ داریاں دینا سنکٹ کو نیوتا دینا ہے — ایک بار وواد میں آ چکا ہے۔ ‘

’ہاں  — ‘ نمانی غور سے دوبے کا چہرہ پڑھ رہے تھے۔

’اچھا ورما کو جانے دو ابھی —  اس سیمی کے کاریہ کرتا کا نام کیا تھا …؟‘

’سی۔  می۔  کا کاریہ کرتا؟‘

’ارے وہی —  جسے احمد آباد کے سیریل دھماکے کے لیے کھوجا جا رہا تھا —  گجرات پولیس کے ایک اعلیٰ ادھیکاری کا بیان تھا کہ یہ آدمی دلّی کے دنگوں کا بھی دوشی ہو سکتا ہے … مت بتاؤ۔  مل گیا …‘

دوبے نے لیپ ٹاپ پر وہ فہرست نکال لی تھی —

’عبد الرحیم —  یہ بھاگا ہوا ہے۔  لاپتہ —  ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں کام کرتا تھا اور سیمی سے بھی جڑا تھا — ‘

نمانی تن کر بیٹھ گئے —

’کیا کرنا ہے اس کا ؟‘

’کھوج نکالنا ہے — ‘ دوبے ایک ہی سانس میں چائے کا گلاس خالی کر گئے —

’لیکن کہاں ؟‘

دوبے نے اس کا جواب نہیں دیا۔  وہ کہیں دور خیالوں میں گم ہو گئے تھے۔

نوٹ:  میں ارشد پاشا —  میں ایک بار پھر اس کہانی کی طرف لوٹتا ہوں، جس نے اچانک ہمیں کسی سرد لاش میں تبدیل کر دیا تھا —  اور یقیناً اس حادثے کے بعد جو تاریخ لکھی جا رہی تھی، اس بھیانک تاریخ کے اوراق میں یہ سارے کردار اور واقعات بھی شامل تھے —  ورما، دوبے، نمانی —  لیکن تب مجھے اس حقیقت کا پتہ نہیں تھا کہ آنے والے کچھ ہی دنوں میں میرا اپنا گھر ایک بے رحم حادثے کا شکار ہونے والا ہے … لیکن اس سے قبل کہ ہم جاگتے، تب تک بہت دیر ہو چکی تھی —

٭٭٭

 

 

(10)

’وہ‘ وہ ہمیں اتنا جانتے ہیں۔

جتنا ہم بھی/

اپنے آپ کو نہیں جانتے — ‘

اور یہ اُس حادثہ کے تیسرے دن کی صبح تھی۔

لیکن یہ صبح اپنے ساتھ خوف اور دہشت کے گردو غبار بھی لے کر آئے گی، اس کا علم نہیں تھا —

صبح، ناشتہ لگاتے ہوئے رباب کی آواز کانپ رہی تھی —

’آج صبح سے میری بائیں آنکھ پھڑک رہی ہے — ‘ اُس نے پلٹ کر میری طرف دیکھا۔  اللہ ہر بلا سے محفوظ رکھے —

’اسامہ — ؟‘

’تھاپڑ بھائی سے بات ہوئی تھی۔  وہ سویا ہے۔  بھابھی آنندی بھی اس کا پورا خیال رکھ رہی ہیں  — ‘

صبح ہی صبح حنیف بھائی نے کال بیل بجا کر سہمے ہوئے لہجے میں کہا تھا —

’آج کچھ خطرہ ہے — ‘

’مگر کیوں  — ‘

’باہر نکل کر دیکھیے۔  چاروں طرف پولیس ہی پولیس — ‘

جلد ہی مجھے اس بات کی خبر مل گئی کہ بٹلہ ہاؤس کا یہ علاقہ اچھی خاصی پولیس چھاؤنی میں تبدیل کیا جاچکا ہے۔ ‘

ٹھیک ۹ بجے میرے دروازے پر زور زور سے دستک ہوئی —  دروازے پر راشد اور علوی کے ابّو تھے —  ان کے چہرے خوف سے سہمے ہوئے تھے۔

’حالات اچھے نہیں ہیں  — ‘ یہ راشد کے ابو تھے —

’اسامہ کہاں ہے؟‘

’وہ نہیں ہے …‘ کہتے کہتے میں ٹھہر گیا تھا۔  آپ لوگوں کو ایسا کیوں لگ رہا ہے کہ حالات خراب ہو چکے ہیں ‘

آپ باہر نکلیے تو خود پتہ چل جائے گا۔  یہ علوی کے ابو تھے —

دونوں صرف خبر دینے آئے تھے اور خبر دینے کے ساتھ ہی لوٹ گئے تھے۔

میرے پیچھے سہمی ہوئی رباب کھڑی تھی۔

’ان لوگوں نے کیا کہا؟‘

’ان لوگوں نے جو کچھ کہا، وہ تم نے بھی سنا — ‘

’یا اللہ — ‘ رباب کا چہرہ کانپ رہا تھا۔  ’کل تک وہ ڈر محسوس نہیں کر رہی تھی جو آج کر رہی ہو۔  آج صبح سے ہی ایسا لگ رہا ہے، جیسے کچھ ہونے والا ہے۔  لیکن کیا ہو سکتا ہے؟ بس یہی نہیں سوچ پا رہی ہوں۔ ‘

میں نے رباب کی آنکھوں میں غور سے دیکھا —  صرف گھبرانے سے مسئلے کا کوئی حل نہیں نکلے گا۔  خوف میں جیتے  ہوئے ایک پوری زندگی گذر گئی۔  ہم اس طرح جئے جیسے جیا  ہی نہیں جاتا —  ایک صحافی ہو کر بھی میں ارشد پاشا کمزور اور ناکارہ لوگوں کی زندگی گذارتا رہا۔  کبھی پیسے نہیں۔  بچے کی تعلیم سے لے کر کسی تقریب میں جانے تک چار پیسے سوچنے میں عمر کٹ گئی —  اس پر سے یہ اردو کا  صحافی ہونا، کبھی کبھی ایک پوری زندگی نقلی اور بھدّی لگتی ہے مجھے —  جو کچھ ہو رہا ہے اس پر صرف غصہ آتا ہے مجھے —  جیسے آگے بڑھ کر سارے سسٹم میں آگ لگا دوں۔  پھر خود پر ہنسی آتی ہے —  ارشد پاشا، تم اس سسٹم میں آگ لگانے کے لائق بھی نہیں بچے ہو۔ ‘‘

رباب نے میری آنکھوں کی نمی محسوس کر لی تھی۔  وہ اپنی جگہ سے اٹھی اور میرے قریب آ کر بیٹھ گئی —  ’سچ تو یہ ہے کہ سوچنے سے زیادہ ہم کچھ کر بھی نہیں سکتے۔  کیونکہ ہم کہیں نہ کہیں مجبور ہیں۔  یہ مجبوری ہم میں سے ہر آدمی کی ہے جو اس پورے سسٹم کا حصہ تو ہے —  تنقید تو کر سکتا ہے مگر آگے بڑھ کر بندوق نہیں اٹھا سکتا — ‘

میں نے چونک کر پلٹ کر رباب کو دیکھا۔  جس کی الجھی ہوئی آنکھوں میں اسامہ کو لے کر خوف کی جانی انجانی لہریں اٹھ رہی تھیں۔

میں نے نگاہیں پھیر لیں۔  ’عام آدمی جب تک مجبور ہوتا ہے، مجبور ہوتا ہے لیکن یہی عام آدمی ایک دن اپنی آئیڈیا لوجی کی سطح پر خطرناک بھی ہو جاتا ہے اور یہی آئیڈیا لوجی ہتیائیں بھی کراتی ہیں۔  اندرا گاندھی کا کیا ہوا؟ اور راجیو گاندھی کا؟

میری آنکھیں کچھ اور سوچ رہی تھیں  —  ایک دن برسوں سے بھڑکا ہوا عام آدمی اٹھ کھڑا ہوتا ہے لیکن ایسے کسی عام آدمی کی وکالت نہیں کی جا سکتی۔  رباب، کل رات میں دیر تک اپنے ہی فلسفوں سے الجھتا رہا۔  کیا کہیں ایک مسلمان ہونے کا احساس مجھے تنگ نظر اور کمیونل تو نہیں بنا رہا ہے؟ یہاں سے پاکستان تک کچھ ایسی وارداتیں بھی ہوتی ہیں جہاں ایک عام کٹّر وادی کو ہم ہیرو بنا دیتے ہیں۔  بش پر جوتے پھینکنے والا راتوں رات ایک مذہبی ناٹک  بن جاتا ہے —  مذہبی ہیرو —  مجھے اس مذہبی ہیرو سے نفرت محسوس ہوتی ہے۔ ‘

رباب نے میری طرف دیکھا۔  اس بار وہ خاموش رہی۔  شاید اس کے لفظ راستہ بھول گئے تھے۔  ایک ماں سامنے آ گئی تھی۔  اور یہاں کا ماحول اُس کے سامنے تھا۔

اس پر آشوب فضا میں ہماری حیثیت کسی جوکر سے زیادہ نہیں تھی۔

جنگ کا بگل بج چکا تھا —

٭٭

یہ اُس ڈراؤنی رات کے بعد کی صبح تھی۔  لیکن اب جو حقیقت سامنے آ رہی تھی، اسے تحریر کرتے ہوئے اس وقت بھی میرے ہاتھ کانپ رہے ہیں  —  شاید ایک مہذب اور جمہوری قدروں کے حامل ملک میں میرے لیے یہ سوچنا بھی دشوار تھا کہ زندگی اچانک بغیر کچھ کیے ہوئے، ایسے سنگین موڑ لے سکتی ہے۔  اور حقیقت یہ تھی کہ ہماری زندگی اچانک نئے موڑ لے چکی تھی —

٭٭٭

 

 

 (۲۰۰۸ء)

ڈراؤنی رات کے بعد

 

 

 (1)

’’ وہ آ چکے ہیں /

وہ اپنی پوری تیاریوں کے ساتھ آئے ہیں ‘‘

صبح کے گیارہ بج گئے تھے۔

بٹلہ ہاؤس اور آس پاس کے علاقے اچھی خاصی پولیس چھاؤنی میں تبدیل ہو چکے تھے۔  چاروں طرف خوف اور دہشت کا ماحول تھا۔  صبح سے ہی سڑکوں پر گھومتے ہوئے لوگوں میں کمی آ گئی تھی۔  عام طور پر اس پورے علاقے میں زبردست چہل پہل ہوتی ہے۔  چلنے تک کی جگہ نہیں ہوتی۔  فٹ پاتھ پر اپنی اپنی دکان لگائے ہوئے دکانداروں کے شور، رکشہ والے، ٹھیلہ والے، چھوٹی بڑی کاریں سائیکل سے اسکوٹر تک اپنے اپنے گھروں سے نکلتے ہوئے سر پر ٹوپی لگائے، مٹر گشتی کرنے والے نوجوانوں کا قافلہ، یہ علاقہ دہلی کے عام پاش علاقوں سے بالکل الگ تھا۔  کیونکہ یہاں سیر سپاٹوں میں بھی فکری آزادی کا اُفق روشن نظر آتا تھا۔  لیکن آج یہ پوری دنیا بدل گئی تھی۔  بہت کم نوجوان تھے جو باہر آ کر پولیس کی ان خاموش کارروائیوں کو دیکھ رہے تھے اور یہ سمجھنے سے لاچار تھے کہ ان پولیس والوں کا اگلا قدم کیا ہو سکتا ہے۔  اِدھر میڈیا کو بھی معاملے کے سنگین ہونے کی خبر مل گئی تھی۔

دیکھتے ہی دیکھتے مختلف چینلس کی گاڑیوں کے ہارن بجنے لگے۔  الگ الگ چینلوں کی ٹیمیں گاڑیوں سے نکل کر بریکنگ نیوز کے لیے پکڑ پکڑ کر لوگوں سے انٹرویو کرنے لگیں  —  ٹی وی چینلوں پر کچھ دن پہلے ہوئے دہلی دھماکوں، بنگلور اور احمد آباد کے سیریل دھماکوں کا بھوت ایک بار پھر سامنے آ گیا تھا۔  ملک کی خفیہ تنظیمیں سیمی اور انڈین مجاہدین کے ناموں پر زور شور سے اپنی رائے دے رہی تھی —  ان غیر قانونی تنظیموں کو لے کر چینلس چیخ رہے تھے۔  لیکن ابھی تک جامعہ علاقے میں پولیس کی طرف سے ہونے والی کوئی بڑی واردات سامنے نہیں آئی تھی۔  ہاں، یہ بات ضرور سامنے آ گئی تھی کہ دلّی پولیس کو دلّی سیریل بم دھماکوں کو لے کر کچھ خفیہ جانکاری ملی ہے۔  اب تک عبد الرحیم کا نام سامنے آ چکا تھا۔  اِدھر ایک گھنٹے کے ہنگامی واردات کے بعد پولیس نے اس علاقے کے کچھ مسلم نوجوانوں کو گرفتار کر لیا تھا۔

کیمرے کے فلیش چمک رہے تھے۔  الگ الگ نیوز چینلس کے اینکر بریکنگ نیوز کے لیے پورے معاملے کو زیادہ سے زیادہ سنسنی خیز بنا کر پیش کر رہے تھے۔  میڈیا ایک بات بار بار اُچھال رہی تھی کہ سیمی اور انڈین مجاہدین نے بھولے بھالے مسلم نوجوانوں کو اپنا شکار بنا لیا ہے۔

لیکن ابھی زلزلے کا ایک جھٹکا باقی تھا اور یہ جھٹکا اُس سیاہ رات سے تعلق رکھتا تھا جس رات ٹہلتے ہوئے راشد کی ایک پولیس والے سے معمولی کہا سنی ہو گئی تھی۔  لیکن شاید تب اس نے بھی نہیں سوچا ہو گا کہ یہ معاملہ اس قدر بھی خوفناک ہو سکتا ہے۔

ان سارے معاملوں کے پیچھے اب انسپکٹر ورما کا نام سرخیوں میں آ گیا تھا۔

٭٭

گرفتار کئے گئے نوجوانوں نے اپنا چہرہ چھپا رکھا تھا۔  پولیس کے مطابق اب تک اسٹوڈنٹ اسلامک مومنٹ آف انڈیا یعنی سیمی کے تیرہ لوگوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔  گرفتار کئے جانے والے نوجوانوں کی پولیس کو کافی دنوں سے تلاش تھی۔  جامعہ اور آس پاس کے علاقوں میں خوف و ہراس پھیل گیا تھا۔  علاقے کے مسلمانوں سے ہمدردی رکھنے والے لیڈران بھی سامنے آ گئے تھے جو ان شرمناک حرکتوں کو پولیس اور آر ایس ایس کی ملی بھگت بتا رہے تھے۔  ایسے ہی ایک لیڈر نے یہ بھی انکشاف کیا تھا کہ دو برس قبل ایک دھماکہ کے سلسلے میں پولیس نے کچھ ایسے لوگوں گرفتار کیا تھا جن کے چہروں پر داڑھیاں تھیں اور سر پر ٹوپی —  لیکن یہ لوگ بجرنگ دل کے کارکن تھے۔  سارا دن پولیس مختلف مقامات پر چھاپے مارتی رہی اور تیرہ لوگوں کے بعد بھی کچھ ایک گرفتاریوں کا معاملہ سامنے آتا رہا۔  لیکن اُس دن اور کوئی خاص بات نہیں ہوئی۔

خاص بات یہ تھی کہ پولیس نے اچانک پورے علاقے پر سوالیہ نشان لگا دیا تھا۔  مسلمان اپنے گھروں میں سہمے ہوئے تھے۔  اخبارات چیخ رہے تھے۔  میڈیا آگ اُگل رہی تھی۔  نوجوان اپنے اپنے گھروں میں دبکے ہوئے تھے۔  شام تک میڈیا والے لوٹ گئے۔  زیادہ تر لوگوں نے دکانیں بند رکھیں۔  انسپکٹر ورما کے مطابق آپریشن ابھی پورا نہیں ہوا ہے۔  آنے والے کچھ دنوں میں کچھ اور گرفتاریاں بھی سامنے آ سکتی ہیں۔

٭٭

میں  … ارشد پاشا … میں اس علاقے میں ہونے والی ساری واردات کا گواہ رہا ہوں  —  اب اپنے بارے میں کچھ باتوں کی وضاحت بھی ضروری ہے۔  جیسے یہ، کہ قلم کی ذمہ داری اٹھاتے ہوئے میں نے اپنے منصب کو پہچانا تھا۔  اور یہ تسلیم کر لیا تھا کہ قلم کی ذمہ داری کو محسوس کر نے والا ہندو یا مسلمان نہیں ہوتا۔  ہندو یا مسلمان ہو کر وہ اپنی ذمہ داریوں کو ادا کر ہی نہیں سکتا۔  پھر چاہے ادب کا میدان ہو یا صحافت، یہاں بس عام انسان ہو کر وہی لکھنا ہوتا ہے جو سچ ہوتا ہے —  لیکن مجھے یہ بھی تسلیم کرنے دیجئے کہ ٹی وی پر مسلسل آنے والی ان خبروں سے گزرتا ہوا ارشد پاشا کوئی عام انسان نہیں رہ گیا تھا۔  یہاں وہ بس ایک ٹچّا سا مسلمان تھا۔  میڈیا کے شور اور ہنگامے اس طرح کے تھے جیسے کوئی بھی مسلمان اس دہشت گردی سے الگ نہیں ہے۔  جیسے ہر مسلمان بچہ مدرسے میں پڑھتا ہے۔  مدرسے آتنک کی فیکٹریاں ہیں۔  جہاں اسلحے اور بم بنائے جاتے ہیں۔  دنیا بھر کے مسلمان انہیں بم اور اسلحوں سے کھیل رہے ہیں۔

رباب خوفزدہ تھی —

ہم دونوں آس پاس ہی بیٹھے تھے۔  لیکن ہم دونوں میں سے کوئی بھی ایک دوسرے کی جانب نہیں دیکھ رہا تھا۔

اس درمیان تھاپڑ کا فون آ گیا تھا۔  اس نے یہ بتانے کے لیے فون کیا تھا کہ اُسامہ ٹھیک ہے۔  وہ بہت حد تک ڈر گیا ہے لیکن گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہے۔  تھاپڑ نے یہ بھی بتایا کہ آفس سے نکل کر وہ سیدھے اس کے پاس آنے کی کوشش کرے گا۔

رات آٹھ بجے تک زیادہ تر پولیس والے جا چکے تھے لیکن سارا علاقہ ابھی بھی دہشت اور خوف کی سیاہ بدلیوں میں قید تھا۔

آٹھ بجے تک تھاپڑ آ گیا —  اس کے چہرے پر غصے اور ناراضگی کو صاف طور پر محسوس کیا جا سکتا تھا۔

اُس نے سسٹم کو ایک سڑی ہوئی گالی دی —  ’تیری ماں کی —  کیا لگتا ہے اُنہیں ؟ اس پورے علاقے کے آپریشن کی وجہ کیا تھی؟ کیونکہ یہ علاقہ مسلمانوں کا ہے؟ یہاں کی اکثریت مسلمانوں کی ہے؟ اور وہ ساری دنیا میں یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ ہندوستان کا ہر مسلمان آتنک واد ی ہے؟ جس محلے میں مسلمان زیادہ رہتے ہیں وہاں صرف کٹرواد روشن ہے؟ اور یہ کٹرواد ملک کی سالمیت اور جمہوری قدروں کو توڑتی رہتی ہے؟ تم نہیں سمجھو گے ارشد پاشا —  در اصل یہ ہندو سنگٹھنوں اور مہا سبھاؤں کی وہ آگ ہے جس نے اب سارے دیش کو جلانا اور سلگانا شروع کیا ہے۔  سیمی یا انڈین مجاہدین کا آسانی سے نام لینا ان کی سمجھ میں تو آتا ہے لیکن ایسے ہزاروں ہندو اُگروادی سنگٹھن ہیں، ان کا نام ان کی زبان پر کیوں نہیں آتا — ؟‘

رباب چائے لے آئی تھی۔  اس نے بات کو بدلتے ہوئے یہ کہا —

’بھائی صاحب —  آج تو سارا دن یہاں کے آسمان پر گدھ ناچتے رہے۔ ‘

تھاپڑ نے روکا —  ’آپ کو کیا لگتا ہے؟ گدھ واپس چلے گئے ہیں  — ؟‘‘

’نہیں  — ‘ آواز کمزور تھی —  مجھے بار بار لگ رہا ہے یہ گدھ لوٹ کر آئیں گے۔  آنے والی بڑی کارروائی کو انجام دینے کے لیے۔  پولیس کی طرف سے ہونے والی یہ محض ایک چھوٹی سی کارروائی تھی۔ ‘

تھاپڑ نے چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے کہا —  ’شاید میں بھی کچھ ایسا ہی محسوس کر رہا ہوں۔  بڑے دھماکے سے پہلے کا ایک چھوٹا دھماکہ —  بڑی کارروائی سے پہلے کی ایک چھوٹی کارروائی —  لیکن سمجھ میں نہیں آتا۔  ہندوستان کا اکثریتی طبقہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی خاموش کیوں ہے۔  کیا وہ بھی میڈیا کی طرح عام مسلمانوں کو اس کا قصور وار مانتا ہے؟ ملک میں ہونے والی کسی بھی بڑی کارروائی کے پیچھے مسلمان نہیں تھے۔  گاندھی جی کو گوڈ سے نے مارا —  اندرا گاندھی کی ہتیا بھی  کسی مسلمان نہیں کی تھی۔  اور نہ راجیو گاندھی کی ہتیا۔  دیش کے سب سے بڑے آتنک وادی حملہ یعنی بابری مسجد کو ڈھانے کے لیے بھی مٹھی بھر آر ایس ایس اور بجرنگ دل کے لوگ ہی آئے تھے۔  یہ حکومت عالمی سیاست کا حصہ کیوں بنتی جا رہی ہے — ؟ میں دعوے کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ ہندوستان کا عام مسلمان بھی پاکستان سے نفرت کرتا ہے۔  جبکہ ایک پورے ملک سے نفرت کرنے کا کوئی جواز نہیں بنتا —  لیکن یہ نفرت مختلف طریقوں سے پچھلے ساٹھ برسوں میں اس ملک کے مسلمانوں کے اندر بھری گئی ہے کہ خود کو سیکولر اُسی وقت کہلوانا جب پاکستان کو گالیاں دو گے۔ ‘

تھاپڑ نے پھر ایک گندی  سی گالی بکی —

اب وہ میری طرف مڑا —  ’کل میں دیر تک اُسامہ کے ساتھ رہا —  آنندی بھی رہی —  شاید اسے پڑھنا چاہتا تھا یا اسے تم یوں بھی کہہ سکتے کہ اُس کے جیسے کسی بچے کو قریب سے پڑھنے اور جاننے کی میری منشا تھی۔  ایک مسلم نوجوان بچے کو ہماری اندر سے  پڑھنے کی منشا تھی —  لیکن افسوس —  وہ ہندستان کی مین اسٹریم سے کٹا ہوا بچہ نظر آیا مجھے —  اندر سے لہولہان ایک خوفزدہ بچہ جس کی دہشت اور خوف کے سائے میں پرورش ہوئی ہے۔  میں نے اور آنندی نے تم نے کوشش کی کہ اُسامہ کو بہلایا جائے اُسے کسی کھیل میں شریک کیا جائے۔  لیکن یہ ممکن نہیں ہو سکا۔ ‘

رباب سہمی ہوئی میری طرف دیکھ رہی تھی۔  پلٹ کر اُس نے تھاپڑ کی طرف دیکھا —  ’وہ ٹھیک تو ہے نا …؟‘

تھاپڑ نے مسکرانے کی کوشش کی —  ’وہ بالکل ٹھیک ہے اور محفوظ ہے —  میں ایک عام بات کہہ رہا تھا۔  وہ بچہ عام اکثریتی بچوں کی طرح کیوں نہیں ہے — ؟  اور اس کا جواب تھا میرے پاس۔  میڈیا اور اخباروں کے ناجائز شور نے اس بچے کو دماغی طور پر کمزور کر دیا ہے۔  ہر روز جب یہ مسلمان بچے ٹی وی اور خبروں میں مسلمانوں سے متعلق دہشت گردی اور خون خرابہ کی خبر دیکھیں گے تو ان کا کیا ہو گا — ؟ ایک دن وہ اسامہ کی طرح خاموش ہو جائیں گے۔ ‘

اُس رات تھاپڑ دیر تک اس موضوع پر گفتگو کرتا رہا۔  لیکن جیسے اب میں کچھ بھی نہیں سن رہا تھا۔  آنکھیں ہوا میں معلق تھیں  —  جسم سناٹے میں ڈوبا تھا —  اور دماغ میں چلتی ہوئی میزائلیں شور مچا رہی تھیں۔

٭٭

اُس دن کا ہیرو انسپکٹر ورما تھا۔  نیوز چینلس نے اپنے اپنے بریکنگ نیوز میں ورما کے کارناموں کو سامنے رکھا تھا۔  ورما کے مطابق ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جنہیں گرفتار کرنا ضروری ہے۔  اور اسی کے ساتھ اعظم گڑھ کے تار دہشت گردی اور دلّی بم دھماکوں سے جوڑ دیئے گئے تھے۔

گرفتار کیے جانے والے سارے نوجوان مسلمان تھے۔  یہ وہ نوجوان تھے جو اپنے اپنے مستقبل کی جنگ لڑ رہے تھے۔  ان میں ایک 22 سالہ ذاکر تھا جو ہیومن رائٹس پر کئی برسوں سے ریسرچ کر رہا تھا۔  انجینئر تک کالج میں پڑھنے والا طاہر تھا جس پر احمد آباد، اجودھیا، گورکھپور میں ہونے والے بم دھماکوں کا الزام لگایا گیا تھا۔  اس کے بارے میں پولیس نے یہ رپورٹ دی تھی کہ وہ کئی دنوں تک اعظم گڑھ کے ایک گھر میں چھپا ہوا تھا —  ان میں سے جامعہ میں پڑھنے والا ایک طالب علم ندیم بھی تھا۔  پولیس اب کچھ اور مسلم نوجوانوں کو تلاش کر رہی تھی۔  پولیس  کا یہ منشا تو سامنے آ ہی چکا تھا کہ چھاپے کی یہ کارروائیاں ابھی ختم نہیں ہوئی ہیں  —  آنے والے دنوں میں ابھی بھی اس علاقے پر خطرہ منڈلا رہا ہے۔

لیکن یہ خطرہ اتنی جلد سامنے آ جائے گا۔  اس کی امید نہیں تھی۔

٭٭

دوسرے دن صبح چھ بچے ہی دلّی پولیس  حرکت میں آ گئی۔  سب سے پہلے علوی کو اُس کے گھر سے اٹھا لیا گیا۔

ٹھیک سات بجے میرے گھر کے دروازے کی کال بیل چیخ اٹھی۔

’میں  … ارشد پاشا … شاید میں نے خود کو بد سے بدتر حالات کے لیے اب ذہنی طور پر تیار کر لیا تھا —  لیکن علوی کی گرفتاری کی خبر سن کر رباب کے ہوش اڑ گئے تھے —

دروازہ کھولا تو سامنے دو پولیس والے کھڑے تھے۔  ان کے تیور اچھے نہیں تھے۔  پہلا پولیس والا طنز سے مسکرایا۔

مجھے دھکّا دیتے ہوئے دونوں پولیس والے اندر کمرے میں چلے آئے تھے۔  رباب دروازے کے پاس سہمی ہوئی کھڑی تھی۔  ایک پولیس والے نے اِدھر اُدھر دیکھا پھر مسکراتا ہوا ہنسا —

’بم یہیں تیار گئے جاتے ہیں ؟‘‘

’’یہاں کوئی بم تیار نہیں ہوتا۔ ‘‘

’بکو مت —  ہمکیں ساری اطلاع مل چکی ہے۔ ‘ دوسرا پولیس والا انتہائی بدتمیزی سے بولا —  ’سالے بم بناتے ہو۔  بچوں کو بھی بم بنانا سکھاتے ہو۔ ‘

اس بار  رباب چیخی تھی —  ’یہاں کوئی بم نہیں بنتا۔  یہاں سیدھے سادھے شریف لوگ رہتے ہیں۔ ‘

پہلے نے بے حیائی سے قہقہہ لگایا —  ’شریف لوگ — ‘

میں زور سے چیخا —  ’تمہارے کہنے سے شریف لوگ دہشت گرد نہیں ہو جائیں گے۔ ‘

’’دہشت گرد ؟‘‘

پہلے نے دوسرے کی طرف دیکھا — ’اب آ گئے نا اپنی اوقات پر —  تم سب سالے آتنک وادی ہو۔  ہندوستان میں رہ کر پاکستان بنانے کے خواب دیکھتے ہو — ‘ وہ زور سے چیخا —  ’تیرا آتنک وادی بیٹا کہاں ہے رے؟‘

 رباب اس سے کہیں زیادہ زور سے چیخی  —  ’میرا بیٹا کوئی آتنک وادی نہیں ہے — ‘

نام … ؟ پہلا زور سے ہنسا —  تیر بیٹے کا نام کیا ہے؟

’اسامہ — ‘

’اسامہ بن لادین … باپ رے۔  اور یہ کہتی ہے اسامہ آتنک وادی نہیں ہے — ‘

اب وہ دونوں پولیس والے صوفے پر بیٹھ گئے تھے۔  پہلا غور سے میری طرف دیکھ رہا تھا —  ’سنو، ہم عورتوں سے نہیں الجھتے۔  اپنی عورت کو اندر بھیج دو۔  اور جو سوال کروں اس کا صحیح صحیح جواب دو۔  زیادہ ہوشیاری نہیں چلے گی —

میں نے رباب کو اشارہ کیا۔  سہمی ہوئی رباب کمرے میں لوٹ گئی تھی۔

پولیس والا اب غور سے میری طرف دیکھ رہا تھا۔

’تمہارا بچہ کیا پڑھتا ہے … وہ جو تم لوگوں کی کتاب ہے …؟‘

’قرآن شریف — ‘

’ہاں  — ‘

’تم نے اپنے بیٹے کو پڑھوائی ہے؟‘

’ہاں  — ‘

’یہ وہی کتاب ہے نا جو اُسامہ بن لادن بھی پڑھتا ہے؟‘

’ہاں  — ‘ کہہ کر میں کچھ آگے بولنا چاہتا تھا۔  مگر اُس نے ہاتھ کے اشارے سے روک دیا۔

’تو! اپنے بیٹے کو وہی پڑھواتے ہو جو لادن پڑھتا ہے‘ کہہ کر وہ زور سے ہنسا —

دوسرے پولیس والے نے چٹکی لی —  ’اور وہ حدیث ‘ حدیث ہی کہتے ہیں نا …؟ وہ بھی پڑھوائی — ؟‘

’ہاں  — ‘ میرا چہرہ لال سرخ ہو رہا تھا۔

پولیس والا غصے سے ہنسا —  ’تو وہ سب پڑھوایا جو لادن پڑھتا ہے۔ ‘

میرے  صبر کا پارہ جواب دے چکا تھا۔  میں زور سے چیخا —  ’وہ نماز بھی پڑھتا ہے جو لادن پڑھتا ہے۔  وہ سر پر ٹوپی بھی رکھتا ہے جو لادن رکھتا ہے۔  وہ کرتا پائجامہ پہنتا ہے۔  جو لادن پہنتا ہے۔  اور ابھی سے اس نے داڑھی رکھنا بھی شروع کیا ہے جیسے لادن رکھتا ہے۔ ‘

پہلا پولیس والا زور سے چیخا —  ’سالے اپنے اپنے گھر میں لادن پیدا کر رہے ہو۔ ‘ اس نے ایک گندی سی گالی بکی۔

دوسرا غصے میں دہاڑا —  ’تیرا بیٹا کہاں ہے؟‘

’نہیں ہے — ‘

’کہاں گیا ہے؟‘

’اپنے چچا کے گھر — ‘

’بھگا دیا —  تم سمجھتے ہو بھگوڑا پکڑا ہی نہیں جائے گا۔  تیرے سارے گھر کی تلاشی ہو گی۔  تیرے بچے کے کمپیوٹر اور لیپ ٹاپ کی بھی تلاشی ہو گی —

’کیوں  — ؟‘

’دیکھنا یہ ہے کہ سیمی اور انڈین مجاہدین کے لوگوں سے اُس کا کیا رشتہ ہے؟‘

میں ایک بار پھر غصے میں اٹھ کھڑا ہوا تھا —  ’کیوں ہمارے بچوں کو آتنک  وادی ثابت کرنا چاہتے ہو آپ لوگ  — ؟‘

پہلا پولیس والا اسامہ کے کمرے کی تلاشی لے رہا تھا —  سہمی ہوئی رباب یہ سارا تماشہ دیکھ رہی تھی۔

مجھے ایسا لگ رہا تھا جیسے میں کسی غیر ملک میں ہوں۔  میری آواز میری اپنی آواز نہیں ہے۔  میرے جسم پر پہرا ہے۔  روح پر بندش ہے —  سانسیں گھٹتی ہوئی محسوس ہو رہی تھیں  —  ذہن میں اندھیرا ہی اندھیرا سمٹ آیا تھا۔  پاؤں بے جان اور جسم سے  جیسے حرکت بھول گیا تھا —  میری سانسیں ڈوب رہی تھیں  —  ایک گھنٹے کی توڑ پھوڑ کی کاروائی کے بعد پولیس والے واپس لوٹ گئے تھے۔  گھر کا سارا سامان بکھرا ہوا تھا۔  میز کی درازیں کھلی ہوئی تھیں۔  سامان زمین پر بکھرے ہوئے تھے میں اور رباب سہمے ہوئے ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔  میں نے تھاپڑ کو فون لگایا اور لرزتی آواز میں پولیس کی ظالمانہ کارروائی کی اطلاع دی —

تھاپڑ نے کہا —  ’میں آ رہا ہوں اور ہم آج ہی صوفیہ سے ملیں گے۔  اب ہمیں مدد کی ضرورت ہے۔ ‘

لیکن مجھے اس بات کی اطلاع نہیں تھی کہ اسی درمیان بٹلہ ہاؤس میں ایک انکاؤنٹر ہو چکا ہے —  اور اس انکاؤنٹر میں ورما کو بھی گولی لگی ہے۔  ساتھ ہی بم دھماکوں میں ملوث  دو ماسٹر مائنڈ کے مارے جانے کی بات بھی سامنے آ چکی ہے۔

نیوز چینلس بار بار اب تک کی سب سے بڑی بریکنگ نیوز کو فلیش کر رہے تھے۔

’مارے جانے والوں میں دو نام کی پہچان ہو چکی ہے۔  ایک راشد اور دوسرا اس کا دوست منیر — ‘

٭٭

 

(2)

یہ اب تک کا سب سے بڑا انکاؤنٹر تھا۔  یہ انکاؤنٹر چوتھی منزل پر بنے ایک فلیٹ میں ہوا تھا اس فلور سے اوپر صرف ایک چھت تھی۔  گراؤنڈ فلور پر ایک ہی زینہ تھا —  جو چھت تک چلا گیا تھا۔  پولیس کے جوانوں نے چاروں طرف سے اس فلیٹ کو گھیر رکھا تھا۔  چھوٹے سے بڑے آفیسر اور میڈیا کے لوگ بھی سڑکوں پر جمع تھے۔  اندھا دھند گولیوں کی آواز نے اچانک سب کو انجانے خوف میں تبدیل کر کر دیا تھا۔  ورما کے ساتھ راشد کے فلیٹ تک جانے والوں میں ایک دُشینت تھا اور دوسرا نوین —  کچھ ہی دیر کے بعد سیڑھیوں سے باہر آتے ورما پر کیمرے کے فلیش چمکنے لگے تھے۔  نیچے  آنے، گاڑی میں بیٹھنے اور اسپتال جانے تک ورما زندہ تھا۔  لیکن اسپتال جانے کے کچھ ہی دیر کے بعد اُن کی موت کا سرکاری اعلان کیا جا چکا تھا۔  پولیس اس بات کا بھی اشارہ کر رہی تھی کہ ابھی دو ملزم فرار ہیں۔  بہت ممکن ہے کہ وہ چوتھی منزل سے کود کر فرار ہو گئے ہوں۔

نیوز چینلس چیخ رہے تھے۔  بریکنگ نیوز بار بار اُس تصویر کو فلیش کر رہی تھی جہاں دو ساتھیوں کی معرفت زخمی حالت میں انسپکٹر ورما چوتھی منزل سے نیچے آئے تھے —  علاقے کے مسلم رہنما جاگ چکے تھے۔  سیاست حرکت میں آ گئی تھی۔  بی جے پی اور کانگریسی رہنماؤں کے بیان آ رہے تھے۔  سارے علاقے میں خوف و دہشت کی حکومت قائم ہو چکی تھی۔  علاقے کے نیٹ کنکشنس کاٹ دیئے گئے تھے۔  ایک چھوٹی سی خبر اور بھی آئی تھی —  پزّا  ڈلیوری کرنے والوں نے یہ اعلان کیا تھا کہ ہم جامعہ کے علاقہ میں پزا کی ڈلیوری نہیں دیں گے۔

٭٭

اور اس وقت میں  … میں ارشد پاشا، تھاپڑ کے ساتھ راجیہ سبھا کی ممبر صوفیہ احمد کے کمرے میں تھا۔  کمرے سے باہر ہزاروں لوگ جمع تھے۔  صوفیہ کے کمرے میں بھی اس وقت کئی مسلمان جمع تھے۔  اور اس انکاؤنٹر کو مسلمانوں کے خلاف ہونے والی ایک بڑی سازش بتا رہے تھے۔

میں مدّتوں بعد صوفیہ سے مل رہا تھا —  اُس کا چہرہ ابھی بھی پرکشش تھا۔  کمرے میں آنے تک میرے قدم شل ہو چکے تھے۔  میں غور سے صوفیہ کو دیکھ رہا تھا —  شاید وہ بھی نظر اٹھانے میں دشواری محسوس کر رہی تھی۔  تھاپڑ نے صوفیہ کواُس رات ہونے والی کارروائی کی پوری رپورٹ دے دی تھی۔

صوفیہ گہری سوچ میں ڈوبی تھی۔  ایک لمحے کو نظر اٹھا کر اُس نے میری طرف دیکھا —  پھر کرسی پر بیٹھے ہوئے لوگوں کی طرف —

’یہ آپ بھی جانتے ہیں اور میں بھی جانتی ہوں کہ یہ مسلمانوں کے خلاف ہونے والی ایک سازش ہے۔  مگر یہ بھی دیکھیے کہ سازش کے پیچھے کون سی حکومت ہے۔  یہ وہی حکومت ہے جس پر مسلمان آنکھیں بند کر کے بھروسہ کرتے ہیں۔  کیا حکومت چاہتی تو اس کارروائی کو روکا نہیں جا سکتا تھا؟ کیا حکومت کی شہ کے بغیر ہی اتنی بڑی کارروائی ہو گئی؟سوال ہی نہیں  —  اب کانگریس والے بیان دیتے چل رہے  ہیں۔  ابھی کچھ دنوں میں دیکھئے اور بھی ڈرامے سامنے آئیں گے — ‘

میری آواز لرز رہی تھی —  ’میرا بیٹا بھی کہیں نہ کہیں اس سیاسی ڈرامے کا ایک مہرہ بن چکا ہے۔  اسے بچا لیجئے — ‘

صوفیہ نے نظر جھکا لی تھی —  ’ہم اسے بچانے کی پوری کوشش کریں گے۔  لیکن اگر پولیس اُسے عدالت میں پیش کرنا چاہتی ہے تو آپ زیادہ دن تک اسے چھپا نہیں سکتے۔  اُسے سامنے آنے دیجئے۔  ایسی ہر جگہ میں اس کے ساتھ رہوں گی۔  معاملہ بگڑ گیا ہے۔  صورتحال نازک ہے۔  حکومت بھی جانتی ہے کہ مسلمانوں کو ناراض کر کے  وہ اپنا ایک بڑا ووٹ بنک ختم کر دے گی۔  اس لیے، امید رکھئے ہم خاموش نہیں بیٹھیں گے۔  کچھ نہ کچھ ضرور کریں گے۔ ‘

اس بار میری طرف دیکھتے ہوئے اس کی نظروں میں وہی مسکراہٹ لوٹ آئی —  ’بیٹے میاں کو کچھ نہیں ہو گا۔  مجھ پر بھروسہ رکھئے۔ ‘

باہر نکلتے ہوئے صوفیہ کی آواز بار بار میری کانوں میں گونج رہی تھی —  مجھ پر بھروسہ رکھئے —  لیکن میری کیفیت یہ تھی کہ میرا بھروسہ اب تمام لوگوں سے اٹھ گیا تھا۔

تھاپڑ نے بتایا کہ اُسامہ نے صبح سے کچھ کھایا نہیں ہے۔  وہ صرف روئے جا رہا ہے۔  گھنٹوں اس نے اپنا کمرہ بند رکھا —  بڑی مشکل سے اس نے دروازے کھولا۔  تھاپڑ نے یہ بھی بتایا کہ ان واقعات نے اُسامہ کو بری طرح توڑ دیا ہے۔

’کیا ہم اس سے مل سکتے ہیں ؟‘

’ابھی نہیں ملو تو اچھا ہے —  معاملہ ٹھنڈا ہو جائے تو میں اُسے لے کر خود ہی تمہارے یہاں آ جاؤں گا۔ ‘

تھاپڑ تسلیاں دے کر لوٹ گیا تھا —

واقعات تیزی سے نئی کروٹ لے رہے تھے —

میں  —  ارشد پاشا —  میں اندر ہی اندر ایک ایسی آگ سے گزر رہا تھا، جس کا بیان مشکل ہے —  مگر اس انکاؤنٹر کے بعد جو بیانات اور نئی نئی باتیں سامنے آ رہی تھیں، اُس نے مجھے مشہور ناول نگار سروانٹس کے مشہور زمانہ کردار ڈان کوئٹکزوٹ کی یاد دلا دی تھی …

یہاں سر کس کے جوکر جمع تھے —

اور پولیس کے ہر دوسرے بیان میں ’سوچھید‘ آسانی سے تلاش کیے جا سکتے تھے —  میری خاموش تنہائیاں مسلسل ان واقعات کے تجزیہ سے گزر رہی تھیں۔  اس وقت جہاں پورا ملک اس انکاؤنٹر کو لے کر طرح طرح کی باتیں کر رہا تھا، وہاں شاید یہ اصلیت ابھی بھی کم لوگوں کو معلوم تھی کہ اس انکاؤنٹر سے کچھ روز قبل رات کو بٹلہ ہاؤس کی پلیا چوکی میں کون سا واقعہ پیش آیا تھا —  اسامہ کے علاوہ پولیس تینوں بچوں کو اپنا شکار بنا چکی تھی —  علوی پولیس کی حراست میں تھا۔  منیر اور راشد انکاؤنٹر میں مارے جا چکے تھے —  اور پولیس انکاؤنٹر کو سچ ثابت کرنے کے لیے پرانے گڑے مردے اکھاڑنے کی کوشش کر رہی تھی —

ادھر اس علاقے میں مسلمانوں کی سیاست بھی گرما گئی تھی —  مسلمان کانگریس سے خاصہ ناراض تھے —  علاقے کے نوجوان لڑکوں نے گھروں سے باہر نکلنا بند کر دیا تھا —

ٹی وی چینلس شہید انسپکٹر ورما کے کارناموں پر آدھے آدھے گھنٹے کی فلمیں دکھا رہے تھے —

رباب گہرے سناٹے میں تھی —

اور شاید ایسا ہی ایک گہرا سناٹا میرے اندر بھی اتر آیا تھا —

٭٭

حالات بگڑ چکے تھے۔  سیاست گرما گئی تھی۔  مختلف پارٹیوں کے بیانات کا سلسلہ جاری تھا —  ایک بڑا گروپ اس پورے انکاؤنٹر کو فرضی انکاؤنٹر ٹھہرا رہا تھا —  حکومت کے کچھ لوگ بھی اس پورے معاملے کو فرضی انکاؤنٹرز مان رہے تھے۔  اس درمیان اس پوری سیاست کو لے کر پولیس کی ایک چھوٹی سی پریس کانفرنس ہوئی تھی —  اس کانفرنس میں ہندی اور انگریزی اخباروں کے بڑے صحافی بھی موجود تھے —  اس کانفرنس میں زور شور سے‘ انکاؤنٹر سے متعلق بہت سی نئی باتیں اٹھانے کی کوشش کی گئی —  مثال کے لیے —

اس انکاؤنٹر کی تفصیل جو تفصیل سامنے آئی تھی اُس کے مطابق، پولیس کو مفرور آتنک وادی عبد الرحیم کی ڈائری ملی تھی۔  اس ڈائری میں اردو میں لکھے گئے کچھ ناموں کی فہرست تھی۔  عبد الرحیم کے بارے میں کہا جا رہا تھا کہ یہ آدمی دلی بم دھماکے کا بھی مجرم ہو سکتا ہے اور پولیس کو اس کی تلاش تھی۔  راشد اور منیر، عبد الرحیم کے دوستوں میں تھے۔  راشد اپنے فلیٹ کی چوتھی منزل پر اپنے  ماں باپ کے ساتھ رہتا تھا —  جس وقت انکاؤنٹر ہوا اس وقت اس کا دوست منیر بھی وہیں تھا —  پہلے تین لوگ راشد  کو حراست میں لینے کے لیے اُس کے گھر پہنچے۔  ایک پولیس کا سپاہی سیڑھیوں پر رہ گیا۔  دشینت اور ورما دونوں گرفتاری کے لیے اندرجانا چاہتے تھے۔  بیل بجتے ہی دروازہ منیر نے کھولا تھا —  اس وقت دونوں پولیس کے سپاہی سادی وردی میں تھے۔  پولیس کا شک ہوتے ہی منیر کے پیچھے کھڑے راشد نے گولیاں چلانا شروع کیں  —  بدلے میں انسپکٹر ورما کی پسٹل سے گولیاں چلیں  — ‘

’راشد کے ماں باپ کہاں تھے؟‘

’راشد کے ماں باپ اُس وقت اندر کمرے میں تھے …‘

’ہنگامے اور گولیوں کی آواز سن کر بھی ان لوگوں نے باہر آنا ضروری نہیں سمجھا — ؟‘

’جب تک وہ لوگ اندر کمرے سے باہر نکل آتے، پولیس انکاؤنٹر کا کام پورا ہو چکا تھا — ‘

’ورما کو گولی کس نے ماری — ‘

’گولی راشد نے چلائی تھی —  ایک گولی اس کے کندھے پر لگی تھی — ‘

کندھے پر گولی لگی تو پیٹھ پر گولی کس نے ماری؟

’بہت ممکن ہے —  راشد کی طرف سے چلنے والی گولیوں سے گھبرا کر ورما نے راشد کی طرف اپنی پیٹھ کر لی ہو۔ ‘

’دشینت کو گولی کیوں نہیں لگی؟ اگر دونوں ایک ساتھ کمرے میں داخل ہوئے اور بقول پولیس، راشد نے ان پولیس والوں کو دیکھتے ہی گولیاں چلانی شروع کر دی تھیں  — ؟‘

’اس بارے میں اتنا ہی کہا جا سکتا ہے کہ دشینت کو اپنا بچاؤ کرنا آتا تھا اور ورما کو نہیں  — ‘

’راشد کی پستول میں کتنی گولیاں تھیں ؟

پولیس کی انفارمیشن کے مطابق اُس وقت کمرے میں منیر اور راشد کے علاوہ دو لوگ اور تھے —  تو باقی دو لوگ کہاں بھاگ گئے؟‘

’یقیناً وہ زینے سے بھاگے ہوں گے — ‘

لیکن زینہ تو ایک ہے —  اور باہر پولیس کی کئی گاڑیوں کے ساتھ نیوز چینلس کی پوری فوج بھی کھڑی تھی — ‘

مسکراہٹ —  ’یہ آتنک وادی ایسے ہی نہیں آتنک وادی بنے —  یہ پولیس کو چکمہ دینا بھی جانتے ہیں  — ‘

’اگر باقی دو اگر وادی زینے سے نہیں گئے تو کس راستے سے بھاگے ہوں گے۔ ‘

’یقیناً اُنہوں نے بھاگنے کے لیے چھت کا سہارا لیا ہو گا — ‘

’چھت یعنی پانچویں منزل؟‘

’ممکن ہے — ؟‘

’تو کیا پانچویں منزل سے کود کر فرار ہو گئے؟‘

’یہ آتنک وادی کسی اسپائڈر مین سے کم نہیں ہوتے۔ ‘

’انکاؤنٹر سے ایک دن —  پہلے جن تیرہ لوگوں کو حراست میں لے کر میڈیا کے سامنے پیش کیا گیا تھا، اُن سب نے کرتا پائجامہ کیوں پہنا تھا؟ کیا اُن میں کسی کے پاس ٹی شرٹ نہیں تھی — ‘

’یہ لوگ ٹی شرٹ نہیں پہنتے۔ ‘

’لیکن ہندوستان کا عام مسلمان تو بش شرٹ پہنتا ہے — ‘

’خاموشی —  نیکسٹ — ‘

’کیا آتنک وادیوں کے لباس یعنی کرتے پائجامے ٹوپی عرب ملکوں سے امپورٹ  ہو کر آتے ہیں  — ؟‘

’ نیکٹ — ‘

کیا عبد الرحیم یا کوئی بھی آتنک وادی اردو کے علاوہ کوئی دوسری زبان نہیں جانتا — ؟‘

’نیکٹ — ‘

پریس کانفرنس میں کمشنر بمشکل مسکرانے کی کوشش کر رہے تھے۔

’ورما نے پیچھے سے گولی کھائی تھی —  پیچھے سے گولی کھانے والے کو آپ شہید کیسے کہہ سکتے ہیں  — ؟‘

ڈان کوٹکزوٹ کھل کر سامنے آ گیا تھا —

وہ شاید ہنس رہا تھا۔  قہقہہ بکھیر رہا تھا —

لیکن یہاں اس پریس کانفرنس میں قہقہے نہیں تھے۔  پولیس کمشنر سکسینہ اپنے ہی بیانات میں الجھ گئے تھے —  نیوز رپورٹرس سوال پوچھ رہے تھے —  اور کئی بار Next کہتے ہوئے اُن کے چہرے پر منڈراتے پسینے کو صاف طور پر دیکھا جا سکتا تھا —  اور یقینی طور سکسینہ انکاؤنٹر سے جڑی بہت سی باتوں کا جواب نہیں دے پائے۔

٭٭

حالات اور نازک ہو گئے تھے —

انکاؤنٹر کا معاملہ اب آہستہ آہستہ فرضی انکاؤنٹر کی طرف نیا موڑ لینے لگا تھا —

پولیس کو اب دوسرے پریس کانفرنس کی ضرورت محسوس ہوئی تھی۔

اور یہاں بھی ڈان کوئکزوٹ موجود تھا —

جوائنٹ کمشنر آف پولیس مسٹر کجری وال پریس کانفرنس کر رہے تھے۔

ان کی آنکھیں گہری سوچ میں ڈوبی تھیں۔  ٹھہر ٹھہر کر انہوں نے اس پورے انکاؤنٹر کے بارے میں بتانا شروع کیا —

’جیسا کہ آپ جانتے ہیں۔  اس انکاؤنٹر میں دو ملزم راشد اور منیر مارے گئے۔  اور دو آتنک وادی فرار ہو گئے —  ایک پہلے سے ہماری حراست میں ہے۔  شک کی بنا پر تیرہ اور لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے —  اس انکاؤنٹر میں ہمارے کرمٹھ پولیس انسپکٹر ورما کو شہادت ملی ہے۔  گجرات بم دھماکوں میں ملوث عبد الرحیم پر شروع سے ہماری نظر تھی —  اس کے گھر کی تلاشی لینے پر وہاں سے اردو میں لکھی  ایک ڈائری ملی تھی۔  اس ڈائری میں اردو بھاشا میں ان آتنک وادیوں کے نام ملنے کے بعد ہم نے اپنی تفتیش کو آگے بڑھایا۔

عبد الرحیم پکڑا گیا —  اس نے راشد کا نام لیا۔  اس کی ڈائری میں بھی راشد، منیر اور علوی کے نام درج تھے۔  ان تمام دھماکوں کے پیچھے لشکر طیبہ، انڈین مجاہدین اور سیمی کا نام سامنے آ چکا ہے۔  راشد ان کے بیچ کی ایک مضبوط کڑی تھا۔  ان کا ایک ساتھی علوی ہماری حراست میں ہے۔  اس سے ملک میں ہونے والے بم دھماکوں کو لے کر مختلف سراغ ملنے کی امید ہے۔  ابھی ہمیں ان کے کچھ اور ساتھیوں کی بھی تلاش ہے۔  راشد کا لیپ ٹاپ اور موبائل بھی ہمارے قبضے میں ہے۔  ان سے بھی ہمیں کافی کچھ ملا ہے۔ ‘

کجری وال کے بیان کے ساتھ ہی سوالوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔

’کیا پولیس کو پہلے سے جانکاری تھی کہ آتنک وادی بٹلہ ہاؤس میں چھپے ہوئے ہیں ؟‘

’ورما کو آگے سے مارا گیا یا پیچھے سے؟‘

’پولیس کے مطابق اگر انہیں آگے سے مارا گیا تو خون کا نشان پیچھے کیوں ہے؟‘

’ورما کی موت کہاں ہوئی؟ گولی لگنے کے بعد صرف دو لوگوں کے سہارے چار منزل طے کرتے ہوئے نیچے تک کیسے آ گئے؟ اس  کا مطلب وہاں اتنی گولیاں نہیں لگیں کہ وہ شہید ہو سکتے تھے؟

’کیا کار سے اسپتال تک جاتے ہوئے ان کے ساتھ کچھ اور بھی ہوا تھا؟‘

’ان کے جسم سے نکلی گولیاں کس بور کے پستول کی تھی؟‘

’کیا مقتول کے پاس سے ہتھیار اور بم بنانے کے سامان بھی ملے؟‘

’کیا پولیس بٹلہ ہاؤس میں تفتیش کے ارادے سے گئی تھی یا انکاؤنٹر کے ارادے سے ؟‘

’کیا ورما کو دہشت گردوں کی گولی لگی یا پولیس کی؟‘

’فلیٹ میں انکاؤنٹر کے وقت کتنے لوگ موجود تھے؟‘

’دو آتنک وادی جو بھاگ گئے، کیا سچ مچ وہ چوتھی منزل سے کود کر بھاگے؟‘

’کیا مقتول کو سرینڈر کے لیے مجبور نہیں کیا جا سکتا تھا؟‘

’کیا انہیں گولی مارنا ضروری تھا؟‘

انسپکٹر ورما انکاؤنٹر کے ارادے سے گئے تھے تو انہوں نے بیلٹ پروف جیکٹ کیوں نہیں پہنی تھی …؟

کجری وال کے پاس ان باتوں کا صرف ایک ہی جواب تھا —

’جیسے جیسے ہمیں ان کے بارے میں معلومات حاصل ہو گی، ہم آپ کو انفارم کرتے رہیں گے …‘

مسکراتے ہوئے وہ اٹھ کھڑے ہوئے تھے —

کیمرے کے فلیش چمک رہے تھے —

اور یہ سب کچھ ایسا تھا جیسے ہر کوئی ان معاملوں سے اپنا دامن بچانے کی کوشش کر رہا ہو —

اور اس وقت کجری وال بھی یہی کر رہے تھے …

(3)

میں … ارشد پاشا … میں خود بھی نہیں جانتا حقیقت کیا ہے؟ یہ حقیقت کبھی سامنے بھی آئے گی یا نہیں۔ میں خود اس معاملے سے دور جانا چاہتا ہوں۔ اس سیاست سے جس نے ہزار قربانیوں کے باوجود میرے ملک کو میرا ملک نہیں رہنے دیا ہے۔ کمرے میں منحوس چمگادڑیں اکٹھی ہو گئی ہیں —

میں رباب کے کمرے تک گیا ہوں —  پھر واپس لوٹ آیا ہوں۔ تنہائی میں ایک  ساتھ کتنے ہی چہرے میری آنکھوں کے سامنے روشن ہو گئے ہیں۔ ان میں ایک چہرہ بی امّاں کا ہے۔ ایک چہرہ ابّا حضور ’تغلق پاشا کا —  مجھے سب یاد آ رہا ہے۔ شہر کی فضا مکدر ہو گئی تھی۔ ہم کمرے میں بند تھے —  کاشی کے گلی کوچوں میں فرقہ واریت کے بادل منڈرا رہے تھے —  ابّا حضور تغلق پاشا ٹہلتے ہوئے پاکستان کو گالیاں دے رہے تھے۔

’ابھی تو کچھ بھی نہیں ہے میاں —  بس آگے آگے دیکھتے جاؤ —  تقسیم کا بھوت ہر بار تمہارا جینا مشکل کرے گا۔ تمہارے راستے تنگ کرے گا — ‘

بی اماں نے ناراضگی دکھاتے ہوئے کہا —  ’نوج‘ صبح سے کوّے بھی کائیں کائیں کر رہے تھے۔ مجھے سب پتہ تھا کچھ نہ کچھ ضرور ہونے والا ہے۔ ارے یہ راشدہ کہاں مر گئی … انور کہاں گیا — ‘

ابّا حضور ٹہلتے ہوئے مڑے۔ غصے میں چلائے —  ’اب یہ گھر کے سارے لوگوں کو اسی کمرے میں جمع کرو گی کیا۔ راشدہ اور انور اپنے کمرے میں ہوں گے۔ چلّانا بند کرو۔ ممکن ہو تو تلاوت شروع کرو۔ اللہ اس  بُرے موسم سے ہم سب کو محفوظ رکھے —  ‘

لیکن بی اماں کا چلّانا بند نہیں ہوا —   وہ ابھی بھی صبح صبح منڈرانے والے کوؤں کو ’کوس‘ رہی تھیں —

’نوج‘ صبح ہی صبح اپنی منحوس آواز سے نحوست پھیلا گئے۔ برا ہو ان مسلمانوں کا —  ‘

ابّا حضور زور سے چیخے —   ’برا ہی تو ہو رہا ہے۔ پاکستان میں بھی برے بن رہے ہیں اور یہاں بھی۔ وہاں بھی مارے جا رہے ہیں اور یہاں بھی۔ آنے والے وقت میں بھی ہم کچھ کریں یا نہ کریں، لیکن مسلمانوں کو پاکستان کی قیمت تو چکانی ہی پڑے گی  —

میں جیسے کسی ڈراؤنے خواب سے باہر نکل آیا تھا۔ ٹھیک یہی وقت تھا جب میرے موبائل کی گھنٹی بجی تھی، دوسری طرف اسامہ تھا —  برف جیسی سرد آواز —   ’مجھے نہیں رہنا ہے یہاں —  ‘

’لیکن کیوں؟‘

’میرا دم گھٹتا ہے —   اپنے ہی سوالوں کا جواب نہیں دے پاتا۔‘

’بہتر ہے خود سے سوال ہی نہ کرو کہ جواب دینے کی ضرورت ہی پیش آئے۔‘

’سوال نہیں کروں ؟ یہ کیسے ممکن ہے؟ جو کچھ ہو رہا ہے میں اس کا ایک حصہ ہوں۔ آئی ریپٹ … ہم سب اس کا حصہ ہیں۔ میری نیند اڑ گئی ہے۔ دماغ میں طوفان آیا ہوا ہے۔ ہر وقت دماغ جلتا رہتا ہے۔ کیسے نہیں سوچوں —   کیسے خود سے سوال نہیں کروں۔ کیا اس ملک میں رہنے کا قرض ادا کرنا ہو گا اور قرض یہ ہے کہ ہم پر الزام لگا کر ہمیں شوٹ آؤٹ کر دیا جائے۔ مجھے سب خبریں مل گئی ہیں۔ علوی جیل میں ہے۔ منیر اور راشد مارے جاچکے ہیں اور یہاں  میں چھپتا پھر رہا ہوں۔ لیکن ہم سب کا گناہ کیا ہے؟ ہم تو جرم، اسلحے اور اس دنیا کے بارے میں بھی نہیں جانتے تھے —   ہم نہیں جانتے تھے کہ ماسٹر مائنڈ کیا ہوتا ہے۔ ہم نہیں جانتے تھے کہ جیش، سیمی، انڈین مجاہدین اور لشکر طیبہ کیا ہے؟ ایسا کیوں ہو رہا ہے۔ اگر ایسا ہی ہے تو ایک آسان راستہ ہے حکومت کے پاس —  یا تو کسی مسلمان بچہ کو پیدا ہی نہ کیا جائے۔ اگر غلطی سے کوئی ایک بچہ کسی مسلمان گھر میں پیدا ہو جائے تو اُسے اسی وقت مار ڈالا جائے —  ‘

اسامہ چیخ رہا تھا  —   ’مجھے نہیں رہنا ہے یہاں۔ میں آ رہا ہوں ڈیڈی۔‘

میں زور سے چلایا —   ’پاگل مت بنو۔ فضا خراب ہے۔ ابھی کچھ اور دن تھا پڑ انکل کے یہاں ہی رہو۔‘

’میں نہیں رہوں گا۔ مجھے گلٹ ہو رہا ہے۔ ہم میں سے کسی نے کچھ نہیں کیا۔ اُس رات ہم چار تھے —  اگر قصور وار وہ تینوں ہیں تو میں بھی قصور وار ہوں —  پھر میرے لیے آپ یا تھاپڑ انکل کس بات کی جنگ لڑ رہے ہیں۔‘

میری آواز لرزتی ہوئی تھی —   ’ہم جنگ نہیں لڑ رہے بیٹا۔ ہم ایک برے موسم میں صرف خود کو بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘

دوسری طرف اُسامہ چیخ رہا تھا —   ’بچانے کی کوشش کیوں کر رہے ہیں —  یہ کوشش تب کی جاتی ہے نا جب کچھ ہوتا ہے؟ کوئی جرم ہوتا ہے یا کوئی گناہ  یا مسلمان ہونا ہی جرم ہے؟ اور اس کی سزا پہلے سے ہی طے ہے —  ‘ اسامہ رو رہا تھا —   میں اس ماحول میں اب اور نہیں جی سکتا۔ مجھے اپنے کمزور اور بزدل ہونے پر شرم محسوس ہو رہی ہے۔ ایک گہری نفرت میرے اندر جمع ہو رہی ہے۔ جی چاہتا ہے … بولتے بولتے وہ ٹھہر گیا تھا۔

’’لیکن اب میں نے فیصلہ کر لیا ہے —  میں تھاپڑ انکل اور آنٹی کو اور زیادہ پریشان نہیں ککر سکتا۔ اب یہاں نہیں رہوں گا۔ میں آ رہا ہوں۔ اگر پولیس مجھے بھی آتنک وادی مانتے ہوئے میرا انکاؤنٹر کرنا چاہتی ہے تو مجھے کوئی افسوس یا ڈر نہیں ہے۔ کیوں کہ اب میں نے جان لیا ہے کہ اس ملک میں سب سے بڑا گناہ یا جرم مسلمان ہونا ہے اور اس کے لیے آپ کو کسی بھی سزا کے لیے تیار رہنا چاہیے — ‘

اُسامہ نے فون کاٹ دیا تھا —

میرے ہاتھوں میں موبائل کانپ رہا تھا۔ سامنے رباب کھڑی تھی۔ اُس کی آنکھیں خوف سے پھیلی ہوئی تھیں۔

’کس کا فون تھا؟‘

’اُسامہ کا —   وہ آ رہا ہے۔‘

رباب کی آنکھیں خوف سے سکڑ گئی تھیں —  ’اُسے بتایا نہیں کہ ابھی حالات اچھے نہیں ہیں۔

’’میں اسے سب بتا چکا —  لیکن وہ اب وہاں رکنے کو تیار نہیں ہے —  ‘

’کیا ہو گا میرے بیٹے کا؟‘

میں کمرے میں ٹہل رہا تھا —   رباب کی سسکیاں گونج رہی تھیں۔

’وہ مار دیں گے اُسے —   میرے بیٹے کو بھی مار دیں گے۔ اُسے روکو، سمجھاؤ اُسے ۔ مت آنے دو اُسے۔ میں بات کرتی ہوں اس سے۔‘

’وہ تمہاری بات نہیں سنے گا —  ‘ ٹہلتے ہوئے میں ٹھہر گیا —   رباب کی طرف دیکھا —

’وہ اب کسی کی نہیں سنے گا —   وہ اب بڑا ہو گیا ہے۔ ان حالات میں وہ اپنے فیصلے اب خود کرے گا۔‘

مجھے اپنی آواز ڈوبتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی۔

٭٭

 

 

(4)

ڈان کوئکزوٹ کے کچھ اور کردار

جیسا کہ میں نے قبل عرض کیا، کچھ کہانیاں ہم فرض کر لیتے ہیں۔ فرض کر لیجیے کہ ایسا ہوا ہو گا۔ ممکن ہے ایسا ہو نہ ہو تب بھی اس کی بات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ ہو نہ ہو لیکن ۹۰ فیصد ایسا ہی ہوا ہو گا۔ آنکھیں کھلنے اور بند ہونے تک ہم مسلسل اس ’فرض کرو …‘ کے احساس سے گزرتے رہتے ہیں۔

مثال کے لیے جب تک کوئی واقعہ ہم اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھتے ہیں صرف اُس کے بارے میں سنتے ہیں اور جب اس کی صداقت کا یقین ہو جاتا ہے تو ہم خود ہی ذہن کے کورے کینواس پر اس کی تصویر اتارنے لگتے ہیں۔ یقیناً کچھ ایسا ہی ہوا ہو گا —

اس لیے قارئین! یہاں بہت کچھ فرض کرو یا میرے اندازے کے مطابق ہے —   اور یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ آئندہ سطور میں جو کچھ بھی آپ پڑھنے جا رہے ہیں اس کا کس کہانی سے کوئی مطلب زیادہ تعلق بھی نہیں ہے —   لیکن ضمنی سطح پر ہی سہی، کیونکہ یہ کردار اس وقت اس ناول میں آ چکے ہیں —  اس لیے ممکن ہے یہ بہت حد تک آپ کے ذہنی اُفق کو روشن کر سکیں، ہم اسے یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ  ان کرداروں کے طور پر ممکن ہے بہت کچھ آپ نے بھی پہلے سے فرض کر رکھا ہو —

٭٭

یہاں بھی ڈان کوئکزوٹ پہلے سے موجود تھا —

ہال نما کمرے میں اس وقت خاموشی تھی —   پھر ایک سرد آواز گونجی تھی —  برف جیسی سرد آواز —

’اچھا تم پیچھے تھے یا آگے؟ سچ بولنا؟

سر میں پیچھے تھا …

’ہو ہو … یا آگے …؟

نہیں —   پیچھے …

اور وہ تم سے آگے تھا …؟

ہاں سر …

انگشت بھر کا فاصلہ ؟

’نہیں —   کچھ زیادہ فاصلہ  … باہر کھڑے ہونے کی جگہ کم تھی …‘

’ہو ہو … ہو …‘

’گولی آگے سے لگی یا پیچھے سے لگی … الجھنے دیجئے سر … لوگوں کا کام ہی الجھنا ہے —   اس سے ہمارا کام آسان ہوتا ہے۔ اور حکومت …‘

’ہو ہو … ہر حکومت ہماری ہے —   تم کیا جانو —  حکومت میں بھی ہمارے آدمی ہیں —   جو ہمارے لیے کام کرتے ہیں اور اس سے ہمارے راستے آسان ہو جاتے ہیں۔ ہو ہو … ہمارے آدمی سب جگہ ہیں …‘

یہ ابھے کمار دوبے تھے —   صوفے پر دوبے کے سامنے بیٹھے ہوئے نمانی اور دشینت پانڈے کے چہرے پر اس وقت مسکراہٹ کھیل رہی تھی —

’اُس کی بیوی بہت رو رہی تھی —  ‘

زندگی بھر اس کی بیوی نے اس کو رُلایا …‘ نمانی ہنسے …

’انعام دلائیں گے۔ مرنے کے بعد کا بڑا اعزاز …‘ دوبے لیپ ٹاپ کھول کر بیٹھ گئے تھے۔

’اب آپ کیا کر رہے ہیں سر …؟‘

’اسلامک سائٹس پر کچھ نئے اور خوبصورت نام تلاش کر رہا ہوں۔ انڈین مجاہدین … یہ سب بہت ہو گیا۔ تحریک اذاں، تحریک سجدہ …‘

ماؤس پر دوبے کے ہاتھ تیز تیز چل رہے تھے۔ وہ نمانی کی طرف پلٹے —

’ہاں —   تم بتا رہے تھے کہ تم اردو سیکھ رہے ہو —  ‘

’یس سر —  ‘

’شاباش … ہماری آرگنائزیشن کو اردو اور عربی جاننے والوں کی سخت ضرورت ہے —  ‘ دوبے سنجیدہ تھے۔ میڈیا کو اپنا کھیل کھیلنے دو۔ ہم اپنا کھیل کھیلیں۔ ایک کھیل سے نکل کر دوسرے کھیل میں —   اس کھیل کو جاری رکھنا چاہیے۔ اس کھیل میں ہماری جانوں کا بھی زیاں ہو گا۔ اور ہمیں اس کے لیے تیار رہنا ہو گا۔ ہمیں کبھی کبھی اپنے ہی لوگوں کی قربانی دینی ہو گی، اور ہم یہ سب اپنے بڑے لکشیہ کے لیے کریں گے —   لکشیہ کے لیے ایسی قربانیاں ضروری اور جائز ہیں۔ تمہارا پروموشن پکا ہے —   دشینت —   آرگنائزیشن تمہارے کام سے خوش ہے —

’سب آپ کی کرپا ہے سر —  ‘

٭٭

اور حقیقت یہی ہے کہ حکومت سے میڈیا اور عام آدمی تک اس آگے پیچھے کی گولیوں میں الجھ کر رہ گیا تھا —   جامعہ کے گلی کوچوں میں سناٹا پسرا ہوا تھا۔ لوگ خوف کے سائے میں جی رہے تھے۔ بچے گھر سے باہر نکلتے تو ماں باپ اس وقت تک پریشان رہتے جب تک کہ بچے گھر واپس نہیں آ جاتے —

سیاست گرم تھی —

اردو اخباروں اور باقی اخباروں کے رنگ جدا جدا تھے —   جو معاملات راشد اور منیر کو لے کر سامنے آئے تھے، اس نے مسلمانوں کے مستقبل کو لے کر سوالیہ نشان لگا دیے تھے —

صوفیہ نے اپنا وعدہ نبھایا —   مجھے دو تین بار پولیس چوکی سے بلا وہ تو آیا —   مگر پولیس والے بھی شاید اب اس معاملے کو زیادہ آگے بڑھانے کے حق میں نہیں تھے —   ورما کنٹرو ورسی سے وہ پہلے ہی کم پریشان نہیں تھے —

اسامہ گھر آ گیا تھا۔

لیکن اس کے بدلے بدلے چہرے میں بغاوت کی آنچ محسوس کی جا سکتی تھی۔

٭٭

’اسامہ کا کمرہ بند ہے …؟‘

پھر کیا کروں …

’کمرہ کھلوانے کی کوشش تو کرو …‘

’نہیں کھولے گا …‘

’دستک تو دو …؟‘

’کوئی فائدہ نہیں —  ‘

’اس نے ناشتہ بھی نہیں کیا ہے —  ؟‘

’جانتا ہوں —   بھوک لگے گی تو کچھ نہ کچھ کھا لے گا …‘

’مگر ایسا کب تک چلے گا —  ‘

’یہ تو میں بھی نہیں جانتا —  ‘

رباب کی آنکھیں خوفزدہ تھیں —  ’’کیوں نہیں جانتے تم؟ جاننا چاہیے تمہیں۔ ایسا کب تک اور کتنے دنوں تک چلے گا۔ اُسامہ بھوکا رہے گا تو ہم کیسے کھا سکتے ہیں اور یہ بھی تو پتہ لگاؤ کہ آخر اس کے دل میں کیا ہے اور وہ کیا سوچ رہا ہے۔‘‘

اس بار میں زور سے چیخا تھا —  ’بس بہت ہو گیا۔ یہ تم بھی جانتی ہو کہ اس کے اندر کیا چل رہا ہو گا۔ اس کے دوست مارے گئے ہیں۔ جن دوستوں کے ساتھ وہ اٹھتا بیٹھتا تھا، نماز پڑھنے جاتا تھا۔ اس کا ایک دوست پولیس کی حراست میں ہے۔ ایسے میں اسامہ جیسا ایک نوجوان جو بھی سوچے وہ کم ہے۔ ہم کچھ نہیں ککر سکتے —  ہم اس وقت اپاہج اور کمزور ہیں۔ صرف اندھیرا نظر آرہا ہے مجھے۔‘‘

رباب مجھ سے کہیں زیادہ زور سے چیخی —  ’اپاہج ہو تو سارے گھر کو موت کی نیند سلادو۔ کہیں سے زہر لے کر آ جاؤ — ‘‘

رباب رو رہی تھی  —  ’’ڈر ڈر کر جینا نہیں ہوتا ہم سے۔ذرا ذرا سی بات سے ڈر جاتی ہوں —  ہوا سے دروازہ ہلے تب بھی خوف محسوس کرتی ہوں۔ فون کی گھنٹی بجتی ہے تو سارا جسم تھر تھر کانپنے لگتا ہے —  اُسامہ کے بارے میں سوچتی ہوں تو ذہن کی نسیں ٹوٹنے لگتی ہیں۔ کیا ہو گا اسامہ کا؟ میرے بچے کا؟ مستقبل کے اندیشے ساراسکون درہم برہم کر دیتے ہیں۔ ہر وقت لگتا ہے جیسے پولیس آئے گی۔ میرے بچے کو کھینچتی ہوئی لے جائے گی —  پھر کوئی انکاؤنٹر یا شوٹ آؤٹ — ‘‘

رباب کا جسم لرز رہا تھا۔ ’کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ مسلمان ہونے کی اتنی بڑی قیمت بھی چکانی پڑ سکتی ہے۔‘

میں کمرے میں ٹہل رہا تھا۔ رباب کی سسکیاں گونج رہی تھیں —  لیکن فی الوقت رباب کی کسی بات کا میرے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔

اُسامہ کو لے کر میں خود بھی پریشان تھا —  میں بھی چاہتا تھا کہ اُسامہ کو پاس بٹھا کر اس سے پیار بھری باتیں کروں۔ اُسے اس اندھیرے سے نکالوں جو اس کے پورے وجود پر حاوی ہو چکا ہے۔ جیسے ایک گہرا کنواں ہے۔ وہ اس گہرے کنویں میں نیچے گرتا ہوا گم ہوتا جا رہا ہے۔ میں اس سے بہت ساری باتیں کرنا چاہتا تھا۔ جیسے یہ کہ، ایسے موڑ سب کی زندگی میں آتے ہیں۔ ایسی بھیانک واقعات کا سلسلہ سب کے ساتھ ہوتا ہے۔ لیکن ان واقعات کے ساتھ ایک پوری زندگی بسر نہیں کی جا سکتی۔ ان واقعات کو بھولنا ہوتا ہے۔

لیکن میرے لفظ کھوکھلے تھے —

میں خود اپنے ہی لفظوں میں کوئی سکون، کوئی تسلی محسوس نہیں کر رہا تھا۔

کیونکہ محض یہ ایک بھیانک سا واقعہ یا حادثہ نہیں تھا۔ یہ کوئی ڈراؤنا خواب بھی نہیں تھا کہ نیند کھلی اور ہم اس ڈراؤنے خواب سے باہر آ گئے۔ یہ تو آزادی کے بعد سے اب تک بھیانک خوابوں کا ایک لامتناہی سلسلہ تھا۔

مجھے یاد آیا، ایسے ہی بھیانک ماحول میں میری بھی پرورش ہوئی تھی۔ آزادی کے بعد بھڑکتے ہوئے دنگے کبھی رُکے ہی نہیں۔ پیدا ہوا تب بھی فساد کی چنگاریاں روشن تھیں۔ بچپن سے ہی ڈر اور خوف کے اتنے انجکشن لگائے گئے کہ کبھی اندر سے مضبوط ہی نہیں ہوسکا۔

میں ارشد پاشا … سوچتا تھا کہ آزادی کے اتنے برسوں بعد میرا بیٹا خوف کے اس ماحول میں بڑا نہیں ہو گا۔

وہ بڑا ہو گا اپنی آزادی کے احساس کے ساتھ —  لیکن اس ننھی سی عمر میں، سسٹم نے اس کی آزادی کے پر کتر دیے تھے۔ اس لیے میں نہیں جانتا تھا کہ اب ایسے موقع پر وہ کیا سوچ رہا ہے۔ یا اس کے اندر کیا کارروائی چل رہی ہے —

لیکن اتنا ضرور تھا کہ اُسامہ کے بدلے بدلے چہرے نے مجھے ڈرا دیا تھا —  ایسالگ رہا تھا جیسے کوئی بڑی بات ہونے والی ہے۔

بڑی بات، جس کا اندازہ میں اس وقت نہیں لگا سکتا تھا —

اب میں نے اخبار کے دفتر جانا شروع کر دیا تھا —  اُس دن ڈیسک پر فرقہ واریت کو لے کر مجھے ایک مضمون قلمبند کرنے کو کہا گیا تھا —  میں دیر تک اپنے خیالوں میں الجھا رہا۔ کیا سچ مچ مسلمان مین اسٹریم کا حصہ نہیں ہیں۔ یہاں سلیبریلٹی مسلمانوں کی بات نہیں ہے۔ وہ چاہے فلم میں ہوں، اسپورٹس میں یا سیاست میں، وہاں وہ صرف ایک سلیبریٹی رہتے ہیں۔ وہ وہی باتیں کرتے ہیں جو ملک کو مضبوط کرتی ہے —  عام مسلم سلیبریٹی بھی مسلمانوں کی بات نہیں کرتا۔ عام مسلمانوں کی باتیں کرتے ہوئے —  بڑے سلیبریٹی بھی بچنا چاہتے ہیں۔ ایک مسلمان مین اسٹیرم میں کیسے ہوسکتا ہے، جب تک وہ ایک بڑی اکثریت کے شک کے دائرے میں ہے۔ پاکستان سے کشمیر تک کرکٹ میچوں کو لے کر بھی اس کی وفاداری کو شک کی نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔ 25کروڑ ہونے کے باوجود عام مسلمانوں کی حالت مرغیوں کے بند ڈربے جیسی ہے۔

میں نے صحافت کے مروجہ اصولوں سے بغاوت کا اعلان کیا تھا۔ ایک طرف جذباتی ہونے کو زرد صحافت سے جوڑا جاتا ہے لیکن غور سے دیکھئے تو مکمل صحافت کا رنگ زرد ہے۔ نیوز چینلس جذباتی رپورٹنگ نہ کریں تو ان کی ٹی آر پی نہیں بڑھتی —  خبر ایک ہوتی ہے۔ لیکن اردو۔ ہندی اور انگریزی میں ان خبروں کے تجزیے مختلف ہوتے ہیں۔ مسلمانوں کا مسئلہ ہو تو اردو اخباروں کی رپورٹنگ محض اس بنا پر غیر معیاری قرار دی جاتی ہے کہ وہاں مسلمانوں کو لے کر ایک جذباتی وابستگی بھی ہوتی ہے۔ لیکن یہیں اگر دوسری زبانوں کے اخبار دہشت پسندی سے وابستہ معاملات کو لے کر مسلمانوں کی دکھتی نبض پر ہاتھ رکھتے ہیں تو انہیں معیاری رپورٹنگ کا درجہ دیا جاتا ہے —  کیا رپورٹنگ کو جذباتی نہیں ہونا چاہیے؟

فرقہ واریت ایک چھوٹے سے بال کی طرح آپ کی اپنی جیب میں ہے۔ جسے اٹھائے آپ مدتوں سے گھوم رہے ہیں — ‘

میں اپنے خیالوں میں الجھا ہوا تھا —  آوارہ ذہن مسلسل سوالوں کی بوچھار کر رہے تھے۔ مجھے احساس تھا، خیالوں کے شیرازے بکھر رہے ہیں —  میں اُنہیں سمیٹ نہیں پا رہا ہوں۔ لفظ گم ہیں۔ پھر فرقہ واریت کی جڑیں تلاش کرتا ہوں تو میری سوچ آج سے آزادی تک کا سفر طے کر جاتی ہے۔

اور اس سفر کے درمیان  میرا بیٹا آ جاتا ہے —  اُسامہ!

٭٭

رات نو بجے تھاپڑ آ گیا تھا —  اُسامہ کو لے کر وہ بیحد سنجیدہ تھا۔

’’ایسا نہیں چلے گا بڑے پاشا۔ چھوٹے پاشا کو سمجھاؤ اُس سے باتیں کرو — ‘

’کہنا آسان ہے —  وہ باتیں ہی نہیں کرتا۔ اُس نے صاف کہہ دیا ہے مجھے کسی موضوع پر بات نہیں کرنی —  میں اس کی آنکھیں دیکھ کر ڈر جاتا ہوں۔

تھاپڑ غور سے میرا چہرہ دیکھ رہا تھا۔ وہ کچھ دن تک میرے ساتھ رہا ہے —  اور یقیناً یہ لمحے میرے اور آنندی کے لیے کسی آزمائش سے کم نہیں تھے —  اُسے کریدو —  اُسے سمجھو، اس سے اگلواؤ کہ اس کے من میں کیا ہے؟ ورنہ اس کے اندر کی آگ اسے جلا ڈالے گی — ‘

تھاپڑ گہری سوچ میں گم تھا —  ’شاید وہ لوگ یہی چاہتے ہیں۔ ایک عام مسلم نوجوان کو توڑنا —  اُن کا نشانہ سیدھے ایسے بچوں کے مستقبل کی طرف ہے ۔ یہ برہمن وادی طاقتیں ایک خطرناک وائرس کی طرح پھیل چکی ہیں —  دنگے ہوتے ہیں تو نقصان سب کو ہوتا ہے —  لیکن عام مسلمان پولیس کارروائی اور عدالتی مقدموں میں اتنا الجھ جاتا ہے کہ باہر نہیں نکل پاتا۔‘

تھاپڑ میری آنکھوں میں جھانک رہا تھا۔ ’لیکن ہم یہاں ایک بات بھول جاتے ہیں کہ ایک بڑی عدالت دل میں بھی لگی ہوتی ہے۔ اُسامہ اسی عدالتی کارروائی سے گذر رہا ہے —  اُسے نکالو —  آواز دو اسے — ‘

لیکن اُس دن بہت آواز دینے کے بعد بھی اسامہ کمرے سے باہر نہیں نکلا —

رات کے دس بجے تک تھاپڑ واپس لوٹ گیا تھا۔

گیارہ بجے کے آس پاس اسامہ کمرے سے باہر نکلا تھا —  وہ فریج کے پاس آکر ٹھہرا —  شاید اسے بھوک لگی تھی —

رباب دوڑ کر آئی —

’کھانا گرم کر دوں — ‘

’نہیں — ‘

’گرم کرنے میں وقت ہی کتنا لگے گا —  تم دو منٹ انتظار کرو — ‘

میں اسامہ کے چہرے کا جائزہ لے رہا تھا —  اُس کے چہرے کے رنگ مسلسل تبدیل ہو رہے تھے —  اُس نے پلٹ کر ایک بار بھی کسی کی طرف نہیں دیکھا، اُسے بھوک لگی تھی —  سر جھکائے وہ دیر تک کھاتا رہا —  واش بیسن پر ہاتھ دھویا — پھر اپنے کمرے میں لوٹ گیا —

ایک بار پھر اس نے دروازہ بند کر لیا تھا —

رباب کے چہرے پر سکون کی ایک لہر آئی تھی —  ’چلو اُس نے کھانا تو کھا لیا …‘

’ہاں — ‘

’مجھے یقین ہے، جلد ہی وہ معمول پر لوٹ آئے گا — ‘

میں خاموش رہا تھا —

میری بے قراری اس حد تک بڑھ گئی تھی کہ میں دیر تک کمرے کا چکر لگاتا رہا —

شاید میں نے ان آنکھوں کو پڑھ لیا تھا —

اُن آنکھوں میں مجھے خود سے کیے گئے ایک خوفناک فیصلے کی طمانیت نظر آ رہی تھی —

اور یقینی طور پر میں اندر تک لرز کر رہ گیا تھا —  میرے جسم میں اس وقت ایک ایک کر کے ہزاروں میزائلیں چھوٹ رہی تھیں —

٭٭

اور اس کے ٹھیک دوسرے دن —

فجر کی اذان کے ساتھ ہی میری نیند ٹوٹ گئی تھی —

کمرے سے باہر آیا تو اسامہ کے کمرے کا دروازہ کھلا ہوا تھا۔ بستر خالی تھا۔ اُسامہ نہیں تھا —  باہر کا دروازہ بھی کھلا تھا۔ آنکھوں کے آگے گہرا اندھیرا چھانے لگا تھا۔ ڈرائنگ روم میں میز پر پیپرویٹ سے دبا ہوا ایک کاغذ کا ٹکڑا میرا انتظار کر رہا تھا۔ کانپتے ہاتھوں سے میں نے کاغذ کے اس ٹکڑے کو اٹھا کر پڑھنا شروع کیا۔ یہ اسامہ کی تحریر تھی۔

’ڈیڈ —  فیصلہ ہو چکا ہے —  بہت سوجھ بوجھ کے ساتھ میں نے یہ فیصلہ کیا ہے میں اس سسٹم میں نہیں رہ سکتا۔ جہاں ہر کوئی مجھے بچانے کی کوشش کر رہا ہے۔ آخر کیوں — ؟ مجھے بچانے کی یہ کوشش کیوں ہو رہی ہے۔ میں نے کیا کیا ہے؟ اور جب کچھ کیا ہی نہیں ہے تو پھر بچانے کا سوال ہی کیوں؟ میرا کوئی جرم نہیں ہے —  پھر بھی میں اپنے ہی لوگوں کے درمیان چھپتا بھاگتا پھر رہا ہوں —  اب میں کہیں چھپنا یا بھاگنا نہیں چاہتا اور نہ اس سسٹم میں بار بار خود کو مرتے ہوئے دیکھ سکتا ہوں —  اس لیے خود کشی نہیں کروں گا —  مجھے تلاش کرنے کی کوئی بھی کوشش فضول ہو گی۔ ہاں جس دن یہ سوچ لیا کہ میں اسی سسٹم میں کمزور بن کر آپ لوگوں کی طرح زندگی گزار سکتا ہوں تو میں واپس آ جاؤں گا ورنہ نہیں۔ امّی کو سنبھال لیجئے گا —  وہ میرے جانے سے زیادہ ٹوٹ سکتی ہیں۔

آپ کا بیٹا

اسامہ

خط میرے ہاتھ میں لرز رہا تھا۔ آنکھوں کے آگے کا اندھیرا گھنا ہو چکا تھا۔

پاؤں کی طاقت جواب دینے لگی تھی۔ شاید رات میں نے اسامہ کی آنکھوں میں اس فیصلے کو دیکھ لیا تھا —  میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ میں رباب کو کیا کہوں گا۔ رباب پر کیا گزرے گی۔

لیکن —  دھماکہ تو ہو ہی چکا تھا —

٭٭

 

 

(5)

بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر کی جانچ خفیہ ایجنسیوں کو سونپ کر حکومت نے اپنا پلّہ جھاڑ لیا تھا —  اور یہ بات عام آدمی بھی جانتا تھا کہ ایسی جانچوں سے کبھی کوئی ’ہاتھی‘ برامد نہیں ہوتا —  کچھ دنوں بعد سب بھول جائیں گے۔ پھر جانچ ٹھنڈے بستے میں ڈال دی جائے گی۔ کچھ دنوں بعد پھر کوئی نیا بٹلہ ہاؤس —  پھر جانچ ایجنسیاں اور پھر لمبی خاموشی —  پھر نئے ڈرامے کی شروعات —

زندگی معمول پر لوٹ رہی تھی —

سیاست اب بھی سرگرم تھی —

بٹلہ ہاؤس ، دلکشا انکلیو کا یہ کمرہ  —  جہاں میں اس وقت بستر پر لیٹا میں اپنی تنہائیوں کو آواز دے رہا ہوں —  آسمان سے ٹوٹ کر کچھ تارے اس کمرے میں بکھر گئے ہیں —

سسکیوں کے درمیان ایک آواز بلند ہوتی ہے —

’کیا سچ مچ وہ ہے …؟‘

’وہ کون …‘

’خدا …‘

میں پلٹ کر دیکھتا ہوں —

دو آنکھیں اب بھی ہوا میں معلق ہیں …

’شاید وہ نہیں ہے —  ہمارے لیے نہیں ہے۔ وہ چھپ گیا ہے کبھی کبھی اس پر سے اعتبار کھو دیتی ہوں —  پھر اُسی کا سہارا تلاش کرتی ہوں …‘

’میری گھڑی …‘

میں ایک بار پھر اپنی گھڑی تلاش کرتا ہوں —  رباب تکیے کے نیچے سے نکال کر مجھے گھڑی دیتی ہے۔

’گھڑی تو مل گئی —  مگر  … ، رخسار پر تیرتے آنسو بہت کچھ کہہ گئے  ہیں —  ان آنسوؤں کو روکنے کی ہمت مجھ میں نہیں ہے۔

’تمہیں کیا لگتا ہے —  خدا ہے تو وہ سنتا کیوں نہیں ہے …؟

’تم میری بات جانتی ہو …‘

’ہاں جانتی ہوں —  اسی لیے ان دنوں چھپ چھپ کر نمازیں پڑھ رہے ہو —  پہلے تو نہیں پڑھتے تھے —  تلاوت بھی شروع کر دی ہے …‘

’ہم ایک دن تھک کر اور گھبرا کر بس اسی کے ہو کر رہ جاتے ہیں — ‘

’ایسا کیوں ہوتا ہے — ؟‘

’نہیں جانتا —  لیکن شاید ایسا ہی ہوتا ہے —  زندگی بھر ہم اُس سے منہ موڑے رہتے ہیں —  بغاوت کرتے ہیں۔ اس کو ماننے سے انکار کرتے ہیں۔ اور پھر ایک دن  …‘

’ایک دن نہیں —  یہ مذہب ہمیشہ سے تمہارے اندر تھا …‘

میں کہنا چاہتا تھا —  ’تمہارے اندر بھی … لیکن ابھی ایک سہمی ہوئی خوفزدہ عورت نے خدا کے وجود کو شک کے دائرے میں دیکھا تھا … ذہن کے خاموش اسکرین پر کہیں البیر کامو کے مشہور ناول دی پلیگ کا ایک کردار ابھرتا ہے۔ ڈاکٹر ریو —  شہر میں ہیضہ پھیل چکا ہے۔ لوگ مر رہے ہیں —  چرچ کی گھنٹیاں گونج رہی ہیں —  عبادت کرنے والوں کی تعداد بڑھ گئی ہے —  ڈاکٹر ریو ایک چھوٹے سے ننھے منّے بچے کو بچانے کی کوشش کر رہا ہے۔ چاروں طرف افراتفری کا ماحول ہے … یہ ہمارے گناہوں کی سزا ہے … لیکن … مرتے ہوئے بچے کو بچانے کی کوشش میں ڈاکٹر ریو اپنے خدا سے پوچھتا ہے … اس ننھے سے بچے نے کیا گناہ کیا ہو گا جیسس …؟‘

’تم نے کچھ کہا کیا …؟‘

رباب میرے چہرے کو پڑھنے کی کوشش کر رہی ہے —

’نہیں …‘

’شاید تم اپنے ہی سوالوں سے جنگ کر رہے ہو …؟‘

’ہاں …‘

’جواب ملتا ہے …؟‘

’نہیں — ‘

’جواب نہیں ملے گا —  مجھے بھی نہیں ملا …‘ اس کی آنکھیں ایک بار پھر ہوا میں معلق ہیں …

’یہاں سے کہیں اور چلیں …؟‘

’مطلب …؟‘

’نہیں —  کہیں نہیں جائیں گے … وہ لوٹ آئے گا ایک دن …‘

مجھے اسامہ کی تحریر یاد آتی ہے … جس دن تمہارے سسٹم میں رہنے کے لائق ہو گیا، لوٹ آؤں گا …‘

’وہ آئے گانا … واپس …؟‘

’ہاں …‘

’تمہارے وائبریشن کیا کہتے ہیں؟‘

’وہ واپس آئے گا …‘

میں اپنے کمزور لفظوں سے واقف ہوں مگر شاید اب یہی تسلیاں رہ گئی ہیں …

’جانتے ہو …‘ پھر وہی سرد آواز میرا تعاقب کرتی ہے —

’کیا …؟‘

’اُس کے کمرے میں جاتے ہوئے گھبراتی ہوں —  اس کی کتابیں۔ اس کے جوتے … اس کا لباس … اس کا کمپیوٹر … اس کی خالی چیئر —  وہ وہاں بیٹھا ہوا لگتا ہے … سارے گھر میں گھومتا ہوا —  فریج کھول کر پانی کی بوتل نکالتا ہوا …‘

پلکیں ایک بار پھر بھیگ گئی ہیں —

’کہاں گیا ہو گا وہ …؟‘

’خدا معلوم …‘

’پتہ نہیں، پیسہ بھی ہو گا یا نہیں …؟‘

’خدا معلوم …‘

’پیسے ہونگے اس کے پاس … ہمیشہ کچھ پیسے بچا کے رکھتا تھا —  مگر … اب کہاں ہو گا وہ …؟‘

’خدا معلوم …‘

آنسو جذبات بن گئے تھے —  ’خدا کو سب پتا ہے —  پھر خدا ہمیں بتاتا کیوں نہیں —  اشارے کیوں نہیں دیتا — ؟‘

’نہیں جانتا — ‘

رباب اٹھ کر بیٹھ گئی ہے —

’چھوٹی سی عمر میں وہ بہت بڑا بن گیا تھا —  اپنی عمر سے کافی بڑا …‘

’ہاں …‘

’شاید ہمارے یہاں آنے کا فیصلہ غلط تھا —  اپنے لوگ … اپنے مذہب کے لوگ … اسی نظریے نے ایک دن پاکستان کی بنیاد رکھی تھی —  اور کیا ہو رہا ہے وہاں …؟ لوگ لڑ رہے ہیں —  مر رہے ہیں …اور یہاں … میری ہی ضد تھی —  بچہ اپنے لوگوں میں رہے گا تو اپنا مذہب جانے گا …‘

دیوار پر ایک چھپکلی چڑھنے کی کوشش کر رہی ہے … میری آنکھیں بھی نم ہیں …

’بھوک لگی ہو گی میرے بیٹے کو …‘

رباب نے پلٹ کر میری طرف دیکھا —  ’گھر کی اچھی بری چیزیں تو کھاتا نہیں تھا —  پتہ نہیں باہر کی چیزیں …؟‘

وہ کہتے کہتے رک گئی ہے …

’اس کے کمرے کو بالکل ویسا رہنے دوں گی —  وہ آئے گا تو اپنا کمرہ تلاش کرے گا —  ہے نا …؟

’ہاں … ‘

’وہ اپنے لباس بھی تو نہیں لے گیا۔ پہنتا کیا ہو گا …؟‘

’پتہ نہیں — ‘

’تم نے دیکھا … وہ اپنی دونوں ٹوپیاں بھی چھوڑ گیا ہے …‘

’ہاں … ‘

’اچھا کیا جو ٹوپیاں چھوڑ گیا …‘

کیوں؟

رباب نے میری طرف دیکھا —  بولی کچھ نہیں —  اس کی آنکھیں اب بھی خلا میں دیکھ رہی تھیں —

’کیا ہم ہاتھوں پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جائیں — ؟‘

نہیں —

’پھر کیا کریں گے۔ کہاں تلاش کریں گے اُسے …؟‘

’میں نے کہا نا … میں کچھ سوچ رہا ہوں …‘

’مجھے اسامہ چاہیے بس … اس کے بغیر نہیں رہ سکتی۔ لادو کہیں سے بھی اُسے — ‘

آنسو سارے باندھ توڑ گئے تھے …

’کہیں سے بھی لادو اسے … تم سن رہے ہو نا …‘ وہ زور سے چیخی —  نہیں لاسکتے تو مجھے بتاؤ —  میں تلاش کروں گی —  کہیں سے بھی لے آؤں گی اُسے —  بھوکا پیاسا جانے کہاں کہاں مارا مارا پھر رہا ہو گا —  تمہیں اُس کی یاد نہیں آتی —  کلیجہ نہیں پھٹتا تمہارا — ؟‘

’لے آؤ اُسے …‘

’رباب —  میرا دل کہتا ہے وہ آ جائے گا —  لیکن وہ اس طرح نہیں آئے گا جیسے تم سوچ رہی ہو —  وہ آ جائے گا … صبر کرو —  اللہ پر بھروسہ رکھو —  ابھی ماحول ٹھیک نہیں ہے —  ماحول ٹھیک ہوتے ہی وہ لوٹ آئے گا — ‘

شام کے سائے گھنے ہو گئے تھے۔ پڑوس کی مسجد سے اذان کی آواز آ رہی تھی —

’میں مسجد جا رہا ہوں …‘

رباب نے پلٹ کر میری طرف دیکھا تھا —  میرا سارا جسم اس وقت برف کی طرح سرد ہو رہا تھا —

رباب کو پلٹ کر دیکھنے کی ضرورت نہیں تھی —  خود سے بھروسہ اٹھ گیا تھا —  اور یہ بھروسہ اب کہیں اور زندہ ہو گیا تھا —

٭٭

 

 

(6)

اُس دن دفتر سے وقت ملتے ہی میں تھاپڑ سے ملنے چلا گیا۔ اُس نے بھی دفتر سے چھٹی کر لی تھی —  ہم دیر تک سڑکوں پر خاموشی سے ٹہلتے رہے …

’بھابھی کیسی ہیں — ؟‘

’ٹھیک نہیں ہیں …‘

’سمجھ سکتا ہوں — ‘ تھاپڑ نے اشارہ کیا —  چلو وہاں بیٹھتے ہیں —

یہ ایک چھوٹا سا پارک تھا —  دو بج گئے تھے۔ اس وقت پارک میں لوگ کم تھے۔ باہر سڑک پر گاڑیاں تیز رفتاری سے آ جا رہی تھیں۔ ہم ایک بنچ پر بیٹھ گئے —  کچھ دیر تک خاموشی رہی —  پھر تھاپڑ نے ہی اس خاموشی کا خاتمہ کیا —

’انسپکٹر ورما کے بارے میں نئی نئی معلومات سامنے آ رہی ہے۔ پہلے وہ دلّی پولیس کی اسپیشل سیل میں تھا —  وہاں سے اُسے جھنڈے والان ٹریننگ سینٹر بھیج دیا گیا —  یہ پوسٹنگ عام طور پر ایک سزا مانی جاتی ہے —  اور ورما کو تو پولیس کی طرف سے کئی اعزاز مل چکے تھے … پھر اسے جھنڈے والان ٹریننگ سینٹر کیوں بھیجا گیا — ؟ وہ اسپیشل سیل سے ریلیو کر دیئے گئے تھے۔ لیکن نئی پوسٹنگ جوائن نہیں کیا —  اب سوال ہے اسپیشل سیل سے اُنہیں نکالا کیوں گیا؟ اور اس کی وجہ صاف ہے —  اُن سے کہیں نہ کہیں، کوئی نہ کوئی غلطی ضرور ہوئی تھی — ‘

تھاپڑ نے ایک چھوٹے سے مونگ پھلی بیچتے بچے کو بلا کر مونگ پھلی خرید لی —  پھر اس کے دانے منہ میں ڈالتے ہوئے بولا —  ’دلّی پولیس یا آئی بی ورما سے خوش نہیں تھی۔ یقیناً ورما کے پاس کوئی نہ کوئی ایسا راز تھا جس کے فاش ہو جانے کا خطرہ تھا —  ان دنوں ورما چھٹی پر تھے جب انہیں آپریشن کے لیے بلایا گیا —  ورما کو اتنی جلد بازی میں طلب کیوں کیا گیا؟

مونگ پھلی کے دانے چباتا ہوا میں غور سے تھاپڑ کا چہرہ پڑھنے کی کوشش کر رہا تھا —

’کئی بیانات سمجھ سے پرے ہیں —  جیسے یہ کہ آپریشن کے وقت ورما نے بلیٹ پروف جیکٹ کیوں نہیں پہنی تھی؟ اس معاملے کی پولیس کی جانب سے جو وضاحت کی گئی ہے وہ یقین کے لائق نہیں —  پولیس کہتی ہے کہ وہ بھیڑ بھاڑ والا علاقہ ہے اور معاملے کو پوری طرح خفیہ رکھنے کے لیے ایسا کیا گیا —  معاملہ اتنا خفیہ تھا کہ سارے چینلس والے ’بریکنگ نیوز کے لیے وہاں جمع ہو گئے تھے —  ورما کے علاوہ باقی کئی ایسے جوان تھے جنھوں نے جیکٹ پہن رکھی تھی —  یہاں تک کہ ورما کے ساتھ جو دو ساتھی دشینت اور نوین فلیٹ میں گئے تھے ، انہوں نے بھی جیکٹ پہن رکھی تھی —  پھر ورما نے کیوں نہیں — ؟

تھاپڑ سنجیدہ تھا —  ’معاملہ جیسے جیسے آگے بڑھ رہا ہے، پولیس کے جھوٹ ایک ایک کر کے سامنے آ رہے ہیں۔ پولیس کے مطابق ورما کو گولی آگے سے ماری گئی —  پھر آگے خون کا کوئی نشان کیوں نہیں؟ انکاؤنٹر کے دوران جب فلیٹ کی چاروں طرف سے گھیرا بندی کی گئی تھی تو باقی دو لوگ بھاگ کیسے گئے — ؟ ایک سوال اور بھی ہے —  پولیس کے بیان کے مطابق پہلے عبد الرحیم کی گرفتاری ہوئی اور عبد الرحیم کی گرفتاری کے بعد اُس کی نشاندہی کرنے پر اس آپریشن کا فیصلہ لیا گیا —  پولیس کا کہنا ہے کہ عبدالرحیم کے تار ملک کے مختلف دھماکوں سے جڑے ہوئے ہیں —  اور دلّی پولیس کا بیان ہے کہ اس سے پہلے کبھی عبد الرحیم سے بات ہی نہیں ہوئی — ‘

’کیا اس سے ایسا نہیں لگتا کہ عبد الرحیم میڈیا اور پولیس کے ذریعہ پیدا کیا گیا ایک کردار ہے؟ ایک کٹھ پتلی‘ جس کو اس انکاؤنٹر کے لیے استعمال کیا گیا — ؟‘

مونگ پھلیاں ختم ہو گئی تھیں —

تھاپڑ کی آنکھیں باہر کی جانب بھاگتی گاڑیوں کو دیکھ رہی تھیں —  ’ایسے معاملے سامنے آتے ہیں —  جانچ ایجنسیوں کو سونپ دیے جاتے ہیں اور سب کچھ ٹھائیں ٹھائیں فش —  لیکن پولیس اور ایجنسیاں بھول جاتی ہیں کہ انہوں نے ایسے فرضی انکاؤنٹر سے کتنے خاندانوں کا سکون چھین لیا ہے —  کتنوں کی ہنستی مسکراتی زندگی چھین لی ہے —  اور کچھ لوگ تو … بس موت کے انتظار میں زندگی گزار دیتے ہیں …

’شاید …‘

’تھاپڑ میری طرف دیکھ رہا تھا — ‘

’تو تم نے کیا سوچا — ؟‘

’وہی —  جو تمہیں بتایا — ‘

’تم اس فیصلے پر اب بھی قائم ہو …؟‘

’ہاں — ‘

’سوچ لو …‘

’میں نے اس کے ہر اچھے برے پہلو پر غور کر لیا ہے — ‘

تھاپڑ دیر تک سوچ میں گم رہا —

’تو یہ تمہارا آخری فیصلہ ہے کہ اسامہ کے گم ہونے کی رپورٹ تم پولیس میں نہیں دو گے — ‘

’ہاں — ‘

’کیونکہ تمہیں یہ شک ہے کہ آنے والے کل کو تمہارے بیٹے کا گھر سے اس طرح فرار ہونا …‘

’بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹرزسے جوڑ کر دیکھا جا سکتا ہے — ‘

’شاید تم صحیح کہہ رہے ہو —  لیکن تم اپنے آس پاس کے لوگوں کو کیا بتاؤ گے — ؟‘

’انہیں بتا دیا ہے — ‘

’کیا — ؟

’وہ یہی جانتے ہیں کہ اسامہ اپنے چچا کے یہاں گیا ہے — ‘

’لیکن چچا کے یہاں سے کبھی تو واپس آئے گا …؟ تھاپڑ کی چبھتی ہوئی آنکھیں مجھے دیکھ رہی تھیں —

’ابھی یہ نہیں سوچا — ‘

’ہونہہ — ‘

تھاپڑ نے لمبی سانس لی —  ’کبھی کبھی اس ملک کو گالیاں دینے کی خواہش ہوتی ہے —  اس ملک میں گاندھی کی پوجا ہوتی ہے —  اور گاندھی وچاروں کو گالیاں ملتی ہیں —  گاندھی پر فلمیں بنتی ہیں۔ ہر حکومت گاندھی واد  اور گاندھی جیسی شخصیت کو بیچنے میں لگی رہتی ہے —  اُس گاندھی کے لیے جس کی نظر میں ہندو مسلم دو آنکھوں کی طرح تھے —  لیکن کیا ہو رہا ہے — ؟ ایک بڑی آبادی اقلیت بنا دی گئی ہے۔ ایک بڑی آبادی سوالوں کے گھیرے میں ہے —  اس سے وفاداری اور حب الوطنی کی امید کی جاتی ہے اور دوسری طرف مسلسل دہشت گردی اور اسلامک آتنک واد کے نعروں کے درمیان ایک پوری قوم کو کمزور اور دبّو بنائے جانے کا کھیل جاری ہے —  اردو مر رہی ہے —  لیکن ہر دہشت گردی کے واقعات کے پیچھے اردو سرخیوں میں ہے —  پڑھنے والے معصوم بچوں کا انکاؤنٹر ہوتا ہے اور ایک معصوم شریف بچہ صرف اس لیے اپنا گھر چھوڑ دیتا ہے کہ وہ اس سسٹم میں نہیں جی سکتا …‘

تھاپڑ غصے میں تھا —  ’میں نہیں جانتا، اسامہ نے اچھا کیا یا برا —  لیکن اس ملک نے، اس سسٹم نے اس کے پاس اور کیا آپشن چھوڑا تھا؟ بتا سکتے ہو مجھے؟ اسے کیوں کمزور بن کر جینا چاہیے تھا اس ملک میں؟ اس ملک میں جہاں صدیوں سے اُس کے باپ داداؤں کی ہڈیاں دفن ہیں؟ کیوں اُسے اسکول کے دوسرے بچوں کی طرح نہیں ہونا چاہیے تھا — ؟ کیونکہ وہ مسلمان تھا — ؟‘

’ہاں —  ایک مسلمان ہونے کی سزا تو ملتی ہے —  ملتی رہی ہے —  شاید آزادی کے بعد سے ہی —  اور اب تک مل رہی ہے —  ہم جیسے کمزور لوگ اس سسٹم میں جینا سیکھ جاتے ہیں —  اسامہ نہیں سیکھ پایا — ‘

لہجے کمی برف پگھل گئی تھی —  آنسو روا ں تھے —  میں خود کو شاید روک نہیں پایا تھا —

’میں جانتا ہوں —  یہ بڑا زخم ہے —  اس سے بڑا دنیا کا کوی زخم نہیں ہوسکتا کہ ایک ہی بیٹا —  اور وہ بھی گھر چھوڑ کر چلا جائے —  وہ بھی اس ننھی سی عمر میں —  تمہاری مجبوری سمجھ سکتا ہوں —  لیکن بھابھی کے بارے میں سوچتا ہوں تو ٹوٹ جاتا ہوں —  ہم تم تسلیاں پیدا کر لیتے ہیں —  مگر بھابھی؟ بھابھی کیسے جیتی ہوں گی — ‘

میری آواز بوجھل تھی —  ’رباب تو جیسے جینا ہی بھول گئی ہے —  آنسو خشک ہو گئے ہیں اس کے — ‘

’سمجھ سکتا ہوں — ‘

ایک چھوٹی سی کنکری زمین سے اٹھا کر تھاپڑ نے اپنی مٹھیاں سخت کر لی تھیں —

’اس سسٹم میں کوئی بھی جی نہیں پا رہا ہے بڑے پاشا —  نہ تم نہ بھابھی اور نہ میں —  میں دعا کرتا ہوں کہ اسامہ جلد واپس آ جائے مگر … جیسا کہ اُس نے لکھا … خدا نہ کرے … وہ ایک کمزور بچہ بن کر اس سسٹم میں واپس نہ لوٹے —  جیسے تم … صحافت کے میدان میں زندگی بسر کرنے کے باوجود تم کیا ہو …؟ ایک کمزور اور دبّو مسلمان —  اور صوفیہ احمد کی مثال لو —  وہ آج بھی اپنے اخبار کو بیچ رہی ہے —  اور اسی اخبار کے بوتے راجیہ سبھا کی ممبر تک بن گئی ہے …‘

تھاپڑ نے چونک کر دیکھا  —

’کیا صوفیہ اس معاملے میں ہماری کوئی مدد نہیں ککر سکتی — ؟‘

’وہ پہلے ہی بہت مدد کر چکی ہے —  کیا یہ کرم کم ہے کہ اسامہ کا نام کہیں نہیں آیا — ‘

’ہاں — ‘

’میں اُسے اور تکلیف نہیں دینا چاہتا — ‘

’لیکن ہم اس سے مدد تو مانگ سکتے ہیں — ‘

’کوئی فائدہ نہیں ہو گا —  میں اس مدعے پر بھی دیر تک سوچتا رہا ہوں —  ممکن ہے اگر صوفیہ اس معاملے کو اپنے اخبار میں اچھالتی ہے تو پولیس کو اُن دو مفرور لوگوں میں سے ایک میں میرے بیٹے کی جھلک دکھائی دے گی …‘

’ہاں  —  تم صحیح کہتے ہو — ‘

’پھر اسامہ کو بچانا اور مشکل ہو جائے گا  …‘ میری پلکیں بھیگ گئی تھیں۔

’بس یہی سوچ کر زندہ ہوں کہ وہ واپس آ جائے گا —  کمزور بن کر ہی سہی —  اس سسٹم میں جینے کے لیے —  مگر وہ واپس آئے گا —  ہمیں مضبوط اسامہ نہیں چاہیے۔ کمزور ہی سہی، اپنا بیٹا واپس چاہیے اور کتنی عجیب بات ہے تھاپڑ …‘

میں کہتے کہتے رک گیا تھا —

’کیا — ؟ ‘تھاپڑ نے میری طرف پلٹ کر دیکھا —

’’زندگی کے سارے خواب سو گئے ہیں۔ بس ایک خواب رہ گیا ہے —  سارے مقصد کھو گئے ہیں۔ بس ایک مقصد رہ گیا ہے —  موجودہ سسٹم نے میرے بیٹے کو نگل لیا ہے —  اور اس ۴۸ سال کی عمر میں اس مقصد سے زیادہ کوئی اور مقصد میرے پاس نہیں کہ مجھے اپنا بچہ چاہیے —  زندہ اور واپس — ‘

آسمان پر سورج کا گولہ آگ برسا رہا تھا —

ہم تھکے ہارے قدموں سے واپس لوٹ رہے تھے …

٭٭

 

 

(7)

وہ اچانک چپکے سے میرے سامنے آ جاتا تھا۔میں اسے چھونے کی کوشش کرتا تو وہ غائب ہو جاتا —  ایسا جانے کتنی بار ہوا۔ کبھی کبھی یہ مرد ہونا بھی ایک بے رحم اور تکلیف دہ احساس بن جاتا ہے —  مرد آنسو نہیں رکھتے —  مرد زخموں کی نمائش نہیں کرتے —  مرد آنسوؤں کو پی جاتے ہیں —  لیکن آنسوؤں کو پی جانے کی کوشش میں بھی ہر بار کوئی نہ کوئی بے صبر قطرہ آنکھوں سے بہہ نکلتا تھا —

یقینی طور پر میں ایک جذباتی باپ تھا —  اور مجھے اپنے احساسات و جذبات کو چھپانے میں کبھی کوئی دلچسپی نہ تھی —  اسامہ کے بڑا ہونے کے بعد بھی شاید میں کبھی اسے اتنا بڑا محسوس نہیں کر پایا۔ بچپن میں وہ میری بانہوں میں سوتا تھا —  میں پاگلوں کی طرح ہر وقت اُسے اپنی بانہوں میں لیے رہتا —  کچھ عجیب سے احساس ہوتے جنہیں شاید میں کبھی لفظوں کا لباس نہ پہنا پاؤں —  جیسے یہ خواہش کہ بڑے ہونے کے بعد بھی وہ ایسے ہی میری بانہوں میں آرام کرے —  وہ میری نظروں سے ایک لمحہ کو بھی دور نہ ہو —  لیکن بڑے ہونے کے احساس کے ساتھ یہ لمحے مجھ سے کہیں دور چلے گئے تھے —  اسامہ میں خاموشی گھر کر گئی تھی اور یہ خاموشی مجھے ڈستی تھی —

میں سوچتا تھا —  بچے بڑے کیوں ہو جاتے ہیں — ؟

رباب ہنستی تھی —  ’پاگل ہو تم …‘

’بچوں کو یوں بڑا نہیں ہونا چاہیے — ‘

رباب سنجیدہ ہو جاتی —  ’اتنا پیار مت کرو — ‘

’مگر کیوں — ؟‘

’نظر لگ جاتی ہے پیار کو …‘

اور شاید پیار کو نظر لگ گئی تھی —

گھر میں اتنی اداسیاں اکٹھی ہو گئی تھیں کہ اس ویرانے پن سے ہول آتا تھا —

اسامہ کے گم ہونے کے بعد رباب نے عبادت میں خود کو گم کر دیا تھا —

اچانک چند دنوں میں ہی ہم پہلے سے کہیں زیادہ بوڑھے لگنے لگے تھے —

اُس رات عشا ء کی نماز کے بعد ہمیں ٹھہرنے  کے لیے کہا گیا تھا —  مسجد کے صحن میں نمازی جمع تھے —  امام صاحب کچھ دیر کے لیے اپنے حجرے میں گئے۔ پھر واپس آ گئے —

’آپ جانتے ہیں —  جو کچھ ہوا ہے، اچھا نہیں ہوا —  مسلمان نشانے پر ہیں —  یہاں کا ہر مسلمان خوفزدہ ہے —  حکومت کی نظر میں مسلمانوں کی اب تک کی وفاداری مشکوک ہو گئی ہے —  نوجوان سہمے ہوئے ہیں —  جو کارروائی کچھ دن پہلے ہوئی، وہ دوبارہ بھی ہوسکتی ہے —  اس لیے ہم نے فیصلہ کیا ہے …‘

امام صاحب نے چاروں طرف دیکھا —  پھر بولنا شروع کیا —

’کل صبح دس بجے میر صاحب کے گھر ہم لوگ جمع ہوں گے —  یہ مسئلہ پوری قوم کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔ ابھی بھی سوئے رہے گر تو خود کو کھو دو گے … ان کا نشانہ مسلمان نہیں ہیں —  بلکہ اصلی نشانہ اسلام ہے —  اور ہم آئندہ ایسا ہونے نہیں دیں گے — ‘

واپس گھر کی طرف لوٹتے ہوئے میرے قدم شل تھے —  اسامہ کی یادیں مجھے پتھر کر گئی تھیں —

٭٭

گھر لوٹنے کے بعد بہت دنوں بعد میں نے رباب کو ٹی وی سیریل دیکھتے ہوئے پایا تھا —

کھانا کھاؤ گے …؟

’نہیں —  ابھی کچھ دیر بعد …‘ میں پاس والے صوفے پر بیٹھ گیا۔ اس گھر میں آج کئی دنوں بعد ٹی وی چل رہا تھا —  اس درمیان زندگی ہی گم ہو گئی تھی —

اسامہ کی گمشدگی اپنے ساتھ اس گھر کی خوشیاں بھی لے گئی تھی —

’تمہیں حیرت ہو رہی ہے نا …؟ رباب میری طرف دیکھ رہی تھی —

’کس بات کی — ؟‘

’کہ میں ٹی وی دیکھ رہی ہوں —  اور تم جانتے ہو مجھے سیریل ذرا بھی پسندنہیں — ‘

’ہاں …‘

’کچھ سوچ رہی تھی —  ’رباب نے ریموٹ سے ٹی وی بند کر دیا … ’پہلے کتنا ڈرتی تھی میں …؟‘

’کیوں؟‘

’اسامہ کی موجودگی سے … اس نے زیر لب مسکرانے کی کوشش کی، گھر میں اس کی موجودگی کے باوجود ڈرتی تھی —  وہ کمرہ بند کرتا تھا تب بھی ڈرتی تھی —  اے سی چل رہا ہے … کہیں اے سی پھٹ نہ جائے … بستر کے ٹھیک اوپر فین ہے۔ کہیں فین نہ گر جائے —  سارا دن دعائیں پڑھتے ہوئے گزر جاتا تھا —  وہ گھر سے نکلتا تھا تو وحشت ہوتی تھی —  گھر سے باہر جاتا اور اس کا موبائیل سوئچ آف آتا تو میرا دل ہی بیٹھ گیا —  خدا معلوم میرا بیٹا، کس حال میں ہو گا —  اور جب تک اسامہ گھر واپس نہیں آ جاتا، میں مارے وحشت کے بس دعاؤں میں ڈوبی رہتی …؟ وہ میری طرف مڑی —  ’اب دیکھو —  پکر سکون ہوں  —  دعائیں راستہ بھول گئی ہیں —  بس ایک دعا، جیسے بھی ممکن ہو بس وہ گھر لوٹ آئے …‘

رباب نے چہرہ گھما لیا تھا —  ممکن ہے اس طرح وہ اپنے آنسوؤں کو روکنے کی کوشش کر رہی ہو —

’ایک بار یاد ہے، اسے اسکول سے گھر آنے میں دیر ہو گئی تھی —  باپ رے میری تو جان ہی نکل گئی تھی —  بعد میں معلوم ہوا، اس کا کوئی دوست بیمار تھا، جس کو لے کر وہ ہولی فیملی گیا ہوا تھا —  میرے جسم سے جیسے کسی نے سارا خون ہی نچوڑ لیا تھا … اور شب برأت کے موقع پر، یاد ہے نا …‘

’ہاں —  وہ موبائیل گھر چھوڑ گیا تھا —  دوستوں کے ساتھ مسجد میں ہی رہ گیا —  تم نے روتے روتے سارا گھر اٹھا لیا —  جبکہ میں کہتا رہا، وہ مسجد میں ہی ہو گا —  بہت سے بچے اس موقع پر مسجد میں ہی عبادت کرتے ہیں — ‘

’ہاں — ‘ رباب کی آنکھیں چمک رہی تھیں —  ’آج دیر تک اسامہ کے کمرے میں رہی۔ اس کے کمپیوٹر والی کرسی پر بیٹھی —  اس کی کتابوں کو چھوا —  دیر تک اس کی ہر شے میں اس کا لمس تلاش کرتی رہی —  رباب کی آنکھوں میں نمی تھی —  بچے بڑے ہو جاتے ہیں تو ماں باپ کے احساس کو کیوں نہیں سمجھتے —  بچے ہمیں صرف کمزور بنانا جانتے ہیں — ‘

’شاید …‘

’کبھی کبھی وہ ہنساتا بھی تھا —  جیسے میں چلاتی تھی —  اسامہ، کتابیں نکالو —  نہیں پڑھو گے تو کیا کرو گے —  کبھی کبھی وہ میرے قریب آکر بیٹھ جاتا —  اُس کے چہرے پر ایسے موقع پر ایک عجیب سی معصومیت اور شرارت ہوا کرتی —  کہتا، اتنی دولت چھوڑ جاؤ کہ میں کچھ نہ کروں —  پھر فوراً اس کے چہرے کا رنگ تبدیل ہو جاتا —  گھبراؤ مت —  میرے لیے پریشان مت ہو —  میں کچھ نہ کچھ ضرور بنوں گا۔ دیکھ لینا — ‘

میں خلا میں دیکھ رہا تھا —  شاید میری آنکھیں بھی بھیگ گئی تھیں —  اسامہ کی یادوں نے اچانک ایک لمحے کے لیے مجھے پاگل کر دیا تھا —  یہ وہی لمحہ تھا، جب عجیب سی چمک لیے ہوئے رباب میری طرف گھومی تھی —

’معجزہ پر یقین رکھتے ہو …؟‘

’کہہ نہیں سکتا‘

’میں رکھتی ہوں —  دیکھ لینا —  معجزہ ہو گا —  بہت جلد ہو گا — ‘

ایک بار پھر سے وہ اپنے آنسوؤں کے سیلاب میں بہہ گئی تھی —

اسامہ کی گمشدگی کو چھپانا اب مشکل ہو رہا تھا —  کیونکہ اسامہ پاشا کوئی ننھے بچے نہیں تھے —  انہیں آس پاس کے لوگ بھی جانتے تھے —  اس کے دوست بھی تھے —  ملنے والے بھی تھے —  وہ اپنا موبائیل بھی ساتھ لے کر نہیں گیا تھا —  اور یقیناً اس عجیب سے تجربے کو مجھے آپ سے شیئر کرنا چاہیے —  اس نے موبائیل ٹون میں ایک عربی گانا فیڈ کر رکھا تھا۔ اس کے جانے کے شروع شروع دنوں میں جب اچانک یہ ٹیون بجتی تو وہ ہمارے درمیان موجو دہو جاتا —  یہ اس کے دوستوں کے فون ہوتے —  جو یہ ماننے کو قطعی راضی نہیں ہوتے کہ اسامہ اپنا فون چھوڑ کر چچا کے یہاں جا سکتا ہے۔ موبائیل تو آج زندگی کا حصہ ہے —  ہمیں اس بات کا یقین تھا کہ ایک نہ ایک دن اسی موبائیل سے وہ واپس لوٹنے کا اعلان کرے گا —  ایک دن گھنٹی بجے گی اور اُس کی چہکتی ہوئی آواز ہمیں سنائی دے گی … ممی … میں آ رہا ہوں …

اس دن کوڑے والی نے صبح صبح دوبارہ گھنٹی بجائی تو غصہ آ گیا —

’کیا ہے …؟‘

’وہ  … بابو کو کئی دنوں سے نہیں دیکھ رہی ہوں …‘

’اسامہ چچا کے گھر گئے ہیں — ‘

’وہی تو … دروازہ تو اکثر بابو ہی کھولتے تھے — ‘

اخبار والا بھی دریافت کر رہا تھا —

’بھیّا دکھائی نہیں دے رہے — ‘

کالونی کے بچوں میں بھی اسامہ مقبول تھا —  آتے جاتے بچے بھی دریافت کرتے —

اس سے قبل مجھے یقین نہیں تھا کہ جھوٹ بولنا کتنا مشکل کام ہے —  شاید کسی جھوٹ کو سچ کی طرح مسکرا کر بولنا بے حد تکلیف دہ ہوتا ہے —  لیکن سوال تھا، اس جھوٹ کو آخر ہم کب تک چھپا پائیں گے —  لیکن ابھی اسامہ کی زندگی اور مستقبل کے لیے یہ جھوٹ ایک ضروری قدم تھا —  ہاں کبھی کبھی رباب اس جھوٹ کو چھپانے کی ناکام کوشش کرتی ہوئی ٹوٹ جاتی تھی —

’آخر ہم کب تک لوگوں سے اس سچ کو چھپائیں گے — ؟‘

’جب تک حالات ٹھیک نہیں ہو جاتے — ‘

’حالات ٹھیک ہو گئے تو …؟‘

’’ممکن ہے تب تک اسامہ واپس آ جائے …‘

ایک ماں اپنے ہی سوالوں میں الجھ جاتی تھی —

’سنو —  ممکن ہے … پولیس بھی اسے تلاش کرنے کی کوشش کرے … تو شاید جلدی کامیابی مل جائے …‘

’ہاں ممکن ہے —  لیکن اگر پولیس اسامہ کی گمشدگی کو بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر سے جوڑ کر دیکھنے لگی تو …؟

’نہیں … ‘ رباب کی آنکھوں میں خوف سما جاتا —  کچھ دیر تک خود میں کھوئی کھوئی رہنے کے بعد وہ پوچھتی …

’وہ آئے گا نا …؟‘

’کیوں نہیں آئے گا …؟‘

’پھر وہ آنے میں اتنی دیر کیوں کر رہا ہے …‘

’وہ بھی تو جانتا ہے کہ حالات اچھے نہیں — ‘

’ہاں —  لیکن اس کو جانے کی اتنی جلدی کیوں تھی —  ہمیں کہتا تو کیا ہم اسے کچھ دنوں کے لیے اپنے کسی رشتے دار کے پاس نہیں بھیج دیتے — ؟‘

’وہ نئے زمانے کا بچہ ہے —  یہ نئے زمانے کے بچے اپنے فیصلے خود کرتے ہیں — ‘

’خود کیوں کرتے ہیں فیصلے —  جب ماں باپ یہ فیصلے بہتر طور پر ککر سکتے ہیں — ‘

’یہ تو وہی بتائے گا …‘

’اگر وہ کچھ دن اور نہیں آیا …؟‘

’میں نے تھاپڑ سے بات کی ہے۔ پھر ہم پولیس کے اعلیٰ افسران سے ملیں گے —  اور اسے کھوج نکالیں گے — ‘

’وہ تب بھی نہیں ملا تو …؟‘

’ملے گا کیسے نہیں —  اپنی دعاؤں پر بھروسہ نہیں تمہیں۔ دیکھ لینا وہ بہت جلد واپس آ جائے گا — ؟

لیکن حقیقت یہ تھی کہ میں ابھی بھی خاموش نہیں بیٹھا تھا —  میں دفتر کے  لیے نکلتا تھا لیکن میری آنکھیں چاروں طرف اُسے دیکھ رہی ہوتی تھیں —  پلیا چوکی سے گزرتے ہوئے یا بڑا سا نالہ پار کرتے ہوئے میں کچھ دیر کے لیے ٹھہر جاتا —  آگے ایک کھلا قبرستان ہے —  یہاں بہت ساری زمین خالی پڑی ہے —  یہاں بچے ہمیشہ کرکٹ کھیلتے رہتے ہیں —  میں دیر تک ان بچوں میں اسامہ کے چہرے کو تلاش کرتا رہتا —  اُس دن دفتر سے لوٹتے ہوئے میں یونہی نظام الدین ریلوے اسٹیشن نکل گیا —  ممکن ہے میرا بچہ یہاں ہو —  پلیٹ فارم ٹکٹ لے کر میں دیر تک ادھر اُدھر اسے تلاش کرتا رہا —  جب بھی گھڑگھڑاتی ہوئی کوئی ٹرین رکتی —  میں دوڑ کر واپس آتا … میری آنکھیں اترنے والے مسافروں کا غور سے جائزہ لیتی رہتیں۔ نہ جانے کب ان میں سے اسامہ نکل کر سامنے آ جائے —  نئی دلّی ریلوے اسٹیشن ، پرانی دلّی … آنند وہار … میں نے بہت دیر تک اس بات پر بھی غور و خوض کیا تھا کہ اگر مان لیا، اس کے پاس پیسے ختم ہو جاتے ہیں تو وہ کیا کیا کام ککر سکتا ہے —  لیکن اس سے  بھی بڑا سوال تھا کہ کیا وہ سچ مچ اسی شہر میں ہے؟

یا اسامہ اس شہر سے کہیں دور نکل گیا؟

اگر دور نکل گیا تو کہاں؟ کس جگہ؟ کاشی کی گلیوں میں یا ممبئی — ؟ میرا دل کہتا تھا، اسے کاشی کے گلی کوچوں میں تلاش کروں —  وہاں ماضی کی ایک لمبی سڑک تھی اور اُس سڑک پر جاتے ہوئے مجھے ہول آتا تھا —  ان گلی کوچوں سے ہزاروں یادیں وابستہ تھیں۔ میرا دل کسی طور بھی یہ ماننے کو تیار نہ تھا کہ اسامہ کاشی بھی جا سکتا ہے —

پھر وہ کہاں گیا ہو گا؟ کھاتا کیا ہو گا؟ سوتا کہاں ہو گا …؟ وہ اندر سے ایک مضبوط بچہ تھا اور اس میں اپنا فیصلہ لینے کی طاقت موجود تھی —  اور یہی بات مجھے مطمئن کر رہی تھی کہ کم از کم اسے زندہ رہنے کا ہنر آتا ہے —  اور یہ بات اُس نے خط میں بھی تحریر کیا تھا کہ وہ خودکشی نہیں کرے گا —  مگر اتنی بڑی دنیا میں، اس نازک عمر کے ساتھ اکیلا، وہ کس حال میں اور کہاں ہو گا …؟

شام مجھے لوٹنے میں دیر ہو جاتی تو رباب میری کیفیت سمجھ جاتی تھی —  اُس میں ایک خوبی یہ تھی کہ وہ زیادہ سوال نہیں کرتی تھی —  ہاں، اس کے چہرے کے تاثرات سے میں اندازہ لگا لیتا کہ وہ میری تاخیر کی وجہ جان گئی ہے —  کافی دیر بعد اس کی آواز ابھرتی —

’تم اسے تلاش کرنے گئے تھے؟‘

’ہاں — ‘

ایک لمبی گہری سانس کے ساتھ کمرے میں خاموشی چھا جاتی —

٭٭

 

 

(8)

میر صاحب کا شمار علاقے کے معزز لوگوں میں ہوتا تھا —  عمر یہی کوئی 70 کے آس پاس —  پنج وقتہ نمازی —  علاقے میں اُنکا اثر و رسوخ کافی تھا —  جامعہ کے ریٹائرڈ پروفیسر تھے —  اُن کا گھر حویلی نما تھا —  بٹلہ ہاؤس اور جامعہ کی ان تنگ گلیوں میں اتننے کشادہ اور عالیشان مکان کے بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا —  گھر کے باہر ایک چوڑی سڑک تھی —  یہ یقین کرنا مشکل تھا کہ ان تنگ گلیوں سے باہر نکل کر اس علاقے میں ایسی کشادہ سرک بھی ہوسکتی ہے —  گیٹ پر ہمیشہ ایک دربان یا محافظ ہوتا —  جو دائرے نما وہیل کو گھما کر دروازے میں تھوڑی سی جگہ بناتا —  اندر دور تک کافی خالی جگہ پڑی تھی —  یہاں پروفیسر صاحب کی دو دو گاڑیاں ہر دم کھڑی رہتیں —  برامدے میں غیر ہموار فرش پر ٹائلیں بچھی تھیں —  ان کے دونوں طرف پھولوں کے گملوں کی ایک نہ ختم ہونے والی قطار تھی —  ان سے گزرنے کے بعد ایک بڑا سا ہال نظر آتا تھا —  انتہائی سلیقے اور قرینے سے صوفے لگے تھے —  ایک بڑا سا تخت، جس پر سفید چادر بچھی تھی —  گو تکیے لگے تھے —  دیوار پر حسین پنٹنگس آویزاں تھیں —  میر صاحب اسی ہال میں ملتے تھے —  عمر کے اس پڑاؤ پر اب سیاست کے گلیاروں میں بھی ان کی باتیں غور سے سنی جاتیں —  یہاں تک کہ ان کی ہر بات ایک خبر بن جاتی تھی —  وقت کے ساتھ سیاست کے اس نئے کاروبار میں میر صاحب کو مزہ آنے لگا تھا —

دس بج گئے تھے —

ہال میں آہستہ آہستہ لوگ جمع ہونے لگتے تھے —

میر صاحب گاڑی کے پاس سفید پائجامہ اور کالی شیروانی میں ملبوس کچھ لوگوں سے گھرے ہوئے گفتگو کر رہے تھے —  دروازے سے نکل کر اُن کی دعوت پر آئے ہوئے لوگوں کو ہال میں بیٹھنے کا اشارہ کرتے —  اس وقت مسجد کے امام بھی ان کے ساتھ تھے —  میر صاحب ایک بات بولتے اور باقی درست ہے، درست ہے … کہتے ہوئے اُن کی ہاں میں ہاں ملاتے۔ اس وقت بھی میر صاحب اپنے پورے رنگ میں تھے —

’میاں، آزمائش اور امتحانات سے تو بڑے بڑے پیغمبر گزرے —  آپ کیا ہیں —  اللہ کی آزمائش ہے —  اور مسلمانوں کے لیے ایک موقع کہ ہم اس آزمائش میں کامیابی سے گزر جائیں —

’درست ہے …‘

’مسلمان کہاں نشانے پر نہیں —  ساری دنیا میں مسلمان نشانے پر ہیں —  مسلمانوں کے لیے یقیناً یہ ایک برا وقت ہے —  لیکن یہی وقت محاسبہ اور تجزیہ کا ہے —  ہم دیکھیں کہ ہم سے کہاں غلطی ہوئی —  ہم دنیاوی رنگوں کے اتنے عادی ہو گئے کہ جھوٹ اور سچ کا فرق بھول گئے —  اپنے رب، اپنے آقا کو بھول گئے —  یہ عذاب تو آنا ہی تھا میاں —  یہ عذاب جو مختلف صورتوں سے ہم پر نازل ہو رہا ہے …‘

’درست ہے — ‘

لیکن ہم گھبرائیں گے نہیں —  مقابلہ کریں گے —  قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی —  ہم اپنے بچوں کی شہادت پر خاموش نہیں بیٹھیں گے۔ ہم جانتے ہیں ہم چو طرفہ حملوں سے گھر گئے ہیں —  ہم پر الزامات کی بارش ہو رہی ہے۔ کبھی ہمارے گھروں کو ڈھانے کے لیے سرکاری بلڈوزر آ جاتے ہیں —  کبھی نشانہ ہمارے معصوم بچے ہوتے ہیں —  حکومت ہم مسلمانوں کے دم سے بنتی ہے —  اس لیے ہم سیاست کے ایوانوں میں زلزلہ لانے کا ہنر بھی جانتے ہیں — ‘

’درست ہے …‘ امام صاحب نے اپنی خشخشی داڑھی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا —  ’ہم مومن ہیں —  اور مومن کسی سے نہیں ڈرتے — ‘

ہال میں لوگ بیٹھ گئے تھے —  چہ می گوئیاں شروع ہو گئی تھیں —  سب سے پہلے چائے کا دور چلا —  میر صاحب امام صاحب کو لے کر کمرے میں داخل ہوئے —  لوگ ادب سے اٹھ کھڑے ہوئے —  میر صاحب نے اپنی جگہ سنبھالتے ہوئے اُنہیں بیٹھ جانے کا اشارہ کیا —

’آپ بخوبی جانتے ہیں کہ آج کی اس ہنگامی میٹنگ کا مقصد کیا ہے؟‘

میر صاحب ایک لمحے کو ٹھہرے —  چاروں طرف دیکھا —  پھر ٹھہر ٹھر کر بولنا شروع کیا —

’اس علاقے میں وہ بھی ہوا جو اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا تھا —  لیکن ہمیں کوئی حیرت نہیں ہوئی —  کیونکہ آزادی کے بعد سے یہ عقدہ ہم مسلمانوں پر کھل چکا ہے کہ ایسی طاقتیں مسلمانوں کو کمزور کرنا چاہتی ہیں —  یہ طاقتیں ان جگہوں پر ہی ہاتھ ڈالنا پسند کرتی ہیں جہاں مسلمان معاشی اور اقتصادی طور پر مضبوط ہوتے ہیں —  بھاگلپور سے مالیگاؤں اور بھیونڈی تک —  مسلمانوں کا اتحاد اور خوشحالی ان سے برداشت نہیں ہوتی —  اور المیہ یہ ہے کہ اب کوئی بھی حکومت ہو، اس سازش میں ان کے شامل نظر آتی ہے —  میں پوچھتا ہوں انہیں حق کس نے دیا، مسلمانوں کو آتنک وادی کہنے کا — ؟ در اصل جب سے ان کے بھگوا آتنک واد کی قلعی کھلی ہے، یہ بوکھلا گئے ہیں۔ اور یہ چھوٹے چھوٹے بے قصور مسلمان بچوں کو اپنا نشانہ، اپنا ٹارگیٹ بنا رہے ہیں۔ پہلے مدرسہ … پھر اسکول اور کالج میں پڑھنے والے بچے … اور المیہ دیکھیے —  اپنا کہیں کوئی بھی نہیں —  میڈیا تک عام مسلمانوں کی آواز نہیں پہنچتی —  پہنچتی ہے تو جامع مسجد اور امام پشاوری جیسے لوگوں کی، جن کے بارے میں دنیا جانتی ہے کہ یہ لوگ محض مسلمانوں کی سیاست کرنا جانتے ہیں —  بٹلہ ہاؤس میں اتنا بڑا حادثہ ہو جاتا ہے اور ہمارے سیاسی رہنما شتر مرغ کی طرح ریت میں منہ چھپائے پھرتے ہیں۔ کیوں؟ کیونکہ آواز اٹھائی تو حکومت سے ملنے والی شیرینی بند ہو جائے گی —  اور ہمارا المیہ کہ ہم ان جیسوں پر ہی منحصر ہیں — ‘

’درست ہے۔‘

’الحمد للہ …‘

’صحیح فرمایا آپ نے  …؟‘

’میر صاحب —  سبحان اللہ ۔ کیا کہنے …؟

میں ان تمام چہروں کو پہچانتا تھا۔ ان میں راشد ، منیر اور علوی کے ڈیڈی بھی تھے۔ کچھ دنوں میں سب کی دنیائیں بے رنگ ہو گئی تھیں —  ایسے ہر چہرے پر دہشت اور خوف کے امتزاج کو محسوس کیا جا سکتا تھا۔ اس طرح کی میٹنگ میرے لیے کوئی نئی نہیں تھی —  ماضی کی اندھیری سرنگ میں کچھ یادیں روشن تھیں۔ احمد صاحب وکیل اور ان کا ہفتہ وار اخبار مجاہد اور ان کی بیٹی صوفیہ  — ذہن کے پردے پر ایک تصویر بدر کی بھی تھی۔ جو اب اس دنیا میں نہیں تھا۔ میں اس میٹنگ میں شامل تو تھا لیکن اس سیاست کو قریب سے جانتا تھا۔ اس لیے میں نے کچھ بھی بولنا مناسب نہیں سمجھا۔ میں صرف سیاست کے ان رنگوں کو دیکھنے آیا تھا۔ ہال میں کچھ مقامی صحافی بھی تھے جو اردو اخباروں کو اپنی رپورٹ بھیجا کرتے تھے۔

میر صاحب نے ایک بار پھر لوگوں کی طرف دیکھا اور بولنا شروع کیا۔

’برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر —  یہاں معز صاحب ہیں جن کا بیٹا راشد انکاؤنٹر میں مارا گیا ہے۔ منیر کے والد قاسم صاحب ہیں ان کا بیٹا بھی مارا گیا —  منیر اور راشد  کا دوست علوی ابھی بھی پولیس کی حراست میں ہے۔ ان معصوم بچوں کی لڑائی کون لڑے گا —  ؟کسی کو تو سامنے آنا پڑے گا۔ اب اس پورے معاملے کو ہم خاموشی سے نہیں لے سکتے —  کیونکہ سنگھ پریوار کی ایک ہی منشا ہے، اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرو —  انسانیت کی اس قتل و غارت گری کا بھیانک منظر ہم اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہوئے بھی خاموش رہ جائیں تو ان کے حوصلوں کو طاقت ملے گی۔ ملک و قوم کا نقصان ہو رہا ہے۔ گھر کے گھر تباہ و برباد ہو رہے ہیں۔ معصوم بچوں کی گرفتاریاں سامنے آ رہی ہیں۔ داڑھی رکھنے والوں اور ٹوپی پہننے والوں کو شک کی نظروں سے دیکھا جا رہا ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ یہ ان بچوں کے مستقبل کو کیسے بچایا جائے۔ مسلم رہنما اشتعال انگیز بیانات دے کر سیاست کی روٹیوں میں شریک ہو جاتے ہیں۔ مسلم بچے اپنے اپنے مستقبل سے بیزار اور پریشان —  ان دنوں یہ بھی ہو رہا ہے کہ ماں باپ اپنے بچوں کو مسجد جانے سے روک رہے ہیں۔ کوئی بچہ کرتا پائجامہ پہن کر گھر سے نکلنا چاہتا ہے ، تو اسے پینٹ شرٹ پہننے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔ سڑکوں پر پولیس سیکورٹی کے لوگ مسلم بچوں کو روک کر ان کی تلاشیاں لیتے ہیں۔ انہیں ذلیل کرتے ہیں۔ آخر کس عہد میں آ گئے ہیں ہم — ؟ یہ ظالمانہ کارروائی کب بند ہو گی —  ابھی کچھ دن پہلے پرانی دہلی سے ایک مسلم نوجوان عشاء کی نماز پڑھ کر گھر سے باہر نکلا اور اسے پولیس نے حراست میں لے لیا۔ ان بچوں سے زبردستی اقبالیہ بیان لیے جاتے ہیں پھر کسی نہ کسی ناکردہ جرم میں انہیں پھنسا کر جیل میں بھیج دیا جاتا ہے۔ ایسا تو فرنگیوں کی حکومت میں بھی نہیں ہوا۔ حیدر آباد سے اعظم گڑھ تک کتنے بے قصور نوجوان ہیں جنہیں کسی وجہ کے بغیر پولیس نے حراست میں لے رکھا ہے۔ اُن کے خاندانوں پر کیا گزرتی ہو گی۔ آپ بخوبی سوچ سکتے ہیں۔

میر صاحب نے لمبی سانس لی —

’اے ٹی ایس نے پہلی بار ہندو انتہا پسند تنظیموں کی رپورٹ دی ہے —  سنگھ پریوار کا چہرہ بے نقاب ہوا ہے۔

سادھوی مرگیہ سنگھ اور سابق فوجیوں کے نام سامنے آئے ہیں —  لیکن میڈیا اور اخبار ہر بار ان ناموں پر دھول کی تہہ جما دیتی ہے۔ ان ناموں کے ساتھ کچھ ہی دنوں بعد کچھ اور دھماکے ہو جاتے ہیں پھر کسی انڈین مجاہدین اور  سیمی سے وابستہ  کسی فرد کا نام سامنے آ جاتا ہے —  در اصل میڈیا بھی سنگھ پریوار اور بھگوا آتنک واد سے بچنا چاہتی ہے —  لیکن خوشی کی بات یہ ہے کہ عام لوگوں تک ان دھماکوں کے پس پردہ یہ میسیج بھی پہنچ چکا ہے کہ بھگوا آتنک واد خاموشی سے اپنا کام کر رہی ہے۔‘‘میر صاحب بولتے بولتے ہانپ گئے تھے۔ ایک لمحے کے لیے وہ ٹھہرے پھر بولنا شروع کیا —

’’سوچنا یہ ہے کہ اب ہم ایسے معاملات میں کیا کر سکتے ہیں۔ ہمارے پاس اپنے بچوں کے مستقبل کو بچانے کے لیے کیا  اسٹریٹجی ہونی چاہیے۔‘‘

’’ٹھہریئے۔‘‘

میر صاحب نے میر صاحب کو روکا۔  اسٹریٹجی سے پہلے بھی کچھ باتیں ہونی چاہئیں۔ میں نے اپنا بیٹا کھویا ہے۔ میں اس بھیانک واقعے کا چشم دید گواہ ہوں۔ پولیس نے تین دنوں تک بے وجہ مجھے بھی جیل میں بند رکھا تھا۔ سوال یہ ہے کہ میں بیٹا تو کھو چکا ہوں —  ایک معصوم بے قصور بیٹا —  لیکن میرا بیٹا عام لوگوں کی نظر میں آتنکوادی ہے۔ ایک ٹیررسٹ —  یہ بدنما گناہ ہم کیسے دھوئیں گے۔

علوی کے پاپا اپنی جگہ سے اٹھے —  ’میرا بیٹا ابھی بھی پولیس کی حراست میں ہے اور میں نہیں جانتا کہ آنے والے وقت میں پولیس اس کے ساتھ کیا سلوک کرے گی —  اُسے زبردستی اقبالیہ بیان دلائے گی۔ اُسے رہا کرے گی یا کسی انکاؤنٹر میں مار دے گی — ؟‘

امام صاحب کھڑے ہو گئے۔

’میں آپ لوگوں کا درد سمجھ سکتا ہوں — ‘ نوجوانوں سے ان کا مستقبل چھینا جا رہا ہے۔ ہونے والے تمام بم دھماکوں کا ذمہ دار مسلمانوں کو ہی بنایا جا رہا ہے۔ یہ بھی کیا جا رہا ہے کہ یہاں کے گھروں میں بم بنائے جاتے ہیں۔ لیکن کبھی کوئی بم کی فیکٹری نہیں ملی۔ بم بناتا ہوا کوئی مسلمان نہیں ملا۔ ان پر سات خون معاف اور ہمیں مسلمان ہونے کی سزا دی جا رہی ہے۔ بچوں پر جبر کیے جا رہے ہیں۔ من گھڑت کہانیاں بنائی جا رہی ہیں۔ زور زبردستی ان سے اقبالیہ بیان لیے جا رہے ہیں۔ پولیس میں فرقہ پرست عناصر کی تعداد پہلے بھی زیادہ تھی اب یہ تعداد اور بڑھ چکی ہے۔ میڈیا بھی ان کے ساتھ ہے —  دونوں مل کر مسلمانوں کا مستقبل تباہ کر رہے ہیں — ‘

میر صاحب نے ٹھنڈی سانس بھری —

’بجا فرمایا آپ نے۔‘‘

’پولیس چھوٹی کہانیوں میں ہمارے بچوں کو پھنسا کر اُنہیں جیل بھیجتی ہے پھر اُنہیں عربی رومال سے منہ ڈھانپ کر میڈیا کے  سامنے پیش کیا جا تا ہے —  ایسا نہیں ہے کہ مسلمانوں کی حمایت کرنے والے صحافی اور دانشور ہمارے پاس نہیں ہیں۔ لیکن ایسے لوگ مسلمانوں کے زخموں پر مرہم رکھ کر، چند بیانات دے کر اپنا پلّہ جھاڑ لیتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اب ہمیں کیا کرنا چاہیے۔ اب کوئی ٹھوس قدم ہمارے لیے کیا ہوسکتا ہے — ؟‘

میر صاحب نے ایک لمحے کو چاروں طرف دیکھا پھر گویا ہوئے —

’اسی لیے ہم یہاں جمع ہوئے ہیں کہ ہمیں کیا کرنا ہے؟ چار لوگوں کو جمع کیا اور ایک میٹنگ ہو گئی۔ کچھ دانشور جمع ہو گئے —  تقریریں ہو گئیں۔ اس سے کام نہیں چلے گا اب —  ہمیں سڑکوں پر مارچ کرنا ہو گا۔ حکومت کے خلاف کھلی بغاوت کا اعلان کرنا ہو گا۔ ہمیں سب سے پہلے ہوم منسٹرکو مل کر میمورنڈم دینا ہو گا —  ہم اعلانِ جنگ کریں ، ان کے خلاف جنہوں نے ہمارے لیے مورچہ کھول رکھا ہے … جو ہمارے معصوم بچوں کے مستقبل سے کھیل رہے ہیں …‘

میر صاحب کا چہرہ سرخ ہو گیا تھا۔ لوگ ان کی ہاں میں ہاں ملا رہے تھے … لیکن میرے لیے یہ ساری تقریریں بے معنی تھیں …

میرے قدم بوجھل تھے۔ میں گھر واپس لوٹ رہا تھا —  آنکھوں کے آگے ابھی بھی اسامہ کا چہرہ منڈرا رہا تھا۔ وہ کہاں ہو گا؟ کس حال میں ہو گا — ؟

گھر پہنچتے ہی رباب لپک کر میرے پاس آئی —

’میٹنگ ختم ہو گئی اتنی جلدی …؟‘

’نہیں — ‘

’پھر — ؟‘

’میں واپس لوٹ آیا …‘

وہ آنکھوں میں سوال لیے میرا جائزہ لے رہی تھی … ’کسی نے بیٹے کے بارے میں کچھ پوچھا …؟‘

’ہاں …‘

’پھر تم نے کیا کہا …؟‘

’ وہی جو سب سے کہہ رہا ہوں — ‘

’ہونہہ — ‘

رباب گہری سوچ میں ڈوب گئی تھی —

پھر مسکراتے ہوئے بولی —  ’اچھا چلو —  کچھ کھا پی لو —  صبح ناشتہ کیے بغیر ہی نکل گئے تھے —  اللہ مصیبت دیتا ہے تو صبر بھی دیتا ہے۔ یہ نئی رباب تھی جو میرے لیے اپنے آنسو تک پی گئی تھی —  میں زیر لب مسکرانے کی کوشش میں اس کا چہرہ دیکھتا رہ گیا —

٭٭

 

 

(9)

26/11

ہر چہرے میں اسامہ کی تلاش

گزرتے وقت کے ساتھ زخم مندمل ہونے کے بجائے اور گہرے ہو گئے تھے۔ میں نے اکثر تنہائی میں رباب کو اپنے آنسوؤں کا حساب لیتے دیکھتا تھا —  سڑک سے گزرتے ہر بچے میں اسامہ کا عکس نظر آتا تھا۔ دو مہینے گزر چکے تھے —  آس پاس کے لوگوں کے لیے یہ بات یقین سے پرے تھی کہ میں نے اسامہ کو چچا کے پاس بھیج دیا ہے اور وہ وہیں پڑھ رہا ہے —  سب سے زیادہ غصہ تھاپڑ کو تھا —

’کیسے صبر آ گیا ہے تم کو — ؟‘

’صبر نہیں آیا تھاپڑ — ‘

’تو پھر اُسے تلاش کیوں نہیں کرتے۔ میں جانتا ہوں کہ اس بات سے ڈر رہے ہو کہ پولیس کو اس گمشدگی کے بارے میں کیا بتاؤ گے —  اور جیسے ابھی ایک امید ہے تمہارے پاس کہ اسامہ لوٹ آئے گا۔ شاید پولیس کے پاس جانے سے تم اس یقین کو گم ہوتا ہوا محسوس کر رہے ہو …‘

’ہاں — ‘

تمہاری بات سچ ہوسکتی ہے۔ کیونکہ بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر کا بھوت ابھی زندہ ہے —  مگر یہ تو ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنے کی کارروائی ہو گی نا بڑے پاشا؟  بیٹا ہے تمہارا —  تمہارا اپنا خون —  اس یقین کے ساتھ جی لو گے ایک دن وہ واپس آ جائے گا …؟‘

’ہاں …‘

شاید میں زور سے چلّایا تھا —  ’اور کیا راستہ ہے تھاپڑ —  بتا سکتے ہو ، سارے راستے گم ہیں — ‘ میں نے گہری سانس لی —

’یا دراصل پہلے بھی کوئی راستہ نہیں تھا ہمارے پاس —  تم کیا سوچتے ہو، ہم چین سے بیٹھے ہیں؟ صرف ایک بیٹا ہے ہمارا  —  رباب کو تڑپتے دیکھتا ہوں تو زندگی کے سارے دروازے بند ہو جاتے ہیں۔ اس کے آنسوؤں کا ہر قطرہ میری جان لے لیتا ہے —  مگر رباب بھی جانتی ہے۔ مجبور ہیں ہم —  پولیس کے پاس نہیں جاتا —  ابھی کم از کم ایک آس تو ہے … امید تو ہے … پولیس کے پاس جانے سے صرف ایک انجانا خوف رہ جائے گا —  کہیں کوئی خوف ناک گولی اس کا تعاقب کرتی ہوئی اس کے حصے میں موت نہ لکھ دے —  ابھی اپنے بیٹے کے لیے کم از کم زندگی کا احساس ہے تو ہمارے پاس —  پولیس کے پاس جانے سے تو یہ احساس بھی ختم ہو جائے گا …‘

’ہونہہ … تھاپڑ نے مسکرانے کی کوشش کی —  کامریڈ پاشا، آپ کی داڑھی بڑھ گئی ہے …

’ہاں — ‘

’نماز پڑھنے لگے ہو …؟‘

’ہاں …‘

’پہلے نہیں پڑھتے تھے …؟‘

’میری آنکھیں دور خلا میں دیکھ رہی تھیں — ‘

’شاید بہت کچھ تبدیل ہو گیا اس درمیان —  ایک حادثہ ہماری اب تک کی آئیڈیالوجی کو بدل کے رکھ دیتا ہے — ‘

’شاید — ‘

’نہیں پاشا —  سوچتا ہوں، ہم جس قدر بھی کامریڈ بن جائیں۔ مذہب کے خلاف بغاوت کر دیں لیکن ہماری سنسکرتی ، ہماری جڑیں … ایک مذہب کہیں نہ کہیں  چھپا بیٹھا ہوتا ہے … ایسے حادثوں کے انتظار میں —  اور حادثہ ہوتے ہی پلک جھپکتے ہی وہ سامنے آ جاتا ہے — ‘

’ہاں — ‘

’ممکن ہے یہ مذہب میرے اندر بھی ہو —  مگر ابھی تک میری آئیڈیالوجی کے ڈر سے وہ سہما ہوا ہے۔ سامنے نہیں آیا …‘

٭٭

ہر ایک چہرے میں اسامہ کو تلاش کرنے والے رویّہ نے اس دن ہمیں کسی بت میں تبدیل کر دیا تھا —  ۲۶نومبر ۲۰۰۸  —  ٹی وی اسکرین پر گولیاں چل رہی تھیں —  سہمی ہوئی رباب میری طرف دیکھ رہی تھی —  گزرے ہوئے واقعات میں بٹلہ ہاؤس کی تکلیف دہ یادیں شامل ہو گئی تھیں —  رات کے سناٹے اور گہرے اندھیرے میں گیٹ وے آف انڈیا کے علاقے سے ممبئی میں داخل ہونے والے آتنک وادیوں نے ایک بار پھر صبر اور سکون دونوں کو چھین لیا تھا —  یقین کرنا مشکل تھا کہ عام نوجوانوں کی طرح نظر آنے والے یہ لوگ سمندری سفر کے بعد ممبئی میں آتنک کی خوفناک اور نئی فصلیں بونے والے ہیں۔ ٹی وی اسکرین پر گولیاں چل رہی تھیں —  اینکر آگ اگل رہے تھے۔ قریب ساڑھے 8بجے اے کے 47 رائفلس کے ساتھ آتنک وادی چھتر پتی، شواجی ٹرمنل میں داخل ہوئے اور تیرہ نمبر پلیٹ فارم پر پہنچ گئے۔ دیکھتے ہی دیکھتے اندھا دھن گولیاں برسنے لگیں … دیکھتے ہی دیکھتے پلیٹ فارم انسانی لاشوں سے بھر گیا —

میں نے ریموٹ سے ٹی وی بند کر نا چاہا تو رباب نے روک دیا … ٹی وی اسکرین پر اس کی آنکھیں بغور ان چہروں کو دیکھ رہی تھیں۔ کارگو کی پینٹ … اور ورساچے کی ٹی شرٹ پہنے … کندھے پر مڑا تڑا بیگ لیے ایک نوجوان … سڑک پر گھومتے عام نوجوانوں جیسا ہی ایک نوجوان … ایک ہاتھ میں اے کے ۴۷ …

رباب کی آنکھیں غور سے اس چہرے کا جائزہ لے رہی تھیں۔ نریمن پوائنٹ ، گاما ہاسٹل … جلتا ہوا تاج محل ہوٹل … چاروں طرف خوف ہی خوف … باہر سے گولیاں چلاتی پولیس …

لیوپولڈ سے نکل کر قاتل اب تاج محل ہوٹل پہنچ کر موت کا خونی رقص شروع کر چکے تھے —  ایک ہی وقت میں کئی کئی جگہوں پر حملے شروع ہو گئے تھے۔ نریمن ہاؤس میں ہتھ گولے پھینکے گئے اور وہاں موجود لوگوں کو یرغمال بنا لیا گیا —  کمانڈوز آپریشن کے لیے تیار تھے — اسکرین پر بار بار مارے گئے آتنک وادیوں کی تصویریں فلیش کی جا رہی تھیں —  ان میں ایک تصویر شیشے کے پیچھے کھڑے ایک آتنک وادی کی تھی —

وہی کارگو کی پینٹ … اور ورساچے کی شرٹ پہنے ہوا نوجوان  …

’ٹھہرو …‘

رباب زور سے چیخی —  ’دیکھنے دو —  یہ اس کے دوسرے ہاتھ میں امام ضامن ہے کیا — ؟‘

’پتہ نہیں — ‘

اس کا چہرہ صاف کیوں نہیں ہے …؟ کتنی عمر ہو گی اس کی …؟

’تمہیں اس سے کیا — ‘

مجھے اس خبر یا اس منظر میں کوئی دلچسی نہیں تھی۔ جسم کے رونگٹے کھڑے تھے —  یہ سارا منظر ایسا تھا جیسے ممبئی کو چاروں طرف سے دشمنوں نے گھیر لیا ہو —

میں اس منظر سے نکلنے کی کوشش کر رہا تھا —  مگر شاید رباب اسی منظر میں گم تھی …

’تم نے ٹی وی کیوں بند کر دیا؟‘

’کیونکہ مجھے ایسے مناظر توڑ دیتے ہیں — ‘

’ہونہہ …‘

رباب ابھی بھی اس چہرے میں گم تھی …

’تم نے اس بچے کو دیکھا …؟‘

’بچہ …؟‘

’ہاں —  وہ شیشے کے پاس چھپا تھا …؟‘

’وہ آتنک وادی تھا — ‘

’ہونہہ —  آتنک وادی —  بالکل ایک عام سا بچہ  … جیسے عام بچے ہوتے ہیں …‘

میں رباب کی آنکھوں میں جھانکنے کی کوشش کر رہا تھا۔

’تم کو اس بچے میں دلچسپی کیوں ہے؟‘

’دلچسپی نہیں ہے — ‘ رباب میری طرف مڑی —  اس بچے کے ماں باپ بھی ہوں گے نا؟ ماں باپ بھی اپنے اپنے ٹی وی اسکرین پر یہ منظر دیکھ رہے ہوں گے …؟‘

’ہاں — ‘

’پھر انہیں کیسا لگ رہا ہو گا — ؟‘

’تم پاگل ہو گئی ہو رباب …‘

’شاید …‘

رباب گہری سوچ میں ڈوبی تھی —

’اسامہ اس سے کتنا بڑا ہو گا؟‘

رباب کی بات پر میں چونک گیا تھا —  ’کیوں؟‘

’بس یونہی … کچھ سوچ رہی تھی …‘

میری آنکھیں جذبات سے عاری تھیں۔ میں رباب کے فکر مند چہرے کو بغور دیکھ رہا تھا …

’اتنی وحشت کہاں سے آ جاتی ہے؟‘

’نہیں پتہ …‘

’لوگ کیسے کسی کو مار سکتے ہیں …؟‘

’نہیں جانتا …‘

’اور یہ چھوٹے چھوٹے بچے ہاتھوں میں اسلحے لیے …؟‘

میں نے نظریں اُس کے چہرے پر مرکوز کر دی تھیں —

رباب خوف سے نہا گئی تھی —

’ایسے تو ہم ڈرتے رہیں گے …؟‘

’ہاں …‘

’زندگی بھر ڈرتے رہیں گے …‘

’شاید …‘

’ایک پوری زندگی ڈر اور گھٹن کے ساتھ …؟ وہ میری آنکھوں میں جھانک رہی تھی …‘

’چارہ کیا ہے …‘

’عجیب رسم ہے … ہم نے بیٹا بھی کھویا ہے …؟‘

’اور ہم ڈر بھی رہے ہیں …‘

’لیکن کیوں ڈر رہے ہیں …؟‘

’کیونکہ ہمارا بیٹا جوان ہو رہا تھا — ‘

’جوان ہو نا جرم ہے …؟‘

’نہیں — ‘

’ایک مسلمان بچہ جوان ہو رہا تھا — ‘

’مسلمان بچے کا جوان ہونا جرم ہے …؟‘

’ہاں …‘

’کیوں؟‘

’یہ تم بھی جانتی ہو کہ تم بھی ابھی ڈر گئی تھی … ‘

’ہاں  … شاید …‘ رباب سہمی ہوئی، گردن ہلاتی ہوئی کچھ سوچ رہی تھی —  میں ڈر گئی تھی … میں شاید اس آتنک وادی میں …‘

’اسامہ کو تلاش کر رہی تھی …‘

’ہاں … تمہیں کیسے معلوم …؟‘

’کیونکہ میں بھی شاید یہی کر رہا تھا۔ لیکن سوال ہے … میں ایسا کیوں کر رہا تھا ؟ اور تم ایسا کیوں کر رہی تھی۔ ہم دونوں جانتے ہیں کہ ہمارا بیٹا ایسا نہیں ککر سکتا …‘

’پھر بھی  …‘

’ہاں … پھر بھی … جانے انجانے ہم نفسیات کی ایک نازک گرہ سے بندھ جاتے ہیں۔‘

’شاید …‘

’لیکن پھر بھی اس دہشت گرد میں ایک کھوئے ہوئے بیٹے کو تلاش کرنا …؟‘ رباب میری طرف مڑی تھی …

’یہ پاگل پن ہے …‘

’پیار بھی ہوسکتا ہے۔‘

’ممکن ہے — ‘

’ہم اسے سب جگہ تلاش کرتے ہیں —  اچھی جگہ بھی اور بری جگہ بھی … اور ایسی جگہ بھی —  ‘ اس کی آنکھوں میں دہشت کے سائے روشن تھے۔ ’جہاں اسے تلاش نہیں کرنا چاہیے۔‘

’پھر بھی ہم اسے تلاش کرتے ہیں۔‘

’ہاں …‘

’کہ وہ مل جائے —  بس کسی طرح مل جائے وہ … یہ میں تھا …’ تم نے دیکھا، اس کے ایک ہاتھ میں …؟‘

’اے کے ۴۷ …‘

’میرا بیٹا تو ایسے کسی اسلحے کے بارے میں جانتا بھی نہیں۔‘

’ہاں — ‘

’دوسرے ہاتھ میں ایک سیاہ پٹّی تھی جیسے تعویذ  …‘

’ممکن ہے اس کی ماں نے دی ہو … پناہ کے لیے …‘

’ماں کی محبت کا یہ بچے ایسے بدلا چکاتے ہیں …؟‘

’یہ بچے ان محبتوں سے واقف ہی کہاں ہوتے ہیں؟‘ میرے چہرے پر بھی درد کی ایک لکیر نمایاں تھی۔

’کیوں نہیں ہوتے ؟ ہوتے ہیں … اسامہ ان بچوں سے الگ تھا۔ شاید ہم ہی اپنے بچوں کی محبت کو نہیں سمجھ پاتے …‘

میں نے رباب کی طرف دیکھا۔ شاید ایک بار پھر اس کی آنکھوں میں ابھی ہونے والے دھماکے سما گئے تھے … اس کی آنکھیں گہری فکر میں ڈوب گئی تھیں۔

سچ تو یہ ہے کہ کچھ یہی حال میرا تھا۔ یہ کوئی عام دھماکہ نہ تھا —  یہ صدی کے چند بڑے دھماکوں جیسا دھماکہ تھا —  جیسے ایک ملک ، ایک دشمن ملک کے خلاف جنگ کا اعلان کرتا ہے —

کمانڈوز کے ذریعہ مارے جانے والے آتنک وادی اسلام سے تعلق رکھتے تھے … اور وہ بھی، جو ہاتھوں میں اے کے ۴۷ لیے شیشے کے پیچھے سے کمانڈوز کی حرکت پر نگاہ رکھ رہا تھا … ایسے واقعات کے بعد مسلمان ہونے کے نام پر جو ذلت اور شرمندگی ہمارے حصے میں آتی ہے، اس وقت میں انہی باتوں سے گز رہا تھا —

ان واقعات کے بعد جیسے اسلامی نام یا مسلمان ہونے کے نام پر شرم محسوس ہوتی تھی —  غیر مسلم دوستوں کے سامنے پھیکی ہنسی یا شرمندہ ہونے کا احساس —  جھکا ہوا سر —

مجھے یاد ہے ایک بار ایسی ہی کارروائی کے درمیان میرے جھکے سر کو دیکھ کر تھاپڑ چیخا تھا —

’وہ تم نہیں ہو — ؟‘

’جانتا ہوں — ‘

’پھر کس بات کی ندامت ہے تم کو …؟‘

’کیوں کہ وہ میری قوم کے ہیں۔ میرے ہم مذہب ہیں — ‘

’یہ کس نے کہا کہ وہ تمہاری قوم یا مذہب کے ہیں —  ہوسکتا ہے یہ بھی جھوٹ ہو۔ کرائے کے ٹٹو ہوں یہ —  جو ایک ناپاک فیکٹری میں تیار کیے جاتے ہوں —  ہوسکتا ہے ان میں کچھ مسلمان ہوں —  آج پیسوں کے لیے کون نہیں بکتا —  اور سوال یہ ہے کہ تم انہیں مسلمان سمجھتے ہی کیوں ہو؟‘

’لباس … ٹوپیاں … کرتا پائجامہ … داڑھی …‘

تھاپڑ ہنسا تھا —  ’تو مت پہنو یہ لباس … وہ فوراً سنجیدہ ہو گیا —  تمہارا بیٹا کتنی اردو جانتا ہے؟ پکڑے جانے والا ہر شخص اردو اور عربی جانتا ہے —  عربی رومال ہوتے ہیں۔ داڑھی ہوتی ہے۔ ان کے لیے یہ آئیڈینٹٹی ضروری ہے کیونکہ اس مخصوص آئیڈینٹٹی کا مطلب مسلمان ہونا ہے —  اور اس آئیڈینٹٹی کے ذریعہ اس  گلوبل دنیا میں آرام سے یہ میسج دینے میں کامیاب ہیں —  اور مجھے اسی لیے …‘

تھاپڑ نے میری آنکھوں میں جھانکا —  ’مجھے اسی لیے ان کی نیت پر شک ہوتا ہے۔ اسی لیے —  اور جیسا میں نے کہا یہ آتنک وادی ایک خاص طرح کی لیبارٹری یا فیکٹری میں تیار کیے جاتے ہیں —  تھاپڑ غصے میں تھا —  ’وہ تم نہیں ہو —  اور تمہیں یہ بات کسی کو سمجھانے کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ تم اس ملک میں مٹھی بھر نہیں ہو —  تمہاری تعداد اتنی ہے جتنے … میں ایک اچھا خاصہ بڑا ملک اپنی آزادی کے ساتھ سانس لے سکتا ہے۔ اس لیے ڈرتے کیوں ہو — ‘

لیکن شاید تھاپڑ کے سمجھانے کے باوجود یہ ڈر ہم مسلمانوں کا حصہ تھا —  اسی ڈر کے سائے میں ہماری پرورش ہوئی تھی —  اور اسی ڈر کو لیے ہم بڑے ہوئے تھے۔ اور پھر اسی ڈر کے ساتھ ہمارے بچے بھی بڑے ہونے لگے —

’ایک بات میری سمجھ میں کبھی نہیں آئی … ؟‘ رباب کچھ سوچتی ہوئی ٹھہر گئی۔

’کیا  … کون سی بات …؟‘

’کیا لوگ سچ مچ مسلمان ہوتے ہیں، لادن سے اس قصاب تک …؟‘

’کیوں — ؟‘

’اب لادن یا ظواہری کو ہی لیجئے —  اتنا نورانی چہرہ —  مذہب کی باتیں —  لیکن کیا اُنہیں اس بات کا پتہ نہیں تھا کہ ان خونی واقعات کے ری ایکشن کیا ہوسکتے ہیں؟‘

’سب پتہ ہے — ‘

’کیا انہیں پتہ نہیں کہ وہ اسلام کی غلط تصویر پیش کر رہے ہیں — ؟‘

’بالکل پتہ ہے — ‘

رباب ابھی بھی سوچ میں ڈوبی تھی —  ’یا جہاد کے نام پر … وہ سارے مسلمانوں کے آگے ایک سوالیہ نشان لگا رہے ہیں — ؟‘

کیا تم انہیں اب بھی مسلمان سمجھتی ہو؟ ‘ اس بار میں نے تھاپڑ کا لہجہ اختیار کیا تھا —

’کیوں — ؟‘

’مسلمان نام ہونے سے کوئی مسلمان ہو جاتا ہے۔؟‘

’نہیں —  لیکن دوسروں تک پیغام …‘

’یہ دوسرے کون ہیں؟‘ مجھے سارترے کی یاد آ گئی تھی —

’پتہ نہیں — ‘

’دوسروں پر یقین مت رکھو۔ لادن بش کی فیکٹری میں پیدا ہوا اور قصاب بھی اسی فیکٹری سے نکلا ہے —  اس فیکٹری کا نام امریکہ ہے —  پاکستان تو صرف ایک Puppet کا رول ادا کر رہا ہے … تمہیں وہ مضمون پڑھایا تھا نا رباب —  ارون دھتی رائے کا … یاد ہے … ایک دن امریکی فوج پاکستان اور ہندستان کی سڑکوں پر مارچ کر رہی ہو گی اور سارے بڑے نیتا قید خانے میں ہوں گے …‘

’ہاں — ‘

’انڈیا شائننگ کے بہلاوے میں، خواب دیکھنے والے یہ ملک امریکی غلام ہیں —  اور یہ خواب بھی امریکی پارسل میں بند آیا ہے۔ بس خوش ہوتے رہو —  کمان تو ہمارے ہاتھ میں ہے۔ جب مرضی ہو گی دو ملکوں کو لڑا دیں گے —  اور شاید اس وقت یہی ہو رہا ہے — ‘

رباب نے پلٹ کر میری طرف دیکھا —

’ایک بات کہوں —  ان حادثات کے بعد اپنا ملک پرایا لگتا ہے مجھے  … جیسے ایک پرائے دیس میں ہوں۔ اس ملک سے اپنا حق کھو چکی ہوں —  چاروں طرف سے اٹھنے والی شک کی سوئیاں رہ گئی ہیں —  ہم باہر نکلتے ہیں تو جیسے چبھتی ہوئی آنکھیں ہوتی ہیں —  وہ رہی مسلمان عورت … پردے اور حجاب کو بھی شک کے دائرے میں دیکھنے والے لوگ ہیں —  صرف ان کچھ لوگوں کی وجہ سے —  جو مسلمان بن کر آتے ہیں۔ اسلامی نام کا سہارا لیتے ہیں۔ اسلامی لباس پہنتے ہیں۔ اور جہاد کے نام پر ہمارا سرشرم سے جھکا دیتے ہیں۔ ایسے میں ہم اپنے غیر مسلم دوستوںسے چھپتے پھرتے ہیں۔ سنو نا …؟ وہ میری آنکھوں میں جھانک رہی تھی۔ اتنے عرب ممالک ہیں۔ اتنے سارے مسلمان —  کوئی یہ آواز کیوں نہیں اٹھاتا …‘

’کیسی آواز — ؟‘

’کہ یہ آتنک وادی اپنے نام بدلیں —  اور خدا کے لیے خود کو مسلمان نہ کہیں — ‘

میرے چہرے پر ایک زہریلی مسکراہٹ تھی —  ’یہ جن آقاؤں کے اشارے پر ہو رہا ہے، وہ یہی چاہتے ہیں کہ رباب —  اور یہ بکے ہوئے کتّے اس معاملے میں صرف زر خرید غلام ہیں۔ اس سے زیادہ ان کی اوقات نہیں ہے — ‘

’شاید تم سچ کہتے ہو …‘

رباب کے چہرے پر ایک لہر آئی تھی —  اب اس کا چہرہ سیاہ بدلیوں سے باہر آیا تھا —

’کوئی اسامہ سے بھی تو غلط کام لے سکتا ہے؟‘

ڈھن … ڈھن …

اچانک میں چونک گیا تھا۔ ایک ساتھ ہزاروں میزائلیں چھوٹ گئی تھیں۔ جانے کہاں ہو گا؟ پیسے ہوں گے یا نہیں۔ یا مجبوریاں … لیکن جانتی ہوں اپنے بیٹے کو … پریشان مت ہو …‘

گیلی آنکھیں پوچھتی ہوئی وہ پھر میری طرف مڑی —  ’پھر بھی —  ایک بات کہوں؟‘

’بولو نا — ‘

’اسے تلاش کرو —  اب بہت ہو گیا۔ تلاش کرو اسے —

’تم کہو تو میں بھی …‘

میں صوفے سے اٹھ کھڑا ہوا تھا …

’کہیں سے تو کچھ معلوم ہو —  دو مہینے اس کی گمشدگی ہم نے چھپا کر رکھی —  کیا ہوا  — کچھ نہیں ہوا —  اب ہمت سے کام لو —  پتہ لگاؤ اس کا — ‘

’تمہارا مطلب ہے پولیس میں رپورٹ …؟

’کیوں نہیں — ‘

’وہ پوچھیں گے کہ تمہارا بیٹا کب سے غائب ہے …؟‘

’تو سچ بتا دینا …‘

’کیا سچ بتاؤں گا — ‘

’تمہارے پاس وہ خط ہے نا … وہ خط آج کے ایک وفادار اور ستائے ہوئے مسلم نوجوان کی آپ بیتی ہے کہ آپ کے اس سسٹم میں نہیں جی سکتے — ‘

’اور تمہارا مطلب ہے وہ اس سچ کو مان لیں گے؟‘

’انہیں ماننا ہو گا —  اور جیسا کہ آپ بھی کہتے ہیں … ہر دہشت گرد مسلمان ہوتا ہے لیکن ہر مسلمان دہشت گرد نہیں ہوتا — ‘

’دہشت گرد تو راشد، منیر اور علوی بھی نہیں تھے — ‘

’جانتی ہوں —  ان کے ساتھ اُن کا نصیب تھا۔ میرے بیٹے کا نصیب ایسا نہیں ہو گا — ‘

میں رباب کے اس مکالمے پر چونک گیا تھا —  اس کے چہرے پر ایک انوکھی تازگی تھی —

’جانتے ہو، آج میں نے اس کے لیے کچھ لکھا ہے۔ چند بے معنی لفظ —  یونہی اس کی یاد میں کاغذ پر اتار دیئے۔ بس، اس کی یادیں اوجھل ہی نہیں ہوتیں۔ ٹھہرو تمہیں دکھاتی ہوں …

دوڑ کر بیڈ روم سے وہ ایک ڈائری لے آئی —

’پڑھو نا … یہ میرے بچے کے لیے ہے —  شاید ٹھیک طرح میں اپنے احساس کو لکھ بھی نہیں پائی —  لیکن اب اپنے بیٹے سے گفتگو کا ایک ذریعہ مل گیا ہے مجھے — ‘

ڈائری اس نے میری طرف بڑھا دی —  میں نے ایک لمحہ کے لیے رباب کی طرف دیکھا —  پھر میری نظر ڈائری میں تحریر کیے گئے  لفظوں پر تیرنے لگی —

میرے بچے —

میرے اسامہ

میرے چھوٹے ننھے پاشا/

ایک دن ہم دونوں وان گاگ کی پینٹنگس دیکھ رہے تھے …

یاد ہے تمہیں؟

کمپیوٹر اسکرین پر/

گوگل سرچ میں/ یاد ہے نا تمہیں …

جہاں کینواس پر برش اور رنگوں کے تصور سے

اس نے روک لیا تھا … ہوا کو …

ایک جھل مل، شفاف جسم کے درمیان …

یاد ہے نا … تمہیں؟

میرے بیٹے۔

ٹھیک ویسے ہی

میں نے روک لیا ہے وقت کو

فریز کر دیا ہے/

تمہارے لیے / اور تمہاری یادوں کے نام پر/

کہ تمہاری موجودگی/ میرے لیے

موسیقی کا سب سے حسین راگ

اور دنیا کی سب سے حسین خوشبو بن جاتی تھی/

تمہاری روشن آنکھیں میرے لیے ایک خوابوں کا جزیرہ

اور تمہاری معصوم بانہیں

میرے لیے کائنات کا سب سے حسین منظر/

میرے بیٹے

میرے اسامہ

میں ان لمحوں کو کھونا نہیں چاہتی  …/

اپنے اندر رکھنا چاہتی ہوں/

زندہ /ہمیشہ/

سب سے چھپا کر

ہوا، خوشبو ، تتلی، لہریں اور قدرت سے بھی/

تمہارے معصوم ہاتھوں کی چھون یا لمس کو

میں گزرے وقت کی تاریخ نہیں بنانا چاہتی

بس، زندہ رکھنا چاہتی ہوں/

ہمیشہ کے لیے اپنے اندر/

وان گاگ کی اس پینٹنگ کی طرح‘

اور حقیقت یہ ہے کہ میری آنکھوں میں آنسو تھے۔ میں سب بھول گیا تھا۔ اس ایک لمحے رباب میرے لیے دنیا کی سب سے مضبوط عورت اور ایک پیاری سی محبوبہ بن گئی تھی۔ میں سب کچھ بھول گیا تھا —  رباب میری بانہوں میں تھی۔ میرے ہونٹ سونامی بن گئے تھے —  اس منظر میں ہم وان گاگ کی نایاب پینٹنگس سے آگے نکل گئے تھے —  چہرہ آنسوؤں سے تر مگر ایک دوسرے کے بوسے میں گم …

آنکھوں کے ذرا سے فاصلے پر آنکھیں …

کانپتی ہتھیلیاں مدتوں بعد اس کے گلابی جسم کی پشت پر رقص کرتی ہوئی —

ہونٹ، ہونٹ پر سجدہ کرتے ہوئے …

اور اس ایک لمحے سب کچھ بھول کر ہم نے خود کو جسم کی بے کراں موجوں کے حوالے کر دیا …

اور اس ایک لمحے میں بھی احساس کی ہر طرح کی سیپیاں ہمارے پاس موجود تھیں۔ آنسو، برہنہ احساس، سنامی، محبت اور ایک دوسرے میں بہہ جانے کا موسم …

میں شاید اسے چومتے ہوئے آہستہ آہستہ بڑبڑا رہا تھا …

رباب …

میری رباب …

تیرے ہر راگ میں

جسم کے ساز میں

عمر بہتی رہی …

میں بھی بہتا رہا۔

مجھے اس کا غم نہیں کہ عمر کے کسی نازک پڑاؤ پر کوئی اور بھی لہر تھی، جو مجھ سے ٹکرائی تھی —  اور اس حد تک ٹکرائی تھی کہ مجھے بے خود کر گئی تھی۔ آنکھوں میں کہیں صوفیہ کی تصویر ابھرتی ہے …

رباب کے ہونٹوں کو چومتا ہوا ایک سیلابی ندی سی کیفیت مجھ پر حاوی تھی … ہونٹ لرز رہے تھے …

کانپتی لرزتی ہتھیلیوں میں سانپ روشن تھے …

مریم ، سیتا، خدیجہ … رابعہ  … ایسی ہزاروں کہانیوں سے الگ … میں نے ہر رنگ تم میں دیکھ لیا —  ہر ایک سانسوں میں تمہیں جی لیا —  تم ہر بار پہلے سے بڑی ہوتی رہی میرے لیے —  اور میں ہر بار چھوٹا اور چھوٹا ہوتا گیا …

’پاگل ہو تم —  پورے پاگل ہو تم …‘

ایک برہنہ ندی میری بانہوں میں انگڑائیاں لے رہی تھی۔

’تمہارے لیے تو فرشتے بھی سو راستے بھول جائیں میری جان …‘

ندی میں ہلچل تھی —

لہریں راگ ، نشہ اور سنامی بن گئی تھیں —

لہریں گرج رہی تھیں —  برس رہی تھیں …

رباب میری بانہوں میں گم تھی …

ہلچل رک گئی تھی —

ندی اب شانت تھی …

میرے سینے پر سر رکھے وہ لمبی لمبی سانسیں لے رہی تھی …

’سنو … اب لے آؤ اسے —  بہت دیکھنے کا من کرتا ہے —  اسے لے آؤ نا …‘

’ہونہہ — ‘

’اب تلاش کرو اسے —  ‘ اس کی آنکھیں ٹی وی اسکرین کے ان خونی مناظر میں گم تھیں —

’سنو نا … کچھ لوگ ایک بُرے مقصد کے لیے  … ہاں ، ایک بُرے ارادے اور برے مقصد کے لیے کسی بھی حد تک چلے جاتے ہیں۔ ایک چیلنج کو لے کر ، جو یقیناً ایک برے کام کے لیے ہوتا ہے —  سمجھ رہے ہونا میری بات …‘

’ہونہہ …‘

تو پھر ہم ایک اچھے مقصد کے لیے … ایک چیلنج قبول کیوں نہیں ککر سکتے؟

اب لے آؤ، بیٹے کو —  اب رہا نہیں جاتا —  صبر کی حدیں ختم ہو گئی ہیں … تلاش کرو اُسے — ‘

آسمان پر جھلملاتے تاروں کا رقص جاری تھا —

میرے لیے ابھی بھی یہ سوچ پانا مشکل تھا کہ میں اسامہ کی تلاش کہاں سے شروع کروں —

لیکن اب میں نے اُسے تلاش کرنے کا ارادہ کر لیا تھا —

یہ  تلاش ہی میری زندگی کا واحد مقصد تھا —

٭٭٭

 

 

سراغ

(2008-2010)

 

 

 (1)

تین مہینے کے اندر بٹلہ ہاؤس اور انسپکٹر ورما کا معاملہ اتنا طول پکڑ گیا تھا کہ میڈیا اور پولیس کے پسینے چھوٹ گئے تھے —  ایک طرف ورما کو سچا دیش بھکت اور شہید بتانے والوں کا ایک بڑا طبقہ سامنے آیا تھا۔ ان کی نظر میں ایسے لوگ دیش دروہی تھے جو ورما کی شہادت کو ماننے کے لیے تیار نہیں تھے۔ وہیں ثبوت اور گواہوں کی غیر موجودگی میں سیاست کے ایوانوں سے لے کر میڈیا صحافی، دانشور اور کتنے ہی رنگ کرمی ایسے تھے جو ابھی بھی اس پورے حادثے کو فرضی انکاؤنٹر تسلیم کر رہے تھے —  پولیس بوکھلا گئی تھی —  اور اس کا نتیجہ تھا کہ جب تین مہینے بعد اسامہ کی گمشدگی کی اف آئی آر درج کرانے میں تھاپڑ کے ساتھ تھانے پہنچا تو اس ایچ او نے اف آئی آر درج کرنے سے صاف منع کر دیا —

اس درمیان ایک نیشنل ڈیلی اخبار میں اسامہ کو لے کر تھاپڑ کی ایک چونکا دینے والی رپورٹ شائع ہوئی —

’اس سسٹم میں کھوٹ ہے —  مسلم نوجوان اپنے گھروں سے بھاگ رہے ہیں — ‘

یہ رپورٹ اسامہ کو لے کر تھی —  لیکن رپورٹ میں ایسے کئی بچوں کے نام لکھے گئے تھے جو گھر سے فرار تھے۔ انہیں سسٹم کا اژدہا نگل گیا تھا۔ ایسے کئی نوجوان تھے جنہوں نے ذلت اور مایوسی میں خودکشی کر لی تھی —  بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر کے بعد تھاپڑ نے ان نو جوانوں کا ذکر بھی کیا تھا جن کو حال فی الحال میں نوکری ملی تھی مگر مسلمان ہونے کے نام پر کوئی نہ کوئی بہانہ بنا کر انہیں نوکری سے نکال دیا گیا —  تھاپڑ نے آگے لکھا تھا۔ دار السلطنت دلّی میں آئے دن دوسرے شہروں اور گاؤں سے تعلیم حاصل کرنے یا روزگار کی تلاش میں مسلم نوجوان آتے رہتے ہیں۔ لیکن عام طور پر کرائے کے فلیٹ کے لیے ان مسلم نوجوانوں کو زبردست جھٹکے لگتے ہیں۔ کیونکہ کوئی بھی مکان مالک مسلمانوں کو اپنا مکان کرائے دار کے طور پر نہیں دینا چاہتا۔ یہاں تک کہ بہت سے مسلم جوڑے بھی کرائے کے مکان کی تلاش میں در در کی ٹھوکریں کھاتے رہتے ہیں —  جس ملک میں عمران خاں اور جاوید اختر صاحب جیسے سے لی بریٹی کو مسلمان ہونے کے نام پر فلیٹ ملنا مشکل ہو وہاں ایک عام مسلمان کی بساط ہی کیا ہے؟

رپورٹ میں 16 سال کے اسامہ اور اس کے مستقبل کو لے کر اندیشہ ظاہر کیا گیا تھا —  اس رپورٹ کا آنا تھا کہ اس کی گونج راجیہ سبھا سے سنسد کے گلیاروں میں بھی ہوئی —  اردو  اخباروں کے ساتھ ہندی اور انگریزی کے اخباروں نے بھی مسلم بچوں کی گمشدگی کا معاملہ اچھالا اور یہ تشویش بھی ظاہر کی کہ پولیس ان مفرور بچوں کو دہشت پسندی کی آنکھ سے نہ دیکھے —

اب یہ معاملہ میڈیا تک پہنچ گیا تھا —

اس دن شام میں تھاپڑ کی موجودگی میں ایک بڑے نیشنل چینل سے فون آ گیا —

’کیا آپ ہمارے اسٹوڈیو آسکتے ہیں —  ہم اسامہ کی کہانی کو ہائی لائٹ کرنا چاہتے ہیں — ‘

’مبارک ہو — ‘

تھاپڑ نے ہاتھ ہلاتے ہوئے کہا —  میں یہی چاہتا تھا کہ میڈیا تک یہ خبر جائے —  اس سے اسامہ کی تلاش میں مدد ملے گی۔ اس کی تصویر فلیش کی جائے گی اور یہ چینلس چھوٹے چھوٹے گاؤں اور قصبوں تک پہنچتے ہیں۔‘

بہت دنوں بعد میں نے رباب کے چہرے پر ایک ہلکی سی مسکراہٹ دیکھی تھی —

لیکن میں چینل پر اس مدعے کو اٹھانے سے خوش نہیں تھا —  تھاپڑ میرے چہرے کے رنگ پڑھ رہا تھا —

’کیا بات ہے … تم کچھ الجھن میں لگ رہے ہو؟‘

’ہاں — ‘

’میڈیا میں بات چلی جائے گی اس لیے — ‘

’میڈیا میں بات تو جا ہی چکی ہے — ‘

’پھر — ؟‘

میں نے رباب کی طرف دیکھا —  پھر تھاپڑ کے چہرے کا جائزہ لیا —  مجھے لگتا ہے اس سے اسامہ کی مشکلیں بڑھ جائیں گی …‘

تھاپڑ گہری سوچ میں تھا —

میں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا —  ’چینل میں آنے کا مطلب ہے وہ بہت جلد لوگوں کی آنکھوں میں آسکتا ہے۔ لیکن غلط لوگ بھی تو اس کا استعمال ککر سکتے ہیں۔‘

’غلط لوگ — ؟‘

’ہاں —  جو اس کا سراغ پاتے ہی اسے مشکلوں میں بھی ڈال سکتے ہیں۔‘

’کہیں نہ کہیں ایک کر سک تو اٹھانا ہو گا — ‘ تھاپڑ رباب کی آنکھوں میں دیکھ رہا تھا —  ’اور مجھے لگتا ہے تمہیں یہ کر سک قبول کرنا چاہیے۔ ممکن ہے اس سے اسامہ کی واپسی میں آسانی ہو — ‘

میں نے گہرے شک اور اندیشے کے باوجود تھاپر کی بات تسلیم کرلی تھی۔

٭٭

بریکنگ نیوز کی سرخی تھی —  تیزی سے گم ہوتے جا رہے ہیں مسلم نوجوان۔

اسٹوڈیو پہنچے اور میک اپ کے بعد اینکر نے کچھ دیر تک ہم دونوں سے بات چیت کی۔ اس پروگرام کی حیثیت لائیو نہیں تھی —  گھریلو البم سے اسامہ کی تصویریں پہلے ہی کیمرہ مین کے حوالے کی جاچکی تھیں —  آدھے گھنٹے کے اس پروگرام میں اسامہ کے تعلق سے اینکر نے مسلم نوجوانوں کے دوسرے مسائل کو بھی اٹھانے کی کوشش کی تھی —  اسامہ کے خط کو خاص طور پر ہائی لائٹ کیا گیا تھا —

’یہ آج کے مسلم یووا ہیں جو خود کو اس سسٹم میں آسورکچھت محسوس کرتے ہیں۔

کون لے گا اس کی ذمہ داری — ؟

کیا سرکار سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی خاموش رہے گی — ؟ ٹی وی اسکرین پر بار بار اسامہ کی تصویر فلیش ہو رہی تھی … اس 16 سال کے نوجوان کو دیکھیے۔ یہ آپ کا بیٹا بھی ہوسکتا ہے —  بھائی بھی —  آپ کے اسکول میں پڑھنے والا ساتھی بھی —  لیکن یہ بچہ صرف اس لیے اپنا گھر چھوڑ دیتا ہے کہ یہ اس سسٹم سے خوش نہیں ہے —  وہ سسٹم جہاں مسلمانوں کو شک کی درشٹی سے دیکھا جاتا ہے۔ وہ سسٹم جہاں مسلمانوں کے لباسوں پر انگلیاں اٹھتی ہیں۔ وہ سسٹم جو نوجوان مسلمانوں کو داڑھی اور ٹوپی میں نہیں دیکھ سکتا —  وہ سسٹم جہاں دہشت گردی اور آتنکی ہر کارروائی کے پیچھے مسلم نوجوان خود کو شک کے گھیرے میں محسوس کر رہے ہیں۔ سیکوریٹی پولیس ان کی تلاشیاں لیتی ہے —  ان کے اسکول کے ساتھی تک اُنہیں شک کی نظروں سے دیکھتے ہیں اور پھر ایک دن بے بس ہو کر اسامہ جیسے نوجوان اپنے گھر سے بھاگ کھڑے ہوتے ہیں — ‘

کرسی پر بیٹھی رباب بیحد سنجیدہ لگ رہی تھی۔ اس کی آنکھوں میں نمی محسوس کی جا سکتی تھی۔

’دہشت پسندی کا ہر واقعہ مسلمانوں سے جوڑ دیا جاتا ہے —  ہر مسلمان دہشت گرد نہیں ہے، کہنے والے بھی مسلمانوں کو شک کی نظروں سے ہی دیکھتے ہیں۔ کسی بھی دھماکے یا حادثے کے بعد سب سے پہلا شک مسلمانوں پر ہی جاتا ہے۔

کیا مسلمان یہاں خود کو محفوظ سمجھتے ہیں؟

کیا وہ خود کو مین اسٹریم سے کٹا ہوا سمجھتے ہیں — ؟ اگر اس کا جواب ہاں میں ہے تو اس کا ذمہ دار کون ہے —

مسلم نوجوانوں کا اصل خوف کیا ہے؟

کیوں تیزی سے گم ہوتے جا رہے ہیں مسلم نوجوان — ؟

کیمرہ اسامہ کی تصویریں فلیش کر رہا تھا۔

اس تصویر کو دیکھیے …

غور سے دیکھیے —

اینکر زور زور سے سے جذباتی لہجے میں بول رہا تھا —  ’ہمارے اس کمزور سسٹم میں آج کے مسلم نوجوان خود کو غیر محفوظ سمجھنے کے جذبے میں گھرے ہوئے ہیں۔ کچھ اس سسٹم سے گھبرا کر خودکشی کر لیتے ہیں اور کچھ اتنے بے بس ہو جاتے ہیں کہ گھر سے بھاگ کھڑے ہوتے ہیں۔

اسامہ پاشا —

عمر 16 سال

رہائش- دلکشا انکلیو، بٹلہ ہاؤس …

اینکر بار بار اسامہ کی تصویر ہائی لائٹ کرتا ہوا چیخ رہا تھا —  ان نوجوانوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے —  ان نوجوانوں کو انکا حق دینے کی ضرورت ہے —  اور جو نوجوان کسی بھی وجہ سے گم ہو گئے ہیں، انہیں تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔

دھماکوں میں گرفتار بہت سے معصوم مسلمان نوجوانوں کی رہائی اب تک نہیں ہو پائی ہے —  اب تک کتنے ہی نوجوان ایسے ہیں جنھیں غیر قانونی طور پر حراست میں رکھا گیا ہے اور ان پر اذیتوں کے پہاڑ توڑے گئے —  کتنے ہی نوجوان آج بھی ناکردہ جرم کے لیے سلاخوں کے پیچھے ہیں۔

اسکرین پر ایسے نوجوانوں کی تصویریں دکھائی جا رہی تھیں۔

یہ حیدر آباد کا شیخ سمیع ہے —  2006 ء ناندیڑ بم دھماکوں کے دوران پکڑا گیا۔ لیکن اس کا جرم ابھی تک ثابت نہیں ہو پایا۔

محمد قادر —  پولیس نے اعظم گڑھ سے اٹھایا اور جیل میں بند کر دیا۔ ثبوت ناکافی —

محمد ابراہیم  —  حلف نامے میں اس بات کا اعتراف کیا کہ پولس نے اسے جبراً پھنسایا ہے۔ بم دھماکے میں گرفتار نوجوان کو وہ بالکل بھی نہیں جانتا۔ پولیس اسے مختلف جگہ اور مختلف لباس میں لے گئی۔ الگ الگ اس کے بیانات لیے گئے۔ جبراً نئے لباس پہنائے گئے اور ڈی وی ڈی رکارڈنگ کی گئی —  اب پولیس اسے پریشان کر رہی ہے کہ اگر اس نے بیان بدلا تو اس کے گھر والوں کا جینا مشکل ہو جائے گا —

ایسے ایک دو نہیں ہزاروں نام ہیں۔ جنہیں پولیس صرف مسلمان ہونے کے نام پر پریشان کر رہی ہے۔ کچھ ملزمین کی کہانیاں بھی کافی دردناک ہیں۔ ہمارے پاس وی ڈی اور ٹیپ تو ہیں لیکن ہم وہ تصویریں آپ کو نہیں دکھا سکتے۔

ملزم کو ایک خاص قسم کے ساؤنڈ پروف کمرے میں لے جایا جاتا ہے۔ جہاں سے اس کی آواز باہر نہیں جا سکتی۔ ملزم کے سارے کپڑے اتار کر برہنہ زمین پر بٹھا دیا جاتا ہے —  ایک پولیس والا ملزم کے پیچھے کھڑے ہو کر خود کے دونوں پیر ملزم کے ہاتھوں کے بیچ ڈال دیتا  —  اب ملزم کے دونوں پیر مخالف سمت میں پھیلائے جاتے ہیں —  یہاں تک کہ دونوں پیر دائیں بائیں بالکل سیدھے ہو جاتے ہیں۔ جو 180 ڈگری کا زاویہ بناتے ہیں —  کبھی کبھی اور زیادہ پھیلا دیا جاتا ہے تکلیف کی وجہ سے ملزم پوری طاقت لگا کر چیختا ہے۔ مگر اس کی آواز ساؤنڈ پر وف کمرے میں دب کر رہ جاتی ہے۔ اس ٹارچر کی وجہ سے خون کا پیشاب کئی دنوں تک جاری رہتا ہے۔

ملزم کے چہرے پر ایک نقاب ڈال کر خاص قسم کی گیس چھوڑی جاتی ہے جس کی وجہ سے پورے بدن میں سوجن ہو جاتی ہے —  اب اگر اس کے بدن کے کسی بھی حصہ کو ذرا بھی دبایا جائے  تو ملزم تکلیف سے چلا اٹھتا ہے اور ایک مخصوص تیل جیسے سوزیہ پر کاش تیل کہتے ہو ناک میں ڈال دیا جاتا ہے۔ پولیس اذیت ناک حد تک ملزمین کو ناکردہ گناہ قبول کرنے کے لیے مجبور کرتی ہے —

اینکر ایک بار پھر اسامہ کی کہانی کی طرف لوٹ آیا تھا —  اب وہ رباب سے مخاطب تھا۔

’تین مہینے … تین کم نہیں ہوتے —  آپ نے ان تین مہینوں میں اسے تلاش کرنے کی کوشش نہیں کی  — ؟‘

جواب میں نے دیا —

’کوشش کی —  جس حد تک کوشش ککر سکتا تھا۔‘

’پھر پولیس کے پاس کیوں نہیں گئے؟‘

’اندیشہ تھا کہ میرے معصوم بچے میں پولیس کوئی دہشت گرد نہ ڈھونڈنے لگے — ‘

’پولیس اس طرح کسی عام آدمی کو تو آتنکی نہیں ٹھہراتی — ؟‘

’ہاں —  اگر وہ عام آدمی اکثریت کا ہے تو — !‘

’اس کا مطلب اگر آپ مائنریٹی میں ہیں‘ تو پولیس آپ پر شک کرتی ہے — ؟‘

اینکر اسکرین کی طرف دیکھتا ہوا گرج رہا تھا —

’یہ ہے ہماری آج کی سیاست کا چہرہ —  اس چہرے نے آج عام مسلمانوں کو بھی شک کے گھیرے میں ڈال دیا ہے۔ ہمارے بچوں کو گھر پہنچنے میں ذرا بھی تاخیر ہوتی ہے تو ماں باپ پریشان ہو جاتے ہیں۔ لیکن یہاں معاملہ مختلف ہے —  اپنے بچے سے بے حد پیار کرنے والے ارشد پاشا بیٹے کی گمشدگی کے بعد بھی پولیس تک اس لیے نہیں جا پائے کہ پولیس ان کے بیٹے پر شک ککر سکتی ہے —  ناکردہ جرم کے لیے جبراً اقبالیہ بیان لے کر اسے جیل میں ڈال سکتی ہے۔ اذیت دے سکتی ہے —  یہ ہمارے ملک میں کیا ہو رہا ہے —  یہ گاندھی کے سپنوں کا بھارت تو بالکل نہیں ہے۔‘

’تین مہینے بعد کیا آپ نے بچے کے گمشدگی کی رپورٹ درج کرائی؟‘

’ہاں —  میں تھانے گیا تھا —  ایس ایچ او سے بھی ملا تھا مگر ایف آئی آر درج نہیں ہوسکی۔‘

’کیوں؟ پولیس نے ایف آئی آر درج کرنے سے منع کر دیا؟‘

’ہاں — ‘

’اس کی وجہ؟‘

’پولیس بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر کے معاملے میں الجھنا نہیں چاہتی تھی — ‘

’لیکن اسامہ کا تو کوئی تعلق اس معاملہ سے نہیں تھا۔‘

’وہاں کے دوسرے نوجوانوں کا بھی نہیں تھا —  لیکن پولیس کے شک کی سوئیوں میں کب کون آ جائے یہ کہا نہیں جا سکتا۔‘

اینکر ایک بار پھر زور زور سے بول رہا تھا۔

’یہ ہے آج کے مسلمانوں کا چہرہ —  یہ ملک ان کا ہوتے ہوئے بھی جیسے ان کا نہیں رہ گیا ہے۔ پولیس ایف آئی آر درج کرتے ہوئے اپنے ہاتھ کھڑے کر دیتی ہے۔ کہاں جائیں یہ مسلمان؟ بٹلہ ہاؤس کے معاملے میں عام مسلمان کچھ بھی اس لیے بولنا نہیں چاہتا کہ اس کی برسوں کی ایمانداری اور وفاداری پر سوالیہ نشان لگ سکتے ہیں —  خلاف بولنے پر یہ معاملہ کہیں نہ کہیں عدلیہ اور انصاف کے خلاف بھی چلا جاتا ہے۔ ایک بڑا طبقہ ایسے بیانات کو گمراہ کرنے والا اور دیش دروہ سے جوڑ کر دیکھتا ہے۔ سوال ہے ان سہمے ہوئے مسلمانوں کو اظہار رائے کی آزادی کیوں نہیں حاصل ہے۔ ایک آزاد ملک میں جہاں جمہوریت کی قدم قدم پر دہائی دی جاتی ہے، یہ سب کب تک چلتا رہے گا۔ کب تک اس سسٹم سے گھبرا کر معصوم اسامہ اپنے گھر سے بھاگتے رہیں گے۔ کب تک پولیس ان اساماؤں کی گمشدگی کی رپورٹ درج نہیں کرے گی۔

’کب تک — ؟‘

’کب تک — ؟‘

٭٭

آدھے گھنٹے کے اس پروگرام کو چینل نے کئی بار دکھایا۔ وہاں سے لوٹتے ہوئے ہمارے قدم خاموش تھے —  دونوں میں سے کوئی کچھ نہیں بولا۔ گھر آنے کے بعد رباب کچھ دیر کے لیے اپنے کمرے میں بند ہو گئی۔

دو گھنٹے کے بعد دروازہ کھلا تو اس کی آنکھیں سوجی ہوئی تھیں۔ شاید وہ دیر تک روتی رہی تھی —  پروگرام کے درمیان بھی بیٹے کا ذکر کرتے ہوئے اس کی آنکھیں کئی موقعوں پر چھلک آئی تھیں لیکن حتی الامکان اپنے جذبات کو چھپانے کی کوشش کر رہی تھی —

ہم صوفے پر بیٹھے گئے —  رباب نے خود کو معمول پر لانے کی کوشش کی تھی —

’تمہیں کیا لگتا ہے — ؟‘

’کس بارے میں؟‘

’آج کے پروگرام کے بارے میں۔‘

’یہ پروگرام بھکتی، جیوتش اور ناگ ناگنوں کے پروگرام سے الگ نہیں تھا۔‘

رباب چونک کر بولی —

’تمہیں ایسا کیوں لگا — ؟‘

’وہ اسامہ کو بیچنے کی کوشش کر رہے تھے —  ایک جذباتی پروگرام جو ایسے چینلس کی ٹی آر پی تو بڑھا سکتا ہے لیکن ہمیں کوئی فائدہ نہیں دے سکتا۔‘

رباب کی آنکھیں گہری سوچ میں گرفتار تھیں —

’آج اسامہ بہت یاد آ رہا ہے — ‘

’لیکن مجھے آج کے اس پروگرام نے اداس کر دیا۔ مجھے معلوم تھا، ایسا ہی کچھ ہونے والا ہے اور اس لیے میں وہاں جانے سے منع کر رہا تھا۔ لیکن تھاپڑ کی ضد پر میں وہاں جانے کے لیے راضی ہو گیا —  سب کچھ کسی نمائش گاہ یا میلے کی طرح جہاں میرے بیٹے کی بولی چل رہی ہو —  میرا جی چاہتا تھا کہ درمیان میں ہی اٹھ کر بھاگ جاؤں — ‘

رباب اب بھی گہری نظروں سے میرا جائزہ لے رہی تھی —

’تمہیں ایسا کیوں لگا —  جب کہ اینکر مسلمانوں کے مسائل اٹھانے کی کوشش کر رہا تھا …‘

’ہاں —  مسلمانوں کے مسائل اٹھانے کی کوشش کر رہا تھا —  وہ بھی بے حد جذباتی انداز میں۔ جیسے مسلمان اس ملک کے شہری ہوں ہی نہیں —  وہ ابھی ابھی منگول، ازبک، افغانستان کی سرحدوں سے نکل کر ہندوستان آئے ہوں۔‘

’شاید —  تم ٹھیک کہتے ہو — ‘

’میں یہ نہیں کہتا کہ ہماری باتیں نہیں اٹھائی جائیں۔ ہمارے مسائل پر توجہ نہیں دی جائے۔ مگر میڈیا مسلمانوں کے مسائل جس طرح اٹھاتی ہے، اس سے غیریت کی بو آتی ہے۔ جیسے یہ ملک مسلمانوں کا ہو ہی نہیں —  لاش کے جیسے ہوں مسلمان اور انہیں کندھا دینے کی کوشش ہو رہی ہے۔‘

رباب نے حامی بھری —  اس کی آنکھیں خلاء میں دیکھ رہی تھیں —  آنکھیں ابھی نم آلودہ تھیں۔

میں بس اسامہ کی واپسی چاہتی ہوں۔ وہ آ جائے  … کسی بھی طرح وہ آ جائے —  اب صبر کی ساری حدیں ٹوٹ چکی ہیں۔ تین مہینے سے زیادہ ہو گیا —  پتہ نہیں کہاں اور کس حال میں ہو گا —  کیا کر رہا ہو گا —  وہ تو گھر میں ایک گلاس پانی بھی خود اٹھ کر ‘ نہیں پیتا تھا۔ اپنا کمرہ بھی نہیں ٹھیک کر تا تھا۔ ابھی تو اس نے زندگی کو قریب سے دیکھا بھی نہیں تھا۔ وہ تو مزدوری کرنے کے لائق بھی نہیں ہے۔ پھر وہ کیسے گزارہ کر رہا ہو گا — ‘

میں نے رباب کی طرف دیکھا —

’اللہ کو مانتی ہو نا —  بھروسہ کرتی ہو نا —  تو بس بھروسہ کرو۔ وہ راستے بناتا ہے۔ معصوم کیڑے مکوڑوں تک کو رزق پہنچاتا ہے، وہی میرے بیٹے کو بھی رزق پہنچائے گا — ‘

رباب کی آنکھوں سے آنسو کے قطرے اس کی پلکوں کو بھگو گئے تھے —  لیکن اس پروگرام کا ایک فائدہ ہوا —  پولیس میں اسامہ کی گمشدگی کی رپورٹ درج کر لی گئی تھی —  اور اس پروگرام کے ٹھیک تیسرے دن اسامہ سے ملنے کی ایک موہوم سی امید پیدا ہوئی تھی۔

٭٭

 

 

(2)

اس نازک صورتحال میں، اس پر آشوب موسم میں مجھے اکثر اپنے دوست بدر کی یاد آیا کرتی تھی۔ کبھی کبھی بدر کا عکس مجھے اپنے بیٹے میں نظر آتا تھا۔ ان دنوں اسامہ کو میں اکثر بدر کے بارے میں بتایا کرتا۔ ہم کیسے کھیلتے تھے —  بدر کیا کیا سوچتا تھا۔ کوئی بھی غلط بات اُسے برداشت نہیں ہوتی تھی۔ اسامہ بدر کی باتیں غور سے سنا کرتا اور اس کیفیت میں اس کے چہرے پر بدر جیسی بغاوت کی جھلک نظر آتی۔

یادیں پریشان کرتیں تو ماضی کے کھنڈرات روشن ہو جاتے —  ان میں ایک ساتھ کتنے چہرے موجود ہوتے۔

میں ہر بار ماضی کے ان کھنڈرات میں خود کو گم محسوس کرتا …

رباب مجھے سہارا دینے کی کوشش کرتی —

’میں جانتی ہوں، یادیں تمہیں پریشان کرتی ہیں —  پھر ان یادوں کے جنگل میں جاتے ہی کیوں ہو — ؟‘

سوچتا ہوں ، کیا جواب دوں رباب کو —  شاید کوئی جواب نہیں ہے میرے پاس۔ رباب نے ایک ان جی او کی بات کی تھی جہاں مسلم یتیم بچیوں کی پرورش کی جاتی تھی اور بعد میں یہ ان جی او ان بچیوں کی شادی کا خرچ بھی برداشت کرتا تھا —  مسلم آرفین گرلس ایجوکیشن، موگی نام کے ان جی او میں رباب کی دلچسپی تھی —  اور وہ اسے جوائن کرنا چاہتی تھی —  مجھے یقین تھا، اس طرح وہ خود کو مصروف کر لے گی —  اس طرح اس کی پریشانیاں کسی حد تک کم تو ہو ہی جائیں گی —

شام چھ بجے کال بیل کی آواز کے ساتھ ہی میں نے دروازہ کھول دیا —

سامنے ایک نو وارد کھڑا تھا —  عمر یہی کوئی چالیس کے آس پاس —  پینٹ شرٹ پہنے … سر کے بال ذرا سا اڑے ہوئے —

میں اسے لے کر ڈرائنگ روم میں آ گیا —  اس نے بتایا۔

’میرا نام چیتن شرما ہے۔ میں نے آپ کا پروگرام دیکھا —  اس دن میں شملہ میں تھا …‘

ٹھہر کر اُس نے میری آنکھوں میں دیکھا —  ’میں نے شملہ مال روڈ میں آپ کے بیٹے کو دیکھا ہے —  اور مجھے اس کا احساس ہے کہ اس نے بھی مجھے دیکھا تھا — ‘

’مطلب — ؟‘

’جب میں اس کی طرف بڑھا تو وہ تیزی سے بھاگ کھڑا ہوا۔ دیکھیے —  میں بھی بال بچوں والا ہوں —  اور اس درد کو قریب سے جانتا ہوں۔‘

’کیا آپ کو لگتا ہے کہ وہ اب بھی وہیں ہو گا — ‘

’ہوسکتا ہے — ‘

’اس وقت اس کے بدن پر لباس کیسا تھا — ؟‘

جہاں تک مجھے یاد ہے کہ وہ جینس اور ٹی شرٹ پہنے تھا —  اور جو تصویر ٹی وی پر دکھائی گئی تھی ، اس سے ذرا سا مختلف — ‘

’میں سمجھا نہیں — ‘

’تصویر میں اس کے چہرے پر ہلکی اُگتی ہوئی داڑھی تھی — ‘

’ہاں — ‘

’میں نے جس لڑکے کو مال روڈ پر دیکھا وہ کلین شیوڈ تھا —  پھر بھی اسے پہچاننے میں مجھے کوئی دقت نہیں ہوئی — ‘

یقیناً یہ خبر ہمارے لیے خوشیوں کا نوید لے کر آئی تھی —  اسامہ زندہ ہے۔ اس خبر نے ہم میں نئی روح پھونک دی تھی —  سب سے زیادہ خوشی رباب کے چہرے پر تھی —

’پھر بیٹھے کیوں ہو —  میں بھی چلوں گی شملہ — ‘

’نہیں —  ممکن ہوا تو کسی کو لے جاؤں گا — ‘

’تھاپڑ بھائی سے بات کرو — ‘

’اگر تھاپڑ کو فرصت ہوئی تو ہم ساتھ چلیں گے — ‘

تھاپڑ ان دنوں اپنے نئے پراجیکٹ کو لے کر مصروف تھا —  مگر اسامہ کو دیکھے جانے کی اطلاع نے اسے خوش کر دیا تھا —  وہ میرے ساتھ جانے کو تیار ہو گیا تھا —  تھاپڑ کے مطابق دلّی سے شملہ کوئی دور نہیں ہے۔ 8-9 گھنٹے کا سفر ہے۔ وہ اپنی گاڑی لے آئے گا —  اور ہم رات میں ہی شملہ کے لیے نکل کھڑے ہوں گے تاکہ صبح ہوتے ہی ہم شملہ پہنچ جائیں اور اسامہ کو تلاش ککر سکیں —  شملہ میں بہت بار جا چکا تھا۔ مگر اس بار کا سفر میرے لیے مختلف تھا —

اس بار ایک موہوم سی امید، لیکن چہرے پر خوشی سے زیادہ فکر کی لکیریں موجود تھیں۔

رات دس بجے ہم نے گھر چھوڑ دیا اور شملہ کے لیے نکل کھڑے ہوئے —  گاڑی تھاپڑ ڈرائیو کر رہا تھا —

٭٭

موگی، مسلم آرفین گرلس ایجوکیشن کا قیام 5برس پہلے عمل میں آیا تھا۔ بٹلہ ہاؤس دلکشا انکلیو سے اس کا فاصلہ کچھ زیادہ نہیں تھا۔ پہلے یہ چھوٹی سی عمارت تھی —  لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا گیا موگی سے ہزاروں نام وابستہ ہوتے چلے گئے —  اب یہ بڑی سی عمارت تھی چار منزلہ —  چوتھی منزل یتیم لڑکیوں کی رہائش کے طور پر استعمال کی جاتی تھی۔ چوتھے فلور پر پانچ کشادہ کمرے تھے اور ان کی نگرانی شافعہ نام کی ایک واڑدن کے ذمہ تھا۔ پہلا فلور دینی تعلیم کے لیے وقف تھا —  دوسرے فلور پر کمپیوٹرس لگے تھے —  جہاں ان بچیوں کو تعلیم دی جاتی تھی —  تیسرے فلور کو آفس کی شکل دی گئی تھی۔ موگی کے اشتہارات اردو اخباروں میں تو اکثر شائع ہوتے رہے تھے۔ رباب کے لیے یہ ایک نیا تجربہ تھا۔ شروعات کے کچھ دن اسے بچیوں کو دینی تعلیم دینے کے لیے کہا گیا تھا —  ساتھ ہی شوق کے مطابق یہ بچیاں رباب سے گھریلو کام کاج کو لے کر بھی مشورہ کرتی تھیں۔ یہ بھی اطلاع ملی تھی کہ جامعہ کے علاقہ میں موگی نے اپنا دائرہ وسیع کرنے کے لیے زمین کا ایک بڑا پلاٹ خریدا ہے۔ یہ بھی خبر ملی تھی کہ اس ان جی او کی کامیابی کی خبر سن کر سعودی ممالک سے بھی فنڈ آنے لگے تھے —  صبح ہوتے ہی موگی میں ہلچل بڑھ جاتی۔ لڑکیاں زور شور سے قرآن شریف کی تلاوت کرنے لگتیں —

پہلے دن رباب کو جس لڑکی کی نگرانی دی گئی وہ شمیمہ تھی۔ عمر 16سال، کلکتہ سے ایک لڑکا اسے بھگا کر دلّی لایا تھا —  اس کی ماں مر گئی تھی اور اس کا پ ایک نمبر کا عیاش تھا —  وہ اپنے باپ کے ساتھ رہتے ہوئے خود کو غیر محفوظ سمجھتی تھی۔ اس لیے جب ذیشان نے اپنی محبت کا اعتراف کیا تو اس نے اس کے ساتھ بھاگنے میں دیر نہیں کی —  ذلشان اسے لے کر دلّی تو آ گیا لیکن دلّی آنے کے بعد پیسوں کی مجبوری نے اسے ایک ہی راستہ دکھایا اور اس نے شمیمہ کو جی بی روڈ پر ایک چکلے میں فروخت کر دیا۔ شمیمہ کسی طرح نکل بھاگی اور پولیس اسٹیشن پہنچ گئی —  اتفاق سے جس وقت وہ پولیس اسٹیشن آئی، اس وقت ایک کیس کے سلسلے میں ایک بزرگ رضاکار وہاں تشریف فرما تھے۔ انہوں نے شمیمہ کو موگی میں شامل کیے جانے کی سفارش کی —  اور اس طرح شمیمہ موگی میں آ گئی۔ شمیمہ کم سخن تھی … زیادہ تر اس کی آنکھیں نم آلودہ ہی رہتیں —  اس کی آواز بہت پیاری تھی …

رباب کو یہاں نئی زندگی کا احساس ہو رہا تھا —

٭٭

پہاڑوں کی چڑھائی شروع ہو چکی تھی —  پہاڑی، پتھریلے راستے مجھے کبھی پسند نہیں رہے۔ شملہ کی سڑکوں پر چلتے ہوئے اکثر میری سانسیں پھول جایا کرتی تھیں —  میں اپنے بیٹے کو تلاش کرنے جا رہا تھا —  وہ بیٹا، جو مسلمان ہونے کی سزا کے طور پر گھر سے فرار ہو گیا تھا۔ میرے چہرے پر ایک عجیب سی مسکراہٹ پھیل گئی —  میں تھاپڑ کی طرف مڑا — ‘

’کتنی عجیب بات ہے تھاپڑ — ‘

کہتے کہتے میں ٹھہر گیا تھا۔

’کیا عجیب بات ہے — ‘ تھاپڑ نے گاڑی چلاتے ہوئے پوچھا۔

’جب فرنگیوں کی حکومت تھی، اسی شملہ میں مسلمانوں کا وفد پہلی بار آیا تھا —  انگریز وائسرائے سے ملنے کے لیے —  اپنی مضبوطی کا احساس کرانے کے لیے۔ مسلمانوں کی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا جو شملہ وفد 1906 کے نام سے مشہور ہے۔ مسلم رہنماؤں نے لارڈ منٹو سے ملاقات کی۔ ان میں نواب محسن الملک اور نواب وقار الملک جیسے لوگ بھی شامل تھے۔ تقسیم بنگال کی ہندوؤں نے شدید مخالفت کی تھی اور عدم تعاون کی تحریک شروع کر دی تھی —  مسلمان اپنے قانونی حقوق کے تحفظ کے لیے نئے لائحہ عمل پر غور کر رہے تھے۔ اسی لیے یہ وفد انگریز وائسرائے سے ملنے شملہ گیا تاکہ اپنے حقوق اور تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے — ‘  تھاپڑ نے ایک لمبی سانس لی۔

’ہوں — ‘ میں زیر لب مسکرایا —  اس وقت بھی مسلمانوں کو اپنے حقوق اور اپنے تحفظ کا خیال آیا تھا۔ سوچتا ہوں اسی احساس نے اسامہ کو گھر چھوڑنے پر مجبور کیا —  اور اس کی تلاش میں ہم شملہ جا رہے ہیں۔

آسمان پر چاند روشن تھا —  ہائی وے پر گاڑیاں دوڑ رہی تھیں۔ اب گھماؤ دار اور پتھریلے راستے شروع ہو گئے تھے —  چاند کی روشنی میں سادہ اور دھلی جگمگاتی پہاڑیوں کے درمیان مکانات کبھی کبھی نظر آ جاتے۔ ہلکی ہلکی ٹھنڈ کا احساس بھی ہونے لگا تھا۔ پہاڑ کے ٹیڑھے میڑھے راستوں کے درمیان گاڑی تیز رفتار سے بھاگ رہی تھی —

’تم پریشان ہو — ‘ اسٹیرنگ پر ہاتھ رکھے تھاپڑ نے گھوم کر دیکھا —

’شاید …‘

’سمجھ سکتا ہوں — ‘ تھاپڑ کی ہاتھوں کی گرفت اسٹیرنگ پر سخت ہو گئی۔

’پریشان مت ہو —  میرا دل کہتا ہے ، اسامہ واپس آ جائے گا — ‘

’لیکن ہم اسے تلاش کریں گے کہاں — ‘

’مال روڈ، جیسا اس آدمی نے بتایا  —  ہوسکتا ہے مال روڈ کی کسی دکان میں وہ کام کرتا ہو — ‘

’یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ وہ محض گھومنے آیا ہو — ‘

تھاپڑ سنجیدہ تھا —  گھومنے آنے کی بات میری سمجھ سے پرے ہے۔ کیونکہ اس حال اور کیفیت میں شملہ وہ بھی مال روڈ جیسی جگہ پر گھومنے کی بات کو میرا دل ماننے کے لیے قطعی طور پر تیار نہیں ہے — ‘

میں ایک لمحہ کے لیے ٹھہرا —

’اچھا مان لو —  اگر وہ وہاں نہیں ملا تو …؟‘

’ہم دو ایک دن وہاں ٹھہریں گے —  اور اگر وہ شملہ میں ہی ہے تو ہم پولیس کی مدد بھی لے سکتے ہیں — ‘

میں نے تھاپڑ کی طرف گھوم کر دیکھا —

نہیں —  میں نے سوچ لیا ہے —  اس بار ہم پولیس کی مدد نہیں لیں گے —  ہم اسے تلاش کریں گے —  وہ نہیں ملا تو واپس لوٹ آئیں گے — ‘

آواز، جھینگروں کی آواز کے درمیان گم ہو گئی تھی —  اب تک 4-5 گھنٹے گزر چکے تھے۔ میری بے قراری حد سے زیادہ بڑھتی جا رہی تھی۔ لیکن اس بے قراری کے ساتھ ناکامی کا احساس بھی شامل تھا —  اگر اسامہ نہیں ملا تو … اس وقت مجھے رباب کا چہرہ یاد آ رہا تھا —  یقیناً رباب اس کے نہ ملنے سے بری طرح ٹوٹ جائے گا۔

٭٭

صبح چھ بجے گاڑی شملہ میں داخل ہو چکی تھی —

ہم ایک چھوٹے سے ڈی لکس ہوٹل میں رکے۔ یہ ہوٹل شہر کے بیچوں بیچ تھا۔ یہاں سے مال روڈ کا فاصلہ زیادہ نہیں تھا۔ ہلکے پھلکے ناشتے اور فریش ہونے کے بعد ہم مال روڈ کے لیے نکل گئے۔ گاڑی پارک کی اور لفٹ سے پہاڑ کی اونچائیوں پر بنے مال روڈ پر آ گئے۔ راستے بھر ہماری آنکھیں ہر بچے میں اسامہ کو تلاش کرتی رہی تھیں —  مال روڈ کچھ کچھ دلّی کے کناٹ پلیس جیسا ہے —  لیکن خوبصورتی کے معاملے میں پہاڑ کی اونچائی پر آباد یہ علاقہ کناٹ پلیس سے حد درجہ حسین نظر آتا تھا۔ اس وقت مال روڈ پر لوگوں کی چہل پہل شروع ہو گئی تھی —  لفٹ سے باہر آتے ہی خوبصورت پل نما راستے کو کراس کرتے ہی حسین خوبصورت دکانوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ شرٹ کی اوپر والی جیب میں اسامہ کی تصویر میں نے رکھ لی تھی۔ اب یہ تصویر تھاپڑ کے ہاتھوں میں تھی۔ وہ ایک ایک دکان میں جاتا پھر نا امیدی میں واپس آتا —  مشکل یہ تھی کہ اب اسامہ کو کہاں تلاش کیا جائے۔

صبح سے شام ہو گئی تھی —  مال روڈ پر رنگ برنگے لباسوں میں لڑکے لڑکیوں کی آمد و رفت شروع ہو گئی تھی —  شام کے وقت یہاں کبھی کبھی ہلکی ہلکی برفباری بھی شروع ہو جاتی ہے۔ ہم کچھ دیر تک خالی بینچ پر بیٹھ کر صلاح و مشورہ کرتے رہے —  کچھ پھیری کرنے والے بھی تھے جو رومال، قلم اور اس طرح کے دوسرے سامانوں کے ساتھ ادھر سے اُدھر گھوم رہے تھے۔ مسئلہ یہ تھا کہ کس سے پوچھا جائے اور کس سے نہیں —  اس علاقے میں کچھ خوبصورت پوٹل بھی تھے۔ لیکن اسامہ کو وہاں بھی سب نے پہچاننے سے انکار کر دیا —  رات کے 8بجے کے آس پاس ہمیں ایک پھیری والا بوڑھا نظر آیا —  اس کے کندھے پر سلے سلائے جینس کے پینٹ تھے۔ داڑھی سفید اور بڑھی ہوئی —  سر پر شملہ ٹوپی بھی تھی جو اکثر ہماچلی مرد پہنتے ہوئے فخر محسوس کرتے ہیں۔ میں نے تھاپڑ کو دیکھا جو دوڑتا ہوا اس بوڑھے سے ملنے گیا۔ پھر اس نے اپنی جیب سے اسامہ کی تصویر نکالی —  بوڑھے نے غور سے اسامہ کی تصویر دیکھی —  اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔

’یہ تو بدر ہے …؟‘

’بدر؟‘

’ہاں —  اپنا بچہ ہے —  پچھلے دو مہینوں سے یہیں تھا —  میں نے ہی ایک شاپ میں کام دلوایا تھا —  اس نے اشارہ کیا۔ آگے ایک بڑی سی دکان ہے —  شملہ ہورائزن … لیکن … پچھلے دو دنوں سے وہ نظر نہیں آیا …‘

بوڑھے کے ساتھ ہم شملہ ہورائزن میں آئے جو کپڑوں کا ایک بڑا سا شو روم تھا۔ وہاں کے مالک نے بتایا کہ دو دن پہلے اس نے کہا کہ وہ اب گھر جا رہا  ہے۔ اچھا بچہ تھا —  ہم نے حساب کتاب کر دیا — ‘

نا امیدی کے عالم میں، میں اور تھاپڑ بوڑھے کے ساتھ واپس آئے —

وہ رہتا کہاں تھا؟ تھاپڑ نے پوچھا —

بوڑھے نے کچھ سوچ کر کہا —  کبھی کبھی تو شو روم میں ہی سوجاتا ۔ کہاں رہتا تھا یہ نہیں معلوم۔ آس پاس ہی رہتا ہو گا —

’اس کا کوئی دوست؟‘

’نہیں —  وہ خود میں مگن رہتا تھا —  کسی سے زیادہ گھلنا ملنا یا بات کرنا اسے پسند نہیں تھا —  بس کبھی کبھی دو چار باتیں مجھ سے ہی کر لیتا — ‘

میں نے پوچھا —  ’کیا اس نے کبھی اپنے بارے میں کچھ نہیں بتایا؟‘

’نہیں — ‘

’ … کہ وہ کہاں رہتا ہے؟ کہاں سے آیا ہے؟‘

’نہیں —  ہم اتنا ہی جانتے تھے کہ وہ دہلی سے آیا ہے —  ‘ بوڑھا کچھ سوچتے ہوئے بولا۔ ’ہاں تین چار دن پہلے یہاں ایک بچہ گر کر زخمی ہو گیا تھا۔ بدر نے ہی اس بچے کو اٹھایا۔ اسپتال لے گیا اور ضرورت پڑنے پر بچے کو خون بھی دیا —  اس بچہ کو لے کر بدر بہت پریشان تھا۔ اشیش نام تھا اس بچے کا —  ہم اسے دیکھنے اسپتال بھی گئے تھے۔

تھاپڑ نے غور سے بوڑھے کو دیکھا —  تم میرے ساتھ اسپتال چل سکتے ہو؟‘

’کوئی فائدہ نہیں —  بوڑھے نے کچھ سوچتے ہوئے کہا —  دو دن بعد ہی بچے کو وہاں سے چھٹی مل گئی اور اس کے ماں باپ اسے لے کر چلے گئے — ‘

’بچے کے ماں باپ کو جانتے ہو؟‘

’نہیں صاحب —  بدر جانتا ہو گا —  بھگوان جانے کہاں چلا گیا اور کیوں چلا گیا —  اچھا بچہ تھا — ‘

تھاپڑ نے اپنا آئیڈنٹٹی کارڈ اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا —  ’اچھا، کبھی اسے دوبارہ دیکھ لو تو ہمیں فون کر دینا — ‘

کافی دیر بعد بوڑھے نے پلٹ کر دریافت کیا تھا —  ’آپ لوگ کون ہیں صاحب؟‘

تھاپڑ کے بتانے کے بعد بوڑھے کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔

’میں جانتا تھا —  ‘ وہ کسی اچھے گھر کا بچہ ہے۔ مگر آپ گھبرائیے مت صاحب۔ اب وہ جیسے ہی نظر آئے گا، میں آپ کو فون کر دوں گا — ‘

بوڑھے کے ساتھ ہم اس اسپتال میں بھی گئے —  مگر اسامہ کا کچھ پتہ نہیں چلا —  وہاں سے ہمیں اشیش کے گھر والوں کا پتہ چلا —  اشیش کے والد انجینئر تھے اور وہ مال روڈ سے کچھ فاصلے پر رہتے تھے۔ وہ بہت محبت سے ملے لیکن اسامہ کہاں گیا، انہیں اس کی کوئی خبر نہیں تھی —  اشیش ایک پانچ چھ سال کا بچہ تھا —  اسے بدر کا نام یاد تھا —  اس کے گھر والے بدر کو بھگوان مان رہے تھے —  کہ وہ نہیں ہوتا تو جانے بچے کو کیا ہو جاتا — ‘

آڑے ترچھے پہاڑی راستوں سے اترتے چڑھتے ہم تھک چکے تھے۔ اب ڈی لکس ہوٹل لوٹنا تھا —  دوسرے دن بھی شملہ میں اس کی تلاش جاری رکھنی تھی —  اور دوسرے مقامات پر بھی اسے تلاش کرنا تھا —

میں نا امید تھا —  لیکن نا امیدی کے گھنے بادلوں کے درمیان اسامہ کے زندہ ہونے کا احساس کہیں نہ کہیں مجھ میں ایک مضبوطی بھر رہا تھا —

٭٭

شملہ سے واپس لوٹتے ہوئے، ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے تھاپڑ نے میری طرف مڑ کر دیکھا —

تم اس بوڑھے کی آواز ریکارڈ کرنا چاہتے تھے؟

’ہاں — ‘

’اور شاید اشیش کے ماں باپ کی بھی — ؟‘

’ہاں …‘

’کیونکہ اسامہ نے ایک بچے کو بچایا تھا۔ تم اس پروف کو ریکارڈ کے طور پر رکھنا چاہتے تھے۔ کیا صرف اس لیے کہ اشیش ایک ہندو بچہ تھا — ؟

اس بار میں چونک گیا تھا —  ’ممکن ہے؟‘

’تم کو ایسا نہیں لگتا کہ اس طرح کی سوچ کی وجہ سے بھی تم مین اسٹریم سے کاٹ دیے گئے ہو — ؟‘

میں نے ذرا سا شیشہ کھول دیا تھا —  ہوا کے ٹھنڈے جھونکے اس وقت مجھے اچھے لگ رہے تھے …

٭٭

 

 

(3)

بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر کو پانچ مہینے گزر گئے تھے۔ ۲۶؍ جنوری کے موقع پر انسپکٹر روی ورما کو حکومت کی طرف سے اس کی بہادری کے لیے موت کے بعد کا خصوصی سرکاری تمغہ دیا گیا —  رباب پر یہ خبر بجلی کی طرح گری تھی۔ مگر اب وہ موگی میں مصروف ہو گئی تھی —  یہاں اسامہ کی عمر کی کتنی ہی بیٹیاں اُسے مل گئی تھیں —  شمیمہ پر تو وہ ضرورت سے زیادہ ہی فدا تھی —  اس نے شمیمہ پر ایک نظم لکھی تھی —

’تم ہر بار پت جھڑ کیوں دیکھتی ہو/

مت دیکھو/

تمہاری آنکھوں میں بھی پت جھڑ کے سوکھے پتے ہی نظر آتے ہیں/

ہجرت کے موسم میں بھی/

تم پت جھڑ کے تحفے ہی لائی تھی/

تم ہر دن تھوڑا تھوڑا خود کو تقسیم کرتی رہتی ہو/

مت تقسیم کرو/

اس طرح تم ایک دن کھو جاؤ گی

اپنے ہی پت جھڑ میں/

اس وقت رباب کھڑکی پر تھی —  گرمیوں کی شروعات ہو گئی تھی۔ سورج کی شعاعیں آگ برسا رہی تھیں۔ اتنی تیز کہ گوند بن کر اس کے جسم سے چپک رہی تھیں —  آہستہ آہستہ وہ اپنی ہی تحریر کو دہرا رہی تھی … تم ہر بار پت جھڑ کیوں دیکھتی ہو …

کمرے میں مکھیاں آ گئی تھیں … بھنبھناتی ہوئی مکھیاں … کھڑکی سے آ کر کمرے میں رینگتی ہوئی … باہر ٹریفک کے شور یہاں تک سنائی دے رہے تھے … وہ کمرے کے سناٹے سے گھبرا کر باہر بالکنی پر آ گئی تھی … لیکن یہاں بھی دل نہیں لگا تو واپس کمرے میں لوٹ گئی —  بستر پر لیٹ گئی —  ہاتھ چپکے سے سینے پر آ گئے۔ کھلی کھڑکی سے دھوپ کی کرنیں ابھی بھی کمرے میں اتر رہی تھیں … وہ گنگنا رہی تھی …

’مت تقسیم کرو …‘

اس طرح تم ایک دن کھو جاؤ گی …

اپنے ہی پت جھڑ میں/

کھڑکی سے کمرے میں آتی روشنی کی کرنیں سیدھے اس کی آنکھوں پر حملہ کر رہی تھیں۔ رباب نے آنکھیں بند کرلیں —  اس کی خواہش ہو رہی تھی … وہ تب تک آنکھیں موندے رہے جب تک کوئی خوشگوار ہوا کا جھونکا اسے گدگدا نہ دے —  اسے احساس ہوا، وہ ہوا میں اڑتی ہوئی ایک چھوٹی سی تتلی میں تبدیل ہو گئی ہے۔ تتلی اڑتی ہوئی پھولوں کے ارد گرد گھوم رہی ہے۔ یہ اس کا گھر ہے … رسیاں کھیلتی ہوئی وہ تتلی سے ننھی سی رباب بن گئی ہے۔ وہ ہوا میں اڑ رہی ہے —  لیکن تب بھی اس کے چہرے پر غضب کا سکون ہوا کرتا تھا، ایسا اس کے گھر والے بھی کہتے تھے۔ شاید بچپن سے اس سکون کے لیے مشق کی تھی اس نے —  تب وہ آنکھیں بند کر لیتی —  مٹھیوں کو سختی سے بند کر کے ہاتھ پھیلا دیتی اور دل ہی دل میں کہتی … رباب … تم یہ کرو گی … تم یہ ککر سکتی ہو … وہ آنکھیں کھولتی تو دھوپ کی شعاعیں اس کی آنکھوں سے ٹکرا کر اس کی کائنات کو جھل مل جھل مل کر دیتیں۔

کھڑکی کے باہر درخت نہیں تھے … مکانات کی ایک لمبی قطار … باہر سے آنے والے شور اس کے آرام میں خلل اندازی پیدا کر رہے تھے … اپنی دنیا میں واپس آتے آتے ایک چہرہ اس کی آنکھوں کے پردے پر ابھرتا ہے …

’شمیمہ میرے ساتھ میرے گھر چلو گی …؟‘

ٹھہری ہوئی دو ساکت آنکھیں اس کی طرف اٹھتی ہیں۔ پھر خموشی سے جھک جاتی ہیں —

’میں جانتی ہوں، تم کیا سوچ رہی ہو —  تم جہاں رہ رہی ہو، یہ بسیرا کوئی قید خانہ نہیں ہے …‘

بولتے بولتے وہ ٹھہر گئی ہے —

دو ٹھہری ہوئی آنکھیں پھر اس کی جانب اٹھتی ہیں … لرزتے ہوئے موتیوں کے قطرے … سوکھے ہونٹ …

’اگر میں یہاں کی انتظامیہ سے بات کر لوں تو …؟‘

موتیوں کے قطرے موگرے کے پھولوں میں تبدیل ہوچکے ہیں …

شمیمہ کو پیار سے لپٹا لیا رباب نے —  اندر جیسے خون میں ہلچل مچی ہو …

وہ کہہ نہیں پائی … لیکن کہنا چاہتی تھی … کہ تم میں ’کچھ‘ نظر آتا ہے … اپنا سا —  جسے دوسروں میں نہیں تلاش ککر سکی۔ وہ رسیاں پھاندتی ننھی بچی … وہ ننھی سی تتلی … بھاگتے ہوئے بھی ننھے منھے قدموں میں ایک ٹھہراؤ ہوتا تھا —  اور آنکھوں میں بے قراری کی جگہ، سمندر کی ساکت لہروں کی طرح قرار اور ٹھہراؤ —  تم میں کچھ ہے … جو تم کو سیدھے مجھ سے جوڑتا ہے شمیمہ …

کھڑکی کی جالیوں سے ٹکراتی کرنیں سیدھے اس کی آنکھوں پر حملہ کر رہی ہیں …

اسے شمیمہ کا انتظار تھا —  لیکن شمیمہ کو لینے کے لیے جانا پڑے گا —  کھڑکی کے پاس اڑتے ہوئے کبوتر آ گئے ہیں۔ اکثر آ جاتے ہیں ، اُسے اچھا لگتا ہے۔ کبھی کبھی رات کی سوکھی ہوئی روٹیاں توڑ کر وہ کھڑکی کے پاس رکھ دیتی ہے۔ اب تنہائی کا احساس ہو رہا تھا —  یادوں کے گھنے جنگل سے وہ کوئی رشتہ رکھنا نہیں چاہتی۔ پھر جی چاہتا ہے کہ اس کی تصویروں سے باتیں کروں، جی بھر کر باتیں کروں۔

ایک بار پھر اسامہ کی یادوں سے باہر نکلتے ہوئے وہ اپنے بچپن کو یاد کرتی ہے —  ایک چھوٹی سی پھلواری ہے —  وہ ادھر اُدھر دوڑ رہی ہے —  تنکے دار جھاڑیوں کے بیچ دوڑتی ہوئی وہ اپنے ہاتھ زخمی کر لیتی ہے … ممی اسے ڈانٹ رہی ہیں … کس نے کہا تھا جھاڑیوں میں جانے کے لیے …؟

زندگی انہی تنکے دار جھاڑیوں کے درمیان الجھ گئی ہے —

تین بجے کے آس پاس وہ موگی سے شمیمہ کو لے کر گھر آ گئی —  شمیمہ اس کے انتظار میں تھی۔ پہلے سے کہیں زیادہ خوش —  اس نے آسمانی رنگ کی شلوار پہن  رکھی تھی —  اُسی سے میچ کرتا دوپٹہ —  دھانی رنگ کا کرتا، جس پر بیل بوٹے بنے ہوئے تھے۔ بال قرینے سے سنوارے ہوئے —  اس کے چہرے پر ابھی بھی سناٹے کا سایہ تھا مگر اب اس سناٹے میں نئی جگہ جانے کا تجسس بھی تھا —  شاید پہلی بار وہ موگی سے کسی کے گھر جا رہی تھی —  موگی سے اس نے رکشہ کر لیا تھا —  راستے بھر دونوں کے درمیان خاموشی حاوی رہی —  جس وقت رکشا دلکشا انکلیو کے آگے رکا، اسی وقت شمیمہ کے چہرے پر ایک پیار بھرا رنگ آیا تھا —

’آپ کا گھر آ گیا — ؟‘

’ہاں …‘

گھر میں داخل ہونے کے بعد شمیمہ دیر تک بچوں کی طرح چاروں طرف ادھر اُدھر دیکھتی رہی — پھر ڈرائنگ روم میں ٹی وی سیٹ کے آگے رکھی اسامہ کی تصویر کے آگے کھڑی ہو گئی —

یہ آپ کا بیٹا ہے؟

اس کی آنکھوں میں انوکھی سی چمک تھی —

’ہاں …‘

’اب کہاں ہے؟‘

جیسے اچانک ہوا رک گئی —  شور کرتے کبوتروں کے جھنڈ خاموش ہو گئے ہوں —

’چلو‘ پہلے کچھ کھاتے پیتے ہیں —  وہ آنکھوں میں مچلتے، آنسوؤں کے قطروں کو روکنے کی کوشش کر رہی تھی۔

ڈائننگ ٹیبل پر کھانا سج گیا تھا۔ آج بہت دنوں کے بعد اس نے مٹن بریانی بنائی تھی۔ میٹھا ٹکڑا بھی تھا۔ کباب کی بھی پلیٹ تھی۔

’اتنا سارا کھانا … میں تو بس تھوڑا سا لوں گی — ‘

شمیمہ کے چہرے پر مسکراہٹ تھی —  ’یہ سب آپ نے بنایا۔ اکیلے —  مجھے بھی سکھا دیں گی آپ؟‘

’ہاں — ‘

وہ خود بھی واقف نہیں تھی کہ اتنی ساری سمندر کی بے قرار موجیں اس کے اندر جمع کیسے ہو گئی ہیں —  لیکن یہ سب شمیمہ کی وجہ سے تھا اور یہ احساس بھی کہ شام ہوتے ہی شمیمہ پھر سے موگی چلی جائے گی۔ لہریں اٹھ رہی تھیں —  دماغ سن … ہو رہا تھا —

’آپ نے اپنے بیٹے کے بارے میں نہیں بتایا — ؟‘

’وہ … پڑھنے گیا ہے۔‘

’واپس کب آئے گا؟‘

’نہیں جانتی — ‘

شمیمہ چونک کر اس کی طرف دیکھتی ہے —

’آپ کے بیٹے کا نام کیا ہے؟‘

’اسامہ … اُسامہ پاشا …‘

شمیمہ نے نظر جھکا لی ہے۔ شاید بہت سے سوالات اٹھ رہے ہوں گے اس کے اندر۔ لیکن ابھی وہ سوالوں کے گرداب میں گم ہے۔

وہ بھی تو گم ہے —  لیکن شمیمہ کی موجودگی اس وقت اسے اچھی لگ رہی ہے۔ ایک سچائی اور بھی ہے —  شمیمہ کی موجودگی نے اس کی تنہائی کے احساس کو بڑھا دیا ہے۔

کھانے کے بعد وہ شمیمہ کو لے کر بالکونی میں آ گئی۔ چھوٹی سی بالکونی —  یہاں دو کرسیاں لگی تھیں —  چھوٹے چھوٹے پھولوں کے گلدستے بھی تھے۔ یہاں سے چاروں طرف عمارتیں ہی عمارتیں نظر آتی تھیں۔ باہر کے بھیانک شور بھی کان سے ٹکراتے تھے —  بالکونی میں ابھی تک دھوپ پھیلی ہوئی تھی۔

شمیمہ کی آنکھوں میں چمک تھی —  ’یہاں سے تو سارا شہر نظر آتا ہے — ‘

شمیمہ بچوں کی طرح تالیاں بجاتی ہوئی رک گئی —

’آپ کا بیٹا ابھی تک نہیں آیا — ؟‘

’ہاں —  کبھی کبھی وہ نہیں آتا ہے …‘

’نہیں آتا ہے … پھر کہاں چلا جاتا ہے؟‘

’اب بڑا ہو گیا ہے نا، اس کے دوست بھی بڑے ہو گئے ہیں۔ بس دوستوں کے درمیان گھر کو بھول جاتا ہے۔‘

’لیکن یہ تو اچھی بات نہیں ہے۔‘

’ہاں، اچھی بات نہیں ہے۔ بچے بڑے ہو کر ماں باپ کے پیار کو بھول جاتے ہیں۔‘

وہی بے قرار لہریں —  رباب کو خود پتہ نہیں تھا، وہ کیا جواب دے رہی ہے۔ اسامہ ابھی بھی بغور اس کے چہرے کا جائزہ لے رہی تھی۔

’مگر … وہ رات میں تو لوٹ آتا ہو گا؟‘

’ہاں، آ جاتا ہے … کبھی کبھی رات کو بھی نہیں آتا۔‘

’نہیں آتا …‘

اس بار شمیمہ زور سے چیخی تھی۔

’وہ رات کو بھی نہیں آتا —  یہ تو بہت بری بات ہے۔‘

’ہاں، بہت بری بات ہے۔ بچے ماں باپ کو بڑے ہونے پر صرف ایک ہی تحفہ دیتے ہیں —  انتظار کا تحفہ۔ وہ بھول جاتے ہیں کہ ماں باپ کے لیے یہ انتظار کتنا مشکل ہوتا ہے۔ کتنا اذیت ناک اور کتنا صبر آزما — ‘

شمیمہ بالکونی سے ہٹ کر کرسی پر بیٹھ گئی۔ بے قرار لہروں نے آنکھوں پر پٹی باندھ دی تھی —  اب شمیمہ کی جگہ اسامہ نظر آ رہا تھا —  جی چاہ رہا تھا اسامہ کو سینے سے لگا لوں —  پھر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگوں —

رباب نے شمیمہ کی طرف دیکھا —

’تمہیں اگر اپنے گھر بلا لوں تو؟‘

شمیمہ چونک گئی تھی —

’میرے گھر رہو گی … میرے پاس …‘

شمیمہ کی آنکھوں میں اچانک ہی آنسوؤں کے موٹے موٹے قطرے تیر گئے تھے۔

٭٭

شمیمہ کو موگی پہنچا کر رباب گھر تو آ گئی۔ لیکن جیسے وہ خود کو پہلے سے کہیں زیادہ تنہا محسوس کر رہی تھی —  اب اسے ارشد کے آنے کا انتظار تھا۔ وہ ارشد سے شمیمہ کے بارے میں کھل کر باتیں کرنا چاہتی تھی۔

٭٭

 

 

(4)

میں ارشد پاشا … میں ایک بار پھر آپ کے سامنے ہوں —  میں ان تمام واقعات کا گواہ ہوں جو ملک کے موجودہ حالات سے گزرتے ہوئے میرے گھر کا چین اور سکون درہم برہم کر گئے تھے —  مجھے رباب پر ترس آتا تھا —  رباب جو اپنی کیفیت کو چھپانے کی کوشش میں اور بھی زیادہ زخمی ہو جاتی تھی —  اور میرے پاس نہ خود کو تسلی دینے کے سامان تھے اور نہ ہی میں جھوٹی تسلیاں رباب کو دے سکتا تھا۔

وقت تیزی سے اڑان بھرتا جا رہا تھا —

اس درمیان دو بار تھانے سے بلاوا آیا —

’لاشیں پہچاننی ہیں — ‘

یہ میرے اور رباب کے لیے بیحد صبر آزما اور قاتل لمحے ہوتے۔ مردہ جسم پر سفید کپڑے پڑے ہوتے —  ہمیں چہرہ دکھایا جاتا۔ لاش کے کپڑے اور سامان دکھائے جاتے —  پھر پوچھا جاتا، یہ آپ کا بچہ تو نہیں ہے — ‘

زندگی کی اس جنگ میں یقینی طور پر ہم ابھی ایسے لمحوں کے لیے تیار نہیں تھے۔ شاید دنیا کی کوئی بھی ماں یا کوئی بھی باپ ان صبر آزما لمحوں کے لیے خود کو تیار نہیں ککر سکتا ہے —  پولیس کی دقت یہ تھی کہ وہ زندہ اسامہ پاشا نہیں، مردہ اسامہ پاشا کی شناخت کے لیے ہمیں بلا لیا کرتا تھا۔ اور اس کے لیے بس ایک فون کی ضرورت تھی —

اس درمیان دوایسے موقعے آئے جب اسامہ کے بارے میں پتہ چلا —  کسی نے اسے بھوپال میں دیکھا تھا —  پھر دوسری بار وہ رائے پور، چھتیس گڑھ میں دیکھا گیا —  لیکن اسامہ نہ بھوپال میں ملا، نہ چھتیس گڑھ میں —  اسے دیکھے جانے سے یہ خوشی ضرور ہوتی کہ وہ زندہ ہے —  مگر دوسرے ہی لمحے یہ خوشی نا امیدی میں تبدیل ہو جاتی —  وہ زندہ ہے تو واپس گھر کیوں نہیں آتا —  اب تو اس معاملے کو بھی لوگ بھولنے لگے تھے —  تھاپڑ کہتا تھا، وہ آئے گا ایک دن ضرور آئے گا۔ لیکن رباب کے ہونٹ اب اس کے آنے کی خبر کو لے کر سناٹے میں ہی ڈوبے رہتے —  جیسے وہ جانتی ہو کہ سچ کیا ہے۔ شاید اسی لیے اس درمیان اس نے شمیمہ سے دوستی کرلی تھی —  ممکن ہے شمیمہ میں وہ اسامہ کا عکس تلاش کرتی ہو۔ وہ موگی والوں سے کہہ کر شمیمہ کو گھر لانا چاہتی تھی۔ لیکن میں جانتا تھا، یہ سب اتنا آسان نہیں ہے۔ لکھا پڑھی —  پھر ایک لڑکی کی ذمہ داری —  اور کون جانے کب اسامہ واپس آ جائے —  تھاپڑ کی طرح مجھے بھی اس بات کا یقین تھا کہ ایک دن کال بیل بجے گی —  دروازہ کھلے گا تو سامنے اسامہ کا مسکراتا ہوا چہرہ ہو گا —

مگر وہ دن کب آئے گا …؟

کبھی کبھی خواہش ہوتی، بیٹے کی تصویر نکال کر نکل جاؤں … لوگوں سے دریافت کروں …

’میرے بیٹے کو دیکھا ہے؟ اسامہ پاشا —  عمر ۱۶سال  … ابھی تو جینا بھی نہیں سیکھا ہے اس نے —  ابھی تو پر بھی نہیں نکلے —  ابھی تو اڑنا بھی نہیں سیکھا —  دیکھا ہے میرے اسامہ کو …‘

وقت بدل رہا تھا —  زندگی مسجدوں میں پناہ تلاش کرنے لگی تھی —  وقت گزرنے کے ساتھ نا امیدی کا احساس بڑھتا جا رہا تھا —

شاید ایک دن اچانک آپ پر عمر حملہ کرتی ہے —  کنپٹیوں کے بال سفید ہو گئے تھے —  آگے کے بال بری طرح جھڑ گئے تھے۔ اب کمزوری محسوس کرتا تھا —  ایک چڑچڑا پن پورے وجود پر حاوی تھا —  اس لیے رباب نے اس دن جب شمیمہ کو لانے کا ذکر کیا تو میں غصے سے اکھڑ گیا —

’میرا بیٹا زندہ ہے ابھی  —  مر نہیں گیا ہے —  کیوں میرے زخموں کو چھیڑتی ہو تم —  اسامہ کی جگہ کوئی اور مجھے منظور نہیں — ‘

’میں نے یہ کب کہا کہ اسامہ کی جگہ …‘ رباب کے ہونٹ لرز رہے تھے —  میں کیوں سوچوں گی کہ خدانخواستہ میرے لعل کو کچھ ہو جائے —  اُداسیاں مجھے کھانے لگی ہیں اب …‘

’اسی لیے تو تم نے موگی آنا جانا شروع کیا ہے —  خود کو بہلاؤ وہاں —  جب جی چاہے شمیمہ کو لے آؤ —  مگر شمیمہ ہمیشہ کے لیے اس گھر میں آ جائے، یہ فیصلہ مجھے قبول نہیں — ‘

’تمہیں یاد ہے … نہیں تم سب بھول گئے … یاد ہے … اسامہ ابھی حال تک یہ ضد کیا کرتا تھا … اس کی بہن کیوں نہیں ہے … یاد ہے … وہ کہتا تھا —  ہم کہیں سے بھی ایک بہن لے آئیں گے —  اس کی پرورش کریں گے …‘

رباب کی آواز میں ٹھہراؤ تھا —

’میں ابھی اس بارے میں کوئی بھی فیصلہ نہیں لے سکتا — اور مجھے فی الحال کسی فیصلے کے لیے مجبور بھی مت کرو — ‘

رباب سر جھکا لیتی —

اپنی اداسیوں اور تنہائیوں سے لڑتے لڑتے الجھ جاتا تو تھانے پہنچ جاتا —

’میرے بیٹے کی کوئی خبر …؟‘

اب ایک جوان صحافی کی جگہ ایک بوڑھا فریادی ہوتا ہے —  ایک سہما اور ڈرا ہوا باپ —  اپنے کمزور لہجے کے ساتھ …

’کوئی خبر ملے تو اطلاع دیجئے گا — ‘

تھانے کی عمارت سے باہر نکلتے ہوئے بھی اسامہ کے الفاظ کان کے پردے پر آ کر چیختے رہتے …

’میں اس سسٹم میں نہیں رہ سکتا … نہیں رہ سکتا … نہیں رہ سکتا …‘

٭٭

معزز قارئین!

ایک کمزور سسٹم اور انصاف کی امید —

شاید اسی لیے ملک کے حاشیے پر پھینک دیئے گئے ایک کمزور صحافی نے ان سطور کو قلمبند کرنے کی ذمہ داری اٹھائی ہے۔ لیکن مجھے کس چیز کی تلاش تھی —  اسامہ کی؟ اسامہ کو تو میں اب تک تلاش کر ہی رہا تھا —  لیکن مجھے اس ملک یا ملک کی تقدیر رقم کرنے والوں سے کس انصاف کی امید تھی …؟‘

سسٹم ، جس سے لڑتے لڑتے میں ہارنے لگا تھا —

یہ انہی دنوں کا ذکر ہے جب مرگیہ اور کرنل روہت کا نام سرخیوں میں آ گیا تھا —  سنگھ کو اس بات کی ناراضگی تھی —  لیکن میڈیا نے ابھی بھی ان دونوں ناموں کے سلسلے میں کنجوسی ہی دکھائی تھی —  چھوٹی چھوٹی باتوں کو بریکنگ نیوز کے طور پر پیش کرنے والے میڈیا کا رویہ ان دونوں کو لے کر انتہا پسندی کی حد تک سرد تھا —

اور اُنہی دنوں اے ٹی ایس نے سنگھ سے وابستہ ایک اور نام کو بے نقاب کیا تھا —  ابھے کمار دوبے۔

اس نام کا سامنے آنا تھا کہ سنگھ میں کھلبلی مچ گئی تھی —  اے ٹی ایس کو یقین تھا کہ ابھے کمار دوبے کے ساتھ بہت جلد کچھ اور نام بھی سامنے آ جائیں گے —

رباب خاموش رہنے لگی تھی —  ممکن ہے، شمیمہ کو لے کر میرے فیصلے سے ناراض ہو لیکن اس دن کے بعد کبھی بھی اس نے بھولے سے بھی شمیمہ کا نام میرے سامنے نہیں لیا تھا —

اس دن وہ صبح سویرے ہی تیار ہو گئی —  جاتے ہوئے اس نے بتایا —

’میں دیر سے آؤں گی —  موگی جا رہی ہوں — ‘

٭٭

تھرڈ فلور پر شمیمہ مل گئی —  رباب کو دیکھ کر اس کے چہرے پر مسکراہٹ آ گئی تھی۔ وہ لپک کر آئی —

’آپ مجھے لینے آئی ہیں؟‘

رباب نے بمشکل اپنے آنسوؤں کو روکنے کی کوشش کی۔ وہ اس معصوم سوال سے اپنا دامن بچانا چاہتی تھی۔

’چلو پہلے کچھ پڑھائی کر لیں — ‘

شمیمہ کی آنکھوں کے فانوس بجھ گئے  —

’میں جانتی ہوں۔ انکل نے منع کر دیا ہو گا۔‘

شمیمہ نے دوبارہ مسکرانے کی کوشش کی —  مگر رباب نے محسوس کیا جیسے اس نے شمیمہ کی خوشیوں کو چھین لیا ہو۔

اس دن موگی کا ماحول اچھا نہیں تھا۔ اسے یہاں کی فضا میں بھی سیاست کے اثرات دکھائی دے رہے تھے۔

موگی کے نگراں مولوی ہشام غصہ میں تھے۔

’آپ بھلائی کا بھی کام کیجئے تو حکومت آنکھیں دکھاتی ہے کہ پیسہ کہاں سے آ رہا ہے۔ دبئی کا پیسہ ہے یا حوالہ کا — ؟‘

اس وقت ان کے کیبن میں افراتفری کا ماحول تھا —  رباب خاموشی سے سہمے ہوئے لوگوں کا جائزہ لے رہی تھی —

مولوی ہشام نے بات آگے بڑھائی —  ’ہم نے ایک اسلامک چینل کو لانے کا فیصلہ کیا تھا —  بات رجسٹریشن تک پہنچ گئی تھی —  ان کے اتنے سارے دھارمک چینل ہیں۔ لیکن ہمیں —  ایک چینل کو رجسٹرڈ کرانے کے لیے اتنے سارے قاعدے اصول اور سوالوں سے گزرنا ہوتا ہے کہ عقل حیران رہ جاتی ہے —  اتنے سارے الم غلم چینل ہیں۔ ان سے نہیں پوچھا جاتا کہ پیسہ کہاں سے آ رہا ہے —  بس مسلمانوں کے پاس پیسہ نہیں ہو —  مسلمان دو پیسے جوڑ کر اپنی قوم کے لیے کچھ کرنا چاہیں تو آفت —  یہ حکومت تو سب سے گری ہوئی ہے — ‘

مولوی نظام نے لقمہ دیا —  ہم سے دریافت کیا گیا ہے کہ موگی کو فنڈ کہاں سے آ رہا ہے — ؟

ہوم منسٹری سے آیا ہوا ایک خط اس نے ممبران کی طرف بڑھایا —  ’آپ لوگ بھی پڑھ لیجئے —  ہم یتیم لڑکیوں کی پرورش کر رہے ہیں اور یہ بھی ان کی نظر میں جرم اور گناہ ہے۔ تو ہم اپنی غریب بچیوں کی طرف سے آنکھیں موند لیں — ؟‘

ماحول گرم ہو چکا تھا —  ممبران غصے میں تھے —

’یعنی حد ہوتی ہے بے شرمی کی — ‘

’مسلمان اگر ان باتوں کے باوجود کانگریس سے محبت رکھتے ہیں تو قصور کس کا ہے؟‘

’آپ فلاح کا کام کرنے نکلیے تب بھی حکومت شک کے ناخن تیز کرنے لگتی ہے — ‘

مولوی ہشام سنجیدہ تھے —  ’یہ ناراض ہونے کا وقت نہیں ہے —  ہمیں سنجیدگی سے اس بات پر غور کرنا ہے کہ آگے ہمیں کون سی کارروائی کرنی ہے‘

رباب کو اس سیاست میں قطعی دلچسپی نہیں تھی —  اس کی آنکھیں شمیمہ کو تلاش کر رہی تھیں۔

شمیمہ اسے سیڑھیوں پر مل گئی —  لیکن وہ ٹھہری نہیں —  تیز تیز سیڑھیاں طے کرتی ہوئی غائب ہو گئی۔

رباب کے لیے یہ ایک بڑا جھٹکا تھا —  اس نے معصوم سی شمیمہ کا دل توڑ دیا تھا —

شام، رباب گھر واپس آئی تو اس نے موگی میں چلنے والے ہنگاموں کا ذکر چھیڑ دیا —

’یہ معاملے تو کسی کے بھی ساتھ ہوسکتے ہیں۔ وہ اپنا فنڈ، شو کیوں نہیں کرتے — ‘

’خدا معلوم — ‘ رباب معصومیت سے بولی —

’اتنا بڑا کام ہوا میں تو نہیں ہو رہا ہو گا —  ان کے پاس بیلنس شیٹ ہو گی —  پیسوں کی لین دین کی تفصیل ہو گی —  اگر وہ بے گناہ ہیں تو حکومت کو بتائیں کہ فنڈ کہاں سے اور کیسے آ رہا ہے — ‘

میرے چہرے پر ناراضگی تھی —  ’میں ایسی تنظیموں سے بھی واقف ہوں جو قوم کے نام پر کروڑ روپے حاصل تو کر لیتے ہیں لیکن قوم کی پیٹ میں گنتی کے روپے بھی نہیں جاتے۔ ان پیسوں سے ان کے عالیشان گھر تعمیر ہوتے ہیں اور ان کے بچے بڑی بڑی گاڑیوں میں سفر کرتے ہیں۔ قوم کی فلاح سوچنے والے در اصل صرف اپنے بارے میں سوچتے ہیں — ‘

’ایسا نہیں ہوتا — ‘ رباب غصہ تھی —  وہ لوگ کیا برا کر رہے ہیں۔ غریب اور یتیم لڑکیوں کو ایک چھت مل گئی ہے —  ایک آسرا مل گیا ہے — ‘

مجھے ہنسی آ گئی —  ’یہ ۴۰۰ لوگوں کو آسرا دینے کا فنڈ حاصل کر لیتے ہیں کاغذی کاروائی بھی ۴۰۰؍ لوگوں کے لیے ہی ہوتی ہے اور آسرا ملتا ہے صرف 4 لوگوں کو —  ایسے ان جی اوز کو فلاح کے نام پر جو پیسے ملتے ہیں، اس کا دسواں حصہ بھی ان غریب بچوں کے نام پر خرچ نہیں کیا جاتا —  اسی لیے ایسی تنظیمیں اور ان جی اوز بہت جلد پولیس اور حکومت کے نشانے پر آ جاتی ہیں — ‘

لیکن رباب کو میری باتوں سے اتفاق نہیں تھا —  آج وہ بجھی بجھی اور سہمی تھی —

’پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں۔ موگی سے اچھے لوگ وابستہ ہیں۔ حکومت کا کیا —  وہ تو صرف پریشان کرنا جانتی ہے — ‘

رباب اٹھ کر چلی گئی —

میں اسامہ کے کمرے میں آ گیا —  یادیں جب بھی پریشان کرتیں، میں خاموشی سے اس کمرے میں آ کر اسی کی کرسی پر بیٹھ جاتا تھا —

تب یہ خیال نہیں آیا تھا کہ وقت ہمارے ساتھ کچھ اور نیا کھیل شروع کرنے والا ہے۔

٭٭

 

 

(5)

ابھے کمار دوبے کی گرفتاری سے سیاسی حلقوں میں طوفان آ گیا تھا —  سوئے ہوئے سیاسی بت جاگ گئے تھے —  بیانات کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ ایک کانگریسی لیڈر کا بیان بھی آ گیا —  ہندوستان کے تمام دھماکوں کے پیچھے ، آر ایس ایس کا ہاتھ ہے۔

اور ادھر بھگوا پارٹی اور سنگھ کے لوگ مخالفت میں اپنے اپنے بیان جاری کر رہے تھے۔ سادھوی چما بھارتی جو سیاست میں حاشیے پر چلی گئی تھیں، ایک بار پھر اپنے بیانوں کے ذریعہ سیاست میں واپسی کا خواب دیکھ رہی تھیں۔ بھگوا پارٹی کے بزرگ نیتا اب اس ریس میں ہانپنے لگے تھے —  مراٹھوں کی سرپرستی کا نعرہ بلند کرنے والے بچہ ٹھاکر نے بھی اپنے اخبار میں ابھے کمار دوبے کی حمایت کا اعلان کیا تھا —  حلوانی اس ایشو کو کانگریس کی مسلم دوستی سے جوڑتے ہوئے اکثریتی طبقے کو خوش کرنے میں لگے تھے —

ٹی وی اسکرین پر بار بار ابھے کمار دوبے کی تصویر فلیش کی جا رہی تھی۔ پولیس حراست میں —  کرتا اور پائجامہ پہنے —  آنکھوں پر چشمہ، سنجیدہ چہرہ ، ہلکی بڑھی ہوئی داڑھی —

’میں نے اپنی ساری زندگی پولیس اور راشٹریہ کے نام کی —  اب عمر کے آخری برسوں میں، میں اپنی صفائی کے نام پر کچھ بھی نہیں کہنا چاہوں گا —  مگر میرا دل رو رہا ہے …‘

بوڑھا شیر ایک بار پھر گرجا تھا —  بچہ ٹھاکر نے اپنے اخبار کی سرخی لگائی تھی —  ’ہندوؤں کا اپمان کرنا بند کرو — ‘

حاشیے پر پھینک دیئے گئے حلوانی جیسے لیڈر بھی اس معاملے کے بعد سامنے آ گئے تھے … در اصل حلوانی ان بد قسمت لوگوں میں سے ایک تھے جو ہزار خواہش کے باوجود پرائم منسٹر کی کرسی پر بیٹھنے کے خواب کو پورا نہیں ککر سکے —  ایک زمانے میں گرم ہندوتو کی باتیں کرنے والے حلوانی نے جب پاکستان اور جناح کا معاملہ اٹھا کر نرم ہندوتو کا سہارا لیا تو اپنی ہی پارٹی کے لوگوں کی مخالفت کھل کر سامنے آ گئی —  یہ مخالفت اتنی شدید تھی کہ وہ دوبارہ اٹھ ہی نہیں سکے —  لیکن اب بھی کہیں نہ کہیں کرسی کے لیے ایک بے چینی سی ان کے اندر رہتی ہے —  اس لیے ایسے معاملات سامنے آتے تو ایک بار پھر بوڑھے شیر کی رگوں میں جوان خون دوڑنے لگتا —

حلوانی کے ساتھ مشکل یہ تھی کہ وہ اپنے رخ کا فیصلہ ہی نہیں کر پا رہے تھے۔ نرم ہندوتو یا گرم ہندوتو —

یہ مشکل اس پارٹی کے دوسرے نیتاؤں کے ساتھ بھی تھی۔ جبکہ کچھ لوگ شروع سے مسلمانوں کی مخالفت کی وجہ سے ہمیشہ سرخیوں میں رہے اور انہیں پارٹی کی حمایت بھی حاصل تھی۔

آر ایس ایس اور ہندو مہاسبھا سے وابستہ لوگ اس سلسلے میں پرائم منسٹر سے ملنے بھی جانے والے تھے۔

٭٭

تھاپڑ کے لیے اس طرح کی باتیں مذاق سے زیادہ کی حیثیت نہیں رکھتی تھیں —  ایک مدت بعد وہ اپنی پتنی کے ساتھ آیا تھا —  تھاپڑ کی پتنی ایک گھریلو خاتون تھی —  آنندی، تھاپڑ کی طرح نہیں تھی —  وہ دھرم اور کرم پر وشواس رکھتی تھی —  وہ اکثر تھاپڑ کی کھنچائی بھی کرتی —

’ان کا کیا —  کسی دن دیکھئے گا بھائی صاحب۔ یہ بھی دھرم پر لوٹ آئیں گے۔‘

رباب نے مسکرانے کی کوشش کی —  آج برسوں بعد اس کے چہرے پر مسکراہٹ آئی تھی —  آنندی رباب کی کیفیت سے آگاہ تھی۔ اسامہ کئی دنوں تک اس کے ساتھ رہا تھا —  اور تھاپڑ کی نصیحت تھی کہ وہ رباب کے سامنے بھول کر بھی اسامہ کا ذکر نہ کرے —  اس لیے اس ماحول میں آنندی، رباب کو بہلانے کی کوشش کر رہی تھی —

’پہلے یہ مندر جاتے تھے …‘

یہ تھاپڑ مندر جاتا تھا —

رباب کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا —

’اور نہیں تو کیا —  کاشی میں میرے پیچھے پیچھے یہ بھی مندر آ جاتے تھے — ‘

’لو  … چھپا رستم نکلا یہ تو …‘

میں نے ہنستے ہوئے تھاپڑ کی طرف دیکھا —  وہ نئی نویلی دلہن کی طرح شرما گیا تھا —

’ارے وہ تو …؟‘

’وہ تو کیا  … صاف بتا دیجئے کہ کوئی اور لڑکی نہیں ملی تھی گھاس ڈالنے والی —  بس میں مل گئی تھی …‘ آنندی ہنس رہی تھی۔ صبح گھاٹ پر جاؤں تو وہاں حاضر —  مندر جاؤں تو وہاں —  ایک بار تو مجھ سے پرساد بھی لیا تھا —  میں نے پرساد ہاتھ پر رکھا اور مسکرا کر آگے بڑھ گئی —  اور ان صاحب کو محبت کے اقرار میں پورے دو سال لگے تھے …‘

’ابے سالے …‘ میں نے ہنس کر تھاپڑ کو دیکھا —  ’لے، بھابھی تیری ساری پول کھول رہی ہے — ‘

’وہ تو … ‘ ہنستا ہوا تھاپڑ اپنا سر کھجلا رہا تھا —  محبت اور جنگ میں سب جائز ہے …

’یقین نہیں آتا کہ تھاپڑ بھائی صاحب بھی … ، رباب کے چہرے پر چمک تھی —  میں تو انہیں …‘

’کافی شریف سمجھ رہی تھی …‘ میں نے ادھوری بات پوری کی —  ‘کمرے میں ٹھہاکا گونجا —

’ہاں — ‘

’ارے بھابھی — شریف لوگ پیار نہیں کرتے کیا … لو بھابھی کی سنو …‘ آنندی ہنس رہی تھی —  تم بھی کمال ہو بھابھی —  اس زمانے میں تو بھیا کی بھی پوری ہسٹری رہی ہے …‘

 آنندی نے میری طرف دیکھا اور سب کھلکھلا کر ہنس پڑے —  اب آنندی کے نشانے پر میں تھا —

’ارے اس کی ہسٹری بایولوجی کچھ نہیں —  یہ کمبخت پیار کے معاملے میں ایک نمبر کا ڈفر تھا — ‘

تھاپڑ ہنس رہا تھا —  آنکھوں کے آگے کتنی ہی کہانیاں لہرا کے گم ہو گئیں —

آنندی اٹھ کر رباب کے قریب بیٹھ گئی —  رباب کا ہاتھ اس نے اپنے ہاتھوں میں لے لیا —  وہ پیار سے رباب کو دیکھ رہی تھی —

’تو بھیا کی ہسٹری بایولوجی آج معلوم ہوئی —  کیوں بھابھی — ؟ یہ کہتے ہیں بھیا کو پیار نہیں آتا تھا —  لیکن بھیا کو پیار آپ نے سکھا دیا — ‘

رباب نے مسکرانے کی کوشش کی —

’ایک بات پوچھوں — ؟‘

’رباب کے اس سوال پر اچانک سناٹا چھا گیا —  آنندی نے پلٹ کر تھاپڑ کی طرف دیکھا —  جیسے کہہ رہی ہو —  بھابھی کو بہلانے کی کوشش تو کر رہی تھی لیکن اگر بھابھی نے اسامہ کے بارے میں کوئی ایسی ویسی بات پوچھ دی تو — ؟ آنندی کو اس بات کا بھی خوف تھا کہ کہیں رباب اسامہ کی یاد میں رونا نہ شروع کر دے —  پھر وہ کیا کرے گی — ؟ اس کے ہاتھ پاؤں خود بھی ڈھیلے ہو جائیں گے۔‘

’ہاں بھابھی —  پوچھئے نا … ‘ ذرا ٹھہر کر آنندی بولی —

’وہ اسامہ —  آپ کے یہاں رہا نا …؟‘

’ہاں — ‘

’کیا وہاں بھی وہ خاموش رہتا تھا …؟‘

’ارے نہیں بھابھی — ‘ آنندی نے بات سنبھال لی —  پیارا بچہ ہے —  لیکن دوسرے بچوں سے مختلف —  آپ تو جانتی ہیں کہ میرا بیٹا منوج ہاسٹل میں رہتا ہے —  منوج ہوتا تو اسامہ کا دل بھی لگتا — ‘

’تو اس کا دل نہیں لگتا تھا …؟‘ رباب کی آواز سرد تھی —

’یہ کس نے کہا —  تم بھی نہ آنندی، تھاپڑ نے آنندی کو غصے میں دیکھا —  ’دل کیوں نہیں لگتا اس کا۔ منوج نہیں تھا لیکن ہم تو تھے وہاں  —  آنندی تھی —  لیکن آجکل کے بچوں کو تو آپ جانتی ہی ہیں بھابھی۔ منوج بھی ہاسٹل سے گھر آتا ہے تو سنجیدہ ہی رہتا ہے۔ کم بولتا ہے — ‘

’ہاں —  ان بچوں کی اپنی دنیا بن جاتی ہے —  اور اپنی اس دنیا میں یہ بچے خوش بھی رہتے ہیں — ‘

رباب کھڑکی سے باہر دیکھ رہی تھی … ’وہ پہلے ایسا نہیں تھا —  مگر کچھ دنوں سے یا یہاں آنے کے بعد —  اب سوچتی ہوں یہاں آئی ہی کیوں — ؟ مگر ہونی کو کون ٹال سکتا ہے —  قدرت کے قانون تو اٹل ہیں — ‘

وہ آنکھوں میں منڈراتے آنسوؤں کو پی گئی تھی —  پھر مسکراتے ہوئے بولی —

’ارے چائے کے لیے تو میں بھول ہی گئی — ‘

’ارے بھابھی —  آپ کیوں تکلیف کریں گی —  میں ہوں نا …‘

’ارے نہیں — ‘

تھاپڑ نے آنندی کو اشارہ کیا —  آنندی رباب کے ساتھ کچن کی طرف بڑھ گئی —

کمرے میں کچھ دیر کے لیے خاموشی چھا گئی —

پھر اس سکوت کو تھاپڑ نے توڑا —  ’تم نے ابھے کمار دوبے کی گرفتاری کی خبر پڑھی — ‘

’ہاں — ‘

’سنگھ کی سازش بے نقاب ہوئی تو سینے پر سانپ لوٹ گئے سالوں کے — ‘

میں خاموش رہا —

’اب دیکھنا —  یہ معاملہ اتنا آسان نہیں ہے۔ جتنا نظر آ رہا ہے —  یا تو سچائی سامنے آئے گی یا حکومت اکثریتی طبقے کے ووٹ بینک کے چکر میں اس معاملے پر پردہ ڈال دے گی۔ ناگ ناگنوں پر بریکنگ نیوز کرنے والے نیوز چینلس کو دیکھا —  کرنل روہت اور ابھے کمار دوبے کا معاملہ ان چینلوں کے لیے نہ بریکنگ نیوز ہے نہ ہاٹ — ‘ تھاپڑ نے پھر ایک گندی سی گالی بکی —  یہ سب ایک بڑی سازش کا حصہ ہے —  بٹلہ ہاؤس کا فرضی انکاؤنٹر تو اس سازش کی صرف ایک معمولی کڑی ہے —  سوال یہ بھی ہے کہ کتنے دنوں تک یہ معاملہ اٹھتا ہے یا یہ معاملہ بھی دبا دیا جائے گا —  اور ہندوستان کی معصوم جنتا بھگوا آتنک واد کو بھول کر صرف مسلم آتنک واد کا نام جپے گی —  یہ میڈیا کا کرشمہ ہے میرے بھائی —  میڈیا جو یاد کروانا چاہتی ہے، وہ یاد کرا دیتی ہے اور جنتا سے جو بھلانا چاہتی ہے اسے بھلانے میں دیر نہیں کرتی۔ اور آپ کہتے ہیں یہ میڈیا سیکولر ہے —  آپ کے فیور میں ہے، تھاپڑہنس رہا تھا۔ ’گھوٹالوں میں اب میڈیا کے بڑے بڑے چہرے بھی کھل کر سامنے آرہے ہیں برادر —  وہ چہرے جو گجرات حادثے میں آپ کو اپنے لگتے تھے مگر آج ان چہروں نے پیڈ نیوز کی سچائی کو سامنے رکھ دیا ہے۔ یہ سب بکے لوگ ہیں —  جو بریکنگ نیوز کے ذریعہ دہاڑ اس لیے لگاتے ہیں کہ حکومت ڈر جائے —  پھر لین دین —  سودے بازی اور بڑے سے بڑے معاملے دبادیئے جاتے ہیں۔ اسٹنگ آپریشن میں کچھ چھوٹے نام سامنے آتے ہیں اور بڑے اسٹنگ آپریشن کے لیے، ان بڑے ناموں سے بلیک میلنگ کی جاتی ہے —  اور پھڑپھڑاتے ہیں ہم آپ خبریں دیکھ کر جذباتی ہوتے ہیں ہم آپ —  ارے قصاب جیسوں سے بھی زیادہ کوئی دیش دروہی ہے تو یہ لوگ  —  جو ہماری ناک کے سامنے سب کچھ بیچ رہے ہیں —  حکومت سے لے کر عام آدمی تک سب کچھ جانتا ہے —  مگر ہوتا کیا ہے —  حکومت ان پر ہاتھ بھی نہیں رکھ پاتی —  سالے …‘

تھاپڑ نے پھر ایک گندی گالی بکی تھی —  اب حکومت کو ہی دیکھو …‘

تھاپڑ کا چہرہ لال ہو رہا تھا —  ’ابھے کمار دوبے کے معاملے میں صرف ایک کانگریسی نیتا بول رہا ہے —  اور دوسرے تمام لیڈر اس کے بیان سے پنجہ جھاڑ رہے ہیں۔ ایک بیچارہ چلا رہا ہے … کہ آزادی کے بعد کے تمام دھماکوں میں سنگھ کا ہاتھ ہے —  اور باقی کہہ رہے ہیں وہ اپنے بیان کے لیے خود ذمہ دار —  کیوں ارشد پاشا — ؟ یہ بھی ان سالوں کی پالیسی ہے —  باقی مل کر اکثریت کا ووٹ بنک قائم رکھیں اور پارٹی کا ہی ایک نیتا اقلیت میں بھی اپنی پکڑ بنائے رکھے کہ لو … کانگریس عام مسلمانوں کی بات اٹھا رہی ہے —  یہ کانگریس آج بھی مسلمانوں کو ہی بلی کا بکرا سمجھتی ہے اور عام جنتا کو بے وقوف —  اور ایک ہم ہیں کہ جائیں کہاں —  ایک طرف فرقہ واریت دوسری طرف ایک دوغلاپن — ‘

تھاپڑ غصے میں ابل رہا تھا —  ’کبھی کبھی اسی لیے اس ملک سے بھاگ جانے کی خواہش ہوتی ہے —  یہاں آج بھی سیاست سے عام آدمی کی بنیاد گھوٹالے اور کرپشن ہیں —  پھر بھی آدرش واد اور جمہوریت کی دہائی دی جاتی ہے —  لواسے پڑھ لو — ‘

تھاپڑ نے جیب سے ایک مڑا تڑا کاغذ نکالتے ہوئے کہا۔

’یہ کیا ہے؟‘

’ابھے کمار دوبے کے یہاں سے برآمد بہت سے خفیہ کاغذات میں سے ایک —  اور یہ خط راشٹریہ سویم سیوک سنگھ نے اپنے ممبران کو لکھا ہے — ‘

’لیکن یہ تم تک کیسے پہنچا — ؟‘

تھاپڑ ہنسا —  یہ کاغذ کسی طرح نیوز چینلس اور اخباروں کے ہاتھ لگ گیا — ‘

’پھر — ‘

’راشٹریہ ہت میں اس خط پر پردہ ڈال دیا گیا —  سمجھ رہے ہو نا ارشد پاشا —  راشٹریہ ہت —  اب پڑھ بھی ڈالو — ‘

میں نے ایک لمحہ کے لیے تھاپڑ کی طرف دیکھا —  پھر میری نگاہیں ہندی میں ٹائپ کی گئی تحریر پر دوڑنے لگیں —  اس تحریر میں راشٹریہ سویم سنگھ کے دوستوں کو رازدارانہ طور پر یہ بتانے کی کوشش کی گئی تھی کہ …

-1  اسلحے اور دھماکے کے سامان زیادہ سے زیادہ تعداد میں حاصل کریں۔

-2  مسلمانوں کے خلاف غیر سورن ہندوؤں کو لڑنے کے لیے اکسائیں۔

-3  سرکاری افسران کو ہندوتو کی بھاؤنا کے بارے میں سمجھائیں اور ان سے ہندوتو کے لیے کام لیں۔

-4  ڈاکٹروں اور میڈیکل اسٹور کے مالکوں میں ہندوتو کی بھاؤنا جگائیں جس سے وہ مسلمانوں کو نقصان پہنچانے والی دوائیں ہی فروخت کریں۔

-5  پچھڑی اور نچلی جاتیوں میں، چھوٹے چھوٹے بچوں میں ’اوم‘ اور ’جے شری رام جیسے لفظوں کو مقبول بنائیں۔

-6  ہندو مخالف یا برہم واد مخالف قوتوں کا بائی کاٹ کریں۔

-7  مسلمان اور پچھڑی ذات کی بستیوں میں لاٹری، جوا، شراب کے ذریعہ پیسہ بٹورنے میں لگے تاجروں کی مدد کریں۔

-8  مسلمان اور غیر سورن کی لڑکیاں کم عمری میں ہی طوائف کا پیشہ اپنا لیں، اس کی کوشش کی جائے۔

-9  سویم سیوک اور سنگٹھن سے جڑے لوگ غیر سورن ہندوؤں اور مسلم بچوں کے کھانے میں ملاوٹ کریں —  جس کے اثر سے ذہنی اور جسمانی طور پر وہ کمزور ہو جائیں۔

-10  اسکولی بچوں کو سنگھ کے ذریعہ گڑھے گئے اتہاس کی ہی تعلیم دی جائے۔

-11  مسلمان، امبیڈکر وادی اور بودھ سماج کو بھڑکا کر آپس میں دنگا کرانے کے لیے باہر کے غنڈوں اور ہتھیار بند دلوں کی مدد لی جائے۔

-12  دنگے کے دوران بڑے پیمانے پر مسلمانوں ، غیر سورن ہندوؤں کی عورتوں کے ساتھ ساموہک (اجتماعی) بلاتکار کیا جائے —  جان پہچان اور دوستی والے لوگ اس کام میں رکاوٹ نہ بنیں۔

-13  غیر ہندوؤں کے دھارمک استھلوں سے لگی زمین پر دیو پریتما استھاپت کرنے کا کام مسلسل ہونا چاہیے۔ مدد کے لیے مکھیالیہ، ہیڈ آفس سے تعلق قائم کریں۔ پرانے چرچ، مسجد اور استوپ کی جگہوں پر مندر ہونے کا دعویٰ پیش کیا جائے اور اس کے لیے لٹریچر تیار کیا جائے —

-14  مسلمان اور بودھ مذہب کے خلاف زیادہ سے زیادہ ساہتیہ چھاپا جائے —  یہ بھی بتایا جائے کہ سمراٹ اشوک بودھ نہیں تھا —

-15  ہندو اور برہمن مخالف ساہتیہ کو نشٹ کیا جائے —

-16  غیر سورن اور مسلمانوں میں اندھ وشواس پھیلایا جائے۔ اس کے  لیے باباؤں اور سادھوؤں کی مدد لی جائے۔

-17  جین، بودھ، سکھوں کو ہندو بنانے کا کام چالو رکھا جائے۔ جین مندروں میں رام کی پوجا پر زور دیا جائے۔

-18  کمیونسٹ، مسلمان، شودر اور غیر سورنوں پر حملے جاری رکھے جائیں۔

حقیقت یہ ہے کہ میں پیپر پڑھ چکا تھا —  اور اب میں کانپ رہا تھا۔

’یہ سب کیا ہے تھاپڑ — ؟‘

’وہی جو تم دیکھ رہے ہو۔ اب بتاؤ مجھے یہ قصاب زیادہ بڑا ملزم ہے یا یہ لوگ — ؟ کہاں محفوظ ہیں ہم یا ہمارے بچے؟ اسکولوں میں بچوں کے درمیان نشہ کون بانٹ رہا ہے؟ اسکول کے کھانوں میں ملاوٹ کا ذمہ دار کون ہے — ؟ آئے دن جو فسادات ہو رہے ہیں اس کا ذمہ دار کون ہے؟ کیا ہمارے بچے صحیح تاریخ پڑھ رہے ہیں یا سنگھ کے ماسٹر مائنڈ کے ذریعہ تیار کیا گیا لٹریچر — ؟‘

تھاپڑ غصے میں تھا —  ’ایسے ہزاروں خفیہ خط ہیں یا لٹریچر جو سنگھ اپنے لوگوں کے نام جاری کرتا ہے —  یہ ان ہزاروں لاکھوں خفیہ خطوط میں سے ایک ہے۔ ان خطوط میں اور کیا کیا ہوتا ہو گا، کیا تم تصور بھی ککر سکتے ہو؟ کیا حکومت اس سے انجان ہے — ؟ اتنے سارے بیورو، سی بی آئی ایجنسیاں ، خفیہ ایجنسیاں کیا سنگھ کے کارناموں کا انہیں پتہ نہیں — ؟ سب سے زیادہ حیرت کی بات یہ ہے کہ پڑھا لکھا آدمی سنگھ جیسی تنظیم کیسے جوائن ککر سکتا ہے؟ اور اگر جوائن کرتا ہے تو کیا ایسے لٹریچر کو پڑھتے ہوئے یا اس کی پیروی کرتے ہوئے اسے ذرا بھی شرم محسوس نہیں ہوتی — ؟ وہ جانوروں کی پوجا کرتے ہیں اور انسانوں کے لیے سازش رچتے ہیں …‘

’کس سازش کی بات ہو رہی ہے بھائی — ‘ رباب چائے اور ہلکا پھلکا ناشتہ لے کر آنندی کے ساتھ لوٹ آئی تھی —

’دو مرد ساتھ ہوں تو سازش تو ہو گی نہ بھابھی — ‘ آنندی ہنس کر بولی —

’ٹھیک کہتی ہو —  اس بار رباب بھی اس کی ہنسی میں شامل ہو گئی تھی —

٭٭

 

 

(6)

موگی پر چھاپا پڑا تھا۔ پولس کی ریڈ —  سی بی آئی والے سرچ وارنٹ لے کر آئے تھے —  موگی کے باہر بھیڑ جمع تھی۔ لڑکیاں سہمی اور دبکی ہوئی اپنے کمروں میں تھیں —  پولس ان لڑکیوں سے بھی پوچھ تاچھ کر رہی تھی —

’وہ کب سے یہاں ہیں؟‘

’ان پر کسی طرح کی زیادتی تو نہیں ہوتی؟‘

’وہ کہاں سے آئی ہیں؟‘

’یہاں کیا پڑھایا جاتا ہے؟‘

ان سوالوں سے گھبرا کر کچھ لڑکیوں نے رونا بھی شروع کر دیا تھا —  انفارمیشن بیورو نے موگی کے سارے کھاتے اور بینک اکاؤنٹ تک سیل کر دیئے تھے —  موگی کے افسران اس اچانک کے چھاپے سے سہمے ہوئے تھے —  سب سے زیادہ حیران اور پریشان لڑکیاں تھیں، جنہیں اپنے مستقبل کے نام پر پھر سے اندھیرا دکھائی دینے لگا تھا —

دو گھنٹے کے ہنگامے اور پوچھ تاچھ کے بعد پولس اپنے ساتھ مولوی ہشام اور ان کی نگرانی میں کام کرنے والے دو افسروں کو اپنے ساتھ لے گئی تھی —

رباب کے دل پر یہ خبر کسی بجلی کی طرح گری تھی —  وہ سناٹے میں تھی۔ آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے۔ ننھی سی شمیمہ کا چہرہ آنکھوں کے آگے لہرایا —  کان کے پردے پر سریلی گھنٹیوں کے جیسی اس کی آواز ابھرنے لگی …

’پہلے سوچتی تھی، سارے برے ہیں دنیا میں …؟‘

’اور اب …‘

’اب ایسا نہیں لگتا …‘

’کیوں …؟‘

شمیمہ کی آنکھوں میں قمقمے روشن تھے۔

’اس دنیا میں آپ بھی ہونا …؟‘

ہاں میں بھی … لیکن صرف میرے ہونے سے  …؟‘

’ماں نہیں تھی نا … اور باپ …‘ اس کی آنکھوں کے قمقمے بجھ گئے —   جانور تھا وہ …‘

آنکھوں میں نمی چھا گئی —

’جان بھی نہیں سکی کہ زندگی کیا ہوتی ہے؟ کس لیے ملتی ہے؟ ناشکری تھی —  خداسے بدلا لیا کرتی تھی — ‘

’کیسے؟‘

’ ہر وقت خدا کو کوستی رہتی … ایک محبت ملی … اس محبت نے بھی سودا کیا میرا …‘

’جو بیت گئی سو بات گئی …‘

’نہیں … گزرا ہوا پل دوزخ ہو تو یادیں نہیں جاتیں …‘

’لیکن پھر بھی شمیمہ —  گزرے ہوئے پل یاد بھی نہیں رکھے جاتے۔ یاد رکھو گی تو آگے کی زندگی سخت ہو جائے گئی — ‘

’یادیں بھلائی نہیں جاتیں — ‘

’لیکن اب تم اس زندگی سے باہر نکل آئی ہو شمیمہ …‘

’پتہ نہیں …‘

عجیب سی مسکراہٹ تھی —  خوشی کا نام و نشان نہیں۔ درد اور کڑواہٹ دونوں ساتھ ساتھ —

رباب نے پلٹ کر پوچھا —

’تم ابھی بھی خوش نہیں …؟‘

’خوش ہونے جیسی کوئی بات تو ہو …‘ وہ مسکرائی تو موتیوں جیسے دانت سامنے آ گئے —

’اب تم اچھی جگہ ہو …؟‘ رباب اس کی آنکھیں پڑھ رہی تھی —

’جیسا آپ سوچتی ہیں۔ ویسا نہیں ہے — ‘ وہ کہتے کہتے رک گئی تھی —  بھیڑیے سب جگہ ہوتے ہیں —

’بھیڑیے …‘

رباب ایک دم سے چونک گئی تھی —

آنسوؤں کو پیتی ہوئی شمیمہ اس سے لپٹ گئی تھی۔ لیکن آپ بہت اچھی ہو … لے چلو گی نا مجھے اپنے ساتھ …؟ اپنے بیٹے سے ملواؤ گی نا …؟‘

’ہاں کیوں نہیں …‘

معصوم سی خرگوش کی طرح وہ رباب کی بانہوں میں سما گئی … لیکن کہیں دور آسمان پر ایک تارہ ٹوٹا تھا …

رباب اپنی دنیا میں واپس لوٹی تو سانس تیز تیز چل رہی تھی …

اور اس کے ٹھیک دوسرے دن ہی وہ حادثہ ہو گیا تھا …

٭٭

لیکن ان حادثوں سے پہلے ایک چونکا دینے والی خبر آئی تھی —  اور اس خبر کو آپ تک پہنچانا ضروری سمجھتا ہوں —

میں ارشد پاشا … میں نے پہلے بھی اعتراف کیا ہے کہ کچھ خبریں مختلف ذرائع سے ہم تک پہنچتی ہیں۔ اور جب ایک صحافی ہونے کے ناطے ان خبروں کی صداقت پر یقین ہو جاتا ہے، اس کے بعد ہی میں انہیں تحریر میں لانا شروع کرتا ہوں —  اور جیسا کہ میں آپ کو بار بار بتاتا رہا کہ میں کوئی فکشن رائٹر یا ناولسٹ نہیں ہوں —  اس لیے مجھے ناول لکھنے کا آرٹ نہیں آتا —  اور میں ابھی، اس تحریر کے لیے اس فن کو ضروری بھی نہیں سمجھتا —  کیونکہ میری دنیا الگ ہے۔ ہم خبروں کی دنیا کے لوگ ہیں جہاں جھوٹی اور من گھڑنت باتوں کے لیے کوئی جگہ نہیں —

ابھے کمار دوبے کو ۱۴ دن کے مزید ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا تھا —  وہ اپنی بات پر ابھی بھی قائم تھے —

’ملک کے سیوک کو ہمیشہ سے جیل کی سلاخیں ملتی رہی ہیں —  میں بے قصور ہوں — ‘

سنگھ حرکت میں آ گیا تھا —  ابھے کمار دوبے کے منہ کھولنے کا مطلب تھا، سنگھ لابی کے کئی دوسرے لوگوں کا بے نقاب ہو جانا —  ایک سوال اور بھی تھا کہ اے ٹی ایس کیا ابھے کمار دوبے کا منہ کھلوا سکتی ہے — ؟

اشوک نمانی کے گھر اسی سلسلے کو لے کر ایک میٹنگ ہوئی۔ میٹنگ میں راشٹریہ سویم سنگھ کے دوسرے کاریہ کرتا بھی موجود تھے۔

نمانی کا کہنا تھا —

’ابھے کمار دوبے پر آنکھیں موند کر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا —  عمر کی جن منزلوں پر وہ ہیں، وہاں انہیں توڑا جا سکتا ہے — ‘

سپر ویژن انڈسٹری کے مالک کا نجی بھائی چلّائے —

’یہ حال رہا تو ہم جیسے لوگ سنگھ میں آنے سے پناہ مانگیں گے — ‘

’لیکن کیوں — ؟‘ ڈاکٹر راما مورتی نے پوچھا، جن کے کئی ٹرسٹ اور ہاسپٹل دلی سے ممبئی تک چھائے ہوئے تھے۔

’کانجی بھائی صحیح بولتے ہیں — ‘ یہ ٹی راجن تھے۔ جو پیشہ سے وکیل تھے —

ٹی راجن خاموش تھے —  ان کا ایک بڑے چینل میں شیئر تھا —

اشوک نمانی غصے میں تھے —  آپ لوگ سنگھ سے وفاداری دکھانے جمع ہوئے ہیں یا بغاوت کرنے؟‘

’میں نے ایک سیدھی بات پوچھی ہے —  کہ کیا ابھے کمار دوبے پر بھروسہ کیا جا سکتا ہے۔؟

کانجی بھائی بولے —  ’کیا سنگھ اپنے کسی بھی کاریہ کرتا پر بھروسہ کرتا ہے؟‘

نٹ راجن اب چپ نہیں بیٹھے —  سادھوی مرگیہ کیس میں کیا ہوا؟ سب کے سامنے ہے —  بم دھماکے میں ارون جوشی نے اپنی سیوا دی —  مرگیہ نے اسی کی ہتیا کرادی —  کہ کل کو ارون جوشی سے کوئی راز نہ اگلوا لیا جائے — ‘

کمرے میں سناٹا تھا —

کانجی بھائی سلگ رہے تھے —  ’اپنے لوگوں کو بچانے کے بجائے سنگھ تو اپنے ہی لوگوں کی ہتیائیں کرا رہا ہے — ‘

’یہ ہتیا نہیں ہے —  ‘ اشوک نمانی بولے —

’تو شہادت بھی نہیں ہے —  ہندو آستھا کا مطلب یہ تو نہیں ہے کہ ہم سنگھ کے لیے سیوا بھی دیں اور مارے بھی جائیں۔ کون ایسی سیوا پسند کرے گا؟‘

ہال میں تیز تیز گفتگو کے سلسلے شروع ہو گئے تھے —  اشوک نمانی کو سنگھ میں اچانک ہونے والی اس بغاوت کی امید نہیں تھی۔

کانجی بھائی بولے —  ’آپ کا کیا ہے —  ابھے کمار دوبے کو جیل میں ہی زہر دلوا دیں گے —  رام نام ستیہ ہے۔ کون جانے، زہر خود چھپا کر لے گئے تھے یا کسی نے دیا —  وہاں بھی تو سنگھ کے لوگ ہیں —  اور بھول جائیں گے کہ ابھے کمار دوبے نے بٹلہ ہاؤس کے لیے کتنی بڑی قربانی دی — ‘

‘خود دوبے نے کیا کیا؟‘ نمانی نے پلٹ وار کیا —  دھرم کے لیے ورما کی بلی چڑھائی یا نہیں؟ ورما تو برسوں سے سنگھ کا سمرتھک تھا —  پھر دشینت کے کندھے پر بندوق رکھ کر ورما کی بلی کیوں چڑھائی؟ نمانی ملائمیت سے بولے —  دھرم کے کاریہ کے لیے اتنی راجنیتی چلتی ہے —  ہمیں آگے بھی اپنی شہادت کے لیے تیار رہنا ہو گا —  کیونکہ دھرم کا مورچہ ایک دن میں نہیں جیتا جا سکتا —  یہاں سب کو قربان ہونے کے لیے تیار رہنا ہو گا —  تبھی سفلتا ملے گی — ‘

’وہ سفلتا کیسی جسے دیکھنے کے لیے ہم ہی نہ رہیں — ‘ کانجی بھائی اپنی بات پر جمے ہوئے تھے —  ’ہم میں سے ہر کوئی ایک مصروف زندگی گزار رہا ہے۔ کسی کے پاس انڈسٹری ہے کسی کے پاس چینلس۔ کسی کے پاس کوئی دوسری قابلیت ہے —  لیکن ہم مرنے نہیں آئے ہیں —  ہم پیسہ لگانے کو تیار ہیں لیکن کیا سنگھ آنے والے برسوں میں ہماری سرکچھا کی گارنٹی لیتی ہے — ؟ سنگھ کو یہ گارنٹی لینی ہو گی —  کیوں کہ بے نقاب ہونے پر ہم میں سے کوئی بھی ہندو آتنک واد کی بلی چڑھنے کو تیار نہیں ہو گا —

نٹ راجن دھیرے سے بولے —  ’کانجی بھائی کی بات میں وزن ہے —  سنگھ کو اس پر وچار کرنا ہو گا —  ورما کو مروا دیا —  ارون جوشی کی ہتیا کرا دی —  اور اب ابھے کمار دوبے کو ان کی سیواؤں کے بدلے —  وہ کہتے کہتے رکے —  ’سنگھ کو اس پر پنر وچار کی ضرورت ہے کہ کیا اپنی آستھاؤں کے بدلے ہمیں ہی پرانوں کا بلیدان دینا ہو گا۔ یہ اُچت نہیں ہے —  اور اس سے سنگھ کے کاریہ کرتاؤں میں دہشت پھیل گئی ہے — ‘

’ہونہہ — ‘

اشوک نمانی نے گہری سانس لی —  ایک نظر سب کے چہرے پر ڈالی —  پھر بولے —

’لیکن اگر دوبے منہ کھولتے ہیں تو؟ کوئی اتر ہے آپ کے پاس —  آپ بھی پھنستے ہیں اور میں بھی —  اور وہ دشینت بھی —  ورما کا معاملہ پھر سرخیوں میں اچھل جائے گا —  ابھی تک میڈیا میں یہ معاملہ دبا رہا ہے —  کل کو سب بے نقاب ہوں گے —  اور عام ہندو تک کیا میسج جائے گا — ؟ کبھی سوچا ہے؟ سوئی تاگے سے ہوائی جہاز کے بزنس تک ہر جگہ سنگھ کے لوگ ہیں —  آزادی کے بعد کے ہر دھماکے میں ہمارا ہاتھ ہے —  اسلامی آتنک واد کنارے پڑ جائے گا —  کیوں — ؟ ہم رہ جائیں گے —  اور یہ بات عام لوگوں تک پہنچے گی کہ ہر بزنس ہر انڈسٹری میں ہمارا پیسہ لگا ہے —  فلم سے میڈیا اور حکومت بنانے کے کردار کے پیچھے ہم رہے ہیں —  اور ہم ہی ہیں جو دھماکے کروا کے اپنے ہی لوگوں کی ہتیا کرتے رہے ہیں۔ کچھ سمجھ رہے ہیں آپ لوگ؟ یا ہم یہاں اپنا سمے برباد کر رہے ہیں —  جب آپ سنگھ میں شامل ہوئے تھے تو لکشیہ کیا تھا آپ کا؟ اپنے دھرم کو بچانا —  دھرم کو نیائے دلانا —  اسلام کی پرگتی روکنا —  اسلام مذہب کے ماننے والوں کو اسہائے بنانا —  کیوں؟ کیونکہ ۷۰۰ برسوں تک انہوں نے ہندوؤں کو روندا ہے۔ کچلا ہے اور اب اپمان سے بدلہ لینے کے لیے ہندو جاگ چکے ہیں —  اور اسی لیے آپ جیسے پونجی پتی اپنی سیوائیں دینے ہمارے ساتھ ہو لیے —  یہی کارن تھا نا؟ پھر — ؟ بھے کو نکالیے —  سنگھ سدا آپ کے ساتھ ہے۔ ہاں ہمیں بھی اپنے لکشیہ کے لیے راجنیتی رچنی پڑتی ہے۔ کل اس راجنیتی کا ایک مہرہ میں بھی ہوسکتا ہوں۔ اور آپ بھی —  تو اس بھے سے ہم آگے ہی نہیں بڑھیں۔ پیچھے ہٹ جائیں — ؟ سنگھ کو آپ کے سہیوگ کی ضرورت کل بھی تھی، اور آج بھی ہے —  اور ہمیشہ رہے گی —  سمجھ رہے ہیں نا آپ لوگ — ‘

کمرے میں گہرا سناٹا تھا —

کانجی بھائی، نٹ راجن چپ تھے —  آگے کی یوجناؤںپر کام شروع ہوچکا تھا۔ اب ہنسی قہقہوں کے بیچ چائے ناشتے کا دور چل رہا تھا۔

٭٭

 

 

(7)

تب تک فیصلہ نہیں آیا تھا —  لیکن فیصلے کی تاریخ مقرر ہو چکی تھی۔ نیوز چینلس چیخ رہے تھے —  دلّی میں چاروں طرف سیاسی بساط بچھ چکی تھی۔ آر ایس ایس پر مکھ نے بھی اس موقع پر دلّی میں اپنا ڈیرہ جما لیا تھا —

یہ ایک لمبا اور رکا ہوا فیصلہ تھا، جس کے آنے کی امید میں ایک پھر فضا میں انتشار کے تخم بو دیے گئے تھے۔ چاروں طرف پولس چینلس پر بیانات کے سلسلے —  ۶؍ دسمبر ۱۹۹۲ء کی تاریخ ابھی  تک بھلائی نہیں گئی تھی۔ ایک ایسا دن، جس نے ایک خوفناک اتہاس لکھا تھا —  ان اٹھارہ برسوں میں ایک پوری دنیا بدل چکی تھی۔

نئی نسل جوان ہو گئی تھی —  تب کے شیر اب بوڑھے اور کمزور ہو گئے تھے اور ایسے کتنے ہی لیڈر تھے، جواب حاشیے پر پھینک دیئے گئے تھے۔

کانگریس فیصلہ آنے سے پہلے تک مسلم لیڈر اور سادھو سنتوں کو اپنی حمایت میں لینے کی کوشش کر رہی تھی —  آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اور وشو ہندو پریشد کے ذمہ دار لوگوں سے حکومت نے گفتگو کا رشتہ قائم کر رکھا تھا۔ مگر اس کے باوجود عام آدمی خوف محسوس کر رہا تھا کہ کہیں دوبارہ ۱۹۹۲ء جیسے حالات نہ پیدا کر دیئے جائیں۔

ایودھیا کے اسی متنازعہ معاملے نے بھگوا پارٹی کو حکومت کے تخت تک پہنچایا تھا۔ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے ہاتھ مضبوط ہوئے تھے  —  میں کچھ بھی نہیں بھولا تھا۔ وہ ساری تصویریں جیسے آنکھوں کے پردے پر اب بھی روشن تھیں … مسلمان اپنے اپنے گھروں میں دبکے ہوئے تھے —  ہونٹ چپ ، آنکھیں خوف زدہ اور دروازے بند —

ان اٹھارہ برسوں میں دنیا بدلی تھی —  لیکن کتنی بدلی تھی دنیا —  دہشت پسندی نئی تعریفوں کے ساتھ نئے بھیس بدل کر سامنے آ چکی تھی …

ابھی فیصلہ نہیں آیا تھا —  فیصلہ آنے والا تھا —  اور فیصلے کے آنے سے قبل وہ حادثہ ہو گیا ، جس کے بارے میں، میں نے خواب و خیال میں بھی نہیں سوچا تھا —

٭٭

عشا کی نماز میں نے گھر پر ہی پڑھی —  رباب سہمی ہوئی تھی —  نماز پڑھنے کے بعد اس نے پوچھا —

’کھانا لگاؤں؟‘

میں نے منع کر دیا —  ’رہنے دو —  جی بھاری ہے —  بھوک لگے گی تو کھالوں گا …‘

’ٹھیک ہے —  ’میں سونے جا رہی ہوں — ‘

رباب بیڈ روم میں چلی گئی —

میں ڈرائنگ روم میں آ گیا —  ٹی وی کھولا پھر ٹی وی بند کر دیا —  خبروں سے اب گھبراہٹ ہونے لگی تھی —

ٹھیک گیارہ بجے دروازے پر دستک ہوئی —  آگے بڑھ کر میں نے دروازہ کھولا —

پولس کی وردی میں دروازے پر دشینت اپنے ایک ساتھی کے ساتھ کھڑا تھا —  دونوں وردی میں تھے —  اور حق بات یہ ہے کہ میں ان دونوں کو دیکھ کر ڈر گیا تھا —

دشینت کے چہرے پر قاتلانہ ہنسی تھی —

’اندر آنے کو نہیں کہو گے  ملّا جی — ‘

مجھے دھکّا دیتے ہوئے وہ اندر آ گیا —  اس کی آنکھیں چاروں طرف دیکھ رہی تھیں —

سہمی ہوئی رباب دروازے پر کھڑی تھی —

’اب کیا ہے؟ ، میری آنکھوں میں خوف کے ڈورے تیر رہے تھے۔

اتنی جلدی بھی کیا ہے  ملّا جی — ‘ اپنے ساتھی کو دیکھ کر وہ قہقہہ مار کر ہنسا —

’بتا دوں سندیپ — ؟‘

’یس سر — ؟‘اس کے تخاطب سے پتہ تھا کہ اس کے ساتھ جو اسسٹنٹ تھا، اس کا نام سندیپ تھا —  سندیپ راٹھور۔

’کیا بات ہے؟، میں اب بھی گھبرایا ہوا تھا۔

’لو جی سندیپ راٹھور —  پولس والوں کی عزت ہی نہیں۔ چائے پانی کو بھی نہیں پوچھا جاتا اب۔ چلو جی، کوئی بات نہیں — ‘

’چائے پانی کو بھی پوچھیں گے —  لیکن بتائیے تو سہی۔ کیا بات ہے —  کیا میرے بیٹے کی کوئی خبر ملی ہے — ؟‘

’بیٹے کی خبر — ‘ دشینت کے ساتھ سندیپ نے بھی زور کا قہقہہ لگایا —  اسی بارے میں تو بات کرنے آیا ہوں۔ ماننا پڑے گا تم مسلمانوں کے دماغ چاچا چودھری سے بھی تیز چلتے ہیں — ‘

’آپ ہمیں پریشان کر رہے ہیں …‘ یہ رباب تھی۔

’وہ تو ہمارا ادھیکار ہے جی، وردی پہنتے ہی ہم اس ادھیکار کے مالک بن جاتے ہیں۔ کیوں جی سندیپ — ؟‘

سندیپ نے زور کا ٹھہاکہ لگایا —

دشینت کی نظریں ابھی بھی آس پاس کا معائنہ کر رہی تھیں —

’’وہ کیا ہے جی کہ فیصلہ آنے والا ہے۔ جنتا بھی پریشان، سرکار بھی اور ہم بھی —  سب پریشان —  سرکار کی پریشانی یہ کہ جنتا پھر سڑکوں پر نہ اتر آئے۔ سمجھ رہے ہو نا جی —  پچھلی بار تو ہم نے مورچہ جیت ہی لیا۔ وہ تمہارے کھنڈ ر کو ہی دھوست کر دیا۔ پڑھ لو بیٹا نماز —  مغلوں کی جاگیریں چھین لیں۔ اب فیصلہ آنے والا ہے جی —  اور تم تو جانتے ہو ایسے موقعوں پر سرکاریں کیا کرتی ہیں۔ معاملہ کو دبانے کے لیے گڑے مردے اکھاڑے جاتے ہیں۔ وہ کیا کہتے ہیں جی … دھیان ڈائیورٹ کرنے کے لیے — ‘

’تو آپ دھیان ڈائیورٹ کرنا چاہتے ہیں؟‘

’ہاں جی اور کیا —  ہم پاگل ہوئے تھے جو سر اٹھایا ملّا کے گھر پہنچ گئے۔ ٹھیکہ نہیں جاتے۔ ہمارے لیے ٹھیکہ ساری رات کھلے رہتے ہیں۔‘

دشینت نے ٹھہاکہ لگایا —  اب اس کی آواز سخت ہو گئی تھی —

’’سیدھی بات کریں گے جی۔ ہمیں گھما کے ناک پکڑنے نہیں آتی۔ اوپر سے آرڈر ملا ہے —  گڑے مردے اکھاڑنے کے لیے ہمارے پاس دو مہرے ہیں۔ ایک علوی دوسرا تمہارا بیٹا اسامہ … اسامہ بن لادن —  جو اسی دن سے فرار ہے۔ جب بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر ہوا تھا —  ہے نا جی —  دو انکاؤنٹر ہوئے —  اور دو بھاگ گئے —  ایک علوی اور دوسرا تمہارا بیٹا — ‘

میں سکتے میں تھا —  ’لیکن علوی کو تو آپ نے صبح صبح اس کے گھر سے حراست میں لیا تھا — ‘

’لو جی —  کہانی بدلنے میں ہم پولس والوں کو ٹائم ہی کتنا لگتا ہے۔ ہم تو پورا اتہاس بدل دیتے ہیں۔ اب غور سے میری باتیں سنو جی —  ابھی تک بیٹا غائب ہے۔ اپنی اور اپنی پتنی کی بھلائی چاہتے ہو تو وہی کرو جو ہم کہیں گے —  اور ذرا بھی ہوشیاری نہیں  — ہوشیاری کے لیے کوئی جگہ بھی نہیں — ‘

دشینت صوفے پر اڑ گیا تھا —  یہ لمحے میرے اور رباب کے لیے کسی قیامت سے کم نہیں تھے۔ سانس تیز تیز چل رہی تھی۔ آنکھوں کے آگے گھنے اندھیرے اکٹھے ہو گئے تھے۔ میں نے پلٹ کر رباب کو دیکھا۔ اس کے چہرے پر مردنی چھائی تھی۔ کمرے میں بھیانک زلزلے کے آثار دیکھ رہے تھے —  ہم نا سمجھوں کی طرح دشینت اور سندیپ راٹھور کے چہرے کا جائزہ لے رہے تھے۔ سندیپ راٹھور نے اس بار پلٹ کر رباب کی طرف دیکھا۔

’’بھابھی جی —  آپ ٹینشن مت لو —  ہمارے لیے چائے بنا کر لے آؤ — ‘

سہمی ہوئی رباب کچن کی طرف چلی گئی —  دشینت نے پلٹ کر میری طرف دیکھا۔

’زیادہ ٹینشن مت لو ملّا جی —  یہ سمجھو ہم تمہارے بھلے کے لیے آئے ہیں۔ تمہیں ہمارا ایک چھوٹا سا کام کرنا ہے —  وہ کیا پروگرام تھا جی … امیتابھ بچن کا … کون بنے گا کروڑ پتی —  اس میں جواب کے لیے چار آپشن دیئے جاتے تھے۔ مگر ملّا جی یہاں آپ کے لیے کوئی آپشن نہیں ہے۔‘

میرے بدن میں تیز لہریں اٹھ رہی تھیں۔

’آپ جانتے ہیں نا … میرا بیٹا گم ہے۔ گمشدگی کو دوسال ہو گئے  — ‘

’لو جی —  آپ کے بیٹے کو بچانے ہی تو آئے ہیں۔ اس دنیا کو ایک بڑی بریکنگ نیوز کے لیے تیار کرنے —  ہم انتظار کریں گے کہ فیصلہ کیا آتا ہے۔ فیصلہ اگر ہندوؤں کے خلاف آیا —  لوگ بھڑک گئے —  سادھو سنت سڑکوں پر آ گئے تو وہی استتھی ہو گی جو ۹۲ میں تھی۔ اس استتھی سے عام جنتا کو ابارنے کا ایک اپائے ہے ہمارے پاس۔ بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر کے گڑے مردے اکھاڑ دو۔ بھاگے ہوئے دو آتنگ وادیوں کا پتہ چل گیا ہے۔ ایک ہے علوی اور دوسرا تمہارا بیٹا اسامہ —  اور اسامہ کو بچانا چاہتے ہو تو علوی کی مخالفت تو کرنی ہو گی نا …؟ گواہ تم ہو گے ملا جی —  بیان تم دو گے۔ رکارڈ ہم کریں گے۔ تم میڈیا کے سامنے بیان دو گے۔ علوی کے خلاف۔ کیا بیان دو گے یہ وقت آنے پر ہم بتا دیں گے۔ اس لیے ہم میڈیا کو یہ بتائیں گے کہ ابھی تک دو میں سے ایک مجرم ہمارے ہاتھ لگا ہے، ورنہ ہم تمہارے بیٹے کو بھی پھنسا سکتے تھے — ‘

میں اندر تک لرز گیا ہوں۔ جسم پسینے ڈوب چکا ہے۔ رباب چائے لے کر آ گئی ہے۔ سندیپ نے دوبارہ اندر بھیج دیا ہے کہ ابھی آپ کی یہاں ضرورت نہیں ہے۔ ہم ملا جی سے باتیں کر رہے ہیں —  آپ کی ضرورت ہو گی تو آپ کو بلا لیں گے — ‘ آنکھوں کے آگے کا اندھیرا اب پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ چکا ہے۔

’لیکن علوی تو … اسامہ کا دوست ہے — ‘

’لو … ملّا جی کی سنو —  ارے ہم آپ کے بیٹے کو بچانے آئے ہیں اور آپ دوستی کی بات کر رہے ہیں۔ لگتا ہے آپ کو بیٹے سے محبت نہیں ہے۔ آتنک وادی کسی کا دوست نہیں ہوتا —  ‘ دشینت کی آواز سخت ہو گئی تھی —

’ہم کمینگی پر اتر آئے ملا جی تو کچھ بھی ککر سکتے ہیں —  تمہارے کھوئے ہوئے بیٹے کو مفرور آتنگ وادی ثابت کرنے میں ہمیں دو سکنڈ نہیں لگے گا … لیکن ہم تم پر رحم کر رہے ہیں —  بس یہی سمجھ لو —  ابھی ٹھیکرا صرف علوی پر ٹوٹ رہا ہے …‘

’لیکن کل میرے بیٹے پر بھی تو ٹوٹ سکتا ہے؟‘

’لو ملّا جی کی سنو —  ، دشینت نے ٹھہاکا لگایا —  کل کی کل دیکھو ملا جی —  آج کی آج — ، اس بار اس نے بھدی سی گالی دی تھی —

’دو منٹ نہیں لگیں گے تم سب کو تڑی پار کرنے میں —  تم سب کو آتنک وادی گھوشت کرنے میں۔ مع ثبوت —  دس منٹ نہیں لگیں گے —  تمہارے تار اعظم گڑھ سے مالیگاؤں تک جوڑتے ہوئے۔ سالے —  مغلوں کے زمانے کی اکڑ دکھاتے ہو — ‘

دشینت نے پھر ایک ٹھہاکا لگایا —  اس بار اس کے لہجے میں معصومیت تھی —

’نہ —  نہ —  ٹینشن مت لو ملّا جی —  علوی کے خلاف بیان دینا ہے، یہ بات اپنی گرہ میں باندھ لو —  وہ بھی ابھی نہیں —  فیصلے کی راہ تکو —  فیصلہ ہمارے حق میں آیا تو ٹھیک —  تمہارے حق میں آیا تو پھر —  ماٹی مانگے خون —  اب شانت ہو جاؤ —  یہ وشواس تو ہے ہی کہ اس کا ذکر کسی سے نہیں کرو گے —  کیا تو جانتے ہونا ملّا جی —  ہمیں بھی اب حلال کرنا آ گیا ہے۔ چل سندیپ — ‘

 کندھا تھپ تھپاتا ہوا وہ گیٹ سے باہر نکل گیا —  کچھ دیر تک ساکت نگاہیں دروازے کو گھورتی رہیں —  لیکن اب وہاں کوئی نہیں تھا —  اس کے جاتے ہی جیسے کسی نے ٹھہرے ہوئے پانی میں کنکری پھینکی ہو —  اب تیز لہریں اٹھ رہی تھیں —  سارا گھر ہلتا ہوا لگ رہا تھا —

’وہ استعمال کریں گے مجھے؟ علوی کے خلاف؟ استعمال کریں گے؟‘ کانوں کے پاس نگاڑے بج رہے تھے —  ’لیکن  … تم کر بھی کیا سکتے ہو ارشد پاشا —  استعمال ہونے کے علاوہ کوئی اور راستہ بچا ہے تمہارے پاس …

دروازے، کھڑکیوں سے خوف کی بارش ہو رہی ہے —  چہرہ زرد ہو گیا ہے —  دروازے کے پاس رباب کھڑی ہے —  بالکل پتھر کی مورت کی طرح —  چہرہ سن —

’اب کیا کرو گے — ؟‘

کرنے کے لیے کیا بچا ہے …؟ سرد ٹھٹھری ہوئی آواز —

’اپنے بچے کے لیے کسی کی جان لے لو گے؟‘

رباب صوفے پر کانپتی ہوئی دراز ہو گئی ہے —

’کوئی راستہ ہے ہمارے پاس؟ میں زور سے چیختا ہوں —  ’یہ نہ کریں تو بس ایک راستہ رہ جاتا ہے — ‘

’وہ کیا — ‘

’موت کا راستہ — ‘ چہرہ آنسوؤں سے تر ہے —  ’اپنے ہی ملک میں سالوں نے زمین تنگ کر دی ہے ہماری —  بین چود …‘

رباب چلائی ہے —  ’پاگل ہو گئے ہو … تم گالیاں دے رہے ہو …‘

’لفظ مر جائیں تو صرف بے بس گالیاں رہ جاتی ہیں —  اسامہ کی زندگی سوچیں یا علوی کی؟‘

’اور ہماری؟ ‘ رباب کا چہرہ آنسوؤں سے تر تھا۔

’وہ علوی کو ہلاک کریں گے —  پھر وقت آئے گا تو اسامہ کو شکار بنا لیں گے —  اور ہم … ہم تو پہلے ہی ان کا شکار بن چکے ہیں۔‘

’کیا کہیں کوئی حل نہیں ہے؟ لرزتی آواز میں، میں رباب کے چہرے کو دیکھ رہا تھا، جہاں آواز گم تھی اور سسکیاں باقی رہ گئی تھی —

’حل ہے …‘ رباب روتے ہوئے بولی —  ہم وہی کریں جو وہ کہتے ہیں۔ ہم ویسے جئیں جیسا وہ چاہتے ہیں۔ وہ کہیں ڈوگی بن جاؤ —  ہم ڈوگی بن جائیں۔ وہ مسکرا کر کہیں ہم گولی چلا رہے ہیں —  ہم وفاداری میں گولی کھا جائیں —  اسامہ نے کیا غلط کیا — ؟ اب لگتا ہے، اسامہ نے کچھ غلط نہیں کیا —  اس سسٹم میں کوئی نہیں رہ سکتا —  کوئی بھی نہیں — ‘

میں زور سے چیخا —  ’مگر یہ ہماری مجبوری ہے رباب —  ہم اسامہ کو مردہ تسلیم نہیں ککر سکتے — ‘

’تو فیصلے کا انتظار کرو —  ایسا لگتا ہے جیسے کلاشنکوف لیے ہوئے کوئی ہمارے پیچھے کھڑا ہے۔ یہ ہمارے محافظ ہیں —  جن کی گولیاں ہمارے لیے بنتی ہیں — ‘

٭٭

میں گہرے سناٹے میں ہوں —

میں  … ارشد پاشا —  یقین دلاتا ہوا، کہ اس لمحے جیسے میرے جسم کا قطرہ قطرہ خون چوس لیا گیا ہو —

اپنے ہی گھر میں تنہا اور خوفزدہ —  کوئی چیخ ہے، جو رہ رہ کر گونجتی ہے —  اور مجھے ٹوٹ جانا ہے —

’وہ تمہیں ایک خوف کا انجکشن دے گیا ہے —  تم سلامت نہیں ہو ارشد پاشا —  وہ تمہیں خوف میں رہنے کی بد دعا دے کر گیا ہے —

کمرے میں ڈھیر ساری چمگادڑیں اکٹھی ہو گئی ہیں … میں سر جھکاتا ہوں تو صرف تاریک سائے رہ جاتے ہیں … آنکھوں کے پردے پر کہیں ماضی اترتا ہے —  کوئی چیخ مجھے اٹھارہ برس پہلے کی دنیا میں لے جانا چاہتی ہے —

نگاڑوں کی آواز تیز —

دھماکے اس سے بھی کہیں زیادہ تیز …

آنکھوں میں رقص کرتی دھندلی پرچھائیاں … ایک کہنہ عمارت کے نقوش ابھرتے ہیں۔ کچھ غنڈے دیوانگی اور جنون میں اس عمارت کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی کوشش کر رہے ہیں … ہر ہر مہادیو …‘

سنگھ کی آواز —

رقص کرتی دھندلی پرچھائیوں میں اب اس عمارت کے واضح نقوش ابھرتے ہیں … ہر ہر مہادیو … ایک دھکا اور دو … بابری مسجد توڑ دو … ہر ہر مہادیو … جے شری رام …

گونجتے ہوئے نعرے اور سلگتی چیخ کے درمیان میں ہوں … میں ارشد پاشا —  اپنے ہی گھر اور کمرے کی قبرنما دیواروں کے درمیان  —  توڑ پھوڑ کی بے ہنگم آوازوں کے درمیان —

ایک تاریخ مجھے آواز دے رہی ہے —

میں خوف کے سائے سے باہر آتا ہوا اس تاریخ کی طرف لپکنے کی سعی کرتا ہوں تو خوف کی بدلیاں یہاں بھی میرا راستہ روکے کھڑی ہیں۔

’کہاں جاؤ گے — ؟‘

’کہیں بھی — ‘

’تاریخ کے ایک ملبے سے نکل کر دوسرے ملبے میں — ؟‘

’بد نصیبی ہے —  ہماری مجموعی تاریخ مٹی کا ڈھیر، ملبہ بن چکی ہے …‘

اندر کوئی ہنس رہا ہے —  ’اس سے آگے جاؤ گے تب بھی ملبہ ہی ملے گا —  آزادی بھی تمہارے لیے ایک ملبہ تھی — ‘

’جہاں اپنی ہی قبر کھودی ہم نے اور پاکستان لے لیا — ‘

’تقسیم کو ایک مدت گزر چکی ہو —  اس ملک کے باقی لوگ تقسیم کے زہر کو بھول چکے ہیں۔ بس ایک تم رہ گئے ہو ارشد پاشا —  ٹوٹتے ہو یا ہارتے ہو —  مرتے ہو یا زخمی ہوتے ہو تو سیدھے تقسیم تک پہنچ جاتے ہو …‘

اندر کوئی ہے جو چیخ رہا ہے —  ’تقسیم ایک پڑاؤ تھا —  ایک بڑا ملبہ —  اس بڑے ملبے کے بعد  … ایک دوسرا ملبہ  …‘

’ہر ہر مہادیو … جے شری رام … شنکھ کی آوازیں …‘

’ایک ملبے سے نکل کر ایک دوسری تاریخ کے ملبے میں …‘

میں سر جھکا لیتا ہوں۔ شاید یہ ہماری مجبوری ہوتی ہے —

٭٭

ڈم … ڈم …

ڈرم … ڈرم …

نگاڑے بج رہے ہیں —  میں اس بے ہنگم شور سے باہر نکلنا چاہتا ہوں تو ایک چہرہ میرا راستہ روک دیتا ہے —

’میں نے آپ کے بیٹے کو دیکھا ہے؟‘

’اسی دن شام ٹھیک چھ بجے —  دروازے پر ایک انجانے آدمی کو دیکھ کر میں چونک گیا تھا —

’میں ہری پرساد ہوں —  قرول باغ میں رہتا ہوں — ‘

دبلے پتلے، ماتھے پر ٹیکا لگائے، دھوتی اور کرتا پائجامہ پہنے ہری بھائی کے ہاتھوں میں کچھ دن پرانا ہندی کا اخبار تھا، جس میں اسامہ کی تصویر چھپی تھی —

’یہ آپ کا بیٹا ہے نا …؟‘

’ہاں — ‘

’میں نے اسے دیکھا ہے — ‘

لیکن کہاں؟ اس بار میں چونک گیا تھا۔

ہری بھائی نے سر جھکا لیا —  ’شاید آپ وشواس نہ کریں۔ لیکن میں نے دیکھا ہے —  میں رام بھکت ہوں —  اور میں رام نگری اجودھیا میں جاتا رہتا ہوں — ‘

’جی — ‘

ابھی ایک ہفتہ پہلے میں اجودھیا میں تھا —  عمر کے اس پڑاؤ پر وہاں شانتی ملتی ہے مجھے …‘

’جی — ‘

’میں نے سادؤھو سنتوں کے قافلے کے ساتھ ہنومان گڑھی کی سیڑھیاں چڑھتے آپ کے بیٹے کو دیکھا ہے — ‘

’سادھوں سنتوں کے ساتھ؟‘ میں زور سے چیخا —  ایسا تو نہیں کہ آپ کو وہم ہوا ہو — ‘

’بالکل بھی نہیں —  میں ہنومان گڑھی کے پاس ہی آشرم میں ٹھہرا ہوا تھا —  میں نے آپ کا انٹرویو بھی دیکھا  —  مجھے یہ بچہ یاد رہ گیا —  پھر اس کی تصویریں سماچار پتروں میں دیکھیں —  اس کے بارے میں پڑھا تو مجھے اس سے ہمدردی ہوئی‘

’کیا وہ اب بھی وہیں ہے؟‘

’نہیں کہہ سکتا — ‘

’کیا آپ نے اس سے بات کرنے کی کوشش کی؟‘

’اس کے بعد وہ ملا ہی نہیں —  بس ایک جھلک دیکھی —  شاید اس نے بھی میری طرف دیکھا تھا —  مجھے حیرانی ہے کہ اس کے بعد وہ گڑھی کیا، سیتا رسوئی یا آس پاس کہیں نظر نہیں آیا — ‘

’کیا آپ نے وہاں سادھوؤں سے اس کے بارے میں پوچھا — ؟‘

’نہیں —  وہ لوگ ہری دوار سے آئے تھے۔ پھر ہری دوار لوٹ گئے — ‘

ہری پرساد کے جانے کے بعد رباب کی آنکھیں چھلک آئی تھیں۔ ایک بار پھر بیٹے کے سراغ نے امید کے دیئے روشن کر دیئے تھے۔

’ہم بھی اجودھیا چلیں گے — ‘

’نہیں —  میں جاؤں گا —  اکیلے —  ممکن ہوا تو ہری دوار بھی — ‘ میں نے اچانک چونک کر رباب سے پوچھا۔

’تمہیں یاد ہے جب اسامہ کے شملہ میں ہونے کی خبر ملی تھی؟‘

’ہاں — ‘

وہاں اس نے ایک ہندو لڑکے کو بچایا تھا —  خون دیا تھا —  اور اب اجودھیا —  سادھو سنتوں کے ساتھ …‘

’تم کیا کہنا چاہتے ہو — ؟‘

’پتہ نہیں …‘ میری آنکھیں کہیں کھو گئی تھیں …

’دھرم پر یورتن …؟‘ رباب نے چونک کر میری طرف دیکھا —  کہیں تم یہ تو کہنا نہیں چاہتے —

’بالکل نہیں —  جس طرح وہ اس سسٹم سے ناراض ہو کر گیا ہے، وہ کسی اور دھرم کو نہیں اپنا سکتا — ‘

’پھر — ‘

’مجھے لگتا ہے … وہ کچھ نئے راستوں کو تلاش کر رہا ہے —  کیسے راستے —  یہ میں بھی نہیں جانتا … ممکن ہے وہ اس ملک کو الگ الگ تہذیبوں میں پڑھنے کی کوشش کر رہا ہو۔ ابھی میں وثوق سے اس بارے میں کوئی بھی رائے قائم نہیں ککر سکتا‘

ڈرم … ڈرم …

اسامہ اجودھیا میں دیکھا گیا …

میں ایک بار پھر سے ان آوازوں کی زد میں ہوں —  دھماکے تیز ہو گئے ہیں …

اجودھیا …

بابری مسجد …

تاریخ کا ایک دوسرا بے ڈھب ملبہ —  آنکھوں کے آگے رقص کرتی پرچھائیاں …

میری آنکھیں بند ہیں …

میں ہولناک مناظر کی زد میں ہوں …

ایک خون میں سنی ہوئی ٹرین ہے جو چھک چھک کرتی ہوئی مجھے اس تاریک سرنگ میں لے جا رہی ہے —

قارئین …

یہاں آپ کو ٹھہرنا پڑے گا —  کیونکہ آئندہ سطور میں جو کچھ آپ پڑھنے جا رہے ہیں ، وہاں میں بھی ایک کردار ہوں … میں … ارشد پاشا …

اٹھارہ برس قبل کی دنیا —

نفرت کی رتھ یاتراؤں نے کاشی کے پوتر ماحول میں بھی زہر بھر دیئے تھے …

بی اماں، تغلق پاشا … انور پاشا … میں ایک ایک کر کے ان آوازوں کی زد میں ہوں …

کاشی کی گلیوں اور کوچوں میں شباب کو آواز دیتا ہوا —  اچانک نفرت کی ایک سنامی لہر سارے شہر کو بہا کر لے گئی تھی …

مجھے سب کچھ یاد آ رہا تھا …

لیکن یہاں میں بھی ایک کردار تھا —  ایک بے بس کردار۔

٭٭٭

٭٭٭

مصنف کی اجازت اور تشکر کے ساتھ

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید