FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

جوانوں کے جنسی مسائل اور ان کا حل

آیت اللہ ناصر

   مکارم شیرازی

 

مقدمہ

گھر  والوں کو بیدار کرنے کے لیے چند ضروری ہدایات: والدین غفلت کی نیند سوئے ہوئے ہیں ، اور جوان بچے جن کے لیے زندگی کے سانحات یقینی اور مسلم ہیں ، بے اعتنائی اور لا پرواہی کا شکار ہیں ، یا یوں کہا جائے مشکلات کی وحشت کو دور کرنے کی بجائے اسے بھلا دینا زیادہ بہتر سمجھتے ہیں۔ اوریا ڈپلومیٹک سیاست کی اصطلاح میں مشکلات کے مقابلہ میں صبر و  انتظار کی راہ اختیار کرتے ہیں۔

ایسے حالات میں ہزاروں بے گناہ نو جوان اس لا پرواہی، بے اعتنائی اور جہالت کی بلی چڑھ جاتے ہیں۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ دنیا بھر میں پورے سال ہزاروں ادارے، سیمینار، کانفرنس اور ان جیسے اجتماع منعقد کرتے ہیں تاکہ سمندروں کی تہوں میں موجود معادن کا پتہ لگا سکیں۔ مختلف جانوروں ، سمندروں ، ہواؤں ، طوفانوں کے رخ، رات کے وقت تابیدہ ہونے والے کیڑے مکوڑے اور ان جیسی چیزوں پر تو غور و فکر کی جاتی ہے اور دنیا بھر کے دانشور حضرات جمع ہو کر اسطرح کے موضوعات پر تو بحث و مباحثہ کرتے ہیں لیکن جس موضوع پر گفتگو ہونی چاہئیے وہ بہت ہی کم اور معمولی ہے۔ جبکہ جوانوں سے متعلق مسائل پر بحثیں جو کہ اس وقت بہت مبتلا بہ اور غیر معمولی اہمیت کی حامل ہیں اور دنیا والوں کے لیے قیمتی ذخیرہ کی حیثیت رکھتی ہیں زیر بحث نہیں لائی جاتیں۔

اس کا راہ حل کیا ہو سکتا ہے؟ ہماری آج کی دنیا پر عقل و منطق کا حکم کار فرما نہیں ہوتا ہے، حقیقت اور اساس کو شمار میں نہیں لایا جاتا۔ شاید سانحات کے راستوں اور مشکلات کو سرے سے ذاتی، جذباتی، دل بہلاؤ اور محض ایک سطحی ظاہری اور معاشرتی اسباب قرار دیا جاتا ہے۔ ورنہ اس اہم بحث کو اس درجہ نظر انداز نہ کیا جاتا اور صاحبان علم کی لاپرواہی، والدین کی اہم ذمہ داری کے آڑے نہیں آتی، انہیں چاہئیے کہ وہ اپنے اس فریضہ کو فراموش نہ کریں ، فارسی کی مثل ہے کہ اگر بچہ پر دائی کو رحم نہیں آتا اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ماں کو بھی رحم نہ آئے۔

آج کے جوانوں کے لیے مشکلات کی بھرمار میں جو اہمیت جنسی مسائل کی ہے وہ کسی اور کو حاصل نہیں ہے۔ اور نہایت ہی افسوس کے ساتھ اس بات کا اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ زندگی کی اس تیز رفتاری، علم اور خصوصی دورات کی تحصیل میں وقت کی طوالت، خاندانوں کی ترقی، جوان لڑکے لڑکیوں کے قدم کی لغزشیں ، ایسے حالات میں یہ مسائل مزید پیچیدہ اور سخت ہو گئے ہیں۔

ہم نے ا س کتاب میں صریحی اور واضح طور پر ان مشکلات کو بیان کیا ہے اور راہ حل کی نشاندہی بھی کی ہے۔ جبکہ بغض لوگوں کا یہ خیال ہے کہ اس طرح کے مسائل زیر بحث نہیں لا نا چاہئیے( جن کا کوئی حل نہیں ہے ) لیکن ہم نے ثابت کیا ہے کہ ایسا ہر گز نہیں اور اگر سبھی والدین اور جوان ان مسائل کے حل کرنے پر کمربستہ ہو جائیں تو منزل دور نہیں ہے۔

ہم نے اس کتاب میں ضمنی طور پر ‘‘ جنسی کج رویوں ‘‘ اور اس کے علاج اور رکاوٹ کے بارے میں مستقل بحثیں پیش کی ہیں۔ جس کے مطالعہ سے یقیناً تمام جوان افراد وافر مقدار میں معلومات حاصل کرسکتے ہیں ، اور اس مشکل و بلا سے نجات حاصل کرسکتے ہیں۔ حالانکہ یہ بحثیں رسالہ ‘‘ نسل جوان ‘‘ میں طبع ہو چکی ہیں۔ لیکن بعض لوگوں کی درخواست اور اصرار پر ( وہ خطوط جو طباعت کے دفتر میں بھیجے گئے ) تجدید نظر اور تکملہ کے ساتھ اس کتاب میں ذکر کی گئی ہیں۔ ہم خداوند کریم کی بارگاہ میں دعا گو ہیں اور آرزو کرتے ہیں کہ سبھی جوان اس کتاب کے دستور ات اور اصول سے فائدہ حاصل کر کے زندگی کے ان حساس مسائل کو حل کریں۔

٭٭٭

پہلی فصل

شادی!ایک مشکل مسئلہ

۱۔ شریک حیات کے انتخاب میں مشکلات کا سامنا۔ سبھی جوان ان مشکلات سے دوچار ہوتے ہیں۔

جیسا کہ ہم یہ بات جانتے ہیں کہ ان آخری سالوں میں شادیوں کی تعداد میں بہت کمی واقع ہوئی ہے۔ اور مقابلہ میں شادی کرنے کے سن و سال میں بہت زیادہ اضافہ ہو گیا ہے، خصوصاً بڑے شہر اور متمدن شہر وں میں رہنے والے افراد اس بلا کا زیادہ شکار ہیں۔ یہاں تک کہ شادیاں اتنی زیادہ عمر میں ہوتی ہیں کہ جوان اپنے تمام جوش و خروش اور تازگی کو گنوا بیٹھتا ہے اور شادی کا مناسب و بہتر ین وقت جا چکا ہوتا ہے۔

شادی کی تاخیر کے بہت سے اسباب و علل ہیں ، مندرجہ ذیل چار اسباب خاص اہمیت کے حامل ہیں۔

۱۔ پڑھائی کی مدت کا طولانی ہونا۔

۲۔ ناجائز تعلقات یا روابط کا آسانی سے فراہم ہو جانا۔

۳۔ دلخواہ ضرورتوں اور شادی کے سنگین اخراجات کا فراہم نہ ہونا۔

۴۔ لڑکے لڑکیوں کا ایک دوسرے پر اعتماد نہ ہونا۔

ہم اس مقام پر ابتدائی دو قسمیں جو زیادہ اہمیت رکھتی ہیں انہیں زیر بحث لائیں گے۔

معاشرے کے بعض بزرگ افراد نے ان خطیر اسباب پر غور و فکر کرنے اور ایسے خطرناک اسباب سے مقابلہ کرنے کی بجائے جبری طور پر شادی کی پیشکس کی ہے۔ گویا غیر شادی شدہ افراد کے لیے ایک مالی جرمانہ رکھا جائے اور جوانوں کو زبردستی شادی کر کے ان کو لباس خانوادگی پہنے پر مجبور کر دیا جائے۔ یا مختلف اداروں میں جوانوں کو ایک خاص عمر کی شرط کے ساتھ نوکری دی جائے اور انہیں اس مشکل سے نجات دلائی جائے۔ یا کوئی سنگین سرزنش اور سزا ایسے جوانوں کے لیے مقرر کی جائے۔

بعض جوانوں نے ہم سے یہ سوال کیا ہے کہ کیا آپ کی رائے میں اس طرح کے اقدامات اور کوششیں صحیح ہیں ؟۔

ہماری رائے کے مطابق ‘‘ زبردستی شادی ‘‘ سے مراد اگر جوانوں کو اداروں میں ملازمت نہ دینے وغیرہ کے ذریعہ مجبور کیا جائے تو شاید یہ عمل وقتی طور پر تو کسی حد تک اثر انداز، لیکن یہ طریقہ اس مسئلہ کا بنیادی راہ حل نہیں ہو سکتا کہ شادی میں کمی جو ایک خطرناک مصیبت معاشرہ کو لاحق ہو رہی ہے اس کا خاتمہ کرسکے۔ بلکہ بہت ممکن ہے غیر مطلوب عکس العمل کا سامنا کرنا پڑ جائے۔

اصل میں ‘‘ شادی اور ‘‘ اجبار ‘‘ یہ دو کلمہ ایک دوسرے کے لیے متضاد ہیں۔ اور یہ دونوں ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتے، ازدواج اجباری کی مثال زبردستی والی دوستی اور محبت کی ہے ( جو ناممکن ہے )۔

ازدواج (کے حقیقی معنی) جسم و روح کا ایک ایسا رابطہ ہے جو ایک مشترک زندگی کو سعادت و سکون کے ساتھ ایک اٹوٹ بندھن میں باندھتا ہے۔ اسی لیے ضروری ہے کہ ازدواج ایسے حالات میں ہو کہ جہاں کاملا آزادی کا ماحول اور کسی قسم کی زور و ز بردستی نہ پائی جاتی ہو، یہی وجہ ہے کہ اسلام نے ہر اس شادی یا نکاح کا مردود و باطل قرار دیا ہے جو طرفین کی رضایت کے بغیر وجود میں آئے۔

شادی فوجی ملازمت کی طرح نہیں ہے کہ مثلاً کسی کو قانون کے حکم سے فوجی کیمپ میں لے جا کر اسے خاص کنٹرول کے ساتھ نظامی فنون سیکھنے کی ترغیب دلائی جائے۔

تعجب کا مقام یہ ہے کہ اہل فن حضرات موجودہ مشکلات کی اساس و بنیاد کی معرفت کے بغیر کوشش کرتے ہیں کہ ان تمام مشکلات کو جو معاشرتی برائیوں کا نتیجہ ہے دور کریں۔

میری نظر میں ان بحثوں کے بجائے اگرچہ قابل عمل بھی ہوں ہمیں چاہئیے کہ ان فروع کی جڑوں تک پہنچیں اور انہیں اس طرح جلا دیا جائے کہ ایسی غیر طبیعی و غیر منطقی مشکلات معاشرے میں کبھی جنم لیں۔

اس لیے ضروری ہے کہ ان چاروں مسائل پر گفتگو کی جائے جو ہمارے معاشرے میں یقیناً اور مطلقاٍ ازدواج کی کمی کے سبب بنتے ہیں۔

جوانوں کی شادی میں پہلی اور بڑی مشکل پڑھائی کی مدت کا طویل ہونا ہے :

اگرچہ یہ بات محتاج بیان نہیں ہے کہ ہر آدمی فقط تحصیل علم ہی کی وجہ سے شادی شدہ زندگی سے فرار کرتا ہے، بلکہ بہت سے جوان ایسے بھی ہیں کہ جو تحصیل علم سے فارغ ہو چکے ہیں ، پھر بھی غیر شادی شدہ ہیں یا پڑھائی چھوڑ ے ہوئے زمانہ گزر گیا مگر شادی نہیں کی ہے۔

لیکن اس بات کا بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ پڑھائی کی طویل مدت بھی بہت سے جوانوں کے لیے شادی میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔

پڑھائی کی مدت ہر فن میں تقریباً ۱۸ سال یا کچھ کم ہوتی ہے لہذا اس دور میں ایک جوان کو پڑھائی سے آزاد ہونے کے لیے تقریباً ۲۵ سال کی عمر درکار ہے (فارسی کا محاورہ ہے جوانی مفید جستجو و تلاش کا نام ہے ) اس وقت اگر ہم لفظ جوانی کا صحیح اور واقعی معنی اس کے لیے استعمال کریں تو (صحیح نہ ہو گا)گویا وہ جوانی کا بہترین حصہ چھوڑ چکا ہے اور اب جو اس کے پاس ( عمر کا حصہ )بچا ہے اس کی حیثیت ایسی ہے جیسے ایک صفحہ میں حاشیہ کی حیثیت ہوتی ہے۔ اور ابھی آگے چل کر اس طالب علم کو اگر پڑھائی کی تکمیل کے لیے تخصص کرنا ہے تو اس کی عمر تقریباً ۳۵ سال ہو جائے گی۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا شادی کو پڑھائی کے مکمل ہونے تک موقوف کیا جائے (خواہ پڑھائی کی تکمیل میں کتنا ہی وقت کیوں نہ لگ جائے )

یا اس رابطہ( کہ جب تک پڑھائی مکمل نہ ہو شادی نہیں کرنا چاہئیے) کو ختم کر دیا جائے اور جوانوں کو اس نا قبل برداشت شرط سے آزاد کر دیا جائے ؟ (اور شادی کر دی جائے ) جیسا کہ بعض دانشوروں کا کہنا ہے۔

دوسری جہت سے اگر آپ غور کریں تو معلوم ہو گا کہ ہر جوان طالب علم کے اخراجات ہوتے ہیں وہ صرف خرچ کرنا جانتا ہے اور اخراجات کی اسے ضرورت بھی ہوتی ہے جبکہ ابھی وہ کمانے کی حالت میں نہیں اور نہ ہی اس کی کوئی آمدنی کا ذریعہ ہوتا ہے بھلا ایسے عالم میں وہ شادی کیسے کر سکتا ہے اور اس سنگین کمر شکن بار کو کیسے اٹھا سکتا ہے۔ ؟

میری نظر میں اگر ہم ایک لمحے کے لیے آزادانہ تفکر کریں تو اس مسئلہ کا حل اس قدر مشکل نہیں ہے اس پر روشنی ڈالی جا سکتی اس کا حل یہ ہے کہ

: جوانوں کو چاہئیے کہ پڑھائی کے دوران جب ایک مناسب عمر کو پہنچ جائیں تو اپنے والدین، دوستوں اور ہمدرد افراد کے مشورے کے ساتھ اپنے لیے شریک حیات منتخب کریں اور ابتداء میں ایک جائز رشتہ قائم کر لیں (عقد نکاح اور مذہبی و قانونی مراسم کے ساتھ )کہ جس کے لیے بہت زیادہ تشریفات اور انتظامات کی ضرورت نہ ہو اور غیر معمولی اخراجات نہ کرنے پڑیں۔ تاکہ لڑکا اور لڑکی یہ بات جان لیں کہ ان کا ایک دوسرے سے جائز رشتہ ہے اور وہ آئندہ ایک دوسرے کے شریک حیات ہونے والے ہیں۔ اور امکانات کے فراہم ہوتے ہی پہلی فرصت میں شادی و رخصتی کے بقیہ مراسم سادگی اور عزت و احترام کے ساتھ مکمل کر لئیے جائیں۔ اس طریقہ کار کا پہلا فائدہ یہ ہو گا کہ جوانوں کو روحانی سکون و  اطمینان حاصل ہو جائے گا۔ اس کے نتیجہ میں ان کی زندگی میں ایک خاص روشنی پیدا ہو جائے گی۔ اور ساتھ ہی ساتھ یہ عمل ان کی وحشتناک شیطانی وسوسوں سے جو ایک غیر شادی شدہ جوان کو آئندہ کی زندگی کے حوالے سے نقصان پہنچاتے ہیں نجات دہندہ ثابت ہو گا۔

ٍ اور یہ طریقہ جوانوں کو بہت سی اخلاقی کجرویوں سے محفوظ رکھ سکتا ہے اور شادی کے امکانات فراہم ہونے کے بعد جو وقت ہم سفر کی تلاش میں صرف ہوتا ہے اس کی بچت کرتا ہے۔ نجات اور آزادگی کے ساتھ ان کی زندگی کو ایک فطری مسیر پر گامزن ہونے میں مددگار ثابت ہو گا۔ اس طرح کا عمل اکثر جوانوں کے لیے ممکن ہے اگر جوانوں کے ساتھ ان کے والدین فکر و تامل سے کا م لیں اور خود جوان بھی فکر سلیم کے ساتھ عمل کریں۔ اگر یہ طریقہ معاشرے اور مجتمع میں صحیح طریقے سے عملی دنیا میں قدم رکھ لے تو دیگر بہت سے مسائل جو جوانوں سے تعلق رکھتے ہیں خودبخود آسان ہو جائیں گے۔

مختصر یہ کہ اس شرعی نطریقے (عقد نکاح) اور لڑکی لڑکے کے اس جائز رشتہ کی برقراری سے نوجوانوں کو اپنی کچھ جنسی ضرورتوں کے پورا کرنے کا بھی موقع مل جاتا ہے۔ اس لیے کہ یہ نام زد کا زمانہ ایک ایسا زمانہ ہے کہ جو شادی شدہ زندگی کی بہت سی خصوصیات کو اپنے دامن میں لئے ہوئے ہے۔ اور کسی حد تک جوانوں کی جنسی ضرورتوں کا بھی جبران کرتا ہے۔ ( اسبات کی شرح محتاجِ  بیان نہیں ہے )

اور اس طریقے سے جوانوں کو جنسی کجرویوں اور فحاشی کی گندگی سے بچایا جا سکتا ہے جبکہ اس عمل سے لڑکے اور لڑکی کے اہل خانہ زیادہ اضافی اخراجات سے بھی بچے رہتے ہیں ، بچے پیدا ہونے اور اس کے سبب اثر انداز ہونے والی مشکلات سے بھی محفوظ رہ سکتے ہیں۔

دوسرا راستہ جوانوں کی پڑھائی کے ایام میں وہی راستہ ہے کہ شادی کے اقدامات رخصتی سمیت مکمل ہو جائیں ، لیکن خاص روش کو اختیار کیا جائے جو آج کے دور میں بہت عام ہے ( اور بہت سے طریقے اسمیں شرعی اعتبار سے جائز بھی ہیں ) وہ یہ کہ نطفے کے انعقاد سے پرہیز کیا جائے ( اگرچہ شادی کا ہدف اور ثمر بچہ ہی ہوتا ہے )کیونکہ ان ایام میں اس طرح کے اخراجات ایک جوان طالب علم برداشت نہیں کر سکتا جو کہ اس کی پڑھائی کی تکمیل میں مشکل ایجاد کرتے ہیں۔ لیکن یہ تمام بحث اس صورت میں نفع بخش ہو گی کہ جب شادی کی رسم و رسومات بے ہودہ، احمقانہ اور کمرتوڑ دینے والے اخراجات سے خالی اور سادگی سے انجام دی جائیں۔

در حقیقت اگر والدین اور خود جوان سعادت مندی و خوش بختی کے طلبگار ہیں تو ان کے لیے یہ بہترین راستہ ہے۔ پڑھائی کی تکمیل کا انتظار اور اس کے بعد اچھی ملازمت یا کاروبار کا انتظام، گاڑی کا بندوبست، دوسرے وسائل خانہ اور شادی کے نا قابل برداشت اخراجات کا انتظام وغیرہ ان تمام چیزوں کے انتظار کا نتیجہ جوانوں کی آلودگی اور ہزاروں انحرافات کے سوا کچھ اور نہیں نکلتا جب تک جوان کی عمر ۳۵ یا ۴۰ برس کے قریب ہو جاتی ہے جو سرکاری اعتبار سے انسان کی ریٹائرمینٹ عمر ہوتی ہے اس طرح کی شادیاں سو فی صد روحانی اور حقیقی معنی میں ناکام اور غیر طبیعی ہو جاتی ہیں۔ اسلئے کہ اس طرح کی شادی انسانیت اور اس کی ضرورتوں کے ساتھ کوئی ہم آہنگی نہیں رکھتی ہیں ، اور نہ ہی شادی کے اصلی اور معین ہدف کو پورا کرتی ہیں۔

٭٭٭

 

فصل دوم

شادیوں کی تعداد میں کمی

شادیوں کی تعداد میں کمی واقع ہونا انسانی معاشرے کا ایک بڑا المیہ ہے۔ شادی کی قلت اور جوانوں کا شادی شدہ زندگی کی طرف رغبت نہ کرنا اس کے مقابلہ میں مجرد زندگی کو ترجیح دینا، جبکہ ایسی شئی کو زندگی کا نام دینا مناسب نہیں ہے۔ یہ عالم انسانیت کے لیے ایک بڑا المیہ ہے جبکہ اس کے علاوہ بہت سے منفی آثار اس تیز رفتار زندگی کے ساتھ اس صدی کے انسانوں کو گھیرے ہوئے ہے۔

شادی کی قلت فقط اس لیے المیہ نہیں ہے کہ یہ نسل یا کثرت اولاد پر کنٹرول کاسبب ہے اور حال حاضر میں دنیا کثرت جمعیت کی شکار ہے۔ اور آنے والے چند سالوں میں دنیا اقلیت کی شکار ہو جائے گی۔ ( جبکہ کثرت جمعیت غیر صنعتی ممالک میں مکمل طور پر کنٹرول ہو چکی ہے) اس لیے قلت ازدواج پریشانی کا سبب بنی ہوئی ہے۔ بلکہ برائی کا بدتر مقام یہ ہے کہ مجرد افراد اجتماعی یا معاشرتی ذمہ داریوں میں بہت پیچھے ہو گئے ہیں۔ ان کا رابطہ تمام معاشروں سے منقطع ہو گیا ہے اور ان کا حال ایسا ہو گیا کہ جیسے بے کراں فضا میں کوئی غیر وزنی شئے سرگرداں پھرتی ہے۔ اس طرح کے افراد ممکن ہے کہ ایک معمولی چیز مٹی یا پانی سے اپنے رابطہ کو توڑ ڈالیں اور فوری طور پر کسی دوسرے نقطہ کی طرف پرواز کر جائیں یا یوں کہا جائے کہ غصہ و غضب کے عالم میں اپنی زندگی کو خیرباد کہ دیں اور زندگی سے چشم پوشی اختیار کر لیں۔

خودکشی کی کثرت اس حقیقت کو اچھی طرح واضح کر دیتی ہے کہ خودکشی کرنے والے میں غیر شادی شدہ افراد کی نسبت شادی شدہ افراد سے ہمیشہ زیادہ رہی ہے۔ اگر آپ غور و فکر کریں تو دنیا میں جرائم کو انجام دینے والے افراد اکثر و بیشتر یا تو غیر شادی شدہ ہوتے ہیں یا اس کے مثل ہوتے ہیں در اصل شادی شدہ زندگی انسان کو اپنی ذات کو ترجیح دینے اور نفسا نفسی کی بیماری سے چھٹکارا دلاتی ہے اور اس کے اپنے ایک چھوٹے معاشرے (فیملی ) کی وجہ سے ذمہ داری کا احساس دلاتی ہے۔ اس طرح اس کو ہر خطرناک و غلط ارادوں سے محفوظ رکھتی ہے۔

ذمہ داری کا احساس اور معاشرے سے مربوط نہ ہونا یہ بھی برائی کا ایک دوسرا رخ ہے، جس میں سب سے اہم انسان کا اپنی تمام قوت و طاقت کو استعمال اور انہیں جمع نہیں کر پانا ہے جس کے نتیجے میں وہ اپنی زندگی کی ترقی سے محروم رہ جاتا ہے۔

یہ ہی وہ موضوع ہے جو کنوارے یا غیر شادی شدہ افراد کی زندگی کو سست بناتی ہے اور بے اعتنائی کے ساتھ ساتھ اس کی زندگی کے وسائل کی فراہمی اور اپنی سمجھ بوجھ کے استعمال سے فراہم شدہ امکانات کی حفاظت سے روکتی ہے۔ چنانچہ زندگی چلانے کے لیے وہ بھی ایک فرد کی جس کی زندگی جس طرح بھی گزرے اسے سختی کا احساس نہیں ہوتا نہ ہی اس کے تمام قوا کا استعمال کرنا ضروری ہوتا ہے۔

یہ ہی سبب ہے کہ بہت سے جوان جو مجردی کے زمانے میں اپنی زندگی تک نہیں چلا پاتے اور ہمیشہ دوسروں کے سہارے زندگی گزارتے ہیں اور معاشرے میں انہیں سست اور معذور شمار کیا جاتا ہے لیکن شادی شدہ زندگی کے شروع ہوتے ہی ان کا شمار مستقل مزاج، قوت مند، حوصلہ مند، اور با فہم افراد میں ہونے لگتا ہے۔ یہ سب ذمہ داری کے احساس کا نتیجہ ہے۔

اسلامی روایات میں بھی اس بات کی طرف زور دیا گیا ہے اور ( رزق شریک حیات کے ساتھ ہوتا ہے )شاید اسی فکر کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ لہذا ایسے غیر شادی شدہ جوانوں کو اگر خانہ بدوش (، خیموں میں رہنے والے ) سے تشبیہ دی جائے تو غلط نہ ہو گا کہ یہ لوگ کسی بھی سر زمیں کو آ باد نہیں کرتے کیونکہ انہیں بہت ہی جلدی کسی دوسری جگہ کوچ کر جانا ہوتا ہے۔ اور یہ اپنی کوئی پہچان نہیں چھوڑتے ہیں۔ اس حوالے سے یہ لوگ بہت ہی لا پرواہی سے کا م لیتے ہیں۔

اخلاقی نقطہ نظر سے غیر شادی شدہ شخص انسان کامل نہیں کہلایا جا سکتا ہے، کیونکہ بہت سے اخلاقی صفات جیسے وفاداری، درگزر، جوانمردی ا، محبت، قربانی، حق شناسی، ایک گھریلو اور شوہرو بیوی بچوں کے ساتھ مشترک زندگی کے علاوہ بڑی تعداد میں مشاہدے میں نہیں آسکتے ہیں۔ لہذا جو افراد ایسی زندگی سے دور ہیں وہ ان صفات کے مکمل معانی و مفہوم نہیں سمجھ سکتے ہیں۔

یہ بات درست ہے کہ ایک شادی شدہ مشترک زندگی کے قبول کرنے کا مطلب بہت سی ذمہ داریوں اور مشکلات کو دعوت دینا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا کوئی انسان مشکلات اور ذمہ داریوں سے مقابلہ کیئے بغیر کامل ہو سکتا ہے ؟

انسانی جسم و روح کی طبیعی و فطری ضرورت اور تقاضوں پر مشتمل مسائل کی جواب دہی اور ان کی عدم جواب دہی کی صورت میں پیش آنے والے فکری و جسمانی نا رسائی ایک مستقل باب کی حامل ہے۔ ان واقعی اور غیر قابل انکار باتوں کے مد نظر اگر شادی نہ کرنے کا رواج بڑھتا رہے تو اسے ایک عظیم سماجی بحران اور فاجعہ کا نام دیا جا سکتا ہے اور ایسی تعبیر میں کوئی مبالغہ نہیں ہے۔

لیکن اس راہ میں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسی تاریک راہوں اور عظیم مشکلات کی موجودگی میں ہمارے جوانوں کو اس فطری اور معاشرتی فریضہ کو پورا کرنے کے لیے کیا کرنا ہو گا؟ اس تیز رفتار زندگی، اس کی تمام مشکلات، زندگی کی بیجا امیدیں ، والدین اور جوانوں کا اختلاف نظر، تعلیم کی بڑھتی ہوئی مدت، رستم کی سات رکاوٹوں کی مانند بہت سی رکاوٹیں ، روزگار کی پریشانیاں اور لوگوں کا ایک دوسرے سے بھروسے کا ختم ہو جانا، کیا ان حالات میں جوان اس مقدس اور عظیم فریضے کو سر وقت انجام دے سکتاہیں ؟

یہی وہ مسائل ہیں جن کو دقیق طریقے سے زیر بحث لانا چاہئیے، اس لیے کہ اس کے بغیر معاشرے کی اس عظیم مشکل کا بنیادی حل نا ممکن ہے۔

قابل غور نکتہ جس کی طرف توجہ کرنا ضروری ہے یہ ہے کہ شادی اور اس کے سبب پیدا ہونے والی پریشانیوں کے موجد خود ہم اور ہمارا معاشرہ ہے جبکہ اس معاشرے کے معنی سوائے ہمارے وجود کے کچھ اور نہیں ہے۔

یہ مشکلات آسمان سے نازل نہیں ہوئی اور نہ ہی بطن زمین سے آشکار ہوئی ہیں بلکہ یہ ہم ہی جن کے سبب یہ وجود میں آئی ہیں ، ہمارے غلط فیصلے، غلط محاسبات اور ہمارا غلط رسوم و آداب کا شکار ہونا، اندھی تقلید کرنا اس کا باعث بنتی ہیں۔

لہذا اگر ہم محکم ارادے کے ساتھ مقابلہ کریں تو ان مشکلات کا خاتمہ کرسکتے ہیں ، اور نئے سرے سے پلاننگ کریں جو اوہام و خیالات اور غلط پیروی سے ہٹ کر حقیقت و واقعیت اور زندگی کے اصلی اور اساسی مفہوم پر مبنی ہو۔ اور اس کام کے لیے ایسا نہیں ہے کہ راستے بند ہو آج بھی راستے کھلے ہوئے ہیں ، اور ایسا کرنا نا ممکن بھی نہیں ہے۔

٭٭٭

 

فصل سوم

ناجائز تعلقات کی فراہمی

ناجائز تعلقات کی فراہمی شادیوں میں قلت کی ایک اہم علت ہے۔ در حقیقت موجودہ زندگی ایک فطری اور حقیقی زندگی سے بالکل الگ ہو چکی ہے جس کی ایک مثال شادیوں میں شدت کے ساتھ کمی کا واقع ہونا ہے۔ اور جوانوں کا غیر شادی شدہ زندگی کو ترجیح دینا ہے۔

جیسا کہ ہم پہلے ذکر کرچکے ہیں شادیوں کی کمی اور مجرد زندگی کی زیادتی بشری نسل پر اثر انداز ہونے کے ساتھ ساتھ ا زندگی کو ایک عجیب رخ دیتی ہے جہاں انسان کسی ذمہ داری کا احساس نہیں کر تا ہے، سماج سے قطع تعلق ہو جاتا ہے، اور مجتمع و ماحول سے لا پرواہ ہو جاتا ہے۔ یہ بشری معاشرے کے لیے ایک عظیم المیہ ہے۔

اگر ہم ان اخلاقی فسادات اور برائیوں کو جو اکثر غیر شادی شدہ افراد کو لاحق ہوتی ہیں اس بحث میں شامل کرتے ہیں تو اس مسئلہ کی شکل مزید واضح ہو جاتی ہے۔

فی الحال قاری کتاب کی توجہ کو اس مسئلہ کے بنیادی اسباب کی طرف مبذول کرانا چاہتے ہیں کہ وہ کون سے عوامل ہیں جو اس خطرناک اجتماعی وبال کا سبب بنتے ہیں۔

اگرچہ یہ بات درست ہے کہ یہ حالات اور مشکلات کسی ایک یا دو علت کی ایجاد نہیں ہیں لیکن بہت سی حقیقی علتیں ایسی ہیں جن کی اہمیت دوسری علتوں کہیں زیادہ ہیں ، جنمیں ایک علت جوانوں نا جائز تعلقات کی فراہمی ہے۔

اس لیے ایک طرف جوانوں کو ایسے تعلقات کا آسانی سے فراہم ہو جانا، اور عورتوں کا آسانی سے فراہم ہو جانا ہے جس کی وجہ سے عورت جوانوں کی نظر میں ایک ذلیل و خوار اور کم قیمت یا کبھی کبھی مفت شئی سمجھی جاتی ہے جس کو وہ بڑی آسانی سے حاصل کرسکتے ہیں۔

اس طرح عورت کی جو قیمت و عزت اور وقار سابق معاشرے میں پایا جاتا تھا جو جوانوں کو اپنی طرف جذب کرتا تھا اور جوانوں کو اس کے حاصل کرنے میں غیر معمولی کوشش اور قربانی درکار ہوتی تھی وہ سب کچھ ختم ہو گیا ہے۔

عورتوں کی بڑھتی ہوئی برہنگی نے موجودہ دور میں ابتذال اور فحاشی کو بڑھا دیا ہے اگر یہ عمل ابتداء میں ہوسبازوں کی توجہ جذب کرنے کی خاطر رہا ہو تو آخر میں یہ ان کی فحاشی اور ان کی قدر و قیمت میں کمی کا سبب بنی ہے اور یہ ان کے ہدف اور توقع کے منافی ثابت ہوتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ جیسے پاک، مقدس عشق پرانے زمانے میں دیکھے جاتے تھے جو نکاح و عقد کے مقدمے کا محکم رشتہ بنتے تھے آج کے زمانے میں اس کے کوئی اثرات باقی نہیں رہ گئے، اسلئیے کہ انسان ہمیشہ اس چیز سے عشق کرتا ہے کہ جو آسانی سے اس کی دسترس میں نہ آسکتی ہو۔ اور ایک سستی اور بیکار چیز سے انسان کا عشق کرنا کوئی معنی نہیں رکھتا ہے۔

ۺۺ

ایک طرف بہت سے گستاخ و بے لگام افراد یہ کہتے ہیں کہ کیا ضرورت ہے کہ ایک عورت کے حصول کے لیے مرد ہزاروں شرائط اور شادی جیسی ذمہ داریوں کے بار کے نیچے آئے جبکہ بغیر کسی شرائط و ذمہ داریوں کے بہت سی عورتیں حاصل کی جا سکتی ہیں۔ !

چونکہ ای-سے لوگ ان غلط نتائج سے ناواقف ہیں جو جنسی و اخلاقی کجرویوں کے سبب حاصل ہوتے ہیں ، شادی اور عورت ان کی نگاہ میں ایک جنسی خواہش پورا کرنے کا آلہ ہے شادی اور ایسے تمام شرائط و ذمہ داریوں کو ایک احمقانہ عمل تصور کرتے ہیں اس لیے ایسے افراد اپنی پوری زندگی یا زندگی کا بہترین حصہ بغیر شادی کے گزار دیتے ہیں۔

مندرجہ بالا حقائق (ناجائز تعلقات کا آسانی سے فراہم ہو جانا)کی بنیاد پر شادیوں میں قلت کی وجوہات مکمل طور پر واضح ہو جاتی ہیں۔ یہی سبب ہے چونکہ مغربی معاشرے میں کوئی قید و بند نہیں ہے، اور اس طرح کی آزادی زیادہ پائی جاتی ہے لہذا شادیوں کی قلت بھی زیادہ ہو گئی ہے۔ اگر کوئی شادی ہوتی بھی ہے تو عمر دراز ہو جانے کے بعد جبکہ زیادہ عمر میں کی ہوئی شادی بے لطف ہوتی ہے اور زیادہ دنوں تک نہیں چل پاتی ہے، اور غالباً معمولی سے بہانے اور ہنسی ہنسی میں ٹوٹ جاتی ہے۔

فحاشی اور بدنام اڈوں کے نتائج مذکورہ بیان کے علاوہ یہ حقیقت بھی قابل بیان ہے کہ اس طرح کا ہر معاشرہ جو مجرد زندگی کو شادی شدہ زندگی پر ترجیح دیتا ہے اپنے پہلو میں ایک گندہ اور سڑا ہو ا زخم لیے ہوئے ہے( جسے ہم زنا و فحاشی کا اڈہ نام دے سکتے ہیں )، جو شادیوں میں قلت کی ایک اہم علت ہے اور ساتھ ساتھ (شریف )خاندانوں کی عزت و آبرو خاک میں ملا دیتی ہے۔

اس طرح کے گندے اور گھناؤنے اڈے آج ہر غیر سالم معاشرے کے پہلو میں پائے جاتے ہیں جو ثابت کرتے ہیں کہ معاشرے کا مزاج سالم نہیں ہے۔

زناکاری کے یہ بدنام اڈے فقط اس حوالے سے قابل مذمت نہیں ہیں کہ یہاں سے فساد اور ظاہری و باطنی بیماریاں پھیلتی ہیں یا یہ اڈے شادیوں میں قلت اور جوانوں کے غیر شادی شدہ ہنے کا سبب بنتے ہیں ، بلکہ ہر مسئلہ اپنے مقام پر مستقل بحث اور غور و فکر چاہتا ہے۔

وہ عورتیں جو ان اڈوں پر جسم فروشی کا کاروبار کرتی ہیں ایسی عورتیں اس بحث کا ایک اہم و دقیق موضوع ہیں۔

جن حضرات نے اس موضوع کا دقیق مطالعہ کیا ہے اور اپنی وسیع تحقیق کے ساتھ کتابیں لکھی ہیں وہ اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہیں کہ ایس جسم فروش خواتین قرون وسطی کی ایک دردناک و وحشتناک غلامی کی مجسم مثال ہیں۔

ایسی مطرود و پست ماندہ اور بے چارہ عورتیں جو ہمیشہ سر سے پیر تک ادھار اور قرض میں گرفتار رہتی ہیں اور دن و رات ایک شمع کی مانند سلگتی رہتی ہیں تاکہ غیر مردوں کی ھوا و ہوس و لذت کو پورا کرسکیں اور دنیا والوں کے چھوڑے ہوئے معاشرے کے حوالے اپنے آپ کو سونپ دیتی ہیں جبکہ ان کے مرنے کے بعد انھیں کوئی سپرد خاک کرنے والا بھی نہیں ملتا ہے۔

کون سی عقل و منطق اس بات کو تسلیم کرسکتی ہے کہ جس عصرمیں غلامی کے خاتمہ کا دعوی کیا جاتا ہے اسی زمانے میں معاشرے کے پہلو میں بہت سے بے چارہ غلام پائے جاتے ہیں اور کوئی ان کی آزادی کے لیے قدم نہ بڑھائے۔ ؟

لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ اس دلسوز غلامی کو آج کے بہت سے بدبخت معاشرے نے عملا رسمی بنا دیا ہے، اس لیے کہ وہ عورتیں جو اس معاشرے کی گندی دلدل میں پہنسی ہیں ہوسکتا ہے وہ اسی غیر شرعی اور ناجائز تعلقات کا نتیجہ ہوں جو درجہ بدرجہ ان بدنام اڈوں تک لائی گئی ہوں۔ ایسی بعض عورتوں کی کہانیاں جو کتابوں میں ذکر کی گئی ہیں یقیناً بہت ہی دردناک ووحشت ناک حادثات کا سبب ہیں ، جو معاشرے کی پیشانی پر ایک بد نما داغ ہے مقام تاسف یہ ہے کہ ان مسائل کو بہت کمی سے زیر بحث لایا جاتا ہے۔

لہذا خاندانوں کو پامال اور برباد ہونے سے بچانے کے لیے! شادیوں میں قلت کی تیزی کو روکنے کے لیے! اور ان بے نوا غلاموں کی آزادی کے لیے ہمیں چاہئیے کہ اس بے لگام جنسی آزادی اور ناجائز تعلقات کی فراہمی پر روک لگائیں اور کنٹرول کریں ، اس عمل کے لیے ایک صحیح اور منظم سسٹم تیار کریں ورنہ یہ کام نا ممکن ہے۔

پیارے جوانوں ! مندرجہ بالا حقائق کی روشنی میں خود اپنی اور اپنے دوستوں کی حفاظت میں دقت سے کام لیں اور گمراہی اور فریب دینے والے افراد جواس طرح کی نا پاک آزادی کی طرف کھینچتے ہیں ، ان سے اجتناب کریں۔

وہ لوگ جو ان حالات، بدنام اور برائی کے اڈوں کو معاشرے کی ضرورت سمجھتے ہیں اور اس کے ذریعے برائی کو ختم کرنا چاہتے ہیں اور ایسے نا مناسب عمل کو خاندانوں کی حفاظت اور جوانوں کی سلامتی کا نام دیتے ہیں وہ یقیناً بڑی بھول کا شکار ہیں۔

کیا ایسی بدبو دار کیچڑ کا وجود جو بہت سے اخلاقی فساد کو معاشرے میں پھیلا رہی ہے اور ساتھ ساتھ جسمانی بیماریوں کو بھی پھیلا رہا ہے اور اسی وجہ سے اس کو معاشرے سے الگ بھی رکھا جاتا ہے۔ اور اس قید خانے کے گرد بلند چاردیواری بنا دینا کیا اس برائی کو گھرانوں میں پھیلنے اور سرایت کرنے سے روک سکتا ہے؟

٭٭٭

 

فصل چہارم

وہ زنجیریں جس نے جوانوں کے ہاتھ پیروں کو جکڑ لیا ہے

 صحیح ہے کہ ہماری شادی کے مناسب اور طبیعی وقت کو گزرے ہوئے کافی عرصہ ہو گیا، لیکن ہمارے پاس گھر ہونے کی صورت میں ہم شادی کیسے کرسکتے ہیں ؟ ابھی ہمارا اپنا گھر بھی نہیں ہے ابھی اپنی گاڑی بھی نہیں ہے، ابھی اچھی آمدنی والا کام بھی ہمارے پاس نہیں ، ابھی بے شمار پیسے بھی نہیں جو شادی کے سنگین اخراجات، اور دلہن اور رشتہ داروں کے لیے ہدایا اور سوغات کے لیے ضروری ہوں۔ ابھی تک بڑی مناسب اور آبرو مند جگہ بھی نہیں دیکھی جسمیں شادی کا پروگرام منعقد ہو سکے، ابھی۔۔ ابھی۔۔ !

ہم اپنی بیٹی کی شادی کیسے کر دیں جبکہ ابھی تک اس کے لیے ایک آئیڈیئل شوہر اچھی آمدنی والا، اچھے اور آبرو مند کام والا، اچھی پوسٹ والا، اچھے گھر والا، اچھی پر سانلٹی والا، اچھی فیملی والا، رشتہ نہیں آیا، حالانکہ رشتے آتے ہیں مگر ایک دو شرطیں اسمیں نہیں پائی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ ابھی تک ہم نے اس کے لیے ضروری جہیز کا بھی انتظام نہیں کیا جیسے گھر کا سامان، فرش، صوفا، فریج، واشنگ مشین، کھانوں کے برتن کے مختلف سیٹ، استری، الیکٹرک جھاڑو، کیڑے سینے کی مشین وغیرہ اور جہیز کے دوسرے بعض سامان فراہم نہیں ہو سکے ہیں۔

اگر ہم اس حال میں اپنی بیٹی کی شادی کریں تو سوائے آبروریزی کے کچھ اور نہیں ملنے والا ہے ! کیا کریں کہ معاشرے نے یہ چیزیں ہم پر بار کر دی ہیں ، کیا کیا جائے ہمارے گرد کی سخت و پریشان کن شرطیں جیسے کچھ کرنے نہیں دیتی ہیں۔

اس طرح کا درد دل یا صحیح عذر اور بنی اسرائیل جیسے بہانے جو بہت سے جوان لڑکے لڑکیاں اور والدین کی جانب سے بیان ہوئے ہیں ، جو شادی کے امور میں اقدام میں مانع ہوتے ہیں۔

عقلمندی کہتی ہے : زندگی کے دو حصے ہوتے ہیں پہلا آدھا حصہ دوسرے آدھے حصے کی امید میں اور دوسرا آدھا حصہ پہلے آدھے حصے کے افسوس میں گزر تا ہے۔ امید کے بجائے خواب اگر لفظ خواب استعمال کریں تو مفہوم مزید واضح ہو جاتا ہے، کہ زندگی کا پہلا آدھا حصہ دوسرے آدھے حصے کے خواب میں گزر جاتا ہے اور دوسرا آدھا پہلے آدھے حصے کے افسوس میں تلف ہو جاتا ہے اور اس کی بہترین مثال ہمارے جوانوں کی شادیوں کا مسئلہ ہے جن کی پہلی آدھی عمر بہترین شریک حیات کی تلاش اور خواب میں گزر جاتی ہے اور باقی آدھی زندگی اس کے افسوس میں برباد ہو جاتی ہے۔

بہرحال ان جوانوں اور والدین سے گذارش ہے ان حالات اور قید و بند کی زنجیروں کو پیدا کرنے کا ذمہ دار سوائے تمہارے خود کے کوئی اور نہیں ہے، تم نے خود ہی ان حالات و شرائط اور قید و بند کی زنجیروں کو اپنے ہاتھ اور پاؤں میں ڈالا ہے۔

خود تم نے ہی شادی شدہ زندگی کے لیے اس طرح کا ایک کھوکھلا اور خیالی مفہوم ایجاد کر لیا ہے۔ اور اپنے لیے خیالی، واقعی خوش بختی اور سعاد ت مندی کی راہیں بند کر لی ہیں۔

اپنی خوش نصیبی کی جو راہیں تم نے ہموار کی ہیں وہ ہرگز تم کو منزل تک نہیں پہنچا سکتی، اس لیے تمام تجربوں اور تحقیقات نے اس حقیقت کو ثابت کیا ہے۔

رقیبوں کی نظر بد، ایک دوسرے کی اندھی تقلید، غیر اہم امور کا اہم بنانا، یہ گمراہ کرنے والے نظریات اور یہ نہ پوری ہونے والی آرزوئیں ، اور جھوٹے خواب یہ ہی وہ حقیقتیں ہیں کہ جنہوں نے تمہارے ہاتھ پیروں میں بھاری زنجیریں ڈال دی ہیں ، جو تم کو ایک جوان کے اہم کام سے روکتی ہیں۔

اے میرے عزیز جوانوں اور والدین! اگر تم لوگ ہمت اور حوصلے کے ساتھ اپنے پیروں میں پڑی ان زنجیروں کو نکال دو اور ان گمراہ کرنے والے بتوں کو توڑ ڈالو تو اس وقت تم کو احساس ہو گا کہ تم نے روحانی طور پر کتنی عظیم آزادی حاصل کر لی ہے اور اپنی زندگی کو کس درجہ خوش نصیب اور سعادتمند بنا لیا ہے۔

سچ تو یہ ہے کہ آپ نے کسے دیکھا ہے جس نے آغاز جوانی میں ہی گُر اور زندگی کے آسائش و آرام کی تمام اشیاء فراہم کر لی ہوں۔ جو آپ کے ہم سفر کے بارے میں یہ توقع رکھتے ہیں۔ تمام لوگ اپنی زندگی کی ابتداء سے سفر سے شروع کرتے ہیں ، ہاں جو لوگ خاندانی اور موروثی صاحب ثروت و مال ہیں ، ممکن ان کے ساتھ ایسا نہ ہوا ہو۔ البتہ چونکہ وہ لوگ جو خود غالباً اپنی محنت سے اس منزل تک نہیں پہنچے ہیں وہ چاہے خوشی کے ساتھ یہ بات کہوں یا افسوس کے ساتھ ان مال و ثروت کی حفاظت پر قادر نہیں ہوتے۔

اپنے کاموں کو آسان جانو! جیسے ہی شادی کے لیے سادہ اور عاقلانہ شرائط فراہم ہو جائیں فوری اقدام کر دیں۔

ہماری نظر میں نہایت سادہ اور بے جا انتظامات کے بغیر شادی کرنا حتی اگر تعجب نہ کریں تو زمان تحصیلی کے ساتھ ( پڑھائی کے دوران ) بھی نہایت سازگار ثابت ہوتی ہے۔ بشرطیکہ دونوں فریق شادی کے صحیح معنی سے آشنا ہوں ، اور اس بات کو بھی محسوس کرتے ہوں کہ دنیا ہر چیز کی خلقت تدریجی ہے، اور زندگی کے شرائط بھی درجہ بدرجہ فراہم ہوتے ہیں اور آرزوئیں بھی امکانات کے مطابق ہوں۔

وہ جوان افراد جو ان بے جا انتظامات اور خوابوں کے پورا کرنے میں سرگرداں رہتے ہیں ایسے جوان شادی کے اہم اور اصلی مسئلہ کو فراموش کر دیتے ہیں ، اور وہ دو انسانوں کا ایک دوسرے کو درک کرنا، زندگی کے صحیح معنی کو سمجھنا اور اس بنیاد پر عشق و محبت کی گرہ لگانا ہے۔

اگر یہ دو اصلی رکن یعنی یہ دو انسان صحیح طریقے سے ایک دوسرے کو درک کر لیں تو باقی تمام چیزوں کی کوئی حیثیت نہیں رہ جاتی ہے۔ اور اگر ایک دوسرے کا ادراک نہ کرسکیں تو باقی تمام چیزیں بھی ان کی زندگی میں کوئی خوش بختی نہیں لا سکتی ہیں۔

یہ ہی وجہ ہے کہ ہمارے مذہب کے دستورات اور قوانین کے مطابق شادی میں سوائے دو عاقل انسانوں کے جو ایک مشترک زندگی کے خواہشمند ہیں کوئی اور شرط ضروری نہیں ہے۔ لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ اس قدر سادے مسئلہ پر آج کیسا وقت آ گیا ہے؟۔

اہم نکتہ: علوم دینیہ کے طلاب کی نہایت سادہ زندگی آج کے جوانوں کے لیے ایک نمونہ عمل ہے

حوزہ علمیہ کے ۹۹ فی صد طلاب تحصیل< پڑھائی> کے دوران شادی کے اقدامات کرتے ہیں جبکہ درسی پروگرام یا کلاسوں کا شیڈیول سبھی حوزات علمیہ میں نہایت ہی سخت ہوتا ہے جو کہ طلاب کے پورے وقت کو مشغول رکھتا ہے۔ چونکہ زندگی کی بنیاد اس ماحول میں الہام اور اسلامی دستورات کے مطابق اور سادگی کے ساتھ ہوتی ہے۔ مختصر خرچ جو حوزہ علمیہ کے بیت المال سے انہیں دیا جاتا ہے یا بعض طلاب کھیتی باڑی یا معمولی کا م جو وہ گرمیوں کی چھٹی کے زمانے میں کرتے ہیں اس کے ذریعہ اپنی زندگی کو نہایت ہی سادگی اور پاکیزگی کے ساتھ چلاتے ہیں بجائے اس کے کہ غیر شادی شدہ زندگی کے بد ترین نتائج سے سامنا کریں۔ لہذااس حوالے حوزہ علمیہ کے طلاب آرام و سکون اور خوش بختی کا مکمل احساس حاصل کر لیتے ہیں۔

٭٭٭

 

فصل پنجم

شادی شدہ زندگی کے سات سخت موانع

بہت سے ایسے ہیں جنہیں ہم زندگی کا نام دیتے ہیں جبکہ ان سے پرہیز کرنا ضروری ہے۔ بہت سی ایسی مشکلات جنہیں ہم یہ سمجھتے ہیں کہ تقدیر نے ہمیں اس میں پھنسا دیا ہے، جبکہ اس مشکل کے جال کو ہم نے خود بنا ہے۔ ہماری زندگی کی اکثر مشکلات اعتراضات کرنا، بہانے کرنا، ضد کرنا، سب ہماری انہیں قبول نہ کرنے کے نتیجے کے طور پر ظاہر ہوتی ہیں ، خود حقیقی و واقعی مشکل کے مقابلہ نہیں۔

ایرانی افسانوں کے ہیرو < رستم> کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ملک کے ان بعض حصوں کو تسخیرفتح اور تسخیر کرنا چاہا جسے اس وقت تک کوئی نہیں کر سکا۔

اس نے اس خطے کے قلب تک پہنچنے میں سات بڑی رکاوٹوں کا جنمیں ہر ایک دوسرے سے زیادہ قوی اور وحشتناک تھی مقابلہ کیا، کبھی سفید دیو اور کبھی جن و بھوت کی شکل والے اژدھے اور کبھی خطرناک جادوگروں کا سامنا کر کے اپنی ہمت و مہارت اور بے مثل بہادری سے سب کو پیچھے چھوڑ دیا یہاں تک کہ ساتوں مرحلوں کو طے کر کے کامیابی کو گلے لگا لیا، جس کو ایران کے رزمیہ شاعر فردوسی نے اپنے شاہنامے میں بڑی خوبصورتی کے ساتھ پیش کیا ہے۔

یہ افسانہ انسانوں کی زندگی میں آنے والی مشکلات کے انبار کا ایک شاعرانہ مجسمہ ہے جو مشکلات کی زیادتی کامیابی و کامرانی کے راستوں کی نشاندہی اور مشکلات پر غلبہ حاصل کرنے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

آج کے معاشرے میں شادی کا مسئلہ اور اس کی مشکلات کا مقابلہ کرنا، رستم کے سات موانع کے مقابلہ سے ذرا بھی میل نہیں کھاتا، اگرچہ سب جوان رستم والی قدرت و شجاعت اور ساتوں رکاوٹیں پیچھے چھوڑ دینے والا حوصلہ نہیں رکھتے ہیں ، یا آج کے جوانوں میں ایسا عزم و ارادہ سرے سے نابود ہے۔ جیسا کہ ہم پہلے بھی اسبات کی طرف اشارہ کر چکے ہیں کہ شادی کے مسئلہ نے بڑی حد تک اپنی اصلی اور فطری صورت متغیر کر لی ہے اور اس طرح اسنے ایک نقصان پہنچانے والا اور زحمتیں دینے والا پیکر اختیار کر لیا ہے۔

جوانوں اور والدین کے تمام تر نالے فریاد اور شکایتیں یہ ہی ہیں کہ شادی کے اخراجات ناقابل برداشت ہیں شادی کی اس متغیر صورت کی طرف سب کا اشارہ ہوتا ہے بنیادی طور پر اس مسئلہ کی اساس ان تمام بد بختی اور پریشانیوں سے ہٹ کر پاکیزگی اور تقدس پر اسطوار ہے۔

موجودہ حالات بہت سے افراد کے لیے شاد ی سونے کی ایسی کان سے سونا نکالنا ہے جو اس قدر مخلوط اور آلودہ ہے کہ اس میں سے زحمت کر کے سونا نکالنا ہی سودمند نہیں ہے۔ یہ مواد جو مخلوط اور آلودہ ہے وہ اس کی مثال شادی میں دیکھنا، دکھانا خیالی مثال، شان و شوکت، غلط آداب و رسوم، ہوس بازی، کسب، افتخار، و خیالی عزت و آبرو حاصل کرنا ہے۔

شادی کے مسئلے نے مشکلات کے اس انبار میں اپنے اصلی چہرے کو پوری طرح مسخ کر لیا ہے اور ایک جنگلی جن و بھوت اور خوفناک صورت اختیار کر لی ہے جس کا سامنا کرنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں ہے۔

اور سب سے بدتر حال یہ ہے کہ کم لوگ ایسے ہیں جو شجاعت کے ساتھ ان خرافات اور بیہودہ باتوں کا مقابلہ کرتے ہیں۔ پڑھے لکھے لوگ ان حالات میں جاہلوں سے بد تر نظر آتے ہیں ، اور آج کے لوگ پرانوں کے مقابلہ میں کمزور و نا تواں ہیں۔

اکثر افراد اس طرح کی غلط دلیلیں پیش کر کے خوش ہو جاتے ہیں کہ < آخر انسان زندگی میں کتنی بار شادی کرتا ہے کہ اسے سادگی سے انجام دیا جائے ؟ ہمیں چھوڑ دو تاکہ ہم اپنی آخری آرزوئیں پوری کر لیں اور اپنی دلی خواہشات کو عملی جامہ پہنا لیں !

وہ اس بات سے غافل رہتے ہیں کہ کہ یہ غلط استدلال بقیہ تمام جوانوں اور خود ان کی سعادتمندی اور خوش نصیبی کی راہ میں کتنی بڑی رکاوٹ بن جاتا ہے۔

جوانوں کو چاہئیے کہ جوانمردی کے ساتھ سات رکاوٹوں کا سامنا کرنے والے رستم کی طرح اس لمبے راستے کو طے کریں اور اس طرح کے جادوئی طلسم کو توڑ ڈالیں۔ اگر آپ حیران نہ ہوں اس راستے کی بھی سات رکاوٹیں ہیں اور یہ مندرجہ ذیل ہیں :

۱۔ لا محدود امیدیں اور خواب لڑکیوں کی لڑکوں سے اور لڑکوں کی لڑکیوں سے امیدیں اور ماں باپ کی دونوں سے۔

۲۔ ماں باپ اور رشتہ داروں اور دوستوں کی طرف سے بے وجہ مشکلات پیدا ہونا۔

۳۔ بڑی مقدار میں مہر کا ہونا جو کمر توڑ ثابت ہوتا ہے۔

۴۔ شادی کے مراسم کے لیے بے جا انتظامات جو ہزاروں گنا شادی کے پہلے اور بعد میں کئئیے جاتے ہیں ، اور جو خطرناک چشمک کا باعث ہوتے ہیں۔

۵۔ دو خاندانوں کے کفو اور ہم شان ہونے میں بے جا اعتراضات۔

۶۔ حد سے زیادہ عشق جو کنٹرول سے باہر ہو اور جس کا کوئی حساب و کتاب نہ ہو۔

۷۔ ایک دوسرے کے لیے حد سے سوا غلط فہمیاں پیدا ہونا، ایک دوسرے پر آئندہ زندگی کے لیے اعتماد کا نہ ہونا۔

جب ہم ان ساتوں مشکلات کے بارے میں غور کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ اکثر مشکلات کا شادی کے مسئلہ سے کوئی ربط نہیں ہے جو بھی ہے وہ اس کے حواشی اور بے وجہ چیزوں سے ہے۔

’’ہم رتبہ ہونا‘‘ یا اصطلاح میں ایک دوسرے کا کفو ہونا یہ مسئلہ قابل بحث ہے اس موضوع کو بہت سے لوگ شادی میں رکاوٹ کا ایک بڑا سبب تصور کرتے ہیں جبکہ اس میں تحریف سے کام لیا گیا ہے اور حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔

ایک جوان جو خود بیان کرتا ہے : کہ وہ ایک تیل کمپنی میں انجینیئر ہے اور اس کی تنخواہ بھی کافی اچھی ہے، عمر ۳۰ سال ہو چکی ہے مگر ابھی تک شادی کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا، شکایت و فریاد کر رہا تھا۔ اس کا بیان ہے: کسی بھی خاندان کی لڑکی سے شادی نہیں کی جا سکتی ہے ضروری ہے کہ ایک ایسا خاندان تلاش کیا جائے جو لائق احترام صاحب شخصیت اور میرے ہم رتبہ ہو، لیکن جب بھی کسی ایسے خاندان کا پتہ چلتا ہے اور ہم شادی کی بات شروع کرتے ہیں تو شادی اور اس کے شرائط اور اخراجات کی فہرست اتنی طویل ہو جاتی ہے کہ جس کا حساب الکٹرونک دماغ کے علاوہ کوئی اور نہیں کر سکتا ہے۔

میں نے اس جوان سے کہا کہ تمہاری مراد لائق احترام، با شخصیت ہم رتبہ خاندان سے کیا ہے ؟ کیا اس سے مراد پڑھا لکھا صاحب علم خاندان ہے ؟ میں بہت سے ایسے خاندانوں سے واقف ہوں جن کے یہاں پڑھی لکھی گریجویٹ لڑکیاں ہیں اور وہ شادی کرنے کے لیے بھی تیار ہیں۔ اگر تمہاری مراد اس سے عالی صفات اور اخلاقی اقدار والے خاندان ہیں یا جسمی اور بدنی امتیازات رکھنے والے خاندان ہیں تو اس طرح کے لوگوں کی بھی کوئی کمی نہیں ہے، غریب و نادار ضرور ہیں لیکن اصیل اور نجیب ہونے میں کوئی کمی نہیں ہے۔

لیکن میں سمجھتاہوں کہ تمہاری مراد ان میں سے کوئی بھی نہیں ہے مجھے معلوم ہے کہ تمہاری مراد ایسے خاندان سے ہے کہ لڑکی کے چچا زاد بھائی یہاں وہاں کے مینیجر اور رئیس کل ہوں ، اس کے ماں باپ مالدار، ثروتمند، گاڑی بنگلہ، زرق و برق زندگی رکھنے والے ہوں۔ کیا تمہارا مطلب یہ نہیں ہے؟ میں نے دیکھا کہ اس کا مطلب یہ ہی تھا۔

میں نے اس سے کہا کہ تم نے اپنی اس زندگی میں اتنی بڑی خطا کا ارتکاب کیا ہے کہ صاحب شخصیت کا مطلب ان امور میں صاحب شخصیت ہونا بنا  لیا ہے نہ یہ کہ انسانی حقیقت کے اعتبار سے صاحب شخصیت ہو اسلئے ضروری ہے تم اسی طرح د تکارو عذاب سے دو چار رہو۔

غور طلب نکتہ یہ ہے کہ اسلامی روایات میں آپ دیکھتے ہیں کہ‘‘ ہم رتبہ ہونا ‘‘اس مسئلہ کا غلط مفہوم اس زمانے میں معاشرے اور قبیلوں کے درمیان اس شدت کے ساتھ رائج تھا جس کا پوری قوت کے ساتھ اسلام نے مقابلہ کیا اور اس غلط مفہوم کا خاتمہ کیا، اور ایمان کی بنیاد پر عوام کے مردوں اور عورتوں ، لڑکے اور لڑکیوں کو ایک دوسرے کا کفو یا ہم رتبہ قرار دیا۔

اسلامی روایات میں ہم یہ ہی پڑھتے ہیں کہ ‘‘ المئو من کفوء المئومن‘‘ مومن کا ہم رتبہ مومن ہی ہو سکتا ہے۔ ہر صاحب ایمان چاہے وہ کسی بھی خاندان، قبیلے، قو م اور طبقے سے تعلق رکھتا ہو وہ دوسرے مومن کا ہم رتبہ ہوتا ہے۔

اس بنیاد پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اگر ان توہمات کا خاتمہ کر دیا جائے جو طبقاتی معاشرے میں فرقہ واریت زندگی سے تعلق رکھتے ہیں اور ساتھ ساتھ دونوں فریق شادی کی بنیاد انسانی اقدار اور عقل و منطق پر اسطوار کریں بغیر کسی لالچ کے مثلاً لڑکی کے چچا زاد بھائی فلاں پوسٹ پر ہیں یا وہ لوگ صاحب ثروت ہیں ، گاڑی بنگلے والے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ تو یقیناً یہ تمام مشاکل خود بخود حل ہو جائیں گے اور شادی کی بقیہ مشکلات بھی اسی کے مانند ہیں۔

٭٭٭

 

چھٹی فصل

سختی سے کا م لینے والے والدین جوانوں کے جنسی مسائل اور ان کا حل

اکثر خود غرض والدین جو اپنی جوانی میں بہت سے رنج و غم اور پریشانیوں کا سامنا کر چکے ہیں اس کے با وجود وہ جوانوں کے دلوں میں جنسی شہوتوں کے برپا ہونے والے طوفان کے سوالوں کا صحیح جواب نہیں دے پاتے ہیں۔ لڑکے لڑکیوں کی شادی کے حوالے سے والدین حد درجہ سختی سے کام لیتے ہیں یا بے مہری سے کا م لیتے ہیں۔

یہ بے مہری اور سختی دونوں کی ایک ہی اساس ہے جہاں سے یہ جنم لیتے ہیں کبھی کبھی یہ اس حد تک بڑھ جاتی ہے کہ ایک سال اور پانچ سال کی تاخیر ان کی نظر میں ایک سادہ عمل اور قلیل مدت عرصہ شمار ہوتا ہے!< ٹھیک ہے اگر اس سال نہیں تو اگلے سال انشاء اللہ، یا ابھی نہیں ہوا تو اگلے کچھ سالوں میں ہو جائے گا، ابھی دیر نہیں ہوئی ہے! > جبکہ یہ لوگ اس بات سے غافل ہیں کہ ایک سال تو دور کبھی کبھی ایک مہینے کی تاخیر حساس موقعوں پر جوانی کے نتائج کو متغیر کر سکتی ہے۔ خدا جانے یہ والدین اپنے ماضی کو کیوں یاد نہیں کرتے، کیوں اتنی جلدی جوانی کے طوفان و شور کو جو شادی سے پہلے بپا ہوتا تھا بھلا دیا ہے۔ کیوں خود کو اپنے جوانوں کی جگہ فرض نہیں کرتے ہیں۔ ؟

جوانوں کا خاندان کی چار دیواری سے فرار ہونا، اور ان کا خودکشی کرنا، گمراہ ہو جانا اور بیمار ہو جانا وغیرہ اس حقیقت سے عدم توجہی کا ایک سبب ہے۔ اگر بحث کا عنوان جوانوں کی پرہیزگاری، پاکدامنی اور با ایمان ہونا ہوتا تو ہمارا بیان ان کے بارے میں مزید ہو جاتا۔

والدین کی سہل انگاری یا کوتاہی اس طرح کے افراد کے لیے ظلم سے بڑھ کر ہے اور حقیقت و واقعیت اور عاقبت بینی سے دور ہے۔

جبکہ والدین اپنے جوانوں کے جنسی بحران و طغیان کی حالت سے بخوبی واقف ہوتے ہیں لیکن شادی کی مشکلات اور اس کی ذمہ داریاں ان کو یہ سب جان بوجھ کر بھلا دینے پر آمادہ کر دیتی ہیں ، اور ان کو یقین دلاتی ہیں کہ ابھی ان کے پاس کافی وقت ہے !۔

اتنی جلدی بازی کی کیا ضرورت ہے ؟!۔۔۔۔

ابھی تو ان کے منہ سے دودھ کی بو بھی نہیں گئی !

ابھی تو یہ بچے ہیں شادی کے کیا معنی ؟!

ابھی ابھی۔

لیکن یہ ‘‘ ابھی ‘‘ ابھی کہنا جس کا نتیجہ ایسا دردناک ہو سکتا ہے کہ تمام عمر والدین کا دامن اس سے نہیں چھوٹ سکتا ہے اور وہ بھی ایسے موڑ پر کہ اس کے جبران کرنے کا کوئی راستہ نہیں رہ جائے گا۔

اپنے جوانوں کے شریک حیات کی تلاش میں والدین بہت سختی سے کام لیتے اور بہت بے بنیاد شرائط اور قیود اور کبھی کبھی مضحکہ خیز شرطیں ان کی شادی کے لیے معین کر تے ہیں یہاں تک کہ وسواس کی حدوں تک بات چلی جاتی ہے۔ شاید انہیں اسباب کی وجہ سے شادی کی ضرورت کا احساس ختم ہو جاتا ہے۔

اس لیے کہ انسان اگر کسی چیز کی ضرورت کا احساس کرتا ہے تو اس کی شرطوں کو کم اور سبک کر دیتا ہے۔ اور چشم پوشی، در گذر، مدد یہ تمام ارادوں اور بحثوں کی بنیاد ہے۔ اس کے برعکس اگر انسان کسی چیز کی ضرورت کا احساس نہ کرے تو یہ شئی انسان کو مشکل پسند بنا دیتی ہے اور اس کی طرف مائل ہونے سے روک دیتی ہے۔

میں نے ایک مقالے میں پڑھا ہے کچھ سخت اور وسواسی قسم کے لوگ گاڑی خریدتے وقت اس کو سونگھتے ہیں جیسے گوشت یا سبزی کو سونگھا جاتا ہے ایسے لوگ جب گاڑی خریدنے میں ناک سے کام لیتے ہیں تو پھر واضح ہے کہ اپنے بچوں کے رشتے کی تلاش میں کیا کیا نہ کرتے ہوں گے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اسطرح کے شکی والدین اپنے آپ کو گھڑے میں گرا دیتے ہیں اور ان کو اس کا سرے سے احساس بھی نہیں ہو پاتا ہے۔

شاید اس کی نفسیاتی وجہ یہ ہو کہ وہ افراد جو دھوکے باز اور خود نما ہوتے ہیں چال بازی اور چاپلوسی وغیرہ کے ذریعے اور خود کو سبز باغ میں دکھا کر شکی لوگوں کے دلوں میں جگہ بنا لیتے ہیں۔ ورنہ یہ کام ایک شریف اور عام انسان سے نا ممکن ہے اور وہ ہرگز کسی کو اپنی طرف اس طرح جذب نہیں کرتا ہے۔

صحیح ہے کہ شریک حیات کے انتخاب میں یقیناً دقت سے کام لیا جائے کیونکہ شریک حیات کا انتخاب پوری زندگی کے لیے ہوتا ہے۔

لیکن ‘‘ دقت ‘‘ اور ‘‘سختی و وسواس ‘‘ میں بڑا فرق ہے۔

اگر مد مقابل شریک حیات آپکے لیے مناسب ہے اور با خبر افراد کی تحقیقات بھی اس کی تائید کرتی ہے تو بغیر کسی تردد کے آپکو قدم آگے بڑھانا چاہئیے، اللہ کی مدد کے خواہاں رہیں ، اطمینان رکھیں اس کا نتیجہ آپکے لیے بہتر ثابت ہو گا۔

اسلامی دستورات و عقل اور دانشمند افراد کے بڑی تعداد میں تجربات والدین کو وصیت کرتے ہیں کہ اپنے جوانوں کی شادی کے امور میں عجلت سے کام لیں ، بے مہری اور بیجا سختیوں سے اجتناب کریں۔ سختیوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والے خطرات کو معمولی شمار نہ کریں اور اپنے عزیز جوانوں کے مستقبل کو خطرے میں نہ ڈالیں۔

اسبات کو یاد رکھیں کہ جوانوں کی جنسی خواہشات اس قدر طاقتور ہوتی ہیں کہ ان کے بارے میں اگر لا پرواہی اور تساہلی سے کام لیا تو کوئی بھی خطرناک حادثہ پیش آسکتا ہے۔ پوری تاریخ انسانیت اور انسان کی روزمرہ کی زندگی اسبات کی گواہ ہے کہ جنسی خواہشات سے پیدا ہونے والے خطرات اتنے زیادہ ہوتے ہیں کہ اس کی برابری کوئی اور خطرہ نہیں کرسکتا۔ یقیناً یہ مسئلہ ہر چیز سے زیادہ مہم اور اساسی ہوتا ہے۔

٭٭٭

 

فصل ہفتم

شریک حیات کا انتخاب

شریک حیات کا انتخاب کون کرے گا: جوان یا والدین ؟ یہ میری پسند ہے اور یہ میرے والدین کی پسند!

یہ واقعہ بھی بڑا حیرت انگیز ہے، جس کی مثالیں کم نہیں ہیں ، ایک اخبار میں یہ قصہ اس طرح ذکر تھا:

اٹھارہ سالہ ایک دلہن عقد سے چند منٹ پہلے شادی کا لباس اتارتی ہے اور مردانہ لباس زیب تن کر کے کمرے کی کھڑکی سے صحن خانہ میں کود کر فرار کر جاتی ہے اور نارمک نامی(تہران میں ایک سڑک کا نام نارمک ہے) حمام پہنچ کر اپنے ہاتھ کی رگ کاٹ لیتی ہے اور غش کھا کر گر جاتی ہے۔ کچھ دیر بعد وہاں کے لوگ اس کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اس کو اسپتال میں داخل کراتے ہیں اور اس کو موت سے نجات دلاتے ہیں۔

یہ لڑکی موت سے نجات پانے کے بعد اپنی زندگی کا ماجرا پلیس کے سامنے اس طرح بیان کرتی ہے :

پچھلے سال میں ہائی اسکول میں پڑھتی تھی اور ایک جوان کے ساتھ میرا رشتہ ہو گیا تھا، جس کا انتخاب میں نے خود کیا تھا۔ پچھلے سال ایک دن میں اخبار پڑھ رہی تھی کہ اچانک میری نظر میرے ہونے والے شریک حیات کی تصویر پر پڑی کہ جسے نارمک کے ایک سپاہی دستے نے سونے چاندی کی چوری کے جرم میں گرفتار کیا تھا،۔

یقین نہ کرتے ہوئے میں نے اس کے گھر فون سے رابطہ کیا، تحقیق کے بعد پتہ چلا کہ یہ واقعہ صحیح ہے، اور وہ چوروں کے ایک گروہ کے ساتھ چوری کرنے جاتا تھا اور اب جو کچھ بھی اس کے پاس ہے وہ سب چوری کا مال ہے!

اگر چہ میں اس تحقیق سے قانع نہ ہوئی، اور میں نے اس دعویدار کمپنی کے ایک بڑے سرپرست سے رابطہ کیا تو پتہ چلا کہ یہ سب کچھ جھوٹ تھا اور اس کمپنی کے لوگ کسی ایسے شخص کو اصلاً نہیں جانتے ہیں !

یہاں تک کہ ایک مہینے قبل میرے والد کے دوست میرے لئے ایک چالیس سالہ ثروت مند جوان کا رشتہ لے کر آئے، جس کی بیوی نزدیک ہی میں فوت ہو گئی تھی۔

میں کسی بھی صورت میں اس رشتہ پر راضی نہیں تھی اور کئی مرتبہ میں نے اپنی رائے بھی بیان کی، لیکن کوئی بھی میری بات سننے کو تیار نہیں تھا، میرے والد اس طرح اس رشتے پر اصرار کرتے رہے۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے میری شادی کے دعوت نامہ تقسیم ہونا شروع ہو گئے اور نوبت شادی تک پہنچ گئی اور اس وقت میرے پاس شادی کی محفل سے فرار اور اس کے بعد خود کشی کے علاوہ کوئی راستہ نہ تھا۔

مسئلہ یہ ہے کہ آیا جوانوں کی شادی کے فیصلے والدین، اہل خانہ اور خاندان کے بزرگوں کے اختیار میں ہونا چاہیے یا یہ حساس مسئلہ جوانوں کے میلان اور رجحان کے حوالے کر دیا جائے اور کسی دوسرے کی کوئی مداخلت اس میں شامل نہ ہو۔ اس مقام پر دو نظریات پائے جاتے ہیں جو مکمل طور پر ایک دوسرے کے مخالف ہیں ، اور طرفین میں سے ہر ایک کے پاس منطقی دلیلیں موجود ہیں۔

سب سے پہلے ہم فریقین کی دلیلوں سے آشنائی حاصل کریں گے اس کے بعد صحیح راہ حل تلاش کریں گے۔

جوانوں کے ایک گروہ کا بیان ہے : ہماری یہ بات سمجھ میں نہیں آتی ہے کہ ماں باپ یہ کیوں چاہتے ہیں کہ ہماری شریک حیات کا انتخاب وہ خود کریں ، جبکہ شریک حیات کا انتخاب خود انسان کا حق ہے۔

مثال کے طور پر فلاں لڑکی، والدین کی نظر میں ایک حور ہے لیکن اگر ہم اسے پسند نہیں کرتے تو وہ ہمارے لیے ایک جنگلی چڑیل سے بھی بد تر ہے۔

ماہرین نفسیات، محققین کی تحقیق اور تجربات کا خلاصہ یہی ہے کہ اکثر و بیشتر طلاق کے اسباب وہ شادیاں ہیں جو کم عمری اور والدین کی پسند کے نتیجے میں ہوتی ہیں۔

اصولی طور پر کوئی بھی عزت دار انسان یہ کبھی نہیں چاہے گا کی اس کی اولاد میں کوئی لڑکا ےا لڑکی گھر بار چھوڑکر فرار ہو جائے یا خود کشی کر لے۔ یہ جو کچھ ہوتا ہے سر پرستوں کی کوتاہیوں اور غلطیوں کا نتیجہ ہے اس کی مثالیں جرائد اور اخبارات میں بڑی تعداد میں دیکھی جا سکتی ہیں۔

بالفرض ایک زمانے میں لڑکے لڑکیاں سمجھ بوجھ نہیں رکھتے تھے اپنی مصلحتوں کی شناخت پر قادر نہیں تھے، لیکن آج کا دور اس زمانے سے مختلف ہے۔

اصل میں بنیادی طور پر والدین کے سوچنے سمجھنے کا طریقہ قدیمی ہے، آج کے زمانے سے ان کی فکر ہم آہنگ نہیں ہے اسی وجہ سے والدین آج کے جوانوں کے امتیازات کو درک نہیں کر پاتے۔

مختصر یہ کہ والدین کو چاہیے کہ کلی طور پر خود کو ان مسائل سے علیحدہ کر لیں اور جوانوں کے ذوق، ابتکار، اور فکر کے لئے میدان کھلا چھوڑ دیں۔

لیکن والدین کہتے ہیں :

انسان اگر اپنے وقت کا افلاطون اور بو علی سینا بھی ہو، آغاز جوانی میں نا پختہ ہی ہوتا ہے، دوسرے لفظوں میں یہ کہا جائے کہ جوان، ضرورت سے زیادہ خوش فہم اور بہت جلد یقین کر لیتے ہیں ، اور نفسیاتی پاکیزگی کی خاطر وہ ظاہری خوبیوں اور جھوٹے حسین چہروں کے فریب میں آ جاتے ہیں وہ اس بات سے بے خبر ہوتے ہیں کہ ان جھوٹے حسین چہروں کے پیچھے کیسی ہولناک اور بدنما صورتیں پوشیدہ ہیں۔

بہت سے منحرف افراد ایسے ہیں ، جنہوں نے جوان لڑکے لڑکیوں کو جال میں پھنسانے کے لیے حیرت انگیز عاشقانہ ادبی جملے یاد کر لئے ہیں اور نہایت ہی ہوشیاری سے ابتدا ء میں خود کو ان کے حوالے کر دیتے ہیں اور پھر بہت ہی جلدی شیطانی ہنر مندی کے ذریعے پرکھ لیتے ہیں کہ ان کے دل میں کیسے جگہ بنائی جائے قدماء کا محاورہ ہے :(اول خودش را جا کند بعدا ببین چہ ھا می کند )۔ پہلے اپنے لئے جگہ بناؤ پھر دیکھو کیا نہیں کر سکتے۔

پھر اس کے بعد بات ہاتھ سے نکل جاتی ہے اور واپسی کا کوئی راستہ نظر نہیں آتا ‘‘انسان جو سوچتا ہے اس کے برخلاف ہوتا ہے ‘‘۔

جوان چاہے کتنا بھی ہوشیار اور با فہم کیوں نہ ہو آخر کار اس راستے پر چلنے کے لئے اس کی راہنمائی ضروری ہوتی ہے اس لیے کہ یہ راستہ وہ پہلی بار طے کر ر ہا ہے، جو لوگ اس راستے سے گزرے ہیں وہ بھی تائید کریں گے کہ راہنما کا ہونا کس قدر ضروری ہوتا ہے۔ گویا مراحل طے کرنے کے لئے خضر کا ساتھ ضروری ہے، اس لئے کہ راستہ اتنا تاریک ہے کہ گمراہی کا خطرہ ہر موڑ پر موجود ہے، اس سے ڈرنا ہی چاہیے۔

کیا والدین اپنے بچوں کے دشمن ہیں ! جو ان کی زندگی کے اہم ترین مصالح کو نظر انداز کر دیں ! وہ اپنے بچوں کو اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز رکھتے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ وقت پڑنے پر اپنی جان بچوں پر نچھاور کر دیتے ہیں۔

والدین کتنے بھی جاہل اور بے خبر ہوں پھر بھی انہوں نے دنیا کے نشیب و فراز دیکھے ہیں اور ایک مشترک زندگی کے امتیازات جو آئندہ زندگی میں اثر انداز ہوتے ہیں اس سے بخوبی آشنا ہیں ، وہم و خیال سے حقیقت کو تشخیص دینے کی قدرت رکھتے ہیں۔

اور تمام باتوں سے قطع نظر اخلاقی نقطہ نگاہ سے بھی یہ عمل بہت ہی دل خراش اور تلخ ہے کہ والدین جن کو اپنی اولاد کی زندگی پر پورا حق ہوتا ہے، جنہوں نے اپنی تمام توانائی اور خوشیاں اپنی اولاد کی راہ میں قربان کر دی ہوں ، ان کو اس موضوع سے بالکل الگ کر دیا جائے، ایسا حساس موضوع جو والدین کی آئندہ زندگی میں موثر ہے، اور ان کے پاک و پاکیزہ احساسات کو سرے سے پامال کر دیا جائے، اور صرف اپنی ہوس کو پورا کرنے کی فکر میں ہو !اور والدین کی مرضی کے بغیر اپنے شریک حیات کا انتخاب کر لیں ، اور اس کے اوپر والدین کے جو احسانات ہیں ان کو بھول جائے، یہ کام کسی بھی طرح انسانی قوانین سے سازگار نہیں ہے۔

لیکن ہمارے عقیدے کے مطابق والدین اور جوانوں کے دونوں نظریات میں سے کوئی بھی مکمل طریقہ سے جامع اور مانع نہیں ہے۔

نہ والدین کو حق ہے کہ وہ اپنی نظر کے مطابق شریک حیات کا انتخاب کر کے جوانوں کو شادی پر مجبور کریں ، اور نہ جوانوں کے لئے مناسب ہے کہ اس اہم کام کو اکیلے انجام دیں۔

بلکہ صحیح راستہ یہ ہے کہ باہمی کوشش، غور و فکر، اور آپسی مشورت سے اس اہم عمل کو انجام دیا جائے۔ والدین کو اس حقیقت کی طرف توجہ کرنا چاہئے کہ شریک حیات کا انتخاب صرف منطق و استدلال سے نہیں ہوتا، بلکہ اس انتخاب کا حقیقی محرک ذوق ہوتا ہے۔ اور یہ بات مسلم ہے کہ تمام افراد کا ذوق ایک جیسا نہیں ہوتا ہے حتی دو حقیقی بھائیوں کا ذوق بھی مختلف ہوتا ہے۔

ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ زبردستی شادی پائیدار ثابت ہو، آخر کار اس کا نتیجہ جدائی ہی ہوتا ہے چاہے جلدی ہو جائے یا دیر سے وجود میں آئے، اورسب سے بدتر اور خطرناک مقام وہ ہوتا ہے کہ جب والدین جوانوں کے لئے شریک حیات کے انتخاب میں اپنے ذاتی مصالح اور مفاد ات کو معیار بنا لیں ، اس طرح کے والدین بہت گمراہ ہوتے ہیں۔

دوسری طرف جوانوں کو بھی یہ بات جاننا چاہے کہ اکثر جوانی میں عشق کا طوفان انسان کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیتا ہے اور اس وقت اس کو پنے محبوب کی اچھائی کے سوا کچھ نظر نہیں آتا اور وہ اس کے تمام عیوب کو فراموش کر دیتا ہے، لہذا اس امر میں اپنے ہمدرد والدین، مطلع دوست و احباب سے فکری مدد حاصل کریں۔

اس کے علاوہ جوان چاہے کتنے ہی قوی اور طاقتور کیوں نہ ہوں پھر بھی زندگی کے طوفان اور حادثات میں والدین، دوست اور رشتہ داروں کی مدد سے مستغنی نہیں ہیں۔

اگر جوان اس مہم سے والدین کو علیحدہ کر دیں تو پھر بعد میں آنے والی مشکلات میں ان کی مدد اور حمایت حاصل نہیں کر سکتا، جبکہ ان کے اعتماد اور بھروسہ کا حاصل کرنا جوانوں کے لئے بہت ضروری ہے۔

اخلاقی نقطہ نگاہ سے بھی جوانوں کا فریضہ ہے کہ جہاں تک ممکن ہو اس امر میں دلسوز والدین کو محبت کے ساتھ اپنے ہمراہ لے کر چلیں ، اس لئے کہ اسلامی دستورات میں بھی اس باہمی کوشش کو بڑے خوبصورت انداز میں پیش کیا گیا ہے، خصوصاً کنواری لڑکی کے بارے میں حکم دیا گیا کہ شادی کے لئے سب سے پہلے خود لڑکی سے رضایت حاصل کی جائے اس کے بعد اس کے سر پرستوں کی موافقت لی جائے۔ البتہ ایسے موارد کم ملتے ہیں جن میں والدین اپنی اولاد کی مصلحت کے برخلاف اپنے فوائد کو مد نظر رکھ کر اپنے بچوں کی شادی کرتے ہیں ، جواسلامی قوانین سے مستثنی ہیں۔ اسی طرح ایسے موار دبھی کم ہیں جن میں شادی اولاد کی مصلحت کے مد نظر ہو اور والدین اس پر معترض ہوں ، ان میں سے کوئی ایک نظریہ بھی معتبر نہیں ہے اور ایسے موارد میں ان کی پیروی کرنا لازم نہیں ہے۔

٭٭٭

 

آٹھویں فصل

شعلہ ور عشق

جوانوں کی زندگی میں ایک پر خطر اور نہایت سخت راستہ عشق کی عظمت و منزلت یا عشق کے جنون اوراس کی بیماری کے متعلق بہت زیادہ بحثیں ہوئی ہیں اور شاید بہت کم ایسے الفاظ ہیں جن کے متعلق اتنی کثرت سے مختلف و متناقض، تعبیرات بیان ہوئی ہیں۔

چنانچہ بعض مصنفین اس کی اہمیت کو بہت بلند و بالا سمجھتے ہوئے کہتے ہیں : عشق زندگی کا تاج اور دائمی خوش نصیبی کا نام ہے۔ (جرمن دانشمندگوئٹا )

‘‘ ہزیہ ‘‘ کے بقول : عشق معمار عالم ہے۔

‘‘توماس ‘‘ نے عشق کی معجز نمائی کے اثر کو بیان کیا ہے اور اس کا عقیدہ ہے : عشق روح کو قوی اورانسان کو زدہ دل رکھتا ہے۔

مشرقی فلاسفہ کا ایک گروہ اس سے بھی آگے بڑھ گیا اور ان کا عقیدہ ہے: دنیا کی ہر حرکات و سکنات کے پیچھے ایک قسم کا عشق کار فرما ہے۔ حتیٰ اجرام فلکی کی حرکات بھی اسی عشق کا سبب ہیں۔

لیکن اگر اس لفظ کے معنی کو مزید وسیع کر دیا جائے یعنی اگر اس سے ہر قسم کی کشش اور غیر معمولی جاذبیت مراد لی جائے تو ان کے اقوال کی تائید ضروری ہو جاتی ہے۔

ان بہترین تعبیرات اور توضیحات کے مقابلے میں دوسرے مصنفین اور فلاسفہ نے عشق پر سخت حملے کئے ہیں اور عشق پر بہت سی تہمتیں لگا دی ہیں۔ اور عشق کو ایک بیماری اور نفرت انگیز حقیر شی شمار کیا ہے۔

ایک معروف مشرقی مورخ کا بیان ہے : عشق کی مثال دق، کینسر اور بائے گٹھیا جیسی طولانی بیماری کی طرح ہے، جس سے عاقل انسان کو فرار کرنا چاہئے!

کسی زبان کا محاورہ ہے : عشق کی مثال شیمپین شراب کی ہے۔

دوسرے دانشمند افراد جیسے‘‘ کوپرنیک‘‘  جو فلکیات میں بہت معروف ہے اس نے عشق کے حوالے سے خود کو تحقیر کرتے ہوئے بڑی احتیاط کے ساتھ کہا : عشق اگر ایک قسم کا جنون نہیں ہے تو حد اقل ایک ناتواں مغز کا نچوڑ ضرور ہے۔

آخر کار بعض افراد جیسے کارلایل نے بھی عشق پر اس طرح حملہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ عشق فقط ایک قسم کا جنون نہیں ہے بلکہ کئی قسم کے جنون کا مرکب ہے۔

اس طرح کی متناقض تفسیر کو کسی ایک واقعہ پر حمل نہیں کرنا چاہیے در حقیقت یہ اختلاف یا تناقض تبصرہ کرنے والوں کے زاویہ نظر کا اختلاف ہے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر لکھنے والا عشق کے بہت سے چہروں میں فقط ایک چہرے کو اپنی زندگی میں زیادہ دیکھتا ہے اور اسی کو زیر بحث لاتا ہے لہذا اس بات کا اعتراف کرنا پڑے گا : اگر عشق سے مراد دو انسانوں یا کلی طور پر دو موجود کے درمیان ایک غیر معمولی قوی کشش اور جاذبیت ہو جو ایک عظیم ہدف کے لیے ہو، تواس سے اچھی اور کیا بات ہوسکتی ہے؟!

کیونکہ اس ابتکار کی قوت اس قدر ہوتی ہے کہ اس کی راہ میں آنے والی ہر رکاوٹ کو وہ اپنے قبضے میں لے لیتا ہے، اور اپنے ہدف کے راستے میں آنے والی تمام مشکلات کو پیچھے چھوڑ دیتا ہے۔

عشق کی جو اتنی مدح سرائی کی گئی ہے وہ اس کی خلاقیت اور بے نظیر قوت و قدرت کی وجہ سے ہے، جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ بہت سے ادبی، معماری اور فنی شاہکار اسی کشش اور جاذبیت کی قوت کا نتیجہ ہیں۔

لیکن اگر عشق سے مراد ایسی کشش اور جاذبیت کی قوت ہو جو دو انسانوں کو گناہ، آلودگی اور فحشاء کی طرف لے جائے، تو اس حالت میں عشق کی مذمت میں جو کچھ کہا گیا ہے وہ کم ہے، کیونکہ کہ اس کے بدنما داغ اس قدر رنگین ہیں جن کا صاف کرنا آسان نہیں ہے۔

اگر اس کشش و جاذبیت سے مراد دیوانہ کرنے والا ہو جس کے ذریعہ کلی طور پر عقل خراب اور بے کار ہو جائے اور اس کی وجہ سے انسان ہر طرح کے جنون آمیز کام کرنے لگے، تو عشق کی جتنی بھی تحقیر کی جائے بجا ہے۔

فرانسیسی دانشمند ‘‘اسٹینڈل‘‘ کے بقول : ‘‘ عشق سے مربوط مسائل میں اچھائی اور برائی کے درمیان صرف ایک بوسہ (چومنے)کا فاصل ہے !

مختلف نظریوں کے مطابق عشق کا خلاصہ یہ ہے کہ عشق کے مختلف چہرے ہیں اس بنیاد پر اس کی تعریف اور برائی دونوں بجا ہیں۔

عشق کے شاعرانہ پردے میں : اس مقام پر قابل توجہ موضوع جو پاکیزہ جوانوں کے لئے بہت ضروری ہے وہ یہ ہے کہ آج کے دور میں کون سا جرم اور تباہ کاری ایسی نہیں ہے جومقدس عشق کے نام پر انجام نہیں دی جاتی، آج ہر عیب کرنے والا، ہوا و ہوس کا پرستار خود کو سچا عاشق کہتا ہوا نظر آتا ہے۔

ہر دھوکے باز دیو صفت جن کا ہدف صرف اپنی حیوانی شہوتوں کا پورا کرنے کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا ہے، یہ لوگ عشق کے پردے میں شاعرانہ انداز کی مدد سے اپنے اس شیطانی رذیل مقصد کو عملی جامہ پہناتے ہیں ، شاید یہی وجہ ہے کہ ایسے لوگ جب اپنے اس شیطانی مقصد میں کامیاب ہو جاتے ہیں تب ان کے چہرے سے گویا پردہ اٹھتا ہے اور تمام کئے وعدے اور وعید کو بھول جاتے ہیں ، بالکل اسی طرح جیسے پانی سے بھرے ہوئے ایک برتن کو الٹ دیا جاتا ہے اور اس میں کوئی قطرہ باقی نہیں رہ جاتا، اسی طرح ان کا دل محبت و عاطفت اور ہزاروں محبت کے کئے ہوئے وعدوں سے خالی ہو جاتا ہے۔

ایسی صورت میں معشوق، دل شکستہ اور پشیمان ہو جاتا ہے اور اس کی دنیا میں غم و اندوہ چھا جاتا ہے۔

جوانوں کو چاہیے بڑی سمجھ بوجھ کے ساتھ ایسے جھوٹے عشق کے دعویداروں سے آگاہ رہیں ، اس لئے کہ اس طرح کے فریب کاروں کے پاس جھوٹ اور دھوکے کے علاوہ کوئی سرمایا نہیں ہوتا، اور ظاہری عشق سے بھرے ہوئے دل ایک وقت میں کئی جگہ گروی ڈال دیتے ہیں ، اور دھوکا دھڑی اور فریب کاری کے ذریعے اپنے کو سچا عاشق ثابت کرتے ہیں۔

توجہ رہے آج کے دور میں بہت سے لوگ اس لباس میں نظر آتے ہیں یہ ہی وہ لوگ ہیں جو بے حیائی کی اس حد تک پہنچ جاتے ہیں کہ ایک جھوٹ و فریب سے بھرے خط کو قل کر کے کئی لڑکیوں کو ایک ساتھ بھیجتے ہیں اور ہر جگہ عشق کے پاکیزہ لباس کو زیب تن کر کے دھوکا دیتے ہیں۔ اور اس عشق کے نام پر ہزاروں جرم کا ارتکاب کرتے ہیں۔

نہ فقط لڑکیوں کو آگاہ رہنا چاہیے بلکہ لڑکے بھی ہوشیاری سے کام لیں ، اس زمانے میں مختلف قسم کے جال عشق کے نام سے بچھے ہوئے ہیں ایسے جال کہ جس میں پھنسنے کے بعد اس سے رہا ئی بہت مشکل ہو جاتی ہے۔

اس لئے کہ ایک لمحے کی غفلت یا بیجا خوش بینی کا جبران ممکن ہے تمام عمر ادا نہ ہو سکے۔

خصوصاً ایسے افراد جو محبت کی کمی کا شکار رہے ہیں اور محرومیت کے ساتھ زندگی بسر کی ہے وہ بہت جلد ان عشق و محبت کے اظہار میں تسلیم ہو جاتے ہیں ، اور یہی محرومیت فریب اور دھوکا کھانے کا سبب بن جاتی ہے، اس طرح کے افراد کو دوسروں کی نسبت زیادہ احتیاط سے کام لینا چاہئے۔

آنے والی بحث ‘‘میں عشق کے خطرے‘‘  کے عنوان سے ضروری اور مہم مطالب پیش کئے جائیں گے جو اس بحث کا تکملہ ہوں گے۔

٭٭٭

 

نویں فصل

عشق کے خطرے

جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں ‘‘ عشق ‘‘ کے معنی ‘‘ غیر معمولی طاقتور کشش اور جاذبیت کے ہیں جو ایک پاکیزہ ہدف تک پہنچنے کا سبب بنتی ہے۔ ساتھ ساتھ روح انسانی کی بلندترین تجلی اور خلقت کا ایک عظیم شاہکار ہے۔

یقیناً اگر شادی کی بنیاد پاکیزہ محبت اور عشق پر رکھی جائے تو وہ ہمیشہ محکم، مستحکم، نقائص سے خالی، ثمرات سے پر، قابل اطمینان اور آرام دہ ثابت ہوتی ہے۔

لیکن یہ سب جھوٹے اور دھوکے باز عشق سے بالکل مختلف ہے۔ جو غیر معمولی طور پر ظاہرا آتشیں اور جلانے والا ہوتا ہے! یہ زود گزر ہوس اور نا جائز شہوت کے برخلاف ہے جس میں انسان دوسری تمام چیزوں کو بھلا دیتا ہے اور پاک و مقدس عشق کے بجائے دوسری چیزوں میں گرفتار ہو جاتا ہے۔

حالانکہ ان پاک اور واقعی عشق و محبت میں بھی عظیم خطرات کا سامنا ہوتا ہے جس سے ہر گز بے توجہ نہیں ہونا چاہیے۔

عشق کا پہلا خطرہ: عام طور پر ایک عام محبت شدید وابستگی کے علاوہ عیوب اور نقائص پر پردہ ڈالنے کا کام بھی کرتی ہے، مثال کے طور پر ہر انسان اپنی دو آنکھوں میں ایک رضا اور دوسری نفرت کی نظر رکھتا ہے، عشق کرنے کے بعد انسان کلی طور پر نفرت کی نظر کو بالکل بند کر لیتا ہے یہاں تک کہ معشوق کے بد ترین عیوب کو عجیب و غریب توضیح اور حسن کی بہترین تعجب آور باتوں سے تعبیر کرتا ہے۔

یہاں تک کہ اگر کوئی ایسے عاشقوں کو نصیحت بھی کرنا چاہے تو اس کا شدید عکس العمل سامنے آتا ہے اور اس کی طرف سے دل میں کینہ پیدا کر لیتے ہیں اور خود یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ نصیحت کرنے والا ان کے ساتھ دشمنی، حسد اور تنگ نظری سے کام لے رہا ہے لہذا اس کے ساتھ لڑائی اور جھگڑے پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔

اس طرح کے افراد جو عشق کی سخت تاریکی میں سر گرداں ہو گئے ہیں وہ معمولاً خود میں یہ تصور کرتے ہیں کہ انہوں نے اس عشق کے سائے میں ایسی چیز کو درک کر لیا ہے، جس سے دنیا کے تمام انسان محروم ہیں ، اگر کوئی انہیں نصیحت کرتا ہے تو وہ سمجھتے ہیں کہ یہ نصیحت اس کی لاعلمی اور صحیح ادراک نہ ہونے کا نتیجہ ہے، فارسی کا مقولہ ہے ‘‘اگر مجنوں کی آنکھ سے دیکھا جائے تو لیلی میں کوئی برائی نہیں مل سکتی‘‘۔

ایسے عاشق کو نصیحت کرنا بے سود ہوتا ہے بلکہ کبھی کبھی خود نصیحت ایک خطرہ بن جاتی ہے۔

لیکن عام طور پر اس طرح کے عشق جنسی آمیزش کے بعد خاموش ہو جاتے ہیں اور اچانک تمام پردے ہٹ جاتے ہیں اور عاشق کی حقیقت شناس نظر کام کرنا شروع کر دیتی ہے اس وقت گویا یہ بے قرار عاشق ایک عمیق لذت اور طویل نیند سے بیدار ہوتا ہے اس وقت وہ سمجھتا ہے کہ اس نے اب خیالی دنیا سے نکل کر عالم حقیقی میں قدم رکھا ہے۔

اس کی نظر میں عشق کی تمام اہمیت اور قیمت ختم ہو جاتی ہے اور ہر چیز نئے رنگ میں نظر آتی ہے، ہر وہ چیز جو سابق میں اس کو بدنما اور داغ دار معلوم ہوتی تھی اچھی لگتی ہے۔

ایسے موقع پر شرمندگی اور ندامت کے نا قابل بیان سائے اسے گھیر لیتے ہیں اور تاریکی کی مانند پریشانیاں اس کی روح کو بے چین اور وحشت زدہ کر دیتی ہیں۔

کبھی کبھی ان دو حالتوں کے درمیان، فاصلہ اتنا طویل ہو جاتا ہے کہ اس کی تمام زندگی اسی میں دفن ہو جاتی ہے اور آخر کار وہ پریشانی اور وحشت سے تنگ آ کر خود کشی اختیار کر لیتا ہے۔

اگر چہ ایسے حالات اور مشکلات سے دامن چھڑانا آسان کام نہیں ہے، اور بے قرار عاشق اور اس کے جیسے دوسرے تمام دوست، عشق کے تمام صفحات کو محو کر دیتے ہیں تاکہ ان کی زندگی کے دفتر میں عشق کا کوئی گذر تک نہ ہو۔

یہی وجہ ہے کہ کوئی بھی عقلی اور منطقی دلیل ان کے لئے کار مند ثابت نہیں ہوتی ہیں ، چہ جائیکہ یہ لوگ ان حالات میں تمام لوگوں سے الگ سوچتے ہیں لہذا اس بنا پر ان کی اور دوسروں کی دنیا میں فاصلہ اس قدر زیادہ ہو جاتا ہے کہ اصولی طور پر جو زبان ان کے اور دوسروں کے درمیان افہام و تفہیم کے لئے مشترک ہوتی ہے اس کا وجود ختم ہو جاتا ہے۔

اس قدر فاصلہ اس لئے ہوتا ہے کہ کہ ایسے افراد صرف عشق کی زبان سمجھتے ہیں اور بقیہ لوگ عقل اور منطق کی زبان سنتے اور بولتے ہیں۔

ایسے افراد سے وابسطہ دوست و احباب جن کو اپنے دوست کی خطا اور غلطی کا علم ہے، کو نفسیاتی طریقہ اور بہت ہی ہوشیاری کے ساتھ ان کے اندر نفوذ کرنا چاہئے اور غیر مستقیم طریقہ سے مسائل کو ان کے سامنے واضح کرنا چاہئے، اس بات کا خیال کرتے ہوئے کہ ان کو احساس نہ ہوسکے اور ان کے زخم مزید تازہ نہ ہوں۔ ان کی حقیقت، اعتراضات اور ان کی غلط فہمیوں کو سوالیہ انداز میں سمجھائیں ، اور ایسا کام کریں جس سے یہ دیوانہ عاشق جو خودسے عشق کی غلطی میں مبتلا ہوا ہے، آہستہ آہستہ اپنے پیروں اس گمراہ وادی سے واپس آ جائے، اور اس طرح تصور کرے کہ اس نے کسی کی مدد کے بغیر حقیقت کو درک کیا ہے اور اپنی مرضی سے اس راستے سے پلٹا ہے، اورکسی نے اس کی راہ نمائی نہیں کی ہے۔

تمام جوانوں کو چاہیے عام حالات میں بھی خود کو اس خطرے سے محفوظ رکھیں تاکہ ان کا شکار نہ ہو سکیں کیوں کہ اس کا شکار ہونے کے بعد انسان کا ذہن بند ہو جاتا ہے اور عقل و منطق اپنا اثر کھو دیتی ہے لہذا ایسے مواقع پر ان کی مدد کر کے انہیں اس سے نجات دلانا چاہیے۔

جوانوں کو چاہئیے کہ خود تلقین کرتے رہیں ، اور ہمیشہ دانشمند افراد اور صاحبان عقل و فہم اور تجربہ کار لوگوں کی نصیحتوں پر عمل پیرا رہیں اور مشکلات سے نپٹنے کے لئے ان افراد کا سہارا لیں۔

ایسی منزل پر پہونچے ہوئے عاشقوں کے ساتھ معمولی ہمدردی، ان کے محبوب کی تعریف اور ان کا یہ اعتراف کہ انہوں نے انتخاب میں مکمل خطا نہیں کی ہے انہیں اپنی طرف جذب کر سکتا ہے ایسے میں جوان اس نصیحت کرنے والے کی بات پر توجہ دے سکتا ہے۔

قابل توجہ بات یہ ہے کہ ایسے افراد کی تحقیر اور سرزنش کرنا منفی اثرات کا سبب بنتا ہے لہذا اس عمل سے شدت سے اجتناب کیا جائے، اس کے علاوہ یہ بات انصاف کے خلاف بھی ہے کہ ایسے لوگ جو پہلے ہی سے گمراہی اور خطرے میں ہیں انہیں مزید ملامت اور سرزنش کی سزا دی جائے۔

٭٭٭

 

دسویں فصل

باغی عشق

عشق ابتداء ہی سے باغی اور خونی رہا ہے۔

عشق کی بغاوت ہمیشہ مورخین اور شعراء کے درمیان مشہور رہی ہے۔

عشق (خصوصاً اگر دیوانگی کے ساتھ ہو (اگرچہ عشق میں شدت نہ ہو تو شاید اس کو عشق کا نام نہ دیا جائے)کی کوئی حد اور قید نہیں ہے۔

عشق، معاشرے کی حدیں توڑ دیتا ہے۔

اخلاقی مسائل کا کھلواڑ بنا دیتا ہے۔

مصلحت کے تقاضوں اور وعظ و نصیحت کی کبھی موافقت نہیں کرتا۔

شاید اسی وجہ سے کہا جاتا ہے : ‘‘جب عشق ایک دروازے سے داخل ہوتا ہے تو عقل دوسرے دروازے سے نکل جاتی ہے‘‘۔

‘‘عشق ‘‘ اور ‘‘عقل‘‘ کی گفتگو اور ان دونوں کا ایک دوسرے کی ضد ہونا کوئی نیا مسئلہ نہیں ہے بلکہ اس کا ذکر ادبی آثار میں بھی ملتا ہے۔

اگر ہم مشاہدہ کریں تو اسی رہگذر کا مسافر انگلینڈ کا معروف فلسفی بھی عشق پر حملہ کرتا ہے اور اس کو ایک قسم کا جنون یا کئی قسم کے جنون کا مرکب شمار کرتا ہے۔

اگر عشق کو صحیح اور جائز ہدف کے لئے ایک طاقتور عامل اور اخلاق کی صورت میں دیکھا جائے تواس کی عظمت اور کمال قابل انکار نہیں ہے۔

اسی راستے پر چلتے ہوئے قدماء نے عشق کو رسوائی سے تعبیر کیا ہے، شکستہ دل عاشقوں کی لا تعداد کہانیاں ان کی رسوائی کو بیان کرتی ہیں ، جو آج بھی اور پرانے زمانے کے لوگوں کی زبانوں پر موجود رہی ہیں۔

یہاں تک کہ شیریں زبان شاعر فروغی بسطامی نے اس کو اپنے شعر میں اس طرح بیان کیا ہے:

رسوای عالمی شدم از شور عاشقی !

ترسم خدا نہ کردہ کہ رسوا کنم تورا!

عشق کے شوق میں پوری دنیا میں رسوا ہو گیا خدا سے ڈرتا ہوں کہ کہیں تجھے رسوا نہ کر دوں

اس مقام پر ہم اس موضوع کے کچھ خاص نفسیاتی اسباب اور عوامل کی طرف اشارہ کریں گے اور عشق کی نفسیاتی حالت کے سرچشمہ کو تلاش کریں گے:

عشق آگ کی مانند سلگانے والا ہوتا ہے اور عاشق کے مکمل وجود کو ایک شعلہ بنا دیتا ہے اور اس کے پورے وجود کو اپنے رنگ میں رنگ لیتا ہے گویا اس کے وجود کی تمام تر قوتوں کو ایک قوت میں تبدیل کر دیتا ہے اور اس قوت کا نام عشق ہے۔

حقیقت میں عشق کی قدرت نمائی کا راز یہی ہے کہ ایک تو خود اس کی عمومی قوت، دوسرے ان تمام قوتوں کا متمرکز ہو جانا ہے۔ انسان کی مختلف قوتیں جیسے قوت عقلائی، قوت عاطفی، قوت غریزی جوانسان کے وجود میں ہوتی ہیں ، ایک بڑی نہر سے نکلنے والی چھوٹی چھوٹی نہروں کی طرح ہے اور ضرورت کے مطابق مختلف زمینوں سے ان کو بہایا جاتا ہے، یہ بات بدیہی ہے کہ اگر ہم ان تمام چھوٹی نہروں کو ایک ساتھ ایک نہر میں چلا دیں تو بقیہ ساری زمینیں خشک ہو جائیں گی اور ایک نہر میں پانی کی زیادتی سے طغیانی پیدا ہو جائے گی۔

اسی طرح ایک دل شکستہ عاشق کو سوائے اپنے محبوب کے کسی چیز کا احساس اور فکر نہیں ہوتی ہے۔ اس کی خواہش یہی ہوتی ہے کہ ہر نشست، ہر محفل میں اس کے محبوب کا تذکرہ رہے وہ اپنے وجود کے ہر ذرے میں اپنے محبوب کا متلاشی رہتا ہے اور ہر حادثے کی ہر ایک معمولی مناسبت بھی عشق کی قوت سے اس کو اس کے محبوب سے مرتبط کرتی ہے۔ ہوا کا ہر جھونکا، باد نسیم کا چلنا، نہر کی لہریں ، درختوں کے پتوں کی حرکت، پرندوں کا پھڑ پھڑانا، لوگوں کی رفت و آمد وغیرہ ان سب میں وہ اپنے معشوق کو دیکھتا اور سنتا ہے۔

ایک عاشق کے خطرناک مراحل یہاں سے شروع ہوتے ہیں اس لئے کہ عشق اس منزل پر کسی بھی کنٹرول یا قید و بند کو قبول نہیں کرتا، اور عاشق کا وجود ایک ایسے شہر کی مانند ہو جاتا ہے جس کے سامنے شہر کو تباہ و برباد کرنے والے دشمن کے سپاہی ہوں اور اس کے اپنے پاس دفاع کا کوئی سامان نہ ہو، اور وہ شہر خود کو ان کے سامنے تسلیم کر دے۔ اسی طرح عاشق اپنے پورے وجود کو عشق کے سامنے تسلیم کر دیتا ہے۔

ایسے موقع پر اس کی گردن میں پھندا ڈالتا ہے اوراس کو جہاں چاہتا ہے لے جاتا ہے، چاہے وہ جگہ کعبہ ہویا دیر ہو۔

اس موقع پر اگر اس کا کوئی ہم درد دوست نہ ہو اور کوئی اس کی صحیح راستے کی طرف راہنمائی نہ کرے تو وہ کچھ بھی کر سکتا ہے، کیونکہ اس کے لئے وصال معشوق کے علاوہ دنیا کی ہر چیز ہیچ ہے۔ بدنامی، خوش نامی، گناہ، پاکیزگی سب اس کے لئے برابر ہے۔ نہ وہ اپنے کل کے بارے میں سوچتا ہے اور نہ ہی اپنی اور اپنے دوست و احباب کی عزت و آبرو کی پروا کرتا ہے، اور نہ ہی کسی رسوم و قیود کا خیال کرتا ہے چاہے وہ معاشرتی ہوں یا اخلاقی۔

اگر چہ وہ اس عالم میں غلط ارادہ نہیں رکھتا بلکہ وہ خود اپنے آپ سے بے خبر ہو کرسر گرداں ادھر ادھر کشاں کشاں رہتا ہے۔ اور اپنی زندگی کا تمام سرمایہ اس معاملہ میں گنوا دیتا ہے۔

اور جب اس کو ہوش آتا ہے (اور ہوس سے لپٹے ہوئے عشق میں ہمبستری کے بعد یہ ہوش آتا ہے) تو سب کچھ کھو جانے اور غلطیاں انجام دینے کی وجہ سے رنج و غم کا ایک طوفان اس کے اندر بپا ہو جاتا ہے۔

ماضی کی وحشتناک ندامت اس کے دل و دماغ پر بوجھ بن جاتی ہے لیکن اس وقت تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے اور وقت ہاتھ سے نکل چکا ہوتا ہے۔

ممکن ہے کوئی جرم انجام دینے کے بعدکسی قید خانہ میں یہ ندامت اور بیداری آئے، یا معاشرے سے رابطہ منقطع، یا گھر اور والدین کی زندگی سے فرار ہونے کے بعد دور کسی گوشہ تنہائی میں وقوع پذیر ہو، ےا فساد، گناہ کے مراکز سے نکلنے کے بعد کسی برائی اور نشے وغیرہ کا شکار ہونے کے بعد سمجھ میں آئے۔

جوانوں کو چاہیے کہ ان خطروں سے ہمیشہ آگاہ رہیں جن کے مقدمات ظاہرا بہت سادہ ہوتے ہیں اور ممکن ہے ایک معمولی نظر سے یہ مقدمات شروع ہو جائیں اس لئے پہلے ہی مرحلے سے آگاہ ہونا چاہیے، کیونکہ ابتدا میں اس کو کنٹرول کرنا آسان ہے اور خود کو بچایا جا سکتا ہے ورنہ دیر ہو چکی ہوتی ہے۔

بہترین کاموں کا انتخاب کریں ، اپنے وقت کو تعلیم اور ورزش جیسے کاموں میں مصروف رکھیں ، اور مورد نظر فرد کو بھول جائیں ، غافل اور منحرف دوست و احباب سے جو اس طرح کی مشکلات میں مبتلا ہیں کنارہ کشی کر لیں ، ان مسائل کے بارے میں غور و فکر سے کام لیں۔

جوانوں کو چاہیے جو خلا ایک پاک اور مقدس عشق کے لئے ان کے دلوں میں پایا جاتا ہے اسے اپنے آنے والے شریک حیات کے لیے محفوظ رکھیں۔ اور ہوا و ہوس سے آلودہ عشق جو ظاہرا مقدس صورت میں رونمائی کرتا ہے اس سے شدت سے اجتناب کریں۔

دوستوں کا فریضہ بھی ایسے حالات میں مزید سنگین ہو جاتا ہے، انہیں چاہیے کہ اپنے دوستوں کو بہترین طریقے سے دوستانہ انداز میں اس غفلت سے بیدار کریں قبل اس کے کہ نصیحت قبول کرنے کی صلاحیت انہیں خیرباد کہہ کر چلی جائے۔

٭٭٭

 

گیارہویں فصل

عشق اور خواب و خیالات

بہت سے لوگوں کے فرار، ایک دوسرے سے جدائی اور خود کشی کرنے کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ ان کے گذشتہ عاشقانہ خیالات، ان کی حقیقی زندگی سے مطابقت نہیں کرتے۔

ہر جوان ہمیشہ اس خطرے کی زد پر رہتا ہے کہ کہیں غیر مقدس عشق میں گرفتار نہ ہو جائے، اوراس کے نہ چاہتے ہوئے تمام چیزیں حتی وہ خود اور شاید اس کے بعض قریب اور دور کے رشتہ دار بھی اس خطرے میں پڑ جاتے ہیں

اس بنیاد پر ہر جوان اور والدین کو اس خطرے سے آگاہ کرنا چاہئے تاکہ جہاں تک ممکن ہو اس سے بچنے کا انتظام کیا جا سکے۔

تمام پودوں کے بر خلاف عشق بہت تیزی سے نشو و نما کرتا ہے منٹوں میں سالوں کا کام کرتا ہے جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں کہ کبھی کبھی ان کے اندر ایک نظر ایسا بیج بو دیتی ہے جو بہت طاقتور درخت کی صورت میں رونما ہوتا ہے خصوصاً ان افراد کے لئے جو اس موضوع میں خاص استعدکے مالک ہیں۔ جی ہاں صرف ایک لمحہ اور ایک نظر میں یہ سب کام ہو جاتا ہے۔

عشق کی یہ خاص کیفیت، نفسیاتی واقعہ کو وجود میں لانے کا سبب بنتی ہے کہ اس موضوع کا زیادہ سے زیادہ مطالعہ کیا جائے اور اس کے خطروں کو مکمل طور پر اہمیت دی جائے۔ اب ہم گزشتہ بحث کو جو عشق کے خطروں کے بارے میں تھی آگے بڑھاتے ہوئے عشق کے دیگر خطروں کو زیر بحث لائیں گے۔

عشق اور تخیلات : عشق خیالات کو بہت تیزی سے بھڑکاتا ہے

تاریخ کے حوالہ سے عشق اور تخیلات کے درمیان رابطہ بہت قدیمی ہے، اس کے جال میں گرفتار لوگ ہمیشہ ایک خواب کے عالم میں زندگی بسر کرتے ہیں جس کی ہر شئی اس دنیا سے مختلف ہے۔

اس دنیا کے پیمانے ہماری دنیا سے الگ ہیں اس عالم کے شاہکار اس طرح کے ہیں جو خود ان کے بقول فقط دیکھے جا سکتے ہیں بیان نہیں کئے جا سکتے۔ بہر حال جو الفاظ اس معمولی زندگی کے لئے بنائے گئے ہیں ان سے عاشقوں کی زندگی کی توصیف نہیں کی جا سکتی۔

غزلیہ شاعروں کے حیرت انگیز تخیلات اور ان کے دلچسپ اشعار کی لطافت غالباً اسی عشق حقیقی یا مجازی تخیلات کی مرہون منت ہیں۔ اس لئے جب خستہ دل عاشق اس تخیلاتی دنیا میں اتر جاتے ہیں تو خیال کرتے ہیں کہ وہ لمحہ کتنا حسین ہو گا جب وصال یار نصیب ہو گا ؟ اس کی آمد پر زمین و آسمان اور ستارے جھوم اٹھیں گے، اس وقت ان کے نزدیک ایک خوشی، مسرت اور نشاط کا عالم اور ناقابل وصف لذت کا سما آشکار ہو جاتا ہے۔

لیکن جب ان کا وصال اپنے محبوب سے ہو جاتا ہے اور وہ اپنے خواب و خیالات کی بانسبت بہت کم اثرات کا مشاہدہ کرتے ہیں یعنی ہر چیز فطری یا حد واقعی سے کچھ بلند ہوتی ہے۔

اس وقت وہ سراپا وحشت زدہ ہو جاتے ہیں اور رنج و غم کا عالم عشق کی دیوانگی کے بجائے ان کے دل میں گھٹن پیدا کر دیتا ہے۔ ایسے عالم میں وہ اپنے آپ کو فردی طور پر نا کام محسوس کرتے ہیں۔ کبھی وہ سمجھتے ہیں کہ ان کو فریب دیا گیا ہے، یا خیال کرتے ہیں کہ مخفیانہ طور پر ان کے رقیبوں اور حاسدوں نے ان کے ساتھ دشمنی کی ہے۔

بھلا جس چیز کا تصور اس قدر دل انگیز ہو اس کا حقیقی وجود اس قدر بے روح، کم قیمت اور کم رنگ کیسے ہو سکتا ہے ؟

اس کی حالت ایسی ہی ہے جیسے لوگ کسی بورڈ پر دور سے خوبصورت نقاشی دیکھیں اور وہ نہایت ہی خوبصورت اور دل کش معلوم ہو لیکن جب اس کے قریب پہنچیں تو ایک سادہ تحریر اور کچھ معمولی رنگوں کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا۔

یہی وہ مقام ہے جہاں عشق کا رد عمل اپنی شدت کی نشان دہی کرتا ہے، ان کے تخیلات اور واقعیت میں کتنا بڑا فاصلہ ہوتا ہے، جس کا نتیجہ فرار، جدائی، خود کشی یا کوئی دوسرا شدید عمل ہوتا ہے۔

عشق اور توقعات : دل جلے عاشق عام طور پر اپنے محبوب کے معاملے میں بے حد عفو و بخشش سے کام لیتے ہیں یا اگر زیادہ معاف کرنے کا مظاہرہ نہیں کیا ہوتا پھر اس کے لیے آمادہ رہتے ہیں۔

جب عشق کی گرمی ٹھنڈی پڑ جاتی ہے تو عاشق محبوب کی طرف سے عجیب و غریب توقعات کا منتظر ہو جاتا ہے، جب یہ انتظار کسی منزل تک پہنچنے والا نہیں ہوتا تو شکوے اور شکایتوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے جس کے نتیجہ میں آئندہ کی زندگی جہنم بن جاتی ہے۔

عشق اور بدلہ : عشق کے خطروں میں ایک بڑا خطرہ یہ ہوتا ہے، جب عاشق وصال محبوب اور مقصد کی رسائی سے مایوس ہو جاتا ہے تو اس کے ما فی الضمیر میں انتقام کا جذبہ بیدار ہو جاتا ہے۔

گزشتہ تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ عاشقوں کے ہاتھوں بے پناہ درد ناک قتل سرزد ہوئے ہیں اور مقتول کوئی دوسرا نہیں ہوتا بلکہ ان کا کل کا محبوب ہی ہوتا ہے۔

نفسیاتی اعتبار سے اس کی وجہ روشن ہے :

یہ سرکش عشق اپنی عظیم طاقت و قوت کے باوجود جب تک اسے اپنے مقصد تک پہنچنے کی ذرا بھی امید ہوتی ہے یہ عاشق کو اس کے محبوب کا غلام بنائے رکھتا ہے۔ لیکن جب مکمل مایوسی کا ماحول پیدا ہو جاتا ہے تو یہ عظیم طاقت خاموش نہیں بیٹھ پاتی اور شدید انتقام میں تبدیل ہو جاتی ہے (بعینہ جیسے ایک توپ اگر اس کے سامنے کوئی مانع آ جائے تو پیچھے کی طرف پھٹ جاتی ہے ) اور جس طرح وصال کی امید میں اپنے اور محبوب کے درمیان آنے والی ہر چیز کو ہیچ شمار کرتا تھا ہر مشکل کا مقابلہ کرتا تھا ٹھیک اسی طرح ناامیدی کی صورت میں انتقام کی راہ میں کسی چیز کی پروا نہیں کرتا۔ وہ اس وقت تک آرام سے نہیں بیٹھتا جب تک اپنے کام کا عکس العمل نہ دیکھ لے، اور اگر خود میں کسی قدرت کا احساس نہیں کرتا تو خود کشی کرنے کی سوچ میں پڑ جاتا ہے، جس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں ، اور اس طرح وہ یا اپنے محبوب سے یا پھر خود سے انتقام لینے کی سوچ میں پڑ جاتا ہے۔

یہ تمام باتیں عشق کی دیوانگی اور اس کی ہوس آلودہ خواہشات کے نمونے ہیں جن کا انجام صرف ناکامی ہوتا ہے۔

٭٭٭

 

بارہویں فصل

تجارتی شادیاں

اس دور کے جوانوں کے لئے شادی سخت ترین اور نہایت ہی پیچیدہ مسئلہ بن گیا ہے، عشق اور اس کے خطروں کے بارے میں ہم بیان کر چکے ہیں ، اب گزشتہ اہم بحث کی طرف پلٹتے ہیں۔

اگر تعجب نہ کریں تو شادی کی بہت سی قسمیں ہیں جیسے تجارتی شادی، ہوا و ہوس کی شادی، کاغذی شادی اور دیگر بہت سی اقسام وغیرہ۔

ان میں سے ہر قسم کی کچھ علامتیں ہیں جس کی بنیاد پر اس کی پہچان کی جا سکتی ہے۔

تجارتی شادیوں کی علامت، مہر اور جہیز کی زیادتی، گھر، زمین اور جائداد وغیرہ کی شرطیں ، اور شیر بہا کے نام پر بے شمار رقم کا مطالبہ (جبکہ شریعت اسلامی میں شیر بہا کی کوئی سند نہیں ہے، یا دوسرے عنوان کے تحت پیسوں کا مطالبہ، گویا تجارتی شادیوں میں ثروت اور سرمایہ کا تبادلہ معیار ہوتا ہے۔

۱۔ ثروت مرئی

۲۔ ثروت نامرئی

ثروت مرئی: یعنی مرد اور عورت کے مال کا دقیق حساب، اور ان لوگوں کاسرمایہ جواس سے وابستہ ہیں جیسے والدین یا بھائی یعنی اگر ان کا انتقال ہو جائے گا تو ان کاسارا مال یا کچھ حصہ دلہن یا داماد کو ملے گا !

تجارتی شادیوں میں اس پوری ثروت کا حساب و کتاب ہوتا ہے، جس کے نتیجہ میں داماد اور دلہن میراث کے انتظار میں اپنے رشتہ داروں کے مرنے کے دن گنتے رہتے ہیں۔

نا مرئی ثروت، دولہا یا دلہن کے دور و نزدیک کے رشتہ داروں کے عہدویں ہوتے ہیں جس کے ذریعہ وہ اپنا معاشرتی راستہ ہموار کرتے ہیں اور اس طرح وہ ان کے عہدوں کو پارٹی کے طور پر استعمال کرتے ہیں جس کو معاشرہ میں اپنی ترقی سمجھتے ہیں۔

اس نامرئی ثروت کے ذریعہ دونوں طرف سے کسی ایک رستہ دار کو کوئی عہدہ یا کام وغیرہ مل جاتا ہے جس کی اہمیت کبھی کبھی ظاہری سرمایہ سے زیادہ ہوتی ہے، اس فرق کے ساتھ کہ معاملہ کے بعد دلہن اور داماد اس طرح کے رشتہ داروں کی زندگی کی دعاء کرتے رہتے ہیں تاکہ ان کے ذریعہ آنے والے خطرات سے محفوظ رہیں اور ضرورت پڑنے پر ان کی ترقی کے لئے زینہ فراہم ہو جائے۔

شاید یہ بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ اس قسم کی شادیوں کا معیار یہ نہیں ہوتا ہے کہ طرفین میں انسانی صفات پائے جاتے ہیں یا نہیں ، یہ لوگ پڑھے لکھے ہیں یا نہیں بلکہ ان کی تمام بحث مرئی اور نا مرئی سرمایہ داری اور پیسہ پر ہوتی ہے خصوصاً دلہن کے پیسہ پر ان کی نظر لگی رہتی ہے۔

تجارتی شادی میں عورت کی شخصیت اس قدر پامال ہوتی ہے کہ اس کو سامان اور پیسہ کے معاملہ کی طرح بیچ دیا جاتا ہے۔ افسو س کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ا س طرح کی شادیاں ہمارے آج کے معاشرے میں بہت عام ہو چکی ہیں۔ اور بہت سے والدین، جوان اور ان کے وفادار رشتہ دار اس طرح کی شادیوں کی حمایت کرتے ہیں۔

اس طرح کی شادی میں صرف ایک دو برائی نہیں ہے بلکہ یہ سرا پا برائی بد، بختی اور پریشانی ہے، اس لئے کہ اس طرح کی شادیاں س وقت تک قائم رہتی ہیں جب تک وہ اسباب موجود رہتے ہیں جن کی وجہ سے یہ رشتہ قائم ہوا ہے، اگر مرد اور عورت ایک دوسرے سے بے نیاز ہو جائیں یا مال کے لین دین کے مسئلہ میں بات بگڑ جائے فور یہ رشتہ ٹوٹ جاتا ہے۔ اس طرح کی مثالیں بہت دیکھنے میں آتی ہیں اس طرح کے مرد اپنی بیویوں کو اس طرح چھوڑ دیتے ہیں جس طرح پھل کو رس نکالنے کے بعد پھینک دیتے ہیں

کیونکہ پاکیزہ عشق، ازدواجی زندگی کی بقا کا سبب ہوتا ہے وہ ان کی زندگی میں کوئی معنی نہیں رکھتا، وہ جب بھی ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں اسی طرح دیکھتے ہیں جیسے ایک مہنگی کار یا ڈیلکس فلیٹ کی طرف دیکھا جاتا ہے۔

ایسی عورتوں کی توقعات اپنے جہیز اور گھر والوں اور رشتہ داروں کے مال، دولت امکانات اور ثروت کی طرح حد سے سوا ہوتی ہیں ، اور اس طرح کی توقعات اس رشتہ کی بقا کی سخت دشمن ہوتی ہیں۔

اس طرح کی شادیوں کے عام ہونے کی وجہ سے بہت سے جوان لڑکے، لڑکیوں اور ان کے گھر والوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لئے جھوٹ اور حیرت انگیز دھوکے، جیسے عمدہ گاڑی اور گھرکا مالک ہونے کے کا سہارا لینا پڑتا ہے، لہذا شادی ہو نے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ ساتوں آسمان میں ایک ستارہ بھی نہیں ہے، اور اس وقت لڑائی جھگڑے اور مار پیٹ کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔

ہمارے مذہب کی تعلیمات میں اس طرح کی شادیوں کی شدت سے مخالفت کی گئی ہے، ہمارے مذہب کے راہنماؤ ں نے اس مال کی خاطر شادی کرنے والوں کی سخت مذمت کی ہے۔ اسی طرح مہر کی زیادتی کو شادی کی بد بختی سے تعبیر کیا ہے، اور اپنے بیٹے بیٹیوں کی شادیاں بہت ہی معمولی مہر کے ساتھ ان افراد کے ساتھ کی ہیں جن کے پاس مادی سرامایہ کم اور معنوی سرمایہ زیادہ تھا، تاکہ ان کا یہ عمل دنیا والوں کے لئے عبرت بن جائے۔

پیغمبر رسول (ص) فرماتے ہیں : ‘‘ جو لوگ حسن کے لئے شادی کرتے ہیں وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوتے، اور جو افراد مال کے لئے شادی کرتے ہیں خدا ان کو ان کے حال پر چھوڑ دیتا ہے ( اوراس سے اپنے لطف و کرم کا سلسلہ منقطع کر لیتا ہے)۔ لہذا شادی کا معیار پاکیزگی اور ایمان کو قرار دیں ، صاحب ایمان اور پاکیزہ عورتوں سے شادی کریں۔ (وسائل الشیعہ جلد ۳ صفحہ ۶)۔

٭٭٭

 

تیرہویں فصل

ہوا وہوس کی شادیاں

اس دور میں ‘‘ہوا وہوس‘‘ کی شادی ایک خطرناک عنصر بن گئی ہیں۔

ہوا و ہو س کو جائز جنسی لذتوں سے مخلوط نہیں کرنا چاہئے کیونکہ جائز لذات، فطری شادیوں کا پیش خیمہ ہوتی ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ تمام جوان شادی میں جنسی لذت کو تلاش کرتے ہیں ، فطرت اور خلقت کے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے انسان میں یہ فطرت عطا کی گئی ہے اور یہ انسان کا حق بھی ہے۔

لیکن ہو او ہواس سے بالاتر شی ہے۔

خام خیالات، غلط محاسبات اور غیر عاقلانہ سلسلہ کا نام ‘‘ہوا و ہوس‘‘ ہے جس میں بے ہودہ عادت، غلط مقصد اور شیطان و حیوان کی شیطنت مخلوط ہوتی ہے۔

ہوس کی اساس زود گزر قیمت، بچکانہ یا نا معقول چیز پر ہوتی ہے۔

جو شادیاں ہوس کی بنیاد پر قائم ہوتی ہیں ان میں جدائی بہت جلدی ہوتی ہے، اس لئے کہ ان کی بقا کی ضامن نہایت کمزور چیز ہوتی ہے جیسے پانی پر ایک حباب یا اسمان کی بجلی !

ہوا و ہوس کی شادیوں کی بہت سی علامتیں ہیں۔

ہوا و ہوس کے مجلے اس سے بھرے ہوئے ہیں۔

اس طرح کی شادیوں کے نمونے کبھی سینیما کی فلمیں ہوتی ہیں ، کبھی شادیاں اور طلاق پڑھنے والے تو کبھی پیشہ ور لوگ۔

یہ لوگ اس بات سے غافل ہوتے ہیں کہ یہ تاجر لوگ اپنی تجارت اور کام کو چمکانے کے لئے روزانہ ایک نیا کام انجام دیتے ہیں تاکہ اس کا نام سب کی زبان پر آ جائے، اسی وجہ سے وہ لوگ مجبور ہیں کہ ایک روز شادی کریں اور دوسرے روز طلاق دیدیں تاکہ اس جدائی کی تصویریں اور تفصیلات بازار کے اخباروں اور مجلوں کی زینت بن جائیں اور ان کے کام اور تجارت میں رونق پیدا ہو جائے۔

اس بات کو بھی سمجھنا چاہیے کہ سینیما کے چہرے اصلی چہرے نہیں بلکہ یہ کریم وغیرہ سے میکپ کئے ہوئے بناوٹی چہرے ہیں ، ان چہروں میں دوسری قسم کے چہرے ہیں۔

لیکن ہوا و ہوس کے پرستار نادان افراد ان تمام چہروں کو اصلی سمجھ بیٹھتے ہیں اور اپنی زندگی کی بنیاد کو اس طرح کے سراب اور پانی کے حباب پر رکھتے ہیں اور ان اپنی زود گذر ہوس کو پورا کرنے کے لئے ان کے حصول میں خود کو اور دوسروں کو ہزاروں مشکلات میں ڈالتے ہیں ، خود بھی در بدر ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی دربدر کرتے ہیں۔

ہوا وہوس کے لئے ہونے والی شادیوں کی دوسری مثال بعض و ہ مواقع ہوتے ہیں جہاں پر کوئی کسی کا کردار ادا کرنا چاہتا ہے مثلاً کسی ورزش کو دیکھتے ہوئے ایک طرح کے احساس کا اظہار کرنا وغیرہ۔

٭٭٭

 

کتاب کا دوسراحصہ

جنسی انحرفات

پہلی فصل

جوان اور جنسی کجروی

ہر طرف دردناک فریاد بلند ہیں ! ہم جانتے ہیں کہ جوانی آشفتگی کے زمانے میں جنسی طبیعت سے مخصوص ہوتی ہے،

جنسی سرشت کی اگر صحیح طریقے سے راہنمائی نہ کی جائے تو جوانوں کی خوش نصیبی اور سعادت مندی کو اپنی شدید ضربت سے منہدم کر دیتی ہے، اور ان کے مقدر کو چور  چور کر دیتی ہے۔

ان کی خدا داد صلاحیتوں کو جو ابھی ابھی کلی کی مانند ہیں نیست و نابود کر دیتی ہے، ان کے ابتکار اور نبوغ  کو جو ممکن ہے آنے والے وقت میں ان کے لئے یا معاشرے کے لئے سر چشمہ افتخار بن جائے، بے کار بنا دیتی ہے۔

اس راہ میں قربان ہونے والے جوانوں کی تعداد کم نہیں ہے۔ اسی طرح جو افراد اس خواب سے بیدار ہونے کے بعد اپنی روح میں دردناک افسوس و ندامت کا احساس لئے ہیں ، بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ بہت سے ایسے بھی ہیں جو عدم رہنمائی کے سبب آنے والے نقصانات کا جبران زندگی بھر نہیں کر سکیں گے۔

اب تک اس راہ میں قربان ہونے والے افراد کے بے شمار خطوط ہم تک پہنچے ہیں جن کے ذریعے اس وحشتناک راز سے پردہ اٹھ گیا ہے، اور اسی وجہ سے ہم بھی اس خطرناک موضوع کو زیر بحث لا رہے ہیں۔

ان خطوط میں لکھنے والوں نے نا قابل بیان اسرار اور دردناک واقعیت کا پردہ فاش کیا ہے، اور اپنی نجات اور راہ حل کا مطالبہ کیا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ ہم بھی اس قدر اس خطرے کی اہمیت سے آگاہ نہیں تھے، لیکن معلومات کی وجہ سے مجبور ہو گئے کہ اپنی توان  اور کوشش بھر جوانوں کو اس خطرے سے آگاہ کریں ، اور ان کو اس خطرے کے اصلی اسباب کی طرف متوجہ کریں۔ ہم اللہ سے دعا گو ہیں کہ وہ ہمیں اور جوانوں کو اس امر میں اپنی مدد سے محروم نہ رکھے۔

ابتداء میں ان خطوط کو آپ کے سامنے بعینہ پیش کرتے ہیں :

پہلا خط ‘‘ چونکہ جناب عالی نے اپنے بیان میں جوانوں کو یاد دہانی کرائی ہے کہ وہ اپنی مختلف مشکلات کی تشریح کریں ، لہذا میں اس خط کو بھیجنے میں عجلت کر رہا ہوں :

جس پریشانی کی وجہ سے میں ہمیشہ غم زدہ رہتا ہوں در حقیقت وہ جنسی اور شہوات کے حوالے سے ہیں ، ممکن ہے یہ مجھے جلدی ہی ہلاک کر ڈالیں۔ میں اپنی مشکلات کی وضاحت پیش کرتا ہوں :

میری عمر ۲۳ سال ہے اور میں ایک جوان طالب علم ہوں ، جب سے میں نے بلوغ کی منزل میں قدم رکھا ہے، صحیح تربیت کے نہ ہونے اور لا علمی کی وجہ سے ایک قسم کی جنسی کج روی کا شکار ہو گیا ہوں ، اور سات سال سے اس کو مسلسل انجام دے رہا ہوں !

اور ابھی تک اس خانہ خراب بلا میں گرفتار ہوں اس کو ترک کرنے کی ہرچند کوشش کی مگر کامیاب نہ ہو سکا۔ اس کے نقصانات جو میں نے کتابوں میں پڑھے ہیں اس کے علاوہ اپنے جسم میں بھی محسوس کر رہا ہوں ، میری آنکھیں ضعیف ہو چکی ہیں ، اعصاب کی کمزوری، خون کی کمی ِ، جسم میں کمزوری و لرزہ، اور افسردگی نے مجھے بے چارہ بنا دیا ہے!

ایک زمانے میں مجھ میں کافی قابلیت پائی جاتی تھی، پڑھائی کرتا تھا، لیکن اس وقت میری قابلیت کم ہو چکی ہے، مطالب کو صحیح طریقے سے درک نہیں کر پاتا ہوں ، لیکن زور زبردستی سے پڑھائی کو جاری رکھے ہوئے ہوں

جس وقت میں قلم اٹھاتا ہوں لکھنے کی طاقت نہیں ہوتی آخر کار قلم کو رکھ دیتا ہوں یہاں تک کہ جب ہاتھوں میں کچھ طاقت آتی ہے تو دوبارہ لکھتا ہوں !

مجھ میں ایمان کا ضعف بھی بڑھ گیا ہے میرا وجدان ہمیشہ مجھے سرزنش کرتا ہے۔

بے بس ہو کرکسی گوشہ میں بیٹھ جاتا ہوں دیر تک روتا ہوں آنکھیں سرخ ہو جاتی ہیں ، لیکن مجھ بیچارہ اور بدبخت کو کوئی مددگار نہیں ملتا !!!

شاید آپ یہ جاننا چاہتے ہوں گے کہ جب میں اس کے نقصانات کا مشاہدہ کر رہا ہوں تو اس کو ترک کیوں نہیں کرتا ؟

اس کا جواب بھی میرے پاس ہے !آج اس کا چھوڑنا میرے لئے( تقریباً)محال ہو گیا ہے، اس لئے کہ جب اس شہوت میں تحریک ہوتی ہے تو قوت ارادہ مجھ سے سلب ہو جاتی ہے، اور جب سب کچھ ہو چکا ہوتا ہے تو پھر صرف رونا اور آنسو بہانا ہوتا ہے!

کبھی میں خدا سے دعا کرتا ہوں اور ائمہ (علیہم السلام) کی درگاہ میں توسل کرتا ہوں  لیکن جس قدر بھی التماس اور دعا کرتا ہوں اتنا ہی اس کا نتیجہ کم ہوتا ہے۔

کبھی میں سوچتا ہوں خدا اور ائمہ اطہار مجھ جیسے ناپاک افراد کی طرف بالکل توجہ نہیں کرتے ؟!  مجھ جیسے بے سہارا لوگ اس قدر بے چارہ ہیں کہ اپنا درد دل اپنے کسی عزیز سے بھی بیان نہیں کر سکتے، آخر ہم کس کا دامن پکڑیں ! ؟

میرے صبر کا جام لبریز ہو چکا ہے، جان لبوں پر آ چکی ہے۔ خدا را مجھ پر رحم فرمائیں ، راہ نجات کی ہدایت فرمائیں ، اگر طبی طریقے آپ کی نظر میں ہیں تو بھی مجھے مطلع فرمائیں ، یقیناً آپ جانتے ہیں کہ اگر میں آپ کی قدر دانی کروں تو آپ کو اس کی ضرورت نہیں ہے، معاشرہ کو آپ کی قدردانی کرنا چاہئے، بے شک خدا آپ کو اجر دینے والا ہے۔ ‘‘

دوسرا خط : ‘‘  جوانوں کی راہنمائی کے لئے جس مقدس جہاد کا جناب عالی نے آغاز کیا ہے اس کے لئے ہم آپ کے شکر گزار ہیں  جیسا کہ میرے لئے واضح ہے کہ بہت سی لکھنے والوں (اگر ان کو لکھنے والا کہا جائے)کے برخلاف جناب عالی کے نوشتہ جات، جوانوں کے لئے خوش بختی کا ایک عظیم سامان ہیں۔

بہر حال میری عمر ۱۷ سال ہے اور میں ایک جوان طالب علم ہوں ، پڑھائی کے دوران میرا شمار کلاس کے ممتاز شاگردوں میں ہوتا تھا، لیکن جیسے ہی میں بلوغ کی منزل تک پہنچا کچھ خاص اسباب کی وجہ سے پر آشوب جال میں پھنس گیا جنہیں آپ اچھی طرح جانتے ہیں۔

اگرچہ یہ مشکل تنہا میری نہیں ہے میرے بہت سے ہم عمر بھی اس مصیبت میں گرفتار ہو گئے ہیں۔

ہائی اسکول کے پہلے سال میں اس کجروی کا شکار ہو گیا اور ان چار سالوں میں میری تمام فکری صلاحیتیں ختم ہو گئیں ، میں بارہا اس عمل سے توبہ کر چکا ہوں لیکن روز بروز میرے نفس کا ضعف بڑھتا رہا۔ اور اب میں خود محسوس کرتا ہوں کہ میرے جسم کے بہترین حصے جیسے دل، اور میرے اعصاب ایک خلل سے دوچار ہو گئے ہیں ، یہاں تک کہ میری قوت ارادی بھی حد سے زیادہ خیر باد کہہ چکی ہے، مجھے اپنے آپ میں حقارت کا احساس ہمیشہ رہتا ہے، میں نے بات چیت کرنا بہت کم کر دیا ہے، ورزش بھی نہیں کرسکتا، یہاں تک کہ رشتہ داروں کے یہاں مہمانداری میں بھی نہیں جاتا ہوں !–

میں یہ بات اچھی طرح جانتا ہوں کہ میرا آیندہ بہت اچھا نہیں ہو گاس قدر قوت ارادی کھو چکا ہوں کہ اس عمل کا ترک کرنا میرے لئے مشکل ہو گیا ہے۔

اس کی وجہ کیا ہے ؟

اس کی وجہ یہ ہے کہ برہنہ عورتوں کی تصویریں میرے ہم عمر ساتھیوں کے پاس بہت زیادہ ہیں۔

مفسد اور سیکسی فلمیں دیکھنا ہمارا کام ہے، اور فضول کتابیں بہت کم قیمت میں ہمیں مل جاتی ہیں۔

خدا کے واسطے ہماری راہنمائی فرمائیے کہ کس طرح ہم اس دردناک بلا سے آزاد ی حاصل کریں ؟!

تیسرا خط ‘‘ کیا آپ جوانوں کے حالات اور ہمارے درد دل سے واقف ہیں ؟

کیا آپ جانتے ہیں کہ بہت سے جوان بہت بڑی مجرمانہ حرکت انجام دیتے ہیں اور خاص قسم کی کجروی کا شکار ہیں ؟۔

کچھ دن پہلے میں یزد شہر کے ثریای نامی سڑک سے گذر رہا تھا کہ اچانک میری نظر ایک جوان پر پڑی جس کی عمر تقریباً ۲۵ سال تھی، اس کا جسم بے حس اور وہ آنکھوں سے اندھا تھا، اس کے ہاتھ اس کے چھوٹے بھائی کے ہاتھ میں تھا اور سڑک پر جا رہا تھا،۔

میں اپنی سائیکل سے اترا اور اس کے بھائی سے میں نے اس کے متعلق سوال کیا کیونکہ میں اس کے بھائی سے پہلے سے آشنا تھا، میں نے سوال کیا یہ کون ہے؟ اس نے جواب دیا کہ میرا بھائی ہے، یہ سن کر میں حیرت میں پڑ گی۔

میں نے اس سے سوال کیا آپ کے بھائی کی یہ حالت کیسے ہوئی ؟ اس نے کہا کہ بیس سال تک اس میں کوئی برائی نہیں تھی، لیکن ایک جنسی برائی کی عادت سے چند سال پہلے اس کی آنکھوں کی روشنی تک چلی گئی، مگر اب بھی یہ اپنی اس عادت سے باز نہیں اتا

جناب عالی کی خدمت میں گزارش ہے کہ جتنی جلدی ممکن ہو جوانوں کو اس نقصان سے بچنے کا راہ حل بیان کریں۔ اور ہمیں اس نجاست سے بچنے کے لئے کیا کرنا چاہیے۔

مختلف شہروں سے آنے والے یہ چند خطوط تھے جن سے ہم نے لکھنے والوں کے نام اور کچھ غیر ضروری مطالب کو حذف کر کے آپ کے سامنے پیش کیا ہے۔

یہ خطوط اور ان کے جیسے دوسرے خطوط ہمارے جوانوں کے حالات اور ان کے مستقبل کی ‘‘زندہ نشانیاں ‘‘اور آئینہ ہیں۔ یقیناً اس کا ان کار نہیں کیا جا سکتا کہ پاکیزہ افراد جو کسی بھی غیر اخلاقی بیماری یا کجروی کا شکار نہیں ہیں بہت زیادہ ہیں لیکن ساتھ ساتھ قربان ہونے والے جوانوں کی تعداد بھی کچھ کم نہیں ہے۔

اگر ہم اسی طرح ہاتھ پر ہاتھ دھرے اس کا تماشا دیکھتے رہے تو وہ وقت دور نہیں ہے کہ پاکیزہ افراد بھی اس نجاست میں ملوث ہو جائیں اور جو لوگ اس میں ملوث ہو چکے ہیں وہ بھی کلی طور پر ہاتھ سے نکل جائیں اور اسی طرح ناتواں ، قابل رحم، شکست خوردہ، اور بے نواں افراد ایک مجرم کی صورت اختیار کر لیں۔

لیکن ہمیں امید ہے اگر جوان چاہیں تو اس بلا سے نجات پیدا کرسکتے ہیں ، اور پاکیزہ افراد مزید مراقبت کے ذریعہ خود کو ہر قسم کی جنسی کجروی سے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔

ہمارا دل ان قربان ہونے والے افراد کی فریاد سے لرز تا ہے اور ان کے قلم کی نوک جو گریہ و زاری کے ساتھ مدد کی فریاد کرتی ہے اس سے ہر انسان کے دل میں ایک خراش پیدا ہو جاتی ہے۔

ہمارے زمانے کی بد بختی یہی ہے کہ آج کی غلط تربیت نے فساد سے بھری ہوئی کتابوں ، سیکسی فلموں ، شہوت انگیز تصاویر اور اس طرح کے دوسرے وسائل کے ذریعہ جوانوں کے جنسی مسئلہ کو بڑے خطرناک مرحلے تک پہنچا دیا ہے۔ آزادی کے نام کو غلط استعمال کر کے اس مسئلے کو زیادہ عام کر دیا ہے، اگر اس کے مقابلہ میں باقاعدہ جہاد نہ کیا گیا تو یقیناً جوانوں کا مستقبل بد بختی اور موت سے دوچار ہو جائے ہو جائے گا۔

اگرچہ ہم سمجھتے ہیں کہ اس راہ میں قربان ہونے والے افراد جن کا ذکر اوپر خطوط میں کیا جا چکا ہے، (اگرچہ اس کو ابھی قربانی نہیں کہا جا سکتا ہے)اور اس کے علاوہ جن کو آپ خود دیکھ چکے ہیں یہ خود ایک معلم کی مانند ہیں جو بہت چیزیں دوسروں کو سکھا سکتے ہیں۔

لیکن اس موضوع کی اہمیت کے سبب ضروری ہے کہ اس بارے میں گفتگو کی جائے، اور جوانوں کی زندگی میں اس راستے کے کانٹوں سے سب کو آگاہ اور راہ حل کی وضاحت کی جائے۔

ہم آپ سب دوستوں کو اس سلسلے میں دقیق مطالعہ اور بحث کی دعوت دیتے ہیں ، اور اطمینان دلاتے ہیں کہ اگر اپنے دل کو ہمارے سپرد کریں اور جو کچھ ہم آپ کے سپرد کریں ، فوراس کو عمل میں لائیں تو یقیناً ہر طرح کے خطروں سے رہائی مل جائے گی۔

٭٭٭

 

دوسری فصل

جنسی انحرفات کے مہلک نتائج

جن مسائل سے جوان روبرو ہوتے ہیں ان میں سے یہ ایک اہم مسئلہ ہے۔

غیر آلودہ افراد کے لئے محفوظ رہنے کا راستہ اور آلودہ افراد کا علاج

گزشتہ بحث میں کچھ زندہ مثالوں سے واضح ہو گیا کہ کس طرح جنسی انحرفات اور غلط عادتیں جوانوں کو ناتوان، پس ماندہ اور بیمار بنا دیتی ہے اور ان کو جنون اور ہلاکت کی منزل تک پہنچا دیتی ہے۔

افسو س ہمارے دور میں بعض لوگ اس کو ‘‘زمانے کے سیکسی مسائل‘‘سے تعبیر کرتے ہیں ، اور بہت سے بے ہدف لکھنے والے کوشش کرتے ہیں کہ اس مسئلہ کو ایک معمولی اور غیر مہم مسئلہ شمار کریں اور کبھی کبھی بعض منحرف افراد کو خوش کرنے کے لئے اس کو جوانی کی ایک ضرورت شمار کرتے ہیں !!

جیسا کہ ہم اور آپ جانتے ہیں کہ بعض افراد اس کو اپنانے اور ناجائز پیسہ حاصل کرنے کا ذریعہ بنا تے ہیں ، اور ایک دلچسپ جنسی موضوع اور ہیجان آور تصویریں تیار کرنے کے لئے زمین وآسمان ایک کر دیتے ہیں اور کسی چیز کی پروا نہیں کرتے ہیں۔

مثال کے طور پر ایک رسالہ جو ‘‘زنان‘‘ (خواتین ) کے نام سے نشر ہوتا ہے، لکھنے والے کے بقول ایک خبر جس نے پورے یوروپ میں ہل چل پیدا کر دی تھی(اور ممکن ہے اس کے اثرات جلد ہی دوسرے بر اعظم تک پہنچ جائیں )اس میں لکھا تھا کہ ایک خاتون نے کسی رسالے میں اعلان کیا کہ وہ اپنے شوہر کے لئے ایک معشوقہ کی تلاش میں ہے!!

یہ افراد اس طرح کی خبر کو(جو خود ان کی یا ان کے ساتھ کام کرنے والوں کی بنائی ہوئی ہوتی ہیں ) اپنے رسالے کی تبلیغ اوراس کو شہرت دینے کے لئے نشر کرتے ہیں۔ اس طرح کی خبر کے نشر ہونے سے معاشرے کو سوائے ننگ و عار اور فساد کے کچھ نہیں ملتا ہے۔

یہ بد بختی صرف اسی میں منحصر نہیں ہے بلکہ بعض ماہر نفسیات، ماہر سماجیات اور اطباء بھی اس جنسی سیلاب کو فطری اور بے ضرر ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

اور بعض لوگ جو اس کے غلط اور خطرناک نتائج کے تو قائل ہیں لیکن اس کی وضاحت اس طریقہ سے کرتے ہیں جس سے مسئلہ کے حل اور مبتلا افراد کی مدد کے بجائے گمراہی میں اضافہ ہو جاتا ہے۔

ان تمام اسباب و علل نے جنسی بے راہ روی کو اس قدر پیچیدہ، دردناک اور وحشتناک بنا دیا ہے کہ اس کی جڑوں کو اکھاڑنا اتنا آسان نہیں ہے اس کے لئے وقت، بجٹ اور دقیق پلاننگ کی ضرورت ہے۔

استمناء کے نقصانات: جوانوں کو چاہیے کہ اپنے ہوش وہواس اور عقل و خرد کے ذریعہ جہالت اور گمراہی کے پردوں کو جو ان کے حساس حقائق پر پڑے ہوئے ہیں ، اتار ڈالیں۔ حقائق، اور وہ مطالب جو انسان کو گمراہ اوراس کی فکر کو بے کار بنا دیتے ہیں ، درک کرنے سے فرار نہ کریں ، بلکہ غور و فکر سے کام لیں ، حساس حقائق کو سمجھیں اور دو دو چار کی طرح والے مسائل کو درک کریں اور اس بے راہ روی کے مہلک انجام کو خود اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کریں۔

ہم اس مقام پر سب سے پہلے ڈاکٹر، محققین اور ان افراد کے کے ثبوت پیش کریں گے جنہوں نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ اس طرح کے مسائل کی تحقیق میں صرف کیا ہے۔ اس کے بعد جنسی کجروی کے نفسیاتی اور معاشرتی اسباب کا تجزیہ و تحلیل، پھر اس عادت سے مقابلے کی راہ بیان کریں گے۔

ایک معروف ڈاکٹر اپنی کتاب میں اس مہلک عادت ‘‘استمناء‘‘ کے نقصانات کے بارے میں کچھ دوسرے ڈاکٹروں کے بیانات کی تحریروں کی تشریح کرتے ہوئے نقل کرتا ہے : ‘‘ہوفمان‘‘ کا کہنا ہے کہ میں نے ایک جوان کو دیکھا جو پندرہ سال کی عمر سے اس بری عادت کا شکار ہو گیا تھا اور ۲۳ سال کی عمر تک وہ اس پر باقی رہا۔

وہ جسمانی ضعف کا اس درجہ دو چار ہوا کہ جب بھی وہ کتاب پڑھنا چاہتا تھا اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا جاتا اور سر میں درد ہو جاتا تھا، اور اس کی حالت ایک سرسام والے مریض جیسی ہو جاتی تھی، جس طرح ایک مست آدمی سرگرداں رہتا ہے، اس کی آنکھوں کی پتلی غیر معمولی پھیل گئی تھی، اس کی آنکھوں میں شدید درد ہوتا تھا۔

ڈاکٹر ہوچین سن ( Huotchinson) کے مشاہدے بھی اس بات کو ثابت کرتے ہیں ‘‘ عام طور سے تناسلی سیسٹم سے مربوط بیماریاں استمناء کی وجہ سے وجود میں آتی ہیں ، اور آنکھ کے اندرونی سیاہ اور دوسرے پردوں کی بیماریاں بھی اسی کا نتیجہ ہوتی ہیں ‘‘۔ (غور کریں )

مذکورہ ڈاکٹر مزید اضافہ کرتے ہوئے کہتا ہے:

اس بری عادت کا پہلا نتیجہ یہ ہے کہ آنکھوں کی قوت شفافیت کو ختم اور ان کے اصلی رنگ کو زائل کر دیتی ہے اور اس طرح وہ مرجھا جاتی ہیں ، اس کے عادی لوگوں کے یہاں ابتدا میں ذکاوت نابود ہو جاتی ہے ان کی صورت سے گرفتاری کی حالت ظاہر ہوتی ہے، آنکھوں میں نیلے رنگ کے حلقے پڑ جاتے ہیں۔ اس کے بعد ان کے اعضاء میں سستی پیدا ہونا شروع ہو جاتی ہے۔

حافظہ کا کم ہونا، اشتہا کا نہ ہونا، قوت ہاضمہ خراب ہو جانا، سانس لینے میں تنگی ہونا، ناقابل بیان مزاج اور اخلاق میں تغیر اور کینہ پیدا ہونا، رنج اور کدورت پیدا ہونا، ہمیشہ گوشہ نشینی اور تنہائی کی فکر یہ سب پریشانیاں جنسی کجروی میں مبتلا ہونے کا نتیجہ ہیں۔

یہ ڈاکٹر اپنی کتاب میں دوسرے مقام پر اس بات کا اضافہ کرتا ہے کہ یہ عمل خون کی کمی، جسمانی اور نفسانی قوتوں کے ضایع ہونے، سرمیں درد، کانوں کی بیماری، کمر کا درد، سانس لینے میں مشکلات، قوت حافظہ کی کمی، جسم کے نحیف ہونے، کمزوری اور سستی مختصر یہ کہ بدن میں کلی طور پر قدرت کے نہ ہونے کا سبب بنتا ہے۔ اور حواس خمسہ سے نزدیکی رابطہ ہونے کی وجہ سے خصوصاً آنکھ اور کان پر زیادہ اثر انداز ہوتا ہے۔

اس جنسی غلط عادت سے جسم کی قوت، بیماری کے مقابلے میں ضعیف ہو جاتی ہے جیساکہ مذکورہ ڈاکٹر اس بات کی تائید کرتا ہے:

‘‘ جو افراد اس مذموم عادت کا شکار ہیں اگر کسی بڑی بیماری کا شکار ہو جائیں تو پھر وہ آسانی سے اپنے آپ کو موت کے چنگل سے نہیں بچا پاتے ہیں۔ ‘‘

اس کے بعد ایک لکھنے والے کے قول کو نقل کرتا ہے:

‘‘ ایک جوان اس عادت میں گرفتار ہو گیا تھا، اس کو بخار کی ایک بیماری لاحق ہو گئی تھی، بیمار ہونے کے بعد چھٹے دن جبکہ وہ مکمل طریقہ سے کمزور ہو گیا تھا، لیکن اپنی اس عادت سے باز نہیں آیا اور آخر کار وحشتناک موت نے اس کو گلے لگا لیا‘‘!

اور وہ اس واقعہ کو بھی نقل کرتا ہے :‘‘ ایک شخص جو اس منحوس عمل کا عادی تھا اور مسلسل اس کو انجا م دے رہا تھا، وہ آہستہ آہستہ اپنے حواس میں شدید ضعف محسوس کرنے لگا یہاں تک کہ اس عمل نے اس کو اس قدر نحیف و لاغر بنا دیا کہ اس کی پنڈلیوں اور رانوں کا تمام گوشت ختم ہو گیا، اور کمر درد سے ہمیشہ تڑپتا تھا لیکن وہ اپنے اس عمل سے باز نہیں آیا یہاں تک کہ اس کے جسم پر فالج کا اثر ہو گیا اور چھ مہینے بستر پر اپنی موت سے لڑتا رہا اور آخر کار موت کی آغوش میں ہمیشہ کے لئے سو گیا‘‘ !

اس عمل کی عادت خصوصاً ان افراد کے لئے جن کے جسم میں کو ئی زخم، یا ان کا کوئی اوپریشن ہوا ہو بہت ہی خطرناک ہوتی ہے۔

مختصر یہ کہ اسی ماہر ڈاکٹر کے بقول، اس طرح کے جنسی انحرفات، میڈیکل اور مذہبی نقطہ نظر سے قابل نفرین ہیں اور انسان کے وجود کی بربادی اور نابودی کا موجب ہے اور ساتھ ساتھ روح کو بھی متزلزل بنا دیتی ہے۔

استمناء پر قابو نہیں پایا جا سکتا بہر حال اس جنسی بے راہ روی کے نقصانات اس سے کہیں زیادہ ہیں جنہیں بیان کیا گیا ہے۔

اس کا ایک ہولناک خطرہ یہ ہے کہ اس عمل کی عادت پرکسی بھی طرح کنٹرول نہیں کیا جا سکتا، اس کی زیادتی انسان کے ارادے کو ہر روز ضعیف تر بنا دیتی ہے، اور افراط کی عجیب و غریب صورت پیدا ہو جاتی ہے تمام حدیں ٹوٹ جاتی ہیں۔

یہ بات صحیح ہے کہ جنسی امور میں ہر قسم کی زیادتی چاہے وہ جائز طریقہ (شادی کے ذریعے) ہی سے کیوں نہ ہو بہت سے خطرات کا پیش خیمہ ہو سکتی ہے۔ لیکن اس کو فطری اور غیر فطری طریقہ سے حاصل کرنے میں بہت بڑا فرق ہے (جس کا بیان بعد میں آئے گا) اس لئے کہ اس کو جائز اور فطری طریقہ سے حاصل کرنے کے لئے کچھ شرائط درکار ہوتے ہیں اور وہ ہر حال میں ممکن نہیں ہوتے، لیکن اس منحوس عادت کو کسی خاص شرائط کی ضرورت نہیں ہوتی ہے لہذا اس عادت میں مبتلا افراد کی زندگی میں ایک خطرناک شگاف ڈال دیتی ہے اوراس میں اپنی جڑیں جما دیتی ہے۔

مذکورہ بالا حقائق اور اس مسئلہ کی عظیم اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے جوانوں کے جسمانی، فکری، اخلاقی، اجتماعی، اور مذہبی اقدار کی حفاظت کی خاطر دقت کے ساتھ ان طریقوں کو اپنایا جائے جو ہم اس خطرناک عمل سے محفوظ رہنے کے لئے ذکر کر رہے ہیں۔

اس عمل میں مبتلا افراد بھی اس با ت کو یاد رکھیں کہ اس عادت کو ترک کرنے کے لئے ابھی بھی دیر نہیں ہوئی، بلکہ ہر چیز سے پہلے س کے ترک کا مصمم ارادہ کر لیں اس کے بعد غورسے ہمارے بتائے ہوئے دستورات (جن کا ذکر آنے والے صفحات میں کریں گے) پر عمل پیرا ہو جائیں ، اور یقیناً ان دستورات پر عمل کرنے سے اس عادت کا ترک کرنا مشکل نہیں ہو گا۔

٭٭٭

تیسری فصل

جنسی مشکلات میں ایک بڑی غلط فہمی

‘‘ میں چاہتا ہوں کہ خون کے آنسوں روؤں چونکہ آنکھوں میں اشک خشک ہو گئے؟

میں چاہتا ہوں کہ فریاد کروں لیکن سینے سے آہ نہیں نکلتی !

چاہتا ہوں کہ غور و فکر کروں ، مگر کس چیز کے بارے میں ؟ کون سی بدبختی کے بارے میں ؟کس بیہودگی کے بارے میں ؟

کیا سوچنے سمجھنے والا دماغ ان سختیوں کے مقابلے میں اپنی جگہ باقی رہ سکتا ہے۔

لاچارو اکیلا، سرگرداں ، پریشان، اپنے حال ومستقبل سے ڈرا ہوا ہوں ، ہر آدمی اور ہر چیز سے نفرت کرنے والا، اور اس بدنام اور نجس ماحول سے آلودہ !!

اکیس سالہ جوان ہوں ، حساس ترین دس سال صرف اکیلے گذار چکا ہوں ، زندگی کی سختیاں اور معاشرے کا بد نما چہرا مجھے ہمیشہ تکلیف پہنچاتا ہے

مجھے نہیں معلوم کہ کیا ہوا، چند سال قبل جب میں ایک کتاب کا مطالعہ کر رہا تھا اچانک بغیر کسی ارادے کے ایک خراب جنسی عادت سے آشنا ہو گیا، وہ وقت تو گذر گیا مگر کسی نے مجھے نہیں بتایا کہ جوانی کا وقت کس قدر حساس اور خطر ناک ہوتا ہے؟ برہنہ عورتوں اور لڑکیوں کی تصویریں جو شہوت اور ہوس کی آگ میں جل رہی ہوتی تھیں میرے اندر کے ہیجان سے دامن گیر ہوتی تھیں۔

جی ہاں میں اس کا عادی ہو چکا ہوں ، جسمانی اور روحانی طور پر بیمار ہو گیا ہوں ، اور جنون کی منزلوں میں قدم رکھ چکا ہوں ، اس قدر پریشان ہوں جس کا تصور بھی نہیں تھا۔

آپ سے معذرت خواہ ہوں کہ خط کو طول دے رہا ہوں ، یہ فریاد و نالے جو آپ کے کانوں تک پہنچ رہے ہیں تنہا میرے نہیں ہیں بلکہ مجھ جیسے بہت سے جوان ہیں جو اس منزل سے گذر رہے ہیں ، اور میری طرح بے یار و مددگار ہیں۔

یہ بات بھی ذکر کر دوں کہ جوانی کے سولہویں اور سترہویں سال کے درمیان میں دو بار خود کشی کرنے کی کوشش کر چکا ہوں ، لیکن مجھ بے سہارا کو مرنے بھی نہیں دیا جاتا، ! اس وقت میں بہت زیادہ ناتواں ہو چکا ہوں ، بہت معذرت کے ساتھ یہ بیان کر رہا ہوں کہ کچھ دنوں سے غیر ارادی طور پر مجھ سے کچھ قطرات نکلتے ہیں –؟ اس وقت میں ہلاکت کے طوفان میں ادھر ادھر سرگرداں ہوں شایداس کا ایک پہلو مجھے نابودی کی طرف لے جا رہا ہے !۔

میری آپ سے گذارش ہے کہ مجھے اس سے نجات دے دیجئے، امید ہے کہ جلد از جلد جواب مرحمت فرمائیں گے، اگر چاہیں تو پوسٹ کے ذریعہ یا اپنے مجلہ ‘‘نسل جوان‘‘ میں اس کا جواب دے سکتے ہیں ، ہم آپ جیسے پاک دل راہنما اور اس مجلہ میں کام کرنے والوں کی ترقی کے لئے دعا کرتے ہیں جو میری اور مجھ جیسے دوسرے آلودہ افراد کی حفاظت کیلئے اس مجلہ کو نشر کر رہے ہیں۔

س۔ ب۔ مشہد

اہم مسئلہ یہاں ہے

رنج و غم سے بھرا ہوا ایک دوسرا خط جو ایک جوان کی پریشانی اور معاشرے کے غمگین پہلو سے متعلق تھا آپ کے سامنے ذکر کیا جس میں لکھنے والے کے نام کی صراحت سے گریز کیا گیا۔

اب ہم ‘‘استمناء‘‘ یا (Masturbation)کے خطرناک اور ناہنجار عادت کے بارے میں گفتگو اور اس سے مقابلہ کرنے کے طریقہ کو بتاتے ہیں ، ممکن ہے ہم اس خطرناک سیلاب کو کسی حد تک روکنے میں کامیاب ہو جائیں۔

اس حساس مسئلے میں ایک غلط فہمی یہ ہے کہ بعض ڈاکٹر ان متخصص افراد کے مقابلے میں جنہوں نے اپنی زندگی کے کافی سال اس کے مطالعہ میں صرف کر ڈالے ہیں اور اس گندی عادت کے بارے میں اپنی کتابوں میں کافی کچھ تحریر کیا (جس کی مثالیں گذشتہ بحثوں میں قاری عزیز ملاحظہ فرما چکے ہیں ) اس طرح اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں کہ :‘‘ ہمیں میڈیکل میں اس عمل کا کوئی نقصان نہیں ملا، لیکن اس کے غلط اور مہلک آثار سے اگر ڈرایا جائے تو ممکن ہے اس میں کچھ نا مطلوب آثار پیدا ہو جائیں !‘‘

کبھی کہتے ہیں : اس عمل میں اور جنسی معاشرت میں کوئی خاص فرق نہیں ہے۔

بغیر مطالعہ کے سبب وجود میں آنے والے نظریات ہی ہیں جن کی وجہ سے بہت سے جوان اس نجس عادت کا شکار ہو گئے ہیں۔

اس نظریہ کا جواب دوسرے با خبر ڈاکٹر اس طرح دیتے ہیں :

یہ افراد اس مسئلہ کے بنیادی نکتہ سے بے خبر ہوتے ہیں : بے شمار مشاہدات کی گواہی اور اس بیماری میں مبتلا افراد کے اعترافات کی بناء پر یہ عمل انسان کی عادت میں داخل ہو جاتا ہے، جس کا انجام ہلاکت ہوتا ہے، جس سے آسانی سے دامن نہیں بچایا جا سکتا۔

ممکن ہے کوئی نشہ آور مادہ ایک بار استعمال کرنے سے نقصان نہ پہنچائے لیکن اس کی عادت ہونے کا خطرہ ساتھ ساتھ ہوتا ہے، ایسی عادت کہ جو انسان کی ہر چیز کو فنا کے گھاٹ اتار دیتی ہے۔

جیسا کہ ہم ذکر کر چکے ہیں کہ اس موضوع کے ماہرین افراد کی تحریروں کے مطابق یہ منحوس عمل انسان کو اس کا عادی بنا دیتا ہے، جس سے جوانوں کو پرہیز کرنا چاہیے۔ (توجہ کریں )

دوسرانکتہ : اس موضوع میں اس بات کا اضافہ کرنا مناسب ہو گا کہ اس عمل میں آلودہ ہونے کے لئے وسائل کی فراہمی بہت آسان ہے، در حقیقت وسائل کی ضرورت ہی نہیں ہے، ہر حال میں اس کو انجام دیا جا سکتا ہے، اور اس کی کوئی حد بھی معین نہیں ہے۔ المیہ یہ ہے کہ یہ بیماری ۱۶ سے ۲۰سال (جنسی تحریک کے طوفان کا زمانہ) تک کے جوانوں کو بہت جلد اپنی زد میں لے لیتی ہے، اور ایک عادت کی صورت اختیار کر لیتی ہے، حالانکہ جنسی مباشرت اس کی طرح سادہ نہیں ہوتی ہے، چونکہ شوہر اور بیوی خاص امکانات کے بغیر اس کو انجام نہیں دے سکتے۔

جو افراد اس بیماری کے نقصانات کو کم شمار کرتے ہیں وہ یقیناً ‘‘ اس بیماری کے عادی ہونے ‘‘ اور اس مسئلے کے دوسرے حالات و جوانب سے آشنا نہیں ہیں۔

ورنہ اس قدر حساس حقیقت کا انکار کیونکر ممکن ہے، جبکہ اس بیماری میں مبتلا جوان ہلاکت، جنون، کلی طور پر مفلوج اور ناتوانی، کی حد تک پہنچ چکے ہیں اور اپنی ہر چیز اس کی وجہ سے گنوا دی ہے۔ کیا ان حساس مشاہدات کا انکار کیا جا سکتا ہے ؟!

حالانکہ اکثر مریضوں کا کہنا ہے کہ ہم اس عادت کے نقصانات، اور ضررسے ہر گز آشنا نہ تھے، اس لئے ان کو نصیحت کرنے کا مسئلہ بھی منتفی ہے۔

               اس بیماری سے بچنے کے دستورات اور طریقے

 ان حقائق کی وضاحت کے بعد، اب ہم تمام جوانوں کی توجہات کو مندرجہ ذیل نکات کی طرف مبذول کرانا چاہتے ہیں کہ کس طرح اس عادت میں مبتلا ہونے سے محفوظ رہا جائے۔ اور اگر خدا نخواستہ اس میں مبتلا ہو گئے ہیں تو کس ا طرح سے اس کا علاج کیا جائے۔

پہلا قدم: اس بیماری میں مبتلا افراد پہلے مرحلہ میں اس بات کو ذہن نشین کر لیں کہ یہ بیماری اپنے تمام مہلک آثار کے باوجود علاج کے قابل ہے، ڈاکٹروں اور اس میں مبتلا افراد کے بقول، اگر صحیح طریقے سے عمل کیا جائے تو تمام غلط عادتوں کی طرح اس کو بھی یقینی طور پر چھوڑا جا سکتا ہے۔

اس بات کی طرف توجہ رہے کہ اس کی وجہ سے جو برے آثار پیدا ہو جاتے ہیں وہ بہت جلد ختم ہو جاتے ہیں کیونکہ جوانوں کی طاقت اور نشاط، گذشتہ پریشانیوں کو ختم کر دیتی ہے ( میں یہ نہیں کہہ رہا ہوں کہ سب کو ختم کر دیتی ہیں لیکن اکثر مشکلات کو ختم کر دیتی ہے) اور جس طرح سے بچوں اور جوانوں کے جسم کے زخم بہت جلد ختم ہو جاتے ہیں اسی طرح اس برے عمل کے اثرات بھی بیدار ہونے کے بعد ختم ہو جائیں گے۔

اس بیماری میں مبتلا جوان اگر اپنی کامیابی کے بارے میں مایوسی یا تردید کا شکار ہیں تو یقیناً وہ ایک بڑی غلط فہمی کا شکار ہیں چونکہ مایوسی اور تردید ان کی کامیابی کی راہ میں ایک عظیم سد راہ ہے۔

اس بنا پر سب سے پہلا اور ضروری مسئلہ یہ ہے کہ جوان اس بات پر یقین اور بھروسہ رکھیں کہ اس بری عادت کا ترک کرنا ممکن ہے اور اس کے تمام خطرناک نتائج سے رہائی پانا محال نہیں ہے۔

اب جبکہ آپ نے پہلا قدم اٹھا لیا ہے اور کامل ایمان اور امید کے ساتھ اس کا علاج کرنے کی طرف بڑھ گئے ہیں تو پھر پہلے علاج اور قانون پر عمل کرنے کے لئے تیار ہو جائیں۔

اس قدر مہم جس کا تصور نا ممکن ہے

۲۔ تمام ڈاکٹر اس بات کے قائل ہیں کہ ہر عادت کے ترک کرنے سے پہلے محکم ارادہ در کار ہوتا ہے، یعنی بہت ہی مضبوط، یقینی اور محکم ارادہ۔

ممکن ہے آپ اس موضوع کو سادہ اور معمولی موضوع شمار کریں ، حالانکہ ہماری نظر میں یہ اس درجہ مہم اور موثر ہے جس کا تصور نہیں کیا جا سکتا ہے۔

اس عمل کے ترک کرنے کا محکم ارادہ اس طرح کیا جا سکتا ہے کہ سب سے پہلے اس عمل کے تمام نقصانات اور خطر ناک نتائج اور ضرر جنہیں ہم نے گذشتہ بحث میں ذکر کیا ہے، کئی بار دہرائیں ، اور اس عمل کے تمام خطیر نتائج جو مبتلا اور عادی افراد کے منتظر ہیں ان کو اپنی نظر میں مجسم بنا ئیں ، اور غیر معمولی انسانی قدرت ‘‘جو ہر انسان میں پوشیدہ ہے‘‘ کو مد نظر رکھتے ہوئے صمیمانہ اور مستحکم ارادہ کریں۔

ہم جانتے ہیں کہ اس بیماری میں مبتلا بعض جوان اعتراض کریں گے کہ ‘‘ ہم میں محکم ارادے کی توانائی نہیں ہے ارادے کی قدرت ہم سے سلب ہو چکی ہے، اور ہم نے اس کو ترک کرنے کے لئے بارہا ارادہ کیا مگر پھر بھی ارادے چکنا چور ہو گئے ‘‘ !

ہم آپ کے اعتراض کو اچھی طرح سمجھتے ہیں لیکن آپ ہمارے جواب کو دقت کے ساتھ سمجھنے کی کوشش کریں۔

ہم اعتراض کرنے والوں سے سوال کرتے ہیں :‘‘ کیا تم نے کبھی اپنے والدین، بھائی بہن یا کسی دوسرے محترم شخص کے رو برو اس عمل کو انجام دینے کی جرأت کی ہے ؟؟۔۔

حتما تمہارا جواب منفی ہو گا۔

میں آپ سے سوال کرتا ہوں کیوں ؟

آپ کہیں گے :چونکہ یہ عمل شرمناک ہے!

گویا آپ کہنا یہ چاہتے ہیں کہ آپ نے یہ صمیمانہ ارادہ کر لیا ہے کہ اس شرمناک عمل کو ان کے سامنے انجام نہیں دیں گے !۔

اس سے ثابت ہوتا ہے کہ جس طرح آپ خود کو اس عمل کے مقابلے میں بے ارادہ اور بے اختیار سمجھتے ہیں ویسے نہیں ہیں ، اگر آپ بے اختیار اور فاقد الارادہ ہوتے تو ان کے سامنے اس عمل کو انجام دینے میں کوئی شرم محسوس نہ کرتے !۔

جوانوں کو چاہیے کہ اپنے اس عظیم ارادہ اور اختیار کو جس طرح اس مقام پر استعمال کرتے ہیں ہر موقع پر استعمال کریں۔ یہ سرمایہ تمہارے وجود میں پایا جاتا ہے اس سے فائدہ کیوں نہیں اٹھاتے ؟۔

اس بات کو بھی یاد رکھیں کہ خدا ہر جگہ موجود ہے اور تمہارے تمام کامو ں پر اس کی نظر رہتی ہے، تم ہر جگہ اس کے حضور میں ہو، کیا یہ مناسب ہے کہ ایسے پروردگار کے سامنے اس زشت عمل کو انجام دیا جائے ؟!

دلچسپ بات یہ کہ اسلام کے عظیم راہنما امام جعفر صادق (علیہ السلام) کی خدمت میں ایک شخص عرض کرتا ہے: فلاں شخص بیچارہ ایک جنسی کجروی کا شکار ہو گیا ہے(اس عادت کے علاوہ کسی دوسری کجروی ) اور اس میں اس کا اپنا کوئی ارادہ نہیں ہے !

آپ نے غصہ کے عالم میں فرمایا: کیسی بات کرتے ہو ؟ کیا وہ شخص اس عمل کو لوگوں کے سامنے انجام دے سکتا ہے ؟!

اس نے عرض کیا : نہیں۔

آپ نے فرمایا: اس کا مطلب ہے کہ سب کچھ اس کے اپنے ارادے اور اختیار سے ہے۔

جیسا کہ بعض افراد کا کہنا ہے : ‘‘ہم نے بارہا صمیمانہ ارادہ کیا مگر وہ ٹوٹ جاتا ہے‘‘ ہم ان لوگوں سے صاف طور پر کہتے ہیں ارادہ کے ٹوٹنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ارادے کے تمام اثرات، انسان کے وجودسے ختم ہو چکے ہیں ، بلکہ یہی ٹوٹا ہو ارادہ انسان کے دل اور روح کی گہرائیوں میں ایک ایسا اثر چھوڑتا ہے جو آخری پختہ ارادے کو گزشتہ ارادے سے محکم بنا تا ہے ( غور کریں )۔

آپ کے لئے ایک مثال پیش کرتا ہوں :

بسا اوقات انسان کوشش کرتا ہے کہ اپنے پیروں کے سہارے ایک پہاڑ پر چڑھ جائے یا گاڑی کے ذریعے کسی اونچائی سے گذر جائے ممکن ہے پہلی یا دوسری مرتبہ میں کبھی کبھی دسویں مرتبہ میں بھی کامیاب نہیں ہو پاتا، لیکن اخری بار میں وہ کامیاب ہو جاتا ہے اور اس سے گذر جاتا ہے، اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ پہلی بار میں اس نے کچھ نہیں کیا بلکہ ہر دفعہ اس کے عبور کرنے میں اس نے دشوار قدم اٹھائے اور پیچھے رہ گیا لیکن اس نے جانے ان جانے میں ایک حد تک آمادگی کو سیکھا اور اس کو محفوظ کیا، جس کے نتیجہ میں وہ بالآخر کامیاب ہو گیا۔

دانشمند حضرات کا کہنا ہے کہ ایک شعر یا نثر کے کچھ حصے کے حفظ کرنے میں ممکن ہے پہلی بار اس کو ۵ مرتبہ دہرانا ضروری ہو، اور ممکن ہے کچھ وقفہ کے بعد اس کو بھول جائے، لیکن اب دوبارہ یاد کرنے کے لئے ۵ بار دہرانا ضروری نہیں ہے، ممکن ہے ۳ مرتبہ دہرانا کافی ہو۔ یعنی یاد کرنے کے گذشتہ کچھ اثرات انسان کی روح میں باقی رہ گئے تھے، جس کی وجہ سے دوسری مرتبہ یاد کرنا آسان ہو گیا تھا۔ لہذا انسانی روح سے مربوط تمام مسائل اسی طرح ہیں۔

اس لئے اگر آپ نے اب تک دس بار بھی ارادہ کر کے اس کو توڑ ڈالا ہے پھر بھی اس عادت کو ترک کرنے کے لئے ایک قوی، پختہ اور مستحکم ارادہ کرنے کے لئے تیار ہو جائیں اور اپنی تمام معنوی توانائی (مخصوصاً ایمان کی طاقت) کو جمع کر کے اس کامیابی کو حاصل کر لیں ، اور اپنے عظیم الشان راہنما علی(ع) کے اس فرمان کو ہمیشہ یاد رکھیں کہ‘‘ صاحبان ایمان ایک پہاڑ کی مانندمستحکم اور ارادے میں استقامت رکھنے والے ہوتے ہیں۔ ‘‘

اب جب کہ آپ پختہ ارادہ کر چکے ہیں آنے والے بقیہ دستورات پر دقت کے ساتھ عمل کریں۔

٭٭٭

 

چوتھی فصل

دس قوانین

جیسا کہ ہم پہلے کہہ چکے ہیں کہ جنسی کجروی مخصوصاً ‘‘استمناء‘‘ (Masturbation ) جس کو کبھی کبھی تاریخی افسانے کے تناسب سے ‘‘ اونانیسم ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ حالانکہ یہ نا قابل انکار ہے اس لئے کہ یہ بہت جلد انسان کو اپنا عادی بنا لیتا ہے، اور اس کی جڑیں اس قدر پھیل جاتی ہیں جس کی وجہ سے انسان ایک دن میں کئی بار اس کا ارتکاب کرنے لگتا ہے۔ یہاں تک کہ بعض مبتلا افراد نے خود اعتراف کیا ہے کہ کبھی کبھی وہ اس منزل تک پہنچ جاتے ہیں کہ بغیر کسی عمل کے محض تصور اور فکر سے مخصوص خطرات ان کے جسم سے خارج ہو جاتے ہیں۔

لیکن اس سے کہیں خطرناک اس عادت کے مقابلے میں نا امیدی اور مایوسی ہے، اس لئے کہ نا امیدی اس بیماری میں مبتلا افراد کی کامیابی کے لئے ایک سد راہ بن جاتی ہے، اور غیر معمولی نا مطلوب نفسیاتی عکس العمل ان کے وجود میں پیدا کر دیتی ہے۔

اس میں مبتلا افراد اگر اس عادت کے مقابلے میں کامیاب اور اس کے تمام اثرات کو اپنے وجود سے نکالنا چاہتے ہیں ہر گز اس فکر کو ذہن میں نہ آنے دیں کہ یہ بیماری یا اس کے اثرات آخری عمر تک دامن گیر رہیں گے۔

مختصر یہ کہ نہایت ہوشیاری اور پختہ ارادے کے ساتھ آنے والے دستورات پر عمل کرتے ہوئے اس عادت سے مقابلے کے لئے کھڑے ہو جائیں۔

جو لوگ اس عادت کے چنگل سے نجات پا گئے ہیں انہیں اپنی پاکیزگی کی قدر کرنا چاہیے، اور اس کی حفاظت کا خاص خیال رکھیں۔ اور اس راہ کے ہر شیطانی وسوسہ سے ہوشیار رہیں ، اور اپنی تقدیر کو کسی بھی قیمت پر گمراہ افراد یا معاشرے کے سپرد نہ کریں۔

جیسا کہ ہم پہلے بھی اس بات کا اشارہ کر چکے ہیں کہ ہر قسم کی غلط عادت منجملہ خطرناک جنسی مشکلات کا مقابلہ کرنے کی شرط ‘‘امید اور کامیابی کا اطمینان رکھنے کے ساتھ‘‘ صمیمانہ اور مستحکم ارادہ ہے۔ ایسا فولادی اور محکم ارادہ جس کا تکیہ ایمان، شرافت اور وجدان پر ہو۔

مصمم، راسخ اور ناقابل عدول ارادہ

 آخر کار اگر یہ عزم و ارادہ کسی خاص اسباب کی وجہ سے ٹوٹ بھی جائے تو پھر نئے سرے سے ایک نہ ٹوٹنے والا اور راسخ ارادے کی بنیاد ڈالیں اور اسی امید اور ایمان کے ساتھ اپنے ارادے کی تجدید کریں۔ اس لئے کہ ان شکستہ ارادوں کے باقی رہ جانے والے اثرات جس وقت جمع ہو جائیں گے اپنی تاثیر ضرور دکھائیں گے۔

مسلم طور پر اگر یہ مصمم ارادے ٹوٹنے سے رہ جائیں تو بہت جلد اس بدترین عادت کے تمام منفی آثار انسان کے جسم و روح سے نکل جائیں گے۔

یہ امر بدیہی ہے کہ اگر یہ لوگ اپنے خدا سے رابطہ بر قرار کر لیں اور اپنے پورے وجود اور اس کے ہر ذرہ کے ساتھ اس سے مدد کا مطالبہ کریں ، اس کے لطف کی امید کریں یقیناً ایمان کے سائے میں بہت جلد نتیجہ حاصل کر سکتے ہیں۔

اب جب کہ ان مراحل کو طے کر لیا ہے، مندرجہ ذیل امور کا دقت سے استعمال کریں۔

شاید یہ امور بعض افراد کی نگاہ میں بہت سادے ہوں لیکن ان پر عمل کرنے سے معلوم ہو گا کہ ان کے اثرات معجزے کی مانند ہیں۔

۱۔ ہر طرح کی مصنوعی تحریک سے پرہیز کرنا۔ اگر جوان اس انتظار میں ہیں کہ ہر شب سنیما یا ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر شہوت سے بھر ی سیکسی فلمیں دیکھیں ، اور ہر روز اپنے مہم وقت کا کچھ حصہ عشقیہ ناول پڑھنے اور گمراہ کرنے والے رسالو ں میں شہوت انگیز تصویریں دیکھنے میں صرف کریں اور گلی کوچوں میں برہنہ عورتوں اور لڑکیوں پر نگاہ ڈالیں اور ان تمام کاموں کے ساتھ کسی طرح کی برائی سے دوچار نہ ہوں ! یہ یقیناً ایک بڑی غلط فہمی ہے۔

اس طرح کی مصنوعی تحریکات جن کی کوئی ضرورت بھی نہیں ہے، جوانوں کو ان کی زندگی کے بنیادی مسائل سے جدا کر دیتی ہے اور شدت اور طغیانی کے ساتھ جنسی مسائل کی طرف کھینچ لیتی ہیں۔

دن رات بے چینی کی حالت اور دائمی غصہ کی کیفیت ان کے تمام وجود پر سایہ فگن ہو جاتی ہے جو اس کے نا مطلوب آثار ہیں۔

یہ دائمی تحریکات ان کی زندگی کے بہترین حصہ ‘‘یعنی جوانی کے دور ‘‘ کو برباد اور ان کے اعصاب ( پٹھے اور رگوں ) کو خراب کر دیتی ہیں۔

تمام جوان! خصوصاً وہ افراد جو جنسی عادتوں کا شکار ہیں انہیں چاہیے کہ شدت کے ساتھ ان امور سے اجتناب کریں ، فلمیں نہ دیکھنے، اور اس طرح کے ناولوں کو مت پڑھیں ، اور چوری چھپے ایسے عمل انجام دینے سے پرہیز کریں ، اپنی فکر کو اس طرح برباد نہ کریں اور اپنے طاقتور اعصاب کو دائمی ہیجان سے ضعیف نہ بنائیں۔

اس مسئلہ میں کامیاب رہنے کے لئے اپنے تمام خالی وقت کو صحیح و سالم سرگرمیوں میں مصروف رکھیں ، اپنے دوستوں کی مدد سے صحیح پلاننگ کے ساتھ اپنے اوقات کو منظم کریں۔

یہ سرگرمیاں اختیار کی جا سکتی ہیں :

جسمانی ریاضت کریں چاہے اکیلے یا کسی گروہ کے ساتھ۔

تازی اور آزاد ہوا میں چہل قدمی کریں۔

اچھی اور مفید کتابوں کا مطالعہ کریں۔

گھر میں پھلواریوں کی دیکھ بھال یا کلی طور پر کھیتی باڑی کے کام انجام دیں۔

اپنے روز مرہ کے کاموں کو خود انجام دیں۔

اشعار کی جمع آوری۔

تصویروں اور ٹکٹ کا جمع کرنا اور اس جیسے دوسرے امور کو انجام دینا۔

مختلف انجمنوں اور علمی یا اخلاقی کانفرسوں میں شرکت کرنا۔

۲۔ اپنے پورے وقت کو مختصر کاموں سے منظم کرنا جوانوں کو چاہیے کہ حتمی طور پر اپنے تمام شب و روز کے اوقات کو اس طرح منظم کریں کہ ایک گھنٹہ بھی بیکار اور پروگرام سے خالی نہ ہو۔

ہم یہ نہیں کہتے کہ صرف پڑھائی کرتے رہو یا مسلسل کام کرتے رہو بلکہ اگر تفریح اور ورزش بھی کرنا چاہتے ہو تو وہ بھی پروگرام کے تحت ہونا چاہیے، ایک گھنٹہ بھی پروگرام سے خالی نہ رہنے پائے۔

ممکن ہے کہ کوئی جوان بے کار ہو اور کام تلاش کر رہا ہو۔ لیکن اسی حالت میں اپنے دن رات کے خالی وقت کا پروگرام بنائیں ، چاہے وہ تفریح ہو یا مطالعہ ہو، آرام ہو یا کوئی دوسری سرگرمی۔

ہاں اگر جوان اپنے وقت کو پروگرام کے تحت کچھ زیادہ منظم کر لیں اس طرح کہ ایک لمحہ کے لئے بھی ان کی فکر بے کار نہ رہے تو زیادہ بہتر ہو گا، اس لئے کہ فکر کا مصروف رہنا اس عادت بد کو ترک کرنے میں زیادہ فائدے مند ثابت ہو گا۔

اکثر دیکھا گیا ہے کہ سیگریٹ کے عادی لوگ چھٹی کے دنوں میں کام کے ایام کی بانسبت زیادہ سگریٹ پیتے ہیں ، یہ فرق اسی اثر کا نتیجہ ہے جو فکر اور اعصاب کو مثبت کاموں میں مصروف کرنے کے ذریعہ نامعقول اور نقصان دہ کاموں سے روکتا ہے۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ غلط جنسی عادتوں میں گرفتار لوگ اگر اپنے تمام وقت کو ایک منظم پروگرام کے تحت مشغول نہ کریں تواس عادت کو آسانی سے دور نہیں کر سکتے ہیں۔ اس طرح کے پروگرام کی تشکیل یقینی طور پر اس عادت کو ترک کرنے اور اس کے سبب پیدا ہونے والی اکژ مشکلات کے دور کرنے کے لئے نہایت موثر اورسود مند ثابت ہوتی ہے۔

۳۔ ورزش کی طرف خاص توجہ یہ بات معروف ہے کہ ورزش کرنے والے افراد کو جنسی امور سے لگاؤ بہت کم ہوتا ہے، اس لئے کہ ورزش، بدن اور فکر کی طاقت کو بڑی مقدار میں اپنے آپ سے مخصوص کر لیتی ہے، اور فطری طور پر دوسرے باقی مسائل میں کم ہو جاتی ہے۔

اس بنیاد پر جنسی تحریکات کے طوفان کومسدود کرنے کے لئے جوانوں کو ورزش کے وسیع اور متنوع پروگرام کا انتخاب کرنا چاہیے۔

اس بری عادت کے شکار غالباً کنارہ کش، گوشہ نشین، غیر متحرک اور خاموش افراد ہوتے ہیں ، اور یہی کنارہ کشی اور گوشہ نشینی ان کی بیماری میں شدت پیدا کر دیتی ہے۔ اگر یہ لوگ اس عالم سے باہر آ جائیں اور اپنی زندگی میں مزید تحرک پیدا کر لیں ، یقینی طور پر ان کی حالت میں بہتری پیدا ہو سکتی ہے اور اس عادت سے چھٹکارا مل سکتا ہے۔

اس لئے کہ معمولا ان لوگوں کے جسم میں ضعف اور اعصاب کی کمزوری پائی جاتی ہے۔ مختلف اور مناسب ورزش ان کے اعصاب کی تقویت کے لئے نہایت موثر ہے۔

ان افراد کے پاس اپنی مشغولیت کے علاوہ جتنا بھی اضافی اور خالی وقت پایا جاتا ہے اس کو کھیل کود، مختلف ورزش یا کھلی فضا میں چہل قدمی میں سے مخصوص کر دیں ، تاکہ اپنی کھوئی ہوئی سلامتی کو دوبارہ حاصل کر سکیں ، اور ساتھ ساتھ جسمانی اور فکری طاقت بھی اس حصہ سے مخصوص ہو جائے گی۔

جس طرح حرکت اور ورزش ان کے لئے فائدہ بخش ہے اسی طرح کنارہ کشی اور گہر ی فکر بھی زہر کی طرح قاتل ہے جس سے ہر قیمت پران کو دور رہنا ہے۔

اس نصیحت کو فراموش مت کریں اور اس کے معجز نما اثرات کا ضرور مشاہدہ کریں۔ دن بھر اس قدر ورزش کریں کہ رات میں جب بستر پر جائیں تو فورا گہری نیند کی آغوش میں چلے جاؤ، اس طرح آپ لاحق ہونے والے خیالات و افکار کے تمام شر اور نقصانات سے محفوظ ہو جائیں گے۔

۴۔ ایک عادت کو دوسری عادت کا جانشین ہونا چاہیے۔ ماہرین نفسیات کا کہنا ہے :بری عادت ترک کرنے کے لئے اچھی عادت کا تلاش کرنا ضروری ہے تاکہ اس کو بری عادت کا جانشین بنایا جائے۔

مثلاً جو لوگ جوا کھیلنے کے عادی ہیں حالانکہ وہ اس کے تمام نقصانات سے بخوبی واقف ہوتے ہیں ، اس کے باوجود وہ اس کو نہیں چھوڑتے ہیں ، ان کے بقول جب جوئے کا وقت ہوتا ہے وہ نہیں جانتے کہ کون سی طاقت ان کو ایک قیدی کی طرح اس طرف لے جاتی ہے اور ان کا عقل و وجدان بھی اس صورت میں اس کے محکوم ہو جاتے ہیں ؟!اس طرح کے افراد جو اس بری عادت کے شکار رہتے ہیں وہ اپنے اس وقت کو مناسب کھیل (ایک سالم ورزشی مقابلہ ) کا جانشین بنائیں تاکہ یہ اچھی عادت اس کی جگہ آ جائے۔

گویا اس وقت میں جو خاص طاقت اس عادت کی تحریک میں پیدا ہوتی ہے اس کا رخ اس اچھی عادت کی طرف موڑ دیا جائے، اور اس کے نا مطلوب رد عمل بھی سامنے نہ آنے پائیں۔ ( غور کریں )۔

جنسی غلط عادتوں کے مقام میں بھی عین اسی وقت جب اس کی تحریک جوانوں میں پیدا ہوتی ہے ایسے پروگرام کو وقت سے پہلے تلاش اور اس پر عمل کیا جائے جیسے علمی اور ورزشی مقابلہ، یا کوئی دلچسپ ورزش، پہاڑوں پر گھومنا، گھڑ سواری وغیرہ ان کاموں کو اس قدر مسلسل انجام دیا جائے کہ یہ بری عادت کی جانشین بن جائیں۔

۵۔ ہر حال میں تنہائی سے پرہیز۔ ایسے افراد کو بغیر کسی قید و شرط کے تنہا رہنے سے پرہیز کرنا چاہیے۔

ہرگز اکیلے نہ رہیں ، گھر میں بھی تنہا نہ رہیں ، رات کو کمرہ میں اکیلے نہ سوئیں ، خلوت میں مطالعہ کے لئے اکیلے نہ جائیں۔

کسی جگہ پر صرف تنہائی کا احساس ہوتے ہی فورا وہاں سے باہر نکل جائیں۔

اس طرح کے لوگ اس نکتہ کو کبھی فراموش نہ کریں کہ جیسے ہی اپنے آپ میں گذشتہ عادت کی پہلی تحریک کو محسوس کریں فورکسی دوسرے کام میں مشغول ہو جائیں۔ اگر چہ اس نکتہ کو فراموش کرنا بہت سخت کام ہے۔

ہر جوان کی فکر میں اس عادت کو پرورش دینے کے لئے تنہائی بہترین اور کامل راستہ ہے لہذا جو جوان بھی اپنی خوش بختی، سلامتی اور استمناء کے خطروں سے سلامتی کا خواہاں ہے اسے تنہائی سے پرہیز کرنا چاہیے۔

۶۔ پہلی فرصت میں شادی۔ ان افراد کے پاس اگر امکانات موجود ہیں تو پہلی فرصت میں شادی کریں ، یہاں تک کہ اگر ان کے پاس صرف رشتہ (البتہ عقد شرعی کرنا زیادہ بہتر ہے)کرنے کے امکانات فراہم ہوں تو (لیک عقد شرعی جاری ہو گیا ہو) اس موقع کو ہاتھ سے نہ جانے دیں۔

مختصر یہ کہ شادی اس جنسی بے راہ روی سے مقابلہ کرنے کے لئے قابل دید تاثیر رکھتی ہے۔ اگر ہم توقعات کے دامن کو چھوٹا اور بیجا تشریفات کو حذف کر لیں تو شادی نہایت ہی سادہ اور آسان امر ہے۔ لیکن افسوس کہ غلط رسم و رواج اور غلط بندشوں نے ہر طبقے( پڑھے لکھے ا ور جاہل لوگوں )کے ہاتھ پیروں میں زنجیریں ڈال دی ہیں۔

بعض جوان عام طور پر شادی کرنے سے ڈرتے ہیں۔ البتہ یہ وحشت مکمل طور پر بے بنیاد ہے اس لئے کہ تمام قوانین پر عمل پیرا ہونے سے غلط عادتیں بھی آسانی سے چھوٹ جاتی ہیں اور شادی کے تمام مراحل میں بھی وہ کامیاب ہو جاتا ہے۔

۷۔ اپنے نفس کو تلقین اور ارادے کی تقویت۔ ‘‘ تلقین ‘‘( یعنی خود کو آگاہ کرنا یا سمجھانا) اس عادت سے مقابلہ کرنے میں بہترین کردار ادا کرتی ہے۔

اس عادت میں مبتلا افراد کو چاہیے کہ مسلسل خود کو تلقین کرتے رہیں کہ وہ اس غلط عادت کے ترک کرنے پر مکمل طور پر قادر ہیں۔

کیونکہ تلقین اس بیماری میں مبتلا افراد کے لئے بہت قوی اور سریع اثر رکھتی ہے، جیسا کہ ایک ماہر نفسیات(ڈاکٹر ویکٹور پوشہ فرانسی) کہتا ہے :‘‘ اس تلقین کو مندرجہ ذیل صورت میں چند روز تک مسلسل انجام دیں ‘‘ ہر دن سکون و اطمینان کی جگہ بیٹھ کر جب اس کا ذہن ہر فکر سے خالی ہو تو اپنی فکر متمرکز کر کے ان جملوں کی تکرار کرے :‘‘میں اس عادت کو اپنے سے مکمل طور پر دور کر سکتاہوں ، میں اس بات پر قادر ہوں ‘‘!اس سادہ تلقین کی تکرار انسان کی روح کی تقویت اور اس عادت بلکہ ہر عادت کے چھوڑنے کے لئے عجیب و غریب تاثیر رکھتی ہے( اگر آپ چاہیں تو آزما سکتے ہیں )۔

اس کے علاوہ ارادے کی تقویت کے لئے کتابوں کا مطالعہ کریں ، کافی کتابیں جو شخصیت کے رشد و تحکیم اور ارادے کی تقویت کے موضوع پر لکھی گئی ہیں موجود ہیں۔ جبکہ اس بات کو ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہ تمام افراد جو اس عادت یا ہر بری عادت کے ترک کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں ان کا اعتراف ہے کہ اس راہ کا سب سے پہلا قدم‘‘ مصمم ارادہ‘‘ ہے۔

۸۔ مکمل پرہیز اس علاج کے دوران گمراہ اور اس بیماری میں مبتلا افراد کی معاشرت اور ہم نشینی سے کلی طور پر اجتناب کیا جائے، جیسے کسی وبا میں مبتلا افراد سے فرار کیا جاتا ہے، اس کے علاوہ اس عمل کے وحشتناک اور مہلک نتائج سے لاپروا نہ رہیں ، اور وسوسہ پیدا کرنے والی باتوں کو ہر گز گوش گذار نہ کریں۔

اس بیماری میں مبتلا غلط ساتھی اس راستہ کو جاری رکھنے کے لئے عجیب و غریب کردار ادا کرتے ہیں جو خود گناہ کا احساس نہیں کرتے بلکہ دوسروں کو اس بدبختی کا شکار کرنا چاہتے ہیں اور اپنی غمگین کہانی میں ان کو شریک بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس لئے وہ اس عمل کو ایک لطف اندوز اور بے ضرر عمل ثابت کرنے کی سعی کرتے ہیں۔ لیکن با ہوش جوان ان کے بچھائے ہوئے شیطانی جال میں کبھی نہیں پھنستے۔

۹۔ عام قوت اور کھانے کی طاقت کامل اور سالم غذا، جسمانی طاقت دینے کے علاوہ جوانوں کو اس عادت سے جو ان کے اعصاب کی کمزوری کا سر چشمہ ہے یا خود اعصاب کی کمزوری کا سبب ہے، ایک عجیب تاثیر عطا کرتی ہے۔

ٹھنڈے پانی سے نہانا (موسم کو مد نظر رکھتے ہوئے )اور اس کے بعد بدن کو تولیے سے مساج دینا اس طرح کے افراد کی بہت مدد کرتا ہے۔

اسی طرح ان کو چست لباس(جو مصنوعی تحریک کا باعث بنتے ہیں ) پہننے سے پرہیز کرنا چاہیے۔ اس طرح کے لباس اصولی طور پر جوانوں کو نقصان پہنچاتے ہیں اور کبھی کبھی جسم کے فطری رشد و نمو کے لئے مضر اور خطرناک ہوتے ہیں ، اس کے علاوہ وسوسہ اور تحریک جنسی کا سبب بنتے ہیں۔

۱۰۔ ایمان اور عقیدے کی طاقت کا سہارا ایمان اور عقیدے کی طاقت ایسے لوگوں کی بے حد معاون و مددگار ثابت ہوتی ہے۔ اور ان کو اس عادت کے چنگل سے چھٹکارا دلاتی ہے۔

اس طرح کے افراد اپنے آپ کو بارگاہ رب العزت میں ذلیل اور مردود شمار نہ کریں ، بلکہ ہمیشہ خداوند متعال کے لطف کے امیدوار رہیں ، نماز کے وقت اور نماز کے بعد اپنے سر کو سجدے میں رکھ کر اپنے مہربان اور معاف کرنے والے خالق کے ساتھ راز و نیاز کریں ، اپنے مکمل قلبی انہماک اور اپنے وجود کے تمام ذرات کے ساتھ اس کی بارگاہ میں توسل کریں اور اس بدبختی سے نجات کی دعا کریں ، یقین رکھیں اگر کوئی جوان اس طرح خدا کی بارگاہ میں استمداد کریں تو اس کی مدد ضرور شامل حال ہو گی، اور زندگی کی اس جنگ میں کامیابی ان کے قدم چوم لے گی۔

اس کے علاوہ ہر جگہ اور ہر حال میں خدا کو حاضر و ناضر سمجھنا چاہئے اور کبھی بھی اپنے آپ کو اس بات کی اجازت نہ دیں کہ اس کے سامنے غلط کام انجام نہ دیں۔

ہمیں یقین ہے کہ اگر اس بیماری میں مبتلا حضرات مذکورہ قوانین پر دقت کے ساتھ ایک مہینہ تک عمل کریں تو منحرف راستہ سے نجات حاصل کر لیں گے۔

قارئین کے فیصلوں کے چند نمونے اس کتاب کے حوالے سے ہمیں بڑی تعداد میں جھنجوڑنے والے خطوط موصول ہوئے، جس کا صرف ایک نمونہ بغیر کسی رد و بد ل کے قاریان کے سامنے پیش کر رہے ہیں۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم

خدا کے نام سے شروع کرتا ہوں جس نے جوانوں کو پیدا کیا اور جس نے تمام انسانوں کو پاک پیدا کیا ہے۔

جیسا کہ میں نے آپ سے وعدہ کیا تھا، بغیر کسی تمہید کے اپنی داستان آپ کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں تاکہ جوانوں کے لئے عبرت بن جائے۔

میں ۱۹ سال کا جوان ہوں ، نو جوانی میں قرآن اور امام زمانہ(ع) سے نہایت لگاؤ رکھتا تھا اور ابھی بھی وہ ہی صورت ہے، نا محرم پر نظر کرنے سے مجھے سخت نفرت تھی اوراس کو گناہ عظیم سمجھتا تھا، کبھی غلط نگاہ سے کسی کی طرف نہیں دیکھتا تھا۔

جس وقت میں نے بلوغ کی منزلوں میں قدم رکھا اور کالج میں داخل ہوا تو میرے اندر تغیر پیدا ہونا شروع ہو گیا، اور آہستہ آہستہ شیطان مجھ میں سرایت کرنے لگا، اور مجھے راہ راست سے منحرف کر دیا، یہاں تک کہ نامحرم کو دیکھنا میری عادت بن گئی، اور غلط دوستوں سے آشنائی ہو گئی، انہوں نے اس عادت سے جو چار سال سے میرے دامن گیر تھی مانوس بنا دیا، کالج کے پورے چار سال تک میں نے اس گندی عادت کو جاری رکھا، اور ناقابل انکار پڑھائی کی کمی مجھ میں پیدا ہو گئی جس کو کاملاً محسوس کرتا تھا، حالانکہ ہائی اسکول کے دوران میں ممتاز طالب علموں میں ہوتا تھا، لیکن کالج میں مجھے بار بار امتحان دینے پڑے، چار سال تک میں خدا سے دور اپنے آپ سے غافل اور پستی میں رہا، یہاں تک کہ ان چار سالوں میں میری تمام صلاحیتیں من جملہ میری صحت ختم ہو گئی، اس عمل کے تمام اثرات مجھ میں ظاہر ہو گئے، جسمانی کمزوری، خون کی کمی، حافظہ کا فقدان، ہاتھوں میں رعشہ، آنکھوں کا کمزور ہو جانا وغیرہ۔

کالج کے چوتھے سال میں غفلت کی نیند سے بیدار ہوا اور کوشش کرتا رہا کہ اس عمل سے نجات حاصل کر لوں لیکن میری تمام کوششیں رائیگان ہو جاتیں ، دو تین دن تو تحمل کرتا لیکن پھر واپس اسی عادت پر پلٹ آتا، اس سال گرمیوں تک اس عمل کو ترک کرنے کے لئے اپنی تمام تر کوششیں کرتا رہا آخر کار ناکامی کے سوا کچھ ہاتھ نہ آیا، خداوند عالم، ائمہ، اور امام زادوں سے توسل کیا، اذان سے پہلے قرآن مجید کی تلاوت سنتا اور آنسو بہاتا، اس وقت میں خو ن کے آنسو بہاتا مگر میری آنکھوں کے آنسو خشک ہو چکے تھے، کسی سے میں اپنا درد دل بھی بیان نہیں کر سکتا تھا۔

اس وقت میں تلاوت قرآن کرتا اور اپنے خالق سے باتیں کرتا اور اس سے مدد طلب کرتا، ۲ یا ۳ دن تک اس عمل کو انجام دیتا لیکن تیسرے روز پھر اسی عمل کو انجام دیتا اور اس کے بعد گریا و زاری کرتا، اور حمام جا کر غسل کرتا، پھر اس کو ترک کرنے کا مصمم ارادہ کرتا، لیکن آپ نہیں جانتے کہ جب میں اس عمل کو چھوڑ دیتا تھا تو میں کس قدر خوشی ہوتا تھا کہ گویا اللہ نے میرے تمام گناہوں کو بخش دیا ہے ! لیکن اللہ شیطان پر لعنت کرے پھر—

مختصر یہ کہ غروب سے پہلے قرآن مجید کی تلاوت کو سنتا تھا اور ساتھ ساتھ گریہ و زاری کرتا اور اللہ سے مدد طلب کرتا تھا اور اس کی پناہ کا مطالبہ کرتا، اس کے بعد نماز پڑھتا اور دعا کرتا کہ اللہ تمام جوانوں کو جو اس عمل کے عادی ہیں اور من جملہ مجھ کو نجات عنایت فرما۔

میں اپنے دوستوں کو دیکھتا کہ کس درجہ ترقی کر رہے ہیں اور ایک میں ہوں جو بالکل ان کے برعکس ہوں ، پستی کے راستوں کو طے کرتے ہوئے میں نے سن۱۳۷۰ء کے امتحانی مقابلہ (competition) میں شرکت کی اوراس میں نا کام ہوا جس کی وجہ میں اسی عادت کو سمجھتا ہوں ، اس دوران کبھی بھی اللہ کا لطف میرے شامل حال نہ ہوا، آخر کار اللہ نے میرے حق میں ایک مہربانی فرمائی کہ ایک دن لائبریری میں میری نظر ایک کتاب پر پڑی جس کا نام ‘‘ جوانوں کے جنسی مشکلات اور ان کا حل ‘‘ تھا۔ میں نے اس کتاب کو خرید لیا، یہ کتاب وہی کتاب نجات تھی جس نے مجھے ہلاکت کی پستی سے نجات عطا کر دی۔ یہ ہی کتاب ہے جو اکثر جوانوں کو نجات یافتہ بناتی ہے، اگر جوان اس میں بتائے ہوئے دستورات پر عمل کرے تو یقیناً اس عمل کے ترک کرنے میں حتمی کامیابی نصیب ہو گی۔ میں اپنے خالق کا شکر گزار ہوں کہ اس نے اپنے لطف میں مجھے شامل فرمایا اور یقینی ہلاکت اور پستی سے مجھے نجات بخشی ہے۔

میں نے کتاب کے تمام مطالب کو اچھی طرح پڑھا ہے اور اس میں ذکر دس دستورات پر مکمل طریقے سے عمل کیا اور اس کے ساتھ نماز کو اول وقت ادا کرتا اور اس کے بعد اللہ سے دعا کرتا کہ اللہ تمام جوانوں کو اور مجھ کو اس عادت سے نجات عنایت کرے۔ اور آیۃ الکرسی کی ہر روز اس قدر تکرار کرتا تھا کہ جب بھی گناہ کی فکر ذہن میں آتی فور آیۃ الکرسی کی تلاوت کرتا تھا، اور اس کی حیرت کن تاثیر کا مشاہدہ کرتا تھا۔

ان دو آیتوں کو:‘‘ اذا فعلوا فاحشۃ او ظلموا انفسھم، ذکرواللہ، فاستغفروا بھم ومن یغفر الذنوب الا اللہ، ولم یصروا علی ما فعلوا وھم یعملون‘‘ اور‘‘ ان الذین اتقوا اذا مستھم طائف من الشیطان تذکروا فاذاھم مبصرون ‘‘ ہمیشہ پڑھتا تھا جس کے نتیجے میں کلی طور پر میرے ذہن سے وہ بدبختی والی فکر خارج ہو گئی، یہ دونوں آیتیں یقیناً بہت موثر ہیں۔

سب سے پہلے میں نے پختہ ارادہ کیا کہ نامحرم عورتوں اور لڑکیوں پر نظر نہیں ڈالوں گا، اس کے بعد میں نے اپنے پورے دن کا ایک پروگرام بنایا تاکہ مجھے عمل بد انجام دینے کے لئے بالکل فرصت نہ مل سکے وغیرہ۔ جس کی مکمل تفصیل کتاب ‘‘ جوانوں کے جنسی مشکلات اور ان کا حل ‘‘ میں بیان کی گئی ہے۔ پہلی بار میں نے اپنے یقین و ایمان کو قوی کیا اور خداوند متعال سے مدد کی درخواست کی جو کہ باقی تمام چیزوں سے مہم ہے۔ میں اس جملے پر جو اس کتاب کے آخر میں ذکر کیا گیا ہے مکمل یقین رکھتا تھا۔ ‘‘ ہمیں یقین ہے کہ اگر اس بیماری میں مبتلا حضرات مذکورہ قوانین پر دقت کے ساتھ ایک مہینہ تک عمل کریں تو منحرف راستہ سے نجات حاصل کر لیں گے۔ ‘‘

مختصر یہ کہ کئی بار مصمم ارادہ کرنے کے بعد آخر کار میں اس عمل کے ترک کرنے میں کامیاب ہو گیا، اور نجات پا گیا۔ اور اب تک جب میں اس خط کو تحریر کر رہا ہوں ، اس عمل کو چھوڑے ہوئے دو ماہ ہو چکے ہیں۔ آپ نہیں جانتے کہ جب ایک مہینہ ہو گیا تھا تو میں کس قدر خوش تھا، میں نے دو رکعت نماز شکر پڑھی اور ابھی تک وہ دو رکعت نماز شکر مسلسل پڑھتا ہوں اور پنے پروردگار سے دعا گو ہوں کہ اس احساس کو تمام جوانوں میں پیدا کرے جو اس جنسی عادت میں مبتلا ہیں (انشاء اللہ)۔

جو جوان اس عمل کو انجام دیتے ہیں اگر وہ اس بات کو جان لیں کہ یہ عمل کس قدر خطرناک اوراس کے نتائج کتنے بدبخت اور ہلاک کرنے والے ہیں ، تو وہ یقیناً اس کو ترک کرنے کا مصمم ارادہ کر لیں گے اور کتاب میں بتائے گئے دستورات پر عمل کریں گے اور یقیناً ایک مہینے میں اس عادت سے نجات پا جائیں گے۔ انشاء اللہ۔

دل چاہتا ہے کہ فریاد کروں اور تمام انسانوں کو پکار پکار کر کہوں کہ میں نے بدبختی اور پستی کی موت سے نجات حاصل کر لی ہے۔

دل چاہتا ہے کہ خون کے آنسوں روؤں ، ناکامی کے آنسو نہیں بلکہ خوشی اور کامیابی کے آنسوں۔

دل چاہتا ہے کہ گھر والوں سے بہت سی باتیں کروں اور ہنستا رہوں اس لئے کہ دو مہینے پہلے تک اس طرح کی ہنسی جو دل سے نکلتی ہے کبھی میرے لبوں پر نہیں آئی۔ اس وقت میں بہت کم بات کرتا تھا۔

خدایا تیرا شکر کہ تو نے اپنے لطف سے بہرہ مند کیا جو بندہ تجھ سے دور بھاگ رہا تھا۔

خدایا تیرا شکر کہ تو نے مجھے حقیقت سے آشنا کرایا اور میری مدد کی کہ میں حقیقت سے پیوستہ ہو جاؤں۔

عزیز جوانوں ! ملک کے مستقبل ساز جوانوں !کوشش کرو اگر پاک ہو تو ہمیشہ پاک رہو، اگر پاک نہیں ہو تو پاک ہو جاؤ، اور کتاب ‘‘ جوانوں کے جنسی مشکلات اور ان کا حل‘‘ کا مطالعہ کرو اور اس کے دستورات پر عمل کرو، یقین جانوں کہ اگر آپ اس عادت کا شکار ہیں تو  ضرور نجات پا ؤ گے۔ اور آپ کو مطمئن ہو جانا چاہیے کیونکہ میری نجات کے آخری لمحے میں میرے دل میں ایک ایسی امید پیدا ہو گئی تھی جس کی وجہ سے مجھے یقین ہو گیا تھا کہ مجھے نجات حاصل ہو گی۔

عزیز جوانوں ! اگر تم نے ارادہ کیا تھا کہ اس عمل کو چھوڑ دو گے اور پھر ناکام ہو گئے، تو دوبارہ پختہ ارادہ کرو اور کبھی بھی ناامید نہ ہونا کبھی یہ مت کہنا کہ اب وقت گذر گیا ہے، اگر تم نے اس عمل کو بہت زیادہ انجام دیا ہے تو مکرر ارادے کی پختگی سے یقیناً کامیاب ہو جاؤ گے۔ مصمم ارادے کی اس وقت تک تجدید کرو جب تک اپنی کامیابی کو اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لو۔ انشاء اللہ، یقیناً تم اپنی کامیابی کو اپنی آنکھوں ضرور دیکھو گے، لہذا آئندہ ارادہ کو مصمم ارادے کے ساتھ انجام دو۔

اس کتاب کے ضمن میں ایک دوسری کتاب ‘‘ پریشانیوں اور نا امیدی پر غلبہ کا بہترین راستہ ‘‘ (بہترین غلبہ بر نگرانیھا و نا امیدیھا) کا مطالعہ کرنا نہایت ہی فائدے مند ہے۔ (انتشارات نسل جوانان)۔

اور اے پاکیزہ افراد! آپ نے اس کتاب کو لکھ کر خطرناک دلدل میں پھنسے بہت سے جوانوں کو نجات عطا کی ہے اور نجات دے رہے ہیں ، ہم جانتے ہیں کہ آپ کو ہم جوانوں کے شکریہ کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ آپ اپنی محنت اور ہمت کا اجر اپنے خداوند عالم سے طلب کرو گے۔

خدایا ہم جوانوں کو اس عادت کے ترک کرنے میں مدد فرما!تاکہ کامیاب و کامران ہو جائیں۔

خدایا ہم جوانوں کو ہدایت فرما کہ ہم اپنی قدر و قیمت سے آشنا ہو جائیں تاکہ اس طرح کے غلط کاموں کو انجام دینے سے دور رہیں اور نامحرم پر نگاہ کرنے سے دور رہیں ، اس لئے کہ ان کاموں سے ہم نہایت پستی میں چلے جائیں گے۔

خدایا میں جانتا ہوں کہ اس عمل کے ارتکاب سے میرا حافظہ اورفراست ضایع ہو گئی ہے، میرے گذشتہ حافظہ اور فراست کو واپس پلٹا دے !مجھے یقین ہے کہ اگر میں تیری پناہ میں آ جاؤں تو میرا کھویا ہوا حافظہ اور فراست واپس مل جائے گی۔ لہذا اے ارحم الراحمین میں تیری پناہ میں آنا چاہتا ہوں !

خدا جن جوانوں نے اس عمل کو ترک کیا ہے، ان کی تو خود مدد فرماتا کہ گذشتہ نقصان کو پورا کرسکیں۔

خدایا ہمارے گذشتہ اعمال کی توبہ کو قبول فرما !اور ہماری مدد فرما کہ ہم پھر اس جانسوز عمل میں دوبارہ مبتلا نہ ہوں۔ اور ہر وہ جوان جو میری طرح اس سے نجات حاصل کرنا چاہتا ہے اس کو نجات عنایت فرما، چونکہ تمام امور تیرے اختیار میں ہیں۔

خدایا ! وہ تمام افراد جو جوانوں کی راہنمائی کے کوشاں ہیں ان کی مدد فرما تاکہ وہ مزید بہتر طریقے سے اس خدا پسند کام کو انجام دے سکیں ، اور بہشت جاوداں ان کو نصیب فرما۔

خدایا شکر شکر شکر لاکھ مرتبہ شکر

خدا حافظ اور التماس دعا

آپ کا مخلص

٭٭٭

ماخذ:

http://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=232

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید